Tafseer-e-Kabeer Volume 13

Tafseer-e-Kabeer Volume 13

تفسیر کبیر (جلد ۱۳)

Chapters: 91-98
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ نَـحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عظیم الشان رحمت کے نشان کے طور پر پسر موعود کی بشارت عطا فرمائی جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے وجود میں پوری ہوئی.اور کلمات الہامیہ آپ کے وجود مسعود میں جلوہ گر ہوئے.ان میں سے ایک یہ ہے کہ ’’اسے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا.‘‘ قرآن مجید فرقان حمید کےوہ علوم و معارف بھی آپ کو سکھائے گئے جو اس سے پہلے منکشف نہ تھے.چنانچہ آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’اس تفسیر کا بہت سا مضمون غور کانتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کاعطیہ ہے.‘‘ آپ نے قرآن کریم کی تفسیر تحریر فرمائی اور اس کے مطالب و معانی اور نکات عجیبہ کو ظاہر و باطن میں پھر زندہ فرما دیا.یہ تصنیف لطیف موسوم بہ تفسیر کبیر اس مذکورہ بالا بشارت کی صداقت کاایک زندہ ثبوت اورشاہد ناطق ہے اور لاریب قرآنی علوم و معارف کا ایک بیش بہا خزانہ ہے جو خدا تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے موافق ظاہر فرمایا ہے.تفسیر کبیر کی پہلی جلد ۱۹۴۰ء میں اشاعت پذیر ہوئی بعدہٗ مختلف وقتوں میں اس کی کل ۱۱ جلدیں شائع ہوئی تھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اوائل خلافت میں ہی ارشاد فرمایا کہ تفسیر کبیر کی صد سالہ جوبلی کے تحت دوبارہ اشاعت کی جائے.چنانچہ اس کے پازیٹو بنوا کر گیارہ کی بجائے دس جلدوں میں شائع کیا گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس علمی خزینہ کی اشاعت کا تازہ ایڈیشن طبع کروانے کی ہدایت فرمائی ہے.پہلی طباعت کتابت ہوکرشائع ہوئی تھی اور باریک قلم سے

Page 5

سُوْرَۃُالشَّمْسِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ الشمس.یہ سورۃ مکّی ہے وَھِیَ خَـمْسَ عَشْـرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَفِیْـہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اور بسم اللہ کے سوا اس میں پندرہ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ الشمس مکی سورۃ ہے یہ سورۃ مکی ہے.ابن عباس ؓ کی روایت ہے نَزَلَتْ بِـمَکَّۃَ کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی ایسی ہی روایت ابن الزبیر ؓسے بھی ہے.عقبہ ابن عامر کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ظہر کی نماز میں سُوْرَۃُ الشَّمْس اورسُوْرَۃُالضُّحٰی پڑھا کریں.مطلب یہ کہ اس وقت زیادہ لمبی سورتیں نہ پڑھا کریں.نیز ان دونوں سورتوں کو ظہر کے وقت سے مناسبت بھی ہے.(فتح البیان زیر سورۃ الشّمس ابتدائیۃ) سورۃ الشمس کے نزول کے متعلق پادری ویری کا خیال اور اس کا ردّ پادری ویری کے نزدیک پہلانصف حصہ پہلے سال کا اور آخری نصف تیسرے چوتھے سال کا معلوم ہوتا ہے کیونکہ آخری حصہ میںمخالفت ِ انبیاء کا ذکر ہے.وہ کہتے ہیں چونکہ اس سورۃ کے آخری حصہ میں انبیاء کی مخالفت کا ذکر ہے اور انبیاء کی مخالفت کا ذکر اسی وقت اور اسی سلسلہ میں ہو سکتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی ہو اور منظم مخالفت تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے اس لئے سورۃ کا یہ حصہ اُسی وقت کا ہے.یہ تو درست ہے کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے اور بالکل ممکن ہے کہ پہلے سال کی ہو یا دوسرے سال کی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تیسرے سال کے ساتھ اس کا تعلق ہو لیکن ویری کا یہ قیاس کرنا بالکل لغو بات ہے کہ چونکہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا اجمالاً ذکر ہے اس لئے آدھا حصہ پہلے نازل ہو چکا تھا اور آدھا حصہ بعد میںنازل ہوا.پہلاحصہ پہلے سال میں نازل ہوا اور دوسرا حصہ تیسرے یا چوتھے سال میں نازل ہوا کیونکہ محض مخالفتِ انبیاء کا ذکر مخالفت کے شروع ہو جانے سے تعلق نہیں رکھتا.ہم تو قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ کا کلام سمجھتے ہیں اور اس شک میں پڑنا بالکل خلاف

Page 6

عقل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو آئندہ مخالفت کا علم تھا یا نہیں لیکن پادری ویری اور ان کے ہم خیالوں کے نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھ کر بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایسااجمالی ذکر مخالفت کا بھی اسی وقت آسکتا ہے.جب کہ مخالفت کے آثار شروع ہو چکے ہوں.اگر یہ لوگ قرآن کریم کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو بھی انہیں یہ خیال کرنا چاہیے کہ ہر شخص جو ایک نئی بات دوسروں کے سامنے پیش کرتا ہے وہ قدرتی طور پر اُن کے انکار کی امید بھی کرتا ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ انکا ر کی شدت یا اس کی نوعیت کا اندازہ نہ لگا سکے مگر انکار و تردید کی امید ضرور رکھتا ہے آخر کون عقل مند یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنی قوم کے عقائد کے خلاف اس کے مذہب کے خلاف اور اس کے رسم و رواج کے خلاف دعویٰ کرے اور پھر وہ یہ امید رکھے کہ لوگ مجھے فوراً ماننے لگ جائیں گے.پس ضروری ہے کہ لوگ اس کی بات کا انکار کریں.ہاں اگر وہ سچا ہو توآخر میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے قبولیت کے آثار دیکھ لے گا.جیسا کہ میں اوپر کئی مواقع پر بیان کر چکا ہوں یہ درست ہے کہ اگر مخالفت کی تفصیلات بیان کی جائیں تو ایک حکمت سے پُر کتاب ضرور اس امر کو ملحوظ رکھ لیتی ہے کہ وہ تفصیلات یا تو اشارے کنائے میں بیان ہوں اور یا ایسے وقت کے قریب بیان ہوں جب وہ واقعات رونما ہونے والے ہوں تا مخالف یہ نہ کہہ سکیں کہ ہمیں انگیخت کی گئی ہے.مخالفت کی انگیخت کا الزام دور کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اگر پیشگوئی کے طور پر واقعات بیان کئے جائیں تو اس کے الفاظ چبنے والے نہ ہوں.مگر یہ امر ہم صرف تفصیلات کے متعلق تسلیم کرتے ہیں.محض یہ بات بیان کرنا کہ سچائی کی مخالفت ہوا ہی کرتی ہے یہ کوئی ایسا مضمون نہیں جس سے لوگ چڑ جائیں.ہر روز ہر مجلس میں جب بھی صداقت کا ذکر ہو تو لوگ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ہر نئی صداقت کی مخالفت ہوتی ہے مگر اس سے نہ انگیخت ہوتی ہے نہ کسی کے دل میں جوش پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی فتنہ و فسا درونما ہوتا ہے.قرآن کریم کے متعلق تو پادری ویری کو قیاس کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ کئی صدیاں اس کے نزول کے بعد پیدا ہوئے ہیںاور عقل سے اس کے نزول کی تاریخیں معلوم کرنا چاہتے ہیں.وہ سوچتے ہیں کہ چونکہ اس میںمخالفت کا ذکر ہے اور وہ بھی آپ کی مخالفت کا نہیں بلکہ ایک گذشتہ نبی کی مخالفت کا.اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ یہ آخری حصہ اس وقت کا ہے جب کہ آپؐکی منظم مخالفت مکہ میں شروع ہو گئی تھی.مگر ہم یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ان کا طریق استدلال بالکل غلط ہے ایک ایسی مثال پیش کرتے ہیں جو تاریخی واقعات پر مبنی ہے اور جس سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیاجاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ جن کا سب زمانہ تاریخی ہے ا ٓپ کو براہین احمدیہ کی اشاعت

Page 7

سے بھی پہلے الہام ہوا کہ ـ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا ‘‘(تذکرہ صفحہ ۲۹۶،۲۹۷ ایڈیشن چہارم) اس الہام میں مخالفت کا ذکر ہے اور مخالفت کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کے زور آور حملوں کا بھی ذکرہے لیکن ایک تو دنیا کا لفظ استعمال کر کے مفہوم کو ایسا وسیع کر دیا کہ مسلمان سمجھیںشاید عیسائیوں کا ذکر ہے اور عیسائی سمجھیںشاید مسلمانوں کا ذکر ہے.پھر بجائے خصوصیت سے یہ ذکر کرنے کے کہ صوفیاء بھی مخالفت کریں گے اور اکابراور علماء بھی مخالفت کریں گے عام رنگ میں اللہ تعالیٰ نے اس مخالفت کی طرف ان الفاظ میںاشارہ کر دیا کہ ’’ دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا ‘‘.مگر یہ الہام آپ کو اس وقت ہوا جب آپ براہینِ احمدیہ لکھ رہے تھے اور لوگ آپ پر بڑ ا اعتقاد رکھتے تھے یہاں تک کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو بعد میںشدید مخالف ہو گئے اور احمدیت کی دشمنی کو انہوں نے انتہا تک پہنچا دیا اور جو اپنے تکبر اور رعونت کی وجہ سے کسی کی با ت ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے انہوں نے بھی براہین احمدیہ کو پڑھ کر لکھا کہ ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبر نہیں.لَعَلَّ اللہَ یُـحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا ‘‘ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق لکھا کہ ’’ اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی وجانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے ‘‘ پھر اس خیال سے کہ کہیں لوگ مبالغہ سمجھ کر اس رائے کو غلط نہ قرار دے دیں انہوں نے زور دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ ہمارے ان الفاظ کو کوئی ایشیائی مبالغہ سمجھے تو ہم کوکم سے کم ایک ایسی کتاب بتادے جس میں جملہ فرقہ ہائے مخالفین اسلام خصوصاً آریہ سماج و برہمو سماج سے اس زور شور سے مقابلہ پایا جاتا ہو اور دو چار ایسے اشخاص انصار اسلام کے نشان دہی کرے جنہوں نے اسلام کی نصرت ِ مالی و جانی و قلمی و لسانی کے علاوہ حالی نصرت کا بھی بیڑااٹھا لیا ہو اور مخالفینِ اسلام اور منکرینِ الہام کے مقابلہ میں مردانہ تحدی کے ساتھ یہ دعویٰ کیا ہو کہ جس کو وجود الہام کا شک ہو وہ ہمارے پاس آکر اس کاتجربہ و مشاہد ہ کرلے اور اس تجربہ و مشاہد ہ کا اقوامِ غیر کو مزا بھی چکھا دیا ہو‘‘.(اشاعۃ السنۃ جلد ۷، صفحہ ۱۶۹ جون، جولائی، اگست ۱۸۸۴ء ) اب دیکھو جس وقت دنیا تعریف کر رہی تھی، جب بڑے بڑے رئوساء اور نواب آپ سے خط و کتابت رکھتے اور آپ کو دعا کے لئے لکھتے رہتے تھے، جب علماء اور عوام آپ سے عقیدت رکھتے تھے اور جب مخالفت کے دنیا میں

Page 8

کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا ــ ’’ دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیانے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘.وہ مخالفتیں جو اب ہو رہی ہیں یا گذشتہ عرصہ میں ہو چکی ہیں ان کا کیسا مختصر مگر مکمل نقشہ اوپر کے الفاظ میں کھینچ کر رکھ دیا گیا ہے آخر یہ غور کرنے والی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بات کس نے بتا دی تھی کہ آپ کی دنیا میں شدید مخالفت ہو گی.ایسی مخالفت کہ اس کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ کو بھی سچائی کے اظہار کے لئے زور آور حملوں سے کام لینے کی ضرورت پیش آئے گی.یہ امر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس امر کے مدعی تھے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خادم ہوں.پس جس ہستی نے ایک خادم اور غلام کو ایسے زمانہ میں جبکہ مخالفت کا نام و نشان تک نہیں تھا اس امر کی اطلاع دے دی کہ تیری مخالفت ہونے والی ہے.ویری جیسے عقل مند کو اس سے سمجھ لینا چاہیے کہ وہ ہستی آقا کو بھی قبل از وقت خبر دے سکتی تھی مگر بوجہ اُس تعصب کے جو مسیحی پادریوں میں بالعموم پایا جاتا ہے اور بوجہ اس مخالفت کے جو لوگوں کو اسلام سے ہے پادری ویری کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ ابتدائی زمانہ میں ہی جب مخالفت کا کہیں وجود نہیں تھا آپ کو اس کا کیونکر علم ہو گیا.وہیری صاحب کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس میں محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم کا سوال نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے علم کا سوال ہے لیکن فرض کرو یہ سورۃ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بنائی ہوئی ہے تب بھی انہیں اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ تفصیلات کا بے شک علم نہ ہو لیکن قوم کے اعتقادات اور اُس کے رسوم و رواج کے بالکل خلاف ایک نئی بات پیش کرنے والا ہر شخص سمجھتا ہے کہ قوم میری مخالفت کرے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور اُس نے آپ سے کہا کہ تیری قوم سخت مخالفت کرے گی یہاں تک کہ تجھے مکہ میں سے نکال دے گی.توآپ نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ لوگ میری مخالفت کریں؟ اُس نے کہا آج تک کوئی ایسا رسول نہیں آیا جس کی اُس کی قوم نے مخالفت نہ کی ہو.(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) پس اگر یہ سورۃ پہلے سال کی سمجھو تب بھی ورقہ بن نوفل نے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ دنیا آپ کی مخالفت کرے گی.الغرض محض مخالفت کا ذکر اس امر کا ثبوت نہیںہو سکتا کہ یہ سورۃ مخالفت کے قریب زمانہ کی یا خود مخالفت کے زمانہ کی ہے.ہاں بعض تفصیلاتِ معیّنہ اس امر کی ایک غالب دلیل ہوتی ہیں کہ وہ اس زمانہ یا اُس کے قریب کی ہیں مگر قطعی ثبوت اور حجت وہ بھی نہیں ہو سکتیں.بہر حال محض

Page 9

سورۃ کے آخری حصہ میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آجانے سے یہ خیال کر لینا کہ یہ حصہ تیسرے یا چوتھے سال کا ہے بالکل بعید از قیاس امر ہے.ہم کُلّی طور پر انکارنہیںکرتے ممکن ہے یہ سورۃ تیسرے سال کی ہی ہو مگر اس وجہ سے اسے تیسرے یا چوتھے سال کے ابتدائی حصہ کی قرار دینا کہ اس میں مخالفتِ انبیاء کا ذکر آتاہے محض دشمنی اور عداوت کا نتیجہ ہے.سورۃ الشمس کے متعلق سر میور کا خیال اور اس کی تردید ترتیب سر میور کہتے ہیں کہ یہ چند سورتیں یعنی سورۂ شمس اور اس سے دو پہلی اور دو بعد کی سورتیں یعنی سورۂ فجر، سورۂ بلد، سورۂ لیل اور سورۂ ضحی اظہار خیالات کا رنگ رکھتی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے کوئی شخص اپنے نفس سے باتیں کر رہا ہو.(A Comprehensive Commentry on the Quran by Wherry vol,4 page251) میور کے ان الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ حرا میں رہ کر اپنی قوم کے حالات پر جو کچھ غور کیا اور اُس کے نتیجہ میں آپ کو جو خرابیاں اپنی قوم میں نظر آئیں اور جو کچھ فیصلے آپ کے دل نے اُن دنوں میں کئے اب ان سورتوں میں آپ ان کا اظہار کر رہے ہیں.یوروپین مصنفین اس قسم کے اظہار ِ خیالات کو سولیلوکیز SOLILOQUIESکہتے ہیں یعنی دل کے خیالات سے متاثر ہو کر خود اپنے آپ سے باتیں کرنا.گویا یوروپین مصنفین کے نزدیک یہ سورتیںکیا ہیں یہ وہ آہیں ہیں جو آپ کے تڑپتے ہوئے دل سے اُٹھیں، یہ وہ نالے ہیں جو قوم کی حالتِ زار پر آپ نے بلند کئے اور یہ وہ فغاں ہے جس نے حرا کی تاریکیوں میں ایک شور پیدا کیا.دنیا اپنی عیاشیوںمیں مبتلا تھی، لوگ اللہ تعالیٰ سے غافل و بیگانہ ہو چکے تھے اور شیطانی افعال کو وہ اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنا چکے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی حالت پر تنہائی کی گھڑیوں میں آہیں بلند کر رہے تھے، نالہ و فریاد سے ایک شور بپا کر رہے تھے، درد و کرب اور انتہائی اضطراب کے عالم میں اپنے دن گذار رہے تھے اور آخر آپ کی آہیں، آپ کے نالے اور آپ کی فریادیں ان سورتوں کی شکل میں دنیا پر ظاہر ہو گئیں.دشمن نے یہ بات خواہ کسی رنگ میں کہی ہو مگر ہے ایک لطیف بات.دشمن کی غرض تو ان الفاظ سے یہ ہے کہ ان سورتوں میں جن جذبات کا اظہار ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے جذبات ہیں آپ اپنے دل میں جو کچھ سوچا کرتے اور جن جذبات و کیفیات سے آپ گذرا کرتے تھے اُنہی جذبات و کیفیات کا آپ نے ان سورتوں میں اظہار فرما دیا ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بھی اپنے کلام میں انسانی جذبات کو ظاہر کیا کرتا ہے.اگر یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات تھے توہم اس کے معنے یہ لیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت

Page 10

کے لئے صحیح انتخاب کیا اور ایسے شخص کو اس عظیم الشان کام کی سر انجام دہی کے لئے چنا جس کے اپنے جذبات بھی خدا تعالیٰ کے ارادوں کے ساتھ مل گئے تھے پس ہم دشمن کی اس بات کو ردّنہیں کرتے بلکہ ایک نئے نقطۂ نگاہ کے ماتحت تسلیم کرلیتے ہیں.ہم کہتے ہیں اگر یہ صحیح ہے کہ ان سورتوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دکھ اور اس درد اور اس تالّم کا اظہار کیا گیا ہے جو آپ اپنی قوم کے متعلق محسوس کرتے تھے تو یہ امر بتاتا ہے کہ کس طرح محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں اور یتیموں کی حالت کو دیکھ دیکھ کر زار ہو رہے تھے.کیا کیا خیالات تھے جو آپ کے دل میںپیدا ہوتے تھے اور کیا کیا جذبات تھے جو آپ کے دل میں ہیجان بپا رکھتے تھے.آپ سمجھتے تھے کہ میری قوم جب تک اپنے ان افعال میں تبدیلی پیدا نہیں کرے گی وہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گی.تم اِسے انسانی کلام سمجھ لو.تم اس کلام کو بناوٹی کلا م قرار دے دو بہر حال تمہیں تسلیم کرنا پڑے گاکہ جس انسان کے آگے آنے کی وجہ یہ ہو کہ ظلم اور استبداد کو میں برداشت نہیں کرسکتا، یتیموں اور بیکسوں کی آہ و زاری کو میں دیکھ نہیں سکتا، غریبوں اور ناداروں کے حقوق کا اتلاف کبھی جائز نہیں سمجھا جاسکتا، غلاموں پر تشدّد کبھی روانہیں رکھا جاسکتا اُس کی بڑائی اور اس کی نیکی اور اس کی عظمت کا انکار نہیں کیا جاسکتا.انہی حالات کو دیکھ دیکھ کر وہ حرا کی تاریکیوں کو پسند کرتا ہے، وہ دنیا سے ایک عرصہ تک جدا رہنا پسند کرتا ہے اور پھر جب وہ دنیا کی طرف واپس آتا ہے تو اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لیے مال چاہتا ہے اس لیے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے عزت چاہتا ہے، اس لئے نہیں آتا کہ وہ اپنے لئے حکومت چاہتا ہے بلکہ اس لئے آتاہے کہ قوم کے گرے ہوئے طبقہ کو ابھارے، اس کی برائیوں کو دور کرے اور اس کی اصلاح کر کے اسے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لاکر کھڑا کر دے.میور کہتا ہے یہ سولیلوکیز SOLILOQUIESہیں یہ وہ باتیں ہیں جوانسان اپنے نفس سے کیا کرتا ہے، یہ وہ خیالات ہیں جو گہری خلوت میں انسان کے دل میں خود بخود پیدا ہو جایا کرتے ہیں لیکن اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہی خیالات تھے اور اگر آپ کے قلب کی گہرائیوں میں بار بار یہی جذبات موجزن رہتے تھے کہ ان غلاموں کو کون پوچھے گا، ان یتیموں کو کون پوچھے گا، ان مساکین کو کون پوچھے گا مجھے خلوت کو چھوڑ دینا چاہیے اور اس وقت تک مجھے دم نہیں لینا چاہیے جب تک بڑے بڑے رئیس اور سردار اپنے ان مظالم سے توبہ نہیں کرلیتے.تو میں سمجھتاہوںیہی خیالات اپنی ذات میں اتنے پاکیزہ ہیں کہ دنیا کا کوئی ہوش مند انسان آپ کی فضیلت کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکتا.بہر حال دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو قرآن مجید کو خدا تعالیٰ کا کلام قرار دیا جائے یا انسان کا.اگر خدا تعالیٰ کا کلام مان لیا جائے تب تو کوئی اعتراض ہی نہیں رہتالیکن اگر یہ انسان کے خیالات ہیں تو ایسے پاک نفس انسان کے

Page 11

خیالات ہیں جس کی پاکیزگی اور تقدس سے کوئی شخص انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا.سورۃ الشمس کا تعلق پہلی سورتوں سے اس سورۃ کا تعلق دوسری سورتوںسے سمجھنے کے لئے اس امر کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ یہ پانچوں سورتیں جن کا ذکر سورتوں کی ترتیب کے سلسلہ میں پہلے کیا جا چکا ہے اپنے اندر یہ مضمون رکھتی ہیں کہ غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی مدد کرنی چاہیے چنانچہ سورۃ الفجر میں آتا ہے كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْيَتِيْمَ.وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ.وَ تَاْكُلُوْنَ التُّرَاثَ اَكْلًا لَّمًّا.وَّ تُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا(الفجر:۱۸تا۲۱) پھر سورۃ البلد میں آتا ہے وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُ.فَكُّ رَقَبَةٍ.اَوْ اِطْعٰمٌ فِيْ يَوْمٍ ذِيْ مَسْغَبَةٍ.يَّتِيْمًا ذَامَقْرَبَةٍ.اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ.ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَ تَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ (البلد:۱۳تا۱۸) پھر انہی اخلاق کا سورۂ شمس میںذکر ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشمس:۹تا۱۱) پھر سورۃ الّیل میں فرماتا ہے فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَ اتَّقٰى.وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰى.فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى.وَ اَمَّا مَنْۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰى.وَ كَذَّبَ بِالْحُسْنٰى.فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْعُسْرٰى (الّیل:۶تا۱۱) اسی طرح آتا ہےوَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى.الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى.وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى(الّیل:۱۸تا۲۰) پھر سورۃ الضُّحٰی میں آتاہے فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ.وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ.وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(الضُّحٰی:۱۰تا۱۲) اس سے ظاہر ہے کہ یہ پانچوں سورتیں آپس میں ایک گہرا تعلق رکھتی ہیں اور ان میں زیادہ تر اخلاق فاضلہ پر زور دیا گیا ہے بالخصوص ایسے اخلاق پر جو قومی ترقی سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں غریب، مظلوم، بے کس اور گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے اور ان کے لئے ترقی کے وسائل اختیار کرنے کی تحریک پائی جاتی ہے.ان جذبات کو خواہ دشمن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے جذبات قرار دے تب بھی ظاہر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جذبات سے متاثر ہو کر اصلاح کا بیڑا اٹھایا وہ جذبات غرباء اور یتامیٰ و مساکین کی خدمت کے تھے.بحر محیط کے مصنف لکھتے ہیںکہ پہلی سورۃ سے اس کا تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے مکہ کی قسم کھائی تھی اب کچھ بلندیوں اور پستیوں کی قسم کھاتا ہے.میرے دل میں سب سے زیادہ قدر بحر محیط کے مصنف کی ہے کیونکہ تفسیر کا وہ حصہ جس سے مجھے لگائو ہے یعنی ترتیب سوَر کا مضمون.اس سے ان کو بھی لگائو ہے مگر یہاں آکر وہ بڑی پھسپھسی بات کہہ گئے ہیں.ان پانچ سورتوں کا مضمون (جن سورتوں کا پہلے ذکر ہو چکا ہے ) آپس میںبڑا گہرا تعلق رکھتا ہے.اگر ہم سورۃ البلد کو سورۃ الشمس کے مضمون سے ملا دیں تو یہ سورۃ اگلی سورۃ سے جا ملتی ہے.پس

Page 12

اس سورۃ کی ترتیب کے متعلق تو کوئی مشکل پیش ہی نہیں آسکتی.اس سے پہلی سورۃ میں بھی غرباء کی امداد کا ذکر آتا ہے اور اس کے بعد کی سورۃ میں بھی غرباء کے لئے اموال کو خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے پس کم سے کم اِن مضامین کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ سورۃ ما قبل اور ما بعد کی سورتوں سے نہایت گہرا تعلق رکھتی ہے.اگر بحر محیط کے مصنف اتنی بات ہی بیان کر دیتے تو ایک معقول بات ہوتی مگر یہ کیا پھسپھسی بات ہے کہ پہلے چونکہ مکہ کی قسم کھائی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آئو اب لگتے ہاتھوں ایک اونچی اور ایک نیچی چیز کی قسم بھی کھا لیں یہ محض مجبوری کی بات ہے چونکہ اُن کا ذہن اصل ترتیب کی طرف نہیں گیاانہوں نے یہ تاویل کر لی.بے شک جہاں تک ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز ’’یعنی بات سے بات پیدا ہو جانے‘‘ کا سوال ہے یہ بات صحیح ہے کہ جب انسان کو ایک خیال پیدا ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اس قسم کا دوسرا خیال بھی پیدا ہو جاتا ہے جب انسان کہتا ہے کہ مجھے فلاں شخص نہیں ملا تو اُس کی بیوی اور اس کے بچوں کا بھی خیال آجاتاہے.پھر اُن کے وطن کا بھی خیال آ جاتا ہے اور پھر اسی طرح یہ خیالات بڑھتے بڑھتے اور کئی رنگ اختیار کر لیتے ہیں.پس ایساہوتا رہتا ہے او ر ہمیشہ ایک سے دوسرا خیال پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ قاعدہ انسانوں کی نسبت ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت.انسان تو چیزوں کو بھولا ہوا ہوتاہے.پس جب ایک چیز کا خیال کسی وجہ سے اسے آتا ہے تو اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی اشیاء بھی اسے یاد آنا شروع ہو جاتی ہیں مگر ہم اس جگہ کسی شاعر کے شعروں کے ربط پر غور نہیں کر رہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر غور کر رہے ہیں جو عالم الغیب ہے اور جو ’’ایسوسی ایشن آف آئیڈیاز‘‘ یا بات سے با ت یاد آجانے کے قاعدہ سے بالا اور پاک ہے.اصل بات یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خانہ کعبہ کی بنیاد کی غرض بیان کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ ہم اس شہر کی قسم کھاتے ہیں اور پھر اس شہر کو بنانے والے ابراہیم ؑ کی بھی قسم کھاتے ہیں ابراہیم ؑنے یہ شہر اس لئے بنایا تھا کہ یہاں امن قائم رہے اور لوگ اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنی زندگیاں وقف کرتے رہیں مگر مکہ اب کیا ہے اب اُس کی یہ حالت ہے کہ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ( البلد:۳)اے محمد رسول اللہ ! تجھے اس میں تنگ کرنا حلا ل سمجھا جاتا ہے.ابراہیم ؑ نے جب مکہ بنایا تو اس وقت اس نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ (البقرۃ :۱۲۷)یعنی اے میرے رب! میں اس بستی کو امن کے لئے بساتا ہوں.مگر اب یہ حالت ہے کہ ابراہیم ؑ کے اپنے بچہ یعنی محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکہ میں ہرقسم کی تکالیف کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.جس شخص نے دعا یہ کی تھی کہ خدایا یہاں باہر سے آنے والوں کو بھی امن میسر آجائے کیا اس کا کلیجہ یہ دیکھ کر ٹھنڈا ہو سکتا ہے کہ اُس کے اپنے بچہ کو اس شہر میں ہر قسم کے مصائب کا تختہ ء مشق بنایا جا رہا ہے اگر کہو کہ ابراہیمؑ نے

Page 13

بے شک امن کی دعاکی تھی مگر اب ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس نے ہمارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلانا شروع کر دی ہیں اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان باتوں کا ازالہ کریں خواہ اس کے نتیجہ میںمکہ کا امن برباد ہی کیوں نہ ہو جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ تمہارے عقائد کے خلاف باتیں پھیلا رہا ہے اور تمہیں ان باتوں کو سن کر اشتعال پیدا ہوتا ہے مگر کیا ابراہیم ؑ کی دوسری دعا تمہیںیاد نہیں؟ اُس نے صرف یہی دعا نہیں کی تھی کہ مکہ میںامن قائم رہے بلکہ اُس نے یہ بھی دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(البقرۃ :۱۳۰) جب اُس نے یہ دعا کی تھی تو کیا اس کے مدنظر یہ بات تھی یا نہیں کہ ایک دن آئے گا جبکہ تم لوگ خراب ہو جائوگے.اگر تم نے خراب نہیں ہونا تھا تو کسی رسول کے آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.لیکن جب اس نے ایک رسول کے آنے کی پیشگوئی کر دی تو اس پیشگوئی کے ساتھ ہی اُس نے یہ بھی فیصلہ کر دیا کہ میرے بعد میری قوم خراب ہو جائے گی اور اُس وقت ایک ایسے رسول کی ضرورت ہو گی جو اُن کے عقائد کی اصلاح کرے اور ان کی خرابیوں کو دور کرے.اس قسم کی خرابیاں پیدا ہونے کے بغیر وہ رسول نہیں آسکتا تھا جو يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ کا مصداق ہوتا.يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ مکہ والے آیات ِ الٰہیہ کو بھول جائیں گے يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ مکہ والے کتاب الٰہی کو بھول جائیں گے.پھر کتاب کے ساتھ حکمت کے لفظ کا اضافہ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جبکہ مکہ والوں کی عقلیں ماری جائیں گی اوروہ نہایت ہی احمقانہ عقائد میں مبتلا ہوجائیں گے.اسی طرح يُزَكِّيْهِمْ کا لفظ بتاتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ مکہ والے تقویٰ سے دور جا پڑیں گے اور ضرورت ہوگی کہ ایک رسول ان میں مبعوث ہو جو دوبارہ ان کو ہدایت پر قائم کرے.پس فرمایا کہ مکہ کی بنیاد ایک وسیع نظام کے قیام کے لئے تھی جس میں روحانی، اعتقادی، سیاسی، تمدنی، عائلی، اقتصادی، علمی، بین الاقوامی، فکری اور اخلاقی تعلیمات اور ان کی حکمتوں اور ضرورتوں کا بیان ہو اور صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو.روحانی اور اعتقادی تعلیمات کا ذکر يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ میںآتا ہے.سیاسی، تمدنی، عائلی، اقتصادی، علمی، بین الاقوامی فکری اور اخلاقی تعلیمات کا ذکر يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ میںآتا ہے ان تمام تعلیمات کی حکمتوںاورضرورتوں کا بیان تعلیم الحکمۃمیں آجاتا ہے اور یہ امر کہ صرف خیال آرائی نہ ہو بلکہ عملی طور پر انسانی فکر اور عمل اور معاملہ کی اصلاح مد نظر ہو اور یہ کام عملاً کیا جائے یہ يُزَكِّيْهِمْ میں آجاتا ہے.غرض یہ ایک بہت بڑی پیشگوئی تھی اور بہت بڑا کام تھا جو دنیا میں ہونے والا تھا.اس بڑے کام کے لئے

Page 14

ابرہیم ؑ کی نسل میںایک کامل بیٹے کی ضرورت تھی ایسے بیٹے کے بغیریہ کام کبھی تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا.جب ابراہیم ؑ نے یہ دعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا تو یہ امر ظاہر ہے کہ فِیْھِمْ سے مراد ان کی اپنی قوم تھی اور ان کا مطلب یہ تھا کہ تو میری قوم میں ایک کامل رسول بھیجیو.پس ابراہیم ؑ ایک کامل بیٹے کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیںجس کے بغیر یہ کام تکمیل نہیں پا سکتا تھا اب اس سورۃ میں اس شخصِ کامل کی استعدادوں کا تفصیلی ذکر فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ فلاں فلاں استعدادوں والے ہی یہ کام کر سکتے ہیں دوسری استعدادوں والے یہ کام نہیں کر سکتے.اصل میں بحر محیط کے مصنف کو سورج اور چاند کے لفظوں سے شبہ ہوا ہے یا آسمان اور زمین کے الفاظ سے یہ شبہ پیداہوا ہے کہ شایدان الفاظ کا تعلق پہلی سورۃ سے ہے کیونکہ اس سورۃ کے شروع میں ہی وَ الشَّمْسِ وَضُحٰىهَا.وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا.وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا.وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا.وَالسَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا.وَالْاَرْضِ وَمَا طَحٰىهَا(الشمس:۲تا۷) کے الفاظ آگئے ہیں.چونکہ ابتداء میں ہی یہ الفاظ آگئے ہیںانہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ ان الفاظ کا پہلی سورۃ سے تعلق ہے اور چونکہ پہلی سورۃ میں مکہ کی قسم کھائی گئی تھی اور یہاں سورج اور چانداور آسمان اور زمین کا ذکر آتا تھا انہوں نے خیال کر لیا کہ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلے مکہ کی قسم کھائی تھی اب کچھ بلندیوں اورپستیوں کی قسم کھائی گئی ہے.حالانکہ یہ الفاظ اصل مقصود اس سورۃ میں نہیں بلکہ یہ مقصود کی تفاصیل بیان کر نے کے لئے بطور امثلہ کے آئے ہیں اصل مقصود تو وہ نفسِ کاملہ ہے جو تقویٰ اور فجورکی راہوں سے کامل طور پر واقف ہوتاہے اور پھر اسے ابھارتا چلا جاتا ہے یعنی صرف دینِ فطرت پر نہیں رہتا بلکہ دینِ شریعت کو بھی حاصل کرتا ہے اس نفسِ کاملہ اور اس کی استعدادوں کو آسانی سے سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہاںبعض مثالیں بیان فرمائی ہیں.مگر انہوں نے سمجھا کہ اصل مقصود سورج اور چاند ہے حالانکہ اصل مقصود سورج اور چاند نہیں بلکہ نفسِ کاملہ ہے.پہلی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ وَوَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ہم والد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے ولد کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.اب یہ بتانا چاہیے تھا کہ وہ ولد کیسا ہونا چاہیے چنانچہ اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ اس کی وضاحت کرتا ہے اور بتاتاہے کہ جس ولد کے متعلق ہماری طرف سے یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیات کی تلاوت کرے گا، کتاب اور حکمت سکھائے گا اور لوگوں کے نفوس کا تزکیہ کرے گا وہ کن استعدادوں کا مالک ہو گا چنانچہ ان استعدادوں کی یہاں تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ نفسِ کامل میں کون کون سی استعدادیں ہونی چاہئیں.یہ بھی بتایا ہے کہ نفسِ کامل دو قسم کے ہوتے ہیں اور پھران دونوں کی مثالیں بیان کر کے اس امر کو واضح کیا ہے کہ ا س زمانہ میںکس قسم کے نفسِ کامل کی ضرورت ہے اور یہ کہ جب تک ایسا نفسِ کامل نہ آئے

Page 15

ابراہیمؑ کی پیشگوئی پوری نہیں ہو سکتی.پس نفسِ کامل کی مثال میں سورج اور چاند کا ذکر کیا گیا ہے نہ کہ سورج اورچاند اصل مقصود ہیں.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں).وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا۪ۙ۰۰۲ (مجھے) قسم ہے سورج کی اور اس کے طلوع ہو کر اونچا ہو جانے کی.حلّ لُغات.شَـمْسٌ شَـمْسٌ کے معنے سورج کے ہوتے ہیں.مگر ش.م.س کے مادہ ترکیبی کے لحاظ سے شَـمْسٌ کے معنے ایسے وجود کے بھی ہوسکتے ہیں جو کسی کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر رکھنے کے لئے تیار نہ ہو.بلکہ اپنی ذات میں کامل ہو.چنانچہ عربی زبان میں کہتے ہیں شَـمَسَ الرَّجُلُ.اِمْتَنَعَ وَ اَبٰی کہ اس نے دوسروں کو اپنے سے کم درجہ کا سمجھ کر ان کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا.اور جب گھوڑے کے لئے شَـمَسَ الْفَرْسُ کہیں تو معنے یہ ہوتے ہیں کَانَ لَایُـمَکِّنُ اَحَدًا مِّنْ ظَھْرِہٖ وَلَا مِنَ الْاِسْـرَاجِ وَالْاِلْـجَامِ وَلَایَکَادُ یَسْتَقِرُّ.کہ گھوڑا کسی طرح بھی قابو نہ آسکا اور اس نے کسی کو اپنی پیٹھ پر نہ بیٹھنے دیا نہ زین ڈالنے دی اور نہ لگام ڈالنے دی (اقرب) گویا شَـمْسٌ ایسے وجود کو کہتے ہیں جس کی روشنی ذاتی ہو اور اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کی اطاعت برداشت نہ کرے یہ مفہوم اس سے نکلتا ہے کہ شَـمْسٌ کے معنے ہیں ایسا وجود جو اطاعت برداشت نہیں کرتا.اب جو شخص اطاعت برداشت نہیں کرتا بوجہ اس کے کہ اس میں تکبر پایا جاتا ہے وہ تو بُرا ہے لیکن جو شخص اس لئے اطاعت نہیںکرتاکہ خدا نے اسے پیدا ہی دوسروں کے آگے چلنے کے لئے کیا ہے وہ بُرانہیں.گویا دو۲ قسم کے اِبَاء ہوتے ہیں ایک اِبَاء وہ ہوتا ہے جس میں تابع یہ کہتا ہے کہ میںدوسرے کی بات نہیں مانتا.لیکن ایک اِبَاء اس انسان کا ہوتا ہے جسے پیدا ہی بڑا بننے کے لئے کیا جاتا ہے.جیسے ایک عالم کا یہ کا م ہے کہ وہ فتویٰ دے اب اگر کوئی جاہل شخص اسے کہے کہ اس طرح فتویٰ نہ دو بلکہ اُس طرح دو تو وہ فوراً انکار کر دے گا اور کہے گا کہ تمہارا حق نہیںکہ میرے معاملات میں دخل دو مگر اس کا انکار متکبرانہ انکار نہیںہوگا.قرآن کریم میں بھی ان معنوں میں اِبَاء کا لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّاۤ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَهٗ وَ لَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ(التوبۃ:۳۲) اللہ تعالیٰ اپنے نور کے قائم ہو جانے کے سوا

Page 16

ہردوسری تحریک سے انکار کرتا ہے یہ ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا انکار تکبر والا انکار نہیں کہلا سکتا.اسی طرح عربی کا محاورہ ہے بادشاہ سے کہتے ہیں.اَبَیْتَ ا للَّعْنَ.آپ نے لعنت کا انکار کیا ہےمطلب یہ کہ آپ ایسے شریف ہیں کہ کسی قسم کی لعنت کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے.اسی طرح کہتے ہیں رَجُلٌ اَبِیٌّ فلاںشخص ظلم اٹھانے سے انکاری ہے پس شَـمْسٌ کے معنے گو سورج کے ہیں مگر شمس کے مادہ کے اعتبار سے اس کے معنے اِبَاء کے بھی ہیں اور ان معنوںکے لحاظ سے اس سے مراد وہ وجود ہو گا جو کسی کی ناواجب اطاعت سے انکار کرے اور مطلب یہ ہو گا کہ ایسا وجود جس کی قابلیتیں ہی ایسی ہیں کہ وہ کسی کی اطاعت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ خدا نے اسے دنیاکا لیڈر بنایا ہے اس کا کام صرف یہی ہے کہ وہ دوسروں کی راہنمائی کرے اس کا یہ کام نہیں کہ کسی کی ماتحتی اختیار کرے.اَ لضُّحٰی ضَـحَا (یَضْحُوْ ضَـحْوًا)کے معنے ہوتے ہیں کوئی چیز ظاہر ہوگئی چنانچہ کہتے ہیں ضَـحَا الطَّرِیْقُ بَدَا وَ ظَھَرَ کہ راستہ ظاہر ہو گیا (اقرب) اور جب سورج کی روشنی زیادہ نکل آئے تو اس وقت کو ضُـحٰی کہتے ہیں(اقرب) صبح جب سورج نکلتا ہے اس وقت کو نہیں بلکہ جب سورج دو تین نیزے اوپر آجائے اس وقت کو ضُـحٰی کہتے ہیں لیکن اس سے پہلے وقت کو جو طلوع آفتاب کا ہوتاہے اور جس میں روشنی پوری طرح ظاہر نہیں ہوتی ضَـحْوَۃٌ کہتے ہیں.بعض نے اور زیادہ فرق کیا ہے ان کے نزدیک سورج نکلتے وقت کو ضَـحْوَۃٌ کہتے ہیں.جب سورج کچھ بلند ہوتا ہے تو اس وقت کو ضُـحٰی کہتے ہیں اور پھر نصف النہار سے زوال تک کے وقت کو ضُـحَاءٌ کہتے ہیں.(اقرب) تفسیر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں شہادت کے طور پرپیش کرتا ہوں سورج کو اور اس کے ظہور اور روشنی کو.وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میں دو حقیقتوں کی طرف اشارہ دنیا میں ہر چیز دو حیثیتیں رکھتی ہے ایک اس کی ذاتی حقیقت حساب اور وزن کے لحاظ سے اور ایک اس کی حقیقت دوسری چیزوں کی نسبت کے لحاظ سے.مثلاً فرض کرو ایک درخت دس فٹ اونچا ہے یہ دس فٹ قد اس کا اصلی قد ہوگا اور بغیر دوسری چیزوں کی نسبت کے اسے اس درخت کا اصلی قد قرار دیا جائے گا مگر ایک قد اس کا نسبتی ہو گا.مثلاً ایک شخص پندرہ بیس فٹ کے ٹیلے پر چڑھ جائے تو لازماً درخت کی ساری لمبائی اسے نظر نہیں آئے گی بلکہ بعض دفعہ اونچائی اور زاویہ نگاہ کے مطابق اسے وہ درخت دو فٹ کا نظر آئے گا.بعض دفعہ تین فٹ کا نظر آئے گا.بعض دفعہ چار فٹ کا نظر آئے گا.یا ایک شخص گڑھے میں ہے تو اسے وہ درخت بہت لمبا نظر آئے گا اور دس کی بجائے تیرہ یا چودہ فٹ کا معلوم ہو گا.اسی طرح اگر کوئی شخص دور سے درخت کو دیکھتا ہے تو وہ اسے بہت چھوٹا معلوم ہوتا ہے.دور سے ہم پہاڑ دیکھتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ بعض دفعہ دو ہزار بعض دفعہ چار ہزار اور بعض دفعہ بیس بیس ہزار فٹ اونچے ہوتے ہیںدور سے دیکھنے کی وجہ سے ایسے نظر

Page 17

آتے ہیں جیسے کوئی اونچا سا خیمہ لگا ہوا ہو.اسی طرح اگر درخت کے نیچے لیٹ کر اوپر کی طرف دیکھا جائے تو درخت کا بالکل اور نظارہ نظر آئے گا.کسی مینار کے نیچے کھڑے ہو کر اوپرکی طرف دیکھو تو خواہ وہ ایک سو یا ڈیڑھ سو فٹ کا ہو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پانچ سو یا ہزار فٹ کا ہے لیکن اگر ہوائی جہاز میں بیٹھ کر مینار کو دیکھا جائے تو وہی مینار بہت چھوٹا نظر آتا ہے.غرض ہر چیز کی ایک حقیقت ذاتی حسابی ہوتی ہے جو طبعی حالات میں نظر آتی ہے اور ایک حقیقت اُس کی دوسری چیزوں کے لحاظ سے نظر آتی ہے.ایک شخص ساری رات سوچتا ہے بڑے بڑے اہم مسائل پر تدبر کرتا ہے فلسفہ اور ہیئت کی باریکیوں پر غور کرتا ہے، سیاست اور اقتصادکے بڑے بڑے نکات حل کرتاہے، قوموں کی ترقی اور ان کے تنزل کے وجوہ پر غور کرتا ہے اور اسی میں اپنی تمام رات بسر کردیتا ہے.صبح اُسے کوئی شخص ملتا ہے تو وہ ان مسائل میں سے کوئی ایک بات اس کے سامنے بیان کرتا ہے.اب زید جس نے ساری رات سوچ کر سو اہم مسائل حل کئے تھے اُس کی نسبت کے لحا ظ سے جو علم دوسرے شخص کو اس سے حاصل ہوا وہ صرف ۱۰۰ ۱تھا.پھر ایک اور شخص ملتا ہے اور اس سے بھی وہ بعض مسائل کا ذکر کر دیتا ہے فرض کرو وہ اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے تو اب دوسرے شخص کو جو روشنی حاصل ہوئی وہ دو فیصدی ہے گویا ایک اس کی ذاتی روشنی ہے اور ایک اس کی وہ روشنی ہے جو دوسرے لوگوں کے لحاظ سے ہے اس کی ذاتی روشنی تو یہ ہے کہ اس نے سو۱۰۰ مسئلے حل کئے ہیں لیکن اس کی نسبتی روشنی یہ ہے کہ ایک شخص ملتا ہے تو وہ اس کے سامنے ایک مسئلہ بیان کرتاہے، دوسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے دو مسئلے بیان کرتا ہے، تیسرا شخص ملتا ہے تو اس کے سامنے تین مسئلے بیان کرتا ہے اور وہ اس کی ذاتی روشنی کا اسی قدر اندازہ لگاتے ہیں جس قدر علم ان کو اس شخص سے حاصل ہو چکا ہوتا ہے پھر ایک اور شخص اسے ملتا ہے اور وہ اس کے سامنے ان مسائل کے متعلق ایک بڑی لمبی تقریر کرتا اور سو۱۰۰ میں سے پچاس مسئلے بیان کردیتا ہے اب اُس کے لحاظ سے اُس کی علمی روشنی کی بالکل اور کیفیت ہو گی اور وہ اس کا اندازہ ان پچاس مسائل سے لگائے گا جو اسے بتائے گئے تھے اس کے بعد اگر کوئی اور شخص اُسے ملتا ہے اور وہ اُس کے سامنے سو۱۰۰ کے سو۱۰۰ مسائل بیان کر دیتا ہے تو وہ اُس کے سامنے بالکل گویا عرفانی طور پر ننگا ہو جاتا ہے.اب وہ شخص جس کے سامنے صرف ایک مسئلہ بیان ہوا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ فلاں نے بڑے لمبے غور کے بعد یہ بات نکالی ہے مگر وہ اس کے صرف ۱۰۰ ۱حصہ کو جانتا ہے، جس کے سامنے دو باتیںبیان ہوئی تھیں وہ اس کے ۱۰۰ ۲حصہ کو جانتا ہے جس کے سامنے دس باتیں بیان ہوئی تھیں وہ اس کے ۱۰ ۱حصہ کو جانتا ہے اور جس کے سامنے پچاس باتیں بیان ہوئیں تھیں وہ اس کی ۲ ۱حقیقت کو جانتا ہے اور جس کے سامنے سو۱۰۰ باتیں بیان ہوئی تھیں وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اس کی ساری حقیقت کو جان لیا مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے اس سے پہلی رات بھی

Page 18

غور کیا ہوتا ہے، اس سے پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے اس سے پہلی رات بھی غور کیا ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ خود بھی کئی باتیں بظاہر بھول گیا ہوتا ہے اور اسے اپنی حقیقت کا آپ بھی پورا علم نہیں رہتا لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ا س کے اندر کیا کیا حقیقتیں پیدا ہوچکی ہیں.درحقیقت ہر انسان میں ایک ملکۂ ظہور ہوتاہے اور ایک اس کے اندر بالقوۃ طاقتیں ہوتی ہیں.اگر تم سے کوئی پوچھے کہ تم اردو کے کتنے الفاظ جانتے ہواور تم گننے لگو تو تم پچاس ساٹھ یا سو سے زیادہ الفاظ شمارنہیں کر سکو گے لیکن اگر تمہارے سامنے کوئی کتاب رکھ دی جائے تو تم کہو گے کہ میں یہ الفاظ بھی جانتا ہوں اور وہ الفاظ بھی جانتا ہوں تو اپنی قابلیتوں کا انسان خود بھی اندازہ نہیں کر سکتا کجا یہ کہ وہ دوسروں کی قابلیتوں کا اندازہ لگا سکے.تم سورج کے سامنے مختلف درجہ کی صفائی کی چیزوں کو رکھ دو تو گو ان سب پر سورج کی پوری روشنی ہی پڑے گی مگر صفائی کے مختلف مدارج کی وجہ سے ہر چیز کے لحاظ سے اس کی روشنیاں بالکل الگ الگ ہوں گی حالانکہ سورج کی ذاتی روشنی تو ایک ہی ہے اسی طرح لیمپ کی ایک تو وہ روشنی ہے جو اس کے اندر جلنے والے تیل کی نسبت سے پیدا ہوتی ہے وہ ایک ہی درجہ کی ہے لیکن ایک وہ روشنی ہے جو مختلف چیزوںپر پڑ کر اپنے حجم اور اپنی وسعت کو بدلتی چلی جاتی ہے.یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےوَ الشَّمْسِ ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں سورج کو وَ ضُحٰىهَا اور اس کی اس روشنی کو جو اس کی ذاتی روشنی ہے.وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا۪ۙ۰۰۳ اور چاند کی جب وہ اس (یعنی سورج) کے پیچھے آتا ہے.حلّ لُغات.تَلٰىهَا تَلَا فُلَانًا(تُلُوًّا) کے معنے ہیں تَبِعَہٗ اس کا پورا تابع ہو گیا (اقرب) اس آیت کی مفسرین نے مختلف تشریحات کی ہیں بعض نے کہا ہے کہ اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس وقت سورج ڈوبے معاً اس کی جگہ چاند روشنی دینے لگے اور یہ مہینہ کی پہلی پندرہ تاریخوں میں ہوتا ہے.(تفسیر زاد المسیر سورۃ الشمس زیر آیت وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا) بعض نے کہا ہے کہ تابع کے معنے یہ ہیں کہ سورج کی سب روشنی اور نور اس نے لے لیا اور یہ اس وقت ہوتا ہے جبکہ چاند پورا ہو جائے یعنی چودھویں پندرھویں سولھویں تاریخوں کا چاند(فتح القدیر سورۃ الشمس زیر آیت وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا).اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب سورج چڑھے اس وقت یہ ساتھ چڑھے تو یہ

Page 19

Page 20

دور پھینک دیتے ہیں.اگر ری فلیکٹر نہ ہو تو روشنی بہت محدود جگہ میںرہتی ہے لیکن جب روشنی کے ساتھ ری فلیکٹر مل جاتاہے تو اس کی طاقت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور وہ دور دور تک اندھیروں کو زائل کردیتا ہے.قمر کے معنے در اصل ری فلیکٹرکے ہی ہیںیعنی ایسا وجود جس میں ذاتی طور پر یہ قابلیت ہوتی ہے کہ وہ سورج سے نور لے کر اسے دوسروں کی طرف پھینک دے.یہ خیال نہیںکرنا چاہیے کہ اگر قمر کی جگہ کوئی سا بھی اور ستارہ رکھ دیا جائے تو وہ بھی سورج کی روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک سکتاہے ہر ستارہ یہ قابلیت نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ نے ہمارے نظامِ شمسی میں صرف قمر میں ہی یہ قابلیت پیدا کی ہے کہ وہ سورج سے اس کی روشنی اخذ کرے اور پھر اسے اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طر ف پھینک کر ان کو منور کر دے.اسی لئے چاند کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کسی قسم کی آبادی کے قابل نہیں ہے اگر وہ قابل آبادی ہوتا تو اس میں درخت ہوتے، گھاس ہوتا بڑے بڑے جنگلات ہوتے.مگر یہ چیزیں چاند میں نہیں ہیں.کیونکہ اگر یہ چیزیں ہوتیں تو وہ روشنی کو اپنے اندر جذب کر کے دوسروں کی طرف پھینک نہیںسکتا تھا.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ نے چاند کو ری فلیکٹر کے طور پر بنایا ہے اس لئے اُس نے چاندمیں ریت کے بڑے بڑے میدان پیدا کر دیئے ہیں جب سورج کی روشنی اُن پر پڑتی ہے تو وہ ریت کے میدان ری فلیکٹر کے طور پر اس کو دنیا پر پھینک دیتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْقَمَرِ ہم تمہارے سامنے ایک ایسے وجود کو پیش کرتے ہیں جو قمری حیثیت رکھتا ہے مگر صرف قمر کے وجود کو نہیں بلکہ قمر کی اس حالت کو جب وہ پوری طرح سورج کے سامنے آکراس کی ساری روشنی کو اپنے سارے وجود میں لے لیتا ہے بے شک قمر میںیہ خوبی ہے کہ وہ روشنی لے کر دوسروں کی طرف پھینک دیتا ہے لیکن روشنی اس کے سامنے نہ ہو گی تو وہ پھینکے گا کیا؟ اسی لئے صرف قمر کو شہادت کے طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اِذَا تَلٰىهَا ہم قمر کو ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جب وہ سورج کے بالکل سامنے آجاتا ہے.ذاتی خوبی تو قمر کی یہ ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو لے سکتا ہے اور پھر دوسروںکی طرف پھینک سکتا ہے لیکن یہ اس کی ذاتی خوبی اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتی جب تک وہ سورج کے سامنے نہ آجائے اگر سورج کے سامنے آجائے تو اس کی یہ خوبی ظاہر ہو جاتی ہے اور اگر سورج اور چاند کے درمیان کوئی اور چیز حائل ہو جائے جیسے بعض دفعہ زمین حائل ہو جاتی ہے تو چاند کو گرہن لگ جاتا ہے اور وہ سورج کی روشنی کو زمین کی طرف پھینکنے سے قاصر رہتا ہے یا مثلاً پہلی رات کا چاند ہے اس وقت بھی وہ سورج کے سامنے پورے طور پر نہیں ہوتا اسی لئے وہ اس وقت قمر یا بدر کی بجائے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتا ہے مگر جب چودھویںرات آجائے تو چاند مکمل طور پر سورج کے سامنے آجاتا ہے اور اس کی روشنی اپنی پوری شان کے ساتھ دنیا پر جلوہ گر ہوتی ہے.پس

Page 21

Page 22

حصۂ ملک کے سامنے نہ ہو تو خواہ اس کے آگے بادل نہ ہو ہمارے ملک والے اس وقت کو دن نہیں کہیں گے اور یہ نہیں کہیں گے کہ سورج روشن ہے پس نَـھَار اور مفہوم پیدا کرتا ہے اور ضُحٰىهَا اور مفہوم پیدا کرتا ہے.ضُـحَی الشَّمْسِ ہروقت قائم رہتی ہے خواہ سورج کسی حصۂ دنیا کے سامنے ہو یا نہ ہو.کیونکہ وہ سورج کی ذاتی روشنی پر دلالت کرتی ہے اور نہار دنیا کے مختلف حصوں کے لحاظ سے بدلتا رہتا ہے کبھی یہاں دن کبھی وہاں.کیونکہ دن اس وقت کو کہتے ہیں جب زمین سورج کے سامنے ہو کر لوگوںکو اپنی ضُـحیٰ دکھا تی ہے.وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا۪ۙ۰۰۵ اور رات کی جب وہ اس کو ڈھانپ دے.تفسیر.وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا سے مراد رات کے وقت زمین کا منہ پھیر کر سورج کو اوجھل کر دینا ہے.رات کیا ہوتی ہے؟ جب سورج کی طرف سے زمین اپنی پیٹھ پھیر لیتی ہے اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو اسے رات کہتے ہیں پس چونکہ لَیْل ایک زمینی فعل کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس لئے یہاں لَیْل کے متعلق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دن کی روشنی کو ڈھانپ لیتی ہے لیکن اصل مطلب یہ ہے کہ زمین سورج کی طرف سے چکر کاٹ کر لَیْل پیدا کر دیتی ہے گویا وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میں تو زمین کی اس حالت کا ذکر کیا تھا جب وہ سورج کے سامنے آکر آبادی کو سورج دکھا دیتی ہے اور وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا میں زمین کی اس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے جب وہ سورج سے اپنا منہ موڑ کر لَیْل پیدا کردیتی اور دنیا کی نظروں سے سورج کو روپوش کر دیتی ہے.یہ چار چیزیں ہیں جو الگ الگ معنے رکھتی ہیں وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا سے سورج اور اس کی ذاتی روشنی مراد ہے وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا سے چاند اور اس کی عکسی روشنی مراد ہے وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میں زمین اور اس کی انعکاسی روشنی مراد ہے وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا میں زمین اور اس کی نور سے محرومی مراد ہے.سورج تو اپنے اندر ذاتی طور پر یہ وصف رکھتا ہے کہ وہ دنیا کو روشن کرے لیکن چاند میں بِالْقُوَّۃِ روشنی اخذ کرنے کی طاقت ہوتی ہے یعنی اس کے اندر یہ قابلیت پائی جاتی ہے کہ وہ سورج سے روشنی لے اور اپنے اندر جذب کر کے اسے دوسروں تک پہنچا دے جیسے ری فلیکٹر ہوتے ہیںکہ وہ لیمپ کی روشنی کو بہت دور تک پھیلا دیتے ہیں.اب خواہ چاند چمک نہ رہا ہو لیکن چمکنے کی قابلیت اس میں موجود ہوتی ہے جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے تو اس کی یہ قابلیت ظاہر ہو جاتی ہے اور وہ اس کی روشنی کو دوسروں تک پھینکنے لگ جاتا ہے شمس اور قمر کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میں دن کو بطور

Page 23

مثال پیش کیا ہے جب وہ سورج کو روشن کر دیتا ہے اور وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا میںرات کو بطور مثال پیش کیا ہے جب زمین کے چکر کاٹ کر جانے کے وقت سورج اوجھل ہو جاتا ہے.ان چار آیات میںچار الگ الگ زمانوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میںاللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم سورج کو تمہارے سامنے بطورمثال پیش کرتے ہیں جب تک اپنی ذات میںچمکنے والا وجود دنیا میں نہ آئے بالخصوص ایسے زمانہ میں جب نور بالکل مٹ چکا ہو اس وقت تک دنیا کبھی ترقی کی طرف اپنا قدم نہیں اٹھا سکتی جیسے بجھی ہوئی آگ ہو تو اس سے دوسری آگ روشن نہیںہو سکتی یا بجھا ہوا دیا ہو تو اس سے دوسرا دیا روشن نہیں ہو سکتا.ری فلیکٹر اسی وقت فائدہ دیتا ہے جب نور موجود ہو.مثلاً اگر لیمپ جل رہا ہو اور اس پر ری فلیکٹرلگا دیا جائے تو بے شک اس کی روشنی دور تک پھیل جائے گی یا جیسے بیٹریوں کی روشنی بہت معمولی ہوتی ہے لیکن اوپر کا شیشہ جو ری فلیکٹر کے طور پر لگا ہوا ہوتا ہے اس کی معمولی روشنی کو بھی دور تک پھیلا دیتا ہے اگر اس شیشہ کو تم نکال دو تو بیٹری کی روشنی آدھی سے بھی کم رہ جائے گی.بہر حال ری فلیکٹر اسی صورت میںکام آسکتا ہے جب نورموجود ہو، روشنی اپنی کسی نہ کسی شکل میں قائم ہو لیکن اگر نور مٹ چکا ہو، تما م روشنیاں گُل ہوچکی ہوں تو اس وقت ایسا ہی وجود کام آسکتا ہے جو ذاتی طور پر اپنے اندر روشنی رکھتا ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے سورج کو پیش کرتے ہیں جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہے اور جو ظلمتوں کو دور کرنے کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے.اس کے بعد روشنی کا دوسرا ذریعہ چاند ہوتا ہے اور وہ بھی ایسی حالت میں جب وہ سورج کے سامنے آجاتا ہے اس وقت وہ بھی دنیا کو اپنی شعاعوں سے منور کر دیتا ہے.یہ دو ذرائع ہیں جو دنیا میںانتشار ِ نور کے لئے کام آتے ہیں اللہ تعالیٰ ان مثالوں کو کفارِ مکہ کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم اچھی طرح سوچ لو کیا تمہارے پاس ان دونوں ذرائع میں سے کوئی ایک بھی ذریعہ موجود ہے، کیا تمہارے پاس کوئی شمس ایسا ہے جو اپنے اندر ذاتی روشنی رکھتا ہو؟ شمس سے مراد شریعت لانے والا وجود شمس سے مرادوہ وقت ہوتا ہے جب شریعت لانے والا وجود براہ راست دنیا کو فائدہ پہنچا رہا ہو.پھر فرماتا ہے اگر کسی شمس کو تم پیش نہ کر سکو تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ گو شمس ہم میںموجود نہیں مگر اس سے اکتسابِ نور کر کے ایک چاند ہم کو منور کر رہاہے.بہر حال دو ہی چیزیں دنیا کو منور کر سکتی ہیں یا تو ذاتی روشنی رکھنے والا کوئی وجود ہو اور اگر اس کی روشنی دور چلی جائے تو پھر ا س کے بالمقابل آجانے والا کوئی ری فلیکٹر جو اس کی روشنی کو جذب کر کے دوسروں تک پہنچا دے.ان دو صورتوں کے علاوہ روشنی حاصل کرنے کی اور کوئی صورت نہیں.

Page 24

اسی قاعدہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مکہ والو! تمہیں تو ان دونوں حالتوں میں سے کوئی حالت بھی نصیب نہیں.مثلاً پہلی چیز یہ ہوتی ہے کہ شریعت موجود ہو مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ تمہارے پاس نہ نوحؑ کاقانون ہے نہ ابراہیمؑ کا قانون ہے نہ کسی اور نبی کا قانون ہے اور جب تمہارے پاس کوئی قانون ہی نہیں تو تم اپنے متعلق کیاامید کر سکتے ہو اور کس طرح اس غلط خیال پر قائم ہو کہ تمہارے باپ دادا کی بجھی ہوئی روشنیاں تمہارے کام آجائیں گی.تمہاری حالت تو ایسی ہے کہ تمہیں لازمی طورپر ایک شارع نبی کی ضرورت ہے کیونکہ ساری شریعتیں تم میںمفقود ہیں اور جب کہ سب کی سب شرائع مفقود ہو چکی ہیں تو اب ضروری ہے کہ کوئی شمسِ ہدایت آئے جو ان تاریکیوں کو اجالے سے بدل دے.جب تک ایسا وجود نہیں آتا جو اپنے اندر ذاتی طور پر روشنی رکھنے والاہو اس وقت تک پرانے لیمپ جو بجھ چکے ہیں تمہارے کسی کام نہیںآسکتے.روشنی کے حصول کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ قمر ظاہر ہو جائے.مگر قمر بھی اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب شمس تو موجود ہو مگر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے اس کے بغیروہ کسی کام نہیںآسکتا.اگر تم یہ کہو کہ ہم قمر سے فائدہ اٹھا لیں گے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ تم میںکوئی شریعت موجو د نہیںکہ غیر شریعت والا کوئی قمر ظاہر ہو جائے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے زمین کی اس حالت کو پیش کیا ہے جب وہ نہار پیدا کر دیتی ہے اور آخر میں اس حالت کو رکھا گیا ہے جب زمین سورج سے پیٹھ موڑ کر لوگوں کے لئے لَیْل پیدا کر دیتی ہے.سورۃ کی پہلی چار آیات میں اسلام کے دو اہم زمانوں کی طرف اشارہ ان آیات میںاسلام کے دو اہم زمانوں کی طرف نہا یت ہی بلیغ انداز میں اشارہ کیا گیا ہے.وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میں تو اسلام کی غرض کو واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میںچمکنے والے سورج ہیں جوں جوں یہ سورج طلوع کرتا جائے گا وہ نور جو ذاتی طور پر سورج کے اندر موجود ہے زمین میں پھیلتا چلا جائے گا.چنانچہ دیکھ لو قرآن جو آج ہمارے ہاتھوںمیں ہے یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نفسِ مطّہر سے ہی نکل کر آیا ہے.خدا نے اس عظیم الشان کلام کے نزول کے لئے آپ کو چنا اور پھر آپ کے ذریعہ یہ کلام ہمارے ہاتھوں تک پہنچا.وہ تفصیلات جوقرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ غیر متبدل تعلیمات جن کو اسلام نے پیش کیا ہے خواہ وہ تزکیہ نفوس سے تعلق رکھتی ہوں یا سیاسی اور تنظیمی تعلیمات ہوں یا اخلاقی اور اقتصادی تعلیمات ہوں بہر حال وہ سب کی سب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ سے نکل کر ہم تک پہنچی ہیں.پس آپ وہ شمس تھے جن کی ضُـحٰی اپنی ذات میں آپ کی صدا قت کی ایک بہت بڑی دلیل تھی دنیا خواہ آپ کو مانے یا نہ مانے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دنیا قرآن کریم کو بند کر کے رکھ دے اور کہے کہ

Page 25

قرآن کریم کے مضامین بالکل خراب ہیں پھر بھی جب تک قرآن دنیا میں موجود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ضُـحٰی دنیا میں موجود رہے گی.جب دن کے وقت ایک شخص اپنے کمرے کے دروازے بند کر کے اندر بیٹھ رہتا ہے یا جب زمین چکر کھا کر سورج کو لوگوں کی نگاہ سے اوجھل کر دیتی ہے اُس وقت سورج کاوجود تو غائب نہیں ہوجاتا.سورج بہر حال موجود ہوتا ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ زمین اس سے اپنی پیٹھ موڑ لے یا کوئی شخص اپنے کمرہ کے دروازے بند کر کے اس کی روشنی کو اندر داخل نہ ہونے دے.اسی طرح وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میں بتایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ضُـحٰی والے وجود ہیں چاہے تم اس نور سے فائدہ اٹھائو یا نہ اٹھائو ان کا نور بہر حال ظاہر ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا ایک دن تسلیم کرے گی کہ آپ حقیقت میں روحانی سورج تھے پس دنیا ان کے سامنے آئے یا نہ آئے اس کا کوئی سوال نہیں.دنیا اس شمس کے سامنے آئے گی تو منور ہو جائے گی اور اگر نہ آئے گی تو یہ شمس بہر حال شمس ہے اس کی ضحی پر اس بات کا کوئی اثر نہیںہو سکتا کہ لوگوں نے اس کی طرف سے اپنی پیٹھ موڑلی ہے.فرض کرو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک آدمی بھی ایمان نہ لاتا تو اس سے کیا ہو سکتا تھا جو روحانی اور اخلاقی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو سیاسی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو اقتصادی تعلیمات آپ نے دی ہیں،جو عائلی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو تمدنی تعلیمات آپ نے دی ہیں، جو علمی تعلیمات آپ نے دی ہیں ان سے بہرحال آپ کا شمس ہونا ظاہر ہو جاتا.جب ایک وجود کو خدا تعالیٰ نے شمس بنا کر بھیجا تو خواہ مکہ والے آپ پر ایمان نہ لاتے.اہل عرب آپ کو سچا تسلیم نہ کرتے وہ یہ تو کہہ سکتے تھے کہ اس شمس سے نہار پیدا نہیں ہوا، دنیا نے اس سورج سے روشنی اخذ نہیں کی مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ یہ شمس، شمس نہیں تھا.جب ایک شخص نئی شریعت لاتا ہے تو خواہ ہزار سال کے بعد لوگ اسے مانیں بہر حال اس کا شمس ہوناپہلے دن سے ہی ثابت ہوتا ہے.یہ تو ہم کہیں گے کہ دنیا اس کے سامنے دو سو سال کے بعد آئی یا ہزار سال کے بعد آئی مگر یہ نہیں کہیں گے کہ وہ شمس اپنی ذات میں ایک روشن وجود نہیں تھا پس وَالشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میں بتایا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں ایسا نور رکھتے ہیں کہ تم چاہے مانو یا نہ مانو ان کا کچھ بگڑ نہیں سکتا.پھر فرماتا ہے وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا یعنی آپ کے بعد بعض اور وجودبھی آئیں گے جو قمر کی حیثیت رکھیں گے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف ایسے شمس ہیں جو اپنی ذات میں روشن اور پُر انوار ہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے آپ کے نور سے اکتساب کرنے کے لئے بعض قمر بھی پیدا کر دئیے ہیں جو ہر زمانہ میں اِن کے نور کو دنیا میں پھیلاتے رہیں گے گویا اوّل تو یہ اپنی ذات میںسورج ہے پھر یہ ایسا سورج ہے جس کے لئے خدا تعالیٰ نے ری فلیکٹر بھی پیدا کر دئیے

Page 26

ہیں.اگر لوگ اس سورج کی طرف سے اپنا منہ موڑ لیں گے تو خدا تعالیٰ پھر بھی انہیںبھاگنے نہ دے گااس کے مقابل پر ایک چاند آکھڑا ہو گا اور اس سے روشنی اخذ کر کے دنیا پر پھینکنے لگے گا اور اس طرح پھر دنیا اس کے نور سے حصہ لینے لگے گی.اگر تم زمین سورج اور چاند کو آدمی سمجھ لو تو تمثیلی رنگ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمین جب روٹھ کر سورج سے اپنا منہ پھیر لیتی ہے تو چاند کہتا ہے تم اس سے بھاگ کر کہاں جاتی ہو میں اس سے نور حاصل کر کے تم پر ڈال دوں گا.غرض بتایا کہ دنیا خواہ پیٹھ پھیر لے، خواہ وہ اس شمس روحانی سے منہ موڑ لے پھر بھی اس سورج سے اکتساب ِ نور کرتے ہوئے ایسے قمر دنیا میں بھیجے جائیں گے جو پھر ظلمت کدۂ عالم کو بقعۂ نور بنا دیں گے اگر کوئی قمر نہ ہوتا اور دنیا اپنی پیٹھ سورج کی طرف پھیر دیتی تو لازماً تاریکی ہی تاریکی ہو جاتی.اجالا ہونے کی کوئی صورت نہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شارع نبی آیا دنیا نے کچھ عرصہ کے بعد اس سے اپنا منہ موڑ لیا اور تاریکی و ظلمت کے بادل اس پر چھا گئے.مگر فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نبی نہیں یہ وہ شمس ہیں جس کے پیچھے قمر لگے ہوئے ہیں یہ وہ معشوق ہے جس کے عاشق اس کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں.دنیا اگر روٹھے گی تو قمر اُس کو روشنی پہنچانے کے لئے ظاہر ہو جائیں گے.وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میں بتایا کہ ہمارا یہ سورج صرف اپنی ذات میں ہی روشنی نہیں رکھتا بلکہ ایک زمانہ آئے گا جب کہ دنیا بھی اس سے روشنی لے لے گی.اس جگہ نہار سے مراد زمانہء نبوی ؐ نہیں بلکہ نہار سے مراد بعد کا زمانہ ہے جب سورج تو نہ ہوگا مگر دن کا وقت سورج کو لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لاتا رہے گا یہاں تک کہ رات آجائے گی اور وہ اسے ڈھانپ لے گی اور ایک بار دنیا پھر معلوم کر لے گی کہ سورج کے بغیر گذارہ نہیں اور اس سے دوری خسران و تباب کا موجب ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جسمانی اور روحانی سورج میں ایک فرق بتایا ہے.جسمانی سورج تو جب تک موجود رہتاہے دن چڑھارہتا ہے اور جب وہ نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے رات آجاتی ہے لیکن روحانی سورج کی روشنی اس کے غائب ہونے کے بعد بڑھنی شروع ہوتی ہے گویا دنیوی دن تو سورج کے ہوتے ہوئے چڑھتا ہے لیکن روحانی دن سورج کے غائب ہونے کے بعداپنے کمال کو پہنچتا ہے.چنانچہ دیکھ لو قرآن اور احادیث نے ساری دنیا کو منور کیا مگر اس وقت جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پا چکے تھے، جب روحانی سورج لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکا تھا.یہ روحانی اور جسمانی سورج میں ایک نمایاں فرق ہے.جسمانی سورج کا دن اس وقت چڑھتاہے جب سورج نکلتا ہے مگر روحانی سورج کا دن اس وقت کمال کو پہنچتا ہے جب وہ غائب ہو جاتا ہے.جسمانی سورج کے طلوع ہونے پر لوگ خوشیاں مناتے ہیں لیکن جب روحانی سورج طلوع کرتا ہے تو لوگ

Page 27

مخالفت کاایک طوفان بپا کرتے ہیں.کوئی گالی نہیں ہوتی جو اسے نہ دی جائے، کوئی الزام نہیں ہوتا جو اس کے متعلق تراشانہ جائے.ہر کوشش کا ماحصل یہی ہوتاہے کہ کہیںاس سورج کی ضیاء دنیا میں نہ پھیل جائے.مگر جب وہ سورج دنیا کی جسمانی نظروں سے غائب ہو جاتا ہے تو اس کی روشنی بڑھنے لگتی ہے اور لوگ یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ بڑا اچھا آدمی تھا ہم بھی اسے مانتے ہیں، ہم بھی اس پر ایمان لاتے ہیں.یہی اثر تھا جس نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک دفعہ ایسا رلایا کہ میدہ کے نرم نرم پھلکے کا ایک لقمہ تک ان کے گلے سے نیچے اترنامشکل ہو گیا.جب کسریٰ کو شکست ہوئی اور مالِ غنیمت مسلمانو ںکے ہاتھ آیا تو ان میں کچھ ہوائی چکیاں بھی تھیں جن سے باریک آٹا پیسا جاتا تھا اس سے پہلے مکہ اور مدینہ کے رہنے والے سل بٹہ پر دانوں کوپیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے.جب مدینہ میں ہوائی چکیاں آئیں اور ان سے باریک میدہ تیار کیا گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ پہلا آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش کیا جائے تا کہ سب سے پہلے آپ ہی اس آٹے کی نرم نرم روٹی کھائیں.چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں پیش ہوا.آپ نے ایک عورت کو دیا کہ وہ اسے گوندھ کر روٹی تیار کرے.جب میدے کے گرم گرم اور نرم نرم پُھلکے تیا ر کر کے آپ کے سامنے لائے گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے ایک لقمہ توڑا اور اپنے منہ میں رکھ لیا مگر وہ لقمہ ابھی آپ نے اپنے منہ میں ڈالا ہی تھا کہ آپ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوگرنے لگے دیکھنے والی عورتیں حیران رہ گئیں کہ آپ کے آنسو کیوں گرنے لگے ہیں.چنانچہ کسی نے آپ سے پوچھا خیر تو ہے کیسی عمدہ اور نرم روٹی ہے اور آپ کے گلے میں پھنس رہی ہے؟ انہوںنے جواب دیا میرے گلے میں یہ روٹی اپنی خشکی کی وجہ سے نہیں پھنسی بلکہ اپنی نرمی کے باعث پھنسی ہے.رنج کے واقعات نے مجھے رنجیدہ نہیں کیا بلکہ خوشی کی گھڑیوں نے مجھے افسردہ بنا دیا ہے.ایک زمانہ تھا جب محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہم میں موجود تھے انہی کی برکت سے آج یہ نعمتیںہمیں میسر ہیں مگر آپ کا یہ حال تھا کہ مدتوں گھر میں آگ نہیں جلتی تھی اور اگر روٹی پکتی بھی تو اس طرح کہ ہم سل بٹہ پر غلہ پیس لیا کرتے اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے.مجھے خیال آتا ہے کہ یہ نعمتیں جس کے طفیل ہمیں میسر آئی ہیں وہ تو آج ہم میں نہیں کہ ہم یہ نعمتیں اس کے سامنے پیش کرتے اور دولتیں اس کے قدموں پر نثار کرتے لیکن ہم جن کا ان کامیابیوں کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ان نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں.یہ خیال تھا جس نے مجھے تڑپا دیا اور جس کی وجہ سے میدے کا نرم نرم لقمہ بھی میرے گلے میں پھنس گیا.تو روحانی عالم میں یہی قانون جاری ہے کہ نَـہَار اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سورج نگاہوں سے اوجھل ہو جاتا ہے.

Page 28

غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا کہ ہم دن کو پیش کرتے ہیںجب وہ سورج کو ظاہر کردے گا سورج سامنے نہیں ہو گا مگر دن اس بات کا ثبوت ہو گا کہ سورج ضرور چڑھا تھا.چنانچہ دیکھ لو ابو بکر ؓ اور عمر ؓ کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت جس طرح ظاہر ہوئی اور اسلام کی دھاک دنیا کے قلوب پر بیٹھی یہ ظہور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہیں ہوا.غرض روحانی اور جسمانی دن میں یہ فرق ہے کہ جسمانی دن کے وقت سورج موجود ہوتا ہے مگر روحانی نہا ر کا زمانہ وہ ہوتا ہے جب جسمانی طور پر سورج غائب ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’الوصیت ‘‘ میں اپنی وفات کی خبر دیتے ہوئے جماعت کو نصیحت فرمائی ہے کہ ’’تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیا مت تک منقطع نہیں ہوگا اور وہ دوسری قدرت نہیں آ سکتی جب تک میں نہ جائوں.لیکن میں جب جائوں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ میںاس جماعت کو جو تیرے پیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا سو ضرور ہے کہ تم پر میری جدائی کا دن آوے تا بعد اس کے وہ دن آوے جو دائمی وعدہ کا دن ہے ‘‘ (الوصیت، روحانی خزائی جلد ۲۰ صفحہ ۳۰۵،۳۰۶) وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا پھر فرماتا ہے تیری امت پر ایک وہ زمانہ بھی آنے والا ہے جب سورج سے وہ اپنا منہ موڑ لے گی اور نَـہَار کی بجائے لَیْل کا زمانہ اس پر آجائے گا.بجائے اس کے کہ امت ِ محمدیہ کے افراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل پیرا رہیں وہ آپ کے مقام کو بھول جائیں گے آپ کے احکام کو فراموش کر دیں گے اور عیاشیوں میں مبتلا ہو کر شیطانی راستوں کو اختیار کر لیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گاخواہ تم ہم کو بھول جائو ہم تمہیں نہیں بھول سکتے.خواہ تم ہم سے روٹھ جائو ہم تمہیں نہیں چھوڑ سکتے.چنانچہ جب رات ان پر چھا جائے گی اور دنیا بزبانِ حال ایک سورج کا مطالبہ کر رہی ہو گی اللہ تعالیٰ پھر ایک چاند کو جو سورج کا قائم مقام ہوتا ہے چڑھا دے گا اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روشنی لے کر اسے ساری دنیا میں پھیلا دے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا.وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا میں اس حقیقت کو بیان فرمایا ہے کہ بعض انفاس

Page 29

اپنے اندر ذاتی فضیلت رکھتے ہیںاور وہ دنیا کو چمکا دیتے ہیں اور دراصل ایسے ہی وجود دنیا کی اصلاح کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں.اس کے بالمقابل بعض انفاس قمر کی حالت رکھتے ہیں اور اسی وقت دنیا کی ہدایت کا موجب ہوتے ہیں جب وہ سورج کے پیچھے آتے ہیں یعنی ان کا نور ذاتی نہیں بلکہ مکتسب ہوتا ہے.ان دونوں حالتوں کو اللہ تعالیٰ نے بطور شاہد پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اصلاح عالم بغیران دو قسم کے وجودوں کے نہیں ہو سکتی یا نفسِ کامل یا متبع کامل.نفسِ کامل وہ ہے جس کا ذکر وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا میں آتا ہے.اور متبع کامل وہ ہے جس کا ذکر وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا میں آتا ہے.جب تک ان دونوں صفات میں سے کوئی ایک صفت موجود نہ ہو کوئی شخص اصلاح کا فرض سر انجام نہیں دے سکتا.یا تو اصلاح کاکام وہ شخص کر سکتا ہے جو شمس ہو اور اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض کے لئے پیدا کیا ہو کہ وہ شریعت لائے اور یا پھر وہ ایسا متبع کامل ہو کہ اپنے متبوع کے نور کو لے کر اس غرض کو پورا کر دے جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا.گویا اصل غرض شریعت سے ہوتی ہے.جب شریعت ِلفظی موجود نہیں ہوتی اس وقت نفسِ کامل کے ذریعہ دنیا میں شریعت کو نازل کیا جاتا ہے اور جب شریعت ِ لفظی غائب نہیں ہوتی صرف عمل مفقود ہوتا ہے اس وقت ظلّی طورپر وہ شریعت دوبارہ متبع کامل پر نازل ہوتی ہے اور وہ دنیا میں قیامِ شریعت کا فرض سر انجام دے دیتا ہے.یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ آیا یہ اتفاقی بات ہے کہ ایک کو خدا تعالیٰ شریعت دے دیتا ہے اور ایک کو متبع بنا دیتا ہے اگر وہ یوں کرتا کہ متبع کو شریعت دے دیتا اور شریعت والے کو تابع کے مقام پر کھڑا کر دیتا تو کیا ایسا ہو جاتا؟ اس کے متعلق یہ امر سمجھ لینا چاہیے کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.صاحب ِ شریعت اور متبع محض اتفاق سے نہیں ہو جاتے بلکہ یہ دونوں الگ الگ استعدادیں ہیں اور شمس و قمر کی مثالوں میں یہ دونوں امر بیان کئے گئے ہیں.چنانچہ یہ بتایا جا چکا ہے کہ استعداد ِ شمسی والا وجود پہلے آتا ہے اور استعدادِ قمری والے وجود پیچھے آتے ہیں جو اس کے کام کی تکمیل کرتے ہیں.اس سے ایک اور استدلال بھی ہوتا ہے جس سے احمدیت کے ایک اہم مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے اور وہ یہ کہ ہو سکتا ہے ایک شخص شمس ہو اپنے زمانہ کا اور دوسرے زمانہ کا قمر بننے کی اہلیت نہ رکھتا ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک شخص بڑے زمانہ کا قمر ہو مگر چھوٹے زمانہ کا شمس ہونے کی قابلیت نہ رکھتا ہو.یہ الگ الگ قابلیتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہر استعداد کو دیکھ کر فطری مناسبت کے لحاظ سے ان کو شمس و قمر کا مقام دیا ہے اس وجہ سے ایک زمانہ کا قمر خواہ کام کے لحاظ سے قمر ہو لیکن روحانیت کے لحاظ سے پہلے دور کے شمس سے زیادہ ہو سکتا ہے لیکن اپنے شمس سے زیادہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نے روشنی اپنے شمس سے لی ہوتی ہے اور بوجہ اس کا نور مکتسب ہونے کے اپنے شمس سے بڑھنے کی طاقت کسی قمر میں نہیں ہوسکتی.لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ وہ

Page 30

پہلے زمانہ کے شمس سے بڑا ہو.مثلاً آگ اپنی ذات میںایک شمس کا وجود رکھتی ہے کیونکہ خود جل رہی ہوتی ہے اس کا نور مکتسب نہیں ہوتا بلکہ اندر سے پیدا ہوتا ہے مگر قمر کی روشنی کے سامنے وہ بالکل ماند ہوتی ہے.جب ہم آگ جلاتے ہیں تووہ صرف دو یا چار گز جگہ کو روشن کر تی ہے اس سے زیادہ نہیں اور اگر ہم اسے اونچا بھی لے جائیں تب بھی وہ زیادہ دور تک اپنی روشنی کو نہیںپھیلا سکتی بلکہ اگر ہم اسے کافی اونچا لے جائیں تو وہ شاید تاریکی ہی بن جائے اور اس کا اپنا وجود بھی دکھائی نہ دے.آگ اور چاند کی روشنی میں یہ فرق اس لئے ہوتا ہے کہ گو قمر تابع ہے مگر اس کا متبوع اس قدر روشن ہے اور دوسری روشنیوں سے اس قدر زیادہ چمک اس میں پائی جاتی ہے کہ اس کا قمر بالذات روشنیوں سے زیادہ روشن ہو جاتا او ر دوسرے شموس سے بھی اپنی روشنی میں بڑھ جاتا ہے.حقیقت وہی ہے جو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتب میں بار ہا بتائی ہے کہ شموس ایسے لوگ بنائے جاتے ہیںجو اقدام اور جنگی قوت اور سیاسی اقتدار کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ شریعت کے نفاذ کے لئے ان قابلیتوں کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے کہ ان میں یہ سب قابلیتیںپائی جاتی تھیں.لیکن قمر ایسے وجود بنائے جاتے ہیں جو سوز و گداز اور نرمی اور نصیحت کا مادہ اپنے اند ر زیادہ رکھتے ہیں اس وجہ سے ہمیشہ ان کی زندگیاں مختلف ہوتی ہیں اور باوجود ایک کام کرنے کے دونوں دور اس طرح مختلف نظر آتے ہیںجس طرح دو الگ الگ وجود ہوتے ہیں.مثلاً حضرت موسٰی اور حضرت عیسٰیؑ دونوں نے ایک کام کیا ہے مگر موسٰی اور عیسٰیؑ کی زندگیاں دیکھی جائیں تو وہ بالکل الگ قسم کی نظر آتی ہیں.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگیوں کو دیکھا جائے تو ان میں بھی ایک نمایا ںفرق نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں شروع سے ہی اقدام اور جنگی قوت اور تحکیم نظام کا مادہ نمایا ں تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں سوز و گدازاور نرمی کا مادہ پایا جاتاتھا اور آپ اپنی جماعت کو بھی یہی نصیحت کرتے تھے کہ سیاست سے کوئی تعلق نہ رکھو تمہاراکام یہی ہے کہ تم نرمی اور محبت سے اللہ تعالیٰ کا پیغام لوگوں تک پہنچا ئو یہ ایسا ہی ہے جیسے سورج کی روشنی ہی قمر کے ذریعہ آتی ہے مگر ان دونوں روشنیوں میں کتنا عظیم الشان فرق ہوتا ہے سورج کی روشنی دیکھو تو وہ بالکل الگ نظر آتی ہے اور چاند کی روشی دیکھو تو وہ الگ نظر آتی ہے.یہی چیز ہے جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلالی اور جمالی رکھا ہے شمس اپنے اندر جلالی رنگ رکھتا ہے اور قمر اپنے اندر جمالی رنگ رکھتا ہے.یوں شمس میں بھی ایک حد تک جمال پایا جاتا ہے اور قمر میں بھی ایک حد تک جلال پایا جاتا ہے مگر باوجود اس کے شمس کی غالب قوت جلالی ہوتی ہے اور قمر کی غالب قوت جمالی ہوتی ہے پس چونکہ یہ دونوں الگ الگ فطرتیں ہیں

Page 31

اس لئے محض تابع ہونے کی وجہ سے ہر قمر کو ہر شمس سے ادنیٰ قرار نہیں دیاجا سکتا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلا شمس چونکہ شرعی نبی تھا اس لئے وہ سب قمروںسے بڑھ کر تھا سب قمروں سے بڑھ کر نہیںکہہ سکتے بلکہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے قمروں سے بڑھ کر تھا کیونکہ ہر قمر صرف اپنے شمس سے ادنیٰ ہوگا مگر اپنے شمس سے ادنیٰ قمر تمام دوسرے شموس سے بڑے درجہ کا ہو سکتا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ بالذات روشن ہے مگر قمر کے مقابلہ میںاس کی روشنی بہت ادنیٰ ہے یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحہ ۲۲۶) یعنی اے میرے شمسِ روحانی تو چونکہ بہت روشن تھا اس لئے تیرا قمر دوسرے تمام شموس سے اپنی روشنی میں بڑھ گیا.اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت ہمارا یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مستثنیٰ کرتے ہوئے باقی تمام انبیاء سے اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے افضل ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دوسرے شموس سے کس طرح بڑھ سکتے ہیں مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام صاحبِ شریعت نبی تھے ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا مقام کس طرح بلند ہو گیا یا بعض اور قوموں میں جو صاحب ِ شریعت نبی گذرے ہیں ان سے آپ بڑے کس طرح قرار دیئے جا سکتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک یہ انبیاء بڑے تھے مگر اُن شموس اور اس قمر میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے.یہ بے شک قمر ہے مگر یہ قمر اس شمس کا ہے جو پہلے تمام شموس سے بہت زیادہ روشن تھا اس لئے یہ لازم تھا کہ اس شمس کا قمر اپنی روشنی میں پہلے شموس سے بھی بڑھ جا تا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کسی جگہ پر ایک ہزار لیمپ ہو اور ہر لیمپ کا ایک ایک ری فلیکٹرہو تو اگر اس ہزار لیمپ کے مقابلہ میںایک لیمپ ایسا ہو جس میں دو ہزار لیمپ کے برابر روشنی کی طاقت ہو تو اس کا ری فلیکٹر اپنی روشنی میں ایک ہزار لیمپ سے بڑھ جائے گا.فرض کرو اس ہزار لیمپ میں سے کوئی پچاس کینڈل پاور کا ہے کوئی سو کینڈل پاور کا ہے اور اس طرح مجموعی طور پر ان کی طاقت دولاکھ کینڈل پاور کی بن جاتی ہے تو اگر ان کے مقابلہ میں تین لاکھ کینڈل پاور کا صرف ایک ہی لیمپ ہو تو اس کا ری فلیکٹر باقی تمام روشنیوں کو مات کر دے گا اور باوجود قمر ہونے کے دوسرے شموس پر غالب آجائے گا.اس جگہ شمس و قمر سے مراد عام وجود بھی ہو سکتے ہیں.اور شمس و قمر سے شمسِ اسلام اور قمرِاسلام بھی مراد ہو سکتے ہیں.ان دونوں شہادتوں سے یہ بتایا ہے کہ یہ دونوں وجود ابراہیمی پیشگوئی کی صداقت کا ثبوت ہوں گے اور مکہ کو

Page 32

عظیم الشان مرکز بنانے کا موجب ہوںگے.اوراگر عام معنے لئے جائیں تو آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ایسے ہی وجودوں سے اصلاح کی بنیاد پڑتی ہے جب تک ایسے وجود پیدا نہ ہوں اصلاح نہیں ہو سکتی اور اگر اب ایسا نہ ہو گا تو ابراہیم کی پیشگوئی غلط جائے گی.وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا۪ۙ۰۰۶وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا۪ۙ۰۰۷ اور آسمان کی اور اس کے بنائے جانے کی.اور زمین کی اور اس کے بچھائے جانے کی.حلّ لُغات.طَحٰىهَا طَـحَا الشَّیْءَ کے معنے ہیں بَسَطَہٗ وَمَدَّہٗ کسی چیز کو پھیلایا.(اقرب) تفسیر.مَا طَحٰىهَا میں مَا کے معنے نحوی یہاں ’’مَا‘‘ کے دو معنے کرتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ ’’مَا‘‘ اَلَّذِیْ کے معنوں میں ہے اور مَنْ کا قائم مقام ہے گویا یہاں ’’ما‘‘ مَنْ کی جگہ استعمال ہوا ہے اور آیت دراصل یوں ہے کہ وَ السَّمَآءِ وَ مَنْ بَنٰىهَا ہم شہادت کے طور پر آسمان کو پیش کرتے ہیں اور اسے بھی جس نے اسے بنایا.(اِمْلَاء مَا مَنَّ بِہِ الرَّحْمٰنُ زیر سورۃ الشمس.و تفسیر کشّاف زیر آیت وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَاوَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا) اس کے متعلق سورۃ البلد کے تفسیری نوٹوں میں یہ امر واضح کیا جا چکا ہے کہ قرآن کریم میں ’’ما‘‘ مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ حضرت مریم علیہا السلام جب پیدا ہوئیں تو ان کی والدہ نے کہا یا اللہ میںنے تو بیٹی جنی ہے حالانکہ میں چاہتی تھی کہ لڑکا پیدا ہو اور اسے میں تبلیغ کے لئے وقف کروں.اس موقع پر قرآن کریم میں یہ الفاظ آتے ہیں وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ( اٰلِ عمران :۳۷) حالانکہ لڑکی کے لئے مَنْ کا لفظ استعمال ہونا چاہیے تھا اسی طرح فرماتا ہے فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ (النسآء: ۱۲) یعنی تمہیں عورتوںمیںسے جو پسند آئیںان کے ساتھ شادی کر لو.دو کرو.تین کرو یا چار کرو یہ تمہارا اختیار ہے ہماری طرف سے اس میںکوئی روک نہیں.اب عورت ذوی العلم افراد میں سے ہے اور اس کے لئے مَا کی بجائے مَنْ کا لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا مگر بجائے یہ کہنے کے کہ فَانْكِحُوْا مَنْ طَابَ لَكُمْ اللہ تعالیٰ نے فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ فرمایا ہے.اس پر یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں دونوں جگہ مَا کا لفظ کیوں رکھا ہے جبکہ مَنْ کا لفظ اس غرض کے لئے لغت نے وضع کیا ہوا تھا اوروہ اس موقع پر استعمال بھی ہو سکتا تھا.آخر وجہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایک وضعی لفظ چھوڑ کر اس کی جگہ ایک غیر وضعی لفظ رکھ دیا؟ اس کی صاحب کشاف نے ایک نہایت لطیف توجیہ کی ہے جو میرے نزدیک درست ہے وہ کہتے ہیں مَنْ کی جگہ مَا کا لفظ اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب وجود پر کوئی صفت غالب آگئی

Page 33

ہو یعنی کبھی کوئی وجود ایسا ہوتا ہے کہ اس کی کوئی صفت اس کے عام انسان ہونے پر غالب آجاتی ہے اس وقت چونکہ کسی مخصوص صفت پر زور دینا مقصود ہوتا ہے ’’مَا‘‘ کو مَنْ کا قائم مقام کر دیا جاتا ہے.مثلاً وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے یہ لڑکی جو تو نے جنی ہے اس میں وہ صفت جو تو لڑکے میں امید رکھتی تھی کس شان میں پائی جاتی ہے چونکہ صفت غیر ذوی العلم میںسے ہے اس لئے ’’مَا‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس کی ایک مخصوص قابلیت کی طرف اشارہ کر دیا اگر وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتْ کہا جاتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کہ یہ لڑکی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو یہ پتہ ہی تھا کہ وہ لڑکی ہے یا لڑکا.خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لانے والوں کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات کا علم ہے کہ تو نے کیا جنا ہے وہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو جانتا ہے.پس اگر وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتْ کہا جاتا تو اس میں کوئی خاص بات نہ ہوتی مگر وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ مریم کی ماں کو کیا پتہ ہے کہ اس میں کیا کیا صفات پائی جاتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اس میں کیسی عظیم الشان صفات اور قابلیتیں پائی جاتی ہیں.پس ’’مَا‘‘ کا لفظ مریم کی قابلیت اور اس کی صفات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا ہے اگر مَنْ ہوتا تو اس کے اتنے ہی معنے ہوتے کہ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے یہ لڑکی ہے مگر ’’مَا‘‘ کا لفظ استعمال کر کے اس طرف اشارہ کر دیا کہ ع آگے آگے دیکھیو ہوتا ہے کیا جب یہ بڑی ہو گی تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کیسی عظیم الشان لڑکی ہے گویا وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ کے لحاظ سے یہ ایک پیشگوئی بن گئی مگر وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَنْ وَضَعَتْ کے لحا ظ سے محض ایک واقعہ کا اظہار ہوتا.اسی طرح فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بسا اوقات شادی بیاہ کے تعلقات محض جذباتی ہوتے ہیں اور انسان عورت کو نہیںدیکھتا بلکہ اس کی کسی خاص صفت کو دیکھتا ہے.بہت سے لوگ عورت کے جمال پر اتنے فریفتہ ہو جاتے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ عورت کس خاندان میںسے ہے، اس کا آنا ہمارے ماں باپ کے لئے یا ہمارے خاندان کے لئے کسی تکلیف کا باعث تو نہیں ہو جائے گا.وہ اس کی صورت پر اتنے عاشق ہوتے ہیں کہ اور تمام باتو ں کو نظر انداز کر دیتے ہیں.اسی طرح کئی لوگ صرف مال دیکھ کر شادی کرتے ہیں، کئی لوگ صرف حسب و نسب اور اعلیٰ خاندان دیکھ کر شادی کرتے ہیں، کئی لوگ صرف اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے عورت سے شادی کرتے ہیں اور کئی لوگ صرف اخلاق فاضلہ کی شہرت سن کر شادی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.غرض کوئی ایک صفت اتنی غالب آجاتی ہے کہ انسان اس صفت کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ عورت سے شادی کرے پس

Page 34

فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم جانتے ہیں تم عورتوں کے ساتھ شادی کرتے وقت تما م وجوہ کو نہیں دیکھتے بلکہ کوئی ایک چیز تمہیں پسند آجاتی ہے اور تم ان پر لٹو ہو جاتے ہو.کبھی تمہیں حسن پسند آجاتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو، کبھی تمہیں مال اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو، کبھی تمہیںخاندان اچھا لگتا ہے اور تم شادی کر لیتے ہو، کبھی تمہیںاخلاق اچھے لگتے ہیں اور تم شادی کر لیتے ہو.گویا اس آیت میں انسانی فطرت کے اس جوہر کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ عورت سے شادی نہیں کرتا بلکہ اس کی کسی صفت سے شادی کرتا ہے، کبھی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے، کبھی حسن کی وجہ سے شادی کرتا ہے، کبھی تعلیم کی وجہ سے شادی کرتا ہے، کبھی حسب و نسب کی وجہ سے شادی کرتا ہے، کبھی دین کی وجہ سے شادی کرتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تُنْکَحُ الْمَرْأَ ۃُ لِاَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِـحَسَبِـھَا وَلِـجَمَالِھَا وَلِدِیْنِـھَا فَا ظْـفُرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِ بَتْ یَدَاکَ (صحیح بخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین) یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ شادی کسی صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے کی جاتی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور نصیحت فرمایا کہ جب تم نے صفت ِ غالبہ کے لحاظ سے ہی شادی کرنی ہے تو پھر تم وہ ’’مَا‘‘ نہ اختیار کرو جو حسن کا قائم مقام ہو یا حسب و نسب کا قائم مقام ہو یامال کا قائم مقام ہو بلکہ تم وہ ’’مَا‘‘ اختیار کرو جو دین کا قائم مقام ہو.یہ عربی زبان کا ایک بہت بڑا کمال ہے کہ الفاظ کے معمولی ہیر پھیر سے اس میں نئے سے نئے معنے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری کلام اس زبان میںنازل فرمایا.واقعہ یہی ہے کہ بعض دفعہ کوئی صفت اس قدر غالب آجاتی ہے کہ وہ وجود کو ڈھانپ دیتی ہے.مریم ؑ کی ماںکو صرف ایک لڑکی نظر آتی تھی مگر اللہ کو صفتِ مریمیت نظر آتی تھی.اسی طرح مرد بعض دفعہ عورت کو بھول جاتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے باقی سب امور کو نظر اندازکر دیتا ہے صرف ا س کا حسن یااس کا خاندان یا اس کی کوئی اور ادا اُسے اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس وقت اس لحاظ سے وہ مَنْ نہیں بلکہ مَا ہی ہو جاتی ہے.بہرحال جہاں ذات کی بجائے کسی صفت کا غلبہ مدّ ِ نظر ہو اور اس صفت پر خاص طور پر زور دینا مقصود ہو وہاں قرآن کریم مَنْ کی جگہ ’’مَا ‘‘ کا لفظ استعمال کرتاہے پس انہی معنوںسے اس جگہ وَ مَا بَنٰىهَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی یہ بتانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت صنعت کو اپنے سامنے رکھو.وہ لوگ جنہوں نے ان معنوں کو قبول نہیں کیا وہ ’’مَا ‘‘ کو مصدریہ قرار دیتے ہیں.قتادہ، مبرد اور زجاج یہی کہتے ہیںیہ قول درحقیقت ان لوگوں کا ہے جو ’’مَا ‘‘ کو افرادِ ذوی العقل کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں سمجھتے وہ ہر جگہ مصدر کے معنے کرتے ہیں(البحر ا لمحیط زیر آیت وَ السَّمَآءِ وَ مَا بَنٰىهَا) اور کہتے ہیںکہ جس جگہ ’’مَا‘‘ آجائے وہ

Page 35

جملہ کو مصدریہ بنا دیتاہے.ا س صورت میں آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم آسمان اور اسے بنانے کی یعنی خدا تعالیٰ کی صنعت کی شہادت تمہارے سامنے پیش کرتے ہیںاس صورت میں بھی شہادت تو خدا تعالیٰ کے فعل کی ہی ہو گی مگر براہ راست آسمان کی بناوٹ کو پیش کرنا سمجھا جائے گا.لیکن اگر ’’مَا‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم تمہارے سامنے آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیںاور اس صانع عظیم کو کہ جب انسان اس کی صنعت کو دیکھتا ہے تو محو ہو جاتا ہے یعنی تم آسمان کو دیکھو اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو بھی یعنی اس کی عظیم الشان صنعت کو دیکھو.جب انسان اللہ تعالیٰ کی اس صنعت کو دیکھے تو وہ حیران رہ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی جبروت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے پس چونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی صفت پر زور دینا مقصود تھا اور کائنات ِ عالم میںسے آسمان کی بناوٹ.اس کی بلندی اور اس کے فوائد کی طرف بنی نوع انسان کو متوجہ کرنا تھا اس لئے یہاں ’’مَا‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا.اسی طرح وَ الْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا میںاگر ’’مَا‘‘ کو مصدریہ قرار دیا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر زمین کو پیش کرتے ہیںاور اس کے بچھے ہوئے ہونے کو بھی.لیکن اگر مَا کو مَنْ کے معنوں میں لیا جائے تو آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ تم زمین کو دیکھو اور اس کے اُس بچھانے والے کو دیکھو جس کی عظیم الشان صنعت کا یہ نمونہ ہے.بہت سے سیارے ایسے ہیں جو رہائش کے قابل نہیںاسی طرح بعض زمینیںایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہوتیں.بعض تو ایسی ہوتی ہیںکہ انسان وہاں رہ ہی نہیںسکتا کیونکہ ہوا جس پر انسانی زندگی کا تما م دارومدار ہے وہاں اس قدر ہلکی ہوتی ہے کہ پھیپھڑوں میں جا ہی نہیں سکتی اور بعض زمینیںایسی ہوتی ہیںکہ وہاں ہوا تو موجود ہوتی ہے مگر وہ اپنے اندر ایسی کیمیائی ترکیب نہیںرکھتی کہ زندگی کا باعث بن سکے.اسی طرح کئی زمینیں ایسی ہیں جہاں انسان جیسی مخلوق ٹِک ہی نہیں سکتی اگر اس قسم کی مخلوق وہاں ہو تو یا وہ زمین پر چل ہی نہیں سکے گی اور اگر چلے گی تو فوراً گر جائے گی اور یا پھر وہاں کی زہریلی ہوا اس کو فوراً ہلاک کردے گی.غرض زمین کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس کے قابل رہائش ہونے کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ بعض زمینیں ایسی ہیں جو انسانی رہائش کے قابل نہیں ہیں چنانچہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا میں اللہ تعالیٰ اسی صنعت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے اور یہ اس کا ایک بہت بڑا احسان ہے جس سے اس نے تمہیں نوازا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہر زمین رہائش کے قابل ہوتی ہے چنانچہ جب وہ

Page 36

قرآن کریم میںاس قسم کے الفاظ دیکھتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے اس احسان یا اس کی اس صنعت کا ذکر ہوتا ہے کہ اس نے زمین کو انسان کی رہائش کے قابل بنایا ہے تو وہ حیران ہوتے ہیںکہ اس ذکر کا فائدہ ہی کیا تھا ہم نے بہرحال زمین میں ہی رہنا تھا اگر یہ زمین نہ ہوتی تو کوئی اور زمین ہوجاتی اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑسکتا تھا.وہ لوگ جو اس قسم کے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں در حقیقت علم ہیئت سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.موجودہ تحقیقات نے اس امر کو ثابت کر دیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہوتی.بعض زمینیںایسی ہیں کہ اگر وہاں انسان جائے تو ایک منٹ کے اندر اندر ہلاک ہو جائے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے ہی سب سے پہلے اس نکتہ کو دنیا پر ظاہر کیا ہے کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے او ر یہ قرآن کریم کے منجانب اللہ ہونے کا ایک زبر دست ثبوت ہے.قرآن ایک اُمّی پر نازل ہوا اور اس زمانہ میں نازل ہوا جب کہ علم ہیئت کی ترقی بالکل محدود تھی اور اس قسم کے مسائل کی طرف کوئی انسانی نظر نہیں جا سکتی تھی اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا میں یہ ایک نہایت ہی لطیف راز بیان فرمایا کہ ہر زمین رہائش کے قابل نہیں ہے اس لئے جب تم زمین کو دیکھو تو صانع عظیم کی اس صنعت پر غور کیا کرو کہ کس طرح اس نے تمہارے لئے اس زمین کو قابلِ رہائش بنایا اور زندگی کے ہر قسم کے سامان اس نے تمہارے لئے مہیا کئے.سپکٹروسکوپ SPECTROSCOPE کی ایجاد کو صرف ستّر ۷۰ سال ہوئے ہیں.اس آلہ کی ایجاد سے پہلے دنیا اس حقیقت سے ناواقف تھی مگر جب سے یہ آلہ ایجاد ہوا ہے علمِ ہیئت کے ماہرین نے اس راز کا انکشاف کیا ہے کہ ہر ستارہ رہنے کے قابل نہیں ہے وہ سیاروں کی روشنی کا سپکٹروسکوپ کے ذریعہ سے کیمیاوی تجزیہ کرتے ہیں اور اس سے اندازہ لگاتے ہیں کہ اس سیارہ میں کیا کیا دھاتیں ہیں اور وہاں کی فضا کیسی ہے.اس ایجاد کے نتیجہ میں انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہر زمین اس قابل نہیں کہ اس میں رہائش اختیا ر کی جاسکے مگر اللہ تعالیٰ نے سپکٹروسکوپ کی ایجاد سے تیرہ سو برس پہلے یہ فرما دیا تھا کہ وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا ہماری اس صنعت پر تم غور کرو کہ ہم نے اس زمین کو تمہاری رہائش کے قابل بنایا ہے.تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ بھی ایک ویسی ہی زمین ہے جیسے اور زمینیں ہیں بلکہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ وہ زمین ہے جسے خدا تعالیٰ نے خاص طور پر نسل انسانی کی رہائش او ر اس کی آبادی کے قابل بنایا.گویا خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ وہ جو بھی کام کرتا ہے اس کے مناسب حال ایک ماحول بھی تیار کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ انسان پیدا کرتا اور زمین کو اس کے مناسب حال نہ بناتا.یا انسان پیدا کرتا اور وہ زمین سے فائدہ نہ اٹھا سکتا.اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ بالکل بعید ہے کہ وہ ایسا کرے.ان معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی اس عظیم الشان صنعت پر غور کرو جو آسمان اور زمین دونوں میں کام

Page 37

کر رہی ہے اور جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے آسمان کو اور جس نے اسے اس طرح بنایاہے بطور شہادت پیش کرتے ہیںاسی طرح ہم تمہارے سامنے زمین کو اور جس نے اسے اس طرح بچھایا ہے بطور شہادت پیش کرتے ہیں.تم آسمان کو اس کی بلندی اور رفعت کے لحاظ سے دیکھو اورزمین کو اس کی ان قابلیتوں کے لحاظ سے دیکھو جن کی وجہ سے انسان اس میں بسنے کے قابل ہوا ہے اور سمجھ لو کہ آسمانی اور زمینی شہادتیں جس کے حق میں ہوں وہ جھوٹا کس طرح ہو سکتا یا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ادھر اللہ تعالیٰ آسمان بناتا جو بڑا مضبوط او ر اعلیٰ درجے کا ہے دوسری طرف وہ زمین کو اس قابل بناتا کہ اس میں بنی نو ع انسان رہائش اختیار کر سکیںاو ر پھر یہ تمام کارخانہء عالم محض عبث ہوتا اور انسانی پیدائش کا کوئی مقصد نہ ہوتا.کیا تم نہیںدیکھتے کہ اس نے زمین کو بہت سے دوسرے سیاروں سے مختلف شکل دی ہے وہاں ذی روح زندہ نہیں رہ سکتے، وہ سانس نہیںلے سکتے، وہ چل پھر نہیں سکتے.مگر یہ زمین خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے کہ اس میںذی روح افراد سانس لے سکتے ہیں، ان کے دماغ پوری طرح کام کرسکتے ہیں اور وہ اپنی ہر ضرورت اس ماحول میں سے مہیا کر سکتے ہیں.ورنہ ایسی زمین بھی ہو سکتی تھی کہ مختلف گیسوں کی وجہ سے حیوان تو اس میں بس سکتے مگر انسان نہ بس سکتا.مگر چونکہ انسان کے لئے ایک ایسے ماحول کی ضرورت تھی جس میں اس کا دماغی نشوونما جاری رہتا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے زمین کے اندر ایسی قابلیتیںپیدا کر دیں کہ انسان اس میں بلا دریغ رہائش اختیار کر کے اپنے دماغی ارتقاء کو جاری رکھ سکتاہے.اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کی اس مثال کو پیش کرتے ہوئے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ جب اس نے اتنا بڑا کارخانہ بنایا ہے اور اس کارخانہ کا ہر پرزہ انسان کی خدمت کے لئے لگا ہوا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہاری پیدائش اپنے اندر کوئی حکمت نہ رکھتی ہو اور تمہیں اللہ تعالیٰ نے بلا وجہ محض لغو طور پر دنیا میں پیدا کر دیا ہو.ادھر آسمان کو نہایت مضبوط اور اعلیٰ درجہ کا بنانا، ادھر زمین کو رہائش کے قابل بنانا اور اس طرح قانونِ قدرت کا ایک وسیع اور طویل نظام کی شکل اختیا ر کرلینا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ کام عبث نہیں.جب تم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی تیاری کو عبث نہیں کہتے تو تم اتنے بڑے نظام کو عبث کس طرح قرار دے سکتے ہو تمہیں بہرحال ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی بہت بڑا مقصد او ربڑا بھاری مدعا ہے جو اس کارخانہء عالم کے پیچھے کام کر رہا ہے اور ضرور ہے کہ اس کا وہ منشاء ایک دن ظاہر ہو اور وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے اس نے آسمان اور زمین کا یہ نظام قائم فرمایا تھا.اگر مادیات میں اس نے ایک طرف آسمان میںبلندی اور فیوض کی طاقت رکھی ہے اور دوسری طرف زمین میں رہائش اور دماغ کو نشوونما دینے کی قابلیت رکھی ہے تو یہ ممکن ہی کس طرح ہے کہ وہ تمہارے جسمانی آرام کاتو

Page 38

خیال رکھے اور روحانی آرام کو نظر انداز کر دے.وہ تمہارے چند روزہ فوائد کے لئے تو اتنا بڑا کارخانہ جاری کر دے اور تمہارے ابدی فوائد کے لئے کوئی نظام قائم نہ کرے.جس خدا نے جسمانیات کے لحا ظ سے تمہارا ساتھ نہیں چھوڑا وہ روحانیات کے لحاظ سے بھی تمہارا ساتھ کبھی چھوڑ نہیں سکتا.تم زمین اور آسمان پر اگر مخلّٰی بالطبع ہو کر غور کر و تو تمہیںمعلوم ہو گا کہ جس خدا کی طرف سے تمہارے جسمانی آرام کے لئے اس قدر سامان مہیا کئے گئے ہیں اسی خدا کی طرف سے تمہارے روحانی ارتقاء کے لئے بھی ایسے قوانین کا آنا ضروری ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیں تا کہ جس طرح اس نے زمین کو جسمانیات کے لحاظ سے رہنے کے قابل بنایا ہے اسی طرح وہ روحانیات کے لحاظ سے بھی اس کو رہنے کے قابل بنائے ورنہ خدا تعالیٰ پر یہ الزام عائد ہو گا کہ اس نے جسم کا تو خیال رکھا مگر روح کا خیال نہ رکھا.اس نے مادی ترقی کے سامان تو مہیا کئے مگر روحانی ترقی کے سامان مہیا نہ کئے.اور یہ ایک ایسا الزام ہے جسے خدا تعالیٰ کی صفات بالکل ردّ کرتی ہیں.اس نے جسمانی نظام کے بالمقابل ایک روحانی نظام بھی قائم کیا ہے اور جس طرح جسم کی ترقی کے اس نے سامان کئے ہیں اسی طرح روح کی ترقی کے بھی اس نے سامان کئے ہیں.نادان انسان جسمانیات کو دیکھتا اور روحانیات سے آنکھیں بند کر لیتا ہے حالانکہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ زمین کو جسمانی لحاظ سے تو رہائش کے قابل بنائے مگر روحانی لحاظ سے وہ اس کو قابلِ رہائش بنانے کا کوئی انتظام نہ کرے.یا تو یہ کہو کہ مادی لحاظ سے بھی زمین میں یہ قابلیت نہیں کہ اس میں انسان رہ سکیںاور اگر تم یہ نہیں کہہ سکتے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ روحانی لحاظ سے بھی اس میں یہ ضرور قابلیت پائی جاتی ہے اور وہی قابلیت ہے جس کے ماتحت وہ لوگ جو آج اسلام کی مخالفت کر رہے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو قبول کرنے کے لئے دوڑتے چلے آئیں گے تم خواہ کس قدر زور لگا لو فطرتِ انسانی میں نیکی پائی جاتی ہے اور وہی نیکی ہے جو ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کر دے گی.جس طرح زمین اپنے آپ کو آسمانی فیوض سے الگ نہیں کر سکتی اسی طرح انسانی قلوب بھی آسمانی وحی سے الگ نہیں رہ سکتے ضرور ہے کہ وہ ایک دن متاثر ہوں اور اس طرح جسمانی اور روحانی نظام کی ایک دن مطابقت ثابت ہو.وَالْاَرْضِ وَ مَا طَحٰىهَا کے دوسرے معنے دوسری صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ تم آسمان اور اس کی بناوٹ کو دیکھو اور سمجھ لو کہ آسمان کی بناوٹ ہی فیض رسانی کے لئے ہے اور زمین کی بناوٹ ہی سائل اور مانگنے والے کی ہے پس بغیر اس آسمانی نورانی وجود کے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہے تم لوگ کوئی بھی خوبی ظاہر نہیں کر سکتے آسمان کا کام آسمان ہی کر سکتا ہے اور زمین اس کے سوا کچھ نہیں کر سکتی کہ وہ آسمان کی طرف منہ

Page 39

کر ے او ر اُس کے فیوض کو حاصل کر کے زندگی حاصل کرے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم میں آسمان سے مراد صرف جَوّ نہیں ہوتا بلکہ تمام ستارے، سیارے اور روشنیاں وغیرہ اس سے مراد ہوتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ان کے بغیر زمین کام نہیں دے سکتی اسی طرح محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر تم بھی کوئی خوبی ظاہر نہیںکر سکتے اور پھر جس طرح آسمانی فیوض سے زمین انکار نہیں کر سکتی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فیوض سے بھی تم ہمیشہ کے لئے انکار نہیں کر سکتے اگر زمین کے سامنے سورج آئے تو کیازمین اس وقت کہہ سکتی ہے کہ میں روشنی نہیں لیتی.وہ مجبور ہے کہ سورج سے روشنی حاصل کرے.اسی طرح جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر ہو گئے ہیں تو اب دنیا آپ کا زیادہ دیر تک انکار نہیں کر سکے گی وہ ضرور آپ پر ایمان لائے گی.اس مضمون کی وضاحت اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میںفرمائی ہے.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا۪ۙ۰۰۸ اور انسانی نفس کی اور اس کے بے عیب بنا ئے جانے کی.حلّ لُغات.سَوّٰی سوَّی الشَّیْءَ تَسْوِیَۃً کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ سَوِیًّا وَصَنَعَہٗ مُسْتَوِیًّا اس کو درست اور عیبوں سے پاک بنایا.اور سوّٰی کے معنے یہ بھی ہوتے ہیںکہ عیبوں کو دور کیا چنانچہ کہتے ہیں سَوَّیْتُ الْمُعْوَجَّ فَـمَا اسْتَوٰی.میں نے ٹیڑھے کو سیدھا کرنا چاہا مگر وہ سیدھا نہ ہوا (اقرب) گویا سوّٰی کے معنے یہ بھی ہیں کہ اسے ایسا بنایا کہ اس میں کوئی عیب نہ تھا اور سوّٰی کے یہ بھی معنے ہیں کہ اس کو جو کج تھا درست کیا.گویا بےعیب بنانا یا عیب کو دور کر دینا یہ دونوں باتیں تسویہ میں شامل ہیں.تفسیر.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا کے دو معنے پہلی آیت کی طرح اس آیت کے بھی دو معنے ہیں.ایک تو یہ کہ ہم نفس کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کو بھی جس نے اسے معتد ل القویٰ بنایا.سَوّٰی کے معنے معتدل القویٰ بنانے کے ہوتے ہیں اور سورۃ الاعلیٰ کے تفسیری نوٹوں میں اس کا مفصل ذکر آچکا ہے جس طرح پہلی آیت میں یہ بتایا تھا کہ ہم نے زمین کو قابلِ رہائش بنایا اسی طرح یہاں یہ بتایا ہے کہ ہم نے نفس کا تسویہ کیا اور اس میںایسی قوت پیدا کی ہے کہ وہ اعتدال سے ترقی کی طرف جاتاہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے نفس میں یہ شہادت موجود نہ ہوتی اور جس طرح ہم نے زمین کو طَـحٰی کیا ہے اسی طرح تمہارے نفوس کا تسویہ نہ کیاہوتا تو تم

Page 40

کہہ سکتے تھے کہ ہم پر یہ مثال چسپاں نہیں ہو سکتی لیکن جب نفوسِ انسانی میںاعتدال کو اختیار کر کے ترقی کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے توتم یہ نہیںکہہ سکتے.نفسِ انسانی خود اس امر پر شاہد ہے کہ کوئی نور اُسے آسمان سے ملنا چاہیے جس طرح زمین آسمانی روشنی کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح تم آسمانی نور کے محتاج ہو.تم دیکھتے ہو کہ اگر آسمان سے پانی نہ برسے تو زمین کی تمام سرسبزی و شادابی مٹ جاتی ہے.اس کے درخت مرجھا جاتے ہیں، اس کے پانی خشک ہو جاتے ہیں، اس کی روئیدگیاںگل سڑ جاتی ہیں اور وہی زمین جو اپنی لطافت سے انسانی آنکھو ں میںنور پیدا کر رہی ہوتی ہے ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہونے کے نتیجہ میں ایسی بنجر اور ویران ہو جاتی ہے کہ اسے دیکھ کر انسان گھبرا جاتا ہے یہی حال عالمِ روحانی کا ہے آسمان سے جب تک وحی و الہام کا پانی نازل نہ ہو روحانیت کے تما م کھیت مرجھا جاتے ہیں تمام روئیدگیاں گل سڑ جاتی ہیں اور وحی و الہام کی بارش منقطع ہونے سے ارتقا ء دماغی بھی بند ہو جاتا ہے اس وقت یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ جس طرح آسمان کا زمین کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح وحی و الہام کا قلوب ِ انسانی کے ساتھ تعلق ہے.اگر آسمان زمین کی ہوا کو صاف نہ کرتا رہے تو انسانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو جائے کیونکہ وہ گندی ہوا جو سانس کے ذریعہ پھیپھڑوں میںسے خارج ہوتی ہے جمع ہوتی رہے او ر وہی دوبارہ انسان کو اندر لے جانی پڑے مگر اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ گرم ہوا اوپر اٹھتی ہے اور اس کی جگہ سرد ہوا آجاتی ہے جو ہر قسم کے مضر اثرات سے پاک ہوتی ہے.اگر کسی کمرہ میںپانچ سو یا ہزار آدمی بیٹھے ہوں اور ان کے سانس کی ہوا اوپر کو نہ جائے اور نہ اس کی جگہ تازہ ہوا آئے تو چند منٹ میں ہی تمام لوگ مر جائیںمگر اب کسی کو احساس بھی نہیںہوتا کہ ہم اپنے تنفس سے ہوا کو کس قدر گندہ کر رہے ہیں کیونکہ آسمان ساتھ ہی ساتھ صفائی کا کام کر رہا ہوتا ہے بلکہ بعض دفعہ ضرورت سے بھی زیادہ آدمی ایک کمرہ میںاکٹھے ہو جاتے ہیں تو ان کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ انسان جس ہوا کو گندہ کرتا ہے آسمان اسے اٹھا کر لے جاتا ہے اور اس کی جگہ پاکیزہ ہوا میسر آجاتی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ زمین بغیر آسمانی اشتراک کے کوئی کام نہیںکر سکتی.اب بتاتا ہے کہ جس طرح زمین میں مختلف قسم کی قابلیتیںپائی جاتی ہیں اسی طرح نفسِ انسانی میں بھی مختلف قسم کی قابلیتیں پائی جاتی ہیں.انسان کے اندر ایک تڑپ ہے ترقی کی، پیاس ہے صداقت کی، ندامت ہے غلطی پر اور ہر شے کی حقیقت معلوم کرنے کی اس کے اندر جستجو ہے.بچہ ابھی بولنا ہی سیکھتا ہے تو ماںباپ کا دماغ چاٹ لیتا ہے اور بات بات پر پوچھتاہے یہ کیا ہے وہ کیا ہے.لیمپ نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے، بلی نظر آتی ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے، کتا نظر آتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیا ہے غرض ہر نئی چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اس کے متعلق وہ اپنی ماں یا اپنے باپ سے یہ ضرور دریافت کرتا ہے کہ یہ کیا ہے.یورپ میںکئی کئی جلدوں

Page 41

میںاس قسم کی کتابیںلکھی گئی ہیںجن میں بچوں کے ان سوالات کے جوابات درج ہوتے ہیں.وہ کہتے ہیں جب بچہ اس قسم کے سوالات کرتا ہے درحقیقت وہی وقت اس کے دماغی نشوونما کا ہوتا ہے مگر ماں باپ کو چونکہ خود ان سوالات کا صحیح جواب معلوم نہیں ہوتا وہ ادھر ادھر کی باتوں میں اس کے سوال کو نظر انداز کر دیتے ہیں.جب وہ بجلی کے متعلق پوچھتا ہے کہ یہ کیا ہے تو ہر شخص فوراً جواب نہیںدے سکتا کہ یہ کیا ہے اگر وہ کہے گا کہ بجلی ہے تو بچہ کہے گا بجلی کیا ہوتی ہے؟ اس پر کئی لوگوں کو خاموش ہونا پڑتا ہے اور کئی یہ کہہ کر بچے کو خاموش کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ تمہیںاس کا پتہ نہیںیہ لیمپ ہے جو جل رہا ہے.پس چونکہ اکثر ماں باپ بچوں کے سوالات کا صحیح جواب نہیںدے سکتے اس لئے یورپ میں اس قسم کی کئی کتابیںلکھی گئی ہیں جن میں بڑی بڑی علمی باتیں آسان الفاظ میں بیان ہوتی ہیں تا کہ جب بچہ تم سے پوچھے کہ یہ کیا ہے یا وہ کیا ہے تو تم ایسا جواب دے سکو جو صحیح ہو اور جسے بچہ سمجھ سکے.پھر بچہ میں ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ جب اس سے کوئی غلط بات کہہ دو تو وہ رونے لگ جاتا ہے اگر روٹی پڑی ہو اور کہہ دو کہ روٹی نہیں ہے تو وہ چیخیںمار کر رونا شروع کر دے گا یا بچہ بیمار ہو اور تم اسے کہہ دو کہ تم بیمار نہیںہو تو وہ جھٹ رونا شروع کر دے گا کیونکہ اس میں یہ حس پائی جاتی ہے کہ میرے سامنے سچی بات بیان کی جائے.اسی طرح کوئی کھلونا بچے کو دے دو تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ اسے توڑ پھوڑدیتا ہے ا س کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ پہلے وہ اس کی شکل سے اس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور جب شکل سے اسے کچھ معلوم نہیں ہوتا تو وہ سمجھتا ہے شاید اس کے اندر کوئی حقیقت پائی جاتی ہے چنانچہ وہ اس حقیقت کی جستجو میںاسے توڑ دیتا ہے اور پھر توڑ کر خود ہی رونے لگ جاتا ہے لوگ حیران ہو تے ہیں کہ خود ہی اس نے کھلونا توڑا ہے اور خود ہی رونے لگ گیا ہے وہ یہ نہیںسمجھتے کہ بچہ روتااس لئے ہے کہ میں نے تو کھلونا اس لئے توڑا تھا کہ مجھے پتہ لگے اس کے اندر کیا ہے مگر مجھے پھر بھی کچھ معلوم نہیں ہوا.وہ اس لئے نہیں روتا کہ کھلونا کیوں ٹوٹا ہے کیونکہ وہ تو اس نے خود توڑا ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ کھلونے کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے اس کو توڑتا ہے مگر جب اس کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی تو رونے لگ جاتا ہے، سمجھتا ہے کہ کھلونابھی گیا اور یہ بھی پتہ نہ لگا کہ اس کی کیا حقیقت تھی.پھر جب بڑا ہوتاہے تو مختلف علوم کا اسے شغف ہو جاتا ہے.دراصل یہ شغف بھی اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے ہوتا ہے کبھی بچے باہر جاتے ہیں اور وہ کسی لوہار کو کام کرتا دیکھتے ہیں تو وہیںکھڑے ہو جاتے ہیں کہ یہ کام کس طرح کرتا ہے.کبھی کسی نجّار کو دیکھتے ہیں تو اس کے کام کو دیکھنے میں محو ہو جاتے ہیں.اس طرح اپنی اپنی مناسبت کے لحاظ سے کسی کو لوہار ے کام کا شوق ہو جاتا ہے، کسی کو نجاری کا کام پسند آ جاتا ہے، کسی کو معماری کا کام پسند آجاتاہے،کسی کو کوئی اور کام پسند آ جاتا ہے ہمارے ہاں ایک ملازمہ کا

Page 42

لڑکاہے اس کو یہی شوق ہے کہ بڑاہوکر میں کاتب بنوں گا معلوم ہوتا ہے اس نے کسی کاتب کونہایت خوشخط حروف لکھتے دیکھا تو اس کو بھی خیال آگیا کہ میںبھی بڑا ہو کر کاتب بنوں گا اور اسی طرح خوبصورت طریق پر لکھاکروںگا.ہمارے ملک کی تباہی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کی مناسبت کا خیال نہیں رکھا جاتا اور بڑے ہو کر ان کو ایسے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے جن کے ساتھ ان کی طبیعت کی کوئی مناسبت نہیں ہوتی نہ ان کاموں کی طرف ان کا کوئی ذاتی میلان ہوتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری عمر کام کرنے کے باوجود وہ ترقی سے محروم رہتے ہیں.حالانکہ طریق یہ ہونا چاہیے کہ یا تو بچوں کے مذاق اور ان کی طبیعت کے مطابق ان کے لئے کام مہیا کیا جائے اور یاپھر بچپن میں ہی ان کے اندر وہ رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے جو رنگ ماں باپ ان میں پیدا کرنا چاہتے ہیں.مگر ہمارے ملک میں نہ والدین بچہ میں اپنی مرضی کا صحیح مذاق پیدا کرتے ہیں نہ اس کے مذاق اور طبیعت کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہیں اور اس طرح اس میں دوغلہ پن پیدا ہو جاتا ہے.جب وہ بڑا ہوتا ہے تو چونکہ اس کا طبعی میلان اور ہوتاہے اور سپرد شدہ کام اور ہوتا ہے اس لئے اس کے نفس میںلڑائی شروع ہو جاتی ہے اور آخری نتیجہ یہ نکلتاہے کہ اس کا دماغ بالکل کُند ہو جاتا ہے.آئندہ نسلوں کی درستی اور قوموں کی ترقی کی صرف دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو وعظ اور نصیحت سے بچوں کو صحیح مذاق کی طرف لایا جائے اور ان کے لئے بچپن سے ہی ایسا ماحول پیدا کر دیا جائے کہ وہ وہی کچھ سوچنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں اور وہی کچھ دیکھنے لگیں جو ہم چاہتے ہیں.اور اگر ہم ان کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی مرضی کا صحیح مذاق ان میں پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر دوسری صورت یہ ہے کہ بچوں کے مذاق کو ملحوظ رکھا جائے.اگر کوئی انجنیئر بننا چاہتا ہے تو اسے انجنیئر بنا دیا جائے، اگر کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا ہے تو اسے ڈاکٹر بنا دیا جائے، اگر کوئی مدرس بننا چاہتا ہے تو اسے مدرس بنا دیا جائے کیونکہ ہم نے اس کے اندر اپنا وجود پیدا نہیں کیا اور جب اپنا وجود ہم نے اس کے اندر پیدا نہیں کیا تو اب اگر اس کے ذاتی مذاق کو بھی ہم ٹھکرا دیں تو یہ بالکل بچوں والی بات ہو جائے گی جو کھلونے لے کر توڑ دیتے ہیں مگر پھر بھی ان کو حقیقت معلوم نہیں ہوتی.ہم بھی اس ذریعہ سے قوم کے ایک مفید حصہ کو ضائع کرنے والے قرا ر پائیں گے.پھر ہم دیکھتے ہیں مختلف علوم میں انسان کا شغف اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ وہ بعض دفعہ غیب معلوم کرنے کے لئے اپنی عقل سے راستے تلاش کرنا شروع کر دیتا ہے چنانچہ یورپ کو دیکھ لو وہ علوم میں کس قدر ترقی کر چکا ہے.مگر ادھر تو یہ حال ہے کہ یورپ خدا تعالیٰ کا انکار کر رہا ہے، مذہب سے بالکل لا پروا ہے اور ادھر اس کی حماقت کا یہ حال ہے کہ ذرا کوئی کہہ دے میں ہتھیلی دیکھ کر آئندہ کے حالات بتا سکتاہوں تو بڑے بڑے لائق پروفیسر اور وکیل اور

Page 43

ڈاکٹر اور انجنئیر اپنے ہاتھ کھول کر اس کے سامنے بیٹھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہمیںآئندہ کے حالات بتائیے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے اندر فطرتی طورپر یہ مادہ ہے کہ وہ حقیقت ِ عالم اور راز ِ کائنا ت کو معلوم کرنا چاہتا ہے.انہوں نے اپنے جھوٹے علم پر غرور کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا تو انکار کر دیا مگر فطرت میںجو جستجو تھی کہ اس دنیا کا ایک منبع ہے جس کو دریافت کرنا چاہیے اس جستجو کو وہ نہ مٹا سکے چنانچہ غیب معلوم کرنے کے لئے ہاتھ دکھانا صاف بتا رہا ہے کہ انسان کی اس مادی دنیا سے تسلی نہیں ہو سکتی وہ علوم ماوراء الطبعیات کے حصول کے لئے ہر وقت پریشان رہتا ہے اور یہی پیاس ہے جو اسے کبھی کسی راستہ پر لے جاتی ہے اور کبھی کسی راستہ پر.کوئی پامسٹری میںلگا ہوا ہے، کوئی تاش کے پتوں سے غیب معلوم کرنا چاہتا ہے، کوئی ستاروں کو دیکھ کر ان سے آئندہ کے حالا ت معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی زمین پر لکیریں کھینچ کھینچ کر غیب معلوم کرتا ہے، کوئی تسبیح کے منکے مار مار کر یہ کوشش کرتا ہے کہ اسے غیب کی کوئی خبر معلوم ہو جائے.طاق منکا آجائے تو کہتے ہیں کامیابی ہو گی اور اگر جفت آجائیںتو کہتے ہیں ناکامی ہو گی.اسی طرح بعض لوگ قرعہ ڈالتے ہیں.بعض تیروں سے آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.غرض یہ خواہش کہ راز ِ کائنات دریافت کئے جائیں ہر شخص میںپائی جاتی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ اُس کے لئے صحیح طریق اختیار کرتا ہے یا غلط.میںایک دفعہ کراچی گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ منڈی میں کپاس کی قیمت بڑھنے لگی ہے اُس وقت بظاہر آثار ایسے تھے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ کپا س کی قیمت گر جائے گی مگر ہوا یہ کہ اس کی قیمت بڑھ گئی.میںنے لوگوںسے پوچھا کہ بات کیا ہے تو انہوں نے بتایا کہ امرتسر سے ایک سادھو آیا ہے اس سے تاجروں نے آئندہ کے بعض حالات دریافت کئے تو اُس نے کہا کہ کپاس کی قیمت بڑھ جائے گی.یہ سنتے ہی تمام تاجروں نے کپاس خریدنی شروع کر دی اور اس کی قیمت بڑھ گئی.مگر چونکہ کوئی حقیقی طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی دو چار دن تو قیمت چڑھی مگر پھر کم ہونے لگی اور اس قدر کم ہو گئی کہ کئی تاجروں کے دیوالے نکل گئے.طبعی اصول تو یہ ہے کہ چیز کم ہو اور کارخانوں کی مانگ زیادہ ہو اُس وقت قیمت بے شک بڑھتی ہے لیکن اگر چیز کافی ہو اور کسی عارضی وجہ سے گاہک زیادہ آگئے ہوں تو اس کی قیمت میں عارضی طور پر اضافہ ہو سکتا ہے چنانچہ اس کے بعد کراچی کے کئی تاجروں کے دیوالے نکل گئے کیونکہ بمبئی والوں نے اس قیمت پر روئی خریدنے سے انکار کر دیا، نیو یارک والوں نے انکار کردیا، لنکا شائر والوں نے انکار کر دیا اوراس طرح ہزاروں دیوالیہ ہو گئے.اب یہ ایک حماقت کی بات تھی کہ کسی سادھو سے دریافت کیا جائے کہ آئندہ کے حالات بتائو اور پھر جو کچھ وہ اناپ شناپ بتادے اس کے مطابق عمل شروع کر دیا جائے مگراس حماقت کا ارتکاب ان سے اسی لئے ہوا کہ انسان چاہتا ہے مجھے علمِ غیب کا کسی طرح پتہ

Page 44

لگ جائے اور اس کے لئے بعض دفعہ ایسے ایسے احمقانہ طریق اختیار کرتا ہے کہ حیرت آتی ہے.غرض انسانی فطرت میں راز ِ کائنات معلوم کرنے کی جستجو پائی جاتی ہے اور یہ علوم خواہ کتنے غلط ہوں اس امر پر ایک کھلی شہاد ت ہیں کہ انسان علوم ماوراء الطبعیات کی پیاس رکھتا ہے اور ان کے بغیر اسے چین نہیں آتا.پھر وہ علوم دنیاوی کی تحقیق میںلگتاہے کہیں آسمانی عالم کی کھال اُدھیڑ نے لگتا ہے، روشنیوںکو پھاڑتا ہے، ستاروں کی چالیںدیکھ دیکھ کر آئندہ کے حالات معلوم کرنے کی کوشش کرتاہے، پھر زمین کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو کہیں کانیں دریافت کرتا ہے، کہیںخزانوں کی دریافت کرتا ہے، کوئی شخص پیتل کی، کوئی لوہے کی، کوئی سونے اور کوئی چاندی کی کانیں دریافت کرنے میںمشغول ہو جاتا ہے، کوئی جڑی بوٹیوں کے خواص معلوم کرتا اور ان کی تحقیق پر تحقیق کرتا چلا جاتا ہے، کوئی دھاتوں کے کُشتے بناتا ہے، کوئی ہوا، کوئی پانی، کوئی بجلی، کوئی آگ اور کوئی دخان کو قابو میںلانے کی کوشش کرتا ہے، کوئی ذرا ذرا سی بات پر جنات کے خیال میںمشغول ہو جاتا ہے.کسی نے جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ میں نے فلاں عمل پڑھا تھا اس کی اس قدر تاثیر ہوئی کہ بس جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے.وہ سنتا ہے تو اس کے سر پر بھی جنون سوار ہو جاتا ہے اور وہ بھی جنات کو قابو میں لانے کے لئے سر گرمِ عمل ہو جاتا ہے.جس طرح کیمیا گر دوسروں کو دھوکا دینے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیںکہ میں نے فلاں نسخہ بنایا اور سونا بنتے بنتے رہ گیا.اسی طرح وہ کہتا ہے کہ میں نے فلاں عمل کیا تو جنات قابو ہوتے ہوتے رہ گئے.دوسرا شخص سنتا ہے تو خیال کرتا ہے کہ یہ تو قابو نہ کر سکا مگر میںان کو ضرور قابو کر لوں گا چنانچہ وہ کسی میدان میں اپنے ارد گرد لکیریں کھینچ کر بیٹھ جاتا اور منہ سے بڑبڑانے لگ جاتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ ابھی جنات میرے قابو میں آجائیںگے.اگر مادی تغیرات ہی کافی سمجھے جاتے تو عاقل اور جاہل دونوں اس قسم کی جدو جہد میںکیوں مشغول ہوتے.آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ کا عاقل بھی اسی میںمشغول ہے اور ہندوستان کا جاہل بھی اِسی میں مشغول ہے.اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ خالص مادی علوم سے انسانی قلب تسلی نہیں پاتا بلکہ وہ ما وراء الطبعیات علوم کی جستجو چاہتا ہے.غرض ہر طرف سے مادی عالم میں سرنگ لگانے کی یہ جدو جہد بتاتی ہے کہ اس کے اندر کسی بالائی طاقت کو پانے کی ایک تڑپ ہے جو کبھی کبھی مادی بوجھوں میںدب کر سب کانشس حالت میںچلی جاتی ہے.یعنی یہ حقیقت کہ خدا ہے اور اس نے دنیا بنائی ہے غائب ہو جاتی ہے مگر اس کی جدو جہد بتا رہی ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے بے جانے وہی جذبہ کار فرما ہے.بعض دفعہ دیکھا گیا ہے کہ جاگتے ہوئے انسان اپنے نفس کو قابو میںرکھنے کی کوشش کرتا ہے مگر جب وہ سو جاتا ہے تو اس کے قلب کے اندرونی خیالا ت بعض دفعہ اس کی حرکات سے ظاہر ہو جاتے ہیںکئی لوگ ایسے

Page 45

ہوتے ہیںجو کسی کی کوئی چیز چرا لیتے ہیں دن بھر تو وہ اپنے نفس کو قابو میںرکھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کسی کو ان کی اس چوری کا علم نہ ہو مگر چونکہ سارا دن ان کے دماغ پر یہی خیال مسلط رہتاہے اس لئے جب وہ سوتے ہیںتھوڑی دیر کے بعد ہی بڑبڑانے لگتے ہیں اور ان کی چوری کا لوگوںکو علم ہو جاتا ہے.بہت سے چور ایسے ہوتے ہیں جن کا لوگوں کو پتہ نہیں لگتا مگر چونکہ ہر وقت انہیں یہی خیال رہتا ہے کہ کہیںلوگوںکو ہماری چوری کا علم نہ ہو جائے اس لئے جب وہ سوتے ہیںخواب کی حالت میںبڑبڑانے لگتے ہیں.کبھی کہتے ہیں دیکھنا دیکھنا فلاں کونہ میںنہ جانا وہاں میرا مال پڑا ہے.دیکھنا کہیںپولیس کو خبر نہ دے دینا.کبھی بڑبڑاتے ہوئے کہیں گے میں نے فلاں کو خوب لوٹا ہے.لوگ ان باتوں کو سنتے ہیںتو انہیںفوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی چور ہے چنانچہ تحقیق پر تمام مال برآمد ہو جاتاہے.اسی طرح بعض قاتل ایسے ہوتے ہیں جو جاگتے ہوئے تو اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر جب سو جاتے ہیں بڑبڑانے لگتے ہیں.کبھی کہتے ہیں ارے فلاں شخص کی روح آگئی ہے، ارے مجھے کیوں مارتے ہو، مجھے معاف کر دو میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا.ہمسایہ ان آوازوں کو سنتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ یہی شخص قاتل ہے.تو انسان کے سب کانشس مائینڈ (غیر شعوری دماغ) میںبہت سے حقائق پوشیدہ ہوتے ہیں.جب اس کا کانشس مائینڈ (شعوری دماغ ) غافل ہوتا ہے تو سب کانشس مائینڈ ان خیالات کو ظاہر کر دیتا ہے جیسے سوتے ہوئے یا رؤیا میںیا مسمریزم کے ماتحت دوسروں کی زبان سے کئی باتیںنکل آتی ہیں.اسی طرح دنیا میںبہت سے لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہیں مگر ان کی زندگی کے حالات ان کے سب کانشس مائینڈ کی کیفیات کو ظاہر کر رہے ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم کسی اور ہستی کی تلاش کی خواہش مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں مگر ان کے حالات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خواہش کو مٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکے وہ صرف ان خیالات کو دھکیل کر عارضی طورپر پیچھے ہٹانے میںکامیاب ہوتے ہیں مستقل طورپر نہیں.اور چونکہ یہ تڑپ اکثر سب کانشس حالت میںرہتی ہے انسان اس کا اقرار نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھی تھک کر جس طرح بچہ جب کھلونے کی ساخت کو سمجھ نہیں سکتا تو اسے بٹوں سے توڑنے لگتا ہے یہ بھی چڑ کر کسی پیدا کرنے والے کا انکار کر دیتا ہے اور آپ ہی آپ بنے ہوئے عالم کا وجود تسلیم کرنے لگتا ہے.گھروں میں اکثر یہ نظارہ نظر آتا ہے کہ جب بچہ کسی کھلونے کو توڑ پھوڑ دیتا ہے تو بعض دفعہ کھسیانا ہو کر کہہ دیتا ہے کہ مجھے کھلونے کی کوئی ضرورت نہیں.در حقیقت ان الفاظ کے ذریعہ وہ اس بات کا غصہ نکالتا ہے کہ میںنے کھلونا بھی توڑا اور مجھے اس کی حقیقت کا بھی علم نہ ہوا.دہریہ بھی ایسے ہی ہوتے ہیںوہ اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے خدا تعالیٰ کی ہستی کا انکار کرتے ہیںورنہ ان کے سب کانشس مائینڈ میں

Page 46

اور ان میں سے چھ کے اپنڈکس اپریشن کے ذریعہ کاٹ دیئے اور چھ کے رہنے دیئے.اس کے بعد اس نے تمام بندروں کی یکساں پرورش شروع کر دی اور یہ غور کرنا شروع کیا کہ آیا دونوں میں کسی قسم کا کوئی فرق پیدا ہوتاہے یا نہیں.کچھ عرصہ کے بعد اس نے دیکھا کہ جن بندرو ں کے اپنڈکس کاٹ دئیے گئے تھے ان کی قوتِ مقاومت کم ہو گئی ہے.وہ بیماریوں کا جلد شکار ہو جاتے ہیں اور غذا ان کے جسم کو لگتی نہیں.لیکن دوسرے بندر جن کا اپریشن نہیں کیا گیا تھا وہ اسی طرح مضبوط رہے ہیں جس طرح پہلے تھے.(The Text Book of Human Anatomy, 2nd Edition P387) اس سے ثابت ہو گیا کہ اپنڈکس جس کے متعلق خیال کیا جاتا تھا کہ شائد اس کا کوئی فائدہ نہیں.یہ ایک زائد آنت ہے جو جسم انسانی میں پیدا ہو گئی ہے اس کا بھی انسانی جسم کی صحت کے ساتھ گہرا تعلق ہے.اور جن لوگوں کی یہ آنت کاٹ دی جائے ان کی قوتِ مقاومت کم ہو جاتی ہے.مگر اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ قوتِ مقاومت دوسروں کے مقابلہ میں کم ہو جاتی ہے بلکہ قوتِ مقاومت کے کم ہونے کے یہ معنے ہیں کہ جتنی طاقت اس آنت کی موجودگی میں اس کے اندر پائی جاتی ہو اپریشن کے بعد اتنی طاقت اس کے اندر نہیں رہتی.ورنہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کا اپریشن نہ ہوا ہو اور کسی اور وجہ سے اس کے اندر مقابلہ کی طاقت کم ہو اس صورت میں اس کا اور اپریشن والے شخص کا مقابلہ نہیں ہو گا بلکہ دیکھا یہ جائے گا کہ اس شخص کے اندر پہلے کتنی طاقت مقابلہ تھی اور اب کتنی طاقتِ مقابلہ رہ گئی ہے.اس موازنہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپریشن سے پہلے انسان کے اندر جتنی تابِ مقاومت ہوتی ہے اپریشن کے بعد اتنی طاقت اس میں نہیں رہتی بلکہ ضرور اس میں کمی آجاتی ہے.فرانس کے اس ڈاکٹر نے جو تجربہ کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنڈکس کا انسان کی قوتِ مقاومت اور اس کی صحت کی بحالی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.ممکن ہے آئندہ چل کر اس سے بھی زیادہ واضح طور پر اس کے فوائد ثابت ہو جائیں لیکن بہرحال اس وقت تک کی تحقیق یہی ثابت کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا.دوسری چیز جسے بےکار سمجھا جاتا تھا کان کی لَو ہے.مگر اب معلوم ہوا ہے کہ یہ بھی بےکار نہیں بلکہ آواز کے سننے میں یہ ایک لطیف قسم کا اثر رکھتی ہے جس طرح بچے پتنگ کے ساتھ ایک چھوٹی سی دھجی یا پتلا سا کاغذ باندھ دیتے ہیں جو بظاہر زائد چیز نظر آتی ہے مگر پتنگ کے اڑانے میں وہ بہت کام آتی ہے.اسی طرح کان کی لَو علاوہ اس کے کہ کان کو خوبصورت بنادیتی ہے آواز کے ساتھ بھی گہرا تعلق رکھتی ہے.بعض حصے جسم انسانی میں ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے خوبصورتی کے لئے پیدا کئے ہیں انہی میں سے ایک کان کی لَو بھی ہے.اگر کسی کے کان کی لَو کاٹ دی جائے تو بالکل بُچّا سا نظر آنے لگ جائے گا.اور اس کی ساری خوبصورتی ماری جائے گی لیکن علاوہ خوبصورتی کے اس کا تو ایک بہت بڑا

Page 47

ہوتی ہے کہ وہ دائیں بائیں گڑھوں سے بچ کر سیدھا چلے اور منزل مقصود سے ورے نہ ٹھہرے.یہی دو چیزیں مذہب کی جان ہیں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ مذہب کی بڑی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ سے بھی اعلیٰ درجہ کا تعلق رکھے اور بنی نوع انسان سے بھی اعلیٰ درجہ کا تعلق رکھے.نہ حقوق اللہ کے بجا لانے میں کوئی کوتاہی کرے اور نہ حقوق العباد کی بجا آوری میں کوئی کوتاہی کرے.(ملفوظات) غرض انسان کو ایک معتدل القویٰ نفس عطا کیا گیا ہے اس میں ترقی کا ماد ہ ہے جو اعلیٰ درجہ کے مقصود تک پہنچنے کے لئے ہے.پھر اس میںاپنے دائیں اور بائیںکو محفوظ رکھنے کا مادہ ہے جس سے اخلا ق کی تکمیل ہوتی ہے.وہ جانتا ہے کہ فلاں کام مجھے کرنا چاہیے اور فلاں نہیں.فلاں کام میرے لئے مفید ہے اور فلاں مضر.جب انسان کے اندر یہ تمام قابلیتیں پائی جاتی ہیںتو تم کسی راہنمااور معلم کا کیونکر انکار کر سکتے ہو؟ (۲) مصدری معنوں کے لحاظ سے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ انسان معتدل القویٰ ہے اس لئے اس کا معتدل القویٰ ہونا کسی راہنماکی طرف بلاتا ہے گویا دلیل ایک ہی ہے صرف نقطۂ نگاہ کو بدلا ہے.پہلے معنوں کے لحاظ سے یہ کہا گیا ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ بنانے والا اس کی راہنمائی کی صورت کیوں پیدا نہ کرے گا اور دوسرے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ اس کا معتدل القویٰ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ کوئی ا س اعتدال کو کام میں لانے والا راہنمابھی ہو.گویا مَا کے معنے اگر خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف توجہ دلانے کے سمجھے جائیںتو آیت کا یہ مطلب ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جس ذات نے انسان میں یہ صفات پیدا کی ہیںوہ کوئی علاج نہ بتاتا اور راہنمائی کی صورت پیدا نہ کرتا.لیکن اگر مصدری معنے لئے جائیں تو یہ مطلب ہو گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ انسان میں یہ قوتیں تو موجود ہوں مگر ان قوتوں کے ظہور کا کوئی سامان نہ ہو.مفہوم ایک ہی ہے مگر ایک استدلال نفس کی بناوٹ سے کیا گیا ہے اور دوسرا استدلال نفس کو بنانے والے کے لحاظ سے کیا گیا ہے.وَنَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا کے تیسرے معنے تیسرے معنے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا کے یہ ہیںکہ ہم اس نفس کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو عظیم الشان ہے اور جس کی طرف آپ ہی آپ انگلیاں اٹھتی ہیں یعنی ہر زمانہ کے نفسِ کامل اور اس خدا کو پیش کرتے ہیں جس نے ایسے کامل وجود کو بنایا.یہاں نفس گو نکرہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر حقیقتاً اس کی تنوین تفخیم اور تعظیم کے لئے ہے اور نَفْسٍ سے مراد ہر نفس نہیں بلکہ عظیم الشان نفس ہے ( تنوین کا تفخیم اور تعظیم کے لئے آنا عربی زبان کا ایک مروج قاعدہ ہے) اور مراد یہ ہے کہ ہم اس شخص کی طرف تم کو توجہ

Page 48

دلاتے ہیں جو اپنی عظمت ِ شا ن کی وجہ سے اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ گو اس کا نام نہ لو مگر ہر انگلی اس کی طرف خود بخود اٹھنے لگتی ہے.اس امر کا قرآن کریم کے بعض او ر مقامات سے بھی ثبوت ملتاہے کہ ہر زمانہ میںاللہ تعالیٰ کی طرف سے جو نبی آتا ہے اس کے دعویٰ سے پہلے ہی لوگوں کی اس کی طرف انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو ہماری قوم کو کامیاب کر سکتا ہے چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںذکر فرماتا ہے کہ ان کی قوم کے افرادنے ان سے کہايٰصٰلِحُ قَدْ كُنْتَ فِيْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هٰذَا(ہود:۶۳) یعنی اے صالح ہمیںتو تم پر بڑی بڑی امیدیں تھیں اور ہم سمجھتے تھے تو بڑے اعلیٰ اخلاق کا مالک ہے تیرے اندر قوت عملیہ پائی جاتی ہے اور تو قوم کی ترقی کا بڑا فکر رکھتا ہے ہمیںتو امید تھی کہ تو قوم کو اٹھا کر کہیںکا کہیں لے جائے گا مگر تُو تو بڑ ا خراب نکلا اور تونے ہماری تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا.تُو ہمیںیہ کہنے لگ گیا ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے طریقِ عمل کو چھوڑ دیںاور تیری بات کو مان کر بتوں کی پرستش نہ کریں.اب یہ امر ظاہر ہے کہ جن باتوں میں حضرت صالح علیہ السلام کی قوم اپنی ترقی سمجھتی تھی ان باتوں میں حضرت صالح علیہ السلام اپنی قوم کی ترقی نہیں سمجھتے تھے.وہ جھوٹ اور فریب اور خدا تعالیٰ سے بُعد میں اپنی ترقی سمجھتے تھے اور حضرت صالح علیہ السلام صداقت اور ہدایت اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں اپنی قوم کی ترقی سمجھتے تھے.بہر حال انہیں یہ امید ضرور تھی کہ ہماری ترقی صالحؑ کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کی یہ رائے بالکل درست تھی گو اپنے تنزل کا علاج وہ جن باتوں کو قرار دیتے تھے وہ درست نہیں تھا.یہی رنگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نظر آتا ہے اور یہی رنگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں پایا جاتا تھا.حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ کے خسر صوفی احمد جان صاحبؓلدھیانوی نے دعویٰ سے پہلے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھ دیا تھا کہ ؎ ہم مریضوں کی ہے تمہیں پہ نظر تم مسیحا بنو خدا کے لئے گویا دنیا کی نگاہیںاسی وقت سے آپ کی طرف بلند ہو رہی تھیںاور جو انگلی بھی اٹھتی وہ آپ کی طرف اشارہ کرتی.مولوی برہان الدینؓ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص صحابی تھے انہوں نے سنایا کہ جب ابتداء میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر سنا اور مجھے معلوم ہوا کہ پنجاب کے ایک گائوں میں ایسا شخص ظاہر ہوا ہے جس سے اسلام کی آئندہ ترقی وابستہ معلوم ہوتی ہے اور وہی عیسائیوں اور ہندوؤں وغیرہ کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو دیکھنا چاہیے.چنانچہ میںقادیان آیا مگر یہاں آکر

Page 49

معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کسی مقدمہ کے سلسلہ میں گورداسپور تشریف لے گئے ہیں.میں گورداسپور پہنچا اور آپ کے جائے قیام کو دریافت کرتا ہوا ڈاک بنگلہ میںگیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان دنوں تشریف رکھتے تھے.باہر حافظ حامد علی صاحب بیٹھے تھے میں نے ان سے کہا کہ میںحضرت مرزا صاحب کی زیارت کرنے کے لئے آیا ہوں کسی طرح مجھے آپ ؑ کی زیارت کرا دیں.انہوں نے کہا اس وقت زیارت نہیں ہو سکتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک ضروری اشتہار لکھ رہے ہیں.میں نے ان کی منتیںبھی کیں مگر انہوں نے کوئی پروا نہ کی.آخر میں ایک طرف مایوس ہو کر بیٹھ گیا اور میں نے ارادہ کر لیاحا فظ حامد علی صاحب ذرا اِدھر اُدھر ہوں تو میں بغیر پوچھے ہی کمرہ کی چِک اٹھا کر آپ کی زیارت کر لوں گا.چنانچہ وہ کہتے ہیں تھوڑی دیر کے بعد ہی حافظ صاحب جو کسی کام کے لئے اٹھے تو میں چپکے سے دروازے کی طرف بڑھا اور چِک اٹھا کر اندرکی طرف جھانکا اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاغذ ہاتھ میںلئے جلدی جلدی کمرہ میںٹہل رہے تھے اور آپ کی پیٹھ دروازے کی طرف تھی.میرا اندازہ یہ تھا کہ ابھی آپ کو واپس آنے میں کچھ دیر لگے گی اور میں اطمینان سے آپ کی زیارت کر سکوں گامگر حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام جلدی واپس لوٹ آئے اُس وقت مجھ پر ایسا رعب طاری ہوا کہ میں ڈر کے مارے وہاں سے بھاگ اٹھا اور میں نے اپنے دل میں فیصلہ کر لیا کہ آپ ضرور سچے ہیں جو شخص اتنا تیز تیز چلتا ہے اس نے ضرور دور تک جانا ہے.غرض الٰہی سنت یہ ہے کہ ہر زمانہ کا جو نفس کامل ہو اس کی طرف خود بخود لوگوں کی انگلیاں اٹھنی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ اسے دیکھ کر اس حقیقت کا بر ملا اظہار شروع کر دیتے ہیں کہ یہ شخص دنیا میںضرور کوئی اہم تغیر پیدا کر کے رہے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ہر زمانہ کے نفس کامل اور اس خدا کو پیش کرتے ہیں جو ایسے کامل وجود پیدا کیا کرتا ہے یا اس زمانہ کا نفسِ کامل( جس سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ) اور جس نے اسے بنایا ہے اس کو اور اسی طرح اس نفسِ کامل کے اظلال کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ زندگی کے ہر شعبہ میں کامل الوجود ثابت ہوئے ہیں.لوگ اپنے اموال کو اپنی ذات پر خرچ کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اموال اپنی قوم کے لئے خرچ کرتے تھے.لوگ اپنے اوقات کو جوئے اور شراب نوشی وغیرہ میں صرف کرتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام اوقات اپنی قوم کی بہبودی کے لئے خرچ کرتے تھے.لوگ اپنے اوقات جہالت کے لئے خرچ کرتے تھے اور آپؐاپنے اوقات علم کے لئے خرچ کرتے تھے.لوگ اپنے دماغ دنیوی باتوں میں مشغول رکھتے تھے اور آپؐاپنے دماغ کو اگر ایک طرف خدا تعالیٰ کے احکام کی اتباع میں

Page 50

مشغول رکھتے تھے تو دوسری طرف بنی نوع انسان کی تکالیف دور کرنے کے لئے اس سے کام لیتے تھے اور یہ تو آپ کی دعویٔ نبوت سے پہلے کی حالت تھی جب آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت نبوت کا اعلان فرمایا اور عملی رنگ میں آپ کا ہر کام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے آگیا تو اس وقت آپ اگر فوج کے ساتھ گئے تو بہترین جرنیل ثابت ہوئے، قضاء کا کام اپنے ہاتھ میں لیا تو بہترین قاضی ثابت ہوئے، اِفتاء کا وقت آیا تو بہترین مفتی ثابت ہوئے، تبلیغ کا وقت آیا تو بہترین مبلغ ثابت ہوئے، گھر میں گئے تو بہترین خاوند ثابت ہوئے، بچوں سے تعلق رکھا تو بہترین باپ ثابت ہوئے، دوستوں سے ملے تو بہترین دوست ثابت ہوئے.غرض کوئی ایک بات بھی نہیں جس میں آپ دوسروںسے دوسرے درجہ پر رہے ہوں بلکہ ہر خوبی میں آپ نے چوٹی کا مقام حاصل کیا اور اس طرح اپنے نفس کے کامل ہونے کا دنیا کے سامنے ایک ناقابلِ تردید ثبوت مہیا کر دیا.اللہ تعالیٰ نفسِ کامل کی اس شہادت کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تم غور کرو کہ کیا ایسا شخص جس میں یہ یہ صفات پائی جاتی ہوں کبھی ہار سکتا ہے؟ ایک فن کا ماہر ہار سکتا ہے، دو فنوں کا ماہر ہار سکتا ہے مگر یہ تو وہ ہے جو ہر فن میں کامل ہے.دنیا اس کے متعلق یہ خیال بھی کس طرح کر سکتی ہے کہ یہ ہار جائے گا اور وہ جیت جائے گی اس میں اگر زیادہ قابلیتیںہوں تو پھر بے شک وہ جیت سکتی ہے لیکن جب کہ اس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میںکوئی قابلیت ہی نہیں پائی جاتی تو وہ جیت کس طرح سکتی ہے؟ فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ۰۰۹ پھر اس (یعنی خد ا) نے اس (نفس) پر اس کی بدکاری (کی راہوں) اور اس کے تقویٰ (کے راستوں ) کو کھول دیا.تفسیر.اَلْهَمَهَا میں اَلْھَمَ کا فاعل پہلی آیت میں اگر ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے ہوں گے تو ضمیر ’’ما‘‘ کی طرف جائے گی او ر اگر مصدری معنے لئے جائیںگے تو ضمیر بالمعنیٰ سمجھی جائے گی.وہ لوگ جنہوں نے ’’ما‘‘ کو مَنْ کے معنوں میں لیا ہے وہ اس موقعہ پر ’’ما‘‘ کو مصدریہ کہنے والوں پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے معنے درست نہیں اگر درست ہیں تو وہ بتائیں کہ اَلْھَمَھَا میں اَلْھَمَ کا فاعل کون ہے مصدر تو فاعل نہیں ہو سکتا کیونکہ تسویہ الہام نہیں کرسکتا الہا م تو ایک طاقتور ہستی کر سکتی ہے مگر مصدر کے معنے کرنے والے بھی علم ادب کے بہت بڑے ماہر ہیں انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ تمہارا استدلال بالکل غلط ہے.عربی زبان میں معنوں کی طرف ضمیر پھیرنے کا کثرت

Page 51

سے رواج پایا جاتا ہے پس بناء، طحیٰ اور تسویہ جس کی طرف منسوب ہوں گے اسی کی طرف بالمعنیٰ ضمیر بھی تسلیم کی جائے گی یعنی بناء طحیٰ اور تسویہ کا جو بانی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی طرف بالمعنیٰ ضمیر تسلیم کی جائے گی.بہر حال آیت کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آسمانی اور زمینی نظام کے بنانے اور انسانی نفس میں قابلیت رکھنے کے بعد اسے چھوڑ ا نہیں بلکہ اس کے اندر فجور و تقویٰ کی حس رکھی ہے اور اس مادہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.گویا دونوں صورتوں میں خواہ مصدری معنے لئے جائیں یا ’’ما‘‘ کے معنے مَنْ کے سمجھے جائیںآیت کا یہ مطلب ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں نفسِ لوّامہ پیدا کیا ہے اور ہر انسان میں یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ بعض باتوں کو اچھا اور بعض باتوں کو بر اسمجھتا ہے.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کے سمجھنے میں بہت سے لوگ غلطی کھا جاتے ہیں اور وہ بجائے مسئلہ کو اس رنگ میں پیش کرنے کے کہ ہر انسان کچھ باتوں کو اچھا سمجھتا اور کچھ باتوں کو بُرا سمجھتا ہے وہ اس رنگ میں بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہر انسان سمجھتا ہے کہ قتل بُرا ہے یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے یا ہر انسان سمجھتا ہے کہ ڈاکہ ڈالنا بُرا ہے.اس پر اس کے مخالف جواب دے دیتے ہیں کہ تم کہتے ہو ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا ہے حالانکہ دنیا میںکئی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیںکہ جھوٹ کے بغیر گذارہ ہی نہیں ہو سکتا.اگر تمہاری یہ بات درست ہے کہ فجور اور تقویٰ کا الہام اللہ تعالیٰ نے نفسِ انسانی میں کیا ہے تو چاہیے تھا کہ ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا یا ہر شخص قتل کو بُرا سمجھتا مگر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ دنیا میں جھوٹ بولتے ہیں اور چونکہ ان کے نفس میں ہدایت نہیں ہوتی اور متواتر جھوٹ بول بول کر ان کی فطرت مسخ ہو چکی ہوتی ہے وہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جھوٹ کے بغیر دنیا میںگزارہ ہی نہیںہو سکتا.یا مثلاً سختی کا مادہ ہے یہ بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے.میں نے اپنی جماعت میں ہی دیکھا ہے بار بار لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ سختی سے کام نہ لیا کریںمحبت اور پیار سے دوسروں تک اپنی باتیں پہنچایا کریں مگر پھر بھی وہ اپنی عادت سے مجبور ہونے کی وجہ سے بسا اوقات سختی پر اُتر آتے ہیں اور بعض تو مجھے بھی کہہ دیتے ہیں کہ لوگ سختی کے بغیر کبھی نہیںمان سکتے، نرمی کام خراب کر دیا کرتی ہے.اب اگرہم یہ کہیں کہ ہر شخص سختی کو بُرا سمجھتا ہے تو یہ واقعات کے خلاف ہو گا کیونکہ دنیا میںکئی لوگ سختی سے کام لیتے ہیں اور باوجود سمجھانے کے بھی وہ اپنی اس عادت کو ترک کرنے کے لئے تیا ر نہیںہوتے.وہ سمجھتے ہیں کہ نرمی اچھی نہیں دنیا کا اصل علاج سختی ہے.اسی طرح بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو چوری کو بُرانہیں سمجھتے، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ کو بُرا نہیں سمجھتے، بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قتل کو بُرا نہیں سمجھتے.پس اگر اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ ہر انسان چوری کو یا

Page 52

جھوٹ کو یا قتل وغیرہ جرائم کے ارتکاب کو بُرا سمجھتاہے تو یہ بالکل غلط ہو گا.دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو ان افعال کو بُرا نہیں سمجھتے.یا مثلاً گوشت خوری ہے اس کے متعلق مسلمانوں کو مستثنیٰ کرتے ہوئے دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس میں کوئی بُرائی نہیںسمجھتے اور ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اس کوبہت بڑا گناہ سمجھتے ہیںاور گوشت خوری سے ان کو اتنی شدید نفرت ہوتی ہے کہ کھانا تو الگ رہا اگر گوشت کا کوئی شخص ان کے سامنے نام بھی لے لے تو انہیںقے آجاتی ہے.ہماری جماعت میں سردار فضل حق صاحب ایک نو مسلم دوست تھے وہ سکھ مذہب کو ترک کر کے اسلام میں داخل ہوئے تھے وہ کئی سال تک مسلمان رہے اور دوسروں کو بھی اسلام کی تبلیغ کرتے رہے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ سالہا سال تک گائے کے گوشت سے شدید متنفّر رہے (ممکن ہے قادیان سے جانے کے بعد اُن کا یہ حال نہ رہا ہو مگر جب تک وہ قادیان میں رہے اُن کا یہی حال تھا) مجھے خوب یاد ہے وہ ایک دفعہ مہمان خانہ میں آکر ٹھہرے چونکہ وہ گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے بعض دوستوں نے یہ طے کر لیا کہ جس طرح بھی ہو سکے ان کو گوشت ضرور کھلانا ہے.ایک دن بھائی عبدالرحیم صاحب، شیخ عبد العزیز صاحب اور بعض اور دوست ان سے اصرار کرنے لگے کہ آج تو ہم نے آپ کو ضرور گائے کا گوشت کھلانا ہے.وہ یہ سنتے ہی اٹھ کر بھاگے.وہ آگے آگے تھے اور یہ دوست ان کے پیچھے پیچھے.مجھے وہ نظارہ اب تک یاد ہے کہ وہ کبھی ایک چارپائی سے کود کر دوسری طرف چلے جاتے وہاں ان کا پیچھا ہوتا تو تیسری چارپائی سے کود کر بھاگتے اور جب لوگوں نے ان کو پھر بھی نہ چھوڑا تو وہ ایک کمرہ سے نکل کر دوسرے کمرہ میںبھاگ گئے مگر لوگ بھی ان کے پیچھے پیچھے تھے آخر اسی بھاگ دوڑ میں ان کو اتنے زور سے قے آئی کہ ان کے دوست دیکھ کر ڈر گئے اور انہوں نے ان کو چھوڑدیا اور سمجھ لیا کہ اگر اب بھی ہم ان کو گائے کا گوشت کھانے پر مجبور کریںگے تو یہ سخت ظلم ہوگا.تو دنیا میں کئی لوگ ایسے ہیں جو گوشت خوری سے سخت نفرت رکھتے ہیں اور کئی ایسے ہیں جن کو گوشت خوری کے بغیر چین ہی نہیںآتا.مگر اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ گوشت کھانا انسانی فطرت میں داخل ہے یا گوشت نہ کھانا انسانی فطرت میںداخل ہے.اصل بات یہ ہے کہ کانشنس بالکل اور چیز ہے جس کی حقیقت کو لوگوں نے سمجھا ہی نہیں کانشنس کے معنے صرف اتنے احساس کے ہیں کہ انسان بعض باتوں کو بُرا اور بعض باتوں کو اچھا سمجھتا ہے کانشنس میں یہ بات شامل نہیں کہ فلاں چیز اچھی ہے اور فلاںچیز بُری.یہ بات عادت سے تعلق رکھتی ہے جیسی کسی کو عادت ہو گی ویسے ہی اُس کا اس چیز کے متعلق احساس ہو گا مگر بہر حال کوئی انسان دنیا میں ایسا نہیں ہو سکتا جو ہر چیز کو اچھا کہتا ہو یا ہر چیز کو بُرا سمجھتا ہو.ہر انسان یہی کہے گا کہ بُرا کام نہیںکرنا چاہیے اور ہرانسان یہی کہے گا کہ اچھا کام ضرورکرنا چاہیے.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ بُرے کام کو

Page 53

اچھا سمجھتا ہو یا اچھے کام کو بُرا سمجھتا ہو مگر یہ احساس اس کے اندر ضرور پایا جاتا ہے کہ دنیا میں کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیں بُری ہیں.مجھے اچھی چیزیں اختیار کرنی چاہئیں اور بُری چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے.اَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا میں ہستی باری تعالیٰ کے لئے ایک زبردست دلیل یہی معنے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا کے ہیں کہ ہرانسان یہ کہتا ہے کہ کچھ بُری چیزیں ہیں اور ہر انسان یہ کہتا ہے کہ کچھ اچھی چیزیں ہیں جس کے معنے یہ ہیں کہ ہر انسان میں بُری اور اچھی چیزوں کے امتیاز کا مادہ رکھا گیا ہے اور جب یہ بات ہے تو دلیل مکمل ہو جاتی ہے یعنی جب ہر انسان کے اندر یہ مادہ پایا جاتاہے کہ وہ کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو بُرا کہتا ہے تو ضروری ہے کہ کوئی ایسی ہستی بھی ہو جو اسے بتائے کہ کون کون سی چیزیں اچھی ہیں اور کون کون سی چیزیں بُری ہیں.یہ دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کے ثبوت میں لوگوںکے سامنے پیش کی ہے اور یہ وہ دلیل ہے جس کا کوئی رد کسی بڑے سے بڑے دہریہ کے پاس بھی نہیں ہے.مگر میں نے دیکھا ہے لوگ بالعموم اس دلیل کو پورے طور پر سمجھتے نہیں اور وہ ایسے رنگ میں اسے مخالف کے سامنے پیش کر دیتے ہیں جو اپنے اندر کمزوری رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس دلیل کا اپنی کتب میںبعض جگہ ذکر فرمایا ہے مگر لوگ پھر بھی جب نفسِ لوّامہ کی شہادت پیش کریں گے اس رنگ میں پیش کریں گے کہ ہر شخص جھوٹ کو بُرا سمجھتا ہے یا ہر شخص قتل اور چوری کو بُرا سمجھتا ہے.یہ صحیح ہے کہ جہاں تک سب کانشس مائینڈ کا سوال ہے اس کے لحا ظ سے یہ سب باتیں بُری ہیں اور ہر انسان سب کانشس مائینڈ میں ان کو بُرا سمجھتاہے مگر کانشس مائینڈ میں وہ ان کو بُرا نہیں سمجھتا اور نہ وہ بحث کے وقت ان چیزوںکی بُرائی کا قائل ہو سکتا ہے اور اگر قائل بھی ہو تو لمبی بحث کے بعد ہوتا ہے جس میں سب کانشس مائینڈ سے ان چیزوں کی بُرائی اس کے کانشس مائینڈ میں لانی پڑتی ہے مگر ایسا ہر شخص نہیں کر سکتا یہ ماہرفن کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ سب کانشس مائینڈ سے کانشس مائینڈ میں کسی چیز کو منتقل کردے.حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کے لئے آیا.میںنے اسے نصیحت کی کہ تم نے کیا لغو پیشہ اختیار کیا ہوا ہے تمہیں چاہیے کہ محنت کرو اور کمائو.یہ کیسی بُری بات ہے کہ تم چوری جیسا ذلیل کام کرتے ہو اور تمہیں ذرا بھی شرم محسوس نہیں ہوتی.تم مضبو ط اور ہٹے کٹے ہو محنت کر واور کمائو چوری کیوںکرتے ہو؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب ہمارے جیسی محنت بھی دنیا میں کوئی شخص کرتا ہے؟ لوگ تو دن کو محنت کرتے ہیں لیکن ہم وہ ہیں جو رات کو محنت کرتے ہیں.سخت سردی کے دن ہوتے ہیں، جسم ٹھٹھررہے ہوتے ہیں، تاریکی سے قدم قدم پر ٹھوکریں لگتی ہیں، جان کا خوف ہوتا ہے مگر پھر بھی ہم ان تمام باتوں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے

Page 54

اپنے کام کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں.اب بتائیے ہم سے بڑ ھ کر بھی دنیا میں کوئی محنت کرتا ہے؟آپ فرماتے تھے جب اس نے یہ جواب دیا تو میں نے سمجھ لیا کہ اس شخص کی فطرت بالکل مسخ ہو چکی ہے اب اس کو چوری کی برائی کا قائل کرنے کے لئے کسی اور طریق سے کام لینا چاہیے.چنانچہ میں نے اس سے گفتگو کا رخ بدل لیا اور بعض اور امور کے متعلق باتیں کرتا رہا.جب کچھ دیر گذر گئی تو میں نے اس سے کہا اچھا یہ بتائو کہ تم چوری کرتے کس طرح ہو اور کتنے آدمی اس میںشریک ہوتے ہیں؟ کہنے لگا حکیم صاحب بات یہ ہے کہ چوری کے لئے کئی آدمیوں کی ضرورت ہوتی ہے سب سے پہلے تو ہم گھر کے کسی آدمی کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں جو ہمیں بتاتا ہے کہ کتنے کمرے ہیں، ان کمروںکاکیا نقشہ ہے اور کس کس رخ میں وہ واقعہ ہوئے ہیں تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں.پھر ہمیں وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کس کس جگہ مال پڑا ہوا ہے، کون سے ٹرنک میں زیورات ہیں، اس ٹرنک کا رنگ کیسا ہے اور وہ کس کونے میں رکھا ہوا ہے یااگر روپیہ کہیں دبا کر رکھا ہوا ہے تو کس جگہ دبایا ہوا ہے.یہ سب باتیں ہم اس سے دریافت کر لیتے ہیں.اس کے بعد ہم ایک ایسے شخص کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں جو سیندھ لگانے میں ماہر ہوتا ہے تا کہ وہ اس طرح سیندھ لگائے کہ کسی کو پتہ تک نہ لگے اور باوجود دیوار توڑنے کے کوئی آواز پیدا نہ ہو.وہ سیندھ لگا کر الگ ہو جاتا ہے کیونکہ سیندھ لگانے کا اس کی طبیعت پراتنا اثر ہوتا ہے کہ وہ مزید کوئی کام کرنے کے ناقابل ہوتا ہے.اس کے بعد تیسراشخص آگے آتا ہے جسے گھر کا نقشہ یاد کرایا ہوا ہوتا ہے وہ اندر داخل ہوتاہے اور جہاںجہاں اسباب ہوتا ہے وہاں سے اٹھا کر باہر پہنچا دیتا ہے اس وقت دیوار کے پاس ہی ہمارا ایک آدمی تیار کھڑا ہوتا ہے جوں جوں وہ اسباب پہنچاتاجاتا ہے ہمارا آدمی اس کو سمیٹتا چلا جاتا ہے اور ایک آدمی ایسا ہوتا ہے جو دور ایک کونے میں کھڑا رہتا ہے تا کہ اگر کوئی آدمی گذر رہا ہو تو وہ اطلاع دے سکے.جب اس طرح چوری کے کام سے ہمیں فراغت ہو جاتی ہے تو گھر پہنچ کر ہم تما م زیورات ایک سُنار کو دے دیتے ہیں جوان کو گلا کر سونے کی ڈلیاں بنا دیتا ہے کیونکہ زیورات اپنی اصل شکل میں ہم فروخت نہیں کر سکتے اگر کریںتو یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں پکڑے نہ جائیں.اس لئے ہم نے سُنار رکھا ہوا ہوتا ہے تا کہ جونہی کوئی زیور آئے فوراً اس کو گلا دیا جائے.حضرت خلیفہ اوّلؓ فرماتے تھے جب اس نے یہ داستان بیان کی تو میںنے کہا تمہاری اتنی محنت اور عرقریزی کے بعد اگر وہ سُنار اُس سونے کو کھا جائے تو پھر؟ اس پر وہ بےاختیار ہو کر بولا اگر وہ چوری کرے تو ہم اس بے ایمان اور خبیث کا سر نہ اڑا دیں.ہم تو کبھی اس کو زندہ نہ رہنے دیں.میں نے کہا ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ چوری کوئی عیب کی بات نہیںاور ابھی کہہ رہے ہو کہ وہ خبیث چوری کرے تو اس کا سر اڑا دیں.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ خود تمہاری فطرت چوری کو ناپسند کرتی ہے اور وہ اسے خباثت اور بےایمانی

Page 55

کاکام قرار دیتی ہے.ورنہ وجہ کیا ہے کہ جو کام تم خود کرتے ہو اسی کام کی وجہ سے تمہیں سُنار پر غصہ آجائے اس پر وہ شرمندہ ہو گیا تو فطرت جو مسخ ہو چکی ہو وہ بعض دفعہ ابھر بھی آتی ہے مگر اس طرح فطرت کو ابھارنا ہر شخص کا کام نہیں ہوتا یہ ماہر فن ہی کام کر سکتا ہے اور پھر بعض جگہ باوجود کوشش کے بھی مسخ شدہ فطرت نہیںابھرتی جیسے وہ لوگ جو گوشت کھانے کے مخالف ہیں اور وہ اسے ’’جیو ہتیا‘‘ قرار دیتے ہیں.ان سے جب گفتگو ہو تو ہم کہتے ہیں کہ جب تمہارے زخموں میں کیڑے پڑ جاتے ہیں تو تم دوائوں سے ان کیڑوں کومارتے ہو یا نہیں؟ اگر تم مارتے ہو اور تمہارے دماغ میں اس وقت جیو ہتیا کا خیال نہیں آتا بلکہ تم سمجھتے ہو کہ ادنیٰ چیز کو اعلیٰ کے لئے قربان ہی ہونا چاہیے تو تمہیں گوشت خوری پر کیا اعتراض پیدا ہوتاہے.اس رنگ میںجب ان کو سمجھایا جائے تو بعض دفعہ تو وہ سمجھ جاتے ہیں مگر بعض دفعہ نہیں بھی سمجھتے.بہر حال اصل دلیل جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ انسانی کانشنس میں نیکی اور بدی کا احساس پایا جاتا ہے یعنی ہر شخص میں خواہ وہ کسی مذہب و ملت کا پیرو ہو یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کچھ چیزیں اچھی ہیں اور کچھ چیزیںبُری ہیں.یہ نہیں کہ فلاںچیز اچھی ہے اور فلاں چیز بُری.یہ علم الاخلاق ہے.کانشنس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک مادہ پایا جاتا ہے جو بتاتا ہے کہ کوئی چیز اچھی ہے اور کوئی چیز بُری ہے.تم ساری دنیا میں سے کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیںدکھا سکتے جو یہ کہتا ہو کہ ہر چیز اچھی ہے یا ہر چیز بُری ہے.وہ کسی کو اچھا سمجھتا ہوگا اور کسی کو بُرا سمجھتا ہوگا.مثلاً چور چوری کو اچھا سمجھے گا مگر قتل کو بُرا سمجھے گا.یا قاتل قتل کو اچھا سمجھے گا مگر وعدہ کی خلاف ورزی کر بُرا سمجھے گا.یا ظالم ظلم کو اچھا سمجھے گا مگر جھوٹ پر اُسے غصہ آجائے گا.یا جھوٹا جھوٹ کو اچھا سمجھے گا مگر قتل پر اُسے غصہ آجائے گا.غرض اخلاق اور مذہب سے تعلق رکھنے والے جس قدر افراد دنیا میںپائے جاتے ہیں ہندو کیا اور عیسائی کیااور مسلمان کیا اور سکھ اور یہودی کیا اور چوڑھے کیا اور عالم کیا اور جاہل کیا ہر انسان میںیہ مادہ پایا جاتا ہے کہ کچھ کام مجھے کرنے چاہئیںاور کچھ کام نہیں کرنے چاہئیں.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا میں فجور کے بطور مصدر استعمال کرنے کی وجہ اللہ تعالیٰ اسی مادہ کے لحاظ سے جو ہر انسان میںپایا جاتا ہے.فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.ہم نے اس کو الہام کیا ہے اس کے فجور اوراس کے تقویٰ کے متعلق.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں مصدر استعمال کیا ہے یہ نہیں کہا کہ ہم نے اسے فجو ر والی باتوںکا الہام کیا ہے یا تقویٰ اور پاکیزگی کی تفصیلات اس پر الہام کے ذریعہ روشن کی ہیں.اللہ تعالیٰ نے صرف یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اسے فجور اور تقویٰ کا الہام کیاہے یعنی ہر انسان میںفجور اور تقویٰ کی حس پائی جاتی ہے اور ہر انسان میں

Page 56

طرف قولِ فصل نہ بھیجا ورنہ وہ قومیں تباہ ہو جاتیں کیونکہ ان میں اتنی قابلیت ہی نہ تھی کہ وہ اونچ نیچ کو سمجھ کر اس وسیع تعلیم پر عمل کر سکتیں.یہ تعلیم ان کی طاقتوں کو ابھارنے والی نہیں بلکہ ان کو توڑنے والی ثابت ہوتی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے ذہنی ارتقاء کو مدنظر رکھ کر صرف وقتی کامل تعلیم اتاری نہ کہ کُلّی کامل تعلیم.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی مختلف چیزوں میں بھی خدا تعالیٰ نے کئی قسم کی حدبندیاں مقرر کی ہوئی ہیں.مثلًا شیر کو اللہ تعالیٰ نے گوشت کھانے والا بنایا ہے.وہ گھاس نہیں کھا سکتا.لیکن گائے کو اللہ تعالیٰ نے گھاس کھانے والی بنایا ہے وہ گوشت نہیں کھا سکتی.عقلمندی کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان دوسرے سے وہی کام لے جس کی اس میں قابلیت پائی جاتی ہو کیسا احمق اور نادان وہ انسان ہو گا جو گائے کو گھاس اور شیر کو گوشت کھاتے دیکھے تو کہے یہ تو بڑا ظلم ہے کہ ایک کو گوشت کھلایا جائے اور دوسرے کو گھاس.یا تو دونوں کو گوشت کھلانا چاہیے یا دونوں کو گھاس.اگر چڑیا گھر میں کوئی شخص جائے اور وہ شیر کے سامنے گوشت اور گائے کے سامنے گھاس کو پڑا دیکھ کر کہنا شروع کر دے کہ یہ تو بڑا ظلم ہے تو کیا کوئی بھی معقول انسان اس کی تائید کرے گا.ہر شخص کہے گا کہ اس میں نہ شیر کی رعایت ہے نہ گائے پر ظلم ہے.گائے کے اندر گھاس کھانے کی ہی قابلیت ہے اور شیر کے اندر گوشت کھانے کی ہی قابلیت ہے.اسی طرح روحانی تعلیم ہمیشہ انسانی قابلیتوں کے مطابق اترتی رہی ہے.یہ کہنا کہ قولِ فصل پہلے ہی کیوں نازل نہ کر دیا گیا ایسی ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ بچے کو پہلے دن ہی روٹی کیوں نہیں دی جاتی دودھ کیوں پلایا جاتا ہے.ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص بچے کو روٹی دے گا تو وہ بڑھے گا نہیں بلکہ مر جائے گا بچے کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس کو دودھ پلایا جائے.یا مثلاً ہڈیاں ہیں شیر کے سامنے رکھو تو وہ ان کو چبا جائے گا لیکن انسان کو دو تو اوّل تو وہ کھا ہی نہیں سکے گا اور اگر کوئی بڑی ہڈی کسی طرح نگل جائے گا تو اس کی انتڑیوں میں زخم پڑ جائیں گے اور آخر مرجائے گا.پھر کئی جانور ہیں جو پتھر کھا جاتے ہیں.بڑے چڑیا گھروں میں ایسے جانور موجود ہیں.ان کے سامنے پتھر رکھو تو وہ فوراً ان کو کھا جاتے ہیں.اب اگر اس نظارہ کو دیکھ کر کوئی شخص انسان کے سامنے پتھر رکھ دے اور کہے کہ تو اشرف المخلوق ہے پتھر کھا کر دکھا تو وہ احمق ہی ہو گا.کیونکہ اگر انسان پتھر کھائے گا تو مر جائے گا یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے قَدَّرَ فَهَدٰى میں بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ تم اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھو کہ تعلیم ہمیشہ ماحول کے مطابق اترے گی.اگر ماحول کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعلیم نازل نہ ہو تو خواہ وہ کتنی ہی اعلیٰ ہو انسان کو ہلاک کرنے والی ہو گی اسے ترقی کی منازل کی طرف لے جانے والی نہیں ہو گی.پس قولِ فصل کو اس وقت نازل کرنا پہلوں پر ظلم نہیں.پہلوں کے لئے جو تعلیم مناسب تھی وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کر دی گئی.جب انسان ارتقائی منازل

Page 57

گئی (اقرب) اور جب زَکَّاہُ اللہُ کہیں تو معنے ہوتے ہیں اَنْـمَاہُ.اللہ نے اس کو بڑھایا اور اونچا کیا (تاج العروس)نیز زَکّٰی کے معنے ہیں طَھَّرَہٗ.اس کو پاک کیا.(اقرب) تفسیر.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا کے دو معنے فرماتا ہے اس الہام کے بعد جو شخص اس کی پیروی کر کے اپنے نفس کو ٹھیک راہ پر چلاتاہے وہ بامراد ہو جاتا ہے یعنی الہام فطرت جو مجمل الہام ہوتا ہے اس کی پیروی اور اطاعت کا یہاں ذکر کیا گیا ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ نبی کاالہام تفصیلی ہوتا ہے لیکن فطرت کا الہام مجمل ہوتا ہے.یہاں تفصیلی الہام کا ذکر نہیں بلکہ مجمل الہام کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فجور اور تقویٰ کا وہ مجمل علم جو انسان کو ملا تھا اور جس کے مطابق وہ سمجھتا تھا کہ دنیا میںکچھ بُری چیزیںہیںاور کچھ اچھی چیزیںہیں، مجھے بُری چیزوں سے بچنا چاہیے اور اچھی چیزوں کو اختیار کرنا چاہیے.جو شخص اس مجمل علم کو صحیح طور پر استعمال کرتا ہے اور فطرت کی اس راہنمائی کے ماتحت اپنے نفس کو اونچا کرتا ہے وہ فلاح پا لیتا ہے یعنی اپنے خدا سے واصل ہو کر صاحب الہام ہو جاتا ہے.ان معنوں کے لحا ظ سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحیٔ حقیقی کے پانے کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میںوحیٔ مجمل کے نازل ہونے کا بیان ہے جو ہر فطرت ِانسانی پر نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف بنی نوع انسان کو توجہ دلاتا ہے کہ جو شخص اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے میرے اندر اعتدال پید ا کیا ہے غور و فکر سے کام لیتے ہوئے اعتدال کی راہوں پر چلتا ہے اور فجورکی وہ حِس جو اللہ تعالیٰ نے اس کی فطرت میںرکھی ہے اس سے کام لے کر وہ بُری باتوں سے بچتا ہے او ر تقویٰ کی حِس جو اس کے اندر پیدا کی گئی ہے اس سے کام لے کر وہ اچھی باتوں کو اختیار کرتا ہے اور اپنے نفس کو اس پیہم جدو جہد اور کوشش کے نتیجہ میںاونچا کر دیتا اور اخلاقی زندگی بسر کرتا ہے ایک دن آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا الہام اس پر نازل ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کا قرب اس کو حاصل ہو جاتاہے.زَکّٰی کے معنے اونچاکرنے کے بھی ہوتے ہیں اور زَکّٰی کے معنے پاک کرنے کے بھی ہوتے ہیںاس جگہ نفس کو اونچا کرنے کے معنے چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ ایسا شخص فجور اور تقویٰ کی حِس سے کام لے کر فطرت کے مقام سے بلند ہو کر اخلاقی زندگی میںداخل ہو جاتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود صاحب ِ الہام ہو جاتا ہے.دوسرے معنے نفسِ کامل کے لحاظ سے اس آیت کے یہ ہیںکہ جب ہم نفسِ کامل کو تفاصیلِ فجو ر اور تفاصیلِ تقویٰ بتاتے ہیںاور دنیا کو ان تفاصیل کا علم ہو جاتا ہے تو قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وہ انسان جو ان باتوںسے فائدہ اٹھاتا اور نفسِ کامل کی تعلیم پر چل کر تزکیہ نفس کرتاہے اسے فلاح حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے مقربین میںشامل ہو جاتاہے گویا نبی کی اطاعت اور اس کے احکام کی پیروی کر کے وہ وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا کا قائم مقام ہو جاتا ہے اور اس تفصیلی الہام کا تابع بنتے ہوئے اپنے اپنے درجہ کے لحاظ سے نبی کا قمر بن جاتا ہے.درحقیقت ہر مومن اپنے اپنے درجہ

Page 58

کے مطابق نبی کا قمر ہوتاہے اور اپنے اپنے رنگ میں کامل تعلیم پر چلنے کے نتیجہ میںفلاح حاصل کر لیتا ہے گویا پہلے معنوں کے رو سے قَدْ اَفْلَحَ میں وحیٔ جلی کا ذکر ہے اور اَلْھَمَھَا میں وحیٔ خفی کا.اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے پہلی آیت میںوحیٔ جلی کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں وحیٔ تابع کا ذکر ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا میں اس وحیٔ جلی کا ذکر ہے جو نبی پر نازل ہوتی ہے اور قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا میں وحیٔ تابع کا ذکر ہے گویا وہ نور جو پہلے باہر سے آیا تھا نبی کی تعلیم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کے اندر بھی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ۰۰۱۱ اور جس نے اسے (مٹی میں ) گاڑ دیا (سمجھو کہ ) وہ نامراد ہو گیا.حلّ لُغات.خَابَ خَابَ : اَفْلَحَ کے مقابل کا لفظ ہے اور اس کے معنے ہوتے ہیں ناکام ہوا.نامراد ہوا.(اقرب) دَسّٰی : دَسٰی سے مزید ہے اور دَسٰی یَدْسُوْا (دَسْوًا وَ دَسٰی یَدْسَی دَسْیًا) کے معنے ہیں.نَقِیْضُ نَـمٰی وَزَکٰی یعنی یہ نَـمٰی اور زَکٰی کے مقابل کے الفاظ ہیں اور اس میں ان کے الٹ معنے پائے جاتے ہیں یعنی وہ نہ بڑھا.اور اس میںبرکت نہ ہوئی اور دَسّٰی کے معنے ہیں اَغْوَاہُ وَ اَفْسَدَہُ.اس کو گمراہ کیا اور خراب کیا (اقرب) بعض نے دَسّٰھَا کا اصل دَسَّسَھَا قرار دیا ہے اس لحاظ سے اس کا اصل دَسَّ ہوگا.دَسَّ الشَّیْءَ (دَسًّا) تَـحْتَ التُّرَابِ کے معنے ہوتے ہیں اَدْخَلَہٗ فِیْہِ وَدَفَنَہٗ تَـحْتَہٗ وَ اَخْفَاہُ کسی چیز کو زمین میں دبا دیا یا زمین کے نیچے دفن کر دیا اور دَسَّسَ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں.مگر دَسَّسَ دَسَّ سے زیادہ قوی ہوتا ہے اور مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے(اقرب) پس جب یہ لفظ کسی کے متعلق استعمال کیا جائے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ وہ اپنی طاقتوں کو ابھارتا اس نے ان کو مٹا دیا.اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ا س نے ان کو مٹی میں ملا دیا.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ جس نے اس وحی کو نہ مانا وہ ناکام ہوا کیونکہ وحیٔ الٰہی فطرت کی طاقتوں کو ابھار نے کے لئے آتی ہے جس نے اِسے رد کر دیا اُس نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اپنے آپ کو ہلاک کر لیا.اسلام کی ایک خوبی حقیقت یہ ہے کہ صحیح تعلیم ہمیشہ فطرت کے مطابق ہوتی ہے.جو تعلیم فطرت کے جذبات کو کچلنے والی ہو وہ سچی نہیںہو سکتی کیونکہ وحی اس لئے ناز ل ہوتی ہے کہ نفس کو اونچا کیاجائے اس لئے نازل نہیںہوتی کہ

Page 59

اسے مارا جائے اور اس کی طاقتوں کو کچل کر رکھ دیا جائے.اسی حکمت کے ماتحت قرآن کریم نے رہبانیت سے منع کیا ہے اور اسی حکمت کے ماتحت اس نے طیّب چیزوں کو اپنے نفس پر حرام قرار دے دینا جائز نہیں رکھا.دوسرے مذاہب فطر ت کی بعض طاقتوں کو کچلتے ہیںاور کہتے ہیں کہ یہ نیکی ہے مگر اسلام اسے نیکی قرار نہیں دیتا.اسلام یہ کہتا ہے اللہ تعالیٰ نے تمہارے اندر جو قوتیں پیدا کی ہیں صرف ان کا تسویہ ہونا چاہیے اور ان کے استعمال میں اعتدال کو ملحوظ رکھنا چاہیے.وہ یہ نہیں کہتا کہ تم فطرت کو مار دو بلکہ وہ کہتا ہے تم فطرت سے اونچا مقام حاصل کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فطرت کا علم ایک مجمل علم ہوتا ہے اور مجمل علم سے نجات نہیںہو سکتی محض کسی کا یہ کہہ دینا کہ فلاںشخص لاہور میں رہتا ہے ہمیںکچھ فائدہ نہیںپہنچا سکتا جب تک ہمیںیہ بھی معلوم نہ ہو کہ وہ لاہور کے فلاں محلہ اور فلاں گلی میں رہتا ہے یا فلاںموڑپرا س کا مکان ہے تاکہ ہمیں اس کی تلاش میں کوئی دقت نہ ہو اور آسانی سے ہم اس کے مکان پر پہنچ سکیں.فطری استعدادوںکو ابھارنے کی تلقین پسقَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا کے یہ معنے ہوئے کہ اگر تم اپنی فطری طاقتوں کو ابھارتے ہو تو الٰہی مدد کو حاصل کر لیتے ہولیکن اگر تم ان طاقتوں کو دباتے ہو اور اس چیز کو ضائع کر دیتے ہو جو تمہیںہتھیار کے طور پر دی گئی تھی تو تم کبھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص سفر پر جانے لگے تو ہم اسے ہتھیار کے طور پر سونٹا بھی دے دیتے ہیں اور تلوار بھی دے دیتے ہیں.سونٹا ہم اس لئے دیتے ہیںکہ بعض جگہ تلوار کام نہیںآسکتی اور تلوار ہم اس لئے دیتے ہیں کہ بعض جگہ سونٹاکام نہیں آسکتا.اگر راستہ میںکوئی سانپ آجائے تو اس وقت تلوار کام نہیںدے سکتی بلکہ سونٹا کام دے گا لیکن اگر کسی دشمن سے مقابلہ ہو جائے تو اس وقت سونٹا اتنا کام نہیں دے سکتا جتنا کام تلوار دے سکتی ہے یا مثلاً کسی جگہ کثرت سے کانٹے ہوں اور رستہ صاف کرنے کی ضرورت ہو تو وہاں سونٹا توکام دے سکتا ہے مگر تلوار کام نہیںدے سکے گی.گویا سونٹا اور تلواردونوں اس کے لئے ضروری ہوں گے کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا اور کوئی ہتھیار کسی وقت کام آجائے گا.اگر وہ ان دونوںمیںسے کسی ایک ہتھیار کو بھی لغو سمجھ کر پھینک دے گا تو یہ یقینی بات ہے کہ جب اسے ضرورت پیش آئے گی وہ سخت تکلیف اُٹھائے گا اور اسے اعتراف کرنا پڑے گا کہ میںنے اپنے ہتھیار کو پھینکنے میں سخت غلطی کی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے جس قدر قوتیں پیدا کی ہیں سب انسان کی ترقی اور اس کے فائدہ کے لئے پیدا کی ہیںاور یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے مختلف مقامات پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اگر ہم ان میںسے کسی ایک ہتھیار کو بھی پھینک دیتے اور اپنی کسی قوت کو لغو قرار دے کر کچل دیتے ہیں تو ہم اپنی کامیابی کی منزل کو اپنے ہاتھ سے دور کرنے والے بن جاتے ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ نے انسان میں عفو کی بھی قوت پیدا کی ہے اور انتقام کی قوت بھی پیدا کی

Page 60

ہے اور یہ دونوں قوتیں ایسی ہیں جن کا بر محل استعمال دنیا کی ترقی میں بہت ممد ہوتا ہے.کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں عفو سے کام لینا ضروری ہوتا ہے اور کئی مقامات ایسے ہوتے ہیں جہاں انتقام سے کام لینا ضروری ہوتا ہے.نہ ہر جگہ عفو قابل تعریف ہوتا ہے نہ ہر جگہ انتقام قابل تعریف ہوتا ہے بہر حال یہ دونوں قوتیں اپنی اپنی جگہ نہایت ضروری ہیں لیکن اگر ہم عفو کی قوت کو کچل دیتے ہیں یا انتقام کی قوت کو لغوقرار دے کر اس سے کام نہیںلیتے تو ہم اپنی ناکامی کے سامان آپ مہیا کرتے ہیں.کامیابی اسی وقت ہو سکتی ہے جب فطرت کو کچلا نہ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ پیدا کئے ہیں ان کا جائز اور برمحل استعمال کیا جائے.جو شخص اپنی فطرت کو کچل کر یہ خیال کرتا ہے کہ وہ بڑا با اخلاق ہے یا اپنی فطری استعدادوں کو مٹا کر یہ سمجھتا ہے کہ اس نے نیکی کا کوئی بہت بڑا مقام حاصل کر لیا ہے وہ انتہا درجہ کی غلطی کا ارتکاب کر تا ہے.نیکی اس بات کا نام نہیں کہ فطرت کو کچل دیا جائے یا اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ طاقتوں کو ضائع کر دیا جائے بلکہ نیکی یہ ہے کہ فطرت کو بیدار کیا جائے اور ان قوتوں سے صحیح رنگ میں کام لیا جائے.اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص فطرت کو کچل دیتا اور اس کی قوتوں کو ضائع کر دیتا ہے وہ کبھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.دوسرے معنوں کے رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ جس شخص نے اپنی روح کو فطرتی نور سے ہدایت لے کر ابھارا وہ با مراد ہوا یعنی نورِ الہام کو پا لیا مگر جس نے ایسا نہ کیا وہ نامراد رہا یعنی نہ خود اسے نور براہ راست مل سکے گا اور نہ دوسرے کے طفیل مل سکے گا کیونکہ فطرت تو ایک آئینہ تھی اور فطرت نے ہی شمس سے ری فلیکٹر کے طور پر نور لینا تھا.جس نے اس فطرت کو زمین میںدبا دیا اسے روشنی کہاں سے آسکتی ہے وہ تو ظلمت میں ہی گرفتار رہے گا اور ظلمت میںہی اس جہان سے گذر جائے گا.كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ بِطَغْوٰىهَا۪ۤۙ۰۰۱۲ ثمود نے اپنی حد سے بڑھی ہوئی سر کشی کی وجہ سے (زمانے کے نبی کو) جھٹلایا.حلّ لُغات.طَغْوٰی طَغْوٰی: طَغٰی سے ہے اور یہ واوی بھی ہے اور یائی بھی.یعنی طَغٰی یَطْغُوْ طُغْوًا بھی استعمال ہوتا ہے اور طَغٰی یَطْغَی طَغًا وَ طُغْیَانًا بھی استعمال ہوتا ہے.واوی اور یائی دونوں میںمعنوں کے لحاظ سے اختلاف ہے لیکن ایک معنے طَغٰی کے ایسے ہیں جو واوی اور یائی دونوں میں مشترک ہیںاور وہ معنے ہیں جَاوَزَالْقَدْرَوَالْـحَدَّ.فلاں شخص حد سے نکل گیا.لیکن طَغٰی یَطْغٰی جو یائی ہے اس کے بعض اور معنے بھی ہوتے ہیں

Page 61

چنانچہ جب کہیں طَغَی الْکَافِرُ تو اس کے معنے ہوتے ہیں غَلَا فِی الْکُفْرِ کہ کافر شخص کفر میںحد سے بڑھ گیا.اور طَغٰی فُلَانٌ کے معنے ہوتے ہیں اَسْـرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ.وہ ظلم اور معاصی میںحد سے بڑھ گیا.اور طَغَی الْمَآءُ کے معنے ہوتے ہیں اِرْتَفَعَ پانی بلند ہو گیا.(اقرب) بعض نے کہا ہے کہ طَغْوٰی کے معنے گناہوں میں حد سے بڑھ جانے کے ہیںلیکن در اصل یہ معنے یائی کے ہیں واوی کے نہیں اور یہاں چونکہ طَغْوٰی ہے جو واوی ہے اس لئے اس کے معنے تَـجَاوُزٌ عَنِ الْقَدْرِ وَالْـحَدِّ کے ہی ہیں.یعنی اپنے اندازہ اور حد سے آگے نکل جانا.تفسیر.استعدادی طاقتوں کے کچلنے کا نتیجہ اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے کفار کے سامنے مثال پیش کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ دیکھو ثمود کے پاس نُور آیا پھر جیسا کہ تم خود مانتے ہو کیونکہ وہ عرب کے نبی تھے تمہارے آباء نے اس کو ردّ کر دیا اور بوجہ اندازہ و حدود سے آگے نکل جانے کے ردّ کیا یعنی وہ سَوّٰھَا کے مصداق نہ رہے اور اعتدال کو ترک کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معتدل تعلیم اُن کی برداشت سے باہرثابت ہوئی.یہاں اللہ تعالیٰ نے دَسَّ کا طریق بتایا ہے کہ وہ دو ہی طرح ہو سکتا ہے یا تو جتنی قوت انسان کے اندر موجود ہوتی ہے وہ اس سے آگے نکل جاتا ہے اور یا پھر جتنی قوت موجود ہوتی ہے اس سے پیچھے رہ جاتا ہے.حد سے نکل جانا دونوں طرح ہی ہوتا ہے اس طرح بھی کہ انسان اگلی طرف کو چلا جائے اور اس طرح بھی کہ پچھلی طرف کو آجائے.ا یسے کاموں سے فطرت کا نور مارا جاتا اور اس کی قوتیں کچلی جاتی ہیں.فرماتا ہے ثمود کی بھی یہی کیفیت تھی وہ لوگ اپنے کاموں میں حد سے آگے نکل گئے تھے خدا تعالیٰ نے ایک وسطی تعلیم ان کے لئے نازل کی تھی مگر وہ اس درمیانی خط پر کھڑے ہونے کی بجائے کبھی ادھر چلے جاتے اور کبھی ادھر چلے جاتے.درمیانی راستہ جو پل صراط ہوتا ہے اور جس پر ہر مومن کو اس دنیا میں چلنا پڑتا ہے اُس راستہ پر وہ نہیں چلتے تھے بلکہ یا دائیںطرف کو نکل جاتے تھے یا بائیںطرف کو نکل جاتے، اعتدال کو انہوں نے ترک کر دیا تھا.اِذِ انْۢبَعَثَ اَشْقٰىهَا۪ۙ۰۰۱۳ جبکہ ان (کی قوم) میں سے سب سے بڑابد بخت (اس کی مخالفت کے لئے) کھڑا ہوا.تفسیر.مسلمانوں کی منظم مخالفت کی پیشگوئی اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جس کی طرف سورۃ الغاشیہ کی آیت عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ میںاشارہ کیا گیا تھاکہ کفار ایک منظّم مخالفت شروع کرنے والے ہیں

Page 62

اب اس سورۃ میں اسی قسم کے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کر کے بتایا ہے کہ جس طرح ثمود نے باقاعدہ لیڈر مقررکر کے مخالفت کی تھی اسی طرح کفار کرنے والے ہیںچنانچہ اس اَشْقَی النَّاس نے جس طرح حضرت ثمودؑ کو تبلیغ سے روکا تم بھی تھوڑے دنوں تک ایسے ہی منصوبے کرو گے اور اسلام کو اپنی مجموعی قوت سے مٹانے کی کوشش کرو گے مگر یاد رکھو جس طرح انہیںناکامی ہوئی اور وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بن گئے اسی طرح تم بھی اس مقابلہ میںکبھی کامیاب نہیںہو سکتے.فَقَالَ لَهُمْ رَسُوْلُ اللّٰهِ نَاقَةَ اللّٰهِ وَ سُقْيٰهَاؕ۰۰۱۴ تب ان (یعنی ثمود کے آدمیوں) کو اللہ کے رسول نے کہا کہ اللہ ( کے دین ) کی (خدمت کے لئے وقف) اونٹنی کو (آزاد پھرنے سے ) اور اسے (گھاٹوں پر ) پانی پلانے سے مت روکو.تفسیر.یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس کی حکمت کونہیں سمجھا اور انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ وہ ناقہ اپنے اندر کوئی خاص عظمت اور شان رکھتی تھی جس کی کونچیں کاٹنے پر ثمود کی قوم اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بن گئی.اسی لئے بعض مفسرین نے اس ناقہ کے متعلق یہ عجیب بات لکھ دی ہے کہ وہ پہاڑ سے پیدا ہوئی تھی (فتح البیان سورۃالاعراف زیرآیت وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ....) عام اونٹنیوں کی طرح نہیں تھی حالانکہ نبی کی موجودگی میں یہ ہو ہی کس طرح سکتا تھا کہ نبی کو دکھ دینے کی وجہ سے تو قوم پر عذاب نازل نہ ہو اور ناقہ کی کونچیں کاٹنے پر عذاب نازل ہو جائے! اونٹنی کو آزاد پھرنے دینے کے حکم کا اصل مقصد اصل بات یہ ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام عرب میں مبعوث ہوئے تھے اور عرب میں اونٹوں پر سواری کی جاتی تھی.حضرت صالح علیہ السلام بھی اپنی اونٹنی پر سوار ہوتے اور ادھر ادھر تبلیغ کے لئے نکل جاتے.لوگ کھلے طور پر حضرت صالحؑ کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے رشتہ دار موجود تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے صالحؑ کو کوئی تکلیف پہنچائی تو اس کے رشتہ دار ہم سے بدلہ لینے کے لئے کھڑے ہو جائیںگے مگر چونکہ وہ تبلیغ بھی پسند نہیں کرتے تھے اس لئے وہ بعض اور طریق آپ کو دکھ پہنچانے کے لئے اختیار کر لیتے تھے.انہی میں سے ایک طریق یہ تھا کہ جب حضر ت صالح علیہ السلام تبلیغ کے لئے ارد گر د کے علاقوں میں نکل جاتے تو کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم ان کی اونٹنی کو پانی نہیںپلائیں گے، کسی جگہ کے لوگ کہتے کہ ہم کھانے کے لئے کچھ نہیںدیں گے.ان کی غرض یہ تھی کہ جب انہیں اونٹنی کے لئے پانی اور چارہ وغیرہ نہ ملا تو یہ خود بخود

Page 63

اس قسم کے سفروں سے رک جائیںگے اور تبلیغ میں روک پیدا ہو جائے گی.حضرت صالح علیہ السلام نے ان کو سمجھایا کہ تم اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی پینے میں روک نہ بنو کیونکہ اس طرح میری تبلیغ میںرو ک واقعہ ہو جائے گی.یہ مطلب نہیں تھا کہ تم مجھے تو اپنے پاس بے شک نہ آنے دو مگر یہ اونٹنی آئے تو اسے پانی پلا دینا.اُنہیں اونٹنی سے کوئی دشمنی نہیںتھی انہیں اگر دشمنی تھی تو حضرت صالح علیہ السلام سے.اور وہ کہتے تھے کہ وہ اونٹنی پر سوار ہو کر ارد گرد کے علاقوں میں ایک شور پید اکر دیتے ہیں اور انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کی طرف توجہ دلاتے ہیںایسا نہیں ہونا چاہیے.یہ چیز تھی جو ان کی طبائع پر سخت گراں گزرتی تھی او ر آخر اس کا علاج انہوں نے یہ سوچا کہ جب حضرت صالحؑ باہر نکلتے تو ان کی اونٹنی کو وہ کہیں پانی نہ پینے دیتے اس پر حضرت صالح علیہ السلام نے اظہارِ ناراضگی کرتے ہوئے کہا نَاقَۃَ اللّٰہِ وَ سُقْیٰھَا کہ یہ طریق درست نہیں، تم میری اس ناقہ کو آزاد پھرنے دو اور اس کے پانی میں روک نہ بنو یعنی تم مختلف ذرائع سے میری تبلیغ میں روک بن رہے ہو اپنے اس طریق کو چھوڑ و اور مجھے آزاد پھرنے دو تا کہ میں خدا تعالیٰ کا پیغام سب لوگوں تک پہنچاتا رہوں.میں نے بعض دفعہ گھوڑے کی سواری کرتے ہوئے خود تجربہ کیا ہے کہ جب کسی احمدی گائوں کے قریب سے گذروں تو وہاں کے لوگ بعض دفعہ میرے گھوڑے کی باگ پکڑ لیتے ہیں اُن کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ میں تو گھوڑے سے اتر پڑوں اور گھوڑا ان کے حوالے کر دوں تا کہ وہ اسے اپنے گائوں میں لے جائیںبلکہ ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میںخود تھوڑی دیر کے لئے ان کے گائو ں میںچلوں.اسی طرح ثمود کی یہ غرض نہیںتھی کہ وہ ناقہ کو روکیںبلکہ ان کی غرض یہ تھی کہ وہ حضرت صالح علیہ السلام کو تبلیغ سے روکیںاور جب حضرت صالح علیہ السلام نے ان سے کہا کہ میری اس ناقہ کو چھوڑ دو تو ان کا بھی یہ مطلب نہیں تھا کہ میرے ساتھ تو جیسا چاہو سلوک کرو مگر اس ناقہ کو کچھ نہ کہو بلکہ ان کا مطلب یہ تھا کہ تم میری تبلیغ میںروک مت بنو اگر تم اسی طرح میری اونٹنی کو پانی پینے سے روکتے رہے تو میری تبلیغ رک جائے گی اور علاقوں کے علاقے ہدایت پانے سے محروم رہ جائیںگے.فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا١۪ۙ۬ اس پر انہوں نے اس (رسول) کو جھٹلایا.پھر اس (اونٹنی ) کی کونچیںکاٹ دیں.حلّ لُغات.عَقَرُوْا عَقَرُوْا : عَقَرَ سے جمع کا صیغہ ہے اور عَقَرَ الْاِبِلَ کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَ

Page 64

قَوَائِـمَہَا بِالسَّیْفِ یعنی اس نے اونٹوںکی کونچیں کاٹ دیں (اقرب)پس عَقَرُوْھَا کے معنے ہوں گے اس کی کونچیں کاٹ دیں.تفسیر.حضرت صالحؑ کے سمجھانے کے باوجود ثمود نے ان کی بات کی طرف کوئی توجہ نہ کی.انہوں نے اسے جھٹلایا اور ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں یعنی اپنے ارادوں کا انہوں نے علی الاعلان اظہار کر دیا اور کہہ دیا کہ تم خواہ کچھ کہو ہم تمہیںتبلیغ نہیں کرنے دیں گے.فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا۪ۙ۰۰۱۵ جس پر ان کے رب نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاکت نازل کی اور اس (قوم) کو (مار کر زمین کے) برابر کر دیا.حلّ لُغات.دَمْدَمَ دَمْدَمَ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں اَلْزَقَہُ بِالْاَرْضِ اسے زمین کے ساتھ پیوست کر دیا.دَمْدَمَ اللہُ عَلَیْـھِمْ کے معنے ہوتے ہیں اَھْلَکَھُمْ.خدا تعالیٰ نے ان کو ہلا ک کر دیا.اور دَمْدَمَ فُلَانٌ عَلٰی فُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں کَلَّمَہُ مُغْضِبًا.اُس سے غصہ کے ساتھ کلام کیا (اقرب) تفسیر.عذاب کے متعلق فَسَوّٰىهَا کہنے سے انتہائی تباہی کی طرف اشارہ فرماتا ہے چونکہ انہوں نے ہمارے رسول کی بات نہ مانی اس لئے ہم نے ان پر عذاب نازل کیا اور عذاب بھی ایسا سخت کہ فَسَوّٰىهَا خد ا نے انہیںزمین کے ساتھ ملا دیا اور ان کے چھوٹوں اور بڑوں کو اس طرح تباہ کیا کہ ان کا نشان تک دنیا میں نہ رہا.قرآن کریم اپنے کلام میں کیسی بلاغت کی شان رکھتا ہے کہ پہلے فرمایا تھا وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا ہم نے انسان کو معتدل القویٰ بنایا ہے اور خود انسانی نفس اس امر پر شاہد ہے کہ اسے کوئی نور آسمان سے ملنا چاہیے اب فرماتا ہے چونکہ انہوں نے اس تسویہ کی قدر نہ کی اور ہمارے احکام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اس لئے ہم نے ان کا دوسری طرح تسویہ کر دیا کہ ان کا نشان تک دنیا سے مٹا دیا.یہ بلاغت کا کمال ہے کہ جس چیز کا انہوں نے انکار کیا تھا عذاب کے معنوں میںبھی وہی لفظ لے آیا انہوں نے تسویۂ نفس سے انکار کیا تھا اللہ تعالیٰ نے وہی لفظ اس جگہ استعمال کر دیا اور فرمایا کہ چونکہ انہوںنے تسویہ سے انکار کیا تھا ہم نے ان کا اس رنگ میںتسویہ کر دیا کہ ان کا ملک تباہ کر دیا، ان کی عمارتیں گر گئیں، قوم ہلاک ہو گئی اور اتنا بڑا زلزلہ آیا کہ ان کا نشان تک باقی نہ رہا.

Page 65

وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَاؒ۰۰۱۶ اور وہ (اسی طرح ) ان (مکہ والوں ) کے انجام کی بھی پروانہیں کرے گا.حلّ لُغات.عُقْبٰی عُقْبٰی کے معنے ہوتے ہیں جَزَآءُ الْاَمْرِ.کسی کام کی جزا.اور عُقْبٰی کے معنے اٰخِرُ کُلِّ شَیْءٍ کے بھی ہوتے ہیں یعنی چیز کا آخری حصہ.(اقرب) تفسیر.وَ لَا يَخَافُ عُقْبٰهَا میں کفار مکہ کی تباہی کی طرف اشارہ عُقْبٰـھَا میں ھَا کی ضمیر دَمْدَمَ کی طرف جاتی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب دَمْدَمَ نازل کرنے کا وقت آتا ہے اور کوئی قوم کلی ہلاکت کی مستحق ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ یہ نہیں دیکھتا کہ ان کے متعلقین کا کیا حال ہو گا یا یہ کہ اس سزا کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلے گا.بعض دفعہ ساری قوم ہلاک نہیں ہوتی بلکہ اس کا کچھ حصہ بچ رہتا ہے جو دنیا میں انتہا ء طور پر ذلیل ہوجاتا ہے مگر فرماتا ہے جب ہماری طر ف سے کسی قوم کو تباہ کرنے کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو پھر ہم اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ اس قوم کے بقیہ افراد کیا کیا تکالیف اٹھائیں گے.جب قوم کی اکثریت خدا تعالیٰ کے غضب کی مستحق ہو جاتی ہے اور خاموش رہنے والے گو مقابلہ نہیںکرتے مگر نبی کی تائید بھی نہیںکرتے تو وہ بھی اکثریت کے ساتھ ہی تباہ و برباد کر دیئے جاتے ہیں.اس سے یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ ظلم کرتاہے یا اندھا دھند عذاب نازل کر دیتا ہے بلکہ جس قوم کے استیصال کا وہ فیصلہ کرتا ہے انصاف کے ماتحت کرتا ہے اور جب کہ وہ خود اپنے انجام کو نہیں دیکھتی تو اللہ تعالیٰ اس کے انجام کو کیوں دیکھے.اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ کفار مکہ بھی ثمود کی طرح نبی کا مقابلہ کر رہے ہیں.ان کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح ثمود کو تباہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ نے ایک عام عذاب نازل کیا تھا اسی طرح وہ اہل مکہ پر بھی ایک عام عذاب نازل کرے گا.اس میںکوئی شک نہیں کہ ثمود کی قوم بہ حیثیت قوم تباہ ہو گئی تھی مگر مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلبہ کے بعد بھی باقی رہے.لیکن اس میں کوئی اعتراض کی بات نہیں.بعض دفعہ تباہی جسمانی نہیںروحانی ہوتی ہے.ثمود جسمانی طور پر کلی ہلاکت میں مبتلا ہوئے اور مکہ والے مذہبی طور پر.چنانچہ ان کے مذہب اور طور وطریق کا نام و نشان تک باقی نہ رہا.

Page 66

سُوْرَۃُالَّیْلِ مَکِّیَّۃٌ سورۂ لیل.یہ سورۃ مکّی ہے.وَھِیَ اِحْدٰی وَعِشْـرُوْنَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْـہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اور اس کی بسم اللہ کے سوا اکیس ۲۱ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ الّیل مکی ہے یہ سورۃ بقول مفسرین جمہور کے نزدیک مکّی ہے (فتح البیان سورۃ الّیل ابتدائیۃ).یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمہور کا لفظ جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس کے کبھی کبھی تو یہ معنے ہوتے ہیں کہ اکثر کی رائے یہ ہے لیکن کبھی کبھی یہ لفظ صرف حسن کلام کے طور پر استعمال کر لیتے ہیں.درحقیت سب تو الگ رہے اکثر بھی اس مسئلہ سے متفق نہیں ہوتے لیکن مصنف لکھ دیتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک وہ اس طرح ہے اور اصل مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم اور ہمارے ہم خیال یُوں کہتے ہیں.جمہور کے معنے اصطلاحی طورپر عظیم الشان کثرت کے ہیں اور جب یہ لفظ واقعہ میں عظیم الشان کثرت کے معنے رکھتا ہو اور صحیح طور پر انہی معنوں میں استعمال ہو تو بہت بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جب یہ معلوم ہوجائے کہ صحابہ کی بڑی اکثریت یا تابعین یا تبع تابعین کی غالب اکثریت فلاں معنوں پر قائم تھی تو یہ امر واقعہ میں غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے لیکن جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں کبھی کبھی جمہور کے معنے ضرورتاً یہ بھی لے لئے جاتے ہیں کہ مصنف اور اُس کے ہم خیالو ں کا کیا خیال ہے.بعض دفعہ ایک معنوں کی رَو چل جاتی ہے.ایک شخص کسی آیت کے ایک معنے لکھتا ہے پھر اس سے دوسرا نقل کرتا ہے اس کے بعد اس سے تیسرا نقل کرتا ہے پھر چوتھا اور پھر پانچواں نقل کرتاہے.اس صورت میںجمہور کے معنے صرف اتنے ہی ہوتے ہیں کہ پانچ دس کتابوں میںایک ہی معنے لکھے ہوئے نظر آتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ جمہور کا لفظ لکھ کر صحابہ ؓ کی ایک لسٹ دے دی جاتی ہے کہ یہ یہ صحابی ان معنوں کے خلاف ہیں.گویا جمہور سے اُن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ایک شخص کے معنے لے کر چونکہ لوگوں نے اُن کو پے در پے نقل کرنا شروع کر دیا اس لئے ہم کہہ رہے ہیںکہ جمہور کے نزدیک اس آیت کے یہی معنے ہیں یا دوسرے الفاظ میں جمہور سے ان کی مراد نقّالوں کی اکثریت ہوتی ہے نہ اُن لوگوں کی اکثریت جو صحابہؓ ہیں یا تابعین ہیں یا تبع تابعین ہیں.لیکن اس سورۃ کے متعلق جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک مکی ہے یہ

Page 67

اصلی معنوں میں ہے کیونکہ کسی صحابی کا قول مقابل میں نہیںآتا.اگرچہ بعض لوگوں نے اس کو مدنی بھی کہا ہے مگر حضرت عبداللہ بن عباس ؓ اور حضرت عبدا للہ بن زبیر ؓ دونوں اس کو مکی قرار دیتے ہیں (فتح البیان سورۃ البیان ابتدائیۃ) اور چونکہ یہ دو جلیل القدر صحابہؓاس سورۃ کے مکی ہونے کی تائید میںہیں اور اس کے خلاف کسی صحابی کا قول ثابت نہیںاس لئے ہم جمہور کے معنے یہاں غالب اکثریت کے ہی قرار دیںگے.بعض مفسرین کہتے ہیں یہ سورۃ مکی بھی ہے او ر مدنی بھی(روح المعانی زیر سورۃ الّیل).درحقیقت یہ ایسے ہی لوگوں کا خیال ہوتا ہے جو مضامین سے سورتوں کے مکی یا مدنی ہونے کا فیصلہ کیا کرتے ہیں.میں تسلیم کرتا ہوں کہ مضامین کی بناء پر بھی فیصلہ کیا جاسکتا ہے بلکہ میں نے خود کئی مقاما ت پر مضامین سے استنباط کر کے بتایا ہے کہ ان مضامین کی بناء پر فلاں فلاں روایات کو ترجیح حاصل ہے مگر یہ درست نہیں ہوتا کہ کوئی شخص محض قیاس سے فیصلہ کر دے.قیاس کسی واقعہ یا روایت کی تائید میں تو مفید ہو سکتا ہے مگر تاریخ کے مقابلہ میں صرف قیاس پر اعتماد درست نہیں ہوتا.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پوری کنہ تک نہ پہنچ سکے اور وہ عقلی طور پر کوئی قیاس کر لے.مثلاً مضمون سے قیاس کر لیا اور ایک نتیجہ نکال لیا مگر یہ کہنا کہ ضروری ہے کہ فلاں قسم کا مضمون مدنی سورتوں میںہی پایا جائے یا مکی سورتوں میں ہی پایا جائے یہ وہی غلطی ہے جس میں یوروپین مصنفین مبتلا ہوئے ہیں.مثلاً تاریخ کہتی ہے کہ فلاں سورۃ مکی ہے مگر وہ کہہ دیتے ہیں کہ نہیںیہ سورۃ تو مدنی ہے کیونکہ اس میںفلاں فلاں ذکر پایا جاتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ سورۃتو مکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں فلاں فلاں مضمون آتا ہے حالانکہ یہ صرف ان کا قیاس ہوتاہے اور قیاس تاریخ کے مقابل پر نہیںلایا جا سکتا.ہاں اگرتاریخ کسی سورۃ کو مکی کہتی ہو اور اس کی تائید میں ہم کوئی قیاس لے آئیں تو یہ درست ہو سکتا ہے یا تاریخ کسی سورۃ کو مدنی کہتی ہو اور ہم اس کی تائید میں کسی قیاس سے بھی کام لے لیںتو یہ جائز ہو گا.بہر حال مضمون سے قیاس کرنا دلیل مرجّح تو بن سکتا ہے بالذات دلیل نہیںقرار پا سکتا.چنانچہ اس سورۃ کے متعلق برخلاف ان لوگوں کے جنہوں نے اس کے مضمون کی وجہ سے بغیر کسی تاریخی شاہد کے اسے مدنی قرار دیا ہے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ یہ سورۃ مکی ہے اور وہ اس طرح کہ اس سورۃ سے پہلی دو سورتیں اور اس کے بعد کی دو سورتیںمکی ہیںاور ان دونوں سورتوںسے مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ بہت قریبی مشارکت رکھتی ہے اور چونکہ تاریخی شہادت بھی ا س امر کی ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے.اس لئے میری یہ دلیل دلیل کہلانے کی مستحق ہے کیونکہ تاریخی شہادت کی تائید میں ہے.میںپہلے بتا چکا ہوں کہ پہلی چند سورتوں میںمسلسل ایک خاص رنگ میںصدقہ و خیرات اور غریبوں کی خبر گیری

Page 68

کا ذکر کیا گیا ہے.ایک ذکر تو ایسا ہوتا ہے جو اپنے اندر کوئی خصوصیت نہیںرکھتا صرف عمومی طور پر ایک بات کہہ دی جاتی ہے مگر یہ وہ سورتیںہیں جن کے تمام مضامین اس رنگ میںچلتے ہیں کہ صدقہ دینے والے یا نہ دینے والے، غرباء کی ضروریات پر خرچ کرنیوالے یا نہ خرچ کرنے والے قومی لحاظ سے اپنی اپنی حالت کے مطابق ترقی پا جاتے ہیں یا تباہ ہو جاتے ہیں.یہی مضمون اس سورۃ میں بھی پایا جاتا ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اِنِّیْ لَاَقُوْلُ اِنَّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ نَزَلَتْ فِی السَّمَاحَۃِ وَالْبُخْلِ (فتح البیان سورۃ الیل ابتدائیۃ) یعنی میںیقیناً کہہ سکتاہوں کہ یہ سورۃ سخاوت اور بخل کے مضمون کے بیان کرنے کے لئے نازل ہوئی ہے.پس جب ایک روایت موجود ہے جو تاریخی لحاظ سے اس سورۃ کو مکی قرار دیتی ہے تو دلیل مرجّح کے طورپر اس سورۃ کی اندرونی شہادت بھی ان لوگوں کے ردّ میں پیش کی جاسکتی ہے جو اس کو مدنی کہتے ہیں اور ہم یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ نہ صرف روایات اس کو مکی قرار دیتی ہیںبلکہ اس سورۃ کا مضمون بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ روایت کے خلاف ہم کسی قیاس کو پیش کر دیں سوائے اس کے کہ وہ قیاس بعض دوسری روایتوں پر مبنی ہو مثلاً بعض دفعہ قرآن کریم میں ایک مضمون آتا ہے جسے ہم لوگوں کے سامنے بیان کر تے ہیںاب اگر اُس مضمون کے متعلق روایات میں اختلاف پایا جاتا ہو تو لازماً ان روایات کو ترجیح حاصل ہو گی جن کی تائید قرآنی مضمون سے بھی ہوتی ہو.ورنہ واقعات کے بارہ میںمحض قیاس آرائی ثابت شدہ تاریخی روایات کے مقابلہ میںکوئی حقیقت نہیںرکھتی.سر میور کا خیال ہے کہ یہ سورۃ بالکل ابتدائی سورتوں میںسے ہے.پادری ویری لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ ہے تو ابتدائی مگر تبلیغ عامہ کے زمانہ کی ہے یعنی تیسرے چوتھے یا پانچویںسال کی ہے کیونکہ اس میںمنکروں کے لئے عذاب کی خبر ہے(A Comprehensive Commentary on the Quran vol:4 page251) پادری وہیری کا یہ خیال میرے نزدیک درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ انذار عام قسم کا نہیں بلکہ اس میںخاص اور قریب میںآنے والے واقعات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.جابر بن سمرہؓ سے بیہقی نے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظہر اور عصر میں وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور اسی قسم کی سورتیںپڑھا کرتے تھے(فتح البیان سورۃ الیل ابتدائیۃ).ترتیب اس سورۃ کا مضمون بھی وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہوتا آرہا ہے یعنی اس میں بھی ترقی اسلام کا ذکر ہے پہلی سورتوں اور اس سورۃ کے مضمون میں فرق صرف یہ ہے کہ اس سے پہلی سورۃ میںیہ نقطۂ نگاہ بیان کیا گیاتھا کہ ایک نظام کامل کے لانے والے کے بغیر کعبہ کی تعمیر کی غرض پوری نہیںہوتی اور ایسے ہی وجود کے آنے سے

Page 69

قوم کو ترقی حاصل ہو سکتی ہے.اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے مگر اس میںزور معلّم کی زندگی پر اس قدر نہیں دیا گیا جس قدر کہ متعلّمین اور ان کے مخالفوں کی زندگیوں کے فرق پر دیا گیاہے.پہلی سورۃ میںیہ مضمون تھا کہ اچھے معلم کے بغیر قوم ترقی نہیں کر سکتی اور اب یہ مضمون ہے کہ اچھے معلم کو اگر اچھا متعلم مل جائے تو وہ دنیا کی کایا پلٹ دیتا ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جو شاگرد ملے ہیںوہ ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیںکہ ان کی زندگیوں کو دیکھ کر انسان کے دل میںیہ مایوسی پیدا ہی نہیںہو سکتی کہ عرب کی حالت کیوں کر پلٹا کھا ئے گی.اللہ تعالیٰ کفار مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مل رہے ہیںان کی زندگیاںتمہاری زندگیوں سے بالکل مختلف ہیں.دنیا میں اچھا استاد بڑا کام کر جاتا ہے او ر لائق شاگرد بھی بڑا کام کر جاتا ہے لیکن جہاں لائق استاد اور لائق شاگرد مل جائیں وہاں تو نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ کا معاملہ ہو جاتا ہے.اگر اچھے استاد کو بُرے شاگرد ملیںتو اس کاکام اس قدر نہیںچمکتا اور نہ نالائق استاد کے اچھے شاگرد زیادہ ترقی کر سکتے ہیں.مگر یہاںتو اچھے استاد کو اچھے شاگرد بھی مل گئے ہیں پس یہ دینِ محمدی ؐ کے غلبہ کی ایک بیّن علامت ہے (مزید تفصیل کے لئے دیکھو وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤى صفحہ ۶۸) بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں).وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى ۙ۰۰۲ (مجھے ) قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانک لے.تفسیر.اس سے پہلی سورۃ میںفرمایا تھا وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا یعنی رات کو ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ وہ سورج کو ڈھانپ لیتی ہے مگر ا س سورۃ میں يَغْشٰى کا کوئی مفعول بیان نہیںہوا جس سے یہ پتہ لگے کہ غَشْیٌ کا عمل کس چیز پر ہوا ہے بلکہ اس کو بغیر کسی قید کے بیان کیا گیا ہے پس معلوم ہوا کہ يَغْشٰى کے معنے اس سورۃ میں زیادہ وسیع لئے گئے ہیں.پہلی سورۃ میں تاریکی کا صرف وہ پہلو مراد تھا جو سورج کے ڈھانپنے سے ظاہر ہوتا ہے تاریکی کے دوسرے نتائج کی طرف اشارہ نہ کیا گیا تھا مگر اس جگہ اس کے علاوہ اور معانی بھی لئے جا سکتے ہیں.چنانچہ الفاظ کے لحا ظ سے اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیںکہ رات کی تاریکی کی وجہ سے سورج ہی نہیں پوشیدہ ہوا

Page 70

بلکہ دوسری اشیا ء بھی اوجھل ہو گئی ہیں.قرآن کریم میں ایک جگہ یہ مضمون آتا ہے کہ رات دن کو ڈھانپتی ہے جیساکہ فرماتا ہے یُغْشِی الَّیْلَ النَّھَارَ (الاعراف: ۵۵) اسی طرح یہ بھی آتا ہے کہ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (الفلق:۴) یعنی ہم پناہ مانگتے ہیں تاریک رات سے جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور یہ بھی آتا ہے کہ رات سورج کو ڈھانپ لیتی ہے جیسا کہ اس سے پہلی سورۃ میں ہی فرمایا تھا وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا چونکہ ان تینوں معنوں کی آیت زیر تفسیر متحمل ہو سکتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم غور کریں کہ یہ تینوں معنے ہی اس جگہ پائے جاتے ہیںیا کسی دوسری دلیل کی وجہ سے ان میںسے صرف ایک یا دو معنے مراد ہیں ان کے سوا معنے مراد نہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اس سورۃ میں ایک ایسا قرینہ پایا جاتا ہے جو اس کے معنوں کو محدود کر دیتا ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ صرف یہی معنے مراد ہیں کہ جب رات ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے.وہ قرینہ یہ ہے کہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کے بعد وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى بیان ہوا ہے اگر وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى کی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی سے پہلے ہوتی تو اس آیت کے معنے کرتے ہوئے دن کو ڈھانکنے یا سورج کو ڈھانکنے کا مفہوم زیادہ قرینِ قیاس ہوتا مگر چونکہ یہاں وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی کی آیت کے بعد وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى کی آیت بیان ہوئی ہے اس لئے یہ قرینہ اس بات کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ یہاں دن یا سورج کی بجائے دوسری چیزوں کو ڈھانکنے کا مفہوم غالب طورپر پایا جاتا ہے پس بجائے اس کے کہ ہم تینوں معنے یہاں مراد لیں اُس قرینہ کی وجہ سے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس آیت کے صرف یہی معنے ہوں گے کہ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کر تے ہیںجبکہ وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسان.جانور اور دوسری چیزیںسب اندھیرے تلے آجاتی ہیں.وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى ۙ۰۰۳ اور دن کی جب وہ خوب روشن ہو جائے.تفسیر.اس آیت اور سورۃ الشمس کی آیت وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میںایک فرق ہے وہاں نَـھَار کے بعد اِذَا جَلّٰىهَا کے الفاظ آتے ہیںمگر یہاں فرماتا ہے وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى وہاں یہ ذکر تھا کہ زمین سورج کے سامنے آکراس کو ظاہر کر دیتی ہے او ر یہاں یہ ذکر ہے کہ سورج کی روشنی سے مستفیض ہو کر دن روشن ہو گیا.وہاں تمام اشارے اس بات کی طرف تھے کہ استاد اپنے فن میںکامل ہے وہ دنیا کو اپنے فیوض سے مستفیض کر دے گا گویا وہاں

Page 71

استاد کے وجود پر زور دیا گیا ہے مگر یہاں شاگردوں کی قابلیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے.خواہ یہ کہہ دو کہ استاد نے شاگرد کو پڑھایا یا یہ کہہ دو کہ شاگرد نے استاد سے پڑھا.اس سے کلام میںکوئی خاص فرق نہیںپڑ سکتا سوائے اس کے کہ جب ہم کہتے ہیں استاد نے پڑھایا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ استاد نے محنت کی اور اس نے توجہ سے اپنے فرض کو ادا کیا اور جب ہم کہتے ہیںشاگرد نے استاد سے پڑھا تو اس میںزیادہ زور اس بات پر ہوتا ہے کہ شاگرد نے بھی محنت سے کام لیا.اسی طرح وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى میں زیادہ زور اس بات پر ہے کہ دن روشن ہو گیا یعنی جو زمین کی نسبت رکھنے والا یا شاگردکی نسبت رکھنے والا وجود ہے اس کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے مگر وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا میں سورج یعنی استاد کی قابلیتوں پر زور دیا گیا ہے.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ اس سورۃ میں گو مثال رات اور دن کی دی گئی ہے جیسے پہلی سورۃ میں رات او ر دن کی مثال دی گئی تھی مگر مفہوم الگ الگ ہے.پہلی سورۃ میں دن کی روشنی کا پہلے ذکر کیا تھا اور اس کے مقابل پر شمس کا بھی پہلے ذکر تھا.چنانچہ پہلے نمبر پر وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا کہا گیا تھا اور اس کے مقابل میں وَ النَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا کا ذکر تھا.دوسرے نمبر پر قمر کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایا وَ الْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا اور اس کے مقابل میں وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰىهَا کا ذکر تھا.گویا شمس کے مقابلہ میں نہار کو رکھا گیا تھا اور قمر کے مقابلہ میں لیل کو.پھر جس طرح شمس کو پہلے بیان کیا تھا اور قمر کو بعد میں، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نہار کو پہلے رکھا تھا اور لیل کو بعد میں.اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں شمسِ نبوت اور قمرِرسالت کا ذکر تھا.افاضہ اور استفاضہ کا مضمون بیان کیا گیا تھا اور اس امر کا ذکر کیا گیا تھا کہ فلاں نے نور کا افاضہ کیا اور فلاں نے اُس سے فیض حاصل کیا.اس مناسبت کی بنا ء پر پہلے نور اور دن کا ذکر تھا اور بعد میںرات اور قمر کا ذکر تھا مگر یہاں رات کا ذکر پہلے ہے اور دن کا بعد میں.کیونکہ اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کمالات کا ذکر اصل مطلوب نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور کفار کا مقابلہ کیا گیا ہے.پس بوجہ کفر کے مقدم اور کثیر ہونے کے رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور دن کابوجہ مسلمانوں کے موخرالزمان اور تھوڑے ہونے کے بعد میںکیا گیا ہے.پہلی سورۃ میں یہ ذکر تھا کہ دنیا کو منور کرنے کے لئے ہم نے ایک روحانی سورج افقِ آسمان پر پید اکیا ہے دنیا اس سورج کی روشنی کو خواہ کس قدر چھپانا چاہے اب یہ قطعی طورپر ناممکن ہے کہ وہ اس روشنی کو روک سکے یا اس نور کو پھیلنے نہ دے.یہ روشنی اب بڑھے گی اور بڑھتی چلی جائے گی یہاں تک کہ ساری دنیا کو ڈھانپ لے گی.مگر ایک لمبا عرصہ گذرنے کے بعد پھر ایک زمانہ ایسا آئے گاجس میں یہ سورج لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا زمین والے اپنی پیٹھ موڑ لیں گے تاریکی چھا جائے گی اور روشنی جاتی رہے گی اس وقت اللہ تعالیٰ پھر ایک قمر پیدا کرے گا جو

Page 72

اس شمس سے اکتسابِ نور کر کے دنیا کو منور کردے گا.پس چونکہ وہاں اسلام کے زمانہ سے بات شروع کی گئی تھی طبعی طور پر شمس اور نہار کا ذکر پہلے ہونا چاہیے تھا مگر یہاں کفر و اسلام کا مقابلہ ہے اور کفر چونکہ پہلے تھا اور اسلام بعد میں آیا اس لئے لَیْل کا پہلے ذکر کیا گیا اور نَـھَار کا بعد میں.پھر یہ بات بھی ہے کہ کفر چونکہ اُس زمانہ میںکثیر تھا اور مسلمان اس زمانہ میں قلیل التعداد تھے اس مناسبت کی بنا ء پر بھی اللہ تعالیٰ نے لَیْل کا ذکر پہلے کیا اور نَـھَار کا بعد میں.اور اس طرح یہ پیشگوئی کی کہ رات کی حالت جو تم پر طاری ہے وہ اب دورہونے والی ہے اس کے بعد دن کی حالت آئے گی یا اس رات کے نتیجہ میں جو جو گمراہیاں اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں ساکنینِ نہار اب ان کو دور کرنے والے ہیں.(مزید تفصیل اس کی اگلی آیت کے نیچے آئے گی ) وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰۤىۙ۰۰۴ اور نر و مادہ کی پیدائش کی.تفسیر.وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى کی قرأت کے متعلق ایک اختلاف اس آیت کے متعلق حضرت ابو الدرداء کو سخت غُلُوّ تھا.ان کے خیال میں مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْاُنْثٰى کی جگہ اس آیت میں وَالذَّكَرِ وَالْاُنْثٰى کے الفا ظ ہیں.چنانچہ علقمہ سے ابن جریر نے روایت کی ہے کہ میں ایک دفعہ شام گیا تو ابو الدرداء قافلہ میں آئے اور پوچھا کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود ؓ سے قرأت پڑھا ہوا ہو؟ اس پر لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا.اس پر میں نے بھی کہا کہ ہاں میںنے ان سے قرآن پڑھا ہے اس پر انہوں نے کہا کہ آپ نے عبداللہ بن مسعود کو یہ آیت کس طرح پڑھتے سنا ہے میں نے بتایا کہ وَ الَّيْلِ اِذَا یَغْشٰى.وَ النَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى.وَالذَّكَرِ وَالْاُنْثٰى.اس پر ابوالدرداء نے کہا کہ میں نے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے سنا ہے.اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى پڑھوں مگر میں ایسا نہیںکروںگا میں ان کے پیچھے نہیںچلوں گا(صحیح مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا، باب ما یتعلّق بالقراءات).یہ مضمون بتغیّر الفاظ و مطالب مختلف راویوں سے مختلف کتبِ حدیث میں حضرت ابوالدرداء سے مروی ہے.قرآن مجید کے بعض الفاظ کی مختلف قرأتیں اس بارہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ قرأتوں کا فرق شروع زمانہ سے چلا آیا ہے.پوری واقفیت نہ رکھنے والے مسلمان بعض دفعہ ایسی روایتوںسے گھبر ا جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے

Page 73

ہیں کہ اگر یہ روائتیں درست ہیں تو پھر ہمارا یہ کہنا درست نہیںہو سکتا کہ قرآن کریم کامل طور پر محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کا تغیر و تبدل نہیں ہوا.مگر ایسا نتیجہ نکالنا درست نہ ہوگا.اس لئے کہ شروع زمانہ سے ہی نسخ کے منکر اور حفاظتِ قرآنیہ کے قائل قرأت کے اس فرق کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں مگر باوجود اس فرق کے ان کے نزدیک یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ایک قرأت دوسری کو منسوخ نہیں کرتی اور دوسرے مضمون میںفرق نہیں ڈالتی.یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک قرأت ایسا مضمون بیان کرے جس کی دوسری قرأت حامل نہ ہو سکے ہاں بعض دفعہ وہ مضمون کو وسیع کر دیتی اور اس کی مصدق ہوتی ہے.در اصل بعض زبانوں کے فرق کی وجہ سے یا بعض مضامین کو نمایاں کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو سبعۃ احرف پر نازل کیا ہے یعنی اس کی سا ت قرأتیںہیں.ان قرأتوں کی وجہ سے یہ دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کہ قرآنِ کریم میںکوئی اختلاف ہے بلکہ اسے زبانوں کے فرق کا ایک طبعی نتیجہ سمجھنا چاہیے.بسا اوقات ایک ہی لفظ ہوتا ہے مگر ایک ہی ملک کے ایک حصہ کے لوگ اسے ایک طر ح بولتے ہیںاور اسی ملک کے دوسرے حصہ کے لوگ اسے اور طرح بولتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ لفظ بدل گیا ہے یا اُس لفظ کا مفہوم تبدیل ہو گیا ہے.لفظ بتغیر قلیل وہی رہے گا اُس لفظ کے معنے بھی وہی رہیں گے صرف اس وجہ سے کہ کوئی قوم اُس لفظ کو صحیح رنگ میں ادا نہیںکر سکتی وہ اپنی زبان میں ادا کرنے کے لئے اس کی کوئی اور شکل بنا لے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں چونکہ عرب کی آبادی کم تھی قبائل ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے اس لئے ان کے لہجوں اور تلفظ میں بہت فرق ہوتا تھا.زبان ایک ہی تھی مگر بعض الفاظ کا تلفظ مختلف ہوتا تھا اور بعض دفعہ ایک معنی کے لئے ایک قبیلہ میںایک لفظ بولا جاتا تھا دوسرے قبیلہ میںدوسرا لفظ بولا جاتا تھا ان حالات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی کہ فلاں فلاںالفاظ جو مختلف قبائل کے لوگوں کی زبان پر نہیںچڑھتے.اُن کی جگہ فلاں فلاں الفاظ وہ استعمال کر لیا کریں.چنانچہ جب تک عرب ایک قوم کی صورت اختیار نہیںکر گیا اُس وقت تک یہی طریق ان میں رائج رہا.اگر اس کی اجازت نہ دی جاتی تو قرآن کریم کا یاد کرنا اور پڑھنا مکہ کے باشندوں کے سوا دوسرے لوگوں کے لئے مشکل ہوتا اور قرآن کریم اس سرعت سے نہ پھیلتا جس طرح کہ وہ پھیلا.قبائل کی زبان کا یہ فرق غیر تعلیم یافتہ لوگوں میںاب تک بھی ہے تعلیم یافتہ لوگ تو کتابوں سے ایک ہی زبان سیکھتے ہیں لیکن غیر تعلیم یافتہ لوگ چونکہ آپس میںبول کر زبان سیکھتے ہیں ان میں بجائے ملکی زبان کے قبائلی زبان کا رواج زیادہ ہوتا ہے.میں جب حج کے لئے گیا تو ایک یمنی لڑکا جو سولہ سترہ سال کا تھا اور جو سیٹھ ابو بکر صاحب کا ملازم تھا قافلہ کے

Page 74

ساتھ چلا جا رہا تھا.میں راستہ میں عربی زبان میں اس سے گفتگو کرتا رہا اور میں نے دیکھا کہ وہ میری اکثر باتوں کو سمجھ جاتا اور ان کا جواب بھی دیتا مگر بعض دفعہ وہ حیرت سے میرے منہ کو دیکھنے لگ جاتا اور کہتا کہ میںآپ کی بات کو سمجھا نہیں.میں حیران ہوا کہ یہ بات کیا ہے کہ یہ لڑکا عربی سمجھتا بھی ہے مگر کبھی کبھی رک بھی جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کی بات کو نہیںسمجھا.جب میں مکہ پہنچا تو میں نے کسی سے ذکر کیا کہ یہ لڑکا عرب ہے اور عربی کوخوب سمجھتا ہے مگر باتیں کرتے کرتے بعض جگہ رک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میری سمجھ میں بات نہیں آئی معلوم نہیںاس کی کیا وجہ ہے.تو ان صاحب نے بتایا کہ یہ لڑکا یمنی ہے اور یمنیوں اور حجازیوں کے بعض الفاظ میںبڑا بھاری فرق ہوتا ہے اس لئے یہ اسی اختلاف کے موقعہ پر ایک دوسرے کی بات نہیںسمجھتے چنانچہ انہوں نے اس فرق کے بارہ میں یہ لطیفہ سنایا کہ مکہ میںایک امیر عورت تھی اس کا ایک یمنی ملازم تھا وہ عورت حقہ پینے کی عادی تھی وہاں عام رواج یہ ہے کہ حقہ کے نیچے کا پانی کا برتن شیشے کا ہوتا ہے اس لئے اسے کہتے بھی شیشہ ہی ہیں.ایک دن اُس عورت نے اپنے ملازم کو بلایا اور اس سے کہا غَیِّرِالشِّیْشَۃَ شیشہ بدل دو.لفظ تواس نے یہ کہے کہ شیشہ بدل دو مگر محاورہ کے مطابق اس کے یہ معنے ہیںکہ اس کا پانی گرا کر نیا پانی بدل کر ڈال دو.ملازم نے یہ فقرہ سنا تو اُس کے جواب میں کہا سَتِّیْ ھٰذَا طَیِّبٌ.بیگم صاحبہ یہ تو بڑا اچھا معلوم ہوتا ہے.عورت نے پھر کہا کہ قُلْتُ لَکَ غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ.میں نے جو تم کو کہا ہے کہ بدل دو تم انکار کیوں کرتے ہو.نوکر نے پھر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ سَتِّیْ ھٰذَا طَیِّبٌ.میری آقا یہ تو اچھا بھلا ہے.آخر آقا نے ڈانٹ کر کہا تم میرے نوکر ہو یا حاکم ہو میں جو تم سے کہہ رہی ہوں کہ اسے بدل دو تم میری بات کیوں نہیں مانتے.نوکر نے شیشہ اٹھایا اورباہر جا کر اس زور سے زمین پر مارا کہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.عور ت نے کہا ارے یہ تم نے کیا غضب کیا.اتنا قیمتی برتن تم نے توڑ کر رکھ دیا.نوکر نے کہا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ برتن بڑا اچھا ہے مگر آپ مانتی نہیں تھیں.اب جو میں نے توڑ دیا تو آپ ناراض ہو رہی ہیں.عورت نوکر پر سخت خفا ہوئی مگر ایک یمنی زبان کے واقف نے اُسے سمجھایا کہ نوکر کا قصور نہیں کیونکہ حجاز میں غَیِّرْ کے معنے بدلنے کے ہیں اور محاورہ میںجب شیشہ کے ساتھ بولا جائے تو اس کا پانی بدلنے کے ہو جاتے ہیں.یمنی زبان میں تَغْیِیْر کے معنے توڑنے کے ہوتے ہیں پس جب تم نے غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ کہا تو نوکر اپنی زبان کے مطابق یہ سمجھا کہ تم اسے برتن توڑنے کا حکم دے رہی ہو اسی لئے وہ بار بار کہہ رہا تھا کہ بی بی یہ تو اچھا بھلا ہے اسے کیوں تڑوا رہی ہو.مگر جب تم نہ مانیں اور بار بار زور دیا تو وہ غریب کیا کرتا.اب دیکھو غَیِّرِ الشِّیْشَۃَ ایک معمولی فقرہ ہے مگر زبان کے فرق کی وجہ سے یمنی نوکر نے اس کے کچھ کے کچھ معنے سمجھ لئے.

Page 75

قرآن کریم کے بعض الفاظ کو مختلف قرأتوں میں پڑھے جانے کی اجازت دیئے جانے میں حکمت اس قسم کے الفاظ جو زبان کے اختلاف کی وجہ سے معانی میںبھی فرق پید اکر دیتے ہیں اگر قرآن کریم میں اپنی اصل صورت میں ہی پڑھے جاتے تو یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ ان قبائل کو سخت مشکلات پیش آتیں اور ان کے لئے قرآن کریم کا سمجھنا مشکل ہو جاتا.اس نقص کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے ہم معنی الفاظ پڑھنے کی اجازت دی جن سے قرآن کریم کے سمجھنے اور اس کے صحیح تلفظ کے ادا کرنے میں مختلف قبائلِ عرب کو دقت پیش نہ آئے.پس مضمون تو وہی رہا صرف بعض الفاظ یا بعض محاورات جو ایک قوم میں استعمال ہوتے تھے اور دوسری قوم میں نہیں اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ یا ان محاورات کی جگہ ان کی زبان کے الفاظ یا اپنی زبان کے محاورات انہیں بتا دیئے تا کہ قرآن کریم کے مضامین کی حفاظت ہو سکے اور زبان کے فرق کی وجہ سے اس کی کسی بات کو سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل نہ ہوجائے.اسی طرح اس کا پڑھنا اور یاد کرنا بھی مشکل نہ رہے ورنہ اصل قرأت قرآن کریم کی وہی ہے جو حجازی زبان کے مطابق ہے اس تفصیل کو معلوم کر کے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ ایک عارضی اجازت تھی اصل کلام وہی تھا جو ابتداءً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا.ان الفاظ کے قائم مقام اسی وقت تک استعمال ہو سکتے تھے جب تک قبائل آپس میںمتحد نہ ہو جاتے.حضرت عثمانؓکا قرآن مجید کو حجازی قرأت میں محفوظ کرنا چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب بجائے اس کے کہ مکہ والے مکہ میں رہتے.مدینہ والے مدینہ میںرہتے.نجد والے نجد میں رہتے.طائف والے طائف میں رہتے.یمن والے یمن میںرہتے اور وہ ایک دوسرے کی زبان اور محاورات سے ناواقف ہوتے.مدینہ دارالحکومت بن گیا تو تمام قومیں ایک ہو گئیں کیونکہ اس وقت مدینہ والے حاکم تھے جن میں ایک بڑا طبقہ مہاجرین مکہ کا تھا اور خود اہل مدینہ بھی اہل مکہ کی صحبت میںحجازی عربی سیکھ چکے تھے پس چونکہ قانون کا نفاذ ان کی طرف سے ہوتا تھا، مال ان کے قبضہ میں تھا اور دنیا کی نگاہیں انہیں کی طرف اٹھتی تھیں.اس وقت طائف کے بھی اور نجد کے بھی اور مکہ کے بھی اور یمن کے بھی اور دوسرے علاقوں کے بھی اکثر لوگ مدینہ میں آتے جاتے تھے اور مدینہ کے مہاجرو انصار سے ملتے اور دین سیکھتے تھے اور اسی طرح سب ملک کی علمی زبان ایک ہو تی جاتی تھی.پھر کچھ ان لوگوں میںسے مدینہ میں ہی آکر بس گئے تھے ان کی زبان تو گویا بالکل ہی حجازی ہو گئی تھی.یہ لوگ جب اپنے وطنوں کو جاتے ہوں گے تو چونکہ یہ علماء اور استادہوتے تھے یقیناً ان کے علاقہ پر ان کے جانے کی وجہ سے بھی ضرور اثر پڑتا تھا.علاوہ ازیں جنگوں کی وجہ سے عرب کے مختلف قبائل کو اکٹھا رہنے کا موقع ملتا تھا اور افسر چونکہ

Page 76

اکابر صحابہؓ ہوتے تھے ان کی صحبت اور ان کی نقل کی طبعی خواہش بھی زبان میںیک رنگی پید ا کرتی تھی.پس گو ابتداء میں تو لوگوں کو قرآن کریم کی زبان سمجھنے میں دقتیں پیش آتی ہوں گی مگر مدینہ کے دارالحکومت بننے کے بعد جب تمام عرب کا مرکز مدینہ منورہ بن گیا اور قبائل اور اقوام نے بار بار وہاں آنا شروع کر دیا تو پھر اس اختلاف کا کوئی امکان نہ رہا.کیونکہ اس وقت تمام علمی مذاق کے لوگ قرآنی زبان سے پوری طرح واقف ہو چکے تھے.چنانچہ جب لوگ اچھی طرح واقف ہو گئے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم دے دیا کہ آئندہ صرف حجازی قرأت پڑھی جائے اور کوئی قرأت پڑھنے کی اجازت نہیں.آپ کے اس حکم کا مطلب یہی تھا کہ اب لوگ حجازی زبان کو عام طور پر جاننے لگ گئے ہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ انہیں حجازی عربی کے الفاظ کا بدل استعمال کرنے کی اجازت دی جائے.حضرت عثمان ؓ کے اس حکم کی وجہ سے ہی شیعہ لوگ جو سنّیوں کے مخالف ہیں کہا کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن بیاضِ عثمانی ہے حالانکہ یہ اعتراض بالکل غلط ہے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ تک عربوں کے میل جول پر ایک لمبا عرصہ گذر چکا تھا اور وہ آپس کے میل جول کی وجہ سے ایک دوسرے کی زبانوں کے فرق سے پوری طرح آگاہ ہو چکے تھے.اس وقت اس بات کی کوئی ضروت نہیںتھی کہ اور قرأتوں میںبھی لوگوں کو قرآن کریم پڑھنے کی اجازت دی جاتی.یہ اجازت محض وقتی طور پر تھی اور اس ضروت کے ماتحت تھی کہ ابتدائی زمانہ تھا قومیں متفرق تھیں اور زبان کے معمولی معمولی فرق کی وجہ سے الفاظ کے معانی بھی تبدیل ہو جاتے تھے اس نقص کی وجہ سے عارضی طور پر بعض الفاظ کو جو ان قبائل میں رائج تھے اصل وحی کے بدل کے طور پر خدا تعالیٰ کی وحی کے مطابق پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی تا کہ قرآن کریم کے احکام کے سمجھنے اور ا س کی تعلیم سے روشناس ہونے میں کسی قسم کی روک حائل نہ ہو اور ہر زبان والا اپنی زبان کے محاورات میں اُس کے احکام کو سمجھ سکے اور اپنے لہجہ کے مطابق پڑھ سکے.جب بیس سال کا عرصہ اس اجازت پر گذر گیا، زمانہ ایک نئی شکل اختیار کر گیا، قومیں ایک نیا رنگ اختیار کر گئیں، وہ عرب جو متفر ق قبائل پر مشتمل تھا ایک زبردست قوم بلکہ ایک زبردست حکومت بن گیا، آئینِ ملک کا نفاذ اور نظامِ تعلیم کا اجراء ان کے ہاتھ میں آگیا، مناصب کی تقسیم ان کے اختیار میں آ گئی، حدوداور قصاص کے احکام کا اجراء انہوں نے شروع کر دیا تو اس کے بعد اصلی قرآنی زبان کے سمجھنے میں لوگوں کو کوئی دقت نہ رہی اور جب یہ حالت پیدا ہو گئی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس عارضی اجازت کو جو محض وقتی حالات کے ماتحت دی گئی تھی منسوخ کر دیا اور یہی اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا مگر شیعہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا سب سے بڑا قصور اگر قرار دیتے ہیں تو یہی کہ انہوں نے مختلف قرأتوں کو مٹا کر ایک قرأت جاری کر دی.حالانکہ اگر وہ غور کرتے تو آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مختلف قرأتوں میں

Page 77

قرآن کریم پڑھنے کی اجازت اسلام کے دوسرے دور میں دی ہے ابتدائی دور میں نہیں دی جس کے صاف معنے یہ ہیںکہ قرآن کریم کا نزول گو حجازی زبان میں ہوا ہے مگر قرأتوں میں فرق دوسرے قبائل کے اسلام لانے پر ہوا.چونکہ بعض دفعہ ایک قبیلہ اپنی زبان کے لحاظ سے دوسرے قبیلہ سے کچھ فرق رکھتا تھا اور یا تو وہ تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتاتھا یا ان الفاظ کا معنوں کے لحاظ سے فرق ہو جاتا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت بعض اختلافی الفاظ کے لہجہ کے بدلنے یا اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھنے کی اجازت دے دی.مگر اس کا آیات کے معانی یا ان کے مفہوم پر کوئی اثر نہیںپڑتا تھا بلکہ اگر یہ اجازت نہ دی جاتی تو فرق پڑتا.چنانچہ اس کا ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سورۃ عبداللہ بن مسعودؓ کو اور طرح پڑھائی اور حضرت عمرؓ کو اور طرح پڑھائی کیونکہ حضرت عمرؓ خالص شہری تھے اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا تھے اور اس وجہ سے بدوی لوگوں سے ان کا تعلق زیادہ تھا.پس دونو ں زبانوں میں بہت بڑا فرق تھا.ایک دن عبداللہ بن مسعود ؓ قرآن کریم کی وہی سورۃ پڑھ رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پاس سے گذرے اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود ؓ کو کسی قدر فرق سے اس سورۃ کی تلاوت کرتے سنا.انہیں بڑا تعجب آیا کہ یہ کیا بات ہے کہ الفاظ کچھ اور ہیںاور یہ کچھ اور طرح پڑھ رہے ہیں.چنانچہ انہوںنے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کے گلے میں پٹکا ڈالا اور کہا چلو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس میںابھی تمہارا معاملہ پیش کرتا ہوں تم سورۃ کے بعض الفاظ اور طرح پڑھ رہے ہو اور اصل سورۃ اور طرح ہے.غرض وہ انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور عرض کیا.یا رسول اللہ آپ نے یہ سورۃ مجھے اور طرح پڑھائی تھی اور عبداللہ بن مسعود ؓ اور طرح پڑھ رہے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن مسعود ؓ سے فرمایا تم یہ سورۃ کس طرح پڑھ رہے تھے؟ وہ ڈرے اور کانپنے لگ گئے کہ کہیں مجھ سے غلطی نہ ہو گئی ہو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ڈرو نہیںپڑھو.انہوں نے پڑھ کر سنائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بالکل ٹھیک ہے.حضرت عمر ؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ آپ نے تو مجھے اور طرح پڑھائی تھی.آپ ؐ نے فرمایا وہ بھی ٹھیک ہے پھر آپؐ نے فرمایا قرآن کریم سات قرأتوں میں نازل کیا گیا ہے تم ان معمولی معمولی باتوں پر آپس میں لڑا نہ کرو.اس فرق کی وجہ در اصل یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا عبداللہ بن مسعود ؓ گڈریا ہیں.اور ان کا اور لہجہ ہے اس لئے ان کے لہجہ کے مطابق جو قرأت تھی وہ انہیں پڑھائی.حضرت عمر ؓ کے متعلق آپ ؐ نے سوچا کہ یہ خالص شہری ہیں اس لئے انہیں اصل مکی زبان کی نازل شدہ قرأت بتائی.چنانچہ آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کو ان کی اپنی زبان میں سورۃ پڑھنے کی اجازت دے دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خالص شہری زبان میں وہ سورۃ

Page 78

پڑھا دی.اس قسم کے چھوٹے چھوٹے فرق ہیں جو مختلف قرأتوں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے مگر ان کا نفسِ مضمون پر کوئی اثر نہیںپڑتاتھا ہر شخص سمجھتا تھا کہ یہ تمدن اور تعلیم اور زبان کے فرق کا ایک لازمی نتیجہ ہے.میں ایک دفعہ کراچی میں تھا کہ وہاں ایک ایجنٹ ایک کروڑ پتی تاجر کو مجھ سے ملانے کے لئے آیا.ایجنٹ شہری تھا اور تاجر گنواری علاقہ کا.جب وہ تاجر مجھ سے بات کرنے لگا تو مجھے مخاطب کر کے کہتا کہ ’’تم نوں‘‘ یہ بات معلوم ہو گی.اب اوّل تو تم کا لفظ شہریوں میںمعزز آدمی کو خطاب کرتے ہوئے استعمال نہیںکرتے دوسرے تم کے ساتھ ’’نوں‘‘ لگانا تو اور بھی معیوب ہے.اردو میںکہیں گے تم کو نہ کہ تم نوں.جب وہ تاجر مجھے تم نوں کہتا تو میںنے دیکھا اسے ساتھ لانے والا ایجنٹ بے حد اضطراب کے ساتھ اپنی کرسی پر پہلو بدلنے لگ جاتا اور میر ی طرف دیکھتا کہ ان پر اس گفتگو کا کیا اثر ہوا ہے اور مجھے تاجر کے تم نوں اور ایجنٹ کی گھبراہٹ پر لطف آرہا تھا.اب معنوں کے لحاظ سے ’’آپ کو‘‘ اور ’’تم نوں‘‘ میں کوئی بھی فرق نہیں لیکن ایک شہری کے لئے ’’تم نوں‘‘ کہنا اور ایک انبالہ پٹیالہ کے گنوار کے لئے ’’آ پ کو‘‘ کہنا ایک مجاہد ہ سے کم نہیں.پنجاب میںگجرات کی طرف کے لوگ پکڑنے کو ’’پھدنا‘‘ کہتے ہیں اور ہماری طرف کے لوگ ’’پھڑنا‘‘.ہم لوگ پھدنا کہیں تو ماتھے پر پسینہ آجاتا ہے گجراتی پھڑنا کہے تواس کے گلے میں پھندے پڑتے ہیں.گورداسپور میں شریر آدمی کوشُہْدا کہتے ہیں.ضلع سرگودہا میںشریف اور نیک طبیعت کو شُہْدا کہتے ہیں.ایک دفعہ حضرت خلیفۂ اوّلؓ کی ایک عزیزہ آئی کسی ذکر پر اس نے آپ کی نسبت کہا ’’اوساں شہدے نوں انہاں گلاں دا کی پتا‘‘.یعنی مولوی صاحب شریف آدمی ہیں ان کو ایسی باتوں کا کیا علم.اس طرف کی مستورات نے ایک دفعہ اس فقرہ کو سنا اور حیا ء کے ماتحت برداشت کر گئیں مگر اتفاق سے اس نے پھر دہرایا تو وہ اس سے دست و گریباں ہونے کو تیار ہو گئیں اور کہا کہ کچھ حیا ء کرو تم تو گالیاں دے رہی ہو.اس غریب نے حیرت سے پوچھا کہ میں تعریف کر رہی ہوں کہ گالیاں دیتی ہوں.’’ اوہ شُہْدا تے ہے ‘‘.آخر کسی عورت نے جو اس فرق کو سمجھتی تھی اس جوش کو ٹھنڈا کیا.اب دیکھو اگر کسی کتاب میںجو سارے پنجاب کے لئے لکھی گئی ہو کسی بزرگ کی نسبت شُہْدے کا لفظ آجائے تو اس کی توضیح یا دوسرے علاقہ کے لئے دوسرے لفظ کا استعمال مقرر کرنا ضروری ہو گا یا نہیں؟ یہی ضرورت اس زمانہ میں مختلف قرأتوں کی اجازت کی تھی لیکن جب تمدن اور حکومت کے ذریعہ سے قبائلی حالت کی جگہ ایک قومیت اور ایک زبان نے لے لی اور سب لوگ حجازی زبان سے پوری طرح آشنا ہو گئے تو حضرت عثمان ؓ نے سمجھا اور صحیح سمجھا کہ اب ان قرأتوں کو قائم رکھنا اختلاف کو قائم رکھنے کا موجب ہو گا ا س لئے ان قرأتوں کا عام استعمال اب بند کرنا چاہیے باقی کتب ِ قرأت میں تو وہ محفوظ رہیں گی.پس انہوں نے اس نیک خیال کے ماتحت عام استعمال میں حجازی

Page 79

اور اصل قرأت کے سوا باقی قرأتوں سے منع فرما دیا اور عربوں اور عجمیوں کو ایک ہی قرأت پر جمع کرنے کے لئے تلاوت کے لئے ایسے نسخوں کی اجازت دی جو حجازی اور ابتدائی قرأت کے مطابق تھے.ابن اُم عبد کا یہ واقعہ بھی اسی قسم کے قرأت کے اختلاف کے متعلق ہے.عربی زبان میں مَا کا استعمال کئی معنوں میں ہوتا ہے مَا نافیہ بھی ہے اور مصدریہ بھی اور مَا مَنْ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.چونکہ جب مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی مراد ہوں تو ایسے مقام پر مَنْ کا استعمال کرنا یا مصدر کا استعمال کرنا مفید نہیں ہو سکتا کیونکہ مصدر ایک معنے دے گا اور مَنْ دوسرے معنے دے گا دونوںمعنے کسی ایک طریق کے استعمال سے ظاہر نہ ہوں گے مگر چونکہ ایسے کئی مواقع قرآن کریم میں آتے ہیں جب کہ مصدری معنے اور مَنْ کے معنے دونوں ہی بتانے مقصود ہوتے ہیں.قرآن کریم میں ایسے مواقع پر مَا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تا یہ دونوں مفہوم ظاہر ہوں.مگر بعض عرب قبائل مَا کے مصدری معنے تو کرتے ہیںلیکن مَا کا استعمال مَنْ کی جگہ ناجائز سمجھتے ہیں اس لئے اس استعمال سے ان کے لئے مشکل پیش آجاتی تھی پس اس کو دور کرنے کے لئے وَالذَّکَرِوَالْاُنْثٰى کی قرأت کی بھی اجازت دے دی گئی.جو جملہ ایک حد تک مَا کا مفہوم ادا کر دیتا ہے لیکن چونکہ ویسا مکمل مفہوم ادا نہیں کر تا جیسے مَا اس لئے اصل قرآنی عبارت کے طور پر اسے استعمال نہیں کیا گیا صرف عارضی قرأت کے طور پر اس کا استعمال جائز رکھا گیا.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابوالدرداء کو کوئی غلطی لگی ہو جب وہ خود کہتے ہیںکہ صحابہؓ مجھ پر زور دیتے ہیں کہ میں وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى پڑھوں.تو اس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بارہ میں ضرور کوئی بھول چوک واقعہ ہو گئی ہے ورنہ صحابہ ؓکی اکثریت ان پر یہ زور نہ ڈالتی کہ اصل قرأت وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى ہی ہے وَالذَّکَرِوَالْاُنْثٰى نہیں ہے.پس اوّل تو ضروری نہیں کہ ہم اس کو دوسری قرأت قرار دیں جب کثرت سے صحابہؓ کہتے ہیں کہ یہ قرأت نہیں تو ضروری ہے کہ ہم اسے قرأت قرار نہ دیں بلکہ ابوالدرداء کی رائے کو غلط سمجھیں.لیکن اگر اس قرأت کو تسلیم کر لیا جائے تب بھی جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سے آیت کے معنوں میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا اور قرأت کا اختلاف قرآن کریم کے کسی نقص پر نہیں بلکہ اس کے معنوں کی وسعت پر دلالت کرتا ہے.قریب کے زمانہ میں ایک انگریز نے قرآن کریم کے تین پرانے نسخے نکالے ہیں وہ حلب میں ایک مسیحی مونسٹری MONESTRY میں پروفیسر مقر رتھا.اس نے اپنے زعم میںقرآن کریم کے تین پرانے نسخے حاصل کئے ہیں اور ان کے باہمی اختلافات کو اس نے LEAVES FROM THREE DIFFERENT QURANS

Page 80

یعنی ’’ قرآن کے پرانے تین نسخوں کے متفرق اوراق‘‘ کے نام سے شائع کر دیا.(Leaves From Three Ancient Qurans Edited by Rev Alphonse Mingana and Agnes Smith Lewis) جب وہ کتاب شائع ہوئی تو لوگوں میں بڑا شور اٹھا اور عیسائیوں میںیہ سمجھا جانے لگا کہ اب قرآن کریم کی حفاظت کا دعویٰ بالکل باطل ہو گیا ہے.میں نے بھی وہ کتاب منگوائی تا کہ میں دیکھوں کہ قرآن کی حفاظت کے خلاف اس میں کون سے دلائل دیئے گئے ہیں.جب میں نے اسے پڑھا تو مجھے معلوم ہوا کہ جو نسخے اس کے پیش کئے گئے ہیںان میں اسی قسم کا اختلاف ہے کہ کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ ہے اور کسی جگہ مَنْ کی جگہ مَا ہے.کسی جگہ قَالُوْا کے آگے الف ہے اور کسی جگہ الف نہیں.کسی جگہ ہُ کی بجائے ھُمْ کی ضمیر استعمال کی گئی ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس قرآنی نسخہ کا اختلاف یا تو بعض قرأتوں پر مبنی تھا یا کتابت کی غلطیاں تھیںاور بس.میں نے اسے پڑھ کر نتیجہ نکالا کہ اگر ان مزعومہ قدیم نسخوںکو درست سمجھا جائے تب بھی اس سے قرآن کریم کے محفوظ ہونے کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ اس کی عبارات معنوں کے لحاظ سے کوئی فرق پیدا نہیں کرتیں.صرف کسی جگہ مَا کی جگہ مَنْ اور ہُ کی جگہ ھُمْ کی ضمیر بدلی ہوئی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ مختلف قرأتوں کا فرق ہے اور کچھ بھی نہیں.غرض عیسائیوں کے کتب خانہ میں سے بھی کوئی کتاب ایسی نہ نکلی جو قرأت کے اس فرق کے علاوہ قرآن کریم کے نسخوں میںکوئی اور فرق ثابت کر سکتی.اختلاف قرأت کے فوائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اسی قرأت کے فرق کو بعض جگہ پیش کیا ہے.مثلاً وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ کی تفسیر کرتے ہوئے آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ مَوْتِهٖ کی بجائے ایک قرأت مَوْتِھِمْ بھی آتی ہے(الحق مباحثہ دہلی روحانی خزائن جلد ۴ صفحہ ۱۶۲) جو آپ کے بیان کردہ مضمون کی تائید کرتی ہے.پس قرأتوں کا اختلاف یا تو قبائلی زبانو ں کے فرق کے ضرر سے بچانے کے لئے ہے یا قرآنی معنوں کی وسعت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے.اختلاف ِ قرأت کی حکمت بتانے کے بعد میں اب آیت کی تفسیر کی طرف توجہ کرتا ہوں.اس سورۃ میں یہ بتایا گیا ہے کہ رات کے وقت انسانی اعمال اور قسم کے ہوتے ہیںاور دن کے وقت اور قسم کے.مثلاً رات کو لوگ سونے کی تیاری کرتے ہیںاور دن کو کام کرنے کی تیاری کرتے ہیں.آدمی وہی ہوتا ہے لیکن پھر بھی اس کے اعمال الگ الگ اوقات میںالگ الگ اقسام کے ہوتے ہیں.وہی آدمی جو دن کے وقت دوڑا بھاگا پھرتا ہے رات کے وقت

Page 81

بستر پر لیٹے ہوئے خراٹے مار رہا ہوتا ہے.دن کو اس کی ہوشیاری اور چالاکی دیکھ کر حیرت آتی ہے اور رات کو اس کی نیند اور غفلت دیکھ کر حیرت آتی ہے.اور اگر فطرتیں ہی الگ الگ ہوں تو پھر تو زمین و آسمان کا فرق نظر آتا ہے.بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ جاگتے ہوئے بھی سو رہے ہوتے ہیںاور بعض کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہے ہوتے ہیں.حماسہ میں تَاَ بَّطَ شَرًّا کا واقعہ آتا ہے (یہ صفاتی نام ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنی بغل میں شرارت دبائے پھرتاتھا ) اس لڑکے کا باپ مر گیا اور اپنے بیٹے کے لئے بہت بڑی جائیداد چھوڑ گیا.اس کی والدہ نے کسی اور سے نکاح کر لیا.سوتیلے باپ نے جائیداد دیکھ کر چاہا کہ میں اس لڑکے کا خاتمہ کر دوں تا کہ اکیلا اس جائیداد سے فائدہ اٹھائوں.چنانچہ وہ اسے سیرکے بہانے کہیں باہر لے گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ رات کو جب یہ سو جائے گا تو میں اسے قتل کر دوں گا.جب لڑکا سو گیا تو باپ اٹھا تا کہ اسے مار ڈالے مگر ابھی اس کے پائوں زمین پر پڑے ہی تھے کہ لڑکا تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور پوچھا کیا بات ہے.باپ نے کہا کچھ نہیں یونہی کسی کام کے لئے اٹھا تھا.گھنٹہ دو گھنٹے گزرنے کے بعد وہ پھر اٹھا کہ اسے قتل کر دے مگر اس کے اٹھنے کے ساتھ ہی لڑکا پھر بیدار ہوگیا اور پوچھنے لگا کیا بات ہے.باپ نے پھر کوئی بہانہ کر دیا.اسی طرح ساری رات وہ اس کوشش میںرہا کہ کسی طرح لڑکا سو جائے تو میں اسے قتل کر دوں مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا.جب بھی اٹھتالڑکا تلوار لے کر کھڑا ہوجاتا اور کہتا کیا بات ہے؟ لڑکا مضبوط تھا اور یہ بڑی عمر کا تھا اس وجہ سے بھی اس پر ڈر غالب آگیا اور آخر دوسرے دن وہ اسے واپس لے آیا اور اس نے سمجھ لیا کہ میں اسے قتل نہیں کر سکتا.الغرض بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ سوتے ہوئے بھی جاگ رہی ہوتی ہیں ذرا کوئی آہٹ ہو فوراً کھڑے ہو جاتے ہیں.لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن پر دن کو بھی رات کی کیفیت طاری رہتی ہے وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن بیٹھے بیٹھے اونگھنے لگ جاتے ہیں اور بعض بڑے اطمینان کے ساتھ ایک طرف لیٹ کر سو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ا س سورۃ میںانہی کیفیات کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک رات کی حالت ہوتی ہے اور ایک دن کی.رات کا وقت ایسا ہوتا ہے کہ خواہ کوئی چست اور ہوشیار ہو اس پر بھی نیند طاری ہو جاتی ہے.بعض تو ایسے سوتے ہیں کہ کتنا جھنجھوڑو ان کی آنکھ نہیں کھلتی.بار بار جگانے پر بھی بیدار نہیں ہوتے.سردیاں ہوں تو لحاف میں سے نہیں نکلتے اور گرمیاں ہو ں تو پانی کے چھینٹے مارنے پر بھی پہلو بدل کر سو جاتے ہیں لیکن دن کا وقت کام کا ہوتا ہے اس میں چست آدمی تو اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے کاموں کو اختیار کر لیتا ہے لیکن سست آدمی کو دن کے وقت تو کچھ نہ کچھ کام کرنا ہی پڑتا ہے مگر رات ساری اس کی سوتے ہی گذرتی ہے.رات اور دن کی طرح انسانوں کی بھی دو قسمیں ہوتی ہیں.بعض قوموں پر رات کا زمانہ آیا ہوا ہوتا ہے اور بعض پر دن کا زمانہ

Page 82

ہوتاہے.جو قومیں رات کے مشابہ ہوتی ہیں یا یوںکہو کہ جن پر رات آئی ہوئی ہوتی ہے وہ دن کو بھی سوتے ہیں اور رات کو بھی سوتے ہیں یعنی رات تو سوتے گذر جاتی ہے دن بھی کسی ایسے کام میں نہیں گذرتے کہ ان کے لئے یا ان کی قوم کے لئے کوئی اچھا نتیجہ نکلے اور اس کے برخلاف جن اقوام پر دن کا زمانہ ہوتا ہے ان کے دن تو کام میں گذرتے ہیں ان کی راتیں بھی بیکار نہیںجاتیں اور وہ تاریکیوں اور مصیبتوں کے اوقات میں بھی اتنا کام کر جاتے ہیںکہ رات والی قوموں کو دن کے وقت یعنی ہر قسم کے سامانوں کی موجودگی میں بھی اتنے کام کا موقعہ نہیں ملتا.اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے فرماتا ہے وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى.ہم شہادت کے طورپر رات کو پیش کرتے ہیںجب وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی انسانی قویٰ پر چھا جاتی ہے جب سب لوگ سو جاتے ہیں اور حرکت کی جگہ سکون لے لیتا ہے گویا صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو رات ڈھانک لیتی ہے.رات کو اندھیرے میں سفر کرو تو راستہ بہت کم طے ہوتا ہے کیونکہ سنبھل سنبھل کر چلنا پڑتا ہے.موٹر میں بھی سفر کیا جائے تو رات کو اس کی رفتار آدھی رہ جاتی ہے کیونکہ خطرہ ہوتا ہے کہ کوئی نیچے نہ آجائے یا اندھیرے کی وجہ سے کوئی حادثہ نہ پیش آ جائے.اس وجہ سے ڈرائیور موٹر کی رفتار کو کم کر دیتا ہے.پھر اگر وہ خود ہی سو جائے تو اور بھی خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے.بہرحال رات کو صرف تاریکی ہی نہیں ہوتی بلکہ عملاً ہر شے کو وہ ڈھانپ لیتی ہے یعنی صرف جسم ہی نہیں بلکہ جب انسان سو جاتا ہے تو اس کی عقل اور فکر بھی رات کی حکومت میں آجاتا ہے پھر اسے اپنے برے بھلے کی کچھ تمیز نہیں رہتی.یہ تو رات کی کیفیت تھی اس کے بعد فرمایا ہم اس کے بالمقابل تمہارے سامنے دن کو پیش کرتے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہو جاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل نا ممکن ہوتا ہے.یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ پہلی آیت میں خدا تعالیٰ نے صرف رات کو پیش نہیں کیا کیونکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں سب لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں.چنانچہ مسلمان تو لازماً سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد عشاء کی نماز پڑھتے ہیں اور سنتوں اور وتر کی ادائیگی کے بعد ذکر الٰہی کرتے ہیں اس کے بعد وہ سونے کی تیاری کرتے ہیں یا جو لوگ مطالعہ کرنا چاہیں وہ پہلے مطالعہ کرتے ہیں اور پھر سوتے ہیں.عیاش قومیں تھیئٹر و سینمائوں، ناچ گھروں، شراب خانوں میں اپنے وقت خرچ کرتی ہیں امراء کلبوں میں تاش و بِلْیَرْڈ کھیلتے ہیں پس ساری رات سونے کے کام نہیں آتی بلکہ رات کا ایک حصہ ایسا ہوتا ہے جس میں لوگ بیدار رہتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف لیل کو بطور شہادت پیش نہیں کیا بلکہ وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى فرمایا ہے یعنی ہم رات کی اس حالت کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں جب وہ عملاً ہر چیز کو ڈھانک لیتی ہے اور صرف جسم ہی نہیں بلکہ انسانی عقل

Page 83

اور دماغ کا بھی وہ احاطہ کر لیتی ہے.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے نَھار کا ذکر کیا ہے مگر نَھار کے ساتھ بھی تَجَلّٰى کا لفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم دن کے اس حصہ کو شہادت کے طورپر پیش کررہے ہیں جب وہ اس قدر روشن ہوجاتا ہے کہ سونا اور غافل رہنا بالکل ناممکن ہو جاتاہے.ابتدائی حصہ کو پیش نہیں کر رہے کیونکہ صبح کے وقت کچھ لوگ سوجاتے ہیں مگر جب دن زیادہ چڑھ جائے تو پھر کوئی نہیں سوتا.صوفیا ء میں یہ عام رواج رہا ہے کہ وہ صبح کی نماز کے بعد تھوڑی دیر کے لئے سو جایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بھی یہی عادت تھی کہ آپ صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد کچھ دیر تک استراحت فرماتے.پس اللہ تعالیٰ یہاں نَھار کے ابتدائی حصہ کی مثال پیش نہیں کرتا بلکہ اس حصہ کی مثال پیش کرتا ہے جب وہ پورا روشن ہو جاتا ہے یعنی روشنی اتنی تیز ہوتی ہے کہ انسان اگر سونا بھی چاہے تو وہ نہیں سو سکتا.یہ دونوں حالتیں یعنی رات کی وہ حالت جب وہ ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے اور دن کی وہ حالت جب سونے والے بھی جاگ اٹھتے ہیں اللہ تعالیٰ بطور مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے یہی فرق تمہاری حالت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی حالت میں ہے.تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ عرب نے گو کوئی خاص ترقی نہیںکی تھی مگر جتنی ترقی بھی کی تھی وہ ان کی تھکان کا موجب بن گئی تھی.مکہ کا مجاور ہونا سب سے بڑی عزت سمجھا جاتا تھا اور جیسے مندر کے پجاریوں کی حالت ہوتی ہے وہی حالت ان کی تھی.قوت عملیہ فنا ہو چکی تھی اور ان کے اعمال نے ان میں کوفت پیداکر دی تھی.غرض اللہ تعالیٰ ان کو بتاتا ہے کہ تمہاری تمام قوتوں پر تھکان اور خوابیدگی کا اثر ہے تم لمبی جہالت اور لمبے عیش کے بعد زیادہ سے زیادہ سونا چاہتے ہو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کی حالت میں بیداری اور ہوشیاری اور قوت عملیہ پائی جاتی ہے.وہ جاگنا اور کام کرنا چاہتے ہیں اور تم سونا اور غافل رہنا چاہتے ہو پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ؟ سوتا جاگتے کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے؟ تمہاری حالتوں پر رات کی خوابیدگی طاری ہے اور ان کی حالتوں پر دن کی بیداری غالب ہے.ان کی راتیں بھی دن ہوتی ہیں اور تمہارے دن بھی رات ہوتے ہیں پھر تمہارا اور ان کا کیا مقابلہ؟ جب تک تم بھی رات کے بعد دن کی حالت پیدا نہ کرو تم کبھی سکھ نہیں پا سکتے.اس کے بعد فرماتا ہے وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى ہم اس خدا کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس نے نر اور مادہ پیدا کیا ہے اور جن سے دنیا میں آئندہ نسل ترقی کر تی ہے یعنی جس طرح دنیا میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ دن کی بیداری طاری رہتی ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی حالتوں پر ہمیشہ رات کی

Page 84

خوابیدگی غالب رہتی ہے اسی طرح کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں رجولیت کا مادہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں نسوانیت کا مادہ ہوتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کو فیوض پہنچانے والے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں.جو لوگ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ ذَکر ہوتے ہیں اور جو لوگ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ اُنثٰی ہوتے ہیں اور جو لوگ نہ افاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں نہ استفاضہ کی قوت اپنے اندر رکھتے ہیں وہ خنثٰی ہوتے ہیں.ان سے دنیا میںکبھی کوئی تغیر پیدا نہیں ہوتا.فرماتا ہے وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى.ہم نر و مادہ کی پیدائش کو بھی شہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں یعنی نر میں افاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ دوسرے کو بچہ دیتا ہے اور مادہ میں استفاضہ کی قوت ہوتی ہے اور وہ بچہ کو اس سے لیتی اور اس کی پرورش کرتی ہے.یہی دو قوتیں ہیں جن کے ملنے سے دنیا میں اہم نتائج پیدا ہوتے ہیں اگر نر اور مادہ آپس میں نہ ملیں تو نسلِ انسانی کا سلسلہ بالکل منقطع ہو جائے.بعض نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى یعنی خدا تعالیٰ نے ذَکر اور اُنثٰی کو پیدا کیا ہے مگر اس نے خنثٰی کا ذکر نہیں کیا حالانکہ یہ بھی بتانا چاہیے تھا کہ اسے کس نے پیدا کیا ہے.مجھے علمی کتابوں میں اس قسم کا اعتراض پڑھ کر حیرت آئی ہے اور پھر اور زیادہ حیرت مجھے اس بات پر آئی ہے کہ مفسرین نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے اور جواب یہ دیا ہے کہ جو ہمارے نزدیک خنثٰی ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ بہر حال یا ذَکر ہے یا اُنثٰی ہے اس سے باہر نہیں.(فتح البیان زیر آیت ’’وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى ‘‘) یہ بھی ایک مجبوری کا جواب ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ خنثٰی کوئی پیدائش نہیں بلکہ وہ پیدائش کا ایک بگاڑ ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شربت بناتے وقت پاس سے کوئی خاکروب پیشاب کا پاٹ لے کر گزرے اور ٹھوکر سے اچھل کر پیشاب کا کوئی قطرہ شربت کے گلاس میں جا گرے یا اپنا ہی بچہ کھڑے ہو کر پیشاب کر دے اور شربت میں کوئی قطرہ جا گرے تو ایسے شربت کو ہم شربت کی ایک قسم نہیںکہیں گے بلکہ یہ سمجھیں گے کہ وہ ناپاک شربت ہے.کیا کوئی عقلمند دنیا میںایسا ہو سکتا ہے احمق ہی ہے جو یہ کہے کہ ایک شربت تو وہ ہوتا ہے جس میںایسنس ملا ہوا ہوتا ہے اور ایک شربت وہ ہوتا ہے جس میں پیشاب پڑا ہوا ہوتا ہے کیونکہ جس میںغلطی سے پیشاب کا کوئی قطرہ جا گرا ہے وہ شربت نہیں بلکہ ناپاک شدہ شربت ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو یا ذَکر پیدا کیا ہے یا اُنثٰی پیدا کیا ہے.اگر ماں باپ اپنے اندر کوئی خرابی پیدا کر لیتے ہیں اور ان کی صحت میں اس قسم کا بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے کہ بجائے ذَکر یا اُنثٰی کے خنثٰی پیدا ہو جاتا ہے تو یہ نہیںکہا جائے گا کہ یہ بھی ایک پیدائش ہے بلکہ صرف یہ کہا جائے گا کہ یہ پیدائش کا

Page 85

ایک بگاڑ ہے جو اس رنگ میں ظاہر ہو گیا.خنثٰی کو بھی پیدائش قرار دینا ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ خد اتعالیٰ آنکھیںدیتا ہے تو دوسرا جواب میں کہے کہ دنیا میں اندھے بھی تو ہوتے ہیں.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ بات کیسی بےہودہ ہے اگر کوئی اندھا ہوا ہے تو اپنے ماں باپ کی کسی نادانی یا غفلت یا بیماری کے نتیجہ میںہوا ہے.خدا تعالیٰ نے بہرحال ہر انسان کو آنکھوں والا بنایا ہے کسی کا اندھا پیدا ہونا ایک بگاڑ اور خرابی ہے نئی پیدائش نہیں ہے.مجھے تو حیرت آتی ہے کہ ہمارے مفسرین نے اس بحث کو اٹھایا ہی کیوں کہ خدا تعالیٰ نے ذَکر اور اُنثٰی کا ہی کیوں ذکر کیا ہے خنثٰی کا ذکر کیوں نہیںکیا.خنثٰی ہونا تو ایسا ہی ہے جیسے کسی کا ناک کٹا ہوا ہو یا کسی کی آنکھ ماری ہوئی ہو یا کسی کی ٹانگ کٹی ہوئی ہو.ظاہر ہے کہ یہ سب انسانی پیدائش کے مختلف بگاڑ ہیں.کسی کی آنکھیں نہیں ہوتیں، کسی کے ہاتھ نہیں ہوتے، کسی کی زبان نہیں ہوتی، کسی کی انگلیاں کم و بیش ہوتی ہیں.اگر ان میں سے ہر چیز کو پیدائش کی ایک نئی قسم قرار دے دیا جائے تو پھر تو ہزار ہا اس قسم کی پیدائشیں نکل آئیں گی.دنیا میں ہر شخص کی خدا تعالیٰ نے دو ٹانگیں پیدا کی ہیں لیکن بعض دفعہ ماں باپ کی بے احتیاطی یا کسی رحمی نقص کی وجہ سے ایسا بچہ پید ا ہو جاتا ہے جس کی تین ٹانگیں ہوتی ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر ایک کو الگ الگ جسم عطا کیا ہے لیکن بعض دفعہ اس قسم کے جڑے ہوئے بچے پیدا ہو جاتے ہیں جن کو اپریشن کے ذریعہ ایک دوسرے سے الگ کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ تو اپریشن کے ذریعہ بھی ان کو الگ نہیںکیا جاسکتا بظاہر دو دھڑ آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دونوں کا جگر ایک ہوتا ہے یا دل ایک ہوتا ہے یا معدہ ایک ہوتا ہے یا تلی ایک ہوتی ہے اور وہ ساری عمر اسی طرح جڑے جڑے گزار دیتے ہیں.پس خالی خنثٰی کا ذکر ہی نہیں پھر تو انہیں اس قسم کے تمام بگاڑ پیش کرنے چاہیے تھے اور کہنا چاہیے تھا کہ ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو بچے آپس میں بالکل جڑے ہوئے ہوتے اور پھر ان کو الگ الگ کرنا پڑتا ہے.ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دونوں کا ایک ہی جگر، ایک ہی قلب، ایک ہی پھیپھڑا اور ایک ہی معدہ ہوتاہے اور انہیں جدا نہیں کیا جا سکتا.ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں بچہ تو ہوتا ہے مگر اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں.ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں دو کی بجائے تین ٹانگیں بن جاتی ہیں حالانکہ یہ ساری چیزیں وہ ہیں جو پیدائش کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں ان کو پیش کر کے قرآن مجید پر یہ اعتراض کرنا کہ اس نے صرف ذَکر اور اُنثٰی کا نام لیا ہے خنثٰی کا نام نہیں لیا معترضین کی نادانی اور حماقت کا ثبوت ہے اور مفسرین کو چاہیے تھا کہ بجائے اس کے کہ اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے کہتے کہ یہ اعتراض کسی احمق کی زبان سے نکلا ہے دنیا میں دو ہی پیدائشیں ہوتی ہیں ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں ذکرانیت ہوتی ہے اور ایک پیدائش وہ ہوتی ہے جس میں نسوانیت ہوتی ہے یہ دونوں وجود آپس میں ملتے ہیںتب ایک تیسرا وجود پیدا ہوتا ہے اس کے بغیر نہیں.

Page 86

آیت وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْاُنْثٰى میںمسلمانوں کے ترقی کر جانے کی وجہ کا ذکر اللہ تعالیٰ اس آیت میں اسی سلسلۂ پیدائش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم دنیا میں غور کر کے دیکھ لو آئندہ نسلوں کی ترقی صرف ذَکر اور اُنثٰی سے ہوتی ہے ایک کے اندر افاضہ کا فعل پایا جاتا ہے اور دوسرے کے اندر استفاضہ کا فعل پایا جاتا ہے یہ دونوں آپس میں ملتے ہیں تب کوئی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اگر یہ دونوں آپس میں نہیںملیںگے تو کوئی نتیجہ پیدا نہیںہو گا.وہ شخص جس میں افاضہ کا مادہ نہیں اگر وہ کہے کہ مجھے کسی دوسرے سے فیض حاصل کرنے کی ضرورت نہیں تو وہ نادان ہو گا.اسی طرح جس میں استفاضہ کا مادہ نہیں وہ بھی بغیر کسی دوسرے وجود کے اپنی قوت افاضہ کا اظہار نہیں کر سکتا.یہ افاضہ اور استفاضہ کی قوتیںآپس میں لازم و ملزوم ہیں.اگر کسی قوم کے افراد یہ کہیں کہ ہم خود کام کر سکتے ہیں ہمیں کسی دوسرے کی راہنمائی یا مدد کی ضرورت نہیں، کسی دوسرے کی قوت کے ہم محتاج نہیں، ہمارے بازوئوں میںاتنی طاقت موجود ہے کہ ہم بغیر کسی کی مدد کے ترقی کی دوڑ میں حصہ لے سکتے ہیں مگران میں افاضہ کی قوت نہ پائی جاتی ہو تو ان کے سب دعاوی باطل ہوںگے.جب ان میںافاضہ کی قوت ہی نہیں تو وہ بغیر کسی راہنما کی مدد کے آگے بڑھ ہی کس طرح سکتے ہیں؟ وہ اگر ترقی کر سکتے ہیں تو اسی صورت میں کہ ان میں استفاضہ کی قوت ہو.ان میں یہ مادہ ہو کہ وہ دوسرے سے فیوض حاصل کر سکیںکیونکہ ان کی حیثیت ری فلیکٹر کی سی ہے وہ اصل روشنی نہیں بلکہ ایک آئینہ انعکاس ہیں.اگر اصل روشنی وہ اپنے آئینہ ظلّیت میں منعکس نہیں کریںگے تو سوائے تاریکی اور اندھیر ے کے انہیں کچھ حاصل نہیں ہو گا.بہرحال جس طرح نر اور مادہ کے باہمی اتصال سے نسل ترقی کرتی ہے اسی طرح قومیں اسی وقت ترقی کرتی ہیں جب ایک راہنما ایسا موجو د ہو جو قوت افاضہ اپنے اندر رکھتا ہو اور قوم کے افراد ایسے ہوں جو قوت استفاضہ اپنے اندر رکھتے ہوں.اللہ تعالیٰ یہی مثال کفار کے سامنے پیش کرتا ہے اور انہیںبتاتا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہاری کوئی حیثیت ہی نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ ؓ کا باہمی جوڑ دنیا میں ایک زبردست نتیجہ پیدا کرے گا کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ ہیں جن میں قوتِ افاضہ کمال درجہ کی پائی جاتی ہے اور صحابہ کرام ٖؓ وہ ہیں جن میں قوتِ استفاضہ کامل طورپر پائی جاتی ہے.وہ دونوں آپس میںمل بیٹھیں گے تو ایک نئی دنیا آباد کرنے کا باعث بنیں گے جس طرح مرد اور عورت آپس میں ملتے ہیں تو بچہ تولد ہوتا ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرامؓ کا روحانی تعلق ایک نئی آبادی کا پیش خیمہ ہے.مگر اے مکہ والو! تم وہ ہو کہ نہ تم میں ذَکر کی قابلیت پائی جاتی ہے اور نہ اُنْثٰی کی قابلیت پائی جاتی ہے تم اسی طرح سوتے سوتے مر جائو گے تمہاری غفلتیں تم کو ڈبو دیں گی کیونکہ تم نر تو ہو نہیں اور نسوانی طاقتیں اپنے اندر پیدا نہیں کرتے گویا مخنث کی صورت بن رہے ہو.تم آئندہ کس نیک انجام یا بھلائی کی امید کر سکتے ہو؟

Page 87

لوگ کہتے ہیں کہ یہاں خنثٰی کا ذکر نہیں حالانکہ یہ اگر خنثٰی کا ذکر نہیں تو اور کیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں افاضہ کی قوت ہے اور صحابہ میں استفاضہ کی قوت کامل طور پر پائی جاتی ہے.مگر ا ے مکہ والو! تم میں نہ افاضہ کی قوت پائی جاتی ہے اور نہ استفاضہ کی، اس لئے تم روحانی طور پر خنثٰی ہو.نہ ذکر ہو نہ انثٰی ہو.نہ تم میں نر کی قابلیت موجو د ہے کہ تم دوسروں کو نور پہنچا سکو اور نہ تم میں نسائیت پائی جاتی ہے کہ تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اکتساب ِ نور کر سکو.پھر تم دنیا میں ترقی کس طرح کر سکتے ہو تم تو خنثٰی ہو اور خنثٰی کی نسل نہیں چلتی.پس روحانی دنیا کے کامل آدم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور روحانی دنیا کی کامل حوائیں صحابہ کرام ؓ ہیں اور خنثٰی مکہ کے منکرین ہیں.اِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّٰىؕ۰۰۵ کہ تمہاری کوششیں یقیناً مختلف ہیں.حلّ لُغات.شَتّٰی اَشْیَاءٌ شَتّٰی کے معنے ہوتے ہیں مُـخْتَلِفَۃٌ.مختلف اشیاء (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے تمہاری اور مسلمانوں کی سعی آپس میں بڑا اختلاف رکھتی ہے.تمہاری تمام سعی سونے کی تیاری میں ہے اور ان کی تمام سعی قومی بیداری اور ترقی کے لئے ہے.تمہاری سعی تاریکی کے سردار شیطان کے حق میں ہے اور ان کی سعی خدا تعالیٰ کے حق میں ہے جو خود نور اور نور کا پیدا کرنے والا ہے.پھر تمہاری اور ان کی کوششوں کا نتیجہ ایک کس طرح ہو سکتا ہے؟ تمہاری تمام سعی اس بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ بستر بچھائو.تکیہ لگائو اور لحاف رکھو تا کہ ہم سو جائیں اور صحابہ ؓ کی تمام سعی اس بات کے لئے وقف ہو رہی ہے کہ اٹھو ہل جو تو، زمینوں میں بیج ڈالو، زمین کو پانی دو اور کاشت کی اچھی طرح نگرانی کرو تا کہ اعلیٰ درجہ کی فصل تیار ہو.اب تم خود ہی سوچ لو کہ سونے والے کچھ کمایا کرتے ہیں یا جاگنے والے کمایاکرتے ہیں؟ تم پر رات طاری ہے اور ان پر دن کی کیفیت طاری ہے جب تم دونوں کی کوششیں بالکل الگ الگ ہیں تو ان دونوںکا ایک نتیجہ کس طرح نکل سکتا ہے اور تم کس طرح خیال بھی کرسکتے ہو کہ رات کو سونے والوں اور دن کے وقت ہل جوتنے والوں کا ایک سا انجام ہو گا؟ اِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتّٰى کے دوسرے معنے دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تم خنثٰی ہو اور نر سے بھاگ رہے ہو مگر یہ انثٰی ہیں اور نر سے بھاگ نہیں رہے بلکہ اس سے تعلق پیدا کر رہے ہیں اب تم خود ہی سمجھ لو کہ تمہارے ہاں روحانی اولاد کس طرح پیدا ہو سکتی ہے؟ اولاد انہی دلہنوں کے ہاں پیدا ہوتی ہے جو دولہا کی طرف جاتی

Page 88

ہیں مگر جو دولہا سے بھاگ جائیں ان کے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی.یہی حال محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مخاطبین کا ہے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ جانتے ہیں کہ ہم میں رجولیت والی طاقت نہیں بلکہ استفاضہ والی طاقت ہے اس لئے وہ اپنے روحانی دولہا کے پاس جاتے ہیں مگر تم میں وہ طاقت تو ہے نہیں کہ اپنے زور سے کوئی نتیجہ پیدا کر سکو.صرف اللہ تعالیٰ نے تم میں استفاضہ والی قوت رکھی ہے مگر تم میں اپنی شامتِ اعمال سے ایسی بیماری پیدا ہوچکی ہے کہ تم دولہا کو پہچانتی تک نہیں اور اس سے دور بھاگ رہی ہو.تمہاری حالت لیل والی ہے اور ان کی نہار والی.وہ انثٰی ہونے کے لحاظ سے وقت کے دولہا کی طرف جا رہے ہیں اور تم دولہا سے بھاگ رہے ہو اور جب تمہاری اور ان کی حالت میںاس قدر نمایا ں فرق ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ تمہیںترقی حاصل ہو، تمہارے ہاں بھی نورِ آسمانی کی پیدائش ہو اور تم بھی دنیا میں سربلند ہو؟روحانی ثمرات تو انہی سے پیدا ہوں گے تم سے نہیں اور آئندہ دنیا انہی دلہنوں سے آباد ہو گی جو دولہا کے ہاں جاتی ہیں.ان سے آباد نہیں ہو سکتی جو دولہا کے قریب جانا پسند نہیں کرتیں.تم مت خیال کرو کہ دنیا کی آئندہ ترقی میںتمہارا بھی کوئی حصہ ہو گا اب دنیا کی آبادی مسلمانوں کی وجہ سے ہو گی اور وہی قوم ترقی کرے گی جس پر دن چڑھا ہوا ہے اور جو قربانیوں سے کام لے رہی ہے.تن آسانیوں کے لئے مرمٹنے والے وجود ان نعمتوں کو حاصل نہیں کر سکتے.اب اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ تاریکی اور روشنی کا فرق اور نسائیت کاملہ والی اور بانجھ کا فرق بتاتا ہے اور ایک مثال کے ذریعہ اس امر کو واضح کر تا ہے.فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰى وَ اتَّقٰىۙ۰۰۶وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى ۙ۰۰۷ پس جس نے (خد اکی راہ میں ) دیا اور تقویٰ (اختیار ) کیا.اور نیک بات کی تصدیق کی.فَسَنُيَسِّرُهٗ لِلْيُسْرٰى ؕ۰۰۸ اسے تو ہم ضرور آسانی (کے مواقع ) بہم پہنچا ئیں گے.حلّ لُغات.یَسَّـرَ یَسَّـرَ الشَّیْءَ لِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں سَھَّلَہٗ لَہٗ.اس کے لئے ا س امر کو آسان کر دیا (اقرب) پس نُیَسِّـرُ کے معنے ہوں گے.ہم آسان کر دیں گے.تفسیر.ترقی کرنے والی قوم کے افراد کی تین خصوصیات فرماتا ہے دن کی مثال اور

Page 89

نسائیت کاملہ والی قوم کی مثال اس شخص کی سی ہے جو (۱) اَعْطٰى (۲) وَ اتَّقٰى (۳) وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى کا مصداق ہو.یہاں ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گی ہے اَعْطٰى کے معنے ہوتے ہیں دوسرے کو دیا.اور اِتَّقٰی کے معنے ہوتے ہیں پرہیز گاری اختیار کی.پس اَعْطٰى میں عمل کی درستی کی طرف اشارہ ہے اور اِتَّقٰی میںجذبات کی درستی اور ان کی صحت کا ذکر کیا گیا ہے.اس کے بعد وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى میںاچھی باتوں کی تصدیق کا ذکر ہے اور تصدیق کا تعلق انسانی فکر کے ساتھ ہوتا ہے پس عمل اور جذبات کی درستی کے ساتھ فکر کی درستی کا ذکر بھی شامل کر دیا اور اس طرح بتایا کہ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے عمل میں بھی صحت ہو، اس کے جذبات میں بھی صحت ہو اور اس کے افکار میںبھی صحت ہو.اَعْطٰى میںعمل کی صحت کا ذکر ہے اِتَّقٰی میںجذبات کی صحت کا ذکر ہے اور صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى میںافکار کی صحت کا ذکر ہے کیونکہ اَعْطٰى کے معنے ہیں وہ دیتا ہے یعنی اس کا عمل صحیح ہے.اِتَّقٰی کے معنے ہیں وہ ہر بُری بات سے ڈرتا ہے یعنی اس کے جذبات صحیح ہیں اور صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى کے معنے ہیںوہ اچھی باتوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی اس کے افکار صحیح ہیں.یہاں تین اصلاحوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسانی تکمیل کے لئے یہ تینوںاصلاحیں ضروری ہیں.الفاظ مختصر ہیں مگر ان مختصر الفاظ میں علم النفس کا ایک نہایت اہم نکتہ بیان کیا گیا ہے اور بنی نوع انسان کے سامنے اس روشن حقیقت کو رکھا گیا ہے کہ عمل، جذبات اور فکر کی درستی سے ہی انسان پورے طور پر اچھا ہوتا ہے یعنی عمل صحیح، احساس صحیح اور فکر صحیح.یہ تین کمالات جب تک کوئی قوم اپنے اندر پیدا نہیں کرلیتی وہ ترقی نہیںکر سکتی.علمِ کامل افکار کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، احساسِ کامل جذبات کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور عملِ کامل اعمال کی درستی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.یہ تین چیزیں ہیں جن سے کامیابی ہوتی ہے اگر علمِ صحیح نہ ہو تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کے جذبات بھی بگڑ جائیںگے اور ا س کا عمل بھی بگڑا ہوا ہوگا.مثلاً پسا ہوا نمک اور میٹھا دونوں ہم شکل ہوتے ہیں اگر ہم کسی کو میٹھا دے دیں اور وہ اسے نمک سمجھ کر ہنڈیا میںڈال لے تو چونکہ اس کا علم صحیح نہیںہو گا نتیجہ بھی خراب ہی پیدا ہو گا.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ میٹھے کو نمک سمجھ کر ہنڈیا میں ڈال لے تو میٹھا نمک بن جائے.غلط علم ہمیشہ غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کیا کرتا ہے.بسا اوقات عورتیں آنکھ میں ڈالنے والی دوا یا مالش کرنے کی دوا بچوں کو غلطی سے پلا دیتی ہیں اور وہ ہلاک ہو جاتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ ان کے غلط علم کا کوئی غلط نتیجہ پیدا نہ ہو.پس غلط علم غلط عمل اور غلط جذبات پیدا کرتا ہے.فرض کرو کہ کسی شخص کا بچہ گم ہو جائے اور باوجود تلاش کے وہ اپنے ماں باپ کو نہ ملے لیکن ہو زندہ، اور کسی نہ کسی طرح

Page 90

پل کر کسی اور شہر میںاپنا کاروبار شروع کر دے اور اتنا لمبا عرصہ اس علیحدگی پر گذر جائے کہ وہ اپنے باپ کی شکل تک بھول جائے اس کے بعد فرض کرو ایک دن اس کا باپ اسی شہر میں آجائے اور بوجہ غربت کے مزدوری شروع کر دے اور بیٹا مثلاً سفر پر جاتے ہوئے یا گھر بدلتے ہوئے یا سوداگھر پہنچانے کے لئے ایک مزدور کا محتاج ہو اور اس کی نظر اپنے باپ پر پڑے تو کیا اس کے دل میں محبت اور رقّت کے جذبات پیدا ہو جائیں گے؟ ہرگز نہیں بلکہ بوجہ غلط علم کے وہ اپنے باپ کو ایک مزدور کی شکل میں ہی دیکھے گا اور بے تکلفی سے کہہ دے گا او بڈھے ادھر آئو یہ سامان اٹھا کر فلاں جگہ تک لے چلو تم کو اتنے پیسے ملیںگے.تو باوجود اس کے کہ حقیقت کے لحا ظ سے وہ جوان بیٹا ہو گا اور بڈھا اس کا باپ ہو گا لیکن چونکہ اسے علم نہیں ہو گا کہ یہ میرا باپ ہے بلکہ وہ اسے ایک مزدور سمجھ رہا ہو گا.اس لئے اس کے دل میں کوئی جذبۂ ہمدردی اپنے باپ کے متعلق پیدا نہیںہو گا وہ اس سے اسی طرح کام لے گا جس طرح ایک عام مزدورسے کام لیا جاتاہے پس غلط علم کے نتیجہ میں ہمیشہ غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں اور غلط جذبات کے نتیجہ میںہمیشہ غلط عمل پیدا ہوتا ہے.علم محرک ہے جذبات کا اور جذبات محرک ہیںعمل کے.صحیح عمل تبھی پیدا ہو تا ہے جب جذبات اعلیٰ درجہ کے ہوں اور صحیح جذبات تبھی پیدا ہوتے ہیں جب علم اعلیٰ درجے کا ہو.صحیح جذبات کے بغیر اچھا عمل کبھی پیدا نہیں ہو سکتا.ماں کی محبت کو دیکھ لو وہ کس طرح اپنے بچہ کے لئے مرتی چلی جاتی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر کسی نوکر کو بیس گنا معاوضہ بھی دے دیا جائے تب بھی وہ کبھی اس طرح دن رات کام نہیں کر سکتا جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کے لئے تکلیف برداشت کرتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ نوکر جذبہ سے کام نہیں کرتا اس کاکام صرف فکر سے تعلق رکھتا ہے جذبات غائب ہوتے ہیں.تو صحیح عمل کے لئے صحیح جذبات کی ضرورت ہوتی ہے اور صحیح جذبات کے لئے صحیح علم کی ضرورت ہوتی ہے.مگر جب یہ تینوں چیزیںاکٹھی ہو جائیں تو پھر تو وہ قوم یا فرد جوان تینوں خوبیوں کو اپنے اندر پید ا کر لیتا ہے اپنی ذات میں کامل ہو جاتا ہے.اَعْطٰى میں اللہ تعالیٰ نے اعمال کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ روپیہ جمع نہیں کرتے.اِتَّقٰی میں جذبات کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بُری باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے.پہلی سورتوں میں یہ ذکر کیا تھا کہ کفار کی یہ عادت ہے کہ وہ روپیہ قومی ضروریات کے لئے خرچ نہیں کرتے بلکہ لغو باتوں میںاس کو ضائع کر دیتے ہیں.چنانچہ فرمایا تھا.يَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا (البلد:۷) وہ کہتا ہے میںنے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کی تردید کی تھی اور بتایا تھا کہ بے شک تم نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا مگر قومی ضروریا ت کے لئے نہیں، یتامیٰ اور مساکین کی خبر گیری کے لئے نہیں، غرباء کی ترقی کے لئے نہیں بلکہ اپنی عزت اور اپنے نام و نمود کے لئے.اس لئے تمہارا وہ مال خرچ کرنا مال کو برباد کرنا تھا.گویا خرچ

Page 91

تو اس نے بھی کیا تھا مگر غلط طریق پر.اسی طرح فرمایا تھا.وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا (الفجر: ۲۰) تم اپنے باپ دادا کی جائیدادوں کو تباہ کر دیتے ہو.غرض پہلی سورتوں میں بتایا ہے کہ کفار اپنا مال خرچ تو کرتے ہیں مگر صحیح مقامات پر خرچ نہیںکرتے اسراف میں اس کو ضائع کر دیتے ہیں اور جہاں خرچ کرنا ضروری ہوتا ہے وہاں بخل اور امساک سے کام لیتے ہیں.اب یہ بتا تا ہے کہ مومن کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اَعْطٰى وہ دیتا ہے یعنی قومی ضروریات کا خیال رکھتا ہے اور جب بھی کسی قربانی کی ضرورت ہو وہ فوراً اس کے لئے تیا ر ہو جاتا ہے.یہاں یہ ایک نکتہ یاد رکھنے والا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اَعْطَى الْمَالَ نہیں فرمایا بلکہ صرف اَعْطٰى کا لفظ استعمال کیا ہے.درحقیقت یہ عربی زبان کا کمال ہے جو کسی اور زبان کو حاصل نہیں کہ کسی جگہ مفعول حذف کر کے اور کسی جگہ الفاظ کو اضافتوں سے آزاد کر کے معانی میں وسعت پیدا کر دی جاتی ہے.اگر اَعْطَى الْمَالَ فرماتا تو اس کے معنے صرف مال خرچ کرنے کے ہوتے مگر اب چونکہ صرف اَعْطٰى فرمایا ہے اس لئے اس کے معنے اَعْطَى الْمَالَ کے بھی ہو سکتے ہیں اَعْطَى الْعِلْمَ کے بھی ہو سکتے ہیں.اسی طرح ہر ایسی چیز کے ہو سکتے ہیں جو کسی کو دی جاسکتی ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میںدوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرۃ :۴).ہم نے ان کو جو کچھ دیا ہے اس کا ایک حصہ وہ بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کرتے ہیں.یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے عام رنگ میںانفاق کا ذکر کر کے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا یعنی اس کے پاس مال ہو تو وہ مال خرچ کرتا ہے، علم ہو تو علم خرچ کرتا ہے، وقت ہو تو وقت خرچ کرتا ہے غرض جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کیا ہو وہ اسے لوگوں کی بھلائی کے لئے خرچ کرتا رہتا ہے.اسی طرح اَعْطٰی میںاللہ تعالیٰ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیا دیتا ہے.مطلب یہ ہے کہ وہ ساری چیزیں جو ا س کو حاصل ہوں لوگوں کے لئے خرچ کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو طاقت دی ہو تو وہ طاقت دیتا ہے، وقت دیا ہو تو وقت دیتا ہے.ہمارے ملک میں بھی وقت کے لئے دینے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، اسی طرح مال دیا ہو تو مال دیتا ہے، اعلیٰ درجہ کے قویٰ عطا کئے ہوں تو ان سے ایسا کام لیتا ہے جو بنی نوع انسا ن کو فائدہ پہنچانے والا ہو.غرض اَعْطٰى کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس کے معنوں کو وسیع کر دیا ہے.پھر وَاتَّقٰی میںیہ بتایا کہ وہ جو کچھ کرتا ہے تقویٰ کے ماتحت کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ میںغلطی سے کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے لوگوں کو فائدہ کی بجائے نقصان پہنچ جائے.اگر کوئی شخص کسی کو اتنا روپیہ دے دیتا ہے کہ وہ اسے عیاشی میںضائع کرنا شروع کر دیتاہے تو یہ اس روپیہ کا بالکل غلط استعمال ہوگا.اسی طرح اگر کوئی شخص ظالم کو طاقت پہنچادیتا ہے تویہ بھی اس قوت کا برمحل استعمال نہیںہو گا.اسی لئے اَعْطٰى کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے وَاتَّقٰی کے الفاظ کا اضافہ کیا اور بتایا کہ وہ دیتا تو ہے مگر ساتھ ہی ڈرتا ہے

Page 92

میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے دنیا کی علمی یا عملی یا سیاسی یا عائلی حالت کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور میں ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جائوں.وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى میں یہ بتایا کہ وہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ افکار کی درستی میں بھی لگا رہتا ہے.صحیح عقائد اختیار کرنے کی جدوجہد کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر عقیدہ کی تصدیق کرے.گویا صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى کہہ کر یہ بتایا کہ وہ علم کی زیادتی کی کوشش کرتا رہتا ہے حُسْنٰی کے معنے صرف اچھی چیز کے نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ وہ احسن سے احسن چیز کی تصدیق کرتا ہے یعنی اپنے علم کو کمال تک پہنچا دیتا ہے.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ترتیب اوپر بتائی گئی ہے اس میں علم کو محرک جذبات بتایا گیا ہے اور جذبات کو محرک عمل قرار دیا گیا ہے مگر یہاں عمل پہلے ہے جذبات کا ذکر بعد میں ہے اور فکر کا اُس کے بعد میں.گویا ترتیب بالکل الٹ ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ ترتیب اللہ تعالیٰ نے درجہ کی بلندی کے اظہار کے لئے الٹ دی ہے چونکہ یہاں قومی مقابلے کا ذکر تھا جس میںعمل نمایا ں نظر آتا ہے اس لئے اسے پہلے،اُس کے محرک کو اُس کے بعد اور اُس کے محرک کو اس کے بعد رکھا گیا ہے ورنہ پیدائش کے لحاظ سے علم پہلے ہے جذبات دوسرے درجہ پر اور عمل تیسرے درجہ پر.لیکن قومی مقابلہ میں جذبات اور علم دونوں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.صرف عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسروں کے سامنے آتی ہے.یہاں چونکہ کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا اپنی کامیابی کے متعلق ادّعا بالکل لغو ہے.جو خوبیاں مسلمانوں میںپائی جاتی ہیں وہ تم میں موجود ہی نہیں اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان کامیاب ہوں اور تم ان کے مقابلہ میںشکست کھائواس لئے یہاں عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے.اگر جذبات اور افکار کو پہلے پیش کیا جاتا تو وہ ان کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ صحابہؓ کا علم تمہارے علم سے بہتر ہے تو وہ کہتے کہ یہ بالکل غلط ہے ہمارا علم ان سے ہزار درجہ بہتر ہے لیکن جب یہ کہا جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور تم وہ ہو جو غریبوں کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیںتھا پس چونکہ یہاں کفر کا مقابلہ تھا اس لئے اس مقابلہ کی اہمیت کے لحاظ سے عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ورنہ جہاں تک محرکات کا سوال ہے علم پہلے ہے جذبات بعدمیں اور عمل اس کے بعد ہے.مگر جہاں تک بُرے اور بھلے کے مقابلہ کا سوال ہے سب سے پہلے لوگوں کے سامنے عمل آتا ہے اور یہی وہ چیز

Page 93

میں کوئی ایسا کام نہ کر بیٹھوں جس سے دنیا کی علمی یا عملی یا سیاسی یا عائلی حالت کو کوئی نقصان پہنچ جائے اور میں ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جائوں.وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى میں یہ بتایا کہ وہ صرف اسی پر اکتفاء نہیں کرتا بلکہ وہ افکار کی درستی میں بھی لگا رہتا ہے.صحیح عقائد اختیار کرنے کی جدوجہد کرتاہے اور کوشش کرتا ہے کہ بہتر سے بہتر عقیدہ کی تصدیق کرے.گویا صَدَّقَ بِالْحُسْنٰى کہہ کر یہ بتایا کہ وہ علم کی زیادتی کی کوشش کرتا رہتا ہے حُسْنٰی کے معنے صرف اچھی چیز کے نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز کے ہیں اور معنے یہ ہیں کہ وہ احسن سے احسن چیز کی تصدیق کرتا ہے یعنی اپنے علم کو کمال تک پہنچا دیتا ہے.یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو ترتیب اوپر بتائی گئی ہے اس میں علم کو محرک جذبات بتایا گیا ہے اور جذبات کو محرک عمل قرار دیا گیا ہے مگر یہاں عمل پہلے ہے جذبات کا ذکر بعد میں ہے اور فکر کا اُس کے بعد میں.گویا ترتیب بالکل الٹ ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ ترتیب اللہ تعالیٰ نے درجہ کی بلندی کے اظہار کے لئے الٹ دی ہے چونکہ یہاں قومی مقابلے کا ذکر تھا جس میںعمل نمایا ں نظر آتا ہے اس لئے اسے پہلے،اُس کے محرک کو اُس کے بعد اور اُس کے محرک کو اس کے بعد رکھا گیا ہے ورنہ پیدائش کے لحاظ سے علم پہلے ہے جذبات دوسرے درجہ پر اور عمل تیسرے درجہ پر.لیکن قومی مقابلہ میں جذبات اور علم دونوں چھپے ہوئے ہوتے ہیں.صرف عمل ہی ایک ایسی چیز ہے جو دوسروں کے سامنے آتی ہے.یہاں چونکہ کفار اور مسلمانوں کا مقابلہ کیا گیا ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تمہارا اپنی کامیابی کے متعلق ادّعا بالکل لغو ہے.جو خوبیاں مسلمانوں میںپائی جاتی ہیں وہ تم میں موجود ہی نہیں اس لئے یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان کامیاب ہوں اور تم ان کے مقابلہ میںشکست کھائواس لئے یہاں عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے.اگر جذبات اور افکار کو پہلے پیش کیا جاتا تو وہ ان کی اہمیت کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے مثلاً اگر یہ کہا جاتا کہ صحابہؓ کا علم تمہارے علم سے بہتر ہے تو وہ کہتے کہ یہ بالکل غلط ہے ہمارا علم ان سے ہزار درجہ بہتر ہے لیکن جب یہ کہا جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور تم وہ ہو جو غریبوں کے لئے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کرتے تو اس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیںتھا پس چونکہ یہاں کفر کا مقابلہ تھا اس لئے اس مقابلہ کی اہمیت کے لحاظ سے عمل کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ورنہ جہاں تک محرکات کا سوال ہے علم پہلے ہے جذبات بعدمیں اور عمل اس کے بعد ہے.مگر جہاں تک بُرے اور بھلے کے مقابلہ کا سوال ہے سب سے پہلے لوگوں کے سامنے عمل آتا ہے اور یہی وہ چیز

Page 94

نہ ہونا استغناء پیدا کرتا ہے، صحیح عمل کا نہ ہونا بخل پیدا کرتا ہے اور صحیح فکر کا نہ ہونا تکذیب پیدا کرتا ہے.جس طرح پہلی آیات میں یہ بتایا تھا کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں صحیح عمل، صحیح جذبات اور صحیح فکر پایا جاتا ہے اسی طرح ان آیات میں یہ بتاتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں غلط علم، غلط جذبات اور غلط فکر پایا جاتا ہے اور چونکہ یہ دونوںمثالیںمسلمانوں اور کفار کی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان امور کا ذکر کرتے ہوئے کفار کو بتاتا ہے کہ تم میںجب یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیںاور مسلمانوں میں اس کے مقابلہ میں بہت بڑی خوبیاں پائی جاتی ہیںتو تم ان کا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو؟ اُن کے کاموں کا نتیجہ تو یہ ہوگا کہ ہم ان کے لئے یُسْـرٰی مہیا کر دیںگے مگر تمہارے کاموں کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم تمہارے لئے عُسْـرٰی مہیا کر دیںگے.مطلب یہ ہے کہ تمہارے سارے کام بگڑتے چلے جائیںگے جس کام کو بھی ہاتھ لگائو گے خراب ہو جائے گا اور یا پھر یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ ان اعمال کے نتیجہ میںتمہارے لئے نیکی کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو جائے گا.اصل کام اعمالِ صالح ہی ہیں ان اعمال سے انسان جتنا دور ہوتا جاتا ہے اتنا ہی نیکی کی طرف لوٹنا اُس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے گویا دو باتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ نیکی کا حصول مشکل ہو جائے گادوسرے یہ کہ تم جو کام بھی کرو گے اُس کا نتیجہ الٹ ہو گا کیونکہ تمہارے عمل میں خرابی پیدا ہو چکی ہے، تمہارے اندر بے پروائی ہے جو جذبات کے فقدان اور ان کی خرابی کی دلیل ہے اور پھر تمہارے اندر تکذیب پائی جاتی ہے جو ذہن و فکر کی نادرستی اور غلط علم کا ثبوت ہے.یہ ساری باتیں مل کر تمہاری ہلاکت اور بربادی کا موجب بن جائیں گی.وَ مَا يُغْنِيْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰىؕ۰۰۱۲ اور جب وہ ہلاک ہو گا تو اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ پہنچائے گا.حلّ لُغات.تَرَدّٰی تَرَدّٰی فِی الْھُوَّۃِ کے معنے ہیں سَقَطَ فِیْـھَا.وہ گڑھے میں گر گیا (اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلتَّـرَدِّیْ کے معنے ہیں التَّعَرُّضُ لِلْھَلَا کِ اپنے آپ کو ہلاکت کے پیش کرنا (مفردات) پس تَرَدّٰی کے معنے ہوں گے.گر گیا (۲) ہلاکت کے سامنے ہوا.تفسیر.فرماتا ہے جب مذکورہ بالا صفات والا گروہ ہلاک ہونے کے قریب پہنچے گا یا اپنے مقام سے گر جائے گا تو اسے اس کا مال کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا.جب تک عزت حاصل ہے وہ بے شک فخر کر لے لیکن جب تنزل کے آثار ظاہر ہو گئے اور ہلاکت قریب آگئی اس وقت کوئی چیز اس کے کام نہیں آئے گی.اس وقت وہ اچھے

Page 95

کام بھی کرے گا تو ان کا کوئی نتیجہ پید انہیں ہو گا کیونکہ عذاب کی ساعت سر پر کھڑی ہو گی.یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہلاکت کا فیصلہ نہ ہو اس وقت تک مال، دولت اور عزت ہر چیز انسان کے کام آجاتی ہے لیکن جب تباہی کا فیصلہ ہو جائے تو پھر کوئی چیز کام نہیںآتی.انسان مال خرچ کرتاہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے، رحم کرتا ہے تو الٹا نتیجہ پیدا ہوتا ہے.نہ دولت کام آتی ہے نہ عزت کام آتی ہے نہ نرمی اور محبت کام آتی ہے.پہلے اگر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی قدر کرتے ہیں مگر پھر وہ صدقہ کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اب ہمیںرشوت دے رہا ہے.پہلے نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں حسنِ اخلاق سے کام لے رہا ہے پھر اس وقت نرمی کرتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ہماری منتیں کر رہا ہے.گویا سارے حالات ا س کے مخالف ہو جاتے ہیں اور کوئی چیز ایسی نہیں رہتی جو ا س کو فائدہ پہنچا سکے.غرض فرمایاوَ مَا يُغْنِيْ عَنْهُ مَالُهٗۤ اِذَا تَرَدّٰى.جب اس کی ہلاکت کا وقت آئے گا تو اس وقت وہ وہی کام کرے گا جو ہم اب اسے کرنے کو کہتے ہیںمگر یہ نہیں کرتا.لیکن اس وقت ان کاموں کا الٹا نتیجہ پیدا ہو گا مال دے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں رشوت دیتا ہے.نرمی سے بولے گا تو لوگ کہیںگے ہماری خوشامد کرتا ہے.اِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدٰىٞۖ۰۰۱۳ ہدایت دینا یقیناً ہمار ے ہی ذمہ ہے.تفسیر.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسروںکو فائدہ پہنچانا، تقوی اللہ اختیار کرنا اور اچھی باتوں کی تصدیق کرنا یہ ان اعمال میں سے ہیں جو قوموں کو ترقی کی طرف لے جاتے ہیں اور بخل سے کام لینا، استغنٰی ظاہر کرنا اور سچی باتوں کی تکذیب میں حصہ لینا یہ ان اعمال میںسے ہیںجو قوموں کو ہلاکت کے گڑھے میںگرا دیتے ہیںمگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تاریک رات کے مارے ہوئے لوگوں کو خدا تعالیٰ ہی ہدایت دے سکتا ہے.اِنَّ عَلَیْنَا کے معنے ہیں ہم پر واجب ہے یا ہمارا ہی یہ کام ہے یعنی بنی نوع انسان سے بوجہ حقیقی شفقت اور مہربانی رکھنے کے یہ ہمارا ہی کام ہے کہ ہم ان کو ہدایت دیں انسان کا کام نہیں کہ وہ اپنے لئے آپ ہدایت تجویز کر لے کیونکہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کے متعلق آپ فیصلہ کر تا ہے جو غلط ہوتا ہے.بخیل اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے.ظالم اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتاہے اور وہ غلط ہوتا ہے.جاہل اپنے متعلق ایک فیصلہ کرتا ہے اور وہ غلط ہوتا ہے.پس خواہ وہ اپنے متعلق خود ہی کوئی فیصلہ کر لیتے پھر بھی وہ اپنے نفس کے اتنے خیر خواہ نہیں ہو سکتے تھے جتنے ہم ان کے خیر خواہ ہیں.

Page 96

اس لئے باوجود اس کے کہ وہ انکار کرتے ہیں، مخالفتیں کرتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں، مومنوں کو تکالیف پہنچاتے ہیںپھر بھی ہم ان کو ہدایت دیتے چلے جاتے ہیںکیونکہ ہم انسان کو پید اکرنے والے ہیں، ہم مشفق اور مہربان ہیں، ہم رحمٰن اور رحیم ہیں، ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہیںاور باوجود ان کے انکار کے انہیں ہدایت دیتے چلے جاتے ہیں.وَ اِنَّ لَنَا لَلْاٰخِرَةَ وَ الْاُوْلٰى ۰۰۱۴ اور ہر بات کی انتہا اور ابتداء بھی یقیناً ہمارے ہی اختیار میں ہے.تفسیر.کفار کے ایمان نہ لانے کی اصل وجوہات اس آیت میں اللہ تعالیٰ کفار کو بتاتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہاری راہ میں وہ کون سی مشکلات ہیں جن کی بناء پر تم سچائی کو قبول نہیں کرتے.تمہارے لئے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ تم دنیا چھوڑنے کے لئے تیار نہیںہو.تم دیکھتے ہو کہ مسلمان اپنے مال کی پرواہ نہیں کرتے.جب بھی کوئی قومی اور ملی ضرورت پیش آتی ہے وہ اپنے اموال کو بلا دریغ قربان کر دیتے ہیں مگر تم اپنے اموال کو سنبھال سنبھال کر رکھتے ہو اسی لئے تم مسلمانوں کے متعلق کہتے ہو کہ وہ پاگل ہیں تباہ اور برباد ہو جائیں گے کیونکہ وہ اپنے اموال کو ضائع کر رہے ہیں.لیکن ہم تباہ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہم اپنے مال کو حفاظت سے رکھتے ہیں.فرماتا ہے یہ خیال ہے جو تمہار ے دلوں میںپایا جاتا ہے مگر تمہیں اس حقیقت کا علم نہیں کہ ہمارے پاس ہی آخرت ہے اور ہمارے پاس ہی دنیا ہے.تم دنیا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہو نتیجہ یہ ہو گا کہ تمہیںدنیا بھی نہیںملے گی اوردین بھی تمہارے ہاتھ سے چلا جائے گا کیونکہ دنیا بھی ہمارے پاس ہے اور آخرت بھی ہمارے پاس ہے اس کے مقابلہ میںیہ مسلمان دنیا کو چھوڑ رہے ہیں مگر ہم انہیں آخرت بھی دیں گے اور دنیا بھی دیں گے.تم سمجھ رہے ہو کہ یہ اپنا نقصان کر رہے ہیں مگر یہ نقصان نہیںکر رہے جب یہ ہمارے پاس پہنچیںگے تو جس چیز کو چھوڑ کر یہ لوگ چلے تھے وہ وہیں کھڑی ہو گی اور یہ اس کو حاصل کر لیں گے.تم جانتے ہو کہ یہ لوگ ہمارے پاس آرہے ہیں جب یہ ہمارے پاس آرہے ہیں تو گو اس نیت اور ارادہ سے آرہے ہیں کہ ہمیںآخرت ملے گی مگر چونکہ دنیا بھی ہمارے پا س ہو گی اس لئے وہ بھی ان کو مل جائے گی اور تم لوگ آخرت چھوڑ کر دنیا کے پاس جا رہے ہو اور چونکہ دنیا ہمارے پاس ہے اور تم ہماری طرف نہیں آرہے اس لئے تمہاری جد وجہد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا بھی تمہارے ہاتھ سے جائے گی اور آخرت کی نعمتوں سے بھی تم محروم ہو جائو گے.گویا کفار کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں کسی شخص کے پاس بہت سا

Page 97

مال و اسباب تھا اور وہ اکیلا سفر کررہا تھا ایک چور نے اسے دیکھا تو اس نے ارادہ کیا کہ میں کسی طرح اس کا مال اڑائوں آخر سوچنے کے بعد اس نے یہ تجویز نکالی کہ ایک نیا اور اعلیٰ جوتا رستہ میں پھینک دیا اور خود ایک طرف چھپ گیا.جب وہ شخص جوتے کے پاس پہنچا تو اسے بڑا پسند آیا اور اس نے اسے اٹھا لیا مگر پھر خیال آیا کہ میں نے ایک جوتا کیا کرنا ہے اگر دوسرا جوتا بھی ساتھ ہوتا تو کام بھی آتا صرف ایک جوتا کیا کام دے سکتا ہے چنانچہ وہ اسے وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑا.کچھ دور آگے جا کر چور نے دوسرا جوتا پھینکا ہوا تھا جب وہ وہاں پہنچا تو اسے اپنی بے وقوفی پر افسوس آیا او ر اس نے کہا کہ مجھ سے کیسی سخت غلطی ہوئی کہ میں وہ جوتا اسی جگہ چھوڑ آیا اگر میںچھوڑ کرنہ آتا تو اب مکمل جوتا بن جاتا.اس خیال کے آنے پر اس نے اسباب وہیں رکھا اور جوتا لینے کے لئے واپس چل پڑا.چور کو موقع مل گیا اور اس نے اسباب بھی اٹھا لیا اور جوتا بھی.جب وہ واپس گیا تو دیکھا کہ وہاں جوتا نہیںکیونکہ وہ جوتا چور اٹھا کر لے آیا تھا.اب یہ پھر خالی ہاتھ اپنے اسباب کے پاس آیا تو دیکھا کہ وہاںاسباب بھی نہیں اور جوتا بھی غائب ہے.دنیا کے طلب کرنے والوں کی مثال یہی کافر کی حالت ہوتی ہے وہ آخرت کو چھوڑ کر دنیا کی طرف جاتا ہے لیکن آخرت تو اس کے ہاتھ سے نکل ہی چکی تھی دنیا بھی اس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے کیونکہ دنیا خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے اور وہ اس راستہ پر چل رہا ہوتا ہے جو شیطان کی طرف جاتا ہے.ادھر مومن کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کو چھوڑ کرآخرت کی طرف جاتا ہے اور کہتا ہے مجھے دنیا کی ضرورت نہیں مجھے صرف آخرت کی ضرورت ہے.مگر جب خد اتعالیٰ کے پاس پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے کہ دنیا اس کے پیچھے پیچھے چلی آرہی تھی اور وہ آخرت کے ساتھ کھڑی ہے.اور جب کافر دنیا کے پا س جاتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا نہ آخرت ہوتی ہے نہ دنیا ہوتی ہے پس فرماتا ہے وہ ہمارے پاس آئے تو آخرت کی تلاش میں تھے مگر جب وہ ہمارے پاس پہنچے تو انہوں نے اولیٰ کو بھی وہیں کھڑے پایا.فَاَنْذَرْتُكُمْ۠ نَارًا تَلَظّٰىۚ۰۰۱۵لَا يَصْلٰىهَاۤ اِلَّا الْاَشْقَىۙ۰۰۱۶ پس (یاد رکھو کہ ) میں نے (تو ) تم کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ سے ہوشیار کر دیا ہے.اس میں سوائے کسی بڑے ہی بد بخت الَّذِيْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰىؕ۰۰۱۷ کے کوئی داخل نہ ہوگا.(ایسا بد بخت )جس نے (حق کو) جھٹلایا اور (سچ سے) منہ پھیر لیا.حلّ لُغات.تَلَظّٰی تَلَظّٰی اصل میں تَتَلَظّٰی ہے مگر تاء گر گئی ہے اور تَلَظَّتِ النّٰارُ کے معنے ہیں

Page 98

تَلَھَّبَتْ.آگ بھڑک اٹھی.(اقرب) تفسیر.کَذَّبَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیح اعتقاد نہیں رکھتا تھا اور تَوَلّٰی میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ صحیح جذبات اور صحیح عمل سے کام نہیںلیتا تھا.پس چونکہ فکری، جذباتی اور عملی تینوں خرابیاں اس میں پائی جاتی تھیںاس لئے اس کا انجام اچھا نہ ہوا.کَذَّبَ کا لفظ اعتقادی خرابیوں کے لئے آیا ہے اور تَوَلّٰی کا لفظ جذبات اور اعمال کی خرابی پر دلالت کرتا ہے.وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىۙ۰۰۱۸ اور جو بڑا متقی ہوگا وہ ضرور اس سے دور رکھا جائے گا.تفسیر.وَ سَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَىسے یہ مراد نہیںکہ صرف ایسا شخص ہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا جو بہت متقی ہو.معمولی درجہ کا مومن نہیں بچایا جائے گا.کیونکہ یہاں تقویٰ کا تقویٰ سے مقابلہ نہیں بلکہ تقویٰ اور کفر کا مقابلہ ہے.پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ متقیوں میںسے زیادہ نیک بچایا جائے گا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ تم بھی اپنے متعلق کہتے ہو کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اور مومن بھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ ہم میں تقویٰ پایا جاتا ہے اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا تقویٰ صحیح ہے لیکن تمہارا یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ تم میں تقویٰ پایا جاتا ہے گویا یہاں مومنوں کے تقویٰ کا کفار کے خیالی تقویٰ سے مقابلہ کیا گیا ہے ورنہ یہ معنے نہیں کہ سب سے اعلیٰ متقی تو بہشت میں جائے گا اور ادنیٰ درجہ کے مومن اور متقی بہشت سے محروم رہیں گے.ایسے معنے کرنے قرآن کریم کی ان آیات کے بالکل خلاف ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر یہ فرمایا ہے کہ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ (الزلزال:۸) جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی کوئی نیکی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا.پس جنت میں تو ہر مومن اور متقی جائے گا خواہ وہ تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر ہو یا تقویٰ کے ادنیٰ مقام پر ہو اور جب قرآن کریم نے یہ مضمون بیان فرما دیا ہے تو اس آیت کے یہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیںکہ صرف اعلیٰ درجہ کا متقی ہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا.پس ظاہر ہے کہ یہاں مومنوں کے اتّقا کا آپس میں مقابلہ نہیں کیا گیا بلکہ کفار اور مسلمانوں کے تقویٰ کا باہمی مقابلہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس وقت دو تقویٰ کے دعویدار ہیں کافر بھی کہتا ہے کہ میں متقی ہوں اورمومن بھی کہتا

Page 99

ہے کہ میں متقی ہوں.اب ان میں سے جو اَ تْقٰی ہے یعنی جس کا تقویٰ بھاری ہے اور جس کے کاموں میں رضاء الٰہی حاصل کرنے کی روح زیادہ پائی جاتی ہے وہی دوزخ کی آگ سے بچایا جائے گا چنانچہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تشریح بھی کر دی ہے کہ وہ اَ تْقٰی کون ہے.الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى ۚ۰۰۱۹ (ایسا متقی) جو اپنا مال (اس طرح خدا کی راہ میں) دیتا ہے کہ (اس سے) تزکیہ حاصل کرے.وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤىۙ۰۰۲۰ اور کسی کا اس پر کوئی احسان نہیں کہ اس (عطا) سے (اس احسان کا) بدلہ اتارا جاتا ہو.تفسیر.اَ تْقٰی کون ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ اَ تْقٰی کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ کون ہے فرماتا ہے اَتْقٰی وہ ہے جو اپنا مال اس نیت اور ارادہ سے دیتا ہے کہ میں پاک ہو جائوں.يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى اَیْ حَالَ کَوْنِہٖ یَتَزَکّٰی کہ وہ اپنا مال دیتا ہے ایسی حالت میں کہ وہ پاک ہونا چاہتا ہے.دوسری بات اس میںیہ ہوتی ہے کہ وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى کسی شخص کا اس پر کوئی احسان نہیں ہوتا کسی کی نعمت میں سے کوئی نعمت اس کے پاس نہیں ہوتی یعنی کسی کا سابق احسان اس پر نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ دے رہا ہو.اس کے اعمال کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ میں کسی کا احسان اتاروں بلکہ وہ ایسے اعمال کرتا ہے جن سے اس کا دوسروں پر احسان ہوجاتا ہے گویا وہ یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا کسی نہ کسی رنگ میںدوسروں پر احسان ہو مگر وہ یہ نہیں چاہتا کہ اُس پر کسی کا احسان ہو.اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى ۚ۰۰۲۱ ہاں مگر اپنے عالی شان رب کی خوشنودی حاصل کرنا (اس کا مقصود ہوتا ہے).حلّ لُغات.اَلْوَجْہُ اَلْوَجْہُ کے معنے ہیں اَلْمَرْضَاۃُ.رضا مندی (اقرب) تفسیر.مومن کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اموال اس رنگ میں خرچ کرتا ہے کہ اس پر کسی کا احسان نہیں ہوتا جس کا وہ بدلہ اتار رہا ہو بلکہ بغیر اس کے کہ اس پر کسی کا سابق احسان ہو وہ اپنے رب کی رضامندی حاصل

Page 100

کرنے کے لئے صدقہ و خیرات کرتا یا بنی نوع انسان کی امداد کے لئے اپنا روپیہ صرف کرتا ہے.یہاں رب کی صفت اعلیٰ بیان فرمائی ہے جو سب سے بڑا ہے اس سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ بے شک انسانوں پر دوسرے انسانوں کے بھی احسان ہوتے ہیں لیکن چونکہ اصل محسن اللہ تعالیٰ ہے اور سب سے زیادہ وہی مربّی ہے اس لئے مومن اس کی رضا کو سب دوسرے محسنوں کی رضا پر مقدم کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے کام کیا تو چونکہ سب احسانوں کا منبع وہ ہے اس لئے سارے ہی محسنوں کا بدلہ بھی اتر گیا.وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى ؒ۰۰۲۲ اور وہ ضرور اس سے راضی ہو جائے گا.تفسیر.فرماتا ہے جب ایک شخص اپنے اموال خرچ کرتا ہے اور اس کے مدنظر محض خدا تعالیٰ کی رضامندی ہوتی ہے یہ غرض نہیں ہوتی کہ وہ کسی سابق احسان کا بدلہ اتارے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ تو میری رضا کے لئے اس قدر جدوجہد کرے اور میں اس سے راضی نہ ہوں.جب وہ خد اکی رضا کے لئے ایسا کر رہا ہے تو یقیناً خدا بھی اس سے راضی ہو جائے گا.جب ایک کمزور اور ناتوان بندہ دنیا سے اپنی توجہات ہٹا کر محض خدا تعالیٰ کی رضا کےلئے اپنے اموال کو قربان کر رہا ہو تو خدا تعالیٰ کی شان سے یہ بالکل بعید ہوتا ہے کہ وہ اسے اپنی رضا کی خلعتِ فاخرہ نہ پہنائے اور اسے اپنے پیاروں میںشامل نہ کر لے ایسا شخص یقیناً اپنے مقصد کو حاصل کر لیتا اور خدا تعالیٰ کی رضا کا ایک دن وارث ہو جاتا ہے کیونکہ وہ دنیا کے طریق اور اس کے معمول کے خلاف اپنی قربانی کا لوگوں سے کوئی معاوضہ طلب نہیںکرتا.دنیا میں لوگ قربانیاں کرتے ہیں تو اس لئے کہ انہیں عہدے مل جائیں یا افسران بالا کی خوشنودی اُن کو حاصل ہو جائے یا ان کی تنخواہ میںاضافہ ہو جائے یا پبلک میں اُن کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے مگر یہ وہ شخص ہوتاہے جو ہر قسم کی دنیوی غرض سے اپنے دل کو صاف کر دیتا ہے وہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ میری تعریف کریں یا میرے کاموں پر واہ وا کے نعرے بلند کریں یا مجھے پبلک میں کوئی خاص عزت دی جائے وہ صرف اپنے رب کی رضا کا بھوکا ہوتا ہے اوراس کے مد نظر محض یہ بات ہوتی ہے کہ جس طرح میںدوسروں کا خیال رکھتا ہوں اسی طرح اللہ تعالیٰ میرا خیال رکھے اور وہ میرے گناہوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجھ سے راضی ہو جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب وہ دنیا کے تمام دروازوں کو چھوڑ کر میرے دروازہ پر آگرا ہے اور ہر قسم کی خوشنودیوں کو اس نے محض میری خوشنودی کے

Page 101

لئے ترک کر دیا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں اس کا خیال نہ رکھوں، جس طرح اس نے اِبْتِغَآءً لِوَجْهِ اللّٰهِ اپنے اموال کی قربانی کی ہے اسی طرح میں اس پر راضی ہو جائوں گا اور اسے اپنے قرب میںجگہ دوں گا.وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى میں وہی بات بیان کی گئی ہے جو يٰۤاَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ ارْجِعِيْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً(الفجر:۲۸،۲۹) میں بیان کی گئی تھی.صرف یہ فرق ہے کہ وہاں رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے الفا ظ تھے اور یہاں یہ الفاظ ہیں کہ وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى.ورنہ مفہوم اور معانی کے لحاظ سے دونوں میں کوئی فرق نہیں.بندے کی خواہش یہ تھی کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو جائے گویا بندے کا راضی ہونا اس پر منحصر تھا کہ اُس کا خدا تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى نے بتا دیا کہ وہ مَرْضِیَّۃً بن جائے گا یعنی خدا اس سے راضی ہو جائے گا اور چونکہ یہی بندہ کی خواہش تھی اس لئے خدا تعالیٰ کے راضی ہونے کے بعد یہ بھی راضی ہو جائے گا اور جب یہ مقام اسے حاصل ہو جائے گا تو پھر یہ بھی یقینی بات ہے کہ وہ فَادْخُلِيْ فِيْ عِبٰدِيْ وَ ادْخُلِيْ جَنَّتِيْ(الفجر:۳۰،۳۱) کا بھی مستحق ہو جائے گا اور جس شخص کو جنت حاصل ہو جائے وہ ہر قسم کی مکروہات سے امن میں آجاتا ہے.غرض اس سورۃ کا اختتام اللہ تعالیٰ نے اس بات پر فرمایا ہے کہ مسلمان دنیا میں کامیاب ہوں گے لیکن کفار باوجود اپنی شدید مخالفت کے کامیابی کا منہ نہیں دیکھ سکیںگے.مسلمانوں کی محنت اور ان کی قربانیاں اور کفار کی سستی اور ان کا قربانیوں میں حصہ نہ لینا، مسلمانوں کے اندر افاضہ اور استفاضہ دونوں قوتوں کا موجود ہونا اور کفار کے اندر افاضہ کی قوت کا نہ ہونا اور استفاضہ کی قوت سے کام نہ لینا ان دونوں کا ایک نتیجہ نہیں نکل سکتا کیونکہ کفار اور مسلمانوں کے کام بالکل الگ الگ ہیں.مسلمانوں کے کاموں سے خدا راضی ہو جائے گا لیکن کفار کے کاموں سے نہیں.یہاں گو الٹ نتیجہ اللہ تعالیٰ نے بیان نہیں کیا مگر وہ نتیجہ خودبخود نکل آتا ہے کہ کفار کو ان کے کاموں کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو گی اور وہ اس کے غضب کا نشانہ بن کر تباہ و برباد ہو جائیں گے.

Page 102

سورۃ الضُّحٰی مَکِّیَّۃٌ سورۃ ضحٰی.یہ سورۃ مکی ہے.وَھِیَ اِحْدٰی عَشْـرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِـیْـھَـا رَکُوْعٌ وَّاحِدٌ اور اس کی بسم اللہ کے سوا گیارہ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ ضُحٰی مکی ہے ابن عباسؓکہتے ہیں کہ نَزَ لَتْ بِـمَکَّۃَ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی تھی.بعض کہتے ہیں فَتْـرَۃُ الْوَحْیِ کے بعد یہ سورۃ نازل ہوئی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ سورۃ پڑھتے یا اس کی تلاوت سنتے تو اس وقت تکبیر کہنے کا حکم دیتے.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ صرف اتنا کہتے کہ اللّٰہُ اَکْبَـرْ کہو لیکن بعض دوسری روایات میںیہ آیا ہے کہ آپ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ فرمایا کرتے تھے.سورۃ کے وجہ نزول کے متعلق بعض بیان کردہ وجوہات بخاری میںروایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیمار ہوئے اور تہجد کے لئے نہ اٹھے دو تین راتیں اس طرح گذر گئیں اس پر ایک ہمسایہ مخالف عورت آئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہنے لگی معلوم ہوتاہے تیرے شیطان نے (نعوذ باللہ ) تجھے چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ دو تین رات سے تیرے پاس نہیں آیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت آپ بلند آواز سے تلاوت کیا کرتے تھے اور وہ اپنے خیال میں یہ سمجھتی تھی کہ آپ جو قرآن پڑھ رہے ہیں یہ درحقیقت کوئی سکھانے والا آپ کو سکھا رہا ہے جب بیماری کی وجہ سے آپ نہ اٹھے اور دو تین راتیں اسی حالت میں گذر گئیں تو اس نے قیاس کیا کہ نعوذ باللہ آپ کو جو شخص سکھاتا تھا یا جو روح سکھاتی تھی اس نے آپ کو چھوڑ دیا ہے اس پر سورۃ الضُّحٰی نازل ہوئی.جندبؓسے روایت ہے کہ حضرت جبرائیل کچھ عرصہ تک وحی لے کر نہ اترے اس پر کفار نے کہا قَدْ وُدِّعَ مُـحَمَّدٌ (صلعم) محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر جو بھی کلام اترتا تھا اس کا اترنا اب بند ہو گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے چھوڑ دیا گیا ہے فَنَـزَ لَتْ مَا وَدَّ عَکَ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں کہ وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.جندبؓسے ہی ایک دوسری روایت ہے کہ ایک دفعہ کچھ عرصہ تک وحی بند رہی تو آپ کی ایک چچیری بہن نے کہا

Page 103

مَا اَریٰ صَاحِبَکَ اِلَّا قَدْ قَلَاکَ کہ میرا تو یہ خیال ہے کہ تمہارا صاحب تم سے خفا ہو گیا ہے اس نے صاحب کا لفظ اس لئے بولا کہ جو لوگ خدا کو اس کلام کا نازل کرنے والا قرار دیتے ہیں وہ اس سے خدا مراد لے لیں اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ شیطان آپ پر یہ کلام نازل کیا کرتا ہے وہ اس سے شیطان مراد لے لیں.بہرحال اس نے کہا جو بھی کلام نازل کیا کرتاتھا خواہ وہ خدا تھا یا شیطان معلوم ہوتا ہے وہ اب تم سے خفا ہو گیا ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی.یہ مختلف روایات ہیں جو اس سورۃ کے نزول کے متعلق بیان کی جاتی ہیں.ایک میں آتا ہے کہ ایک ہمسائی نے آکر کہا.ایک میںآتا ہے کہ لوگوں میں یہ چرچا ہوا اور ایک میںآتا ہے کہ آپ کی چچیر ی بہن نے کہا.اب دو ہی صورتیںہیں یا تو ہم یہ کہیںکہ یہ ساری روایتیں غلط ہیں اور فیصلہ کر دیں کہ ان روایات کا سورۃ کے نزول سے کوئی بھی تعلق نہیں اور یا پھر یہ طریق اختیار کریں جو میرے نزدیک صحیح ہے کہ ایک وقت میں ایک واقعہ پر مختلف لوگ چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور ان چہ میگوئیوں کو اس واقعہ سے کسی ملتی جلتی عبارت کے ساتھ چسپاںکر لیا جاتا ہے مثلاً حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک دفعہ الہام ہوا.A WORD AND TWO GIRLSـ ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ ۵۰۵) حافظ احمد اللہ صاحب ان دنوں قادیان آرہے تھے راستہ میں انہوں نے کسی دوست سے پوچھا کہ کوئی تازہ وحی سنائو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر نازل ہوئی ہو اس نے کہا ابھی ایک الہام ہوا ہے کہ ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز‘‘.حافظ احمد اللہ صاحب نے جھٹ کا غذ لیا اور حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام کو لکھا مبارک ہو الہام پورا ہو گیا میںاکیلا نہیں آیا بلکہ میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی آرہی تھیں اور یہ الہام اسی واقعہ پر چسپاں ہوتا ہے.پھر میں نے بعض اور لوگوں کو دیکھا کہ ان میںسے جس کی بھی دو بیٹیاں اور ایک لڑکا تھا اس نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ الہام میرے متعلق ہے.میرا خیال ہے کہ ہماری جماعت میں دو درجن کے قریب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مختلف پیرایوں میںیہ الہام اپنے اوپر چسپاں کیا.تو بعض دفعہ ایک ملتی جلتی چیز ہوتی ہے جسے انسان اپنے خیال میں کسی الہام پر چسپاں کر دیتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں نے اس الہام کے شانِ نزول کا پتہ لگا لیا حالانکہ الہامات کے معانی ہمیشہ ان کی ترتیب سے سمجھے جاتے ہیں اگر اس ترتیب سے وہ علیحدہ کر لئے جائیں تو ہر ٹکڑہ کے کوئی نہ کوئی معنے ہو جائیں گے مثلاً کوئی شخص کہتا ہے.ادھر آئو.اب یہ الفاظ ایسے ہیں جو ہر شخص استعمال کر سکتا ہے مگر موقعہ کے لحا ظ سے پتہ لگ جائے گا کہ اس کا مخاطب کون شخص ہے.فرض کرو زید سامنے ہو اور اس وقت کوئی شخص آواز دے کہ ادھر آئو تو ہر شخص سمجھ جائے گا کہ اس سے مراد زید ہے کوئی اور شخص نہیں.لیکن اگر اس فقرہ کو موقعہ سے الگ کر لو تو دنیا کے ہر شخص پر یہ چسپاں ہو جائے گا.اسی طرح یہ جو کہا جاتا ہے کہ یہ آیت فلاں موقعہ پر نازل ہوئی

Page 104

ہے اس کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ قریب زمانہ میں اس سے کوئی ملتا جلتا واقعہ لوگوں کو نظر آتا ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ یہی واقعہ اس آیت کے نازل ہونے کا اصل سبب ہے چنانچہ وہ اس آیت کو اپنی سمجھ کے مطابق اس واقعہ پر چسپاں کر دیتے ہیں اور اگر ایک سے زیادہ ملتے جلتے واقعات ہوں تو مختلف لوگوں کی قیاس آرائیوں کی وجہ سے اس قسم کی روایات میں بہت کچھ اختلاف واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ اسی سورۃ کے شانِ نزول کے متعلق تین مختلف واقعات پیش کئے جاتے ہیں.کوئی ہمسائی عورت کا واقعہ پیش کرتا ہے.کوئی کفار کے عام خیالات کو اس سورۃ کے نزول کا اصل باعث قرار دیتا ہے اور کوئی آپ کی ایک چچیری بہن کا واقعہ اس کا موجب قراردیتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ابتدائی سورۃ ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی ایام میںکچھ دنوں کے لئے وحی رکی بھی ہے کیونکہ منشاءِ الٰہی یہ تھا کہ آپ پر نزول وحی کی وجہ سے جو ہیبت طاری ہوئی ہے اس پر کچھ وقت گزر جائے اور وحی آپ میں سموئی جائے.پہلے پہلے جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو انسان اس کی اہمیت کو فوراً نہیں سمجھ جاتا بلکہ آہستہ آہستہ اس کے قلب پر حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک موقعہ پر مدینہ والوں نے کہا کہ یا رسول اللہ وہ وقت اور تھا جب ہم نے آپ سے یہ معاہدہ کیا تھا کہ اگر دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوا تو ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑنا پڑا تو ہم مدد کے ذمہ دار نہیں ہوں گے.یا رسول اللہ وہ وقت ایسا تھا جب ہمیں آپ کی حقیقت کا علم نہیںتھا اور اسی وجہ سے ایسا معاہدہ کیا گیا مگر اب ہم پر آپ کی حقیقت کھل چکی ہے، آپ کی شان اور عظمت کا ہمیں علم ہو چکا ہے اس لئے اب کسی معاہدے کا سوال نہیں.ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے، آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیںگے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گذرے.تو اہم واقعات کو فوراً سمجھنا بڑا مشکل ہوتا ہے.آہستہ آہستہ اُن کی حقیقت کھلتی ہے اور انسان کو پتہ لگتا ہے کہ الٰہی منشا ء کیا ہے.فترۃ وحی کی وجہ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے پہلے وحی نازل کی اور پھر ایک وقفہ ڈال دیا.اس عرصہ میں آپ نے وحی پر تدبر کیا، اپنے کام کی اہمیت کو سمجھا اور اس طرح اپنے ایمان اور اپنے عزم اور اپنے استقلال میں پہلے سے بہت زیادہ اضافہ کر لیا.جب خد اتعالیٰ نے دیکھا کہ اب فزع کا کوئی سوال نہیںرہا، آپ کام کے لئے تیار ہو چکے ہیں اور وحی والہام کی اہمیت آپ کے دل میںداخل ہو چکی ہے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیغام پر پیغام دینے شروع کر دیئے.غرض پیغام اور پیغام کی تیاری میں کچھ وقفہ چاہیے وہ وقفہ اس طرح ہوا کہ پہلے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ والی سورۃ نازل ہوئی.پھر سورۃ المدثر وغیرہ نازل ہوئیں.یہ سورتیں آپ کی طرف اللہ تعالیٰ کا پیغام لائی تھیں، آئندہ کے متعلق کئی قسم کی بشارات

Page 105

اپنے اندر رکھتی تھیںاور آپ کو یہ کہنے آئی تھیںکہ ایک بہت بڑا کام تمہارے سپرد کیا جا رہا ہے اس کے لئے تیار ہو جائو.یہ کام کس رنگ میںہونا تھا اور کیا کیا محنتیںآپ کو اس غرض کے لئے کرنی تھیں.اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دماغ کو تیار ہونا چاہیے تھا.یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ ادھر الہام ہوتا اور ادھر کہہ دیا جاتا کہ جائو اور کام کرو.درمیان میں بہرحال ایک وقفہ کی ضرورت تھی.چنانچہ گذشتہ انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک رہا ہے کہ پہلے ان کو الہام ہوا او ر پھر ایک وقفہ پیدا کیا گیا تا کہ اس عرصہ میںان کا دماغ آئندہ کے کام کے متعلق پوری طرح تیار ہو جائے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھو فلسطین سے جاتے ہوئے آپ کو الہام ہو ا کہ يٰمُوْسٰى.اِنِّيْۤ اَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ١ۚ اِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى (طٰہٰ:۱۲،۱۳ ) اے موسیٰ میں ہی تیرا رب ہوں پس اپنی جوتیاں اتار دے کیونکہ تو مقدس وادی طویٰ میںہے.مگر اس کے بعد ایک وقفہ ہوا اور مصر پہنچ کر دوبارہ وحی کا سلسلہ شروع ہوا.فلسطین سے اس زمانہ میںمصر پہنچنا کوئی معمولی بات نہیں تھی کم سے کم دو مہینے صرف ہو جاتے تھے بلکہ بعض دفعہ چھ چھ ماہ بھی صرف ہو جاتے کیونکہ مخدوش راستوں کی وجہ سے قافلوں کے ساتھ سفر کیا جاتا تھا اور بعض دفعہ تو قافلہ جلد مل جاتا اور بعض دفعہ چھ چھ ماہ تک انتظار کرنا پڑتا کہ کب قافلہ تیار ہو اور اس سفر کو طے کیا جائے.یہ تیاری کا وقت تھا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ملا کہ چند ماہ پہلے ابتدائی وحی نازل ہوئی پھر ایک وقفہ پیدا کیاگیا تاکہ اس عرصہ میںآپ اپنے کام کی اہمیت کے مطابق تیاری کر لیں اور جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا کہ تیاری مکمل ہو چکی ہے تو اس کے بعد تورات کا نزول ہوا.ایسا ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوا.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے کچھ وقفہ پیدا کر دیا.آپ اس وقفہ میں ان تمام باتوں کو سوچتے رہے اور غور کرتے رہے کہ الٰہی منشاء کیا ہے.جب دنیا کے حالات پر آپ نے غور کیا اور سمجھ لیا کہ یہ یہ خرابیاں ہیں جن کو میں نے دور کرنا ہے.ورقہ بن نوفل نے آپ کی توجہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی کی طرف پھیر دیا اور قوم کے حالات کو بھی آپ نے اچھی طرح دیکھ لیا اور اس کی اصلاح کے لئے کمر باندھ لی تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی ہمت بندھانے کے لئے کچھ بشارتیںنازل ہوئیں.اسی طرح دشمنوںکے متعلق کچھ انذار کی خبریں نازل ہونی شروع ہو گئیں.اس دوران میں دشمنوں نے جو جو باتیں کیں لوگوں نے ان تمام باتوں کو اس سورۃ پر چسپاں کر دیا اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ سورۃ ان واقعات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے حالانکہ اس سورۃ کا ان واقعات کے ساتھ کوئی جوڑہی نہیں.ایک عورت نے کوئی بات کہہ دی تواس کا وَالضُّحٰى.وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ساتھ کیا جوڑ ہوا؟ اگر عورت یہ بات نہ کہتی تو کیا خدا تعالیٰ آپ کو تسلی نہ دیتا؟ ہم مان لیتے ہیں کہ مکہ والوں نے یہ باتیں کہیں، یہ بھی مان لیتے ہیں کہ آپ کی کسی چچیری بہن نے

Page 106

کوئی بات کہی اور اس وقت کہی جب اس سورۃ کے کچھ حصوں سے ان باتوں کا توارد ہو گیا مگر پھر بھی یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سورۃ انہی واقعات کی وجہ سے نازل ہوئی ہے اگر یہ واقعات نہ ہوتے تو یہ سورۃ نازل نہ ہوتی.درحقیقت اکثر محل قرآن کریم کی آیات کے نزول کے جو لوگوں کی طرف سے بتائے جاتے ہیں حقیقتاً ایسے نہیں.اسی لئے ان میں اختلاف پیدا ہو جاتا ہے جیسے اس جگہ ہوا کہ کوئی کہتا ہے ایک ہمسائی عورت کی ایک بے معنی بات کی وجہ سے یہ سورۃ نازل ہوئی.کوئی کہتا ہے کفار میں چونکہ فترۃ الوحی پر عام چرچا ہو گیا تھا اس لئے یہ سورۃ نازل ہوئی.کوئی کہتا ہے اس سور ۃ کے نزول کا محرک آپ کی چچیری بہن کا واقعہ ہے.اسی طرح اور بھی کئی آیات ہیں جن کے متعلق بعض صحابی کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی اور بعض کہتے ہیں کہ یہ میرے متعلق نازل ہوئی جیسے ’’اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز ‘‘ کے الہام پر بہت سے احمدیوں کو غلط فہمی ہو گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ الہام ہمارے متعلق ہے.سر میور کے نزدیک یہ سورۃ سورۃ البلد کے بعد کی نازل شدہ ہے لیکن نولڈکے کے نزدیک سورۃ الانشراح کے بعد نازل ہوئی ہے.میرے نزدیک یہ سورۃ اپنے مضمون سے ظاہر کرتی ہے کہ بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے کیونکہ اس میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا ہے فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ.وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ یعنی یتیم پر سختی نہ کرو اور سائل کو رد نہ کرو.لیکن پہلی سورتوں میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمان ایسا ہی کرتے ہیں.پس اگر روایات کی تائید میں یہ بات پیش کی جائے کہ اس میںچونکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایسا کرو اور عمل ہمیشہ حکم کے بعد ہوتا ہے اس لئے یہ اندرونی شہادت اس بات کی تائید کرتی ہے کہ یہ سورۃ پہلے نازل ہوئی ہے اور دوسری سورتیں جن میں مسلمانوں کے عمل کا ذکر ہے وہ اس کے بعد نازل ہوئی ہیں تو یہ بات قرین قیاس سمجھی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں ابتدائی حکم نہیں دیابلکہ یہ فرمایا ہے کہ اس سورۃ کے شروع میںجن انعامات کا وعدہ دیا گیا ہے یا جن انعامات کے ظہور کی خبر دی گئی ہے جب وہ انعامات نازل ہو جائیںتو ان کے شکریہ کے طورپر جو عمل کرنے کے لئے کہا جائے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ اس وقت نازل ہوا ہے جیسے حضرت زکریا علیہ السلام کو کہا گیا کہ تو نے روزے رکھنے ہیں (مریم رکوع۱) اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ روزے اسی وقت فرض ہوئے تھے اس سے پہلے نہیں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ فرض تو پہلے سے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب بھی تم روزے رکھو.اس لئے ضروری نہیں کہ ہم قطعی طورپر ان احکام سے یہ نتیجہ نکال سکیں کہ چونکہ ان میںحکم ہے اور حکم پہلے ہونا چاہیے اور عمل بعد میں.اس لئے یہ سورۃ بہت پہلے نازل ہوئی ہے بلکہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس سورۃ میںیہ حکم دیا گیا ہے کہ گو یہ کام پہلے بھی تم کرتے ہو مگر جب یہ

Page 107

الہامات نازل ہو جائیں تو ان کے شکریہ کے طورپر اور بھی ان کاموں کی طرف توجہ کرنا.ترتیب پہلی سورتوں اور اس سورۃ کا مضمون اس لحاظ سے ایک ہی ہے کہ ان میں مکہ والوں کی اسی قسم کی بدیوں کا ذکر تھا جو یتامیٰ اور مساکین کی نسبت ان سے سر زد ہوتی تھیں.اور اس میں بھی یتامیٰ اور مساکین کا ہی ذکر ہے اور اموال کی حفاظت اور ان کو صحیح طورپر خرچ کرنے کی نصیحت ہے.فرق صرف یہ ہے کہ سورۃ الضحیٰ میںصرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ذریعہ آپ کے اتباع کو ایسا کرنے کی نصیحت کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں یہ مقابلہ تھا کہ دوسرے ایسا نہیں کرتے لیکن مسلمان ایسا کرتے ہیں.سورۃ ضحیٰ کا تعلق پہلی سورۃ سے اس سورۃ کا دوسرا تعلق پہلی سورتوں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میںیہ ذکر تھا کہ بندہ خدا تعالیٰ سے کیا سلوک کرتا ہے اور یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ بندے سے کیا سلوک کرتا ہے مثلاً پہلی سورۃ میںزیادہ زور اس بات پر تھا کہ بندہ خدا تعالیٰ کے لئے صدقہ و خیرات کرتا ہے.جیسے فرمایا تھا وَسَيُجَنَّبُهَا الْاَتْقَى.الَّذِيْ يُؤْتِيْ مَالَهٗ يَتَزَكّٰى.وَ مَا لِاَحَدٍ عِنْدَهٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰۤى.اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰى.وَ لَسَوْفَ يَرْضٰى.گویا وہا ں نیک اور متقی بندے کے عمل کا ذکر تھا کہ وہ یوں کرتا ہے لیکن یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک اور متقی بندے یعنی نفسِ کامل سے کیسا سلوک کرتا ہے.گویا پہلی سورتوں کے مضامین بالخصوص سورۃ الیل کے مضمون کا یہ تتمہ ہے.بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار حم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں).وَ الضُّحٰىۙ۰۰۲ وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰىۙ۰۰۳ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ (مجھے) قسم ہے دن کی جب وہ روشن ہو جائے.اور رات کی جب وہ قائم ہوجائے.کہ نہ تیرے رب نے تجھے ترک کیا ہے.وَ مَا قَلٰىؕ۰۰۴ اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے.حلّ لُغات.ضُـحٰی ضُـحٰی : تھوڑا سا دن نکل چکے تو اس وقت سے ضُـحٰی شروع ہو تی ہے اور زوال تک جاتی

Page 108

ہے لیکن بعض کے نزدیک زوال کے قریب جا کر ضُـحٰی کا وقت نہیں رہتا بلکہ وہ ضُـحَاءٌ کہلاتا ہے.(اقرب) سَـجٰی سَـجٰی کے معنے ہیں جب اندھیرا ترقی کرتے کرتے اپنے کمال کو پہنچ جائے.چنانچہ مفردات میں لکھا ہے وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى اَیْ سَکَنَ(مفردات).جب رات ٹھہر جاتی ہے اور اس کا اندھیرا اور نہیں بڑھتا جتنا اس نے بڑھنا ہوتا ہے وہ بڑھ جاتا ہے.وَدَّعَكَ وَدَّعَكَ : وَدَّعَ الرَّجُلَ کے معنے ہوتے ہیں ھَجَرَہٗ کسی کوچھوڑ دیا.(اقرب) قَلٰى قَلٰى : قَلَا فُلَانٌ (قِلًی وَ قَلَاءً) کے معنے ہوتے ہیں اَبْغَضَہٗ وَ کَرِھَہٗ غَایَۃَ الْکَرَاھَۃِ فَتَـرَکَہٗ.کسی پر ناراضگی کا اظہار کیا اور اس کو انتہائی طور پر ناپسند کیا اور ناپسندیدگی کی بناء پر چھوڑدیا.جب قَلَا الْاِبِلَ کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں طَرَدَھَا وَ سَاقَھَا.اس نے اونٹ کو چلایا اور دھتکارا یعنی اسے مار کے آگے ہنکایا.قَلَا الْاِبِلَ میںقلا واوی ہے یعنی آخر میں اصل واو ہے اور قَلٰى فُلَانٌ میں آخر میںیاء ہے.(اقرب) تفسیر.آنحضرتؐکی زندگی میں ایک رات اور ایک ضُحٰی کا خاص واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ایک ضُـحٰی اور ایک لیل خصوصیت رکھتی ہیں.ضُـحٰی وہ دوپہر ہے جبکہ آپ مکہ کو فتح کر کے اس میںداخل ہوئے تھے اور وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى سے مرا د وہ رات ہے جب کہ آپ نے مکہ کو چھوڑا تھا گویا وَ الضُّحٰى کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والا دن.اور وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے معنے ہوئے ایک خصوصیت رکھنے والی رات.اور درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے بڑے واقعات اگر کوئی خلاصۃ ً پوچھے تو یہی دو ہیں.دشمنوں نے آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کیا پھر خدا تعالیٰ نے اپنے خاص نشانات سے دشمنوں کو تباہ کر کے آپ کو ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میںداخل فرمایا.انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تیری سچائی کی شہادت کے طورپر یا اگلے مضمون کی سچائی کو واضح کرنے کے لئے ایک ضُـحٰی کو پیش کرتے ہیں اور ایک ایسی رات کو پیش کرتے ہیں جو تاریکی سے اپنے اردگرد کی تمام چیزوں کو ڈھانپ لے گی.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہاں ضُـحٰی پہلے ہے اور رات پیچھے حالانکہ فتح مکہ بعد میں ہوئی ہے اور ہجرت پہلی ہوئی ہے.اس کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ دوسری جگہ قرآن مجید میںآتا ہے رَبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا (بنی اسـرآءیل:۸۱) ان آیتوںمیں صاف پیشگوئی فتح مکہ کی ہے کیونکہ فتح مکہ کے موقعہ پر ہی آپ بت توڑتے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ١ؕ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (جو اوپر کی آیات کے بعد آتا ہے) گویا آپ نے اپنے عمل سے واضح فرما دیا کہ وہ

Page 109

جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ رَبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا آج پوری ہو گئی ہے.اس آیت میںبھی اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ کو پہلے رکھا گیا ہے جس میںمکہ میں داخل ہونے کی خبر دی گئی تھی او ر اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ کو بعد میں بیان کیا گیا ہے جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی حالانکہ ہجرت پہلے ہوئی تھی اور فتح مکہ بعد میں.اس کی وجہ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ہے کہ الٰہی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے پیاروں سے بات کرتے ہوئے خوشی کی خبر پہلے سناتا ہے اور تکلیف کا ذکر بعد میں کرتا ہے تا کہ خوشی کی خبر رنج کی کلفت کو کم کرنے کا موجب بن جائے.اس طرح دونوں مطلب پورے ہو جاتے ہیں غم کی خبر بھی سنا دی جاتی ہے اور خوشی کی خبر بھی سنا دی جاتی ہے مگر چونکہ پہلے خوشی کی خبر آجاتی ہے اس لئے تکلیف کا احساس نسبتاً کم ہو جاتا ہے.دنیا میں بھی ہوشیار پیغامبر کا یہی طریق ہوتا ہے جب کسی کا کوئی رشتہ دار بیمار ہو اور دوسرا شخص پوچھے کہ سنائو میرے فلاں رشتہ دار کا کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں پچھلے دنوں شدید بیمار ہو گئے تھے اس طرح وہ خوشی کی خبر بھی سنا دیتا ہے اور یہ بھی بتا دیتا ہے کہ درمیان میںبعض ایسے اوقات بھی آگئے تھے جبکہ ڈاکٹر ان کی زندگی سے مایوس ہو گئے تھے.مگر بجائے یہ کہنے کے کہ ان کی حالت نہایت نازک ہو گئی تھی وہ پہلے یہ فقرہ کہتا ہے کہ الحمد للہ وہ اب اچھے ہیں اس کے بعد وہ غم کی خبر سناتا ہے یہی طریق ہر اچھے پیغامبر کا ہوتا ہے کہ وہ بعد کے اچھے انجام کو پہلے بتا دیتا ہے اور تکلیف کا بعد میںذکر کرتا ہے.لیکن اس کے بالکل الٹ بعض لوگوں کو ایسا بھی دیکھا جاتاہے کہ وہ اپنی حماقت کی وجہ سے خطرہ کی بات کو پہلے بیان کریںگے اور خوشی کی خبر کو دبا کر بیٹھ جائیں گے اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو خیریت ہے تو وہ یہ نہیںکہیں گے کہ خیریت ہے بلکہ پہلے جب تک گھنٹہ بھر اپنا دکھڑا نہیںرو لیںگے انہیں چین نہیں آئے گا.اسی طرح جب کسی کے سپرد کوئی ضروری کام کیا جائے اور وہ کام کر کے واپس آئے تو آتے ہی ایک لمبی کہانی سنانی شروع کر دے گا اور بعد میں کہے گا کہ الحمد للہ کام ہو گیا.اس سے یہ نہیں ہو سکتا کہ آتے ہی کہہ دے الحمدللہ کام ہو گیا بلکہ پہلے اپنی مشکلات کا رونا رونے لگتا ہے اور گھنٹہ بھر کے بعد کہتا ہے الحمدللہ میںکامیاب ہوگیا.تو بعض طبائع ایسی بھی ہوتی ہیں جنہیں بات کرنے کا اس وقت تک مزا نہیںآتا جب تک وہ دوسرے کو اچھی طرح ڈر ا نہ لیںمگر الٰہی طریق یہ ہے کہ وہ پہلے خوشی کی خبر سناتا ہے اور کہتا ہے ہم تمہیںبتا دیتے ہیں کہ نتیجہ اچھا ہو گا اس کے بعد وہ بتا تا ہے کہ درمیان میںکچھ تکلیفیں بھی آئیں گی کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ جب انجام بخیر ہے تو بات کو شروع کرتے ہی بندے کے دل کو دکھ دینا شروع کر دے.یہی طریق رَبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ میںاختیار کیا گیا ہے کہ فتح مکہ کی خبر کو پہلے رکھا ہے اور ہجرت کا ذکر بعد میں کیا ہے.جب مسلمانوں کو

Page 110

پتہ لگ گیا کہ آخر ہم نے مکہ فتح کر کے اسی جگہ آنا ہے تو ان کو تسلی ہو گئی کہ درمیان میںاگر ہجرت بھی کرنی پڑی تو کیا ہوا.اسی بناء پر یہاں بھی وَالضُّحٰى کو پہلے اور وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کو بعد میںرکھا گیا ہے.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى میں ہجرت اور فتح مکہ کی طرف اشارہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دو۲ محل اس بات کو ثابت کر دیں گے کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.تیرے رب نے تجھے نہیں چھوڑا اور وہ تجھ سے ناراض نہیں ہوا اور چونکہ وہ غرض جو وَ الضُّحٰى کو پہلے رکھنے کی تھی پوری ہو گئی تھی یعنی غرض یہ تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے صدمہ نہ پہنچے کہ تجھے ہجرت کرنی پڑے گی.اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے رات کا ذکر پیچھے کر دیا اور دن کا ذکر پہلے رکھا مگر چونکہ اس آیت سے غرض پوری ہوگئی اس لئے اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ترتیب اصلی کو قائم کر دیا.چنانچہ مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ جواب ہے وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کا اور مَا قَلٰى جواب ہے وَ الضُّحٰى کا.چونکہ غرض پوری ہوچکی تھی اور اب اس بات کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ واقعاتی ترتیب کو بدلا جاتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے پہلی آیات کی ترتیب کو الٹ دیا اور فرمایا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! جب وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى میں بیان کردہ واقعہ ہو گا اور مکہ تجھے چھوڑنا پڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس وقت تجھے چھوڑے گا نہیں.یہی وجہ ہے کہ غارِ ثور میںجب حضرت ابو بکر گھبرائے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ دشمن اتنا قریب پہنچ گیا ہے کہ اگر وہ ذرا اپنے سر کو جھکائے تو ہمیںاس غار میں سے دیکھ سکتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے.(مجمع الزوائد کتاب المغازی و السیر باب الھجرۃ الی المدینۃ).اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے کب فرمایا تھا کہ میں ہجرت کے گھڑیوں میں تیرے ساتھ ہوں گا تو اس کا جواب یہ ہے وہ الٰہی وعدہ اسی سورۃ میں تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى میں بیان شدہ واقعہ کا ظہور ہوگا تو تیرا رب تجھے نہیںچھوڑے گا.چنانچہ اسی وعدہ کی بناء پر آپ نے نہایت دلیری سے فرمایا لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا.ابو بکر ! کیوں گھبرا رہے ہو خدا ہمارے ساتھ ہے وہ پہلے سے یہ وعدہ سورۃ الضحیٰ میں کر چکا ہے پس ڈرنے کی بات نہیں.آخر یہ خدا تعالیٰ کی معیت ہی تھی کہ دونوں طرف قطار باندھے دشمن کھڑا ہے آپ کے مکان کا سنگین پہرہ دے رہا ہے اور آپ نہایت اطمینان کے ساتھ اس سے درمیان سے گزر جاتے ہیں اور وہ یہ خیال کر لیتا ہے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ کوئی اور جا رہا ہے.مجھے یاد پڑتا ہے کہ تاریخ میںیہ ذکر آتا ہے (گو حوالہ یاد نہیں رہا) کہ بعد میںایک پہرے دار نے کہا کہ میں نے خود آپ کو مکان میںسے نکلتے اور وہاںسے گزرتے دیکھا مگر میں نے یہ نہیں سمجھا کہ آپ جا رہے ہیں بلکہ خیال کیا کہ کوئی اور جا رہا ہے.بہرحال یہ خد اتعالیٰ کی معیت ہی تھی کہ آپ دشمنوں کی نظروں کے سامنے نکل گئے اور وہ آپ کو پکڑ نہ سکا.پھر

Page 111

یہ خدا تعالیٰ ہی کی معیت تھی کہ جب آپ غار ثور میںپہنچے تو باوجود اس کے کہ کفار کے کھوجی نے یہ کہہ دیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا تو یہاںہیںاور یا پھر آسمان پر چلے گئے ہیں ان کو یہ جرأت تک نہ ہوئی کہ وہ آگے بڑھ کر اس غار کے اندر جھانک سکیںوہ اپنے کھوجی پر مضحکہ اڑانے لگے کہ آج یہ کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے کیا اس غار میں بھی کوئی چھپ سکتا ہے یا کوئی شخص آسمان پر بھی جا سکتا ہے کہ کہتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیںتو آسمان پر چلے گئے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی معیت کا ایسا کھلا اور واضح ثبوت ہے کہ دشمن سے دشمن انسان بھی اس کو سن کر انکار کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا.دوسری چیز فتح مکہ ہے اس کے لئے مَا قَلٰى کا لفظ خد اتعالیٰ نے استعمال کیا ہے.مکہ والوں کا یہ خیال تھا کہ جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا خد اکا غضب اس پر نازل ہو گا.وہ ابرہہ کے حملہ کو دیکھ چکے تھے کہ کس طرح وہ اپنے لائو لشکر سمیت حملہ آور ہوا اور پھر کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے اپنے غضب کا نشانہ بنادیا.وہ سمجھتے تھے کہ مکہ پر حملہ کرنے والا چونکہ خدا تعالیٰ کی نارضا مندی کا مورد بنتا ہے اس لئے وہ تباہ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرے معاملہ میںایسا نہیں ہو گا بلکہ ضُـحٰی کا وقت اس بات کی شہادت دے گا کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیں اگر وہ ناراض ہوتا تو تجھ پر عذاب کیوں نازل نہ کرتا.تجھ پر اس کا عذاب نازل نہ کرنا بلکہ تیری تائید اور نصرت کرنا اور تیرے راستہ سے ہر قسم کی روکوںکو دور کرنا اور تجھے اپنے لشکر سمیت فتح و کامرانی کا جھنڈا اڑاتے ہوئے مکہ میںداخل ہونے کا موقع دینا بتا رہا ہے کہ الٰہی منشاء یہی تھا کہ تو آئے اور اس بلد الحرام کو فتح کر کے اس میںداخل ہو جائے.پس وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى میں بیان شدہ واقعہ کے ظہور نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیںچھوڑا اور وَالضُّحٰى میںبیان شدہ واقعہ نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل سے خدا تعالیٰ ناراض نہیں خواہ وہ صدیوں کے فیصلہ کے خلاف ہی کیوںنہ ہو.ابراہیمؑ کے وقت سے خدا تعالیٰ کی یہ سنت چلی آرہی تھی کہ مکہ پر حملہ کرنا جائز نہیں جو شخص مکہ پر حملہ کرے گا وہ تباہ ہو جائے گا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کو فتح کرنے کے لئے جا تے ہیں رات کو نہیں بلکہ دن دہاڑے مکہ میں داخل ہوتے ہیں.دنیا بھی دیکھ رہی ہے خدا بھی دیکھ رہا ہے خدا تعالیٰ کے فرشتے بھی دیکھ رہے ہیں مگر آپ پر کوئی عذاب نازل نہیں ہوتا.آپ کے لشکر پر کوئی تباہی نہیںآتی بلکہ اگر کچھ ہوتا ہے تو یہ کہ مکہ والوں کی گردنیں پکڑ کر خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ ان سے جو چاہو سلوک کرو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا مکہ میںداخلہ عین خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق تھا ورنہ ۲۵ سو سال سے جو سلوک اللہ تعالیٰ مکہ پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ کرتا چلا آیا تھا وہ آپ کے ساتھ کیوں نہ کرتا.پس اللہ تعالیٰ

Page 112

فرماتا ہے تیری مکہ سے رات کے وقت ہجرت اس بات کا ثبوت ہو گی کہ خدا تعالیٰ نے تجھے نہیں چھوڑا اور تیرا دن دہاڑے مکہ میں فاتحانہ شان کے ساتھ داخل ہونا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ خد ا تجھ سے خفا نہیں ہے.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے دوسرے معنے دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ ضُـحٰی روشنی اور سَجٰى اندھیرے پر دلالت کرتا ہے اور یہ دونوں حالتیں انسان پر آتی رہتی ہیں.یعنی کبھی اس پرتکالیف آتی ہیں اور کبھی اس کے لئے خوشی کے سامان پیدا کئے جاتے ہیں، کبھی کامیابیاں اور ترقیاں حاصل ہوتی ہیںاور کبھی ناکامیاں اور تکالیف پیش آتی ہیں یہ اتار چڑھائو دنیا میںہمیشہ ہوتا رہتا ہے کبھی ترقی کا وقت آتا ہے تو کبھی تنزل کا، کبھی خوشی پہنچ جاتی ہے تو کبھی غم، کبھی اولاد پیدا ہو تی ہے کبھی مر جاتی ہے، کبھی بیمار ہو جاتا ہے کبھی تندرست ہو جاتا ہے، کبھی دشمن کو مغلوب کر لیتا ہے اور کبھی دشمن کے عارضی طور پر جیتنے کا موقعہ آجاتا ہے.حضرت مسیح موعود ؑ کا بھی ایک الہام ہے کہ ع ’’دشمن کا بھی ایک وار نکلا‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم.صفحہ۵۲۴) تو دشمن کے وار بھی نکل آتے ہیں.لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیںکوئی تکلیف پہنچتی ہے یا ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو جیسے قرآن کریم میںہی کئی جگہ نقشہ کھینچا گیا ہے وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ ہائے مارے گئے، ہائے مارے گئے.اس کے مقابل میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کو ترقیات ملتی ہیں تو وہ تکبر میںمبتلا ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ (القصص : ۷۹) ہمیںجو کچھ ملا ہے اپنے زور بازو سے ملا ہے، ہمارے اندر قابلیتیں ہی ایسی تھیں کہ ہمیں یہ ترقیات حاصل ہوتیں، ہم نے یوں کیا ہم نے ووں کیا اور پھر ہمیںیہ اعزاز حاصل ہوا.گویا جب ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے برکات حاصل ہوتی ہیں یا ترقیات سے ان کو حصہ ملتا ہے ان میںتکبر پیدا ہو جاتا ہے اور جب مشکلات آتی ہیں تو اس وقت بالکل مایوس ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جہاں دشمن ایسا ہے کہ اگر اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتا ہے رَبِّيْۤ اَهَانَنِ(الفجر:۱۷) میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا اور خوشی پہنچتی ہے تو کہتا ہے رَبِّيْۤ اَكْرَمَنِ (الفجر:۱۶).ہاں جی ہم توہیں ہی ایسے کہ خدا ہماری عزت کرتا.ایسے لوگوں کے بالمقابل اے محمد رسول اللہ تیری یہ حالت نہیں بلکہ وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.ہم تیری یہ دونوں حالتیں دشمنوں کے سامنے پیش کرتے ہیں.تیرا نفس کامل اتنا اعلیٰ درجے کا ہے کہ تیرا سلوک اپنے رب سے ہمیشہ اس قسم کا ہو گا کہ ہر مایوسی اور تکلیف کے وقت خدا تجھے بھولے گا نہیں بلکہ یاد رہے گا.مایوسی کبھی تیرے قریب بھی نہیںآئے گی اور خوشی کے وقت کبھی تکبر تیرے پاس بھی نہیںپھٹکے گا.جب تجھ پر انعامات نازل ہوں گے تُو یہ نہیں کہے گا کہ میں نے یہ انعام بزورِ بازو حاصل کیا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کو ناراض کرلے گا

Page 113

بلکہ تو کہے گا کہ خدا تعالیٰ نے یہ انعام بخشا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی خفگی کو پاس بھی نہیںآنے دے گا.اسی طرح جب تجھے تکلیفیں آئیں گی اس وقت بھی تو خد اپر کوئی الزام نہیںلائے گا.بلکہ اسی کی کنار عاطفت کی طرف تو ہروقت جھکا رہے گا اور اس وجہ سے خد اتعالی تیرے پاس آکھڑا ہو گا.اب دیکھو یہ دونوں چیزیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میںکتنی نمایا ں نظر آتی ہیں.وہ بھی ایک لیل تھی جب آپ کو مکہ سے ہجرت کے لئے نکلنا پڑا اور غارِ ثور میںآپ پناہ گزیں ہوئے اور وہ بھی ایک لیل تھی جو آپ پر اس وقت آئی جب ابو طالب آپ کے چچا نے ایک دن آپ کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے! اب تیری قوم کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے.آج بڑے بڑے رئوسا ء اکٹھے ہو کر میرے پاس آئے تھے اور وہ مجھے کہتے تھے کہ ابو طالب صرف تیری حفاظت کی وجہ سے ہم نے تیرے بھتیجے کو اب تک چھوڑا ہوا ہے.ہم نے تیرا بڑا لحاظ کیا کیونکہ تو شہر کا رئیس ہے مگر آخر یہ ظلم کب تک برداشت کیا جاسکتا ہے.ہم یہ نہیںکہتے کہ وہ ہمارے بتوں کی پرستش کرے بلکہ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو برا نہ کہا کرے.اگر وہ اتنی معمولی سی بات بھی ماننے کے لئے تیار نہ ہوا اور اس نے ہمارے معبودوں کو برا کہنا ترک نہ کیا تو ہم تجھے بھی سرداری سے جواب دے دیں گے اور آئندہ تیری کوئی عزت نہیںکریںگے.نمبردار کے لئے اپنی نمبرداری چھوڑنی بڑی مشکل ہوتی ہے اور دنیا میںسب سے بڑی مصیبت اگر اسے نظر آتی ہے تو یہی کہ کہیں مجھے اپنی چودھرائت نہ چھوڑنی پڑے.وہ اس بات کو برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ آج تو وہ اس شان کے ساتھ بیٹھا ہو کہ لوگ آتے ہوں اور کہتے ہوں چودھری صاحب آپ جو کچھ فرمائیںوہ ہمارے سر آنکھوںپر.ہم آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہیں اور دوسرے دن اس کی یہ حالت ہو کہ لوگوں نے ڈنڈے اٹھائے ہوئے ہوں اور اسے کہتے ہوں کہ ہمارے گائوں میں سے نکل جائو.ابو طالب چونکہ مسلمان نہیںتھے اس لئے ان کے لئے یہ بڑی مصیبت تھی.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا ان کی آنکھوں میںآنسو بھر آئے اور انہوں نے کہا اے میرے بھتیجے مجھ سے جس قدر ہو سکا میںنے تیری مدد کی ہے مگر آج تیری قوم کے بڑے بڑے سردار مجھے بھی آخری نوٹس دے گئے ہیں کہ یا اپنے بھتیجے کے ساتھ رہو یا ہمارے ساتھ مل جائو.وہ یہ نہیں چاہتے کہ تو ان کے بتوں کی پرستش کرے وہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تو ان کو برا کہنا چھوڑ دے میںتجھ سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا نہیںہو سکتا کہ تو کچھ نرمی اختیار کر لے؟ورنہ وہ تجھے بھی نوٹس دے گئے ہیں اور مجھے بھی کہہ گئے ہیں کہ اگر آئندہ تو نے اپنے بھتیجے کی مدد کی تو تیری سرداری بند.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو بغیر کسی توقف کے آپ نے جواب دیا کہ اے چچا ! آپ نے میری بڑی مدد کی ہے مگر یہ معاملہ تو دین کا ہے اگر یہ لوگ

Page 114

سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑ ا کر دیں اور پھر کہیں کہ میں کوئی تبدیلی کروں تب بھی میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا.اے چچا ! اب اس کا ایک ہی علاج ہے اگر آپ کو آپ کی قوم میری خاطر چھوڑتی ہے تو پھر آپ مجھے چھوڑ دیںاور اپنی قوم سے مل جائیں.(السیرۃ لابن ہشام مباداۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قومہ) دیکھو یہ وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کا ایک وقت تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آیا.طاقت آپ کے پاس نہیںتھی بلکہ ابو طالب کے پاس تھی مگر جس کے پاس طاقت تھی وہ گھبرا جاتاہے اور جس کے پاس طاقت نہیںتھی وہ کہتا ہے کہ جب باقیوں نے مجھے چھوڑا ہے تو آپ بھی مجھے چھوڑ دیںمیںاپنے عقائد میںکوئی تبدیلی نہیںکر سکتا.یہ ایک رات تھی تاریک اور بھیانک رات.جس میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں (سوائے ان کے جو اللہ تعالیٰ سے مویّد ہوں ) جو مقاومت کی روح اپنے اندر قائم رکھ سکیں لیکن اس تاریک رات میںبھی آپ نے ثابت کر دیا کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.آپ نے کوئی فعل ایسا نہ کیا جس پر خدا تعالیٰ بندہ کو چھوڑ دیا کرتا ہے آپ نے کوئی فعل ایسا نہ کیا جس پر خدا تعالیٰ خفا ہو جایا کرتا ہے بلکہ آپ نے وہ کچھ کیا جس پر خدا تعالیٰ اور بھی قریب ہو جاتا ہے، جس پر وہ اور بھی خوش ہو جاتا ہے.کیاتم سمجھ نہیں سکتے کہ جب عرش پر خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہو گا کہ اے چچا آپ بھی مجھے چھوڑ دیں میں خدا تعالیٰ کو نہیں چھوڑ سکتا تو خدا تعالیٰ ایک عاشق کی طرح آپ کی طرف یہ کہتے ہوئے نہ جھکا ہوگا کہ دنیا تجھے چھوڑ دے پر میں تجھے نہ چھوڑوں گا.اللہ تعالیٰ غیر مادی چیز ہے اور اس کا تعلق اپنے بندوں سے روحانی ہوتا ہے جسمانی نہیں.لیکن تمثیلی طور پر اپنے ذہن میں نقشہ جمانے کے لئے اگر تم فرض کر لو کہ اللہ تعالیٰ کی محبت مادی محبت ہوتی یا اس کی نفرت مادی نفرت ہوتی تو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب کو یہ جواب دیا تھا کہ چچا اگر یہی بات ہے تو پھر آپ مجھے بے شک چھوڑ دیں اس وقت اگر خدا تعالیٰ دو گز پر کھڑا ہوگا تو یقینا اس فقرہ کے بعد وہ آپ کے پاس آکھڑا ہوا ہو گا اور اگر خدا تعالیٰ کی خوشنودی پہلے آپ کو دس نمبر کی حاصل تھی تو اس واقعہ کے بعد وہ بیس نمبر تک پہنچ گئی ہو گی.پس اللہ فرماتا ہے وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.اے محمد رسول اللہ ! ہر رات جو تیری زندگی میںآئے گی، ہر رات جو تجھ پر گزرے گی وہ اس بات کو ثابت کرنے والی ہو گی کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.کہ نہ تو تیرے خدا نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ تجھ سے ناراض ہوا ہے بلکہ وہ تجھ سے ہر گھڑی زیادہ قریب ہوتا جائے گا.غارثور میںابو بکر جیسا بہادر آدمی گھبراجاتا ہے.اپنے لئے نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے.مگر یہ کتنی عجیب بات ہے کہ وہ جس کے لئے کوئی آفت نہیں تھی جو اگر پکڑا بھی جاتا تو لوگ اسے ڈانٹ ڈپٹ کر

Page 115

چھوڑ دیتے اور زیادہ سے زیادہ اسے یہی کہتے کہ تو اس کے ساتھ کیوں آگیا تھا کیونکہ ابو بکر ؓ کی مکہ والے بہت عزت کیا کرتے تھے وہ تو گھبرا جاتا ہے مگر جس پر آفت آئی ہوئی ہے، جس کے ساتھ اس مصیبت کابراہ راست تعلق ہے، وہ نہایت اطمینان کے ساتھ کہتا ہے لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا.اس تاریک گھڑی میں جب آپ نے کہا ہوگا کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا تو جتنا آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کا پہلے تعلق ہو گا وہ اور بھی بڑھ گیا ہو گا، وہ اور بھی سمٹ کر آپ کے قریب آگیا ہو گا اور جتنا خدا تعالیٰ آپ سے پہلے خوش تھا وہ اس سے بھی زیادہ خوش ہو گیا ہو گا.پھر ایک تاریک گھڑی وہ تھی جبکہ اُحد میں آپ زخمی ہوئے اور اس قسم کے واقعات جمع ہو گئے کہ اسلامی لشکر کی فتح شکست کی صورت میں تبدیل ہو گئی.ا س جنگ میں ایک درہ ایسا تھا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض آدمی چن کر کھڑے کئے تھے اور انہیں حکم دیا تھا کہ جنگ کی خواہ کوئی حالت ہو تم نے اس درہ کو نہیں چھوڑنا.( صحیح بـخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اُحد) جب کفار کا لشکر منتشر ہوگیا تو انہوں نے غلطی سے اجتہاد کیا کہ اب یہاں ٹھہرنے کا کیا فائدہ ہے ہم بھی چلیں اور لڑائی میں کچھ حصہ لیں.ان کے سردار نے انہیں کہا بھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ ہم یہ درہ چھوڑ کر نہ جائیں مگر انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مطلب تو نہ تھا کہ فتح ہو جائے تب بھی یہیں کھڑے رہو.آپ کے ارشاد کا تو یہ مطلب تھا کہ جب تک جنگ ہوتی رہے اس درہ کو نہ چھوڑنا.اب چونکہ فتح ہو چکی ہے دشمن بھاگ رہا ہے ہمیں بھی تو کچھ ثواب جہاد کا حاصل کرنا چاہیے.چنانچہ وہ درہ خالی ہو گیا.حضرت خالد بن ولید جو اس وقت تک ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے نوجوان تھے اور ان کی نگاہ بہت تیز تھی وہ جب اپنے لشکر سمیت بھاگے جارہے تھے انہوں نے اتفاقاً پیچھے کی طرف نظر ڈالی تو درہ کو خالی پایا یہ دیکھتے ہی وہ واپس لوٹے اور مسلمانوں کی پشت پر حملہ کر دیا.مسلمانوں کے لئے یہ حملہ چونکہ بالکل غیر متوقع تھا اس لئے ان پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گئی اور بوجہ بکھرے ہوئے ہونے کے دشمن کا مقابلہ نہ کر سکے.میدان پر کفار نے قبضہ کر لیا اور اکثر صحابہ سراسیمگی اور اضطراب کی حالت میں مدینہ کی طرف بھاگ پڑے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف بارہ صحابہ ؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ بارہ بھی نہیں صرف تین آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ گئے اور کفار نے خاص طورپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر اندازی شروع کر دی لیکن باوجود ان نازک حالات کے آپ برابر دشمن کے مقابلہ میںکھڑے رہے اور اپنے مقام سے نہیں ہلے.آخر دشمن نے یک دم ریلہ کر دیا اور وہ چند آدمی بھی دھکیلے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہو کر ایک گڑھے میں گر گئے.آپ پر بعض اور صحابہ ؓ جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے شہید ہو کر گر گئے اور اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھوڑی دیر کے لئے صحابہ ؓ کی نگاہوں سے

Page 116

اوجھل ہو گئے اور لشکر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہیں.یہ خبر صحابہ ؓ کے لئے اور بھی پریشان کن ثابت ہوئی اور ان کی رہی سہی ہمت بھی جاتی رہی.جو صحابہ ؓ اس وقت آپ کے ارد گرد موجود تھے اور زندہ تھے انہوں نے لاشوں کو ہٹا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گڑھے میں سے نکالا اور حفاظت کے لئے آپؐکے ارد گرد کھڑے ہو گئے.اس وقت جب دشمن اپنی فتح کے نشہ میں مخمور تھا، جب اسلامی لشکر سخت ضعف اور انتشار کی حالت میںتھا، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد صرف چند صحابہ ؓ تھے، باقی سب کے سب میدان سے بھاگ چکے تھے.ابو سفیان نے پکار کر کہا کہ بتائو کیا تم میں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے؟ صحابہ ؓ نے جواب دینا چاہا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خاموش رہو اور کوئی جواب نہ دو.پھر اس نے پوچھا کیا تم میں ابن ابی قحافہ ہے؟ مراد اس کی یہ تھی کہ کیا حضرت ابو بکر زندہ ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مت جواب دو.پھر اس نے پوچھا کیا تم میں عمر موجو د ہے؟ اس کا جواب دینے سے آپ نے منع فرما دیا.تب اس نے خوش ہو کر کہا اُعْلُ ھُبُلْ اُعْلُ ھُبُلْ.ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو، یعنی آخر ہبل دیوتا نے ان لوگوں کو مار دیا اور اس کی شان بلند ہوئی جب اس نے یہ الفاظ کہے تو باوجود اس کے کہ ابھی ابھی دشمن صحابہ ؓکو نقصان پہنچا کر ہٹا تھا.ابھی صحابہ ؓ میدان سے بھاگ رہے تھے بلکہ بعض تو ایسے بھاگے تھے کہ انہوں نے مدینہ جا کر دم لیاتھا.غرض باوجو د اس کے کہ ایک حصہ بھاگا جا رہا تھا اور ایک حصہ پراگندہ اور منتشر تھا اور صرف چند صحابہ ؓ جو انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد تھے جب اس نے یہ الفاظ کہے تو آپؐ برداشت نہ کرسکے اور آپ ؐ نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا جواب کیوں نہیں دیتے.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ ہم کیا جواب دیں.آپ نے فرمایا کہو.اَللہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ.اَللہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ.( بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اُحد) تمہارا ہبل کیا چیز ہے اللہ ہی سب سے بلند رتبہ اور شان رکھنے والا ہے.کہتے ہیں ’’آبیل مجھے مار‘‘ کئی ہزار کا لشکر سامنے پڑا ہے وہ فتح کے نشہ میں مخمور ہے.مسلمانوں کا کثیر حصہ میدانِ جنگ سے واپس جا چکاہے اور دشمن دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اکابر صحابہ کو بھی ہلاک کر دیا ہے.یہ کتنی تاریک رات تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آئی مگر اس تاریک رات میںبھی جب کہ صرف چند صحابہ ؓ آپ کے ارد گرد تھے اور خطرہ تھا کہ دشمن آپ پر پھر حملہ نہ کر دے.جب اس نے ہبل کی تعریف کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو صحابہ ؓ کو مصلحتاً اب تک جواب دینے سے روکتے چلے آئے تھے بڑے جوش سے فرمانے لگے اس کو کیوں جواب نہیںدیتے کہ اَللہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ.اَللہُ اَعْلٰی وَاَجَلّ.صحابہ ؓ نے یہ جواب دیا اور اس طرح آپؐنے اپنے عمل

Page 117

سے دشمن کو چیلنج کیا کہ میں یہاں موجود ہوں اگر تم میں ہمت ہے تو آجائو.وہ دشمن جس نے ایک ہزار سپاہی کو بھگا دیا تھا اس کی زبان سے اس وقت بھی شرک کا کلمہ سننا آپؐکی طاقت برداشت سے باہر ہو گیا جبکہ آپؐصرف چند صحابہ ؓ سمیت اس کی زد میںتھے اور زخموں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے اور انتہائی نازک حالات کی پروانہ کرتے ہوئے آپ نے خدا کا نام اس وقت بھی بلند کر دیا.یہ ایک رات تھی جو آپؐ پر آئی مگر اس رات سے کیا نتیجہ نکلا؟ یہی کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.آپؐکا خدا تعالیٰ سے تعلق اور بھی بڑھ گیا اور آپ نے کوئی ایسا فعل نہ کیا جس سے وہ ناراض ہوتا.پھر ایک رات وہ تھی جبکہ غزوہ خندق کے موقع پر دشمن آیا.اس نے اپنی طرف سے ساری تیاریاں کر لیں کہ وہ مسلمانوںکو زیر کرے گا اور ان کو شکست دے گا.لیکن اس تاریکی کے وقت میںاتفاق کی بات ہے رات ہی تھی جب دشمن کو شکست ہوئی.رات کا وقت تھا مسلمان بظاہر مایوس ہو چکے تھے، دشمن پندرہ دن سے ان کا محاصرہ کئے ہوئے تھا، خوراک وغیرہ کے سامانوں میں سخت کمی آچکی تھی، مدد کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اور مسلمان سخت گھبرا رہے تھے کہ نہ معلوم اب کیا بنے گا.سامان اتنے کم تھے کہ مسلمان خود کہتے ہیں ہمارے ہاتھ پائو ں سردی سے سن ہو رہے تھے مگر ہمارے پاس کپڑے نہیں تھے کہ ہم ان کو اوڑھ کر اپنی سردی کو دور کر سکیں.غرض یہی کیفیت تھی کہ ایک دفعہ آدھی رات کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی ہے ! ایک صحابی ؓ بولے اور کہا یا رسول اللہ ؐ میںحاضر ہوں.آپ ؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.جب تھوڑی دیر تک کوئی اور شخص نہ بولا تو آپ ؐ نے پھر فرمایا.کوئی ہے! اس پر پھر وہی صحابی بولا کہ یارسول اللہ میںحاضر ہوں آپؐ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.جب دوسری دفعہ بھی کوئی اور شخص نہ بولا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کوئی ہے ! اس پر پھر وہی صحابی بولا اور کہنے لگا یا رسول اللہ میںحاضر ہوں.آپؐہنس پڑے اور فرمایا جائو اور باہر جا کر دیکھو مجھے اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام.غزوۃ الـخندق) اب دیکھو رات کو مسلمان سوتے ہیں تو انتہائی مایوسی کی حالت میںمگر ابھی صبح نہیں ہوتی، آدھی رات کا وقت ہوتا ہے، تاریکی چاروں طرف مسلّط ہوتی ہے کہ اس رات کی تاریکی میںاللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتا ہے کہ دشمن بھاگ گیا ہے.گویا تاریکی میں جہاں اور لوگ گھبرا رہے تھے آپؐخدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے تھے اور اس سے دعائیںکر رہے تھے.وہ صحابی کہتے ہیں میں باہر گیا تو دیکھا کہ تمام جنگل خالی پڑا ہے اور دشمنوں کے خیمے سب غائب ہیں.ایک اور صحابی کہتے ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ کوئی ہے ! تو میں اس وقت جاگ رہا تھا مگر شدت ِ سردی کی وجہ سے

Page 118

میرے ہاتھ پائوں تو الگ میری زبان بھی سن ہو چکی تھی اور اس وجہ سے میں جواب نہیں دے سکتا تھا، سنتا تھا مگر بولنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتا تھا کیونکہ کپڑے کافی نہ تھے اور برف پڑی ہوئی تھی(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام.غزوۃ الخندق).یہ تکالیف آئیں مصائب وآلام کی گھڑیاں آپ پر گزریں مگر ان تمام لیالی میں ہر لیل کے وقت اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ وہ آپ کے ساتھ ہے.پھر ضُـحٰی کے اوقات بھی آپ پر آئے چنانچہ فتح مکہ کے بعد سارے عرب کی فتح آئی اور کامیابی و کامرانی آپ کے قدموں کو چومنے لگی مگر کامیابیوں کے اوقات نے بھی کیا ثابت کیا؟ یہی کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى لوگوں کہ یہ حالت ہوتی ہے کہ ترقیات کے وقت ان میں کبر پیدا ہو جاتا ہے فتح کے وقت نشۂ غرور ان میںسما جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قلبی کیفیات کا تم اس سے اندازہ لگائو کہ فتح مکہ کے وقت جب لشکر ِ اسلامی مکہ کی طرف بڑھتا چلا آرہا تھا صحابہ ؓ کے دلوں میںسخت جوش پایا جاتا تھا خصوصاً انصار کے دل میںمکہ والوں کے خلاف بہت زیادہ جوش تھا.بے شک مہاجرین بھی اس جوش سے خالی نہیں تھے مگر مہاجرین پر ان کے مظالم کا اتنا اثر نہیں تھا جتنا انصار کو یہ سن سن کر جوش آتا تھا کہ مکہ والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ یہ یہ سلوک کرتے رہے ہیں.اسی جوش کی حالت میں ایک انصاری جرنیل نے ابو سفیان کو دیکھا تو اس کی زبان سے یہ فقرہ نکل گیا آج ہم نے تم سے بدلے لینے ہیں، آج ان مظالم کا ہم نے انتقام لینا ہے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر کئے.کوئی اور ہوتا تو جرنیل کو بلا کر اسے تمغہ لگا دیتا اور کہتا شاباش! وفادار ایسے ہی ہوتے ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا اور فرمایا مکہ تو خدا تعالیٰ کا متبرک مقام ہے ہمیںاپنی خوشیوں اور کامیابیوں میں اس کی اس برکت کو نہیں بھول جانا چاہیے جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا کی ہے.تم نے بڑی غلطی کی جو ایسا فقرہ اپنی زبان سے نکالا.میںتمہیں جرنیل کے عہدہ سے معزول کرتاہوں.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام.ذکر فتـح مکۃ).دیکھو ایک ہی موقع آپ کی زندگی میں ایسا آیا جبکہ دشمن جو ایک لمبے عرصہ تک خطرناک سے خطرناک مظالم توڑتا رہا تھا اس کی گردنیں آپ کے ہاتھ میںتھیں.ہو سکتا تھا کہ خود آپ کے دل میںہی یہ خیال آجاتا کہ میںان لوگوں سے آج خوب بدلہ لوں گا اور خود بھی ایسا فقرہ کہہ دیتے یا اگر خود نہ کہتے تواور کہنے والوں کی باتیں پسند کرتے یا اگر ظاہر میںپسند نہ کرتے تو دل میںہی پسند کرتے اور کہتے یہ لوگ میرے بڑے وفادار ہیں، مجھ پر جو مظالم ہوئے ان کا کس قدر ان میں احساس پایا جاتا ہے، کتنا جوش ہے جو ان کی حرکات سے پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہو رہا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جرنیل کے عہدہ سے ہی معزول کر دیا اور فرمایا ہمارے لئے یہ تکبر کے اظہار کا موقع نہیں.

Page 119

پھر دیکھو وہ ضُـحٰی کا ہی وقت تھا جب آپ مکہ میںداخل ہوئے اور آپ نے فرمایا اے عتبہ، شیبہ اور ولید کی اولادو! اور اے عتبہ، شیبہ اور ولید کے چچو، بھائیواور بھانجو! تم نے مجھے انتہائی بے کسی اور بے بسی کی حالت میںمکہ سے نکال دیا تھا اب تم میرے قابو میں ہو بتائو میں تم سے کیا سلوک کروں؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو آپ کی شان کے شایاں ہو اور وہی سلوک چاہتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے لَا تَثْـرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْھَبُوْا فَاَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ.(السیرۃ الـحلبیۃ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم).جائو میں تمہیںکچھ نہیںکہتا.تم آزاد ہو.یہ دوسری ضُـحٰی تھی جو آپ پر آئی مگر اس ضُـحٰی نے بھی بتا دیا کہ کبر اور خودپسندی کبھی آپؐکے قریب بھی نہیں آئی تھی.قومیںآئیں.وفود آئے اور ہر طرف سے آکر انہوں نے آپ کی اطاعت کو قبول کیا مگر کبھی بھی یہ بات ظاہر نہیںہوتی کہ آپ نے ان لوگوں میںکبھی اپنی شان کا کوئی خاص اظہار کیا ہو.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے تیسرے معنے تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى.کچھ لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیںجن پر دن چڑھتے ہیں تو وہ اپنے دنوں کو کھیل میں، تماشا میں، جوئے میں، شراب میںاور اسی قسم کی اور لغویات میںختم کر دیتے ہیں اور جب رات آتی ہے تو اس کو ناچ گانے اور سونے میںختم کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مگر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کے مقابل پر تیر ادن بھی اس قسم کا ہو گا اور تیری راتیں بھی اس قسم کی ہوں گی کہ ہر دیکھنے والے کے سامنے تیرے ساتھی ان دنوں اور ان راتوں کو پیش کر سکیں گے اور اسے کہہ سکیںگے کہ بتائو کیا تمہارے دن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دنوں کی طرح ہیں اور کیا اس حالت میں دن گزارنے والے کو کبھی خدا تعالیٰ چھوڑ سکتا ہے یا اس سے ناراض ہو سکتا ہے؟ اسی طرح تیری راتیںایسی گذریں گی کہ تم ہر شخص کے سامنے اپنی ان راتوں کو پیش کر کے کہہ سکو گے کہ میری راتوں کو دیکھو اور بتائو کہ کیا ایسی راتوں والے کو خدا تعالیٰ چھوڑ سکتا ہے؟ غرض فرمایا وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم تیرے دنوں کو ایسا کر دیں گے اور تیری راتوں کو بھی ایسا کر دیں گے کہ تیر ادن بھی اس بات کی شہادت دے گا کہ تجھے خدا نے نہیںچھوڑا اور تیری رات بھی اس بات کی شہادت دے گی کہ تیرا خدا تجھ سے ناراض نہیں ہے.یہ وہی دعویٰ ہے جو فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس:۱۷) میںکیا گیا ہے کہ میںتم میںایک لمبی عمر گذار چکا ہوں کیا تم ثابت کر سکتے ہو کہ میں نے اس عرصہ میںکسی ایک بدی کا بھی ارتکاب کیا ہو.اگر تم سب کے سب مل جائو تب بھی میری چالیس سالہ ابتدائی زندگی پر کوئی داغ ثابت نہیںکر سکتے.مگر یہ دعویٰ تو گزری ہوئی عمر کے

Page 120

متعلق ہے اور وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.میں آئندہ زندگی کے متعلق دعویٰ کر دیا اور فرمایا کہ میرے دن تمہارے سامنے ہیں ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں دن تمہارے سامنے گذرے گا.اسی طرح میری راتیںبھی تمہارے سامنے ہوں گی اور ایک کے بعد دوسری رات گزرتی چلی جائے گی لیکن یاد رکھو میری زندگی کا ہردن جو گزرے گا وہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ مَا وَدَّعَنِیْ رَبِّیْ وَمَا قَلَانِیْ.اسی طرح ہر رات جو مجھ پر گزرے گی وہ ثبوت ہو گی اس بات کا کہ مَاوَدَّعَنِیْ وَمَا قَلَانِیْ.غرض خدا تعالیٰ اس آیت میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آپ کی صداقت کی ایک نئی دلیل سکھاتا ہے اور فرماتا ہے میںیہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ تیرا ہر دن میری رضامندی میںگزرے گا اور تیری ہر رات میری رضامندی میں گذرے گی.تیری پہلی زندگی کے متعلق میں چیلنج کر چکا ہوں اب یہ دوسرا چیلنج آئندہ زندگی کے متعلق ہے.پچھلی زندگی کے متعلق تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نے اس وقت سوچا نہیںتھا اگر غور کرتے تو ممکن تھا کہ کوئی نقص نظر آجاتا.فرماتا ہے اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس زندگی کے متعلق تمہارا یہ عذر ہے تو اب دوسری زندگی پر کوئی اعتراض کر لینا اور دیکھنا کہ اس کی زندگی کی ایک ایک ساعت، ایک ایک رات اور ایک ایک دن اپنے فائدہ اور اپنے آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے یا بنی نوع انسا ن کے فائدہ اور آرام کے لئے خرچ ہوتا ہے.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے چوتھے معنے چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض و بسط کی دونوں حالتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھی ہوں گی.اللہ تعالیٰ قابض بھی ہے اور باسط بھی، اور اس کے اپنے بندوں سے یہ دونوں سلوک ہوتے ہیں.جس طرح دنیوی معاملات میں کوئی آرام کی ساعت ہوتی ہے اور کوئی تکلیف کی.اسی طرح روحانی عالم میں کبھی کوئی ساعت ایسی آتی ہے جس میں انسان بہت زیادہ خدا تعالیٰ کے سامنے جھکا ہوا ہوتا ہے اور کبھی اس پر قبض کی ساعت آجاتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر رو پڑے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میںتو منافق ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میںتو تم کو مومن سمجھتا ہوں وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ! مومن نہیں میںتو منافق ہوں جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا ہوتا ہوں تو مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف جنت ہے اور ایک طرف دوزخ.جو بھی خیال میرے دل میں گزرتا ہے یا جو بھی عمل میں کرتا ہوں جنت اور دوزخ کو دیکھ کر کرتا ہوں.مگر جب گھر جاتا ہوں تو یہ حالت نہیں رہتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو عین ایمان ہے اگر خدا تعالیٰ ہر وقت ایک جیسی حالت رکھے تو تم مر نہ جائو.تو قبض و بسط کی حالت ہر انسان پر آتی ہے چاہے وہ بڑا ہو یا چھوٹا.یہ

Page 121

علیحدہ بات ہے کہ مدارج کے اختلاف کی وجہ سے ایک انسان کی قبض کی حالت دوسرے انسان کی قبض کی حالت سے جدا گانہ ہو یا ایک انسان کی بسط کی حالت دوسرے انسان کی بسط کی حالت سے مختلف ہو لیکن بہرحال قبض اور بسط کی گھڑیاں ہر انسان پر آتی ہیں.ایک وقت وہ نماز پڑھ رہا ہوتا ہے دوسرے وقت وہ اپنے بیوی بچوں سے کھیل رہا ہوتا ہے تیسرے وقت وہ پاخانہ میںبیٹھا ہوا ہوتا ہے.یہ علیحدہ علیحدہ حالتیں ہیں جن میں سے ہر انسان گزرتا ہے.ان میں سے نماز اور روزہ بسط کی حالتیں ہیں اور بیوی بچوں سے کھیلنا یا پاخانہ میںجانا یا دنیا کے کسی اور کام میں مشغول ہو جانا یہ قبض کی حالتیں ہیں.بہت لوگ دنیا میں ایسے ہوتے ہیں کہ وہ عبادت گزار بھی ہوتے ہیں، روزہ دار بھی ہوتے ہیں، حج بیت اللہ سے بھی مشرف ہوتے ہیں،ذکر الٰہی بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیںمگر جب وہ نماز پڑھتے ہیں تو نماز ہی پڑھتے ہیں، جب حج کر تے ہیں تو حج ہی کرتے ہیں، جب زکوٰۃ دیتے ہیں تو زکوٰۃ ہی دیتے ہیں مگر جب وہ روٹی کھاتے ہیں اس وقت وہ صرف روٹی ہی کھا رہے ہوتے ہیں، جب وہ کپڑے پہنتے ہیں اس وقت وہ صرف کپڑے ہی پہن رہے ہوتے ہیں، جب وہ بیوی سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ صرف بیوی سے ہی باتیں کر رہے ہوتے ہیں، جب وہ بچوں سے تلعّب کرتے ہیں اس وقت بچوں سے ہی تلعّب کر رہے ہوتے ہیں.ان کی دنیا دنیا ہوتی ہے اور ان کا دین دین ہوتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تیری تو دنیا ہی نرالی ہے.تیری قبض کی حالت بھی خدا کے لئے ہوتی ہے اور تیری بسط کی حالت بھی خداکے لئے ہوتی ہے.جب تو بیوی سے ہنس رہا ہوتا ہے اس وقت تو بیوی سے نہیں ہنستا بلکہ ہمارے حکم کی تعمیل کرتا ہے کیونکہ تو کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس لئے ہنس رہا ہوں کہ میرا خدا کہتا ہے میںاپنی بیوی سے اس رنگ میںپیش آئوں.جب تو کھانا کھا رہا ہوتا ہے اس وقت تو صرف کھانا نہیں کھاتا بلکہ بسم اللہ سے شروع کرتا اور الحمد للہ پر ختم کرتا ہے اور درمیان میں سبحان اللہ سبحان اللہ کہتارہتا ہے.جب تو پانی پیتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ تو دنیا دار لوگوں کی طرح صرف پانی پئے بلکہ تو کہتا ہے میںیہ پانی اس لئے پی رہا ہوں کہ میرے رب نے یہ چیز میری طرف بھیجی ہے.بارش آتی ہے تو لوگ اس سے کیسا لطف اٹھاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کیا کیفیت تھی ایک دفعہ بادل آیا آسمان سے ہلکی ہلکی بوندیں برسیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے کمرہ سے باہر تشریف لائے زبان نکالی اس پر بارش کا ایک قطرہ لیا اور فرمایا میرے رب کی طرف سے یہ تازہ نعمت آئی ہے.(صحیح مسلم کتاب صلاۃ الاستسقاء باب الدعا فی الاستسقاء) آپ نے بھی لوگوں کو یہی نصیحت کی کہ میںتمہیںیہ نہیں کہتا تم اپنی بیویوں سے حظ نہ اٹھائو، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ کھائو نہیں، میں تمہیںیہ نہیں

Page 122

کہتا کہ تم پہنونہیں.میںتمہیںیہ کہتا ہوں کہ تم جو کچھ کرو احتساباً کرو.اس نیت اور ارادہ کے ماتحت کرو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا تمہیںحاصل ہو جائے.اگر تم اپنے تمام کاموں میں اس نیت کو ہمیشہ مد نظر رکھو گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول تمہارا اصل مقصد ہو گا تو میں تمہیں کہتا ہوں اس کے بعد اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں احتساباً ایک لقمہ بھی ڈالتے ہو تو فَھُوَ صَدَقَۃٌ وہ بھی ایک صدقہ ہو گا (صحیح بخاری کتاب الایمان باب ماجاء انَّ الاعمال بالنیۃ والحسبۃ).اب دیکھو وہ شخص لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسے صدقہ قرار دیتے ہیں حالانکہ جس سے انسان کو محبت ہوتی ہے اسے بہر حال وہ کھلاتا ہے وہ یہ تو پسند کر سکتا ہے کہ میںخود بھوکا رہوں مگر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ جس سے مجھے محبت ہے اسے بھوک کی تکلیف ہو.مگر باوجود اس کے کہ وہ اپنی بیوی کو کھلائے گا خدا تعالیٰ کے حضور یہ نہیں لکھا جائے گا کہ اس نے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالا بلکہ خدا تعالیٰ کے حضور یہ لکھا جائے گا کہ اس نے ہماری رضا کی خاطر صدقہ کیا.اسی طرح ملازموں سے معاملہ ہے، ہمسایوں سے معاملہ ہے، دوستوں سے معاملہ ہے.جب انسان ان تمام معاملات میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے وہ یہ سب کام کرتا ہے تو بظاہر یہ دنیوی نظر آنے والے کام بھی اس کے لئے دین بن جاتے ہیںاور اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے یہ کام ایسے ہی سمجھے جاتے ہیںجیسے وہ عبادت میں اپنا وقت گزار رہا ہو.پس فرمایا وَ الضُّحٰى.وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیری بسط اور قبض کی حالتیں دونوں ہمارے لئے ہیں تو بظاہر اپنی بیوی سے ہنس رہا ہوگا مگر دل میں ہمارے ساتھ پیار کر رہا ہو گا.تو بظاہر اپنے بچوں سے پیار کر رہا ہو گا مگر دل میں ہمارے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کر رہا ہو گا.تو بظاہر ہمسایوں کے ساتھ دلجوئی کی باتیں کر رہا ہو گا مگر اصل میں تیری باتیں ہمارے ساتھ ہو رہی ہوں گی.لوگ سمجھتے ہیں کہ توان کے پاس بیٹھا ہے حالانکہ تو ان کے پاس نہیں بلکہ ہمارے پاس بیٹھا ہوتا ہے.جب تیر اہر فعل ہمارے لئے ہے، جب تیری ہر حرکت اورہر سکون ہمارے لئے ہے اور جب تو دین اور دنیا دونوں راہوں سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر رہا ہے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہم لَیْل اور نَـھَار میںتجھے چھوڑ دیں؟ جب ہم نہ تیرے کھانے پر ناراض ہیں، نہ پینے پر ناراض ہیں، نہ معاشرت پر ناراض ہیں، نہ ہمسایوں سے تعلقات پر ناراض ہیں، نہ کسی اور کام پر ناراض ہیں، تو ہم تجھے چھوڑ کس طرح سکتے ہیں؟ یہ تو عبادتیں ہیں جو تو ہماری خاطر بجا لا رہا ہے ان عبادتوں پر ہم نے خفا کیا ہونا ہے ہم تو خوش ہی ہوں گے کہ تو نے ہماری خاطر دنیا کو بھی دین بنا لیا.غرض چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قبض و بسط کی حالتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اچھی ہوں گی یعنی جب آپؐعبادت میں مشغول ہوں گے تو ہوں گے ہی.جب آپ دنیوی کام کریں گے جو بمنزلہ لَیْل ہوتے

Page 123

ہیںتب بھی آپ خدا تعالیٰ کی خوشنودی ہی مد نظر رکھیں گے اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ آپ سے رات دن جدا نہیں ہوتا اور نہ آپ کے کسی فعل سے ناراض ہوتا ہے.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے پانچویں معنے پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ دن کام کا وقت ہوتا ہے اور رات انسان کے آرام کا وقت ہوتا ہے فرماتا ہے وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى.ہم تیرے دنوں کو پیش کرتے ہیں جب تو تبلیغ میں مصروف ہوتا ہے اور تیری راتوں کو پیش کرتے ہیں جب تو مکالمہ الٰہی میں مشغول ہوتا ہے.تیرا دن خدا کے اس فعل کا ثبوت ہے کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ.تیرے رب نے تجھے چھوڑا نہیں.دوسرے الفاظ میں یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ :۶۸) چنانچہ دیکھ لو دن کے وقت آپؐکی تبلیغ اور نشست و برخاست کن لوگوں میں تھی، کفار مکہ میںجو ہر وقت آپؐکو مارنے کی فکر میں رہتے تھے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیرا دن اس بات کی شہادت دے گا کہ ہم تیرے ساتھ ہیں ورنہ دشمن جو ہر وقت تیرے پاس رہتاہے اسے کون سی چیز تجھے ہلا ک کرنے سے روک سکتی ہے اس کی سب سے بڑی خواہش تو یہی ہے کہ تجھے ہلا ک کر دے مگر باوجود اس خواہش اور ارادہ کے اور باوجود اس بات کے کہ دن کو تم انہیں لوگوں کے ساتھ رہتے ہو وہ تمہیںقتل نہیں کر سکتے.پس تیر ا دن اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ خدا تیرے ساتھ ہے اور تیری رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ وَمَا قَلٰى.خدا تجھ سے ناراض نہیں.دن کو لوگ تجھ پر اپنے غیظ و غضب اور ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں.ایک آتا ہے تجھے فریبی کہتا ہے، دوسرا آتا ہے تو تجھے دھوکے باز کہہ دیتا ہے، تیسرا آتا ہے تو تجھے عزت کا خواہش مند کہہ کر چلا جاتا ہے.غرض ہزاروں قسم کی گالیاں اور ہزاروںقسم کے الزامات ہیں جو تجھے دشمنوں سے سننے پڑتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دن اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں.دن کو لوگ تجھے اپنی دشمنی کی وجہ سے ہلاک کر سکتے ہیںمگر چونکہ ہم تمہارے ساتھ ہوتے ہیں وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے.وہ گالیاںدیتے ہیں،وہ تجھے برا بھلا کہتے ہیں، وہ تیرے ہلاک کرنے کے لئے کئی قسم کے منصوبے کرتے ہیں مگر اپنی تمام کوششوں میں ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھتے ہیںاور اس طرح دن کی ایک ایک گھڑی تیری صداقت اور راستبازی کا دنیا میںاعلان کررہی ہوتی ہے.اس کے بعد جب سارے دن کی گالیاں سن کر رات آتی ہے اور تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کروں مجھ سے تو ساری دنیا ناراض ہے اس وقت ہم تجھے تسلی دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہم تو تجھ سے ناراض نہیں.دنیا اگر ناراض ہے تو بے شک ہو.میں نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ایک نوٹ بک دیکھی.آپؑکا معمول تھا کہ جب کوئی

Page 124

پاک جذبہ آپؑکے دل میں اٹھتا آپؑاسے لکھ لیتے.اس نوٹ بک میں آپ نے ایک جگہ خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے لکھا تھا.’’او میرے مولا، میرے پیارے مالک، میرے محبوب، میرے معشوق خدا! دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے؟ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں.لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیںجب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیںہوتا کہ میں کس حال میںہوںاس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میںتیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولا یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے پھر میںتجھے چھوڑدوں.ہرگز نہیں ہرگز نہیں.‘‘ (البدر جلد ۱۱ نمبر ۱۵مورخہ ۱۱ ؍جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۶) یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى میںبیان فرمایا ہے کہ دن ثبوت ہوتا ہے اس بات کا کہ میںتیرے ساتھ ہوں دشمن تیری طرف اپنا ہاتھ نہیں بڑھا سکتا.اور رات ثبوت ہوتی ہے اس بات کا کہ میںتجھ سے ناراض نہیں.تو دن کے وقت دشمن کے منہ سے کئی قسم کی ناراضگی کی باتیں سنتا ہے اور تیرا دل سخت غمزدہ ہوتا مگر جب رات آتی ہے تو ہم تجھ سے کہتے ہیںتو دشمن کی ان گالیوں سے مت گھبرا ہم تجھ سے خوش ہیں.پس دن کی حفاظت اور رات کا مکالمہ الٰہی دونوں ا س بات کا ثبوت ہیں کہ مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے چھٹے معنے چھٹے معنے یہ ہیں کہ ایک روحانی قبض و بسط کا وقت بھی ہر انسان پر آیا کرتا ہے جس کا اس آیت میںذکر کیا گیا ہے.جہاں میں نے خالص دینی اور جسمانی کاموں کے متعلق قبض و بسط کی کیفیات کا ذکر کیا تھا وہاں ایک وقت انسان کی حالت پر ایسا بھی آتا ہے جب اس کی روحانی حالت پر قبض کی حالت طاری ہو جاتی ہے اس میں بھی چھوٹے اوربڑے سب یکساں ہیں اور سارے انسانوں پر ہی یہ قبض و بسط کا دور آتا ہے اس دور کا آنا بھی انسانی ترقیات کے لئے ضروری ہوا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى جیسے بعض روحانی دور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس رنگ میں آئے کہ وحی کانزول کچھ دنوں کے لئے بند ہو گیا جو روحانی طور پر ایک وقفہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا.اسی طرح فرماتا ہے وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.ہم ان وقتوںکو بھی پیش کرتے ہیں جو تیرے لئے ضُـحٰی کا رنگ رکھتے ہیں اور ہم ان وقتوں کو بھی پیش کرتے ہیںجو تیرے لئے لَیْل کا رنگ رکھتے ہیں.یعنی تیری روحانی حالت پر ہمیشہ ضُـحٰی کی کیفیت نہیںرہے گی بلکہ کبھی کبھی رات کی تاریکی کی سی حالت بھی آئے گی.مثلاً کبھی نزول وحی میں

Page 125

روک پیدا ہوجائے گی یا قلب میں وہ بلندی نہیں ہو گی جو دوسرے وقتوں میں تجھے نظر آئے گی.مگر تیرے قلب کی یہ کیفیت دوسرے لوگوں سے بالکل مختلف ہو گی اور لوگوں کے دلوں میںجب قبض آتی ہے تو وہ خدا تعالیٰ سے دور جا پڑتے ہیں مگر فرمایا مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.تیری ضُـحٰی کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی اور تیری لَیْل کی حالت بھی خدا کو پیاری ہو گی.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میںجس قدر چیزیں پائی جاتی ہیں وہ سب لہروں میںچلتی ہیں.پہاڑ ہیں تو وہ لہروں میںچلتے ہیں.دریا ہیںتو وہ لہروں میںچلتے ہیں.ہوائیں ہیں تووہ لہروں میںچلتی ہیں.بجلیاں ہیں تو وہ لہروں میںچلتی ہیں، غرض ہر چیز اپنے اندر لہریں رکھتی ہے.جس طرح مادیات میں لہروں کا قانون جاری ہے اسی طرح روحانیات میںبھی مختلف لہریںچلتی رہتی ہیںلیکن بعض لہریںایسی ہوتی ہیںکہ ان لہروں کی جو ادنیٰ حالت ہوتی ہے وہ بھی کفر کی ہوتی ہے اور جو اعلیٰ حالت ہوتی ہے وہ بھی کفر کی ہوتی ہے.اگر ان لہروں میںکبھی انسان پر خشیت بھی طاری ہوتی ہے تو وہ ایسی نہیںہوتی جو ایمان کی علامت ہو.اس کے مقابل میں بعض لہریںایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ادنیٰ حالت کفر کی ہوتی ہے اور اعلیٰ حالت ایمان کی ہوتی ہے اور بعض ایسی روحانی حالتیں ہوتی ہیں کہ ادنیٰ حالت گو کفر کی نہیںہوتی مگر خدا تعالیٰ کی معیت کی بھی نہیں ہوتی.یعنی گو وہ ادنیٰ حالت خدا تعالیٰ کی ناراضگی والی نہ ہو مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہے.ایک حالت عدم معیت کی ہوتی ہے اور ایک حالت حصول معیت کی ہوتی ہے یہ الگ الگ مقام ہیں جو روحانی درجات کے حصول کے وقت پیش آتے ہیں.ایسے شخص کی ادنیٰ حالت کو دیکھ کر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ اسے خدا تعالیٰ کی مقبولیت حاصل ہے گو ہم یہ بھی نہیںکہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے اسے چھوڑ ا ہوا ہے ہاں اس کی اعلیٰ حالت بے شک خدا تعالیٰ کی معیت کا ثبوت ہوتی ہے.لیکن ایک مقام وہ ہے کہ جب انسان نیچے آئے تب بھی اسے خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے اور جب اونچا چلا جائے تب بھی اسے خدا تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے.پس فرماتا ہے وَ الضُّحٰى.وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم روحانی لہروں میںتیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جو ضُـحٰی کا ہوتا ہے اور جب تو کلّی طور پر خدا کے سامنے ہوتا ہے اور تیرے لئے وہ وقت بھی آتا ہے جب تجھ پر قبض طاری ہوتی ہے مگر مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى.تیری قبض کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی اور تیری بسط کی حالت بھی خدا کی معیت کے ماتحت ہو گی.صرف معیت کے مدارج میں فرق ہو گا یہ نہیں ہو گا کہ خدا تعالیٰ کی معیت کا مقام جو تجھے حاصل ہے وہ کسی حالت میں جاتا رہے.تیری دونوں حالتیں خواہ وہ قبض کی ہوں یا بسط کی خدا کی معیت اور اس کی خوشنودی کا ثبوت ہوں گی صرف کمی بیشی کا فرق

Page 126

ہو گا مگر یہ نہیں ہو گا کہ معیت جاتی رہے.یہ وہی مقام ہے جسے صوفیاء نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (تشیید المبانی تـخریج احادیث مکتوبات الامام ربانی صفحۃ ۳۴) در اصل اس مقام کو کھول کر بیان کر نا سخت مشکل ہوتاہے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے بجائے کھلے طورپر ا س کا ذکر کرنے کے اشاروں اشاروں میںہی بیان کر دیا کہ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ یعنی وہ مقام جو ابرار کے لئے بسط کا ہوتا ہے اور جسے وہ حصول عرفان کا بلند ترین درجہ سمجھتے ہیںوہ مقربین کے لئے قبض کا مقام ہوتا ہے.انہوں نے بھی اشاروں میںیہ بات بیان کی ہے اور میں بھی اس بات پر مجبور ہوں کہ اشاروں تک اس بات کو محدود رکھوں.حقیقت میں یہ روحانی لہریں ہوتی ہیں جو کبھی اونچی چلی جاتی ہیں اور کبھی نیچے کی طرف آجاتی ہیں.ان کے لئے اس بات کو بیان کرنا مشکل تھا اور میرے لئے نسبتاً آسانی ہے کیوں کہ لہروں کے علم نے اس مسئلہ کو سمجھنے میں بہت کچھ سہولت پیدا کردی ہے.بہرحال اللہ تعالیٰ اس آیت میں یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ محمدی مقام کی نچلی لہریں بھی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ثبوت ہیںاور محمدی مقام کی اونچی لہریں بھی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ماتحت ہیں.دونوں حالتوں میں خدا تعالیٰ کی معیت آپؐکے شامل حال رہے گی اور کبھی کوئی مقام خدا تعالیٰ کی ناراضگی یا اس کی ناپسندیدگی کا نہیںآئے گا.جس طرح پرندہ اڑتا ہے تو ایک جھٹکا کھاتا ہے اور بظاہر نظر آتا ہے کہ وہ نیچے ہوا ہے حالانکہ وہ اڑان کا ایک حصہ ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفت قبض اس طرح ظاہر ہو گی کہ ہر قبض کی حالت بسط کا موجب بنے گی اور اوپر اٹھانے کا ذریعہ ہو گی.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے ساتویں معنے ساتویں معنے وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے یہ ہیں کہ ہرنبی کی دو زندگیاں ہوتی ہیں ایک اس کی فردی زندگی ہوتی ہے اور ایک اس کے سلسلہ کی زندگی ہوتی ہے.فردی زندگی کے لحاظ سے اگر اس آیت کے مضمون کو لیا جائے تو ضُـحٰی اور لَیْل دونوں زمانے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی حیات کے ساتھ تعلق رکھیں گے لیکن جب اس آیت کو آپؐکی قومی زندگی پر چسپاں کیا جائے گا تو ضُـحٰی اور لَیْل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد کے وہ دور مراد ہوں گے جو امت محمدیہ پر آنے والے تھے.اللہ تعالیٰ اس آیت میںاسی جماعتی زندگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَالضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى.ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے ضُـحٰی کی حیثیت رکھتا ہوگا اور ہم اس وقت کو بھی پیش کرتے ہیں جو تیری قومی اور جماعتی زندگی کے لئے لَیْل کا مصداق ہو گا.دنیا میں ہرقوم پر ترقی اور تنزل کے مختلف دور آتے ہیں کبھی اقبال اور فتح مندی اس کے شامل حال ہوتی ہے اور کبھی ادبار اور

Page 127

ناکامی کی گھٹائیںاس پر چھائی ہوتی ہیں بالعموم قومیں ترقی کر کے جب تنزل کی طرف جاتی ہیں تو ہمیشہ کے لئے تباہ اور برباد ہو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا جو زمانہ نبوت ہے یعنی آپؐکے دعویٰ سے لے کر قیامت تک کا زمانہ یہ دورِ تنزل سے بالکل محفوظ رہے گا.ضُـحٰی کی روشنی یکساں جلوہ گر رہے گی، کبھی لوگ خدا سے دور نہیں ہوں گے اور ادباریا گمراہی کا زمانہ اُمتِ محمدیہؐ پر نہیںآئے گا بلکہ ہم مانتے ہیں کہ ضُـحٰی کی حالتیں بھی اُمتِ محمدیہؐ پر آئیں گے اور وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کی حالت بھی رونما ہو گی لیکن اس کے ساتھ ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قومی حیات کے متعلق ہم ایک وعدہ کرتے ہیں جو دنیا کی اور کسی قوم کے ساتھ ہم نے نہیںکیا کہ اس کی ضُـحٰی بھی مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ماتحت ہو گی اور اس کی لَیْل بھی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ثبوت ہو گی.جہاں تک ماننے والوں کا تعلق ہے بے شک ان کی مختلف حالتوں کے لحاظ سے کبھی ان پر ضُـحٰی کی گھڑیاں آئیںگی اور کبھی لَیْل کی تاریکی ان پر چھا جائے گی.مگر جہاں تک شریعت محمدیہ کا اور لوگوں کے خدا تعالیٰ سے تعلق کا تسلسل ہے اس کے لحاظ سے کوئی دور ایسا نہیںہو گا جو مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ماتحت نہ ہو.قوم پر بے شک تنزل آجائے گا، لوگ بے شک گر جائیں گے، کامیابی اور اقبال کی درخشندہ ساعات بے شک لَیْل کی شکل میں بدل جائیں گے.مگر جتنا حصہ محمدیتؐکا زندہ رہنا ضروری ہے وہ خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اس کی معیت کے ماتحت قائم رہے گا.اس میں درحقیقت اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاں دوسری اقوام خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر ترقی کر جاتی ہیں وہاں تیری قوم سے ایسا نہ ہوگا.بلکہ تیری قوم پر جب بھی ضُـحٰی کا دور آئے گا مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ کے ماتحت آئے گا.خدا سے الگ ہو کر دوسری قوموں کی طرح مسلمان کبھی بڑی ترقی نہیں کر سکتے.چنانچہ دیکھ لو وہ تمام دوسری اقوام جن میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء مبعوث ہوئے تھے جب ان پر روحانی تنزل کا زمانہ آیا تو باوجود اس کے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ ا ہوا تھا وہ دنیوی لحاظ سے ترقی کر گئیں مگر فرماتا ہے تیری قوم سے ایسا نہیں ہو گا بلکہ اس پر جب بھی ضُـحٰی کا وقت آئے گا مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ماتحت آئے گا.اور جب کبھی اللہ تعالیٰ ان کو دنیوی ترقی نصیب کرے گا اس کے ساتھ ہی ان کا دین بھی درست ہو گا.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ان پر ضُـحٰی کا وقت ایسی حالت میںآجائے جب خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑا ہو ا ہو یا ان کی دینی اور اخلاقی حالت نا گفتہ بہ ہو.عیسائیوں کو دیکھ لو ان پر دنیوی ترقی کا دور بے شک آیا مگر کس وقت؟ جب عملی لحاظ سے عیسائیت بالکل مر چکی تھی.تین سو سال کے بعد جب عیسائی روحانی لحاظ سے سخت کمزور ہو چکے تھے اور ان میںحضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کے خلاف کئی قسم کی خرابیاں پیدا

Page 128

ہوچکی تھیں اس وقت ان پر دنیوی ضُـحٰی کا زمانہ آیا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیری امت کے ساتھ ایسا نہیںہو گا.مسلمانوں پر ضُـحٰی کا دور اسی وقت آئے گا جب خد اتعالیٰ سے ان کا تعلق ہو گا.اگر خدا تعالیٰ سے ان کا تعلق اپنی بداعمالی کی وجہ سے کٹ چکا ہو گا تو ضُـحٰی کا دور بھی ان پر کبھی نہیں آئے گا.ضُـحٰی کا دور اسی وقت آئے گا جب عملی طور پر وہ خد اسے تعلق رکھ رہے ہوں گے چنانچہ دیکھ لو خلافت راشدہ کا زمانہ جو اسلام کی ترقی کا زمانہ تھا اس وقت یہ دونوں باتیں موجود تھیں ایک طرف روحانیت کا غلبہ موجود تھا اور دوسری طرف دنیوی ضُـحٰی کا دور جاری تھا مگر موجودہ زمانہ میںجب تنزل کا دور آیا تو باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے ایک ایک کر کے وہ تمام تدا بیر اختیار کیںجو مختلف اقوام اپنی ترقی کے لئے اختیار کرتی ہیں پھر بھی وہ ضُـحٰی کا دور واپس نہ لا سکے.مسلمانوں نے کہا غیر قومیںسود کی وجہ سے ترقی کر گئی ہیں آئو ہم بھی سود لینا شروع کر دیں تا کہ ہم بھی ترقی کی اس دوڑ میں حصہ لے سکیں.انہوں نے سود لیا مگر جہاںدوسری اقوام سود کی وجہ سے ترقی کر گئیں وہاں مسلمان سود لینے کے باوجود تنزل اور ادبار میں گرتے چلے گئے.پھر مسلمانوں نے کہا دنیا میںتعلیم سے ترقی ہوتی ہے آئو ہم بھی تعلیم کی طرف توجہ کریں چنانچہ انہوں نے بڑے زور سے اپنی تعلیمی حالت کو درست کرنا شروع کر دیا مگر جہاں دوسری اقوام تعلیم کی طرف توجہ کرنے کے نتیجہ میںترقی کر گئیں وہاں مسلمان تعلیم میںحصہ لینے کے باوجود گرتے چلے گئے.پھر مسلمانوں نے کہا تجارت میںحصہ لینے سے ترقی ہوا کرتی ہے آئو ہم تجارتوں کی طرف توجہ کریں تا کہ ہم غیر قوموں کی طرح دنیا پر غالب آسکیںچنانچہ انہوں نے تجارتوں کی طرف توجہ کی مگر جہاں دوسری اقوام تجارت سے دنیا پر غالب آگئیں وہاں مسلمان تجارت میںحصہ لینے کے باوجود ذلیل سے ذلیل تر ہوتے چلے گئے.غرض مسلمانوں نے اپنا پورا زور اس غرض کے لئے صرف کردیا کہ وہ کسی طرح ترقی کریں مگر ایک چیز بھی ان کو آگے بڑھانے کا موجب نہ بن سکی حالانکہ یہی وہ چیزیں ہیں جن سے غیر اقوام ترقی کر رہی ہیں.پس دنیا میںجس قدر قومیںپائی جاتی ہیں وہ مذہب کو چھوڑنے کے بعد بھی ترقی کر جاتی ہیں مگر مسلمانوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ ان پر ضُـحٰی کا دور ہمیشہ مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ماتحت آئے گا یہ کبھی نہیں ہوگا کہ وہ خد اتعالیٰ کو چھوڑ دیں اور خدا تعالیٰ ان کو چھوڑ دے اور پھر بھی غیر قوموں کی طرح ترقی کر جائیں.اس کی ایک مادی وجہ ہے اور ایک روحانی.مادی وجہ تو یہ ہے کہ پہلے مذاہب کی تعلیمات سوائے یہود کے اس طرح کی تفصیلی نہیںجس طرح اسلام کی تعلیم اپنے اندر تفصیل رکھتی ہے اس لئے ان کو چھوڑ کر بھی اقوام ترقی کر جاتی ہیں کیونکہ ذہنی کشمکش کوئی نہیں ہوتی وہ جو حالت بھی اختیار کرتی ہیں اسی کا نام اپنا مذہب رکھ لیتی ہیں.جیسے مسیحیت ہے یا ہندو مت ہے لیکن اسلام کی تعلیم تفصیلی اور محفوظ ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گی

Page 129

اسے چھوڑ کر جب بھی مسلمان آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے ان کے دماغ میں ایک ذہنی کشمکش شروع ہو جائے گی جو اطمینان قلب کو دور کر دیتی ہے اور یا تو مذہب سے دست بردار کر وا دیتی ہے یا ترقی سے روک دیتی ہے.روحانی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کو بغیر مذہب کے خدا تعالیٰ ترقی کرنے دے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اس قوم کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے بعد کوئی ایسا کوڑا نہیںرہتا جو اس قوم کی تنبیہ کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہو.اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کو مذہب کے بغیر بھی دنیوی ترقی دے دی کیونکہ خد اتعالیٰ ان قوموں کو چھوڑچکا تھا.مگر فرماتا ہے اے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے چونکہ تجھے کبھی نہیں چھوڑنا اس لئے ہم تیری قوم کو بھی کبھی نہیں چھوڑیں گے اور وہ بغیر مذہب کی درستی کے دنیا میں کبھی ترقی نہیں کر سکیں گے.کیونکہ اگر ہم مذہب کے بغیر ہی ان کو ترقی دے دیں تو وہ غلطی سے یہ سمجھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ ہم سے خوش ہے اور وہ دین سے اور بھی دور جا پڑیںگے.اس لئے ہم دین سے غفلت کی حالت میں کبھی ان پر ضُـحٰی نہیں لائیں گے.بلکہ جب بھی وہ دین سے غافل ہوں گے اور لَیْل کی حالت ان پر وارد ہو گی ہم انہیں سزا دیںگے کیونکہ اگر ہم سزا نہ دیںتواس میں ان کی موت ہے.پس فرمایا مسلمان جب تک دین پر عمل پیرا رہیں گے ہم ان کے ساتھ رہیں گے اور انہیں دنیوی ترقیات سے بھی حصہ دیں گے مگر جب وہ ہمیںچھوڑ دیں گے ہم بھی ان کو چھوڑ دیںگے اور ان کو ان کی بد اعمالی کی سز ا دیں گے.مگر اس لئے نہیں کہ ان پر موت آئے بلکہ اس لئے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ پھر تیری طرف واپس آئیں اور تیرے دین کو مضبوطی سے پکڑ لیں.گویا دونوں حالتوں میںہمارا ان کے ساتھ معاملہ محض اس لئے ہو گا کہ وہ تیرے دامن سے وابستہ رہیں اور کبھی ایک آن اور ایک لمحہ کے لئے بھی اسے چھوڑنے کا خیال نہ کریں.جب وہ ترقی کریں گے ایسی حالت میںکریں گے کہ تو ان کے ساتھ ہو گا اور جب تو ان کے ساتھ نہیں ہو گا ہم انہیںسرزنش کریں گے تا کہ روشنی اور ضُـحٰی والا دور پھر واپس آجائے.گویا تاریکی اور تنزل کی گھڑیوں میں بھی ہمارا ان کے ساتھ ایسا سلوک ہو گا جو مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ثبوت ہو گا.ہم انہیں سرزنش اور تنبیہ کریں گے تاکہ وہ اپنی حالت کو بدل لیں اور جب اس تنبیہ کے بعد قوم تیری طر ف واپس لوٹے گی پھر تیرے انوار اور برکات کا دنیا میںظہور شروع ہو جائے گا گویا ضُـحٰی کے وقت بھی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ظہور ہو گا اور لَیْل کے وقت بھی مَاوَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ظہور ہوگا.ضُـحٰی کے وقت اس طرح کہ جب کبھی وہ ترقی کریںگے اسلام کا نور دنیا کو نظر آنے لگ جائے گا اور لَیْل کے وقت اس طرح کہ جب ان میںتنزل واقعہ ہو گا خدا تعالیٰ کوڑے مار مار کر تیری طرف واپس لائے گا یا خدا تعالیٰ کوئی روحانی سلسلہ ایسا پھر قائم کر دے گا جو تیرے جلال اور جمال کو دنیا پر ظاہر کرنے والا ہو گا.

Page 130

غرض روحانی طورپر چونکہ اسلام آخری مذہب ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی خاص تقدیریں مسلمانوں کو بغیر اسلام کے ترقی کرنے نہیں دیتیں تا کہ وہ مطمئن ہو کر دین سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو جائیں.اور یہی مضمون وَالضُّحٰى اور مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى میںبیان کیا ہے کہ اسلامی ترقی اور الٰہی قرب ہمیشہ قدم بقدم بڑھیں گے.الٰہی قرب اور معیت اور رضا کے بغیر امت مسلمہ کو ترقی نہیں ہو گی جب بھی مسلمان دین کو چھوڑ دیں گے ترقیات ِ دنیویہ سے بھی محروم ہو جائیں گے.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے آٹھویں معنے آٹھویں معنے وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے یہ ہیں کہ اسلام پر تنزل کا زمانہ بھی آئے گا مگر وہ دائمی نہ ہو گا اورمَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ایک ثبوت ہوگا یعنی پھر وہ زمانہ اچھے زمانہ سے بدل جائے گا یعنی ہر تاریکی کے بعد روشنی کا زمانہ آتا رہے گا.تاریکی کے زمانہ میں معیت اور رضاءِ الٰہی کی یہی دلیل ہوتی ہے کہ وہ جاتی رہے پس رات کے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کے راضی رہنے کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ پھر اسلام کی تازگی کے سامان پیدا کر دے گا پھر اللہ تعالیٰ اپنا کوئی مامور لوگوں کی اصلاح کے لئے کھڑا کر دے گا.مسلمان اپنی کوششوں سے مایوس ہو کر اُس کی طرف آئیں گے اور چونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قائم مقام ہوگا اس لئے اس کی طرف آنا تیری طرف واپس آنا ہو گا.وَ الضُّحٰى وَالَّيْلِ اِذَا سَجٰى کے نویں معنے نویں معنے اس آیت کے یہ ہیںکہ شریعت ِ اسلامیہ ترقی اور تنزل دونوں زمانوں میں محفوظ رہے گی.قومیں شریعتوں کو دونوں زمانوں میں بدل دیتی ہیںبعض تنزل کے زمانہ میں اپنی غفلت سے بدلنے دیتی ہیں اور بعض ترقی کے زمانہ میں اپنی اغراض کے لئے بدل دیتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.پہلی جماعتوں کی یہ کیفیت رہی ہے کہ یا تو ضُـحٰی اور ترقی کے زمانہ میںجب وہ عیاشی میںمبتلا ہو گئیں.انہوں نے شریعت کے اُن احکام کو بدل ڈالا جو ان کی خواہشات میں حائل تھے.جیسے عیسائیت میں جب حکومت آئی اور غالب قوم نے کہا کہ ہفتہ کی بجائے اتوار عبادت کا دن مقرر کر دیا جائے کیونکہ ہمیں اس میں سہولت ہے تو عیسائیوں نے فوراً اس کو بدل دیا اور ہفتہ کی بجائے اتوار کا دن عبادت کے لئے مقرر کر دیا.یا اس قوم کے افراد نے جب کہا کہ کفر کی حالت میںہم اپنی عید فلاں فلاں دنوں میں منایا کرتے تھے عیسائیت میںبھی وہی دن مقرر ہونے چاہئیں تو عیسائیوں نے اس کو بھی مان لیااور عیسوی احکام کو بدل ڈالا.(Encyclopedia.of religion and Ethics Underword (Sunday) in the primitive church) اور یا پھر شریعت کے احکام تنزل کے زمانہ میں بدلے جاتے ہیں جب قوم میںغفلت پیدا ہوجاتی ہے اور شرعی احکام

Page 131

کی عظمت اُس کی نگاہ سے زائل ہو جاتی ہے.غرض دو اوقات میںہی شریعتیں بدلی جاتی ہیں کبھی ضُـحٰی کے وقت شریعتیں بدلی جاتی ہیں اور کبھی لَیْل کے وقت.ضُـحٰی کے وقت عیاشی کے لئے احکام شرعیہ کو قومیں بدل دیتی ہیں اور لَیْل کے وقت یا تودشمن ان کی کتابوں کو جلا دیتے ہیں اور یا اپنی کمزوری کی وجہ سے وہ خود ہی اُس کی حفاظت کا فرض سر انجام نہیں دے سکتیں.جیسے بخت نصر جب یہود کو جلا وطن کر کے لے گیا تو وہ یہودی قوم کے لئے لَیْل کا وقت تھا.جب وہ واپس اپنے وطن میںآئے تو ان کی کتاب تورات غائب تھی.چنانچہ اس وقت عزرا نبی نے مع چند احبار کے تورات کو اکٹھا کیا مگر بہرحال وہ ویسی نہیں تھی جیسی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی.(APOCRYPHA:11 Esdras Xiv Page:44 to 46) غرض شرائع دو زمانوں میں بدلی جاتی ہیں یا ترقی کے زمانہ میںیا تنزل کے زمانہ میں.ترقی کے زمانہ میں قوم شریعت کو اس لئے بدلتی ہے تا کہ وہ عیاشی میں حصہ لے سکے اور تنزل کے زمانہ میںقوم کی غفلت اور کوتاہی سے شرعی احکام بدلے جاتے ہیں یا دشمن شریعت کی کتابوں کو جلا دیتا ہے تا کہ یگا نگت اور اتحاد کی روح قوم میں سے مٹ جائے.اللہ تعالیٰ اس امر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے یہ دونوں حالتیںتیری قوم پر نہیں آئیںگی اور ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم تیرے ساتھ رہیں گے اور تیرے کام کو تباہ نہیںہونے دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو آخر ایک دن فوت ہونے والے تھے صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب تھی جو قیامت تک موجود رہنے والی تھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خواہ تیری قوم پر ترقی کے اوقات آئیںیا تنزل کی گھڑیاں آئیںہم اس کلام کو جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے کبھی بدلنے نہیں دیں گے اور ہمیشہ اس کی حفاظت کریں گے.اصل بات یہ ہے کہ محض قومی تنزل کوئی حقیقت نہیں رکھتا وہ تنزل تو افراد کی خرابی پردلالت کرتا ہے اگر کوئی قوم تنزل کے بعد ترقی کر جائے تو پھر اس کی گزشتہ ناکامیوں کا داغ دُھل سکتا ہے لیکن اگر شریعت بدل جائے اور قوم ترقی کر جائے تو اس ترقی کا قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.پس جو چیز اہمیت رکھتی ہے وہ محض قومی تنزل نہیںیا لوگوں کی حالت کا بدل جانا نہیں بلکہ اصل اہمیت رکھنے والی چیز رسول کا بدل جانا ہے یعنی اس کی تعلیم کا بدل جانا اور اُس کے کلام کا خراب ہوجانا.سو اس کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ ان آیات میںوعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ترقی اور تنزل دونوں دور میںہم اس کلام کی حفاظت کریںگے جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے.وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى ؕ۰۰۵ اور (دیکھ تو سہی کہ ) تیری ہر پیچھے آنے والی گھڑی پہلی سے بہتر ہوتی ہے.

Page 132

تفسیر.بہت سے ترقی کرنے والے یکدم بڑھتے ہیں مگر آخر ٹھوکر کھاتے اور گر جاتے ہیں.چنانچہ دیکھ لو ہٹلر، نیپولین، تیمور اور سکندر سب ایسے ہیں جو دنیا میں بڑھے اور انہوں نے ترقی کی مگر آخر ناکامی پر ان کا خاتمہ ہوا.اسی طرح اور کئی بڑے بڑے لوگ دنیا میںگزرے ہیں جنہوں نے حیرت انگیز ترقیات کیںمگر آخر وہ گر گئے اور اُن کی تمام شہرت اور ناموری جاتی رہی.پھر بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بڑے ذہین ہوتے ہیں مگر آخر میںپاگل ہو جاتے ہیں یا اپنی ذہانت کو کھو بیٹھتے ہیں.مولوی محمد حسین صاحب آزاد لاہور میں رہتے تھے بڑے ذہین اورقابل آدمی تھے بہت بڑی علمیت کے مالک تھے مگر آخر میںان کے دماغ میںنقص واقعہ ہو گیا اور یہ حالت ہو گئی کہ وہ بازار میں سے گذرتے تو لوگ اکھٹے ہو جاتے اور جب ان سے کوئی بات کرتا تووہ اسے گالیاں دینے لگ جاتے.عالم ہوتے ہیں مگر آخر میں جاہل ہو جاتے ہیں، ان کا حافظہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ علم جو انہوں نے سیکھا ہوتا ہے سب بھول جاتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جومحبوب ہوتے ہیں مگر آخر وہ متروک ہو جاتے ہیں بلکہ جس قدر جسمانی محبوب ہوتے ہیں ان سب کا یہی حشر ہوتا ہے.جوانی میں ہر شخص ان کی طرف دیکھتا ہے مگر جب ان کے دانت گرجاتے ہیں، جب ان کی کمر جھک جاتی ہے، جب ان کے چہرہ پر جھریا ں پڑجاتی ہیں.تو بد صورت سے بدصورت انسان بھی ان کو دیکھ کر ہنستا ہے اور کہتا ہے یہ کیسا بد شکل انسان ہے.فرانس کا ایک قصہ مشہور ہے.ایک شخص نے فرانس کی ایک بڑھیا عورت کو دیکھا تو اس کی شکل و صورت اور رفتار کو دیکھ کر سخت کراہت کا اظہار کیا وہ اسے اپنے ساتھ لے گئی اور اسے ایک تصویر دکھا کر کہا کہ جانتے ہو یہ کس کی تصویر ہے؟ وہ کہنے لگا ہاں میںجانتا ہوں یہ فلاں حسین عورت کی تصویر ہے میری ماں اس کی سہیلی تھی اور یہ عورت اتنی حسین اور خوبصورت تھی کہ سارا پیرس اس پر شید ا تھا.جب وہ یہ بات کہہ چکا تو عورت کہنے لگی یہ میری ہی تصویر ہے.تو کئی محبوب ہوتے ہیں مگر آخر میں مبغوض ہو جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول ! تیرا یہ حال نہیں ہو گا.تجھ کو جو ترقیات ملیں گی وہ ہر قدم پر بڑھتی چلی جائیںگی.پہلے مدینہ کا گرد و نواح صاف ہوا، پھر مکہ فتح ہوا، پھر سارا عرب پھر شام اور عراق اور مصر فتح ہوئے.غرض ہر قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.آنحضرت صلعم کی ہر دوسری گھڑی پہلی سے بہتر ممکن ہے کوئی کہے کہ مکہ تو آپؐکے ہاتھوں پر فتح ہوا تھا مگر عراق اور مصر وغیرہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد فتح ہوئے ہیں اس لئے شاید غلطی سے یہ نام لے لئے گئے ہیںمگر میںنے غلطی نہیںکی میںنے دیدہ و دانستہ شام اور عراق اور مصر وغیرہ کا نام لیا ہے.اسی طرح ممکن ہے کوئی کہے کہ اگر لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے ثبوت میں عراق اور مصر وغیرہ کی فتوحات کو

Page 133

پیش کیا جاسکتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان فتوحات کے بعد اسلام کا تنزل شروع ہو گیا اور آخرت اُولیٰ سے بہتر نہ رہی.میں اِس کوبھی درست سمجھتا ہوں اور اُس کو بھی درست سمجھتا ہوں.اصل بات یہ ہے کہ خد اتعالیٰ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہمیشہ یہ قانون رہے گا کہ ان کی آخرت اولیٰ سے بہتر ہو گی.جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود رہے اسلام بڑھتا رہا اور جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے چھوڑ دیا اسلام کا تنزل شروع ہو گیا.عراق اور شام اور مصر مسلمانوں کو اس لئے ملے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں موجود تھے.بے شک جسمانی اعتبار سے آپؐوفات پا چکے تھے مگر روحانی اعتبار سے آپؐکا وجود امت میں موجودتھا اور گو جسد ِ عنصری کے ساتھ آپؐدنیا میں زندہ نہیں تھے مگر ابوبکر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے.عمر ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے.عثمان ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے.علی ؓ کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ موجود تھے.یہی وجہ تھی کہ فتوحات پر فتوحات ہوتی چلی گئیں مگر جب وہ لوگ آگئے جن کے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہ تھے مسلمانوں کا تنزل شروع ہو گیا.آخر غور کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ تو نہیں کہا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّیَزِیْد.یزید کے لئے بھی آخرت اُولیٰ سے بہتر ہو گی.خدا تعالیٰ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ یہ تھا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرے لئے آخرت اُولیٰ سے بہتر ہو گی چنانچہ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر دنیا میں موجود رہے مسلمانوں کے ساتھ بھی یہ وعدہ پورا ہوتا رہا.جب وہ لوگ آگئے جن کو محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نہیں کہا جا سکتا تھاجو آپؐکے نقشِ قدم پر چلنے والے نہیں تھے تو خدا تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا.پھر دیکھو وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کی صداقت کا یہ کیسا شاندار نظارہ تھا کہ جب آپؐبدر کی جنگ پر تشریف لے گئے تو صرف ۳۱۳ صحابہ ؓ آپؐکے ساتھ تھے.اُحد کی جنگ آئی تو ایک ہزار صحابہ ؓ آپؐکے ساتھ تھے.خندق کی جنگ آئی تو تین ہزار صحابہ ؓآپؐکے ساتھ تھے.فتح مکہ کا وقت آیا تو دس ہزار صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے.غرض وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے مطابق یہ تعداد بڑھتی چلی گئی.پھرآپؐکا تقویٰ اور صلاح بھی ترقی کرتے چلے گئے.دولت و امارت نے آپ کو جابر اور متشدد نہیں بنایا وہی غربا ء پروری وہی انکسار اور وہی عبادت اور وہی استغناء آخر تک رہا.فتح مکہ کے بعد آپ کے گلے میں ایک شخص نے پٹکا ڈال دیا مگر آپؐخاموش رہے(مسند احمد بن حنبل مسند انس بن مالک ).ایک ظالم نے یہ اعتراض کیا کہ تِلْکَ قِسْمَۃٌ لَّا تُرَادُ بِـھَا وَجْہُ اللہِ.آپؐنے مال اس طرح تقسیم کیا ہے کہ اس میں خدا تعالیٰ کی خوشنودی مد نظر

Page 134

نہیں(صحیح بـخاری کتاب الادب باب من اخبر صاحبہ بما یقال فیہ ).مگر قتل کرنے کی خواہش کرنے والے کو منع فرما دیا(صحیح مسلم کتاب الزکاۃ باب ذکر الخوارج و صفاتھم ).جسمانی لحاظ سے دیکھو تو وہ شخص جو اکیلا مکہ میںسے نکلا تھا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوا.روحانی لحاظ سے دیکھو تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو مکہ میں چار پانچ لوگوں کو پالنے والا تھا وہ مدینہ میں لاکھوں کو پالنے والا بن جاتا ہے اور ان کو اسی طرح پالتا ہے جس طرح مکہ میں وہ چند افراد کو جنہیںانگلیوں پر شمار کیا جا سکتا تھا پالتا تھا.جب فتوحات ہوئیںتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دن بازار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک اچھا کوٹ خرید لائے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ کوٹ مجھے بڑا اچھا لگا تھا میں آپ کے لئے خرید لایا ہوں، اب فتوحات ہوئی ہیں، بڑے بڑے بادشاہ اور وفود آپؐسے ملنے کے لئے آتے ہیں.جب وہ آئیں آپؐیہ کوٹ پہن لیا کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو آپؐکا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپؐنے فرمایا خد ا تعالیٰ نے مجھے ان کاموں کے لئے نہیںبھیجا، میں اس کوٹ کو نہیں پہن سکتا اسے واپس لے جائو (صحیح بخاری کتاب الأدب باب من تجمل للوفود).غرض یہ نہیںہوا کہ فتوحات کے وقت آپ کی حالت میں کوئی فرق پیدا ہو جاتا اور آپ زیادہ اعلیٰ لباس یا زیادہ آسائش کے سامان اپنے لئے پسند فرماتے بلکہ ہمیشہ آپؐکے تقویٰ اور بِرّ میںزیادتی ہی ہوتی چلی گئی.پھر محبوبیت کا یہ حال تھا کہ روز بروز اس میں کمال پیدا ہوتا گیا.مکہ کے لوگ آپؐکے بے شک فدائی تھے مگر مکہ سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنی فدائیت کے نظارے دکھلائے.مکہ میں صحابہؓ کی فدائیت کا جو نظارہ نظر آتا ہے وہ بہت کم ہے اور اس کی مثالیںزیادہ نہیں.ایک حضرت علیؓ کا واقعہ ہے جو فدا ئیت کے ثبوت میںپیش کیا جاسکتاہے اور یا پھر غارِ ثور میں حضرت ابو بکر ؓ کی فدائیت کا واقعہ ہے جو نظرآتا ہے.ان کو مستثنیٰ کر تے ہوئے مکہ میں فدائیت کے نظارے بہت کم نظر آتے ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیںمکہ والے مظالم سے تنگ آکر حبشہ چلے جاتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اکیلا چھوڑجاتے ہیں.مگر مدینہ میں آپؐکو جو انصار و مہاجرین کی جماعت ملی اس نے آپؐسے جس محبت کا سلوک رکھا ہے اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نظر نہیں آتی.جنگِ بدر کے موقعہ پر انصار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک الگ مقام بنا دیا اور وہاں دو تیز رفتار اونٹنیاں باندھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر ؓ کو اس جگہ بٹھا دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ جنگ ہونے والی ہے ورنہ ہمارے دوسرے بھائی بھی اس سعادت سے محروم نہ رہتے.یا رسول اللہ ! اگر ہم سب کے سب مارے جائیںتو آپؐاور ابوبکر ؓ ان تیزرفتار اونٹنیوں پر سوار ہو کر مدینہ تشریف لے جائیں وہاں اسلام کی ایک بہادر فوج

Page 135

موجود ہے حضورؐ جو بھی حکم دیں گے ہمارے وہ بھائی اس کو پوری خوشی کے ساتھ قبول کریں گے اور اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کر دیں گے(السیرۃ الحلبیۃ باب ذکر مغازیہ صلی اللہ علیہ وسلم).پھر ہم اُحد کے موقعہ پردیکھتے ہیں کہ صحابہؓ نے فدائیت کا کیسا شاندار نمونہ دکھایا.ایک مہاجر حضرت طلحہ ؓ تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے تھے دشمن کے تیروں کا اصل نشانہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اس لئے جو بھی تیر آپؐکی طرف آتا حضرت طلحہؓ اس کو اپنے ہاتھ پر لے لیتے.یہاں تک کہ تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ان کا ہاتھ شل ہو گیا.کسی نے بعد میں ان سے پوچھا کہ جب آپ کو تیر لگتے تھے تو آپ کے منہ سے آہ نہیں نکلتی تھی؟ حضرت طلحہ ؓ نے جواب دیا آہ نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں نکلنے نہیں دیتا تھا تا ایسا نہ ہو کہ میں آہ کروں اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جالگے.دوسرا واقعہ مالک انصاری کا ہے.پہلی فتح کے بعد وہ الگ جا کر کھجوریںکھانے لگے کیونکہ سخت بھوکے تھے.پھرتے ہوئے ایک جگہ آئے تو انہوں نے دیکھا حضرت عمر ؓ ایک ٹیلہ پر بیٹھے ہو ئے رو رہے تھے انہوں نے حیرت سے کہا عمر کیا ہوا یہ رونے کا مقام ہے یا ہنسنے کا؟ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم بیٹھے رو رہے ہو! حضرت عمر ؓ نے کہا تم کو پتہ نہیںکہ فتح کے بعد کیا ہوا؟وہ کہنے لگے کیا ہوا؟ حضرت عمر ؓ نے کہا فتح کے بعد لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا.مسلمان مالِ غنیمت جمع کرنے میںمشغول تھے، لشکر تتر بتر تھا کہ دشمن نے موقعہ پا کر حملہ کر دیا اور اس نے حملہ ایسا شدید کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید ہو گئے.مالکؓ نے کہا عمر ؓ پھر بھی تو بیٹھ کر رونے کا کوئی موقعہ نہیں اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو پھر جہاں ہمارا پیارا گیا وہیںہم جائیںگے.یہاں بیٹھنے کا کون سا موقعہ ہے.یہ کہا اور صرف ایک ہی کھجور جو ان کے ہاتھ میں رہ گئی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے میرے اور جنت کے درمیان سوائے اس کھجور کے اور کون سی چیز حائل ہے.یہ کہہ کر انہوں نے کھجور کو پھینک دیا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر پر ٹوٹ پڑے.اب بظاہر ان کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ جس شخص کے لئے ہم قربانی کر رہے تھے جب وہی نہیں رہا تو اب قربانی کرنے کا کیا فائدہ ہے مگر وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قربانی کر رہے تھے جب وہ نہیں رہے تواب قربانی کا کیا فائدہ.بلکہ وہ کہتے ہیںجس کام کے لئے وہ کھڑے ہوئے تھے اس کام کے لئے ہمیںاسی جوش اور اسی ولولہ کے ساتھ قربانی کرنی چاہیے جس جوش اور ولولہ کے ساتھ ہم آپؐکی زندگی میںقربانی کیا کرتے تھے اگر وہ زندہ نہیںرہے تو پروا نہیں.میں اکیلا جائوں گا اور دشمن سے لڑوں گا.چنانچہ وہ اکیلے تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے.ایک آدمی تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میںکیا کر سکتا ہے چنانچہ لڑائی کے بعد ان کے جسم کے ستر ٹکڑے ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے گئے تب ان کی لاش مکمل ہوئی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ کس طرح

Page 136

مجنونانہ طور پر لڑے تھے اوّل تو جب تک زندہ رہے انتہائی دلیری کے ساتھ لڑتے رہے پھر جب ایک ہاتھ کٹا تو دوسرے ہاتھ میں تلوار سنبھال لی.دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو منہ میں تلوار لے لی اور دشمن کو مارتے چلے گئے یہ دیکھ کر دشمن کو بھی شدید غصہ پیداہوا اور اس نے ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے.لڑائی کے بعد جب ان کے جسم کے مختلف ٹکڑے اکٹھے کئے گئے تو تلوار کے زخموں کی وجہ سے ان کی لاش پہچانی تک نہیںجاتی تھی.آخر ان کی ایک انگلی ملی جس پرایک نشان تھا اس نشان کو دیکھ کر مالک انصاری کی بہن نے کہا کہ یہ میرے بھائی کی لاش ہے( شرح الزرقانی کتاب المغازی غزوۃ احد ).غرض وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے مطابق آپؐکی محبوبیت میںروز بروز کمال پید ا ہوتا چلا گیا اور صحابۂ کرام نے اپنی فدائیت کے وہ نظارے دکھلائے جو آج تک کسی نبی کے ماننے والے دکھلا نہیںسکے.پھر آپؐکی وفات پر جو واقعہ ہوا وہ صحابۂ کرام کی اس محبت کا کتنا بڑا ثبوت ہے جو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھتے تھے.وہ صحابہ ؓ جو دن رات سنتے تھے کہ مردے زندہ نہیں ہوتے، وہ صحابہ ؓ جو روزانہ سنتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وفات آسکتی ہے.اُن پر اُس وقت ایسی جنون کی کیفیت طاری ہوگئی کہ باوجود اس مضمون کے جو روزانہ اُن کے سامنے دہرایا جاتا تھا اُن کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے یہاں تک کہ حضرت عمر ؓتلوار لے کر کھڑے ہو گئے کہ اگر کسی شخص نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیںتو میںاس کی گردن کاٹ دوں گا.حضرت حسان ؓ کہتے ہیں ہمارے دلوں میںمایوسی پید اہو چکی تھی مگر جب عمر ؓتلوار لے کر کھڑے ہو گئے تو ہمارے دلوںمیں بھی جھوٹی امید پید اہو گئی اور ہم خوش ہوگئے کہ چلو وہ بات غلط نکلی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو زندہ موجود ہیں.آخر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ آئے، منبر پر چڑھے اور انہوں نے تمام لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُـحَمَّدً ا فَاِنَّ مُـحَمَّدًا قَدْ مَاتَ کہ تم میں سے جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کیا کرتا تھا تو وہ اچھی طرح سن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں.وَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ اللہَ فَاِنَّ اللہَ حَیٌّ لَا یَـمُوْتُ.لیکن تم میںسے جو شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ زندہ ہے اوروہ کبھی مر نہیں سکتا.پھر آپؓنے یہ آیت پڑھی کہمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ١ۚ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ١ؕ اَفَاۡىِٕنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ.محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول ہیںاگر وہ مر جائیں گے تو کیا تم اپنے ایمان سے پھر جائو گے.جب ابو بکر ؓ نے یہ بات بیان کی تب صحابہ ؓ کی آنکھیںکھلیں.حضرت عمر ؓ کہتے ہیںجب انہوں نے یہ آیت پڑھی تب مجھے ہوش آیا اور یا تو میری یہ

Page 137

حالت تھی کہ ابو بکر ؓ کے رعب سے میںفوراً تلوار نہیں چلا سکاتھا اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ یہ بڈھا اپنی بات ختم کرلے تو میںاس کی گردن اڑا دوں اور یا جب ابوبکرؓ نے اپنی بات ختم کر لی تو میری ٹانگیں کانپ گئیں اور میںزمین پر گر گیا(السیرۃ النبویۃ لاحـمد بن زینی دحلان باب فی ذکر وفاتہٖ).اس وقت صحابہ ؓ کو اپنے محبوب کی جدائی سے جس قدر غم ہوا اس کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو حضرت حسان ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر کہا.جب انہیں یقین آگیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہوچکے ہیںتو حضرت حسان ؓ نے کہا ؎ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَـعَــمِیْ عَــلَیَّ الــــــــنَّــــاظِــــــــرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَــــــعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ وہ کہتے ہیں حضرت عمر ؓ کے کھڑے ہونے سے پہلے تو ہم نے سمجھا کہ شاید یہ بات غلط ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں مگر جب ابو بکر ؓ نے ہماری آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا تو بے اختیار میری زبان پر یہ شعر جاری ہو گیا ؎ کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَـعَــمِیْ عَــلَیَّ الــــــــنَّــــاظِــــــــرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَــــــعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرُ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تُو تو میری آنکھ کی پتلی تھا تیرے مرنے سے میری آنکھ کی پتلی جاتی رہی ہے اور میں اندھا ہو گیا ہوں اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک تُو زندہ رہا مجھے وہ سب کے سب فوائد تجھ سے مل رہے تھے جو کسی کو مل سکتے ہیں.مجھے دین بھی مل رہا تھا اور دنیا بھی مل رہی تھی اور مجھے دنیا کی ہر نعمت اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آتی تھی لیکن آج جب کہ تو زندہ نہیں رہا میں اندھا ہو گیا ہوں.اس لئے اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوئی مرے.باپ مرے، بیٹا مرے، بیوی مرے، بھائی مرے مجھے کسی کی پروا نہیں.مجھے تو تیری جان کا ہی ڈر لگا ہوا تھا.دیکھو یہ کیسی شاندار محبت تھی جس کا صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات پر نمونہ دکھایا اور جو ثبوت تھا اس بات کا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى.لوگ مرتے ہیں تو دنیا انہیںبرا بھلا کہتی ہے.کہتے ہیں اچھا ہوا چھٹکارا ہوا.خس کم جہاں پاک.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوتے ہیں تو بیویاں کیااور بچے کیا اور ساتھی کیا ہرشخص کا دل غمگین ہو جاتا ہے.پھر یہ بھی دیکھ لو کہ پہلاگھر مکہ کا تھا جہاں صرف چند رشتہ دار آپؐکے پاس تھے یا آپؐکے چچا ابو طالب آپؐکی مدد کیا کرتے تھے مگروَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے مطابق دوسرا گھر خد اتعالیٰ نے آپ کو مدینہ میں دیا جو پہلے سے بہتر ثابت ہوا مکہ میں صرف دس بیس فدائی تھے اور مدینہ میں شہر کا شہر.مرد کیا اور عورتیں کیا.بچے کیا اور

Page 138

بوڑھے کیا سب آپ پر اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.پھر ذہانت آپ کی آخر تک قائم رہی.انسان بالعموم آخرعمر میںجا کر کمزور دماغ کے ہو جاتے ہیں اور ان کا علم سلب ہونا شروع ہو جاتا ہے مگر آپؐکے علم اور ذہانت میںآخر تک کوئی فرق نہ آیا بلکہ ہر دن جو آپؐکی زندگی میںآیا پہلے سے بڑھ کر آیا.اسی طرح جو کلام آپ پر نازل ہوا وہ آخر دم تک نازل ہوتا رہا اور ہر روز نئی سے نئی باتوں کا آپؐکو اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم دیا جاتا رہا.غرض کوئی دن آپ کی زندگی میںایسا نہ آیا جب لوگوں نے یہ کہا ہو کہ یہ سٹھیا گیا ہے، اس کا دماغ کمزور ہوگیا ہے، اس کا علم جاتا رہا ہے بلکہ ہر دن جو آپؐپر آیا پہلے سے زیادہ علم لے کر آیا اور پہلے سے زیادہ دنیا کے سکھانے اور سمجھانے اور پڑھانے میں صرف ہوا اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی صداقت کو واضح کر دیا کہ وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى.تیرے لئے آخرت پہلی حالت سے بہت اچھی ہو گی.وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کے ایک اور معنے بھی ہیں جو قبض و بسط کی روحانی کیفیات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى میں یہ مضمون بیان کیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بسط کی حالت بھی خدا تعالیٰ کی معیت کا ثبوت ہو گی اور ان کی قبض کی حالت بھی مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کا ثبوت ہو گی.اب اس آیت میں یہ بتاتا ہے کہ ہم ایک بات کی تمہیں تسلی دلا دیتے ہیں اور وہ یہ کہ تم ان روحانی لہروں میں یکساں نہیں چلو گے بلکہ ہمیشہ پہلے سے اونچے نکلتے جائو گے.لہر کی رفتار دراصل دو قسم کی ہوتی ہے.ایک رفتار تو اس قسم کی ہوتی ہے کہ ایک ہی مقام پر وہ اوپر نیچے ہوتی ہوئی چلی جاتی ہے لیکن ایک رفتار ا س قسم کی ہوتی ہے کہ ہر دفعہ نیچے آکر وہ پہلے سے اور زیادہ اونچی چلی جاتی ہے یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى میں بیان فرمایا ہے کہ بے شک تجھ پر قبض کی حالتیں بھی آئیں گی اور بسط کی حالتیںبھی آئیںگی اور یہ دونوں حالتیںمعیت الٰہی اور رضاءِ باری تعالیٰ کے ساتھ ہوں گی مگر اس کے ساتھ ہی ایک زائد بات یہ بھی ہو گی کہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ نیچے کی طرف اپنا پَر مارتا ہے وہ بے شک نیچے جھک کر اپنا پَر مارتا ہے مگر اس کا نیچے جھکنا اسے اور زیادہ بلندی پر لے جانے کا موجب بن جاتا ہے اسی طرح ہر دفعہ تیرا نیچے جھکنا ایسا ہی ہو گا جیسے پرندہ پَر مارتا ہےاور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی اونچا چلا جاتا ہے.گویا بتا دیا کہ تیری پرواز پرندوں والی ہو گی اور قبض کی ہر حالت جو تجھ پر وارد ہوگی وہ تجھے اور زیادہ بلندی کی طرف لے جائے گی.اس آیت کے ایک اور معنے بھی ہیں اور وہ یہ کہ جو شخص ماموریت کا مدعی ہو وہ جب لوگوں سے ملتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ وجاہت پسندی کے لئے یا لوگوں میںاپنی مقبولیت اور عظمت قائم کرنے کے لئے ملتا ہے.اللہ تعالیٰ اس

Page 139

آیت میںلوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے اور فرماتا ہے تو اگر علیحدگی اختیار کرتا ہے تو ہمارے ذکر کے لئے.اور اگر لوگوں سے ملتا ہے تو ہمارے حکم کے ماتحت.پس تیرے متعلق لوگوں کا یہ خیال کرنا قطعی طورپر غلط اور بے بنیاد ہے.تیری علیحدگی ذکر کے لئے ہوتی ہے اور تیرا پبلک میں آنا محض بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہوتا ہے.اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتا.چنانچہ فرماتا ہے وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ نادان تیری زندگی سے ناواقف ہیں انہیں اتنا بھی معلوم نہیںکہ علیحدگی کی حالت تجھے ہمیشہ پیاری رہتی ہے تو اگر لوگوں سے ملتا ہے تو محض خد ا کے لئے پس وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى میں یہ بتایا کہ آخرۃ تجھے اُولیٰ سے زیادہ راحت والی معلوم ہوتی ہے.خَیْرٌ کے معنے راحت والی یا آرام پہنچانے والی چیز کے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیںکہ ان آیات میںکون سی چیز آخرۃ کہلا سکتی ہے اور کون سی اُولیٰ.سو پہلی آیت میں ضُـحٰی کو پہلے بیان کیاگیا ہے اور لیل کو بعدمیں.پس آخرۃ لیل ہوئی اور اُولیٰ ضـحٰی ہوئی اور ضـحٰی یعنی دن کے وقت چونکہ انسان لوگوں سے ملتا ہے اس لئے وہ ضـحٰی جلوت کا قائم مقام سمجھی جائے گی اور رات کو وہ چونکہ علیحدہ ہوتا ہے اس لئے لَیْل خلوت کا قائم مقام سمجھی جائے گی ان معنوں کے مطابق آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ اے ہمارے رسول ! تجھے خلوت سے جلوت کی نسبت زیادہ راحت معلوم ہوتی ہے.لوگ تجھے جاہ پسند سمجھتے ہیں حالانکہ تولوگوں سے محض ہمارے حکم کے ماتحت ملتاہے ورنہ رات کو ہم سے راز و نیاز کی باتیںکرنا تجھے زیادہ پسند ہیںاور جو برکات تجھے رات کو ہم دیتے ہیںوہ دن کو ملنے والے انسان تجھے کہاں دے سکتے ہیں.پس جب کہ تیری تمام ترقیات تیر ی خلوت کی گھڑیوں سے وابستہ ہیں اور تو اسے دل سے جلوت پر ترجیح دیتا ہے تو لوگوںکا یہ کہنا کہ تو جاہ پسند ہے تیرے دل کو کیوں دکھ پہنچائے کہ یہ اعتراض حقیقت سے دور اور سر تا پا جھوٹ ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے متعلق بھی بیان فرمائی ہے کہ ’’میںپوشیدگی کے حجرہ میںتھا اور کوئی مجھے نہیں جانتا تھا اور نہ مجھے یہ خواہش تھی کہ کوئی مجھے شناخت کرے.اُس نے گوشہ ٔتنہائی سے مجھے جبراً نکالا.میںنے چاہا کہ میں پوشیدہ رہوں اور پوشیدہ مروں مگر اس نے کہا کہ میںتجھے تما م دنیا میںعزت کے ساتھ شہرت دوں گا.پس یہ اس خدا سے پوچھو کہ ایسا تو نے کیوں کیا؟میرا اس میںکیا قصور ہے.‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲صفحہ۱۵۳) وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى میںاسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جبراً گوشہ ٔتنہائی سے باہر نکالا.ورنہ ان کی خواہش یہی تھی کہ وہ خلوت میںاللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہیں.

Page 140

چنانچہ دیکھ لو غارحرا میںجب فرشتے نے کہا اِقْرأْ تو آپؐنے یہی جواب دیا کہ مَا اَ نَا بِقِارِیٍٔ.(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی اِلَی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم) میرے سپرد یہ کام کیوں کیاجاتا ہے میںتو اپنے رب کی عبادت پسند کرتا ہوں.پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس اعتراض کو رد کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وجاہت پسند ی کے لئے لوگوں سے ملتے ہیںاور بتایا ہے کہ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیںکہ ساعت آخرت یعنی لَیْل تیرے لئے اچھی ہوتی ہے اور تواس سے بہت زیادہ راحت محسوس کرتا ہے.لوگوں کو ملنا تجھے پسند نہیں.تو اگر ملتا ہے تو محض خدا تعالیٰ کے حکم سے.تیری ذاتی خواہش کا اس میںکوئی دخل نہیںہوتا.وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى.مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰى کے ایک معنے یہ بھی کئے گئے تھے کہ ترقی اور تنزل دونوں دَور میں ہم تیرے ساتھ رہیں گے اور تیرے کام کو تباہ نہیں ہونے دیں گے.ان معنوں کے رُو سے وَلَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى کا یہ مفہوم ہوگا کہ ہمیشہ رات کے بعد ضُـحٰی آتی رہے گی یہ معنے نہیں کہ آخری زمانہ پہلے سے اچھا ہوگا بلکہ تاریکی اور روشنی کے دَور دو طرح آسکتے ہیں ایک یہ کہ پہلے روشنی اور پھر تاریکی کا دَور آئے اور دوسرے یہ کہ پہلے تاریکی پھر روشنی کا دَور آئے.فرماتا ہے تیرے لئے ہمیشہ روشنی کا دَور آخری ہوتا چلا جائےگا.بعض لوگ پہلے ترقی کرتے ہیں پھر گر جاتے ہیں اور ان کی پہلی ترقی کی وجہ سے لوگ اُن پر رشک نہیں کرتے اُن کی آخری تباہی کی وجہ سے اُن کے حالات سے عبرت پکڑتے ہیں.پھر قومی طور پر بعض اقوام یک دم بڑھ کر گرجاتی ہیں اور بعض گرتی ہیں پھر اونچی نکل جاتی ہیں پھر گرتی ہیں پھر اونچی نکل جاتی ہیں.اِسی طرف اِ س آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی معاملہ بھی ایسا ہوگا کہ آپ پہلے تکالیف اُٹھائیں گے مگر پھر ترقی کر جائیں گے اور آپ کی قوم سے بھی یہ معاملہ ہوگا کہ ہرتنزل کے بعد اللہ تعالیٰ مامورین یا مجددین کے ذریعہ سے اس کے اُبھارنے کے سامان کرتا چلا جائے گا اور اسی طرح بعد میں آنے والا دَور اپنے سے پہلے تنزل کے دور سے بہتر ہوگا.یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ یہ ذکر نہیںکہ ہر آنے والا روحانی دور پہلے روحانی زمانہ سے اچھا ہوگا کیونکہ اس طرح تو یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ آئندہ روحانی دَور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اچھے ہوں گے اور یہ بالبداہت غلط ہے.پس اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ہر تنزل کے بعد اس سے بہتر زمانہ اُمتِ اسلامیہ پر لایا جائے گا جس میں اس کی روحانی حالت پھر ترقی کر جائے گی.پس پہلے روحانی دَوروں کا مقابلہ نہیں بلکہ ہر دَور روحانی

Page 141

کا مقابلہ پہلے تنزل کے دور سے ہے.اور یہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ میری قوم کا پہلا حصہ اچھا ہے یا آخری (مسند احمد عن انس) اس کے یہ معنی نہیں کہ آخری زمانہ پہلے زمانہ سے بلحاظ روحانیت کے بہتر ہوگا بلکہ اس زمانہ کو بہتر اس وجہ سے قرار دیا گیا ہے کہ اس نے اسلامی تنزل کے ایک بہت بڑے دَور کے گذرنے کے بعد آنا تھا اور آپ کا صرف یہ مطلب ہے کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اسلام پر جو مشکلات ابتدائی دور میں آئی ہیں اُن کو زیادہ سخت کہوں یا اُن مشکلات کو زیادہ سخت کہوں جو آخری زمانہ میں آنے والی ہیں اور چونکہ خوشی مشکلات کی نسبت سے ہوتی ہے آپ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ اُن کو اچھا کہوں جو اَب ہیں یا اُن کو جو آخری دَور میں پیدا ہونے والے ہیں یعنی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے نہیں کہہ سکتے کہ موجودہ دَور کے لوگ کامیابی کے لحاظ سے زیادہ خوش قسمت ہیں یا آئندہ دَور کے لوگ زیادہ خوش قسمت قرار دیئے جانے کے مستحق ہوں گے.بہر حال آیت کے یہ معنے نہیں کہ ہر پچھلا زمانہ پہلے زمانہ سے روحانیت کے لحاظ سے بہتر ہوگا بلکہ معنے یہ ہیں کہ قربِ قیامت تک تیرے لئے روشنی کا دَور ہمیشہ آخر میں آئے گا البتہ اس میں ایک استثنیٰ ہے اور وہ یہ کہ قیامت صرف اشرار پر آئے گی چنانچہ قرآن کریم سے بھی پتہ لگتا ہے اور حدیثوں سے بھی کہ خرابی کا وہ آخری دَور جو قرب قیامت کے وقت ہوگا صرف اشرار پر آئے گا ابرار اُس وقت دنیا میں نہیں رہیں گے.پس وہ دَور بہر حال وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى سے مستثنیٰ ہے لیکن اسے اس لحاظ سے مستثنیٰ بھی نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ نبوت محمدیہ کے ختم ہونے کا زمانہ ہوگا.اُس دَور کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ دنیا ختم ہوجائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اس دنیا میں ختم ہو جائے گا.وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ۰۰۶ اور ضرور تیرا رب تجھے (وہ کچھ ) دے کے رہے گا جس پر تُو خوش ہوجائے گا.تفسیر.وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَمیں اسلامی فتوحات کی پیشگوئی اس آیت کے ایک تو یہ معنے ہیں کہ گو اس وقت چاروں طرف مخالفت کا ایک شور برپا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو کچلنے کے لئے کفار نے اپنی تدابیر کو انتہاء تک پہنچایا ہوا ہے مگر چونکہ ہم پیشگوئی کر چکے ہیں کہ اسلام پر ضُـحٰی کا دَور آنے والا ہے اِس لئے ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤ گے کفر کو نابود ہوتے اپنی

Page 142

آنکھوں سے دیکھ لو گے اور وہ کام جسے دنیا ناممکن سمجھتی ہے الٰہی تائید اور نصرت کےساتھ اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا اور تیرا رب جلد ہی تجھ کو وہ سب کچھ دے گا جس سے تُو راضی ہو جائے گا.درحقیقت کام ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے کسی شخص کی شان اور اس کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کام کیا گیا تھا وہ بظاہر بہت بڑا وقت چاہتا تھا، بہت بڑی جدو جہد اور بہت بڑی قربانی کا تقاضا کرتا تھا اور انسان اس کام کو دیکھ کر یہ خیال کرتاتھا کہ اس کے لئے تو عمرِ نوح کی ضرورت ہے تھوڑے سے وقت میں اتنا عظیم الشان کام کس طرح انجام دیا جا سکتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلایا کہ بے شک کام بڑا ہے اور بظاہر بہت بڑا وقت چاہتا ہے مگر ہم یہ کام تجھ سے جلدی کروا دیں گے چنانچہ ایک قلیل ترین عرصہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حیرت انگیز کام کر کے دکھایا اُس کی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی.تم اپنے صوبہ پنجاب کو ہی لے لو، سندھ کو لے لو، سرحد کو لے لو باوجود اس کے کہ یہ صوبے سو سال سے تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں پھر بھی وہ پوری تعلیم حاصل نہیں کر سکے.باوجود اس کے کہ وہ سو سال سے اپنے تمدن کی ترقی میں مصروف ہیں پھر بھی وہ اپنے تمدن کو پورے طور پر ترقی نہیں دے سکے.باوجود اس کے کہ وہ سو سال سے لوگوں کے اخلاق کی درستی میں لگے ہوئے ہیں پھر بھی وہ درستی ٔاخلاق میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکے.غرض الگ الگ جماعتیں الگ الگ کاموں کے لئے سو سو سال سے مصروف ہیں مگر ہنوز روزِ اوّل والا معاملہ ہے.نہ انہیں تعلیمی ترقی حاصل ہوئی ہے نہ اُنہیں تمدنی ترقی حاصل ہوئی ہے نہ انہیں اخلاقی ترقی حاصل ہوئی ہے.اس کے مقابل میں اسلام ایک ایسا منزل مقصود تھا جس سے اونچا اور بلند تر کوئی اور منزل مقصود نہیں ہو سکتا.پھر اسلام وہ مذہب تھا جو حاوی تھا تمام اقسام کی اصلاحات پر.اُس میں تمدنی اصلاح بھی شامل تھی.اُس میں اقتصادی اصلاح بھی شامل تھی.اُس میں عائلی اصلاح بھی شامل تھی.اُس میں سیاسی اصلاح بھی شامل تھی.اُس میں فکری اصلاح بھی شامل تھی.غرض ایک نہیں ساری اصلاحیں اُس میں شامل تھیں اور پھر ہر ایک کا آئیڈیل IDEAL اور منزلِ مقصود بہت بالا تھا.جب یہ عظیم الشان کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہوا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خبر بھی دے دی گئی کہ تم اپنی آنکھوں سے ضُـحٰی بھی دیکھ لو گے تو چونکہ محب اپنے محبوب سے زیادہ دیر تک جدا نہیں رہ سکتا بلکہ محب اپنے محبوب کے پاس جانا ہی پسند کرتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں بے چینی پیدا ہوتی تھی کہ نہ معلوم یہ کام کب ختم ہو.آپ کہتے ہوں گے الٰہی پتہ نہیں یہ کام پچاس سال میں ختم ہو، ساٹھ سال میں ختم ہو، سو سال میں ختم ہو.کیا میں اتنی دیر تجھ سے جدا رہوں گا اللہ تعالیٰ اسی مضمون کو اس آیت

Page 143

میں بیان کرتا ہےا ور فرماتا ہے ہم تیرے اُن کاموں کا ذکر کر رہے ہیں جو دنیا سے متعلق ہیں اور تُو اپنے دل میں کہہ رہا ہوگا کہ اصل مطلب کا ذکر ہی نہیں.اس لئے ہم کہتے ہیں کہ کام بڑا ہے مگر ہم جلدی کروا دیں گے اور جلد ہی تم کو وہ دے دیں گے جس سے تو راضی ہو جائے گا.یعنی اس کام کے لئے بظاہر تو سینکڑوں سال کی عمر چاہیے مگر تیرے سب دنیوی کام جلد ہو جائیں گے اور تُو اِلَی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی کہتا ہوا ہمارے پاس آجائے گا اور اس طرح تجھے وہ چیز مل جائے گی جو تُو پسند کرتا ہے یعنی ہمارا وصال تجھے حاصل ہوجائے گا اور فراق کی یہ کٹھن گھڑیاں کٹ جائیں گی.احادیث میں آتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سورۃ نازل ہوئی کہ اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ.وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ١ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا.تو آپؐنے ایک خطبہ پڑھا اور فرمایا ہر نبی کے زمانہ کا ایک کام ہوتا ہے جب وہ اُس کام کو ختم کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک دوسرا دَور شروع کردیتا ہے.پھر آپ نے فرمایا خدا کا ایک بندہ تھا اُس سے خدا تعالیٰ نے کہا کہ تم اگر چاہو تو دنیا میں رہو اور اگر چاہو تو ہمارے پاس آجاؤ اُس نے کہا کہ یا اللہ! میں اب دنیا میں نہیں رہنا چاہتا میری خواہش یہی ہے کہ تُو مجھے اپنے پاس بُلا لے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا تو حضرت ابو بکرؓ رو پڑے اور اس قدر روئے کہ گھِگھی بندھ گئی باقی صحابہ کو سخت حیرت ہوئی کہ ابو بکرؓ رو کیوں رہے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں مجھے تو اُن کے رونے سے سخت غصہ آیا اور میں نے کہا اسلام کے لئے فتح کا وقت آیا ہے تو یہ بڈھا رونے لگ گیا ہے.یہ بد شگونی کیوں کرتا ہے خدا تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو اختیار دیا کہ وہ اگر چاہے تو دنیا میں رہے اور اگر چاہے تو اللہ تعالیٰ کے پاس چلا جائے.اُس نے اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کو ترجیح دی اور دنیا میں رہنا پسند نہ کیا.اس میں رونے کا کون سا مقام ہے اور پھر ایسی حالت میں جبکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسلام کی فتح اور اُس کے غلبہ کی پیشگوئی ہوئی ہے مگر ابوبکرؓ تھے کہ اُن کا رونا تھمتا ہی نہیں تھا.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَـــوْ کُـــنْــتُ مُــتَّــخِـذًاخَــــلِــیْــلًا مّــِنْ اُمَّــتِیْ لَاتَّـــخَــذْتُ اَبَا بَکْرٍ.اگر کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابو بکر کو خلیل بناتا.پھر آپ نے فرمایا لَا یَبْقَیَنَّ فِی الْمَسْجِدِ بَابٌ اِلَّا سُدَّ اِلَّا بَابُ اَبِیْ بَکْرٍ.مسجد میں جس قدر کھڑکیاں کھلتی ہیں وہ سب کی سب بند کر دو سوائے ابوبکر کی کھڑکی کے.(بخاری کتاب الصلٰوۃ باب الـخوخۃ والممرّ فِی الْمَسْجِدِ ) اس طرح آپ نے اس امر کا اظہار فرما دیا کہ ابو بکر سمجھ گئے ہیں کہ میرا اس واقعہ کے بیان کرنے سے کیا منشاء تھا مجھے دنیا میں رہنے کی خوشی نہیں بلکہ میری ساری خوشی اور میری ساری راحت اپنے آقا اور محبوب کے پاس جانے میں ہے اب چونکہ میرا کام ختم ہوچکا ہے اس لئے میرا دنیا میں ٹھہرنا عبث ہے میری خواہش اور میری آرزو یہی ہے کہ میرا رب مجھے

Page 144

اپنے پاس بُلا لے.باقی صحابہؓ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مطلب کو نہ سمجھے مگر ابو بکر سمجھ گئے اور اُن سے رِقّت برداشت نہ ہو سکی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو تسلّی دے دی کہ اگر تم کو مجھ سے محبت ہے تو مجھے بھی تم سے محبت ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا اگر دنیا میں کسی کو خلیل بنانا جائز ہوتا تو میں ابو بکر کو اپنا خلیل بناتا.پھر اس کے ساتھ ہی آپ نے اس طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ میرے بعد کام کی ذمہ داری ابو بکر پر پڑنے والی ہے چنانچہ آپ نے فرمایا سب کھڑکیاں بند کردو سوائے ابو بکرؓ کی کھڑکی کے جس میں حکمت یہ تھی کہ ابو بکرؓ کو نمازیں پڑھانے کے لئے مسجد میں آنا پڑے گااِس لئے اُن کی کھڑکی کا کھلا رہنا ضروری ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی خوشی اِسی بات میں تھی کہ آپ کو اپنے رب کا وصال حاصل ہو.دنیوی کام کو آپ جلد سے جلد سر انجام دیں اور رفیق اعلیٰ کے پاس لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ کہتےہوئے حاضر ہوجائیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آخری وقت میں آپ کی زبان پر یہی الفاظ جاری تھے کہ اِلَی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی یعنی اے میرے رب میری خواہش اب یہی ہے کہ میں تیرے پاس آجائوں.پس وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى.کے الفاظ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم اپناکام جو تیرے سپرد کرتے ہیں بظاہر وہ بہت لمبا نظر آتا ہے مگر ہم تجھے ایسی توفیق دے دیں گے کہ تو اس کام کو جلدی ختم کر لے گا چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس سال کی قلیل مدت میں اپنے تمام کام کو ختم کر لیا.اتنے قلیل عرصہ میں اس قدر عظیم الشان کام کو سرانجام دینے کی مثال دنیا میںاور کہیں نظر نہیںآسکتی بلکہ اس کام کی مثال تو کیا اس کے ہزارویں بلکہ لاکھویںحصہ کی مثال بھی دنیا کے اور کسی شخص کی زندگی میں نہیں مل سکتی.دنیا میںبڑے بڑے لوگ گذرے ہیںمگر ان کا انجام کتنا تلخ اور عبرت ناک ہو اہے.ہٹلر کو دیکھ لو اس کا کیا انجام ہوا.نیپولین کو دیکھ لو وہ کیسی خراب حالت میںمرا.یہ لوگ بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اٹھے تھے اور انہوں نے بظاہر کچھ کامیابی بھی حاصل کی مگر آخر ناکامی کے سوا ان کو کچھ ہاتھ نہ آیا.پھر یہ بھی ایک غور کرنے والی بات ہے کہ یہ لوگ جن قوموںمیں پیدا ہوئے اور جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر ترقی کی طرف بڑھے وہ پہلے ہی قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والے تھے.پہلے ہی ان کے اندریہ جوش پایا جاتا تھا کہ ہم دنیاپر حکومت کریں اور لوگوںپر غلبہ و اقتدار حاصل کریں.نیپولین نے بے شک ترقی حاصل کی مگر وہ ایک ترقی یافتہ قوم کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا.اسی طرح ہٹلرنے بے شک فتوحات حاصل کیںمگر ہٹلر ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا کہ جرمن قوم دنیا میںسب سے زیادہ منظم اور سب سے زیادہ قربانی کی روح اپنے اندر رکھنے والی سمجھی جاتی تھی لیکن عرب کیا تھا؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 145

کے ہاتھ میں گوبر دیا گیا جسے بیس سال کے قلیل عرصہ میں انہوں نے سونا بنا دیا اور خالی سونا نہیں بلکہ صاف اور کھرا سونا.اخلاق ان کے درست ہو گئے، تمدن ان کا درست ہو گیا، علمی حالت ان کی درست ہو گئی، رعب اور دبدبہ ان کا بڑھ گیا، عزت ان کی بڑھی، رتبہ اور شان و شوکت ان کو حاصل ہوا.غرض کوئی پہلو ایسا نہ تھا جو نامکمل رہ گیا ہو.کوئی شعبہ ایسا نہ تھا جس میں اُن کو کمال تک نہ پہنچا دیا گیا ہو.ہر قسم کی اصلاح خواہ وہ اخلاقی ہو یا دینی، مذہبی ہو یا عائلی، اقتصادی ہو یا سیاسی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر انجام دی.پس فرمایا وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى.گھبرائو نہیں ہم جلدی ہی اس عظیم الشان کام سے تمہیں فارغ کر دیں گے.بے شک ہم نے ایک بہت بڑے کام کی تم پر ذمہ داری ڈالی ہے مگر ہم جانتے ہیں کہ تمہاری اصل خوشی ہمارے پاس آنے میں ہے اس لئے ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے جلد ہی ان مقاصد میںکامیاب کر دیںگے.چنانچہ اتنے تھوڑے عرصہ میںاتنا بڑا کام دنیا میں اور کسی نے بھی نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر وفات کے وقت شمسی لحاظ سے صرف باسٹھ سال تھی اتنی قلیل عمر میں کتنا عظیم الشان کام آپؐنے کیا کہ اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.وَ لَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى میں آنحضرت صلعم کی طرف کامل شریعت نازل کئے جانے کی طرف اشارہ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ کامل شریعت تجھ پر نازل ہو جائے گی کیونکہ انسان کمال پر راضی ہوتا ہے فرماتا ہے وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى.ہم تجھے اتنا دیں گے کہ توآپ ہی آپ کہہ دے گا کہ اب ترقی کی گنجائش نہیں.جب آخری شریعت آپؐکو دے دی گئی توا س کے بعد آپؐنے اور کیا مانگنا تھا.بے شک جہاں تک الٰہی قرب اور اس کے مدارج کا سوال ہے وہ غیر محدود ہیں اور کبھی کوئی مقام ایسا نہیںآسکتا جب انسان یہ کہے کہ اب مجھے کسی اور درجہ قرب کی احتیاج باقی نہیں رہی مگر جہاں تک شریعت کا سوال ہے آخری اور کامل شریعت کے بعد اور کون سی بات باقی رہ سکتی ہے پس فرماتا ہے ہم تجھے وہ کچھ دیں گے کہ تو بھی یہ کہہ دے گا کہ اس سے اوپر اور کوئی درجہ نہیں.چنانچہ جہاں تک انسانی تعلق ہے اس کے لحاظ سے آخری شریعت سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے؟ پس اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم شریعت کاملہ تجھے عطا کریں گے.اسلام کے بچاؤ کے لئے مستقل نظام قائم کئے جانے کا وعدہ تیسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ آئندہ اسلام کے بچائو کے لئے ایک مستقل نظام قائم کر دیا جائے گا.درحقیقت پہلی خواہش انسان کے دل میں یہ ہوتی ہے کہ میںاپنا کام جلد سے جلد پورا کر لوں.دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو کام میرے سپرد ہو وہ اپنی ذات میں کامل ہو.تیسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کام مٹے نہیں.وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى میں یہ تینوں باتیں اللہ تعالیٰ نے

Page 146

بیان کر دیں کہ ہم تجھے اس کام سے جلد سے جلد فارغ کر دیں گے، ہم کامل شریعت تجھے عطا کریں گے اور پھر ایک زائد وعدہ تجھ سے یہ کرتے ہیں کہ جب بھی اس کام میںکوئی نقص پیدا ہو گا اللہ تعالیٰ تیری روحانی اولا د میں سے کسی کو اصلاح خلق کے لئے کھڑا کر دے گا اور اسلام کو تباہ نہ ہونے دے گا.اولاد پیدا ہوتی ہے تو لوگ کتنے خوش ہوتے ہیں محض اس لئے کہ وہ ان کے نام کو زندہ رکھے گی لوگوں کی یہ خوشی تو بعض دفعہ بالکل بے حقیقت ہوتی ہے اور جس اولاد کی پیدائش پر وہ خوش ہوتے ہیں وہی ان کو ذلیل کرنے والی بن جاتی ہے مگر فرماتا ہے تیرے لئے یہ حقیقی خوشی کی بات ہے کہ جب بھی کسی روحانی بیٹے کی تجھے ضرورت محسوس ہو گی ہم اسے پیدا کر دیں گے جو تیرے کام کو پھر دنیا میںزندہ کر دے گا.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى۰۰۷ کیا اس نے تجھے یتیم پا کر (اپنے زیر سایہ ) جگہ نہیں دی.تفسیر.فرماتا ہے تیرے مستقبل کے متعلق لوگوں کے دلوں میں شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ تو محض باتیں ہوئیں ہم کس طرح مان سکتے ہیں کہ ایسا ہو جائے گا.یوں تو ہر شخص دوسروں کو تسلی دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یوںہو جائے گا، ووںہو جائے گا.اس قسم کی باتوں سے کیا بن سکتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جن کے دلوں میں یہ شبہ پایا جاتا ہے وہ تیرا ماضی دیکھ لیںتُو بھی دیکھ اور دنیا بھی دیکھے کہ کیا ہم نے تجھے یتیم نہیں پایا تھا اور کیا ہر موقع پر ایسا نہیںہوا کہ ہم نے تجھے پناہ دی اور تجھے ہر قسم کے نقصان سے بچایا.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى کی صداقت کا ثبوت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی رحم مادر میںہی تھے کہ آپؐکے والد فوت ہو گئے.جب آپؐکی پیدائش ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا عبدالمطلب کے دل میں آپ کی غیر معمولی طور پر محبت پیدا کر دی.عام طور پر ایسے حالات میںانسان کی توجہ پوتوں کی بجائے اپنے دوسرے بیٹوں کی طرف ہوتی ہے مگر عبدالمطلب کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کو تو ڈانٹ ڈپٹ لیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیشہ محبت اور پیار رکھتے حالانکہ ان کے لڑکے جوان تھے اور وہ ان کی خدمت بھی کرتے رہتے تھے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ آپؐاگر تھوڑی دیر کے لئے بھی ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو وہ بے چین ہو جاتے تھے.آپؐکو ہر وقت گودی میں اٹھائے رکھتے

Page 147

تھے.آپؐکی محبت میں اشعار پڑھتے رہتے تھے اور اپنے بچوں کو ڈانتے رہتے تھے کہ اس کی قدر کیوں نہیں کرتے پھر عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچے پالنے کے لئے دائیاں رکھا کرتے تھے آپؐکی والدہ نے چاہا کہ انہیں بھی کوئی دائی مل جائے مگر غربت کی وجہ سے کوئی دائی نہ ملی.آخر اللہ تعالیٰ نے حلیمہ کو اس عظیم الشان خدمت کے لئے منتخب فرمایا.حلیمہ وہ تھی جسے ہر دروازہ سے محض اس لئے رد کیا گیا تھا کہ وہ ایک غریب عورت تھی اگر اسے بچہ دیا گیا تو وہ اسے کھلائے گی کہاںسے؟ گویا وہ جس کے گھر میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کا سامان کرنا تھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے مکہ کے تمام بچے حرام کر دیئے.وہ جس گھر میںبھی گئی اسے یہی کہا گیا کہ ہم تمہیں اپنا بچہ نہیںدے سکتے، تم بچہ لے گئیں تو اسے کھلائو گی کہاں سے.گویا سارے مکہ میں اس روز ایک بچہ ایسا تھا جسے کوئی دایہ نہ ملی اور ایک دایہ ایسی تھی جسے کوئی بچہ نہ ملا.جب شام ہو گئی اور ادھر حلیمہ کسی بچہ کے ملنے سے مایوس ہو گئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ کسی دایہ کے ملنے سے مایوس ہو گئیں تو اللہ تعالیٰ نے حلیمہ کے دل میں ڈالا کہ گو یہ بچہ غریب گھرانے کا ہے اور اس کا والد فوت شدہ ہے مگر میرا خالی جانا دوسرے لوگوں کی ہنسی کا موجب ہو گا چلو میں اسی کو لے چلوں چنانچہ وہ آئی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی محبت ڈال دی کہ آپؐکا دم بھر کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہونا اس پر سخت گراں گزرتا اور وہ آپؐکی محبت میںبے تاب ہو جاتی.تاریخوں میںآتا ہے کہ آپؐذرا بھی اس کی آنکھ سے اوجھل ہو تے تو وہ اپنے بچوں کو ڈانٹنے لگ جاتی کہ تم اسے چھوڑ کر کیوں آگئے ہو اور پھر آپؐکو لانے کے لئے دوڑ پڑتی(السیرۃ الـحلبیۃ باب وفاۃ والدۃ).غرض باپ کے بعد آپؐکو پرورش کے لئے حلیمہ جیسی دائی ملی، عبدالمطلب جیسا محبت کرنے والا دادا ملااور پھر جب عبد المطلب فوت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐکے چچا ابو طالب کے دل میں آپؐکی محبت ڈال دی.ابو طالب کو بھی آپؐسے بےانتہا محبت تھی ایسی محبت کہ میرے نزدیک دنیا میںبہت کم چچا ہوں گے جنہوں نے اپنے کسی بھتیجے کو اس محبت کے ساتھ پالا ہو.جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مالدار عورت کے دل میں آپؐکی محبت پیدا کر دی اور خود اس کے دل میںیہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے شادی کر لوں کیونکہ یہ بہت ہی بلند اخلاق کے مالک ہیں.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؐکے لئے گھربار کا سامان پیدا کر دیا.پھر یتیم کے لئے ساتھیوں کی ضرورت ہوتی ہے.ماں باپ زندہ ہوتے ہیںتو ان کی خوشنودی کے لئے لوگ دوستیاں اختیار کرتے ہیں لیکن جب مر جاتے ہیں تو ان کے تمام تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور دوستی کا خیال تک بھی ان کے دل میں کبھی نہیں آتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین چونکہ فوت ہو چکے تھے اس لئے طبعی طور پر آپؐکو بھی ساتھیوں اور دوستوں کی

Page 148

ضرورت محسوس ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ اور حکیم بن حزام جیسے دوست آپؐکو عطا فرما دیئے.ابو بکرؓ تو شروع میںہی اسلام لے آئے مگر حکیم بن حزام مدتوں کافر رہا مگر کفرکی حالت میںبھی جب لوگ آپؐکی مخالفت کرتے تو وہ ان کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جاتا.ایک دفعہ وہ باہر تجارت کے لئے گیا تو وہاں اس کو ایک خاص قسم کا کپڑا ملا وہ کپڑا اسے بہت پسند آیا اور اس نے دل میںکہا کہ اس کپڑے کو پہننے کے قابل میرے دوست محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) سے زیادہ کوئی اہل نہیں.چنانچہ وہ کپڑا لے کر مدینہ پہنچا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے یہ کپڑا بڑا پسند آیاتھا میںآپ کے لئے لے آیا ہوں کیونکہ آپ کے سوا یہ کسی کو نہیںسج سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میںکافر کا تحفہ قبول نہیں کر سکتا ہاں اگر چاہو تو مجھ سے قیمت لے لو.اس نے کہا اچھا اگر آپؐتحفہ قبول نہیںفرماتے تو قیمت ہی دے دیں کیونکہ میری خواہش یہی ہے کہ آپؐاس کپڑے کو پہنیں ( جمھرۃ نسب قریش وَ اَخْبَارِھَا تَـحْتَ حکیم بن حزام بن خویلد) یہ کتنا عشق ہے جو ایک کافر کے دل میں آپؐکے متعلق تھا اس نے اپنے مذہب کو نہیں چھوڑا مگر کفر کی حالت میں بھی آپؐسے اس قدر پیار تھا کہ سب سے اچھی چیز جو ملی اس کا مستحق آپؐکو قرار دیا اور تیرہ منزلیںمارتا ہوا مکہ سے مدینہ پہنچا تا آپؐکی خدمت میں وہ تحفہ پیش کر ے.خدا تعالیٰ نے اس کو کافر رکھا اور دیر تک رکھا.شاید یہ ثابت کرنے کے لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کی وجہ سے لوگ آپؐسے محبت کرتے تھے کسی اور وجہ سے نہیں.پھر غلاموں میں سے زیدؓ اور رشتہ داروں میں سے علیؓ.غرض اللہ تعالیٰ نے آپؐکو ایسے ساتھی دیئے جو کسی یتیم کو ملنے ناممکن ہوتے ہیں.وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى ۪۰۰۸ اور (دیکھ تو کہ جب) اس نے تجھے (اپنی قوم کی اصلاح کی فکر میں) سرگردان پایا تو صحیح راستہ بتا دیا.حلّ لُغات.ضَآلًّا ضَآلًّا : ضَلَّ سے اسم فاعل ہے اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں.ضِدُّ اِھْتَدٰی اَیْ جَارَ عَنْ دِیْنٍ اَوْ حَقٍّ اَوْطَرِیْقٍ.وہ دین یا سچائی کے راستہ کو چھوڑ کر اِدھر اُدھر چلا گیا یا اصل راستہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا نیز ضَلَّ فُلَانٌ الطَّرِیْقَ وَعَنِ الطَّرِیْقِ کے معنے ہیں لَمْ یَـھْتَدِ اِلَیْہِ.اُسے راستہ کا پتہ نہ لگا وَکَذَاالدَّارَ وَالْمَنْـزِلَ وَکُلَّ شَیْءٍ مُّقِیْمٍ لَّا یُـھْتَدٰی لَہٗ.اسی طرح ہر وہ چیز جس کا پتہ نہ لگے یا جس کی طرف جانے کا راستہ نہ ملے اس پر بھی اس لفظ کا اطلاق کیا جاتا ہے(اقرب).ایک ہوتا ہے راستہ بھول جانا اور گمراہ ہو جانا.

Page 149

اور ایک ہوتا ہے راستے کا علم نہ ہونا.یہ دو الگ الگ مفہوم ہیں اور یہ دونوں معنے ضَلَّ میں پائے جاتے ہیں اور ضَلَّ فُلَانٌ اَلْفَرَسَ وَ الْبَعِیْرَ کے معنے ہوتے ہیں ذَھَبَا عَنْہُ گھوڑا یا اونٹ کھویا گیا اور ہاتھ سے جاتا رہا ضَلَّ عَنِّیْ کَذَا کہتے ہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں ضَاعَ.وہ چیز ضائع ہو گئی.اور ضَلَّ الرَّجُلُ کے معنے ہوتے ہیں مَاتَ وَصَارَ تُرَابًا وَعِظَامًا وہ مر گیا اور مر کے مٹی ہو گیا.ضَلَّ الْمَآءُ فِی اللَّبَنِ کے معنے ہوتے ہیں خَفِیَ وَغَابَ.دودھ میں پانی غائب ہو گیا (اقرب) ضَلَّ کے معنے کسی کام میںمنہمک ہو جانے کے بھی ہوتے ہیں جیسے قرآن کریم میں آتا ہے ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (الکھف :۱۰۵) ان کی تمام تر کوششیں دنیوی زندگی کے کاموں میں ہی صرف ہو گئیں اسی طرح ضَلَالٌ کے ایک معنے محبت شدیدہ کے بھی ہوتے ہیں در اصل یہ معنی بھی ضَلَّ سَعْيُهُمْ والے معنوں سے ملتے جلتے ہیں کیونکہ محبت میں بھی انسان کامل طور پر ایک طرف متوجہ ہو جاتا ہے.مفردات والے لکھتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی نسبت ان کے بیٹوں نے کہا اِنَّ اَبَانَا لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنِ( یوسف:۹ ) ہمارا باپ کھلی کھلی ضلال میں مبتلا ہے.اس میں ضلال کے معنے گمراہی کے نہیں بلکہ اِشَارَۃً اِلٰی شَغَفِہٖ بِیُوْسُفَ وَشَوْقِہٖ اِلَیْہِ.اس میں ان کی اس محبت اور شوق ملاقات کی طرف اشارہ ہے جو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اپنے دل میں رکھتے تھے.ضلال کے معنے بے انتہا محبت کے گویا ضلال کے ایک معنے کمال درجہ کی محبت اور انتہا درجہ کے شوق کے بھی ہیں اسی طرح قرآن کریم میںجو آتا ہے قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا اِنَّا لَنَرٰىهَا فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ (یوسف:۳۱ ) اس میں بھی ضلال کے معنے بے انتہا محبت کے ہیں غرض ضلال کا لفظ جہاں اور معنوںکے لئے استعمال ہوتا ہے وہاں اس کے ایک معنے انتہا درجہ کی محبت کے بھی ہوتے ہیں.(مفردات) تفسیر.حل لغات میں جو مختلف معانی بیان کئے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کے بھی مختلف معنے ہو جائیں گے.وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کے چار معنے پہلے معنے تو اس آیت کے یہ ہیں کہ تمہیں ہمارا راستہ معلوم نہ تھا، تم شریعت سے بے خبر تھے، تمہیں معلوم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے کیا ذرائع ہیں.ایسی حالت میںہم نے اپنی شریعت تم پر نازل کی اور تمہیں اپنی طرف آنے کا راستہ دکھادیا.دنیا کا کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے ملک میں پیدا ہوئے تھے جس میں کوئی شریعت نہیں تھی مگر اس کے باوجود آپؐدن رات خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ رہتے تھے اور اس کے قرب اور وصال کے حصول کے متمنی تھے اُس ملک میں

Page 150

عیسائی بھی موجود تھے اور یہودی بھی موجود تھے اور یہ دونوں قومیں وہ ہیں جن کے پاس خدا تعالیٰ کا کلام موجود تھا مگر باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ان کے پاس تھا انہیں خدا تعالیٰ کی طرف کوئی توجہ نہیں تھی اور وہ اس سے کلی بیگانگت کی حالت میں اپنی زندگی کے ایام بسر کر رہے تھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ یہ حالت تھی کہ آپ کے پاس خدا تعالیٰ کا کوئی کلام نہیں تھا مگر پھر بھی آپ خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ تھے.پس یہ امر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ کی بلندی اور آپؐکی عظمت کا ایک بیّن ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام اپنے پاس رکھنے والے تو خدا تعالیٰ سے دور ہو گئے مگر جس کے پاس خدا تعالیٰ کا کوئی کلام نہیں تھا وہ خد ا تعالیٰ کے قریب ہوتا چلا گیا.جب خدا تعالیٰ نے دیکھاکہ یہ وہ شخص ہے جو ہماری طرف آنا چاہتا ہے مگر اسے ہمارے قرب اور وصال کے راستوں کا علم نہیں ہے تو اس نے آپ پر شریعت نازل کر دی اور اس طرح تمام راستوں کو آپؐپرمنکشف کر دیا.آپؐکا پہلے اس کوچہ سے ناواقف ہونا ہر گز قابل اعتراض امر نہیں.ہر صاحب شریعت نبی پر جب خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہوتی ہے تب اسے شرعی راستہ کا علم ہوتا ہے اس سے پہلے وہ اُس راستہ سے واقف نہیں ہوتا.یہی بات اس جگہ بیان کی گئی ہے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تجھے ہمارے راستے کا علم نہیں تھا پھر ہم نے اپنے فضل سے تجھے وہ راستہ دکھا دیا جس کی جستجو تیرے دل میں پائی جاتی تھی.وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کے دوسرے معنے ضَلَّ کے ایک معنے خَفِیَ وَ غَابَ کے بھی بتائے جا چکے ہیں اُن معنوں کے لحاظ سے اس آیت میں خدا تعالیٰ اپنی قدرت اور مہربانی کا ثبوت دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن ضُـحٰی آئے گی.بڑی بڑی ترقیات اسلام اور مسلمانوں کو حاصل ہوں گی اور لوگ تیرے متعلق کہیں گے واہ وا کیا خوب آدمی تھا.کتنے بڑے کمالات اپنے اندر رکھتا تھا، کتنے بڑے فضائل اور محاسن کا مالک تھا.کس طرح اس نے دنیا میں ایک عظیم الشان تغیّر پیدا کر دیا اور بھولی بھٹکی مخلوق کو خدا تعالیٰ کے آستانہ پر لاڈالا.مگر ہم ان سے کہتے ہیں وہ غور کریں اور سوچیںکہ آخر تجھے کس نے چنا.کس نے دنیاکی ہدایت کے لئے تیرا انتخاب کیا، کون تھا جو تجھے گوشۂ گمنامی سے دنیا کے سامنے نکال کر لایا.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہماری نظر ہی تھی جس نے تجھے منتخب کیا.ہم نے دیکھا کہ ایک قیمتی موتی لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل پڑا ہے لوگ اس کی قدر وقیمت سے نا آشنا ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ وہ کس قدر آب و تاب رکھنے والا ہے.ہم نے کان میں سے اس موتی کو نکالا اور اُسے دنیا کے سامنے لا رکھا.ہم نے کفرستان میں ایک ہیرا پڑا ہوا دیکھا ایسا ہیرا جس کا کوئی ثانی نہیں تھا ہم نے کفرستان میں سے اس ہیرے کو اٹھایا اور انسانیت کے تاج میں لگا لیا.آج تیری چمک کو دیکھ کر دنیا کی

Page 151

نگاہیں خیرہ ہو رہی ہیں.وہ تیرے حسن اور تیرے جلال اور تیرے کمال کو دیکھ کر رطب اللسان ہیں مگر وہ نہیں دیکھتے کہ یہ سب کچھ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے.تو لوگوں کی نگاہوںسے بالکل غائب تھا اور دوسروں کا تو کیا ذکر ہے تو خود بھی نہیں جانتا تھا کہ تیرے اندر کون سے کمالات ودیعت کئے گئے ہیں.ہم تجھے نکال لائے اور تیری شوکت اور عظمت کو دنیا پر ظاہر کر دیا ورنہ اور کون تھا جو تیری فطرت صحیحہ کو پہچان سکتا، ہم ہی تھے جنہوں نے تجھے پہچانا اور گمنامی کے گوشوں سے نکال کر تجھے دنیا میں عزت کے ساتھ مشہور کر دیا.وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کے تیسرے معنے پھر ضلال کے ایک معنے محبت شدید ہ کے بھی بتائے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھ کو شدید محبت میںمبتلا دیکھا تیرے اندر تڑپ تھی اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تو زمین کو دیکھتا، تُو آسمان کی بناوٹ پر غور کرتا اور تیری فطرت تجھے کہتی کہ اس کارخانہء عالم کو پیدا کرنے والا ایک خدا ضرور ہے مگر ادھر تو اس قوم میں پیدا ہوا تھا جس کے پاس کوئی شریعت نہیں تھی اور جسے خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ معلوم نہیں تھا ہم نے دیکھا کہ جیسے یوسفؑ کے لئے یعقوب ؑ تڑپ رہا تھا اس سے بھی زیادہ شوق اور محبت کے ساتھ تو اپنے پیدا کرنے والے کے لئے تڑپ رہا ہے.تیری فطرت تجھے ہماری طرف توجہ دلاتی تھی مگر تجھے ہمارا راستہ ملتا نہ تھا.نیچر کی انگلیاں اٹھ اٹھ کر تجھے بتاتی تھیں کہ تیر ا کوئی مالک ہے، تیرا کوئی خالق ہے، تیرا کوئی رازق ہے.تو چاروں طرف دیکھتا اور کہتا کہ میرا خالق اور مالک کہاں ہے؟ میںاُس کے پاس جانا چاہتا ہوں.اور چونکہ کوئی شریعت نہیں تھی جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ جاتا اس لئے جب ہم نے تیری اس تڑپ اور محبت کا مشاہدہ کیا تو فَهَدٰى اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے آواز دے دی کہ ہم یہاں ہیں ہمارے پاس آجائو.وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کے چوتھے معنے پھر اس آیت کے ایک معنے اور بھی ہیں.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعرآء:۴).اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم شاید تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کر دے گا کہ یہ لوگ کیوں تجھ پر ایمان نہیں لاتے.اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ضَلَّ کے ایک معنے مر کھپ جانے کے بھی ہیں پس وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى.میں اللہ تعالیٰ یہ مضمون بیان فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کی تباہی اور گمراہی کو دیکھ کر مر رہا تھا، تو ان کے کفر کو دیکھتا تھا، تو ان کی بد اخلاقیوںکو دیکھتا تھا، تو ان کی چوریوں کو دیکھتا تھا، تو ان کے ڈاکوںکو دیکھتا تھا، تو ان کے اسراف کو دیکھتاتھا، تو ان کی اخلاقی اور عائلی کوتاہیوں کو دیکھتا تھا، تو ان کو علم میں تمام دوسری قوموں سے

Page 152

پیچھے دیکھتا تھا، تو ان کو سیاست میں تمام دوسری قوموں سے پیچھے دیکھتا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ جس طرح تو ہم سے ملنے کے لئے مر رہا تھا اسی طرح تو اپنی قوم کے لئے بھی مر رہا تھا.جس طرح تو ہماری محبت کے لئے بے تاب ہو رہا تھا اسی طرح اپنی قوم کے درد میںبھی ہلاک ہو رہا تھا گویا تجھ پروہی کیفیت تھی جو ہم دوسری جگہ ان الفاظ میںبیان کر چکے ہیںکہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ(الشعرآء:۴).جب ہم نے دیکھا کہ تو اپنی قوم کے لئے مررہا ہے، اُس کے غم میں ہلاک ہو رہا ہے، اُس کی اصلاح کی فکر میںگھلتا چلا جا رہا ہے اور دن رات تجھے یہی تڑپ اور یہی فکر ہے کہ کسی طرح میری گری ہوئی قوم ترقی کرے تو ہم نے تجھے وہ رستہ دکھا دیا جس پر چل کر تیری قوم اس موت سے بچ جائے یعنی تجھے قرآن دے دیا جس میں وہ ساری چیزیں موجود ہیں جو نہ صرف مکہ والوں کی تباہی کو دور کر سکتی ہیںبلکہ ساری دنیا کی ہلاکت اور بربادی کا واحد علاج ہیں پس وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا میں اس جذبۂ اصلاح کی طرف اشارہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب میں اپنی قوم کی اصلا ح اور پھر ساری دنیا کی اصلاح کے متعلق نمایاں طور پر پایا جاتا تھا او ر درحقیقت یہ جملہ ترجمہ ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ کی آیت کا.بَاخِعٌ کے معنے صرف گردن کاٹنے کے نہیںہوتے بلکہ اس رنگ میںگردن کاٹنے کے ہوتے ہیں کہ انسان گردن کی پچھلی نسوں تک اسے کاٹتا چلا جائے اور آخری حد تک اسے پہنچا دے(لسان العرب).اس طرح بتایا کہ تجھے اپنی قوم کے کفر اور اس کے خدا تعالیٰ سے دور چلے جانے کا اس قدر غم اور اس قدر صدمہ تھا کہ گویا اس غم میں اپنی ساری گردن کاٹ بیٹھا تھا.خد اتعالیٰ کی محبت کے لحاظ سے تو اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے تجھ کو اپنی محبت میں بے انتہا صدمہ رسیدہ دیکھا اور آخر تجھے وہ راستہ بتا دیا جس پر چل کر تو ہمارے پاس پہنچ سکتا اور قوم کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیںکہ ہم نے تجھے اپنی قوم کے غم میں بالکل مردہ کی طرح پایا.جب ہم نے یہ حالت دیکھی تو ہم نے تجھے وہ شریعت دے دی جس سے یہ گری ہوئی اور تباہ شدہ قوم بھی ترقی کی طرف دوڑ پڑے.غرض ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے اُن احسانات کا ذکر فرمایا ہے جواُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے.اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى میںتو یہ بتایا کہ ہم نے تیرے جسمانی یُتم میںتجھے جسمانی رشتہ دار عطا کئے.تُو اس بات کا محتاج تھا کہ کوئی شخص تیری پرورش کرنے والا ہو تا، تجھے محبت اور پیار سے رکھتا اور تیری ضروریات کو پورا کرتا.سو اللہ تعالیٰ نے یکے بعد دیگرے ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو انتہائی توجہ کے ساتھ تیری پرورش کا فرض سر انجام دیتے رہے اور ہر موقع پر جسمانی طورپر تیری مدد کرتے رہے دوسری طرف روحانی یُتم کے لئے ہم نے

Page 153

اپنی محبت اور اپنا فیضان تجھ کو عطا کیا اور تجھے ایسی تعلیم عطا کی جو مکہ والوں کو قعر مذلت سے اٹھا کر ترقی کے بلند تر مینار پر پہنچا نے والی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ ایک دعویٰ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کیا جا رہا تھا مگر دعویٰ وہ تھا جسے پرکھا جا سکتا تھا.قرآن کریم لوگوں کے سامنے موجود تھا اور انہیں کہا جا سکتا تھاکہ آئو اور دیکھو کہ اس میںقوموں کو اُبھارنے والی تعلیم موجود ہے یا نہیں اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب اور آپ کے تعلق باللہ کو وہ آپؐکی دعائوں اور آپ کے نشانات کے ذریعہ دیکھ سکتے تھے.غرض نہ وہ اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى کی صداقت کا انکار کرسکتے تھے اور نہ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى کی صداقت کا انکار کر سکتے تھے.اللہ تعالیٰ ان دو مثالوںکو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب کہ تیری جسمانی پرورش بھی ہم نے کی اور تیری روحانی پرورش بھی ہم نے کی اور ہر قدم پر تیرے ساتھ اپنی تائید رکھی.تُو جسمانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری جسمانی پرورش کی طرف توجہ کی.تُو روحانی توجہ کا محتاج تھا تو ہم نے تیری روح پر شفقت کی نظر ڈالی.جب ہماری محبت تیرے دل میں پیدا ہوئی تو ہم نے تجھے اپنا چہرہ دکھا دیا اور جب بنی نوع انسان کی محبت تیرے دل میںپیدا ہوئی اور ان کی خرابیوں نے تجھے بےچین کر دیا تو ان کی اصلاح اور حالات کی درستی کے لئے اپنی شریعت تجھ پر نازل کر دی.جب ہم اپنی محبت اور اپنے سلوک کا اس قدر نمونہ تیری ذات میںدکھا چکے ہیںتو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ ترقیات اور ضُـحٰی کے متعلق جو خبر دی گئی ہے وہ بھی پوری ہو کررہے گی.جس خدا نے تجھے پیچھے نہیںچھوڑا وہ آئندہ تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے؟ اس بات کا ثبوت کہ وَجَدَكَ ضَآلًّامیں ضَالٌّ کے معنے گمراہ ہوجانے کے نہیں یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ وجہ کیا ہے کہ ضَلَال کے ا ورمعنے تو لے لئے گئے ہیں مگر ایک معنوںکو بالکل ترک کر دیا گیا ہے.ضَلَال کے ایک معنے گمراہ ہوجانے، خرابی میںمبتلا ہو جانے اور رستہ کو چھوڑ دینے کے بھی ہیںمگر ان معنوںکو چھوا تک نہیں گیا.کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم اس آیت کے یہ معنے کیوں نہ کر لیںکہ اس نے تجھے گمراہ پایا تھا پھر اس نے تجھے ہدایت دے دی.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ معنے اس لئے چھوڑے گئے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے.دشمن اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جادۂ اعتدال سے یا جادۂ شریعت سے اِدھر اُدھر ہو گئے تھے.یہ معنے خواہ لغتاً صحیح ہوں ہمارے نزدیک اس مقام پر کسی صورت میںبھی چسپاں نہیںہو سکتے اور اس کی یہ وجہ ہے کہ ہدایت ہمیشہ دو قسم کی ہوتی ہے ایک ہدایت شرعی اور ایک ہدایت طبعی یا فطری.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ تم یہ معنے کیوںنہیںکرتے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 154

کو گمراہ پایا اور پھر انہیںہدایت دی.ہم ان سے کہتے ہیں کہ دنیا میںہدایت کی دو ہی قسمیںہوتی ہیںیا ہدایت شرعی ہو جس سے انسان انحراف اختیار کرے یا ہدایت طبعی اور فطری ہو جس کے خلاف عمل کرنے کے لئے وہ تیار ہو جائے.ان دو قسم کی ہدایتوں کے سوا اور کوئی ہدایت نہیںہو سکتی.پس وہ لوگ جو اپنے معنوں پر اصرار کرتے ہیں ہم ان سے دریافت کرتے ہیں کہ اس آیت کے کیا معنے ہوں گے؟ کیا یہ معنے ہوں گے کہ ضَلَّ مُـحَمَّدٌ عَنْ شَـرِیْعَۃِ الْمُسْتَقِلّۃِ الَّتِیْ کَانَتِ الْقَوْمُ عَلَیْـھَا.کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم اس شریعت سے گمراہ ہو گئے جس پر قوم چل رہی تھی.اگر ہم یہ معنے کریں تو بالکل غلط ہوں گے کیونکہ اس وقت کوئی شریعت تھی ہی نہیں اور کوئی شخص بھی یہ تسلیم نہیں کرتا خواہ وہ اسلام کا کیسا ہی شدیدمعاند کیوں نہ ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم کسی شریعت پر قائم تھی اور آپ اس شریعت سے پھر گئے تھے.پس جو بات بالبداہت غلط ہے اور جس کی تکذیب کے لئے کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں وہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کس طرح کی جاسکتی ہے اور کس طرح اس آیت کے یہ معنے کئے جا سکتے ہیں کہ آپ شریعت سے گمراہ ہو چکے تھے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو ہدایت دے دی.جب کوئی شریعت آپ کی قوم میں موجود ہی نہیں تھی اور آپ کسی شریعت کے مخاطب ہی نہیںتھے تو گمراہی اور ضلالت کے کیا معنے ہوئے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس قوم میںپیدا ہوئے تھے اس کے پاس کوئی شریعت نہیںتھی، کوئی آسمانی قانون نہیںتھا جس پر وہ عمل کرتی، کوئی وحی نہیں تھی جس کو وہ اپنے سامنے رکھا کرتی.ایسی صورت میںہم یہ معنے کس طرح کر سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت سے پھر گئے تھے.شریعت تو اس وقت کوئی تھی ہی نہیں جس کے آپؐمخاطب ہوتے.دوسرے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ شریعت تو اس وقت بے شک کوئی نہیں تھی مگر آپ نعوذباللہ بد اخلاق تھے، جادۂ اعتدال سے منحرف ہو چکے تھے، ہدایت طبعی جو اخلاقی اور فطرتی ہدایت ہوتی ہے اس کے قانون کو آپؐنے توڑ رکھا تھا اور خدا تعالیٰ نے اسی کی طرف وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى میں اشارہ کیا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا یہ معنے یہاں چسپاں ہو تے ہیں یا نہیں.دشمن کہتا ہے کہ ضَآلًّا کے معنے بد اخلاق کے ہیںگویا اس کے نزدیک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا داغ دار ہونا اس آیت میںبیان کیا گیا ہے مگر دشمن تو اس آیت کے یہ معنے کرتا ہے اور خدا تعالیٰ دوسری جگہ ان معنوںکو بالکل غلط اور بے ہودہ قرار دیتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے تُو لوگوں کو چیلنج دے کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تیری چالیس سالہ ابتدائی زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر دیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چیلنج دیا اور فرمایا فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (یونس :۱۷) میںتم میں

Page 155

چالیس سال تک رہا ہوں اور تم میری زندگی کو دیکھتے چلے آئے ہو اگر تم میں ہمت ہے تو تم سب کے سب مل کر میری ابتدائی چالیس سالہ زندگی کا کوئی ایک عیب ہی ثابت کر کے دکھا دو مگر یاد رکھو تم ایسا کبھی نہیںکر سکو گے کیونکہ میری زندگی بالکل بے عیب ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہر قسم کے گناہ سے آج تک محفوظ رکھا ہے.اب بتائو کہ ہم یہ دوسرے معنے بھی کس طرح کر سکتے ہیں؟ شریعت سے انحراف والی بات تو اس لحاظ سے بالبداہت باطل تھی کہ اس وقت آپ کی قوم کے پاس کوئی شریعت کی کتاب تھی ہی نہیں جس سے انحراف کرنے کا الزام آپ پر عائد ہو سکتا.باقی رہا اخلاق میں کسی قسم کے نقص کا ہونا سواس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن کریم میں دعویٰ موجود ہے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں تم میری اس زندگی کا کوئی ایک عیب بھی ثابت نہیں کر سکتے.اس چیلنج کے یہ معنے نہیں تھے کہ میں تم میں ایک لمبا عرصہ رہ چکا ہوں بتائو میں نے قرآن کے احکام پر اس زندگی میں عمل کیا تھا یا نہیں؟ کیونکہ قرآن کریم تو اس دعویٰ کے وقت میں نازل ہونا شروع ہوا ہے پہلے تو قرآن کریم تھا ہی نہیں.پس اس آیت میں ہدایت ِ طبعی کی طرف اشارہ ہے نہ کہ ہدایت شرعی کی طرف اور اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں کو چیلنج دے اور ان سے کہہ کہ وہ بتائیں کہ کیا میری چالیس سالہ زندگی میں کوئی ایک دن بھی ایسا آیا جب میں نے ہدایت طبعی یعنی اخلاق کے خلاف کوئی قدم اٹھایا ہو جب کوئی ایک برائی بھی تم میری طرف منسوب نہیںکر سکتے، جب کوئی ایک بدی بھی تم میرے اندر ثابت نہیں کر سکتے تو اب کس طرح کہتے ہو کہ میں برا ہوں.غرض ان میں سے کوئی معنے بھی ایسے نہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہو سکتے ہوں.جہاں تک ہدایت شرعی کا تعلق ہے عیسائی بھی تسلیم کر تے ہیں کہ نزول قرآن سے قبل اہل مکہ کے پاس کوئی شرعی قانون نہیں تھا اور جب وہ کسی شریعت کے پابند ہی نہیں تھے تو وَجَدَكَ ضَآلًّا کے یہ معنے کس طرح ہو سکتے ہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شریعت سے منحرف ہو گئے تھے.دوسرے معنے ہدایت طبعی سے انحراف کے ہو سکتے ہیں مگر وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں نہیں ہو سکتے کیونکہ قرآن کریم میں آپ کی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی زندگی کے متعلق چیلنج موجود ہے اور لوگوں کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا گیا ہے کہ آپ نے بےعیب زندگی بسر کی تھی.جب دونوں معنے آپ پر چسپاں نہیں ہوسکتے تو دشمنانِ اسلام کااس آیت کے یہ معنے کرنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذ باللہ گمراہ ہو گئے تھے اس مقام پر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ وَجَدَكَ ضَآلًّا تو خدا تعالیٰ کی گواہی ہے لیکن فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ اپنی ذات کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی گواہی ہے ان دونوں گواہیوں میں سے بہر حال خدا تعالیٰ کی گواہی کو مقدم قرار دیا جائے گا.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی

Page 156

اپنی گواہی کو مؤخر سمجھا جائے گا.اس لحاظ سے بات وہی درست ہو گی جس کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی نہ وہ بات جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی طرف سے پیش کیا.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ گواہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی گواہی ہے.چنانچہ قُلْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس گواہی کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ہے کہ ہم تمہارے متعلق اس گواہی کو پیش کرتے ہیں تم لوگوں کے سامنے اسے پیش کر و اور انہیں چیلنج دو کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ تمہاری زندگی میں کوئی عیب ثابت کریں.چنانچہ اصل آیت یوں ہے.قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَ لَاۤ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ١ۖٞ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس :۱۷) اس آیت میں قُلْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی گواہی ساتھ شامل کردی ہے صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکیلی گواہی نہیںرہی.غرض وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى اگر خدا تعالیٰ کی گواہی ہوتی اور فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اپنی گواہی ہوتی تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ خدائی گواہی کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات کے متعلق گواہی کوئی حقیقت نہیں رکھتی.لیکن خدا تعالیٰ نے قُلْ کہہ کر اپنی گواہی بھی ساتھ ہی شامل کردی ہے.تا یہ نہ سمجھا جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے پس ان میں سے کوئی گواہی بھی دوسری گواہی کے خلا ف نہیں ہو سکتی.جب دشمن بحث سے تنگ آجائے اور دلائل کے میدان میں وہ بالکل بے بس ہوجائے.تو بعض دفعہ تنگ آکر وہ کہہ دیا کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تعالیٰ کی طرف یہ بات منسوب کرنا ایک دعویٰ ہے جس کا کوئی ثبوت نہیں.اور اپنی طرف سے بات کہنا تعلّی اور لاف زنی ہے.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا لوگ بھی آپ کو ایسا ہی بےعیب سمجھتے تھے جیسا کہ آپ نے دعویٰ کیا.اگر لوگ آپؐکو بے عیب نہیں سمجھتے تھے تو محض تعلّی کے طور پر ایک بات پیش کر دینے سے کیا بن جاتا ہے.لوگ تو جانتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے اور یہ تعلّی صداقت سے کس قدر دور ہے.آنحضرتؐکے صدوق و امین ہونے کے متعلق آپ کے نہ ماننے والوں کی گواہی اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر لوگوں کی گواہی کو لو تب بھی ان کی شہادت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ثابت ہوتی ہے.کیونکہ تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ دعویٰ نبوت سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگ صدوق اور امین سمجھتے اور آپؐکی راستبازی کے وہ حددرجہ قائل تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب آپ کو انذار کا حکم ہوا تو صفا پہاڑی پر آپؐکھڑے ہوئے اور آپؐنے نام لے لے کر مختلف قبائل کو بُلانا شروع کیا.جب تمام لوگ اکھٹے ہو گئے تو آپؐنے فرمایا.اچھا یہ بتائو اگر میںتم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک بہت بڑا لشکر ہے جو تم پر حملہ کرنا

Page 157

چاہتا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے؟ انہوں نے کہا.ہاں.کیونکہ ہم نے آپ کو ہمیشہ سچ بولنے والا پایا ہے (بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء زیر آیت وانذر عشیرتک الاقربین ) حالانکہ یہ بات ایسی تھی جسے بظاہر کوئی شخص تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیںہوسکتا تھا وجہ یہ ہے کہ مکہ کے لوگوں کے جانور وادی میں چرا کرتے تھے اور وہ ایسا علاقہ تھا کہ جس میںکسی لشکر کا چھپ رہنا نا ممکن تھا.کیونکہ وہاں کوئی درختوں کا جنگل نہ تھا بلکہ کھلا میدان تھا.مگر باوجود اس کے کہ ظاہری حالات کے لحا ظ سے ایسا بالکل نا ممکن تھا کہ کوئی لشکر آئے اور مکہ والوں کو اس کا علم نہ ہو.پھر بھی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں تم کو خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے (یہ پہاڑ دراصل ایک معمولی ٹیلہ ہے.ڈلہوزی شملہ جیسا پہاڑ نہیں ) ایک لشکر چھپا ہوا ہے اور وہ تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات کو مان لو گے یا نہیں؟ تو ان سب نے یہ جواب دیا کہ ہم ضرور مان لیں گے.جس کے معنے یہ تھے کہ گویہ بات بالکل ناممکن ہے مگر چونکہ آپ کہیں گے اور آپ وہ ہیں جنہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا.اس لئے ہم اس ناممکن بات کو بھی ممکن سمجھ لیںگے اور آپؐکی بات کو درست قراردے دیںگے.جب انہوں نے آپؐپر اس قدر اعتماد کا اظہار کر دیا تو آپؐنے فرمایا.میںتمہیںخبر دیتا ہوں کہ تم پر خد اکا عذاب نازل ہونے والا ہے تم اپنی اصلاح کر لو.یہ سنتے ہی سب لوگ آپ کو پاگل کہتے اور ہنسی اڑاتے ہوئے منتشر ہو گئے دشمن کی یہ گواہی اس صداقت اور راستبازی کا ایک بیّن ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر پائی جاتی تھی.اسی طرح خانہء کعبہ کی تعمیر کے وقت جب حجر اسود کو اس کی اصل جگہ پر رکھنے کے متعلق قبائل قریش میں شدید اختلاف پیدا ہو گیا یہاں تک کہ وہ آپس میں کٹ مرنے کے لئے بھی تیار ہو گئے.اس وقت آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اس جھگڑے کو نپٹایا اور تاریخ میںلکھا ہے کہ جب لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آتے دیکھا تو سب لوگ یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ ھٰذَا الْاَمِیْنُ رَضِیْنَا ھٰذَا مُـحَمَّدٌ.اَمِیْنٌ.اَمِیْنٌ.اور سب نے کہا کہ ہم اس کے فیصلہ پر راضی ہیں (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام حدیث بنیان الکعبۃ) یہ کفار کی دوسری شہادت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابتدائی زندگی کے نہایت ہی اعلیٰ ہونے کا ایک کھلا ثبوت ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قریب کی گواہ بیوی ہوتی ہے وہ اپنے شوہر کے جن حالات کو جانتی ہے عام لوگ ان حالات کو نہیں جانتے.اس لئے خاوند کے متعلق بیوی کی گواہی اور تمام گواہیوں سے زیادہ معتبر شمار کی جاتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ گواہی بھی حاصل ہوئی.چنانچہ جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐنے گھبرا کر حضرت خدیجہ ؓ سے اس کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہ ؓ نے ان الفاظ میں آپؐکو تسلی دی کہ کَلَّا وَاللہِ مَا

Page 158

یُـخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِـمَ وَتَـحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْـحَقِّ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) خدا کی قسم اللہ آپؐکو کبھی رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپؐصلہ رحمی کرتے ہیں آپ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں.آپؐمعدوم اخلاق کو اپنے اندر رکھتے ہیں.آپ مہمان نوازی کرتے ہیں.آپ مصیبت زدوں کی امداد کرتے ہیں.آپؐجیسے انسان کو خدا کس طرح ضائع کر سکتا ہے.یہ بیوی کی گواہی ہے جواس بات کو ثابت کر رہی ہے کہ آپؐان معنوں میں ضَالٌّ نہیں تھے جو دشمن کی طرف سے کئے جاتے ہیں.پھر بیوی نے تو آپ کی چالیس سالہ عمر کے وقت یہ گواہی دی تھی.اس سے پہلے آپؐکی ۲۴ سالہ عمر میں حضرت خدیجہ ؓ کے غلاموں نے آپ کی نیکی اور راستبازی اور دیانت کی گواہی دی.چنانچہ حضرت خدیجہ ؓ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مال تجارت دے کر شام میں بھجوایا تو واپسی پر حضرت خدیجہ ؓ نے ایک ایک غلام کو بلا کر اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حالات دریافت کئے.ہر غلام نے آپ کی تعریف کی اور ہر غلام نے کہا کہ ہم نے اس جیسا دیانتدار اور با اخلاق انسان اور کوئی نہیں دیکھا.حضرت خدیجہ ؓ جانتی تھیں کہ تجارتی قافلوں کے ساتھ جن لوگوں کو بھیجا جاتا ہے وہ خود بہت سا مال کھا جاتے ہیں.مگر ان غلاموں نے بتایا کہ انہوں نے نہ صرف خود کوئی مال نہیں کھایا بلکہ ہمیں بھی ناجائز طور پر کوئی تصرف نہیں کرنے دیا.جو رقم ان کے لئے مقرر تھی صرف وہی لیتے تھے اور اسی رقم میں سے کھانا بھی کھاتے تھے.اس سے زائد انہوں نے ایک پیسہ بھی نہیںلیا.یہی وہ حالات تھے جن کو دیکھ کر حضرت خدیجہ ؓ اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہوں نے آپؐکو شادی کا پیغام بھجوادیا(السیرۃ الحلبیۃ باب سفرہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الشام ثانیا).غرض تمام گواہیاں جو بچپن سے لے کر چالیس سالہ عمر تک ملتی ہیں وہ سب کی سب اس بات کا ثبوت ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخلاقی لحاظ سے گمراہ نہیں تھے اور جب کہ سب کی سب گواہیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو پاک اور بے عیب ثابت کر رہی ہیں تو وہ لوگ جو ضَالًّا کے معنے گمراہ ہو جانے کے کرتے ہیں وہ خود ہی بتائیں کہ ان کے معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کس طرح چسپاں ہو سکتے ہیں.شریعت سے گمراہ تو آپؐہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ کوئی شریعت اس وقت تھی ہی نہیں.اگر اخلاقی گمراہی مراد لو تو وہ بھی چسپاں نہیں ہو سکتی.کیونکہ اوّل سے آخر تک تمام گواہیاں ثابت کر رہی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق نہایت اعلیٰ درجہ کے تھے.جب آپؐشریعت کے لحاظ سے بھی گمراہ نہیںتھے اور اخلاق کے لحاظ سے بھی

Page 159

گمراہ نہیں تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ تیسری کون سی گمراہی ہے جو آپؐکے اندر پائی جاتی تھی.اگر کہو کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ آپؐکفر سے گمراہ ہو گئے تو ہم بے شک کہتے ہیں کہ اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آپؐنے کفر کا راستہ اختیار نہیں کیا.مگر جو معنے مخالف کرتے ہیں وہ قطعی طور پر غلط ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اور اس وقت کے حالات دونوں ان معنوں کو بے بنیاد ثابت کر رہے ہیں.وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰىؕ۰۰۹ اور تجھے کثیر العیال پایا تو غنی کر دیا.حلّ لُغات.عَائِلًا عَائِلاً : عَالَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور عَالَ عَیَالَہٗ کے معنے ہوتے ہیں کَفَاھُمْ مَعَاشَھُمْ وَمَانَـھُمْ.اپنے اہل و عیال کے گذارہ کا پوری طرح بندو بست کیا.اور عَالَ الْیَتِیْمَ کے معنے ہوتے ہیں کَفَلَہٗ وَ قَامَ بِہٖ یتیم کے اخراجات کا ذمہ دار ہو گیا.اور عَالَ فُلَانٌ عَوْلًا کے معنے ہوتے ہیں کَثُـرَ عَیَالُہٗ.اس کا کنبہ زیادہ ہو گیا(اقرب).گویا اس کے دو معنے ہوئے.ایک معنے تو یہ ہیں کہ انسان دوسروں کا کفیل ہو جائے.ان کے اخراجات کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لے اور ان کی خبر گیری رکھے اور دوسرے معنے یہ ہیں کہ وہ کثیر العیال ہو جائے.تفسیر.وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰى کے دو معنے ہیں.اوّل یہ کہ ہم نے تجھ کو کثیر العیال پایا اور تیری ضرورت پوری کر دی.دوسرے یہ کہ ہم نے دیکھا کہ تو ہی ایک ایسا شخص ہے جو ہر یتیم اور بے کس کی خبرگیری کرتا ہے اس لئے ہم نے بھی تجھے دولت دے دی تا کہ تو ان کی ضروریات کو پور ا کر سکے.پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ تُو اپنے عیال کی خبر گیری کے قابل نہ تھا مگر ہم نے دولت دے کر تیری غربت کو دور کر دیا اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ تیرے اندر یہ جذبۂ شوق پایا جاتا تھا کہ تو ہر مسکین اور یتیم کو پناہ دے.جو بھی درماندہ اور بے کس انسان تجھے نظر آتا تو اسے اپنی آغوش شفقت میںلے لیتا.اُس کے سر پر اپنی محبت کا ہاتھ رکھتا اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا جب ہم نے تیرے اس جذبۂ محبت اور جذبۂ ہمدردی کو دیکھا.تو ہم نے بھی اپنی دولت تیرے سپرد کر دی تا کہ تو ہمارے بے کس اور نادار بندوں کا کفیل ہو.یہاں دولت سے مراد صرف جسمانی دولت نہیں بلکہ روحانی دولت بھی مراد ہے اور یتامیٰ و مساکین سے مراد بھی صرف

Page 160

جسمانی یتامیٰ و مساکین نہیں بلکہ روحانی یتامیٰ و مساکین بھی مراد ہیں.جسمانی غرباء اور یتیم جو اُس وقت پائے جاتے تھے.اُن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو تڑپ پائی جاتی تھی اور جس قدر ہمدردی اور محبت آپؐکے قلب میں اُن کے متعلق موجود تھی اس کی مثال دنیا میں اور کہیں نظر نہیں آسکتی.بے انتہا تڑپ، بے انتہا ہمدردی اور بے انتہا محبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میںقوم کے غرباء اور یتامیٰ کے متعلق پائی جاتی تھی.آپؐان کے حالات کو دیکھتے تو بے تاب ہو جاتے.آپؐکے دن بے چینی میں اور راتیں اضطراب میں کٹتیں.محض اس وجہ سے کہ غرباء کا کوئی سہارا نہ تھا.یتامیٰ کو کوئی پوچھنے والا نہ تھا.مساکین کی طرف کوئی توجہ کرنے والا نہ تھا.اللہ تعالیٰ جو آپؐکے دل کے اسرار سے آگاہ تھا.اس نے جب آپؐکی اس بے انتہا اور غیر معمولی تڑپ کو دیکھا تو آپؐکی ان پاکیزہ خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اس نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں یہ تحریک پیدا فرما دی کہ میں اپنا سب مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وقف کر دوں.چنانچہ شادی کے بعد انہوں نے اپنا سب مال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد فرما دیا اور آپؐکو اختیار دے دیا کہ آپؐاس روپیہ میں جس طرح چاہیں تصرف فرمائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بےشک خود غریب تھے مگر چونکہ غرباء کو دیکھ دیکھ کر آپؐکا دل دکھتا تھا اور آپ ان کی غربت کو دور کرنے کا اپنے پاس کوئی سامان نہ پاتے تھے اس لئے جب حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنا سارا مال آپؐکے قدموں پر نثار کر دیا تو آپؐکو اپنی خواہشات کے برلانے اور آرزوؤں کو پورا کرنے کا موقع میسر آگیا.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہزاروں روپیہ رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پتی خاتون تھیں.مستقل طور پر ان کی طرف سے متعدد قافلے تجارت کے لئے شام کی طرف آتے جاتے تھے اور یہ وسیع کاروبار وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنے پاس لاکھوں روپیہ رکھتا ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت خدیجہ ؓ کی اس عدیم المثال قربانی کے نتیجہ میں دولت کے ڈھیروں ڈھیر مل گئے تو آپ ؐ نے وہ تمام اموال قوم کے غرباء اور یتامیٰ و مساکین میں تقسیم کر کے اپنے دل کو ٹھنڈاکر لیا.دوسرے معنے اس آیت کے یہ بھی ہیں کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ آپؐکو خدا تعالیٰ کا وصال حاصل ہو.الٰہی قرب میں آپؐکو جگہ ملے اور اس کا الہام آپؐپر نازل ہو.اسی طرح عرب کی سرزمین میں خدا تعالیٰ کے کچھ اور بندے بھی اپنے رب کی محبت اور اس کے پیار کے لئے تڑپ رہے تھے.وہ بھی آرزو رکھتے تھے کہ ہمارا خدا ہم سے مل جائے.اس کا وصال ہمیںمیسر آئے.اس کی محبت کی گود میں ہم جا

Page 161

بیٹھیں.اور اس کی پیاری اور میٹھی آواز ہمارے کانوں میںآئے.مگر وہ بے بس تھے بے کس تھے.کوئی راستہ ان کو نظر نہیں آتا تھا.ایک تڑپ تو موجود تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ اس تڑپ کا کیا علاج ہے.یہ لوگ جو اپنی اپنی جگہوں میں خدا کی رضا کے لئے تلملا رہے تھے.ان میں سے کوئی ابوبکر تھا، کوئی عمر تھا، کوئی عثمان تھا، کوئی علی تھا، کوئی زید تھا، کوئی طلحہ تھا.کوئی زبیر تھا.یہ سب لوگ خدا کی محبت میںگھلے جا رہے تھے.ان کی آنکھیںگریاں اور ان کے دل بریاں تھے.اس لئے کہ ان کا محبوب ان سے ملے.فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے جب دیکھا کہ تیرے سوا اور لوگ بھی مکہ بلکہ ساری دنیا میںہیں جو اپنے دلوں میں ہماری محبت رکھتے اور ہماری جستجو کے لئے بےچین ہیں تو ہم نے ان کی تسلی کے لئے تجھے وہ روحانی غذا مہیا فرما دی جس کے بعد ان کی بےکلی جاتی رہی اور وہ پوری سرعت کے ساتھ ہماری طرف دوڑنا شروع ہو گئے.گویا اس آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرفطرت کی تسلی کی تعلیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی ہے اور اس طرح روحانی عیال کی خبرگیری کا سامان آپ کو پوری طرح دے دیا ہے.کوئی فطرت نہیں جس کی آپؐخبر گیری نہ کر سکتے ہوں اور کوئی فطرت نہیں جس کے مناسب حال تعلیم آپؐکی کتاب میں موجود نہ ہو.بے شک کفار اسلام کی اس جامع تعلیم کو تسلیم نہیں کر سکتے مگر انہیں اتنا تو دیکھنا چاہیے کہ جو لوگ ایمان لائے ہوئے ہیں ان کے دل کی کیا کیفیت ہے اور آیا ان کو سکون اور اطمینان نصیب ہے یانہیں.آخر وجہ کیا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیںوہ ایمان سے پہلے تو بے قرار تھے، بے چین اور مضطرب تھے.سمجھتے تھے کہ ہمیں منزل مقصود کا پتہ نہیں مگر جب ایمان لے آئے تو ان کے دلوں میں ٹھنڈک پڑگئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ ہم جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے تھے وہ مقصد ہمیں حاصل ہو گیا ہے.یہی بات اس زمانہ میںہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کے متعلق لوگوں کے سامنے بار بار پیش کرتے ہیں کہ بے شک تم مخالفت کرتے ہو مگر اس کا کیا جواب ہے کہ جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں ان کے دل مطمئن ہو چکے ہیں تسلی کی ایک لہر ہے جو اُن کے قلوب میںپائی جاتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے مل گیا ہے.کیا کسی کاذب انسان کے ساتھ تعلق رکھنے کے نتیجہ میں بھی یہ ثلجِ خاطر حاصل ہو سکتا ہے.یہ برکت تو اسی شخص کو مل سکتی ہے جس نے کسی سچے کا دامن پکڑا ہوا ہو.غرض اس آیت میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ صرف تجھے ہم نے پالا اور تیری پرورش کا سامان کیا بلکہ تیرے ذریعہ سے اور ہزاروں یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا بھی ہم نے انتظام کر دیا.جسمانی یتیم، جسمانی مسکین، جسمانی غریب اور جسمانی نادار روٹی کھا کر شہادت دے رہے ہیں.کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستباز

Page 162

انسان ہیں اور روحانی یتیم ابوبکر ؓ اور عمر ؓ اور عثمان ؓ اور علی ؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ تیری تعلیم سے مطمئن ہو کر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم بڑے بھوکے تھے اگر سیری حاصل ہوئی تو اسی خوان ہُدیٰ سے جواس پاک نفس انسان نے پیش کیا.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آئندہ بھی خدا ہمیشہ تیرے ساتھ ہو گا ہمیشہ تیری تائید کرے گا.ہمیشہ تجھے اپنی نصرت عطا کرے گا.جو خدا آج تک تیرے کام آتا رہا ہے جس نے ایک لمحہ کے لئے بھی تجھے کبھی نہیں چھوڑا.وہ آئندہ تجھے کس طرح چھوڑ سکتا ہے؟ اس آیت کے یہ بھی معنے ہیں کہ آپؐکے روحانی عیال جو ں جوںزیادہ ہوتے جائیں گے اللہ تعالیٰ ان کی خبرگیری کے سامان پیدا کرتا جائے گا.چنانچہ جس قدر معلم علم دین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے اور کسی نبی یا بزرگ کو نہیں ملے.اسی وجہ سے آپؐنے فرمایا اَصْـحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّـھِمُ اقْدَیْتُمُ اھْتَدَیْتُمْ.میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جائو گے.فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ۰۰۱۰ پس یتیم کو تُو دبا نہیں.حلّ لُغات.لَا تَقْھَرْ لَا تَقْھَرْ.قَھَرَ سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور قَھَرَہُ کے معنے ہیں غَلَبَہٗ.اس پر غالب آیا.نیز کہتے ہیں اَخَذْتُـھُمْ قَھْرًا.اور مراد یہ ہوتی ہے اَیْ مِنْ غَیْـرِ رِضَاھُمْ یعنی بغیر ان کی رضامندی کے ان کو کام پر لگا لیا.(اقرب) مفردات میںہے اَلْقَھْرُ : اَلْغَلَبَۃُ وَالتَّذْلِیْلُ مَعًا وَیُسْتَعْمَلُ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْـھُمَا یعنی قہر کے معنے ایسے غلبہ کے ہیں جس کے ساتھ مغلوب کی تذلیل بھی ہو.بعض اوقات قھر کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور ا س کے معنے صرف غلبہ کے ہوتے ہیں یا صرف تذلیل کے (مفردات) پس لَا تَقْھَرْ کے معنے ہوئے.تو مغلوب نہ کر (۲) ذلیل نہ کر.تفسیر.فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم نے تیرے ساتھ غیر معمولی طور پر ہمیشہ اچھا سلوک کیا ہے تو آئندہ یتیم کے متعلق ہماری تعلیم تمہیںیہ ہے کہ تم اس سے وہ معاملہ کیا کرو جو لَا تَقْھَرْ والا ہو.تمہیں جن اخلاق سے ہم نے نوازا ہے ان کو ہمیشہ بڑھاتے چلے جائو اور اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھو کہ تم یتیم تھے ہم نے

Page 163

تمہاری پرورش کے سامان پیدا کئے.اب اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں تم اُن سے کبھی ایسا سلوک مت کرو جو اُن کو ذلیل کرنے والا ہو.بلکہ ہمیشہ اُن کی فلاح اور بہبودی کا خیال رکھو.ان کا اکرام کرو.ان کو اُبھارنے اور ترقی دینے کی کوشش کرو اور اُن کی ضروریات کو پورا کرو.حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں سے فرمائے گا.اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا نہیںکھلایا.میںپیاسا تھا تم نے مجھے پانی نہیں پلایا میںبیما ر تھا تم نے میری بیمار پُرسی نہیں کی.وہ لوگ گھبرا جائیں گے اور کہیں گے.خدایا تُو یہ کیا کہہ رہا ہے تو کب بھوکا تھا کہ ہم نے تجھے کھانا نہیں کھلایا.کب پیاسا تھا کہ ہم نے تجھے پانی نہیں پلایا.کب مریض تھا کہ ہم نے تیری بیمار پُرسی نہیں کی.تُو تو خود سارے جہاں کو کھانا کھلاتا.اُن کو پانی پلاتا اور اُن کی ضروریات کو پورا کرتا ہے.ہم ناچیز بندے کیا طاقت رکھتے تھے کہ اے ہمارے رب تیری بیمار پُرسی کرسکتے یا تجھے کھانا کھلا سکتے یا تجھے پانی پلا سکتے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ درست ہے.مگر میری مراد یہ ہے کہ دنیا میں میرے بعض بندے بھوکے تھے تم نے اُنہیں کھانا نہیں کھلایا.بعض بندے پیاسے تھے تم نے اُنہیں پانی نہیں پلایا.بعض بندے ننگے تھے تم نے اُنہیں کپڑا نہیں دیا.جب تم نے اُن کی ضروریات کا خیال نہیں رکھا تو گویا تم نے ان کی طرف سے بے پرواہی نہیں کی بلکہ میری طرف سے بے پرواہی کی.وہ میرے بندے تھے جو مختلف قسم کی تکالیف میں مبتلا تھے اس لئے اُن کو کھلانا یا پلانا یا پہنانا ایسا ہی تھا جیسے تم مجھے کھلاتے یا مجھے پلاتے یا میری بیمار پُرسی کرتے.مگر تم نے اس فرض کو ادا نہیں کیا( صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ باب فضل عیادۃ المریض) انجیل میں یہ واقعہ اس طرح آتا ہے کہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن بعض بندوں کو بلائے گا اور فرمائے گا.اے میرے بندو! میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاساتھا تم نے مجھے پانی پلایا.میںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اُتار ا.ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.بیمار تھا تم نے میری خبر لی.قید میں تھا تم میرے پاس آئے آئو اب میں تمہیں اس کی جزادوں.تب لوگ کہیں گے اے خداوند ! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا.ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا.ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ تب اللہ تعالیٰ بندوں کے جواب میںفرمائے گا.کہ اے میرے بندو!جب تم نے اپنے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا.اس لئے اب میںتمہیں اس کی جزاء دیتا ہوں اور جنت میں داخل کرتا ہوں.(متی باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۴۰) فَاَمَّا الْيَتِيْمَ فَلَا تَقْهَرْ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو یتیم تھا ہم نے تجھے پالا.اب

Page 164

دنیا میںہمارے اور بھی بہت سے یتیم بندے ہیں اُن کی پرورش تیرے ذمہ ہے اور تیرا فرض ہے کہ تو اُن کی نگرانی رکھے اور ان کی تکالیف کا ازالہ کرے.وہ حدیث جواوپر بیان کی جا چکی ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتامیٰ و مساکین کی پرورش کا معاملہ خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ اس پرورش یا عدم پرورش کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے.جوشخص یتیم سے حسن سلوک کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرتا ہے اور جو شخص یتیم سے بے اعتنائی کرتا یا اس سے ظالمانہ سلوک کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر بھڑکاتا ہے.لَا تَقْھَرْ کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ یتیم کی پرورش اس رنگ میں نہیں کرنی چاہیے کہ وہ خراب ہو جائے.یعنی نہ ایسی سختی کرو کہ جس کے نتیجہ میں اس کے قویٰ دب جائیں اور وہ ترقی سے محروم ہو جائے اور نہ ایسی نرمی کرو کہ جس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ اپنے اوقات اور اپنے قویٰ کو برباد کر دے.قَھْرٌ کے معنے دراصل غلبہ کے ہوتے ہیں.پس لَا تَقْھَرْ کے معنے یہ ہوئے کہ اُس سے ایسا معاملہ نہ کرو جس کے نتیجہ میں تم اُس کے قوائے دماغیہ اور جسمانیہ پر غالب آجائو اور اس کی ترقی کو نقصان پہنچادو.انسانی ترقی کو دو ہی طرح نقصان پہنچتا ہے یا بے جا سختی سے یا بے جا نرمی اور محبت سے.پس لَا تَقْھَرْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بے جا سختی سے بھی روک دیا اور بے جا نرمی سے بھی منع فرما دیا اور نصیحت کی کہ یتیم سے تم ایسا ہی معاملہ کرو جو اس کی اچھی تربیت کے لئے ضروری ہو.وَ اَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْؕ۰۰۱۱وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْؒ۰۰۱۲ اور سوالی کو تو جھڑک مت.اور تو اپنے رب کی نعمت کا ضرور اظہار کرتا رہ.حلّ لُغات.لَا تَنْھَرْ لَا تَنْھَرْ : نَـھَرَ سے نہی مخاطب کا صیغہ ہے اور نَـھَرَ السَّائِلَ کے معنے ہیں زَجَرَہٗ سائل کو ڈانٹ ڈپٹ کی (اقرب) پس لَا تَنْھَرْ کے معنے ہوں گے.مت ڈانٹ.تفسیر.فرماتا ہے سائل کو تم جھڑکو نہیں کیونکہ تم بھی سائل تھے محبت کی بھیک ہم سے مانگنے کے لئے آئے تھے.ہم نے تمہارے سوال کو رد نہ کیا بلکہ تمہارے دامن کو گوہر مقصود سے بھر کر لوٹایا.اب تم سے اور لوگ محبت کی بھیک مانگنے آئیں گے تمہارا فرض ہے کہ تم ان سائلوں کی طرف ہمہ تن متوجہ رہو اور ان کی خواہشات کو پورا کرو.اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ تحدیث نعمت دو طرح ہوتی ہے ایک اس طرح کہ انسان علیحدگی میں اللہ تعالیٰ

Page 165

کے احسانات کا شکر ادا کرے اور اس کے پیہم فضلوں کو دیکھ کر سجدات شکر بجا لائے اور زبان کو اس کی حمد سے تر رکھے.دوسرا طریق تحدیث نعمت کا یہ ہوتاہے کہ لوگوں میںاللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کتنا بڑا فضل کیا.فرماتا ہے ہم نے جونعمتیں تجھے عطا کی ہیں اُن کا خود بھی شکر ادا کرو اور اپنے رب کی ان نعمتوں کا لوگوں میں بھی خوب چرچا کرو.یا خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھائو اور اپنے جسم پر اُن کے آثار کو ظاہر کرو اور کچھ حصہ صدقہ و خیرات کے طور پر لوگوں میںبھی تقسیم کرو.اس سورۃ کے آخر میں جو تین باتیں بیان کی گئیں ہیں.یہ پہلی بیان کر دہ تین باتوں کے مقابل میں ہیں.پہلے فرمایا تھا.(۱) اَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيْمًا فَاٰوٰى (۲) وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (۳) وَ وَجَدَكَ عَآىِٕلًا فَاَغْنٰى.تم یتیم تھے ہم نے تمہیں پناہ دی.تم ہماری محبت اور اپنی قوم کی نجات کے طالب تھے ہم نے تمہیںاپنی محبت بھی عطا کر دی اور قوم کی نجات کا سامان بھی عطا کر دیا.اسی طرح تم روحانی اور جسمانی یتامیٰ سے گھرے ہوئے تھے ہم نے دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا سامان تجھے دے دیا.اب تیرا بھی فرض ہے کہ تو یتامیٰ سے ایسا سلوک نہ کر جو ان کی طاقتوں کو توڑ نے والا ہو.تو ہماری محبت کے سائلوں کو جو تیرے دروازہ پر آئیں کبھی مایوس مت لوٹا بلکہ جس طرح ہم نے تیری مرادیں پوری کی ہیں تو ان کی مرادوں کو پورا کر.اور پھر یہ بھی دیکھ کہ ہم نے تجھے عائل بنایا تھا پھر تجھے غنی کر دیا.اب تمہارا کام یہ ہونا چاہیے کہ ہم نے تجھ پر جو احسانات کئے ہیں ان کا تو شکر ادا کر.ہماری نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھا اور لوگوں میں بھی ان نعماء کو تقسیم کر.یہ اسلامی تعلیم نہیں ہے کہ انسان کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اسے رد کر دے اور اس سے فائدہ نہ اٹھائے.بد قسمتی سے مسلمانوں کے ایک طبقہ میں روحانیت کا مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجہ میںیہ خیال پیدا ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعماء کا استعمال روحانیت کے خلاف ہے.اچھا کھانا کھانا یا اچھا کپڑ اپہننا یا اعلیٰ درجہ کی اشیاء سے فائدہ اٹھانا روحانی لوگوں کا کام نہیں ہو سکتا.مگر یہ لوگوں کی خودساختہ روحانیت ہے اسلام اور عرفان سے اس کا کوئی تعلق نہیں.الٰہی حکم یہی ہے کہ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ.انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی نعمت ملے وہ اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے.کاہنوں کی طرح ان نعمتوں کو رد نہ کردے.اس آیت کے روحانی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے جو تعلیم تجھے عطا کی ہے اس پر خود بھی عمل کرو اور دوسروں سے بھی عمل کرائو اور جسمانی لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے جو نعمتیں تجھے دی ہیں ان سے خود بھی فائدہ اٹھائو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائو.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر

Page 166

اللہ تعالیٰ نے جو فضل نازل کئے تھے ان کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ سے مطالبہ کیا ہے کہ جیسے تم یتیم تھے اور ہم نے تمہاری خبر گیری کی اسی طرح تم ہمارے یتیموں کی خبر گیری کر و.جیسے تم سائل تھے اور ہم سے محبت کی بھیک لینے آئے اور ہم نے تمہاری آرزو کو پورا کر دیا اسی طرح اب ہمارے سائل جو تیرے پاس آئیں تیرا فرض ہے کہ تُو ان کی آرزوئوں کو پور اکرے.پھر جس طرح ہم نے تجھے عائل پا کر غنی کر دیا تھا اسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جن کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ خدا نے ان کی ہدایت کے لئے آسمان سے کتنابڑا نور نازل کر دیا ہے وہ جہالت کی تاریکیوں میں اپنی عمر بسر کر رہے ہیں اورآسمانی نور کی شعائیں ان تک نہیں پہنچیں.ان کے دل بھی اس شوق میں تڑپ رہے ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کی محبت حاصل ہو.اس کا پیار ان کی غذا ہو اور اس کا عشق ان کے رگ و ریشہ میں ہو.مگر وہ نہیں جانتے کہ وہ شمع کہاں ہے جس کے گرد وہ پروانہ وار اپنی جانوں کو قربان کر دیں.ہم نے تجھے آسمانی دولت سے مالا مال کر کے اس لئے بھیجا ہے کہ تو دنیا کے سب لوگوں تک خدائے قدوس کی آواز پہنچا دے.سو ڈھنڈورا دو اور خوب دو.تبلیغ کرو اور خوب کرو.خدا کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچائو اور خوب پہنچائو.سوتی دنیا کو جگائو اور خوب جگائو اور جو خزانے خد انے تمہیں عطا کئے ہیں انہیں بلا دریغ لوگوں میں تقسیم کردو کہ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے تمہیں دنیا میںکھڑ اکیا گیا ہے.یہ تینوں آیتوں کا تقابل بھی بتاتا ہے کہ وَجَدَكَ ضَآلًّا میں گمراہی مراد نہیں.کیونکہ یتیم کے مقابل پر یتیم کا ذکر کیا ہے نعمت کے مقابل پر تحدیث بالنعمت کا ذکر کیا گیا ہے.اس لئے لازماً ضَآلًّا کے مقابل پر جوآیت ہے اس میں پہلی آیت کے متعلق ہی اشارہ چاہیے اور اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کسی سوالی کو رد نہ کر پس ضَآلًّا کے معنے بھی سوال کے کرنے کے ہوں گے اور یہی معنے کئے گئے ہیں.یعنی تو خدا تعالیٰ کی محبت کا سوالی تھا سو ہم نے تیری اس غرض کو پورا کیا اور ہدایت بخشی.

Page 167

سُوْرَۃُ الْاِنْشِـرَاحِ مَکِّیَّۃٌ سورۂ انشراح.یہ سورۃ مکی ہے.وَھِیَ ثَـمَانِیَ اٰیٰتٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْـھَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اور اس کی بسم اللہ کے سوا آٹھ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.یہ سورۃ مکی ہے بلا خلاف (فتح البیان زیر سورۃ الانشراح).وہیری کے نزدیک اس کے نزول کا وقت مضمون کی مشارکت کی وجہ سے پہلی سورۃ کے زمانہ کا ہی معلوم ہوتا ہے(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry Surat Al Inshirah vol,4 Page:255).یعنی پہلے یا دوسرے سال کی معلوم ہوتی ہے.مغربی مصنفین کا اس امر کو تسلیم کرنا اسلام کی ایک بہت بڑی فتح ہے کیونکہ اس سورۃ میں ایسی زبردست پیشگوئیاں ہیں کہ انہیں تسلیم کرلینے کے بعد اسلام کی صداقت میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا ورنہ اس سورۃ کو مدنی کہہ کر ان پیشگوئیوں پر پردہ ڈالا جاسکتا تھا.میرے نزدیک یہ سورۃ تیسرے سال یا اس کے قریب کی ہے.اس کی ترتیب کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا تعلق پہلی سورۃ سے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کے اچھا ہونے کا ذکر تھا جیسا کہ فرمایاتھا وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى.یہ آیت اُس سورۃ کے مضمون کا گویا خلاصہ تھی کیونکہ اس میں پہلے دلائل کا ایک نتیجہ نکال کر لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا.اب سورۃ الانشراح میںاس دعویٰ کے متعلق کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انجام اچھا ہوگا مزید روشنی ڈالی گئی ہے اور پچھلی سورۃ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ انجام کے اچھا ہونے کی کچھ علامتیں ہوتی ہیں اگر وہ علامتیں کسی شخص میں موجود ہوں تو وقت سے پہلے لوگ قیاس کرسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مدد اس شخص کو حاصل ہے یعنی انجام تو جب ہوگا سو ہوگا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اچھے انجام کو بعض علامتوں کے ساتھ پہچانا بھی جاسکتا ہے.چنانچہ چار اہم علامتیں اللہ تعالیٰ اس جگہ بیان کرتا ہے.اوّل یہ کہ انسان کو خو داپنے دعووں پر شرح صدر ہو.دوم جس مقصد کو لے کر وہ کھڑا ہو اُس کو پورا کرنے کے ذرائع اس کو میسر آجائیں اور تیسرے یہ کہ لوگوں کی توجہ اس کی طرف پھر جائے.چوتھے یہ کہ یہ سامان الٰہی تقدیر

Page 168

کے ماتحت پیدا ہوں.جب یہ چار چیزیں کسی شخص کو حاصل ہوجائیں تو ابتداء ہی سے یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ وہ شخص غالب آجائے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاروں باتیں تجھے حاصل ہیں اس صور ت میں تیرے مخالفین کو سمجھ لینا چاہیے کہ تیرے انجام کی بہتری کے متعلق کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا.بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے(شروع کرتا ہوں).اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ۰۰۲ کیا ہم نے تیرے لئے تیرے سینے کو کھول نہیں دیا.حلّ لُغات.الشّـرَح نَشْرَحْ : شَـرَحَ سے مضارع جمع متکلم کا صیغہ ہے اور لَمْ نفی کے لئے آیا ہے.اور شَـرَحَ (یَشْـرَحُ شَـرْحًا) اللَّحْمَ کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَہٗ طِوَالًا.گوشت کو لمبی طرز پر کاٹا یا اس میںشگاف دیا اور شَـرَحَ الْـغَامِضَ کے معنے ہوتے ہیں کَشَفَہٗ کسی پیچیدہ بات کو واضح کردیا یعنی معمّہ کو حل کردیا.فَسَّـرَہٗ وَبَیَّنَہٗ اس کی تفسیر کی اور اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا اور شَـرَحَ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں فَتَحَہٗ اس کو کھول دیا.اسی طرح وَسَّعَہٗ اسے پھیلادیا اور شَـرَحَ الْکَلَامَ کے معنے ہوتے ہیں فَھَّمَہٗ اس کو سمجھادیا اور شَـرَحَ صَدْرَہٗ بِالشَّیْءِ وَ لِلشَّیْءِ کے معنے ہوتے ہیں سَـرَّہٗ بِہٖ وَ طَیَّبَ بِہٖ نَفْسَہٗ اسے اس کے ذریعہ سے خوش کردیا (اقرب).مفردات راغب میں لکھا ہے اَصْلُ الشَّـرْحِ بَسْطُ اللَّحْمِ وَ نَـحْوِہٖ یعنی شَـرْحٌ کے اصل معنے تو گوشت یا ایسی ہی کسی چیز کو چیر کر کھول دینے کے ہوتے ہیں وَ مِنْہُ شَـرْحُ الصَّدْرِ اور اسی سے شرح الصدر کا محاورہ نکلا ہے.جس کے معنے بَسْطَہٗ بِنُوْرٍ اِلٰھِیٍّ وَ سَکِیْنَۃٍ مِّنْ جِھَۃِ اللہِ وَ رَوْحٌ مِّنْہُ (مفردات) کے ہیں یعنی الٰہی نور اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے و الی تسکین اور اطمینا ن اور اس کی طرف سے آنے والے کلام یا ملائکہ کے ذریعہ سے سینہ کو کھول دینا.ظاہر ہے کہ یہ معنے تفسیری ہیں ورنہ شرح صدر کا فعل صرف خدا تعالیٰ کےلئے نہیں بولاجاتا بلکہ عربی محاورہ کے مطابق بعض دفعہ اپنے ہم کلام کی بات سُن کرآدمی کہتا ہے کہ اب میرا شرح صدر ہوگیا اور اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ یہ بات میری سمجھ میں اچھی طرح آگئی ہے.ہاں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کے حق

Page 169

میں شَـرَحَ صَدْرَہٗ کے الفاظ استعمال ہوں گے تو اس وقت بوجہ محل استعمال کے نہ کہ وضع لغت کے وہ معنے ہوں گے جوکہ علامہ راغب نے اس جگہ کئے ہیں.تاج العروس عربی لغت کی سب سے بڑی کتاب میں لکھا ہے شَـرَحَ کَمَنَعَ: کَشَفَ، شَـرَحَ مَنَعَ کے وزن پر ہے اور اس کے معنے ہیں کھول دیا.کہتے ہیں شَـرَحَ فُلَانٌ اَمْرَہٗ: اَوْضَـحَہٗ.فلاں شخص نے اپنا معاملہ خوب کھول کر رکھ دیا.شَـرَحَ مَسْأَلَۃً مُّشْکِلَۃًـ: بَیَّنَـھَا اور جب کہیں کہ اس نے ایک مشکل مسئلہ کی شرح کی تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اسے کھول کر بیان کردیا اور حل کردیا پھر لکھا ہے وَ ھُوَ مَـجَازٌ.یہ استعمال اس کا مجازاً ہے اس کے آگے اس لفظ کے اصل معنے جو وضع لغت کے مطابق ہیں یہ لکھے ہیں شَـرَحَ: قَطَعَ اللَّحْمَ عَنِ الْعُضْوِ قَطْعًا یعنی شَـرَحَ کے معنے ہیں گوشت کو عضو سے کاٹ کر الگ کردیا.وَقِـــیْـــلَ قَـــطَـــعَ الــلَّحْمَ عَلَی الْعَظْمِ قَطْعًا.ہڈی پر چھری مار مار کر گوشت کو الگ کردیا یعنی جس طرح پسندے بناتے ہیں کہ گوشت ہڈی سے چمٹا ہی رہتا ہے مگر پھول کی پنکھڑیوں کی طرح یا مخمل کے پھندوں کی طرح اوپر سے اس کے ٹکڑے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں.گویا اس لفظ کے یہ بھی معنے ہیں کہ کاٹ کر الگ کردیا اور یہ بھی کہ ایک جہت سے گوشت آپس میں الگ ہوجائے اور ایک جہت سے ہڈی سے چمٹا رہے.پھر لکھا ہے شَـرَحَ الشَّیْءَ کے ایک معنے فَتَحَ کے بھی ہیں اور اس کے معنے ہیں بیان کیا، کھولا (درحقیقت یہ معنے اوپر کے دو معنوں میں سے آخری معنوں میں سے مجازاً نکالے گئے ہیں یعنی ایک مجوف چیز کو ایک طرف سے کھول کر اس کے اندر جھانکنے یا اس کے اندر کوئی چیز ڈالنے کے لئے راستہ بنادیا) پھر لکھا ہے (امام لغت) ابن الا عرابی کے نزدیک شَـرَحَ کے معنے بیان اور فہم اور فتح اور حفظ کے ہیں.یعنی واضح کرنا، سمجھانا، کھولنا اور محفوظ کرنا.پھر لکھا ہے شَـرَحَ کے معنے ازالہ بکارت کے بھی ہوتے ہیں.پھر لکھا ہے مجازی طور پر شَـرَحَ الشَّیْءَ کے معنے وَسَّعَہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اسے پھیلادیا اور وسیع کردیا اور شرح صدر اسی قبیل سے ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ قبول حق یا قبول خیر کے لئے سینہ کو وسیع کردیا (یعنی دل میں حق کے قبول کرنے کے لئے انشراح پیدا ہوگیا اور حق کی طرف اسے رغبت ہوگئی.جہاں سے بھی حق ملے اور جس قدر بھی ملے وہ اسے قبول کرنے کو تیار ہوتا ہے).اسی طرح کہتے ہیں شَـرَحَ اِلَی الدُّنْیَا وہ دنیا کی طرف مائل ہوا.(تاج العروس) صَدْرٌ اور صَدْرٌ کے معنے ہوتے ہیں اَعْلٰی مُقَدَّمُ کُلِّ شَیْءٍ یعنی ہر چیز کے اگلے حصہ کی جو چوٹی ہو اسے صدر کہتے ہیں اور یوں حیوان یا انسان کے متعلق جب یہ لفظ بولا جائے توا س کے معنے ہوتے ہیں مَادُوْنَ الْعُنُقِ اِلٰی فَضَآءِ الْـجَوْفِ.یعنی گردن سے لے کر پیٹ کے خلاء تک جسم کا جو حصہ ہوتا ہے اس کو صدر کہتے ہیں یعنی سینہ.

Page 170

اسی طرح ہر چیز کے ابتدائی حصہ کو بھی صدر کہتے ہیں.چنانچہ جب صَدْرُالنَّـھَارِ یا صَدْرُ الشِّتَآءِ یا صَدْرُ الصَّیْفِ کہتے ہیں تو اس کے معنے دن کے ابتدائی حصہ یا سردی یا گرمی کے ابتدائی ایام کے ہوتے ہیں (اقرب) گویا ایک لحاظ سے یہ لفظ اضداد میں سے ہے.ہر چیز کی چوٹی کو بھی صدر کہتے ہیں اور ہر چیز کے ابتدائی حصہ کو بھی صدر کہتے ہیں جو بالعموم حقیقت کے لحاظ سے ادنیٰ ہوتا ہے جیسے صبح دوپہر سے کم روشن ہوتی ہے.موسموں کے لحاظ سے جب سردی یا گرمی کا موسم شروع ہو یا بہار یا خزاں کے ایام آئیں تو وقت کے لحاظ سے موسم کا جو ابتدائی حصہ ہوتاہے اسے بھی صدر کہتے ہیں.لیکن محاورہ میں صدر اس کو کہتے ہیں جو قوم کے نزدیک عزت کے قابل ہو یا اعلیٰ رتبے پر رکھے جانے کامستحق ہو.ہماری زبان میں بھی یہ لفظ اعزاز کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.کہتے ہیں فلاں کوصدر مقام پر بٹھایا گیا.یا فلاں کو صدر مجلس تجویز کیا گیا.مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُسے عزت کے مقام پر کھڑا کیا گیا ہے یا لیڈری کا مقام اس کے لئے تجویز کیا گیا ہے.اسی طرح صدر سردار قوم کو بھی کہتے ہیں (اقرب) اور صدر دل کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ سینہ میں ہوتا ہے او رصدر کسی چیز کے حصہ کو بھی کہتے ہیں.عرب کا محاورہ ہے اَخَذْتُ صَدْرًا مِّنْہُ.میں نے اس میں سے ایک حصہ لے لیا (اقرب) انشراح صدر کا محاورہ اطمینان کو ظاہر کرنے کے لیے جہاں تک انشراح صدر کا تعلق سینہ سے ہے قطع نظر اس سے کہ یہ صحیح ہے یا غلط ہر ملک اور ہرقوم میں یہ دستور پایاجاتا ہے کہ ان میں سے جب کسی شخص کو اطمینان حاصل ہوجاتا ہے یا کسی حقیقت پر اس کا دل تسلی پاجاتا ہے تو ایسے موقع پر ہمیشہ اظہار اطمینان کے لئے وہ شرح صدر کا لفظ استعمال کرتاہے.اردو میں بھی کہتے ہیںکہ فلاں بات کے لئے میرا سینہ کھل گیا.یہ بات الگ ہے کہ کوئی ڈاکٹر کہہ دے کہ سینہ کا کسی بات کے سمجھنے سے کیا تعلق ہے سینہ تو ہڈیوں کے ایک ڈھانچے کا نام ہے جس میں دل ہے، پھیپھڑا ہے، معدہ ہے، جگر ہے، گلے کی نالی ہے اور یہ وہ چیزیں ہیں جن کا کسی بات کے سمجھنے سے کوئی تعلق نہیں.بےشک طبی طور پر اسی کا نام صدر ہوگا مگر زبان کے لحاظ سے سینہ کھل جانے کے معنے ہوتے ہیں کسی بات پر اطمینان ہوگیا اور سینہ تنگ ہوجانے کے معنے ہوتے ہیں کسی بات پر اطمینان پیدا نہ ہوا یا غم کے سامان پید اہوگئے.یہ سوال کہ ایسا کیوں کہا جاتا ہے اس کی ذمہ داری زبان بنانے و الوں پر ہے مذہب پر نہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ اپنی حماقت کی وجہ سے زبان کی بحث مذہب میں بھی شروع کردیتے ہیں اور اس طرح خود بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں.مثلاً ہماری زبان میں عام طور پر یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے کہ میرے دل میں فلاں بات آئی.اس جگہ کوئی عقلمند انسان یہ سوال پیدا نہ کرے گا کہ بات دل میں آتی ہے یا دماغ

Page 171

میں.کیونکہ لغت نے اس فقرہ کے مفہوم کے ادا کرنے کے لئے یہی الفاظ وضع کئے ہیں اس لئے ہم ان کے استعمال پر مجبور ہیں.لُغت یہی کہتی ہے کہ جب کوئی شخص کہے کہ میرے دل میں فلاں بات آئی توا س کے یہ معنے ہوتے ہیں اُسے ایک نیا خیال سوجھا اورجب بھی کسی شخص کو کوئی نئی بات سوجھتی ہے تو وہ یہی فقرہ استعمال کرتا ہے خواہ وہ جاہل ہو یا فلاسفی کا پروفیسر یا علم تشریح الابدان کا ماہر.انشراح صدر کے متعلق ایک اعتراض اور اُس کا جواب رہا یہ سوال کہ وہ بات دل میں آتی ہے یا سرمیں آتی ہے یا پائوں میں آتی ہے زبان کے لحاظ سے ہمیں اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا.مگر بعض لوگ غلطی سے اس قسم کی بحث شروع کردیتے ہیں کہ تم کہتے ہو دل میں بات آئی.دل میں بات کس طرح آسکتی ہے یا تم کہتے ہو سینہ کُھل گیا سینہ کس طرح کُھل سکتا ہے.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا ہے.یہ تو سوال کیا جاسکتا ہے کہ جو معنے کئے جاتے ہیں وہ عربی لغت کے لحاظ سے چسپاں ہوتے ہیں یا نہیں مگر یہ سوال نہیں کیا جاسکتا کہ جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اُن کا استعمال علم ڈاکٹری کے لحاظ سے درست ہے یانہیں کیونکہ اس کی ذمہ واری قرآن مجید پر نہیں بلکہ زبان بنانے والوں پر ہے.اگر زبان میں کوئی فقرہ کسی خاص مفہوم کو اد ا کرنے کے لئے ایجاد کرلیا گیا ہے تو ہم پابندہیں کہ وہی فقرہ بولیں خواہ حقیقت سے وہ تعلق رکھتا ہو یانہ.عام یوروپین ہی نہیں ایک اناٹومی کا پروفیسر اور ایک سائکالوجی کا پروفیسر بھی جب کسی تکلیف دہ امر کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے کہ IT ACHES MY HEART یہ بات میرے دل کو تکلیف دیتی ہے حالانکہ احساس تکلیف دماغ کے حصۂ امتیاز میں ہوتا ہے نہ کہ دل کے گوشت میں.اسی طرح جب وہ کسی تکلیف کااظہار کرتاہے تو کہتا ہے کہ MY HEART SANK میرا دل ڈوبنے لگا.کیا اس پروفیسر کو یہ معلوم نہیںہوتا کہ دل دریا یا سمندر میں نہیں پڑا ہواکہ ڈوبنے لگا ہے.وہ خوب جانتا ہے کہ سینہ میں کوئی کنواں کُھدا ہوا نہیں کوئی ندی نالہ جاری نہیں.کوئی سمندر پھیلا ہوا نہیں.مگر وہ ایسا کہنے پر مجبور ہے کیونکہ اُس کے بزرگوں نے اس خیال کو ادا کرنے کے لئے جو اُس نے بیان کرنا چاہا ہے یہی الفاظ مقرر کر چھوڑے ہیں.بلکہ وہ تو یہاں تک کہہ گزرتا ہے MY HEART SANK IN MY BOOTS میرا دل ڈوب کر جوتیوں تک چلا گیا.اسی طرح ہر اناٹومی اور سائکالوجی کا پروفیسر جب یہ کہنا چاہتا ہے کہ میںنے یہ بات محسوس کی.تو وہ کہتا ہے I FELT IN MY HEART.میں نے اپنے دل میں فلاں امر محسوس کیا.حالانکہ طبی طور پر اور علم النفس کے مطابق وہ اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ محبت کا دل سے تعلق نہیں بلکہ دماغ سے تعلق ہوتا ہے.مگر جب بھی الفاظ استعمال کرے گا یہی کرے گا کہ میں نے اپنے دل میں محبت یا فلاں بات

Page 172

محسوس کی.اسی طرح ان علوم کے پروفیسر بھی اپنی منگیتروں یا بیویوں کو جب وہ جدا ہوں یہی لکھیں گے کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEART تم ہر وقت میرے دل میں رہتی ہو یہ کبھی نہیں لکھے گا کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEAD.بلکہ اگر وہ لکھ دے تو شاید منگنی ہی ٹوٹ جائے اور منگیتر اسے پاگل سمجھنے لگ جائے.پس جب ہر شخص روزانہ اپنی زبان میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں ہوتا اورنہیں ہوسکتا تو یہ کیا حماقت کی بات ہے کہ مذہبی کتب پر زبانوں کے محاوروں کی وضع کی وجہ سے لوگ اعتراض شروع کردیتے ہیں.جنہوںنے وہ محاورے بنائے ہیں جاکر ان سے سوال کریں.مذہبی کتاب تومجبور ہے کہ ان محاوروں کی اتباع کرے ورنہ اُس کے مخاطبین اُس کی بات ہی نہ سمجھیں گے اور وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے گی.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ مثلاً ایک عرب قلب کا لفظ اُن معنوں میں استعمال کرتاہے یا نہیں جن معنوں میں تشریح الابدان کے ماہرین دماغ کالفظ استعمال کرتے ہیں.اگر کرتا ہے تو محض قلب کے لفظ کے استعمال پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کو دماغ کا لفظ بولنا چاہیے تھا قلب کا لفظ اس نے کیوں بولا.یا مثلاً یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ سینہ کا کھل جانا یا اُس کا تنگ ہوجانا عربی زبان میں محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا نہیں.اگر ہوتا ہے تو قرآن کریم کے لئے صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری تھا کہ وہ ان محاورات کو استعمال کرتا کیونکہ اگر وہ ان محاورات کو استعمال نہ کرتا تو لوگ سمجھتے کیا خاک؟ آج علمی زمانہ ہے.سائنس کی ترقی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے.ماہرین تشریح الابدان بال کی کھال اتارچکے ہیں.مگر آج بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ میرے دل میں تمہاری محبت ہے.اگر کوئی شاعر ان الفاظ کی بجائے یہ کہہ دے کہ میرے دماغ میں تمہاری محبت ہے تو سب لوگ قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے.حالانکہ واقعہ یہی ہوتا ہے.مگر چونکہ زبان نے اس غرض کے لئے دل کا لفظ وضع کیا ہوا ہے اس لئے جب وہ محاورۂ زبان کے خلاف دماغ کا لفظ استعمال کرے گا سب لو گ ہنس پڑیں گے کہ بڑا احمق انسان ہے حالانکہ طبی طور پر وہ درست کہہ رہا ہوگا.پس ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ تشریح الابدان کے ماہرین کیا کہتے ہیں.ہم زبان کو دیکھیں گے کہ اُس میں کیا الفاظ رائج ہیں.جو کچھ زبان میں الفاظ رائج ہوں گے انہی کا استعمال فصاحت ہوگا.اگر اس کے خلاف کوئی اور الفاظ استعمال کئے جائیں گے تو وہ معیار فصاحت سے بالکل گر جائیں گے.تفسیر.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ میں گو الفاظ استفہامی یعنی سوالیہ استعمال کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو نہیں کھولا؟ مگر مفہوم یہ ہے کہ تو جانتا ہے ہم نے تیرے سینہ کو کھول دیا ہے ایسے

Page 173

محسوس کی.اسی طرح ان علوم کے پروفیسر بھی اپنی منگیتروں یا بیویوں کو جب وہ جدا ہوں یہی لکھیں گے کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEART تم ہر وقت میرے دل میں رہتی ہو یہ کبھی نہیں لکھے گا کہ YOU ALWAYS LIVE IN MY HEAD.بلکہ اگر وہ لکھ دے تو شاید منگنی ہی ٹوٹ جائے اور منگیتر اسے پاگل سمجھنے لگ جائے.پس جب ہر شخص روزانہ اپنی زبان میں اس قسم کے الفاظ استعمال کرتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں ہوتا اورنہیں ہوسکتا تو یہ کیا حماقت کی بات ہے کہ مذہبی کتب پر زبانوں کے محاوروں کی وضع کی وجہ سے لوگ اعتراض شروع کردیتے ہیں.جنہوںنے وہ محاورے بنائے ہیں جاکر ان سے سوال کریں.مذہبی کتاب تومجبور ہے کہ ان محاوروں کی اتباع کرے ورنہ اُس کے مخاطبین اُس کی بات ہی نہ سمجھیں گے اور وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے گی.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ مثلاً ایک عرب قلب کا لفظ اُن معنوں میں استعمال کرتاہے یا نہیں جن معنوں میں تشریح الابدان کے ماہرین دماغ کالفظ استعمال کرتے ہیں.اگر کرتا ہے تو محض قلب کے لفظ کے استعمال پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ قرآن کریم کو دماغ کا لفظ بولنا چاہیے تھا قلب کا لفظ اس نے کیوں بولا.یا مثلاً یہ تو سوال ہوسکتا ہے کہ سینہ کا کھل جانا یا اُس کا تنگ ہوجانا عربی زبان میں محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے یا نہیں.اگر ہوتا ہے تو قرآن کریم کے لئے صرف جائز ہی نہیں بلکہ ضروری تھا کہ وہ ان محاورات کو استعمال کرتا کیونکہ اگر وہ ان محاورات کو استعمال نہ کرتا تو لوگ سمجھتے کیا خاک؟ آج علمی زمانہ ہے.سائنس کی ترقی اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہے.ماہرین تشریح الابدان بال کی کھال اتارچکے ہیں.مگر آج بھی لوگ یہی کہتے ہیں کہ میرے دل میں تمہاری محبت ہے.اگر کوئی شاعر ان الفاظ کی بجائے یہ کہہ دے کہ میرے دماغ میں تمہاری محبت ہے تو سب لوگ قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں گے کہ پاگل ہوگیا ہے.حالانکہ واقعہ یہی ہوتا ہے.مگر چونکہ زبان نے اس غرض کے لئے دل کا لفظ وضع کیا ہوا ہے اس لئے جب وہ محاورۂ زبان کے خلاف دماغ کا لفظ استعمال کرے گا سب لو گ ہنس پڑیں گے کہ بڑا احمق انسان ہے حالانکہ طبی طور پر وہ درست کہہ رہا ہوگا.پس ہمیں اس سے کوئی تعلق نہیں کہ تشریح الابدان کے ماہرین کیا کہتے ہیں.ہم زبان کو دیکھیں گے کہ اُس میں کیا الفاظ رائج ہیں.جو کچھ زبان میں الفاظ رائج ہوں گے انہی کا استعمال فصاحت ہوگا.اگر اس کے خلاف کوئی اور الفاظ استعمال کئے جائیں گے تو وہ معیار فصاحت سے بالکل گر جائیں گے.تفسیر.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ میں گو الفاظ استفہامی یعنی سوالیہ استعمال کئے گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو نہیں کھولا؟ مگر مفہوم یہ ہے کہ تو جانتا ہے ہم نے تیرے سینہ کو کھول دیا ہے ایسے

Page 174

سوال کو عربی لغت والے انکار ابطالی کہتے ہیں.ایک عرب کا قول ہے کہ اَلَسْتُمْ خَیْـرَ مَنْ رَکِبَ الْمَطَایَا (اقرب) کیا تم سواریوں پر چڑھنے والوں میں سے سب سے اچھے نہیں ہو؟ یعنی اچھے ہو.درحقیقت یہ وہی حسابی اصول ہے کہ دو منفیاں ایک مثبت بنادیتی ہیں.جب استفہام انکاری کے بعد نفی کا لفظ آجائے تو وہ مثبت کے معنے دینے لگ جائے گا کیونکہ منفی کی نفی مثبت کا مفہوم دیتی ہے.مثلاً اگر طنزاً کہیں کیا تو عالم ہے؟ تو اس کے معنے ہوں گے کہ تو عالم نہیں ہے لیکن اگر یوں کہیں کیا تو عالم نہیں ہے؟ تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ تو عالم ہے مگر باوجود عالم ہونے کے فلاں حرکت کرتاہے یا یہ کہ تو عالم ہے باوجود اس کے جاہل لوگ تجھ پر یہ اعتراض کرتے ہیں.اسی طرح اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کے یہ معنے نہیں کہ تجھ سے ہم سوال کرتے ہیں کہ کیا تیراسینہ کھولا گیا ہے یا نہیں؟ بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تو بھی جانتا ہے کہ تیرا سینہ ہم نے کھول دیا ہے اور تیرے دشمن بھی جانتے ہیں کہ تیرا سینہ ہم نے کھول دیا ہے.اس جگہ یہ سوال ہوسکتا ہے کہ کیوں نہ سیدھے سادھے الفاظ میں یہ کہہ دیا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ کہا جاتا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے تو اس سے صرف ایک خبر کا مفہوم نکلتا یعنی اللہ تعالیٰ اطلاع دیتا ہے کہ ہم نے سینہ کو کھول دیا لیکن یہ مفہوم نہ نکلتا کہ اس شرح صدر کا کوئی ظاہر نتیجہ بھی نکلا ہے یا نہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس شرح صدر کا کوئی احساس ہوا ہے یا نہیں اور کفا رنے بھی اس کا کوئی ثبوت دیکھا ہے یا نہیں اور یہ مضمون ظاہر ہے کہ بہت ہی نامکمل ہوتا.لیکن اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کہہ کر اس امر پر زور دے دیا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے اور یہ امر تو بھی جانتا ہے اور تیرے دشمن بھی جانتے ہیں یعنی ایک چھپی ہوئی بات نہیں ایک ظاہر اور کھلا نشان ہے جس کا انکار کوئی نہیں کرسکتا.غرض ایسا فقرہ استعمال کرکے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ حقیقت دوسروں پر مخفی نہیں شرح صدر کی اہمیت کو ایسا واضح کردیا ہے کہ اور کوئی مختصر الفاظ اس مضمون کو بیان نہ کرسکتے تھے.یہ مضمون اس رنگ میں بھی اچھی طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ہم فرض کریں ایک شخص ہمارے پاس آئے اور ہمیں خبر پہنچائے کہ میں نے آپ کے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے اب جہاں تک اس خبر کا تعلق ہے ہمیں اس سے صرف اتنا ہی پتہ لگ سکتاہے کہ زید کہتا ہے اس نے ہمارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے.اب واقعہ میں گوشت پہنچا ہے یا نہیں پہنچا اس کا اس فقرہ سے علم نہیں ہوتا.ایسی حالت میں زید کبھی یہ نہیں کہے گا کہ کیا میں نے گوشت تمہارے گھر میں نہیں پہنچادیا.بلکہ وہ صرف اتنا کہے گا کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے.لیکن اگر شخص مخاطب گھر جائے اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ گوشت پہنچ گیا ہے تو اس کے بعد زید اُسے بے شک کہہ سکے گا کہ کیا میں نے

Page 175

تمہارے گھر میں گوشت نہیں پہنچایا.مطلب یہ ہوگا کہ میں نے تمہارے گھر میں گوشت پہنچادیا ہے اور تمہیں خود بھی اس بات کا علم ہے کہ گوشت پہنچ گیا ہے.پس ’’کیا ا یسا نہیں کیا‘‘ کے فقرہ سے یہ زائد معنے پیدا ہو جاتے ہیں کہ یہ بات ایسی پختہ ہے کہ مخاطب بھی اس بات کی تصدیق کرے گا اور کہے گا کہ ہاں یہ بات واقعہ میں درست ہے میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے.اَلَمْ نَشْرَحْ کے فقرہ میں تصدیق مخاطب پس اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اپنے اندر تصدیق مخاطب کا مضمون بھی رکھتا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ مخاطب اس علم میں ہمارا شریک ہے وہ اس واقعہ سے انکار نہیں کر سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اے محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کیا ہم نے تیرا سینہ اس طرح نہیں کھولا کہ تو خود بھی اس بات کی گواہی دے گا اور تجھے علم ہے کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے.یہ جملہ کہ یہ بات ظاہر ہے اور اس کا انکار نہیں ہو سکتا کہ تیرا سینہ کُھل چکا ہے.ہے تو ایک معمولی جملہ مگر اس کے اندر وسیع مطالب پائے جاتے ہیں.شَـرَحَ کے معنے حل لغات میں بتائے جا چکے ہیں کہ (۱) کھولنے (۲) پھیلانے (۳) سمجھانے (۴) محفوظ کر دینے (۵) اچھی طرح بیان کر نے کے ہیں.ان معنوں کے رو سے آیت کے ایک تو یہ معنے ہوں گے کہ کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا.یعنی اس بات کو تو بھی جانتا ہے اور دوسری دنیا بھی جانتی ہے کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے.سینہ کھولنے کے معنے جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا ہے مادئہ قبولیت کے پیدا ہو جانے کے ہیں اور چونکہ یہ محاورہ اچھے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اچھی باتوں کی قبولیت کے لئے دل آما دہ رہتا ہے یا کسی خاص معا ملہ کے متعلق دل تسکین پا لیتا ہے اُسے اس بات پر یقین کامل ہو جاتا ہے تو اسے شرح صدر کہتے ہیں.جب یقین ایسے کمال کو پہنچ جائے کہ اس میں معجزانہ رنگ پیدا ہو جائے.تو اُسے خدا تعالیٰ کی طرف سے شرح صدر کہتے ہیں اور جب ایسے امور کے متعلق یقین ہو جو غیبی ہوں اور جن پر یقین پیدا ہونا الٰہی تصرف کے نتیجہ میں ہو سکتا ہو تو اسے بھی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور انکار ابطالی کا استعمال جو درحقیقت اثبات پر دلالت کرتا ہے.یہ بتاتاہے کہ وہ امر پوشیدہ نہیں بلکہ اس کی حقیقت ظاہر و باہر ہو چکی ہے.ان معنوں کے رو سے اس آیت کہ یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صداقتوں اور نیکیوں کو ماننے اور اُن پر عمل کرنے کے لئے بہت بشاشت قلب عطا فرمائی تھی اور وہ امور سماویہ جو امور غیبیہ پر مشتمل تھے اُن پر بڑا زبردست یقین بخشا تھا اور یہ دونوں امر بار بار اس طرح ظاہر ہو چکے تھے کہ آپ کے مخالفوں کو بھی اُن کے انکار کی جرأت نہیں ہو سکتی تھی.اور اگر یہ تینوں باتیں کسی شخص میں پائی جائیں تو اوّل تو یہ اس کی سچائی کا ثبوت ہوتی

Page 176

ہیں.دوسرے یہ اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ وہ شخص ضرور کوئی نیک تغیر دنیا میں پیدا کر کے چھوڑے گا.نیک کاموں کی تعریف تو اکثر لوگ کرتے ہیںلیکن کتنے لوگ ہیں جو ہر عُسر اور یُسر کی حالت میں نیکی پر قائم رہتے ہیں؟ ایسے لوگ تو کم ملتے ہیں جو یہ کہیں کہ سچ بولنا ضروری نہیں.لیکن ایسے لوگ بھی بہت کم ہیں جو سو فیصدی سچ بولیں.دنیا کے اکثر لوگ امانت کی تعریف کرتے ہیں لیکن کتنے لوگ ہیں جن کو ان کی ساری قوم بلا شک و شبہ امین قرار دیتی ہو؟ آخر ایک امر کو اچھا سمجھ کر اور اچھا قرار دے کر کیوں عمل کے وقت کمزوری دکھائی جاتی ہے.اسی وجہ سے کہ اس صداقت پر اس شخص کو پورا یقین نہیں ہوتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے زمانہ میں پہلے شخص تھے جنہوں نے جن صداقتوں کو مانا ان پر عمل کیا.آپ نے صرف کہا ہی نہیں کہ سچ اچھا ہے بلکہ آپ نے سچ بولا بھی اور آپ نے صرف کہا ہی نہیں کہ امانت اچھی بات ہے بلکہ آپ نے امین بن کر دکھایا بھی.حتیٰ کہ مکہ کے لوگ جو خالص مادی دماغ رکھتے تھے اور اخلاق کی قدر بہت کم جانتے تھے پکار اٹھے کہ یہ امین و صدوق شخص ہے.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :حدیث بنیان الکعبۃ و حکم رسول اللہ) یہ گواہی معمولی گواہی نہیں سچ بولنا الگ امر ہے اور ساری قوم سے راستباز کا خطاب لے لینا اور امر ہے.امانت پر ثابت قدم رہنا اور ہے اور امین کا خطاب ساری قوم سے لے لینا اور بات ہے.ہر شخص کے قوم میں دشمن بھی ہوتے ہیں اور دوست بھی.نام ایک شخص اسی وقت پیدا کرتا ہے جب اس کاکمال اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ دشمن بھی اس کے انکار کی جرأت نہیں پاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ مرتبہ پانا اس امر کا شاہد تھا کہ آپ کا سینہ نیکیوں کے لئے کھل گیا تھا اور جس کا سینہ نیکیوں کے لئے کھل گیا ہو اسے جھوٹ یا فریب کا الزام لگانا کتنا ظلم ہے اور ایسے آدمی سے اس کے دشمن ملک والوں کو کب تک دور رکھ سکتے تھے.انشراح صدر کے معنے یقین کامل کے دوسرے معنے سینہ کھلنے کے یقین کامل کے کئے گئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی صداقت پر جو یقین تھا وہ مخفی امر نہیں.جب مکہ کے لوگوں نے حضرت ابوطالب آپ کے چچا کو ڈرایا کہ اگر محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)بتوں کے خلاف کہنے سے باز نہ آئیں گے تو وہ ان کے اور ان کے حامیوں کے مٹادینے کا فیصلہ کرلیں گے اور اگر وہ صرف بتوں کو برا کہنے سے باز آجائیں گے تو وہ اپنی قوم کی لیڈری، بادشاہت، اس کا مال، اس کی خوبصورت لڑکیاں جو کچھ بھی مانگیں قوم اسے حاضر کرنے کے لئے تیار ہوگی.تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس شان سے جواب دیا کہ اے میرے چچا! آپ مجھے چھوڑ کر اپنی قوم کے ساتھ بے شک مل جائیں میں تو اس صداقت کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا.اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے

Page 177

بائیں لاکھڑا کردیں تب بھی خدائے واحد کی توحید کے اقرار سے نہیں رکوں گا.اور اس سچ کے اظہار سے باز نہیںآئوں گا.( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :مباداۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ وما کان منہم) یہ اعلان کیا بغیر ایک ایسے یقین کے ہوسکتا ہے جو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط ہو.اسی طرح جب آپؐغار ثور میں گھِر گئے، کفار نے آپ کا محاصرہ کر لیا اور بعض نے اندر گھس کر آپ کا پتہ لینا چاہا اور حضرت ابوبکرؓ کو اس بات کی فکر ہوئی کہ کہیں دشمن آپ کو پکڑ نہ لے تو آپ نے فرمایا لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا غم مت کر یہ لوگ ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں.خدا ہمارے ساتھ ہے.(مجمع الزوائد باب الھجرۃ الی المدینۃ) جس وقت صرف دو غیر مسلح آدمی مسلح قوم کے نرغہ میں گھِرے ہوئے ہوں اس وقت اپنے صاف بچ کر نکل جانے اور کامیاب ہونے کا اعلان اس شخص کے سوا جو خدا تعالیٰ کی تائیدات کا عینی مشاہدہ کرچکا ہو کون کرسکتا ہے اور یہ وہ امور ہیں جو صرف مسلمان ہی نہیں بیان کرتے تھے بلکہ کفار مکہ بھی ان امور کی تصدیق کرتے تھے.امین و صدوق کا خطاب انہوں نے خود آپ کو دیا تھا.غار ثور کا واقعہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا، ابوطالب کے ساتھ آپ کی گفتگو ان کے اپنے آدمیوں کے سامنے ہوئی تھی اور ایسے ہی اور واقعات جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیکی آپ کے یقین اور آپ کے ایمان کا ثبوت ملتا تھا.روزِ اوّل سے ان لوگوں کے مشاہدہ میں آتے رہے تھے اور وہ ان کا مشاہدہ کرتے رہے تھے.پس اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کہہ کر قرآن کریم کا مکہ والوں پر حجت کرنا بالکل درست اور مطابق حقیقت تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیکی میںجو مقام حاصل تھا.خدا تعالیٰ پر جو یقین تھا.خدا تعالیٰ کے نشانات پر جو ایمان تھا وہ اس بات کایقیناً ضامن تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاگل نہ تھے.آپ غیر ذمہ دار شخص نہ تھے.آپ ارادہ کرکے اس سے ہٹنے والے نہ تھے.آپ کسی وقتی خیال کے مطابق کام نہیں کررہے تھے بلکہ کوئی زبردست نشان آپ نے دیکھا تھا جس نے آپ کے ایمان کو پہاڑوں سے زیادہ مضبوط کردیا تھا.ایسے شخص کے جیتنے میں کسی کو کیا شبہ ہوسکتا تھا؟ یہ سوال تھا جس کا جواب آپ کے مخالفوں کے ذمہ تھا اور یقیناً اس سوال کا جواب دینے سے وہ گھبراتے بھی تھے اور کتراتے بھی تھے.انسانی کامیابی کا مدار یاد رکھنا چاہیے کہ انسانی کامیابی کا پہلا مدار خود اس کے یقین پر ہوتا ہے.کوئی انسان دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اسے اپنے دعویٰ پر یقین نہ ہو.بلکہ اگر روحانیات کو جانے دیں اور مادیات کو لے لیں تب بھی کوئی انسان کسی کام کے لئے سنجیدگی سے کوشش نہیں کرسکتا جب تک اسے اپنے نفس پر یقین نہ ہو.جب کسی کو یقین حاصل ہوجائے تو چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو وہ اُس کو پورا کرنے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے.بلکہ بعض دفعہ جب کسی امر کے متعلق عارضی یقین انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تب بھی کوشش شروع کردیتا ہے اور

Page 178

بعض دفعہ تو عارضی یقین ہی نہیں عارضی شک بھی اگر انسان کے دل میں پیدا ہوجائے تو وہ کوشش شروع کردیتا ہے.چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ عرب میں ایک نیم پاگل لڑکا تھا.لڑکے اسے چھیڑتے اور تنگ کرتے رہتے.جب وہ بہت ہی اکتاجاتا اور دیکھتا کہ یہ تو میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑتے تو چونکہ وہ اپنے ہم عمروں کی فطرت کو خوب سمجھتا تھا جھوٹے طور پر کہہ دیتا کہ فلاں شخص کے ہاں آج دعوت ہے تم مجھے بے شک چھیڑتے رہو.کھانا تو تمہارا ہی خراب ہوگا.اہل عرب میں مہمان نوازی کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا اور ان میں دستور تھا کہ عام طور پر بڑے بڑے رئوسا اونٹوں کو ذبح کرکے عام لوگوں کودعوت دے دیتے کہ آئو اور کھانا کھائو.ان دعوتوں کا وہ طریق نہ تھا جو ہمارے ہاں ہے کہ مخصوص طور پر بعض لوگوں کو دعوت کے لئے نامزد کیا جاتا ہے بلکہ ان کی دعوتوں میں شمولیت کے متعلق کسی قسم کی شرط نہیں ہوتی تھی جو شخص بھی چاہتا شریک ہوجاتا.جب کسی ایسی دعوت کی وہ ان لڑکوں کو خبر دے دیتا تو یہ سنتے ہی لڑکے اسے چھوڑ دیتے اور اس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے.جب وہ اکیلا رہ جاتا تو اس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا کہ شاید واقعہ میں اس کے ہاں دعوت ہو اگر ایسا ہی ہوا تو یہ بڑی بری بات ہوگی کہ میں نے لڑکوں سے مار بھی کھائی اور دعوت سے بھی محروم رہا.چنانچہ اس خیال کے آنے پر دس پندرہ منٹ کے بعد وہ خود بھی اسی مکان کی طرف دوڑپڑتا.راستہ میں لڑکے مایوس ہوکر واپس آرہے ہوتے تھے.وہ اسے پکڑ لیتے اور خوب پیٹتے کہ تو نے ہمیں بڑا دھوکا دیا ہے.یونہی جھوٹ موٹ کہہ دیا کہ فلاں رئیس کے ہاں دعوت ہے حالانکہ وہاں کوئی دعوت نہ تھی.اس پر اُسے پھر شرارت سوجھتی اور کہتا کہ اس کا نام تومیں نے یونہی لے دیا تھا اصل بات یہ ہے کہ فلاںرئیس کے ہاں دعوت ہے.اس دفعہ لڑکوں کو پھر یقین آجاتا اور وہ دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے.جب لڑکے چلے جاتے تو بعد میں پھر اس کے دل میں خیال آتا کہ اگر اس کے ہاں واقعہ میں دعوت ہوئی تو میرے ساتھی تو دعوت کھاجائیں گے اور میں محروم رہ جائوں گا.چنانچہ اس خیال کے ماتحت وہ بھی اس رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتا.اتنے میں لڑکے غصہ سے بھرے ہوئے واپس آرہے ہوتے تھے وہ اسے پکڑ لیتے اور پیٹنا شروع کردیتے.چنانچہ اسی واقعہ کی وجہ سے عربوں میں شدت ِ حرص کو بیان کرنے کے لئے ا س لڑکے کے نام پر مثال بیان کی جانے لگی.اب دیکھو وہ لڑکا جھوٹ بولتا تھا مگر جھوٹ بتا کر بھی اس کے دل میں خیال پیدا ہوجاتا تھا کہ شاید یہ بات ٹھیک ہی ہو اور وہ خود بھی اسی طرف دوڑ پڑتا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر کوشش یقین کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.آگے جیسا جیسا یقین ہو انسانی کوشش اور جدوجہد بھی مختلف رنگ اختیار کرتی چلی جاتی ہے.تھوڑا یقین ہو تو اس کے مطابق کوشش ہوگی اور زیادہ یقین ہو تو اس کے مطابق کوشش ہوگی.

Page 179

یقین کے تین مراتب قرآن کریم نے یقین کے مختلف مدارج بیان کئے ہیں یوں تو اس کے ہزاروں مدارج ہیں مگر موٹے موٹے تین مدارج ہیں.علم الیقین، عین الیقین، حق الیقین.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں جو خاص اصولی مضامین ہیں ان میں سے ایک یہ بھی مضمون ہے جو مراتب یقین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحہ ۴۰۲).میں یہ نہیں کہتا کہ پہلے صوفیاء کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں.پہلے صوفیا ء کی کتابوں میں بھی بے شک اس کا ذکر ملتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون میں جو جدتیں پیداکی ہیں وہ ان لوگوں کی تشریحات میں نہیں ہیں.بعض لوگ اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کردیا کرتے ہیں کہ یہ باتیں تو امام غزالی کی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہیں یا فلاں فلاں مضامین انہوں نے بھی بیان کئے ہیں.جیسے ڈاکٹر اقبال نے کہہ دیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قسم کے مضامین صوفیاء کی کتابوں سے چرائے تھے.حالانکہ اگر غوروفکر سے کام لیا جائے تو دونوں کے تقابل سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انہوںنے مضمون میں وہ باریکیاں پیدا نہیں کیں جو ایک ماہر فن پیدا کیا کرتا ہے اور نہ مضمون کی نوک پلک انہوں نے نکالی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایک ماہر فن کے طور پر اس کی باریکیوں اور اس کے خدوخال پر پوری تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور کوئی پہلو بھی تشنہء تحقیق رہنے نہیں دیا اور یہی ماہر کا کام ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے نمایاں کام کرکے دکھادیتا ہے.مثلاً تصویر کھینچنا بظاہر ایک عام بات ہے ہر شخص تصویر کھینچ سکتاہے میں بھی اگر پنسل لے کر کوئی تصویر بنانا چاہوں تو اچھی یا بری جیسی بھی بن سکے کچھ نہ کچھ شکل بنادوں گا.مگر میری بنائی ہوئی تصویر اور ایک ماہر فن کی بنائی ہوئی تصویر میں کیا فرق ہوگا؟ یہی ہوگا کہ ماہر فن اس کی نوکیں پلکیں خوب درست کرے گا اور میں صرف بے ڈھنگی سی لکیریں کھینچ دینے پر اکتفا کروں گا.پس کسی مضمون کا خالی بیان کردینا اور بات ہوتی ہے اور اس کی نوک پلک درست کرکے اسے بیان کرنا اور بات ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے گو بعض جگہ وہی مضامین لئے ہیں جو پرانے صوفیاء بیان کرتے چلے آئے تھے مگر آپ کے بیان کردہ مضامین اور پہلے صوفیاء کے بیان کردہ مضامین میں وہی فرق ہے جو ایک اناڑی اور ماہر مصور کی بنائی ہوئی تصاویر میں ہوتا ہے.انہوں نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ڈرائنگ کا ایک طالب علم کھینچتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تصویر اس طرح کھینچی ہے جیسے ایک ماہر فن تصویر کھینچ کر اپنے کمالات کا دنیا کے سامنے ثبوت پیش کرتا ہے اور پھر ہر بات پر قرآن کریم سے شواہد پیش کرکے بتایا ہے کہ اس مضمون کا بتانے والا قرآن کریم ہے.

Page 180

علم الیقین کے بعد عین الیقین ہوتا ہے کہ انسان ایک بات خود دیکھتا ہے لیکن ایسے طور پر کہ شبہ کی گنجائش نہ ہو جیسے دور سے دھواں دیکھ کر آگ کا اندازہ لگایا جاتا ہے.اس کے بعد کا درجہ حق الیقین کا ہے جیسے کہ کوئی شخص آگ میں انگلی ڈال کر اس کے جلانے والے اثرات کو خود دیکھ لیتا ہے.انبیاء کو ان کے اپنے دعووں پر ایمان لانے کا حکم دینے کی وجہ ان تین مدارج میں سے سب سے مکمل درجہ حق الیقین کا ہے جس کے اندر شک و شبہ کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا اور یہی مقام رسولوں کو حاصل ہوتا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بوجہ سید الانبیاء ہونے کے سب سے زیادہ حاصل تھا.اسی درجہ یقین کی وجہ سے جب بھی کوئی رسول آیا اللہ تعالیٰ نے اسے پہلے یہی کہا کہ تو خود اپنے دعوے پر ایمان لا اور پھر اسے لوگوں کے سامنے پیش کر.گویا الٰہی سنت جو سلسلہ انبیاء پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ پہلے خود نبی کے دل میں یقین پیدا کیا جاتا ہے اور پھر اُسے لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو قرآن کریم میں اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ (الانعام:۱۶۴) کے الفاظ آتے ہیںان کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ہمارا پہلا کام تیرے دل میں یقین پیدا کرنا ہے.اگر تیرے دل میں دُبدہ اور شک رہے گا تو تُو اس کام کے لئے وہ کوشش نہیں کرسکے گا جس کوشش کے بغیر یہ کام اپنی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ غلطی سے اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ(الاعراف: ۱۴۴) یا اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ کہنے کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اور وہ اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ اپنے دعوے پر آپ ایمان لانے کے کیا معنے ہوئے.وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ اس یقین کے بغیر کوئی شخص دوسروں کوشکوک و شبہات سے نجات نہیں دلاسکتا.وہی شخص دوسروں کے دل میں یقین پیدا کرسکتا ہے جس کے دل میں خود یقین موجود ہو اور وہی شخص دوسروں کو روحانی لحاظ سے منور کرسکتا ہے جس کے دل میں خود نورایمان موجود ہو اور انشراح صدر سے مراد یہ آخری قسم کا یقین ہی ہوتا ہے جو حق الیقین کہلاتا ہے اور اسی یقین کے پیدا کرنے کے لئے انبیاء کو اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ کہنے کا حکم دیا جاتا ہے.درحقیقت بڑے کام بغیر اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَہونے کے ہوہی نہیں سکتے.جو شخص اپنے کام کے متعلق یقین ہی نہیں رکھتا ایسا ٰیقین جو ہر قسم کے شکوک و شبہات سے منزہ ہو وہ دوسروں کو کیا ہدایت دے سکتا ہے.پس اَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ کہنا کوئی معمولی فقرہ نہیں بلکہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کا انبیا ء اور خدا تعالیٰ کے مقربین کی زبان سے اظہار ہوتا ہے.یہی ایمان ہے جو دوسروں کے شکوک کو مٹاتا اور ان کو بھی یقین کی بلندیوں کی طرف لے جاتا ہے.آنحضرت صلعم اور حضرت موسٰی کے مقام میں ایک امتیاز پھر یہ بھی سوچو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تو دعا

Page 181

کرتے ہیں کہ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ (طٰہٰ:۲۶) اے میرے رب میرا سینہ کھول دے.جس کے معنے یہ ہیں کہ خدایا مجھے وہ یقین حاصل ہوجائے جس کے بعد میں یہ سمجھوں کہ اگریہ کام نہ ہوا تومیرا قصورہے لیکن اس کے مقابلہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے یہ چیز تجھے دے دی ہے اور نہ صرف تجھے دے دی ہے بلکہ تو بھی جانتا ہے کہ ہم یہ چیز تجھے دے چکے ہیں.یعنی ایسے رنگ میں یہ چیز تجھے دی ہے کہ تجھ پر بھی یہ حقیقت پوری طرح منکشف ہوچکی ہے.کیونکہ انکارِ ابطالی اسی وقت استعمال ہوتا ہے جب مخاطب اس امر سے پوری طرح واقف ہوتا ہے.ورنہ بعض کمالات انسان میں موجود ہوتے ہیں مگر وہ ان سے واقف نہیں ہوتا.یہ صاف بات ہے کہ وراءالادراک امور پر یقین کامل بغیر تجلی کے نہیں ہوسکتا.اگر کوئی مادی چیز ہو اور وہ کسی انسان کو مل جائے مثلاً روٹی مل جائے یا روپیہ مل جائے تو اس پر یقین لانے کے لئے کسی تجلی کی ضرورت نہیں ہوتی.انسان جانتا ہے کہ فلاں چیز مجھے مل گئی ہے لیکن یہاں جس چیز کے ملنے کا ذکر کیا جارہا ہے وہ مادی نہیں بلکہ روحانی ہے اور روحانی چیز پریقین اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتا جب تک اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات انسان کو حق الیقین کے مقام پر لاکر کھڑا نہ کردیں.درحقیقت یقین کے مختلف مدارج ہوتے ہیں.کبھی یقین کسی مادی چیز کے متعلق ہوتاہے اور کبھی روحانی چیز کے متعلق کبھی غیر معمولی طور پرمضبو ط یقین انسان کو حاصل ہوتا ہے اور کبھی یقین تو ہوتا ہے مگر ذرا سی بات پر انسان شکوک و شبہات میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے مجھے یقین ہے مگر یہ نہیں سمجھتا کہ اس کا یقین غیر متزلزل یقین نہیں.قصہ مشہور ہے کہ ایک لڑکی جس کا نام میستی تھا وہ ایک دفعہ شدید بیماری ہوئی اور اس کی بیماری روز بروز تشویش ناک صورت اختیار کرتی چلی گئی.اس کی والدہ روزانہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتی تھی کہ الٰہی اگر ملک الموت نے روح قبض ہی کرنی ہے تو میری روح قبض کرلے میری لڑکی کو کچھ نہ کہے.اتفاقاً ایک رات اس کی گائے کھلی رہ گئی.اس نے صحن میں اِدھر اُدھر پھر کر برتنوں میں منہ ڈالنا شروع کردیا.اسی دوران میں اسے ایک گھڑا نظر آیا جس میں چھان پڑا ہوا تھا اس نے گھڑے میں منہ ڈال دیا اورجب اس نے دو چار لقمے لینے کے بعد اپنے سر کوباہر نکالنا چاہا تو وہ باہر نہ نکال سکی اس کا سر گھڑے میں پھنس کر رہ گیا.اس پر وہ گھبراکر صحن میں اِدھر اُدھر دوڑنے لگی.لڑکی کی ماں نے شور سنا تو وہ بھی جاگ اٹھی مگر سمجھ نہ سکی کہ یہ چیزکیا ہے.اس نے خیال کیا کہ ہو نہ ہو یہ ملک الموت ہے جو میری روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے کیونکہ میں روزانہ یہ دعا کیا کرتی ہوں کہ یا اللہ میں مرجائوں اور میستی بچ جائے.

Page 182

جب اس خیال کے نتیجہ میں اسے اپنی موت بالکل سامنے نظر آئی تو وہ بے اختیار کہنے لگی ؎ ملک الموت من نہ میستی ام گر ترا میستی است اندر کار من یکے پیر زال محنتی ام اینک او را ببر مرا بگذار ملک الموت میں میستی نہیں میں تو ایک بڑھیا مزدور عورت ہوں میستی تو وہ اندر لیٹی ہوئی ہے تو نے اگر جان نکالنی ہے تو اس کی نکال لے.اب دیکھو وہ اپنے دل میں روزانہ یہ سمجھتی تھی کہ میں میستی کے لئے جان دے سکتی ہوں مگر وہ یقین ا س حد تک نہیں تھا کہ موت کے سامنے آنے پر بھی قائم رہتا.جب اسے اپنی موت سامنے نظر آئی وہ اپنے تمام دعاوی محبت کو بھول گئی اور لڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگی کہ میستی تو وہ ہے اس کی جان نکال لے.تو بسا اوقات انسان سمجھتا ہے کہ مجھے یقین حاصل ہے مگر دراصل اُسے غیرمتزلزل یقین حاصل نہیں ہوتا اور جس چیز کو وہ یقین قرار دے رہا ہوتا ہے وہ اس کے نفس کا دھوکا ہوتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شک یقین حاصل تھا مگر آپ کو کس طرح پتہ لگ سکتا تھا کہ میرا یقین اب کسی بڑی سے بڑی مشکل کے آنے پر بھی بدل نہیں سکتا.اسی وقت آپ کو اس حقیقت کا علم ہوسکتا تھا.جب امر غیب کو امر ظاہر بنادیا جاتا اور اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات آپ کو اس مقام پر کھڑا کردیتیں جس کے بعد کسی تزلزل یا کسی جنبش قدم کا امکان بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا.پس چونکہ وراء الادراک امورپر یقین کامل تجلی کے بغیر نہیں ہوسکتااس لئے یہ آیت قطعی طور پر اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی متواتر تجلیات آپ پر ہوچکی تھیں اور آپ ایسے یقینی شواہد حاصل کرچکے تھے کہ جن کی بناء پر آپ سمجھتے تھے کہ جس طرح میں نے سورج کو دیکھا ہے، میں نے چاند کو دیکھا ہے، میں نے زمین اورآسمان کو دیکھا ہے اسی طرح میں نے اپنے رب کی متواتر تجلیات کو مشاہدہ کیاہے جس کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ میرے دل سے اس یقین کونکالاجاسکے.پس اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت تک آپ پر متواتر تجلیات ہوچکی تھیں ورنہ خدا تعالیٰ یہ کس طرح کہہ سکتا تھا کہ ہم نے تیرا سینہ کھول دیا ہے اور اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود تو بھی جانتا ہے کہ تیرا شرح صدر ہوچکا ہے.پس یہ آیت صرف اس مضمون کی حامل نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شرح صد ر ہوا بلکہ ایک زائد بات اس میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ آپ پر امر نبوت تجلیات الٰہیہ کے ذریعہ اتنا واضح ہوچکا تھا کہ آپ یہ کہنے کے لئے بھی تیار تھے کہ بےشک میں مانتا ہوں کہ مشکلات آئیں گی مگر میں مٹ نہیں سکتا.مشکلات میرے پائے ثبات کو جنبش میں نہیں لاسکتیں.چنانچہ آنے والے واقعات نے اس بات کو ثابت کردیا کہ آپ میں اس قسم کا یقین تھا اور الٰہی تجلیات نے آپ کو

Page 183

ایسے مقام پر کھڑا کردیا تھا کہ کوئی چیز آپ کو ہلا نہ سکی.چنانچہ میں اس کے ثبوت میں سات مثالیں پیش کرتا ہوں.آنحضرتؐکے دل میں حق الیقین پیدا ہونے کی سات مثالیں (۱)پہلی مثال ابوطالب کا واقعہ ہے.مکہ کے بڑے بڑے رئوساء ان کے پاس آئے اور انہوں نے کہا ہم اس غرض کے لئے آئے ہیں کہ آپ اپنے بھتیجے کو ہماری طرف سے یہ پیغام پہنچادیں کہ اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم اس کو اتنی دولت دینے کے لئے تیار ہیں کہ وہ ہم سب میں سے زیادہ امیر ہوجائے.اگر وہ حسین بیوی کا شائق ہے تو ہم عرب کی سب سے زیادہ حسین لڑکی کے ساتھ اس کی شادی کرنے کے لئے تیار ہیں اور اگر وہ حکومت اور ریاست کا شوق رکھتا ہے تو ہم اسے اپنابادشاہ ماننے کے لئے تیار ہیں.غرض اس کی ہر خواہش اورمطالبہ کو ماننے کے لئے ہم تیار ہیں.وہ صرف اتنی بات مان لے کہ ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے.اب اگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یقین میں ذرا بھی تذبذب ہوتا یا لالچ کا کوئی ایک محرک بھی آپ کے قلب میں پایا جاتا تو آپ اس پیغام پر خوش ہوتے اورکہتے چلو اچھا ہوا مقصد حاصل ہوگیا.مجھے دولت چاہیے تھی سو اس ذریعہ سے دولت آرہی ہے.مجھے بیوی چاہیے تھی سو اس ذریعہ سے حسین ترین لڑکی مل رہی ہے.مجھے قوم کی سرداری چاہیے تھی سو وہ بھی حاصل ہورہی ہے.اگر میں بتوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دوں تو اس میں میرا کیا حرج ہے.مگر آپ یہ جواب نہیں دیتے کہ بہت اچھا میں تمہارے مطالبہ کومان لیتا ہوں تم مجھے دولت دے دو.مجھے ریاست دے دو.مجھے حسین ترین لڑکی دے دو میں بتوں کو برا بھلا کہنا ترک کردیتا ہوں.بلکہ آپ اپنے چچا کو یہ جواب دیتے ہیں کہ اے میرے چچا! اگر میری قوم سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردے تب بھی میں اپنے عقائد پر قائم رہوں گا اور ایک شوشہ بھر بھی اِدھر اُدھر نہیں ہوں گا.(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :مباداۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قومہ وما کان منہم )دیکھو یہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کی صداقت کاکتنا بڑا ثبوت ہے کہ آپ کو بڑے سے بڑا لالچ دیا گیا مگر آپ نے پرِپشہ کے برابر بھی اُن چیزوں کو کوئی وقعت نہ دی اور فرمایا کہ مجھے جس کام کے لئے خدا نے کھڑا کیا ہے وہ میں مرتے دم تک کرتا چلا جائوں گا اور میں اس سے نہیں ہٹوں گا خواہ مکہ والے سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لاکر کھڑا کردیں.(۲) ہجرت کے وقت گھر سے نکلنے کا واقعہ بھی اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم ہوچکا تھا کہ باہر کفار کھڑے ہیں.آپ کو یہ علم ہوچکا تھا کہ وہ قتل کے ارادہ سے آئے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے کہا تھا کہ یہ کفار خواہ تیر ی ہلاکت کے کتنے بڑے منصوبے کریں وہ تجھے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ذرا بھی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی.آپ

Page 184

نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے اور بڑی دلیری سے کفار کے گھیرے میں سے نکل گئے.اگر کوئی اور شخص ہوتا تو اس کے اوسان خطا ہوجاتے، اس کے قدم لڑکھڑا جاتے اور وہ سخت پریشان ہوتا کہ اب میں کیا کروں( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: خروج النبی صلی اللہ علیہ وسلم و استخلافہ علیًّا علی فراشہ).مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت جرأت کے ساتھ دشمن کی قطار کے سامنے سے گزر گئے.میں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ سے سناہے آپ فرماتے تھے ایک روایت میں ہے کہ ان میں سے ایک شخص نے بعد میں بتایا کہ میں نے رات کو آپ کے مکان میں سے ایک شخص کو نکلتے تو دیکھا تھا مگر میں نے خیال کیاکہ یہ کوئی اور شخص ہوگا.چنانچہ میں نے اسے دیکھ کر اپنامنہ پرے کرلیاتا ایسانہ ہو کہ وہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جاکر یہ بتادے کہ باہر قتل کے ارادہ سے کئی لوگ کھڑے ہیں (مجھے خود اب تک کسی کتاب میں یہ حوالہ نہیں ملا).اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ بغیر کسی گھبراہٹ کے نہایت جرأت کے ساتھ نکل کھڑے ہوئے تھے.آپ کے قدم نہایت مضبوطی سے پڑ رہے تھے.آپ کے چہرہ پر بشاشت اور اطمینان کے آثار تھے اوردشمن یہ خیال بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اتنی جرأت کے ساتھ گھر سے نکلنے والا وجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوسکتا ہے.کوئی اور ہوتا تو دشمن کو دیکھتے ہی چکرا کر گر پڑتا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ذرا بھی پروا نہ کی کیونکہ آپ کے دل میں یہ یقین کامل تھا کہ کفار مجھے ہلاک نہیں کرسکتے.خدا تعالیٰ کی حفاظت میرے ساتھ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو بہرحال پورا کرے گا.پس ہجرت عن الدار کا واقعہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کی صداقت کا ایک اہم ثبوت ہے.(۳) تیسرا واقعہ غار ثور کا ہے.دشمن سر پر آ پہنچا ہے.ابوبکرؓ گھبرارہے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:۴۰) گھبرانے کی کون سی بات ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے.اس کی معیت کے ہوتے ہوئے یہ لوگ کیا کرسکتے ہیں.چنانچہ وہ آتے ہیں اور خائب و خاسر چلے جاتے ہیں یہ کمال یقین ہی تھا کہ دشمن سر پر کھڑا ہے اس کی آوازیں کانوں میں پہنچ رہی ہیں مگر آپ فرمارہے ہیں لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا.(۴) چوتھا واقعہ اُحد کا ہے.اس جنگ میں ایک غلطی کی وجہ سے اکثر صحابہؓ میدانِ جنگ سے بھاگ گئے تھے.دشمن تین ہزار کی تعداد میںتھا وہ حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھا مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بہت کم صحابہؓ تھے آپ دشمن کے ریلے کے باوجود اپنی جگہ سے نہیں ہلے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ آپ بالکل اکیلے رہ گئے اور یہی وہ وقت تھا جب آپ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور خود بھی زخمی ہوکر ایک گڑھے میں جاگرے.ایسے موقع پر طبعی طور پر انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ میں کسی پتھر کے پیچھے چھپ جائوںتاکہ دشمن

Page 185

کے حملہ سے محفوظ رہوں.مگر آپ کھڑے رہے اور کھڑے رہے اور کھڑے رہے کیونکہ آپ جانتے تھے کہ میں نے لوگوں کے ہاتھ سے مرنا تو ہے ہی نہیں.یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ مجھے ہلاک کرنے میں کامیاب ہوجائیں.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدۃ:۶۸) خدا تعالیٰ میری حفاظت کرے گا اور وہ مجھے قتل سے محفوظ رکھے گا.یہ وعدہ بہرحال پور ا ہوگا اور دشمن اپنے ارادوں میں ناکامی کا منہ دیکھے گا.پس احد کا واقعہ بھی اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کی صداقت کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے.(۵) پانچواں واقعہ غزوئہ غطفان کا ہے.ایک شخص نے ارادہ کیا کہ وہ آپ کو قتل کئے بغیر گھر واپس نہ جائے گا.وہ چھپتا چھپتا اسلامی لشکر کے پیچھے چلا آیا تا کہ موقع ملنے پر آپ پر حملہ کرے مگر اسے کوئی موقعہ نہ ملا.یہاں تک کہ صحابہؓ مدینہ کے قریب جاپہنچے.وہ چونکہ مسلمانوں کا اپنا علاقہ تھا صحابہؓ نے احتیاط کا پہلو پوری طرح ملحوظ نہ رکھا.ایک دن دوپہر کے وقت صحابہ دور دور پھیل گئے اور مختلف درختوں کے نیچے چادریں تان کر سوگئے.اس نے یہ موقع غنیمت سمجھا آگے بڑھا اور جس درخت کے نیچے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سورہے تھے وہاں پہنچ کر اس نے درخت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تلوار اتار لی اورپھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جگا کر کہا بتائو اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچاسکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی تذبذب کے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان او ریقین کے ساتھ فرمایا اَللّٰہُ.بظاہر یہ ایک معمولی بات ہے تم خود کسی دشمن کے سامنے اَللّٰہُ کہہ کر دیکھو اس پر کوئی بھی اثر نہیں ہوگا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وثوق اور ایمان اور یقین کے ساتھ اَللّٰہُ کہا وہ ایسا زبردست تھا کہ دشمن نے صرف آپ کی زبان سے اَللّٰہُ کا لفظ نہیں سنا بلکہ اس نے دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ کھڑا ہے.اس کا ہاتھ کانپ گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً تلوار کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فرمایا اب بتائو تم کو کون میرے ہاتھ سے بچاسکتا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ ہی رحم کریں تو کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.افسوس تم نے سن کر بھی سبق حاصل نہ کیا.تم کہہ سکتے تھے کہ اللہ مجھے بچاسکتا ہے مگر تم نے میری زبان سے یہ بات سننے کے باوجود اللہ کا لفظ استعمال نہ کیا(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع).اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے اس پر حجت تمام کردی اور بتادیا کہ تم یہ نہ سمجھو میں نے بناوٹ کے ساتھ اللہ کہا تھا.اگر میں بناوٹ کے ساتھ کہتا تو تم بھی ایسا کہہ سکتے تھے بالخصوص اس وجہ سے بھی کہ قریب ترین عرصہ میں تمہارے سامنے میں نے اللہ تعالیٰ پر اپنے اعتمادکا اظہارکیا تھا اور تم نے دیکھ لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ

Page 186

نے میری حفاظت فرمائی اور تمہارے حملہ سے اس نے مجھے محفوظ رکھا.مگر تم پھر بھی اللہ کا لفظ اپنی زبان پر نہ لاسکے.جو ثبو ت ہے اس بات کا کہ گھبراہٹ کے موقع پر تصنع اوربناوٹ سے اللہ کا لفظ زبان پر نہیں آسکتا.یہ آتا ہے تو اسی حالت میں جب انسان کے رگ و ریشہ میں اللہ تعالیٰ کی محبت جاگزیں ہوچکی ہو اور وہ سورج سے بھی زیادہ یقینی دلائل سے اس یقین پر قائم ہوچکا ہو کہ میرا رب مجھے نہیں چھوڑ سکتا.پس یہ واقعہ بھی اس شرح صدر کا ایک بیّن ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.(۶) چھٹا واقعہ غزوئہ خندق کا ہے.دشمن آیا اور اس نے مدینہ کا چاروں طرف سے احاطہ کرلیا.قرآن کریم نے اس محاصرہ کا سورئہ احزاب میں نہایت ہی اعلیٰ نقشہ کھینچا ہے.جب دشمن سمجھتا تھا کہ میں نے مسلمانوں کو مارلیا.اس وقت مومن بندے کہہ رہے تھے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں.هٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَصَدَقَ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ١ٞ وَ مَا زَادَهُمْ اِلَّاۤ اِيْمَانًا وَّ تَسْلِيْمًا (الاحزاب: ۲۳) بجائے گھبرانے کے وہ خوش خوش پھرتے تھے کہ خدا نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہوگیا.یہ بھی ثبوت ہے اس شرح صدر کا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.کیونکہ اگر آپ کو شرح صدر نہ ہوتا تو آپ کے ماننے والوں کے دلوں میں یہ غیر معمولی یقین خدائی دعووں پر کس طرح پیدا ہوجاتا کہ دشمن چاروں طرف سے محاصرہ کئے ہوئے ہے اور وہ خوش ہورہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی باتیں پوری ہوگئیں.(۷) ساتواں واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے قریب مسیلمہ کذاب اپنے قبیلہ کے سرکردہ لوگوں کو لے کر آپ کے پاس آیا.اس کی پشت پر اس کی قوم کا ایک لاکھ سپاہی تھا.سرداران قوم نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کو مان چکے ہیں اور آپ کی بیعت بھی کرچکے ہیں مگر اب ہماری قوم کا ایک فرد کہتا ہے کہ تم مجھے مانو.ہم اسے آپ کے پاس لے آئے ہیں تاکہ آپس میں کوئی سمجھوتہ ہوجائے اور یہ فتنہ بڑھنے نہ پائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر مل چکی تھی کہ آپ کی وفات قریب ہے.ادھر عرب میںسے سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ تعدادرکھنے والا قبیلہ آپ کے پاس وفد لایااو رکہا کہ مسیلمہ کو بھی الہام ہوتا ہے اور یہ کہتا ہے مجھے مان لو.ہم اسے آپ کے پاس اس لئے لائے ہیں تاکہ آپ کے ساتھ کوئی سمجھوتہ ہوجائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیلمہ سے فرمایا کہ بتائو تم کیاچاہتے ہو؟ اس نے کہا پہلے آپ بتائیں کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں یہی چاہتاہوں کہ مجھے رسول ماناجائے اور میری اطاعت اختیار کی جائے.مسیلمہ نے کہا ہم آپ کو بے شک رسول مانتے ہیں مگر ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ آپ اپنی وفات کے بعد جب کہ آپ کو اس معاملہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی (کیونکہ آپ

Page 187

کی نرینہ اولاد نہ تھی) مجھے اپنا خلیفہ مقرر کردیں.اس نے اپنی طرف سے سمجھوتہ کےلئے نہایت ہی نرم شرط آپ کے سامنے پیش کی.ایک لاکھ سپاہی اس کی پشت پر تھا اور اس نے صرف یہ مطالبہ کیا کہ مجھے وفات کے بعد خلیفہ بنادیا جائے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا جواب یوں دیا کہ ایک تنکا اٹھایا اور فرمایاکہ خلافت تو الگ رہی یہ تنکا بھی تمہیں نہ دیاجائے گا اور میرے معاملہ میں وہی ہوگا جو خدا تعالیٰ چاہے گا یعنی وہی شخص خلافت کے مقام پر کھڑ اہوگا جس کو خدا تعالیٰ خود کھڑا کرنا چاہے گا.تم ان معاملات میںدخل دینے والے کون ہو.مسیلمہ غصہ اور ناراضگی کی حالت میں واپس چلاگیا اور اپنی قوم سمیت اسلام سے مرتد ہوگیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پاگئے تو وہ ایک لاکھ سپاہی اپنے ساتھ لے کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوا اور اس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی پہلے کسی حملہ میں مثال نہیں ملتی.صحابہؓ اس جنگ میں اس طرح مارے گئے جس طرح چنے بھونے جاتے ہیں اور وہ شکست کھاکر واپس لوٹ گئے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شکست کا اتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے سرداران لشکر کو حکم دے دیا کہ ان میں سے کوئی شخص آئندہ مدینہ میں میرے سامنے نہ آئے.یہ سزا جو ان سرداران لشکر کو دی گئی بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس شکست کا کیسا صدمہ ہوا تھا( السیرۃ النبویۃ لابن ہشام :قـدوم بنی حنیفۃ ومعھم مسیلمۃ الکذاب).مگر باوجود اس کے خطرہ حقیقی تھا اور مسیلمہ اور اس کی قوم کا ارتداد بہت سی مشکلات کا موجب بن سکتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ذرا بھی پروا نہ کی.ایک تنکا اٹھا کر کہا کہ تم خلافت مانگتے ہو تمہیں تو یہ تنکا بھی نہیں دیا جاسکتا.یہ خدا تعالیٰ کی ایک امانت ہے اور اسی شخص کے پاس جائے گی جو اس امانت کا بہترین اہل ہو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی شروع سے لے کر آخر تک اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کی صداقت کا ایک بیّن اور واضح ثبوت ہے.ہر مقام پر آپ نے اس غیر متزلزل یقین کا ثبوت دیا جو آپ کو خدا تعالیٰ کی ذات پر تھا اور یہی یقین تھا جو مسیلمہ کذاب والے واقعہ میں کام کررہا تھا.آپ نے سمجھا جب خدا تعالیٰ کہہ رہا ہے کہ ابوبکر خلیفہ بنے گا تو مسیلمہ اس کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتا ہے.آپ نے اس مطالبہ کو ردّ کردیا اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں کیا کیا مشکلات پیدا ہوجائیں گی.اس میں کوئی شک نہیں کہ میںنے جو مثالیں دی ہیں ان میں سے بعض اس آیت کے نازل ہونے کے بعد کی ہیں.لیکن میرا منشاء اس جگہ یہ بتانا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اس آیت کی صداقت کا ثبوت بہم پہنچاتی ہے.شروع سے لے کر آخر تک آپ کی زندگی سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کا سینہ اسلام اور اس کی تعلیم کے لئے کھول دیا تھا اوروہ آخر تک کھلا رہا.

Page 188

انشراح صدر سے مراد حفاظت سینہ دوسرے معنے شَـرَحَ کے محفوظ رکھنے کے ہوتے ہیں.ان معنوں کے رو سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو تیرے لئے محفوظ نہیں کردیا.سینہ یا دماغ جو چاہو کہہ لو (اس کے متعلق بحث اوپر گزرچکی ہے) انسانی تجارب کا ایک ذخیرہ ہوتا ہے.ہر کام جو انسان کرتا ہے وہ اس کے دماغ میں محفوظ ہوجاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ ذَنْبًا کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فِیْ قَلْبِہٖ فَاِنْ تَابَ وَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُہٗ فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یُـغْلَفَ قَلْبُہٗ.(تفسیر طبری سورۃ البقرۃ زیرآیت ختم اللہ علی قوبھم ) یعنی جب انسان کوئی کام کرتا ہے اگر نیک کام ہو تو اس پر ایک نیک نکتہ لگ جاتا ہے یعنی علاوہ اس نیک کام کا شرعی نتیجہ نکلنے کے اس کا ایک طبعی نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ اس طرح کہ اس شخص کے دل پر ایک نورانی نشان ڈال دیاجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ نیکیوں پر آئندہ زیادہ قادر ہوجاتا ہے اور جو کوئی بدی کرتا ہے اسے علاوہ شرعی سزاملنے کے ایک طبعی نتیجہ اس شکل میں ملتا ہے کہ اس کے دل پر ایک سیاہ داغ ڈال دیا جاتا ہے اور آئندہ اس کے لئے بدی کا ارتکاب آسان ہوجاتا ہے.اسی طرح یہ سلسلہ بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر میں یا دل سارا سفید ہوجاتا ہے یا سارا سیاہ.اس نکتہ کی طرف بھی اس آیت میں اشارہ کیا گیاہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تیرے فائدہ کے لئے ( لَكَ کا لام فائدہ کے معنے دیتا ہے) تیرا سینہ کھول دیا ہے یعنی وہ روحانی امور جو تیرے لئے نفع بخش ہوتے ہیں ان کے قبول کرنے کے لئے ہم نے تیرا سینہ محفوظ کردیا ہے یعنی اس کے خلاف بدی کی کوئی تحریک تیرے سینہ میں داخل نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ تیرا سینہ نیکی کے لئے محفوظ رہنا چاہیے.اس آیت کی تشریح خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمائی ہے اِنَّ اللہَ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ فَلَا یَاْمُرُنِیْ اِلَّا بِـخَیْـرٍ (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین احکامھم باب تحریش الشیطان و بعثہ سـرایاہ) کہ میرا شیطان مسلمان ہوگیا ہے اور میرے دل میں صرف نیک تحریکات ہی ڈالتا ہے.اس حدیث کے یہی معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ کو آپ کے فائدہ والی چیزوں کے لئے محفوظ کردیا تھا.ہر وہ چیز جو آپ کے لئے مضر ہواس میں داخل نہیں ہوسکتی تھی اور اگر کوئی بری بات آپ کے کان میں پڑے تو وہ نیک پہلو اختیار کرلیتی تھی.جس طرح کہتے ہیں کہ ہر کہ درکانِ نمک رفت نمک شد.یہ کتنا بڑا مقام ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل تھا.آپ کے دل میں جو خیال آتا نیک ہی آتا.اگر بدی آپ کے سامنے آتی تو وہ بھی نیک شکل اختیار کرلیتی.طائف کے لوگوں نے جب آپ پر پتھر مارے.کتے آپ کے پیچھے ڈال دیئے تو اس شرارت نے غم وغصہ آپ کے دل میں پیدا نہیں کیا بلکہ آپ نے خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرنی شروع کردی کہ رَبِّ اِنَّ

Page 189

قَوْمِیْ لَا یَعْلَمُوْنَ میرے اللہ ان کی اس بےہودگی پر ناراض نہ ہونا ان کو معلوم نہیں کہ میں آپ کی طرف سے پیغامبر ہوں (صحیح مسلم کتاب الـجھاد و السیر باب غزوۃ اُحد ).کیا ہی نیکی کا یہ نمونہ ہے جو آپ نے دکھایا.کیا ایسے موقعہ پر کوئی بھی اپنے جذبا ت کو دباکر رکھ سکتا ہے؟ منہ سے عفو کہنا الگ امر ہے مگر پتھرائو ہورہاہے، کتے پیچھے ڈالے جارہے ہیں اور ساتھ کے ساتھ آپ ان لوگوں کے لئے دعا کرتے جاتے ہیں.یہ وہ نمونہ ہے جس کی مثال صرف خدا رسیدہ لوگوں میں ہی مل سکتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مقام سب سے بلند حاصل تھا اور اسی طرف اللہ تعالیٰ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ سے اشارہ فرماتا ہے اور فرماتا ہے کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے تیرے سینہ کو ہر شر سے محفوظ کردیا ہے.صرف نیکیاں ہی اس میں جاسکتی ہیں.کیا یہ اس امر کا ثبوت نہیں کہ اب دنیا کی اصلاح تیرے ہی ذریعہ سے ہوگی اور جس طرح شیطان کو تیرے سینہ میں دراندازی سے روکا گیا ہے اسی طرح تیرے ذریعہ سے وہ دوسروں کے سینوں میں دراندازی سے روکا جائے گا.یہ دلیل کس قدر شاندار اور واضح ہے.بینا ہی نابینائوں کی راہنمائی کرسکتا ہے.ایک نابینا کس طرح راہنمائی کرسکتا ہے.پس کامل راہنمائی دنیا کی ایسا ہی انسان کرسکتا ہے جس کا سینہ خدا تعالیٰ نے شیطان کے اثر سے محفوظ کردیا ہو اور جس کا سینہ شیطانی اثرات سے محفوظ ہو.اس کی بات کا انکار نیکی کامیلان رکھنے والے کے لئے مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ مقناطیس سے لوہا الگ نہیں رہ سکتا اور کندہم جنس باہم جنس پرواز.انشراح صدر سے مراد حقائق اشیاء کے علم کے لئے دل کا کھل جانا تیسرے معنے شَـرَحَ کے سمجھانے کے ہیں.ان معنوں کے رو سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے تیرے دل میں حقائق اشیاء اتار دیئے اور خود تیرا استاد بن کر تجھ کو سمجھایا.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھانے اور حقیقت بتانے والا خود اللہ تعالیٰ تھا.اس مضمون کی حقیقت ظاہر ہی ہے جس کا خدا تعالیٰ استاد ہو وہی روحانی دنیا میں استاد ہو سکتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے ہیں اس وقت لوگ حقیقت روحانیہ سے بالکل نابلد ہوچکے تھے اور دنیا محتاج تھی کہ پھر نئے سرے سے اللہ تعالیٰ کسی کا استاد بن کر اسے دنیا کے لئے استاد بنائے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے اورفرمایاگیا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ نے تیرے دل کو خود حقائق روحانیہ سے آگاہ نہیں کیا.یعنی ایسا کیا ہے اور جب خدا تعالیٰ نے تیرے دل پر نازل ہوکر اسے حقائق اشیاء سے آگاہ کیا ہے تو پھر تیرے سوا اور کون ہے جو گمراہوں کو ہدایت دے سکتا ہے اور تو ناکام کس طرح رہ سکتا ہے کیونکہ شاگرد کی ناکامی استاد کی ناکامی ہوتی ہے.تو ناکام رہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے جو تجھے سکھا کر دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا وہ ناکام

Page 190

رہا اور یہ ہونہیں سکتا.پس تو ضرور کامیاب ہوکر رہے گا.آنحضرتؐکو علم خارجی کے علاوہ علم اندرونی کی موہبت اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کے ایک اورمعنے بھی ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی بلندیٔ درجات کا ایک کھلا ثبوت ہیں اور وہ معنے یہ ہیں کہ دنیا میں دو قسم کے علوم ہوتے ہیں.ایک علم خارجی ہوتا ہے اور ایک علم اندرونی ہوتا ہے.تکمیل علم کا انحصار انہی دو ملکوں پر ہوتا ہے اور یہ علم النفس کا ایک بہت بڑا نکتہ ہے جس سے بہت سے لوگ ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ علم خارجی ہی اصل علم ہے.حالانکہ علم خارجی بہت محدود علم ہوتا ہے اور وہ مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے ساتھ علم اندرونی بھی شامل نہ ہو.مثلاً میں اس وقت درس دے رہا ہوں اب اگر کوئی شخص ایسا ہو جسے اللہ تعالیٰ نے ملکۂ ادراک بخشا ہو اور علم قرآن کا چشمہ اس کے سینہ میں پھوڑا ہو تو وہ میرے اس درس کو سن کر نہ صرف دوسروں تک یہ تمام باتیں پہنچا دے گا بلکہ وہ انہی باتوں کے کئی ایسے جدید پہلو بھی بیان کرسکے گا جو قلت وقت کی وجہ سے بیان نہیں کئے جاسکے.اس کے مقابلہ میں ایک دوسرا شخص ایسا بھی ہوسکتا ہے جو درس کو سن کر صرف اتنی قابلیت رکھتا ہو کہ اس درس کو من و عن بیان کردے اس میں یہ قابلیت نہیں ہوگی کہ وہ جدید پہلو اپنی ذہنی قابلیت سے نکال کر بیان کرسکے.پھر کوئی ایسا ہوگا جو پورا درس بیان کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھے گا.وہ جو کچھ بیان کرے گا اصل درس کا ۴ ۳ حصہ ہوگا اور کوئی ایسا ہوگا جو صرف آدھی باتیں بیان کرسکے گا اور کوئی ایسا ہوگا کہ اس سے پوچھو کہ درس میں کیا بیان ہوا تھا تو وہ کہہ دے گا قرآن کی کچھ تفسیر بیان کی گئی تھی مگر یاد نہیں رہی صرف اتنا یاد ہے کہ اچھا دلچسپ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ عورتوں میں کچھ مدت تک سلسلہ تقاریر جاری رکھا.ایک دن آپ کو خیال آیا کہ عورتوں کا امتحان لینا چاہیے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ وہ ہماری باتوں کو سمجھتی ہیں یا نہیں.ایک عورت جو بڑی مخلصہ تھیں اور نابھہ کی رہنے والی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان سے دریافت فرمایاکہ کیا تم ہماری تقریریں سنتی رہی ہو.اس نے کہا جی ہاںروزانہ تقریر سنتی رہی ہوں میںیہاں آئی ہی اس غرض کے لئے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اچھا بتائو میں کیا بیان کرتا رہا ہوں.اس نے جواب دیا بس اللہ اور رسول کی باتیں تھیں اور کیا تھا.یہ جواب جو اس عورت نے دیا اس کی وجہ یہی تھی کہ اندرونی علم اس کے اندر نہیں تھا.اس نے صرف خارجی علم پر انحصار رکھا اور سمجھا کہ میں بہت کچھ سمجھ رہی ہوں حالانکہ وہ کچھ بھی سمجھ نہیں رہی تھی.تو اندرونی علم کے بغیر کبھی کوئی شخص کسی بات کو صحیح طور پر دوسروں تک نہیں پہنچاسکتا.جب بھی کوئی بات بیان کی جاتی ہے ہمیشہ اس کے کچھ پہلو چھوڑنے پڑتے ہیں.اگر سارے پہلو بیان کئے جائیں تو چند باتوں میں ہی عمر

Page 191

گزر جائے اور علوم کا بہت سا حصہ نامکمل رہے.یہی وجہ ہے کہ آج تک کبھی کسی شخص نے بیان کامل نہیں کیا جو کچھ بیان کیا جاتا ہے ایک بیج کے طور پر ہوتا ہے جس سے ہر شخص اپنی اپنی استعداد اور اپنی اپنی قابلیت کے مطابق فائدہ اٹھاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کا کلام جب آسمان سے نازل ہوتا ہے کسی کے لئے وہ کلام اتنا ہی مفہوم رکھتا ہے جتنے اس کے الفاظ ہوتے ہیں.کسی کو آدھے الفاط کی حقیقت معلوم ہوتی ہے،کسی کو چوتھے حصہ کی حقیقت معلوم ہوتی ہے اور کسی شخص کے لئے وہ کلام ایسی ہی حیثیت رکھتاہے جیسے درخت کا بیج یا گٹھلی ہوتی ہے کہ اس میں سے شاخ در شاخ علوم نکلتے چلے آتے ہیں اور نئی سے نئی باتیں اس پر منکشف ہوتی جاتی ہیں.یہی وہ چیز ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کیا ہم نے تیرا سینہ وسیع نہیں کردیا.یعنی اس چیز کے لئے تیرا سینہ بمنزلہ زرخیز زمین ہوگیا تھا.قرآن تو ایک گٹھلی تھی مگر تیرے سینہ میں وہ ایک درخت کی صورت میں ظاہر ہوا.اگر سینہ بھی گٹھلی کے برابرا ہوتا تو قرآن کے صرف الفاظ ہی الفاظ تیرے پاس رہ جاتے.مگر چونکہ خدا نے تجھ کو ایک بہت بڑے کام کے لئے مقرر کیا تھا اور تجھے اس غرض کے لئے دنیا میں بھیجا گیا تھا کہ تو قرآن کی تفسیر کرے، اس کے احکام کی تشریح و توضیح کرے اور اس کے معارف و حقائق دنیا کے سامنے پیش کرے.اس لئے تیرے سینہ میں اس کے متعلق گنجائش ہونی چاہیے تھی تاکہ یہ علم جو ہم نے تجھے بخشا ہے روز بروز بڑھتا رہے.نئی نئی باتیں اس میں سے نکلتی رہیں اور نئے نئے نکات لوگوں کے سامنے آتے رہیں.پس فرماتا ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا تو اس بات کا گواہ نہیں کہ ہم نے تیرے اندر یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ جب تجھ پر ایک آیت نازل ہوتی ہے تو اس کے تمام مَالَہٗ اور مَاعَلَیْہِ تیرے سامنے آجاتے ہیں جو حکم بھی نازل ہوتا ہے اس کی باریکیاں اور وسعتیں سب تیرے ذہن میں مستحضر ہوجاتی ہیں اور تو فوراً سمجھ جاتا ہے کہ کن مواقع پر یہ حکم چسپاں ہوتا ہے اور کن مواقع پر چسپاں نہیں ہوتا.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے علم خارجی کے علاوہ علم اندرونی بھی بخشا تھا اور اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کے معنے یہی ہیں کہ کیا علاوہ قرآن شریف کے ہم نے تجھے علم اندرونی نہیں بخشا اور تیرے سینہ کو کھول نہیں دیا؟ میں بتاچکا ہوںکہ علم خارجی سب شاگردوں کو ایک قسم کا ملتا ہے مگر علم اندرونی ہرطالب علم کا الگ الگ ہوتا ہے اور اپنی الگ الگ استعدادوں کے مطابق وہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.اسلام کی وسیع تعلیم کے لئے اس قدر وسیع سینہ کی ضرورت تھی جو ہر قسم کے علم کو سمجھ سکے، سمجھاسکے اور دنیا میں پھیلاسکے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو علم ملا چونکہ وہ جامع و مانع تھا اس کے لئے بہرحال ایسے سینہ کی ضرورت تھی جو ہر علم کو اخذ کرلے اور اسے پھیلا کر کہیں

Page 192

کا کہیں لے جائے.ایک شخص ایسا ہوتا ہے جسے اتنا ہی علم ہوتا ہے جتنے الفاظ ہوتے ہیں مگر ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو تھوڑے سے الفاظ سے بہت بڑا علم حاصل کرلیتا ہے اور بات کو پھیلا کرکہیں کا کہیں لے جاتا ہے.اسی کو تَفَقُّہ کہتے ہیں جو ایک نہایت قیمتی چیز ہے.بعض لوگ اسلامی تعلیمات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کرتے ہیں کہ فلاں حکم تو قرآن کریم میں نہیں ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں سے نکال لیا.وہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں تَفَقُّہ کا مادہ تھا مگر تم میں تَفَقُّہ کا مادہ نہیں.تمہیں وہ علوم کس طرح حاصل ہوں جو قرآن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہوگئے.بے شک جہاں تک حقیقت کا سوال ہے میں چکڑالویوں سے بالکل متفق ہوں مگر جہاں تک تشریح کا سوال ہے میں ان کو پاگل سمجھتا ہوں.یہ تو صحیح ہے کہ قرآن سے باہر کوئی چیز نہیں مگر یہ بکواس ہے کہ عبداللہ چکڑالوی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک جیسا قرآن سمجھتے تھے.ہم اپنے اوپر قیاس کرکے اس بات کو سمجھ سکتے ہیں.ہزاروں ہزار قرآنی نکات اور باریکیاں ہیں جو اور لوگوں پر نہیں کھلیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر کھول دیں.اگر ہم پر قرآن کریم کے ایسے ہزاروںاسرار کھل سکتے ہیں جو کروڑوں کروڑوں لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رہے تو کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہم سے کروڑوں درجے زیادہ قرآن کریم کے معارف نہیں کھل سکتے تھے؟ پھر ہم یہ کیوں فرض کرلیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فلاں حکم دیا تھا وہ قرآن میں موجود نہیں.قرآن مجید کا درخت لگانے کے لئے آنحضرت صلعم کا سینہ بہترین زمین کی طرح یہ آیت اس امر پر شاہد ہے کہ قرآن کریم کی گٹھلی کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ بمنزلہ اعلیٰ زمین کے تھا اس میں وہ گٹھلی لگ کر فوراً اپنے آپ کو پھیلانے اور بلند کرنے لگ گئی تھی اور جو چیز لوگوں کےلئے گٹھلی تھی آپ کے سینہ میں وہ ایک وسیع اور بلند درخت تھی.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو دماغ عطا فرمایا تھا وہ بہرحال ہم سے اعلیٰ تھا اس لئے جس رنگ میں آپ قرآن کو سمجھ سکتے تھے اس رنگ میں دنیا کا اور کوئی شخص اس کو سمجھ نہیں سکتا تھا.دیکھو اس مادی دنیا میں بھی بیج ہمیشہ زمین کی قابلیت کے مطابق اگتاہے.کھجور ہمارے علاقہ میں نہیں ہوتی لیکن عرب میں ہوتی ہے کیونکہ کھجور کے لئے عرب کی زمین زیادہ مناسب ہے.اسی طرح خربوزہ ہے.یہ بھی ہر جگہ اچھا نہیں ہوتا بلکہ بعض جگہ اچھا ہوتا ہے اور بعض جگہ ناقص.پنجاب میں چمیاری کا خربوزہ بہت اعلیٰ ہوتا ہے لیکن دوسرے مقاما ت کا خربوزہ ایسا اچھا نہیںہوتا.جس طرح مادی پھلوں کے عمدہ یا ناقص ہونے کا دارومدار مختلف زمینوں پر ہوتا ہے اچھی زمین میں بیج ڈالاجائے تو اچھا پھل دیتا ہے اور ناقص زمین میں بیج ڈالاجائے تو ناقص پھل دیتا ہے اورپھر بعض

Page 193

زمینیں ایسی ہوتی ہیں جو بعض پھلوں کو اگانے کی مخصوص طور پر اپنے اندر قابلیت رکھتی ہیں اسی طرح قرآن کے لئے سب سے بہترین زمین جو الٰہی ہاتھوں سے تیار کی گئی وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سینہ تھا.قرآن کا جو درخت وہاں پیدا ہوسکتا تھا وہ اور کہاں پیدا ہوسکتا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اور بھی بعض اچھے درخت ہوئے ہیں مگر بہرحال وہ سب کے سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اظلال ہوں گے.کامل تابع ہو یا ادنیٰ سے ادنیٰ تابع، دونوں اپنی اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق قرآن کریم کا پھل دنیا کے سامنے رکھیں گے.کامل تابع جس پھل کو لوگوں کے سامنے رکھے گا وہ اور قسم کا ہوگا اور ادنیٰ تابع جس پھل کو لوگوں کے سامنے رکھے گا وہ اور قسم کا ہوگا.جیسے لنگڑے آم کی گٹھلی جہاں بھی بودو کچھ نہ کچھ اگ آئے گا مگر اس کی خوبی زمین کی قابلیت کے مطابق ہوگی.اعلیٰ زمین ہوگی تو اعلیٰ درجے کا لنگڑا آم ہوگا اور ادنیٰ زمین ہوگی تو ادنیٰ درجے کا لنگڑا آم ہوگا.بہرحال اعلیٰ درجہ کی پیداوار اعلیٰ درجہ کی زمین کی متقاضی ہوتی ہے.امریکن کپاس لائل پورمیں ہوتی ہے مگر ہمارے ہاں نہیں ہوتی.ایجپشن کاٹن مصر میں اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے لیکن ہندوستان میں اگر یہ کپاس بوئی جائے تو اس میں سفیدی کم آتی ہے.سٹیپل STAPLE بہت تھوڑا ہوتا ہے اور بونے والا کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ سفیدی کم ہو تو اعلیٰ درجے کا کپڑا تیار نہیں ہوسکتا اور اگر مضبوطی کم ہو تب بھی لوگ اس کپاس کونہیں خریدتے کیونکہ اس روئی سے تیار کردہ کپڑا بہت جلد پھٹ جاتا ہے.غرض مختلف قسم کی اشیاء کے لئے مختلف قسم کی زمینیں ضروری ہوتی ہیں.جس طرح آموں کے لئے ملیح آبادمشہور ہے اور سنگتروں کے لئے ناگپور یا جس طرح زعفران دنیا میں صرف چند محدود علاقوں میں پیدا ہوتا ہے اسی طرح اگر قرآن پیدا ہوتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں اور یہی وہ حقیقت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں فرمایا ہے کہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.اَلَمْ نَشْرَحْ میں شَـرَحَ کے معنے ہل چلانے اور پھاڑنے کے شَـرَحَ کے معنے پھاڑنے اور ہل چلانے کے بھی ہوتے ہیں.ان معنوں کے رو سے آیت کایہ مطلب ہوگا کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم نے تیرے سینہ میں قرآن لگانے کے لئے ہل چلائے ہیں یا نہیں؟ جس طرح مادی اشیاء کےلئے مناسب حال زمین کو تلاش کیاجاتا ہے اسی طرح ہم اپنے قرآن کے لئے اسی زمین میں ہل چلا سکتے تھے جو قرآن کے مناسب حال ہو.سو ہمیں وہ مناسب حال زمین تیرا سینہ دکھائی دیا اور ہم نے اس میں ہل چلا دیا اب دنیا دیکھے گی کہ اس میں سے کیسے شاندار پھل پیدا ہوتے ہیں.جب خدا تعالیٰ جیسا بیج بونے والا ہو، خدا تعالیٰ جیسا ہل چلانے والا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ جیسی زمین ہو تو اس کھیتی کی برتری کا کون انکار کر سکتا ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَـمِیْدٌ مَّـجِیْدٌ.

Page 194

غرض اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَکے ایک معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کے نزول کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا علم لدنی بخشا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ آپ ہر علم کو فوراََ قبول کر کے اس کی وسعتوں کے انتہا تک پہنچ جاتے تھے اوراس سے استنباط اور تفقّہ کر کے مسلمانوں کو علم دین سکھاتے.یہ وسعت بھی عجیب قسم کی ہے جو کتاب آپ کو ملی وہ ایسی عظیم الشان ہے کہ کوئی فن اور کوئی علم نہیں جو اس میں نہ پایا جاتا ہو.اس میں اقتصادیات کے اصول بھی ہیں، اس میں تمدن کے اصول بھی ہیں، اس میں سیاست کے اصول بھی ہیں، اس میں علم العائلہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے، اس میں میراث کے مسائل بھی بیان کئے گئے ہیں، اس میں علم الاخلاق کی باریکیاں بھی بیان کی گئی ہیں، اس میں علم العبادات کو بھی نمایاںطور پر پیش کیا گیا ہے، اس میں علم المعاملات کو بھی پوری تفصیل کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھا گیا ہے.غرض علم کی کوئی شاخ انسانی ذہن میں ایسی نہیں آسکتی جو مذہب سے براہ راست تعلق رکھتی ہو اور اس میں تفصیلی احکام موجود نہ ہوں اورجو شاخ براہ راست تعلق نہ رکھتی ہو اس کے متعلق اجمالی علم اس کتاب میں موجود نہ ہو.ایسی کتاب کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ کا کھول دیا جانا خود ایک غیر معمولی بات ہے.اوّل تو جو کتاب آپ کو ملی وہ غیر معمولی ہے اور وہ تمام علوم کی جامع ہے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ کوئی شخص ہوشیار اور سمجھدار تھا.اقتصادی مسائل سے گہری دلچسپی رکھتا تھا.اس نے علم الاقتصاد کی کوئی کتاب پڑھی اور اس کے سینہ میں اس علم کے چشمے پھوٹ پڑے.یہ بھی ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص سیاسی معلومات کا شوق رکھتا اور بوجہ اس کے کہ سیاسیات سے اس کی طبعی مناسبت تھی جب اس نے کسی سیاسی کتاب کو پڑھا تو اس کے سینہ میںوسعت پیدا ہوگئی اور سیاست کے متعلق نئے سے نئے مضامین اس کے ذہن میں آنے شروع ہوگئے.یہ بھی قیاس میں آسکتا ہے کہ کوئی شخص قضاء سے دلچسپی رکھتا تھا قضائی امور اس کے سامنے پیش آگئے اور چونکہ اس کی نفسی مشابہت قضاء کے ساتھ تھی قضائی معاملات میں اس کا دماغ تیز ہوگیا اور وہ کہیں سے کہیں جاپہنچا.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ کوئی شخص فوجی طبیعت رکھنے والا تھا اس نے ملٹری کے قواعد و ضوابط کے متعلق کوئی کتاب پڑھی یا دشمنوں کے ساتھ تعلقات کا وسیع مطالعہ کیا تو اس کے دل میں اور بھی کئی قسم کی نئی باتیں اس کے متعلق پیدا ہوگئیں.یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص علم العائلہ کا واقف تھا جب اس نے کوئی ایسی کتاب پڑھی جس میں خاندانوں کے متعلق قوانین بیان کئے گئے تھے جس میں باپ اور بیٹے، خسر اور داماد، میاں اور بیوی، دوست اوردوست کے متعلق ہدایات دی گئی تھیں اور پھر خود بھی اس نے ان تعلقات پر غور کیا تو چونکہ اس علم سے اسے ذاتی مناسبت تھی اس کے متعلق نئے سے نئے علوم اس کے دماغ میں آنے لگ گئے.غرض ہم یہ تمام باتیں اپنے قیاس میں لا سکتے ہیں.مگر

Page 195

یہاں دو غیر قیاسی اور بالکل غیر معمولی باتیں بیان کی گئی ہیں.قرآن مجید ہر لحاظ سے کامل ہے اوّل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کتاب نازل ہوئی جس میں ہر علم پربحث کی گئی تھی اور پھر جو بحث کی گئی وہ ایسی تھی کہ اپنی ذات میں ہر لحاظ سے کامل تھی اور اس میں کسی نئے پہلو کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا تھا.پس پہلی بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کتاب ملی جو جامع ہے تمام علوم کی.یہ نہیں کہ وہ سیاست کے متعلق کتاب ہے یا انٹرنیشنل لاء کے متعلق کتاب ہے یا اخلاق کے متعلق کتاب ہے یا علم النفس کے متعلق کتاب ہے بلکہ ہر فن کے متعلق ہم اس میں تعلیم پاتے ہیں.اس میں عبادت پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں اقتصادیات پر بھی بحث کی گئی ہے، اس میں استاد اور شاگرد، باپ اور بیٹا، نوکر اورمالک کے حقوق پر بھی بحثیں ہیں، اس میں حکومتوںکے تعلقات اور لڑائی اور صلح وغیرہ پر بھی بحث ہے.غرض ایک غیر معمولی کتاب ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.مگر اس کے مقابلہ میں ایک اور ذمہ واری بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالی گئی کہ اس غیر معمولی کتاب کی تمام جزئیات آپ کے سینہ میں آکر درخت بن جائیں.گویا قرآن ایک گٹھلی تھی جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں ایک بہت بڑا درخت پیدا ہونا تھا یہ اور بھی غیر معمولی بات ہے اور یہی بات ہے جو اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ میں بیان کی گئی ہے.جس چیز کے لئے آپ کا شرح صدر ہوا وہ یہاں محذوف ہے جو سوائے قرآن کے اور کچھ نہیں.گویا اصل آیت یوں ہے اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ لِلْقُرْآنِ.اے محمدرسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم نے تیرا سینہ قرآن کے لئے نہیں کھول دیا؟ اگر خالی اس حد تک انسان چلتا ہے جس حد تک دلالۃ النص کے طور پر مضامین بیان کرنے پڑتے ہیں تب بھی یہ غیر معمولی بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صرف دلالۃ النص کے طور پر قرآن کریم سے مختلف قسم کے علوم اخذ کرکے بیان فرماتے ہیں بلکہ اشارۃ النص میں جو مضامین بیان ہوئے ہیں ان کو بھی بیان فرماتے ہیں اور پھر اُن کی ایسی ایسی باریکیاں بیان فرماتے ہیں جہاں عام انسانی عقول نہیں پہنچ سکتیں.یہ ایک ایسی غیر معمولی چیز ہے جو سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور اس کی خاص برکت کے انسان حاصل نہیں کرسکتا.ہم دیکھتے ہیں بعض لوگوں نے صرف علم قرأت پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلاتے ہیں.بعض صرف قرآن کریم کی لغت پر بحث کرتے ہیں اوروہ بڑے بڑے عالم کہلاتے ہیں.بعض ایسے ہیں جنہوں نے صرف قرآن کریم کی قضاء پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلائے ہیں.بعض ایسے ہیں جنہوں نے صرف قرآن کی اقتصادیات پر بحث کی ہے اور وہ بڑے بڑے عالم کہلائے ہیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ تمام جزئیات لیتے ہیں بلکہ ان کو پھیلاتے

Page 196

ہیں اور ان کی ایسی تشریحات اور تفصیلات بیان کرتے ہیں جو پہلے کسی انسان نے بیان نہیں کیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ کو چاک کئے جانے کا واقعہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف حدیثوں میں اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ چاک کیا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی رشتہ داروں کی طرف سے روایت آتی ہے کہ بچپن میں جب آپ کو حلیمہ دائی پرورش کے لئے لے گئی تو ایک دن جبکہ آپ باہر کھیل رہے تھے آپ کا ایک رضاعی بھائی گھبراہٹ کی حالت میں دوڑا ہوا اپنی والدہ اور والد کے پاس آیا اور اس نے کہا اَلْـحِقَا اَخِیْ مُـحَمَّدًا فَـمَا تُلْحِقَانِہٖ اِلَّا مَیْتًاقُلْتُ وَمَا قَضِیَّتُہٗ قَالَ بَیْنَا نَـحْنُ قِیَامٌ اِذَا اَتَاہُ رَجُلٌ فَاخْتَطَفَہٗ مِنْ وَّسَطِنَا وَعَلَابِہٖ ذِرْوَۃَ الْـجَبَلِ وَ نَـحْنُ نَنْظُرُ اِلَیْہِ حَتّٰی شَقَّ صَدْرَہٗ اِلٰی عَانَتِہٖ وَلَا اَدْرِیْ مَا فُعِلَ بِہٖ (السیرۃ الحلیبۃباب ذكررضاعه صلى الله عليه وسلم وما اتصل به ) ہمارے بھائی پر کسی نے حملہ کرکے اسے ماردیا ہے.حلیمہ دوڑتی ہوئی باہر گئی تو اس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھے ہوئے ہیں.حلیمہ نے آپ سے دریافت کیا کہ بتائو کیا ہوا تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ تین آدمی آئے تھے انہوں نے میرا سینہ چیرا اور میرے دل کو دھو کر اندر رکھ دیا اور پھر چلے گئے.روایتو ں میں یہ بھی آتا ہے کہ آپ کے سینہ پر اس کا ایک نشان بھی تھا.بعض دوسری روایتوں میں جو واقعہ معراج کے ساتھ تعلق رکھتی ہیںان میں بھی ذکر آتا ہے کہ ایک فرشتہ آیا اس نے آپ کے سینہ کو چیر کر دل نکالا آلائش صاف کی اور پھر دوبارہ اسے آپ کے سینہ میں رکھ دیا (الروض الانف الجزء الاوّل مسألۃ شق الصدر مرۃً اخرٰی).آنحضرت صلعم کا سینہ چاک کئے جانے کا واقعہ ایک کشفی واقعہ تھا مسلمان اس کوجسمانی معجزہ کے طور پر پیش کرتے ہیں.لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں جس رنگ میں مسلمان اس واقعہ کو پیش کرتے ہیں اگر وہ زیادہ غور سے دیکھتے تو یہ آپ کی شان کو بڑھانے والے معجزہ کی بجائے آپ کی تنقیص کرنے والا معجزہ بن جاتا ہے.اوّل تو یہ سوال ہے کہ دل پر کون سی مادی آلائشیں ہوتی ہیں جنہیں صاف کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.جو لوگ جنوں اور بھوتوں کے قائل ہیں وہ بھی اتنی معقولیت سے کام لیتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ فلاں جن نے فلاں کا دیکھتے ہی کلیجہ کھالیا.وہ جنات کی ماہیت کے لحاظ سے سمجھتے ہیں کہ انہیں چیرنے پھاڑنے کی ضرورت نہیں ہوتی یونہی دیکھتے اور دوسرے کاکلیجہ نکال کر چبا جاتے ہیں.اگر جنات کے متعلق بعض نہایت ضعیف الخیال لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جن پیٹ چیرنے کے محتاج نہیں ہوتے تو فرشتوں کے متعلق کیوں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ وہ چیرنے پھاڑنے کے محتاج ہیں.

Page 197

اگر دل بنانے کے لئے فرشتے کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں.اگر پھیپھڑا بنانے کے لئے وہ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں.اگر جگر اور معدہ بنانے کے لئے وہ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں.اگر تلی بنانے کے لئے وہ کسی کا پیٹ پھاڑنے کے محتاج نہیں.اگر دماغ بنانے کے لئے وہ کسی کا سر پھاڑنے کے محتاج نہیں تو وہ دل کو صاف کرنے کے لئے کسی کا سینہ چاک کرنے کے کیوں محتاج ہوگئے؟ جس طر ح وہ پیٹ چیرے بغیر انسان کے اندر گھس گئے تھے اور انہوں نے دل اور دماغ اورمعدہ اور جگر وغیرہ بنادیا اسی طرح وہ سینہ کو چیرے بغیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دل بھی صاف کرسکتے تھے.پھر سوال یہ ہے کہ آیا فرشتوں کو چھریوں کی ضرورت ہوتی ہے؟ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں، پہاڑوں، دریائوں اور دوسری سب چیزوں کے بنانے میں خدا تعالیٰ کے ملائکہ بھی ایک علت کے طور پر کام کرتے ہیں مگر جب وہ پہاڑ اور دریا وغیرہ بناتے ہیں تو نہ انہیں ہتھوڑوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ آری کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کدالوں کی ضرورت ہوتی ہے.وہ بغیر ان مادی ہتھیاروں کے یہ تمام کام سر انجام دے دیتے ہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ اور جگہ تو انہیں کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں پڑتی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی صفائی کے لئے جب ان کو آنا پڑا تو وہ چھری بھی اپنے ساتھ لے آئے جس سے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سینہ چاک کیا.پس یہ روایت عقل کے بالکل خلاف ہے.کروڑوں کروڑ کام دنیا میں فرشتے کرتے ہیں مگر کبھی اس رنگ میں انہوں نے اپنے فرائض کو سرانجام نہیں دیا.پس اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عملی طور پر ایسا ہوا تھا تب بھی اس کے لئے پیٹ کو چاک کرنے کی ضرورت تسلیم نہیں کی جاسکتی اور نہ چھریوں کی حاجت تسلیم کی جاسکتی ہے.فرشتے اگر کسی کے دل کی صفائی کے لئے پیٹ کو چاک کریں تو وہ وزیر آباد یا بھیرہ کی بنی ہوئی چھریوں کے محتاج نہیں ہوتے.درحقیقت اس غلطی کی بناء یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کے بالکل خلاف یہ خیال کرلیاگیاہے کہ فرشتے ان مادی اشیاء کے محتاج ہوتے ہیں.حالانکہ یہ بات ایسی ہے جس کو دوسرے مقامات پر خود مسلمان بھی تسلیم نہیں کرتے.حدیثوں میں صاف طور پر ذکر آتا ہے کہ جب جنین رحم مادر میں ہوتا ہے تو فرشتہ ماں کے پیٹ میں جاتا اور اس میں زندگی کی روح پھونک دیتا ہے(صحیح بـخاری کتاب القدر ابتدائیۃ).مگر کیا کسی نے دیکھا ہے کہ کبھی عورت کا پیٹ فرشتوں نے چاک کیا ہو؟ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ بے شک سب کام فرشتے کرتے ہیں مگر وہ پیٹ چاک کرنے کے محتاج نہیں ہوتے.جب وہ وہاں چھریوں کی ضرورت تسلیم نہیں کرتے تو اس واقعہ کو کیوں ظاہری شکل دی جاتی ہے اور کیوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ ظاہری طور پر چاک کیے جانے پر زور دیا جاتا ہے؟ ہم مانتے ہیں کہ فرشتوں نے آپ کا سینہ چاک کیا اورہم یہ بھی مانتے ہیں کہ انہوں نے آپ کے دل کی صفائی کی مگر ہم ساتھ ہی یہ بھی مانتے

Page 198

ہیں کہ انہوں نے اسی طرح آپ کا سینہ چاک کیا اور اسی طرح آپ کا دل نکال کر دھویا.جس طرح وہ جگر بناتے ہیں، تلی بناتے ہیں، دل اور پھیپھڑا بناتے ہیں.جس طرح وہاں وہ انسان کا دل اور جگر بناتے ہیں اسی طرح یہاں بھی انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل نکالا.اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ بات ایسی ہے جسے ہم بھی تسلیم کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک کشف دیکھا تھا اور کشفی نظارہ بعض دفعہ دوسرے لوگ بھی دیکھ لیتے ہیں.ساری غلطی مسلمانوں کو ا س وجہ سے لگی ہے کہ حلیمہ کے بیٹے نے بھی یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا.وہ کہتے ہیں اگر یہ ظاہری واقعہ نہیں تھا تو حلیمہ کے بیٹے نے کس طرح دیکھ لیا؟ حالانکہ اگر صحابہؓ جبریل کو دیکھ سکتے ہیں تو حلیمہ کا بیٹا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کشفی واقعہ کو کیوں دیکھ نہیں سکتا تھا.حدیثوں میں آتا ہے ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے مختلف سوالات کئے جن کے آپ نے جوابات دیئے.جب وہ چلا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے پوچھا جانتے ہو یہ کون تھا؟ صحابہ نے کہا یارسول اللہ ہمیں تو معلوم نہیں.خدا اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جبریل تھا جو تمہیں علم سکھانے کے لئے آیا.اب دیکھو جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا مگر صحابہؓ نے بھی دیکھ لیا.پس کئی ایسے کشفی نظارے ہوتے ہیں جن میں ساتھ کے لوگ بھی شریک ہوجاتے ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ مادی واقعہ ہوتا ہے.پھر معلوم نہیں وہ صرف چھری کومادی کیوں قرار دیتے ہیں.فرشتے کو بھی کیوں مادی نہیں سمجھ لیتے.مگر وہ فرشتے کو تو روحانی قرار دیتے ہیں اور چھری کو مادی قرار دیتے ہیں.اگر آدھی روحانی چیز تھی تو آدھی مادی کیوں ہوگئی؟ وہ کہتے ہیں اس واقعہ کے مادی ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر اس کا نشان تھا.(صحیح مسلم کتاب الایمان باب الاسراء برسول اللہ الی السمٰوات و فرض الصلوٰت) ہم کہتے ہیں اگر نشان تھا تب بھی یہ اس واقعہ کے مادی ہونے کا ثبوت نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے ایک نشان دکھایا جس کے نتیجہ میں آپ کے کپڑوں پرسرخ روشنائی کے بعض نشانات آگئے مگر اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ ظاہری واقعہ تھا.تھا تو یہ کشفی واقعہ مگر اللہ تعالیٰ نے اس کشف کی صداقت کے لئے ظاہر میں بھی روشنائی پیدا کردی یہ بتانے کے لئے کہ میں قادر مطلق خدا تمہیں یہ نظارہ دکھارہا ہوں.پس گو یہ واقعہ مادی نہیں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ظاہر میں اس کا نشان پیدا کردیا.اسی طرح اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر

Page 199

نشان تھا تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ یہ ظاہری واقعہ تھا.یا ظاہر میں انسانی قلب پر کوئی میل ہوتی ہے جسے دھونے کی ضرورت ہوتی ہے.غرض یہ غلط ہے کہ یہ ایک ظاہری واقعہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرا.یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ ایک کشف تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایاگیا ہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی عظمت کے اظہار کے لئے اور آپ کے رضاعی خاندان کے دل میں آپ کی محبت پید اکرنے کے لئے ایسا تصرف کیا کہ حلیمہ کے بیٹے نے بھی اس واقعہ کو دیکھ لیا.اور اس کی گواہی سے سب پر یہ اثرا ہوا کہ یہ غیر معمولی واقعہ بتارہا ہے کہ یہ لڑکا ایک دن بہت بڑی عظمت اور شان حاصل کرے گا.پھر یہ بتانے کے لئے کہ یہ کشف واقعہ میں ہم نے دکھایاتھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ پر بھی نشان پیدا کردیا.تاکہ سب لوگ اللہ تعالیٰ کے اس نشان کے گواہ رہیں.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کرتے پر سرخ روشنائی کے قطرات اللہ تعالیٰ نے اس لئے ڈالے تاکہ اور لوگ بھی اس نشان کے گواہ رہیں.گو معتبر روایتوں میں یہ ذکر نہیں آتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر نشان تھا.مگر ہمیں اس کو تسلیم کرنے سے انکار کی خاص ضرورت نہیں.اگر روشنائی کے نشان اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کپڑوں پر پیدا کرسکتا ہے تو اس کشف کی تصدیق کے لئے اگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ پر کوئی نشان پید اکردیا ہو تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.پس جس حد تک اس واقعہ کو کشفی ماننے کا تعلق ہے ہمیں اس کی صحت سے ہرگز انکارنہیں لیکن جس حد تک اس واقعہ کو مادی قرار دینے کا سوال ہے ہمارے نزدیک یہ بات عقل کے خلاف ہے ورنہ جیسا کہ احادیث میں آتا ہے ماننا پڑے گا کہ جب کوئی شخص برا کام کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نشان پڑ جاتا ہے اور جب اچھا کام کرتا ہے تو اس کا دل اعلیٰ حالت میں رہتا ہے.حالانکہ یہ بات واقعات کے خلاف ہے.نعشوں کو چیرنے پھاڑنے اور مختلف امراض کے نتیجہ میں انسانی جسم میں جو تغیرات واقع ہوتے ہیں ان کو دیکھنے بھالنے کا کام اس زمانہ میں بہت ترقی پر ہے.لاکھوں نعشیں اب تک چیری جاچکی ہیں اور تشریح الابدان کے ماہرین نے ان تمام تغیرات کا پوری طرح جائزہ لے لیا ہے جو امراض کے نتیجے میں انسانی جسم میں واقعہ ہوتے ہیں.اگر اس نظریہ کو درست تسلیم کرلیا جائے کہ برے کام کے نتیجہ میں قلب پر مادی شکل میں سیاہی چھا جاتی ہے اور اچھے کام کے نتیجہ میں قلب پر مادی شکل میں نور آجاتا ہے تو کئی مسلمانوں کو کافر اور کئی کافروں کو مسلمان قرار دینا پڑے گا.وہ مسلمان جو دم گھٹ کر مر جاتے ہیں ان کے دل یقیناً کالے ہوں گے اور وہ ہندو او رسکھ جن کے تنفس پر بیماری کا اثر نہیں ہوتا ان کے دل یقیناً اچھی حالت میں ہوں گے.ایسی حالت میں ہمیں روزانہ کافروں کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر قرار دیناپڑے گا اور یہ حقیقت کے خلاف ہے.

Page 200

درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ ایک کشف تھا.کشفی حالت میں فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کا سینہ چاک کرکے دل نکالا اور اسے دھو دھا کر پھر اندر رکھ دیا.بے شک ظاہر میں اس واقعہ کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا مگر خواب یا کشف کی حالت میں اس قسم کے واقعہ کو تسلیم کرنا ہرگز بعید از قیاس نہیں.خواب میں ایک چھوڑ دس دل بھی سینوں میں سے نکال کر دھوئے جاسکتے ہیں اور اس میں کسی تعجب کی بات نہیں سمجھی جاسکتی کیونکہ خواب ہمیشہ تعبیر طلب ہوتا ہے.ہم خواب میں زید کے دس سر دیکھ سکتے ہیں حالانکہ ظاہری لحاظ سے کسی کے دس سر نہیں ہوسکتے.خواب چونکہ تعبیر طلب ہوتاہے اس لیے اگر ہم کسی کے دس سر دیکھیں تو اس کے حالات کے مطابق اس کی دو تعبیریں ہوں گی.یاتو اس کی یہ تعبیر ہوگی کہ اس کے اندر استقلال نہیں پایا جاتا اور یا پھر یہ تعبیر ہوگی کہ اس کی عقل وسیع ہے.اگر اس کے حالات اس کی اخلاقی جرأت کا ثبوت ہوں تو دس سر دیکھنے کی اچھی تعبیر ہوگی.اور اگر اس کے حالات اس کے خلاف ہوں تو دس سر دیکھنے کی بری تعبیر ہوگی.بری تعبیر تو یہ ہوگی کہ اس کے اندر استقلال کا مادہ نہیں پایا جاتا.ایک سر ایک دفعہ بات کرتا ہے دوسرا سر دوسری دفعہ بات کرتاہے.ایک دفعہ وہ ایک رائے قائم کرتا ہے اور دوسری دفعہ دوسری رائے قائم کرتاہے اور اچھی تعبیر یہ ہوگی کہ وہ بڑا عقلمندہے.لوگ ایک سر سے کام لیتے ہیں اور وہ دس سروں سے کام لیتا ہے.پس کسی کے دس سر دیکھنا یا تو اس کے تدبر اور اعلیٰ درجہ کے دماغ کا ثبوت ہوگا اور یا پھر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ وہ دس دفعہ اپنی رائے بدلتا ہے اس کے اندر استقلال کا مادہ نہیں.پس ایک ہی خواب کی اچھی تعبیر بھی ہوسکتی ہے اور بری بھی اور یہ تعبیر دیکھنے والے کے حالات پر منحصر ہوتی ہے.اسی طرح اگر رئویا یا کشف کی حالت میں کوئی شخص اپنے دس دل دیکھے تو یہ بھی ہوسکتا ہے جس طرح وہ دیکھ سکتا ہے کہ اس کا دل سینہ میں سے نکالا گیا اور اسے فرشتہ نے دھوکر پھر اس کی اصل جگہ پر رکھ دیا.غرض عام مسلمانوں کو تمام دھوکا کشف کی حقیقت کونہ سمجھنے کی وجہ سے لگا ہے ورنہ کشفی حالت میں دل پر سیاہی بھی دیکھی جاسکتی ہے اور کشفی حالت میں یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دل میں نور بھر دیا گیا ہے.فرق صرف یہ ہوگا کہ اگر جھوٹی خواب ہو توگو انسان بہت کچھ دیکھتا ہے مگر اسے ملتا کچھ نہیں لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی خواب دکھایا جائے تو فوراً انسان کو اس کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام بھی مل جاتا ہے.مثلاً اگر خدا تعالیٰ کسی کو دکھائے کہ اس کا سر بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ بہت بڑا ہوگیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسے بہت بڑا علم مل جائے گا اور اس کی عقل بہت وسیع ہوجائے گی(تعطیر الانام فی تعبیر المنام زیر لفظ ’’رأس‘‘).اب اگر یہ خدائی خواب ہے تو چند دنوں کے بعد ہی اسے نظر آئے گا کہ اس کے علم اور اس کی ذہانت میں ترقی ہورہی ہے.لیکن اگر

Page 201

نفسانی خواب ہے تو کچھ بھی نہیں ملے گا.بعض لوگوں کے کان میں سوتے ہوئے چیونٹی گھس جاتی ہے تو وہ خواب میں دیکھتے ہیں کہ توپیں چل رہی ہیں، لڑائیاں ہورہی ہیں، ڈھول بج رہے ہیں اور دنیا میں ایک شور برپا ہے یا بعض دفعہ کان میں میل پھنسی ہوئی ہوتی ہے ایسی حالت میں جب ہوا کان کی میل سے ٹکراتی ہے تو سویا ہوا انسان دیکھتا ہے کہ بجلیاں چمک رہی ہیں، بادل کڑک رہے ہیں، اولے برس رہے ہیں اور دنیا پر بڑی تباہی آئی ہوئی ہے.حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ میل کا ایک ذرہ اس کے کان میں پھنسا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح سوتے سوتے کسی کو بھڑ کاٹ جائے اور وہ گہری نیند سورہا ہو تو وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ میرا سر بڑا ہوگیا.اب اس کی یہ تعبیر نہیں ہوگی کہ وہ بڑا عقل مند ہوجائے گا بلکہ اس خواب کا صرف اتنا مطلب ہوگا کہ سوتے ہوئے اسے بھڑ نے کاٹ لیا تھا جس کا اس کے اندرونی شعور نے اسے اس رنگ میں نظارہ دکھایا.قادیان میں ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مرزا صاحب کو بھی بے شک الہام ہوتا ہے کہ تجھے ہم نے بڑا درجہ دیا ہے مگر مجھے بھی خدا تعالیٰ روزانہ کہتا ہے کہ تو موسیٰ ہے، تو عیسیٰ ہے، تو محمد ہے.لوگوں نے اسے بہت کچھ سمجھایا مگر وہ نہ مانا.آخر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اس کا ذکر کردیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا اسے ہمارے پاس لائو یا آپ نے فرمایا اس سے سوال کرو(مجھے اس وقت اچھی طرح یاد نہیں) کہ جب خدا تم سے کہتا ہے کہ تم عیسیٰ ہو تو کیا عیسیٰ کی طرح تمہیں خلقِ طیر کا نشان بھی ملتا ہے یا تمہارے ہاتھ سے بھی اسی طرح مردے زندہ ہوتے ہیں جس طرح عیسیٰ کے ہاتھ سے زندہ ہوتے تھے یا جب خدا تمہیں موسیٰ کہتا ہے تو کیا موسیٰ کی طرح یدبیضا کا نشان بھی تمہیں عطا کرتا ہے یا جب محمدؐ کہتا ہے تو کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ مقام جو دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ( الـنّجم:۹،۱۰) میں بیان کیا گیا ہے وہ بھی تمہیں ملتا ہے یا تمہیں وہی فصاحت اور وہی بلاغت عطا کی جاتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی؟ وہ کہنے لگا ملتا تو کچھ نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو پھر وہ خدا نہیں بلکہ شیطان ہے جو تمہیں روزانہ عیسٰیؑ اورموسٰی اور محمدؐ کہتا ہے.اگر خدا تمہیں یہ مقام عطا کرتا تو تمہیں اس مقام سے تعلق رکھنے والے انعامات بھی دیتا.اسی طرح ایک دوسرا شخص بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس کا سینہ چیرا گیا اور دل دھو کر دوبارہ اس کے اصل مقام پر رکھ دیا گیا.مگر فرق یہ ہوگا کہ اس کا سینہ پھر بھی تنگ ہی رہے گا.مگر جس کا خدا دل دھو کر اس کے سینہ میں رکھ دے گا اس کا سینہ پہلے سے ہزاروں گنا زیادہ وسیع ہوجائے گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق آپ کے رضاعی بھائی نے جو شہادت دی اگر وہ بات جھوٹی ہوتی تو سوال پید اہوتا ہے کہ آپ کا شرح صدر

Page 202

ہوکس طرح گیا؟ پھر تو چاہیے تھا آپ کا شرح صدر نہ ہوتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ادھر آپ کا سینہ چاک کرکے دل دھویا گیا اور ادھر دنیا نے دیکھ لیا کہ ہر علم وفن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیمات دیں جن کی نظیر اور کسی شخص میں نہیں ملتی.علم کا کوئی شعبہ ایسانہیں جس میں قرآنی خیالات لے کر آپ نے ری فلیکٹرکے طور پر دنیا میںنہایت اعلیٰ اور بےعیب تعلیمیں پیش نہ کی ہوں.جب ہم ان واقعات کو دیکھتے ہیںتو ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آپ کا سینہ چیرنے والا فرشتہ ہی تھا ورنہ خالی دل دھو دھا کر سینہ کے اندر رکھ دینے میں کیا کمال ہوسکتا تھا.بات تو وہی رہی پہلے بھی دل میں خون آتا تھا اور اس کے بعد بھی دل میں خون نے ہی آنا تھا.جو چیز اس واقعہ کو عظمت دیتی ہے وہ اس کا جسمانی نہیں بلکہ روحانی پہلو ہے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.کیا بچپن میں ہی ہم نے یہ نظارہ تجھے نہیں دکھادیا تھا اور ہم نے بچپن میں ہی تجھ سے یہ نہیں کہہ دیا تھا کہ ہم ایک دن تجھ میں بڑے بڑے کمالات پیدا کردیں گےـ؟ یہ تعبیر ہے جو اس کشفی واقعہ کی تھی اور جس نے بعد میں آپ کی صداقت کو آفتابِ نیم روز کی طرح ظاہرکردیا ورنہ ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ نعوذ باللہ آپ کے دل پر سیاہی تھی جسے فرشتوں نے دھودیا.آپ کا دل پہلے بھی پاک تھا اس کو دھونے کے معنے یہ تھے کہ ہم نے نئی قابلیتیں اور علوم کی نئی وسعتیں تیرے اندر پیدا کردی ہیں.یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ کے دل پر نعوذ باللہ کوئی گند لگا ہوا تھا جسے انہوں نے دھودیا.آنحضرت صلعم کی بے مثال قوت برداشت ایک معنے اس آیت کے یہ بھی ہیں کہ ہم نے تیرے اندر قوت برداشت پیدا کردی ہے.چنانچہ شرح صدر کے الفاظ اسی طرف اشارہ کرتے ہیںکہ کسی چیز پر آپ کو تنگیٔ نفس پیدا نہیں ہوتی تھی بلکہ جو بات آتی آپ اس کو برداشت کرلیتے اور کہتے ہر چہ از دوست مے رسد نیکو است آپ جانتے تھے کہ میرے ساتھ جو معاملہ ہے وہ خاص قانون کے ماتحت ہے میں خدا تعالیٰ کے کامل تصرف کے ماتحت ہوں میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوگا خواہ وہ بظاہر برا ہو میرے لئے انجام کار اچھا ہوگا.اسی وجہ سے آپ مصائب اور مشکلات میں گھبراتے نہیں تھے.پس اس آیت کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ تیرے اندر قوت برداشت کمال درجہ کی پید اہوچکی ہے.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی قسم کے مشکلات آئے، کئی قسم کے مصائب سے آپ کو دوچار ہونا پڑا مگر آپ پر کبھی گھبراہٹ طاری نہیں ہوئی ایسے اطمینان سے آپ نے ان مشکلات کو برداشت کیا.جیسے آپ کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ میرے حق میں ہے خدامیرا دوست ہے دشمن نہیں.وہ مجھے

Page 203

کامیاب کرے گا اور میرے دشمنوں کو ناکامی کے گڑھے میں گرائے گا.لوگ آپ کو گالیاں دیتے، آپ کو برا بھلاکہتے، آپ کے خلاف بڑے بڑے منصوبے کرتے مگر آپ ان کی ذرا بھی پروا نہ کرتے اور کبھی آپ کی زبان سے ان کے حق میں کوئی برا کلمہ نہیں نکلا.لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر راہ چلتے ہوئے کوئی شخص ان کے سامنے آجائے اور انہیں معمولی سی ٹکر لگ جائے تو وہ غیظ و غضب سے بھر جاتے ہیں اورکہتے ہیں تم دیکھتے نہیں تمہاری آنکھیں پھوٹی ہوئی ہیں! مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم دیکھتے ہیں مکہ فتح ہوچکا ہے، آپ کے غلبہ اور آپ کی شان اور آپ کی عظمت کا تمام عرب قائل ہوچکا ہے کہ اس حالت میں ایک اعرابی آتا ہے او رسختی سے کہتا ہے.سارے لوگ اپنا اپنا حصہ لے گئے ہیںمجھے بھی مال غنیمت میں سے حصہ دو.صحابہ نے اسے پکڑ کر ہٹایا کہ یہ کیا بیہودگی ہے جو تم کررہے ہو مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تمہیں ضرور دیتا مگر میرے پاس جو مال تھا وہ میں دے چکا ہوں اب میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا.یہ قوتِ برداشت جو آپ کے اندر نظر آتی ہے یہ ایک ایسی بے مثال چیز ہے جس کا نمونہ ہمیں اور کہیں نظر نہیں آتا.آپ بے شک نصیحت بھی کرتے، لوگوں کو ا ن کی برائیوں سے منع بھی فرماتے اور ناراضگی کے موقع پر ناراضگی کا بھی اظہار فرماتے مگر طبیعت آپ کے قابو سے کبھی باہر نہیں ہوتی تھی.پس اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ کے ایک معنے یہ ہیں کہ کیا ہم نے تیرے سینہ کو وسیع نہیں کردیا کہ تجھے گالیاں ملتی ہیں مگر تو ان کی پرواہ نہیں کرتا.دکھ دیئے جاتے ہیں مگر تو ان کی کوئی اہمیت نہیں سمجھتا.تیرے اندر اس قدر قوتِ برداشت پیدا کردی گئی ہے کہ دشمنوں کے لئے مقابلہ اور ان کے متواتر مظالم پر بھی تیرے پائے استقلال میں کوئی جنبش پیدا نہیں ہوتی.وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَۙ۰۰۳الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَۙ۰۰۴ اور (ایسا کرکے) ہم نے تیرے (اس) بوجھ کو تجھ پر سے اتار دیا.جس نے تیری کمر توڑ رکھی تھی.حلّ لُغات.اَلوِزْرُ اَلْوِزْرُ: اَلثِّقْلُ یعنی وِزْرٌ کے معنے بوجھ کے ہیں(اقرب).تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک فضیلت کامیابی کے لئے دوسری ضروری چیز انسان کو کام کرنے کے ذرائع کامیسر آجاناہے.دل کا حوصلہ اور قوتِ برداشت کا پایا جانا بھی کامیابی کے حصول کے لئے نہایت ضروری ہوتا ہے مگر وہ پہلی چیز ہے.دوسری چیز

Page 204

جس کا انسانی کامیابی کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے یہ ہے کہ انسان کو کام کرنے کے ذرائع مہیا ہوجائیں.اس معاملہ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایک بہت بڑی فضیلت حاصل ہے.جس طرح پہلی آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ کے مقابل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.اسی طرح وَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ میں ماضی کے الفاظ استعمال کرکے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر آپ کی ایک فضیلت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ (طٰہٰ: ۳۰) اے میرے رب میرے اہل میں سے کوئی میرا بوجھ بٹانے والا پید اکر دے.گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے ایک ایسا شخص مانگنے کی ضرورت محسوس ہوئی تھی جو ان کا بوجھ بٹانے والا ہو.مگر اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ہم نے بغیر تیرے مانگنے کے تجھے ایسے ساتھی عطا کردیئے ہیں جو تیرے بوجھ کو صرف بٹانے والے نہیں بلکہ سارا بوجھ اپنے آپ پر اٹھانے والے ہیں.انہوں نے تیرے اوپر سے وہ سب کا سب بوجھ اٹھالیا ہے جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا.حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتنا بڑا بوجھ تھا جس کو کوئی اکیلا شخص اٹھانے کے قابل نہیں تھا.آپ کے سپرد یہ کام تھا کہ آپ ساری دنیا کی اصلاح کریں.ساری دنیا کو اسلام میں داخل کریں.ساری دنیا کی بدیوں اور عیوب کا قلع قمع کریں.آپ دیکھتے تھے کہ میں اکیلا ہوں نہ میں ہر شخص کے پاس پہنچ سکتا ہوں اور نہ ہر شخص کو منوانے کی طاقت رکھتا ہوں.ایک ایک آدمی کو اسلام میں داخل کرنے کے لئے بظاہر کئی کئی سال چاہیےتھے کیونکہ ان کے عقائد اور اسلام کی پیش کردہ تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق تھا.وہ کئی کئی بتوں کو مانتے تھے اور قرآن کہتا تھا کہ بت اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتے وہ جھوٹ اور فریب اور دغا اور خیانت اور ڈاکہ اور قتل اور اسی قسم کے دوسرے افعال کو جائز سمجھتے تھے اور اسلام ان سب کوناجائز اور حرام قرر دیتا تھا.وہ عبادت سے کوسوں دور بھاگتے تھے اور اسلام انسان کو ہر وقت الٰہی آستانہ پر جھکے رہنے کی تعلیم دیتا تھا.غرض تعلیم میں اختلاف تھا، عبادت میں اختلاف تھا، رسم و رواج میں اختلاف تھا، مطمح نظر میں اختلاف تھا.پھر مکہ والے الہام کے قائل نہیں تھے مگر قرآن نزولِ الہام کا قائل تھا.اسی طرح وہ خدا تعالیٰ کی خاص قدرتوں کے قائل نہیں تھے مگر قرآن اس بات کا قائل تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نشانات سے اپنی ذات کا ثبوت دیا کرتا ہے.پھر وہ اس بات پر دن رات فخر کیا کرتے تھے کہ ہم آزاد ہیں کسی کے ماتحت نہیں.مگر قرآن کی تعلیم یہ تھی کہ سب ایک ہاتھ پر جمع ہوجائو اور منظم ہوکر اپنی اور

Page 205

دوسری اقوام کی اصلاح کرو.غرض اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، چلنا پھرنا ہر اک امر کو اسلام ایک نظام کے ماتحت لاتاتھا اور اس طرح کوئی حصہ ایسا نہ تھا جس میں غیرمسلم عربوں اور قرآنی تعلیم کے درمیان اتحاد ہوسکتا.قرآن کریم ان کے خیالات میں بھی دخل دیتاتھا، ان کے اخلاق میں بھی دخل دیتا تھا، ان کے عقائد میں بھی دخل دیتا تھا، ان کی سیاسیات میں بھی دخل دیتا تھا.ان کی اقتصادیات میں بھی دخل دیتا تھا.غرض کوئی معاملہ ایسانہ تھا جس میں اسلام دخل اندازی نہ کرتا ہو.اتنی لمبی اور تفصیلی باتیں منوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کتنی بڑی مشکلات پیش آسکتی تھیں مگر یہ الٰہی فعل ہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی کو اطلاع دیتے ہیں کہ مجھ پر یوں وحی ہوئی ہے.توبیوی یہ نہیں کہتی کہ یہ کیا پاکھنڈ بنانے لگے ہو بلکہ وہ کہتی ہے کَلَّا وَاللہِ مَا یُـخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِـمَ وَتَـحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْـحَقِّ.آپ گھبرائیں نہیں آپ نے جو کچھ دیکھا ٹھیک دیکھا.اللہ تعالیٰ آپ کو ضائع نہ کرسکتا تھا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں.نادار کا بوجھ اٹھاتے ہیں.گم شدہ نیکیوں کو قائم کرتے ہیں.مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مدد کرتے ہیں.پھر بیوی آپ کو اپنے بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے جاتی ہے جو اسرائیلی علوم کے عالم تھے تو وہ سنتے ہی فرماتے ہیں کہ یہ ویسی ہی وحی ہے جیسے موسیٰ پر نازل ہوئی تھی (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) اور ویسے ہی احکام اور فرامین اس وحی میں پائے جاتے ہیں جیسے موسیٰ کی وحی میں پائے جاتے تھے.گھر میں ایک چچیرا بھائی جو جوانی کی عمر کو پہنچنے والا ہے اور نوجوانوں میں تبلیغ کا اچھا ذریعہ بن سکتا ہے جب وہ اپنے بھائی اور بھاوج کو نہایت سنجیدگی سے ایک اہم تغیر کی نسبت باتیں کرتے ہوئے سنتا ہے تو بڑی متانت سے آگے بڑھ کر کہتا ہے کہ میں بھی یقین رکھتا ہوں کہ آپ سچے ہیں اور ضرور خدا تعالیٰ نے آپ سے یہ باتیں کی ہیں اور آپ کو دنیا کی اصلاح کے لئے مامور کیا ہے.ایک آزاد کردہ غلام جو آپ کے اخلاق کا شکار ہوکر ماں باپ کو چھوڑ کر آپ کے دروازہ پر بیٹھ گیا تھا.جب ان آہستہ آہستہ ہونے والی باتوں کو سنتا ہے اور اپنے آقا کے چہرہ پر فکر و اندیشہ کے آثار دیکھتا ہے تو آگے بڑھ کر اپنے آقا کے دامن کو تھام لیتا ہے اور کہتا ہے میرے آقا وہی ہوگا جو آپ نے دیکھا.آپ جیسے انسان سے قدرت دھوکا بازی نہیں کرسکتی.اب وہ وقت آگیا ہے کہ آپ کے ہاتھوں دنیا کی اصلاح ہو.مجھے بھی اپنے ساتھ رہنے اور خدمت کرنے کی اجازت دیجئے.ایک ہی گہرا دوست جو گویا ایک ہی صدف میں پلنے والا دوسرا موتی تھا جب سنتا ہے کہ اس کے دوست نے بے پر کی اڑانی شروع کردی ہے اور شاید اس کے دماغ میں خلل آگیا ہے تو بھاگا ہوا جاتا ہے اور دروازہ کھلوا کر پوچھتا ہے کہ کیا جو کچھ سنتا ہوں سچ ہے؟ جب آپ اس کے سامنے تشریح کرنے لگتے ہیں تو کہتا

Page 206

ہے خدا کی قسم دلیلیں نہ دیجئے صرف یہ بتائیے کیا یہ باتیں سچ ہیں اور آپ کی تصدیق کرنے پر کہتا ہے میرے سچے دوست میں آپ کی رسالت پر ایمان لایا.آپ تو غضب ہی کرنے لگے تھے کہ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو مشتبہ کرنے لگے تھے.میرے دوست جس نے تیرے چہرہ کو دیکھا وہ کب تیری بات میں شبہ کرسکتا ہے(تاریخ الخلفاء للسیوطی: ابو بکر رضی اللہ عنہ ).اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مخالفت ہونی ہی چاہیے تھی کیونکہ بقول ورقہ بن نوفل کہ لَمْ یَاْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِـمِثْلِ مَا جِئْتَ بِہٖ اِلَّا عُوْدِیَ(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) یعنی جوشخص بھی ایسا پیغام لایا لوگوں کی مخالفت سے نہیں بچا.مگر خدا تعالیٰ کی تدبیر دیکھو کہ اس مخالفت کاطوفان آنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس طرح آپ کے ساتھی پیدا کردیئے.ساکنینِ مکہ میں سے ایک ہی اسرائیلیات کا عالم ورقہ پہلے حملہ میں ہی آپ کے آگے گھٹنے ٹیک گیا.رفیقہ حیات خدیجہؓ نے وحی سنتے ہی آپ کی بلائیں لیں.نوعمر بھائی علیؓ جو ہر وقت آپ کے عائلی اخلاق کو دیکھتا تھا اپنی خدمات پیش کرنے لگا.وہ آزاد غلام زید جس نے آپ کے لین دین اور غرباء سے سلوک کا گہرا اور لمبا مطالعہ کیا تھا آپ کی صداقت کی قسمیں کھانے لگا.بچپن کا دوست، مکہ کا محسن، شرافت کا پتلا ابوبکرؓ صرف اتنا سن کر کہ آپ نے وحی کا دعویٰ کیا ہے اپنے گلے میںغلامی کا پٹکہ ڈال کر دروازہ پر آ بیٹھا.اس عقیدت و اخلاص کے بے نظیر مظاہرہ نے آپ کے دل میں کس قدر خوشی نہ پیدا کردی ہوگی.مکہ والوں کی ہا وہُو، ان کے طعنہ سن کر آپ کس طرح مسکرادیتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے یہ تمہارا فتویٰ ہے جو مجھے نہیں جانتے.اب ذرا اس فتویٰ کو بھی تو سنو جو مجھے جاننے والوں نے دیا ہے.کس طرح جانیں دے کر وہ میرے دائیں بائیں کھڑے ہیں.موسٰی نے دعا مانگ کر ایک وزیر بوجھ اٹھانے کے لئے مانگا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پانچ وزیر بن مانگے ہی دے دیئے اور ایسے وزیر جنہوں نے آپ کا بوجھ بٹانے میں کمال کر دکھایا.ورقہ بے شک جلدی فوت ہوگئے مگر ایک نہ مٹنے والی شہادت آپ کی صداقت پر دے گئے.حضرت خدیجہؓ نے بارہ سال تک اس کے بعد عورت ہوکر وہ کام کرکے دکھایا کہ بہادر سے بہادر مرد کی بھی آنکھیں نیچی ہوتی ہیں.زیدؓ نے بیس سال تک اس کے بعد قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا اور آخر تلواروں کی دھاروں کے سامنے اپنا خون بہا کر ثابت کردیاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وزیر کیسے ہونے چاہئیں.ابوبکرؓ اور علیؓ تو آپ کی وفات کے بعد بھی رہے اور خلیفہ بن کر وزارت کا ایک نئے رنگ میں ثبوت دے گئے.وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ میں شیعہ اصحاب کے خیالات کی تردید شیعہ اصحاب ذرا اس آیت پر غور کریں تو خلافت کے جھگڑے کافیصلہ ہوجاتا ہے.اسی مفہوم کی آیت حضرت موسٰی کے بارہ میںآتی ہے وہ دعا

Page 207

کرتے ہیں وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ ( طٰہٰ:۳۰) اور اس کے معنے اختلافی نہیں مسلمہ ہیں کہ موسٰی دشمنوں کی مخالفت کے خیال سے فوراً ہی ایک مومن کا مطالبہ کرتے ہیں جو آپ کا بوجھ اٹھائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت اللہ تعالیٰ خود فرما دیتا ہے کہ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ.اس خبر کے مطابق وہ کون لوگ تھے جو آپ پر سنتے ہی ایمان لائے.یقیناً یہی پانچ جن کا اوپر ذکر ہوا ہے.پس یہ پانچوں آپ کے وزیر تھے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تین آپ کی زندگی میں فوت ہوگئے کیونکہ حضرت ہارون بھی تو حضرت موسٰی کی زندگی میں فوت ہوگئے تھے.مگر فوت ہونے والوں کو نکال بھی دو تو بھی فوراً ایمان لانے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ دونو ں ہی ہیں اور دونوں ہی اس آیت کے ماتحت آپ کا بوجھ بٹانے والے ہیں ان میں سے کسی ایک کو برا کہنا قرآن کریم کی تکذیب اور تضحیک ہے.ہم کئی مدعیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ادھر دعویٰ کرتے ہیں اور ادھر ان کے اپنے رشتہ دار انہیں پاگل کہنا شروع کردیتے ہیں.بیوی کہتی ہے تیرا دماغ خراب ہوگیا ہے، بیٹا کہتا ہے تو پاگل ہوگیا ہے، دوست کہتے ہیں تیری عقل ٹھکانے نہیں رہی.وہ تلاش کرتے ہیں کہ کوئی ان کو ساتھی ملے مگر نہیں ملتا.بے شک بعض کو ان کے رشتہ داروں نے مانا بھی ہے مگر شروع میں اکثر ایسا ہی نظارہ نظر آتا ہے کہ ان کو ساتھی نہیں ملتے اور اگر ملتے بھی ہیں تو فاتر العقل.مگر یہاں پہلے دن ہی یہ پانچوں شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت کا شکار ہوگئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب یہ دعا کی تھی کہ وَ اجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ.تو خدا تعالیٰ نے ان کی اس دعا کو فوراً قبول نہیں کر لیا بلکہ فرمایا تم سفر کرتے چلے جائو جب مصر پہنچو گے تو وہاں تمہیں ہارون مل جائے گا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ دعا کرتے ہیں نہ سفر کرتے ہیں، نہ محنت اورمشقت برداشت کرتے ہیں اور پہلے دن ہی آپ کو پانچ وزیر مل جاتے ہیں.یہی وہ حقیقی پنجتن ہیں جن سے اسلام کا آغاز ہوا.بے شک جسمانی اولاد کے لحاظ سے پنجتن اور ہیں مگر روحانی لحاظ سے خدا تعالیٰ نے پہلے ہی دن آپ کو پنجتن دے دیئے تھے جن میں سے ہر شخص آپ کا جاں نثار اور فدائی تھا.پس فرماتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ.ہم نے تیرا بوجھ اتار دیا اور تیری مدد کے لئے وہ لوگ کھڑے کردیئے جنہوں نے تیرے بوجھ کے نیچے اپنے کندھے دے دیئے اور کہا یارسول اللہ ہم اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہیں.پھر قریب زمانہ میں طلحہؓ اور زبیرؓ اور عمرؓ اور حمزہؓاور عثمان بن مظعونؓ اس قسم کے ساتھی آپ کو مل گئے.جن میں سے ہر شخص آپ کا فدائی تھا، ہر شخص آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ

Page 208

تیرہ سال تک مصائب بھی آئے، مشکلات بھی آئیں.تکالیف بھی آپ کو برداشت کرنی پڑیں.مگر آپ کو اطمینان تھا کہ ان مکہ والوں میں سے عقل والے، سمجھ والے، رتبہ والے، تقویٰ والے، طہارت والے مجھے مان چکے ہیں اور اب مسلمان ایک طاقت سمجھے جاتے ہیں.جب کوئی شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتا کہ وہ پاگل ہے تو اس کے دوسرے ساتھی ہی اسے کہتے کہ اگر وہ پاگل ہے تو فلاں شخص جو بڑا سمجھدار اور عقلمندہے اسے کیوں مانتا ہے؟ یہ ایک ایسا جواب تھا جس کے مقابلہ میں کوئی شخص بولنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا.یوروپین مصنف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اپنا تمام زور بیان صرف کردیتے ہیں اور بسا اوقات آپ پر گند اچھالنے سے بھی دریغ نہیں کرتے مگر جہاں ابوبکرؓ کا نام آتا ہے وہ کہتے ہیں ابوبکرؓ بڑا بے نفس تھا.اس پر بعض دوسرے یوروپین مصنف لکھتے ہیں کہ جس شخص کو ابوبکرؓ نے مان لیا وہ جھوٹا کس طرح ہوگیا.اگر وہ بے نفس تھاتو اس نے ایسے لالچی کومانا کیوں؟ اور اگر وہ واقع میں بے نفس تھا تو پھر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کا آقا بھی بے نفس تھا.یہ ایک بہت بڑی دلیل ہے جس کو ردّ کرنا آسان نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ کو جاہل کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو ردّ کرنے کے لئے ایسے سامان کردیئے کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ شروع میں ہی آپ پر ایمان لے آئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بھی دعویٰ سے پہلے آپ کی تعریف کرنے والے تھے.پھر جب آپ نے دنیا میں اپنی ماموریت کا اعلان کیاتو تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک جماعت اللہ تعالیٰ نے ایسی کھڑی کردی جو فوراً آپ پرایمان لے آئی.یہ تعلیم یافتہ لوگ علماء میں سے بھی تھے، امراء میں سے بھی تھے اور انگریزی دان طبقہ میں سے بھی تھے.رعب اور دبدبہ تین ہی چیزوں سے ہوتا ہے.یا تو ایمان سے ہوتا ہے یا علم سے ہوتا ہے اور یا روپیہ سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ نے تینوں چیزیں آپ کی جماعت میں پیدا کردیں.ایسے لوگ بھی آپ کو دے دیئے جو اپنے اندر صلاحیت اور نور ایمان رکھتے اور چوٹی کے علماء سمجھتے جاتے تھے.ایسے لوگ بھی آپ کو دے دیئے جو امراء میں سے تھے اور ایسے لوگ بھی آپ کو دے دیئے جو انگریزی دان تھے اور اس طرح نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ پر اچھا اثر ڈال سکتے تھے.جب لوگ کہتے کہ مرزا صاحب جاہل ہیں تو ان کے اپنے آدمی ان کے مقابلہ میں کھڑے ہوجاتے اور کہتے اگر وہ جاہل ہے تو کالج کے سٹوڈنٹ اس کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں.پھر جب لوگ کہتے کہ مرزا صاحب کو دین کی واقفیت نہیں تو ان کے اپنے بعض آدمی کہتے کہ اگر انہیں دین کی واقفیت نہیں تو علماء ان کے پیچھے کیوں بھاگے چلے جاتے ہیں.پھر جب لوگ کہتے ہیں کہ مرزا صاحب دنیا پرست ہیں تو ان کے اپنے بعض آدمی کہتے ہیں کہ اگر وہ دنیا پرست ہے

Page 209

تو وجہ کیا ہے کہ امراء اور دنیا کی عیاشیوں میں مبتلا انسان اپنی دولت کو قربان کرکے اس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں؟ غرض ہر طبقہ کے لوگ علماء میں سے بھی، امراء میں سے بھی اور انگریزی دانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائے اور اس لئے عطا فرمائے تا اس اعتراض کا ازالہ ہو کہ آپ جاہل ہیں یا آپ دنیا دار ہیں یاآپ علم دین سے واقفیت نہیں رکھتے.یہی حال ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیکھتے ہیں کہ ہر طبقہ کے لوگ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرما دیئے.عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ مکہ کے چوٹی کے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے.اگر کوئی کہتا کہ ادنیٰ ادنیٰ لوگ اس کے ساتھ ہیں اعلیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والے کسی شخص نے اس کو قبول نہیں کیا تو عثمانؓ، طلحہؓ اور زبیرؓ اس کا جواب دینے کے لئے موجود تھے اور اگر کوئی کہتا کہ چند امراء کو اپنے اردگرد اکٹھا کرلیا گیا ہے.غرباء جن کی دنیامیں اکثریت ہے انہوں نے اس مذہب کو قبول نہیں کیا تو زیدؓاور بلالؓ وغیرہ اس اعتراض کا جواب دینے کے لئے موجود تھے اور اگر بعض لوگ کہتے کہ یہ نوجوانوں کا کھیل ہے تو لوگ ان کو یہ جواب دے سکتے تھے کہ ابوبکرؓ تو نوجوان اور ناتجربہ کار نہیں.انہوں نے کس بنا پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرلیا ہے؟ غرض وہ کسی رنگ میں دلیل پیدا کرنے کی کوشش کرتے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں سے ہر شخص ان دلائل کو ردّ کرنے کے لئے ایک زندہ ثبوت کے طور پر کھڑا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا فضل تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال تھا.اسی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ.اے محمد رسول اللہ! کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ جن سامانوں سے دنیا جیتا کرتی ہے وہ سارے سامان ہم نے تیرے لئے مہیا کردیئے ہیں.اگر دنیا قربانی کرنے والے نوجوانوں سے جیتا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں.اگر دنیا تجربہ کار بڈھوں کی عقل سے ہارا کرتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں.اگر دنیا مالدار اور بارسوخ خاندانوں کے اثر و رسوخ کی وجہ سے شکست کھاتی ہے تو وہ تیرے پاس موجود ہیں اور اگر عوام الناس کی قربانی اور فدائیت کی وجہ سے دنیا جیتا کرتی ہے تو یہ سارے غلام تیرے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں.پھر یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ تو ہار جائے اوریہ مکہ والے تیرے مقابلہ میںجیت جائیں.پس وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ کے معنے یہ ہیں کہ وہ بوجھ جس نے تیری کمر کو توڑ دیا تھا وہ ہم نے خود اٹھالیا تو نے اس کام کی طرف نگاہ کی اور حیران ہوکر کہا کہ میں یہ کام کیونکر کروں گا.خدا نے ایک دن میں ہی تجھے پانچ وزیر دے دیئے.ابوبکرؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لئے کھڑ اکردیا.خدیجہؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لئے کھڑا کردیا.علیؓ کا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لئے کھڑا کردیا.زیدؓکا ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لئے کھڑا کر دیا.ورقہ بن نوفل کا

Page 210

ستون اس نے اسلام کی چھت قائم کرنے کے لئے کھڑا کردیا اور اس طرح وہ بوجھ جو تجھ اکیلے پر تھا وہ ان سب لوگوں نے اٹھالیا.وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ میں قرآن کے دلکش ہونے کی طرف اشارہ اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے تجھے ایسی تعلیم دی ہے جو آپ ہی آپ دلوں کو موہ لیتی ہے.بعض تعلیمیں ایسی ہوتی ہیںجو بظاہر اچھی ہوتی ہیں مگر وہ ایسی فلسفیانہ باتوں پر مشتمل ہوتی ہیں کہ ان کا سمجھنا لوگوں کے لئے بڑا مشکل ہوتا ہے.وہی تعلیم ملک میںفوری طور پر مقبولیت حاصل کرسکتی ہے جو سمجھنے میں آسان ہو اور جس میں ہر فطرت کو ملحوظ رکھا گیاہو.پس وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ میں ایک یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ تجھے اپنی تعلیم کا پھیلانا بڑا مشکل نظر آتا تھا مگر ہم نے اسے اس قدر دلکش اور اس قدر جاذبیت رکھنے والی بنایا ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ تیری طرف کھچے چلے آتے ہیں.عرب لوگ عورتوں کو ان کے حقوق نہیں دیتے تھے.مگر قرآن کریم نے ان کے حقوق کو محفوظ کردیا.عرب لوگ غلاموںکے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کیا کرتے تھے مگر اسلام نے ان کو ایسی سطح پر لاکر کھڑا کردیاکہ جس کے بعد دنیا میں کوئی غلامی نہیں رہتی.عرب لوگ ورثہ کی تقسیم کے وقت جنبہ داری سے کام لینے کے عادی تھے اور وہ اپنے رعب کی وجہ سے لوگوں کے حقوق کو غصب کرلیا کرتے تھے مگر اسلام نے اس نقص کا بھی ازالہ کردیا اور تمام ورثاء کے حقوق شریعت میں مقرر کردیئے.اب یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص بھی ایسی اچھی تعلیم کو سنے گا اس کادل پکاراٹھے گا کہ یہ تعلیم درست ہے.پس فرماتا ہے اگر تیری تعلیم فلسفیانہ اور پیچیدہ ہوتی تو لوگوں کا تجھے قبول کرنامشکل ہوتا.مگر ہم نے جو تعلیم تجھے دی ہے وہ فطرت کے عین مطابق ہے.جو بھی پاکیزہ فطرت رکھنے والا انسان اس تعلیم کو سنتا ہے فوراً کہہ اٹھتا ہے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا.میں ایمان لایا اور میں اس کی صداقت کو قبول کرتا ہوں.مجھے ایک لطیفہ ہمیشہ یاد آیا کرتا ہے.لدھیانہ کے ایک دوست میاں نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت تعلق رکھا کرتے تھے اورمولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی وہ دوست تھے.جب انہوں نے مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کی زبان سے سنا کہ مرزا صاحب کہتے ہیں حضرت مسیح ناصری فوت ہو چکے ہیں تو انہوں نے خیال کیا کہ مرزا صاحب تو بہت نیک آدمی ہیں معلوم ہوتا ہے لوگ ان پر غلط الزام لگاتے ہیں یا ان کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے ورنہ وہ قرآن کے خلاف ایسا دعویٰ دنیا کے سامنے کیوں پیش کرتے.چنانچہ انہوں نے طے کیا کہ میں خود قادیان جائوں گا اور مرزا صاحب کو سمجھائوں گا کہ وہ اس قسم کا دعویٰ ترک کر دیں اور امید ظاہر کی کہ مرزا صاحب میری بات ضرور مان جائیں گے.کیونکہ وہ قرآن کے خلاف کوئی بات اپنی زبان سے نہیں نکال سکتے.اس فیصلہ کے بعد

Page 211

وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام سے کہا کہ میں نے سنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں حضرت مسیح َموعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں یہ درست ہے.وہ بولے میں نے تو سمجھا تھا لوگ یونہی غلط باتیں مشہور کر رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں یہ درست ہے.اچھا بتائیے جب قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو آپ خلافِ قرآن ایسا دعویٰ کیوںکر رہے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا میاں نظام الدین صاحب! میں تو قرآن کی ہر بات مانتا ہوں اگر قرآن سے حیاتِ مسیح ثابت ہو جائے تو میں آج ہی اپنی بات چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.وہ کہنے لگے بس یہی میں کہتا تھا کہ مرزا صاحب قرآن کے خلاف نہیں جا سکتے ضرور اُنہیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اگر اُن پر یہ حقیقت روشن کر دی جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں تو وہ اپنی بات کو بالکل چھوڑ دیں گے اچھا اب اس بات پر مضبوط رہیے اگر میں سو آیات ایسی لے آیا جن سے حیاتِ مسیح ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے؟حضرت مسیح موعودعلیہ ا لسلام نے فرمایا سو آیات کا کیا ذکر ہے ہم تو قرآن کا ایک ایک لفظ مانتے ہیں اگر آپ ایک آیت بھی لے آئیں تو میں اپنا دعویٰ چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.اس پر وہ کہنے لگے اچھا اگر سو آیات نہ ہوئیں اور صرف چالیس پچاس آیتیں ہوئیں تب بھی آپ اپنا دعویٰ چھوڑ دیں گے؟حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے فرمایا میں تو کہہ چکا ہوں کہ آپ ایک آیت ہی لے آئیں پچاس آیات کے لانے کی کیا ضرورت ہے.کہنے لگے اچھا دس آیات تو میں ضرور لے آئوں گا.یہ کہہ کر وہ قادیان سے چلے اور سیدھے لاہور پہنچے.لاہور میں اُن دنوں حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ جموں سے چھٹی پر آئے ہوئے تھے اور مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی سے مباحثہ کے لئے شرائط کا تصفیہ کر رہے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو فخر کی بہت عادت تھی انہوں نے اشتہار شائع کیاہوا تھا کہ مرزا صاحب تو میرے مقابلہ میں نہیں نکلتے اب نورالدین آیا ہوا ہے میں دیکھوں گا کہ وہ میرے پنجہ سے کس طرح نکلتا ہے.بہت دنوں تک شرائط کا تصفیہ ہوتا رہا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا.حضرت خلیفہ اوّل ؓ فرماتے تھے کہ ہمارے تمام جھگڑوں کے لئے قرآن حَکم ہے.ہمیں اس سے فیصلہ کرنا چاہیے.مگر مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ حدیثیں بھی ضرور شامل کرنی چاہئیں.آخر کئی دن کی بحث کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ نے مان لیا کہ اچھا قرآن کے علاوہ بخاری کو بھی پیش کیا جاسکتا ہے.جب حضرت خلیفہ اوّلؓ نے یہ آخری جواب دیا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی چینیاں والی مسجد میں بیٹھے بڑے زور سے لاف زنی کررہے تھے کہ نورالدین نے یوں کہا اور میں نے اس کی دلیل کو یوں توڑا.اس نے اِس طرح کیا اور میں نے اسے اس طرح رگیدا اور آخر میں نے منوالیا کہ قرآن کے علاوہ اس موضوع کے لئے بخاری بھی پیش کی جاسکتی ہے.ابھی وہ

Page 212

یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور کہنے لگے چھوڑیں بھی آپ یہ کیا باتیں کررہے ہیں.مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے جن میں حیاتِ مسیح کا ذکر آتا ہو.میں قادیان گیا تھا اور مرزا صاحب سے یہ منواکر آیا ہوں کہ اگر میں دس آیتیں ایسی لے آیا تو وہ اپنے دعویٰ سے دست بردار ہوجائیں گے.اس لئے ان جھگڑوں کو رہنے دیجئے اور جلدی سے مجھے دس آیتیں ایسی لکھ دیجئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر قرآن سے حیات مسیح ثابت ہوگئی تو پھر آپ کو شاہی مسجد لاہور میں اپنے عقیدہ سے توبہ کرنی پڑے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہاں مجھے یہ شرط منظور ہے.میاں نظام الدین صاحب اس پر بڑے خوش تھے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب سے بھی انہوں نے کہا کہ آپ یہ کیا بحث مباحثہ لیے بیٹھے ہیں.مجھے دس آیتیں لکھ دیجئے میں ابھی مرزا صاحب کو لاہور لا کر شاہی مسجد میں ان سے توبہ کرادوں گا.مولوی محمد حسین صاحب جو اسی وقت اپنے ساتھیوں میں فخر کررہے تھے کہ میں نے نورالدین کویوں پکڑا اورمیں نے اسے یوں رگیدا، انہوں نے جب یہ بات سنی تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور انہوں نے کہا احمق! تجھے کس نے کہا تھا کہ بیچ میں دخل دیتا.میں دو مہینے بحث کر کر کے اس مضمون کو حدیث کی طرف لایا تھا تو پھر قرآن کی طرف لے گیا.وہ آدمی تھے نیک جونہی یہ الفاظ ان کے کان میں پڑے ان پر سناٹا سا چھاگیا.تھوڑی دیر وہ خاموش رہے جیسے انسان کسی نئے صدمہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے اور پھر ایک آہ کھینچ کر کہنے لگے مولوی صاحب اگر یہی بات ہے تو پھر جدھر قرآن ہے ادھر ہی ہم ہیں.یہ کہہ کر وہ وہاں سے واپس آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں شامل ہوگئے(حیاتِ احمد جلد سوم صفحہ ۲۳۲تا ۲۳۵ مطبوعہ ۲۰۱۴ء).تو دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات چونکہ فطرت کے مطابق تھی میاں نظام الدین صاحب اس کا مقابلہ نہ کرسکے.یہی قرآنی تعلیم کا حال ہے کہ اس نے بنی نوع انسان کو جو بھی حکم دیا ہے اس میں ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھا گیا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص کہے کہ قرآن کا فلاں حکم ناقابل عمل ہے یا فطرت انسانی کے خلاف اس میں تعلیم دی گئی ہے.ہر حکم اپنی ذات میں کامل ہے اور ہر حکم ایسا ہے جس پر آسانی کے ساتھ عمل کیا جاسکتا ہے.لیکن باقی مذاہب میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی.یہی وجہ ہے کہ وہ مختلف اوقات میں اپنے لئے حکومتوں سے کئی قسم کے قوانین نافذ کرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اُن خامیوں کا ازالہ ہوسکے جو ان کے مذہب میں پائی جاتی ہیں.ہندو بھی آج کل اسی رَو میں بہہ رہے ہیںاور وہ اپنے لئے ایسا لاء تیار کرنا چاہتے ہیں جو موجودہ زمانہ کے حالات کے مطابق ہو.لیکن دراصل وہ جو کچھ کر رہے ہیں قرآن کی نقل ہے اور اگر کسی جگہ وہ اس تعلیم سے انحراف کریں گے تو لازماً ٹھوکر کھائیں گے اور اس

Page 213

کے غلط نتائج انہیں جلد ہی نظر آنے لگ جائیں گے.غرض فرماتا ہےوَ وَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ الَّذِيْۤ اَنْقَضَ ظَهْرَكَ.اے محمد رسول اللہ کیا ہم نے تجھے یہ سامان نہیں بخشا کہ ایک طرف تجھے ہم نے ایسے ساتھی دیئے جنہوں نے تیرا بوجھ اٹھالیا اور دوسری طرف ہم نے تجھے ایسی تعلیم دی جو خود بخود فطرت کے اندر نفوذ کرتی چلی جاتی ہے کوئی روک اس کی اشاعت میں حائل نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب کفار مکہ کے مظالم حد سے بڑھ گئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ارادہ کرلیا کہ میں بھی مکہ کو چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائوں.ایک دن آپ اسی ارادہ سے باہر جارہے تھے کہ راستہ میں آپ کو مکہ کا ایک رئیس ملا اور اس نے دریافت کیا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے جواب دیا میں یہاں سے ہجرت کرکے کہیں باہر جارہا ہوں.اس نے کہا ہجرت؟ وہ شہر نہ اجڑ جائے جس میں سے تم سا انسان نکل جائے.میں تمہیں اپنی پناہ میں لیتا ہوں.آئندہ تمہیں کوئی شخص دکھ نہ دے گا.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس آگئے اور اس رئیس نے اعلان کردیا کہ ابوبکرؓ میری پناہ میں ہیں.مکہ والے پناہ کا بڑا لحاظ کیا کرتے تھے.چنانچہ اس اعلان کے بعد ایسا ہی ہوا کہ مکہ والوں نے حضرت ابوبکرؓ کو دکھ دینا ترک کردیا اور آپ آزادانہ رنگ میں مکہ کے گلی کوچوں میں پھرتے.حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی طبیعت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طبیعت سے ملتی تھی اور سوز اور گداز کا مادہ آپ میں بہت زیادہ تھا.جب صبح کے وقت آپ اٹھتے تو قرآن کریم کی تلاوت نہایت سوز اور رقت کے ساتھ کرتے اور آپ کی آنکھوں سے آنسوبہتے جاتے.مکہ کی عورتیں اور بچے جب اس نظارہ کو دیکھتے وہ اکٹھے ہوجاتے اور نہایت توجہ کے ساتھ کان لگا کر سنتے کہ ابوبکرؓ کیا پڑھ رہے ہیں.جب ایک طرف وہ ابوبکرؓ کی رقت اور گریہ و زاری کو دیکھتے اور دوسری طرف قرآن کریم کی نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیم ان کے کانوں میں پڑتی تو وہ بے اختیار ہوکر کہنے لگ جاتے کہ واہ وا یہ کیسی اچھی باتیں ہیں.یہ اثر روز بروز بڑھتا چلا گیا یہاں تک مکہ والوں کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر ابوبکرؓ اسی طرح قرآن پڑھتے رہے تو ہماری عورتیں اور بچے سب مسلمان ہوجائیں گے.چنانچہ وہ اکٹھے ہوکر اس رئیس کے پاس گئے جس نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اپنی پناہ میں لیا تھا.اور کہا کہ اپنی پناہ واپس لے لو ورنہ ہمارا دین بگڑ جائے گا(صحیح بـخاری کتاب مناقب الانصار باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ الی المدینۃ).اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح قرآن کریم لوگوں کے دلوں میں دھنستا جاتا تھا.اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے وہ نکلے تو اس ارادہ سے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کریں مگر جب انہیں اپنی بہن سے قرآن سننے کا موقع ملا اور چند آیتیں ہی کان میں پڑیں تو ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگ

Page 214

گئے اور اسی حالت میں کہ تلوار ان کے ہاتھ میں تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر کس ارادہ سے آئے ہو؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں تو غلام بننے کے لئے حاضر ہوا ہوں (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام ذکر اسلام عمر بن الخطاب).قرآن کریم کی اسی معجزانہ تعلیم کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر سے اس بوجھ کو کہ میں لوگوں کو منوائوں گا کس طرح بالکل ہلکا کردیا تھا.وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ۰۰۵ اور تیرے ذکر کو ہم نے بلند کردیا.تفسیر.وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ میں آنحضرت صلعم کے غلبہ کے آثار کی طرف اشارہ تیسری چیز جو ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کی توجہ اس طرف منعطف ہوجائے.دراصل دشمن کی توجہ کو کھینچنا سب سے اہم بات ہوتی ہے اور صرف وہی چیز لوگوں کی دشمنی کو کھینچتی ہے جواپنے اندر غلبہ کے آثار رکھتی ہے.نادان سمجھتے ہیں کہ مخالفت بُری چیز ہے حالانکہ یہ سب سے اچھی چیز ہے.طبائع میں جوش اسی چیز کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس کے متعلق لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو ہمیں نقصان پہنچائے گی اور ہمارے عقائد اور خیالات کا باطل ہونا ثابت کردے گی.جب تک یہ احساس لوگوں کے اندر پید انہ ہو اس وقت تک ان کی طرف سے کبھی شدید مخالفت نہیں ہوتی.جب انبیاء علیہ السلام دعویٰ کرتے ہیں تو سارے ملک میں ان کے خلاف جوش پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں یہ تعلیم جو ان کی طرف سے پیش کی جارہی ہے ایسی ہے کہ ایک دن ضرور غالب آجائے گی.یہی حال سچے دنیوی علوم کا ہوتا ہے کہ جب کوئی نئی تحقیق لوگوں کے سامنے پیش کی جائے تو لوگ اس کی ضرور مخالفت کرتے ہیں.کیونکہ ان کے دلوں میں یہ ڈر پیداہوجاتا ہے کہ اگر ہم نے مخالفت نہ کی تو ہمارا نظریہ اس کے مقابلہ میں باطل ہوجائے گا.گلیلیو نے جب پرانے علم ہیئت کے خلاف دنیا میں یہ اعلان کیا کہ زمین سورج کے گرد چکر لگاتی ہے تو پادریوں نے اس کے خلاف فتوے دے دیئے یہاں تک کہ پوپ نے بھی کہا کہ یہ شخص جان سے ماردینے کے قابل ہے.کیونکہ بائبل کی تعلیم کے صریح خلاف ایک نیا نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کررہا ہے.آخر اسے اتنا دکھ دیا گیا کہ گلیلیو کو اعلان کرنا پڑا کہ معلوم ہوتا ہے میرے اوپر شیطان سوار تھا جس نے مجھے اس غلط راہ پر ڈال دیا.بائبل میں تو لکھا ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے مگر مجھ بیوقوف کو یہ دکھائی دیا کہ زمین سورج کے گر دچکر لگاتی ہے.میں

Page 215

اعلان کرتا ہوں کہ نظر تو مجھے اسی طرح آتا ہے کہ زمین سورج کے گرد چکر لگارہی ہے مگر چونکہ بائبل کہتی ہے کہ سورج زمین کے گرد گھومتا ہے اس لئے معلوم ہوتا ہے میرا دماغ خراب ہوگیا ہے اورشیطان میرے سر پر سوار ہے.پادری اس اعلان پر خوش ہوگئے اور انہوں نے سمجھا کہ گلیلیو نے توبہ کرلی ہے.حالانکہ یہ اعلان خود بتارہا تھا کہ اس نے توبہ نہیں کی محض پادریوں کو خوش کرنے کے لئے اس نے ایسے الفاظ میں اعلان کردیا جس سے وہ دھوکہ کھاگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ گلیلیو نے اپنے نظریہ کو ترک کردیاہے.غرض مادی دنیا ہو یا روحانی اس میں جب بھی کوئی ایسی بات نکلتی ہے جس کے خلاف لوگوں کے عقائد ہوتے ہیں تو لوگ اس کی مخالفت شروع کردیتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ بات دنیا میںپھیل گئی تو ہم جس تعلیم کو پیش کرتے ہیں وہ دنیا میں کبھی قائم نہیں رہ سکتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعد میں صداقت کو بہرحال تسلیم کرلیا جاتا ہے.مگر ابتداء میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ لوگ مخالفت کرتے ہیں اور ہر قسم کی تدابیر سے سچائی کو کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے.اسی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ ہم نے تیرا ذکر بلند کردیا ہے.یہاں ذکر کا بلند ہونا ماننے کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے ہے کہ دنیا میں ہر جگہ تیرا ذکر ہور ہا ہے چاہے اچھے رنگ میں ہو یا برے رنگ میں.تعریف کے رنگ میں ہو یا مذمت کے رنگ میں.بہرحال ہر مجلس اورہر محفل اور ہر گھر اور ہر خاندان میں تیرا نام بلند ہورہا ہے اور ایک شور ہے جو تیری وجہ سے برپا ہے.کوئی کہتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کیا بات کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور بت کوئی چیز نہیں.ہم تو باپ دادا سے ان بتوں کو مانتے چلے آئے ہیں.اس کے کہنے کی وجہ سے بتوں کی پرستش کو کس طرح ترک کردیں.کوئی کہتا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کوئی غلط بات تو نہیں کہہ رہا تم بے شک اپنے بتوں کو جوتیاں مار کر دیکھ لو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے.پھر کوئی اور بول اٹھتا اور کہتا یہ فتنہ بڑھتا جارہا ہے آئو ہم لوگوں سے یہ کہنا شروع کردیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پاگل ہوگیا ہے.اس پر ایک چوتھا شخص کہہ اٹھتا کچھ ہوش کی دوا کرو کیا وہ پاگل ہے؟ اگر پاگل ہوتا تو ایسے ایسے سمجھدار اشخاص اس کی طرف کیوں کھچے چلے جاتے.اس پر ایک پانچواں شخص کہتا پاگل تو نہیں مگر شاعر ضرور ہے مگر پھر انہی میں سے کوئی بول اٹھتا اس کی کتاب تو دیکھو کیا وہ شعروں میں ہے اگر نہیں تو تم اسے شاعر کس طرح کہہ سکتے ہو.کوئی اور کہتا اصل میں وہ نہ پاگل ہے نہ شاعر.بلکہ درحقیقت کاہن ہے اور کاہنوں کی طرح غیب کی بعض خبریں دے دیتا ہے.اس پر پھر بعض لوگ انہی میں سے کھڑے ہوجاتے اور کہتے وہ کاہن کس طرح ہے وہ تو کاہنوں کو جھوٹا کہتا ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا ایک سلسلہ تھا جو ہرمجلس اور ہر خاندان میںجاری تھا.جہاں بھی دیکھو یہی ذکر ہوتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بہت بڑا فتنہ پیدا

Page 216

کردیا ہے.اس فتنہ کے سدباب کے لئے اب ہمیں کیا کرنا چاہیے.مخالفت کا یہ جوش و خروش اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تذلیل کی یہ کوششیں ثبوت تھیں اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تعلیم میں ایسی کشش رکھی تھی کہ دنیا سمجھتی تھی اس کا ہمارے ساتھ ٹکرائو ہماری تباہی اور بربادی کا موجب بننے والا ہے.یہی تیسری چیز ہے جو کامیابی کے لئے ضروری ہوتی ہے.لوگ شور مچاتے ہیں، مخالفت کے لئے پورے جوش سے کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہرقسم کی تدابیر سے اس کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ ایسا کرتے ہیں سعادت مند طبائع تحقیق کی طرف مائل ہوجاتی ہیں اور آخر اس مخالفت کے نتیجہ میں وہ ایمان لے آتی ہیں.مخالفت ہدایت کا موجب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست جو بہت بڑے شاعر تھے لغت کی انہوں نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کی دو تین جلدیں شائع ہوچکی ہیں ریاست رامپور ان کو اس کام کے لئے وظیفہ دیا کرتی تھی، قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملے.آپ نے ان سے پوچھا کہ آپ کو ہمارے سلسلہ کی طرف کیسے توجہ پیدا ہوئی؟ انہوں نے بڑی سادگی سے جواب دیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے ذریعہ سے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا رسالہ ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ ہمارے ہاں آیا کرتا تھا میں یہ تو جانتا ہی تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب بہت بڑی شہرت رکھنے والے اور سارے ہندوستان میں مشہور ہیں مگر ان کے رسالہ کو دیکھ کر بار بار میرے دل میں خیال آتا کہ اگر ان کے دل میں اسلام کا واقعی درد تھا تو انہیں چاہیے تھا کہ مدرسے جاری کرتے، قرآن اور حدیث کے درس کا انتظام کرتے، لوگوں کو اسلامی احکام پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلاتے.مگر انہیں یہ کیا ہوگیا ہے کہ سارے کام چھوڑ کر بس ایک بات کی طرف ہی متوجہ ہوگئے ہیں اوردن رات احمدیت کی مخالفت کرتے رہتے ہیں.اس میں ضرور کوئی بات ہے.چنانچہ مجھے ان کی مخالفت سے تحقیق کا خیال پیدا ہوا اور میں نے کسی شخص سے اپنے اس شوق کا اظہار کیا.اس نے مجھے ’’درثمین‘‘ پڑھنے کے لئے دی.میں نے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں جب آپ کا کلام دیکھا تو میں نے کہا لو پہلا جھوٹ تو یہیں نکل آیا کہ کہا جاتا تھا مرزا صاحب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.حالانکہ جو عشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے دل میں پایا جاتا ہے اس کی موجودہ زمانہ میں نظیر ہی نہیں ملتی.اس کے بعدمیں نے مزید تحقیق کی اور آخر میں اس نتیجہ پر پہنچ گیا کہ احمدیت سچی ہے.اسی طرح ہر سال مجھے دس بیس خطوط ضرور ایسے آجاتے ہیں جن میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ جب ہم نے احمدیت کی مخالفت میں کتابیں پڑھیں تو ہمارے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہم جماعت احمدیہ کی کتابیں بھی پڑھ کر دیکھیں.چنانچہ ہم نے آپ کی کتب کا

Page 217

مطالعہ کیا اور ہمیں معلوم ہوا کہ سچے عقائد وہی ہیں جو آپ کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں.لوگوں کی طرف سے مخالفت میں جو کچھ کہا جاتا ہے وہ بالکل جھوٹ ہے اس لئے ہم آپ کی بیعت میں شامل ہوتے ہیں.وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ میں آنحضرت صلعم کی شہرت پھیل جانے کی پیش گوئی اسی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہمارا تجھ پر کتنا بڑا احسان ہے کہ آج ہرمجلس میں تیرا ذکر ہورہا ہے.سیاستدان کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے دعویٰ کردیا ہے.عالم کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعویٰ کردیا ہے.تاجر کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعویٰ کردیا ہے.کاہن کہتے ہیں اب کیا ہوگا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دعویٰ کردیا ہے.غرض ہر سننے والا کہتا ہے کہ اب کچھ ہونے والا ہے.اب دنیا میں کوئی نہ کوئی انقلاب پیدا ہونے والا ہے.پس وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے تیرے ذکر کو اس قدر بلند کردیا ہے کہ ہر مجلس اور ہر نادیہ میں تیرا ذکر ہونے لگا ہے.لوگوں کی طبائع میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا ہے اور وہ اس بات پر مجبور ہوگئے ہیں کہ تیری طرف توجہ کریں.اس کا نتیجہ تیرے حق میں لازماً اچھا ہوگا کیونکہ لوگ جب غور کریں گے تو ان پر تیری صداقت واضح ہوجائے گی.اس کی ایک موٹی مثال دیکھ لو ورقہ بن نوفل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے مکہ میں مسیحیت کا پرچار کرتے رہتے تھے.مگر مکہ والوں میں کوئی شور نہ تھا.وہ ان کی باتوں کو سنتے اور ہنس کر چلے جاتے(صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی).مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کی آواز بلند کی، عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک مخالفت کی ایک لہر دوڑ گئی اور ہر شخص آپ کو کچلنے کے لئے کھڑ اہوگیا.اسی طرح زید بن عمرو جو حضرت عمرؓ کے چچا زاد بھائی تھے وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٔ نبوت سے قبل توحید کی تبلیغ کیا کرتے تھے.مگر کبھی ان کی مخالفت نہیں ہوئی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کھانے کی دعوت دی انہوں نے کہا میں مشرکوں کا کھانا نہیں کھاتا.آپ نے فرمایا میں نے تو کبھی شرک نہیں کیا (اُسد الغابۃ فی معرفۃ الصـحابۃ زیر لفظ زید بن عمرو).اس زید جیسے کٹر مؤحد کی لوگوں نے کبھی مخالفت نہیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بتوں کے خلاف آواز بلند کی تو سارا عرب آپ کا مخالف ہوگیا کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ زید کی زبان سے تو ہمارے بت نہیں ٹوٹے تھے مگر یہ وہ زبان ہے جو ہمارے بتوں کو توڑ کر رکھ دے گی.پس وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے تمام لوگوں کی توجہ تیری طرف پھیر دی ہے.ہر شخص سمجھتاہے کہ یہ دنیا میں کچھ نہ کچھ کرکے رہے گا.اس کا مقابلہ کرنا چاہیے.اس آیت کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ ہم نے تیری قبولیت دنیا میں پھیلادی ہے.درحقیقت کامیابی کے ساتھ اس امر کا بھی تعلق ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں قبولیت کے آثار پیدا کردیئے جائیں.حدیثوں میں

Page 218

آتا ہے جب خدا تعالیٰ اپنے کسی بندے کو اپنی محبت کے لئے منتخب فرماتا ہے تو اپنے فرشتوں سے کہتا ہے میں نے فلاں شخص کو چن لیا ہے تم بھی اس سے محبت کرو اور لوگوں کے دلوں میں اس کی قبولیت پیدا کرو.چنانچہ آہستہ آہستہ تمام دنیا میں اس کی قبولیت پید اہوجاتی ہے.یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں فرماتا ہے کہ گو یہ لوگ تیری مخالفت کرتے ہیں مگر ساتھ ہی تیری بڑائی اور عظمت کو بھی تسلیم کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جب وفات ہوئی تو کئی غیراحمدیوں اور ہندوئوں نے مضامین لکھے جن میں انہوںنے آپ کی بڑائی اور عظمت کا ذکر کیا(تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۵۶۰تا ۵۶۸).اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گو وہ ظاہر میں آپ کی مخالفت کرتے تھے مگر ان کے دل آپ کی عظمت کے قائل تھے.یہ قبولیت اور عظمت کسی مفتری انسان کو کبھی حاصل نہیں ہوسکتی.پس فرماتا ہے دنیا میں مخالفتیں کرنے والے مخالفتیں کرتے ہیں مگر ان کی مخالفت کا پہلو یک طرفہ ہوتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی مخالفت کے ساتھ اس کی عظمت کے بھی قائل ہیں مگر یہاں یہ حالت ہے کہ یہ لوگ تیرے دشمن بھی ہیں اور تیری طاقت اور عظمت کے بھی قائل ہیں.کہتے ہیں کہ تو بڑا جھوٹا ہے مگر ساتھ ہی کہتے ہیں تو بڑا امین ہے.سننے والاسنتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ کیا متضاد باتیں کہہ رہے ہیں.ایک کہتا ہے وہ شاعر تو ہے مگر شعر نہیں کہتا یا کاہن تو ہے مگر کاہنوں کا دشمن ہے.گویا جہاں وہ الزام لگاتے ہیں وہاں ساتھ ہی ایک رنگ میں عظمت اور نیکی کا بھی اقرار کرجاتے ہیں.اس کے علاوہ اس آیت کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پھیلنا شروع ہوجائے گا.چنانچہ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت جلد آپ کا ذکر سارے عرب میں پھیل گیا تھا اور لوگ ایمان بھی لانے لگے تھے.چنانچہ ابوذر غفاریؓ غفار میں، بعض لوگ یمن میں، بعض مدینہ میں، مکی زندگی میں ہی ایمان لے آئے اور اس طرح آپ کا سلسلہ مختلف ممالک میں پھیل گیا.فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاۙ۰۰۶اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًاؕ۰۰۷ پس (یاد رکھوکہ) اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی (مقدر) ہے.(ہاں) یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک (اور بھی) بڑی کامیابی (مقدر) ہے.تفسیر.عربی قواعد کے رو سے تنوین ہمیشہ بڑائی اور عظمت کے اظہار کے لئے آتی ہے.پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے.ہاں ہاں یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے.گویا اصل مقصد تنگی کا ذکر کرنا نہیں بلکہ اصل مقصد یسر کی بڑائی اور اس کی اہمیت پر زور دینا ہے.

Page 219

لیکن بعض نحوی کہتے ہیں کہ آیت میں يُسْرًا کا نکرہ کے طور پر استعمال اور پھر اس کا تکرار بتارہا ہے کہ یہاں ایک نہیں بلکہ دو یسر مرا د ہیں.بے شک عسر ایک ہی ہے مگر یسر دو ہیں.ان کے نزدیک اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک بہت بڑی آسانی ہے.یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک اور بھی بہت بڑی آسانی ہے(فتح البیان زیر سورۃ الانشراح فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا).گویا نکرہ کا تکرار اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ یسر دو۲ ہیں اور یسر کی تنوین بتاتی ہے کہ ہر یسر بہت بڑی شان کا ہے.ان دوسرے معنوں کی احادیث سے بھی تائید ہوتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ہنستے ہوئے اپنے گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا میں نے دیکھاہے کہ عسر یسر کے پیچھے دوڑا چلا جارہا ہے.پھر آپ نے فرمایا ایک عسر دو یسر پر غالب نہیں آسکتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کشفاً بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھایا گیا ہے کہ یسر دو ہیں اور عسر ایک ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو یسر کون سے ہیں جن کا اس آیت میں ذکر آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو پورے طور پر اسی وقت سکون حاصل ہوتا ہے جب ذہنی اور خارجی طور پر دونوں لحاظ سے اسے اطمینان کے سامان میسر ہوں.اگر کوئی شخص ایسا ہو جس کی باتوں کی لوگ تردید کرتے ہوںتو گو وہ اسے مارپیٹ نہیں رہے ہوتے اور خارجی طور پر اسے کوئی دکھ نہیں ہوتا مگر ذہنی طور پر اس کے اندر ایک خلش اور بے چینی پائی جاتی ہے اور وہ اطمینان جس کا انسان متلاشی ہوتا ہے اسے پورے طور پر میسر نہیں ہوتا.ہم ایسے شخص کو دیکھ کر یہی کہیں گے کہ گو اسے خارجی طور پر یسر میسر ہے مگر ذہنی طور پر عسر میں مبتلا ہے.لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یُوں تو تردید نہیں کرتے لیکن موقعہ ملے تو مارپیٹ لیتے ہیں.قصہ مشہور ہے کہ ایک جاٹ کے کھیت کے پاس ایک دفعہ کسی شخص نے آکر ڈیرہ لگا دیا اور اس نے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ میں خدا ہوں.کئی مشٹنڈے اس نے اکٹھے کرلئے جو اردگرد کے گائوں سے بھیک مانگ لاتے اور جو شخص وہاں آتا اسے کہتے کہ یہی خدا ہیں ان کو سجدہ کرو.وہ زمیندار روزانہ یہ نظارہ دیکھتا مگر کچھ کر نہ سکتا کیونکہ وہ اکیلا تھا اور اس شخص کے ارد گرد ہر وقت لوگوں کا ہجوم رہتا تھا.ایک دن اتفاقاً سب لوگ ادھر ادھر چلے گئے اور وہ جو اپنے آپ کو خدا کہتا تھا اکیلا رہ گیا.زمیندار نے اس موقعہ کو غنیمت سمجھا وہ ہل چھوڑ کر فوراً اس کے پاس گیا اور دو زانو بیٹھ کر کہنے لگا میں حضور سے یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ کیا حضور ہی خدا ہیں؟ اس نے کہا ہاں میں ہی خدا ہوں.یہ سنتے ہی اس نے کود کر اس کی گردن پکڑ لی اور زور سے اسے ایک گھونسہ مار کر کہا اچھا میرے باپ کی تو نے ہی جان نکالی تھی.پھر ایک اور گھونسہ مار کر کہا اچھا میری ماں کی بھی تونے ہی جان نکالی تھی.پھر ایک اور گھونسہ مار کرکہا اچھا تونے ہی میری بہن کی جان نکالی تھی.اس طرح ایک ایک کرکے وہ اپنے مردہ رشتہ داروں کا نام

Page 220

لیتا گیا اور گھونسے پر گھونسہ مارتا چلا گیا.ابھی پانچ دس گھونسے ہی لگے تھے کہ وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑ اہوگیا اور کہنے لگا مجھے معاف کرو میں خدا نہیں ہوں.تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ دلیلیں نہیں دیتے ڈنڈے لے کر کھڑے ہوجاتے ہیں.ایسے شخص کو خارجی لحاظ سے عسر ہوتا ہے مگر ذہنی لحاظ سے عسر نہیںہوتا اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو خارجی لحاظ سے تو اطمینان حاصل ہوتا ہے مگر اس کے ذہن میں سکون نہیں ہوتا.وہ ایک تعلیم کو مان رہا ہوتا ہے مگر بار بار اس کے دل میں یہ خیال بھی اٹھتا ہے کہ نامعلوم یہ تعلیم سچی بھی ہے یا نہیں.کامل اطمینان اور کامل سکون وہی شخص حاصل کرسکتا ہے جسے خارجی لحاظ سے بھی اطمینان ہواور ذہنی لحاظ سے بھی اطمینان ہو.آنحضرت صلعم کے صحابہؓ کو ہر طرح اطمینان حاصل ہوجانے کی پیش گوئی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ہمارے رسول! بے شک آج دنیا تیرے ساتھیوں کو سخت سے سخت تکالیف پہنچارہی ہے مگر ہم عنقریب ان کو دونوں قسم کے اطمینان دینے والے ہیں.پہلا اطمینان جو ان کو میسر آئے گا وہ ذہنی ہوگا.یعنی تیری جماعت کا ہر فرد ذہنی لحاظ سے اس بات پر مطمئن ہوگا کہ اس نے سچائی کو قبول کیا ہے، راستی کو اختیار کیا ہے، نجات کے طریق کو پسند کیا ہے.یہ خلش اور یہ دُبدہ اس کے اندر نہیں ہوگاکہ نہ معلوم جس راہ پر میں چل رہا ہوں وہ خدا تک انسان کو پہنچاتا ہے یا نہیں پہنچاتا.اس کے بعد خارجی لحاظ سے بھی ہم ان کے اطمینان کے سامان پیدا کردیں گے یعنی دشمن کی تکالیف کا سلسلہ جاتا رہے گا.ان کو کامیابی حاصل ہوجائے گی اور وہ تنگی جو آج محسوس کی جارہی ہے بالکل دور ہوجائے گی گویا وہ دو یسر جن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.وہ ذہنی اور خارجی اطمینان کے سامان ہیں.یعنی ہم قوم کو باایمان بنانے کے لئے اس کے تمام شکوک و شبہات کو مٹا کر اسے یقین کی ایک مضبوط چٹان پر کھڑا کردیں گے اور خارجی لحاظ سے ان تمام مصیبتوں اور تکلیفوں کو دور کردیں گے جو دشمن کی طرف سے انہیں پیش آرہی ہیں اور وہ غالب اور بادشاہ ہوجائیں گے جس کی وجہ سے کوئی انہیں جسمانی عذاب نہ دے سکے گا.اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا میں اُمت محمدیہ کو دینی و دنیوی انعام ملنے کی پیش گوئی دوسرے معنے دنیوی اور اخروی انعامات کے ہیں.یعنی تمہیں دنیا کے بھی انعامات ملیں گے اور آخرت کے انعامات بھی تمہیں عطا کئے جائیں گے.اگر کوئی کہے کہ اخروی انعامات کے ملنے کا کیا ثبوت ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رئویا وکشوف اور الہامات جن سے اللہ تعالیٰ کے مومن بندے اس دنیا میں اپنی اپنی استعداد کے مطابق حصہ لیتے ہیں.وہ اس بات کا ثبوت ہوتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اخروی نعماء کے متعلق جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ بالکل درست ہے.اس آیت کے یہ بھی معنے ہیںکہ جب کبھی اسلام پر تنگی اور مصیبت کا زمانہ آئے گا اللہ تعالیٰ اس کے بعد ترقی کا

Page 221

ایک نیا دور پیدا کر دیا کرے گا.گویا اسلام کے ایک دفعہ قائم ہو جانے اور اس کے ہلاکت سے بچ جانے کے بعد ہر موقع پر اس کی ترقی کے نئے سے نئے سامان پیدا ہوتے رہیں گے.ایسا کبھی نہیں ہو گا کہ اسلام ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو جائے اور کفر کو غلبہ حاصل ہو جائے.گویا حفاظت اسلام کا وعدہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو بشارت دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائید ہمیشہ اس مذہب کے ساتھ ہوگی اور وہ ہمیشہ تنزل کے بعد اس کی ترقی کے سامان پیدا کرتا رہے گا.آنحضرت صلعم کی دوسری بعثت کی پیش گوئی دو کے لفظ کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں بعثت محمدی اور بعثت احمدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں کفر نے خاص جوش ماراہے مگر ہم اس کفر کو توڑنے کے لئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو روحانی بعثتیں کریں گے تا اس کا زور بالکل ٹوٹ جائے.فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْۙ۰۰۸ پس جب (بھی) تو فارغ ہو تو ( دوسرے مقصد کے حصول کے لئے ) پھر کوشش میں لگ جا.حلّ لُغات.فَرَغْتَ.فَرَغَ سے واحد مخاطب مذکر کا صیغہ ہے اور فَرَغَ کے کئی معنے ہوتے ہیں.جب فَرَغَ مِنَ الْعَمَلِ کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں خَلَا ذَرْعُہٗ وہ کسی کام سے فارغ ہو گیا اور جب فَرَغَ لَہٗ وَاِلَیْہِ کہیں تو معنے ہوتے ہیں قَصَدَ.اس نے کسی چیز کا ارادہ کیا.نیز کہتے ہیں فَرَغَ فُلَانٌ فُرُوْغًا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ مَاتَ فلاں شخص مر گیا.اور جب برتن کے لئے فَرَغَ کا لفظ بولیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں خَلَا.خالی ہو گیا.نیز فَرَغَ کے معنے کسی کام کو پورا کر دینے کے بھی ہوتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں فَرَغَ فُلَانٌ مِّنَ الشَّیْءِ: اَتَـمَّہٗ کہ فلاں نے کام کو ختم کر د یا.(اقرب) فَانْصَبْ نَصِبَ یَنْصَبُ سے امر کا صیغہ ہے اور نَصِبَ الرَّجُلُ نَصْبًا کے معنے ہوتے ہیں اَعْیَا وہ تھک گیا.اور نَصِبَ فِی الْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں جَدَّ وَاجْتَـھَدَ اس نے محنت اور کوشش کی (اقرب) یہاں فَانْصَبْ کے معنے محنت اور جدوجہد کرنے کے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ.جب تو فارغ ہوجائے تو پھر جدوجہد میں مشغول ہو جا.

Page 222

تفسیر.یہاں ایک عجیب بات بیا ن کی گـئی ہے بظا ہر فراغت کے یہ معنی ہو تے ہیں کہ مشکل دور ہوگئی اور کام ختم ہو گیا مگر اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے جب توفا رغ ہو جائے تو پھر محنت میں مشغو ل ہو جا پس سوال پیدا ہو تا ہے کہ جب فارغ ہونے کے بعدبھی محنت میں ہی مشغول رہنا ہے تو پھر فراغت کیسی ہوئی؟درحقیقت اس میںاسلام کی ترقی کے متعلق پیشگو ئی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ کتنا بلند مقصد ہے جو ہم نے اپنے رسول کے سامنے رکھا ہے.بعض دفعہ دنیا میں یک دم کوئی تغیر پیدا ہو جا تا ہے مگر وہ دیر پا نہیں ہو تا بلکہ جلد ہی رو بہ زوال ہو جاتا ہے لیکن بعض تغیرات ایسے ہو تے ہیں جوگو تدریجـــاً پیدا ہوتے ہیں مگر ایک لمبے عرصہ تک دنیا کی کایا پلٹ کر رکھ دیتے ہیں اللہ تعا لیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ تیری ترقی گو تدریجی ہو گی مگر تیری کو ششو ںکے نتائج مستقل اور دیر پا ہوں گے.پہلے ایک مشکل تمہارے سامنے آئے گی اور جب تم اس کو دور کر لو گے اور اپنے پہلے مقام سے اونچے ہو جا ئو گے تو پھر دوسری مشکل پیش آجائے گی اس وقت تمہارا فرض ہوگا کہ اس دوسری مشکل کو دور کرو اور اپنے مقام سے اور اونچے ہو جا ئو جب وہ مشکل بھی حل ہو گئی تو ایک تیسری مہم تمہارے سامنے آجائے گی اُس وقت تمہارا فرض ہوگا کہ اُس تیسری مہم کو سر کرو اور اپنے مقام سے اور اونچے ہو جاؤ گویا ایک دور ہے جو چلتا چلا جائے گا اور غیر متناہی تر قیات ہیں جو تمہا رے سا منے آتی چلی جائیں گی کوئی وقت اور کوئی لمحہ تمہاری زند گی میں ایسا نہیں آ سکتا جب تم یہ خیال کر لو کہ میں اپنا کام ختم کر چکا یا میںنے جس بلندی پر پہنچنا تھا پہنچ گیا وہ شخص جو صرف پا نچ ہزارفٹ کی بلندی پر چڑہنا چاہے جب پانچ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچ جاے گا بیٹھ جا ئے گا اور کہے گا کہ میں جس مقام پر پہنچنا چاہتا تھا پہنچ گیا مگر جس شخص کا یہ مقصد ہو کہ وہ ساری چڑھا ئیوں پر چڑھتا چلا جائے وہ کسی مقا م پر نہیں رکے گا بلکہ ایک چو ٹی کے بعددوسری چوٹی اور دوسری چوٹی کے بعد تیسری چوٹی پر وہ چڑ ھتا چلا جائے گا.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علمی اور عملی کام کیا گیا تھا اس کی کوئی انتہاء نہیں تھی اس لئے اللہ تعالیٰ اس آیت میں آپ کو مخاطب کر کے فر ماتا ہے.اے محمد رسول اللہ ہم نے تیرے لئے کوئی محدود مقصود مقر ر نہیں کیا بلکہ غیر معمولی تر قیات کادروازہ تیرے لیے کھولا گیا ہے جب تو کسی ایک مہم کو سر کر لے تو سمجھ لے کہ ابھی اس سے او پر کی مہم کو تو نے سر کر نا ہے اور جب دوسری مہم بھی سر ہو جاے تو تُوسمجھ لے کہ تیسری مہم تیرے سا منے کھڑی ہے اور تیرا فرض ہے کہ تُواس کو بھی سر کرے.غرض تُو نے بلندیوں کی طرف اپنے پورے زور کے سا تھ بڑھتے چلے جانا ہے اور کسی ایک مقام پر بھی اپنے قدم کو نہیں روکنا.گویا فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غیر متناہی سفرکی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ آپ اپنے کام میں بڑھتے چلے جائیں گے اور کوئی وقت ایسا نہیں آئے گا جب یہ کہا جا سکے

Page 223

کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی منزل مقصود پر پہنچ گئے اور اب وہ اپنے کام سے فارغ ہو گئے ہیں.اگر وہ ایک کام سے فارغ ہو جا ئیں گے تو دوسرا کام شروع کر دیںگے دوسرے کام سے فارغ ہوں گے تو تیسرا کام شروع کر دیں گے.ہم جب بچے تھے اس وقت ایک کھیل کھیلا کر تے تھے جو اسی مفہوم کو ادا کرتی ہے.ایک لڑکا بیٹھ جا تا تھا اور باقی سب لڑ کے اس کے سر پر اوپر نیچے اپنی مٹھیاںبند کر کے رکھتے چلے جاتے اور پھر ایک لڑکا کہتا بھنڈا بھنڈاریا کتنا کُ بھار وہ جواب میں کہتا اک مکّی چک لے دوجی تیار یعنی ایک مٹھی سر پر سے ہٹا لو تو دوسری مٹھی اس کی جگہ لینے کو تیار ہے.اسی طرح فرماتا ہے تمہارے لئے غیر معمولی ترقیات مقدر ہیں جب تم ایک مشکل کو حل کر لو گے تو خدا تعالیٰ دوسری مشکل تمہارے سامنے کھڑی کر دے گا تاکہ تم اس کو حل کر کے اور زیادہ ترقی کرو اور زیادہ قرب اور محبت کے مقامات طے کرو.گویا کوئی مقام ایسا نہیں آسکتا جسے تم اپنی ترقی کی آخری منزل قرار دے سکو.ہر مقام پر پہنچ کر ایک نیا دروازہ تمہارے لئے کھول دیا جائے گا اور اس طرح غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ تمہارے لئے قائم کیا جائے گا.بے شک ہم نے تجھ سے وعدہ کیا ہے کہ ہم تجھے کامیاب کریں گے اور تیری ہر مشکل کو دور کریں گے مگر فتح اور کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ نہ سمجھنا کہ میرا کام ختم ہوگیا ہے بلکہ ہر فتح کے بعد نئی مشکلات سامنے آجائیں گی کیونکہ روحانی ترقی کے اسرار میں سے یہ بات ہے کہ نئی سے نئی مشکلات پیدا ہوتی جائیں اور انہیں سر کیا جائے.پس تم یہ خیال نہ کرنا کہ شیطانی حملہ صرف ایک رنگ کا ہوگا اور اس کا ایک رنگ میں مقابلہ کرنا ہی اس کو شکست دینے کے لئے کافی ہو گا بلکہ شیطان کے حملے مختلف انواع کے ہوں گے.اس کے حملے علمی بھی ہوںگے، اس کے حملے عملی بھی ہوں گے اس کے حملے فکری بھی ہوں گے اس کے حملے سیاسی بھی ہوںگے اس کے حملے اقتصادی بھی ہوں گے اور یہ تمام حملے اس کی طرف سے یکے بعد دیگرے ہوتے چلے جائیں گے.تمہارا کام یہ ہو گا کہ ایک دشمن کو مارا اور آگے بڑھے، دوسرے دشمن کو مارا اور آگے بڑھے، تیسرے دشمن کو مارا اور آگے بڑھے.اس طرح ایک ایک کر کے دشمن کو ہٹاتے چلے گئے اور خدا تعالیٰ کے قرب کی بلندیوں میں اپنی پوری تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتے گئے.

Page 224

وَ اِلٰى رَبِّكَ فَارْغَبْؒ۰۰۹ اور تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہو.تفسیر.فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تم اس طرح چوٹیوں پر چڑھتے چلے آئو گے تو دیکھو گے کہ ہم آگے بیٹھے ہیں ہم بلندیوں پر رہتے ہیں اور وہی ہمارے پاس آسکتا ہے جو غیر محدود جدوجہد سے کام لینے والا ہو.اس لئے ہماری ملاقات کے راستہ میں کسی مقام پر ٹھہرنا نہیں بلکہ بڑھتے چلے آنا.عیسوی مقام آجائے تو ٹھہرنا نہیں بلکہ اوپر چڑھنا.موسوی مقام آجائے تو ٹھہرنا نہیں بلکہ اوپر چڑھنا پہلے آسمان پر پہنچو تو وہاں ٹھہرنا نہیں بلکہ اپنی کمر باندھ لو اور دوسرے آسمان پر پہنچو دوسرا آسمان آئے تو تیسرے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو تیسرا آسمان آئے تو چوتھے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو.چوتھا آسمان آئے تو پانچویں آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو.پانچواں آسمان آئے تو چھٹے آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو چھٹا آسمان آئے تو ساتویں آسمان پر پہنچنے کی کوشش کرو.ساتواں آسمان آئے تو اس بھی اوپر پہنچنے کی کوشش کرو.اوپر ہم تمہارا انتظار کر رہے ہیں تم اپنے رب کی طرف آئو اور اپنا انعام پا لو.

Page 225

سُوْرَۃُ التِّیْنِ مَکِّیَّۃٌ سورۂ تین.یہ سورۃ مکی ہے.وَھِیَ ثَـمَانِیَ اٰیَاتٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْـھَا رَکُوْعٌ وَّاحِدٌ اور اس کی بسم اللہ کے سوا آٹھ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ التین مکی ہے جمہور کے نزدیک یہ سورۃ مکی ہے.قرطبی نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ یہ مدنی ہے.قتادہ کا بھی قول نقل کیا گیا ہے کہ یہ مدنی ہے.مگر اس کے مقابل میں ابن ا لفریس، نحاس، ابن مردویہ اور بیہقی نے ابن عباسؓ سے ہی روایت کی ہے کہ اُنْزِلَتْ سُوْرَۃُ التِّیْنِ بِـمَکَّۃَ یعنی سورۂ تین مکہ میں نازل ہوئی تھی (فتح البیان زیر سورۃ التین و تفسیر قرطبی زیر سورۃ التین نیز روح المعانی زیر سورۃ التین ).یہ دوسری روایت قرطبی کی روایت کو رد کرتی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓکی طرف سے بھی یہی روایت ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے.ابن مردویہ نے عبداللہ بن زبیر ؓ سے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے.گویا ابن عباسؓ کے علاوہ عبداللہ بن زبیرؓ بھی اس سورۃ کو مکی قرار دیتے ہیں.بقیہ علماء نے بھی باوجود اس روایت کے جو قرطبی نے نقل کی ہے اسے مکی ہی قرار دیا ہے.بخاری، مسلم،ابو دائود اور ابن ماجہ وغیرہ میں اور اسی طرح بعض اور کتب میں بھی براء بن عازب سے روایت نقل کی گئی ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلّم فِیْ سَفَرٍ فَصَلَّی الْعِشَاءَ فَقَرَأَ فِیْ اِحْدَی الرَّکْعَتَیْنِ بِالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ فَـمَا سَـمِعْتُ اَحَدًا اَحْسَنَ صَوْتًا وَّ لَا قِرْأَ ۃً مِّنْہُ یعنی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں جا رہے تھے کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھائی اور اس کی پہلی دو رکعتوں میں سے ایک میں آپ نے سورۂ تین پڑھی.میں نے کسی شخص کو اس سے زیادہ خوبصورت آواز اور اچھی قرأت کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے نہیں سنا جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے پڑھتے سنا.ایک دوسری روایت جو انہی کی ہے اس میں بھی یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے مگر ابن الخطیب میں براء بن عازب کی جو روایت آتی ہے اس میں عشاء کی بجائے مغرب کا لفظ ہے.نولڈکے جرمن مستشرق اسے سورۃ البروج کے ساتھ کی نازل شدہ بتاتا ہے.یعنی یہ بھی ابتدائی زمانہ کی مکی سورۃ

Page 226

ہے.ویری بھی اس کی تائید کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کا سٹائل مکی ہے.(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry vol:4 Page257) میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ یہ اس کی زبردستی ہے.وہ عربی بھی اچھی طرح نہیں جانتا سٹائل کو کہاں پہچان سکتا ہے.اسی طرح وہ کہتا ہے کہ اس سورۃ میں هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ کے جو الفاظ آتے ہیں یہ بھی بتاتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے.کیوں کہ اس میں هٰذَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ’’یہ شہر مکہ‘‘ جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے.ویری کی یہ دلیل وزنی ضرور ہے مگر قطعی نہیں.ہم اتنے حصہ میں اس سے متفق ہیں کہ یہ مکی ہے.مگر اس نے اپنے بُغض کی وجہ سے یہ بھی لکھاہے کہ بعض مسلمان مصنف ان حدیثوںکی اندھا دھندتقلید میں جو قرآن کریم کو واضح کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اسے مدنی قرار دیتے ہیں نہایت ناپسندیدہ فعل ہے.یہ فقرہ اس کے بُغض پر دلالت کرتا ہے.کیوں کہ جمہور مسلمان تو اسے مکی قرار دیتے ہیں اور ہمارا اپنا فائدہ بھی اگر مسلمان فائدہ اٹھانے کے لئے حدیثیں بناتے ہیں تو اسے مکی قرار دینے میں ہی ہے.پس جبکہ جمہور بھی اسے مکی قرار دیتے ہیں مسلمان مصنفوں پر اس قدر رکیک الزام اور خصوصاً احادیث پر نہایت قابل شرم امر ہے.میں بتا چکا ہوں کہ روائتیں اسے مکی قرار دے رہی ہیں صرف قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے جس میں اسے مدنی قرار دیا ہے مگر ممکن ہے کہ وہاں کتابت کی غلطی کی وجہ سے مکی کی بجائے مدنی لکھا گیا ہواور اگر وہ کتابت کی غلطی نہیں تب بھی قرطبی اصل راوی نہیں بلکہ وہ دوسروں کی روائتوں کو نقل کرنے والا ہےاور جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اصل راوی سب اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ مدنی نہیں بلکہ مکی ہے.لیکن ویری کا اسے سٹائل کی وجہ سے مکی قرار دینا محض دھینگا مشتی ہے.اگر پادری ویری کے سامنے ہی قرآن کریم کھول کر رکھ دیا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ اگر تم سٹائل کو پہچاننے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہو تو بتائو اس میں سے مکی آیات کون سی ہیں اور مدنی آیات کون سی تو وہ بیسیوں غلطیاں کر جائیں گے یہاں چونکہ تمام روائتیں اس سورۃ کو مکی قرار دے رہی تھیں انہوں نے سمجھا کہ میں اس کے مکی ہونے کا ثبوت اس سورۃ کے سٹائل کو قرار دے کر ایک جدت پیدا کر دوںحالانکہ سٹائل کو پہچاننا کوئی آسان کام نہیں ہوتا.حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا انسان جورات اور دن غور کرتا رہا ہو اورجس نے باریک طور پر تدبر اور دماغی کاوش سے کام لیاہو اُس کے لئے بھی سٹائل کو الگ طور پر پہچاننا مشکل ہوتا ہے اور باقی لوگوں کے لئے تو اس قدر مشکل مرحلہ ہے کہ میں سمجھتا ہوں کہ لاکھوں میں سے کسی ایک کے لئے یہ بات ممکن ہوتو ہوباقی کسی کے لئے سٹائل کو پہچاننا ممکن نہیں ہے.یہی بات دیکھ لو سب مسلمان قرآن جانتے اور اسے پڑھتے ہیں مگر پھر کئی مقرر مسلمان بعض ضعیف حدیثیں پیش کر کے کہہ دیتے ہیںکہ قرآن کریم میں ایسا لکھا ہے حالانکہ وہ ویری سے زیادہ قرآن جانتے ہیں.

Page 227

مو لوی محمد احسن صا حب امروہی میں یہ مرض تھا کہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام جب بھی کوئی بات کرتے وہ درمیان میں جلدی جلدی بو لنا شروع کر د یتے تھے اور واہ وا! اور سبحان اللہ کہنے لگ جاتے مثلاً حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام جب کسی گفتگو میں فر ما تے کہ قر آ ن کریم نے فلا ں بات نہایت لطیف طور پر بیان کی ہے تو وہ کہنا شروع کر دیتے تھے کہ سبحا ن اللہ بڑی لطیف بات ہے کس کی طاقت ہے کہ ایسی بات کہہ سکے.ایک دفعہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام سیر کے لیے جا رہے تھے میں بھی ساتھ تھا کہ حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مجھے آج ایک الہام ہوا ہے جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام اور بندے کے کلام میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے.جب حضرت مسیح مو عودعلیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے یہ بات بیان فرمائی تو مولوی محمداحسن صاحب نے جھٹ ہاتھ مارنے شروع کردئیے اور کہا حضور فرق ـ!خدا کے کلام اور بندہ کے کلام میں زمین اور آسمان کا فرق ہے حضور خدا کا کلام خدا کا کلام اور بندے کا کلام بندے کا کلام،بھلا ممکن ہے بندہ اپنے کلام میں خدا کا مقا بلہ کر سکے؟ یہ تو بالکل ناممکن ہے.جب وہ ذرا خاموش ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر بات شروع کی اور فرمایا دیکھو حریری عربی ادب کے لحا ظ سے کمال کو پہنچا ہوا تھا مگر الہام الٰہی میں جو باریکیاں ہوتی ہیں وہ اس کے کلام میں کہاں ہیں؟مولوی محمد احسن صاحب نے پھر کہنا شروع کردیا حضور حریری! بھلا حریری میں رکھا ہی کیا ہے؟ اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ خدا کے کلام کا مقابلہ کرسکے.خدا کا کلام جس شان اور عظمت کاحامل ہوتا ہے بھلا حریری کی طاقت ہے کہ اس جیسا کلام کہہ سکے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مثلاً یہ فقرہ ہے ابھی وہ فقرہ مولوی محمد احسن صاحب نے سنا ہی تھا کہ انہوں نے جھٹ کہنا شروع کردیا.حضور یہ بھی کوئی فقرہ ہے.یہ بھی کوئی عربی ہے.حریری کیا جانتا ہے کہ عربی کیا ہوتی ہے؟ حالانکہ وہ الہام تھا حریری کا فقرہ نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.مولوی صاحب! سنیے تو سہی یہ حریری کا فقرہ نہیں یہ تو وہ الہام ہے جو مجھ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اب دیکھو مولوی محمد احسن صاحب مولوی آدمی تھے.رات دن عربی کتابیں پڑھنے میں مشغول رہتے تھے اور اگر سٹائل کو پہچاننا ایسا ہی آسان کام ہوتا تو وہ فوراً پہچان لیتے کہ یہ انسانی کلام ہے یا خدائی کلام مگر پھر بھی وہ غلطی کرگئے اور انہوں نے الہام کو انسانی کلام سمجھ لیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موانست اور مشابہت کی وجہ سے انسان بعض دفعہ اندازہ کرلیتا ہے کہ یہ مکی سورۃ ہے یا مدنی سورۃ ہے مگر یہ اندازہ دلیل نہیں بن جاتا.مثلاً جہاں تک عربی الفاظ کا تعلق ہے جس طرح وہ الفاظ قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں اسی طرح اور عربی کتب میں بھی استعمال ہوئے ہیں.قرآن میں بھی رزق کا لفظ آتا ہے اور

Page 228

دوسری عربی کتب میں بھی رزق کا لفظ آتا ہے.قرآن میں بھی جہاد کا لفظ آتا ہے اور دوسری عربی کتب میں بھی جہاد کا لفظ آتا ہے.قرآن میں بھی غَدًا کا لفظ آتا ہے اور دوسری عربی کتب میں بھی غَدًا کا لفظ آتا ہے مگر اس کے باوجود جس شان اور عظمت کے حامل قرآن کریم کے الفاظ ہیں اس شان اور عظمت کے پاسنگ بھی وہ الفاظ نہیں جو دوسری کتب میں پائے جاتے ہیں.کیونکہ محض الفاظ کا اشتراک کوئی چیز نہیں بلکہ اصل چیز جو الہام الٰہی کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے وہ ان الفاظ کا ایک ایسے ہار میں پرویا جانا ہے جس کی دنیا میں اور کہیں نظیر نہیں ملتی مگر پھر بھی قطعیت کے ساتھ صرف اجتہاد سے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ قرآنی اور غیرقرآنی عبارت کو بغیر قرآن کے حفظ کرنے یا کالحفظ کرنے کے قطعاً الگ الگ پہچان سکتا ہے.پس ویری کا محض سٹائل کی بنا ء پر اس سورۃ کومکی قرار دینا اس کی خوش فہمی ہے.اگر ان کے سامنے ہی قرآن کریم کی آیات الگ الگ رکھ دی جائیں اور ان سے پوچھا جائے کہ بتائو ان میں سے مکی کون سی ہیں اور مدنی کون سی تو وہ سینکڑوں غلطیوں کا ارتکاب کرجائیں گے.وہ اگر سٹائل کو پہچانتے ہیں تو صرف اس نقطۂ نگاہ سے کہ اگر لمبی آیت ہوئی تو اس کے متعلق کہہ دیا یہ مدنی ہے اور اگر چھوٹی آیت ہوئی تو کہہ دیا یہ مکی ہے.حالانکہ یہ امتیاز تو ایک بچہ بھی کرسکتا ہے.پس ویری کا مسلمان مصنفوں اور مسلمانوں کی حدیثوں پر یہ حملہ نہایت ناواجب ہے اور اُس بُغض اور کینہ کا ثبوت ہے جو اس کے دل میں اسلام کے متعلق پایا جاتا ہے.کیونکہ خود مسلمان راوی بھی اس کو مکی قرار دیتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان راویوں کے کہنے کی وجہ سے ہی انہوں نے اس سورۃ کو مکی قرار دیا ہے ورنہ اگر وہ نہ بتاتے تو یہ خود کچھ بھی نہ کہہ سکتے کہ یہ سورۃ مکی ہے یا مدنی.سورۃ تین کا پہلی سورتوں سے تعلق.ترتیب اس سورۃ کا سورۃ الانشراح سے یہ تعلق ہے کہ سورئہ انشراح میں بتایا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام اچھا ہوگا کیونکہ نیک انجام کے لئے جن امور کی ضرورت ہوتی ہے وہ آپ کوحاصل ہیں.اب اس سورۃ میںیہ بتایا گیا ہے کہ پہلی اقوام کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے.دنیا میں جب کوئی عقلی دلیل دیتاہے تو انسان کی پوری تسلی نہیں ہوتی وہ چاہتا ہے کہ مجھے کوئی نقلی دلیل بھی دی جائے تاکہ میں سمجھ سکوں کہ واقعہ میں اس کے مطابق کام ہو سکتا ہے یا نہیں.سورۃ الانشراح میں عقلی دلیل دی گئی تھی اب اس سورۃ میںنقلی دلیل دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسے ہی حالات میں اللہ تعالیٰ نے بعض پہلی قوموں کو بھی ترقی دی ہے اس سے تم نتیجہ نکال سکتے ہو کہ جس طرح آدمؑ اور نوحؑ اور موسٰی کے وقت میں ہوا کہ باوجود مخالف حالات کے محض روحانی سامانوں سے ان کو فتح حاصل ہوئی اب بھی ایسا ہی ہوگا.اس کے بعد اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں بھی اسی مضمون کو جاری رکھا گیا ہے.

Page 229

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ ( میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں).وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِۙ۰۰۲وَ طُوْرِ سِيْنِيْنَۙ۰۰۳ (مجھے) قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی.اور سینین کے پہاڑ کی.وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِۙ۰۰۴ اور اس امن والے شہر کی.تفسیر.تین و زیتون کی تشریح پرانے مفسرین کے قلم سے فرماتا ہے قسم ہے ہم کو یاہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں انجیر کو بھی.زیتون کو بھی.طور سیناء کو بھی اور اس بلد الامین کو بھی.فتح البیان میں لکھا ہے قَالَ اَکْثَرُ الْمُفَسِّـرِیْنَ اَلتِّیْنُ ھُوَالتِّیْنُ الَّذِیْ یَاْکُلُہُ النَّاسُ وَالزَّیْتُوْنُ ھُوَالَّذِیْ یَعْصِـرُوْنَ مِنْہُ الزَّیْتَ الَّذِیْ ہُوَ اِدَامُ غَالِبِ الْبُلْدَانِ وَ دُھْنُـھُمْ وَ یَدْخُلُ فِیْ کَثِیْـرٍ مِّنَ الْاَدْوِیَۃِ یعنی اکثر مفسرین کے نزدیک تین سے مراد وہی تین ہے جو لوگ کھاتے ہیں یعنی اس سورۃ میں جو وَ التِّيْنِ کا لفظ استعمال کیا گیاہے اس سے مراد وہی عام انجیر ہے جسے لوگ کھایا کرتے ہیں اور زیتون سے مراد بھی وہی زیتون ہے جسے لوگ کھاتے ہیں.جو اکثر ملکوں میں بطور سالن اور چکنائی کے استعمال ہوتاہے اور بہت سی دوائوں میں بھی پڑتا ہے.گویا یہاں اس سورۃ میں جو وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ فرمایا گیا ہے اس میں کوئی بات استعارۃً یا تمثیلاً بیان نہیں کی گئی بلکہ اس سے وہی انجیر مراد ہے جو کھانے کے کام آتی ہے اور وہی زیتون مراد ہے جس کا تیل لوگ اچاروں میں ڈالتے یا سالن کے طور پر استعمال کرتے ہیں.ہمارے ہاں اچار میں تیل یا سرکہ ڈالتے ہیں مگر مغربی ممالک میںعموماً زیتون کا تیل استعمال کیاجاتا ہے.وَ قَالَ الضَّحَّاکُ اَلْمَسْجِدُ الْاَقْصٰی اور ضحاک کہتے ہیں کہ تین سے مراد مسجد بیت الحرام اور زیتون سے مراد مسجد اقصیٰ ہے.وَ قَالَ ابْنُ زَیْدٍ مَسْجِدُ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ اور ابن زید کہتے ہیں کہ اس سے مراد بیت المقدس کی مسجد ہے.وَقَالَ قَتَادَۃُ الْـجَبَلُ الَّذِیْ عَلَیْہِ بَیْتُ الْمُقَدَّسِ اور قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد وہ پہاڑ ہے جس پر بیت المقدس بنایا گیا ہے وَقَالَ عِکْرِمَۃُ وَ کَعْبُ الْاَحْبَارِ بَیْتُ الْمُقَدَّسِ اور عکرمہ اور کعب الاحبار کہتے ہیں

Page 230

کہ اس سے مراد بیت المقدس ہے.وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بِلَادُ فَلَسْطِیْن اور ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ اس سے مراد فلسطین کا علاقہ ہے.وَقَالَ اَیْضًا بَیْتُ الْمُقَدَّسِ اسی طرح ان سے یہ بھی روایت ہے کہ اس سے مراد بیت المقدس ہے.فتح البیان کے مصنف ان معانی کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ’’لَیْتَ شِعْرِیْ مَا الْـحَامِلُ لِھٰؤُلَاءِ الْاَئِـمَّۃِ عَلَی الْعُدُوْلِ عَنِ الْمَعْنَی الْـحَقِیْقِیِّ فِی اللُّغَۃِ الْعَرَبِیَّۃِ وَالْعُدُوْلُ اِلٰی ھٰذَہِ التَّفْسِیْـرَاتِ الْبَعِیْدَۃِ عَنِ الْمَعْنَی الْمَبْنِیَّۃِ عَلٰی خَیَالَاتٍ لَّا تُرْجَعُ اِلٰی عَقْلٍ وَّ نَقْلٍ وَّ اَعْـجَبُ مِنْ ھٰذَا اِخْتِیَارُ ابْنِ جَرِیْرٍ لِلْاٰخِرِ مِنْـھَا مَعَ طُوْلِ بَاعِہٖ فِیْ عِلْمِ الرِّوَایَۃِ وَالدِّرَایَۃِ‘‘(فتح البیان زیر آیت والتین.....).یعنی مجھے بڑی حیرت آتی ہے اور میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ یہ جو بڑے بڑے آئمہ ہیں ان کو کس چیز نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ لغت عرب میں تین اور زیتون کے جو حقیقی معنی ہیں ان کو چھوڑ کر انہوںنے اور اَور معنے کرنے شروع کردیئے اور بعید از قیاس ایسی تفسیریں کرنی شروع کردیں جو ایسے خیالات پر مبنی ہیں جن کی نہ عقل تصدیق کرتی ہے نہ نقل تائید کرتی ہے.پھر وہ کہتے ہیں مجھے سب سے زیادہ تعجب ابن جریر پر آتا ہے (ابن جریر بہت بڑے مفسر اور محدث ہیں اور ان کی عقلی رائے بھی نہایت اعلیٰ پایہ کی ہوتی ہے) کہ وہ بھی آخری معنوں کی تصدیق کرتے ہیں کہ تین اور زیتون سے یا تو بیت المقدس مراد ہے یا پھر فلسطین کا علاقہ حالانکہ درایت اور روایت میں ان کو بڑا دخل حاصل ہے یعنی باوجود اس قدر علم و فضل کے انجیر اور زیتون کے سیدھے سادے معنے کرنے کی بجائے وہ ادھر اُدھر کی دور از قیاس باتوں میں چلے گئے ہیں.پھر صاحب فتح البیان لکھتے ہیں قَالَ الْفَرَّاءُ سَـمِعْتُ رَجُلًا یَّقُوْلُ التِّیْنُ جِبَالُ حُلْوَانَ اِلٰی ھَمْدَانَ وَالزَّیْتُوْنُ جِبَالُ الشَّامِ.یعنی فراء کہتے ہیں میں نے ایک آدمی سے سنا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تین سے مراد حلوان کے پہاڑ ہیں جن کا ہمدان تک سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے اور زیتون سے مراد شام کے پہاڑ ہیں.فراء جیسے آدمی کا یہ مضمون بیان کرنا ایک ایسی بات ہے جس پر واقعہ میں ہنسی آتی ہے.چنانچہ فتح البیان والوں نے یہاں ایک ایسا مزیدار فقرہ لکھا ہے جسے پڑھتے وقت مجھے ہنسی آگئی تھی وہ لکھتے ہیں ھَبْ اَنَّکَ سَـمِعْتَ ھٰذَا الرَّجُلَ فَکَانَ مَاذَا فَلَیْسَ بِـمِثْلِ ھٰذَا تَثَبُّتُ اللُّغَۃِ وَلَا ھُوَ نَقْلٌ عَنِ الشَّارِعِ کہتے ہیں میاں اگر تم نے کسی آدمی سے ایسا سن بھی لیا تھا تو پھر ہوا کیا.کسی نے گپ ہانک دی تو تم اس کو لے اڑے.یہ بھی کوئی دانائی اور عقلمندی ہے.مان لیا کہ تم نے ایک آدمی سے یہ بات سنی تھی مگر کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ اس نے جو کچھ کہا تھا وہ قرآن کریم کی تفسیر ہوگئی.یہ ایک ایسا بے ساختہ فقرہ صاحب فتح البیان کی قلم سے نکلا ہے جس کی داد دینی پڑتی ہے.واقعہ میں یہ حیرت کی بات ہے کہ فراء

Page 231

جیسے آدمی نے اس قسم کی بات نقل کردی.وہ روایت یہ کرتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا تھا کہ تین اور زیتون سے یہ مراد ہے.حالانکہ وہ کوئی بچہ بھی ہوسکتا ہے.پاگل بھی ہوسکتا ہے لغت سے ناواقف بھی ہوسکتا ہے.ایک غیرمعروف الحال شخص کی ایک بے ہودہ بات پر قرآن کریم کی تفسیر کی بنیاد رکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے.یا تو وہ کہتے کہ میں لغت کو جانتا ہوں اس لئے میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں یا فلاں ادیب سے میں نے ایسا سنا ہے یا فلاں قبیلہ میں اس کے یہ معنے کئے جاتے تھے مگر وہ کہتے یہ ہیں کہ میں نے ایک شخص سے سنا وہ یہ کہہ رہا تھا کہ تین سے یہ مراد ہے اور زیتون سے وہ مراد ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے غالب اور ذوق کہیں کہ ہم نے ایک گائوں کے جاہل اور اجڈ لڑکے کو فلاں شعرکے یہ معنے کرتے سنا ہے.غرض فتح البیان والوں کا یہ فقرہ بڑا لطیف ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اوّل تو مجھے یقین نہیں آتا کہ تم نے ایسا سنا ہو.لیکن اگر سن بھی لیا تھا تو اس پر قرآن کریم کی تفسیر کی بنیاد رکھنا کس طرح درست تھا.فتح البیان والے اگر اس اصول پر قائم رہتے تو بہت اچھا ہوتا مگر وہ خود بھی ایسی بہت سی باتیں کہہ گئے ہیں.قَالَ مُـحَمَّدُ بْنُ کَعْبٍ اَلزَّیْتُوْنُ مَسْجِدُ اِیْلِیَا.محمد بن کعب کہتے ہیں کہ زیتون سے مراد مسجد ایلیا ہے.وَقِیْلَ اِنَّہٗ عَلٰی حَذْفِ مُضَافٍ اَیْ وَ مَنَابِتِ التِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ بعض نے کہا ہے کہ یہاں حذف مضاف ہے اور مراد یہ ہے کہ ہم تین اور زیتون اگانے والی جگہوں کوپیش کرتے ہیں.قَالَ النُّحَاسُ لَا دَلِیْلَ عَلٰی ھٰذَا مِنْ ظَاہِرِ التَّنْزِیْلِ وَلَا مِنْ قَوْلِ مَنْ لَّا یَـجُوْزُ خِلَافَہٗ نحاس کہتے ہیں کہ اس توجیہہ کے متعلق قرآن کریم کی کوئی تصدیقی دلیل نہیں ملتی اور نہ کسی ایسے آدمی کا قول ملتا ہے جس کی بات کو ردّ کرنے کی جرأت نہ ہوسکے.قَالَ الرَّازِیُّ اَمَّا الزَّیْتُوْنُ فَھُوَ فَاکِھَۃٌ مِّنْ وَّجْہٍ وَّ دَوَاءٌ مِّنْ وَّجْہٍ وَّ یُسْتَصْبَحُ بِہٖ.رازی کہتے ہیں کہ زیتون سے مراد وہی شے ہے جو ایک لحاظ سے میوہ ہے کہ لوگ اسے کھاتے ہیں اور ایک لحاظ سے دوا بھی ہے اور اس سے دیئے بھی جلائے جاتے ہیں.پھر کہتے ہیں وَمَنْ رَأَی وَرَقَ الزَّیْتُوْنِ فِی الْمَنَامِ اِسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی اگر کوئی شخص خواب میں زیتون کے ورق دیکھ لے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس نے ایک مضبوط اور نہ ٹوٹنے والا کڑا اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا.اب ہم تفسیر ابن کثیر کو دیکھتے ہیں.اس میں لکھا ہے قَالَ الْقُرْطَبِیُّ ھُوَ مَسْجِدُ اَصْـحَابِ الْکَہْفِ قرطبی کا بیان ہے کہ اس سے اصحاب کہف کی مسجد مراد ہے.وَرَوَی الْعَوْفِیُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَسْجِدُ نُوْحٍ اَلَّذِیْ عَلَی الْـجُوْدِیِّ عوفی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ اس سے وہ مسجد نوح مراد ہے جو جودی پہاڑ پر ہے جہاں طوفان

Page 232

کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ٹھہری تھی.وَقَالَ بَعْضُ الْاَئِـمَّۃِ ھٰذِہٖ مَـحَالٌّ ثَلَاثَۃٌ بَعَثَ اللہُ فِیْ کُلِّ وَاحِدٍ مِّنْـھَا نَبِیًّا مُّرْسَلًا مِّنْ اُولِی الْعَزْمِ اَصْـحَابِ الشَّـرَائِعِ الْکِبَارِ بعض آئمہ کہتے ہیںکہ یہ تین اہم مقامات ہیں جن میں سے ہر مقام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اولوالعزم اور صاحب شریعت انبیاء کو بھیجا تھا.فَالْاَوَّلُ مَـحَلَّۃُ التِّیْنُ وَالزَّیْتُوْنُ وَھِیَ بَیْتُ الْمُقَدَّسِ الَّتِیْ بَعَثَ اللہُ فِیْـھَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ پہلے نبی کے اترنے کا محل تین اور زیتون کا مقام ہے اور اس سے مراد وہ بیت المقدس ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح ابن مریمؑ کو نازل کیا تھا.گویا ان کے نزدیک تین اور زیتون دونوں سے مراد بیت المقدس ہے گو بعض آئمہ نے صرف تین کے متعلق یہ کہا تھا کہ اس سے مراد بیت المقدس ہے مگر یہ کہتے ہیں تین اور زیتون دونوں سے بیت المقدس مراد ہے کیونکہ یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے تھے.وَالثَّانِیْ طُوْرُ سِیْنِیْنَ اور دوسرا مقام طور سینین ہے.وَھُوَ طُوْرُ سَیْنَاءَ الَّذِیْ کَلَّمَ اللہُ عَلَیْہِ مُوْسَی بْنَ عِـمْرَانَ اوراس سے مراد وہ طور ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے موسٰی بن عمران سے باتیں کی تھیں.وَالثَّالِثُ مَکَّۃُ اور بلد الامین جس کا تیسرے مقام پر ذکر آتا ہے اس سے مراد مکہ ہے.وَ ھٰذَا الْبَلَدُ الْاَمِیْنُ الَّذِیْ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا اور یہ وہی بلد الامین ہے جس میں داخل ہوکر انسان کو امن حاصل ہوجاتا ہے.وَھٰذَا وَالَّذِیْ اُرْسِلَ فِیْہِ مُـحَمَّدٌ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اور یہی وہ جگہ ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.اس کے بعد ابن کثیر والے لکھتے ہیں کہ وَ قَالُوْا وَفِیْ اٰخِرَۃِ التَّوْرَاۃِ ذِکْرُ ھٰذِہِ الْاَمَاکِنِ الثَّلَاثَۃِ یعنی بعض مفسرین نے جو یہ معنے کئے ہیں کہ تین اور زیتون سے مراد تین اور زیتون کے پیدا ہونے کی جگہ ہے خصوصاً تین اور زیتون سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وہ مقام ہے جہاں آپ نازل ہوئے.طورِ سینین سے مراد وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا اور بلد الامین سے مراد وہ مکہ ہے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ان تینوں مقامات کا تورات کے آخر میں ذکر آتا ہے.چنانچہ لکھا ہے جَاءَ اللہُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَاءَ.......وَاَشْـرَقَ مِنْ سَاعِیْـرَ.......وَاسْتَعْلَنَ مِنْ جِبَالِ فَارَانَ یعنی ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘‘ (استثناء باب ۳۳ آیت ۲) یہ ایک مشہور حوالہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق بائبل میں پایا جاتا ہے اور میرے نزدیک یہ پہلا حوالہ ہے جو مفسرین نے صحیح طور پر پیش کیا ہے اور اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے ورنہ مفسرین بائبل کے جو حوالہ جات دیتے ہیں وہ اکثر غلط ہوتے ہیں یا تو وہ حوالے بائبل میں ملتے ہی

Page 233

نہیں اور اگر ملتے ہیں تو اُس رنگ میں نہیں ہوتے جس رنگ میں مفسرین ان کا ذکر کرتے ہیں.یہ پہلا حوالہ ہے جو انہوں نے صحیح طور پر پیش کیا ہے.چنانچہ جَاءَ اللہُ مِنْ طُوْرِ سَیْنَاءَ کے ساتھ انہوں نے بطور تشریح لکھا ہے یعنی الَّذِیْ کَلَّمَ اللہُ عَلَیْہِ مُوْسٰی اور اَشْـرَقَ مِنْ سَاعِیْـرَ کے ساتھ لکھا ہے یعنی جَبَلُ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ الَّذِیْ بَعَثَ اللہُ مِنْہُ عِیْسٰی اور وَاسْتَعْلَنَ مِنْ جِبَالِ فَارَانَ کے ساتھ لکھا ہے.یعنی جِبَالُ مَکَّۃَ الَّتِیْ اَرْسَلَ اللہُ مِنْـھَا مُـحَمَّدًا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.پھر اس کے بعد وہ ایک نوٹ میں لکھتے ہیں فَذَکَرَھُمْ مُّـخْبِـرًا عَنْـھُمْ عَلَی التَّـرْتِیْبِ الْوُجُوْدِیِّ بِـحَسَبِ تَرْتِیْبِـھِمْ فِی الزَّمَانِ یعنی اس پیشگوئی میں جو بائبل میں بیان کی گئی ہے ان تینوں انبیاء کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ اسی ترتیب سے ذکر ہے جس ترتیب کے ساتھ یہ تینوں انبیاء یکے بعد دیگرے آئے.پہلے طُوْرِ سِیْنَا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور اَشْـرَقَ مِنْ سَاعِیْـر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا ہے اور اسْتَعْلَنَ مِنْ جِبَالِ فَارَانَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے کیونکہ اسی ترتیب سے یہ انبیاء آئے تھے.پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام آئےتھے، پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے اور آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگئے گویا جس ترتیب سے ان انبیاء نے ظاہر ہونا تھا اسی ترتیب سے اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کا بائبل میں ذکر کیا ہے.وَلِھٰذَا اَقْسَمَ بِالْاَشْـرَفِ ثُمَّ الْاَشْـرَفِ مِنْہُ ثُمَّ بِالْاَشْـرَفِ مِنْـھُمَا یہاں معلوم ہوتا ہے کوئی عبارت رہ گئی ہے یا ترتیب زمانی چونکہ پہلے بیان ہوچکی تھی اس لئے انہوں نے خیال کرلیا کہ لوگ خودبخود اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ قرآن کریم نے بائبل کی ترتیب کے خلاف پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ذکر کیا ہے تو درجہ کی ترتیب کے لحاظ سے کیا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں قرآن کریم نے زمانی ترتیب کو نہیں لیا بلکہ درجہ کی ترتیب کو لیا ہے اور اس لئے پہلے تین اور زیتون کا ذکر کیا ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام مراد ہیں کیونکہ وہ باقی دو انبیاء سے درجہ میں چھوٹے ہیں.اس کے بعد طورِ سینین میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ وہ درجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بڑے ہیں.آخر میں وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا گیا کیونکہ آپ عیسٰیؑ اور موسٰی دونوں سے افضل ہیں.یہ توجیہ ابن کثیر والوں کی نہایت معقول اور درست ہے میں نے دیکھا ہے کہ اکثر مقامات پر ان کی عقل خوب چلتی ہے.وہ کہتے ہیں بائبل نے تو ان کی ترتیب وجودی کومدنظر رکھا تھا مگر قرآن کریم نے ان کی ترتیب مقامی کو مدنظر رکھا ہے.وہاں یہ ذکر تھا کہ پہلے کون ہوگا پھر کون ہوگا اور پھر اس کے بعد کون ہوگا.لیکن یہاں یہ ذکر ہے کہ ان تینوں میں سے چھوٹا درجہ کس کا ہے اور پھر اس سے بڑا درجہ کس کا ہے اور پھر ان دونوں سے بڑا درجہ کس کا ہے.یہ

Page 234

ایک ایسی بات ہے جو میں نے اور کسی تفسیر میں نہیں دیکھی.باقی تفاسیر کی تو یہ حالت ہے کہ جہاں حضرت مسیحؑ کا ذکر آجاتا ہے وہ بوجہ ان روایتوں کے جو حضرت ابوہریرہؓکی مہربانی سے احادیث میں آگئی ہیں ڈرجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو ہم حضرت مسیحؑ سے کسی اور نبی کو افضل قرار دے کر آپ کی ہتک کے مرتکب ہوجائیں مگر ابن کثیر نے جو نہایت اعلیٰ پایہ کے مفسر ہیں قطعی اور حتمی طور پر حضرت مسیح ناصری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کم درجہ رکھنے والا قرار دیا ہے.مولوی محمد علی صاحب اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں.انجیر کا ذکر دوسری جگہ قرآن کریم میں نہیں ہے مگر زیتون کا سورۂ نور میں ذکر ہے جہاں نور محمدی کو زیتون سے مشابہت دی ہے دوسری طرف بائبل میںانجیر کو سلسلہ موسویہ سے مشا بہت دی ہے چنانچہ یرمیاہ باب۲۴میںلکھا ہے ’’دو ٹوکریاںانجیروں کی خداوندکی ہیکل کے سامنے دھری تھیں.ایک ٹوکری میں اچھے سے اچھے انجیر تھے....اور دوسری ٹوکری میںبُرے سے بُرے انجیر‘‘ اورپھر آگے چل کر اچھے انجیروں کو بنی اسرائیل کے اچھے لوگ قرار دیاہے اور بُرے انجیروں کو بُرے لوگ اور حضرت عیسی علیہ اسلام کے مشہور انجیر کے درخت پر لعنت کر نے کے واقعہ میںبھی در حقیقت اسی طرف اشارہ ہے دیکھو متی باب ۲۱ ’’اور جب صبح کوشہر میں جا نے لگا اسے بھوک لگی تب انجیر کا ایک درخت راہ کے کنارے دیکھ کر اُس پاس گیا اور جب پتوں کے سوا اس میں کچھ نہ پایا تو کہا اب تجھ میں کبھی پھل نہ لگے وہیں انجیر کا درخت سوکھ گیا‘‘ پھر لکھتے ہیں بے موسم پھل نہ لگنے پر درخت پرکیا خفگی ہو سکتی تھی.اصل میں یہ ایک تمثیل تھی.انجیر کا درخت سلسلۂ بنی اسرائیل کا قائم مقام تھا جسے لفظ پرست انجیل نویسوںنے واقعہ کارنگ دے دیا(بیان القرآن جلد سوم زیر سورۃ التین).مگر یہ بات بھی ویری کی طرح کہی گئی ہے واقعہ یہ ہے کہ انجیل کے ما ننے والے بھی اس واقعہ کوظاہری نہیںمانتے بلکہ وہ اس کو ایک تمثیلی واقعہ قرار دیتے ہیںچنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اس واقعہ سے حضرت مسیح ناصری کے اخلاق کے متعلق استدلال کیا اور لکھا کہ کیا یہی حضرت مسیحؑ کے اخلاق تھے کہ ایک انجیر کے درخت پر محض اس وجہ سے آپ نے لعنت کر دی کہ اس پر پھل نہیں تھا.حالانکہ اس میں درخت کا کوئی قصور نہ تھا(چشمۂ مسیحی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۳۴۶) تو عیسائیوں نے اس کے جواب میں یہ لکھا کہ ہم اس کو ظاہری واقعہ تسلیم نہیں کرتے.خود انجیل سے ثابت ہے کہ وہ پھلوں کا موسم نہیں تھا اس لئے یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیحؑ ایک انجیر کے درخت کی طرف اس کے پھل کی امید میں ایسے موسم میں جاتے جس میں پھل ہو ہی نہیں سکتا تھا.درحقیقت انجیر کے درخت سے یہودی لوگ مراد ہیں.حضرت مسیحؑ نے چاہا کہ یہودی قوم ان پر ایمان لا کر زندہ

Page 235

ہو جائے اور وہ بھی روحانی پھل پیدا کرنے لگے مگر یہودی قوم نے آپ کو ماننے سے انکار کر دیااس پر حضرت مسیحؑ نے لعنت کی جس کا مفہوم یہ تھا کہ آئندہ یہ قوم خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے ہمیشہ محروم رہے گی مولوی محمد علی صاحب نے سمجھا ہو گا کہ میں ایک بہت بڑا نکتہ نکال کر پیش کر رہا ہوں حالانکہ عیسائی بھی یہی معنے کرتے ہیں کہ اس واقعہ میں یہودیوں کی تباہی کی طرف اشارہ تھا اور مراد یہ تھی کہ انجیر کے درخت پر اب پتے ہی باقی رہ گئے ہیں پھل نہیں.یعنی یہودیوں میں صرف ظاہرہی ظاہر رہ گیا ہے.پھل اور روحانیت ان میں نہیں رہی اس لئے آئندہ یہ درخت سوکھ جائے گا.یعنی کوئی نبی ان میں نہیں آئے گا.پس انجیر سلسلۂ اسرائیل کا قائم مقام ہے اور زیتون سلسلہ محمدیہ کا اور انجیر اور زیتون الگ مثال نہیں ہیں بلکہ طور اور بلدالامین ہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں پہلے ان کے ذریعہ سے مخفی اشارہ موسوی اور محمدیؐ سلسلہ کی طرف کیا گیا پھر طور و بلد الامین کہہ کر اس اشارہ کو واضح کر دیا گیا.تین و زیتون کی تفسیر حضرت خلفیۃ المسیح الاوّلؓکی زبانی حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں (خلاصہ میرے الفاظ میں ہے) کہ ان کی قسم اس لئے کھائی یعنی تین اور زیتون کی کہ علاوہ غذا کے دواکے طور پر بھی یہ استعمال ہوتی ہیں.کبھی طبیب تین تجویز کرتا ہے تو کبھی زیتون.مطلب یہ کہ ایک زمانہ میں خدا تعالیٰ نے طور سینین کا نسخہ استعمال کیااور اس زمانہ میں بلدالامین کا نسخہ اس نے تجویز کر دیا(حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۴۱۷).گویا وہی لف و نشر کی مثال ہے.تین سے مراد بنی اسرائیل اور زیتون سے مراد بلدالامین سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں گویا وہ مضمون جو مولوی محمد علی صاحب نے بیان کیا ہے.در حقیقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کا بیان کردہ ہے.اسی طرح دو ٹوکریوں کی مثال جو مولوی محمد علی صاحب نے پیش کی ہے یہ بھی حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کی زبان سے میں نے خود سنی ہے.مگر افسوس ہے کہ آپ کے درس کے چھپے ہوئے نوٹوں میں یہ بات نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی اکمل صاحب نے یہ نوٹ لکھے ہیں اور وہ مضمون کا بہت سا حصہ چھوڑ کر صرف مختصر نوٹ لینے پر اکتفا کیا کرتے تھے لیکن پھر بھی ان نوٹوں میں یہ بات موجود ہے کہ ’’تین اور زیتون ان دو چیزوں کو قسمیہ بطور شہادت کے اس لئے بیان کیا کہ علاوہ غذا کے جسمانی امراض کے لئے بھی بطور دوا کے یہ دونوں چیزیں استعمال کی جاتی ہیں کبھی طبیب تین تجویز کرتا ہے تو کبھی تبدیل نسخہ کے لئے زیتون مفید سمجھتا ہے.‘‘ گویاحضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے مضمون میں ایک زائد بات یہ ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس طرح طبیب کبھی تین کو چھوڑ کر زیتون استعمال کراتا ہے اسی طرح خدا نے اگر تین والے نسخے کو بدل کر زیتون والا نسخہ استعمال کرانا شروع کر دیا تو اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے.خدا حکیم ہے اور وہ ہمیشہ مرض کے مطابق آسمان سے علاج نازل

Page 236

کیا کرتا ہے.جب تین کے نسخہ کی ضرورت تھی اس نے تین نازل کر دی اور جب زیتون کے نسخہ کی ضرورت تھی اس نے زیتون نازل کر دیا.اس تبدیلی سے خدا تعالیٰ پر کوئی اعتراض عائد نہیں ہوتا.بلکہ اس کی حکمت پر ایمان لانا پڑتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے بندوں کے فائدہ اور مخلوق کی نفع رسانی کے لئے کرتا ہے.یہ مضمون جو نہایت ہی لطیف تھا مولوی محمد علی صاحب نے چھوڑ دیا کیونکہ مضمون ظاہر کر رہا تھا کہ اس نکتہ کو بیان کرنے والا کوئی طبیب ہے.انہوں نے وہ حصہ تو لے لیا جس کے بیان کرنے سے حضرت خلیفہ اوّل ؓ کی طرف اشارہ نہیں ہوتا تھا.مگر وہ حصہ ترک کر دیا جس کو بیان کرنے سے آپ کی طرف اشارہ ہو جاتا تھا.بے شک مولوی محمد علی صاحب نے یہ مضمون بیان کر کے لوگوں سے واہ وا لے لی ہو گی اور وہ ہزاروں غیر احمدی جو ان کی تفسیر میں اس نکتہ کو پڑھتے ہوں گے خیال کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد علی صاحب نے نہایت عجیب بات نکالی ہے مگر افسوس ہے کہ جس شخص نے قرآن کریم کا یہ لطیف نکتہ نکال کر پیش کیا تھا اس کا ذکر انہوں نے چھوڑ دیا اور اس کی محنت کو اپنی طرف منسوب کر لیا پھر جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے وہ بھی مکمل مضمون نہیں بلکہ جیساکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں وہ حضرت خلیفہ اوّل ؓ کے مضمون کے اس حصہ کو چھوڑ گئے ہیں کہ جس طرح طبیب حالات کی تبدیلی پر نسخہ تبدیل کر دیتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے تین کی بجائے زیتون کا نسخہ لوگوں کو استعمال کرانا شروع کر دیا.یہ نکتہ نہایت ہی شاندار ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک نئی شریعت کے نزول سے لازمی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ اللہ تعا لیٰ نے موسوی شریعت کو کالعدم قرار دے دیا اوراس کی جگہ محمدی شریعت کو نازل کر دیا.اللہ تعالیٰ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا طبیب جب کسی مریض کے لیے نسخہ تجویز کر تا ہے تو ہمیشہ ایک ہی نسخہ رکھتا ہے؟ تم جانتے ہو کہ حالات کے بدلنے پر ہر سمجھدار طبیب نسخہ میں تبدیلی کر دیا کرتا ہے کبھی وہ تین استعمال کراتا ہے اور کبھی زیتون.کبھی ایک دوا استعمال کراتا ہے اور کبھی دوسری.جب روزانہ دنیا میں یہ نظارہ نظرآتا ہے اور تم جانتے ہو کہ کامل طبیب کی علامت یہی ہوتی ہے کہ وہ حالات کے مطابق نسخہ بدل دے تو تمہیں اللہ تعا لیٰ کے اس فعل سے کیوں تکلیف ہوئی اور کیوں تمہارے دل میں یہ اعتراض پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ اس نے موسوی شریعت کی بجائے محمدی شریعت کیوں نازل کر دی ہے؟ غرض مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے معنے اوّل تو ادھورے نقل کئے ہیں اور پھر آپ کا حوالہ دینے سے وہ کترا گئے ہیں حالانکہ دیانتداری کا تقاضا یہ تھا کہ جس شخص نے یہ معنے نکالے تھے اس کا ذکر بھی کیا جاتا.میں نے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے یہ بھی سنا ہوا ہے کہ تین اور زیتون مسیحؑ کے لیے، طور موسٰی کے لیے اور بلدالامین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے گویا ابن کثیر والے مضمون کو بھی آپ پیش کیا کرتے تھے.

Page 237

سابق مفسرین کے بیان کر دہ معنوں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ علماء کو شروع سے ہی یہ خیال تھا کہ تین و زیتون مثالی رنگ میں استعمال ہوئے ہیں اور اس کی طرف ان کی طبائع کا شدت سے رحجان پایا جاتا ہے.بے شک بعض نے تین اور زیتون سے ظاہری تین اورظاہری زیتون ہی مراد لیا ہے مگر اکثر نے ان الفاظ کو استعارہ قرار دے کر نئے معانی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے چنانچہ کسی نے اس سے بیت لمقدس مراد لیا ہے، کسی نے بلاد فلسطین،کسی نے مسجد اقصیٰ اور کسی نے مسجد نوح.گو یہ طریق جیسا کہ اوپر بیان ہو چکاہے زبردستی کا ہے اور تاویل بعیدہ کا ایک وسیع دروازہ کھول دیتا ہے مگر جہاں تک ان لوگوں کے معنوں کا تعلق ہے جو اس جگہ حذف مضاف کہتے ہیں ان پر غیر معقولیت کا الزام نہیں لگایا جا سکتااس میں کوئی بعید بات نہیں کیونکہ یہ عربی کا عام قاعدہ ہے کہ کبھی حذف مضاف کرکے صرف مضاف الیہ کو بیان کر دیا جاتا تو اسی رنگ میں اگر یہاں بھی تین اور زیتون کا استعمال ہو گیا ہو تو اس میں حرج کی کون سی بات ہے.قرآن کریم میں ذکر آتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے باپ سے کہا وَسْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَ الْعِيْرَ الَّتِيْۤ اَقْبَلْنَا فِيْهَا١ؕ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ(یوسف:۸۳) تو ہمارے متعلق گائوں سے پوچھ لے یا تو ہمارے متعلق گدھوں سے پوچھ لے حالانکہ ہر شخص جانتا ہے کہ نہ گائوں بولا کرتا ہے اور نہ گدھے کسی سے گفتگو کیا کرتے ہیں.دونوں باتیں ناممکن ہیں اور دونوں کو عقلی طور پر تسلیم نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم نے قَرْیَہ اور عِیْر سے ہی سوال کرنے کو کہا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گو یہاں قَرْیَہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد اَہْلُ الْقَرْیَۃ سے ہے یعنی بستی والے اور گو صرف عِیْر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد یہ ہے کہ گدھوں کے مالکوں سے پوچھ لو.اسی طرح قرآن کریم میں اور بھی بہت سی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ قرآن کریم کثرت سے اس محاورہ کو استعمال فرماتا ہے.ہاں ایسے مواقع پر قرائن قویہ کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے.اگر قرائن قویہ کے بغیرایسے معنے کئے جائیں تو بے شک معقول و غیر معقول کے درمیان کی دیوار ٹوٹ جاتی ہے.چنانچہ وَسْـَٔلِ الْقَرْيَةَ الَّتِيْ كُنَّا فِيْهَا وَ الْعِيْرَ الَّتِيْۤ اَقْبَلْنَا فِيْهَا میں یہ ایک نہایت کھلا قرینہ ہے کہ بستی کلام نہیں کیا کرتی یا گدھے بولا نہیں کرتے اور جب یہ دونوں باتیں ناممکن ہیں تو ان سے سوال کرنے کے بجز اس کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے کہ بستی سے تعلق رکھنے والے جو لوگ ہیں ان سے دریافت کیا جائے یا گدھوں کے جو مالک ہیں ان سے اصل حقیقت معلوم کی جائے.اسی طرح اگر بعض لوگوں نےوَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ کے یہ معنے لے لئے کہ اس سے مراد وہ علاقے ہیں جہاں تین اور زیتون دونوں کثرت سے ہوتی ہیں(فتح البیان زیر آیت وَالتِّیْنِ).تو اس میںعجیب بات کون سی ہو گئی.قرآن کریم اپنے کلام میں لازماً عربی محاورات اور عربی طریق گفتگو کو مد نظر رکھے گا.جب عربی زبان میں

Page 238

یہ عام قاعدہ ہے کہ کبھی حذف مضاف کر کے صرف مضاف الیہ بیان کر دیتے ہیں.تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآن کریم اس محاورہ کو استعمال نہ فرمائے.باقی رہا یہ سوال کہ اس جگہ قرینہ قویہ کون سا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرینہ اگلے دو الفاظ ہیں یعنی طور اور بلدالامین.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ طور ایک مقام ہے جو ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوا اور مکہ بھی ایک مقام ہے جو ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوا.پس جبکہ تین اور زیتون کے معطوف دو مقام ہیں جو ایک ایک نبی کی وجہ سے معزز ہوئے تو عقل ضرور اس امر کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ تین و زیتون میں بھی کسی مقام کا نام ہو گا.یا کسی نہ کسی نبی سے تعلق رکھنے والی چیز ہو گی جس کی وجہ سے اسے طور اور مکہ کی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت اور شوکت کے ثبوت میں پیش کیا جا سکے.اسی طرح ابن کثیر والوں نے جو اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ترتیب قرآنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہلے کیوں بیان کیا گیا ہے وہ ایک نہایت لطیف جواب ہے اور ان کی نگاہ کی باریکی کی قدر کرنی پڑتی ہے.مولوی محمد علی صاحب نے جو معنے کئے ہیں ان کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ وہ درحقیقت حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے معنے ہیں جو انہوں نے چرا کر اپنی طرف منسوب کر لئے ہیں لیکن بہر حال اس سے انکار نہیںکیاجاسکتا کہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے معنے نہایت لطیف ہیں کہ ایک قوم کو تین سے مشابہت دی گئی ہے اور دوسری کو زیتون سے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ہم نے تین کا نسخہ تجویز کیا تھا اور دوسرے وقت میں زیتون کا کیونکہ ہم کامل طبیب ہیں اور جیسی جیسی بیماری ہوتی ہے ویسا ہی اس کا علاج کرتے ہیں.بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ اس جگہ یہ بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تین مزے میں تو اچھی ہوتی ہے مگر وہ جلدی سڑ جاتی ہے اس کے مقابل میں زیتون علاوہ اس کے کہ پھل کا کام دیتا ہے اس کا روغن کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے اور اچار میں بھی ڈالاجاتا ہے جو اس کو دیر تک قائم رکھتا ہے.گویا تین تو اپنی ذات میں بھی قائم نہیں رہ سکتی اور زیتون کے ساتھ دوسری چیزیں بھی قائم رکھی جاتی ہیں اور ان دو مثالوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ موسوی تعلیم انجیر کی طرح سڑ جانے والی تھی.اب ہم تمہیں وہ تعلیم دیں گے جو نہ صرف سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی بلکہ انسانی ذہنوں میں ایک ایسا نور پیدا کر دے گی کہ اس کے ذریعہ سے نئے سے نئے معارف اور نئے سے نئے علوم انہیں اس کتاب سے حاصل ہوتے رہیں گے.جیسے سورۂ نور میں زیتون کے تیل کی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ (النّور:۳۶).یہ تیل ایسا اعلیٰ درجہ کا ہے کہ خواہ آگ اس کے قریب نہ لائی جائے تب بھی وہ خودبخود بھڑک اٹھتا ہے.ایسی اعلیٰ درجہ کی چیز کے ساتھ الٰہی کلام کو مشابہہ قرار دینے کے معنےیہی ہیں کہ وہ کلام جو اب دنیا میں نازل کیا جائے گا نئے سے نئے علوم اور

Page 239

معارف کو دنیا میں قائم کرنے کا ایک ذریعہ ہو گا.اور جہالت اور معصیت کی تاریکیوں کو دور کر دے گا.ان دونوں معنوں میں جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ترتیب طبعی پائی جاتی ہے.ایک میں درجہ کے لحاظ سے اور ایک میں زمانہ کے لحاظ سے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.ان مثالوں سے پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو نہایت معتدل القویٰ بنایا ہے.کیونکہ جب بھی خدا تعالیٰ کے نبی آئے آخر دنیا ان کو مان گئی.اور وہ پہلے معنی جو مفسرین نے بائبل کی اس پیش گوئی کو مد نظر رکھتے ہوئے کئے ہیں کہ ’’خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا‘‘ ( استثناء باب ۳۳ آیت ۲) اور یہ سمجھ لو کہ یہی پیش گوئی اس جگہ بیان کی گئی ہے.تو اس لحاظ سے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ان میں سے جس نبی کو بھی دیکھ لو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ آخر وہی فتح یاب ہوا.بےشک دنیا نے ان کی مخالفت کی.ان کو مٹانے کے لئے اس نے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کیں مگر آخر ان کی تعلیم کو ماننے پر مجبور ہو گئی.اس سے یہ نتیجہ نکل آیا کہ ہم نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کی تقویم میں پیدا کیا ہے.موسٰی آئے تو ہم نے انہیں فتح دی.عیسٰیؑ آئے تو ہم نے انہیں فتح دی.اب تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے مگر ایک دن تمہیں اس کی تعلیم کے سامنے اپنے سر کو جھکانا پڑے گا اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے.وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ کی نئی تفسیر غرض حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ کے معنے بھی بڑے لطیف ہیں اور پرانے مفسرین کے بعض معنے بھی بہت اچھے ہیں مگر میں نے اس سورۃ پر مزید غور کیا کہ کیا ایسے لطیف اور واضح معنوں کے ہوتے ہوئے پھر کوئی اور معنے بھی ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ جب میں نے غور کیا تو اللہ تعالیٰ نے مجھے ان آیات کا ایک نیا علم بخشا.اس کے لحاظ سے یہاں نہ دو زمانوں کا ذکر ہے نہ تین کا بلکہ چار زمانوں کی خبر دی گئی ہے اور اس طرح ایک نہایت ہی لطیف مضمون بیان کیا گیا ہے جو لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے ساتھ گہرے طور پر تعلق رکھتا ہے.بے شک اگر ہم موسٰی کی مثال لے لیں یا عیسیٰؑ کی مثال لے لیں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال لے لیں تب بھی یہ آیت اپنے معانی کے لحاظ سے پوری طرح چسپاں ہوجاتی ہے مگر اس صورت میں انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کرنے کی مثال زمانہ کے صرف ایک جزو کے ساتھ تعلق رکھے گی.کامل مثال تب ثابت ہوتی ہے جب ساری دنیا پر مجموعی لحاظ سے نظر ڈالنے کے بعد یہ نتیجہ پیدا ہو کہ انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیاگیا ہے اگر ساری دنیا پر مجموعی نظر ڈالنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچیں کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ تو اس صورت میں یقیناً یہ پہلے سے زیادہ زبردست دلیل بن جائے گی اور قرآن کریم کے حسن اور اس کی شان کو دوبالا کردے گی.

Page 240

آنحضرت صلعم کی فتح کے یقینی ہونے کی پہلی دلیل غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ اس سورۃ سے پہلے کی چند سورتوں میں ہجرت کا ذکر چلا آتا ہے.چنانچہ پہلے تو یہ بتایا گیا ہے کہ تمہیں ہجرت کرنی پڑے گی پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ہجرت کس طرح ہوگی اور پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ہجرت کے بعد تمہیں کس طرح غلبہ حاصل ہوگا.کفار کیونکر مغلوب ہوں گے اور اسلام کو کس طرح شوکت اور عظمت حاصل ہوگی.یہ مضمون سورئہ فجر سے شروع ہوتا ہے اور اس کے بعد کی ہر سورۃ میں اشارۃً یا وضاحتاً کسی نہ کسی رنگ میں ہجرت کا ذکر چلا آتا ہے.ہجرت کا پہلا اثر انسان کی طبیعت پر یہ ہوتا ہے کہ ہار گئے، بھاگ گئے، شکست کھاگئے.جب بھی ہجرت کا ذکر کیا جائے گا.دشمن تالیاں پیٹنے لگ جائے گا کہ لو اب بھاگنے کی تیاریاں ہورہی ہیں.اگر یہ کہا جائے کہ آج تو ہم یہاں سے جارہے ہیں مگر کچھ عرصہ کے بعد پھر فتح حاصل کرکے واپس آئیں گے.تب بھی دشمن حقارت کی ہنسی ہنستا ہے اور کہتا ہے فتح کو تو میں نہیں مانتا مگر اتنا تو تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ اس وقت تم میرے مقابلہ سے بھاگ رہے ہو.غرض ہجرت پر شیطان کو ایک خوشی حاصل ہوتی ہے.کیونکہ بظاہر شیطان جیت جاتا ہے اور نبی ہارجاتا ہے گویا شیطان کی فتح کی ایک ظاہری علامت قائم ہوجاتی ہے اور کمزور دل لوگ ڈر جاتے ہیں کہ کیا اس کے نتیجہ میں اب یہ سلسلہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا مدعی ہے تباہ تو نہ ہوجائے گا.اس کا بانی تو کہتا تھا کہ ہم جیت جائیں گے اور دشمن ہارجائے گا.مگر ہوا یہ کہ خود ہی دشمن سے ڈر کر بھاگ رہا ہے.پس چونکہ ہجرت پر شیطان کو ایک ظاہری فتح حاصل ہوتی ہے اور کمزور ایمان والوں کے قدم ڈگمگاجاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں ہجرت کی چار مثالیں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ اس سے پہلے شیطان نے تین دفعہ بظاہر خدا تعالیٰ کے نبیوں کو شکست دی تھی اور ان کو دق کرکے ان کے وطن سے نکال دیا تھا مگر آخر نتیجہ کیا ہوا.اللہ تعالیٰ نے ان کی پردہ پوشی فرمائی اور ان کی شکست کو فتح میں بدل دیا.اب بھی ایسا ہی ہوگا.تم ہمارے رسول کو اس قدر تکالیف پہنچائو گے کہ آخر وہ مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوجائے گا اور تم خوش ہو گے کہ تم نے اسے شکست دے دی اور اسے اپنے شہرمیں سے نکال دیا.مگر یا درکھو آخر تم کو ہی ذلیل ہونا پڑے گا.چنانچہ ہم تمہارے سامنے تین مثالیں پیش کرتے ہیں.تینوں دفعہ شیطان نے خدا تعالیٰ کے نبیوں کو نکالا مگر تینوں دفعہ شیطان نے منہ کی کھائی اور ان انبیاء کا اپنے وطن سے نکلنا ہی دشمن کی تباہی کا موجب بن گیا.شیطان کا حضرت آدم علیہ السلام کو دھوکہ دینا پہلی مثال آدمؑ کی ہے.آدم کو بظاہر شیطان سے شکست ہوئی.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک درخت کے پاس جانے سے انہیں منع کیا تھا جس کے پاس وہ شیطان کے بہکانے کے نتیجہ میں چلے گئے اور انہیں کئی قسم کی تکالیف میں مبتلا ہوناپڑا.اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم

Page 241

میں فرماتا ہے فَقُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا۠ مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى.اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا تَعْرٰى.وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَ لَا تَضْحٰى.فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا يَبْلٰى.فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ١ٞ وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى.ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى.( طٰہٰ :۱۱۸تا ۱۲۳) یعنی ہم نے آدم کو جنت میں رکھا تو شیطان ان کا مدمقابل بن کر کھڑا ہوگیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے آدم سے فرمایا.اے آدم یہ تیرا دشمن ہے اور تیری بیوی یا تیرے ساتھیوں کا بھی دشمن ہے.ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکال دے اور تم تکلیف میں پڑ جائو.تیرے لئے خدا کا فیصلہ یہی ہے کہ تو اس جنت میں نہ بھوکا رہے نہ ننگا، نہ پیاسا رہے اور نہ گرمی کی تکلیف تجھے ستائے.جب خدا نے یہ کہا تو شیطان کو اور غصہ چڑھا کہ اچھا میرے مقابلہ میں اب اس کے غلبہ اور کامیابی کی خبریں دی جارہی ہیں.چنانچہ شیطان نے اپنا بھیس بدلا اور اس نے آدم کے پاس آکر کہا.کیا میں آپ کو ایک ایسے درخت کا پتہ دوں جس کا پھل کھانے سے آپ کو دائمی حیات حاصل ہوسکتی ہے اور ایسی حکومت کا آپ کو پتہ دوں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی.جب اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں اس نے کیں تو دھوکہ کھاجانے کی وجہ سے آدم اور اس کی جماعت نے یا آدم اور اس کی بیوی نے اس درخت کا پھل کھالیا اور چونکہ آدم کا یہ فعل خدائی منشاء کے خلاف تھا اس لئے یک دم اس فعل کے برے نتائج ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور آدم کی آنکھیں کھل گئیں کہ اس نے خدائی منشاء کی خلاف ورزی کرکے سخت غلطی کا ارتکاب کیا ہے.اس نے سمجھا تھا کہ یہ کامیابی حاصل کرنے کا طریق ہے مگر ہوا یہ کہ دشمن کی بات مان کر اس کی مشکلات اور بھی بڑھ گئیں اور وہ فتوحات جو اسے پہلے حاصل ہورہی تھیں ان میں یک دم روک پیدا ہوگئی.شیطان نے آدم کو ورغلانے کا یہی ڈھنگ نکالا تھاکہ آپس کے تعلقات سے بہت فائدہ ہوگا.رشتہ داری کے تعلقات بڑھ جائیں گے.دوستانہ تعلقات بڑھ جائیں گے.محبت اور پیار کے تعلقات بڑھ جائیں گے اور اس طرح بہت جلد ترقی حاصل ہوجائے گی پھر اس نے کہا آخر خدا کا بھی تو یہی منشاء ہے کہ تمہیں ترقی حاصل ہو اگر ایک دوسرے سے مل کر اور آپس کی مغائرت کو دور کرکے یہ ترقی حاصل ہوجائے تو خدا کو کب ناپسند ہوگی.اس کو تو بہرحال یہ بات اچھی لگے گی.آدم اس کے دھوکہ میں آگئے اور انہوں نے دشمن سے صلح کرلی.صلح کرنے کی دیر تھی کہ یک دم ان کی فتوحات رک گئیں کامیابیاں جاتی رہیں اور اس باہمی میل جول کے بدنتائج ظاہر ہونے شروع ہوگئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا کہ درخت کا پھل کھانے سے ان کا ننگ ظاہر ہونا شروع

Page 242

ہوگیا اور اس فعل کے برے نتائج ان پر روشن ہوگئے.جب آدم کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہیں معلوم ہوا کہ شیطان کی طرف صلح اور محبت کاہاتھ بڑھا کر انہوںنے خطرناک غلطی کی ہے تو اس غلطی کے ازالہ کے لئے طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ انہوں نے جنت کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا.وَعَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى اور آدم نے خدا کے حکم کی نافرمانی کی تھی جس سے وہ تکلیف میں مبتلا ہوا.ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ مگر پھر خدا نے اسے بزرگی دے دی اور اس نے ورق الجنۃ سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اور خدا تعالیٰ نے اسے وہ راستہ دکھادیا جو اسے اور اس کی جماعت کو کامیابی کی منزل کی طرف لے جانے والا تھا.اب دیکھو یہاں شیطان نے آدم کو دھوکا دے کر بظاہر اسے شکست دے دی تھی مگر آدم نے فوراً ورق الجنۃ سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اس کی شکست فتح سے بدل گئی اور آخر آدم ہی کامیاب رہا.ورق کے معنے زینت کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ لغت میں لکھا ہے اَلْوَرَقُ: جَـمَالُ الدُّنْیَا وَ بَـھْجَتُـھَا کہ دنیا کی خوبصورتی اور اس کے حسن کو ورق کہتے ہیں.اسی طرح ورق کے معنے نسل کے بھی ہیں.چنانچہ عربی زبان کا محاورہ ہے اَنْتَ طَیِّبُ الْوَرَقِ اور اس محاورہ سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تو طَیِّبُ النَّسْل ہے ان دونوں محاوروں کے لحاظ سے طَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ کے معنے یہ ہوئے کہ آدم نے جنت کی زینت اور جمال سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا اور جنت کاجمال اس کے مومن ساکنین ہوتے ہیں.اسی طرح دوسرے معنوں کی رو سے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ آدم نے پاکیزہ نسل کے ذریعہ سے شیطانی فریب کا ازالہ کرنا شروع کیا اور وہ کامیاب ہوگیا.انجیر کے پتوں سے مراد صلحاء کی جماعت اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَرَقِ الْجَنَّةِ کا تعلق انجیر سے کیا ہوا.ہر ایک درخت کے پتے وَرَقِ الْجَنَّةِ کہلا سکتے ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل ہم علم تعبیرالرئویا کو دیکھتے ہیں تو اس میں لکھاہے کہ اَلتِّیْنُ فِی الْمَنَامِ یُفَسَّـرُ بِالصُّلَحَاءِ وَ خِیَارِالنَّاسِ (تعطیر الانام فی تعبیر المنام زیر لفظ ’’التین‘‘)یعنی جب کوئی شخص رئویا یا کشف کی حالت میں انجیر کا درخت دیکھے تو اس کے معنے صالح اور نیک لوگوں کے ہوتے ہیں.یہی وَرَقِ الْجَنَّةِ کے معنے تھے کیونکہ ورق پاکیزہ نسل کو کہتے ہیں اور وَرَقِ الْجَنَّةِ کے معنے تھے جنت کی پاکیزہ نسل اور جنتی نسل صلحاء اور مومن لوگ ہی ہوتے ہیں.پس وَرَقِ الْجَنَّةِ کا ترجمہ تعبیر الرئویا کے مطابق انجیر کے پتے ہوا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا آدم کے واقعہ کے ساتھ خصوصیت سے انجیر کا کوئی تعلق ہے یا نہیں.اس غرض کے لئے جب ہم بائبل کو دیکھتے ہیں تو اس میں یہ لکھا ہوا پاتے ہیں.’’اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیا رتھا.اور

Page 243

اس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے نہ کھانا عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم تو کھاتے ہیں مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اس سے نہ کھانا اور نہ اسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مرجائو.تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہرگز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اُس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے ہوؤ گے اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میں خوب ہے، تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے خصم کو بھی دیا اور اس نے کھایا.تب دونوں کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں معلوم ہوا کہ ہم ننگے ہیں اور انہوںنے انجیر کے پتوں کو سی کے اپنے لئے لنگیاں بنائیں‘‘ (پیدائش باب ۳ آیت ۱ تا ۷) یعنی جب شیطان نے آدم کو جنت میں سے نکالنے کا سامان کیا تو آدم نے وَرَقِ الْجَنَّةِ کو اپنے ساتھ لپٹالیا اور اس طرح وہ ننگ جو ظاہر ہوگیا تھا اس کو ڈھانک لیا.یہ بتایا جاچکا ہے کہ وَرَق الْجَنَّةِ تعبیر الرئویا کے مطابق انجیر کے پتوں کو کہتے ہیں اور جیسا کہ انجیر کے معنے صلحاء اور پاک طینت لوگوں کے ہیں.اسی طرح وَرَقِ الْجَنَّةِ کے معنے بھی جنتی نسل کے ہیں اور جنتی نسل وہی ہوتی ہے جو صلحاء اور پاک لوگوں پر مشتمل ہو.بہرحال قرآن اوربائبل دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ شیطان جب آدم کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوا تو آدم نے انجیر کے پتوں کو اپنے گرد لپٹالیا.یعنی جب شیطان نے ان کو دھوکا دیا اور صلح کے نام پر آدم کو اپنے ساتھ ملا کر خدائی سکیم کو ناکام کرنا چاہا تو آدم کو یک دم اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور انہوں نے مومنوں کی جماعت کو اپنے ساتھ ملا کر شیطانی تدابیر کو ناکام کردیا.شیطان نے تو چاہا تھاکہ اس ذریعہ سے وہ آدم کو شکست دے دے مگر بجائے اس کے کہ آدم کا یہ فعل ان کے لئے کسی نقصان یا خرابی کا موجب ہوتا ان کے اندر ایک نئی بیداری پیدا ہوگئی اور وہ ترقی کے میدان میں اور بھی آگے نکل گئے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف رجوع برحمت فرمایا اور انہیں پہلے سے بھی زیادہ ترقی دے دی.جیسے احرار نے ۱۹۳۴ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بہت بڑا فتنہ اٹھایا اور اس لئے اٹھایا کہ وہ جماعت احمدیہ کو کچل کر رکھ دیں مگر یہی فتنہ ایسی بیداری اور حرکت پیدا کرنے کا موجب بن گیا کہ ہماری جماعت پہلے سے کئی گنا ترقی کرگئی.اسی طرح شیطان نے آدم اور اس کی جماعت کی تباہی کے لئے جو تدبیر اختیار کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کی خرابیاں اتنی جلدی آدم پر ظاہر کردیں کہ ان کی آنکھیں کھل گئیں.انہوںنے یک دم وَرَقِ الْجَنَّةِ کو سمیٹ لیا اور دشمن کے سامنے اعلان کردیاکہ ہمارا تمہارے ساتھ کوئی جوڑ نہیں تم صلح اور آشتی کے نام پر ہمیں

Page 244

اپنے ساتھ نہیں ملا سکتے ہمارا راستہ خدا نے اور مقرر کیا ہے اور تمہارا راستہ اور ہے.یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ ہماری جماعت مداہنت سے کام لے اور تمہاری ہاں میں ہاں ملاتی چلی جائے.چنانچہ اس واقعہ کے بعد خدا نے ہمیشہ کے لئے یہ قانون مقرر کردیا کہ مومنوں کی جماعت کفار سے ہمیشہ علیحدہ رہے گی.جب تک شیطان نے یہ فعل نہیں کیا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے صرف اتنی ہدایت تھی کہ شیطان کے دھوکا میں نہ آنا مگر آدمؑ کے اس واقعہ نے ہمیشہ کے لئے یہ رسم قائم کردی کہ انبیاء کی جماعتوں کو شیطانی لوگوں سے الگ رہنا چاہیے.بعض احکام ایسے ہوتے ہیں جوبظاہر نئے دکھائی دیتے ہیں مگر درحقیقت وہ نئے نہیں ہوتے.مثلاً ہماری جماعت کے افراد کو یہ حکم ہے کہ وہ غیروںکے پیچھے نمازیں نہ پڑھیں، ان کو رشتے نہ دیں، ان کے جنازے نہ پڑھیں.لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ایسے سخت احکام جماعت کو کیوں دیئے جاتے ہیں مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ احکام نئے نہیں بلکہ وہی ہیں جن کا آدم کے وقت سے آغاز ہوچکا ہے.جب تک شیطان نے آدم کو دھوکا نہیں دیا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ احکام نازل نہیں ہوئے.مگر جب شیطان ایک دفعہ آدم کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوگیا تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے یہ قانون مقرر کردیا کہ الٰہی جماعتوں کو اپنے مخالفوں سے علیحدہ رہنا چاہیے.یہی وجہ ہے کہ ہر نبی جو دنیا میں آیا اس نے اپنی جماعت کودوسروں سے علیحدہ رکھا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی نبی آیا ہو اور اس نے اپنی جماعت کو یہ اجازت دے دی ہو کہ وہ غیروں سے مل جل کر رہے.حضرت آدم علیہ السلام کی شیطان کے مقابل پر فتح غرض شیطان نے آدم کو جنت سے نکالنے کا سامان کیا اور آدم کو جنت سے ہجرت کرنی پڑی مگر اس کے بعد خدا نے جو اسے تین نصیب کی وہ اسے اس قدر کامیاب کرنے والی ثابت ہوئی کہ آج دنیا میں ابلیس کو ماننے والا تو کوئی نظر نہیں آسکتا مگر آدم کو ماننے والے ہر جگہ پائے جاتے ہیں.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آدم کا ننگ انجیر کے پتوں سے ڈھانکا گیا تھا جو درحقیت تمثیلی زبان میںایک الہام تھا جسے یہود نے سمجھا نہیں اور فی الواقعہ ننگا ہونا اور انجیر کے پتوں سے ڈھانکناسمجھ لیا.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک درخت سے یعنی اُسی سانپ سے اور اُس کے ساتھیوں سے تعلق رکھنے سے منع فرمایا جو جنات میں سے تھا (سانپ زیر زمین رہتاہے اور یہ شخص بھی، کیو مین CAVEMAN تھایعنی زیر زمین رہنے والا) اس نے آکر دھوکا دیا کہ ہمارا پھل کھانے سے یعنی ہمارے ساتھ تعلقات پیدا کرنے سے فائدہ ہی ہے اور خدا تعالیٰ کا بھی تو اصل منشاء تم کو فائدہ پہنچانا ہے اب ہم جو صلح کرکے ملتے ہیں تو وہ مقصد بدرجۂ اتم پورا ہوجائے گا.آدم اس کے

Page 245

فریب میں آگئے.ان لوگوں سے تعلقات پیدا کئے اور نقصان اٹھایا.تب اللہ تعالیٰ سے ہدایت پاکر آپ نے انجیر کے پتوں سے اپنے آپ کو ڈھانکنا شروع کردیا یعنی مومنوں کو اپنے گرد جمع کرنے لگے اور کفار سے قطع تعلق کرلیا.اس طرح جنت سے نکلنے کی جو تکلیف پہنچی تھی یعنی آپ کو جو ہجرت کرنی پڑی تھی اس کا ازالہ ہوگیا.بظاہر شیطان کی فتح ہوئی مگر دراصل آدم کی ہوئی.کیونکہ اس کو قومی تنظیم کا خاص خیال پیدا ہوگیا اور بجائے گرنے کے ثُمَّ اجْتَبٰهُ رَبُّهٗ فَتَابَ عَلَيْهِ وَ هَدٰى (طٰہٰ:۱۲۳)کے سامان پیدا ہوگئے.پس فرمایا کہ ایک تو تین کے واقعہ کو لو کہ شیطان نے آدم کو دھوکا دیا اور اس کے نتیجہ میں آدم کو ہجرت کرنی پڑی اور جس ارضی جنت میں وہ رہتے تھے اسے چھوڑنا پڑا مگر اسی ہجرت کے نتیجہ میں ایک مومنوں کی جماعت آدم کے گرد جمع ہوگئی اور ان کی مدد سے آدم نے شیطان کی تدبیر کو پاش پاش کرکے رکھ دیا.اے مکہ والو اب تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی کرنے والے ہو مگر یاد رکھو اب بھی وہی ہوگا جو آدم کے وقت میں ہوا تھا.تین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقص کو ڈھانپ لے گی اور ہجرت ہی کے نتیجہ میں ایک صلحاء کی جماعت آپ کے گرد جمع ہوجائے گی.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تو یہ کہا تھا کہ رَبِّ اشْرَحْ لِيْ صَدْرِيْ (طٰہٰ:۲۶) مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا کہ اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ.اسی طرح آدم کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ آدم نے تین کے پتوں کو اپنے گرد جمع کرنا شروع کیا اور اس طرح اپنے ننگ کو ڈھانکا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تین کے پتے خودبخود آپ کی طرف بڑھے اور جنگ بدر کے وقت انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ہم موسٰی کے ان ساتھیوں کی طرح نہیں جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ تو اور تیرا رب دونوں جائو اور دشمن سے لڑتے پھرو.بلکہ یارسول اللہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.(صحیح بـخاری کتاب المغازی باب قولہٖ تعالٰی اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ۠ رَبَّكُمْ ) یہ کتنا بڑا فرق ہے جو آدم اوّل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں پایا جاتا ہے.آدم کو تو خود اپنی جدوجہد سے تین کے پتے اپنے اردگرد لپٹانے پڑے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ چونکہ آدمؑ سے بہت بلند تھا اس لئے آپ سے تین کے پتے خود بخود چمٹنے لگ گئے.پس فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ ہجرت کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شکست کھاجائیں گے اور تم فتح حاصل کرلو گے.پہلے بھی ایسا کئی بار ہوچکا ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو شکست دینی چاہی مگر ہمیشہ اس نے منہ کی کھائی.چنانچہ آدم کی مثال تمہارے سامنے ہے.شیطان نے اسے جنت سے نکالا اور وہ چلا گیا

Page 246

مگر آخر کیا ہوا.وہی ہجرت اس کی کامیابی کا ذریعہ بن گئی.اور اس نے تین کے پتے اپنے اردگرد لپٹا کر دشمن کو اس کی تدابیر میں ناکام کردیا.اسی طرح اب بھی تم سجھو گے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں سے نکال دیا.مگر آخریہی ہجرت تمہاری تباہی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا ذریعہ ہوگی اور اس طرح ثابت ہوجائے گا کہ خدا نے انسان کو چھوڑنے کے لئے نہیں بنایا بلکہ ترقی کرنے کے لئے بنایا ہے.زیتون کی شہادت سے مراد حضرت نوح علیہ السلام کی ہجرت کا واقعہ ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الزَّيْتُوْنِ دوسری مثال ہم زیتون کی دیتے ہیں.زیتون کی مثال نوحؑ کا واقعہ ہے.نوحؑ کو اس کی قوم نے سخت تنگ کیا اور آخر ایک عذاب عظیم آیا جس کی وجہ سے نوحؑ کی قوم تباہ ہوئی اور نوح کو اپنا وطن چھوڑناپڑا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ اُوْحِيَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ يُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَىِٕسْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ.وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا وَ لَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۚ اِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ.وَ يَصْنَعُ الْفُلْكَ١۫ وَ كُلَّمَا مَرَّ عَلَيْهِ مَلَاٌ مِّنْ قَوْمِهٖ سَخِرُوْا مِنْهُ١ؕ قَالَ اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْكُمْ كَمَا تَسْخَرُوْنَ.فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ يَّاْتِيْهِ عَذَابٌ يُّخْزِيْهِ وَ يَحِلُّ عَلَيْهِ عَذَابٌ مُّقِيْمٌ.حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِيْلٌ.وَ قَالَ ارْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖؔىهَا وَ مُرْسٰىهَا١ؕ اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.وَ هِيَ تَجْرِيْ بِهِمْ فِيْ مَوْجٍ كَالْجِبَالِ١۫ وَ نَادٰى نُوْحُ ا۟بْنَهٗ وَ كَانَ فِيْ مَعْزِلٍ يّٰبُنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَ لَا تَكُنْ مَّعَ الْكٰفِرِيْنَ.قَالَ سَاٰوِيْۤ اِلٰى جَبَلٍ يَّعْصِمُنِيْ مِنَ الْمَآءِ١ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ١ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ.وَ قِيْلَ يٰۤاَرْضُ ابْلَعِيْ مَآءَكِ وَ يٰسَمَآءُ اَقْلِعِيْ وَ غِيْضَ الْمَآءُ وَقُضِيَ الْاَمْرُ وَ اسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِيِّ وَ قِيْلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ.(ھود: ۳۷تا۴۵)یعنی نوحؑ کی طرف وحی کی گئی کہ تیری قوم میں سے جو پہلے ایمان لاچکے ہیں ان کے سوا اور کوئی لوگ ایمان نہیں لائیں گے.پس تو ان کے فعل پر غمگین مت ہو اور اس بات کا کچھ خیال نہ کر کہ وہ تجھ پر کیوں ایمان نہیں لاتے.تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہمارے حکم اور وحی سے ایک کشتی بنا اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے خطاب کرنا چھوڑ دے کیونکہ ان کے متعلق الٰہی فیصلہ یہ ہے کہ وہ غرق کئے جائیں گے.نوحؑ نے ہمارے اس حکم کے مطابق کشتی بنانی شروع کردی.لوگ وہاں سے گزرتے تو ہنسی اور مذاق کرتے کہ دیکھو خشکی میں کشتی چلانے کی تیاریاں ہورہی ہیں.حضرت نوحؑ ان کو جواب میں کہتے کہ تم بے شک ہنسی کرلو ایک دن آئے گاجب اللہ تعالیٰ تم کو تباہ کردے گا اور تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس پر

Page 247

رسوا کرنے والا اور قائم رہنے والا عذاب نازل ہوتا ہے.یہاں تک کہ ہمارا حکم نازل ہوگیا اور تنور جوش میں آگیا.ہم نے نوحؑ سے کہا کہ ہرقسم کے جوڑے اپنی اس کشتی میں رکھ لے اسی طرح اپنے اہل کو بھی بٹھالے سوائے اُن کے جن کے متعلق عذاب کی خبر دی جاچکی ہے اور مومن بندو ںکو بھی سوار کرلے.اور اس پر ایمان نہیں لائے تھے مگر بہت تھوڑے لوگ.اُس نے سب سے کہا کہ اس کشتی میں بیٹھ جائو.اللہ کے نام سے ہے اس کا چلنا بھی اور اس کا ٹھہرنا بھی.میرا رب یقیناً بخشنے والا اورمہربان ہے.جب طوفان آیا اور پہاڑوں جیسی لہروں میں کشتی چلنے لگی اس وقت نوحؑ نے اپنے بیٹے سے جو علیحدہ تھا کہا کہ اے میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجائو اور کافروں سے مت ملو.ہجرت کے بعدحضرت نوح علیہ السلام کا جودی پہاڑ پر ٹھہرنا اور شیطان کے مقابل پر فتحیاب ہونا دیکھو یہاں سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نوحؑاس وقت ہجرت کرکے اپنے وطن کو چھوڑ رہے تھے.انہوں نے اپنے بیٹے کو بھی تحریک کی کہ ہمارے ساتھ آجائو اور اپنے وطن کو چھوڑ دو.مگر اس نے جواب دیا کہ مجھے اپنا وطن چھوڑنے کی ضرورت نہیں آپ بے شک چلے جائیں میں کسی پہاڑ پر چڑھ جائوں گا.یعنی تو اگر وطن چھوڑنا چاہتا ہے تو بے شک چھوڑ دے میں اپنا وطن چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہوں.حضرت نوحؑنے کہا آج خدا کے عذاب سے وہی بچ سکتا ہے جس پر وہ خود رحم کرے اور کوئی شخص اپنی تدبیر کے زور سے اس ہلاکت سے محفوظ نہیں رہ سکتا.اتنے میں ایک لہر اٹھی اور ان کا لڑکا غرق ہو گیا.پھر خدا نے کہا.اے زمین تو اپنا پانی پی لے اور اے آسمان تو بھی اپنا پانی روک لے چنانچہ پانی تھم گیا اور نوحؑکی کشتی جودی مقام پر ٹھہر گئی اس وقت کہا گیا بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ یعنی ظالموںکی قوم دور ہو گئی.یا اب تمہارے اور ان کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہو گیا ہے.اب دیکھو یہ بھی ایک ہجرت تھی جو نوحؑنے کی.نوحؑاپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے.مگر ان کے بیٹے نے ان کا ساتھ نہ دیا بلکہ ان کی تحریک پرجب اس نے کہا کہ میںپہاڑ پر چڑھ جائوں گا تو اس کے معنے بھی یہی تھے کہ نوحؑکی قوم سمجھتی تھی کہ ہم تباہ نہیں ہوں گے.یہ چلا جا ئے گااور ہم پہاڑوں میں امن سے رہیں گے اور شکر کریں گے کہ ہمارے سر سے یہ بلا ٹلی.مگر ہوا یہ کہ نوحؑبچ گیااور وہ قوم جو نوحؑکی ہجرت میںاپنی کامیابی سمجھتی تھی تباہ ہو گئی.اللہ تعالیٰ اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے زیتون کا ذکرکرتا ہے اور فرماتا ہے آدم کا واقعہ توتم نے سن لیا.اب تم نوحؑکے واقعہ پر غور کرو.یہاںبھی نوحؑکو دشمنوں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا مگر اس ہجرت کے نتیجہ میںبھی کفار ہی تباہ ہوئے اورنوحؑاور ان کی قوم کوزیتون کی شاخ ملی یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے صلح کا پیغام اور ایک ایسی جماعت جو عُرْوَۃُ الْوُثْقٰی کو پکڑ نے والی تھی یعنی ایمان میں مضبوط اور قربانی میںکامل.چنانچہ

Page 248

پیدائش باب ۸میں نوحؑ کے واقعہ کے ساتھ زیتون کا بھی ذکر ہے.بائبل میں لکھا ہے.’’پھر خدا نے نوح کو اور سب جانداروںاور سب مواشیوں کو جو اس کے ساتھ کشتی میںتھے یاد کیا اور خدا نے زمین پر ایک ہوا چلائی اور پانی ٹھہر گیااورگہرائو کے سوتے اور آسمان کی کھڑکیاںبند ہوئیں.اور آسمان سے مینہ تھم گیا اور پانی زمین پر سے رفتہ رفتہ گھٹتا جاتا تھا اور ڈیڑھ سو دن کے بعد کم ہوا اور ساتویں مہینہ کی سترھویں تاریخ کو اراراط کے پہاڑوں پر کشتی ٹک گئی اور پانی دسویں مہینہ تک گھٹتا جاتا تھا اور دسویں مہینہ کی پہلی تاریخ کو پہاڑوں کی چوٹیاں نظر آئیں اور چالیس دن کے بعد یوں ہوا کہ نوح نے کشتی کی کھڑکی جو اس نے بنائی تھی کھول دی اور اس نے ایک کوے کو اڑا دیا سو وہ نکلا اور جب تک کہ زمین پر سے پانی سوکھ نہ گیا آیا جایا کرتا تھا.پھر اس نے ایک کبوتری اپنے پاس سے اڑا دی کہ دیکھے کہ زمین پر پانی گھٹا یا نہیں.پر کبوتری نے پنجہ ٹیکنے کی جگہ نہ پائی اور اس کے پاس کشتی میں پھر آئی کیونکہ تمام روئے زمین پر پانی تھا.تب اس نے ہاتھ بڑھا کے اسے لے لیا اور اپنے پاس کشتی میں رکھا پھر اس نے اور سات روز صبر کیا تب اس کبوتری کو پھر کشتی سے اڑا دیا اور وہ کبوتری شام کے وقت اس کے پاس پھر آئی اوردیکھو زیتون کی ایک تازہ پتی اس کے منہ میں تھی.تب نوح نے معلوم کیا کہ اب پانی زمین پر کم ہوا اور وہ اور بھی سات دن ٹھہرا بعد اس کے پھر اس کبوتری کو اڑا دیا وہ اس کے پاس پھر کبھی نہ آئی.‘‘(پیدائش باب ۸ آیت ۱تا۱۲) غرض نوحؑ کو جس چیز نے یہ بشارت دی تھی کہ تیری ہجرت کامیاب ہو گئی ہے تو جیت گیا اور تیرے دشمن ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو گئے ہیںوہ زیتون کی پتی تھی اور آدم کو جس چیز نے یہ بتایا کہ تو کامیاب ہو گیا ہے وہ انجیر کے پتے تھے اللہ تعالیٰ انہی دو واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ کہ ہم تمہیں بتا تے ہیں کہ آدم ہمارا پہلا نبی تھا جس کو شیطان نےجنت سے نکلنے اور ہجرت کرنے پر مجبور کیا مگر وہ ہجرت آدم کونقصان پہنچانے کا موجب نہیں ہوئی،وہ ہجرت مومنوں کو ناکام کرنے کا موجب نہیں ہوئی.بے شک آدم نے ہجرت کی مگر آخر آدم ہی جیتا اور شیطان ناکام ہوا.اسی طرح اے مکہ والو!آج تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں سے نکالنا چاہتے ہو.مگر تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر تم اپنے افعال میں اس شیطان کے مثیل ہو جس نے آدم کو جنت میں سے نکالا تھا تو ہمارا یہ رسول آدم ہے جسے ہم نے ایک نئی روحانی مخلوق پیدا کرنے کے لیے دنیا میںبھیجا ہے تم اسے آدم کی طرح ہجرت کرنے پر مجبور کرو گے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم کی طرح اسے بھی تین کے پتے مل جائیں گے یعنی صلحاء

Page 249

اور پاک طینت لوگوں کی ایک جماعت اسے عطا کی جائے گی جو اس کی قدرو منزلت کوسمجھتے ہوئے ہر قسم کی قربانیاںاس کے لئے کرے گی اور اگر تم نوحؑکے دشمنوںکی طرح ہو تب بھی تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بے شک نوحؑنے ہجرت کی مگر خدا نے اس کے دشمنوں کو غرق کر دیا اور اسے زیتون کے پتے کے ذریعہ نجات کی بشارت دی اسی طرح بےشک تم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر میں سے نکال دو تم نوحؑکے دشمنوں کی طرح غرق کیے جاؤ گے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہرے گی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے زیتون کی شاخ عطا کی جائے گی.مدینہ کیا تھا؟وہ جودی تھی جہاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی ٹھہری اور مدینہ کے انصار کیا تھے؟وہ زیتون کے پتے تھے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیے گئے چنانچہ تعطیرالانام میں لکھا ہے مَنْ رَاٰی وَرَقَ الزَّیْتُوْنِ فِی ا لْمَنَامِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی اگر کوئی شخص خواب میں زیتون کے پتے دیکھے تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اس نے ایک نہ ٹوٹنے والا کڑا مضبوطی سے پکڑلیا ہے.پس زیتون کا عطا کیا جانایہ معنے رکھتا تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو ایک ایسی جماعت دی جا ئے گی جو عروۃ الوثقی کو پکڑنے والی ہو گی وہ ایمان میں مضبوط ہو گی وہ قربانی میں کامل ہو گی وہ اطاعت میںحد کمال تک پہنچی ہوئی ہو گی اور کسی قسم کی تکلیف اس کے پائے ثبات میںجنبش پیدانہ کرے گی.درحقیقت عروۂ وثقی کو مضبوطی سے پکڑلیناایمان باللہ کا ایک طبعی نتیجہ ہوتا ہے وہ شخص جس کے دل میں سچے طور پر ایمان پایا جاتاہے وہ الٰہی تعلیم کو ایسی مضبوطی کے ساتھ پکڑکر بیٹھ جاتا ہے کہ بڑے سے بڑے طوفان اورزلازل بھی اس کو ادھر ادھر نہیں کر سکتے.وہ میدان کا بہادر اور جرأت واستقلال کا پیکر ہوتاہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میںہر قسم کی موت کو اختیار کرنا لذیذ ترین نعمت سمجھتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تین کا واقعہ بھی تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں اور زیتون کا واقعہ بھی تمہیں یاد دلاتے ہیںدونوں جگہ ہجرت ہوئی مگر دونوں جگہ شیطان کو نا کامی ہوئی آدمؑ نے ہجرت کی مگر آخرآدمؑ ہی دشمن پر کامیاب ہوا.نوحؑنے ہجرت کی مگر آخر نوحؑ ہی دشمن پر کامیاب ہوا.نوحؑکے بعد وہ ملک جس میں آپ رہتے تھے پھر بسا نہیں بلکہ تباہ ہو گیا.اسی طرح محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد تم تباہ کر دیئے جائو گے تمہارے لیے شیطان کی طرح ہر طرف لعنت ا ور پھٹکار ہو گی اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تین کے پتے ہوں گے جو اسے عطا کیے جائیں گے.تم نوحؑکے دشمنوں کی طرح غرق کیے جائو گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدینہ کے لوگ اپنے ہاتھوں میںزیتون کی پتیاں لئے آگے بڑھیںگے اور کہیں گے یا رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لایئے ہم آپ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے اور آپ کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لیے تیار ہیں.

Page 250

غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا وہ زیتون کی ٹہنی تمہیں یاد ہے جو نوحؑکو ہجرت کے بعد ملی تھی؟ کچھ خبر بھی ہے؟وہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار ہو رہی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہوگاکہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.جب ہم نے انسان کی فطرت کو نیک بنایا ہے تو وہ دیر تک نیکی سے محروم نہیں رہ سکتا.طور سینین سے مراد زیتون کے بعد طُوْرِ سِيْنِيْنَ کی قسم کھائی گئی ہے یعنی اسے بھی شہادت کے طورپر پیش کیا گیا ہے.سِيْنِيْنَ کیا چیزہے؟اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ سینین ایک علاقہ ہے جودشت سینا کہلاتا ہے اس سے مسلمانوں کو بھی دلچسپی ہے.کیونکہ قرآن کریم میں اس کا ذکر آتا ہے اور یوروپین مصنفین کو بھی دلچسپی ہے کیونکہ بائبل میں اس کا ذکر آتا ہے لیکن یہ سوال کہ سینا اور طور سینا کہاں ہے؟اس میں بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں.بعض مؤرخین کے نزدیک دشت سینا مصر کے شمال مشرقی حصہ میں ہے ان لوگوں کا خیال ہے کہ موسٰی کے سمندر پار ہونے کا واقعہ جو بیان کیا جاتا ہے وہ درست نہیں.سمندر مصروفلسطین کے درمیان خاکنائے کے جنوب کی طرف ہے اور اس طرف حضرت موسٰی آئے ہی نہیں بلکہ آپ شمال کی طرف نکل گئے تھے بعض کا یہ خیال ہے کہ فلسطین سے ورے اور مصر اور فلسطین کے درمیان جو خاکنائے ہے جس میںسے اب آبنائے سویز بن گئی ہے اس میں خلیج عقبہ کے اوپر جو حصہ ہے وہ دشت سینا کہلاتا ہے گویا وہ دشت سینا کو خلیج عقبہ سے کچھ اوپر قرار دیتے ہیں لیکن بعض کے نزدیک دشت سینا کا علاقہ فلسطین کی طرف جھکا ہوا ہے بعض نے سینا اور طور کا کلی طور پر انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محض ایک روایت ہے جس کے اندر کوئی حقیقت نہیںپائی جاتی(The Jewish Encyclopedia under word "Sinai Mount").بہرحال قرآن کریم نے طور کا لفظ استعمال کیا ہے اور طور کے معنے پہاڑ کے بھی ہوتے ہیں.پس طور سینین کے یہ معنے ہیں کہ سینا کا ایک پہاڑ.قرآن کریم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس نے طور کو اس پہاڑ کا نام قرار نہیں دیا بلکہ طور بمعنے پہاڑ استعمال کیا ہے.یوروپین مؤرخ بھی اسی طرف گئے ہیں کہ طور کسی پہاڑ کا نام نہیں.سورۂ طور میں وَالطُّوْرِ وَكِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ کہہ کرطور پرالف لام لایا گیا ہے لیکن اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے الف لام چھوڑ دیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ سورئہ طور میں جو الف لام لایا گیا تھا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں طور کی کسی اور چیز کی طرف اضافت کرکے اس کی تعیین نہیں کی گئی تھی اس لئے اَلطُّوْر کہہ کر اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ ہماری مراد موسٰی والے طور یا سینا والے طور سے ہے جس کو تم جانتے ہی ہو لیکن یہاں چونکہ سینین کی طرف طور کی اضافت موجود ہے اس لئے الف لام کو چھوڑ دیا گیا.بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ طور ایک نکرہ ہے جو اضافت سے ہی خاص معنے پاتا ہے بغیر اضافت کے اس کے کوئی خاص معنے نہیں سمجھے جاسکتے.جیسے پہاڑ کا لفظ اگر ہم اپنی گفتگو میں استعمال

Page 251

کریں تو اس کے معنے ہمالیہ پہاڑ کے نہیں ہوسکتےلیکن اگر ہم کہیں ہمالیہ کا پہاڑ تو اس کے معنے ہوں گے وہ پہاڑ جسے ہمالیہ کہتے ہیں یا اگر ہم کہتے ہیں کشمیر کا پہاڑ یا ہزارہ کا پہاڑ یا افغانستان کا پہاڑ یا درہ خیبر کا پہاڑ تو اس کے بھی مخصوص معنے ہوں گے.پس طور سینین کے یہ معنے ہوئے کہ سینا کا وہ پہاڑ جس پر موسیٰ علیہ السلام کا کوئی خاص واقعہ ہوا تھا.وَالطُّوْرِ وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ میں انہی معنوں کو الف لام کی زیادتی سے ظاہر کیا گیاہے.بعض مفسرین نے جو یہ سمجھا ہے کہ طور کسی پہاڑ کا نام ہے یہ درست نہیں.طور کے معنے محض ایک پہاڑ کے ہیں اور انہیں معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے البتہ عرفِ عام میں بوجہ ایک خاص مناسبت کے اس نے مخصوص معنے پیدا کرلئے ہیں جیسے بعض دفعہ ایک چیز تو عام ہوتی ہے لیکن کسی خاص چیز کی طرف منسوب ہوتے ہوتے آخر اس کا ایک نام بن جاتی ہے.مثلاً کتاب ایک عام لفظ ہے جو ہر کتاب کے متعلق استعمال ہوتا ہے لیکن ’’اَلْکِتَاب‘‘ ایک مخصوص لفظ ہے جو بائبل کے متعلق استعمال ہوتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اَلْکِتَاب کے معنے بائبل کے ہیں بلکہ بائبل کی طرف یہ لفظ منسوب ہوتے ہوتے اتنا عرصہ گزرچکا ہے اور اس قدر زبان زدِ خلائق ہوچکا ہے کہ اب اَلْکِتَاب کا لفظ جب بھی استعمال ہوگا یہی سمجھا جائے گا کہ اس سے بائبل مراد ہے.یا مثلاً انجیل کے لفظی معنے بشارات کے ہیں اور شروع میں انہی معنوں میں انجیل کا لفظ استعمال ہوا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ بشارات جو آپ نے اپنی قوم کو دیں مگر اب انجیل کا لفظ بولو تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ زید کی بشارتیں یا بکر کی بشارتیں بلکہ ہر شخص کے ذہن میں فوراً یہ بات آجائے گی کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کتاب ہے.حالانکہ لفظی معنے اس کے صرف بشارات کے ہیں.اسی طرح طورِ سینین کے معنے ہیں سینا کا ایک پہاڑ مگر چونکہ سینا کے پہاڑ کا ذکر لوگوں کے زبان پر آتا ہے جس پر موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اس لئے رفتہ رفتہ طور سے مخصوص طور پر وہی پہاڑ سمجھا جانے لگا جس پر یہ واقعہ ہوا تھا.حالانکہ معنوں کے لحاظ سے طور ہر پہاڑ کو کہا جاسکتا ہے.سینا کے متعلق میں بتاچکا ہوں کہ اس کی تعیین میں مؤرخین کو بہت کچھ اختلاف ہے.بعض تو سینا نام کا کوئی علاقہ تسلیم ہی نہیں کرتے مگر بعض اس علاقہ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان لوگوں میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے.بعض کسی جگہ کو سینا قرار دیتے ہیں اور بعض کسی جگہ کو.میرے خیال میں اس اختلاف کی بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کو یہ شوق ہوتا ہے کہ ہم کوئی جدید چیز پیدا کریں اور اس شوق کی وجہ سے وہ واقعات اور حقائق کو نظر انداز کرکے محض اپنی کسی تھیوری اور قیاس پر بنیاد رکھ کر ایک نئی بات لوگوں کے سامنے پیش کردیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس طرح ہم بھی موجد قرار پا جائیں گے.ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ جب سنتے ہیں کہ فلاں نے یہ چیز ایجاد کی

Page 252

ہے اور فلاں نے وہ چیز ایجاد کی ہے تو ان کے دلوں میں بھی شوق پیدا ہوتا ہے کہ ہم بھی کوئی نئی چیز ایجاد کریں.اس پر بعض خیالات ان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ فوراً اخبارات میں اعلان کرادیتے ہیں کہ ہم نے اس قسم کی چیز ایجاد کرلی ہے مگر جب زیادہ کرید کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایجاد کوئی نہیں صرف ایک نئی تھیوری انہوں نے پیدا کی ہے.اسی طرح بعض مؤرخوں نے سمجھا کہ اگر ہم یہ کہہ دیں گے کہ حضرت موسٰی شمال کی طرف گئے تھے اورسینا بھی شمال میں ہی تھاتو تاریخ میں ہم بھی موجد سمجھے جائیں گے.چنانچہ وہ معمولی معمولی شبہات کی بناء پر دوسروں کی باتوں کو ردّ کردیتے ہیںاور ایک نئی تھیوری اور نیا خیال پیدا کرکے خوش ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آئندہ جب بھی اس واقعہ کی تحقیق کی جائے گی لوگ کہیں گے کہ ایک تھیوری فلاں شخص کی بھی تھی اس پر بھی غور کرلیا جائے.ایسے لوگوں کو تاریخ کی صحت مدنظر نہیں ہوتی بلکہ اپنی ذات کی شہرت ان کا سب سے بڑا مقصد ہوتا ہے.بجائے اس کے کہ وہ حقائق پر غور کریں ان کو ہر وقت یہی شوق رہتا ہے کہ کسی طرح ہمارا نام نکل جائے.ایسے ہی لوگ بعض دفعہ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ موسٰی کوئی تھا ہی نہیں.بعض کہہ دیتے ہیں کہ عیسٰیؑ کوئی شخص نہیں تھا.بعض کہہ دیتے ہیں کہ سینا کوئی علاقہ نہیں تھا.اسی طرح زرتشت ؑ کے متعلق بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا کوئی وجود نہیں تھا.یہی حال کرشنؑ اور رامچندرؑ کا ہے کہ ان کے وجود کا بعض لوگوں کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے.میں سمجھتا ہوں اس میں بھی اسلام کا معجزہ ہے کہ اگر کسی شخص کے وجود کا انکار نہیں ہوا تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.ورنہ بعض عیسائی ایسے ہیں جنہوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا وجود تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ محض ایک تمثیلی ذکر ہے.اسی طرح پروفیسر فرائیڈ جو خود یہودی ہے اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وجود کا انکار کیا ہے(The Life and Work of Sigmund Freud;p31).بعض ہندو ایسے ہیں جو یوروپین مشککین کی اتباع میں کرشنؑ اور رامچندرؑ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور بعض پارسی ہیں جو زرتشتؑ کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور اس کو محض ایک تمثیلی وجود قرار دیتے ہیں لیکن اگر کسی عظیم الشان نبی کے وجود کا انکار نہیں کیا گیا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہے.میرے نزدیک اس میں بھی ایک بہت بڑی الٰہی حکمت کام کررہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے دنیا کو بتایا ہے کہ اگر کوئی قابل اعتناء ذات ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے باقی سب انبیاء کا اگر تم انکار بھی کردو تو اس میں کوئی حرج نہیں.غرض طور کے وجود کا بھی بعض لوگوں نے انکار کیا ہے اور سینا کے وجود کا بھی بعض لوگوں نے انکار کیا ہے لیکن جو لوگ طور کو مانتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ سینا کے نیچے جنوب میں خلیج عقبہ کے اوپر تیس چالیس میل لمبا ایک پہاڑ ہے جس

Page 253

کو طور کہتے ہیں(The Jewish Encyclopedia under word "Sinai Mount").مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں کہ اس پہاڑ کا نام طور تھا.طور کے معنے پہاڑ کے ہیں اور طور کے لفظ سے اس پہاڑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس پر حضرت موسٰی سے کلام ہوا اور اس واقعہ کو چونکہ ہزاروں لوگوں نے بار بار بیان کیا آہستہ آہستہ طور کالفظ ہی بجائے پہاڑ کے ایک خاص پہاڑ کا عَلَمیعنی مخصوص نام سمجھا جانے لگا.بہرحال خلیج عقبہ کے اوپر ایک پہاڑی ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کلام کیا اور تاریخوں سے ثابت ہے کہ یہودی ہمیشہ اس پہاڑی کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے.میرے نزدیک قرآن کریم اور بائبل سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے خلیج عقبہ کے اوپر والا علاقہ ہی سینا کا ہے اور اسی علاقہ میں وہ پہاڑ ہے جسے عرفِ عام میں طور کہا جاتا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ جب قرآن کریم اور بائبل دونوں سے اس علاقہ کا وجود ثابت ہے اور تاریخ بھی بتاتی ہے کہ یہودی ہمیشہ اس پہاڑ کی زیارت کے لئے جایا کرتے تھے (The Jewish Encyclopedia under word "Sinai Mount") تو پھر کسی مؤرخ کا کیا حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ طور کوئی پہاڑ ہی نہیں تھا یا سینا کوئی علاقہ ہی نہیں تھا.طُوْرِ سِيْنِيْنَ میں سینین لفظ جمع استعمال کرنے کی وجہ اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں سینین کا لفظ کیوں استعمال کیا جبکہ سورئہ مومنون میں وَ شَجَرَةً تَخْرُجُ مِنْ طُوْرِ سَيْنَآءَ تَنْۢبُتُ بِالدُّهْنِ وَصِبْغٍ لِّلْاٰكِلِيْنَ(مؤمنون: ۲۱) کہہ کر اس کا نام سینا بتایا گیا ہے نہ کہ سینین.اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ سینا اور سینین دونوں عَلَم ہیں لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ سینا کی بجائے سینین کا لفظ وقف کی وجہ سے بدل دیا گیا ہے (روح البیان زیر آیت طُوْرِ سِیْنِیْنَ) اور یہ ایسا ہی ہے جیسے سورئہ صافات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ يَاسِيْنَ(الصّٰفّٰت:۱۳۱) حالانکہ وہاں صرف ایک الیاس مرادہیں آخر میں یا اور ن کا اضافہ قافیہ بندی کے لئے کیا گیا ہے.مگر ہمارے نزدیک یہ بات درست نہیں کہ سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ يَاسِيْنَ میں صرف وقف کے لئے یا اور ن کا اضافہ کیا گیا ہے بلکہ جیسا کہ ہماری جماعت کا اعتقاد ہے الیاس کی بجائے الیاسین کا لفظ اللہ تعالیٰ نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ یہاں ایک سے زیادہ الیاس مراد ہیں.ایک تو وہ الیاس ہیں جو اسرائیلی انبیاء کے وسط میں گزر چکے ہیں.دوسرے الیاس یوحنا ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے معاً پہلے آئے اور تیسرے الیاس حضرت سید احمد صاحب بریلوی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پہلے آئے.چونکہ نزول قرآن سے پہلے دو الیاس دنیا میں آچکے تھے اور ایک الیاس نے ابھی آنا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے سَلَامٌ عَلٰی اِلْیَاسٍ کی بجائے سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ يَاسِيْنَ کہہ کر ان سب کی طرف اشارہ کردیا.اسی طرح ممکن ہے سینا کے متعلق لوگوں میں جو اختلاف پایا جاتا ہے سینین میں اس

Page 254

کی طرف اشارہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ مختلف قوموں میں مختلف علاقوں کو سینا کہتے ہوں.مثلاًعرب لوگ پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقہ کا نام ہند رکھ دیتے ہیں.چنانچہ عربی کتابوں میں بعض جگہ لکھا ہوتا ہے کہ ہند اور بنگال میں فلاں فلاں بات پائی جاتی ہے حالانکہ ان دنوں بنگال ہندوستان کا حصہ ہے مگر وہ چونکہ صرف پنجاب اور اس کے اردگرد کے علاقہ کا نام ہند رکھ دیتے ہیں اس لئے بنگال کو وہ علیحدہ شمار کرتے ہیں.اسی طرح بعض لوگ افغانستان صرف قندھار تک کے علاقہ کو کہتے ہیں.بعض افغانستان کی حدود پشاور تک سمجھتے ہیں اور بعض دریائے سندھ تک کے علاقہ کو افغانستان قرار دیتے ہیں اس لحاظ سے طُوْرِ سِيْنِيْنَ کے الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ اس علاقہ میں سینا کے نام سے کئی دشت مشہور ہیں مگر وہ پہاڑ جس پر موسٰی سے کلام ہوا ایک ہی ہے ہم ان سینائوں کے طور کی طرف اشارہ کرتے ہیں.میں بتاچکا ہوں کہ وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ میں آدمؑ اور نوحؑکی ہجرتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ باوجود اس کے کہ ان ہجرتوں سے دشمن کو ایک جھوٹی خوشی حاصل ہوئی اور اس نے سمجھا کہ میں کامیاب ہوگیا ہوں پھر بھی خدا نے اپنے نبیوں کو کامیاب کیا اور دشمن کو ان کے مقابلہ میں ذلیل اور رسوا ہونا پڑا.اسی طرح اب مکہ والوں کا یہ خیال کرنا صریح نادانی ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکال کر کامیاب ہوجائیں گے جس طرح سابق انبیاء کے دشمنوں کایہ خیال کہ ہم جیت جائیں گے اور نبی ہار جائے گا باطل ثابت ہوا تھا اسی طرح اب بھی مکہ والوں کا خیال باطل ثابت ہوگااور اللہ تعالیٰ ان کی جھوٹی خوشی کو ایک دن ہمیشہ کی ذلت اور رسوائی میں بدل دے گا.اب اسی مضمون کی وضاحت کے لئے اللہ تعالیٰ موسٰی کی ہجرت کا واقعہ بطور مثال پیش کرتا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ طور کا واقعہ ہجرت کے بعد ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم کے ابتداء میں ہی جہاں بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا ہے وہاں آتا ہے وَ اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَيْنٰكُمْ۠ وَ اَغْرَقْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ.وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْۢ بَعْدِهٖ وَ اَنْتُمْ ظٰلِمُوْنَ (البقرۃ:۵۱،۵۲) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے بنی اسرائیل یا دکر وجب ہم نے تمہارے لئے سمندر کو پھاڑ دیا تھا ہم نے تمہیں نجات دی اور آل فرعون کو ہم نے غرق کردیا اور تم دیکھ رہے تھے پھر اس وقت کو یاد کرو جب موسٰی سے ہم نے چالیس راتوں کا وعدہ کیا (جب آپ سینا کے پہاڑ پر تشریف لے گئے تھے) اور تم نے بچھڑے کو مبعود بنا کر شرک کا ارتکاب شروع کردیااور خدا تعالیٰ کی نگاہ میں ظالم بن گئے.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت پہلے ہوئی ہے اور طور کا واقعہ بعدمیں ہوا ہے.پہلے آپ نے بنی اسرائیل کے ساتھ مصر کو چھوڑا پھر خدا تعالیٰ آپ کو طور پر لے گیا.جہاں اس نے

Page 255

وہ کلام آپ پر نازل کیا جس میں یہودی قوم کو دس ایسے احکام دیئے گئے تھے جو تمام تورات کا مغز سمجھے جاتے ہیں.بائبل سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ طور کا واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکل آنے کے بعد ہوا ہے.چنانچہ خروج میں پہلے ہجرت کا ذکر کیا گیا ہے پھر دشت سینا میں بنی اسرائیل کے پہنچنے کا ذکر آتا ہے اور پھر آخر میں طور کا واقعہ بیان کیا گیا ہے.یہ ترتیب ظاہر کررہی ہے کہ ہجرت پہلے ہوئی ہے اور واقعہ طور بعد میں ہوا ہے.ہجرت کا ذکر خروج باب ۱۴ میں آتا ہے.دشت سینا میں پہنچنے کا ذکر خروج باب ۱۶ میں آتا ہے اور واقعہ طور کا ذکر خروج باب ۱۹ میں آتا ہے.خروج باب ۱۴ میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا خلاصہ پرانی بائبل میں اس طرح درج ہے.’’اس بیان میں کہ خدا بنی اسرائیل کو ان کی راہ بتاتا فرعون اُن کا پیچھا کرتا.بنی اسرائیل کُڑکُڑاتے.موسیٰ ان کو دلاسا دیتا.خدا موسیٰ کو سکھلاتا.بدلی کا ستون لشکر کی پشت پرجا ٹھہرتا.بنی اسرائیل دریائے قلزم کے بیچ سے ہوکے جاتے اسی میں اہل مصر غرق ہوتے‘‘.یہ تو ہجرت کا واقعہ ہوا.اس کے بعد خروج باب ۱۶ کا خلاصہ یوں لکھا ہے.’’اس بیان میں کہ بنی اسرائیل سین میں جاپہنچتے.خوراک نہ ہونے کے باعث سب کُڑکُڑاتے.خدا آسمان سے روٹی بھیجنے کا وعدہ کرتا.ان کے لئے بٹیریں بھیجی جاتیں.من بھی بھیجا جاتا.ہر ایک کو من کے جمع کرنے کا حکم ہوتا.سبت کے دن وہ نہ مل سکے گا.من کا اُومر بھر قرنوں کو دکھانے کے لئے حفاظت سے رکھتے‘‘.اس کے بعد خروج باب ۱۹ کا خلاصہ ان الفاظ میں درج ہے.’’اس بیان میں کہ بنی اسرائیل سینا کے بیابان میں آتے ان کے لئے خدا کا پیغام پہاڑ پر سے موسیٰ کی معرفت آتا.وے لوگ اس کا جواب دیتے.تیسرے دن کے لئے تیار ہوجاتے.پہاڑ کا چھونا منع ہوتا.پہاڑ کے اوپر یہوواہ ہیبت ناک وضع سے ظاہر ہوتا‘‘.غرض بائبل اور قرآن دونوں اس امر پر متفق ہیں کہ ہجرت کا واقعہ پہلے ہوا ہے اور طور کا واقعہ بعد میں.غرض اللہ تعالیٰ آدمؑ اور نوحؑ کی مثالیں پیش کرنے کے بعد فرماتا ہے ہم تیسری مثال تمہارے سامنے موسٰی کی پیش کرتے ہیں.موسٰی کو دشمن کے مظالم کی وجہ سے ہجرت کرنی پڑی تھی اور وہ اپنی قوم کو ساتھ لے کر مصر سے باہر نکل آیا تھا.موسیٰ کے دشمنوں نے سمجھا ہوگا کہ چلو چھٹی ہوئی.ہمیں اس کے فتنہ سے نجات ملی مگر خدا نے اس ہجرت کو دشمنوں کی تباہی اور بنی اسرائیل کی ترقی کا موجب بنا دیا.اگر یہ لوگ مصر میں ہی رہتے تو خواہ فرعون کے مظالم سے

Page 256

آزاد ہوجاتے مگر پھر بھی وہ محکوم ہی رہتے.لیکن طورِسینین کے واقعہ کے بعداللہ تعالیٰ نے ایسی برکات نازل کیں کہ نہ صرف بنی اسرائیل فرعون کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوگئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ بادشاہت کا وعدہ دے کر یہودی قوم کی حکومت کی بنیاد رکھ دی جو ایک ہزار سال تک نہایت مضبوطی کے ساتھ قائم رہی.یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ یہاں یہ مضمون بیان کررہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہاری تدبیروں سے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.تین اور زیتون اور طورِ سینین کے واقعات تمہارے سامنے ہیں.آدمؑکو شیطان نے دھوکا دیا تو تین نے اس کا ننگ ڈھانک لیا.نوحؑکے زمانہ میں طوفان آیا تو زیتون کی شاخ سے اس کو خوشخبری ملی.مصر سے موسٰی کو بھاگنا پڑا تو طورِ سینین پر اس کو پناہ مل گئی.چونکہ یہاں غلبہ اور ترقی کا مضمون ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے دشمن کی تکالیف والے حصہ کو بیان نہیں کیا.ورنہ دراصل وَ التِّيْنِ کے معنے ہیں شیطان کا آدمؑکو دھوکا دینا اور تین سے اس کا کامیاب ہونا.وَ الزَّيْتُوْنِ کے معنے ہیں نوح کے لئے عرصہ حیات کا تنگ کیا جانا.طوفان آنا اور پھر زیتون سے نوحؑکو اپنی کامیابی کی بشارت ملنا.طُوْرِ سِيْنِيْنَ کے معنے ہیں مصرسے موسٰی کا بھاگنا اور طُوْرِ سِيْنِيْنَ پر اس کو اپنی کامیابیوں کی بشارات ملنا اور هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ کے معنے ہیں مکہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھاگنا اور پھر آپ کا فاتح اور حکمران ہونے کی حیثیت سے مکہ میں واپس آنا.مگر تکالیف اور ہجرت وغیرہ کا ذکر چونکہ مضمون سے خود بخود نکل آتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر محض اشارۃً کیا ہے.اصل ذکر غلبہ اور کامیابی کا کیا ہے تاکہ دشمن اپنی عارضی کامیابی پر خوش نہ ہو اور وہ یہ خیال نہ کرے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے انبیا ء کو شکست دےدی ہے.غرض طُوْرِ سِيْنِيْنَ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ موسیٰ کو جب مصر سے نکالا گیا تو فرعون تو سمند ر کی تہہ میں ڈوبا مگر موسٰی کو ہم نے پہاڑ پر تجلی دکھائی.گویا ایک نیچے کی طرف چلا گیا اور دوسرا اوپر کی طرف نکل گیا.تجلی دونوں نے ہی دیکھی مگر ایک نے سمندر کی تہہ میں دیکھی اور دوسرے نے طورِ سینین پر تجلی دیکھی.اے مکہ والو! تمہارے ساتھ بھی یہی ہونے والا ہے.بظاہر موسٰی فرعون اور اس کی قوم کے مظالم سے تنگ آکر مصر سے بھاگ گئے تھے وہ اپنے گھروں سے نکل گئے تھے انہوں نے اپنے مکانوں اور اپنی جائیدادوں کو چھوڑ دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے طورِ سینین پر موسٰی کو تجلی دکھا دی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے اپنی قوم کے غلبہ کا وعدہ مل گیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی طورِ سینا تیار ہورہا ہے.یہ طورِ سینا مدینہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا.فرماتا ہے کہ تم خود سمجھ لو کہ تمہارے لیے کیا مقدر ہے؟ محمد ؐرسول اللہ کو نکال کر دیکھ لو میں فرعون کی طرح تم کو غرق کردوں گا اور محمدؐ رسو ل اللہ کو طورِ سینا پر بلند جگہ دوں گا اور ثابت کردوں گا کہ انسانی فطرت پاک ہے.پاک فطرت لوگ اس کی طرف دوڑیں گے اور

Page 257

اس بات کے شاہد ہوں گے جس طرح موسٰی کے وقت ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ میں پیدا کیا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ کہ ہم اس بلد الامین کو بھی شہادت کے طو رپر پیش کرتے ہیں.امین کے معنے یا تو اٰمِنٌ کے ہوتے ہیںاور یا مَاْمُوْنٌ کے ہوتے ہیں یعنی یا تو اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بلد جو دنیا کو امن دیتا ہے اور یا پھر اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ بلد جس کو خدا نے مامون کردیا ہے.میرے نزدیک بلدالامین کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں یہ بھی کہ وہ شہر جو امن دینے والا ہے اور یہ بھی کہ وہ شہر جسے امن دیا گیا ہے.امین کا لفظ جو اس آیت میں استعمال کیا گیا ہے اس سے صاف پتہ لگتاہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت کے مکہ کی حالت کا اس میں ذکر نہیں کیونکہ اس وقت تو جو کچھ کیفیت تھی اس کا ذکر اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرچکا ہے کہ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ تجھے اس بلد میں حلال سمجھا جارہا ہے کوئی تکلیف نہیں جو تجھے نہ پہنچائی جاتی ہو اور کوئی ظلم نہیں جو تجھ پر توڑا نہ جاتا ہو.ہرقسم کے تیروں کا نشانہ انہوں نے تجھ کو بنایا ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ایک جائز فعل کا ارتکاب کررہے ہیں.جس شہر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسے امن پسند انسان پر ظلم کیا جاتا تھا وہ بلدالامین کس طرح کہلاسکتا تھا.پس بلدالامین سے درحقیقت مکہ کی وہ حالت مراد ہے جو فتح مکہ کے بعد پیدا ہوئی جب ہر قسم کے مظالم کا سلسلہ جاتا رہا تھااور مسلمانوںکو کفار پر غلبہ اور اقتدار حاصل ہوگیا تھا.ورنہ فتح مکہ سے پہلے وہ بلدالامین کہاں تھا.نہ اس میں روحانی لحاظ سے امن تھا نہ جسمانی لحاظ سے.دینی امن لو تو مکہ وہ شہر تھا جہاں لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالا جاتا تھا اورانہیں خدائے واحد کی پرستش کی بجائے بتوں کی پرستش کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا اور اگر جسمانی لحاظ سے دیکھو تو مکہ والوں کی طرف سے خطرناک سے خطرناک ظلم ایک ایسی قوم پر ہورہا تھا جو انصاف پسند اور مخلوق کی خیرخواہ تھی جو اس مقصد کو لے کر کھڑی ہوئی تھی کہ دنیا میں امن قائم ہونا چاہیے، ایک دوسرے کے حقوق کو ادا کرنا چاہیے اور الٰہی فرائض کو پوری دیانت داری کے ساتھ ادا کرنا چاہیے.کون کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی ایک مقصد بھی ایسا ہے جس پر مکہ والوں کو غصہ آنا چاہیے تھا اور جس کی بنا پر انہیں اپنی ترکش کا ہر تیر مسلمانوں کے سینہ کی طرف پھینکنا چاہیے تھا مگر ہوا یہی کہ مسلمانوں کو دکھ دیا گیا، ان کو ستایاگیا، ان کو مارا گیا، ان کے ننگ وناموس پر حملہ کیا گیا اور انہیں شدید سے شدید عذاب میں ایک لمبے عرصہ تک مبتلا کیا گیا.پھر یہی نہیں بلکہ ان کے محبوب آقا پر جس کی غلامی وہ اپنے لئے فخر کا موجب سمجھتے تھے اور جس کے اشارہ پر وہ اپنی ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے متواتر اور مسلسل مظالم کئے گئے حالانکہ قوم کا آپ کے متعلق فتویٰ یہ تھا کہ آپ صدوق اور امین ہیں.گویا مکہ میں ایک کافر کو امن حاصل تھا، ایک بت پرست کو امن حاصل تھا، ایک جھوٹے اور دغا باز کو امن حاصل تھا، ایک ظالم اور غاصب کو امن حاصل تھا

Page 258

لیکن اگر کسی شخص کو مکہ میں امن حاصل نہیں تھا تو صرف اس کو جو قوم میں صدوق اور امین مشہور تھا(صحیح بخاری کتاب التفسیر سورۃ الشعراء باب وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ).غرض روحانی طو رپر دیکھ لو یا جسمانی طور پر مکہ کو اس وقت کی حالت کے لحاظ سے قطعی طور پر بلد الامین نہیں کہا جاسکتا تھا.روحانی طور پر یہ کیفیت تھی کہ مکہ میں لوگوں کے ایمانوں کو لوٹا جاتا تھا.کبھی کہاجاتا لات پر چڑھاوا چڑھائو.کبھی کہا جاتا عزیٰ پر چڑھاوا چڑھائو.کبھی منات اور ھبل اور دوسرے بتوں کی پرستش پر مجبور کیا جاتا.یہ بت پرستی مکہ میں اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ بیت اللہ جو خدائے واحد کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا خود اس میں تین سو ساٹھ بت رکھے گئے تھے اور ہر روز ایک نئے بت کے سامنے اپنے سر جھکائے جاتے تھے.پس بلد الامین میں مکہ کی اس حالت کا ذکر نہیں جو اس سورۃ کے نازل ہونے کے وقت تھی بلکہ ان الفاظ میں اس آخری ترقی کا ذکر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کے بعد حاصل ہونے والی تھی.تِیْن بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب آدمؑ شیطان پر کامیاب ہوئے.زَیْتُوْن بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب نوحؑطوفان سے بچے.طُوْرِ سِيْنِيْنَ بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جب موسٰی کو آئندہ ترقیات کی خوشخبری ملی.اسی طرح بَلَدِ الْاَمِيْنِ بھی ہجرت کے بعد کا واقعہ ہے جس کی ابتدائی مکی زندگی میں پیشگوئی کردی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ گو آج مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں مگر ایک دن آنے والا ہے جب مکہ تمہارے لئے اور سب دنیا کے لئے بلدالامین ہوگا.ہر قسم کے مظالم کا سلسلہ مٹ جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آ پ کے ساتھیوں کو امن حاصل ہوجائے گا.گویا ہجرت بجائے مضر ہونے کے اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا ذریعہ ثابت ہوگی.تم سمجھو گے کہ ہم نے اسلام کو تباہ کردیا مگر خدا تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اس شہر میں واپس لائے گا.آپ کو فتح اور کامرانی عطا کرے گا، آپ کے ہاتھ سے مکہ کے ایک ایک بت کو تڑوائے گا، شرک کا قلع قمع کردیا جائے گا اور خدائے واحد کا نام مکہ کی گلی کوچوں میں گونجنا شروع ہوجائے گا اور اس طرح روحانی امن قائم ہوجائے گا اس کے علاوہ اس وقت تم میں یہ طاقت نہ رہے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی طرف نظربد سے دیکھ سکو یا غریبوں پر ظلم کرسکو اور اس طرح جسمانی طور پر مکہ بلدالامین ہوجائے گا اور اگر امین کے معنے مامون کے لو تو اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ گو مکہ ہمیشہ سے محفوظ چلا آتا ہے مگر ایک موقع ایسا آنے والا ہے جب اس کو قسراً فتح کیا جائے گا.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِنَّ اللہَ حَرَّمَ مَکَّۃَ وَلَمْ یَـحِلُّ لِاَحَدٍ قَبْلِیْ وَلَا لِاَحَدٍ بَعْدِیْ وَ اِنَّـمَا حَلَّتْ لِیْ سَاعَۃً (بخاری کتاب البیوع باب ما قیل فی الصواع) کہ مکہ بلدالحرام ہے اور قیامت تک حرام ہی رہے گا کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ پر حملہ کرے یا اس کی حرمت کو کسی اور رنگ میں توڑنے کی

Page 259

کوشش کرے.صرف مجھے اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ میں قسراً مکہ کو فتح کروں مگر میرے لئے بھی یہ اجازت صرف چند گھڑیوں کے لئے تھی ہمیشہ کے لئے نہیں تھی.یہ ایک طبعی بات ہے کہ لمبے عرصہ میں عارضی طور پر اگر کوئی واقعہ ہوجائے تو انسان اس کو نظرانداز کردیا کرتا ہے.وہ شخص جو دس پندرہ سال تک تندرست رہے اگر ایک دن اسے بخار ہوجائے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ وہ بیمار آدمی ہے کیونکہ یہ بیماری ایک لمبے عرصہ میں صرف تھوڑی سی دیر کے لئے اس پر آئی تھی.اسی طرح بلدالامین میں اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ بے شک مکہ پر ایک ایسا حملہ مقدر ہے جو اس کی حلت کو توڑ دے اور بے شک ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قسراً فتح کریں گے مگر اس سے یہ نہ سمجھنا کہ مکہ بلدالامین نہیں.اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے امن دیا گیا ہے.اس کی حرمت کو خدا تعالیٰ نے اپنے حکم سے قائم کیا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس میں قسراً داخلہ ایک وقتی چیز ہوگا جس کی اللہ تعالیٰ بعض پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے اجازت دے گا ورنہ مکہ بلدالامین تھا بلدالامین ہے اور بلدالامین رہے گا.کوئی شخص اس کی حرمت کو توڑنے کی طاقت نہیں رکھتا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کرلیا تو اس کے بعد آپ نے اعلان فرمایا کہ یہ حملہ صرف میرے لئے مقدر تھا.آج کے بعد کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ مکہ کی حرمت کو توڑنے کی جرأت کرے.پس چونکہ ایک زمانہ ابھی ایسا آنا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکہ کی حرمت کو توڑا جانا مقدر تھا اور خود خدا نے یہ کہنا تھا کہ تمہارے لئے مکہ پر حملہ کرنا جائز ہے اس لیے جب تک وہ موقعہ آکر گزر نہ جاتا مکہ کامل طور پر بلدالامین نہیں کہلا سکتا تھا.بے شک وہ پہلے بھی بلدالامین تھا اور بعد میںبھی وہ بلدالامین رہا مگر چونکہ درمیان میں ایک وقفہ ایسا آنا تھا جس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت مکہ کو قسراًفتح کیا جانا مقدر تھا اس لیے کامل طور پرمکہ اگر بلدالامین کہلا سکتا تھا تو فتح مکہ کے بعد ہی نہ کہ اس سے پہلے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا تو اس کے بعد آپ نے ہمیشہ کے لیے مکہ کی حرمت کو قائم فرما دیا بہرحال جب تک مکہ فتح نہیں ہوا تھا وہ کلی طور پر بلدالامین نہیں کہلا سکتا تھا کیونکہ ایک سانحہ موجود تھا جس میں اس کی حرمت کو ظاہری نگاہوں میں توڑا جانا تھا کلی طور پر اگر وہ بلدالامین قرار پایا توفتح مکہ کے بعد.غرض یہ تینوں واقعات فتح مکہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اگر ایمان کے لحاظ سے مکہ کے امن کو لو توفتح مکہ کے بعد اس میں سے شرک نکلا اور اگر جسمانی لحاظ سے مکہ کے امن کو لو تو فتح مکہ کے بعد کفار کے جورو ستم کا سلسلہ بند ہوا اور اگر مکہ کا مامون ہونا لو تب بھی فتح مکہ کے بعد اسے امن حاصل ہوا جب تک مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر فتح نہیں ہوا وہ کامل طور پر بلد الامین نہیں کہلا سکتا تھا کیونکہ ایک سانحہ ابھی

Page 260

آنے والا تھا جس میں مکہ کی حرمت کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توڑنااور اپنے لشکر سمیت اس کو فتح کرنا تھا غرض مکہ کا بلدالامین ہونا خواہ روحانی اور جسمانی لحاظ سے آمن ہونے کی صورت میں لو خواہ مکہ کے مامون ہونے کی صورت میں لو ہر طرح مکہ اگر بلدالامین بنا ہے تو فتح مکہ کے بعد.اس سے پہلے نہ دینی لحاظ سے اس میں امن تھا نہ جسمانی لحاظ سے اس میں امن تھا اور نہ وہ خود کامل طور پر مامون سمجھا جا سکتا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم یہ چاروں واقعات تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں ان میں سے تین واقعات تو ہوچکے ہیں اور چوتھا ابھی ہونے والا ہے.تم گزشتہ تین واقعات سے قیاس کر سکتے ہو کہ یہ چوتھا واقعہ بھی ہونے والا ہے اوریہ شہر جو آج محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے لئے آگ ہے ہجرت کے بعد بلدالامین ہونے والا اوردنیا کو اس بات کی چوتھی شہادت مہیا کرکے دینے والا ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍٞ۰۰۵ یقیناً ہم نے انسان کو موزوں سے موزوں حالت میں پیدا کیا ہے.حَلّ لغات: اَلتَّقْوِیْم اَلتَّقْوِیْم:اَلتَّعْدِیْل (اقرب) تقویم کے معنے تعدیل کے ہیں یعنی کسی چیز کو صحیح القویٰ بنانا اور ہر قسم کی کجی اور خرابی سے اس کو محفو ظ ر کھنا.پس اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے معنے ہوئے اعلیٰ سے اعلیٰ اورنقص سے پاک اور بے عیب بنانا.یہ الفاظ انسان کے لئے بطور حال استعمال ہوئے ہیں.یعنی حَالَ کَوْنِہٖ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیمٍ یعنی انسان کو ایسا بنایا ہے کہ تعدیل و اصلاح کرنے میں بے نظیر ہے.یہاںمفسرین کو دقت پیش آئی ہے کہ اعتدال اور تقویم پیدا کرنے والا تو خدا تعالیٰ ہے انسان ایسا کس طرح ہو سکتا ہے؟اس کا جواب بعض لوگوں نے یہ دیا ہے کہ یہاں تقویم سے مراد قِوَام ہے اور مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن قویٰ کے ساتھ پیدا کیا ہے.لیکن بعض کہتے ہیں کہ یہاں حذف مضاف ہے اور تقدیر یہ ہے کہ فِیْ اَحْسَنِ قِوَامِ التَّقْوِیْمِ یعنی تقویم کے نتیجہ میں جو قوام پید اہوتا ہے اس کا احسن انسان کو حاصل ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی بہترین مخلوق انسان ہے.اور اسے دوسروں سے زیادہ قوام حاصل ہے.اس لحاظ سے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے معنے یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی پیدائش کی صفت کا بہترین نمونہ انسان کو بنایا ہے.بعض نے کہا ہے کہ اس آیت میں فِيْ زائدہ ہے.اور اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ اللہ تعالیٰ کے لئے حال ہے.یعنی اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی احسن تقویم سے

Page 261

پیدا کیا ہے.گویا ان کے نزدیک لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کی تقویم کے ساتھ پیدا کیا ہے یعنی خدا نے اپنی تعدیل کی صفت کامل طور پر انسان کی پیدائش میں ظاہر کی ہے(روح المعانی زیر آیت لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ ).اس کے بھی یہی معنے بن جاتے ہیں کہ خدا نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی اعتدالی طاقتوں کے ساتھ بنایا ہے.لیکن ساتھ ہی ایک زائد معنے یہ بھی نکل آتے ہیں کہ انسان باقی تمام مخلوق سے افضل ہے.جب خدا نے انسان کو احسن تقویم میں بنایا ہے اور اس نے اپنی صفت تقویم کامل طور پر انسانی پیدائش میں ہی ظاہر کی ہے تو اس سے لازمی طور پر یہ نتیجہ نکل آیا کہ دوسری کوئی مخلوق انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتی.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو صوفیاء میں زیر بحث چلا آیا ہے اور انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ انسان افضل ہیں یاملائکہ.اس کا جواب بعض لوگوں نے تو یہ دیا ہے کہ ملائکہ افضل ہیں کیونکہ ان سے کسی قسم کی بدی سرزد نہیں ہوتی لیکن بعض نے کہا ہے کہ انسان بحیثیت انسان یا بحیثیت جماعت ملائکہ سے افضل ہے.اس لئے کہ خدا نے اس کو ایسی طاقتیں دے کر بھیجا ہے کہ اگر وہ ان کا صحیح طور پر استعمال کرے تو ملائکہ سے بڑھ جاتا ہے.میرے نزدیک لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ملائکہ سے افضل ہے.اس لئے کہ اگر اس کے یہ معنے ہوں کہ خدا نے اپنی تقویم کی صفت کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر انسان پر ظاہر کیا ہے تب بھی اس کے یہی معنے ہیں کہ خدا نے انسان کو تمام مخلوق میں سے اعلیٰ مقام پر پیدا کیا ہے اور اگر اس کا دوسرا مفہوم لیا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہتر سے بہتر طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کے اندر کمال درجہ کا اعتدال رکھا ہے تب بھی اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ انسان ملائکہ سے افضل ہے.کیونکہ انسان ہی وہ مخلوق ہے جس کے اندر کمال درجہ کا اعتدال پیدا کیاگیا ہے اور جسے بہتر سے بہتر طاقتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا گیا ہے.بہرحال اس آیت سے یہ استدلال ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بحیثیت فرد نہیں بلکہ بحیثیت انسان دوسری تمام مخلوق پر اپنی بالقوہ طاقتوں کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے خواہ وہ ملائکہ ہی کیوں نہ ہوں.اگر ہم عقلی طور پر غور کریں تب بھی ہم اسی نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ملائکہ انسان سے افضل نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ملائکہ کے اندر جو نیکی یا اطاعت پائی جاتی ہے وہ جبری ہے اور اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے دنیا میں اونچے اونچے پہاڑ کھڑے کردیئے ہیں.بے شک وہ اونچے ہیں لیکن اس اونچائی میں پہاڑوں کی کوئی خوبی نہیں.ہمالیہ پہاڑ یہ فخر نہیں کرسکتا کہ دیکھو میں کتنا اونچا نکل گیا ہوں کیونکہ اس کی اونچائی اور بلندی جبری ہے.خدا نے اسے اونچا بنایا اور وہ بن گیا.اس میں اس کے کسی ذاتی کمال یا خوبی کا دخل نہیں ہے لیکن اگر کوئی انسان اپنی کوشش اور محنت اور ورزش سے اپنے جسم کو فربہ بنالیتا ہے تو یہ

Page 262

یقیناً اس کی خوبی سمجھی جائے گی.چونکہ انسان کے اندر نیکی کی قوت بھی رکھی گئی ہے اور بدی کی بھی اور وہ دونوں طرف جاسکتا ہے یعنی نیکی میں حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل کرسکتا ہے اور بدی کا ارتکاب کرکے خدا تعالیٰ کو ناراض بھی کرسکتا ہے.اس لئے وہ شخص جو نیکی کرتا ہے خواہ بظاہر معمولی درجہ کا مومن ہو وہ عام ملائکہ پر ضرور فضیلت رکھے گا.کیونکہ ملائکہ کا کمال ذاتی نہیں بلکہ انہیں یہ کمال اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنا بنایا مل گیا ہے.انسان کی فضیلت ملائکہ پر اس ضمن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا فرد کامل ملائکہ کے فرد کامل سے بڑا ہے یا نہیں؟ مگر میرے نزدیک اس سوال کا جواب اسی آیت سے نکل آتا ہے جب خدا نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اورملائکہ سے اسے زیادہ قوتیں عطا فرمائیں ہیں تو لازماً انسان کا فرد کامل ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہوگا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف باقی انسانوں سے بلکہ تمام ملائکہ سے بھی افضل تھے.بےشک ایک عام مومن جو گناہوں اور غلطیوں کا ارتکاب کرتا ہے اس سے ملک افضل ہوتا ہے کیونکہ گو اسے بالقوہ طاقتوں کے لحاظ سے فضیلت دی گئی تھی مگر ان قوتوں کے بالفعل ظہور میں وہ بہت پیچھے رہ گیا.لیکن جو شخص اپنی بالقوہ طاقتوں کا نہایت اعلیٰ طریق پر اظہار کرتا ہے اس کی ملائکہ پر فضیلت سے کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیا جاسکتا.کیونکہ جو طاقتیں اسے ملائکہ سے زیادہ دی گئیں تھیں وہ عملی طور پر بھی اس کی طرف سے ظہو رمیں آگئیں.اس لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء یقیناً ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہیں.گو مسلمانوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ وہ افضل نہیں ہیں.مگرمیرے نزدیک بغیر اس توجیہ کے کہ فِیْ کو زائد قرار دیا جائے یہ جملہ اپنی اصل شکل میں بھی درست ہے اور اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ انسان کی طرف بھی منسوب ہوسکتا ہے.مفسرین کو شبہ یہ پڑا ہے کہ چونکہ خدا معدّل ہے اس لئے انسان کو معدّل نہیں کہا جاسکتا.حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کے لئے رئووف کی صفت بھی آتی ہے، رحیم کی صفت بھی آتی ہے، رازق کی صفت بھی آتی ہے، خلق کی صفت بھی آتی ہے، بصیر کی صفت بھی آتی ہے، سمیع کی صفت بھی آتی ہے.اگر یہ تمام صفات انسان میں پائی جاسکتی ہیں تو اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کی صفت اس میں کیوں نہیں پائی جاسکتی؟ جس طرح انسان رئووف اور رحیم اور رازق اور خالق اور بصیر اور سمیع ہوسکتا ہے وہ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ بھی ہوسکتا ہے مگر بہرحال اسی حد تک یہ صفات اس میں پائی جائیں گی جس حد تک انسان ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرسکتا ہے.یہ نہیں سمجھا جائے گا کہ ان صفات میں انسان خدا تعالیٰ کے مقابل میں کھڑا ہوسکتا ہے کیونکہ ہر شخص کا کام اس کی طاقتوں کے مطابق ہوتا ہے.یہاں انسان کا خدا کے ساتھ مقابلہ نہیں بلکہ مخلوق کا مخلوق کے ساتھ مقابلہ ہے اور مضمون یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق میں سے انسان ہی ایک ایسا وجود ہے جو اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ

Page 263

کا نظارہ دکھاسکتا ہے.ملائکہ اس کی مخلوق ہیں مگر وہ اس صفت میں انسان کا مقابلہ نہیں کرسکتے.اسی طرح اور جس قدر مخلوق پائی جاتی ہے اس میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو احسن تقویم ہونے کے لحاظ سے انسان کا مقابلہ کرسکے.مثلاً وہی کام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا جبریل نہیں کرسکتا تھا یا وہ کام جو اور انبیاء کے سپرد ہوا خدا تعالیٰ کے دوسرے ملائکہ سرانجام نہیں دے سکتے تھے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے موسٰی کو بھیجا، عیسٰیؑ کو بھیجا، دائودؑ اور سلیمانؑ اور ابراہیمؑ کو بھیجا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا مگر ملائکہ کو نہیں بھیجا کیونکہ انسان میں خدا نے اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کی صفت رکھی تھی جو ملائکہ میں نہیں رکھی یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاح کا کام جو انسان کرسکتا ہے وہ ملائکہ یا خدا تعالیٰ کی کوئی اور مخلوق نہیں کرسکتی اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات میں سے انسان بحیثیت جماعت افضل ہے اور انسان کامل ملائکہ کے فرد کامل سے افضل ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے دو معنے غرض میرے نزدیک اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو اس حالت میں پیدا کیا ہے کہ وہ اعلیٰ سے اعلیٰ تقویم کرتا ہے یعنی دوسرے انسانوں اور دوسری مادی اشیاء کی تعلیم و تربیت اور تقدیر اور تصویر اور تخلیق نہایت اعلیٰ درجہ کی کرتا ہے گویا خدا نے انسان کو نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی معلم بنایا ہے.نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی خالق بنایا ہے.نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی مربی بنایا ہے.نہایت اعلیٰ درجہ کا روحانی اور جسمانی صنّاع بنایا ہے اور یہ ساری باتیں ایسی ہیں جن میں دوسری مخلوق پر اسے بہت بڑی فضیلت حاصل ہے.یہ معنے ایسے ہیں جن سے قطعاً کوئی شرک لازم نہیں آتا.جب یہ ایک حقیقت ہے جسے سب تسلیم کرتے ہیں کہ انسان بصیر بھی ہے، سمیع بھی ہے، رئووف بھی ہے، رحیم بھی ہے تو احسن تقویم کی صفت بھی اس میں ہوسکتی ہے اور یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ ہم نے احسن تقویم کی صفت بھی انسان کوبخشی ہے اور اسے روحانی اور جسمانی خالق بنایا ہے کہ اس کی تربیت سے کامل انسان پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح دنیا میں وہ صنعت و حرفت کے بڑے بڑے کمالات دکھاتا ہے.چنانچہ دنیا کے چار دور اس کے مصد ق ہیں.اگر تم ان چاروں دوروں کو دیکھو تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے تربیت اور تعلیم اور تعدیل کی بہت بڑی قوت بخشی ہے.آدمؑ آئے اور انہوں نے وہ اصلاح کی کہ سینکڑوں سال تک چلتی چلی گئی.نوحؑ آئے اور وہ ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی پاکباز جماعت قائم کرکے دنیا پر اپنی اصلاح کے اَن مِٹ نقوش قائم کرگئے.موسٰی آئے انہوں نے تعدیل القویٰ کیا اور ایسی اعلیٰ درجہ کی جماعت قائم کی کہ خدا کا جلال اور اس کا جمال اس جماعت کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوگیا.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں ان کے ذریعہ بھی انسان کی یہ

Page 264

صفت ایک دن ظاہر ہوگی اور اس طرح دنیا پر ثابت ہوجائے گا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم کی قوت دے کر بھیجا ہے.آدمؑ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کا ثبوت ہے، نوحؑ احسن تقویم کا ثبوت ہے، موسٰی احسن تقویم کا ثبوت ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احسن تقویم کا ثبوت ہیں.تم دیکھو گے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کے نتیجہ میں انسان کیسی کیسی قوتیں ظاہر کرتا ہے.یہ چار دور جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے درحقیقت انسانی تکمیل کے چار دور ہیں.آدمؑ دور تمدّن کا بانی ہے.نوحؑدور شریعت کا مؤسّس HERO ہے.موسٰی دورِ تفصیل کی بنیاد رکھنے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دورِ تکمیل کے بانی ہیں.انسانیت کی تشکیل آدمؑ نے کی.شریعت کی بنیاد نوحؑنے رکھی لیکن شریعت کی تفاصیل موسٰی نے بیان کیں اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شریعت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث کئے گئے.آپ آئے اور آپ نے انسانیت اور تمدن کو بھی مکمل کیا.آپ نے شریعت کو بھی مکمل کیا اور آپ نے تفصیل شریعت کو بھی تکمیل تک پہنچایا.گویا وہ تینوںدور جو نامکمل تھے ان کو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کمال تک پہنچادیا.آپ نے دورِ تمدّن کو نقائص سے پاک کرکے ایک کامل اور بے عیب تمدّن دنیا کے سامنے رکھا.آپ نے دورِ شریعت کو ہر قسم کے نقائص سے پاک کرکے ایک کامل اور بے عیب شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کیا.اور آپ نے دور تفصیل کو ہر قسم کے نقائص سے منزہ کرکے ایک ایسا کامل اور بے عیب مجموعہ قانون دنیا کو دیا جس میں ضرورت کی ہرشے موجود تھی اور بے ضرورت کوئی چیز نہ تھی.وہ کامل اور بے عیب تھی اپنی ہمہ گیری کے لحاظ سے اور کامل اور بےعیب تھی اپنی گہرائی کے لحاظ سے گویا وہ شریعت آپ نے دنیا کے سامنے پیش کی جو اپنی وسعت کے لحاظ سے بھی کامل تھی اور اپنے عمق کے لحاظ سے بھی کامل تھی.نوحؑنے بے شک دنیا کے سامنے سب سے پہلے شریعت پیش کی مگر اس میں وسعت نہیں تھی صرف عمق تھا اور وہ بھی چند موٹے موٹے مسائل کے متعلق.اس کے بعد موسٰی نے جو شریعت پیش کی اس میں وسعت تو تھی مگر تمام امور میں عمق نہیں تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کی گہرائیوں کو بھی مکمل کیا اور اس کی وسعت کو بھی مکمل کیا.کوئی اخلاقی گہرائی نہیں تھی جس پر آپ پر نازل شدہ کتاب میں روشنی نہ ڈالی گئی ہو اور کوئی اخلاقی وسعت نہیں تھی جو آپ کی لائی ہوئی کتاب میں بیان نہ ہوئی ہو.موسٰی سے شریعت کی کئی گہرائیاں رہ گئیں تھیں.نوحؑسے شریعت کی کئی وسعتیں رہ گئی تھیں اور آدمؑ سے تمدّن کی کئی اہم باتیں رہ گئی تھیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو مکمل کیا اور اس طرح ثابت ہوگیا کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ ہم نے انسان کو اعلیٰ درجہ کی تقویم کے ساتھ پید اکیا ہے.ہر دور نے

Page 265

بنی نوع انسان کی ایک تکمیل کی اور یہ عمارت بڑھتے بڑھتے کہیں کی کہیں جانکلی.تفسیر.اوپر بتایا جاچکا ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ کے مختلف معانی ہوسکتے ہیں.یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے انسان کو بہترین وجود بنایا ہے.یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ ہم نے انسان کو بہترین طاقتیں دے کر پیدا کیا ہے اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ انسان کو ہم نے بڑا صنّاع بنایا ہے.اس کے اندر تقویم کی طاقت رکھی ہے اور وہ اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی اور جسمانی پیدائش کرسکتاہے.انسان کے متعلق چھ مختلف نظریے یہ دعویٰ جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اس کے متعلق مختلف مذاہب میں چھ بڑے بڑے اختلافات پائے جاتے ہیں.ان چھ اختلافات میں سے ایک عقیدہ تو وہ ہے جو اسلام پیش کرتاہے اور پانچ عقائد وہ ہیں جو اور مذاہب دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.ذیل میں ان تمام عقائد کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے.پہلا نظریہ پہلا عقیدہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان برائی کا میلان لے کر دنیا میں پیدا ہوا ہے.ہاں سدھارنے سے وہ سدھر بھی جاتا ہے.گویا انسان کا فطرتی میلان برائی کی طرف ہے اور پیدائش کے دن سے ہی ایک کمزوری اس کے اندر رکھ دی گئی ہے گو اصلاح کے لئے بھی اسے طاقتیں دی گئی ہیں.بالفاظ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انسان لچک دار تو ضرور ہے مگر اس کی بنیاد گند پر ہے.جیسے وہ درخت جو دلدل میں اگتا ہے لچک دار تو ہوتا اور اگر ہم اسے کھینچ کر خشکی کی طرف لائیں تولا سکتے ہیں لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی جڑیں ایک گندی زمین میں ہیں.دوسرا نظریہ دوسرادعویٰ یہ کیاجاتا ہے کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا تھا.مگر پہلے انسان سے ہی بدی کا ارتکاب ہوگیا اور اس نے بدی کا ارتکاب کرلیا اور چونکہ انسان ایسی طرز پر دنیا میں آیا ہے کہ وہ ماں باپ سے ضرور ورثہ کا اثر لیتا ہے اس لئے بوجہ اس کے کہ پہلے ماں باپ یعنی آدمؑ اور حوّا نے گناہ کیا تھا اب ان کی اولاد باوجود اپنی فطرت میں نیکی رکھنے کے گناہ کرنے پر مجبور ہے.بے شک ان کی فطرت انہیں نیکی کی طرف مائل کرتی ہے مگر چونکہ باپ نے انہیں ورثہ میں گناہ دیا ہے اس لئے گناہ کی طرف میلان ان کی فطرت میں چلتا چلا جاتا ہے کیونکہ یہ ورثہ کا اثر ہے جو ان کے اندر آگیا ہے.وہ کہتے ہیں انسان میں دو قسم کی طاقتیں ہوتی ہیں ایک ذاتی اور ایک اکتسابی.ذاتی قوت انسان کے اندر بے شک نیکی کی ہے مگر چونکہ گناہ اسے ورثہ میں مل گیا ہے اس لئے ورثہ کے گناہ نے اس کی فطرتی نیکی میں آمیزش کردی ہے جس سے وہ بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہوسکتا.اس کے بعد وہ کہتے ہیں جب خدا نے دیکھا

Page 266

کہ انسان کسی صورت میں بھی اس گناہ سے بچ نہیں سکتا تو اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ تم اگر لوگوں کی خاطر قربانی کرو اور بے گناہ ہوکر لوگوں کے گناہوں کے بدلے قربان ہوجائو تو دنیا اس مصیبت سے نجات حاصل کرسکتی ہے.بیٹے نے اس تجویز کو مان لیا اور خد انے اس سے کہا کہ اب تم انسان کی صورت میں دنیا میں جائو.لوگوں کو یہ مقدرت حاصل ہوگی کہ وہ تمہیں ماریں پیٹیں، سزائیں دیں اور بالآخر پھانسی پر لٹکادیں.بے شک انسان بن کر لوگوں کے ہاتھوں سے تم یہ سب دکھ برداشت کرو گے مگر چونکہ بے گناہ ہونے کی حالت میں تم کو یہ دکھ ملے گا اس لئے خدا تعالیٰ اس کے بدلہ میں ساری دنیا کے گناہ بخش دے گا.پس دوسرا خیال یہ ہے کہ انسان کی اصل فطرت تو نیک ہے مگر چونکہ پہلے انسان سے ہی گناہ ہوگیا اس لئے فطرت کی نیکی کے باوجود ورثہ میں ہر انسان کے اندر گناہ کا مادہ آگیا.اس گناہ سے وہ کفارہ مسیحؑ پر ایمان لائے بغیر نجات حاصل نہیں کرسکتا.تیسرا نظریہ تیسر انظریہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا.یہ کہنا کہ اس کی فطرت میں نیکی ہے یا یہ کہنا کہ اس کی فطرت میں بدی ہے یہ دونوں خیال غلط ہیں.انسان بعض تقاضے لے کر دنیا میں آتا ہے جو نہ نیک ہوتے ہیں نہ بد.مثلاً شجاعت، تہوّر، محبت، سخاوت، رفق اور غضب وغیرہ کئی قسم کے مادے ہیں جو انسان کے اندر پائے جاتے ہیں.اس کے بعد وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا اور اس کے مطابق بن جاتا ہے.گویا ہر انسان حالات سے مجبور ہے.یعنی یوں تو اس کی فطرت آزاد ہے مگر ماحول میں وہ آزاد نہیں رہتا.جس قسم کا ماحول اسے میسر آتا ہے اسی قسم کا رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے.مثلاً اگر اس کے ماں باپ ہندو ہیں تو وہ ہندو بن جائے گا یا اپنے محلہ کے لڑکوں سے کھیلتا ہے تو جس قسم کے اخلاق ان کے ہوتے ہیں اسی قسم کے اخلاق اس میں بھی پیدا ہوجاتے ہیں.بہرحال حالات اسے مجبو رکرکے نیکی یا بدی کی طرف لے جاتے ہیں.اگر حالات اچھے ہوں تو وہ اچھا بن جاتا ہے اور اگر بُرے ہوں تو وہ بُرا بن جاتا ہے.گویا اس کی زندگی کا تمام دارومدار اس کے ماحول پرہے اور وہ نیک یا بد حالات کی مجبوری کی وجہ سے ہوتا ہے.اس وجہ سے نہیں ہوتا کہ اس کے اندر نیکی یا بدی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اس کا ماحول اسے مجبور کرکے کبھی نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور کبھی بدی کی طرف لے جاتا ہے.یہ فرائیڈ کی تھیوری ہے جو آج کل کے فلسفیوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہے.چوتھا نظریہ چوتھا خیال لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان مجبور پید اکیاگیا ہے.گویا وہ مجبور ہے قانون الٰہی سے.یہ آج کل کے بگڑے ہوئے صوفیوں کا خیال ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ انسان وہی کچھ کرتا ہے جو اس کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اور اگر انہیں کسی اصلاح کی طرف توجہ بھی دلائی جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ جب ہماری تقدیر میں گناہ

Page 267

لکھا ہے تو ہم اس کے خلاف کیا کرسکتے ہیں.پانچواں نظریہ پانچواں خیال لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان اپنی پیدائش کے نتائج بھگتنے کے لئے اس دنیا میں آتا ہے اور اس کی زندگی سابق کرم کا نتیجہ ہوتی ہے.1.Encyclopedia of Religion and Ethics Under Word Sin 2.Encyclopedia of Religion and Ethics Under Word Adam 3.Encyclopedia of Religion and Ethics Under Word (Hindu) چھٹا نظریہ چھٹا خیال جس کا اسلام مؤید ہے وہ یہ ہے کہ انسان بھلائی کے میلان کو لے کر پید اہوا ہے ہاں بگاڑنے سے وہ بگڑ بھی جاتا ہے.پہلا عقیدہ کہ انسان برائی کے میلان کو لے کر پیدا ہوا ہے ہاں سدھارنے سے وہ سدھر بھی سکتا ہے.بدھوں، چینیوں اور وام مارگیوں وغیرہ کا ہے.دوسرا عقیدہ کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا ہے مگر بوجہ اس کے کہ آدمؑ نے گناہ کیا اب ورثہ کا گناہ اس کے اندر آگیا ہے اور وہ اس سے بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہوسکتا عیسائیوں کا ہے.تیسرا عقیدہ کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا اور اس کے مطابق ہوجاتا ہے گویا وہ مجبور ہے حالات سے، زمانۂ حال کے فلسفی فرائیڈ کا ہے.چوتھا عقیدہ کہ انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے گویا وہ مجبور ہے قانون الٰہی سے یہ آخری زمانہ کے صوفیاء اور بعض عیسائیوں کا عقیدہ ہے.پانچواں عقیدہ کہ انسان اپنی پیدائش کے نتائج بھگتنے کے لئے اس دنیا میں آتا ہے اور اس کی زندگی سابق کرم کا نتیجہ ہوتی ہے یہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے.چھٹا عقیدہ کہ انسان دنیا میں بھلائی کے میلان کو لے کر پیدا ہو اہے اور اس کے لئے بے انتہاء ترقی کے راستے کھلے ہیں.ہاں بگاڑنے سے وہ بگڑ بھی جاتا ہے.یہ اسلام کا عقیدہ ہے.یہ چھ فلسفی نظریے ہیں ان میں سے چار جو فلسفیانہ کہلاتے ہیں جبر کی تائید میں ہیں.ایک کفارہ کا عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ اپنے دادا (یعنی آدمؑ) کے عمل کو کہتا ہے اور سب دنیا کے لوگوں کو فطرتاً برا قرار دیتا ہے.دوسرا تناسخ کا عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ اپنی سابقہ جونوں کے عمل کو قرار دیتا ہے اور گو اس عقیدہ کے ماتحت بعض کو اچھا اور بعض کو برا کہا جاتا ہے مگر بہرحال تناسخ جونوں کے چکر کو برائی کا نتیجہ قرار دیتا ہے.یعنی جو اچھا ہے تناسخ ماننے والوں کے نزدیک ابھی وہ پورا اچھا نہیں تبھی وہ مختلف جونوں میں جاتا ہے گویا برائی ہر انسان میں ہے صرف فرق یہ ہے کہ کسی میں کم ہے اور کسی میں زیادہ.جو بظاہر اچھا نظر آتا ہے اس میں بھی درحقیقت برائی پائی جاتی ہے اور اسی لئے

Page 268

مختلف جونوں کے چکر میں اسے جانا پڑتا ہے.تیسرا مسلمانوں کا غلط العام عقیدہ ہے کہ وہ جبر کی وجہ خدا تعالیٰ کے فعل کو کہتاہے یعنی کچھ انسان اچھے بنائے گئے ہیں اور کچھ برے.جن کو اچھا بنایا گیا ہے ان کو اچھی فطرت دے دی گئی ہے اور جن کوبرا بنایا گیا ہے ان کو بری فطرت دے دی گئی ہے.چوتھا فلاسفۂ جدیدہ کا عقیدہ ہے کہ وہ انسان کو آزاد نہیں کہتے گو وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے یا انسان کے اپنے یا اس کے کسی دادا کے فعل کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا.بلکہ ورثہ طبعی یا ماحول کے نتیجہ میں وہ مجبور ہوجاتا ہے.کچھ لوگ جن کے اندر ورثہ ء طبعی کے طور پر بعض طاقتیں آجاتی ہیں یا جو اچھے کام کرنے والوں کے ماحول میں رہتے ہیں وہ اچھے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ لوگ جن کے اندر ورثہ ء طبعی کے طور پر بعض کمزوریاں آجاتی ہیں یا جو برے کام کرنے والوں کے ماحول میں رہتے ہیں وہ برے کام کرنے لگ جاتے ہیں.اس میں ان کا اپنا کوئی اختیا رنہیں ہوتا.ماحول ان کی فطرت کو بدل دیتا ہے.یہ عقیدہ کہ انسان بری فطرت لے کر دنیا میں آیا ہے اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب کا عقیدہ ہے چنانچہ وہ عقائد جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ان میں سے قریباً ہر عقیدہ میں یہ بات پائی جاتی ہے اور عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ گناہ اصل ہے جس کو مٹانا ہمارا فرض ہے.عوام الناس تو اس بات کے اس طرح قائل ہیں کہ وہ کہتے ہیں غلطی کرنابشر کاکام ہے.بُدھوں کے نزدیک ہر انسان بری فطرت لے کر آیا ہے اور باقی عقائد بھی ایسے ہیں کہ اگر ان میں انسان کی کوئی خوبی تسلیم بھی کی جاتی ہے تو برے معنوں میں.مثلاً کہا جاتا ہے کہ انسان حالات سے مجبورہوتا ہے اگر اس کے لئے اچھا ماحول میسر آجائے تو وہ اچھا ہوجاتا ہے اور اگر برا ماحول میسر آجائے تو وہ برا ہوجاتا ہے.اس عقیدہ میں گو انسان کی نیکی کو بھی تسلیم کیا جاتا ہے لیکن ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی نیکی نہیں.اگر کوئی شخص جبراً نیکی کرتا ہے تو اس کی نیکی حقیقی نیکی نہیں کہلاسکتی.حقیقی نیکی وہی ہوتی ہے جس میں جبر اور اکراہ کا کوئی پہلو نہ ہو.بہرحال قریباً سب مذاہب سوائے اسلام کے اس بات کے قائل ہیں کہ انسان بری فطرت لے کر آیا ہے مگر یہ سب عقائد باطل اور ناقابل قبول ہیں.پہلا عقیدہ کہ سب انسان بری فطرت لے کر پید اہوئے ہیں ایک تو عوام الناس میں پایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں بندہ بشر ہے اور اس با ت پر مجبور ہے کہ غلطی کرے مگر جب ہم بچہ کی فطرت پر نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات غلط ہے بُری فطرت آخر بُرے اعمال سے ہی پہچانی جاسکتی ہے لیکن ہم جب بچوں کو دیکھتے ہیںتو ان میں یہ بات نظر آتی ہے کہ وہ جھوٹ خود نہیں بولتے بلکہ دوسروں کو جھوٹ بولتے دیکھ کر اس مرض میں مبتلا ہوجاتے ہیں.اسی طرح کسی بچے میں ذاتی طور پر چوری کا مادہ یا خیانت کا مادہ یا اسی قسم کی اور برائیوں کا مادہ نہیں پایا

Page 269

جاتا.بعض باتیں جو بچہ کرتا ہے اور جن کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ بری ہیں وہ بری باتیں نہیں ہوتیں اس لئے کہ بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا علم سے تعلق ہوتا ہے.مثلاً کسی کا مال نہیںاُٹھانا چاہیے یہ ایک خوبی ہے جو ہر شخص میں ہونی چاہیے اور اگر کسی شخص میں یہ بات نہ پائی جائے تو ہم یقیناً اس کو برا کہیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہم اسی کو برا کہیں گے جو دوسرے کی ملک کا مفہوم سمجھتاہو.اور جانتا ہو کہ مال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک انسان کا اپنا مال ہوتا ہے اور ایک مال دوسرے کا ہوتا ہے.جو چیز کسی دوسرے کی ملکیت میں ہو وہ اٹھانی نہیں چاہیے.جب تک یہ مفہوم کوئی شخص پوری طرح نہ سمجھتا ہو ہم اسے مجرم قرار دے کر اس کے فعل کو برا نہیں کہہ سکتے.اس نکتہء نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ بچہ بے شک بعض دفعہ دوسروں کی چیز اٹھا لیتا ہے مگر ہم اس سے اس کی فطرت کی برائی کا استدلال نہیں کرسکتے.یہ نہیں کہہ سکتے کہ دیکھو اگر بچہ کی فطرت میں نیکی تھی تو اس نے دوسرے کا مال کیوں اٹھایا؟ اس لئے کہ اسے پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ملکیت کا کیا مفہوم ہے یا یہ کہ دوسرے کا کون سا مال ہوتا ہے؟ نہ وہ ملکیت کے معنے جانتا ہے.نہ دوسرے کے مال کی حقیقت کو جانتا ہے.یہ چیزیں ایسی ہیں جو اس کے دائرہ عمل سے باہر ہوتی ہیں اور جو چیزیں بچہ کے دائرہ عمل سے باہر ہوں ان کو برایا بھلا نہیں کہا جاسکتا.انسان کے متعلق پہلے غلط نظریے کا بطلان فلسفیانہ طور پر یہ عقیدہ کہ انسان برائی کے میلان کو لے کر پیدا ہوا ہے بدھوں کا ہے.ان کے نزدیک انسان کی فطرت بری ہے اور جب بر ی ہے تو انسان کے اندر جو خواہش بھی پیدا ہوتی ہے وہ بری ہے.اس لئے ان کا عقیدہ ہے کہ نجات کامل حاصل کرنے کے لئے خواہش کو مارنا چاہیے.جب تک ہم اپنی خواہشات کو مارتے نہیں اس وقت تک کامل نجات حاصل نہیں کرسکتے.مگر یہ بات عقلاً باطل ہے اس لئے کہ خواہشات کس چیز کا نام ہے؟ خواہشات نام ہے کھانے پینے کا، شادی کرنے کا، ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور تعلقات قائم کرنے کا، روزی کمانے کا، علم پڑھنے کا، عبادت وغیرہ کرنے کا.یہی خواہشات ہیں جو انسان کے اندر پائی جاتی ہیں.لیکن جب ہم بدھ مذہب کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ شادی سے صرف بھکشو کو روکتا ہے.حالانکہ نجات تو وہ سب دنیا کو دینا چاہتا ہے.اب اگر نجات خواہش مٹانے کا نام ہے تو جو بدھ مذہب والا ارادہ کرے گا کہ میں نکاح کروں اس کی نجات کس طرح ہوگی؟ آخر یہ تو ہو نہیں سکتا کہ جس طرح ناک انسان کو بغیر کسی ارادہ کے مل گیا ہے، جس طرح کان انسان کو بغیر کسی ارادہ کے مل گئے ہیں، جس طرح زبان انسان کو بغیر ارادہ کے مل گئی ہے اسی طرح بیوی بھی بغیر کسی ارادہ کے مل جائے.نہ ماں باپ کو علم ہو کہ فلاں ہماری بہو بننے والی ہے، نہ

Page 270

خاوند کو علم ہو کہ فلاں میری بیوی بننے والی ہے اور بغیر ارادہ اور خواہش کے ہی ماں باپ کو بہو اور خاوند کو بیوی مل جائے.لازماً انسان کو بیوی کے لئے خواہش کرنی پڑے گی اور جب وہ خواہش کرے گا تو بدھ مذہب کے رو سے وہ نجات سے محروم ہوجائے گا کیونکہ اس کے نزدیک خواہشات کو مارنا ہی انسانی نجات کا ذریعہ ہے.اگر یہ کہا جاتا کہ کوئی مرد اور عورت شادی نہ کرے تب تو یہ بات ایک حد تک تسلیم بھی کی جاسکتی تھی مگر بدھ مذہب شادی سے صرف بھکشو کو روکتا ہے ہر شخص کو نہیں روکتا.حالانکہ وہ دوسروں کے لئے بھی نجات کو جائز قرار دیتا ہے.اگر نجات کا حصول ان کے لئے جائز قرار نہ دیتا تو بھکشو ئوں کے سوا وہ اوروں کو اپنے مذہب میں داخل کیوں کرتا؟ اس کا بھکشوئوں کے سوا اور لوگوں کو بھی اپنے مذہب میں داخل کرنا صاف طور پر بتارہا ہے کہ بدھ مذہب ہر شخص کی نجات کا قائل ہے اور جب بھکشوئوں کے سوا وہ دوسروں کو شادی کی اجازت دیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ بدھ مذہب کے رو سے شادی کا ارادہ انسان کو نجات سے محروم نہیں کرتا.اب اس عقیدہ کے ماتحت کہ خواہش انسان کو نجات سے محروم کردیتی ہے ہمیں دیکھنا چاہیے کہ شادی کے معاملہ میں بدھ مذہب کیا تعلیم دے سکتا ہے کیا یہ کہے گا کہ شادی نہ کرو؟ یہ تو وہ کرتا نہیں.کیونکہ بھکشوئوں کے سوا اور کسی کو وہ شادی سے نہیں روکتا پھر خواہش کو کس طرح مارا جائے گا.انسان خواہش کرتا ہے کہ شادی کرے اس سے بدھ مذہب نے نہیں روکا.اب کیا ہم یہ سمجھیںکہ شادی کے بارہ میں محض شادی کی خواہش کو تو وہ خواہش قرار نہیں دیتا لیکن اور کسی خواہش کی اجازت نہیں دیتا.اگر یہ بات ہو تو سوال پیدا ہوتاہے کہ شادی کے ساتھ محض شادی کی خواہش کا ہی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اور بھی کئی قسم کی خواہشات شادی سے وابستہ ہوتی ہیںان کا بدھ مذہب نے کیا علاج کیا ہے.مثلاًانسان چاہتا ہے کہ نیک عورت سے شادی کرے.کیا بدھ مذہب یہ کہے گا کہ ایسی خواہش مت کرو.کیا اس خواہش کو مارا جائے گا؟اور اسے حکم دیا جائے گا کہ بد اور شریر عورت سے شادی کرو؟انسان خوبصورت عورت چاہتا ہے کیا اسے کہا جائے گا کہ خوبصورت عورت کی خواہش نہ کرو بد صورت عورت سے شادی کرو؟انسان تعلیم یافتہ عورت چاہتا ہے بدھ مذہب کہتا ہے کہ تم اپنی خواہشات کو مٹا دو.ا ب سوال پیدا ہو تاہے کہ کیا بدھ مذہب اسے یہ کہے گا کہ جاہل عورت سے نکاح کرو؟انسان چاہتا ہے کہ بچے جننے والی عورت مجھے حاصل ہو.کیا بدھ مذہب کے ماتحت اسے یہ تعلیم دی جائے گی کہ بچے جننے والی عورت سے شادی نہ کرو بلکہ بانجھ سے کرو؟انسان چاہتا ہے کہ اس کے بچے پڑہیں لکھیں.کیا بدھ مذہب اسے کہے گا کہ چو نکہ خواہش بری چیز ہے اس لئے تم یہ خواہش نہ کرو کہ تمہارے بچے پڑھیں لکھیں بلکہ انہیں جاہل رہنے دو؟ انسان چاہتا ہے کہ اس کے ہاں نیک اولاد ہو کیا اسے کہا جائے گا کہ بد اولاد چاہو؟انسان چاہتا ہے کہ اسے کوئی اچھا کام مل جائے اچھی ملازمت میسر

Page 271

آجائے یا اچھی تجارت شروع کر دے بدھ مذہب اسے کیا کہے گا؟کیا یہ کہے گا کہ اچھی تجارت کی خواہش نہ کرو بلکہ گھاٹے والی تجارت کی خواہش کرو یا اچھی ملازمت تلاش نہ کرو بلکہ بری ملازمت تلاش کرو؟یا اچھی فصل کی خواہش نہ کرو بلکہ تباہ ہونے والی فصل چاہو؟انسان صحت چاہتا ہے.بدھ مذہب کہتا ہے خواہش بری چیز ہے ایسی حالت میں جب انسان کہے گا کہ مجھے صحت کی خواہش ہے تو بدھ مذہب کہے گا صحت کی خواہش کر کے تم گنہگار بن گئے ہو تمہیں تو چاہیے کہ بیماری کی خواہش کرو.انسان اپنے ہمسایہ سے صلح چاہتا ہے اپنے ملک میں امن چاہتا ہے کیا بدھ مذہب کی طرف سے اسے کہا جائے گا کہ اپنے ہمسایہ سے ہمیشہ لڑائی رکھو؟اور ملک میں فساد برپا کرتے رہو؟انسان اچھی حکومت کا تقاضا کرتا ہے.کیا اسے کہا جائے گا کہ بری حکومت چاہو؟انسان چاہتا ہے اسے خدا کی رضا حاصل ہو جب بدھ مذہب خواہش کو براقرار دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کو ہمیشہ یہ خواہش رکھنی چاہیے کہ خدا مجھ سے ناراض رہے.ایک بدھ مذہب والا چاہتا ہے کہ اس کا مذہب پھیل جائے مگر جونہی اس کے دل میںیہ خواہش پیداہوگی وہ نجات سے محروم ہو جائے گا.جب ایک شخص بھکشو بننے کے لئے آتا ہے تو آخراسی لئے کہ وہ چاہتا ہے مجھے نجات مل جائے حالانکہ بھکشو بنتے ہی اس کی نجات ماری جاتی ہے کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی ہے کہ میں اور لوگوں کو بھی اس مذہب میں داخل کروںبلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو بھکشو بنانے کا ارادہ کر کے خود بدھ کی نجات بھی ماری گئی کیونکہ اس کے دل میں یہ خواہش پید ا ہو گئی تھی کہ میں لوگوں کو بھکشو بنائوں پھر اگر بدھ مذہب کے لوگ اپنے ملک کی آزادی چاہتے ہیں تو اس تعلیم کے ماتحت انہیں کیا کہا جائے گا؟کیا یہ کہا جائے گا کہ آزادی کی خواہش نہ کرو.اگر تمہارے ملک پر کوئی قبضہ کرنا چاہتا ہے تو اسے بے شک کرنے دو.ورنہ نجات سے محروم ہو جائو گے.اگر بدھ مذہب والے کہیں کہ یہ تو جائز اور اچھی خواہشات ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ تم بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہو کہ خواہشات اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی انسان کا کام یہ ہے کہ وہ اچھی خواہشات کے پیچھے چلے اور بری خواہشات کو جامۂ عمل پہنانے کی کوشش نہ کرے.پس تمہارا یہ کہنا کہ چونکہ انسان میں خواہشات پائی جاتی ہیں اس لئے وہ پیدائشی طور پر برا ہے بالکل غلط ہوا.تم نے خود تسلیم کر لیا کہ خواہشات اچھی بھی ہوتی ہیں اور بری بھی.بری خواہشات کو مٹانا اور اچھی خواہشات کو قائم کر نا ہمارا فرض ہے اور یہی وہ نقطئہ نگاہ ہے جو اسلام پیش کرتا ہے.پس ہمارا اور تمہارا اتحاد ہو گیا.ایک بدھ مذہب والا ہماری اس تنقید پر یہ کہہ سکتا ہے کہ تم ہمارے مذہب کو غلط طور پر پیش کرتے ہو.جب تم کہتے ہو کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آزادی کی خواہش نہ کی جائے بلکہ غلامی کی خواہش کی جائے.صحت کی خواہش نہ کی

Page 272

جائے بلکہ بیماری کی خواہش کی جائے.خوبصورت بیوی کی خواہش نہ کی جائے بلکہ بد صورت بیوی کی خواہش کی جائے.علم کی خواہش نہ کی جائے بلکہ جہالت کی خواہش کی جائے تو تم بالمقابل کی خواہشات ہماری طرف منسوب کر دیتے ہو.حالانکہ ہمارا نظریہ تو یہ ہے کہ خواہشات ہر حالت میں بری ہیں خواہ وہ اچھی چیزوںکی ہوں یا بری چیزوں کی ہوں ہم خواہش کو مٹانا چاہتے ہیں یہ نہیںکہتے کہ اچھی خواہش نہ کرو بری خواہش کرو بلکہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ نہ اچھی خواہش کی جائے نہ بری کیونکہ اسی میں انسان کی نجات ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اچھا ہم مان لیتے ہیں تمہارا یہی مقصد ہے تم یہی کہتے ہو کہ نہ یہ چاہو نہ وہ چاہو مگرسوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں انسان کام کس طرح کرے گا؟ باپ اس سے شادی کے متعلق پوچھے گا تو وہ کہے گا نہ میں شادی کرنا چاہتا ہوں نہ کنوارہ رہنا چاہتا ہوں.ایک شادی شدہ بدھ اپنے گھر میں جاتا ہے بیوی اس سے کہتی ہے کہ کھانا تیار ہے آئو اور کھالو.وہ جواب دے گا نہ میں کھانا چاہتا ہوں نہ بھوکا رہنا چاہتا ہوں.غرض یہ عقیدہ اگر درست تسلیم کر لیا جائے تو بدھوں کو قدم قدم پر نہایت سخت مشکلات پیش آسکتی ہیں فرض کرو کسی مجلس میں بدھ مذہب کا کوئی پیرو آجائے تو وہ حیران ہوگا کہ میں اس مجلس میں بیٹھوں یا چلا جائوں اگر وہ بیٹھے گا تو یہ بھی خواہش کا نتیجہ ہوگا اور اگر چلا جائے گا تو یہ بھی خواہش کا نتیجہ ہوگا.غرض ایک بدھ ایسے چکر میں پھنس جاتا ہے کہ اس کے لئے اٹھک بیٹھک کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں رہتا.حکومت کے بارہ میںاس سے سوال کیا جائے گا کہ کیسی حکومت چاہتے ہو تو وہ جواب دے گا کہ نہ میں اچھی حکومت چاہتا ہوں نہ بری حکومت چاہتا ہوں.اگر سوال کیا جائے گا کہ میاں منظم حکومت چاہتے ہو یا انارکی؟تو وہ کہے گا کہ نہ میں منظم حکومت چاہتا ہوں نہ انارکی.ووٹ کے متعلق حاضرہوگا اور اس سے پوچھا جائے گاکہ اس ممبر کو ووٹ دینا چاہتے ہویااس کو؟ تو وہ کہے گا کہ نہ میں اس کو ووٹ دینا چاہتاہوںاور نہ اس کو.پولنگ افسر کہے گا تو پھر جائو تم آئے کس لئے تھے وہ کہے گا نہ میں جانا چاہتا ہوںنہ کھڑا رہنا چاہتا ہوں.غرض یہ عقیدہ ایسا غلط اور بے بنیاد ہے کہ اس کی جس قدر بھی تشریح کی جائے سوائے ہنسی اور مذاق کے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.اگر کہا جائے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور یہی ہم کہتے ہیںکہ انسان میں نیک خواہشات بھی پائی جاتی ہیں اور بری بھی.جب کوئی شخص اپنے فطرتی تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے ماتحت استعمال کرتا ہے تو وہ نیک کہلاتا ہے اور جب فطری تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے خلاف استعمال کرتا ہے تو برا کہلاتا ہے ایسی صورت میں صحیح طریق یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ابھارا جائے اور طبعی تقاضوں کے غلط استعمال سے انسان کو بچایا جائے نہ یہ کہ انسانی فطرت کو ہی گندا اور ناپاک قرار دے دیا

Page 273

جائے.بہرحال اگر بدھوں کی طرف سے کہا جائے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور اس کی خواہش اسے کرنی چاہیے اور جب خواہش کرنی ثابت ہوئی تو پھر ہم سوال کریں گے کہ وہ کون سی بات فطرت میں ہے جسے برا کہا جا سکتا ہے.فطرت میں تو جس قدر تقاضے پائے جاتے ہیں سب کے سب اچھے ہیں صرف ان کا غلط استعمال انسان کو برا بنا دیتا ہے مثلاً فطرت یہ کہتی ہے کہ کھانا کھائو وہ یہ نہیں کہتی کہ زید کا کھانا اٹھا کر کھا جائو اگر تم زید کا کھانا اٹھا کر کھا جاتے ہو تو یہ تمہارا اپنا قصور ہے فطرت نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم زید کا کھانا کھائو.اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ کھانا کھائو.دوسرے کی روٹی اٹھا کر کھا جانے کا خیال تمہارے دل میں اس وقت آتا ہے جب تم کہتے ہو کہ روٹی میرے پاس موجود نہیںاور بھوک لگی ہوئی ہے اس وقت تم فطرت کے اس تقاضا کا غلط استعمال کرکے کسی اور شخص کا کھا نا چرا کر کھا جاتے ہو.ورنہ فطرت نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ کھانا کھائو.یہ نہیں کہا تھا کہ زید یا بکر کا کھانا کھا جائو.یا مثلاً جب شادی کی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو فطرت اسے اتنا ہی کہتی ہے کہ شادی کر لو.یہ نہیں کہتی کہ کسی دوسرے کی بیوی کو اڑا لو.یا مثلاًفطرت یہ تو کہتی ہے کہ مال خرچ کرو مگر یہ نہیں کہتی کہ بے موقعہ اور بے محل اپنا مال خرچ کرتے چلے جائو.یہ بگاڑجو بعد میں پیدا ہوتے ہیں انسانی ماحول اور اس کے مختلف حالات کا نتیجہ ہو تا ہے.ورنہ فطرت ان امور کی طرف انسان کی رہنمائی نہیں کرتی.اسی طرح مثلاً شجاعت کا مادہ ہے جو فطرت میں پایا جاتا ہے.بسا اوقات انسان اپنی جان یا اپنے مال کی قربانی کرکے دوسروں کو بڑے بڑے نقصانات سے بچا لیتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے.اب ظلم کوئی الگ خاصہ نہیں بلکہ شجاعت کے ایک فطری مادے کا غلط استعمال ہے.خدا نے یہ مادہ انسان میں اس لئے رکھا تھا کہ وہ دوسروں کے لئے قربانی کرے مگر بعض دفعہ یہ اس تقاضے کا غلط استعمال کر کے دوسروں کے حقوق کو غصب کر لیتا ہے.یا مثلاً ترقی کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے.مگر جب اس جذبہ کوبرے طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے یعنی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ صرف میں ہی آگے بڑھوں اور کوئی نہ بڑھے.بہرحال جب فطرت میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی گئی جسے برا کہا جا سکتا ہو.صرف فطری جذبات اور تقاضوں کا غلط استعمال برا ہوتاہے تو سوال صرف اتنا رہ جائے گا کہ کیا خدا تعالیٰ نے شجاعت، سخاوت اور محبت وغیرہ اچھے کاموں کے لئے پیدا کی ہے یا برے کاموں کے لئے.اگر کہو کہ برے کاموں کے لئے تو برا کام ہی نیکی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اس میں ہے.ورنہ خدا تعالیٰ پر اعتراض آئے گا کہ اس نے ان قوتوں کو پیدا تو اس لئے کیا تھا کہ برے کام کئے جائیں مگر جب برے کام کئے جاتے ہیں تو وہ ناراض ہوتا ہے.اور اگر کہو کہ اچھے

Page 274

غرض یہ عقیدہ ایسا غلط اور بے بنیاد ہے کہ اس کی جس قدر بھی تشریح کی جائے سوائے ہنسی اور مذاق کے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.اگر کہا جائے کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور یہی ہم کہتے ہیںکہ انسان میں نیک خواہشات بھی پائی جاتی ہیں اور بری بھی.جب کوئی شخص اپنے فطرتی تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے ماتحت استعمال کرتا ہے تو وہ نیک کہلاتا ہے اور جب فطری تقاضوں کو عقل اور مصلحت کے خلاف استعمال کرتا ہے تو برا کہلاتا ہے ایسی صورت میں صحیح طریق یہ ہوتا ہے کہ فطرت کو ابھارا جائے اور طبعی تقاضوں کے غلط استعمال سے انسان کو بچایا جائے نہ یہ کہ انسانی فطرت کو ہی گندا اور ناپاک قرار دے دیا جائے.بہرحال اگر بدھوں کی طرف سے کہا جائے کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ انسان نیک خواہش کرے تو معلوم ہوا کہ نیکی کا مادہ اس میں موجود ہے اور اس کی خواہش اسے کرنی چاہیے اور جب خواہش کرنی ثابت ہوئی تو پھر ہم سوال کریں گے کہ وہ کون سی بات فطرت میں ہے جسے برا کہا جا سکتا ہے.فطرت میں تو جس قدر تقاضے پائے جاتے ہیں سب کے سب اچھے ہیں صرف ان کا غلط استعمال انسان کو برا بنا دیتا ہے مثلاً فطرت یہ کہتی ہے کہ کھانا کھائو وہ یہ نہیں کہتی کہ زید کا کھانا اٹھا کر کھا جائو اگر تم زید کا کھانا اٹھا کر کھا جاتے ہو تو یہ تمہارا اپنا قصور ہے فطرت نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم زید کا کھانا کھائو.اس نے صرف اتنا کہا تھا کہ کھانا کھائو.دوسرے کی روٹی اٹھا کر کھا جانے کا خیال تمہارے دل میں اس وقت آتا ہے جب تم کہتے ہو کہ روٹی میرے پاس موجود نہیںاور بھوک لگی ہوئی ہے اس وقت تم فطرت کے اس تقاضا کا غلط استعمال کرکے کسی اور شخص کا کھا نا چرا کر کھا جاتے ہو.ورنہ فطرت نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ کھانا کھائو.یہ نہیں کہا تھا کہ زید یا بکر کا کھانا کھا جائو.یا مثلاً جب شادی کی خواہش انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو فطرت اسے اتنا ہی کہتی ہے کہ شادی کر لو.یہ نہیں کہتی کہ کسی دوسرے کی بیوی کو اڑا لو.یا مثلاًفطرت یہ تو کہتی ہے کہ مال خرچ کرو مگر یہ نہیں کہتی کہ بے موقعہ اور بے محل اپنا مال خرچ کرتے چلے جائو.یہ بگاڑجو بعد میں پیدا ہوتے ہیں انسانی ماحول اور اس کے مختلف حالات کا نتیجہ ہو تا ہے.ورنہ فطرت ان امور کی طرف انسان کی رہنمائی نہیں کرتی.اسی طرح مثلاً شجاعت کا مادہ ہے جو فطرت میں پایا جاتا ہے.بسا اوقات انسان اپنی جان یا اپنے مال کی قربانی کرکے دوسروں کو بڑے بڑے نقصانات سے بچا لیتا ہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ظلم پر آمادہ ہو جاتا ہے.اب ظلم کوئی الگ خاصہ نہیں بلکہ شجاعت کے ایک فطری مادے کا غلط استعمال ہے.خدا نے یہ مادہ انسان میں اس لئے رکھا تھا کہ وہ دوسروں کے لئے قربانی کرے مگر بعض دفعہ یہ اس تقاضے کا غلط استعمال کر کے دوسروں کے حقوق کو غصب کر لیتا ہے.یا مثلاً ترقی کا جذبہ ہر انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے.مگر جب اس جذبہ کوبرے طور پر استعمال کیا جائے تو اس سے حسد پیدا ہوتا ہے یعنی انسان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوجاتا ہے کہ صرف میں ہی آگے بڑھوں اور کوئی نہ بڑھے.بہرحال جب فطرت میں کوئی ایسی بات نہیں رکھی گئی جسے برا کہا جا سکتا ہو.صرف فطری جذبات اور تقاضوں کا غلط استعمال برا ہوتاہے تو سوال صرف اتنا رہ جائے گا کہ کیا خدا تعالیٰ نے شجاعت، سخاوت اور محبت وغیرہ اچھے کاموں کے لئے پیدا کی ہے یا برے کاموں کے لئے.اگر کہو کہ برے کاموں کے لئے تو برا کام ہی نیکی ہوا کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی اس میں ہے.ورنہ خدا تعالیٰ پر اعتراض آئے گا کہ اس نے ان قوتوں کو پیدا تو اس لئے کیا تھا کہ برے کام کئے جائیں مگر جب برے کام کئے جاتے ہیں تو وہ ناراض ہوتا ہے.اور اگر کہو کہ اچھے استعمال کے لئے خدا تعالیٰ نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے تو فطرت نیک ہوئی بد کس طرح ہوئی؟ اصل بات یہ ہے کہ ہمیں اس سے ہر گز انکار نہیں کہ وہ حالات جن میں سے انسان گزرتا ہے اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی.کبھی ان حالات کی وجہ سے وہ نیکی کی طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بدی کی طرف جھک جاتا ہے لیکن بہرحال فطرت جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ بری نہیں ہیں.اسی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وام مارگی پیدا ہوئے ہیں انہوں نے اس نظریہ کا ایک اور پہلو لیا ہے.وام مارگ کے معنے ہیں خواہش کا مذہب اور بدھ مذہب کے معنے ہیں خواہش مارنے کا مذہب.بدھ مذہب تو اس بات پر زور دیتا ہے کہ چونکہ خواہشات بری چیز ہیں اس لئے ان کو مٹانا انسان کا اوّلین فرض ہے.جب تک وہ اپنی خواہشات کو کلی طور پر فنا نہیں کر دیتا اس وقت تک نجات اسے حاصل نہیں ہوسکتی.لیکن وام مارگی یہ کہتے ہیں کہ انسانی پیدائش کی غرض اس وقت پوری ہوتی ہے جب وہ اپنی خواہشات کا جائزہ لیتے ہوئے ہر خواہش کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرے.ان کا مذہب یہ ہے کہ فطرت چونکہ خدا کی پیدا کردہ ہے اس لئے انسان کے دل میں جو خواہش بھی پیدا ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہوتی ہے مگر ہم یہ کہتے ہیں کہ بے شک فطرت کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے مگر فطرت کا ظہور تو اپنے ماحول سے متاثر ہوتا ہے.بچہ کی شکل خدا تعالیٰ نے کامل بنائی ہے لیکن کیا وہ ماں کے پیٹ میں رہائش کے وقت کئی بیماریوں اور چوٹوں سے بری شکل اختیار نہیں کر سکتا؟ اسی طرح انسانی فطرت کو حالات بد بھی بنا دیتے ہیں.اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جو خواہش بھی انسان کے دل میں پیدا ہو وہ ضرور اچھی ہوتی ہے اگر حالات نے اسے برا بنا دیا ہو گا تو لازماًاس کے دل میں بری خواہشات پیدا ہوں گی جن پر عمل اس کے جسم اور روح دونوں کے لئے مہلک ہو گا.بہرحال وام مارگی یہ کہتے ہیں کہ اگر انسان کی فطرت نیک ہے تو اس کی ہر خواہش نیک ہے اور اگر فطرت بری ہے تو پھر جن امور کو تم برا کہتے ہو وہی نیکی کا معیار ہیں.چنانچہ اسی بناء پر یہ لوگ پیشاب، پاخانہ، مردہ کا گوشت اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کو بھی جائز سمجھتے اور گندگی اور غلاظت کو صفائی وغیرہ پر ترجیح دیتے ہیں.وام مارگیوں نے بھی وہ چیز جو ماحول سے پیدا ہوتی ہے اس کا نام فطرت رکھ دیا ہے حالانکہ اس کا نام فطرت نہیں.ہم صرف ان تقاضائے بشری کے متعلق جو غیر معین ہوں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں نیکی کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے یہ نہیں کہتے کہ مخصوص حالات کے ماتحت جو خواہشات انسانی قلب میں پیدا ہوتی ہیں وہ بھی نیک ہوتی ہیں.جو تقاضے مخصوص حالات کے ماتحت انسانی قلب میں پیدا ہوں ہم اس کا نام فطرت نہیں رکھتے اور نہ قرآن نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ ضرور نیک ہوں گے مگر افسوس کہ وہ اس ٹھوکر میں مبتلا ہو گئے کہ اگر فطرت نیک ہے تو پھر جن چیزوں کو تم برا کہتے ہو وہ بری نہیں بلکہ اچھی ہیں اور اگر فطرت بری ہے تو پھر جن امور کو تم برا کہتے ہو وہی نیکی کا معیار ہیں مگر خود انسانی فطرت ان امور کا انکار کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور ظاہر ہونے سے ڈرتے ہیں جس سے ہمارے قیاس کی تصدیق ہوتی ہے.

Page 275

کو تم برا کہتے ہو وہ بری نہیں بلکہ اچھی ہیں اور اگر فطرت بری ہے تو پھر جن امور کو تم برا کہتے ہو وہی نیکی کا معیار ہیں مگر خود انسانی فطرت ان امور کا انکار کرتی ہے چنانچہ یہ لوگ بھی اپنے آپ کو چھپاتے ہیں اور ظاہر ہونے سے ڈرتے ہیں جس سے ہمارے قیاس کی تصدیق ہوتی ہے.انسان کے متعلق دوسرے غلط نظریے کا بطلان دوسرا عقیدہ یہ تھا کہ انسان بھلائی کو لے کر پیدا ہوا مگر آدم اوّل نے گناہ کیا اس لئے سب انسان گناہ پر مجبور ہیں.اگر یہ لوگ دہریہ ہوتے تو ہم ان سے اور رنگ میں گفتگو کرتے لیکن یہ لوگ ایک مذہب کو ماننے والے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ خود ان کا اپنا مذہب اس عقیدہ کو رد کرتا ہے.پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عقیدہ درست ہے کہ آدم اوّل نے گناہ کیاجس کے نتیجہ میں اب ورثہ کا گناہ انسان کے اندر آ گیا ہے اور وہ اس سے بلا کسی اور امداد کے آزاد نہیں ہو سکتا.تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کی تمام مخلوق نجات سے محروم ہونی چاہیے.کیونکہ کفارہ تو مسیحؑ نے پیش کیا ہے.مسیحؑ کے کفارہ پر ایمان لانے والے تو نجات پا سکتے ہیں مگر پہلے لوگوں کی نجات اس عقیدہ کی رو سے قطعی طور پر نا ممکن ہے.اب سوال یہ ہے کہ کیا فطرت کی اس اصلاح یعنی کفارہ مسیحؑ سے پہلے سب لوگ گنہگار اور غیر ناجی تھے؟ اس کا جواب خود بائیبل دیتی ہے کہ وہ آدم کو لعنتی قرار نہیں دیتی بلکہ شیطان سے دھوکا کھانے کے بعد بھی خدا اس پر راضی رہتا ہے.چنانچہ بائیبل میں لکھا ہے کہ جب آدم نے گناہ کیا اور اس کے نتیجہ میں وہ ننگا ہو گیا تو ’’خداوند خدا نے آدم اور اس کی جوروکے واسطے چمڑے کے کرتے بناکے ان کو پہنائے ‘‘(پیدائش باب ۳ آیت۲۱) اگر آدم سے خدا ناراض ہو چکا تھا اور اسے اپنی روحانی اولاد سے وہ خارج کر چکا تھا.تو چاہیے تھا کہ اس واقعہ کے بعد آدم پر ناراضگی کا اظہار ہوتا.نہ یہ کہ اسے اور اس کی بیوی کو چمڑے کے کپڑے بنوا کر دیتا اور ان کے ننگ کو ڈھانکتا.اللہ تعالیٰ کا آدم اور اس کی بیوی کو اس واقعہ کے بعد چمڑے کے کپڑے بنوا کر دینا بتا رہا ہے کہ خدا تعالیٰ اس واقعہ کے بعد بھی آدم سے راضی رہا.پھر لکھا ہے.فرشتوں سے خدا نے کہا ’’دیکھو کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۲۲) یعنی نیکی اور بدی کی پہچان میں آدم خدا اور اس کے فرشتوں جیسا ہو گیا ہے جو شخص نیکی اور بدی کی پہچان میں خدا اور اس کے فرشتوں جیسا ہو جائے وہ لعنتی کس طرح ہو سکتا ہے یہ تو ایک اعلیٰ درجے کا مقام ہے جو آدم کو حاصل ہوا.آدمؑ کے بعدحنوک آئے جو حضرت نوحؑکے پردادا تھے ان کے بارہ میں لکھا ہے ’’حنوک کی ساری عمر تین سو پینسٹھ برس کی ہوئی اور حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا اور غائب ہو گیا اس لئے کہ خدا نے اسے لے لیا‘‘ (پیدائش باب ۵ آیت۲۴) اس آیت کا خلاصہ بائیبل میں اس طرح درج کیا گیا ہے.’’حنوک کی دینداری اور اس

Page 276

کے جیتے جی خدا کے حضور چلے جانے کی خبر‘‘ یہ حوالہ ظاہر کر رہا ہے کہ حنوک اللہ تعالیٰ کا اس قدر پیارا تھا کہ خدا نے اسے اور لوگوں کی طرح موت جسمانی نہیں دی بلکہ جیتے جی اسے آسمان پر اٹھا لے گیا.حالانکہ عیسائی عقیدہ کی رو سے آدم کو گناہ کی جو سزادی گئی تھی اس کی ایک شق یہ بھی تھی کہ وہ دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا.بلکہ ایک دن موت کا شکار ہو جائے گا.چنانچہ پیدائش باب ۳ آیت ۱۹ میں اس سزا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے.’’تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا‘‘ گویا عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ آدم کے گناہ کے نتیجہ میں انسان کو موت کی سزا دی گئی ہے اسی طرح اسے زمین پر رہنے پر مجبور کیا گیا ہے.اگر آدم گناہ نہ کرتا تو انسان ہمیشہ کے لئے زندہ رہتا اور زمین پر رہنے پر مجبور نہ ہوتا.مگر اوپر کے حوالہ میں بتایا گیا ہے کہ حنوک کو خدا نے موت نہیں دی بلکہ اسے زندہ ہونے کی حالت میں آسمان پر اٹھا لیا.اگر اس حوالہ میں صرف حنوک کی دینداری کا ذکر ہوتا.یہ بات بیان نہ کی جاتی کہ خدا نے اسے موت سے بچایااور جیتے جی آسمان پر اٹھا لیا تب بھی یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ مسیح کی آمد یا اس کے کفارہ پر ایمان لانے کے بغیر بھی لوگ نیک ہو سکتے ہیں.مگر اس حوالہ سے یہ زائد بات بھی نکلتی ہے کہ حنوک موت سے بچ گیا اور آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا.حالانکہ موت اور زمین پر رہنا ایک سزا تھا آدم کے گناہ کی.پس جسے موت نہیں آئی اور آسمان پر چلا گیا اس کے متعلق بہرحال یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس نے ورثہ کے گناہ سے کوئی حصہ نہیں پایا.اگر پایا ہوتا تو عیسائی عقیدہ کی رو سے وہ ضرور مرتا.مگر چونکہ وہ زندہ رہااور جیتے جی آسمان پر اٹھا لیا گیااس لئے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ اس نے ورثہ کے گناہ سے حصہ نہیں لیا.پھر ساتھ ہی لکھا ہے.’’حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا‘‘ (پیدائش باب ۵ آیت ۲۴)خدا کے ساتھ ساتھ چلنے کے یہ معنی ہیں کہ اس کی زندگی صرف خدا کے کام میں مصروف تھی کسی اور طرف اس کی توجہ نہیں تھی.اور جس شخص کی زندگی صرف خدا کے کام میں صرف ہو رہی ہواور دن اور رات اسے یہی فکر ہو کہ میں ان فرائض کو بجا لائوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر عائد کئے گئے ہیں وہ اس رنگ میں اپنی معاش کا سامان نہیں کر سکتا جس رنگ میں دوسرے لوگ جدوجہد کرتے اور اپنی روزی کا فکر کرتے ہیں.بالفاظ دیگرخدا کے ساتھ ساتھ چلنے کا ایک مفہوم یہ ہے کہ اسے رزق بلا محنت ملتا تھا.گویا وہ دوسری سزا بھی اسے نہیں ملی جو آدم کے گناہ کی وجہ سے مقرر ہوئی تھی اور جس کا ذکر بائیبل میں ان الفاظ میں پایا جاتا ہے کہ ’’تو اپنے مونہہ کے پسینہ کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں پھر نہ جاوے کہ تو اس سے نکالا گیا ہے کہ تو خاک ہے اور پھر خاک میں جائے گا‘‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ آدم کو دو سزائیں دی گئی تھیں ایک یہ کہ وہ ہمیشہ اپنے ماتھے کے پسینہ سے روٹی کھائے گا اور دوسرے یہ کہ وہ اس دنیا میں ہمیشہ زندہ نہیں رہے گا بلکہ ایک دن آئے گا جب

Page 277

اسے موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے گا.مگر حنوک کو نہ موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑا اور نہ ماتھے کے پسینہ سے اپنے لئے روزی کا سامان مہیا کرنا پڑاوہ جیتے جی بغیر مرنے کے آسمان میں غائب ہو گیا اور پھر وہ ہمیشہ خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا.گویا اسے رزق بلا محنت ملتا رہا.اس سے ظاہر ہے کہ عیسائی مذہب کے رو سے حنوک ورثہ کے گناہ اور اس کے اثرات سے قطعی طور پر محفوظ تھا.اگر ورثہ کا گناہ حنوک میں بھی آتا تو ضروری تھا کہ وہ مر کر زمین میں دفن ہوتا اور ضروری تھا کہ وہ ماتھے کے پسینہ سے اپنے لئے روٹی مہیا کرتا.مگر اس کا نہ مرنا اور نہ ماتھے کے پسینہ سے روٹی کھانا بتا رہا ہے کہ حنوک عیسائی مذہب کے رو سے بالکل پاک تھا.اس کے بعد نوحؑآئے ان کی نسبت لکھا ہے کہ لمک نے اپنے بیٹے کا نام نوحؑرکھااور کہا کہ ’’یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اور مشقت سے جو زمین کے سبب سے ہیں جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں آرام دے گا.‘‘ ( پیدائش باب ۵ آیت ۲۹) یعنی آدم کے گناہ کی وجہ سے جو زمین پر لعنت ڈالی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ انسان ہمیشہ محنت اور مشقت سے اپنے لئے روزی کمائے گاوہ لعنت نوحؑکی وجہ سے دور ہو جائے گی.یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ آدمؑ کے گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو سزائیں ملی تھیں.ایک یہ کہ انسان محنت و مشقت سے روزی کمائے گااور دوسری یہ کہ وہ ایک دن مر کر زمین میں دفن ہو گا.لمک نے اپنے بیٹے کا نام نوحؑرکھااور اس لئے رکھا کہ ’’یہ ہمارے ہاتھوں کی محنت اورمشقت سے جو زمین کے سبب سے ہیں جس پر خدا نے لعنت کی ہے ہمیں آرام دے گا‘‘.گویا انہوں نے امید ظاہر کی کہ نوحؑکی وجہ سے وہ محنت اور مشقت سے آزاد ہو جائیں گے اور انہیں آرام میسر آجائے گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ نوحؑنے اس لعنت کو آکردور کر دیا.اگر کہا جائے کہ انہوں نے یونہی بلاوجہ ایک امید ظاہر کر دی تھی تو سوال یہ ہے کہ بائیبل نے اس کو نقل کیوں کیا ہے؟بائیبل کا اسے نقل کرنا بتا رہا ہے کہ انہوں نے خدا کے حکم کے ماتحت یہ امیدظاہر کی تھی اور یہ توقع وہ تھی جسے نوحؑنے اپنی زندگی میں پورا کرنا تھا اور اس طرح انہوں نے اس لعنت کو دور کر دینا تھا جو آدم کے گناہ کی وجہ سے زمین پر مسلط تھی.پھر نوحؑ کے بارہ میں لکھا ہے.’’نوح اپنے قرنوں میں صادق اور کامل تھا اور نوحؑخدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا ‘‘ (پیدائش باب ۶آیت ۹) جو شخص صادق اور کامل تھا وہ گنہگار کس طرح ہو گیا؟پھر نوح وہ شخص تھا جو خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھاجس کے معنے یہ ہیں کہ وہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کام کرتا تھا.اب بتائو جو شخص صادق بھی ہو اور کامل بھی اور پھر خدا کی مرضی کے خلاف کبھی کوئی فعل بھی نہ کرتا ہواسے گنہگار کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے؟ پھر نوحؑ سے خدا تعالیٰ نے کہا.’’ میں تجھ سے اپنا عہد قائم کروں گا‘‘ (پیدائش باب ۶ آیت ۱۸) جس شخص کو خدا اپنے عہد کے لئے منتخب فرمالے

Page 278

اسے غیر نجات یافتہ کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ پھر لکھا ہے نوحؑ نے خدا کے لئے ایک مذبح بنایااور اس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.جب نوحؑ نے عبادت کی تو ’’خداوند نے خوشنودی کی بُو سونگھی اور خداوند نے اپنے دل میں کہاکہ انسان کے لئے میں زمین کو پھر کبھی لعنت نہ کروں گا‘‘ (پیدائش باب ۸ آیت۲۱ ) گویا نوحؑ کی عبادت اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند آئی کہ اس نے کہا.میں زمین پر پھر کبھی لعنت نہیں کروں گا.اب سوال یہ ہے کہ جب پہلی لعنت نوحؑنے دور کر دی تھی توآئندہ کون سی نئی لعنت پیدا ہوئی تھی جس سے فطرت انسانی مسخ ہو گئی اور جو مسیح نے آکر دور کی؟ پھر ان کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے ان کے متعلق بائیبل میں لکھا ہے کہ خدا نے ان کو فرمایا.’’میں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گااور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا.اور تو ایک برکت ہو گااور ان کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گااور اس کو جو تجھ پر لعنت کرتا ہے لعنتی کروں گااور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاویں گے.‘‘ ( پیدائش باب۱۲ آیت ۲، ۳ ) اب دیکھو اس میں کتنی باتیں بیان کی گئی ہیں.پہلی بات یہ بیان کی گئی ہے کہ میں تجھ کو مبارک کروں گا.یہ صاف بات ہے کہ خدا کا مبارک کیا ہوا انسان لعنتی نہیں ہو سکتا.دوسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ تو ایک برکت ہو گا یعنی تو مجسم برکت ہو گا.اور تیسری بات یہ بیان کی گئی ہے کہ نہ صرف تو مبارک ہو گا اور تیری وجہ سے دنیا برکت پائے گی بلکہ جو تجھے برکت دیں گے میں ان کو بھی برکت دوں گا.یہی وہ فقرہ ہے جس کے جواب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ دعا سکھائی کہ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَـمِیْدٌ مَّـجِیْدٌ.(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب الصلاۃ علی النبی) یعنی اے خدا ! تو نے جو ابراہیم ؑ سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے برکت دوں گااور تجھے برکت دینے والوں کو بھی برکت دوں گاہم تیرے اس وعدہ کے مطابق ابراہیمؑکو برکت دے رہے ہیںتو ہمارے گھروں کو بھی اپنی برکتوں سے بھر دے اور اپنے فضلوں سے ہمیں حصہ دے.گویا ابراہیمؑکوبرکت دینے والے لعنتی نہیں ہوسکتے اور ابراہیمؑ پر لعنت کرنے والے کبھی اللہ تعالیٰ کی برکت سے حصہ نہیں لے سکتے.عیسائی کہتے ہیں آدمؑ کے گناہ کی وجہ سے خدا نے دنیا پر لعنت کی اور یہاں سے یہ پتہ لگتا ہے کہ ابراہیمؑ اور اس سے تعلق رکھنے والے کبھی لعنتی نہیں ہوسکتے ہاں ابراہیمؑ کو لعنت کرنے والے ضرور لعنتی ہیں.پس وہ عقیدہ جو آج کل عیسائیوںمیںپایا جاتا ہے اس حوالہ کی موجودگی میںبالکل غلط ثابت ہوتا ہے.پھر ابراہیمؑ کے زما نہ میں ایک اور شخص تھے جن کا نام ملک صدق سالیم تھا.ان کے متعلق خود انجیل میں لکھا ہے کہ

Page 279

’’وہ پہلے اپنے نام کے معنوں کے موافق راستی کا بادشاہ ہے اور پھر شاہ سالیم یعنی سلامتی کا بادشاہ (عبرانیوں باب۷آیت۲) مطلب یہ ہے کہ جیسا اس کا نام تھا ویسے ہی اوصا ف اس کے اندر پائے جاتے تھے.اس کا نام بھی ملک صدق تھا اورواقعہ میں بھی راستی کا بادشاہ تھا اور پھر جس طرح وہ ظاہر میںشاہ سا لیم تھا اسی طرح معنوی لحاظ سے بھی وہ سلامتی کا بادشاہ تھا.آگے لکھا ہے ’’یہ بے باپ بے ماںبے نسب نامہ جس کے نہ دنوںکا شروع نہ زندگی کا آخر مگر خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہر کے ہمیشہ کاہن رہتا ہے‘‘ (عبرانیوںباب۷آیت۳) گویا ملک صدق سالیم جو راستی اور سلامتی کا بادشاہ تھا وہ بے باپ بھی تھا اور بے ماں بھی.نہ اس کی زندگی کا آغاز تھا اور نہ اس کا کوئی انتہاء اور وہ خدا کے بیٹے کے مشابہ تھا.ایسا شخص تو یقیناً سب سزائوں سے بچا ہوا تھا.یہاںکوئی عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ملک صدق سالیم نے اس لیے نجات پائی تھی کہ وہ بے باپ اور بے ماںتھا ورثہ کا گناہ اسے حاصل نہ ہوا تھا مگر سوال یہ ہے کہ اگر بے باپ اور بےماںمصلحین پہلے سے دنیا کو مل چکے تھے تو پھر مسیح کی کیا ضرورت تھی.تمہارا مسیح کی معصومیت اور اس کی قربانی پر زور دینا اسی لئے ہے کہ تم سمجھتے ہو دنیا کے لیے کوئی ایسا مصلح چاہیے تھا جو بے گناہ ہو اور چونکہ آدم سے لے کر مسیح تک کوئی بے گناہ مصلح نہیں آیا بلکہ ہر شخص جو پیدا ہوا وہ ورثہ کا گناہ لے کر آیا اس لیے ضروری تھا کہ خدا کا بیٹا جو بے گناہ تھا آتا اور لوگوں کے گناہوں کا کفّارہ ہو جاتا مگر عبرانیوں کا وہ فقرہ جسے اوپر درج کیا گیا ہے بتا رہا ہے کہ مسیح سے پہلے ملک صدق سالیم آیا اوروہ ایسا شخص تھا جو قطعی طور پر بے گناہ تھا نہ اس کی ماں تھی نہ باپ اور اس طرح ورثہ کے گناہ کا اس میںکوئی حصہ نہیں تھا.اسی طرح اسحاقؑ، یعقوبؑ،یوسفؑ،موسٰی، دائودؑ سب کی نیکی اور پاک بازی کا اقرار بائیبل میں موجود ہے.اب سوال یہ ہے کہ مسیحؑسے پہلے اگر اتنے لوگ کفارئہ مسیحؑپر ایمان لائے بغیر نجات پا گئے ہیں تو آئندہ کیوں نجات نہیں پا سکتے جس ذریعہ سے پہلوں نے نجات پائی ہے اسی ذریعہ سے بعد کے لوگ بھی نجات پاسکتے ہیں مسیحؑکی قربانی یا اس کے کفارہ کی کیا ضرورت ہے؟ بہر حال پہلے لوگوں کا نجات پاجانا ثبوت ہے اس بات کا فطرت انسانی کو کوئی گناہ ورثہ میں نہیں پہنچا اگر پہنچا ہو تا تو یہ لوگ خدا تعالیٰ کے محبوب اور اس کے مقرب نہ بن سکتے ! دوسرا سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ کیا مسیحؑکی آمد نے کوئی ایسا تغیر پیدا کیا ہے جس سے ہم یہ سمجھ سکیں کہ انسان فطرت کے گناہ سے بچ گیا ہے؟ ظاہر ہے کہ مسیح کے بعد گناہ نے ترقی کی ہے شرک نے ترقی کی،ظلم نے ترقی کی،جھوٹ فریب اور دغا بازی نے ترقی کی اور تو اور عیسا ئی لوگ ایک دوسرے کے ظلموں کے شاکی ہو رہے ہیں پس سوال یہ ہے کہ اگر مسیحؑ کے کفارہ سے واقعہ میں ورثہ کا گناہ معاف ہو گیا تھا تو مسیحؑکے آنے کے بعد گناہ میں زیادتی

Page 280

کیوں ہوئی؟عیسائی اس سوال کا ایک فلسفیانہ جواب دیتے ہیں جو ہماری جماعت کے دوستوں کو مد نظر رکھنا چاہیے وہ کہتے ہیں ہما را یہ دعویٰ نہیں کہ محض مسیحؑپر ایمان لانے کی وجہ سے گناہ جاتا رہتا ہے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر جو نیک بننے کی خواہش پائی جاتی ہے اگر کفارئہ مسیح پر ایمان لانے کے بعد یہ خواہش انسان کے دل میں پیدا ہو تو وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے ورنہ نہیں.وہ کہتے ہیں اگر تم ہمیں کروڑوں عیسائی بھی گنہگار دکھا دو تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں تم بھی تو یہ نہیں کہتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد ہر شخص کے اندر نیکی پیدا ہو جاتی ہے.بلکہ تم یہ کہتے ہو کہ انسان کے اندر اس ایمان کی وجہ سے ایک مقدرت پیدا کر دی جاتی ہے جس سے کا م لے کر وہ اگر نیک بننا چاہے تو بن سکتا ہے.اسی طرح ہم کہتے ہیں مسیحؑکے کفارہ سے پہلے کوئی شخص نجات نہیں پا سکتا تھا کیونکہ اس میں ورثہ کے گناہ کا اثر تھا جو اسے ترقی سے روک رہا تھا.لیکن مسیح کے کفارہ پر ایمان لانے کے بعد اس کی نجات کا امکان پیدا ہو گیا ہے.ہم امکانِ نجات کے مدعی ہیں اس بات کے مدعی نہیں کہ ہر شخص جو کفارہ مسیحؑپر ایمان لائے گا وہ خواہ اپنی نیک قوتوں کو استعمال نہ کرے تب بھی نجات پا جائے گا.جس طرح آدمؑ نے گناہ کیا تھا اسی طرح اب بھی لوگ گناہ کر سکتے ہیں.ہاں اگر وہ اس سے بچنا چاہیں تو بچ بھی سکتے ہیں.کیونکہ پچھلا بوجھ اتر گیا ہے اور آئندہ کے لیے ایمان نے ان کے اندر نیکی کی مقدرت پیدا کر دی ہے.یہ جواب ہے جو عیسائی لوگ دیا کرتے ہیں.اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہیے.کہ بائیبل اس بات پر گواہ ہے کہ مسیحؑکی آمد سے پہلے بھی کئی لوگ گناہ سے بچا کرتے تھے.جب پہلے لوگ گناہ سے بچا کرتے تھے تو اب بغیر کفارئہ مسیح پر ایما ن لانے کے وہ گناہوں سے کیوں بچ نہیں سکتے اور جب کہ پہلے لوگ بغیر اس کفارہ کے نجات پا گئے اور خدا کے ساتھ ساتھ چلنے والے بنے بلکہ بقول بائیبل بعض موت سے بھی بچے رہے جیسا کہ ایلیا ہ کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ ’’وہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا‘‘ (۲سلاطین باب۲آیت۱۲) تو پھر ورثہ کا گناہ کہاں گیا اور جب بعد کے لوگ بھی گناہ میں مبتلا رہے تو پھر کفارہ کا فائدہ کیا ہوا؟ اس کا جواب عیسائی لوگ یہ دیتے ہیں کہ مسیح کی آمد سے پہلے جو لوگ گناہوں سے بچتے تھے وہ اس لیے بچتے تھے کہ مسیحؑکے کفارہ پر ایمان لے آئے تھے.خدا تعالیٰ سے ان کو خبر مل جاتی تھی کہ آئندہ زمانہ میں خدا کا ایک بیٹا آئے گا لوگ اسے صلیب پر لٹکائیں گے اور وہ دنیا کے گناہوں کے بدلے اپنے آپ کو قربان کر دے گا.وہ یہ خبر سنتے اور کہتے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا چنانچہ جب ابراہیمؑ نے کہا کہ میں آنے والے مسیح پر ایمان لاتا ہوںتو وہ گناہ سے بچ گیا.اس پر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعض پیش گوئیاں بھی بیان کرتے ہیںجو ان کے نزدیک حضرت مسیحؑپر چسپاں ہوتی ہیں.اس کا جواب یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اوّل تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی

Page 281

پیش گوئیاںخود زیر بحث ہیں.پھر سوال یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مان لینے سے یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ نوح اورحنوک بھی یہ جانتے تھے کہ آئندہ زمانہ میں خدا کا ایک بیٹا ظاہر ہونے والا ہے؟ یا تو بائیبل میں یہ مسئلہ ان الفاظ میں بیان ہو تا کہ آنے والے خدا کے بیٹے پر ہر نبی ایمان لایا تھا پھر چاہے یہ ذکر نہ ہوتا کہ حنوک مسیح پر ایمان لایا تھا یا نہیںیا نوحؑمسیح پر ایمان لایا تھا یا نہیں ہم کہتے کہ جب بائیبل نے کہہ دیا ہے کہ ہر نبی خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا رہا ہے تو یہ سوال پیدا ہی نہیں ہو تا کہ نام بنام ہر نبی کے متعلق یہ ثابت کیا جائے کہ وہ خدا کے بیٹے پر ایمان لاتا تھا.مگر بائیبل نے ایک طرف تو ایسا کوئی اصل پیش نہیں کیا اور دوسری طرف اس نے حنوک کا واقعہ تو بیان کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ حنوک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا.مگر اس امر کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ حنوک خدا کے بیٹے پر بھی ایمان لایا تھا.اسی طرح آدمؑ کے متعلق یہ تو ذکر ہے کہ وہ خدا کا مقبول رہا مگر بائیبل میں یہ کہیں ذکر نہیں کہ آدم کو خدا نے یہ اطلاع دی تھی کہ میرا بیٹا دنیا میں آنے والا ہے.جو لوگوں کے گناہوں کے بدلے پھانسی پائے گا تم اس پر ایمان لے آئو.اسی طرح یسعیاہ اور حزقیل وغیرہ انبیاء ہیں جن کی پاک بازی کا تو بائیبل میں ذکر آتا ہے مگر مسیحؑکے کفارہ پر ایمان لانے کا ان کے متعلق کہیں ذکر نہیں؟ بلکہ اور تو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق بھی بائیبل میں یہ کہیں نہیں بیان کیا گیا کہ وہ کفارئہ مسیح پر ایمان لائے تھے.اگر ان کی کوئی پیش گوئی نکل بھی آئے تو اس سے صرف اتنا ثابت ہو گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خبر دی تھی کہ میرے بعد مسیحؑ آئے گا.یہ کہیں سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ انہوں نے یہ کہا ہو کہ مسیح لوگوں کو گناہوں کی سزاسے بچانے کے لئے اپنے آپ کو قربان کرے گا اور میں اس کفارہ پر ایمان لاتا ہوں.پس بفرض محال اگر حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی کوئی پیشگوئی ثابت بھی ہو جائے تو اس سے صرف اتنا پتہ لگے گا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آمد مسیح کی خبر دی تھی اس سے ان کی نجات کس طرح ہو گئی؟اور وہ گناہ سے بچ کس طرح گئے؟ کفارہ کا مسئلہ جو عیسائیوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس کی بنیاد اس امر پر نہیں کہ خدا کے بیٹے پر ایمان لایا جائے بلکہ اس کی بنیاد اس امر پر ہے کہ خدا کے بیٹے کے مصلوب ہونے اور اس کے کفارہ ہونے پر ایمان لایا جائے مگر کفارئہ مسیح پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایمان لانے کا بائیبل سے کہیں ثبوت نہیں ملتا.پھر اگر حضرت ابراہیمؑ کی پیش گوئیوں کو لو تو وہ بھی حضرت مسیحؑپر چسپاںنہیں ہوتیں.مجھ سے ایک دفعہ ایک پادری کی گفتگو ہوئی میں نے اس سے کہا.پہلے لوگ کس طرح نجات پا گئے تھے؟کہنے لگا وہ مسیحؑ پر ایمان لاتے تھے.میں نے کہا کیا ابراہیمؑ بھی ایمان لائے تھے؟اس نے کہا ہاں!حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ ’’تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازہ پر قابض ہو گی اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیںبرکت پائیں گی‘‘

Page 282

(پیدائش باب۲۲آیت۱۷،۱۸) یہ پیش گوئی حضرت مسیحؑ کے متعلق تھی اور انہی کے ذریعہ پوری ہوئی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لے آئے تھے.میں نے کہا اس پیش گوئی میں یہ ذکر ہے کہ آنے والا ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہو گا اور تم جانتے ہو کہ اولاد ہمیشہ مرد کے نطفے سے ہو تی ہے اس لئے وہی شخص اس پیش گوئی کا مصداق سمجھا جا سکتا ہے جو مرد کے نطفہ سے ہو.اس وقت دنیا میں دو مدعی کھڑے ہیںاور دونوں اس امر کے دعویدار ہیں کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیش گوئی کا مصداق ہیں ایک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کا باپ تھا اور ایک مسیحؑ ہیں جن کا کوئی باپ نہیں تھا.اب تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ بائیبل کی یہ پیش گوئی ان دونوں میں سے کس پر چسپاںہوگی آیا اس پر چسپاں ہوگی جس کا کوئی باپ ہی نہیںتھا یا اس پر چسپاں ہوگی جس کا باپ تھا اور جو واقعہ میں ابراہیم کی نسل میں سے تھا.بائیبل بتا رہی ہے کہ آنے والا ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہو گا یعنی وہ مرد کے نطفہ سے پیدا ہو گا جو شخص مرد کے نطفہ سے ہی نہیں وہ ابراہیمؑ کی اولاد میں سے کس طرح سے ہوگیا؟ عیسائیوں کو یہاں سخت مشکل پیش آئی ہے.وہ ایک طرف یہ بھی چاہتے تھے کہ اس پیش گوئی کو حضرت مسیحؑ پر چسپاں کریں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت مسیحؑ کا کوئی باپ نہیں تھا جس کی بنا پر وہ انہیں ابراہیمی نسل میں سے قرار دیں.آخر اس کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ انجیل میں لکھ دیا یوسف نجار مسیحؑ کا باپ تھا اور پھر اس کا نسب نامہ انہوں نے دائود سے ملا دیا حالانکہ وہ ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیحؑ کنواری کے بطن سے پیدا ہوا.بہر حال اوّل توحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس پیش گوئی میں کفارئہ مسیحؑ کا کوئی ذکر نہیں نہ اس امر کا کوئی ذکر ہے کہ وہ اس کفارہ پر ایمان لائے تھے صرف ابراہیمؑ کی اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ میں اسے برکت دوں گا.مگر سوال یہ ہے کہ اس پیش گوئی کو جب ہم کسی شخص پر چسپاں کریں گے تو اس شخص پر کریں گے جس کا کوئی باپ ہی نہیں یا اس شخص پر چسپاں کریں گے جس کا باپ موجود ہے.یہ بات ظاہر ہے کہ یہودی عقیدہ کے ماتحت ماں کی طرف سے نسل نہیں چلتی بلکہ باپ کی طرف سے نسل چلتی ہے اس لئے جس شخص کا باپ موجود ہے وہی اس پیش گوئی کا مصداق ہو سکتا ہے نہ وہ جس کا کوئی باپ ہی نہیں اور جو ابراہیمی نسل میں سے سمجھاہی نہیں جا سکتا.تیسرا اعتراض ان لوگو ں پر یہ ہے کہ مسیحؑ کس طرح پاک ہوا؟ وہ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ مسیح ؑچونکہ بے باپ پیدا ہوا اس لئے وہ گناہ سے پاک تھا.اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بے باپ کے پیدا ہو نے سے انسان گناہ سے نجات پا جاتا ہے تو ملک صدق سالیم بھی تو بے باپ پیدا ہوا تھا بلکہ اس کی تو ماں بھی نہ تھی اس کے متعلق کیوں نہیں کہا جاتا کہ وہ گناہ سے پاک تھا؟پھر سوال یہ ہے کہ اگر بے باپ پیدا ہونے سے انسان گناہ سے

Page 283

نجات پاتا ہے تو آدمؑ نے گناہ کس طرح کیا جبکہ آدمؑ کا بھی نہ باپ تھا نہ ماں.بن باپ پیدائش اگر انسان کو پاکیزہ بناتی ہے تو آدمؑ بھی بے گناہ ہونا چاہیے تھا پھر یہ ورثہ کا گناہ کہاں سے آگیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک جسم میں سے نکلنے کی وجہ سے انسان گنہگار بن جاتا ہے تو جیسے باپ کے اندر سے اسے گناہ پہنچتا ہے ویسے ہی اسے ماں سے گناہ پہنچ سکتا ہے؟اور بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ گناہ اصل میں حوّا سے ظاہر ہوا تھا.چنانچہ پیدائش باب۳کا بائیبل کے چھاپنے والوں نے ان الفاظ میں خلاصہ درج کیا ہے ’’اس بیان میں کہ سانپ حوّا کو فریب دیتا انسان گناہ سے شکستہ حال ہو جاتا.خدا مرد و عورت دونوں کواپنے حضور میں بلاتا.سانپ پر لعنت بھیجی جاتی.عورت کو خاص نسل کا وعدہ.انسان کی سزاکا احوال.ان کی پہلی پوشاک.ان دونوں کا باغ عدن سے نکالا جانا.‘‘ پھر خود اس باب میں یوں لکھا ہے ’’اور سانپ میدان کے سب جانوروں سے جنہیں خداوند خدا نے بنایا تھا ہوشیارتھا.اور اس نے عورت سے کہا کیا یہ سچ ہے کہ خدا نے کہا کہ باغ کے ہر درخت سے نہ کھا نا.عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھا تے ہیں مگر اس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خداوند نے کہا کہ تم اس سے نہ کھا نا اور نہ اسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جائو.تب سانپ نے عورت سے کہا کہ تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جانتا ہے کہ جس دن اس سے کھائو گے تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک وبد کے جاننے والے ہوئو گے اور عورت نے جوں دیکھا کہ وہ درخت کھانے میں اچھا اور دیکھنے میں خوشنما اور عقل بخشنے میںخوب ہے تو اس کے پھل میں سے لیا اور کھایااور اپنے خصم کو بھی دیا اور اس نے کھایا‘‘ (پیدائش باب۳آیت۱ تا۶) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شیطان نے پہلے حوّا کو ورغلایا اور حوّاکے کہنے سے آدم بھی اس غلطی میںشریک ہو گیا چنانچہ جب خدا نے آدم سے کہاکہ ’’کیا تو نے اس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے تجھ کو حکم کیا تھا کہ اس سے نہ کھانا‘‘ تو آدم نے جواب دیا حضور اس میں میرا کیا قصورہے آپ نے جو عورت مجھے دی تھی اور جس کے متعلق کہا تھا کہ یہ تیری ساتھی ہو گی اس نے جب مجھے درخت کا پھل دیا تو میں نے سمجھا کہ یہ خدا کا عطا کیا ہوا ساتھی ہے اس کی دی ہوئی چیز کو میں رد نہ کروں ایسا نہ ہو کہ میں گنہگار بن جائوںچنانچہ میں نے پھل لیا اور کھا لیا.بائیبل میں لکھا ہے ’’آدم نے کہا کہ اس عورت نے جسے تو نے میری ساتھی کر دیا مجھے اس درخت سے دیا اور میں نے کھا یا تب خدا وند خدا نے عورت سے کہا کہ تو نے یہ کیا کیا.عورت بولی کہ سانپ نے مجھ کو بہکایاتو میں نے کھایا‘‘ (پیدائش باب ۳آیت۱۱تا۱۳) ان حوالجات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شیطان پہلے حوّا کے پاس گیا اور اسے ورغلایا.اس کے بعد حوّا نے آدمؑ کو ورغلایا.گویا زیادہ

Page 284

گنہگار آدم نہیں بلکہ حوّا تھی اور اس کی تحریک پر آدم بھی اس گناہ میںملوث ہوا.اس پادری سے گفتگو کے دوران میں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے میں نے اس سے پوچھا کہ بتائو شیطان نے پہلے آدم کو ورغلایاتھا یا حوّا کو؟کہنے لگا حوّا کو.میں نے کہا حوّا کو ورغلانے سے شیطان کی کیا غرض تھی؟اس نے پہلے ہی آدم کو کیوں نہ ورغلا لیا.وہ آدم کو چھوڑ کر حوّا کے پاس کیوں گیا تھا؟ پادری نے کہا اس لئے کہ حوّا جلدی قابو میں آسکتی تھی.میں نے کہا تو پھر معلوم ہوا کہ حوّا میں گناہ کا مادہ زیادہ تھا اسی وجہ سے وہ پہلے آدمؑ کے پاس نہیںگیا کیونکہ اس نے سمجھا کہ آدم میرے دھوکا میں جلدی نہیں آسکتاوہ حوّا کے پاس گیا اور کامیاب ہو گیا.اس کے بعد میں نے کہااب بتائو مسیحؑ حوّا کا بیٹا تھا یا آدم کا؟ کہنے لگا اس سوال سے آپ کا کیا مطلب ہے؟میں نے کہا کچھ مطلب ہو.تم یہ بتائو کہ مسیحؑ آدم کا بیٹا تھا یا حوّا کا؟ کہنے لگا مریم کا بیٹا تھا.میں نے کہا اچھا اگر گرم پانی میں سرد پانی ملا دیا جائے تو اس کی گرمی بڑھ جائے گی یا کم ہو گی؟ کہنے لگا کچھ گرم پانی کی گرمی کم ہو گی اور کچھ سرد پانی کی سردی کم ہو جائے گی.میں نے کہا تو اب مسئلہ صاف ہو گیا.اگر مسیحؑ بن باپ نہ ہوتا تو اسے باپ کی طرف سے اس روحانی طاقت میں سے حصہ ملتاجو آدم میں تھی اور ماں کی طرف سے اسے اس کمزوری میں سے حصہ ملتا جو حوّا میں تھی.آدم کی طاقت اور حوّا کی کمزوری مل کر ورثہ کے گناہ کا اثر کچھ نہ کچھ کم کر دیتی مگر مسیحؑ بن باپ تھا جس کے معنے یہ ہیںکہ اس نے آدم کی طاقت سے حصہ نہیں لیا صرف حوّا کی کمزوری سے حصہ لیا ہے اب بتائو وہ مسیحؑ جو خالص حوّا کی نسل میں سے تھا جس کے متعلق تم تسلیم کرتے ہوکہ وہ آدم کی نسبت زیادہ گنہگار تھی وہ گناہوں سے پاک کس طرح ہو گیا وہ تو اور لوگوں کی نسبت زیادہ گنہگار ہوا کیونکہ اس نے خالص حوّا کا اثر ورثہ میں لیا ہے؟ کہنے لگا یہ کوئی اصول نہیںکیا مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا؟ میں نے کہا اگر مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو بات حل ہوگئی جس طرح مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے اسی طرح آدمؑ کے بیٹے نیک بھی ہو سکتے ہیں.کہنے لگا نہیں نہیں سونا تو سونے میں سے نکلتا ہے میں نے کہا تو پھر مسیحؑ ایک عورت کے بطن سے پیدا ہو کر پاک کس طرح ہو گیا؟سونا تو سونے میں سے نکلتا ہے مٹی میں سے نہیں نکلتا اور اگر سونا مٹی میں سے بھی نہیں نکلتا اور سونے میں سے بھی نہیں نکلتا تو وہ نکلتا کس چیز میں سے ہے؟ غرض اگر یہ درست ہے کہ مٹی میں سے سونا نکل سکتا ہے تو گنہگار آدم کی اولاد بھی نیک ہو سکتی ہے اور اگر مٹی میں سے سونا نہیں نکلتا بلکہ سونے میں سے سونا نکلتا ہے تو مسیحؑ ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہو کر پاک نہیں ہو سکتا.پس ان دونوں میں سے کوئی صورت لے لو عیسائی مذہب قائم نہیں رہ سکتا.تیسرے ہم خود مسیحؑ کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو نیک کہتے ہیں یا نہیں.جب اس نکتہ نگاہ سے ہم انجیل کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ الفاظ نظر آتے ہیں کہ’’ اور دیکھو ایک نے آ کے اس سے کہا.اے نیک استاد!

Page 285

میں کون سا نیک کام کروںکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ اس نے اس سے کہا تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.پر اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہے تو حکموں پر عمل کر.‘‘ (متی باب ۱۹ آیت ۱۶، ۱۷) گویا مسیحؑ خود کہتے ہیں کہ میں نیک نہیں.اب بتائو جس نے دنیا کو نیکی دینی تھی جب وہ اپنی نیکی کا آپ منکر ہے تو ہم یہ کس طرح تسلیم کر لیں کہ وہ بے گناہ تھااور دنیا کو گناہوں سے پاک کرنے کے لئے آیا تھا.یہ تو وہی مثال بن جاتی ہے کہ مدعی سست اور گواہ چست.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعہ میں مسیح ؑنیک تھا اور اگر واقعہ میں اس کے کفارہ کے ذریعہ دنیا گناہ سے بچ گئی تھی اور اس میں یہ قابلیت پیدا ہو گئی تھی کہ وہ نیکی کو اختیار کرے تو پھر ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گاکہ مسیحؑ پیدائش عالم کا آخری نقطہ تھا.کیونکہ انسانی پیدائش کی غرض اس کے آنے سے پوری ہو گئی لیکن جب ہم بائیبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسیحؑ پیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھا.بلکہ اگر مسیحؑ خدا کا بیٹا تھاتو اس کی اپنی پیش گوئی کے مطابق خود خدا بھی دنیا میں آنے والا تھا چنانچہ مرقس باب ۱۲ میں وہ اس پیشگوئی کو تمثیلی رنگ میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’’ ایک شخص نے انگور کا باغ لگایااور اس کے چاروں طرف گھیرا اور کولھوکی جگہ کھودی اور ایک برج بنایا اور اسے باغبانوں کے سپرد کر کے پردیس چلا گیا.پھر موسم میں اس نے ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے.انہوں نے اسے پکڑ کے مارااور خالی ہاتھ بھیجا.اس نے دوبارہ ایک اور نوکر کو ان کے پاس بھیجا.انہوں نے اس پر پتھر پھینک کے اس کا سر پھوڑا اور بے حرمت کرکے پھیر بھیجا.پھر اس نے ایک اور کو بھیجاانہوں نے اسے قتل کیاپھر اور بہتیروں کو.ان میں سے بعضوں کو پیٹا اور بعضوں کو مار ڈالا.اب اس کا ایک ہی بیٹا تھا جو اس کا پیارا تھا.آخر کو اس نے اسے بھی ان پاس یہ کہہ کے بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے.لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا یہ وارث ہے آئو ہم اسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی اور انہوں نے اسے پکڑ کے قتل کیااور انگور کے باغ کے باہر پھینک دیا.پس باغ کا مالک کیا کہے گا؟ وہ آوے گا اور ان باغبانوں کو ہلاک کر کے انگور کا باغ اوروں کو دے گا.‘‘ (مرقس باب۱۲.آیت ۱تا ۹) اس تمثیل میں باغ سے مراد وہ سلسلۂ ہدایت ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے قائم کیا.باغ بنانے والا موسٰی تھا جو الٰہی جلال کے اظہار کے لئے آیا اور باغبانوں سے مراد بنی اسرائیل تھے جن کے سپرد اس باغ کی حفاظت کا کام کیا گیا.نوکر جو میوہ کا حصہ لینے کے لئے باغ کے مالک کی طرف سے یکے بعد دیگرے بھیجے گئے اللہ تعالیٰ کے وہ انبیاء تھے جو موسٰی کے بعد پے بہ پے آتے رہے مگر لوگوں کا سلوک ان کے ساتھ یہ رہا کہ

Page 286

انہوں نے کسی نبی کو مارا، کسی کو دکھ دیا اور کسی کو بے عزت کیا.آخر خدا نے اپنا بیٹا بھیجا جس سے مراد حضرت مسیحؑ خود تھے.جو موسٰی کے بعد آنے والے نبیوں میں سے سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب اور محبوب تھے مگر لوگوں نے ان کی بھی پرواہ نہ کی اور انہیں صلیب پر چڑھا دیا.حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں.تم جانتے ہو اب کیا ہو گا.باغ کا مالک آئے گا اور ان باغبانوں کوہلاک کر کے انگور کا باغ اوروں کو دے گا.یعنی اب وہ نبی دنیا میں ظاہر ہو گاجس کا آنا خود خدا کا آنا ہو گا.جس کا ظہور خدا تعالیٰ کا ظہور ہو گا.اور وہ گذشتہ سنت کے خلاف بنی اسرائیل میں سے نہیں ہو گا بلکہ ان کے بھائیوں بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا.یہ تمثیل واضح کر رہی ہے کہ حضرت مسیحؑ پیدائش عالم کاآخری نقطہ نہیں تھے اگر آخری نقطہ ہوتے تو وہ اپنے بعد ایک ایسے نبی کی بعثت کی خبر نہ دیتے جس کا آنا خود خدا کا آنا تھا.یہ بات ظاہر ہے کہ بیٹا باپ نہیں ہو سکتا.پس اس تمثیل میں جس کو باپ کہا گیا ہے وہ یقیناً بیٹے کے علاوہ کوئی اور شخص ہی ہو سکتا ہے اور جب مسیحؑ کے علاوہ ہدایت عالم کے لئے کسی اور شخص کا آنا خود مسیحؑ کی اپنی پیشگوئی کے ماتحت ثابت ہو گیااور ساتھ ہی یہ امر بھی واضح ہو گیا کہ مسیحؑکے متعلق یہ خیال درست نہیں کہ وہ پیدائش عالم کا آخری نقطہ تھا.اگر مسیحؑسے نیکی قائم ہو چکی تھی تو پھر مسیح کے سوا کسی اور کے آنے کی کوئی غرض ہی نہیں ہو سکتی تھی مگر جیسا کہ انجیل کے مذکورہ بالا حوالہ سے ظاہر ہے مسیحؑ اگر خدا کا بیٹا تھا تو خود خدا بھی آنے والا تھا.اسی طرح حضرت مسیحؑ ایک اور مقام پر کہتے ہیں.’’ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہیں بتا دے گی.اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی.‘‘ (یوحنا باب۱۶ آیت ۱۲،۱۳) یہاں حضرت مسیحؑ اقرار کرتے ہیں کہ میرے بعد ایک اور شخص آئے گا جو روح حق کہلائے گا اور وہ ایسی تعلیمیں دے گاجو میں نے بھی نہیں دیں.یعنی مجھ سے بڑھ کر سچائی کی راہیں دنیا پر روشن کرے گااور میری تعلیم سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرے گا.اور پھر ایک مزید بات یہ ہو گی کہ اس کو ایسی کتاب ملے گی جس میں اس کے اپنے الفاظ نہیں ہوں گے بلکہ صرف وہی الفاظ ہوں گے جو خدا نے کہے ہوںگے.’’ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی.‘‘ ان الفاظ کا مفہوم یہی ہے کہ اس کو جو کتاب ملے گی اس کی یہ ممتاز خوبی ہو گی کہ شروع سے لے کر آخر تک وہ اللہ تعالیٰ کے کلام پر مشتمل ہو گی.کوئی بات اس میں ایسی نہیں ہو گی جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ یہ انسان کا کلام ہے خدا کا کلام نہیں.گویا اوّل حضرت مسیحؑ اپنے بعد ایک آنے والے کی خبر دیتے ہیں.دوم حضرت مسیحؑ یہ خبر بھی

Page 287

دیتے ہیں کہ وہ آنے والا اپنے ساتھ ایک کتاب بھی لائے گا.سوم اس کتاب کی یہ خوبی بتاتے ہیں کہ اس میں انسانی کلام نہیں ہو گا بلکہ ابتداء سے انتہا تک اس کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف خدائی کلام پر مشتمل ہو گا.اس پیشگوئی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے اور آپ نے وہ شریعت لوگوں کے سامنے پیش کی جو اپنی شان اور عظمت کے لحاظ سے تمام الہامی کتب میں یگانہ حیثیت رکھتی ہے.بائیبل کو دیکھا جائے تو جہاں اس میں خدائی کلام نظر آتا ہے وہاں بہت سی انسانی باتیں بھی اس میں دکھائی دیتی ہیں.اگر ایک طرف اس میں ان پیشگوئیوں کا ذکر پایا جاتا ہے جو موسٰی نے کیں تو دوسری طرف ہم اس میں یہ بھی لکھا پاتے ہیں کہ ’’ خداوند کا بندہ موسٰی خداوندکے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیااور اس نے اسے مو آب کی ایک وادی میں بیتِ فغور کے مقابل گاڑا.پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.‘‘( استثناء باب ۳۴ آیت ۵ ) اب بتائو کیا یہ خدا کا کلام ہے جو موسٰی پر نازل ہوا کہ موسٰی مر گیااور فلاں جگہ گاڑا گیا مگر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.صاف ظاہر ہے کہ یہ الفاظ بعد میں لوگوں نے بڑھا دئیے تھے.جب موسٰی مر چکے تھے اور ان کی موت پراس قدر عرصہ گزر چکا تھا کہ ان کی قبر کا بھی لوگوں کو علم نہیں رہا تھا کہ وہ کس جگہ تھی.اسی طرح متی، مرقس اور لوقا وغیرہ میں جہاں خدا کی باتیں ہیں وہاں بندوں کی باتیں بھی ہمیں ان میں صاف طور پر نظر آتی ہیں.خود لوقا کہتا ہے ’’ چونکہ بہتوں نے کمر باندھی کہ ان کاموں کا جو فی الواقعہ ہمارے درمیان انجام ہوئے بیان کریں.جس طرح سے انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے تھے ہم سے روایت کی میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کر کے تیرے لئے اے بزرگ تھیوفلس بہ ترتیب لکھوں تا کہ تو ان باتوں کی حقیقت کو جن کی تو نے تعلیم پائی جانے.‘‘ (لوقا باب ۱ آیت ۱ تا ۴ ) گویا موجودہ اناجیل کیا ہیں؟ وہ کتب ہیں جو حضرت مسیحؑ کی وفات کے بعد مختلف لوگوں نے مرتب کیں اور انہوں نے مختلف روایات کو ایک ترتیب سے ان میں جمع کر دیا.اس لئے ان کتب میں جہاں ہمیں وہ کلام نظر آتا ہے جو خدا کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے وہاں ایسا کلام بھی ان میں پایا جاتا ہے اور اسی کی کثرت ہے جو کہ بندوں نے اپنی طرف سے شامل کر دیا ہے.غرض دنیا میں کوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جو شروع سے آخر تک صرف وہی باتیں بیان کرتی ہوجو خدا نے کہی ہوں.تورات لے لو.انجیل لے لو.ژند اور اوستالے لو.وید لے لو ہر کتاب انسانی دست بُرد کا شکار نظر آئے گی.ہرکتاب میں خدائی الہامات کے ساتھ ساتھ بندوں کی اپنی تشریحات کو بھی شامل دیکھو گے.مگر قرآن وہ کتاب ہے جو ابتداء سے انتہاء تک ہر قسم کے انسانی الفاظ سے منزہ ہے.ابتداء سے انتہاء تک اس کا ایک ایک لفظ ایک ایک حرف

Page 288

اور ایک ایک شعشہ ایسا ہے جو خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا.پس قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر حضرت مسیحؑ کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ’’ وہ اپنی نہ کہے گی لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی.‘‘پھر اس کے ساتھ ہی حضرت مسیحؑ نے یہ خبر بھی دی تھی کہ وہ کتاب ’’تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی ‘‘یعنی اس کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا بلکہ قیامت تک چلتا چلا جائے گا.کوئی زمانہ ایسا نہیں آئے گا جس میں لوگ اس کتاب کی ضرورت سے مستغنی ہوجائیں اور پھر یہ کہ ’’ وہ میری بزرگی کرے گی ‘‘ یعنی لوگ مجھے جھوٹا اور لعنتی قرار دیں گے وہ میری بزرگی کا اظہار کرے گا.یہودی کہیں گے کہ میں صلیب پر مر کر لعنتی ہو گیا.عیسائی کہیں گے کہ میں صلیب پر لٹک کر لوگوں کے گناہوں کے بدلے دوزخ میں چلا گیا.مگر وہ کہے گا مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ ( النسآء:۱۵۸) یہ بات غلط ہے کہ لوگوں نے اسے قتل کر دیا تھا یا صلیب پر لٹکا کر اسے لعنتی ثابت کر دیا تھا.وہ قتل سے بھی محفوظ رہا تھا اور صلیب سے بھی محفوظ رہا تھا.بے شک دوست دشمن نے اسے لعنتی ثابت کرنا چاہامگر خدا نے اسے عزت دی اور دشمن کو اس کے ارادوں میں ناکام کر دیا.آخر میں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں.یہ اس لئے ہو گاکہ ’’ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھا دے گی.‘‘ میری چیزوں سے پانے کا یہ مفہوم نہیں کہ وہ مسیحؑ کا متبع ہو گا.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اسے وہ تعلیم ملے گی جس میں تمام انبیاء کی تعلیمیں شامل ہوںگی.نوحؑکی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی.ابراہیم ؑکی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی.موسٰی کی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی اور میری یعنی عیسٰیؑ کی تعلیم بھی اس میں موجود ہو گی اور اس طرح اس کی تعلیم جامع ہو گی تمام سابق انبیاء کی تعلیمات کی.اور پھر وہ کتاب ایسی ہو گی جو ’’ تمہیں دکھا دے گی ‘‘ یعنی اس میں صرف زبانی باتیں نہیں ہوں گی بلکہ عملی طور پر وہ تمام سچائیوں کو روشن کر کے دنیا پر ان کو واضح کر دے گی.یہ پیشگوئیاں صاف طور پر بتاتی ہیں کہ حضرت مسیحؑ کے بعد ایک ایسے وجود نے ابھی آنا تھا جو مسیحؑ سے زیادہ کامل ہوتا.اور پھر مقدر یہ تھا کہ وہ ایک ایسی جامع اور بے مثل کتاب اپنے ساتھ لاتا جس میں تمام سچائیاں جمع ہوتیں.جس میں شروع سے لے کر آخر تک اللہ تعالیٰ کا کلام ہوتا اور پھر عملی طور پر وہ کتاب تمام سچائیوں کو روشن کرنے والی ہوتی.اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ نے واقعہ میں ساری دنیاکے گناہ اٹھا لئے تھے اگر دنیا کی نجات کے لئے ان پر ایمان لانا کافی تھااور اگر انسانی نجات کا آخری نقطہ وہی تھے تو ساری سچائیاں انہیں بتانی چاہئیں تھیں مگر وہ تو کہتے ہیں میں سب سچائیاں نہیں بتا سکتا ان کو میرے بعد آ نے والا بتائے گا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیحؑ ناصری کے نزدیک ان کا اپنا وجود پیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھا بلکہ بعد میں آنے والا ایک اور وجود اس شرف اور عظمت کا مستحق تھا.

Page 289

پانچویں اگر حضرت مسیحؑ کفارہ ہوئے ہیں تو ان کا کفارہ ہونا اسی صورت میں تسلیم کیا جا سکتا ہے جب وہ خوشی اور انتہائی بشاشت کے ساتھ کفارہ ہوئے ہوں.جس شخص کو جبراً صلیب پر لٹکا دیا جائے اس کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنی خوشی سے لوگوں کے لئے قربان ہوا ہے.اگر حضرت مسیحؑ واقعہ میں کفارہ ہونے کے لئے دنیا میں تشریف لائے تھے تو چاہیے تھا کہ وہ دوڑ کر صلیب پر چڑھتے اور خوش ہوتے کہ جس غرض کے لئے میں آیا تھا وہ آج پوری ہو رہی ہے.مگر بائیبل میں لکھا ہے جب انہیں پتہ لگا کہ صبح مجھے صلیب پر لٹکایا جا نے والا ہے تو انہوں نے ساری رات دعائیں کرتے ہوئے گذاردی اور اپنے حواریوں سے بھی بار بار کہا کہ ’’جاگو اور دعا مانگو تاکہ امتحان میں نہ پڑو‘‘(متی باب۲۶ آیت ۴۱) حضرت مسیحؑ ایک پہاڑی پر دعائیں کر رہے تھے اور ان کے حواری نیچے تھے وہ گھبراہٹ کی حالت میں بار بار نیچے آتے اور دیکھتے کہ حواری دعائیں کر رہے ہیں یا نہیں.مگر جب بھی آتے،دیکھتے کہ وہ سو رہے ہیں حضرت مسیحؑ پھر ان کو جگاتے اور چلے جاتے.پھر نیچے آتے اور دیکھتے کہ حواریوں کی کیا حالت ہے مگر پھر ان کو سوتا پاتے.آخر حضرت مسیحؑ ان پر ناراض ہوئے اور کہا کہ ’’کیا تم میرے ساتھ ایک گھنٹہ نہیں جاگ سکے‘‘ (متی باب ۲۶ آیت ۴۰ ) مگر شاگردوں پرپھر بھی کوئی اثر نہ ہوا.اس دوران میں حضرت مسیحؑ نے جس بے قراری اور اضطراب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضوردعائیں کیںان کا ذکر انجیل میں اس طرح آتا ہے.’’پھر یسوع ان کے ساتھ گتسمنی نامی ایک مقام میں آیا اور شاگردوں سے کہا یہاں بیٹھو جب تک میں وہاں جا کر دعا مانگوں.تب اس نے پطرس اور زبدی کے دو بیٹے ساتھ لیے اور غمگین اور نہایت دلگیر ہونے لگا.تب اس نے ان سے کہا کہ میرا دل نہایت غمگین ہے بلکہ میری موت کی سی حالت ہے تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو اور کچھ آگے بڑھ کے مونہہ کے بل گرا اور دعا مانگتے ہوئے کہا کہ اے میرے باپ!اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذر جائے تو بھی میری خواہش نہیں بلکہ تیری خواہش کے مطابق ہو.تب شاگردوں کے پاس آیا اور انہیں سوتے پا کر پطرس سے کہا.کیا تم میرے ساتھ ایک گھنٹہ نہیں جاگ سکے.جاگو اور دعا مانگو تاکہ امتحان میں نہ پڑو.روح تو مستعد پر جسم سست ہے پھر اس نے دوبارہ جا کر دعا مانگی اور کہا اے میرے باپ!اگر میرے پینے کے بغیر یہ پیالہ مجھ سے نہیں گذر سکتا تو تیری مرضی ہو.اس نے آکے پھر انہیں سوتے پایا.کیونکہ ان کی آنکھیں نیند سے بھاری تھیںاور انہیں چھوڑ کے پھر گیا اور وہی بات کہہ کر تیسری بار دعا مانگی.تب اپنے شاگردوں کے پاس آکران سے کہا.اب سوتے رہو اور آرام کرو.دیکھو وہ گھڑی آپہنچی کہ

Page 290

ابن آدم گنہگاروں کے ہاتھ حوالے کیا جاتا ہے.‘‘(متی باب۲۶آیت۳۶تا۴۵) اگر واقعہ میںحضرت مسیحؑ اس لئے آئے تھے کہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھائیں اور ان کی خاطر اپنی جان قربان کردیںتو کیا یہ ہو سکتا تھا کہ وہ صلیب کے وقت گڑگڑا گڑگڑا کر یہ دعا مانگتے کہ ’’اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے گذرجائے‘‘.(متی باب ۲۶آیت۳۹) پھر تو چاہیے تھا کہ وہ روزانہ یہ دعا مانگتے کہ اے خدا یہ پیالہ مجھے جلد پلا تاکہ بنی نوع انسان کے گناہوں کا کفارہ ہو.مگر بجائے اس کے کہ وہ یہ دعا کرتے کہ الٰہی موت کا پیالہ مجھے جلد پلا تاکہ میں لوگوں کے گناہ اٹھا کران کی نجات کا باعث بنوں وہ ساری رات گڑگڑا گڑگڑا کر یہ دعا کرتے رہے کہ الٰہی مجھے صلیب سے بچا اور نہ صرف آپ یہ دعا کرتے رہے بلکہ حواریوں کو بھی بار بار دعا کرنے کی تاکید کرتے رہے اور بار بار آکر دیکھتے رہے کہ وہ سو رہے ہیں یا اٹھ کر دعائیں کر رہے ہیں اور جب انہوں نے دیکھا کہ حواری سستی سے کام لے رہے ہیں اور دعا کی طرف ان کی توجہ نہیں تو انہوں نے ان کو ڈانٹا اور کہاکیا تم سے اتنا بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک گھنٹہ جاگ سکواور خدا سے دعائیں کرو.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ حضرت مسیحؑ کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی کفارہ کا وہ مسئلہ نہ تھا جو آج کل عیسائیوں نے ایجاد کیا ہوا ہے اور نہ کفارہ کے لئے وہ دنیا میں تشریف لائے تھے ورنہ صلیب کی رات نہ آپ خود یہ دعا کرتے اور نہ اپنے حواریوں سے کہتے کہ دعا کرو کہ یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے.پھر ہم کہتے ہیں کہ کفارہ کی بنیاد اس امر پر ہے کہ حضرت مسیحؑ نے صلیب پر جان دی.مگر جب اناجیل پر غور کیا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ حضرت مسیحؑ صلیب پر لٹک کر فوت ہوئے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے ’’ تب بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں کہا کہ اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں ‘‘ یعنی حضرت مسیحؑ نے اپنی صداقت کے متعلق جب مختلف دلائل ان کے سامنے پیش کئے تھے تو ان کو سننے کے بعد فقیہوں اور فریسیوں نے کہا یہ تو زبانی باتیں ہوئیں آپ ہمیں کوئی ایسا نشان دکھائیں جس سے آپ کی صداقت کے ہم بھی قائل ہو جائیں.اس پر ’’ اس نے انہیں جواب دیا اور کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ نشان ڈھونڈتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا.کیونکہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا‘‘ ( متی باب ۱۲ آیت ۳۸ تا ۴۱) ان الفاظ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے واقعہ صلیب کی خبر دی ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس میں ہمارا اور عیسائیوں کا اتفاق ہے.عیسائی بھی یہی کہتے ہیں کہ مسیحؑ کی یہ پیش گوئی واقعہ صلیب پر چسپاں ہوتی ہے اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اس پیشگوئی کا اطلاق صلیب کے واقعات پر ہوتا ہے.فریقین کے اس اتحاد کے بعد جب ہم نفس پیشگوئی پر غور کرتے

Page 291

ہیں تو ہمیں اس میں بعض عظیم الشان خبریں معلوم ہوتی ہیں.اوّل حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں کہ یہود کو یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان نہ دکھایا جائے گا.دوم وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.ان الفاظ میں خاص طور پر یونس نبی کی مماثلت پر زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جیسا یونس تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسا ہی ابن آدم تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.گویا تین دن کی مشابہت پر زور نہیں بلکہ اصل زور یونس نبی کے مچھلی کے پیٹ میں رہنے اور ابن آدم کے زمین میں رہنے پر ہے.یعنی جس رنگ میں یونس نبی تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہا اسی رنگ میں ابن آدم بھی تین رات دن زمین کے اندر رہے گا.جیسا اور ویسا کے الفاظ جواس پیش گوئی میں استعمال کئے گئے ہیں بالصراحت بتلاتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ اپنی صداقت کی ایک قطعی اور حتمی دلیل یہ بیان فرماتے ہیں کہ جس طرح یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں گیا اور تین رات دن اس میں رہا اسی طرح ابن آدم کے ساتھ بھی ایک واقعہ پیش آئے گا اور اسے بھی اسی طرح تین رات دن زمین کے پیٹ میں رہنا پڑے گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ یونس نبی کا کیا واقعہ ہے؟بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یونہ نبی کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ نینوہ والوں کے پاس جائیں اور انہیں خدا تعالیٰ کے عذاب کی خبر دیں.( بائیبل میں آپ کا نام یونہ ہے لیکن انجیل میں آپ کا نام یونس آتا ہے.)وہ لوگوں کی مخالفت سے ڈر کر بھاگے اور کسی اور علاقہ میں جانے کے لئے جہاز پر سوار ہو گئے.جہاز پر طوفان آیا.لوگوں نے سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے غضب سے یہ عذاب نازل ہوا ہے.اس پر انہوں نے قرعہ ڈالا کہ کس کے سبب سے یہ عذاب آیا ہے اور نام یونہ کا نکلا.انہوں نے یونہ سے پوچھا کہ قرعہ میں تمہارا نام نکلا ہے بتائو کیا بات ہے؟انہوں نے سارا حال سنایا کہ مجھے اس اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا تھا مگر میں نے سمجھا کہ اگر لوگوں کو میں نے عذاب کی خبر دی تو وہ میری مخالفت کریں گے اس لئے میں وہاں سے بھاگا اور جہاز میں آکر سوار ہو گیا.انہوں نے کہا اب آپ ہی بتائیں کہ اس مصیبت کا ہم کیا علاج کریں.یونہ نے کہا کہ تم مجھے سمندر میں پھینک دو.یہ عذاب ٹل جائے گا.پہلے تو وہ لوگ اس پر آمادہ نہ ہوئے اور انہوں نے پورا زور لگایا کہ کس طرح طوفان سے جہاز کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جائیں مگر جب وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہ ہوئے اور طوفان بھی کسی طرح تھمنے میں نہ آیا تو انہوں نے یہ دعا کرتے ہوئے کہ الٰہی اس شخص کا سمندر میں پھینکنا ہمارے لئے کسی عذاب کا موجب نہ ہو.یونہ کو اٹھایا اور سمندر میں پھینک دیا.اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد بائیبل میں لکھا ہے ’’ پر خداوند نے ایک بڑی مچھلی مقرر کر رکھی تھی کہ یونہ کو

Page 292

نگل جائے اور یونہ تین دن رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.‘‘ (یوناہ باب ۱ آیت۱۷) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونہ نبی مچھلی کے پیٹ میں کس طرح رہا؟ اس کے متعلق یونہ باب ۲ میں لکھا ہے کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ’’ تب یونہ نے مچھلی کے پیٹ میں خداوند اپنے خدا سے دعا مانگی اور کہا کہ میں نے اپنی مصیبت میں خداوند کو پکارا اور اس نے میری سنی.‘‘(یونہ باب۲آیت۱،۲ ) اس دعا سے جو مچھلی کے پیٹ میں یونہ نے کی ظاہر ہو رہا ہے کہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں مچھلی کے پیٹ میں گئے اور پھر اس کے پیٹ میں بھی زندہ رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعائیںکرتے رہے.چنانچہ یونہ باب ۲ میں ایک لمبی دعا درج ہے جو مچھلی کے پیٹ میں انہوں نے مانگی اور جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ الٰہی مجھ پر اب تک کئی مصیبتیں آئی ہیں جن سے تو نے مجھے بچایا.اب اس مصیبت سے بھی مجھے بچااور نجات بخش.آخر خدا نے ان کی دعا کو سنا.’’اور خداوند نے مچھلی سے کہااور اس نے یونہ کو خشکی پر اُگل دیا.‘‘ (یونہ باب۲آیت۱۰) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یونہ نبی کا معجزہ یہ تھا کہ وہ مچھلی کے پیٹ میں تین دن رات زندہ رہا نہ یہ کہ مرنے کے بعد جی اٹھا.یعنی بائیبل اس امر کوپیش نہیں کرتی کہ دیکھو یونہ خدا کا سچا نبی تھا کیونکہ وہ مر کر زندہ ہو گیا بلکہ بائیبل یونہ نبی کا معجزہ یہ پیش کرتی ہے کہ وہ زندہ ہونے کی حالت میں مچھلی کے پیٹ میں گیا اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی اس کے پیٹ میں رہا.حالانکہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گیا ہے ہو سکتا تھا کہ مچھلی اسے چبانے کی کوشش کرتی اور وہ مر جاتے.اگر مچھلی اس وقت یونہ کو چبا لیتی تو وہ زندہ کس طرح رہتا؟ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بغیر چبانے کے وہ آپ کو نگل گئی.پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی تھی کہ گو وہ زندہ اس کے پیٹ میں چلے جاتے مگر اندر جا کر ہلاک ہو جاتے لیکن اللہ تعالیٰ نے مچھلی کے پیٹ میں بھی ان کے لئے ہوا کا ایسا ذخیرہ رکھا کہ باوجود تین رات دن مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے وہ زندہ رہے اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی مچھلی کے پیٹ سے باہر آگئے.حالانکہ مچھلی کے اُگلتے وقت بھی یہ خطرہ ہو سکتا تھا کہ اس کے گلے کے دبائو سے آپ مر جاتے مگر خدا تعالیٰ نے ہر مرحلہ پر آپ کی حفاظت کی اور جب مچھلی نے آپ کو اُگلا اس وقت بھی خدا نے آپ کی حفاظت کی نہ نگلتے وقت اس نے آپ کو چبایا نہ اگلتے وقت اس نے آپ کو چبایا.نہ پیٹ میں رہتے وقت ہوا کا ذخیرہ کم ہوا.پس یونہ نبی کا معجزہ کیا ہے؟ اس کا یہ معجزہ نہیں کہ وہ مر کر زندہ ہو گیا بلکہ اس کا معجزہ یہ ہے کہ مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے جو خطرناک حادثہ ہو سکتا تھا اس سے بچے رہے پھر پیٹ میں جا کر یہ خطرہ ہو سکتا تھا کہ آپ کو ہوا نہ پہنچتی اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے آپ ہلاک ہو جاتے مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی ایسا

Page 293

سامان کیا کہ آپ بچے رہے.اس کے بعد جب مچھلی نے آپ کو اُگلا اس وقت بھی یہ خطرہ ہو سکتا تھا کہ آپ ہلاک ہو جاتے.اُگلتے وقت بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو اس حادثہ سے بچا لیا.پس مر کر زندہ ہونا یونہ نبی کا معجزہ نہیں بلکہ ان تین مقامات پر یونہ نبی کا زندہ رہنا اس کی صداقت کا عظیم الشان نشان تھا.پس مسیحؑ اگر یہی معجزہ اپنی قوم کو دکھانا چاہتا تھا تواس کے معنے یہ تھے کہ وہ یونہ کی طرح زندہ ہی قبر میں جائے گا.زندہ ہی وہاں رہے گا اور زندہ ہی قبر سے نکلے گا.بہرحال اس کی صداقت اس بات سے وابستہ تھی کہ وہ ان تین مقامات پر موت سے محفوظ رہتا اور یہی وہ نشان تھا جس کے دکھائے جانے کا آپ نے یہود کے سامنے اعلان کیا اور بتایا کہ جس چیز کے ذریعہ میں قبر میں جائوںگا وہ ہمیشہ موت کا موجب ہوتی ہے مگر میرے لئے وہ موت کا موجب نہیں ہو گی.پھر قبر میں رکھا جانا موت کا موجب ہوتا ہے.مگر باوجود اس کے کہ مجھے قبر میں رکھا جائے گا پھر بھی میں نہیں مروں گا.بلکہ جس طرح یونہ مچھلی کے پیٹ میں تین رات دن رہنے کے باوجود بچ گیا اسی طرح میں بھی قبر میں تین رات دن رہنے کے باوجود زندہ رہوں گا.پھر تیسرا نشان یہ ہو گا کہ میں اس قبر میں سے زندہ نکل آئوں گا.حالانکہ کسی سرکاری مجرم کا جسے پھانسی کا حکم دیا جاچکا ہو زندہ نکل کر بھاگ جانا اس کے لئے بہت بڑے خطرات کا موجب ہوسکتا ہے اور گورنمنٹ اسے پھر گرفتار کرکے سزا دے سکتی ہے.مگر آپ فرماتے ہیں جس طرح یوناہ نبی کو مچھلی نے زندہ اُگلا اسی طرح میں بھی قبر میں سے زندہ نکل آئوں گا.یونہ نبی کے متعلق بھی یہ خطرہ تھا کہ اُگلتے وقت مچھلی اسے ہلاک کردے مگر خدا تعالیٰ نے اسے محفوظ رکھا اور وہ سلامتی کے ساتھ اس کے پیٹ میں سے نکل آیا.اسی طرح میرے متعلق بظاہر یہ خطرہ ہوگا کہ گورنمنٹ مجھے گرفتار کرلے مگر یونہ نبی کی طرح خدا میرے لئے ایسے سامان پیدا کردے گا کہ میں بغیر کسی خطرہ کے زندہ نکل آئوں گا اور کوئی شخص مجھے پکڑ کر مار نہیں سکے گا.یہ امر ظاہر ہے کہ مسیحؑ کے قبر میں جانے کا راستہ اس کا صلیب پر کھینچا جانا تھا.پس اگر مسیحؑ کی یہ پیشگوئی صحیح تھی تو اس کے معنے صرف یہ تھے کہ مسیحؑ یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ صلیب جو موت کا ذریعہ ہے اس پر لٹک کر بھی میں زندہ بچ رہوں گا اور جس طرح مچھلی نے یونہ کو چبا کر مارا نہیں بلکہ اسے زندہ پیٹ میں اتار دیا اسی طرح صلیب مجھے مارے گی نہیں بلکہ زندہ ہی مجھے قبر میں بھجوادے گی.دوسرا ذریعہ موت کا قبر ہوتی ہے.اس کے متعلق مسیح یہ پیشگوئی کرتا ہے کہ جس طرح یونس نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہا میں زمین کے پیٹ میں زندہ رہوں گا اور پھر تیسری پیشگوئی مسیح یہ کرتاہے کہ جس طرح یونہ نبی مچھلی کے پیٹ سے زندہ نکلا اور خدا نے آخری مرتبہ بھی اسے موت سے محفوظ رکھا.اسی طرح میرے ساتھ واقعہ ہوگا میں بھی

Page 294

زمین کے پیٹ میں سے زندہ نکلوں گا اور کوئی شخص مجھے گرفتار کرکے ہلاک نہیں کرسکتا.چونکہ یہ مضمون مسیحؑ کی وفات کا نہیں میں تفصیل میں نہیں جاتا مگر اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ مسیحی روایات کے مطابق مسیحؑ کو صرف دو تین گھنٹے صلیب پر لٹکایا گیا تھا.چنانچہ انجیل سے ثابت ہے کہ چھ۶ پہر سے نو۹ پہر تک ان کو صلیب پر رکھا گیا(متی باب ۲۷ آیت ۴۵تا۵۴) اور یہ صرف تین گھنٹے بنتے ہیں.مگر میرے نزدیک یہ اندازہ بھی پورے طور پر صحیح نہیں کہلاسکتا.اس لئے کہ آپ کو صلیب پر لٹکانے کے بعد بڑے زور سے آندھی آگئی تھی اور چاروں طرف تاریکی ہی تاریکی چھا گئی تھی اس وجہ سے ہوسکتا ہے کہ آندھی اور تاریکی کی وجہ سے حضرت مسیحؑ کو صلیب پر سے اتار نے کا وقت لوگوں پر پوشیدہ رہا ہو اور انہوں نے قیاس سے کام لے کر وقت کی تعیین نو۹ پہر تک کردی ہو.لیکن بہرحال اگر اس کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی یہ صرف تین گھنٹے بنتے ہیں حالانکہ صلیب پر تین دن سے سات دن تک لٹکانے سے بھی لوگ نہیں مرتے تھے.ہمارے ملک میں عام طور پر لوگ صلیب کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ سینہ کی ہڈیوں اور ہاتھوں اور پائوں کی ہڈیوں میں میخیں گاڑ دی جاتی تھیں اور انسان فوری طور پر ہلاک ہوجاتا تھا.لیکن یہ حقیقت کے خلاف ہے.صلیب جس پر انسان کو لٹکایا جاتا تھا اس شکل کی ہوا کرتی تھی.V جب کسی شخص کو صلیب پر لٹکانا ہوتا تھا تو اسے کھڑ اکرکے اس کے بازوئوں کو دائیں بائیں دو ڈنڈوں کے ساتھ باندھ دیتے تھے اور پھر اس کے بازوئوں کے نرم عضلات میں کیل گاڑ دئیےجاتے تھے.اسی طرح ٹانگوں کی ہڈیوں میں نہیں بلکہ ان کے گوشت میں میخیں گاڑ دیتے تھے.عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ٹانگوں، ہاتھوں اور سینہ کی ہڈیوں میں کیل گاڑے جاتے تھے اور چونکہ ہڈیوں میں کیل گاڑنا واقعہ میں ایسا خطرناک امر ہے کہ انسان اس کے بعد زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتا اس لئے وہ خیال کرتے ہیں کہ جو شخص صلیب پر لٹکایا جاتا ہوگا وہ جلدی ہی ہلاک ہوجاتا ہوگا.مگر یہ درست نہیں.جسم کی ہڈیوں میں نہیں بلکہ بازوئوں کے نرم عضلات میں کیل گاڑے جاتے تھے.اسی طرح ٹانگوں کی ہڈیوں کے نیچے جو گوشت ہوتا ہے اس میں کیل گاڑے جاتے تھے.بے شک یہ ایک تکلیف دہ چیز تھی مگر فوری طور پر موت کا موجب نہیں ہوسکتی تھی.بلکہ جو لوگ قوی اور مضبوط ہوتے تھے وہ بعض دفعہ سات سات دن تک بھی نہیں مرتے تھے اور جو لوگ مرتے تھے ان میں سے اکثر فاقہ کی وجہ سے مرا کرتے تھے یا اس وجہ سے کہ زخموں میں کیڑے پڑ جاتے اور ان کا زہر ہلاکت کا موجب بن جاتا.وہ ڈاکو یا باغی وغیرہ جو ساتویں دن تک بھی زندہ رہتے

Page 295

تھے ان کے متعلق دستور یہ تھا کہ ہتھوڑے مار مار کر ان کی ہڈیاں توڑی جاتی تھیں.اور اس طرح ان کو ہلاک کیا جاتا.دراصل صلیب کے معنے بھی یہی ہیں کہ ہڈی توڑ کر گودا باہر نکال دینا اور یہ نام اس لئے رکھا گیا تھا کہ اکثر لوگ صلیب پر مرتے نہیں تھے بلکہ بعد میں ان کی ہڈیاں توڑ کر گودا نکالاجاتا تھا.یہ لفظ خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ صلیب پر جلدی موت واقعہ ہوجاتی تھی.پھر مسیحؑ کی صلیب کے وقت اور بھی کئی غیر معمولی واقعات ہوئے.اوّل جب مسیحؑ پر مقدمہ ہوا تو پیلاطوس جس کے پاس فیصلہ کے لئے یہ مقدمہ تھا اس کی بیوی نے ایک منذر رئویا دیکھا جس کی بنا پر اس نے پیلاطوس کو کہلا بھیجا کہ ’’تو اس راستباز سے کچھ کام نہ رکھ کیونکہ میں نے آج خواب میں اس کے سبب بہت دکھ اٹھا یا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۹).پیلا طوس نے حضرت مسیحؑ کو چھوڑنے کی بہت کوشش کی مگر یہودیوں نے اصرار کیا کہ ہم اسے ضرور سزا دلوائیں گے اور چونکہ حضرت مسیحؑ پر باغی ہونے کا الزام تھا.یہودیوں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے اسے چھوڑ دیا تو ہم تم پر یہ الزام لگائیں گے کہ تم نے ایک باغی کا ساتھ دیا ہے.جب اسے سخت مجبور کیا گیا تو اس نے ’’پانی لے کر بھیڑ کے آگے اپنے ہاتھ دھوئے اور کہا میں اس راستباز کے خون سے پاک ہوں.تم جانو.تب سب لوگوں نے جواب میں کہا اس کا خون ہم پر اور ہماری اولاد پر ہو‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۲۴،۲۵).دوسرے پیلاطوس نے مسیحؑ کو ایسے وقت میں پھانسی کا حکم دیا جبکہ دوسرے دن سبت تھا.(مرقس باب۱۵ آیت ۴۲) میں بتا چکا ہوں کہ جس شخص کو صلیب پر لٹکایا جاتا تھا وہ جلدی نہیں مرتا تھا بلکہ تین سے سات دن تک زندہ رہتا تھا اور بعض لوگ سات دن کے بعد بھی زندہ رہتے تھے.ایسے لوگوں کی ہڈیاں توڑ کر ان کو ہلاک کیا جاتا تھا.بہرحال ایک دو دن تک صلیب پر لٹکنے کی وجہ سے کوئی شخص مرتا نہیں تھا.بے شک زخموں کی وجہ سے انہیں تکلیف ہوتی تھی مگر یہ تکلیف ان کی موت کا موجب نہ بنتی تھی.ہم دیکھتے ہیں کہ چوروں اور ڈاکوئوں سے بعض دفعہ مقابلہ ہوتا ہے تو کئی لوگوں کے سر پھٹ جاتے ہیں.مگر پھر بھی وہ پانچ پانچ سات سات دن تک زیر علاج رہتے ہیں اور پھر ان میں سے بھی کئی بچ جاتے ہیں.بہرحال اس قسم کے زخم فوری ہلاکت کا موجب نہیں ہوتے.حضرت مسیحؑ اسی صورت میں صلیب پر فوت ہوسکتے تھے جب انہیں سات۷ دن تک صلیب پر لٹکا رہنے دیا جاتا اور پھر ان کی ہڈیاں بھی توڑی جاتیں.مگر پیلاطوس چونکہ مسیحؑ کے ساتھ تھا اس لئے اس نے مسیحؑ کی صلیب کے لئے ایسا وقت مقرر کیا جبکہ دوسرے دن سبت تھا اور یہود کا یہ عقیدہ تھا کہ اگر سبت کے دن کوئی شخص پھانسی پر لٹکا رہے تو ساری قوم لعنتی ہوجاتی ہے (استثناء باب ۲۱آیت ۲۲،۲۳).بہرحال جب پیلاطوس سے اصرار کیا گیا کہ مسیحؑ کو ضروری پھانسی دی جائے.تو

Page 296

اس نے حکم دے دیا کہ اس کو ابھی پھانسی پر لٹکادیا جائے.وہ جمعہ کا دن تھا اور ظہر کے قریب کا وقت تھا.بلکہ ظہر کا وقت بھی ڈھل چکا تھا جب حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا.عصر کے قریب تیز آندھی آگئی.وہ اتنی تیز تھی کہ اس نے تمام جو ّ کو اندھیرا کر دیا.اس وقت بعض نے کہا کہ اگر اسی حالت میں شام ہو گئی اور ہمیں وقت کا علم نہ ہو سکا تو چونکہ شام سے سبت کا آغاز ہو جائے گا اس لئے ساری قوم لعنتی ہو جائے گی.بہتر یہ ہے کہ ان کو جلدی صلیب سے اتار لیا جائے ا یسا نہ ہو کہ شام کا وقت ہو جائے یسوع صلیب پر لٹکا رہے اور ساری قوم پر لعنت پڑ جائے.اس موقعہ پر یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ یہودیوں نے کیوں یہ اعتراض نہ کیا کہ مسیحؑ کو جمعہ کے دن صلیب پر لٹکایا نہ جائے بلکہ کسی اور دن اسے صلیب دیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک تو یہود کا پہلو کمزور تھا اگر وہ کہتے کہ جمعہ کے دن مسیحؑ کو صلیب نہ دی جائے تو چونکہ مسیحؑ پر بغاوت کا الزام تھا پیلاطوس ان کو کہہ سکتا تھا کہ اگر اس دوران میں یہ شخص بھاگ گیا یا اس کوماننے والے اس کو چھڑا کر لے گئے تو اس کا کون ذمہ دار ہوگا اور یہ ایک ایسی بات تھی جس کا یہود کے پاس کوئی جواب نہ ہوتا.دوسرے چونکہ قاعدہ تھا کہ اگر کوئی شخص صلیب پر نہ مرتا تو اس کی ہڈیاں توڑ کر اس کو ماردیا جاتا تھا.اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ اگر یہ صلیب پر زندہ رہا تب بھی اس کی ہڈیاں توڑی جائیں گی.ہمیں اس وقت یہ سوال نہیں اٹھانا چاہیے کہ جمعہ کو اسے صلیب پر نہ لٹکایا جائے کیونکہ ہم نے اس پر الزام یہ لگایا ہے کہ یہ حکومت کا باغی ہے اگر ہم نے سزا کی التواء کے متعلق کوئی سوال اٹھایا تو پیلاطوس کہے گا کہ حکومت کے باغی کو تو فوراً مارنا چاہیے تم یہ سوال کیوں اٹھاتے ہو کہ اسے ابھی زندہ رہنے دیا جائے اور ایک دو دن گزرنے کے بعد اسے صلیب پر لٹکایا جائے.بہرحال یہود نے کوئی مزاحمت نہ کی اور حضرت مسیحؑ کو جمعہ کے دن پچھلے پہر صلیب پر لٹکادیا گیا.مگر چونکہ پیلاطوس دل سے مسیحؑ کا خیرخواہ تھا اور اپنی بیوی کے خواب کی وجہ سے وہ ڈر بھی چکا تھا اس لئے اس نے مسیحؑ کو صلیب دیتے وقت فوج کا ایک ایسا دستہ مقرر کیا جس کا افسر خود مسیحؑ کا مرید تھا.اسی طرح پہرہ داروں اور پولیس کے حاضر الوقت سپاہیوں میں سے بھی بعض حضرت مسیحؑ کے مرید تھے.چنانچہ اس کا ظاہری ثبوت اس امر سے ملتا ہے کہ جب حضرت مسیحؑ درد کی شدت کی وجہ سے چلائے تو پہرہ داروں میں سے ایک نے جلدی سے اسفنج کا ایک ٹکڑا لیا اور اسے شراب اور مُر سے بھگو کر حضرت مسیحؑ کو چوسنے کے لئے دیا.پادری لوگ دانستہ یا ناواقفیت سے جب واقعہ صلیب کے متعلق تقریر کرتے ہیں تو جس طرح شیعہ لوگ واقعات کربلا کو زیادہ سے زیادہ دردناک رنگ میں پیش کرتے ہیں اور معمولی باتوں کو بھی بڑھاچڑھا کر بیان کردیتے ہیں اسی طرح وہ بھی بعض دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں دیکھو خدا کے بیٹے سے کس قدر دشمنی کی گئی کہ جب وہ سخت تکلیف میں مبتلا تھا اور شدت درد کی وجہ سے کراہ

Page 297

رہا تھا تو اس وقت کم بخت ظالموں نے شراب اور مُر میں اسفنج بھگو کر اس کے مونہہ میں ڈالا اور اس طرح آخری وقت میں اسے اور زیادہ تکلیف اور دکھ میں ڈالا.حالانکہ تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ صلیب پر لٹکائے جانے والوں میں سے جب کسی کی رعایت منظور ہوتی اور اس کی تکلیف کو کم کرنا مناسب سمجھا جاتا تو اسے شراب اور مُر کا مرکب پلایا جاتا تھا(Jewish Encyclopedia Under Word Crucifixion).اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ اناجیل میں شراب اور مُر کا ذکر نہیں آتا بلکہ اتنا ذکر آتا ہے کہ جب حضرت مسیحؑ شدت درد کی وجہ سے چلائے تو ’’ایک نے دوڑ کر اسفنج کو سرکے میں بھگو کر اور ایک نرکٹ پر رکھ کے اسے چسایا‘‘ (مرقس باب ۱۵ آیت ۳۶).مگر سرکہ میں بھگو کر اسفنج منہ میں دینا اس زمانہ کے دستوروں میں کہیں ثابت نہیں.پھر وجہ کیا ہے کہ وہاں سرکہ اور اسفنج رکھا تھا.کیا لوگ بلا وجہ سرکہ اور اسفنج ساتھ رکھا کرتے ہیں؟ کیا کسی مجلس میں سرکہ اور اسفنج طلب کیا جائے تو فوراً مل جائے گا؟ پس یہ روایت دیدہ و دانستہ یا حقیقت سے ناواقفی کی وجہ سے بیان کی گئی ہے.اصل بات یہی ہے کہ اس زمانہ کے خیال کے مطابق کہ زخموں کی تکلیف دور کرنے کے لئے مُر اور شراب دینی چاہیے حضرت مسیحؑ کے مریدوں نے اس جگہ شراب اور مُر رکھے ہوئے تھے.جب وہ شدت درد سے چلائے تو انہوں نے دوڑ کر اسفنج اس میں بھگو کر چسادیا (دیکھو جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۴ زیر لفظ صلیب).اس حوالہ کے اصل الفاظ یہ ہیں.The details given in the New Testament accounts (Matt.XXVII) of the crucifixion of Jesus agree on the whole with the procedure in vogue under Roman Law.Two modifications are worthy of note: (1) In order to make him insensible to pain a drink (Matt.XXVII) was given him.This was in accordance with the humane Jewish provision (Maimonides, "Yad, Sanh XIII, Sanh 43A) (2) The Beverage was a mixture of Myrrh and wine, given "so that the delinquent might lose clear, consciousness through the ensuing intoxication".(Jewish Encyclopedia Under Word Crucifixion) یعنی انجیل میں یسوع کے صلیب پر لٹکائے جانے کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ عام طور پر اس رومن قانون

Page 298

کے مطابق معلوم ہوتی ہے جو ان دنوں رائج تھا.صرف دو فرق ایسے ہیں جو خاص طور پر توجہ کے قابل ہیں.پہلا فرق یہ ہے کہ یسوع مسیحؑ کو درد کی طرف سے بے حس کرنے کے لئے ایک دوائی دی گئی جس کا پلایا جانا یہودیوں کے ایک ہمدردانہ قانون کے مطابق تھا.یہ دوا جو پلائی جاتی تھی مُر اور شراب کا ایک مرکب ہوتی تھی اور اس لئے دی جاتی تھی تاکہ سزا پانے والے مجرم میں احساس درد باقی نہ رہے اور نشہ کی وجہ سے اسے تکلیف محسوس نہ ہو.پس گو انجیل میں یہ لکھا ہے کہ اسفنج کو سرکہ میں بھگو کر حضرت مسیحؑ کو چوسنے کے لئے دیا گیا مگر دراصل یہ سرکہ نہیں تھا.بلکہ ایک دوا تھی جو شراب اور مُر کو ملا کر تیار کی جاتی تھی اور یہ مرکب خاص اور اہم لوگوں کو زخموں کی تکلیف کم کرنے کے لئے دیا جاتا تھا.حضرت مسیحؑ کو بھی پہرہ دار نے یہ مرکب دیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پہر دار جو کہ اس موقعہ پر پیلاطوس کی طرف سے مقرر کئے گئے تھے حضرت مسیحؑ کے مرید تھے اور وہ چاہتے تھے کہ حضرت مسیحؑ کی تکلیف کو جس قدر ہوسکے کم کیا جائے.اسی طرح پیلاطوس کا حضرت مسیحؑ کو جمعہ کے دن کے آخری حصہ میں صلیب پر لٹکانا اس بات کا ایک بین ثبوت ہے کہ پیلاطوس دل سے چاہتا تھا کہ حضرت مسیحؑ صلیب سے بچ جائیں.اس لئے اس نے سبت کے قریب کے دن کے آخری حصہ میں آپ کو صلیب دینے کا حکم دیا تاکہ قلیل سے قلیل عرصہ آپ صلیب پر رہیں اور اس طرح آپ ہلاکت سے محفوظ رہیں.چنانچہ جیوش انسائیکلوپیڈیا نے بھی اس بات کو لیا ہے کہ یہ بالکل غیر معمولی اور خلاف قاعدہ فعل تھا جس کا پیلاطوس نے ارتکاب کیا.لکھا ہے."The greatest difficulty from the point of view of the Jewish Panel procedure is presented by the day and time of the execution.According to the Gospels, Jesus died on Friday the eve of Sabbath.Yet on that day, in view of the approach of the Sabbath (or holiday), executions lasting until late in the afternoon were almost impossible.(Sifre, II-221: Sanh.35B: Mekilta to Wayakhel).(Jewish Encyclopedia Under Word Crucifixion) یعنی سب سے بڑی مشکل جو یہودی قانونِ تعزیر کے سلسلہ میں ہمارے سامنے پیش آتی ہے وہ اس وقت اور دن کی تعیین سے تعلق رکھتی ہے جس میں یسوع مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا.انجیل کے رو سے یسوع جمعہ کے دن سبت کی شام کو مرا حالانکہ یہودی قانون کے مطابق اس دن کوئی شخص صلیب پر لٹکایا نہیں جاسکتا تھا کیونکہ سبت کے قرب کی

Page 299

وجہ سے بعد دوپہر مجرموں کو کافی دیر تک صلیب پر لٹکائے رکھنا قریباً ناممکن تھا.گویا جیوش انسائیکلوپیڈیا والا نہ صرف جمعہ کے دن حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکانا ایک عجیب بات سمجھتا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ صلیب پر اس دن زیادہ دیر تک کوئی شخص لٹکایا ہی نہیں جاسکتا تھا.اس بنا پر ہمارا حق ہے کہ اگر انجیل یہ کہتی ہے کہ حضرت مسیحؑ کو تین گھنٹے صلیب پر لٹکایا گیا تو ہم یہ کہیں کہ آپ کو صرف ڈیڑھ دو گھنٹے لٹکایا گیا تھا.کیونکہ سبت کے قرب کی وجہ سے زیادہ دیر تک کسی شخص کو صلیب پر لٹکایا نہیں جاسکتا تھا.بہرحال اگر دو یا تین گھنٹے آپ کو لٹکایا گیا تب بھی اس سے آپ کی موت واقع نہیں ہوسکتی تھی کیونکہ صلیب پر بعض دفعہ سات سات دن تک بھی لوگ زندہ رہتے تھے اور وہ اس وقت تک نہیں مرتے تھے جب تک ہتھوڑے مار مار کر ان کی ہڈیوں کا گودا نہ نکالا جاتا.دو۲سرا ثبوت اس امر کا کہ پیلاطوس نے حضرت مسیحؑ کو بچانے کے لئے صلیب کے وقت بعض ایسے افسروں کی وہاں ڈیوٹیاں مقرر کردی تھیں جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لاچکے تھے.یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے جب حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا تو ’’وے جو ادھر سے جاتے تھے سر ہلاتے تھے اور یہ کہہ کے اسے ملامت کرتے تھے کہ واہ تو جو ہیکل کو ڈھاتا اور تین دن میں بناتا تھا اپنے تئیں بچا اور صلیب پر سے اتر آ.اسی طرح سردار کاہنوں نے بھی آپس میں فقیہوں کے ساتھ ٹھٹھے کرتے ہوئے کہا اس نے اوروں کو بچایا اپنے تئیں بچانہیں سکتا.بنی اسرائیل کا بادشاہ مسیحؑ اب صلیب پر سے اتر آوے تاکہ ہم دیکھیں اور ایمان لاویں‘‘.(مرقس باب ۱۵ آیت ۲۹ تا ۳۲).غرض بقول انجیل اس وقت لوگ آپ پر مذاق کررہے تھے اسی دوران میں حضرت مسیحؑ شدت درد کی وجہ سے چلائے اور بقول بائیبل انہوں نے ’’دم توڑ دیا‘‘.اس وقت کی حالت کا ذکر کرتے ہوئے انجیل میں لکھا ہے ’’اس صوبہ دار نے جو اس کے سامنے کھڑا تھا اسے یوں چلاتے اور دم چھوڑتے دیکھ کے کہا کہ یہ شخص سچ مچ خدا کا بیٹا تھا‘‘ (مرقس باب ۱۵آیت ۳۹).اب بتائو کیا یہ الفاظ کوئی ایسا شخص کہہ سکتا تھا جو حضرت مسیحؑکا مخالف ہوتا.اگر وہ آپ کو فقیہوں اور فریسیوں کی طرح جھوٹا سمجھتا تو اسے کہنا چاہیے تھا کہ دیکھو آج ثابت ہوگیا ہے کہ یہ شخص خدا کا بیٹا نہیں تھا.ہم نے اسے صلیب پر لٹکایا اور اس کی جان لے لی.مگر وہ یہ نہیں کہتا وہ آپ پر ہنسی نہیں اُڑاتا، وہ آپ کے دعویٰ کی تکذیب نہیں کرتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ ’’یہ شخص سچ مچ خدا کا بیٹا تھا‘‘.یہ اس امر کا ایک واضح اور کھلا ثبوت ہے کہ صلیب کے وقت پیلاطوس نے ارادتاً ایسے افسر اور سپاہی مقرر کئے تھے جو حضرت مسیحؑ پر ایمان لاچکے تھے تاکہ آپ کی تکلیف کو وہ زیادہ سے زیادہ کم کرسکیں اور صلیب سے اتارنے کے بعد آپ کی حفاظت اور علاج میں وہ حصہ لے سکیں.بہرحال مسیحؑ بوجہ نازک

Page 300

بدن ہونے کے بے ہوش ہوگئے.اتنے میں آندھی آئی اور مسیحؑ کو اتار لیا گیا تاکہ کہیں سبت نہ آجائے.جب آپ کو اور ان چوروں کو بھی اتار لیا گیا جن کو آپ کے ساتھ ہی صلیب پر لٹکایا گیا تھا تو قاعدہ کے مطابق ساتھ کے چوروں کی ہڈیاں توڑ دی گئیں مگر افسر پولیس چونکہ حضرت مسیحؑ کا مرید تھا جیسا کہ مرقس باب ۱۵ آیت ۳۹ اور متی باب ۲۷ آیت ۵۴ سے ظاہر ہے.اس نے یہ چالاکی کی کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق کہہ دیا یہ تو مرگیا ہے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں ہے.حالانکہ انجیل میں صاف لکھا ہے کہ ’’سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اس کی پسلی چھیدی اور فی الفور اس سے لہو اور پانی نکلا‘‘ (یوحنا باب ۱۹ آیت۳۴).لہو اور پانی کا نکلنا بتارہا ہے کہ آپ زندہ تھے اگر فوت ہوچکے ہوتے تو آپ کا خون جم جانا چاہیے تھا.لیکن لہو اور پانی نکلنے کے الفاظ بتارہے ہیں کہ درحقیقت ان کے جسم میں سے بہتا ہوا خون نکلا.مگر حضرت مسیحؑ چونکہ اس وقت بے ہوش تھے اس سپاہی نے لوگوں کو دھوکا میں مبتلا رکھنے کے لئے کہہ دیا کہ آپ فوت ہوچکے ہیں.اس کے فوراً بعد یوسف آرمیتا جو حضرت مسیحؑ کے مرید تھے پیلاطوس کے پاس گئے اور اس سے اجازت لی کہ لاش میرے حوالے کی جائے چنانچہ پیلا طوس نے حکم دے دیا کہ لاش یوسف آرمیتہ کو دے دی جائے (متی باب۲۷آیت۵۸) لاش پر قبضہ کرنے کے بعد یوسف آرمیتہ نے ایک کھلی کوٹھڑی جیسی قبر میں ان کو بند رکھا جو زمین میں کھودی ہوئی نہ تھی بلکہ کوٹھڑی کی طرح چٹان میں کھدی ہوئی تھی اس میں ان کے جسم کو رکھ کر اس کے سامنے پتھر رکھ دیا گیا.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہوا کا راستہ کھلا رکھا گیا.چنانچہ لکھا ہے :’’ یوسف نے لاش لے کر سوتی صاف چادر میںلپیٹی اور اپنی نئی قبر میںجو چٹان میں کھودی تھی رکھی اور ایک بھاری پتھر قبر کے مونہہ پر ڈھلکا کے چلا گیا‘‘ (متی باب ۲۷آیت۵۹،۶۰) ’’جیوش انسائیکلو پیڈیا‘‘ نے بھی اس سوال کو خاص طور پر اٹھایا ہے.چنانچہ اس میں لکھاہے.Bodies of delinquents were not buried in private graves (snah:vi:5) while that of Jesus was buried in a sepulcher belonging to Joseph of Arimathea.(Jewish Encyclopaedia vol.4, p.373) (Jewish Encyclopedia Under Word Crucifixion) یعنی مجرموں کی لاشیں خاص قبروں میں نہیں دفنائی جاتی تھیںلیکن یسوع مسیحؑ کے ساتھ یہ امتیازی سلوک روا رکھا گیا کہ اس کی نعش یوسف آرمیتا کی مملوکہ ایک کھلی کوٹھڑی میں رکھی گئی.یہود کو اس پر شبہ ہوا اور انہوں نے پیلا طوس سے

Page 301

شکایت کی کہ تیسرے دن تک قبر کی نگرانی کی جائے چنانچہ لکھا ہے ’’ دوسرے روز جو تیاری کے دن کے بعد ہے سردار کاہنوں اور فریسیوںنے مل کر پیلاطوس کے پاس جمع ہو کے کہا کہ اے خداوند ہمیں یاد ہے کہ وہ دغاباز اپنے جیتے جی کہتا تھا کہ میں تین دن بعد جی اٹھوں گا.اس لئے حکم کر کہ تیسرے دن تک قبر کی نگہبانی کریں‘‘ (متی باب۲۷آیت۶۲تا۶۴) اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کی یہ پیشگوئی کہ یہود کو وہی نشان دکھایا جائے گا جو یونس نبی کے ذریعہ ظاہر ہوا لوگوںمیںخوب مشہور ہوچکی تھی اور حواری اس پیشگوئی کے مطابق ہر ایک سے یہ کہتے پھرتے تھے کہ جس طرح یونس تین رات دن کے بعد مچھلی کے پیٹ میں سے زندہ نکل آیا اسی طرح مسیحؑ بھی تین رات اور دن کے بعد زندہ ہو جائے گا.اس پیشگوئی کی بناء پر یہود سمجھتے تھے کہ تین دن اور رات گذرنے کے بعد حواریوں نے کہہ دینا ہے کہ دیکھو مسیحؑ زندہ ہو گیا.اس لئے بہتر یہی ہے کہ پیلا طوس کو ابھی سے کہہ دیا جائے کہ جس کوٹھڑی میں مسیحؑ کی لاش کو رکھا گیا ہے اس پر تین دن تک پہرہ لگا دیا جائے تا کہ مسیحؑ کی یہ بات پوری نہ ہو سکے کہ میںیونس نبی کی طرح تین رات اور دن گذرنے کے بعد زندہ نکل آئوںگا.مگر پیلا طوس چونکہ اندر سے مسیحؑ کے ساتھ تھا.اس نے انکار کردیا اور کہا کہ میں سرکاری پہرے دار مقرر نہیں کر سکتا’’تمہارے پاس پہرے والے ہیں جا کے مقدور بھر اس کی نگہبانی کرو‘‘ (متی باب۲۷آیت۶۵) یعنی تم خود پہرہ دیتے رہو میں سرکاری طور پر اس بارہ میں کوئی انتظام نہیں کرسکتا.پیلا طوس کی اس انکار سے غرض یہ تھی کہ اگر حکومت کی طرف سے وہاں پہرے دار مقررکئے گئے تو اس صورت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام وہاں سے نکل نہیں سکیں گے اور اگر پہرے داروں کا مقابلہ کر کے نکلے تو چونکہ وہ حکومت کی طرف سے مقررہوں گے ان کا مقابلہ حکومت کا مقابلہ سمجھا جائے گا اور انہیں اور زیادہ مشکلات پیش آجائیں گی.لیکن اگر عام لوگ پہرہ پر ہوئے تو ان کا مقابلہ کرنے میںکوئی حرج نہیں ہو گا.مسیحؑ کے حواری ان سے لڑیں گے اور مسیحؑ کو نکال کر لے جائیں گے.اس حکمت کے ماتحت اس نے سرکاری پہرہ لگانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میںپولیس مقرر نہیں کر سکتا.اگر تم اس کی نگرانی کرنا ضروری سمجھتے ہو تو خود پہرہ لگا لو.جب اتوار کی صبح کو پو پھٹتے وقت کچھ عورتیں وہاں گئیں تو انہوں نے دیکھا کہ وہاں مسیحؑ نہیں ہیںاور ایک فرشتہ چٹان پر بیٹھا ہوا ہے.چنانچہ لکھا ہے ’’سبت کے بعد جب ہفتہ کے پہلے دن پو پھٹنے لگی مریم مگد لینی اور دوسری مریم قبر کو دیکھنے آئیںاور دیکھو کہ ایک بڑا بھونچال آیا تھا کیونکہ خداوند کا فرشتہ آسمان سے اتر کے آیا اور اس پتھر کو قبر سے ڈھلکا کے اس پر بیٹھ گیا.اس کا چہرہ بجلی کا سا اور اس کی پوشاک سفید برف کی سی تھی.‘‘ (متی باب۲۸آیت۱تا۳) میں سمجھتا ہوں فرشتہ کوئی نہ تھا یہ حضرت مسیحؑ تھے جو باہر نکل کر چٹان پر بیٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے کفن پہنا ہوا تھا.بہرحال انجیل کے بیان کے

Page 302

مطابق فرشتہ نے ان عورتوں سے کہا کہ مسیحؑ جسے تم دیکھنے کے لئے آئی ہو وہ یہاں نہیں ہے بلکہ اپنے حواریوں کے پاس جلیل کو گیا ہے تم جائو اور دوسرے حواریوں کو بھی اس امر کی اطلاع دے دو چنانچہ انجیل میںلکھا ہے ’’فرشتے نے مخاطب ہو کر ان عورتوں سے کہا تم مت ڈرو میں جانتا ہوںکہ تم یسوع کو جو صلیب پر کھینچا گیا ڈھونڈتی ہو.وہ یہاں نہیں ہے کیونکہ جیسا اس نے کہا تھا وہ جی اٹھاہے آئو یہ جگہ جہاں خداوند پڑا تھا دیکھو اور جلد جاکے اس کے شاگردوں سے کہو کہ وہ مردوں میں سے جی اٹھا ہے اور دیکھو وہ تمہارے آگے جلیل کو جاتا ہے وہاں تم اسے دیکھو گے دیکھو میں نے تمہیں جتا دیا‘‘ (متی باب۲۸آیت۵تا۷) یہ بھی لکھا ہے کہ یہود میں یہ مشہور تھا کہ پہرہ داروں کو رشوت دے کر یہ مشہور کیا گیا کہ وہ زندہ ہو کر چلاگیاہے ( متی باب ۲۸آیت۱۱تا۱۵) اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ پہرہ داروں نے یہی خبر دی تھی کہ مسیحؑ کے شاگرد زبردستی مسیحؑ کو کوٹھڑی میں سے نکال کر لے گئے ہیں مگر چونکہ یہود حضرت مسیحؑ کو لعنتی ثابت کرنا چاہتے تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پہرہ دار ٹھیک نہیں کہتے ان کو رشوت دے کر اس بات پر آمادہ کیا گیا ہے کہ وہ یہ کہیں کہ مسیحؑ زندہ ہو کر چلا گیا ہے.پھر لکھا ہے مسیحؑ حواریوں پر ظاہر ہوا اور انہیں کہا کہ ’’میرے ہاتھ پائوں کو دیکھو کہ میں ہی ہوںاور مجھے چھوئو.اور دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیںجیسا مجھ میں دیکھتے ہو اور یہ کہہ کے انہیںاپنے ہاتھ اور پائوں دکھائے‘‘ (لوقاباب۲۴آیت۳۹،۴۰) اسی طرح لکھا ہے ’’جب وے مارے خوشی کے اعتبار نہ کرتے اور متعجب تھے اس نے ان سے کہا کہ کیا یہاںتمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے تب انہوں نے بھونی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شہد کا ایک چھتہ اس کو دیا اس نے لے کے ان کے سامنے کھایا‘‘ (لوقاباب ۲۴آیت۴۱تا۴۳) یوحنا میں لکھا ہے کہ تھوما حواری نے جب یہ بات سنی کہ حضرت مسیحؑ صلیب سے بچ گئے ہیںتو اسے یقین نہ آیا اور اس نے کہا ’’جب تک کہ میں اس کے ہاتھوں میں کیلوںکے نشان نہ دیکھو ںاور کیلوں کے نشانوں میںاپنی انگلی نہ ڈالوں اور اپنے ہاتھ کو اس کے پہلو میں بھی نہ ڈالوں ہر گز یقین نہ کروںگا‘‘ (یوحنا باب۲۰آیت۲۵) حضرت مسیحؑ نے یہ بات سنی تو انہوں نے تھوما کو کہا.اپنی انگلی پاس لا اور میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا اور اسے میرے پہلو میں ڈال اور بے ایمان مت ہو بلکہ ایمان لا‘‘(یوحناباب۲۰آیت ۲۷) ان دلائل سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق یہ خیال کہ وہ صلیب پر لٹک کر مر گئے تھے با لکل باطل اور بے بنیاد ہے.بے شک حضرت مسیحؑ کو صلیب پر لٹکایا گیا تھا.مگر خدا نے ان کو بچالیااور اس طرح وہ نشان ظاہر ہوا جس کا انہوں نے قبل از وقت اعلان کر دیا تھا کہ جس طرح یونہ نبی مچھلی کے پیٹ میں زندہ گیا، زندہ رہا اور زندہ ہی

Page 303

باہر نکلا.اسی طرح میں بھی صلیب پر سے زندہ اتروں گا.زندگی کی حالت میں قبر میں جائوں گا اور پھر زندہ ہونے کی حالت میں ہی قبر سے باہر نکلوں گا.پھر کفارہ کے خلاف ایک اور دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیحؑ جب صلیب سے بچ گئے تو اس کے بعد وہ ہمیشہ اس کوشش میں رہے کہ کہیں دوبارہ دشمن ان کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو جائے.حالانکہ اگر وہ سچ مچ خدا کے بیٹے تھے یا حواریوں پر حضرت مسیحؑ کی روح ظاہر ہوئی تھی تو روح کو چھپنے کی کوئی ضرورت نہ تھی وہ ہر ایک کے سامنے آتی اور کہتی کہ ا گر تم میں طاقت ہے تو مجھے اب مار کر دکھائو.مگر انجیل اس بات پر گواہ ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد وہ دشمن سے چھپتے پھرے.پس حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائیوں کا یہ خیال کہ وہ بنی نوع انسان کے گناہوں کے لیے کفارہ ہوگئے تھے شروع سے لے کر آخر تک باطل ہے.انسانی پیدائش کے متعلق تیسرے نظریے کا رد انسانی پیدائش کے متعلق تیسرا خیال دنیا میں یہ پایا جاتا ہے کہ انسان کسی خاص ملکہ کو لے کر پیدا نہیں ہوا.وہ اپنی تعلیم و تربیت سے متاثر ہوتا اور اس کے مطابق ہو جاتا ہے گویا وہ حالات سے مجبور ہے.یہ فرائیڈاور دوسرے یورپین فلسفیوں کا خیال ہے ان کے نزدیک پیدائشی لحاظ سے انسان جانوروں کی سی حالت رکھتا ہے.نہ اس میں نیکی کا ملکہ ہوتا ہے اور نہ بدی کا ملکہ ہوتا ہے ہاں جب وہ پیداہوجاتا ہے تو اپنے گردوپیش کے حالات سے متاثر ہوتا ہے اگر وہ حالات نیک ہوں تو نیک ہو جاتا ہے اور اگر بد ہوں تو بد ہو جاتا ہے.بہرحال حالات سے مجبور ہو کر اس میں نیکی اور بدی کی مختلف کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں.ہم کہتے ہیں اگر تو اس کا یہ مفہوم ہے کہ ہر بچہ اپنی ذات میں بغیر کسی گناہ کے اثر کے پیدا ہوتا ہے لیکن بعد میں حالات اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور وہ ان کے نتیجہ میں گندہ اور خراب ہو جاتا ہے تو اسلام کا بھی یہی عقیدہ ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُّوْلَدُ عَلٰی فِطْرَۃِ الْاِسْلَامِ حَتّٰی یُعْرِبَ عَنْہُ لِسَانُہٗ فَاَبَوَاہُ یُـھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُنَصِّـرَانِہٖ اَوْ یُـمَجِّسَانِہٖ (المعجم الکبیر لطبرانی حدیث الاسود بن سـریع) ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے.اس کے بعدماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں.پس اگر فرائیڈ اور دوسرے یورپین فلسفیوں کی تھیوری یہ ہے کہ ہر بچہ فطرت صحیحہ لے کر دنیا میں آتا ہے لیکن اس کے بعد وہ حالات سے مجبور ہو کر بعض دفعہ گندہ اور ناپاک ہو جاتا ہے تو اس نتیجہ کے ہم بھی قائل ہیں اور یہ عین قرآن اور حدیث کے مطابق عقیدہ ہے.مگر سوال تو یہ ہے کہ کیا اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا نہیں.اگر اصلاح نہیں ہو سکتی تو احسن تقویم بے کار ہو گئی لیکن اگر اصلاح ہو سکتی ہے تو پھر خواہ خراب حالات کے اثر سے انسان بگڑ جائے اس کی پیدائش کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا

Page 304

کہ اس میں نیکی کا کوئی ملکہ ودیعت نہیں کیا گیا.اس نقطئہ نگاہ کے ماتحت جب ہم اس تھیوری پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فرائیڈ اور دوسرے یورپین فلسفی خود تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی اصلاح ہو سکتی ہے.چنانچہ سائیکو انیلسس( تجزیہ شہوات) ان کا ایک خاص مسئلہ ہے جس کے ماتحت یہ ان لوگوں کا علاج کرنے کے بھی دعوے دار ہیں جو مختلف قسم کے گندے خیالات میں مبتلا ہوتے ہیں.درحقیقت فرائیڈ کا نظریہ یہ ہے کہ انسانی فطرت کی خرابی اس وقت سے شروع نہیں ہوتی جب وہ کسی فعل کا ارتکاب کرتا ہے بلکہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے اسی وقت سے اس کی فطرت کے اندر بگاڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اور اس کی مختلف حرکات اور سکنات اس کے دل میں غلط یا صحیح جذبات پیدا کرتی چلی جاتی ہیں.مثلاً شہوت کا مادہ جو انسان میں پایا جاتا ہے اس کے متعلق فرائیڈ کا نظریہ یہ ہے کہ یہ اس وقت سے پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جب بچہ ماں کے پستانوں سے دودھ چوستا ہے.وہ کہتا ہے ماں کا دودھ چوسنے اور جسم کی باہمی رگڑ سے اسے خاص قسم کا حظ محسوس ہوتا ہے اور شہوانی مادہ اس میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.دوسرے پیشاب پاخانہ کرنے کے بعد جب اعضاء کی صفائی کی جاتی ہے تو ہاتھوں کی رگڑ سے اس کے قلب میں شہوانی خیالات کا احساس بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.پس یہ صحیح نہیں کہ پندرھویں یا سولھویں سال میں بچہ کے اندر شہوانی مادہ پیدا ہوتا ہے بلکہ بقول اس کے بچہ کی پیدائش کے ساتھ ہی یہ احساس مختلف حرکات و سکنات کے نتیجہ میں اس کے قلب میں پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو جوانی کے قریب زیادہ مکمل صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اس نتیجہ میں بھی ہم فرائیڈ کی تائید کرتے ہیں کیونکہ اسلام بھی یہی نظریہ پیش کرتا ہے کہ بدی اور نیکی کا احساس بچپن میں ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے کہ جب بچہ پیدا ہو اسی وقت اس کے کان میں اذان دو کیونکہ اس کی تعلیم اور تربیت کا زمانہ پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے.پس اگر فرائیڈ کی اتنی ہی تھیوری ہو تو ہم کہیں گے میاں فرائیڈ اس تھیوری کے تم موجد نہیں بلکہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجد ہیں.لیکن ان نتائج کو صحیح تسلیم کرنے کے باوجود ہمارا سوال اس تھیوری کے ما ننے والوں سے یہ ہے کہ خواہ تمام خرابیاں بچپن سے ہی انسانی قلب میں پیدا ہو جاتی ہوں سوال یہ ہے کہ جب کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو اس کی اصلاح ہو سکتی ہے یا نہیں؟ یا فطرت کا وہ بگاڑ جو ماحول کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے کسی اور طریق سے دور ہو سکتا ہے یا نہیں.اگر دور ہو سکتا ہے تو یہ خیال بالکل باطل ہوگیا کہ فطرت نیکی لے کر پیدا نہیں ہوئی.با لخصوص سائیکو انیلسس ( تجزیۂ شہوات) کے ذریعہ اس تھیوری کے ماننے والوں نے جو طریق علاج تجویز کیا ہے وہ خود اپنی ذات میں اس عقیدہ کو باطل ثابت کرنے کے لئے بہت کافی ہے.

Page 305

یہ تھیوری جس کا فرائیڈ کو موجد قرار دیا جاتا ہے اس رنگ میں بیان کی جاتی ہے کہ بچے کو پہلا عشق اپنی ماں سے ہوتا ہے لیکن بڑے ہو کر گردوپیش کے حالات کی وجہ سے یا مذہبی لوگوں کی باتیں سن سن کر اس کا یہ خیال دب جاتا ہے اور اس کی بجائے بیوی کی محبت اس کے سامنے آجاتی ہے لیکن بعض لوگوں کے اندر یہ جذبہ اتنی طاقت پکڑ جاتا ہے کہ بعد میں کوئی اور محبت ان کے جذبۂ محبت پر غالب نہیں آسکتی.ادھر وہ مذہبی لوگوں سے باتیں سنتے ہیں تو انہیں یہ کہتا ہوا پاتے ہیں کہ ماں بیوی نہیں بن سکتی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل میں ایک کشمکش شروع ہو جاتی ہے مذہب کہتا ہے کہ ماں بیوی نہیں بن سکتی اور ادھر وہ محبت جو دودھ چوستے وقت بچہ کے دل میں اپنی ماں کے متعلق پیدا ہو جاتی ہے اسے ماں کے ساتھ محبت کرنے پر مجبور کر رہی ہوتی ہے.ان متضاد خیالات کا اس کی طبیعت مقابلہ نہیں کر سکتی اور وہ کئی قسم کی دماغی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے.بے شک بعض دفعہ وہ خود بھی نہیں جانتا کہ اس کی بیماری کی کیا وجہ ہے.لیکن سائیکو انیلسس (تجزیۂ شہوات) کے ذریعہ اگر اس کا علاج کیا جائے تو اس کی مخفی مرض کا پتہ چل جاتا ہے اور اس کی بیماری کو آسانی کے ساتھ دور کیا جا سکتا ہے.اس مسئلہ پر زیادہ تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہوئے انہوں نے سو ۱۰۰ کے قریب ایسی باتیں جمع کی ہیں جو ان کے نزدیک بچے پر اثر ڈال کر اسے مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار بنا دیتی ہیں.جب کوئی مریض اس طریق علاج کے ماہر کے پاس آتا ہے تو وہ اسے لٹا کر اور اس کے جسم کو ڈھیلا کر کے اس کی نبض پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور ایک ایک کر کے مختلف باتیںاس کے سامنے بیان کرتا چلا جاتا ہے کبھی ماں کی محبت کا ذکر کرتا ہے کبھی باپ کی محبت کا ذکر کرتا ہے.کبھی ماں کی محبت کا ذکر کرتا ہے کبھی کسی امر کا اور کبھی کسی امر کا ذکر کرتا ہے اور نبض پر ہاتھ رکھ کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ کس بات پر اس کی نبض میںغیر معمولی حرکت پیدا ہوتی ہے.یہ صاف بات ہے کہ جب کسی ایسی بات کا ذکر کیا جاتا ہے جس سے انسان کو خاص طور پر دلچسپی ہوتی ہے تو اس کے دل کی حرکت تیز ہو جاتی ہے اور نبض بھی زیادہ جلدی جلدی حرکت کرنے لگتی ہے اس طرح ڈاکٹر معلوم کر لیتا ہے کہ مریض کی بیماری کا اصل باعث کیا ہے اور وہ کیوں بیمار چلا آرہا ہے.اس کے بعد اگر وہ خیال جائزہو تو وہ اسے مشورہ دیتے ہیںکہ وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرے اور اگر ناجائز ہو تو اس خواہش کی قباحت پر اس کے سامنے متواتر لیکچر دیتے ہیں یہاں تک کہ اس کے دل اور دماغ سے وہ خواہش بالکل نکل جاتی ہے اور چونکہ بیماری کا اصل سبب دور ہو جاتا ہے اس کی بیماری جاتی رہتی ہے اور وہ تند رست ہو جاتا ہے.اس طریق علاج کے ماتحت کئی قسم کے تجارب کئے گئے ہیں اور قطعی طورپر ایسے کئی کیس پیش کئے جاتے ہیں جو اور کسی ذریعہ سے اچھے نہ ہوئے لیکن سائیکوانیلسس(تجزیۂ شہوات) کے ماتحت جب ان کا علاج کیا گیا اور ان کی مخفی خواہشات کا علم حاصل کر کے ان کو

Page 306

پورا کرنے یا ان کو دور کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے.گزشتہ جنگ عظیم کے بعد ہزاروں لوگ ایسے تھے جو گولہ باری کے صدمات کے نتیجہ میں پاگل ہو گئے تھے.ان میں سے بعض تو اور علاجوں سے اچھے ہو گئے مگر بعض ایسے تھے جو کسی علاج سے بھی اچھے نہ ہوئے.آخر گورنمنٹ کو خیال پیدا ہوا کہ ان مریضوں کا سائیکو انیلسس (تجزیۂ شہوات) کے ذریعہ کیوں نہ علاج کرایا جائے.چنانچہ اس طرح ان کی تشخیص کروائی گئی تو کئی بیماروں کی نسبت معلوم ہوا کہ بظاہر وہ گولہ باری کے صدمہ کے نتیجہ میں پاگل ہوئے تھے.لیکن در اصل ان کی بیماری کی وجہ بعض جذباتِ شدیدہ کا پورا نہ ہونا تھا.جب ان کی بیماری کی اصل وجہ کا پتہ چل گیا تو اس کے مطابق علاج کرنے پر وہ بالکل اچھے ہو گئے حالانکہ اس سے پیشتر ان کے علاج کے لئے ہر قسم کی دوائیں استعمال کی جا چکی تھیں.کہا جاتا ہے کہ یورپ میں ایسے ہزاروں لوگ ہیں جو اس طریق علاج سے تندرست ہوئے.ہمارا جواب یہ ہے کہ بے شک یورپ میں ایسے ہزاروں لوگ ہوں مگر ہمارے ملک میں تو اس قسم کا کوئی مریض نظر نہیں آتا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی بیماری نہیں بلکہ ایک مقامی بیماری ہے جو یورپ میں پیدا ہو چکی ہے.اگر انسانی بیماری ہوتی تو ہندوستان میں بھی ہوتی.مصر میں بھی ہوتی.شام میں بھی ہوتی.فلسطین میں بھی ہوتی.چین اور جاپان میں بھی ہوتی مگر ہمیں دنیا کے اور کسی ملک میں یہ بیماری نظر نہیں آتی اگر آتی ہے تو صرف یورپ میں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپ کا مخصوص مرض ہے.تمام بنی نوع انسان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.اصل بات یہ ہے کہ یورپ میں عام طور پر چونکہ گند اور خرابی میں لوگ مبتلا رہتے ہیں اور ایسے لوگوں کے خیالات بھی ناپاک ہوتے ہیںاس لئے وہ اس قسم کے ا مراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں.اور خواہشات کے پورا ہو جانے پر وہ اچھے ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں چونکہ عام طور پر خیالات میں پاکیزگی پائی جاتی ہے اور وہ گند یہاں نہیں جو یورپ میں نظر آتا ہے اس لئے یہاں کسی کو سائیکو انیلسس کے ذریعہ اپنا علاج کرانے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی.پس اگر یوروپین فلسفیوں کی یہ تھیوری درست ہے تب بھی ہم انہیں کہیں گے کہ یہ تمہاری مقامی بیماری ہے بنی نوع انسان کی بیماری نہیں لیکن بفرض محال اگر اسے بنی نوع انسان کی مرض سمجھ لیا جائے.تب بھی ہم کہتے ہیں کہ تم نے یہ تو تسلیم کر لیا کہ خرابی کی اصلاح ہو سکتی ہے.جب تم نے یہ تسلیم کر لیا تو قرآن کی اس آیت کی صداقت ثابت ہو گئی کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ یعنی ہماری سنت یہ ہے کہ ہم انسانی روح کے بیمار ہونے پر اس کو اچھا کرنے کے سامان مہیا کیا کرتے ہیں اور یہی فطرت انسانی کے پاک ہونے کے معنے ہیں کہ خدا نے اس کی ہدایت اور اصلاح کے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں.اگر انسان ان سے فائدہ اٹھا لے تو وہ پاکیزگی کا جامہ پہن لیتا ہے اور اگر فائدہ نہ

Page 307

اٹھائے تو حیوانوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے.بہرحال اسلام یہ کہتا ہے کہ فطرت انسانی کو مستقل طور پر خراب قرار دینا اور اس کے لئے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ دائمی طور پر مسدود قرار دینا قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد امر ہے.خدا نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ خواہ اس میں کتنی ہی خرابیاں پیدا ہو جائیں.کتنی کمزوریاں اس میں رونما ہوجائیں پھر بھی اس کے دل کو صیقل کیا جا سکتا ہے.اس کی خرابیوں کو دور کیا جا سکتا ہے اور اسے خدا تعالیٰ کے آستانہ پر پہنچایا جا سکتا ہے.آخر اسلام یہ تو نہیں کہتا کہ فطرتِ انسانی کے نیک ہونے کے یہ معنے ہیں کہ انسان ہمیشہ نیک رہتا ہے.اسلام خود حالات کی خرابی کی وجہ سے فطرت کا مسخ ہو جانا تسلیم کرتا ہے.مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اصلاح کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا.جب بھی کوئی شخص اپنی حالت کو بدلنا چاہے.برائیوں کو ترک کرنا چاہے.نیکیوں کو حاصل کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے کیونکہ خدا نے اس کی فطرت میں نیکی کی استعدادیں رکھی ہوئی ہیں.اگر وہ ان سے کام نہیں لیتا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.لیکن اگر وہ کام لے گا تو فطرت کی نیکی بہرحال ظاہر ہو کر رہے گی.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوشش کے باوجوداسے ہدایت حاصل نہ ہو یا قرب الٰہی کے مقام سے وہ دور رہے.غرض اسلام ماحول کے اثرات کو تسلیم کرتا ہے.اسلام یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ بچپن سے ہی نیک اور بد اثرات بچہ پر شروع ہو جاتے ہیں.مگر ساتھ ہی اسلام یہ بھی کہتا ہے کہ ہر شخص کی اصلاح ممکن ہے.فرائیڈ نے جس تھیوری کو پیش کیا ہے اس کے ماننے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی اصلاح ہو سکتی ہے اور جب وہ اس نکتہ کو تسلیم کرتے ہیں تو صاف ظاہر ہو گیا کہ فطرت میں خدا نے نیکی کا ملکہ رکھا ہوا ہے اگر نیکی کا ملکہ اس میں نہ ہوتا تو اس کی اصلاح کس طرح ہوتی؟ اسی طرح ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ وعظ کا اثر قبول کرتے ہیں اور بڑی بڑی برائیوں کو چھوڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں.اگر انسان میں نیکی کا ملکہ نہ ہوتا تو وعظ سے اس پر کیوں اثر ہوتا اور کیوں وہ اپنی برائیوں کو ترک کر کے نیکیوں کے حصول میں مشغول ہو جاتا؟ یہی حال دعا کا ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا میں بڑے بڑے انقلاب پیدا ہو جاتے ہیں.وہ لوگ جو خدا کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتے جو ہر قسم کی برائیوں میں لذت محسوس کرتے ہیں جو اپنی زندگی کا مقصدمحض دنیوی لذائذ سے لطف اندوز ہونا قرار دیتے ہیں وہ انبیاء پر ایمان لانے اور ان کی دعائوں اور قوتِ قدسیہ کی برکات سے ایسے بدل جاتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر حیرت آتی ہے.یہ دونوں راستے جو روحانی اور جسمانی جدوجہد پر مشتمل ہیں دنیا میں ہمیشہ سے کھلے ہیں اور کھلے رہیں گے اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا نے انسانی فطرت کو پاکیزہ بنایاہے.باقی رہا یہ سوال کہ جن کو نیکی میں ترقی کرنے کا کوئی موقعہ نہ ملا ان کا کیا حال ہو گا؟ تو یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت کا فیصلہ یہ ہے کہ اگر کسی فطرت کو خارجی اثرات سے پنپنے کا موقعہ نہیں ملے گا تو اسے پھر موقعہ

Page 308

دیا جائے گا.بہرحال اس سے فطرت کی خرابی نہیں بلکہ حالات کی خرابی ثابت ہوتی ہے اور یہ آیت اسی خیال کو پیش کرتی ہے کہ انسان کی پیدائش احسن تقویم میں ہے یہ نہیں کہتی کہ وہ بد حالات کے ماتحت بھی بد نہیں ہوتا.غرض یہ آیات بتاتی ہیںکہ آدمؑ کا آنا.نوحؑکا آنا.موسٰی کا آنااور ان کا اپنی اصلاحی کوششوں میں کامیاب ہوجانااور دنیا کا ایک نئے رنگ میں بدل جاناثبوت ہے اس بات کا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پید اکیا ہے یعنی انسانی پیدائش ایسے اصول پر ہوئی ہے کہ وہ اعتدال کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام پر پہنچ سکتا ہے جیسا کہ اوپر کے واقعات سے ثابت ہے.آدمؑ، نوحؑ، موسٰی اور ان کے متبع اس امر کا ثبوت ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ اس بات کا ثبوت بننے والے ہیںکہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.انسانی پیدائش کے متعلق چوتھا نظریہ اور اس کا رد چوتھا عقیدہ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے.گویا وہ قانونِ الٰہی کی وجہ سے برے افعال کرنے پر مجبور ہے اس میں انسان کا کوئی قصور نہیں.اسلام اس عقیدہ کو کلی طور پر رد کرتا ہے اور چونکہ اس کو مذہبی لوگ پیش کرتے ہیں.خصوصاً مسلمانوں کی طرف یہ عقیدہ منسوب ہے اس لیے قرآن کریم سے ہی اس کا رد پیش کیا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اَرَادَ اَنْ يَّذَّكَّرَ اَوْ اَرَادَ شُكُوْرًا(الفرقان :۶۳) یعنی وہ خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے رات اور دن کو آگے پیچھے آنے والا بنایاہے.مگر اس سے وہی لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو اس بات کا ارادہ کر لیں کہ وہ نصیحت حاصل کریں گے یا ان کے اندر شکر گذاری کا مادہ پایا جاتا ہو.اس آیت میں یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں.ایک تو وہ جن کی نیکی کا پہلو اتنا کمزور ہوتا ہے کہ وہ شیطانی راہوں پر چلتے چلے جاتے ہیںاور اس بات کے مستحق ہوتے ہیں کہ انہیں انتباہ کیا جائے اورانہیں برے افعال سے بچنے کی نصیحت کی جائے.دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جو گو اس روشنی اور نور سے محروم ہوتے ہیںجو مذہب کی اتباع میںانسان کو حا صل ہوتا ہے مگر ان کے اندر جذبۂ شکر گذاری پایا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی نعماء اور اس کی عطا کردہ قوتوں کا غلط استعمال نہیں کرتے بلکہ ان سے خود بھی فائد ہ ا ٹھاتے اوردوسروں کو بھی فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.گویا ایک وہ لوگ ہوتے ہیںجو نیکی اور اخلاق سے حصہ رکھتے ہیں.فرماتا ہے ہم نے دنیا میںلیل اور نہار کا جو چکر رکھا ہوا ہے یعنی کبھی خدا کے نبی اور رسول دنیا کی اصلاح کے لیے آتے ہیں اور کبھی تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے تم جانتے ہو اس روحانی رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے جانے میں کیا حکمت ہے؟ ہم کیوں رات کے بعد دن لاتے

Page 309

ہیں پھر کیوں تاریکی کے بعد آفتاب ہدایت کا طلوع کرتے ہیں.ہماری غرض اس سے یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں جو لوگ بد اور گنہگار ہوں اور جو ہدایت اور وعظ و تذکیر کے محتاج ہوں ان کو اس سلسلۂ رسالت کے نتیجہ میں نیک بنایا جائے اور جو لوگ فطری نیکی کے مقام پر کھڑے ہیں انہیں خدا کا کلام اور الہام اس سے بھی اعلیٰ مقام یعنی شکر کی طرف لے جائے.غرض قرآن اس بات کو پیش کرتا ہے کہ ہر شخص کی اصلاح ہو سکتی ہے اگر اس نے انسان کو خرابی کے لئے ہی پیدا کیا ہوتا تو لیل و نہار کا یہ چکر جو تمہیں دنیا میں نظر آتا ہے نہ ہوتا.اس کی بڑی اہم غرض یہی ہے کہ بدوںکو نیکی کی طرف لایا جائے اور نیکوں کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقام کی طرف کھینچا جائے.اسی طرح فرماتا ہے.وَ هُمْ يَصْطَرِخُوْنَ فِيْهَا١ۚ رَبَّنَاۤ اَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ١ؕ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ١ؕ فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ (فاطر:۳۸) یعنی قیامت کے دن جب دوزخیوں کو دوزخ میں ڈالا جائے گا تو وہ چیختے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ اے خدا ہمیں اس جہنم میں سے نکال نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِيْ كُنَّا نَعْمَلُ ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیںکہ ہم اب اپنے سابق اعمال کے خلاف نہایت اعلیٰ درجہ کے کام کریں گے اور نیکی اور تقویٰ میں پوری طرح حصہ لیں گے.پہلے ہم چوری کیا کرتے تھے مگر اب ہم چوری نہیں کریں گے.پہلے ہم ڈاکہ ڈالا کرتے تھے مگر اب ہم ڈاکہ نہیں ڈالیں گے.پہلے ہم جھوٹ بولا کرتے تھے مگر اب ہم جھوٹ نہیں بولیں گے.پہلے ہم نبیوں کا مقابلہ کیا کرتے تھے مگر اب ہم ان کا مقابلہ نہیں کریں گے.اگر یہ صحیح ہوتا کہ انسان پیدائشی طور پر گندہ اور ناپاک ہے تو اللہ تعالیٰ کو جواب یہ دینا چاہیے تھا کہ کم بختو تم یہ کیا کہہ رہے ہو کہ ہم آئندہ نیک اعمال بجا لائیں گے میں نے تو تمہیںپیدا ہی اس لیے کیا تھا کہ تم چوری کرتے تم ڈاکہ ڈالتے تم جھوٹ اور فریب سے کام لیتے.تم نبیوں کا مقابلہ کرتے یا یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ تم نیکی کر ہی کس طرح سکتے ہو میں نے تو تمہاری فطرت میں خرابی رکھ دی ہے اور تم اس بات پر مجبور ہو کہ گناہوں اور بدیوںکا ارتکاب کرو مگر اللہ تعالیٰ یہ جواب نہیں دیتا بلکہ جواب یہ دیتا ہے کہ اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ کیا ہم نے تم کو اتنی مہلت نہیںدی تھی کہ جس میں انسان اگر نصیحت حاصل کرنا چاہتا تو آسانی سے نصیحت حاصل کر سکتا تھا.ہم نے تمہیںمہلت بھی دی تمہیں کافی عمربھی عطا کی مگر تم نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور اپنی عادات کی اصلاح کی طرف تم نے کوئی توجہ نہ کی.اب تمہارا یہ کہنا کیا حقیقت رکھتا ہے کہ اگر ہمیںدنیا میں واپس لوٹا دیا جائے تو ہم ہمیشہ نیک عمل کریں گے.تمہیں ہماری طرف سے ایک بہت بڑا موقعہ دیا جا چکا ہے مگر تم نے اس کو ضائع کر دیا.اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ جرم کو ان کی طرف منسوب کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم کو اتنی عمر دی گئی تھی کہ اگر تم

Page 310

نصیحت حاصل کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے مگر تم نے نصیحت حاصل نہ کی.حالانکہ اگر یہ درست ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی فطرت میں خرابی رکھی گئی ہے اور وہ قانونِ الٰہی کی وجہ سے برے افعال کرنے پر مجبور ہے تو یہ جواب بالکل غلط تھا.خدا تعالیٰ کو تو یہ کہنا چاہیے تھا کہ میاں تم تو نیک ہو ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ میں نے تمہیں پیدا ہی اس غرض کے لئے کیا تھا کہ تمہیں دوزخ میں ڈالا جائے.دوسرا عذر یہ ہو سکتا تھا کہ ہم تو نصیحت حاصل کر لیتے مگر چونکہ خدا نے ہماری ہدایت کا کوئی سامان نہ کیا اس لئے ہم نیکی سے محروم رہے! اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی توڑتا ہے اور فرماتا ہے وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ تم یہ عذر بھی نہیں کر سکتے کہ ہم نے تمہاری ہدایت کا کوئی سامان نہیں کیا کیونکہ ہماری طرف سے متواترتمہارے پاس نذیر آئے اور وہ تمہیں خدا تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی اور اس کی ناراضگی کے برے نتائج سے ڈراتے رہے مگر تم نے پھر بھی کوئی توجہ نہ کی.یہ دونوں جواب جبر کے عقیدہ کو بیخ و بن سے اکھیڑ کر پھینک دیتے ہیں اور ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو مجبور پیدا نہیں کیاورنہ جب کفار نے کہا تھا کہ ہمیں واپس کیا جائے ہم اعلیٰ درجہ کے اعمال بجا لانے کا وعدہ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں کہتا تم کس طرح نیک اعمال کر سکتے ہومیں نے توتم کو مجبور پیدا کیا تھا اور خود تمہاری فطرت میں ایسا بگاڑ رکھ دیا تھا کہ تم نیک اعمال پر مقدرت ہی نہیں رکھ سکتے تھے مگر وہ یہ جواب نہیں دیتا بلکہ جواب دیتا ہے تو یہ کہ میں نے تمہیں اتنی عمر دی تھی کہ جس میںاگر تم فائدہ اٹھانا چاہتے اور نصیحت حاصل کر کے اپنے اعمال میں اصلاح کرنا چاہتے تو آسانی سے کرسکتے تھے.جس کے معنے یہ ہیں کہ تم مجبور نہیں تھے بلکہ تمہارا اختیار تھا کہ تم جو رنگ چاہو اپنے اوپر چڑھالو اور تمہیں اس کا موقعہ بھی دے دیا گیا تھا.دوسرا سوال یہ ہو سکتا تھا کہ ہم نصیحت تو حاصل کر لیتے مگر ذرائع بھی تو مہیا ہوتے.ہم اپنی عقلوں کی کوتاہی اور باپ دادا کی جہالت کی وجہ سے اگر ہدایت کو اختیار نہیں کر سکے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟ اللہ تعالیٰ اس عذر کو بھی رد کرتا ہے اور فرماتا ہے تم یہ بات بھی ہمارے سامنے پیش نہیں کر سکتے کیونکہ ہم نے تمہارے پاس نذیر بھجوا دیئے تھے اور اس طرح ہدایت اور ضلالت کی راہیں تم پر پوری طرح واضح کردی تھیں.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَذُوْقُوْا فَمَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ نَّصِيْرٍ تم ہمارے عذاب کو چکھو اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو کہ ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوتا.یہ تیسرا جواب ہے جو جبر کے عقیدہ کو رد کر رہا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے جبری طور پر لوگوں کو برے افعال کے لئے پیدا کیا ہے تو ظالم نعوذباللہ خدا قرار پاتا ہے وہ شخص ظالم نہیں کہلا سکتا جس سے جبری طور پر کوئی کام لیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے یہاں لوگوں کو ظالم قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم ظالم نہیں تھے بلکہ ظالم تم تھے کہ ہدایت کے سامانوں اور مواقع کے حصول کے باوجود تم نے خدا کی طرف توجہ نہ کی اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑے رہے.

Page 311

یہ آیات اس امر کا قطعی ثبوت ہیں کہ بعض مسلمانوں کا یہ خیال کہ انسان مجبور پیدا کیا گیا ہے بالکل غلط ہے.انسان کو خدا نے اختیار دیا ہے کہ وہ اگر چاہے تو نیک بن جائے اور اگر چاہے تے شیطان کے پیچھے چل پڑے.فطرت انسانی کے متعلق پانچواں نظریہ اور اس کی تردید پانچواں خیال انسانی فطرت کے متعلق یہ پایا جاتا ہے کہ انسان اس دنیا میں اپنے کرموں کا پھل بھگتنے کے لئے پیدا ہوتا ہے.چونکہ بعض کرم برے ہوتے ہیں اس لئے ان کے کرنے والے بد اخلاق اور غریب کمزور اور برے بنائے گئے ہیں مگر جو لوگ اچھے اور تندرست اور امیر ہیں وہ بھی درحقیقت بدی سے پوری طرح آزاد نہیں ہیں کیونکہ ان کا ایک دوسری جون میں آنا بتاتا ہے کہ گناہ کے اثر سے وہ پوری طرح آزاد نہیں ورنہ وہ جونوں کے چکر سے آزاد کر دیئے جاتے.(ستیارتھ پرکاش باب ۹ صفحہ۲۴۷) عقیدہ تناسخ اور اس کی تردید یہ خیال جسے تناسخ کہتے ہیں اس پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ اس خیال کی بنیاد ظن اور تخمین پر ہے.تناسخ کے ماننے والے کہتے ہیں دنیا میں ایک شخص اندھا کیوں پیدا ہوتا ہے.لنگڑا لولا کیوں پیدا ہوتا ہے.غریب اور نادار کیوں پیدا ہوتا ہے؟ یا ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر کیوں جاتا ہے؟ اور کیوں دنیا میں ہمیں یہ اختلاف نظر آتا ہے کہ ایک شخص امیر ہے تو دوسرا غریب ایک شخص صحیح سلامت ہے تو دوسرا لنگڑا لولا.ایک شخص عقلمند ہے تو دوسرا بیوقوف.ایک شخص طاقتور ہے تو دوسرا کمزور.یہ اعتراض اٹھا کر تناسخ کے معتقد کہتے ہیں کہ چونکہ خدا کی طرف یہ ظلم منسوب نہیں ہو سکتا اس لئے معلوم ہوا کہ پچھلے جنم کے کرموں کی سزا بھگتنے کے لئے انسان اس دنیا میں آتا ہے چونکہ گزشتہ جنم میں بعض نے اچھے اعمال کئے تھے اور بعض نے برے اس لئے اس جہان میں بعض لوگ دکھوں میں مبتلا نظر آتے ہیں اور بعض لوگ عیش و آرام کی زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں.یہ وہ بنیاد ہے جس پر تناسخ کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے.حالانکہ یہ سوال کہ دنیا میں بعض لوگ اندھے کیوں پیدا ہوتے ہیں بعض لولے لنگڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں.بعض غریب اور مفلس اور نادار کیوں پیدا ہوتے ہیں؟اس کے کئی جواب ہو سکتے ہیں.فرض کرو ایک شخص خدا کے انصاف کا قائل نہیں وہ اس اعتراض کا یہ جواب دے سکتا ہے کہ اس اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ خدا ظالم ہے.ایک دوسرا شخص یہ جواب دے سکتا ہے کہ کسی کا اندھا یا لولا لنگڑا ہونا قانون شریعت سے تعلق نہیں رکھتابلکہ قانون نیچر سے تعلق رکھتا ہے.ایک شخص چلتے چلتے ٹھوکر کھا کر گر جاتا ہے تو اس وقت یہ نہیں کہا جا ئے گا کہ اسے اپنے کسی سابق کرم کی سزا ملی ہے بلکہ یہ نتیجہ ہو گا کسی طبعی قانون کی خلاف ورزی کرنے کا.اسی طرح اگر کوئی شخص اندھا پیدا ہوتا ہے یا لنگڑا پیدا ہوتا ہے یا بیمار پیدا ہوتا ہے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے اپنی کسی سابق بدعملی کی سزا مل رہی ہے بلکہ درحقیقت یہ کسی طبعی قانون کے وہ اثرات ہوں گے جو مختلف حالات کے نتیجہ میں اس کے جسم پر

Page 312

ظاہر ہوئے.بہر حال جس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہوں.ان میں سے کسی ایک جواب کو بلا وجہ ترجیح دے دینا عقل کے با لکل خلاف ہے کوئی وجہ ہونی چاہیے جس کی بنا پر اس جواب کو ترجیح دی جاسکتی ہو.مگر ایسی کوئی وجہ آج تک قائلین تناسخ کی طرف سے پیش نہیں کی جا سکی.دوسرے ہم قا ئلین تناسخ سے کہتے ہیں کہ تم جس سوال کو تناسخ کی تائید میں پیش کرتے ہو ہم اسی سوال کو تناسخ کی تردید میں پیش کر دیتے ہیں.اصل سوال یہ تھا کہ دنیا میں اختلاف کیوں ہے؟تم نے اس کا یہ جواب دیا کہ انسان کے سابق کرموں کا یہ نتیجہ ہے.ہم کہتے ہیںاگر اس دنیا کی زندگی کسی سابق جنم کے اعمال کا نتیجہ ہے اور انسان اپنے کرموں کی سزا بھگتنے کے لئے دنیا میں آیا ہے تو یہ کیا بات ہے کہ ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر جاتا ہے اسے کون سی سزا ملی جس کے لئے اسے دنیا میں بھیجا گیا تھا؟اگر ایک بچہ پیدا ہونے کے بعد بڑا ہو تکلیفیں اٹھائے مصیبتیں جھیلے مختلف قسم کے دکھ برداشت کرے تب تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیکھ لو اسے اپنے پچھلے اعمال کی سزامل رہی ہے لیکن ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میں بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ادھر بچہ پیدا ہوتا ہے اور ادھر مر جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوتا کہ اسقاط ہو جاتا ہے اگر انسان اپنے کرموں کی سزا کے لئے پیدا ہوتا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ بچہ جو پیدا ہوتے ہی مر جاتا ہے یا وقت پورا ہونے سے پہلے جو ماں کے پیٹ سے گر جاتا ہے اسے کون سی سزا ملی؟اس نے تو دنیا میں آکر کوئی تکلیف ہی نہیں اٹھائی.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گورنمنٹ کسی کو قید خانہ میں بھیجے مگر قید خانہ کی ڈیوڑھی سے ہی اسے گھسیٹ کر واپس لے آئے.ایسا فعل یقیناً عقل کے خلاف ہوگا.پس جہاں اس قسم کے حوادثات تناسخ کے خیال کی تائید میں پیش کئے جا سکتے ہیںوہاں یہ حوادث تناسخ کے خلاف بھی پیش کئے جا سکتے ہیں.تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ کا عقیدہ درست ہے تو کیوں انسان کے موجودہ اعمال اس پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ اگر دنیا میں وہ سزا بھگتنے کے لئے آیا ہے تو یقیناً دنیا سے اسے کسی طرح چھٹکارا نہیں ہونا چاہیے.فرض کرو ایک شخص کو اس کے سابق جنم کے برے اعمال کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ملی ہے کہ وہ ۳۵ سال تک شدائد ومصائب میں مبتلا رہے تو اس کے بعد ضروری ہے کہ ۳۵ سال تک وہ اس سزا کو برداشت کرے.مگر ہم دیکھتے ہیں دنیا میںبعض دفعہ جب ایک شخص تکالیف کو برداشت کرنے کی طاقت اپنے اندر نہیں پاتاتو وہ زہر کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتا ہے حالانکہ اگر تناسخ درست تھا اور اگر وہ ایک معین عرصہ کی قید بھگتنے کے لئے دنیا میں آیا تھا تو زہر کا اس پرکوئی اثر نہیں ہونا چاہیے تھا خواہ وہ لاکھ دفعہ زہر کھا تا اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوتا کیونکہ خدا نے اسے ایک معین سزا کے لئے دنیا میں بھیجا تھا.مگر ہم دیکھتے ہیں زہر کھا کر وہ اپنی تکالیف کا فوراً خاتمہ کر لیتا ہے.اسی طرح

Page 313

اگر کوئی شخص اپنے گلے میں پتھر باندھ کر دریا میں غرق ہونا چاہے تو اس عقیدہ کے مطابق اسے غرق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ خدا نے اسے چالیس یا پچاس سال تک سزا بھگتنے کے لیے دنیا میں بھیجا ہے اگر ہمیں یہی نظرآتا ہے کہ جب کوئی شخص خود کشی کے ارادہ سے دریا میں غرق ہونا چاہے تو تناسخ کا عقیدہ اسے غرق ہونے سے نہیں بچاتا وہ خواہ چالیس سال کی قید لے کر دنیا میں آیا ہو زہر کھا کر یا دریا میں غرق ہو کر کئی سال پہلے اس عذاب سے نجات حاصل کر لیتا ہے اسی طرح وہ شخص جو ایک غریب گھرمیں پیدا ہوا ہے اگر اسے اپنے سابق اعمال کی سزا میں ایک غریب شخص کے گھر پیدا کیا گیا ہے تو پھر اسے کبھی امیر نہیں ہونا چاہیے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کئی غریب دنیا میں ترقی کرتے کرتے کروڑ پتی بن جاتے ہیں.پنجاب ہندوستان اور ولایت میں ایسے کئی لوگ موجود ہیں جنہوں نے نہایت غربت کی حالت سے ترقی کرتے کرتے اعلیٰ درجہ کی امارت حاصل کر لی.وہ ادنیٰ حالت سے اٹھے اور ترقی کے اعلیٰ معیار پر جا پہنچے.پس اگر پچھلے جنم کے اعمال کی سزا بھگتنے کے لئے انسان اس دنیا میں آیا ہے تو سوال یہ ہے کہ وہ زہر سے کیوں مرتا ہے؟ وہ تو ایک خاص مدت کی قید کے لئے آیا تھا.محنت سے کیوں مالدار ہو جاتا ہے وہ تو سزا کے طور پر ایک غریب شخص کے گھر میں پیدا کیا گیا تھا؟ پھر تو چا ہیے تھا کہ کوئی عمل اس کی حالت کو تبدیل نہ کر سکتا.آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ایک شخص کو قیدی بنا کر بھیجے اور وہ اس دنیا میں آکر بادشاہ بن جائے.دنیوی حکومتوں کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی تو خدائی گورنمنٹ کے احکام کو بدلنے کی کوئی شخص کس طرح طاقت رکھتا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ خدا تو ایک شخص کو سزا کے طور پر بیمار کرے اور وہ علاج سے اچھا ہو جائے.اگر یہ تسلیم کیا جائے گا کہ خدا نے سزا کے طور پر کسی شخص کو بیمار بنایا ہے تو بہر حال یہ بات بھی ماننی پڑے گی کہ وہ علاج سے اچھا نہیں ہو سکتا.مگر دنیا کے نظارے جو ہمیں روزانہ دکھائی دیتے ہیں اس حقیقت کو باطل ثابت کر رہے ہیں.لوگ بیمار ہوتے ہیں اور علاج سے اچھے ہو جاتے ہیں.غریب ہوتے ہیں اور محنت سے امیر ہوجاتے ہیں.زہر کھا تے ہیں اور اس کے اثر سے مر جاتے ہیں حالانکہ اگر ہم گذشتہ جنم کو مانیں تو پھر تسلیم کرنا پڑ تا ہے کہ نہ بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے نہ کوئی غریب سے امیر ہو سکتا ہے نہ زہر سے ہلاک ہو سکتا ہے اور نہ دنیا کا کوئی اور عمل اس پر اثر کر سکتا ہے.سابق جنم کے کرم ماننے کے نتیجہ میں صرف ایک ہی زندگی آزاد رہ سکتی ہے اور وہ انسان کی سب سے پہلی زندگی ہے.باقی ساری زندگیاں اس سزا کے ماتحت جبری طور پر لانی پڑیں گی جو پہلے جنم کے اعمال کے نتیجہ میں ملتی ہیں.چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو وبائوں سے لوگ یا جانور کیوںمرتے ہیں؟آخر یہ کیا ہوتا ہے کہ یک دم ایک وبا پھیلتی ہے اور اس سے لاکھوں انسان اور جانور ہلاک ہو جاتے ہیں وہ کونسا جرم ہے جس کے نتیجہ میں

Page 314

سب کو اکٹھی سزا ملتی ہے.سزا تو الگ الگ وقت کی ہوتی ہے مگر وبائوں کے نتیجہ میں ایک ہی وقت میں ملکوں کا صفایا ہوجاتا ہے.اسی طرح اگر تناسخ درست ہے تو جنگوں اور زلزلوں سے کیوں لاکھوں کا صفایا ہو جاتا ہے اور یہ آزادی کس خوشی کی تقریب پر دی جاتی ہے؟دنیا میں تو کہا جاتا ہے آج بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اس خوشی میں سو۱۰۰قیدی چھوڑے جاتے ہیں.آج شاہی خاندان میں فلاں شادی ہوئی ہے اس خوشی کی تقریب میں اتنے لوگوں کو رہا کیا جاتا ہے.کیا اسی قسم کی خوشی کی تقاریب اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی ہوتی ہیں؟کہ وہ ایک وبا بھیج دیتا ہے جس کی وجہ سے لاکھوں انسان مر کر دنیا کی تکالیف سے نجات حاصل کر لیتے ہیں.زلزلہ بھیج دیتا ہے اور اس سے لاکھوں انسان ہلاک ہو جاتے ہیں.اسی طرح کبھی طاعون، کبھی ہیضہ، کبھی انفلوئنزا اور کبھی ملیریا بھیج دیتا ہے.گویا یہ وبائیں کیا ہیں انسپکٹرجنرل آف پرزنرز ہیں جو قیدیوں کو رہائی کی خوشخبری دیتی ہیں.بہرحال اگر تناسخ درست ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آزادی کس خوشی کی تقریب پر دی جاتی ہے؟ اور کیوں دنیا میں وبائوں سے کبھی کم آدمی ہلاک ہوتے ہیں اور کبھی زیادہ آدمی ہلاک ہوتے ہیں؟ کیا اس کے یہ معنے سمجھے جائیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کبھی خوشی کی کوئی معمولی تقریب پیدا ہوتی ہے اور کبھی بڑی.معمولی تقریب میں صرف چند قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا جاتا ہے مگر جب خوشی کی کوئی بہت بڑی تقریب پیدا ہو جائے تو زلزلہ بھیج دیا جاتا ہے یا طاعون نازل کر دی جاتی ہے یا ہیضہ اور ملیریا پیدا کر دیا جاتا ہے اور اس خوشی میں لاکھوں انسانوں کو رہا کر دیا جاتا ہے آخر اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ہونی چاہیے جس طرح انہوں نے دنیا کے اختلاف کو دیکھ کر ایک توجیہ پیدا کر لی تھی اسی طرح ہمارا حق ہے کہ ہم ان سے پوچھیں کہ طاعون اور ہیضہ اور زلزلہ اور لڑائیوں وغیرہ سے یک دم لاکھوں لوگوں کا صفایا کس بنا پر ہوتا ہے؟ اور کون سی خوشی کی تقریب پر ارواح کی آزادی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے؟ پانچواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو ہندو لوگ وبائوں اور زلزلوں سے بچنے کی تدابیر کیوں کرتے ہیں اور کیوں طاعون اور ہیضہ کے ٹیکے کراتے ہیں؟کیونکہ ان کے نزدیک تو یہ جون ایک سزاہے پس طاعون اور ہیضہ تو معافی کا پیغام ہے اس سے بچنے کے تو کوئی معنے ہی نہیں.کیا کوئی قیدی آزادی کے پروانے سے بچنے کی کوشش کیا کرتا ہے؟ اگر تناسخ ماننے والوں کے پاس کوئی شخص آئے اور ان سے سوال کرے کہ طاعون یا ہیضہ کا ٹیکہ مجھے کروانا چاہیے یا نہیں تو وہ اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ کیا یہ کہتے ہیں کہ تم ٹیکہ مت کروائو.یہ زندگی تو قید خانہ ہے.یہ وبائیں تو پرمیشور کی طرف سے آزادی کا پر وانہ ہیں ان کے آنے پر تو تم کو خوش ہونا چاہیے.یا وہ یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ بے شک ٹیکہ کرائو یہ ایک کامیاب علاج ہے اس سے تم اپنی زندگی کو بچالو گے.

Page 315

غرض ہندوئوں کا یہ عمل کہ وہ وبائوں اور زلزلوں سے بچنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتے ہیں اس امر کا ثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ زندگی ایک قید نہیںجس سے آزاد ہونے کی کوشش ہونی چاہیے بلکہ یہ نیکی کمانے کا ذریعہ ہے جسے لمبا کرنا نیک کام ہے.چھٹا سوال یہ ہے کہ برسات میں بعض دفعہ ایک گھنٹہ کے اندر اندر کروڑوں کیڑے مکوڑے کیوں پیدا ہو جاتے ہیں اور اس وقت کون سے گناہ خاص طور پر زائد ہو جاتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں ایک ایک گائوں اور ایک ایک شہر میں برسات کے موسم میں اربوں ارب کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں پس سوال یہ ہے کہ یہ اربوں ارب کیڑا کس جرم کے نتیجہ میں ایک گھنٹہ بھر میں پیدا کر دیا جاتا ہے اور پھر یہ سزا کیا ہوئی کہ ابھی ان کی زندگی پر ایک گھنٹہ بھی نہیں گذرتا کہ ان میں سے بہت سے کیڑے مر جاتے ہیں گویا اربوں ارب ارواح کو قید میں ڈالا جاتا ہے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد ہی ان سب کو آزاد کر دیا جاتا ہے سوال یہ ہے کہ ان کیڑوں کا آناً فاناً کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں پیدا ہوجانا کس گناہ کا نتیجہ ہوتا ہے؟ جو خاص طور پر موسم برسات میں زیادہ ہو جاتاہے اور پھر ان کی تھوڑی دیر کے بعد ہی رہائی کس خوشی کی تقریب میں ہوتی ہے کیا اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی شادی کی تقریب پیدا ہو جاتی ہے؟ کہ اربوں ارب ارواح کو یک دم قید خانہ سے رہا کر دیا جاتا ہے.ساتواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ کو درست مانا جائے تو ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تمام کارخانہء عالم نعوذباللہ گناہ پر چل رہا ہے کیونکہ تناسخ کے قائلین کہتے ہیں کہ دنیا میں جانوروں کی پیدائش گناہ کی وجہ سے ہے.کسی گناہ کی وجہ سے انسان بھینس کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے انسان گائے کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے انسان گھوڑے کی جون میں جاتا ہے کسی گناہ کی وجہ سے انسان گدھے کی جون میں جاتاہے(ستیارتھ پرکاش باب ۸ صفحہ ۲۲۱،۲۲۲).اسی طرح سبزیاں اور ترکاریاںوغیرہ جو نظر آتی ہیں چونکہ ان میں بھی جیو ہے اس لئے سبزیوں اور ترکاریوں کی جون میں بھی انسان کسی گناہ کی وجہ سے جاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ سب کچھ گناہ کی پیدائش ہے تو معلوم ہوا کہ دنیا کا کارخانہ محض گناہوں کے سہارے قائم ہے اگر گناہ کا وجود مٹ جائے تو وہ گائے اور بھینسیں جن کا انسان دودھ پیتا ہے وہ گھوڑے جن پر انسان سواری کرتا ہے وہ سبزیاں اور ترکاریاں جن کو انسان کھانے کے کام میں لاتا ہے سب کی سب معدوم ہو جائیں اورکارخانہء عالم بالکل با طل ہو جائے پھر یہ چیزیں ایسی نہیں جن کو صرف بد لوگ استعمال کرتے ہوں بلکہ نیک لوگ بھی جانوروں کے بغیر گذارہ نہیں کرسکتے وہ بھی اس بات پر مجبور ہیں کہ دودھ پئیں.گھوڑوں کی سواری کریں فصل کے لئے ہل چلائیں اور اس طرح گائیوں

Page 316

اور بھینسوں اور گھوڑوں اور بیلوں کی احتیاج کو تسلیم کریں گویا اس عقیدہ کے ماتحت نیک لوگ بھی اس دنیا میں گناہ کے بغیر گذر اوقات نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ارواح جو مختلف جونوں کی شکل میں اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں عقیدہ تناسخ کے ماتحت انہیں سے دنیا چل رہی ہے.اس ضمن میں ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو انسان پہلی دفعہ پیدا ہوئے تھے وہ کیا کھاتے تھے اور پینے کے لئے کیا چیز استعمال کرتے تھے.یہ امر ظاہر ہے کہ علم نباتات کے متعلق موجودہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ گیہوں اور سبزیاںوغیرہ اپنے اندر حس رکھتی ہیں جس کے دوسرے یہ معنے ہیں کہ قائلین تناسخ کے نزدیک ان میں بھی جیو ہے اور جب تمام جیو والی اشیاء کی پیدائش قائلین تناسخ کے نزدیک گناہوں کی وجہ سے ہے تو طبعی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے انسان کیا کھاتے تھے؟ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر سوال تو یہ ہے کہ پانی کو پانی اور ہوا کو ہوا خدا تعالیٰ نے کیوں بنایاہے؟ یہ فرق کرنا اس کے لئے کس طرح جائز ہو گیا ہے پس پانی بھی درحقیقت کسی سزا میں پانی بنا ہے اور ہوا بھی کسی سزا میں ہوا بنی ہے اور اگر یہ امر درست ہے تو سوال یہ ہے کہ جب پہلی دفعہ انسان پیدا ہوا تھا اور ابھی کرموں کے نتائج ظاہر نہیں ہوئے تھے اس وقت انسان کیا پیتے تھے اور کس چیز کی مدد سے سانس لیتے تھے؟یہ بھی ایک ایسا سوال ہے جس کا قائلین تناسخ کے پاس کوئی جواب نہیں.آٹھواں سوال یہ ہے کہ اگر گائیںبھینسیں گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو علم الحیوانات کے ماہرین کی تجاویز جانوروں کی ترقی کی نسبت کیوں کامیاب ہوتی ہیں؟کیا گائیں بھینسیں اگر اس محکمہ کی نگرانی میں رہیں تو لوگ اس قسم کے گناہ زیادہ کرنے لگ جاتے ہیں جن سے یہ جانور زیادہ پیدا ہوں؟ تھوڑا ہی عرصہ ہوا گورنمنٹ نے اعلان کیا تھا کہ گذشتہ چھبیس۲۶سال میں ہندوستان کی گائیں بھینسیںآدھی رہ گئی ہیں ان کی تعداد بڑھانے کے لئے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ جانور پالنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اس کمی کا ازالہ ہو.اس اعلان پر ہندوئوں کو چاہیے تھا کہ گورنمنٹ کو نو ٹس دے دیتے کہ جانور بڑھانے کا یہ طریق بالکل غلط ہے.گائیں بھینسیںفلاں فلاں گناہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.اگر گورنمنٹ ان کی تعداد کو بڑ ھانا چاہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ملک میں ان گناہوں کو رائج کر دے گائیں بھینسیں خود بخود زیادہ ہو جائیں گی.مگر نہ ہندوئوں نے گورنمنٹ کو اس وقت کوئی ایسا نوٹس دیا اور نہ وہ آئندہ دینے کے لئے کبھی تیار ہوسکتے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود بھی تسلیم کرتے ہیں کہ علم حیوانات کی تجاویز پر اگر عمل کیا جائے تو جانوروں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے اور جب محض بعض مادی تدابیر پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ان کی تعداد بڑ ھ سکتی ہے تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ کسی گناہ کے نتیجہ

Page 317

میں پیدا نہیں ہوتے.نواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو حکومتیں شکار کی حفاظت کی تدابیر کیوں کرتی ہیں؟انہیںتو چاہیے تھا کہ بجائے اس کے کہ شکار کی حفاظت کے ذرائع اختیار کرتیں لوگوں کو خاص خاص گناہوں کا حکم دے دیتیں.مثلاً کہا جاتا کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ آج کل فلاں فلاں گناہ کریں کیونکہ بٹیر کم ہو گئے ہیں یا فلاں فلاں گناہ کریں کیونکہ تیتر کم ہو گئے ہیں کیونکہ تناسخ کے ماتحت بعض خاص قسم کے گناہ ہی ان کی پیدائش کا باعث بن سکتے ہیں.کسی اور ذریعہ سے ان میں زیادتی نہیں ہو سکتی.دسواں سوال یہ ہے کہ اگر تناسخ درست ہے تو اوّل تو قتل ہو ہی نہیں سکتا.جس شخص کے متعلق خدا نے یہ کہا ہے کہ اسے چالیس سال تک دنیا میں رکھا جائے کوئی شخص اسے تیس۳۰ یا پینتیس۳۵ سال کی عمر میں ہلاک کس طرح کر سکتا ہے؟ بے شک وہ اپنی طرف سے اس کی گردن پر تلوار کا وار کر ے پھر بھی جب خدا نے اسے چالیس سال کے لئے دنیا میں بھیجا ہے وہ اس سے قبل دنیا کے قید خانہ سے رہا نہیں ہو سکتا اور اگر کوئی شخص دوسرے کو قتل کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے تو اس کے متعلق یہی کہا جائے گا کہ اس نے خدا تعالیٰ کے منشااور اس کے حکم کے ماتحت دوسرے کو قید سے آزاد کیا ہے.اس صورت میں اسے قتل کی سزا دینا بالکل غیر معقول بات ہے اسے تو پھولوں کے ہارپہنانے چاہئیں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا حکم پورا کر دیا.جیسے جلادجب کسی کو پھانسی دیتا ہے تو وہ زیر الزام نہیں آتا کیونکہ وہ افسر کے حکم کے مطابق پھانسی دیتا ہے اپنی مرضی سے نہیں دیتا.اسی طرح جس کو خدا نے قید کیا ہے اوّل تو اسے آزاد کرنے کی کسی میں طاقت نہیں ہو سکتی اور اگر کسی نے آزاد کر دیا ہے تو یقیناً اس نے خدا تعالیٰ کے منشاء سے کیا ہے ایسی صورت میں اسے سزا کیوں ملے پھر تو قاتل کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالنے چاہئیں کہ اس نے ایک شخص کو قید خانہ سے الٰہی مشیئت کے ماتحت رہا کر دیا.غرض یہ عقیدہ بھی بدھوں کے عقیدہ کی طرح عقل کے با لکل خلاف ہے.اصل حقیقت وہی ہے جو قرآن کریم نے بتائی ہے کہ انسان کو معتدل القویٰ پیدا کیا گیا ہے اس میں کوئی خاصیت ایسی نہیں جسے خالص طور پر برا کہا جا سکے اور کوئی طاقت ایسی نہیں جس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ وہ خالص طور پر نیکی کے لئے ہی استعمال ہوسکتی ہے.معتدل القویٰ ہونے کے معنے درحقیقت یہی ہیں کہ بعض حالات میں وہ بدی کی طرف چلا جاتا ہے اور بعض حالات میں نیکی کی طرف چلا جاتا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ جب انسان بدی کی طرف بھی جا سکتا ہے تو انسان کو احسن تقویم میں پیدا کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسی غرض کے لئے تو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء بھیجتا اور لوگوں کی ہدایت کے لئے شریعت کا نزول کرتا ہے.جیسے آدم ؑاور نوحؑاور موسٰی اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم

Page 318

سب اسی لئے آئے کہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھا کر آستانہء الوہیئت پر پہنچا دیں بے شک بنی نوع انسان اپنی قوتوں کا غلط استعمال کر کے بعض دفعہ خدا تعالیٰ سے دور جا پڑ تے ہیں اور وہ ہوا وہوس کی اتباع کر کے شیطان کے غلام بن جاتے ہیں مگر انبیاء ان کی تربیت کر کے پھر ان کو خدا تک پہنچاتے ہیں پھر ان کے قلوب کو صیقل کرتے ہیں اور پھر ان کی استعدادوں کو ابھار کر انہیں صفات الٰہیہ کا مظہر بنا دیتے ہیں.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَۙ۰۰۶ پھر ہم نے اس کو ادنیٰ درجوں سے (بھی) بد تر درجہ کی طرف لوٹادیا.تفسیر.رَدَدْنٰهُ میں ضمیر خدا تعالیٰ کی طرف پھرتی ہے اور یہ اس امر کے ا ظہار کے لئے کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ بدکار کو بطور سزا کے اس کے مقام سے گرا دیتا ہے یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ اس سے بدی کروا تا ہے.یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ آدم کو جنت میں سے ہم نے نکالا(البقرۃ:۳۹).اور یہ بھی فرمایا ہے کہ آدم کو جنت میں سے شیطان نے نکالا.چنانچہ فرماتا ہے يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ (الاعراف:۲۸) یہ ظاہر ہے کہ آدم ؑکو جنت میں سے شیطان کانکالنا اور آدمؑ کو جنت میں سے اللہ تعالیٰ کا نکالنا ایک معنوں میں نہیں آسکتا.بہر حال تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا نکالنا اور رنگ رکھتا ہے اور شیطان کا نکالنا اوررنگ رکھتا ہے اور ان دونوں میں کوئی نہ کوئی فرق پایا جاتا ہے.وہ فرق یہی ہے کہ شیطان چونکہ اس غلطی کا باعث بنا تھا جس کے نتیجہ میں آدمؑ کو جنت میں سے نکلنا پڑا اس لئے شیطان کےمتعلق یہ کہا گیا کہ اس نے آدمؑ کو جنت میں سے نکالا تھا.لیکن چونکہ نتیجہ خدا نے پیدا کیا تھا اس لئے دوسرے مقام پر یہ کہہ دیا گیا کہ آدمؑ کو خدا تعالیٰ نے جنت میں سے نکالا تھا.گویا شیطان کا نکالنا بلحاظ فعل بد کے ہے اور اللہ تعالیٰ کا نکالنا بلحاظ اس سزا کے ہے جو اس فعل کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئی اسی طرح رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ کے یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ انسان کو بگاڑتا ہے.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب انسان بگڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے سزا کے طور پر اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں بھیج دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیںفرمایا کہ ثُمَّ رَدَدْنَاہُ سَارِقًا یا ثُمَّ رَدَدْنَاہُ قَاتِلًا یا ثُمَّ رَدَدْنَاہُ مُذْنِبًا بلکہ فر مایا ہے ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ پھر ہم اس کو ادنیٰ ترین جگہ کی طرف لے جاتے ہیں وہ ایک جرم کرتا ہے ہم اُسے اس کی سزا دیتے ہیں وہ پھر جرم کرتا ہے ہم اسے پھر سزا دیتے ہیں اور اس طرح اسے ذلیل

Page 319

اور ادنیٰ حالت کی طرف لے جاتے ہیں.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ہُ ضمیر کا حال واقع ہوا ہو یعنی ذوالحال فاعل نہ ہو بلکہ مفعول ذوا لحال ہو.اس صورت میں آیت کے یہ معنے ہو ں گے کہ پھر انسان کو ہم نے اپنے دروازہ سے لوٹایااس حال میں کہ وہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ تھا.ان معنوں کے لحاظ سے وہ اعتراض واقع نہیں ہو سکتا جو پہلے معنوںپر عائدہوتا ہے اور ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ کا یہ مفہوم ہوگا کہ ہم انسان کو اس کے مقام سے ہٹا دیتے ہیں ایسے حال میں کہ وہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ ہوتا ہے.یعنی جب وہ گنہگار ہو کر ہماری نظروں سے گر جاتا ہے تو ہم اسے اپنے دربار سے واپس کردیتے ہیں.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ کے معنے فردی اور اجتماعی لحاظ سے اس آیت کے ایک معنے فردی لحاظ سے ہیں اور ایک معنے اجتماعی لحاظ سے.اجتماعی لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ ہدایت پہلے ہے اور ضلالت بعد میں آتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ.ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ پہلے ہم انسان کے لئے اس کی ہدایت کے سامان مہیا کرتے ہیں بعدمیں بگڑ کر وہ ضلالت اور گمراہی کی راہیں اختیار کرلیتا ہے.یہی اسلام اور ارتقائیوں کا مابہ الاختلاف ہے.ارتقائی لوگ ضلالت کو پہلے بتا کر پھر ارتقائی طور پر مذہب کو پیش کرتے ہیں.لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ جب انسان نے عقل کامل حاصل کی تو اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو بھجوایا.پھر بگڑ گئے تو نوحؑکو بھجوایا.پھر بگڑے تو موسٰی کو، اب پھر بگڑے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو.گویا ابتداء میں احسن تقویم کانمونہ ہوتا ہے اور بگاڑ ہمیشہ بعد میں آتا ہے.پس جن معنوں میں ارتقاء کو فلسفی پیش کرتے ہیں وہ غلط ہے.ہاں یہ درست ہے کہ پہلے مظاہرہ تین پھر زیتون پھر طور اور پھر بلد الامین ہوا اور اس طرح ہر مظاہرہ نیکی کا پہلے سے بڑا تھا.یہ ارتقاء درست ہے مگر یہ کہ پہلے ضلالت تھی پھر ترقی کرکے ہدایت آئی یہ غلط اور سراسر غلط ہے.یوروپین فلسفی مسئلہ ارتقاء کو اس رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خیال قوموں میں آہستہ آہستہ پیدا ہوا ہے.سب سے پہلے مختلف اقوام میں ان اشیاء کی پرستش شروع ہوئی ہے جن سے انسان خائف ہوا.جس طرح ایک بچہ ڈر کر لجاجت اور گریہ زاری شروع کردیتا ہے اسی طرح جب انسان بعض چیزوں سے مرعوب ہوا تو اس نے ان کی پرستش شروع کردی.اس نے دیکھا کہ آسمان سے بجلی گری ہے اور اس سے چند آدمی ہلاک ہوگئے ہیں وہ ڈرا اور اس نے سمجھا کہ یہ ڈرنے کی چیز ہے اور اس کی عبادت شروع کردی.پھر اس نے سانپ کو دیکھا کہ اس کے ڈسنے سے فلاں شخص مرگیا ہے تو اسے خیال پیدا ہوا کہ یہ ڈرنے کی چیز ہے اور اس کی عبادت شروع کردی.پھر اس نے

Page 320

دریا میں کسی کو ڈوبتے دیکھا تو خیال کرلیا کہ یہ ڈرنے کی چیزہے اور اس کی عبادت شروع کردی.پھر پہاڑ کی کھڈ میں کسی کو گر کر ہلاک ہوتے دیکھا تو خیال کرنا شروع کردیا کہ پہاڑ بھی ڈرنے کی چیز ہے اور اس کی عبادت شروع کردی.غرض جس جس چیز سے ڈرا اس کے آگے ہاتھ جوڑنے لگا مگر پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا انسان نے ادنیٰ چیزوں سے نظر اٹھا کر بالا ہستیوں کو پوجنا شروع کردیا.پھر کچھ اور عرصہ کے بعد یہ بالا ہستیاں غیرمادی قرار پاگئیں اور آخر ایک واحد ہستی جو سب پر فائق تھی تجویز ہوئی.پس ان کے نزدیک ارتقاء اس رنگ میں ہوا ہے کہ مادیات سے نظر اٹھاتے ہوئے انسان آخر ایک غیرمرئی خدا کی پرستش میںمصروف ہوگیا.لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ غلط ہے کہ پہلے ضلالت تھی اور ہدایت بعد میں آئی بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ نیکی پہلے تھی اور بدی بعدمیں آئی.پہلے آدمؑ آئے اور انہوں نے تمدّن کی بنیاد رکھی پھر خرابی پیدا ہوئی تو نوحؑآئے، پھر خرابی پیدا ہوئی تو موسٰی آئے، پھر خرابی پیدا ہوئی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے.غرض نیکی کا دور پہلے ہے اور بدی کا بعد میں.یہی فلسفی ارتقاء اور قرآنی ارتقاء میں فرق ہے.قرآن کریم کے نزدیک دور حسنات پہلے ہے اور دور سیئات بعد میں.لیکن فلسفی اصول کے ماتحت دَور سیئات پہلے ہے اور دَور حسنات بعد میں.فرد کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو ہم نے ہدایت دی اور اعلیٰ درجہ کی طاقتیں نیکی میں ترقی کرنے کے لئے بخشیں.لیکن جب اس نے ان کا غلط استعمال کیا تو وہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں گر گیا.یعنی انسان کی دونوں حالتیں دوسری مخلوق سے بڑی ہیں.جب نیکی کی طرف آتا ہے تو سب مخلوق سے بڑھ جاتا ہے اور جب بدی کی طرف گرتا ہے تو ساری مخلوق سے گرجاتا ہے.انسان کو اللہ تعالیٰ نے اضداد کا مالک بنایا ہے.نیکی میں حصہ لیتا ہے تو ساری مخلوق سے بڑھ جاتا ہے اور بدی میں حصہ لیتا ہے تو کتوں اور سؤروں سے بھی گرجاتا ہے.یایوں کہو کہ وہ ترقی کرتاہے تو فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور گرتا ہے تو شیطانوں سے بھی نیچے چلا جاتا ہے.گویا لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ میں بالقوّہ قویٰ کا ذکر ہے اور ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اور اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا میں بالظہور قویٰ کا ذکر ہے.یعنی بالقوّہ تو سب کو اچھے قویٰ ملے ہیں مگر جب ان کا ظہور ہوتا ہے تو دو طرح ہوتا ہے.یا تو انسان مومن بن جاتا ہے اور یا کافر بن جاتا ہے.مومن بن کر اوپر کو نکل جاتا ہے اور کافر بن کر نیچے کی طرف گر جاتا ہے.

Page 321

اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ اَجْرٌ باستثناء ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے مناسب حال عمل کئے سو ان کے لئے ایک نہ ختم ہونے والا غَيْرُ مَمْنُوْنٍؕ۰۰۷ (نیک) بدلہ ہوگا.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کا استثنیٰ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لاتے اور اعمال صالحہ کی بجاآوری میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں ان کو ہم اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں نہیں لوٹاتے کیونکہ وہ فطرت کو صحیح راستہ پر چلاتے اور اپنی قوتوں کا جائز اور برمحل استعمال کرتے ہیں.یہاں سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم کے ذکر میں ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ کو پہلے کیوں رکھاہے اور اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کا ذکر پیچھے کیوں کیا ہے؟ اور اس تقدیم و تاخیر میں کیا حکمت ہے.ا س کا جواب یہ ہے کہ ایمان اور اعمال صالحہ چونکہ طبعی اور فطری قویٰ کے صحیح استعمال کا نام ہے اور جو شخص احکام الٰہیہ پر ایمان لاتا ہے اور پھر ان کے مطابق اعمال صالحہ بھی بجالاتا ہے وہ درحقیقت اس راستہ پر چلتا چلا جاتا ہے جو فطرت کا راستہ ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے مذہب جیسی نعمت حاصل ہوتی ہے اور وہ ایمان اور اعمال کی برکات سے متمتع ہوتا ہے.اس لئے ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا اِلَّا کہہ کر علیحدہ طور پر ذکر فرماتا اور اس طرح اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں جانے والوں اور فطری استعدادوں سے صحیح طور پر کام لینے والوں میں ایک مابہ الامتیاز قائم ہوجاتا.رہا یہ سوال کہ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں گرنے والوں کا پہلے کیوں ذکر کیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ لوگ اپنی پیدائش کے مقصد کو فراموش کرنے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ جب یہ ذکر کیا گیا تھا کہ ہم نے انسان کو معتدل القویٰ پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بھلائی کی قوتیں رکھ دی ہیں وہاں ساتھ ہی اس شبہ کا ازالہ بھی کردیاجاتا کہ اگر ایسا ہے تو بعض لوگ بد کیوں ہوتے ہیں.چنانچہ اس کا جواب یہ دیا ہے کہ گو ہم نے انسان کو اسی مقصد کے لئے پیدا کیا ہے مگر پھر بھی بعض لوگ چونکہ اپنی فطرت کو مسخ کردیتے اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ قوتوں کا ناجائز استعمال کرتے ہیں وہ مقام رفعت سے گر کر ذلت اور ادبار کے گڑھے میں جا پڑتے ہیں اور انسانیت کے لئے ان کا وجود ننگ و عار کا باعث بن جاتا ہے.یہ ان کا اپنا قصور ہوتا ہے خدا تعالیٰ اس کا ذمہ دار نہیں.اس کے بعد اِ

Page 322

کہہ کر ایمان لانے والوں اور عمل صالح کی بجاآوری میں مشغول رہنے والوں کا استثنیٰ کردیا اور بتادیا کہ جو لوگ احسن تقویم پر قائم رہتے اور اس راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں جو فطرت صحیحہ کا ہے اللہ تعالیٰ ان کو دولت ایمان سے مشرف کردیتاہے.اور انہیں اس بات کی بھی توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ اعمال صالحہ بجالائیں.گویا ایمان اور عمل صالح کا راستہ فطرت صحیحہ کی لائن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.جو لوگ فطرت کو بگاڑ لیتے ہیں اور اپنے قوائے استعدادیہ سے صحیح رنگ میں کام نہیں لیتے وہ تو اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں جاگرتے ہیں لیکن وہ لوگ جو فطری اور طبعی راستہ پر چلتے چلے جاتے ہیں اپنی قوتوں کو برمحل استعمال کرتے ہیں اور فطرت کو مسخ کرنے کی کوشش نہیں کرتے ان کو ایمان بھی عطا کیا جاتا ہے اور ان میں اعمال صالحہ بھی پیدا ہوجاتے ہیں.ایسے لوگ اَسْفَلَ سٰفِلِيْنَ میں نہیں لوٹائے جاتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو غَيْرُ مَمْنُوْنٍ یعنی جزائے غیر مقطوع حاصل ہوتی ہے اور اس طرح صحیح علم اور اس کے صحیح استعمال کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے اعلیٰ انعامات کے مستحق ہوجاتے ہیں.اٰمَنُوْا میں صحیح علم کی طرف اشارہ ہے یعنی وہ علم جو مناسب حال ہو اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ میں اس علم کے صحیح استعمال یعنی صحیح عمل کی طرف اشارہ ہے اور یہی دو چیزیں ہیں جو روحانی ترقی میں کام آیا کرتی ہیں.فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِؕ۰۰۸ پس اس (حقیقت کے کھل جانے) کے بعد کون سی چیز تجھ کو جزاء سزا کے معاملے میں جھٹلاتی ہے.حلّ لُغات.کَذَّبَہٗ کَذَّبَہٗ کے معنے ہوتے ہیں نَسَبَہٗ اِلَی الْکِذْبِ اس کی طرف کذب کا ارتکاب منسوب کیا.قَالَ لَہٗ اَنْتَ کَاذِبٌ یعنی اس کی نسبت کہا کہ تو جھوٹا ہے وَجَعَلَہٗ کَاذِبًا یا اس کو کاذب قرار دیا (اقرب).اَلدِّیْن اَلدِّیْنُ کے معنے ہیں اَلْـجَزَاءُ وَالْمُکَافَاۃُ جزا سزا.اَلطَّاعَۃُ اطاعت.اَلْـحِسَابُ حساب.اَلْقَہْرُ وَالْغَلَبَۃُ وَالْاِسْتِعْلَاءُ غلبہ.اَلسُّلْطَانُ وَالْمُلْکُ وَالْـحُکْمُ بادشاہت.اَلتَّدْبِیْـرُ تدبیر.اِسْـمٌ لِّـجَمِیْعٍ مَّایُعْبَدُ بِہِ اللہ مختلف مذاہب کا عبادت کا طریق.اَلْوَرَعُ پاکیزگی.اَلْمَعْصِیَۃُ گناہ.اَلْاِکْرَاہ جبر.اَلْمِلَّۃُ مذہب.اَلْعَادَۃُ عادت.اَلْقَضَاءُ قضاء.اَلْـحَالُ حال.اَلشَّاْنُ شان (اقرب).تفسیر.کشاف کے نزدیک فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ سے مراد یہ ہے کہ کون سی چیز تجھے ان دلائل کے بعد اس بات پر ابھارتی ہے کہ جزا سزا کا انکار کرکے تو کاذب ہوجائے.گویا ان کے نزدیک يُكَذِّبُكَ کا خطاب کفار

Page 323

سے ہے اور اس کے معنے جھٹلانے کے نہیں بلکہ اپنے آپ کو جھوٹا اور کاذب بنانے کے ہیں.عام طور پر ان معنوں کو قبول کیا گیا ہے.مگر یہ درست معلوم نہیں ہوتے.یہاں خطاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے اور قاضی اور فراء کا یہی قول ہے اور مراد یہ ہے کہ جزا سزا کے متعلق اب تیری کون تکذیب کرسکتا ہے.(فتح البیان زیر آیت فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ) فَمَا يُكَذِّبُكَ میں مَا کے معنے یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ مَا اپنے معروف معنوں کے سوا کبھی مصدریہ ہوتا ہے اور کبھی مَنْ کے معنے بھی دیتا ہے یہاں مصدری معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یا تو اپنے معروف معنوں میں یعنی غیرذوی الا رواح کے لئے استعمال ہوا ہے یا مَنْکے معنوں میں استعمال ہوا ہے(منجد).اگر یہاں مَا کا استعمال غیر ذی روح کے لئے سمجھا جائے تو فَمَا يُكَذِّبُكَ کے معنے ہوں گے وہ کون سی چیز ہے جو تجھے جھٹلاتی ہے اور اگر مَا کو مَنْ کے معنوں میں سمجھا جائے تو فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ کے معنے ہوں گے وہ کون سا شخص ہے جو تجھے جھٹلاتا ہے.فَمَا يُكَذِّبُكَ کے چھ معنے اس دلیل کے بعد اور بِالدِّيْنِ کے معنے ہوں گے دین یا جزا سزا کے متعلق (با کے معنے اس صورت میں فِیْ کے کئے جائیں گے )یا دین کے ذریعہ سے یعنی یہ تین مثالیں جو اوپر پیش کی جا چکی ہیں کہ آدمؑ آئے شیطان نے ان کا مقابلہ کیا اور اس نے سمجھا کہ میں آدمؑ کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائوں گا مگر آخر شیطان نے ہی شکست کھائی اور آدم ؑکامیاب وبامراد ہوا.پھر نوحؑ آئے دشمن نے ان کا مقا بلہ کیا ان کو ناکام کرنے کے لئے اس نے پورا زور لگایا اور سمجھا کہ میں نوحؑکو شکست دینے میں کا میاب ہو جائوں گا مگر آخر نوحؑہی کامیاب ہوئے اور ان کا دشمن ناکامی کی حالت میں تباہ ہو گیا.اس کے بعد موسٰی آئے ان کے مقابل میں بھی دشمن اپنے لشکر سمیت اٹھا اور اس نے موسٰی کو ناکام کرنے کے لئے پورا زور لگایا مگر آخر موسٰی ہی کا میاب ہوئے اور دشمن نا کام ہوا.ان تین مثالوں کے بعد تیرے دشمن کس دلیل کی بنا پر تجھے جھٹلا سکتے ہیں اور کون سی بات ہے جو وہ تیرے خلاف پیش کر سکتے ہیں.وہ کہیں گے کہ تو کمزور اور نا تواں ہے تو ہمارے مقا بلہ میں کا میاب نہیں ہو سکتا مگر کیا وہ نہیں دیکھتے کہ آدمؑ بھی کمزور تھا.نوحؑبھی کمزور تھا.موسٰی بھی کمزور تھا.اور ان کے متعلق بھی یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ کا میاب نہیں ہوں گے پھر اگر وہ اپنی کمزوری کے با وجود کا میاب ہو گئے تو تو کمزور ہونے کے باوجود ان پر کیوں غالب نہیں آسکتا.وہ کہیں گے تو نہتہ ہے اس لئے ہمارے مقابلہ میں تو جیت نہیں سکتا.مگر وہ اس بات کا کیا جواب دیں گے کہ آدم بھی نہتہ تھا.نوح بھی نہتہ تھا، موسیٰ بھی نہتہ تھا.پس وہ اگر نہتے ہو کر دنیا پر غالب آگئے تو تُو نہتہ ہو کر کیوں دنیا پر

Page 324

غالب نہیں آسکتا؟ غرض فرماتا ہے فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّيْنِ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان مثالوں کے بعد یہ لوگ تیرے انعام پانے اور اپنے ہلاک ہونے میں دین حقہ کی بناء پر کس طرح شک کر سکتے ہیں.ان مثالوں کے بعد کون سی دلیل ہے جو ان کو شبہ میں مبتلا رکھ سکتی ہے یا کون سا انسان ہے جو دین کی بناء پر تیری تکذیب کرسکتا ہے.گذشتہ انبیاء کے واقعات تیری صداقت کو روز روشن کی طرح واضح کر رہے ہیںاور ہر شخص جو تعصّب سے خالی ہوکر ان پر غور کرے وہ یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ فطرت صحیحہ آخر بنی نوع انسان کی مدد کے لئے ابھر آ تی ہے اور بنی نوع انسان دیر تک صداقت کا انکار نہیں کر سکتے.پس جس فطرت کے ہتھیار سے سابق انبیاء اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اسی طرح تو بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا.دنیا بےشک مخالفت کرے وہ جس قدر منصوبے سوچنا چاہتی ہے سوچ لے.آخر وہی ہو گا جو ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے کہ فطرت صحیحہ خدا کے رسول کی مدد کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی اور وہ غالب آگیا.اور اس کے دشمن ذلت اور ناکامی کی موت مرے.دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ان پہلی تین مثالوں کی موجودگی میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے دین یعنی الہامی دین کا یہ لوگ کس طرح انکار کر سکتے ہیں.ان معنوں کے رو سے یہاں دین کے معنے جزا سزا کے نہیں ہوں گے بلکہ دین کے معنے شریعت کے ہوں گے اور آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ ان دلائل کے بعد دین کے معاملہ میں کون شخص تیرا انکار کر سکتا ہے جب وہ مانتے ہیں کہ آدمؑ کو بھی الہام ہوا.نوحؑکو بھی الہام ہوا.موسٰی کو بھی الہام ہوا اور یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے لئے دین لائے تو اب یہ کس طرح کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے الہام نہیں ہو سکتا یا اس کی طرف سے کوئی نیا دین لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل نہیں ہو سکتا.تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ان دلائل کے بعد آیا کوئی بھی مذہبی دلیل تیرے خلا ف پیش کی جا سکتی ہے یقیناً اگر وہ غور کریں تو انہیں تیری تکذیب کے لئے کسی مذہبی دلیل کا سہارا نہیں مل سکتا کیونکہ آدمؑ،نوحؑاورابراہیمؑ کی سنت تجھ سے پہلے موجود ہے جس معیار پر ان نبیوں کو پرکھا گیا اگر انہی دلائل پر تجھے پرکھا جائے تو تیری صداقت یقیناً ثابت ہو گی.تکذیب کا موجب وہی دلیل ہو سکتی ہے جس کی زَد ان کے مسلمہ نبیوں پر نہ پڑتی ہو اور یہ ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے.ان کے عقلی ڈھکونسلے تیرے ہی خلاف نہیں پڑتے بلکہ سب سابقہ انبیاء کے خلاف بھی پڑتے ہیں.چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ کیا اس کے بعد کوئی شخص بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ میں تدبیر کرکے تجھے جھوٹا

Page 325

ثابت کر دوں گا.یہ بتایا جا چکا ہے کہ دین کے ایک معنے تدبیر کے بھی ہوتے ہیں.پس آیت کا یہ مطلب ہوا کہ کیا اتنے بڑے نشانوں کے بعد جو ہم نے تیری صداقت میں ظاہر کئے ہیں کوئی شخص یہ خیال بھی کر سکتا ہے کہ تو ہار جائے گا اور دشمن جیت جائے گا.آدمؑ آیا تو دشمن نے اس کے خلاف کتنی تدابیر کی تھیں نوحؑ آیا تو اس کو ناکام بنانے کے لئے دشمن نے کیسی کیسی تدابیر اختیار کی تھیں.موسٰی آیا تو اس کی شکست کے لئے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے کیسی کیسی کوششوں سے کام لیا تھا.پھر اگر پہلے انبیاء کے دشمن نا کا م ہوگئے اور ان کی تدابیر کسی کام نہ آئیںتو یہ لوگ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقا بلہ میں اپنی تدابیر سے غالب آجائیں گے.پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تقویٰ قائم رکھتے ہوئے کون شخص تیری مخالفت کرے گا.کیونکہ دین کے ایک معنے ورع یعنی تقویٰ اور روحانیت کے بھی ہیں اور مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی خشیت اور اس کی سزا کا خوف اپنے دل میں رکھتے ہوئے اور تقویٰ اور روحانیت کی راہوں پر چلتے ہوئے کوئی شخص تیری مخالفت نہیں کر سکتا.صرف وہی گندے اور ناپاک طبع دشمن تیری مخالفت میں کھڑے ہو سکتے ہیں جن کے اندر تقویٰ کا ایک شائبہ بھی نہ ہو اور جو نیکی اور روحانیت کے مقام سے ایسے ہی دور ہوں جیسے مشرق سے مغرب دور ہوتا ہے.چھٹے معنے یہ ہیں کہ اب اس کے بعد کون اِکراہ کے ساتھ تیری تکذیب کرے گا یعنی سابق دشمنوں کا انجام دیکھ کر پھر کون بد نیت ہوگا جو جبر کے ہتھیار سے تیرا مقابلہ کرنا چاہے اور یہ خیال کرے کہ میں مار پیٹ کر سیدھا کر لوں گا پہلے نبیوں کو بھی مارنے پیٹنے کی دھمکیاں دی گئی تھیں مگر کیا ان کے دشمن کامیاب ہو گئے دشمن کا اکراہ اس کے کسی کام نہ آیا اور اس کا جبر خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کو روک نہ سکا.ان مثالوں کے بعد اب ان لوگوں کے دلوں میں یہ خیال کس طرح آسکتاہے کہ ہم نے اگر جبرو تشدد سے کام لیا تو ہم کامیاب ہو جائیں گے اللہ تعالیٰ کا دین بہرحال پھیل کر رہے گا.اسلام دنیا پر غالب آئے گا اور کسی قسم کی روک اس کی ترقی میں حائل نہیں ہو سکے گی.اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَؒ۰۰۹ کیا (اب بھی کوئی خیال کر سکتا ہے کہ )اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟ تفسیر.فرماتا ہے کیا ان سارے دلائل اور نصیحتوں کو سن کر بھی ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اللہ تعالیٰ

Page 326

سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کوئی نہیں.جس بات کا وہ فیصلہ کر دے اس کو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی روک نہیں سکتی.اس نے فیصلہ کیا کہ آدمؑ کامیاب ہو سو وہ کامیاب ہو گیا.اس نے فیصلہ کیا کہ نوحؑکو اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہو سو اسے غلبہ حاصل ہو گیا اس نے فیصلہ کیا کہ موسٰی کو ترقی حاصل ہو سو اسے ترقی حاصل ہو گئی اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ترقی دے سو اسے ترقی حا صل ہو جائے گی.اور مکہ والوں کی ہوائی باتیں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے مقابلہ میں ٹھہر نہیں سکیں گی اور دنیا دیکھ لے گی کہ آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے.

Page 327

سُوْرَۃُ الْعَلَقِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ العلق.یہ سورۃ مکی ہے وَ ھِیَ تِسْعَ عَشْـرَۃَ اٰیَۃً دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْـھَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اوراس کی بسم اللہ کے سوا انیس آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے سورۃ العلق مکی سورت ہے یہ سورۃ بلا خلاف مکی ہے امام احمد اپنی مسند میں عن عروہ عن عائشہؓ سے یہ روایت نقل کرتے ہیںکہ قَالَتْ اَوَّلُ مَا بُدِیَٔ بِہٖ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْیِ اَلرُّؤْیَا الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیًا اِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ ثُمَّ حُبِّبَ اِلَیْہِ الْـخَلَاءُ فَکَانَ یَاْتِی الْـحِرَاءَ فَیَتَحَنَّثُ فِیْہِ وَ ھُوَا لتَّعَبُّدُ اللَّیَالِیْ ذَوَاتِ الْعَدَدِ وَیَتَزَوَّدُ لِذَالِکَ ثُمَّ یَرْجِعُ اِلٰی خَدِیْـجَۃَ فَیَتَـزَوَّدُ لِمِثْلِھَا حَتّٰی جَـاءَہُ الْـوَحْیُ وَ ھُـوَ فِیْ غَـارِ حِـرِاءَ فَــجَـاءَہُ الْـمَـلِکُ فِـیْـہِ فَـقَـالَ اقْـرَأْ قَـالَ رَسُـوْلُ اللہِ صَـلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ مَا اَنَا بِقَارِیءٍ قَالَ فَاَخَذَنِیْ فَغَطَّنِیْ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْـجُھْدُ ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا اَنَا بِقَارِیءٍ فَغَطَّنِیَ الثَّانِیَۃَ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْـجُہْدُ ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ فَقَالَ اقْرَأْ فَقُلْتُ مَا اَ نَا بِقارِیءٍ فَغَطَّنِیَ الثَّالِثَۃَ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْـجُہْدُ ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ فَقَالَ اقْرَأْ بِاسْـمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ حَتّٰی بَلَغَ مَالَمْ یَعْلَمْ قَالَ فَرَجَعَ بِـھَا تَرْجُفُ بَوَادِرُہٗ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی خَدِیْـجَۃَ فَقَالَ زَمِّلُوْنِیْ.زَمِّلُوْنِیْ.فَزَمَّلُوْہ حَتّٰی ذَھَبَ عَنْہُ الرَّوْعُ فَقَالَ یَا خَدِیْـجَۃُ مَالِیْ وَاَخْبَـرَھَا الْـخَبَرَ وَ قَالَ قَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ فَقَالَتْ لَہٗ کَلّا أَبْشِـرْ فَوَاللہِ لَا یُـخْزِیْکَ اللہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِـمَ وَ تَصْدُقُ الْـحَدِیْثَ وَ تَـحْمِلُ الْکَلَّ وَ تَقْرِی الضَّیْفَ وَ تُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْـحَقِّ ثُمَّ انْطَلَقَتْ لَہُ الْـخَدِیْـجَۃُ حَتّٰی اَتَتْ بِہٖ وَرَقَۃَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ اَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزّٰی بْنِ قُصَیٍّ وَ ھُوَا بْنُ عَمِّ خَدِیْـجَۃَ اَخِیْ اَبِیْـھَا وَ کَانَ امْرَأً تَنَصَّـرَفِی الْـجَاہِلِیَّۃِ وَ کَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِیَّ وَ کَتَبَ بِالْعِبْـرَانِیَّۃِ مِنَ الْاِنْـجِیْلِ مَاشَاءَ اللہُ اَنْ یَّکْتُبَ وَ کَانَ شَیْخًا کَبِیْـرًا قَدْ عَـمِیَ فَقَالَتْ خَدِیْـجَۃُ اَیْ ابْنَ عَمٍّ اِسْـمَعْ مِنَ ابْنِ اَخِیْکَ فَقَالَ وَرَقَۃُ اِبْنَ اَخِیْ مَا تَرٰی فَاَخْبَـرَہٗ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِـمَا رَاٰی فَقَالَ وَرَقَۃُ ھٰذَا النَّامُوْسُ الَّذِیْ اُنْزِلَ عَلٰی عِیْسٰی لَیْتَنِیْ فِیْہِ جَذَعًا

Page 328

لَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا حِیْنَ یُـخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَ مُـخْرِجِیَّ ھُمْ فَقَالَ وَرَقَۃُ نَعَمْ لَمْ یَاْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِـمَاجِئْتَ بِہٖ اِلَّا عُوْدِیَ وَ اِنْ یُّدْرِکْنِیْ یَوْمَکَ اَنْصُـرْک نَصْـرًا مُّؤَزَّرًا ثُمَّ لَمْ یَنْشَبْ وَرَقَۃُ اَنْ تُوُفِّیَ وَ فَتَـرَالْـوَحْیُ فَتْـرَۃً حَتّٰی حَزِنَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِیْـمَا بَلَغَنَا حَزَنًا غَدًا مِّنْہُ مِرَارًا کَیْ یَتَرَدّٰی مِنْ رُّءُوْسِ شَوَاھِقِ الْـجِبَالِ فَکُلَّمَا اَوْفٰی بِذِرْوَۃِ جَبَلٍ لِکَیْ یُلْقِیَ نَفْسَہٗ مِنْہُ تَبَدّٰی لَہٗ جِبْـرِیْلُ فَـقَـالَ یَـامُـحَمَّدُ اِنَّـکَ رَسُوْلُ اللہِ حَقًّا فَیَسْکُنُ بِذَالِکَ جَأْشُہٗ وَ تَقِرُّ بِہٖ نَفْسُہٗ فَیَـرْجِعُ فَاِذَااَ طَالَتْ عَلَیْہِ فَتْرَۃُ الْوَحْیِ غَدَا لِمِثْلِ ذَالِکَ فَاِذَا اَوْفٰی بِذِرْوَۃِ الْـجَبَلِ تَبَدّٰی لَہٗ جِبْـرِیْلُ فَقَالَ لَہٗ مِثْلَ ذَالِکَ وَھٰذَا الْـحِدِیْثُ مُـخْرَجٌ فِی الصَّحِیْحَیْنِ مِنْ حَدِیْثِ الزُّھْرِیِّ.یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداء میں جو وحی نازل ہوئی وہ رئویا صادقہ کی صورت میں نازل ہوئی تھی.آپ جو بھی خوا ب دیکھتے وہ ایسے واضح رنگ میں پوری ہوجاتی جیسے فجر کا طلوع ہوتا ہے اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں یہ رغبت پیدا ہوئی کہ آپ خلوت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں.بعض دوسری حدیثوں میں آتا ہے کہ ان دنوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خلوت میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے سے زیادہ اور کوئی چیز پیاری نہیں تھی.چنانچہ آپ غارِ حراء میں جاتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے.عبادت کا یہ طریق تھا کہ آپ کئی کئی راتیں غارِ حراء میں بسر کردیتے اور دن رات اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی عبادت میں مشغول رہتے.جتنا عرصہ آپ نے عبادت کا ارادہ کیا ہوتا تھا اتنے عرصہ کے لئے آپ حراء میں ہی اپنا زاد لے جاتے تھے اورجب وہ ختم ہوجاتا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے وہ اتنا ہی اور زاد تیار کرکے دے دیتیں اور آپ پھر اس کو ساتھ لے کر عبادت کے لئے غارِ حراء میں چلے جاتے.ایک دن آپ اسی طرح غارِ حراء میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کررہے تھے کہ آپؐپر وحی الٰہی کا آغاز ہوگیا.ایک فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا اِقْرَاْ یعنی پڑھ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَا اَنَا بِقَارِیءٍ میں تو پڑھنانہیں جانتا.قَالَ فَاَخَذَنِیْ فَغَطَّنِیْ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میں نے یہ جواب دیا تو اس نے مجھے پکڑا اور بھینچنا شروع کردیا.غَطّٰی کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو پانی میں ڈبودینا.لیکن محاورہ میں غَطّٰی بھینچنے کو کہتے ہیں.آپ فرماتے ہیں اس نے مجھے بھینچا اور اتنا بھینچا کہ حَتّٰی بَلَغَ مِنِّی الْـجُھْدُ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی.یعنی میں نے سمجھا کہ اگر اس نے اب مجھے زیادہ بھینچا تو میں مرجائوں گا.اس کے بعد اس نے مجھے چھوڑ دیا ور پھر کہا پڑھ! میں نے کہا میں تو پڑھنا نہیں جانتا.اس نے پھر مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی.اس پر اس نے پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا اِقْرَاْ.پڑھ! میں

Page 329

نے کہا میں توپڑھنا نہیں جانتا.اس نے تیسری دفعہ پھر مجھے بھینچا یہاں تک کہ میری مقابلہ کی طاقت ختم ہوگئی.پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور (اس سورۃ کی یہ آیات پڑھنے کو) کہا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.اس کے بعد راوی کے اپنے الفاظ میں حدیث آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے فوراً بعد اپنے گھر واپس آئے اور آپ کی حالت یہ تھی کہ اس وقت آپ کے کندھے خوف سے کانپ رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر پہنچے تو آپ نے حضرت خدیجہؓ سے فرمایا زَمِّلُوْنِیْ.زَمِّلُوْنِیْ مجھے کپڑا اوڑھادو.مجھے کپڑا اوڑھادو.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں سے ڈھانک دیا یہاں تک کہ آپ کا خوف دور ہوگیا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدیجہ! مجھے کیا ہوگیا ہے؟ پھر آپ نے ساری بات سنائی اور فرمایا کہ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پید اہوگیا ہے.حضرت خدیجہؓ نے کہا ایسا خیال مت کیجئے بلکہ آپ خوش ہوجائیے.مجھے اللہ ہی کی قسم وہ آپ کو کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھتے ہیں، ہر سچی بات کی آپ تصدیق کرتے ہیں، خدا تعالیٰ کی کسی بات کا انکار نہیں کرتے،جو لوگ اپنا بوجھ نہیں اٹھاسکتے ان کے بوجھ آپ خود اٹھاتے ہیں، ہر آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرتے ہیںاور جو لوگ ایسی مصائب میں مبتلاہوںکہ اس میں ان کی شرارت کا دخل نہ ہو بلکہ حوادثِ زمانہ کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی ہو آپ ان کا بوجھ بٹاتے ہیں.پھر حضرت خدیجہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لیا اور آپ کوورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو حضرت خدیجہؓ کے ابن عم یعنی چچا زاد بھائی تھے.یہ ورقہ بن نوفل ان لوگوں میں سے تھے جو زمانۂ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے.وہ تورات کو عربی زبان میں لکھوایا کرتے تھے (یا اندھا ہونے سے پہلے لکھا کرتے تھے) اور جتنی خدا تعالیٰ توفیق دیتا تھا عبرانی زبان سے انجیل بھی لکھوایا کرتے تھے (یعنی اس کا عربی میں ترجمہ کرنے کی کوشش کرتے تھے) وَکَانَ شَیْخًا کَبِیْـرًا قَدْ عَـمِی اور وہ ایک بوڑھے آدمی تھے جو بڑھاپے میں آکر نابیناہوگئے تھے.حضرت خدیجہؓ نے ان سے مختصراً سب حال کہا اور کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے! اپنے بھائی کے بیٹے کے منہ سے سب بات سن لو.ورقہ نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے تو نے کیا دیکھا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھاتھا وہ تفصیلاً بتایا.ورقہ نے تمام باتیں سن کر کہا یہ تو وہی ناموس ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا.کاش! میںاس وقت جوان ہوتا.کاش! میں اس وقت زندہ ہوتا جب تیری قوم تجھے نکال دے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَوَ مُـخْرِجِیَّ ھُمْ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ ورقہ نے کہا ہاں

Page 330

ہاں تیری قوم تجھے نکال دے گی کیونکہ آج تک کوئی شخص اس تعلیم کو لے کر نہیں آیا جس تعلیم کو تو لے کر کھڑا ہوا ہے.مگر اس کی قوم نے اس سے ضرور دشمنی کی ہے.اگر مجھے بھی وہ دن دیکھنا نصیب ہوا جب تو اپنی قوم کے سامنے اس تعلیم کا اعلان کرے گا اور قوم تیری شدید مخالفت کرے گی یہاں تک کہ وہ تجھے اس شہر میں سے نکال دے گی تو میں کمر باندھ کر تیری مدد کروں گا.مگر اس واقعہ کے تھوڑے دنوں کے بعد ورقہ بن نوفل فوت ہوگئے اور وحی میں وقفہ پڑھ گیا.ہمیں لوگوں کی طرف سے جو خبریں پہنچیں ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فترۃ وحی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت ہی غم ہوا.کئی دفعہ آپ باہر جاتے اور ارادہ کرتے کہ کسی اونچے پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو نیچے گرا دیں مگر جب کبھی آپ پہاڑ کی کسی چوٹی پر اس ارادہ کے ساتھ جاتے کہ اپنے آپ کو نیچے پھینک دیں تو جبریل آتے اور کہتے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.اس سے آپ کا جوش تھم جاتا، آپ کا نفس ٹھنڈا ہوجاتا اور آپ واپس لوٹ آتے.مگر جب فترۃ وحی کا زمانہ لمبا ہوگیا تو ایک دفعہ پھر آپ اسی ارادہ سے نکلے اور پہاڑ کی چوٹی پر گئے مگر وہاں آپ کو پھر جبریل نظر آئے اور انہوں نے پھر اسی قسم کی بات کی.یہ روایت ابتداء وحی کے متعلق مسند احمد بن حنبل میں آتی ہے.امام بخاری نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب کے ابتدائی باب یعنی بَابُ کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ میں درج کیا ہے.اسی طرح بخاری جلد ۴ باب علم التعبیر میں بھی یہ حدیث آتی ہے مگر مسند احمد بن حنبل اور بخاری کی اس روایت میں کسی قدر فرق پایا جاتا ہے.وہ فرق یہ ہے کہ اس حدیث میں آتا ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تَصْدُقُ الْـحَدِیْثَ مگر بخاری بَابُ کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ میں جو حدیث درج ہے اس میں تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ کے الفاظ آتے ہیں.یعنی وہ خوبیاں جو دنیا سے معدوم ہوچکی ہیں وہ آپ کمارہے ہیں مطلب یہ کہ وہ اخلاقِ فاضلہ جن پر دنیا عمل نہیں کرتی ان پر آپ کا عمل پایا جاتا ہے.دوسرے بخاری کی ابتدائی حدیث میں ورقہ بن نوفل کے متعلق یہ ذکر نہیں آتا کہ کَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِیَّ وہ تورات کو عربی زبان میںلکھوایا کرتے تھے (اصل الفاظ یَکْتُبُ کے ہیںجس کے معنے لکھنے کے ہیں لیکن چونکہ وہ اندھے ہوگئے تھے اس لئے اس کے معنے یہاں لکھوانے کے ہیں.ان معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوجاتا ہے یا پھر اس کے یہ معنے ہیںکہ اندھا ہونے سے پہلے ایسا کیا کرتے تھے).تیسرے اس حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ پہاڑ سے اپنے آپ کو نیچے گرادینے کا ارادہ کیا لیکن بخاری کی وہ حدیث جو بَابُ کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ میں آتی ہے.اس میں اس واقعہ کا

Page 331

ذکر نہیں آتا لیکن بخاری جلد ۴ باب التعبیر میں جو حدیث آتی ہے اس میں تَصْدُقُ الْـحَدِیْثَ کے بھی الفاظ ہیں.کَانَ یَکْتُبُ الْکِتَابَ الْعَرَبِیَّ کے بھی الفاظ ہیں اور اس واقعہ کا بھی ذکرآتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ پہاڑ کی چوٹی سے اپنے آپ کو گرانے کا ارادہ کیا.چوتھے اس حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ ورقہ بن نوفل نے کہا یہ وہی ناموس ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا.لیکن بخاری میں یہ ذکر آتا ہے کہ اس نے کہا ھٰذَ النَّامُوْسُ الَّذِیْ اُنْزِلَ عَلٰی مُوْسٰی یہ وہی ناموس ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا.بہرحال اس معمولی فرق کے باوجود نفسِ مضمون دونوں حدیثوں کا ایک ہی ہے.چنانچہ اسی حدیث کی بناء پر شراح اور مفسرین کہتے ہیں کہ یہ پہلی وحی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی.ابن کثیر کہتے ہیں کہ فَاَوَّلُ شَیْءٍ نَزَلَ مِنَ الْقُرْانِ ھٰذِہِ الْاٰیَاتُ الْکَرِیْـمَاتُ الْمُبَارَکَاتُ وَ ھُنَّ اَوَّلُ رَحْـمَۃٍ رَحِـمَ اللہُ بِـھَا الْعِبَادَ وَ اَوَّلُ نِعْمَۃٍ اَنْعَمَ اللہُ بِـھَا عَلَیْـھِمْ (تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ العلق).یعنی یہ قرآن کریم کی پہلی بزرگ اور مبارک آیات ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئیں.یہ پہلی رحمت ہیں جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرمایا اور پہلی نعمت ہیں جس کے ذریعہ اس نے اپنے فضل سے انہیں سرفراز فرمایا.اس جگہ ضمنی طور پر میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کی بعض آیات میں بعض انبیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں ان کو دیکھتے ہوئے بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ وہ خوبیاں ان میں ساری دنیا کے مقابلہ میں ممتاز طور پر پائی جاتی تھیں حالانکہ یہ درست نہیں ہوتا.زبان کا یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی کی خاص طور پر کوئی خوبی بیان کی جاتی ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اسے ساری دنیا کے مقابلہ میں اس خوبی کے لحاظ سے فضیلت حاصل ہے بلکہ مراد محض اس زمانہ یا اس کی قوم یا خاندان کے لوگ ہوتے ہیں.مثلاً اسی جگہ ابن کثیر یہ نہیں کہتے کہ ھُنَّ اَوَّلُ رَحْـمَۃٍ رَحِـمَ اللہُ بِـھَا عَلٰی اُمَّۃِ الْمُحَمَّدِیَّۃِ یہ وہ پہلی رحمت ہے جو امت محمدیہ پر نازل ہوئی بلکہ کہتے ہیں ھُنَّ اَوَّلُ رَحْـمَۃٍ رَحِـمَ اللہُ بِـھَا الْعِبَادَ.یہ آیات وہ پہلی رحمت ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم و کرم کی بارش کا آغاز فرمایا.پھر وہ کہتے ہیں وَ اَوَّلُ نِعْمَۃٍ اَنْعَمَ اللہُ بِـھَا عَلَیْـھِمْ.یہ پہلی نعمت ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی اور جس کے ذریعہ اس نے اپنے بندوں پر بہت بڑا انعام نازل فرمایا.حالانکہ عیسٰیؑ کا کلام اس سے پہلے آچکا تھا.موسٰی کی کتاب اس سے پہلے آچکی تھی، ابراہیمؑ کے صحف اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوچکے تھے.درحقیقت یہ ایک

Page 332

محاورہ ہے جو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ سننے والا پاگل نہیں.جب ہم کہیں گے کہ فلاں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے تو لازماً وہ اسے ایک زمانہ کے لوگوں تک محدود رکھے گا.یہ نہیں سمجھے گا کہ شروع سے لے کر قیامت تک کے لوگوں پر اسے فضیلت حاصل ہوگئی ہے.اسی طرح قرآن کریم میں بعض انبیاء کی جو خوبیاں بیان کی گئی ہیں وہ بھی اسی طرح اپنے اپنے زمانہ کے لحاظ سے ہیں نہ کہ ساری دنیا کے لحاظ سے.جس طرح اس جگہ ابن کثیر نے قرآن کریم کی ان آیات کو پہلی رحمت اور پہلی نعمت قرار دیا ہے حالانکہ عیسٰیؑ اور موسٰی اور ابراہیمؑ اور نوحؑسب اللہ تعالیٰ کا کلام لاچکے تھے.بہرحال چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر یہ پہلی رحمت تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی اس لئے انہوں نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے اسے پہلی رحمت قرار دے دیا.ابن عباسؓ کہتے ہیں ھِیَ اَوَّلُ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْاٰنِ (فتح البیان زیر سورۃ العلق).یہ قرآن میںسے پہلا حصہ ہے جو نازل ہوا.ابوموسیٰ اشعری کہتے ہیں ھٰذِہٖ اَوَّلُ سُوْرَۃٍ اُنْزِلَتْ عَلٰی مُـحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ (فتح البیان زیر سورۃ العلق) یہ پہلی سورۃ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی روایت ہے.پھر لکھا ہے وَقَدْ ذَھَبَ الْـجُمْھُوْرُ اِلٰی اَنَّ ھٰذِہ السُّوْرَۃَ اَوَّلُ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ثُمَّ بَعْدَہٗ نٓ وَالْقَلَمِ ثُمَّ الْمُزَّمِّلُ ثُمَّ الْمُدَّثِّرُ (فتح البیان زیر سورۃ العلق) کہ جمہور کا مذہب یہی ہے کہ یہ پہلی سورۃ ہے جو قرآن کریم میں سے نازل ہوئی.اس کے بعد نون والقلم نازل ہوئی پھر مزمل نازل ہوئی اور پھر مدثر نازل ہوئی.اسی سلسلہ میں بخاری میں کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ کے باب کے ماتحت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ایک دفعہ گھر سے باہر جارہا تھا کہ میں نے آسمان پر اسی فرشتہ کو دیکھا جو غارِ حرا میں آیا تھا کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے.اس سے میں بہت مرعوب ہوا.میں گھر آیا اور کہا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ.فَاَنْزَلَ اللہُ تَعَالٰی يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ وَ ثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ فَـحَمِیَ الْوَحْیُ وَ تَتَابَعَ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی)یعنی جب میں گھر آیا اور مجھ پر کپڑا اوڑھادیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے سورئہ مدثر کی یہ آیات نازل کیں کہ يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَاَنْذِرْ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ وَ الرُّجْزَ فَاهْجُرْ.اس کے بعد وحی جلد جلد نازل ہونی شروع ہوگئی.ان دونوں اقوال میں بظاہر کچھ اختلاف نظر آتا ہے یعنی خازن نے دوسری روایت کو نقل کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اِقْرَاْ کے بعد سورئہ نون والقلم نازل ہوئی.پھر سورئہ مزمل نازل ہوئی اور پھر سورئہ مدثر نازل ہوئی اور بخاری کی روایت سے

Page 333

یوں معلوم ہوتا ہے کہ اِقْرَاْ کے بعد مدثر نازل ہوئی.لیکن یہ اختلاف حقیقی نہیں درحقیقت ایک امر کے نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ اختلاف پیدا ہوا ہے.فترۃ وحی کا زمانہ لوگ عام طور پر خیال کرتے ہیں کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کے بعد فترۃ وحی ہوئی ہے حالانکہ جو حدیث بخاری میںبیان ہوئی ہے اس سے یہ پتہ نہیں لگتا.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اس کے کچھ عرصہ بعد ورقہ بن نوفل فوت ہوئے اور پھر فترۃ کا زمانہ آگیا.درمیانی عرصہ کا اس حدیث میں ذکر نہیں کیا گیا.فترۃ وحی چونکہ ایک اہم مسئلہ تھا اس لئے اس کا ذکر کردیا گیا مگر اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اِقْرَاْکے بعد فترۃ ہوئی ہے بلکہ اِقْرَاْ کے بعد کچھ اور کلام نازل ہوا تھا اور اس کے بعد فترۃ ہوئی ہے اور یہی بات قرین قیاس بھی ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ تو اس میں تو کوئی حکم بیان نہیں ہوا پھر کیا حکم دیا تھا جس کے متعلق اِقْرَاْ کہا گیا تھا.اِقْرَاْ کا لفظ صاف بتاتا ہے کہ کوئی باتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے کہنی ہیں.وہ کہنے والی باتیںبہرحال اِقْرَاْ کے بعد نازل ہونی چاہیے تھیں.چنانچہ اِقْرَاْ کے بعد نون والقلم نازل ہوئی اس کے بعد سورۃ مزمل نازل ہوئی اور پھر فترۃ کا زمانہ آگیا.پس میرے نزدیک اصل واقعہ یہ ہے کہ اِقْرَاْ کی ابتدائی آیات اور اسی طرح نون والقلم اور سورۃ المزمل کی کچھ آیات پہلے نازل ہوئیں پھر فترۃ وحی ہوئی اور اس کے ختم ہونے پر سورۃ المدثر نازل ہوئی.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَا اَنَا بِقَارِیءٍ اس کا یہ مفہوم نہیں تھا کہ میں کتاب نہیں پڑھ سکتا کیونکہ کتاب تو اس جگہ کوئی پیش ہی نہیں تھی.ایک حدیث میں بے شک آتا ہے کہ جبریل کے ہاتھ میں ایک کپڑا تھا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا.مگر اس حدیث میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جبریل نے وہ کپڑا دکھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا ہو کہ اس پر جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھو کیونکہ اسی حدیث میں یہ ذکر بھی آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں کیا پڑھوں.اگر اس نے کپڑا دکھا کر کچھ پڑھانا ہوتا تو آپ یہ نہ کہہ سکتے کہ میں کیا پڑھوں(دُرّ منثور زیر سورۃ علق).حقیقت یہ ہے کہ مَا اَنَا بِقَارِیءٍ کے الفاظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکسار کے طور پر استعمال فرمائے تھے اور آپ ڈرتے تھے کہ میں عہدئہ نبوت کی اہم ذمہ داریوں کو پوری خوش اسلوبی سے ادا بھی کرسکوں گا یا نہیں.یہی حال ہر نبی کا ہوتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب انہیں فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض

Page 334

کیا کہ میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصاحت رکھتا ہے اسے بھی میرے ساتھ بھجوادیجئے ایسا نہ ہو کہ میں اپنے ما فی الضمیرکو وہاں عمدگی سے بیان نہ کرسکوں اور اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی کرجائوں(القصص:۳۵).یہ تو قرآن کریم کا بیان ہے تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بھائی ہارون کا نام نہیں لیا بلکہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا کام ان کے سپردکیا گیا تو انہوں نے کہا ’’اے میرے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں.جس کو چاہے تو اس کے وسیلہ سے بھیج‘‘.(خروج باب ۴ آیت ۱۳) یعنی میں اس خدمت کا اہل نہیں کسی اور شخص کو اس عہدہ پر کھڑا کردے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی یہ کام سپرد کردیا.مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام جب چالیس دن کے لئے پہاڑ پر گئے تو بعد میں حضرت ہارونؑ بنی اسرائیل کو سنبھال نہ سکے.باوجود ان کے منع کرنے کے وہ شرک میں مبتلا ہوگئے اور بچھڑے کی پرستش کرنے لگ گئے(الاعراف:۱۴۳تا ۱۵۱).اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتادیا کہ دیکھ لو انتخاب وہی صحیح تھا جو ہم نے کیا.تم نے اپنے لئے ہارونؑ کا انتخاب کیا تھا مگر ہارون قوم کی نگرانی نہ کرسکا.بہرحال اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب نبوت کا کام کسی عظیم الشان انسان کے سپرد کیا جاتا ہے تو طبعی طور پر وہ گھبراتا اور ہچکچاہٹ کا اظہار کرتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں میں اپنے فرائض کی بجاآوری میں کسی کوتاہی کا مرتکب نہ ہوجائوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت میں حجاب بھی تھا، انکسار بھی تھا، اپنے اہم فرائض کو دیکھتے ہوئے خوف بھی تھا.اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے استغناء کا بھی آپ کو احساس تھا اور ادب کی وجہ سے آپ یہ کہنا بھی مناسب نہ سمجھتے تھے کہ میری جگہ کسی اور کو مقرر کردیں میں اس کام کے قابل نہیں.ان وجوہ کی بنا ء پر جیسے تجاہل عارفانہ کے طور پر کوئی بات کہہ دی جاتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں پڑھنا نہیں جانتا.حالانکہ اس وقت آپ کو پڑھنے کے لئے نہیں کہا گیا تھا.درحقیقت یہ ایک ادب کا طریق تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے اختیار فرمایا.آپ نے سمجھا کہ براہ راست انکار کرنا تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہوگی اور اگر میں نے کہا کہ میں اس کام کے قابل نہیں تو یہ بھی ادب کے خلاف ہوگا اس لئے میں کوئی اور رنگ اختیار کروں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رنگ اختیار کیا کہ آپ نے فرمایا مَا اَنَا بِقَارِیءٍ میں تو پڑھے لکھے آدمیوں میں سے نہیں ہوں.میں نے کیا کام کرنا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ خود فرشتہ نے بھی آخر میں

Page 335

ظاہر کردیا تھا کہ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ پڑھو بلکہ مطلب یہ تھا کہ جو کچھ میں کہتا جائوں اسے ساتھ ساتھ دہراتے جائو.قَرَاَ کے دونوں معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو دہرانا یا لکھے ہوئے کو پڑھنا.پس جب فرشتے نے کہا اِقْرَاْ تو درحقیقت اس کے یہ معنے نہ تھے کہ لکھے ہوئے کو پڑھو.کیونکہ لکھا ہو اپڑھنا اس وقت مدنظر ہی نہیں تھا.فرشتے کامقصد صرف یہ تھا کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے زبانی دہراتے جائو چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ کو دہرادیا تو چونکہ اس کا مقصد حاصل ہوگیا اس لئے وہ واپس چلا گیا.ابتداء وحی ایک نہایت اہم مسئلہ ہے جیسا کہ ابن کثیر نے کہا ہے یہ پہلی رحمت ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نوازا اور پہلی نعمت ہے جس سے اس نے اپنے فضل سے انہیں حصہ عطا فرمایا.پس اس سورۃ کی ابتدائی آیات اس لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتی ہیںکہ یہ قرآن کریم کے لئے بمنزلہ بیج اور گٹھلی کے ہیں اور ان آیات کے نزول کے بعد باقی قرآن نازل ہوا ہے.یوں تو سارا قرآن ہی اہمیت رکھتا ہے مگر جذباتی طور پر اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.ایسی اہمیت رکھنے والی آیات ہیں کہ جب انسان ان کو پڑھتا ہے اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے قرآن سے روشناس کرایا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے دوست آپس میں ملتے ہیں تو وہ ایک دوسرے سے بعض دفعہ خاص طور پر اس امر کا ذکر کرتے ہیں کہ ان کی دوستی کا آغاز کس طرح ہوا یا میاں بیوی آپس میں مذاکرہ کرتے ہیں تو وہ بھی بعض دفعہ بڑے شوق سے یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا نکاح کس طرح ہوا.اگر معمولی دنیوی واقعات ایسی اہمیت رکھتے ہیں کہ انسان ان کا ذکر کرنے پر مجبور ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام جس کے ذریعہ دنیا قیامت تک ہدایت پاتی رہے گی، جس کے ذریعہ انسانی پیدائش کا مقصد پورا ہوا، جس کے ذریعہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوا جس کے ذریعہ خالق اور مخلوق کا تعلق آپس میں قائم کیا گیا، اس کی بنیاد جن آیات پر ہے ان کی اہمیت اور عظمت سے کون شخص انکار کرسکتاہے.جس طرح میاں بیوی شوق سے باہم ذکر کرتے ہیں کہ ہمارا نکاح کس طرح ہوا یا دوست شوق سے یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہماری دوستی کا آغاز کس طرح ہوا اسی طرح اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ وہ الفاظ ہیں جن کو پڑھتے ہی انسان کا دل فرطِ محبت سے اُچھلنے لگتا ہے، اُس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی ہے، اُس کے خوابیدہ جذبات میں ایک حرکت پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کہتا ہے یہ وہ آیات ہیں جن کے ذریعہ مجھے اپنے رب کا وصال حاصل ہوا.جن کے ذریعہ انسان اور خدا کا باہمی رشتہ جوڑا گیا اور دوستی کا وہ آخری مرحلہ قائم کیا گیا جو خدا اور بندے کے درمیان ہونا چاہیے.

Page 336

بدء الوحی کے واقعات پر دشمنوںکے اعتراضات پس ابتداء وحی ایک نہایت ہی اہمیت رکھنے اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والی چیز ہے.اسی وجہ سے دشمنوں کی بھی اس پر خاص طور پر نظر پڑی ہے اور انہوں نے ان آیات اور ابتداء وحی سے تعلق رکھنے والے واقعات سے قسم قسم کے استدلال کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی وحی کی تنقیص کرنے کی کوشش کی ہے.کوئی کہتا ہے وحی ایک ڈھکونسلا ہے، کوئی کہتا ہے وحی ایک بیماری کا حملہ تھی.چنانچہ آپ کا زَمِّلُوْنِیْ زَمِّلُوْنِیْ کہنا اس پر شاہد ہے.کئی کہتے ہیں یہ بیماری اور جھوٹ دونوں کا اجتماع تھا.پھر واقعہ پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے.آپ کے گھبرانے پر بھی اعتراض ہے کہ آپ کو وحی پر شک تھا یا یہ اعتراض ہے کہ اپنی قالبیت پر شک تھا یا یہ کہ آپ نے خداتعالی کا حکم ماننے سے پہلو تہی کی.یہ بھی اعتراض ہے کہ اس وحی کی نوعیت کیا تھی.آیایہ مادی نظارہ یا خواب تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر آئی.(The Life of Mahomet, by W.Muir P.38,44,54,56.A Comprehensive commentary on the Quran by Wherry P.191,259) غرض مختلف دشمنوں نے اپنے اپنے رنگ میں استدلال کیا ہے.غیر مسلم مصنفین کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ کوئی ایسی بات اُٹھائیں جس سے قرآن کریم پر حملہ ہوسکے.چنانچہ بعض نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ وحی ایک نظارہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور چونکہ انسانی دماغ اس قسم کا نظارہ دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا اس لئے یہ غیر معمولی او رمافوق الطبیعات نظارہ درحقیقت علامت تھی اس بات کی کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں خشکی پیدا ہوکر جنون رونما ہوگیا تھا.لیکن بعض دوسرے مخالفین کا دماغ اس طرف گیا ہے کہ ممکن ہے کچھ لوگ جنون کی تھیوری کو تسلیم نہ کریں اور وہ اس بات کو مان لیںکہ سچ مچ اس قسم کا واقعہ ہوسکتا ہے اور اگر انہوں نے مان لیا تو فرشتے دیکھنے یا اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے میں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی اسرائیل کے نبیوں کے مشابہ قرار دے دیں گے اور یہ بڑی تکلیف دہ بات ہوگی.پس انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ کوئی نظارہ نہیں تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا بلکہ ایک خواب تھی جو آپ کو آئی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ بات ہماری روایات میں بھی بیان ہوئی ہے.چنانچہ ابن ہشام لکھتے ہیں حَتّٰی اِذَا کَانَتِ اللَّیْلَۃُ الَّتِیْ اَکْرَمَہُ اللہُ تَعَالٰی فِیْـھَا بِرِسَالَتِہٖ وَ رَحِـمَ الْعِبَادَ بِـھَا جَاءَہٗ جِبْرِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِاَمْرِاللہِ تَعَالٰی یعنی جب وہ رات آگئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رسالت سے مفتخر فرمایا اور اپنے بندوں پر رحم کیاتو جبریل اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.آگے لکھا ہے قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَـجَاءَنِیْ جِبْرِیْلُ وَ اَنَا نَائِمٌ بِنَمَطٍ مِّنْ دِیْبَاجٍ فِیْہِ کِتَابٌ فَقَالَ اِقْرَاْ.

Page 337

قَالَ قُلْتُ مَا اَقْرَاُ.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میرے پاس جبریل آیا وَ اَنَا نَائِمٌ اور اس وقت میں سورہا تھا ایک ریشمی کپڑا ان کے پاس تھا جس میں کچھ لکھا ہوا تھا.انہوں نے کہا پڑھو! میںنے کہا مجھے تو پڑھنا نہیں آتا.قَالَ فَغَطَّنِیْ بِہٖ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہُ الْمَوْتُ انہوں نے مجھے خوب بھینچا یہاں تک کہ میں نے سمجھا میں مرنے لگا ہوں.ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ فَقَالَ اِقْرَاْ قُلْتُ مَا اَقْرَاُ.پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو! میںنے کہا میں تو پڑھنا نہیںجانتا.فَغَطَّنِیْ بِہٖ حَتّٰی ظَنَنْتُ اَنَّہُ الْمَوْتُ انہوں نے پھر مجھے ڈھانپ لیا یہاں تک کہ میں نے سمجھا میں اب مرنے لگا ہوں.ثُمَّ اَرْسَلَنِیْ فَقَالَ اِقْرَاْ قُلْتُ مَا اَقْرَاُ.پھر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا پڑھو! میں نے کہا میں کیا پڑھوں؟ مَااَقُوْلُ ذَالِکَ اِلَّا افْتِدَاءً مِّنْہُ اَنْ یَّعُوْدَ لِیْ بِـمِثْلِ مَا صَنَعَ بِیْ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے یہ فقرہ کہ میں کیا پڑھوں اس لئے کہا تھا تا اس ذریعہ سے میں اس صدمہ سے بچ جائوں جو ان کے بھینچنے سے مجھے پہنچنا تھا.اس پر انہوں نے کہا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ.الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.قَالَ فَقَرَاْتُـھَا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس پر میں نے یہ فقرے دہرائے ثُمَّ انْتَـھٰی فَانْصَـرَفَ عَنِّیْ وَھَبَبْتُ مِنْ نَّوْمِیْ.پھر انہوں نے بس کردیا اور مجھ سے لوٹ کر چلے گئے اور میں اپنی نیند سے بیدار ہوگیا.فَکَاَنَّـمَا کُتِبَتْ فِیْ قَلْبِیْ کِتَابًا.اس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے دل پر یہ تمام الفاظ نقش کردیے گئے ہیں.بدء الوحی پر مخالفین کا اعتراض کہ یہ خواب کا واقعہ تھا اس حوالہ میںصاف طور پر نیند کا لفظ آتا ہے.وہ کہتے ہیں ہم اس روایت پر بنیاد رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ درحقیقت یہ ایک خواب تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھی.اس تاویل سے ان کا منشاء یہ ہے کہ بائبل کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے انسان کو بالمشافہ نظر آتے ہیں اور وہ اسے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچاتے ہیں.اگر ہم یہ ثابت کردیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتہ نظر نہیں آیا بلکہ ایک خواب تھی جو آپ نے دیکھی تو بائبل کے نبیوں سے آپ کی مشابہت ثابت نہیں ہوسکے گی.گو بخاری اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی جو حدیث آتی ہے اس میں صاف طور پر یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آنکھوں کے سامنے جبریل کو دیکھا.مگر چونکہ یہ حدیث ان کے منشاء کے خلاف ہے اس لئے وہ بخاری یا مسند احمد بن حنبل کی حدیث کی بجائے ابن ہشام کی اس روایت پر اپنے دعویٰ کی بنیاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی فرشتہ اپنی آنکھوں سے نظر نہیں آیا صرف ایک خواب تھی جو حراء میں آپ کو آئی.اگر اس خواب کو درست بھی تسلیم کرلیا جائے تب بھی انبیاء بنی اسرائیل

Page 338

سے آپ کی مشابہت ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ ان کو خدا تعالیٰ کے فرشتے آمنے سامنے نظر آتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا وہ ایک خواب تھی.جن لوگوں نے اس بات پر زور دینا چاہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں نعوذ باللہ کوئی نقص واقعہ ہوگیا تھا انہوںنے ابن ہشام کی روایت کو نظر انداز کرکے بخاری اور مسند احمد بن حنبل کی وہ حدیث لے لی ہے جس میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرشتہ کو دیکھا.وہ کہتے ہیں چونکہ انسانی دماغ اس قسم کا نظارہ نہیں دیکھ سکتا اس لئے یہ نظارہ علامت تھی اس بات کی کہ آپ کا دماغ نعوذ باللہ خراب ہوگیا تھا.بدء الوحی پر یوروپین مصنفین کے اعتراض کی اصل وجہ میرے نزدیک یوروپین مصنّفین کی نیت خواہ کچھ ہو اس بارہ میں اختلاف کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ نظارۂ کشف کی حقیقت کو سمجھتے ہی نہیں.وہ اس قدر مذہب سے دور جاپڑے ہیں کہ کشفی نظارے ان کو بہت ہی کم نظر آتے ہیں بلکہ خوابیںبھی ان کو بہت کم آتی ہیں.گو خدائی سنت یہ ہے کہ ہر قسم کے طبقہ کو خوابیں دکھائی جاتی ہیں مگر پھر بھی یوروپین لوگوں میں سے بعض ایسے ہیںجن کو ساری عمر میں بھی کبھی کوئی خواب نہیں آئی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دن کو کام کرتے ہیں اور رات کوناچتے ہیں پھر شراب پی کر یا نیند کی دوائیں کھاکر سوجاتے ہیں.اس وجہ سے انہیں ایسی خوابیں بھی نہیں آتیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ وہ کنچنیوں کو بھی آجاتی ہیں(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۵).کیونکہ شراب کا نشہ ان کے دماغ کو بالکل معطل کردیتا ہے.پس میرے نزدیک اس بارہ میں اختلاف نظارئہ کشف کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوا ہے اور مغربی لوگ اس علم سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے دھوکا کھاجاتے ہیں.کشف کی حقیقت بات یہ ہے کہ جب کشف کی حالت انسان پر طاری ہوتی ہے تو جیسا کہ صاحب تجربہ لوگ جانتے ہیں اس وقت انسان اپنے آپ پر ایک ربودیت کی حالت محسوس کرتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مجھے اس دنیا سے کھینچ کر کسی اور دنیا میں لے جایا گیا ہے.اسے اپنے اردگرد کی سب چیزیں نظر آتی ہیں، مکان کی دیواریں نظر آتی ہیں، گھر کا سامان نظر آتا ہے.مگر اس کے باوجود وہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی اور حالت اس پر طاری ہوگئی ہے جو اسے اس دنیا سے الگ لے گئی ہے.اسی طرح اس حالت کے جاتے وقت بھی انسان یوں معلوم کرتاہے کہ وہ گویا ایک غیر معمولی حالت سے پھر حواس میں آگیا ہے.اس کی مثال بالکل ایسی ہوتی ہے جیسے ریڈیو کو ایک میٹر سے دوسرے میٹر پر تبدیل کردیا جاتا ہے.پہلے وہ محسوس کرتا ہے کہ اسے اس دنیا سے کھینچ کر کسی اور دنیا میں لے جایا گیا ہے اور جب وہ حالت جاتی ہے تو وہ یک دم محسوس کرتا ہے کہ اسے کسی اور دنیا سے اس دنیا میں واپس لوٹادیا گیا ہے.اگر ایسا

Page 339

نہ ہو تو انسان کو یہ معلوم ہی نہ ہوسکے کہ اس نے جو کچھ دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا اس کے نفس کا خیال ہے.پس بوجہ اس کے کہ وہ حالت کامل نیند کی نہیں ہوتی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ میں نے جاگتے ہوئے ایسا دیکھا اور بوجہ اس کے کہ جاگنے کی حالت پر ایک خاص تصرف کیا جاتا ہے.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیند طاری ہوئی اور اس میں یہ یہ دیکھا اور میں نے خود اس کاتجربہ کیا ہے اس لئے مجھے اس میں کوئی اچنبھے کی بات نظر نہیں آتی.پس یہ مادی نظارہ نہیں تھاجو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا.مگر بوجہ اس کے کہ آپ کے حواس ظاہری کام کررہے تھے.ہم اسے یقظہ بھی کہہ سکتے ہیں.درحقیقت کشف ایک مابین النوم والیقظہ کیفیت کا نام ہے چونکہ وہ حالت کامل نیند کی نہیںہوتی اس لئے یہ بھی کہاجاتا ہے کہ جاگتے ہوئے فلاں نظارہ دیکھا گیا اور چونکہ جاگنے کی حالت پر خاص تصرف کیا جاتا ہے اس لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نیند کی حالت میں ہم نے ایسا نظارہ دیکھا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی موقع پر یہ فرما دیا کہ میںنے جاگتے ہوئے ایسا نظارہ دیکھا تھا اور کسی موقع پر آپ نے یہ فرما دیا ہوگا کہ میں نے نیند کی حالت میں ایسا نظارہ دیکھا.جو لوگ صاحب کشوف ہیں وہ ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں.کبھی کہتے ہیں میں یہ نظارہ دیکھ کر جاگ پڑ اور مرا دیہ ہوتی ہے کہ میں ربودگی کی کیفیت سے عام حالت میں آگیا اور کبھی کہتے ہیں میںنے جاگتے ہوئے فلاں نظارہ دیکھا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ میرے حواس ظاہری بھی اس وقت کام کررہے تھے.پس یہ دونوں باتیں آپس میں کوئی اختلاف نہیںرکھتیں.محض کشف کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یوروپین مصنفین کویہ غلطی لگی ہے.مسند احمد بن حنبل اور بخاری کی حدیث کو یوں بھی حل کیا جاسکتا ہے کہ بعض دفعہ خواب کالفظ نہیںبولا جاتا جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں قرآن کریم حضرت یوسف علیہ السلام کی رئویا کی نسبت فرماتا ہے کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا اِنِّيْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ (یوسف:۵) کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ہے کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں یہاں خواب کا کوئی لفظ نہیں صرف اتنا ذکر ہے کہ میں نے دیکھا.مگر اگلی آیت میں ہی حضرت یعقوب علیہ السلام یہ بات سن کر فرماتے ہیں يٰبُنَيَّ لَا تَقْصُصْ رُءْيَاكَ عَلٰۤى اِخْوَتِكَ ( یوسف:۶) اے میرے بیٹے تو اس رؤیا کو اپنے بھا ئیوں کے سامنے بیان نہ کیجیئو.اب دیکھو ایک آیت میں اسے ظاہری نظارہ قرار دیا گیا ہے اور دوسری میں اسے رؤیا قرار دیا گیا ہے پس یہ ایک طریقِ بیان ہے جو عربی زبان میں رائج ہے اس سے کسی اختلاف کا ثبوت نہیں نکل سکتا.اصل بات یہ ہے کہ مختلف زبانوں میں الگ الگ محاورات رائج ہوتے ہیں.عربی زبان میں ایسے نظاروں

Page 340

کے لئے رؤیا کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جس کے معنے دیکھنے کے ہیں.گو محاورہ میں ایسے نظارہ کے لئے بھی یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے جو نیند کی حالت میں دیکھا جائے.لیکن فارسی نے اس کے لئے خواب کا لفظ تجویز کیا ہے جس کے معنے نیند کے ہیں.یہ بھی ایک فرق ہے جو عربی زبان کی فضیلت پر دلالت کرتا ہے قرآن کریم نے ہر جگہ رؤیا کا لفظ ہی خواب کے معنوں میں استعمال کیا ہے.جس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ در حقیقت وہی حالت اصل بیداری کی ہوتی ہے جس میں انسان خدا تعالیٰ سے ہم کلام ہو گو ظاہری طور پر اس پر نیند یا ربودگی کی کیفیت طاری ہو.لیکن ایرانی لوگ چونکہ ماہر نہیں تھے انہوں نے خواب کا لفظ ایجاد کر لیاحا لانکہ خواب کے معنے محض نیند کے ہیں پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اگر کسی جگہ یہ فرمایا ہے کہ میں نیند سے بیدار ہو گیا اور دوسری جگہ آپ نے صرف اتنا فرمایا ہے کہ میں نے ایسا نظارہ دیکھا تو اس میں اختلاف کی کوئی بات نہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ ذکر کیا کہ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اورچاند کو سجدہ کرتے دیکھا ہے تو اس میں خواب کا کوئی لفظ استعمال نہیں کیا مگر حضرت یعقوب علیہ السلام نے اسی نظارہ کے متعلق رؤیا کا لفظ استعما ل کر دیا جو محاورہ میں نیند کی حالت میں دیکھے ہوئے نظارہ کے متعلق بولا جاتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی ان معنوں میں رؤیا کا لفظ استعمال کیا ہے آپ فرماتی ہیں اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہٖ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْیِ الرُّؤْیَا الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ فَکَانَ لَا یَرٰی رُؤْیًا اِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی الٰہی کا آغاز رؤیا صالحہ سے ہوا.یہاں رؤیا کا لفظ صرف انہی نظاروںکے لئے استعمال کیا گیا ہے جو انسان سوتے ہوئے دیکھتا ہے پس یوروپین مصنفین کی طرف سے جو اختلاف پیش کیا جاتا ہے وہ درحقیقت اختلاف نہیں بلکہ محاورہ زبان کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.اگر یہ رؤیا ہی تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیکھی تو بہرحال جیسا کہ ہمیں یقین اور وثوق ہے یہ رؤیا اس قسم کی نہیں تھی جس میں انسان پر کامل نیند طاری ہوتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی فرق کرتی ہیں.آپ ایک طرف تو یہ فرماتی ہیں کہ اَوَّلُ مَا بُدِئَ بِہٖ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْیِ ا لرُّؤْیَا الصَّادِقَۃُ فِی النَّوْمِ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کی ابتدارؤیا صادقہ سے ہوئی جو آپ سوتے ہوئے دیکھتے مگر اس دوسری وحی کے متعلق جس میں جبریل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے.آپ فرماتی ہیں فَـجَاءَہُ الْمَلِکُ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتہ آیا.بدء الوحی کا واقعہ خواب کا واقعہ نہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں نظاروں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا

Page 341

فرق کر رہی ہیں جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ غار حراء میں آپ کو جو نظارہ دکھایا گیا وہ گہری نیند والا نہ تھا بلکہ کشفی نیند والا تھا اور ابن ہشام والی روایت کے معنے گہری نیند کے نہیں بلکہ کشفی نیند کے ہیں اور آپ کے ان الفاظ کا کہ پھر میں جاگ اٹھا صرف اتنا مفہوم ہے کہ پھر میری کشفی حالت جاتی رہی.پس ابن ہشام کی روایت اور بخاری و مسنداحمد بن حنبل کی حدیث میںکوئی اختلاف نہیں بلکہ دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے.یوروپین مصنفین کا بدء الوحی پر دوسرا اعتراض دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی رئویا پر شک تھا.اس سوال کی بنیاد اس امر پر رکھی جاتی ہے کہ الف.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھبرائے ہوئے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے.باء.آپ نے حضرت خدیجہ ؓسے فرمایا قَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے.ج.فترۃوحی پرآپ نے اپنے آپ کو ہلاک کرنا چاہا جیسا کہ بخاری اور مسند احمد بن حنبل دونوں میں اس واقعہ کا ذکر آتا ہے.بدء الوحی پر آنحضرتؐکے گھبرانے کی وجہ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گھبرانا اور خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ کہنا تو اس وجہ سے تھا کہ ہر انسانِ کامل کے اندر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں اپنے فرض کو ادا کر سکوں گا یا نہیں.جو شخص چھچھورا ہوتا ہے یا ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے اس کے سپرد جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو بغیر اس کے کہ وہ عواقب پر نگاہ دوڑائے اوراپنے کام کی اہمیت کو سمجھے کہہ دیتا ہے کہ اس کام کی کیا حقیقت ہے میں اسے فوراً کرلوں گا.لیکن عقلمند انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ اس کے دل میں فوراً گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہوجاتی ہے کہ نہ معلوم میں اپنے فرض کو ادا کر سکوں گا یا نہیں.قابل اور نا قابل میں یہی فرق ہوتا ہے کہ قابل کو فوراً اپنے کام کا فکر پڑ جاتا ہے مگر ناقابل کو کوئی احساس نہیں ہوتا.وہ سمجھتا ہے کہ کام با لکل آسان ہے.میں سمجھتا ہوں موجودہ جنگ میں ہی جو کام جنرل الیگزنڈریا جنرل منٹگمری یا لارڈمونٹ بیٹن کے سپرد کیا گیا ہے اگر یہی کام کسی ہندوستانی صوبیدار کے سپرد کیا جاتا اور اس سے پوچھا جاتا کہ کیا تم فوجوں کی کمان کر سکوگے؟ تو بغیر سوچے سمجھے وہ فوراً جواب دے دیتا کہ میں اس کام کو اچھی طرح سر انجام دے سکوں گا.مگر یہ وہ لوگ تھے جن کے سپرد جب کام ہوا تو ذمہ داری کا احساس رکھنے کی وجہ سے ان کے دلوںمیں خوف پیدا ہوا کہ نہ معلوم ہم اپنے فرائض کو کماحقہ ادا کر سکیں گے یا نہیں.پس کسی کام کے سپرد ہونے پر دل میں گھبراہٹ پیدا ہونا علم کامل کی علامت ہوتی ہے نہ اس بات کی علامت کہ وہ کام کی اہلیت نہیں رکھتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی نزول وحی پر گھبرانا اور آپ کا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اپنی گھبراہٹ اور

Page 342

اضطراب کا اظہار کرنا درحقیقت یہی معنے رکھتا ہے کہ آپ اپنے کام کی اہمیت کو سمجھتے تھے جب اللہ تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کا کام آپ کے سپرد کیا تو فوراً آپ کو فکر شروع ہو گیا کہ اتنا بڑا کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے نہ معلوم میں اس کو الٰہی منشاء کے مطابق سر انجام دے سکوںگا یا نہیں.آپ کے سپرد جو کام کیا گیا اور جس کا پہلی وحی میں ہی بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کردیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ.الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آج جن لوگوں کے ہاتھوں میں قلمیںہیںجو بڑے بڑے علوم کے ماہر سمجھے جاتے ہیں جن کو اپنے تجربہ اور اپنی علمی نگاہ کی وسعت پر ناز ہے.تو ان کو وہ علم سکھا جو ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں بھی نہیں اور ان علوم اور معارف سے انہیں بہرہ ور فرما جو آج دنیا کی کسی کتاب میں بھی نہیں ملتے.یہ سیدھی بات ہے کہ جب ایک اُمّی کو یہ کہا جائے گا کہ دنیا نے کتا بیں لکھیںمگر بے کار ثابت ہوئیں اور وہ دنیا کی ہدایت کا موجب نہ بن سکیں.اب اے شخص ہم تیرے سپرد یہ کام کرتے ہیں کہ جو علوم آج تک بڑی بڑی کتابیں لوگوں کو سکھا نہیں سکیں وہ علوم تو ہمارے حکم سے لوگوں کو سکھا.تو لازماً اس سے اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوجائے گی کہ اتنا بڑا کام میں کس طرح کرسکوں گا.بےشک ایک پاگل کو جب یہ کہا جائے گا تو وہ خوش ہوجائے گا اور کہے گا کہ یہ کون سا بڑا کام ہے مگر عقلمند کادل خوف سے بھر جائے گا اور وہ کہے گا اتنا بڑا کام میں کس طرح کرسکوں گا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ قَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ آپ کے علم کامل پر ایک زبردست گواہ ہے.وہ لوگ جو اس واقعہ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں نقص واقع ہوگیا تھا انہیں غور کرنا چاہیے کہ کیا پاگل بھی کبھی گھبراتا ہے؟ اسے تو اگر کہا جائے کہ کیا تم ساری دنیا فتح کرسکتے ہو تو وہ فوراً کہہ دے گا یہ کون سی مشکل بات ہے.مگر وہ جسے اپنی ذمہ واری کا احساس ہوتا ہے، جو کام کی اہمیت کو سمجھتا ہے، جو فرائض کی بجاآوری کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتا ہے وہ کام کے سپرد ہونے پر لرز جاتا ہے.اس کا جسم کانپ اٹھتا ہے اور اس کے دل میں بار بار یہ خیال آنا شروع ہوجاتا ہے کہ ایسا نہ ہو میں اپنی کسی غفلت کی وجہ سے ناکام ہوجائوں اورجو کام میرے سپرد کیا گیا ہے اس کو سرانجام دینے سے قاصر رہوں.تاریخ اسلام میں اس کی ایک موٹی مثال موجود ہے.حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے آٹھ سالہ عرصہ میں دنیا کی کایا پلٹ دیتے ہیں، روم اور ایران کو شکست دے دیتے ہیں، عرب کی سرحدوں پر اسلامی فوجیں بھجوا کر اسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ کردیتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لئے وہ کام کرتے ہیں جو قیامت

Page 343

تک ایک زندہ یادگار کی حیثیت میں قائم رہنے والا ہے.مگر جب آپ روم کو شکست دے دیتے ہیں، جب ایران کو شکست دے دیتے ہیں، جب یہ دو زبردست ایمپائر اسلامی فوجوں کے متواتر حملوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتی ہیں، جب عمرؓ کا نام ساری دنیا میں گونجنے لگتا ہے، جب دشمن سے دشمن بھی یہ تسلیم کرتا ہے کہ عمرؓ نے بہت بڑا کام کیا.اس وقت خود عمرؓ کی کیا حالت تھی.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب آپ وفات پانے لگے تو اس وقت آپ کی زبان پر بار بار یہ الفاظ آتے تھے کہ رَبِّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ(الطبقات الکبرٰی لابن سعد ذکر استخلاف عـمر) اے میرے رب! میں سخت کمزور اور خطار کار ہوں.میں نہیں جانتا مجھ سے اپنے کام کے دوران میں کیا کیا غلطیاں سرزد ہوچکی ہیں.الٰہی میں اپنی غلطیوں پر نادم ہوں.میں اپنی خطائوں پر شرمندہ ہوں اور میں اپنے آپ کو کسی انعام کا مستحق نہیں سمجھتا.صرف اتنی التجا کرتا ہوں کہ تو اپنے عذاب سے مجھے محفوظ رکھ.غور کرو اور سوچو کہ ان الفاظ سے حضرت عمرؓ کی کتنی بلند شان ظاہر ہوتی ہے.آپ کے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کام کیا گیا اور آپ نے اس کو ایسی عمدگی سے سرانجام دیا کہ یورپ کے شدید سے شدید دشمن بھی اس کام کی اہمیت کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکے.مگر چونکہ آپ کے دل پر خدا کا خوف طاری تھا آپ نے سمجھا کہ بے شک میں نے کام کیا ہے مگر ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ کام چاہتا ہو اور میں جس کام کو اپنی خوبی سمجھتا ہوں وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں خوبی نہ ہو.اس لئے باوجود اتنا بڑا کام کرنے کے وفات کے وقت آپ تڑپتے تھے اور بار بار آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوتے تھے کہ رَبِّ لَا عَلَیَّ وَلَا لِیْ.خدایا میں تجھ سے کسی انعام کا طالب نہیں صرف اتنی درخواست کرتا ہوں کہ تو مجھے اپنی سزا سے محفوظ رکھ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں نے کوئی کام نہیں کیا.مجھے خدمت کا حق جس رنگ میں ادا کرنا چاہیے تھا اس رنگ میں ادا نہیں کیا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے بعد جو گھبراہٹ طاری ہوئی اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ آپ کے دل میں خوف پیدا ہوا کہ میرے سپرد اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان کام کیا گیا ہے نہ معلوم میں اس کو ادا کرسکتا ہوں یا نہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل وحی الٰہی پر شک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ کی شان کے انسانی دماغوں سے بالاتر ہونے پر یقین کامل کے نتیجہ میں تھا اور آپ کو یہ فکر لگ گیا تھا کہ میں اس کام کے لئے خواہ کتنی بھی قربانی کروں نہ معلوم اللہ تعالیٰ کے ارادوں کے مطابق میں بلند ہوسکوں گا یا نہیں اور اللہ تعالیٰ کی بلند شان سے خوف کرنا جرم نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے اور خدا تعالیٰ کے علو مرتبت کو مدنظر رکھتے ہوئے برا نہیں بلکہ اس بے نظیر خشیت الٰہی کا ایک بین ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلب مطہر میں پائی جاتی تھی.

Page 344

فرۃ وحی کے وقت آنحضرت صلعم کا اپنے آپ کو پہاڑ سے گرانا ایک کشفی واقعہ ہے باقی رہا یہ کہ آپ نے خودکشی کا ارادہ کیا سو اوّل تو دوسری احادیث سے اس کی تصدیق نہیں ہوتی لیکن اگر اسے تسلیم بھی کرلیا جائے تو صاف پتہ لگتا ہے کہ آپ نے جو فعل کیا وہ وحی الٰہی کے رکنے کے بعد کیا.اگر آپ کے دل میں یہ خیال ہوتا کہ نعوذ باللہ مجھ پر شیطان نے اپنا کلام نازل کیا ہے یا کلام الٰہی کے بارہ میں آپ کو کوئی شبہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ اس وحی کے نزول کے وقت آپ خودکشی کا ارادہ فرماتے.مگر حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آپ نے فترت کے بعد خود کشی کا ارادہ کیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو گھبراہٹ یہ تھی کہ کیا میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر مجھ سے بولنا چھوڑ بیٹھا ہے.اتنا عرصہ گزر گیا اور مجھ پر اس کا کلام نازل نہیں ہوا.اگر وحی کے متعلق آپ کو شبہ ہوتا تو چاہیے تھا کہ جب کچھ عرصہ کے لئے وحی کا نزول رک گیا تھا آپ خوش ہوتے اور کہتے الحمدللہ میں ایک بلا سے بچ گیا.مگر تمام حدیثیں متفقہ طور پر یہ واقعہ بیان کرتی ہیں کہ وحی کے رک جانے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو گھبراہٹ پیدا ہوئی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وحی یا الہامات کی صداقت میں شبہ نہیں تھا.آپ کو صرف یہ خوف تھا کہ میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہوگیا ہو.پس یہ واقعہ بھی وحی الٰہی کے متعلق آپ کے کسی شبہ کو ظاہر نہیں کرتا.میں اس جگہ یہ بھی ذکر کردینا چاہتا ہوں کہ گو اس واقعہ کی میں نے ایک توجیہ کی ہے اور اس اعتراض کو رد کیا ہے جو یوروپین مصنّفین کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا ہے.مگر میرے نزدیک چونکہ صحیح احادیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی دفعہ پہاڑ کی چوٹیوں سے اپنے آپ کو گرانا چاہا اس لئے ہم اس واقعہ سے کلیۃً انکار نہیں کرسکتے.مگر اس کے ساتھ ہی میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو اس واقعہ کے سمجھنے میں سخت غلطی لگی ہے.وہ خیال کرتے ہیں کہ یہ ایک ظاہری واقعہ ہے جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ خودکشی کے ارادہ سے پہاڑ پر چڑھ جاتے اور اپنے آپ کو نیچے گرانا چاہتے مگر معاً جبریل آپ کو آواز دیتا کہ آپ ایسا نہ کریں.آپ واقعہ میں خدا کے رسول ہیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رک جاتے اور اپنے گھر میں واپس آجاتے.لوگ اس واقعہ کو ظاہر پر محمول کرتے ہیں اور اس طرح خود بھی ٹھوکر کھاتے اور دوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں حالانکہ یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ کشفی واقعہ ہے.کشف میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ دیکھتے تھے کہ میں پہاڑوں پر پھر رہا ہوں اور اپنے آپ کو گرانا چاہتا ہوں مگر فرشتہ مجھے آواز دیتا ہے کہ ایسا مت کریں آپ واقعہ میں خدا تعالیٰ کے رسول ہیں.

Page 345

اصل بات یہ ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں بار بار یہ خیالات اُٹھتے تھے کہ میں اتنا بڑا کام کس طرح کرسکوں گا ایسا نہ ہو کہ میں خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بن جائوں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے ان خیالات کو کشفی صورت میں اس رنگ میں ظاہر کیا کہ آپ پہاڑکی چوٹیوں سے اپنے آپ کو نیچے گرانا چاہتے ہیں مگر فرشتہ آواز دیتا ہے یَا مُـحَمَّدُ اِنَّکَ رَسُوْلَ اللہِ حَقًّا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.آپ اپنے مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس مقصد کے لئے کھڑا کیا ہے.پس میرے نزدیک یہ کوئی ظاہری واقعہ نہیں بلکہ ایک کشف ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کی ترجمانی کی گئی ہے.درحقیقت رؤیا میں اگر کوئی شخص دیکھے کہ وہ پہاڑ سے اپنے آپ کو گرارہا ہے تو اگر وہ دیکھے کہ وہ پہاڑ سے گر گیا ہے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کوئی بری بات ظاہر ہوگی اور وہ تباہ ہوجائے گا لیکن اگر وہ رؤیا میں پہاڑ سے گرا تو ہے مگر مرا نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس سے کوئی بڑی بھاری غلطی ہوگی یا کوئی بڑا بھاری کام کرے گا جس کے نتیجہ میں اسے صدمہ پہنچے گا مگر اس کے باوجود وہ ہلاک نہیں ہوگا اور اگر کوئی شخص دیکھے کہ وہ پہاڑ سے گرنے لگا تھا مگر فرشتہ نے اسے کہا کہ گھبراتے کیوں ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ کوئی بڑا کام کرنے والا ہے جس میں بظاہر تباہی ہوگی مگر وہ تباہ نہیں ہوگا بلکہ کامیاب و بامراد ہوگا.اگر ہم اس واقعہ کو ظاہری قرار دیں تب بھی یہ اس خشیت الٰہی کا ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پائی جاتی تھی کیونکہ آپ نے ایسا فعل نزول وحی پر نہیں کیا بلکہ وحی کے رکنے پر کیا.جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو یہ گھبراہٹ تھی کہ کیا میرے کسی فعل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ناراض ہوکر مجھ سے بولنا تو ترک نہیں کردیا.لیکن میرے نزدیک یہ ظاہری واقعہ نہیں جس کا ایک ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ ہر دفعہ فرشتہ ظاہر ہوجاتا اور وہ آپ کو آپ کی کامیابی کی بشارت دیتا.فرشتہ کا آنا خود اپنی ذات میں اس بات کی ایک دلیل ہے کہ ہم اسے ظاہری واقعہ قرار نہیں دے سکتے.دوسری دلیل اس کی یہ ہے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیا.اب رہا وحی کا سوال.دشمن کہتاہے کہ آپ کا اس وقت زَمِّلُوْنِیْ.زَمِّلُوْنِیْ کہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ ایک بیماری کا حملہ تھا.ہسٹیریا کا دورہ آپ کو ہوا اور آپ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ جلدی مجھ پر کپڑا ڈال دو.مگر یہ سوال بھی وحی الٰہی سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ اصحاب وحی جانتے ہیں وحی الٰہی کے نزول کے وقت اس قدر خشیت کا نزول ہوتا ہے کہ جوڑ جوڑ ہل جاتا ہے.کیونکہ یہ مقام قرب ہے.دربار کی شمولیت کا حال

Page 346

تو درباری ہی جانتا ہے دوسرے کو کیا خبر ہوسکتی ہے.پس یہ حالت اس قرب کی وجہ سے تھی جو اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کو حاصل تھا.مگر اس حقیقت کو وہ لوگ نہیں سمجھ سکتے جو روحانیت کے اس کوچہ سے قطعی طور پر ناآشنا ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے قرب سے ویسے ہی دور ہیں جیسے مشرق سے مغرب دور ہوتا ہے.پھر سوال یہ ہے کہ جن لوگوں کو جنون ہوتا ہے کیا ان کا حال صرف کپڑا اوڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کیا یہ بھی کوئی طبی مسئلہ ہے کہ جو شخص کپڑا اوڑھ لے وہ پاگل ہوتا ہے؟ یا کیا ڈاکٹر یہ پوچھا کرتا ہے کہ فلاں نظارہ کے وقت تم کپڑا اوڑھتے ہو یا نہیں؟ پس محض زَمِّلُوْنِیْ.زَمِّلُوْنِیْ کے الفاظ سے مخالفین اسلام کا یہ استدلال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میںنعوذ باللہ نقص واقعہ ہوگیا تھا بالکل احمقانہ استدلال ہے.بےشک اس وقت آپ پر گھبراہٹ طاری ہوئی مگر گھبراہٹ کا طاری ہونا ہرگز آپ کے اندر روحانی دماغی یا جسمانی نقص کے پائے جانے کا ثبوت نہیں.بلکہ اس خشیت الٰہی کا ثبوت ہے جو آپ کے دل میں پائی جاتی تھی.ہم نے تو دیکھا ہے معمولی دنیوی واقعات پر بعض لوگ دوسروں سے اس قدر مرعوب ہوتے ہیں کہ ان کا پسینہ بہنے لگ جاتا ہے.افسر کسی غلطی پر تنبیہ کرے یا کسی معاملہ کے متعلق ان سے باز پُرس کی جائے تو اس قدر ان پر رعب طاری ہوتا ہے کہ ہاتھ پائوں کانپنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ تو پسینہ جاری ہوجاتا ہے.جب معمولی افسروں کے رعب کی وجہ سے انسان کی یہ حالت ہوجاتی ہے تو سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال اوراس کی جبروت کا آپ پر کس قدر اثر ہوسکتا تھا.نزول وحی کے بعد آنحضرت صلعم کے کپڑا اوڑھنے کی وجہ پس آپ نے اگر زَمِّلُوْنِیْ.زَمِّلُوْنِیْ کہا تو اس کی وجہ درحقیقت یہی تھی کہ آپ پر الٰہی کلام کارعب طاری ہوگیا.آپ نے چاہا کہ تھوڑی دیر کے لئے آپ لیٹ جائیں تاکہ آپ کے قویٰ کو سکون حاصل ہوجائے.وہ لوگ جو اس کو جنون کا نتیجہ قرار دیتے ہیں ان سے ہم پوچھتے ہیں کہ کیا کپڑااوڑھنا جنون کی علامت ہوتی ہے؟ ہم نے تو کبھی نہیں سنا کہ کوئی ڈاکٹر کسی ایسے مریض کے پاس گیا ہو جس میں جنون کے آثار پائے جاتے ہوں تو اس نے مریض کے لواحقین سے یہ سوال کیا ہو کہ کیا یہ مریض کبھی کپڑا بھی اوڑھتا ہے یا نہیں؟ اگر کپڑااوڑھتا ہے تو ضرور پاگل ہے اور اگر کپڑا نہیں اوڑھتا تو پاگل نہیں.ایسا سوال آج تک کبھی کسی ڈاکٹر نے نہیں کیا.پس محض کپڑا اوڑھنے سے مخالفین اسلام کا یہ نتیجہ نکالنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جنون ہوگیا تھاخود ان کے مجنون ہونے کی علامت ہے.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باقی حالتیں بھی مجونانہ تھیں یا نہیں.یہ بات ظاہر ہے کہ ہر غیر معمولی قابلیت والے شخص کی حالت دوسروں سے الگ ہوتی ہے.ایک شخص جو غیر معمولی طور پر حساب کی قابلیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی حساب جانتے

Page 347

ہیں بالکل ممتاز طور پر نظر آتا ہے.ایک شخص جو غیر معمولی طور پر تاریخ کی واقفیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی تاریخ جانتے ہیں بالکل علیحدہ نظر آتا ہے.ایک شخص جو غیر معمولی طور پر طب کی واقفیت رکھتا ہے وہ ان دوسرے لوگوں سے جو معمولی طب جانتے ہیں اپنے فن میں ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے.بعض دفعہ مرض معمولی معلوم ہوتا ہے عام ڈاکٹر اس کا عام علاج کرتاہے مگر ماہر فن ڈاکٹر اس مرض کی شدت کو سمجھ کر فوراً اس کا دوسرا علاج بتاتا ہے یا عام ڈاکٹر مرض کو شدید بتاتا ہے.مگر ماہر فن اس کے معمولی مرض ہونے کو فوراً بھانپ جاتا ہے.یہی حال سائنس کے مسائل کا ہے.ایک شخص معمولی مسائل جانتا ہے مگر دوسرا شخص سائنس کی بڑی بڑی باریکیوں تک پہنچ جاتا اور دنیا میں کئی اہم ایجادات کا موجب بن جاتا ہے.غرض الگ الگ قابلیتیں ہیں جو الگ الگ لوگوں میں پائی جاتی ہیں.کسی شخص کی قابلیت بہت معمولی ہوتی ہے اور کسی شخص کی قابلیت بالکل غیر معمولی ہوتی ہے اور وہ دوسروں سے اپنے کام میں بالکل علیحدہ نظر آتا ہے.مگر بہرحال کسی شخص میں غیر معمولی قابلیت کا پایا جانا یہ معنے نہیں رکھتا کہ اسے جنون ہوگیا ہے.اسی طرح غیر معمولی صحت والے کی حالت بھی دوسروں سے بالکل الگ ہوتی ہے.پس محض غیر معمولی قابلیت کے نتیجہ میں کسی کی الگ حالت ہونے سے اس پر مجنون ہونے کا فتویٰ نہیں لگایا جاسکتا اور جو ایسا کرتا ہے وہ اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا کی تمام ترقی مجنونوں سے وابستہ ہے، کیا ایسا شخص خود پاگل نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسا ن میں عقل کس لئے رکھی ہے.اگر عقل کی غرض کوئی اعلیٰ کام کرنا ہے تو پھر اعلیٰ کام کرنا تو عقل کی علامت ہوا نہ کہ جنون کی علامت؟ اگر کسی شخص کی حالت دوسروں سے غیر ہے تو دیکھا یہ جائے گا کہ اس شخص کے حالات بنی نوع انسان کی ترقی کا موجب ہیں یا تنزل کا.اگر اس کا اپنی قابلیت میں غیر معمولی ہونا بنی نوع انسان کی ترقی کا موجب ہو تو ماننا پڑے گا کہ اس کے حالات کا تغیرعقل کی زیادتی کی وجہ سے ہے اور اگر اس کے حالات بنی نوع انسان کی تباہی اور خرابی کا موجب نظر آئیں تو ماننا پڑے گا کہ اس کا تغیر جنون کی وجہ سے ہے.بہرحال محض کسی کے حالات کا تغیر یا کسی میں غیر معمولی قابلیت کا پایا جانا اس کے جنون کی علامت نہیں ہو سکتا.پھر یہ بھی دیکھو کہ دشمن نے تو آج یہ اعتراض کیا ہے کہ نزول وحی کے واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دماغ میں نعوذباللہ نقص واقعہ ہو گیا تھا مگر قرآن کریم نے اپنی ابتدائی آیات میں ہی اس سوال کا جواب پوری تفصیل کے ساتھ دے دیا تھا اور دنیا کو بتا دیا تھا کہ اس کا یہ اعتراض سراسر حماقت پر مبنی ہے چنانچہ سورئہ نون والقلم میں اس اعتراض کا جواب موجود ہے.یہ بتایا جا چکا ہے کہ مفسرین اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ سورئہ علق کی ابتدائی آیات کے نزول کے معاً بعد سورئہ نون والقلم کی آیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوئیں اور

Page 348

یہ آیات اسی مضمون کی حامل ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لوگوں کا یہ خیال کرنا بالکل غلط ہے کہ ان کے دماغ میں کوئی نقص واقعہ ہو گیا ہے.یہ قرآن کریم کا ایک ایسا اعجاز ہے کہ جس پر غیر مسلم اگر دیانتداری کے ساتھ غور کریں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کلام کسی انسانی دماغ کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے.دیکھو ابھی دنیا نے یہ اعتراض نہیں کیا تھا کہ نزول وحی کے واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جنون کی علامت ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے عرش سے دیکھ لیا کہ ایک دن آنے والا ہے جب دشمن نزول وحی کی کیفیت کو نہ سمجھتے ہوئے یہ اعتراض کرے گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ مجنون تھے.چنانچہ دوسری ہی وحی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس میں اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ کیا اور فرمایا نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُوْنَ.مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ (القلم :۲،۳) ہم قسم کھا کر پیش کرتے ہیں دوات اور قلم کو اور ان تمام تحریروں کو جو قلم اور دوات سے لکھی گئی ہیں کہ اگر دنیا کی تمام تحریروں کو جمع کیا جائے تو ان سے نتیجہ یہ نکلے گا کہ مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ تو اپنے رب کی نعمت سے پاگل نہیں ہے.یہ دوسری سورۃ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور جس کے ابتداء میں ہی اس اعتراض کا اللہ تعالیٰ نے جواب دے دیا ہے جو پہلی وحی سے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا تھا اور وہ جواب یہ ہے کہ قلم اور دوات نے جس قدر علوم لکھے ہیں وہ سب اس امر کے شاہد ہیں کہ تو مجنون نہیں.یعنی اگر علوم عالموں کے لکھے ہوئے ہیں تو تُو ان سے بڑھ کر علم بیان کرتا ہے.اگر وہ ادنیٰ علوم سے عالم کہلاتے ہیں تو تُو اعلیٰ علم سے مجنون کیو ں کہلانے لگا.بہرحال ان سے بڑا عالم کہلائے گا اور تیرا ان سے اختلاف علم کی زیادتی کی وجہ سے کہلائے گا نہ کہ علم کی کمی کی وجہ سے.تیرے مجنون نہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر روحانی ترقیات یا دین سے تعلق رکھنے والے علوم پائے جاتے ہیں ان سب کے مقابلہ میں تو دنیا کو وہ کچھ سکھائے گا جو اس نے پہلے نہیں سیکھا اور یہ ثبوت ہوگا اس بات کا کہ تو پاگل نہیں.تیرے دماغ میں کوئی نقص نہیں اور اگر تجھے پاگل قرار دیا جاسکتا ہے تو پھر ان سب لوگوں کو پاگل قرار دینا پڑے گا جنہوں نے دنیا میں علوم کو پھیلایا اور بنی نوع انسان پر علمی اور روحانی رنگ میں احسانِ عظیم کیا.لیکن اگر وہ ان کو پاگل قرار نہیں دیتے تو تجھے کس منہ سے پاگل کہہ سکتے ہیں.کیا وہ نہیں دیکھتے کہ دنیا میں جب کوئی شخص کسی علم پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو لوگ اس کو پاگل قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیںوہ بڑا فاضل ہے.بڑا عالم اور سمجھدار ہے.اس نے اس علم کی باریکیوں پر بڑی عمدگی سے روشنی ڈالی ہے مگر تو وہ ہے جو ہر علم کے ایسے نکات کو بیان کرتا ہے جن کی طرف اس علم کے بڑے بڑے ماہرین کی بھی آج تک نظر نہیں گئی پھر اگر وہ ایک علم پر معمولی روشنی

Page 349

ڈال کرعالم سمجھے جاسکتے ہیں تو تُو تمام روحانی، اخلاقی، اقتصادی، قضائی، سیاسی، عائلی علوم کے متعلق ان کے ماہرین سے زیادہ روشنی ڈال کر مجنون کیونکر سمجھا جائے گا.آخر مجنون کہنے کی کوئی وجہ ہونی چاہیے.اگر تو کام وہ کررہا ہے جو بڑے بڑے عالموں نے بھی نہیں کیا تو تجھے مجنون کس طرح کہا جاسکتا ہے اور لوگوں کی کیسی حماقت ہے کہ وہ اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ عقل اور جنون میں اور علم اور جہالت میں بُعد المشرقین ہے.جب دنیا میں تو علوم کے وہ خزانے تقسیم کررہا ہے جو بڑے بڑے عالموں کے واہمہ میں بھی کبھی نہیں آئے تو بہرحال اسے یہی کہنا پڑے گا کہ تو بڑا عالم ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ تومجنون ہے یا تیرے دماغ میں فتور واقعہ ہوگیا ہے.اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُوْنَ.مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ اے لوگو آج تک قلم اور دوات سے جو کچھ لکھا گیا ہے اسے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور اس کے مجنون نہ ہونے کے ثبوت کے طور پر تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں.تم جانتے ہو کہ جب دنیا میں علم الاخلاق پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے.جب علم العقائد پر کوئی کتاب لکھتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے.جب علم سیاست میں کوئی شخص نئی راہ پیدا کرتا ہے تو تم کہتے وہ بڑا عالم ہے.جب علم الاقتصاد میں کوئی شخص نیا مسئلہ نکالتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے.جب علم العائلہ پر کوئی شخص نئے رنگ میں روشنی ڈالتا ہے تو تم کہتے ہو وہ بڑا عالم ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو وہ شخص ہیں کہ آج تک جس علم میں بھی کوئی کتاب لکھی گئی ہے وہ ان کے علم کے مقابل میں بالکل ہیچ ہے.قلمیں ان کے مقابلہ میں ٹوٹ چکی ہیں.عالم ان کے مقابلہ میں گنگ ہوچکے ہیں.معارف کا ایک سمندر ہے جو انہوں نے دنیا میں بہادیا ہے اور علوم کا ایک نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہے جو انہوں نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.ایسی صورت میں اگر تم تعصب سے کام نہ لو تو بآسانی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر معمولی قابلیت ان کے غیر معمولی علم اور آسمانی تائید اور ہدایت کے نتیجہ میں ہے نہ کہ نعوذ باللہ غیر معمولی جہالت کے نتیجہ میں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاگل اور غیر معمولی عقلمند اور بڑے عالم اور بڑے جاہل میں یہ اشتراک ہوتا ہے کہ یہ بھی اپنے اندر غیر معمولی طاقت رکھتا ہے اور وہ بھی اپنے اندر غیر معمولی طاقت رکھتا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ فرق ہوتا ہے کہ ایک شخص نیچے کی طرف غیر معمولی طور پر گرتا ہے اور دوسرا شخص اوپر کی طرف غیر معمولی طور پر جاتا ہے.غیر معمولی علم رکھنے والا وہ باتیں بتاتا ہے جو بڑے بڑے عالموں کو بھی نہیں سوجھتیں اور غیر معمولی جہالت رکھنے والا وہ باتیں بتاتا ہے جو بڑے بڑے بیوقوفوں اور جاہلوں سے بھی صادر نہیں ہوتیں.بہرحال محض کسی غیر معمولی قابلیت کی وجہ سے دوسروں سے الگ ہونا اس کے جنون کی علامت نہیں ہوتا.بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ اس

Page 350

کے حالات کا تغیر بنی نوع انسان کے فائدہ کا موجب ہوا ہے یا نقصان کا موجب ہوا ہے.اگر فائدہ کا موجب ہو تو کوئی شخص اس تغیر کو جنون کا نتیجہ قرار نہیں دے سکتا.یہ کتنی سچی اور پختہ دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کی گئی اور پیش بھی ایسے موقع پر کی گئی جب ابھی وحی کے نزول کا ابتداء ہی ہوا تھا.میں تو سمجھتا ہوں یہ بھی قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ ہے کہ اس نے ابتداء وحی میں ہی اس اعتراض کا جواب دے دیا جو دشمنان اسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے متعلق کرنا تھا اور ایسی حالت میں دے دیا جبکہ خود مکہ والوں کے سامنے بھی ابھی آپ نے اپنا دعویٰ پیش نہیں کیا تھا.سب لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ المدثر کی ابتدائی آیات کے نزول کے بعد مکہ والوں کے سامنے اپنا دعویٰ پیش کیا ہے.مگر نٓ وَ الْقَلَمِ کی ابتدائی آیات وہ ہیں جو اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کے معاً بعد نازل ہوئیں گویا ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی نبوت کا اعلان بھی نہیں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت یہ خبر دے دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر مجنون ہونے کا اعتراض کیا جائے گا اور اگر پہلی وحی کے بعد کسی نے یہ اعتراض کیا بھی تھا تب بھی قرآن کریم نے پہلی وحی کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ دشمنوں کے اس اعتراض کا جواب دے دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذ باللہ جنون ہوگیا ہے اور جواب بھی ایسا زبردست دیا کہ جس کا انکار نہیں ہوسکتا.آج کل کے سائیکالوجسٹ کہتے ہیں کہ غیر معمولی قابلیت جنون کی علامت ہوتی ہے.میں اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں لیکن اگر اس جواب سے کسی کی تسلی نہ ہو تو میں کہتا ہوں اگر غیر معمولی قابلیت جنون سے حاصل ہوتی ہے تو پھر ہم بھی خواہش کرتے ہیںکہ خدا کرے ہم بھی ایسے پاگل بن جائیں کیونکہ جب دنیا کی ترقی غیر معمولی قابلیت سے وابستہ ہے اور غیر معمولی قابلیت جنون کی علامت ہے تو پھر دنیا کی ترقی عقلمندوں سے نہیں بلکہ پاگلوں سے وابستہ ہے اور وہی لوگ اس قابل ہیں کہ ان کا نمونہ بننے کی کوشش کی جائے.میور کا لفظ اِقْرَاْ پر اعتراض کہ اس سے پہلے پڑھی جانے والی چیز ہونی چاہیے میور نے اس موقعہ پر اعتراض کیا ہے کہ جب اس سورۃ میں اِقْرَاْ کہا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محادثہ بالنفس والی سورتیں اس سے پہلے نازل ہوچکی تھیں(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry P:260).اس کا استدلال یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہا گیا کہ اِقْرَاْ یعنی پڑھ تو ضروری ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ اس سے پہلے کچھ سورتیں نازل ہوچکی تھیں.جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 351

کو یہ حکم دیا گیا کہ آپ انہیں لوگوں کو پڑھ کر سنادیں.وہ محادثہ بالنفس والی سورتیں سورۃ الیل اور سورۃ الضحیٰ کو قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قوم کے حالات پر غور کرتے کرتے جب ان سورتوں میں آپ نے اپنی قوم کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا تو اس کے بعد آپ کو یہ خیال ہوا کہ یہ سورتیں درحقیقت الہامی ہیں اور میرا فرض ہے کہ میں یہ سورتیں لوگوں کو پڑھ کر سنائوں.میور کے اعتراض کا جواب اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک تاریخی سوال ہے اس کا قیاس سے تعلق نہیں.تاریخی امور میں ہمیشہ تاریخ کا حوالہ چاہیے نہ کہ قیاس کا.اگر تاریخ سورۃ الیل اور سورۃ الضحیٰ کو بعد کی نازل شدہ قرار دیتی ہے تو قیاس کا اس میں کیا دخل ہے.بے شک کچھ لوگ اِقْرَاْ کے بعد سورۂ نٓ وَ الْقَلَمِ پھر مزمل اور پھر مدثر کا نزول بتاتے ہیں اور کچھ لوگ اِقْرَاْ کے بعد سورۂ مدثر کی ابتدائی آیا ت کا نازل ہونا بتاتے ہیں.مگر وہ سورتیں جن کو سر میور محادثہ بالنفس والی سورتیں قرار دیتے ہیں ان کانزول کسی ایک شخص نے بھی اِقْرَاْ سے پہلے قرار نہیں دیا.دوسرے خود ان سورتوں میں کوئی ایسی بات نہیں کہ ان کو پہلے کی قرار دیا جائے.کیا وہ خیالات جو ان سورتوں میں مذکور ہیں بعد میں ظاہر نہیں کئے جاسکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے کہ تاریخ کے خلاف قیاس اسی مقام پر پیش کیا جاسکتا ہے جہاں تاریخی واقعہ ناممکن نظر آئے.مگر جہاں تاریخی واقعہ چسپاں ہوسکتا ہو وہاں قیاس سے کام لینا محض ایک زبردستی ہے اور اس زبردستی کی علم اجازت نہیں دیتا.یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ گو سرمیو ر کہتے ہیں کہ یہ سورۃ بعد کی ہے اور محادثہ بالنفس والی سورتیں پہلے کی ہیںاور بعض نے گو محادثہ بالنفس والی (بقول سرمیور) سورتوں کو مخصوص نہیں کیا صرف اتنا کہا ہے کہ یہ سورۃ بعد کی معلوم ہوتی ہیں کیونکہ ا س میں اِقْرَاْ کہا گیا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے بعض سورتیں نازل ہوچکی تھیں.لیکن نولڈکے وغیرہ نے تسلیم کیا ہے کہ یہ سورۃ سب سے پہلے نازل ہوئی ہے.وہ کہتے ہیں جب تاریخ سے ثابت ہے کہ سب سے پہلے اس سورۃ کی آیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھیں تو ہم تاریخ کے مقابلہ میں قیاس سے کس طرح کام لے سکتے ہیں.(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry P:260) میں اس موقعہ پر یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ مستشرقین یورپ کو زیادہ تر دھوکا اس بات سے لگا ہے کہ بعض جگہ کفار کی مخالفت کی جو خبریں آجاتی ہیں ان سے وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ الہام واقعہ کے بعد ہونا چاہیے اس لئے جس زمانہ میں مخالفت نہیں تھی اس زمانہ میں کسی سورۃ کے اس حصہ کا نزول تسلیم نہیں کیا جاسکتا جس میں مخالفت کی خبر دی گئی ہو.گویا ان کے نزدیک جن سورتوں میں مخالفت کا ذکر ہو وہ ہمیشہ مخالفت کے بعد کی ہوتی ہیں.اس خیال پر بنیاد رکھتے ہوئے

Page 352

وہ بعض دفعہ مکی سورتوں کو مدنی قرار دے دیتے ہیں یا ابتداء میں نازل ہونے والی آیات کو بعد کے زمانہ میں نازل ہونے والی آیات قرا ر دے دیتے ہیں.جب اسلام اور مسلمانوں کی پُرزور مخالفت شروع ہوگئی تھی مگر اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود نے اس خیال کا بطلان خوب اچھی طرح ظاہر کردیا ہے.جب قرآن کریم نازل ہورہا تھا اس وقت تو نہ صحابہ کے دل میں یہ خیال آسکتا تھا اور نہ کسی اور مسلمان کے دل میں کہ کل دشمن قرآن کریم کے متعلق کیا کیا اعتراض کرے گا.اکثر اعتراضات موجودہ زمانہ میں ہوئے ہیں جن کے ہم جواب دیتے ہیں.ان میں سے بعض باتیں ایسی ہیں جو صحابہؓ کے زمانہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھیں.مثلاً سورتوں کے نزول کی ترتیب معلوم کرنے میں اس وقت کوئی دقت پیش نہیں آسکتی تھی.صحابہؓ زندہ موجود تھے اور اگر کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا تو اسے کہا جاسکتا تھا کہ زید سے پوچھ لو.بکر سے دریافت کرلو.عمرو اور خالد سے اپنی تسلی کرالو.مگر جب جواب دینے والے فوت ہوگئے تو اس وقت قدرتی طور پر بعض لوگوں کے دلوں میں یہ سوال پیدا ہونا شروع ہوا کہ فلاں سورۃ کب اتری تھی یا فلاں سورۃ کا فلاں حصہ کب نازل ہوا تھا؟ اس وقت دشمن نے اس قسم کے خیالات سے فائدہ اٹھانا شروع کردیا.کہ جہاں کسی پیشگوئی کا ذکر آتا وہ کہہ دیتا کہ یہ حصہ تو وقوعہ کے بعد کا ہے.حالانکہ وہ حصہ وقوعہ سے مدتوں پہلے نازل ہوچکا تھا.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور پیشگوئی ان میں یہ خبریں موجود ہوتی تھیں کہ کفار مکہ میں سے کوئی فرعون کا مثیل ہوگا.کوئی ہامان کا قائم مقام ہوگا اورنبی کریم ؐکی مثال یوسفؑ کی سی ہوگی.جس طرح یوسفؑ کو اس کے اپنے بھائیوں نے نکال دیا تھا اسی طرح آپ کے بھائی آپ کو اپنے شہر میں سے نکال دیں گے.غرض کئی قسم کی پیشگوئیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ کے اس کلام میں موجود تھیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جو بعد میں حرف بحرف پوری ہوگئیں.مگر چونکہ صحابہؓ کا زمانہ گزر چکا تھا اور وہ لوگ فوت ہوچکے تھے جن کے سامنے قرآن کریم کا نزول ہوا.اس لئے دشمن نے اس رنگ میں فائدہ اٹھانا شروع کردیا کہ جہاں کہیں کوئی امر بطور پیشگوئی ملتا وہ جھٹ کہہ دیتا کہ یہ حصہ وقوعہ کے بعد کا ہے.جب واقعات اس رنگ میں ظاہر ہوچکے تھے.یہی طریق یوروپین مصنفین نے اختیار کیا ہے.وہ قرآن کریم کی ہر پیشگوئی کو واقعہ کے بعد نازل شدہ بتاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ دیکھو لوگ کہتے ہیں یہ آیت مکی ہے حالانکہ اس میں فلاں واقعہ کی خبر ہے جو مدینہ میں ہوا اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ آیت مکی نہیں مدنی ہے.اس سے ان کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے جو کہا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی پیشگوئیاں کیں اور وہ وقت پر پوری ہوئیں یہ دعویٰ بالکل غلط ہے.آپ نے کوئی پیشگوئی نہیں کی بلکہ واقعہ کے بعد آپ نے اس رنگ کی آیات ڈھال کر قرآن کریم میں شامل کردی تھیں.

Page 353

اس اعتراض کا جواب صحابہؓ تو دے نہیں سکتے کیونکہ وہ فوت ہوچکے ہیں اور صحابہؓ کے زمانہ میں یہ سوال نہیں اٹھا کہ وہ اس پر کوئی روشنی ڈال جاتے.مگر چونکہ اس اعتراض کا جواب ضروری تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے جہاں اسلام کے اور بہت سے مسائل کو حل کیا وہاں اس ترتیب کے سوال کو بھی اللہ تعالیٰ نے بالکل حل کردیاہے.جب قرآن کریم نازل ہوا ہے اس وقت ساتھ ہی ساتھ اس رنگ میں کتابت نہیں ہوتی تھی کہ جس سے یہ ظاہر ہوتا کہ فلاں آیت کس سال میں نازل ہوئی ہے اور فلاں آیت کس سال میں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسے زمانہ میں پیدا کیا جب کتابت کا زور تھا، پریس جاری تھے اور ہر چیز شائع ہوکر فوراً لوگوں کی نظروں کے سامنے آجاتی تھی اور یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ الہام میں فلاں واقعہ کا ذکر ہے جو اتنے سال بعد پورا ہوا اس لئے یہ الہام اس واقعہ کے بعد کا ہے پہلے کا نہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود اس اعتراض کے باطل ہونے پر ایک زبردست گواہ ہے.چنانچہ میں اس کے ثبوت میں ’’براہین احمدیہ‘‘ کے بعض الہامات پیش کرتاہوں.براہین احمدیہ انگریزی مطبع میں چھپی ہے ۱۸۸۰ء میں اس کی پہلی جلد شائع ہوئی تھی اور ۱۸۸۴ء میں چوتھی جلد چھپنے کے بعد اس کتاب کی دو جلدیں قانون کے مطابق گورنمنٹ کو بھجوادی گئی تھیں بلکہ لنڈن میوزیم میں بھی اس کی کاپیاں محفوظ ہیں.اس لئے دشمن یہ نہیں کہہ سکتا کہ براہین احمدیہ میں جو باتیں لکھی گئی ہیں وہ ۱۸۸۴ء کے بعد کی ہیں.جب یہ کتاب شائع ہوئی ہے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام بےشک لوگوں میں معروف تھے مگر صرف بطور مباحث کے ہزار دو ہزار آدمی آپ کو جانتے تھے.مگر اس لئے کہ آپ عیسائیوں یا ہندوئوں وغیرہ کے ان مضامین کا جواب دیتے رہتے تھے جو وہ اسلام کے خلاف لکھتے تھے یا ایسے لوگ جانتے تھے جو آپ کے تقویٰ کے قائل تھے اور آپ سے محبت اور اخلاص رکھتے تھے.مثلاً لالہ بھیم سین صاحب سیالکوٹ کے ایک وکیل تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس قدر تعلق رکھتے تھے کہ جب آپ پر کرم دین والا مقدمہ ہوا تو اس وقت ان کے بیٹے لالہ کنور سین صاحب ایم.اے جو لاء کالج لاہور کے پرنسپل بھی رہے ہیں اور بعد میں جموں ہائی کورٹ کے جج بن گئے تھے ولایت سے بیرسٹری کا امتحان پاس کرکے آئے تھے.لالہ بھیم سین صاحب کو جب کرم دین والے مقدمہ کا علم ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ تمہاری پڑھائی کا کوئی فائدہ ہونا چاہیے مرزا صاحب بڑے

Page 354

مہاتما ہیں ان پر اس وقت ایک مقدمہ دائر ہے تم جائو اور اس مقدمہ کی مفت پیروی کرو تاکہ مرزا صاحب کی برکت سے تمہاری زندگی سنور جائے(مکتوبات احمد جلد اوّل صفحہ ۸۶ ایڈیشن ۲۰۰۸ء).اب دیکھو ایک شخص ہندو ہے وہ یہ جانتا ہے کہ آپ ہندوئوں سے ہمیشہ مباحثات کرتے رہتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ آپ سے محبت رکھتا ہے، آپ سے عقیدت اور اخلاص رکھتا ہے اور اپنے بیٹے کو آپ کے مقدمہ کی مفت پیروی کرنے کا حکم دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ اگر تم نے ایسا کیا تو مرزا صاحب کی برکت سے تمہاری زندگی سنور جائے گی.اسی طرح گو عیسائیوں سے آپ مباحثے کرتے رہتے تھے مگر ان میں بھی ہم یہ رنگ دیکھتے ہیں کہ باوجود بحث مباحثہ کے وہ آپ سے محبت اور اخلاص رکھتے.اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے کہ جن دنوں آپ سیالکوٹ میں ملازم تھے ایک بہت بڑے انگریز پادری سے جس کا نام پادری بٹلر تھا آپ اکثر مباحثات کیا کرتے تھے.ایک دن وہ پادری کچہری میں آیا اور چونکہ اس زمانہ میںپادریوں کا خاص طور پر احترام کیاجاتا تھا ڈپٹی کمشنر نے سمجھا کہ پادری صاحب مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں چنانچہ وہ اٹھا، بڑے احترام سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا اور پھر کہا کہ فرمائیے میرے لائق کون سی خدمت ہے.پادری صاحب نے کہا میں آپ سے ملنے نہیں آیامیں تو مرزا غلام احمد صاحب سے ملنے آیا ہوں.میں اب ولایت جارہاہوں اور چونکہ میرے ساتھ ان کے اکثر مباحثات ہوتے رہے ہیں میرے دل میں ان کی بڑی عقیدت ہے.میں نے چاہا کہ ولایت جانے سے پہلے ان سے آخری ملاقات کرلوں.چنانچہ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جہاں تشریف رکھتے تھے پادری وہیں چلا گیا، فرش پر بیٹھ گیا اور دیر تک آپ سے باتیں کرتا رہا(سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۵۰ صفحہ ۱۴۱).اب دیکھو ایک انگریز پادری جس سے ملنے میں ڈپٹی کمشنر تک اپنی عزت محسوس کرتا تھا ہندوستان سے رخصت ہونے سے پہلے آپ سے رخصت ہونے کے لئے کچہری گیا جبکہ آپ ایک معمولی کلرکی کا کام کرتے تھے اور جبکہ آپ کی عمر اس پادری کے پوتوں سے زیادہ نہ ہوگی.پھر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی مسلمانوں کے چوٹی کے علماء میں سے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے براہین احمدیہ لکھی تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس پر ریویو لکھا.’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانہ میں اور موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی اور آئندہ کی خبرنہیں.لَعَلَّ اللہَ یُـحْدِثُ بَعْدَ ذَالِکَ اَمْرًا.اور اس کا مؤلف بھی اسلام کی مالی، جانی و قلمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت کم پائی گئی ہے‘‘.(اشاعۃ السنۃ جون تا اگست ۱۸۸۴ ء جلد ۷ نمبر ۶)

Page 355

Page 356

کوئی بھائی کہتا کہ یہ الہام ۱۹۰۱ء کا معلوم ہوتا ہے جب ایک جماعت آپ پر ایمان لاچکی تھی.حالانکہ یہ ۱۸۸۴ء کی کتاب ہے اور گورنمنٹ کے پاس بھی اس کی کاپی موجود ہے.پھر اس زمانہ میں جب دنیا میں آپ کی نہ کوئی مخالف تھی اور نہ مخالفت کاکوئی امکان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قرآن کریم کی یہ آیت بہ تغیر قلیل الہام ہوئی کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.وَ کَانَ کَیْدُھُمْ عَظِیْمًا (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۶۰۳) یعنی اے شخص لوگ تیری مخالفت کریں گے اور اس مخالفت میں اہل کتاب اور مشرکین دونوں شریک ہوں گے یعنی یہودی بھی تیری مخالفت کریں گے، عیسائی بھی تیری مخالفت کریں گے، مسلمان بھی تیری مخالفت کریں گے، ہندو بھی تیری مخالفت کریں گے اور وہ اس مخالفت سے کبھی باز نہیں آئیں گے جب تک کہ ہماری طرف سے نشان پر نشان ظاہر نہ ہوں.ان نشانوں کے ظاہر ہونے کے بعد ان کو معلوم ہوگا کہ تو ہماری طرف سے کھڑا کیا گیا ہے.وَ کَانَ کَیْدُھُمْ عَظِیْمًا اور جن مکروں اور فریبوں سے وہ تجھے مغلو ب کرنا چاہیں گے وہ بڑے عظیم الشان ہوں گے مگر ہم ان کے تمام منصوبوں کو باطل کردیں گے اورتجھے غلبہ اور کامیابی عطا کریں گے.اس الہام میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیسی زبردست مخالفت کی خبر دی گئی ہے حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ اس وقت ہندو آپ کی عزت کرتے تھے، عیسائی آپ کی عزت کرتے تھے، مسلمان آپ کی عزت کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت فرما دیا کہ یہودی اور عیسائی اور مسلمان اور ہندو اور سکھ سب کے سب تیری مخالفت کریں گے اور تیرے خلاف بڑے بڑے منصوبے کریں گے.وہ چاہیں گے کہ تجھے مٹادیں، تیرے نام کو دنیا سے ناپید کردیںمگر ہم تیری تائید میں اپنے عظیم الشان نشان دکھائیں گے اور آخر نتیجہ یہ نکلے گا کہ تو غالب آجائے گا اور تیرے مخالف مغلوب ہوجائیں گے.حالانکہ یہود اور دوسرے غیر ملکی مذاہب کے لوگوں کو آپ کے متعلق کوئی علم ہی نہ تھا.پھر فرمایا وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ.اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ (براہین احمدیہ ، روحانی خزائن جلد ۱ صفحہ ۶۰۴ ) یہ مدنی آیات ہیں اور منافقوں کے متعلق قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور منافق اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک طرف جماعت کے غلبہ کے آثار ہوں اور دوسری طرف دشمن بھی ابھی طاقتور ہو.اس حالت کے نتیجہ میں جو پیدائش ہوتی ہے اس کا منافق نام ہوتا ہے.جس طرح ہر زمین کی پیداوار الگ الگ ہوتی ہے اسی طرح دینی منافقت کی پیداوار اس موسم ہوتی ہیں جب دین دنیا کے ایک حصہ پر غالب آجاتا ہے مگر کفر ابھی پوری طرح مغلوب نہیں ہوتا.انہیں کفر کا بھی ڈر

Page 357

ہوتا ہے اور دین کا بھی ڈر ہوتا ہے ……… اور چونکہ اس وقت دو کشتیاں تیار ہوجاتی ہیں منافق چاہتا ہے کہ دونوں کشتیوں میں سوار ہوکر سفر کرتا چلا جائے نہ وہ پوری طرح دین کی طرف آتا ہے اور نہ وہ پوری طرح کفر کی طرف جاتا ہے.یہ بھی جرأت نہیں کرسکتا کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرے کیونکہ ڈرتا ہے کہ وہ جیت نہ جائیں اور یہ بھی جرأت نہیں کرسکتا کہ کفار کا مقابلہ کرے کیونکہ ان کے متعلق بھی اسے خوف ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو وہ جیت جائیں.پس فرماتا ہے ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب تیری جماعت ترقی کرتے کرتے کفار کے مقابلہ میں ایک ترازو پر آجائے گی جیسے اس وقت قادیان میں حالت ہے.اس وقت تیری جماعت میں منافقوں کا ایک گروہ پیدا ہوجائے گا جو ادھر تجھ سے تعلق رکھے گا اور ادھر کفار سے تعلق رکھے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میںنفاق کی کوئی صورت ہی نہیں تھی.قادیان میں وہی شخص آتا تھا جو لوگوں سے ماریں کھانے کے لئے تیار ہوتا تھا مگر اب چونکہ جماعت ترقی کرکے دشمن کے مقابلہ میں ترازو کے تول کی مانند کھڑی ہوگئی ہے اس لئے منافقین کا بھی ایک عنصر پیدا ہوگیا ہے.چنانچہ ۱۹۳۴ء میں جب احرار نے شورش برپا کی اور گورنمنٹ کے بعض افسروں نے بھی ان کی پیٹھ ٹھونکنی شروع کردی تو اس وقت ہماری جماعت میں سے بعض منافق احرار سے جاکر ملتے تھے اور ہمیں ان کی نگرانی کرنی پڑتی تھی اور ابھی تو یہ پیشگوئی صرف قادیان میں پوری ہوئی ہے جب بیرونی مقامات پر بھی جماعت نے ترقی کی اور کفر کے مقابلہ میں اس نے طاقت پکڑنی شروع کردی تو اس وقت وہاں بھی ایسے لوگ پیدا ہوجائیں گے.پھر اور ترقی ہوگی تو بیرونی ممالک میں اس پیشگوئی کا ظہور شروع ہوجائے گا.کبھی یورپ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی، کبھی امریکہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی، کبھی چین اور جاپان میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی اور کبھی مصر اور شام اور فلسطین وغیرہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی.غرض ۱۸۸۴ء میں جب نہ لوگوں کی مخالفت کا کوئی خیال تھا نہ یہ خیال تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ کسی دن دنیامیں ایک بہت بڑی جماعت قائم ہوجائے گی.اللہ تعالیٰ نے اعلان فرما دیا کہ تیرے ذریعہ جماعت قائم ہوگی وہ جماعت ترقی کرے گی اور جب وہ کفار کے مقابل میں ایک ترازو کے تول پر آجائے گی تو اس وقت بعض منافق پیدا ہوجائیں گے.حالانکہ یہ باتیں اس وقت کسی کے وہم اور گمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں.پھر فرماتا ہے تَــلَــطَّــــفْ بِــالنَّــاسِ وَ تَـــرَحَّـمْ عَـــلَیْـھِمْ اَنْتَ فِیْـھِمْ بِـمَنْـزِلَۃِ مُوْسٰی وَاصْبِـرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۶۰۵) تو لوگوں کے ساتھ رفق اور نرمی سے پیش آ اور تو ان پر رحم کر.تو ان میں ایسا ہے جیسے موسٰی اپنی قوم میں تھا اور جو کچھ یہ لوگ کہتے ہیں اس پر صبر کر.اس میں بتایا گیا ہے کہ جو حالات

Page 358

موسٰی کے ساتھ پیش آئے تھے وہی تیرے ساتھ پیش آنے والے ہیں.تیری مخالفت میں بھی لوگوں کی طرف سے بہت کچھ کہا جائے گا تیرا فرض ہے کہ تو صبر سے کام لے.اب سوال یہ ہے کہ اگر الہامات واقعہ کے بعد بنالئے جاتے ہیں تو براہین احمدیہ میں یہ بات کس طرح چھپ گئی.پھر الہام ہے اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ ۶۰۷) کیا تیرے ماننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ محض اتنی بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور وہ آزمائش میں نہیں ڈالے جائیں گے اگر وہ ایسا خیال کرتے ہیں تو یہ بالکل غلط ہے.ان پر بڑے بڑے مظالم کئے جائیں گے، بڑے بڑے مصائب ان کو برداشت کرنے پڑیں گے اور جب وہ ان امتحانات میں پورے اتریں گے تب انہیں خدا تعالیٰ کے حضور مومن سمجھاجائے گا.یہ تمام الہامات جن کو اوپر پیش کیا گیا ہے ان میں سے کوئی ایک الہام بھی ایسا نہیں جو ۱۸۸۴ء کے واقعات پر چسپاں ہوسکتا ہو بلکہ یہ تمام الہامات وہ ہیں جن میں آئندہ رونما ہونے والے واقعات کی خبر دی گئی ہے.اسی طرح اور بھی کئی الہامات ہیں جو آئندہ واقعات پر مشتمل ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۹۰۳ء میں رؤیا میں دیکھا کہ ’’زار روس کا سونٹا میرے ہاتھ میں ہے‘‘ (تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ۳۷۷) اب اگر یوروپین مستشرقین کی یہ بات صحیح ہے کہ الہامات ہمیشہ واقعات کے بعد گھڑلئے جاتے ہیں تو اس الہام کی بناء کن واقعات پر ہے؟ ۱۹۰۳ء میں کون سے ایسے حالات تھے جن کی بناء پریہ کہا جاسکتا تھا کہ روس کی حکومت ہمارے قبضہ میں آجائے گی.اس وقت تو ظاہری حالات کی بناء پر یہ کہنا بھی مشکل تھا کہ گورداسپور کے ضلع میں ہمیں غلبہ حاصل ہوجائے گا کجا یہ کہ روس کی حکومت ملنے کا دعویٰ کیا جاتا اور یہ وہ پیشگوئی ہے کہ اب تک بھی اس کا خفیف سے خفیف اثر نہیں ظاہر ہوا لیکن جب یہ پوری ہوگی دشمن ہزاروں بہانے یہ ثابت کرنے کے لئے بنائے گا کہ یہ بعد میں بنائی گئی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب براہین احمدیہ ان تمام اعتراضات کا جواب ہے جو مستشرقین یورپ قرآن کریم کے متعلق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ آیات جن میں پیشگوئیوں کا ذکر پایا جاتا ہے اس زمانہ کی ہیں جب وہ واقعات دنیامیں ظاہر ہوچکے تھے.ہم کہتے ہیں اگر تمہارا یہ دعویٰ صحیح ہے تو تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق ثابت کرو کہ آپ نے جو پیشگوئیاں کی ہیں وہ واقعات کے ظہور کے بعد کی ہیں اور اگر تم

Page 359

یہ ثابت نہیں کرسکتے تو تمہیں غور کرنا چاہیے کہ اگر ایک شخص جو اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام کہتا ہے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر قبل از وقت غیب کی خبروں سے دنیا کو اطلاع دے سکتا ہے تو اس کا آقا کیوں ایسی خبریں نہیں دے سکتا تھا؟ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں دنیا کی تمام مخالفتوں، منصوبوں اور شرارتوں کا ایسی حالت میں ذکر کردیا گیا ہے جب سب دنیا آپ کی تائیدمیں تھی تو قرآن کریم میں کیوں ایسے مضامین قبل از وقت نہیں آسکتے تھے؟ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود سے ان تمام حملوں کا ایسا جواب دے دیا ہے کہ اب دشمن کو منہ کھولنے کی جرأت ہی نہیں ہوسکتی.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدء وحی اور پہلے انبیاء کی بدء وحی میں کیا فرق ہے.مستشرقین یورپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ابتدائی وحی پر تو اعتراض کردیا مگر انہوں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ جن انبیاء کو وہ خود تسلیم کرتے ہیں ان کی کیفیت وحی الٰہی کے نزول کے وقت کیا ہوئی.بنی اسرائیل میں سب سے بڑے نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں ان کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ اپنے خسر یترو کے گلہ کی نگہبانی کررہے تھے کہ انہوں نے حورب پہاڑ پر ایک درخت آگ میں روشن دیکھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام حیران ہوئے کہ یہ عجیب بات ہے کہ درخت کے اردگرد آگ بھی ہے اور وہ جلتا بھی نہیں.چنانچہ وہ اس نظارہ کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھے تب ’’خدا نے اسی بوٹے کے اندر سے پکارا اور کہا کہ اے موسیٰ اے موسیٰ! وہ بولا میں یہاں ہوں.تب اس نے کہا یہاں نزدیک مت آ اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے.پھر اس نے کہا میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں.موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا‘‘ (خروج باب۳ آیت ۴ تا ۷) اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدء وحی میں کتنا بڑا فرق ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کو دیکھا تو دَنَا فَتَدَلّٰى (النّجم:۹).محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف دوڑے اور خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑا اور یہی عشق کامل کی علامت ہوتی ہے.ایک شاعر کہتا ہے ؎ بعد مدت کے گلے ملتے ہوئے آتی ہے شرم اب مناسب ہے یہی کچھ میں بڑھوں کچھ تو بڑھے

Page 360

محبت صادق میں یہی ہوتا ہےکہ کچھ وہ بڑھتا ہے اور کچھ یہ بڑھتا ہے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ جب انہیں اللہ تعالیٰ کی روئیت ہوئی تو آپ اللہ تعالیٰ کی طرف دوڑے اور اللہ تعالیٰ آپ کی طرف دوڑا.مگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا واقعہ ہوا.جب انہوںنے اللہ تعالیٰ کو دیکھا تو خدا تعالیٰ نے ان سے کہا ’’یہاں نزدیک مت آ‘‘ یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ موسٰی کی تجلی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجلی میں کتنا بڑا فرق تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تو اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ وہ میری طرف بڑھے اورمیں ان کی طرف بڑھا تاکہ ہم دونوں آپس میں جلدی مل جائیں مگر موسیٰ علیہ السلام کو کہا گیا ’’یہاں نزدیک مت آ‘‘ اور پھر ساتھ ہی یہ حکم دیا گیا کہ ’’اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے.‘‘ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتا اتارنے کا حکم نہیں دیا گیا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے راجائوں سے کوئی بڑا آدمی ملنے کے لئے جاتا ہےتو وہ جوتا پہنے رہتا ہے لیکن اگر کوئی زمیندار ان سے ملنے کے لئے جائے تو اسے دروازہ میں ہی جوتا اتاردینے کا حکم دیا جاتا ہے.چونکہ موسٰی کا مقام وہ نہیں تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تھا اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں کہا گیا کہ تو اپنا جوتا اتار.مگر موسیٰ علیہ السلام کو جیسے معمولی زمینداروں کو ڈانٹ کر جوتا اتارنے کا حکم دیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا کہ ’’اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ یہ جگہ جہاں تو کھڑا ہے مقدس زمین ہے‘‘.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس وقت جو کچھ کہا گیا وہ یہ ہے کہ ’’میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں.‘‘ اس میں کون سا معرفت کانکتہ بیان ہے یا کون سا کمال ہے جو اس کلام میں پایا جاتا ہے؟ ایک موٹی بات ہے جو ہرشخص جانتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کچھ کہا گیا اس کے متعلق آگے چل کر بتایا جائے گا کہ وہ کلام اپنے اندر کس قدر خوبیاں رکھتا ہے.بدء وحی کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حالت پھر وہیری اور اس کے ساتھی یہ تو اعتراض کرتے ہیں

Page 361

کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی تو وہ ڈر گئے اور ان کے کندھے کانپنے لگ گئے.مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ یہاں صاف لکھا ہے کہ ’’موسیٰ نے اپنا منہ چھپایا کیونکہ وہ خدا پر نظر ڈالنے سے ڈرتا تھا.‘‘ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے ڈرنے کی وجہ سے اعتراض کیا جاسکتا ہے تو موسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ اعتراض وارد ہوتا ہے بلکہ موسیٰ علیہ السلام پر جو اعتراض وارد ہوتا ہے وہ زیادہ سخت ہے کیونکہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے ڈر کر اپنا منہ چھپالیا.لیکن رسول کریم کے متعلق صرف اتنا لکھا ہے کہ آپ کے کندھے کانپنے لگ گئے اور یہ امر ظاہر ہے کہ بڑا آدمی اگر کسی بات سے گھبراتا ہے تو اس کے کندھے کانپنے لگ جاتے ہیں لیکن بچے جب کسی بات سے ڈرتے ہیں تو اپنا منہ چھپالیتے ہیں.یہ کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بڑا آدمی ڈرے تو وہ اپنی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لے.لیکن بچوں کو تم روزانہ دیکھو گے کہ جب وہ ڈرتے ہیں فوراً اپنا منہ چھپالیتے ہیں.یہی بچوں والی حرکت حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کی کہ خدا تعالیٰ کو دیکھا تو ڈر کر اپنا منہ چھپالیا.یا کبوتر والی حرکت کی جو بلی سے ڈر کر اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ روحانی لحاظ سے ایک جوان اور مضبوط آدمی کی حیثیت رکھتے تھے اس لئے آپ نے اپنی آنکھیں کھلی رکھیں صرف گھبراہٹ سے آپ کے کندھے ہلنے شروع ہوگئے.پس جو اعتراض مستشرقین یورپ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا جاتا ہے وہی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وارد ہوتا ہے اور وارد بھی زیادہ بھیانک اور خطرناک شکل میں ہوتا ہے.پھر لکھا ہے.’’موسیٰ نے خدا کو کہا میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جائوں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکالوں‘‘ (خروج باب۳ آیت۱۱) عیسائی اعتراض کرتے ہیںکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی وحی پر شک کیا اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کیا حال تھا.اللہ تعالیٰ ان کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیتا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کریں اس کی نصرت اور تائید پر بھروسہ رکھیں اور سمجھیں کہ جب اللہ تعالیٰ مجھے اس کام کے لئے بھیج رہا ہے تو وہ مجھے اکیلا نہیں چھوڑے گا اس قدر شک کا اظہار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ میری حیثیت ہی کیا ہے کہ میں فرعون کے پاس جائوں.میں ایک غریب آدمی ہوں اور فرعون بڑا بادشاہ ہے.میں تو اس کے پاس نہیں جاسکتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کا اس قدر انکار کرنے کے باوجود مسیحی پادریوں کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے مقرب ہی رہتے ہیں.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر صرف اتنا فرماتے ہیں کہ

Page 362

قَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ.مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہوگیا ہے تو عیسائی یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو وحی الٰہی پر یقین نہیں تھا.پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ جا اور اپنی قوم کو مصر سے نکال کر اس پہاڑ پر عبادت کرنے کے لئے لا.مگر موسیٰ نے اس کا بھی انکار کیا.چنانچہ لکھا ہے.’’ تب موسیٰ نے جواب دیا اور کہا کہ دیکھ وے مجھ پر ایمان نہ لائیں گے نہ میری بات سنیں گے وہ کہیں گے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ جو بالکل عقل کے مطابق ہے اس کے متعلق تو عیسائی اعترا ض کرتے ہیں کہ آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شک کا اظہار کیا.مگر موسیٰ علیہ السلام کے متعلق نہیں دیکھتے کہ انہوں نے کس طرح اللہ تعالیٰ کے واضح احکام کا انکار کیا.اللہ تعالیٰ نے انہیں کہا کہ اپنی قوم کو یہاں عبادت کرنے کے لئے لا.اب بجائے اس کے کہ وہ اس حکم کی فوری طور پر تعمیل کرتے اللہ تعالیٰ سے یہ کہنے لگ گئے کہ وہ مجھ پر ایمان نہیں لائیں گے نہ میری بات سنیں گے وہ کہیں گے کہ خداوند تجھے دکھائی نہیں دیا.اس لیے میں ان کے پاس کس طرح جاسکتا ہوں.’’تب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ یہ تیرے ہاتھ میں کیا ہے.وہ بولا عصا.پھر اس نے کہا اسے زمین پر پھینک دے.اس نے زمین پر پھینک دیا اور وہ سانپ بن گیا اور موسیٰ اس کے آگے سے بھاگا‘‘.(خروج باب ۴ آیت ۲،۳) کیسی عجیب بات ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سانپ کو دیکھا تو ڈر کر بھاگنے لگ گئے حالانکہ سانپ کو ہرشخص مار سکتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ کوئی سمجھدار طاقتور انسان سانپ دیکھے تو ڈر کر بھاگنا شروع کردے وہ فوراً لاٹھی اٹھاتا اور اسے مارڈالتا ہے.مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سانپ کو دیکھا تو ڈر کر بھاگنا شروع کردیا.عیسائی اس واقعہ کو پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت میں کوئی نقص واقعہ نہیں ہوتا.لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھاگتے نہیں وحی الٰہی کے نازل ہونے پر صرف اتنا فرماتے ہیں کہ نہ معلوم میں اس اہم ذمہ واری کو ادا کرسکوں گا یا نہیں.تو عیسائی کہتے ہیں آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شک اور تردّد کا اظہار کردیا.پھر لکھا ہے.’’تب موسیٰ نے خداوند سے کہا کہ اے میرے خداوند میں فصاحت نہیں رکھتا نہ تو آگے سے اور نہ جب سے کہ تو نے اپنے بندے سے کلام کیا اورمیری زبان اور باتوں میں لکنت ہے.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۰)

Page 363

دیکھو کتنا بڑا نشان تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان کا عصا سانپ بن گیا اور جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے سانپ کو پکڑا تو وہ پھر عصا بن گیا.اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے بعد بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام ابھی اڑے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں میری زبان میں فصاحت نہیں.نہ پہلے فصاحت تھی اور نہ اب تجھے دیکھنے کے بعد میری زبان میں کوئی فرق پیدا ہوا ہے.یعنی پہلے تو میں بے شک ایک معمولی آدمی تھا مگر میں دیکھتا ہوں کہ تیرے جلال کو دیکھنے کے بعد بھی میری زبان ویسی کی ویسی ہے جس طرح پہلے میری زبان میں لکنت تھی اسی طرح اب ہے جس طرح پہلے غیرفصیح تھا اُسی طرح اب غیر فصیح ہوں.’’تب خدا نے اسے کہا کہ آدمی کو زبان کس نے دی اور کون گونگا یا بہرا یا بینا یا اندھا کرتا ہے کیا میں نہیں کرتا جو خدا وند ہوں پس اب تو جا اور میں تیری بات کے ساتھ ہوں اور تجھ کو سکھائوں گا جو کچھ تو کہے گا‘‘.(خروج باب۴ آیت ۱۱،۱۲) اس حکم اور نصیحت کو سن کر بھی موسیٰ علیہ السلام کے طریق میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہوئی.چنانچہ آگے لکھا ہے.’’تب اس نے کہا کہ اے میرے خداوند میں تیری منت کرتا ہوں جس کو چاہے تو اس کے وسیلہ سے بھیج‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۳) یعنی میں جانے کے لئے تیار نہیں.میری جگہ کسی اور کو بھیج دیجئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کا بار بار انکار کیا پھر بھی مسیحی علماء کے نزدیک ان کے عظیم الشان نبی ہونے میں کوئی شک پیدا نہیں ہوا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف اتنا کہنے پر کہ نہ معلوم میں اس ذمہ واری کو ادا کرسکوں گا یا نہیں، انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان میں یا عقل میں شبہ نظر آنے لگا حالانکہ موسیٰ کا واقعہ ان کی الہامی کتاب میں مذکور ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فقرہ قرآن کریم میں نہیں بلکہ صرف حدیث میں بیان ہے جو کلام اللہ کے برابر شہادت نہیں ہوسکتا.تورات میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بار بار خدا تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کیا ’’تب خداوند کا غصہ موسیٰ پر بھڑکا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ دیکھ کر کہ وہ انکار پر اصرار ہی کئے جاتے ہیں انہیں ڈانٹا.پھر لکھا ہے.’’کیا نہیں ہےلاویوں میں سے ہارون تیرا بھائی؟ میں جانتا ہوں کہ وہ فصیح ہے اور دیکھ کہ وہ بھی تیری ملاقات کو آتا ہے اور تجھے دیکھ کے دل میں خوش ہوگا اور تو اسے کہے گا اور اسے باتیں بتائے گا

Page 364

اور میں تیری اور اس کی بات کے ساتھ ہوں گا اور تم جو کچھ کرو گے تم کو بتائوں گا‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴، ۱۵) غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدء وحی پر عیسائیوں کی طرف سے جو اعتراضات کئے جاتے ہیں وہ تمام کے تمام اعتراضات اس وحی پر بھی واقعہ ہوتے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پرنازل ہوئی.ہم تو عیسائیوں کے اعتراضات کو درست تسلیم نہیں کرتے اور ان کے جوابات بھی اوپر درج کئے جاچکے ہیں لیکن پھر بھی الزامی رنگ میں ہم عیسائیوں سے کہتے ہیں اگر تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ وحی کے متعلق آپؐنے تردّد کا اظہار فرمایا تو یہ اعتراض بدرجۂ اتم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وارد ہوتا ہے اور وارد بھی ایسی صورت میں ہوتا ہے کہ اس کی کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی.حضرت عیسٰیؑ کی بدء الوحی کا مقابلہ آنحضرت صلعم کی بدء الوحی سے اس کے بعد ہم حضرت مسیح علیہ السلام کی بدء وحی کے واقعات کو دیکھتے ہیں.متی باب ۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام یوحنا کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ مجھے بپتسمہ دو پہلے تو انہوں نے انکار کیا مگر آخر مان لیا اور حضرت مسیحؑ نے یوحنا سے بپتسمہ پایا.اس کے بعد جو کچھ ہوا اس کے متعلق انجیل کہتی ہے.’’ اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا اور دیکھو کہ اس کے لئے آسمان کھل گیا اور اس نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے دیکھا.اور دیکھو کہ آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں.‘‘ (متی باب ۳ آیت۱۶، ۱۷) اس نظارہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدء وحی کے مقابلہ میں رکھواور پھر سوچو کہ کیا ان دونوںواقعات میں کوئی بھی نسبت ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام فرشتہ کے ذریعہ بھیجا اور مسیحؑ پر ایک کبوتر کی شکل میں روح القدس نازل ہوا.کبوتر سے انہوں نے کیا ڈرنا تھا کبوتر تو وہ جانور ہے جس کی ہڈیاں بھی انسان چبا جاتا ہے.یہی عیسوی اور محمدؐی تجلی کا فرق ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآنی تعلیم کو شرک سے محفوظ رکھا لیکن عیسائیت پر شیطان غالب آگیاکیونکہ عیسائی مذہب کے پیشوا پر روح القدس ایک نہایت ہی کمزور شکل میں نازل ہواتھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.’’ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو روح القدس کی تجلی ہوئی تھی وہ ہر ایک تجلی سے بڑھ کر ہے.روح القدس کبھی کسی نبی پر کبوترکی شکل پر ظاہر ہوا اور کبھی کسی نبی یا اوتار پر گائے کی شکل پر

Page 365

ظاہر ہوا اور کسی پر کَچھ یا مچھ کی شکل پر ظاہر ہوا اور انسان کی شکل کا وقت نہ آیا جب تک انسان کامل یعنی ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے تو روح القدس بھی آپ پر بوجہ کامل انسان ہونے کے انسان کی شکل پر ہی ظاہر ہوا اور چونکہ روح القدس کی قوی تجلی تھی جس نے زمین سے لے کر آسمان کا افق بھر دیا تھا اس لئے قرآنی تعلیم شرک سے محفوظ رہی.لیکن چونکہ عیسائی مذہب کے پیشواپر روح القدس نہایت کمزور شکل میں ظاہر ہوا تھا یعنی کبوتر کی شکل پر.اس لئے ناپاک روح یعنی شیطان اس مذہب پر فتح یاب ہوگیا.‘‘ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۸۳،۸۴) اس جگہ یہ نکتہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ جن کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے وہ اس کے رسول کہلاتے ہیں اور رسول دنیا میں دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کا کام صرف خط دے دینا ہوتا ہے اس سے زیادہ ان کا کام کچھ نہیں ہوتا.اور ایک وہ جن کا کام ان احکام کو نافذ کرنا بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح علیہ ا لسلام پر تجلی الٰہی کا کبوتر کی صورت میں نازل ہونا بتاتا ہے کہ مسیحؑ کی حیثیت صرف اس پیغامبر کی تھی جو پیغام سنا دیتا ہے اور اس کا کام ختم ہو جاتا ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تجلی الٰہی کا نزول ایک مرد کامل کی شکل میں ظاہر ہواجس سے اس طرف اشارہ تھا کہ آپ صرف پیغامبر نہ ہوں گے بلکہ ایک کامل نمونہ بھی اپنے مخاطبین کے لئے ہوں گے.انجیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے.’’ تب یسوع روح کے وسیلے بیابان میں لایا گیا تا کہ شیطان اسے آزمائے اور جب چالیس دن اور چالیس رات روزہ رکھ چکا آخر کو بھوکا ہوا تب آزمائش کرنے والے نے اس پاس آکے کہااگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ یہ پتھر روٹی بن جائیں اس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر اک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے جیتا ہے.تب شیطان اسے مقدس شہر میں اپنے ساتھ لے گیااور ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کر کے اس سے کہا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تواپنے تئیں نیچے گرا دے کیونکہ لکھا ہے کہ وہ تیرے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور وے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے ایسا نہ ہو کہ تیرے پائوں کو پتھر سے ٹھیس لگے.یسوع نے اس سے کہا یہ بھی لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو مت آزما.پھر شیطان اسے ایک بڑے اونچے پہاڑ پر لے گیا اور دنیا کی ساری بادشاہتیں اور ان کی شان وشوکت اسے دکھائیں اور اس سے کہا اگر تو گر کے مجھے سجدہ کرے تو یہ سب کچھ تجھے دوں گا.

Page 366

تب یسوع نے اسے کہا اے شیطان دور ہوکیونکہ لکھا ہے کہ تو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور اس اکیلے کی بندگی کر.‘‘ (متی باب ۴ آیت۱تا۱۰ ) دیکھو عیسائیوں کو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض تھا کہ آپ نے وحی الٰہی کے متعلق شبہ کا اظہار کیا مگر یہاں یہ لکھا ہے کہ شیطان حضرت مسیحؑ کو اپنے ساتھ لئے پھرا.ہم یہ نہیں کہتے کہ واقعہ میں ایسا ہواہے ہم صرف یہ کہتے ہیں کہ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ پر کامل یقین تھا تو انجیل کے بیان کے مطابق وہ شیطان کے پیچھے پیچھے کیوں بھاگے پھرتے تھے اور کیا وجہ ہے کہ جس طرف شیطان ان کی انگلی پکڑ کر لے جاتااسی طرف وہ نہایت اطمینان کے ساتھ چلنا شروع کر دیتے؟ بیت المقدس میں لے جاتا ہے تو وہاں چلے جاتے ہیں.ہیکل کے کنگورے پر کھڑا کرتا ہے تو وہاں کھڑے ہو جاتے ہیں گویا جس طرح کوئی بے بس ہوتا ہے.شیطان کی ہر بات مانتے چلے جاتے ہیں.بہرحال عیسائیوں کودو باتوں میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنی پڑے گی.یا تو ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ایک ظاہری واقعہ ہے اور یا ان کو یہ ماننا پڑے گا کہ یہ ظاہری واقعہ نہیں بلکہ خواب ہے.اگر اسے ظاہری واقعہ تسلیم کیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ شیطان حضرت مسیحؑ کے پاس آیا کیوں؟ کیا وہ خدا تعالیٰ کے بیٹے کو دھوکا دے سکتا تھا؟ اگر نہیں تو اس کا ظاہری صورت میں حضرت مسیحؑ کے پاس آنا بالکل بے معنی بات تھی جس کی کوئی بھی توجیہہ نہیں ہوسکتی.ہاں اگر اس واقعہ کوحضرت مسیحؑ کی خواب قرار دے دیا جائے تو ایسا ہو سکتا ہے مگر اس صورت میں بھی یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے دل میں یہ خیالات آنے شروع ہوگئے تھے کہ کیا مجھے شیطان کی طرف سے تو الہام نہیں ہوا.حضرت مسیحؑ کا رؤیا کی حالت میں شیطان کے پیچھے چلنا اور اسے نہ دھتکارنا ان کے قلب کی اس حالت پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس کے شیطان ہونے پر یقین نہ رکھتے تھے اور اس وقت تک شیطانی اور رحمانی رؤیا میں فرق نہیں کرسکتے تھے.غرض انجیل کی آیات سے یہ امر ظاہر ہے کہ یسوع کو ایک کبوتری کے نظارہ میں پہلا جلوہ ہوا جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کامل القویٰ انسان کی شکل میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو آگ کی صورت میں.پھر موسیٰ کا شک اور خوف بھی ثابت ہے اور مسیحؑ کا بھی.کیونکہ شیطان کا ملنا اور مسیحؑ کا اس کے پیچھے جانا تردد اور شک پرہی دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان کے دل میں اس وقت تک الٰہی کلام پر وہ یقین اور وثوق پیدا نہیں ہوا تھا جو بعد میں جا کر پیدا ہوا.پھر سوال یہ ہے کہ جب کبوتر کی شکل میں روح القدس نازل ہوا تو اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ انجیل میں صرف اتنا لکھا ہے ’’آسمان سے ایک آواز یہ کہتی آئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں.‘‘ (متی باب ۳ آیت ۱۷)

Page 367

ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو کون سا نیا علم بخشا گیا ہے یا کون سا معرفت کا نیا نکتہ تھا جو آپ پر نازل کیا گیا.محض کسی آواز کا آجانا تو کوئی بڑی بات نہیں ہوتی.آواز تو ایک پاگل کو بھی آجاتی ہے یا جب موسٰی کو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ ’’میں تیرے باپ کا خدا اور ابراہام کا خدا اور اضحاق کا خدااور یعقوب کا خدا ہوں.‘‘ تو موسٰی کو اس سے کیا لطف آیا ہوگا یا کون سا عرفان ان کو حاصل ہوا ہوگا.کیا اس کلام کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کہہ سکتے تھے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی بات بتائی گئی ہے جو پہلے میرے علم میں نہیں تھی یا عرفان کا ایک نیا باب میرے لئے کھول دیا گیا ہے یقیناً وہ ایسی کوئی بات نہیں کہہ سکتے تھے.اسی طرح حضرت مسیحؑ پر اگر ایک کبوتری کی شکل میں روح القدس نازل ہوگیا اور آسمان سے یہ آواز آگئی کہ یہ میرا پیارا بیٹا ہے تو کیا ہوگیا.یہ محض ایک بیان ہے اس سے زیادہ ان الفاظ کی کوئی حقیقت نہیں.نہ ان میںعرفان کی کوئی بات ہے نہ علم و حکمت کا کوئی نکتہ ہے.نہ تعلق باللہ کا کوئی راز ان میں منکشف کیا گیا ہے اورنہ کوئی اور ایسی بات بیان کی گئی ہے جو علم اور معرفت کی زیادتی کے ساتھ تعلق رکھتی ہو.پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ حضرت مسیحؑ نے کبوتر کی شکل میں روح القدس کے نازل ہونے کا جو نظارہ دیکھا اس کے متعلق یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ یہ کوئی حقیقی نظارہ نہیں تھا بلکہ دماغ کی خرابی کا ایک کرشمہ تھا کیونکہ جن لوگوں کو وہم ہوجاتا ہے وہ بعض دفعہ معمولی معمولی باتوں سے ایسے نتائج اخذ کرلیتے ہیں جو کسی اور انسان کے واہمہ میں بھی نہیں آتے.مولوی یار محمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی تھے ان کے دماغ میں نقص تھا.بعض دفعہ باتیں کرتے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ہاتھ کو حرکت دیتے تو مولوی یار محمد صاحب جھٹ کود کر آگے آجاتے اور سمجھتے کہ یہ اشارہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے لئے کیا تھا.اسی طرح جن میں وہم کا مرض پید اہوجاتا ہے وہ بعض دفعہ پرندوں کی پرواز سے فال لینا شروع کردیتے ہیں.دائیں طرف سے کوئی پرندہ گزرجائے تو سمجھتے ہیں کہ ہمیں کام میں کامیابی ہوجائے گی اور اگر بائیں طرف سے گزرجائے تو سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں نحوست کا سامنا کرنا ہوگا.اسی رنگ میں ہوسکتا ہے کہ جب یوحنا سے بپتسمہ پانے کے بعد حضرت مسیحؑ پانی سے باہر آئے ہوں تو کوئی کبوتر اڑ کر ان کے پاس آبیٹھا ہو اور انہوں نے سمجھ لیا ہو کہ یہ آسمان سے میرے پاس آیا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بدء وحی کا واقعہ بے شک ایک حقیقی نظارہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہوا.مگر اس کلام میں کوئی ایسی بات نہیں جس میں علم و عرفان کا کوئی خاص راز منکشف کیا گیا ہو یاکوئی ایسی بات بتائی گئی ہو جو دنیا کے لئے ایک نرالے پیغام کی حیثیت رکھتی ہو.صرف موسٰی کو یہ کہا گیا کہ تو فرعون کے پاس جا اور بنی اسرائیل کو اس کی غلامی سے نکال.یہ محض ایک دنیوی بات ہے زیادہ سے زیادہ اسے سیاسی لحاظ سے اہمیت دی

Page 368

جاسکتی ہے مگر مذہبی اور روحانی نقطۂ نگاہ سے اس میں کوئی ایسی بات نہیں جو دنیا کے لئے جدید پیغام ہو یا اس پر کوئی نئی حقیقت روشن کرنے والا ہو.بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سابق انبیاء کی بد ء وحی کے واقعات کا جب آپس میں مقابلہ کیا جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی باقی تمام انبیاء کی وحیوں میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جس قسم کی محبت اور پیار کا سلوک آپ سے کیا ہے اس قسم کی محبت اور پیار کا سلوک اس نے اور کسی نبی سے نہیں کیا.ترتیب: سورۃ علق کا پہلی سورتوں سے تعلق یہ سورۃ بھی پہلی سورۃ کے مضمون کے مطابق ہے.یعنی وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ میں جو مضمون تھا اسی کو ایک نئے پیرایہ میں اس سورۃ میں بیان کیا گیا ہے.وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ میں اللہ تعالیٰ نے وحی کا ایک تسلسل بیان کیا تھا اور بتایا تھا کہ یہ تسلسل ابتدائے عالم سے جاری ہے.پہلے آدمؑ کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا، پھر نوحؑ کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا، پھر موسٰی کے ذریعہ اس کا ظہور ہوا.اب قرآن کریم کے ذریعہ اس کا ظہورہورہا ہے.یہی مضمون اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ یعنی انسانی پیدائش کو تم دیکھ لو جس طرح ایک فرد علقہ سے مضغہ بنتا ہے اور مضغہ کے بعد درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے آخر جاندار بن کر رحم مادر سے باہر آتا ہے.اسی طرح جماعتی طور پر انسان کی ترقی ہوئی ہے.پہلے روحانی لحاظ سے انسان علقہ کی طرح تھا پھر ترقی کرکے مضغہ بنا پھر اس نے اور ترقی کی، پھر اور ترقی کی یہاں تک کہ وہ انسانِ کامل کے مقام تک آپہنچا اور یہ پیدائش محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں ہوئی ہے.پس خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جو وَ التِّيْنِ وَ الزَّيْتُوْنِ میں بیان کیا گیاتھا اور بتایا گیا ہے کہ ابتدائے عالم سے ایک سکیم ہمارے مدنظر تھی اور ہم چاہتے تھے کہ روحانی لحاظ سے انسان کو درجہ بدرجہ ترقی دیتے دیتے آخر دنیا میں ایک انسان کامل پیدا کریں.جب یہ سکیم ابتدائے عالم سے ہمارے مدنظر تھی تو ضروری تھا کہ انسان کو اس کا مقصود حاصل ہوتا.ورنہ خلق انسانی عبث ٹھہرتی ہے اور اللہ تعالیٰ زیر الزام آتا ہے کہ جس سکیم کے ماتحت بنی نوع انسان کی پیدائش کی گئی تھی وہ نعوذ باللہ کامیاب نہ ہوئی.پس یہ سورۃ گزشتہ سورۃ کے مضمون کے تسلسل میں ہے اور اسی مضمون کو ایک نئے انداز میں اس جگہ بیان کیاگیا ہے.اس جگہ شاید کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ جب سورۂ علق ابتدائی سورۃ ہے تو سورۂ تین سے اس کا تعلق ثابت کرنا کیا معنے؟ تین بعد میں نازل ہوئی اور علق پہلے.سو اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کی دو ترتیبیں ہیں.ایک نزول کے لحاظ سے.سو اس لحاظ سے تین بعد میں ہے اور علق پہلے.لیکن اس کی جو ترتیب تمام زمانوں کو

Page 369

مدنظر رکھ کر ہے اسی کے مطابق قرآن کریم میں سورتیں رکھی گئی ہیں اور اسی کے لحاظ سے بعض بعد میںنازل ہونے والی سورتیں پہلے آگئی ہیں اور پہلے نازل ہونے والی بعد میں آگئی ہیں.اب میں قرآنی آیات کی تشریح کرتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو پیغام ملا وہ اپنے اندر کس قدر علوم رکھتا تھا اور کتنے عظیم الشان معارف تھے جو اس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے.بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں) اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَۚ۰۰۲ اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے (سب اشیاء کو) پید اکیا.تفسیر.اِقْرَاْ کے معنے اِقْرَاْ وہ پہلا لفظ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اور جس میں اسلام کے ظہور کے ساتھ ہی بعض عظیم الشان پیشگوئیوں کا اعلان کردیا گیا.اِقْرَاْ کے اصل معنے گو کسی لکھی ہوئی چیز کے پڑھنے کے ہیں مگر اس کے ایک معنی اعلان کرنے کے بھی ہیں اور یہ دونوں معنے ایسے ہیں جو اس مقام پر نہایت عمدگی کے ساتھ چسپاں ہوتے ہیں.اگر اِقْرَاْ کے معنے اعلان کرنے کے لئے جائیں تو اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اس کتاب کا اعلان اپنے اس رب کے نام کے ساتھ کر جس نے تجھے پیدا کیا.اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم وہ کتا ب ہے جس میں پہلے دن ہی یہ خبر دے دی گئی ہے کہ یہ کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے نہیں بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے لئے ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا پہلا الہام دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر پہلے دن جو الہام ہوا وہ صرف اس قدر تھا کہ ’’میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں میرے لوگوں کو جو بنی اسرائیل ہیں مصر سے نکال.‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱۰) حالانکہ انبیاء کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ قلوب کی صفائی کریں شیطان کی غلامی سے لوگوں کو چھڑائیں اور تقویٰ

Page 370

اور پاکیزگی کی راہیں ان پر روشن کریں مگر وہاں ایسا کوئی پیغام نہیں دیا گیا.اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو پیغام ملا اس میں بھی اس بنیادی چیز کا کوئی ذکر نہیں صرف اتنا بیان کیا جاتا ہے کہ ایک کبوتری اتری اور آسمان سے یہ آواز آئی کہ تو میرا پیارا بیٹا ہے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پہلا فقرہ یہی نازل ہوتا ہے کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا کے سامنے اعلان کر اور اسے بتا کہ اسے اس کا خالق رب اپنی طرف بلاتا ہے اس طرح پہلے لفظ کے ذریعہ ہی اس حقیقت کو روشن کردیا گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام ساری دنیا کے لئے ہے.اسود اور احمر اس پیغام کے مخاطب ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض ہے کہ وہ تمام لوگوں تک اس پیغام کو پہنچائیں اور وہ لوگ جو آستانۂ الٰہی سے بھٹک چکے ہیں ان کو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف واپس لائیں.اِقْرَاْ میں پیشگوئی کہ قرآن مجید لکھا جائے گا اِقْرَاْ کے دوسرے معنے کسی لکھی ہوئی چیز کو پڑھنے کے ہوتے ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو لکھی جائے گی اور پھر یہ لکھی ہوئی کتاب بار بار پڑھی جائے گی.چنانچہ اگر واقعات پر غور کیا جائے تو معلو م ہوتا ہے کہ قرآن دنیا میں وہ پہلی کتاب ہے جو ابتدائے نزول کے ساتھ ہی لکھی گئی ہے.اس کے علاوہ دنیا میں اور جس قدر الہامی کتابیں پائی جاتی ہیں ان میں سے کوئی ایک کتاب بھی ایسی نہیں جو نازل ہونے کے وقت ہی لکھ لی گئی ہو.صرف قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس کے متعلق یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ اسے لکھا جائے گا اور اس طرح شروع سے ہی اس کی حفاظت کا سامان کیا جائے گا اور وہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری بھی ہوگئی.چنانچہ نولڈکے، وہیری اور میور تک نے یہ تسلیم کیا ہے کہ سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جو ابتدائے ایام میں لکھی گئی ہو.(The Life of Mahomat by Sir William Muir P:561-563 - A Comprehensive Commentary on The Quran by Wherry Vol,1 Page:109) انجیلیں بے شک آج دنیا میں موجود ہیں مگر کوئی عیسائی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کتابیں حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں لکھی گئی ہیں ہر شخص جانتا ہے کہ متی، مرقس، لوقا اور یوحنا نے حضرت مسیحؑ کی وفات کے ایک لمبے عرصہ بعد ان باتوں کو جمع کیا چنانچہ ’’لوقا‘‘ خود اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’چونکہ بہتوں نے کمر باندھی کہ ان کاموں کا جو فی الواقع ہمارے درمیان انجام ہوئے بیان کریں جس طرح سے انہوں نے جو شروع سے خود دیکھنے والے اور کلام کی خدمت کرنے والے تھے

Page 371

ہم سے روایت کی.میں نے بھی مناسب جانا کہ سب کو سرے سے صحیح طور پر دریافت کرکے تیرے لئے اے بزرگ تھیو فلس بترتیب لکھوں تاکہ تو ان باتوں کی حقیقت کو جن کی تونے تعلیم پائی جانے‘‘.(لوقا باب ۱ آیت ۱ تا ۴) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اناجیل حواریوں نے نہیں بلکہ ان سے ملنے والوں اور شاید ملنے والوں کے ملنے والوں نے لکھی ہیں.غرض دنیا میں سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جو شروع سے ہی لکھوائی گئی ہو اور جس کو بار بار پڑھنا لوگوں کا فرض قرار دیا گیا ہو.پس اِقْرَاْ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ یہ کتاب دنیا میں لکھی جائے گی اور لوگوں سے کہا جائے گا کہ اسے پڑھواور بار بار پڑھو.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں شرک کا ردّ پھر فرمایا بِاسْمِ رَبِّكَ اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھ.یہاں رَبِّكَ کا لفظ استعما ل کرکے اللہ تعالیٰ نے ایک نئے مضمون کی طرف اشارہ کیا ہے.درحقیقت رب ایک ایسی ذات ہے جس کو مشرک بھی مانتے تھے اور یہودی اور عیسائی بھی اس کے متعلق اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے مگر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی طرف غلط باتیں منسوب کرتے تھے.مثلاً مشرکین یہ تو کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لاتے ہیں مگر وہ اس کے ساتھ ہی لات اور عزیٰ کی بھی پرستش کرتے تھے.یا عیسائی یہ تو کہتے تھے کہ ہم اللہ تعالیٰ کا وجود تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ ہی وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دیتے تھے.یہی حال یہود کاتھا کہ وہ اللہ تعالیٰ پر تو ایمان رکھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی اعتقاد تھا کہ یہود کے سوا اللہ تعالیٰ اور کسی پر الہام نازل نہیں کرسکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت ان تمام امور کا نہایت سختی کے ساتھ انکار کرتی تھی.وہ یہودیت کے نظریہ کو بھی تسلیم نہ کرتی تھی.عیسائیت کے فلسفہ کو بھی رد کرتی تھی اور مشرکین مکہ کے خیالات کو بھی ناقابل قبول قرار دیتی تھی.آپ غار حرا کی تاریکیوں میں جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے اور اس کو سوز اور گداز کے ساتھ پکارتے تو یہ تمام خیالات ایک ایک کرکے آپ کے سامنے آتے.آپ دیکھتے کہ یہود گو اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر یہ کیسا گھنائونا عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس نے اپنی محبت یہود کے ساتھ وابستہ کردی ہے.دنیا کا اور کوئی انسان اس کے کلام اور الہام کا مورد نہیں ہوسکتا.آپ عیسائیت کی تعلیم پر غور کرتے اور سوچتے کہ بے شک عیسائیت بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کو تسلیم کرتی ہے مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر مقام الوہیت کی خطرناک توہین کررہی ہے.آپ مشرکین مکہ کے عقائد پر نگاہ دوڑاتے تو آپ کی فطرت

Page 372

صحیحہ ان کے عقائد کو بھی باطل قرار دیتی اور کہتی کہ ایک خدا کو چھوڑ کر لات اور منات اور عزیٰ کی پرستش کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتی.غرض آپ یہودیوں کے عقیدہ کا بھی انکار کرتے تھے.عیسائیت کے عقیدہ کا بھی انکار کرتے تھے اور مشرکین کے عقیدہ کا بھی انکار کرتے تھے.یہودیت آپ کے سامنے پیش ہوتی تو آپ کی فطرت کہتی کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس خدا کو مان لوں جو یہود کے سوا اور کسی کو اپنا پیارا بنانے کے لئے تیار نہیں.عیسائیت آپ کے سامنے پیش ہوتی تو آپ کی فطرت اس کا انکار کرتی اور کہتی وہ مذہب کس طرح سچا تسلیم کیا جاسکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو بیٹے کا محتاج قرار دیتا ہے.مشرکین مکہ کے خیالات آپ کے سامنے پیش ہوتے تو آپ کی فطرت ان کو ناقابل تسلیم قرار دے دیتی اور کہتی کہ لات اور منات اور عزیٰ کو قابل پرستش نہیں سمجھا جاسکتا.غرض آپ کسی شرک کو برداشت نہیں کرسکتے تھے.آپ چاروں طرف سے ایسے لوگوں میں گھرے ہونے کے باوجود جو مشرکانہ خیالات میں ملوث تھے اپنی فطرت صحیحہ کی بناء پر اس خدا کو مانتے تھے جو ایک ہے جو قادر اور قیوم ہے.جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.جو نہ کسی کا بیٹا ہے نہ کوئی اس کا بیٹا.جو خالق الکل ہے.جو دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے سے پاک ہے اور جو اپنے کلام کے لئے کسی خاص گروہ کو مخصوص نہیں کرتا بلکہ دنیا کے ہر ایسے فرد کو اپنے قرب میں جگہ عطا کرتا ہے جو اس کی محبت کا متلاشی ہوتا ہے.پس فرمایا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.جا اور دنیا میں اپنے رب کے نام کا اعلان کر یعنی کفار کے ارباب نہیں بلکہ تیرا رب یعنی تو نے جس رب کو سمجھا ہے وہی سچا رب ہے اور اسی کے نام سے برکات ملتی ہیں تو دنیا میں اس کا بار بار اعلان کر اور لوگوں کو اس رب کی طرف بلا جس کو تو تسلیم کرتا ہے.اس طرح پہلے الہام میں ہی اللہ تعالیٰ نے شرک کا ردّ کردیا اور بتادیا کہ گو اور لوگ بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کا عقیدہ ہر قسم کے مشرکانہ خیالات سے منزہ ہو صرف وہ خدا جس کی حقیقت کو تو نے سمجھا ہے جس پر غار حرا کی دن رات کی عبادت میں تجھے یقین حاصل ہوا ہے وہی دنیا کا حقیقی رب ہے اور ہم تجھے اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ تو دنیا کے سامنے ’’اپنے ربّ‘‘ کا اعلان کر اور لوگوں کو بتا کہ جس طرح میں نے اللہ تعالیٰ کی حقیقت کو سمجھا ہے مجھے میرے رب نے بتایا ہے کہ وہی درست ہے باقی تمام اعتقادات باطل اور الوہیت کی شان سے بہت بعید ہیں.غرض رَبِّكَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتقاد کی درستی کے متعلق الٰہی تصدیق کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیحی جو یہ کہتے ہیں کہ عیسٰیؑ خدا کا بیٹا ہے بالکل غلط ہے.تونے جو کچھ اللہ تعالیٰ کے متعلق سمجھا ہے وہ ٹھیک ہے.اسی طرح مشرکین مکہ جو یہ کہہ رہے ہیں کہ لات اور منات اور عزیٰ بھی اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیں یہ بالکل غلط ہے.صحیح عقیدہ وہی ہے جو تو نے سمجھا ہے یا مثلاً یہود جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف یہود سے

Page 373

Page 374

لے اور خوب اچھی طرح دنیا میں اس کا اعلان کر.مگر میرے نزدیک یہاں باء زائدہ نہیں بلکہ استعانت کے لئے استعمال ہوئی ہے یعنی تو اپنے رب کے نام کی مدد کے ساتھ جس نے دنیا کو پیدا کیا ہے ایسا کر.پولیس جب کسی کی خانہ تلاشی کے لئے آتی ہے تو کہتی ہے حاکم کے نام پر دروازہ کھولا جاتا ہے.مطلب یہ ہوتا ہے کہ حاکم وقت نے ہم کو اتھارٹی AUTHORITY دی ہے جس کے ماتحت ہم یہ کام کررہے ہیں.اگر تم ہمارے اس کام میں روک بنو گے تو حکومت کے مجرم قرار پائو گے.چنانچہ پولیس اگر کسی چوری کی تفتیش کے سلسلہ میں کسی کے مکان کی تلاشی لینا چاہے اور مالک مکان انکار کردے تو اس پر مقدمہ دائر ہوجاتا ہے کہ اس نے سرکاری افسروں کے کام میں رکاوٹ ڈالی اور حاکم وقت کی اتھارٹی کے باوجود اپنے گھر کا دروازہ کھولنے سے انکار کردیا.جس طرح دنیا میں پولیس حاکم وقت کی طرف سے اختیارات حاصل کرکے کسی کے مکان پر جاتی ہے اسی طرح فرماتا ہے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ.تو اپنے رب کے نام کے ساتھ دنیا میں کھڑا ہو اور ان سے کہہ کہ مجھے ان باتوں کے پہنچانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اگر تم انکار کرو گے تو تم میرا انکار نہیں کرو گے بلکہ اس خدا کا انکار کرو گے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جس کے نام کے ساتھ تمہارے سامنے میں اپنی رسالت کا اعلان کررہا ہوں.گو رَبِّكَ کا لفظ استعمال کرکے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد کی صحت کا اعلان کیا گیا وہاں بِاسْمِ رَبِّكَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا بھی اظہار کیا گیا ہے.رسول یہی کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا گیا ہے اور میں اسی کے نام کے ساتھ اپنے دعاوی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں.غرض پہلی وحی میں ہی بِاسْمِ رَبِّكَ کہہ کر ایک طرف تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد کی درستی کا اعلان کردیا اور دوسری طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بھی اعلان کردیا اور بتادیا کہ یہ جو کچھ کہتا ہے اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ ہماری طرف سے کہتا ہے.اس تشریح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کے یہ معنے ہوں گے کہ تو اپنے اس رب کے نام کا جس کو صرف تو ہی اس زمانہ میں صحیح طور پر سمجھتا ہے دنیا میں اعلان کر اور لوگوں کو بتا کہ باقی تمام تشریحات رب کی اس کے مقابل میں باطل ہیں.اسی طرح تو دنیا میں اس تعلیم کا اعلان کر جو ہم تجھ پر نازل کررہے ہیں کیونکہ یہ تعلیم صرف تیرے لئے نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے ہے.یہ تعلیم لکھی جائے گی، پڑھی جائے گی اور بار بار پڑھی جائے گی.پس تو ایک فرد کی حیثیت سے اس کو نہ پڑھ بلکہ اس حیثیت سے پڑھ کہ خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ میں یہ تعلیم ساری دنیا کے سامنے پیش کروں.ہم تیرے ساتھ ہیں اور ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تو ہمارا سچا رسول ہے.گویا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں وہ تمام مفہوم

Page 375

آگیا جو اَشْھَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لَا شَـرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُـحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ میں بیان کیا گیا ہے.جب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ تو دوسرے الفاظ میں اس کلمۂ شہادت کا اعلان کردیا گیا کہ اَشْھَدُ اَنْ لَّاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ وَحْدَہٗ لَا شَـرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُـحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ یعنی میں اس خدائے واحد کو تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں جس کا علم مجھے حاصل ہے اور جو صحیح اور سچا علم ہے.میں اس کے نام پر تمہیں اس کی وحدانیت پر ایمان لانے کا پیغام دیتا ہوں.اگر تم میری اس بات کو نہیں مانو گے تو اللہ تعالیٰ کے حضور مجرم اور گنہگار قرار پائو گے کیونکہ میں اس کا رسول ہوں اور میں اس کے نام پر کھڑا ہوا ہوں مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس تعلیم کو چھپا کر نہ رکھوں بلکہ دنیا میں پھیلائوں اور ہر فرد کے کان تک اللہ تعالیٰ کی اس آواز کو پہنچائوں.غرض پہلے دن ہی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کلمہ شہادت کو پوشیدہ رکھ دیا تھا اور بتادیا تھا کہ تو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ہے دنیا میں یہ اعلان کر کہ تو خدا تعالیٰ کا رسول ہے.تیرا نظریۂ ربوبیت الٰہی ہی سچا نظریہ ہے اور اس کلام کو دنیا تک پہنچانا تیرا فرض ہے.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ کے بعد الَّذِيْ خَلَقَ کے لانے میں حکمت یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ کے بعد الَّذِيْ خَلَقَ کے الفاظ کا اضافہ اللہ تعالیٰ نے کیوں کیا ہے؟ اگر خالی اتنا ہی کہا جاتا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ تب بھی رب کے مفہوم میں خَلَقَ کے معنے آجاتے کیونکہ عربی زبان میں رب کے معنے اس ذات کے ہیں جو انسان کو پیدا کرکے اسے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جاتی ہے.پس چونکہ یہ مفہوم رب کے لفظ نے اد اکردیا تھا ا س لئے سوال پیدا ہوتا ہے کہ الَّذِيْ خَلَقَ کے الفاظ کا اضافہ اپنے اندر کیا حکمت رکھتاہے؟ عربی زبان میں لفظ رب کا استعمال اس سوال کا جواب یہ ہے کہ گو ربوبیت کے معنے انسان کو پید اکرکے اسے ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جانے کے ہیں مگر یہ بھی ہر زبان میں قاعدہ ہے کہ کبھی الفاظ اپنے پورے معنوں میں استعمال نہیں ہوتے بلکہ جزوی معنوں میں بھی استعمال ہوجاتے ہیں.چنانچہ باوجود ان معنوں کے عرب دوسروں کو بھی رَبٌّ کہہ دیا کرتے تھے.مثلاً عربی زبان میں سردار کو بھی رَبٌّ کہہ دیتے ہیں اس لئے کہ جزوی طور پر وہ قوم کی ربوبیت کرتا ہے یا مثلاً رَبِّیْ کا لفظ عبرانی زبان میںعالم دین کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے(اقرب).اسی طرح ماں باپ اور استاد وغیرہ بھی ایک قسم کے رَبّ ہوتے ہیں کیونکہ وہ انسان کی جسمانی یا علمی تربیت کا موجب بنتے ہیں.پس اگر صرف اتنا ہی کہا جاتا کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ تو انسانی ذہن اس طرف جاسکتا تھا کہ ممکن ہے رَبّ کا لفظ یہاں جزوی معنوں میں استعمال ہوا ہو اور اگر اس طرف ذہن نہ جاتا تو بہرحال ایک شبہ سا

Page 376

رہتا کہ نہ معلوم رَبّ کا لفظ یہاں جزوی معنوں میں استعما ل ہوا ہے یا اصل معنوں میں.کیونکہ ماں باپ بھی رَبّ ہوتے ہیں.استاد بھی رَبّ ہوتا ہے، بادشاہ بھی رَبّ ہوتا ہے، پھر پیر بھی ایک قسم کا رَبّ ہوتا ہے اور عربی زبان میں ان سب کے لئے رَبّ کا لفظ استعمال ہوتا ہے.پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہوسکتا تھا کہ نہ معلوم یہاں رَبّ کا لفظ جزوی معنوں میں استعمال ہوا ہے یا اپنے وسیع معنوں میں.اس لئے خَلَقَ کا لفظ بڑھا کر بتادیا کہ ہم ربوبیت کو اس کے وسیع معنوں میں استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو اس رَبّ کا نام لے جس نے خَلَقَ کے مقام سے مخلوق کو اٹھا کر ترقی دینی شروع کی ہے.ربّ کے معنے پید اکرکے آہستہ آہستہ ترقی تک پہنچانے والے کے ہوتے ہیں.لیکن جزوی معنوں میں جب ربّ کا لفظ بولا جائے تو طبیعت میں ایک خلجان سا رہتا ہے کہ اس میں ربوبیت کی کس سٹیج کی طرف اشارہ کیا گیاہے.ابتدائی سٹیج کی طرف یا درمیانی یا آخری سٹیج کی طرف.مثلاً جب ایک یہودی کسی عالم دین کو رَبِّیْ کہے گا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ جس دن سے مجھے دین کی سمجھ آئی ہے اس دن سے یہ شخص مجھے دین کی باتیں بتانے والا اور میری روحانی رنگ میں پرورش کرنے والا ہے.اگر دایہ کو کوئی رَبَّۃٌ کہہ دے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس وقت سے ربوبیت کرنے والی جبکہ میں پیدا ہوچکا تھا اور اس وقت تک اس کی ربوبیت رہی جب تک میں چلنے پھرنے لگا.پس چونکہ ربوبیتیں مختلف ہوتی ہیں اس لئے یہاں الَّذِيْ خَلَقَ کا اضافہ کیا گیا.باپ کی ربوبیت اغذیہ کے وقت سے ہوتی ہے، باپ گوشت اور سبزی ترکاری استعمال کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس کا جسم ایک چیز تیار کرتا ہے جسے نطفہ کہتے ہیں.پس باپ کی ربوبیت غذا کے زمانہ سے شروع ہوتی ہے.اس کے بعد ماں کی ربوبیت نطفہ کے وقت سے شروع ہوتی ہے اور وہ بچے کو اپنے پیٹ میں پالنا شروع کردیتی ہے.جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ اسے دودھ پلاتی ہے اور اگر کسی بیماری کی وجہ سے وہ دودھ نہیں پلاسکتی یا اس کا دودھ نہیں ہوتا تو دایہ کی ربوبیت شروع ہوجاتی ہے.پھر ہوش سنبھالنے کے بعد استاد کی ربوبیت کا وقت آجاتا ہے اور جب کچھ اور بڑا ہوتا ہے تو کوئی بڑا عالم اس کی تربیت شروع کردیتا ہے.اس کے بعد جوان ہونے پر پیر کی ربوبیت کا وقت آجاتا ہے.پھر بادشاہ انسان کی ربوبیت کرتا ہے.غرض ربوبیت کی مختلف سٹیجز ہیں.کوئی چھوٹی سٹیج ہے اور کوئی بڑی مگر بہرحال ان میں سے کسی ایک سٹیج کے لئے بھی ربّ کا لفظ بول لیا جاتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں الَّذِيْ خَلَقَ کا اضافہ کیا اور فرمایا کہ ہماری مراد اس سے وہ ربّ نہیں جن کی ربوبیت غذا کے وقت سے شروع ہوتی ہے وہ ربّ بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت نطفہ کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ ربّ بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت پیدائش کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ ربّ بھی

Page 377

مراد نہیں جن کی ربوبیت بولنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے، وہ ربّ بھی مراد نہیں جن کی ربوبیت بالغ اور جوان ہونے کے وقت سے شروع ہوتی ہے بلکہ وہ ربّ مراد ہے جس کی ربوبیت خَلَقَ کے وقت سے شروع ہوتی ہے یعنی جب سے کہ مخلوق کا وجود ظاہر ہوا.بے شک مختلف لوگوں کے لئے مختلف نسبتوں کی بناء پر ربّ کا لفظ استعمال کرلیا جاتا ہے مگر ہم تجھے کہتے ہیں تو اس ربّ کے نام سے شروع کر جس کی ربوبیت خَلَقَ کے وقت سے شروع ہوتی ہے کہ جہاں سے وہ تیرا ساتھ دے رہا ہے.کوئی تیرا عزیز اور ساتھی وہاں سے تیرا ساتھ نہیں دے رہا.اس کی ربوبیت کے مقابلہ میں باقی تمام ربوبیتیں باطل اور ہیچ ہیں اور کسی کو اس کی ربوبیت میں شریک ہونے کا دعویٰ نہیں ہوسکتا (ہاں مسلمان مولویوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کردیا ہے کہ وہ پرندے پیدا کیا کرتے تھے(معارف القرآن سورۃ اٰلِ عـمران زیر آیت رَسُوْلًا اِلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ) اور اس طرح انہوں نے اپنی کج فہمی سے اللہ تعالیٰ کی صفات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو شریک بنادیا ہے).اس آیت میں ایک اور عجیب بات بھی نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے صرف ربّ کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ رَبِّكَ کا لفظ استعمال کیا تھا مگر آگے خَلَقَکَ کہنے کی بجائے صرف خَلَقَ کہہ دیا ہے.اس میں حکمت یہ ہے کہ رَبِّكَ میں ک ضمیر کے بڑھانے سے چونکہ شرک کی تردید اور اس عقیدہ کی تائید ہوتی تھی جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے.اس لئے وہاں تو ک ضمیر کو بڑھادیا لیکن اگر یہاں بھی خَلَقَ کی بجائے خَلَقَکَ کہہ دیا جاتا تو ایک وسیع مضمون محدود ہوکر رہ جاتا.الَّذِيْ خَلَقَكَ کے معنے صرف اتنے ہوتے کہ وہ خدا جس نے تجھ کو پیدا کیا مگر الَّذِيْ خَلَقَ کے یہ معنے بن گئے کہ وہ خدا جس نے تجھ کو بھی پیدا کیا اور باقی تمام مخلوق کو بھی پیدا کیا ہے.گویا الَّذِيْ خَلَقَ کے معنے یہ ہیں کہ الَّذِيْ خَلَقَكَ وَخَلَقَ اٰبَآءَکَ وَجَدَّکَ وَاٰبَآءَ جَدِّکَ اس طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے حضرت آدم علیہ السلام تک پہنچ جاتا ہے اور ان سے اوپر عناصر اور پھر اجزائے عناصر تک چلا جاتا ہے.پس الَّذِيْ خَلَقَ کو بغیر کسی قید کے مطلق بیان کرکے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کی غیرمحدود وسعت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تو اس خدا کو پیش کر جس نے خالق اور مخلوق کا رشتہ آپس میں جوڑ ا اور جس کی صفت خلق کا آغاز تجھ سے نہیں ہوا بلکہ ہمیشہ سے دنیا اس کی صفت خلق کا نظارہ دیکھتی چلی آئی ہے.دیکھو یہ قرآن کریم کا کتنا کمال ہے کہ ایک ہی آیت میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کو مقید کرکے اس کے معنوں میں وسعت پیدا کردی ہے اور دوسری صفت کو مطلق رکھ کر اس کے معنوں میں وسعت پید اکردی ہے.ایسی بالغ نظری انسانی کلام میں کہاں ہوتی ہے.

Page 378

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں علاوہ اور مضامین کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاملہ کی طرف بھی اشارہ پایاجاتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ تو اس رب کے نام کے ساتھ اس تعلیم کا دنیا میں اعلان کر جس نے مخلوق کو پیدا کیا ہے تو دوسرے الفاظ میں اس کا مفہوم یہ نکلا کہ پیدائش عالم کے زمانہ سے اللہ تعالیٰ نے تیرے اس کام کی بنیاد رکھی تھی اس لئے وہ خدا جس نے اس مقصد عظیم کے لئے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اس کی مدد اور تائید و نصرت کے ساتھ تو دنیا میں اپنی نبوت کا اعلان کر.کیونکہ پیدائش عالم کی غرض صرف تیرے وجود کو دنیا میں ظاہر کرنا تھا.پس جس طرح بِاسْمِ رَبِّكَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اظہار کیا گیا تھا اسی طرح الَّذِيْ خَلَقَ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کاملہ کا اعلان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جس دن سے مخلوق پیدا ہوئی ہے اس دن سے صرف تو ہمارا مقصو دتھا اور جب سے ہم نے پہلا انسان دنیا میں پیدا کیا ہے اسی دن سے وہ کلام ہمارے مدنظر تھا جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اب جبکہ تو جو دنیا کا حقیقی مقصود ہے پید اہوچکا ہے ہم تجھے کہتے ہیں کہ تو دنیا کے پاس جا اور اسے کہہ کہ مجھ پر جو کلام نازل ہوا ہے وہ اتنی بڑی عظمت اور شان رکھتا ہے کہ جب سے اس دنیا کا پہلا ذرّہ بنا ہے اسی وقت سے یہ کلام اللہ تعالیٰ کے مدنظر تھا.اگر آج کا پیغام ہوتا تب بھی تم اسے ٹھکرا کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ نہیں سکتے تھے لیکن یہ تو وہ پیغام ہے جس کے لئے اس نے دنیا کی بنیاد رکھی اور یہی وہ پیغام ہے جو پیدائش عالم کا موجب ہوا.اتنے بڑے پیغام کو ٹھکر اکر تم خدا تعالیٰ کے عذاب سے کہاں بچ سکتے ہو.پس فرمایا تو اس کلام کو میرا نام لے کر پیش کر یعنی بحیثیت رسول ہونے کے اسے دنیا کے سامنے رکھ.ایک عام آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ سرکاری حیثیت سے تو ہماری طرف سے جا اور لوگوں سے کہہ کہ جس خدا نے شروع سے لے کر اب تک تمام مخلوق پیدا کی ہے اس نے مجھے بھیجا ہے یعنی پیدائش عالم کی جو غرض تھی وہ آج میرے ذریعہ سے پوری ہوئی ہے.اس لئے اگر تم مجھ پر ایمان نہیں لاتے تو دنیا کی پیدائش کو لغو قرار دیتے ہو.اسی امر کی طرف اس حدیث قدسی میں اشارہ ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الْاَفْلَاکَ (الموضوعات الکبرٰی لملا علی قاری حدیث نمبر ۷۵۴) اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر تو نہ ہوتا تو میں زمین اور آسمان کو بھی پیدا نہ کرتا.الَّذِيْ خَلَقَ میں بھی یہی مضمون بیان کیا گیاہے کہ تو اس خدا کا نام لے کر دنیا میں اپنی نبوت کا اعلان کر جس نے پیدائش عالم کے زمانہ سے تیرے اس کام کی بنیاد رکھی تھی.گویا وہ مضمون جو حدیث قدسی میں آتا ہے درحقیت نہایت لطیف پیرایہ میں قرآن کریم میں بھی بیان کیا جاچکا ہے اور وہ حدیث اس آیت کی تشریح ہے.دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ تو اس خدا کا نام لے کرپڑھ جس نے

Page 379

مخلوق کو پیدا کیا ہے یعنی اس کی اس صفت کو جو پیدائش عالم کا موجب ہے اپنی مدد کے لئے بلا اور اس سے کہہ کہ یَا رَبِّ الَّذِیْ خَلَقْتَ الْـخَلْقَ.اے میرے رب اگر تو نے مخلوق کو اس کمال کے لئے پیدا کیا ہے جس کے ظہور کا مجھ سے واسطہ ہے تو پھر اس مقصد کو پورا کر جس کے لئے تو نے مجھے دنیا میں کھڑا کیا ہے.گویا علاوہ پبلک میںاپنی رسالت کاملہ کا اعلان کرنے کے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ جب تو ہم سے اپنی ترقی کے لئے دعا مانگنے لگے توہمیشہ اس طرح مانگ کہ اے خدا جس نے تمام مخلوق کو اس دن کے لئے پید اکیا تھا میں تجھے تیری اس صفت خلق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جب اس دن کے لئے تونے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اور اس قدر دیر سے تیرا یہ ارادہ تھا جو اب پورا ہونے لگا ہے تو اب اس وقت میری خاص مدد فرما اور میرے اعلانِ نبوت میں برکت ڈال.غرض اِدھر پبلک میں یہ اعلان کر کہ جس مقصد کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے وہ معمولی نہیں بلکہ جس دن سے دنیا پیدا ہوئی ہے اسی دن سے یہ مقصد اللہ تعالیٰ کے مدنظر تھا.اُدھر خدا سے یہ دعا مانگ کہ جس مقصد کے لئے تو نے مجھے کھڑا کیا ہے اس میں مجھے کامیابی عطا فرما کیونکہ اگر مجھے اپنے مقصد میں ناکامی ہوئی تو سلسلۂ مخلوق کا مقصد حقیقی باطل ہوجائے گا.اس لئے میں تجھے اسی صفت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں جو مخلوق کی پیدائش کا باعث ہوئی کہ تو مجھے کامیاب کر.مجھے ناکامی سے بچا.کیونکہ میری ناکامی میں تمام مخلوق کی ناکامی ہے.اس طرح ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اس پیغام کی عظمت کو ظاہر کردیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ نازل ہوا تھا اور دوسری طرف دعا کی قبولیت کا ایک لطیف طریق اس نے آپ کو سکھادیا.پیدائش انسانی کا مقصود کون سا ہے میں اوپر مضمون میں یہ بیان کرچکا ہوں کہ الَّذِيْ خَلَقَ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کو ایک مقصد عظیم کے لئے پیدا کیا گیا تھا مگر وہ مقصد اب تک پورا نہیں ہوا تھا اب اس مقصد کو تیرے ذریعہ سے پورا کیا جارہا ہے.اس کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص جو کسی مذہب کا قائل ہے وہ تسلیم کرتا ہے کہ پیدائش انسانی کسی خاص مقصد کے لئے ہوئی تھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبث پیدا نہیں کیا.بہرحال کوئی نہ کوئی مقصد تھا جس کے ماتحت انسانی پیدائش عمل میں آئی.پس جہاں تک مقصد کا سوال ہے مذہبیات سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ اس سے متفق ہیں.لیکن یہ کہ وہ مقصد کس رنگ میں پورا ہوا اس کے متعلق دنیا میں اختلاف پایا جاتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مقصد ابتدائے عالم میں ہی پورا ہوگیا تھا.وہ کہتے ہیں ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے جو وحی نازل کی وہ تمام ضروریات کے لئے کافی تھی.یہ عقیدہ آریہ ہندوئوں کا ہے.یہ لوگ ویدوں کو اپنی الہامی کتاب کہتے ہیں.ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ کامل تعلیم ابتدائے زمانہ میں ہی نازل ہوجانی

Page 380

چاہیے(ستیارتھ پرکاش از چموپتی ایم.اے صفحہ ۲۰۱ تا ۲۰۴).اس کے مقابل میں بعض اور لوگ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ بے شک انسان کو اس کا مقصد حاصل ہوا مگر وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ مقصد انبیاء کے ذریعہ بتدریج انسان کو حاصل ہوا ہے.جیسے یہودی کہ وہ کہتے ہیں پہلے آدمؑ آئے پھر نوحؑ آئے پھر ابراہیمؑ آئے پھر اسحاقؑ آئے پھر اسماعیلؑ آئے پھر یعقوب آئے پھر یوسفؑ آئے پھر موسٰی آئے پھر اور انبیاء آئے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وحی الٰہی کا یہ سلسلہ ملاکی نبی تک پہنچا اور اس کے بعد وحی الٰہی کا یہ سلسلہ بند ہوگیا.یہود کے اس عقیدہ پر اگر غور کیا جائے تو کسی چیز کا جو انتہائی نقطہ ہوتا ہے وہ نہ موسٰی میں نظر آتا ہے اور نہ ملاکی نبی میں.کیونکہ موسٰی خود اپنے کسی مقام کو آخری مقام قرار نہیں دیتے جیسا کہ آگے بتایا جائے گا اور ملاکی کو تو یہود بھی موسٰی سے بڑا قرار نہیں دیتے.پھر سوال یہ ہے کہ پیدائش انسانی کا جو آخری نقطہ تھا وہ کہاں گیا.کیا اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ اس مقصد کو بھول گیا جس کے ماتحت اس نے بنی نوع انسان کو پید اکیاتھا.پیدائش انسانی کا مقصود حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں عیسائی کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدائش انسانی کا آخری نقطہ ہیں لیکن یہ بات بھی دو طرح بالبداہت باطل ہے.اوّل تو اس طرح کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق عیسائیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ انسان کے بیٹے نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے.(یوحنا باب ۱ آیت ۴۹) جب وہ آدم کے بیٹے ہی نہیں تھے تو پیدائش انسانی کا آخری نقطہ کس طرح ہوگئے؟ یہاں سوال تو آدم کے بیٹوں کے متعلق ہے کہ ان میں سے کون پیدائش انسانی کا اصل مقصود ہے.اللہ تعالیٰ کے بیٹے کا تو یہاں کوئی سوال ہی نہیں.پس جبکہ یہاں نسل آدمؑ کی پیدائش کا سوال ہے تو ہمیں بہرحال آدمؑ کی نسل میں سے ہی کسی ایسے شخص کا پتہ لگانا پڑے گا جو پیدائش انسانی کا مقصود ہو.دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی چیز کا انتہائی نقطہ اس کے آخری سرے کا نام ہوتا ہے مثلاً ایک لکیر کھینچی گئی ہو تو اس لکیر کا جو آخری سرا ہوگا وہ اس کا آخری نقطہ قرار دیا جائے گا.لیکن جب ہم مسیحؑ کے متعلق غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ آخری نقطہ کسی صورت میں بھی قرار نہیں دیئے جاسکتے کیونکہ وہ اس خط کا آخری سرا ثابت نہیں ہوتے جو آدمؑ سے شروع ہوا تھا.آدمؑ نے شریعت کی بنیاد رکھی تھی.نوحؑ نے اس میں اضافہ کیا.ابراہیمؑ آئے تو انہوں نے اور زیادتی کی، موسٰی آئے تو انہوں نے اور زیادہ شریعت کو مکمل طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا.غرض شریعت کا ایک دور ہے جو آدمؑ سے شروع ہوا اور اس میں زمانہ کے ارتقاء کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا.پس پیدائش انسانی کا آخری نقطہ وہی ہوسکتا ہے جو پہلی شریعت پر زیادتی کرے.وہ کس طرح ہوسکتا ہے جو شریعت کو لعنت قرار دے کر اس سے دور

Page 381

بھاگ جائے.مثلاً لکڑی کا آخری سرا لکڑی کا ہی ہوگا اگر کوئی کہے کہ لکڑی کا آخری سرا پانی یا ہوا ہے تو یہ بالکل بےجوڑ بات ہوگی.بہرحال آخری سرا اپنے پہلے سرے سے وابستہ ہوتا ہے.سونے کا آخری سرا سونے کا ہوگا.چاندی کا آخری سرا چاندی کا ہوگا.لوہے کا آخری سرا لوہے کا ہوگا.اگر کوئی کہے کہ سونے یا چاندی یا لوہے کا آخری سرا لکڑی کا ہے تو سب لوگ ہنسنے لگ جائیں گے کہ کیسی بیوقوفی کی بات کررہا ہے.اسی طرح جب آدمؑ سے شریعت کا ایک تسلسل چل رہا تھا آدمؑ سے بہتر شریعت نوحؑنے پیش کی، نوحؑسے بہتر شریعت موسٰی نے پیش کی تو بہرحال آخری نقطہ وہ ہوگا جو موسٰی سے بھی بہتر شریعت پیش کرے.وہ نہیں ہوسکتا جو شریعت کو لعنت قرار دے.پس عیسائیوں کا یہ دعویٰ بھی بالکل باطل ہے کہ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ حضرت مسیحؑ ہیں.ابتدائے عالم میں کامل شریعت نازل نہیں ہوسکتی تھی ہندو جن کا یہ دعویٰ ہے کہ ابتدائے عالم میں ہی کامل شریعت نازل ہوگئی تھی(نسخہ خبط احمدیہ مصنفہ پنڈت لیکھرام صفحہ ۳۴۵) ان کے اس دعویٰ کو قرآن کریم نے عقلی دلائل سے اسی سورۃ میں ردّ کردیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اپنی پیدائش کی طرف تم دیکھو کہ وہ کس طرح ہوئی ہے.کیا پہلے دن ہی تم عاقل بالغ اور سمجھدار بن جاتے ہو یا آہستہ آہستہ اور بتدریج ترقی کرتے کرتے اپنے انتہائی مقام تک پہنچتے ہو؟ اگر فردکی پیدائش میں ترتیب اور تدریج کو مدنظر رکھا جاتا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پہلے دن ہی ایک کامل انسان پیدا ہوجائے تو روحانی امور میں تم تدریج کا کیوں انکار کرتے ہو؟ جس طرح جسمانیات میں تدریج کا سلسلہ جاری ہے اسی طرح روحانیات میں بھی ارتقاء کئی تدریجی منازل کو طے کرنے کے بعد ہوتاہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ ارتقائی منازل کو طے کئے بغیر پہلے دن ہی کوئی چیز کامل بن جائے.ارتقاء کا یہ قانون نہ صرف پیدائش انسانی میں نظر آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہر پیدا کردہ چیز میں ہے.یہاں تک کہ مادیات میں بھی ارتقاء کا قانون جاری ہے.سورج اور چاند بھی ایک دن میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ جیسا کہ علم ہیئت نے ثابت کیا ہے پہلے یہ دخانی ذرات کی شکل میں تھے پھر ان میں دوری حرکت پیدا ہوئی پھر یہ ذرات ایک دوسرے سے ملنے شروع ہوئے پھر انہوں نے ایک ٹھوس وجود کی شکل اختیار کی.اس کے بعد پھر ایک لمبا دور ان پر گزرا یہاں تک کہ لاکھوںسال کے بعد انہوں نے سورج یاچاند کی شکل اختیار کی.یہی حال لوہے اور چاندی کا ہے کہ وہ بھی ایک لمبے ارتقاء کے بعد ظاہر ہوئے.کوئلہ کتنی معمولی چیز ہے مگر یہ بھی ایک دن میں نہیں بنا بلکہ ہزاروں سال کے بعد بنا ہے.اسی طرح ہیرا لاکھوں سال کے تغیرات کے بعد پید اہوتا ہے.ہیرے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کوئلہ میں سے پیدا ہوتا ہے گویا پہلے درختوں سے جو مدتوں تک زمین میں دبے رہتے ہیں کوئلہ تیار ہوتا ہے اور پھر کوئلہ سے ہیرا بنتا ہے.

Page 382

غرض کوئی چیز لے لو ارتقائی تغیرات میں سے گزرے بغیر وہ عالم وجودمیں نہیں آئی.جب اللہ تعالیٰ کا جسمانیات میں تمہیںیہ قانون نظر آتا ہے تو تم الہام کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ پیدائش عالم کے ساتھ ہی کامل الہام نازل ہوگیا جس طرح اللہ تعالیٰ کی ظاہری پیدائش میں ارتقاء کا قانون جاری ہے اسی طرح وحی اور الہام بھی اس قانون سے وابستہ ہے.یہ نہیں ہوسکتا کہ اور چیزوں میں تو ارتقاء ہو اور الہام میں ارتقاء نہ ہو.پس خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ نے ہندوئوں کے اس خیال کو ردّ کردیا کہ شریعت پہلے دن ہی مکمل طور پر نازل ہوگئی تھی فرماتا ہے تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے انسان نے بہرحال ترقی کرتے کرتے کامل شریعت کے مقام تک پہنچنا تھا یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ پہلے دن ہی اسے کامل شریعت عطا کردی جاتی.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب عیسائیوں کی تھیوری بھی باطل ہے، یہودیوں کا خیال بھی غلط ہے اور ہندوئوں کا نظریہ بھی ناقابل قبول ہے تو پیدائش انسانی کا مقصد کس رنگ میں پورا ہوا؟ تم کہتے ہو کہ یہودیوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ ملاکی نبی پر وحی الٰہی کے سلسلہ کو بند قرار دے رہے ہیں جو ایک معمولی حیثیت کے نبی تھے.حالانکہ آخری نقطہ وہ ہونا چاہیےتھا جو موسٰی سے بڑھ کر ہوتا.عیسائیوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ شریعت سے بھاگ رہے ہیں اور ہندوئوں کا خیال اس لئے صحیح نہیں کہ وہ ابتدائے عالم میں ہی کامل شریعت کا نزول تسلیم کرتے ہیں.حالانکہ یہ ابتدائی نہیں بلکہ آخری نقطہ ہونا چاہیے.جب یہ تمام خیالات باطل ہیں توپھر تم خود ہی بتائو کہ پیدائش انسانی کا مقصد کس نبی کے ذریعہ پورا ہوا؟ اس سوال کا جواب دینے سے پیشتر یہ بتادینا ضروری ہے کہ گو آج تک اللہ تعالیٰ کے ہزاروں انبیاء دنیامیں آچکے ہیں مگر بہت سے نبی ایسے گزرے ہیں جن کے ناموں کا بھی ہمیںعلم نہیں کجا یہ کہ ہم کہہ سکیںکہ ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا کیا کلام نازل ہوا تھا.مثلاً ہندو گو ابتدائے عالم میں ویدوں کا نزول تسلیم کرتے ہیں مگر یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ وید کن رشیوں پر نازل ہوئے تھے.جب اتنی معمولی بات کا بھی انہیں علم نہیں تو ان کے متعلق یہ بحث کس طرح کی جاسکتی ہے کہ وہ پیدائش انسانی کا مقصود تھے یا نہیں.زرتشت پیدائش انسانی کا مقصد نہیں زرتشتی بےشک حضرت زرتشتؑکو اللہ تعالیٰ کا نبی مانتے ہیں مگر ان کی کتاب میں صاف طور پر آئندہ آنے والے ایک نبی کی پیشگوئی پائی جاتی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت زرتشتؑ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ نہیں تھے ورنہ وہ اپنے بعد کسی اور صاحب شریعت نبی کی خبرنہ دیتے.(سفرنک دساتیر صفحہ ۱۹۰) ہندوئوں اور زرتشتیوں کے انبیاء کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ ان میں سے حضرت زرتشتؑ نے خود اپنے آپ کو آخری نقطہ

Page 383

قرار نہیں دیااور ویدوں کے متعلق ہندوئوں میں اختلاف ہے کہ وہ کن رشیوں پر نازل ہوئے تھے.ہم انبیاء بنی اسرائیل کے متعلق غور کرتے ہیں کہ آیا پیدائش انسانی کا وہ مقصو دتھے یا نہیں.انبیاء بنی اسرائیل میں سے وہ نبی جن کی تعلیم سب سے زیادہ واضح ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں.کسی قدر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم بھی موجود ہے جو بائبل نے پیش کی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدائش انسانی کا آخری نقطہ نہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا حضرت ابراہیم علیہ السلام مخلوق کے نقطۂ مرکزی تھے.ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.’’تیری نسل اپنے دشمنوں کے دروازہ پر قابض ہوگی اور تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پاویں گی‘‘.(پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۷،۱۸) یعنی تیرے ذریعہ سے نہیں بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی.تو محدود زمانہ کے لئے اور محدود لوگوں کی ہدایت کے لئے نبی بنایا گیا ہے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ زمین کی ساری قومیںبرکت پائیں.ہمارا یہ مدعا تیرے ذریعہ سے پورا نہیں ہوگا بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے پورا ہوگا.اس سوال کو جانے دو کہ وہ کون سی نسل ہے جس کے ذریعہ یہ وعدہ پورا ہوا.بہرحال ان الفاظ سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پیدائش عالم کا آخری نقطہ نہیں تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان سے صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ تو نہیں بلکہ تیری نسل کے ذریعہ سے میں ایسا سامان کروں گا کہ زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی.اس سے پتہ لگتا ہے کہ آخری نقطہ نے عالمگیر مذہب کا بانی ہونا تھا کیونکہ اس کے متعلق مقدر یہ تھا کہ زمین کی ساری قومیں اس سے برکت حاصل کریں اور زمین کی ساری قومیں اسی سے برکت حاصل کرسکتی تھیں جو عالمگیر مذہب کا بانی ہوتا.پس ابراہیمؑ پیدائش انسانی کے ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں تھے.ان کی اپنی پیشگوئی یہ ہے کہ میری نسل میں سے ایک ایسا شخص پیدا ہوگا جس کے ذریعہ دنیا کی ساری قوموں کو دعوت دی جائے گی، دنیا کی ساری قوموں کو برکت دی جائے گی اور دنیا کی ساری قوموں کو ہدایت اور قرب کی راہیں بتائی جائیں گی.بالفاظ دیگر یہ پیشگوئی ایک عالمگیر مذہب کے بارہ میں تھی اور وہ شخص جس سے دنیا کی ساری قوموں نے برکت حاصل کرنی تھی وہی انبیاء کا منتہائے نظر تھا مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک یہ مقصد حاصل نہیں ہوا تھا.اگرکہا جائے کہ یہ پیشگوئی موسٰی کے ذریعہ پوری ہوچکی ہے تو یہ بالکل غلط ہے کیونکہ یہودی مذہب مختص القوم تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے صرف یہود کی اصلاح کے لئے بھیجا تھا.حالانکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو

Page 384

جو کچھ کہا گیا وہ یہ تھا کہ تیری نسل سے ساری قومیں برکت پائیں گی.موسیٰ سے صرف بنی اسرائیل نے برکت حاصل کی تھی لیکن ابراہیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ یہ تھا کہ میں تیری نسل کو بڑھائوں گا اور بڑھاتا چلا جائوں گا یہاں تک کہ ارتقاء کی منازل طے کرتے کرتے ایک دن آئے گا کہ ساری دنیا کو دعوت حقہ دی جائے گی اور ساری دنیا کو خدائی آواز پہنچائی جائے گی.پس موسوی مذہب نے چونکہ ساری دنیا کو دعوت نہیں دی بلکہ موسیٰ کا پیغام مخصوص تھا بنی اسرائیل سے.اس لئے یہودی مذہب کو اس پیشگوئی کا مصداق قرار نہیں دیا جاسکتا.دوم حضرت موسٰی خود ایک اور نبی کی خبر دیتے ہیں جو ان کے بعد آنے والا تھا.چنانچہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے الہام کے ذریعہ یہ خبر دی ہے کہ ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے فرمائوں گاوہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میںنے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘.(استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰) اس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ پیشگوئی فرمارہے ہیں کہ میرے بعد ایک اور نبی آنے والا ہے جو اپنے ساتھ نئی شریعت لائے گا.کیونکہ الفاظ یہ ہیں ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا‘‘.’’تجھ سا نبی‘‘ کے معنے یہی ہیں کہ جس طرح تو صاحبِ شریعت ہے اسی طرح وہ صاحب شریعت ہوگا.اگر صرف اتنے الفاظ ہوتے کہ میں ان کے بھائیوںمیں سے ایک نبی برپا کروں گا تو اس کے معنے یہ ہوسکتے تھے کہ جس طرح بنی اسرائیل میں اور کئی غیر شرعی انبیاء آئے اسی طرح ایک غیرشرعی نبی کی آپ نے اس جگہ خاص طورپر خبردی ہے مگر ’’تجھ سا‘‘ کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہاں وہ دوسرے نبی مراد نہیں ہوسکتے جو بنی اسرائیل میں آئے کیونکہ وہ موسیٰ جیسے نہیں تھے.موسیٰ صاحبِ شریعت نبی تھے اور وہ صاحبِ شریعت نبی نہیں تھے.پس حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جو پیشگوئی فرمائی ہے اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ وہ نبی موسیٰ کی طرح صاحبِ شریعت ہوگا اور اللہ تعالیٰ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا.گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ایک اور صاحبِ شریعت نبی ابھی دنیا میں آنے والا تھا.پس موسیٰ ارتقائِ روحانی کا آخری نقطہ نہیں ہوسکتے.پھر کہتے ہیں.’’خداوند سینا سے آیا اورشعیر سے ان پر طلوع ہوا فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.

Page 385

دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کےلئے تھی‘‘.(استثناء باب ۳۳ آیت ۲) پیدائش انسانی کے آخری نقطہ کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام تین جلوہ گریوں کا ذکر فرماتے ہیں.’’خداوند سینا سے آیا‘‘ اس سے مراد موسوی ظہور ہے.’’شعیر سے ان پر طلوع ہوا‘‘ اس سے مراد عیسوی ظہور ہے.ان دونوں ظہور وں کے بعد ایک تیسرے ظہور کی بھی اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے وہ ظہور فاران سے ظاہر ہوگا اور آتشی شریعت اس کے ساتھ ہی ہوگی.اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضرت موسٰی اور عیسیٰ ؑ دورِ نبوت کے آخری نقطے نہ تھے بلکہ سینا اور شعیر کے ظہوروں کے بعد ایک اور ظہور ہونے والا تھا جو اپنے ساتھ شریعت بھی رکھے گا.فاران سے جلوہ گر ہونے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کیونکہ فاران ان پہاڑیوں کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان ہیں.بائبل سے بھی اس کا ثبوت اس رنگ میں ملتا ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے بائبل میں لکھا ہے ’’وہ فاران کے بیابان میں رہا‘‘ (پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱) اور اہل مکہ بھی وہ قوم ہیں جو اپنے آپ کو نسل ابراہیم سے قرار دیتے ہیں.پس فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہونے و الا وجود محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے ذریعہ ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی.پھراس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا.یہ پیشگوئی بھی ایسی ہے جو سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر چسپاں نہیں ہوتی.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو تو صرف بار۱۲ہ حواری ملے تھے جن میں سے ایک نے تیس روپوں کے بدلے آپ کو دشمن کے حوالے کر دیا (متی باب ۲۶ آیت ۱۵) اور باقی صلیب کے وقت ادھر اُدھر بھاگ گئے.دنیا میں صرف ایک ہی انسان ہے جس کے متعلق تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فتح مکہ کے لئے آئے تو اس وقت آپ کے لشکر کی تعداد دس ہزار ہی تھی (صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الفتح فی رمضان) اور آپؐانہی پہاڑیوں سے چڑھ کر آئے تھے جو فاران کی پہاڑیاں ہیں اور جن کے متعلق بائبل میں پیشگوئی پائی جاتی تھی.بہرحال اس سے اتنا پتہ لگا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو آخری نقطہ قرار نہیں دیا.پھر اس پیشگوئی میں صاف لکھا ہے کہ ایک آتشی شریعت اس کے ہاتھ میں ہوگی جس کے معنے یہ ہیں کہ ابھی ایک اور شریعت آنے والی ہے اور جب آخری شریعت ابھی باقی تھی تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ بعد کی شریعت پہلی شریعت سے بہتر ہوگی.پس

Page 386

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے آپ کو ارتقائے روحانی کا آخری نقطہ قرار نہیں دیا.پیدائش انسانی کے آخری نقطہ کے متعلق حضرت داؤد علیہ السلام کی پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جو انبیاء آئے ان میں ایک اہم نبی حضرت دائود علیہ السلام ہیں جن کو بہت بڑی عظمت دی جاتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ آیا انہوں نے اس مقصد کو پورا کیا.اس کا جواب بھی ہمیں نفی میں ملتا ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں.’’اس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۶) اردو بائبل میں تو ’’سراپا عشق انگیز‘‘ کے الفاظ آتے ہیں مگر عبرانی بائبل میں یہاں لفظ ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی محمدؐ.کئی مترجموں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر پردہ ڈالنے کے لئے اس کا ترجمہ ’’عشق انگیز‘‘ کردیا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص کہے محمدؐ نے یوں کہا تو اس کا ذکر ان الفاظ میں کردیا جائے کہ ایک صاحب تعریف آدمی نے یوں کہا ہے.ظاہر ہے کہ یہ نام پر پردہ ڈالنے اور دوسرے کو دھوکا دینے والی بات ہوگی.اسی طرح عیسائیوں نے بھی بائبل کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے ’’محمدیم‘‘کا ترجمہ ’’عشق انگیز‘‘ کردیا حالانکہ عبرانی بائبلیں دنیا میں اب تک موجود ہیں اور ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ وہاں ’’محمدیم‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی وہ محمدؐ ہے.(اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد کے بعد یم کے حروف بھی ہیں جو جمع کے لئے آئے ہیں مگر ساری عبارت سے ظاہر ہے کہ یہاں ایک شخص کا ذکر ہے.پس جمع کا صیغہ ادب اور احترام کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ کسی جماعت کی خبر دی جارہی ہے).پھر اس کی علامت حضرت دائودؑ نے یہ بھی بتائی ہے کہ ’’دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰).یہ وہی علامت ہے جس کا موسٰی کی پیشگوئی میں ذکر آتا ہے اور جو فتح مکہ کے وقت پوری ہوئی.غرض حضرت دائود علیہ السلام کے زمانہ تک ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ تمام انبیاء یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ ایک اور نبی ابھی آنے والا ہے جو کامل شریعت اپنے ساتھ لائے گا اور جو تمام نبیوں کا محبوب اور پیارا ہوگا.یسعیاہ نبی کے کلام میں آخری نقطہ انسانی کی پیشگوئی حضرت دائود علیہ السلام کے بعد جو انبیاء آئے ان میں سے ایک بڑے نبی حضرت یسعیاہ ہیں.بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ یسعیاہ نبی کو بہت بڑی اہمیت حاصل تھی.اب سوال یہ ہے کہ کیا یسعیاہ نبی پیدائش انسانی کا آخری نقطہ تھے؟ اور کیا ان کے آنے سے وہ مقصد پورا ہوگیا جو اللہ تعالیٰ کے پیش نظر تھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں.کیونکہ وہ خود فرماتے ہیںـ.

Page 387

’’ اور ایک نام جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہترہے بخشوں گا.میں ہر ایک کو ابدی نام دوں گاجو مٹایا نہ جائے گا اور بیگانے کی اولاد جنہوں نے اپنے تئیں خداوند سے پیوستہ کیا ہے کہ اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں اور اس کے بندے ہوویں.وہ سب جو سبت کو حفظ کرکے اسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد کو لئے رہیں میں ان کو بھی اس مقدس پہاڑ پر لائوں گا اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کروں گا‘‘.(یسعیاہ باب ۵۶ آیت ۵ تا ۷) یسعیاہ نبی یہ پیشگوئی کرتے ہیں کہ آئندہ زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے الٰہی قوم کو ایک نیا نام دیا جائے گا اور وہ اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اسے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے بھی زیادہ پسند کریں گے.یہ توپسند کرلیں گے کہ ان کا بیٹا مرجائے یا ان کی بیٹی مر جائے مگر وہ اس نام کو چھوڑنا پسند نہیں کریں گے.یہ اسلام کا نام ہے جو مسلمانوں کو عطا کیا گیا اور جس کے متعلق یسعیاہ نبی یہ خبر دے رہے ہیں کہ وہ نام اتنا پیارا ہوگا کہ لوگ اپنے بیٹوں اور اپنی بیٹیوں کو چھوڑنا اور ان کا اپنی آنکھوں کے سامنے مارا جانا گوارا کرلیں گے مگر یہ برداشت نہیں کریں گے کہ اسلام چھوٹ جائے اور یہ پیارا نام ان کے ساتھ نہ رہے.پھر یہ کہ وہ مذہب ایسا ہوگا جس میں غیر قومیں بھی شامل ہوں گی اور ’’اپنے تئیںخداوند سے پیوستہ‘‘ کریں گی.یہ وہی بات ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بتائی گئی تھی کہ زمین کی ساری قومیں تیری نسل سے برکت پائیں گی.یسعیاہ نبی بھی یہی کہتے ہیں کہ غیرقومیں اس مذہب میں داخل ہوں گی اور خدا تعالیٰ سے محبت کا تعلق پیدا کرکے اس کا قرب حاصل کریں گی.پھر فرمایا کہ وہ لوگ سبت کی بے حرمتی نہ کریں گے.اسی طرح فرمایا ’’میں ان کو بھی اس مقدس پہاڑ پر لائوں گا اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کروں گا‘‘.یعنی وہ لوگ اس ملک پر آکر قابض ہوجائیں گے.یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی پر اگر غور کیا جائے تو اس میں پانچ باتیں نظر آتی ہیں.اوّل.ان کو ایک نیا نام ملے گا.دوم.وہ نام ابدی ہوگا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا.سوم.غیر اقوام کے لوگ بھی ان کے مذہب میں شامل ہوں گے.چہارم.وہ سبت کی حفاظت کریں گے.پنجم.ان کو بھی بنی اسرائیل کے علاقہ میں لاکر قابض کردیا جائے گا.

Page 388

یہ پانچ چیزیں جس مذہب میں پائی جائیں گی وہی اس پیشگوئی کا مصداق قرار دیا جاسکے گا.یسعیاہ کے بعد بنی اسرائیل میں سب سے بڑے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں مگر سوائے فلسطین پر قابض ہونے کے اور کوئی بات بھی ان کے ذریعہ پوری نہیں ہوئی.مثلاً یسعیاہ نبی کو یہ بتایا گیا تھا کہ میں ان کو ایک نیا نام بخشوں گا جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہوگا.یہ نام صرف مسلمانوں کو ملا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا (الحج:۷۹) کہ پرانے زمانہ سے تمہارا نام مسلم رکھا گیا ہے لیکن عیسائیوں کا کوئی نام ہی نہیں وہ کبھی نصاریٰ کہلاتے ہیں، کبھی مسیحی اور کبھی عیسائی یعنی عیسیٰ کی طرف نسبت پانے والے.انگریز اپنے آپ کو کرسچنز کہتے ہیں مگر یہ بھی کوئی نام نہیں بلکہ اس کے معنے صرف مسیحؑ کی طرف منسوب ہونے والوں کے ہیں.غرض عیسائیوں کا کوئی نام ہی نہیں.پہلے زمانہ میں وہ کچھ کہلاتے تھے پھر کچھ اور کہلانے لگ گئے اور اسی طرح ان کے نام میں تبدیلی ہوتی چلی گئی.وہ قوم جس کا ایک نام رکھا گیا ہے اور جس کا نام کسی انسان نے نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ صرف مسلمان ہیں اور اسی نام کے متعلق یسعیاہ نبی نے یہ پیشگوئی کی تھی کہ ’’ایک نام جو بیٹوں اور بیٹیوں کے نام سے بہتر ہے بخشوں گا‘‘.اگر عیسائی اپنے آپ کو اس پیشگوئی کامصداق قرار دیتے ہیں تو کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا عیسائی نام اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا گیا ہے.اگر وہ ایسا دعویٰ کریں تو یہ بالکل بے بنیاد ہوگا کیونکہ بائبل سے یہ کہیں ثابت نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام عیسائی رکھا ہے.پھر یہ خبر دی گئی تھی کہ ان کو ابدی نام دیا جائے گا جو کبھی مٹایا نہیں جائے گا.یعنی زمانہ کے تغیرات اور ملکوں اور علاقوں کے اختلاف کے باوجود اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا جو نام رکھا جائے گا وہ ہمیشہ قائم رہے گا اس میں کبھی کوئی تبدیلی عمل میں نہیں آئے گی.پیشگوئی کا یہ حصہ بھی ایسا ہے جو عیسائیوں پر چسپاں نہیں ہوسکتا.کیونکہ اوّل تو ان کا کوئی نام ہی نہیں اور پھر جو کچھ وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں اس میں بھی تبدیلی ہوتی چلی آئی ہے.تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ بیگانے کی اولاد اس مذہب میں داخل ہوگی.لیکن حضرت مسیحؑ اپنے حواریوں سے کہتے ہیں کہ تمہیں غیرقوموں کو تبلیغ کرنے اور انہیں اپنے مذہب میں داخل کرنے کی اجازت ہی نہیں.چوتھی خبر یہ دی گئی تھی کہ وہ سبت کی حفاظت کریں گے لیکن عیسائی وہ ہیں جنہوں نے سبت کی حفاظت کرنے کی بجائے روم کے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے ہفتہ کو اتوار سے بدل دیا اور اس طرح سبت کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا.یہ چار شرطیں جس قوم میں پائی جائیں گی اسی کا فلسطین پر قبضہ اس بات کی علامت سمجھا جاسکتا ہے کہ یسعیاہ کی

Page 389

پیشگوئی اس کے ذریعہ پوری ہوئی ورنہ محض فلسطین پر قبضہ کوئی چیز نہیں اس پر قبضہ تو رومیوں نے بھی کرلیا تھا.(Encyclopedia of religion and Ethics Under Word (Sunday) in the Primitive Church) یہ چار شرطیں اگر کسی قوم میں پائی جاتی ہیں تو وہ صرف مسلمان ہیں.چنانچہ اوّل.مسلمانوںکاخوداللہ تعالیٰ نے نام رکھا وہ فر ماتا ہے هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا (الحج:۷۹) تمہارا مسلم نام اللہ تعالیٰ نے آپ رکھا ہے.دوم.یہ نام ایسا ہے جو ابدی ہے کوئی شخص اس کو بدلنے کی طاقت نہیںرکھتا.ایک مسلمان ہر وقت مسلمان ہی کہلائے گا.خواہ وہ دنیا کے کسی خطہ میں رہتا ہو.سوم.بیگانے کی اولاد یعنی غیر اقوام کا داخلہ صرف اسلام میں جائز ہے اور یہی وہ مذہب ہے جس نے اپنی دعوت کو کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم تک خدائے واحدکا پیغام پہنچایاہے.چہارم.سبت کے محافظ بھی مسلمان ہی ہیں کیونکہ انہوں نے جمعہ کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھا ہے اور کبھی اس کو بدلنے کا خیال تک بھی ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوا.پنجم.فلسطین پر بھی مسلمان قابض ہوئے یہاں تک کہ تیرہ سو سال ان کے قبضہ پر گذر گئے اور اب تک وہ فلسطین پر قابض ہیں.بہرحال یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی نے بتا دیا کہ دنیا کے روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ یسعیاہ نہیں تھے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کی پیدائش کا مقصود ان کے ذریعہ پورا ہوا کیونکہ وہ خود اپنے بعد ایک اور عظیم الشان نبی کی بعثت کی خبر دے چکے ہیں.پھر حضرت مسیحؑ آئے.کیا پیدائش انسانی کا وہ مقصود تھے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ہر گز نہیں.کیونکہ اوّل.مسیحی مذہب نسل ابراہیمؑ سے نہ تھا بلکہ عیسائی تو الگ رہے خود مسیحؑ ہی نسل ابرا ہیمؑ سے نہ تھے کیونکہ وہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق خدا تعالیٰ کے بیٹے تھے.جب وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے تھے تو ابراہیمؑ کی نسل میں سے کس طرح ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے تو حضرت ابراہیمؑ سے یہ کہا تھا کہ ’’تیری نسل سے زمین کی ساری قومیں برکت پاویں گی‘‘ پس اگر کسی شخص کے ذریعہ یہ پیش گوئی پوری ہو سکتی ہے تو وہ وہی ہو سکتا ہے جو ابرا ہیمؑ کی نسل میں سے ہو نہ وہ جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہتا ہو.اگر عیسائی کہہ دیںکہ حضرت مسیحؑ سے زمین کی ساری قوموں نے برکت حاصل کر لی ہے تب بھی ہم کہیں گے کہ یہ پیشگوئی ابھی پوری ہونی باقی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس میں خبر یہ دی ہے کہ

Page 390

پیدائش انسانی کا آخری نقطہ ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہوگا اور اس کا نشان یہ ہوگاکہ وہ ایک عالمگیر مذہب کا بانی ہوگا اور دنیا کی ساری قوموں کو دعوت حقہ دے گا.پس مسیحؑ نے اگر ساری قوموں کو دعوت دے بھی دی ہے تب بھی ابراہیمی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی کیونکہ ابراہیمی پیشگوئی کا تعلق اس شخص سے ہے جو ابراہیمؑ کی نسل میں سے ہو.لیکن اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ گو حضرت مسیحؑ کا کوئی باپ نہیں تھا مگر تھے وہ ابراہیمؑ ہی کی نسل سے.تب بھی ہم کہتے ہیں کہ یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی.کیونکہ مسیحی مذہب عالمگیر نہیں.چنانچہ حضرت مسیحؑ خود اپنی نسبت فرماتے ہیں.’’ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئوں کو ڈھونڈ کے بچائے‘‘.(متی باب ۱۸ آیت ۱۱) یعنی مسیحؑ کی آمد کی غرض صرف اتنی تھی کہ بنی اسرائیل جو بخت نصر کے زمانہ میں منتشر ہو کر افغانستان اور کشمیر وغیرہ علا قوں میں پھیل گئے تھے ان کو اکٹھا کریں.پس ان کا پیغام کسی اور کے لئے نہیں تھا صرف بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے تھا.دوسرے تورات خود مسیحیوں کے نزدیک یہود کے لئے ہے اور عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ تورات غیر قوموں کے لئے نہیں تھی صرف یہود کے لئے تھی.دوسری طرف انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے نزدیک تورات منسوخ نہیں تھی چنانچہ آپ فرماتے ہیں.’’ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے کو آیا.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو ‘‘.(متی باب۵ آیت۱۷،۱۸) اس جگہ حضرت مسیحؑ صاف طور پر فرماتے ہیں کہ میں تورات کو منسوخ کرنے کے لئے نہیں آیا.جب وہ منسوخ کرنے کے لیے نہیں آئے تو معلوم ہوا کہ زمانہ مسیحؑ میں تورات قائم رہی تھی اور جب وہ قائم رہی جیسا کہ عیسائی بھی مانتے ہیں تو چونکہ تورات ساری دنیا کے لئے نہیں تھی بلکہ صرف یہود کے لیے تھی اس لیے معلوم ہوا کہ حضرت مسیحؑ پیدائش انسانی کا آخری نقطہ نہیں تھے.پھرحضرت مسیحؑ نے جب اپنے بارہ حواریوں کو تبلیغ کے لیے بھیجا تو انہیں یہ ہدایت دی کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ پہلے اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو اور چلتے ہوئے منادی کرو اور کہو کہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی‘‘.(متی باب۱۰آیت۶،۷)

Page 391

ان الفاظ میں حضرت مسیحؑ نے نہ صرف غیر قوموں کو تبلیغ کرنے کی ممانعت کی ہے بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا.سامری وہ لوگ تھے جو بنی اسرائیل سے مخلوط تھے اور آدھے بنی اسرائیل کہلاتے تھے مگر حضرت مسیحؑ ان کو بھی تبلیغ کرناجائز نہیں سمجھتے کجا یہ کہ غیر قوموں کو اپنے مذہب میں داخل کرنا آپ جائز سمجھتے.پس وہ پیشگوئی جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمائی تھی مسیحی مذہب کے ذریعہ بھی پوری نہیں ہوئی.وہاں یہ خبر تھی کہ ابراہیمی نسل سے ساری قومیں برکت پائیں گی اور مسیحی مذہب کے بانی نے اپنے بارہ حواریوں کو یہ ہدایت دی کہ وہ غیرقوموں کو تبلیغ نہ کریں اور صرف یہود کو تبلیغ کریں.پس مسیحی مذہب کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سب قوموں کو برکت دینے کے لئے آیا تھا.مذکورہ بالا حوالہ میں ’’پہلے‘‘ کے لفظ سے دھوکا نہیں کھانا چاہیے.بعض عیسائی کہہ دیا کرتے ہیں کہ پہلے بنی اسرائیل کو تبلیغ کرنے کا حکم تھا.یہ حکم نہیں تھا کہ بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی قوم کو تبلیغ ہی نہ کی جائے.مگر یہ صحیح نہیں.کیونکہ اوّل تو یہ واضح ہے کہ جب تک سب بنی اسرائیل ایمان نہ لائیں دوسروں کو تبلیغ کرنا منع ہے اور چونکہ یہودی ابھی تک موجود ہیں اس لئے عیسائیوں کو غیرقوموں میں تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہوسکتی.دوسرے خود حضرت مسیحؑ نے اپنے اس حکم کی تشریح کردی ہے.آپ فرماتے ہیں.’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم بنی اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے‘‘.(متی باب ۱۰ آیت ۲۳) ان الفاظ میں حضر ت مسیحؑ کی طرف سے یہ بتایا گیا ہے کہ جب تک میں دوبارہ واپس نہ آجائوں تم بنی اسرائیل کی تبلیغ کو ختم نہیں کرسکو گے.گویا مسیح کے دوبارہ آنے تک ان کی قوم کے لئے صرف بنی اسرائیل میں تبلیغ مقدر ہے کسی اور قوم کو تبلیغ کرنا ان کے لئے جائز نہیں.ہاں بعثت ثانیہ میں سب دنیا کو تبلیغ ہوگی.پس اس جگہ ’’پہلے‘‘ کے وہی معنے لئے جائیں گے جو حضرت مسیحؑ کے دوسرے کلام سے ثابت ہیں اور وہ معنے یہی ہیں کہ مسیحؑ کی بعثت ثانیہ سے پہلے عیسائیوں کو یہود کے علاوہ اور کسی کو تبلیغ کی اجازت نہیں.حضرت مسیحؑ صاف طور پر فرماتے ہیں کہ جب تک میں دوبارہ نہ آجائوں تم یہود کی تبلیغ سے فارغ نہیں ہو سکو گے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرے دوبارہ آنے تک تمہارے لئے ضروری ہے کہ تم اپنی تبلیغ صرف یہود تک محدود رکھو.جب میں دوبارہ آجائوں گا تو پھر تمہیں اس بات کی اجازت ہوگی کہ تم ساری دنیا کو تبلیغ کرو.پھرمسیح علیہ السلام فرماتے ہیں.’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘.(متی باب ۱۵ آیت ۲۴)

Page 392

اس میں اور زیادہ وضاحت سے انہوں نے قوموں کی نسبت سے اپنے حلقہ کی تعیین کردی اور بتادیا کہ میرا تعلق بنی اسرائیل کے علاوہ اور کسی قوم سے نہیں.جب حضرت مسیحؑ کی بعثت صرف اسرائیلی قبائل کے لئے مخصوص تھی تو وہ حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئی کے مصداق ثابت نہ ہوئے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کویہ کہا گیا تھا کہ تیری نسل کے ذریعہ زمین کی ساری قومیں برکت پائیں گی اور حضرت مسیحؑ کہتے ہیں کہ میں ساری دنیا کو برکت دینے کے لئے نہیں.بلکہ صرف بنی اسرائیل کو برکت دینے کے لئے آیا ہوں.دوم.وہ شریعت نہیں لائے.حالانکہ تمام پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والا شریعت لائے گا.پس چونکہ وہ شریعت نہیں لائے اس لئے انہیں دنیا کا مقصود قرار نہیں دیا جاسکتا.سوم.وہ خود اقرار کرتے ہیںکہ ’’وہ نبی‘‘ ان کی پہلی بعثت کے بعد اور دوسری بعثت سے پہلے آئے گا.چنانچہ لکھا ہے.’’ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے (یعنی مسیح کو) اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے نبیوں کی زبانی شروع سے کیااپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہاکہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوںسے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اٹھاوے گا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو.اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا.بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے‘‘.(اعمال باب ۳ آیت ۲۱ تا ۲۴) ان الفاظ میں حواری حضرت مسیحؑ سے خبر پاکر بتاتے ہیں کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے پہلے ضروری ہے کہ وہ نبی آجائے جس کی تمام انبیاء خبر دیتے چلے آئے ہیں.وہ صاف الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ پیشگوئیوں میں ایک شریعت لانے والے نبی کے متعلق جو خبر دی گئی تھی مسیحؑ کی دوبارہ بعثت اس کے بعد ہوگی جس کے معنے یہ ہیں کہ مسیحؑ اس پیشگوئی کا مصداق نہیں بلکہ آنے والا نبی جو اپنے ساتھ شریعت رکھتا ہوگا جو مسیحؑ کی بعثت اوّل اور بعثت ثانیہ کے درمیان آئے گا وہ اس کا مصداق ہوگا.اس موقعہ پر عیسائی کہہ سکتے ہیں کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدائش عالم کا نقطہ مرکزی قرار دینا غلط ہے.نقطہ مرکزی بہرحال مسیح ؑہے جس نے صاحب شریعت نبی کے بعد آنا ہے.مگر یہ سوال بھی حل ہوچکا ہے کیونکہ مسیح ثانی جس نے مبعوث ہونا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوچکا ہے

Page 393

اور اس نے صاف اور کھلے لفظوں میں اعلان کردیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوں اور میں نے جو کچھ حاصل کیا ہے آپؐسے ہی حاصل کیا ہے.پس یہ سوال جاتا رہا کہ نقطہ مرکزی ابھی باقی ہے.کیونکہ جسے سب سے آخر میں نقطہ مرکزی قرار دیا جاسکتا تھا اس نے خود آکر کہہ دیا ہے کہ میں نقطہ مرکزی نہیں بلکہ نقطہ مرکزی وہ ہے جو مجھ سے پہلے آچکا ہے.بہرحال اعمال باب ۳ کی تصریحات سے جو حضرت مسیحؑ کی پیشگوئیوں پر مبنی ہیں یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ مقصود جہاں حضرت مسیحؑ کی بعثت اوّل کے بعد اور بعثت ثانیہ سے پہلے آنا تھا اور وہ ہمارے پیارے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تھا اسے یاد کرتے ہوئے کھڑا ہو اور تبلیغ کر کہ تو اس غرض کو پورا کرنے والا ہے.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ تو پڑھ یعنی دنیا کے سامنے میرا نام لے کر اعلان کر کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ بات کہتا ہوں مگر ساتھ ہی کہہ کہ اس رب سے مسیحیوں کا رب مراد نہیں جو بیٹے کا محتاج ہے، یہودیوں کا رب مراد نہیں جو ایک قوم سے وابستہ ہے، مشرکوں کا رب مراد نہیں جو کسی چیز کو پیدا کرنے سے قاصر ہے بلکہ الَّذِيْ خَلَقَ تو اس خدا کانام لے کر اعلان کر جس نے مخلوق کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیاتھا مگر ابھی تک وہ مقصد پورا نہیں ہوا تھا اب تیرے ذریعہ وہ مقصد پورا ہوا ہے.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۰۰۳ (اور جس نے) انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا.حلّ لُغات.عَلَقٌ عَلَقٌ کے معنے خون کے ہوتے ہیں خصوصاً اس خون کے جو گاڑھا اور جما ہوا ہو.اسی طرح ہر وہ چیز جو لٹکی ہوئی ہو اسے بھی عَلَقٌکہتے ہیں اور عَلَقٌاس مٹی کو بھی کہتے ہیں جو بعض دفعہ کام کرنے کے بعد ہاتھ کے ساتھ لگی رہ جاتی ہے.اسی طرح عَلَقٌدشمنی اور محبت کو بھی کہتے ہیں (اقرب).کیونکہ یہ چیزیں بھی دل میں جم جاتی ہیں.نفرت پیدا ہوجائے تو وہ بھی دیر تک رہتی ہے اور محبت پیدا ہوجائے تو وہ بھی عرصہ تک قائم رہتی ہے.عَلَقٌ عَلَقَۃٌ کی جمع بھی ہوسکتا ہے اور عَلَقَۃٌ کے معنے ہیں اَلْقِطْعَۃُ مِنَ الْعَلَقِ لِلدَّمِ.خون کا لوتھڑا (اقرب).اگر عَلَقٌ کو جمع قرار دیا جائے تو اس کے جمع لانے میں یہ حکمت ہوگی کہ اَلْاِنْسَانُ سے مراد بھی جنس انسانی ہے کوئی ایک فرد مراد نہیں.یعنی خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے یہ معنے نہیں کہ ہم نے ایک انسان کو عَلَقَۃٌ سے پیدا کیا ہے بلکہ

Page 394

اس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ہر انسان کو ایک ایک علقہ سے پیدا کیا ہے.تفسیر.یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ خُلِقَ مِنْ فُلَانٍ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے(تفسیر البغوی المسمی معالم التنزیل بغوی سورۃ الانبیاء زیر آیت خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ).قرآن کریم نے بعض اور مقامات پر اس محاورہ کو استعمال کیا ہے.مثلاً ایک مقام پر فرماتا ہے اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُعْفٍ (الروم: ۵۵) اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پید اکیا ہے.اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ ضعف کوئی مادہ ہے جس سے انسان پیدا کیا گیا ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسانی فطرت میں ضعف پایا جاتا ہے.یا مثلاً آتا ہے خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (الانبیاء: ۳۸) انسان عجلت سے پیدا کیا گیا ہے.اس کا بھی یہ مطلب نہیں کہ جلد بازی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کوبنایاگیا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جلد بازی کا مادہ بھی ہے.اسی طرح یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.انسان کو اللہ تعالیٰ نے علق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کو فطرتاً اللہ تعالیٰ نے ایسابنایا ہے کہ اس میں علق پایا جاتا ہے.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ سے یہ مراد کہ انسان کے اندر جذبات محبت رکھے گئے ہیں عَلَقٌ کے ایک معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جاچکا ہے محبت کے بھی ہوتے ہیں اور دشمنی اور عداوت کے بھی ہوتے ہیں.پس خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے معنے یہ ہوئے کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے جذبات کا ایک طوفان پیدا کیا ہے اس کے اندر محبت بھی پیدا کی ہے اور اس کے اندر نفرت بھی پیدا کی ہے.انہی دو فطری مادوں کو پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم انسانی فطرت کو دیکھ لو تم پر یہ حقیقت روشن ہوگی کہ ہم نے جذباتِ محبت اور جذباتِ نفرت دونوں اس میں پیدا کئے ہیں اور جب ہم نے اس میں جذبات محبت بھی پیدا کئے ہیں اور جذبات نفرت بھی تو ضروری تھا کہ یہ جذبات ایک دن اپنی تکمیل کو پہنچتے.یہ امر ظاہر ہے کہ انسان جذبات کے ادھورے ظہور پر قانع نہیں ہوسکتا.بلکہ وہ چاہتا ہے کہ اس کے اندر جو جذبات بھی پائے جاتے ہیں ان کا مکمل ظہور ہو.وہ فطرت کی پیاس بجھانے اور اپنے جذبات کی سیری کے لئے ایک تکمیل کی احتیاج محسوس کرتا ہے اور اس بات کے لئے بے تاب رہتا ہے کہ اس کا ہر فطری جذبہ اپنی کامل صورت میں رونما ہو اور صانع فطرت نے جس غرض کے لئے انسان کو مختلف جذبات میں ڈھالا ہے وہ غرض اسے حاصل ہو.انسان کی اس طبعی اور فطری خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے غور کرو جب اللہ تعالیٰ نے پیدائش انسانی کے ساتھ ہی اس کی فطرت میں جذبۂ محبت بھی رکھ دیا تھا اور جذبۂ نفرت بھی تو جب تک ان دونوں جذبات کی تکمیل نہ ہوجاتی، جب تک ایسا انسان دنیا میں پیدا نہ ہوتا جو اللہ تعالیٰ سے اتنی محبت کرتا کہ اس سے بڑھ کر اور کسی سے محبت نہ

Page 395

کرتا اور شیطان سے اتنی نفرت کرتا کہ اس سے بڑھ کر اور کسی سے نفرت نہ کرتا اس وقت تک یہ کس طرح کہا جاسکتا تھا کہ انسان اپنے ارتقاء کو پہنچ گیا ہے.تم اگر یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی دنیا اپنے ارتقائی نقطہ کو حاصل کرچکی تھی تو یہ بالکل غلط ہے.کیونکہ ابھی تک نہ تعلیم ایسی آئی تھی جو خدا تعالیٰ سے کامل محبت اور شیطان سے کامل نفرت کا سبق دیتی اور نہ کوئی انسان ایسا مبعوث ہوا تھا جس نے ان جذبات کو اپنے کمال تک پہنچادیا ہو اور جس نے خدا تعالیٰ سے ایسی محبت کی ہو جو اپنی ذات میں بے مثال ہو اور شیطان سے ایسی نفر ت کی ہو جو اپنی ذات میں بے مثال ہو.اس لئے تم نہیں کہہ سکتے کہ دنیا کا مقصود پورا ہوچکا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس خدا نے انسان کو ان د۲و طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے، جس نے کامل درجہ کی محبت اور کامل درجہ کی نفرت کا مادہ اس کی فطرت میں ودیعت کیا ہے اے محمد رسول اللہ اس کا نام لے کر پڑھ یعنی دنیا میں اعلان کر کہ آج میرے ذریعہ خدا تعالیٰ سے کامل محبت اور شیطان سے کامل نفرت کا ظہور ہونے والا ہے.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے دوسرے معنے کہ انسان نے تدریجاً ترقی کی دوسرے معنے اس کے یہ ہوسکتے ہیں کہ انسان کو ایک خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا گیا ہے یعنی ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر بڑھایاگیا ہے.جس طرح انسانی فرد کو ہم نے اس رنگ میں بنایا ہے کہ وہ ادنیٰ حالت سے ترقی کرکے کمال تک پہنچتاہے اسی طرح ہم نے تمام مخلوق کو بنایا ہے اور وہ اپنے کمال کے ظہور کے لئے ایک تدریج کی محتاج ہوتی ہے.تم جانتے ہو اگر کسی عورت کے پیٹ میں بچہ ہو اور اس کا پانچویں یا چھٹے مہینے اسقاط ہوجائے تو تم ایسی عورت کو بچہ والی عورت نہیں کہتے.بچے والی عورت تم اسی کو کہو گے جس کا بچہ پورے دنوں کے بعد پیدا ہو.اسی طرح اگر مخلوق تدریجی رنگ میں ترقی کرتے کرتے اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ تک نہ پہنچتی تو یہ ایسا ہی ہوتا جیسے کسی بچے کا پانچویں یا چھٹے ماہ اسقاط ہوجاتا ہے.اگر موسٰی پر دنیا ختم ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا.اگر عیسٰیؑ پر دنیا ختم ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا.اگر پیدائش عالم کے نتیجہ میں ایک کامل وجود پیدا نہ ہوتا اور اس سے پہلے ہی یہ سب دنیا فنا ہوجاتی تو کہا جاتا کہ وہ مخلوق جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنی چاہی تھی اس کا اسقاط ہوگیا.جیسے حمل کے پانچویں یا چھٹے مہینہ میں بعض دفعہ بچہ گر جاتا ہے اور عورت کو کوئی شخص صاحبِ اولاد نہیں کہتا.یہی حال دنیا کا ہوتا اگر نویں مہینہ کا کامل وجود اس دنیا میں پیدا نہ ہوتا تو بنی نوع انسان کی پیدائش بالکل اکارت چلی جاتی.دنیا بانجھ تو کہلاسکتی تھی مگر یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ جس مقصد کے لئے اس دنیا کو پیدا کیا گیا تھا وہ حاصل ہوگیا ہے.بے شک اس سے پہلے عیسٰیؑ بھی آئے اور موسٰی بھی آئے اور

Page 396

ابراہیمؑ بھی آئے اور نوحؑبھی آئے مگر موسیٰ اور عیسیٰ اور ابراہیم اور نوح کی مثال پانچویں یا چھٹے ماہ کے بچہ کی سی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال اس نویں ماہ کے بچہ کی سی ہے جو تندرستی کی حالت میں پیدا ہوا.تم پانچویں ماہ کے بچہ کو بچہ نہیں کہتے کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتا.تم چھٹے ماہ کے بچہ کو بچہ نہیں کہتے کیونکہ وہ کامل نہیں ہوتا تم صرف نویں ماہ کے بچہ کو بچہ کہتے ہو کیونکہ وہ کامل ہوتا ہے.اسی طرح موسیٰ اور عیسیٰ کے ساتھ تمہاری تکمیل نہیں ہوسکتی.تمہاری تکمیل وابستہ ہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے.ان کے بغیر دنیا اپنے مقصود کو حاصل نہیں کرسکتی.غرض یہاں دونوں معنے ہوسکتے ہیں.یہ بھی کہ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ سے مراد خون کا لوتھڑا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو ادنیٰ حالت سے ترقی دی ہے.دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے محبت اور نفرت کے جذبات دے کر پیدا کیا ہے.جب تک محبت اور نفرت کے جذبات اس میںکامل طور پر ظاہر نہ ہوجائیں اس وقت تک پیدائش انسانی کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتاتھا.پس ایسی شریعت کا آنا ضروری تھا جو ایک طرف خدا تعالیٰ سے کامل محبت کی تعلیم دیتی اور دوسری طرف شیطان سے کامل نفرت کی تعلیم دیتی یا ایسا انسان ظاہر ہوتا جو ایک طرف اللہ تعالیٰ سے کامل اتصال رکھتا اور دوسری طرف شیطان سے کامل بُعد اس کی طبیعت میں پایا جاتا.ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ دونوں دعوے قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى(النجم:۹،۱۰) یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا تعالیٰ سے محبت کا تعلق اس قدر بڑھا کہ آپ خدا تعالیٰ کی طرف تیزی سے بڑھے اور خدا تعالیٰ آپ کی طرف تیزی سے بڑھا.یہ اس کامل اتصال کا ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ سے تھا.دوسری طرف آپ کو شیطان سے اس قدر بُعد تھا کہ آپ فرماتے ہیں وَلٰکِنَّہٗ اَعَانَنِیْ عَلَیْہِ فَاَسْلَمَ (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین و احکامھم باب تحریش الشیطان) کہ میرے شیطان کو مسلمان بنادیا گیا ہے یعنی اگر شیطان بھی میرے پاس آئے تو وہ مسلمان ہوجاتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ مجھے کوئی بری تحریک کرے میرا رنگ اس پر چڑھ جاتا ہے اور مجھے برائی میں ملوث کرنے کی بجائے خود نیکی سے حصہ لینے لگ جاتا ہے.یہ اس انتہاء درجہ کی محبت کا ثبوت ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ تعالیٰ کے متعلق پائی جاتی تھی کہ آپ کے پاس جو جو چیز آتی وہ اپنی خاصیت کو بدل کر اسی رنگ میں رنگین ہوجاتی جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا.جیسے کہتے ہیں ہر کہ در کانِ نمک رفت نمک شد

Page 397

غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں خدا تعالیٰ کی اتنی شدید محبت تھی اور شیطان کی اتنی شدید نفرت آپ کے قلب میں پائی جاتی تھی کہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر شیطان بھی میرے پاس آئے تو مجھ پر شیطان کا رنگ نہیں چڑھے گا بلکہ میرا رنگ اس پر چڑھ جائے گا.یہ کمال درجہ کی نفرت ہے کہ شیطان کا آپ سے ٹکرائو ہوتا ہے تو شیطان آپ پر غالب نہیں آسکتا بلکہ آپ شیطان پر غالب آجاتے ہیں اور نہ صرف اس رنگ میں غالب آتے ہیں کہ اس کے برے اثر کو قبول نہیں کرتے بلکہ خود اس پر اپنا رنگ چڑھا کر اسے مسلمان بنادیتے ہیں.دنیا کی تاریخ پر غور کرکے دیکھ لو صرف ایک ہی وجود ایسا نظر آئے گا جس نے یہ دعویٰ کیاہے کہ میں خدا تعالیٰ سے ایسا کامل تعلق رکھتا ہوں کہ مجھ میں اور اس میں کوئی دوئی نہیں رہی اور شیطان سے مجھے اتنی کامل نفرت ہے کہ وہ کسی رنگ میں بھی مجھ پر غالب نہیں آسکتا.اگر وہ میرے پاس آئے تومیں ہی اس پر غالب آئوں گا یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ مجھے مغلوب کرلے یا مجھے برائیوں میں ملوث کرسکے.پس تعلق کا کمال دنیا میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا ہے اور تعلق پیدا کرنے والی تعلیم کا کمال قرآن کریم نے پیش کیا ہے کہ اس کے لفظ لفظ اور حرف حرف سے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا عشق پھوٹ پھوٹ کر ظاہر ہورہا ہے.دشمن سے دشمن عیسائیوںکی کتابیںجب ہم پڑھتے ہیں تو وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت پر جتنا زور قرآن کریم نے دیا ہے اتنا زور دنیا کی اور کسی کتاب میں نظر نہیں آتا.کوئی صفحہ اُٹھا کر دیکھ لو اس میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کا ذکر آئے گا اور بات بات میں اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ کیا جائے گا اور یہ کیفیت کسی ایک سورۃ یا ایک پارہ سے مخصوص نہیں.بِسْمِ اللّٰهِ سے لے کر وَالنَّاسِ تک قرآن کریم پڑھ جائو اس کا کوئی صفحہ ایسا نظر نہیں آئے گاجس میں بار بار اللہ تعالیٰ کا نام نہ آتا ہو اور بار بار اللہ تعالیٰ کی محبت پر زور نہ دیا گیا ہو.باقی کتابوں کی یہ حالت ہے کہ ان میں کہیں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں شخص پہاڑ پر گیا اور لوگوں نے اسے بھونی ہوئی مچھلی کا ایک ٹکڑا اور شہد کا چھتہ کھانے کو دیا(لوقا باب ۲۴ آیت ۴۱،۴۲).کہیں لکھا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں پر جن بھوت سوار تھے وہ حضرت مسیحؑ کے پاس آئے انہوں نے ان جنات کو نکال کر سؤروں کے غول میں ڈال دیا اور وہ سؤر سب کے سب پانی میں ڈوب کر مر گئے(متی باب ۸ آیت ۲۸تا۳۳).غرض ایسی ایسی باتیں لکھی ہوئی ہوتی ہیں کہ پڑھ کر ہنسی آتی ہے مگر قرآن کریم کا کوئی صفحہ ایسا نہیں جو اللہ تعالیٰ کے نام سے خالی ہو.تورات کے صفحوں کے صفحے، بقیہ بائبل کے صفحوں کے صفحے اور انجیل کے صفحوں کے صفحے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی ہیں.لیکن قرآن وہ کتاب ہے جس کا کوئی ایک صفحہ بھی اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خالی نہیں.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ الگ مضمون بھی ہوسکتا ہے اور پہلے خَلَقَ یعنی

Page 398

الَّذِيْ خَلَقَ کا یہ بدل بھی ہوسکتا ہے.اگر اس خَلَقَ کو پہلے خَلَقَ کا بدل سمجھا جائے تو اس صورت میں اس کے وہی معنے ہوں گے جو اوپر بیان کئے جاچکے ہیں یعنی خَلَقَ سے عام پیدائش مراد نہیں بلکہ انسان کی پیدائش مراد ہے.لیکن اگر اس کو علیحدہ مضمون قرار دیا جائے تو ترجمہ یوں ہوگا کہ تو پیدا کرنے والے رب کے نام سے پڑھ خصوصاًاس رب کے نام سے جس نے انسان کو پیدا کیا ہے.اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ تمام پیدائش ہی انسان کی پیدائش کے تابع ہے.گویا انسانی پیدائش ہی اصل مقصود تھی.پھر اس پیدائش میں سے پیدائش محمدی ہی مقصود تھی.پس اے محمد رسول اللہ تو اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ مقصد یاد دلا کر کام شروع کر.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خدا تعالیٰ خود ہی اس کام کو شروع کرنے والا ہے اور اس نے پیدائش عالم کے وقت سے ایک مقصد اپنے سامنے رکھا تھا اور وہ مقصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی توپھر بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کہنے کا کیا فائدہ تھا.کیا خدا تعالیٰ کو اپنا مقصد نعوذ باللہ بھول گیا تھا کہ اس ذریعہ سے اسے یاد دلانا ضروری سمجھاگیا؟ اس کا ایک جواب تومیں پہلے دے چکا ہوں کہ اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ تو رسول ہونے کی حیثیت سے اس کام کو شروع کرہماری تائید تیرے ساتھ ہوگی اور ہماری نصرت تیرے شامل حال ہوگی.پس باوجود اس حقیقت کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہان کا مقصود تھے اور پیدائش عالم کے روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ صرف آپ کی ذات تھی پھر بھی ان الفاط کی زیادتی بلا وجہ نہیں کی گئی بلکہ ان میں بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اعلان کیاگیاہے اور آپ کو کہا گیا ہے کہ تو ہمارے نام کے ساتھ دنیا کو یہ پیغام سنا.جو لوگ تجھ پر ایمان لائیں گے انہیں میری رضاء حاصل ہوگی اور جو انکار کریں گے وہ میرے عذاب کا نشانہ بنیں گے.لیکن اس کے علاوہ ایک اور جواب بھی ہے اور وہ یہ کہ دعا کے بھی کئی طریق ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کی اسی صفت سے دعا مانگنی جو مقصد کے ساتھ متعلق ہو زیادہ بابرکت ہوتی ہے.میرا تجربہ ہے کہ دعا کا صحیح طریق یہ ہے کہ جس صفت سے دعا کا تعلق ہو اس کا نام لے کر دعا کی جائے.اگر کسی شخص کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اور وہ یہ دعا کرے کہ اے خالق مجھے بچہ دے تو یہ دعا کا ایک صحیح طریق ہوگا.لیکن اگر وہ یہ دعا کرے کہ اے جبار مجھے بچہ دے یا اے قہار مجھے بچہ دے یا اے ممیت مجھے اولاد عطا کر.تو گو ممکن ہے اللہ تعالیٰ پھر بھی اس کے تضرع کو دیکھ کر اسے اولاد عطا کردے.مگر ہر سننے والا شخص یہی کہے گا کہ یہ بڑی ردّی قسم کی دعا ہے.وہ دعا تو یہ مانگ رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ہاںاولاد پیدا کرے اور وہ اپنی مدد کے لئے اس صفت کو پکار رہا ہے جس کا تعلق پیدا کرنے سے نہیں بلکہ مارنے کے ساتھ ہے یا قہر اور غضب کے ساتھ

Page 399

ہے یا مثلاً ایک شخص اگر اس رنگ میں دعا کرتاہے کہ اے ممیت خدا میرے دشمن نے مجھے سخت تنگ کررکھاہے تو میرے دشمن کو ہلاک کر اور مجھے اس کے شر سے محفوظ رکھ تو یہ بالکل صحیح دعا ہوگی.لیکن اگر وہ اس طرح دعاکرے کہ اے محی خدا، اے خالق خدا میرے دشمن کو ہلاک کر دے تو یہ کیسی بیوقوفی والی بات ہوگی.پس اگر اس صفت کو ملحوظ رکھ کر دعا کی جائے جو دعا کے ساتھ مطابقت رکھتی ہو تو انسان کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے.اسی حکمت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے یہاں بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کا اضافہ کیااور فرمایا جب تو دعا مانگنے لگے تو اس رنگ میں دعا مانگ کہ اے خدا جس نے پیدائش عالم سے میری بعثت کو اپنی دنیا کا مقصد قرار دیا ہواہے میں تجھ سے اسی ارادہ کا واسطہ دے کر التجاء کرتا ہوں کہ تو مجھے کامیاب کر.اگر تو اس رنگ میں دعا مانگے گا تو تیری دعا بہت جلد قبول ہوگی اور تو قلیل سے قلیل عرصہ میں اپنے مقاصد کو حاصل کرلے گا.دوسری حکمت یہ ہے کہ جب متعلقہ صفت کوملحوظ رکھ کر دعا مانگی جائے تو خود انسان کی امید بڑھ جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام ضرور ہوجائے گا.مثلاً جب یہ دعاکی جائے کہ اے خدا تو نے کہا تھا کہ میں ساری دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کروں گا اور تونے اسی مقصد کے لئے ساری دنیا کو پیدا کیا تھا اب میں تجھ کو تیری اسی صفت کا واسطہ دے کر جو تمام پیدائش عالم کا موجب ہوئی التجا اور دعا کرتا ہوں کہ دنیا کو ایک ہاتھ پر جمع کردے اور اس مقصد کو پورا کر جو پیدائش عالم کا موجب تھا.تو ایک طرف اللہ تعالیٰ کا فضل زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونا شروع ہوجائے گا اور دوسری طرف خود دعا مانگنے والے کی اپنی امید بڑھ جائے گی اور اس کے سامنے یہ امر رہے گا کہ میری کامیابی میں کوئی شبہ نہیں.جس کام کے لئے میں کھڑا ہوا ہوں وہ ضرور ہوجائے گا کیونکہ وہ مقصود ہے اللہ تعالیٰ کا.بلکہ اگر مجھ سے کوئی کمزوری بھی ہوئی تب بھی ہوجائے گا.پس دوسرا فائدہ دعا کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے سامنے رکھنے کا یہ ہوتا ہے کہ خود انسان کے اندر امید پیدا ہوجاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام اب ضرور ہوجائے گا.تیسری حکمت اس طریق میں یہ تھی کہ اس سلسلہ پر نظر کر کے جو ایک لمبے عرصہ سے چلا آتا تھا آپ کا ایمان بھی اور جوش عمل بھی ترقی کرتا جائے گا.جب آپ یہ کہیں گے کہ اے خدا جس نے آدمؑ کو دنیا کی ترقی کے لئے بھیجا پھر اسے اور ترقی دینے کے لئے نوح کو بھیجا پھر اور ترقی دینے کے لئے موسٰی اور عیسٰی کو بھیجا اور پھر اور ترقی دینے کے لئے مجھے بھیجا تو اسلام کو فتح دے تو آپ کے دل میں اسلام کے غلبہ اور اس کی کامیابی کے متعلق جو یقین پیدا ہوگا ظاہر ہے اس طرح ہر وقت آپ کے سامنے یہ امر رکھا گیا کہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو باطل

Page 400

کردے اور اس غرض کو پورا نہ کرے جس کی بنیاداس نے آدم کے وقت سے رکھ دی تھی.غرض ایک طرف اس ذریعہ سے آپ کے دل میں یقین کامل پیدا کیا گیا.دوسری طرف ایمان اور جوش عمل میں ترقی بخشی گئی اور تیسری طرف خدائی فضل کو خود اس کے مقصد کا واسطہ دے کر جوش دلایا گیا.پس بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ کا اضافہ بے فائدہ نہیں بلکہ اپنے اندر بہت بڑے فوائد اور حکمتیں رکھتا ہے.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ۰۰۴ (پھر ہم کہتے ہیں کہ ) پڑھ در آنحا لیکہ تیرا رب (اتنا) بڑا کریم (ہونا ظاہر کر رہا ) ہے.حلّ لُغات.اَکْـرَمُ اَکْرَمُ اسم تفضیل کا صیغہ ہے اور کَرِیْمٌ کے معنے سخی کے بھی ہوتے ہیں اور کَرِیْمٌ اس شخص کو بھی کہتے ہیں جس سے زیادہ نفع پہنچے.اسی طرح ہر چیز میں سے جو زیادہ اچھی ہو اسے بھی کَرِیْمٌ کہتے ہیں (اقرب).گویا ہر چیز کے آخری نقطہ کو عربی زبان میں کَرِیْمٌ کہا جاتا ہے.جب کَرِیْمٌ کے معنے اَحْسَنَ کے ہوئے تو اَکْرَمُ کے معنے ہوئے احسنوںکا احسن.پس رَبُّكَ الْاَكْرَمُ کے یہ معنے ہیں کہ تیرا رب وہ ہے جو اچھی سے اچھی چیزوں سے بھی احسن ہے.تفسیر.رَبُّكَ الْاَكْرَمُ کہہ کراس طر ف تو جہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اَکْرَم ہونے کا حق دنیا نے تلف کر رکھا ہے.اللہ تعالیٰ اَکْرَم ہے مگر دنیا میں اس کے اَکْرَم ہونے کا حق ادنیٰ معبودوں کو دے دیا گیا ہے.کوئی بتوں کو پوجتا ہے.کوئی عیسیٰ کی پرستش کرتا ہے اور کوئی کسی اور کے آگے اپنے سر کو جھکا رہا ہے.تو اٹھ اور خدا تعالیٰ کا حق اسے واپس دلا.دنیا نے اللہ تعالیٰ کی شان کو نہیں پہچانا.اس نے خدائی کا حق کچھ بتوں کو دے دیا ہے اور کچھ انسانوں کو.اب تیرا کام یہ ہے کہ تو دنیا پر خدا تعالیٰ کے اَکْرَم ہونے کی شان کو ظاہر کرتا آستانہ الوہیئت سے بھولی بھٹکی مخلوق پھر اس کی طرف واپس آئے اور پھر اس کے اَکْرَم ہونے کی شان دنیا میںتسلیم ہونے لگے.دوسرے اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ تو اپنے آپ کو کمزورنہ سمجھ جس خدا نے تجھے کھڑا کیا ہے وہ اَکْرَم ہے.وہ احسنوں کا بھی احسن ہے تجھے اپنی تعلیم کے متعلق یہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے اَکْرَم ہونے کا جلوہ ظاہر ہونے والا ہے.بے شک موسٰی کے وقت بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ ظاہر ہوا مگر وہ جلوہ اس کے اَکْرَم ہونے کا نہیں تھا.اسی طرح دائود ؑاور سلیمان ؑ اور عیسٰیؑ وغیرہ کے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کا جلوہ ظاہر ہوا مگروہ

Page 401

جلوہ خدا تعالیٰ کے اَکْرَم ہونے کا نہیں تھا.اب تیرے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے اَکْرَم ہونے کا جلوہ ظاہر کرنے والا ہے اور اس کی صفات کا ایسا ظہور ہوگا جس کی مثال دنیا میں اس سے پہلے نہیں مل سکتی.اس لئے تیرے لیے مایوسی اور گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں.الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۰۰۵ جس نے قلم کے ساتھ سکھا یا (ہے اور آئندہ بھی سکھائے گا).تفسیر.اس سے یہ مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ نے قلم سے بندہ کو سکھایا ہے کیونکہ یہ خلاف واقعہ ہے.کب قلم لے کر اللہ تعالیٰ نے اپنے کسی بندے کو الف اور با ء سکھلائی ہے جب ایسا کبھی ہوا ہی نہیں تو یہ معنے کس طرح ہوسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے قلم سے بندے کو سکھایا.اسی طرح اس سے یہ مراد بھی نہیں ہو سکتی کہ بندہ جو کچھ قلم سے سکھاتا ہے وہ سب خدا تعالیٰ کا سکھایا ہوا ہوتا ہے کیونکہ بندے دوسروں کو جھوٹ بھی سکھاتے ہیں.دغا اور فریب بھی سکھا تے ہیں.اخلاق اور روحانیت سے گری ہوئی باتیں بھی سکھاتے ہیں.گندے اور ناپاک اشعار بھی سکھاتے ہیں الف لیلیٰ کے قصے بھی سکھاتے ہیں.ہزاروں افراد دنیا میں ایسے پائے جاتے ہیںجو لغویات لکھتے اور لغویات شائع کرتے رہتے ہیں.پھر قلم سے کام لینے والے وہ لوگ بھی دنیا میں موجود ہیںجو اللہ تعالیٰ کے منکر ہیں.وہ لوگ بھی موجود ہیں جو اخلاق کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے.وہ لوگ بھی موجود ہیں جو مذہب کے خلاف ہیں.غرض ہر سچی تعلیم کا منکر دنیا میں موجود ہے.اس لئے عَلَّمَ بِالْقَلَمِ سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ بندہ جو کچھ قلم سے سکھاتا ہے وہ سب خدا تعالیٰ کا سکھایاہوا ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہزاروں افتراء ہوتے ہیں.ماضی کے صیغہ کا استعمال قطعی معنوں میں عَلَّمَ بِالْقَلَمِ میںگوما ضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد مستقبل ہے.یہ عربی زبان کا قا عدہ ہے کہ کبھی ماضی کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اور مراد استقبال ہوتا ہے قرآن کریم میں یہ محاورہ کثرت سے استعمال ہوا ہے.اسی طرح الہامات میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں.درحقیقت ماضی کو استقبال کے معنوںمیں اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ ما ضی سب سے زیادہ قطعی اور یقینی ہوتی ہے.جب انسان کوئی کام کر رہا ہو تو ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس کام کو پوری طرح کر بھی سکے گا یا نہیں.مثلاًزید پڑھ رہا ہو تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اسی طرح پڑھتا چلا جائے گا یا مر جائے گا.لیکن جب ہم کہیں زید پڑھ چکا ہے تو اس میں کوئی

Page 402

تبدیلی نہیں ہو سکتی.کیونکہ یہ واقعہ ماضی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے الہامات میں جب قطعی اور یقینی طور پر کسی بات کو بیان کرنا ہو تو وہ ماضی کاصیغہ استعمال کرتا ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ تم اس بات کو ایسا سمجھو کہ گویا ہو چکی ہے اور اس کا وقوع با لکل قطعی اور یقینی ہے ایسا ہی قطعی اور یقینی جیسے ماضی ہوتی ہے.عَلَّمَ بِالْقَلَمِ میں اس بات کی پیشگوئی کہ قرآن کریم کے ذریعہ علوم پھیلیں گے اسی طرح گو اس جگہ ماضی کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے علوم کو قطعی اور یقینی اور غیر متبدل طور پر قلم کے ذریعہ سکھائے گا یعنی یہ قرآن لکھا جائے گا.لکھ کر قائم کیا جائے گا اور اس کی تائید میں لوگوں کی قلمیں چلا کریں گی.اب دیکھ لو قرآن کریم کی یہ پیش گوئی کیسے بیّن طریق پر پوری ہوئی ہے.دنیا میں صرف یہی ایک کتاب ہے جو قلم سے محفوظ کی گئی ہے اس کے علاوہ اور کوئی کتاب قلم سے محفوظ نہیں ہوئی.موسٰی کی کتاب اس وقت نہیں لکھی گئی جب وہ موسٰی پر نازل ہوئی تھی.ابراہیم ؑ کے صحف اس وقت نہیں لکھے گئے جب وہ ابراہیم ؑ پر نازل ہوئے تھے.وید اس وقت نہیں لکھے گئے جب وہ رشیوں پر نازل ہوئے تھے.ژند اور اوستا اس وقت نہیں لکھی گئیں جب وہ زرتشت پر نازل ہوئی تھیں انجیل اس وقت نہیں لکھی گئی تھی جب حضرت مسیحؑ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تازہ بتازہ الہامات ہوتے تھے.غرض دنیا میں کوئی ایک الہامی کتاب بھی ایسی نہیں جو ابتداء میں لکھی گئی ہو.صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو شروع سے لکھی گئی ہے اور آج تک انہی الفاظ میں محفوظ ہے جن الفاظ میں یہ کتاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تھی اور یہ بات ایسی پختہ اور یقینی ہے کہ دشمنان اسلام تک یہ لکھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ دنیا میں اگر کوئی کتاب ایسی ہے جس کے متعلق یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ شروع سے لے کر اب تک ایک حرف اور ایک زبر اور ایک زیر کے تغیر کے بغیر اسی رنگ میں محفوظ ہے جس رنگ میں وہ دنیا کے سامنے پیش ہوئی تو وہ صرف قرآن کریم ہے.میور، نولڈکے اور سپرنگر جو مشہور یوروپین مستشرق ہیں اور جنہوں نے اسلام کی مخالفت میں اپنی تمام عمر بسر کی ہے انہوں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی فرق نہیں پڑا.یہ شروع سے لے کر اب تک ہر قسم کے تغیر اور انسانی دستبرد سے محفوظ چلا آ رہا ہے.(The Life of Mahomet by Sir William Muir P:561 - A Comprehensive Commentary on The Quran by Wherry V.1 P:109) پھر عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کے ذریعہ آئندہ سارے علوم دنیا میں پھیلیں گے.چنانچہ آج جس قدر علوم نظر آتے ہیں یہ سب قرآن کریم کے طفیل معرض وجود میں آئے ہیں.

Page 403

قرآن کریم عربوں میں نازل ہوا اور عرب با لکل جاہل تھے.انہیں کچھ پتہ نہ تھا کہ تاریخ کس علم کا نام ہے یا صرف اور نحو کون سے علوم ہیں یا فقہ اور اصول فقہ کس چیز کانام ہے.مگر جب قرآن کریم پر ایمان لانے کی سعادت ان کو حاصل ہو گئی تو قرآن کریم کی وجہ سے انہیں ان تمام علوم کی طرف متوجہ ہونا پڑا.مثلاًجب انہوں نے قرآن کریم میں پڑھا کہ پہلے زمانو ںمیںفلاں فلاں انبیاء آئے ہیں اور ان کے ساتھ یہ یہ واقعات پیش آئے تھے تو قرآن کریم کی صداقت ثابت کرنے کے لئے انہیں گذشتہ واقعات کی چھان بین کرنی پڑی اور اس طر ح علم تاریخ کی ایجاد عمل میں آئی.پھر بے شک قرآن کریم عربی زبان میں تھا اور اہل عرب کے لئے اس کا سمجھنا یا اس کی صحیح تلاوت کرنا کوئی مشکل امر نہیں تھا.مگرجب اسلام نے عرب کی سرزمین سے باہر قدم رکھا تو غیراقوام کے میل جول کی وجہ سے عربوں میں بھی اعراب کی غلطیاں شروع ہو گئیں جس پر انہیں اس زبان کے قواعد جمع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس طرح علم صرف اور نحو کی ایجاد ہو گئی.مؤرخین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ ابو ا لاسود اپنے گھر گئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی قرآن کریم کی آیت اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ رَسُوْلُهٗ کو اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ رَسُوْلِهٖ پڑھ رہی ہے.آیت کے معنے تو یہ ہیں کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں ہی مشرکوں سے بیزار ہیں مگر رَسُوْلُهٗ کی بجائے رَسُوْلِهٖ پڑھنے سے آیت کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اللہ مشرکوں سے بیزار ہے اور اپنے رسول سے بھی گویا پیش کی جگہ زیر پڑھنے سے آیت کے کچھ کے کچھ معنے ہو گئے.وہ گھبرائے ہوئے حضرت علیؓ کے پاس گئے اور ان سے کہا ہمارے ملک میں اب بہت سے عجمی لوگ آگئے ہیں اور ہماری بیٹیاں بھی ان سے بیاہی گئی ہیں اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ہماری زبان خراب ہو گئی ہے.میں ابھی اپنے گھر گیا تھا تو میں نے اپنی بیٹی کو اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَرَسُوْلُهٗ کی بجائے اَنَّ اللّٰهَ بَرِيْٓءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ وَ رَسُوْلِهٖ پڑھتے سنا.اگر اسی طرح غلطیاں شروع ہوگئیں تو طوفان برپا ہو جائے گا.اس کے انسداد کے لئے ہمیں عربی زبان کے متعلق قواعد مدون کرنے چاہئیں تاکہ لوگ اس قسم کی غلطیوں کے مرتکب نہ ہوں.حضرت علیؓاس وقت گھوڑے پر سوار ہو کر کہیں باہر تشریف لے جا رہے تھے آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.چنانچہ اسی وقت آپ نے بعض قواعدبتلائے اور پھر فرمایا اُنْـحُ نَـحْوَہٗ وَ نَـحْوَہٗ اس بنیاد پر اور بھی قواعد بنا لو چنانچہ اسی بناء پر اس کو علم نحو کہا جاتا ہے.پس قرآن کریم کی صحت کے لئے علم صرف اور نحو ایجاد ہوئے.پھر قرآن کریم کے معنے کے لئے لغت لکھی گئی.کیونکہ عربوں کو خیال آیا کہ جب عجمی لوگ اسلام میں داخل ہوئے تو وہ قرآن کریم کے معنے کس طرح سمجھیںگے پس لغت بھی قرآن کریم کی خدمت کے لئے لکھی گئی.اس کے بعد قرآن کریم کی تشریح کے لئے علم فقہ اور اصول فقہ کی ایجاد عمل میں آئی.اسی طرح علم معانی

Page 404

اور علم بیان محض قرآن کریم کے طفیل ایجاد ہوئے.پھر قرآن کریم کے محاورات اور اس کے استعارات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے بلاغت کی بنیاد پڑی کیونکہ اس کے بغیر قرآنی محاورات کی حقیقت سمجھ میں نہیں آسکتی.اس فن کے متعلق لغت کی کتب میں ایک لطیفہ بیان ہوا ہے لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی شخص نے مجلس میں اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم میں بعض ایسی باتیں آتی ہیں جو عقل کے با لکل خلاف ہیں.مثلاً لکھا ہے يُرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ (الکہف:۷۸) کہ دیوار یہ ارادہ کر رہی تھی کہ گر جائے بھلا دیوار بھی کبھی گرنے کا ارادہ کیا کرتی ہے یہ کیسی جاہلوں والی بات ہے جو قرآن کریم نے کہی ہے ایک اور عالم شخص وہاں موجود تھے مگر انہیں اس اعتراض کا جواب نہ آیا وہ حیران تھے کہ میں کیا کہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد ہی اس شخص نے اپنے نوکر کو جو کسی اچھے قبیلہ میں سے تھا بلایا اور اسے کہا میرا فلاں دوست بیمار ہے جائو اور اس کا حال دریافت کر کے آئو.وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی آکر کہنے لگا حضور میں کیا عرض کروں یُرِیْدُاَنْ یَّـمُوْتَ وہ تو مرنے کا ارادہ کر رہا ہے.یہ سنتے ہی اس پر گھڑوں پانی پھر گیا کہ میں جو کچھ اعتراض کر رہا تھا اس کا جواب مجھے اپنے نوکر کے ذریعہ مل گیا.اس کا اعتراض یہ تھا کہ دیوار بھی کبھی ارادہ کیا کرتی ہے؟ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اسے اس رنگ میں دیا کہ اس کے اپنے نوکر نے اسے آکر کہہ دیا کہ یُرِیْدُاَنْ یَّـمُوْتَ وہ مرنے کا ارادہ کررہا ہے حالا نکہ مرنے کا کوئی شخص ارادہ نہیں کیا کرتا.دراصل یہ ایک استعارہ تھا اور اس کے معنے یہ تھے کہ وہ مرنے پر تیار ہے.اسی طرح يُرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ کے معنے یہ ہیں کہ وہ دیوار گرنے پر تیار تھی نہ یہ کہ دیوار کوئی جاندار چیز ہے جو گرنے کا ارادہ کیا کرتی ہے.(فقھہ اللغۃ باب فی اضافۃ الفعل الیٰ ما لیس بفاعل علی الـحقیقۃ ) غرض یہ علوم جو دنیا میں یکے بعددیگرے ظاہر ہوئے محض قرآن کریم کے طفیل اور اس کی تائید کے لئے اللہ تعالیٰ نے ظاہر فرما ئے ہیں.اگر یہ علوم پیدا نہ ہوتے تو قرآن کریم کی حقیقت اور اس کی اعلیٰ درجہ کی شان کو لوگ پوری طرح سمجھنے سے قا صر رہتے.یہی حال علم اقتصادیات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے قرآنی اقتصادیات کی توضیح کے لئے دنیا میں قائم کیا غرض صرف کیا اور نحو کیا اور تاریخ کیا اور ادب کیا اور کلام کیا اور فقہ کیا سب علوم قرآن کریم کی خدمت کے لئے نکلے ورنہ عرب تو محض جاہل تھے.انہیں ان علوم کی طرف توجہ ہی کس طرح پیدا ہو سکتی تھی.ان کو توجہ محض اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے قرآن کو مانا اور پھر قرآن کریم سے دنیا کو روشناس کرانے کے لئے انہیں ان علوم کی ایجاد یا ان کے پھیلانے کی طرف متوجہ ہونا پڑا.اب رہی باقی دنیا سو اس نے بھی قرآن کریم سے ہی ان تمام علوم کو سیکھا ہے کیونکہ یہ علوم وہ ہیں جو عربوں نے ایجاد کئے یا زندہ کئے اور پھر عربوں سے باقی دنیا نے لئے.

Page 405

سارا یورپ مسلمانوں کا شاگرد ہے یورپ نے ایک عرصہ دراز تک مسلمانوں کے اس احسان کو چھپانے کی کوشش کی ہے مگر اب خود یورپ میں ایسے لوگ پیدا ہورہے ہیں جو اپنی کتابوں میں بڑے زور سے لکھتے ہیں کہ یہ کیسی بے شرمی اور بے حیائی ہے کہ علم تو مسلمانوں سے سیکھا جائے مگر اپنی کتابوں میں ان کا ذکر تک نہ کیا جائے اور اس رنگ میں اپنے آپ کو پیش کیا جائے کہ گویا ان علوم کے موجد ہم ہیں.وہ کہتے ہیں یہ احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے کہ جنہوں نے ہم کو علم سکھایا ہے ہم ان کا ذکر تک نہیں کرتے اور اپنی طرف تمام علوم کو منسوب کرتے چلے جاتے ہیں.میرے پاس اس قسم کی کئی کتابیں ہیں اور میں نے دیکھا ہے ان کتابوں کے مصنف اتنی شدت سے بحث کرتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے اپنی قوم کے اس فعل کے خلاف ان کے قلوب غیض و غضب سے بھرے پڑے ہیں.جب ایک طرف وہ مسلمانوں کے احسانات کو دیکھتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنی قوم کی ڈھٹائی کو دیکھتے ہیں کہ ایک ایک چیز مسلمانوں سے حاصل کرنے کے بعد وہ مسلمانوں کا نام تک نہیں لیتی تو ان کے دلوں میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیںکہ یہ سخت نمک حرامی ہے کہ مسلمانوں کی ایک ایک چیز کو اپنا لیا جائے مگر ان کے علم و فضل اور احسان کا اشارۃً بھی ذکر نہ کیا جائے.تھوڑاہی عرصہ ہوا میں نے ایک کتاب پڑھی جس میں موسیقی پر بحث کی گئی تھی.موسیقی کا آغاز بھی مسلمانوں سے ہی ہوا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ترتیل کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کا حکم دیا تھا اسی سے ان کو موسیقی کی طرف توجہ ہوئی جس نے رفتہ رفتہ ایک بہت بڑے علم کی صورت اختیار کر لی.یورپ دعویٰ کرتا ہے کہ موجودہ موسیقی کا علم اس نے ایجاد کیا ہے مگر جس کتاب کا میں ذکر کر رہا ہوں اس کے مصنف نے بڑے زور سے یہ بات پیش کی ہے کہ یورپ کا یہ ادّعا محض دھوکہ اور فریب ہے.موسیقی کا علم یورپ نے مسلمانوں سے سیکھا ہے اور پھر وہ اس کا ثبوت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ برٹش میوزیم میں فلاں نمبر پر فلاں کتاب موجود ہے اس میں فلاں پادری کے نام کا ایک خط درج ہے جو کسی عیسائی نے اسے لکھا اور اس خط کا مضمون یہ ہے کہ میں سپین گیا تھا وہاں مسلمانوں کی موسیقی کا کمال دیکھ کر میں حیران رہ گیا.مسلمانوں کی موسیقی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ان کے مقابلہ میں ہماری موسیقی بہت ادنیٰ معلوم ہوتی ہے.اگر آپ اجازت دیں اور یہ امر دین نصرانیت کے خلاف نہ ہو تو میں چاہتا ہوں کہ ان کی موسیقی کا ترجمہ یوروپین لوگوں کے لئے کردوں تاکہ ہمارے گرجائوں میں بھی یہ اعلیٰ درجہ کی موسیقی رائج ہوجائے اور عیسائیت زیادہ محبوب ہوجائے.وہ کہتا ہے اس خط کا پادری صاحب نے جو جواب دیا وہ بھی آج تک برٹش میوزیم میں محفوظ ہے.پادری صاحب نے جواب یہ دیا کہ کوئی حرج نہیں آپ سپین کی موسیقی کا بے شک ترجمہ کریں مگر دیکھنا

Page 406

مسلمانوں کا نام نہ لینا.اگر تم نے نیچے حوالہ دے دیا اور یہ ذکر کردیا کہ یہ موسیقی مسلمانوںسے لی گئی ہے تو ان کی عظمت قائم ہوجائے گی.اس لئے نقل تو بے شک کرو مگر مسلمانوں کا نام نہ لو تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ تم یہ علم اپنی طرف سے بیان کررہے ہو.غرض یورپ نے چاہا کہ یہ بات پوشیدہ رہے کہ اس نے مسلمانوں سے تمام علوم حاصل کئے ہیں مگر یہ بات پوشیدہ نہیں رہ سکی.آج خود عیسائیوں میں ایسے لوگ پیدا ہوچکے ہیں جو بڑے زور سے اپنی قوم کی اس احسان فراموشی کا کتابوں میں اعلان کرتے ہیں.اسی طرح فن تعمیر، قالین بافی اور عمارتوں پر رنگ دار بیل بوٹے بنانے یہ تمام علوم وہ ہیں جو یورپ نے مسلمانوں سے سیکھے.چنانچہ اس کا ایک ثبوت میں خود ولایت میں دیکھ کر آیا ہوں.برائٹن میں ایک پرانا شاہی قلعہ ہے اس کی دیواروں پر بیل بوٹے بنانے کے لئے عیسائیوں کو سارے یورپ میں کوئی آدمی نہ ملا.آخر انہوں نے مسلمان ماہرین کو بلایا اور وہ وہاں بیل بوٹوں کی بجائے جگہ جگہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ لکھ کر آگئے.یہی ان کا عمارت کو سجانا تھا اور یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ اس فن کی ایجاد کا سہرا مسلمانوں کے سر پر ہے.غرض یورپ کے پاس کوئی ایک چیز بھی نہیں تھی اس نے جو کچھ سیکھا سپین کے مسلمانوں سے سیکھا اور سپین نے جو کچھ سیکھا شام سے سیکھا اور شام والوں نے جو کچھ سیکھا قرآن سے سیکھا.پس دنیا کے تمام علوم قرآن سے ہی ظاہر ہوئے ہیں اور اب قیامت تک جس قدر قلمیں چلیں گی قرآن کریم کی خدمت اور اس کے بیان کردہ علوم کی ترویج کے لئے ہی چلیں گی.آج یورپ میں جتنی کتابیں نکل رہی ہیں وہ سب کی سب عَلَّمَ بِالْقَلَمِ کی تصدیق کررہی اور اللہ تعالیٰ کی اس پیشگوئی کو سچا ثابت کررہی ہیں کہ قلم کے ذریعہ قرآن کریم کو پھیلایا جائے گا.عرب ہر قسم کے علوم سے نابلد تھے لیکن قرآن کریم پر ایمان لانے کے بعد وہ تمام دنیا کے استاد بن گئے اور فلسفہ جس پر یورپ کو آج بہت بڑا ناز ہے اس کے بھی وہی موجد قرار پائے.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ فلسفہ یورپ کی ایجاد ہے لیکن ایک یوروپین فلاسفر نے اس کو بالکل غلط قرار دیا ہے.وہ لکھتا ہے فلسفہ ہم نے شروع سے لے کر آخر تک اشعری سے لیا ہے.اگر ہمارے فلسفہ میں کسی کو کوئی اچھی بات نظر آتی ہے تو اس تعریف کے مستحق ہم نہیں بلکہ اشعری اس تعریف کا مستحق ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ علوم میں ہمیشہ ترقی ہوتی رہتی ہے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل کوشش کرتی ہے کہ اس کا علمی مقام پہلے سے بلند ہوجائے لیکن اس کے باوجود بیج اپنی ذات میں جو قیمت رکھتاہے اس سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا.درخت کا پھیلائو خواہ کس قدر بڑھ جائے بیج کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا.اسی طرح علوم خواہ

Page 407

سُورَۃُ الْبَیِّنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ سورۃ بیّنہ.یہ سورۃ مدنی ہے.وَھِیَ ثَـمَانِیَ اٰیاتٍ دُونَ الْبَسْمَلَۃِ وَفِیْـھَا رُکُوعٌ وَّاحِدٌ اور اس کی بسم اللہ کے سوا آٹھ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ البینہ مدنی ہے جمہور مفسرّین کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے ابن مردویہ نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ یہ مدنی ہے اور ابن مردویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے(فتح البیان زیر سورۃ البیّنۃ).ابو حیّۃ بدری سے روایت ہے کہ جب سورۃ لَمْ یَکُنْ سب کی سب نازل ہوئی ہے ( یعنی یہ اکٹھی نازل ہوئی ہے) تو جبریل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ یہ سورۃ ابی بن کعبؓ کو یاد کرا دیں.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابی بن کعبؓسے کہا کہ جبریل نے مجھے حکم دیا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا یہ حکم مجھے پہنچایاہے کہ میں یہ سورۃ تم کو یاد کرا دوں ابی بن کعبؓنے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میرا بھی خدا تعالیٰ کے حضور میں ذکر آیا تھا؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس پر ابی بن کعبؓخوشی کے مارے روپڑے(مسند احمد بن حنبل مسند ابی حبۃ البدری).یہ روایت مسند احمد میں اور طبرانی میںاور ابن مردویہ میں مروی ہے.بخاری اور مسلم نے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے لیکن بخاری اور مسلم کی روایت میں الفاظ نہیں کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے یہ فرمایا.دوسرے بخاری اور مسلم کی روایت میں جبریل کا بھی ذکر نہیں.صرف اتنا ذکر آتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں یہ سورۃ تم کو پڑھا دوں ( بخاری کتاب مناقب الانصار باب مناقب ابیّ بن کعب.مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل ابیّ بن کعب).گو بخاری اور مسلم کی روایت میں یہ ذکر نہیں آتا کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی اُس وقت آپ نے ابی بن کعبؓسے یہ فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ تمہیںیاد کرانے کا حکم دیا ہے مگر چونکہ دوسری روایت میں یہ ذکر آ گیا ہے جو مسند احمد بن حنبل جیسی مستند کتاب نے بھی نقل کی ہے اِس لئے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ صحیح روایات کی بنا ء پر یہ سورۃ مدنی ہی ہے کیونکہ ابی ابن کعبؓانصاری تھے اور مدینہ میں مسلمان ہوئے پس جو سورۃ اُن کے زمانہ میں نازل ہوئی وہ مدنی ہی ہو سکتی ہے مسیحی مستشرق بھی مانتے ہیں کہ یہ سورۃ مدنی ہے…… چنانچہ

Page 408

تو دیا ہی نہ اور بعض نے صاف طور پر اعتراف کیا کہ ہمارا مذہب اس بارہ میں بالکل خاموش ہے.چنانچہ ایک بڑے بشپ کی طرف سے بھی یہی جواب آیا کہ اس مضمون کے متعلق ہماری کتب میں کوئی تفصیل نظرنہیں آتی.مگر اسلام نے ان امور پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ نبی کی کیا تعریف ہے.نبی کب آتے ہیں.لوگ نبیوں سے کیسا سلوک کرتے ہیں.نبیوں کی صداقت کے کیا معیار ہیں یہ اور اسی قسم کے اور تمام مسائل اسلام میں پوری وضاحت کے ساتھ پائے جاتے ہیں.پس فرماتا ہے عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.اللہ تعالیٰ تمام علوم کی تکمیل قرآن کریم کے ذریعہ کرے گا.بے شک توحید کا عقیدہ دنیا میں موجود ہے مگر ابھی اس کی تکمیل نہیں ہوئی.اسی طرح بے شک ملائکہ کو لوگ مانتے ہیں، کتب پر ایمان رکھتے ہیں، رسولوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر ملائکہ، کتب الٰہیہ اور ایمان بالرسل کی حقیقت سے پوری طرح واقف نہیں.اگر ان سے پوچھا جائے کہ خدا کے ایک ہونے کا کیا مفہوم ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر رہیں گے.لیکن قرآن دنیا کو بتلائے گا کہ توحید کا کیا مفہوم ہے اور کون کون سی باتیں انسان کو شرک میں مبتلا کرنے والی ہیں یا مثلاً اگر کوئی شخص سوال کرے کہ ملائکہ کیا چیز ہیں، وہ کیوں پیدا کئے گئے ہیں، کیا کیا کام ان کے ذمہ ہیں، اگر ملائکہ نہ ہوتے تو کیا نقص واقعہ ہوتا؟ تو ان سوالات کا تمام بائبل سے جواب نظر نہیں آئے گا.بائبل یہ تو بتادے گی کہ خدا تعالیٰ نے فرشتے پید اکئے ہیں اور وہ انبیاء کی طرف اس کا کلام لاتے ہیں مگر ملائکہ کی حقیقت یا ان پر ایمان لانے کے فوائد بیان نہیں کرے گی.لیکن قرآن صرف یہی نہیں بتائے گا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں بلکہ یہ بھی بتائے گا کہ اس نے ملائکہ کو کیوں پیدا کیا.ملائکہ کے کیا کام ہیں.انسان ملائکہ سے اپنا تعلق کس طرح بڑھاسکتا ہے.کن امور کے نتیجہ میںملائکہ سے انسانی تعلق کم ہوجاتا ہے.یا مثلاً اگر کوئی شخص سوال کرے کہ مرنے کے بعد کیا کیفیت ہوتی ہے تو اسلام کے سوا اور کوئی مذہب اس پر تفصیل کے ساتھ روشنی نہیں ڈال سکے گا.نہ یہودیت مرنے کے بعد کے حالات بتاتی ہے نہ عیسائیت مرنے کے بعد کے حالات بتاتی ہے اور نہ کوئی اور مذہب مرنے کے بعد کے حالات بتاتا ہے.صرف اسلام دنیا میں ایک ایسا مذہب ہے جو اس پر ایسی سیرکن بحث کرتا ہے کہ انسانی قلب مطمئن ہوجاتا ہے اور اس کی روح اپنے اندر سکینت محسوس کرتی ہے.اسی طرح اگر یہ سوال ہو کہ اخلاق فاضلہ کیا چیز ہیں.کس بناء پر بعض اخلاق کو اچھا کہا جاتا ہے اور بعض کو برا.اخلاق کی تعریف کیا ہے.اخلاق اور روحانیت میں مابہ الامتیاز کیا ہے؟ تو اس کو ان تمام امور کا جواب صرف قرآن سے ہی مل سکتا ہے اور کتب کی ورق گردانی یا اور مذاہب کی کاسہ لیسی انسانی قلب کو مطمئن نہیں کرسکتی.اسی حقیقت کی طرف اللہ تعالیٰ نے ان نہایت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ یعنی قرآن اور اسلام کے ذریعہ دنیا کو وہ وہ علوم سکھائے جائیں

Page 409

کا صیغہ ہے فَکَّ کے اصل معنے کھولنے یا جدا کرنے کے ہوتے ہیں.پس اِنْفَکَّ کے معنے ہوئے کُھل گیا یا جُدا ہوگیا.علاوہ ازیں عربی زبان میں اِنْفَکَّ کے مندرجہ ذیل معانی استعمال ہوتے ہیں (۱) کہتے ہیں اِنْفَکَّتْ قَدَمُہٗ: زَالَتْ اُس کا قدم اپنی جگہ سے ہٹ گیا (۲) اِنْفَکَّتْ اِصْبَعُہٗ: اِنْفَرَجَتْ انگلی کھل گئی (۳) اِنْفَکَّ وَرْکُہٗ: زَاغَ عَنْ مَّوْضِعِہٖ.جوڑ اپنی جگہ سے ہل گیا.(۴) اِنْفَکَّ الشَّیْءُ الْمُشْتَبِکُ: اِنْفَصَلَ.جُڑی ہوئی چیز الگ ہو گئی (۵)اِنْفَکَّتِ الْعُقْدَۃُ :اِنْـحَلَّتْ گرہ کھل گئی (۶)اِنْفَکَّتِ الرَّقَبَۃُ مِنَ الرِّقِّ: اُعْتِقَتْ گردن کھل گئی یعنی غلام آزاد کر دیا گیا (اقرب) اور جب محاورہ میں مَاانْفَکَّ یَفْعَلُ کَذَا کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں مَا زَال وہ کوئی کام کرتا چلا گیا.ان معنوں میں مَا انْفَکَّ کَانَ کے اخوات میں شمار ہوتا ہے چونکہ اِنْفَکَّ کے معنے الگ ہوجانے کے ہیں اس لئے جب اس سے پہلے نفی آجائے تو اس کے معنے اثبات کے بن جاتے ہیں اور اس صورت میں وہ کسی چیز کے تسلسل کے ساتھ ہونے کے معنے دیتا ہے.(اقرب) بَیِّنَۃٌ بَیِّنَۃٌ بَیِّنٌ کی مونث ہے اور ان معنوں کے رُو سے یہ لفظ کسی واضح اور جلی چیز کے معنے دیتا ہے لیکن علاوہ اس کے کہ یہ بَیِّنٌ کی مونث ہے اس کے مستقل معنے بھی ہیں اور وہ دلیل اور حجت کے ہیں (اقرب) تفسیر.قرآنی اصطلاح میں دو قسم کے لوگ اہل کتاب اور مشرک قرآن کریم کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے تمام بنی نوع انسان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصے کا نام اُس نے اہل کتاب رکھا ہے اور دوسرے حصے کا نام اُس نے مشرک رکھا ہے.قرآنی اصطلاح کے مطابق دنیا کا کوئی حصہ ان دو قسموں سے باہر نہیں یا تو بنی نوع انسان اہلِ کتاب میں سے ہوں گے یا بنی نوع انسان مشرکین میں سے ہوں گے اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر بعض لوگ ایسے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں.جنہیں نہ تو اہل کتاب میں سے کہا جا سکتا ہے نہ مشرکوں میں سے.جیسے دہریہ ہیں.دہریہ بظاہر نہ اہل کتاب میں سے نظر آتے ہیں نہ مشرکوں میں سے.لیکن قرآن کریم کی اصطلاح میں وہ دونوں میں سے ایک گروہ میں ضرور شامل ہیں اور قرآنی اصطلاح سے نتیجہ نکالتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ مشرکوں میں شامل ہیں.درحقیقت اس اصطلاح میں ایک لطیف اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ توحید بغیر الہام کے نہیں آ سکتی.یہ تو ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اہل کتاب میں سے ہو اور مشرک ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص اہلِ کتاب میں سے نہ ہو اور موحد ہو.پس جو اہل کتاب میں سے نہیں وہ ضرور مشرک ہے اور جو اہلِ کتاب میں سے ہے وہ یا موحّد ہے یا مشرک ہے.کیونکہ توحید نام ہے صفاتِ الٰہیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف صحیح طور پر منسوب کرنے کا اور یہ مقام سوائے اہلِ کتاب کے اور کسی کو حاصل نہیں

Page 410

کرتا ہے اس کی تردید کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ تمہارا خیال درست نہیں.گویا كَلَّا کے معنے ہیں اے مخاطب ’’یوں نہیں.یوں نہیں‘‘ جیسا تم سمجھتے ہو ہمارےملک میں بھی رواج ہے کہ جب کسی بات کو ردّ کرنا مقصود ہو تو کہتے ہیں ’’نہیں نہیں.نہیں نہیں ‘‘.پس كَلَّا کیا ہے درحقیت ’’نہیں نہیں‘‘ کا ایک مترادف لفظ ہے جو عربی زبان میں استعمال ہوتاہے اور اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ تم سمجھتے ہو وہ درست نہیں بات دراصل کچھ اور ہے.اب سوال پیدا ہوتاہے کہ پہلے مضمون میں وہ کون سی بات تھی جس پر دشمن اعتراض کرسکتا تھا اور جس کی یہاں نفی کی گئی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ پہلی آیت میں یہ مضمون بیان کیا گیا ہے کہ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ سکھائے گا جسے وہ اب تک نہیں جانتا.یعنی اللہ تعالیٰ اپنے الہام کے ذریعہ دنیا کی راہنمائی فرمائے گا اور خود اپنے پاس سے وہ تعلیم نازل کرے گا جو اسے روحانیت کے بلند ترین مقامات پر پہنچانے والی ہو.اس پر اعتراض پیدا ہوتا تھا کہ بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے کسی الہام کی ضرورت نہیں.انسان خود اپنی عقل سے کام لے کر ترقی کرسکتا ہے.چنانچہ یہ سوال ایسا ہے جو موجودہ زمانہ میں تعلیم یافتہ طبقہ کی طرف سے خاص طور پر پیش کیا جاتا ہے.جب ہم کہتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری ہدایت کا سامان کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا کو ہمارے معاملات میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.ہم خود اپنی عقل اور فہم سے کام لے سکتے اور اپنی ترقی کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ تدابیر اختیار کرسکتے ہیں.یہی اعتراض ہے جو عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا تھا اورانسان کہہ سکتا تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کی ضرورت نہیں.كَلَّا نے اس خیال کی تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ قطعی طور پر غلط بات ہے کہ انسان اپنی ہدایت اور بچائو کا سامان اپنے لئے خود بخود تجویز کرسکتاہے.اسے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت نازل نہ ہو تو دنیا کبھی ترقی کی طرف ایک قدم بھی بڑھا نہیں سکتی.اس کی ترقی وابستہ ہے اللہ تعالیٰ کے الہام اور اس کے کلام سے.اس کی ہدایت کے بغیر نہ انسان نے پہلے کبھی روحانی اصلاح کی اور نہ آئندہ کرسکتا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس خیال کی بنیاد پر روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ خیال انسان کے دل میں کیوں پیدا ہوتا ہے فرماتا ہے اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤى یہ خیال کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں ہم اپنی ہدایت کا سامان خودبخود کرلیں گے.یہ بغاوت اور سرکشی کا خیال ہے.طَغٰی کے معنے جَاوَزَ الْقَدْرَ وَالْـحَدَّ کے ہوتے ہیں یعنی فلا ں شخص حد سے گزرگیا.پس اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤى کے یہ معنے ہوئے کہ یقیناً انسان حد سے باہر نکل جانے والا ہے.ہم نے بے شک انسان کو قوتیں دی ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنی ہدایت

Page 411

ہوسکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفات کو صحیح طور پر وہی شخص خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر سکتا ہے جس کی الہام الٰہی نے راہنمائی کی ہو یاجسے ایسے الہام الٰہی کا علم حاصل ہو.ایک دہریہ بظاہر خدا تعالیٰ کا منکر ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ وہ صفتِ خلق کو یا قانونِ قدرت کی طرف منسوب کرتا ہے یا اتفاق کی طرف منسوب کرتا ہے اور گو وہ خدا تعالیٰ کا قائل نہیں.مگر خدا تعالیٰ کے ماننے والے کے نزدیک تو اُس نے شرک ہی کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفت کسی اور کی طرف منسوب کر دی.پس خود دہریہ کے نقطہ نگاہ سے وہ منکر ہے مگر مذہبی آدمی کے نقطہ نگاہ سے وہ مشرک ہے کیونکہ اُس نے خدائی صفات کو دوسرے کی طرف منسوب کردیا.بہرحال قرآن کریم نے دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے ایک اہلِ کتاب اور دوسرے مشرک.جب قرآن کریم اہلِ کتاب اور مشرک کے الفاظ اکٹھے استعمال کرے تو اُس کی اصطلاح کے رُو سے اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ سب غیر مسلم دنیا.یہ تمہید میں نے اس لئے اٹھائی ہے کہ اگلا مضمون اس کے بغیر سمجھ نہیں آ سکتا.مسیحی مصنفین کا قرآن مجید کو غیر اہل کتاب کے لیے مخصوص کرنا اور اس کی تردید یاد رکھناچاہیے کہ اِس سورۃ میں ایک بہت بڑے مسئلہ کا حل کیا گیا ہے اور یہ آیت اُس مسئلہ کے بارے میں بطور نصّ واقعہ ہوئی ہے.مسیحی مصنّفین ہمیشہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ قرآن کریم کا دعویٰ ( جہاں تک ایمان کا سوال ہے) صرف غیر اہل کتاب سے متعلق ہے اور وہ اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہود کی نسبت آتا ہے.وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ ( المائدۃ:۴۵) جو شخص اُس کلام کے مطابق حکم نہیں دیتا جو خدا تعالیٰ نے اُتارا ہے وہ کافر ہے.اور مسیحیوں کی نسبت فرماتا ہے وَ لْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فِيْهِ١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(المائدۃ:۴۸) اِن آیات سے وہ استدال کرتے ہیں کہ چونکہ قرآن کریم نے یہودیوں اور عیسائیوں پر یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ اپنی کتابوں پر عمل کیوں نہیں کرتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں اور جب تورات اور انجیل اب تک قابلِ عمل ہیں تو معلوم ہوا کہ کم سے کم اہلِ کتاب کے لئے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں.پس وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قرآن کریم کے دعویٰ پر غور کرنے کی ضرورت نہیں اگر وہ جھوٹا ہے تو جھوٹا ہی ہے اور اگر سچا ہے تو ہمیں ماننے کا پابند نہیں کرتا اور جب ہم اس کو ماننے کے پابند نہیں تو ہمیں اس پر وقت ضائع کرنے کی ضرورت کیا؟ (The Coran by William Muir Page 204,205) اِس کے جواب میں مسلمانوں کی طرف سے یہ آیات پیش کی جاتی ہیں.

Page 412

انگلستان میں ایک دفعہ ایک پائلٹ کے ساتھ ایسا ہی واقعہ ہوا.جب وہ سترہ ہزار فٹ کی بلندی سے اوپر گیاتو یک دم اس نے دیکھا کہ اس کے ساتھی نے زور سے اس کی گردن پکڑلی ہے اور وہ اس کے گلے کو دبا کر اسے ہلاک کرنا چاہتا ہے.اس نے چونکہ ہمالیہ پہاڑ کے واقعات اکثر سنے ہوئے تھے اور وہ جانتا تھا کہ اوپر پہنچ کر ہوا کے ہلکاہونے کی وجہ سے انسان اپنے دماغی توازن کو قائم نہیں رکھ سکتا اس لئے وہ جھٹ اپنے جہاز کونیچے کی طرف لے آیا.جب وہ سات آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر آپہنچا تو اس کا دوست ہوش میں آگیا اور اپنے کئے پر ندامت کا اظہار کرنے لگا.غرض ہر چیز کا ایک دائرہ عمل ہوتاہے جس سے وہ باہر نہیں جاسکتی.یہی حال انسان کا ہے بے شک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے خاص طور پر اعلیٰ درجہ کی طاقتیں دے کر بھیجا گیا ہے مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنی لائن کے علاوہ دوسری لائن میں بھی قابلیت کے جوہر دکھاسکتا ہے.گھوڑا ساٹھ ساٹھ بلکہ سو سو میل تک بعض دفعہ ایک سانس میں دوڑ سکتا ہے مگر اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ عقلی کاموں میں بھی انسان کا مقابلہ کرسکتا ہے.بے شک دوڑنے کے کام میں ایک گھوڑا بہتر سے بہتر تیز رفتار انسان سے بھی زیادہ تیز دوڑے گا مگر جہاں عقل کا سوال آئے گا وہاں ایک گھوڑا ادنیٰ سے ادنیٰ اور بیوقوف سے بیوقوف انسان جتنا کام بھی نہیں کرسکے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ تو درست ہے کہ ہم نے انسان کو طاقتیں دی ہیں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اپنی حد سے آگے نکل سکتا ہے.جوکام اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے وہاں تک اس کی رسائی نہیں ہوسکتی.وہ کام اگر کرے گا تو اللہ تعالیٰ ہی کرے گا انسان اپنی عقل سے اسے سرانجام نہیں دے سکتا.پس كَلَّاۤ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَيَطْغٰۤى میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ وسوسہ جو بعض قلوب میں پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ کوئی تعلیم بھیجنے کی کیا ضرورت ہے ہم اپنے لئے آپ ہی ایک مذہب بنالیں گے یہ بالکل جھوٹ ہے.ایسے خیالات اسی شخص کے دل میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنی حد سے آگے نکل جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا کام بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کرسکتاہے.بندے کا کام نہیں کہ وہ اس میں دخل دے سکے.بے شک اس نے تمہیں طاقتیں دی ہیں مگر وہ غیرمحدود نہیں بلکہ ایک حد کے اندر ہیں.اسی طرح بے شک اس نے تمہیں عقل دی ہے مگر وہ بھی تمہاری ذاتی طاقتوں تک محدود ہے.تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنے لئے خودبخود کوئی مذہب بنالو یا اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے وسائل اپنی عقل سے تجویز کرسکو.

Page 413

وہ اسلام لے آئیں تو سمجھ لو کہ وہ ہدایت پا گئے اور اگر پھر جائیں تو تیرا کام صرف ہدایت پہنچانا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے.(۴) قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِيْنَ ( الانعام :۹۱) تو کہہ دے کہ میں اس پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا یہ تو جہانوں کے لئے ایک نصیحت ہے یہ اور اسی قسم کی دوسری آیات جن میں جہانوں کے الفاظ قرآ ن کریم کے لئے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اُن کے متعلق مسیحی مبلّغ یہ کہہ دیتے ہیں کہ احزاب کالفظ خود تمہارے قرآن میں عرب کے قبائل کے متعلق آتا ہے اس لئے احزاب سے کُل دنیا کس طرح مراد لی جا سکتی ہے اور عَالَمِیْن کا لفظ جب حضرت مریمؑ اور بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوںکے متعلق آتا ہے تو تم اس کے معنے صرف بنی اسرائیل کے کرتے ہو اگر وہاں عَالَمِیْن کے معنے صرف بنی اسرائیل کے ہو سکتے ہیں تو یہاں عَالَمِیْن کے معنے صرف عرب کے قبائل کے کیوں نہیں ہو سکتے؟ اور جو باقی آیتیں ہیں اُن میں صرف ایمان کے لئے بُلایا گیا ہے ایمان لانا ضروری قرار نہیں دیا گیا.زیادہ سے زیادہ اِن آیتوں کے یہ معنے لئے جا سکتے ہیں کہ اگر اہل کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مان لیں تو زیادہ اچھا ہے مگر اہل کتاب کو نہ ماننے کی وجہ سے مجرم تو نہیں قرار دیا گیا.گو یہ استدال مسیحیوں کا کچّا بلکہ غلط ہے لیکن ایک لمبا راستہ ہمیں اُن کو منوانے کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے بہرحال اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ قرآن کریم کی وہ آیات جو اس بات کی تائید میں ہماری طرف سے پیش کی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب دنیا کی طرف رسول ہیں اور قرآن کریم سب دنیا کے لیے کتاب ہے اس کے متعلق بعض شبہات (جو گو غلط ہیں) پیدا کرنے اور مسیحیوں کو اس ٹھوکر میں مبتلا کرنے کے سا مان خود مسلمان مفسّرین نے کئے ہیں اور بعض شبہات ایسے ہیں جو اپنی نافہمی اور پورا تدبر نہ کرنے کی وجہ سے غیر مسلموں کو اپنے طور پر پیدا ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب کو ایمان لانے کی جو دعوت قرآن کریم میں دی گئی ہے اُس کو وہ صرف ایک زائد خیر قرار دیتے ہیں لازمی اور قطعی قرار نہیں دیتے حالانکہ قرآن کریم نے نہ صرف اُن آیات میں جن کو اُوپر درج کیا گیا ہے اہل کتاب کا ایمان لانا ضروری قرار دیا ہے بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ثابت کیا جائے گا صاف اور کھلے الفاظ میں اس امر کا اعلان کیا ہے کہ اہلِ کتاب کفر میں مبتلا ہوچکے ہیں اور اب اُن کی نجات کی صرف یہی صورت باقی رہ گئی ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں اور آپ کی غلامی اختیار کریں.قرآن کریم کے بعد جب ہم کتب احادیث کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ایسی بہت سی روایات پائی جاتی ہیں جن سے قطعی اور یقینی طوپر ثابت ہو تاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب جہان کی طرف مبعوث ہوئے

Page 414

اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰىؕ۰۰۹ تیرے رب ہی کی طرف یقیناً لو ٹ کر جانا ہے.تفسیر.یہاں مفسرین نے بالعموم رَبِّكَ کے متعلق لکھا ہے کہ اس میں ضمیر انسان کی طرف پھیری گئی ہے (روح المعانی زیر آیت اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى، تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى) مگر میرے نزدیک یہاں رَبِّكَ سے وہی رب مراد ہے جس کا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ میں ذکر آتا ہے اور جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا.فرماتا ہے یہ انسان اپنے آپ کو مستغنی کس طرح سمجھ سکتا ہے جبکہ واقعہ یہ ہے کہ انہوں نے آخر تیرے رب کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جانا ہے تو پھر وہی بتاسکتا ہے کہ وہاں کن اعمال کی ضرورت ہے، یہ لوگ اپنی عقل سے وہاں کے حالات کس طرح معلوم کر سکتے ہیں؟ آخر یہ ایک موٹی بات ہے کہ اگر ایک شخص انگلستان جانا چاہتا ہے تو اسی شخص سے وہاں کے حالات دریافت کرے گا جو انگلینڈ سے واپس آچکا ہوگا.وہ اس کے پاس جائے گا اورکہے گا کہ میں انگلینڈ جانا چاہتا ہوںمگر مجھے علم نہیں کہ وہاں کی آب و ہوا کیسی ہے وہاں مجھے کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے، کتنا روپیہ مجھے ساتھ لے جانا چاہیے کیا کیا باتیں مجھے سفر میں ملحوظ رکھنی چاہئیں.آپ چونکہ انگلینڈ میں رہ چکے ہیں اور وہاں کے حالات سے آپ کو ذاتی طور پر واقفیت ہے اس لئے آپ مجھے بتائیںکہ وہاں کی آب و ہوا کے لحاظ سے مجھے کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے.آیا سرد کپڑے میں اپنے ساتھ لے جائوں یا گرم اور اگر گرم لے جائوں تو وہ کس قدر گرم ہونے چاہئیں.کیونکہ محض ٹھنڈک یا سردی کے ذکر سے یہ پتہ نہیں لگ سکتاکہ وہاں کس قسم کی سردی پڑتی ہے.خفیف پڑتی ہے یا شدید.میں ۱۹۲۴ء میں جب انگلستان سے واپس آیا ہوں اس وقت نومبر کا مہینہ تھا اور نومبر کے دنوں میں یہاں بہت معمولی سردی ہوتی ہے مگر انگلستان میں جس قدر سردی پڑتی ہے اس کی شدت کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ایک دن اکتوبر کے مہینہ میں رات کے گیارہ بجے میں بند موٹر میں سفر کر رہا تھا اور میری حالت یہ تھی کہ میں نے گرم بنیان پہنی ہوئی تھی اس پر گرم کرتہ تھا اس پر گرم صدری تھی اس کے اوپر گرم کوٹ تھا پھر اس کے اوپر اوورکوٹ تھا اور اوور کوٹ بھی ہندوستان کا نہیں بلکہ وہ جو انگلستان کے لئے بنوایا گیا تھا اور جو ہندوستانی اوور کوٹ سے دوگنا تگنا موٹا ہوتا ہے مگر اتنے گرم کپڑوں کے باوجود اور پھر بند موٹر میں سفر کرنے کے باوجود مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے مجھ پر کوئی کپڑا نہیں یہ تو انگلستان کی سردی کا حال ہے.اس کے بعد آر کٹک میں چلے جائوتو وہاں انگلستان سے بھی زیادہ ٹھنڈ ہوگی.اس کے مقابل میں امریکہ کے

Page 415

بعض حصے ایسے ہیں جہاں منٹ منٹ کے بعد موسم بدلتا رہتا ہے.ابھی گرمی ہوتی ہے اور ابھی تھوڑی دیر کے بعد ہی سردی شروع ہوجاتی ہے.سردی ہوتی ہے تو معاً گرمی شروع ہو جاتی ہے وہاں یہی حالت رہتی ہے کہ جرسی پہنی اور اتاردی پھر پہنی اور اتار دی.غرض دنیا میں یہ طریق ہے کہ جب کوئی شخص انگلستان جانا چاہے گا تو وہ پہلے واقف حال لوگوں سے پوچھے گا کہ مجھے وہاں کیسے کپڑوں کی ضرورت ہے یا امریکہ جانا چاہے گا تو وہاں سے آنے والے لوگوں سے پوچھے گا کہ مجھے امریکہ میں کن کن چیزوں کی ضرورت ہوگی.مثلاً ہندوستا نیوں کو عام طور پر مرچیں کھانے کی عادت ہوتی ہے.اب اگر کوئی ایسا شخص امریکہ جانا چاہے گا جسے مرچیں کھانے کی عادت ہوگی تو وہ یہ ضرور دریافت کرے گا کہ مجھے وہاں مرچیں مل سکتی ہیںیا نہیں اور جب نفی میں جواب ملے گا اور اسے مرچیں کھانے کا زیادہ شوق ہوگا تو وہ اپنے ساتھ مرچیں لے جائے گا تاکہ وہاں اسے تکلیف نہ ہو.یا مثلاً عرب میں کوئی ہندوستانی جسے پان کا شوق ہو جانا چاہے گا تو وہ پہلے واقف حال لوگوں سے پتہ لگائے گا کہ وہاں پان ملتا ہے یا نہیں.تاکہ اسے حالات کا صحیح علم ہوجائے اور وہ ان کے مطابق اپنی تیاری کو مکمل کرے غرض یہ ایک طبعی بات ہے کہ جب انسان نے کہیں جانا ہوتا ہے وہ پہلے واقف لوگوں سے مشورہ لیتا اور اس جگہ کے حالات کو معلوم کرتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ وہ واقف لوگوں سے تو نہ پوچھے اور اپنے عقلی ڈھکونسلوں پر تیاری کی بنیاد رکھ دے.اسی نکتہ کو اللہ تعالیٰ اس جگہ بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے اِنَّ اِلٰى رَبِّكَ الرُّجْعٰى ان لوگوں کی عقل ماری ہوئی ہے انہوں نے جانا خدا کے پاس ہے لیکن کہتے یہ ہیں کہ ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت نہیںکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے قرب کے راستے بتلائے.ان نادانوں سے کوئی کہے کہ تم معمولی معمولی سفر اختیار کرتے ہو تو پہلے تمام حالات دریافت کرنے کی کوشش کیا کرتے ہو.تم پوچھتے ہو کہ جہاں میں جانا چاہتا ہوںوہاں گرمی ہے یا سردی.کپڑے اپنے ساتھ کیسے لے جائوں.کون کون سی ضروریات کا خیال رکھوں.بوٹ اپنے ساتھ لے جائوں تو وہ کیسے ہوں.بعض ملکوں میں اس کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں کہ معمولی بوٹ اگر انسان نے پہنا ہوا ہو تو شام تک وہ تھیلا بن کر رہ جاتا ہے.اسی طرح بعض ملک ایسے ہیں جن میں اتنا مچھر ہوتا ہے کہ انسان بغیر مچھر دانی کے ایک رات بھی گذار نہیں سکتا.غرض مختلف ملکوں کے مختلف حالات ہوتے ہیںاور انسان کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوتا جب تک وہ ان تمام حالات کو دریافت نہ کرلے.غرض اس محدود دنیا میں جو صرف ۲۵ہزار میل میں پھیلی ہوئی ہے ایسے زمانہ میںجبکہ ریل اور تار اور ڈاک کے وسائل موجود ہیں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے میں کئی قسم کی دقتیںحائل ہو جاتی ہیں.اسی لئے واقف حال لوگوں سے حالات دریافت کرتا ہے اور اگر کوئی واقف نہیں ملتا تو کسی کمپنی کو لکھتا ہے کہ میں فلاں ملک میں جانا چاہتا ہوںمہر بانی فرما کر مجھے بتایا جائے

Page 416

کہ میں کہاں کا ٹکٹ لوں،کتنا روپیہ اپنے پاس رکھوںاور کیا کیا چیزیں ساتھ لے جائوں.ہندوستان میں کسی سفر کے لئے گھر سے نکلواوربستر ساتھ نہ ہو تو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے.ہوٹلوں میں اوّل تو بستر ملتا ہی نہیں اور اگر ملے گا تو ایسا گندہ اور غلیظ اور ناپاک اور بدبودار کہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے.لیکن اسی خیال کے ماتحت ا گر کوئی انگلستان جاتے ہوئے بستر اپنے ساتھ لے جائے تو ہر مرد عورت اور بچہ اسے دیکھ کر ہنسنے لگ جائے گا کہ یہ کیسا انسان ہے سفر میں اپنے ساتھ بستر لئے پھرتا ہے.انگلستان میں یہ دستور ہے کہ انسان جس جگہ ٹھہرے وہاں سونے کے لئے اسے مالک مکان کی طرف سے بستر دیا جاتا ہے.ہرہوٹل میں روزانہ بستر تبدیل کئے جاتے ہیں اور چادر پر ایک معمولی داغ بھی رہنے نہیں دیا جاتا.وہاں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہوٹل کا بستر اگر استعمال کیا گیا تو وہ گندہ ہوگا کیونکہ ہر اچھے ہوٹل میں ایسا انتظام ہوتا ہے کہ روزانہ اوپر نیچے کی چادریں بدلی جاتی ہیں.یہ نہیں ہوگا کہ ایک مریض کا کمبل دوسرے کو دے دیا جائے اور دوسرے کی میلی کچیلی چادر تیسرے کے نیچے بچھادی جائے وہاںروزانہ دھوبی سے دھلی دھلائی چادریں آتی ہیںاور بستروں پر بچھادی جاتی ہیں.یہ کبھی نہیں ہوتاکہ ایک کا کپڑا دوسرے کو دے دیں.یہی رواج ہزارہ میں بھی ہے وہاں غریب سے غریب آدمی بھی دس پندرہ بستر ضرور رکھ لیتا ہے تاکہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اگر وہاں کوئی شخص بستر اپنے ساتھ لائے تو میزبان سخت برا مناتا ہے کہ تم نے مجھ پر بے اعتباری کی.اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہزارہ کے لوگ ہمارے سالانہ جلسہ پر آتے ہیں تو اپنے بستر ساتھ نہیں لاتے وہ سمجھتے ہیں بستر ساتھ لے جانا بڑی کمینگی ہے مگر یہاں آکر انہیں سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے کیونکہ یہاں یہ رواج ہے کہ ہر شخص بستر اپنے ساتھ رکھتا ہے اسی طرح ہزارہ میں یہ رواج ہے کہ لوگ روپیہ اپنے ساتھ نہیں رکھتے جس کسی کے ہاں ٹھہرتے ہیںاس کا فرض ہوتا ہے کہ کرایہ ادا کرے.چنانچہ چلتے ہوئے وہ بڑے اطمینان سے کہتے ہیں کہ اب کرایہ لائو ہم واپس جانا چاہتے ہیں.اب دیکھو ہزارہ کوئی زیادہ دور نہیں.چند گھنٹوں کے سفر کے بعدانسان وہاں پہنچ جاتا ہے مگر عادات اور رسوم ورواج میں کس قدر فرق ہے کہ دیکھ کر حیرت آتی ہے اگر ان حالات کو معلوم کئے بغیر کوئی شخص دوسرے مقام پر چلا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ اسے سخت دقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا ان لوگوں کو اتنی بھی سمجھ نہیں آتی کہ مذ ہب اور دین کا اصل تعلق موت کے بعد کی زندگی سے ہے اور یہ زندگی وہ ہے جس کے حالات سے یہ لوگ محض بے خبر ہیں ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس زندگی کو دیکھ کر آیا ہوں اس لئے مجھے کسی اور کی راہنمائی کی ضرورت نہیں.جب ان لوگوں کو اس زندگی کے

Page 417

حالات کا جو مرنے کے بعد حاصل ہونے والی ہے کچھ بھی علم نہیں اور انہوں نے لوٹ کر آخر اللہ تعالیٰ کی طرف ہی جانا ہے تو اگر اللہ تعالیٰ ان کو اس زندگی میں کام آنے والی باتیں نہیں بتائے گا تو ان کو پتہ کس طرح لگے گا کہ وہاں کون سے اخلاق کام آسکتے ہیں.کون سے اعمال ان کی اخروی حیات کو سنوار سکتے ہیں، کون سے عقائد اختیار کر کے وہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بن سکتے ہیں.یہ باتیں تو اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے خود اپنی عقل سے یہ لوگ وہاں کے حالات معلوم نہیں کر سکتے اس لئے ان کی سرکشی اور اپنے آپ کو ہدایت کے متعلق خدا تعالیٰ کی مدد سے مستغنی سمجھناحماقت کی بات ہے بغیر الٰہی امداد کے اس بارہ میں نہ انسان نے پہلے کامیابی حاصل کی ہے اور نہ اب کر سکتا ہے.اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰىۙ۰۰۱۰ (اے مخاطب ) تو (مجھے)اس (شخص)کی (حالت کی) خبر دے جو روکتا ہے.عَبْدًا اِذَا صَلّٰى ؕ۰۰۱۱ ایک ( عبادت گذار ) بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک مثال کے ذریعہ کفار کو ملزم کرتا ہے.فرماتا ہے مجھے اس شخص کا حال تو بتائو یعنی ذرا اس شخص کی معقولیت تو مجھ پر ظاہر کرو.اَرَءَيْتَ کے لفظی معنے ہوتے ہیں ’’کیا دیکھا تونے‘‘.لیکن محاورہ میں اس کے معنے ہوتے ہیں اَخْبِرْنِیْ مجھے بتائو تو سہی(مفردات).چونکہ یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب ہیں اس لئے اَرَءَيْتَ کے معنے ہوں گے اے محمد رسول اللہ مجھے بتا تو سہی.دراصل یہ زجر کا ایک طریق ہے کہ بات تو ہم دوسرے کی کرتے ہیں.لیکن ہم اس کو مخاطب کرنا نہیں چاہتے.وہ سنے گا تو آپ ہی دل میں شرمندہ ہوگا کہ میں کیسی لغو حرکت کررہا ہوں.ہم اس کی بجائے تجھے مخاطب کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذرا اس شخص کا حال تو بتائو يَنْهٰىجو روکتا ہے مگر کس کو؟ کسی جھگڑالو کو نہیں، کسی لڑاکے کو نہیں، کسی فریبی کو نہیں، کسی ڈاکو کو نہیں بلکہ عَبْدًا ہمارے ایک مسکین اور عاجز بندے کو.اور روکتا کس بات پر ہے.اس پر نہیں کہ اس نے فلاں قانون کو پورا نہ کیا یا فلاں سیاسی مسئلہ میں اس نے ہم سے اختلاف رکھا بلکہ اِذَا صَلّٰى.وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور یہ دوڑ کر اس کا گلا پکڑلیتا ہے.کیا دنیا کا کوئی بھی معقول انسان اس امر کو جائز اور درست قرار دے سکتا ہے؟ کوئی سیاسی اختلاف نہیں، کوئی اقتصادی اختلاف نہیں، کوئی تمدّنی اختلاف نہیں، کوئی حاکم اور محکوم

Page 418

کا اختلاف نہیں.ایک شخص اپنے گھر میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور دوسرا شخص اسے پکڑ کے عبادت سے روکنا شروع کردیتا ہے.کیا اس میں کوئی بھی معقولیت پائی جاتی ہے.کیا یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ خدا تعالیٰ کا بندہ خدا تعالیٰ کے سامنے عبادت کررہا ہے اور ابوجہل اپنے گھر میں بیٹھے یونہی اچھل کود رہا ہے نہ لینا نہ دینا.نہ تعلق نہ واسطہ اور وہ یونہی سیخ پا ہورہا ہے.یہ نہیں کہ نماز پڑھتے وقت کوئی ابوجہل کا گھوڑا کھول کر لے جاتا ہے یا اس کا اسباب اٹھا کر لے جاتا ہے جس کی بناء پر اسے غصہ پیدا ہوتا ہے.ایک شخص کھڑے ہوکر نماز پڑھتا ہے اور ابوجہل صفت شور مچانا شروع کردیتا ہے کہ ماردیا، ماردیا.کیا اتنی غیرمعقول حرکتیں کرنے والا انسان بھی یہ سمجھتا ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں.چونکہ پہلی آیات میں اس امر کا ذکر تھا کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں دینی معاملات میں الٰہی راہنمائی کی ضرورت نہیں وہ اپنی عقل سے اپنے لئے خود بخود ایک راہ تجویز کرسکتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو ملزم کرنے کے لئے یہ مثال پیش کی ہے اور فرمایا ہے کہ تم جو دن رات یہ رٹ لگارہے ہو کہ ہمیں دینی معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں.تم اپنے حالات پر غور کرو اور دیکھو کہ تمہارا یہ دعویٰ کہاں تک درست ہے.تم اگر کسی اور کی طرف نہیں دیکھ سکتے تو ابوجہل یا دوسرے لیڈروں کو ہی دیکھ لو.وہ قوم کے سردار ہیں، دنیوی معاملات میں لوگوں کو مشورہ دیتے ہیں، فوجوں کی کمان کرتے ہیں اور لوگوں پر ان کی دانائی کا سکہ بیٹھا ہوا ہے مگر دین کے معاملہ میں ان کی عقل اس قدرماری ہوئی ہے کہ ایک بندہ اکیلا اپنے گھر میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو وہ اچھلنے کودنے لگ جاتے ہیں.جن لوگوں کی نابینائی اس قدر بڑھ چکی ہو اور جو دینی معاملات میں اس قدر حماقت اور جہالت کے کاموں پر اتر آئے ہوں ان کے متعلق تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو کہ وہ اس روحانی میدان میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ایک قدم بھی اٹھانے کی طاقت رکھتے ہیں.اَرَءَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤىۙ۰۰۱۲ (اے مخاطب) تو (مجھے) بتا تو سہی کہ اگر وہ (نماز پڑھنے والا بندہ) ہدایت پر ہو؟ تفسیر.اس موقعہ پر ابوجہل صفات والوں کی طرف سے کہا جاسکتا تھا کہ تم جو اعتراض کرتے ہو کہ ہم نے عبادت میں کیوں دخل دیا یہ درست نہیں.بے شک اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں تھا.ہماری قوم کا کوئی نقصان نہیں تھا.

Page 419

حکومت اور نظام کا کوئی نقصان نہیں تھا.مگر چونکہ اس میں عبادت کرنے والے کا اپنا نقصان تھا اور ہم نے دیکھا کہ وہ ایک برا کام کررہا ہے ہم نے ہمدردی اور محبت کے پیش نظر اسے روک دیا تاکہ اس کام کے برے نتائج سے وہ محفوظ رہے.اس کا جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرَءَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰى.مجھے بتائو تو سہی اگر ہمارا وہ بندہ ہدایت پر ہو.مطلب یہ ہے کہ وہ ہدایت پر ہے.یہ بھی گفتگو کا ایک طریق ہوتا ہے کہ الفاظ شک کے استعمال کئے جاتے ہیں مگر مراد الٹ ہوتی ہے.ہر زبان کا یہ طریقہ ہے مثلاً اردو میں بھی بولتے ہیں شاید میں نے اسی طرح کرنا ہو اور مراد ہوتی ہے اسی طرح کرنا ہے.اسی طرح فرماتا ہے اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰى یعنی اِنْ کَانَ مُـحَمَّدٌ اَوْ اِنْ کَانَ الْعَبْدُ الْمُصَلِّیْ عَلَی الْھُدٰی.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا ہمارا وہ بندہ جو ہماری عبادت کررہا ہے سچا ہوا توپھر اس کو روکنے والے کا کیا حال ہوگا.مطلب یہ ہے کہ تم اپنے فعل کے جواز میں یہ کہہ رہے ہو کہ ہم اسے عبادت سے اس لئے روک رہے ہیں کہ یہ کہیں دوزخ میں نہ جاپڑے.کہیں اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کی ناراضگی کا مورد نہ بن جائے.حالانکہ جب یہ معاملہ اگلے جہان سے تعلق رکھتا ہے اور اگلا جہان وہ ہے جو نہ تم نے دیکھا اور نہ تمہارے باپ دادا نے.تو تمہیں کیونکر پتہ لگا کہ اس فعل کا نتیجہ ضرور خراب نکلے گا.اگر ذاتی طور پر تم سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچائی پر قائم نہیں تب بھی تمہیں عبادت سے روکنے کا کوئی حق نہیں تھا کیونکہ تم کسی یقین کی بناء پر ایسا نہیں کہہ رہے.تم زیادہ سے زیادہ یہی کہہ سکتے ہو کہ شاید یہ حق پر نہ ہو.اس لئے ہم اسے روکنا چاہتے ہیں.حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ حق پر ہو اور تم اسے روک کر ظالم بن رہے ہو.بہرحال جب یہ معاملہ اگلے جہان سے تعلق رکھتا ہے جس کے متعلق تمہارا علم کسی قطعی بنیاد پر قائم نہیں بلکہ ایک ڈھکونسلہ ہے.تم خیال کرتے ہو کہ شاید یہ جھوٹا ہو.شاید یہ برا کام کررہا ہو.تو محض ایک ظن کی بنا پر تمہیں اس کو روکنے کا حق کہاں سے پیدا ہوگیا.جبکہ ہوسکتا ہے کہ یہ ہدایت پر ہو اور تم جو اسے روک رہے ہو گمراہی اور ضلالت میں پڑے ہوئے ہو.دوسرے کو انسان اسی وقت کسی کام سے روک سکتاہے جب اس کے علم کی بنیاد یقین پر ہو.مثلاً اگر کوئی بچہ کنوئیں میں گر نے لگے اور ماں باپ پاس نہ ہوں تو ہر شخص حق رکھتا ہے کہ اسے روکے کیونکہ اس کا نتیجہ یقیناً ہلاکت ہے.لیکن اگر ایک شخص تجارت کرنے لگے، زید کا خیال ہو کہ مجھے نفع ہوگا اور بکر کا خیال ہو کہ نفع نہیں ہوگا تو ایسی صورت میں اگر بکر زید سے لڑ پڑے اور اسے تجارت سے روک دے تو ہر شخص بکر کو ملزم قرار دے گا اور اگر مجسٹریٹ کے پاس مقدمہ جائے گا تو وہ یقیناً بکر کو سزا دے گا اورکہے گا کہ یہ کون سی بدیہی بات تھی جس کی بناء پر تم نے

Page 420

دوسرے کو تجارت کرنے سے روک دیا.یہ تو ہوسکتا ہے کہ اگر کوئی شخص زہر کی پڑیا کھانے لگے تو ہم اسے روک دیں کیونکہ یہ بدیہی بات ہے کہ زہر کا نتیجہ ہلاکت ہے.لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کسی کو کھانے سے اس لئے روک دیں کہ ممکن ہے کہ اس کے نتیجہ میں تمہیں ہیضہ ہو جائے یا پیچش شروع ہوجائے.بہرحال جہاں قطعی اور یقینی نقصان ہو وہاں ہردوست اور ہمسایہ حق رکھتا ہے کہ دوسرے کو نقصان سے بچانے کی کوشش کرے.مگر جس امر کے متعلق یقین نہ ہو اس معاملہ میں کسی دوسرے کا دخل دینا اوّل درجہ کی حماقت ہوتی ہے.چونکہ یہاںعبادت کا معاملہ ہے جس کے متعلق کفار کسی یقین پر قائم نہیں تھے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری یہ دلیل قطعی طور پر غلط ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان سے بچانے کے لئے عبادت سے روک رہے ہیں.تم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہو کہ شاید یہ ہدایت پر نہ ہو.شاید یہ گمراہی میں مبتلا ہو حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ ہدایت پر ہو اور تم گمراہی میں مبتلا ہو.جب یہ معاملہ ایسا ہے جس میں تمہیں صرف شبہ ہی شبہ ہے اور دوسری طرف ایک جوان اور بالغ انسان اپنی مرضی سے ایک قدم اٹھار ہا ہے تو تم اس کو روکنے والے کون ہو.دنیا میں یہی طریق رائج ہے کہ جب کوئی بالغ، جوان اور سمجھدار انسان کوئی ایسا کام شروع کرتا ہے جس کے دونوں پہلو ہوسکتے ہوں مفید بھی اور مضر بھی تو کوئی شخص اس کو روکا نہیں کرتا ایک شخص سفر پر جاتا ہے تو وہ نقصان بھی اٹھاسکتا ہے اور فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے.ایک شخص تجارت کرتا ہے تو وہ نقصان بھی اٹھاسکتاہے اور فائدہ بھی اٹھاسکتا ہے مگر کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ سفر یا تجارت سے کسی کو اس لئے روک دے کہ میرا خیال ہے تمہیں نقصان ہوگا.یا چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تمہارا بمبئی جانا مفید نہیں اس لئے میں تمہیں گھر سے نکلنے نہیں دیتا.ہر شخص ایسے انسان کو پاگل قرار دے گا او رکہے گا کہ تمہیں کیا پتہ کہ اس سفر یا تجارت کا نتیجہ اچھا ہے یا برا.تم زیادہ سے زیادہ ایک قیاس کررہے ہو حالانکہ اس کے مقابلہ میں یہ بھی قیاس ہوسکتا ہے کہ اسے فائدہ ہو.اس لئے تمہارا روکنا جنون کی علامت ہے.یہی بات اللہ تعالیٰ اس جگہ بیان کرتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جوان، عاقل اور سمجھدار انسان ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں ہی انسان کا فائدہ ہے.اگر وہ عبادت کرتے ہیں تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم انہیں عبادت سے روکو.ہم مانتے ہیں کہ تم عبادت کی اہمیت تسلیم نہیں کرتے.مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو اس کی بنیاد محض شک پر ہے.اس لئے خواہ تم عبادت کو اچھا نہیں سمجھتے تب بھی عقلی طور پر تمہیں ہرگز یہ حق حاصل نہیں تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت سے روکتے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا صحیح نتیجہ مشکوک ہے تو تمہارے اس فعل بد کا اچھا نتیجہ کیونکر نکلے گا.

Page 421

اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى ؕ۰۰۱۳ یا تقویٰ کا حکم دیتا ہو (تو پھر اس روکنے والے کا کیا بنے گا) تفسیر.یہاں ایک زائد بات بیان کرکے پہلے استدلال کو مضبوط کردیا گیا ہے اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤى تک تو شبہ کے انداز میں یہ بات بیان کی تھی کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت سے روکنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر تمہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شبہ ہے تو تم خود بھی کسی یقین پر قائم نہیں.جب تمہارا دعویٰ بھی شک والا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے متعلق بھی تم شک کررہے ہو تو محض شک کی بناء پر تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت سے روکنا کسی صورت میں قرار نہیں دیا جاسکتا.آنحضرت صلعم اور آپ کے مخالفین کے عمل میں فرق اب ایک اور بات بیان کرتا ہے اور فرماتا ہے ہدایت تو دل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.تم کہہ سکتے ہو کہ ہم نہیں جانتے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہدایت پر ہیںیا نہیں.لیکن کیا تم اس کے تقویٰ کو نہیں دیکھتے.تقویٰ تو عمل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.جس کے متعلق یہ عذر نہیں کیا جاسکتا کہ ہم نہیں جانتے فلاں شخص میں تقویٰ پایا جاتا ہے یا نہیں.اگر دل کی بات کو پہچاننا تمہارے لئے مشکل تھا اور تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہدایت یافتہ ہونا پہچان نہیں سکتے تھے تو کیا تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کو بھی دیکھنے سے قاصر ہو اور کیا تم اس کو دیکھ کر یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ تم غلطی پر ہو یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غلطی پر ہیں.تم یہ تو کہہ سکتے ہوکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بتوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کی پرستش کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک غلطی ہے اس لئے ہم انہیں اس غلطی سے بچانے کے لئے عبادت سے روکتے ہیں.لیکن کیا تم اس تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے جو یہ اپنی زبان سے بیان کررہا ہے اور اس عمل کو نہیں دیکھتے جو یہ اپنے جوارح سے ظاہر کررہاہے اور کیا اس کی تعلیم اور اپنی تعلیم اور اس کے عمل اور اپنے عمل کو دیکھنے کے بعد تم یہ فیصلہ نہیں کرسکتے کہ کون ہدایت پر ہے؟تمہاری حالت یہ ہے کہ تم ٹھگی کرتے ہو، فریب کرتے ہو، جھوٹ بولتے ہو، قسم قسم کی بداخلاقیوں میں ملوث ہو اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ ہیں جو خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں، سچائی سے کام لیتے ہیں، غرباء کی مدد کرتے ہیں، ظلم سے روکتے ہیں، نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں، اکرام ضیف کی عادت رکھتے ہیں، امانت اور دیانت میں نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے ہیں اور دوسروں کو اپنی

Page 422

باتوں کی تعلیم دیتے ہیں.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ تم جو دن رات ٹھگی میں مشغول رہتے ہو، جو جھوٹ اور فریب کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے.تم تو سچے ہو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو تقویٰ کے پیکر ہیں اور دوسروں کو بھی تقویٰ کی راہوں پر چلنے کا حکم دیتے ہیں وہ جھوٹے ہوں.غرض یہ ایک زائد دلیل اللہ تعالیٰ نے پیش کی ہے اور اس طرح پہلی دلیل کو مضبوط کردیا ہے.فرماتا ہے اگر تم یہ کہو کہ ہمیں چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت میں شبہ ہے اس لئے ہم اسے عبادت سے روک رہے ہیں تب بھی تمہارا کوئی حق نہیں کہ ایسا کرو.کیونکہ اگر تمہیں یہ شبہ ہے کہ شاید محمد ؐرسول اللہ سچا نہ ہو تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ سچا ہو اور تم اس کو جھٹلانے میں ناراستی سے کام لے رہے ہو.لیکن اگر یہ زائد بات بھی اس میں پائی جاتی ہے کہ وہ نیک اعمال اور تقویٰ و عبادت کی باتوں کا دوسروں کو حکم دیتا ہے اور تم بداعمالی میں مستغرق رہتے ہو تو یہ ایک پختہ دلیل اس امر کی ہے کہ تم صداقت سے بہت دور جارہے ہو.سورۃ العلق چونکہ بالکل ابتدائی سورۃ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں نتائج کو بیان نہیں کیا.بلکہ ہر جگہ ان کو چھوڑتا چلا گیا ہے کیونکہ ابھی مکہ والوں کی طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کھلی مخالفت شروع نہیں ہوئی تھی.چونکہ ابتدائی ایام تھے اور کفار کو خوامخواہ بھڑکانا مقصود نہیں تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے صرف اَرَءَيْتَ اَرَءَيْتَ کہہ کر اشاروں اشاروں میں ہی حقیقت حال کو بیان کردیا ہے یعنی صرف اتنا ہی کہا ہے کہ مجھے اس شخص کا حال تو بتائو.لیکن آگے اس شخص کا نام نہیں لیا.اَرَءَيْتَ اِنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىؕ۰۰۱۴ پھر (یہ بھی) بتا کہ اگر یہ روکنے والا جھٹلاتا ہے اور (سچائی سے) منہ پھیر لیتا ہے.اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى ؕ۰۰۱۵ تو کیا وہ (یہ) نہیں جانتا کہ اللہ سب کچھ دیکھتا ہے.تفسیر.جس طرح اَرَءَيْتَ اِنْ كَانَ عَلَى الْهُدٰۤى اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى میں گو روئے سخن کفار کی طرف تھا مگر مخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا گیا تھا.اسی طرح اس جگہ گو خطاب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے مگر مراد کفار پر اتمام حجت کرنا ہے.فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو بتائو جس طرح کفارکو ہماری عبادت کرنے والے بندے کے متعلق یہ احتمال تھا کہ وہ غلط عبادت نہ کررہا ہو کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے رشتہ داروں کے خلاف

Page 423

بتوں کی پرستش ترک کرکے اللہ تعالیٰ کے آگے سربسجود ہورہا ہے.اسی طرح یہ بھی تو احتمال ہوسکتا ہے کہ یہ عبادت سے روکنے والا شخص ہی سچائی کو جھٹلانے والا اور ہدایت سے منہ موڑنے والا ہو اور جس کو عبادت سے روکا جاتا ہو وہ ہدایت پر ہو اور یہ اس کی تکذیب کررہا ہو.وہ اَمَرَ بِالتَّقْوٰى کررہا ہو اور یہ تَوَلّٰى اختیار کررہاہو.وہ کہہ رہا ہو کہ سچائی اختیار کرو.نیکی اور تقدس کا جامہ پہنو اور یہ اس سے پیٹھ پھیر رہا ہو.جب یہ بھی احتمال ہے تو اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى کیا اس قسم کے افعال کرنے والے کو یہ خیال نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ میرے اعمال کے مطابق نتیجہ نکالنے پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ نے یہاں نہایت لطیف بات کہی ہے فرماتا ہے وہ ہمارے بندے کو عبادت سے روکتا ہے اور پھر کہتا ہے میں کیوں نہ روکوں یہ میرا دوست تھا، میرا ہم وطن تھا اور میرا حق تھا کہ میں اُسے غلط راستہ پر چلنے سے روکوں.حالانکہ ہوسکتا تھا کہ وہ خود غلطی کررہا ہو.اگر احتمال اور شبہ پر قائم ہوتے ہوئے اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہمارے بندے کو روک دے تو کیا اسے یہ خیال نہیں آتا کہ آسمان پر ایک خدا اس نظارہ کو دیکھ رہا ہے.اگر میں اپنی طاقت اور قوت کے گھمنڈ میں دوسرے کو روک رہا ہوں تو زمین و آسمان کا طاقتور بادشاہ جو میرے اس ظلم کو دیکھ رہاہے وہ بھی طاقت رکھتا ہے کہ مجھے اس ظلم کی سزا دے.اگر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت میں دخل دیں اور کہیں ہم نے اس لئے دخل دیا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں یہ غلطی کررہا ہے تو اگر اس کے مقابلہ میں تم غلطی کررہے ہو تو یقیناً اس اصول کے مطابق خدا تعالیٰ کو بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ تمہیں پکڑے.آج تم ہمارے بندے کو عبادت سے روک رہے ہو اور کہتے ہو کہ ہم سمجھتے ہیں یہ غلطی کررہا ہے اگر تم ایک فرضی قیاس سے کام لینے کے بعد ہمارے بندے کو روکنے کا حق رکھتے ہو تو پھر یاد رکھو اگر تمہاری تکذیب اور تَوَلّٰى پر اللہ تعالیٰ نے بھی تم کو پکڑ لیا تو شکوہ نہ کرنا.اگر تمہیں جہالت اور قیاس سے دوسرے کے معاملات میں دخل دینے کا حق حاصل ہے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کو علم اور حقیقت حال سے واقف ہونے کے نتیجہ میں تمہارے معاملات میں دخل دینے کا بدرجۂ اولیٰ حق حاصل ہے.پھر یہ شکوہ نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عذاب میں مبتلا کردیا.پس اَلَمْ يَعْلَمْ بِاَنَّ اللّٰهَ يَرٰى میں کفار کے انجام کی طرف اشارہ ہے اوربتایا گیا ہے کہ ایک دن یہ لوگ خدائی گرفت میں آنے والے ہیں.

Page 424

كَلَّا لَىِٕنْ لَّمْ يَنْتَهِ١ۙ۬ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِۙ۰۰۱۶ یوں نہیں (ہوگا جیسے وہ چاہتا ہے بلکہ) اگر وہ (ان کاموں سے ) باز نہ آیا تو ہم اس کی پیشانی کے بال پکڑ کے گھسیٹیں گے.نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍۚ۰۰۱۷ ایک جھوٹی پیشانی (اور )خطاکار پیشانی (کے).حلّ لُغات.نَسْفَعُ نَسْفَعُ: سَفَعَ سے جمع متکلم کا صیغہ ہے اور سَفْعٌ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کو پکڑ کر سختی سے گھسیٹنا اور نَاصِیَۃ سر کے اگلے حصہ یا سر کے اگلے بالوں کو کہا جاتا ہے (اقرب).تفسیر.فرماتا ہے كَلَّا ہرگز نہیں.ہرگز نہیںتم جو یہ خیال کرتے ہو کہ ہمارے اس بندے کو کمزور اور ناتوان سمجھ کر اور بے یارومددگار خیال کرکے عبادت سے روک دو گے ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا.تمہارے سارے خیالات باطل ثابت ہوں گے اور تمہاری اپنی طاقت اور قوت کے متعلق گھمنڈ سب جاتا رہے گا.چنانچہ آج ہم اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ وہ جو ملک کا بادشاہ کہلاتا ہے جو لیڈر اور سردار قوم کہلاتا ہے اگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے گا تو ہم اسے سختی سے گھسیٹ کر اس کا انتقام لیں گے.سَفْعٌ کے معنے عربی زبان میں کسی چیز کو پکڑکر زور سے گھسیٹتے لئے جانے کے ہوتے ہیں.کفار میں بھی یہ عادت تھی کہ جب مسلمان غلام نماز کے لئے جاتے یا اپنے کسی اور کام کے لئے باہر نکلتے تو وہ انہیں کبھی ٹانگوں سے پکڑ کر اور کبھی سر کے بالوں سے پکڑ کر نہایت سختی کے ساتھ گھسیٹنا شروع کردیتے اور کہتے کہ تم بتوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کیوں کرتے ہو.غلاموںپر کفارِ مکہ کی سختی ایک غلام صحابی نے جو لمبے عرصہ تک کفارکے مظالم کا تختۂ مشق بنے رہے تھے ایک دفعہ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں اپنی قمیص اتاری تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان کی پیٹھ کاچمڑا ایسا ہے جیسے بھینسے کا چمڑا ہوتا ہے.انہوں نے خیال کیا کہ غالباً یہ کوئی مرض ہے.چنانچہ انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے کہ آپ کی پیٹھ کا چمڑا بالکل ایسا ہے جیسے کسی جانور کا چمڑا ہوتا ہے.وہ صحابی ہنس پڑے اور کہا تم کیا جانو کہ یہ کیا چیز ہے.یہ بیماری نہیں بلکہ ان مظالم کا نشان ہے جو کفار مکہ کی طرف سے ہم پر ڈھائے جاتے تھے.پھر انہوں نے سنایا کہ جب ہم نے اسلام قبول کیا تو چونکہ ہم غلام تھے اور مالک کو اس ملک کے قانون کے مطابق ہم پر ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے.جب وہ دیکھتے کہ ہم شرک نہیں کرتے تو بعض دفعہ وہ ہمارے پائوں میں رسیاں

Page 425

باندھ کر ہمیں گلیوں میں گھسیٹنا شروع کردیتے اور بعض دفعہ رسیاں باندھنے کی بجائے سر کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹنے لگ جاتے.گلیوں میںپتھر پڑے ہوئے ہوتے تھے مگر وہ اس بات کی کوئی پروا نہ کرتے اور ہمیں بے دردی کے ساتھ ان پتھروں پر گھسیٹتے چلے جاتے یہاں تک کہ ہمارے چمڑے چھل جاتے اور چونکہ یہ مظالم ان کی طرف سے متواتر ہوئے اس لئے نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے چمڑے اپنی شکل کھوبیٹھے اور اس شکل میں آگئے جس شکل میں آج تم دیکھ رہے ہو(الطبقات الکبرٰی باب فی ذکر خباب بن الارت).انہی واقعات کی طرف جو مکہ میںپیش آنے والے تھے اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اشارہ کردیا اور بتادیا کہ ابھی تو یہ لوگ صرف عبادت سے روک رہے ہیں پھر وہ بھی وقت آنے والا ہے جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے مکہ کی گلیوں میں گھسیٹے جائیں گے اور ان کی کمریں چھیلی جائیں گی اور چونکہ مسلمانو ں کے ساتھ یہ واقعات پیش آنے والے ہیں اور کفار مکہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان کو قسم قسم کے مصائب میں مبتلاکرنے والے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں کہ تم آج اس شخص کو جو ان میں خاص اثر رکھتا ہے اور جو اپنی طاقت اور قوت کا دعویدار ہے یہ سنادو کہ اگر ان کو گھسیٹنا آتا ہے تو ہم کو بھی گھسیٹنا آتا ہے ہم ان کے سر کے بالوں سے نہایت سختی کے ساتھ گھسیٹیں گے.اگر یہ اس ناصیہ کو گھسیٹا کرتے تھے جو خدا تعالیٰ کے سامنے سجدہ کرتی تھی تو ہم اس ناصیہ کو کیوں نہیں گھسیٹیں گے جو جھوٹی اور خطا کار ہے اگر خدائے واحدکے آگے عبادت کرنے والی ناصیہ گھسیٹی جا سکتی ہے تو وہ ناصیہ جو بتوںکے آگے جھکتی ہے وہ گھسیٹے جانے کی کیوں مستحق نہیں.نَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ کی پیشگوئی کا وقوع ہم دیکھتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے ابو جہل سے ایسا ہی سلوک کیا.چنانچہ بدر کی جنگ جب ختم ہوئی اور دشمن مارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسی حکم کے مطابق کہ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ابوجہل کو سر کے بالوں سے گھسیٹ کر اس گڑھے میں گرایا گیا جو اس کے لئے قبر کے طور پر تیار کیا گیا تھا(تفسیر کبیر امام رازی زیر آیت لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ ).کہنے والا کہے گا یہ وحشت تھی کہ مردہ کو بالوں سے گھسیٹا گیا مگر یہ وحشت نہیں تھی بلکہ بدلہ تھا ان مظالم کا جو مسلمانوں پر ڈھائے جاتے تھے اوربدلہ بھی نہایت معمولی.کیونکہ اس نے تو زندوں کو گھسیٹا تھا جب انہیں تکلیف ہوتی تھی.مگر ابوجہل کو مردہ ہونے کی حالت میں گھسیٹا گیا جبکہ اسے کوئی تکلیف نہیں ہوسکتی تھی.میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ ایک انگریز جرنیل میرے پاس آیا ہے اور وہ مجھ سے کہتا ہے کہ آپ کا کیا فتویٰ ہے آیا قتل کے بدلہ میں قتل ہی ہے یا قاتل کو کوئی اور سزا بھی دی جاسکتی ہے؟ پھر اس نے کہا ہمارے بعض آدمیوں کو جب سرحد پر مارا جاتا ہے تو ان کی لاشوں کو چونہ میں ڈال کر جلادیا جاتا ہے یا ان کو مختلف قسم کے عذاب

Page 426

دے دے کر مارا جاتا ہے.ایسی صورت میں قاتل کو صرف قتل کی سزا ہی دی جائے گی یا تعذیب کی سزا بھی اسے ملے گی؟ میں نے اسے جواب میں کہا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا (الشورٰی:۴۱) یعنی بدی کی سزا برے فعل کے مطابق دی جانی چاہیے.پس میرا فتویٰ یہی ہے کہ قتل کے بدلہ میں قتل اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب.گو عام حالات میں قتل کے بدلہ میں قتل ہی کیا جائے گا لیکن اگر کسی وقت مصلحت کے ماتحت لوگوں کو تعذیب اور شرارت سے روکنے کے لئے یہ فیصلہ کردیا جائے کہ قتل کے بدلہ میں قتل ہوگا اور تعذیب کے بدلہ میں تعذیب تو یہ بالکل جائز ہوگا.بے شک وہ لوگ جنہوں نے اس زمانہ کے حالات پر کبھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کیا کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بڑی سختی کی گئی کہ ایک مردہ کو بالوں سے گھسیٹ کر گڑھے میں پھینکا گیا.مگر انہیں بھول جاتا ہے کہ یہاںتو کسی مردہ کو صرف ایک دفعہ گھسیٹا گیا ہے اور وہ لوگ سالہا سال زندوں کو پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور ابھی ان کے زخم تازہ ہی ہوتے تھے کہ دوسرے دن پھر ان کو پتھروں پر گھسیٹنا شروع کردیا جاتا اور پھر وہ صرف پتھروں پر گھسیٹتے ہی نہیں تھے بلکہ بسا اوقات ان کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ دیتے، ان پر کھڑے ہوکر خود ناچنا کودنا شروع کردیتے اور کہتے کہو کہ ہم لات اور عزّیٰ کو اپنا معبود مانتے ہیں.یہی وہ چیز تھی جس کی بناء پر ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کی خاص طور پر تعریف کی اور لوگوں سے فرمایا کہ بلال جب اذان دیتا ہے اور اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ بلال کے اس س پر خاص طور پر خوش ہوتا ہے.واقعہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں آئے اوربلالؓ نے اذان دی تو چونکہ مدینہ کے لوگ بلالؓ سے ناواقف تھے جب انہوںنے اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہا تو لوگ ہنسنے لگ گئے.بلالؓ حبشی تھے اور اس وجہ سے وہ تلفظ صحیح طور پرادا نہیں کرسکتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے مجلس میں فرمایا لوگ بلال کے سین پر ہنستے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر اس سین کو سن کر خوش ہوتا ہے.اس کی وجہ دراصل یہی ہے کہ مکہ میں بلال کے سینہ پر جب بڑے بڑے پتھر رکھ کر کہا جاتا کہ کہو لات اور مناۃ اور عزیٰ سچے معبود ہیں تو بلال خاموش نہ رہتے بلکہ پتھروں کے نیچے سخت تکلیف کی حالت میں بھی یہی کہتے کہ اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.چونکہ اس وقت وہ سین کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھا کرتے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بلال اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ عرش پر خوش ہوتا ہے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے بلال سے وہ سین سنا ہوا تھا جو پتھروں کے نیچے اور مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے ہوئے اس کی زبان سے نکلا

Page 427

کرتا تھا.پس خالی بلالؓ کی اذان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ خوش نہیں ہوتا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کو بلالؓ کا وہ واقعہ یاد تھا جب اسے پتھروں کے نیچے کچلا جاتا مگر وہ پھر بھی یہی کہتا کہ اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں تو آج کا سین نظر آتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کو وہ سین یاد ہے جو پتھروں کے نیچے بلالؓ کی زبان سے نکلا کرتا تھا.اس لئے بلالؓ جب اذان دیتا اور اَسْھَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس آواز کو سن کر عرش پر خوش ہوجاتا ہے.ان حالات کو اگرمدنظر رکھا جائے تو پھر کوئی شخص یہ کہنے کی جرأت نہیں کرسکتا کہ ابوجہل کے سر کے بالوں سے گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالنا ظلم تھا.میں سمجھتا ہوں وہ مؤرخ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ وحشت سے کام لیا وہ کبھی حقیقت حال پر غور نہیں کرتے.اگر وہ مسلمانوں کی جگہ اپنے باپ یا اپنی بیوی یا اپنے بچہ کو رکھیں اور عالم تصورمیں ان مظالم کا نقشہ اپنے ذہنوں میں لائیں جو مسلمانوں پر ڈھائے جاتے تھے تو اس کے بعد یقیناً وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فعل کو ظلم قرار نہ دیں بلکہ یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ نہایت ہی نرم سلوک کیاہے.موجودہ جنگ یورپ کو ہی دیکھ لو کیا کیا مظالم ہیں جو ایک دوسرے پر ڈھائے گئے ہیں اور کس طرح دشمن سے انتقام لینے کے لئے بربریت کے نظارے پیش کئے گئے ہیں.حالانکہ اس زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو تہذیب و تمدن کے اعلیٰ مقام پر پہنچے ہوئے تصور کرتے ہیں.مگر مسلمانوں نے تو کوئی ظلم بھی نہیں کیا.صرف بدرکے موقعہ پر چند ایسے مردوں کو گھسیٹ کر گڑھے میں ڈال دیا جو مسلمانوں کو سالہاسال تک تپتی ریت اور سخت پتھروں پر گھسیٹتے اور گھسٹواتے رہے تھے.پس فرمایا جس طرح یہ لوگ ہمارے بندوں کو ان کے بال پکڑ پکڑ کر گھسیٹتے ہیں اسی طرح ہم بھی ان کے بالوں سے ان کو گھسیٹیں گے.مگر یہ خیال نہ کرنا کہ ہم ظلماً ایسا کریں گے.کیونکہ لَنَسْفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِ نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ ایسی نَاصِيَةٍ گھسیٹی جائے گی جو كَاذِبَةٍ جھوٹی تھی خَاطِئَةٍ خطاکار تھی اور مجرم کو سزا دینا ظلم نہیں کہ تم یہ کہہ سکو کہ انہیں کیوں گھسیٹا جائےگا.گھسیٹا اس لئے جائے گا کہ وہ مجرم اور خطاکار ہیں اور دنیا کا کوئی قانون مجرم کو سزا دینا ظلم قرار نہیں دیتا.فَلْيَدْعُ نَادِيَهٗۙ۰۰۱۸ پس (کافر کو) چاہیے کہ وہ اپنی مجلس کو بلائے.حلّ لُغات.اَلنَّادِیْ اَلنَّادِی عربی زبان میں اس مجلس کو کہتے ہیں جس میں دن کے وقت لوگ بیٹھ کر

Page 428

مختلف امور کے متعلق باہم مشورہ کرتے ہیں (اقرب) جس طرح مائدہ اس دستر خوان کو کہا جاتا ہے جس پر کھانا چنا ہوا ہو.اسی طرح اَلنَّادِی مجلس کو کہا جاتا ہے مگر اس مجلس کو جس میں آدمی بیٹھے ہوئے ہوں خالی کمرہ کو نہیں کہتے.(اقرب) تفسیر.کفار مکہ آپس میں کہا کرتے تھے آج بڑا مشورہ ہوا.آج محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر دیا گیا ہے آج ان کو مارنے پیٹنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.آج ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا ہے.فرماتا ہے لوگ جس مجلس کے حوالے دیا کریں گے اور کہیں گے کہ آج یہ فیصلہ ہوا.کل وہ فیصلہ ہوا.ہم اسی مجلس کے متعلق اس دن کفار سے کہیں گے کہ اب کیوں کسی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتے.جائو اور اپنے اُن ساتھیوں کو بلائو جن کے ساتھ مل کر تم مسلمانوں کے خلاف دن رات منصوبے کیا کرتے تھے اور دیکھو کہ اس موقعہ پر وہ تمہارے کام آتے ہیں یا نہیںتم نے مسلمانوں کے خلاف تو منصوبے کر لئے اب تم ہماری گرفت میں آچکے ہو.اگر تم میں طاقت ہے تو اب اپنے مشیروں کو بلائو اور ان سے کہو کہ وہ تمہاری مدد کریں.سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَۙ۰۰۱۹ ہم بھی اپنی پولیس کو بلائیں گے.حلّ لُغات.اَلزَّبَانِیَۃ اَلزَّبَانِیَۃ : زَبَنَ سے ہے اور زَبَنَہٗ (یَزْبَنُ زَبَنًا) کے معنے ہوتے ہیں دَفَعَہٗ اس کو دور کر دیا.صَدَمَہٗ اس سے ٹکرایا (اقرب ) اسی طرح لکھا ہے اَلزَّبَانِیَۃُ عِنْدَا لْعَرَبِ اَلشُّـرَطُ یعنی زَبَانِیَۃ کے معنے عربی زبان میں پولیس کے ہوتے ہیں(اقرب) تفسیر.زَبَانِیَۃ سے مراد صحابہ کرام فرماتا ہے وہ بھی اپنے ساتھیوں کو بلاتے اور مسلمانوں کے خلاف مجالس منعقد کیا کرتے تھے اس کے مقابل میں ہم بھی اپنی پولیس کو بلانے والے ہیں.مفسرین لکھتے ہیں کہ زبانیہ سے مراد دوزخ کے فرشتے ہیں(فتح البیان زیر آیت سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ) مگر میرے نزدیک یہ دوزخ کے نہیں بلکہ جنت کے فرشتے ہیں اور اس سے مراد وہ صحابہؓ ہیںجنہوں نے بدر کی جنگ میں کفار کو ان کے بالوںسے پکڑ کر گھسیٹا اور انہیں ان کے کیفر کردار تک پہنچایا انہی صحابہؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مظلوم،کمزور اور بے بس مسلمان جنہیں تم نے اپنے مظالم کا تختہء مشق بنایا ہوا ہے ہماری پولیس کے سپاہی ہیں.پولیس والا کبھی اکیلا پکڑا جاتا ہے اور چوروں اور ڈاکوئوں کے ہاتھ آجاتا ہے تو وہ اسے خوب مارتے پیٹتے ہیں مگر جب گارد آتی ہے تو اس

Page 429

کا مقابلہ کرنے کی اس میں طاقت نہیں رہتی.اسی طر ح تم آج ایک ایک دو دو مسلمانوں کو پکڑتے اور ان کو مصائب وآلام میں مبتلا رکھتے ہو اور خیال کرتے ہوکہ ہمارا ان لوگوں نے کیا بگاڑ لینا ہے.ہم طاقتور ہیں اور یہ کمزور.ہم جتھے والے اور یہ انگلیوں پر گنے جانے والے چند افراد.لیکن تم اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ یہ کمزور اور اکیلے نظر آنے والے ہماری پولیس کے آدمی ہیں.جب تمہارے مظا لم کا انتقام لینے کے لئے ہماری گارد آئی تو اس وقت دنیا دیکھے گی کہ تمہاراکیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے.جب ہماری گارد آئی تواس وقت تم میں سے کسی ایک میں بھی یہ طاقت نہیں ہوگی کہ اپنی انگلی تک مقابلہ میں اٹھاسکے.چنانچہ دیکھ لو مکہ کے کتنے بڑے بڑے سردار تھے مگر مسلمانوں کی شوکت کے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو کیسا ذلیل کردیا.حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک دفعہ مکہ میں آئے تو وہی غلام جن کو سر کے بالوں سے پکڑ پکڑ کر لوگ گھسیٹا کرتے تھے ایک ایک کر کے حضرت عمرؓ کی ملاقات کے لئے آنے شروع ہوئے.وہ عید کا دن تھا اور ان غلاموں کے آنے سے پہلے مکہ کے بڑے بڑے رئوساء کے بیٹے آپ کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہو چکے تھے.ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ بلال ؓآئے.وہی بلال جو غلام رہ چکے تھے جن کو لوگ مارا پیٹا کرتے تھے جن کو کھردرے اور نوکیلے پتھروں پر ننگے جسم سے گھسیٹا کرتے تھے جن کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر کہا کرتے تھے کہ کہو میں لات اور عزیٰ کی پرستش کروں گا مگر وہ یہی کہتے کہ اَشْهَدُ اَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ.حضرت عمرؓ نے جب بلال کو دیکھا تو ان رئوساء سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائو اور بلال کو بیٹھنے کی جگہ دو.ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ ایک اور غلام صحابی آگئے.حضرت عمرؓ نے پھر ان رئوساء سے فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائو اور ان کو بیٹھنے دو.تھوڑی دیر گذری تو ایک اور غلام صحابی آگئے.حضرت عمرؓ نے حسب معمول ان رئوساء سے پھر فرمایا ذرا پیچھے ہٹ جائواوران کو بیٹھنے کی جگہ دو.اتفاق کی بات ہے چونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل کرنا تھا اس لئے یکے بعد دیگرے آٹھ دس غلام آگئے اور ہر دفعہ حضرت عمرؓ ان رئوساء سے یہی کہتے چلے گئے کہ پیچھے ہٹ جائواور ان کو بیٹھنے کی جگہ دو.ان دنوں بڑے بڑے ہال نہیں بنائے جاتے تھے بلکہ معمولی کوٹھڑیاں ہوتی تھیںجن میں زیادہ آدمی نہیں بیٹھ سکتے تھے.جب تمام غلام صحابہ ؓ کمرے میں بھر گئے تو مجبوراً ان رئوسا کو جوتیوں والی جگہ میں بیٹھنا پڑا.یہ ذلت ان کے لئے نا قابل برداشت ہو گئی وہ اسی وقت اٹھے اور باہر آکر ایک دوسرے سے کہنے لگے دیکھا آج ہمیں کیسا ذلیل کیا گیا ہے یہ غلام جو ہماری خدمتیں کیاکرتے تھے ان کو تو اوپر بٹھایا گیا ہے مگر ہمیں پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا گیا یہاں تک کہ ہٹتے ہٹتے ہم جوتیوں والی جگہ پر جا پہنچے اور سب لوگوں کی نگاہ میں ذلیل اور رسوا ہوئے.ایک شخص جو ان میںسے زیادہ سمجھدار تھا جب اس

Page 430

نے یہ باتیں سنی تو کہا یہ تو ٹھیک ہے کہ ہماری رسوائی ہوئی لیکن سوا ل یہ ہے کہ آخرایسا کس کی کرتوتوں سے ہوا؟ ہمارے باپ بھائی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا کرتے تھے اس وقت یہ غلام آپ پر اپنی جانیں فدا کیا کرتے تھے.آج چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہے اس لئے تم خود ہی فیصلہ کرلو کہ ان کو ماننے والے کن لوگوں کو عزت دیں گے آیا تم کو جو مارا کرتے تھے یا ان غلا موں کو جو اپنی جانیں اسلام کے لئے قربان کیا کرتے تھے.اگر انہی کو عزت ملنی چاہیے تو پھر تمہیں آج کے سلوک پر شکوہ کیوں پیدا ہوا؟ تمہارے اپنے باپ دادا کے اعمال کا یہ نتیجہ ہے کہ تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو غلاموں کے ساتھ ہو رہا ہے.یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی اور کہنے لگے ہم حقیقت تو سمجھ گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس رسوائی کا کوئی علاج نہیں؟ بے شک ہمارے باپ دادا سے بڑا قصور ہوا مگر آخر اس قصور کا کوئی علاج بھی ہوناچاہیے جس سے یہ ذلت کا داغ ہماری پیشانی پر سے دُھل سکے.اس پر سب نے فیصلہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیںآتی.چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ اس رسوائی کا کیا علاج ہے؟ جب وہ دوبارہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اس قت تک مجلس برخاست ہوچکی تھی اور صحابہؓ سب جاچکے تھے.انہوں نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ آج ہمیں اس مجلس میں آکر جو دکھ پہنچا ہے اس کے متعلق ہم آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں.حضرت عمرؓ نے کہا دیکھو برا نہ منانا.یہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ہمیشہ آگے بیٹھا کرتے تھے اس لئے میں بھی مجبور تھا کہ انہیں آگے بٹھاتا.بے شک تمہیں میرے اس فعل سے تکلیف ہوئی ہوگی مگر میں مجبور تھا.انہوں نے کہا ہم آپ کی اس مجبوری کو سمجھتے ہیں ہم صرف یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ کیا اس ذلت کا کوئی علاج ہے؟ اور کیا کوئی پانی ایسا ہے جس سے یہ داغ دھویا جاسکے؟ حضرت عمرؓ جو ان نوجوانوں کے باپ دادا کی شان و شوکت اور ان کے رعب اور دبدبہ کو دیکھ چکے تھے جب انہوں نے یہ بات سنی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈباآئے کہ یہ لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے کہاں سے کہاں آگرے ہیں اور آپ پر رقت اس قدر غالب آئی کہ آپ ان کی بات کا جواب تک نہ دے سکے صرف ہاتھ اٹھا کر شام کی طرف جہاں ان دنوں قیصر کی فوجوں سے لڑائی ہورہی تھی اشارہ کردیا.مطلب یہ تھا کہ اب ذلت کا یہ داغ اسی طرح دُھل سکتاہے کہ اس لڑائی میں شامل ہوکر اپنی جان دے دو.چنانچہ وہ اسی وقت باہر نکلے اپنے اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہوگئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا.اس طرح انہوں نے اپنے خون کے ساتھ اس ذلت کے داغ کو مٹایا جو ان کی پیشانی پر اپنے باپ دادا کے افعال کی وجہ سے لگ گیا تھا.(مناقب امیرالمؤمنین عمر بن الـخطاب لابن جوزی صفحہ ۹۸) پس فرماتا ہے وہ

Page 431

بےشک اپنی مجلس کے آدمیوں کو بلالیں ہم بھی اپنی پولیس کے آدمیوں کو بلائیں گے اور ان سے چوروں اور ڈاکوئوں والا سلوک کریں گے.كَلَّا١ؕ لَا تُطِعْهُ وَ اسْجُدْ وَ اقْتَرِبْؒؑ۰۰۲۰ یوں نہیں (ہوگا جس طرح دشمن چاہتا ہے) (ا ے نبی اور اس کے متبع) تو اس (کافر) کی اطاعت نہ کر اور اپنے رب کے حضور میں (ضرور) سجدہ کر اور اس سجدہ کے نتیجہ میں اپنے رب کے قریب تر ہوجا.تفسیر.كَلَّا١ؕ لَا تُطِعْهُ.یعنی خبردار جس طرح تو خیال کرتا ہے اس طرح نہیں ہوگا.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوماننے والے تو دشمن کی بات نہ مانیو اور اللہ تعالیٰ کی عبادت سے کبھی نہ رکیو بلکہ وَ اسْجُدْ یہ لوگ تجھے جتنا زیادہ روکیں تو اتنے ہی زیادہ زور کے ساتھ ہمارے حضور سجدہ میں گرجا.نتیجہ کیا ہوگا تو سجدہ میں جائے گا تو یہ تجھے ماریں گے مگر اس کے نتیجہ میں تو خدا تعالیٰ کے اور بھی زیادہ قریب ہوجائے گا.ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جو امن کی حالت میں کیا جاتا ہے اور ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جو لڑائی اور بدامنی کی حالت میں کیاجاتا ہے.وہ سجدہ جو ایسی حالت میں کیا جائے جب انسان کو عبادت سے روکا جاتا ہو اور اسے اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہونے کی وجہ سے قسم قسم کے مصائب میں مبتلا کیا جاتا ہو وہ سجدہ انسان کو آناً فاناً کہیں کاکہیں پہنچادیتا ہے.ایک سجدہ وہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے گھر میں اطمینان سے بیٹھا ہوتا ہے، اٹھتا ہے وضو کرتا ہے اور مصلّے پر کھڑا ہوکر اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرجاتاہے.لیکن ایک سجدہ وہ ہوتا ہے جب محض سجدہ کی وجہ سے انسان کومارا اور پیٹا جاتا ہے یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کے حضور جو قدر و قیمت رکھتا ہے وہ سجدہ نہیں رکھتا جو امن کی حالت میں کیا جاتا ہے.آج سے سوسال پہلے بھی اسلام کی تبلیغ کرنے والے مسلمان دنیا میں موجود تھے.آج سے سو سال پہلے بھی اسلام کے لئے روپیہ خرچ کرنے والے لوگ دنیا میں موجود تھے.آج سے سو سال پہلے بھی اسلام کے ہمدرد دنیا میں موجود تھے مگر ان کی تو تعریف کی جاتی تھی اور ہماری مذمت کی جاتی ہے.ان کے متعلق تو یہ کہا جاتا تھا کہ یہ لوگ اسلام کے بڑے ہمدرد ہیں.مگر ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہم اسلام کے بہت بڑے دشمن ہیں حالانکہ ہمارا جرم کیا ہے؟ ہماری جماعت کے لوگ وہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے اپنے بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کر روپیہ بھجواتے ہیں.خدائے واحد کا نام بلند کرنے کے لئے آٹھ آٹھ دس دس سال تک ممالک غیر میں اپنے بیوی بچوں سے جدا رہتے ہیں.جہاں بھی اسلام ااور کفر کا ٹکرائو ہو وہاں ایک بہادر پہلوان کی طرح پہنچ کر کفر کے مقابلہ میں اپنا سینہ تان کر

Page 432

کھڑے ہوجاتے ہیں.اسی طرح نمازیں بھی پڑھتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں، حج بھی کرتے ہیں، زکوٰۃ بھی دیتے ہیں، قرآن بھی پڑھتے ہیں، کلمۂ طیبہ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اسلام کے ہر حکم پر بدل و جان عمل کرنا جزو ایمان سمجھتے ہیں.مگر ہمیں تو گالیاں دی جاتی ہیں اور پہلے لوگوں کی تعریفیں کی جاتی ہیں حالانکہ ان کا کام ہمارے کام کے مقابلہ میں کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.غرض جس قسم کی قربانی پر پہلے تعریفیں ہوتی تھیں اسی قسم کی قربانی پر آج ہمیں ماریں پڑتی ہیں.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے سجدے اور بعدمیں آنے والے مسلمانوں کے سجدے میں فرق ہے.بعد میں سجدہ کرنے والے وہ تھے جن کی چاروں طرف سے تعریفیں ہوتی تھیں اور کہا جاتا کہ دیکھو فلاں شخص کتنا بزرگ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کتنے سوز و گداز کے ساتھ عبادت کرتا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس سجدہ کی کیا قیمت تھی.اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جس کا تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں پڑے ہوئے تھے کہ کفار مکہ اونٹ کی ایک بڑی سی اوجھری اٹھالائے اور آپ کے سر پر پھینک کر ہنسنے لگ گئے.اس کا بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سے اپنا سر نہ اٹھاسکتے تھے.آخر حضرت فاطمہؓ کو کسی طرح اس بات کا علم ہوگیا وہ اس وقت چھوٹی بچی تھیں دوڑتی ہوئی آئیں اور انہوں نے وہ غلاظت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر سے دور کی(السیرۃ الحلبیۃ باب استخفائه صلى الله عليه وسلم وأصحابه في دار الأرقـم بن أبي الأرقـم ).یہ سجدہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں جو قدر و قیمت رکھتا ہے وہ دوسرے سجدے کہاں رکھ سکتے ہیں.ایسا ایک سجدہ بھی خدا تعالیٰ کے قرب کی انتہائی منازل انسان کو اک آن میں طے کرادیتا ہے جبکہ امن کے زمانہ کے ہزاروں ہزار سجدے بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے دروازہ تک نہیں پہنچاتے.پس فرمایا لَا تُطِعْهُ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی! تو ان لوگوں کی بات مت مان.یہ تجھے عبادت سے جتنا زیادہ روکیں تو اتنے ہی زور کے ساتھ ہمارے حضور سجدہ میں گر جا کیونکہ اس روک کے باوجود تیری طرف سے جو سجدہ ہوگا وہ تجھے سیدھا اللہ تعالیٰ تک پہنچا دے گا.

Page 433

سُوْرَۃُ الْقَدْرِ مَکِّیَّۃٌ سورۃ القدر.یہ سورۃ مکّی ہے.وَھِیَ خَـمْسُ اٰیَاتٍ دُوْنَ الْبَسْمَلَۃِ وَ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَّاحِدٌ اوراس کی بسم اللہ کے سوا پانچ آیات ہیں اور ایک رکوع ہے.سورۃ القدر مکی ہے سورۃالقدر مکی سورۃ ہے (فتح البیان زیر سورۃ القدر) لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ مدنی ہے چنانچہ واحدی کا قول ہے کہ ھِیَ اَوَّلُ سُوْرَۃٍ نَزَلَتْ بِالْمَدِیْنَۃِ یہ پہلی سورۃ ہے جو مدینہ میں نازل ہوئی (روح المعانی زیر سورۃ القدر).مفسرین کے نزدیک لفظ جمہور کا خلاف اصول استعمال اس سورۃ پر بحث کرتے ہوئے مفسرین نے جمہور کی عجیب تعریف کی ہے بعض کہتے ہیں عِنْدَالْـجُمْھُوْرِ مَکِّیَّۃٌ اور بعض کہتے ہیں عِنْدَالْـجُمْھُوْرِ مَدَنِیَّۃٌ.معلوم نہیں وہ کون سے جمہور ہیں جن کا یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ جمہور کے نزدیک یہ مکی بھی ہے اور جمہور کے نزدیک یہ مدنی بھی ہے.لطیفہ یہ ہے کہ مفسرین یہ تو کہتے ہیںکہ جمہور کے نزدیک یہ سورۃ مدنی ہے مگر کسی صحابی کانام نہیں لیتے کہ فلاں فلاں نے اس سورۃ کو مدنی قرار دیا ہے آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ہی تھے جو اس کو مکی یا مدنی قرار دے سکتے تھے پس جب ان کے نزدیک جمہور نے اسے مدنی قرار دیا ہے تو چاہیے تھا کہ وہ کچھ صحابہ کا ذکر کرتے اور کہتے کہ فلاں فلاں صحابی نے اسے مدنی قرار دیا ہے مگر باوجود یہ لکھنے کے کہ عِنْدَالْـجُمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ پھر اس قسم کی روایتوں کا بھی تفاسیر میں ذکر آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ حضرت عبداللہ بن زبیرؓ اور حضرت عائشہ ؓ کے نزدیک یہ مکی ہے(فتح البیان زیر سورۃ القدر).جب صحابہؓ اسے مکی قرار دیتے ہیں تو پھر یہ لکھنے کے کیا معنے ہوئے کہ عِنْدَ الْـجُمْھُوْرِمَدَنِیَّۃٌ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جمہور کا محاورہ جو ہماری کتب میں استعمال کیا جاتاہے کیسا خلاف ِ اصول ہے کہ ہر لکھنے والا جب اپنی رائے کے مطابق دو چار لوگوں کی آراء دیکھ لیتا ہے تو فوراً کہنا شروع کر دیتا ہے کہ جمہور کے نزدیک فلاں بات یوں ہے حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ ہر صحابی اس امر کا ذکر نہیں کیا کرتا کہ فلاں سورۃ مکی ہے یا مدنی.صرف چند صحابہ ایسے امور کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب انہوں نے کھلے لفظوں میں اسے مکی قرار

Page 434

دیا ہے اور مفسرین خود بھی اس امر کو تسلیم کرتے ہیں تو پھر نہ معلوم ان کو کیا خیال آگیا کہ صحابہ ؓ کی اس قطعی رائے کے باوجود انہوں نے اسے مدنی قراردے دیا.مستشرقین جن میں سے بعض تو دیانتدارانہ طورپر حقیقت کو معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض پادری یا پادری نما جان بوجھ کر یا تعصب سے واقعات کو بدل دیتے ہیں.انہوں نے بھی اسے مکی ہی قرار دیا ہے.نولڈ کے مشہور مستشرق بھی اسے سورۂ ضُـحیٰ کے معاً بعد کی قرار دیتاہے.(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry Vol:iv Page 263) بعض احادیث میں اس کے نزول کی عجیب وجہ بیان کی گئی ہے.لکھا ہے کہ چار نبیوں کے متعلق یہود میںیہ خیال تھاکہ انہوں نے اسّی ۸۰ سال بلا ناغہ بغیر گناہ کے ارتکاب کے خدا تعالیٰ کی عبادت کی ہے اور وہ چار نبی یہ ہیں ایوب، زکریا، حزقیل، یوشع، جب یہودیوں کا یہ قول صحابہ ؓ نے سنا تو ان کو رشک پیدا ہوا کہ چار آدمی ایسے گذرے ہیں جنہوں نے اسّی سال تک بغیر کسی غلطی کے ارتکاب کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہے اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی کہ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ یعنی تم تو اسّی سال کی عبادت پر رشک کرتے ہو اور اسلام کی یہ کیفیت ہے کہ اگر کسی کو لیلۃ القدر میںاللہ تعالیٰ کی عبادت نصیب ہو جائے تو اس ایک رات کی عبادت ہی ہزار مہینوں یعنی ترا۸۳سی سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے.مگر میرے نزدیک یہ روایت قابلِ قبول نہیں اوراسے تسلیم کرنا عقلی طور پر ناممکن ہے کیونکہ اگر واقعہ میںکسی کو اسّی ۸۰ سال عبادت کرنے کا موقع مل جاتا ہے تو اس پر کسی شخص کو محض ایک رات میں عبادت کرنے کی وجہ سے کس طرح فضیلت دی جا سکتی ہے.اگر کہو کہ ایک رات کی عبادت اتنے سوزو گداز سے لبریز ہو گی ، اتنی محبت اور اللہ تعالیٰ کے اتنے عشق کو ظاہر کرنے والی ہو گی کہ باوجود ایک رات کی عبادت ہونے کے اپنی شان اور عظمت میں اسّی سال کی عبادتوں سے بڑھ جائے گی تو یہ کوئی ایسی بات نہیںتھی جسے خاص طورپر بیان کیا جاتا.ہر شخص جانتا ہے کہ ایک رات کا بھی سوال نہیں اگر ایک گھنٹہ میں بھی کوئی شخص اپنے اخلاص اور اپنی محبت کا کوئی ایسا ثبوت دے دیتا ہے جو دوسرے کی اسّی ۸۰سالہ زندگی میں بھی نہیں ملتا تو یقیناً اس کے ایک گھنٹے کا اخلاص دوسرے کی اسّی ۸۰ سالہ کوششوں کے نتائج سے بڑھ جائے گا بلکہ میں کہتا ہوں ایک گھنٹے کا بھی سوال نہیں اگر کسی پر ایک منٹ بھی ایسا آجائے تو اس کا وہ ایک منٹ دوسرے شخص کی اسّی۸۰ یا سو۱۰۰ سالہ عبادت سے بڑھ جائے گا.چنانچہ دیکھ لو حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر ایک وقت آیا جبکہ اسّی سال کی عمر کے بعد ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا اور پھر جیسا کہ بائبل اور قرآن کریم دونوں سے ثابت ہے جب وہ بڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا کہ اپنے اس بیٹے کو خدا کی راہ میں ذبح کر دو.( الصّٰفّٰت: ۱۰۳.پیدائش باب ۲۲ آیت ۱تا۱۴)

Page 435

گومیرے نزدیک اس کی تعبیر یہ تھی کہ اپنے بیٹے کو اس وادیٔ غیر ذی زرع میں چھوڑ آئو جہاںنہ کھانے کو کچھ ملتا ہے نہ پینے کو.اور اس طرح ظاہری رنگ میں اپنی طرف سے اس پر موت وارد کر دو.مگر چونکہ اس وقت تک انسانی قربانی کا بھی رواج تھا اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میںان کو یہ نظارہ دکھا دیا تا کہ ساتھ ہی اس مسئلہ کو بھی حل کر دیا جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے زمانہ کے دستور کو دیکھتے ہوئے سمجھا کہ یہ میرا امتحان ہے اور غالباً اللہ تعالیٰ کی مراد یہی ہے کہ اسّی سال کے بعد میرے ہاں جو بیٹا پیدا ہوا ہے میں اسے عملاً اللہ تعالیٰ کی راہ میںذبح کر دوں.انہوں نے اپنے بیٹے سے ذکر کیا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے (کہ ہمارے نزدیک وہی تھے جنہوں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا اس اچھی تربیت کے ماتحت جو اپنے ماں باپ سے انہیں حاصل ہو رہی تھی) اس بات پر آمادگی کا اظہار کر دیا اور کہا کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ مجھے ذبح کر دیا جائے تو پھر مجھے اس حکم کی تعمیل میں کوئی عذر نہیں ہو سکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے جنگل میں لے گئے اور انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ماتھے کے بل گرادیا وہ چھری پھیرنے کے لئے تیار ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا يٰۤاِبْرٰهِيْمُ۠ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا(الصّٰفّٰفت:۱۰۵،۱۰۶) اے ابراہیم تم نے اس رؤیا کو اپنی طرف سے پورا کردیا ہے لیکن ہمارا منشاء یہ نہ تھا تم اس واقعہ کی یادگار میں ایک بکرا ذبح کر دو.یہ خواب کسی اور صور ت میں پورا ہونے والا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ گھڑی جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہوگئے تھے یقیناً کئی لوگوں کی اسّی اسّی بلکہ سو سو سال کی عبادت سے بھی بڑھ کر تھی.آخر دنیا میںایسے کئی لوگ موجود ہوتے ہیں جو اسّی سال کی عمر پاتے ہیں بلکہ سو سو سال تک زندہ رہنے والے لوگ بھی دنیا میںپائے جاتے ہیں.ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے ایک سو بیس ، ایک سو تیس.ایک سو چالیس یا ایک سو پچاس سال کی عمر پائی.میںنے خود ایک شخص کو دیکھا ہے جنہوں نے ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر پائی تھی.وہ جب میری بیعت کے لئے آئے تو لاہور سے پیدل چل کر آئے تھے.انہوں نے اپنی عمر کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب ایک دفعہ میرے استاد کے پاس کسی کام کے متعلق دعا کرانے کے لئے آئے تھے اور انہوں نے ایک بھینس ان کو تحفہ کے طور پر دی تھی میںاس وقت اتنا جوان تھا کہ وہ بھینس جو مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب نے میرے استاد کو دی اس کے متعلق میرے استاد نے مجھے کہا کہ جائو اور اس کو نہلا لائو.یہ روایت انہوں نے آج سے بیس سال پہلے بیان کی تھی اگریہ فرض کر لیا جائے کہ اس وقت وہ صاحب بیس پچیس سال کے تھے جب یہ واقعہ ہوا تو چونکہ بیعت

Page 436

کے وقت تک اندازاً سو سال کا عرصہ اس واقعہ پر گذر چکا تھا اس لئے جب وہ میری بیعت کے لئے آئے اس وقت وہ ایک سو بیس سال کے تھے اور مجھے دوستوں نے بتایا کہ اس کے بعد بھی وہ پندرہ بیس سال زندہ رہے تھے گویا ایک سو چالیس سال سے اوپر عمر انہوں نے پائی اور ایک سو بیس سال کی عمر میں وہ اتنے مضبوط تھے کہ لاہور سے پیدل چل کر قادیان آئے.اب اگر وہ ساری عمر دین کی طرف متوجہ رہے ہوں اور انہوںنے ایک سو بیس سال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہو تب بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ ایک گھڑی کی عبادت ان کی ایک سو بیس سالہ عبادت سے بڑھ گئی اور خدا تعالیٰ کے فعل نے بھی نتیجہ ظاہر کر دیا کیونکہ جو سلوک اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کیا ہے وہ ان سے نہیں کیا.اللہ تعالیٰ تو کسی کی نیکی ضائع نہیںکرتا وہ خود فرماتا ہے فَمَنْْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ (الزلزال :۸) جو شخص ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کرتا ہے وہ اس کے اچھے نتیجہ کو ضرور دیکھ لیتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی کی ایک ذرہ کے برابر نیکی بھی ضائع نہیں کرتا تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی ایک سو بیس سال کی عبادت کو ضائع کر دے اور یہ کہنا کہ سوزو گداز اور اخلاص کی وجہ سے بعض دفعہ ایک رات کی عبادت تراسی۸۳ سال کی عبادت سے بڑھ جاتی ہے.یہ جواب بھی اس موقعہ پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ روایت میںہے کہ پہلے نبیوں نے اسّی سال عبادت کی تھی جس کی خبر سن کر صحابہ کو افسوس ہوا کہ ہم اس کے مقابل پر کیا پیش کریں گے.اگر یہ روایت اس جگہ چسپاں کی جائے تو پھر اس کے یہ معنے ہوں گے کہ نبیوں کی اسّی سالہ عبادت سے غیر نبی کی ایک رات کی عبادت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس میںزیادہ سوز و گداز ہوتا ہے اور یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے.بغرض محال یہ درست بھی ہو تو پھر اس مضمون کو ان الفاظ میںبیان کرنا تو بلاغت کے خلاف ہے اس صورت میں تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ کے دل اس قدر پاک ہیںکہ ان کے ایک لمحہ کی عبادت یا ان کی ایک رات کی عبادت ان لوگوں کی اسّی سال کی عبادت سے بہتر ہے مگر اس کی بجائے فرمایا یہ گیا ہے کہ ایک خاص رات کی عبادت دوسرے اسّی۸۰ سال کی عبادت سے اچھی ہے اور یہ بات یقیناً اس یہودی روایت کا جواب نہیں ہو سکتی.کیونکہ صرف ایک رات کو بغیر اور کسی خصوصیت کے دوسرے سالوں پر ترجیح دے دینا عقل کے خلاف ہے اور صرف زبردستی اور دھینگا مشتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے.یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ ایک معمولی مومن اور متقی انسان اگر ایک رات عبادت میںگزار دے تو وہ پہلے انبیاء کی اسّی سالہ عبادتوں سے بھی بڑھ جاتاہے تو اس سے بڑھ کر ظلم اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ان انبیاء کو اسّی سال عبادت کرنے کے بعد بھی اتنا انعام نہ ملے جتنا انعام ایک معمولی مسلمان کو محض ایک رات عبادت

Page 437

کرنے کی وجہ سے دے دیا جائے.پس اس حدیث کا یہ مفہوم قرآنی تعلیم اور عقل کے بالکل خلاف ہے.ترتیب.سورۃ القدر کا سورۃ العلق سے تعلق اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق ظاہر ہے وہاں فرمایاتھا اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ اپنے رب کے نام کے ساتھ پڑھ جس نے پیدا کیا ہے اور مطلب یہ تھا کہ قرآن پڑھ.اب اس سورۃ میںقرآن کریم کی فضیلت اور اس کی عظمت کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اِنَّاۤاَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ یہ قرآن لیلۃ القدر میںنازل کیا گیا ہے یعنی یہ وہ کتاب ہے جو دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھنے والے تمام فیصلوں پر حاوی ہے یا یوںکہہ لو کہ قرآن کریم دنیا کی ترقی اور اس کے تنزّل کے تمام سامانوں کی تفصیل اپنے اندر رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ دنیا کن اصول کے مطابق چل کر ترقی کر سکتی ہے اور کن امور کی پیروی کر کے تباہ ہو سکتی ہے.جو چیز ایسی اہم ہو کہ اس کو قبول کرنے میںدنیا کی نجات اور اس کو رد کرنے میںدنیا کی تباہی ہو اس کا پڑھنا اور بار بار لوگوںکو سنانا جس قدر ضروری ہو سکتا ہے وہ ایک ظاہر امر ہے ہم تو دیکھتے ہیں دنیا میںلوگ معمولی معمولی باتوں پر ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیں.عید کا چاند دیکھتے ہیں تو ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ کل عید ہو گی.نیا مال آتا ہے تو تاجر اور دکاندار لوگوں میں یہ ڈھنڈورا پیٹ دیتے ہیںکہ فلاں فلاں مال ہمارے پاس آیا ہے آئو اور اسے لے جائو.کسی بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہو تو اعلانات کے ذریعہ اس خبر کی خوب تشہیر کی جاتی ہے حالانکہ بعض دفعہ وہ چند دنوں کے بعد ہی مر جاتا ہے اور بعض دفعہ بڑے ہو کر وہ ایسا نالائق ثابت ہوتا ہے کہ باپ دادا کی ساری سلطنت کو کھو دیتا ہے.اسی طرح ٹِڈی سے ملک کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تو گورنمنٹ اخباروں میں اعلانات کراتی ہے کہ ٹڈّی دَل آیا ہوا ہے اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے یا مثلاً گورنمنٹ کو معلوم ہو جائے کہ اس دفعہ غلہ کی اچھی قیمت ہو گی یا کپاس کا نرخ بڑھ جائے گا یا بارشیںزیادہ ہوں گی تو گورنمنٹ بار بار ان باتوں کا اعلان کرتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ ہر شخص کے کان تک یہ باتیں پہنچ جائیں.جب معمولی معمولی چیزوں کے متعلق ڈھنڈورے پیٹے جاتےاور بڑے جوش سے اعلان کئے جاتے ہیں تو وہ چیز جو بنی نوع انسان کی تقدیر کو لے کرآئی ہو ، جو اپنے اندر دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے سامانوں کی تفصیل رکھتی ہو ، جس پر عمل لوگوں کو نجات دلانے والااور جس سے انحراف ان کو تباہی کے گڑھے میں گرانے والا ہے اس کا زور و شور سے اعلان کرنا کیوں ضروری نہیں؟ پس اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ میں جو یہ کہا گیا تھا کہ قرآن کریم کا دنیا میں خوب ڈھنڈورا پیٹو اور اس کی تعلیم کا بار بار اعلان کرو.اس سورۃمیں اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ قرآن کریم کا دنیا میں

Page 438

شائع کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہم نے اس کو ایک اندازہ والے زمانہ میں اتارا ہے یعنی یہ کتاب دنیا کی ترقی اور اس کے تنزل کے متعلق تمام اندازے اپنے اندر رکھتی ہے.بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۰۰۱ (میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنیوالا ہے (شروع کرتا ہوں).اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۰۰۲ ہم نے یقیناً اس (قرآن یا محمد رسول اللہ ) کو ایک (عظیم الشان) تقدیر والی رات میں اتارا ہے.حلّ لُغات.لَیْلَۃٌ لَیْلَۃٌ اَللَّیْلُ : مِنْ مَّغْرَبِ الشَّمْسِ اِ لٰی طُلُوْعِ الْفَجْرِ الصَّادِقِ اَوْ اِلٰی طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ ھُوَ خِلَافُ النَّـھَارِ.یعنی سورج کے غروب ہونے کے وقت سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے کے وقت کو لَیْل کہتے ہیں اور بعض کے نزدیک سورج کے نکلنے تک کے وقت کو اور لَیْل کا لفظ نَـھَار یعنی دن کے بالمقابل بولا جاتا ہے.بعض علماء لغت کا خیال ہے کہ لَیْلٌ اور لَیْلَۃٌ ایک ہی چیز ہے.جیسے عربی میں عَشِیٌّ اور عَشِیَّۃٌ ہم معنے ہیں.لیکن مرزوقی عالمِ لغت کہتے ہیں کہ لَیْل کا لفظ نَـھَار کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور لَیْلَۃ کا یَوْم کے مقابل پر (اقرب ) قَدْرٌ قَدْرٌ کے معنے مَبْلَغُ الشَّیْءِ کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی جو قیمت ہوتی ہے اس کو قَدْرٌ کہتے ہیں.اسی طرح قَدْرٌ ایک چیز کے دوسری چیزسے مساوی ہونے کو بھی کہتے ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیں ھَذَا قَدْرُ ھٰذَا اَیْ مُـمَاثِلُہٗ وَمُسَاوٍ لَہٗ یعنی فلاں چیز فلاں کے مساوی ہے.اسی طرح طاقت کے معنوں میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے اور قَدْرٌ کے معنے حرمت کے بھی ہوتے ہیں اور وقار کے بھی ہوتے ہیںاور غِنَاءٌ کے بھی ہوتے ہیں اور قوت کے بھی ہوتے ہیں اور قَدْرٌ کے معنے اَلْوَقْتُ الَّذِیْ یَلْزَمُ لِفِعْلِہٖ کے بھی ہوتے ہیںیعنی جتنے وقت میںکوئی کام ہو سکتا ہو اس کو بھی قَدْرٌ کہتے ہیںاور چونکہ یہ مصدر ہے اس لئے سارے مصدری معنے بھی اس میںپائے جائیںگے.اس لحاظ سے اس کے معنے تنگی کے بھی ہیںاور حکم کے بھی اور اقتدار کے بھی اور تعظیم کے بھی اور تدبیر کے بھی اور لیلۃ القدر وہ رات بھی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میںسے کسی ایک رات میں آتی ہے(اقرب) قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی اس رات کا ذکر آتا ہے مگر وہاں الفاظ اس آیت سے مختلف ہیں.

Page 439

ایک جگہ فرماتا ہے اِنَّاۤاَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَۃِ مُّبٰرَکَۃٍ (الدّخان:۴) یعنی ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے.پس لیلۃ القدر لیلۃ المبارکہ بھی ہے ایک دوسری جگہ فرماتا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ(البقرۃ:۱۸۶)رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن اتارا گیا.ان دونوں آیات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کی کسی رات میںقرآن کریم کا نزول ہوا اور اس وجہ سے اس رات کو خاص طور پر مبارک قراردیا گیا.تفسیر.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ میں هُ کی ضمیر سے مراد قرآن کریم اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میںنازل کیا ہے.چونکہ پہلی سورۃ میںقرآن کریم کا ذکر آچکا تھا اس لئے یہاں بجائے یہ کہنے کے کہ اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا الْقُرْاٰنَ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ اللہ تعالیٰ نے صرف اس کی طرف ضمیر پھیر دی اور کہہ دیا کہ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.کیونکہ یہ بات ہر شخص پہلی سورۃ پر نظر ڈال کر آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا اور اس بات کی ضرورت نہیں تھی کہ قرآن کریم کا خاص طورپر نام لیا جاتا.لفظ لَیْل اور لَیْلَۃ کے استعمال میں ایک فرق لَیْلَۃ اور لَیْل کے معنے رات کے ہوتے ہیں.مرزوقی عالمِ لغت کا قول ہے کہ لَیْل کا لفظ نَـھَار کے مقابل استعمال ہوتا ہے اور لَیْلَۃ کا لفظ یَوْم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے (اقرب) قرآن کریم میں لَیْل اور لَیْلَۃ دونوں الفاظ استعمال ہوتے ہیںلیکن لَیْل کا لفظ زیادہ استعمال ہوا ہے اور لَیْلَۃ کا کم.میری گنتی کے مطابق لَیْل کا لفظ ۷۹ دفعہ قرآن کریم میںاستعمال ہوا ہے اور لَیْلَۃ کا لفظ صرف آٹھ دفعہ اور عجیب بات یہ ہے کہ لفظ لَیْلَۃ کا استعمال نزول کلام الٰہی یا اس کے متعلقات کے ساتھ استعمال ہوا ہے.مثلاً ایک دفعہ رمضان کی رات کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے فرماتا ہے اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىِٕكُمْ(البقرۃ: ۱۸۸) یعنی تمہارے لئے روزوں کی راتوں میںاپنی عورتوں سے بے تکلف ہونا جائز ہے اور روزوںکے مہینہ یعنی رمضان کے متعلق آتا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ: ۱۸۶) یعنی رمضان میںقرآن اترنا شروع ہوا تھا.پس رمضان کی راتوں کو لَیْلۃ کے لفظ سے یاد کرنا لَیْلۃٌ کا تعلق کلام الٰہی والے مہینہ سے ظاہر کرتا ہے.اسی طرح تین جگہ لَیْلۃ کا لفظ حضرت موسٰی کی موعود چالیس راتوں کے متعلق استعمال ہوا ہے اور یہ وہ عرصہ ہے جس میںتورات کے اہم احکام نازل کئے گئے تھے اور جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی پیشگوئی کی گئی تھی.چنانچہ سورۂ بقرہ میںہے وَ اِذْ وٰعَدْنَا مُوْسٰۤى اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً (البقرۃ:۵۲)اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا.پھر سورۂ اعراف میںآتا ہے وَ وٰعَدْنَا مُوْسٰى ثَلٰثِيْنَ لَيْلَةً وَّ اَتْمَمْنٰهَا بِعَشْرٍ

Page 440

فَتَمَّ مِيْقَاتُ رَبِّهٖۤ اَرْبَعِيْنَ لَيْلَةً (الاعراف: ۱۴۳) یعنی اللہ تعالیٰ نے پہلے موسیٰ سے تیس راتیں کلام کرنے کا وعدہ کیا مگر بعد میںدس راتیں اور بڑھادیں اور اس طرح اپنے وعدہ کو مکمل کر دیا.ان تینوں آیتوں میںبھی لَیْلَۃ کالفظ کلام الٰہی کے نزول کے لئے استعمال ہوا ہے.ان کے علاوہ چار اور مقام پر لَیْلَۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور چاروں مقامات میںہی نزولِ قرآن کے متعلق نازل ہوا ہے سورۂ دخان میں آتا ہے اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ (الدّخان:۴) ہم نے اس قرآن کو مبارک رات میں اتارا ہے اور دوسرے اسی سورۃ زیر تفسیر میں ہے.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ہم نے قرآن کریم کو بڑے اندازہ والی رات میں اتارا ہے پھر اسی سورہ میں اس سے اگلی آیت میں فرماتا ہے وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ اور تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا ہے.پھر اس آیت سے اگلی آیت میں فرماتا ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.لیلۃ القدر ہزار راتوں سے بھی اچھی ہے.گویا آٹھ مقامات پر لَیْلَۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے او ر ہر جگہ نزول کلام الٰہی یا اس کے متعلقات کے متعلق استعمال ہوا ہے.یہ امر اتفاق نہیں کہلا سکتا ضرور اس میں کوئی حکمت ہے اور لَیْل اور لَیْلَۃ کے استعمال کا یہ فرق بے معنی نہیں ہے.میرے نزدیک کلام الٰہی والی راتوں کے متعلق لَیْلَۃ کا استعمال اور دوسری راتوں کے متعلق لَیْلٌ کا استعمال عربی زبان کے اس قاعدہ کی وجہ سے ہے کہ حروف کی زیادتی یا بعد میں آنے والے حروف کی تبدیلی ہمیشہ معنوںمیں زور اور قوت پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے مثلاً رَبَسَ اور رَبَضَ کے ملتے جلتے معنے ہیں لیکن رَبَسَ سے رَبَضَ میں زیادہ زور ہے رَبَسَ کے معنے مارنے کے ہوتے ہیں اور رَبَضَ کے معنے ہیں شیر کا اپنے شکار کو دبوچ کر دبا لینا.یہ ظاہر ہے کہ صرف مارسے شیر کا اس طرح جھپٹا مار کر دبوچ لینا اور اپنے نیچے دبا لینا زیادہ سخت ہے.اسی طرح قَصم اور قضم دونوں کے معنے توڑنے کے ہیں مگر قصم کے معنے خالی توڑنے کے ہیں اور قضم کے معنے توڑ کر کھا جانے کے ہیں اس لئے کہ ص سے ض بعد میں آتا ہے.پس ص کا حرف جس لفظ میں آئے گا اسی مفہوم کے اس لفظ کے معنے زیادہ زور دار ہوں گے جس میں ص کی جگہ ض آجائے گا.اسی طرح مسّ اور مصّ کے الفاظ ہیں مسّ کے معنے چھونے کے ہیں اور مصّ کے معنے اوپر منہ رکھ کر چوسنے کے ہیںیعنی خالی چھونا نہیں بلکہ اُسے اپنی طرف کھینچنا اسی طرح نَسَّ النَّاقَۃَ کے معنی ہیں اسے چلایا اور ڈانٹا اور نَصَّ النَّاقَۃَ کے معنے ہیں اسے چلنے پر خوب انگیخت کیا اور اسے اتنا مجبور کیا کہ وہ اپنی انتہائی طاقت کے مطابق دوڑنے لگی.اسی طرح فسل اور فصل دونوں لفظ جدائی پر دلالت کرتے ہیں لیکن فصل کی جدائی فسل سے زیادہ ہے کیونکہ ص س کے بعد آتا ہے.اسی طرح حروف کی

Page 441

زیادتی سے بھی معنوں میں فرق پڑجاتا ہے مثلاً لَبَبٌ کے معنے ہیں کھلے سینہ والا.لیکن لَبْلَبٌ جس میں ایک کی جگہ دو لام آجاتے ہیں اس کے معنے ہیں اَلْبَرُّ بِاَھْلِہِ وَالْمُحْسِنُ اِلٰی جِیْرَانِہٖ (اقرب)اپنے اہل سے حد سے زیادہ نیک سلوک کرنے والا اور اپنے ہمسائیوں پر احسان کرنے والا.گویا خالی سینہ کی وسعت کے معنے ہی نہیں بلکہ اعلی درجہ کا سلوک عملاً کرنے والا لَبْلَبٌ کہلاتا ہے اس لئے کہ لَبَبٌ میںتین حرف ہیں اور لَبْلَبٌ میںچار ہیں.عربی قواعد میں یہ قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ بعض دفعہ تاء اسم فاعل کے آخر میں مبالغہ کے لئے لگا دی جاتی ہے اور بطور قاعدہ صفت مشبہ کے آخر میں لگائی جاتی ہے اور اس میں مبالغہ کے معنے پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً راوی عام روایت کرنے والے کو کہتے ہیں اور شعراء کے شعر بیان کرنے والے کو راویۃ کہتے ہیں کیونکہ وہ بالعموم ہزاروں لاکھوں شعروں کی روایت کرتے تھے.اسی طرح نَسَّاب نسب بیان کرنے والے کو کہتے ہیں اور نَسَّابۃ مبالغہ کے لئے آتا ہے یعنی خوب اچھی طرح نسب بیان کرنے والا(اقرب) پس لَیْل اور لَیْلۃ میںچونکہ لَیْلَۃ کے حروف لَیْل سے زیادہ ہیں اس لئے اس کے معنوں میں لَیْل سے زیادہ وسعت ہے اور یہی وجہ ہے کہ لَیْلَۃ یَوْم کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے نَـھَار سے زیادہ وسیع ہیں اور لَیْل نَـھَار کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جس کے معنے یَوْم سے محدود ہیں.پس لَیْلَۃ کا لفظ ان راتوں یا اس زمانہ کی نسبت استعمال کر کے جن میںکلام الٰہی نازل ہوتا ہے ان راتوں کی بزرگی اور عظمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.چونکہ الٰہی کلام میں اعلیٰ ادب کے قواعد کے مطابق کبھی الفاظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور کبھی مجازی معنوں میں.اس آیت کے متعلق بھی یہ سوال ہے کہ آیا اس میں لَیْلَۃ کا لفظ محض رات کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یا ایک لمبے تاریک زمانہ کے متعلق.تمام گزشتہ مفسرین اسی طرف گئے ہیں کہ اس آیت میں لَیَلَۃ کے معنے محض رات کے ہیں اور لَیْلَۃُ الْقَدْر کے معنے ہیں اندازہ کی رات.مفسرین کے نزدیک سورۂ دخان میں جو اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ آیا ہے اس سے بھی یہی رات مراد ہے اور یہ رات رمضان کے مہینہ کی رات ہے جیساکہ سورۂ بقرہ میں آتا ہے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ.پس لیلۃالقدر سے مراد رمضان کی وہ رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا وہ رات مبارک تھی اور اندازہ کی رات تھی یعنی آئندہ خیر و شر کا اندازہ اللہ تعالیٰ نے اس میں کیا(الکشّاف زیر آیت اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ.فـتح البیان زیر آیت اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ.الجامع لاحکام القراٰن زیر آیت وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ).قرآن شریف کے نازل ہونے کے متعلق اختلاف ہے بعض کے نزدیک سارا قرآن اسی رات کو لوحِ محفوظ سے اتر کر بیت العزۃ نامی مقام پر آگیا اس کے بعد آہستہ آہستہ تیئیس سال تک

Page 442

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا (تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) اسی طرح ابن عباس سے ابن مردویہ نے روایت کی ہے کہ ان سے مقسم نے سوال کیا کہ میرے دل میں ایک شک پیدا ہو گیا ہے.قرآن کریم میں تو آتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ ایک لمبے عرصہ میں کچھ کسی مہینہ میں کچھ کسی مہینہ میں اور کچھ کسی مہینہ میں اترا ہے.اس پر ابن عباس نے جواب دیا کہ اِنَّہٗ اُنْزِلَ فِیْ رَمَضَانَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ وَفِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ جُـمْلَۃً وَّاحِدَۃً ثُمَّ اُنْزِلَ عَلٰی مَوَاقِعِ النُّجُوْمِ تَرْتِیْلًا فِی الشُّھُوْرِ وَالْاَیَّامِ(تفسیر ابن کثیر زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ).یعنی قرآن کریم سب کا سب ایک ہی بار رمضان کے مہینہ اور لیلۃ القدر کی رات میں جو لیلہ مبارکہ بھی کہلاتی ہے اترا تھا.مگر زمین پر مختلف مہینوںاور دنوں میں آہستہ آہستہ نازل ہوا.گویا ان لوگوںکے نزدیک قرآن کریم کے لیلۃ القدر میں اترنے کے معنے یہ ہیں کہ اس رات کو لوح محفوظ سے (یعنی اس مقام سے جہاں ان کے نزدیک ازل سے قرآن کریم لکھا پڑا تھا ) قرآن کریم اتراتھا.بعض کے نزدیک شہر رمضان میں قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے نزول کی ابتدا ء ہے.چنانچہ علامہ ابن حیان لکھتے ہیں وَقِیْلَ الْاِنْزَالُ ھُنَا ھُوَ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَکُوْنُ الْقُرْاٰنُ مِـمَّا عُبِّـرَ بِکُلِّہٖ عَنْ بَعْضِہٖ وَالْمَعْنٰی بُدِیَٔ بِاِنْزَالِہٖ فِیْہِ عَلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ(تفسیـر البحر المحیط زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ) یعنی بعض علماء اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کے اترنے سے مراد اس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اترنا ہے نہ کہ بیت العزت پر.اور قرآن کریم اترنے سے مراد اس کے کچھ حصہ کا اترنا ہے.پس آیت کے یہ معنے ہیں کہ اس مہینہ میں قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اترنا شروع ہوا تھا.بعض نے اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ کے یہ معنے کئے ہیں کہ رمضان کے بارہ میں قرآن اترا ہے نہ یہ کہ رمضان کے مہینہ میںقرآن اترا ہے.چنانچہ تفسیر فتح البیان میںلکھا ہے وَ قِیْلَ فِیْ مَعْنَی الْاٰیَۃِ الَّذِیْ نَزَلَ بِفَرْضِ صِیَامِہِ الْقُرْاٰنُ کَمَا تَقُوْلُ نَزَلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَ نَـحْوَ ذَ الِکَ ( فتح البیان زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ) یعنی بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم کی وحی روزوں کی فرضیت کے بارہ میںنازل ہوئی ہے یہ اسی طرح کا استعمال ہے جیسے کہتے ہیں یہ آیت فِی الصَّلٰوۃِ ہے یعنی یہ آیت نماز کے بارہ میں ہے.عربی لغت سے ثابت ہے کہ فِیْ کے معنے بارہ کے بھی ہوتے ہیں اور اسے فِیْ تعلیلیہ کہتے ہیں یعنی فِیْ کے بعد میں آنے والی چیز فِیْ سے پہلے کے مضمون کا سبب ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میںدوسری جگہ آتا ہے فَذٰلِكُنَّ الَّذِيْ

Page 443

لُمْتُنَّنِيْ فِيْهِ( یوسف :۳۳) یہ وہ یوسف ہے جس کے بارہ میں یا جس کے سبب سے تم مجھ پر الزام دھرتی تھیں.اسی طرح حدیث میں ہے عُذِّبَتِ امْرَاَۃٌ فِیْ ھِرَّۃٍ حَبَسَتْـھَا (بخاری کتاب المساقاہ باب فضل سقی الماء ) یعنی ایک عورت ایک بلی کو بے کھلائے پلائے باندھ دینے کی وجہ سے دوزخ میںڈالی گئی.انہی معنوں میں فِیْ کا حرف آیت اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُمیں استعمال ہوا ہے اور ا س کے معنے یہ ہیں کہ رمضان ایسا مہتم بالشان مہینہ ہے کہ اس کے بارہ میں قرآنی حکم نازل ہوا ہے یعنی قرآن میں جو احکام نازل ہوئے ہیں وہ اہم اور ضروری احکام ہیں.جس بارہ میں قرآن میں حکم آیا ہو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اہم حکم ہے.صحفِ ابراہیم، توراۃ، انجیل کے رمضان میں اترنے کے متعلق ایک روایت اور اس کا صحیح مطلب جن لوگوں کے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات میں سارا قرآن لوح محفوظ سے سماء الدنیا کے بیت العزۃ میں اترا یا جن کے نزدیک اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ رمضان کی ایک خاص رات کو قرآن کریم کی پہلی وحی نازل ہوئی.ان میں اس خاص رات کے متعلق بھی اختلاف پایا جاتا ہے اور اس کے متعلق مختلف احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں.چنانچہ مسند احمد حنبل میںابن الاسقع سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اُنْزِلَتْ صُـحُفُ اِبْرَاہِیْمَ فِیْ اَوَّلِ لَیْلَۃٍ مِّنْ رَّمَضَانَ وَ اُنْزِلَتِ التَّوْرَاۃُ لِسِتٍّ مَّضَیْنَ مِنْ رَمَضَانَ وَالْاِنْـجِیْلُ لِثَلَاثَ عَشْـرَۃَ خَلَتْ مِنْ رَّمَضَانَ وَاَنْزَلَ اللہُ الْقُرْاٰنَ لِاَرْبَعٍ وَّعِشْـرِیْنَ خَلَتْ مِنْ رَّمَضَانَ (مسند احمد بن حنبل عن واثلۃ ابن الاسقع ).یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیم ؑ کے صحیفے تو رمضان کی پہلی رات میںاترے تھے اور موسٰی کی کتاب تورات رمضان کے چھ دن گزرنے کے بعد یعنی ساتویںتاریخ کو اور انجیل تیرھویں کے گزرنے پر یعنی چودھویں رمضان کو اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم رمضان کی چوبیس راتیں گزرنے پر نازل کیا.بعض لوگوں نے اس سے مراد چھٹی تیرھویں اور چوبیسویںراتیں لی ہیں مگر میرے نزدیک چونکہ گذرنے کے بعد کے الفاظ ہیں اس لئے ساتویں، چودھویںاور پچیسویںراتیں بھی مراد ہو سکتی ہیں.بہر حال اس روایت میں بتایا گیا ہے کہ نہ صرف قرآن کریم بلکہ پہلی کتب بھی رمضان کی خاص خاص راتوں میں اتری تھیں ایک روایت جابر بن عبداللہ سے ابن مردویہ میں بھی مروی ہے اس میں یہ زائد بات بھی بیان ہے کہ زبور رمضان کی بارہ تاریخوں کے گزرنے پر نازل ہوئی اور انجیل کی نسبت لکھا ہے کہ وہ اٹھارہ دن گزرنے پر نازل ہوئی.ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم ہی نہیںدوسری کتب بھی رمضان میں ہی اتری ہیں (۲) ان کے

Page 444

نزول میں ایک ترتیب مد نظر رکھی گئی ہے پہلے شروع رمضان میں کتاب اتری پھر ہفتہ بعد پھر ہفتہ بعد پھر کچھ دنوں بعد آخری چوبیسویںیا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا.اگر ان احادیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو ان کا مفہوم قرآن کریم، عقل اور نقل کے خلاف معلوم ہوتا ہے.قرآن کریم کے خلاف اس لئے کہ قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ (البقرۃ:۱۸۶) یعنی رمضان کا مہینہ وہ ہے کہ جس میں قرآن کریم اترا ہے.اگر پہلے انبیاء کا کلام بھی رمضان میںہی اترا تھا تو رمضان کی فضیلت اور بھی بڑھ جاتی ہے اور چاہیے تھا کہ قرآن کریم فرماتا کہ رمضان کا مہینہ تو وہ ہے جس میںہم نے سب کتب سماویہ اتاری ہیںلیکن قرآن کریم ان کا ذکر تک نہیںکرتا.اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی امر کا ذکر نہ کرنے سے اس کا انکار واجب نہیں آتا لیکن چونکہ ان معنوں کے رو سے ماننا پڑتا ہے کہ رمضان کے مہینہ کی فضیلت بتانی مقصود ہے اور پہلی کتب کا بھی رمضان میں اترنا اس کی فضیلت کو بڑھا دیتا ہے اس لئے ا س امر کا اس جگہ بیان کرنا نہایت ضروری تھا لیکن قرآن کریم نے یہاں اس بات کا ذکر نہیں کیا اور نہ کسی اور جگہ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث درست ہے تو ا س کے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق نہیںہیں.دوسرا اعتراض ان روایات پر عقلی طور پر پڑتا ہے اور وہ یہ کہ رمضان قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے مبارک ہو گیا.یہ امر تو سمجھ میںآسکتا ہے لیکن یہ امر کہ جو کلام بھی اترے وہ رمضان میںاترے اس کی کوئی وجہ عقل سے معلوم نہیں ہوتی.دوسرا عقلی اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ رمضان قمری مہینہ ہے اور اپنی جگہ بدلتا رہتا ہے اگر ایک خاص وقت کو کلام الٰہی سے کوئی خا ص تعلق ہو تو یہ امر بھی سمجھ میں آسکتا ہے لیکن جبکہ یہ مہینہ یہود میں رائج نہ تھا وہ یہ سمجھ بھی نہ سکتے تھے کہ ابراہیم ؑ یا موسٰی یا دائود ؑ یا مسیحؑ کے الہامات کب نازل ہوئے ہیں اور اگر کوئی خاص فائد ہ اس نزول میں تھا تو اس سے نفع نہیں اٹھا سکتے تھے کیونکہ انہیں اس امر کا نہ علم تھا اور نہ علم ہو سکتا تھا.پھر ا س بات کی تعیین سے کیا فائدہ کہ کلام الٰہی ضرور رمضان میںاترے.الٰہی فعل کسی حکمت سے خالی کس طرح ہو سکتا ہے ؟ تیسرا عقلی اعتراض ان روایات پر یہ پڑتا ہے کہ ان میں حضرت ابراہیم، موسیٰ، دائود اور عیسیٰ کا ذکر تو آتا ہے لیکن اور نبیوں کا ذکر نہیں آتا.روایات بتاتی ہیں کہ پہلی رمضان کو حضرت ابراہیم ؑ پر کتاب اتری.ساتویں کو حضرت موسٰی پر.بارھویںکو حضرت دائود ؑ پر اور اٹھارھویں کو حضرت مسیحؑ پر.اس سے ظاہر ہے پہلے نبی پر رمضان کی پہلی تاریخ میں.دوسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں.تیسرے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں.چوتھے نبی پر اس کے بعد کی تاریخ میں کتاب نازل ہوئی گویا صرف رمضان میں کتاب کا اترنا ہی مقدر نہ کیا گیا تھا بلکہ رمضان کی

Page 445

تاریخوں کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا کہ جو نبی پہلے آئے اس پر رمضان کی پہلی تاریخوں میں کلام اتارا جائے اور بعد میں آنے والوں پر بعد میں اتارا جائے.اگر یہ بات ہے تو حضرت نوحؑ اور دیگر انبیاء جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے گزرے ہیں ان پر کس ماہ اور کس تاریخ میں کلام اترا.کیونکہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام اترا تھا پس حضرت نوحؑ کے لئے کوئی رات رمضان میں کلام اترنے کی باقی نہیں رہتی.اگر تو آگے پیچھے کلام اتر سکتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ ان پر پہلی کے بعد کی کسی تاریخ میںکلام اترا ہو گا.لیکن حدیث بتاتی ہے کہ تقدم زمانی کے مطابق رمضان کی تاریخوں میںکلام اتارا گیا ہے پس حضرت نوحؑ چونکہ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے گذرے ہیں اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جس رات کو کلام اترا اس سے پہلے کسی رات میں ان پر کلام اترنا چاہیے تھا مگر پہلی رات سے پہلے تو اور کوئی رات ہوتی نہیں پس اگر رمضان ہی میں کلام اترنا چاہیے تو حضرت نوحؑ کے لئے کوئی جگہ انبیاء کی صف میں باقی نہیں رہتی.کہا جا سکتا ہے کہ اس جگہ شارع نبیوں کا ذکر ہے اور حضرت نوحؑ شارع نبی نہ تھے مگر یہ جواب نقل و کلام الٰہی دونوں کے خلاف ہے.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ دائود اور نہ حضرت عیسٰیؑ شریعت لانے والے تھے.ان کی کتب جیسی بھلی بری بھی موجود ہیں ان میں دیکھ لو شریعت کا نام و نشان نہیں.حضرت دائود ؑ کی زبور میں تو صرف عشقِ الٰہی کا اظہار اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیاں ہیں اور کچھ اپنے اور اپنے متعلقین کے لئے دعائیں ہیں.شریعت سے ان کو دور کاواسطہ بھی نہیں.حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی انجیل کا بھی یہی حال ہے.اس میں صرف حضرت عیسیٰ کی زندگی کے حالات ہیں اور کچھ معجزات کا ذکر ہے باقی اس امر پر زور ہے کہ موسٰی کی شریعت پر عمل کرو.اگر دائودؑ کوئی نئی شریعت لائے تھے یا حضرت عیسٰیؑ کوئی نئی شریعت لائے تھے تو موسٰی کی کتاب کو منسوخ قرار دینا پڑے گا.اس صورت میں اگر عیسیٰ علیہ السلام صاحب شریعت نہ تھے تو انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ دائودؑ کی کتاب پر عمل کرو اور اگر وہ صاحب شریعت تھے تو انہیں یوں کہنا چاہیے تھا کہ میری شریعت پر عمل کرو مگر انجیل تو شریعت سے اس قدر خالی تھی اور ہے کہ یہود کے اعتراض سے بچنے کے لئے حضرت مسیحؑ کے حواریوں کو یہ اعلان کئے بغیر چارہ نہ ہوا کہ شریعت لعنت ہے (گلتیوں باب ۳ آیت ۱۳)کیونکہ اگر وہ اسے رحمت قرار دیتے تو یہود کے اس سوال کا کیا جواب دیتے کہ مسیحؑ کی شریعت کہاں ہے کیونکہ وہ نصاریٰ کے زعم میں پہلے نبیوں سے بڑا تھا اور اس وجہ سے اسے دوسروں کی شریعت کا ناسخ بھی ہونا چاہیے تھا.قرآن کریم کی رو سے اس دعویٰ پر یہ اعتراض آتا ہے کہ قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد

Page 446

آنے والے تمام نبیوں کی نسبت فرماتا ہے وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ قَفَّيْنَا مِنْۢ بَعْدِهٖ بِالرُّسُلِ١ٞ وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرۃ: ۸۸) یعنی ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس کے پیچھے اور رسول اس کی پیروی کرنے والے بھیجتے رہے آخر میں عیسیٰ بن مریم آئے انہیں بھی کوئی شریعت کی کتاب نہیں ملی صرف نشانات اور تائیدروح القدس انہیں حاصل تھی.اس آیت اور اس مضمون کی دوسری آیات کے ہوتے ہوئے اور خود ان نبیوں کی کتابوں کو دیکھتے ہوئے ہم کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اس روایت میں صرف صاحب کتاب نبیوں کا ذکر ہے اس وجہ سے حضرت نوح ؑکا ذکر نہیں.قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی اس مفہوم کو رد کرتی ہے.اللہ تعالیٰ حضرت نوحؑ اور ابراہیمؑ کی نسبت فرماتا ہے وَ اِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ ( الصّٰفّٰت:۸۴) نوح ہی کی جماعت میںسے ابراہیم بھی تھا یعنی حضرت ابراہیم ؑ شارع نبی نہ تھے شارع نبی حضرت نوحؑ تھے اور حضرت ابراہیم ان کی شریعت کے اسی طرح تابع تھے جس طرح اسرائیلی نبی حضرت موسٰی کی شریعت کے تابع تھے.اس حقیقت پر آگاہ ہو کر کوئی شخص کس طرح کہہ سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم کا ذکر اس لئے آیا ہے کہ وہ شارع نبی تھے اور حضرت نوح کا اس لئے ذکر نہیں آیا کہ وہ شارع نبی نہ تھے.علاوہ ازیں یہ اعتراض بھی اسی توجیہ پر پڑتا ہے کہ اس حدیث میںجس قدر نبیوں کا ذکر ہے وہ اسرائیلی ہیں یہ سوچنے والی بات ہے کہ اسرائیلی نبیوں کا خاص طور پر رمضان سے کیا تعلق تھا بظاہر کوئی نہیں اور اگر اسرائیلی نبیوں کو رمضان سے کوئی خصوصیت نہ تھی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے رو سے تو اور اقوام میں بھی نبی گزرے ہیں ان کے لئے رمضان میں کون سی جگہ ہو گی؟ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے نبی تو حضرت نوحؑ کی طرح اس لئے محروم ہو جائیں گے کہ حضرت ابراہیم ؑ پر پہلی رمضان کو کلام نازل ہوا تھا اس سے پہلے رمضان کی اور کوئی تاریخ نہیں اور بعد کے اس لئے کہ نبی تو کثیر تعداد میں ہوئے ہیں اور رمضان کے دن صرف تیس۳۰ ہیں بلکہ انتیس۲۹.کیونکہ چوبیسویں یا پچیسویںکو قرآن کریم نازل ہوا تو باقی نبیوں کو اس تاریخ سے پہلے کی کوئی تاریخ ملنی چاہیے.غرض اگر اس روایت کے معنے ظاہری الفاظ کے مطابق لئے جائیں تو عقلاً بھی اس کے معنے قابل قبول نہیں ہیں.ان روایات کی تردید جن میں بتایا گیا ہے کہ سب کتب ایک ہی رات نازل ہوئیں اب میں نقل کو لیتا ہوں.اس روایت میں یہ بتایا گیا ہے کہ سب کتب ایک ہی تاریخ میں یک دم نازل ہوئی ہیں.یہ امر دونوں سروں سے باطل ہوتا ہے.آخری نقطہ اس روایت کا قرآن کریم ہے قرآن کریم کی نسبت واضح طور پر معلوم ہے کہ یہ ایک

Page 447

دن میں نازل نہیں ہوا بلکہ تیئیس سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہواہے حتی کہ کفار نے اعتراض کیا کہ لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا (الفرقان:۳۳) یعنی کفار کہتے ہیں کہ قرآن اس پر یک دم کیوں نازل نہ ہوا.جو اعتراض وہ کرتے ہیں درست ہے واقعہ میں وہ یک دم نازل نہیں ہوا لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اتار کر تیرے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے (تا پہلے حصہ کی پیشگوئیاں پوری ہو کر دوسرے حصہ میں ا س کی طرف اشارہ ہو اور ایمان کی تقویت کی ایک دائمی بنیاد رکھ دی جائے ) اور ہم نے اس کی ترتیب نہایت اعلیٰ درجہ کی بنائی ہے یعنی نزول قرآن اس رنگ میں ہوا ہے کہ موجودہ وقت کے مومنوں کے ذہن نشین قرآن ہو جائے اور موجودہ وقت کے کافروں کے لئے بہترین طریقہ تبلیغ کا پیدا ہو اور بعد کی دائمی ترتیب ہم نے اور طرح رکھی ہے تا کہ وہ بعد میںآنے والوں کی ضرورت کے مطابق ہو.غرض نزول و ترتیب قرآن نہایت اہم حکمتوں پر مبنی ہے اور اس وجہ سے اس کا ٹکڑے ٹکڑے کر کے زمانہ کی ضرورت کے مطابق اترنا نہایت اہم حکمتوں پر مبنی تھا اب اس آیت کی موجودگی اور تاریخ کی گواہی کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ سارا قرآن ایک رات میںاترآیا تھا.پہلے نبیوں کے متعلق بھی یہ دعویٰ صحیح نہیں کہ ایک رات میں ان پر کلا م اترا تھا حضرت ابراہیم ؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے نہیں اس لئے ان کے بارہ میں تو ہم کچھ کہہ نہیںسکتے حضرت موسٰی، دائودؑ اور حضرت مسیحؑ کی تاریخ تو ہمارے سامنے ہے ان کی کتب کو دیکھ کر کوئی شخص شبہ بھی نہیںکر سکتا کہ وہ ایک وقت میں نازل ہوئی تھیں.حضرت موسیٰ کی کتب چالیس پچاس سال میںجا کر مدوّن ہوئی ہیں.ان میںراستوں سفروں ، مقاموں اور لڑائیوں کا بالترتیب ذکر ہے.حتی کہ یہ بھی ذکر ہے کہ کس طرح موسٰی نے اپنی قوم کی تنظیم کی اور کس طرح وہ جوانی سے ادھیڑ عمر کے ہوئے اور کس طرح بوڑھے ہوئے اور کھڑے ہو کر کام کرنے کے ناقابل ہو گئے.کیا اس مضمون کو ایک رات کا اترا ہوا مضمون کہا جا سکتا ہے؟ بالکل اسی طرح اناجیل کا مضمون ہے اس میں بھی حضرت عیسیٰ ؑ کے دوروں ، لیکچروں، نشانوں ، خدا کی ہدایتوں کا ترتیب وار ذکر ہے اور کوئی شخص انہیں ایک دن کی اتری ہوئی کتاب نہیں کہہ سکتا.حضرت دائودؑ کی زبور بھی اسی طرح ہے کہیں اس میںدشمن فوج کے نرغہ میں گھر جانے کا ذکر ہے اور پھر اس سے نجات پانے کا.کبھی بیمار پڑجانے کا اور پھر اس سے صحت پانے کا.کبھی دشمنوں کی شرارتوں کا ذکر آتاہے اور پھر ان کے غم سے نجات پانے کا.غرض دائود کی زبور اس کی زندگی کے اتار چڑھائو کی ایک تاریخ ہے اور ا س کی زندگی کے حالات اس سے منعکس ہوتے ہیں پھر اسے ایک دن کا کلام کس طرح کہا جا سکتا ہے؟

Page 448

حقیقت یہ ہے کہ نبی کی زندگی اس کے کلام سے الگ نہیں کی جا سکتی بغیر ایک نبی کی زندگی کے حالات معلوم ہونے کے ہم اس کی تعلیم کو بھی اچھی طرح نہیںسمجھ سکتے.نبی اپنے الہام کے لئے بمنزلہ آئینہ کے ہے اور ا س کا الہام اس کی زندگی کے لئے بطور ایک آئینہ ہے.یہ دونوں ایک دوسرے کو روشن کرتے ہیں اور اس دوہری روشنی ہی سے دنیا ہدایت پاتی ہے اس لئے ہر نبی کا کلام اس کی زندگی کے مختلف حالات پرروشنی ڈالتا ہوا ایک لمبے عرصہ میں ختم ہوتا ہے ایک طرف وہ خدا تعالیٰ کی صفات کے تازہ ظہور پر روشنی ڈالتا ہے دوسری طرف اس کی حالت جو ا س کے دشمنوں کی نسبت سے ہوتی ہے اس کے تغیرات پر روشنی ڈال کر خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت کا ثبوت پیش کرتا ہے.تیسری طرف وہ ان مختلف حالات میں نبی کے ایمان اور ا س کے یقین کے مختلف اظہاروں کو پیش کر کے اس کی دیانتداری ، اس کے ایثار اور اس کے روحانی کمالات کو پیش کرتا ہے.اگر شروع میں ہی ایک ہی رات میں کلام نازل ہو جائے تو اس میں یہ باتیں کب جمع ہو سکتی ہیںاور اگر یہ باتیں کسی کلام میںجمع نہ ہوں تو وہ دنیا کی ہدایت اور رشد کا سامان پیدا ہی کب کر سکتا ہے پس ضروری ہے کہ سب نبیوں پر آہستہ آہستہ کلام نازل ہو جس میں ا س تمام روحانی رفعت کی جھلک ملتی ہو.جو وہ نبی اپنے نبوت کے راستہ پر چلتے ہوئے حاصل کرتا گیا.تا دنیا کے سامنے اس کی ابتداء بھی ہو اور درمیانی زمانہ بھی اور اس کی انتہا بھی.یہ خیال کہ پہلے سب نبیوں پر یک دم کلام الٰہی نازل ہواتھا سورۂ فرقان کی آیت لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً (الفرقان:۳۳) سے پیدا ہوا ہے.مسلمان مفسروں نے اس سے یہ استدلال کیا کہ شاید سب نبیوں پر پہلے جُمْلَةً وَّاحِدَةً کلام نازل ہوتا تھا(تفسیر البغوی المسمّی معالم التنزیل زیر آیت وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً) تبھی دشمنوں نے یہ اعتراض کیا.حالانکہ انہوں نے یہ نہیں سوچا کہ قرآن کریم میں یہ اعتراض کفار مکہ کی طرف سے نقل کیا گیا ہے اور کفار مکہ تو کسی کتاب کے قائل ہی نہ تھے کجا یہ کہ وہ اس بات کے قائل ہوں کہ سب پہلے کلام الٰہی یک دم نازل ہوئے تھے اگر یہود و نصاریٰ کی طرف سے یہ اعتراض نقل کیا جاتا تب تو یہ شبہ پیدا بھی ہو سکتا تھا لیکن انہوں نے یہ اعتراض نہیں کیا اس لئے اس اعتراض کی وجہ سے یہ قیاس کرنا کہ پہلے چونکہ یک دم کلام نازل ہوتا تھا اس لئے قرآن کریم پر اعتراض کیا گیا کہ کیوں یہ ایک ہی دفعہ نازل نہیں ہوا بالکل درست نہیں اور قیاس مع الفارق ہے کفار مکہ کے اعتراض کا یہ باعث نہ تھا کہ پہلے نبیوں پر تو ایک دن ہی سب کلام نازل ہو جاتا تھا اور آپ پر آہستہ آہستہ کلام اتر رہا ہے کیونکہ وہ تو نہ نبوت کے قائل تھے نہ کلام الٰہی کے.ان کے اعتراض کی بناء تو محض عقلی تھی.وہ سمجھتے تھے کہ اگر خدا تعالیٰ نے کلام نازل کیا ہوتا تو یک دم کر دیتا کیونکہ وہ عالم الغیب ہے.کلام کے

Page 449

آہستہ آہستہ نازل ہونے کے تو یہ معنے ہیں کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذباللہ من ذالک ) نئے اور بدلنے والے حالات کے مطابق اور نئی ضرورتوں کے پیش آنے پر ایک نیا کلام بنا کر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں.چونکہ ان کے اعتراض کی بنیاد عقلی تھی اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ پہلے نبیوں پر کلام اکٹھا نازل ہو جاتا تھا اور فرض کرو کہ کفار مکہ ایسا کہتے بھی تھے تو کیا ان کے خیال کو ہم کوئی بھی اہمیت اور قیمت دے سکتے ہیں.کیا وہ علوم آسمانی کے ماہر تھے یا مذہبی تاریخ کا علم ان کو حاصل تھا کہ ہم ان کے اعتراض کو تاریخ مذہب کے لئے کوئی قیمت دیں؟ اس غلطی کے پیدا ہونے کی ایک اور وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت آتا ہے کہ انہیں چالیس راتوں کے وعدہ میںالواح ملی تھیں(الاعراف:۱۴۳).مسلمان مفسرین چونکہ اسرائیلی کتب سے واقف نہ تھے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ الواح اور تورات ایک شے ہیں.حالانکہ الواح صرف دس احکام کا نام ہے اور تورات ان احکام سے سینکڑوں گنے زیادہ امور پر مشتمل ہے.قرآن کریم میں کسی جگہ بھی یہ ذکر نہیں کہ طُور پر موسٰی کو مکمل تورات ملی تھی.صرف الواح کا ذکر آتا ہے اور تورات بھی اسی کی مصدق ہے سو اوّل تو طُور پر جو کچھ نازل ہوا یک دم نازل نہیں ہوا چالیس راتوں میں نازل ہوا دوسرے وہاں جو کچھ نازل ہوا اس اندازہ کے مطابق وحی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی راتوں میں ہوئی ہے کئی کئی رکوع کا ٹکڑا آپ پر یک دم نازل ہو جایا کرتا تھا چنانچہ سورۂ یوسف کی نسبت آتا ہے کہ ساری سورۃ ایک ہی وقت میںنازل ہوئی تھی(فتح البیان زیر سورۃ یوسف).حضرت موسٰی پر جو کلام طُور پہاڑ پر چالیس دن میںنازل ہوا اس سے تو سورۂ یوسف یقیناً بڑی ہے.حضرت موسٰی کی وحی کے علاوہ دوسرے نبیوں کی وحی کی نسبت تو کوئی قوی یا ضعیف روایت بھی نہیں جس سے معلوم ہو کہ پہلے نبیوں پر کلام الٰہی یک دم نازل ہو جاتا تھا اور اگر ایسا لکھا بھی ہوتا تو ہم اسے خلاف عقل کہہ کر رد کر دیتے کیونکہ کلام الٰہی تو نبی اور خدا کے تعلق کو روشن کرتا رہتا ہے.کیا ہم خیال کر سکتے ہیں کہ کسی نبی پر ایک رات میں سب کلام نازل کر کے خدا تعالیٰ خاموش ہو جائے گا کلام الٰہی تو الٰہی تعلق پر شہادت ہوتا ہے کیا اس شہادت کے پیدا ہو جانے سے نبی کی قلبی کیفیت اطمینان والی رہ سکتی ہے ؟ کیا وہ اس محجوب اور محبوب سے دور زندگی کو راحت سے گذار سکتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چند دن کے وحی کے وقفہ سے کیا حال ہوا تھا.اگر ایک دن کلام کر کے خدا تعالیٰ دوسرے نبیوں سے بقیہ ساری عمر خاموش رہتا تو میں سمجھتا ہوں دشمن تو ان کو مارنے میں ناکام رہتے لیکن یہ خدائی فعل ان کو مارنے میںضرور کامیاب ہو جاتا.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی آیت اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ کا یا دوسری آیات جو اوپر لکھی گئی ہیںان کا ہرگز یہ

Page 450

منشاء نہیں کہ قرآن کسی ایک رات میں سب کا سب اتار دیا گیا تھا یا یہ کہ الٰہی کلام اکٹھا اترا کرتا ہے.کلام الٰہی کسی نبی پر یک دم نہیں اترا بلکہ آہستہ آہستہ نبوت کے زمانہ سے اس کی موت تک اترتا رہتا ہے تا نبی کے دل کو بھی زیادہ سے زیادہ روشنی ملتی جائے اور اس کے اتباع کا نور ایمان بھی بڑھتا رہے اور اس کے منکروں پر بھی نت نئی حجت تمام ہوتی رہے.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اکٹھا کلام نازل نہیں ہوتا تو پھر کیا احادیث مذکورہ بالا کا یہ دعویٰ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اجمالاً اور پہلے انبیاء پر تفصیلاً کلام الٰہی رمضان کی مختلف راتوں میں نازل ہوا درست نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ احادیث صحاح ستہ کی نہیں.مسند احمد بن حنبل، سعید بن جبیر اور ابن مردویہ کی ہیں اور ان کو وہ درجہ نہیں دیا جاسکتا جو بخاری مسلم کی احادیث کو دیا جاسکتا ہے.مسند احمد بن حنبل بے شک ایک مستند کتاب ہے لیکن اس کے متعلق یہ امر محقق ہے کہ اس کی روایات مختلف قسم کی ہیں اور اس کے ان راویوں کی وجہ سے جو امام احمد بن حنبل کے بعد اس کی کتاب کو نقل کرتے ہیں اس میں ایسی بہت سی روایات شامل ہوگئی ہیں جو خود امام احمد بن حنبل کی بتائی ہوئی نہیں ہیں اور بعض ایسی بھی ہیں جن کو امام احمد بن حنبل نے خود مستند قرار نہیں دیا.لیکن اگر امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ حدیث مستند بھی ہو تب بھی حدیث قرآن کریم کے مقام پر رکھی نہیں جاسکتی.جو حدیث قرآن کریم، واقعات یا عقل کے خلاف ہو بہرحال یا اسے غلط قرار دینا پڑے گا یا پھر اس کے معنے مجاز کے اصول پر کرنے ہوں گے.چونکہ میں اوپر ثابت کرچکا ہوں کہ ان احادیث کے ظاہری معنے قرآن کریم، کتب سابقہ اور عقل کے خلاف ہیں.اس لئے لازماً یا تو ان احادیث کو غلط کہنا ہوگا یا ان کے معنے مجاز و استعارہ کے اصول پر کرنے پڑیں گے.اب میں دیکھتا ہوں کہ کیا مجاز و استعارہ کے رُو سے ان احادیث کے کوئی معنے ہوسکتے ہیں؟ میرے نزدیک ایک بات ان روایتوں میں ایسی ہے جو ہماری توجہ کو مجاز و استعارہ کی طرف پھیرتی ہے اور وہ یہ کہ باوجود اس کے کہ نوح علیہ السلام کو قرآن کریم نے ایک بہت بڑا نبی قرار دیا ہے اور حضرت ابراہیمؑ کو ان کا تابع نبی قر ار دیا ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم نے ہر قوم میں نبی ہونے کی خبر دی ہے.اس روایت میں حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسٰی، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہے اور پھر باوجود اس کے کہ مسلمانوں میں عام طور پر گو غلط طور پر یہ عقیدہ مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے چار کتابیں اتاری ہیں (درحقیقت نہ یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف چار کتابیں اتاری ہیں اور نہ یہ درست ہے کہ ان چار کتابوں میں سے دائودؑ اور حضرت مسیحؑ کی کتب شریعت کی کتب ہیں.یقیناً چار سے بہت زیادہ کتب مختلف اقوام کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہیں اور ان بہت سی کتب میں زبور اور انجیل شامل نہیں کیونکہ یہ شریعت کی کتب نہیں ہیں.محض اصلاحی اور روحانی ترقی کے متعلق الہامات پر مشتمل

Page 451

ہیں یا چند پیشگوئیاں ان میں مذکور ہیں).ان روایتوں میں پانچ کتابوں کا ذکر معلوم ہوتا ہے کہ غلط العام عقیدہ سے متاثر ہوئے بغیر یہ روایات نقل کی گئی ہیں اس لئے غالب احتمال یہ ہے کہ یہ احادیث درست ہیں ہاں ظاہر معنوں میں نہیں ہیں بلکہ مجاز و استعارہ کا استعمال ان میں کیا گیا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت ابراہیمؑ ، حضرت موسٰی ، حضرت دائودؑ، حضرت مسیحؑ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیمی خاندان کے درخشندہ ستارے ہیں اور گو ابراہیم موسوی سلسلہ سے پہلے اور حضرت نوحؑ کے تابع نبیوں میں سے تھے.موسٰی، دائود اور مسیحؑ اسرائیلی سلسلہ کے نبی تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم محمدی سلسلہ کے بانی تھے اور نبوت کے سلسلہ کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی تین مختلف سلسلوں سے متعلق تھے مگر خاندان کے لحاظ سے یہ پانچوں نبی ایک خاندان سے تعلق رکھتے تھے.پس ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں کلام الٰہی کے سلسلہ کے لحاظ سے نہیں بلکہ ابراہیمی خاندان کے لحاظ سے ایک حکمت بیان کی گئی ہو.اگر یہ درست ہے تو نہ حضرت نوحؑ کے ذکر کی اس حدیث میں ضرورت تھی اور نہ دوسری اقوام کے نبیوں کے ذکر کی ضرورت تھی.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان پانچ نبیوں کو رمضان میں الہام ہوا خواہ جُزْأً خواہ کُلًّا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ میں اس خیال کو اوپر تفصیل سے ردّ کر آیا ہوں.پس رمضان سے رمضان کا مہینہ مراد نہیں بلکہ مجازاً سلسلہء الہام کا نام رمضان رکھ دیا گیا ہے.رمضان رَمَضَ سے نکلا ہے اور رَمَضَ کے معنے عربی زبان میں شدید گرمی یا سورج کی شدید تپش کے ہوتے ہیں اور رَمَضَاءُ کے معنے اس میدان کے ہوتے ہیں جو گرمی کے موسم میں سورج کی براہ راست شعاعوں کی وجہ سے تپ اٹھا ہو.چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ؎ اَلْمُسْتَجِیْـرُ بِعَمْرٍو عِنْدَ کُرْبَتِہٖ کَالْمُسْتَجِیْـرِ مِنَ الرَّمْضَاءِ بِالنَّارِ (اقرب) یعنی عمرو (اس کا مخالف) سے مصیبت کے وقت مدد مانگنا ایسا ہی ہے جیسا کہ شدید گرم میدان سے بچنے کے لئے کوئی آگ کی پناہ ڈھونڈے یعنی رَمَضَاء کی گرمی آگ کے قریب قریب ہوتی ہے.معلوم ہوتا ہے کہ جب رمضان نام اس مہینہ کا رکھا گیا ہے اس وقت یہ مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ہوگا.بہرحال رمضان کے روزے تو اسلام میں فرض ہوئے اور اس مہینہ کا نام رمضان بہت پہلے رکھا گیا ہے.پس رکھنے والے نے یہ نام شدت گرما کی وجہ سے ہی رکھا ہوگا اور کلام الٰہی ہمیشہ اسی وقت آتا ہے جبکہ دنیا میں گناہ اور فسق وفجور کی وجہ سے لوگ غضب الٰہی کی آگ میں جل رہے ہوتے ہیں اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابراہیمی نسل

Page 452

پر جو ابتدائی زمانہ روحانی گرمی کا آیا اس میں ابراہیم علیہ السلام پر کلام نازل ہوا اور جب دوسرا زمانہ روحانی تپش اور گرمی کا آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی کو بھیج دیا اور جب تیسرا زمانہ آیا تو دائود علیہ السلام کو بھیج دیا اور جب چوتھا زمانہ آیا تو حضرت مسیحؑ کو بھیج دیا اور جب پانچواں زمانہ آیا تو مجھے بھیج دیا.اس صورت میں یہ ایک نصیحت ہے اور زمانہ کے حالات سے ایک سبق دیا گیا ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ رمضان میں ان لوگوں پر کلام نازل ہوا سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ آپ کے بارہ میں قوی تاریخی شہادت ملتی ہے کہ آپ پر رمضان میں قرآن کریم نازل ہونا شروع ہوا تھا.صحفِ ابراہیم، توراۃ، انجیل کے رمضان میں اترنے کی ایک لطیف تشریح ان مجازی معنوں کے رو سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس حدیث میں متواتر تاریخوں میں نزول کلام کا ذکر نہیں بلکہ یوں ہے کہ پہلی رمضان کو ابراہیمؑ پر کلام نازل ہوا.چھٹی کو موسٰی پر اور بارھویں کو دائودؑ پر اور اٹھارھویں کو مسیحؑ پر اور چوبیسویں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر.اگر ہم غور سے دیکھیں تو تاریخ سے ابراہیمی نسل کے انبیاء کا ظہور جن صدیوں میں معلوم ہوتا ہے یہ تاریخیں اس سے ملتی ہیں.حضرت ابراہیم ابراہیمی نسل کے انبیاء کے سب سے پہلے نبی تھے اس لئے لازماً کہنا ہوگا کہ ان پر وحی ابراہیمی سلسلہ کی تاریخ کی پہلی صدی میں ہوئی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متعلق اختلاف ہے.مروجہ بائبل میں اسے ۴۲۰ سال کے قریب بتایا گیا ہے مگر بعض اسرائیلی روایتوں میں حضرت موسٰی کا ظہور چھٹی صدی میں بھی بتایا گیا ہے.اگر اسے درست سمجھا جائے توموسٰی پر چھٹی رمضان کو کلام نازل ہونا درست آتا ہے.اس کے بعد حضرت دائودؑ کا ذکر ہے کہ ان پر بارھویں رمضان کو کلام نازل ہوا.حضرت دائودؑ کا وجود اس کڑی کے لحاظ سے خاص اہمیت نہیں رکھتا.اصل اہم وجود اس کڑی میں حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسٰیؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ ابراہیم باپ ہیں اور موسیٰ عیسیٰ ایک بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعودؑ دوسرے بیٹے کے سلسلہ کی کڑی ہیں.مسند احمد بن حنبل کی روایت میں حضرت دائود کا ذکر بھی نہیں.بہرحال یہ جو دوسری روایت میں ہے کہ دائودؑ پر بارھویں تاریخ کو کلام نازل ہوا یہ مروجہ تاریخوں کے مطابق صحیح نہیں اُترتا کیونکہ مروجہ تاریخوں میں حضرت دائود کا زمانہ حضرت ابراہیمؑ کے نو سو سال بعد ہوا ہے مگر پرانی تاریخوں کاکوئی ایسا اعتبار بھی نہیں ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی ہو اور حضرت دائودؑ گیارہ سو سال بعد بارھویں صدی میں ہی ہوئے ہوں.اس کے بعد حضرت مسیح کا ذکر آتا ہے بائبل کے رو سے واقعہ صلیب حضرت ابراہیم کی بعثت کے ۱۹۲۰ سال بعد ہوا ہے اور ان کی وفات کے لحاظ سے ۱۸۰۰ کچھ سال بعد.

Page 453

حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ اٹھارھویں رمضان کے مطابق حضرت عیسٰیؑ پر کلام نازل ہوا.گویا ایک سو سے ڈیڑھ سو سال کا فرق ہے مگر یہ فرق اس طرح نکل جاتا ہے کہ اسرائیلی تاریخ کے رو سے موسٰی اور عیسٰی کے درمیان کا فاصلہ تیرہ سو سال کا بھی ثابت ہے.اگر اس عرصہ کو تسلیم کیا جائے اور قرائن بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضرت مسیحؑ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد ہوئے ہیں (مگر اس جگہ اس مضمون پر بحث کا موقعہ نہیں ).تو حضرت ابراہیم اور حضرت مسیحؑ کا فاصلہ اٹھارہ صد اور کچھ سال کا بن جاتا ہے اور حدیث کے بتائے ہوئے وقت کے عین مطابق حضرت مسیح کی بعثت بنتی ہے.اس کے بعد لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چوبیسویں رمضان کو کلام نازل ہوا.حضرت عیسیٰ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا فاصلہ چھ سو آٹھ سال کا ہے.اٹھارہ سو کچھ سال میں ۶۰۸ سال جمع کریں تو چوبیس سو کچھ سال ہوتے ہیں.گویا حضرت ابراہیمؑ کے بعد چوبیسویں صدی کے ختم ہونے پر اور پچیسویں صدی کے شروع میں آپ مبعوث ہوئے اور یہ زمانہ حدیث کے عین مطابق ہے.خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں رمضان سے مراد وہ تاریک زمانے ہیں جو نسل ابراہیم پر آنے والے تھے اور دنوں سے مراد وہ صدیاں ہیں جن میں حدیث میں مذکور انبیاء کا ظہور ہوا اور ان احادیث میں استعارہ کی زبان میں بات کی گئی ہے ظاہر مفہوم لینا ان کا نقل اور عقل دونوں کے خلاف ہے.لیلۃ القدر سے مراد اب سوال یہ ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس آیت میں کیا ہے کیا حقیقی لَیْلَۃیا مجازی؟ اس بارہ میں پہلے مفسرین کا رحجان اسی طرف ہے کہ اس سے مراد حقیقی رات ہے جس میں ان کے نزدیک سارا قرآن لوح محفوظ سے بیت العزۃ پر اترا.یا یہ کہ اس رات کو نزول قرآن کی ابتداء ہوئی(فتح البیان زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ).جہاں تک یہ سوال ہے کہ قران کریم رمضان میں اترنا شروع ہوا یہ تو تاریخی شہادتوں سے یقینی امر معلوم ہوتا ہے اس لئے شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ کے ایک یہ معنے ضرور ہیں کہ قرآن کریم رمضان میں اترنا شروع ہوا.باقی رہا کہ وہ کس رات کو اترا اس کے بارہ میں تاریخ میں اختلاف ہے.سعید بن جبیر نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ قرآن کریم نصف رمضان میں نازل ہوا(تفسیرابن کثیر زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ).گویا پندرہ یا سولہ کو اس کا نزول ہوا.جو روایات اوپر بیان کی گئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ چوبیس رمضان کو نازل ہوا.بعض کا خیال ہے کہ بدر کی جنگ ستر۱۷ہ رمضان کو ہوئی تھی (دُرّمنثور زیر سورۃ القدر) اس لئے یہی رات قرآن کریم کے نزول کی بھی ہے.کیونکہ ان کے نزدیک قرآن کریم کی آیت يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ(الانفال:۴۲) اسی طرف اشارہ کرتی ہے.غرض اس رات کے متعلق جسے لیلۃالقدر کہا گیا ہے اختلاف ہے

Page 454

اور اس کی اہمیت تاریخی تحقیق سے زیادہ ہے بھی نہیں.کیونکہ جس تاریخ کو قرآن کریم نازل ہو ااس کے معلوم ہونے سے روحانیت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچتا.محدثین عام طور پر چوبیس تاریخ کی رو ایت کو مقدم بتاتے ہیں چنانچہ ابن حجر عسقلانی بخاری کی مشہور شرح کے مصنف اور علامہ زرقانی مواہب اللدنیہ سیرۃنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شارح جنہوں نے شرح مواہب اللدنیہ آٹھ جلدوں میں لکھی ہے دونوں نے اسی روایت کو ترجیح دی ہے کہ قرآن کریم رمضان کی چوبیسویں تاریخ کو اترنا شروع ہوا(شرح الزرقانی باب اول فیما کان یخص صلی اللہ علیہ وسلم بہ رمضان من العبادات.فتح الباری الـجزء التاسع حدیث ۴۹۷۸).اس کے بر خلاف مورخ زیادہ تر سترھویں رمضان کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر).اور قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ ہم نے قرآن کریم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے اور اس کی یاد میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کا مقرر کیا جانا یہ دونوں باتیں مل کر اس امر کو ثابت کر دیتی ہیں کہ قرآن کریم کا نزول بہر حال رمضان میں شروع ہوا.پس اگر اس آیت کے یہ معنے کئے جائیں کہ قرآن کریم کے نازل ہونے والی مخصوص رات لیلۃ القدر تھی تو اس لحاظ سے محد ثین کے فیصلہ کے مطابق یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ لیلۃ القدر سے مراد اس جگہ چوبیسویں رمضان ہے اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے چوبیسویں رمضان کو قرآن کریم نازل کیا ہے جو نزول قرآن کی وجہ سے لیلۃ القدر کہلانی چاہیے.لیکن تاریخی تحقیق کے مطابق صرف اتنا معلوم ہو گا کہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ رمضان کی کسی تا ریخ کو تھا.لفظ قدر کے لغوی معنی اس رات کو جس میں قرآن کریم نازل ہوا لیلۃ القدر کیوں کہا گیا ہے اس کی وجہ خود لفظ قدرسے ظاہر ہے.حل لغات میں قدرکے معنے لکھے جا چکے ہیں لیکن یاد کو تازہ کرنے کے لئے دو لغات کی کتابوں میں سے کہ ایک قرآن کریم کی لغت کی خاص تفسیر ہے اور ایک عام عربی زبان کی لغت کی اہم کتاب ہے قدرکے معنے دوبارہ یہاں لکھ دیئے جاتے ہیں.مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی لغت کی ایک معتبر کتاب ہے لکھا ہے اَلْقَدْرُ وَالتَّقْدِیْرُ تَبْیِیْنُ کَمِیَّۃِ الشَّیْءِ.قدراور تقدیر کے معنے کسی چیز کے اندازہ کا ظاہر کرنا ہوتے ہیں.پھر لکھا ہے تَقْدِیْرُ اللہِ الْاَشْیَاءَ عَلٰی وَجْھَیْنِ اَحَدُھُمَا بِـاِعْطَاءِ الْقُدْرَۃِ وَالثَّانِیْ بِاَنْ یَّـجْعَلَھَا عَلٰی مِقْدَارٍ مَّـخْصُوْصٍ وَّ وَجْہٍ مَّـخْصُوْصٍ حَسْبَمَا اقْتَضَتِ الْـحِکْمَۃُ وَ ذَالِکَ اَنَّ فِعْلَ اللہِ تَعَالٰی ضَـرْبَانِ ضَـرْبٌ اَوْجَدَہٗ بِالْفِعْلِ وَ مَعْنٰی اِیْـجَادِہٖ بِالْفِعْلِ اَنْ اَبْدَعَہٗ کَامِلًا دَفْعَۃً وَّاحِدَۃً لَا تَعْتَـرِیْہِ الزِّیَادَۃُ وَالنُّقْصَانُ اِلٰی اَنْ یَّشَاءَ اَنْ یُّفْنِیَہٗ اَوْ یُبَدِّلَہٗ کَالسَّمٰوٰتِ وَمَا فِیْـھَا وَمِنْـہَا مَا جَعَلَ اُصُوْلَہٗ مَوْجُوْدَۃً بِالْفِعْلِ وَاَجْزَاءَہٗ بِالْقُوَّۃِ وَقَدَّرَہٗ عَلٰی وَجْہٍ لَّا

Page 455

یَتَأَتّٰی مِنْہُ غَیْـرُ مَاقَدَّرَہٗ فِیْہِ کَتَقْدِیْرِہٖ فِی النَّوَاۃِ اَنْ یَّنْبُتَ مِنْـہَا النَّخْلُ دُوْنَ التُّفَّاحِ وَالزَّیْتُوْنِ.......فَتَقْدِیْرُاللہِ عَلٰی وَجْھَیْنِ اَحَدُھُمَا بِالْـحُکْمِ مِنْہُ اَنْ یَّکُوْنَ کَذَا اَوْ لَا یَکُوْنَ کَذَا اِمَّا عَلٰی سَبِیْلِ الْوُجُوْبِ وَ اِمَّا عَلٰی سَبِیْلِ الْاِمْکَانِ وَ عَلٰی ذَالِکَ قَوْلُہٗ قَدْ جَعَلَ اللہُ لِکُلِّ شَیْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۴) وَالثَّانِیْ بِاِعْطَاءِ الْقُدْرَۃِ عَلَیْہِ.........وَ قَوْلُہٗ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ.....اَیْ لَیْلَۃً قَیَّضَھَا لِاُمُوْرٍ مَّـخْصُوْصَۃٍ.یعنی اللہ تعالیٰ کی تقدیر دو طرح ظاہر ہوتی ہے (۱) کسی کو قدرت دے کر(۲)دوسرے اس طرح کہ کسی چیز کو حکمت کے تقاضٰی کے مطابق مخصوص اندازہ پر بناتا ہے اور مخصوص طریق پر اس کی ساخت کی بناء رکھتا ہے اور یہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے افعال دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو یہ کہ کسی چیز کو ایک ہی بار مکمل طور پر پیدا کر دیتا ہے.پھر اس کے بعد اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی جب تک کہ اسے خدا تعالیٰ فنا نہ کر دے یا بدل نہ ڈالے جیسے کہ زمین وآسمان کی پیدائش ہے اور ایک تقدیر اس کی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک چیز کو اس طرح پیدا کرتا ہے کہ اصولی طور پر تو وہ موجود ہوتی ہے مگر اس کے تفصیلی خواص پوشیدہ ہوتے ہیں مگر ہوتے موجود ہیں.ان کے خلاف اس چیز سے کچھ ظاہر نہیں ہو سکتا.مثلا کھجور کی گٹھلی ہے اس گٹھلی میں اصولی طور پر کھجور کی خاصیتیں موجود ہیں مگر کھجور کی تفصیلات اس سے گٹھلی ہونے کی حالت میں ظاہر نہیں مگر جب بھی اسے بوئو اس میں سے کھجور ہی نکلے گی.سیب یا زیتون نہیںنکلے گا.پس اس کی تقدیر اجمالی ہے مگر وہ اجمال ایک تفصیل کو اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے جب وہ اجمال کھلنا شروع ہو گا اس سے وہی تفصیل پیدا ہوگی جو اللہ تعالیٰ نے اس میں مخفی رکھی ہے اس کے خلاف اور کوئی تفصیل پیدا نہ ہوگی.غرض تقدیر الٰہی دو طرح ظاہر ہوتی ہے یا تو حکم سے کہ وہ فرما دیتا ہے کہ ایسا ہو یا ایسا نہ ہو.پس جسے کہتا ہے ہو جا وہ ضرور ہوتا ہے اور جس کی نسبت کہتا ہے ایسا نہ ہو اس کے لئے ہونا ممکن نہیں ہوتا.اسی معنوں میں قرآن کریم میں آتا ہے قَدْ جَعَلَ اللّٰهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الطلاق:۴) کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے جو مثبت خواص اس میں رکھے ہیں ان کے سوا اس سے ظاہر نہیں ہوتے اور جن باتوں کی اس سے نفی کی ہے وہ اس سے ظاہر نہیں ہو سکتیں.زبان ضرور میٹھے کھٹے کے فرق کو محسوس کرتی ہے مگر سن نہیں سکتی.کان کو کتنا کہو نہ سن وہ ضرور سنتا ہے مگر اس سے کہو کہ چکھ تو کبھی نہیںچکھتا.دوسرے خدا تعالیٰ کی قدرت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس نے قدرت بعض اشیاء میں پیدا کر دی ہے مگر وہ فوراً ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتی رہتی ہے گویا یوں کہہ لو کہ اس کی قدرت کے کچھ درخت ہیںاور کچھ گٹھلیاں.قدرت کے درخت تو اپنی کامل شان سے شروع سے ہی مقررہ پھل دیتے ہیں کوئی کمی بیشی نہیں ہوتی.قدرت کی گٹھلیاںاپنے اندر مخفی مادہ رکھتی ہیںجب گٹھلی لگائو گے وہی ظاہر ہو گا جو

Page 456

خدا تعالیٰ نے اس میں طاقت رکھی ہے مگر گٹھلی نہ لگائو تو خدا تعالیٰ کی تقدیر اس گٹھلی کے ساتھ ہی غائب ہو جائے گی گویا یہ قدرت ضرور نہیں کہ ظاہر ہو مگر جب ظاہر ہو گی تو اسی طرح ظاہر ہو گی جس طرح خدا تعالیٰ نے اس کے لئے ظاہر ہونا مقدر کیا ہے.انسان کے نطفہ میں انسان بننے کی قدرت ہے مگر ضروری نہیں کہ ہر نطفہ بچہ بن جائے کئی نطفے منی کے ساتھ ہی ضائع ہو جاتے ہیں.کئی ماں کے پیٹ سے قبل از وقت نکل جاتے ہیں.کئی مردہ پیدا ہوتے ہیں.کئی ناقص پید اہوتے ہیں ہاں جو بچہ بھی پیدا ہو گا ،ہوگا انہی خواص سے جو اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھے ہیںغیر انسانی خواص لے کر پیدا نہ ہو گا.گویا اس تقدیر کے لئے ایک نقطہ مقرر نہیں ایک دائرہ مقرر ہے اس کے اندر یہ آگے پیچھے ہو سکتا ہے.پھر لکھا ہے اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ سے یہ مراد ہے کہ ہم نے قرآن اسی رات میں اتارا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے خاص امور کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا.مفردات کی اوپر کی عبارت سے ظاہر ہے کہ قَدْرٌ کے معنے اظہار قدرت کے ہیں جو دو طرح ہوتی ہے.اوّل اسی تقدیر سے جو ایک مخصوص شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی.صاحب مفردات نے آسمان وزمین کی مثال دی ہے مگر یہ مثال کامل نہیں بہرحال اس سے اس قسم کی تقدیر کا ایک موٹا اندازہ ہو جاتا ہے ورنہ اصل مثال اس کی وہ تقدیر ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق ظاہر ہوتی ہے جسے قانون قدرت کہتے ہیں یعنی وہ قانون جو اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے ظہور کے لئے مقرر فرمایا ہے.مثلاً یہ کہ مردے اس دنیا میں جسمانی طور پر زندہ ہوکر نہیںآتے.یا غیب کامل کا علم خدا تعالیٰ کے بتائے بغیر کوئی نہیں جانتا.تُک بندی ٹھیک ہو جائے تو یہ اور بات ہے علم کی بناء پر کوئی شخص غیب کامل کو اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر نہیں جان سکتا وغیرہ وغیرہ.دوسرے ایسی تقدیر سے جو بالاجمال ظاہر ہوتی ہے.ایک ہی وقت میں ساری تقدیر کا اظہار نہیں ہو جاتا آہستہ آہستہ وہ تقدیر ظاہر ہوتی ہے اور ایک مقرر قانون کے مطابق ظاہر ہوتی ہے.پھر لکھا ہے کہ لیلۃ القدر سے مراد وہ رات ہے جسے خاص امور کے لئے اللہ تعالیٰ نے مخصوص کر چھوڑا تھا.ان معنوں کے بتانے کے بعد میں باری باری دونوں معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے کرتا ہوں.پہلے معنے یہ تھے کہ قَدْر سے خدا تعالیٰ کی دو قسم کی قدرتوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ قدر کا لفظ خدا تعالیٰ کی دونوں قدرتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ ضرور دونوں قدرتوں میں سے ایک ہی کی طرف اشارہ کرتا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نہ ایک قسم کی قدرت کی طرف اس سے ضرور اشارہ ہوتا ہے مگر ایک ہی وقت میں دونوں قدرتوں کی طرف بھی اشارہ ہوتا

Page 457

ہے.چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے لئے لفظ قدیر آتا ہے یعنی قدرت والا تو اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس سے نمبر اوّل قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے یا نمبر ۲ قسم کی قدرت ظاہر ہوتی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس سے دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوتی ہیں.اسی طرح اگر کسی جگہ قدر کا لفظ آئے توگو کبھی اس سے قسم اوّل کی قدرت مراد ہو گی اور کبھی قسم دوم کی.یا کبھی اور کسی تیسری قسم کی قدر مراد ہو گی لیکن کبھی وہ سب قسم کی قدر وں کی طرف ایک ہی وقت میں اشارہ کرتا ہو گا.اس جگہ بھی یہی معنے ہیں اور اَلْقَدْر میں اَلْ جنسی استغراقی ہے یعنی جتنی قسم کی قدریں ہیں وہ سب اس رات میں جمع تھیں.مفردات راغب نے دو قدریں لکھی ہیں.لیکن بات یہ ہے کہ یہ دو قسمیں پھر آگے دو قدروں میں تقسیم ہوتی ہیں یعنی اوّل قسم کی روحانی قدر اور اوّل قسم کی جسمانی قدر.اور دوم قسم کی روحانی قدر اور دوم قسم کی جسمانی قدر.اسی طرح اور کئی قسم کی قدریں ان سے نکلتی چلی آئیں گی.پس قَدْر کے لفظ پر اَلْ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جس رات میں قرآن کریم نازل ہوا اس میں سب قسم کی قدریں جمع ہو گئی تھیں اور وہ رات تمام قدروں کا مجموعہ تھی.دو قسم کی قدریں جیسا کہ مفردات راغب والوں نے بتایا ہے پہلی تقسیم قدر کی یہ ہے کہ وہ دفعۃً پیدائش کاملہ والی قدراور آہستہ آہستہ ظاہر ہونے والی اجمالی قدر کی دو قسموں میں منقسم ہو جاتی ہے.ان معنوں کے رو سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ دونوں قدریں اس رات میں جمع کر دی تھیں.پھر یہ دونوں قدریں جیسا کہ میں بتا چکا ہوںآگے جسمانی اور روحانی قدروں میں تقسیم ہو جاتی ہیںاس لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم جس رات میں نازل ہوا تھا اس میں یہ چاروں قسم کی قدریں جمع تھیں.دفعۃً کامل ظہور والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی اورآہستہ آہستہ مناسب موقعہ اپنے وجود کو ظاہر کرنے والی جسمانی قدر بھی اور روحانی قدر بھی.اب ہم ان قدروں میں سے ایک کو لے کر دیکھتے ہیں کہ کیا نزول قرآن کی رات میں اس کا وجود پایا جاتا تھا.پہلی قدر یک دم ظاہر ہونے والی جسمانی قدر ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ سورج یا چاند کی پیدائش کہ شروع دن سے ایک مقصد کے لئے پیدا کئے جاتے ہیں اور جب تک مقدر ہے اپنے کام کو ایک ہی شان سے کرتے جائیں گے.اس قدر کے مشابہ قدر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تھا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا.وَّ دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا(الاحزاب:۴۶،۴۷) یعنی اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور بشارت دینے والا اور ہوشیار کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور روشن سورج بنا کر بھیجا ہے.اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات میں سے ایک یہ

Page 458

بھی ہے کہ آپ سورج کی طرح ہیں.یعنی آپ کے بعض وصف شروع دن سے کامل بنائے گئے تھے اور ان کا ظہور آپ کی روحانی پیدائش کے ساتھ ہی مکمل ہو گیا تھا.وہ وصف کیا تھے؟ان کی طرف اشارہ لفظ سورج سے کردیا گیا ہے.سورج کے اندر اپنی پیدائش کے لحاظ سے دو خاص وصف ہیں(۱)اوّل یہ کہ سب اجرام اس کے گرد چکر لگاتے ہیں (۲)دوم یہ کہ وہ اپنے گرد کی اشیا ء کو روشن کرتا ہے.جہاں تک اس کے گرد چکر لگانے کا سوال ہے تمام اجرام بغیر استثناء اس کے گرد چکر لگاتے ہیںاور جہاں تک روشنی دینے کا سوال ہے وہ چیزیں جو اس کے سامنے آجاتی ہیں انہیں وہ روشنی دیتا ہے اس کی پہلی صفت کو جسمانی کہنا چاہیے اور دوسری کوروحانی.کیونکہ روحانی صفت کی یہ خصوصیت کہ اس کا ظہور تعلق کی بناء پر ہوتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کی مادی نصرتیں تو ہر شخص کو خواہ مومن ہو خواہ کافر ملتی ہیں لیکن روحانی نصرتیں صرف انہی کو ملتی ہیں جو اس کے نور کے سامنے اپنی روح اور اپنے دل کو کر دیتے ہیں.جس دن قرآن کریم نازل ہوا اسی کے مشابہ جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جونہی پہلا کلام نازل ہوا آپ دنیا کے لئے سورج قرار دے دئیے گئے اور دنیا کے لئے یہ مقرر کر دیا گیا کہ وہ آپ کے گرد چکر لگائے بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی ارتقاء ہوتا چلا گیا اور اب تک ہو رہا ہے مگر جہاں تک آپ کے گرد تمام دینی اجرام کے چکر لگانے کا سوال ہے اس میں کوئی فرق نہیں آیا.جس رات کو آپ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا اس رات کو بھی آپ پر ایمان لانا ایسا ہی ضروری تھا جتنا کہ آپ کی زندگی کی آخری گھڑی میں ضروری تھا گویا جو شخص بھی خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنا چاہے اس کے لئے ضروری تھا کہ آپ کے گرد گھومے.کیونکہ آپ اپنی بعثت کی گھڑی سے دنیا کے لئے سورج کی طرح ہو گئے تھے.تمام نظام عالم کا مدار آپ پر رکھ دیا گیا تھا.اس کا ظاہر ی نشان خدا تعالیٰ نے یہ مقرر فرمایا کہ جس طرح سورج کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی توڑ نہیں سکتا اسی طرح آپ کی ذات کو بھی پہلے کلام کے نزول کے وقت سے دنیا کی دستبرد سے محفوظ کر دیا گیا.چنانچہ شروع سے لے کر آخر تک آپ کے دشمنوں نے آپ کو قتل کرنے کے لئے بے حد زور لگایا ،سینکڑوں منصوبے کئے مگر آپ کی ذات پر آنچ نہ آئی کیونکہ آپ کا وجود سورج تھا اور سورج کو فنا کرنے پر کوئی انسان قادر نہیں ہو سکتا.پہلی قدرت کی دوسری قسم روحانی ہے.میں نے بتایا ہے کہ سورج کا روشنی دینا روحانی ظہور کے مشابہ ہے کیونکہ روشنی سے وہی فائدہ اٹھا تا ہے جو اس کی طرف منہ کرتا ہے اور روحانی امور کی ہی خصوصیت ہے کہ ہر شخص ان سے فائدہ نہیں اٹھاتا بلکہ وہی فائدہ اٹھاتا ہے جو ان کی طرف رغبت کرتا ہے.یہ قدرت بھی کامل طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پائی جاتی تھی کلام الٰہی کے نازل ہونے کے ساتھ ہی آپ کو فیض روحانی پہنچانے کی قدرت اسی رنگ میں عطا کی

Page 459

گئی جس رنگ میں کہ سورج کو روشنی دینے کی قدرت حاصل ہے جب سے سورج بنا ہے وہ روشنی دیتا ہے اور یکساں روشنی دیتا ہے لیکن اسی کو دیتا ہے جو اس کے لئے اپنے دروازے کھول دیتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے روحانیت کا نور بخشنے کی طاقت بخشی ہے اور اسی دن سے بخشی ہے جب سے کہ آپ نبی ہوئے ہیں اور یہ طاقت گھٹتی بڑھتی نہیں.یہ نہیں کہ پہلے دن آپ کا فیض کم تھا اور بعد میں زیادہ ہو گیا جس طرح سورج کی روشنی پہلے دن سے ایک سی ہے اسی طرح آپ کا فیضان نبوت کی پہلی گھڑی سے یکساں ہے نہ اس وقت زیادہ اوراب کم.نہ اس وقت کم تھا اور اب زیادہ ہے.صرف روشنی لینے والے کے ظرف کا فرق ہے.جس طرح زیادہ کھلے دروازوں والے مکان میں روشنی زیادہ پڑتی ہے اور تنگ دروازوں والے مکان میں کم روشنی پڑتی ہے اسی طرح جو اپنے دل کو وسیع کرتا ہے آپ کے فیض مبارک سے زیادہ حصہ پا لیتا ہے اور جو اپنے دل کو تنگ کرتا ہے وہ کم حصہ پاتا ہے.لیکن جہاں تک آپ کے فیضان کا تعلق ہے وہ شروع سے اس وقت تک یکساں رہا ہے اور قیامت تک یکساں رہے گا.غرض جس رات قرآن کریم نازل ہوا اسی رات یک دم کامل طور پر ظاہر ہونے والی جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی قدرتیں ظاہر ہوئیں اور ایسے کامل طور پر ظاہر ہوئیں کہ اس سے پہلے کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں.دوسری قسم قدرت کی وہ ہے جو بیج کی طرح پیدا ہو کر آہستہ آہستہ پھیلتی ہے.اس قدرت کی جسمانی اور روحانی دونوں قسموں کا ظہور اس رات میں ہوا.چنانچہ انہی آیات میں جو اس دن آپؐپر نازل ہوئیں یہ آیت ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ جس کے ایک یہ معنے ہیں کہ انسان کی پیدائش یک دم نہیں ہوئی بلکہ وہ پہلے خون کا ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہو تا ہے پھر آہستہ آہستہ ترقی کر کے کمال کو پہنچتا ہے اسی طرح اسلام کی جسمانی اور روحانی ترقی ہوگی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے دن اسلام کی گٹھلی جو سورۂ علق کے ذریعہ سے رکھی گئی بڑھتے بڑھتے قرآن کریم کے درخت کی شکل اختیار کر گئی جو اس کا جسمانی ارتقاء تھا.درحقیقت سارا قرآن ان چند آیتوں کی تفسیر ہے جو پہلے دن نازل ہوئیں کیا ہی لطیف خلاصہ قرآنی تعلیم کا یہ آیات ہیں اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.اپنے رب کے نام سے پڑھ.یعنی ان صفات الٰہیہ کا اظہار کر جو اس وقت تک تجھ پر روشن ہو چکی ہیں کیونکہ وہ انکشاف جو تجھ پر صفات الٰہیہ کا ہوا ہے وہی درست ہے اور اس کے سوا سب تشـریحیں صفات الٰہیہ کی غلط ہیں.الَّذِيْ خَلَقَ یعنی جس نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے.اس لئے سب مخلوق پر اس کا تصرف ہے اور وہ اس کے قبضہ میں ہے توحید باری کا اعلان کرنے کے بعد دنیا تیری مخالفت کرے گی مگر گھبرانے کی بات نہیںآخر مخلوق اللہ تعالیٰ سے وابستہ ہے جب تو خالق کی فرمانبرداری میں لگا ہو گا تو مخلوق تیرا کیا بگاڑ سکتی ہے خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اور یاد رکھ کہ گو تیری باتیں اس وقت تیرے مخاطبوں کو

Page 460

کتنی بری لگیں کتنی عجیب لگیں لیکن انسا ن کے اندر خدا تعالیٰ کو ملنے اور بنی نوع انسان سے نیکی کرنے کی خواہش مخفی طور پر رکھی گئی ہے.پہلے لوگ تیرے دشمن ہوں گے، خدا تعالیٰ سے منہ موڑنے والے ہوں گے، بنی نوع انسان پر ظلم توڑنے والے ہوں گے.لیکن آہستہ آہستہ ان کی اصلاح ہو تی جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ بھی صلح کر لیں گے اور بنی نوع انسان سے بھی ان کے تعلقات اچھے ہو جائیں گے.پھر فرماتا ہے اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.ہا ں ہاں پڑھ اپنے معزز ترین رب کی مدد سے یعنی ایسی تعلیم کے پیش کرنے پر ضرور مخالفت ہوتی ہے اور خصوصاً روحانی اور جسمانی لیڈر شرارت پر آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن خواہ دنیاوی لیڈر ہوں یا مذہبی ،تو ان کی پرواہ نہ کیجیئو کیونکہ ان سب معززوں سے زیادہ معزز خدا تعالیٰ کی ذات ہے وہ تیرے ساتھ ہو گی.کیونکہ اس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب انسان کو ارتقاء کی آخری منازل تک پہنچا دے اور آئندہ علوم زبان کی بجائے قلم کے ذریعہ سے سکھائے جائیں یعنی علوم کی حفاظت کے لئے قلم کا استعمال اب بڑھ جائے گا.پھر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ اب ایسے مادی اور روحانی علوم دنیا کو سکھائے گا کہ اس سے پہلے انسان ان سے آگاہ نہ تھا.غور کرو جو کچھ قرآن کریم میں نازل ہوا ہے سب انہی آیات کی تشریح ہے.آخر قرآن کیا ہے؟خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان صحیح تعلقات کی تعلیم.یہ دونوں باتیں اجمالاً ان آیات میں آگئی ہیں اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ آیات تو ایسی ہیںجیسے کہ ماں کے پیٹ میں نطفہ کی ابتدائی حالت ہوتی ہے.ان آیات میں بتائی ہوئی تفسیر ترقی کرے گی اور بڑھتے بڑھتے جاندار بچہ اور پھر عالم و فاضل مرد کی طرح ہوجائے گی جو قلم سے کام لیتا ہے اور علوم و فنون کا مخزن ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ ان آیات میں دو باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک تو یہ کہ قرآن کریم کی یہ آیات بڑھ کر ایک مکمل کتاب ہوجائیں گی اور دوسرے یہ کہ اس کتاب کی رو سے انسان علقہ کی حالت سے ترقی کر کے مرد کامل ہو جایا کریں گے قرآن کی تکمیل جسمانی قدرت کا ظہور ہے اور انسانوں کی روحانیت کی تکمیل روحانی قدرت کے ظہور کی طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ دونوں قدرتیںایسی نہیںکہ یک دم ظاہر ہوئی ہوںیا ہوتی ہوں.قرآن کریم جب نازل ہوا تو آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور اب بھی جو اسے پڑھتے ہیں آہستہ آہستہ ہی پڑھتے ہیں.نہ پہلے یک دم نازل ہوا نہ اب کوئی یک دم اس سے واقف ہوتا ہے.اسی طرح روحانی ترقیات جو اسلام کے ذریعہ سے ملتی ہیں وہ بھی گو مبنی تو اسی پیغام پر ہیں جو پہلی رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا مگر ایمان کے مطابق آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہیں اور اس طرح دوسری قسم کی قدرت کے روحانی ظہور کا نمونہ پیش کرتی ہیں.

Page 461

دوسرے معنے قدر کے مفرادت راغب نے یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جسے اس نے اپنی خاص قدرتوں کے لئے مخصوص کر چھوڑا تھا.یہ معنے بھی درست ہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی خبریں پہلی کتب میں بکثرت موجود تھیں اور آپ کے زمانہ کے نشانات اور اس کی علامات نبیوں کے منہ سے خدا تعالیٰ بیان کروا چکا تھا.عین اس بیان کے مطابق قرآن کریم نازل ہوا.پس اس آیت میں فرماتا ہے کہ ہم نے اس قرآن کو اسی زمانہ میں اتارا ہے جس میں اس کے اترنے کی پہلے انبیاء خبر دے چکے ہیں.پھر اس کے ماننے میں تم کو کیا تردّد ہو سکتا ہے.جب زمانہ وہی ہے جس میں اس موعود نبی اور موعود شریعت نے آنا تھا.اور یہ مدعی تمہارے نزدیک جھوٹا ہے اور اس کی کتاب خدا تعالیٰ پر نعوذ باللہ افتراء ہے تو پھر تم بتائو کہ سچاموعود اور سچی شریعت ہے کہاں؟اگر کہو کہ کہیں بھی نہیں تو پھر تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کرنے والے نہ ہو گے بلکہ ساتھ ہی اپنے نبیوں کا انکا رکرنے والے بھی بنو گے.کیونکہ انہوں نے اس زمانہ میں ایک نبی اور ایک شریعت کے آنے کی خبر دی ہے.اگر یہ جھوٹا ہے اور دوسرا کوئی سچا موعود موجود نہیں تو پھر تمہاری کتابیں بھی جھوٹی ہیں اور تمہارے انبیاء بھی جھوٹے ہیں.لیلۃ القدر کے لغت کے لحاظ سے چھ معنی اقرب المواردنے قدر کے مندرجہ ذیل معنے کئے ہیں.(۱)برابر کی چیز کہتے ہیں ھٰذَا قَدْرُ ھٰذَا.یہ چیزاس کے برابر کی ہے (۲)حرمت (۳)وقار (۴)غناء (۵)قوت (۶)سہولت(اقرب).ان معنوں کے رو سے اس آیت کے معنے یوں بنیں گے.۱.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قیمت میں برابر کی ہے.۲.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو حرمت والی ہے.۳.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو وقار والی رات ہے.۴.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو غناء والی رات ہے.۵.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتارا ہے جو قوت والی رات ہے.۶.ہم نے قرآن کریم کو ایک ایسی رات میں اتاراہے جو سہولت والی رات ہے.اب ہم ان چھٹوں معنوں کے متعلق دیکھتے ہیں کہ آیا یہ قرآن کریم پر صادق آتے ہیں یا نہیں.پہلے معنے پہلے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ برابر قیمت والی رات میں ہم نے قرآن کریم کو اتارا ہے چونکہ جس چیز کے وہ برابر ہے اس کا یہاں ذکر نہیں.اس لئے ہم مقابل والی چیز کو محدود نہیں قرار دے سکتے اور ہمیں اس

Page 462

کے یہی معنے کرنے پڑیں گے کہ ہم نے قرآن کریم کو اس رات میں اتارا ہے جو قیمت میں باقی ساری راتوں کے برابر ہے یعنی یہ رات باقی تمام دنیا کی عمر کے برابر قیمت رکھتی ہے.یہ معنے قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے.قرآن کریم میں انسان کی ترقیات کے لئے سب تعلیمات آگئی ہیں اور قرآن کریم ہی روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ ہے پس جب قرآن کریم آخری تعلیم ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری شارع نبی ہیں تو یہ ثابت ہوا کہ باقی تمام انبیاء اور باقی تمام کتب مقصود نہیں بلکہ صرف ذریعہ ہیں اور ذرائع خواہ کتنے بھی زیادہ ہوں وہ مقصود سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتے.پس یہ کہناکہ ہم نے اس قرآن کریم کو برابر والی رات میں اتارا ہے درحقیقت اس کے یہی معنے ہیں کہ یہ قرآن آخری کتاب ہے اور یہ اکیلی ان تمام شریعتوں کے مقابلہ میں ہے جو اس وقت تک اتر چکی ہیں اور قرآن کریم کے نزول کا زمانہ اپنی برکات کے لحاظ سے ان تمام انبیاء کے زمانوں کے برابر ہے جو کبھی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے پس اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں درحقیقت قرآن کریم کے آخری اور سب سے مکمل کتاب ہونے کا دعویٰ بیان کیا گیا ہے اور ان چھوٹے سے الفاظ میں قرآن کریم کی ان ہزاروں خوبیوں کو دنیا کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس کے الفاظ میں مخفی رکھی ہیں.اس مضمون کو اگر تفصیل سے بیان کیا جائے تو اس کے لئے کئی ہزار صفحات کی ایک مستقل کتاب چاہیے اس لئے میں تفصیل میں نہیں جاتا اسی قدر مضمون کا بیان کرنا کافی سمجھتا ہوں.دوسرے معنے دوسرے معنے اس آیت کے لغت کے لحاظ سے یہ بتائے گئے تھے کہ قرآن کریم حرمت والی رات میں اترا ہے یعنی قرآن کریم کا نزول ایک ایسی رات میں ہوا ہے یا ایسے تاریک زمانہ میں ہوا ہے جس کو ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.جو چیز عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے وہ کبھی مٹائی نہیں جاتی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْاَرْضِ(الرّعد: ۱۸) جو چیز نفع رساں ہوتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے قائم رکھی جاتی ہے.بیت اللہ کو بھی بیت الحرام کہا جاتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اس کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جاتا ہے پس حرمت والی رات کے معنے یہ ہیں کہ جس کے حقوق کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا.ان معنوں کے لحاظ سے اس آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ قرآن کریم اس زمانہ میں اترا ہے جو آخری زمانہ ہے اور جس زمانہ کو کوئی اور زمانہ بدلے گا نہیںاور ہمیشہ اس زمانہ کی عزت کو قائم اور اس کی حکومت کو استوار رکھا جائے گا.یہ معنے بھی قرآن کریم پر چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے نزول کا زمانہ ہمیشہ کے لئے دنیا کی راہنمائی کا

Page 463

زمانہ قرار دیا گیا ہے.جب بھی کوئی شخص ہدایت اور ر اہنمائی حاصل کرنا چاہے اس کو اسی رات کی طرف نظر اٹھانی پڑتی ہے اور اسی رات کی برکتیں انسان کو ہدایت اور راستی پر لا سکتی ہیں اور کبھی بھی اس رات سے نکلی ہوئی ہدایت اور راستی کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں.وہ چلی آتی ہیں اور چلی جائیں گی او ر قیامت تک ان کا سلسلہ ممتد رہے گا.تیسرے معنے تیسرے معنے اس آیت کے یہ تھے کہ قرآن کریم وقار کی رات میں اتارا گیا ہے.وقار کے معنے بوجھ ،سمجھ اور عقل کے ہوتے ہیں.پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں اتارا گیا ہے جو عقل اور سمجھ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور بوجھل ہے یعنی جس کی تعلیمات دشمن کے حملہ اور اس کی تنقید سے اپنی جگہ سے ہل نہیں جاتیں.یہ معنے بھی قرآن شریف پر پوری طرح چسپاں ہوتے ہیں.قرآن کریم کی تعلیم اعلیٰ درجہ کی حکمتوں پر مبنی ہے اور ہر ایک حکم جو دیا جاتا ہے اس کی وجہ بھی بتائی جاتی ہے.کیوں اس حکم پر عمل کرنا چاہیے،اس کے کیا فوائد ہیں ،اس کو چھوڑا جائے تو اس کے کیا نقصانات ہوں گے اور اس طرح وزنی دلائل سے اسے ثابت کیا جاتا ہے کہ کسی فلسفہ کی تنقید بھی اس کے دلائل کو رد نہیں کر سکتی.جو کچھ وہ کہتا ہے وہ ایسی وزنی چیز ہوتی ہے کہ دشمن خواہ اس کو کتنا بھی دھکیلنے کی کوشش کرے آخر اسے شکست تسلیم کرنی پڑتی ہے.چوتھے معنے چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ قرآن کریم ایک ایسی رات میں نازل ہوا ہے جو غناء والی رات ہے.غناء کے معنے عربی زبان میں ضرورت کے پورا ہونے اور سہولت کے ہوتے ہیں.اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ قرآن کریم اس رات میں نازل ہوا ہے یا اس تاریک زمانہ میں نازل ہوا ہے جو ضرورتوں کو پورا کرنے والا تھا.یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں کیونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ ہر قسم کی روحانی اور دینی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے.چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ ( العنکبوت:۵۲) کیا ان لوگوں کے لئے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر یہ مکمل کتاب اتاری ہے جو سنائی جاتی ہے.اسی طرح قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ وہ تَفْصِيْلَ الْكِتٰبِ ہے (یونس :۳۸) یعنی شریعت کی تمام تفصیلات کو بیان کرتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں بیان فرمایا گیا ہے وَ تَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ(یوسف:۱۱۲) یعنی قرآن کریم تمام ضروری دینی امور کی تفصیل بیان کرتا ہے اور ہر قسم کے مومنوں کے لئے اس میں ہدایت اور رحمت ہے.خود اسی آیت زیر تفسیر میں بھی اس مضمون پر روشنی ڈالی گئی ہے چنانچہ فرمایاتَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ۚ مِنْ كُلِّ اَمْرٍ ہر قسم کی باتیں اللہ تعالیٰ کے اذن سے ملائکہ.....لیلۃالقدر کی رات میں لے کر نازل ہوتے ہیں.پس قرآن کریم وہ کتاب ہے جو تمام دوسری مذہبی کتب سے انسان کو مستغنی بنا

Page 464

دیتی ہے اور تمام ضروری امور اس میں بیان ہوئے ہیں پس اس کا نزول غناء والے زمانہ میں ہوا ہے.پانچویں معنے پانچویں معنے اس لفظ کے قوت کے ہیں جس کے رو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم قوت والی رات میں نازل ہوا ہے یعنی اس رات کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قوت اور اس کی طاقت وابستہ ہے.چنانچہ یہ معنے بھی قرآن کریم پر صادق آتے ہیں اور یہ معنے مفردات امام راغب کے معنوں کے سلسلہ میں اوپر بیان ہو چکے ہیں اس لئے اس جگہ اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں.چھٹے معنے چھٹے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم سہولت والی رات میں نازل ہوا ہے.یہ معنے بھی قرآن کریم اور اس کے زمانہ پر صادق آتے ہیں.پہلی کتابوں کو دیکھو ان کے اندر مذہب کو بھول بھلیاں بنا کر رکھ دیا گیا ہے.نہ عقائد سمجھ میں آسکتے ہیں نہ اعمال قابل اتباع ہیں.یہودیوں اور ہندوئوں کی تعلیم عبادت کے متعلق اگر لی جائے تو اتنی اتنی شرطیں بلا وجہ عبادت کے ساتھ لگا دی گئی ہیںکہ اوّل تو سارے آدمی اس طرح عبادت کر ہی نہیں سکتے اور اگر کریں تو تکلیف مالا یطاق میں پڑتے ہیں.دوسرے ایسے وہموں میں مبتلا ہوتے ہیں جن کو تسلیم کرنا انسانی دماغ کے لئے بڑا دوبھر اور مشکل ہوتا ہے.قرآن کریم ہی ایک ایسی تعلیم ہے جس کا ماننا انسان کے لئے آسان اور جس پرعمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہے.چنانچہ قرآن کریم خود یہ دعویٰ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ( القمر:۱۸)ہم نے قرآن کریم کو کیا بلحاظ دماغ کے اور کیا بلحاظ عمل کے آسان کر دیا ہے.پس کیا کوئی شخص ایسا ہے جو نصیحت حاصل کرے یا عمل کرے.اس جگہ پر لفظ ذکر استعمال کر کے دونوں معنے لے لئے گئے ہیں.ذکر کے معنے یاد کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور عمل کرنے کے بھی ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیمات کا دماغ سے گذرنا بھی انسان پر آسان رہتا ہے یعنی ان کا ماننا انسان کو دوبھر معلوم نہیں ہوتا اور قرآن کریم کی تعلیموں پر عمل کرنا بھی انسان کے لئے آسان ہوتا ہے کیونکہ اس میں ہر طاقت اور قوت اور ضعف اور کمزوری کالحاظ رکھا گیا ہے.مثلاً نماز کا حکم ہے اس کے لئے ارشاد ہے کہ نماز مسجدوں میں پڑ ھنی چاہیے (ابوداؤد کتاب الصلاۃ باب فی الجمع فی المسجد) لیکن ساتھ ہی یہ ارشاد ہے کہ ساری زمین ہی خدا تعالیٰ کی مسجد ہے (بخاری کتاب الصلاۃ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجدا) گویا نہ کسی خاص قسم کے مکان کی ضرورت ہے نہ خاص قسم کے سامان کی ضرورت ہے نہ نماز پڑھانے کے لئے کسی خاص قسم کے پادری یا پنڈت کی ضرورت ہے.جس زمین کو چاہو صاف کر لو اور مومنوں میں سے جس کو چاہو آگے کھڑا کر کے نماز پڑھ لو.لیکن اگر کوئی شخص بیمار ہے یا سفر پر ہے تو جماعت کے بغیر بھی نماز ہو سکتی ہے.نماز کے لئے وضو کی شرط ہے لیکن اگر انسان

Page 465

بیمار ہو یا پانی نہ ملے تو وہ بغیر وضو کے تیمم سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے.اگر اتنا بیمار ہے کہ کھڑا نہیں ہو سکتا تو گھر میں بیٹھ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے اگر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹے ہوئے سر کے اشارہ سے بھی نماز پڑھ سکتا ہے.اگر اس حالت سے بھی گیا گذرا مریض ہے تو وہ انگلی یا آنکھ کے اشارہ سے بھی نماز ادا کر سکتا ہے اور جو اس کی بھی طاقت نہ رکھے وہ صرف دل میں ہی نماز کے مضمون کو دہرا کر اپنی نماز ادا کر سکتا ہے.بیہوش ہو جائے تو وہی نماز دوسرے وقت میں ادا کرسکتا ہے اور یہ ایک ہی مثال نہیں بلکہ ہر حکم کے متعلق اسی طرح ضرورت اور طاقت کے مطابق تبدیلی پیدا کی گئی ہے.پس قرآن کریم کی تعلیم سہولت والی تعلیم ہے.اگر کوئی کہے کہ یہاں یہ کیوں کہا گیا ہے کہ اس رات میں قرآن کریم نازل ہوا ہے یہ کیوں نہ کہا گیا کہ قرآن ایسا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ پر خالی قرآن کا مضمون بیان نہیں بلکہ اس سے زیادہ مضامین کی طرف اشارہ کرنا مد نظر ہے.جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا.یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اظلال کا بھی ذکر ہے.اگر آیت کے یہ الفاظ ہوتے کہ قرآن کریم ایسی ایسی شان کا ہے تو یہ مضمون باہر رہ جاتے.پس زمانہ کی طرف وہ صفات منسوب کر دی گئی ہیں تا کہ یہ مضمون یکساں طور پر کتاب پر بھی چسپاں ہو اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی چسپاں ہو اور دوسرے معموروں پر بھی چسپاں ہو.لیلۃ القدر سے مراد خاص رات یا تاریک زمانہ جیسا کہ اوپر کے مضمون سے ظاہر ہے میں نے لیلۃالقدر کے دونوں معنے لئے ہیں (۱)یہ بھی کہ وہ معین رات جس میں قرآن کریم نازل ہوا قرآن کریم کے نزول کی وجہ سے ایسی اہمیت رکھتی ہے کہ اسے لیلۃ القدر کہنا چاہیے(۲)اور یہ معنے بھی میں نے لئے ہیں کہ لیلہ سے مراد وہ رات نہیںجس میں قرآن کریم نازل ہوا بلکہ وہ تاریک زمانہ ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا اور یہ بتایا گیا ہے کہ ایسے تاریک زمانوں میںہی خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آکر آئندہ نیکی اور تقویٰ کی بنیا د رکھا کرتی ہے اور جب تاریکی بڑھتے بڑھتے خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچتی ہے تو اس وقت وہ تاریکی کا زمانہ بظاہر تاریک ہوتا ہے لیکن بالقوہ اس کے اندر قدرت خدا وندی پائی جاتی ہے گویا لیلۃ القدر ایک جہت سے رات ہے اور ایک جہت سے دن سے بھی زیادہ شاندار ہے.وہ اظہار قدرت کا وقت بھی ہے اور وہ تاریک وقت بھی ہے.دنیا کی نگاہوں میں وہ تاریکی کی انتہاء کو ظاہر کرنے والا وقت ہے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ آئندہ آنے والی عظیم الشان روشنی کے لئے ایک بیج کا کام دے رہی ہے گویا اس رات کی مشابہت رحم مادر کے ساتھ ہے جبکہ اس کے اندر نطفہ پڑ چکا ہو تا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَخْلُقُكُمْ فِيْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنْۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِيْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ

Page 466

الْمُلْكُ ( الزمر:۷) یعنی خد اتعالیٰ تمہاری مائوں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ تین قسم کی ظلمتوں میں سے گذارتے ہوئے تمہیں پیدا کرتا ہے جس کے بعد تم ایک مکمل انسان بن جاتے ہو.تمہارا رب ایسا ہے سب اختیا ر اسی کے قبضہ میں ہے.پس جس طرح رحم مادر جس کے اندر نطفہ ٹھہر گیا ہو گو ایک تاریک کوٹھڑی کی طرح ہوتا ہے اس میں انسانی پیدائش کی بنیاد رکھی جاتی ہے.اسی طرح لیلۃ القدر رحم مادر کی طرح بظاہر تاریک ہے لیکن قوم اور نسل کی پیدائش کی بنیا د اس میں رکھی جاتی ہے.(۳)تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر میں نازل کیا گیا ہے یعنی اس زمانہ میں پیدا کیا گیا ہے جس میں لوگ اللہ تعالیٰ سے دور چلے جاتے ہیں اور آسمانی نور با لکل کھینچ لیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے انسان محروم رہ جاتا ہے.یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا کوئی خاص بندہ نازل ہوتا ہے جو دوبارہ دنیا کو روشنی اور ہدایت کی طرف لاتا ہے.یہی رات نبی کی سچائی کا سب سے بڑا ثبوت ہوتا ہے.اگر دنیا پر تاریک روحانی رات نہ آئی ہو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاحی نبی نہیں آیا کرتا.انبیاء کی دو قسمیں تعمیری و اصلاحی انبیاء کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تعمیری اور ایک اصلاحی.تعمیری انبیاء وہ ہوتے ہیں جو عقائد یا مسائل مہمہ میں خرابی کے وقت نازل ہوتے ہیں اور ایک نئے دین کی تعمیر کرتے ہیں یا ایک نئی تشریع کی بنیاد رکھتے ہیںاور اصلاحی وہ جو بغیر خرابی کے وقوع کے نبی کے کام کو جاری رکھنے کے لئے آتے ہیں.تعمیری نبی ایسے ہیں جیسے حضرت موسٰی، حضرت مسیحؑ اور آنحضرت صلعم کہ یہ اس وقت آئے جب شرائع مٹ چکی تھیں یا ان کے معنے لوگوں کی نظروں سے غائب ہو چکے تھے.اور اصلاحی نبی ایسے ہیں جیسے کہ حضرت ابراہیمؑ کے بعد اسحاقؑ ان کے بعد یعقوبؑ ان کے بعد یوسفؑ.ان نبیوں کے وقت میں کوئی خرابی پیدا نہ ہوئی تھی جسے مٹانے اور پھر شریعت کو قائم کرنے کے لئے وہ آئے ہوںبلکہ ان کی بعثت کی غرض صرف یہ تھی کہ تعلیم الٰہی جو آچکی تھی اسے اپنے عمل اور نگرانی سے وہ مزید راسخ کریں یا جو اب تک نہیں مانے ان میں پھیلائیں.اصل میں تو یہ دونوں قسم کے نبی ایک نسبتی رات کے وقت میں ظاہر ہوتے ہیں لیکن تعمیری نبیوں کے زمانہ کی تاریکی ظاہر وباہر ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَهُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ(الروم:۴۲) یعنی یقیناً خشکی اور تری میں یعنی نبیوں کو ماننے والی اور نہ ماننے والی قوموں میں فساد ظاہر ہو چکا ہے اور یہ سب کچھ انسانوں کے اعمال سے ہوا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا کلام چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ حالت پیدا ہوئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے

Page 467

بعض اعمال کی سزا جن کی سزا اس دنیا میں مقدر ہے ان کو یہاں دے گا تا اس عذاب کی وجہ سے ان کے دل میں توبہ کی طرف توجہ پیدا ہو اور وہ دوبارہ خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.اللہ تعالیٰ اسی تاریکی کی حالت کی طرف اشارہ کر کے اس آیت میں فرماتا ہے اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقیناً لیلۃ القدر میں مبعو ث فرمایا یعنی ایسی روحانی رات میں جو تقاضا کرتی ہے کہ اس میں کوئی رسول نازل کیا جائے جو لوگوں کی اصلاح کرے اور انہیں تاریکی سے نکالے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيْرًا مِّمَّا كُنْتُمْ تُخْفُوْنَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ١ؕ۬ قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌ يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ يَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (المائدۃ:۱۶،۱۷) یعنی اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس اس لئے آیا ہے کہ بہت سے انوار بائبل کے جو تمہاری بد عملیوں کی وجہ سے ظاہر نہ ہوسکتے تھے تم پر دوبارہ ظاہر کرے اور تمہاری کمزوریوں سے در گذر کرے سنو!تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور (یعنی رسول) اور سب باتیں کھول کر بیان کرنے والی ایک کتاب آئی ہے ان میں سے ہر ایک کے ذریعہ اللہ تعالیٰ انہیں جو ا س کی با ت پر چلتے ہیں سلامتی کے راستوں کی طرف ہدایت بخشتا ہے اور اللہ کا رسول اللہ کے حکم سے انہیں جو اس کی بات مانتے ہیں موجودہ ظلمت سے نکال کر خاص نور کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور انہیں صراط مستقیم کی طرف لے جاتا ہے.اس آیت سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تاریکی کا زمانہ تھا یعنی ایک روحانی رات تھی اور ایسے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو نازل کرکے بنی نوع انسان کو پھر سے سلامتی کی راہیں دکھائیں اور ترقیات کے راستے ان کے لئے کھولے.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ میں ضمیر کا مرجع آنحضرتؐ پس اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں ہُ کی ضمیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی جا سکتی ہے اور اس کا قرینہ بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ جس طرح سورۃ العلق میں جو اس سے سے پہلی سورۃ ہے اِقْرَاْ کے الفاظ سے قرآن کریم کو پیش کیا گیا تھا اسی طرح اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ذکر تھا.چنانچہ اس سورۃ کی مندرجہ ذیل آیات میں آپ ہی کا ذکر ہے.اَرَءَيْتَ الَّذِيْ يَنْهٰى عَبْدًا اِذَا صَلّٰى یعنی تو مجھے اس شخص کا حال تو بتا جو ایک ’’ عظیم الشان بندہ ‘‘ کو جب وہ نمازپڑھتا ہے نماز پڑھنے سے روکتا ہے.پس جس طرح اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ میں قرآن کریم کی طرف ضمیر جاسکتی ہے جیسا کہ پہلے بیان کردہ معنوں میں مَیں نے اس طرف ضمیر

Page 468

پھیر ی ہے اسی طرح اَنْزَلْنٰهُ کی ضمیر اَرَءَيْتَ کی تاء کی طرف اور عَبْدًا کی طرف بھی جا سکتی ہے.پس اس آیت کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃ القدر میں اتارا ہے.انبیاء کبار کے دنیا میں آنے کے اوقات جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں تمام انبیاء کبار اسی زمانہ میں نازل ہوتے ہیں جب دنیا میں تاریکی اور ظلمت کا دور دورہ ہوتا ہے اور ایسے وقت میں اگرخدا تعالیٰ کی طرف سے نبی نہ آئے تو یقیناً لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی ہستی کے بارہ میں شبہ پیدا ہوگا قرآن کریم بار بار اس دلیل کو پیش کرتا ہے کہ ضرورت کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے.چنانچہ سورۂ یٰسٓ میں آتا ہے وَ اٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ١ۖۚ اَحْيَيْنٰهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ (یٰسٓ:۳۴) یعنی تمہارے لئے مردہ زمین میں ایک نشان ہے خدا تعالیٰ اسے زندہ کرتا ہے اور پھر اس میں سے دانے نکالتا ہے جس میں سے تم کھاتے ہو.یعنی جب بھی زمین مردہ ہو جاتی ہے ذخائر کو ختم ہونے سے بچانے کے لئے خدا تعالیٰ ہمیشہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور زمین کو دوبارہ زندہ کر دیتا ہے یعنی کیا کفار یہ خیال نہیں کرتے کہ جو خدا ان کی دنیوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے وہ ان کی روحانی ضرورتوں کو پورا نہ کرے گا اور بوقت ضرورت نبی نہ بھیجے گا.سورۂ روم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَللّٰهُ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهٗ فِي السَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَ يَجْعَلُهٗ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ١ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ۠.وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّنَزَّلَ عَلَيْهِمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمُبْلِسِيْنَ.فَانْظُرْ اِلٰۤى اٰثٰرِ رَحْمَتِ اللّٰهِ كَيْفَ يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ لَمُحْيِ الْمَوْتٰى١ۚ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (الرّوم:۴۹ تا ۵۱) یعنی اللہ ہی ہے جو ہوائیں بھیجتا ہے پھر وہ بادلوں کو اٹھاتی ہیں پھر ان بادلوں کو جس طرح چاہتا ہے پھیلاتا ہے (یعنی ہر ملک کے لئے ہوائوں کے الگ الگ رخ مقرر ہیں جن کے مطابق بادل پھیل جاتے ہیں) پھر جب ان بادلوں کو اپنے جن بندوں تک چاہتا ہے پہنچاتا ہے تو وہ اچانک (بعد مایوسی کے) خوش ہوجاتے ہیں اور گووہ بہت عرصہ سے اس بارش کے نزول سے ناامید ہوچکے تھے.پس تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے آثار کو دیکھ کس طرح وہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کردیتا ہے یہی خدا مردوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں تو مردوں کو زندہ کرنے کا ذکر ہے کیونکہ گمراہوں کو ہدایت بخشنا یا دینی علوم سے ناواقفوں کو علوم الٰہی کی خبر دینا بھی مردہ زندہ کرنا کہلاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت آتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ (الانفال:۲۵) یعنی اے مومنو! جب خدا اور اس کا رسول تم کو بلائیں تو ان کی بات مانا کرو کیونکہ تم مردہ ہووہ تم کو زندہ کرنے کے لئے

Page 469

بلاتے ہیں اور تمہارا اپنا فائدہ اس میں ہے کہ تم ان کی آواز سنو.انہی مردوں کی نسبت یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.یعنی ان پر رات طاری ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا صُمٌّ وَّ بُكْمٌ فِي الظُّلُمٰتِ١ؕ مَنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يُضْلِلْهُ١ؕ وَ مَنْ يَّشَاْ يَجْعَلْهُ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ (الانعام : ۴۰) یعنی وہ لوگ جو ہمارے نشانوں کا انکار کرتے ہیںبہرے اور گونگے ہیں اور اندھیروں میںپڑے ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ جس کی نسبت چاہتا ہے گمراہی میں پڑا رہنے دیتا ہے اور جس کی نسبت چاہتا ہے اسے سیدھے راستہ پر ڈال دیتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ(المائدۃ: ۱۷) یعنی یہ رسول لوگوں کو تاریکیوں میں سے نکال کر نور کی طرف لاتا ہے.آنحضرت صلعم کا بروقت دعویٰ نبوت مذکورہ بالاآیات سے ظاہر و ثابت ہے کہ جب بھی دنیا پر روحانی تاریکی چھاجاتی ہے اور لوگ روحانی طور پر مر جاتے ہیںاللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک رسول ضرور مبعوث ہوتا ہے.پس ان معنوں کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مین جو شدید ترین تاریکیوں کا زمانہ تھا ایک نبی کا مبعوث ہونا ضروری تھا اور آپ کا دعویٰ بالکل مناسب وقت پر تھا.دنیا پیاسی ہورہی تھی اسے آسمانی پانی کی ضرورت تھی اس پر موت طاری تھی اسے ایک زندہ کرنے والی ہستی کی احتیاج تھی.دنیا پر ایک تاریک رات طاری تھی اسے ایک روحانی سورج کی ضرورت تھی جو رات کی ظلمت کو دور کرے اور اسے ایمان کی روشنی بخشے.اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایک دوسری آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سِرَاجًا مُّنِيْرًا (الاحزاب:۴۷) قرار دیا ہے.غرض یہ فرماکر کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لیلۃالقدر میں نازل فرمایا ہے آپ کی صداقت کی ایک ایسی زبردست دلیل دی گئی ہے جس کا کوئی مذہب انکار نہیں کر سکتا.کون سا مذہب ہے جو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ دنیا پر جب جب بھی ظلمت اور تاریکی کا دورہ آتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مامور اسے روشنی بخشنے کے لئے ضرور اس زمانہ میں مبعوث ہو تا ہے.بائبل بھی اس پر متفق ہے.مسیحؑ کیوں آیا؟ اسی لئے کہ بنی اسرائیل پر ایک رات طاری ہو گئی تھی.ہندو مذہب کرشن جی کی دوبارہ بعثت کا کیوں امید وار ہے؟ اس لئے کہ وہ زمانہ کلجگ کا ہو گا.بدھ مت اور زردشت مذہب بھی اسی امر کے مدعی ہیں کہ جب جب تاریکی کا زمانہ دنیا میں آئے گا خدا تعالیٰ کے مامور بھی ظاہر ہوتے رہیں گے.پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ سب سے زیادہ تاریک زمانہ جس میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا گذر رہی تھی اس میں کوئی مامور مبعوث نہ ہوتا.اگر ایسا ہوتا تو سب مذاہب جھوٹے ثابت ہو جاتے.خدا تعالیٰ کا وجود ایک واہمہ بن کر رہ جاتا.پس

Page 470

اِنَّاۤاَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ کی آیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے.اس تاریک رات کو روشن کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا اور کون آیا؟ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ نعوذ باللہ جھوٹا تھا تو پھر سب مذاہب ہی جھوٹے ہوئے کہ جو ا س امر پر متفق ہیں کہ تاریکی اور ظلمت کے وقت کے لمبا ہو جانے کی صورت میں ضرور خدا تعالیٰ کا روحانی سورج چڑھتا ہے جس طرح جسمانی رات کے بعد خدا تعالیٰ کا جسمانی سورج چڑھتا ہے.اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ مسیحی مصنف جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہیں تو آپ کی کامیابی کی یہ دلیل دیا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے زمانے میں آئے تھے جب سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اس لئے آپ کی تعلیم کامیاب ہو گئی(میزان الحق پادری فنڈر فصل ۵ صفحہ ۳۴۲).انہیں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ ہم اس دلیل سے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ثبوت بہم پہنچا رہے ہیں.اگر اس زمانہ میں سارے مذاہب بگڑ چکے تھے اور اس وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک طرف عیسائیوں اور دوسری طرف ایرانیوں پر غلبہ حاصل ہو گیا تو سوال یہ ہے کہ ایسے ہی زمانہ میں تو خدا تعالیٰ کے رسول آیا کرتے ہیں.اگر وہ زمانہ واقعہ میں ایسا تھا کہ دنیا کے مذاہب بگڑ چکے تھے اور لوگ اپنے مذاہب کی تعلیمات سے دور جا چکے تھے تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی تصدیق ہوتی ہے یا تکذیب ؟کیا نبی دنیا میں ایسے زمانہ میں بھی آیا کرتا ہے جب سارے لوگ راستی اور صداقت پر قائم ہوں اور وہ نیک اور با اخلاق ہوں.کیا مسیحؑ کی کامیابی کی وجہ یہ نہ تھی کہ لوگ بگڑ چکے تھے اور وہ نیکی اور تقویٰ کو ترک کر چکے تھے اس لئے صداقت جھوٹ پر غالب آگئی؟ کیا موسٰی کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی ؟کیا کرشنؑ اور رام چندرؑاور زرتشتؑ اور بدھ کی کامیابی کی یہی وجہ نہیں تھی بلکہ ان کے نزول کی یہی وجہ تھی.اگر اس وجہ سے کسی نبی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے تو پھر تمام نبیوں کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے کیونکہ کوئی نبی بھی ایسے زمانہ میں نہیں آیا جب لوگ درست حالت میں ہوں.ہمیشہ ہی بد اخلاقی ،بے ایمانی اور گندگی کے پھیل جانے کی صورت میں ہی نبی آیا کرتے ہیں.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ میں محمد رسول اللہ کے بار بار دنیا میں آنے کی پیشگوئی چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کو لیلۃالقدر میں اتارتے رہتے ہیں یعنی نہ صرف قرآن کا پہلا نزول ایک تاریک زمانہ میں ہو ا ہے بلکہ آئندہ بھی جب دنیا میں تاریکی کا زمانہ آئے گا قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میں اتریں گے اور پھر بنی نوع انسان کی راہنمائی اور ہدایت کا موجب

Page 471

ہوںگے.یعنی ایسا زمانہ کوئی نہ آئے گا کہ دنیا میں خرا بی ہواور قرآن اور محمد رسول اللہ صلعم اس کی ہدا یت کا موجب نہ ہو سکیں اور کسی نئی شریعت کی ضرورت پیش آجائے بلکہ جب کبھی قرآن کا نور دنیا سے مٹنے لگے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی پر پردہ پڑ جائے گا خدا تعالیٰ دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مثیل روحانی وجودوں کو دنیا میں مبعوث فرمائے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو بھی ظاہر کریں گے اور قرآن کریم کی تعلیم کو بھی دوبارہ روشن کر دیں گے اور ثابت کر دیں گے کہ خرابی نہ قرآن میں تھی نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تھی بلکہ بنی نوع انسان کے فہموں میں خرابی تھی کہ وہ قرآن کریم کے معانی کے سمجھنے سے قاصر ہو گئے تھے یا ان کے دلوں میں خرابی تھی کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اپنے اندر لینے سے محروم ہو گئے تھے.دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۰۰وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ(الجمعۃ:۳،۴) ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواس زمانہ میں بھی نازل فرمایا تھا جس زمانہ میں کہ آپ کی جسمانی بعثت ہوئی تھی اور آئندہ پھر اس زمانہ میں بھی نازل فرمائے گا جبکہ ایسے ہی حالات پیدا ہو جائیں گے یعنی اللہ تعالیٰ آپ کا ایک مثیل ظاہر فرمائے گا جو آپ کی نیابت میں دنیا کو پھر اسلام کی طرف واپس لائے گا اور اسلام کی شوکت کو دنیا میں قائم کرے گا.اسی زمانہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم بھی آسمان پر اٹھ جائے گا اور وہ موعود پھر قرآن کو واپس لائے گا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْـمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْـمُہٗ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب العلم) قرآن کریم کا صرف نام اور اس کے الفاظ باقی رہ جائیں گے اس کے معانی سے لوگ ناواقف ہوجائیں گے.پس وہ موعودپھر قرآن کو آسمان سے واپس لائے گا اور قرآن اپنے کامل علوم اور معرفت سمیت پھر دنیا میں آجائے گا اور یہی نہ ہوگا کہ دنیا کے پاس فقط اس کا نام اور نشان باقی ہو.خود اس سورۃ میں بھی اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے.چنانچہ آگے چل کر بیان فرمایا گیا ہے تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا جو ایک استمرار کا صیغہ ہے یعنی ایسی لیلۃالقدر کی راتیں کئی آنے والی ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ کے ملائکہ اور روح اترا کریں گے.پس جب لیلۃالقدر کئی آنے والی ہیں اور ان میں ملائکہ اور روح اترنے والے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں اَنْزَلْنَا کے معنے صرف ماضی کے نہیں بلکہ مستقبل کے بھی ہیں اور قرآن کریم میں ماضی بمعنے مستقبل کئی جگہ استعمال ہوا ہے.

Page 472

میں نے اوپر بیان کیا ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل بروزوں کی طرف اشارہ ہے.لیکن چونکہ ناقص بروز بھی بروز ہی ہوتا ہے اس لئے یہ آیت ناقص بروزوں کے متعلق بھی اشارہ کرتی ہے یعنی ایسے زمانہ کے مصلحین کی نسبت بھی جبکہ کامل تاریکی تو نہیں آئے گی لیکن ایک نئی زندگی کی ضرورت انسان کو محسوس ہو گی.حدیثوں میں آتا ہے کہ ہر صدی کے سر پر دنیا کو ایک ہوشیار کرنے والے کی ضرورت پیش آجاتی ہے اور اسلام میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ہر صدی کے سر پر مجددبھیجتا رہے گا(ابی داؤد، کتاب الملاحـم باب ما یذکر فی قرن المائۃ).ان مجددوں کے متعلق بھی ا س آیت میں پیشگوئی موجود ہے کیونکہ وہ بھی جزوی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام ہوتے ہیں اور ایک جزوی تاریک رات میں ان کا ظہور ہوتا ہے.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ کے یہ معنے کہ قرآن کریم لیلۃ القدر کے بارہ میں نازل ہوا ہے پانچویں معنے ا س آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم لیلۃالقدر کی بزرگی میں نازل فرمایا ہے.ان معنوں کے رو سے فِیْ کے معنے متعلق کے ہوں گے.یعنی یہ معنے نہیں ہوں گے کہ لیلۃالقدر میں قرآن نازل ہوا ہے بلکہ یہ معنے ہوں گے کہ لیلۃ القدر کے بارہ میں قرآن کریم نازل ہوا ہے.بالعموم مفسرین نے یہی معنے لئے ہیں اور وہ اس آیت کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم اس لیلۃالقدر کی جو رمضان کے آخر میں آتی ہے.بڑائی اور بزرگی بیان کرتا ہے(فتح البیان زیر آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْاٰنُ).اگر آیت کے یہ معنے کئے جائیں تو سوال پیدا ہوگا کہ وہ لیلۃالقد ر جس کی طرف اس سورۃ میں توجہ دلائی گئی ہے کیا چیز ہے؟مفسرین کا خیال ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد اس جگہ پر رمضان کی راتوں میں سے وہ رات ہے جس کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں متعدد جگہ پر ذکر آتا ہے.امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ لَمَّا حَضَـرَ رَمَضَانُ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَکُمْ شَھْرُ رَمَضَانَ شَھْرٌ مُّبَارَکٌ اِفْتَـرَضَ اللہُ عَلَیْکُمْ صِیَامَہٗ تُفْتَحُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْـجَنَّۃِ وَتُغْلَقُ فِیْہِ اَبْوَابُ الْـجَحِیْمِ وَقُفِّلَ فِیْہِ الشَّیَاطِیْنُ فِیْہِ لَیْلَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ مَنْ حُرِمَ خَیْـرُھَا فِیْہِ فَقَدْ حُرِمَ (مسند احمد بن حنبل مسند ابو ہریرۃ) یعنی اے لوگو رمضان کا مہینہ آگیا ہے یہ مبارک مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر اس مہینہ کے روزے فرض کئے ہیں.اس مہینہ میں جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں (یعنی نیکیوں کی زیادتی ہو جاتی ہے اور مومن روزوں کے اثر کی وجہ سے گناہوں سے بہت اجتناب کرنے لگتے ہیں)اور شیطانوں کو اس مہینہ میں بیڑیاں ڈال دی جاتی ہیں (یعنی جو مسلمان بدیوں کے ارتکاب کے عادی ہو جاتے ہیں وہ بھی اپنے بھائیوں کی

Page 473

قربانیوں کو دیکھ کر احتیاط کرنے لگ جاتے ہیں)اس مہینہ میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینہ سے بہتر ہے جو رمضان میں بھی اس رات کی برکات سے محروم رہے وہ بڑا محروم آدمی ہے.نسائی نے بھی ابوایوب انصاریؓ سے اسی مضمون کی روایت نقل کی ہے بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَامَ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ اِیْـمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہٗ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ ( بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب فضل لیلۃ القدر) یعنی جو شخص لیلۃالقدر کو خوب جاگے اور عبادت کرے اور یہ اس کی عبادت رسماً یا ریا کے طور پر نہ ہو بلکہ ایمان اور خدا تعالیٰ سے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ہو تو اس کے وہ سب گناہ جو وہ پہلے کر چکا ہے معاف ہو جاتے ہیں.ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی ایک رات کا نام لیلۃالقدر رکھا ہے اور اس کی نسبت ایسی صفات بیان فرمائی ہیں جو قرآن کریم کی بیان کردہ لیلۃالقدر سے ملتی ہیں.مثلا ًاس کا ہزار مہینوں سے اچھا ہونا یا گناہوں کی بخشش کی صورت میں سلامتی لانا.یہ تشابہ ضرور اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ اس سورۃ میں جس لیلۃالقدر کا ذکر ہے اسی کا ذکر احادیث میں ہے یا کم سے کم یہ کہ اس لیلۃالقدر کی طرف بھی اس سورۃ میں اشارہ ہے.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ عقل اور انصاف کے مطابق ہے کہ ایک رات کو جو دوسری راتوں کی طرح کی ایک رات ہے ایسی برکات کا موجب سمجھ لیا جائے اور کیا یہ انصاف کی بات ہے کہ اس ایک رات میں عبادت کرنے والا سب گذشتہ گناہوں سے نجات پا جائے.کیا اس سے نیک اعمال سے استغنا ء پیدا نہیں ہوتا ؟ اس شبہ کا یہ جواب ہے کہ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ فلاں رات میں عبادت کرلو تما م گناہ بخشے جائیں گے تو یہ بات ضرور خلاف عقل اور قوم میں وہم پیدا کرنے والی ہے.لیکن لیلۃالقدر کے ساتھ جو شرائط اور جو امور وابستہ ہیں ان کے ہوتے ہوئے یہ شبہ درست نہیں رہتا.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے بلکہ انسانی دماغ کی اہم خصوصیتوں میں سے ہے کہ خیالات کا انتقال Association of ideasانسانی اعمال پر ایک نہایت ہی گہرا اثر رکھتا ہے.ایک انسان اپنے عزیز کی قبر پر جاتا ہے تو گو اس کے سامنے صرف ایک مٹی کا ڈھیر ہوتا ہے مگر اس پر رقت طاری ہوجاتی ہے کیونکہ قبر اسے اپنے عزیز کی یاد دلاتی ہے اور اس یاد کے ساتھ ہی حافظہ ان تعلقات کو سامنے لا کھڑا کرتا ہے جو اس مرحوم کی زندگی میں اس کے اور اس عزیز کے درمیان تھے ایک ایک کر کے واقعات اس کے حافظہ میں

Page 474

تازہ ہونے شروع ہو تے ہیںاور اس کے ساتھ یہ احساس مل کر کہ اب وہ باتیں پھر نہیں ہو سکتیں اس کے دل کی کیفیت عجیب قسم کی ہوجاتی ہے حالانکہ اس عزیز کی موت کوئی نیا واقعہ نہیں ہوتا اور نہ گذشتہ واقعات کوئی نیا علم پیدا کرتے ہیں مگر وہی پرانی قبراور پرانے واقعات قبر کو دیکھ کر مردہ جذبات کو زندہ کر دیتے ہیں اور سوئے ہوئے احساسات کو جگا دیتے ہیں.اسی طرح لوگ پیدائش کے دن مناتے ہیں ،شادی کے دن مناتے ہیں اس لئے کہ گو شادی اور پیدائش کا علم تو ہر روز ہی ہوتا ہے خاص دنوں میں ان کا علم نیا نہیں پیدا ہوتا لیکن انتقال خیالات کا بہترین موقعہ وہی دن پیدا کرتا ہے جس دن کوئی پیدا ہوا ہوتا ہے یا جس دن ایک جوڑے کی شادی ہوئی ہوتی ہے.مسلمانوں سے اللہ تعالیٰ کا ایک عہد اور اس عہد کی یاد میں لیلۃ القدر کا قیام اسی حکمت کو مد نظر رکھتے ہوئے رمضان کے مہینہ میں جس میں قرآن کریم جیسی اہم اور ہدایت دینے والی کتاب نازل ہونی شروع ہوئی تھی.اگر ایک رات اس کی یاد تازہ کرنے کے لئے مقرر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے کہ چونکہ اس مہینہ میں ہم نے بنی نوع انسان سے ایک نیا عہد باندھا تھا دائمی اور نہ فراموش ہونے والا عہد.اس لئے مومنوں کے دلوں میں اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس بات کا ثبوت مہیا کرنے کے لئے کہ ہم اب تک اس عہدپر قائم ہیں ہم اس مہینہ کی ایک رات کو دعائوں کی قبولیت کے لحاظ سے خاص فضیلت اور برتری بخشتے ہیں تو اس میں کیا حرج کی بات ہے یہ تو عین صواب ہے.خدا تعالیٰ نے ابراہیمؑ سے ایک عہد باندھا اور اس کی ظاہری علامت کے طور پر ختنہ مقرر فرمایا(پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۰).صرف ایک جسمانی علامت جس سے روحانیت کا کوئی بھی تعلق نہیں.ایک حفظان صحت کا اصول، ایک بدنی صفائی کا نشان.یہود نے اسے قائم رکھا مگر مسیحیوںنے اسے بھلادیا.مگر سوال یہ ہے کہ اگر نسل ابراہیم اس عہد کو ختنہ کے ذریعہ سے دہراتی چلی آئی ہے تو خدا تعالیٰ نے اپنے عہد کو کس طرح دہرایا؟ تورات اس پر بالکل خاموش ہے.فرض کرلو کہ خدا تعالیٰ کا عہد یہ تھا کہ کنعان کا ملک ہمیشہ بنو ابراہیمؑ کے پاس رہے گا تو یہ بھی تو نہ ہوا.کیونکہ بائبل کے ماننے والوں کے نزدیک ابراہیمی وعدوں کے حقدار صرف بنو اسحاق تھے(پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۹تا۲۱).مگر بنواسحاق تو تیرہ سو سال سے اس ملک کی حکومت سے محروم ہیں.آخر خدا تعالیٰ نے اپنا عہد کیوں بھلادیا.مسیحیوں نے بے شک ختنہ چھوڑ دیا لیکن یہود نے تو ختنہ نہیں چھوڑا تھا ان کو کیوں اللہ تعالیٰ نے بھلادیا.عہد کے زندہ اور قائم ہونے کی تو یہی علامت ہوسکتی ہے کہ دونوں طرف سے اس کے قائم ہونے کا اعلان ہوتا رہے.مگر بائبل کے عہد کا تو یہ حال ہے کہ یہود اب تک ختنہ کرتے چلے آتے ہیں.مگر اللہ تعالیٰ اس باہمی عہد کے اپنے حصہ کو ادا کرنے کا نام

Page 475

نہیں لیتا.خدا تعالیٰ نے مسلمانوں سے بھی ایک نیا عہد باندھا اور اس کی علامت رمضان کے روزے مقرر فرمائے.اس عہد کے مقابل پر مسلمانوں سے بھی ایک عہد اللہ تعالیٰ نے باندھا اور اس عہد کا اعلان رمضان کے مہینہ میں ہوا.اس عہد کی علامت ختنہ کو نہیں مقرر کیا گیا کیونکہ ختنہ تو عرب پہلے ہی ابراہیم کی یاد میں کرتے چلے آتے تھے.بلکہ اس عہد کی علامت مومنوں کے لئے یہ مقرر کی گئی کہ وہ اس سارے مہینہ کے روزے رکھیں جس میں خدا تعالیٰ نے ان سے عہد باندھا تھا اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے بھی اس عہد کے نباہنے کی ایک علامت اپنے لئے مقرر فرمائی اور وہ یہ کہ جب تم رمضان کا مہینہ اس عہد کی یاد میں روزوں میں گزارو گے تو میں اس کے جواب میں رمضان کی آخری راتوں میں سے ایک رات تمہارے لئے آسمان سے اتروں گا.اور اعلان کروں گا کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ١ۙ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَ لْيُؤْمِنُوْا بِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ ( البقرۃ:۱۸۷) یعنی بندوں کی طرف سے جب اس عہد کی یادگار رمضان کی صورت میں منائی جائے گی تو میں بھی اس عہد کی یادگار لیلۃ القدر کی صورت میں منائوں گا.آسمان سے اپنے بندوں کے لئے اتروں گا اور اعلان کروں گا کہ مانگو تو تمہیں دیا جائے گا، ایمان لائو تو تمہیں ہدایت بخشی جائے گی کیونکہ تم میرے معاہد ہو.تم نے اپنے عہد کی رمضان سے یاد تازہ کی، میں اپنے عہد کی لیلۃ القدر سے یاد تازہ کرتاہوں.یہ کیسی مبارک علامت ہے.ختنہ بھی اچھی چیز ہے لیکن ایک مہینہ بھر خدا تعالیٰ کے لئے روزے رکھنے یہ اس علامت کی نسبت کس قدر زیادہ شاندار اور کس قدر زیادہ روحانیت کو زندہ کرنے والی علامت ہے.اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ کا جواب بھی کیسا شاندار ہے.روپیہ نہیں، چاندی نہیں، ملک نہیں، دولت نہیں، وہ اپنے عہد کی یادگا رکے طور پر مسلمانوں سے لیلۃ القدر جیسی چیز کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ جب تم میرے آخری کلام کے نازل ہونے کی خوشی میں ہمیشہ رمضان کے مہینہ کے روزے رکھا کرو گے اور اس طرح اپنے عہد کو تازہ کرتے رہوگے تو میں بھی تم سے لیلۃ القدر کے ذریعہ سے اپنا عہد تازہ کرتا رہوں گا.یعنی اس دن تم پر خاص فضل کیا کروں گا اور تمہاری دعائیں سنا کروں گا، تم کو نیا اور زندہ ایمان بخشا کروں گا تا تم کو معلوم ہوتا رہے کہ میں زندہ خدا ہوں اور اپنے عہد کی نگہداشت میں تم سے پیچھے نہیں بلکہ تم سے زیادہ اپنے عہد کی نگہداشت کرنے والا ہوں.یہ دونوں نشان باہمی عہد کے تازہ رکھنے کے کیسے شاندار ہیں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا جبکہ بنو اسحاق کے لئے عہد کا نشان جسمانی یعنی ختنہ تھا اور خدا تعالیٰ نے اپنے لئے بھی مسلمانوں سے کئے ہوئے عہد کا نشان روحانی مقرر کیا یعنی لیلۃ القدر.جبکہ بنو اسحاق کے عہد کے مقابل میں خدا تعالیٰ نے اپنے عہد

Page 476

کی نشانی جسمانی مقرر کی تھی.یعنی فلسطین کا یہود کے قبضہ میں رہنا.ساری عمر ایک ماہ کے روزے رکھنے کے مقابلہ میں ختنہ کا فعل کتنا چھوٹا ہے (پھر وہ فعل بھی مسلمان ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پرکرتے چلے آتے ہیں) اور کنعان کی زمین لیلۃ القدر کے مقابلہ پر کتنی حقیر ہے.بلکہ وہ تو لیلۃ القدر کے ایک ایک سیکنڈ کے مقابل پر حقیر ہے (اور پھر لطف یہ کہ وہ زمین بھی اور پیشگوئیوں کے مطابق مسلمانوں ہی کو مل گئی ہے).خلاصہ یہ کہ رمضان اور لیلۃ القدر محمدی عہد کی علامات ہیں اسی طرح جس طرح ختنہ اور فلسطین کی بادشاہت ابراہیمی عہد کی علامات ہیں.رمضان بندہ کی طرف سے عہد کو تازہ رکھنے کا نشان ہے اور لیلۃ القدر خدا تعالیٰ کی طرف سےعہد کو تازہ رکھنے کا نشان ہے اور ہر عقلمند انسان ادنیٰ تدبر سے معلوم کر سکتا ہے کہ مسلمانوں سے جو عہد خدا تعالیٰ نے باندھا ہے اس کے نشان بہت شاندار ہیں اور روحانی ہیں اور زندہ خدا کی قدرتوں کا اظہار کرتے ہیں.کئی قومیں اپنے ملکوں میں ہزاروں سال سے بیٹھی ہیں اور یہ اس بات کی لازمی علامت نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہے مگر کسی قوم کو اگر لیلۃالقدر مل جائے ایسی رات جس میں خدا تعالیٰ قریب آجائے جس میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنے.جس میں اللہ تعالیٰ علیٰ قدر مراتب اپنے بندوں پر اپنی مرضی ظاہر کرے تو یہ یقیناً اس بات کا روشن ثبوت ہو گا کہ خدا تعالیٰ اس قوم سے خوش ہے اور اس سے اپنے عہد کو اس نے بھلایا نہیں.حضرت اسحاق کی اولاد سے عہد کے مقابل حضرت اسماعیل کی اولاد سے اللہ تعالیٰ کا عہد ایک اور بات بھی اسی سلسلہ میں یاد رکھنے والی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیمؑ سے ان کے دونوں بیٹوں کی نسبت عہد کیا تھا اور دونوں کو ختنہ کا پابند کیا تھا(پیدائش باب۱۷آیت۲۵.پیدائش باب ۲۱آیت۴).بائبل کہتی ہے کہ اسحاقؑ کی اولاد کی نسبت اس نے کہا کہ میں کنعان کا ملک ہمیشہ کے لئے انہیں دوں گا.چنانچہ لکھا ہے ’’تب خدا تعالیٰ نے کہا کہ بے شک تیری جورو سرہ تیرے لئے ایک بیٹا جنے گی تو اس کا نام اسحاق رکھنا اور میں اس سے اور بعد اس کے اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروں گا ‘‘ (پیدائش باب۱۷ آیت۱۹) اس جگہ عہد کے قیام سے مراد کنعان کے ملک پر دائمی قبضہ لیا جاتا ہے اور بائبل کے کئی مقامات سے اس کی تصدیق ہوتی ہے(پیدائش باب۱۷ آیت۷،۸) لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی عہد بنو اسمٰعیل کے بارہ میں بھی تھا کیونکہ ختنہ کا حکم انہیں بھی دیا گیا تھا اور برکت کا وعدہ ان سے بھی تھا.چنانچہ لکھا ہے ’’جب اس کے بیٹے اسمٰعیل کا ختنہ ہوا وہ تیرہ برس کا تھا ‘‘ (پیدا ئش باب ۱۷آیت۲۵) نیز لکھا ہے ابراہیم نے دعاکی’’اسمٰعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت۱۸) اس کے بعد لکھا ہے ’’اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند

Page 477

کروںگا اور اسے بہت بڑھائوں گا ‘‘ (پیدا ئش باب ۱۷آیت ۲۰) پھر پیدا ئش ب ۲۱ میں لکھا ہے ’’میں اس (اسمٰعیل ) کو ایک بڑی قوم بنائو ں گا‘‘ (پیدائش باب ۲۱آیت۱۸) ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ اسمٰعیل بھی وعدہ میں شامل تھا گو وہ اس وعدہ میں شامل نہ تھا جو کنعان کے قبضہ کے متعلق تھا کیونکہ وہ عہد اسحاق کی نسل کے ساتھ پورا ہونا تھا.یہود ونصاریٰ کو یہ غلطی لگی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ عہد صرف اسحاق کی اولاد سے تھا.اوپر کی عبارتوں سے ظاہر ہے کہ عہد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں سے تھا.پھر یہ غلطی بنو اسرائیل کو کس طرح لگی ؟اس کا جواب یہ ہے کہ ابراہیمی عہد کی دو شکلیں ہیں ایک مجمل اور ایک مفصل.مجمل عہد یہ تھا کہ میں تیری نسل کو برکت دوں گا اور نسل سے مراد اسمٰعیل اور اسحاق دونوں ہیں جیسا کہ اوپر کے حوالوں سے ظاہر ہے.مفصل عہد آگے دو حصوں میں تقسیم ہے.اسحاق کی نسبت عہد یہ تھا کہ کنعان کی حکومت اسے نسلاً بعد نسلٍ حاصل ہوگی.بائبل نے جو بنو اسحاق کی کتاب ہے لازماً اسی عہد کو یاد رکھنا تھا اس کتاب میں بنو اسمٰعیل کے عہد کا ذکر نہ ہونے کے یہ معنے نہیں کہ بنو اسمٰعیل سے کوئی عہد تھا ہی نہیں.کیونکہ بائبل مجمل عہد میں دونوں بیٹوں کو شریک کرتی ہے.اسحاق کی نسبت بھی ہے کہ میں اسے برکت دوں گا اور اس برکت کی تشریح یوں کی ہے کہ کنعان کا ملک نسلاً بعد نسلٍ اسے ملے گااور اسمٰعیل کی نسبت بھی کہا ہے کہ میں اسے برکت دوں گا.اب سوال یہ ہے کہ اسے کس رنگ میں برکت دی جائے گی ؟اس سوال کا جواب بائبل میں تلاش کرنا عبث ہے کیونکہ وہ تو اسرا ئیلی نسل کی تاریخ ہے اس کا جواب تو اسمٰعیلی نسل کی روایات سے معلوم کرنا چاہیے یا اسمٰعیلی نسل کے انبیاء کے الہام سے کیونکہ اسمٰعیل کی نسبت تفصیلی عہد انہی سے ہمیں معلوم ہو سکتا ہے.سو ہم اسمٰعیل کی نسل کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں یہ روایت چلی آتی تھی کہ اسمٰعیل کو خدا تعالیٰ نے مکہ مکرمہ مرکز کے طور پر دیا اور عرب رہائش کے لئے دیا جس پر وہ اسمٰعیل کے وقت سے اس وقت تک قابض ہیں چنانچہ قرآن کریم میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوا جو حضرت اسمٰعیل کی اولاد میں سے تھے اس تفصیلی عہد کا یوں ذکر ہے وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا١ؕ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى١ؕ وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِيْلَ اَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْعٰكِفِيْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ.وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ١ؕ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ(البقرۃ :۱۲۶،۱۲۷) یعنی یاد کرو جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کا مرجع بنایا اور امن کا موجب بنایا اور حکم دیا کہ ابراہیمؑ جیسا خلوص اپنی نمازوں اور عبادتوں میں پیدا کرو اور ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو تاکید کی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں

Page 478

کے لئے پاک رکھو اور جب ابراہیم نے بھی ہم سے دعا کی کہ میرے رب جس طرح تو نے اس مکان کو امن والا بنانے کا وعدہ کیا ہے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اس مکان کو امن دینے والا بھی بنا (اس طرح کہ یہ خود ہی پُر امن نہ ہو بلکہ دوسرے شہروں اور ملکوں کو بھی امن دینے والا ہو)اور اس کے باشندوں میں سے جو اللہ اور یوم آخرۃ پر ایمان لانے والے ہوںان کے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے اسی وادی غیر ذی زرع میں ہر قسم کے تازہ بتازہ پھل بھی مہیا کرتا رہ.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری دعا قبول کی گئی مگر اس اصلاح کے ساتھ کہ جو کافر ہوں گے انہیں بھی ہم دنیوی انعامات سے محروم نہیں کریں گے ہاں بوجہ کفر کے انہیں اخروی عذاب ملے گا.یہ عہد کیسا لطیف عہد ہے اسمٰعیل سے اللہ تعالیٰ نے ختنہ کے علاو ہ یہ عہد لیا کہ وہ اوراس کی اولاد خانہ کعبہ کی خدمت کرے اور خدائے واحد کی عبادت کے لئے ایک ایسی پاک عبادت گاہ تیار رکھے جس میں اللہ تعالیٰ کے بندے جمع ہو کر خدائے واحد کی تسبیح و تحمید کریں.بنو اسمٰعیل کے لیے عرب کا ملک ملنے کا وعدہ ختنہ کا عہد تواسمٰعیل کے ساتھ بھی تھا مگر اس کے ساتھ کیا لطیف روحانی عہد بھی شامل کر دیا گیا اور اس کے جواب میں اپنی طرف سے عہد کا نشان یہ مقرر کیا کہ میں خانہ کعبہ اور اس کے گرد کا علاقہ ان کو دوں گا اور وہ ہمیشہ کے لئے امن میں رہے گا کوئی دشمن اسے فتح نہ کر سکے گا اور لوگ حج کے لئے سارے ملک سے (اور آخری زمانہ میں سب دنیا سے)وہاں آتے رہیں گے.یہ عہد کا نشان جو اسمٰعیل ؑ اور اس کی نسل سے ہوا کیسا شاندار ہے.اسحٰق سے صرف دنیوی وعدہ تھا کہ کنعان کا ملک اسے اور اس کی اولاد کو ملے گا جو محض ایک سیاسی وعدہ تھا اور پھر اس ملک کو امن میں رکھنے کاکوئی وعدہ نہ تھا.چنانچہ کئی دفعہ یوروشلم اسرائیلی دین کے منکروں کے ہاتھو ں تباہ ہوا.لیکن اسمٰعیل سے یہ وعدہ کیا کہ اسے اور اس کی اولاد کو مکہ اور اس کے گرد ونواح پر تلوار کے ذریعہ سے نہیں بلکہ محبت اور حسن عقیدت کے ذریعہ سے حکومت بخشی جائے گی اور خدا تعالیٰ ان کے مر کز کو ہمیشہ دشمن کے ہاتھ سے بچائے گا اور تمام علاقہ پر ان کی روحانی اور ظاہر ی حکومت ہوگی.روحانی اس طرح کہ لوگ مکہ سے عقیدت رکھیں گے اور وہاں حج کے لئے آئیں گے اور ظاہری اس طرح کہ وہ ملک کے لئے مرکز امن بنا دیا جائے گا اور مکہ کے لوگوں کو سیاسی تصرف بھی اپنے گرد کے علاقہ پر دیا جائے گا.ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اسمٰعیل کا عہد اسحٰق کے عہد سے کہیں زیادہ شاندار ہے.اسحٰق اور اس کی اولاد نے جو عہد کا نشان اپنے لئے مقرر کر لیا وہ اسمٰعیل اور اس کی اولاد نے بھی اپنے لئے مقرر کیا یعنی ختنہ.لیکن اس کے علاوہ یہ نشان بھی اپنے عہد کا خدا تعالیٰ کے حکم سے مقرر کیا کہ اسمٰعیل اور اس کی نسل خدا ئے واحد کی پرستش کو قائم رکھنے کے لئے جدوجہد کرتی رہے گی اور دنیا سے الگ ہو کر وادی غیر ذی زرع میں ذکر الٰہی کی شمع کو جلائے رکھنے

Page 479

کی ذمہ واری اپنے اوپر اٹھائے گی.اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے جو اپنے لئے عہد کا نشان مقرر کیا وہ بھی بنو اسحٰق کے مقابل کتنا شاندار ہے.وہاں تو صرف یہ وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر یہاں یہ عہد بھی ہے کہ (۱)بنو اسمٰعیل کے مرکز کو ہمیشہ دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا جائے گا(۲)بنو اسمٰعیل کو بھی مکہ کے گردوپیش پر حکومت ملے گی مگر وہ صرف سیا سی نہ ہو گی بلکہ روحانی بھی ہو گی.گویا بنو اسحٰق سے صرف ایک وعدہ تھا کہ کنعان پر انہیں حکومت ملے گی مگر بنو اسمٰعیل سے تین وعدے تھے یعنی مکہ کی حفاظت کا،عرب پر حکومت کا، عرب پر روحانی اقتدار ہمیشہ قائم رہنے کا.چونکہ یہ عہد بنو اسمٰعیل سے مخصوص تھا اس لئے لازماً انہوں نے ہی اسے محفوظ رکھا.جس طرح بنو اسحٰق نے اپنے عہد کو بائبل میں محفوظ رکھا.یہ وہ لطیف نقطہ ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص طور پر مجھے سمجھایا ہے اور جس سے عہد ابراہیم کی نسبت وہ سب کشمکش جو بنو اسحٰق اور بنو اسمٰعیل میں چلی آتی ہے دور ہو جاتی ہے.یہ درست ہے کہ کنعان کا ملک خدا تعالیٰ نے عہد ابراہیم کے مطابق بنو اسحٰق کو دیا تھا مگر یہ بھی درست ہے کہ ویسا ہی بلکہ اس سے شان میں بہت بڑھ کر عہد بنو اسمٰعیل سے کیا گیا تھا اور وہ بنو اسحٰق کے عہد سے بھی زیادہ شاندار طور پر پورا ہوا.جیسا کہ آگے سورۂ قریش اور سورۂ فیل میں ان امور کی تفصیل آئے گی.مسلمانوں کو کنعان کا ملک ملنے کی پیشگوئی داؤد کے کلام میں اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ابراہیمی عہد میں بنواسحٰق سے ہی کنعان کا وعدہ تھا تو پھر بنو اسمٰعیل کو یہ ملک کیوں ملااور سورہ ٔانبیاء میں یہ پیشگوئی کیوں کی گئی ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کو ملے گا جیسا کہ فرماتا ہے وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصّٰلِحُوْنَ اِنَّ فِيْ هٰذَا لَبَلٰغًا لِّقَوْمٍ عٰبِدِيْنَ (الانبیاء:۱۰۶،۱۰۷) یعنی ہم زبور میں ذکر کے بعد لکھ چکے ہیں کہ کنعان کا ملک میرے نیک بندوں کو ملے گا.یہ بات ہم عبادت گذار قوم (یعنی مسلمانوں) کو توجہ دلانے کے لئے بیان کر رہے ہیں اور ان کا حق انہیں پہنچاتے ہیں یعنی جب جائز موقعہ آئے تم فلسطین پر حملہ کر دینا اللہ تعالیٰ تم کو فتح دے گا کیونکہ دائود ؑ نے یہ خبر دے رکھی ہے.چنانچہ مسلمانوں نے اس اشارہ کو سمجھ لیا اور باوجود اس کے کہ قیصر کی حکومت دنیا کی سب سے طاقتور حکومت تھی چند مٹھی بھر آدمیوں کے ساتھ مسلمان جرنیل اس سے جا بھڑے اور اسے بری طرح شکست دے کر ملک پر قبضہ کر لیا.اس سوال کا جواب یہ ہے کہ کنعان کے متعلق دو الگ الگ وعدے تھے ایک ابراہیم سے کہ یہ ملک بنو اسحٰق کو ملے گا اور ایک دائود ؑسے کہ یہ اس قوم کو ملے گا جو راستباز اور خدا تعالیٰ کی عبادت گذار ہو گی.حضرت دائود، حضرت ابراہیمؑ کے ہزار بارہ سو سال بعد مبعوث ہوئے تھے ان کے زمانہ میں وہ وقت قریب آرہا تھا کہ بنو اسحٰق کا

Page 480

عہد ختم کیا جائے اس قوم کی قیامت قریب تھی اور اس کی ہلاکت کے راستے کھلنے والے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور پیشگوئی حضرت دائود سے کروادی جس میں یہ بتایا گیا کہ عہد ابراہیمی جو حضرت اسحٰق کی نسل سے پورا ہونا تھا اب ختم ہورہا ہے اب اسے نیا رنگ دے دیا جائے گا اور اب کنعان اسحٰق کی اولاد کی بجائے سچے دین کے متبعوں کے قبضہ میں چلا جائے گا.سو مسلمانوں کا قبضہ فلسطین پر حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئی کے ماتحت نہیں بلکہ حضرت دائودؑ کی پیشگوئی کے مطابق ہے(زبور باب ۳۷ آیت ۲۹).حضرت ابراہیمؑ کے عہد کے مطابق تو ان کا قبضہ مکہ اور حجاز پر ہے اور دائود کی پیشگوئی کے مطابق ان کا قبضہ کنعان یعنی فلسطین پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ کنعان پر مسلمانوں کے قبضہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم نے حضرت ابراہیمؑ کی پیشگوئی کا حوالہ نہیں دیا بلکہ حضرت دائودؑ کی پیشگوئی کا حوالہ دیا ہے.حالانکہ اگر حضرت دائود کی پیشگوئی حضرت ابراہیمؑ ہی کی پیشگوئی کی تکرار ہوتی تو جو مقدم پیشگوئی تھی اس کا ذکر کرنا چاہیے تھا اس سلسلہ میں یہ امر یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن کریم اور احادیث کی بعض دوسری پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دفعہ عارضی طور پر یہود کا غلبہ اس زمین میں پھر مقدر ہے جس کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.کیا لیلۃ القدر کوئی معین رات ہے؟ اب میں اس سوال کو لیتا ہوں کہ کیا لیلۃالقدر کوئی معین رات ہے اور کیا یہ وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا.یہ امر تو ثابت شدہ ہے کہ قرآن کریم رمضان میں نازل ہونا شروع ہوا لیکن یہ امر واقعی طور پر ثابت نہیں کہ رمضان کی کس رات میں قرآن کریم کے نزول کی ابتداء ہوئی.بعض ستر۱۷ہ رمضان کی بتاتے ہیں اور بعض انیس۱۹ رمضان کی اور بعض چوبیسو۲۴یں رمضان کی قرار دیتے ہیں(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر).غرض اس بارہ میں اس کے سوا کہ آخری پند رہ تاریخوںمیں سے کسی تاریخ قرآن کریم اترا تھا اور کوئی یقینی بات ثابت نہیں.لیکن ہر رمضان میں جو لیلۃالقدر آتی ہے اس کے بارہ میں احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ آخری عشرہ میں سے کسی رات میں آتی ہے(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تـحرِّی لَیْلَۃ القدر فی الوتر من العشـر الاواخر) جس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیلۃالقدر سے مراد معین طور پر وہ رات نہیں جس میں قرآن کریم اترا بلکہ صرف ایک ایسی رات مراد ہے جو نزول قرآن کی یاد میں خدا تعالیٰ نے بطور علامت مقرر فرمائی ہے.اب رہا یہ سوال کہ جو رات بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے نزول کی علامت کے طور پر مقدر کی ہے کیا وہ ایک معین رات ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں وہ بھی کوئی معین رات نہیں بلکہ رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں میں چکر لگاتی رہتی ہے.اس رات کی نسبت مختلف احادیث سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں.

Page 481

لیلۃ القدر کے متعلق مختلف احادیث اور اقوال ابودائود طیالسی کی روایت ہے کہ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ قَالَ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ اِنَّـھَا لَیْلَۃٌ سَابِعَۃٌ اَوْتَاسِعَۃٌ وَّعِشْـرُوْنَ (مسند ابوداؤد طیالسی مسند ابو میمونۃ عن ابی ھریرۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃ القدر کے متعلق فرمایا وہ ستائیسویں یا انتیسویں رات کو ہوتی ہے.مسند احمد بن حنبل میں عبادۃ الصامت ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَـیْـلَـۃُ الْـقَـدْرِ فِیْ الْـعَـشْـرِ الْـبَـوَاقِیْ مَنْ قَـامَـہُـنَّ ابْـتِـغَاءَ حِسْبَتِـھِنَّ فَاِنَّ اللہَ یَغْفِرُلَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْـبِـہٖ وَمَـا تَأَخَّرَ وَہِیَ لَیْلَۃُ وِتْرٍ تِسْـعٍ اَوْسَبْـعٍ اَوْ خَامِـسَـۃٍ اَوْ ثَالِـثَـۃٍ اَوْ اٰخِرِ لَیْلَۃٍ.(مسند احمد بن حنبل عن عبادۃ الصامت) یعنی لیلۃ القدر رمضان کی آخری دس راتوں میں ہوتی ہے انتیسویں یا ستائیسویں یا پچیسویں یا تئیسویں یا رمضان کی آخری رات.امام احمد بن حنبل نے ابوذرؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے لیلۃ القدر کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اَفِیْ رَمَضَانَ ہِیَ اَوْ فِیْ غَیْـرِہٖ یا رسول اللہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے یااس کے سوا کسی اور مہینہ میں ؟ اس پر آپ ؐ نے فرمایا ہِیَ فِیْ رَمَضَانَ.وہ رمضان میں ہے.پھر میں نے پوچھا کہ کیا صرف انبیاء کے زمانہ میں ہوتی ہے جب وہ فوت ہو جائیں تو پھرنہیں ہوتی یا قیامت کے دن تک قائم رہے گی قَالَ بَلْ ہِیَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ.فرمایا نہیں وہ قیامت تک ہے.میں نے پوچھا رمضان کے کس حصہ میں ہوتی ہے ؟ اس پر فرمایا اِلْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْـرِالْاُوَلِ وَالْعَشْـرِالْاَوَاخِرِلَا تَسْأَلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ بَعْدَھَا.یعنی یا تو پہلے دہاکہ میں اس کی تلاش کیاکرو یا آخری دہاکہ میں.اس کے بعد مجھ سے اس بارہ کوئی سوال نہ کرنا.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر باتیں کرتے رہے میں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ میرا جوآپ پر حق ہے اسی کی قسم دیتے ہوئے کہتا ہوں کہ رمضان کے کون سے دہاکہ میں لیلۃالقدر ہوتی ہے؟اس پر آپ ناراض ہوئے اور فرمایا اِلْتَمِسُوْھَا فِیْ سَبْعِ الْاَوَاخِرِ لَاتَسْاَلْنِیْ عَنْ شَیْءٍ بَعْدَھَا یعنی آخری سات راتوں میں لیلۃالقدر کو تلاش کرو اور دیکھنا اس کے بعد اس بارہ میں مجھ سے کوئی سوال نہ کرنا.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان کی آخری سات راتوں میں سے کسی رات میں وہ ہوتی ہے(مسند احمد بن حنبل عن ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ ).ابودائود نے اپنی سنن میں عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لیلۃالقدر کے بارہ میں سوال کیا گیا اور میں بھی سن رہا تھا.اس سوال کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ لیلۃالقدر ہررمضان میں آتی ہے.(سنن ابی داؤد باب تفریع ابواب شھر رمضان باب من قال ھی فی کل رمضان)

Page 482

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اور آپ کے شاگردوں کا خیال تھا کہ لیلۃالقدر سارے سال میں آسکتی ہے رمضان سے اس کی خصوصیت نہیں.(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) ابی رزین کا قول ہے کہ لیلۃالقدر ہر رمضان کے مہینہ کی پہلی رات میں ہوتی ہے.(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) بعض نے کہا ہے کہ سترہ تاریخ کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور ابودائود نے ابن مسعود ؓ سے بھی ایک موقوف روایت اس بارہ میں نقل کی ہے اور کچھ صحابہ وتابعین اور امام شافعی سے بھی یہ روایت منقول ہے.(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) حسن بصری کا قول ہے کہ قرآن کریم لیلۃالقدر میں نازل ہوا تھا اور قرآن کریم میں لکھا ہے کہ بدر کا دن اور قرآن کریم کے نزول کا دن ایک ہی ہے اور بدر کادن سترہ رمضان جمعہ کے دن تھا اس لئے لیلۃالقدر بھی سترہ رمضان کوہونی چاہیے.(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) بعض نے کہا ہے کہ انیس رمضان کو لیلۃالقدر ہوتی ہے اور یہ قول حضرت علیؓاور ابن مسعودؓسے روایت کیا جاتا ہے.(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) بخاری اور مسلم نے ابو سعیدخدری سے روایت نقل کی ہے اِعْتَکَفَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْعَشْـرَ الْاَوَّلَ مِنْ رَّمَضَانَ وَاعْتَکَفْنَا مَعَہٗ فَاَتَاہُ جِبْـرِیْلُ فَقَالَ الَّذِیْ تَطْلُبُ اَمَامَکَ فَاعْتَکَفَ الْعَشْـرَ الْاَوْسَطَ وَاعْتَکَفْنَا مَعَہٗ فَاَتَاہُ جِبْـرِیْلُ وَقَالَ الَّذِیْ تَطْلُبُ اَمَامَکَ ثُمَّ قَامَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَطِیْبًا صَبِیْحَۃَ عِشْـرِیْنَ مِنْ رَّمَضَانَ فَقَالَ مَنِ اعْتَکَفَ مَعِیَ فَلْیَـرْجِعْ فَاِنِّیْ رَاَیْتُ لَیْلَۃَالْقَدْرِوَاِنِّیْ اُنْسِیْتُـھَا وَاِنَّـھَا فِی الْعَشْـرِ الْاَوَاخِرِ فِیْ وِتْرٍ وَّاِنِّیْ رَئَیْتُ کَاَنِّیْ اَسْـجُدُ فِیْ طِیْنٍ وَّمَاءٍ وَکَانَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ جَرِیْدًا مِّنَ النَّخْلِ وَمَا نَرٰی فِی السَّمَاءِ شَیْئًا فَـجَاءَتْ قَزَعَۃٌ فَـمُطِرْنَا فَصَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتّٰی رَئَیْتُ اَثَرَ الطِّیْنِ وَالْمَاءِ عَلٰی جَبْـھَۃِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَصْدِیْقُ رُؤْیَاہُ وَفِیْ لَفْظٍ فِیْ صُبْحِ اِحْدًی وَّعِشْـرِیْنَ وَ قَالَ الشَّافِعِیْ وَھٰذَا الْـحَدِیْثُ اَصَـحُّ الرَّوَایَاتِ.(بخاری کتاب الاذان باب السجود علی الانف فی الطین) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اور ہم نے بھی رمضان کی پہلی دس تاریخوں میں اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر حضرت جبریل آئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ جس چیز (لیلۃالقدر) کی آپ کو تلاش ہے وہ آگے ہے اس پر آپ نے اور ہم سب نے درمیانی دس دنوں کا اعتکاف کیا اس کے خاتمہ پر پھر حضرت جبریل نے ظاہر ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جس چیز کی آپ کوتلاش ہے وہ آگے ہے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 483

نے بیسویں رمضان کی صبح کو تقریر فرمائی اور فرمایا کہ مجھے لیلۃالقدر کی خبر دی گئی تھی مگر میں اسے بھول گیا ہوں اس لئے اب تم آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں اس کی تلاش کرو.میں نے دیکھا ہے کہ لیلۃالقدر آئی ہے اور میں مٹی اور پانی میں سجدہ کر رہا ہوں اس وقت مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی ہوئی تھی اور جس دن آپ نے یہ تقریر فرمائی بادل کا نشان تک نہ تھا پھر اچانک بادل کا ایک ٹکڑاآسمان پر ظاہر ہوا اور بارش شروع ہو گئی پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی پر مٹی اور پانی کے نشانات ہیں.ایسا خواب کی تصدیق کے لئے ہوا اور ابوسعید کی ایک روایت میں یہ واقعہ اکیس ۲۱رمضان کو ہوا تھا.امام شافعی کہتے ہیں اس بارہ میں یہ سب سے پختہ روایت ہے.عبداللہ بن انیس سے مسلم نے روایت کی ہے کہ تیس رمضان لیلۃالقدر ہے(مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر ) اور ابو دائود طیالسی نے ابو سعید خدری سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے(مسند ابی داؤد الطیالسی عن ابی سعید رضی اللہ عنہ ).مسند احمد بن حنبل نے بھی حضرت بلال ؓسے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃالقدر چوبیسویں رات کو ہوتی ہے.امام بخاری نے بلالؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ آخری سات راتوں میں سے پہلی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یعنی یا تیئیسویں یا چوبیسویں.مسند احمد کی یہ روایت پہلے درج ہو چکی ہے کہ قرآن چوبیسویں رمضان میں نازل ہونا شروع ہو ا تھا.بخاری نے عبداللہ بن عباسؓ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لیلۃالقدر کو رمضان کی آخری دس تاریخوں میں تلاش کرو.جب نو باقی ہوں یا سات باقی ہوں یا پانچ باقی ہوں(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تـحری لیلۃ القدر فی الوتر).گویا اکیسویں تیئیسویں اور پچیسویں رمضان میں لیلۃالقدر ظاہر ہوتی ہے.مسلم نے ابی ابن کعب سے روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لیلۃالقدر ستائیسویں رمضان کو ہوتی ہے(مسلم کتاب الصیام باب فضل لیلۃ القدر).عبداللہ بن عباسؓاور معاویہؓ اور عبداللہ بن عمرؓ سے بھی روایت ہے کہ لیلۃالقدر ستائیسویں رمضان کو ہوتی ہے (تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر) عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ حضرت عمرؓنے صحابہ کو جمع کیا تو سب نے اتفاق کیا کہ وہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کسی میں ہوتی ہے(تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر).

Page 484

عبادۃ ابن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری دس راتوں میں سے طاق راتوں میں سے کسی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے یا رمضان کی آخری رات میں ہوتی ہے.(مسند احمد بن حنبل عـن عبادہ بن صامت) بخاری میں حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ تَـحَرَّوْا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِی الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْـرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ یعنی حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے وتر راتوں میں لیلۃالقدر کی تلاش کرو(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب تـحری لیلۃ القدر فی الوتر).بخاری نے عبادۃالصامت سے روایت کی ہے کہ خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِیُخْبِـرَنَا بِلَیْلَۃِ الْقَدْرِ فَتَلَاحٰی رَجُلَانِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ فَقَالَ خَرَجْتُ لِاُخْبِـرَکُمْ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فَتَلَاحٰی فُلَانٌ وَفُلَانٌ فَـرُفِــعَــتْ وَعَــسٰی اَنْ یَّــکُــوْنَ خَــیْــرًا لَّــکُـــمْ فَالْتَمِسُوْھَا فِی التَّاسِعَۃِ وَالسَّابِعَۃِ وَالْـخَامِسَۃِ (بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر باب رفع معرفۃ لیلۃ القدر) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں لیلۃ القدر کی خبر دینے باہر نکلے.باہر دوآدمی لڑ رہے تھے آپ نے تقریر کی اور فرمایا میں تو لیلۃالقدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے حافظہ سے اس کا علم اٹھا لیا اور شاید اسی میں بہتری ہو.اب تم اسے انتیسویںیا ستائیسویں یا پچیسویں رات میں تلاش کرو.لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں ان روایات میں جن میں سے اکثر صحاح کی ہیں بہت اختلاف پایا جاتا ہے.رمضان کی پہلی تاریخ سترھویں، انیسویں، اکیسویں، تیئیسویں، چوبیسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں اور تیسویں ساری ہی تاریخوں کو لیلۃالقدر قرار دیا گیا ہے اور عبداللہ بن مسعودؓکے ایک قول کے مطابق تو سارے سال میں کوئی سی رات بھی لیلۃالقدر ہو سکتی ہے (تفسیر ابن کثیر زیر سورۃ القدر).لیکن حدیثوں پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے صحیح قول یہی ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں میں سے کوئی رات اور خصوصاً طاق راتوں میں سے کوئی رات لیلۃالقدر ہوتی ہے.ان روایتوں کو ملا کر دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے اترنے کی خواہ کوئی رات ہو لیلۃالقدر اس رات کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ وہ بدلتی رہتی ہے اور رمضان کی آخری راتوں میں سے کسی رات کو اس کا ظہور ہوسکتا ہے کیونکہ اگر قرآن کریم کے اترنے کی رات ہی لازماً لیلۃالقدر قرار دی جاتی.تو اوّل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے کہ مجھے لیلۃالقدر کا علم دیا گیا تھا مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے بھول گیا ہے آخر قرآن کریم آپ

Page 485

پر اترا تھا آپ کو وہ رات یاد ہوگی اور اگر یاد نہ بھی ہوگی توآپ کو اس آیت سے یہ تو علم ہوگیاتھا کہ لیلۃ القدر صرف قرآن کریم کے نازل ہونے کی رات ہے اور یہ راتیں کئی نہیں ہو سکتیں ایک ہی رات ایسی ہو سکتی ہے.اس صورت میں آپ یہ کیوں فرمایا کرتے کہ فلاں راتوں میں اس کی تلاش کرو.دوسرے یہ کہ ایک دفعہ آپ کو لیلۃ القدر بتائی گئی اور وہ اکیسویں رات کو ظاہر ہوئی باوجود اس کے آپ لوگوںسے یہی کہتے رہے کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو.حالانکہ اگر وہ ایک معین رات ہوتی تو اس کے بعد اسے ہمیشہ رمضان کی اکیسویں رات بتاتے رہتے.پس معلوم ہوا کہ (۱) آپ قرآن کریم کے نزول کی رات کو لازماً ہمیشہ کے لئے لیلۃ القدر نہیں قرار دیتے تھے (۲)آپ اس کے سوا دوسری راتوں میں سے بھی کسی کو ہمیشہ کے لئے معین لیلۃ القدر نہیں قرار دیتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک تو یہ رات قرآن کریم کے نزول کی یاد میں مقرر کی گئی تھی اور گو اس یادگار کو رمضان کے آخری عشرہ سے مخصوص کر دیا گیا تھا مگر نزول کی رات سے مخصوص نہیں کیا گیا تھا.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گویہ رات نزول قرآن کی یاد میں ہے مگر قرآنی طریق کے مطابق اس سے مزید فائدہ بھی اٹھالیا گیا ہے.کسی واقعہ کی یاد کے لئے کسی آس پاس کے دن کو مقرر کردیا جائے تو وہ دن وہی فائدہ دیتا ہے جو فائدہ نزول کے دن اس یاد گار کو منانا.لیکن اگر ایک ہی رات ہمیشہ کے لئے مخصوص کر دی جائے تو عبادت کی وہ کثرت نہیں ہو سکتی جو غیرمخصوص صورت میں ہوسکتی ہے.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی یاد کو آخری عشرہ میں کسی رات میں مقرر کر کے یہ فائدہ مسلمانوں کے لئے پیدا کر دیا کہ بجائے ایک دن کے وہ دس دن جوش و خروش سے عبادت کریں.اگر وہ ایک دن کو لیلۃ القدر مقرر کر دیتا تو کمزور آدمی صرف ایک رات عبادت کرکے خوش ہو جاتا لیکن اس صورت میں کم سے کم دس راتیں تو وہ عبادت میں لگا رہے گا کیونکہ اسے خیال ہوگا کہ شاید یہ رات لیلۃ القدر ہو یا شاید وہ ہو اور اس طرح ایک رات کی جگہ دس راتیں متواتر قرآن کریم کے نزول کی نسبت اور اس کی برکات کی نسبت سے غور کرنے کا موقعہ ملتا رہے گا اور ان راتوں میں سے ہر رات کو لیلۃ القدر کا خیال آتارہے گا اور لیلۃ القدر کا خیال آتے ہی قرآن کریم کے نزول اور اس کی برکات کی طرف اس کا ذہن چلا جائے گا اور یہ ایک بہت بڑی برکت اور روحانی فائدہ والی بات ہے.آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کو مقرر کرنے میں یہ حکمت ہے کہ خدمت کے ایام کا آخری وقت ہی انعام کا وقت ہوتا ہے.اس وقت تک میں نے یہ بتایا ہے کہ احادیث میں مذکورہ لیلۃ القدر بھی ایک جہت سے اسی لیلۃ القدر سے تعلق

Page 486

رکھتی ہے جس میں قرآن کریم نازل ہواتھا اور یہ کہ ان معنوں کے روسے اصل لیلۃ القدر وہی رات ہے جس میں قرآن کریم نازل ہوا تھا اور صرف اس کی یاد تازہ رکھنے کے لئے اور اس عہد کو تازہ کرنے کے لئے جو نزول قرآن کریم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے اس امت سے باندھا تھا اس نے لیلۃ القدر مقرر کی ہے اور اس فائدہ کو مد نظر رکھ کر کہ امت کے کمزور لوگ بھی کم سے کم دس راتیں تو خوب عبادت کرلیں اس نے رمضان کی آخری دس راتوںمیں اسے چھپا دیا ہے اور معین رات مقرر نہیں کی.تاکہ اس کا قیام صرف ایک رسم ہو کر نہ رہ جائے جسے اسلام بہت نا پسند کرتا ہے.اب جو چاہے رمضان کی آخری راتوں میں اسے تلاش کر سکتا ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو دس راتوں میں تلاش کرے گا اسے دین کے ساتھ پہلے سے زیادہ لگائو ہو جائے گا اور اس کے دل میں دین کی محبت پیدا ہو جائے گی اور اس سے یہ امید کی جاسکے گی کہ پہلی غلطیوں کو چھوڑ کر پورے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے اور کسی وقت اس کی ہر رات ہی لیلۃ القدر ہو جائے گی.انفرادی لیلۃ القدر عبداللہ بن مسعودؓ اور دوسرے بزرگان دین سے جویہ روایت ثابت ہے کہ لیلۃ القدر سال میں سے کسی رات کو ظاہر ہو سکتی ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ انفرادی لیلۃ القدر سال میں کسی وقت آسکتی ہے ورنہ ان کایہ منشاء نہیں کہ رمضان میں یہ لیلۃ القدر نہیں ہوتی.کیونکہ خود ان کی دوسری روایات میں رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کے ظاہر ہونے کا ثبوت ملتا ہے چنانچہ وہ روایات اوپر نقل کی جا چکی ہیں.ہم یہ تو خیال بھی نہیں کر سکتے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کو رد کردیا.صحابہؓ سے اس بات کی ہر گز امید نہیں کی جا سکتی ہے.پس ان کے اس قول کے کہ سال کے کسی حصہ میں بھی لیلۃ القدر آسکتی ہے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ فردی لیلۃ القدر سال کی کسی رات کو آسکتی ہے نہ یہ کہ جماعتی لیلۃ القدر جسے وہ خود بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت سے رمضان کی آخری راتوں میں قرار دے چکے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ہر مومن پر روحانیت کی بلوغت کا زمانہ آتا ہے آخر ہر شخص پیدائش کے وقت سے تو روحانیت میں کامل نہیں ہوتا.اکثر لوگوں پر جسمانی بلوغت کے بعد ہی کسی وقت روحانی بلوغت کا زمانہ آتا ہے.بعض کو جوانی میں بعض کو ادھیڑ عمر میں اور بعض کو بڑھاپے میں اور بعض کو بڑھاپے کے آخر میں.جس رات بھی کسی مومن کی نسبت اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہوجاتا ہے کہ اب سے یہ ہمارا قطعی جنّتی بندہ ہے وہی اس کی لیلۃالقدر ہے اور اس کے لئے رمضان کی کوئی شرط نہیں سارے سال میں کسی وقت کسی کی لیلۃالقدر آسکتی ہے.اللہ تعالیٰ رحمان رحیم ہے اور اس کی یہ دونوں صفات ہر وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں پس ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کے معیّن اوقات

Page 487

کے علاوہ کوئی اور سلسلہ بھی اس کے فضلوں کا ہوتا جو ہر وقت اور ہر لحظہ ظاہر ہوتا رہتااور یہ انفرادی فضلوں کا ہی سلسلہ ہے کسی مومن بندہ کی لیلۃالقدر کسی دن آجاتی ہے کسی کی کسی دن.اور اس طرح روزانہ سارے سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل اس کے نیک بندوں پر نازل ہوتے رہتے ہیں.پھر سال میں ایک دفعہ قرآن کریم کے نزول کی یاد میں ساری امت پر ایک ہی رات رمضان کے آخری عشرہ میں اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتا ہے اور وہ لیلۃالقدر کبریٰ ہوتی ہے.اس جگہ یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ بے شک آخری عشرہ رمضان میں لیلۃالقدر کا مقرر کرنا ایک احسن طریقہ مومنوں کو انعام دینے اور ان کی عبادت کی روح کے قائم رکھنے کا تھا لیکن پھر یہ کیوں ہوا کہ کبھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آخری عشرہ میں اس کی تلاش کرو اور کبھی فرمایا کہ ۲۱کو ہوتی ہے کبھی ۲۴ کو اور کبھی کئی طاق راتوں کا ذکر کردیا.آپ نے تعیین کرنے کی کیوں کوشش کی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل قانون تو لیلۃالقدر کے بارہ میں یہی ہے کہ آخری عشرہ میں بدل بدل کر آتی ہے لیکن مومن کو اللہ تعالیٰ اس کا خاص علم دے دیتا ہے چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ علم دیا گیا کہ لیلۃالقدر کی رات کو بارش ہوگی اور آپ کی مسجد ٹپک پڑے گی چنانچہ رمضان کی ۲۱ کو ایسا ہو گیا.جن صحابہ کو اس کا علم ہوا انہوں نے یہ سمجھا کہ شاید لیلۃالقدر ہوتی ہی ۲۱ کو ہے.حالانکہ اس کا صرف یہ مطلب تھا کہ اس رمضان میں لیلتہ القدر۲۱ کوتھی.اسی طرح ایک دوسرے موقعہ پر آپ کو لیلۃ القدر بتائی گئی اور بھول گئی توآپ نے آخری طاق راتوںمیں سے کوئی اور خصوصاً ۲۷کو لیلۃالقدر قرار دیا.پس جہاں تک آخری عشرہ میں لیلۃالقدر ہونے کا سوال ہے یہ ایک قانون ہے اور جہاں تک اس عشرہ کی کسی خاص رات کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ یا دوسرے آئمہء امت کا اشارہ ہے وہ خاص خاص رمضانوں میں ان کے آسمانی یا وجدانی علم کا نتیجہ ہے یہ قانون نہیں بتایا گیا کہ ہمیشہ اسی رات کو لیلۃالقدر ہوا کرے گی.لیلۃ القدر کی ایک علامت ایسے موقعہ پر طبعاًیہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی ایسی علامت ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ فلاں رات اس رمضان میں لیلۃالقدر تھی؟اس کا جواب یہ ہے کہ بعض احادیث میں یہ آتا ہے کہ کچھ بجلی چمکتی ہے ہوا ہوتی ہے اور ترشح ہوتا ہے ایک نور آسمان کی طرف جاتا یا آتا نظر آتا ہے(شرح الزرقانی، النوع الخامس فی ذکر اعتکافہ صلی اللہ علیہ وسلم) مگر اوّل ذکر علامات ضروری نہیں گو اکثر ایسا تجربہ کیا گیا ہے کہ ایسا ہوتا ہے اور آخری علامت نور دیکھنے کی صلحاء کے تجربہ میں آئی ہے یہ ایک کشفی نظارہ ہے ظاہری علامت نہیں جسے ہر اِک شخص دیکھ سکے.خود میں نے بھی اس کا تجربہ کیا ہے لیکن جو کچھ میں نے دیکھا ہے دوسروں نے نہیں دیکھا.

Page 488

اصل طریقہ یہی ہے کہ مومن اللہ تعالیٰ سے سارے رمضان میں دعائیں کرتا رہے اور اخلا ص سے روزے رکھے پھر اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس پر لیلۃ القدر کا اظہار کر دیتا ہے.وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِؕ۰۰۳ اور (اے مخاطب) تجھے کیا معلوم ہے کہ (یہ عظیم الشان)تقدیر والی رات کیا شے ہے.تفسیر.تجھے کس نے بتایا ہے کہ لیلۃالقدر کیا چیز ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا یہاں جو منشاء ہے اور جس بات کی طرف اشارہ کرنا ہمارے مد نظر ہے عقلی طور پر تم اس کا اندازہ نہیں کرسکتے.یعنی انسانی ذہن تو لیلہ سے زیادہ سے زیادہ تاریکی کی طرف جاتا ہے مگر ہماری مراد اس لیلۃالقدر سے ہے جو بے انتہاء برکتوں پر مشتمل ہے اور جس کی عظمت کی طرف عام طور پر انسانی ذہن جاہی نہیں سکتا.اس طرح وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ کہہ کر معنوں کو بہت وسعت دے دی کیونکہ اس کے معنے ہیں حدقیاس وفہم سے بالا.لَيْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕؔ۰۰۴ (یہ عظیم الشان )تقدیر والی رات تو ہزار مہینے سے بھی بہتر ہے.حلّ لُغات.شَھْرٌ کےمعنے شَھْرٌ کے معنے عربی زبان میں اظہار کے بھی ہوتے ہیں.کیونکہ یہ شَھَرَ کا مصدر بھی بن سکتا ہے.نیزشَھْرٌ قمر کو بھی کہتے ہیںجب وہ اپنے کمال کے قریب ہو.اسی طرح شَھْرٌ مہینہ کو بھی کہتے ہیں اور شَھْرٌ کے معنے عالم کے بھی ہیں کیونکہ وہ مشہور ہوتا ہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے ہم جس لیلۃالقدر کا ذکر کر رہے ہیں گو اس کا نام لیلہ ہے مگر درحقیقت وہ خَیْرٌ ہزار شَہْر سے بھی زیادہ اچھی ہے.خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کے پہلےمعنے شَھْرٌ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے اظہار کے بھی ہوتے ہیں اور شَھْرٌ قمر کو بھی کہتے ہیں جب وہ اپنے کمال کو پہنچ جائے اور شَھْرٌ مہینہ کو بھی کہتے ہیں اور اس کے معنے مشہور عالَم عالِم کے بھی ہیں.پس خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کے ایک یہ معنے ہوئے کہ یہ لیلۃالقدر ہزار اظہار سے بھی بہتر ہے.لَیْل کے متعلق یہ ہر شخص جانتا ہے کہ وہ تاریکی پیدا کر دیتی اور اشیاء کو لوگوں کی نگاہوں سے چھپا دیتی ہے

Page 489

مگر فرماتا ہے کہ جس رات کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ ایک لحاظ سے تو رات ہے کہ اس میں ہزاروں قسم کے فتنے پائے جاتے ہیں اور بے دینی اور الحاد کا زور ہے لیکن اس کے ساتھ اس رات اللہ تعالیٰ کے جلال کے اظہار اور انسانی فطرۃ کی پوشیدہ نیکیوں کے نمود کے بھی اتنے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ وہ اپنے وقت پر دنیا کو محو حیرت کر دیں گے اس لئے اس رات کی مخفی طاقتوں پر ہزار اظہار اور نمود قربان ہے کیونکہ جس اظہار اور جس نمود کی بنیاد اس میں رکھی جا رہی ہے اس کے مقابلہ پر کوئی اور اظہار اور نمود نہیں ٹھہر سکتا.پس گو یہ رات ہے مگر نیکی کی عظیم الشان بنیاد رکھے جانے کی وجہ سے ہزاروں ترقیوں کا زمانہ اس پر قربان ہے.دوسرے معنے دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ یہ مومنوں کے لئے رات کا زمانہ ہے کہ انہیں ہر قسم کی تکالیف دی جاتی ہیں ،مارا جاتا ہے،پیٹا جاتا ہے.قتل کیا جاتا ہے.لیکن یہ رات چونکہ قدر کی رات ہے اس لئے اس زمانہ کی تکالیف اور دکھ آئندہ کے آرام اور سکھ سے زیادہ قیمتی ہیں.آج وہ زمانہ ہے کہ جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے وہ اپنی تمام عزتوں کو کھو بیٹھتا ہے.ہر قسم کے طعن وتشنیع کا ہدف بن جاتا ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ اس جیسا برا شخص اور کوئی نہیں.مگر اس ذلت میں جو مزا ہے ،ان قربانیوں میں جو راحت ہے اور ان تکالیف میں جو سرور ہے وہ ان ہزار عزتوں میں نہیں جو اسلام کی ترقی کے زمانہ میں لوگوں کو حاصل ہوں گی.چنانچہ دیکھ لو ابوبکرؓاپنی قوم میں بڑا نیک نام تھا سارا عرب اس کی عزت کرتا تھا ،اس کا ادب اور احترام کرتا تھا مگر جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرید بن گیا تو وہی لوگ جو اس کی عزت کرتے تھے اسے گالیاں دینے لگ گئے، اسے برا بھلا کہنے لگے،اسے مارنے پیٹنے لگے اور کہنے لگے کہ ابوبکرؓ اچھا تھا مگر اب خراب ہو گیا ہے.علیؓ بڑانیک بچہ تھا اس کا باپ عرب کے سرداروں میں سے تھا مگر جب وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا یا تو لوگ کہنے لگے وہ واجب القتل ہے.اس کا مقاطعہ کیا گیا اس کے منہ پر گالیاں دی جاتیں.اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اور لوگ خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑااچھا کام کیا.عمرؓاپنی مجالس میں بڑی عزت رکھتا ،اہل عرب کے نسب نامہ کے لئے وہ بہترین مؤرخ سمجھا جاتا، نوجوانی کی حالت میں بڑے بڑے سرداروں کی مجلس میں جاتا تو لوگ اسے ادب کے مقام پر بٹھا تے ،اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے مگر جب وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تو سب لوگ اسے برا بھلا کہنے لگ گئے.اس کی مدح سرائی کی بجائے عیب چینی کی جا تی اور اس کو دکھ دے کر خوشی محسوس کی جاتی.عبداللہ بن سلامؓایمان لائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا امتحان لینے کے لئے ان کو جمع کیا اور فرمایا بتائو عبداللہ بن سلام کیسا ہے؟انہوں نے کہا عبداللہ بن سلام کا کیا کہنا ہے نیکوں کا بیٹا،

Page 490

اچھوں کی اولاد ،خود بھی شریف اور باپ دادا بھی شریف اس کی نیکی کی کوئی حد ہے ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اچھا سنو!وہ مسلمان ہو گیا ہے.یہ سنتے ہی کہنے لگے بڑا خبیث ہے، خبیثوں کا بیٹا تھا اسی لئے خبیث نکلا.(البدایۃ والنھایۃ زیر باب فصل فی اسلام عبد اللہ بن سلام) غرض فرمایا ہم نے قرآن کریم کو ایک قدر والی رات میں نازل کیا ہے.یہ رات لوگوں کی ظاہری عزتوں کو بالکل چھپا ڈالے گی لوگ نیک ہوں گے، معزز ہوں گے،اچھی شہرت رکھنے والے ہوں گے مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد ان کی عزت اور شہرت اور نیک نامی پر رات چھا جائے گی وہ لوگوں کے مطاعن کا ہدف بن جائیں گے اور لوگ کہیں گے کہ وہ بہت برے ہیں.مگر یہ نہ سمجھو کہ یہ تاریک زمانہ ان کے لئے ذلت کا موجب ہو گا بلکہ نبی کی خاطر اور اس کی معیت میں یہ تکالیف اٹھانا شہرتوں سے اچھا اور زیادہ مبارک ہے.اس زمانہ کے بعد شہرتوں کا زمانہ آئے گا.لوگ اسلام کی وجہ سے بڑی بڑی شہرتیں پائیں گے ،بڑی عزتوں سے دیکھے جائیں گے ،بے انتہاء دنیا کمائیں گے مگر ان کی ظاہری عزتیں اور شہرتیںان مار کھانے والوں کے مقابل ہیچ ہوں گی.چنانچہ دیکھ لو اسلام کے طفیل اور اس کے حلقۂ اثر میں لوگوں نے کتنی کتنی عزت پائی.کتنا رتبہ پایا دینداروں نے بھی اور دنیاداروں نے بھی.مگر وہ اس رات میں پیدا ہونے والے لوگوں کا بھلا کیا مقابلہ کر سکتے ہیں.دین میں امام ابوحنیفہ، امام مالک،امام شافعی،امام احمد بن حنبل.حضرات سید عبدالقادر جیلانی،معین الدین چشتی، شہاب الدین سہروردی، محی الدین ابن عربی نقشبندی، امام غزالی نے اپنے زمانہ میں کتنی عزت پائی.بادشاہ جوتیاں سامنے رکھنے میں اپنی عزت خیال کرتے تھے یہ عزت ان کی اسلام ہی کی وجہ سے تھی.اس کے مقابل پر ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ بلکہ ان کے اور ہمارے آقامحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لیلۃالقدر کے زمانے میں ماریں کھائیں گالیاں سنیں.مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ان کے بعد کے بزرگوں کی ترقی کا زمانہ سابق بزرگوں کے تاریک زمانہ سے بہتر تھا.خدا گواہ ہے کہ اگر ان بزرگوں سے کہا جاتا کہ تمہاری عمر بھر کی شہرت چھین کر ایک گھنٹہ کے لئے تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ پر مار کھانے کے لئے کھڑاکیا جا سکتا ہے تو ان پر شادی مرگ کی حالت طاری ہو جاتی اور وہ کہتے کہ بخدا اس سے بہتر اور کوئی سودا نہیں ہو سکتا.اس آیت میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے اور بتا یا گیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں پر کیا برا زمانہ آیا ہے مگر اے سننے والے سن!کہ یہ برا زمانہ تو ضرور ہے تاریکی اپنی انتہا ء کو پہنچی ہوئی ہے مگر یہ تاریک رات لیلۃالقدر ہے.جو عزت اس رات میں پیدا ہونے سے انسان کو حاصل ہوتی ہے وہ عزت ہزار شہرتوں اور عزتوں سے بالا ہے اور

Page 491

آئندہ زمانہ میں بڑی بڑی عزتوں والے لوگ اس تنگی اور دکھ کی رات کے ایک گھنٹہ کو اپنی باعزت زندگیوں کے سو سال پر ترجیح دیں گے اور دیکھ لوایسا ہی ہوا قرآن کریم کی یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.ہم میں سے کس کا دل نہیں کرتا کہ کاش وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اسلام کی خاطر کفار کی ماریں کھا رہا ہوتا.کاش وہ ان کی سخت سے سخت گالیاں سن کر مزے لے رہا ہوتا.اصدق الصادقین خدا کا یہ فقرہ کیسا سچا ہے کہ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.یہی حال دنیوی لوگوں کا ہوتا ہے.نبی کے زمانہ کے لوگ تو تکالیف اور مصائب برداشت کرتے ہیں اور بعد میں آنے والے ان کے بوئے ہوئے بیجوں کے پھل کھاتے ہیں.بنو عباس اور بنو امیہ اپنے تختوں پر بیٹھ کر کیا کیا بڑائیاں کرتے ہوں گے.کس طرح فخر سے کہتے ہوں گے تم جانتے ہو ہم کون ہیں ہم عرب کے سردار ہیں.ہمارے فلاں فلاں حقوق ہیں.ہمارے مقابلہ میں تم کیا حیثیت رکھتے ہو.مگر سوال یہ ہے کہ بنو عباس اور بنو امیہ کو بادشاہت کہاں سے ملی؟ان بیجوں سے ملی جو ابوبکرؓاور عمر ؓاور عثمان ؓاور علیؓاور طلحہؓاور زبیر ؓ اور دوسرے صحابہؓ نے بوئے.ان لوگوں نے بے شک اپنی قربانیوںکے پھل نہیں کھائے مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک کون بڑا ہے کیا عبدا لملک بڑا ہے یا ہارون الرشید بڑا ہے؟خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ لوگ بڑے نہیں بلکہ ابو بکر ؓ.عمرؓ.عثمانؓ.علیؓ.طلحہؓ اور زبیرؓ بڑے ہیں.بلکہ یہ تو الگ رہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک ابوہریرہؓ بڑا ہے جسے بعض دفعہ سات سات وقت تک کا کھانا بھی میسر نہیں آتا تھا بلکہ ابوہریرہ ؓتو کیا ان سے بلالؓ بھی بڑا ہے وہ خواہ غلام تھا مگر اسلام سے پہلے اس کی پھر بھی کچھ عزت تھی جب وہ اسلام لایا تو اس کے اعمال اور اس کی نیکی اور اس کی خصلتوں پر بھی ایک پردہ پڑ گیا اور لوگوں نے اسے برا بھلا کہنا شروع کر دیا مگر انہی تکالیف نے اسے وہ رتبہ بخش دیا کہ ہارون الرشید اور عبدالملک کو اگر اس کے دروازے کی جاروب کشی کی خدمت دی جاتی تو یہ بادشاہت سے زیادہ اعزازہوتا.یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے یا کسی اور نبی پر ان کو ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی آخر ان میں کوئی نہ کوئی خوبی پائی جاتی تھی ورنہ جب تک انسان کی فطرت میں نیکی نہ ہو قربانی پر کون تیار ہو سکتا ہے.مگر واقعات بتاتے ہیں کہ جب بھی کسی نبی پر لوگ ایمان لاتے ہیں ان کی نیکیاں لوگوں کو بھول جاتی ہیں اور ان کے اخلاق سب نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں اور وہ دنیا کی نگاہ میں بالکل ذلیل ہو جاتے ہیں.ہمارے سلسلہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایک زمانہ میں بادشاہ بھی شامل ہوں گے اور جماعت احمدیہ ترقی کرتے کرتے وہ مقام حاصل کر لے گی کہ دنیا کے تمام مذاہب

Page 492

اس کے مقابلہ میں بالکل بے حقیقت رہ جائیں گے.اس وقت جماعت احمدیہ کے علماء کو خواہ کتنی بڑی عزت حاصل ہو اگر ان کے دلوں میں ایمان کا ایک ذرہ بھی پایا جاتا ہو گا تو وہ اپنی ساری عزت اس ذلت کے مقابلہ میں ہیچ سمجھیں گے جو موجودہ زمانہ میں احمدیت کو قبول کرنے کی وجہ سے ہماری جماعت کو دیکھنی پڑتی ہے.میں سمجھتا ہوں اگر امام ابو حنیفہ، امام احمد بن حنبل، امام شافعی اور امام مالک وغیرہ سے اس زمانہ میں جب دنیا میں چاروں طرف ان کا نام گونج رہا تھا یہ کہا جاتا کہ کیا تم پسند کرتے ہو کہ تم سے یہ ساری عزت لے لی جائے اور تمہیں ابوہریرہؓ کی جگہ کھڑا کر دیا جائے تو وہ بلاتوقف یہی جواب دیتے کہ ہمیں منظور ہے حالانکہ ابوہریرہؓ جو بسا اوقات فاقہ کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے اور لوگ یہ سمجھ کر کہ انہیں مرگی کا دورہ ہو گیا ہے ان کے سر پر جوتیاں مارا کرتے.غرض فرماتا ہے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ.ہزار عزتیں جو لوگوں کو آئندہ زمانہ میں حاصل ہوں گی اس ایک لیلۃ پر قربان ہیں.ہم بے شک گمنامی کے لحاظ سے اس زمانہ کو لیلۃ قرار دے رہے ہیں مگر یہ لیلۃ وہ ہے کہ ہزار ظہور اس ایک گمنامی پر قربان ہوگا.(۲) شَھْرٌ کے معنے عالِم کے بھی ہیں ان معنوں کے روسے اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اس لیلۃ القدر میں جو معارف اور علوم کھلے ہیں وہ ہزار عالم سے بہتر ہیں.ا س میں کیا شک ہے کہ زمانہء نبوی میں جو تاریکی اور بے دینی میں سارے زمانوں سے بڑھا ہوا تھا قرآن کریم کے ذریعہ سے جو علوم ظاہرہوئے اور خدا تعالیٰ نے عرفان کے جو دریا اس وقت بہادیئے ان کے مقابل پر ہزار عالم بھی تو کچھ بیان نہیں کرسکتا.مسیحی لوگ کہا کرتے ہیں کہ قرآن پہلی کتب کی نقل ہے اور میں انہیں جواب میں کہا کرتا ہوں کہ وہ کتب جن کی قرآن نے نقل کی ہے اور خود قرآن بھی جو ان کی نقل ہے تم سب مسیحی علماء مل کر اس نقل اور جن کتابوں کی وہ نقل ہے ان سب سے استنباط کرکے اب ایک اور مکمل کتاب کیوں نہیں بنادیتے.آخر وہ کتب بھی موجود ہیں قرآن کریم بھی موجود ہے اور اس کے بعد جو علوم لوگوں کے نزدیک نئے نکلے ہیں وہ بھی موجود ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ان لوگوں کے لئے زیادہ موقعہ ہے وہ کیوں اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ایک اور کتاب امور دینیہ اور احکام شریعیہ کے بارہ میں ایسی نہیں بنادیتے جو قرآن کریم سے افضل ہو.اگر وہ ایسا کردیں تو بغیر کسی اور دلیل کے اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا.مگر منہ سے رطب ویابس باتیں کرتے جانا اور امر ہے اور کچھ کرکے دکھانا اور بات ہے.حقیقت یہی ہے کہ اس لیلۃ القدر میں جو علوم اللہ تعالیٰ نے ظاہر کئے اس کے مقابل پر دنیا کے علماء مل کر بھی کچھ نہیں کرسکتے اور قرآن کریم نے جو یہ کہا کہ ہزار عالم سے بھی وہ لیلۃ القدر اچھی ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ ڈیڑھ ہزار اس سے اچھا ہے.بلکہ بات یہ ہے کہ عربوں میں ہزار

Page 493

سے اوپر کوئی ہندسہ نہ ہوتا تھا.جب انہوں نے انتہاء کی طرف اشارہ کرنا ہوتا تھا تو وہ ہزار کا ہندسہ بولتے تھے.(الجامع لاحکام القراٰن زیر آیت لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ) اس عربی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے ہزار کا لفظ بولا ہے اور مطلب یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ عالم مل کر بھی وہ علوم بیان نہیں کرسکتے جو اس لیلۃ القدر میں نازل ہونے والے کلام یا نازل ہونے والے نبی نے بیان کئے ہیں.یا آئندہ ایسے ہی تاریک زمانوں میں خدا تعالیٰ کے مامور بیان کریں گے.اس مضمون سے مسلمانوں کو اس طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب جب بھی اسلام پر کوئی مصیبت کا زمانہ آئے انہیں علماء ظاہر کی امداد پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے.بلکہ انہیں چاہیے کہ ایسے تاریک زمانوں میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اترنے والی امداد کی طرف نظر رکھا کریں کہ جو کچھ آسمانی امداد اور ہدایت سے انہیں حاصل ہوگا وہ ظاہری علماء کی مجموعی کوششوں سے حاصل نہ ہوسکے گا.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا.یہ زمانہ اسلام کے گزشتہ زمانوں سے زیادہ تاریک ہے.بعدزمانہ نبوی ایسا سخت زمانہ اسلام پر کبھی نہیں آیا.لیکن مسلمان اس بلاء کے دور کرنے کے لئے انسانوں پر زیادہ نظر رکھتے ہیں بہ نسبت خدا کے.خدا تعالیٰ نے ان دنوں میں بھی حسب بشاراتِ قرآنیہ اور حسب وعدہ اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِيْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ اپنا ایک معمور بھیجاہے.لیکن لوگوں کی اس طرف توجہ نہیں بلکہ خود ساختہ علاجوں کی طرف مائل ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ان کی حالت پر رحم فرمائے.تیسرے معنے (۳) تیسرے معنے شَھْرٌ کے مہینہ کے بھی ہیں.ان کے رو سے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کہ یہ معنے بھی ہیں کہ وہ زمانہ جس میں قرآن کریم نازل ہوا یا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نازل ہوئے یا وہ زمانہ جس میں آپ کے بروزِ کامل نازل ہوں گے ہزار مہینوں سے اچھا ہے.یعنی تمام زمانوں سے اچھا ہے.کیونکہ میں اوپر بتا آیا ہوں کہ عربوں میں ہزار کے معنے ان گنت کے ہوتے تھے.کیونکہ ان کے اندر ہزار سے بڑھ کر کسی گنتی کا رواج نہ تھا.جب انہوں نے یہ بتانا ہوتا کہ فلاں چیز تو ان گنت ہے تو وہ کہتے تھے کہ وہ تو ہزار ہے.پس اسی محاورہ کے مطابق قرآن کریم نے کہا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یا قرآن کریم کا زمانہ یا ان کے بروز کا زمانہ ہزار مہینہ سے اچھا ہے یعنی ان گنت مہینوں سے اچھا ہے.کوئی دوسرا زمانہ ان کا مقابلہ نہیں کرسکے گا خواہ آئندہ کا زمانہ ہو یا گزشتہ زمانہ ہو.عربوں کے متعلق ایک لطیفہ مشہور ہے جس سے اَلْفِ شَهْرٍ کے معنے خوب روشن ہوجاتے ہیں.کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ نے ایک بدوی سے پوچھاکہ مانگو کیا مانگتے ہو.اس نے کہا ہزار دینار دے دیں.بادشاہ نے کہا بس اس سے زیادہ مانگو.اس پر وہ بدوی حیرت سے بولا کیا ہزار سے اوپر بھی کوئی چیز ہوتی ہے؟

Page 494

چوتھے معنے (۴) چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہزار سے مراد ہزار ہی کے لئے جائیں.یہ معنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناقص اظلال کے متعلق صحیح اترتے ہیں.کیونکہ آپ نے اپنے ناقص اظلال یا مجددوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ ہر صدی کے سر پر آئیں گے اور ہزار مہینے کا عرصہ تراسی سال اور چار مہینہ کا ہوتا ہے اور اتنی مدت صدی سے گزرجائے تو صدی کا سر آجاتا ہے.پس ہزار کے مہینے لفظاً ہزار کے لے کر اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ ہم قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مجددوں اور آپ کی تعلیمات کے وجود میں ہرصدی کے سر پر نازل کرتے رہیں گے اور ان مجددوں کا زمانہ باقی تراسی سال سے بہتر ہوگا.یعنی امت ان کی نگرانی میں جو برکات حاصل کرے گی ان کی عدم موجودگی میں وہ برکات حاصل نہ کرسکے گی.پانچویں معنے (۵) پانچویں معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی تعلیم جس زمانہ میں رائج ہو وہ زمانہ دوسرے سب زمانوں سے مقدم ہے.ہم دیکھتے ہیں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے ادبار کو دیکھ کر بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ تم جس اسلامی حکومت کی تعریف کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور کہتے ہو کہ اسلامی حکومت دنیا میں مساوات قائم کرتی ہے.اسلامی حکومت غرباء کو ان کے حقوق دلاتی ہے.اسلامی حکومت ہر قسم کے جھگڑوں اور مناقشات کا سدباب کرتی ہے.اسلامی حکومت دنیا میں بین الاقوامی صلح کی داغ بیل ڈالتی ہے.اسلامی حکومت دولت کو چند محدود ہاتھوں میں نہیں رہنے دیتی.اسلامی حکومت غرباء کو آگے بڑھنے کے مواقع بہم پہنچاتی ہے.وہ حکومت گئی کہاں؟ اگر تیس سال تک وہ دنیا میں رہی اور پھر اس کا خاتمہ ہوگیا تو اس اسلامی حکومت کا فائدہ کیا ہوا؟اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیس سال نہیں اگر وہ ایک رات کے لئے بھی قائم ہو تب بھی وہ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ ہے کیونکہ وہ دنیا میں آکر ایک بیج تو بوگئی ہے، ایک نمونہ تو قائم کرگئی ہے.اگر اس کی شکل اب قائم نہیں رہی تو کیا ہوا.جب دنیا میں بیداری پیدا ہوگی وہ مجبور ہوگی کہ حکومت کو ان بنیادں پر قائم کرے جو اسلام نے آج سے تیرہ سو سال پہلے کھڑی کی تھیں.اگر یہ نمونہ دنیا میں قائم نہ ہوچکا ہوتا تو دنیا اپنی ترقی کے لئے کیا کرسکتی تھی.وہ اندھیروں میں بھٹکتی پھرتی اور اپنی مشکلات کے حل کے لئے کوئی راستہ نہ پاتی.اب بے شک دنیا میں اسلامی حکومت نہیں مگر اسلامی حکومت کا ایک نقشہ تو اس کے سامنے ہے.جب کبھی دنیا کو اپنی حالت بدلنے کا فکر ہوگا، جب کبھی تبدیلی کا احساس رونما ہوگا لوگوں کے سامنے ایک نمونہ موجود ہوگا.وہ کہیں گے آئو ہم اس اسلامی حکومت کی نقل کریں جو آج سے تیرہ سو سال پہلے قائم کی گئی تھی.اس طرح پھر اس نمونہ کے ذریعہ دنیا میں روشنی نمودار ہوگئی اور اس کی مشکلات کا خاتمہ ہوگا.پس اللہ فرماتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد مسلمانوں میں خرابی پید اہوجانے سے اس رات

Page 495

کی قدر کم نہیں ہوسکتی.یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے.ہزار مہینوں میں چونکہ تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں اس لئے لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ کے یہ معنے ہوئے کہ تم اس زمانہ کا کیا ذکر کرتے ہو ، یہ زمانہ تو تیس ہزار زمانوں سے بڑھ کر ہے.اگر بعد میں تاریکی کے تیس ہزار دور بھی آجائیں تب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بے قیمت قرار نہیں دیا جاسکتا.تب بھی یہی کہا جائے گا کہ وہ زمانہ آئندہ آنے والے سب زمانوں سے بڑھ کر تھا.کیونکہ اس زمانہ میں اسلامی حکومت کا وہ ڈھانچہ قائم کردیا گیا تھا جو قیامت تک آنے والے لوگوں کی صحیح راہنمائی کرنے والا اور ان کی مشکلات کو پورے طور پر دور کرنے والا ہے.جو معنے اوپر کئے گئے ہیں ان کے رو سے لیلۃ القدر بمعنے زمانۂ نبوت کی تو تشریح ہوجاتی ہے مگر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اگر لیلۃ القدر سے اشارہ معروف لیلۃ القدر سے ہے تو پھر اس آیت کے کیا معنے ہوئے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے اچھی ہے کیونکہ ہزار مہینوں میں تو تراسی اور لیلۃ القدریں آجائیں گی؟ تواس کا جواب یہ ہے کہ لیلۃ القدر آتی تو ہر سال ہے مگر ہر شخص کو وہ رات میسر تو نہیں آجاتی.جو لوگ سچے تقویٰ اور سچی نیکی سے خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں انہیں خاص توجہ اور خاص خشوع و خضوع کی حالت میں وہ میسر آتی ہے.یعنی گو اس کی عام برکات تو عام مسلمانوں کو ہر سال ہی مل جاتی ہیں لیکن اس کا کامل ظہور جبکہ انسان کو یہ معلوم بھی ہوجاتا ہے کہ آج لیلۃ القدر ہے، خاص خاص آدمیوں کو اور کبھی کبھی ہی نصیب ہوتا ہے.یہ تجربہ درمیانہ درجہ کے مومنوں کو اپنی عمر میں کبھی ایک دفعہ یا دو دفعہ نصیب ہوتا ہے.پس اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں لیلۃ القدر مل جائے اسے سمجھنا چاہیے کہ اس کی ساری عمر کامیاب ہوگئی.اور عمر کا اندازہ تراسی سال لگا کر بتایا ہے کہ ایسے شخص کو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ رات اس کی باقی عمر سے افضل ہے اور اسی رات کی خاطر اس کی زندگی گزری ہے اور یہ رات اس کی زندگی کا نچوڑ ہے.تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ١ۚ (ہرقسم کے) فرشتے اور (اخلاص کی ) روح اس (رات) میں اپنے رب کے حکم سے مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙۛ۰۰۵ تمام (دینی و دنیوی) امور (کی خرابی کو درست کرنے) کے لئے اترتے ہیں.تفسیر.تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا میں اللہ تعالیٰ ایک زائد بات یہ بتاتا ہے کہ اس کی طرف سے

Page 496

صرف کلام نہیں اترتا بلکہ ملائکہ اور روح دونوں کا اس کے ساتھ نزول ہوتا ہے.روح کے معنے کلام کے بھی ہوتے ہیں اور روح کلام الٰہی لانے والے فرشتے کو بھی کہتے ہیں(اقرب).گویا ملائکہ سے مراد عام فرشتے ہیں اور روح سے مراد وہ فرشتے ہیں جو کلامِ الٰہی لانے والے ہوتے ہیں.لیکن چونکہ پہلے الٰہی کلام اور اس کے نازل ہونے کا ذکر ہوچکا ہے اس لئے یہاں روح سے کلام الٰہی لانے والے فرشتے مراد نہیں ہوسکتے بلکہ اس سے کچھ اور مرا دہے جیسا کہ آگے چل کر بیان کیا جائے گا.فرماتا ہے ہماری سنت یہ ہے کہ جب کسی مامور پر ہم اپنا کلام نازل کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی اپنے ملائکہ کو بھی زمین پر نازل کردیتے ہیں.یہاں ملائکہ سے وہی فرشتے مراد ہیں جن کو آدم کے وقت سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ ہم نے صرف اپنا کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں کیا بلکہ ملائکہ کی فوج بھی اس کی تائید کے لئے زمین پر نازل کردی ہے یا آئندہ زمانہ میں قرآن کریم کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے جو مامورین آئیں گے …… وہ اکیلے نہیں آئیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کی تائید اور نصرت کے لئے اور ان کے کام کو چلانے کے لئے ہمیشہ آسمان سے اترتے رہیں گے.پس مت سمجھو کہ اپنی تدابیر سے تم ہمارے مامورین کو مغلوب کرلو گے تم میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایسا کرسکو کیونکہ ملائکہ ان کے ساتھ ہوتے ہیں اور ان کا مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہے.جس طرح اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو بھیجا تو ساتھ ہی فرشتوں کو حکم دے دیا کہ جائو اور اس کو سجدہ کرو.جس کے معنے یہ ہیں کہ فرشتوں کے ماتحت جس قدر چیزیں تھیں وہ آدمؑ کے تابع کردی گئی تھیں.اسی طرح جب بھی خدا تعالیٰ کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے فرشتوں کا لشکر اس کی تائید میں اتار دیتا ہے اور انہیں حکم دیتا ہے کہ جائو اور زمین میں ایسے تغیرات پیدا کرو جو ہمارے مامور کی ترقی کے لئے مفید ہوں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم اپنے مامور کی تائید کے لئے صرف فرشتے ہی آسمان سے نازل نہیں کرتے بلکہ روح بھی نازل کرتے ہیں.تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ میں روح سے مراد روحانیت یہاں روح سے مراد وہ روحانیت اور نئی زندگی ہے جو اہل عالم کے قلوب میں پھونکی جاتی ہے.فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگوں میں روح نہیں تھی وہ بظاہر زندہ نظر آتے تھے مگر مردوں سے بدتر تھے.نہ ان میں قوت فاعلی تھی نہ ان میں ترقی کا احساس تھا نہ ان میں شرافت اور انسانیت کا کوئی جذبہ پایا جاتا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک طرف ملائکہ کی تحریک کے ذریعہ سے انسان کی خوابیدہ فطرت کو بیدار کرنا شروع کردیا اور دوسری طرف مردہ انسانوں میں زندگی کی روح پھونکنی شروع کردی.آخر نتیجہ یہ ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے

Page 497

مردہ زندہ ہوگئے ، بے جان لاشے چلنے پھرنے لگے.صدیوں سے محکوم اور مغلوب قوم کے افراد دنیا کے فاتح اور حکمران بن گئے.عرب جس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں تھی، جسے متمدّن اور مہذب ممالک کی نگاہ میں کوئی وقعت حاصل نہیں تھی اس نے جس رنگ میں اسلام پر ایمان لانے کے بعد ترقی کی ہے اسے دیکھ کر حیرت آتی ہے.چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی وجہ سے ان میں بیداری پیدا ہوگئی تھی اور ان کی مردہ رگوں میں بھی زندگی کا خون دوڑنے لگا تھا اس لئے وہ دنیا میں ایسے عظیم الشان تغیرات پیدا کرنے کاموجب بن گئے جنہوں نے اس کی کایا پلٹ دی.اسی طرح فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی جب کلام الٰہی نازل ہوگا ہمیشہ اس کے ساتھ ملائکہ اترتے رہیں گے جو قلوب میں ایسی روحانیت، ایسی بیداری، ایسی قربانی اور ایسا اخلاص پیدا کریں گے کہ دنیا اسے دیکھ کر محو حیرت رہ جائے گی.زندگی کی ایک نئی روح لوگوں میں پیدا ہوجائے گی اور وہ اپنے ایمان کے نہایت اعلیٰ نمونے دنیا کے سامنے پیش کریں گے.اس زمانہ میں بھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے ایسا ہی ہوگا یہاں تک کہ وہ مسلمان جو کثیر ہونے کے باوجود قلیل ہیں، عالم ہونے کے باوجود جاہل ہیں، زندہ ہونے کے باوجود مردہ ہیں ان میں بھی ایک نئی روح ڈال دی جائے گی.یہی روح ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیحؑ ناصری مردوں میں پھونکاکرتے تھے اور یہی روح ہے جس کی طرف قرآن کریم میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ( الانفال:۲۵) اے ایمان والو! تم خدا اور اس کے رسول کے احکام پر عمل کیا کرو جب وہ تمہیں اس غرض کے لئے بلاتا ہے کہ تمہیں زندہ کرے یعنی تم میں زندگی کی ایک نئی روح پیدا کردے.غرض فرماتا ہے اس زمانہ میں ایک طرف ملائکہ اتریں گے تاکہ وہ دنیا میں ایسے تغیرات پیدا کریں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں ہوں اور دوسری طرف ان تغیرات سے فائدہ اٹھانے کے لئے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں روح ڈالیں گے تاکہ ادھر دنیا میں تغیرات ہوں اور ادھر وہ دنیا پر قبضہ کرلیں.یہی حال آئندہ بھی ہوگا یعنی ملائکہ بھی اتریں گے اور تقدیر خاص بھی نازل ہوگی اور اس طرح مومنوں کے اندر ایک نئی بیداری اور نئی زندگی، نیا جوش اور نیا عزم پیدا کردیا جائے گا.حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کے متعلق ایک دلیل میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میرے ارد گرد ایک بہت بڑا ہجوم ہے جس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا.میں اس کے سامنے تقریر کرتا ہوں اور لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہوں اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نبی نہیں ہیں تو مجھے کوئی ایک ہی غیر نبی ایسا بتادو جو اپنے بعد علماء کی

Page 498

اس قسم کی جماعت پیدا کر گیا ہو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم لدُنّی حاصل ہوتا ہو اور جو اس کے کلام کو سمجھانے والے ہوں.میں رؤیا کی حالت میںاس خصوصیت پر زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں یہ نبی ہی کی شان ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد ایسی جماعت قائم کر دیتا ہے جس میں نئی زندگی اور نئی روئیدگی کی طاقت ہوتی ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھ کر اور اس کے کلام کے علوم کو سیکھ کر دنیا میں پھیلاتی اور ان کی اشاعت کرتی ہے(الفضل ۹ ؍مارچ ۴۵ ۱۹ء صفحہ۱) یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے وہ اپنی جماعت میں ایک ایسی روح پیدا کر دیتا ہے جس کی مثال دوسروں میں نہیں ملتی.بِاِذْنِ رَبِّهِمْ کے دو معنے بِاِذْنِ رَبِّهِمْ کے دومعنے ہو سکتے ہیں یہ بھی کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں اور یہ بھی کہ ان کا اترنا اذن الٰہی سے ہوتا ہے.پہلی صورت میں باء کا تعلق تَنَزَّلُ کے ساتھ ہوگا یعنی تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اور معنے یہ ہوں گے کہ وہ اذن الٰہی کو لے کر اترتے ہیں یعنی کلام الٰہی کی تائید کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے لوگوں کی طرف خدا تعالیٰ کا حکم لاتے ہیں.دوسری صورت میں یہ جملہ حال ہوگا اور مراد یہ ہوگی کہ ان کا نزول اذن الٰہی سے ہوتا ہے یعنی اس قسم کا تغیربغیر اذن الٰہی کے نہیں ہوتا جب خدا تعالیٰ چاہتا ہے تب پیدا ہوتا ہے.علماء کا یہ کام نہیں کہ جب قوم بے جان ہوجائے اور اس میں سے زندگی کی روح بالکل نکل جائے تو وہ دوبارہ اس کو زندہ کرسکیں.ملائکہ بھی اور روح بھی ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اور اس کے حکم سے آتے ہیں اس لئے جب بھی مذہبی قومی احیاء ہوگا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا انسانی تدبیروں سے مذہب کا احیاء نہیں ہو سکتا.مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے دومعنے مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے معنے ہیں مِنْ اَجْلِ کُلِّ اَمْرٍ اَوْ لِکُلِّ اَمْرٍ.یعنی ہر امر کی خاطر.یا اس کے معنے ہیں بِکُلِّ اَمْرٍ ہر امر کو ساتھ لے کر اترتے ہیں.مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ہر امر جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہوگا اس کو پوراکرنے اور ہر ایک روک جو اسلام کی ترقی میں حائل ہوگی اس کو دور کر نے کے لئے آسمان سے فرشتے نازل ہوں گے اور وہ کام جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہوگا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسے سرانجام دے دے گا.لیکن اس آیت کے ایک اور بھی معنے ہیں اور وہ یہ کہ وہ زمانہ گذرگیا جب ناقص اور جزوی شریعتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا کرتی تھیں.اب وہ زمانہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے وہ کامل شریعت نازل کردی ہے جو تمام ضروری امور پر حاوی ہے.اس طرح ابتدائے زمانہ میں ہی قرآن کریم سے کامل ہونے کا دعویٰ کردیا گیا اور بتا دیا گیا کہ وہ تمام ضروری علوم جو انسان کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں

Page 499

بیان کردیا ہے.تم اس شریعت کے بعد یہ نہیں کہہ سکوگے کہ بنی نوع انسان کی فلاں ضرورت پوری ہونے سے رہ گئی یا فلاں مسئلہ جس کا حل ضروری تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے حل نہیں کیا.شریعت اپنے کمال پر پہنچ گئی ہے اور ہر ضروری امر جس کا انسان کی اصلاح اور روحانی ترقی کے ساتھ تعلق تھا اسے اس کتاب میں کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے.مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے معنے اس لحاظ سے کہ لیلۃ القدر سے مراد مجدّدین کا زمانہ ہے اگر مجد دین پراس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے توپھر مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کااستعمال ایسا ہی ہوگا جیسے ملکۂ سباکے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (النمل:۲۴) کہ اس کو سب ایسی چیزیں دی گئی تھیں جن کی اس کو ضرورت ہو سکتی تھی.کیونکہ مجددین کے کام کا حلقہ محدود ہوتا ہے اور وہ محض اپنے علاقہ یا اپنی قوم یا اپنے ملک کی خرابیوںکو دور کرنے کے لئے آتے ہیں اور اس وقت آتے ہیں جب خرابی وسیع اور شدید نہیں ہوتی.پس ان کا دائرہ عمل ایسا وسیع نہیں ہوتا کہ ساری دنیا کی اصلاح ان کے ذمہ ہو یا ہر قسم کی اصلاح ان کے ذمہ ہو.پس مجددین پر جب اس پیشگوئی کو چسپاں کیا جائے گا تو مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے معنے سب امور کے نہیں ہوں گے بلکہ سب وقتی ضرورت کے امور کے ہوں گے یعنی جس جس خرابی کی اصلاح کے لئے انہیں ملائکہ کی مدد کی ضرورت ہو گی ان خرابیوں کی اصلاح کے لئے ملائکہ نازل کر دئیے جائیں گے یا اسلام کی ترقی کے لئے جن امور کی انہیں ضرورت ہو گی ان امور میں انہیں ملائکہ کی مدد حاصل ہوگی گویا مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے معنے ہوںگے کل ضروری امور.لیکن وہ موعود جو بروز کامل کے طور پر ظاہر ہوںگے چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نبی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل بروز ہوںگے اس لئے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس آیت کے یہ معنے تھے کہ قرآنی شریعت کو ہر لحاظ سے کامل کیا جائے گا اسی طرح ان کے متعلق اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کی ساری خوبیاں مخفی ہوجائیںگی تب اللہ تعالیٰ آسمان سے اپنے ملائکہ کو نازل فرمائے گا اور قرآن کریم کی تمام خوبیوںکو دنیا پر دوبارہ ظاہر کرے گا.اس صورت میں مِنْ كُلِّ اَمْرٍ کے معنے صرف ضروری امور کے نہیں ہوں گے بلکہ تمام امور کے ہوں گے یعنی کوئی امر ایسا نہیں ہو گا جس کے لئے آسمان سے فرشتوں کا نزول نہ ہو.سَلٰمٌ١ۛ۫ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِؒ۰۰۶ (پھر فرشتوں کے اترنے کے بعد تو )سلامتی (ہی سلامتی ہوتی)ہے (اور) یہ (حال )صبح کے طلوع ہونے تک (رہتا)ہے.حلّ لُغات.سَلٰمٌ علماء لغت لکھتے ہیں کہ یہاں سَلٰمٌ مُسَلِّمَۃٌ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی

Page 500

Page 501

مِنْ كُلِّ اَمْرٍ تک ختم سمجھا جائے تو آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ملائکہ اور روح اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہر قسم کی شریعت لے کر آتے ہیں اور اس زمانہ میںطلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی رہتی ہے یعنی یہ ایام خاص نصرتوں اور فضلوں کے ہوتے ہیں.اور اگر سَلٰمٌ کو دوسرا جملہ اور هِيَ حَتّٰى کو ایک مستقل تیسرا جملہ قرار دیا جائے تو ان آیات کے یہ معنے ہوں گے کہ ملائکہ اور روح ہر قسم کے احکام لے کر اس رات میں اترتے ہیں اے لوگو یہ زمانہ سلامتی ہی سلامتی کا ہے اور یہ تمام فرشتوں کا اترنا اور روح کا آنا اور سلامتی کا پھیل جانا طلوع فجر تک رہے گا.غرض نحوی طور پر جس قدر معنے اس آیت کے بنتے ہیں وہ سب کے سب اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں.مَطْلَعِ الْفَجْرِسے مراد اسلام کا غلبہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے کیا مراد ہے؟سو یاد رکھنا چاہیے کہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے مراد وہ وقت ہے جب اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے اور یہ غلبہ ہمیشہ نبی کی وفات کے وقت ہوتا ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ’’الو صیت‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ ’’اے عزیزو!خد اتعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ اپنی دو قدرتیں دکھلاتا ہے تاکہ دشمنوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کرے.ایک قدرت تو وہ ہوتی ہے جس کا نبی کے ذریعہ اظہار ہوتا ہے جب وہ اس راست بازی کا بیج بو دیتا ہے جس کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے اور دوسری قدرت وہ ہوتی ہے جس کا اس کے خلفاء کے ذریعہ تکمیل کے رنگ میں اظہار ہوتا ہے.‘‘ پس یہاں مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے نبی کی وفات کا زمانہ مراد ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ تمہاری تمام سلامتی اس بات میں ہے کہ تم اس رات کی عظمت کو پہچانو اور وہ قربانیاں کرو جن کا اس وقت تم سے مطالبہ کیا جارہا ہے جب فجر کا طلوع ہو گیا اور نبوت کا زمانہ ختم ہو گیا اس وقت آسمان کی نعمتیں آسمان پر رہ جائیں گی اور زمین ان برکات سے حصہ نہیں لے سکے گی جن سے اس وقت حصہ لے رہی ہے.نبی کا زمانہ ایک لحاظ سے دن اور ایک لحاظ سے رات اس جگہ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبی کے زمانہ کو بار بار دن بھی کہا گیا ہے اور نبی کو سورج.پھر اس کے زمانہ کو لیلۃالقدر یعنی رات بھی کہا گیا ہے وہی دن اور وہی رات کس طرح ہوا.سو یاد رہے کہ دو الگ الگ نسبتوں کی بناء پر ایک ہی زمانہ کو دن بھی کہا گیا ہے اور رات بھی.نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس سے پہلی ظلمت کے.اور نبی کا زمانہ رات ہوتا ہے بوجہ اس کے کہ

Page 502

جب وہ اس ظلمت کو دور کردیتا ہے تو اس کا کام ختم ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے کہا جاتا ہے کہ اب تمہارے جانے کا وقت آگیا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گمراہی اور ضلالت کی تاریکیوں کو دور کر دیا تو اِذَاجَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ اسْتَغْفِرْهُ١ؔؕ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا (النصـر:۲تا۴) کے ذریعہ آپ کو وفات کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ اب ہم تمہیں اپنے پاس بلانے والے ہیں پس چونکہ نبی اس زمانہ میں آتا ہے جب چاروں طرف ظلمت چھائی ہوئی ہوتی ہے اور جب وہ اس ظلمت کو دور کر دیتا اور امن اور ترقی اور کامیابی کا زمانہ آجا تا ہے تو وہ فوت ہو جاتا ہے اس لئے اس کے زمانہ کو رات قرار دیا جاتا ہے کیونکہ اس کا سارا کام رات میں ہی ختم ہو جاتا ہے.وہ مشکلات کے زمانہ میں آتا اور مشکلات کا دور ختم ہوتے ہی اللہ تعالیٰ کے پاس چلا جاتا ہے.پس چونکہ ظاہری بڑی ترقی نبی کی وفات کے بعد آتی ہے اور کامیابیوں کا سورج ہمیشہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ کے بعد نکلتا ہے اس لئے نبی کے زمانہ کو رات کہا جاتا ہے اگلا زمانہ جو مَطْلَعِ الْفَجْرِ سے شروع ہوتا ہے اور جس میں الٰہی سلسلہ کو دنیا میں غیر معمولی عروج حاصل ہوتا ہے وہ اسی وقت آتا ہے جب فجر کا طلوع ہو جاتا ہے یعنی نبی اپنے رب کے پاس جا چکا ہوتا ہے.لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جہاں تک روحانی ترقیات کا سوال ہے نبی کا زمانہ روشنی کا زمانہ ہوتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد کا زمانہ تاریکی کا زمانہ ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اس زمانہ میں آسمان سے نزول وحی کا ایک عجیب سلسلہ شروع ہو تا ہے ،برکات وانوار کی بارش ہوتی ہے،معجزات ونشانات کا ظہور ہوتا ہے،روحانیت کی منازل سالوں اور مہینوں کی بجائے دنوں میں طے ہونے لگتی ہیں اور ایمان واخلاص اور محبت باللہ میں غیر معمولی اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر اس زمانہ کو دن کہا جاتا ہے اسے روشنی اور نور کا زمانہ قرار دیا جاتا ہے اور اس زمانہ کو رات قرار دیا جاتا ہے جس میں نبی موجود نہیں ہوتا.غرض زمانہ تو ایک ہی ہوتا ہے مگر نسبتوں کے فرق کی وجہ سے اسے رات بھی کہا جاتا ہے اور دن بھی.وہ رات ہوتا ہے بوجہ اپنی پہلی ظلمت کے اور بوجہ اس کے کہ نبی کے زمانہ میں دنیوی ترقیات پوری طرح نہیںہوتیں.کامیابیوں اور ترقیات کا زمانہ نبی کی وفات کے بعد آتا ہے مگر بلحاظ خاص افضال الٰہی کے یعنی نزول وحی اور نزول برکات اور تکمیل روحانیت کے اس کا زمانہ دن کا زمانہ ہوتا ہے اور اس کے بعد کا زمانہ رات کا زمانہ.کیونکہ اس زمانہ میں دنیا ان برکات سے محروم ہوجاتی ہے جن سے وہ پہلے متمتع ہوا کرتی تھی.پس روحانی برکات کے لحاظ سے نبی کا زمانہ دن ہوتا

Page 503

ہے اور بعد کا زمانہ رات اور اس وجہ سے کہ اس کی تعلیم کی دنیوی شوکت ابھی پورے طور پر نہیں ظاہر ہوئی ہوتی کہ نبی اٹھا لیا جاتا ہے اس کا زمانہ رات کا ہوتا ہے کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ مَطْلَعِ الْفَجْرِ تک نبی اپنی قوم میں رہتا ہے.چونکہ کوئی بھی نبی دنیوی انعامات حاصل کرنے کے لئے نہیں آتا اس لئے جب اس کی قربانیوں کے مادی نتائج نکلنے کا وقت آتا ہے اور وہ بیج اپنا پھل دینے لگتا ہے جو اس نے بویا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ اسے فرماتا ہے تم ہمارے پاس آجائو اور یہ انعام ان دوسروں کے لئے رہنے دو جن کی نگا ہ اسے زیادہ قیمتی سمجھتی ہے.اسی امر کو مدنظر رکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو نجوم قرار دیا ہے کیونکہ نجوم ہمیشہ رات کو ظاہر ہوتے ہیں آپ فرماتے ہیں اَصْـحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّـھِمُ اقْتَدَیْتُمُ اھْتَدَیْتُمْ (تشیید المبانی فی تـخریـج احادیث مکتوبات الامام الربانی) یعنی میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جو برکات نازل کی ہیں ان سے حصہ لے کر میرے صحابہؓ نجوم بن گئے ہیں اب تو دن کا وقت ہے اور سورج اپنی شعاعوں سے دنیا کو منور کر رہا ہے لیکن میرے بعد دنیا پر رات کا زمانہ آجائے گا اس وقت میرے صحابہؓ ستارے بن کر لوگوں کی رہنمائی کریں گے اس لئے میرے بعد وہی لوگ کامیاب ہوں گے جو رات کی تاریکیوں میں میرے صحابہؓ سے روشنی حاصل کریں گے.اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ کو دن قرار دیا ہے اور بعد میں آنے والے زمانہ کو رات کہا ہے.لیکن دوسری طرف جہاں تک ظاہری کامیابیوں اور فتوحات کا تعلق ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ رات سے مشابہت رکھتا تھا اور بعد میں آنے والا زمانہ دن سے مشابہت رکھتا تھا.چنانچہ دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پا گئے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ظاہری رنگ میںغلبہ دینا شروع کر دیا یہاں تک کہ اسلام کو ایسی طاقت حاصل ہو گئی کہ ابو بکرؓ کی آواز جب قیصر سنتا تو وہ اس کو رد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تھا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ حالت تھی کہ آپؐکا خط جب اس کے پاس گیا تو گو اس پر اثر بھی ہوا مگر پھر اپنی قوم سے ڈر گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوا.حضرت عمر ؓ کا زمانہ آیا تو آپ کو ابوبکرؓ سے بھی زیادہ رعب حاصل ہوا.قیصر صرف ان کی بات کو سنتا نہیں تھا بلکہ ساتھ ہی وہ ڈرتا بھی تھا کہ اگر میں نے اس کے مطابق عمل نہ کیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہوگا اور کسریٰ تو اس وقت تک بالکل تباہ ہو چکا تھا.عثمان ؓ کا زمانہ آیا تو ان کو بھی ایسا دبدبہ اور رعب حاصل ہوا کہ چاروں طرف ان کا نام گونجتا تھا اور ہر شخص سمجھتا تھا کہ مجھے امیرالمومنین کے حکم کی اطاعت کرنی چاہیے.اب جہاں تک دنیوی اعزاز کا سوال ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ عزت حاصل نہیں ہوئی جو ابو بکر ؓاور عمر ؓاور عثمان ؓ کو حاصل ہوئی مگر پھر بھی یہ لوگ روحانی دنیا کے نجوم تھے شمس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.

Page 504

غرض نبی کی وفات کے معاً بعد سے روحانی لحاظ سے رات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے لیکن جسمانی لحاظ سے نبی کی وفات طلوع فجر پر دلالت کرتی ہے اور معاً بعد سے طلوع آفتاب یعنی ظاہری کامیابیوں کا نظارہ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے ایسا ہی رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.ایسا ہی مسیح ناصریؑ اور موسٰی کے زمانہ میں ہوا اور ایسا ہی اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا.آپ کے زمانہ میں جو آخری جلسہ ہو ااس میں سات سو آدمی جمع ہوئے تھے.مجھے یاد ہے آپ سیر کے لئے باہر تشریف لے گئے تو ریتی چھلہ میں جہاں بڑ کا درخت ہے وہاں لوگوں کی کثرت اور ان کے اژدہام کو دیکھ کر آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے ہمارا کام ختم ہوچکا ہے کیونکہ اب غلبہ اور کامیابی کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں پھر آپ بار بار احمدیت کی ترقی کا ذکر کرتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو کس قدر ترقی بخشی ہے اب تو ہمارے جلسہ میںسات سو آدمی شامل ہونے کے لئے آگئے ہیں یہ اتنی بڑی کامیابی ہے کہ میں سمجھتا ہوں جس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا تھا وہ پورا ہو چکا ہے اب احمدیت کو کوئی مٹا نہیں سکتا.احمدیت کی ترقی حضرت مسیح موعودؑکی وفات کے بعد غرض سات سو آدمیوں کے آنے پر آپ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ نے سمجھا جس کام کے لئے مجھے کھڑا کیا گیا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے مگر اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ حالت ہے کہ صرف درس میں ہی آٹھ آ ٹھ سو آدمی جمع ہو جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جو کہیں باہر سے نہیں آتے بلکہ قادیان میں رہنے والے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پچیس تیس ہزار آدمی باہر سے اکٹھا ہو جاتا ہے.غرض ہمارا سلسلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی پر ترقی کر رہا ہے.کوئی دن ایسا نہیں ٍگذرتا جس میں کوئی نہ کوئی شخص بیعت میںشامل نہ ہو.ترقی اور عروج اور طاقت میں ہمیشہ اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر اس غلبہ کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے زمانہ سے بہتر ہے بے شک ہمیں کامیابیاںزیادہ حاصل ہو رہی ہیں، ترقیات زیادہ حاصل ہو رہی ہیں، غلبہ زیادہ حاصل ہورہا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کو یاد کر کے دل تڑپ اٹھتا ہے اور یہ ساری کامیابیاں بالکل حقیر نظر آنے لگتی ہیں.سَلٰمٌ کے لفظ پر ایک پرانا نوٹ میرے قرآن پر ایک چھوٹا سا پرانا نوٹ ہے جو ان قلبی کیفیات کو خوب ظاہر کرتا ہے جو نبی کا زمانہ دیکھنے والوں کے اندر پائی جاتی ہیں.میں نے سَلٰمٌ پر نوٹ لکھا ہے.’’یعنی اس رات میں سلامتی ہی سلامتی ہے آہ مسیح موعود کا وقت! اس وقت تھوڑے تھے مگر امن تھا ‘‘ بعد میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بڑی بڑی ترقیات دی ہیں مگر یہ ترقیات اس زمانہ کا کہاں مقابلہ کر سکتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تھا.بے شک آج دنیوی لحاظ سے جو رتبہ ہم کو حاصل ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

Page 505

کو حاصل نہیں تھا.جتنے لوگ ہماری باتیں ماننے والے موجود ہیں اتنے لوگ باتیں ماننے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں موجود نہیںتھے جتنا خزانہ ہمارے ہاتھ میں ہے اتنا خزانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں نہیں تھا.اب بعض دفعہ خدا تعالیٰ ایک ایک دن میں پچیس پچیس تیس تیس ہزار روپیہ چندے کا بھجوا دیتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں اتنا چندہ سارے سال میں بھی جمع نہیں ہوتا تھا مگر اس تمام ترقی کے باوجود کون کہہ سکتا ہے کہ یہ زمانہ اس زمانہ سے بہتر ہے.مجھے یاد ہے جب لنگر خانہ کا خرچ بڑھا اور کثرت سے قادیان میں مہمان آنے شروع ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خاص طور پر یہ فکر پیدا ہو گیا کہ اب ان اخراجات کے پورا ہونے کی کیا صورت ہو گی مگر اب یہ حالت ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایک احمدی لنگر خانہ کا سارا خرچ دے سکتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کے متعلق اپنی پیشگوئیوں کی اشاعت فرما ئی تو قادیان میں کثرت سے احمدی دوست آگئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی دوستوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے اور وہاں خیموں میں رہائش شروع کر دی.چونکہ ان دنوں قادیان میں زیادہ کثرت سے مہمان آنے لگ گئے تھے ایک دن آپ نے ہماری والدہ سے فرمایا کہ اب تو روپیہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی میرا خیا ل ہے کہ کسی سے قرض لے لیا جائے کیونکہ اب اخراجات کے لئے کوئی روپیہ پاس نہیں رہا.تھوڑی دیر کے بعد آپ ظہر کی نماز کے لئے تشریف لے گئے.جب واپس آئے تو اس وقت آپ مسکرا رہے تھے.واپس آنے کے بعد پہلے آپ کمرہ میں تشریف لے گئے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد باہر نکلے اور والدہ سے فرمایا کہ انسان باوجود خدا تعالیٰ کے متواتر نشانات دیکھنے کے بعض دفعہ بد ظنی سے کام لے لیتا ہے میں نے خیال کیا تھا کہ لنگر کے لئے روپیہ نہیں اب کہیں سے قرض لینا پڑے گا مگر جب میں نماز کے لئے گیا تو ایک شخص جس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے تھے وہ آگے بڑھا اور اس نے ایک پوٹلی میرے ہاتھ میں دے دی.میں نے اس کی حالت کو دیکھ کر سمجھا کہ اس میں کچھ پیسے ہوں گے.مگر جب گھر آکر اسے کھولا تو اس میں سے کئی سو روپیہ نکل آیا.اب دیکھو وہ روپیہ آج کل کے چندوں کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا تھا.آج اگر کسی کو کہا جائے کہ تمہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک دن نصیب کیا جاتا ہے.بشرطیکہ تم لنگر کا ایک دن کا خرچ دے دو تو وہ کہے گاکہ ایک دن کا خرچ نہیں تم مجھ سے سارے سال کا خرچ لے لو لیکن خدا کے لئے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا ایک دن دیکھنے دو.مگر آج کسی کو وہ بات کہاں نصیب ہوسکتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام

Page 506

Page 507

Page 508

Page 509

Page 510

Page 511

Page 512

Page 513

Page 514

ہیں چنانچہ مسند احمدمیں حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بُعِثْتُ اِلَی الْاَحْـمَرِ وَالْاَسْوَدِ (مسند احمد بن حنبل مسند عبد اللہ بن عباس).میں گورے اور کالے سب لوگوںکی طرف مبعوث ہوا ہوں.اسی طرح مسند احمد میں عَنْ عَـمْرٍو ابْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ روایت ہے کہ اَمَّا اَنَا فَاُرْسِلْتُ اِلَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عَامَّۃً وَّکَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّـمَا یُرْسَلُ اِلٰی قَوْ مِہٖ (مسند احمد بن حنبل مسند عبد اللہ بن عـمروبن العاص) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میری یہ خصوصیت ہے کہ میں تمام بنی نوع انسان کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں اور مجھ سے پہلے جو رسول تھے صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث کئے گئے تھے.اس حدیث میں بھی بے شک اَلنَّاس کا لفظ ہے اور میں نے اوپر کی آیات پر بحث کرتے ہوئے بتایا تھا کہ عیسائی کہتے ہیں قرآن کریم اَلنَّاس سے مراد ہمیشہ مکہ کے لوگ ہوتے ہیں یہودی اور عیسائی نہیں ہوتے مگر ایک تو یہاں دلیل موجود ہے کہ آپ نے اپنی خصوصیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کَانَ مَنْ قَبْلِیْ اِنَّـمَا یُرْسَلُ اِلٰی قَوْمِہٖ.مجھ سے پہلے جو رسول گزرے ہیں وہ صرف اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوا کرتے تھے.چونکہ یہاں قوم کے مقابلہ میں اَلنَّاس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اَلنَّاس کے معنے ساری دنیا کے ہوں گے ورنہ مکہ کے لوگ تو آپ کے ہم قوم ہی تھے اور اگر اَلنَّاس سے مراد یہاں صرف اہلِ مکہ ہوتے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خصوصیت باقی نہ رہتی کیونکہ جس طرح پہلے انبیاء اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوئے اسی طرح اگر آپ بھی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہو گئے تو اس میں کوئی خصوصیت نہیں ہو سکتی تھی.اصل بات یہی ہے کہ یہاں اپنا اور سابق انبیاء کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ پہلے انبیاء تو اپنی اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتے تھے مگر میں اَلنَّاس کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی غرض یہ ہے کہ میں صرف اپنی قوم کی طرف نہیں بھیجا گیا بلکہ قوم سے زائد لوگوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہوں پس اُرْسِلْتُ اِلَی النَّاسِ کُلِّھِمْ عَامَّۃً سے مرادیہاں ساری دنیا ہے محض قوم مراد نہیں.دوسرے حدیثوں میں صراحتاً اَلنَّاسُ کا لفظ غیر مشرکوں کے لئے بھی بولا گیا ہے گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے محاورہ سے ثابت ہے کہ اَلنَّاسُ کا لفظ بولا جاتا ہے اور اُس سے مراد مکہ کے مشرک نہیں ہوتے بلکہ دوسرے لوگ ہوتے ہیں چنانچہ حدیث بدر میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ طلب فرمایا اور مہاجرین یکے بعد دیگرے اُٹھ اُٹھ کر مشورہ دینے لگے تو ہر مہاجر جب مشورہ دے کر بیٹھ جاتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے اَشِیْرُوْنِیْ اَیُّـھَا النَّاسُ اے لوگو مجھے مشورہ دو.اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نَاسٌ کا

Page 515

لفظ استعمال کیا مگر اس سے مکہ کے مشرک مراد نہیں تھے بلکہ انصار مراد تھے چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار یہ فرمایا کہ اے لوگو مجھے مشورہ دو تو سعد بن معاذؓ کھڑے ہوئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کی مراد ہم سے ہے کہ اس موقعہ پر ہم بھی اپنے خیالات کا اظہار کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام زیر عنوان غزوہ بدر الکبرٰی).اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیثوں کی شہادت اس امر کی تائید میں موجود ہے کہ اَلنَّاسُ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد مشرکین مکہ کے علاوہ اور لوگ بھی ہوتے ہیں یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلنَّاسُ کا لفظ استعمال کیا اور آپ کی مراد اس سے انصار تھے.پھر اس حدیث میں تو وضاحت موجود ہے کہ قوم کے مقابلہ میں ناس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ یہاں اَلنَّاسُ سے قوم مراد نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان مراد ہیں خواہ وہ دنیا کی کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے مَنْ سَـمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَـھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْـرَانِیٌّ فَلَمْ یُؤْمِنْ بِیْ لَمْ یَدْ خُلِ الْـجَنَّۃَ ( مسند احـمدبن حنبل مسند الکوفیِّیْن، حدیث ابی موسٰی اشعری) اس حدیث کے الفاظ میں کچھ غلطی ہے جس کو آگے ظاہر کیا جائے گا موجودہ صورت میں اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جس شخص نے میری اُمت میں سے میرے متعلق بات سُنی یا کسی یہودی یا نصرانی نے میرا ذکر سُنا اور پھر وہ مجھ پر ایمان نہ لایا وہ جنّت میں داخل نہیں ہو گا.اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُمّت اور ہے اور یہودی اور نصرانی اور ہیں مگر درحقیقت یہ راوی کی غلطی ہے کہ اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کو صحیح طور پر نہیں سمجھا اور یہودی اور نصرانی کے ساتھ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھا دیا.اس کی وجہ درحقیقت یہ ہے کہ عام طور پر لوگ اُمت کے معنے ایمان لانے والے لوگوں کے سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اُمت کے لفظ کا اطلاق انہی لوگوں پر ہوتا ہے جو کسی نبی پر ایمان رکھتے ہوں اس محاورہ کی وجہ سے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہوتا ہے راوی نے سمجھا کہ شاید مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ صحیح طور پر یاد نہیں رہے ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ آپ اپنی اُمّت میں کسی یہودی یا نصرانی کو بھی شامل سمجھتے اس لئے اُس نے حدیث بیان کرتے وقت ’’ اَوْ‘‘ ’’ اَوْ‘‘ کا لفظ بڑھادیا اور سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہو گا کہ مَنْ سَـمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَـھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْـرَانِیٌّ مگر یہ ہے غلط.خود مسند احمد کی بعض اور روایات ہیں جو اس غلطی کو واضح کرتی ہیں.درحقیقت حدیث کے اصل الفاظ یہ ہیں کہ مَنْ سَـمِـعَ بِیْ مِنْ اُمَّـتِیْ یَـھُــوْدِیٌّ اَوْ نَصْـرَانِیٌّ فَلَمْ

Page 516

یُؤْمِنْ بِیْ لَمْ یَدْخُلِ الْـجَنَّۃَ جس شخص نے میری اُمت سے میری بابت سنا.یہ صاف بات ہے کہ اگر اُمَّتِیْ سے مراد ماننے والے لوگ ہیں تو کیا کوئی ماننے والا ایسا بھی ہو سکتا ہے جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہ سنا ہو؟ یہ بات عقل کے بالکل خلاف ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے تو ہو مگر اس نے آپ کا ذکر نہ سنا ہو.پس خود اُمت کالفظ جو اس حدیث میں استعمال کیا گیا ہے بتا رہا ہے کہ یہاں اُمت سے مراد صرف ماننے والے نہیں بلکہ ہر وہ شخص ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کا مخاطب ہے چنانچہ مسلم کی ایک روایت جو ابو موسیٰ اشعری سے مروی ہے اس غلطی کو واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل منشاء کیا تھا.مسلم نے ابو موسیٰ اشعری سے یہ روایت اس طرح نقل کی ہے وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ رَجُلٌ مِّنْ ھٰذِہٖ الْاُ مَّۃِ یَـھُوْدِیٌّ وَّلَا نَصْـرَانِیٌّ ثُمَّ لَا یُؤْمِنُ بِیْ اِلَّا دَخَلَ النَّارَ (مسلم کتاب الایـمان باب وجـوب الایمـان برسالۃِ نـبیِّنا مـحمد صلی اللہ علیہ وسلم الٰی جـمـیع الناس ) یعنی ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اُس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ میری اُمّت میں سے کوئی شخص میرا ذکر نہیں سُنے گا خواہ یہودی ہو یا نصرانی ثُمَّ لَا یُؤْمِنُ بِیْ پھروہ مجھ پر ایمان نہیں لائے گا اِلَّا دَخَلَ النَّارَ تو وہ ضرور آگ میں داخل کیا جائے گا.یہ روایت صحتِ الفاظ کے لحاظ سے زیادہ درست ہے کیونکہ اِ س میں اُمّت اور یہود و نصاریٰ کو الگ الگ بیان نہیں کیا گیا بلکہ یہود و نصاریٰ کو اُمّت کا ایک حصہ بتایا گیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحتاً یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہود و نصارٰی اگر آپ پر ایمان لائیں تو یہ نہیں کہ اُن کا ایمان لانا صرف ایک زائد خیر کا رنگ رکھے گا بلکہ اگر وہ ایمان نہیں لائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو دوزخ میں ڈالے گا.اس حدیث سے یہ وضاحت ہو گئی کہ پہلی روایت میں بھی درحقیقت یہودی اور نصرانی کے الفاظ اُمّت کے بدل کے طور پر استعمال کئے گئے تھے مگر راوی نے غلطی سے ’’ اَوْ‘‘ ’’ اَوْ‘‘بڑھا کر فقرہ اس طرح بنا دیا کہ مَنْ سَـمِعَ بِیْ مِنْ اُمَّتِیْ اَوْ یَـھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْـرَانِیٌّ.امام احمد بن جنبل کی ایک دوسری روایت بھی انہی الفاظ کی تصدیق کرتی ہے چنانچہ اُس روایت کے الفاظ یہ ہیں.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ ﷲِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَا یَسْمَعُ بِیْ اَحَدٌ مِّنْ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ یَـھُوْدِیٌّ اَوْ نَصْـرَانِیٌّ ثُمَّ یَـمُوْتُ وَلَایُؤْمِنُ بِالَّذِیْ اُرْسِلْتُ بِہٖ اِلَّا کَانَ مِنْ اَصْـحَابِ النَّارِ.( مسند احـمدبن حنبل مسند ابی ھریرۃ) یعنی حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ

Page 517

Page 518

اوّل اِن احادیث میں جو مَنْ سَـمِعَ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اِن سے مراد محض سماع نہیں بلکہ سماعِ حُجّت ہے کیونکہ سزا بغیر حُجّتِ قاطعہ کے نہیں ہوتی.یعنی یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ حدیث میں جو مَنْ سَـمِعَ بِیْ یا لَا یَسْمَعُ بِیْ کے الفاظ آتے ہیں اُن کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی کو محض اتنا علم ہو جائے کہ بانیٔ اسلام نبوت کے مدعی ہیں اور وہ آپ پر ایمان نہ لائے تو وُہ دوزخی ہو جائے گا کیونکہ خود احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کوکوئی سزا نہیں ملے گی مثلاً پاگل کے متعلق آتا ہے کہ اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی.اب جہاں تک سننے کا تعلق ہے اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ سنتا ایک پاگل بھی ہے مگر اس کے باوجود اُسے سزا نہیں ہو گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالی سماع کافی نہیں اگر خالی سماع کافی ہوتا تو ایک مجنون اور فاتر العقل کو بھی سزا ملنی چاہیے مگر احادیث بالصراحت بتاتی ہیں کہ پاگل مرفوع القلم ہوتا ہے اور اُسے اپنے مجنونانہ افعال کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی سزا نہیں ملے گی(بخاری کتاب الطلاق باب الطلاق فی الاغلاق والکرہ والسکران والمجنون وامرہما).یہ امتیاز اِسی لئے رکھا گیا ہے کہ پاگل سنتا تو ہے مگر سمجھتا نہیں.اِسی طرح جس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ذکر سُنا ہے اُس پر حجت تمام نہیں ہوئی.وہ بھی سزا کا مستحق قرار نہیں دیا جاسکتا.کیونکہ سزا اتمام حُجّت یا حقیقت کو پورے طور پر سمجھ لینے کے بعد وارد ہوتی ہے اور جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سمجھا ہی نہیں تو وہ سزا کامستحق کس طرح ہو سکتا ہے؟ دوسرے اِن احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفراور سزا کو الگ الگ امور قرار دیا ہے یہ ایک اہم مسئلہ ہے جو ہمارے اور پیغامیوں کے درمیان ایک مدّت سے مابہ النّزاع چلا آ رہا ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ کیا وہ شخص جس نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا کافر ہے؟ اور ہم جوا ب میںکہتے ہیں کہ ہاں جس نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر ہے تو وہ شور مچانے لگ جاتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص نے مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سنا اُسے جہنمی قرار دیا جاتا ہے حالانکہ کافر اور جہنمی میں فرق ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوداس حدیث میں صاف طور پر بیان فرما دیا ہے کہ کفر اور سزا یہ دو الگ الگ امور ہیں یہ تو ہرمسلمان تسلیم کرے گا کہ جس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر ہے.میں سمجھتا ہوں مسلمانوں میں سے کوئی ایک فرقہ بھی ایسا نہیں جو اس بارہ میں اختلاف رکھتا ہو اور ان لوگوں کو جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کانام بھی نہیں سُنا مومن قرار دیتا ہو.مثلاً وہ لوگ جنہوںنے اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیا اور جو اتنا قلیل طبقہ ہے کہ کسی اعتناء کے قابل نہیں اُن کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جمہور مسلمانوں کا قطعی طور پر یہ فیصلہ ہے کہ دنیا میںدو ہی گروہ ہیں یا مسلمان یا کافر.اب جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ دنیا میں دو ہی گروہ سمجھے

Page 519

جا سکتے ہیں یا مسلمان یا کافر.وہ ان مسیحیوں یا ان یہودیوں یا ان ہندوئوں یا ان زرتشتیوں یا ان شنٹوازم کے ماننے والے جاپانیوں یا کنفیوشس کے ماننے والے چینیوں کو جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانام بھی نہیں سُنا کیا قرار دیں گے؟ کیا یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہیں؟ یہ تو صاف بات ہے کہ مسلمان کے نام سے وہی بلوائے جاتے ہیں جنہوں نے کلمہ طیّبہ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰہُ پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حقیقی طور پر یا ظاہر میں ایمان لانا نصیب ہوا.جب مسلمان کی ظاہری تعریف یہ ہے کہ وہ کلمہ طیّبہ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان ظاہر کرتا ہو تو یہ بات واضح ہو گئی کہ جنہوں نے کلمہ طیّبہ نہیں پڑھا اور جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا نصیب نہیں ہوا اُنہیں بہرحال ہم کافر ہی کہیں گے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کے کفر کے باوجود اُن کو سزا نہیں ملے گی.سزا صرف اُن لوگوں کو ہو گی جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سنا یعنی ان کے کانوں تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہنچا اُن پر حُجت تمام ہوئی اور پھر بھی وہ اپنے کفر پر قائم رہے، اسلام میں داخل ہونے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے لئے تیار نہ ہوئے.اس سے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور انبیاء تو الگ رہے اپنی ذات کے متعلق بھی یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ مجھے نہ ماننا (بشرطیکہ کسی پر حُجت تمام نہ ہوئی ہو) انسان کو دوزخی نہیں بناتا ہاں اسے کافر ضرور بنا دیتاہے چاہے دنیا کے وہ کسی کونہ میں رہنے والا ہو اور چاہے اُس نے سات پشت سے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہ سُنا ہو وہ کافر ہو گا اور ضرور ہو گا مگر سزا اتمام حُجت کے بعد ہوتی ہے اس سے پہلے نہیں.گویا یہ قاعدہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے سزا کے متعلق ہے کفر کے متعلق نہیں.چنانچہ صریح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دو الگ الگ تقسیمیں کر دی ہیں کفر کو الگ قرار دیا ہے اور سزا کو الگ قرار دیا ہے.یہی عقیدہ ہمارا حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے متعلق ہے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ کافر ہے مگر ہم اسے دوزخی قرار نہیں دے سکتے نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام بھی نہیں سُنا وہ جہنمی ہے.ممکن ہے اللہ تعالیٰ اگلے جہان میں اُس کا دوبارہ امتحان لے اور ممکن ہے فطرتی ایمان پر ہی اُس کو بخش دے.بہرحال ہم اُس کی سزا کے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے مگرہم اس بات پر مجبور ہیں کہ اُسے کافر قرار دیں کیونکہ اسلام میں دو ہی اصطلاحیں ہیں.ایک اصطلاح مومن کی ہے اور ایک اصطلاح کافر کی ہے جس نے کسی نبی کو مان لیا وہ مومن ہے اور جس نے کسی نبی کو نہیں مانا وہ کافر ہے.چاہے اُس کا نہ ماننا عدمِ علم کی بناء پر ہو اور چاہے اُس کا نہ ماننا کسی شرارت کی بناء پر ہو.اگر اُس نے عدمِ علم کی وجہ سے کسی نبی کو نہیں مانا تو وہ کافر یعنی نہ ماننے والا تو ہے مگر دوزخی نہیں اور اگر کسی نے شرارت سے نہیں مانا تو وہ کافر

Page 520

یعنی نہ ماننے والا بھی ہے اور دوزخی بھی ہے.افسوس کہ اس نکتہ کو نہ سمجھ کر آج کل پیغامی گمراہ ہو رہے ہیں اور جب وہ مجھ پر حملہ کرتے ہیں تو دراصل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر رہے ہوتے ہیں کیونکہ کفر و سزاء کا یہ فرق خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور متعدد احادیث میں کفر اورجہنمی ہونے کو الگ الگ رکھا گیا ہے.ظاہر ہے کہ پیغامیوں کے لئے دو ہی راستے کھلے ہیں.یا تو وہ یہ کہیں کہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں سنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے.اگر وہ یہ کہہ دیںتو ہمارا اور ان کا جھگڑا ختم ہوجاتا ہے ہم بھی ان کی اصطلاح میں کہہ دیں گے کہ جس شخص نے حضرت مرزا صاحب کا نام نہیں سُنا وہ کافر نہیں مسلمان ہے.اس صورت میں وہ ایک نئی اصطلاح قائم کر دیں گے اور ہمارا اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا کہ ہم اُن سے خطاب کے وقت شر کو دُور کرنے کے لئے اس اصطلاح کو اُن کے مقابلہ میں تسلیم کر لیں اور یا پھر دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ یہ کہیں کہ کافر و قابلِ سزا لازم و ملزوم نہیں ایک گروہ کو کافر تو کہا جائے گا مگر قابلِ سزا نہیں.اس صورت میں بھی ہمارا اور اُن کا جھگڑا ختم ہو جاتا ہے.اس تمہید کے بعد میں بتاتا ہوں کہ آیت زیر تفسیر میں اُن لوگوں کا جو اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیتے یا جو سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہل کتاب کے لئے ضروری نہ تھا، ردّہے.اور صاف بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ اہلِ کتاب اور مشرکین دونوں کو کافر قرار دیتا ہے اور اسلام (یعنی دینِ حق قبول کرنا) صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے پر موقوف ظاہر کرتا ہے.یہ جو میں نے کہا ہے کہ اس آیت میں اُن لوگوںکا ردّ ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قرآن کریم کے رُو سے اہلِ کتاب کے لئے ضروری نہ تھا.اس فقرہ میں ان لوگوں سے میری مراد عیسائی مؤرخ ہیں.اس اعتراض سے اُن کی غرض یہ ہوتی ہے کہ قرآن کریم کی عدم ضرورت کو واضح کریں اور ثابت کریں کہ قرآن کریم ایسی کتاب نہیں ہے جس پر ایمان لانا اہل کتاب کے لئے بھی ضروری ہو اُن کے لئے تورات اور انجیل پر ایمان رکھنا ہی کافی ہے.اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ اِس آیت میں اُن لوگوں کا بھی ردّ ہے جو اہل کتاب کو کافر قرار نہیں دیتے یہ بعض معتزلیوں کا خیال ہے جو اہل کتاب کو ایک تیسرا گروہ قرار دیتے ہیں.اسی طرح یوروپین مستشرقین کے اعتراضات سے ڈر کر نیچری خیالات رکھنے والے مسلمان بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ اہلِ کتاب کو قرآن کریم نے کہیں کافر نہیں کہا اِس سے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کہیں عیسائی چِڑ نہ جائیں اور وہ اسلام پر

Page 521

اور زیادہ اعتراضات نہ کرنے لگیں.بہر حال اس آیت میں ان دونوں خیالات کا ردّ کیا گیا ہے اور واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے لئے ضروری ہے کیونکہ فرماتا ہے لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک کہ وہ اپنے کفر سے الگ ہو سکتے تا وقتیکہ اُن کے پاس بیّنہ نہ آ جاتی.اس آیت میں لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب کافروں اور مشرک کافروں کے لئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ اپنے کفر کو چھوڑ سکتے.اِنَفَکَّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے جُدا ہونے کے ہیں.پس مُنْفَكِّيْنَ کے معنے ہوئے جدا ہونے والے یا الگ ہونے والے.سوال یہ ہے کہ اُن کے لیے کس چیز سے انفکاک نا ممکن تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اسی کفر سے جس کا اس آیت میں ذکر آتا ہے یعنی اہل کتاب کافر اور مشرک کافر کفر کو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے اور کوئی صورت ایسی نہیں تھی کہ وہ کفر سے آزاد ہو سکتے سوائے اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بغیر نہ اہل کتاب کفر سے نکل سکتے تھے نہ مشرک کفر سے نکل سکتے تھے.گویا اہل کتاب اور مشرکین دونوں کے متعلق صراحتاً ، وضاحتاً اور دلالۃً بتا دیا کہ وہ کافر ہیں اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی شخص خدا تعالیٰ کا مقبول ہو سکتا ہے یا وہی شخص سچے دین پر قائم سمجھا جا سکتا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے.اس آیت میں مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ کے الفاظ آتے ہیں اور مِنْ کے اصل معنے ابتدائے غایت کے سمجھے جاتے ہیں لیکن چونکہ کثرت سے مِنْ بعضیہ بھی استعمال ہوتا ہے اس لئے ممکن ہے یہ شبہ کسی شخص کے دل میں پیدا ہو کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ میں بھی مِنْ بعضیہ ہی استعمال ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کافروں کا گروہ گویا ہر اہل کتاب کے متعلق یہ بیان نہیں کیا گیا کہ وہ کافر ہے بلکہ یہ آیت صرف بعض اہل کتاب کی نسبت ہے جو کافر تھے ہر اک اہل کتاب کافر نہیں تھا.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اگر اس کا مفہوم یہ لیا جائے کہ اہل کتاب میں سے جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیں کیا یا مشرکوں میں سے جنہوں نے اب تک اسلام قبول نہیںکیا تو یہ درست ہے ہم بھی اس قسم کے بعض کو ماننے کے لئے تیار ہیں یعنی جو اب تک اہل کتاب ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں یا جواب تک مشرک ایمان نہیں لائے وہ کافر ہیں.لیکن اگر مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ کے یہ معنے لئے جائیں کہ جو اہل کتاب مسلمان نہیں ہوئے اُن میں سے کچھ کافر ہیں اور کچھ نہیں تو یہ اس لئے

Page 522

بالبداہت باطل ہیں کہ اہل کتاب پر وَ الْمُشْرِكِيْنَ کا عطف ہے.اگر تو یہ ہوتا کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكُوْنَ تو پھر سمجھا جا سکتا تھا کہ مِنْ صرف اہل کتاب کے ساتھ لگتا ہے مشرکوںکے ساتھ نہیں لگتا.لیکن اللہ تعالیٰ نے وَ الْمُشْرِكُوْنَ کی بجائےوَ الْمُشْرِكِيْنَ فرمایا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ جو حکم اہل کتاب کے لئے ہے وہی حکم مشرکوں کے لئے بھی ہے پس اگر اس آیت کے یہ معنے لئے جائیں کہ اہل کتاب میں سے جو ایمان نہیں لائے اُن میں سے بھی کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر تو پھر اس کے ساتھ ہی یہ بھی معنے کرنے پڑیں گے کہ مشرک جو اب تک ایمان نہیں لائے اُن میں سے بھی کچھ مومن ہیں اور کچھ کافر.اور آیت کو یُوں سمجھنا پڑے گا کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُشْتَمِلِیْنَ عَلٰى بَعْضِ اَھْلِ الْکِتٰبِ وَبَعْضِ الْمُشْرِکِیْنَ اور یہ بات بالبداہت غلط ہے.عیسائی بھی باوجود شدید دشمنِ اسلام ہونے کے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے رُو سے سب غیر اہل کتاب مشرک کافر ہیں اور اس میں کوئی استثنٰی نہیں.بہرحال اگر اس آیت میں مِنْ کو بعضیہ قرار دیاجائے تو چونکہ وَ الْمُشْرِكِيْنَ کا عطف اہل کتاب پر ہے اس لئے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ کچھ مشرک مومن ہیں اور کچھ مشرک کافر.حالانکہ یہ بالبداہت باطل ہے.پس یہ غلط ہے کہ اس آیت میں مِنْ بعضیہ استعمال ہوا ہے.یہاں مِنْ بعضیہ نہیں بلکہ بیانیہ ہے اور اس آیت کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُشْتَمِلِیْنَ عَلٰى اَھْلِ الْکِتٰبِ وَالْمُشْرِکِیْنَ چونکہ مشرکین مجرور ہے اس لئے مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ کے سوا کسی اور پر اس کا عطف نہیں ہو سکتا اگر اَلَّذِیْنَ پر عطف ہوتا تو یہ مر فوع ہوتا پس کسی صورت میں بھی یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ بعض اہل کتاب کافر ہیں اور بعض نہیں.بلکہ لازماً اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ کفار خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرک سب کے سب کافر ہیں اور اس کفر سے بچ نہیں سکتے تھے جب تک کہ رسول اُن کے پاس نہ آتا.غرض کَفَرُوْا سے مراد اہل کتاب اور مشرکین دونوں ہیں اور جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قرآن کریم کا یہ محاورہ ہے کہ جب وہ اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کرتا ہے تو اُس سے مراد ساری غیر مسلم دنیا ہو تی ہے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے مسلمانوں کے سوا دنیا میں دو ہی گروہ ہو سکتے ہیں یا اہل کتاب ہوں گے یا مشرک ہوں گے.پس اہل کتاب اور مشرکین سے مراد قرآنی محاورہ کے مطابق تمام غیر مسلم دنیا ہے اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ کفار میں سے یعنی غیر مسلموں میں سے خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا مشرک (اس میں کوئی استثنٰی نہیں) اپنے کفر سے اُس وقت تک نہیں نکل سکتے تھے جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نہ ہوتی.قرآن کریم میں بعض اور مقامات پر بھی مِنْ بیانیہ استعمال ہوا ہے مثلاً ایک جگہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ

Page 523

مِنَ الْاَوْثَانِ ( الحج:۳۱) اس کے یہ معنے نہیں کہ کچھ بُت پاکیزہ ہوتے ہیں اور کچھ گندے بلکہ مطلب یہ ہے کہ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ اَیِ الْاَوْثَانِ تم گندگی یعنی بتوں کی پرستش اور ان کی عبادت سے بچو.یہاں بھی مِنْ بیانیہ ہی استعمال ہوا ہے اور چونکہ یہ حال ہے اس لئے اگر ہم عربی میں اس آیت کاترجمہ کریں تو یوں ہو گا کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا حَالَ کَوْنِـھِمْ مُشْتَمِلِیْنَ عَلٰى جَـمِیْعِ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ جَـمِیْعِ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.چنانچہ دوسری قرأت اِن معنوں کو اور زیادہ واضح کر دیتی ہے اور وہ قرأت عبد اللہ بن مسعود کی ہے اُن کی قرأت یہ ہےلَمْ يَكُنْ اَهْلُ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكُوْنَ مُنْفَكِّيْنَ ( فتح البیان زیر آیت لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) پس علاوہ اس کے کہ خود فقرہ کی بناوٹ اور وَالْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ جن کا عطف اہل کتاب پر ہے.اس حقیقت کو واضح کر رہے ہیں کہ یہاں مِنْ بعضیہ نہیں ہو سکتا ابن مسعودؓ کی قرأت نے مزید تصدیق کر دی کہ یہاں کسی صورت میں بھی مِنْ کو بعضیہ قرار نہیں دیا جا سکتا.نبی کافر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے دوسری بات جو نہایت اہم اور موجودہ زمانہ کے جھگڑوںمیں بہت کام آنے والی ہے اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ کُفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے.یہ بات ایسی واضح ہے کہ اس آیت پرذرا سا غور بھی انسان پر اس حقیقت کو روشن کر دیتا ہے کہ نبی پیچھے آتا ہے اور کفر پہلے ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ کفار خواہ اہل کتاب ہوں یا مشرک کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آجاتی.مِنْ کو بیانیہ تسلیم کرنے کی صورت میں ’’ خواہ‘‘ کا لفظ گو اُس کے معنوں کو پوری طرح ظاہر نہیں کرتا مگر چونکہ اُردو میں’’ خواہ‘‘ کا لفظ اُس مضمون کو قریب الفہم کر دیتا ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس لئے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ کفار خواہ اہل کتاب میں سے ہوں اور خواہ مشرکوں میں سے ، کبھی بھی اپنے کفر کو چھوڑ نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ نہ آتی.’’ جب تک ‘‘ کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال کئے جائیں تو اُس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ’’جب تک‘‘ سے پہلے بیان شدہ چیز ’’جب تک‘‘ کے بعد بیان ہونے والی شے سے پہلے ہے یا اُس کا اِس سے پہلے ہونا ضروری ہے.مثلاً یہ کہا جائے کہ وہ شخص اپنے گھر سے نہیں نکل سکتا تھا جب تک میرا پیغام اُس کے پاس نہ پہنچ جائے.تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پیغام پیچھے جائے گا اوروہ گھر میں پہلے بیٹھا ہوا ہو گا.اسی طرح لَمْ یَکُنْ اور حَتّٰى کے الفاظ جب کسی فقرہ میں استعمال ہوں گے تو اُس کے معنے یہ ہوں گے کہ لَمْ یَکُنْ میں بیان شدہ بات حَتّٰى سے پہلے واقع ہو چکی ہے.اس سے صاف پتہ لگا کہ بَیِّنَۃ کے آنے سے پہلے وہ لوگ کافرہو چکے تھے.بَیِّنَۃ

Page 524

یعنی رسول نے اُن کو کافر نہیں بنایا بلکہ بَیِّنَۃ کے آنے سے پہلے ہی وہ کافر بن چکے تھے.غرض کفر پہلے ہوتا ہے اور نبی بعد میں آتا ہے نبی کا فر گر نہیں ہوتا بلکہ کفر کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے.جب بھی کوئی نبی دنیا میں آتا ہے اُس کا انکار کرنے کے بعد لوگ کافر نہیں بنتے بلکہ پہلے ہی وہ کافر بن چکے ہوتے ہیں نبی صرف ان کے کفر کا اظہار کرتا ہے پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں یہ ایک غیر محتاط کام ہے جسے ہم بھی زبان کے عام محاورہ کے مطابق بعض دفعہ استعمال کر لیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی عام رواج کے مطابق اس کو استعمال کیا ہے مگر حقیقتاً نہ ہمارا یہ مفہوم ہوتا ہے نہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مفہوم تھا کہ نبی کافر بناتا ہے بلکہ ہمارا مفہوم بھی یہ ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بھی مفہوم یہی ہوتا ہے کہ نبی لوگوں کے کفر کا اظہار کرتا ہے گو عرف عام کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ نبی کا انکار کر کے لوگ کافر بنتے ہیں بہر حال حقیقت یہ ہے کہ نبی کافر نہیں بناتا نبی کا انکار کر کے لوگ کافر نہیں ہوتے بلکہ نبی کے انکار سے ان کا کفر ظاہر ہو جاتا ہے اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص جس نے کبھی خربوزہ نہیں دیکھا یہ کہے کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے.اب جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے یہ ایک واضح امر ہو گا کہ اُس نے جھوٹ سے کام لیا ہے مگر اس کا یہ جھوٹ اس وقت تک ظاہر نہیں ہو سکتا جب تک ہم خربوزہ اس کے سامنے لا کر نہ رکھ دیں اور پھر اس سے پوچھ نہ لیں کہ بتائو یہ کیا چیز ہے؟ اگر ہم ایک خربوزہ اس کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں اورپھر اس سے پوچھتے ہیں کہ بتائو یہ کیا چیز ہے اور وہ جواب میں کہتا ہے کہ مجھے علم نہیں تو یہ اس بات کا ایک واضح ثبوت ہو گا کہ جب اس نے کہا تھا کہ میں نے خربوزہ کھایا ہے تواس نے جھوٹ اور کذب بیانی سے کام لیا تھا مگر اس کے جھوٹ بولنے کے باوجود اور پھر خربوزہ کے آنے پر اُس کا جھوٹ ظاہر ہونے کے باوجود دنیا میں یہ کبھی نہیں کہا جائے گا کہ خربوزے نے اس کو جھوٹا بنایا ہے خربوزے نے اس کو جھوٹا نہیں بنایا بلکہ خربوزے نے اس کے جھوٹ کو آکر ظاہر کیا ہے ورنہ جھوٹا تو وہ پہلے ہی تھا.اسی طرح لوگ کہتے ہیں ہم موسٰی کو مانتے ہیں لوگ کہتے ہیں عیسٰیؑ کو مانتے ہیں اور جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ہم موسٰی اور عیسٰیؑ کو مانتے ہیں تو اس سے ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ یہ مراد تو نہیں ہوتی کہ موسٰی اور عیسٰیؑ آدمی تھے یہ تو ہر شخص جانتا ہے کہ وہ آدمی تھے پس ان کا یہ کہنا کہ ہم موسٰی اور عیسٰیؑ کو مانتے ہیں اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ ہم مانتے ہیں کہ موسٰی ایک آدمی تھا یا ہم مانتے ہیں کہ عیسٰیؑ ایک آدمی تھا بلکہ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ موسٰی نبی کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں عیسٰیؑ نبی کی نبوت کو ہم شناخت کرتے ہیں اور جب وہ انبیاء کی نبوت کو شناخت کرنے کا ملکہ اپنے اندر رکھتے ہیں تو یہ لازمی بات ہے کہ جب بھی کوئی نبی دنیا میں ظاہر ہو گا وہ اس کو فوراً پہچان لیں گے کیونکہ جو شخص ایک جنس کی کسی چیز کو شناخت کرنے کا ملکہ رکھتا

Page 525

ہے وہ اُسی جنس کی دوسری چیزکو بھی شناخت کر سکتا ہے جو شخص آم کو پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی آم رکھا جائے گا فوراً کہہ اٹھے گا کہ یہ آم ہے یا جو شخص خربوزہ پہچانتا ہے اُس کے سامنے جب بھی خربوزہ لایا جائے گا اُسے شناخت میں کوئی دقت واقعہ نہیں ہو گی.وہ فوراً کہہ دے گا کہ یہ خربوزہ ہے اسی طرح وہ شخص جس نے نبوت کو شناخت کر لیا ہے اس کو کسی نبی کے پہچاننے میں کوئی دقّت ہی پیش نہیں آ سکتی.نوحؑ آئے گا تو اُس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے ابراہیم ؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے اُسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے.موسٰی آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے.عیسٰیؑ آئے گا تو اس کے متعلق وہ کہے گا میں نے اسے پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے تو ان کے متعلق وہ کہے گا کہ میں نے انہیں پہچان لیا یہ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں لیکن اگر اس نے واقعہ میں نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسٰی اور عیسٰیؑ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شناخت نہیں کیا ان کی نبوت کو اس نے نہیں پہچانا اور صرف جھوٹے طور پر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں نے انبیاء علیہم السلام کی نبوت کو پہچانا ہوا ہے تو گو وہ منہ سے اس امر کا دعویدار ہو گا کہ میں نوحؑ کو بھی مانتا ہوں ، ابراہیم ؑکو بھی مانتا ہوں ،موسٰی کو بھی مانتا ہوں ،عیسٰیؑ کو بھی مانتا ہوں مگر جب محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کا جامہ پہن کر اس کے سامنے آ ئیں گے تو کہہ دے گا کہ آپ نعوذ باللہ جھوٹے ہیں اس سے صاف پتہ لگ جائے گا کہ اس کا یہ کہنا کہ میں نوحؑ اور ابراہیمؑ اور موسٰی اور عیسٰیؑ کو پہچانتا ہوں محض جھوٹا اِدّعا تھا ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہی جُبّہ جو نوحؑ نے پہنا، وہی جُبّہ جو ابراہیمؑ نے پہنا، وہی جُبّہ جو موسٰی نے پہنا، وہی جُبّہ جوعیسٰیؑ نے پہنا،وہی جُبّہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہن کر آتے تو وہ آپ کی شناخت سے محروم رہتا؟ اس کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شناخت سے محروم رہنا اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ پہلے بھی نبوت کی حقیقت کو نہیں سمجھتا تھا اور اُس کا یہ کہنا بالکل دھوکا اور فریب تھا کہ میں نوحؑ کو مانتا ہوں ، میں ابراہیمؑ کو مانتا ہوں میں موسٰی اور عیسٰیؑ کو مانتا ہوں کیونکہ جب ویسی ہی نبوت اُس کے سامنے آئی تو وہ اُس کو پہچان نہ سکا جس سے پتہ لگ گیا کہ اُس نے نہ موسٰی کو پہچانا تھا، نہ عیسٰیؑ کو پہچانا تھا اور نہ دنیا کے کسی اور نبی کو پہچانا تھا.پس اس آیت نے بتا دیا کہ دنیا میں جب بھی کوئی نبی ظاہر ہوتا ہے وہ لوگوں کو کافر نہیں بناتا بلکہ اُن کے کفر کا صرف اظہار کرتا ہے ورنہ کافر وہ اس سے پہلے ہی بن چکے ہوتے ہیں اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ کتنی فضول بحث بن جاتی ہے کہ فلاں نبی کا انکار کفر ہوتا ہے اور فلاں نبی کا انکار کفر نہیں ہوتا حالانکہ کفر کسی نبی کے انکار کے بعد پیدا نہیں ہوتا بلکہ پہلے ہی لوگوں کے اندر پیدا ہو چکا ہوتا ہے.کفر نوحؑ کے انکار کا نام نہیں.کفر ابراہیم ؑکے انکار کا نام نہیں.کفرموسٰی کے انکار کا نام نہیں.کفرعیسٰیؑ

Page 526

کے انکار کا نام نہیں.بلکہ اصل کفر نام ہے نبوت کے انکار کا.یہ جو ہم کہہ دیا کرتے ہیں کہ موسٰی اور عیسٰیؑ یا کسی اور نبی کا انکار کفر ہے یہ صرف اصطلاحی طور پر ہم کہا کرتے ہیں.چونکہ موسٰی نبی ہے اور اُس کا انکار نبوت کے انکار کے مترادف ہے اس لئے موسٰی کا انکار کفر ہے ورنہ موسیٰ آدمی کا انکار کفر نہیں یا عیسیٰ آدمی کاانکار کفر نہیں یا محمدِ عربیؐ کا انکار کفر نہیں.بلکہ موسٰی نبی کا انکار کفر ہے یا عیسٰیؑ نبی کا انکار کفر ہے یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کفر ہے اور یہ کفر بھی ان معنوں میں نہیں کہ اس نے کسی شخص کا انکار کیا ہے بلکہ اِن معنوں میں ہے کہ اس نے تمام انبیاء کی نبوت سے انکار کیا ہے ورنہ اگر وہ کسی ایک نبی کی نبوت کو بھی صحیح معنوں میں پہچاننے والا ہوتا تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ اس کے سامنے ایک دوسرا شخص وہی نبوت کا جامہ پہن کر آتا تو وہ اس کا انکار کر دیتا اور کہہ دیتا کہ وہ کافر ہے.جو شخص نبوت کو پہچانتا ہے اس کے سامنے تو جو شخص بھی نبوت کا جامہ پہن کر آئے گا وہ فوراً اس کو پہچان لے گا لیکن جو شخص نبوت کے متعلق جانتا ہی نہیں کہ وہ کیا چیز ہوتی ہے اس کے سامنے جب کوئی شخص نبوت کا جامہ پہن کر آئے گا تو بجائے اس کے کہ وہ اس پر ایمان لائے اسے کافر اور بے دین قرار دینے لگ جائے گا اور اس طرح اس بات کا ثبوت مہیا کر دے گا کہ اس کا پہلے انبیاء کی نبوت پر ایمان لانے کا دعویٰ بھی محض ایک دھوکا تھا.اگر وہ موسٰی اور عیسٰیؑ کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن یہی جامہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دیکھتا ہے تو آپ کو کافر کہنے لگ جاتا ہے تو یہ صاف اور واضح ثبوت اس بات کا ہے کہ اُس نے موسٰی اور عیسٰیؑ کی نبوت کو بھی نہیں پہچانا مگر چونکہ اُس کے ماں باپ کہتے تھے کہ موسٰی نبی ہے اس لئے اس نے بھی موسٰی کو مان لیا یا چونکہ اس کے ماں باپ کہتے تھے عیسٰیؑ نبی ہے اِس لئے اُس نے عیسٰیؑ کو بھی مان لیاورنہ درحقیقت نہ وہ موسٰی پر ایمان رکھتا تھا نہ عیسٰیؑ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ کسی اور نبی پر ایمان رکھتا تھا.پس حقیقت یہ ہے کہ نبوت کا انکار کفر ہے نہ کہ زید یا بکر یا خالد کا انکار.چونکہ آنے والا اسی قسم کا جامہ پہن کر آتا ہے جس قسم کا جامہ پہلے انبیاء پہن کر آئے اس لئے جب لوگ اُس کا انکار کر دیتے ہیں تو اُن کے متعلق یہ نہیں سمجھا جاتا کہ انہوں نے کسی ایک شخص کا انکار کیا بلکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے نبوت کا انکار کیا ہے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ حضرت مرزا صاحب کا کوئی نام رکھ لو جو باتیں انہوں نے لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے سامنے پیش کیں اور جو سلوک لوگوں نے آپ سے کیا وہ ویسا ہی ہے جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا اور انبیاء سے دنیا نے کیا.یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے جس کا پیغامی بھی انکار نہیں کرسکتے.اور تو اور خود مولوی محمد علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت پر منہاجِ نبوت کو

Page 527

Page 528

وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ اہل کتاب اور مشرک کبھی اپنے کفر کو چھوڑ ہی نہیں سکتے تھے جب تک اُن کے پاس بیّنہ یعنی اللہ تعالیٰ کا رسول نہ آجاتا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بیّنہ کے آنے سے اہل کتاب اور مشرکین نے کفر چھوڑ دیا؟ یا قرآن کریم کے آنے کی وجہ سے اہل کتاب اور مشرک بچ گئے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اِس فقرہ کی بناوٹ اِس قسم کی نہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ سب کے سب اہل کتاب یا سب کے سب مشرک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں گے بلکہ اس کامطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کوئی ایک شخص بھی مسلمان نہیں ہو سکتا تھا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے.پس اِس آیت کے یہ معنے نہیںہیں کہ اہل کتاب اور مشرک اُس وقت تک سو ۱۰۰ فی صدی مسلمان نہیں ہو سکتے تھے جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے بلکہ معنے یہ ہیں کہ اہل کتاب ا ور مشرکوںمیں سے ایک فی صدی بھی صداقت پر قائم نہیںہو سکتے تھے جب تک ان کے پاس بیّنہ یعنی اللہ تعالیٰ کا رسول نہ آجاتا.پس یہ کہنا کہ یہودی اب تک موجود ہیں یا عیسائی اب تک موجود ہیںیا مشرک اب تک موجود ہیں اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے ویسا ہی اعتراض ہے جیسے مولوی ثناء اللہ صاحب کہہ دیا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کے آنے کا فائدہ کیا ہوا جبکہ عیسائی بھی موجود ہیں، یہودی بھی موجود ہیں، ہندو بھی موجود ہیں، سکھ بھی موجود ہیں اور غیر احمدی بھی موجود ہیں، حالانکہ نبی آنے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ سب لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں اور کوئی ایک شخص بھی ایسا باقی نہیں رہتا جو کفرو شرک میں مبتلا رہے.نبی کے آنے کی غرض نبی آنے کے صرف اتنے معنے ہوتے ہیں کہ وہ الٰہی قرب کا ایک راستہ کھول دیتا ہے اور بنی نوع انسان کے لئے شیطان سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کی رضا حاصل کرنے کے مواقع پیدا ہوجاتے ہیں اس کے بعد خواہ ایک شخص نبی پر ایمان لائے یا دس آدمی ایمان لانے والوںمیںشامل ہوں.یہ نہیںکہا جا سکتا کہ جب ہزاروں یا لاکھوں آدمی ابھی کفر و شرک میں مبتلا ہیں تو نبی کے آنے کا فائدہ کیا ہوا.نبی کے آنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کا دروازہ بنی نوع انسان کے لئے کھول دیتا ہے اگر وہ دروازہ نہ کھولے تو کوئی ایک شخص بھی مسلمان نہیں ہو سکتا.کوئی ایک شخص بھی اللہ تعالیٰ کا مقرب اور اُس کا پیارا نہیں بن سکتا.پس یہ کہنا کہ باوجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبعوث ہونے کے کفر کیوںموجود ہے حقیقت سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی حکمتوں اور سنتوں کو نہ جاننے سے پیدا ہوا ہے اور درحقیقت یہ اعتراض ہر نبی پر ہی کیاگیا ہے اور جب تک دنیا میں مصلح آتے رہیں گے ہوتا رہے گا کیونکہ ایک مصلح ربّانی بھی دنیا میں نہیں آیا جسے سب دنیا نے قبول کر لیا

Page 529

ہو یا جس کے نہ ماننے والے شروع میں غالب نہ رہے ہوں.ہمیشہ کچھ مدت تک (جو موقع کے مطابق بدلتی رہتی ہے کبھی لمبی ہوجاتی ہے اور کبھی چھوٹی) ہر نبی کے دشمن اُس کے اتباع پر غالب رہتے ہیں اس کے بعد نبی کے لئے غلبہ کا زمانہ آتا ہے اور اُسے غلبہ نصیب ہوتا ہے.یہ نہیں ہوتا کہ اس کے نہ ماننے والے دنیا سے مٹ جائیں بلکہ بسا اوقات ماننے والے ہی نہ ماننے والے بن جاتے ہیں یعنی جب نبی کا دورِ افاضہ ختم ہوجاتا ہے یا تجدید کا مستحق ہوتا ہے تو اُس کے ماننے والے اس کی طرف منسوب تو ہوتے ہیں مگر ایماناً اور عقیدۃً اُس کے دشمنوں کے نقشِ قدم پر چل رہے ہوتے ہیں.گویا اِس دَور میں شیطان اور فرشتے ایک ہی وقت میں اُس کے اتباع پر حکومت کر رہے ہوتے ہیں فرشتوں کی حکومت زبان پر ہوتی ہے اور شیطان کی دل پر.تب خدا تعالیٰ کی غیرت پھر جوش میں آتی ہے اور وہ پھر کوئی شریعت والا نبی یا اگر شریعت محفوظ ہو تو احیاء روحِ شریعت کے لئے بغیر شریعت کے نبی مبعوث فرما کر پھر اپنے بندوں کے لئے روحانی ترقی کا راستہ کھول دیتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ وہ رحمٰن اور رحیم خدا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ الٰہی سلسلوں کو سو ۱۰۰ فی صدی لوگ تو مانا نہیں کرتے لیکن پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا یہ راستہ ایسے شاندار طریق پر کھولا کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے کروڑوں کروڑ لوگ آپ پر ایمان لائے اور اس طرح انہوںنے اپنے کفر سے نجات پائی.چنانچہ اہل کتاب میں سے مصر قریباً سارا مسلمان ہوگیا، فلسطین قریباً سارا مسلمان ہوگیا، شام قریباً سارا مسلمان ہوگیا، عرب کے نصاریٰ قریباً سارے مسلمان ہوگئے.اِسی طرح دوسرے اہل کتاب مجوس تھے وہ قریباً سب مان گئے اور اُن کا ۹۵یا۹۶ فی صدی حصہ مسلمان ہوگیا.ہندوستان اور چین کے اہل کتاب میں سے بھی کروڑوں مسلمان ہوگئے ہندوستان کےمسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے اگر ان میں سے ایک کروڑ بھی باہر سے آئے ہوئے سمجھ لئے جائیں تب بھی نو ۹ کروڑ ایسے لوگ رہ جاتے ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے.اسی طرح چین میں قریباً آٹھ کروڑ مسلمان ہیں اِن میں سے شاید دو چار یا دس لاکھ مسلمان عرب سے آیا ہوا ہو باقی سب وہ لوگ ہیں جو کنفیوشس کے پیرو تھے بعد میں انہوں نے اسلام قبول کر لیا.غرض اہل کتاب میں سے ایک بڑی تعداد جو کروڑوں پر مشتمل ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائی اور اُس نے کفر سے نجات حاصل کی.پس یہ کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کا فائدہ کیا ہوا کیا سب اہل کتاب آپ پر ایمان لے آئے؟ تاریخی لحاظ سے نہایت بودا اعتراض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کے لئے نہیں، دو کے لئے نہیں، کروڑوں کروڑ لوگوں کے لئے یہ راستہ کھولا اور کروڑوں کروڑ اہل کتاب کو آپ پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی.اِسی طرح مشرکوں میں سے عرب کے مشرک تو

Page 530

سو ۱۰۰ فی صدی مسلمان ہوگئے اور باقی ممالک پر بھی اسلام کی توحید کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں نے شرک کو خود بخود ترک کر دیا.چنانچہ اب حقیقی معنوں میں مشرک صرف ہندوستان یا افریقہ کے قبائل ہی رہ گئے ہیں باقی سب مشرکین میں سے نکل کر اہل کتاب میں شامل ہوچکے ہیں.اس سورۃ کی اوّلین مخاطب عرب کی قوم ہو سکتی تھی مگر وہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں وہ ساری کی ساری مسلمان ہوگئی تھی.ایسا تغیّر اس سے پہلے دنیا کی کسی الہامی کتاب نے پیدا نہیں کیا.باقی رہے وہ لوگ جو ایمان لانے سے اِس وقت تک محروم ہیں اُن کے متعلق اِسی سلسلہ میں ایک اور خبر دی گئی ہے مگر اس سورۃ میں نہیں بلکہ اگلی سورۃ میں.آیت لَمْ يَكُن کا ترجمہ سیل اور ویری کے نزدیک اور اس کی تغلیط اس جگہ اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ میں ’’لَمْ يَكُنْ‘‘ کا ترجمہ سیل اور ویری دونوں نے غلط کیا ہے.اُنہوں نے ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’وہ ہٹے نہیں‘‘ (A comprehensive commentary on the Quran by Wherry V:4 page 266- The Koran by Sale v:1 p.494) اور معنے یہ کئے ہیں کہ یہود اور نصاریٰ جو ایک آنے والے رسول کی امید لگائے بیٹھے تھے وہ اس امید پر قائم رہے جب تک کہ رسول نہ آ گیا یعنی جب وہ رسول آ گیا جس کی وہ امید کیا کرتے تھے تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں تو کسی رسول کی امید نہیں تھی حالانکہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى کے معنے سوائے اس کے ہو ہی نہیں سکتے کہ پہلا مضمون دوسرے سے معلّق ہے جب تک دوسری حالت نہ ظاہر ہو جائے پہلی حالت بدل ہی نہ سکتی تھی.پس رسول کے آنے تک رُکے نہ تھے اِس آیت کے معنے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اِن معنوں میں تعلیق مشروط نہیں پائی جاتی بلکہ صرف ایک واقعہ کا اظہار ہے جو اِس قسم کی عبارت کے منافی ہے.آیت لَمْ يَكُن الخ کا ترجمہ کرنے میں بعض مفسرین کو ٹھوکر تعجب ہے کہ پرانے مفسرین میں سے بھی بعض نے یہی معنے کئے ہیں حالانکہ وہ عربی زبان کے بڑے ماہر تھے اُن کا اس عربی عبار ت میں سے یہ معنے نکال لینا ایک حیرت کی بات ہے مگر پھر خود ہی اُن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ اگر اس آیت کے یہی معنے ہیں کہ آنے والے نبی کے اظہار سے یعنی اس عقیدہ کے اظہار سے کہ ایک موعود رسول آنے والا ہے وہ نہیں رکے جب تک کہ نبی نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں تو اہل کتاب کے ساتھ مشرکین کا بھی ذکر آتا ہے کیا مشرک بھی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ ایک رسول دنیا میں آنے والا ہے.پھر اس کا خود ہی انہوں نے یہ جواب دیا ہے کہ کچھ مشرک

Page 531

لوگ اہل کتاب کے اثر کے ماتحت یہ امید یں رکھتے تھے کہ ایک رسول آنے والا ہے.حالانکہ یہ عبارت ایسی ہے کہ اس سے ’’کچھ‘‘ کا استنباط ہو ہی نہیں سکتا.تمام مشرکوں کو اہلِ کتاب کے ساتھ شریک کیاگیا ہے اس لئے یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ یہاں بعض مشرکوں کا ذکر ہے اور بعض کا نہیں.آیت لَمْ يَكُن الخ کا صحیح ترجمہ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ سب اہل کتاب اور مشرک رُکنے والے نہیں تھے.پس اگر اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اس اعلان سے نہیں رکے کہ ایک موعود آنے والا ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ہر مشرک یہ امید رکھتا تھا کہ ایک رسول آئے گا حالانکہ یہ امر باالبداہت باطل ہے.مشرکوں میں تو ایسے لوگ بھی تھے جو نزولِ الہام کے بھی قائل نہیں تھے کجا یہ کہ وہ کسی مامور کی بعثت کا انتظار کر رہے ہوتے.پھر اگر یہی معنے کئے جائیں کہ وہ ایک مامور کی اُمید سے نہیں رُکے جب تک کہ رسول اُن کے پاس نہیں آ گیا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت میں لَمْ يَكُنْ مُنْفَكِّيْنَ کے کیا معنے ہوئے؟ اس فقرہ کے تو یہ معنے ہیں کہ وہ رسول کے آنے کے بغیر اپنے مقام سے اِدھر اُدھر ہل نہیں سکتے تھے اور رسول کے آنے پر یہ کہنا کہ ہم کسی رسول کے منتظر نہیں تھے یا ہمیں کسی مامور کی امید نہیں تھی.اس میں ہٹ نہ سکنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.رسول کی آمد کا انکار تو جو چاہے اپنے ارادہ سے کر سکتا ہے.علاوہ ازیں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ امر اوّل کا بدلنا منشاء الٰہی کے ماتحت ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو جائے کیونکہ لَمْ یَکُنْ فَاعِلًا حَتّٰی کے معنے عربی زبان میں قائل کی اس خواہش کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ بہتر ہے کہ ایسا تغیر ہو جائے.لیکن جو معنے اُن مفسروں نے کئے ہیں اُن سے خدا تعالیٰ کی خواہش نہیں بلکہ عدم خواہش ظاہر ہوتی ہے کیونکہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ یہ لوگ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں کیونکہ ایسا کرنا گمراہی ہے اور خدا تعالیٰ کسی کے گمراہ ہو جانے کو پسند نہیں کرتا.اُردو زبان میں بھی اس قسم کی عبارات کے معنوں پرغور کرو تو حقیقت کھل جائے گی.اگر کوئی یہ کہے کہ جب تک اُستاد نہ رکھا اس لڑکے نے پڑھا ہی نہیں.اس کے بے شک یہ معنے ہیں کہ اُستاد رکھنے سے اُس نے پڑھا لیکن ساتھ ہی یہ امر بھی ظاہر ہے کہ کہنے والے کی خواہش بھی اس میں مخفی ہے کہ لڑکے کے پڑھ جانے کو وہ پسند کرتا تھا یہ نہیں کہ وہ پسند نہیں کرتا تھا اسی امر کو مد نظر رکھتے ہوئے ان مفسرین کے معنوں کو دیکھو تو اس آیت کا ترجمہ اُن کے خیال کے مطابق یہ ہو گا کہ رسول آیا تب کہیں جا کر ان لوگوں نے رسول کی آمد کا انتظار چھوڑا اور ظاہر ہے کہ اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ کہنے والا چاہتا تھا کہ یہ رسول کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں اور ایسا خیال اللہ تعالیٰ کی نسبت سخت گستاخانہ خیال ہے.

Page 532

علامہ واحدی کہتے ہیں کہ اس کے معنے یہ ہیں کہ جب تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر ضلالت وکفر کو ظاہر نہیں کیا اہل کتاب اور مشرک اپنے کفر سے بعض نہ آئے(فتح البیان زیر آیت لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) اور چونکہ اس مقام پر ان کے دل میں بھی یہ شبہ پید اہوا ہے کہ یہاں تو سب اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہ آیت ایمان لانے والے اہل کتاب اور مشرکوں کے بارہ میں ہے یعنی اہل کتاب میں سے کافر اور مشرکوں میں سے کافر نہ رکے یعنی ایمان لے آئے حالانکہ یہاں صاف طور پر كَفَرُوْا کا لفظ آتا ہے اگر ان کا خیال درست ہو تو یوں کہنا چاہیے تھا اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کچھ لوگ ایمان لے آئے الَّذِیْنَ کَفَرُوْا کہنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی پھر لکھتے ہیں وَھٰذِہِ الْاٰیَۃُ مِنْ اَصْـعَبِ مَا فِی الْقُرْاٰنِ نَظْمًا وَّ تَفْسِیْـرًا وَّقَدْ تَـخَبَّطَ فِیْہِ الْکِبَارُ مِنَ الْعُلَمَاءِ وَ سَلَکُوْا فِیْ تَفْسِیْـرِھَا طُرُقًا لَا تُفْضِیْ بِـھِمْ اِلَی الصَّوَابِ (فتح البیان زیر آیت لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ) یعنی یہ آیت عبارت اور تفسیر کے لحاظ سے قرآن کریم کی مشکل ترین آیتوں میں سے ہے اور بڑے بڑے علماء اس میں ٹھوکریں کھاتے رہے ہیں اور انہوں نے اس کے معنے کرتے ہوئے ایسےطریق اختیار کئے ہیں جو انہیں صحیح نتیجہ پر پہنچانے سے قاصر رہے.جہاں یہ بات درست ہے کہ بعض علماء نے اس کے معنوں میں ادبی غلطیاں کی ہیں یعنی جو معنے نہیں ہو سکتے تھے وہ کر دیئے ہیں مثلاً یہ کہ یہود نے انتظارِ نبی نہ چھوڑا جب تک نبی نہ آگیا وہاں علامہ واحدی کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے صحیح مطلب سمجھا ہے یہ بھی غلط ہے کیونکہ ان کے معنے بھی درست نہیں لَمْ يَكُنِ مُنْفَكِّيْنَ کے معنے ’’ وہ نہیں رُکے‘‘ کسی صورت میں بھی درست نہیں اس کے معنے ہمیشہ ’’ وہ رُکنے والے نہ تھے‘‘ کے ہوتے ہیں بہرحال اس آیت کے معنے سمجھنے میں دقتیں ضرور پیش آئی ہیں مگر یہ دقتیں خود پیدا کردہ ہیں کیونکہ مُنْفَكِّيْنَ کے حقیقی معنوں کی طرف توجہ نہیں کی گئی.اگر سیاق عبارت سے اس کا مفہوم نکال لیا جاتا تو بات آسان ہو جاتی کَفَرُوْا کا لفظ پہلے گزر چکا تھا.اس لئے مُنْفَكِّيْنَ کے معنے یہی ہو سکتے تھے کہ مُنْفَكِّيْنَ عَنْ کُفْرِھِمْ.اگر عَنْ کُفْرِھِمْ کو محذوف نکال لیا جاتا تو معنوں کی دقتیں پیش نہ آتیں اور مضمون بالکل ظاہر ہو جاتا.رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةًۙ۰۰۳ یعنی اللہ ( کی طرف )سے آنے والا ایک رسول جو (اُنہیں ایسے) پاکیزہ صحیفے پڑھ کر سناتا.حلّ لُغات.طَھَّرَہٗ طَھَّرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ طَا ھِرًا.اُس کو پاک کر دیا (اقرب) اس لحاظ

Page 533

Page 534

Page 535

نہیں کہیں گے.اسی طرح کسی چیز کو نجاست لگ جائے تو اس کو صاف کرنے کے لیے طَھِّرْ کہیں گے طَیِّب نہیں.بہرحال طاہر تب کہیں گے جب نجاست ظاہری سے کسی چیز کو بچایا جائے.خواہ یہ نجاست جسمانی ہو یا روحانی.مثلاً ایک طاہرالقلب انسان ہو یعنی وساوس شیطانی سے پاک ہو تو اسے بھی ہم طاہر کہہ دیں گے اور اگر کوئی شخص نہا دھو کر نکلا ہو تو اُسے بھی طاہر کہا جائے گا.نظافت بھی خارجی نجاست سے پاکیزگی کا نام ہے جیسے میل وغیرہ سے یا حسن و خوبصورتی کا مالک ہونے پر یہ لفظ دلالت کرتا ہے.کہتے ہیں نَظُفَ الشَّیْءُ میل کچیل سے پاک تھی یا خوبصورت تھی لیکن کبھی یہ لفظ باطنی نجاست سے پاک ہونے کے لیے بھی بول لیا جاتا ہے.کہتے ہیں فُلَانٌ نَظِیْفُ الْاَخْلَاقِ یعنی فلاں شخص مہذب ہے مگر یہ لفظ اخلاق کے لیے بولا جائے گا یا میل کچیل کے لیے.مزیدار یا لطیف کے لئے نہیں بولا جائے گا اور صفائی کے لیے زیادہ تر ظاہر قسم کی صفائی کے لیے بولا جائے گا نہ کہ باطنی صفائی پر.اسی طرح اخلاق کے لیے تو بولا جائے گا روحانی صفائی کے لیے نہیں اس وجہ سے اس کے معنے طاہر سے مختلف ہیں کہ وہ رُوحانی پاکیزگی اور نفسیاتی پاکیزگی پر زیادہ دلالت کرتا ہے.اس لفظ کو طیّب سے اس امر میں مشارقت ہے کہ حسن و بہا کے لیے بھی نظافت کا لفظ آتا ہے.یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا مگر احادیث میں اصل معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے اور استعارۃً بھی استعمال ہوا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نَظِّفُوْااَفْوَاھَکُمْ (کنز العمال الفصل الثالث فی آداب التلاوۃ حدیث نـمبـر ۲۸۰۴) اپنے مُونہوں کو پاک کیا کرو.اس جگہ پاک کرنے کے معنے یہ ہیں کہ جھوٹ فریب اور دغا وغیرہ سے اپنے آپ کو بچائو اور کہیں کوئی ایسی بات اپنی زبان سے نہ نکالو جو اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.یہاں نظافت کا لفظ استعارۃً استعمال ہوا ہے نہ کہ اصل ظاہری معنوں میں.نِقَاءٌ کا لفظ بھی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا حدیث میں ہوا ہے.اس کے اصل معنے مغز نکالنے کے ہوتے ہیں(اقرب) اور ان معنوں کے رُو سے استعارۃً صفائی کے معنوں میں بھی استعمال ہونے لگ گیا ہے جیسے چھلکے کو دُور کرکے مغز نکالتے ہیں یا ہڈی کو توڑ کر گودہ نکالتے ہیں.انہیں معنوں سے استدلال کر کے محاورہ میں نظیف حسین اور خالص کے معنے دینے لگ گیا ہے.زَکٰوۃٌ کے اصل معنے اندرونی نجاست کے دُور کرنے کے ہوتے ہیں لیکن کبھی ظاہری صفائی کے معنوں میں بھی استعارۃً استعمال ہو جاتا ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.صَفَاءٌ کے معنے ملاوٹ سے نجات پانے کے ہوتے ہیں یا منتخب ہونے کے ہوتے ہیں استعارۃً ظاہری صفائی

Page 536

Page 537

کوئی الہامی کتاب بھی ان کے کام نہیں آتی صرف رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ کام آتا ہے.ایساشخص ہی لوگوں کی نجات کا باعث بن سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبوت و رسالت کے مقام پر کھڑا ہو اور اپنی قوت قدسیہ سے نفوس کو پاکیزہ کرنے کی استعداد رکھتا ہو.اگر یہاں صرف بیّنہ کا لفظ ہوتا تو لوگ کہتے کہ بیّنہ سے مراد کتاب ہے اور مطلب یہ ہے کہ کتاب لوگوں کی اصلاح کے لیے کافی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کا ذکر کرنے کے بعد بیّنہ کا ذکر کیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے پاس کتاب موجود تھی مگر وہ ان کو کفر سے نہ بچا سکی.باوجود اہل کتاب ہونے کے ایسے گرے کہ کفار میں شامل ہو گئے اس لیے یہ سمجھنا کہ کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی ہوتی ہے بہت بڑی غلط فہمی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے موقعہ پر وہی دلیل کام آتی ہے جو رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ کی شکل میں ہو دوسری کوئی دلیل کام نہیں آیا کرتی خواہ کتاب موجود ہو، تحریف و الحاق سے مبرّا ہوپھر بھی ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ پر تازہ ایمان پیدا ہو، اس سے تازہ تعلق ہو، اس کی محبت اور پیار کے تازہ کرشمے ظاہر ہوں اور یہ بات بغیر نمونہ اور بغیر اللہ تعالیٰ کے تازہ نشانات کے حاصل نہیں ہو سکتی بے شک اس وقت کتاب تو ہوتی ہے مگر وہ بولتی نہیں لوگوں کے لیے اس کا وجود اور عدم وجود بالکل یکساں حیثیت رکھتا ہے مگر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی رسول مبعوث ہوتا ہے تو اُس کے ذریعہ وہ کتاب پھر بولنے لگتی ہے، پھر اس کے انوار لوگوں کے قلوب کو گرماتے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار کرتے ہیں اور پھر ان کے ایمانوں میں ایک نئی تازگی پیدا ہو جاتی ہے.آیت لَمْ یَکُنْ میں چکڑالویوں اور پیغامیوں کا ردّ اس آیت نے چکڑالویوں کا بھی ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ ہمارے لیے قرآن کافی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی ہمیں ضرورت نہیں اسی طرح پیغامیوں کا بھی ردّ کر دیا جو کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن لے آئے ہیں تو اس کے بعد کسی رسول کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے یہ خیالات بالکل غلط ہیں وسیع فساد کے وقت میں وہی دلیل کام آیا کرتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے رسول کی شکل میں ظاہر ہو کتاب لوگوں کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہو سکتی.اُس وقت وہ بیّنہ کام آتی ہے جو رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ کی شکل میں ظاہر ہو کیونکہ یہ وقت محتاج ہوتا ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک زندہ وجود ظاہر ہو جو خدا تعالیٰ کے تازہ نشانات کو ظاہر کرنے والا ہو اس کی طرف سے نئے نئے نشانات دکھانے والا ہو اُس کی محبت اور پیار کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کرنے والا اور قلوب میں عشقِ الٰہی کی آگ کو بھڑکانے والا ہواور وہ دنیا پر یہ ظاہر کر سکتا ہو کہ ہمارا خدا آج بھی ویسا ہی زندہ ہے جیسے پہلے زندہ تھا اب بھی ویسا ہی کلام کرتا ہے جیسے پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اب بھی اپنے پیاروں کی تائید میں

Page 538

ویسے ہی نشانات دکھاتا ہے جیسے پہلے دکھایا کرتا تھا.تب لوگوں کے دلوں کے تالے کھلتے اور ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونے شروع ہوتے ہیں اس کے بغیر ان کی روحانی زندگی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہوتا يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً.مُطَھَّر کے معنے حل لغات میں آ چکے ہیں جو یہ ہیں.اوّل.عیبوں سے پاک دوم.زوائد سے پاک سوم.دُھلا دھلایا چہارم.ظاہری نقص سے پاک پنجم.شرک سے پاک صحف کے مُطَهَّرَةً ہونے کا مطلب پس يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً کے یہ معنے ہوئے کہ وہ ایسے صحیفے پڑھ کر سناتا ہے جو عیبوں سے پاک کئے ہوئے ہیں ان معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ (۱) پہلی کتابوں میں بعض باتیں غلط اور اللہ تعالیٰ کے الہام کے خلاف مل گئی تھیں اور وہ کتب اُس صورت میں باقی نہیں رہی تھیں جس صورت میں کہ وہ نبی پر اتاری گئی تھیں اب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ اُن تعلیمات کو جو درحقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل نہ ہوئی تھیں بلکہ بعد میں لوگوں نے ان کتابوں میں ملا دی تھیں دُور کر دیا اور اتنا حصہ تعلیم کا قران کریم میں نازل فرما دیا جو واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا.گویا عیب سے پاک کیا ہوا کے معنے یہ ہیں کہ جو نقائص پہلی کتب میں پیدا ہو گئے تھے انہیں اس کتاب میں دُور کر دیا گیا ہے یا جو باتیں مل گئی تھیں ان کی اصلاح کی گئی ہے.ایک معنے اس لحاظ سے یہ بھی بنیں گے کہ گو بعض حصے پہلی کتابوں کے واقعہ میں الہامی ہیں لیکن موجودہ زمانہ کے لحاظ سے وہ قابل عمل نہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کو بھی چھوڑ دیا کیونکہ گو منبع کے لحاظ سے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.مگر حالات کے لحاظ سے اب خدا تعالیٰ نے انہیں منسوخ قرار دے دیا ہے.پس کامل کتاب میں اب اُن کا کوئی مقام نہیں ہے.دوسرے معنے مُطَھَّرَۃ کے زوائد سے پاک کے تھے ان کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہوگا کہ ایسی باتیں جنہیں گو خراب تو نہیں کہا جا سکتا مگر وہ زوائد میں سے ہیں اُنہیں بھی قرآن کریم نے ترک کر دیا ہے پہلی چیز کی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں شراب حرام نہ تھی اسلام نے شراب کو حرام قرار دے دیا.یا پہلے زمانہ میں سود کلیتًہ حرام

Page 539

نہ تھا لیکن قرآن کریم میں سُود کو کلیۃً حرام قرار دے دیا گیا اور زوائد کی مثال ایسی ہے جیسے پہلے زمانہ میں عبادت کے لیے یہ شرط رکھی گئی تھی کہ خاص طور پر پاک کئے گئے مقام پر ہی عبادت ہو سکتی ہے اور اس قسم کی شرطیں بھی تھیں کہ ایسے پردے ہوں، ایسا مکان ہو.یہ باتیں اپنی ذات میں بری تو نہیں لیکن عبادت کے لحاظ سے زوائد ہیں.ان سب قیود کو اسلام نے اُڑا دیا.بے شک اسلام نے بھی ایک سیدھی سادی مسجد عبادت کے لیے مقرر فرمائی ہے.لیکن اُس کو عبادت کے لیے ضروری قرار نہیں دیا.اگر مسجد نہ ہو تب بھی مسلمان کی عبادت ہو جاتی ہے.مگر یہود و نصاریٰ کی عبادت کے لیے ایک خاص مقام اور ایک خاص قسم کی تیاری کی قید تھی جو اسلام میں نہیں کیونکہ قرآنی تعلیم مختون ہے یعنی اس میں سے زوائد کاٹ دیئے گئے ہیں صرف ضروری امور کو لے لیا گیا ہے.تیسرے معنے مطہر کے دھلے ہوئے کے ہیں.دھلی ہوئی چیز اصل چیز سے علیحدہ نہیں ہوتی صرف اصل چیز پر جو خارجی اثرات ہوتے ہیں ان میں تبدیلی پیدا کر دی جاتی ہے.ان معنوں کے لحاظ سے مُطَهَّرَةً کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں یا عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں ان سے قرآن کریم نے نجات دلائی ہے.یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب بھی کسی مذہب پر لمبا زمانہ گزر جاتا ہے اُس کے ساتھ فقہی پیچیدگیاں شامل ہو جاتی ہیں.فقہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جو مسائل الٰہی کتاب میں نص کے طور پر نہیں آئے ان کا استخراج کیا جائے.لیکن آہستہ آہستہ جب فقہ میں ضعف آتا ہے خود اصل مسائل میں بھی تصرّف شروع ہو جاتا ہے.اسی قسم کے نقائص کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو اباحت کی طرف لے جاتے ہیں اور کچھ ایسے لوگ پیدا ہو گئے ہیں جو ظاہر کی طرف انتہا درجہ کی شدت کے ساتھ بلاتے ہیں یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کا تھا اگر یہودیوں نے سزاکی تعلیم پر بے انتہا زور دیا تھا.تو عیسائیت نے نرمی کی تعلیم پر بے انتہا زور دے دیا.اب یہ دونوں مسائل ہی ضروری تھے لیکن یہودی فقہ اور عیسائی فقہ نے ان دونوں کو الگ الگ احکام کی شکل میں بدل دیا.جب اسلام آیا تو اس نے اس پیچیدگی کو بالکل دور کر دیا اور غلط فقہ کا تعلیم پر جو اثر تھا اس کو دھودیا مثلاً اسلام نے بھی کہا ہے کہ دانت کے بدلے دانت آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان(المائدۃ:۴۶).مگر اسلام نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عفو بڑی اچھی چیز ہے تمہیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے اسی طرح اسلام نے بھی یہی کہا کہ نرمی اور عفو بڑی اچھی چیز ہے مگر ساتھ ہی کہا کہ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ(الشورٰی:۴۱) اُسی وقت عفو جائز ہے جب عفوکے نتیجہ میں مجرم کی اصلاح کی امید ہو اگر یہ خیال ہو کہ عفو مجرم کو اور بھی بگاڑ دے گا اور اُسے بُرے اعمال پر اور زیادہ جرأت دلا دے گا تو اس وقت عفو سے کام

Page 540

لینا تمہارے لیے جائز نہیں غرض یہودی تعلیم میں یہ زور کہ ضرور دانت کے بدلہ میں دانت توڑو.آنکھ کے بدلہ میںآنکھ پھوڑواور کان کے بدلہ میں کان کاٹو(احبار باب ۲۴آیت ۱۹،۲۰) فقہ کا ہی نتیجہ تھا ورنہ موسٰی کی تعلیم میں یہ بات نہ تھی اسی طرح عیسائیت کی تعلیم میں یہ بات کہ تم ضرور معاف کرو اور اگر کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو (متی باب ۵ آیت ۳۹) فقہ کی وجہ سے ہی تھی.ورنہ حضرت مسیحؑ تو صاف کہتے ہیں کہ میں تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آیا.جب وہ تورات کو بدلنے کے لیے نہیں آئے تو اُس کے قانون سزا کو وہ کلیتہً کس طرح مٹا سکتے تھے.غرض وہ فقہی پیچیدگیاں جو یہودیوں اور عیسائیوں نے پیدا کر دی تھیں اور غلط فقہ کی وجہ سے جو نقائص رونما ہوگئے تھے قرآن کریم نے ان سب کو دُور کر دیا ہے اور یہی قرآن کریم کا مطہرّ یعنی دُھلا دُھلایا ہونا ہے.کہ اس نے ایسی تعلیم دی جو ہر قسم کی پیچیدگیوں سے پاک ہے.چوتھے معنے مُطَھَّرَۃً کے ہیں ظاہری نقصوں سے پاک.ظاہری نقائص میں سے سب سے بڑا نقص زبان کا ہوتا ہے کیونکہ کتاب کا ظاہر اُس کی زبان ہی ہوتی ہے اس لحاظ سے مُطَھَّرَۃً کے معنے یہ بنیں گے کہ قرآن کریم زبان کے نقصوں سے پاک ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا انکار دشمنانِ اسلام نے بھی نہیں کیا شاذو نادر کے طور پر کوئی غبی دشمن یا ایسا دشمن جو انصاف کوبالکل نظر انداز کر چکا ہو قرآن کریم کی زبان پر اعتراض کر دے تو اور بات ہے ورنہ بالعموم اُن عیسائیوں اور یہودیوں نے بھی جو عرب کے رہنے والے تھے قرآن کریم کی زبان کی تعریف کی ہے اور یوروپین مصنف جو غیر متعصّب ہیں انہوں نے بھی اس کی زبان کی داد دینے سے گریز نہیں کیا پس مُطَھَّرَۃً میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم زبان کے نقصوں سے پاک ہے نہایت لطیف اور فصیح زبان میں نازل ہوا ہے اور پڑھنے والے کو حسنِ کلام سے اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.ظاہری نقصوں سے پاک کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ زبان میٹھی اور دلکش ہو یعنی ظاہری نقص سے پاک ہونا ایک تو یہ ہے کہ زبان میں کوئی نقص نہ ہو ثقیل الفاظ نہ ہوں.غیر طبعی محاورات نہ ہوں.دوسرے یہ بھی ظاہری نقص سے پاک ہونے کی علامت ہے کہ زبان شیریں اور دلکش ہو.یہ خوبی بھی قرآن کریم میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اُس کی عبارت ایسی لطیف ہے کہ پڑھنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ میں نثر پڑھ رہا ہوں یا نظم پڑھ رہا ہوں.ایک عیسائی مصنف نے قرآن کریم کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے ایک بڑی لطیف بات لکھی ہے وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ جب ہماری زبان میں کیا جاتا ہے.تو عام طور پر لوگ اس کے متعلق کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا

Page 541

وہ کہتا ہے قرآن کریم کا ترجمہ سمجھ میں آ کس طرح سکتا ہے اُس کا سٹائل ایسا ہے کہ نہ اُسے نثر کہا جا سکتا ہے نہ نظم.جب تک اس کے سٹائل کو مدِّ نظر نہ رکھا جائے اُس وقت تک اُس کے معنے کو پوری طرح نہیں سمجھا جا سکتا.(New Age Encyclopedia by Belinda Whitworth:Under word Koran) پھر ایک ظاہری نقص فحش کلامی کا ہوتا ہے مگر قرآن کریم اِس نقص سے بھی کلیۃً پاک ہے.اُسے مضامین وہ ادا کرنے پڑتے ہیں کہ بعض دفعہ بغیر الفاظ کے ننگا ہونے کے اُن کو ادا نہیں کیا جا سکتا مگر قرآن کریم ان تمام مقامات پر سے ایسی عمدگی سے گذر جاتا ہے کہ مطلب بھی ادا ہو جاتا ہے اور طبعِ نازک پر گراں بھی نہیں گذرتا.اس کے مقابلہ میں ویدوں اور بائیبل وغیرہ میں بعض دفعہ ایسی باتیں آ جاتی ہیں کہ اُن کا پڑھنا بالکل نا ممکن ہو جاتا ہے ویدوں میں ایک منتر آتا ہے کہ فلاں بزرگ پیدا ہونے لگا تو چونکہ گندی جگہ سے گزرنے سے اُس نے انکار کر دیا پیٹ پھاڑ کر اُسے نکالا گیا.اِس قسم کے الفاظ انسان کی طبیعت پر سخت گراں گذرتے ہیں مگر اس امر سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ویدوں میں ایسے منتر موجود ہیں جن میں فحش کلامی پائی جاتی ہے.اِسی طرح بائبل کے متعلق خود عیسائیوں نے اعتراف کیا ہے کہ اُس کے بعض حصے ایسے گندے ہیں کہ اُن کا پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو تو وہ حصے پڑھا ہی نہیں سکتے مگر قرآن کریم میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے حسِ لطیف کو کوئی صدمہ پہنچتا ہو.پھر ایک ظاہر ی نقص کلام میں دل آزاری کا پایا جانا ہوتا ہے.پڑھنے والا جب کسی ایسی کتاب کو پڑھتا ہے جس میں دوسروں کی دل آزاری سے کام لیا گیا ہو تو وہ بُرا مناتا اور اُس کا قلب سخت اذیت محسوس کرتا ہے مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں کسی قوم کی دل آزاری نہیں کی گئی اور اگر کسی جگہ مجبوراً قرآن کریم کوبعض سخت الفاظ استعمال بھی کرنے پڑے ہیں تو وہاں اُس نے کسی کا نام نہیں لیا صرف اصولاً ذکر کر دیا ہے کہ بعض انسان ایسے ہوتے ہیں.یہ نہیں کہا کہ مکہ والے ایسے ہیں یا یہودی ایسے ہیں یا عیسائی ایسے ہیں.اس کے مقابل پر جب دوسری الہامی کتب کو دیکھا جاتا ہے تو اُن میں یہ نقص نمایاں طور پر نظر آتا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ہی انجیل میں آتا ہے کہ اُنہوں نے فریسیوں اور فقیہیوں سے جب انہوں نے نشان کا مطالبہ کیا تو کہا کہ اس زمانہ کے بد اور حرام کار لوگ مجھ سے نشان مانگتے ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یونس نبی کے نشان کے سوا اَور کوئی نشان نہیں دکھایا جائے گا(متی باب ۱۲ آیت ۳۹) اِن الفاظ کو آج بھی یہودی پڑھتے ہوں گے تو سمجھتے ہوں گے کہ بد کار اور حرام کار وغیرہ الفاظ ہمارے باپ دادوں کے متعلق ہی استعمال کئے گئے ہیں یا مثلاًحضرت مسیحؑ نے اپنے دشمنوں کو سانپ اور سانپوں کے بچے قرار دیا ہے(متی باب ۱۲ آیت ۳۴) اور انجیل میں یہ الفاظ آج تک موجود ہیں.یہودی جب بھی یہ

Page 542

الفاظ پڑھتے ہوں گے اُن کے دل دُکھتے ہوں گے کہ یہ سخت الفاط ہمارے آباء کے متعلق استعمال کئے گئے ہیں لیکن قرآن کریم نے جہاں مجبوراً بعض سخت الفاظ استعمال کئے ہیں.وہاں کسی کا نام نہیں لیا بلکہ اشارۃً ذکر کر دیا ہے کہ بعض لوگوں میں یا بعض قوموں میں یہ یہ نقائص پائے جاتے ہیں یا فلاں فلاں اخلاقی خرابیاں اُن میں موجود ہیں.دشمن اِن الفاظ کو پڑھتا ہے تو اُس کے دل پر چوٹ نہیں لگتی وہ فوراً کہہ دیتا ہے کہ میں تو ایسا نہیں یہ اور لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے پس قرآن کریم کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اُس میں دل آزاری کی کوئی بات نہیں.مُطَھَّرَۃً کے لفظ سے باطنی خوبی کی طرف بھی اشارہ ہے ایک کتاب کی بڑی باطنی خوبی یہی ہو سکتی ہے کہ جن مطالب کا بیان کرنا ضروری ہو اُس میں اُن کو پوری طرح بیان کر دیا جائے کسی قسم کا نقص اُن کے بیان کرنے میں نہ رہ جائے.یہ خوبی بھی قرآن کریم میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.اُس نے جس مضمون کو بھی لیا ہے ایسی عمدگی سے ادا کیا ہے کہ اُس میں کسی قسم کا نقص ثابت نہیں کیا جا سکتا.غرض قرآن کریم مطالب مقصودہ کے بیان کرنے سے قاصر نہیں.جو مطلب اُس نے لیا ہے اُس پر سیر کن بحث ایسی زبان میں کر دی ہے کہ ہر پڑھنے والا اسے سمجھتا ہے اور ہر مضمون کو ایسا کھول دیا ہے کہ حد ہی کر دی ہے.یہ خوبیاں بظاہر معمولی ہیں لیکن قوموں کی اصلاح اور اُن کی بیداری کے لئے اتنی اہم ہیں کہ ان کے بغیر مقصد میں کامیابی ہو ہی نہیں سکتی.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے سب سے زیادہ دنیا کی اصلاح کی ہے.باطنی گند سے پاکیزگی کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اُس کی تعلیم پاک ہو.کوئی خلافِ فطرت بات اس میں شامل نہ ہو.یہ امر بھی قرآن کریم میں انتہاء درجہ تک پایا جاتا ہے اور ہر شخص جو قرآنی تعلیم پر ادنیٰ سا بھی تد بّر کرے اُسے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی بات ایسی نہیں جو خلافِ فطرت ہو.دوسری کتابوں کو پڑھو تو اُن میں کئی ایسی باتیں آ جاتی ہیں جو خلافِ فطرت ہوتی ہیں.پھر قرآن کریم کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ اُس میں ہر فطرت کے مطابق تعلیم پائی جاتی ہے.کسی قسم کا انسان ہو جب بھی قرآنی تعلیم اُس کے سامنے پیش کی جائے وہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کے مادے رکھے ہیں کہیں غصے کا مادہ اُس میں پایا جاتا ہے، کہیں رحم کا مادہ اُس میں پایا جاتا ہے، اور یہ دونوں مادے اپنی اپنی جگہ پر نہایت اہم اور ضروری ہیں پس کامل کتاب وہی ہو سکتی ہے جو ہر قسم کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر تعلیم دے.اگر وہ ہر فطرت کو ملحوظ نہیں رکھتی تو یہ لازمی بات ہے کہ سب انسانوں کی پیاس اُس کتاب سے نہیں بجھے گی اور جس فطرت کے خلاف اُس کتاب میں کوئی تعلیم پائی جائے گی وہ فطرت اُس سے بغاوت کرے گی.

Page 543

مثلاً وہ شخص جس کی طبیعت میں غصے کا مادہ زیادہ ہے جب وُہ انجیل میں پڑھتا ہے کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے تو وہ ناک بھوں چڑھا کر کہتا ہے یہ بھی کوئی کتاب ہے یہ تو زنخوں کی کتاب ہے اِس پر کون عمل کر سکتا ہے.اس کے مقابل میں جب ایک رحم دل انسان بائیبل کی یہ تعلیم پڑھتا ہے کہ دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور کان کے بدلے کان تو وہ گھبرا کر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ خدا کی کتاب نہیں ہو سکتی جس میں اس قدر سخت دلی کی تعلیم دی گئی ہے.مگر قرآن کریم ایسی کتاب ہے جس میں ہر فطرت کے تقاضا کو ملحوظ رکھا گیا ہے.سخاوت کا مضمون آتا ہے تو ایک سخی کا دل اُس سے تسلی پا کر اٹھتا ہے.اگر اقتصادیات سے دلچسپی رکھنے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ اپنے مال کو اس طرح نہیں لٹانا چاہیے کہ قوم کمزور ہو جائے تو وہ جب قرآن کریم میں پڑھتا ہے کہ مال بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے.اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے تو اقتصادی آدمی بھی تسلی پا کر اٹھتا ہے اور وہ کہتا ہے ضرور ایسا ہی ہونا چاہیے.یہی حکمت ہے جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تعلیم کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ کتابِ مکنون میں ہے یعنی گو اس کی ایک کاپی ظاہری کاغذوں پر لکھی جاتی ہے لیکن اس کی ایک نقل آسمانی کاتبوں نے انسانی دماغوں پر بھی لکھ دی ہے.فطرت انسانی جن چیزوں کا تقاضا کرتی ہے وہ سب قرآن میں ہیں اور قرآن جن چیزوں کا حکم دیتا ہے وہ سب انسانی فطرت میں موجود ہیں گویا اِس کی ایک کاپی انسانی دماغ پر لکھی ہوئی ہے اور ایک کاپی قرآن کریم کے اوراق پر لکھی ہوئی ہے.اِسی لئے جب کوئی شخص سمجھ کر اور عقل سے کام لے کر قرآن کریم پڑھتا ہے تو اُسے یوںمعلوم ہوتا ہے کہ کہیں باہر سے حکم نہیں مل رہے بلکہ اُس کے دل کی آواز کو خوبصورت لفظوں میں پیش کیا جا رہا ہے گویا قرآن کریم کوئی نئی شریعت بیان نہیں کرتا بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ گرامو فون کی سوئی انسان کے دماغ پر رکھ دی گئی ہے اور وہ انسانی فطرت کی تحریروں کو لفظوں کی زبان میں بدل کر رکھتی جاتی ہے.کوئی حکم گراں نہیں گذرتا، کوئی تعلیم نامناسب معلوم نہیں ہوتی.کوئی لفظ طبیعت میں خلجان پیدا نہیں کرتا بلکہ ہرلفظ اور ہرحرف ایک حکیم ہستی کی طرف سے نازل شدہ معلوم ہوتا ہے.پھر مُطَھَّرَۃً کے دونوں معنوں کے لحاظ سے یعنی صفائی کے لحاظ سے اورشرک سے پاک ہونے کے لحاظ سے ایک اور بھی لطیف مناسبت اِس آیت میں پائی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس سورۃ میں دو قوموں کا ذکر ہے.ایک اہل کتاب کا اور دوسرے مشرکین کا.اہل کتاب کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اہل کتاب کی کتابوں کے نقائص دُور کئے گئے ہیں اور مشرکوں کے لحاظ سے اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کتاب میں شرک کی بیخ کنی کر دی گئی ہے گویا ظاہری صفائی کے معنے اہل کتاب کے لحاظ سے ہیں اور باطنی صفائی

Page 544

کے معنے مشرکوں کے لحاظ سے ہیں.پس دوسرے معنے اس کے اہل کتاب اور مشرکین کی نسبت سے ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح اہل کتاب اور مشرکوں کی اصلاح کے لئے یہ کتاب آئی ہے.اسی طرح اہل کتاب کے لئے اِس میں اُن کی کتب کو پاک و صاف کر کے بیان کیا گیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم جس طرح شرک سے پاک ہے اُس کی مثال دنیا کی اور کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور یہی اصلاح کا صحیح طریق ہے.حقیقی اصلاح کبھی بھی دو ٹوک اعلان کے بغیر نہیں ہوا کرتی.یہ ایک عام فلسفیانہ مسئلہ ہے کہ جب کبھی نقص بڑھ جاتا ہے اس کے لیے ریڈیکل چینجز RADICAL CHANGESیعنی غیر معمولی انقلاب کی ضرورت پیش آتی ہے.شرک کے خلاف غیر مصالحانہ رنگ جیسا قرآن کریم نے اختیار کیا ہے اور کسی کتاب نے اختیار نہیں کیا.وہ کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتا اسی وجہ سے دوسری سب اقوام شرک کے ازالہ میں ناکام رہی ہیں صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کے ماننے والے ہی شرک سے نہیں بچے بلکہ اُس کی تعلیم کے زور کی وجہ سے اُس کی ہمسایہ قومیں بھی شرک سے نفرت کا اظہار کرنے لگی ہیںعیسائیت کیسا مشرکانہ مذہب ہے لیکن اسلامی تعلیم کے اثر کے نیچے مشرک سے مشرک عیسائی بھی کہتا ہے کہ ہمارے مذہب میں کوئی شرک نہیں پایا جاتا.وہ اپنے مذہب کو تو نہیں چھوڑتا مگر کم سے کم شرک کا لفظ اب اُسے بھیانک نظر آنے لگ گیا ہے اور وہ اتنا کہنے پر ضرور مجبور ہو گیا ہے کہ ہم مشرک نہیں ہیں.اسلام ہندوستان میں آیا تو اُس نے بتیس کروڑ دیوتا ماننے والے لوگوں کو برہموئوں اور آریہ سماج کی شکل میں تبدیل کر کے ایک خدا کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا پس حق یہی ہے کہ صُـحُفِ مُطَہَّرَہ ہی اہل کتاب اور مشرکوں کی اصلاح کر سکتے تھے اور یہ اُنہی کا کام تھا کہ ایک طرف سابق نبیوں کی اُمتوں کو ان کی پاک شدہ تعلیم دے کر پاک کر یں اور دوسری طرف غیر مصالحانہ انداز میں توحید کی تعلیم پیش کر کے شرک کو دُور کریں.پس قرآن کریم کا یہ دعویٰ بالکل سچ ہے کہ لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ.رَسُوْلٌ مِّنَ اللّٰهِ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً.ممکن ہی نہیں تھا کہ اہل کتاب اور مشرکین اپنے کفر سے باز آتے یہاں تک کہ ان کے پاس ایک روشن دلیل آ جاتی کیسی روشن دلیل؟ اللہ کی طرف سے آنے والا ایک رسول جو ایک طرف تو اپنے عمل سے خدا تعالیٰ پر ایمان پیدا کرتا اور دوسری طرف ایسے صحیفے پڑھتا جو یہودیوں اور عیسائیوں اور دوسرے اہل کتاب کے سامنے اُن کی مسخ شدہ تعلیموں کو پاک کر کے رکھ دیتے اور تیسری طرف مشرکوں کے مشرکانہ عقیدوں کو سخت حملوں کے ساتھ کچل ڈالتا.

Page 545

فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌؕ۰۰۴ جن میں قائم رہنے والے احکام ہوں.حلّ لُغات.قَیِّمَۃ قَیِّمَۃ.قَیِّمٌ کے معنے متولّی کے ہوتے ہیں چنانچہ لغت میں لکھا ہے اَلْقَیِّمُ عَلَی الْاَمْرِ مُتَوَلِّیْہِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں کام پر فلاں شخص قَیِّم ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ اُس کا متولّی ہے.وَھِیَ قَیِّمَۃٌ اور اگر کوئی عورت متولّیہ ہو تو اُسے قَیِّمَۃٌ کہا جائے گا.وَالْقَیِّمَۃُ: اَلدِّ یَا نَۃُ الْمُسْتَقِیْمَۃُ.اور قَیِّمَۃٌ کے ایک معنے ایسے مذہب کے بھی ہوتے ہیں جس میں کوئی کجی نہ پائی جاتی ہو.( اقرب) قَیِّمَۃ کے معنے امام راغب کے نزدیک مفردات میں لکھا ہے دِیْنًا قَیِّـمًا اَیْ ثَابِتًا مُقَوِّمًا لِاُمُوْرِ مَعَاشِھِمْ وَ مَعَادِھِمْ یعنی دِیْنِ قَیِّمْ کے معنے ہیں ثابت رہنے والا دین، غیر مترلزل دین جو لوگوں کی معاش اور اُن کی معاد کو ٹھیک کردینے والا ہو.پھر کہتے ہیں یہ جو قرآن کریم میں آتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ فَقَدْ اَشَارَ بِقَوْلِہٖ صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً اِلَی الْقُرْاٰنِ وَبِقَوْلِہٖ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِلٰی مَا فِیْہِ مِنْ مَعَانِیْ کُتُبِ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاِنَّ الْقُرْاٰنَ مَـجْمَعُ ثَـمَرَۃِ کُتُبِ اللّٰہِ تَعَالٰی الْمُتَقَدِّمَۃِ یعنی یہ جو قرآن کریم میںآتا ہے کہ فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ اِن الفاظ سے اللہ تعالیٰ نے اِس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ سابق الہامی کتب کے جس قدر مطالب ہیں وہ اس میں آ گئے ہیں کیونکہ قرآن کریم گذشتہ تمام الٰہی کتب کی تعلیمات کا مجموعہ ہے گویا فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ سب تعلیمیں جو گذشتہ انبیاء کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں اُن میں سے ایسی تعلیمیں جو قائم رہنے کی مستحق تھیں اور بنی نوع انسان کی معاش اور اُن کے معاد کو درست کرنے والی تھیں وہ ساری کی ساری تعلیمیں قرآن کریم میں آ گئی ہیں.تفسیر.قَیِّمَۃٌ کے معنے متولّی اور مستقیم کے بیان کئے جا چکے ہیں اُن معنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے.قرآن مجید میں كُتُبٌ قَيِّمَةٌ ہونے سے مراد اوّل اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام ہیں جو انسان کے متولّی ہیں.متولّی اُس کو کہا کرتے ہیں جو دوسرے کی اصلاح کرتا ہے، اُس کی نگرانی کا فرض ادا کرتا ہے، اُس کی حفاظت کرتا ہے اور اُس کی قوتوں کو صحیح کاموں پر صرف کرتا ہے.پس فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم میں ایسے احکام پائے جاتے ہیں جن سے بنی نوع انسان کو ہر قسم کی ذلّت اور خرابی اور نقص سے بچایا جاتا ہے.اُن کی صحیح تربیت کی جاتی ہے اور اُنہیں اپنے قویٰ کو بہتر سے بہتر طور پر استعمال کرنے کا

Page 546

طریق بتایا جاتا ہے گویا فطرتِ انسانی کو ہر قسم کے نقص سے بچانے اور اپنی طاقتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ طور پر ظاہر کرنے کا کام وہ سکھاتا ہے.(۲)اِسی طرح فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ ایسا مذہب پیش کرتا ہے جو ہر قسم کی کج رویوں اور خرابیوں سے پاک اور سیدھے راستے پر لے جانے والا ہے.(۳) اور فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ کے یہ بھی معنے ہوں گے کہ وہ انسان کی تمام ضرورتوں کو خواہ اِس دنیا سے تعلق رکھنے والی ہوں خواہ مرنے کے بعد کی زندگی سے تعلق رکھنے والی ہوں پورا کرتا ہے اور اس میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جو بدلنے والی نہیں قائم رہنے والی اور ثابت رہنے والی تعلیم ہے.گویا صحفِ مطہرہ میں تو زیادہ زور پچھلی تعلیموں کی خرابیوں کو دور کرنے اور شرک سے بچانے پر تھا اور فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ میں اس بات پر زیادہ زور دیا گیا ہے کہ اس میں ایسی تعلیم ہے جو آئندہ دائمی طور پر انسان کے لئے ضروری ہو گی اور غیر متزلزل اور اور غیر متبدل ہو گی.مفردات راغب کے معنوں کے لحاظ سے فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ کے ایک یہ بھی معنے ہوں گے کہ اس میں وہ تمام تعلیمات آ گئی ہیں جو مستقل اور ہر زمانہ کے لئے تھیں اور پہلی کتب میں بیان ہو چکی ہیں.گویا گذشتہ تعلیموں میں سے جس قدر اچھی تعلیمیں تھیں وہ سب کی سب اس میں آ گئی ہیں.وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا اور( عجیب بات یہ ہے کہ ) جن لوگوں کو ( قرآن مجید جیسی مکمل ) کتاب دی گئی ہے.۱ وہ اس واضح دلیل مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُؕ۰۰۵ ( یعنی رسول) کے آنے کے بعد ہی ( مختلف گروہوں میں ) تقسیم ہوئے ہیں.تفسیر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی متفرق نہیں ہوئے مگر اُس وقت جب اُن کے ۱ نوٹ:تفسیر میں اِس آیت کی جو تشریح کی گئی ہے.اس کے علاوہ اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ اس سورۃ کی پہلی آیت میں جو یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اہل کتاب اور مشرک کبھی اپنے کفر کو چھوڑ کر توحید پر قائم نہ ہو سکتے تھے جب تک کہ اُن کے پاس آنحضرت صلعم مبعوث ہو کر نہ آجاتے.اس دعویٰ کی دلیل میں اس آیت کو پیش کیا گیا ہے.یعنی بتایا گیا ہے کہ دیکھو آنحضرت صلعم کی بعثت کے بعد مشرکین اور اہل کتاب میں سے دو فریق ہو گئے.ایک گروہ تو اپنے کفر اور شرک کو چھوڑ کر توحید پر قائم ہو گیا اور ایک مخالف راہ اختیار کر کے پہلی حالت پر قائم رہا.گویا قرآن مجید جس مقصد کے لئے آیا تھا کہ ایک حصہ اہل کتاب اور مشرکین کا اس کے ذریعہ کفر سے نکل آئے وہ واقع ہو گیا.

Page 547

Page 548

کے بعد دروازہ نبوت کلیۃً مسدود ہو چکا ہے اب نہ شرعی نبی آ سکتا ہے نہ غیر شرعی نبی آ سکتا ہے.غرض اُنہی کے شاگرد اور انہی کے مدرسہ میں پڑھے ہوئے ان باتوں کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائیں اور جن کی تصدیق خود ان کی اپنی کتب سے ہوتی ہے.اسی طرح حضرت مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے بڑے بڑے مولوی منبروں پر کھڑے ہو کر ایسے اشعار پڑھا کرتے تھے جن میں یہ ذکر ہوتا تھا کہ عیسٰیؑ بھی مر چکا اور موسٰی بھی.مگر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وفاتِ مسیحؑ کا مسئلہ پیش کیا تو تمام علماء کو اپنی باتیں بھول گئیں اور وہ یہ شور مچانے لگ گئے کہ عیسیٰ زندہ ہے عیسٰی زندہ ہے.اسی طرح یا تو ایک زمانہ میں سارے مسلمانوں کی غفلت اور ان کی سستی کا اصل باعث یہ تھا کہ ان کا عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور تمام کفار کے اموال لوٹ کر ہمارے سپرد کر دیں گے اور ہم بڑے آرام سے زندگی بسر کریں گے اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ دعویٰ کیا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں اور میں ہی وہ مامور ہوں جس کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی تو مسلمانوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ کسی عیسیٰ اور مسیح نے نہیں آنا قرآن میں تواِس قسم کی کوئی خبر ہی نہیں اور اگر حدیثیں کہتی ہیں تو وہ غلط ہیں.غرض یا تو پہلے تمام قوم کی بنیاد ہی اس امر پر تھی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور ہمارے گھروں کو زر وجواہر سے بھردیں گے اور یا آج یہ حالت ہے کہ وہ اُن تمام پیشگوئیوں سے منکر ہو گئے ہیں جو مسیح موعود کے متعلق پائی جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں کسی مسیح کی ضرورت نہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَا تَفَرَّقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ.چاہیے تھا کہ قرآن کریم کے نازل ہونے پر وہ اُن تعلیموں پر غور کرتے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے سامنے پیش کر رہے ہیں.مگر ہوا یہ کہ جتنا حق وہ پہلے مانتے تھے اُس کو بھی انہوں نے چھوڑ دیا اور صداقت سے اور بھی دُور چلے گئے.

Page 549

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ١ۙ۬ حالانکہ (جو لوگ ایمان نہیں لائے)انہیں ( اس رسول کے ذریعہ بس ) یہ ہی حکم دیا گیا تھا کہ وہ اللہ کی اس طرح عبادت کریں کہ اطاعت صرف حُنَفَآءَ وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكٰوةَ اُسی کے لئے رہ جائے ( اس حال میں کہ) وہ اپنے نیک میلانوں میںثابت قدم رہنے والے ہوں اور ( پھر صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ) وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ؎۱ ؕ۰۰۵ نماز با جماعت ادا کرتے رہیں اور زکوٰۃ دیں اور یہی ( ہمیشہ صداقت پر ) قائم رہنے والی جماعت کا دین ہے.حلّ لُغات.مُـخْلِصِیْنَ مُـخْلِصِیْنَ : اَخَلَصَ سے اسم فاعل کا جمع کا صیغہ ہے اور اَخَلَصَ خَلَصَ سے باب اِفْعَال ہے.خَلَصَ الشَّیْءُ خُلُوْصًا وَ خَلَاصًا کے معنے ہیں صَارَ خا لِصًا کوئی شے خالص ہوگئی.خالص کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جس میں کوئی غیر چیز ملی ہوئی نہ ہو اور جب خَلَصَ مِنَ التَّلَفِ کہا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں نَـجَا بچ گیا وَسَلِمَ اور سلامت رہا اور خَلَصَ الْمَاءُ مِنَ الْکَدَرِ کے معنے ہوتے ہیں صَفَاپانی گدلے پن سے بچ گیا مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہاں صَفَا کے جو معنے ہیں وہ حقیقی نہیں یعنی جب خَلَصَ الْمَاءُ مِنَ الْکَدَرِ کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ کدر کو اس سے دور کر دیا گیا بلکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ پانی میں کدر آیا ہی نہیں اور خَلَصَ اِلَیْہِ وَ بِہِ الشَّیْءُ کے معنے ہوتے ہیں وَصَلَ وہ چیز اس تک پہنچ گئی.یعنی جب یہ کہیں کہ خَلَصَ فَلَانٌ اِلَیْہِ یا خَلَصَ فُلَانٌ بِہِ تو دونوں کے یہی معنے ہوتے ہیں کہ پہنچ گیا.انہی معنوں میں عربی زبان کا یہ فقرہ ہے کہ خَلَصْتُ بِـمُسْتَوِیْ مِنَ الْاَرْضِ میں صاف میدان میں پہنچ گیا (اقرب) اسی طرح اَخْلَصَ السَّمْنُ کے معنے ہوتے ہیں اَخَذَ خُلَاصَتَہٗ گھی کا خالص حصہ الگ کر لیا اور اَخْلَصَ فِی الطَّاعَۃِ کے معنے ہوتے ہیں تَرَکَ الرِّیَاءَ اُس نے ریاء چھوڑ دیا.اور اَخْلَصَ لَہُ النَّصِیْحَۃَ وَالْـحُبَّ کے معنے ہوتے ہیں خَلَّـصَھُمَا عَنِ الْغِشِّ.اُس نے نصیحت اور محبت میںکسی قسم کا فریب یا کھوٹ نہیں رکھا اور اَخْلَصَ الشَّیْءَ کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَارَہٗ اس کو چُن لیا (اقرب) ؎۱ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ میں الْقَيِّمَةِ کا جو حرف محذوف ہے یعنی اَلْمِلَّۃُ الْقَیِّمَۃُ یعنی قائم رہنے والی جماعت چونکہ محذوف کو ظاہر کئے بغیر ترجمہ درست نہ ہوتا تھا اس لئے محذوف کو ظاہر کر دیا گیا.

Page 550

مفردات والے لکھتے ہیں اَلْـخَالِصُ کَالصَّافِیْ.خالص کے معنے بھی وہی ہوتے ہیں جو صافی کے ہوتے ہیں اِلَّا اَنَّ الْـخَالِصَ ھُوَ مَا زَالَ عَنْہُ شَوْبُہٗ بَعْدَ اَنْ کَانَ فِیْہِ ہاں خالص اور صافی میں یہ فرق ہے کہ خالص اُس کو کہتے ہیں جس میں سے ملاوٹ کو الگ کر لیا گیا ہو بَعْدَ اَنْ کَانَ فِیْہِ ایسی حالت میں جب کہ اُس کے اندر پہلے ملاوٹ موجود ہو.وَالصَّافِیْ قَدْ یُقَالُ لِمَا لَا شَوْبَ فِیْہِ اور صافی دونوں کے لئے بولا جاتا ہے اُس کے لئے بھی جس میں پہلے ملاوٹ تھی اور پھر اسے نکال دیا گیا اور اس کے لئے بھی جس میں ملاوٹ کبھی ہوئی ہی نہیں پھر لکھتے ہیں کہ یہ جو قرآن مجید میں آتا ہے.وَنَـحْنُ لَہٗ مُخلِصُوْنَ اس کا مطلب ہے اِخْلَاصُ الْمُسْلِمِیْنَ اَنَّـھُمْ قَدْ تَبَـرَّءُوْا مِـمَّا یَدَّعِیْہِ الْیَـھُوْدُ مِنَ التَّشْبِیْہِ وَ النَّصَارٰی مِنَ التَّثْلِیْثِ.ہم ہر شرک اور تشبیہ سے بچے ہوئے ہیں نہ شرک جلی کرتے ہیں اور نہ شرکِ خفی اور یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اس کے معنے بھی یہی ہیں جو نَـحْنُ لَہٗ مُـخْلِصُوْنَ کے ہیں اور آیت اِنَّہٗ کَانَ مُـخْلِصًا الـخ میں اِخْلَاص کا مطلب ہے اَلتَّبَرِّیْ عَنْ کُلِّ مَا دُوْنَ ﷲِ تَعْالٰی یعنی کامل توحید کے سوا ہر چیز سے جب انسان تبرّی کر لے اور کہے کہ میں اُس سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا تو وہ مخلص کہلاتا ہے.(مفردات) اَلدِّیْنُ اَلدِّیْنُ : دَانَ کا مصدر ہے اور دَانَ (یَدِیْنُ دِیْناً وَ دَ یَانَۃً ) الرَّجُلُ کے معنے ہیں عَــزَّ.وہ عزت پا گیا اور دَانَ الرَّجُلُ کے یہ بھی معنے ہیں کہ ذَلَّ وہ ذلیل ہو گیا یا ماتحت ہو گیا اور دَانَ کے معنے اَطَاعَ کے بھی ہیں اور عَصٰی کے بھی ہیں گویا یہ حروفِ اضداد میں سے ہے یعنی اُلٹ معنے بھی اس میں پائے جاتے ہیں اس کے معنے اطاعت کے بھی ہیں اور اس کے معنے نا فرمانی کے بھی ہیں.جس طرح اس کے معنے عزت کے بھی ہیں اور ذلت کے بھی یا بڑے کے بھی ہیں اور چھوٹے کے بھی.اسی طرح اس کے ایک معنے اطاعت کے بھی ہیں اور نا فرمانی کے بھی اور دَانَ کے معنے یہ بھی ہوتے ہیں کہ اِعْتَادَ وہ عادی ہو گیا.یہاں بھی اس کے معنے اپنے اندر اضداد کا رنگ رکھتے ہیں یعنی اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اِعْتَادَ خَیْرًا وہ خیر کا عادی ہو گیا اور اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ اِعْتَادَ شَـرًّا وہ شر کا عادی ہو گا.اور دَانَ کے معنے بیمار ہوجانے کے بھی ہیں چنانچہ لُغت میں اس کے ایک معنے یہ لکھے ہیں کہ اَصَا بَہُ الدَّاءُ اُسے بیماری لگ گئی اور دَانَ فُلاَنٌ فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں خَدَمَہٗ اُس کی خدمت کی یعنی دوسرے کا خادم بن گیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے اَحْسَنَ اِلَیْہِ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس پر احسان کیا اور دَانَ فُلَانٌ کے معنے مَلِکَہٗ کے بھی ہیں یعنی اُس کا مالک ہو گیا اور دَانَ کے معنے حَـمَلَہٗ عَلٰی مَا یَکْرَہُ کے بھی ہوتے ہیں یعنی جس چیز کو وہ پسند نہیں کرتا اُس پر اسے مجبور کیا اور دَانَ فُلانٌ کے معنے اِسْتَعْبَدَہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو غلام بنا لیا اور یہ بھی

Page 551

معنے ہیں کہ حَکَمَ عَلَیْہِ اُس پر حکم چلایا اور دَانَ فُلَانٌ کے معنے اَذَلَّہٗ کے بھی ہوتے ہیں یعنی اس کو اپنے ماتحت کر لیا چنانچہ حدیث میں آتا ہے اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہٗ وَ عَـمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ.ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کو تابع کرلیا اور موت کے بعد کے زمانہ کے لئے عمل کیا (اقرب) ان معنوں کے بعد اب میں یہ بتاتا ہوں کہ دِیْنٌ جو مصدر ہے اس کے اُوپر کے مصدری معنوں کے علاوہ اور کیا معنے ہیں لُغت میں دِیْنٌ کے کئی معنے لکھے ہیں جو نیچے درج کئے جاتے ہیں (۱) اَلْـجَزَاءُ وَالْمُکَفَأَۃُ.بدلہ (۲) الطَّاعَۃُ.اطاعت اور فرمانبرداری (۳) اَلْـحِسَابُ.محاسبہ کرنا (۴) اَلْقُھْرْ وَالْغَلَبَۃُ وَ الْاِسْتِعْلَاءُ.یہ تینوں الفاظ عربی زبان میں غلبہ کا مفہوم ادا کرنے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں اور ان تینوں میں بہت تھوڑا تھوڑا فرق ہے.(۵) اَلسُّلْطَانُ وَ الْمُلْکُ وَ الْـحُکْمُ.بادشاہت اور حکومت.( ۶) اَ لسِّیْرَۃُ.طبیعت ( ۷) اَلتَّدْبِیْرُ.تدبیر کرنا.(۸) اِسْـمٌ لِـجَمِیْعِ مَا یُعْبَدُ بِہِ اللہُ.دین نام ہے ان تمام طریقوں کا جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے.مثلاً مسلمانوںمیںنمازپڑھنا یا حج بیت اللہ کے لئے جانا اللہ تعالیٰ کی عبادت سمجھا جاتا ہے یہ طریق عبادت عربی زبان کے لحاظ سے دین کہلائے گا اسی طرح ہندوئوں کے طریق عبادت کی جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی عیسائیوں کے طریق عبادت کی جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی یہودیوں اور زرتشتیوں وغیرہ کے طریق عبادت کی جو بھی شکل ہو وہ دین کہلائے گی.گویا عبادت ِالٰہی خواہ کسی طریق سے کی جائے اُس کا نام دین ہوتا ہے.(۹) اَلْمِلَّۃُ.طریقہ (۱۰)اَلْوَرَعُ.بزرگانہ اعمال جن سے روحانیت کو ترقی حاصل ہوتی ہے.(۱۱) اَلْـحَالُ.حال (۱۲)اَلْقَضَاءُ.فیصلہ(۱۳)اَلْعَادَۃُ.عادت (۱۴)اَلشّاْنُ.اس کے معنے بھی حالت کے ہی ہوتے ہیں مگر اچھی حالت کے(اقرب).قرآن کریم میں بھی شَاْن کا لفظ استعمال ہوا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرَّحْمٰن:۳۰) کہ ہر روز اللہ تعالیٰ ایک نئی شان میں ہوتا ہے.حُنَفَآءَ حُنَفَآءَ :حَنِیْفٌ کی جمع ہے جو حَنَفَ سے صفت مشبہ ہے اور حَنَفَ الشَّيْءُ حَنْفًا کے معنے ہوتے ہیں مَالَ کوئی چیز اپنی جگہ سے جُھک گئی اور حَنِیْفٌ کے معنے ہیں اَلصَّحِیْحُ الْمَیْلِ اِلَی الْاِسْلَامِ، الثَّابِتُ عَلَیْہِ.خدا تعالیٰ کی اطاعت اورفرمانبرادری کی طرف سچا ذوق اور اُس پر ثابت قدمی گویا اس کے صرف اتنے معنے نہیں کہ انسان کے اندر نیکی کی طرف میلان پایا جائے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اُسے نیکی پر ثبات حاصل ہو اور اُس کے اندر استقلال کامادہ پایا جاتا ہو.محاورہ میں کُلُّ مَنْ کَانَ عَلٰی دِیْنِ اِبْرَاھِیْمَ کے معنوں میں حنیف کا لفظ استعمال

Page 552

ہوتا ہے یعنی ہر وہ شخص جو دینِ ابراہیم پر ہو محاورہ میں اُسے حنیف کہا جاتا ہے اور حماسی کا قول ہے کہ اَلْـحَنِیْفُ اَلْمَائِلُ عَنْ دِیْنٍ اِلیٰ دِیْنِ.یعنی ایک دین سے دوسرے دین کی طرف جو شخص مائل ہو اُسے حنیف کہتے ہیں وَاَصْلُہٗ مِنَ الْـحَنَفِ فِی الرِّجْلِ اور اصل میں وہ کجی جو کسی بیماری یا چوٹ کے نتیجہ میں بعض دفعہ انسانی پائوں میں واقعہ ہو جاتی ہے اُس پر یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے مگر پھر اسی بناء پر جو شخص اپنے جدّی دین کو بدلنے کی طرف مائل ہو جائے اُسے بھی حنیف کہہ دیا جاتا ہے وَفِی الْکُلِّیَّاتِ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ مِنَ الْقُرْاٰنِ الْـحَنِیْفُ مَعَ الْمُسْلِمِ فَھُوَ الْـحَآجُّ نَـحْوُ وَلٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا.کلیاتِ ابو البقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی حنیف کا لفظ مسلم کے لفظ کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے وہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں جیسے کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا کے یہ معنے ہیں کہ کَانَ حَآجًّا مُّسْلِمًا وہ حج کرنے والا مسلم تھا.وَ فِیْ کُلِّ مَوْ ضِعٍ ذُکِرَ وَحْدَہٗ فَھُوَا لْمُسْلِمُ نَـحْوُ حَنِیْفًا لِلہِ اور ہرموقع پر جہاں اکیلا یہ لفظ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے وہاں اس کے معنے مسلم کے ہوتے ہیں جیسا کہ فرماتا ہے حَنِیْفًا لِلہِ یعنی مُسْلِمًا لِلہِ پھر لکھا ہے وَالْـحَنِیْفُ اَیْضًا : اَلْمُسْتَقِیْمُ یعنی حنیف کے ایک معنے سیدھے راستہ پر چلنے والے کے بھی ہوتے ہیں (اقرب) حنیف کے معنے ابو البقاء کے نزدیک کلیات نے جو یہ معنے کئے ہیں کہ جہاں حنیف کالفظ مسلم کے ساتھ استعمال ہووہاں اس کے معنے حاجی کے ہوتے ہیں یہ محض زبردستی ہے.جہاں تک میں نے آیات قرآنیہ پر غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی محاورہ کے مطابق حنیف اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو سارے نبیوں کو ماننے والا ہو اور شرک کا کسی رنگ میں بھی ارتکاب کرنے والا نہ ہو.قرآن کریم کے الفاظ پر غور کرنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اِن دو معنوں میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے یعنی اُس شخص کو بھی حنیف کہا گیا ہے جو سب انبیاء پر ایمان رکھتا ہو اور اس شخص کو بھی حنیف کہا گیا ہے جو شرک سے کامل طورپر مجتنب ہو.گویا حُنَفَآءَ وہ ہیں جو سارے نبیوں کو ماننے والے اور کسی سچائی کا انکار کرنے والے نہ ہوں اور مشرک نہ ہوں ان میں سے ایک معنے مثبت کے لحاظ سے ہیں اور ایک معنے منفی کے لحاظ سے.سارے نبیوں کو ماننا مثبت پہلو ہے اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اُس کے صفات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا یہ منفی پہلو ہے غرض میرے نزدیک قران کریم میں جہاں کَانَ حَنِیْفًا مُسْلِمًا کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہاں حنیف کالفظ حاجی کے معنوں میں نہیں بلکہ تمام انبیاء پر ایمان رکھنے والے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے اور مسلم کا لفظ اعمالِ صحیحہ کو بجا لانے والے کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے درحقیقت قرآن کریم پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُس میں اسلام کالفظ دو معنوں کے لحاظ سے استعمال ہوا ہے اسلام بمعنے ایمان ظاہر بھی اور اسلام

Page 553

بمعنے اعمالِ صحیحہ بھی.پس قرآن کریم میں جہاں حنیف اور مسلم کے الفاظ اکٹھے استعمال ہوئے ہیں وہاں میرے نزدیک اس کے معنے یہ ہیں کہ عقیدہ میں بھی راسخ اور عمل میں بھی کامل.گویا ساری صداقتوں کو ماننے والا اور پھر تمام نیک باتوںپر عمل کرنے والا.تفسیر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ.اور اُن کو کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا سوائے اس کے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ.دین کو اُسی کے لئے خالص کرتے ہوئے دین کے ایک معنے جیسا کہ اُوپر بتایا جا چکا ہے اطاعت کے ہوتے ہیں اور یہاں علاوہ دوسرے معنوں کے جن کی تفصیل آگے بیان کی جا ئے گی ایک یہ معنے بھی چسپاں ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خالص کردیں یعنی اُن کے پیر، ان کے پنڈت، ان کے پادری، ان کے کاہن، ان کے راہب اور اُن کے بڑے بڑے عالم اُن سے اپنی غلامی کرا رہے تھے اور اس طرح دنیا میں انسانیت کی انتہائی تذلیل ہو رہی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر یہ نہیں کیا کہ انہیں اپنی غلامی کی طرف بلایا ہو یا کہا ہو کہ اپنے پنڈتوں اور پادریوں اور مولویوں کو چھوڑ کر تم میرے غلام بن جائو بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صرف اتنا کہا کہ تم اِن غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر خالص اللہ تعالیٰ کے غلام بن جائو.یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر ان کو غصہ آتا یا اُن کی طبائع میں اشتعال پیدا ہو جاتا.اُنہی کی بہبودی کے لئے محبت اور پیار کے ساتھ ان کے سامنے ایک بات پیش کی گئی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ اس پر غور کرتے اور اپنے اندر نیک تغیر پیدا کرتے انہیں غصہ آ گیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہر قسم کی تدابیر سے کام لینے لگ گئے.دنیا میں جب کوئی شخص کسی کے فائدہ کی بات کہتا ہے تو دوسرا ممنون احسان ہوتا ہے کہ میں غلطی میں مبتلا تھا مگر فلاں نے مجھے آگاہ کر کے ہلاکت سے بچالیا.مگر ان نادانوں کی یہ حالت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آکر کہا کہ آئو میں تمہیں اس غلامی سے نجات دُوں جس کا تم مدّتوں سے شکار ہوچکے ہو.وہ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ جو تم نے بنائے ہوئے ہیں اُن سے تمہارے جسموں اور روحوں کو آزاد کرائوں تم اپنے پیروں کو سجدہ کرتے ہو، تم اُن کے پائوں کو ہاتھ لگاتے ہو، تم اُن کو اپنی حاجات کا پورا کرنے والا سمجھتے ہو اور اس طرح نہ صرف انسانیت کے شرف اور اُس کی عظمت کو بٹّہ لگاتے ہو.بلکہ اس خدا کی بھی توہین کرتے ہو.جو تمہارا خالق اور مالک ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہیں اس غلامی سے نجات دوں اور تمہیں خالص اللہ تعالیٰ کا غلام بنا دوں تو بجائے اس کے کہ وہ اس نصیحت سے فائدہ اٹھاتے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ڈنڈے لے کر کھڑے ہو گئے کہ تم ہمارے دین کو خراب کرتے ہو.

Page 554

وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا کے معنے بعض نے یہ کئے ہیں کہ ان لوگوں کی کتب میں ہی حکم دیا گیا تھا مگر اس جگہ یہ معنے چسپاں نہیں ہوتے اِن الفاظ سے اس جگہ یہ مراد ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی اُس میں سوائے اس کے کیا حکم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور خالص اُسی کی اطاعت کرو اور اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ کی غلامی کو ترک کر دو.کیا یہ حکم ایسا تھا کہ وُہ بُرا مناتے یا ایسا تھا کہ وہ اس پر خوش ہوتے اور دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو جاتے؟ اس حکم کے ذریعہ عیسائیوں کو اپنے پادریوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی، یہودیوں کو اپنے رہبانوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی اور مشرکین کو اپنے کاہنوں سے آزادی حاصل ہو رہی تھی مگر بجائے اس کے کہ وہ خوش ہوتے اُلٹا ناراض ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو کچلنے کے لیے کھڑے ہو گئے.نبوت کی ضرورت درحقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبوت کی ضرورت بتائی ہے کہ جب تمہارے عقلی اور ذہنی قویٰ میں اس درجہ انحطاط رُونما ہو چکا ہے کہ تم یہ بھی سمجھ نہیں سکتے کہ تمہارا اپنا فائدہ کس بات میں ہے تو اگر ایسی گری ہوئی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری اصلاح کے لئے کوئی نبی نہیں آئے گا تو کب آئے گا؟ نبی آنے کا وہی وقت ہوتا ہے جب قومی تنزّل اِس قدر بڑھ چکا ہوتا ہے.کہ لوگوں کو برے بھلے کی بھی تمیز نہیں رہتی.ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبِرِّ وَ الْبَحْرِ ( الروم:۴۲) کی کیفیت دنیا میں پورے طور پر رونما ہو جاتی ہے اور روحانی اور اخلاقی قوتیں بالکل مردہ ہو جاتی ہیں.مگر باوجود اس قدر تنزل اور ادبار کے وہ سمجھتے یہ ہیں کہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت نہیں.پس فرماتا ہے جب تمہاری حالت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر تمہارے فائدہ کی بھی کوئی بات کرتے ہیں تو تم اُن سے لڑنے لگ جاتے ہو.تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نبی کے آنے کی اشدضرورت ہے اگر اب بھی نبی نہ آتا تو تم لوگ بالکل تباہ ہو جاتے.پس وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کے ایک معنے یہ ہیں کہ اُنہیں سوائے اس کے کیا حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے دین کو خالص کر و.یعنی اس سے پہلے یہ اقوام رہبان اور کہّان اور اَساقف کی غلامی کر رہی تھیں، امراء کی فرمانبرداری میں جانیں گنوا رہی تھیں.اسلام نے آ کر انہیں نجات دی مگر بجائے شکر گزار ہونے کے اور دُور چلے گئے اور اپنے محسن سے لڑنا شروع کر دیا.اب میں تفصیل کے ساتھ ان معنوں کے لحاظ سے جن کو اُوپر بیان کیا گیا ہے اِس آیت کا الگ الگ مفہوم بیان کرتا ہوں.مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کا مطلب مختلف معانی کے مطابق جو لُغت میں بتائے گئے ہیں یہ ہوا کہ اُنہیں صرف یہ

Page 555

حکم دیا گیا تھا کہ اوّل.اطاعت اللہ تعالیٰ کی کریں ( کیونکہ دِیْن کے ایک معنے اطاعت کے بھی ہیں) دوسروں کی اطاعت کا اِس میں کوئی شائبہ نہ ہو.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی اطاعت جائز نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کے پہلے معنے خدا تعالیٰ کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا (الف) خدا تعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریں بلکہ خدا تعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت کو خالص کر دیں یعنی وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت خدا ہی کی خاطر کریں بندوں کی خاطر نہ کریں.دُنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جن کی اطاعتِ الٰہی محض لوگوں کے ڈر سے ہوتی ہے.وہ احکام الٰہی پر اس لئے عمل نہیں کرتے کہ خدا یوں فرماتا ہے بلکہ اس لئے اُن پر عمل کرتے ہیں کہ اُن کی قوم یا رسم و رواج اس کا مطالبہ کرتا ہے مثلاً عیسائی گرجے جاتا ہے اِس لئے نہیں کہ خدا نے حکم دیا ہے بلکہ اس لئے کہ اگروہ گرجے میں نہ جائے تو اُس کی قوم برا مناتی ہے یا اگر یہودی اپنی عبادت گاہ میں جاتا ہے یا ہندو مندر میں جاتا ہے یا مسلمان مسجد میں جاتا ہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کا عبادت گاہ میں جانا یامندر میں جانا یا مسجد میں جانا اس لئے نہیں ہوتا ہے کہ خدا کا حکم ہے عبادت کرو بلکہ اس لئے ہوتا ہے کہ اُس کی قوم اُس سے یہ امید رکھتی ہے.اِسی طرح بہت سے احکام پر انسان رواجاً عمل کرتا ہے یا اپنی نفسانی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے مثلاً خدا نے کہا ہے کمزور پر رحم کرو اور اپنے ساتھ تعاون کرنے والے کو نیک بد لہ دو.یہ دونوں حکم ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں اور ان دونوں حکموں کے ماتحت بچوں سے نیک سلوک اور بیویوں سے حُسن معاملت یا دوستوں کے ساتھ نیک معاملہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے.مگر کتنے لوگ ہیں جو اس لئے اپنے دوست کے ساتھ نیک معاملہ کرتے ہیں یا بچوں کی تربیت کرتے ہیں.یا عورتوں سے حسنِ معاملہ کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے اکثر لوگ یا تو طبعی جذبات کے ماتحت ایسا کرتے ہیں یا دوسرے لوگوں کی نیک رائے حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں.اسی طرح غریبوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے.یا یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے یہ ہر مذہب میں ہے مگر کتنے عیسائی یا یہودی یا ہندو یا آج کل کے مسلمان ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں اکثر ایسے ہی ہیں جو لوگوں میں نیک نامی حاصل کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں جب تک انسان اس مرض میں مبتلا ہوتا اور جتنا جتنا حصہ اس مرض میں مبتلا رہتا ہے اُس وقت تک اور اُسی حد تک اُس کا دین ناقص ہوتا ہے کیونکہ اُس کادل روز مرہ کے کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں بلکہ دوسرے لوگوں کی طرف جھکا رہتا ہے اور وہ حقیقی محبت جو انابت الی اللہ سے پیدا ہوتی ہے اُس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اور پھر وہ سمجھے نہ سمجھے،

Page 556

مانے نہ مانے مشرک بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کاحصّہ لوگوںکو دیتا ہے.اِسی نکتہ کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے منہ میں بھی ایک لقمہ اِیْمَانًا وَ اِحْتِسَابًا ڈالتا ہے تو وہ لقمہ ڈالنا خدا تعالیٰ کی کتاب میں اُس کے لئے صدقہ کے طور پر لکھا جاتا ہے (بخاری کتاب النفقات باب فضل النفقۃ علی الاھل) بیوی الگ خوش ہوگئی، اُس کی محبت کا جذبہ الگ پورا ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے رجسٹر میں اُس کا نام نیک اعمال بجالانے والوں میں الگ لکھا گیا.یہی اصل تمام دوسرے کاموں پر بھی چسپاں ہوتا ہے.اسلام دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کا حکم دیتا ہے خدا ہی کا ہو جانے کی تعلیم دیتا ہے لیکن اکثر لوگ دنیوی کام کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں پھر یہ حکم کس طرح پورا ہو سکتا تھا؟ اُسی طریق سے جس کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُوپر کے حکم میں اشارہ فرمایا ہے.یعنی اپنے دنیوی کاموں کو بھی خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور اُس کی خوشنودی کے لئے کرے.اِس طرح اس کا ہر کام عبادت بن جائے گا اور جبکہ وہ ظاہر میں دنیا کا کام کرتا ہوا نظر آئے گا اس کا ہر کام عبادت ہو جائے گا یہی نکتہ تصوف کی جان ہے اور تصوف کی بنیاد کلی طور پر اسی نکتہ پر کھڑی ہے اس پر عمل کر کے انسان روحانیت کی اعلیٰ منازل کو آسانی سے طے کرسکتا ہے اور لحظہ بہ لحظہ خدا تعالیٰ کے قرب میں ترقی کر سکتا ہے.بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کی خاطر کرنا (باء) دوسرا مفہوم اِن معنوں کے رو سے اس کا یہ ہے کہ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کے لئے کریں.پہلا مفہوم تو یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت بندوں کی خاطر نہ کریںاور دوسرا مفہوم یہ بنے گا کہ بندوں کی اطاعت خدا تعالیٰ کے لئے کریں پہلے معنوں کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ تھا کہ مُـخْلِصِیْنَ لِلہِ اِطَاعَۃَ اللہِ.اور دوسرے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مُـخْلِصِیْنَ لِلہِ اِطَاعَۃَ الْعِبَادِ.یعنی اللہ تعالیٰ نے بندوں کی اطاعت ہر صورت میں نا جائز نہیں کی بلکہ بعض دفعہ خود حکم دیا ہے کہ اُن کی اطاعت کرو جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ(النساء:۶۰) اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُولی الامر کی اطاعت کرو پس معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا رسول اور اولی الا مر کی اطاعت بھی ضروری قرار دی گئی ہے لیکن شرط یہ رکھی ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ جب تم بندوں کی اطاعت کرو تو خدا کی وجہ سے کرو یعنی مومنوں کے لئے ضروری ہے کہ اُسی حد تک اور اُسی شخص یا اُسی قوم کی اطاعت کریں جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام سے جب لوگوں نے ٹیکس کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا قیصر کی چیز قیصر کو دو اور خدا تعالیٰ کی چیز خدا تعالیٰ کو دو(مرقس باب۱۲ آیت ۱۷).اِس کا یہی مطلب تھا کہ خدا تعالیٰ کی خالص اطاعت کے

Page 557

یہ معنے نہیں کہ دوسرے کسی کی اطاعت جائز نہیں بلکہ جس حد تک اور جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُس حد تک اور اُس شخص کی اطاعت کرنا.اگر اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایسا کیاجائے تو خدا تعالیٰ ہی کی اطاعت کہلاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے لئے اطاعت کو خالص کرنے کے معنے یہ ہیں کہ انسان جب خدا تعالیٰ کی اطاعت کرے تو بندوں کی خاطر نہ کرے اور جب بندوں کی اطاعت کرے تو خدا تعالیٰ کی خاطر کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ انگریزوں کے مطیع تھے حالانکہ آپ جس حد تک بھی انگریزی حکومت کی اطاعت کرتے تھے اسلا م کی اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کے ماتحت کرتے تھے اس لئے انگریز کی اطاعت میں آپ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے تھے.چونکہ اللہ تعالیٰ نے حاکمِ وقت کی اطاعت کا حکم دیا ہے یا اُس کے ملک سے نکل جانے کا.اس لئے اگر آپ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنے والے قرار پاتے.مگر جو لوگ یہ سمجھتے ہوئے کہ انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریزوں کے ملک میں رہتے ہیں اور اُن کے قانون کی پابندی کرتے ہیں اُن کا ایک ایک منٹ گناہ میں گذر رہا ہے.کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ انگریز کی اطاعت جائز نہیں پھر انگریز کی اطاعت کرتے ہیں حالانکہ اگر اُن کا عقیدہ صحیح ہے تو انہیں انگریزوں کی حکومت سے فوراً باہر نکل جانا چاہیے تھا.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے دوسرے معنے کہ غلبہ اور استعلاء ملنے کے بعد اس کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دیں (۲) دوسرے معنے دِیْن کے جو اس جگہ لگتے ہیں قہر اور غلبہ اور استعلاء کے ہیں اِن معنوں کے رُو سےآیت کا مفہوم یہ ہے کہ مخاطبین رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے صرف اتنا مطالبہ کیا گیا تھا کہ جب غلبہ اور استعلاء تم کو ملے تو اس غلبہ اور استعلاء کو اللہ تعالیٰ ہی کے لئے وقف کر دیا کرو کیونکہ غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلِ اللّٰهُمَّ مٰلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ١ٞ وَ تُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ١ؕ بِيَدِكَ الْخَيْرُ١ؕ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ( اٰل عـمران:۲۷) یعنی جب غلبہ اور استعلاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے تو اُسے اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خرچ کرنا چاہیے نہ کہ اپنے نفس کی بڑائی اور تکبر اور ظلم اور دوسروں کو اپنی غلامی میں لانے کے لئے.اِسی حکم کے نہ سمجھنے اور نہ ماننے کی وجہ سے تمام سیاسی نظام تباہ ہوتے ہیں.لوگ غلبہ کے وقت خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور غلبہ دینے کی غرض کو بھول کر بندوں کو بھی بھول جاتے ہیں اور اُن پر ظلم کرنے لگ جاتے ہیں.جب کبھی کوئی قوم دنیا پر غالب ہوئی اُس نے خدا تعالیٰ کو بھلا دیا اور اُس کے بندوں کے حقوق کو بھی جنہیں ادا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے اُسے غلبہ دیا تھا بھلا دیا

Page 558

مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ بادشاہت کے بعد بھی کبھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھا اور کسی کو بادشاہ نہیں کہنے دیا.جس طرح اللہ تعالیٰ کا بندہ اپنے آپ کو غلبہ سے پہلے سمجھتے تھے اسی طرح غلبہ کے ملنے کے بعد بھی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ ہی سمجھتے رہے وہی نمازیں رہیں، وہی روزے رہے، وہی ذکر الٰہی رہا بلکہ اگر کوئی فرق پڑا تو یہی کہ فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ جب دنیوی جنگوں اور لڑائیوں میں کمی آئے تو خد تعالیٰ کی عبادت میں اور زیادہ بڑھ جائو.اِسی طرح غلبہ ملنے سے پہلے جس طرح آپ اپنے آپ کو بندوںکا خادم سمجھتے رہے اِسی طرح غلبہ ملنے کے بعد بھی آپ اپنے آپ کو خادم سمجھتے رہے اور جوانی کی عمر میں مکہ میں جب آپ کے پاس کچھ نہ تھا تب بھی غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کی مدد اپنے ہاتھ سے کرتے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی دولت عطا فرما دی.یعنی شادی کے بعد حضرت خدیجہؓ نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا تو آپ نے یہ نہیں کیا کہ اُس مال کو اپنی ذات پر استعمال کرلیں.آپ نے یہ نہیں سمجھا کہ میری بیوی نے یہ مال مجھے دیا ہے تو اب میں یہ مال اُس کے آرام اور آسائش کے لئے خرچ کروں بلکہ اس مال کو غریبوں اور مسکینوں پر خرچ کرناشروع کر دیا.جب آپؐکو اللہ تعالیٰ نے حکومت عطا فرمائی اور عرب اور اُس کی تمام اقوام کو آپ کے تابع کر دیا اور عرب کاتمام ٹیکس اور جزیہ آپ کے ہاتھوں میں آنے لگا تب بھی آپ نے اُس سے کسی قسم کا فائدہ نہیں اُٹھایا اور وفات کے وقت جب کہ لوگ اپنے اہل و عیال کی نسبت لوگوں کو ہدایتیں دیتے ہیں آپ نے آخری وصیت اپنی قوم کو یہی فرمائی کہ میں تمہیں عورتوں اور کمزوروں سے نیک سلوک کے بارہ میں آخری نصیحت کرتا ہوں(ابن ماجہ کتاب النکاح باب حق المرأۃ علی الزَّوج) اور وفات کے وقت سخت کرب اور تکلیف کی حالت میں آپ بار بار فرماتے تھے کہ خدا یہودونصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا(بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ).یہ سخت الفاظ اتنے یہودونصاریٰ کی نسبت نہیں تھے جتنا اِن میں اس طرف اشار ہ تھا کہ اگر میری قوم نے بھی میری قبر کو عبادت گاہ بنایا تو صرف خدا تعالیٰ کی لعنت اُن پر نہیں پڑے گی بلکہ میری لعنت بھی اُس کے ساتھ شامل ہو گی.غرض غلبہ کے وقت بھی آپ نے نہ خدا تعالیٰ کے حق کو تلف کیا اور نہ بندوں کے حقوق کو تلف ہونے دیا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُـحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُـحَمَّدٍ وَّبَارکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَـمِیْدٌ مَّـجِیْدٌ.آپؐکے صحابہؓ نے بھی اس تعلیم پر اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کر کے دکھایا.خلفاء اربعہ حقوق العباد کے ادا کرنے کی ایک بے نظیر مثال گذرے ہیں.ایک طرف خدا تعالیٰ کو انہوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا اور دوسری طرف بندوں

Page 559

کے حقوق بھی خوب ادا کئے ایسے کہ اس کی مثال دنیا میںنہیں ملتی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ وہ بادشاہ نہ تھے پریذیڈنٹ تھے مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ اُنہیں پریذیڈنٹ بننے پر مجبور کس نے کیا؟ آخر یہ عہدہ اُن کو اسلام نے ہی دیا اور اس عہدہ کی حیثیت کو انہوں نے اسلامی احکام کے ماتحت ہی قائم رکھا مگر یہ بات بھی تو نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ خواہ اُنہیں پریذیڈنٹ ہی قرار دیا جائے مگر اُن کا انتخاب ساری عمر کے لئے ہوتا تھا نہ کہ تین یا چار سال کے لئے.جیسا کہ ڈیما کریسی کے پریذیڈنٹوں کا آج کل انتخاب ہوتا ہے یقیناً اگر ان کو صرف صدر جمہوریت کا ہی عہدہ دیا جائے تو بھی یہ بات علم النفس کے ماتحت اور سیاسی اصول کے ماتحت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر اور ساری عمر کے لیے چُنے جانے والے صدر میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.تین چار سال کے لئے چنے جانے والے صدر کے سامنے وہ دن ہوتے ہیں جب وہ اس عہدہ سے الگ کر دیا جائے گا اور پھر ایک معمولی حیثیت کا انسان بن جائے گا لیکن ساری عمر کے لئے چُناجانے والا صدر جانتا ہے کہ اب اس مقام سے اُترنے کا کوئی امکان نہیں اور اُس کے اہل ملک بھی جانتے ہیں کہ اس حیثیت کے سوا اور کسی حیثیت میں اب وہ اُن کے سامنے نہیں آئے گا.پس جس شان و شوکت کا وہ مستحق سمجھا جاتا ہے اس شان و شوکت کا مستحق تین سالہ یا چار سالہ صدر نہیں سمجھا جا سکتا.مگر اس ڈیماکریسی اور جمہوریت کے زمانہ میں سہ سالہ اور چار سالہ میعاد کے لئے چُنے جانے والے صدروں کی زندگیوں کو دیکھ لو ملک کا کتنا روپیہ اُن پر صرف ہوتا ہے.صدر جمہوریت امریکہ پر ہر سال جو روپیہ خرچ ہوتا ہے انگلستان کے بادشاہ پر بھی اتنا خرچ نہیں ہوتا.مگر اس کے مقابل میں خلفاء اربعہ کس طرح پبلک کے روپیہ کی حفاظت کرتے تھے وہ ایک ایسا تاریخی امر ہے کہ اپنے اور بیگانے اُس سے واقف ہیں صرف نہایت ہی قلیل رقوم اُنہیں گذارے کے لئے ملتی تھیں اور خود اپنی جائیدادوں کو بھی وہ بنی نوع انسان کے لئے خرچ کرتے رہتے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اُن خلفاء میں سے ہیں جن پر اپنوں اور بیگانوں نے بہت سے اعتراضات کئے ہیں جب اُن کی عمر کے آخری حصہ میں کچھ لوگوں نے بغاوت کی اور اُن کے خلاف کئی قسم کے اعتراضات کئے تو اُن میں سے ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ انہوں نے بہت سے روپے فلاں فلاں اشخاص کو دیئے ہیں.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کا یہ جواب دیا کہ اسلام کے خزانہ پر سب ہی مسلمانوں کا حق ہے اگر میں قومی خزانہ سے ان لوگوں کو دیتا تو بھی کوئی اعتراض کی بات نہ تھی مگر تم قومی رجسٹروں کو دیکھ لو میں نے اُن کو قومی خزانہ سے روپیہ نہیں دیا بلکہ اپنی ذاتی جائیداد میں سے دیا ہے گویا اُن کی ذاتی جائیداد قومی خزانہ کے لئے ایک منبعِ آمد تھی.پس ان لوگوں نے اپنے غلبہ اور استعلاء کو محض خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کیا نہ کہ اپنی شان بڑھانے کے لئے اور یہی وہ چیز

Page 560

ہے جو قوموں کو دوام بخشتی ہے اگر مسلمان اس تعلیم پر عمل کرتے تو کبھی زوال کا منہ نہ دیکھتے.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے تیسرے معنے (۳) تیسرے معنے دِیْن کے جو یہاں لگتے ہیں ملک و حکم کے ہیں.ان معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے یہی حکم دیا تھا کہ حکم اللہ تعالیٰ کے لئے رہے.جو وہ کہتا ہے اُسے جاری کیا جائے جس سے وہ روکتا ہے اُس سے رُکا جائے اپنی نفسانی خواہشات اور ارادوں کو شریعت میں دخل انداز نہ ہونے دیا جائے.اسلام جس وقت نازل ہواہے.اس موٹی صداقت کا بُری طرح سے انکار کیاجا رہا تھا.ہر شخص جو اس بات کو مانتا ہے کہ خد اتعالیٰ کی طرف سے کوئی کلام اُس کی اور اس کی قوم کی ہدایت کے لئے آیا ہے اُسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ایسے کلام کو کلی طور پر انسانی دستبرد سے محفوظ رکھنا چاہیے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسلام جس وقت نازل ہوا ہے ہر قوم نے اپنی شریعت کی چادر کو پارہ پارہ کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ کے دین کا ایک تولہ اُن کے خیالات کے منوں میں باقی رہ گیا تھا اب تک جو برا حال ان شریعتوں کا ہو رہا ہے وہ عبرت کے لئے کافی ہے مسیحؑ جن کی ساری عمر کی کمائی صرف اتنا فقرہ ہے کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے (متی باب۵ آیت ۳۹) اس تعلیم کی مسیحیوں نے کتنی مٹی پلید کی ہے.اگر مسیحی حکومتوں کے دشمنوں نے ڈائنامیٹ کے بمب اُن کے علاقوں پر پھینکے ہیں تو انہوں نے صبر نہیں کیا جب تک اٹومک بمب ایجاد نہیں کر لیا.پھر یہ سب امور شریعت کے مطابق بتائے جاتے ہیں.حال ہی میں انگلستان کے گرجوں کے سب سے بڑے پادری نے اپنے ایک ماتحت پادری کے منہ پر یہ کہہ کر تھپڑ مارا ہے کہ اٹومک بمب بھی خدائی نشانوں میں سے ایک نشان ہے کیونکہ ایک ماتحت پادری نے یہ کہا تھا کہ میری فطرت اس بمب کے استعمال سے حاصل کی ہوئی فتح پر گرجے میں خوشی منانے پر تیار نہیں.مسیحؑ نے کہا تھا میں موسٰی کی شریعت کو پورا کرنے آیا ہوں مگر مسیحیت نے موسوی شریعت کو سرتاپا لعنت بنا کر چھوڑا.یہی حال دوسری کتابوں کا ہے کہ اُن کے اندر بھی اس قدرتحریف اور تبدیلی کر دی گئی ہے اور اس قدر انسانی خیالات اُن میںملادیئے گئے ہیں کہ اُن کی شکل مسخ ہو گئی ہے.آج ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اگر موسٰی عیسٰیؑ.کرشن ؑ اور زرتشتؑ دنیا میں آئیںتو وہ قرآن کریم کی طرف دوڑیں گے کہ یہ ہماری ہی تعلیم ہے جسے زیادہ جلا دے دیا گیا ہے اور جو تعلیمات اُن کی طرف منسوب کی جاتی ہیں وہ اُن کے پاس سے منہ موڑ کر گذر جائیں گے کہ یہ گندی تعلیمیں معلوم نہیں کس نے دنیا میں پھیلا دیں.اسلام زیر تفسیر آیت کے ذریعہ سے بنی نوع انسان کے سامنے پُر زور احتجاج کرتا ہے کہ شریعتوں کے بارہ

Page 561

میں انسانی دست اندازی کے سلسلہ کو بند کیا جائے.وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ اور خدا تعالیٰ کے کلام میں دخل اندازی نہ کی جائے.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان بھی بعد کے زمانہ میں بگڑے اور بہت بگڑے مگر انہوں نے اس حکم کی خلاف ورزی نہیں کی اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی مدد اور اُس کے منشاء کے ماتحت آج بھی محفوظ ہے.بے شک فقہ میں مسلمانوں نے بھی خوب کتر بیونت کی مگر خدا کا کلام چونکہ محفوظ ہے اِس لئے اس کتر بیونت سے مستقل نقصان اسلام کو نہ پہنچا ہے اور نہ پہنچ سکتا ہے.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے چوتھے معنے (۴) چوتھے معنے دین کے جویہاں لگ سکتے ہیں سیرت کے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اُنہیں صرف یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریںاپنی سیرت کو اس کے لئے خالص کرتے ہوئے یعنی اپنی سیرت کے بنانے میں کسی اورکو شریک نہ کرو بلکہ اپنے اخلاق کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائو.گویا وہ حدیث جو رواۃ کے لحاظ سے ایسی مضبوط نہیں سمجھی جاتی جیسی دوسری حدیثیں ہیں یعنی تَـخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ (التعریفات لعلی بن مـحمد الـجرجانی باب الفاء صفحہ ۱۱۳) کہ اللہ تعالیٰ کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو، اِس آیت کے رو سے بالکل درست ثابت ہوتی ہے اور مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے معنے یہ بنتے ہیں کہ مُـخْلِصِیْنَ لَہُ السِّیْـرَۃَ.اپنی سیرت خالص اللہ تعالیٰ کے لئے کر دو یعنی جب تک الٰہی صفات کے مطابق دنیا اپنے اخلاق کو نہ بنائے امن قائم نہیں ہو سکتا.فرماتا ہے اپنی سیرت کو ایسا بناؤ کہ سوائے اللہ تعالیٰ کی صفات کے اور کسی کا عکس اُس پر نہ پڑے جس طرح خدا تعالیٰ رب ہے تم بھی رب بنو جس طرح وہ رحمان ہے تم بھی رحمان بنو.جس طرح وہ رحیم ہے تم بھی رحیم بنو جس طرح وہ مالک یوم الدّین ہے تم بھی اندھے قاضی نہ بنو.بلکہ مالک یوم الدّین بنو.اصلاح اور درستی اصل غرض تمہارے سامنے رہے.خدا تعالیٰ کی طرح رازق بنو، غفار بنو، ستار بنو، نیک باتوں اور قوموں اور مُردوں کے لئے مُحی بنو اور بری باتوں اور برے افراد کے لیے ممیت بنو.اسی طرح حفیظ بنو.باسط بنو.قیوم بنو وغیرہ وغیرہ.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے پانچویں معنے (۵)پانچویں معنے دِیْن کے جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں تدبیر کے ہیں.ہر فرد دنیا میں کچھ نہ کچھ جدوجہد کرتا ہے اور ہر فرد سے میری مراد ہر معقول فرد ہے.ورنہ دنیا میںایسے احمق بھی ہوتے ہیںجو سونے اور کھانے پینے میں ہی اپنی عمریں گذار دیتے ہیں وہ درحقیقت انسان نہیں حیوان ہیں.ان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہ وہ درحقیقت انسانیت کے دائرہ میں ہی شمار نہیں کئے جا سکتے.ہر شریف انسان کچھ جدوجہد کرتا ہے.اور ہر زندہ دل انسان کسی نہ کسی فن کی رغبت رکھتا ہے کسی کو سائنس سے دلچسپی ہوتی ہے کوئی حساب میں

Page 562

شغف رکھتا ہے کوئی سیاست کی طرف مائل ہوتاہے کوئی تجارت میں انہماک رکھتا ہے کوئی زراعت کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ان سب امور کا حصول کئی وجوہ سے ہوتا ہے بہر حال دنیا میں جو یہ نظارہ نظر آتا ہے.کہ کوئی سائنس کی طرف توجہ کر رہا ہے، کوئی حساب کی طرف توجہ کر رہاہے، کوئی تجارت کی طرف مائل ہے کوئی زراعت سے دلچسپی رکھتا ہے، کوئی سیاسیات میںاپنی عمر بسر کر رہا ہے.اس پر جب غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر لوگوں کی تدابیر یا اپنے نفس کے فائدہ کے لئے ہوتی ہیں یا اپنی قوم کے غلبہ اور نفوذ کے لئے.یعنی دنیا میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو محض اپے نفس کے فائدہ کےلئے ان امور کی طرف توجہ کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے سائنس میں ترقی کرلی تو کئی قسم کی ایجادیں کریں گے.کارخانے جاری کریں گے اور مالی لحاظ سے بہت کچھ نفع اُٹھائیں گے.یاحساب میں شغف رکھتے ہیں تو اس لئے کہ ترقی کر کے ہم انجینئر بن جائیںگے اور دنیا میں اعزاز حاصل کریں گے یا تجارت کرتے ہیں تو اس لئے کہ اپنے لئے اور اپنے خاندان کے افراد کے لئے ہمارے پاس بہت سا روپیہ اکٹھا ہو جائے گا.یا زراعت کریں گے تو اس فن میں بھی اُن کے مدّ نظر محض اپنا فائدہ ہوگا.اِسی طرح سیاسیات میں اُن کی دلچسپی کسی قومی مفاد کے لیے نہیں ہوتی بلکہ ذاتی اعزاز کا حصول اس تمام جدوجہد کا بنیادی نقطہ ہوتا ہے.لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ذاتیات سے بہت بالا ہوتے ہیں ان کے مدّ نظر اپنے ذاتی مفاد اس قدر نہیں ہوتے جس قدر قومی مفاد ان کے مدّنظر ہوتے ہیں.ان میں سے اگر ایک سائنس دان سائنس میں شغف رکھتا ہے تو اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ میری قوم کو اس ذریعہ سے طاقت حاصل ہو جائے اگر کوئی حساب کی طرف توجہ کرتا ہے تو اس کی غرض بھی اس علم سے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے.اگر کوئی تجارت کرتا ہے تب بھی اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تجارت سے میری قوم مضبوط ہوجائے غرض یہ لوگ اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرنے والے ہوتے ہیں ان میں سے کچھ لوگ اگر زراعت کی طرف توجہ کرتے ہیں تو اُن کے مدّنظر محض یہ غرض نہیں ہوتی کہ ہم ہل چلائیں گے کھیتی باڑی کریں گے اور نفع کمائیں گے بلکہ وہ فنِ زراعت اس لئے سیکھتے ہیں تا کہ اُن کی قوم ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے آگے نکل جائے.اسی طرح جب اُن میں سے بعض لوگ سیاسیاست میں حصہ لیتے ہیں تو اِس لئے نہیں کہ اُن کو ذاتی طور پر غلبہ اور نفوذ حاصل ہو جائے بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ سیاسیات میں حصہ لینے کے نتیجہ میں اُن کی قوم کو غلبہ حاصل ہو.غرض دنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی تمام جدّوجہد کا مرکزی نقطہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کو ذاتی طور پرکوئی فائدہ حاصل ہو جائے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض قومی مفاد کے لئے ہر قسم کی جدوجہد کرتے ہیں اُن کا علوم کی طرف توجہ کرنا مختلف فنون میں مہارت حاصل کرنا اور مختلف قسم کے شعبوں میں کام کرنا اس لئے

Page 563

نہیں ہوتا کہ وہ شہرت کے بھوکے ہوتے ہیں یا عزت کے متلاشی ہوتے ہیں یا مال و دولت کے شائق ہوتے ہیں بلکہ وہ اِس لئے اپنی عمریں ان کاموں میں صرف کر دیتے ہیں کہ اُن کی قوم سر بلند ہو اور اُسے دنیا میں عزت کا مقام حاصل ہو.اللہ تعالیٰ اِس آیت میں یہ فرماتا ہے کہ جب بھی دنیا میں ایسا طریق عمل جاری ہو گا غلط قسم کی رقابت پیدا ہو گی اور تباہی اور بربادی اس کے نتیجہ میں آئے گی پس انسان کو چاہیے کہ اپنی سب جدوجہد اللہ تعالیٰ کے لئے کرد ے.اگر اُسے حساب کا شو ق ہے اور وہ اس علم میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو بے شک کرے اور خوب کرے.اگر اُسے سائنس کا شوق ہے اور وہ نئی نئی ایجادات کرنا چاہتا ہے تو بے شک سائنس کی طرف توجہ کرے اور دنیا میں نئی سے نئی ایجادیں کرے.اگر اُسے تجارت کا شوق ہے تو بے شک وہ تجارت کرے اور خوب مال ودولت کمائے.اگر اُسے زراعت کا شوق ہے اور وہ اس علم پر غور کرتے ہوئے نئے نئے امور دریافت کرنا چاہتا ہے تو بے شک ایسا کرے کیونکہ خود خدا نے یہ فطرت پیدا کی ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان کام کرے بے کار نہ بیٹھے مگر چاہیے کہ اُس کی سب تدبیریں اللہ تعالیٰ کے لئے ہوں یہ ظاہر ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے جدوجہد کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندوں کو اپنی جدوجہد کے ثمرات سے محروم نہیں کرے گا.جب وہ خدا کے لئے ایسا کرے گا تو اُس کی یہ غرض نہیں ہوگی کہ انگلستان کو کچل دے، نہ انگلستان کی یہ غرض ہو گی کہ فرانس کو کچل دے، نہ امریکہ کی یہ غرض ہو گی کہ رُوس کو کچل دے.جب ہر شخص اللہ تعالیٰ کے لئے کوشش کرے گا تو اس کی کوششیں تمام بنی نوع انسان کے لئے مفید ہوں گی اور غلط قسم کی رقابت اور عداوت دنیا میں پیدا نہیں ہو گی.تمام تباہی اسی وجہ سے واقعہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے ذاتی یا قومی مفاد کے لئے دوسروںکے حقوق کو غصب کرنا شروع کر دیتا ہے اور اس امر کو کلی طور پر نظر انداز کر دیتا ہے کہ اسے اپنی جدوجہد کے ثمرات میں تمام بنی نوع انسان کو شریک کرنا چاہیے.یہ تو علمی زمانہ ہے مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ باپ داداکی دولت سے ذرا بھی حصہ مل جائے تو لوگ غافل ہوجاتے ہیں ہر قسم کے کاموں کو چھوڑ کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں اب ہمیں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے باپ دادا سے ہمیں بہت بڑی جائیداد مل گئی ہے اور اب ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کھائیں پئیں اور سو رہیں یہ قطعاً خیال نہیں کیا جاتا کہ انسان کی پیدائش اِس لئے نہیں ہوئی کہ وہ کھائے پئے اور سو رہے بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا ہے جیسا کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً( البقرۃ:۳۱) سے ظاہر ہے اور جب انسان اِس دنیا میں اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے تو اُسے غور کرنا چاہیے کہ اُس کے لئے نکما پن کس طرح جائز ہو سکتا ہے.اگر اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ نکما بیٹھا ہوا ہوتا تو یہ کہا جاسکتا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کوئی کام نہیں کرتا اس لئے اگر انسان بھی کوئی کام نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں.مگر ہم

Page 564

دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نکما نہیں بیٹھا بلکہ وہ اپنی تمام صفات سے کام لے رہا ہے، کہیں بنی نوع انسان کو رزق دے رہا ہے کہیں ان کو زندہ کر رہا ہے کہیں اُن کو مار رہا ہے کہیں اُن کی مغفرت کے سامان کر رہا ہے.کہیں اُن پر رحمت نازل کر رہا ہے، کہیں اُن پر عذاب بھیج رہا ہے،کہیں اُن کو ترقی دے رہا ہے.کہیں تنزّل کے سامان کر رہاہے.غرض دن رات وہ کام میں لگا ہوا ہے اور یہی وہ انسانوں سے چاہتا ہے کہ جس طرح میں کام میں لگا ہوا ہوں اسی طرح تم بھی کام میں لگ جائو اور کبھی غفلت اور سستی کو اپنے قریب بھی نہ آنے دو.مگر افسوس کہ لوگوں کی حالت یہ ہے کہ ان کو ذرا بھی سہولت کے سامان میّسر آ جائیں تو وہ سست ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں کام کرنے کی ضرورت نہیں.ہمارے ملک میں تو عام محاورہ ہے کہ جب کسی آسودہ حال سے پوچھا جائے کہ سُنائو کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے اللہ کا بڑا فضل ہے کھانے پینے کو بہت کچھ ہے اب کام کی ضرورت نہیں.حالانکہ کام تو سامانوں کے مطابق ہوتا ہے.جس کے پاس کم سامان ہوں وہ کم کام کرتا ہے اور جس کے پاس زیادہ سامان ہوں وہ زیادہ کام کرتا ہے.پس اگر اُنہیں زیادہ سامان میسر آگئے تھے تو اُن کا فرض تھا کہ وہ کام بھی دوسروں سے زیادہ کرتے نہ یہ کہ سامانوں کے میسر آجانے کی وجہ سے اپنی کمر ہمت کو بالکل تو ڑ کر بیٹھ جاتے اور کہتے کہ اب ہمیں کام کی ضرورت نہیں.کھانے پینے کا سامان خدا تعالیٰ نے بہت کچھ دے دیا ہے.اب ہمارا کام اتنا ہی ہے.کہ کھائیں پئیں عیش و آرام میں اپنا وقت گزاریں اور سو جائیں.یہ ایک لعنت ہے جو ہندوستانیوں کے سروں پر مسلّط ہے اور جس نے اُن کوترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے کر دیا ہے.وہ جدوجہد اور عمل صرف اس بات کا نام سمجھتے ہیں کہ اپنی ذات کو فائدہ پہنچ جائے یا اپنے خاندان کو فائدہ پہنچ جائے بنی نوع انسان کو اپنی جدوجہد کے ثمرات میں شریک کرنے کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے.اس کے مقابل میں یورپ کے لوگوں میں جہاں اور کئی قسم کے نقائص ہیں وہاں اِس نقص کو انہوں نے قومی طور پر بالکل دور کر دیا ہے.وہاں امیر اور غریب سب کام کرتے ہیں اور باوجود بڑے بڑے اُمراء کی موجودگی کے اُن میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آتا جو کام نہ کر رہا ہو اِلاّ ماشاء اللہ ہر قوم میں کچھ نہ کچھ گندے اور خراب افراد بھی ہوتے ہیں اُن کومستثنیٰ کرتے ہوئے اکثریت ایسے ہی لوگوں کی نظر آتی ہے جو اربوں ارب روپیہ کے مالک ہیں مگر خود بھی کام کرتے ہیں اُن کی بیویاں بھی کام کرتی ہیں اُن کے بچے بھی کام کرتے ہیں اسی طرح اُن کے خاندان کے دوسرے افراد بھی کام کرتے ہیں اور وہ کبھی کام کرنا اپنے لئے ننگ اور عار کا موجب نہیں سمجھتے مگر اس کے باوجود وہ یا تو اپنے نفس کے لئے سب کچھ کرتے ہیں یا اپنے ملک کی ترقی اور اُس کی خوشحالی کے لئے کام کرتے ہیں یا قومی برتری کا احساس اُن کے مدّ نظر ہوتا ہے یا نفسانی خواہشات اُن کے پیش نظر ہوتی ہیں اسی لئے باوجود کام کرنے

Page 565

کے خرابیاں زیادہ پیدا ہوتی ہیں.پہلے زمانہ میں بھی باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے بعض لوگ کام نہیں کرتے تھے مگر خرابیاںکم ہوتی تھیں کیونکہ قومی برتری کا احساس اُن کے دلوں میں نہیں ہوتا تھا وہ صرف اپنے ذاتی مفاد کومدنظر رکھا کرتے تھے مگر اب چونکہ ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو بھی مد نظر رکھا جاتا ہے اور دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ اپنے تمام اعمال اس لئے بجا لاتا ہے کہ اُس کی قوم کو دوسروں پر تفوق حاصل ہو، اُس کی قوم کو دوسروں پر غیر معمولی اقتدار اور غلبہ میسر ہو، اُس کی قوم کو بہت بڑی طاقت حاصل ہو.اس لئے کام کرنے کے باوجود اس زمانہ میں خرابیاں زیادہ پیدا ہو رہی ہیں.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم تدبیریں کرو اور ضرور کرو کیونکہ ہم نے تم کو پیدا ہی اسی لئے کیا ہے کہ تم کام کرو مگر دیکھو ہماری نصیحت یہ ہے کہ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اپنی ساری تدبیریں خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دو.ذاتی آرام یا قومی مفاد تمہارے مدنظر نہ ہو بلکہ تمہاری تمام جدوجہد محض اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہو.غور کرو یہ کیسا سنہری اصل ہے اور کس طرح اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں دنیا میں امن قائم ہو جاتا ہے اس ذریعہ سے ایک طرف اللہ تعالیٰ نے نکما پن دور فرما دیا اور بنی نوع انسان سے کہہ دیاکہ دیکھو ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم بےکار رہو اور دنیا میں آ کر کوئی کام نہ کرو اور دوسری طرف کہہ دیا کہ ہم یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ تم جھوٹی رقابتیں پیدا کرنی شروع کر دو.تم کام کرو اور خوب کرو مگر جھوٹی رقابتیں پیدا نہ کرو.دوسرے ملکوں یاقوموں کو تباہ کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ ہر کام اللہ تعالیٰ کی خاطر کرو.یہ امر ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے ہر کام کرے گا ذاتی یا قومی برتری کا احساس اس کے دل میں نہیں ہو گا وہ دوسروں کے حقوق کو کچلنے کے لئے بھی کوئی قدم نہیں اٹھائے گا یہی وجہ ہے کہ اسلامی حکومت کے زمانہ میں ( یعنی جب جب اور جہاں اسلامی اصول پر حکومت کی گئی ) کبھی غیر قوموں کو کچلنے کی کوشش نہیں کی گئی.سات آٹھ سو سال تک مسلمانوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا ہے اور یہ ایک بہت بڑا عرصہ ہے اس قدر لمبے عہد حکومت کے باوجود کسی مسلمان حکومت نے ہمسایہ ممالک کو تباہ کرنےکی کوشش نہیں کی حالانکہ ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کے پاس بہت کچھ طاقت تھی اور وہ اگر چاہتے تو آسانی سے ان کی اقتصادی حالتوں کو تباہ کر سکتے تھے.مگر باوجود طاقتور ہونے کے، باوجود بادشاہ ہونے کے، باوجود آٹھ سو سال تک برسر اقتدار رہنے کے، باوجود ہمسایہ ممالک کی کمزوری کے کبھی ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو کچلنے کے لئے مسلمانوں نے کوئی اقدام کیا ہو ایبے سینیا اس کی واضح مثال ہے تیرہ سو سال وہ مسلمانوں کی ہمسائیگی میں رہا مگر اُس کی آزادی میں کوئی فرق نہ آیا.اس کے مقابلہ میں عیسائیوں میں صرف ایک صدی افریقہ میں غلبہ ہوا تو انہوں نے ایبے سینیا کو کچل دیا حالانکہ ایبے سینیا والے اُن کے ہم مذہب تھے اور اس لحاظ سے وہ اس بات کا زیادہ حق رکھتے

Page 566

تھے کہ اُن کے ملک پر ڈاکہ نہ ڈالا جائے.مگر عیسائیوں نے کسی بات کی پروا نہ کی، نہ انصاف کو مدنظر رکھا، نہ دیانت اور رواداری کی پروا کی اور اپنے غلبہ کے گھمنڈ میں کمزور ممالک پرحملہ کر کے اُن کو اپنا ماتحت بنا لیا.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ مسلمان قرآنی احکام کے مطابق اپنی تمام کوششیں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھتے ہوئے عمل میں لاتے تھے.چونکہ ایبے سینیا، یوگنڈا اور ایسٹ افریقہ وغیرہ نے مسلمانوں کو چھیڑا نہیں اس لئے باوجود زبردست مسلمان حکومتوں کے پہلو میں بیٹھے ہونے کے کسی نے اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھا اور یہ حالت برابر چلتی چلی گئی یہاں تک کہ انتہائی مُردہ اور گری ہوئی حالت میں بھی اُن کے اندر یہ خوبی قائم رہی اور انہوں نے غیر اقوام کو کچلنے کی کبھی کوشش نہیں کی.لیکن یوروپین قوموں نے جہاں بھی سر نکالا انہوںنے غیر ممالک کو کچل ڈالا.میںہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یوروپین قوموں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے بچوں کو کھیلتے ہوئے جب کوئی چیز مل جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں ’’لبّھی چیز خدا دی نہ دھیلے دی نہ پا دی ‘‘ یہ بھی غیر ملکوں پر قبضہ کرتے چلتے جاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں یہ تو ایک گری پڑی چیزتھی جو ہمیں مل گئی.پھر اس کے ساتھ ہی وہ اخلاق کے بھی دعویدار بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہ قبضہ امن قائم کرنے اورلوگوں کو تہذیب و شائستگی کے اصول سکھانے کے لئے کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعویٰ بالکل غلط ہے اگر واقعہ میں تمہارے اندر اخلاق پائے جاتے تھے اور تمہارے مدنظر ذاتی یا قومی مفاد نہیں تھا تو تمہارا فرض یہ تھا کہ تم بجائے غیرممالک پر قبضہ کرنے اور اُس کی دولت سے فائدہ اُٹھانے کے ان ممالک میںجاتے، لوگوں کی تربیت کرتے، ان کو علم سکھاتے اور پھر واپس آ جاتے.گویا جو کچھ کرتے اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے کرتے نفسانیت کا اُس میں کوئی شائبہ نہ ہوتا.مگر تم نے تو جو کچھ کیا اپنے نفس کے لئے کیا اور یہ وہ چیز ہے جو دنیا میں امن قائم نہیں کرتی بلکہ بدامنی اور ظلم کے دَور دَورہ کا موجب بن جاتی ہے اگر انگریز افریقہ میں جاتے اور بجائے اُس پر قبضہ کرنے کے لوگوں سے کہتے کہ ہم تمہاری ترقی کے لئے آئے ہیں.پھر ان کو تعلیم دلاتے، اُن کو کاشت کے اصول سکھاتے.مدرسے اور کارخانے قائم کرتے ، مال و دولت کو ترقی دینے کے ذرائع بتاتے تہذیب اور شائستگی کے اُصول سکھاتے اور جب وہ یہ سب کچھ سیکھ جاتے تو کہتے لو اب ہم واپس جاتے ہیں.یہ ملک تمہارا ہے ہم تو محض تمہاری خدمت کرنے کے لئے آئے تھے تو یقیناً وہ اپنے دعوے میں سچے سمجھے جا سکتے تھے اور کہا جا سکتا تھا کہ اُن کی کوششیں اپنے لئے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے تھیں.مگر یہ کیا طریق ہے کہ افریقن لوگوںکو الگ بٹھا دیا.اُن کی زمینوں اورجائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور پھر یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ ہم نے تو یہ قبضہ افریقن لوگوں کی ترقی اور اُن کے فائدہ کے لئے کیا ہے اور یہی ہمدردی کاجذبہ اِس کا محرک ہوا ہے.

Page 567

مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے چھٹے معنے (۶)چھٹے معنے اس کے عبادت کے ہیں.یہ معنے بھی یہاں لگتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ شرک نہ کرو سب قسم کی عبادات اللہ تعالیٰ کے لئے کرو.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ساتویں معنے (۷) ساتویں مناسب معنے اس کے وَرَع کے ہیں یعنی نیکی اور نیک اعمال اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ ریاء اور سُـمْعَۃ کو باکل ترک کر دو اور سب زہد وتعبد صرف اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے ہو.یہ نہ ہو کہ تمہارے جُبّے اور دستاریں اور کہانت اور پادری کاعہدہ لوگوں میں عزت حاصل کرنے اور اُن سے اطاعت کرانے کے لئے ہو بلکہ تمہارا زہد و تعبد محض خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کے لئے ہو.یہ بات ایسی ہے جس کی طرف غیر قومیں تو الگ رہیں خود مسلمانوں کو بھی بہت کم توجہ ہے اور وہ نمازیں پڑھنے اورروزے رکھنے اور زکوٰۃ دینے اور حج کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رضا مدّ نظر نہیں رکھتے بلکہ اُن کامقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ لوگوں میں ہماری عزت قائم ہو جائے اور وہ ہمیں بڑا نمازی یا بڑا عابد کہنے لگ جائیں.اِسی طرح حج بھی زُہد کی علامت ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر حج کو بھی اپنی شہرت کا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ہر شخص جوحج کر آئے وہ اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھنا اپنا فرض سمجھتا ہے.میں جب حج کے لئے گیا تو ایک اور مسلمان نوجوان بھی میرے ساتھ جہاز میں سوا ر تھا.وہ اپنے آپ کو دین کے متعلق اس قدر غیرت مند سمجھتا تھا کہ جب اُسے معلوم ہوا کہ میں احمدی ہوں تو وہ بار بار اپنا ہاتھ مار کر کہتاکہ وہ جہاز بھی نہیں ڈوبتا جس میں ایساشخص سفر کر رہا ہے.حالانکہ اِسی جہاز میں وہ خود بھی سفر کر رہا تھا اور اگر جہاز ڈوبتا تو اس کا ڈوبنا بھی یقینی تھا.بہرحال ایک طرف تودین کے متعلق وہ اس قدر غیرت کا اظہار کرتا تھا اور دوسری طرف اس کی حالت یہ تھی کہ میں نے اسے مکہ سے منیٰ جاتے ہوئے جو عین حج کا وقت ہوتا ہے اردو کے نہایت گندے عشقیہ اشعارپڑھتے سنا.ایک دن باوجود اس کے بُغض اور کینہ کے میں اُس کے قریب چلا ہی گیا اور میں نے اُسے کہا کہ آپ کو دین کا بہت شوق معلوم ہوتا ہے مگر یہ کیا بات ہے کہ منیٰ میں مَیں نے آپ کو بہت گندے اشعار پڑھتے سنا ہے کہنے لگا بات اصل میں یہ ہے کہ ہم سورت کے تاجر ہیں اور ہمارے علاقہ میں حاجیوں کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ہماری ہول سیل دوکان ہے اور ارد گرد کے علاقوں سے اکثر لوگ ہماری دوکان سے ہی مال خرید کر لے جاتے ہیں مگر گذشتہ سال ہمارے پاس کی دوکان والاحج کر آیا اور اس نے اپنے نام کے ساتھ حاجی کا ٹائٹل لگا کر دوکان پربورڈ آویزاں کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے گاہک بھی اُدھر جانے شروع ہو گئے کیونکہ لوگوں نے خیال کیاکہ حاجی صاحب سے سودا خریدنا چاہیے اس میں ثواب بھی ہو گا یہ دیکھ کر میرے باپ نے مجھے کہا کہ کم بخت تو بھی حج کر آ ورنہ اگر یہی حالت رہی تو ہماری دوکان

Page 568

بالکل تباہ ہو جائے گی.چنانچہ میں اسی لئے حج کے لئے آیا ہوں اب یہاں سے جانے کے بعد میں بھی اپنے نام کے ساتھ حاجی لکھ کر بورڈ لٹکا دوں گا اور ہمیں تجارت میں جو گھاٹا ہوا ہے وہ جاتا رہے گا.اُس وقت اُسے تو میں نے کچھ نہ کہا مگر دل میں مجھے اُس کی حالت پر سخت افسوس آیا کہ کُجا اس کی غیرت کی یہ کیفیت تھی کہ وہ بار بار اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہتا ہائے وہ جہاز بھی غرق نہیں ہو جاتا جس میں ایسا شخص سوار ہے اور کجا یہ حال ہے کہ وہ حج کرنے کے لئے آیا ہے مگر اُسے ذرا بھی یہ احساس نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر حج کرے بلکہ اُس کے مدنظر محض اتنی بات ہے کہ میں حاجی کہلائوں.لوگ میری عزت کریں اور وہ دوکان پر کثرت کے ساتھ سودا خریدنے کے لئے آنے لگیں.تو دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زُہد و تعبد میں لوگوں کی خوشنودی اور اُن کی واہ وا حاصل کرنے کے لئے حصہ لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت سے اُن کا دل بالکل خالی ہوتا ہے مثلاً عیسائیوں میں پادریوں کی بہت بڑی عزت سمجھی جاتی ہے اور جتنے یوروپین اُمراء خاندان ہیں وہ ایک ایک لڑکا ضرور چرچ کی خدمت میں لگا دیتے ہیں مگر اس لئے نہیں کہ اُن کے دل میں عیسائیت کی کوئی عظمت ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ پادری بن کر ہمارا لڑکا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے گا بلکہ صرف اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں اس کے بغیر ہمارے خاندانوں کا سیاسی لحاظ سے کوئی اثر قائم نہیں ہوسکتا.یہ مسلمانوںکی بد قسمتی ہے کہ انہوں نے علماء کی عزت نہیں کی جس کی وجہ سے امراء کی توجہ علم دین کی طرف سے بالکل ہٹ گئی مگر یوروپین قومیں اپنے پادریوں کی بڑی عزت کرتی ہیں اس وجہ سے امراء کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ ہمیں سیاسی رنگ میں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ورنہ عوام میں ہمارے خلاف جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ رسوخ جو ہمیں حاصل ہے جاتا رہے گا پس چونکہ زُہد و تعبد کے اعمال بساا وقات لوگ اس لئے بجا لاتے ہیں کہ اُن کو قوم میں عزت اور رسوخ حاصل ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ریاء اور سمعت کے خیالات کو اپنے دل کے کسی گوشہ میں بھی داخل نہ ہونے دو اور جس قدر نیک اعمال بجا لائو ان کی تہ میں صرف یہی جذبہ کار فرما ہوکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے مخلوق سے توجہ ہٹا کر صرف خالق پر اپنی نظر رکھو اور اپنے اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دو کہ وہی اعمال اُس کی درگاہ میں مقبول ہوتے ہیں جو اس کی رضا کے لئے کئے جائیں.جن اعمال پر ریاء کا داغ لگ جاتا ہے وہ انسان کے منہ پر مارے جاتے ہیں اور ثواب کی بجائے اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب بن جاتے ہیں.مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے آٹھویں معنے (۸) آٹھویں مناسب معنے جو یہاں لگ سکتے ہیں عادت کے ہیں اِن معنوں کے رُو سے اس آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ تم اللہ تعالیٰ کے ایسے فرمانبردار بنو کہ تمہاری عادات بھی اللہ تعالیٰ

Page 569

کے تابع ہو جائیں.بظاہر عادت کی عبادت بُری ہو تی ہے مثلاً اگر کوئی شخص صرف عادت کی نماز پڑھتا ہے یعنی اُسے ماں باپ نے نماز پر لگا دیا تھا جس کی وجہ سے اُسے نماز کی عادت ہو گئی یا اُس کے ماں باپ نے اُسے روزے رکھنے پر مجبور کیا تھا جس کی وجہ سے اُسے روزوں کی عادت ہو گئی یا کسی اور نیک کام پر اُس کے ماں باپ نے اُسے مجبور کیا اور رفتہ رفتہ اُس نیک کام کی اُسے عادت ہو گئی تو یہ عادت بُری سمجھی جاتی ہے.لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عادتیں دو قسم کی ہوتی ہیں وہ عادت کی عبادت بُری ہوتی ہے جس کی ابتدا بھی عادت سے ہو.یعنی جب کسی نے کوئی کام بغیر سمجھے بوجھے کیا ہو اور فتہ رفتہ وہ کام اس کی طبیعت میں داخل ہو گیا ہو تو یہ عادت اچھی نہیں سمجھی جا سکتی.مثلاً کسی شخص نے زید کو کوئی بات کہی اور اُس نے بغیر سوچے سمجھے اُس کے مطابق کام کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ اُس بات کی اُسے عادت ہو گئی یا کسی اور کے کہنے کی بجائے اُس نے خود ہی کسی کام کی آہستہ آہستہ عادت اختیار کر لی تو یہ عادت قطعاً کوئی قیمت نہیں رکھتی.لیکن ایک شخص ایسا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے لیے اور اس کی محبت اور اُس کے عشق سے عبادات اور نیک اعمال میں حصہ لینا شروع کرتا ہے اور عمل کرتے کرتے وہ اُس کا جزوِ بدن ہو جاتے ہیں اور آپ ہی آپ بغیر کسی ارادہ کے وہ افعال اس سے ظاہر ہونے لگتے ہیں ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی عبادت نہیں کہلا سکتی.کیونکہ اُس نے خلوص کے ساتھ، محبت کے ساتھ، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا اور متواتر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ عبادت اُس کا جزوِ بدن بن گئی.اب جو فعل اس عادت کے نتیجہ میں ظاہر ہو گا وہ یقیناً خوبی کہلائے گا کیونکہ اُس نے دیدہ و دانستہ اپنے نفس پر جبر کر کے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ایک فعل اتنی بار کیا کہ وہ اس کے رگ و ریشہ میں پیوست ہو گیا یہ جبری عادت نہیں ہوتی کہ اُسے بُرا قرار دیا جا سکے نہ بے دھیان کی عادت ہوتی ہے کہ اسے لغو کہا جا سکے.یہ ایک نیک عادت ہوتی ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اختیار کی جاتی ہے اور چونکہ خدائی قانون یہ ہے کہ جب ایک شخص لذّت اور شوق سے متواتر کوئی فعل کرے تو وہ کام اُس سے آپ ہی آپ سرزد ہو تا جاتا ہے.اِس لئے ایسے شخص کی عادت کی عبادت رسمی عبادت نہیں کہلاتی بلکہ وہ اطاعت کا منتہیٰ کہلاتی ہے.(۲)دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ انسان کو کئی قسم کی عادات خاص خاندانوں یا قوموں میں رہنے کی وجہ سے پڑ جاتی ہیں.مثلاً چائے نوشوں میں چائے کی عادت ہوتی ہے، اچھے خوش خور لوگوں میں اچھا کھانا کھانے کی عادت ہوتی ہے خوش لباسوں میں رہنے کی وجہ سے انسان کو خوش لباسی کی عادت ہو جاتی ہے.اس لئے ایک معنے اِس آیت کے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو اس طرح اللہ تعالیٰ کا بنائو کہ اگر تم کو کوئی عادت پڑے تو وہ اللہ کی ہو نہ کہ

Page 570

اپنے گرد وپیش کے لوگوں کے اثر سے تم نے وہ عادت اختیار کی ہو.گویا اس میں یہ اشارہ کیا گیاہے کہ تمام لغو عادات سے مومن کو بچنا چاہیے.یوں تو عادتیں انسان کو ضرور پڑ جاتی ہیں کوئی انسان دنیامیں ایسا نہیں ہوتاجسے کچھ نہ کچھ عادت نہ ہو.مگر کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے گردو پیش کے لوگوں سے صرف اتنا اثرلیتے ہیں کہ اُنہیں اچھا کھانا کھاتے دیکھتے ہیں تو خود بھی اچھا کھانا کھانے لگ جاتے ہیں.اُنہیں اچھا لباس پہنتے دیکھتے ہیںتو خود بھی اچھا لباس پہننے لگ جاتے ہیں.اُنہیں آرام کی زندگی بسر کرتے دیکھتے ہیں تو خود بھی آرام کی زندگی بسر کرنے لگ جاتے ہیں لیکن ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو لوگوں سے صرف نیکی اور تقویٰ اور عبادت کا اثر قبول کرتا ہے.اب جہاں تک دوسروں سے اثر قبول کرنے کا سوال ہے دونوں نے اثر قبول کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک شخص نے اپنے نفس کے آرام کے لیے گرد و پیش کا اثر قبول کیا اور دوسرے نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے صرف وہ اثر قبول کیا جس کا نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تعلق تھا.گو یا وہ شخص جس نے اچھا کھانے یا اچھا پینے یا اچھا پہننے کا اثر قبول کیا تھا اُس نے اپنے دل کے آئینے کو غیروں کے سامنے کیا اور وہ شخص جس نے اپنے اندر نماز اور روزہ اور صدقہ و خیرات کی عادتیں پیدا کیں اُس نے اپنا آئینہ خدا کے سامنے کر دیا.پس فرماتا ہے تمہیں دنیا میں رہ کر عادتیں تو ضرور پڑنی ہیں مگر تم ایسی کوشش کرو کہ خدا تعالیٰ کی مرضی کے اعمال کا تواتر ہو.بنی نوع انسان کے اعمال کا تواتر نہ ہو جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی نظریں نیچی رکھو اگر اتفاقیہ طور پر کسی غیر عورت پر تمہاری نگاہ پڑ جاتی ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں.لیکن اگر تم دوسری نگاہ اس پر ڈالو گے تو گنہگار بن جائو گے.اس ممانعت میں بھی یہی حکمت ہے کہ اگر انسان دوسری بار نگاہ ڈالے گا تو اُس کا یہ نگا ہ ڈالنا بالا ارادہ ہو گا اور جب وہ ایک کام بالارادہ کر ے گا تویہ لازمی بات ہے کہ وہ کام آہستہ آہستہ عادت میں داخل ہونا شروع ہو جائے گا پس مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کے ایک معنے یہ ہیں کہ تو بُرے افعال کا تکرار نہ کر بلکہ اُن اعمال کا تکرار کر جو تجھے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والے ہوں یعنی جن کاموں کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے اُن کا تکرار کرو اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اُن کے گردو پیش کے اثرات کی وجہ سے عادت پیدا نہ کرو.گویااس کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنے آپ کو گردو پیش کے برے اثرات سے بالکل آزاد کر لو حتی کہ تم کو دوسروں کے بداثرات سے کوئی عادت نہ پڑے بلکہ صرف نیک اثرات کو قبول کرو.عادات بھی ایک بہت بڑی ظلمت ہوتی ہیں بعض دفعہ یہ انسان کو دوسرے کا خوشامدی بنا دیتی ہیں.بعض دفعہ ڈرپوک بنا دیتی ہیں.بعض دفعہ سُست بنا دیتی ہیں اور انسان بڑے بڑے کاموں میں حصہ لینے سے محروم ہو جاتا ہے.مثلاً حُقہ کی عادت ہے، افیون کی عادت ہے یا چائے یا نسوار کی عادت ہے ایسے لوگوں کو اگر جہاد کے لئے جانا

Page 571

پڑے تو اُن کے قدم ڈگمگا جائیں گے کیونکہ جہاد میں یہ چیزیں میسر نہیں آ سکتیں.لڑائی میں بسا اوقات انسان کو کئی کئی وقت کا فاقہ کرنا پڑتا ہے.بسا اوقات جنگلوں میں راتیں گذارنی پڑتی ہیں ، بسا اوقات نہایت معمولی اور ردّی غذا کھا کر گزارہ کرنا پڑتا ہے.ایسے مواقع پروہ شخص جسے شراب کی عادت ہو یا افیون کی عادت ہو یا حقہ اور نسوار کی عادت ہو کبھی دلیری سے آگے نہیں آ سکتا کیونکہ اُس کی عادات اِس قربانی میں دیوار بن کر حائل ہو جائیں گی اور وہ سمجھے گا کہ اگر میں اس جنگ میں شامل ہوا تو مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑے گی.موجودہ جنگ میں سپاہیوں کی سب سے بڑی شکایت یہی تھی کہ ہمیں شراب نہیں ملتی ہمیں سگرٹ نہیں ملتے اور یہ شکایت اس قدر بڑھ گئی کہ انگریز افسروں کے لئے اس کا ازالہ کرنا بالکل نا ممکن ہو گیا.چنانچہ پارلیمنٹ کے موجودہ انتخابات میں مسٹر چرچل کی شکست کی وجہ بھی یہی ہوئی کہ فوجیوں کے ووٹ سب اُن کے خلاف تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ ایسی گورنمنٹ ہر گز قائم رہنے کی مستحق نہیں جس نے لڑائی میں ہمارے لئے شراب مہیا نہیں کی، جس نے کثرت سے ہمیں سگرٹ نہیں پہنچائے اور اس طرح وہ ہماری تکلیف کا موجب ہوئی ہے.حالانکہ انگریز افسر بھی سچے تھے وہ لڑائی کا سامان جمع کرتے یا شرابیں اور سگرٹ تیار کر کر کے فوجیوں کو بھجواتے؟ پس اس آیت میں مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ سوائے ذکر الٰہی اور نیکی کے کاموں کے جو خدا تعالیٰ کی رضا کا موجب ہیں اور کسی چیز کی عادت نہ پڑنے دو تاکہ تم کو کبھی غیر کے آگے جھکنے یا قومی خدمات میں سستی کرنے پر مجبور نہ ہونا پڑے.حُنَفَآءَ کے معنے نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا حُنَفَآءَ.مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کے جو معنے اوپر بیان کئے گئے ہیں اُن میں چونکہ حَنِیْف کے وہ معانی بھی آ جاتے ہیں جو حل لغات میں بیان کئے جا چکے ہیں اِس لئے میں اِس جگہ حَنِیْف کے صرف اتنے معنے لیتا ہوں کہ ’’نیک میلانوں پر ثابت قدم رہنا‘‘ میں سمجھتا ہوں کہ اوپر کی تشریحات کے بعد صرف یہی ایک معنے باقی رہ جاتے ہیں جن کاالگ بیان کرنا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں اوپر کا حکم اس مزید ہدایت کے ساتھ دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ میں نیک باتوں پر استقلال پیدا کرو یعنی ہم چاہتے ہیں کہ ایک تو مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کے جو معنے ہیں وہ تمہارے اندر پیدا ہو جائیں اور دوسرے تم میں استقلال پیدا ہو جائے.یہ نہ ہو کہ نیکیوں پر چند دن تو بڑے جوش و خروش سے عمل کرو اور پھر تھک کر بیٹھ جائو.درحقیقت بڑی غلطی انسان کی یہ ہوتی ہے کہ وہ نیکیوں پر دوام اختیار نہیں کرتا صرف چند دن عمل کرتااور

Page 572

پھر اُن کو چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی نیکی مقبول ہو سکتی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے اور یہ دوام پیدا نہیں ہو سکتا جب تک انسان کے اندر استقلال کا مادہ نہ ہو.پس اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دینے کے بعد کہ تمہاری اطاعت اور تمہارا غلبہ اور تمہارا حکم اور تمہاری سیرۃ اور تمہاری تدابیر اور تمہاری عبادات اور تمہاری نیکی اور تمہاری عادات سب کی سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئیں.حُنَفَآءَ کہہ کر یہ مزید حکم دے دیا کہ جب ایسے میلانات تمہارے اندر پیدا ہو جائیں تو پھر اُن پر ثابت قدم رہو ایسا نہ ہو کہ سستی کر کے اس مقام پر سے تمہارا قدم لڑ کھڑا جائے اور تمہاری نیکیاں سب ضائع چلی جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حضور وہی عبادت نفع رکھتی ہے جس میں دوام پایا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ گھر میں داخل ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی ایک بیوی نے چھت سے ایک رسّہ لٹکا رکھا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کیسا رسّہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ یہ اس لئے ہے کہ جب عبادت کرتے کرتے اُونگھ آنے لگے تو اس سے سہارا لے لیا جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِسے کھول دو.اللہ تعالیٰ کو وہی عبادت پسند ہے جس میں دوام پایا جائے اگرچہ وہ کتنی ہی قلیل ہو.وہ عبادت پسند نہیں جس کے نتیجہ میں انسان کی طبیعت میں ملال پیدا ہو جائے اور چند دن کے بعد وہ اس کو ترک کرنے پرمجبور ہو جائے.(بـخاری کتاب التـھجد باب ما یکرہ من التشدید فی العبادۃ) بعض لوگ غلطی سے اس کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ کسی دن کم اور کسی دن زیادہ عبادت نہیں کرنی چاہیے بلکہ ہمیشہ ایک جیسی عبادت کرنی چاہیے مگر یہ معنے بالبداہت باطل ہیں.کیونکہ انسان بعض دفعہ بیماری کی وجہ سے یا کسی اور مجبوری کی وجہ سے زیادہ عبادت نہیں کر سکتا اور بعض دفعہ تو اُس کے چھوڑنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ رات کو پورے آٹھ نفل نہیں پڑھ سکے (مسلم کتاب صلاۃ المسافرین و قصـرھا باب جامع صلاۃ اللّیل و من نام عنہ او مرض) پس اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ تم نفلی عبادات کو کم و بیش نہ کرو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جب تم کوئی عبادت شروع کرو تو پھر اُسے کرتے چلے جائو.یہ نہ ہو کہ چند دن نفل پڑھو اور پھر چھوڑ دو.یا بعض دفعہ تو ساری ساری رات تہجدپڑھتے رہو اوربعض دفعہ دونفل بھی نہ پڑھو.یہ عدم استقلال کا مرض ہے جس سے ہر مومن کو کلّی طور پر محفوظ ہونا چاہیے اور اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ نیکی وہی ہے جس پر دوام اختیار کیا جائے.

Page 573

اقامتِ صلوٰۃ سے مراد باجماعت نماز ادا کرنا اور نماز کا رواج دینا وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكٰوةَ.لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ کے بعد وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کا ذکر کرنا صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد محض عبادت نہیں.اگر محض عبادت اس جگہ مراد ہوتی تو اُس کے علیحدہ ذکر کرنے کے کوئی معنے ہی نہیں تھے لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ میں یہ مفہوم بڑی وضاحت سے آ چکا تھا اور بتایا جاچکاتھا کہ مومنوں کا فرض ہے کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اور اُسی کی پرستش کریں یعنی نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ میں اپنی عمر بسر کریں پس جب وہاں عبادت کا وضاحتہً ذکر آ چکا تھا تو اس کے بعد وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کہنا کہ مومن وہ ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ کرتے ہیں صاف بتاتا ہے کہ اس جگہ اقامتِ صلوٰۃ عبادت کے علاوہ کوئی اور مفہوم رکھتی ہے اور وہ وہی مفہوم ہے جو میں نے اپنے خطبات اور تقاریر میں بار ہا بتایا ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ سے مراد با جماعت نماز ادا کرنا ہے یوں اقامتِ صلوٰۃ کے یہ بھی معنے ہوتے ہیں کہ عبادت کو کھڑا کرنا یعنی نماز کو اُس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرنا.مگر اقامت کے معنوں کو اگر ہم کلّی طور پر دیکھیں تو پھر نماز کو کھڑا کرنے کے معنے یہ بن جائیں گے کہ وہ دنیا میں قائم ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے اقامتِ صلوٰۃ کے ایک یہ معنے بھی لئے ہیں کہ مومن اپنی نمازوں کو بار بار کھڑا کرتے ہیں.نماز گرتی ہے تو وہ اُسے کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں پھر گرتی ہے تو وہ پھر کھڑا کرتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ اُنہیں نماز میں خشوع و خضوع پیدا نہیں ہوتا یا اللہ تعالیٰ کی طرف کامل توجہ نہیں ہوتی تو وہ بار بار اپنی نمازوں کو سنوارنے اور اُن کو پورے طور پر درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس آیت میں یہ معنے مراد نہیں.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقامتِ صلوٰۃ کے ایک یہ معنے بھی ہوتے ہیں اور ان معنوں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا زور دیا ہے کہ نماز گرتی ہے تو مومن اُس کو کھڑا کرتا ہے پھر گرتی ہے تو پھر کھڑا کرتا ہے (ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۰۴،۶۰۵).مگر چونکہ یہ مضمون وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ میں آ چکا ہے اس لئے وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے یہاں کوئی زائد معنے ہوں گے جو میرے نزدیک دو ہیں.اوّل نماز کا کھڑا کرنا اپنے اندر یہ مفہوم رکھتا ہے کہ دنیا میں نماز کا رواج قائم کر دیا جائے جیسے ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے یہ رسم جاری کر دی ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ مومنوں سے یہ توقع رکھتا ہے کہ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وہ لوگوں میں نماز قائم کریں یعنی صرف خود ہی نماز نہ پڑھیں بلکہ تمام لوگوں میں نماز کی خوبیاں بیان کریں.اُنہیں نماز پڑھنے کی تحریک کریں اگر انہیں نماز پڑھنی نہیں آتی تو انہیں نماز پڑھنا سکھائیں.اگر کوئی شخص نماز کا ترجمہ نہیں

Page 574

جانتا تو اُسے نماز کا ترجمہ پڑھائیں غرض ہر شخص نماز کی ترویج اور اس کو دنیا میں قائم کرنے میں مشغول ہو جائے.کوئی شخص نماز کی خوبیاں بیان کر رہا ہو، کوئی شخص نماز کا ترجمہ پڑھا رہا ہو، کوئی شخص نمازیں ادا کرنے کی لوگوں کو تحریک کر رہا ہو، کوئی شخص نماز پڑھنے والوں میں نماز کی مزید رغبت پیدا کر رہا ہو.اس طرح کوئی مومن ایسا نہ ہو جو يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے حکم پر عمل نہ کر رہا ہو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارا صرف یہی کام نہیں کہ تم خود نمازیں پڑھو بلکہ تمہارا یہ بھی کام ہے کہ تم لوگو ں کو نماز کی تحریک کر کے، اَنْ پڑھوں کو نماز کا ترجمہ سکھا کے ، نماز پڑھنے والوں کو نماز کی مزید رغبت دلا کے دنیا میں پوری مضبوطی کے ساتھ نمازوں کا رواج قائم کر دو.یہ سب امور ایسے ہیں جو اقامتِ صلوٰۃ میں شامل ہیں.دوسرے معنے جو اقامت صلوٰۃ کے یہاں چسپاں ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تمہارا صرف یہی فرض نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھو.مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں صرف عبادت کا حکم نہیں دیتے بلکہ باجماعت عبادت کا حکم دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام فردی مذہب نہیں بلکہ قومی مذہب ہے.باقی سارے مذاہب میں اگر افراد الگ الگ عبادت کرتے ہیں تو وہ بڑے زاہد، بڑے عابد، بڑے پرہیز گار اور بڑے عارف سمجھے جاتے ہیں.لوگ اُن کی نیکی اور تقدّس کے قائل ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل ہے.مگر اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص با جماعت نماز ادا نہیں کرتا تو خواہ وہ علیحدگی میں کتنی عبادتیں کرتارہتا ہو وہ ہرگز نیک اور پارسا نہیں سمجھا جا سکتا اور اُسے ہرگز قوم میں عزت کا مقام نہیں دیا جا سکتا.یہ ایک بہت بڑا فرق ہے جو اسلام اور غیر مذاہب میں پایا جاتا ہے.باقی سب مذاہب پر غور کر کے دیکھ لو وہ انفرادی عبادات کو بہت بڑی اہمیت دیتے ہیں یہاں تک کہ بسا اوقات بڑی بڑی دُور سے پنڈت اور پادری اور راہب اور عوام الناس کے جوق در جوق یہ سُن کر کہ فلاں سادھو چالیس سال سے غار میں عبادت کر رہا ہے اُس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں، اُسے نذریں دیتے ہیں، اُس کے آگے سجدے کرتے ہیں، اُسے اپنا حاجت روا سمجھ کر اُس سے بڑی عاجزی سے التجائیں کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس سادھو سے بڑا اور کون ہو سکتا ہے.یہ وہ ہے جو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چالیس سال سے پہاڑ کی ایک غار میں بیٹھا اﷲ اﷲ کر رہا ہے.مگر اسلام کہتا ہے ایسا شخص ہرگز خدا تعالیٰ کا مقرب نہیں.وہ تو بہت بڑا بے دین ہے جس نے اقامتِ صلوٰۃ کے حکم کو نظر انداز کر دیا ہے جس نے يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ کے حکم کو پس پشت پھینک دیا ہے.جو شخص قوم سے کٹ گیا ہے.جس نے قوم کی بہتری اور اس کی فلاح و بہبود کی کبھی فکر نہیں کی، جو گوشۂ تنہائی میں بیٹھ رہا ہے وہ تو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک سخت سزا کا مستحق ہے.

Page 575

کجا یہ کہ اُسے نیک اور خدارسیدہ سمجھا جائے.پس وہ لوگ جن کو دوسری قومیں محض علیحدگی میں عبادت کرنے کی وجہ سے بزرگ قرار دیتی ہیں اسلام اُن کو مرتد اور مردود قرار دیتا ہے.دنیا اُن کو خدا رسیدہ سمجھتی ہے اور اسلام اُن کو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے راندہ ہوا سمجھتا ہے.کیونکہ اسلام کہتا ہے.يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ہم نے تمہیں صرف اتنا حکم نہیں دیا کہ تم نمازیں پڑھو بلکہ ہمارا حکم یہ ہے کہ تم لوگوں کے ساتھ مل کر نمازیں پڑھو اور اپنی ہی حالت کو درست نہ کرو بلکہ ساری قوم کو سہارا دے کر اُس کی روحانیت کو بلند کرو اور قوم سے دُور نہ بھاگو بلکہ اس کے ساتھ رہو اور ہوشیار چوکیدار کی طرح اُس کے اخلاق اور اُس کی روحانیت کا پہرہ دو.اقامتِ صلوٰۃ کے بعد ایتاء زکوٰۃ کا حکم دینے کی حکمت اس آیت میں دوسرا حکم زکوٰۃ کا دیا گیا ہے اور قرآن کریم میں جہاں بھی ایتائِ زکوٰۃ کا ذکر آتا ہے.ہمیشہ اقامتِ صلوٰۃ کے بعد آتا ہے.اس میں ایک نہایت ہی لطیف اشارہ اس امر کی طرف پایا جاتا ہے کہ جب تک کوئی شخص اپنی قوم کی شکستہ حالی سے واقف نہیں ہوتا اُس وقت تک وہ اُن کی کوئی خدمت بھی نہیں کر سکتا.وہ شخص جو کسی پہاڑ کی کھوہ میں جا کر بیٹھ رہا ہے اور دن رات سبحان اﷲ سبحان اﷲ کہتا رہتاہے اُسے کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں یا غُرباء ننگے پھر رہے ہیں یا مساکین پیسہ پیسہ کے لئے دربدر خاک چھان رہے ہیں یا روپیہ کی کمی کی وجہ سے وہ علم سے محروم ہو رہے ہیں.اُسے اِن میں سے کسی بات کا بھی علم نہیں ہو سکتا اور جب علم نہیں ہو گا تو وہ اپنی قوم کے لئے کوشش کیا کرے گا.غرباء کے لئے جدوجہد یا مساکین کی ترقی کے لئے کوشش اُسی وقت ہو سکتی ہے جب انسان کو علم ہو کہ اُس کی قوم میں غرباء پائے جاتے ہیں، اُس کی جماعت میں مساکین موجود ہیں اور اُس کا فرض ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائے، پیاسوں کو پانی پلائے، ننگوں کو کپڑے دے اور بیماروںکا علاج کرے اور یہ علم اُس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک انسان مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا عادی نہ ہو.جب وہ مسجد میں آ ئے گا تو دیکھے گا کہ اُس کے پاس ہی ایک طرف تو ایسا شخص کھڑا ہے جس نے اعلیٰ درجہ کا لباس پہنا ہوا ہے ، قیمتی عطر لگایا ہوا ہے، باصحت اور تنومند ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شخص کھڑا ہے جس کے پھٹے پُرانے کپڑے ہیں، اُس کے لباس اور جسم کی بدبو سے دماغ پھٹا جاتا ہے اور اُس کے چہرہ پر جُھریاں پڑی ہوئی ہیں.وہ یہ نظارہ دیکھے گا تو اُس کا دل تڑپ اُٹھے گا اور کہے گا میرا فرض ہے کہ میں قوم کے غرباء کے لئے اپنا روپیہ خرچ کروں اور اُن کی تکالیف کو دور کروں.یا وہ مسجد میں جائے گا تو دیکھے گا کہ وہاں ایک نوجوان بیٹھا ہے.بیس پچیس سال اُس کی عمر ہے، اُٹھتی جوانی کا زمانہ ہے.مگر اُس کی حالت یہ ہے کہ کلے پچکے ہوئے ہیں،

Page 576

آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہیں، کپڑوں کا بُرا حال ہے اور ضعف اُس کے جسم سے ظاہر ہے.وہ یہ حالت دیکھ کر لازماً پوچھے گا کہ میاں! تمہارا کیا حال ہے، تم اتنے خستہ حال کیوں نظر آ رہے ہو؟ اس کے جواب میں یا تو وہ کہے گا کہ میں بیمار ہوں علاج کے لئے میرے پاس کوئی پیسہ نہیں اور یا کہے گا کہ بیمار تو نہیں مگر کھانے پینے کا میرے پاس کوئی سامان نہیں.اس پر دوسرا شخص اُسے کہہ سکتا ہے کہ تم جوان آدمی ہو کماتے کیوں نہیں؟ وہ کہے گا میں کیا کروں نجاری کا کام مجھے آتا ہے مگر نجاری کے آلات وغیرہ خریدنے کی مجھ میں استطاعت نہیں یا معماری جانتا ہوں یا کپڑا بُننا جانتا ہوں یا لوہارے کا کام جانتا ہوں مگر سامانوں سے تہیدست ہونے کی وجہ سے بے کار بیٹھاہوں.اس پر اُسے فکر پیدا ہو گا کہ میرا فرض ہے میں اِس کی مدد کروں اور اِسی طرح قوم کے جو دوسرے غرباء ہیں اُن کی تکالیف دُور کرنے میں حصہ لوں تاکہ یہ بھی باعزت زندگی بسر کر سکیں.پس حقیقت یہ ہے کہ ایتائِ زکوٰۃ کی تحریک اقامتِ صلوٰۃ سے ہی ہوتی ہے اور اسلام نے پانچ وقت نماز باجماعت کی ادائیگی کا حکم دے کر ایک ایسا اعلیٰ درجے کا راستہ کھول دیا ہے کہ اگر اس حکم پر عمل کیا جائے تو قوم کے حالات سے نہایت آسانی کے ساتھ واقفیت ہو سکتی ہے.بھلا ایک انگریز لارڈ کو اپنی قوم کے حالات کی کیا واقفیت ہو سکتی ہے.وہ گھر میں رہتا ہے تو وردیاں پہنے ہوئے نوکر اُس کی خدمت کے لئے موجود ہوتے ہیں جو اُس کے دسترخوان سے اپنا پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر کر موٹے ہو رہے ہوتے ہیں.کلب میں جاتا ہے تو اُس کی سوسائٹی کے لوگ اُس کے دائیں بائیں ہوتے ہیں.اُسے کچھ علم نہیں ہو سکتا کہ غرباء پر کیا کچھ گذر رہی ہے.لیکن ایک مسلمان جو پانچ وقت مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتا ہے اور ہر روز پانچ دفعہ لوگوں کی شکلیں دیکھتا ہے اُسے بڑی آسانی سے پتہ لگتا رہتا ہے کہ اُس کی قوم کا کیا حال ہے اور اُسے قومی ترقی کے لئے کن امور کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ کا مفہوم وَ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ.ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ کے یہ معنے ہیں کہ ’’یہ ہے قائم رہنے والی قوم کا دین.‘‘ یہاں مضاف حذف کر دیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ذٰلِكَ دِيْنُ الْمِلَّۃِ الْقَيِّمَةِ.یعنی دنیا میں جو اُمّت قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا ضروری ہے.اس جگہ دین کے معنے طریق کے ہیں یا حال کے ہیں یا شان کے ہیں اور اس طرح اوپر کے بیان کردہ سب معنے اس میں آ جاتے ہیں یعنی دنیا میں قائم رہنے والی اُمت کا یہی طریق اور یہی حال ہوتا ہے اور چونکہ قَیِّمَۃٌ کے معنے مُتَوَلِّیْ کے بھی ہیں اس لئے ان معنوں کے رُو سے اِس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرض کو پورا کرنے والی نہ ہو گی.بہرحال اس آیت کے دو معنے ہوئے ایک یہ کہ قائم رہنے والی قوم کے یہ آثار

Page 577

ہوتے ہیں اور دوسرے یہ کہ جس قوم کو اﷲ تعالیٰ متولی بنائے اُسے ایسے ہی خصائل اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں.مطلب یہ ہے کہ جس قوم میں یہ علامات پیدا ہو جائیں اﷲ تعالیٰ اُسے دنیا کا متولّی بنا دیتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ اقامتِ صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے دو امور کی طرف اشارہ فرمایا تھا.اقامتِ صلوٰۃ میں اﷲ تعالیٰ نے اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مومن اﷲ تعالیٰ سے صلح رکھتے اور اس کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور ایتاء زکوٰۃ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا تھا کہ مومن بنی نوع انسان سے حسنِ سلوک کرتے، اُن کی خدمت میں پورے جوش سے حصہ لیتے اور اُن کے حقوق کو پوری تندہی سے ادا کرتے ہیں.اب فرماتا ہے ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ.جو اُمت دنیا میں قائم رہنا چاہے اُسے ایسا ہی طریق اختیار کرنا چاہیے یعنی اگر انسان اﷲ تعالیٰ سے بھی صلح رکھیں اور بنی نوع انسان سے بھی صلح رکھیں تو اُن پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی.بگاڑ ہمیشہ اُسی وقت پید اہوتاہے جب لوگ یا تو خدا تعالیٰ کو اپنے اوپر ناراض کر لیتے ہیں اور اُس کی طرف سے عذاب اور تباہیاں آنے لگتی ہیں یا پھر بنی نوع انسان کو اپنے خلاف بھڑکا لیتے ہیں اور اِس کے نتیجہ میں بغاوت، ڈاکے، قتل اور خونریزیاں شروع ہو جاتی ہیں.دنیا میں عذاب آخر کیوں آتا ہے.طاعون دنیا میں کیوں آئی.زلازل کیوں آ رہے ہیں؟ اسی لئے کہ لوگوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لئے.اس کے مقابل میں لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہیں؟ اسی لئے کہ کچھ لوگ دوسروں پر ظلم کرتے اور اُن کے حقوق کی ادائیگی میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں جب یہ بات لوگوں کی قوتِ برداشت سے بڑھ جاتی ہے تو وُہ لڑائی شروع کر دیتے ہیں.یہی فساد کی دو وجوہ ہیں یا اللہ تعالیٰ سے بگاڑ.یا بنی نوع انسان سے بگاڑ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر کوئی قوم اقامت الصلوٰۃ اور ایتائِ زکوۃ پر عمل کر لے خدا تعالیٰ سے بھی صلح رکھے اور اُس کے بندوں سے بھی.تو اُس پر کبھی تباہی نہیں آ سکتی.تباہی کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور اُن پر عذاب آنا شروع ہو جاتا ہے.اِسی طرح بندوں سے اپنے تعلقات بگاڑ لیتے ہیں اور لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے لئے کیاپیغام لائے تھے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ سے بھی صلح کر لو اور اُس کے بندوں سے بھی صلح کر لو تا کہ تم ہر قسم کے زوال سے محفوظ رہو.اس میں بھلا کون سی چیز تھی جس کی بناء پر لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت شروع کر دی؟ یہ بات تو سراسر اُن کے فائدہ کے لئے کہی گئی تھی مگر اُنہوں نے اُلٹا اپنے محسن کے خلاف جنگ شروع کر دی.دوسرے معنوں کے لحاظ سے اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا میں متولی بنائے اُسے ایسا طریق اختیار کرنا چاہیے ورنہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں سخت کوتاہی سے کام لینے والی سمجھی جائے گی.ایک معنوں کے لحاظ سے قوم کی ذاتی خوبی بیان کی گئی ہے اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس کی نسبتی خوبی بیان کی

Page 578

گئی ہے یہ معنے کہ صحیح راستہ پر چلنے والی، دنیا میں قائم رہنے والی اور تباہی سے بچنے والی قوم کی یہ علامات ہوا کرتی ہیں اُس کی ذاتی خوبی پر دلالت کرتے ہیں اور یہ معنے کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ دنیا کا متولی اور حاکم بنائے اور اُسے اپنے اندر تمام بیان کردہ خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں ورنہ وہ حکومت کی ذمہ واریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے والی نہیں سمجھی جاسکتی، اُس کے نسبتی کمالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں.افسوس کہ مسلمانوں نے اُن اخلاق کو جو یہاں بیان ہوئے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تھوڑے عرصہ بعد ہی چھوڑ دیا اور جوں جوں وہ ان اخلاق کو چھوڑتے چلے گئے اللہ تعالیٰ بھی اُن کو چھوڑتا چلا گیا.اب احمدیت کے لئے موقعہ ہے کہ وہ اِن اخلاق کو دوبارہ قائم کرے.مگر یہ اخلاق کبھی مستقل طور پر قائم نہیں رہیں گے جب تک کہ قرآن کریم لوگوں کے دماغوں میں بار بار اور زور سے داخل نہ کیا جائے گا اور اُسے ساری قوم میں زندہ نہ کیا جائے گا.ذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ پر ویری کا بودا اعتراض ویری نے اس جگہ ایک عجیب اعتراض کیا ہے وہ ذٰلِكَ دِيْنُ الْقَيِّمَةِ کا ترجمہ کرتا ہے.’’ یہ سچا دین ہے‘‘ اورپھر اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ محمد صاحب سمجھتے تھے.اسلام یہودیت اور مسیحیت ایک ہی مذہب ہے یعنی انہوں نے ان تینوں مذاہب کی ایک ہی تعلیم بتائی اور کہہ دیا کہ یہودی، عیسائی اور مسلمان سب کایہی مذہب ہے.گویا دائمی مذہب کے معنے اُنہوں نے یہ لئے کہ آدم سے لے کر آج تک دنیا کا ایک ہی مذہب رہا ہے ( مسلمانوں میں سے بھی بعض بے وقوف یہی عقیدہ رکھتے ہیں ) اور چونکہ یہ بات غلط ہے اس لئے اُنہوں نے اپنے جھوٹا نبی ہونے کا آپ ہی ثبوت مہیا کر دیا ہے.(A Comprehensive Commentary on the Quran by Wherry vol:iv P:266) اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو پادری صاحب نے اس آیت کا ترجمہ غلط کیا ہے ( ترجمہ توسیل کا ہے مگر چونکہ انہوں نے اس ترجمہ کو قبول کر کے اعتراض کیا ہے اس لئے یہ ترجمہ انہی کی طرف منسوب ہو گا) (The Koran by Sale vol.ii P.494) اس کا ترجمہ ’’ سچا دین‘‘ نہیں بلکہ صحیح ترجمہ یہ ہے کہ’’ یہ قائم رہنے والی قوم کا دین ہے ‘‘ یا ’’قائم رہنے والی قوم کی حالت ہے ‘‘ کیونکہ قَیِّمَۃ دین کی صفت نہیں ہے اور عربی زبان کے قواعد کے مطابق ایسا ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ دین مذکر ہے اور قیّمہ مؤنث ہے اور مذکر کی صفت مؤنث نہیں بن سکتی.پس عربی زبان کے قواعد کے رو سے قَیِّمَۃ کا موصوف مخدوف سمجھنا ہو گا اور وہ سیاق و سباق عبارت سے اَلْمِلَّۃ یا ایسا ہی کوئی لفظ ہو سکتا ہے اور اسی عربی قاعدہ کو

Page 579

ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے اس آیت کی یہ تشریح کی ہے کہ ذٰلِکَ دِیْنُ الْمِلَّۃِ الْقَیِّمَۃِ.دوسرے اِس آیت سے ایک دین ماننا ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس جگہ پر تو باقی تمام مقامات سے زیادہ واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ یہوو اور نصاریٰ کا دین مختلف ہے تبھی تو قرآن کریم کے متعلق صُحُفًا مُّطَھَّرَۃً اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کہا گیا ہے تعجب ہے کہ جس جگہ قرآن کریم نے اختلاف پر زوردیا ہے وہیں ویری صاحب کو یہ اعتراض سوجھا ہے کہ اسلام مسیحیت اور یہودیت سب کو ایک ہی مذہب قرار دیا گیا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ اہل کتاب اور مشرکوں میں سے کفر پر قائم رہنے والے لوگ یقیناً جہنم کی آگ میں (داخل) ہوں گے جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِؕ۰۰۷ (اور وہ)اُس میں رہتے چلے جائیں گے.وہی لوگ ( ہاں وہی لوگ) بد ترین خلائق ہیں.اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ ( اس کے مقابل پر ) وہ لوگ جو (اہل کتاب اور مشرکوں میں سے )ایمان لے آئے اور انہوں نے (ایمان کے ) اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِؕ۰۰۸ مناسب حال عمل بھی کئے وہ لوگ ہاں وہی لوگ بہترین خلائق ہیں.تفسیر.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ میں مِنْ بعضیہ میں نے جہاں لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكِّيْنَ حَتّٰى تَاْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ میں مِنْ کو بیانیہ قرار دیا تھا وہاں میرے نزدیک اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ وَ الْمُشْرِكِيْنَ فِيْ نَارِ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا میں مِنْ بعضیہ ہے اور كَفَرُوْا سے نا واقفیت کا کفر مراد نہیں بلکہ وہ کفر مراد ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے اختیار کیا جاتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کی یہ سزا ہو گی کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں ہمیشہ رہیں گے.یہ سزا بتلا رہی ہے کہ یہاں اہل کتاب اور مشرکین میں سے ایسے کفار کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے جان بوجھ کر کفر کیا.جن پر حُجت کا اتمام ہو گیا اور جن کا اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی عُذر قابلِ شنوائی نہ رہا.ایسے لوگوں کے متعلق

Page 580

اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ جہنم کی آگ میں داخل کئے جائیں گے اور اُس میں رہتے چلے جائیں گے پھر فرماتا ہے اُولٰٓىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ یہی وہ لوگ ہیں جو تمام مخلوق میں سے بد ترین ہیں.اس کے مقابل میں مومنوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ وہ لوگ تمام مخلوق میں سے بہتر ہیں.شر اور خیر کے الفاظ ایسے ہیں جو ہیں تو اِسم تفضیل مگر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اُن کا ہمزہ اُڑگیا ہے اس لئے اشر اور اخیر کی شکل میں استعمال نہیں ہوتے.شَرُّ الْبَرِيَّةِ اور خَيْرُ الْبَرِيَّةِ کا مطلب شَرُّ الْبَرِيَّةِ کے معنے ہیں بنی نوع انسان میں سب سے بد تر یعنی یہ لوگ صرف بُرے نہیں بلکہ تمام مخلوق میںسے بد ترین ہیں اور خَيْرُ الْبَرِيَّةِ کے یہ معنے ہیں کہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کئے وہ تمام مخلوق میںسے بہترین ہیں.گویا کفار سب سے بُرے ہیں اور مومن سب سے اچھے ہیں یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین کن دوسرے لوگوں سے بُرے ہیں.جبکہ اہل کتاب اور مشرکین کے علاوہ غیر مسلم دنیا میں اور کوئی قوم ہی نہیں؟ میں بتا چکا ہوں کہ قرآن کریم میں جب بھی اہل کتاب اور مشرکین کا ذکر کیا جائے تو اُس سے مراد تمام غیر مسلم دنیا ہوتی ہے کیونکہ غیر مسلم دو حلقوں میں ہی تقسیم کئے جا سکتے ہیں یا وہ اہل کتاب ہوںگے یا وہ مشرک ہوں گے.پس جب کہ دنیا میں صرف دو ہی گروہ پائے جاتے ہیں.اہل کتاب اور مشرک.تو سوال یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرک بُرے کن سے ہوئے.اسی طرح جب مومنوں کے سوا دنیا میں اور کوئی ایماندار جماعت ہی نہیں تو وہ اچھے کن سے ہوئے؟ بے شک ایک زمانہ ایسا گذرا ہے جب الگ الگ قوموں کی طرف الگ الگ انبیاء مبعوث ہوا کرتے تھے اور ہر قوم صرف اپنے نبی پر ایمان لانے کی پابند تھی اُسے یہ ضرورت نہیں تھی کہ وہ دوسری قوم کے نبی پر بھی ایمان لائے اُس وقت اگر یہ کہا جاتا کہ مومن تمام مخلوق میں سے بہترین ہیں تو خیال کیا جا سکتا تھا کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ زرتشتی مومنوں سے اچھے ہیں یا کرشنی مومنوں سے اچھے ہیں یا موسوی مومنوں سے اچھے ہیں مگر جب مومنوں کا ایک ہی گروہ ہے تو وہ اچھے کس سے ہوئے.اسی طرح جب اہل کتاب اور مشرکین کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ بُرے کس سے ہوئے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جو اس مقام پر پیدا ہوتا ہے کہ جب کافروں کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ بُرے کس سے ہوئے اور جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے؟ درحقیقت ان آیات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا پہلے انبیاء کی اُمتوں سے مقابلہ کیا گیا ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا مقابلہ پہلے انبیاء کے دشمنوں سے کیا گیا ہے اور اسی بناء

Page 581

پر شَـرُّ الْبَـرِیَّۃ اور خَــیْـــرُ الْــبَـرِیَّۃ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین میں سے جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا ہے وہ پہلے تمام انبیاء کے دشمنوں سے بدتر ہیں اور وہ لوگ جنہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوتی ہے وہ پہلے تمام انبیاء کی اُمتوں سے اچھے ہیں.پس شَـرُّ الْبَـرِیَّۃ اور خَیْـرُ الْبَـرِیَّۃ کے الفاظ موجودہ زمانہ کی مخلوق کے لحاظ سے نہیں کہ یہ سوال پیدا ہو کہ جب مومنوں کے سوا اور کوئی مومن ہی نہیں تو وہ اچھے کس سے ہوئے؟ اور جب کفار کے سوا اور کوئی کافر ہی نہیں تو وہ برے کس سے ہوئے؟ بلکہ یہ الفاظ پہلے زمانہ کے لوگوں کے مقابل میں ہیں.اور اُولٰٓىِٕكَ هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ کے معنے یہ ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر موسٰی کے منکروں سے بھی بد تر ہیں.عیسٰیؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں.کرشنؑ کے منکروں سے بھی بدتر ہیں.زرتشتؑ کے منکروں سے بھی بد تر اور اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ کے معنے یہ ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مومن موسٰی کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں.عیسٰیؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں کرشنؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں.زرتشتؑ کے مومنوں سے بھی اچھے ہیں.غرض اُن کا مقابلہ پہلی اقوام کے ساتھ کیا گیا ہے اور اس مقابلہ کی بناء پر ہی کفار کو شَـرُّ الْبَـرِیَّۃ اور مومنوں کو خَیْـرُ الْبَـرِیَّۃ کہا گیا ہے کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ تعلیم لائے تھے جو فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کی مصداق تھی، جو صحفِ مطہّرہ پر مشتمل تھی اور جس میں تمام انبیاء سابقین کی اعلیٰ تعلیم شامل تھی.پس نوحؑ کی اُمّت نے صرف نوحؑکی تعلیم پر عمل کیا، موسٰی کی اُمت نے صرف موسٰی کی تعلیم پر عمل کیا.عیسٰیؑ کی اُمّت نے صرف عیسیٰؑ کی تعلیم پر عمل کیا.کرشنؑ کی اُمّت نے صرف کرشنؑ کی تعلیم پر عمل کیا.زرتشتؑ کی اُمّت نے صرف زرتشتؑکی تعلیم پر عمل کیا.مگر فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ کے ماتحت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نے نوحؑکی تعلیم پر بھی عمل کیا، موسٰی کی تعلیم پر بھی عمل کیا، عیسٰیؑ کی تعلیم پر بھی عمل کیا، کرشنؑ کی تعلیم پر بھی عمل کیا، زرتشتؑکی تعلیم پر بھی عمل کیا.جس قوم نے سب نبیوں کی تعلیم پر عمل کر لیا وہ پہلی تمام اقوام سے اچھی نہیں ہوگی تو کیا ہوگی.فرض کرو زید کے پاس آنہ ہے، بکر کے پاس دونّی ہے، عمرو کے پاس چونّی ہے، خالد کے پاس اٹھنّی ہے، سلیم کے پاس روپیہ ہے.اِسی اثناء میں ایک اور آدمی باہر سے آجاتا ہے اُس کا نام عبد اللہ ہے اور اُس کے پاس روپیہ بھی ہے، اٹھنّی بھی ہے، چونّی بھی ہے، دونّی بھی ہے اور اکنّی بھی ہےتو لازماً عبد اللہ، زید سے بھی مالدار ہوگا، بکر سے بھی مالدار ہوگا، عمرو سے بھی مالدار ہوگا، خالد سے بھی مالدار ہوگا اور سلیم سے بھی مالدار ہوگا.پس چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ يَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً اور قرآن کریم کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ اس لئے فرمایا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ١ۙ

Page 582

اُولٰٓىِٕكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ وہ قوم جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے والی ہے باقی تمام اقوام سے اچھی ہے کیونکہ ساری قوموں کی تعلیموں پر اس نے عمل کیا ہے اس کے مقابل میں دشمن کو شَـرُّ الْبَـرِیَّۃ کیوں کہا گیا؟ اس لئے کہ نوحؑکے دشمن نے صرف نوحؑکی تعلیم کا انکار کیا تھا موسٰی کے دشمن نے صرف موسٰی کی تعلیم کا انکار کیا تھا.عیسٰیؑ کے دشمن نے صرف عیسٰیؑ کی تعلیم کا انکار کیا تھا.کرشنؑ کے دشمن نے صرف کرشنؑ کی تعلیم کا انکار کیا تھا زرتشت کے دشمن نے صرف زرتشتؑ کی تعلیم کا انکار کیا تھا مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نے نوحؑکی تعلیم کا بھی انکار کیا.موسٰی کی تعلیم کا بھی انکار کیا.عیسٰیؑ کی تعلیم کا بھی انکار کیا.کرشنؑ کی تعلیم کا بھی انکار کیا زرتشتؑکی تعلیم کا بھی انکار کیا.اِسی طرح ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے اُن سب کی تعلیم کا اُس نے انکار کیا.پس وہ شَــرُّ الْـبَـرِیَّۃ یعنی تمام مخلوق میں سے بدترہے.گویا صُحُفًا مُّطَهَّرَةً اور فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ کا لازماً یہ نتیجہ تھا کہ منکر شَـرُّ الْبَـرِیَّۃ ہوں اور مومن خَیْـرُ الْبَـرِیَّۃ.جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا اُن کا بدلہ اُن کے رب کے حضور میں قائم رہنے والے باغات ہوں گے جن کے تلے نہریں بہتی ہوں گی.الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا وہ اُن میں ہمیشہ ہمیش رہتے چلے جائیں گے اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور وہ اُس ( اللہ) سے راضی ہو گئے.عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗؒ۰۰۹ یہی (جزا) اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے ڈرتا ہے.تفسیر.جَنّٰتُ عَدْنٍ سے مراد ہمیشہ کی جنات جَنّٰتُ عَدْنٍ کے معنے بعض تفاسیر میں یہ لکھے ہوتے ہیں کہ ’’عدن کی جنتیں‘‘.مگر یہ صحیح نہیں.عربی زبان میںعدن کےمعنے ’’ہمیشہ ‘‘کے ہوتے ہیں.پس جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ کے معنے یہ ہیں کہ اُن کو ہمیشہ قائم رہنے والی جنتیں ملیں گی جن کے ساتھ نہریں بھی متعلق ہوں گی.یہ نہیں ہوگا کہ جیسے لائل پور اور سرگودھا وغیرہ میں زمیندار نہروں سے پانی حاصل کرتے ہیں اسی طرح جنتیوںکو بھی دوسروں کی نہروں سے پانی لینا پڑے بلکہ ہر جنت کی اپنی نہر ہوگی اور جنتیوں کو ان پر

Page 583

تصرف کا پورا حق حاصل ہوگا.رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ.’’اللہ تعالیٰ اُن سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے‘‘ اللہ تعالیٰ اُن سے کیوں راضی ہوا؟ اس لئے کہ لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ١ۙ۬ حُنَفَآءَ وَ يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكٰوةَ پر انہوں نے پوری طرح عمل کیا.جب یہ صفات اُن کے اندر پائی جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے کیوں راضی نہ ہو اور وہ اللہ تعالیٰ سے کیوں راضی ہوگئے؟ اس لئے کہ جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ایک معاملہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے کیا اور ایک معاملہ خدا تعالیٰ نے اُن سے کیا.دنیا میں تمام مذہبی لڑائیاں اور فسادات اِس وجہ سے واقعہ ہوتے ہیں کہ لوگ غلطی سے ایک جہت کا نام مذہب رکھ لیتے ہیں حالانکہ اصل مذہب نام ہے اِس بات کا کہ بندے اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے راضی ہو اُن کے اعمال ایسے ہوں کہ خدا تعالیٰ کی رضا اُن کو حاصل ہو رہی ہو اور خدا تعالیٰ کا سلوک اُن سے یہ ہو کہ وہ اُن پر اپنے انوار اور برکات کی بارش برسا رہا ہو.یہ بھی کیا مذہب ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں، روزے رکھ رہے ہیں، زکوٰۃ دے رہے ہیں، حج کر رہے ہیں اور خدا ہے کہ بولتا ہی نہیں وہ چُپ کر کے بیٹھا ہوا ہے.کسی نے کہا ہے ؎ اُلفت کا تب مزا ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ میں اللہ تعالیٰ نے یہی نکتہ بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ ہم اِس مذہب کے قائل نہیں کہ بندہ محبت کی آگ میں پُھنکا جا رہا ہو، فرقت کی گھڑیاں اس کو تڑپا رہی ہوں، وصلِ یار کی آرزو اس کے دِل بے تاب میں جذبات کا ایک تلاطم برپا کر رہی ہو، اُس کے دن تڑپتے اور راتیں جاگتے گذر رہی ہوں اور خدا ہو کہ آسمان پر خاموش بیٹھا ہو اور اُس کی طرف سے کوئی محبت کی آواز اُس کے کانوں میں نہ آتی ہو.یا خدا تعالیٰ تو بُلا رہا ہو اور بندہ اُس کی محبت کے ہاتھ کو پرے کر رہا ہو.حقیقی عشق اور محبت میں ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.حقیقی محبت اِسی کو کہتے ہیں جب ع دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی اِدھر بندہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں گداز ہو رہا ہو اور اُدھر عرش پر اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی محبت کے لئے بے قرارہو.یہی وہ مقام ہے جو رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کا ہے.حصہ آیت رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ سے دین اسلام کی فضیلت پس رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ

Page 584

وَرَضُوْا عَنْهُ ایک معیار ہے جو ہر سچے مذہب میں پایاجاتا ہے.جو مذہب صرف ایک طرف کی چیز پیش کرتا ہے دوسری طرف کی نہیں وہ مذہب کچھ بھی چیز نہیں.جیسے عیسائی ہیں کہ وہ شریعت کو لعنت قرار دے رہے ہیں.اب اللہ تعالیٰ اُن کو خواہ کتنا بُلائے وہ اس سے کبھی نہیں بولیں گے کیونکہ انہوںنے شریعت کو لعنت قرار دیا ہوا ہے.جب شریعت اُن کے نزدیک لعنت ہے تو وہ اُس پر عمل کس طرح کر سکتے ہیں اور عمل کے نتائج اُن کو کس طرح حاصل ہو سکتے ہیں.اِس کے مقابل میں یہودیوں کو دیکھ لو یا موجودہ زمانہ کے مسلمانوں پر ہی نظر دوڑاؤ تمہیں دکھائی دے گا کہ وہ تسبیح پھیر رہے ہیں، ناکیں رگڑ رہے ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حرکت ہی نہیں ہوتی.مذہب یہی ہے کہ اِدھر بندہ کی طرف سے عبادت ہو اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہو.بندہ اپنے رب سے راضی ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے بندہ سے راضی ہو.ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ.یہ آیت اس غرض کے لئے نازل کی گئی تھی کہ آئندہ زمانہ میں مسلمان یہ نہ سمجھ لیں کہ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کا مقام صرف صحابہؓ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے مگر افسوس کہ مسلمانوں نے باوجود اِس واضح آیت کے غلطی سے یہ سمجھ لیا کہ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کا انعام صرف صحابہؓ کے ساتھ مختص تھا اب آئندہ یہ انعام کسی اور شخص کو نہیں مل سکتا.حالانکہ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ.اس میں صحابہؓ کی کوئی خصوصیت نہیں اُنہوں نے چونکہ اپنے اندر وہ صفات پیدا کر لی تھیں جو ہم چاہتے تھے اِس لئے اُنہیں یہ مقام حاصل ہو گیا اب اگر کوئی اور شخص یہ صفت اپنے اندر پیدا کر لے توہم اسے بھی یہ مقام دینے کے لئے تیار ہیں.یہ انعام کسی خاص قوم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ صفات حسنہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.جو لوگ اپنے اندر ہماری بیان کردہ صفات پیدا کر لیں ہم انہیں فوراً اپنا انعام دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںمسلمانوں کی ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کسی خاص فرد یا کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ذٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهٗ ہماری یہ بات ہر اُس شخص کے متعلق پوری ہوجائے گی جو اپنے رب کی خشیت دل میں پیدا کرے.یہ سوال نہیں کہ زید کرے گا تو اُسے یہ انعام ملے گا اور بکر کرے گا تو اُسے نہیں ملے گا بلکہ ہمارا دروازہ اور ہماری رضا کے مقام کا حصول ہر شخص کے لئے کھلا ہے جو شخص اِس انعام کا طالب ہے وہ آئے اور ہماری رضا حاصل کر لے.ذٰلِكَ لِمَنْ میں ذٰلِكَ سے مراد رضا ذٰلِكَ کا اشارہ رضا کی طرف ہے اور مراد یہ ہے کہ ہماری رضا

Page 585

کا دروازہ ہر ایسے شخص کے لئے کھلا ہے جو اپنے قلب میں اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا اور اُس کے احکام پر مستعدی سے عمل کرتا ہے.ہم اپنے کام کے ذمہ وار ہیں اور تم اپنے کام کے ذمہ وار ہو.تم اپنے اندر خشیت پیدا کرو اور ہم سے راضی ہو جاؤ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ ہم بھی تم سے راضی ہوجائیں گے.گویا پہلا قدم تمہاری طرف سے اُٹھنا چاہیے پھر ہمارے قدم کا اٹھنا تو بالکل لازمی اور یقینی ہے.تم اپنے اندر خشیت پیدا کرو گے تو یہ یقینی بات ہے کہ ہم تم سے خوش ہو جائیں گے.یہ بات نہیں کہ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ کا انعام صرف صحابہؓ کے لئے تھا بلکہ جو شخص بھی اپنے اندر ہماری خشیت پیدا کرلے گا ہمارا یہ دروازہ اُس کے کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا.

Page 586

Page 587

Page 588

Page 589

Page 590

Page 591

Page 592

Page 593

Page 594

Page 595

Page 596

Page 597

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 604

Page 605

Page 606

Page 607

Page 608

Page 609

Page 610

Page 611

Page 612

Page 613

Page 614

Page 615

Page 616

Page 617

Page 618

Page 619

Page 620

Page 621

Page 622

Page 623

Page 624

Page 625

Page 626

Page 627

Page 628

Page 629

Page 630

Page 631

Page 632

Page 633

Page 634

Page 635

Page 636

Page 637

Page 638

Page 639

Page 640

Page 641

Page 642

Page 643

Page 644

Page 645

Page 646

Page 647

Page 648

Page 649

Page 650

Page 651

Page 652

Page 652

← Previous BookNext Book →