Language: UR
مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ
سُوْرَۃُ النَّمْلِ سورئہ نمل مَکِیَّۃٌ وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ اَرْبَعٌ وَتِسْعُوْنَ اٰیَۃً وَسَبْعَۃُ رُکُوْعَاتٍ یہ سورۃ مکی ہے.اوربسم اللہ سمیت اس کی چورانوے(۹۴) آیتیںاور سات (۷) رکوع ہیں.وقت تنزیل اس سورۃ کو ابن عباسؓ اورابن زبیر ؓ نے مکی قراردیاہے اورباقی مسلمان علماء بھی اسی کی تصدیق کرتے ہیں.وہیریؔ نے بھی اسے مکی ہی قرار دیاہے (فتح البیان ،تفسیر القرآن ازویری).قریبی تعلق اس سورۃ کاسورئہ شعراء سے قریبی تعلق یہ ہے کہ سورئہ شعراء کے آخر میں یہ بتایاگیاتھا کہ مومن غالب آئیں گے اورکفار خدا تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق تباہ ہوںگے مگرچونکہ مضمون کفار کی تباہی کا تھاسورۃ کاسارا زور اس قانون الٰہی کی تفصیل میں تھا کہ کفار ہمیشہ تباہ ہوتے چلے آئے ہیں اب کیوں تباہ نہ ہوں گے.سورئہ نمل میں اس مضمون کے دوسرے مخفی پہلو کو زیادہ واضح کیاگیاہے کہ مومن باوجود کمزور ہونے کے ترقی پاتے رہے ہیں.کفار کی تباہی کا ذکر بے شک سورۃ کے آخر میں کیاگیاہے لیکن زیادہ زور اس سورۃ میں اس اصول پر ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی آواز سن کر عقیدئہ ذہنی اورفکری اور اخلاق اور نظام الٰہی کو قبول کرتے رہے ہیں وہ ہمیشہ عزت پاتے رہے ہیں.اسی سلسلہ میں یہ بھی بتایاگیاہے کہ مسلمانوں کی ترقی عارضی نہ ہوگی بلکہ ایک لمبے عرصہ تک وہ ترقی کرتے چلے جائیں گے اوربنی اسرائیل کی طرح صرف اپنے ہی ملک کے بادشاہ نہیں ہوں گے بلکہ غیر ملکوں کے بھی بادشاہ ہوںگے.اس سورۃ کا سورئہ شعراء سے دوسراتعلق یہ ہے کہ سورئہ شعراء کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ لوگ اس نبی کو شاعرکہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پر شیطان نازل ہوتاہے حالانکہ شیطان جھوٹ بولنے والے اورگنہگار پر نازل ہواکرتاہے.اورپھرشیطانوں کاطریق یہ ہے کہ وہ خدائی تعلیمات کو سن کر انہیں لوگوں کے سامنے اپنی طرف سے پیش کرتے ہیں.لیکن ان میں سے اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.یعنی آسمانی تعلیموں میں جھوٹ ملادیتے ہیں.اس لئے وہ تعلیمات نتیجہ خیز نہیں ہوتیں اورشعراء جو کہ شیطانوں کی پیروی کرتے ہیں ان کے پیچھے صرف گمراہ لو گ چلتے ہیں کیونکہ وہ کسی مقصد کو لے کر کھڑے نہیں ہوتے صرف دلچسپ باتیں کرنے کاانہیں شوق ہوتاہے.کیاتُو دیکھتانہیں کہ
و ہ ہروادی میں بہکتے پھرتے ہیں اورجوکچھ کہتے ہیں اس پر عمل نہیں کرتے.اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سورۃ کی آیتیں ایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی اورجوتمام دینی امور کو خوب کھو ل کر اوربادلیل بیان کرتی ہے اورجومومنوں کو سچاراستہ دکھانے والی ہے اورجو اس پر عمل کرتے ہیں ان کو نیک انجام کی خبردیتی ہے.اس لئے یہ شیطانی تعلیم نہیں ہوسکتی کیونکہ شیطان نہ سچاراستہ دکھاتاہے نہ اس کی تعلیم پرچل کرکو ئی شخص خدا کی رحمت اوربرکت حاصل کرتاہے.اسی طرح اس کتاب پر ایمان لانے والے وہ ہیں جو خدا کی عبادت کرتے اورزکوٰۃ دیتے ہیں اوربعد میں آنے والے کلام پر یابعد میں آنے والی زندگی پر بھی یقین رکھتے ہیں.یعنی اول توشیطان کی نازل کردہ تعلیم میں جھوٹ ہوتاہے ہدایت نہیں ہوتی دوسرے اس تعلیم کے متبع ہدایت سے بہکے ہوئے ہوتے ہیں اورنیکوکار نہیں ہوتے.لیکن اس کتاب میں ہدایت ہے اورسچائیاں ہیں اوراس کے ماننے والے لوگ خدا تعالیٰ کی بھی عبادت کرتے ہیں اوربندوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کرتے ہیں اور ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی باتوں کے ماننے کے لئے تیار رہتے ہیں.اسی طرح دوسری زندگی کااحساس بھی ہروقت ان کے دل میں رہتاہے.پس نہ تومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شیطان اُتر سکتے ہیں جوایسی کتاب لائے ہیں جوہدایت اوربشارت ہے اورنہ آپ کو شاعر کہاجاسکتاہے.کیونکہ آپ کے ماننے والے انسانوں کی ہمدردی اورخدا تعالیٰ کی محبت کاایک اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہیں.اورشاعرنہ خود عمل کرتاہے اورنہ اس کے اتباع عمل کرتے ہیں.خلاصہ مضامین اس سورۃ کے شروع میں طٰسٓ حروف مقطعات میں سے آئے ہیں.چونکہ یہی حروف مقطعات م کی زیادتی کے ساتھ سورئہ شعراء سے بھی پہلے آئے ہیں اس لئے یہ سورۃ سورئہ شعراء کے مضمون کے سلسلہ میں ہی ہے.طٰسٓ میں ط لطیف کاقائم مقام ہے اورس سَمِیع کا.پھر فرماتا ہے.تِلْکَ اٰیٰتُ الْقُرْاٰنِ وَکِتَابٍ مُّبِیْنٍ.اس سورۃ میں جوآیتیں بیان کی گئی ہیں وہ قرآن کاحصہ ہیں اورایک ایسی کتاب کی آیتیں ہیں جو اپنی دلیلیں خود بیان کرتی ہے اوریہ کتاب کامل ہدایت بھی ہے جیسا کہ ھُدًی کی تنوین سے جواس کو نکرہ بناتی ہے ظاہر ہے اورنکرہ عظمت کے لئے آیاکرتاہے.(کتاب العروس للسبکی شرح مختصر المعانی جزو اول ص ۳۴۹) پھر فرماتا ہے کہ یہ کتاب مومنوں کے لئے بشارت کاموجب ہے.ایسے مومنوں کے لئے جو اپنی بدنی عبادتوں کو خدا تعالیٰ کے حضور میں ہمیشہ پیش کرتے رہتے ہیں اوراکیلے ہی عبادت نہیں کرتے بلکہ دوسرے
بنی نوع انسانوں کو بھی عبادت کی طر ف راغب کرکے باجماعت نماز اداکرتے ہیں (جیساکہ یُقِیْمُوْنَ کے لفظ سے ظاہر ہے اوراقامت ہمیشہ نماز باجماعت میں ہی کہی جاتی ہے )اس طرح وہ مومن جن کے لئے قرآن بشارت ہے وہ ہیں جو اپنے اموال میں سے ایک حصہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کی راہ میں غریبوں اورناداروں پر خرچ کرنے کے لئے دیتے رہتے ہیں اوروہ یہ خرچ لوگوں کالیڈر بننے کے لئے نہیں کرتے بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوجائے اوروہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں.ان کو یقین ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کے نتیجہ میں آخر ان کو روحانی اور جسمانی درجات ملیں گے.(آیت ۳و۴) وہ لوگ جو انجام آخر پر خواہ وہ دنیوی ہو یا اُخروی ایما ن نہیںلاتے ان کو اپنی سب کرتوتیں خوبصورت نظر آتی ہیں اوروہ بہکتے پھرتے ہیں.ان کو بڑا عذاب ملے گا اوروہ آخر کار ناکام رہیں گے اور نقصان اٹھائیں گے.(آیت ۵و۶) تجھ پر جو یہ قرآن نازل ہواہے یہ بڑی حکمت والے اورعلم والے خدا کی طرف سے ہے.اس لئے اس میں بڑی برکتیں ہیں اوربڑی حکمتیں ہیں اوربڑاعلم ہے.(آیت ۷) موسیٰ ؑکاواقعہ ہم تجھے بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ اس نے اپنے گھروالوں سے کہا کہ میں نے دور کچھ آگ دیکھی ہے.میں وہاں جاکر یاتوکوئی معلومات اس ملک یااس راستہ کی لاتاہوں یاکوئی انگارہ لاتاہوں تاکہ تم آگ سینکو.(آیت ۸) جب موسیٰ ؑ اس آگ کے پاس آئے توانہیں پکار کرکہا گیا کہ ا س آگ میں جس کا جلوہ نظر آیاہے یعنی خدا تعالیٰ کا وہ بڑی برکت والا ہے اوراس آگ کے ارد گرد کاعلاقہ بھی برکت والا ہے.یعنی جو لو گ اس کلام کو قبول کریں گے ان کو بھی بڑی برکت ملے گی.وہ رب العالمین خداجس نے اپنا جلوہ اس آگ میں دکھایا ہے بڑا پاک ہے.(آیت ۹) پھر کہا گیاکہ اے موسیٰ ؑ!بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں اوربڑاغالب او رحکمت والاہوں.یعنی جو نظارہ تم نے دیکھا ہے وہ خدا کاجلال ہے اورتُو اپنا عصاپھینک دے.جب انہوں نے عصاپھینکا تو دیکھا کہ و ہ اس طرح ہلتاتھا جس طرح سانپ ہلتاہے.موسیٰ ؑ ڈرے اور پیٹھ پھیر کربھاگے.اس پر ان کو الہام ہواکہ اے موسیٰ ؑ! ڈرنہیں.ڈر میرے دشمنوں کے لئے ہے.ڈرمیرے رسولوں کے لئے نہیں.ہاں اگر کوئی شخص غلطی سے ظلم کرے اورپھر اس کے بعد نیکی اختیار کرے تومیں معاف کرنےوالا اوررحم کرنے والاہوں.(آیت نمبر ۱۰تا۱۲)
اوراپنے ہاتھ کواپنےگریبان میں ڈال.جب تو اس کونکالے گاتو دیکھے گاوہ بالکل سفید ہے.یعنی وہ چمکتا ہوا نظر آئے گا.مگرکسی قسم کاعیب اس میں نہیں ہوگا.(آیت ۱۳) یہ نشان جو ہم نے موسیٰ ؑ کو دیا یہ ان نو نشانوں میں سے ایک تھا جو فرعون اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے تھے.کیونکہ وہ لوگ فرمانبرداری سے نکلے ہوئے تھے.لیکن ہوایہ کہ جب موسیٰ ؑ وہ نشان لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس آیا توباوجود اس کے کہ و ہ نشان بڑے واضح تھے اورحقیقت کو دکھانے والے تھے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اورکہا یہ توکھلا کھلا فریب ہے.اوربڑی سختی سے ان نشانات کا انکار کیا.حالانکہ ان کے دلوں نے ان کو سچاسمجھ لیاتھا.ان کایہ انکا ر ظلم اورتکبر کی وجہ سے تھا.پھر دیکھ کہ ایسے فسادی لوگوںکاکیاانجام ہوا.(آیت ۱۴و۱۵) حضرت موسیٰ علیہ السلام کاواقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اورسلیمانؑ کا ذکر کرتاہے اور ان دونوں کاقول یہ بیان فرماتا ہے کہ ہمیں بہت سے مومن بندوں پر خدا تعالیٰ نے فضیلت بخشی ہے.یعنی خلافتِ روحانی اور جسمانی کے ذریعہ.(آیت ۱۶) اس کے بعد فرماتا ہے کہ حضرت دائود ؑ کی وفات پر سلیمان ؑ تخت نشین ہوئے اورانہوں نے لوگوں سے کہا کہ مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںیعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو سکھائی جاتی ہے.اورمجھے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے خدا تعالیٰ ان کو مہیاکردیتاہے.اوریہ بات اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہی حاصل ہوتی ہے.(آیت ۱۷) پھر فرماتا ہے.ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے ان کے لشکر حاضر کئے گئے اورانہیں ترتیب وار الگ الگ کھڑاکیاگیا.(یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کی تیاری کررہے تھے ).( آیت ۱۸) آپ اپنے لشکروں کے ساتھ جارہے تھے کہ راستہ میں آپ نملہ قوم کی وادی میں سے گذرے.(جس کو غلطی سے مفسرین نے چیونٹیوں کی وادی سمجھ لیاہے)آپ کو اورآپ کے لائو لشکرکودیکھ کر نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو.تاکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمانؑ اورا س کالشکر تمہیں پائو ں کے نیچے روند نہ ڈالے.حضرت سلیمانؑ نملہ قوم کی ملکہ کے اس اعلان پر ہنس پڑے اوراللہ تعالیٰ کا شکر بجالائے کہ اس نے دوردراز کے ملکوں میں بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ قوموں کے ساتھ بھی انصاف کرتاہے.(آیت ۱۹و ۲۰)
اس وقت حضرت سلیمانؑ نے اپنے لشکر کاجائزہ لیا تو ایک سردارِ لشکر کوجس کانام ھُدھُد تھا غائب پایا.ایسے نازک موقعہ پر ایک فوجی افسر کے غائب ہونے سے آپ کو شدید تشویش ہوئی اورآپ نے کہا کہ میںیقیناً اسے سخت ترین سزادوں گا یا اسے قتل کردوں گا.اوریاپھر اسے واضح دلیل کے ساتھ بتانا پڑے گاکہ وہ کیوں غائب رہا.(آیت ۲۱و۲۲) تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ وہ سردار واپس آگیا اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباء پر حملہ کرنے کے لئے جارہے تھے.میں پہلے سے اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے وہاں چلاگیااوراب میں یہ رپورٹ لے کر آیاہوں کہ اس ملک کی حکمران ایک عورت ہے لیکن غضب کی حاکم ہے.ہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود ہیں اوراس کی بادشاہت بہت بڑی ہے لیکن روحانی لحاظ سے یہ خرابی بھی ہے کہ ملکہ اوراس کی قوم سورج کی پرستش کرتی ہے اورتوحید سے روگردان ہے.حضرت سلیمانؑ سمجھ گئے کہ وہ شرارتاً غائب نہیں ہواتھا اورانہوں نے کہا.بہت اچھا ہم وہاں جاکے دیکھیں گے کہ تُو سچ بول رہاہے یاجھوٹ.مگرپہلے میرایہ خط لے جا اوراسے ملکہ اوراس کے درباریوں کے سامنے رکھیو اورخود مؤدبانہ طورپر پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوجائیو.اوردیکھیئو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں (آیت ۲۳تا۲۹) جب ہُدہُد نے و ہ خط پیش کیا.توملکہ نے اپنے درباریوں سے کہا کہ یہ ایک بڑامعزز مکتوب ہے جوسلیمانؑ کی طرف سے آیاہے اوراس میں لکھا ہے کہ میرے خلاف سرکشی مت کرو اورفرمانبردار ہو کر میرے حضور حاضر ہوجائو.(آیت ۳۰تا۳۲) اس کے بعد ملکہ سبانے اپنی قوم کے سرداروں سے کہا کہ اس مشکل مسئلہ کے حل کے لئے مجھے مشورہ دو.انہوں نے کہا.حضورہم توبڑے طاقتور ہیں اورآزمودہ کارجرنیل ہیں.مگرفیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے.ملکہ سبانے کہا.بات دراصل یہ ہے کہ بادشا ہ جب اپنے زبردست لشکروں کے ساتھ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواس کو اجاڑ کر رکھ دیاکرتے ہیں اوروہاں کے معزز شہریوں کو ذلیل جانوروں کی طرح بنادیتے ہیں.اس لئے میں نے تویہ تجویز سوچی ہے کہ میں حضرت سلیمانؑ کو ایک تحفہ بھیجتی ہوں اوردیکھتی ہوں کہ میرے آدمی کیا جواب لاتے ہیں.(آیت ۳۳تا۳۵) حضرت سلیمانؑ کو جب و ہ تحفہ پیش کیاگیا.توانہوں نے کہا خدا نے مجھے اس سے بہتر چیزیں دے رکھی ہیں.یہ تحفہ جو مجھے رشوت کے طورپر پیش کیاگیاہے مجھے اپنے عزائم سے باز نہیں رکھ سکتا.اے ہُدہُدان کی طرف واپس
لوٹ جااورانہیں بتادے کہ اب میں ایک ایسالشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقابلہ کی ان میں طاقت نہیں ہوگی.پھر حضرت سلیمان ؑ نے اپنے سردارانِ لشکر سے کہا کہ پیشتر اس کے کہ یہ لوگ میری اطاعت کا دم بھرتے ہوئے میرے پاس آئیں.تم میں سے کون ملکہ کا تخت میرے پاس لائے گا.ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھائی کرنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا اوراس قیمتی دولت کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے سرزد نہیں ہوگی لیکن ایک اورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ یہ توپھر بھی دیر میں لائے گا میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت لے آئوں گا.یعنی ایک نیا اوراعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر آپ کے دربار میں فوراًحاضرکردوں گا.جب حضرت سلیمانؑ نے دیکھا کہ ایک اعلیٰ درجہ کا تخت بن کرآگیاہے تووہ اللہ کاشکر بجالائے.مگرانہوں نے کہا.میں چاہتاہوں کہ تم ایساتخت بناکر لائو جسے دیکھ کر ملکہ کو اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے.میں دیکھناچاہتاہوں کہ کیا اس بات کو دیکھ کروہ اپنے گھمنڈ پر ہی قائم رہتی ہے یا میری برتری اورفوقیت کو تسلیم کرتی ہے.چنانچہ ایسا ہی کیاگیا آخر ملکہ آئی تواس سے پوچھا گیا کہ بتائو تمہاراتخت بھی ایسا ہی ہے.اس پر بجائے پوری طرح تسلیم کرنے کے وہ کہنے لگی کہ یہ ویساہی معلوم ہوتاہے.(آیت نمبر ۳۶تا۴۳) تب حضرت سلیمانؑ نے اس پر شرک کی برائی واضح کی اورعملی رنگ میں اس پر توحید کی حقیقت آشکار کرنے کے لئے ایک محل بنوایا جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے تھے.ان کے نیچے پانی بہہ رہاتھا.ملکہء سبااس محل میں داخل ہوئی تواس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اڑس لئے.حضرت سلیمان ؑ نے کہا.بی بی تجھے غلطی لگی ہے.یہ پانی نہیں بلکہ شیشہ میں سے پانی نظرآرہاہے.اس دلیل سے وہ سمجھ گئی کہ توحید ہی سچی ہے اوروہ شرک چھوڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام پر ایمان لے آئی.(آیت ۴۴و۴۵) حضرت سلیمانؑ کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ ثمود کا ذکر فرماتا ہے.کیونکہ ثمود کی قوم کا بہت ساعلاقہ حضرت سلیمانؑ کے ماتحت آگیاتھا.اوربتاتاہے کہ ان کے نبی نے بھی ان کو توحید کی تعلیم دی مگر وہ لوگ دوگروہوں میں منقسم ہوگئے.بعض نے مان لیا اور بعض نے انکار کردیا.حضرت صالح ؑ کے سمجھانے پر انہوں نے کہا کہ اے صالح ؑ!ہم تو تجھے سبز قدما سمجھتے ہیں.انہوں نے کہا.مجھے بھی تمہاری خیر نظر نہیں آتی کیونکہ تم ایک ایسی قوم ہو جوسچے دین کو چھو ڑ بیٹھی ہو.ثمود کی قوم میں نو بڑے بڑے عمائد تھے جنہوں نے آپس میں مل کر قسمیں کھائیں اورایک دوسرے کو اکسایاکہ رات کے وقت صالح ؑ اوراس کے اہل و عیال پر چھاپہ مارواوراسے قتل کردو.اورجب کو ئی پوچھے تو صاف
انکار کردو اورکہہ دوکہ ہم نے تو اس کی ہلاکت کا واقعہ دیکھا ہی نہیں.مگر آخر اللہ تعالیٰ کی تدبیر ہی غالب آئی.چنانچہ دیکھ لو کہ ان کے گھر تمہارے سامنے اجڑے پڑے ہیں.اورخالی اورویران ہیں.(آیت ۴۶تا۵۴) اس کے بعد لوط ؑ کاواقعہ بیان فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جنسی بے اعتدالیوں سے روکا.مگرقوم نے مخالفت کی.آخر زلزلہ سے ان کے شہر کو الٹا دیاگیا اوروہ قوم تباہ کردی گئی.(آیت ۵۵تا۵۹) ان انبیاء کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب بتائوکہ کیا اللہ اچھا ہے جواپنے بندوںکو بچاتارہتاہے یا معبودانِ باطلہ اچھے ہیں جن کے ماننے والے کبھی کامیاب نہیں ہوئے.(آیت ۶۰) پھر فرماتا ہے.تم اتناتوسوچوکہ زمین و آسمان کا خدا جو بادلوں سے پانی اتار کر قسم قسم کے باغ اُگاتاہے و ہ بہتر ہے یا وہ معبودانِ باطلہ بہتر ہیں جوان باغوں اورپانیوں کے محتاج ہیں.اسی طرح غو رکرو کہ وہ کون ہے جس نے زمین کو ٹھہرنے کے قابل بنایاہے.اوراس کے اند ردریاچلائے ہیں اورپھر اس نے میٹھے اورنمکین پانی میں ایک روک بنادی ہے.کیا ایسے مدبّر خدا کاکوئی اورشریک پیش کیاجاسکتاہے.پھر یہ بھی تودیکھو کہ مصیبت زدہ لوگوں کی دعائوں کو کون قبول کرتاہے اورکون ان کی دعائوں کو قبول کرکے انہیں دنیا کابادشاہ بنادیتاہے.کیاایسے خدا کاکوئی اَورہمسر ہو سکتا ہے.مگرافسوس ہے کہ لوگ پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے.(آیت ۶۱ تا۶۳) پھر فرماتا ہے کہ خشکیوں اورسمندر کے اندھیروں میں تمہیںکون راستہ دکھاتاہے.اسی طرح بادلوں سے پہلے بھیگی ہو ئی ہوائیں کون چلاتاہے.کیااللہ تعالیٰ کے سواکوئی اَورمعبود ہے جوایساکررہاہے.اسی طرح وہ جو پہلی دفعہ پیداکرتاہے اورپھر پیدائش کے سلسلہ کو جاری رکھتاہے اورجو آسمان اورزمین سے تمہیں رزق دیتاہے کیا ا س قادر مطلق خداکے سوا اَورکوئی بھی معبود ہے.زمین و آسمان کے غیب اللہ تعالیٰ کے سوااَورکوئی نہیں جانتا.مگرتمہارے معبود تو وہ ہیں جواتنابھی نہیں بتاسکتے کہ ان کا مشرکانہ دین دنیا میں کب قائم ہوگا؟ (آیت ۶۴تا۶۷) فرماتا ہے کفار بس اسی الجھن میں پڑے رہتے ہیں کہ جب ہم اورہمارے باپ دادامرکرمٹی ہوجائیں گے توپھر ہم زندہ کس طرح ہوں گے.یہ باتیں پہلے بھی کہی جاتی رہی ہیں اوردرحقیقت انہیں کی نقل میں اب بھی وہی باتیں دہرائی جارہی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر یہ کہانیاں ہی تھیں توپھر پہلے منکرین نے اپنے اپنے زمانہ میں سزائیں کیوںپائیں.اوراگر وہ سزاپاتے رہے ہیں تواے محمدؐرسول اللہ تیرے مخالفین بھی ان باتوں پرالٰہی گرفت سے بچ نہیں سکتے.ایسی صورت میں تجھے ان کی تباہی پر غم نہیں کھاناچاہیے.کیونکہ وہ بہرحال آنے والی ہے.اسی طرح ان کی مخالفانہ تدبیروں سے ہراساں نہیں ہوناچاہیے.کیونکہ ان کی تمام تدبیریں ناکام رہیں گی.یہ لوگ
پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر عذاب کب آئے گا؟ فرماتا ہے کچھ توجلدی آنے مقدر ہیں اور کچھ دیر میں آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑافضل کرنے والا ہے وہ ان کے مخفی ارادوں اور ظاہری افعال کوخوب جانتاہے.لیکن اپنے فضل کی وجہ سے ان کو ڈھیل دے رہاہے.(آیت ۶۸تا۷۵) فرماتا ہے.آسمان اورزمین میں جتنے مخفی امور ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں.چنانچہ اس کے ثبوت میں قرآن کریم کو دیکھ لو کہ وہ سچی بات بیان کردیتاہے جبکہ بائیبل اوردوسری الہامی کتب میں مرورِ زمانہ کی وجہ سے کئی قسم کی غلط باتیں پائی جاتی ہیں.یہ قرآن مومنوں کے لئے ہدایت اوررحمت کا پیغام ہے اوروہ اس کے ذریعہ صرف بنی اسرائیل کا صداقت سے منحرف ہوناہی ظاہر نہیں کرے گا بلکہ و ہ اسرائیلی قوموں کے درمیان فیصلہ بھی کرے گا اورسچوں کو غالب اورجھوٹوں کو مغلوب کردے گا.(آیت ۷۶تا۷۹) فرماتا ہے.تیراکام یہ ہے کہ تُواللہ تعالیٰ پر توکل کر.بیشک تیراکام لوگوں کو حق پہنچاناہے مگر پھر بھی جو مردہ د ل لو گ ہیں ان کو نہیں منوایاجاسکتا.اسی طرح بہراجب پیٹھ پھیر لیتا ہے.تواشارہ دیکھنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے.اوراس کی ہدایت کا کوئی ذریعہ نہیں رہتا.یہی حال اس اندھے کا ہوتاہے جوبیناکے پیچھے چلنے کے لئے تیار نہ ہو.صرف اسی کو سچائی سمجھائی جاسکتی ہے جو خدا تعالیٰ کے نشانوں پر ایمان لاتاہو.(آیت ۸۰تا۸۲) فرماتا ہے جب ان کی تباہی کا وقت آجائے گا تواللہ تعالیٰ زمین میں سے ایک کیڑانکالے گاجو ان کو کاٹے گا.اوردنیا پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ سزاان کو اس وجہ سے ملی ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے.(آیت ۸۳) پھر فرماتا ہے.تم اس دن کو یاد کرو جبکہ ہم ہر اس قو م میں سے جو ہمارے نشانات کاانکار کررہی ہوگی ایک بڑی جماعت کھڑی کریں گے.اورپھر ان جماعتوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیاجائےگا.یعنی دنیا میں مختلف ایسوسی ایشنز بن جائیں گی.اورسب قوموں میں سے ایک ایک گروہ بے دینی کی خاص طور پر تعلیم دینے لگ جائے گا.اوریہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاکافتویٰ جاری نہ ہوجائے.تب ان کی زبانیں بند ہوجائیں گی.(آیت ۸۴تا۸۶) فرماتا ہے.کیاانہوں نے اتنابھی نہ سوچا کہ ہم ان پر رات یعنی نبوت کے بعد کا زمانہ اس لئے لائے تھے کہ یہ ترقی کی نئی قابلیتیں اپنے اند ر پیداکریں.لیکن یہ لوگ تو اَوربھی سست ہوگئے.اورانہوں نے دن یعنی نبوت کے زمانہ سے بھی فائدہ نہ اٹھایا.(آیت ۸۷)
ایک دن آئے گاکہ صور پھونکاجائے گا.یعنی تمام قوموںکو ایک دوسرے کے مقابل پر کھڑاکردیاجائے گا اور آسمان اورزمین میں جوکوئی ہیں و ہ سب ڈر جائیں گے مگرباوجود اس کے کہ یہ تباہی عام ہوگی پھر بھی خدا تعالیٰ کے حضور دعا کاراستہ کھلا رہے گا.(آیت ۸۸) فرماتا ہے.تُو پہاڑوں کو دیکھتاہے توسمجھتاہے کہ و ہ کھڑے ہیں.حالانکہ و ہ اس طرح چل رہے ہیں جس طرح بادل.یعنی زمین چلتی ہے تووہ بھی اس کے ساتھ اسی طرح چلتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی صنعت ہے جس نے ہرچیز کو نہایت مضبوط بنایاہے اوروہ تمہارے اعمال کو خوب جانتاہے.(آیت ۸۹) جوشخص کوئی نیکی بجالائے گا.اسے اپنے عمل سے بہتربدلہ ملے گا.لیکن بدی کرنے والے کوآگ میں اوندھے منہ گرادیاجائے گا.مگر بدی کی سزابہرحال عمل کے مطابق ہوگی زیادہ نہیں.(آیت ۹۰و۹۱) فرماتا ہے اے محمد ؐ رسول اللہ ! تو لوگوں سے کہہ دے کہ مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں.یعنی اس جلوہ کے پیچھے چلوں جو مکہ میں ابراہیم ؑکے ذریعے ظاہر ہوا تھا اور عملاً فرمانبرداری کا نمونہ بن کر دکھائوں اور قرآن سب کو پڑھ کر سنائوں.میں کسی پرزبردستی نہیں کروں گا بلکہ میرا کام صرف لوگوں کو پیغام حق پہنچانا ہے.آگے ماننا یا نہ ماننا ان کا کام ہے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ خاموش بیٹھا رہے گا.وہ آسمان سے اترے گا اور ایسے نشان دکھائے گا جو تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کے وجود کو لاکر کھڑا کردیں گے.(آیت ۹۲تا ۹۴)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) باربار رحم کرنے والا ہے طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِيْنٍۙ۰۰۲ (پڑھتا ہوں)طاہرؔ (اور) سمیع ؔ(یعنی پاک اور دعائوں کا سننے والا خدا اس سورۃ کا اتارنے والا ہے) هُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَۙ۰۰۳الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ اس کی آیتیں قرآن اور مدلل کتاب کا حصہ ہیں.(جو ) مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت (کاموجب) ہیں.الصَّلٰوةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ (ایسے مومن)جونماز باجماعت ادا کرتے ہیں.اور زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں.اور آخروی زندگی پر (یا بعد میں هُمْ يُوْقِنُوْنَ۰۰۴ آنے والی موعود باتوں پر) یقین رکھتے ہیں.تفسیر.اس سورۃ سے پہلے بھی حروف مقطعات طٰسٓ آئے ہیں جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں ط اللطیف کا قائم مقام ہے اور سؔ سمیع کا.پہلی سورۃ اور اس سورۃ میں یہ فرق ہے کہ پہلی سورۃ کے آخر میں میمؔ بھی آتا تھا جو مجید کا قائم مقام تھا.مگراس سورۃ میں اسے اڑا دیا گیا ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں خدا تعالیٰ کی مجد اور بزرگی پر زیادہ زور دیا گیا تھا.اور اس سورۃ میں مضمون تو مشترک ہے لیکن خدا تعالیٰ کے مجید ہونے پر اس میں اتنا زور نہیں دیا گیا جتنا پچھلی سورۃ میں دیا گیا تھا اوراس کی ظاہری دلیل یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر زیادہ کیا گیا تھا اور خدا تعالیٰ کی مجد اورا س کی بزرگی زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی ظاہر ہوئی ہے اوراس سورۃ میںموسیٰ ؑ اور دائودؑ اور سلیمان ؑ کا ذکر کیا گیا ہے جن کے وجود سے اللہ تعالیٰ کے واقفِ اسرار روحانیہ ہونے کا ثبوت تو ضرور ملتا ہے.اسی طرح اس کے سمیع ہونے کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے مجید ہونے کا ثبوت جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی سے ملتا ہے اتنا ثبوت حضرت موسیٰ ؑ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ یا
ان کے ساتھیوں کی زندگی سے نہیں ملتا.تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ.فرماتا ہے اس سورۃ کی آیتیں قرآن کریم کی آیتیں ہیں اور ایک ایسی کتا ب کی آیتیں ہیں جو اپنے مضمون کوآپ کھول کر بیان کرتی ہے.اور مومنوں کے لئے ہدایت اور بشارت کا موجب ہے.مگر ان مومنوں کے لئے نہیں جو صرف منہ سے اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کےلئے جو نماز یں قائم کرتے ہیں اور زکوٰتیں دیتے ہیں اور آخرت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں.اس آیت میں تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ فرماکر قرآن کریم کی ایک ایسی فضیلت کا ذکر کیاگیاہے جس سے با قی الہامی کتب کلیۃً محروم ہیں.دنیا میںکوئی ایسی الہامی کتاب نہیں جواس کثرت کے ساتھ پڑھی جاتی ہو جس کثرت کے ساتھ دنیا میں قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے.اوریہی وہ فضیلت ہے جو تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ میں بیان کی گئی ہے.اوربتایاگیاہے کہ یہ قرآن کی آیات ہیں یعنی اس کتاب کی آیات ہیں جس کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قرآن ہے یعنی وہ تلاوت میں اس قدرآتاہے کہ دنیا کی اَور کوئی کتاب اس کامقابلہ نہیں کرسکتی.درحقیقت جو کتاب سب دنیا کو فائدہ پہنچانے والی ہو ضروری تھا کہ وہ قرآن ہویعنی کثرت سے پڑھی جانے والی ہو.یہ ایک عجیب بات ہے کہ تورات او رانجیل کے تراجم کے باوجود و ہ اس قدر نہیں پڑھی جاتیں جس قدر کہ قرآن پڑھاجاتاہے حالانکہ وہ عربی زبان میں ہے اورلوگ بھی اسے عربی زبان میں ہی پڑھتے ہیں.مخالفین کایہ کہناکہ چونکہ ایسے ذرائع اختیار کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے لوگ اسے پڑھتے ہیں جیساکہ نمازوں وغیرہ میں پڑھنا اوراس وجہ سے اس کا پڑھا جاناایک طبعی امر ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ پھر بھی طبعی امر نہیں کیونکہ اول جس کتاب کو نماز میں پڑھنے کاحکم ہو ضروری نہیں کہ لوگ کثرت سے اس پر ایمان لے آئیں.آخر کثرت نسبت سے ہوتی ہے.دوسری کتب کے مقابل میں کثرت تلاوت اس کی تبھی ہوسکتی تھی جبکہ اس کے ماننے والوں کی تعداد بھی بہت ہو.ورنہ اس کی کثرت سے تلاوت کس طرح ہوسکتی تھی.اورلوگوں سے منوالینا توطبعی امر نہیں ہے.سکھ لوگ گرنتھ پڑھتے ہیں مگر اس کے باوجو د وہ قرآن نہیں.کیونکہ ماننے والے نہایت محدود ہیں.اورکثر ت سے پڑھنے والوں کاوجود یقیناً پیشگوئی کے ماتحت آسکتاہے.دوم.اگر ماننے والے بھی کثرت سے ہوں تب بھی ضروری نہیں کہ لوگ حکم کوماننے والے ہوں.مگرہم دیکھتے ہیں کہ باوجود غیر زبان ہونے کے لوگ کثرت سے اس کی تلاوت کرتے ہیں.جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ بھی طبعی امر نہیں ہے.
سوم.پھر سوال یہ ہے کہ جبکہ الہامی کتب خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں اورخدا تعالیٰ عالم الغیب ہے.یہ تدابیر جن سے قرآن پڑھاجاتاہے اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہوسکتی تھیں.پھر کیوں نہ ا س نے دوسری کتب کے متعلق بھی وہ تدابیر اختیار کرلیں.یا اب کیوں وہ لوگ یہ تدابیر اختیار نہیں کرلیتے.صاف معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ یہی ایک کتاب قرآن بنے.اورجب کتب کے نازل کرنے والے خدا نے صرف ایک کتاب کو ہی قرآن بننے کے لئے چنا ہے تویقیناً وہ افضل ہے.چہارم.یہ کہاجاتاہے کہ قرآن کریم کی عبارت اس قسم کی ہے کہ وہ بہ نسبت دوسری کتب کے جلد یاد ہوسکتی ہے.اس لئے لو گ اسے زیادہ حفظ کرتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیوں نہ دوسری کتب نے بھی ا یسا ہی کرلیا اورپھر کیا اس قسم کی عبارت بنانا کوئی آسان بات ہے.غرض قرآن کریم کا قرآن ہونا ایک بہت بڑی فضیلت ہے جس میں دوسری کتب شامل نہیں.مجھے خیال آیا کرتاہے کہ بعض آریہ مباحثوں میں قرآن کریم کی آیات پڑھ کر فخر کیا کرتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہاری کتب پڑھ لیتے ہیں مگر تم ہماری کتاب نہیں پڑھ سکتے.حالانکہ حقیقت میں ان کا یہ دعویٰ قرآن کریم کی تائید ہوتاہے.کیونکہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ قرآن اپنے دعویٰ کے مطابق قرآن ہے اوردشمن بھی اسی کی زبان میں اسے سیکھ سکتے ہیں اورویدوںکو خود اس کے ماننے والے بھی نہیں پڑھ سکتے.پس جونام اس کا غیر معمولی حالات میں قرآن رکھا گیاتھا وہ سچا ثابت ہوا.اوردشمن نے خود اپنے فعل سے اس کی صداقت پر مہر لگادی.پس یہ ہم پر ہنسی نہیں بلکہ ہماری الہامی کتاب کی تصدیق ہے.یہ ایک عجیب امر ہے کہ سورئہ حجر میں تو الٓرٰ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ فرمایا ہے اور اس سورۃ میں طٰسٓ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِيْنٍفرمایا ہے.گویا ایک جگہ کتاب کو پہلے رکھاہے اورقرآن کوبعدمیں اورمبین کی صفت قرآن کے ساتھ لگائی ہے اوردوسری جگہ قرآن کو پہلے رکھا ہے اور کتاب کو بعد میں اورمبین کی صفت کتاب کے ساتھ لگائی ہے.یہ فرق کیوں ہے ؟ اس کے متعلق یہ امر یادرکھنا چاہیے کہ سورۃ حجر کی اس آیت کے بعد کہ تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ کفار کا ذکر ہے اورفرمایا ہے رُبَمَایَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَوْ کَانُوْامُسْلِمِیْنَ اور سورۃ نمل کی آیت کے بعد مومنوں کا ذکر ہے اورفرمایا ہے کہ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ اوریہ بات واضح ہے کہ کفار قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرتے.ان کاعلم زیادہ تر مسلمانوں سے سن کر ہوتاہے اورسننے پر لفظ قرآن دلالت کرتاہے.پس ان کے لئے قرآن مبین ہوتا
ہے.اورمومن اپنے مولیٰ کے کلام کو پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں اوران کا پڑھنا ان کے سننے سے زیادہ ہوتاہے.مثلاً دن میں اگر وہ ایک پارہ کی تلاوت کرتے ہیں توشاید ایک ربع سنتے ہیں.پس ان کا علم زیادہ ترصفت کتاب سے آتاہے.اس وجہ سے ان کے لئے صفت کتاب زیادہ مبین ہوتی ہے.پس اول الذکر مقام پر قرآن کے ساتھ مبین کو لگایا اورثانی الذکر مقام پر کتاب کے ساتھ.اوریہ جوآگے پیچھے ان لفظوںکو کیاگیاہے اس میں یہ حکمت ہے کہ کافر کاپہلا تعلق قرآن سے ہوتاہے.یعنی پہلے وہ الفاظ سنتاہے.پھر اس کا د ل صاف ہوتو وہ اسے اپنے اوپر واجب کرلیتا ہے.اورمومن اسے پہلے واجب سمجھے ہوئے ہوتاہے پھر اس کے بعد وہ اس کی قرأت کی طرف توجہ کرتاہے.پس جس چیز کو جس سے زیاد ہ قرب تھا اس کے قریب اس لفظ کو رکھ دیاگیاہے.پھر میرے نزدیک سورئہ حجر میں کتاب کالفظ پہلے اور قرآن کالفظ بعد میں اورسورئہ نمل میں قرآن کا لفظ پہلے اورکتاب کا لفظ بعد میں اس لئے بھی رکھا گیاہے کہ سورئہ حجر میں کتاب کی صفت سے زیادہ اس کے قرآن ہونے کی صفت پر زور دیاگیاہے.اور چونکہ کسی چیز کادرجہ اورمقام بیان کرتے وقت چھو ٹی چیز کو پہلے بیان کیا جاتا ہے اوربڑی کو بعد میں.اس لئے سورئہ حجر میں کتاب کو پہلے اورقرآن کو بعد میں بیان کیا گیاہے.لیکن اس سورۃ میں چونکہ قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کونمایاں کرناتھا.اس لئے اس میں قرآن کالفظ پہلے رکھا گیا اورکتاب کابعد میں.گویا قرآن اورکتاب یہ دونام نہیں بلکہ دوصفات ہیں جوقرآن کریم کی بیان کی گئی ہیں اوربتایاگیاہے کہ یہ کتاب بھی ہے اورقرآن بھی.کتابٌ میں ا س کے تحریر میں آنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اورقراٰن میں اس کے بکثرت پڑھے جانے کی خبر دی گئی ہے.اوریہ دونوں صفات یکجائی طورپرصرف قرآن کریم میں ہی پائی جاتی ہیں.یعنی یہ کتاب تحریر میں بھی موجود ہے اوراس کثر ت سے اس کی تلاو ت بھی کی جاتی ہے کہ دنیا میں اور کوئی کتاب نہیں جس کی اس کثرت سے تلاوت کی جاتی ہو.بیشک تورات اور انجیل بھی پڑھی جاتی ہیں مگر اول تووہ اس کثرت کے ساتھ نہیں پڑھی جاتیں جس کثرت کے ساتھ قرآن کریم پڑھاجاتاہے.پھر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایسے عشاق عطافرمائے ہیں جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اوررات دن خود بھی پڑھتے اور دوسروں کو بھی سناستے رہتے ہیں.لیکن تورات او رانجیل کادنیا میں کوئی حافظ نہیں.ویدوں کا ایک ایک لفظ یاد رکھنے والا دنیا میں کوئی فرد نہیں.یہی حال ژند اوراوستاؔ کاہے.صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے کتابی صورت میں بھی پڑھاجاتاہے اورحفظ بھی کیا جاتاہے.اورپھر نمازوں میں بھی پڑھاجاتاہے.پس چونکہ اس سورۃ میں قرآن کریم کی زبانی تلاوت سے زیادہ اس کی تحریر کے اثر کو زیادہ نمایاں کرناتھا.اس لئے اس سورۃ میں قرآن کالفظ پہلے اور
کتاب کالفظ بعد میں رکھا گیا.پھرایک اَور حکمت بھی ان الفاظ کے آگے پیچھے کرنے میں ہے.اوروہ یہ کہ سورئہ حجرمیں ان انبیا ء کا ذکر تھا جن میں کتابت کا رواج کم تھا اورعلوم کو زبانی یاد رکھاجاتاتھا.جیسے حضرت آدمؑ.حضرت ابراہیمؑ.حضرت لوط ؑ.حضرت شعیبؑ اور حضرت صالح ؑ وغیرہ.ان سب کے زمانوں میںتحریر کارواج کم تھا.اور چونکہ سورئہ حجر میں انہی انبیاء کی قوموں سے خطاب کیاگیاہے جن میں تحریر کارواج کم تھا اورجنہوں نے حفظ کے ذریعہ سے قرآنی علوم سے فائدہ اٹھاناتھا.اس لئے اُس سورۃ میں قرآن کے ساتھ مبین کا لفظ رکھا اوربتایاکہ ان اقوام میں اس کلام کی صفت قرآن لوگوں کو زیادہ فائدہ پہنچائے گی.لیکن کتاب کی صفت بھی ساتھ ہی بیان کردی تاکہ قرآن کریم کی مکمل حفاظت کا اظہار ہو.لیکن اس سورۃ میں کتاب کے ساتھ مبین کالفظ لگایاگیاہے.کیونکہ اس سورۃ میں حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان علیہم السلام کے واقعات پر زوردیاگیاہے جو بنی اسرائیل میں سے تھے او رجن میں کتابت کا رواج زیاد ہ اورزبانی یاد رکھنے کارواج کم تھا.ان انبیاء کی اقوام نے چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام کی صفتِ کتاب سے بہ نسبت صفت قرآن کے زیادہ فائدہ اٹھاناتھا اس لئے اس کی مناسبت سے اس جگہ قرآن کے لفظ پر کم اورکتاب پر زیادہ زوردیا.مگر دونوں صفات کااکٹھا ذکرکرکے اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی کہ قرآن کریم حفظ بھی کیاجائے گا.اورلکھا بھی جائے گا.لیکن وہ قومیں جو تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھانے والی ہیں وہ اسے کتاب سے پڑھ کرزیادہ فائدہ اٹھائیں گی اوراس سورۃ میں وہی قومیں مخاطب کی گئی ہیں.گویاوہ قومیں جو حافظہ سے زیادہ کام لیتی ہیں ان کے لئے تویہ قرآن مبین ہوگا.اورجوقومیں تحریر سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں ان کے لئے یہ کتاب مبین ہوگا.قرآن کریم پر نظر غائر ڈالنے سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اس میں قرآن مبین کالفظ صرف دودفعہ اور کتاب مبین کالفظ بارہ دفعہ استعمال ہواہے.جس میں اس امر کی طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ قرآن کریم کاکتاب ہونے کے لحاظ سے حلقہ زیادہ وسیع ہوگااور اکثر لوگ اس کے کتاب ہونے سے ہی فائدہ اٹھائیں گے گوایک طبقہ ایسابھی ہوگاجو حفظ کے ذریعہ اس کی برکات سے بہرہ اندوز ہوگا.اوراس طرح مسلمانوں کوتوجہ دلائی گئی ہے کہ وہ تعلیم کارواج زیادہ کریں تاکہ مسلمان قرآنی برکات سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوسکیں.پھر تِلْكَ اٰيٰتُ الْقُرْاٰنِ وَ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ میں قرآن کریم کی دوسری فضیلت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک کتاب ہے یعنی وہ لکھی ہوئی اورمحفوظ ہے جبکہ باقی الہامی کتب اب صرف نام کی کتاب رہ گئی ہیں حقیقتاً وہ اب کتاب نہیں
رہیں اوران کے الفاظ اوران کی عبارتیں ہی بتارہی ہیں کہ ان کی حقیقت بدل گئی ہے.نیز کتاب وجوب پر دلالت کرتی ہے.اورصرف قرآن کریم ہی ا ب ایک ایسی کتاب ہے جس پر عمل کیا جاتا ہے.چنانچہ آج بھی اس کے ہرحکم پر لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ عمل کرتے ہیں.مگر تورات،انجیل ،وید اورژند پر بہت کم عمل ہوتاہے.پس قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے کیابلحاظ اس کے کہ وہ ساتھ کے ساتھ لکھی جاتی رہی اوراب تک بغیر کسی زیر اورزبر کے فرق کے وہ وہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی اور کیا بلحاظ اس کے کہ یہی وہ کتاب ہے جس پر دنیا میں عمل کیا جاتا ہے باقی مذاہب والے بیشک اپنی الہامی کتب کو شائع کرتے اوران کے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار بھی کرتے ہیں.بلکہ ان کی تعلیموں سے اختلاف رکھنے والوں کو بُرابھلابھی کہتے ہیں مگر جب عمل کاسوال آتاہے تووہ ان کتابوں کو بالائے طاق رکھنے پر مجبورہوجاتے ہیں اوریہ دونوں حقائق ظاہر وباہرہیں.نولڈ کے جرمن کا مشہور مستشرق لکھتاہے کہ ’’ ممکن ہے تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ہوں توہوں.لیکن جوقرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیاتھااس کامضمون وہی ہے جومحمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے پیش کیاتھا.گواس کی ترتیب عجیب ہے.یوروپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں.‘‘ (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن) اسی طرح سرولیم میو راپنی کتاب ’’ لائف آف محمد ‘‘ میں لکھتاہے کہ ’’اس زمانہ میں جو قرآن موجود ہے اس کے متعلق ہم ویسے ہی یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اصلی صورت میں محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)کابنایاہواکلام ہے جس یقین سے کہ مسلمان کہتے ہیں کہ وہ خدا کا غیر مبدل کلام ہے.‘‘ (Life of Muhammad by sir Willaim Muir pg 562.563) اس کے مقابل پر تورات اوراناجیل کے متعلق خود بڑے بڑے پادری تسلیم کرتے ہیں کہ وہ محرف و مبدل ہوچکی ہیں.پس دنیائے مذاہب کی تمام الہامی کتب میں سے صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جسے صحیح معنوں میں کتاب کہاجاسکتاہے اورجس کاایک ایک لفظ اورایک ایک حرف ا سی شکل میں محفوظ ہے جس شکل میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.پھر عمل کو لو.توعیسائی کہنے کوتوکہتے ہیں کہ مسیح ؑ نے یہ کتنی اچھی تعلیم دی ہے کہ
’’ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جوتیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرابھی اس کی طرف پھیر دے.‘‘ (متی باب ۵آیت ۳۹) مگرآج اس تعلیم پر کہیں بھی عمل نہیں ہورہا.اگرعمل ہورہاہے توصرف قرآنی تعلیم پر جس نے کہا ہے کہ تم مجرم کوپکڑواور اسے سزادو.لیکن اگر تمہیں دکھائی دے کہ سزاسے وہ اَوربھی بگڑ جائے گا اوراگراسے معاف کردیاجائے تواس کے دل میں ندامت پیداہوگی اوروہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا توتمہارافرض ہے کہ تم اسے معاف کردو.کیونکہ تمہاراکام دوسروں کی اصلاح کرناہے.ناواجب سزایاناواجب عفوسے کام لینا تمہارے لئے جائز نہیں.غرض عمل کے لحاظ سے بھی صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کی مستحق ہے جبکہ باقی کتابیں عمل کے میدان میں بالکل بیکار ثابت ہوچکی ہیں.پھر قرآن کریم اس لحاظ سے بھی کتاب ہے کہ اس پر عمل کرکے انسان اللہ تعالیٰ کا مقرب بن سکتاہے.کتاب کے معنوں پر بحث کرتے ہوئے ماہرین لغت نے لکھا ہے کہ اَلْکِتَابُ مَا یُکْتَبُ فِیْہِ ، سُمِّیَ بِہٖ لِجَمْعِہٖ اَبْوَابَہٗ وَ فُصُوْلَہٗ وَمَسَائِلَہٗ یعنی کتاب اس چیز کوکہاجاتاہے جس میں کچھ لکھا گیاہو اوراسے کتاب اس لئے کہاجاتاہے کہ اس میں مختلف فصلوں اورابواب او رمسائل کو جمع کردیاجاتاہے.اسی طرح کتاب کے معنے خط کے بھی ہیں اورکتاب کے معنے فرض کے بھی ہیں.حکم کے بھی ہیں اورقضاو قدر کے بھی ہیں.اسی طرح کَتَبَ السِّقَاء کے معنے ہوتے ہیں خَرَزَہُ بِسَیْرَیْنِ مشکیزہ کو چمڑے کے تسمہ کے ساتھ سی دیا اورکَتَبَ النَّاقَۃَ کے معنے ہوتے ہیں اونٹنی کو دوسرے بچے کے ساتھ عادی بنانے کی کوشش کی.اوراس کے نتھنوںکو سی دیا تاکہ وہ بُو یعنی بھُس بھری کھال کی بُو نہ سونگھے.(اقرب) ان معانی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کتاب ا صل میں جمع کرنے کے معنے رکھتی ہے.کتاب کو بھی کتاب اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں مختلف مضامین جمع ہوتے ہیں.اورخط کو بھی اس لئے کتاب کہتے ہیں کہ وہ دودوستوں کو جمع کردیتاہے.اورفرض اورحکم کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ فرض اورحکم کوپوراکرکے انسان اپنے مطلوب سے مل جاتاہے.اورقضاوقدر کو بھی اسی لئے کتاب کہتے ہیں کہ انسان اس سے کہیں بھاگ نہیں سکتا اوروہ اسے پاکررہتاہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی وحی کوبھی اسی لئے کتاب کہتے ہیںکہ وہ اللہ تعالیٰ اوربندے کو جمع کرنے والی اوران کے درمیان ایک واسطہ ہوتی ہے اوران کے درمیان ایک تقریب پیداکردیتی ہے.پس جو کتاب بندہ اورخدا تعالیٰ کا
تعلق پیداکردیتی ہے وہ توفی الواقعہ کتاب کہلانے کی مستحق ہے.لیکن جو کتاب انسان کا خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا نہیں کرتی وہ حقیقی معنوں میں کتاب نہیں کہلا سکتی.اوریہ خصوصیت صرف قرآن کریم کو ہی حاصل ہے کہ وہ خدااور بندے کے درمیان اتصال پیداکردیتاہے اوراس پر عمل کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کامقرب ہو جاتا ہے.قرآن کریم نے اس خصوصیت پر اتنا زوردیاہے کہ وہ فرماتا ہے ہم نے انسان کی فطرت میں ہی تعلق باللہ کا مادہ رکھ دیا ہے.چنانچہ وہ فرماتا ہے.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ(العلق:۳).اس نے انسان کے اندر تعلق باللہ کامادہ رکھاہے.بیشک اس آیت کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اس نے انسان کو ایسی حالت سے پیدا کیاہے جبکہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا.لیکن اس آیت کے ایک تحت السطح معنے بھی ہیں اوروہ یہ ہیں کہ عربی محاورہ میں خُلِقَ مِنْ شَیْءٍ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے مثلاً وَبَدَاَ خَلْقَ الاِنْسَانِ مِنْ طِیْنٍ (السجدۃ:۸)کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے.لیکن جب خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ آجائے تواس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ہم نے انسان کو جلدی سے پیدا کیاہے.کیونکہ جلدی کو ئی مادہ نہیں کہ اسے گھولاا ور انسان پیداکردیا.بلکہ ا س کے یہ معنے ہوں گے کہ انسان کی فطرت میںعجلت رکھی گئی ہے.پس جہاں علق کے ایک معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو اس حالت سے پیدا کیا ہے کہ وہ رحم سے چمٹاہواتھا وہاں اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسان کی فطرت میں محبت اورعلاقہ کا مادہ رکھا ہے اوراس کی فطرت میں یہ بات مرکوز کردی گئی ہے کہ وہ کسی کا ہورہے.حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پنجابی کاایک مصرع سنایاکرتے تھے.جس کامفہوم یہ تھا کہ یاتوتُوکسی کاہو جایا کوئی تیراہوجائے.پس خَلَقَ الْاِنْسَانََ مِنْ عَلَقٍ کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے.یعنی ہم نے اسے ایسی حالت پر پیدا کیا ہے کہ و ہ سوائے اس کے چین پاہی نہیں سکتاکہ وہ کسی کاہورہے.بیشک جب تک اسے اصل چیز نہیں ملتی اس وقت تک وہ کبھی بیوی کا ہورہتاہے کبھی بہن بھائی کا ہورہتاہے.کبھی ماں باپ کا ہو رہتا ہے.کبھی دوستوں کا ہورہتاہے اوراس طرح وہ درمیان میں بھولتاپھرتاہے.مگرجب خدا تعالیٰ کے ملنے کاراستہ اس پر کھل جاتاہے توپھر وہ خدا تعالیٰ کا ہی ہو جاتا ہے.حدیثوں میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بد ر کے موقعہ پر دیکھا کہ ایک عورت کا بچہ گم ہوگیاہے اوروہ میدان جنگ میں اپنے بچے کو تلاش کرنے کے لئے ماری ماری پھررہی ہے.اسے جہاںکو ئی بچہ ملتا وہ اسے پیار کرتی اورگلے لگاتی.لیکن جب وہ دیکھتی کہ و ہ اس کا اپنا بچہ نہیں تواسے چھوڑ دیتی اورآگے چلی جاتی یہاں تک کہ اسے اپنا بچہ مل گیا.اس نے اسے پیار کیااورگلے لگایا.اورایک جگہ آرام سے بیٹھ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.آپؐ نے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا.تم
نے اس عورت کو دیکھا.جس طرح یہ اپنے بچہ کے لئے بیتاب رہی اورجب اسے اپنا بچہ مل گیا توسکون اوراطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنے بھولے بھٹکے بندہ کے لئے ہروقت بے تاب رہتاہے.لیکن جب ا س کابند ہ صحیح رنگ میں توبہ کرکے اسے مل جاتاہے تووہ ایسا ہی سکون محسوس کرتاہے جس طرح ا س ماں نے محسوس کیا ہے (بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیلہ).پس قرآن کریم دعویٰ کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کے اندر تعلق اورمحبت پیداکرنے کامادہ رکھ دیاہے اورپھر وہ اس کے حصول کے ذرائع پربھی روشنی ڈالتاہے.حقیقت یہ ہے کہ وہ چیز جو سچے مذہب کودوسرے مذاہب یاعقائد پرفوقیت بخشتی ہے وہ تعلق باللہ ہی ہے.ایک انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر محنتی ہو سکتا ہے.وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا تاجر بن سکتاہے وہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر اچھا صنّاع بن سکتاہے اوروہ سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر صدقہ و خیرات بھی کرسکتاہے.مگردنیا کاکوئی انسان سچے مذہب میں شامل ہوئے بغیر خدارسیدہ نہیں ہوسکتا.یہی وہ چیز ہے جو سچے مذہب پر چلنے والے اورنہ چلنے والے میں مابہ الامتیاز ہے اورجس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص سچے مذہب پر چلتاہے یا نہیں.یہ ظاہر ہے کہ خدارسید ہ وہی ہو سکتا ہے جو اس راستے پر چلتاہے جو خداتک پہنچتاہے.جو شخص خداتک جانےوالے راستہ پر نہیں چلتا وہ خداتک کس طرح پہنچ سکے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا کوئی مادی چیز نہیں اورنہ ہی اس کا کوئی خاص مکان ہے مگرساری روحانی اورمعنوی چیزوں کے لئے رستے ہوتے ہیں.مثال کے طورپرپڑھنا یا علم حاصل کرنامادی چیز نہیں.زبان جاننا مادی چیز نہیں.اسی طرح جغرافیہ تاریخ اورحساب کاعلم حاصل کرنا مادی نہیں مگران سب کے حصول کے لئے کچھ راستے مقررہوتے ہیں جب تک زبان دانی کے لئے زبان نہ سیکھی جائے.جب تک علم حساب کے لئے حساب کی کتابیں نہ پڑھی جائیں جب تک جغرافیہ کے علم کے لئے جغرافیہ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں اورجب تک تاریخ دانی کے لئے تاریخ کی کتابیں نہ پڑھی جائیں تب تک انسان زبان تک ، حساب تک ،جغرافیہ تک اورتاریخ تک نہیں پہنچ سکتا.اسی طرح گوخدا کوئی مادی چیز نہیں مگراس تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ مقررہے.چنانچہ اسلام اس بارہ میں اعلان کرتے ہوئے فرماتا ہے.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران:۳۲)یعنی اے محمد ؐ رسول اللہ!توتمام بنی نوع انسان کو یہ بشارت دےدے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل کرناچاہتے ہو تومیری اتباع کرو.اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ تمہاراخداتم سے محبت کرنے لگ جائے گا.اور تم اس کے محبوب اورپیار ے بن جائو گے.یہ کتنی بڑی بشارت ہے جودنیا کو دی گئی ہے اورکتنا امید افزا پیغام ہے جومردہ قلوب میں بھی حیاتِ نو پیداکردیتاہے.آج ساری دنیامیں کوئی شخص ایسانہیں جو یہ دعویٰ کرسکے کہ
اس نے تورات یا انجیل یاوید یاژند اوراوستاپرعمل کرکے خدا تعالیٰ کاقرب حاصل کرلیا ہے اورخدااس سے ہمکلام ہوتا اوراس پر اپنے غیب کے اسرار ظاہرکرتاہے.لیکن مسلمانوں میں ہر زمانہ میں ایسے پاکباز لوگ گذرے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا اور اس کے انوار اوربرکات سے حصہ لیا.بلکہ و ہ دائمی طور پر مسلمانوں سے یہ وعدہ کرتاہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.نَحْنُ اَوْلِيٰٓؤُكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْاٰخِرَةِ١ۚ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِيْۤ اَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ( حٰم السجدۃ :۳۱.۳۲)یعنی وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارارب ہے اورپھر وہ استقلال کے ساتھ اس عقیدہ پر قائم ہوگئے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام اورا س کے الہام سے نوازے جائیں گے اورخدا تعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے اتریں گے کہ ڈرونہیں اورنہ کسی پچھلی کوتاہی کے بدنتائج کا خوف کرو.بلکہ اس جنت کے ملنے سے خوش ہوجائو جس کا تم سے وعدہ کیاگیاتھا.ہم اس دنیا میں بھی تمہارے دوست ہیں اورآخرت میں بھی تمہارے دوست رہیں گے.اوراس جنت میں جو کچھ تمہاراجی چاہے گا وہ تم کو ملے گا اورجو کچھ مانگو گے وہ بھی تم کو دیاجائے گا.اس سے ظاہر ہے کہ اسلام ہر مومن کے لئے قرب الٰہی کے دروازہ کو کھلا تسلیم کرتاہے اوروہ بنی نوع انسان کو یقین دلاتاہے کہ اگر وہ سچے دل سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اتباع کریںگے تو خدا تعالیٰ انہیں یقیناًاپنا محبوب بنالے گا.اورانہیں اپنے کلام اور الہام سے نوازے گااور مشکلات میں ان کی مدد کرے گا اورانہیں غیر معمولی کامیابیوں اوربرکتوں سے حصہ بخشے گا مگر دنیا کی اَورکوئی الہامی کتاب ایسی نہیں جو اپنے متبعین کو ان برکات کا کروڑواں حصہ بھی دے سکتی ہو.پس صحیح معنوں میں صرف قرآن کریم ہی کتاب کہلانے کامستحق ہے.جبکہ دوسری الہامی کتب نام کے لحاظ سے توکتاب کہلاتی ہیں.مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ کتاب نہیں کیونکہ وہ خدااور بندوں کا باہمی تعلق پیداکرنے سے قاصر ہیں.پھرقرآن کریم صرف کتاب ہی نہیں بلکہ وہ کتاب مبین بھی ہے.یعنی وہ نہ صرف انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکردیتاہے بلکہ تقرب الی اللہ کے لئے جس قدر امو ر کی ضرورت ہے ان سب کو اس نے پوری تفصیل سے بیان کردیاہے گویا احکام یا اخلاق فاضلہ یا اعتقادات صحیحہ سے تعلق رکھنے والی کوئی بات ایسی نہیں جو قرآن کریم نے بیان نہ کی ہو.اصل بات یہ ہے کہ جو چیز درون پردہ ہو.جب تک وہ آپ ہمیں آواز نہ دے اورآپ ہماری راہنمائی نہ کرے ہمیں باہر سے اس کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوسکتا.فرض کرو.ایک مکان کادروازہ اند رسے بند ہے اورہمیں
معلوم نہیں کہ اس کے اندرکون ہے.توہمیں اندر کاحال کس طرح معلوم ہو سکتا ہے اگر ہم محض اپنے قیاس سے ا س کے متعلق کوئی فیصلہ کریں گے تووہ ویسی ہی بات ہوگی جیسے مشہور ہے کہ کسی شہر میں چار اندھے رہاکرتے تھے.اتفاقاً ایک دن اس شہر میں ہاتھی آگیا.اورسینکڑوں آدمی اس کے دیکھنے کے لئے اکٹھے ہوگئے.ان اندھوں نے شہر والوں سے کہا کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو ساراشہر دیکھ آیا ہے.اگرہم نہ گئے تولوگ کیا کہیں گے.چنانچہ کوئی شخص انہیں سہاراد ے کر وہاں لے گیا.اب و ہ دیکھ تونہیںسکتے تھے انہوں نے کہا چلو ہم ٹٹول کر ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ ہاتھی کیساہوتاہے.چنانچہ ایک نے ہاتھ ماراتووہ اس کی دم پر پڑا.دوسرے نے ہاتھ ماراتوکان پر پڑا.تیسرے نے ہاتھ ماراتوسونڈ پر پڑا.چوتھے نے ہاتھ ماراتو پیٹ پر پڑا.اس کے بعد وہ واپس آگئے.اورپھر انہوں نے بیٹھ کر آپس میں ہاتھی کے متعلق باتیں شروع کردیں.ایک نے کہا ہاتھی بس ایک لمبی سی چیز ہوتی ہے.جس کے آگے تھوڑے سے بال ہوتے ہیں.دوسرے نے کہا کہ تم بالکل جھوٹ بولتے ہو.ہاتھی توایساہوتاہے جیسے چھا ج ہوتاہے.تیسرے نے کہا تم نے ہاتھی دیکھا ہی نہیں وہ تو ڈھول کی طرح ہوتاہے.چوتھے نے کہا کہ سب غلط کہتے ہو.وہ تو ایک موٹی سی لچکدار چیز ہوتی ہے اور کچھ بھی نہیں ہوتا (اس کاہاتھ سونڈ پر پڑاتھا )یہ اختلاف اسی لئے ہوا کہ انہوں نے بے دیکھے محض قیاس سے ایک چیز کا اندازہ لگایا تھا.اسی طرح جو چیز درون پردہ ہو اس کا پتہ باہرسے نہیں لگ سکتا اوراگر کوئی پتہ لگانے کی کو شش کرے گاتو وہ اندھوں کی طرح غلط نتیجہ پر ہی پہنچے گا.یہی حال خدا تعالیٰ کی معرفت اوراس کی دینی تعلیموں کا ہے.یہ علم صر ف خدا تعالیٰ کی کتاب سے ہی حاصل ہو سکتا ہے.اورجوشخص اسے باہرسے سیکھنے یا سمجھنے کی کوشش کرتاہے وہ ان اندھوں کی طرح ہوتاہے جن میں سے کسی نے سونڈ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے.کسی نے دُ م پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاہے.کسی نے پیٹ پر ہاتھ مار کر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیاہے اور کسی نے کان پر ہاتھ مارکر سمجھ لیا تھا کہ میں نے ہاتھی دیکھ لیا ہے.اس زمانہ میں بعض بیوقو ف سائینسدان کہتے ہیں کہ ہم عقل سے خدا کو معلوم کرسکتے ہیں.جیسے بعض بے وقوف علما ء یہ کہتے ہیں کہ مذہب کا عقل سے کیا تعلق ہے.یہ دونوں بیوقو ف ہیں.خدا کو ہم عقل سے نہیں دریافت کرسکتے اورمذہب کو بغیر عقل کے ہم سمجھ نہیں سکتے.جس طرح دنیا کی تمام معقول باتوںکے سمجھنے کے لئے عقل کی ضرورت ہے اسی طرح مذہب کے سمجھنے کے لئے بھی عقل استعمال کی جاتی ہے.جیسے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْٓا اِلَی اللّٰہِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ (یوسف : ۱۰۹) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ! تولوگوں سے یہ کہہ دے کہ میراطریق یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتاہوں.اورمیں اور میرے متبع سب بصیرت پر قائم ہیں.
یعنی ہر بات کو ہم دلیل اورعقل کے ساتھ مانتے ہیں یونہی نہیں مانتے.مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ کوئی انسان محض عقل سے خدا کو پاسکتاہے.خدا کو پانے کے لئے مذہب ہمارا راہنما ہے اورمذہب کے سمجھنے کے لئے عقل کاپا سبان ضروری ہے اورعقل کو صحیح راستہ دکھانے کے لئے نبی کاوجود ضروری ہے ورنہ خالی عقل سے جن لوگوں نے مذہب کو پانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ہمیشہ ٹھوکر کھائی ہے.پنجا بی میں ایک ضرب المثل ہے.’’گھروں میں آیاں تے سنیہے تو دیندا ہاں‘‘.یعنی گھرسے تومیں آیاہوں اورپیغام تم دے رہے ہو.بالکل یہی بات خدا تعالیٰ کے متعلق کہی جاسکتی ہے.جب کو ئی شخص خدا سے ملنا چاہے تولازماً خداہی اسے بتاسکتاہے کہ تم اس اس طرح مجھے مل سکتے ہو.وہ خو د بخو د اس تک نہیں پہنچ سکتا.پس و ہ سائینسدان پاگل ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا کو اپنی عقل کے زور سے پاسکتے ہیں.خدا کو خداکے ذریعہ ہی پایاجاسکتاہے اورخدا کی راہنمائی حاصل کرنے کا سب سے بڑااورکامیاب ذریعہ یہی ہے کہ انسان خداکے کلام پر غور کرے اسے سمجھے اوراس پر عمل کرنے کی کو شش کرے.پھر فرماتا ہے.هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ یہ قرآن مومنوں کے لئے بہت بڑی ہدایت او ربشارت کا موجب ہے.اس جگہ ھدًی کی تنوین تعظیم کے لئے استعمال کی گئی ہے اور بتایاگیاہے کہ یہ ہدایت بہت بڑی شان رکھتی ہے.یعنی ہدایت کاکوئی درجہ اورمقام ایسانہیں جس کی طرف قرآن کریم بنی نوع انسا ن کی راہنمائی نہ کرتاہو.یوں تواپنے زمانہ میں تورات بھی دنیا کی ہدایت کا موجب تھی اور انجیل بھی دنیا کی ہدایت کا موجب تھی اورژندواوستابھی دنیا کی ہدایت کاموجب تھی مگرکامل ہدایت جس نے انسان کو نقطہء کمال تک پہنچا دیا اورجس کے بعد قیامت تک کے لئے کسی اورہدایت اورراہنمائی کی ضرورت نہیں.وہ صرف قرآن کریم ہی ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر ہدایت کے مختلف مدارج کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اَلَّذِیْنَ اھْتَدَوْازَادَھُمْ ھُدًی (محمد:۱۸) یعنی جولوگ ہدایت کے راستہ پرچل پڑتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت پر ہدایت دیتاچلا جاتاہے.کیونکہ جس طرح خدا تعالیٰ غیرمحدود ہے اسی طرح اس کے قرب کی راہیں بھی لامتناہی ہیں.مگرقرآن کریم کاکمال یہ ہے کہ وہ ہر مرحلہ پرانسان کی راہنمائی کرتاہے اوراللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ میں کوئی مقام بھی ایسانہیں آتا جب انسان اپنے آپ کو قرآنی راہنمائی سے مستغنی سمجھ سکے.و ہ شروع سے لے کر آخر تک قرآنی ہدایت کا محتاج رہتاہے.اورقرآن بھی اسے قدم قد م پر اپنے انوار اور برکات سے حصہ دیتاچلاجاتاہے.یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ کے پاس پہنچ جاتاہے.پھر فرمایاکہ یہ مومنوں کے لئے بشارت کابھی موجب ہے یعنی یہی نہیں کہ قرآن انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ
کے قرب کے غیر متناہی دروازے کھولتاہے بلکہ وہ اس کی تائید میں اپنے نشانات بھی ظاہرکرتاہے اوراپنی بشارتوں سے بھی اسے حصہ دیتاہے اگر مومن کی تائید میں الٰہی نشانات ظاہر نہ ہوں تو چونکہ ہدایت ایک روحانی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کاقرب دوسروں کو مادی آنکھوںسے نظر نہیں آسکتا.اس لئے لو گ ا س شبہ میں مبتلارہ سکتے تھے کہ معلوم نہیں یہ سچ بھی کہہ رہاہے یانہیں.اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ اپنی تائیدات مومنوں کے شامل حال رکھتاہے اور اپنے نشانات ان کی ایمانی تقویت کے لئے اوران کے دشمنوں پر حجت تمام کرنے کے لئے نازل کرتارہتاہے جواس بات کا ثبوت ہوتے ہیں کہ یہ لوگ حقیقۃً ہدایت یافتہ ہیں اورانہوں نے اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرلیا ہے.ایک جھوٹا اور مفتری انسان یہ توکہہ سکتاہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے نشانات اپنی تائید میں نازل نہیں کرسکتا.لیکن اگر کسی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی نصرت اوراس کی تائید کی فعلی شہادت ہو.اس پر اللہ تعالیٰ کے الہامات نازل ہوتے ہوں.اس کی دعائیں غیر معمولی طور پر قبولیت کا شر ف حاصل کرتی ہوں.اس کے دشمنوںکو ناکام رکھاجاتاہو.اوراسے اپنے مقاصد میں کامیابی پر کامیابی حاصل ہوتی ہو تویہ ثبوت ہوتاہے اس بات کا کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں بھی سچا ہے کہ اسے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہے اورقرآن کریم بتاتاہے کہ اس کے احکام پر عمل کرنے والوں کو یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہیں.و ہ اس مستقل ہدایت نامہ پر عمل کرتے کرتے خدا تعالیٰ کے قرب میں بھی بڑھ جاتے ہیں.اورپھر خدا تعالیٰ بھی ان کی تائید کے لئے آسمان سے اترآتاہے اوروہ انہیں مشکلات کے ہجوم میں بشارات سے حصہ دیتا او رانہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ عطافرماتا ہے اورجس مقصدکولے کر وہ کھڑ ے ہوتے ہیں اس میں انہیں کامیابی عطاکرتاہے.پھر فرماتا ہے.یہ قرآن ہدایت او ربشارت کا تو موجب ہے مگر ان کے لئے نہیں جو اپنے منہ سے توایمان کا اظہار کرتے ہیں لیکن عمل دیکھو تونہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں نہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورنہ آخر ت پر یقین رکھتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے نہ قرآن ہدایت کا موجب بنتاہے اورنہ الٰہی تائیدات او راس کی برکات ان کے شامل حال ہوتی ہیں.قرآن کریم کی کامل ہدایت اوراس کی بشارت کے شیریں ثمرات سے صرف وہی لوگ متمتع ہوتے ہیں جو باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں.ہمیشہ زکوٰۃ دیتے ہیں اورآخرت پر یقین رکھتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ مذہب کا اہم ترین حصہ جو اس کے لئے دل اور دماغ کی حیثیت رکھتاہے.عبادت الٰہی ہی ہے.اگرعبادت الٰہی کو ترک کردیاجائے تومذہب صرف رسم و رواج کانام بن کر رہ جائے گا.اورخدا تعالیٰ سے تعلق کادعویٰ محض ایک ڈھکونسلہ ہوگا.اس لئے اس جگہ مومنوں کی پہلی صفت اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یُقِیْمُوْنَ
الصَّلٰوۃَ وہ نمازوںکو قائم کرتے ہیں یعنی خود بھی باجماعت نماز اداکرتے ہیں جس کی طرف یُقِیْمُوْنَ کالفظ اشارہ کرتاہے اوردوسروںکو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں.گویابحیثیت جماعت وہ نمازوں کی ادائیگی کاہمیشہ التزام رکھتے ہیں.اگریہاں صرف انفرادی نمازوںکا ذکر ہوتاتو یُصَلُّوْنَ کہنا کافی تھا.مگراللہ تعالیٰ نے یصلّون کا لفظ استعمال نہیں فرمایابلکہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.اسی طرح قرآن کریم کے اَورمقامات میں بھی اَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ یا اَقَامُواالصَّلٰوۃَ کے الفاظ ہی استعمال ہوئے ہیں اوراقامت ہمیشہ باجماعت نماز میں ہی ہوتی ہے.پس مومنوں کی ایک بڑی علامت اس آیت میں یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ باجماعت نمازیں اداکرتے ہیں اورنہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی نمازوں کی ادائیگی کی تلقین کرتے رہتے ہیں.ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ خود تو نماز کے بڑے پابند ہوتے ہیں مگراپنے بیوی بچوں کے متعلق کوئی پرواہ نہیں کرتے.حالانکہ اگران کے دل میں سچا اخلاص ہوتویہ ہوہی نہیں سکتاکہ کسی بچے کا یا بیوی کا یابہن بھائی کانمازچھوڑناانسان گوارہ کرسکے.ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جواب فوت ہوچکے ہیں.ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے.میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے توانہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتاہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اوروہ آزادانہ طورپر اس پر غور کرسکے.میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے توآپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اورمذہبی آزادی نہیں رہے گی.لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کرلیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں.اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں.اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں.اورجب یہ سارے کے سار ے اثر ڈال رہے ہیں توکیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر توکھانے دیں اورتریاق سے بچایاجائے.غر ض اقامت صلوٰۃ ایک نہایت ہی ضروری چیز ہے.اوراس میں خود نماز پڑھنا.دوسروں کو پڑھوانااوراخلاص اور جوش کے ساتھ پڑھنا.باوضو ہوکر ٹھہر ٹھہر کر باجماعت اورپوری شرائط کے ساتھ نماز پڑھنا شامل ہے.احادیث میں آتاہے کہ نماز خدااوربندے کے درمیان ملاقات کا ایک ذریعہ ہوتی ہے.گویا اس کے ذریعہ الوہیت کا وہ رنگ جونبی کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ پیداکرناچاہتاہے مومنوں پر چڑھ جاتاہے.اوروہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہوجاتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز باجماعت کا اس قدر احترام فرماتے تھے کہ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک نابینا آیا.اوراس نے عرض کیا یارسول اللہؐ!میرامکان مسجد سے بہت دور ہے اور چونکہ مجھے مسجد پہنچنے میں سخت دقّت پیش
آتی ہے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تومیں اپنے گھر میں ہی نماز اداکر لیا کرو ں (اس وقت مدینہ میں کچے مکانات ہوتے تھے اورجب بارش کے دنوں میں پانی گلیوں میں بہتاتھاتوچونکہ پانی دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ٹکراکر گذرتاتھا اوردیواریں پانی سے ٹوٹ جاتی تھیں اس لئے پانی کی زد سے دیواروں کو بچانے کے لئے لوگوں نے گلی میں دیواروں کی بنیادوں کے ساتھ ساتھ جلے ہوئے پتھر جن کو پنجابی زبان میں کھنگر کہتے ہیں رکھے ہوتے تھے.گلیوں میں کھنگر رکھنے کا رواج ہمارے ملک میں بھی ہے اور چونکہ ایک نابینا کے لئے سڑک کے بیچ میں چلنا مشکل ہوتاہے اس لئے وہ ہمیشہ دیواروں کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں اوردیوار کے ساتھ ہاتھ مارتے جاتے ہیں.اگر وہ ایسی دیوار کے ساتھ چلیں جس کے ساتھ کھنگر رکھے ہوئے ہوںتوان کے گرکرزخمی ہونے کاخطرہ ہوتاہے )جب اس نابینا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ چونکہ دیواروں کے ساتھ پتھر رکھے ہوتے ہیں اورگلی کے بیچ میں مَیں چل نہیں سکتا اوراگر دیوار کے ساتھ چل کر مسجد میں آئوں توگر کرزخمی ہونے کا خطرہ ہے اس لئے مجھے اجازت ہوتو میں گھر پر نماز اداکرلیاکروں.تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بہت اچھا.اگرتمہیں مسجد میں آتے ہوئے مشکل پیش آتی ہے توتم اپنے گھر میں ہی نماز اداکرلیا کرو.یہ سن کر وہ نابینا گھر کی طرف چل پڑا.مگرابھی وہ تھوڑی دورہی گیا تھا کہ آپ نے صحابہؓ سے فرمایا.اس کو واپس بلائو.وہ جب واپس آیاتوآپ نے اس سے دریافت فرمایاکہ کیا تمہارے گھر میں اذان کی آواز پہنچ جاتی ہے.اس نے عرض کیا.ہاں یارسول اللہ!اذان کی آواز توپہنچ جاتی ہے.آپ نے فرمایا.اگراذان کی آواز تمہارے گھر میں پہنچ جاتی ہے توچاہے تمہیں مسجد میں آتے وقت ٹھوکریں لگیں اور تم زخمی ہوجائو.مسجد میں ضرور آیاکرو (مسلم کتاب المساجد باب یجب إتیان المسجد علی من سمع النداء).اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا.میراجی چاہتاہے کہ جب عشاء یا صبح کی نماز ہو تو میں اپنی جگہ کسی اَورکو کھڑاکردوں اور کچھ لوگوںکو ساتھ لے کر ان کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھ کر سارے شہرکا چکر لگائوں اورجولوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہوں ان کے گھروں کو آگ لگادوں(بخاری کتاب الجماعة والامامة باب وجوب صلاة الجماعة).اب دیکھو گوآپ نے عملاً ایساکیاتونہیں.مگراس سے اتنا تو ظاہر ہے کہ آپ کے دل میں نماز باجماعت کی کس قدراہمیت تھی.آپ نے اس مثال کے ذریعہ لوگوںکو سمجھا یا کہ جولوگ باجماعت نماز ادانہیں کرتے وہ اپنے آپ کودوزخ کا ایندھن بنانے کی کوشش کرتے ہیں.بیشک دنیا میں نیکی کے اَور بھی بہت سے کام ہیں.لیکن نماز کو خدا تعالیٰ نے سب سے مقدّم قرار دیا ہے اورسوائے اس کے کہ کوئی معذوری ہو یاکوئی ہنگامی کام پڑ جائے نمازوں کے اوقات میں مسجد میں آنا نہایت ضروری ہے.ہنگامی کاموں سے مراد یہ ہے کہ مثلاً کسی جگہ
آگ لگ گئی ہو تواس وقت آگ بجھا نا ضروری ہوگا.نماز بعد میں اداکرلی جائے گی.لیکن اس قسم کے استثنائی حالات کے بغیر جوشخص نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے وہ ایک بہت بڑے جرم کا مرتکب ہوتاہے.دوسری چیز جس کی طرف ان آیا ت میں توجہ دلائی گئی ہے و ہ زکوٰۃ ہے.زکوٰۃ کی ضرورت اوراس کی اہمیت درحقیقت غربت کے سوال سے پیداہوتی ہے.اورغربت ایک ایسی چیز ہے جوکبھی بھی بنی نوع انسان سے جدانہیں ہوئی.عام طور پر لوگ خیال کرلیتے ہیں کہ جب دنیا کی آبادی بڑھ جاتی ہے تو ایک حصہ غریب ہو جاتا ہے.حالانکہ یہ بات درست نہیں.آبادی کی کمی کی صورت میں بھی ہمیں غربت ویسی ہی نظرآتی ہے جیسے اس کی کثرت کی صورت میں.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں باوجود اس کے کہ اس وقت صرف چند ہی افراد تھے قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ ان میں سے بھی بعض پر غربت کا زمانہ آیا تھا کیونکہ فرماتا ہے کہ اگر تُواس جنت میں رہے گا توتُو پیاسانہیں رہے گا.تیرے ساتھی بھوکے نہیں رہیں گے.اورتیرے ساتھی ننگے نہیں رہیں گے.اس وسیع دنیا میں جہاں ہردولت اورہرخزانہ خالی پڑاتھا اور کسی کاکوئی مالک نہیں تھا کسی مخصوص قانون میں رہ کر روزی ملنے کاسوال ہی کہاں پیداہوسکتاتھا.ساری دنیا کاسونا ان کے قبضہ میں تھا ساری دنیا کی چاندی ان کے قبضہ میں تھی.ساری دنیا کا پیتل ان کے قبضہ میں تھا.ساری دنیا کالوہا ان کے قبضہ میں تھا.ساری دنیا کے پھل،پھول اوراعلیٰ درجہ کی زمینیں ان کے قبضہ میں تھیں.پھر یہ سوال کیونکر پیداہواکہ اگر تُوایک خاص قانون کے ماتحت رہے گا تو بھوک اور ننگ سے بچ جائے گا.اس سے معلوم ہواکہ باوجودساری دولتوں کے پھر بھی اس بات کا امکان تھا کہ بعض لوگ بھوکے رہیں.بعض پیاسے رہیں اور بعض ننگے رہیں.اوریہ صحیح بات ہے.درحقیقت دنیا میں دولت دو قسم کی ہوتی ہے ایک بالقوۃ اورایک بالفعل.پھر بالفعل بھی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک بالفعل دولت ایسی ہوتی ہے جوسکہ کی صورت میں ہویاان چیزوں کی صورت میں جن سے دوسری اشیاء خریدی جاسکتی ہیں.اورایک بالفعل دولت اجناس کی صورت میں ہوتی ہے جن کو استعمال کیا جاتا ہے.پھر اجناس کی بھی دو قسمیں ہیں.ایک وہ جو بغیر کسی اَورتیاری کے انسان کے استعمال میں آجاتی ہیں اورایک وہ جن کی تیاری کے لئے کوشش اورسعی کی ضرورت ہوتی ہے.جہاں تک بالقوۃ دولت یعنی وجود دولت کاسوال ہے انگریزوں نے اسکانام ویلتھ رکھا ہے اوراس سے مراد کسی ملک کے وہ سامان دولت ہوتے ہیں جو اس میں قدرتی طورپرپائے جاتے ہیں.مثلاً اگرکسی ملک میں سونے کی کانیں ہیں یاچاندی کی کانیں ہیں تواس کے معنے یہ ہیں کہ اس کے پاس ویلتھ ہے.مگراس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ اس کے پاس روپیہ ہے.اگروہ چاندی اس تک پہنچ نہیں سکی یالوگوں کے پاس زرخیز زمینوں میںگند م اورروئی بونے کے ساما ن نہیں توپھر بھی وہ لوگ
بھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے پس ایک دولت تواس قسم کی ہوتی ہے جوبالقو ۃ ہوتی ہے.اگراس ملک کے لوگوں میں صنعت و حرفت نہیں یاانہیں زمینداری کاعلم نہیں توباوجود اس کے کہ وہ کانوں پر بیٹھے ہوں گے اورکروڑوں کروڑ روپیہ کاسونا ان میں موجود ہوگا.وہ زرخیز زمینوں پر بیٹھے ہوں گے.ایسی زمینوں پر کہ اگر اس میں ایک دانہ بھی ڈال دیاجائے توسینکڑوں دانے پیداہوں.لیکن پھر بھی وہ فاقے مررہے ہوں گے گویا ان کے پاس دولت تو ہوگی لیکن ساکن دولت ہوگی.لیکن اگر دنیا میں کوئی ایسانظام قائم ہو جاتا ہے جولوگوںکو مختلف قسم کے فنون سکھاتاہے خواہ الہام کے ذریعہ سے یاالقائے الٰہی کے ذریعہ سے.اوروہ کہتاہے کہ آئوہم تمہیں زمینداری کاطریق بتاتے ہیں کپڑابننے کے طریق سکھاتے ہیں یااسی قسم کے اورفنون سکھاتے ہیں جن سے تم اپنی تمدنی حالت کو سدھار سکوتویقیناً اس کے ذریعہ لوگوں کی بھو ک او را ن کی پیاس دورہوجائے گی.جیسے اسلام کی روایتوں میں خواہ وہ کتنی ہی کمزورکیوں نہ ہو ں یہ آتاہے کہ حضرت آدمؑ نے لوگوں کوزراعت سکھائی.اور حضرت شیثؑ نے ان کو کپڑابنناسکھایا.اب چاہے انہیںآدم ؑنے سکھایاہو یا شیثؑ نے یاکسی اَور نے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابتدائی زمانہ میں اس قسم کے امور میں الہام الٰہی مدد کرتاتھا.جیسے قرآن کریم میں صاف طورپر یہ ذکر آتاہے کہ زبان ابتداء میں الہاماً سکھائی گئی تھی.چنانچہ فرماتا ہے.عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا(البقرۃ:۳۲).اس سے قیاس کرکے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح ابتدائی زمانہ میں الہام کے ذریعہ زبان کاسکھایاجانا ضروری تھا.اسی طرح الہام کے ذریعہ انہیں فنون سکھائے جانے بھی ضروری تھے.ورنہ اس کے بغیرانسان مدتوں تک تکلیف اٹھاتاچلاجاتا.پس اگر کوئی نبی آجائے اوروہ یہ کہے کہ تم زمین میں ہل چلائو اورکھیتی باڑی کرو.اسی طرح وہ مختلف قسم کے درخت اورباغات لگانے کی تعلیم دے تویقیناً اس کے نتیجہ میں اس کے ماننے والوںکو روٹی ملنے لگ جائے گی اوروہ لوگ جو نبی کے تابع نہیں ہوں گے اگر وہ زبان سیکھنے سے انکارکردیں گے توگونگے رہیں گے.اوراگرکھیتی باڑی نہیں کریں گے یاکپڑا بننانہیں سیکھیں گے یاکنوئیں نہیں کھودیں گے توبھوکے اورپیاسے اورننگے رہیں گے.یہ فنون ابتدائی دور میں خواہ کیسی ہی ابتدائی شکل میں ہوں.خواہ کھال سے وہ اپنا ننگ ڈھانکتے ہوں یاپھلوں پران کا گذارہ ہوتاہواس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو لوگ اس نظام کے ماتحت آجائیں گے و ہ بھوک اورپیاس اور ننگ سے بچ جائیں گے.لیکن باوجود اس کے پھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ جاتاہے جو غریب ہو.کیونکہ حوادث آتے ہیں اورانسان کو بے دست و پابنادیتے ہیں.فرض کرو.دنیا کے پردہ پر ایک ہی انسان ہے کشمیر بھی ا س کے قبضہ میں ہے.ہزارہ بھی اس کے قبضہ میں ہے.کابل کی وادیاں بھی اس کے قبضہ میں ہیں اوراس طرح دنیا کے سارے انگور ساری ناشپاتیاں،سارے سیب اورسارے آم اس کے قبضہ میں
ہیں.لیکن اس کے ہاتھ بھی کٹے ہوئے ہیں اورپیر بھی کٹے ہوئے ہیں تووہ اس دولت سے فائدہ نہیں اٹھاسکے گا.اورپھر بھی بھوکا اور پیاسارہے گا.پس ابتدائی زمانہ میں باوجودیکہ دولت موجود تھی دنیا اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتی تھی کیونکہ اسے فنون نہیں آتے تھے جب آدمؑ کے ذریعہ دنیا نے فنون سیکھے اوران کی بھوک اور پیاس اور لباس کی دقّت دور ہوئی توپھر بھی ایک طبقہ ایسا رہ گیا جو ان چیز وں سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھاسکتاتھا.جیسے لولے.لنگڑے اور اپاہج وغیرہ.اب چاہے ساری دنیا میں صرف پندرہ آدمی ہوں اوردولولے ہوں پھر بھی دولولے اپنی بھوک اور پیاس کیسے دور کرسکتے ہیں جب تک ان پندرہ میں کوئی نظام موجود نہ ہو اوروہ ان لولوں لنگڑوں کی بھوک اور پیاس دور کرنے کاذمہ وار نہ ہو.آدمؑ کی نبوت کی بنیاد اصل میں ان بتدائی تعلیموں پر ہی تھی جن سے انسان انسان بنا.آپ نے بنی نوع انسان کو زبان سکھائی.مختلف قسم کے فنون کی تعلیم دی.تمدن کے اصول بتائے.انہیں بتایاکہ آپس میں مل کررہناچاہیے اوراگر کوئی غریب یالولا لنگڑا ہوتواس کی مدد کرنی چاہیے.جب اس قسم کی سوسائٹی قائم ہوجائے گی.توہم کہہ سکیں گے کہ یہ سوسائٹی نہ بھوکی رہے گی نہ ننگی اورنہ پیاسی.اگر کوئی لولالنگڑاہوگاتودوسرے لوگ اس کی مدد کریں گے.اوراگرلوگ بھوکے ہوں گے تو و ہ زراعت او رباغبانی اورکان کنی کے ذریعہ اپنی اس تکلیف کودورکرسکیں گے اوراس طرح دنیا کو روپیہ بھی مل جائے گا.اوران کی تکالیف بھی دور ہوجائیں گی.پس غربت کامسئلہ اس زمانہ کی پیداوار نہیں بلکہ جب سے انسان اس دنیا میں پیداہواہے اس وقت سے یہ سوال زیر بحث چلاآیاہے.جب ساری دنیا کے مالک صرف دوچار گھرانے تھے تب بھی غربت موجود تھی اور تب بھی ایک قانون کی ضرورت تھی اسی لئے حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ بنی نوع انسان کو یہ پیغام دیاگیا کہ اگرتم ان قواعد کی پابند ی کرو گے توبھوکے اور پیاسے نہیں رہو گے.جس کے معنے یہ ہیں کہ آدمؑ کے زمانہ میں بھی جب صرف چند آدمی تھے ممکن تھا کہ لوگ بھوکے رہیں.ممکن تھا کہ وہ پیاسے رہیں اورممکن تھا کہ وہ ننگے پھریں.پھرلوگ بڑھنے شروع ہوئے.پندرہ سے بیس اوربیس سے سوسوسے ہزار.ہز ار سے دس ہزار اوردس ہزار سے لاکھ تک تعداد جاپہنچی اوربڑھتے بڑھتے اب تو دواڑہائی ارب تک آباد ی پہنچ چکی ہے.مگرجیسا کہ میں نے بتایا ہے پندر ہ آدمیوںکی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی.سو آدمیوں کی صور ت میں بھی دنیا بھوکی اور ننگی رہ سکتی تھی.ہزا ر او ر لاکھ آدمیوں کی صورت میں بھی دنیا بھوکی اورننگی رہ سکتی تھی.بھوک اور ننگ کی بنیاد ویلتھ پر نہیں ہوتی یہ ایک غلط خیال ہے جو لوگوں میں پیداہوگیاہے کہ غر بت آبادی کی کثرت کی وجہ سے پیداہوتی ہے.اصل وجہ یہ ہے کہ غربت اورامارت کادارو مدار اس امر پر ہے کہ قانون قدرت نے زمین میں جو خزانے مخفی رکھے ہیں انسان ان کو کس حد تک استعمال کرتاہے اورکس حد تک ان کے استعمال کرنے
کی عقل اور سمجھ رکھتاہے.مثلاً اگرسونا ہواورغلہ نہ ہوتو محض سونے سے لوگوں کی بھوک دور نہیں ہوسکے گی یااگر غلہ بھی آجا ئے مگرروٹی پکانی نہیں آتی توپھر بھی انسان بھوکا رہے گا.ایسی صورت میں ضروری ہوگا کہ کچھ مددگار ہوں کچھ لوگ کمانے والے ہوں اور کچھ لوگ پکانے والے ہوں.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے مردا ور عورت کا سلسلہ قائم کیا ہے.غرض کئی قدم ہوتے ہیں جب تک وہ سارے کے سارے مہیانہ ہوں انسان بھوک اور ننگ سے بچ نہیںسکتا.یہ دور ابتدائے عالم سے چلتا چلاآیا ہے ایک زمانہ ایساتھا.جب بنی نوع انسان کے پاس ذرائع آمد زیادہ ہوتے تھے اورکم حصہ مجبوریوں میں گرفتار ہوتاتھا.مثلاً اگر ہاتھ پائوں کٹے ہوئے لوگوں کو دیکھا جائے یاان لوگوں کی تعداد معلوم کی جائے جو بڑھا پے اور بیمار یوں کی وجہ سے کسی کام کے قابل نہیں رہتے تووہ کتنے ہوں گے.میں سمجھتاہوں کہ وہ ایک دوفیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے.لیکن کام نہ ملنے کی وجہ سے ہزار میں سے نوسوبھی بیکارہوسکتے ہیں.جب کسی ملک کی آبادی بڑھ جاتی ہے.لیکن ذرائع آمد ترقی نہیں کرتے تودس میں سے بعض دفعہ نو بیکار پھرتے ہیں.مگر اس لئے نہیں کہ وہ معذو رہوتے ہیں بلکہ اس لئے کہ انہیں کام نہیں ملتا.پس جب دنیاکی آباد ی بڑھ گئی.تویہ سوال نہ رہا کہ زمین میں سے دولت کس طرح نکالی جائے بلکہ اس سوال کی صورت بالکل بد ل گئی.کیونکہ بعض لوگ ایسے تھے کہ باوجود اپناسار ازور صرف کرنے کے کام سے محروم رہتے تھے.ایسی حالت میں اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ نئے کام نکالے جائیں.غرض یہ دور اسی طرح چلتے چلے آئے ہیں اوردنیا نے فقر و فاقہ کی تکالیف دورکرنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کیں.چنانچہ کبھی ایسا دو ر آیا کہ لوگوں نے یہ فیصلہ کردیا کہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل ہوتے ہیں اور کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں جو زندہ رہنے کے قابل نہیں ہوتے.جیسے ہندوستا ن میں شودروں کی کثرت تھی مگر برہمنوں اورکھشتریوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ان لوگوں کا کوئی حق نہیں کہ دنیا میں زندہ رہیں.یہ اگر مرتے ہیں تو بیشک مریں.چنانچہ انہوں نے لوٹ ما رشروع کردی اورشودروں کا کوئی حق متمدن زندگی میں تسلیم نہ کیاگیا.پھر بعض لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ اس مصیبت کا علاج صدقہ و خیرات ہے.جن کے پاس زیادہ مال ہو انہیں چاہیے کہ و ہ غر باء کی مدد کردیا کریں.غرض مختلف تدابیر اپنے اپنے رنگ میں اختیار کی گئیں.مگر کوئی بھی تدبیر ایسی کامل نہیں تھی جس سے اس مصیبت کو کلیۃً دورکیا جاسکتا.اسلام ہی تھا جس نے اس سوال کا صحیح معنوں میں حل کیا.اوراس نے فیصلہ کیا کہ اس قسم کا صدقہ کوئی چیز نہیں ایک معین اور منظم صورت میں غر با ء کی بہبودی کاانتظام ہوناچاہیے چنانچہ اس کے لئے اس نے زکوٰۃ اور عُشر کا طریق جاری کیا.جس میںامر اء سے باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت روپیہ لیا جاتااورغرباء کی
ضروریات پر صرف کیاجاتا.پھر اس نے خبر گیری کے طریق بھی معین کردیئے یوں تو پہلے بھی حکومتیں ٹیکس لیا کرتی تھیں.مگر ان کا خرچ معین نہیں تھا.اسلام نے اول آمد پر ایک مقرر حصہ اداکرنا واجب کردیااوراس امر کافیصلہ کیا کہ امر اء سے بہر حال اتنا روپیہ لے لیاجائے.دوسری طرف اس نے خرچ معیّن کردیا اوراس طرح غرباء کے گذارہ کی صورت پیداکردی.آمد اور خرچ سے تعلق رکھنے والے یہ دو نقطے ایسے ہیں جو اسلام سے پہلے اَورکسی قوم میں نہیں پائے جاتے تھے زکوٰۃ یہودیوں میں بھی ہے مگر ناقص صورت میں(دیکھو خروج باب ۲۳ آیت ۱۰و۱۱).لیکن ا سلام نے اس قانون کو مدون کرکے ایک ایسا عظیم الشان نظام قائم فرمایا جو ہمارے لئے ہرتاریکی کی گھڑی میں شمع ہدایت کا کام دیتاہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کے اس نظام کی پوری اہمیت نہ سمجھی اورلدھیا نے کے بڈھے دریا کی طرح یہ نظام بھی ریت میں غائب ہوگیا.اورمسلمان اس سے کلیۃً غافل ہوگئے.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آکر پہلاکام ہی یہ کیا تھا کہ جائیدادوالوں کو بے جائیداد والوں کا بھائی بنادیا.انصارؓ جائیدادوں کے مالک تھے اور مہاجرؓ بے جائیداد تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارؓ اورمہاجرینؓ دونوں میں مواخات قائم فرما دی.اورایک ایک جائیدا دوالے کو ایک ایک بے جائیداد والے سے ملادیا اوراس میں بعض لوگو ںنے اتنا غلّو کیا کہ دولت تو الگ رہی بعض کی اگر دوبیویا ں تھیں توانہوں نے اپنے مہاجر بھائیوںکی خدمت میں یہ پیشکش کی کہ وہ ان کی خاطر اپنی ایک بیوی کو طلاق دینے کے لئے تیار ہیں.وہ ان سے بے شک شادی کرلیں(بخاری کتاب مناقب الانصار باب اخاء النبی بین المہاجرین والانصار).یہ مساوات کی پہلی مثال تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں جاتے ہی قائم فرمائی.کیونکہ حکومت کی بنیاد دراصل مدینہ میں ہی پڑی تھی.اس زمانہ میں زیادہ دولتیں نہ تھیں یہی صورت تھی کہ امیر اورغریب کو اس طرح ملا دیاجائے کہ ہرشخص کو کھانے کے لئے کوئی چیز مل سکے.پھر ایک جنگ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو استعمال فرمایا.گواس کی شکل بدل دی.ایک جنگ کے موقعہ پر آپ کو معلوم ہواکہ بعض لوگوں کے پاس کھانے کو کوئی چیز نہیں رہی یااگر ہے توبہت ہی کم اوربعض کے پاس کافی چیز یں ہیں.تویہ صورت حالات دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس جس کے پاس جوکوئی چیز ہے وہ لے آئے اورایک جگہ جمع کردی جائے.چنانچہ سب چیزیں لائی گئیں اورآپ نے راشن مقرر کردیا(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب حمل الزاد فی الغزو).گویایہاں بھی وہی طریق آگیا کہ سب کو کھانا ملناچاہیے.جب تک ممکن تھا سب لوگ الگ الگ کھاتے رہے مگر
جب یہ امر ناممکن ہوگیا اورخطرہ پیداہوگیا کہ بعض لوگ بھوکے رہنے لگ جائیں گے تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اب تمہیں علیحدہ کھانے کی اجازت نہیں اب سب کوایک جگہ سے برابر کھاناملے گا.صحابہؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر ہم نے اس سختی سے عمل کیا کہ اگر ہمارے پاس ایک کھجور بھی ہوتی توہم اس کا کھانا سخت بددیانتی سمجھتے تھے اوراس وقت تک چین نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس کو سٹور میں داخل نہیں کردیتے تھے.یہ دوسرانمونہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھایا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دولت بھی آئی اورخزانوں کے منہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لئے کھو ل دیئے.مگراللہ تعالیٰ چاہتاتھا کہ اس بار ہ میں تفصیلی نظام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہو تالوگ یہ نہ کہہ دیں کہ یہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی.کوئی اَورشخص اسے جاری نہیں کرسکتا.چنانچہ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے ہاتھ سے ایک نمونہ قائم کردیا اوراُدھر مدینہ پہنچتے ہی انصارؓ نے اپنی دولتیں مہاجرین کے سامنے پیش کردیں.مہاجرین نے کہا ہم یہ زمینیں مفت میں لینے کے لئے تیار نہیں ہم ان زمینوں پر بطور مزارع کام کریں گےاور تمہاراحصہ تمہیں دیں گے.لیکن یہ مہاجرین کی طرف سے اپنی ایک خواہش کا اظہار تھا.انصارؓ نے اپنی جائیدادوں کے دینے میںکوئی پس و پیش نہیں کیا.یہ ایسی ہی بات ہے.جیسے گورنمنٹ راشن دے توکوئی شخص نہ لے.اس سے گورنمنٹ زیر الزام نہیں آئے گی.یہی کہا جائے گا کہ گورنمنٹ نے توراشن مقرر کردیا تھا.اب دوسرے شخص کی مرضی تھی کہ و ہ چاہے لیتایا نہ لیتا.اسی طرح انصار ؓ نے سب کچھ دےدیا تھا.یہ الگ بات ہے کہ مہاجرینؓ نے نہ لیا.غرض عملی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کام اپنی زندگی میں ہی شروع فرما دیا تھا.یہاں تک کہ جب بحرین کا بادشاہ مسلمان ہوا توآپؐ نے اسے ہدایت فرمائی کہ تمہارے ملک میں جن لوگوں کے پاس گذارہ کے لئے کوئی زمین نہیں ہے تم ان میں سے ہرشخص کو چار درہم او رلباس گذارہ کے لئے دو تاکہ وہ بھوکے اورننگے نہ رہیں(السیرۃ النبویۃ برحاشیۃ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳ص ۶۹).اس کے بعد مسلمانوں کے پاس دولتیں آنی شروع ہوگئیں.چونکہ مسلمان کم تھے اور دولت زیادہ تھی اس لئے کسی نئے قانون کے استعمال کی اس وقت ضرورت محسوس نہ ہوئی.کیونکہ جو غرض تھی و ہ پوری ہورہی تھی.اصول یہ ہے کہ جب خطرہ ہو تب قانون جاری کیا جائے.اورجب نہ ہواس وقت اجازت ہے کہ حکومت اس قانون کو جاری کرے یا نہ کرے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اورمسلمان دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلنے شرو ع ہوئے تو اس وقت غیر قومیں بھی اسلام میں شامل ہوگئیں عرب لوگ تو ایک جتھہ اورایک قوم کی شکل میںتھے اوروہ آپس میں مساوات بھی قائم رکھتے تھے جب اسلام مختلف گوشوں میں پہنچا اور مختلف قومیں
اسلام میں داخل ہونی شروع ہوئیں توان کے لئے روٹی کاانتظام بڑا مشکل ہوگیا.آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کی مرد م شماری کرائی اور راشننگ سسٹم قائم کردیا.جوبنو امیہ کے عہد تک جاری رہا.یورپین مؤرخ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ سب سے پہلی مردم شماری حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کرائی تھی.اوروہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے یہ سب سے پہلی مردم شماری رعایا سے دولت چھیننے کے لئے نہیں بلکہ ان کی غذا کا انتظام کرنے کے لئے جاری کی تھی.اَورحکومتیں تواس لئے مردم شماری کراتی ہیں کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں اورفوجی خدمات بجالائیں.مگر حضرت عمرؓ نے اس لئے مرد م شماری نہیں کرائی کہ لوگ قربانی کے بکرے بنیں بلکہ اس لئے کرائی کہ ان کے پیٹ میں روٹی ڈالی جائے.چنانچہ مردم شماری کے بعد تمام لوگوںکو ایک مقررہ نظام کے ماتحت غذاملتی اور جو باقی ضروریات رہ جاتیں ان کے لئے انہیں ماہوارکچھ رقم دے دی جاتی(تاریخ الیعقوبی جلد ۲ صفحہ ۱۵۰ ایام عمر بن الخطاب و طبری جلد ۵ صفحہ ۲۰۳ حملہ الدرة و تدوین الدواوین) اوراس بار ہ میں اتنی احتیاط سے کام لیاجاتا کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب شام فتح ہوااوروہاں سے زیتون کا تیل آیا توآپ نے ایک دفعہ لوگوں سے کہا کہ زیتوں کے استعمال سے میرا پیٹ پھو ل جاتاہے.تم مجھے اجازت دو تومیں بیت المال سے اتنی ہی قیمت کاگھی لے لیا کروں(سیرۃ ابن عمر الخطاب لابن الجوزی باب التاسع و الثلاثون فی الذکر قولہ و فعلہ فی بیت المال ص ۹۳).غرض یہ پہلا قدم تھا جو اسلام میں لوگوں کی ضروریات کو پوراکرنے کے لئے اٹھا یاگیا.اورظاہر ہے کہ اگر یہ نظام قائم ہوجائے تواس کے بعد کسی اَورنظام کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ سارے ملک کی ضروریات کی ذمہ دار حکومت ہوگی.ان کاکھانا.ان کا پینا.ان کا پہنناان کی تعلیم ان کی بیماریوں کا علاج اوران کی رہائش کے لئے مکانات کی تعمیر یہ سب کاسب اسلامی حکومت کے ذمہ ہوگا.اوراگر یہ ضروریات پوری ہوتی رہیں.توکسی بیمہ وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی.مگربدقسمتی سے بعد میں آنے والوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ یہ بادشاہ کی مرضی پر منحصر ہے.وہ چاہے توکچھ دے دے اورچاہے تو نہ دے.اور چونکہ اسلامی تعلیم ابھی پورے طورپر راسخ نہیںہوئی تھی وہ لوگ پھر قیصرو کسریٰ کے طریق کی طرف مائل ہوگئے.یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ وہ بڈھا دریاجو ریت میں غائب ہوچکاتھا.اللہ تعالیٰ نے اسے پھرمیرے دل میںازسرنو جاری کیا.میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے قرآن کریم کی یہ تعلیم لوگوں کے سامنے رکھی.مسلمان مجھ سے کثرت کے ساتھ پوچھا کرتے ہیں.کالجوں کے پروفیسر اور طلباء بھی سوال کیا کرتے ہیں کہ اگراسلامی تعلیم یہی تھی تو پھر یہ غائب کیوں ہوگئی ؟ اورمیں ہمیشہ انہیں کہاکرتاہوں کہ اس تعلیم کا غائب ہوناہی بتاتاہے کہ یہ الٰہی تعلیم تھی.اگریہ انسانی تعلیم ہوتی تو لوگوں کے دلوں میں ضرور قائم رہتی.کیونکہ انسانی تعلیم کو قبول
کرنے کے لئے لوگوں کے دماغ تیار ہوچکے ہوتے ہیں اورماحول مناسب ہوتاہے.پس اس کا غائب ہونا ہی بتارہاہے کہ یہ تعلیم خدا کی طرف سے آئی تھی.وہ ایک دفعہ لہر کی صورت میں اٹھی اورپھر اس میں انحطاط واقع ہوگیا.اب مقد ریہ ہے کہ پھر دوبارہ اس کی لہر بلند ہو اور اس کی دوسری لہر پہلی لہرسے زیادہ اونچی ہو.قانون قدرت پر غورکرکے دیکھ لو.اس میں یہی نظار ہ نظر آئے گا.بچپن میں جب ابھی میں نے پہاڑنہیں دیکھاتھا میں یہ خیا ل کیاکرتاتھا کہ پہاڑ مینار کی طرح ہوتاہوگا اوررسہ پکڑ کر اوپر چڑھنا پڑتاہوگا مگرجب میں پہلی دفعہ شملہ گیا تو میں نے دیکھا کہ پہلے ایک ٹیلہ آتا ہے اس کے بعد دوسراٹیلہ آتا ہے.پھر تیسراٹیلہ آتا ہے.اورہرٹیلہ پہلے ٹیلے سے زیادہ بلندہوتاہے.مگرہرٹیلے کے بعد ایک انحطاط بھی ہوتاہے.جب انسان پہلے ٹیلے پر قدم رکھتاہے تواس کے بعد اسے یہ محسوس ہوتاہے کہ میں اب نیچے جارہاہوں.مگر درحقیقت وہ پہلی سطح سے اونچا ہورہاہوتاہے.پھر دوسرے ٹیلے کے بعد جب نیچے اترتاہے.توپھر اس کے دل میں یہ خیا ل پیدا ہوتاہے کہ اب میں نچلی طرف جارہاہوں مگرحقیقت میں اس کا قدم اونچا اٹھ رہاہوتاہے.اسی طرح قدم بقدم ارتفاع اورانحطاط کے دوروں میں سے گذرتے ہوئے وہ بہت بلند پہاڑپر چڑھ جاتاہے.جس طرح قانون قدرت میں ہمیں یہ نظارہ نظر آتاہے.اسی طرح انسانی دماغوں کا ارتقاء بھی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ا س وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست فیوض حاصل کرنے کے نتیجہ میں یہ تعلیم لوگوں نے اپنا لی.مگر چونکہ دماغی ارتقاء بھی لہروں کی صورت میں چلتاہے اس لئے پہلی لہر کے بعد ا س میں ایک انحطاط کی صورت واقع ہوگئی.اب دوسری لہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے.اوریہ لہر قانون قدرت کے مطابق پہلی لہر سے زیادہ بلندہوگی.مگر بہرحال ہرلہر کے بعد ایک انحطاط بھی آتاہے اورلوگ اصل تعلیم کو بھول جاتے ہیں.جب تک یہ چیز قائم ہے اس وقت تک کسی انشورنس وغیرہ کی ضرورت نہیں رہتی.انشورنس کی غرض آخر کیا ہوتی ہے.یہی کہ اگرہم مر جائیں توہمارے بیوی بچوں کو روٹی ملتی رہے.کپڑا ملتارہے.سامانِ خوردونوش اورمکان ملتارہے.جب حکومت ان تمام چیز وںکی ذمہ وار ہوگی توانشورنس کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی.کیونکہ ساروں کومکان بھی مل رہاہوگا.غذابھی مل رہی ہوگی.کپڑابھی مل رہاہوگا.ان کی تعلیم کابھی انتظام ہورہاہوگا.اوران کی بیماریوں کا علاج بھی ہورہاہوگا.یہی وہ قومی اخراجات ہیں جن کی ادائیگی کے لئے اسلام نے زکوٰۃ اور صدقہ و خیرات کا وسیع نظام جاری فرمایا ہے.اورمومنوں کی علامت ہی اس نے یہ بتائی ہے کہ وہ زکوٰۃ اداکرتے ہیں.اوراس طرح مخلوق کی خدمت کرکے خالق کی محبت کوحاصل کرتے ہیں.دنیا میں بہترین ذریعہ کسی کی محبت حاصل کرنے کا یہی ہوتاہے کہ اس کے کسی عزیز سے محبت کی جائے ریلوے سفرمیں روزانہ یہ نظارہ
نظر آتاہے کہ پاس بیٹھے ہوئے دوست کے بچہ کو ذراپچکار دیں یااسے کھانے کے لئے کوئی چیز دےدیں توتھوڑی دیر کے بعد ہی اس کاباپ اس سے محبت کی باتیں کرنے لگ جاتاہے کہ گویا وہ اس کا بہت پرانا دوست ہے.یہی طریق روحانی دنیا میں بھی جاری ہے.جب انسان بنی نوع انسان کی بھوک اور ان کے افلاس کودورکرنے کے لئے اپناروپیہ خرچ کرتاہے تو خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ چونکہ یہ میرے پیاروں کی خدمت کرتاہے اس لئے اسے بھی میرے پیاروں میں داخل کرلیا جائے.حدیثوں میں آتاہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ دیکھو میں بیمار تھا مگر تم لوگ میری عیادت کے لئے نہ آئے.میں بھوکاتھا.مگرتم نے مجھے کھانا نہ کھلا یا.میں ننگا تھا.تم نے مجھے کپڑا نہ دیا.اس پر وہ بندے کہیں گے کہ اے ہمارے رب!توکس طرح بیمار ہوسکتاتھا یاتوکس طرح بھوکااورننگاہو سکتاتھا تُوتو ان تمام نقائص سے منزہ ہے.ا س پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب میرے بندوں میں سے بعض لوگ بیمار تھے یا بعض لوگ بھوکے اورننگے تھے اور تم نے ان کی تیمار داری نہ کی.نہ انہیں روٹی کھلائی اورنہ ان کا ننگ ڈھانکنے کے لئے انہیں کپڑادیا توتم نے انہیں ان چیزوں سے محروم نہیں کیا بلکہ مجھے محروم کیا (مسلم کتاب البر و الصلة باب فضل عیادة المریض).پس زکوٰۃ اسلام کا ایک اہم ترین رکن ہے جس کو نظر انداز کرنا انسان کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنادیتاہے.کیونکہ ایساانسان غرباء کے حقوق کو نظر انداز کرنے والاہوتاہے.پھر فرماتا ہے مومنوں کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وَھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ.وہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہیں.یعنی وہ قربانیاں کرتے اورکرتے چلے جاتے ہیں.اوراس امر کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان قربانیوں کا پھل انہیں زندگی میں بھی ملتاہے یا نہیں ملتا.کیونکہ وہ آنے والی زندگی پر یقین رکھتے ہیں اوریہ یقین ان کے اندر اتنی جرأت پیداکردیتاہے کہ وہ قربانیوں کی آگ میں اپنے آپ کو بلادریغ جھونک دیتے ہیں.دنیا میں بھی جب ایک سپاہی لڑائی میں جاتاہے توآخر کون سے فائدہ کے لئے جاتاہے.ہر شخص سمجھتاہے کہ میں ماراجائوں گا اوربسا اوقات وہ ماراجاتاہے مگرفائدہ اس کی قوم اٹھاتی ہے.اسی طرح ماں جب اپنے بچے کو اپنا خون چوسارہی ہوتی ہے تواسے کیا فائدہ حاصل ہورہاہوتاہے.دودھ کاایک ایک گھونٹ ماں کے خون سے بنتاہے.اس لئے ایک ایک گھونٹ جو بچے کے گلے سے اترتاہے وہ درحقیقت ماں کا خون ہوتاہے جسے وہ چوستاہے.اگرتمہاری ماں تمہارے منہ میں اپنا دودھ نہ ڈالتی.اگرتمہاری ماں بھی یہی کہتی کہ میں اپنا خون کیوں چوسنے دوں توتم زندہ نہیں رہ سکتے تھے.تمہاری ماں نے تمہیں اپنا خون دیا اس لئے کہ تم زندہ رہو.اب تمہاراکام یہ ہے کہ تم اپنا خو ن گرائو تاکہ تمہاری اولاد اور تمہاری قوم اور تمہاراملک زندہ رہے.
بدر کی جنگ میں جو صحابیؓ شہید ہوئے تھے ان صحابیوںؓ نے دنیا کاکون ساسکھ دیکھا تھا.انہوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑا اوراپنے رشتہ داروںکوچھوڑااپنے ساتھیوںکو چھوڑا اورپھر تیرہ برس تک کفار کے سخت ترین مظالم کا نشانہ بننے کے بعد ایک دُکھتے ہوئے دل کے ساتھ،ایک رِستے ہوئے زخم کے ساتھ انہوں نے مکہ کو بھی چھوڑدیا اس امید کے ساتھ کہ انہیں پھر مکہ کی زیارت نصیب ہوگی.مگرابھی ہجرت پر ڈیڑھ سال بھی نہیں گذراتھاکہ وہ اپنے وطن سے دور.پرانے وطن سے بہت دور اورنئے وطن سے بھی میلوں دور ایک تپتے ہوئے ریت کے جنگل میں کفار کی تلوار سے کٹ کٹ کر تڑپنے لگ گئے.ان کے سر ایک طر ف تھے اوردھڑ دوسر ی طرف.اگریہ لو گ بھی یہی کہتے کہ ہم نے قربانی کرکے کیا لینا ہے.پھل تودوسرے لوگوں نے کھانا ہے تواسلام کو وہ شان و شوکت جو بعد میں اسے حاصل ہوئی کہاں حاصل ہوسکتی تھی.اسی طرح جنگ اُحدکا ایک واقعہ ہے.جنگ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی ابن کعبؓ کو فرمایا کہ جائو اورزخمیوں کو دیکھو.و ہ دیکھتے ہوئے حضرت سعد بن ربیعؓ کے پاس پہنچے جو سخت زخمی تھے اور آخری سانس لے رہے تھے.انہوں نے ان سے کہا کہ اپنے متعلّقین اور اعزّاء کو اگر کوئی پیغام دینا ہوتو مجھے دے دیں.حضرت سعدؓ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میں منتظر ہی تھاکہ کو ئی مسلمان ادھر آئے توپیغام دوں.تم میرے ہاتھ میں ہاتھ دےکر وعدہ کرو کہ میراپیغام ضرور پہنچادو گے.اوراس کے بعد انہوں نے جو پیغام دیا و ہ یہ تھاکہ میرے بھائی مسلمانوںکو میراسلام پہنچا دینا اورمیری قوم اور میرے رشتہ داروں سے کہنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس خدا تعالیٰ کی ایک بہترین امانت ہیں.اورہم اپنی جانوں سے اس امانت کی حفاظت کرتے رہے ہیں.اب ہم جاتے ہیں اور اس امانت کی حفاظت تمہارے سپر د کرتے ہیں.ایسا نہ ہو کہ تم اس کی حفاظت میں کمزوری دکھائو(السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ غزوۃ احد).دیکھو ایسے وقت میں جب انسان سمجھتاہوکہ میں مررہاہوں.کیا کیا خیالات اس کے دل میں آتے ہیں.وہ سوچتاہے میری بیوی کاکیاحال ہوگا.میرے بچوں کو کون پوچھے گا.مگراس صحابیؓ نے کوئی ایسا پیغام نہ دیا.صرف یہی کہا.کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے ہوئے اس دنیا سے جاتے ہیں تم بھی اسی راستہ سے ہمارے پیچھے آجائو.ان لوگوں کے اند ریہی ایمان کی طاقت تھی جس سے انہوں نے دنیا کو تہ و بالاکردیا اورقیصروکسریٰ کی سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے.قیصر روم حیران تھا کہ یہ کو ن لوگ ہیں.کسریٰ نے اپنے سپہ سالار کو لکھا کہ اگر تم ان عربوں کو بھی شکست نہیں دے سکتے توپھر واپس آجائو اورگھر میں چوڑیاں پہن کر بیٹھو.یہ گوہیں کھانے والے لوگ ہیں ان کوبھی تم نہیں روک سکتے.اس نے جواب دیا کہ یہ توآدمی معلوم ہی نہیں
ہوتے.یہ توکوئی بلا ہیں.یہ تلواروں اورنیزوں کے اوپر سے کودتے ہوئے آتے ہیں.یہ جرأت مردوں پر ہی موقو ف نہیں.مجھے تو ایک ماں کی قربانی پر حیرت آتی ہے.حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں جب عراق میں قادسیہ کے مقام پر جنگ جاری تھی.توکسریٰ میدان جنگ میں ہاتھی لایا.اونٹ ہاتھی سے ڈرتاہے اس لئے وہ انہیں دیکھ کر بھاگتے تھے اور اس طرح مسلمانوں کو بہت نقصان ہوااوربہت سے مسلمان مارے گئے.آخر ایک دن مسلمانوں نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ ہو آج ہم میدان سے ہٹیں گے نہیں.جب تک دشمن کو شکست نہ دے لیں.ایک عورت حضرت خنساء اپنے چا ربیٹوںکولے کر میدان جنگ میںآئیں اوران کو مخاطب کرکے کہنے لگیں کہ پیارے بیٹو!تمہارے باپ نے اپنی زندگی میں ساری جائداد تباہ کردی تھی.اورمجھے مجبور کیا کہ میں اپنے بھائی سے کہو ں کہ وہ مجھے حصہ دے.چنانچہ میں اس کے پاس گئی.اس نے میرابڑا اعزاز کیا.بڑی دعوت کی اورپھر اپنی جائداد میں سے آدھی مجھے بانٹ دی.میں و ہ لے کرچلی گئی.توتمہارے باپ سے میں نے کہا.کہ اب تو آرام سے گذارہ کرو.مگر اس نے پھر اسے بھی برباد کردیا.اورپھر مجبور کرکے میرے بھائی کے پاس مجھے بھیجا.پھر میں اس کے پاس گئی.اس نے پھر میرابڑااعزازواحترام کیا.اورپھر بقیہ میں سے مجھے آدھی جائیداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اور پھر مجھے مجبور کیا کہ اپنے بھائی سے جاکر حصہ لوں.چنانچہ میں پھر بھائی کے پاس گئی اوراس نے پھر بقیہ جائداد بانٹ دی مگر وہ بھی تمہارے باپ نے برباد کردی اورجب تمہاراباپ مراتواس نے کوئی جائیداد نہ چھوڑی.میں اس وقت جوان تھی.تمہارے باپ کی کوئی جائیداد نہ تھی.پھر اپنی زندگی میں اس نے میرے ساتھ کو ئی حسن سلوک بھی نہ کیا تھا.اوراگر عرب کے رسم و رواج کے مطابق میں بدکارہوجاتی توکوئی اعتراض کی بات نہ تھی.مگر میں نے اپنی تمام عمر نیکی سے گذاری اب کل فیصلہ کن جنگ ہونے والی ہے.میرے تم پر بہت سے حقوق ہیں.کل کفر او ر اسلام میں مقابلہ ہوگا اگرتم فتح حاصل کئے بغیر واپس آئے.تومیں خدا تعالیٰ کے حضورکہوں گی کہ میں ان کو اپناکوئی بھی حق نہیں بخشتی.اس طر ح اس نے اپنے چاروں بیٹوںکو جنگ میں تیار کرکے بھیج دیا.اورپھر گھبراکر خود جنگل میں چلی گئی اوروہاں تنہائی میں سجدہ میں گرکر اورروروکر اللہ تعالی سے دعائیں مانگنے لگی.اوردعایہ کی کہ اے میرے خدا میں نے اپنے چاروں بیٹوں کو دین کی خاطر مرنے کے لئے بھیج دیاہے لیکن تجھ میںیہ طاقت ہے کہ ان کو زندہ واپس لے آئے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ مسلمانوں کو فتح بھی ہوگئی اوراس کے چاروں بیٹے بھی زندہ واپس آگئے (طبری والاستیعاب باب النساء و کناھن باب الخاء خنساء بنت عمرو السلمیة).یہ جرأت او ر بہادری ایمان بالآخرۃ ہی کا نتیجہ تھی.یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دنیا کی نجات اسلام سے وابستہ ہے اورہم خواہ مارے بھی
جائیں تب بھی پرواہ نہیں کیونکہ دنیا بچ جائے گی.اوراسلام کو غلبہ حاصل ہوجائے گا بیشک ایک کہنے والا کہہ سکتاہے کہ آج تواسلام کو کہیں غلبہ حاصل نہیں.مگراس تنزل کے زمانہ میں بھی ان لوگوں کی قربانیوں نے ہی مسلمانوں کویہ عظمت دی ہوئی ہے کہ اسلام کانام بوجہ اس کثرت کے جو مسلمانوں کوحاصل ہے دنیا کے تمام لوگ ادب کے ساتھ لینے پر مجبور ہیں.یہ رُعب مسلمانوں کو کہاں سے حاصل ہوا؟ انہی لوگوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں حاصل ہواہے جوبسا اوقات فاقہ سے رات کوسوئے اور بسا اوقات فاقہ سے ہی صبح کو اٹھے بسا اوقات اگران کی پگڑی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسری پگڑی نہیں ملتی تھی.جوتی پھٹی ہوئی ہوتی تھی توانہیں پہننے کے لئے دوسر ی جوتی نہیں ملتی تھی.یہ وہی رُعب ہے جو تمہارے باپ دادا کی قربانی کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہوا.کہتے ہیں نام بڑا ہوتا ہے کام بڑانہیں ہوتا.اب کام عام طور پر مسلمانوں کے چھوٹے ہیں.لیکن انہیں نام ایسا حاصل ہوگیاہے کہ سب لوگ ان سے ڈرتے ہیں.حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایاکرتے تھے کہ رستم کے گھر میں ایک د فعہ چو ر آگیا.رستم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے نکلا اوردونوں میں کُشتی شروع ہوگئی چور کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جس شخص کاوہ مقابلہ کررہاہے وہی رستم ہے.وہ یہ سمجھ رہاتھا کہ یہ کوئی رستم کا نوکر ہے.آخر مقابلہ کرتے کرتے چور غالب آگیا اوروہ سینہ پر چڑھ کر رستم کی گردن کاٹنے لگا.اتنے میں رستم نے یکدم شور مچادیا کہ ’’ آگیا رستم.آگیا رستم ‘‘اورچو ریہ سنتے ہی اس کے سینہ پرسے اتر کربھاگ گیا.حالانکہ اس نے رستم کو گرایاہواتھا.مگرچونکہ رستم کے نام کو ایک خاص رعب حاصل ہوچکا تھا اس لئے اس نے رستم کوتوگرالیا.مگررستم کے نام کا مقابلہ نہ کرسکا اوربھاگ گیا.توجولو گ قربانیاں کرنے والے ہوتے ہیں وہ دنیا میں اپنا نام چھوڑ جاتے ہیں.وہ مرجاتے ہیں مگر ان کانام ان کی اولادوں کی حفاظت کرتا چلا جاتاہے اورپھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اگلے جہان میں جوانہیں لازوال بدلہ ملے گا اس کاتوتصوربھی نہیں کیاجاسکتا.پس بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ مومنوں کایہ خاصہ ہے کہ وہ قربانیوں کے میدان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر کامل یقین ہوتاہے اوروہ سمجھتے ہیں کہ ہماری یہ قربانیاں ہماری قوم کو بھی عزت دیں گی اور خود ہمارے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی رضاکاموجب ہوں گی.گویا وہ وسیع نتائج جو آئندہ نکلنے والے ہوتے ہیں ان پر انہیں پورایقین ہوتاہے.اوروہ اس مقصد کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے.
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں لاتے.ہم نے ان کے اعمال کو ان کے لئے خوبصورت فَهُمْ يَعْمَهُوْنَؕ۰۰۵اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ لَهُمْ سُوْٓءُ الْعَذَابِ کرکے دکھا یا ہے پس وہ بہکے بہکے پھرتے ہیں.ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا اور وہ اخروی زندگی وَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ هُمُ الْاَخْسَرُوْنَ۰۰۶ میں سب سے زیادہ گھاٹاپانے والے ہوں گے.حلّ لُغَات.یَعْمَھُوْنَ.یَعْمَھُوْنَ عَمَہَ سے نکلاہے اور عَمَہَ یَعْمَہٗ عَمَھًا وَعُمُوْھِیَۃً وَعَمَھَانًا کے معنے ہوتے ہیں تَرَدَّدَفِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍاَوْ طَرِیْقٍ.گمراہی میں بھٹکا پھر ا اور کسی جھگڑے میں یاراستہ میں حیران ہوگیا.یعنی پوری طرح سمجھ نہ سکا کہ اپنے حق میں کیا دلیل دے اورکس راستہ کو اختیار کرے.علامہ زمخشری اپنی کتا ب ’’ کشاف ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عَمَہَ کا لفظ بھی عَمٰی کی طرح ہے.فرق صرف یہ ہے کہ یاء کے ساتھ جو عَمٰی ہے وہ آنکھوں کی بینائی کے فقدان اورعقل کی بینائی کے فقدان میں مشترک طورپر استعمال ہوتاہے وَالْعَمَہُ خَاصٌّ بِالْبَصِیْرَۃِ اور عَمِہَ جو ھ کے ساتھ ہوتاہے وہ عقل کی بینائی کے ساتھ مخصوص ہے.گویا اہل عرب یہ کبھی نہیں کہتے کہ فلاں شخص اَعْمَہَ الْعَیْنُ ہے(اقرب)مزید تفصیل کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر سورۃ یونس آیت ۱۲.تفسیر.فرماتا ہے.وہ لوگ جو اُخروی زندگی پر ایمان نہیں رکھتے ہم نے ان کے اعمال ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے بر ے اعمال کو بھی اچھا سمجھ رہے ہیں اور گمراہی میں بہکتے پھرتے ہیں.اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے کفار کی بدعملی اور ان کے انکار کی بنیادی وجہ آخرت کا انکار قرار دیا ہے اوربتایاہے کہ چونکہ یہ لوگ کسی جزاسزاکے قائل نہیں اس لئے انہیں اپنے اعمال کے متعلق کبھی فکرپیدا نہیں ہوتااورنہ صداقت پر غور کرنے اور اپنے اعمال و کردار کا جائزہ لینے کا انہیں کبھی احساس ہوتاہے.اگر انہیں یقین ہوتاکہ ہمیں ایک روز اپنے اعمال کی جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضرہوناپڑے گااورہمارے ناپسندیدہ اعمال ہمیں گرفت میں لے آئیں گے توان کا رویہ بالکل اَورہوتااوران کے اند رمتانت اور سنجیدگی کے جذبات نمایاںہوتے.مگر اب چونکہ گرفت کا احساس ان کے اند رنہیں پایاجاتا اس لئے ان کے دل ایسے غبی ہوگئے ہیں کہ وہ اپنے نا رواافعال میں
بھی ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں.اوران کو قابل نفرت چیز قرار دینے کی بجائے قابل تعریف سمجھنے لگ گئے ہیں.آخر دنیا میں کیوں کوئی شخص کسی سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ نہیں ڈالتا.کیوں وہ جلتی ہوئی آگ میں نہیں کود جاتا.کیوں وہ شیروں کی کچھار میں اپنے آپ کو نہیں پھینک دیتا.کیوں وہ زہر کاجام اپنے ہونٹوں سے نہیں لگاتا.اسی لئے کہ وہ سمجھتاہے کہ اگرمیں نے سانپ کے سوراخ میں اپنا ہاتھ ڈالاتومیری موت یقینی ہے.اگر میں جلتی ہوئی آگ میں کوداتومیراجھلس جانایقینی ہے.اگر میں نے اپنے آپ کو شیروں کی کچھا رمیں ڈال دیاتو میری ہلاکت یقینی ہے اگر میں نے زہر کا پیالہ اپنے منہ سے لگایا تومیرامرجانا یقینی ہے.پھر اگر ایسا ہی ایما ن کسی شخص کا آخرت پر بھی ہوتووہ کب کسی گناہ کا دلیری کے ساتھ ارتکاب کرسکتاہے.گناہوں پر دلیری اورنبیوں کے انکار کی بڑی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آخرت کا یقین دل میں نہیں ہوتا.انسان بڑی دلیری سے کہہ دیتاہے کہ ’’ ایہہ جہان مٹھا اگلا کِن ڈٹھا ‘‘ یعنی اس جہان کے تومزے ہمیں لوٹنے دو.اگلا جہان کس نے دیکھا ہے.کہ ایک ان دیکھے دن کے لئے ابھی سے ہم ان لذائذ کوترک کردیں.غرض اعمال کی خوبی یابرائی صرف جزاسزا کے عقیدہ سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس جگہ فرمایا ہے کہ جو لوگ آخرت کونہیں مانتے وہ اپنے برے اعمال کو بھی اچھا سمجھتے ہیں یعنی نیکی اور بدی میں وہ اصولاً کوئی فرق نہیں کرسکتے کیونکہ جب نتیجہ کوئی نہیں.نہ اچھے کام کاکوئی انعام ہے اور نہ برے کام کی کوئی سزاہے تو پھر کسی فعل کا اچھا اور کسی کابراہوناکیا معنے رکھتاہے.یہ آیت اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ تمام اعمال نیت کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں.یوں توکافر بھی بعض اعمال ایسے کرتاہے جومومنوں کے اعمال کے مشابہ ہوتے ہیں لیکن چونکہ اس کے ساتھ نیت نیک نہیں ہوتی اورنہ خدا تعالیٰ کی رضامندی مطلوب ہوتی ہے اس لئے اس کاعمل اسے کسی انعام کا مستحق نہیں بناتا.لیکن مومن کے عمل کا شاندار نتیجہ نکلتاہے کیونکہ مومن کے عمل کے ساتھ نیت نیک بھی شامل ہوتی ہے اورخدا تعالیٰ کی رضاکی جستجو بھی اس کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے.زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ.پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ان کے برے اعمال خدا تعالیٰ ہی ان کو خوبصورت کرکے دکھاتاہے تو پھر ان کا قصور کیاہوا.سواس بارہ میں یاد رکھنا چاہیے کہ درحقیقت یہ خدا تعالیٰ کی ایک سنت ہے او راس میں انسانی ترقی کے بہت سے راز مضمر ہیں.کہ جب کوئی شخص کچھ مدت تک ایک کام کرتارہتاہے تواس کوا س کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اور وہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے.اوریہاںاسی قانون قدرت
کی طرف اشارہ ہے نہ کہ کسی خاص تقدیر کی طرف.اوریہ بتایاگیا ہے کہ چونکہ انہوں نے سچے راستہ کو چھوڑ کر غلط راستہ اختیار کرلیاتھا اورانسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ کوئی کام ایک لمبے عرصہ تک کرتاچلاجاتاہے تو اس کام کی محبت اس کے دل میں پیداہوجاتی ہے اوروہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے.اس لئے انہیں بھی اب اپنی بد عملی خوبصورت دکھائی دینے لگی ہے.اور چونکہ فطرت انسانی کا خدا تعالیٰ ہی خالق ہے اس لئے زَيَّنَّا لَهُمْ اَعْمَالَهُمْ فرماکر اسے خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیاہے.ورنہ اس کے یہ معنے نہیں کہ خدا تعالیٰ انہیں برے اعمال اچھے کرکے دکھاتاہے.بلکہ وہ خود فطرت کی اعلیٰ درجہ کی خوبی کا غلط رنگ میں استعمال کرکے برے اعمال کوبھی اچھے سمجھنے لگ جاتے ہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے آگ خدا تعالیٰ نے اس لئے بنائی ہے کہ اس سے کھانا تیار کیا جائے یاسردی سے بچائو کاسامان مہیا کیا جائے.لیکن اگر کوئی شخص آگ میں گرکر اپنے آپ کو جلا لے تویہ اس کا اپنا قصور ہوگا آگ کو پیداکرنے والے خدا کاقصورنہیں ہوگا.اسی طرح خدا تعالیٰ نے انسانی ترقی کے لئے یہ قانون بنایا ہے کہ جوشخص کسی کام کاعادی ہو جاتا ہے رفتہ رفتہ اسے اچھا سمجھنے لگ جاتاہے اوراس سے اسے ایک طبعی موانست پیداہوجاتی ہے.لیکن اگر کچھ لوگ اس قانون کو اس رنگ میں استعمال کریں کہ وہ برائیوں کا ارتکاب شروع کردیں اوراس قانون کے نتیجہ میں انہیں اپنی برائیاں ہی حسین نظر آنے لگیں توا س میں خود ان کا اپنا ہی قصور ہوگا صانع فطرت پر اس سے کو ئی اعتراض پیدا نہیں ہوگا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص نیک عمل کرتاہے تو خدا تعالیٰ کے ملائکہ اس کے قلب پر ایک سفید نقطہ لگادیتے ہیں.دوسرانیک عمل بجالاتاہے تودوسراسفید نقطہ لگادیتے ہیں یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے اس کاتمام دل نو رانی ہو جاتا ہے اورہرقسم کی بدی اس میں سے دو رہوجاتی ہے.اس کے بالمقابل جب کوئی شخص بدی کرتاہے توفرشتے اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورجب و ہ دوسری بدی کرتاہے تودوسراسیاہ نقطہ لگادیتے ہیں اورپھر اگروہ بدیوں میں بڑھتاجائے توان نقطوں کی تعداد بھی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کاتمام دل تاریک ہو جاتا ہے اوراس کی نیکیوں کا خرمن جل کرراکھ ہو جاتا ہے(مسلم کتاب الایمان باب أن الاسلام بدأ غریبا).یہ حدیث بھی اسی قانون فطرت کی تشریح ہے کہ جب کو ئی شخص نیکیوں پر دوام اختیار کرتاہے تو نیکی اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہے.اورجب بدیوں پر دوام اختیار کرتاہے توبدیاں اس کے جسم کا ایک حصہ بن جاتی ہیں.اورجوچیز انسان کے جسم کا ایک حصہ بن جائے وہ اسے اچھی ہی دکھائی دیتی ہے بری نظر نہیں آتی.اگر اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان پر رحم کرتے ہوئے انسانی فطرت میں یہ بات نہ رکھ دیتاتونیکی اختیار کرنایاکسی کام میں دوام اختیار کرنا اس کے لئے بڑا مشکل ہوتا.مگر
اس قانون کی وجہ سے نیکیوں میں ترقی کرنے کاسفر بڑاآسان ہوگیاہے.اورہرعمل اس سے اگلے عمل کو آسان تربنادیتاہے.آخر ایک ماہر فن کی کیوں تعریف کی جاتی ہے اسی لئے کہ مسلسل ایک کام کرنے کی وجہ سے وہ اپنے اند ر ایک ایسی قابلیت پیداکرلیتا ہے کہ اس فن سے اسے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے اوروہ اس میں دوسروں سے آگے نکل جاتاہے.اگراللہ تعالیٰ انسانی فطرت میں یہ ملکہ نہ رکھ دیتا کہ مسلسل کام کے نتیجہ میں اسے اپنے کام سے ایک مناسبت پیداہوجاتی ہے توکوئی شخص بھی اپنے فن میں ترقی نہ کرسکتا.یہی قانون نیکی اوربدی کے میدان میں بھی جاری ہے.ایک نیک انسان پہلے اپنے نفس پر بوجھ محسوس کرتے ہوئے کسی نیکی کی طرف اپنا قدم بڑھاتاہے.مگررفتہ رفتہ وہی نیکی اس کے رگ و ریشہ میں اس طرح سرایت کرجاتی ہے کہ اس کاترک کرنا اس کے لئے ناممکنات میں سے ہو جاتا ہے.اسی طرح جب کوئی شخص بدی میں اپنے آپ کو ملوث کرنا شروع کردیتاہے توخواہ پہلی بدی اس کے دل میں اضطراب پیداکردے مگر رفتہ رفتہ وہی بدی اس کی غذابن جاتی ہے جس کو چھوڑنا اس کے لئے بڑادوبھر ہوتاہے.غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی قانون کی طرف اشارہ فرمایا ہے اوربتایاہے کہ چونکہ ان لوگوں نے آخرت کا انکار کردیا ہے.جس کی وجہ سے انہیں کسی گرفت کاخوف نہیں رہا.اس لئے ان کے دلوں میں گناہوں پر دلیری پیداہوگئی ہے اورپھر متواترگناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر ایسازنگ لگ گیا ہے کہ وہ اپنے برے افعال کو بھی اچھاسمجھنے لگ گئے ہیں.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دفعہ ایک چور علاج کرانے کے لئے آیا.توآپ نے اسے وعظ و نصیحت کرنی شرو ع کی کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہاتھ پائوں اس لئے نہیں دیئے کہ تم ان سے حرام روزی کھایاکرو.بلکہ اس لئے دیئے ہیں کہ تم ان کے ذریعے حلال روزی کما کر کھائو.تم چوری کرنا چھو ڑکیوں نہیں دیتے.اورکیوں حلال روزی نہیں کماتے.جب آپ نے اسے یہ وعظ و نصیحت کی تواس کی آنکھیں غصے کی وجہ سے سرخ ہوگئیں.اورکہنے لگا.اچھامولوی صاحب اگر یہ حلال کی روزی نہیں توپھر اَورکونسی حلال کی روزی ہے.آپ لوگ میٹھی نیند سورہے ہوتے ہیں اورہم مارے مارے پھر رہے ہوتے ہیں.اگر کسی کوہمارے متعلق علم ہوجائے تووہ ہمیں گولی مارکر مار دے.ہم اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈا ل کرچوری کرتے ہیں.پھراس سے بڑھ کر اورکونسی حلال روزی ہوسکتی ہے ؟حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے سمجھا کہ اسے چوری کی عادت پڑ چکی ہے اور یہ کام کرتے کرتے اس کی فطرت اتنی مسخ ہوچکی ہے کہ اب یہ کام اس کی نگاہ میں برانہیں رہا.اس لئے اب بحث کے رنگ میں سمجھانے سے کوئی خاص فائدہ اسے نہیں ہوسکتا.چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ میں نے بات کو
ٹلادیا.اورادھر ادھر کی باتیں شروع کردیں تاکہ یہ بات اس کے ذہن سے نکل جائے.جب کچھ دیر گذر گئی تومیں نے اس سے پوچھا کہ تم چوری کس طرح کرتے ہو؟اس نے کہا کہ اکیلا آدمی چوری نہیں کرسکتا بلکہ ہم پا نچ سات آدمی مل کرچوری کرتے ہیں.ان میں سے ایک آدمی گھر کا راز دار ہوتاہے اوروہ عام طور پر سقّہ یا چوہڑہ وغیرہ ہوتاہے کیونکہ راز دار کے بغیر چوری نہیں ہوسکتی.وہی کمروں او ردروازوں کے متعلق بتاتا ہے اور وہی اس بات کے متعلق اطلاع دیتاہے کہ نقدی اورزیورات کہاں ہیں.اس کے بعد ایک ایسے آدمی کی ضرورت ہوتی ہے جسے سیندھ لگانی آتی ہواوروہ ایسے طور پر اوزاروںکواستعمال کرے کہ سیندھ لگانے کی آواز پیدانہ ہواوراس کی آوازسے گھر والے بیدارنہ ہوجائیں.پھر ایک تیسراآدمی ایساہوناچاہیے جو تالے وغیرہ کھولنے میں مشاق ہو.جب دوسراآدمی سیندھ لگالیتا ہے تو وہ ایک طرف ہو جاتا ہے اورپھر اس تیسرے آدمی کاکام شروع ہو جاتا ہے اوروہ صندوقوں کے تالے کھولتاجاتاہے اورپھرایک چوتھا آدمی ایساہوناچاہیے جو کہ ایسے طورپر چلنے میں مہارت رکھتاہوکہ اس کے پائوں کی آہٹ محسوس نہ ہو.تیسراآدمی تالے کھول کر اورسامان نکال کر چوتھے آدمی کو دیتاجاتا ہے.اوروہ باہروالوںکو پکڑاتا جاتاہے.پھر ایک پانچویں آدمی کی یہ ڈیوٹی ہوتی ہے کہ وہ گلی کے سرے پر کھڑارہے اوراگرکسی شخص کو آتا جاتادیکھے توسیٹی بجادے یا کوئی اوراشارہ کردے تاکہ سب ہوشیار ہوجائیں.پھر چھٹا شخص ایساہوناچاہیے جو سفید کپڑے پہنے ہوئے ہو او رکسی کو اس کے چلنے پھرنے پر شک نہ گذرے.کیونکہ ہم تو ننگ دھڑنگ ہوتے ہیں اورہمیں کوئی دیکھ لے تو یقیناً ہم پر چور ہونے کا شبہ کرے لیکن یہ آدمی ایسے کپڑوں میں پھر تاہے کہ کسی کو اس پر شک نہیں گذرسکتا.ہم نقدی اورزیورات وغیرہ اس کے سپرد کردیتے ہیں.وہ نہایت اطمینان سے مال لے کر چلا جا تاہے.اورساتویں شخص کو جو سنار ہوتاہے دےدیتاہے.جو سونے کو اورہیرے اورجواہرا ت کو لاکھ سے جداکرتاہے اور اسے پگھلا کرایک نئی شکل دےدیتاہے.اوراس سونے کو آگے بیچتاہے اورپھر ہم سب آپس میں برابر تقسیم کرلیتے ہیں.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے اسے کہا کہ اگر تمہاری اتنی محنت کے بعد وہ سنا ر تمہارا سونا کھاجائے توپھر تم کیاکرو.اس پر بے اختیار اس چور کے منہ سے نکلا کہ کیا وہ اتنا حرام خور ہو گا کہ دوسرے کا مال کھا جائے گا.میں نے کہا.بس اب تم سمجھ گئے ہو.معلوم ہواکہ دوسروں کامال کھانا حرام ہے اور تمہاری فطرت بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے مگر چوری کی عادت نے تمہاری فطرت کو ایسا مسخ کردیا ہے کہ تم اس کام کو بھی حلال کی کمائی سمجھنے لگ گئے ہو.مگرجہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جو شخص ایک لمبے عر صہ تک کسی فعل کا ارتکاب کرتارہتاہے وہ رفتہ رفتہ اسے خوبصورت نظر آنے لگتاہے وہاںاس کا ایک یہ بھی قانون ہے کہ کسی برے کام کا اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا.
چنانچہ فرماتا ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں اپنے برے اعمال میں لذت آرہی ہے اوروہ انہیں اچھا سمجھ رہے ہیں پھر بھی یہ ان اعمال کے بدنتائج سے محفوظ نہیں رہ سکتے بلکہ انہیں دنیا میں بھی اپنے برے اعمال کی وجہ سے رسواہونا پڑے گا.او راُخر وی زندگی میں بھی وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانےوالے ہوں گے.وَ اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ۰۰۷ اورتجھ کو یقیناً قرآن اس (ہستی) کی طرف سے مل رہاہے جو بہت حکمت والی (اور )بہت جاننے والی ہے.حلّ لُغَات.تَلَقّٰی تَلَقّٰی کے معنے براہ راست منہ درمنہ کلام سننے کے ہوتے ہیں.چنانچہ لغت میں لکھا ہے.تَلَقّٰی الشَّیْءَ: اَخَذَہٗ مِنْ فِیْکَ مُشَافَھَۃٌ (اقرب)یعنی تَلَقّٰی الشَّیْءَ کے معنے براہ راست دوسرے کے منہ سے کلام سننے کے ہوتے ہیں.تفسیر.اب فرماتا ہے.منکر بیشک انکار کرتے چلے جائیں.گالیاںد ینے والے گالیاںد یتے رہیں اوربرابھلاکہنے والے برابھلاکہتے رہیں.خدائے حکیم و علیم نے اپنی سکیم دنیا میں نافذ کردی ہے اوراب دنیا کی کوئی طاقت اسے پوراہونے سے روک نہیں سکتی.اب حاسدوں کے لئے حسد کے انگاروں پر لوٹنے کے سواکوئی چار ہ نہیں.وہ اپنے مونہہ کی پھونکوں سے نہ خدا تعالیٰ کے اس روشن کردہ چرا غ کوبجھا سکتے ہیں اورنہ تیروسنان سے اسلام کی ترقی اوراس کی عظمت کو روک سکتے ہیں.کیونکہ یہ وہ تعلیم ہے جو حکیم و علیم خداتجھے بالمشافہ سکھا رہاہے.اوریہ ناممکن ہے کہ ایک حکیم ہستی جو ساتھ ہی علیم بھی ہے اس کی تعلیم کو دنیا قبول نہ کرے یااس کی تعلیم کو مٹانے پر وہ قدرت پاسکے.اس جگہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتاہے کہ پچھلی سورۃ میں تویہ فرمایاتھا کہ روح الامین تجھ پر کلام اتار تاہے اوریہاں یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھ پر براہ راست کلام ناز ل کرتاہے.ان دونوں میں اختلاف کیوں ہے؟ سویاد رکھنا چاہیے کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ روح الامین سے مرادیہ ہے کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے فرشتے کو کلام دیا تھا اسی صورت میں اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور نسیان یاغلطی کااس میں کوئی امکان باقی نہ رہا.اورجو کلام غلطی اورنسیان سے پاک ہو اورلفظاً لفظاً او رحرفاً حرفاً اورحرکۃً حرکۃً اس شخص کو پہنچ جائے جس کو کلام بھیجا گیاتھا تووہ ایسا ہی ہوتاہے جیسا کہ بالمشافہہ بات کرنا.کیونکہ بالمشافہہ بات کرنے میں یہی مدنظر ہوتاہے کہ کوئی غلطی نہ رہ جائے یاپیغامبر کچھ بھول نہ جائے.جب پیغامبر کے متعلق بھی یہ احتیا ط کرلی گئی کہ نہ وہ کچھ بھولے
نہ غلطی کرے نہ اس کا سنایاہواکلام مخاطب کو بھولے اور نہ وہ اس میں کو ئی غلطی کرے تودونوں کلاموںکو ایک سادرجہ حاصل ہوگیا.پس اِنَّكَ لَتُلَقَّى الْقُرْاٰنَ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ عَلِيْمٍ والی آیت سورئہ شعراء کی اس آیت کے خلاف نہیں کہ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنِ عَلیٰ قَلْبِکَ بلکہ وہ اس کی حقیقت کو واضح کرتی ہے.اس آیت میں درحقیقت عیسائیوں کے اس اعتراض کا جواب دیاگیاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے تو خدا تعالیٰ بالمشافہہ کلام کرتاتھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریل نازل ہوتاتھا.اس جگہ بتایاگیاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی خدا تعالیٰ بالمشافہہ گفتگو کرتاتھا.روح الامین کے واسطہ بننے کا ذکر بطور تمثیل کے کیاگیاہے.ورنہ آپؐ سے بالمشافہہ کلام ہونے میں کوئی شبہ نہیں.اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِاَهْلِهٖۤ اِنِّيْۤ اٰنَسْتُ نَارًا١ؕ سَاٰتِيْكُمْ مِّنْهَا (یادکرو)جب موسیٰ نے اپنے اہل سے کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے.میں یقیناً تمہارے پاس ا س بِخَبَرٍ اَوْ اٰتِيْكُمْ بِشِهَابٍ قَبَسٍ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ۰۰۷ (آگ )سے کوئی (عظیم الشان)خبرلائوں گا.یاتمہارے پاس ایک چمکتاہواانگارہ لائوں گا.تاکہ تم آگ سینکو.حل لغات.اٰنَسْتُ.اٰنَسْتُ اٰنَسَ سے واحد متکلم کاصیغہ ہے اوراٰنَسَ الشَّیْءَ کے معنے ہیں اَبْصَرَہٗ.اس کودیکھا.اٰنَسَ الصَّوْتَ:سَمِعَہٗ وَاَحَسَّ بِہٖ.اگر اٰنَسَ الصَّوْت کافقرہ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے آواز کوسنا او رمحسوس کیا.(اقرب)پس اٰنَسْتُ کے معنے ہوں گے.میں نے دیکھا.شِھَابٌ.اَلشِّھَابُ کے معنے ہیں شُعْلَۃٌ مِّنْ نَارٍ سَاطِعَۃٌ.آگ کا شعلہ جو اوپر کو اٹھ رہا ہو.کُلُّ مُضِیءٌ مُّتَوَلِّدٌ مِّنْ نَارٍ.آگ سے پیدا ہونے والی روشنی.(اقرب) قَبَسٍ.اَلْقَبَسُ کے معنے ہیں شُعْلَۃُ نَارٍ تُؤْخَذُ مِنْ مُّعْظَمِ النَّارِ.آگ کاشعلہ جو بڑی آگ سے لیاجائے.(اقرب) تَصْطَلُوْنَ.تَصْطَلُوْنَ اِصْطَلٰی سے فعل مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے اوراِصْطَلٰی بِالنَّارِ اِصْطِلَاءًکے معنے ہیں اِسْتَدْفَأَ بِھَا آگ تاپی اور اس سے گرمی حاصل کی.(اقرب) تفسیر.ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے لطیف اور سمیع ہونے کی دلیل کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا
واقعہ پیش کیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ یاد کرو جب موسیٰ علیہ السلام نے مدین سے مصر آتے وقت ایک آگ دیکھی اور اپنے رشتہ داروں سے کہا.کہ میں اس آگ کی طرف جاتاہوں.اوریاتومیں اس آگ کے پا س سے کو ئی خبر لائوں گا.یاتمہارے لئے کو ئی ایساانگارہ لائوں گاجس سے تم آگ سینک سکو.قبس کا لفظ اس جگہ شھاب کا بدل ہے یعنی شھابسے میری مراد قبس ہے.اور چونکہ یہاں نارًا کالفظ استعمال کیاگیاہے.اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک روحانی نظارہ تھا جسمانی نظارہ نہیں تھا.مادی آنکھ سے دیکھنے والا کبھی یہ نہیں کہاکرتا کہ میں نے ’’ ایک آگ‘‘ دیکھی ہے.بلکہ وہ یہ کہا کرتاہے کہ میں نے آگ دیکھی ہے.اسی طر ح مادی آگ صرف ایک شخص کو نظر نہیں آتی بلکہ سب لوگوں کو نظر آتی ہے.مگریہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کہتے ہیں کہ وہ مجھے نظر آتی ہے.جس میں یہ اشا ر ہ پا یا جاتاہے کہ وہ آگ آپ کے باقی ساتھیوں کو نظر نہیں آئی تھی.پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں نے کشفی طور پر ایک آگ کا نظارہ دیکھا ہے او رمیں سمجھتاہوں کہ اس نظارہ کے دکھانے سے خدا تعالیٰ کامنشاء یہ ہے کہ میں اس آگ تک جائوں.سومیں اس آگ تک جائوں گا.اور چونکہ وہ آگ ایک کشفی نظارہ تھا.اورکشفی طورپر آگ دیکھنے سے مراد ہدایت ہوتی ہے اورہدایت یادیکھنے والے کے لئے مخصوص ہوتی ہے یاساری قوم کے لئے عام ہوتی ہے اورابھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتہ نہیں تھا کہ جو انکشاف مجھ پر ہونے والا ہے وہ میرے لئے مخصوص ہے یا میرے خاندان اورقوم کے لئے عام ہے اس لئے انہوں نے اپنے اہل سے کہا.کہ اگر وہ ہدایت صرف میرے لئے مخصوص ہوئی تومیں ا س کی خبر تمہیں آکرسنائوں گا.اوراگر وہ ہدایت ایسی ہوئی کہ مجھے دوسروں تک بھی پہنچانے کاحکم ہواتو میں اس میں سے کوئی انگارہ تمہارے سینکنے کے لئے بھی لے آئوں گا.یعنی کچھ تعلیم اس میں سے تم کو بھی سنائوں گا تاکہ تم اس سے روحانی سردی دور کرو.اس جگہ جو قبس وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ بھی حقیقی آگ پردلالت نہیں کرتے.کیونکہ جب کسی چیز کو کسی اور چیز سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس کی صفات کو بھی اس کی نسبت استعمال کیا جاتا ہے.جیسے کسی کو شیر کہیں تویہ نہیں کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح تقریر کرتاہے.بلکہ یہ کہیں گے کہ وہ شیر کی طرح چنگھاڑتاہے.پس چونکہ اس جگہ جلوئہ الٰہی کانام آگ رکھا گیاتھا اس لئے آگے اس کے آثار وغیرہ کا نام بھی انگارہ رکھا گیا.پس اس جگہ آگ اور انگارے سے مراد و ہ نور الٰہی ہے جو انہوں نے دیکھاتھا.اور چونکہ اب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام پر کامل وحی نہیں ہوئی تھی وہ یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ آیا جو نور ان کونظر آیا ہے صرف ان کی ذات کے لئے ہے یاباقی خاندا ن اورقوم کے لئے بھی ہے.یعنی یہ جلوہ جو دکھائی دیا ہے یہ جلوئہ نبوت ہے یاجلوئہ ولایت.اس لئے انہوں نے کہا کہ
آگ کے پاس جا کر یا تو میں کوئی خبر لائوں گا یعنی تم کو یہ بتائوں گا کہ خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ فضل نازل فرمایا ہے.اوراگر وہ نور خاندان اورقوم کے لئے ہوایعنی یہ جلوہ جلوئہ ولائت نہ ہوا بلکہ جلوئہ نبوت ہوااورمجھے حکم ہواکہ دوسروں کو بھی تعلیم دو تومیں ایسی تعلیمات لائوں گا جن سے خاندا ن اور قوم فائدہ اٹھائے اوران سے گرمی حاصل کرے.فَلَمَّا جَآءَهَا نُوْدِيَ اَنْۢ بُوْرِكَ مَنْ فِي النَّارِ وَ مَنْ پھر جب و ہ اس (یعنی آگ ) کے پا س آئے توان کو آواز دی گئی کہ جو کوئی آگ میں ہے اورجو اس کے گر د ہے حَوْلَهَا١ؕ وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۹ اس کو برکت دی گئی ہے.اوراللہ رب العالمین پاک ہے.تفسیر.اپنے رشتہ داروں کو ہوشیار کرکے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس جگہ پہنچے جہاں ان کو و ہ نظارہ دکھایاگیاتھاتوان کو الہام ہواکہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا یعنی جو شخص اس آگ میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اورجو اس کے ماحول میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے.بعض مفسرین نے اس کے یہ معنے کئےہیں کہ اس آگ میں اللہ تعالیٰ کا وجود تھا.اورتورات نے بھی یہی نظریہ پیش کیا ہے.چنانچہ خروج باب۳ میں لکھا ہے :.’’ خداوند کا فرشتہ ایک بوٹے میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا.اس نے نگاہ کی توکیادیکھتاہے کہ ایک بوٹا آگ میں روشن ہے اوروہ جل نہیں جاتا.تب موسیٰ نے کہا کہ میں اب نزدیک جائو ں اوراس بڑے منظر کو دیکھو ں کہ یہ بوٹا کیوں نہیں جل جاتا.جب خداوند نے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو نزدیک آیا تو خدا نے اس بوٹے کے اند ر سے پکاراا ور کہا کہ اے موسیٰ! اے موسیٰ! وہ بولا.میں یہاں ہوں.تب اس نے کہا.یہاں نزدیک مت آ.اپنے پائوں سے جوتااتار.کیونکہ یہ جگہ جہاں توکھڑا ہے مقدس زمین ہے.‘‘ (خروج باب۳ آیت ۲تا ۵) مگرقرآن اس نظر یہ کو تسلیم نہیں کرتا.کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ موسیٰ پر ہم نے یہ الہا م نازل کیا کہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کہ وہ جو اس آگ میں ہے اسے بھی برکت دی گئی ہے اور اس کے ماحول کو بھی برکت دی گئی ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ دوسروں کو خودبرکت دیتاہے.اسے کوئی اَور برکت نہیں دیتا.گویا وہ تبارک تو کہلاسکتاہے مگر بُوْرِکَ
نہیں کہلاسکتا.پس یہ معنے کہ مَنْ فِی النَّارِ سے خدا تعالیٰ مراد ہے کسی صورت میں بھی درست نہیں ہوسکتے.پھر بعض لوگوں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے بُوْرِکَ کا لفظ بولناجائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو برکت نہیں دی جاتی بلکہ وہ خود برکت دیتاہے فِیْ کے معنے پیچھے کے کئے ہیں اورمراد یہ لی ہے کہ وہ شخص جو اس آگ کے پیچھے آرہاہے یااس کی تلاش میں ہے اسے برکت دی گئی ہے.مگر یہ معنے محاورہ کے خلاف ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فِیْ کے معنے پیچھے کے بھی آتے ہیں.مگر یہ معنے ایسے موقعہ پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ فِیْ کے بعد کسی روحانی یامعنوی چیز کا ذکر ہو.ایسے موقعہ پر استعمال نہیں کئے جاتے جبکہ اس کے بعد اشیاء یا اشخاص کا ذکرکیاگیاہو.اور چونکہ مفسرین اس آگ کو جسمانی آگ قرار دیتے ہیں اور جسمانی چیز کے لئے جب فِیْ کا لفظ استعمال کیاجائے تو اس کے معنے پیچھے کے نہیں ہوتے.اس لئے یہ معنے بھی درست نہیں سمجھے جاسکتے.پھر بعض لوگوں نے فِیْ کے معنے قرب کے کئے ہیں اورفِیْ النَّارِکے معنے آگ کے قریب ہونے کے کئے ہیں (حاشیہ تفسیر قرطبی جلد ۱۳ص ۱۵۸).اوروَمَنْ حَوْلَھَا کو اس کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے حالانکہ وَمَنْ حَوْلَھَا کے الفاظ ہی ان معنوں کو ردّ کررہے ہیں.کیونکہ خودمَنْ حَوْلَھَاکے معنے بھی قریب کے ہیں اور دوالفاظ سے ایک ہی مفہوم کواداکرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی.پس یہ معنے بھی صحیح نہیں.پھر بعض نے کہا کہ گو مَنْ کالفظ عام طور پر ذی عقل وجودوں کی طرف اشارہ کرتاہے مگر اس جگہ مَنْ سے مرادلایعقل اشیاء ہیں (تفسیر بحر محیط جلد۷ ص ۵۶).اورمراد یہ ہے کہ وہ لکڑیا ںجو اس آگ میں ہیں.اوراس کے اردگرد کی جگہ بھی الٰہی تجلّی کی وجہ سے بابرکت ہوگئی ہے.مگر میرے نزدیک یہ سب معانی غلط ہیں.اورصرف نار سے دھوکا کھا کر کئے گئے ہیں.چونکہ انہوں نے نار کو جسمانی نا ر سمجھا اس لئے وہ ان مشکلات میں گرفتارہوگئے.لیکن جیسا کہ میں ثابت کرچکا ہوں نَارًا کے لفظ سے ثابت ہے کہ یہ نظارہ مادی آگ کا نہیں تھا بلکہ روحانی نا ر کاتھا.اورجب اس آگ کو روحانی آگ قرار دے دیاجائے اورآگ سے مراد محبت الٰہی کی آگ سمجھ لیاجائے تواس آیت کا مفہوم سمجھنے میں کوئی دقّت باقی نہیں رہتی.کشف یا خواب میں آگ دیکھنے سے مراد ہمیشہ محبت الٰہی کا جذبہ ہوتاہے.پس بُوْرِکَ کے لفظ سے نہ خدا تعالیٰ مراد ہے نہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ مجسم نہیں اورنہ اس کوکوئی برکت دیتاہے.اورنہ بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِسے مراد موسیٰ ؑ ہیں.بلکہ اس آیت میں ایک عام قانون الٰہی بیان کیاگیا ہے کہ ہروہ شخص جو محبت الٰہی کی آگ میں جل رہاہواس کو بر کت دی جاتی ہے.اسی طرح نہ تو فِیْ کے معنوں کا جھگڑارہتاہے نہ مَنْ کے معنوں کا.نہ بُوْرِکَ کی ترکیب کا اورآیت بالکل حل ہوجاتی ہے.اوروَمَنْ حَوْلَھَا کے معنے
بھی ظاہر ہوجاتے ہیں.یعنی جو شخص محبت الٰہی کی آگ میں پڑاہواہو نہ صرف اس کو برکت دی جاتی ہے بلکہ اس کے ہم صحبت بھی برکت پاتے ہیں.محبت کو دنیا کی تمام زبانوں میںآگ سے تشبیہ دی جاتی ہے اوررؤیا و کشوف میں بھی اگر کوئی شخص اپنے آپ کو آگ میں جلتاہوادیکھے تواس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ وہ عشق الٰہی کے مقام کو حاصل کرے گا.پس بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کا یہی مطلب ہے کہ جو شخص اس آگ میں پڑے گا و ہ برکت پا جائے گا اورجواس کے اندرنہیں پڑے گا.بلکہ اس کے قریب آکر کھڑا ہوگاگویا اس سے کم حصہ لے گا وہ بھی برکت دیاجائے گا.اگر مَنْ فِیْ النَّارِ سے مراد موسیٰ ؑ ہوتے توپھر سوال پیدا ہوتاتھا کہ مَنْ حَوْلَھَا سے کیا مراد ہے.اس وقت سوائے حضرت موسیٰ ؑ کے آگ کے پاس اورکون تھا جس کے لئے مَنْ حَوْلَھَا فرمایاگیا.پس اس جگہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہیں کیاگیا.بلکہ یہ قانون بتایاگیاہے کہ جو اس آگ میں پڑے گا و ہ بھی برکت پائے گا اورجو اس کے پاس آکر اس کی گرمی حاصل کرے گا وہ بھی برکت پائے گا اورماضی کا لفظ مضار ع کے معنوں میں استعمال کیاگیا ہے یعنی برکت دیا جائے گا.پرانے زمانہ میں دِلّی کے ایک بزرگ تھے ان کے پا س ایک دفعہ ان کاایک مرید آیا.اوراس نے کہا کہ ہماراجو یہ خیال ہے کہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر جی ہندوستان کے نبی تھے یہ درست معلوم نہیں ہوتا.کیونکہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اور حضرت کرشن جی تو اس کے اندر ہیں اور حضرت رامچندر جی اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں.وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے.آگ کے معنے محبت الٰہی کی آگ کے ہیں اوراللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایاہے کہ کرشن جی خدا تعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے.اوررامچند ر جی ان سے کم درجہ رکھتے تھے.اسی لئے حضر ت کرشن جی توآگ کے اندرجلتے ہوئے دکھائی دیئے.اوررامچندر جی آگ کے کنار ہ پر کھڑے ہوئے نظر آئے (ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۵۹).آگے فرماتا ہے وَ سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.رب العالمین خداتمام عیبوں سے پاک ہے.یعنی جنہوں نے یہ کہاہے کہ آگ میں خدا تعالیٰ تھا جیسا کہ بائیبل والوں نے وہ سب غلطی کرتے ہیں.خدا تعالیٰ ہرقسم کے تجسّم سے پاک اور منزہ ہے.اسی طرح سُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشار ہ فرمایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو برکت دیتاہے اس کے ذریعہ دنیا میں اس کی سبّوحیّت کا اظہار ہوتاہے اورہرقسم کے عیوب جو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں ان کا ازالہ کردیاجاتاہے اورخدا تعالیٰ کا حسین چہرہ دنیا کو ایک بار پھر اپنی پوری شان کے ساتھ نظر آنے لگ جاتاہے.
يٰمُوْسٰۤى اِنَّهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُۙ۰۰۱۰وَ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ اے موسیٰ ؑ!بات یہ ہے کہ میں اللہ ہوں جو غالب (اور)حکمت والاہوں.اورتُولاٹھی پھینک.اورجب اس نے فَلَمَّا رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ يُعَقِّبْ١ؕ اس (یعنی لاٹھی)کودیکھا کہ وہ ہل رہی ہے گویا کہ وہ ایک چھوٹاسانپ ہے توو ہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اورپیچھے مڑ کر نہ يٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ١۫ اِنِّيْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَۗۖ۰۰۱۱ دیکھا (تب ہم نے کہا )اے موسیٰ! ڈر نہیں.میں وہ ہوں کہ رسو ل میرے حضور ڈرانہیں کرتے.مگر جس نے ظلم کیا اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۱۲ لیکن پھر اس ظلم کو چھو ڑ کر نیکی اختیار کی.میں (اس کے لئے)بڑابخشنے والا (اور)بار با ررحم کرنے والاہوں.حلّ لُغَات.تَھْتَزُّ.تَھْتَزُّ اِھْتَزَّ سے فعل مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اوراِھْتَزَّتِ الْاِبِلُ کے معنے ہیں تَحَرَّکَتْ فِیْ سَیْرِھَا لِحُدَآءِ الْحَادِیْ حدی خواں کے حدی کرنے پر اونٹ تیز چلے.اورجب اِھْتَزَّ الْمَآءُ فِیْ جَرَیَانِہٖ کہیں تومعنے ہوں گے تَطَلَّقَ.پانی تیزی سے بہا اوراِھْتَزَّ الْکَوْکَبُ فِیْ انْقِضَاضِہٖ کے معنے ہیں اَسْرَعَ.ستارہ جلدی سے ٹوٹا.(اقرب )پس تَھْتَزُّ کے معنے ہوں گے.جلدی چلتاہے.اَلْجَآنُّ.اَلْجَآنُّکے معنے ہیں حَیَّۃٌ بَیْضَآءُ کَحْلَاءُ الْعَیْنِ لَا تُؤْذِیْ.سفید رنگ سرمگیں آنکھوں والا باریک سانپ جوکاٹتانہیں.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے اس وقت موسیٰ ؑ سے کہا کہ اے موسیٰ ؑ! میں اللہ ہوں جو بڑاغالب اور حکمت والا ہوں.اس سے بھی یہ مراد نہیں کہ آگ کے اند رخدا تعالیٰ تھا جس نے کہا کہ میں اللہ غالب اور حکمت والاہوں.کیونکہ قرآن کریم کے کسی لفظ سے یہ ظاہر نہیں ہوتاکہ آگ کے اندر سے آواز آ ئی تھی.قرآن کریم صرف یہ بتاتاہے کہ ایسی آواز آئی تھی خواہ وہ کہیں سے آئی ہو.درحقیقت یہ آیت بُوْرِکَ مَنْ فِیْ النَّارِ وَمَنْ حَوْلَھَا کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ محبت الٰہی کی آگ میں جلنے والا انسان بڑی برکت پاتاہے اوریہ امر اس بات سے ظاہر ہے کہ میں اللہ غالب اورحکمت والاہوں یعنی جو میری
محبت میں جلے گا وہ غالب ہوگا اورڈنڈے کے زور سے غالب نہیں ہوگا بلکہ اس کوبڑی حکمتیں عطا کی جائیں گی اوروہ دلائل اور براہین کے ساتھ غالب آئے گا.جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء دلائل کے ساتھ دنیا پر غالب آئے.پھر فرماتا ہے ہم نے موسیٰ ؑ کو الہام کیا کہ اپنا سونٹا پھینک دے.جب اس نے اپنا سونٹا پھینک دیا تواس نے دیکھا کہ وہ تیزی کے ساتھ ہل رہاہے جیسا کہ چھوٹا سانپ ہلتاہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نظارہ کو دیکھ کر دوڑ پڑے اور پیچھے کی طرف انہوں نے مڑ کر بھی نہ دیکھا.جیسا کہ سورئہ شعراء کی تفسیر میں بتایاجاچکا ہے یہ بھی ایک کشفی نظارہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا.اورعصاسے مراد ان کی جماعت تھی.چنانچہ عربی زبان میں بھی کہتے ہیں شَقَّ الْعَصَا اورمراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے جماعت کی وحدت کو توڑ دیا.اسی طرح اس نظارہ کے دکھانے سے اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ جب تک تُو اپنی جماعت کو اپنے ہاتھ میں رکھے گا اوراس کی نگرانی کرتارہے گا.وہ ایک عصاکی شکل میں کارآمد وجود رہے گی.لیکن جب وہ تیری کامل متابعت کو ترک کرکے تیرے روحانی وجود سے الگ ہوجائے گی تووہ ایک سانپ کی شکل اختیار کرلے گی.چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کشفی حالت میں اپنا عصاپھینک دیاتوان کو اپنی قوم کا وہ حال نظر آگیا جو ان کی غیر حاضری میں ہونےوالاتھا.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ نظارہ دیکھا تووہ پیٹھ پھیر کر دوڑ پڑے اس پر ان کو الہام ہواکہيٰمُوْسٰى لَا تَخَفْ١۫ اِنِّيْ لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُوْنَ.اے موسیٰ!ڈرنے کی کون سی بات ہے.رسول جب ہماری خدمت میںحاضر ہوتے ہیں توانعام لینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں.سزاپانے کے لئے حاضر نہیں ہوتے.پس یہ نظارہ تجھے ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ تجھے حقیقت حال سے آگاہ کرنے اور قوم کی نگرانی کی طرف توجہ دلانے کے لئے دکھایاگیاہے.اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًۢا بَعْدَ سُوْٓءٍ فَاِنِّيْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ.اس آیت کے متعلق بعض لوگوں نے یہ شبہ ظاہر کیاہے کہ اس سے توپتہ لگتاہے کہ رسولوں میں سے بعض ظالم بھی ہوتے ہیں.مگران کا یہ اعتراض نحوسے ناواقفیت کی وجہ سے ہے.اِلَّا کبھی استثناء متصل کے لئے آتاہے اور کبھی استثناء منقطع کے لئے.یعنی اِلَّا کے بعد بعض دفعہ نئے گروہ کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اورپہلا ذکرختم ہو جاتا ہے.اس جگہ بھی اِلَّا استثناء منقطع کے طور پر استعمال ہواہے اوراس کے معنے یہ ہیں کہ انبیاء کے علاو ہ دوسرے لوگوں میں سے جوشخص ظلم سے کام لے اورپھر ظلم کے بعد نیکی اختیار کرے توو ہ ڈرتاہے کہ معلوم نہیں میری توبہ قبول بھی ہوئی ہے یانہیں.مگرحقیقت یہ ہے کہ میں بڑا بخشنے والا اور رحم
کرنے والاہوں.اس لئے انبیاء تو الگ رہے.ایسے شخص کے لئے بھی ڈرنے کی کوئی حقیقی وجہ نہیں.وَ اَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ١۫ اورتُو اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال.و ہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا.یہ ان نو نشانوں میں سے ہے جو فرعون فِيْ تِسْعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ قَوْمِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا اوراس کی قوم کی طرف بھیجے جانے والے ہیں وہ اطاعت سے نکل جانے والی قوم ہے.پس جب ان کے پاس فٰسِقِيْنَ۰۰۱۳فَلَمَّا جَآءَتْهُمْ اٰيٰتُنَا مُبْصِرَةً قَالُوْا هٰذَا ہمارے نشانات جو آنکھیں کھول دینے والے تھے آئے توانہوں نے کہا.یہ تو ایک کھلا کھلا جادوہے.اورانہوں سِحْرٌ مُّبِيْنٌۚ۰۰۱۴وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ نے اصرار سے ظلم اور تکبر کرتے ہوئے ان نشانوں کا انکار کیا حالانکہ ان کے دل ان پر یقین لاچکے تھے.ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِيْنَؒ۰۰۱۵ پس دیکھ کہ فساد کرنے والوں کاانجام کیساہواکرتاہے.حلّ لُغَات.اِسْتَیْقَنَتْ.اِسْتَیْقَنَتْ اِسْتَیْقَنَ سے مؤنث کا صیغہ ہے اور اِسْتَیْقَنَ کے معنے تَیَقَّنَ کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں تَیَقَّنَ الْاَمْرَ: عَلِمَہٗ وَتَحَقَّقَہٗ یعنی کسی بات کو یقینی طورپر جان لیا.(اقرب) تفسیر.پھر فرمایاکہ اپنے گریبان میں ہاتھ توڈال.جب تواسے نکالے گاتووہ سفید ہوگا.مگر کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی نشان نمائی کی وجہ سے وہ نورانی اورسفید ہوگا.مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ کے الفاظ بائیبل کے اس نارواالزام کو ردّ کررہے ہیں جو اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ان الفاظ میں لگایا کہ ’’ اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا.اورجب اس نے اسے نکال کر دیکھا توا س کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۶و۷)
گویابائیبل نویسوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑ ھ کی طرف منسوب کردیاتھا مگر قرآن کریم جو حضرت موسیٰ ؑ کے دوہزارسال کے بعد آیااو ر جس کی مخالفت میں یہودیوں اورعیسائیوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا.وہ حضرت موسیٰ ؑ کو جویہودیوں اورعیسائیوں کا نبی تھا اس الزام سے پاک ٹھہراتاہے جو خود موسیٰ ؑ کے متبعین نے ان پر لگادیاتھا.اوران کے ہاتھ کی سفیدی کو کوڑھ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ایک عظیم الشان نشان قراردیتاہے.وَاَدْخِلْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بتایاکہ چونکہ تجھ پرجو کلام نازل ہواہے وہ تیری قوم کے لئے ہے اس لئے تُوجا اوراپنی قوم کو اپنے ساتھ چمٹالے.یعنی ان کواپنے ظل عاطفت میں لے لے.اوران کی نیک تربیت کر.اس تربیت کے نتیجہ میں اس قوم میں سے نہایت اعلیٰ درجہ کے لوگ پیداہوں گے.جن میں کوئی عیب نہیں ہوگا.وہ دل کے صاف اور خدا تعالیٰ کی نظر میں پسندیدہ اور اس کے مقبول ہو ں گے.اوردنیا کو اپنے نو ر سے منور کرنے والے ہو ں گے.لیکن جب وہ تجھ سے الگ ہوگئے.یعنی تیری روحانی تعلیم کو انہوں نے پس پشت پھینک دیاتووہ زمین کی طرف جھک جائیں گے اورجس طر ح سانپ سفلی زمین کی مٹی کھاتاہے اسی طرح وہ بھی دنیا کے کیڑے بن جائیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی جو پتھیروں کاکام کرنے والے تھے ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو فتح کو قریب لانے والی ہو.مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تربیت کے نتیجہ میں انہیں ایسی ہمت او رطاقت بخشی کہ انہوں نے عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کی اور کنعان پر خدا نے انہیں حکمرانی عطافرما دی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا عمالقہ کی قوم پر فتح حاصل کرلینا ایسا ہی تھا جیسے چوہا بلی کو مارلے.عمالقہ قوم کی شام او ر کنعان پر حکومت تھی.اورو ہ بڑی بھاری شوکت اورعظمت رکھتی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی اینٹیں پاتھنے والے غلامی کی زندگی بسرکرنے والے اور سیاست سے کلی طور پر نابلد تھے.مگراللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ تھاکہ وہ اس جاہل اور ناواقف اورغلامی کی زندگی بسرکرنے والی قوم کوعمالقہ کی زمین کاوارث کردے گا اور یہ سینکڑوں سال تک غلام رہنے والی قوم جس نے کبھی تلوار نہیں چلائی تھی اورہمیشہ غلامی کی زنجیروں میں مقید رہی تھی عمالقہ کی قوم پر جو تلوار کی دھنی تھی اورہرقسم کے سازوسامان اس کے پاس موجود تھے غالب آجائے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اورخدا تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطافرما دیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب انہوں نے اپنی نادانی سے یہ کہہ دیا کہ اِذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ.(المائدۃ:۲۵)یعنی تُواور تیراخدادونوں دشمنوں سے لڑتے پھرو.ہم تو یہیں بیٹھے ہیں.
مگر آخر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائوں اور تربیت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے اندرایساتغیر پیدا کیا کہ انہوں نے اپنے آپ کو بلادریغ قربانیوں کی آگ میں جھونک دیااور آخر کنعان کے دروازے ان کے لئے کھل گئے.اورغلام کہلانےوالے دنیا کے بادشاہ بن گئے.پھر نہ صرف خدا تعالیٰ نے ان کو دنیوی حکومت عطافرمائی بلکہ حضرت موسیٰ ؑ کی تعلیم پر چل کر ان میں بڑے بڑے ربّانی اوراحبار بلکہ خدا تعالیٰ کے انبیاء تک پیداہوئے جوچودہ سوسال تک دنیا کے لئے شمع ہدایت کاکام دیتے رہے.یہ تمام پاکبازوں کا گروہ وَ اَدْخِلْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ کی صداقت کاایک عملی ثبوت تھا.اورپھر یہ تمام مقدسین مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ کے مطابق معصوم او ربے عیب تھے.بائیبل نویسوں نے اپنی نادانی سے خدا تعالیٰ کے ان انبیاء کو جو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوتے رہے قسم قسم کے نارواالزام لگائے ہیں.کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس کا دل غیر معبودوں کی طرف پھر گیا.کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے دوسرے کی بیوی اُڑالی اوراس کے خاوند کو مروادیا.کسی کے متعلق کہا ہے کہ اس نے جھوٹ بولا.مگرقرآن کریم ان تمام اتہامات سے ان کو پاک ٹھہراتاہے اور بتاتاہے کہ ہم نے موسیٰ ؑ کو پہلے سے یہ خبردے دی تھی کہ تیری تربیت کے نتیجہ میں ایسے لوگ پیداہوں گے جو نورانیت کا مجسمہ ہوں گے اور ان میں کوئی ایساعیب نہیں ہوگا جو ان کی معصومیت کو داغ دا رکرنےوالاہو.فرماتا ہے یہ دونوں نشان ان نونشانوں میں سے ہیں جو فرعون او راس کی قوم کے لئے دکھائے جانے والے ہیں.کیونکہ وہ اطاعت سے نکلنے والی قوم ہے.ان نونشانات میںسے عصا اورید بیضا ء کے معجزات کا توا س جگہ ذکر ہے اور دومعجزات کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے کہ وَلَقَدْ اَخَذْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَنَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّھُمْ یَذَّکَّرُوْنَ(الاعراف :۱۳۱) یعنی ہم نے آل فرعون کو قحط اور بچوں کی ہلاکت کے عذاب میں گرفتار کیا.تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں.باقی پانچ نشانات کا اس آیت میں ذکر آتاہے.فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ.فَاسْتَکْبَرُوْاوَکَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ (الاعراف :۱۳۴) یعنی ہم نے آل فرعون پر کئی قسم کے عذاب بھیجے جن میں طوفان ، ٹڈیوں،جوؤں،مینڈکوں اورخون کاعذاب شامل تھا.بائیبل کی کتاب ’’خروج‘‘ کے مختلف ابواب میں ان عذابوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں.طوفان کا عذاب تو وہی تھا جو بحیرئہ احمر میں ظاہر ہوا.جب فرعون اور اس کا لشکر اس میں غرق کردیئے گئے لیکن اس کے علاوہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں پر ٹڈیوں کا عذاب بھی نازل کیا.یعنی اتنے ٹڈی دَل آئے کہ ملک کی
تمام فصلیں تباہ ہو گئیں اور لوگ بھوکے مرنے لگے.جوؤںکا عذاب بھی نازل کیا.یعنی اتنی شدید سردی پڑی کہ لوگوں کے لئے غسل کرنا مشکل ہوگیا.اوران کے بال جوؤں سے بھر گئے.مینڈکوںکا عذاب بھی نازل کیا.یعنی اتنی کثرت سے بارشیں ہوئیں کہ جگہ جگہ مینڈک پیداہوگئے.خون کا عذاب بھی نازل کیا.جس سے یہ مراد بھی ہوسکتی ہے کہ ان کا خون خرا ب ہوگیا اورانہیں کثرت کے ساتھ پھو ڑے وغیرہ نکلنے لگ گئے یاان میں نکسیر کا مرض پھوٹ پڑا.یابواسیر دموی کے مرض نے آگھیرا.یا ان میں وہ طاعون پھیل گئی جس میں مریض کے ناک ،مونہہ او رمقعد سے خون جاری ہو جاتا ہے.اور کبھی جلد کے نیچے جریان خو ن ہوکر تمام جسم پرسیاہ سیاہ داغ پڑ جاتے ہیں.اورستر اسی فیصدی مریض ہلاک ہوجاتے ہیں.غرض پے درپے ان کے انتباہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے عذاب نازل ہوتے رہے.مگرفرماتا ہے باوجوداس کے کہ فرعون کی قوم نے وہ نشانات دیکھے جوان کی آنکھیں کھولنے والے تھے پھر بھی انہوں نے یہی کہا کہ یہ توبڑی پُرفریب باتیں ہیں.یعنی بظاہر تویہ معلوم ہوتاہے کہ یہ نشانات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں مگر اصل میں محض اتفاقات ہیں اورانہوں نے ان نشانات کا انکار کردیا.حالانکہ ان کے دل سمجھ چکے تھے کہ یہ محض اتفاقات نہیں بلکہ ان کی بداعمالی کی سزاکے طور پر یہ عذاب آرہے ہیں.ان کا یہ انکار محض ظلم اور تکبر کی وجہ سے تھا وہ نہیں چاہتے تھے کہ صداقت کا اپنی زبان سے اقرار کرکے اپنی بڑائی کو ضعف پہنچائیں.مگر دیکھ لو کہ پھر ان مفسد لوگوںکا انجام کیساخطرناک ہو ا.جب فرعون اور اس کے ساتھی ہلاک ہوگئے توآج تیرے مخالفوں کا انجام کس طرح اچھا ہو سکتا ہے جواسی رستہ پر چل رہے ہیں جس پر فرعون اوراس کے ساتھی چلے اور انہی کی طرح اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کرتے چلے جارہے ہیں.وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ اورہم نے دائود اورسلیما ن کو علم عطا کیا.اوردونوں نے کہا اللہ ہی سب تعریف کا مالک ہے الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۶ جس نے ہم کو اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت دی ہے.وَوَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا اورسلیمان دائود کا وارث بنا.اوراس نے کہا اے لوگو ! ہمیں
مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَ اُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ پرندوں کی زبان سکھائی گئی ہےاورہرضروری چیز (یعنی تعلیم) ہم کو دی گئی ہے.الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۰۰۱۷ یہ کھلا کھلا فضل ہے.حلّ لُغَات.مَنْطِقُ الطَّیْرِ.مَنْطِقُ الطَّیْرِ، اَلْمَنْطِقُ: اَلْکَلَامُ.یعنی منطق کے معنے کلام کے ہیں.(اقرب) تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ حضرت دائود ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کا ذکر فرماتا ہے.حضرت دائود علیہ السلام کو چونکہ یہودیوں میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خاص بیٹا تسلیم کیا جاتا ہے اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا ذکر کیاگیاہے اوران دونوں کا یہ قول بیان کیاگیاہے کہ ہمیں خدا تعالیٰ نے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت بخشی ہے یعنی خلافتِ روحانی اورخلافتِ جسمانی کے ذریعہ سے اس نے ہمیں مومنوں کا افسر بنایاہے.اس کے بعد فرماتا ہے کہ سلیمان ؑ دائود ؑ کاوارث ہوا.یعنی ان کے انتقال کے بعد ان کا جانشین ہوا.اس سے ظاہر ہے کہ اگلی آیات میں جہاں جہاں نا کالفظ آیاہے اس سے مراد صرف حضرت سلیمانؑ ہی ہیں اورنا کالفظ شاہی سطوت اورجبروت کے اظہار کے لئے ہے نہ یہ بتانے کے لئے کہ حضرت دائود ؑاس میں شامل ہیں.کیونکہ آیت کے شروع میںہی بتایاگیاہے کہ حضرت دائود علیہ السلام اس وقت فوت ہوچکے تھے.پس یہ جو کہاگیاہے کہ اے لوگو ! ہم کو منطق الطیر سکھائی گئی ہے.اس سے مراد صرف حضرت سلیمان علیہ السلام ہی ہیں نہ کہ حضرت دائودؑ.کیونکہ حضرت دائودعلیہ السلام اس سے پہلے فوت ہوچکے تھے.مفسرین نے منطق الطیر کی یہ معنے کئے ہیںکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو کبوتروں اورتیتروں اورچڑیوں اوربٹیروں وغیرہ کی زبان سکھائی گئی تھی اوروہ ان کی بولی کو اسی طرح سمجھ لیتے تھے جس طرح ایک انسان کی گفتگوکو دوسراانسان سمجھ لیتا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک بلبل کودیکھا کہ ایک شاخ پر بیٹھی ہوئی اپنی دُم اورسرہلاکر کچھ بول رہی ہے.اس کی آواز سن کر آپ نے اپنے اردگرد بیٹھنے والوں سے پوچھا کہ
تم جانتے ہو یہ بلبل کیا کہہ رہی ہے.انہوں نے عرض کیا کہ خدااوراس کارسول ہی بہتر جانتے ہیں ہمیں کیا علم ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا.یہ کہہ رہی ہے کہ دنیا کے سرمیں خاک پڑے.میں نے توآج صرف آدھی کھجور کھائی ہے.پھر فاختہ بولی.توآپ نے فرمایا.یہ کہتی ہے کاش یہ سب مخلوق پیداہی نہ ہوتی.اسی طرح مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمانؑ فرمایاکرتے تھے کہ کبوترکہتاہے.مرنے کے واسطے اپنی اولادیں پیداکرو.اورویران ہونے کے لئے مکانات بنائو.اورموؔر کہتاہے کہ جوکچھ تُوکرے گا اس کابدلہ پائے گا.اورہد ہد کہتاہے کہ جو دوسرے پر رحم کرے گا خدااس پر رحم کرے گا.اورابابیل کہتی ہے کہ نیک اعمال کو آگے بھیجو تاکہ تم انہیں خداکے پاس پائو اورکبوتر کہتاہے کہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاْعْلٰی مِلْءُسَمَآئِہٖ وَ اَرْضِہٖ.اورقطا ۃ کہتاہے کہ جو خاموشی اختیارکرے گاسلامت رہے گا.اورطوطاکہتاہے کہ افسوس اس پر جس کامقصود اورمطلوب دنیا ہے.اور مرغا کہتاہے کہ اے غافلو اللہ کو یاد کرو.اورمینڈک کہتاہے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْقُدُّوْسِ.اورچڑیاکہتی ہے اے گنہگارو استغفار کرو.اورچیل کہتی ہے کہ کُلّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ یعنی خداکے سوا ہرچیز ہلاک ہونے والی ہے.غرض انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی کو خوب سمجھتے تھے گو انہوں نے پرندوں میں مینڈک وغیرہ کوبھی شامل کرلیا ہے.مگریہ محض استعارے اورمجاز کو نہ سمجھنے کانتیجہ ہے اورایسی ہی بات ہے جیسے قرآن کریم میں تواللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کُلُوْاوَاشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمْ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ(البقرۃ:۱۸۸) یعنی رمضان کے ایام میں سحری کا وقت اس وقت تک ہے جب تک کہ صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظرنہ آنے لگے.مگر پنجاب میں بہت سے زمینداررمضان کی راتوں میں سفید اورسیا ہ تاگا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور چونکہ تاگااچھی روشنی میں ہی نظر آتاہے اس لئے و ہ اس وقت تک خوب کھاتے پیتے رہتے ہیں.جب تک انہیں سیاہ اور سفید تاگا الگ الگ نظر نہ آنے لگے.اسی طرح تشبیہ اوراستعارہ کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اگر خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا ذکر آجائے توبعض لوگ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ خدا کاہاتھ بھی نعوذ باللہ اسی طرح گوشت پوست کا ہے جس طرح ہماراہے.اوراگر انہیں کہا جائے کہ ہاتھ سے مراد خدا تعالیٰ کی طاقت ہے تووہ کہیںگے کہ تم تاویلیں کرتے ہو.جب خدا نے ہاتھ کالفظ استعمال کیا ہے تو تمہاراکیا حق ہے کہ تم اس کی تاویل کرو.یا خدا تعالیٰ کے متعلق اِسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ کے الفاظ پڑھ لیں توجب تک وہ خدا تعالیٰ کو ایک سنگ مرمر کے تخت پر بیٹھا ہو اتسلیم نہ کریں انہیں چین ہی نہیں آئے گا.حالانکہ دنیا کی ہرزبان میں تشبیہہ اور استعارہ کا استعمال موجود ہے.ہمارے ملک میں محاور ہ ہے کہ ’’ آنکھ بیٹھ گئی ‘‘ مگر کوئی نہیں کہتا کہ آنکھ کی ٹانگیں تھیں یاوہ بیٹھی ہے توکس
پلنگ پر اورکرسی پر بیٹھی ہے.کیونکہ ہر شخص جانتاہے کہ آنکھ بیٹھنے کے معنے یہ ہیں کہ آنکھ ضائع ہوگئی.اورپھوٹ گئی.اسی طر ح اور کئی قسم کے استعارات ہماری زبان میں استعمال کئے جاتے ہیں اورکوئی ان پر اعتراض نہیں کرتا بلکہ ان استعارات کو زبان کی خوبی اور اس کاکمال سمجھاجاتاہے.غرض جس طرح دنیا کی ہرزبان میں مجازاوراستعارات کا استعمال پایا جاتا ہے اسی طرح الہامی کتابیں بھی ان استعارات کو استعمال کرتی ہیں.مگر وہ لو گ جو استعارہ اورمجاز کی حقیقت کو نہیں سمجھتے وہ انہیں ظاہرپر محمول کرلیتے ہیں اوراس طرح خو د بھی ٹھوکر کھاتے ہیں اوردوسروں کے لئے بھی ٹھوکر کا موجب بنتے ہیں.یہی حال منطق الطیر کا ہے.مفسرین نے صرف طیر کے لفظ کودیکھ کر خیال کرلیا کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کو امتیازی طور پر اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ انہیں تیتروں اوربٹیروں کی بولی بھی سکھادی تھی مگرسوال یہ ہے کہ اس بولی کے سکھانے کا فائدہ کیاتھا.یاتویہ تسلیم کیا جائے کہ پرندے بھی بڑے بڑے علوم اورمعارف جانتے ہیں.اور چونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتاتھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ا س علم سے محروم رہیں اس لئے اس نے آپ کو ان کی زبان بھی سکھادی.مگر پرندے تو ایک جاہل سے جاہل او رغبی سے غبی انسان جتنی بھی عقل نہیں رکھتے پھر ان سے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کیا علم سیکھناتھا.پھر اگر ان کا دما غ واقعہ میں اتنا اعلیٰ ہوتا کہ حضرت سلیمانؑ جیسے نبی کو بھی ان سے معارف اورعلوم حاصل کرنے کی ضرورت تھی توشریعت ان کو ذبح کرنے کی اجازت کیوں دیتی.اللہ تعالیٰ کا انسان کو ذبح کرنے کی اجاز ت نہ دینا اورجانوروں کی ذبح کرنے کی اجازت دینا صاف بتارہاہے کہ یہ امتیاز صرف دماغ کے فرق کی وجہ سے رکھا گیاہے.اوران کا دماغ عام انسانی دماغ سے بھی ادنیٰ ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی زبان کس حکمت کے ماتحت سکھائی گئی تھی.پھر مفسرین صرف یہیں تک بس نہیں کرتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو تمام پرندوں کی بولیاں سکھائی گئی تھیں بلکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہُدہُد جو ایک پرندہ تھا و ہ اتنی عقل اورسمجھ رکھتاتھاکہ اس نے ملکہ سباکی باتیں سمجھیں.اس کے درباریوں کی باتیں سمجھیں حضرت سلیمان علیہ السلام کی باتیں سمجھیں.مگر ہُد ہُد کی باتیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے سوااَورکوئی نہیں سمجھ سکتاتھا.گویا ایک پرندہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے تمام درباری علماء اورفضلاء سے بھی بڑاتھا.کیونکہ وہ ان سب کی باتیں سمجھتاتھا لیکن اس کی بات کو کوئی نہیں سمجھتاتھا اوراگر کوئی سمجھتاتھا تووہ صرف حضرت سلیمانؑ تھے.گویا اگر ہدہد سے کسی کو برابری حاصل تھی توصرف حضرت سلیمان علیہ السلام کو تھی باقی جتنے امراء اور وزراء تھے و ہ سب اُس ’’کھٹ بڑھئی‘‘سے نیچے تھے.یہ اتنا احمقانہ نقشہ ہے کہ ا س کو ایک معمولی عقل رکھنے والا
انسان بھی تسلیم نہیں کرسکتا.اگر یہ بات مانی جائے توپھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ پرندے انسان سے افضل ہیں.اورپھر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرناپڑے گا کہ پرندوں کو ذبح کرنا جائز نہیں ہاں انسان کو ذبح کرکے کھاناجائز ہے کیونکہ پرندے نعوذ باللہ انسان سے افضل ہیں.یہ تو ’’ اندھیر نگری چوپٹ راجہ ‘‘والی بات ہوگی جس کوکوئی بھی معقول انسان تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتا.حقیقت یہ ہے کہ یہ بھی ایک استعارہ اور مجاز ہے جس کو لوگوں نے نہ سمجھا اوروہ صحیح راستہ سے بھٹک کر دور از کار بحثوں میں الجھ کر رہ گئے.طیر عربی زبان میں اڑنے والی چیز کو کہتے ہیں.اوراستعارۃً اس سے وہ لوگ مراد ہوتے ہیں جوعالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرتے اورخدا تعالیٰ کے برگزیدہ اوراس کے محبوب ہوتے ہیں.بانئے سلسلہ احمدیہ کاایک الہام بھی ان معنوں پر روشنی ڈالتاہے.آپ کو ایک دفعہ الہام ہواکہ :.’’ہزاروں آدمی تیرے پروں کے نیچے ہیں ‘‘ (تذکرہ صفحہ ۷۰۳ تاریخ الہام ۹ مارچ ۱۹۰۷ء) اب ظاہر ہے کہ پَر ہمیشہ پرندوں کے ہی ہواکرتے ہیں اورپرندے کے پروں کے نیچے بیٹھنے والے بھی پرندے ہی ہوتے ہیں.گویا اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی پرندہ قراردیاگیا.اورپھر یہ بھی بتایاگیاکہ وہ لوگ جو آپ کی صحبت سے فیض حاصل کرنے والے ہیں.وہ بھی عالم روحانی کے پرندے ہیں.اس الہا م نے قرآن کریم کی اس آیت کی تشریح کردی اوربتادیا کہ طیر سے مراد جسمانی پرندے نہیں بلکہ وہ لوگ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے والے ہیں.ان برگزیدہ لوگوںکو استعارۃً اس لئے بھی پرندہ کہا جاتاہے کہ پرندہ آسمان کی طرف اڑتاہے اور علوم سماوی آسمان سے نیچے کی طرف اترتے ہیں اوریہ ظاہر ہے کہ جب کوئی چیز اوپر سے نیچے کی طرف آرہی ہوگی تووہ سب سے پہلے اسی کو ملے گی جو اوپر پرواز کررہاہوگا.پس عالم روحانی کی فضائوں میں پرواز کرنے والے کواس لئے بھی پرندہ کہاجاتاہے کہ آسمانی علوم اوراسرار غیبی جواللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں وہ سب سے پہلے انہی لوگوںکو الہام یارؤیا وکشوف کے ذریعہ معلوم ہوتے ہیں جواوپر پرواز کررہے ہوں.اورانہی آسمانی طیور کو اللہ تعالیٰ سب سے پہلے اپنے فیو ض سے متمتع فرماتا ہے.پھر وہ لوگ جو ان کی صحبت میں آکربیٹھتے ہیں و ہ بھی اپنے اپنے اخلاص اوردرجہ کے مطابق ان فیوض سے مستفیض ہوتے چلے جاتے ہیں.غرض طیر کے اس مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے عُلِّمْنَامَنْطِقَ الطَّیْرِ کے یہ معنے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے لوگوں سے کہا کہ اے لوگو!مجھے بھی وہ بولی سکھائی گئی ہے جوبلندی کی طرف پرواز کرنے والے لوگوںکو سکھائی جاتی ہے یعنی نبیوں کے معارف اورحقائق اوریہ اس لئے کہاگیاہے کہ یہودیوں اورعیسائیوں کے نزدیک
حضرت سلیمان علیہ السلام نبی نہیں تھے بلکہ صرف ایک بادشاہ تھے.چنانچہ بائیبل میں کہیں بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کونبی نہیں قرار دیاگیابلکہ ایک فلاسفر اور عالم قراردیاگیاہے.چنانچہ نمبر۱ سلاطین باب ۴ میں لکھا ہے :.’’ اورخدا نے سلیمان کوحکمت اور سمجھ بہت ہی زیاد ہ اور دل کی وسعت بھی عنایت کی جیسی سمندرکے کنارے کی ریت ہوتی ہے.اورسلیمان کی حکمت سب اہل مشرق کی حکمت او رمصر کی ساری حکمت پر فوقیت رکھتی تھی.‘‘ (آیت ۲۹و۳۰) اسی طرح لکھاہے :.’’ اس نے تین ہزار مثلیں کہیں او راس کے ایک ہزار پانچ گیت تھے.اوراس نے درختوں کا یعنی لبنان کے دیودار سے لےکر زوفا تک کاجو دیواروںپراُگتاہے اورچوپائیوں اورپرندوں اوررینگنے والے جانداروں اورمچھلیوں کا بھی بیان کیا.اورسب قوموں میںسے زمین کے سب بادشاہوں کی طرف سے جنہوں نے اس کی حکمت کی شہرت سنی تھی لوگ سلیمان کی حکمت کو سننے آتے تھے.‘‘ (آیت ۳۲،۳۳) غرض بائیبل حضر ت سلیمان علیہ السلام کو ایک حکیم اورفلاسفرتوقراردیتی ہے مگرنبی قرار نہیں دیتی.بلکہ اس سے بڑھ کر وہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ ’’جب سلیمان بڈھاہوگیا تواس کی بیویو ں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کرلیا.اوراس کا دل خداوند اپنے خداکے ساتھ کامل نہ رہا.‘‘ (نمبر۱ سلاطین باب ۱۱.آیت ۴،۵) پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں اورعیسائیوں کے اس خیال کی تردید کی ہے.اوربتایاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نبی تھے اورانہیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہی علوم اورمعارف عطاکئے گئے تھے جو اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں کو عطاکئے جاتے ہیں جواس کی طرف پرواز کرتے اور اس کے قرب میں بہت بلند اور بالامقام رکھتے ہیں.پھر فرماتے ہیں وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ ہمیں ہر ضروری چیز عطا کی گئی ہے.اس جگہ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ کے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرضروری چیز کے ہیں.چنانچہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کی مدمقابل ملکہ سبا کے متعلق بھی اسی سورۃ
میں آتاہے کہ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ (آیت ۲۴)حالانکہ وہ دنیا کے ایک نہایت مختصر علاقہ کی بادشاہ تھی.اگر وَاُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ کے معنے ہرچیز کے کئے جائیں توا س آیت کا مفہوم یہ قرار پاتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملکہ سبا اور اس کاتخت بھی حاصل تھااورجب ہدہد نے ملکہ کا ذکر کیااورکہا کہ اسے ہرنعمت حاصل ہے تواس کے معنے یہ تھے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بھی اوران کے لشکر بھی اس کو حاصل تھے حالانکہ یہ دونوں باتیں بالبداہت غلط ہیں.دراصل عربی زبان کے محاورہ کے مطابق یہ ضروری نہیں ہوتاکہ کُلّ کا لفظ تمام افراد جنس پر مشتمل ہو بلکہ بسا اوقات یہ لفظ صرف ضرورت کے مطابق اشیاء پر بولاجاتاہے.مثلاً ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ(الانعام :۴۵)یعنی جب پہلی قوموں کے افراد نے اس نصیحت کو بھلادیا جوانہیں کی گئی تھی توہم نے ان پر پہلے توہرقسم کی ترقیات کے دروازے کھول دیئے اورپھران پر عذاب نازل کردیا.اس آیت میں بھی کلّ کے لفظ کے یہ معنے نہیں کہ ان کو دنیا کی ہرنعمت ملی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس زمانہ کی اوران کے ملک کی بڑی بڑی نعمتوں سے انہیں حصہ ملا.اسی طر ح اہل مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰۤى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا (القصص :۵۸)یعنی کیا اہل مکہ کو ہم نے ایک عزت والے اور محفوظ مقا م میں جگہ نہیں دی.جس کی طرف ہمارے انعام کے طور پر ہرقسم کے میوے لائے جاتے ہیں.اس آیت میں بھی کلّ سے تمام دنیا کے میوے مراد نہیں بلکہ بہت سے میوے مراد ہیں جواہل مکہ کی صحت اوران کی لذت کے سامان پیداکرنے کے لئے ضروری تھے.اسی طرح شہد کی مکھی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ تُوتمام پھلوںکو کھا.حالانکہ شہد کی مکھی سارے پھلوںکونہیں کھاتی بلکہ بعض پھلوںکوکھاتی ہے.اسی طرح یہاں وَ اُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍکے معنے ہرچیز کے نہیں بلکہ ہرمطابق ضرورت چیز کے ہیں اورمراد یہ ہے کہ جن جن چیزوں کی حضرت سلیمان علیہ السلام کو ضرورت ہوتی تھی خدا تعالیٰ ان کومہیاکردیتاتھا اورجن جن چیزوں کی اپنے زمانہ میں ملکہ سباکو ضرورت ہوتی تھی وہ اس کومیسر آجاتی تھیں چنانچہ یہ دعویٰ کرکے حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے کھلے فضل سے حاصل ہوتی ہے.بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہوتیں.
وَ حُشِرَ لِسُلَيْمٰنَ جُنُوْدُهٗ مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ وَ الطَّيْرِ اور(ایک دفعہ ) سلیمان ؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر ترتیب وار اکھٹے فَهُمْ يُوْزَعُوْنَ۰۰۱۸ کئے گئے.پھر ان کو کوچ کا حکم ملا.حلّ لُغَات.یُوْزَعُوْنَ.یُوْزَعُوْنَ اَوْزَعَ سے فعل مضارع مجہول جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ وَزَعَ سے ہے اور وَزَعَہٗ کے معنے ہیں کَفَّہٗ ومَنَعَہٗ وَحَبَسَہٗ.یعنی اس کوہٹایا.روکایا روکے رکھا.اورجب وَزَعَ الْجَیْشَکہیں تواس کے معنے ہوتے ہیں حَبَسَ اَوَّلَھُمْ عَلیٰ اٰخِرِھِمْ یعنی لشکر کواول سے لےکر آخر تک روکے رکھا اورجب کہیں کہ رَأَیْتُہٗ یَزَعُ الْجَیْشَ تومعنے ہوں گے یُرَتِّبُھُمْ وَیُسَوِّیْھِمْ وَیَصُفُّھُمْ لِلْحَرْبِ یعنی میں نے اسے دیکھا کہ وہ لشکر کو ترتیب دے رہاتھا اور انہیں ٹھیک کررہاتھا اورلڑائی کے لئےصف بستہ کررہاتھا.(اقرب) پس یُوْزَعُوْنَ کے معنے ہوں گے کہ (۱)لشکروں کوترتیب دی جاتی تھی (۲)لشکروںکاپوراپورا انتظام رکھاجاتاتھا.تفسیر.فرماتا ہے.ایک دفعہ سلیمانؑ کے سامنے جنوں اورانسانوں اورپرندوں میں سے اس کے لشکر حاضر کئے گئے اوران کو ترتیب وار الگ الگ کھڑا کیاگیا.یہ الفاظ دلالت کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس وقت کسی ملک پر چڑھائی کرنے کے لئے تیار تھے اورانہوں نے اپنی تمام فوج اکٹھی کی تھی جن میں جنات کابھی لشکر تھا.انسانوں کابھی لشکر تھا اورپرندوںکا بھی لشکر تھا.جنّات کا لفظ سامنے آتے ہی مفسرین کاذہن پھر اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی غیر مرئی مخلوق ہے جو حضرت سلیمانؑ کے قبضہ میں تھی.حالانکہ اگروہ قرآن کریم پر غورکرتے توانہیں اس قدر دور از کار تاویلات کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی.جنّات کی حقیقت پر غورکرنے کے لئے سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھناچاہیے کہ آیا قرآن کریم میں صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق ہی یہ ذکرآتاہے کہ ان کے پاس جنّ تھے یاکسی اورنبی کے متعلق بھی کہا گیاہے کہ اس کے پاس جنّ آئے.اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیںسورۃ احقاف میں یہ آیات نظر آتی ہیں.وَ اِذْ صَرَفْنَاۤ اِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ۚ فَلَمَّا حَضَرُوْهُ قَالُوْۤا اَنْصِتُوْا١ۚ فَلَمَّا قُضِيَ وَ لَّوْا اِلٰى
قَوْمِهِمْ مُّنْذِرِيْنَ.قَالُوْا يٰقَوْمَنَاۤ اِنَّا سَمِعْنَا كِتٰبًا اُنْزِلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِيْۤ اِلَى الْحَقِّ وَ اِلٰى طَرِيْقٍ مُّسْتَقِيْمٍ.يٰقَوْمَنَاۤ اَجِيْبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَ اٰمِنُوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ وَ يُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ.(الاحقاف :۳۰ تا ۳۲)فرماتا ہے اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ ہم جنوں میں سے کچھ لوگوں کو تیری طرف لائے جوقرآن سننے کی خواہش رکھتے تھے.جب وہ تیری مجلس میں پہنچے توکہنے لگے.چپ کرو.تاکہ اس کی آواز ہمارے کانوں میں اچھی طرح پڑے.جب قرآن کریم کی تلاوت ختم ہوگئی تووہ اپنی قوم کی طرف واپس چلے گئے اور کہنے لگے.اے ہماری قوم ہم نے ایک کتاب کی تلاوت سنی ہے.جو موسیٰ ؑ کے بعد اتاری گئی ہے اورجوکتابیں اس سے پہلے اتری ہیں ان سب کی تصدیق کرتی ہے اورحق کی طرف بلاتی او رسیدھا راستہ دکھاتی ہے.اے قوم.اللہ تعالیٰ کے منادی کی آواز کوسنواور اسے قبول کرو اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچائے گا.پس اس سے معلو م ہوتاہے کہ یہ جنّ تورات پر.حضرت موسیٰ ؑ پر اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پربھی ایمان لائے تھے.پس سلیمانؑ ہی ایک ایسے نبی نہیں جن پر جنّ ایمان لائے.بلکہ موسیٰ ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی قرآن کریم سے ثابت ہے کہ جنّات ان پر ایمان لائے.مگرافسوس ہے کہ مفسرین حضرت سلیمان ؑ کے جنوں کے متعلق توعجیب عجیب قصے سناتے ہیں.کہتے ہیں حضرت سلیمان علیہ السلام قالین پر بیٹھ جاتے اور چار جنّوں کو چا ر گوشے پکڑوادیتے اوروہ انہیں اُڑاکر آسمانوں کی سیرکراتے.مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو جنّ ایمان لائے ان کے متعلق کسی ضعیف سے ضعیف روایت سے بھی یہ ثابت نہیں کرتے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی ایسی مدد کی ہو حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کرسفرکرتے تھے.آپ کے صحابہؓ کو کئی دفعہ سواریاں نہ ملتیں اوروہ روتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے اورکہتے کہ ہمارے لئے کسی سواری کاا نتظام فرما دیجئے توہم جا نے کے لئے حاضر ہیں.کئی دفعہ صحابہؓ نے ننگے پیر لمبے لمبے سفر کئے ہیں.مگریہ تمام دکھ اور تکلیفیں دیکھنے کے باوجود ان سنگدل جنّوں کا دل نہ پسیجا وہ حضرت سلیمانؑ کے وقت تولشکر کالشکر اٹھا کر دوسری جگہ پہنچا دیتے تھے اوریہاں ان سے اتنا بھی نہ ہواکہ دس بیس مہاجرین کوہی اٹھا کر میدان جنگ میں پہنچادیتے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنّ غیر از انسان وجو د ہیںجورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ اور حضرت سلیمان علیہم السلام پر ایمان لائے (درمنثور).مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا ان معنوں کوقرآن کریم تسلیم کرتاہے.اگر یہ ایک استعارہ ہے تویقیناً قرآن کریم نے اس کو اپنی کسی دوسری آیت میں حل کیا ہوگا.اوراستعارہ تسلیم نہ کرنے کی
صورت میں قرآن کریم کی دوآیتیں باہم ٹکراجائیں گی اور اس طرح قرآن کریم میں اختلاف پیداہوجائے گا.پس ہمیں دیکھناچاہیے کہ اس کواستعارہ تسلیم نہ کرنے سے قرآن کریم میں اختلاف پیدا ہوتاہے یااستعارہ تسلیم کرکے اختلاف پیدا ہوتاہے.استعارہ کے متعلق یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جولوگ اسے استعارہ نہیں سمجھتے وہ کتہے ہیں کہ یہ ایسا ہی لفظ ہے جیسے شیطان کا لفظ آتاہے.جس طرح شیطان سے مراد ایک ایسی مخلوق ہے جوانسانوں سے علیحدہ ہے.اسی طرح جنّ بھی ایک ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے الگ ہے حالانکہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ میں مفسرین بالاتفاق کہتے ہیں کہ اس جگہ شیاطین سے مراد یہود اوران کے بڑے بڑے سردار ہیں.پس اگرانسان شیطان بن سکتاہے توانسان جنّ کیوں نہیں بن سکتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا(الانعام :۱۱۳) کہ ہم نے ہرنبی کے دشمن بنائے ہیں شیطان آدمیوں میںسے بھی اورجنّوں میں سے بھی جو لوگوں کومخالفت پراکساتے اور انہیں نبی او راس کی جماعت کے خلاف برانگیختہ کرتے رہتے ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر بتادیا ہے کہ انسان بھی شیطان ہوتے ہیں.پس اگرشیاطین الانس ہوسکتے ہیں توجن الانس کیوں نہیں ہوسکتے.یعنی جس طرح انسانوں میں سے شیطان کہلانے والے پیداہوسکتے ہیں اسی طرح ان میں جنّ کہلانے والے بھی پیداہوسکتے ہیں.بہرحال قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگ گیا کہ صرف حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضہ میں ہی جنّ نہیں تھے بلکہ حضرت موسیٰ ؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جنّ ایمان لائے تھے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کن کی طرف ہوئی تھی.اللہ تعالیٰ سورئہ نساء میں اس کے متعلق فرماتا ہے وَاَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا (النساء :۸۰) ہم نے تجھے تمام آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا ہے.اب اللہ تعالیٰ ا س آیت میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام آدمیوں کی طرف رسول بنا کربھیجا حالانکہ اگرآدمیوں کے علاوہ کوئی اورنرالی مخلوق جسے جنّ کہتے ہیں آپ پر ایمان لائی تھی تویہ کہنا چاہیے تھا کہ اَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ وَالجِنِّ رَسُوْلًا مگر وہ یہ نہیں فرماتا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے آدمیوں کے لئے رسول بنا کربھیجا.توجب آدمیوں کی طرف ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعو ث کئے گئے تھے توصاف پتہ لگ گیا کہ جہاں یہ ذکر ہے کہ جنّ آپ پر ایمان لائے وہاں ان سے جنّ الانس ہی مراد ہیں نہ کہ کو ئی اورنرالی مخلوق جس کا نقشہ عام لوگوں کے دماغوں میں ہے.اسی طرح ایک حدیث میں جس کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ہیں.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مجھے پانچ ایسی خصوصیتیں عطا کی گئی ہیں جو پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں.ان میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ کَانَ النَّبِیُّ یُبْعَثَ اِلیٰ قَوْمِہٖ خَاصَّۃً کہ پہلے ہر نبی صرف اپنی قوم کی طرف بھیجاجاتاتھا وَبُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ عَامَّۃً (بخاری کتاب الصلوۃ باب قول النبی جعلت لی الارض مسجدا و طھورا) مگر میں روئے زمین کے تمام آدمیوں کی طرف بھیجاگیاہوں.یہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قطعی طور پر بیان فرماتے ہیں کہ انبیائے سابقین میں سے ایک نبی بھی ایسانہیں جواپنی قوم کے سواکسی اور قوم کی طرف مبعوث ہواہو.لیکن مسلمان یہ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور اور چنونٹیوں کی طرف بھی بھیجے گئے تھے.اگر واقعہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام جنّوں اورطیور کی طرف مبعوث ہوئے تھے تووہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نعوذ بااللہ درجہ میں بڑھ گئے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم توصرف انسانوں کی طرف مبعوث ہوئے تھے.پھر اگر یہ جنّ غیر ازا نسان ہیں تووہ اللہ تعالیٰ کے مخاطب کیونکر ہوگئے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے وَیَوْمَ یَحْشُرُھُمْ جَمِیْعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِنَ الْاِنْسِ(الانعام :۱۲۹) یعنی جب قیامت کے دن سب لوگ جمع ہوں گے توہم جنّوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہیں گے اے جنّوں کے گروہ!تم نے اکثر حصئہ انسان کو اپنے قابو میں کیا ہواتھا ہم توجنّوں کو تلاش کرتے کرتے تھک گئے مگر قرآن یہ کہتاہے کہ جنّوں نے اکثر وںکو قابو کیا ہواہے.حالانکہ ہم تلاش کرتے ہیں تووہ ملتے نہیں.لوگ وظیفے پڑھتے ہیں چلّہ کشیاں کرتے ہیں اورجب ان کا دماغ خراب ہو جاتا ہے اورخشکی سے کان بجنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں جنّ آگیا.حالانکہ اس وقت جنّ نہیں آتا بلکہ اس وقت وہ خود دنیا سے کھوئے جاتے اور پاگل ہوجاتے ہیں.ترو تازہ دماغ کے ہوتے ہوئے جنّ کبھی انسان کے پاس نہیں آتے.غرض جنّوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قَدِاسْتَکْثَرْتُمْ مِنَ الْاِنْسِ تم نے انسانوں سے بہت سے فائدے اٹھائے ہیں.اوروہ جو انسان ہیں وہ بھی کہیں گے کہ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَابِبَعْضٍ ہم میں سے بعض نے بعض سے بڑا فائدہ اٹھایا ہے.اب اپنے اپنے محلہ اور گائوں میں پھر کر لوگوں سے دریافت کرلو کہ کیا پچاس یا اکاون فیصدی لو گ جنّوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں ؟ سومیں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتاہوکہ میں جنّوں سے فائدہ اٹھاتاہوں اور میرے ان سے تعلقات ہیں.جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ جنّ سے مراد انسانوں کے علاوہ کوئی اورمخلوق نہیں بلکہ انسانوں میںسے ہی بعض جنّ مراد ہیں.اورانسانی جنّوں کی دوستیاں بڑی کثرت سے نظرآتی ہیں.پھر اس سے بڑھ کر ایک اَور دلیل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْتِکُمْ رُسُلٌ
مِّنْکُمْ (الفتح :۹،۱۰).اے جنّوں اورانسانوںکے گروہ جو ہمارے سامنے کھڑے ہو.بتائو کیا تمہارے پاس ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں میںسے تھے.اب بتائو جب خدا تعالیٰ کہتاہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض جنّ بھی ایمان لائے او ردوسری طرف یہ فرماتا ہے کہ ہمار ارسول بھی انہیں میں سے تھا توکیا اس سے صاف ثابت نہیں ہوتا کہ و ہ جنّ بھی انسان ہی تھے کوئی غیر از انسان وجود نہیں تھے.پھر یہیں تک بات ختم نہیں کی بلکہ فرمایا وَیُنْذِرُوْنَکُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ ھٰذَا.وہ تمہیں انذار بھی کرتے تھے اورقیامت کے دن سے ڈراتے تھے.گویا حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت سلیمانؑ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنوںکو ڈرایابھی کرتے تھے.اورانہیں یوم آخرت اور اللہ تعالیٰ کا خو ف دلایاکرتے تھے جس سے صاف ثابت ہوتاہے کہ یہ جنّ جنّ الانس ہی تھے کوئی اَور مخلوق نہیں تھے.جس طرح شیاطین الانس ہوتے ہیں اسی طر ح جن الانس بھی ہوتے ہیں.اب ایک اور موٹی مثال سنو.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا.لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُ(الفتح :۹،۱۰)کہ ہم نے اس رسول کو اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم ایمان لائو اوراس کی مدد کرو.اب جبکہ جنّ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لائے تھے توکیا کوئی ثابت کرسکتاہے کہ ان جنّوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کبھی مدد کی ہو.ایک معمولی ملّاکے لئے تووہ انگوروں کے خوشے لا سکتے ہیں.مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ روٹی کا ایک ٹکڑابھی نہ لائے اورآپ کو بسا اوقات فاقے کرنے پڑے ایک دفعہ آپ کے چہرہ پر ضعف کے آثار دیکھ کرصحابہؓ نے سمجھا کہ آپ کو بھوک لگی ہوئی ہے.چنانچہ ایک صحابیؓ نے بکری ذبح کی اورآپ کو اوربعض اَورصحابہؓ کوکھاناکھلایا.مگرایسے مواقع میں سے ایک موقع پر بھی توجنوں نے مدد نہیںکی.میں سمجھتاہوں وہ بڑے ہی بے شرم جنّ تھے کہ وہ آجکل کے ملنٹوں کو توسیب اورانگور لاکرکھلاتے ہیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جن پر وہ ایمان لائے تھے انہوں نے کبھی ایک جَوکی روٹی بھی نہ دی.پھر وہ مومن کس طرح ہوگئے.وہ توپکے کافر تھے.حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال ہی بالکل غلط ہے کہ جنّ کو ئی ایسی مخلوق ہے جو انسانوں سے نرالی ہے.وہ جنّ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ بھی انسان ہی تھے اورجس طرح اَورلوگوں نے آپ کی مدد کی وہ بھی مددکرتے رہے.اگر کوئی نرالی مخلوق مانی جائے توپھر اس سوال کاحل کرنا ان لوگوں کے ذمہ ہوگا جوجنّات کے قائل ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ انہوںنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مدد نہ کی.حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاچکے تھے اور انہیں یہ حکم دیا گیاتھاکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کریں.پھر اس سے بڑھ کر ایک اَوردلیل ہے اللہ تعالیٰ سورئہ احزاب میں بطورقاعد ہ کلیّہ کے فرماتا ہے.اِنَّا عَرَضْنَا
الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا.(الاحزاب:۷۳)کہ ہم نے اپنی شریعت اورکلام کوآسمانوں کی مخلوق کے سامنے پیش کیا اورکہا کوئی ہے جو اسے مانے اور اس پر عمل کرے.اس پر تمام آسمانی مخلوق نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم یہ بارِ امانت اٹھانے کے ہرگز قابل نہیں.پھر ہم نے زمینوں کے سامنے یہ معاملہ پیش کیا اورکہا.لو یہ بوجھ اٹھاتے ہو.انہوں نے کہا.ہرگز نہیں.پہاڑوں پر پیش کیا توانہوں نے بھی انکارکیا حالانکہ لوگ عام طور پر یہ کہاکرتے ہیں کہ جنّ پہاڑوں پر رہتے ہیں.فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَاَشْفَقْنَ مِنْھَا سارے ڈرگئے اور کسی نے بھی اس ذمہ واری کو اٹھانے کی جرأت نہ کی وَحَمَلَھَاالْاِنْسَانُ صرف ایک انسان آگے بڑھا اوراس نے کہا.مجھے شریعت دیجیئے.میں اس پر عمل کرکے دکھائوں گا.فرماتا ہے اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا.انسان نے اپنے نفس پر بڑاظلم کیا.کیونکہ وہ ہمارے عشق میں سرشار تھا.اس نے یہ نہیں دیکھا کہ بوجھ کتنا بڑاہے.بلکہ شوق سے اسے اٹھانے کے لئے آگے نکل آیا.اب دیکھو یہاں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ شریعت کو اٹھانے والا صرف انسان ہے.اورکوئی شریعت کا مکلّف نہیں.اب جبکہ انسان کو ہی خدا نے شریعت دی توسوال یہ ہے کہ اگر جنّ غیر ازانسان ہیں تووہ کہاں سے نکل آئے اورانہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن پر ایمان کاکیوںاظہار کیا.اگریہ تسلیم کیا جائے کہ و ہ غیر ازانسان تھے تو خدا تعالیٰ کا کلام باطل ٹھیرتاہے کیونکہ خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ انسان کے سواسب مخلوق نے اس شریعت پر عمل کرنے سے انکارکردیا تھا.اورجبکہ قرآن سے بھی ثابت ہے کہ جنّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے توصاف معلوم ہوگیا کہ یہ جنّ انسان ہی تھے غیر از انسان نہیں تھے.یہاں بھی جنّ سے مراد جنّ الانس ہی ہیں.ایسی مخلوق مراد نہیں جو انسانوں کے علاوہ ہو.اورنہ میں ایسے جنّوں کاقائل ہوں جو انسانوں سے آکر چمٹ جاتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا کہ میری ہمشیرہ کے پاس جنّ آتے ہیں اوروہ آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہیں.حضر ت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں خط لکھا کہ آپ ان جنّوں کویہ پیغام پہنچا دیں کہ ایک عورت کوکیوں ستاتے ہو.اگرستاناہی ہے تومولوی محمد حسین بٹالوی یا مولوی ثناء اللہ کوجاکرستائیں.ایک غریب عورت کو تنگ کرنے سے کیا فائد ہ؟ توایسے جنّ کوئی نہیں ہوتے جن کو عام لوگ مانتے ہیں.بیشک کئی ایسے لوگ بھی ہوں گے جوانگریزی تعلیم کے ماتحت پہلے ہی اس امر کے قائل ہوں.لیکن مومن کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہوتاکہ اس کی عقل کیاکہتی ہے بلکہ اصل سوال یہ ہوتاہے کہ قرآن کریم کیا کہتاہے.اگرقرآن کہتاہوکہ جنّ ہوتے ہیں توہم کہیں گے آمنّا وصدّقنا.اوراگر قرآن سے ثابت ہوکہ انسانوں کے علاوہ جنّ کوئی مخلوق نہیں توپھر ہمیں یہی بات ماننی
پڑے گی.اصل بات یہ ہے کہ بعض لوگ بڑے متکبر اورسرکش ہوتے ہیں جوکسی دوسرے کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.مگرجب انبیاء کے سامنے آتے ہیں تو یکدم ان کی حالت بد ل جاتی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوہی دیکھ لو.ابتدا ء میں وہ اسلام کی کوئی بات برداشت نہیں کرسکتے تھے اورایک دفعہ تو انہیں یہاں تک جوش آیا کہ تلوار سونت لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکل کھڑے ہوئے.مگرجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کے رعب کی وجہ سے کانپنے لگ گئے (سیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ باب ھجرۃ الاولی الی الارض الحبشۃ).توبعض طبائع ناری ہوتی ہیں.مگر جب نبیوں کے سامنے جاتی ہیں توٹھنڈی ہوکر رہ جاتی ہیں.ایسی طبائع رکھنے والے انسانوںکوعربی زبان میں جنّ کہتے ہیں.اسی طرح جنّوں سے وہ لوگ بھی مراد ہوتے ہیں جومحلّات میں رہتے ہیں اوران کے دروازہ پر آسانی سے لوگ نہیں پہنچ سکتے.چنانچہ لغت میں لکھا ہے جِنُّ النَّاسِ: مُعْظَمُھُمْ (اقرب)یعنی جنّ کا لفظ انسانوں میں سے بڑے آدمیوںکے لئے بولاجاتاہے کیونکہ ان کی حفاظت کے لئے بڑے بڑے مضبوط پہرے دارمقرر ہوتے ہیں اورہرشخص آسانی سے ان تک نہیں پہنچ سکتا.پرانے زمانہ میں تما م بڑے بڑے بادشاہوں کا یہ دستورتھا کہ وہ خاص خاص مقاموں پر لڑ نے کے لئے اوراپنے باڈی گارڈز کے طور پر اعلیٰ قبیلوں کے آدمیوں کو بھرتی کیاکرتے تھے.چنانچہ جرمن کے بادشاہ وَل ہیلم نے بھی ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا.اورنپولین نے بھی ایسادستہ بھرتی کیاہواتھا اورہندوستان کے بادشاہ اکبر نے بھی باہرہ کے سیدوں میں سے ایسا دستہ بھرتی کیاہواتھا.چنانچہ جب اکبر نے چتوڑ کے قلعہ پر حملہ کیااور وہ قلعہ جلد فتح نہ ہوسکا تواکبرنے ان رجمنٹوںکو جو باہرہ کے سیدوں میں سے بھرتی ہوئی تھیں حکم دیا کہ وہ چتوڑ پر حملہ کریں اور وہ اس وقت تک کٹ کٹ کرمرتے چلے گئے جب تک کہ چتوڑ کے قلعہ کی دیواروں میں رخنہ پیدانہ ہوگیا.چنگیز خاں نے بھی ایک خاص قبیلہ میں سے اپنی حفاظت کادستہ بھرتی کیاتھا(تاتاریوں کی یلغار صفحہ ۷۰، ۱۲۰۶ء).جس کو بڑی عزت دی جاتی تھی.اوراس دستہ کے افسروں کو بادشاہ کے دربار میں خاص مقام پر بٹھایاجاتاتھا.نپولین کے محافظ دستہ کا ایک عجیب واقعہ مشہور ہے.کہ جب واٹرلُو کے میدان میں نپولین کی فوج کو شکست ہوئی تو اس کامحافظ دستہ میدان سے نہیں ہلا.لارڈ ولنگٹن کی فوج گولے پر گولے برسارہی تھی اوروہ مرتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ نہیں چھوڑتے تھے اس وقت نپولین کی فوج کا ایک جرنیل جوایک خاص کام پر بھیجا گیاتھا واپس آیااور اس نے جنرل نے کو جو اس خاص دستہ کاافسرتھا جاکرکہا کہ ہماراگولہ بارود ختم ہوچکا ہے اوردشمن بڑھتاچلا آرہاہے تم یہاں کیوں
کھڑے ہو.پیچھے ہٹو تاکہ کسی طر ح بادشاہ کی جان بچائی جاسکے اورپھر جمع ہوکر دشمن پر حملہ کریں اس پر جنرل نےؔ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا.اورنہایت سادگی سے کہا.’’مگرمیں کیاکروں مجھے نپولین نے پیچھے ہٹنانہیں سکھایا‘‘.اس جگہ پر جو جنّ کالفظ بولاگیاہے وہ ایسے ہی خاص دستوں کے لئے بولاگیاہے.کیونکہ ان دستوں میں معزز خاندانوں کے افراد بھرتی کئے جاتے تھے جوگھروں میں اورپہروں کے پیچھے رہنے کے عادی ہوتے تھے اورجنّ کہلانے کے مستحق تھے جس کے معنے پوشیدہ وجود کے ہیں.یعنی وہ لو گ جوعام طورپر نظر نہیں آتے اورپوشیدہ رہتے تھے.چنانچہ لغت میں لکھا ہے کہ جنّ کے معنے ہرایسی چیز کے ہوتے ہیں جو حواس سے چھپی ہوئی ہو(اقرب)یعنی جن کی آوازیں سنائی نہ دیں.اورآنکھوں کو نظر نہ آئیں.گویادنیا سے الگ تھلگ رہنے والے لوگ یادوسرے لفظوں میںامراء جیساکہ لغت نے واضح معنے اس کے امراء بھی کردیئے ہیں.پس حضرت سلیمان علیہ السلام کالشکر تین قسم کے لوگوں پرمشتمل تھا (۱)امراء کا خاص حفاظتی دستہ.(۲)عوام الناس کی فوج.(۳)روحانی لوگوں کادستہ.حضرت سلیمان علیہ السلام ان کو الگ الگ کھڑاکیاکرتے تھے.جس طرح تیمور بھی اپنی فوج کے مختلف لوگوںکوالگ کھڑاکیاکرتاتھا.مگروہ روحانی لوگوںیامولویوںکوفوج کے پیچھے کھڑاکیاکرتاتھا.اورکہتاتھاکہ یہ جنگ میں سب سے پہلے بھاگیں گے.اس لئے ان کو پیچھے کھڑاکرناچاہیے.مگرہم نہیں کہہ سکتے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں بھی علماء کا یہی حال تھا ہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں علماء کایہ حال نہیں تھا.چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا کہ صحابہؓ میں سب سے زیادہ بہادر اوردلیر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے اورپھر انہوںنے کہا کہ جنگ بد ر میں جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک علیحدہ چبوترہ بنایاگیا تواس وقت سوال پیداہواکہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا کام کس کے سپرد کیاجائے.اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ فوراً ننگی تلوار لے کرکھڑے ہوگئے اورانہوں نے اس انتہائی خطرہ کے موقعہ پر نہایت دلیری کے ساتھ آپؐ کی حفاظت کافرض سرانجام دیا (تاریخ الخلفاء للسیوطی ،ابو بکر صدیق فصل فی شجاعتہ) اسی طرح احادیث میں آتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا.اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَعَلِیٌّ بابُھَا.(الجامع الصغیر جلد ۲ صفحہ ۱۶۱ حدیث نمبر ۲۷۰۵)یعنی میں علم کاشہر ہوں اورعلیؓ اس کادروازہ ہیں.پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء میں سے قرار دیا ہے مگر خیبر کی جنگ میں سب سے نازک وقت میں اسلام کا جھنڈا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ ہی کے ہاتھ میں دیاتھا (ترمذی ابواب المناقب باب مناقب علیؓ).جس سے معلوم ہوتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت علماء بزدل نہیں تھے بلکہ سب سے زیاد ہ بہادر تھے.ہاں
شاعر کمزور ہوتے تھے چنانچہ حسان بن ثابتؓ کے متعلق آتاہے کہ ان کادل بہت کمزور تھا.حَتّٰۤى اِذَاۤ اَتَوْا عَلٰى وَادِ النَّمْلِ١ۙ قَالَتْ نَمْلَةٌ يّٰۤاَيُّهَا یہاں تک کہ جب وہ وادی نملہ میں پہنچے تونملہ قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے نملہ قوم! النَّمْلُ ادْخُلُوْا مَسٰكِنَكُمْ١ۚ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمٰنُ وَ اپنے اپنے گھروں میں چلے جاؤ.ایسانہ ہو کہ سلیما ن ا وراس کے لشکر (تمہارے حالات کو ) جُنُوْدُهٗ١ۙ وَ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۰۰۱۹فَتَبَسَّمَ ضَاحِكًا مِّنْ قَوْلِهَا نہ جانتے ہوئے تمہیں پیروں کے نیچے مسل دیں.پس وہ (یعنی سلیمان ؑ) اس کی بات سن کر ہنس پڑا.وَ قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِيْۤ اَنْ اَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِيْۤ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ اورکہا.اے میرے رب! مجھے توفیق دے کہ تیری نعمت کا جو تُونے مجھ پر اور میرے والدین پر کی ہے وَ عَلٰى وَالِدَيَّ وَ اَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰىهُ وَ اَدْخِلْنِيْ شکریہ اداکرسکوں.اورایسا مناسب عمل کروں جسے توپسند فرمائے.اوراے خد اپنے رحم کے ساتھ تُو بِرَحْمَتِكَ فِيْ عِبَادِكَ الصّٰلِحِيْنَ۰۰۲۰ مجھے اپنے بزرگ بندوں میں داخل کر.حلّ لُغَات.لَایَحْطِمَنَّکُمْ.لَا یَحْطِمَنَّکُمْ حَطَمَ یَحْطِمُ سے مضارع منفی کاصیغہ ہے اور حَطَمَہٗ کے معنے ہیں کَسَرَہٗ کسی چیز کوتوڑدیا (اقرب)پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے ہیں ایسانہ ہوکہ وہ تم کو توڑ دیں.اَوْزِعْنِیْ.اَوْزِعْنِیْ اَوْزَعَ سے امر کاصیغہ ہے اوراَوْزَعَ اللّٰہُ فُلَاناً کے معنے ہیں اَلْھَمَہُ الشُّکْرَ خدا نے اسے شکر کی توفیق دی.(مفردات ) پس اَوْزِعْنِیْ کے معنے ہوں گے مجھے شکر کی توفیق عطاکر.تفسیر.فرماتا ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے توچلتے چلتے ان کاوادی النمل میں سے گذرہوا(جس کے ایک معنے چیونٹیوں کی وادی کے بھی ہیں)اس لشکر جرار کودیکھ کرایک نملہ نے کہا.
اے بھائیو! اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو.ایسانہ ہوکہ سلیمانؑ کا لشکر تمہیں بے خبری میں اپنے پائوں تلے روند ڈالے.حضرت سلیمان علیہ السلام اس کایہ قول سن کر ہنس پڑے اورانہوںنے کہا.اے میرے خدا! مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوںکا شکراداکرسکوں جو تونے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کی ہیں اورمیں ایسے نیک اور مناسب حال اعمال بجالائوں جن سے توراضی ہوجائے اورتو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں شامل فرما.مفسرین نے جس طرح جنّوں اور پرندوں کے متعلق مبالغہ سے کام لیاہے.اسی طرح وادی النمل کے متعلق بھی بہت مبالغہ سے کام لیا ہے اورلکھا ہے کہ یہ ایک وادی تھی جس میں چیونٹیاں رہتی تھیں اور چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی جانتے تھے اس لئے جب چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ اس نے کیاکہاہے.نہ معلوم ہمارے مفسرین نے کس کتاب میں پڑھا ہے کہ چونٹیاں بھی پرندوں کی ایک قسم ہیں.اللہ تعالیٰ نے تویہ فرمایاتھا کہ ہم نے سلیمان کو منطق الطیر کاعلم دیاتھا مگرہمارے مفسرین نے ان کو چیونٹیوں کی بولی کاعلم بھی بخش دیا.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں لمبے عرصہ تک بارشیں نہ ہوئیں تو آپ نے لوگوں سے فرمایاکہ چلو شہرسے باہر نکل کر استسقاء کی نماز پڑھیں.جب آپ نماز پڑھنے جارہے تھے.تو آپ نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اپنی اگلی ٹانگیں اٹھاکر اورآسمان کی طرف منہ کرکے خدا تعالیٰ سے یہ دعامانگ رہی ہے کہ خدایا ہم بھی تیری مخلوق ہیں ہمیں بارش سے محروم نہ رکھ.آپ نے یہ دعاسنتے ہی فرمایاکہ اب استسقاء کی نماز پڑھنے کی کوئی ضرورت نہیں واپس چلو.اس چیونٹی کی دعاہی کافی ہے اوراسی کے نتیجہ میں بارش برس جائے گی.(تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷ص ۲۰۶) پھر مفسرین نے اپنی تحقیق یہیں تک ہی نہیں رہنے دی بلکہ انہوں نے چیونٹیوں کے قبیلوں کابھی پتہ لگایاہے.وہ کہتے ہیں کہ جس طرح انسانوں میں مغل اورراجپوت او رپٹھان وغیرہ ہوتے ہیں اسی طرح چیونٹیوں میں بھی مختلف قومیں اورقبائل ہیں.چنانچہ یہ علم آپ لوگوںکے کام آئے گا کہ چیونٹیوں کے ایک قبیلہ کانام انہوں نے بنوشیصان بتایاہے اورلکھا ہے کہ اسی قبیلہ کی ایک چیونٹی نے یہ بات کہی تھی اورپھر انہوں نے بڑی تحقیق کے بعد اس کے نام کابھی پتہ لگانے کی کوشش کی ہے.گوافسوس ہے کہ کسی ایک نام پر ان کا اتفاق نہیں ہوسکا.چنانچہ بعض نے اس کانام منذرہ بعض نے طافیہ یالافیہ اور بعض نے خرمی بتایاہے اورپھر یہ بھی لکھا ہے کہ وہ چیونٹی ایک پائوں سے لنگڑی تھی.اسی طرح مفسرین نے اس کاقد بھی بتایاہے.چنانچہ بعض کہتے ہیں وہ مرغ کے برابرتھی.بعض کہتے ہیں بھیڑکے برابر تھی اوربعض کہتے ہیں وہ بھیڑیے کے برابر تھی.اسی طرح مفسرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اس نملہ کے ساتھ
چالیس ہزار چیونٹیاں بطورنقیب اور ہر نقیب کے ساتھ چالیس چالیس ہزار چیونٹیاں بطورچوبداررہاکرتی تھیں.(تفسیر ابن کثیر ،وتفسیر حسینی) حالانکہ پہلی بات جس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس جگہ نملہ سے مراد چیونٹی نہیں یہ ہے کہ اوپر ذکرتویہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضر ت سلیمان علیہ السلام کومنطق الطیر سکھائی تھی.مگراس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چیونٹی بولی تو حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس نے کیا کہا ہے.حالانکہ جب دعویٰ یہ تھا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی تودلیل میں کسی پرندے کی مثال پیش کرنی چاہیے تھی.مگرمفسرین کہتے ہیںکہ چیونٹی بولی توحضرت سلیمان علیہ السلام کو سمجھ آگئی جو عُلِّمْنَامَنْطِقَ الطَّیْرِ کاثبوت ہے.حالانکہ چیونٹی پرندہ نہیں.پس نملہ سے مراد اگرچیونٹی لی جائے تویہ دلیل بالکل عقل میں نہیں آسکتی.قرآن جوکچھ کہتاہے وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو پرندوں کی بولی آتی تھی.اوروہ اس کو سمجھتے تھے مگر بولنے لگ جاتی ہے نملہ.اوروہ اس بات کوسمجھ جاتے ہیں.غرض پہلی بات جو اس ضمن میں قابل غور ہے و ہ یہ ہے کہ نملہ کیا چیز ہے ؟ دوسری چیز یہ قابل غور ہے کہ یہاں حطم کالفظ آتاہے اور حَطَمَ کے معنے توڑنے اورغصہ سے حملہ کرنے کے ہوتے ہیں.عام طور پر لوگ اس کاترجمہ یہ کردیتے ہیں کہ سلیمانؑ اوراس کالشکرتمہیں اپنے پیروں کے نیچے نہ کچل دیں.مگر یہ حَطَمَ کے درست معنے نہیں.عربی میں حَطَمْ کے معنے توڑدینے اورغصہ میں حملہ کردینے کے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں دوزخ کی آگ کاایک نام حُطَمَۃ بھی رکھا گیاہے کیونکہ وہ جلادیتی ہے.یہ مطلب نہیں کہ آگ کے پیرہوں گے اوروہ لوگوںکواپنے پائوں کے نیچے مسل دے گی.پس لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے یہ ہوئے کہ ایسانہ ہوسلیمانؑ اوراس کالشکر تمہیں توڑدے یا غصہ سے حملہ کردے اورتباہ کردے.اب سوال یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جو اتنے بڑے نبی تھے جن کے پاس جنّوں اورانسانوں اورپرندوں کے لشکر درلشکر تھے کیاان کا ساراغصہ چیونٹی پر نکلناتھا اور کیاان سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ چیونٹیوں پر حملہ کرنے لگ جائیں گے.میں بتاچکاہوں کہ لَایَحْطِمَنَّکُمْ کے معنے پیروں میں مسل دینے کے نہیں بلکہ طاقت کوتوڑدینے اورحملہ آور ہونے کے ہیں.اسی لئے عربی زبان میں قحط کو حاطوم کہتے ہیں.کیونکہ ا س سے ملک کی طاقت ٹوٹ جاتی ہے.اگریہ معنے کئے جائیں توپھر اس کا مطلب یہ ہوگاچیونٹیوں نے ایک دوسری سے کہا کہ اپنے اپنے بلوں میں گھس جائوایسانہ ہوکہ سلیمان اوراس کالشکر کلہاڑیاں او رکدالیں لے کر آجائے اورہماری بلوںکو کھود کھودکر غلّہ کے دانے نکال لے اوراس طرح ہماری طاقت کو توڑ دے.مگرکیاکوئی عقلمند ان معنوںکو درست تسلیم کرسکتاہے ؟
تیسری دلیل جونہایت ہی بیّن اور واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنے صیغے استعمال کئے ہیں سب وہ ہیں جوذی العقول کے لئے استعمال ہوتے ہیں.مثلاً اُدْخُلُوْا کالفظ آتاہے.حالانکہ چیونٹیوں کے لحاظ سے اُدْخُلْنَ کالفظ آناچاہیے تھا اسی طرح لَایَحْطِمَنَّکُمْ میں کُمْ کالفظ آتاہے.حالانکہ کُنَّ کالفظ آناچاہیے تھا.پس قرآن مجید کے الفاظ بتارہے ہیں کہ یہ کوئی انسان تھے جن کے لئے کُمْ اور اُدْخُلُوْا وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.پھر وَھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ کہہ کربھی اس بات کو واضح کردیاگیاہے کہ وہ چیونٹیاں نہیں تھیں.کیونکہ لشکرتوالگ رہے چیونٹیاںتونبیوں کے پائوں کے نیچے بھی آجاتی ہیں.پس اگراس جگہ نملہ سے مرادچیونٹی لی جائے تویہ کہنا کہ سلیمانؑ اوراس کالشکر تم کو بے جانے اپنے پائوں کے نیچے کچل نہ دے ایک بالکل بے معنے فقرہ بن جاتا ہے.کیا دنیا کی کسی بھی مذہبی کتاب میں لکھا ہے.خواہ اسلامی ہویاقبل ازاسلام کی کوئی اور کتاب کہ کوئی نبی سرجھکا کر زمین کی طرف دیکھتے ہوئے چلتاتھا کہ کہیں کوئی چیونٹی اس کے پیروں کے نیچے نہ آجائے.حقیقت یہ ہے کہ وادی النمل کوئی چیونٹیوں کی وادی نہیں تھی بلکہ ایک حقیقی وادی تھی جس میں انسان بستے تھے.چنانچہ تاج العروس جو لغت کی مشہور کتا ب ہے اس میں لکھا ہے کہ شام کے ملک میںجبرین اورعسقلان کے درمیان ایک علاقہ ہے جسے وادی النمل کہاجاتاہے اورعسقلان کے متعلق تقویم البلدان میں لکھا ہے کہ یہ ساحل سمندر کے بڑے بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے جو غزہ سے جوسیناکے ملحق فلسطین کی ایک بندرگاہ ہے بارہ میل اوپر شمال کی طرف واقع ہے.اورجبرین شمال کی طرف کاایک شہر ہے جو ولایت دمشق میں واقع ہے.(تقویم البلدان ص ۲۳۸و معجم البلدان لیاقوت الحموی باب الباء والیاء وما یلیہ) پس وادی النمل ساحل سمندر پر یروشلم کے مقابل پر یااس کے قریب دمشق سے حجاز کی طرف آتے ہوئے ایک وادی ہے جواندازاًدمشق سے سومیل نیچے کی طر ف تھی ان علاقوںمیں حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک عرب اور مدین کے بہت سے قبائل بستے تھے (مقام کی وضاحت کے لئے دیکھو نقشئہ فلسطین و شام بعہد قدیم و عہد جدید نیلسنز انسائیکلوپیڈیا(Nalson Encyclopedia جلد ۱۷ زیر لفظ Palestine)) اب ر ہ گیا نملہ سوقاموس میں البرق کے ماتحت لکھا ہے.وَالْأَ بْرَقَۃُ مِنْ مِیَاہِ النَّمْلَۃِ (قاموس المحیط) کہ نملہ قوم کے چشموں میں سے ایک چشمہ کانام ابرقہ تھا.غرض لغت اور جغرافیہ کی مدد سے ہمیں نملہ قوم بھی مل گئی اور وادی النمل کا بھی پتہ چل گیا اوریہ بھی معلوم ہوگیاکہ یہ علاقہ شام میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے علاقہ کے نزدیک تھا.اوریہ عجیب بات ہے کہ اس قسم کے نام پرانے زمانہ میں بڑے مقبول تھے چنانچہ جنوبی امریکہ میں
بعض قوموں کے نام بھیڑیا،سانپ، بچھواورکنکھجورا وغیرہ ہواکرتے تھے.بلکہ ہمارے ملک میں ہی ایک قوم کانام کاڈھا ہے.نورالدین کاڈھالاہور کے ایک مشہور شخص ہوئے ہیں.اسی طرح ایک قوم کانام کیڑے ہے.ایک کانام مکوڑے ہے.کشمیر میں ایک قوم کانام ہاپت ہے جس کے معنے ریچھ کے ہیں(تاریخ اقوام کشمیرصفحہ ۳۰۰).اسی طرح حضرت سلیمان علیہ السلام جب ملکہ سبا پر حملہ کرنے کے لئے اپنے ملک سے یمن کی طرف چلے توان کا گذر نملہ قوم کی وادی میں سے ہوا.جس کو غلطی سے مفسروں نے چیونٹیوں کی وادی بنالیاہے.جب آپ وہاں پہنچے تو نملہ قوم کی ملکہ نے اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہا کہ اے نملہ قوم کے لوگو !اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو ایسانہ ہوکہ یہ خیال کرکے کہ تم سلیمانؑ کے لشکر کامقابلہ کرناچاہتے ہو سلیمان اور اس کالشکر تمہیں پائوں کے نیچے روند ڈالیں.ان الفاظ نے مفسرین کو اور بھی جرأت دلائی اورانہوں نے یقینی طورپر اسے ایک چیونٹی کاکلام قرار دےدیا.حالانکہ جب کوئی حملہ آورکسی مقابل قوم کوسختی سے شکست دیتاہے تواس کے لئے محاور ہ میں روند ڈالنے کے الفاظ ہی استعمال کئے جاتے ہیں.پس اول تو محاورہ کے لحاظ سے یہ لفظ بالکل واضح تھا لیکن اگر وہ لغت کو دیکھتے توانہیں معلوم ہوجاتاکہ حَطَمَ کے معنے توڑ ڈالنے کے بھی ہیں (اقرب) اورمراد یہ ہے کہ ا س نملہ قو م کی ملکہ نے کہا کہ سلیمان ؑ تم کو توڑ نہ ڈالے یعنی تمہاری قو ت اورشوکت کو کچل نہ دے.فَتَبَسَّمَ ضَاحِکًا مِّنْ قَوْلِھَا.اس پر سلیمانؑ اس نملہ کی بات سن کر ہنس پڑے.یہاں مفسروں نے یہ عجیب بات نکالی ہے کہ سلیمانؑ جسے خدا نے پرندوں کی بولی سکھائی تھی اورمفسروں نے چیونٹیوں کی.اس نے چیونٹیوں کے سردار کی بات فوراً سمجھ لی اور ہنس پڑا کہ دیکھو چیونٹیاں بھی مجھے کتنا انصاف پسند سمجھتی ہیں کہ بے سوچے سمجھے تومیراپیرچیونٹی پرپڑ سکتاہے.لیکن میں جان بوجھ کر کسی چیونٹی پر بھی پیرنہیں رکھوں گا.حالانکہ کوئی شریف آدمی بھی خواہ وہ غیر نبی ہو جان بوجھ کر چیونٹیوں کے اوپر پیر نہیں رکھاکرتا.ہم نے توکئی شریف آدمیوںکودیکھا ہے کہ برسات کے موسم میں جب کیڑے زمین میںسے نکل آتے ہیں تووہ بچ بچ کرچلتے ہیں کہ کہیں زیاد ہ کیڑے ان کے پیر کے نیچے آکر نہ مارے جائیں.پس یہ بات توغلط ہے.اصل بات صرف اتنی تھی کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام کومعلوم ہواکہ نملہ قوم کی ملکہ نے اپنی قوم کو کہہ دیاہے کہ اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ جائو.اورمخالف مظاہر ہ نہ کرو.تاکہ اس مظاہر ہ سے بھڑک کر حضرت سلیمانؑ کالشکر ان پر حملہ نہ کردے.اوران کو پتہ بھی نہ لگے کہ سردارِ قوم نے اپنی قوم کو عجز وانکسار کاحکم دیا ہے.توآپ ہنس پڑے کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح دوردراز کے ملکوں تک بھی یہ بات پھیلادی ہے کہ سلیمانؑ ظالم نہیں اوروہ ادنیٰ اقوام کے ساتھ بھی انصاف کاسلوک کرتاہے.
نملہ قوم کی ملکہ کایہ اعلان کرنا کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو اوردروازے بندکرلو.دراصل ا س جنگی دستور کے مطابق تھا کہ جب کو ئی لشکر کہیں سے گذرے اوروہاں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں اوردروازے بندکرلیں تواس کے معنے یہ ہوتے تھے کہ وہ اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں.چنانچہ فتح مکہ کے موقعہ پر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کرادیاتھا کہ جولوگ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائیں گے اور دروازے بندکرلیں گے.توان سے کوئی باز پرس نہیں ہو گی.یہی نملہ نے کہا.کہ اپنے اپنے گھروں میں گھس جائو اور دروازے بند کرلو.حضرت سلیمان ؑ سمجھ جائیں گے کہ یہ میرامقابلہ کرناچانہیںہتے.اگرہم باہر رہیں گے توممکن ہے وہ حملہ کردیں.حضرت سلیمان علیہ السلام کو جب نملہ قوم کی ملکہ کا یہ اعلان پہنچا.تووہ ہنسے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کا شکر اداکیا کہ میری نیکی اورتقویٰ کی کتنی دوردور خبر پہنچی ہوئی ہے.یہ قوم بھی جو اتنی دوررہتی ہے سمجھتی ہے کہ سلیمانؑ ظالمانہ طور پر حملے نہیں کیاکرتا.اگرہم اپنے دروازے بندکرلیں گے تویہ ہم پر حملہ نہیں کرے گا حالانکہ اس زمانہ کے جنگی دستور کے مطابق جو فاتح قوم ہوتی تھی وہ ملک کو لوٹ لیا کرتی تھی.چنانچہ انہوں نے خدا تعالیٰ سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے اللہ! یہ نیک شہرت تیرے فضل سے ہوئی ہے.پس تومجھے توفیق دے کہ میں تیرے اس انعام کا شکریہ ادا کروںجوتُونے مجھ پر اور میرے ما ں باپ پرنازل کیا ہے اورہمیشہ ایسے کام کروں جن سے توراضی ہو.یعنی جس طرح اب ایک نملہ نے تسلیم کیا ہے کہ سلیمانؑ اوراس کے ساتھی جانتے بوجھتے ہوئے ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے.اگران لوگوں کے ہاتھوں سے کوئی نقصان پہنچا تووہ محض غفلت کا نتیجہ ہوگا.ورنہ ارادتاً وہ کوئی ظلم اور تعدّی نہیں کرسکتے.اسی طرح تومجھے اور میرے لشکریوں کو توفیق عطافرماکہ وہ ہمیشہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق سے آراستہ رہیں اورہمیشہ لوگ یہ تسلیم کرتے رہیں کہ ان لوگوں کے ہاتھوں سے دیدہ و دانستہ کوئی ظلم سرزد نہیںہوسکتا.اورتُو اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں داخل فرمادے.وَ تَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ١ۖٞ اَمْ كَانَ اوراس نے سب پرندوں کی حاضری لی.پھر کہا.مجھے کیاہواہے.کہ میں ھد ھد کونہیں دیکھتا.یاوہ (جان بوجھ مِنَ الْغَآىِٕبِيْنَ۠۰۰۲۱لَاُعَذِّبَنَّهٗ۠ عَذَابًا شَدِيْدًا اَوْ کر )غیر حاضر ہے.میں اس کویقیناًسخت سزادوں گا.یااسے قتل کردوں گا.یاوہ میرے سامنے کوئی کھلی دلیل
لَاَاذْبَحَنَّهٗۤ اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ۰۰۲۲ (اپنی غیر حاضری کی )پیش کرےگا.تفسیر.جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے سارے لشکر کاجائز ہ لیا اورامراء لشکرکواپنے سامنے حاضری کاحکم دیا تواس وقت علماء میں سے ایک سردار کو جس کانام ہد ہد تھا انہوں نے غائب پایا اس نہایت ہی نازک موقعہ پر جبکہ آپ ایک ملک پر حملہ کرنے کے لئے جارہے تھے اپنے لشکر کے ایک سردار کو غائب دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کاغصہ بھڑک اٹھا اور ان کا ذہن اس طرف منتقل ہوگیاکہ مبادا اس میں کوئی سازش کام کررہی ہو.چنانچہ انہوں نے کہا کہ کیا ہدہد پر میری نظر نہیں پڑی یا وہ کہیں بھاگ گیا ہے.اب میں اسے یاتوکوئی شدید ترین سزادوں گا یااسے قتل کردوں گا اوریاپھر اسے میرے سامنے کوئی واضح ثبوت پیش کرنا پڑے گا کہ وہ کیوں غائب رہا.مفسرین خیال کرتے ہیں کہ سچ مچ کے پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے لشکر میں شامل تھے اورلشکر کاایک سردار ہدہد پرندہ تھا.جس کو چھوٹے اور بچے بھی غلیلوں سے مار لیتے ہیں.اس زبردست لشکرکو لے کر حضرت سلیمان علیہ السلام یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے نکلے تھے(معالم التنزیل و طبری).ہرعقلمند سمجھ سکتاہے کہ یہ قصہ ہدہد کوسردار ثابت نہیں کرتا بلکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو نعوذ باللہ بیوقوف ثابت کرتاہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کے نبی بیوقوف نہیں ہواکرتے.یمن کا ملک فتح کرنے کے لئے کبوتر.فاختہ.چڑیاں.ہدہد.بٹیر اور تلئیر لے کر نکلناکسی عقلمندکاکام نہیں ہوسکتا.ایسے لشکروں کو فتح کرنے کے لئے بادشاہ کی فوجوں کو نکلنے کی ضرورت نہیںہوتی.ایسے لشکروں کے آنے کی خبر سن کر توسارے شہر کی گلیوں میں سے بچے اپنی غلیلیں لے کر نکل پڑیں گے اورسارے شہر کے لئے عید کادن آجائے گا اورخوب پرندوں کاگوشت کھایاجائے گا.آخر یہ جنگ ہو نے لگی تھی یاچڑی ماروں کامظاہرہ ہواتھا.تفسیروں کے ان قصوں کو پڑھ کر خیا ل آتاہے کہ تیمور جو کچھ کرتاتھا ٹھیک ہی کرتاتھا.کیونکہ جو علماء جنگ کو ایسی حقیر کھیل سمجھتے تھے ان کو لشکرکے پیچھے ہی رکھنامناسب تھا.پھر لطف یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ جن کے متعلق ابھی یہ کہاگیا ہے کہ وہ ایک چیونٹی کوبھی جانتے ہوئے اپنے پیروں کے نیچے نہیں کچلتے تھے.اب اتنے غصے میں آگئے کہ ہدہد جیسے جانور کے متعلق جوایک پِدّی کے برابر ہوتاہے اورکوئی عقل نہیں رکھتافرماتے ہیں کہ یاتووہ کوئی زبردست
دلیل لائے ورنہ میں اس کوذبح کرڈالوں گا.اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.پرندوں سے وہ امید رکھنی جو بلند عقلی کے مالک انسانوں سے رکھی جاتی ہے ایک نبی کاکام نہیں ہوسکتا.نہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایساکرتے تھے.آخر قرآن ہمارے سامنے ہے کیاقرآن سے یہی پتہ لگتاہے کہ پرندے ایسی عقل کے مالک ہیں.اگر ان سے کوئی قصورسرزد ہو تو آدمی تلوار لے کرکھڑاہوجائے اوراسے کہے وجہ بیان کرو ورنہ ابھی تمہاراسرکاٹ دوں گا.یاکبھی تم نے دیکھا کہ تمہاراکوئی ہمسایہ ہدہدپکڑکر اسے سوٹیاں ماررہاہو اور کہہ رہاہو کہ میرے دانے تُو کیوں کھا گیا تھا اوراگر تم کسی کو ایساکرتے دیکھو توکیاتم اسے پاگل نہیں قرار دوگے.پھر وہ لوگ جوحضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف یہ امر منسوب کرتے ہیں کہ انہوں نے ہدہد کے متعلق یہ کہا وہ اپنے عمل سے یہی فتویٰ حضرت سلیمان علیہ السلام پربھی لگاتے ہیں بلکہ حضرت سلیمانؑ تویہاں تک کہتے ہیں کہ میں اسے سخت ترین سزادوں گا.اَوْ لَيَاْتِيَنِّيْ بِسُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ.ورنہ وہ ایسی دلیل پیش کرے جونہایت ہی واضح او رمنطقی ہو.گویا وہ ہدہد سقراط بقراط اورافلاطون کی طرح دلائل بھی جانتاتھا.اور حضرت سلیمانؑ اس سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنے دلائل پیش کرے گا.(۲)پھرقرآن تو یہ کہتاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس جنّوں،انسانوں اورطیورکے لشکرتھے مگرحضرت سلیمان ؑ کی نظر صرف ہدہد کی طرف جاتی ہے.اورفرماتے ہیں مَا لِيَ لَاۤ اَرَى الْهُدْهُدَ کیاہواکہ اس لشکر میں ہدہد کہیں نظر نہیں آتا.دنیوی حکومتوں میں تو جس کا قد پانچ فٹ سے کم ہو.وہ فوج میں بھرتی کے قابل نہیں سمجھاجاتا.مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ عجیب بھرتی شروع کردی تھی کہ ہدہد بھی ان کے لشکر میں شامل تھا.پھر ہدہد کی کوئی فوج آپ کے پاس ہوتی.تب بھی کوئی بات تھی.بتایایہ جاتاہے کہ ہدہد صرف ایک آپ کے پاس تھا.اس ایک ہدہدنے بھلا کیاکام کرناتھا.اورایک جانور ساتھ لے جانے سے کیا مطلب تھا.(۳)تیسری بات یہ ہے کہ قرآن یہ کہتاہے.کہ ہدہدنے یہ یہ کہا.اورمعجزہ یہ بیان کیاگیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں کی بولی سمجھتے تھے حالانکہ اصولی طور پر یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام کامعجزہ بیان ہوناچاہیے تھا.مگربیان ہدہد کامعجز ہ ہوتاہے جوسلیمان علیہ السلام کے معجزہ سے بھی بڑھ کرہے.(۴)ایک اَور بات یہ بھی ہے کہ ہدہد ان جانوروں میںسے نہیں جو تیزپرواز ہوں اوراس قد ردور کے سفر کرتے ہوں.یہ جہاں پیدا ہوتاہے وہیں مرتاہے.مگرقرآن یہ بتلاتاہے کہ ہدہد دمشق سے اُڑا اور آٹھ سومیل اڑتا چلاگیا.یہاں تک کہ سباکے ملک تک پہنچا اوروہاں سے خبر بھی لے آیا.گویا وہ ہدہد آجکل کے ہوائی جہازوں سے بھی زیادہ تیز رفتارتھا.اورمعجزہ دکھانے والا ہدہدتھا نہ کہ حضرت سلیمان ؑ.حالانکہ بتانایہ مقصود تھا کہ حضرت سلیمان ؑ
نے معجزہ دکھایا.(۵)اسی ہدہدکادوسرامعجزہ یہ ہے کہ وہ شرک اورتوحید کے باریک اسرار سے بھی واقف تھا.اورا س کو وہ و ہ مسئلے معلوم تھے جو آجکل کے مولویوں کو بھی معلوم نہیں.کتنی اعلیٰ توحیدوہ بیان کرتاہے کہتاہے.وَجَدْتُّھَا وَقَوْمَھَایَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَزَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَھُمْ لَایَھْتَدُوْنَ.یعنی میں نے اسے اوراس کی قوم کو دیکھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بجائے سورج کوسجدہ کرتے ہیں.اورشیطان نے ان کے عمل انہیں خوبصورت کرکے دکھائے ہیں اورانہیں سچے راستہ پر چلنے سے روک دیا ہے.جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے.پھر اس کی غیرت دینی دیکھو آج کل کے مولویوں کے ہمسایہ میں بت پرستی ہورہی ہوتووہ اس کے روکنے کی کوشش نہیں کرتے مگرہدہد چاروں طرف اُڑتاپھرتاہے اور حضرت سلیمان علیہ السلام کوخبردیتاہے کہ فلاں جگہ شرک ہے.فلاں جگہ بت پرستی ہے.(۶)پھر وہ سیاسیات سے بھی واقف تھا.کیونکہ وہ کہتاہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَیْءٍ.یعنی ملکہ سبا کے پاس بادشاہت کی تمام صفات موجود ہیں.گویاوہ ا س کے تمام خزانے اور محکمے چیک کرکے آیا.اوراس نے رپورٹ کی کہ تمام وہ چیزیں جن کی حکومت کے لئے ضرورت ہے وہ اس کے پاس موجود ہیں.(۷) پھر شیطان اور اس کی کارروائیوں سے بھی وہ خوب واقف ہے.کیونکہ وہ کہتاہے میں جانتاہوں انسان کا جب شیطان سے تعلق پیداہوجائے توبرے خیالات اس کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.بلکہ وہ ان خیالات کے نتائج سے بھی واقف تھا.کیونکہ کہتاہے فَصَدَّھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ ایسے خیالات کے نتیجہ میں شیطان نےانہیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے راستہ سے دور پھینک دیاہے.یہ ہدہد کیا ہوا.اچھاخاصہ عالم ٹھہرا.ایساہدہد اگرآج مل جائے توسارے مولویوں کو نکال کر اسی کومفتی بنادینا چاہیے.(۸)ہاں ایک بات رہ گئی.اوروہ یہ کہ و ہ تختِ سلطنت کی حقیقت سے بھی خوب واقف تھا کیونکہ وہ کہتاہے کہ ملکہ سباکے پاس ایک عظیم الشان تخت ہے جوآپ کے پاس نہیں.گویا وہ لالچ بھی دلاتاہے اورکہتاہے اس پر حملہ کیجئے.یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ ہدہد کو ئی پرندہ نہیں تھا.کیونکہ قرآن میں صاف موجود ہے کہ وہ امانت جسے فرشتے بھی نہ اٹھاسکے.جسے آسمان اورزمین کی کوئی چیز اٹھانے کے لئے تیار نہ ہوئی.اسے انسان نے اٹھالیا.وہی ہے جو ہماری شریعت کے رموز کوجانتاہے.فرشتہ ایک ہی بات سمجھتاہے یعنی نیکی کی بات کو مگر انسان نیکی اور بدی
دونوں پہلوئوں کو جانتا او رتمام حالات پر مکمل نگاہ رکھتا ہے.مفسر کہتے ہیں کہ ہدہد کوئی جانور تھا.حالانکہ حَمَلَھَا الْاِنْسَانُ والی آیت موجود ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ انسان کے سواکوئی اَورمخلوق اسرار شریعت کی حامل نہیں.پس جبکہ ہدہدبھی اسرار شریعت سے واقف تھا تولازماً وہ بھی انسان ہی تھا نہ کہ پرندہ.بعض لوگ سوال کیاکرتے ہیں کہ اگر یہ ہدہد آدمی ہی تھا تواس کے لئے ذبح کا لفظ کیوں استعمال کیاگیاہے.سویاد رکھناچاہیے کہ عربی زبان میں ذبح کالفظ قتل کے معنوں میں بھی استعمال ہوتاہے(تاج العروس)جیسے قرآن کریم میں فرعون اور اس کے ساتھیوںکے متعلق ہی آتاہے کہ یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ (القصص :۵) وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کوقتل کیاکرتاتھا.اگرذبح کے لفظ سے ہدہد کوپرندہ قراردینا درست ہو سکتا ہے توکیا یُذَبِّحُ اَبْنَائَ ھُمْ کے یہ معنے ہیں کہ وہ سب پرندے تھے جن کو ذبح کیاجاتاتھا.پھر بعض دفعہ جب کسی مناسبت کی بنا ء پر کوئی نام رکھا جاتا ہے تو حسنِ کلام کے لئے الفاظ بھی اسی رنگ کے استعمال کئے جاتے ہیں.جیسے کسی کو شیر قرار دیا جائے تو کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح دھاڑتا ہے یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ شیر کی طرح سریلی آواز سے گاتا ہے.اسی طرح جب ہد ہد کا ذکر کیا گیا تو گووہ ایک سردار تھا مگر ہد ہد کی مناسبت سے اس کے لئے ذبح کا لفظ استعمال کردیا گیا جو حسنِ کلام کا ایک لطیف نمونہ ہے.اب سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ہد ہد نام کیوں رکھا گیا.اور گو اس کا عقلی جواب میں قرآن کریم سے ہی دے چکا ہوں.مگر اب بتاتا ہوں کہ ہد ہدسے مراد کیا ہے.ہُدہُد کا پتہ لینے کے لئے جب ہم بنی اسرائیل کی کتابیں دیکھتے ہیں اور اس امر پر غور کرتے ہیں کہ کیا ان میں کسی ہد ہد کا ذکر آتا ہے.تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں یہودیوں میں کثرت سے ھُدَدْ نام ہوا کرتا تھا.جو عبرانی سے عربی میں بدل کر ہد ہد ہوگیا.جیسے عبرانی میں ابراہامؔ کہا جاتا ہے مگر جب یہ لفظ عربی میں آیا تو ابراہیمؔ بن گیا.اسی طرح عبرا نی میں یسوع کہا جاتا ہے اور عربی میں عیسیٰؔ کہتے ہیں اسی طرح عبرانی میں موشے کہا جاتا ہے اور عربی میں یہی نام موسیٰ ہوگیا.اب بھی کسی اہل عرب کو لکھنؤ کہنا پڑے تو وہ لکھنؤنہیں بلکہ لکھناؔہوء کہے گا.اسی طرح عبرانی میں ھُدَدْ کہا جاتا تھا مگر چونکہ قرآن کریم عربی میں ہے اس لئے جب یہ نام اس میں آیا تو ھُدھُد ہوگیا.تاریخ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ھُدَدْ کئی ادومی بادشاہوں کا نام تھا.اور اس کے معنے بڑے شور کے ہوتے ہیں.عربی زبان میں ھدّ کے ایک معنے اَلصَّوْتُ الْغَلِیْظُ.یعنی بڑی بلند آواز کے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اونچی آواز والے لڑکے کا نام ھُدَدْ یا ھُدْھُدْ رکھ دیتے تھے مگر یہ نام تیسرے ادومی بادشاہ کا بھی تھا جس
نے مدین کو شکست دی تھی اور آخری بادشاہ کا نام بھی یہی تھا(Jewish Encyclopedia زیر لفظ Hadad).حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک لڑکے کا نام بھی ہُدہُد تھا.(پیدائش باب ۲۵آیت ۱۴) بائیبل کی کتاب نمبر ۱ سلاطین باب ۱۱آیت ۱۴ میں بھی ادوم کے خاندان کے ایک شہزادہ کا ذکر آتا ہے جس کا نام ہددؔ تھا اور جو یو آب کے قتل عام سے ڈر کر مصر بھاگ گیا تھا.جیوئش انسائیکلوپیڈیا میں لکھا ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جب یہ لفظ اکیلا آوے تو اس کے ساتھ کوئی صفاتی فعل یا لفظ نہ ہوتو اس کے معنے ادومی خاندان کے آدمی کے ہوتے ہیں.غرض یہ ھُدْ ھُدْ عبرانی زبان کا لفظ ھُدَدْ ہے جو عربی زبان میں آکر ھُدْ ھُدْ ہوگیا.چونکہ مفسرین کو یہ شوق ہوتا ہے کہ اپنی تفسیر کو دلچسپ بنائیں اس لئے وہ بعض دفعہ بے ہودہ قصے بھی اپنی تفسیروں میں درج کردیتے ہیں.چنانچہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ضبّ عربی میں گوہ کو کہتے ہیں.مگر ضبّ عرب کے ایک قبیلے کے سردار کا بھی نام تھا.اور یہ ایسا ہی نام ہے جیسا ہندوئوں میں طوطارام نام ہوتا ہے وہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا.اوراس نے آپ کی مدح میں ایک قصیدہ پڑھا.اب وعظ کی کتابوں میں اس بات کو ایک قصہ کا رنگ دیتے ہوئے یوں بیان کیا گیا ہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے کہ راستہ میں ایک سوراخ میں سے گوہ نکلی.اورا س نے قصیدہ پڑھنا شروع کردیا.اب جن لوگوں نے یہ بنا لیا کہ ایک گوہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں قصیدہ پڑھا تھا ان کے لئے ہُدہُد کا پرندہ بنا لینا کون سا مشکل کام تھا.چنانچہ مفسرین لکھتے ہیں کہ حضر ت سلیمان علیہ السلام کوہدہد کے غائب ہونے کا اس طرح پتہ چلا کہ ایک دفعہ چلتے چلتے وہ ایک ایسے میدان میں پہنچے جہاں پانی نہیں ملتاتھا.نماز کا وقت آیاتو حضرت سلیمان علیہ السلا م نے وضو کرناچاہامگرانہیں پانی نہ ملا.انہوں نے کہا.ہدہدکہاں ہے اسے کہو کہ پانی تلاش کرے.کیونکہ پہلے بھی جب لشکر کوپانی کی ضرورت ہوتی تھی توہدہدہی پا نی کی جگہ بتایا کرتاتھا.مگر اس روز اسے ڈھونڈا تووہ نہ ملا جس پر حضرت سلیمان علیہ السلام کو غصہ آگیا.اورانہوں نے کہا کہ ہدہد آیاتومیں اسے شدید سزادوں گا یااسے ذبح کردوں گا(روح المعانی).مگر بعض نے اس واقعہ سے اختلاف کیاہے.وہ کہتے ہیں.اصل واقعہ یہ نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام پرپرندوں کے جھنڈ ہمیشہ سایہ رکھتے تھے.ایک دن اچانک ایک سوراخ میں سے دھوپ آگئی.حضرت سلیمان علیہ السلام نے نظر اٹھا کردیکھا توآپ کو پتہ لگ گیا کہ ہدہد کی جگہ خالی ہے.(قرطبی) غرض مفسرین نے عجیب وغریب حکایات اپنی تفسیروں میں لکھ دی ہیں حالانکہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ قرآن
کریم میں جو ہدہد کہا گیاہے یہ ھُدَدَ کامعرب ہے اوراس سے مراد ادومی خاندان کا کوئی شہزاد ہ ہے جوآپ کے فوجی سرداروں میں سے ایک سردار تھا.یہ ادومی خاندا ن حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت میں بستاتھا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے خاندان کارقیب تھا.اس قوم کے سردار کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے نہ پایا.توسمجھا کہ یہ رقیب قبیلہ کاسردار ہے ممکن ہے کہ کسی شرار ت کی نیت سے دشمن کے ملک میں چلا گیا ہو.اوراس پر ان کو غصہ آگیا.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہدہد عرب قبیلہ کاکوئی سردار ہو.کیونکہ بائیبل سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام بھی ہدہد تھا.اورتاریخی طور پر یہ امر ثابت ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت تک اس رستہ میںجو فلسطین سے یمن کی طرف آتاہے عرب قبیلے بستے تھے.(تقویم البلدان )اور چونکہ عربوں اور یہودیوں کی باہم سخت چپقلش تھی اورگووہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت آگئے تھے لیکن مخالفت اب تک باقی تھی.اس لئے جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے دیکھا کہ عر ب قوم کاایک سردار غائب ہے توان کے دل میں شبہ پیداہوااوروہ ناراض ہوگئے.اوریمن چونکہ عر ب کاایک حصہ ہے اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے.فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ پس کچھ دیر و ہ ٹھہرا(اتنے میںہدہد حاضر ہوا)اوراس نے کہا کہ میں نے اس چیز کاعلم حاصل کیاہے جو تجھے حاصل جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ۰۰۲۳اِنِّيْ وَجَدْتُّ امْرَاَةً نہیں اورمیں سبا(کی قو م کے علاقہ)سے تیرے پاس (آیاہوں )(اور)ایک یقینی خبر لایاہوں.(جویہ ہے تَمْلِكُهُمْ وَ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ وَّ لَهَا عَرْشٌ کہ)میں نے (وہاں)ایک عورت کو دیکھا جو ان (کی ساری قوم)پر حکومت کررہی ہے.اورہرنعمت اسے عَظِيْمٌ۰۰۲۴وَجَدْتُّهَا وَ قَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ حاصل ہے.اوراس کا ایک بڑاتخت ہے.اورمیں نے اس کو اوراس کی قوم کو اللہ کے سوا سور ج کے آگے
دُوْنِ اللّٰهِ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ سجدہ کرتے دیکھا.اورشیطان نے ان کے عمل ان کو خوبصورت کرکے دکھائے ہیں.اوران کو سچے راستہ سے السَّبِيْلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُوْنَۙ۰۰۲۵اَلَّا يَسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ روک دیاہے.جس کی وجہ سے وہ ہدایت نہیں پاتے.اورمُصّر ہیں کہ اللہ کوسجدہ نہ کریں جو کہ آسمانوں اور زمین کی يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ يَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَ ہر پوشیدہ تقدیر کو ظاہر کرتاہے اورجوکچھ تم چھپاتے ہو اورظاہرکرتے ہو ان تدبیروں کو بھی جانتا ہے.حالانکہ اللہ مَا تُعْلِنُوْنَ۰۰۲۶اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِؑ۰۰۲۷ وہ ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں (وہ )ایک بڑے تخت کامالک ہے.حلّ لُغَات.اَلْخَبْءُ.اَلْخَبْءُکے معنے ہیں مَاخُبِئَی وَغَابَ.یعنی وہ چیز جو چھپائی جائے اورغائب ہو.اور خَبْ ءُ الْاَرْضِ کے معنے ہیں نَبَاتُھَا زمین کی انگوری.او رخَبْ ءُ السَّمَآءِ کے معنے ہیں مَطَرُھَا بارش (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام کووہاں پڑائو کئے ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ سردار واپس آگیا.اوراس نے بتایاکہ چونکہ آپ ملک سباپر حملہ کرنے کے لئے جارہے تھے اورسباکاعلاقہ میرے ملک کاایک حصہ ہے میں پہلے سے خبر لینے کے لئے وہاں چلا گیا.کیونکہ زبان اور قو م کے ایک ہونے کی وجہ سے میرے لئے وہاں کے حالات معلوم کرنا آسان تھا مجھے اس بات کا یقینی طورپر علم حاصل ہوچکا ہے.کہ اس وقت اس ملک میں ایک عورت حاکم ہے لیکن غضب کی حاکم ہے ہرقسم کے سازو سامان اس کے پاس موجود ہیں اورا س کی بادشاہت بہت بڑی ہے.اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سے یہ مراد نہیں کہ ملکہ سباکو ہرنعمت میسر ہے.کیونکہ اگراسے ہرنعمت میسر ہوتی تو جب اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجاتھاتوآپ اس وقت یہ نہ کہتے کہ میرے پاس تو اس سے بھی بڑھ کرچیزیں ہیں.میں ان تحفوں سے کیونکر متاثر ہوسکتاہوں.پس حضرت سلیمان علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میرے پاس توملکہ سباسے بھی بڑھ کر مال و دولت اور سامان موجود ہے بتاتاہے کہ اُوْتِيَتْ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ سے صرف یہ مراد ہے
کہ ملکہ سباکو اپنی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہوسکتی ہے وہ تما م چیزیں اسے میسر ہیں.اوروہ بڑی بیدار مغز حکمران ہے.شاید یہ کہہ کر اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ڈراناچاہاکہ کہیں وہ اس کے ملک کے ایک حصہ پر قبضہ نہ کرلیں.لیکن ساتھ ہی اس نے ایسی بات کہہ دی جس کی وجہ سے حضرت سلیمان علیہ السلام اپنے ارادہ میں اور بھی پختہ ہوگئے.اوروہ یہ کہ میں نے ملکہ او راس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھو ڑکر سورج کی پرستش کرتے دیکھا ہے اورشیطان نے ان کو اپنے اعمال پر بڑانازاں کردیاہے اور توحید کے رستہ سے ہٹادیاہے اوروہ اس بات پر مصر ہیں کہ اس خدا کو سجدہ نہ کریں جو آسمان اور زمین کے تمام چھپے رازوں کو ظاہر کرنے والا ہے او رجس نے سورج اورچاند کو محض ایک خاد م کی حیثیت دی ہے اورعلومِ ظاہری اور باطنی اپنے انبیاء کو بتادیئے ہیں.وہ اللہ جوکہ موحدوں کا خداہے اس کی بادشاہت اس ملکہ کی بادشاہت سے بہت بڑی ہے اور ضرور اس کی بادشاہت غالب آئے گی اس طرح اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو خوش کرنے کی کوشش کی اور بتایا کہ وہ بلاوجہ غیر حاضر نہیںرہا.بلکہ اس نے ملکی مفاد کے لئے یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا تھا.قَالَ سَنَنْظُرُ اَصَدَقْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۰۰۲۸ (اس پر سلیمان نے )کہا.کہ ہم دیکھیں گے کہ تونے سچ بولا ہے یاتُو جھوٹوں میں سے ہے.اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ تومیرایہ خط لے جا اوراسے ان کے (یعنی سباکی قوم کے )سامنے پھینک دے.پھر (ادب سے ) فَانْظُرْ مَا ذَا يَرْجِعُوْنَ۰۰۲۹ پیچھے ہٹ (کر کھڑاہو)جا اوردیکھ کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.تفسیر.اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے کہا کہ بہت اچھا ہم نے جاناتوضرورہے.ہم وہاں جاکردیکھیں گے کہ تُو نے سچ بولاہے یاایک جھوٹی رپورٹ پیش کردی ہے.تُو میرایہ خط لے جا.اوران لوگوں کے سامنے جا کر انہیں یہ خط پیش کردے اور پھر ذراپیچھے ہٹ کر کھڑےہوجائیو.اوردیکھئیو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں.ذرادیکھو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام جیسا عقلمندنبی ایک پرندے کو کیانصیحت کرتاہے.کبوتروں کی گردن
میںتولوگ خط باندھا ہی کرتے تھے.مگرہدہد کو ڈاکیہ بنانے کالطیفہ ہمارے مفسرین کو ہی سوجھا ہے پھر ایک بے عقل جانورکو کیسے آداب سکھائے جاتے ہیں کہ براہ راست ملکہ کے ہاتھ میں خط نہ دیجئیو.کیونکہ یہ ایک بے ادبی سمجھی جاتی ہے.بلکہ ا س کے درباریوں کے سامنے خط رکھیئو.وہ خود اس کے آگے خط پیش کردیں گے.جیساکہ سلطانی آداب میں یہ بات شامل ہے پھر جلدی سے جواب نہ مانگیئو.گویا حضرت سلیمان علیہ السلام کو ہی پرندوں کی بولی نہیں آتی تھی بلکہ ملکہ سباکوبھی آتی تھی.اورمناسب انتظار کے بعد جب وہ جواب دیں تولے آئیو.قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اِنِّيْۤ اُلْقِيَ اِلَيَّ كِتٰبٌ كَرِيْمٌ۰۰۳۰ (جب اس نے ایساکیا تو)وہ (ملکہ )بولی.اے میرے درباریو !میرے سامنے ایک معز ز خط رکھا گیاہے.اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۰۰۳۱ (جس کا مضمون یہ ہے کہ) یہ (خط)سلیمان کی طرف سے ہے اوراس میں بتایاگیاہے کہ اللہ جو بے انتہا اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَ اْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَؒ۰۰۳۲ کرم کرنے والا اوربار بار رحم کرنے والا ہے اس کے نام سے ہم شروع کرتے ہیں.(اورکہتے ہیں)کہ ہم پر زیادتی نہ کرو.اورہمارے حضور میں فرمانبردا ربن کر حاضر ہوجائو.حلّ لُغَات.اَلْمَلَأُ.اَلْمَلَأُکے معنے ہیں اَلْاَشْرَافُ.بڑے لوگ.صاحب مرتبہ.وجاہت والے.قِیْلَ سُمُّوْا بِذٰلِکَ لِمَلَاءَتِھِمْ بِمَا یُلْتَمَسُ عِنْدَھُمْ مِنَ الْمَعْرُوْفِ وَجَوْدَۃِ الرَّأْیِ اَوْ لِاَنَّھُمْ یَمْلَاُوْنَ الْعُیُوْنَ أُبَّھَۃً وَالصُّدُّوْرَ ھَیْبَۃً.اورسرداروں کو مَلَاٌ اس لئے کہتے ہیں کہ جس امرکے متعلق ان سے مشورہ لیاجاتاہے.اس کے متعلق رائے دینے کے لئے ان کادماغ بھرپور ہوتاہے.نیز ان کو دیکھ کرلوگوں کی آنکھیں اوردل رعب سے بھر جاتے ہیں (اقرب الموارد) تفسیر.جب ہدہد نے حضرت سلیمان علیہ السلام کاخط ملکہ کے درباریوں کے آگے رکھ دیااورانہوں نے ملکہ کے آگے پیش کردیا.توملکہ نے کہا.ایک بڑا معز ز خط میرے آگے پیش کیاگیا ہے وہ سلیمان ؑ کی طرف سے ہے اور اس کے شروع میں بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ لکھی ہے اور اس کا مضمون یہ ہے کہ میرے خلاف سرکشی مت
کرو.اورفرمانبردار ہوکر میرے حضورحاضرہوجائو.دیکھو یہ کتنا واضح اشار ہ ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بلاوجہ اس ملک کی طرف نہیں گئے تھے بلکہ پہلے اس ملک کے لوگوں نے کوئی سرکشی کی تھی اس سر کشی کو دبانے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے یمن کا رخ کیاتھا.اور اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا.کہ اگر تم فرمانبرداری اختیار کروگے تومیں تمہار اپہلا قصور معاف کردوں گا.یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے خط سے پہلے جو بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ کے الفاظ لکھے ہیں.ان کو دیکھ کر دشمنان اسلام کی طرف سے بالعموم یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم نے اپنی ہر سورۃ کے ابتداء میں جو بسم اللہ لکھی ہے وہ درحقیقت پرانی کتب کی ایک چوری ہے اورپہلے لوگ بھی اس کاعلم رکھتے تھے.چنانچہ راڈول لکھتاہے کہ یہ کلمہ یہودی الاصل ہے (وہیری ص۲۸۹ جلد اول)اور وہیری لکھتاہے کہ یہ امر یقینی ہے کہ یہ کلمہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے یہودیوں اور صابیوں سے مستعار لیا ہے.آخرالذکر ہمیشہ اپنی تحریروں سے پہلے یہ لکھاکرتے تھے.’’ بنامِ یزداں بخشائش گردادار(تفسیروہیری للقرآن الکریم جلد اول صفحہ ۲۸۹) پادری سینٹ کلیئر ٹسڈل صاحب نے اپنی کتاب ’’ ینابیع الاسلام ‘‘ میں اس عبارت کو زرتشتیوں کی طر ف منسوب کیاہے اورلکھاہے کہ کتاب دساتیر میں ہرنبی کے صحیفہ سے پہلے یہ عبارت ہے ‘‘بنام ایزد بخشائش گرمہربان دادگر‘‘(اردو ترجمہ ینابیع الاسلام اردو ترجمہ صفحہ ۱۲۷) یہ عجیب بات ہے کہ تین مسیحی مصنف اس آیت کومسروقہ ثابت کرنے کے لئے تین سرچشمے اس کے بیان کرتے ہیں.ایک یہودیوںکو اس کاسرچشمہ بتاتاہے.دوسراصابیوں کو.تیسرازردشتیوںکو.ان لوگوںکا اس آیت کو مسروقہ ثابت کرنے کے لئے اس قدر کوشش کرناخود اس امر کاثبوت ہے کہ ان کے نزدیک یہ آیت اپنے معنوں کے لحاظ سے ایک سمندرہے.ورنہ ان کا یہ لکھ دینا ہی کافی ہوتاکہ اس آیت کے مضمون میں کوئی خاص خوبی نہیں.پھرسوال یہ ہے کہ تینوں سرچشموں میں سے اصل سرچشمہ کون ساہے؟ تینوںقوموںکو ا س آیت کاموجد تو قرار نہیں دیاجاسکتا.پس ضروری ہے کہ یہ مسیحی مصنف یا ان کے شاگرد یہ تصفیہ بھی کرلیں کہ آیا یہودیوں نے زردشتیوں یا صابیوں سے چرایا ہے یابرعکس معاملہ ہے.یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہودیوں میں اس کلمہ کے استعمال کا ایک بھی حوالہ نہیں دیاگیا.اورنہ وہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں کہ جن میں یہودی اس مضمون کو بیان کیاکرتے تھے.بلکہ باوجود اس بات کے کہ مسیحیت یہودیت کی ایک شاخ ہے اوریہودی کتب گویامسیحیوں کی اپنی مذہبی کتب ہیں پھر بھی مسیحی مصنّف یہودی کتب
کاحوالہ نہیںدے سکے اور نہ ا ن کے الفاظ نقل کرسکے البتہ زرتشتیوں او رصابیوں کی کتب کے حوالے انہوں نے نقل کردیئے ہیں.جس سے یہ بات اَور بھی روشن ہوجاتی ہے کہ اس آیت کے حسن کو دیکھ کر وہ کچھ ایسے بدحواس ہوگئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اپنی مذہبی کتب میں اس کاوجود ثابت کرناچاہتے ہیں.باقی رہے صابی اور زرتشتی سوصابیوں کی کتب تو محفوظ نہیں.ہاں زرتشتیوں کی کتب کے بعض حصے اس وقت بھی پائے جاتے ہیں.لیکن ان کتب کی نسبت خود زرتشتی لوگ کہتے ہیں کہ وہ اصل صورت میں محفوظ نہیں ہیں.پس کیاتعجب ہے کہ ان کے بعض حصے اسلام کے بعد ہی بنائے گئے ہوں.لیکن اگر ان کتب کو صحیح بھی تسلیم کرلیاجائے تب بھی قرآن کریم پر کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ یہ آیت پہلی دفعہ قرآن کریم میں نازل ہوئی ہے.بلکہ وہ خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت پہلے بھی دنیا میں موجود تھی.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جو خط ملکہء سبا کو لکھا.اس کے الفاظ بتائےگئے ہیں کہبِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.اَلَّا تَعْلُوْا عَلَيَّ وَ اْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ.پس اگریہ ثابت بھی ہوجائے کہ یہود یا زرتشتیوں یاصابیوں یا کسی اَور قوم میں یہ آیت پہلے سے موجود تھی توبھی کوئی حر ج نہیں کیونکہ جب قرآن کریم خود تسلیم کرتاہے کہ یہ آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی.توجو آیت حضرت سلیمان علیہ السلام کو معلوم تھی وہ یقیناً ان کے اتباع کوبھی معلوم ہوگی اوربالکل ممکن ہے کہ دوسری قوموں کے نبیوں کو بھی معلوم ہو.فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس کامضمون عربی زبان میں نازل ہواہے.اورپہلی قوموں میں ان کی اپنی زبانوں میں ہوگا.مگربایں ہمہ قرآن کریم میں ہرسورۃ سے پہلے اس آیت کی موجودگی نقل نہیں کہلاسکتی.کیونکہ قرآن کریم میں اس آیت کاوجود ایک پیشگوئی کو پوراکرنے کے لئے ہے اورجوکلام کسی نئی غرض کے لئے دوہرایاجائے اور کسی خاص فائدہ کے لئے اختیار کیاجائے وہ نقل یا چوری ہرگز نہیں کہلاتا.یہ پیشگوئی خروج باب ۱۹،۲۰ اوراستثناء باب ۱۸ میں مذکور ہے.اوراس کاخلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ بنی اسرائیل کو پاک کرکے سینا کے نیچے لاکھڑاکر.تاکہ وہ سنیں کہ میں تجھ سے کلام کرتاہوں.پہلے تووہ پہاڑ کے پاس کھڑے رہیں.لیکن جب قرنا کی آواز بہت بلند ہوتو قریب آجائیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام جب وہاں گئے اورخدا تعالیٰ کاکلام نازل ہواتواس کے ساتھ ہی بجلی چمکی اور دھواں اٹھا اورگرج پیداہوئی.وہ لوگ ڈر کے دورجاکھڑے ہوئے.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام ان کے پاس گئے توانہوں نے کہا کہ تُو ہی ہم سے بو ل اور ہم سنیں.لیکن خداہم سے نہ بولے.کہیں ہم مرنہ جائیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں سے کہا کہ تم مت ڈرو.اس لئے کہ خداآیا ہے تاکہ تمہاراامتحان کرے اورتاکہ اس کاجلال تمہارے سامنے
ظاہر ہو.کہ تم گنا ہ نہ کرو.مگر پھر بھی وہ لوگ دور ہی کھڑے رہے اورصرف حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی اللہ تعالیٰ کے پاس گئے (خروج باب ۲۰آیت ۱۹تا۲۱) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے جاکر عرض کیا کہ الٰہی میری قوم توتیرے پاس آنے سے ڈرتی ہے تب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر یہ وحی نازل ہوئی کہ :.’’ خداوند تیراخداتیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکرے گا.تم اس کی طرف کان دھریو.اس سب کی مانند جو تُو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا.اورکہا کہ ایسانہ ہوکہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ میں پھر دیکھوں تاکہ میں مرنہ جائوں.اورخداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جوکچھ کیاسواچھا کیا.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپاکروں گا.اورجوکچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب اسے کہے گا.اورایساہوگاکہ جو کوئی میری باتوںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گاتومیں اس کا حساب اس سے لوں گا.لیکن وہ نبی جوایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کامیں نے اسے حکم نہیں دیا اورمعبودوں کے نام سے کہے تووہ نبی قتل کیاجائے.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵تا۲۰) اس پیشگوئی میں بتایاگیاتھاکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نبی ان کامثیل بن کرآئے گا.اوروہ جب بھی خدا تعالیٰ کاکلام سنائے گاتوکہے گاکہ میں خدا کانام لے کریہ کلام سناتاہوں.اورخدا کانام لے کر کاترجمہ عربی زبان میں بسم اللہ ہی ہے.پس بسم اللہ میں اسم کا لفظ بڑھا کر اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.اوراس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا قرآن کریم کی ہرسورۃ کے شروع میں ہی ایک ثبوت پیش کردیاگیا ہے تایہودیوں اورعیسائیوں پر آپ کی سچائی کھل جائے.اوران پر حجت پو ری ہوکہ وہ موعود جس کاان کی کتابوں میں ذکر ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.جو ہربات کو اللہ تعالیٰ کانام لے کر بیان کرتے ہیں.پس ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ ہریہودی اور ہرعیسائی کوتوجہ دلاتی ہے کہ تم کیوں اس نبی کو نہیں مانتے جو موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق جب اللہ تعالیٰ کاکلام سناتاہے تواس سے پہلے یہ الفاظ بھی کہہ دیتاہے کہ میں اللہ کا نام لے کر یہ کلام سناتاہوں.بہرحال اس پیشگوئی میں بتایاگیا تھا کہ (۱)بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیلؑ میں سے ایک نبی آئے گا.(۲)اس کو
حضرت موسیٰ ؑ کی طرح شریعت دی جائے گی.(۳)وہ جو نیامضمون بھی خدا کی طرف سے پاکر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اس سے پہلے یہ کہہ لے گا کہ میں خدا تعالیٰ کانام لے کر اس کلام کو شروع کرتاہوں.(۴)اگر کوئی جھوٹاانسان اس پیشگوئی کو اپنے اوپر چسپاں کرناچاہے گا تووہ ہلاک ہوجائے گا.(۵)اورجواس پیشگوئی کے مصداق کاانکار کرے گا.وہ بھی ہلاک کیاجائے گا.پس اس پیشگوئی کے مطابق ہرسورۃ سے پہلے بسم اللہ رکھ دی گئی.اوراس طرح یہود اور نصاریٰ کوتوجہ دلائی گئی کہ اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ ؑ اوروہ موعود نبی نہیں توانہیں سزاملے گی کیونکہ پیشگوئی کے مطابق اس پیشگوئی کاجھوٹامصداق سزاسے نہیں بچ سکتا.لیکن اگر وہ وہی موعود ہیں اوراس پیشگوئی کے مطابق خدا کاکلام اس کانام لے کر بیان کرتے ہیں توپیشگوئی کے مطابق تم انکار کرکے سزاسے بچ نہیںسکتے.بلکہ خدا تعالیٰ تم سے ضرور حساب لے گا.غرض باوجود اس کی کہ بسم اللہ پہلے انبیاء کی امتوں میں بھی مروج تھی.قرآن کریم میں اس کاوجود چوری نہیں کہلاسکتا.کیونکہ (۱)قرآن کریم خودتسلیم کرتاہے کہ اس سے پہلے بسم اللہ تھی (۲)اس لئے کہ اس میں بسم اللہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کوپوراکرنے کے لئے آئی ہے.اگر اس کی ہرسورۃ بسم اللہ سے شروع نہ ہوتی توحضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی جھوٹی ہوجاتی.مگرکیایہ امر دساتیر کے متعلق ثابت کیاجاسکتاہے کہ ان کے مصنف بنی اسرائیل میںسے تھے یاحضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شریعت لائے تھے.یاان کی ہروحی سے پہلے بسم اللہ لکھاہواہوتاتھا.وہ تو ایک تاریخ کی کتاب ہے جس میں انبیاء کاحال ہے.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے یہ الفاظ تھے کہ ’’ ایسا ہوگا کہ جوکوئی میری باتوںکو جووہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تومیں ا س کاحساب اس سے لوں گا.‘‘گویا ان الفاظ میں یہ شرط بتائی گئی تھی کہ وہ خدا کی وحی ا س کانام لے کر بیان کرے گا پس بسم اللہ کاقرآن مجید کی ہرسورۃ سے پہلے آنا اس پیشگوئی کے مطابق ہے.اوراس پر چوری کا اعتراض خصوصاً ا ن اقوام کے منہ سے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروہیں بالکل زیب نہیں دیتا.
قَالَتْ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَفْتُوْنِيْ فِيْۤ اَمْرِيْ١ۚ مَا كُنْتُ پھر اس (ملکہ) نے کہا.اے سردارو! میرے معاملہ میں اپنی پختہ رائے دو.کیونکہ میں کبھی بھی کوئی فیصلہ قَاطِعَةً اَمْرًا حَتّٰى تَشْهَدُوْنِ۰۰۳۳قَالُوْا نَحْنُ اُولُوْا قُوَّةٍ وَّ نہیں کرتی جب تک کہ تم میرے پاس حاضرہو(کر مشورہ نہ دے لو).انہوں(یعنی درباریوں)نے کہا ہم اُولُوْا بَاْسٍ شَدِيْدٍ١ۙ۬ وَّ الْاَمْرُ اِلَيْكِ فَانْظُرِيْ مَا ذَا بڑی طاقت والے ہیں اوربڑے جنگجوہیںاور(آخری )معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے.پس غور کرلیں کہ آپ کیا تَاْمُرِيْنَ۰۰۳۴قَالَتْ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً حکم دیناچاہتی ہیں (ہم اس کی اتباع کریں گے )اس نے کہا کہ جب بادشاہ کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تواسے اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً١ۚ وَ كَذٰلِكَ يَفْعَلُوْنَ۰۰۳۵ تباہ کردیتے ہیں اوراس کے باشندوں میں سے معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں اوروہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں.حلّ لُغَات.قَاطِعَۃٌ.قَاطِعَۃٌ قَطَعَ سے اسم فاعل واحد مؤنث کاصیغہ ہے اورقَطَعَ فُلَانٌ فِی الْقَوْلِ کے معنے ہیں جَزَمَ اس نے بات پختہ کرلی (اقرب) قَاطِعَۃٌکے معنے ہوں گے پختہ فیصلہ کرنے والی.تفسیر.فرماتا ہے.یہ خط سن کر ملکہ سبانے کہا.اے میری قوم کے سردارو.میری اس مشکل میں مجھے مشورہ دو.جب تک تم میرے دربار میں حاضر ہوکر مشورہ نہ دو میں کوئی فیصلہ نہیں کیاکرتی.اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس وقت بھی ڈیماکرسی قائم ہوگئی تھی اوربادشاہت کے حقوق محدود تھے.ان سورمائوں نے جنہوں نے حضرت سلیمان ؑ کے ایک لشکر کے سردار کو جوپِدّی جیساجانورتھا دیکھ لیا تھا کہا کہ حضور ہم تو بڑے طاقتورہیں اورجنگ میں بڑے آزمودہ کار ہیں.ان پرندوں کے لشکر نے ہمار اکیابگاڑ لیناہے.دس منٹ میں ہمارے بچے ہی ان کو مارمار کرکھاجائیں گے.مگر فیصلہ بہرحال آپ کے اختیار میں ہے جو آ پ حکم دیں گے کرلیںگے.اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوں کے پیچھے آپ کے جرنیل گھوڑے دوڑاتے ہوئے دوڑ پڑیں توہم ایسا ہی کریں گے اور اگرآپ نے یہ فیصلہ کیا کہ ان چڑیوںکو بھون بھون کر کھاجائو توہم ایسا ہی کریں گے.
ملکہ سبانے کہا کہ جب بادشاہ کسی زبردست لشکر کے ساتھ ملک میں داخل ہوتے ہیں تو اس کواجاڑ دیاکرتے ہیں.اوراس کے باشندوں میں سے معزز لوگوںکوذلیل یعنی جانوروں کی طرح کردیاکرتے ہیں.وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ اورہمیشہ بادشاہ اسی طرح کرتے چلے آئے ہیں.چنانچہ دنیا کی تاریخ پر غورکرکے دیکھ لو.جب بھی کوئی قوم کسی ملک کو فتح کرتی ہے وہ اپنی فتح کے غرور میں مفتوح قوم پر بڑی بڑی سختیاں کرتی ہے اورپھر غرور کے علاوہ اس قوم کو یہ ڈر بھی ہوتاہے کہ اگر مفتوحین کوجلد کچلا نہ گیا.توممکن ہے یہ پھر بغاوت کردیں.گویا ان کے قلوب میں اطمینان نہیں ہوتا.اورانہیں ہروقت بغاوت کاخطرہ رہتاہے.اسی لئے وہ حدسے زیادہ مظالم ڈھاتے اوربڑی بڑی سختیاں لوگوںپر کرتے ہیں.جیسے اٹلی نے جب ایبے سینیا پرقبضہ کیا تواس نے بڑے بڑے ظلم کئے.عرب لو گ ان مظالم کو کثرت سے بیان کیا کرتے ہیں.ان کابیان ہے کہ اٹلی نے ایبے سینیا پر قبضہ کرنے کے بعد ہزاروں آدمی بلاوجہ مرواڈالے.اوربعض دفعہ لوگوںپر اپنی حکومت کارعب جمانے کے لئے گھروںکے دروازوں پر لوگوں کوپھانسی پر لٹکادیاجاتا.حالانکہ ان کاکوئی قصور نہیں ہوتاتھا.غرض ہرقوم جس کی بنیا د مذہب پر نہیں ملکوں کو فتح کرنے کے بعد اس قسم کے مظالم کیاکرتی ہے.آخر دنیا میں ہزاروں سال کی تاریخ موجود ہے.تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع کو چھو ڑکر یاایک دواَور بادشاہوں کومستثنٰی کرکے بتائو تو سہی کہ کسی قوم نے کسی ملک پر غلبہ حاصل کیا ہو.اوراس نے وہاں ظلم و ستم کا بازار نہ گرم کردیاہو.تورات پڑھ کر دیکھ لو وہاں بھی یہی احکا م ہیں کہ ’’ جبکہ خداوند تیراخداانہیں تیرے حوالے کرے.توتُوانہیں ماریواور حرم کیجیئو.نہ توان سے کوئی عہد کریو.اورنہ ان پر رحم کریو…… تم ان کے مذبحوںکو ڈھادو اور ان کے بتوں کوتوڑ دو.ان کے گھنے باغوں کو کاٹ ڈالو او ران کی تراشی ہوئی مورتیں آگ میں جلادو.‘‘ (استثناء باب ۷ آیت ۲تا ۵) اسی طرح لکھا ہے:.’’ جب خداوند تیراخدا اسے تیرے قبضہ میں کردے توتُو وہاں کے ہر ایک مرد کوتلوار کی دھار سے قتل کر …اورجو کچھ اس شہر میں ہو اس کا سارالوٹ اپنے لئے لے.‘‘ (استثناء باب ۲۰آیت ۱۳تا۱۶) غرض جب کوئی قوم فاتح ہوتووہ یہی کچھ کیا کرتی ہے.انگریزوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا توانہوں نے بھی یہاں کے لوگو ں پر بڑی بڑی سختیاں کیں او رجب غصہ نکل گیا تب اعتدال پر آئے.ورنہ غدر کے ایام میں
انگریزوں نے جو جو کارروائیاں کی ہیں ان کا ذکر سن کر انسان کانپ اٹھتاہے.اس وقت کے کئی چشمدید واقعات کا ذکر میں نے بھی سناہے.ہمارے اپنے پڑناناکاحال ہماری نانی صاحبہ سنایاکرتی تھیں کہ غدر کے دنوں میں وہ سخت بیمار تھے.ایک دن اچانک انگریزی فوج کے بعض سپاہی مکان کے اندر گھس آئے اوران میں سے ایک نے ان کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کوبھی میں نے لڑتے دیکھا ہے.وہ بیچارے گھبراکر کھڑے ہوئے توان سپاہیوں نے وہیں گولیوں سے ان کو مار ڈالا.ملکہ سباء اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً.یعنی دستور اورقانون یہی ہے کہ جب کسی ملک میں نئے بادشاہ آتے ہیں تومعززلوگوںکو ذلیل کر دیا کرتے ہیں.یہ خدائی قانون ہے جو کبھی نہیں بدل سکتا.سوائے اس کے کہ داخل ہونے والادنیوی اصطلاح میں مَلِک نہ ہو.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاآپ کے خلفاء تھے.وہ روحانی بادشاہ تھے دنیوی اصطلاح میں مَلک نہیں تھے.اسی طرح دوچار اورلوگ جنہیں بطور استثناء پیش کیا جاسکتاہے.وہ گوبادشاہ کہلاتے ہوں مگر ان معنوں میں بادشاہ نہیں تھے جن معنوں میںدنیا دار باد شاہ ہوتے ہیں بلکہ درحقیقت وہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے تھے.چنانچہ ساری یورپین تاریخ میں صرف ایک مثال ایسی نظرآتی ہے جس میں فاتح نے غیر قوموں کے مقابلہ میں نہیں بلکہ اپنی قوم کے ہی ایک حصہ کے مقابلہ میں عفواوردرگذر کا سلو ک کیا.یہ مثال ابراھیم لنکن کی ہے.جو امریکہ کا پریزیڈنٹ تھا.اس کے عہد حکومت میں ایک دفعہ یونائٹڈ سٹیٹس امریکہ کے ایک حصے نے دوسرے حصے کے خلاف بغاوت کردی.جب شمالی یونائٹڈسٹیٹس نے جنوبی یونائٹڈ سٹیٹس پر فتح پالی اور وہ ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہونے لگاتو جرنیلوںنے فتح کا مظاہر ہ کرنے کی بہت بڑی تیاری کی ہوئی تھی اوران کی تجویز تھی کہ بینڈ بجاتے ہوئے ہم شہر میں داخل ہوں گے.مگر جب ابراھیم لنکن نے ان انتظامات کو دیکھا تو اس نے اپنے جرنیلوں کو ڈانٹ دیا اورکہا کہ کیا یہ خوشی کا مقام ہے کہ امریکنوں نے امریکنوں کو قتل کیا ہے.لڑائی توہمیں مجبوراً کرنی پڑی تھی ورنہ اپنی قوم کا خون بہاناکوئی پسندیدہ بات نہیں ہوسکتی.پھر اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا کہ تم پیچھے کھڑے رہو میں اکیلا شہر میں داخل ہوں گا.چنانچہ وہ اکیلا شہر میں داخل ہوااور باغی فوج کے افسر کے دفتر میں جاکر اس کے ڈیسک پر سر جھکا کر بیٹھ گیااورتھوڑی دیر پُر نم آنکھوں کےساتھ دعا میں مشغول ر ہ کر اٹھ کھڑا ہوا.یہ تما م یو روپین تاریخ میں صرف ایک مثال ہے.جہاں فاتح نے مفتوح کو ذلیل کرنے کی کو شش نہیں کی لیکن محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تواس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے.آپؐ نے جب مکہ فتح کیا توباوجود اس کے کہ کفار مکہ سال ہا سال تک آپؐ کو اورآپؐ
کے صحابہؓ کو سخت سے سخت تکالیف پہنچاتے رہے تھے آ پ نے ان سب سے کہہ دیا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ جائو میں تم پر کوئی گرفت نہیں کرتا.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و درگذر یہیں تک محدود نہیں بلکہ آپؐ نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھ پر مصر کو فتح کرے گا.جب تم فاتحانہ حیثیت سے اس میں داخل ہوتواس وقت تم اس بات کو یاد رکھنا کہ تمہاری دادی ہاجرہؓ مصر کی تھی (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام سیاقۃ النسب من ولد اسمعیل).اب کہاںحضرت ہاجرہؓ کا زمانہ اور کہاں صحابہؓ کا زمانہ مگراتنی دوری کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیس سوسال پہلے کی دادی ہاجرہ ؓ کا ذکرکرکے اپنے صحابہ ؓ کو نصیحت فرمائی کہ تم اس تعلق کی بناپر مصر کے لوگوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا.اوران سے حسن سلوک کرنا.پس اس قسم کا نمونہ دکھانا انبیاء کاہی کام ہوتاہے.ورنہ عام دستور دنیا کے بادشاہوں کا یہی ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتح بن کر داخل ہوتے ہیں توبڑے بڑے ظلم کرتے اور ہزاروں لوگوں کو بے دریغ قتل کردیتے ہیں.پس ملکہ سبا کو جب حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط ملاتو اس نے اپنی سلطنت کے اکابر سے مشورہ لیا.ان سب نے کہا کہ ہم ملک کی خدمت کے لئے تیار ہیں اورلڑنے مرنے پر آمادہ ہیں.آپ جو حکم دینا چاہتی ہیں.دیں.اس نے جواب دیا کہ ہماری موت سے ملک کو کیا فائدہ پہنچے گا.دیکھنا صرف یہ نہیں کہ لوگ جنگ کے لئے آماد ہ ہیں یا نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ ہماری موت کو ئی فائدہ پہنچائے گی یانہیں.اگر ہم زندہ رہیں اور سلیمانؑ کی بادشاہت قبول کرلیں تویہ زیادہ مفید ہوگا یایہ زیادہ مفید ہوگا کہ ہم لڑیں اور مر جائیں او ر سلیمان ہمارے ملک پر قابض ہوجائے.غرض حکومت کاکلّی تغیّر ہم پر اثر انداز ہو سکتا ہے یااس کاجزوی تغیر.ایک تغیّرتویہ ہے کہ سلیمانؑ کو اس ملک کی عظمت اور بڑائی حاصل ہوجائے.بادشاہت ہمارے پاس ہی رہے ہم صرف اس کے باجگذار ہو جائیں.اورایک تغیّر یہ ہے کہ ہم مارے جائیں اور ملک بھی سلیمانؑ کے قبضہ میں چلاجائے.ان تما م امور پر غور کرکے وہ جوکچھ کہتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی ملک میں کوئی نئی بادشاہت آیا کرتی ہے تو جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً وہ ا س ملک کے معززین کو ذلیل کردیاکرتی ہے.اس کے یہ معنے نہیں جیساکہ عام طورپر لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومتوں میںجب تغیرہوتونئی حکومت بڑوںکو چھوٹااورچھوٹوںکوبڑاکردیتی ہے.یہاں یہ مضمون بیان نہیں ہوا.کیونکہ اگر اس کے یہی معنے ہوں توگوبڑے چھوٹے ہوجائیں گے لیکن چھوٹوں کے بڑابن جانے سے پھر بھی اس ملک کو ہی فائدہ پہنچے گا اور اسے کوئی نقصان نہیں رہے گا.حالانکہ قرآن کریم کی آیت صرف نقصان اور تباہی کی طرف اشارہ کرتی ہے.دراصل اس آیت میں غیر قوم کی حکومت کا ذکر ہے.اوربتایاگیاہے کہ جب اس قسم کی نئی بادشاہت کا قیام عمل میں آئے تووہ
بڑوںکو ذلیل کردیتی ہے اورجو پہلے ہی ذلیل ہوں وہ اس حکومت میں اَور بھی زیادہ ذلیل اور بے حیثیت ہوجاتے ہیں.گویا خارجی قوم کی حکومت نئے حاکم مقررکرتی.نئے سردا ربناتی اور نیانظام قائم کرتی ہے.پھر وہ لوگ اپنا قانون جاری کرتے.اپنے افسروں اوراپنے حکّام کاتقرر کرتے اور اپنے ہی نظام کو رائج کرتے ہیں.جیسے انگریز یہاں آئے توانہوں نے انگریزوں کو افسر بنایا.مغل آئے توانہوں نے اپنے ساتھیوں کو ترقی دی.پٹھان آئے توانہوں نے اپنے ہم قوم افراد کو ذمہ واری کے عہدے دیئے.اسی طرح آرین لوگوں نے حکومت کی تو انہوں نے آریوں کوعرو ج پرپہنچایا اورگونڈ اور بھیل وغیرہ اقوام جو کسی زمانہ میں اعزّہ میں سے تھیں انہیں ذلیل کردیا.غرض ہرخارجی بادشاہت دنیا میں ایک نیا تغیر پیداکرتی اور پہلے نظام کو بدل کر ایک نیا نظام قائم کرتی ہے تاکہ وہ لوگ دوبارہ اقتدار حاصل کرکے بغاوت نہ کردیں.مجھے یا دہے ایک دفعہ دِلّی میں مجھے ایک شخص کے متعلق بتایاگیا کہ یہ مغلیہ خاندان میں سے ہے.اس کاکام صرف اتنا تھا کہ وہ حقہ اٹھائے پھرتاتھا اورچاندنی چوک میں او رلال قلعہ کے سامنے لوگوں کو حقہ پلاتاتھا.اورحقہ پینے والا اسے آنہ دوآنے دیدیتاتھا.وہ ہرشخص کے سامنے جاتا او رکہتاحقہ پی لیجئے.و ہ لو گ جو حقہ کے عادی ہوتے و ہ اس سے حقہ لے کر پی لیتے اور جاتے ہوئے آنہ دوآنے دے دیتے.اس نے عزت نفس کی وجہ سے بجائے ہاتھ پھیلانے کے یہ طریق اختیار کرلیاتھا.پس دنیا کے واقعات اس قانون کی تائید کرتے ہیں کہ جب بھی کسی ملک کی حکومت پر کوئی اورحکومت قبضہ کرتی ہے وہ ملک کے معزز لوگوں کو ذلیل کردیاکرتی ہے اورحکمران خاندان کو کلّی طورپر حکومت کے کاموں سے علیحدہ کرکے گوشئہ گمنامی میں پھینک دیتی ہے اور ایسے لوگوںکو حکومت کی باگ ڈور دےدی جاتی ہے جو پہلی حکومت سے بغض رکھتے ہوں تاکہ وہ ان لوگوں کو اُبھرنے کاموقعہ نہ دیں.انگریزوں کو ہی دیکھ لو.انہوں نے راجوں مہاراجوں کو اونچا کردیا اورمغلیہ شاہی خاندان کو اس طرح گرادیا کہ آج ان کا نام و نشان بھی نہیں ملتا.غرض ملکہ سبابطورقانون یہ بات بیان کرتی ہے کہ بادشاہ جب کسی ملک میں داخل ہوتے ہیں تووہ اس کو تباہ و برباد کردیتے ہیں اوروہاں کے معزز لوگوںکو ذلیل کردیاکرتے ہیں.پھر جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً میں اعزّۃ کے صرف یہی معنے نہیں کہ جو لوگ واقعی معززہوتے ہیں ان کوذلیل کیا جاتا ہے بلکہ اس کا ایک او رمطلب یہ بھی ہے کہ جولوگ غریبوں ،کمزوروں اورناتوانوں کو جوتیاں مارنے کی وجہ سے اپنے آپ کو معززسمجھتے ہیں ان کے اس فعل بد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی غیرت او راس کی محبت غرباء کے لئے جو ش میں آتی ہے اور وہ ان پر کسی ایسے بادشاہ کو مسلط کردیتاہے جوان کے خود ساختہ اعزاز کو مٹاکر انہیں ذلیل کردیتاہے.
گویا جوقومیں جوتوں کے ساتھ دوسروںکو سیدھا کرناچاہتی ہیں.اللہ تعالیٰ ان کو مغلوب کردیتاہے اوردوسروں کو ان پر غلبہ دے دیتاہے.چنانچہ دیکھ لو حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا جب آپ کی وفات کے بعد تخت نشین ہواتو اس نے رعایا کے ساتھ شریفانہ سلوک روانہ رکھا.جس کانتیجہ یہ ہواکہ بنی اسرائیل کے دس قبائل نے بغاوت کر دی اور سلیمانؑ کی وسیع سلطنت ایک ریاست کی شکل میں محدود ہوکررہ گئی.رعایاکے چند قبائل نے اس سے پیشتر بھی ایک دفعہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے وقت میں منصوبہ کیاتھا کہ ہم حکومت کو موقعہ پاکر کمزورکردیں.اوربغاوت کردیں.مگرحضرت سلیمان علیہ السلام نے تائید الٰہی سے اس قسم کی بغاوتوںکو دبائے رکھا.جب حضرت سلیمان علیہ السلام کابیٹا تخت نشین ہواتوبارہ قبائل میں سے د س نے اکٹھے ہوکر مشورہ کیا کہ چلو بادشاہ کے پاس چل کر درخواست کریں کہ آئندہ ہم پرسختی نہ کی جائے انہوں نے سمجھا کہ ا س طرح اکٹھے ہوکرجانے سے بادشاہ مرعوب ہوجائے گا اور ہم اس سے بعض باتیں منوالیں گے اگر تووہ لوگ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زندگی میں آپ کے پاس جاتے اور اپنی شکایات پیش کرتے توچاہے آپ ان کی کوئی بات مانتے یا نہ مانتے اتنا ضرور تھا کہ آپ ان قبائل کا اعزاز کرتے اورانہیں احسن طریق سے سمجھانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ ہم جوکچھ کررہے ہیں تمہارے فائدہ کے لئے کررہے ہیں.مگرآپ کی وفات کے بعد آپ کابیٹا چونکہ مؤید من اللہ نہیں تھا.اور اس کے اند رتقویٰ نہیں پایاجاتاتھا اس نے جب قبائل کے اس قسم کے مشور ہ کی خبر سنی تووہ آگ بگولہ ہوگیا اوراس نے امراء،وزراء اور دوسرے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کیاکرناچاہیے.وہ وزراء اور امرا ء بھی بادشاہ کے ہم خیال تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’ گُربہ کُشتن روزِ اول ‘‘جب وہ قبائل آپ کے پاس آئیں تو آپ ان کی خوب خبرلیں.چنانچہ جب وہ قبائل بادشاہ کے پاس آئے توانہوں نے کہا.بادشاہ سلامت !ہم نے آپ کے باپ داداکی بھی خدمت کی ہے اوراطاعت گذاررہے ہیں مگراس وقت بعض معاملات ایسے ہیں جن میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم پرسختی کی جارہی ہے.ان میں نرمی ہونی چاہیے.یہ سن کر بادشاہ بڑی شان سے بیٹھ گیا.اوراس نے بڑے جوش میں کہا تم نے اگر میرے باپ داداکی اطاعت اور فرمانبرداری کی تھی توکونسااحسان کیاتھا.انہوں نے تم سے جوتوں کے ساتھ اطاعت کروائی تھی.اسی طرح میں بھی تمہارے شوروشر سے ڈرنے والانہیں.بلکہ یاد رکھو میرے باپ دادانے توتم سے جوتوں سے اطاعت کروائی تھی اور میں ڈنڈے مارمار کر تم سے اطاعت کروائوں گا.اس لئے مطالبات کو ترک کردو.اگرتم میں سے کوئی ذرابھی بولاتو گُدّی سے اس کی زبان کھینچ لی جائے گی.وہ یہ سختی کا جواب سن کر سخت برہم ہوئے اورانہوں نے وہیں قصر شاہی کی ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہمارے لئے سوائے اس کے اورکوئی چارہ نہیں کہ ہم بغاوت
کردیں.چنانچہ ان دس قبائل کے آدمیوں نے وہیں ڈیوڑھی میں کھڑے ہوکر اپنا ایک بادشاہ چن لیا اور سلیمانؑ کے بیٹے سے کہہ دیا کہ ہم تمہاری حکومت سے بغاوت کرتے ہیں.چنانچہ ان کی بادشاہت سینکڑوں سال تک چلتی رہی اور سلیمانؑ کے بیٹے کی حکومت صرف ایک ریاست بن کر رہ گئی(اخبار الأیام الثانی ۹:۳۱،۱۰:۱.۱۹،۱۱:۵.۱۲).اسی طرح وہ لوگ جو ڈنڈے کے زور پر دوسروں پر حکومت کرتے ہیں اوراپنے آپ کو اعزّہ میں سے سمجھتے ہیں ان کی چیرہ دستیاں بھی جب حدسے تجاوز کرجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اورملک میں ایسا انقلاب پیداہو جاتا ہے کہ ملک میں بڑے بڑے معززسمجھے جانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اورانہیں اپنے نارواافعال کی سزابھگتنی پڑتی ہے.پھر گو ملکہ سبا کایہ قول ایک سیاسی ذکر کے دوران بیان کیاگیاہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً مگر اس میں اس روحانی قانون کی طرف بھی اشارہ کیاگیاہے جوانبیاء کی بعثت پردنیا میں جاری کیا جاتا ہے.کیونکہ جس طرح دنیوی ملوک اپنے ساتھ ایک انقلاب لاتے ہیں اسی طرح انبیاء جومملکت روحانی کے بادشاہ ہوتے ہیں ان کی آمد کے ساتھ بھی جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةًً کانقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.اوران کے زمانہ میںبھی کئی چھوٹے بڑے اور کئی بڑے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں.کئی حقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی قومیں خدا تعالیٰ کے مامور کو قبول کرکے عزت حاصل کرلیتی ہیں.اور کئی معززسمجھی جانے والی قومیں خدا تعالیٰ کے مامورکو ردّ کرکے ذلیل ہوجاتی ہیں.بلکہ دنیا کا ایک لمباتجربہ ا س بات پر شاہد ہے کہ الٰہی صداقتیں ہمیشہ ایسے علاقوں میں ہی زیادہ کثرت اورزیادہ زور کے ساتھ پھیلتی ہیں جوباقی دنیا کی نگاہوں میں جاہل اور وحشی ہوتے ہیں.جب کبھی کسی تعلیم نے یکدم کسی قوم کو پکڑاہے تو و ہ قوم ہمیشہ ایسی ہی ہوتی رہی ہے جواپنے ظاہری علوم کے لحاظ سے دوسری قوموں سے ادنیٰ اورگری ہوئی سمجھی جاتی ہے.مگرپھر وہی قوم خدا تعالیٰ کی آواز پرلبیک کہہ کر دنیا کی فاتح اور حکمران بن جاتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی جاہل کیوں نہ ہوانسانی فطرت اپنے ذہن میں کچھ نہ کچھ نتائج نکالتی رہتی ہے بلکہ انسان تو ایک طرف رہا ہم جانوروں او ردرختوں میں بھی یہ بات دیکھتے ہیں.سائینس سے ثابت ہے کہ بعض جانور بعض درختوںپر رہنے کی وجہ سے خاص قسم کے رنگ پیداکرلیتے ہیں.تیتری کتنا چھوٹا ساجانور ہے نہ اس میں گوشت ہوتاہے نہ ہڈی.جب تیتریاں پھولوںپر اُڑ رہی ہوتی ہیں تووہ کتنی خوبصورت معلوم ہوتی ہیں.کتنی حسین اور دلکش نظر آتی ہیں.مگراس سے کون انکا رکرسکتاہے کہ ان تیتریوںکا رنگ زیادہ ترمرہون منت ہوتاہے ان پھولوں او رپتوںکا جن میں وہ رہتی ہیں.وہ مختلف قسم کے پھولوں اور مختلف قسم
کے پتوں میں رہتی ہیں اورانہی پتوںاور انہی پھولوں کے رنگ کاانعکاس اپنے پَروں میں پیداکرلیتی ہیں.چنانچہ اکثر تیتریوں کے رنگ دوسرے جانور وں کے رنگ کے خلاف عارضی ہوتے ہیں.اگرایک طوطے کا سبز رنگ تم مٹاناچاہوتو تم نہیں مٹاسکتے.اگرایک فاختہ کابھورارنگ تم مٹاناچاہوتونہیں مٹاسکتے.لیکن تیتری کاپَر اپنے ہاتھ میں مسلوتو اس کارنگ فوراً تمہارے ہاتھ کولگ جائے گا.جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس کارنگ درحقیقت ایک فوٹو اور انعکاس ہوتاہے ان شعاعوں کاجو ان پھولوں اور پتوں میں رہنے کی وجہ سے اس کے پَروں پرپڑتی ہیں.جب یہ انعکاس ایک لمبے عرصہ تک چلتاچلاجاتاہے تواسی قسم کا ایک مستقل رنگ پیداہو جاتا ہے.چنانچہ بالعموم ریت کے اندر رہنے والے جانور بھوسلارنگ اختیار کرلیتے ہیں.اورریت کے تودوںمیں ان کی شکل نظر نہیں آتی.ہرن سامنے بیٹھا ہواہوتاہے بلکہ گلّے کا گلّابعض دفعہ سامنے ہوتاہے مگرہرشخص ان کو پہچان نہیں سکتا.صرف ماہرشکاری ہی امتیاز کرسکتاہے.ورنہ عام انسان بسا اوقات پاس سے گذر جاتاہے اوراسے معلوم تک نہیں ہوتاکہ سامنے ہرن بیٹھا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ریت میں ایک لمباعرصہ رہنے کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ ریت کا رنگ اختیار کرلیتا ہے.یہی حال درختوںکاہوتاہے کہ درخت بھی اپنے اپنےماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں اوریہی حال انسانوں کاہوتاہے.کہ وہ بھی اپنے اپنے ماحول کے مطابق رنگ اختیار کرتے ہیں.ہم ان کو وحشی کہہ دیں.ہم ان کو جاہل کہہ دیں.ہم ان کو تہذیب و تمدن سے کوسوں دور کہہ لیں.لیکن کیا ان کا دما غ اتنا بھی کام نہیں کررہاہوتا جتنا ایک طوطے یاایک تیتر یاایک ہرن کادماغ کام کررہاہوتاہے.اگرکچھ کہا جاسکتاہے تویہ کہ جس طرح طوطے اورہرن نے معین صورت میں اپنے تاثرات کو باہر نہیں نکالااسی طرح ایک جاہل اوروحشی نے بھی اپنے ماحول کے تاثرات کو باہر نہیں نکالا.لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتاہے اور اس کے مطابق ایک رنگ اپنے اند ر پیداکرتارہتاہے.تم اگر کسی وحشی سے پوچھو کہ کیا تم نے اپنی زندگی کے ماحول کے نتیجہ میں کوئی اثر قبول کیاہے یانہیں تووہ کہے گا.میں نے کوئی اثر قبول نہیں کیا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے اثر قبول کیاہوتاہے.مگروہ اس سے ایسا ہی ناواقف ہوتاہے جیسے تیتری یہ نہیں جانتی کہ و ہ پھولوں کے رنگ کا اثر قبول کررہی ہے.ہرن یہ نہیں جانتاکہ و ہ ریت کی رنگت اپنے اندر پیداکررہاہے.جس طرح شہد کی مکھی بغیراس بات کے جاننے کے کہ وہ کیاپیداکررہی ہے.اوراس کے کیاکیا فوائد ہیں.مختلف پھولوں پر بیٹھ کر شہد کے باریک ذرات اپنے منہ میںسے نکالتی رہتی ہے اوروہ نکالنے پر مجبور ہوتی ہے اسی طرح وہ قومیں جنہیں دنیا نے الگ پھینک رکھا ہے.اپنے ماحول کے اثرات سے متاثر ہورہی ہوتی ہیں گووہ خود بھی نہ سمجھ سکیں کہ ان کاماحول ان کوکسی خاص رنگ میں رنگین کررہاہے.
مگربہرحال ان قوموں کے دلوں میں باریک طورپریہ حسّ پائی جاتی ہے کہ خدا نے ہم کو دنیا سے فائدہ اٹھانے کے لئے پیدا کیاتھا.باقی لوگ اپناحصہ لے چکے مگرہم نے اس دوڑ میں اپنا حصہ نہیں لیا ہمیں دنیا نے دھتکار رکھا ہے ہمیں اس نے فوائد سے محروم کردیا ہے.وہ اور اس کی نسلیں فائدہ اٹھارہی ہیں مگرہمیں فائدہ ا ٹھانے کاکوئی موقعہ نہیں دیاجاتا.یہ وہ خیال ہوتاہے جو ان قوموں کے دلوں میں بغیر کسی خاص احساس کے یابغیر کسی معین صورت کے اندر ہی اند رپیدا ہوتارہتاہے.جب خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی نبی کے ذریعہ یہ آواز بلندہوتی ہے کہ میں دنیا کی گری ہوئی قوموں کوترقی کی بلندیوں پر پہنچانے کے لئے آیاہوں توان قوموں کے اند ر ایک خلش سی پیداہوجاتی ہے ایک بے چینی سی رونماہوجاتی ہے.ایک اضطراب سا ان کی حرکات سے ظاہرہونے لگتاہے وہ کہتی ہیں ہماری امیدوں کے برآنے کا وقت آگیا.ہماری نحوستوں کے دور ہونے کا زمانہ آگیا.آئو ہم اس نبی کوقبول کرکے دنیا پرحکمرانی کریںاوراپنے کھوئے ہوئے حق کوحاصل کرنے کی جدوجہد کریں.وہ زمین جس میں ایک لمبے عرصہ تک ہل چلایاجاتاہے.جومختلف قسم کی سبزیاں پیداکرتی ہے جومختلف قسم کے پھل اور پھول تیارکرتی ہے بیشک اس کی روئیدگی انسانی آنکھوںکو تراوت بخشتی ہے.اس کے پھل انسانی غذا کے کام آتے ہیں.اس کے پتے جانوروں کی بھوک مٹانے کاکام دیتے ہیں مگراس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک لمبے استعمال کی وجہ سے اپنی طاقت کو کھوبیٹھتی ہے.لیکن اس کے پاس کی پڑی ہوئی زمین جو ابھی استعمال میں نہیں آئی ہوتی وہ اس بات کی زیادہ اہل ہوتی ہے کہ اس میں بیج بویاجائے اوراس سے اعلیٰ درجہ کی پیداوار حاصل کی جائے.اچھا فلّاح ہمیشہ اس زمین کی طرف جاتاہے جوخالی پڑی ہو.اس زمین کی طرف نہیں جاتا جسے ہزاروںسال سے بویاجارہاہو.کیونکہ وہ جانتاہے اب مجھے اس استعمال شدہ زمین سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا.مجھے اگر فائدہ ہوگاتو اس زمین سے جو بظاہر بنجر ہے.جوبظاہر ویران ہے.جوبظاہر غیرآباد ہے.بیشک اس پر محنت زیادہ ہوگی.مگراس کی فصل دوسری زمینوں سے زیادہ بہترہوگی.نادان لوگ گائوں کی مہنگی زمین خریدتے ہیں.لیکن ہوشیار زمیندار مربعوں والی زمین خریدتاہے نتیجہ یہ ہوتاہے کہ گائوں کی زمینوں کے مالک بعض دفعہ ڈیڑھ ڈیڑھ دودوسو ایکڑ زمین اپنے پاس رکھتے ہیں مگران کی تہ بند پھٹی ہوئی ہوتی ہے.ان کے جسم پر پوری چادر بھی نہیں ہوتی.لیکن ایک دوسرا شخص عمدہ لباس پہنے ہوئے ہوتاہے.اچھاکھاتاپیتاہے اورکہا جاتاہے کہ یہ بڑے زمیندار ہیں مگرا س کے پاس صرف ایک مربع زمین ہوتی ہے.حالانکہ ایک مربع کے معنے ہیں صرف ’۲۵ ‘ ایکڑ.لیکن باوجوداس کے اس کے پاس صرف ’۲۵‘ایکڑ زمین ہوتی ہے اور دوسرے کے پاس چھ گنازیادہ ز مین ہوتی ہے.وہ غربت میں اپنی زندگی
بسر کرتا ہے اورایک مربع رکھنے والاکشائش کی حالت میں اپنی زندگی بسرکرتاہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک شخص نے عقلمندی سے وہ زمین اختیار کی جس نے اپنی طاقت خرچ نہیں کی تھی اور دوسرے نے اپنے او راپنے خاندان کے لئے اس زمین کوترجیح دی جواپنی طاقتوںکو کھوچکی تھی.نتیجہ یہ ہواکہ زیادہ روپیہ خرچ کرنے کے باوجود وہ گھاٹے میں رہااورتھوڑاخرچ کرنے والا فائدہ میں رہا.بیشک شہری لحاظ سے وہ زمین بھی مفید ہوتی ہے.اورمکانوں کے لئے گراں قیمت پر فروخت ہوجاتی ہے.مگرجہاں تک فصل کاسوال ہے خالی پڑی ہوئی زمین زیادہ مفید ہوتی ہے.اورزمیندارہ اصول بھی یہی ہے کہ جب کسی زمین سے زیادہ فائدہ اٹھاناہوتاہے تو اس کو کچھ عرصہ کے لئے خالی چھوڑ دیاجاتاہے.عرب میں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی ہم جانتے ہیں کہ یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا اورپیشگوئیوں کے مطابق عر ب میں ہی آپ کا مبعوث ہونا ضروری تھا.مگر سوال یہ ہے کہ خدابھی اپنے سارے کام حکمت کے ماتحت کرتاہے.اسی لئے اس کاایک نام حکیم ہے.یونہی بلا سوچے یا بغیر کسی حکمت کے وہ کوئی کام نہیں کرتا اورجبکہ اس کاہرکام حکمت کے ماتحت ہوتا ہے توہمیں تسلیم کرناپڑتا ہے کہ اس کارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوعرب میں مبعوث کرنا کسی بہت بڑی حکمت کے ماتحت تھا.اوروہ حکمت یہی تھی کہ عر ب وہ ملک تھا جسے ہزارہا سال سے دنیا میں کوئی عزت کا مقام حاصل نہیں ہواتھا.بے شک عر بوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی.آپ کی تکفیرو تکذیب کی.آپ کو برابھلاکہا.آپ کو مٹانے کے لئے انہوں نے ہرممکن ذریعہ اختیار کیا.مگراس کے باوجود جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز عرب میں گونجتی تھی.کہ اے عربو! میں تمہیں دنیا کابادشاہ بنانے کے لئے آیا ہوںتوان کا دل جلدی جلدی حرکت کرنے لگ جاتاتھا وہ کہتے تھے.یہ کیسی آواز ہے جوہمارے کانوں میںآرہی ہے پھر وہ کچھ اورسوچتے اورکہتے یہ تو وہی آواز ہے جس کے لئے ہم اپنے باپ داداکے زمانہ سے ترستے چلے آرہے تھے.چنانچہ جب انہیںاپنی مخالفت بھولی، عداوت ان کے دلوں سے دورہوئی.اس آواز نے ان کے قلوب میں ہیجان پیداکردیا.اوروہ دیوانہ وار لبیک یارسول اللہ لبیک یارسول اللہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑ پڑے.کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری ترقی کا زمانہ آگیا.ان کے دبے ہوئے جذبات اُبھر آئے.ان کی دیرینہ خواہشات جوش میں آگئیں اور ہرروک کو توڑ کر وہ اس آواز دینے والے انسان کے اردگرد جمع ہوگئے.مؤرخ لکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس آواز پر یوں معلوم ہوتاہے کہ عرب کاخشک صحراسمندر
بن گیاہے.اس کی لہریں اٹھ اٹھ کر ہمسایہ ممالک اور پھر ان کے ساتھ والے ممالک تک پہنچیں اوران سب کوانہوں نے اپنے زیر نگیں کرلیا.یہ دبی ہوئی حس ہی تھی کہ ہمیں دنیا میں ترقی کرنے کاموقعہ نہیں ملا.جس نے عربوں میں ایک دیوانگی پیداکردی.جنوں کی سی کیفیت ان میں رونماہوگئی.انہوں نے کہا یہ کیاہواکہ دنیا ترقی میں اپنا حصہ لے چکی مگرہم اس سے محروم رہ گئے.تب و ہ اپنے اونٹوں کی مہاریں پکڑے نکلے اور اس جوش اور دیوانگی کے ساتھ نکلے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں پاش پاش ہوگئیں اور وہ دنیا کے کناروں تک اپنی حکومت پھیلانے میں کامیاب ہوگئے.یہ سامان تھا جو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی اورعظمت کے لئے کیا کہ آپؐ کو اس ملک میں خدا تعالیٰ نے بھیجا جس ملک میں رہنے والوں کے جذبات سینکڑوں سال سے دبے چلے آرہے تھے.اوروہ سمجھتے تھے کہ اور لوگ توحصہ لے چکے مگر ہم اب تک محروم ہیں.گویا ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی اندھا اورسوجاکھا کھاناکھانے بیٹھے.اندھے نے سمجھا کہ سوجاکھا زیادہ کھاناکھارہاہوگا.کیونکہ اس کی آنکھیں ہیں اورمیں اندھا ہونے کی وجہ سے اس کے مقابلہ میں کم کھارہاہوں.یہ خیال آنے پراس نے پہلے توجلدی جلدی کھانا شروع کردیا.پھر اس خیال کے آنے پر کہ میری یہ حرکت سوجاکھے نے بھانپ لی ہوگی اوروہ بھی ضرور جلدی جلدی کھانے لگ گیا ہو گا اس نے دونوں ہاتھوں سے کھاناشروع کردیا.پھر جو خیال آیا تو ایک ہاتھ سے وہ چاول منہ میں ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے جھولی میں ڈالتا.اس پر پھر اسے خیال آیاکہ اب ضرور سوجاکھا بھی ایسا ہی کررہاہوگا.چنانچہ اب کی دفعہ اس نے تھالی اٹھالی اور کہنے لگا.اب میراہی حصہ رہ گیا ہے.تم اپنا حصہ کھا چکے.اوراس سوجاکھے کی یہ حالت تھی کہ اس نے ایک لقمہ بھی نہیں کھایاتھا.وہ اندھے کی حرکات کودیکھ دیکھ کر ہی ہنستاجارہاتھا کہ یہ کیا کررہاہے.عر بوں نے بھی ایسا ہی کیا.انہوں نے دنیا کی بادشاہت کی پلیٹ اٹھا کر اپنے سامنے رکھ لی اور کہا کہ تم اپنا حصہ لے چکے یہ ہما راحق ہے.غرض یہ الٰہی سامان تھا.کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوخدا تعالیٰ نے اس قوم میں مبعوث کیا جو ایک لمبے عرصہ سے ترقی سے محروم چلی آئی تھی اورجس کے جذبات گودبے ہوئے تھے مگروہ ایک آواز کے منتظر تھے.اس آواز کے جو انہیں دنیا کا فاتح او رحکمران بنادے.ان کے دل یہ دیکھ کر کہ اورلوگ تواپناحصہ لیتے جاتے ہیں اورہمیں کوئی پوچھتابھی نہیں غصہ سے بے تاب ہورہے تھے اور تم جانتے ہوکہ انسان کا ایک ایک سال کا دباہواغصہ باہرنکلے توو ہ دوسرے کو کچل ڈالتاہے.پھر کیا حال ہوگا اس قوم کا جس نے صدیوں سے اپنے غصہ کو دلو ں میں دبارکھاہو.حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک قصہ سنایاکرتے تھے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ایک دفعہ اپنے باورچی کو محض ا س جرم میں کہ کھانے میں اس نے کچھ نمک زیادہ ڈال دیاتھا ایک سوکوڑے لگانے کی سزادی.
عزیزالدین ایک مسلمان ان کے وزیرتھے.وہ بڑے نرم دل تھے.کہنے لگے.یہ بادشاہ کی شان سے بعید ہے کہ کھانے میں ذراسانمک زیادہ ہوجائے تووہ اس پر چڑ کر ایک سوکوڑے لگانے کاحکم دے دے.مہاراجہ کہنے لگا.وزیر صاحب! آپ یہ خیال نہ کریں کہ میں اسے نمک کی زیادتی پر یہ سزاد ے رہاہوں.اس نے میراایک سوبکراکھایاہواہے او رایک ایک بکرے پر ایک ایک دُرّے کی سزامیں اسے دے رہاہوں.کھانے میں نمک کی زیادتی محض ایک بہانہ ہے.اس ذریعہ سے تومجھے اس کو گذشتہ قصوروں کی سزادینے کا موقع مل گیا ہے.غرض ایک ایک دودوسال کے جذبات اگردبے ہوئے ہوں توانسان پاگل ہو جاتا ہے.پھر کیا حال ہوگا ان قوموں کاجنہوں نے سالہاسال سے اپنے جذبات کو دبایاہواتھا.جوسمجھتی تھیں کہ دنیا اپنا حصہ لے چکی مگرہماراحصہ اس نے ہمیں نہیں دیا.یہ دبے ہوئے جذبات قوموںکو کہیں کا کہیں پہنچا دیتے ہیں.بے شک یہ جذبات خود ان کی نظر وں میں بھی معیّن نہیں ہوتے جیسے تیتری نہیں جانتی کہ وہ پھولوں کا رنگ اختیار کررہی ہے فاختہ نہیں جانتی کہ وہ بھورارنگ پیداکررہی ہے طوطانہیں جانتاکہ وہ سبز رنگ پیداکررہاہے.ہرن نہیں جانتاکہ وہ بھوسلا رنگ پیداکررہاہے.لیکن اس سے انکا رنہیں کیاجاسکتا کہ ایک مخفی اثر اپنے ماحول کا ہرچیز پر پڑتا ہے.اسی طرح انسان اس رنگ میں رنگین ہوتاجاتاہے جواس کاماحول اس کے لئے پیداکرتاہے.اگرہرن کی زبان ہوتی اورکوئی شخص اس سے پوچھتاکہ کیاتم کوئی رنگ پیداکررہے ہو تو وہ نہیں بتاسکتاتھاکہ میں بھوسلا رنگ پیداکررہاہوں.لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں صحرا کی ریتوں میں چھپ جائوں خود بخود اس کے اند رایک رنگ پیداکردیتی ہے جسے وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتا.سرخ پھولوں میں رہنے والی تیتری اگر اس کی زبان ہوتی یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں سرخ رنگ پیداکررہی ہوں.مگراس کی یہ خواہش کہ میں سرخ پھولوںمیں چھپ جائوں خود بخود اس کے پروں میں سرخ رنگ پیداکردیتی ہے.ایک سبز رنگ کاطوطا اگر اس کی زبان ہوتی یہ نہیں بتاسکتاتھا کہ میں سبز رنگ پیداکررہاہوں.لیکن اس کی یہ خواہش کہ میں سبز رنگ کے پتوں میں چھپارہوں خود بخود اس کے جسم پر سبز رنگ پیداکردیتی ہے.اسی طرح وہ جاہل اور وحشی اقوام جو متمدن دنیا سے علیحدہ ہیں جوحکومت سے محروم ہیں جو دنیا سے فائدہ نہیں اٹھارہیں گو اپنی زبان سے نہ کہہ سکیں کہ وہ اس ماحول سے کوئی اثر قبول کررہی ہیں مگر ان کی دبی ہوئی خواہشات ان کے جسم پر ایک رنگ پیداکرتی چلی جاتی ہیں.وہ دیکھتی ہیں کہ ہماری نسل کے بعد نسل پیداہوئی مگر دنیا نے ہماراحق ہم کو نہ دیا.ہماراحق اس نے چھین لیا.ہماری دولت اس نے چھین لی.ہماری تعلیم اس نے چھین لی.اب ہماراکام یہ ہے کہ ہم دنیا پر چھائیں اور اس سے
اپنا حق واپس لیں.یہ وہ تاثر ہے جواس ماحول کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے اوریہی وہ تاثر ہے جواقوام کو فاتح بنایاکرتاہے.حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جومہذب سمجھی جاتی تھی جوتعلیم یافتہ تھی جودنیا کی ترقی کی دوڑ میں اپنا حصہ لے چکی تھی.نتیجہ یہ ہواکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کو تین سوسال تک محنت اور تگ و دَو کرنی پڑی.لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک ایسی قوم میں آئے جو مظلوم تھی جوترقی سے محروم تھی جودیکھتی تھی کہ اَورقومیں توآگے نکل گئیں مگرہم پیچھے رہ گئے.نتیجہ یہ ہواکہ موسیٰ ؑ کی آواز پر وہ یکدم آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے.کیونکہ ان کی فطرتیں پکار رہی تھیں کہ ہماری ترقی کا وقت آگیا.جب ان کی فطرت کی آواز خدائی آواز کے ساتھ مل گئی تو انہوں نے دنیاکو روند ڈالا اوراپنا حق لوگوں سے حاصل کرلیا.یہی قانون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے اوربتایاہے کہ روحانی دنیا میں بھی جب انبیاء کے ذریعہ ایک انقلاب پیدا کیا جاتا ہے تواس وقت بھی جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً کانظارہ نظر آتاہے.یعنی کئی بڑے بڑے معزز اور عقلمند کہلانے والے ذلیل ہوجاتے ہیں اور کئی چھوٹے اور حقیر نظرآنے والے افراد یاحقیر اور ذلیل سمجھی جانے والی اقوام بڑی بڑی عزتیں حاصل کرلیتی ہیں.ابوجہل اپنی قوم میں کتنا عقلمند اور معزز سمجھا جاتا تھالوگوں نے اس کانام ہی ابو الحکم یعنی دانائی کاباپ رکھاہواتھا.مگرجب اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی تووہ اتنا ذلیل ہوگیا کہ لوگوں نے اسے ابوجہل یعنی جہالت کا باپ کہناشروع کردیا.اس کے مقابلہ میں حضرت علی ؓ کو دیکھ لو وہ صرف گیارہ سال کے تھے جب وہ دین کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے.مگرپھر خدا تعالیٰ نے ان کو اتنی عزت دی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ خلیفہ بنے اورپھر ان کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایسانیک بنایا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پیداہوئے.لیکن وہ لوگ جواس وقت اپنے آپ کو مکہ کے رؤساء میں سے سمجھتے تھے اوربڑی بڑی عزتوں کے مالک تھے آج ان کاکوئی نام بھی نہیںلیتا اورنہ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے.پس جس طرح دنیوی بادشاہتوں کے متعلق یہ قانون ہے کہ اِنَّ الْمُلُوْكَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْيَةً اَفْسَدُوْهَا وَ جَعَلُوْۤا اَعِزَّةَ اَهْلِهَاۤ اَذِلَّةً اسی طرح روحانی دنیا میں بھی یہ قانون جاری ہے اورانبیاء کی بعثت پربھی کئی بڑے سمجھے جانے والے چھوٹے کردیئے جاتے ہیں اور کئی چھوٹے سمجھے جانے والے بڑی بڑی عزتوں کے مالک بن جاتے ہیں.
وَ اِنِّيْ مُرْسِلَةٌ اِلَيْهِمْ بِهَدِيَّةٍ فَنٰظِرَةٌۢ بِمَ يَرْجِعُ اور(میں نے فیصلہ کیا ہے کہ)میں ان کی طرف ایک تحفہ بھیجوں گی.پھر دیکھوں گی کہ میرے ایلچی کیا جواب الْمُرْسَلُوْنَ۰۰۳۶فَلَمَّا جَآءَ سُلَيْمٰنَ قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ لےکر واپس آتے ہیں.پھر جب وہ تحفہ سلیمانؑ کے سامنے لاکررکھا گیا تواس نے کہا.کیا تم مال کے ذریعہ میری بِمَالٍ١ٞ فَمَاۤ اٰتٰىنِۧ اللّٰهُ خَيْرٌ مِّمَّاۤ اٰتٰىكُمْ١ۚ بَلْ اَنْتُمْ مدد کرنا چاہتے ہو.(اگر یہ بات ہے تویادرکھو کہ) اللہ نے جوکچھ مجھے دیا ہے وہ اس سے بہت بہتر ہے جوتم کودیاہے بِهَدِيَّتِكُمْ تَفْرَحُوْنَ۰۰۳۷اِرْجِعْ اِلَيْهِمْ فَلَنَاْتِيَنَّهُمْ اور(معلوم ہوتاہے کہ )تم اپنے تحفہ پر بڑے نازاں ہو.(اے ہد ہد )تو ان کی طرف لوٹ جا اور(ان سے کہہ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا وَ لَنُخْرِجَنَّهُمْ مِّنْهَاۤ اَذِلَّةً وَّ دے کہ)میں ایک بڑے لشکر کے ساتھ ان کے پاس آئوں گا.ایسا لشکر کہ اس کے مقابلہ کی ان کو طاقت نہ ہوگی اور هُمْ صٰغِرُوْنَ۰۰۳۸ میں ان کو اس (ملک سے ) (مفتوح ہونے کے بعد) ایسی حالت میں نکال دوں گا کہ وہ بادشاہت (کی عزت ) کھو چکے ہوںگے.حلّ لُغَات.اَلْقِبَلُ.اَلْقِبَلُ اَلطَّاقَۃُ طاقت.یُقَالُ مَالِیْ بِہٖ قِبَلٌ.محاورہ میں کہا جاتا ہے مجھے اس کی کوئی طاقت نہیں.(اقرب) صٰـغِرُوْنَ.صٰغِرُوْنَ صَاغِرٌ سے جمع کا صیغہ ہے اور اَلصَّاغِرُ کے معنے ہیں اَلْمُھَانُ وَالرَّاضِیْ بِا لذُلِّ وَالضَّیْمِ یعنی رسوا شدہ.وہ شخص جو ذلت اور ظلم پر رضا مند ہو جائے گویا یہ لفظ صَغَار سے ہے جس کے معنے ذلت اور ظلم کے ہیں.(اقرب) تفسیر.جب درباری اپنا مشورہ پیش کرچکے تو ملکہ سبا نے کہا کہ تمام حالات پر غور کرنے کے بعد میں نے
یہ سوچا ہے کہ میں انہیں ایک تحفہ بھیجتی ہوں پھر دیکھتی ہوں کہ میرے بھیجے ہوئے آدمی کیا جواب لاتے ہیں.پھر اس نے ایک تحفہ ہد ہد کے سپرد کیا.یہ چڑیا اپنی چونچ میں جو معزز تحفہ لے گئی ہوگی معزز قارئین خود ہی ا س کا اندازہ لگا سکتے ہیں.حضرت سلیمان ؑ نے بھی اس تحفہ کو دیکھتے ہی کہا کہ کیا تم یعنی ملکہ کے ملک والے لوگ میری مال سے مدد کرنا چاہتے ہو.ہُدہُد کی چونچ میں ایک دھیلے کاد سواں حصہ ہی آیا ہوگا.جب وہ تحفہ حضرت سلیمان ؑکے آگے رکھا گیا ہوگا تو ان کو کس طرح فوری طورپر یقین آگیا ہوگا کہ ملکہء سبا کے پاس ہر قسم کا مال موجود ہے.مگر خیر ہد ہد جو کچھ لایا ہوگا اس کو ہم خوب سمجھ سکتے ہیں.چنانچہ اسے دیکھ کر حضرت سلیمان ؑ بولے کہ یہ کیا حقیر چیز تم میرے پاس لائے ہو.خدا نے اس سے بہتر چیزیں مجھے دے رکھی ہیں.تمہارے جیسے ذلیل لوگ ہی اس ہد یہ پر خوش ہوسکتے ہیں جس کو ہُدہُد اٹھالایا ہے.پھر فرمایا.اے ہُد ہُد ! ا ن کی طرف لوٹ جا.میں اب ایسا لشکر لے کر ان پر چڑھائی کروں گا جس کے مقا بلہ کی طاقت ان میں نہیں ہوگی.کیونکہ اس لشکر میں ہُدہُد بھی ہوںگے.چڑیاں بھی ہوں گی.پدیاں بھی ہوں گی اور بئے بھی ہوں گے اور میں ملک سبا کے لوگوں کو ملک سبا سے ذلیل کر کے نکال دوں گا.اور وہ دیر تک ایسے زبردست لشکر کی ماتحتی میں رہیں گے.(صاغر اسم فاعل ہے جو دوام پر دلالت کرتا ہے ) حضرت سلیمان علیہ السلام کا اس ہدیہ پر ناراض ہونا درحقیقت اس لئے تھا کہ پرانے زمانے میں بادشاہوں کا یہ طریق تھا کہ وہ زیادہ زبردست بادشاہوں کا مونہہ رشوت سے بند کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے.جب بلقیس کے تحائف حضرت سلیمان علیہ السلام کو پہنچے تو انہوں نے سمجھا کہ اس نے مجھے بھی ایسا ہی بداخلاق اور رشوت خور سمجھا ہے اور اس کے اس فعل پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا.یہ رشوت کی پیش کش ایسی ہی تھی جیسے مسلمانوں نے جب ایران پر حملہ کیا تو بادشاہ نے اپنے درباریوں سے کہا.کہ میں یقین نہیں کرسکتا کہ عرب کے رہنے والے میرے ملک پر حملہ آور ہوئے ہوں.وہ تو نہایت ذلیل لوگ ہیں.انہیں میرے ملک پر حملہ آور ہونے کی کیسے جرأت ہوسکتی ہے.تم ان کے جرنیل کو پیغام دو.کہ مجھ سے آکر ملے.چنانچہ اس کا پیغامبر اسلامی جرنیل کے پا س پہنچا.انہوں نے اپنے ایک صحابی ؓافسر کو ایک دستہ کے ہمراہ بادشاہ ایران کے پاس بھیج دیا.صحابہؓ کے ہاتھ میں بڑے بڑے نیزے تھے اور دربار میں لاکھوں روپے کی قالینیں بچھی ہوئی تھیں.صحابہؓ ان قالینوں پر اپنے نیزے مارتے ہوئے گزرگئے.بادشاہ کو سخت غصہ آیا کہ لاکھوں روپے کے قالین ہیں لیکن یہ لوگ ان پر نیزے مارتے ہوئے آرہے ہیں.جب وہ صحابیؓ قریب پہنچ گئے تو بادشاہ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کو مجھ پر حملہ آور ہونے کی کس طرح
جرأت ہوئی تم لوگ تو اس قدر ذلیل تھے کہ تم گوہ کا گوشت کھایا کرتے تھے اور اپنی مائوں سے نکاح کرلیا کرتے تھے.میں تمہارا لحاظ کرتے ہوئے تمہارے ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دودو اشرفی دوں گا.تم واپس چلے جائو.اور حملہ کا ارادہ ترک کردو.اس صحابیؓ نے جواب دیا.بادشاہ ! تم ٹھیک کہتے ہو.ہماری یہی حالت تھی.ہم گوہیں کھاتے تھے اور مائوں سے نکاح کر لیا کرتے تھے.لیکن اب ہماری وہ حالت نہیں رہی.اب خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول مبعوث کیاہے جس نے ہمارا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے اور اس نے ہمیں حلال اور حرام کی تمیز سکھا دی ہے.اب وہ زمانہ چلا گیا جب لوگ ہمیں رشوت دے کر اپنی بات منوا لیتے تھے.اب جب تک ہم تمہارا ملک فتح نہ کرلیں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے.بادشاہ نے کہا.میں تمہیں اس گستاخی کی سزا دوںگا.چنانچہ اس نے اپنے ایک سپاہی کو بلایا اوراسے حکم دیا کہ ایک بورا مٹی سے بھر کر لائو.جب وہ مٹی کا بورا لے آیا تو اس نے مسلمان افسر سے کہا.آگے آئو.و ہ آگے آگئے ،اس نے کہا.نیچے جھکو.اس پر وہ نیچے جھک گئے.اس نے مٹی کا بورااس کی پیٹھ پر رکھ دیا اورکہنے لگا.جائو میں اس بورے سے زیاد ہ تمہیں کچھ دینے کے لئے تیار نہیں.میں نے تمہیں اشرفیاں پیش کی تھیں.لیکن تم نے انہیں قبول نہ کیا.اب تمہیں اس مٹی کے بورے کے سوااور کچھ نہیں مل سکتا.وہ صحابی ؓ بورااٹھا کر جلدی سے باہر نکل گئے اورگھوڑے پر سوار ہوکر انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا آجائو.بادشاہ ایران نے ایران کی زمین خود اپنے ہاتھ سے ہمارے سپرد کردی ہے.اس کے بعد انہوںنے اپنےگھوڑوں کو ایڑ لگائی اورلشکر کی طرف روانہ ہوگئے.مشرک تووہمی ہوتاہے.ایران کے بادشاہ نے جب یہ بات سنی تواس نے لوگوں سے کہا جلدی جائو اورراس مسلمان افسر سے مٹی کابورا لے آئو.یہ تو بڑی بدشگونی ہوئی.کہ میں نےاپنے ملک کی مٹی اپنے ہاتھ سے ان کے حوالے کردی.لیکن وہ اس وقت تک بہت دورنکل چکے تھے (البدایۃ النھایۃ جلد ۷ غزوۃ قادسیۃ).ملکہ سبا نے بھی چاہاکہ کچھ ہدیئے اورتحائف بھجواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس حملہ سے باز رکھنے کی کوشش کرو ں.مگرانہوں نے ان تحائف کوردّ کردیا.کیونکہ وہ تحفہ نہیں تھے بلکہ ایک رشوت تھی.قَالَ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَؤُا اَيُّكُمْ يَاْتِيْنِيْ بِعَرْشِهَا قَبْلَ اَنْ (اس کے بعد )اس نے (اپنے درباریوں سے مخاطب ہوکر )کہااے درباریو !تم میں سے کون اس کےتخت کو يَّاْتُوْنِيْ مُسْلِمِيْنَ۰۰۳۹قَالَ عِفْرِيْتٌ مِّنَ الْجِنِّ اَنَا اٰتِيْكَ میرے پاس لے آئےگاپیشتراس کے کہ وہ (لوگ)فرمانبردار ہوکر میری خدمت میں حاضر ہوں.(پہاڑی
بِهٖ قَبْلَ اَنْ تَقُوْمَ مِنْ مَّقَامِكَ١ۚ وَ اِنِّيْ عَلَيْهِ لَقَوِيٌّ قوموںمیں سے)ایک سرکش سردار نے کہا.آپ کے (اس)مقام سے جانے سے پہلے میں وہ (عرش )لے اَمِيْنٌ۰۰۴۰قَالَ الَّذِيْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِيْكَ آئوں گا.اورمیں اس بات پر بڑی قدرت رکھنے والا اورامانت دار ہوں.(اس پر)اُس شخص نے جس کو (الٰہی) بِهٖ قَبْلَ اَنْ يَّرْتَدَّ اِلَيْكَ طَرْفُكَ١ؕ فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا کتاب کاعلم حاصل تھا کہا کہ میں تیرے پاس اس( تخت )کو تیرے آنکھ جھپکنے سے پہلے لے آئوں گا.پس جب عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّيْ١ۖ۫ لِيَبْلُوَنِيْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اس نے (یعنی سلیمان ؑ نے)اس کو پاس رکھاہوادیکھا.تواس نے کہا.یہ میرے رب کے فضل کی وجہ سے ہواہے اَكْفُرُ١ؕ وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ كَفَرَ تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتاہوں یا ناشکری کرتاہوں.اورجوشکرکرےوہ اپنی جان کے فائدہ کے لئے فَاِنَّ رَبِّيْ غَنِيٌّ كَرِيْمٌ۰۰۴۱قَالَ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا نَنْظُرْ ایساکرتاہے ا ورجوناشکری کرے تویقیناً میرارب بے نیاز (اور)بڑی سخاوت کرنے والا ہے.(پھر)اس نے کہا اَتَهْتَدِيْۤ اَمْ تَكُوْنُ مِنَ الَّذِيْنَ لَا يَهْتَدُوْنَ۰۰۴۲ کہ اس (یعنی ملکہ)کے لئے اس کاعرش حقیر کرکے دکھائو.ہم دیکھیں گے کہ کیا وہ ہدایت پاتی ہے یاان لوگوں میںسے بنتی ہے جو ہدایت نہیں پاتے.حلّ لُغَات.اَلْعِفْرِیْتُ.اَلْعِفْرِیْتُکے معنے ہیں اَلنَّافِذُ فِی الْاَمْرِ اَلْمُبَالِغُ فِیْہِ مَعَ دَھَاءٍ.کسی کام کو کرگذرنے والا.اَلْخَبِیْثُ الْمُنْکَرُ.بُرااورناپسندیدہ.(اقرب) تفسیر.پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے سوچاکہ ہدہد کے اس لائے ہوئے تحفہ سے توکچھ نہیں بنتا.کوئی
اور چیز منگوائو.اورفرمایا.اے میرے سردارو پیشتراس کے کہ وہ لوگ میرے پاس فرمانبردار ہوکر آئیں ملکہ کاتخت کون میرے پاس لائے گا.وہ لوگ جو خاص باڈی گارڈ تھے ان کا ایک سردار بولاکہ آپ کے چڑھائی کرنے سے پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا.چونکہ وہ سردار لشکر تھا.اس کوپتہ تھا کہ اس لشکر کایہاں کتنے عر صہ تک پڑائو ہوگا.اس لئے اس نے اندازہ کرلیا کہ اتنے دنوں میں ملکہ کومرعوب کرکے وہ تخت لایاجاسکتاہے اورساتھ ہی یہ دعویٰ کیا کہ میں ایک طاقتور سردار ہوں اوراس چھوٹے سے ملک کی فوج میرامقابلہ نہیں کرسکتی.اورمیں آپ کا مطیع بھی ہوں.اس مال کے لانے میں کسی قسم کی خیانت مجھ سے نہیں ہوگی.لیکن ایک اَورشخص جس کو دینی علم حاصل تھا اس نے کہا کہ آپ کے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے میں وہ تخت لے آئوں گا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرمایاکرتے تھے کہ طرف کے معنے خراج کے ہوتے ہیں.مگرمیری نظر سے اب تک یہ معنے نہیں گذرے.اس لئے جب تک وہ معنے نہ ملیں میں تویہی کہوں گا کہ اس فقرہ کے وہی معنے ہیں جوعام طور پربول چال میں ا ستعمال ہوتے ہیں.یعنی جلدی کے.چنانچہ جب کسی کام کے جلدی کرنے کا ذکرکرناہوتویہی کہا کرتے ہیں کہ آنکھ جھپکنے میں یہ کام ہوجائے گایاآنکھ جھپکنے سے پہلے یہ کام ہوجائے گا.پس جب ایک سردار نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ملکہ سبا کاتخت اس کی فوج سے لڑ بھڑکراس لشکر کے کوچ کرنے سے پہلے لاسکتاہے.تو ایک یہودی عالم بول پڑااوراس نے کہا کہ وہ تخت میں اس شخص کے تخت لانے سے بھی پہلے حاضر کردیتاہوں.یعنی جتنی دیر میں یہ غیر یہودی سردار یاادومی یاعرب سردار کام کرے گا اس سے پہلے میں یہ کام کرلوں گا.یعنی ایک نیااور اعلیٰ درجہ کاتخت بنواکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر کردوں گا اور چونکہ وہ یہود کاملک تھا.اس لئے عبرانی عالم کویقین تھا کہ یہودی ماہرین صنعت میرے لئے بہت جلد یہ کام کردیں گے.پس اس نے عفریت سے بھی پہلے عرش لانے کاوعدہ کیا.جب حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے یہ تخت پیش کیا گیا.اورآپ نے اسے دیکھاتوفرمایا.یہ میرے رب کافضل ہے کہ اس نے ایسے ایسے ہوشیار افسر مجھے عطاکئے ہیں اورمیری ہرتمنا پوری ہوجاتی ہے.اللہ تعالیٰ یہ دیکھناچاہتاہے کہ میں اس کا شکر گذار بندہ بنتاہوں یاناشکرا.اور چونکہ سورئہ بقرۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَاکَفَرَ سُلَیْمٰنُ اس لئے قرآن کریم نے ہی اس بات کی وضاحت کردی کہ ان انعامات کے نتیجہ میں سلیمانؑ شکر گذار بناتھا ناشکرانہیں بناتھا.پھرفرماتا ہے کہ شکر گذار بنناخود انسان کے لئے فائدہ بخش ہوتاہے اورناشکرگذار ہونے سے اللہ تعالیٰ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی ذات میں کامل ہے او راسے کسی کی احتیاج نہیں.
اللہ تعالیٰ کے حضور اس کی شکر گذار ی کے جذبات کااظہار کرنے کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے پھر پہلے مضمون کی طرف رجوع کیا اورفرمایا کہ نَكِّرُوْا لَهَا عَرْشَهَا.یہ تخت جو تم لائے ہو ہے تواچھا لیکن میں یہ چاہتاہوں کہ اس کے تخت سے بھی زیادہ اچھا تخت ہو.پس تم ملکہ کے لئے اس کے تخت کو حقیر بنادو یعنی ایسا تخت بنائو کہ اسے اپنا تخت حقیر نظر آنے لگے.میں یہ دیکھناچاہتاہوں کہ کیا وہ اس بات کو دیکھ کرتسلیم کرلیتی ہے کہ نہیں کہ مجھ پر خدا تعالیٰ کے بڑے فضل ہیں یااپنے گھمنڈ پر قائم رہتی ہے.فَلَمَّا جَآءَتْ قِيْلَ اَهٰكَذَا عَرْشُكِ١ؕ قَالَتْ كَاَنَّهٗ هُوَ١ۚ وَ پس جب و ہ آگئی توکہا گیا کیا تیرا تخت ایسا ہی ہے.اس پر اس نے کہا.کہ یوں معلوم ہوتاہے کہ یہ وہی اُوْتِيْنَا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهَا وَ كُنَّا مُسْلِمِيْنَ۰۰۴۳وَ صَدَّهَا مَا ہےاورہم کو اس سے پہلے ہی علم حاصل ہوچکاتھا اورہم (تیرے )فرمانبردار بن چکے تھے.اوراس (یعنی كَانَتْ تَّعْبُدُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كٰفِرِيْنَ۰۰۴۴ سلیمانؑ)نے ملکہ کو اللہ (تعالیٰ)کے سواپرستش کرنے سے روکا.وہ یقیناً کافرقوم میں سے تھی.تفسیر.جب ملکہ آگئی تواس سے کہا گیا کہ یہ تخت جو ہمارے بادشاہ کے پاس پڑاہے کیاتمہاراتخت بھی ایسا ہی ہے.اس پر اس کاگھمنڈ اس کے راستہ میں حائل ہوگیا.اوربجائے یہ کہنے کہ یہ تواس سے بہت اعلیٰ ہے اس نے کہا،یوں معلوم ہوتاہے کہ گویایہ ویساہی تخت ہے.مگرپھر کہنے لگی ان تدبیروں کی کیاضرورت تھی.ہم تو سلیمانؑ کے دین کے حالات سن کر پہلے ہی معلوم کرچکے ہیں کہ اس کادین سچاہے.اورہم فرمانبردار بن چکے ہیں.تب حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو ان چیزوں کی پرستش کرنے سے روکا جن کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پرستش کرتی تھی او راسے وعظ و نصیحت کی کیونکہ وہ کافرقوم میں سے تھی.
قِيْلَ لَهَا ادْخُلِي الصَّرْحَ١ۚ فَلَمَّا رَاَتْهُ حَسِبَتْهُ لُجَّةً وَّ اوراسے کہا گیاکہ محل میں داخل ہوجائو.پس جب اس نے اس (محل)کودیکھاتواس کوگہراپانی سمجھا كَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا١ؕ قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ اورگھبراگئی.تب اس (یعنی سلیمانؑ) نے کہا.یہ تومحل ہے جس میں شیشہ کے ٹکڑے لگائے گئے ہیں.قَوَارِيْرَ١ؕ۬ قَالَتْ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ تب وہ (ملکہ )بولی.اے میرے رب! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا.اورمیں سلیمانؑ کے ساتھ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۴۵ رب العالمین خدا پر ایمان لاتی ہوں.حلّ لُغَات.اَ لصَّرْحُ.اَلصَّرْحُ(۱)اَلْقَصْرُ.محل.(۲)کُلُّ بِنَآءٍ عَالٍ.ہراونچی عمارت.(اقرب) لُـجَّۃٌ.لُـجَّۃٌ کے معنے ہیں مُعْظَمُ الْمَآءِ.گہراپانی.اَلْمِرْآۃُ.آئینہ.اَلْفِضَّۃُ.چاندی.(اقرب) مُـمَرَّدٌ.مُـمَرَّدٌ مَرَّدَ سے اسم مفعول کاصیغہ ہے اور مَرَّدَ الْبِنَآءَ کے معنے ہیں مَلَّسَہ وَسَوّٰاہُ عمارت کو درست اور عمدہ اور نرم بنایا.مُمَرَّدٌ مِنْ قَوَارِیْرِ کے معنے ہیں جس پر شیشے لگائے گئے ہوں.اوراسے نازک بنایا گیاہے.قَوَارِیْرُ.قَوَارِیْرُقَارُوْرَۃٌ کی جمع ہے اور قارورہ کے معنے شیشہ کے ہیں (اقرب)پس قَوَارِیْرُ کے معنے ہوں گے شیشے.تفسیر.مفسرین لکھتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ملکہ بلقیس سے شادی کرناچاہتے تھے.مگر ان کو جنوں نے خبر دی کہ اس کی پنڈلیوں پر بکری کی طرح بال ہیں.انہوں نے اس بات کی تحقیق کے لئے ایک عظیم الشان محل بنایا.اوراس میں ایک بہت بڑ ا حوض کھدواکر اسے پانی سے لبریز کردیا اورپھر اس پر بلور کے ٹکڑوں کا ایسا فرش لگوایا کہ انسانی نگاہ دھوکہ کھا جائے اوروہ یہ سمجھے کہ صحن میں پا نی بہہ رہاہے.جب یہ محل تیار ہوگیا.توانہوں نے بلقیس کو وہ محل ٹھہر نے کے لئے پیش کیا.جب وہ صحن میں سے گذرنے لگی.توچونکہ فرش پر شیشہ لگاہواتھا اوراس
کے نیچے پانی بہہ رہاتھا.اس نے سمجھا کہ سچ مچ پانی بہہ رہاہے اورگھبراکر اس نے اپنے کپڑے اُڑس لئے اورپنڈلیاں ننگی کردیں.اس طریق سے آپ نے معلوم کرلیا کہ واقعہ میں اس کی پنڈلیوں پر بال موجود ہیں.اورپھر آپ نے ایک بال صفا پوڈر تیار کیا جس سے اس کے بال دور ہوئے(ابن کثیر ).بعض کہتے ہیں.پنڈلیوں کے بال دیکھنے کے لئے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس قد رانتظام کیا کرناتھا اصل با ت یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے ملکہ کاتخت منگوایاتھا انہیں خیا ل آیاکہ تخت منگوانے سے میری سبکی ہوئی ہے.چنانچہ اس سبکی اکاازالہ کرنے کے لئے آپ نے یہ محل بنوایاتاکہ اپنی وقعت قائم کرسکیں.مگرکیادنیاکاکوئی بھی سمجھدار انسان کہہ سکتاہے کہ یہ باتیں ایسی اہم ہیں کہ ان کا ذکر خدا تعالیٰ کے کلام میں اورخصوصاً آخری شریعت کلے حامل کلام میںہوناچاہیے تھا.ان باتوں کاتو نہ دین سے تعلق ہے نہ عر فان سے اورنہ خدا تعالیٰ کے انبیاء ایسے لغو کام کیا کرتے ہیں.اصل بات صرف اتنی ہے کہ ملکہ سباایک مشرکہ عورت تھی اورسورج پرست تھی.حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ وہ شرک چھوڑ دے.اس کے لئے آپ نے اسے زبانی بھی نصیحت فرمائی.مگرپھرآپ نے چاہاکہ عملاً بھی اس کے عقیدہ کی غلطی اس پر ظاہر کریں.چنانچہ اس کے لئے آپ نے یہ طریق اختیار کیاکہ اس کے قیام کے لئے آپ نے ایک ایسامحل تجویز فرمایا جس میں شیشہ کا فرش تھا اوراس کے نیچے پانی بہتاتھا.جب ملکہ اس کے فرش پر سے گذر نے لگی تواسے شبہ ہواکہ یہ پانی ہے اوراس نے جھٹ اپنی پنڈلیوں پر سے کپڑااٹھالیا یااسے دیکھ کروہ گھبراگئی.(کَشَفَ عَنْ سَاقٍ کے یہ دونوں معنے ہیں )اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے اسے تسلی دی اورکہا کہ بی بی !دھوکا مت کھائو.جسے تم پانی سمجھتی ہو یہ تودراصل شیشہ کا فرش ہے اور پانی اس کے نیچے ہے.چونکہ پہلے آپ دلائل سے شرک کی غلطی اس پر واضح کرچکے تھے اس نے فوراً سمجھ لیا کہ انہوں نے ایک عملی مثال دے کر مجھ پر شرک کی حقیقت کھول دی ہے اورسمجھایاہے کہ جس طر ح پانی کی جھلک شیشہ میں سےتجھے نظر آئی ہے اورتونے اسے پانی سمجھ لیاہے ایسا ہی خدا تعالیٰ کا نور اجرام فلکی میں سے جھلک رہاہے.چنانچہ اس دلیل سے وہ بڑی متاثر ہوئی اور بے اختیار کہہ اٹھی کہ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ وَ اَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمٰنَ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.یعنی اے میرے رب میں نے شرک کرکے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے.اب میں سلیمانؑ کے ساتھ یعنی اس کے دین کے مطابق اس خدا پر ایمان لاتی ہوں جوسب جہانوں کارب ہے اورسورج اورچاند وغیرہ بھی اسی سے فیض حاصل کررہے ہیں.
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اورہم نے ثمود کی طر ف ان کے بھائی صالح کو ضرو ررسول بناکربھیجاتھا.(یہ کہتے ہوئے )کہ اللہ (تعالیٰ)کی اللّٰهَ فَاِذَا هُمْ فَرِيْقٰنِ يَخْتَصِمُوْنَ۰۰۴۶قَالَ يٰقَوْمِ لِمَ عبادت کرو.پس وہ سنتے ہی دوگروہ ہوگئے جوآپس میں جھگڑنے لگے.اس (یعنی صالح ؑ ) نے کہا اے میری قوم! تَسْتَعْجِلُوْنَ۠ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ١ۚ لَوْ لَا تم خوشحالی کے آنے سے پہلے خراب حالی کے لئے کیوں جلدی کرتے ہو؟کیا تم خدا(تعالیٰ) سے اپنے گناہوں پر تَسْتَغْفِرُوْنَ۠ اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۰۰۴۷قَالُوا اطَّيَّرْنَا بِكَ استغفار نہیں کرتے تاکہ تم پر رحم کیاجائے.انہوں نے کہا(اے صالح!)ہم نے (جتناسوچاہے)تجھے اور تیرے وَ بِمَنْ مَّعَكَ١ؕ قَالَ طٰٓىِٕرُكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ ساتھیوںکو منحوس ہی پایاہے (یعنی تم لو گ اپنی قوم کے لئے کسی ترقی کانہیں بلکہ تباہی کاموجب ہوگے)اس (یعنی تُفْتَنُوْنَ۰۰۴۸ صالح) نے کہا.تمہاری نحوست کاسبب تواللہ کے پاس ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک ایسی قوم ہو جس کو آزمائش میں ڈالا گیاہے.حلّ لُغَات.اِطَّیَّرْنَا.اِطَّیَّرْنَا اصل میں تَطَّیَّرَ سے ہے اوراس میں قلب اورادغام کاقاعدہ استعمال ہواہے اور تَطَیَّرَ کے معنے ہیں تَشَاءَ مَ یعنی نحوست کاانداز ہ لگایا یانحوست محسوس کی.اہل عرب کہتے ہیں اِطَّیَّرَ بِہٖ وَاِطَّیَّرَ مِنْہُ اور مطلب یہ ہوتاہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص سے نحوست کے آثار دیکھے (اقرب) طَائِرُکُمْ.طَائِر کے معنے پرندے کے ہیں.لیکن عر ب لوگ چونکہ پرندوں سے شگون لیا کرتے تھے اس لئے شگون کے لئے بھی طَائِر کالفظ بول لیا جاتاہے چنانچہ مسافر کورخصت کرتے وقت دعا کے طورپر کہتے ہیں سِرْ عَلَی الطَّائِرِ الْمَیْمُوْنِ.مبارک شگون پر چل.اسی طرح کہتے ہیں ھُوَ مَیْمُوْنُ الطَّائِرِ.اورمراد یہ ہوتی
ہے کہ وہ مبارک چہرے والا ہے.اسی طرح انسانی اعمال کوبھی خواہ وہ اچھے ہوں یا برے طائر کہتے ہیں.اورستارے کو بھی طائر کہتے ہیں کیونکہ ستاروں سے بھی نحوست اور بھلائی کے حالات معلوم کئے جاتے ہیں (اقرب) تُفْتَنُوْنَ.فُتِنَ الرَّجُلُ فِیْ دِیْنِہٖ کے معنے ہوتے ہیں مَالَ عَنْہُ.اپنے دین سے علیحدہ ہوگیا اورفُتِنَ فُلَانٌ کے معنے ہوتے ہیں اَصَابَتْہُ فِتْنَۃٌ.فَذَھَبَ مَالُہٗ أَوْعَقْلُہٗ.اس پر کوئی مصیبت نازل ہوئی جس کی وجہ سے اس کامال یااس کی عقل جاتی رہی.تفسیر.حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ ثمود کا ذکر فرماتا ہے.یہ قوم یہود کی ترقی کے زمانہ سے پہلے گذر چکی تھی اور حضرت موسیٰ ؑ کے قریب زمانہ کی تھی.مگر اس کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کے ذکر کے بعد اوران کے واقعہ سے ملاکر اس لئے کیا گیاہے کہ ثمود کی قوم کابہت ساعلاقہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت آگیاتھا.قرآن کریم تاریخ کی کتاب نہیں کہ تاریخوں کے لحاظ سے واقعات بیان کرے.قرآن کریم مذہب اور تمدن کی کتاب ہے.اس لئے مذہب اور تمد ن کے لحاظ سے جو واسطہ مختلف قوموں میں تھااس کے لحاظ سے وہ ان کا ذکر کرتاہے.چنانچہ ثمود جوپہلے گذرے تھے مگران کا علاقہ چونکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ماتحت آگیاتھا.اوریہودی تمدن نے ان پر اثر ڈال لیاتھا اورانہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اطاعت قبول کرلی تھی اس لئے ان کی قوم کا ذکر حضرت سلیمان علیہ السلام کی قوم کے بعد کردیاگیا.کیونکہ درحقیقت جن لوگوںکانام جنّ رکھا گیاہے وہ ثمود کی قوم کے ہی لوگ تھے.جنہیں ایک غیر قوم کے افراد ہونے کی وجہ سے جنّ کہہ دیاگیا.پس چونکہ ان کی زنجیر یہودیوں کی زنجیر میں مل گئی تھی اور ان کا ایک ادنیٰ حصہ ہوگئی تھی اس لئے ان کا ذکر یہودیوں کے ذکر کے بعد کیاگیا.قومِ ثمود کے متعلق فرماتا ہے کہ ان کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں توحید کی تعلیم دی تھی.مگر بجائے اس کے کہ وہ اس کی آواز کوسنتے اوراس پر لبیک کہتے انہوں نے جھگڑااور فساد شروع کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ ان میں دوگروہ ہوگئے.کچھ لوگوں نے تو حضرت صالح علیہ السلام کو مان لیا.اور کچھ لوگوں نے انکار کردیا.اصل بات یہ ہے کہ ثمود عادکے قائم مقام تھے اوریہ لوگ عرب کے جنوب سے بڑھتے ہوئے عرب کے شمال کے تمام علاقوں میں پھیل گئے تھے.اوربہت سی موحّد قوموں کاان سے تعلق پیداہوگیاتھا.چنانچہ ’’فتوح الشام‘‘
کامصنف ابو اسمٰعیل لکھتاہے کہ ثمود قوم بصریٰ سے لے کر (جوشام کاایک شہرہے )عدن تک پھیلی ہوئی تھی اور وہیں ان کی حکومت تھی.پھر حمیر اورسباکی طاقت کے زمانہ میں جب ان کو ہجرت کرنی پڑی تواس وقت وہ جنوب سے شمال کو نکل گئے.چنانچہ پہلے حجاز پھر تہامہ اورپھر حجر میں چلے گئے (عرض القرآن صفحہ ۱۸۸).پس وہ لوگ جو توحید کے زیر اثر تھے انہوں نے تو حضرت صالح علیہ السلام کومان لیا.مگرجوتوحید سے دورعلاقہ کے رہنے والے تھے انہوں نے آپ کی سخت مخالفت کی.حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں سمجھایامگربجائے اس کے کہ وہ نصیحت حاصل کرتے انہوں نے کہا اے صالح !ہم توتجھے سبز قدماسمجھتے ہیں.ہمیں تویہ دکھائی دیتاہے کہ تیری تعلیم سے جوہماری قوم میں تفرقہ پیداہواہے یہ ہماری قوم کو تباہ کردے گا.ان نادانوں نے یہ نہ سمجھا کہ صالح ؑ ہمیں زندہ کرنے کے لئے آیاہے.یہ ہمیں قعرِمذلّت سے اٹھا کر بام رفعت پر پہنچانے کے لئے آیاہے.انہوں نے صرف یہ دیکھ کرکہ صالح ؑ کے آنے سے قوم کے اندر ایک ہلچل پیداہوگئی ہے اور کچھ لوگوں کے اندر یہ احساس پیداہوگیاہے کہ ہم ایک غلط راستہ پر چل رہے تھے اب ہمیںاپنی اصلاح کرنی چاہیے اور برے اعمال سے اجتناب اختیارکرناچاہیے.یہ کہنا شروع کردیا کہ قوم میں یہ بگاڑ صرف صالح ؑ کی نحوست کی وجہ سے پیداہواہے.اگرصالح نہ آتاتوہماری یکجہتی کویہ صدمہ نہ پہنچتا.حالانکہ مردہ انسان خواہ لاکھوں بھی ہوں دنیا میں کوئی تغیر پیدا نہیں کیاکرتے.تغیر ہمیشہ زندہ وجودوں کے ساتھ وابستہ ہوتاہے خواہ ان کی کتنی ہی قلیل تعداد کیوں نہ ہو.صالح ؑ کے آنے سے پہلے وہ لوگ مردہ تھے.پھراللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نبی کے ذریعہ ان کی اصلاح کاسامان کیا.مگربجائے اس کے کہ وہ اس سامان پر اللہ تعالیٰ کاشکر بجالاتے انہوں نے حضرت صالح ؑ کو قوم کا بیڑہ غرق کرنے والا قراردےدیا.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام کے لئے کھڑاکیاتھا.اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح حضرت صالح علیہ السلام کو ان کی قوم نے تفرقہ انداز قرار دیاتھا.اسی طرح کفار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی قومی وحدت کوپارہ پارہ کرنے والا قرار دیا.بلکہ وہ ایک دفعہ حضرت ابوطالب کے پاس محض اس لئے آئے کہ وہ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں اورانہیں توحید کی اشاعت سے روکنے کی کوشش کریں.کفار مکہ کی یہ گھبراہٹ بالکل ویسی ہی تھی جیسے حضرت صالح ؑ کے زمانے میں ان کے مخالفین نے جب انہیں توحید کی تعلیم دیتے دیکھا توانہوں نے بگڑ کر حضرت صالح ؑ کو منحوس اور سبز قدما کہنا شروع کردیا.مگرنہ حضرت صالح ؑ نے خدائے واحد کاپیغام پہنچاناترک کیا اورنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی تعلیم ترک کی.اورآخر اس کایہ نتیجہ نکلا کہ ایک دن مردہ عر ب زند ہ ہوگیا.آخر ایک زندہ اورمردہ میں کیافرق ہوتاہے.یہی فرق ہوتاہے کہ مردہ کوکسی چیز کااحساس نہیں ہوتا.اس کے سامنے اس کے کسی عزیز ترین وجود
کو گالی دی جائے یااسے قتل کردیاجائے وہ دفاع کے لئے کوئی حرکت نہیں کرسکتا.نہ اس ظلم کااسے کچھ احساس ہوتاہے.لیکن زندہ انسان اپنے نفع اورنقصان کو بھی سمجھتاہے.اوردوسروں کے حقوق کے لئے بھی جدوجہد کرتاہے.یہی کیفیت روحانی مردوں میں بھی پائی جاتی ہے وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہرقسم کے مظالم دیکھتے ہیں لوگ ان کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں.ان کی موجودگی میں دھوکہ بازیاں کرتے ہیں.ان کی آنکھوں کے سامنے ظلم کاارتکاب کرتے ہیں.مگرانہیں پرواہ تک نہیں ہوتی مگرجب اللہ تعالیٰ کاکوئی نبی دنیا میں آتاہے تووہ کہتاہے اگرتم کسی کو جھوٹ بولتے دیکھو تو اسے منع کرو.اگر کوئی ظلم کررہاہوتواسے ظلم سے روکو.بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہاں تک فرمایا کہ ایمان کی علامت یہ ہے کہ جب مومن کوئی بری بات دیکھے توہاتھ سے اس کا ازالہ کرے.اوراگرہاتھ سے ازالہ نہ کرسکتاہوتوزبان سے روکنے کی کوشش کرے.اور اگر زبان سے بھی نہ روک سکتاہوتواپنے دل میں ہی بُرامنائے.مگرروحانی مردوں میں یہ تینوں باتیں نہیں پائی جاتیں.وہ برائی ظلم اور جھوٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں.مگرنہ تووہ ہاتھ سے اس کاازالہ کرتے ہیں نہ زبان سے کسی کومنع کرتے ہیں اورنہ ہی کسی کے برے فعل پر اپنے دل میں ہی برامناتے ہیں(مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان ).بے شک بعض دفعہ وہ دکھاوے کے طورپر زبان سے کہہ بھی دیتے ہیں.مگرکہتے وقت ان کے چہرے پر غیرت کے آثار نہیں پائے جاتے.مگرزندہ انسان کی یہ علامت ہے کہ اس کے اند ر ان تینوں باتو ں میں سے ایک بات ضرور ہوگی.وہ بری بات کودیکھ کر یاتوہاتھ سے اس کا ازالہ کرے گا.یازبان سے دوسر ے کو روکے گا.اوریاپھر دل میں ہی برامنائے گا.اس کی ایک نمایاں مثال حضرت عثمان بن مظعونؓ کاواقعہ ہے.حضرت عثمان بن مظعونؓ چھوٹی عمر میں ہی اسلام میں داخل ہوگئے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی.توعثمان بن مظعونؓ نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا.جب و ہ تیار ہوگئے تومکہ کے ایک رئیس نے ان سے کہا کہ تمہاراباپ میرادوست تھا اوروہ میرابھائی بناہواتھا.اگر تم اس وجہ سے ہجرت کررہے ہوکہ لوگ تمہیں تکلیفیں دیتے ہیں تومیں سارے شہر میں اعلان کردیتاہوں کہ عثمان آج سے میری پناہ میں ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوگاکہ لوگ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے.حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اس کی بات مان لی.اوراس نے دستور کے مطابق اعلان کردیا کہ میںعثمانؓ کو پناہ دیتاہوں.اس کانتیجہ یہ ہواکہ لوگ انہیں تکلیفیں پہنچانے سے رک گئے.اوروہ آزادانہ طور پر ادھر ادھر پھرنے لگے مگرجب انہوں نے دیکھا کہ مکہ کے لوگ دوسرے مسلمانوں پر برابر ظلم کررہے ہیں توان کی غیرت نے یہ برداشت نہ کیا کہ وہ آرام سے پھرتے رہیں اوران کے بھائی اسلام کی وجہ سے تکلیفیں اٹھائیں.وہ
اس رئیس کے پاس پھر آئے اورکہنے لگے کہ اپنی پناہ واپس لے لو.مجھ سے یہ برداشت نہیں ہوسکتاکہ میرے بھائیوں پر ظلم ہواورمیںآرام سے پھروں.اس نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے او رآخر اس نے اعلان کردیا کہ آج سے عثمانؓ میری حفاظت میں نہیں ہے.اس اعلان کے کچھ دن بعد عکاظ کامیلہ لگااور لَبید جوایک بہت بڑے شاعر گذرے ہیں انہوں نے ایک مجلس میں اپناقصیدہ سنانا شروع کیا.مکہ کے بڑے بڑے عمائد اوررؤساء بیٹھے شعر سن رہے تھے اورجھوم جھوم کر اس کے شعروں کی داددے رہے تھے کہ لبید نے یہ مصرع پڑھا ؎ اَلَا کُلُّ شَیْءٍ مَاخَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ یعنی سنوکہ اللہ تعالیٰ کے سواہر چیز فناہوجانے والی ہے.یہ مصرع سنتے ہی حضرت عثمان بن مظعونؓ نے اونچی آوازسے کہا کہ بالکل درست ہے.تم نے سچ کہاہے.خدا تعالیٰ کے سواہرچیز فناہوجانے والی ہے.وہ شاعر عثمانؓ سے عمر میں بہت بڑاتھا.اس وقت اس کی عمر اسی سال کے قریب تھی اوربعد میں و ہ ایک سوبیس سال کی عمر پاکر فوت ہوا.جب اس نے دیکھا کہ ایک اٹھارہ سال کی عمر کے بچے نے اس کے شعر کی داد دی ہے توچونکہ وہ اپنے آپ کوبڑاکُہنہ مشق اورنہایت تجربہ کار سمجھتاتھااس کو ایک اٹھارہ سالہ بچے کاداد دینا چبھااور اس نے رؤساء سے مخاطب ہوکر کہا کہ اے مکہ والو!کیاتم میں اب کوئی ادب باقی نہیں رہا.اس لڑکے نے مجھے کیوں داددی ہے.اس کاداد دینابتاتاہے کہ اب تم میں اپنے شاعروںکاکوئی ادب باقی نہیں رہا.اس پر لوگوں نے حضرت عثمان بن مظعونؓ کو ڈانٹا اور انہیں کہاکہ بڑوں کی مجلس میں بولنے کاتمہیں کوئی حق نہیں.تم خاموش بیٹھو اورشعر سنو.اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا اگلا مصرع پڑھا کہ ؎ وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَالَۃَ زَائِلٗ یعنی ہر نعمت آخر ایک دن زائل ہونے والی ہے.یہ مصرعہ سن کر حضرت عثمان بن مظعونؓ پھر بول اٹھے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے.جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوتیں.اب وہ شخص جس نے عثمانؓ کے داد دینے پر بھی برامنایاتھاوہ ان کی مذمت کیسے برداشت کرسکتاتھا.اس نے شعر سنانے بند کردیئے اورکہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کوئی شعر سنانے کے لئے تیار نہیں ہوں.اس پر ایک شخص بڑے جوش سے اٹھا اوراس نے عثمان بن مظعونؓ کوگھونسہ ماراجوسیدھا ان کی آنکھ میں لگااور ان کی آنکھ کاایک ڈیلا باہر نکل آیا.وہ رئیس جس نے پہلے انہیں پناہ دی تھی وہ بھی اسی مجلس میں بیٹھاہواتھاوہ رؤساء کی موجود گی میں اتنی جرأت تونہیں کرسکتاتھاکہ کھلم کھلا عثمانؓ کی حمایت کرتا مگرجیسے کسی نوکرکابچہ اگرآقاکے بچے سے لڑ پڑے اور آقا کا بچہ نوکر کے بچے کو مارےتونوکر اپنے بچے کوہی ڈانٹناشروع
کردیتاہے.اسی طرح اس رئیس نے بھی حضرت عثمانؓ کو دیکھااورغصہ سے کہا.میں نہیں کہتاتھاکہ میری پناہ میں سے نہ نکلو.اب دیکھا پناہ میں سے نکلنے کاکیامزہ آیا.اب بظاہرتویہ الفاظ غصہ والے نظر آتے ہیں مگردرحقیقت ان میں محبت کی ایک جھلک پائی جاتی تھی.جب اس رئیس نے یہ بات کہی تو عثمان بن مظعونؓ نے جواب دیاکہ اگر میری ایک آنکھ نکل گئی توکیاہوا.خدا کی قسم میری تودوسری آنکھ بھی اس بات کاا نتظار کررہی ہے کہ اسے خدا کی راہ میں نکلنے کاکب موقعہ ملتاہے.یہ وہ نئی زندگی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ صحابہؓ کو ملی اورجس نے انہیں ہمیشہ کے لئے زندہ کردیا.اس کے مقابلہ میں ابو جہل کے سامنے ہرقسم کے برے کام کئے جاتے تھے مگر وہ انہیں ہنسی خوشی برداشت کرلیتاتھا.ابوجہل کے برداشت کرلینے اور صحابہؓ کے برداشت نہ کرسکنے کی وجہ یہی ہے کہ ابوجہل مردہ تھااورصحابہؓ زندہ تھے.پھر صحابہ کی زندگی کا اس امر سے بھی ثبوت ملتاہے کہ مکہ کی بنیاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے رکھی گئی تھی.مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک مکہ کے لوگ کولھو کے بیل کی طرح صر ف ایک ہی جگہ چکر کاٹتے رہے اورعرب سے کبھی باہر نہیں نکلے.مگرجونہی رسول کریم صلی ا للہ علیہ وسلم نے صحابہؓ میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی.وہ ایک قلیل عرصہ میں ساری دنیا پرچھاگئے حالانکہ صحابہؓ انہی لوگوں کی اولاد تھے جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک جو اڑہائی ہزار سال کا لمباعرصہ بنتاہے ساکت اورجامد بیٹھے رہے اورکولھو کے بیل کی طرح عرب کے اندر ہی چکر کاٹتے رہے لیکن جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اندر زندگی کی ایک نئی روح پھونکی تووہ دیکھتے ہی دیکھتے چین،سپین ،سسلی ،اٹلی ،افریقہ اورروس کی سرحدوں تک جاپہنچے.اورابھی آدھی صدی بھی نہیں گذری تھی کہ مسلمان ساری دنیا پرچھاگئے.یہی وہ زندگی تھی جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو عطاہوئی اوریہی وہ زندگی تھی جس کاجام ہرنبی کو دیاگیا.اورانہوں نے چاہاکہ روحانی لحاظ سے سڑے گلے مردے بھی وہ جام اپنے ہونٹوں سے لگاکر ایک نئی زندگی حاصل کریں.مگراس لئے کہ انبیاء ایک نیانظام جاری کرتے ہیں اورہرنظام اپنے ساتھ ایک انقلاب وابستہ رکھتاہے وہ لوگ جوروحانیت کے دشمن ہوتے ہیں ان کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں.اورانہیں ہرقسم کی نحوستوں کا موجب قراردے دیتے ہیں.موجودہ زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق طاعون اورزلازل سے اموات ہوئیں توگوایک طبقہ نے ہدایت حاصل کی مگرکچھ لوگوں نے یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ یہ بلائیں اوروبائیں محض مرزا صاحب کی نحوست کی وجہ سے آرہی ہیں.اگریہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کادعویٰ نہ کرتے
تودنیا پر یہ عذاب کیوں آتے.یہی بات حضرت صالح علیہ السلام کے مخالفین نے بھی کہی کہ یہ سب تیری نحوست کانتیجہ ہے.حضرت صالح علیہ السلام نے ان کی بات سن کرکہا.کہ تمہارانحس اورمبارک شگون تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اگر تم ا س کو سزاپر آمادہ کروگے تووہ تمہیں سزادے گااور انعام پر آمادہ کروگے توانعام دے گا.لیکن مجھے بھی تمہار ی خیر نظرنہیں آتی.کیونکہ تم ایک ایسی قوم ہو جوسچے دین کو چھوڑ بیٹھی ہے.اس لئے بظاہر یہی معلوم ہوتاہے کہ تم سزاہی پائو گے.وَ كَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي اورشہر میں نو آ دمی تھے جو ملک میں فساد کر تے تھے اوراصلاح نہیں کرتے تھے.الْاَرْضِ وَ لَا يُصْلِحُوْنَ۰۰۴۹قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ انہوں نے کہا کہ تم سب اس پر اللہ(تعالیٰ )کی قسم کھائو کہ ہم اس کے لَنُبَيِّتَنَّهٗ۠ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِيِّهٖ مَا شَهِدْنَا اوراس گھروالوں پر را ت کے وقت حملہ کریںگے.پھرجو بھی اس کے خون کامطالبہ کرنے آئےگا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ وَ اِنَّا لَصٰدِقُوْنَ۰۰۵۰وَ مَكَرُوْا مَكْرًا وَّ مَكَرْنَا ہم ا س سے کہیں گے کہ ہم نے اس کے اہل کی ہلاکت (کے واقعہ )کو نہیں دیکھااورہم سچے ہیں.مَكْرًا وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۰۰۵۱فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ اورانہوں نے ایک تدبیر کی اورہم نے بھی ایک تدبیر کی اور وہ جانتے نہیں تھے.پھردیکھ ان کی تدبیر کانتیجہ مَكْرِهِمْ١ۙ اَنَّا دَمَّرْنٰهُمْ وَ قَوْمَهُمْ اَجْمَعِيْنَ۰۰۵۲فَتِلْكَ کیانکلا.ہم نے ان کو اوران کی قو م کو سب کو تباہ کرکے رکھ دیا.پس (دیکھ)یہ ان کے گھر ہیں جو ان کے ظلموں بُيُوْتُهُمْ خَاوِيَةًۢ بِمَا ظَلَمُوْا١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ کی وجہ سے گرے ہوئے ہیں.اس میں علم والی قوم کے لئے بڑانشان ہے.
يَّعْلَمُوْنَ۰۰۵۳وَ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا يَتَّقُوْنَ۰۰۵۴ اور ہم نے ان لوگوںکو جو ایمان لائے اورتقویٰ کرتے تھے نجات دی.حلّ لُغَات.رَھْطٌ.اَلرَّھْطُ کے معنے ہیں.قَوْمُ الرَّجُلِ وَقَبِیْلَتُہٗ.یعنی قوم اورقبیلہ.وَعَدَدٌ یُجْمَعُ مِنَ الثَّلٰثَۃِ اِلَی الْعَشَرَۃِ وَ لَیْسَ فِیْھِمْ امْرَاَۃٌ.اورتین سے دس تک کے عدد کی گنتی جس میں کوئی عورت نہ ہو اسے بھی رَھْط کہتے ہیں.(اقرب) لَنُبَیِّتَنَّہٗ.لِنُبَیِّتَنَّہٗ بَیَّتَ سے فعل مضارع جمع متکلم کاصیغہ ہے.اوربَیَّتَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں عَمِلَہٗ اَوْ دَبَّرَہٗ لَیْلًا.رات کوکام کیا.یااس کام کے کرنے کے متعلق رات کوتدبیر کی (اقرب)پس نُبَیِّتَنَّہٗ کے معنے ہوں گے ہم اس کی ہلاکت کے متعلق رات کو تدبیرکریں گے.دَمَّرْنَا.دَمَّرْنَا دَمَّرَ سے جمع متکلم کاصیغہ ہے اور دَمَّرَھُمْ وَعَلَیْھِمْ کے معنے ہیں اَھْلَکَھُمْ.ان کوہلاک کیا.(اقرب) خَاوِیَۃً.خِاوِیَۃً خَویٰ سے اسم فاعل مؤنث کاصیغہ ہے اورخَوَتِ الدَّارُ کے معنے ہیں سَقَطَتْ وَتَھَدَّمَتْ.مکان گرگیااورتباہ ہوگیا اورخَوِیَتِ الدَّارُ کے معنے ہوتے ہیں خَلَتْ مِنْ اَھْلِھَا.رہنے والوں سے گھرخالی ہوگیا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جس شہر میں مبعوث فرمایاتھا اس میں قوم ثمود کے نو ائمۃ الکفر رہتے تھے جورات دن تخریبی سرگرمیوں میں مشغول رہتے تھے اور حضرت صالح ؑ کے مشن کونقصان پہنچانے اور آپ کی اشاعت توحید کی مساعی کو ناکام بنانے کی جدوجہد کرتے رہتے تھے.اگروہ اپنی بڑائی اورعزت کو اصلاحی کاموں میں صرف کرتے اور لوگوںکو صلاحیت اور رشد کے راستہ پر چلانے کی کوشش کرتے توان کی عزت میں اَوربھی اضافہ ہوجاتا.مگرانہوں نے اس راستہ پرقدم ماراجو انہیں ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جانے والاتھا.چنانچہ ایک دن انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ آئو اوراللہ تعالیٰ کی قسم کھاکرمعاہدہ کرو کہ ایک رات ہم سب مل کر صالح ؑ اور اس کے اہل و عیال پر حملہ کرکے انہیں قتل کردیں گے اور پھر جب اس کے ورثاء ہم سے خون بہامانگیں گے توہم ان سے صاف صاف کہہ دیں گے کہ ہم نے اس کے اوراس کے اہل کے قتل کے واقعہ کودیکھاتک نہیں اورہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں.اس طرح انہوں نے حضرت صالح ؑ کی تباہی کامنصوبہ سوچا.مگرانہیں معلوم نہیں
تھا کہ آسمان پر ایک خداموجود ہے جو صالح ؑ کی حفاظت کررہاہے.چنانچہ انہوں نے بھی تدبیریں کیں مگران کے بالمقابل ہم نے بھی تدبیریں کیں اور وہ ہماری تدبیروں کو کہاں سمجھ سکتے تھے.وہ اسی دھوکا میں مبتلارہے کہ صالح کے قتل کے منصوبے میں انہیں کامیابی حاصل ہوجائے گی.اوروہ سمجھ بھی نہ سکے کہ آسمانی تدبیر غالب آرہی ہے اوران کی تدبیر ناکام جارہی ہے.چنانچہ دیکھ لو کہ ان کی تدبیروں کے باوجود ہم نے ان نوآدمیوں کو بھی اوران کی قوم کے تمام چھوٹوں اوربڑوں کو بھی جواس قاتلانہ منصوبہ میں ان کے شریک تھے یاان کی ہمدردی انہیں حاصل تھی اپنے عذاب کا نشانہ بنادیا اور ان سب کو تباہ و برباد کردیا.تمہارے سامنے ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اور گرے ہوئے مکانات اورمکینوں سے خالی مکان موجود ہیں جولوگوں کے لئے عبرت کاسامان مہیا کررہے ہیں.اوراس میں عقل اوردانش رکھنے والی قوم کے لئے بڑابھاری نشان ہے.مگرجولوگ صالح ؑ پر ایمان لائے تھے اورجنہوں نے تقویٰ اورطہارت میں اپنی عمر بسر کی تھی ہم نے ان کو اس عذاب سے بچالیا اور ان کی ترقی کے سامان پیداکئے.قوم ثمود کاواقعہ بیان کرنے کے بعد اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جس طرح حضرت صالح ؑ کے قتل کے لئے ان کی قوم کے نوائمۃ الکفر نے ایک خطرناک سازش کی تھی.اسی طرح مکہ کے نوائمۃ الکفر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے باہم معاہدہ کریں گے اورآخر وہ اسی فیصلہ پر پہنچیں گے کہ تمام قبائل مل کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کردیں.مگر جس طرح حضرت صالح ؑ کے دشمن ناکام رہے.اسی طرح خدا تعالیٰ مکہ کے ائمۃ الکفر کوبھی ناکام کرے گا.اورپھر جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح ؑ اوران پرایمان لانے والوں کو نجات دی اورانہیں عذاب کے مقام سے نکال کر لے گیا.اسی طرح اللہ تعالی آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کوبھی دشمن کے نرغہ سے نکال کر مدینہ لے جائے گااور آپ کی کامیابی اور فتوحات کا درواز ہ کھول دے گا.ہرشخص جو تاریخ سے معمولی واقفیت بھی رکھتاہے جانتاہے کہ کس طرح یہ پیشگوئی حرف بہ حر ف پوری ہوئی جس طرح حضرت صالح ؑ کے زمانہ میں نو بڑے بھاری مفسد تھے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ عیہ وسلم کے مقابلہ میں نوہی ائمۃ الکفر تھے.(۱)سب سے بڑا مفسد جو گویا رأس المعاندین تھا ابوجہل تھا جسے مکہ والے ابوالحکم یعنی دانائی کا باپ کہا کرتے تھے (۲)دوسرا مفسد ابولہب تھا (۳)تیسرا مفسد امیہ بن خلف تھا.(۴)چوتھا مفسد النضربن الحارث تھا (۵) پانچواں مفسد عقبہ بن ابی معیط تھا (۶)چھٹا مفسد ولید بن مغیرہ تھا (۷)ساتواں مفسد عاص بن وائل تھا (۸)آٹھواں مفسد
عتبہ تھا اور (۹)نواں مفسد شیبہ تھا.ان میں سے ابوجہل.امیہ.عقبہ بن ابی معیط، عتبہ اور شیبہ پانچوں جنگ بدر میں مارے گئے.النضر ابن الحارث جنگ بدر میں قید ہوا.اورپھر اپنے جرائم کی پاداش میں ماراگیا.ولید ہجرت کے تین ماہ بعد پائوں میں تیر چبھ جانے کی وجہ سے ہلاک ہوا.عاص بن وائل ہجر ت کے دوسرے ماہ اچانک پائوں سوجھ جانے سے مر گیا اور ابولہب جنگ بدر کے تھوڑا عرصہ بعد مکہ میں بیمار ہو کر ہلاک ہوا (بخاری کتاب المغازی باب دعا ء النبی علی کفار قریش).ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو نقصان پہنچانے اور آپ کو جسمانی رنگ میں بھی ہر رنگ کا دکھ پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی اور پھر انہوں نے یہیں تک بس نہ کی بلکہ ایک دن قریش مکہ کے تمام رؤساء دارالندوہ میں جمع ہوئے.اور انہوں نے کہا کہ اب ہمیں اسلام کے مٹانے کے لئے متحدہ طور پر کوئی تدبیر کرنی چاہیے.اور آخر ابوجہل کی اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا کہ ہر قبیلہ سے ایک ایک نوجوان چنا جائے اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک تلوار دے دی جائے.پھر یہ سارے کے سارے اکٹھے ہوکر ایک رات محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )پر حملہ کر کے اسے قتل کردیں.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ چونکہ تمام قبائل کے چنیدہ نوجوان اس میں شریک ہوںگے.اس لئے بنو عبد مناف کو یہ جرأت نہیں ہوگی کہ وہ ساری قوم کے ساتھ لڑ سکیں.وہ زیادہ سے زیادہ یہی کریں گے کہ خون بہامانگ لیں.سو وہ ہم دے دیں گے.غرض انہوں نے یہ تدبیر کی اور اپنے دل میں خوش ہوئے کہ اب وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے مگر جس خدا نے حضرت صالح ؑ اورا ن پر ایمان لانے والے مخلصین کو دشمنوں کی سازش سے محفوظ رکھا تھا اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچائو کے متعلق بھی تدبیر کی.اورا دھر تو وہ یہ منصوبہ کر کے باہر نکلے اور ادھر خدا نے اس منصوبہ کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دے دی اور آپ کو ہجرت کی اجازت مل گئی(سیرۃ لابن ہشام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم).یہ ہجرت کی اجازت درحقیقت اسلام کے غلبہ کی ایک عظیم الشان بنیاد تھی اسی ہجرت کے نتیجہ میں جنگ بد ر کی صورت میں اہل مکہ پرو ہ عذاب آیا جس نے ان کی طاقت کو بالکل توڑ کر رکھ دیا.اور پھر دوسرا عذاب ان پر اس وقت آیا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ کو فتح کر لیا.مکہ والوں پرجو یہ عذاب آیا.وہ ان کے لئے نہایت دردناک تھا.مکہ کے رؤساء کو لوگوں میں اس قسم کی عزت اور عظمت حاصل تھی کہ لوگ ان کے سامنے بات تک کرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے اور ان کے احسانات بھی لوگوں پراس کثرت کے ساتھ تھے کہ کوئی ان کے سامنے آنکھ نہیں اٹھا سکتا تھا.ا ن کی اس عظمت کا پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقعہ پر جس سردار کو مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سے گفتگو کرنے کے لئے بھیجا تھا.اس نے باتوں باتوںمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگا دیا.یہ دیکھ کرا یک صحابیؓ نے اپنی تلوار کا کندہ اس کے ہاتھ پر مارا اور کہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو مت لگا.اس نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تاکہ معلو م کرے کہ یہ کون شخص ہے جس نے میرے ہاتھ پر تلوار کا دستہ ماراہے.صحابہ ؓ چونکہ خود پہنے ہوئے تھے اس لئے ان کی صرف آنکھیں اوراس کے حلقے ہی دکھائی دیتے تھے.وہ تھوڑی دیر غور کرکے دیکھتا رہا.پھر کہنے لگا.تم فلاں شخص ہو.انہوں نے کہا.ہاں! اس نے کہا.کیا تمہیں معلوم نہیں میں نے فلاں موقعہ پر تمہارے خاندان کو فلاں مصیبت سے نجات دی تھی.اور فلاں موقع پر تم پر فلاں احسان کیا تھا.کیا تم میرے سامنے بولتے ہو.اب تو احسان فراموشی کا مادہ لوگوں میں اس قدر عام ہوچکا ہے کہ کسی پر صبح کو احسان کرو تو شام کو وہ بھو ل جاتا ہے اور شام کو کرو تو صبح کو بھول جاتا ہے اور کہتا ہے کیا میں اب سار ی عمر اس کا غلام ہی بنارہوں.وہ ساری عمر کے احسانات چھوڑ ایک رات کے احسان کی قدر تک برداشت نہیں کرسکتا.مگر عربوں میں احسان مندی کا جذبہ بدرجہ کمال پایا جاتا تھا جب اس نے اپنے احسانات گنوائے تو گویہ ایک نہایت ہی نازک موقعہ تھا مگر پھر بھی اس صحابی ؓ کی نظریں زمین میں گڑ گئیں اور وہ پیچھے ہٹ گئے.اس پر پھر ا س نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرنی شروع کردیں اور کہا.میں عرب کا باپ ہوں.میں تمہاری منّت کرتا ہوں کہ تم اپنی قوم کی عزت رکھ لو.اور دیکھویہ جو تمہارے اردگرد جمع ہیں یہ تو مصیبت آنے پر فوراً بھاگ جائیں گے اور تمہارے کام آخر تمہاری قوم ہی آئے گی.پس کیوں اپنی قوم کو ذلیل کرتے ہو اسی دوران میں اس نے اپنی بات پر زور دینے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منوانے کی خاطر آپ کی ریش مبارک کو پھر ہاتھ لگا دیا.اور گوآپ کی ریش مبارک کو اس کا ہاتھ لگانا لجاجت کے رنگ میں ہی تھا اور اس لئے تھا کہ آپ سے وہ اپنی بات منوا ئے مگر چونکہ اس میں تحقیر کا پہلو بھی پایا جاتا تھا.اس لئے صحابہ ؓ اسے برداشت نہ کرسکے.اور جونہی اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی کو ہاتھ لگایا.پھرکسی شخص نے زور سے اپناہاتھ اس کے ہاتھ پرمارااورکہا اپنے ناپاک ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کی طرف مت بڑھا.اس نے پھر آنکھ اٹھائی اورغور سے دیکھتارہاکہ یہ کون شخص ہے جس نے مجھے روکا اورآخر پہچان کر اس نے اپنی آنکھیں نیچی کرلیں اورکہا ابو بکرؓ! میں جانتاہوں کہ تم پرمیراکوئی احسان نہیں (بخاری کتاب الشروط باب الشروطی الجہاد و سیرۃ لابن ہشام امر حدیبیہ).پس وہ دوسروں پر اس قدر احسان کرنے والی قوم تھی کہ سوائے حضرت ابوبکرؓ کے جس قدر انصار اور مہاجر وہاں تھے ان سب پر اس رئیس کا کوئی نہ کوئی احسان تھا.اور حضرت ابوبکر ؓ کے سوااور کسی میں یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اس کے ہاتھ کو روک سکے.اب ایک تووہ
زمانہ تھاکہ اہل مکہ کواس قد رعزت حاصل تھی کہ ان کاایک سردار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں جاتاہے اورآپ کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاکر کہتا ہے.میں عرب کاباپ ہوں.میری بات مان لو.اورجب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ریش مبارک کو ہاتھ لگاتاہے توسوائے حضرت ابو بکرؓ کے اَور کوئی صحابیؓ جرأت نہیں کرسکتاکہ اسے روکے.کیونکہ ان میں سے ہرایک پر رؤساء مکہ کاکوئی نہ کوئی احسان تھا.اوریاپھر وہ زمانہ آیا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تویہ تمام رؤساء مجرموں کی طرح آپ کے سامنے پیش کئے گئے اورآپ نے ان سے پوچھا.کہ بتائو اب تمہارے ساتھ کیاسلوک کیاجائے.اس وقت ان لوگوں نے نہایت ندامت اورشرمندگی کے ساتھ اپنے سر جھکالئے اورکہا کہ ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جویوسفؑ نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیاتھا(سیرۃ لابن ہشام ذکر اسباب الموجبۃ للمسیر).غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپؐ کے صحابہؓ کامکہ سے نکالا جانا حضرت صالح ؑ اور ان کے ساتھیوں کی طرح بڑی بھاری کامیابیاں اورفتوحات کاپیش خیمہ ثابت ہوااوراسلام مکہ سے نکل کر عرب میںاور پھر عرب سے نکل کر سارے عالم میں پھیل گیا اورمشرکین مکہ کا نشان تک باقی نہ رہا.وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ وَ اَنْتُمْ اور(ہم نے)لوطؑ کو (بھی رسول بناکر بھیجا)جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا.کیاتم بدیاں کرتے ہو.تُبْصِرُوْنَ۰۰۵۵اَىِٕنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّنْ دُوْنِ اور تم دیکھ رہے ہوتے ہو.کیاتم عورتوں کو چھوڑ کر مَرودں کے پاس شہوت کی نیت سے آتے ہو.النِّسَآءِ١ؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُوْنَ۰۰۵۶فَمَا كَانَ جَوَابَ حقیقت یہ ہے کہ تم ایک جاہل قوم ہو.پس اس کی قوم کا جواب صرف یہ تھا کہ (اے لوگو!) قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوْۤا اَخْرِجُوْۤا اٰلَ لُوْطٍ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ١ۚ لوط کے خاندان کو اپنے شہر سے نکال دو.وہ ایسے لوگ ہیں جو بڑانیک بنناچاہتے ہیں.نتیجہ یہ ہواکہ ہم نے اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ۠۰۰۵۷فَاَنْجَيْنٰهُ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا اس (یعنی لوط ؑ)کواوراس کے خاندان کے لوگوں کو سوائے اس کی بیوی کے نجات دی.ہم نے اس (یعنی بیوی)
امْرَاَتَهٗ١ٞ قَدَّرْنٰهَا مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۰۰۵۸وَ اَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ کوپیچھے رہنے والوں میں گن چھوڑاتھا.اورہم نے ان پر ایک بارش برسائی.اورجن کو عذاب کا پیغام مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَؒ۰۰۵۹ پہنچ چکاہو ان کی بارش بہت بر ی ہوتی ہے.حل لغات.غٰبِرِیْنَ.غَابِرِیْنَ غَابِرٌ کی جمع ہے اور اَلْغَابِرُ کے معنے ہیں اَلْبَاقِیْ.باقی رہنے والا.نیر اَلْغِبْرُ کے معنے ہیں اَلْحِقْدُ.کینہ.(اقرب) پس غَابِر کے معنے ہوں گے باقی رہنے والایاکینہ رکھنے والا.تفسیر.قوم ثمود کی ہلاکت کے ذکر کےبعد اللہ تعالیٰ حضرت لوط علیہ السلام کاواقعہ بیان فرماتا ہے.حضرت لوط علیہ السلام بھی حضرت سلیمان علیہ السلام سے بہت پہلے گذر چکے تھے یعنی حضرت سلیمانؑ موسیٰ علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جوآگے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے جن کے لوطؑ چچازادبھائی تھے.حضرت لوط علیہ السلام کاواقعہ یہاں اس لئے بیان کیاگیاہے کہ ان کے واقعہ کو حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے واقعہ سے مشابہت ہے.حضر ت صالح علیہ السلام کی قوم نے بھی رات کے وقت منصوبہ کرکے ان پر حملہ کرناچاہاتھا.اورلوط ؑ کی قوم نے بھی رات کے وقت منصوبہ کرکے ان کو گھر سے نکالنااو ران کے مہمانوں کو ذلیل کرناچاہاتھا.اسی مشابہت کی وجہ سے اس واقعہ کو یہاں بیان کیاگیاہے.اوردرحقیقت یہ تمام واقعات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطورپیشگوئی بیان کئے جارہے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی حضرت لوط ؑ کی قسم کاواقعہ پیش آیا.حضرت لوط ؑ کی قوم نے بھی یہ فیصلہ کیاکہ ان کوان کے شہر سے نکال دیں.یہی فیصلہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے بھی کیاتھااوردونوں کاالزام ایک تھا گووجوہ مختلف تھے.دونوں کہتے تھے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہم سے زیادہ پاکیز ہ قرار دیتے ہیں مگرہوایہ کہ خدا نے لوط ؑ اوراس کے اہل کو سوائے اس کی بیوی کے بچالیا.کیونکہ وہ آپ کے مخالفوں میں سے تھی.اوروہ آپ کی تعلیم سے کینہ اور بغض رکھتی تھی.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی بچالیا اورآپؐ کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ بھی محفوظ رہے.پس اس آیت کے مطابق حضرت ابو بکرؓ یقیناً آپ کے اہل میں شامل ہیں.بیشک حضرت لوط ؑ کے متعلق یہ بھی آتاہے کہ ان کی بیوی پیچھے رہ گئی.مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام چونکہ حضرت لوط ؑ سے بہت بالاتھا اس لئے آپ کی کوئی
بیوی ان معنوں میں پیچھے نہیں رہی تھی جن معنوں میں کہ حضرت لوط ؑ کی بیوی پیچھے رہی تھی.کوئی بیوی اپنی مرضی سے پیچھے نہیں رہی اورکوئی بیوی دائمی طور پر پیچھے نہیں رہی اورنہ کوئی بیوی کسی عذاب میں مبتلاہوئی بلکہ حضرت سودہؓ اور حضرت عائشہؓ دونوں بعد میں مدینہ پہنچ گئیں.حضرت سودہؓ اور آپ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ کو توحضر ت زیدؓ لے آئے.جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میںتشریف میںلاتے ہی دواونٹ اورپانچسودرہم دےکر مکہ بھجوایاتھا تاکہ وہ آپ کی بیٹیوں اورازواجِ مطہرات کو لے آئیں.اور حضرت عائشہؓ اپنے بھائی حضرت عبداللہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچ گئیں.اوراس طرح آپؓ کی سب بیویاں آپ کے انعامات میں حصہ دار بنیں.حضرت لوط علیہ السلام نےجب اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کاپیغام پہنچایااوران کو باہر سے آنے والے لوگوں پرظلم کرنے فسادکرنے اور جنسی معاملات میں بے راہ روی اختیارکرنے سے منع کیاتوبجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کی طر ف توجہ کرتے انہوں نے حقارت سے حضرت لوط علیہ السلام کے ماننے والوں کے متعلق یہ کہنا شروع کردیا کہ اِنَّهُمْ اُنَاسٌ يَّتَطَهَّرُوْنَ۠کہ یہ لوگ بڑے نیک بنے پھرتے ہیں.یعنی حقیقتاً تونیک نہیں مگر ہمارے افعال پر اعتراض کرکے یہ لوگ اپنی بڑائی ثابت کرناچاہتے ہیں.یایہ ایک ایساگروہ ہے جو تکلف سے نیکی ظاہر کرتاہے.یعنی نیکی اور تقویٰ کادعویٰ توکرتاہے لیکن دراصل نیک نہیں ہے.فرماتا ہے وَ اَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَّطَرًا١ۚ فَسَآءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ.ہم نے ان کے جرائم کی پاداش میں ان پرایک تباہ کن بارش برسائی.اورجن کے لئے تباہی اور بربادی کافیصلہ ہوچکاہو ان پر نازل ہونے والی بارش بہت ہی ہولناک اور خطرناک نتائج کی حامل ہواکرتی ہے.یہ بارش دراصل پتھروں کی تھی جو ایک خطرناک زلزلہ کے نتیجہ میں ہوئی.یعنی زمین کاتختہ الٹ گیا.اورمٹی سینکڑوں فٹ اوپر جاکر پھر نیچے گری.اوراس طرح گویا مٹی اورپتھروں کی ان پر بارش ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جس بارش کو عذاب کے طورپرنازل کیاگیاتھاوہ ظاہری بارش بھی تھی جو جنگ بدر کے وقت ہوئی اور ریت اور کنکروں کی بارش بھی تھی.جواس وقت آئی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعاکرنے کے بعد کنکروں کی ایک مٹھی اٹھا کر دشمن کی طرف پھینکی.آپ کا یہ کنکر پھینکنا گویاآسمانی طاقتوں کو ایک اشارہ تھا ادھر آ پ نے کنکروں کی مٹھی پھینکی اورادھر ایک تیز آندھی مسلمانوں کی پشت کی طرف سے چل پڑی اور اس کے ساتھ ریت اورکنکروں کاایک طوفان اٹھاجس نے کفار کی آنکھوں کو اندھاکردیا.اوراس کے ساتھ ہی ان کے تیر بھی ہواکی مخالفت کی وجہ سے مسلمانوں تک پہنچنے سے رک گئے.اورمیدان کے درمیان میں ہی
بے کار اوربے ضررہوکر گرنے لگے اوراس طرح کفار مکہ پروہ عذاب آگیا جوقوم لوط ؑ کی مشابہت میں ان پر آنا ضروری تھا.اورجس کے لئے ابو جہل نے بھی یہ دعاکی تھی کہ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ(الانفال :۳۳)یعنی اے خدااگر اسلام ایک سچامذہب ہے اورہم غلط راستہ پرجارہے ہیں توتُوہم پر آسمان سے پتھر برسا.یاہمیں کوئی اوردردناک عذاب دے.اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے نتیجہ میں آسمان سے ان پرپتھربھی برسائے او رپھرانہیں اس عذاب الیم میں بھی مبتلاکیا کہ ان کے چنیدہ افسر اس جنگ میں ہلاک ہوگئے.ان کی عزتیں خاک میں مل گئیں.ان کی وجاہتوں کاخاتمہ ہوگیا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا پرآفتاب نصف النہار کی طرح ظاہر ہوگئی.قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَ سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى١ؕ توکہہ دے ہرتعریف کااللہ (ہی)مستحق ہے.اوراس کے وہ بندے جن کواس نے چن لیا ہو ان پر ہمیشہ سلامتی آٰللّٰهُ خَيْرٌ اَمَّا يُشْرِكُوْنَؕ۰۰۶۰ نازل ہوتی ہے.کیااللہ(تعالیٰ)بہترہے یاوہ چیزیں جن کو وہ (اس کا )شریک قراردیتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے اے محمدؐ رسول اللہ تولوگوں سے کہہ دے کہ ہرقسم کی تعریف کااللہ تعالیٰ ہی مستحق ہے جس نے ہرزمانہ میں لوگوں کی ہدایت او رراہنمائی کے لئے اپنے انبیاء بھیجے.کسی زمانہ میں اس نے موسیٰ ؑ کولوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا.کسی زمانہ میں دائودؑ اورسلیمان ؑ کو بھیج دیا.کسی زمانہ میں حضرت صالح ؑ کولوگوں کی ہدایت کے لئے مبعوث کیا.کسی زمانہ میں حضرت لوط ؑ کونبوت کے مقام پر کھڑاکردیا.اورپھرخدا نے اپنے ان برگزیدہ بندوں کو کبھی اپنی نصرت اور تائیدسے محروم نہیں کیا.بلکہ ہمیشہ ان کے لئے سلامتی نازل ہوتی رہی اور ہمیشہ ہی اس کے برگزید ہ بندوں پر سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے.اب بتائو کیا اللہ اچھا ہے جواپنے بندوںکو بچاتا اور ترقی دیتارہتاہے اورجس نے لوگوں کی راہنمائی کے لئے اپنے کلام او رالہام کاسلسلہ جاری کیاہواہے یایہ معبودان باطلہ اچھے ہیں جن کے ماننے والے ہمیشہ تباہ ہوتے ہیں اورجن کی طرف سے کبھی کوئی رسول اس پیغام کے ساتھ کھڑانہیں ہواکہ مجھے ھبل نے دنیا کی ہدایت کے لئے بھجوایا ہے یالات اورمناۃ نے بھجوایا ہے اورمیں اپنے مخالفوں پر غالب رہوں گا.
سَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں پر ہمیشہ اس کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے.اس لئے مومنوں کویہ ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جب بھی کسی نبی کانام لیں تواس کے ساتھ علیہ السلام کے الفاظ ضرور کہاکریں.وہ لوگ جو حقیقت سے ناآشناہوتے ہیں بعض دفعہ ان دعائیہ کلمات کے متعلق سوال کردیاکرتے ہیں کہ انبیاء کے لئے سلامتی کی خاص طورپر کیوں دعاکی جاتی ہے جبکہ ان کا خدا تعالیٰ کے سایہء رحمت میں ہوناایک قطعی اوریقینی امر ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ سلامتی توان کو بے شک حاصل ہے کہ وہ وفات پاکر اللہ تعالیٰ کے سایہ رحمت میں چلے گئے.لیکن ایک اوربات ایسی ہے جس کے لحاظ سے ان کے مرنے کے بعد بھی ہمیشہ سلامتی کی دعاکرتے رہنا ضروری ہوتاہے اوروہ یہ کہ انبیاء دنیامیں ایک بہت بڑی روحانی جائیداد چھوڑ کرجاتے ہیں.دنیوی جائدادیں تواگر نااہل ہاتھوں میں چلی جائیں تب بھی ان کی تباہی کااثر بہت محدود ہوتاہے لیکن انبیاء جو جائیداد چھوڑ جاتے ہیں اگراس کوگمراہی کا ذریعہ بنالیاجائے تو صدیوں تک لوگ گمراہ ہوتے چلے جاتے ہیں اس لئے ضروری ہوتاہے کہ ان کے لئے دعائوں کے سلسلہ کو ہمیشہ جاری رکھاجائے.انہوں نے تووہ جائداد اس لئے چھوڑی ہوتی ہے کہ لو گ اس سے روشنی او رنور حاصل کریں.مگرپیچھے آنے والے روشنی اورنور حاصل کرنے کی بجائے خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اوردوسروں کوبھی گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ دیکھ لوکئی قسم کے گناہ ہیں جوبنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ اور حضرت دائوداو رحضرت سلیمان اور حضرت لوط علیہم السلام کی طر ف منسوب کردیئے (پیدائش باب ۲ آیت ۱۳ تا ۱۹،پیدا ئش باب ۱۹ آیات ۳۱ تا ۳۵،ملوک اول باب ۱۱ آیت ۳،سموئیل باب ۱۱ آیت ۲۲۷).لوگ جب ان واقعات کو پڑھتے ہیں توکمزور طبع لوگ ان سے متاثر ہوتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب انبیاء نے اس طرح کرلیاتھاتوہم کیوں نہ کریں.عیسائی یوں تومنہ سے دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بالکل معصوم اور بےگناہ تھے مگرتفصیلات میں وہ ان پر بھی الزام لگانے سے باز نہیں آئے.چنانچہ وہ کہتے ہیں.کہ ایک دفعہ وہ کسی کاگدھا بے پوچھے لے گئے اوراس پر سواری کرتے پھرے (مرقس باب ۱۱ و متی باب ۲۱).پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ و ہ لوگوں کو گالیاںدیتے اور انہیں کتے او رزناکار وغیرہ کہتے تھے (متی باب ۷ آیت ۶و متی باب ۲۵آیت ۲۶ و متی باب ۱۲ آیت ۳۹).اسی طرح کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کے گناہ اٹھاکر صلیب پر لٹک گئے اوراس طرح نعوذ باللہ لعنتی بنے.اورتین دن تک دوزخ میں رہے (نمبر ۱پطرس باب ۳ آیت ۱۸تا۲۰).پھر کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کے سؤروں کے گلّے بغیر ان کے مالکوں کو کوئی قیمت دینے کے تباہ کردیاکرتے تھے (متی باب ۸ آیت ۲۸تا۳۲ و مرقس باب ۵).اسی طرح ہندوئوں کو لوتو و ہ حضرت کرشنؑ او رحضرت رامچندر جی کواپنا اوتار مانتے ہیں مگررامچندر جی کاسیتاسے جوسلوک بیان
کرتے ہیں و ہ اگر ایک طرف رکھ لیاجائے اوردوسر ی طرف ان کی بزرگی ا ورنیکی دیکھی جائے تویہ تصور بھی نہیں کیاجاسکتا کہ انہوں نے ایسا فعل کیاہو گا مگر وہ حضر ت رامچندر جی کی طرف بغیر کسی جھجک کے یہ ظلم منسوب کرتے ہیں.پھر حضرت کرشنؑ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مکھن چُراچُراکرکھایاکرتے تھے.حالانکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی تھے (رامائن اتھر کاند اردو جلد ۷ صفحہ ۹۷۹،۹۸۰ سرک ۵۳ تا ۵۴ سیتاجی کی جلا وطنی).پس انبیاء جہاںہدایت پھیلانے کاذریعہ ہوتے ہیں وہاں شیطانی لوگ ان کو ایک قسم کی گمراہی اور شیطنت پھیلانے کابھی ذریعہ بنالیتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انبیاء پر سلام کاخصوصیت سے ذکرکیاہے تاکہ ہم جب بھی ا ن انبیاء کانام لیں ساتھ ہی یہ دعابھی کیا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنہ گروں کو تباہ کرے جوان کانام لے لے کر دنیا میں گمراہی پھیلاتے ہیں تاکہ ان کی کوششیں اکارت نہ چلی جائیں.حدیثوں میں آتاہے.کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے.تو آپ اپنی آخری گھڑیوں میں بڑے اضطراب کے ساتھ کروٹیں بدلتے اور بار بار فرماتے کہ خدایہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا.آخر یہ لازمی بات ہے کہ جب نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیاجائے گا تولوگوں میں توحید نہیں رہے گی.اورشرک روز بروز بڑھتاچلاجائے گا.پس انبیاء پرسلام اسی حکمت کی وجہ سے آیاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے انوار اوربرکات کے سلسلہ کووسیع کرے اور وہ فتنہ گرتباہ ہوں جو ان کی روحانی جائیداد کو غارت کرنے والے ہیں.اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ (بتائوتو)آسمانوں اورزمین کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور(کس نے )تمہارے لئے بادل سے پانی اتاراہے.پھراس مَآءً١ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ١ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ (یعنی پانی )کے ذریعہ سے ہم نے خوبصورت با غ نکالے ہیں.تم ان (باغوں)کے درخت نہیں اگاسکتے تھے.تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَؕ۰۰۶۱ کیااللہ کے ساتھ اَوربھی معبود ہے (جوسب کائنات عالم کاانتظام کررہاہے)لیکن یہ (کافر)ایسی قوم ہیں جواس کے شریک بنارہے ہیں.حل لغات.حَدَآئِقَ.حَدَآئِقَ حَدِیْقَۃٌ کی جمع ہے اور اَلْحَدِیْقَۃُ کے معنے ہیں اَلْبُسْتَانُ یَکُوْنُ
عَلَیْہِ حَائِطٌ ایسابا غ جس کے گرد دیوار ہو.(اقرب) بَھْجَۃٌ.اَلْبَھْجَۃُ کے معنے ہیں اَلْحُسْنُ.خوبصورتی.وَیُقَالُ ھُوَ حُسْنُ لَوْنِ الشَّیْءِ اور یہ بھی کہاجاتاہے کہ بَھْجَۃٌ کسی چیز کے رنگ کی خوبصورتی کانام ہے.وَقِیْلَ ھُوَ فِی النَّبَاتِ النَّضَارَۃُ.وَفِیْ الْاِنْسَانِ ضَحِکُ اَسَارِیْرِ الْوَجْہِ اَوْظُھُوْرُالْفَرَحِ اَلْبَتَّۃَ.بعض ائمہ لغت کہتے ہیں کہ بَھْجَۃٌ کالفظ اگرنباتات کے متعلق استعمال ہوتواس کے معنے تازگی اور سرسبزی کے ہوتے ہیں اورجب انسان کے متعلق اس لفظ کااستعمال ہوتویہ معنے ہوں گے کہ اس کا چہرہ تمتمااٹھا یایہ کہ اس سے خوب خوشی ظاہر ہوئی.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.تم آسمانی اور زمینی نظام پر غور کرکے دیکھو کہ یہ زمین اورآسمان کس نے پیداکئے ہیں اورپھر کون ہے جو بادلوں سے پانی اتار کر قسم قسم کے باغ اگاتاہے حالانکہ تم ایک درخت بھی پیدا نہیں کرسکتے تھے.پھرسوچوکہ وہ خداجس نے یہ نظام کائنات بنایا و ہ بہتر ہے یا وہ معبودان باطلہ بہتر ہیں جو ان باغوں اورپانیوںاور آسمان اور زمین سب کے محتاج ہیں.تم اس خداجیسا کوئی اَور دکھائو توسہی.یقیناًتم نہیں دکھاسکتے.مگرکتنے افسوس کی بات ہے کہ لو گ پھر بھی عقل سے کام نہیں لیتے اوروہ خوامخواہ خدا تعالیٰ کے ہمسر بناتے چلے جاتے ہیں.اس آیت کے پہلے حصہ میں غائب کی ضمیر استعمال ہوئی ہے.لیکن دوسرے حصہ میں اَنْبَتْنَا کہہ کر جمع متکلم کی ضمیر استعمال کی گئی ہے.یہ قرآنی کمالات میں سے ایک بہت بڑاکمال ہے کہ وہ بعض دفعہ ایک چھوٹے سے لفظ کے ذریعے ایک بہت بڑااشار ہ کردیتاہے.اس جگہ بھی غائب سے متکلم کی طرف ضمیر بلاوجہ نہیں پھیری گئی.بلکہ اس لئے پھیری گئی ہے کہ زمین و آسمان کی پیدائش اورآسمان سے بارش نازل ہونے اور اس کے ذریعہ زمین سے ہرقسم کی سبزیاں اور باغات پیدا ہونے پرجب انسان غور کرتاہے تو خدا تعالیٰ کی قدرت او راس کے جلال اورجبروت کانقشہ اس کی آنکھوں کے سامنے آجاتاہے اورو ہ اسے غائب نہیں بلکہ حاضر سمجھنے لگتاہے.چنانچہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں اَنْبَتْنَا کالفظ ا ستعمال کیاگیاہے.گویا خدابندوں کے سامنے کھڑاہے اوروہ انہیں اپنے احسانات گنوارہاہے.پس یہ غلطی نہیں بلکہ قرآن کریم کے اعلیٰ درجہ کے کمالات میں سے ایک بڑا کمال ہے.پھر اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری پیدائش عالم کو پیش کرکے روحانی پیدئش کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.اور بتایا ہے کہ جس طرح مادی دنیا میں زمین وآسمان کی پیدائش اوربادلوں سے بارش نازل ہونے کاسلسلہ جاری ہے اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایسا ہی قانون جاری ہے.اورانبیاء کی آمد بھی ایک بارش سے مشابہت رکھتی ہے جس طرح
وہ بادل جو ضرورت کے مطابق اورلمبے انتظار کے بعد خشک زمین پر برستاہے جب لو گ گرمی کی شدت اور حبس کی تکلیف کی وجہ سے بے کل ہورہے ہوتے ہیں.جب انسان اور جانور تازہ اور اچھے پانی کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں.جب کھیت اپنی روئیدگی کونکالنے اورسبزہ کو ابھارنے کے لئے پانی کی چھینٹوں کوترس رہے ہوتے ہیں اوراسے دیکھ کر دنیا خوش ہوتی ہے کہ اب اس کی امیدیں برآئیں گی اور اس کی فصلیں تروتازہ ہوجائیں گی.اسی طرح روحانی ظلمات کی تکلیف اور ایک لمبے انتظار کے بعد انبیاء علیہم السلام کادنیا میں ظہور ہواکرتاہے جواپنے انفاس قدسیہ سے پیاسی دنیا کوسیراب کرتے اور علم وعرفان کے دریابہادیتے ہیں جن سے بڑے بڑے روحانی باغ تیار ہوتے ہیں جو آنکھوں کی تراوت او ردلوں کی تسکین کاموجب بنتے ہیں.مگر جہاں بارش اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے ایک بہت بڑافضل ہے اگر بروقت بارش نہ ہوتوفصلیں تباہ ہوجاتی ہیں اورکنوئوں کے پانی تک خشک ہوجاتے ہیں.وہاں اس کے ساتھ کچھ تکالیف بھی وابستہ ہوتی ہیں.چنانچہ جب لوگوں کو نماز کے لئے مسجد میں آنا پڑتا ہے.یاسوداسلف کے لئے بازار جاناپڑتا ہے توانہیں کیچڑ کی وجہ سے تکلیف اٹھاناپڑتی ہے.اسی طرح جن لوگوں نے وقت پر مکانوں کی چھتوں پر لپائی نہ کرائی ہو ان کی چھتیں ٹپک پڑتی ہیں جس سے ان کو تکلیف ہوتی ہے.اسی طرح بعض لوگوں کے پاس جانور باندھنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی.عام حالات میں تووہ صحن وغیرہ میں انہیں باندھ لیتے ہیں مگر بارش اور سردی میں انہیں جانوراپنے کمروں میں باندھنے پڑتے ہیں اوروہ وہیں گوبر وغیرہ کرتے ہیں.ان کو بدبوبھی آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے مگر وہ مجبور ہوتے ہیں.توجہاں بارش اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑافضل ہے.وہاں اس میں کچھ تکلیف کے پہلو بھی ہیں.پھراس میں اندھیرابھی ہوتاہے اوربعض اوقات توشدید کڑک ہوتی ہے جس سے بچوں اورکمزو رلوگوں کے دل ہل جاتے ہیں اوربعض کمزور بچے ڈر سے مربھی جاتے ہیں.پھر بارش میں بعض اوقات بجلی بھی چمکتی ہے اور کبھی گرتی بھی ہے جس سے جان و مال کا نقصان ہوتاہے اوریہ سب تکلیف کے مختلف پہلو ہیں.مگر بارش کے مقابلہ میں لوگ ان تکالیف کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.سب جانتے ہیں کہ بارش ہوگی تواس کے ساتھ کیچڑ بھی ہوگا.کیاکوئی ایسازمیندار بھی ہے جو سمجھتاہوکہ بارش ہوگی توزمین گیلی نہ ہوگی.اورکیچڑ نہ ہوگا.یاپھر کوئی ایسازمیندار ہے جو یہ نہ جانتاہو کہ بارش ہونے سے سردی بڑھ جائے گی.پھر کوئی نہیں جویہ نہ جانتاہوکہ بارش کے ساتھ کڑک بھی ہوتی ہے اوربعض اوقات بجلی بھی گرتی ہے جس سے لوگوں کو نقصان پہنچتاہے.سب لوگ ان باتوںکو جانتے ہیں مگرپھر بھی وہ یہی دعائیں کرتے ہیں کہ یااللہ بارش ہو.وہ کیوں یہ دعائیں کرتے ہیں اس لئے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ بارش کے ساتھ جوفضل وابستہ ہوتاہے اوراس سے جوفوائد حاصل ہوتے ہیں ان کے مقابلہ میں تکلیف بہت کم
ہے.یہی حال انبیاء کی بعثت کاہوتاہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ یعنی جس طرح بادلوں میںسے بارش ہوتی ہے توجہاں اس کے بے شمار فائدے اوربرکتیں ہوتی ہیں وہاں اس میں ظلمات کڑک اور بجلی بھی ہوتی ہے اور اس سے کچھ تکلیف بھی ہوتی ہے.اوربعض اوقات نقصان بھی ہوتاہے.اسی طرح انبیاء کی بعثت کاحال ہے.اس میں برکتیں بھی بہت ہوتی ہیں مگرکچھ تکلیف بھی ہوتی ہے.لیکن جس طرح بارش کی تکلیف کے باوجود اس کی ناقدری نہیں کی جاتی.اسی طرح انبیاء کی بعثت کی بھی ناقدری نہیں کی جاسکتی.کیونکہ ان تکالیف کی قیمت اس وقت معلوم ہوگی جب قیامت کے دن نتیجہ نکلے گا.جب فصل پکتی ہے.تب زمیندار کومعلوم ہوتاہے کہ یہ اندھیرے اورکڑک اور برق کتنی قیمتی تھی اگریہ نہ ہوتی توزمیندار جب اپنے کھیت میں فصل پکنے پر جاتا.توسوائے تھوڑے سے سوکھے اور جلے ہوئے دانوں کے اس کے ہاتھ کچھ نہ آسکتا.لیکن بارش ہونے کے بعد جب اس کی فصل پکتی ہے تب اسے معلوم ہوتاہے کہ وہ اندھیرااوروہ کڑک اور وہ بجلی کتنی مفید تھی.وہ سمجھتاہے کہ اس کے نتیجہ میں اس کے ہاں غلّہ پیداہوا.کپڑوںاو ردوسرے اخراجات مثلاً شادیوں بیاہوں کے لئے سامان میسر آیا.ایک ایک دانہ کے ستر ستر اسی اسّی اورسَوسَودانے ہوئے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے ساتھ بھی کچھ تکالیف وابستہ ہوتی ہیں مگرجوانسان ان تکالیف کے باوجود اس نعمت کی قدر کرتاہے اس کی مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے اس زمیندار کی جس کی فصل پر ابھی بارش برس چکی ہو.بیشک اس کے ساتھ اندھیرے بھی ہوتے ہیں.کڑک بھی ہوتی ہے.بجلیاں بھی ہوتی ہیں مگرپھر بھی لوگ اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں اوراس کے فوائد کے مقابلہ میں ان تکالیف کی کوئی پرواہ نہیں کرتے.اگرخدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوجاتاکہ ہرزمیندار اگردس دفعہ پھسلے توپھربارش ہوگی توتم دیکھتے کہ کس طرح زمیندار بیس بیس دفعہ پھسلتے یا اگرخدا تعالیٰ یہ قانون بنادیتاکہ ہربارش کے ساتھ بیس دفعہ کڑ ک پیداہوگی توزمیندار کہتے خدایاتیس دفعہ کڑک پیداہومگر بارش ضرور ہوجائے.غرض انبیاء کی بعثت کی بارش کے ساتھ مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ان کی بعثت کے ساتھ جو تکالیف وابستہ ہوتی ہیں.مومن کو دلیر ی سے ان کو برداشت کرناچاہیے.جب وہ ایک دفعہ دین کو سچا سمجھ کرقبول کرتاہے تو پھرخواہ اسے کتنی تکالیف آئیں خواہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے جائیں اسے ہرگز کمزوری نہیں دکھانی چاہیے اور دین کے ساتھ اس طرح چمٹے رہنا چاہیےجس طرح چیونٹاجسے پنجابی میں ’’کاڈھا‘‘کہتے ہیں چمٹ جاتاہے توپھر چھوڑتانہیں.مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے.میاں جان محمد صاحب کشمیری قادیان کی مسجد اقصیٰ کے امام ہواکرتے تھے.ہمارے دادا صاحب نے انہیں مقررکیاہواتھا.وہ ہمارے گھرکاکام کاج بھی کرتے تھے.
ایک دن کوئی دوست مچھلی تحفہ کے طور پر لائے.ہماری ڈیوڑھی کے آگے ایک تخت پوش بچھارہتاتھا.وہ اس پر بیٹھ کرمچھلی صاف کرنے لگے اورہم چار پانچ بچے تماشہ دیکھنے کے لئے پاس بیٹھ گئے.میرے ہاتھ میں ایک پیڑاتھا جو میں کھارہاتھا.مچھلی کے خیال میں شاید میراہاتھ تخت پوش سے لگ گیا اورایک چیونٹاپیڑے پر چڑھ گیا.میں جب اسے کھانے لگا تواس چیونٹے نے میرے ہونٹ پر کاٹ لیا.میں نے اسے بہتیراکھینچا اورچھڑانے کی کوشش کی.مگراس نے نہ چھوڑا.آخر میاں جان محمد صاحب نے اسے چھری سے کاٹ دیا.یہی حال مومن کاہوناچاہیے.یاتووہ دین کو اختیار ہی نہ کرے اوراگر کرے توپھر اس کے ساتھ اس طرح چمٹ جائے جس طرح چیونٹاچمٹ جاتاہے اورپھر چاہے اسے کاٹ ڈالاجائے وہ دین چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو.آخر ایما ن کی فصل تومرنے کے بعد ہی کٹتی ہے.اگر و ہ اس جدوجہد میں مربھی جائے گا تو کیا ہوگا.صرف اتنا ہی فرق پڑے گاکہ لوگوں کی فصل اگر مئی میں کٹتی ہے تواس کی فروری میں کٹ جائے گی اوراس کے دانے پہلے اس کے گھر آجائیں گے.پھر بارش کے ساتھ انبیا ء کی مشابہت میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے.کہ جب مادی بادل برستے ہیں توان کے برسنے سے ہرقسم کی روئیدگی ظاہر ہوناشروع ہوجاتی ہے.بارش ایک ہی ہوتی ہے مگراسی بارش سے ایک طرف میٹھے پھل پیدا ہوتے ہیں اوردوسری طرف اسی بارش سے کڑوے پھلوں کو بھی نشوونماحاصل ہوتاہے.بارش کا ایک ہی قطرہ جہاں انگور کوزیادہ شیریں بنادیتاہے.جہاں آم کو زیادہ شیریں بنادیتاہے جہاں اور مختلف میٹھے پھلوںکو زیادہ شیریں بنادیتاہے وہاں بارش کاوہی قطرہ کیکر کو اورحنظل کو زیادہ تلخ بنادیتاہے.کھٹی چیزوںکو زیادہ ترش بنادیتاہے.وہی بارش کاقطرہ جو انسان کے اندر گوشت پیداکردیتاہے وہی قطرہ گھاس کے اند رروئید گی پیدا کرتاہے.جنگل میں اگی ہوئی مختلف قسم کی جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں جن کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں اور پہاڑیوں کی وادیوں میں پیدا ہونے والی بوٹیاں بھی اسی بارش سے اپنی روئیدگی کو ابھارناشروع کردیتی ہیں.غرض بارش کاوہی قطرہ جہاں انسان کے اندر تروتازگی اور نموپیداکرتاہے وہاں وہ جنگل میں اگنے والی ہزاروں قسم کی جڑی بوٹیوں میں بھی روئیدگی پیداکردیتاہے.یہی حال انبیاء علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ہوتاہے.یعنی جب روحانی بارش آسمان سے نازل ہوتی ہے تودونوں قسم کی روئیدگی ظاہرہوناشروع ہوجاتی ہے.ایک طرف سویاہواکفر بھی بیدارہو جاتا ہے اوردوسری طرف ایما ن بھی تروتازہ ہو جاتا ہے کفربھی اس زمانہ میںاپنی شان دکھاناشروع کردیتاہے اورمخالف لوگوں کے اندر بھی ایک نئی قسم کی بیداری پیداہوجاتی ہے.چنانچہ دیکھ لورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آخر مکہ بھی وہی تھااورعرب بھی وہی تھا.لیکن آپ کی بعثت سے قبل عرب کے سرداروں کاکوئی نظام معلوم نہیں ہوتا.
لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہم کفار کو بھی منظم اور مصروف عمل پاتے ہیںاوروہ سارے کے سارے اس کام کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں کہ کسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کوپھیلنے سے روکیں اورسارے متحد ہوکر اس دین کو مٹانے کے لئےکوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں.لیکن کیاوجہ ہے کہ یہ تنظیم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل نہیں تھی.اس کی وجہ یہی ہے کہ جب آسمان سے بارش آتی ہے توہرقسم کی چیزوں میں روئیدگی پیداہوجاتی ہے اورکفر بھی اپناسراٹھاناشروع کردیتاہے.اس کے مقابلہ میں جب جھوٹے مدعی کھڑے ہوتے ہیں تولوگ ان سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے کیونکہ بکری بکری سے کبھی نہیں ڈرتی.بکری شیر سے ڈراکرتی ہے.اس لئے جب کوئی جھوٹامدعی کھڑاہوتاہے تولوگ اس سے نہیں ڈرتے.لیکن جب کبھی فطرت انسانی یہ سمجھتی ہے کہ سچاموعود آگیاہے تواس وقت کافر بھی بیدارہو جاتا ہے اورسمجھتاہے کہ یہ سچا خطرہ ہے اس کودورکرنے کی کوشش کرنا میرے لئے ضروری ہے.چنانچہ جس قسم کی منظم مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوئی ہے یااب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں ہوئی ہے ایسی مخالفت کسی جھوٹے مدعی کے زمانہ میں نہیں ہوئی.بابؔ کے زمانہ میں بیشک شورش اورفساد پیداہوا.لیکن یہ فساد بابیوںکے اپنے افعال کے نتیجہ میں تھا.پہلے بابیوں نے بعض لوگوںکوقتل کیا ان قتلوں کے نتیجہ میں حکومت نے ان کو مارا.لیکن پبلک خاموش رہی اوراس نے کوئی مقابلہ نہیں کیا (Baha Ullah and the New Era pg.32,33).مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں تمام غیرقوموں میں آپ کے مقابلہ کاجوش پیداہوگیا اورہرایک نے یہ کوشش کی کہ کسی طرح احمدیت کوکچلا جائے.یہ چیز دنیا کے پردہ پر اَورکسی مدعی کے مقابلہ میں نظر نہیں آتی.بہائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ قرار دیتے ہیں (الکواکب الدریۃ جلد اول صفحہ ۲۲۰).لیکن ایک مسلمان کہلانے والا ایک بہائی کی باہوں میں باہیں ڈالتاہے اورکہتاہے.چھوڑوان باتوںکوتم بھی سچے اورہم بھی سچے.چلودونوں مل کر احمدیت کا مقابلہ کریں.توجس طرح بارش کاپانی گرنے سے ہرقسم کی روئیدگی پیداہوجاتی ہے اسی طرح روحانی بارش کے وقت کفر بھی بیدارہو جاتا ہے اورایمان بھی تروتازہ ہو جاتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میںادھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی آمد سے ایک مخلص جماعت قائم ہوئی.وہ جماعت جس کے اندر تقویٰ او راخلاص پایا جاتا ہے اوراس کے ایمان کے اندر ایک بیداری اوربلندی کی امنگ پائی جاتی ہے اوراُدھر آپ کے آنے سے کفر میں بھی بیداری اورحرکت پیدا ہوگئی.غرض جس طرح بارش کے آنے پر تلخ بوٹیاںجوآپ ہی آپ اگ آتی ہیں وہ اپناجوش اور ابھار دکھاتی ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ انبیاء کی جماعتوںسے بھی امید رکھتاہے کہ ان تلخ بوٹیوں کے مقابل میں اسی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ
کر اپناابھاردکھائیں اور روحانی حسن کو ظاہرکرنے کی ایسے رنگ میں کوشش کریں کہ شیطان کاحسن بالکل ماند پڑ جائے.اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ (بتائو تو )کس نے زمین کو ٹھہرنے کی جگہ بنایاہے اوراس کے بیچ میں دریاچلائے ہیں.اوراس کے (فائدہ)کے لَهَا رَوَاسِيَ وَ جَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ لئے پہاڑ بنائے ہیں اوردوسمندروں کے درمیان (جن میں سے ایک میٹھااور ایک کھاری ہوتاہے )ایک روک اللّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَؕ۰۰۶۲ بنائی ہے.کیا اللہ کے سواکوئی اَورمعبود ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے اکثر جانتے نہیں.حلّ لُغَات.رَوَاسِیَ.اَلرَّوَاسِی کے معنے ہیں اَلْجِبَالُ الثَّوَابِتُ الرَّوَاسِخُ.مضبوط گڑے ہوئے پہاڑ.(اقرب) حَاجِزًا.حَاجِزًاحَـجَزَ سے اسم فاعل ہے.اورحَـجَزَہٗ حَـجْزًاوحِـجَازَۃً کے معنے ہیں مَنَعَہٗ وَکَفَّہٗ وَدَفَعَہٗ.ا س کو روکا اور ہٹایا.اور اَلْحَاجِزُ کے معنے ہیں اَلْبَرْزَخُ.روک.پردہ.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.وہ کون ہے.جس نے زمین کو رہائش کے قابل بنایاہے.اوراس کے اندر دریا چلائے ہیں.جن کے پانی کوسلامت رکھنے کے لئے اس نے پہاڑوں کاایک سلسلہ قائم کیا ہے جن سے دریائوں کومدد ملتی رہتی ہے.پھر زمین میں اس نے سمندر بنائے ہیں اورسمندروں کے نمکین پانی اور دریائوں کے میٹھے پانی کے درمیان ایک روک بنادی ہے یعنی سمندر کانمکین پانی ڈھلوان کی طرف ہے.وہ دریائوں کے میٹھے پانی کو خراب نہیں کرسکتا.اوردریائوں کامیٹھاپانی سمندر کے نمکین پانی کے مقابلہ میں اتنا تھوڑاہے کہ باوجود سمندروں میں گرنے کے پھر بھی وہ سمندر کے پانی کے مزے کو بدل نہیں سکتا.اوراس طرح میٹھے اور نمکین پانی میں ایک دائمی روک قائم رہتی ہے.کیاایسے مدبّر خدا کا کوئی اَورشریک پیش کیاجاسکتاہے ؟ کبھی نہیں.لیکن مشرک لوگ اکثر جاہل ہوتے ہیں.وہ اتنے بڑے نشانات کو دیکھنے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اوراندھو ںکی طرح ادھر ادھر ہاتھ مارتے پھرتے ہیں.کائناتِ عالم کایہ نظارہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جب
تمہارے مادی فوائد کے لئے اتنے بڑے سامان پیداکئے گئے ہیں تواللہ تعالیٰ تمہاری روحانی ضرورتوںکو کس طرح انداز کرسکتاتھا.تم جانتے ہوکہ اگراللہ تعالیٰ زمین میں ایسے نشیب پیدانہ کرتا جن میں دریائوں کاپانی سکڑ کر چلتاتوسب زمین پر پانی ہی پانی ہوتا.اوریہ دنیا رہنے کے قابل نہ ہوتی.اسی طرح اگر پہاڑ نہ ہوتے جوساراسال برف کے ڈھیر جمع رکھتے ہیں اورجن کی مدد سے تمام دریا ملک کوسال بھرپانی مہیاکرتے رہتے ہیںتوتمہاری بائولیاں اور حوض تمہیں کب تک زندہ رکھ سکتے تھے یہی کیفیت روحانی عالم میں بھی پائی جاتی ہے.انسانی تدابیر جوبائولیوں اورحوضوں کی طرح ہوتی ہیں صرف عارضی طور پر ایک محدوددائرہ میں بنی نوع انسان کو کام دیتی ہیں مستقل ہدایت جوآسمانی پانی سے مشابہت رکھتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی آتی ہے اور وہی لوگوںکی روحانی تشنگی کوفروکرنے کاسامان مہیاکرتی ہے.پھر جس طرح پہاڑ قسم قسم کی ضروری ادویہ اورپھل اورپھو ل اور نہ ختم ہونے والے لکڑی کے ذخائر جمع رکھتے ہیں اسی طرح روحانی ضرورتوںکوپوراکرنے کے لئے بھی ایک ایسے کلام کی ضرورت تھی جودائمی طورپر دنیا ک لئے ہدایت اور رحمت کے ذخائر اپنے اندر جمع رکھتا.پھر جس طرح نمکین اور میٹھے پانی میں اللہ تعالیٰ نے ایک روک بنادی ہے.اسی طرح کفراورایمان میں بھی اس نے دلائل کی ایک دیوار حائل کردی ہے جس کی وجہ سے ایمان کاپانی اپنی حلاوت کی وجہ سے اورکفرکاپانی اپنی تلخی اورمرارت کی وجہ سے فوراً پہچاناجاتاہے.ایسے محسن خدا کادوسروں کو شریک قرار دینا اوراس کے دروازہ کوچھوڑ کر بتوں کے آگے اپنا سرجھکانا ایسے ہی لوگوں کاشیوہ ہو سکتا ہے جو عقل اور فہم سے کلیۃً عاری ہوں.اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ (نیز بتائوتو)کون کسی بے کس کی دعا کو سنتاہے جب وہ اس (یعنی خدا)سے دعاکرتاہے.اور(اس کی )تکلیف کو يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِيْلًا مَّا دور کردیتا اورو ہ تم (دعاکرنےوالے انسانوں)کو(ایک دن )ساری زمین کاوارث بنادے گا.کیا تَذَكَّرُوْنَؕ۰۰۶۳ (اس قادر ِمطلق)اللہ کے سواکوئی معبود ہے؟.تم بالکل نصیحت حاصل نہیں کرتے.تفسیر.فرماتا ہے.تم یہ بھی تودیکھو کہ مصیبت زدہ انسان کی دعائوں کوکون قبول کرتاہے اورکون اس کی
مصیبتوںکودور کرتاہے.اورکون تم کو زمین کاوارث بناتاہے.کیاایسی صفات حسنہ رکھنے والے خدا کاکوئی ہمسر تمہیں نظرآتاہے ؟ مگرافسوس کہ تم لوگ قطعاً نصیحت حاصل نہیں کرتے.اس آیت میںجو مُضْطَرّ کالفظ استعمال کیاگیاہے اس سے ایساشخص مراد ہے جو اپنے چاروں طرف مشکلات ہی مشکلات دیکھتاہے اوراسے اپنی کامیابی کاکوئی مادی رستہ نظر نہیں آتا.صرف ایک جہت اللہ تعالیٰ والی باقی رہ جاتی ہے اوراسی پراس کی نظر پڑتی ہے.گویا مُضْطَرّ کے صرف یہی معنے نہیں کہ اس کے دل میں گھبراہٹ ہو.کیونکہ گھبراہٹ میں بعض دفعہ ایک شخص بے تحاشہ کسی طرف چل پڑتا ہے بغیر اس یقین کے کہ وہ جس طرف جارہاہے وہاں اسے امن بھی حاصل ہوگایانہیں.بلکہ بعض لوگ گھبراہٹ میںایسی طرف چلے جاتے ہیں جہاں خود خطرہ موجو د ہوتاہے اوروہ اس سے نہیں بچ سکتے.پس محض اضطراب کادل میں پیداہونا اضطرار پردلالت نہیں کرتا.اضطرار پر وہ حالت دلالت کیاکرتی ہے جب چاروں طرف کوئی پناہ کی جگہ انسان کونظر نہ آتی ہو اورایک طرف نظر آتی ہو.گویااضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چاروں طرف آگ نظر آتی ہو بلکہ یہ بھی علامت ہے کہ ایک طرف امن نظر آتاہو اور انسان کہہ سکتاہوکہ وہاں آگ نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہی دعاخدا تعالیٰ کے حضورقبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اس کے سامنے حاضر ہوتاہے کہ اسے یہ یقین کامل ہوتاہے کہ سوائے خداکے میرے لئے اورکوئی پناہ کی جگہ نہیں.یہی وہ مضطر کی حالت ہے جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ (بخاری کتاب الوضوء باب النوم علی شق الایمن) یعنی اے خداتیرے عذاب اورتیر ی طرف سے آنے والے ابتلائو ں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں سوائے اس کے کہ میں سب طرف سے مایوس ہوکر اورآنکھیں بند کرکے تیری طرف آجائو ں.تو لَامَلْجَأَ وَلَامَنْجَأ والی جو حالت ہے یہی اضطرار کی کیفیت ہے اورجب خدا تعالیٰ نے اس آیت میںیہ کہا کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَادَعَاہُ تواس کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے شخص کی دعاجو اللہ تعالیٰ کے سواکسی کوملجاء و مأویٰ نہیں سمجھتا اوراللہ تعالیٰ کے سواکسی کو اپنا مَنْجاء قرار نہیں دیتا ضرور سنی جاتی ہے اوریہ شرط بلاوجہ نہیں رکھی گئی ہے.کہ گو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی ہرمضطرکاعلاج ہے مگربعض دفعہ اس کے دیئے ہوئے انعام کے ماتحت کوئی بندہ بھی دوسرے کے اضطرار کو بدلنے کی طاقت رکھتاہے.چنانچہ بعض دفعہ ایک آدمی سخت غریب ہوتاہے.اس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں اوراسے نظر نہیں آتاکہ وہ نئے کپڑے کہاں سے بنوائے کہ اچانک ایک امیر آدمی جو بعض دفعہ ہندو ہوتاہے.بعض دفعہ سکھ ہوتاہے.بعض دفعہ پارسی ہوتاہے.بعض دفعہ جینی یابت پرست ہوتاہے اسے دیکھتاہے اور کہتا ہے تمہارے کپڑے پھٹ گئے ہیں آئو میں تمہیں نیاجوڑابنوادوں.اب گوہمارے یقین کے مطابق
خدا تعالیٰ نے ہی اس امیر آدمی کے دل میں تحریک پیداکی کہ وہ اسے کپڑے بنوادے مگرجوکامل الایمان نہیں ہوتاوہ سمجھتاہے کہ میری اضطرار کی حالت میں فلاں آدمی میرے کام آیا ہے مگروہی آدمی جس نے اسے کپڑوں کا جوڑابناکردیاتھا جب یہ ایسی بیماری میں مبتلاہوتاہے کہ اس کے لئے کھانا اور پینا حرام ہو جاتا ہے.پانی تک اسے ہضم نہیں ہوتا.تمام جسم کی حالت خراب ہوجاتی ہے اورچل پھر بھی نہیں سکتا توایسی حالت میں وہ امیرآدمی اس کی مدد نہیں کرسکتا بلکہ اگر کوئی اچھا لائق اوررحمدل طبیب ہوتاہے اوروہ اسے اس حالت میں دیکھتاہے تو کہتاہے تمہیں علاج پرروپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں تومیں تمہیں مفت دوائی دینے کے لئے تیار ہوں تم میرے پاس رہو اور اپنے مرض کاعلاج کرو.اب ایسی اضطرار کی حالت میں امیر اس کے کام نہیں آیا بلکہ طبیب اس کے کام آیا.جب وہ کپڑوں کے لئے مضطرتھا توامیر آدمی اس کے کام آگیا مگر جب وہ علاج کے لئے مضطر ہواتو ایک طبیب ا س کے کام آگیا.پھرکبھی ایساہوتاہے کہ اس پر کوئی مقدمہ بن جاتاہے.و ہ بے گناہ ہوتاہے اس کادشمن زبردست ہوتاہے اور وہ کسی وجہ سے ناراض ہوکر اسے کسی مقدمہ میں ماخوذ کراکے عدالت تک پہنچادیتاہے.اب اسے نہ وکیل کرنے کی توفیق ہے اورنہ اس میں خود مقدمہ لڑنے کی قابلیت ہے اوروہ حیران ہوتاہے کہ کیا کرے.آخر کوئی رحمدل وکیل اسے مل جاتاہے اوروہ کہتاہے میں بغیر فیس کےتمہاری وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں.اب ایسے موقعہ پر نہ امیر اس کے کام آسکا.نہ طبیب اس کی مشکل کودور کرسکا.صرف وکیل اس کے کام آیا.اسی طرح ایک اوروقت میں یہ مضطر ہوتاہے.بوجھ اٹھائے جارہاہوتاہے کہ تھک کرچُور ہو جاتا ہے اوربوجھ اس سے گر جاتاہے.اس میں اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ اس بوجھ کو پھر اٹھا سکے.اب ایسے وقت میں نہ امیر اس کے کام آسکتاہے.نہ طبیب اس کے کام آسکتاہے.نہ وکیل اس کے کام آسکتاہے.البتہ کوئی مضبوط زمیندارچلتے ہوئے اسے دیکھتاہے اور پوچھتاہے کہ تُویہاں کیوں بیٹھا ہے.وہ جواب دیتاہے بوجھ مجھ سے اٹھایانہیں جاتا.اس پر وہ زمیندار اس کابوجھ اٹھالیتا ہے.اب یہ مضطر توتھا.مگراس حالت میں نہ امیر اس کے کام آسکا.نہ طبیب اس کے کام آسکا.نہ وکیل اس کے کام آسکا.بلکہ اس کاایک زمیندار بھائی اس کے کام آگیا.تو ایک ہی انسان کے مختلف اضطراروں میں مختلف لو گ اس کے کام آسکتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَادَعَاہُ.مطلق مضطر جس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس قسم کامضطر ہو.خواہ وہ بھوکاہو.ننگاہو.پیاساہو.بیمار ہو.بوجھ اٹھائے جارہاہو.کسی قسم کااضطرار ہو اس کی ساری ضرورتوں کو پوراکرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے.ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کے پھٹے پرانے کپڑے ہوں.توکوئی امیراس کے کام آجائے.مگرطبیب اس کے کام نہیں آسکتا.کوئی بیمار ہوتوطبیب اس کے کام
آجائے مگر وکیل اس کے کام نہیں آسکتا.ہو سکتا ہے کہ کوئی بے گناہ کسی مقدمہ میں مبتلاہو تووکیل اس کے کام آجائے.مگر بوجھ اٹھانے کے وقت وکیل اس کے کام نہیں آسکتا.ہو سکتا ہے بوجھ اٹھانے کے وقت ایک زمیندار اس کےکام آجائے لیکن امیر طبیب اور وکیل اس کے کام نہیں آسکتا.مگراللہ تعالیٰ یہ سارے کام کرسکتاہے.باقی انسان جس قدر ہیں وہ توکسی کسی ضرورت میں کام آسکتے ہیں.کوئی ایک قسم کے مضطر کے کام آسکتاہے کوئی دوسرے قسم کے مضطر کے کام آسکتاہے.مگرہرقسم کے مضطرین کی ضرورتیں پورا کرنے والی خدا کی ہی ذات ہوتی ہے اورانسان کے اضطرار کی ہزاروں حالتیں ہوتی ہیں.بھلاان حالتوں میں کوئی بندہ کسی کے کب کام آسکتاہے.ان حالتوں میں تو کوئی بادشاہ بھی کسی کے کام نہیں آسکتا.فرض کرو ایک شخص سخت بیمار ہے.اب بادشاہ کاخزانہ اس کے کام نہیں آسکتا.بادشاہ کی فوجیں اس کے کام نہیں آسکتیں.بادشاہ کا قرب اس کے کام نہیں آسکتا.اس کے کام تو اللہ تعالیٰ ہی آسکتاہے.جوہرقسم کی بیماریوںکودورکرنے کی طاقت رکھتاہے.یاایک جنگل میں گذرنے والاشخص جس پر بھیڑیا یاشیراچانک جھپٹ کر حملہ کردیتاہے.وہ بادشاہ کا چاہے کتنا ہی منہ چڑھاہو یابادشاہ کا بیٹاہی کیوں نہ ہوبادشاہ اس کے کیا کام آسکتاہے یاطبیب جو اس کاعلاج کرتاتھا وہ اس کے کیا کام آسکتاہے یاامیر جو نئے کپڑے سلادیتاتھا وہ اس کے کیاکام آسکتا ہے یاوکیل جس نے رحم کرکے اس کامقدمہ لے لیاتھا اس کے کس کام آسکتاہے.جنگل میں وہ تن تنہا جارہاہوتاہے کہ شیر چیتایابھیڑیا اس کے سامنے آجاتاہے ایسی حالت میں وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جوکام آتی ہے.کوئی انسان کام نہیں آسکتا.توجب تک انسان کے اند ریہ یقین پیدانہ ہوکہ ہرقسم کے اضطرا ر کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتاہے اس وقت تک و ہ مضطر نہیں کہلاسکتا.مگربہرحال جب و ہ مضطرہونے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کوپکار تاہے تو خدااس کے پاس دوڑتے ہوئے آجاتاہے اوراس کی ہرتکلیف اور مصیبت کودور کردیتاہے.دنیا میں تویہ کیفیت ہوتی ہے کہ لوگ اگر دوسروں کے خلاف فریادکرنابھی چاہیں تونہیں کرسکتے افسر ان سے کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے خلاف شکایت کی تو ہم تمہاری زبان گُدّی سے کھینچ لیں گے.و ہ ڈرتاہے کہ اگر میں نے فریاد کی توبعد میں وہی افسر مجھے اوررنگ میں مصیبتوں میں مبتلاکردیں گے.مگریہاں یہ حالت ہوتی ہے کہ رات کی تاریکی سایہ ڈالے ہوئے ہوتی ہے اورمصیبت زدہ بندہ اپنے لحاف میں پڑاآہیں بھررہاہوتاہے اور دنیا کاکوئی فرد نہیں جانتاکہ و ہ کیاکررہاہے یاکیا کہہ رہاہے.کوئی افسر اسے دھمکانہیں سکتا.کوئی افسراسے فریاد کرنے سے روک نہیں سکتا.وہ لحاف میں لیٹے لیٹے خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنی آواز بلندکرتاہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے تومیری طرف سے آپ ا س کابدلہ لے.ظالم نہیں جانتاکہ اس کے خلاف بادشاہ تک
شکایت پہنچ چکی ہے.وہ نہ سنتاہے نہ دیکھتاہے نہ اس کے دل میں کوئی خیال گذرتاہے.مگر مظلوم کی فریاد خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلادیتی ہے.پس فرماتا ہے اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْٓءَ.جب انسان خدا تعالیٰ کے حضور مضطر ہوکر فریاد کرتاہے.جب کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا تواس وقت کون اس کی مدد کے لئے آتاہے.دنیا غافل ہوتی ہے مگرخدااپنے بندے کی مددسے غافل نہیں ہوتا.وہ خود آتاہے اورکہتاہے اے میرے بندے.میں تیری مدد کے لئے آگیاہوں.اورپھر وہ ایسی محبت اورپیار کاسلوک کرتاہے کہ اس کا ہردکھ دور ہو جاتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ وہ صرف یہیں تک اپنے انعامات کومحدود نہیں رکھتا کہ مضطر کی دعاکوقبول کرکے اس کی تکلیف کودورکردیتاہے بلکہ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ.وہ بڑے بڑے سرکشوں اورظالموں کوتباہ کرکے مظلو م اور کمزورنظر آنے والے لوگوں کوان کا خلیفہ اور جانشین بنادیتاہے.گویا انفرادی رنگ میں بھی و ہ پریشان حال لوگوں کی تکالیف کودور کرتاہے اورقومی رنگ میں بھی مظلوم اور اسیر اقوام کو بام رفعت تک پہنچاتاہے اور بڑے بڑے مغرور اورخود سر اورظالم اورعیاش حکمران ان کی آہ کاشکار ہوجاتے ہیں.اسی حقیقت کواللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَ لَقَدْ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَمَّا ظَلَمُوْا١ۙ وَ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ وَ مَا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا١ؕ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَ.ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (یونس :۱۴،۱۵) یعنی ہم یقینی طور پر تم سے پہلے بھی قوموں کے بعد قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں.جبکہ انہوں نے باوجود اس کے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آئے تھے ظلم سے کام لیا اوروہ ایمان نہ لائے اورہم مجرموں سے اسی طرح انتقام لیاکرتے ہیں.اس کے بعد ہم نے تمہیں ان کاجانشین بنادیا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم دنیا میں کیسے عمل کرتے ہو.اورمظلومیت کی حالت میں جو تمہارے اندرنیکی اور تقویٰ پایاجاتاتھا آیا اپنی طاقت کے زمانہ میں بھی تم اس کو قائم رکھتے ہو یانہیں.اصل بات یہ ہے کہ مضطر کی دعا اسے اللہ تعالیٰ کے انعامات کاتومستحق بنادیتی ہے مگر انعامات کو قائم رکھنے اوراس کے تسلسل کو لمباکرنے کے لئے پھر اَورجدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے.اوراگر کوئی قوم اس میں غفلت سے کام لیتی ہے تووہ اس انعام کو کھو بیٹھتی ہے.زیر تفسیر آیت میں اللہ تعالیٰ نے فردی اورقومی دونوں قسم کے انعامات کا ذکر فرمایا ہے.اوربتایاہےکہ اللہ تعالیٰ کا انفراد ی رنگ میں بھی یہ سلوک ہے کہ و ہ مظلو م کی دعاکوقبول کرکے اس کی تکلیف کودور کردیتاہے.اورقومی رنگ میں بھی اس کایہ قانون ہے کہ وہ ظالم قوم کو مٹا کر مظلوموںکو ان کا جانشین بنادیاکرتاہے اورتاریخ میں اس کی
ہزاروں مثالیں پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں واقعات کو اپنی ہستی کے ثبوت میں پیش کرتے ہوئے بنی نوع انسان کو توجہ دلاتاہے کہ کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتاکہ ا س کی تَہ میں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہی کام کررہاہے.مگر افسوس کہ تم پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے اورخدا تعالیٰ کے آستانہ کو ترک کرکے بتوں کے آگے اپنے سرجھکاتے پھرتے ہو.اس آیت سے یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کواپنی ذات کا یقین دلانے اور اورپنے وجود کاعلم دینے اور انہیں اپنی طرف کھینچنے کے لئے دعا کادروازہ کھولاہے جو ہرمذہب وملت سے تعلق رکھنے والے کے لئے یکساں طور پر کھلاہے یعنی خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا انسان ہو اگر وہ مضطر ہو کراللہ تعالیٰ کو پکارے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ا س کی دعائوں کو سنے گا اوراس کے لئے وہ راستہ کھول دے گاجس سے اس کی مشکلات دو رہوجائیں گی اوراسے اطمینان قلب حاصل ہوجائے گا.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ ایک ہندومیرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے میرے آقا نے آپ کے پاس بھجوایاہے اوردریافت کیا ہے کہ کیا نور ملنے کابھی کوئی طریق ہے ؟ پہلے توا س نے یہ نہ بتایاکہ کون اس کاآقاہے اور وہ کہاں رہتاہے اوراس نے بات کو چھپاناچاہا.مگر جب میں نے جرح کی توکہنے لگا.وہ بڑے ٹھیکیدار ہیں.ان کے پاس عمارتوں اورنہروں کا ٹھیکہ ہوتاہے اورہندوستان میں اس کا ایک بڑابھاری کارخانہ بھی ہے.آخر بہت سی باتوں کے بعد یہ نتیجہ نکلا کہ سردار بلدیو سنگھ صاحب جوہندوستان کے ڈیفنس منسٹر رہے ہیں ان کے والد نے اسے بھجوایا تھا.ٹاٹانگرکے پاس ان کابڑابھاری کارخانہ ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ وہ توسکھ ہیں اور تم ہندوہو تمہاراان کے ساتھ کیسے تعلق ہوا.اس پر اس نے کہا کہ میں اوروہ بچپن میں اکٹھے پڑھتے رہے ہیں اوران کے ساتھ میری بڑی دوستی ہے.اب انہوں نے اس دوستی کی وجہ سے ہی ایک دفترکامجھے انچار ج بنایاہواہے اور مذہبی خیالات کاتبادلہ مجھ سے کرتے رہتے ہیں.انہوں نے مجھ سے کہاتھاکہ تم مرزا صاحب سے جاکر پوچھو کہ کیا نورملنے کی بھی کوئی تدبیر ہے.ہم مسلمان پیروں کے پاس بھی گئے ہیں.ہندوؤں کے پاس بھی گئے ہیں ،سکھوں کے پاس بھی گئے ہیں.مگرہمیں کہیں نور نہیں ملا.میںنے کہا.یہ ہماری تواصطلاح نہیں سکھوں کاایک محاورہ ہے جوان میں رائج ہے.مگربہرحال ہم جس چیز کوہدایت کہتے ہیں وہ اس کانام نو ررکھتے ہیں.اورہدایت ملنے کاراستہ میں بتانے کے لئے تیار ہو ں.مگرچونکہ اس نے شروع میں ہی کہہ دیاکہ وہ بڑے مالدار ہیں.اورکروڑ پتی ہیں.اس لئے میں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ گومیں عیسائی نہیں مگرحضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت او ربزرگی کاقائل ہوں اورآپ فرماتے ہیں کہ اونٹ کاسوئی کے ناکہ میں سے گذ ر جانا آسان ہے لیکن دولت مند کا خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل ہونا مشکل
ہے(متی باب ۱۹آیت ۲۴).اس لئے گو میں تمہیں نو ر حاصل کرنے کاراستہ بتادوں گا.مگرمیں سمجھتاہوں کہ وہ نو ر کوقبول نہیں کریں گے.کہنے لگا.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نو ر مل بھی جائے اور پھر بھی انسان اس کوچھوڑ دے.میں نے کہا.حضرت مسیح ؑ نے ایسا ہی کہا ہے.اس لئے میں سمجھتاہوں کہ انہوں نے نوردیکھنے کے باوجود اسے قبول کرنے کی کوشش نہیں کرنی.اس نے کہا.آپ ہمیں نور حاصل کرنے کاراستہ بتائیں.وہ اسے ضرور قبول کریں گے.اس پر میں نے اپنے پرائیویٹ سکرٹری کو بلایا.اوراسے کہا کہ چونکہ یہ عربی نہیں جانتے اس لئے انہیں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙ۬ۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ.کاپنجابی میں ترجمہ لکھ کردے دو.چنانچہ انہیں اس کاپنجابی ترجمہ لکھ کر دے دیاگیا اور میں نے کہا روزانہ سوتے وقت آپ لوگ یہ دعاپڑھاکریں مگرجس وقت یہ دعاکریں اس وقت اپنے دل میں اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کریں کہ اے خداتوہمیں کہیں بھی ہدایت دکھائے ہم اسے قبول کرلیںگے.اگر اس دعا کے کرتے وقت آپ نے دل میں یہ فیصلہ نہ کیا کہ خدا تعالیٰ جو بھی ہدایت دے گا ہم اسے قبول کرلیں گے تواللہ تعالیٰ آپ کونور نہیں دکھائے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ مداری نہیں وہ فضول کھیلیں نہیں دکھایاکرتا.ہاں اگرآپ کے دل میں کمزوری کی وجہ سے بعد میں آپ سے کچھ غلطی ہوجائے تویہ اَوربات ہے.چورچوری سے توبہ کرتاہے اور اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلیتا ہے.حالانکہ دوسرے دن وہ توبہ توڑ کر پھر چوری کرنے لگ جاتاہے.پس اگرآپ کے نفس میں کوئی کمزور ی ہوئی تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرے گا وہ صرف یہ دیکھے گا کہ اس وقت آپ کی نیت یہ ہے کہ اس کی ہدایت کوقبول کرلیں گے.اس پر وہ چلا گیا پندرہ بیس دن کے بعد اس کی چٹھی آئی کہ آپ کی بات سچی ہوگئی.خدا تعالیٰ کانو رمیرے آقاکو نظر آگیا ہے.مگراس کے ساتھ ہی آپ کی یہ دوسری بات بھی سچی ہوگئی کہ ان سے مانانہیں جائے گا.اب نو رتونظرآگیاہے مگرانہیں اس کوقبول کرنے کی ہمت نہیں.معلوم ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے اسے اسلام کی صداقت کے متعلق کوئی اشارہ کردیاہوگا.مگرپھراس نے سوچاہوگاکہ اگر میں نے اسلام قبول کرلیا تومیرے بیٹے کی وزار ت بھی جائے گی اور میراکارخانہ بھی تباہ ہوجائے گااس لئے قبول کرنے کاکیافائدہ.غرض اللہ تعالیٰ نے ہرقوم اورہرزمانہ کے لوگوں کے لئے دعائوں کاراستہ کھلارکھاہواہے اورخدا تعالیٰ کی طرف سچے د ل سے توجہ کرنے والا خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتاہو اگروہ مضطر ہو جائے تو خدا تعالیٰ اس کی دعاکویقیناً سنتاہے.مگرافسوس ہے کہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور وہ سیدھا راستہ اختیارکرنے کی بجائے غلط راستہ اختیار کرلیتے ہیں.
اَمَّنْ يَّهْدِيْكُمْ فِيْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ مَنْ يُّرْسِلُ (بتائوتو)خشکیوں اورسمندروں کی مصیبتوں میں کون تم کو نجات کی راہ دکھاتاہے.اورکون اپنی رحمت (یعنی الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ تَعٰلَى بارش)سے پہلے خوشخبری کے طور پر ہوائوں کو بھیجتاہے ؟ کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود ہے ؟ اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَؕ۰۰۶۴ اللہ تمہاری شرک کی باتوںسے بہت بلند ہے.تفسیر.فرماتا ہے.بتائو تو سہی کہ خشکیوں اور سمندروں کے اندھیروں میں تمہیں کون رستہ دکھاتاہے اس جگہ برّ سے مراد ایسی قومیں ہیں جن میں الہام الٰہی نہیں پایاجاتا.اور بحر سے مرادایسی قومیں ہیں جن میں الہام الٰہی توپایا جاتا ہے لیکن وہ انسانی دخل اندازیوں کی وجہ سے سمندر کے پانی کی طرح شور ہوگیاہے.چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں ان معنوں کی وضاحت موجود ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ البَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲)یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت اس لئے پیش آئی تھی کہ وہ قومیں بھی بگڑ گئی تھیں جن میں الہامی پانی کا وجود نہیں ہے اوروہ اپنی عقل سے اپنے لئے قانون بناتی ہیں.اوروہ قومیں بھی بگڑ گئی تھیں جن میں الہامی پانی توہے لیکن سمندر کے پانی کی طرح شور ہوکر انسان کے استعمال کے قابل نہیں رہا.اسی طرح بتائو تو سہی کہ بادلوں سے پہلے بھیگی ہوئی ہوائیں کون چلاتاہے.کیا اللہ تعالیٰ کے سواکو ئی اورمعبود ہے جویہ ہوائیں چلاتاہے.یقیناً وہ مشرکوں کے شرکیہ خیالات سے بہت بالاہے.جہاں تک ظاہر ی ہوائوں کاتعلق ہے بیشک ان کا وجو د بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی کاایک ثبوت ہے.لیکن اس جگہ پر روحانی ہوائوں کا ذکر ہے اوررحمت سے مراد بعثتِ انبیاء ہے.یعنی اللہ تعالیٰ بعثتِ انبیاء سے پہلے ان کی قبولیت کے لئے لوگوں کے دلوں میں جوش پیداکردیتاہے.اوروہ یہ محسوس کرناشروع کردیتے ہیں کہ اب کوئی نبی ہی آئے تووہ قوم کی اصلاح کرسکتاہے ورنہ اس کے سواقوم کی اصلاح کااَورکوئی ذریعہ نہیں اوریہ اس بات کا ثبوت ہوتاہے کہ آنے والا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.اور چونکہ بتوں کی طرف سے ایسے کوئی آدمی نہیں آتے اس لئے آنے والوں
کے ذریعہ شرک کی تردید اورتوحید کاقیام ہو جاتا ہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی وحدانیت اوراس کے مشرکانہ خیالات سے بہت بالاہونے کاثبوت لوگوں کو نظرآجاتاہے.اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃوالسلام کے آنے سے پہلے خدا تعالیٰ نے ایسی رَو چلادی تھی کہ تمام کے تمام لو گ خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھنے والے ہوں یہ تسلیم کرنے لگ گئے تھے کہ یہ زمانہ مہدی اور مسیح کا محتاج ہے.چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے ایک دفعہ ممالک اسلامیہ کی سیاحت کی تواس کے بعد انہوں نے اپنے سفر کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ ممالک اسلامیہ کے سفر میں جتنے مشائخ اورعلماء سے ملاقات ہوئی میں نے ان کو امام مہدی کا بڑی بے تابی سے منتظرپایا.‘‘ (اہل حدیث ۲۶؍جنوری ۱۹۱۲ ء) اسی طرح یورپ کاایک مفکر جس کانام مارس انڈس تھا.و ہ بھی ایک دفعہ اسلامی ممالک کی سیاحت کے لئے گیا.تواس نے بعد میں اپنے تاثرات کااظہار کرتے ہوئے لکھاکہ ’’ دمشق ،بیروت، بغداد، مکہ، طہران، قاہر ہ اوران کے ساتھ لنڈن اورواشنگٹن بھی ایک پیغمبر کے انتظار میں ہیں جو سماجی مقصد و اصلاح کاجھنڈالے کر کھڑاہو‘‘.(بحوالہ رسالہ ’’ نگار‘‘جنوری و فروری ۱۹۵۱ ء) یورپ کاایک پروفیسر جس کانام میکنزی ہے اس نے ایک کتاب ’’ انٹروڈکشن ٹوسوشیالوجی ‘‘ میں اس امر پر بحث کرتے ہوئے کہ کامل انسانوں کے بغیر سوسائٹی معراج کمال تک نہیں پہنچ سکتی لکھا کہ ’’ہمیں بھی ترقی کے لئے ایک مسیح کی ضرورت ہے‘‘.(بحوالہ مکاتیب اقبال صفحہ ۴۶۲و۴۶۳.) اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب نے بڑی بے تابی کے ساتھ لکھا کہ ’’ حساب کی رُو سے مہدی کاظہور تیرھویں صدی کے شروع میں ہوناچاہیے تھا.مگریہ صدی پوری گذ رگئی اورمہدی نہ آئے.اب چودھویں صدی ہمارے سر پر آئی ہے.شائد اللہ تعالیٰ اپنافضل فرمائے اورچار یاچھ برس کے اند ر اندر مہدی ظاہر ہوجائیں.‘‘ (اقتراب الساعۃص ۲۱) علامہ اقبال نے بھی اسی حقیقت کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الّا اللہ ‘‘ (کلیات اقبال صفحہ ۵۲۷)
پھراَورلوگ توالگ رہے مولانامودودی صاحب کو بھی تسلیم کرناپڑاکہ ’’ اکثر لوگ اقامت دین کی تحریک کرنے کے لئے کسی ایسے مردِ کامل کو ڈھونڈتے ہیں جو ان میں سے ایک ایک شخص کے تصور کما ل کامجسمہ ہو اورجس کے سارے پہلو قوی ہی قوی ہوں.کوئی پہلوکمزور نہ ہو.دوسرے الفاظ میں یہ لوگ دراصل نبی کے طالب ہیں اگرچہ زبان سے ختم نبوت کا اقرار کرتے ہیں.اورکوئی اجرائے نبوت کانام بھی لے تواس کی زبان گُدّی سے کھینچنے کے لئے تیار ہوجائیں.مگراندر سے ان کے دل ایک نبی مانگتے ہیں اورنبی سے کم کسی پر راضی نہیں.‘‘ (ترجمان القرآن دسمبر و جنوری ۴۳.۴۲ء ص ۴۰۶) غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایسی رَوچلادی کہ تمام دنیا بڑی بے تابی سے ایک مسیح اور مہدی کاانتظارکرنے لگ گئی.یہ بھیگی بھیگی ہوائیں اس بات کاثبوت تھیں کہ اب جلد ہی آسمانِ روحانیت پرایسابادل چھانے والا ہے جواپنی موسلادھار بارش سے پیاسی روحو ںکوسیراب کردے گا.اوران کی بے قرار ی کو دورکردے گا.اسی لئے بانی سلسلہ احمدیہ نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایاکہ ’’ اے بندگانِ خدا! آپ لوگ جانتے ہیں کہ جب امساکِ باراں ہوتاہے اورایک مدت تک مینہہ نہیں برستاتواس کاآخری نتیجہ یہ ہوتاہے کہ کنوئیں بھی خشک ہونے شروع ہوجاتے ہیں.پس جس طرح جسمانی طور پر آسمانی پانی بھی زمین کے پانیوں میں جوش پیداکرتاہے اسی طرح روحانی طور پر جو آسمانی پانی ہے (یعنی خدا کی وحی)وہی سفلی عقلوںکو تازگی بخشتاہے.سویہ زمانہ بھی اس روحانی پانی کا محتاج تھا.میں اپنے دعویٰ کی نسبت اس قدر بیان کرناضروری سمجھتاہوں کہ میں عین ضرورت کے وقت خدا کی طرف سے بھیجا گیاہوں جبکہ اس زمانہ میں بہتوں نے یہود کارنگ پکڑ ااورنہ صرف تقویٰ اور طہارت کو چھوڑا بلکہ ان یہود کی طرح جوحضرت عیسیٰؑ کے وقت میں تھے سچائی کے دشمن ہوگئے.تب بالمقابل خدا نے میرا نام میسح رکھ دیا.نہ صرف یہ ہے کہ میں اس زمانہ کے لوگوں کو اپنی طرف بلاتاہوں بلکہ خود زمانے نے مجھے بلایا ہے.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ پنجم کی یادداشتیں ص ۱۲) غرض اس زمانہ کے لوگوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے يُّرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ کے مطابق بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت پر ایک بڑی بھاری دلیل مہیاکردی ہے.فائدہ اٹھانا یانہ اٹھانا یہ لوگوں کااپناکام ہے.
اَمَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ وَ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ (بتائوتوکہ)وہ جو پہلی دفعہ پیداکرتاہے اورپھر (پیدائش کے )سلسلہ کوجاری کرتاہے.اورجوبادلوں اورزمین سے السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ تمہیں رزق دیتاہے.کیا(اس قادر مطلق)اللہ کے سواکوئی اَور معبود بھی ہے ؟ تُو کہہ دے کہ اگر تم سچے ہو تواپنی اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۶۵ دلیل پیش کرو (کہ اس کے ثانی اَوربھی ہیں).تفسیر.فرماتا ہے تم بتاؤتو سہی کہ کون ہے جو تمہیں پہلی دفعہ پیدا کرتا ہے اور پھر پیدائش کے اس سلسلہ کو جاری رکھتا ہے.اور کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے.کیا اس قادرمطلق خدا کے سوا کوئی اور بھی ہے جو ایسا کرسکے.اگر تم سچے ہوتو اس کی دلیل پیش کرو.اس جگہ بھی مَنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗسے طبقات الارض والی پیدائش مراد نہیںکیونکہ طبقات الارض والی پیدائش نہ تو کسی نے دیکھی ہے اور نہ اس کو توحیدِ باری تعالیٰ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے اس جگہ پیدائش اولیٰ سے مراد قوموں کو تمکنت بخشنا اور یُعِیْدُہٗ سے مراد غالب قوموں کے زوال کے بعد ان میں دوبارہ زندگی اور بیداری کی روح پیدا کرنا ہے.گویا بتایا کہ اگر تم قوموں کی ترقی اور ان کے زوال کی تاریخ پر غور کرو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے تو صرف الٰہی مدد اور تائید سے کی ہے اور جب بھی کوئی قوم اپنے انحطاط کے بعد دوبارہ زندہ ہوئی ہے تو اس کا احیاء ثانیہ بھی الٰہی تدبیروں کے ماتحت ہی ہوا ہے.خودبخودنہیں ہوا.اس آیت میں قوموں کی ترقی اور غلبہ کے بعد ان کے زوال اور پھر زوال کے بعد ان کے دوبارہ احیاء کا ذکر کرکے مسلمانوں کو بھی نہایت لطیف پیرایہ میں اس امر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی کہ تمہیں بھی دنیا پر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے غلبہ حاصل ہوگا.اس لئے کبھی اس ترقی کو اپنے زور بازو کا نتیجہ نہ سمجھنا ورنہ تمہاری ساری ترقیات جاتی رہیں گی اور پھر آسمانی تدبیر کے بغیر تمہیں دوبارہ دنیا میں غلبہ میسّر نہیں آسکے گا.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس قیمتی سبق کو فراموش کردیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ قومی طور پروہ ایسے زوال کا شکار ہوئے کہ اغیار کی نگاہ میں وہ ہنسی کا نشانہ بن کر رہ گئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں.کوئی انسان دنیا میں ایسانہیں
ہوا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو.لیکن اگر قومیں چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں.یہی امید دلانے کے لئے حضرت مسیح ؑ ناصری نے فرمایا کہ ’’میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مدد گار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے.‘‘ (یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۶،۱۷) یعنی یوں تو ہر انسان کے لئے موت مقدّر ہے جس کے نتیجہ میں مَیں تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا.لیکن اگر تم چاہو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگتے رہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.پس انسان اگر چاہے بھی تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا.لیکن قومیں اگر چاہیں تو زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اِسی زندگی کی امید دلاتے ہوئے’’الوصیۃ‘‘ میں تحریر فرمایا کہ ’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے.اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے.کیونکہ وہ دائمی ہے.جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.اوروہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ جائو ںلیکن جب میں جائوں گا توپھر خدا اس دوسری قدرت کوتمہارے لئے بھیج دے گاجو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی.‘‘ (روحانی خزائن جلد ۲۰ رسالہ الوصیت صفحہ ۳۰۵) ’’ہمیشہ ‘‘کے یہی معنے ہیں کہ جب تک تم چاہوگے قدرت ثانیہ تم میںموجود رہے گی.اورقدرت ثانیہ کی وجہ سے تمہیں دائمی حیات عطا کی جائے گی.اس جگہ ’’ قدرت ثانیہ ‘‘سے ایک تو وہ تائیدات الٰہیہ مراد ہیں جومومنوں کے شاملِ حال ہواکرتی ہیں.اور دوسرے وہ سلسلہ خلافت مراد ہے جو نورنبوت کو ممتد کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ خود قائم فرماتا ہے.اگرقو م چاہے اور اپنے آپ کومستحق بنائے توتائیدات الٰہیہ بھی ہمیشہ اس کے شاملِ حال رہ سکتی ہیں.اوراگرقو م چاہے اوروہ اپنے آپ کو مستحق بنائے توانعامِ خلافت سے بھی وہ دائمی طورپر متمتع ہوسکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے مسخ ہونے سے پیداہوتی ہیں.ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے کہ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ( الرعد:۱۲)یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدانہ کرلے.اوریہ ایسی چیز ہے جسے ہرشخص سمجھ سکتاہے.لیکن اتنی سا دہ سی بات بھی قومیں فراموش کردیتی ہیں اور وہ تباہ ہوجاتی ہیں.انسان کا مرنا توضروری ہے.اگروہ مرجائے تواس پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا.لیکن قوموں کے لئے مرناضروری نہیں.قومیں
اگرچاہیں تووہ زندہ رہ سکتی ہیں.لیکن وہ زندگی کے اصول کو فراموش کرکے ہلاکت کے سامان پیداکرلیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مسلمانوںکو ایسی تعلیم دی تھی کہ اگر وہ اس پر عمل کرتے توہمیشہ زند ہ رہتے لیکن قوم نے عمل کرناچھوڑ دیا اوروہ مرگئی.دنیا بار بار یہ سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ پیش ہواہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کو ایسی اعلیٰ در جہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہرقسم کی سوشل تکالیف اورمشکلات کاعلاج تھا.اورپھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے بھی دکھادیا.وہ تعلیم کہاں گئی؟ اور۳۳سال میں ہی وہ کیوں ختم ہوگئی ؟ عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی.لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آرہاہے.لیکن مسلمانوں نے تینتیس سال کے عرصہ میں ہی خلافت کو ختم کردیا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پو پ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کومانتی ہے اور انہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اٹھائے ہیں.لیکن مسلمانوںمیں ۳۳سال تک خلافت رہی اورپھر ختم ہوگئی.اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہوگئی.اگر ان کی ذہنیت درست رہتی توکوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت ان کے ہاتھ سے چھینی جاتی.مجھے یہ حقیقت ایک دفعہ رؤیا (یہ رؤیا ۲۴،۲۵ ؍اکتوبر ۱۹۵۳ء کی درمیانی شب کا ہے.منہ) میں بھی بتائی گئی تھی.میں نے دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنّف یامؤرخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں.پینسل بھی COPYINGیاBLUE رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پرنہیں پڑھے جاتے لیکن جوکچھ پڑھاجاتاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہوگئے.باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے.اعلیٰ درجہ کاتمدن اوربہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرکے بھی دکھادیاتھا.مگرپھر بھی وہ گرگئے اوران کی حالت خراب ہوگئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کونہیں لکھی ہوئی تھی.بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کولکھی ہوئی تھی لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہاتھا.اوراس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ THERE WERE TWO REASONS FOR IT.THEIR TEMPERAMENT BECOMING MORBID AND ANARCHICAL یعنی وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیداہوئی ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کے نقائص پیداہوگئے تھے.ایک یہ کہ وہ ماربڈMORBID ہوگئے تھے یعنی اَن نیچرل UN-NATURAL اورناخوشگوار
ہوگئے تھے.اور دوسرے ان کی ٹنڈنسیز TENDENCIES انارکیکل ANARCHICAL ہوگئی تھیں.یعنی ان میں فساد اور بغاوت کی روح پیداہوگئی تھی.میں نے سوچاکہ واقع میںیہ دونوں باتیں صحیح ہیں ان کا ماربڈ MORBID ہوناتو اس سے ظاہر ہے کہ انہیں جو بھی ترقیات ملیں وہ اسلام کی وجہ سے ملی تھیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں.ان کی ذاتی خوبی یاکمال کاان میں کوئی دخل نہیں تھا.مگرانہوں نے ان ترقیات کو اپنی ذاتی قابلیتوں کانتیجہ سمجھنا شروع کردیا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مکہ والوں کی جوکچھ حالت تھی اس کااندازہ صرف اسی بات سے ہو سکتا ہے کہ لوگ ان کاصرف مجاور سمجھ کرادب کرتے تھے.ورنہ ذاتی طورپر ان میں کوئی ایسی خوبی نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ ان کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے.اسی طرح جب وہ غیر قوموں میں جاتے تووہ بھی ان کامجاورسمجھ کر ہی اعزاز کرتیں.یازیاد ہ سے زیادہ تاجر سمجھ کر ادب کرتی تھیں.وہ انہیں کوئی حکومت قرارنہیں دیتی تھیں اورپھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں یہ سمجھتی تھیں کہ ہم جب چاہیں ان کو کچل سکتی ہیں جیسے یمن کے گورنر نے بیت اللہ کوگرانے کے لئے حملہ کردیا.جس کاقرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکرکیا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت فرمایا توتیرہ سال تک توصرف تھوڑے سے آدمی آپ پر ایمان لائے مگرہجرت کے آٹھویں سال بعد ساراعر ب ایک نظام کے ماتحت آگیا اوراسلام کو ایسی طاقت اورقوت حاصل ہوگئی کہ بڑی بڑی حکومتیں اس سے ڈرنے لگیں.اس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دوبڑے حصوں میں منقسم تھی.اول رومی حکومت دوم ایرانی سلطنت.رومی سلطنت کے ماتحت تما م مشرقی یورپ.ٹرکی.ایبے سینیا.یونان.مصر.شام اوراناطولیہ تھا.اورایرانی سلطنت کے ماتحت عراق.ایران.رشین ٹری ٹوری کے بہت سے علاقے.افغانستان.ہندوستان کے بعض علاقے اورچین کے بعض علاقے تھے.ان دونوں حکومتوں کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی.لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد ساراعرب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوگیا.اس کے بعد جب سرحدات پر عیسائی قبائل کی شرارت کی آپ کو خبریں ملنی شروع ہوئیں توپہلے توآپ ؐ خود وہاں تشریف لے گئے اورجب آپؐ کو معلوم ہواکہ کوئی شامی لشکر اس وقت جمع نہیں ہورہا توآپؐ بعض قبائل سے معاہدات کرکے بغیر کسی لڑائی کے واپس آگئے.لیکن تھوڑ ے عرصے بعد ہی قبائل نے پھر شرارت شروع کی.توآپؐ نے ان کی سرکوبی کے لئے حضرت اسامہ بن زیدؓ کی سرکردگی میں ایک لشکرتیار کیا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوںکو معاہدہ سے تابع کیا (تاریخ الخمیس غزوة تبوک).پھر آپ ؐ کی وفات کے بعد اڑہائی سال کے عرصہ میں ہی یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال کے
بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہوگیاتھا.اوراس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کرلیاگیاتھا.اورچند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب حکومتیں تباہ ہوچکی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جوتعداد اورطاقت میں اس سے زیادہ ہو.جرمن کاملک اس وقت ۱۴ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا.اوراس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.چنانچہ ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمن کے متعلق تمہاری کیارائے ہے اس نے کہا.ایک شیر ہے.دوتین لومڑ ہیں اور کچھ چوہے ہیں.شیر سے مراد رشیا تھا.لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں تھیں.اورچوہوں سے مراد جرمن تھے.گویاجرمن اس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا.روس ایک بڑی طاقت تھی.مگروہ روس کے ساتھ ٹکرایا اور وہاں سے ناکام واپس لوٹا.اسی طرح انگلستان کوبھی فتح نہ کرسکا اورانجام اس کا یہ ہواکہ وہ قید ہوگیا.پھردوسرابڑاشخص ہٹلر ہوا.بلکہ دوبڑے آدمی دوملکوں میں پیداہوئے یعنی ہٹلر اور مسولینی.دونوں نے بیشک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کاانجام شکست ہوا.مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا.اس کی بھی یہی حالت تھی.وہ بیشک دنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصدکو کہ ساری دنیا فتح کرلے حاصل نہ کرسکامثلاً وہ چین کوتابع کرناچاہتاتھا لیکن تابع نہ کرسکا اورجب و ہ مرنے لگا تواس نے کہا.میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جومجھے ملامت کررہے ہیں.پس صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آدمؑ سے لے کر اب تک ایسے گذرے ہیں جنہوں نے فردواحد سے ترقی کی اورتھوڑے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کرلیا.اورآپؐ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اورباقی علاقے آپؐ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کرلئے.یہ تغیر جو واقع ہوامحض خدائی نصرت کانتیجہ تھا.کسی انسان کاکام نہیں تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آ پ ؐکے بعد حضر ت ابو بکرؓ خلیفہ ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بکرؓ کے والد ابوقحافہؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے.جب پیغامبر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ عیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں توسب لوگوں پر غم و اندوہ کی کیفیت طاری ہوگئی اورسب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہوجائے گا.چنانچہ انہوں نے کہا.اب کیا ہوگا؟ پیغامبر نے کہا.آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہوگئی ہے اورایک شخص کو خلیفہ بنالیاگیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کون خلیفہ مقرر ہواہے ؟ پیغامبر نے کہا ابو بکرؓ.ابو قحافہ نے حیران ہوکر پوچھا.کو ن ابو بکرؓ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو خوب سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے و ہ خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو ساراعرب بادشاہ تسلیم کرلے گا.پیغامبر
نے کہا.ابو بکرؓ جوفلاں قبیلہ میں سے ہیں.ابوقحافہ نے کہا.کس خاندان میں سے ہے.پیغامبر نے کہا.فلاں خاندان میں سے.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ دریافت کیا.وہ کس کابیٹاہے؟ پیغامبر نے کہا.ابوقحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے کہا.لَٓااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمُّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اورپھر کہا.آج مجھے یقین ہوگیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابوقحافہ پہلے صرف نام کے ہی مسلمان تھے.لیکن اس واقعہ کے بعد انہوں نے سچے دل سے سمجھ لیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعویٰ میں راستباز تھے کیونکہ ابوبکرؓ کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کومان لیتے.پس یہ الٰہی دین تھی.بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ انہوں نے یہ سمجھنا شروع کیاکہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہناشروع کردیا کہ عر ب کی اصل طاقت بنوامیہ ہیں.اس لئے خلافت حق ان کاہے.کسی نے کہا.بنوہاشم عر ب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا.بنومطلب عر ب کی اصل طاقت ہیں.کسی نے کہا.خلافت کے زیاد ہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گویاتھوڑے ہی سالوں میں مسلمان ماربڈ MORBID ہوگئے.اوران کے دماغ بگڑ گئے ان میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش شروع کردی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کرلے.نتیجہ یہ ہواکہ خلافت ختم ہوگئی.پھرمسلمانوں کے بگڑنے کادوسراسبب انارکی ANARCHI ہے.اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیداکی.لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنے یہ ہیں کہ ایک آرگنائزیشن ہو.اس کے بغیر مساوات قائم نہیں رہ سکتی.اسلام آیاہی اسی لئے تھاکہ وہ ایک آرگنائز یشن اور ڈسپلن قائم کرے اورڈسپلن بھی ایساجو ظالمانہ نہ ہو.لیکن چند ہی سال میں مسلمانوں میں یہ خیال پیداہوناشرو ع ہوگیا کہ خزانے ہمارے ہیں اوراگرحکّام نے ان کے راستہ میں روک ڈالی توانہوں نے انہیں مارنا اور قتل کرنا شروع کردیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھناچاہیے تھا کہ یہ حکومتِ الٰہیہ ہے او راسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے.پس اسے خدا تعالیٰ کے ہی ہاتھ میں رہنے دیاجائے تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ سورئہ نورمیں صاف طور پرفرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے.لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں.اورجب انہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا.اچھا اگرخلیفے تم نے بنائے ہیں تواب تم ہی بنائو.چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کاماراہواشکار یعنی حضرت ابوبکرؓ.حضرت عمرؓ.حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کاماراہواشکار کھاتے رہے.لیکن مراہواشکار ہمیشہ کام نہیں دیتا.زند ہ بکرا.یازندہ بکری یا زندہ مرغامرغی تو تمہیں ہمیشہ گوشت او رانڈے کھلائیں گے لیکن ذبح کی ہوئی مرغی یا بکری
زیادہ دیر تک نہیں جاسکتی کچھ وقت کے بعد خراب ہوجائے گی.حضرت ابوبکرؓ.حضرت عمرؓ.حضرت عثمان ؓ اور حضرت علیؓ کے زمانہ میں تومسلمان شکار کاتازہ گوشت کھاتے تھے لیکن جب انہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کردیا تو تازہ شکار کی بجائے اپنے باپ داداکاماراہواشکار انہوں نے کھاناشروع کردیا.مگر یہ شکار کب تک کام دے سکتاتھا.ایک ذبح شدہ بکری میں اگر بیس پچیس سیر گوشت بھی ہوتو آخر وہ ختم ہوجائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ان کاماراہواشکار بھی ختم ہوگیا اورپھر ان کاوہی حال ہواکہ ’’ ہتھ پرانے کھوسڑے بسنتے ہوری آئے ‘‘ وہ ہرجگہ ذلیل ہوناشروع ہوئے.انہیں ماریں پڑیں.اوران کی تمام شان وشوکت جاتی رہی.عیسائیوں نے تو اپنی مردہ خلافت کوآج تک سنبھالاہواہے لیکن انہوں نے اپنی زندہ خلافت کواپنے ہاتھو ںزمین میں گاڑ دیا.جومحض نفسانی خواہشات.دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جوشوں کانتیجہ تھا.اب چونکہ خدا تعالیٰ نے پھر اپنے فضل سے مسلمانوں کو دوبار ہ زندہ کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جماعت احمدیہ میں خلافت قائم کی ہے اس لئے میں اپنی جماعت سے کہتا ہوں کہ تمہاراکا م یہ ہے کہ تم ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو.اورخلافت کے قیام کے لئے قربانیاں کرتے چلے جائو.اگر تم ایساکرو گے توخلافت تم میں ہمیشہ رہے گی خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نےدی ہی اسی لئے ہے تاوہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیاتھا.اگرتم چاہتے تو یہ چیز تم میں قائم رہتی.اگراللہ تعالیٰ چاہتاتو اسے الہامی طورپر بھی قائم کرسکتاتھا مگرا س نے ایسانہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کوقائم رکھناچاہوگے تومیں بھی اسے قائم رکھوں گا گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلواناہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اب اگرتم اپنا منہ بند کرلو.یاخلافت کے انتخاب میں اہلیت مد نظر نہ رکھو توتم اس نعمت کو کھوبیٹھو گے.پس مسلمانوں کی تباہی کے اسباب پر غور کرو.اوراپنے آپ کو موت کاشکار ہونے سے بچائو.تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں.اور تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہییںتم وہ چٹان نہ بنو جودریا کے رخ کو پھیر دیتی ہے.بلکہ تمہاراکام یہ ہے کہ تم وہ چینل CHANNEL بن جائو جوپانی کو آسانی سے گذارتی ہے.تم ایک ٹنل ہو جس کاکام یہ ہے کہ وہ فیضان الٰہی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہواہے اسے آگے چلاتے چلے جائو.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائوگے توتم ایک ایسی قوم بن جائو گے جوکبھی نہیں مرے گی.اوراگرتم ا س فیضان الٰہی کے رستہ میں روک بن گئے.اس کے رستہ میں پتھر بن کر کھڑے ہوگئے.تووہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہوگا پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہوگی اور تم اسی طرح مر جائوگے جس طرح پہلی
قو میں مریں.پھرفرماتا ہے وَ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ.تم اس امر پربھی غورکرو کہ آسمان اورزمین سے تمہیں کون رزق دیتاہے.کیا خدا تعالیٰ کے سواکوئی اورمعبود ہے جوتمہیں یہ رزق بہم پہنچارہاہے.اس میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ قوم کی مالی حالت میں جو ترقی ہوتی ہے وہ بھی الٰہی سامانوں سے ہی ہوتی ہے.کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جس میں محنت کی عادت نہ ہو.اورکوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جس میں سچ کی عادت نہ ہو.اورقوم کے اندرمحنت کرنے اور سچ پرقائم رہنے کامادہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی آتاہے.پس قومی ترقیات کو کسی غیر کی طرف منسوب نہیں کیاجاسکتاصرف ایک خدا کی طرف منسوب کیاجاسکتاہے اوراس کے خلاف کوئی شخص دلیل پیش نہیں کرسکتا اوراگرکرے گا تو خود تاریخ اس کوردّ کردے گی.پھراس آیت میں بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جب تمہاری جسمانی حیات کے لئے اللہ تعالیٰ تمہیں رزق مہیا کرتاہے تویہ کس طرح تسلیم کیا جاسکتاہے کہ اس نے روحانی حیات کے لئےجو انسانی پیدائش کا منتہٰی ہے کوئی انتظام نہ کیا ہو.اس کاانسانی جسم کی حفاظت اور اس کے بقاء کے لئے رزق مہیا کرنا بتارہاہے کہ وہ انسانی روح کی درستی اور اس کی ترقی کے لئے بھی سامان مہیاکرتاہے اورانبیاء و مصلحین کاوجود اس کی اس رزاقیت کاایک کھلاثبوت ہے.اگرمشرکین کا یہ دعویٰ کہ ان کے بت بھی اپنے اندر خدائی طاقتیں رکھتے ہیں درست ہے تو وہ انبیاء کے مقابلہ میں کیوں وہ مدّعی پیش نہیں کرتے جوان کے بتوں نے کھڑے کئے ہوں اوراگروہ ایساکوئی مدعی پیش نہیں کرسکتے تویہ صاف طورپر اس امر کاثبوت ہے کہ انہیں خدا تعالیٰ کا شریک قراردینا ایک بے دلیل بات اورمحض لاف زنی ہے.قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ (پھرتُو)کہہ دے کہ آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق بھی ہے خداکے سوا(ان میں سے کوئی )غیب کو نہیں جانتی.وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۰۰۶۵بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي اوران میں سے کوئی یہ بھی نہیں سمجھتاکہ ان کو کب زندہ کرکےاٹھایاجائے گا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اخر وی زندگی کے
الْاٰخِرَةِ١۫ بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْهَا١۫ٞ بَلْ هُمْ مِّنْهَا بارے میں ان کا علمِ باطل ختم ہوگیاہے.بلکہ وہ اس کے بار ہ میں شک میں پڑے ہوئے ہیں.بلکہ وہ اس کے عَمُوْنَؒ۰۰۶۷ بارہ میں بالکل اندھے ہیں.حلّ لُغَات.اِدّٰرَکَ.اِدّٰرَکَ اصل میں تَدَارَکَ تھا.ت کو دال سے ہم مخرج ہونے کی وجہ سے دالؔ بناکر دالؔ میں ادغام کردیا.پہلاحرف ساکن ہونے کی وجہ سے ہمزئہ وصل ابتداء میں لایاگیا.او ر تَدَارَکَ الْقَوْمُ کے معنے ہیں تَلَاحَقُوْااَیْ لَحِقَ اٰخِرُھُمْ اَوَّ لَھُمْ یعنی قوم کاآخری حصہ اول حصہ سے مل گیا.(اقرب) عَمُوْنَ.عَـمُوْنَ عَمِیٌ کی جمع ہے اور اَلْعَمِیْ کے معنے ہیں ذُوالْعَمٰی اندھاجس کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے زمین وآسمان میں سوائے خداکے اَورکوئی غیب نہیں جانتا.یعنی مصفٰی علمِ غیب صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہی ہے.اوریہ لوگ جو بتوں کے پرستار ہیں یاستاروں وغیرہ کو دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کے دعویدار ہیں یہ تواپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتاسکتے اوراتنی بات بھی نہیں جانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کرے گی یہ برابر تباہ ہوتے جارہے ہیں مگرنہیںجانتے کہ ان کی تباہی کب دور ہوگی.اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو پہلے اکیلے تھے آج کروڑوں کے سردار بنے ہوئے ہیں.اگران لوگوں کے معبود بھی اپنے اندر کو ئی طاقت رکھتے یاانہیں ستاروں سے علم غیب حاصل ہو سکتا ہے توکیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتاسکتے اور کیوںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی جو غیراللہ سے علم غیب حاصل کرنے کے قائل نہیں روک نہیں دیتے جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتاسکتے توانہوں نے اورکونسی غیب کی خبربتانی ہے.پھر فرمایاکہ بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ.حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے انجام کے بارہ میں علم سے بالکل خالی ہیں.بَلْ هُمْ فِيْ شَكٍّ مِّنْهَا بلکہ خود بھی اپنی ترقی کے متعلق انہیں کوئی یقین نہیں.صرف اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جس طر ح اندھا ادھر ادھر ہاتھ مارتاہے.توکبھی اس کے ہاتھ میں لکڑی آجاتی ہے اور کبھی لوہا.کبھی سیدھی سڑک پر چلنے لگتاہے اور کبھی گڑھے میں گرجاتاہے اسی طرح ان کوبھی کبھی کوئی ایک آدھ بات تخمینے سے درست معلوم ہوجاتی ہے اور کبھی حق سے دور باتوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں.بہرحال
ان میںاور خدا تعالیٰ کے انبیاء میں ایک نمایاں فرق پایا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے انبیاء پر جووحی نازل ہوتی ہے اس میں آسمان و زمین کے غیب بیان کئے جاتے ہیں.مگرغیر اللہ میں سے کوئی نہیں جو آسمان و زمین کاغیب بتاسکے.پھر نبی تویہ بھی بتادیتے ہیں کہ ان کی قوم اور ان کے ماننے والے کب ترقی کریں گے.لیکن معبودان باطلہ کاکوئی نمائندہ کبھی نہیں بتاسکتا کہ معبودان باطلہ کب زندہ ہوں گے.یعنی ان کامشرکانہ دین کب دنیا میں قائم ہوگا.اس بار ہ میں ان کاعلم ختم ہوچکاہے.بلکہ اب توانہیں اپنی ترقی کے متعلق خود بھی کوئی یقین نہیں رہا.صرف اٹکل پچو باتیں کرتے رہتے ہیں.بلکہ اٹکل پچوباتیں بھی الگ رہیں اصل حقیقت تویہ ہے کہ وہ اس بارہ میں بالکل اندھے ہیں اوروہ اپنے مستقبل کے متعلق کچھ بھی نہیں کہہ سکتے.جبکہ خدا کارسول توحید کی اشاعت او راس کے غلبہ کی خبروں کے بعد خبریں دے رہاہے اور دنیا میں ایک تغیر عظیم پیداہورہاہے.وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا ءَاِذَا كُنَّا تُرٰبًا وَّ اٰبَآؤُنَااَىِٕنَّا اورکافرکہتے ہیں کہ کیا جب ہم اورہمارے باپ دادے مٹی ہوجائیں گے لَمُخْرَجُوْنَ۰۰۶۸لَقَدْ وُعِدْنَا هٰذَا نَحْنُ وَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ توکیا ہم پھر زمین سے زندہ کرکے نکالے جائیں گے.ہم او رہمارے باپ دادوں اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۰۰۶۹قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ سے اس سے پہلے ایسا ہی وعدہ کیاگیاتھا.مگریہ صرف پہلے لوگوں کی باتیںہیں (جوکبھی پوری نہیں ہوتیں) فَانْظُرُوْا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِيْنَ۰۰۷۰ تُو کہہ دے کہ زمین میں پھر و اوردیکھو کہ مجرموں کاانجام کیساہواتھا.حلّ لُغَات.اَسَاطِیْر.اَسَاطِیْرُ سَطْرٌ کی جمع اِسْطَارٌ ہے اور اِسْطَارٌ کی جمع اَسَاطِیْر ہے.وَقَالَ الْمُبَرِّدُ جَمْعُ اُسْطُوْرَۃٍ.اما م لغت مبرّد نے کہاہے کہ اَسَاطِیْر اُسْطُوْرَۃٌ کی جمع ہے اور اُسْطُوْرَۃٌ کے معنے ہیں مَایُسْطَرُ اَیْ یُکْتَبُ.لکھی ہوئی تحریر (اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.کفار کہتے ہیں کہ کیاجب ہم اورہمارے باپ دادامرکر مٹی ہوجائیں گے تواس وقت
ہمیں دوبار ہ زندہ کیاجائے گا.بیشک ہمیں اورہمارے گذشتہ آبائواجداد کوبھی اس سے پہلے ایسے ہی وعدے دیئے جاتے رہے ہیں مگرہم تو سمجھتے ہیں کہ ایساکبھی نہیں ہوسکتا اوریہ قیامت کاشور محض پرانے لوگوں کی ایک نقل ہے.اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم زمین میں پھر کردیکھو.کہ مجرموں کاکیساانجام ہوا.پھر کیوں تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جو خدااس دنیا میں مجرموں کو اپنے کیفر کردار تک پہنچا سکتاہے.اس دنیا میں انہیں قیامت کاایک نظارہ دکھاسکتاہے.اس کے لئے انہیں دوسری قیامت کانظارہ دکھانا کون سامشکل امر ہے.تمہارابڑااعتراض آخر یہی ہے کہ ہزاروں سال سے کہنے والے کہتے چلے آئے ہیں مگرقیامت اب تک نہیں آئی.اور تمہارے نزدیک یہ ا س بات کاثبوت ہے کہ قیامت کاادّعابالکل باطل ہے.لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیاخداقیامت نہیں لاسکتا؟ اگروہ لاسکتاہے اور تم اپنی آنکھوں سے دنیا میں اس کے نظارے بھی دیکھ رہے ہو توپھر تمہارایہ کہنا کہ قیامت کیوں نہیں آئی ایک مضحکہ خیزبات ہے.چنانچہ فرماتا ہے.سِیْرُوْافِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْاکَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْنَ.تم زمین میں پھر واوردیکھو کہ مجرموں کاکیساانجام ہوا.کیا وہ سزانہیں پاتے رہے.اورجب آج تک تمام مجرم سزاپاتے چلے آئے ہیں توتم یہ کس طرح یہ سمجھ سکتے ہو کہ ہمیں کوئی سزانہیں ملے گی.جس طرح پہلی مجرم قوموں پر دنیا میں ہی قیامت کاآجانااوران کاصفحہ ہستی سے معدوم کردیا جانا اخروی قیامت کاایک ثبوت ہے اسی طرح تم پر جو دنیوی عذاب آئیں گے یہ بھی اخر وی قیامت کاایک بہت بڑاثبوت ہوںگے.وَ لَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَ لَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ۰۰۷۱ اورتُو ان پر غم نہ کھا اور ان کی تدبیروں کی وجہ سے تنگی محسوس نہ کر.تفسیر.چونکہ اوپر یہ بتایاگیاتھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین اپنی سزاسے نہیں بچ سکتے.اوروہ بھی پہلے مجرموں کی طرح اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوں گے.اور یہ بات ایسی تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں سخت قلق اوراضطراب پیداکرنےوالی تھی.کیونکہ آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی قوم ہلاک ہو.اوروہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ اے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)!تُو ان کی تباہی پر غم نہ کر.کیونکہ یہ تباہی کی گھڑی ان پر ضرور آنے والی ہے مگرچونکہ ابھی ان کی کامل تباہی میں کچھ دیر ہے.اس عر صہ میں یہ لوگ تیرے خلاف برابر منصوبے کرتے چلے جائیں گے اور تجھے مٹانے
کے لئے ہرقسم کی تدابیر عمل میں لاتے رہیں گے.پس تُو ان کی تدبیروں پر اپنے دل میں تنگی محسوس نہ کریو.کیونکہ آخر ان کی تدبیریں ناکام رہیں گی اور و ہ کبھی کامیابی کامنہ نہیں دیکھ سکیں گے.وَ يَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۷۲قُلْ اوروہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہوتو یہ (عذاب کا)وعدہ کب پوراہوگا؟.تُو کہہ دے کہ ممکن ہے کہ وہ عَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ تَسْتَعْجِلُوْنَ۠۰۰۷۳ (عذاب ) جس کے لئے تم جلدی کررہے ہو ا س کاکچھ حصہ تمہارے پیچھے پیچھے چلاآرہاہو.وَ اِنَّ رَبَّكَ لَذُوْ فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا اورتیرارب لوگوں پر فضل کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر نہیں کرتے.يَشْكُرُوْنَ۰۰۷۴وَ اِنَّ رَبَّكَ لَيَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ اورتیرارب ان چیزوں کوبھی جانتاہے جن کو ان کے سینے چھپارہے ہیں مَا يُعْلِنُوْنَ۰۰۷۵ اورجن کو وہ ظاہر کررہے ہیں.حلّ لُغَات.تُکِنَّ:تُکِنَّ کنَّ سے باب افعال فعل مضارع معروف واحد مؤنث کاصیغہ ہے.اور کَنَّ الشَّیْءَ وَاَکَنَّہٗ کے معنے ہیں سَتَرَہٗ فِیْ کِنِّہٖ وَغَطَّاہٗ وَاَخْفَاہُ.کسی چیز کو پردے میں چھپادیا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.یہ کفار اس قدر سرکش ہوچکے ہیں کہ بجائے اس کے کہ انہیں جوڈھیل دی گئی ہے اس سے یہ فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نفس کی اصلاح کرتے اورخدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کرتے یہ بڑی بے باکی سے پوچھتے ہیں کہ اگر تم سچے ہوتوبتائو یہ عذاب کاوعدہ کب پوراہوگا.تُو ان سے کہہ دے کہ ممکن ہے وہ عذاب جس کے لئے تم جلدی کررہے ہو اس کاکچھ حصہ تمہارے پیچھے پیچھے چلاآرہاہو.یعنی تباہی کی کامل گھڑی توکچھ دیر میں آئے گی لیکن اس سے پہلے بعض اورچھوٹے چھوٹے عذابوں کا جلدی آنا بھی مقد رہے اس لئے تمہیں اپنی بے باکی سے توبہ کرنی چاہیے کیونکہ کوئی انسان بھی خدا تعالیٰ کے عذاب کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا.باقی رہایہ سوال کہ
بڑاعذاب جلدی کیوں نہیں آجاتا.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پربڑا فضل کرنےوالا ہے.یعنی وہ چاہتاہے کہ جس طرح بھی ہو لوگوںکو ڈھیل دے کر بچالوں.مگرافسوس کہ بجائے اس کے کہ بندے ا س کے شکر گذار ہوں وہ ڈھیل دیکھ کر اَوربھی متکبر ہوجاتے ہیں اورشرارتوں میں ترقی کرجاتے ہیں.و ہ یہ نہیں جانتے کہ تیرارب ان کے مخفی ارادوں اورظاہر باتوں سب کو جانتاہے اوران کی وجہ سے انہیں سزاکامستحق سمجھتاہے لیکن محض اپنے فضل کی وجہ سے انہیں ڈھیل دے رہاہے.وَ مَا مِنْ غَآىِٕبَةٍ فِي السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ اورآسمانوں اور زمین میں جوکوئی بھی چھپی ہوئی چیز ہے ایک بیان کرنے والی کتاب میں (محفوظ)ہے.مُّبِيْنٍ۰۰۷۶اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَقُصُّ عَلٰى بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ یہ قرآن بنی اسرائیل کے سامنے اکثر و ہ باتیں سناتاہے جن میں وہ اختلاف کررہے ہیں اَكْثَرَ الَّذِيْ هُمْ فِيْهِ يَخْتَلِفُوْنَ۰۰۷۷وَ اِنَّهٗ لَهُدًى وَّ اوروہ ضرور مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے.تیرارب ان (یعنی بنی اسرائیل) رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۷۸اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ١ۚ کے درمیان اپنے حکم (یعنی قرآن)کے ساتھ (سچا)فیصلہ کرتاہے.وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُۙۚ۰۰۷۹فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّكَ عَلَى اوروہ غالب (اور)بہت بڑے علم والا ہے.الْحَقِّ الْمُبِيْنِ۰۰۸۰ پس اللہ (تعالیٰ) پر توکل کر.تویقیناً ایک مدلّل حق پر قائم ہے.حل لغات.غَائِبَۃٌ غَائِبَۃٌکے معنے ہیں.کُلُّ غَائِبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ و عَمَّایَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ (مفردات )یعنی ہروہ چیز جس کاحِسّ سے علم نہ ہوسکے.یاجس کا انسان کو علم نہ ہو.
تفسیر.فرماتا ہے.آسمان اور زمین میں کوئی بھی مخفی چیز نہیں مگراللہ تعالیٰ کے علم میں وہ پوری طرح محفوظ ہے.چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر قرآن کریم کو دیکھ لو کہ اکثر باتیں جن میں بنی اسرائیل اختلاف رکھتے ہیں.ان کو قرآن کریم خوب کھو ل کر بیان کررہاہے اورسچی بات خواہ ہزاروں پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہواسے نکال کر سامنے لے آتاہے.اورہرعقلمند کومانناپڑتا ہے کہ قرآن کابیان صحیح ہے اوربائیبل کابیان غلط.مثلاً بائیبل میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی تجلّی دیکھنے کے لئے طُور پر گئے توان کے پیچھے ہارون علیہ السلام مشرکوں کے ساتھ مل گئے اورانہوں نے خود ان کے لئے سونے کابچھڑابنایا.اورپھراس کی پرستش شروع کردی(خروج با ب ۳۲آیت ۱تا۶).لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے ایسا ہرگز نہیں کیا.یہ ایک نہایت ہی گندہ اور ناپاک الزام ہے جو ان پر لگایاجارہاہے.انہوںنے توبنی اسرائیل کو بچھڑے کی پرستش کرنے سے بڑی سختی کے ساتھ روکا تھا اورفرمایاتھا کہ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ (طٰہ: ۹۱) یعنی اے میری قوم ! بچھڑے کے ذریعہ تم ایک بڑی آزمائش میں ڈالے گئے ہو.تمہارارب تو رحمٰن خداہے جو پیدائش سے بھی پہلے تمہاری مدد کرتارہاہے اوراب بھی اس نے اپنی ہزاروں نعمتوں سے تمہیں متمتع کیا ہواہے.اس بچھڑے نے تمہاری کیا مددکرنی ہے کہ تم اس کے آگے اپناسرجھکارہے ہو.پھر قرآن کریم اس امر کی بھی وضاحت فرماتا ہے کہ یہ بچھڑا ایک روحانیت سے بے بہرہ شخص نے بنایاتھا.جس کانام سامری تھا.اب دیکھو قرآن کریم دوہزارسال کے بعد آیا اوربائیبل خود اس کے ماننے والوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں لکھی گئی تھی.مگر جوکتاب موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں لکھی گئی وہ توہارون علیہ السلام کوملز م قراردیتی ہے.مگرتیرہ سوسا ل کے بعد نازل ہونے والا قرآن ہارون علیہ السلام کو ہر قسم کے الزامات سے پاک ٹھہراتاہے.پھر اگرعلم النفس کے ماتحت دیکھا جائے کہ ان دونوں روایات میں سے کونسی روایت درست ہے توصاف معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم کی روایت ہی درست ہے کیونکہ بائیبل بھی حضرت ہارون علیہ السلام کو صاحبِ الہام تسلیم کرتی ہے.اورجب وہ انہیں خدارسید ہ سمجھتی ہے تو ایک صاحبِ الہام کو یہ شبہ ہی کیونکر ہو سکتا ہے کہ خدابھی ہے یا نہیں.آخر بچھڑے کی پوجاوہی شخص کرسکتاہے جسے خدا تعالیٰ کے وجود میں شبہ ہو.مگر جوخود ملہم من اللہ ہو اسے خدا تعالیٰ کے وجود میں کس طرح شبہ ہو سکتا ہے.پس علم النفس کی شہادت سے بھی ثابت ہوتاہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام پر بابیئل نے جوالزام لگایا ہے و ہ سراسر غلط ہے.اوریہ چیز ایسی ہے جو ہرعقلمندکوتسلیم کرنی پڑتی ہے.چنانچہ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جسے انگلستا ن کے بڑے بڑے علماء نے مل کرمرتب کیاہے اس میں بھی اس امر پر بحث کرتے ہوئے تسلیم کیاگیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے
شرک کرنے کاواقعہ بالکل غلط ہے.بلکہ اس واقعہ سے وہ استدلال کرتے ہوئے لکھتاہے کہ بائیبل میں اَور بھی کئی واقعا ت بعد میں بڑھادیئے گئے ہیں (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد ۴ زیر لفظ دی گولڈن کاف و جلد ۱۵ زیر لفظ موسیٰ).اسی طرح بائیبل بیان کرتی ہے کہ جب بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی توو ہ لاکھوں کی تعد اد میں تھے(خروج باب ۱۲ آیت ۳۸).مگرقرآن کریم کہتاہے کہ وَھُمْ اُلُوْفٌ (سورئہ بقرۃ ع ۳۲).و ہ صرف ہزاروں تھے اور تاریخ سے اور بائیبل کی تفصیلات سے بھی پتہ لگتاہے کہ وہ ہزاروں ہی ہوسکتے تھے لاکھوں نہیںہوسکتے تھے.کیونکہ لاکھوں آدمی اتنی جلدی مصر کے دوردراز علاقہ سے بحیرئہ قلزم تک نہیں پہنچ سکتے تھے.نہ لاکھوں آدمیوں کے لئے سواریاں میسر آسکتی تھیں.آجکل مشینوں کا زمانہ ہے.لیکن پھر بھی اگر تیس چالیس ہزار آدمی ایک جگہ سے دوسر ی جگہ جاناچاہیں توریلیں اورلاریاں ان کے لے جانے سے عاجز ہوجاتی ہیں کجایہ کہ گھوڑوں بیلوں اورگدھوں کا زمانہ ہو اور ایک رات میں لاکھوں آدمی کئی سومیل پرپہنچادیئے جائیں.اسی طر ح قرآ ن کریم بھی بیا ن کرتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بیٹے کو قربان کرنے کا حکم دیا اور بائیبل بھی یہی بیان کرتی ہے مگر تفصیلات کو دیکھاجائے تو بائیبل کاحکم بالکل بے معنے معلوم ہوتاہے.لیکن قرآن کریم کاحکم اپنے اند ربڑی بھاری حکمتیں رکھنے والا دکھائی دیتاہے.بیشک قرآن اوربائیبل کا اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ بائیبل کہتی ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کواسحاق ؑ کے ذبح کرنے کاحکم دیاگیا.اورقرآن کریم حضرت اسماعیل علیہ السلام کانام لیتا ہے.لیکن ذبیح اسحاق ؑ ہو یا اسماعیل ؑ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بات ایک ہی رہتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنےایک بیٹے کی قربانی کاحکم دیا اورآپ نے اسے قبول کرلیا.لیکن جہاں تک اس واقعہ کے اخلاقی پہلوکاتعلق ہے قرآن کریم کا بتایاہواواقعہ اپنے اندر بڑی بھاری معقولیت رکھتا ہے.لیکن بائیبل کے بیان کردہ واقعہ میں کوئی معقولیت دکھائی نہیں دیتی.بائیبل کہتی ہے کہ ’’خدا نے ابراہام کو آزمایااوراسے کہا اے ابراہام! اس نے کہا.میں حاضر ہوں.تب اس نے کہا کہ تواپنے بیٹے اضحاق کوجوتیرااکلوتاہے اورجسے تُو پیارکرتاہے ساتھ لے جاکر موریا ہ کے ملک میں جااور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پرجو میں تجھے بتائوں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا.‘‘ (پیدائش باب ۲۲آیت ۱،۲) بائیبل کہتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا.لیکن جب انہوں نے اضحاق کوباندھا اوراسے قر بان گاہ پر لکڑیوں کے اوپر رکھا اورچھر ی لی تاکہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے
’’تب خداوند کے فرشتہ نے اسے آسمان سے پکاراکہ اے ابراہام !اے ابراہام.اس نے کہا میں حاضر ہوں.پھر اس نے کہاکہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اورنہ اس سے کچھ کر.کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتاہے.اس لئے کہ تونے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرااکلوتاہے مجھ سے دریغ نہ کیا.اورابراہام نے نگاہ کی اوراپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے.تب ابراہام نے جاکر اس مینڈھے کو پکڑااور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طورپر چڑھایا.‘‘ (پیدائش باب ۲۲آیت ۹تا۱۴) گویا بائیبل کے بیان کے مطابق حضرت اسحاق علیہ السلام کو کسی شکل میں بھی ذبح نہیں کیا گیا.نہ ظاہری رنگ میں اور نہ تشبیہی رنگ میں اور اس طرح یہ سارا واقعہ بائیبل کے بیان کے مطابق ایک کھیل تھا جو نعوذ باللہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کھیلا.آخراس میں کیا لطف تھا کہ پہلے تو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ تُو اسحاق ؑ کو ذبح کر اورپھر انہیں منع کردیا.اگر اس واقعہ سے خدا تعالیٰ کا صرف اتنا ہی منشاء تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان ظاہر ہوتوکیاخدا تعالیٰ کو پہلے معلوم نہیں تھا کہ ابراہیمؑ صادق الایمان اور راستباز انسان ہے اوراسے جوبھی حکم دیاجائے گاو ہ اس کی تعمیل کے لئے فوراً کھڑاہوجائے گا.اورجبکہ خدا تعالیٰ کو پہلے ہی سے اس بات کاعلم تھا توحضرت اسحاق ؑ کو ذبح کرنے کاحکم دینا اورپھر اس سے روک دینا ایک بالکل بے معنے بات بن جاتی ہے.اوراس کی تہ میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی.لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ اسماعیلؑ کی قربانی کاجو حضرت ابراہیم علیہ السلام کوحکم دیاگیا تھا و ہ تشبیہی زبان میں تھا.یہ مراد نہیں تھی کہ آپ واقعہ میں اپنے بیٹے کو چھری سے ذبح کردیں بلکہ ذبح سے مراد اس کو دین کی خاطر ایسی جگہ پر رکھناتھا جہاںکھانے پینے کے سامان مہیانہیں تھے.چنانچہ گوقرآن کریم کے مطابق بھی حضر ت اسمٰعیل ؑ کو ذبح کرنے سے منع کیاگیا لیکن خواب کاجو اصل مفہوم تھا یعنی حضرت اسمٰعیلؑ کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھوڑ آنا.اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منع نہیں کیاگیا.بلکہ اس حکم پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عمل کروایا چنانچہ آج تک مکہ اسمٰعیلؑ کی نسل سے آباد ہے اور خدائے واحد کی وہاں پرستش کی جاتی ہے اورخدا تعالیٰ کی طرف لوگوں کو بلایاجاتاہے.پس قرآنی تشریح کے مطابق یہ قربانی ظالمانہ اوروحشیانہ نہیں تھی.بلکہ پُرمغز اوربامعنی قربانی تھی جس سے آج تک دنیا فائدہ اٹھارہی ہے.اوراب بھی اسمٰعیلؑ کے ذریعہ اس بے آب و گیاہ جنگل میں خدائے واحد کا نام بلند کیا جاتا ہے.چنانچہ لاکھو ںآدمی حج کے موقعہ پر اس وادی غیر ذی زرع میں جمع ہوتے ہیں.اوران میں سے ہر شخص بلند آواز سے کہتاہے کہ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ
لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ.یعنی اے میرے خدامیں حاضر ہوں.جس طرح کہ ابراہیمؑ نے کہا تھا کہ میں حاضر ہوں.تیراکوئی شریک نہیں.تیرے سواکوئی معبود نہیں.میں تیری توحید کو پھیلانے کے لئے حاضر ہواہوں.اب اس واقعہ پر غورکرو اور سوچو کہ کیا بائیبل میں بیا ن کیاہواواقعہ قرآن کریم کے بیان کردہ واقعہ سے کوئی بھی مناسبت رکھتاہے.بائیبل کاحکم تو ایک وحشیانہ اور ظالمانہ حکم معلوم ہوتاہے جس میں کوئی حکمت نہیں تھی.اسحاق ؑ کے گلے پر چھری پھیرنے سے دنیا کو کیافائدہ ہوسکتاتھا یا خود اسحاق ؑ کوکیافائد ہ ہوسکتاتھا.مگراسمٰعیل کومکہ میں چھوڑنے سے اسمٰعیلؑ کوبھی فائدہ ہوااوردنیاکوبھی فائدہ ہوا.اسمٰعیلؑ توحید سکھانے کاایک بہت بڑااستاد بن گیا اوردنیا اس کے ذریعہ خدائے واحد کی عبادت کرنے میں کامیاب ہوگئی.مکہ کو دنیا کے نقشہ سے الگ کردو توساری دنیا میں توحید کا کوئی مرکز باقی نہیں رہتا.اوراسمٰعیلؑ کی قربانی کوحذف کردو تو خدا تعالیٰ کے لئے زندگیاں وقف کرنے والا ولولہ پیداکرنے کی کوئی صورت دنیا میں باقی نہیں رہتی.پس قرآن کریم ہرقسم کے گردوغبار کوجو مرورِ زمانہ کی وجہ سے بائیبل کے واقعات پر چھاگیا تھا صاف کرکے سچے اوردرست واقعات دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اوراس بات کا ثبوت پیش کرتاہے کہ وَ مَا مِنْ غَآىِٕبَةٍ فِي السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍیعنی آسمان اورزمین کی ہر مخفی سے مخفی بات خدا تعالیٰ کے علم میں محفوظ ہے.پھرقرآن کریم صرف انہی حقائق پر روشنی نہیں ڈالتاجن میں مسلمانوں اوربنی اسرائیل کا باہم اختلاف ہے بلکہ و ہ یہود اور نصاریٰ کے آپس کے اختلافات کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی دنیا کے سامنے صحیح حقیقت کو پوری طرح واضح کرتاہے.مثلاً پیدائش مسیح ؑ کے متعلق ہی تمام یہود اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت مسیح ؑ کی ولادت نعوذ باللہ ناجائز تھی.چنانچہ ان میں سے بعض تویہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑ یوسف نجار کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیداہوئے (انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا جلد ۵ص ۱۰۲ نیز دیکھو جیوش لائف آف کرائسٹ ص ۱۳).اوربعض کہتے ہیں کہ پنتھیرا نامی ایک روسی سپاہی تھاجس کے حضرت مریم ک ساتھ ناجائز تعلقات تھے اورانہی تعلقات کے نتیجہ میں حضرت مسیح ؑ کی ولادت ہوئی (جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد ۷ ص ۱۷۰ کالم اول).اس کے مقابلہ میں انجیل یہ بیان کرتی ہے کہ ’’ یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یو سف کے ساتھ ہوگئی توان کے اکٹھے ہونے سے پہلے و ہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی.‘‘ (متی باب ۱آیت ۱۸) غرض یہود اورنصاریٰ میں ولادتِ مسیح کے مسئلہ پر ہی عظیم الشان اختلاف پایا جاتاہے.یہودآپ کی ولادت
کو ناجائز قراردیتے ہیں اورعیسائی اس ولادت کوروح القدس کا کرشمہ قرار دیتے ہیں.قرآن کریم یہود اور نصاریٰ کے اس باہمی نزاع کافیصلہ کرتے ہوئے نہایت واضح الفاظ میں اعلان فرماتا ہے کہ وَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ( الانبیاء :۹۲) یعنی حضرت مریم نے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھاتھا.پس ان پر بدکاری کاالزام لگاناایک شرمناک افتراء ہے.ان کوجوحمل ہواتھا وہ درحقیقت ایک پاک روح تھی جو ہم نے خود اس کے اندر نفخ کی تھی.اسی طرح حضرت مسیح ؑ کے دعویٰ مسیحیت کو لو.تویہودی تو سرے سے ہی آپ کی رسالت کے منکر ہیں.اور عیسائی آپ کو خدا تعالیٰ کارسول تسلیم کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کابیٹاتصورکرتے ہیں.اسلام ان دونوں نظریات کے خلاف ایک صحیح اور درست عقیدہ دنیاکے سامنے پیش کرتاہے اوربتاتاہے کہ یہود بھی غلطی پر ہیں جوحضرت مسیح ؑ کے کلّی طورپر منکرہیں.اورعیسائی بھی غلطی پر ہیں جو ان کو خداتسلیم کرتے ہیں.سچی بات صرف یہی ہے کہ حضرت مسیح ؑ بنی اسرائیل کی طرف صرف رسول بناکربھیجے گئے تھے (آل عمران آیت ۵۰).اسی طرح یہودی حضرت مسیح ؑ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ مصلوب ہوکر لعنتی بنے (استثناء باب ۲۳ آیت ۲۱).اور عیسائی یہ کہتے ہیں کہ وہ موت کے بعد گناہگاروں کاکفار ہ اداکرنے کے لئے صرف تین دن جہنم میں رہے اور پھر دوبارہ زند ہ ہوکر خدا تعالیٰ کے داہنے ہاتھ جابیٹھے(پطرس کے نام خط نمبر ۱ باب ۳ آیت ۱۸).لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.حضرت مسیح ؑ صلیب پر فوت نہیں ہوئے بلکہ صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد ان کے بے ہوش ہوجانے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ خیال کرلیا کہ وہ صلیب پر فوت ہوگئے ہیں ورنہ وہ صلیب پر سے زند ہ اترآئے تھے(النساء: ۱۵۸).اورپھر صلیب سے نجا ت پانے کے بعد وہ آسمان پر نہیں اٹھائے گئے بلکہ اللہ تعالیٰ انہیں کشمیر میں لایا (المومنون: ۵۱).اورانہوں نے ایک لمبے عر صہ تک اشاعتِ دین کے فرائض سرانجام دیئے.غرض قرآن کریم یہود اور نصاریٰ کے باہمی اختلافات کوبھی دور کرتاہے اور ان امورپر بھی روشنی ڈالتا ہے جو مسلمانوں اور بنی اسرائیل میں مابہ النزاع ہیں اوراس طرح بنی نوع انسان کے لئے ہدایت اوررحمت کاسامان مہیاکرتاہے.پھر فرماتا ہے اِنَّ رَبَّكَ يَقْضِيْ بَيْنَهُمْ بِحُكْمِهٖ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ.اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے صرف بنی اسرائیل کے باہمی اختلافات کو ہی دور نہیںکرے گا بلکہ وہ چونکہ غالب اور علم والا ہے.اس لئے وہ ان کی مختلف قوموں اورفرقوں کے درمیان فیصلہ بھی کردے گا اورسچوں کو غالب او رجھوٹوں کو مغلوب کردے گا.چنانچہ اس آیت
کے نزول کے بعد عیسائی ہرجگہ غالب آگئے اوریہودی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے منکر تھے ہرجگہ مغلوب ہوگئے مگرعیسائیت کاغلبہ چونکہ اسلام کے لئے ایک مستقل خطرہ کا باعث تھااورمسلمانوں پر اشاعت اسلام کی بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہونے والی تھیں اس لئے عیسائیت کے غلبہ کی خبر دیتے ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی کہ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِيْنِ.تمہاراکام یہ ہے کہ تم اللہ پر توکل کرتے ہوئے.اپنے دین کی اشاعت کرتے چلے جائو کیونکہ گوعیسائیت اوریہودیت کے باہمی نزاع میں عیسائیت حق پر ہے مگرحقِ مبین صرف اسلام کے پاس ہی ہے اس لئے تمہار اکام یہ ہے کہ تم اسلام کی اشاعت کے لئے ہرقسم کی تدابیر کام میں لائو اوراللہ تعالیٰ پر یقین رکھو.کہ وہ تمہیں ضرور کامیاب کرے گا.اوراسلام کاجھنڈادنیا کے تمام جھنڈو ں سے اونچا لہرائے گا.مگر افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں نے توکل کانہایت غلط مفہوم سمجھ لیا ہے.وہ خیال کرتے ہیں کہ توکل کامفہوم یہ ہے کہ انسان کسی تدبیر سے کام نہ لے اوراپنے تمام کاموں کی سرانجام دہی خدا تعالیٰ پر چھوڑ دے.لیکن تعجب ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں تو توکل ظاہر کرتے ہیں.لیکن دنیا کے معاملہ میں کبھی توکل نہیں کرتے.کبھی کسی کاعزیز بیمار ہوجائے توتم یہ نہیں دیکھو گے کہ وہ خاموش ہوکرگھر میں بیٹھ رہے اورکہے کہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتاہوں وہ خود اسے اچھا کردے گا.بلکہ وہ فوراً دوائی لینے کے لئے ہسپتال کی طرف دوڑے گا.وہ کبھی نہیں کہے گاکہ بھلا ملیریامیراکیابگاڑ سکتاہے یاہیضہ مجھے کیا کرسکتاہے یاطاعون مجھے کیانقصان پہنچاسکتی ہے و ہ فوراً علاج کرے گا.اورڈاکٹروں کی فیسوں پرروپیہ بھی خرچ کرے گا.اوراس معاملہ میں توکل سے کام لینے کی بجائے تدبیر سے کام لے گا اسی طرح کبھی تم نہیں دیکھو گے کہ کوئی لڑکاسکول میں داخل ہوتونہ کتابیں خریدے نہ پڑھائی کرے اور یہی کہتارہے کہ اللہ مجھے پاس کردے گا.میں اس پر سچے طور پر توکل کرتاہوں.یاکسی کو اپنے لئے مکان کی ضرورت ہوتو نہ اینٹیں مہیاکرے.نہ چونا خریدے.نہ گارابنوائے نہ مزدور اورمستر ی بلوائے اورکہے کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں یہ تردّدکروں.اللہ تعالیٰ خود مکان بنادے گا.یامثلاً کھانے کی ضرورت ہوتو بیوی کھاناتیار نہ کرے اورشام کو جب خاوند گھر آئے اورپوچھے کہ کھاناتیار ہے تووہ کہے کہ مجھے کھانا تیار کرنے کی کیاضرورت ہے.اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہرجاندار کو روزی پہنچاناہے وہ خود ہمیں کھاناپہنچائے گا.اب کیاتم سمجھتے ہوکہ خاوند اس کی بات سن کریہ کہے گاکہ میری بیوی نے بڑاتوکل کیا.وہ یقیناًاس پر ناراضگی کااظہار کرے گا.بلکہ ایک غیر تعلیم یافتہ گنوارتو کچھ تعجب نہیں کہ دوچار سونٹیاں بھی رسید کردے.مگراس قسم کاتوکل لوگوں کودین کے معاملہ میں فوراً یادآجاتاہے.ہم اپنی روٹی کے لئے توکل نہیں کرتے.ہم اپنے مکان کے لئے توکل نہیں کرتے.ہم اپنی ملازمت کے لئے توکل نہیں کرتے.ہم اپنے دوسرے
کاموں کے لئے توکل نہیں کرتے بلکہ تمام و ہ تدابیر اختیار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اس عالم اسباب میں مقر رفرمائی ہیں.باوجودا س کے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ موت اورحیات میرے اختیار میں ہے.ذلّت اور عزت میرے ہاتھ میں ہے.رزق کی فراخی اور تنگی میرے ہاتھ میں ہے.ہم موت سے بچنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.ہم حیات کے پیداکرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.ہم ذلّت سے محفوظ رہنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.ہم عزت اور ترقی کے حصول کے لئے بھی کوشش کرتے ہیں.ہم رز ق بڑھانے اور آمدنی کووسیع کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں.گویاہم وہ ساری تدابیر اختیار کرتے ہیں جن تدابیر کااختیار کرنا دنیوی کاموں کی سرانجام دہی کے لئے ضروری ہے.مگرجب دین کا سوال آجاتاہے ہم نہایت بے تکلفی سے کہہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ آپ کرے گا.ہمیں اس میں فکر کرنے کی کیاضرورت ہے.میں ایک دفعہ لاہورسے آرہاتھا.یہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے زمانے کاواقعہ ہے.جس کمرہ میں میں سوار ہوااسی کمرہ میںایک مشہور پیر صاحب بھی سوار ہوگئے.انہیں مجھ سے کچھ کام تھا.اوروہ مجھ سے ایک معاملہ میں مدد لیناچاہتے تھے.دوران گفتگومیں انہوں نے مجھے ممنون کرنے کے لئے ایک رومال نکالا جس میں کچھ میوہ بندھاہواتھا.اوررومال کھول کر میرے سامنے بچھادیا اورکہا کہ کھائیے.وہ مجھ سے کسی احمدی کے پاس ایک معاملہ میں سفارش کراناچاہتے تھے.مگراس سے پہلے وہ پیر صاحب یہ فتویٰ بھی شائع کرچکے تھے کہ احمدیوں سے ملنا جلنا اورگفتگوکرنا بالکل حرام ہے اوراگر کوئی ان سے ملے جلے یاگفتگوکرے یاان کے جلسہ میں شریک ہو تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوجاتی ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ایک دفعہ جب سیالکوٹ تشریف لے گئے اوروہاں ایک جلسہ ہواجس میں آپ نے تقریر فرمائی توراستہ میں بڑے بڑے مولوی ان پیر صاحب کے فتویٰ کے اشتہارات اٹھائے ہوئے لوگوں کوکہہ رہے تھے کہ جو مرزا صاحب کے لیکچر میں جائے گااس کی بیو ی کو طلاق ہوجائے گی.جو احمدیوں سے ملے گا اس کی بیوی کوبھی طلاق ہوجائے گی.اورجوان کے سلام کا جواب دے گا اس کی بیوی کو بھی طلاق ہوجائے گی مجھے یاد ہے جلسہ میں جب لوگ جاتے تو باہر بڑے بڑے مولوی کھڑے ہوکر لوگوں کوروکتے کہ اندرمت جانا.ورنہ تمہارانکاح فسخ ہوجائے گا.اس پر کئی جو ش میں آجاتے اور کہتے نکاح کاکیا ہے نکاح تو سواروپیہ دیکر پھر بھی پڑھا لیاجائے گا.مرزا صاحب نے روز روز نہیں آنا.اس لئے ان کا لیکچرضرور سنیں گے.اوریہ کہہ کر وہ جلسہ میں شامل ہوجاتے.توانہی پیرصاحب نے جن کایہ فتویٰ تھا کہ احمدیوں سے ملنے اور باتیں کرنے سے نکاح ٹو ٹ جاتاہے.باوجود یہ معلوم ہونے کے کہ میں بانئے سلسلہ احمدیہ کالڑکا ہو ںرومال بچھا کر
میرے سامنے میوہ رکھ دیا اور کہا کھائیے.مجھے اس فتویٰ کی وجہ سے یوں بھی انقباض تھا.مگراللہ تعالیٰ نے اس کاسامان بھی پیدا کیاہواتھا.اوروہ یہ کہ اس روز مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی.میوہ میں کشمش بھی تھی جس کاکھانا نزلہ کی حالت میں نزلہ کو اورزیادہ بڑھادیتاہے.اس لئے میں نے معذرت کی کہ آپ مجھے معاف رکھیں.مجھے نزلہ کی شکایت ہے میں میوہ نہیں کھاسکتا.پیرصاحب فرمانے لگے کہ نہیں کچھ نہیں ہوتا.آپ کھائیں توسہی.میں نے پھر انکار کیا کہ مجھے اس حالت میں ذراسی بدپرہیزی سے بھی بہت تکلیف ہوجاتی ہے.اس پر وہ کہنے لگے.یہ توباتیں ہی ہیں.کرناتوسب اللہ نے ہوتاہے اور وہی ہوتاہے جو اللہ کرتاہے.میں نے کہا.پیرصاحب آپ نے یہ بات بہت بعد میں بتائی.اگرآپ لاہو ر میں ہی بتادیتے توآپ اور میں ایک نقصان سے بچ جاتے.کہنے لگے وہ کیا.میں نے کہا غلطی یہ ہوئی کہ آپ نے بھی ریل کاٹکٹ لے لیا اور میں نے بھی (وہ امرتسر آرہے تھے اورمیں بٹالہ آرہاتھا) اگراس مسئلہ کاپہلے علم ہوتا تونہ ہم ٹانگے پر کرایہ خرچ کرتے نہ ریل کاٹکٹ مول لیتے.جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہنچاناہی تھا تووہ آپ کو امرتسر پہنچادیتا اورمجھے قادیان پہنچادیتا.ہمیں ٹکٹ پر روپیہ خرچ کرنے کی کیاضرورت تھی.وہ کہنے لگے تدبیر بھی توہوتی ہے.میں نے کہا.بس اسی اسباب کی رعایت کی وجہ سے مجھے بھی میوہ کھانے میں عذر تھا.توجب انسان کا ذاتی سوال ہوتو اس وقت اسےہزاروں تدبیریں یاد آجاتی ہیں مگرجب خدا تعالیٰ کے دین کامعاملہ ہو تو انسان نہایت بے تکلفی سے کہہ دیتاہے کہ مجھے تدبیر سے کام لینے کی کیاضرورت ہے اللہ خود کرے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین کا کام اللہ تعالیٰ نے ہی کرناہے اورہمارے کام بھی دراصل وہی کرتاہے.ہم ہزاروں کام جوکرتے اور کامیاب ہوجاتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کاہی نتیجہ ہے.ہماری کسی کوشش کاخالصۃً اس میں دخل نہیں ورنہ ہمیں ہرکام میں کامیابی ہو.لیکن کامیابی ہربات میں نہیںہوتی کسی بات میں ہوجاتی ہے او ر کسی میں نہیںہوتی.ہزاروں لڑکے محنت کرکے پاس ہوجاتے ہیں اور ہزاروں لڑکے محنت کرنے کے باوجود فیل ہوجاتے ہیں.ہزاروں کوشش کرتے ہیں اورانہیں عزت مل جاتی ہے او رہزاروں عزت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ پہلے سے بھی زیادہ ذلیل ہوجاتے ہیں.توتمام کام اللہ تعالیٰ ہی کرتاہے.مگرا س میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جہاں تدبیر کا تعلق ہو وہاں اگر مومن تدبیر نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزانازل ہوتی ہےاوروہ اس کی گرفت اور عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک نہایت واضح مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی پیش کی ہے اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے یہ وعدہ کیاتھا کہ کنعان کی سرزمین کاانہیں وارث بنادیاجائے گا.جیسے ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے کہ وہ ہمیں دنیا کا حکمران اور بادشاہ بنائے گا.مگرا س کاعلاج اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاکہ جائواور جنگ
کرو.اس جنگ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں فتح دے دے گا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اپنی قوم کوخدا تعالیٰ کا یہ حکم سنایاتوانہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کاہم سے یہ وعدہ ہے کہ وہ ہمیں کنعان کی سرزمین دے گا وہ اپنے وعدہ کو آپ پوراکرے.ہم اپنی جانوں کو کیوں ہلاکت میں ڈالیں.موسیٰ ؑ اور اس کا خدادونوں جاکر دشمنوں سے لڑیں (المائدۃ: ۲۲ تا ۲۷) اورجب فتح ہوجائے تو ہمیںآکر بتادیاجائے ہم کنعان کی سرزمین میں داخل ہوجائیںگے.پھر جانتے ہو اس کانتیجہ کیا ہوا.باوجود وعدہ کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے وہ زمین ان پر چالیس سال تک حرام کردی اوران پر ایسی ذلّت نازل کی کہ وہ تمام لوگ جنہوں نے یہ اعتراض کیا تھا ایک ایک کرکے جنگلوں میں بھٹک کرمر گئے.اورپھر ان کی نسلوں کے ذریعہ یہ الٰہی وعدہ پوراہوا.توجہاں تدبیر کاتعلق ہووہاں باوجود وعدہ کے.باوجود الٰہی فیصلہ کے.باوجودالٰہی مشیت اور ارادہ کے اس وقت تک خدا تعالیٰ کی نصرت نازل نہیں ہوتی.جب تک تمام کی تمام قوم قربانی کرنےکے لئے تیار نہیں ہوجاتی.اور اگر کوئی قوم قربانی کے لئے تیار نہ ہو توجھوٹاتوکل اسے کامیاب نہیں کرسکتا.حدیثوں میں آتاہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ یارسول اللہ!کیا میں پہلے اپنے اونٹ کاگھٹنا باندھوں اور پھر توکل کروں یااسے آزاد رہنے دوں اورتوکل کروں.آپ نے فرمایا اِعْقِلْھَا وَتَوَکَّلْ (ترمذی جلد ۲ابواب صفۃ القیامۃ).پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھو اور پھر توکل کرو.یعنی پہلے عمل کرو اور پھر خدا تعالیٰ پر نتیجہ چھوڑو.یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم رات دن کام میں مشغول رہتے تھے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس قدر عبادت کرتے تھے کہ کھڑے کھڑ ے آپ کے پائو ںمتورم ہوجاتے.ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا.یارسول اللہ آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں.کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف نہیں کردیئے.آپؐ نے فرمایا.کیا میں اللہ تعالیٰ کاشکر گذار بند ہ نہ بنوں (مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ باب التحریض علی قیام اللیل).اگر توکل کے یہ معنے ہوتے کہ انسان ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائے توسب سے زیادہ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عمل ہوناچاہیے تھا کیونکہ آپؐ سب سے بڑھ کر متوکل تھے.مگرآپ سب سے زیادہ مشغول رہتے تھے.پھر ان معنوں میں سب سے زیادہ توکل تو جنت میں ہو سکتا ہے.مگرقرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ وہاں بھی مشغولیت ہو گی جیسے فرمایا فِیْ شُغُلٍ فٰکِھُوْنَ (سورئہ یٰسٓ آیت ۵۶).اگرتوکل کا یہی مفہوم ہوتا توجب وہاں ہرچیز خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنی ہے تومومنوںکوتوجنت میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاناچاہیے تھا مگروہاں کے لئے بھی شغل کونکرہ کے طور پر استعمال کرکے بتایاکہ وہاں بڑاعظیم الشان کام
کرناہوگا.فرق صرف یہ ہے کہ وہاں انسان کام سے تنگ نہیں آجائے گا اورتھکے گانہیں بلکہ خوشی محسوس کرے گا اورکام کرنے کے باوجود اس کے اندر بشاشت قائم رہے گی.غرض آج کل لوگوں نے توکل کانہایت غلط مفہوم سمجھ رکھا ہے.جوکام ان کی اپنی مرضی کے مطابق ہوتاہے اسے تووہ کرلیتے ہیں.ا ورجوکام نہیں کرناچاہتے اس کے متعلق کہہ دیتے ہیں کہ ہم توکل سے کام لے رہے ہیں.اگرتوکل کے یہ معنے ہوتے کہ عمل ترک کردیاجائے.توپھر نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی.صرف زبان سے ایمان کااظہار کرناہی انسان کو نجات دے دیتا.پس توکل کاصحیح مفہوم یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ سامانوں سے پوری طر ح کام لے اور پھر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے او راس سے کہے کہ اے خدا! جوسامان میرے اختیار میں تھے و ہ تو میں نے سب استعمال کرلئے ہیں اب کوئی کمی رہ گئی ہے توتُوخو د اپنے فضل سے اسے پورافرما اورمیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کام کے نیک نتائج پیدافرما.جب وہ ایسا کرے گاتب اسے اللہ تعالیٰ کی نصرت حاصل ہوگی اوروہ اپنے ہر کام میں کامیابی حاصل کرے گا.لیکن جو شخص کام نہیں کرتا اور پھر اپنے آپ کو متوکل کہتاہے وہ توکل کے ساتھ تمسخر کرتااور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کامورد بنتاہے.اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا تُو (ہرگز) مُردوں کونہیں سنا سکتا.اور نہ بہروں کو ہی (اپنی )آواز سناسکتاہے.خصوصاًجبکہ وہ پیٹھ پھیر کرچلے وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۰۰۸۱وَ مَاۤ اَنْتَ بِهٰدِي الْعُمْيِ عَنْ ضَلٰلَتِهِمْ١ؕ جاتے ہیں.اورتُو اندھوں کو بھی ان کی گمراہی سے بچا کر ہدایت نہیں دے سکتا.تُوتوصرف انہی کوسناتاہے اِنْ تُسْمِعُ اِلَّا مَنْ يُّؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا فَهُمْ مُّسْلِمُوْنَ۰۰۸۲ جوہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں.اوروہ (عملاًبھی)فرمانبردار ہوتے ہیں.تفسیر.چونکہ اوپر یہ کہاگیاتھا کہ اِنَّكَ عَلَى الْحَقِّ الْمُبِيْنِ تُوایک واضح اور روشن سچائی پر قائم ہے اس
لئے اب اللہ تعالیٰ یہ بتاتاہے کہ واضح سے واضح سچائی کاانکار کرنےوالے بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں.اس لئے محض کسی ہدایت کاکامل ہونااس بات کی دلیل نہیں ہوتاکہ اسے سب لوگ مان لیں گے.چنانچہ فرماتا ہے اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی جو مُردہ دل لوگ ہوں اوراللہ تعالیٰ کی خشیت اوراس کی محبت کے جذبات سے بالکل عاری ہوں تم ان کو خدا تعالیٰ کی باتیں نہیں منواسکتےوَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ اورنہ تم بہروں کواپنی آواز سناسکتے ہو.بالخصوص ایسی حالت میں جبکہ وہ پیٹھ پھیر کرچلے جائیں یعنی آواز تو وہ پہلے ہی نہیں سن سکتے.پیٹھ پھیر کر چلے جانے کی وجہ سے وہ دوسروں کے اشارے دیکھنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں اور ان کی ہدایت کاکوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا.اسی طرح جو اندھا ہو اور بینا کے پیچھے چلنے کے لئے تیار نہ ہو اس کو بھی اس کی گمراہی سے کوئی نہیں بچا سکتا صرف اسی کو سچائی سنائی اور سمجھا ئی جا سکتی ہے جو ا للہ تعالیٰ کے نشانات پر ایمان رکھتے ہوں اور ایسے ہی لوگ آخر میں مسلمان ہوتے ہیں.وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ اورجب ان کی تباہی کی پیشگوئی پور ی ہوجائے گی.توہم ان کے لئے زمین سے ایک کیڑانکالیں گے جو ان الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا لَا يُوْقِنُوْنَؒ۰۰۸۳ کو کاٹے گا اس وجہ سے کہ لوگ ہمارے نشانات پر یقین نہیں رکھتے تھے.حلّ لُغَات.تُکَلِّمُھُمْ.تُکَلِّمُھُمْ کَلَّمَ سے مضارع واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے اور کَلَّمَہٗ کے معنے ہیں حَدَّثَہٗ.بات کی.وَجَرَّحَہٗ اس کو زخمی کیا.(اقرب) پس تُکَلِّمُھُمْ کے معنے ہوں گے ان کو زخمی کرے گا.تفسیر.اس میں بتایا کہ جب ان روحانی مردوں اور بہروں اور اندھوں کے خلاف خدا تعالیٰ کا فتویٰ جاری ہوجائے گا اور آسمان سے ان کی سزا کا فیصلہ نافذ ہو جائے گا.تو اللہ تعالیٰ زمین میںسے ایک کیڑا نکالے گا.جو ان کو کاٹے گا.اور یہ عذاب ان پر اس لئے آئے گا کہ وہ لوگ ہمارے نشانات کی سچائی پر یقین نہیں رکھتے تھے.اس آیت میں دَآبَّۃُ الْاَرْضَ کے خروج کی جو پیشگوئی کی گئی ہے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں وضاحتًا فرمایا ہے کہ اس کا خروج آخری زمانہ میں ہوگا جو مسیح اور مہدی کا زمانہ ہے (تفسیر ابن کثیر برحاشیہ فتح البیان جلد ۷صفحہ ۲۳۱).اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جب آنے والے مسیح کی
مخالفت بڑھ جائے گی تو فیُرْسِلُ اللّٰہُ عَلَیْھِمُ النَّغَفَ فِی رِقَابِھِمْ (مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال وصفتہٗ).اللہ تعالیٰ مخالفین کی گردنوں میںایک پھوڑا پیدا کرے گا جس سے ان کی ہلاکت واقعہ ہوگی.ان دونوں حدیثوں کو ملا کر دیکھا جائے توا ن سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ دابۃ الارض جس کے خروج کی خبر دی گئی ہے وہ درحقیقت طاعون کا ہی مرض ہے جو حضرت بانی سلسلہ کے زمانہ میں پھیلا اور جس سے لاکھوں لوگ لقمئہ اجل بن گئے.چونکہ یہ مرض ایک کیڑے سے پیدا ہوتا ہے جو زمین سے انسا ن کے جسم میں داخل ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی گردن یا بُنِ ران میں ایک خطرناک قسم کا پھوڑا بھی نکلتا ہے جو مہلک ہوتا ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دابۃ الارض بھی قراردیا.اور نغف کی بیماری بھی اس کا نا م رکھا.اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دابۃ الارض کا خروج آخری زمانہ کی علامات میں سے قراردیا ہے اس لئے لازماًوَاِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ سے وہی لوگ مراد ہیں جو مسیح موعود کی تکذیب کرنے والے ہوںگے.اور جو اپنی روحانی نابینائی کی وجہ سے نہ آسمانی نشانات کو دیکھیں گے.نہ روحانی شنوائی کے فقدان کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے کلام کو سنیں گے.اور نہ روحانی حیات سے کلیۃً محروم ہونے کی وجہ سے نیکی کاکو ئی فعل ان سے سرزد ہو گا.ایسے لوگ اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی گرفت میں آجائیں گے.اور ایک زمینی کیڑا ان کی ہلاکت کے لئے ان پر مسلط کیا جائے گا.چونکہ وہ بھی ایک رنگ میں زمینی کیڑے بن چکے ہوںگے.اس لئے خدا تعالیٰ بھی ان کی سزا کے لئے ایک زمینی کیڑا ہی ان پر مسلط کرےگا اور انہیں آیاتِ الہٰیہ پر ایمان نہ لانے کی سزا دے گا.غرض یہ ایک بڑی بھاری پیشگوئی ہے جو بانی سلسلہ احمدیہؐ کے زمانہ میں پوری ہوئی.اور جس کی طرف خود بانی سلسلہ احمدؐیہ پیشگوئیاں بھی بڑی وضاحت سے اشارہ کررہی تھیں چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق رمضان کی تیرہ تاریخ کو چاند گرہن اور اٹھائیس تاریخ کو سورج گرہن ہوا تو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کو بتایاگیا کہ اگر لوگوں نے ا س نشان سے فائدہ نہ اٹھایا اورتجھے قبول نہ کیا توان پرایک شدید عذاب نازل ہوگا.چنانچہ اس بار ہ میں آپ نے اپنی کتاب ’’نور الحق ‘‘ میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:.’’وَحَاصِلُ الْکَلَامِ اَنَّ الْخَسُوْف وَالْکَسُوْفَ اٰیَتَانِ مُخَوِّفَتَانِ وَاِذَااجْتَمعَافَھُوَ تَھْدِیْدٌ شَدِیْدٌ مِنَ الرَّحْمٰنِ.وَاِشَارَۃٌ اِلیٰ اَنَّ الْعَذَابَ قَدْتَقَرَّرَ وَاُکِّدَ مِنَ اللّٰہِ لِاَھْلِ الْعُدْوَانِ.‘‘ (نورالحق روحانی خزائن جلد ۸ حصہ دوم ص۲۳۲) یعنی کسوف و خسوف خدا تعالیٰ کی طر ف سے دوڈرانے والے نشان ہیں.اورجب یہ اس طرح جمع ہوجائیں
جس طرح اب جمع ہوئے ہیں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہوتی ہے اوراس بات کی طرف اشار ہ ہوتاہے کہ ان لو گوں کے لئے جو سرکشی سے باز نہ آئیں عذاب مقرر ہوچکا ہے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو پوراکرنے کے لئے آپ کے دل میں تحریک کی کہ آپ ایک عام وباء کے لئے دعاکریں چنانچہ آپ اپنے ایک عربی قصیدہ میں جو ۱۸۹۴ء میں شائع ہوافرماتے ہیں ؎ فَلَمَّا طَغَی الْفِسْقُ الْمُبِیْدُ بِسَیْلِہٖ تَمَنَّیْتُ لَوْ کَانَ الْوَبَآئُ الْمُتَبِّرٗ فَاِنَّ ھَلَاکَ النَّاسِ عِنْدَ اُوْلِی النُّھٰی اَحَبُّ وَ اَوْلیٰ مِنْ ضَلَالٍ یُّخَسِّرٗ یعنی جب ہلاک کردینے والا فسق ایک طوفان کی طرح بڑھ گیاتو میں نے خدا سے چاہا کہ کاش ایک وباء پڑے جولوگوں کو ہلاک کردے.کیونکہ عقلمندوں کے نزدیک لوگوں کامرجانا اس سے زیادہ پسندیدہ اورعمدہ سمجھاجاتاہے کہ وہ تباہ کردینے والی گمراہی میں مبتلاہوجائیں.اس کے بعد ۱۸۹۷ء میں آپ نے اپنی کتا ب ’’سراج منیر‘‘ میں لکھا کہ ’’ اس عاجز کوالہام ہواہے یَامَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا یعنی اے خلقت کے لئے مسیح!ہماری متعدی بیماریوں کے لئے توجہ کر.‘‘ پھر فرماتے ہیں:.’’ دیکھو یہ کس زمانے کی خبریں ہیں اورنہ معلوم کس وقت پور ی ہوں گی.ایک وہ وقت ہے جو دعاسے مرتے ہیں اوردوسراوہ وقت آتاہے کہ دعاسے زندہ ہوں گے.‘‘ (سراج منیرروحانی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۷۰،۷۱) جس وقت یہ آخر ی پیشگوئی شائع ہوئی اس وقت طاعون صرف بمبئی میں پڑی تھی اورایک سال رہ کر ہٹ گئی تھی.اورلو گ خوش تھے کہ ڈاکٹروں نے اس کے پھیلنے کو روک دیا.مگرخداتعالی کی خبریں اس کے خلاف تھیں چنانچہ جب لو گ اس مرض کے حملہ کو ایک عارضی حملہ خیال کررہے تھے اورپنجاب میں صرف ایک دوگائوں میں ہی یہ مرض نہایت قلیل طور پر پائی جاتی تھی باقی سب علاقہ محفوظ تھا او ربمبئی کی طاعون بھی بظاہر دبی ہوئی معلوم ہوتی تھی اس وقت آپ نے ایک اور اعلان کیااوراس میں بتایا کہ :
’’ایک ضروری امر ہے جس کے لکھنے پر میرے جوشِ ہمدر دی نے مجھے آمادہ کیاہے.اورمیں خوب جانتاہو ں کہ جو لوگ روحانیت سے بے بہرہ ہیں اس کوہنسی اور ٹھٹھے سے دیکھیں گے مگر میرافرض ہے کہ میں اس کو نوع انسان کی ہمدردی کے لئے ظاہر کروں.اور وہ یہ ہے کہ آج جو ۶؍فروری ۱۸۹۸ ء روز یک شنبہ ہے میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ کے ملائک پنجاب کے مختلف مقامات میں سیاہ رنگ کے پودے لگارہے ہیں.اوروہ درخت نہایت بدشکل اور سیاہ رنگ اورخوفناک اورچھوٹے قد کے ہیں.میں نے بعض لگانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیسے درخت ہیں تو انہوں نے جواب دیاکہ یہ طاعون کے درخت ہیں جو عنقریب ملک میں پھیلنے والی ہے.میرے پر یہ امر مشتبہ رہاکہ اس نے یہ کہا کہ آئندہ جاڑے میں یہ مرض پھیلے گا یایہ کہ اس کے بعدکے جاڑے میں پھیلے گا.لیکن نہایت خوفناک نمونہ تھا جومیں نے دیکھا.اورمجھے اس سے پہلے طاعون کے بارہ میں الہام بھی ہوااوروہ یہ ہے.اِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.اِنَّہٗ اٰوَی الْقَرْیَۃَ.یعنی جب تک دلوں کی وبائے معصیت دور نہ ہوگی تب تک ظاہری وباء بھی دور نہیں ہوگی.‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۰،۳۶۱) اس اشتہار کے آخر میں آپ نے اپنے چند فارسی اشعار بھی لکھے جویہ ہیں کہ ؎ گرآں چیزے کہ مے بینم عزیزاں نیز دیدندے ز دنیا توبہ کردندے بچشمِ زار وخوں بارے خورِ تاباں سیہ گشت است از بدکاری مردم زمیں طاعوں ہمے آرد پئے تخویف وانذارے بہ تشویش ِ قیامت ماند ایں تشویش گربینی علاجے نیست بہرِ دفع آں جز حسن کردارے من از ہمدردی ات گفتم توخود ہم فکر کن بارے خرد از بہرایں روز است اے داناو ہوشیارے (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۱۴ صفحہ ۳۶۳) یعنی اگروہ چیز جسے میں دیکھ رہاہوں اَور دوست بھی دیکھتے تو وہ دنیا سے روروکرتوبہ کرتے.لوگوں کی
بدکاریوں کی وجہ سے چمکتاہواسورج بھی سیاہ ہوگیاہے.اورزمین بھی ڈرانے اور دھمکانے کی خاطر طاعون پیداکررہی ہے.اگر تم غور سے دیکھو تو یہ مصیبت قیامت کی مصیبت کی طرح ہے اور اس کودورکرنے کاعلاج سوائے نیک اعمال کے اَور کچھ نہیں.میں نے صرف ہمدردی کی وجہ سے یہ بات کہی ہے.اب اے دانا اور سمجھدار انسان توآپ بھی غور کرلے.کیونکہ عقل اسی دن کے لئے ہواکرتی ہے.ان پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ آپ نے ۱۸۹۴ ء سے پہلے ایک خطر ناک عذاب اور پھر کھلے لفظوں میں وباء کی پیشگوئی کی.اورپھر جبکہ ہندوستان میں ابھی طاعون نمودار ہی ہوئی تھی کہ آپ نے خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تباہی کی خبر دی اورآنے والی طاعون کو قیامت کا نمونہ قرار دیا.اورفرمایاکہ یہ طاعون اس وقت تک نہیں جائے گی جب تک کہ لوگ دلوں کی اصلاح نہیں کریں گے.اس کے بعد جوکچھ ہواالفاظ اسے ادانہیں کرسکتے.طاعون کی ابتداء گو بمبئی سے ہوئی تھی اورقیا س چاہتاتھا کہ وہیں اس کادور ہ سخت ہوتا.وہ تو پیچھے رہ گئی اورپنجاب میں طاعون نے اپنا ڈیرہ لگالیا.اوراس سختی سے اس نے حملہ کیا کہ بعض دفعہ ایک ایک ہفتہ میں تیس تیس ہزار آدمیوں کی موت ہوئی.اورایک ایک سال میں کئی کئی لاکھ آدمی مرگئے.سینکڑوں ڈاکٹر مقررکئے گئے اور بیسیوں قسم کے علاج نکالے گئے مگرکچھ فائدہ نہ ہوا.ہرسال طاعون مزید شدت او ر سختی کے ساتھ حملہ آورہوئی اورگورنمنٹ منہ دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اوربہت سے لوگوں کے دلوں نے محسوس کیا کہ یہ عذاب حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انکار کی وجہ سے آیا ہے.چنانچہ ہزاروں نہیں لاکھوں آدمیوں نے ا س قہری نشان کو دیکھ کر صداقت کو قبول کرلیا.اوراللہ تعالیٰ کے مامور پرایمان لائے.اوراس وقت تک طاعون کے زور میں کمی نہ ہوئی جب تک اللہ تعالیٰ نے اپنے مامور کو یہ نہ بتایاکہ ’’ طاعون توگئی مگر بخار رہ گیا ‘‘ )حاشیہ’’ تذکر ہ ‘‘ ایڈیشن دوم ص ۵۱۲تاریخ الہام ۲۸ ؍ اپریل ۱۹۰۴ء) اس کے بعد سے طاعون کازو رٹوٹنا شروع ہوگیا اور و ہ برابر کم ہوتی چلی گئی.یہ پیشگوئی ایسی واضح او رمومن و کافر سے اپنی صداقت کااقرا رکرانے والی ہے کہ اس کے بعد بھی اگر کو ئی شخص ضد کرتاہے تواس کی حالت نہایت قابل رحم ہے.جس کی آنکھیں ہو ںوہ دیکھ سکتاہے کہ (۱) طاعون کی خبر ایک لمباعرصہ پہلے دی گئی تھی.اور کوئی طبّی طریق ایساایجاد نہیں ہواجس سے اتنا لمباعر صہ پہلے وبائوں کاپتہ دیاجاسکے.(۲) طاعون کے نمودار ہونے پر یہ بتایاگیاکہ یہ عارضی دور ہ نہیں ہے.بلکہ سال بسال یہ بیماری حملہ کرتی چلی جائے
گی.(۳) یہ بھی قبل از وقت بتایاگیاکہ یہ بیماری پنجاب میں نہایت سخت ہوگی.چنانچہ بعد کے واقعات نے بتادیاکہ پنجاب میں ہی یہ بیماری سب سے زیادہ پھیلی اوریہیں سب سے زیادہ موتیں ہوئیں.(۴) ڈاکٹروں نے متواتر اعلانات کئے کہ اب یہ بیماری قابو میں آگئی ہے.مگرآپ نے بتایا کہ اس وقت تک اس کازور ختم نہیں ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کاعلاج نہ ہو.اور ایسا ہی ہواکہ اس کادورہ برابر نوسال سختی سے ہوتارہا.(۵) آخر میں خدا تعالیٰ نے خودرحم کرکے خوداس کے زور کوتوڑ دینے کاوعدہ کیا اور آپ کو بتایاگیاکہ ’’طاعون تو گئی مگر بخار رہ گیا‘‘(تذکرہ ایڈیشن دوم صفحہ ۵۱۲ تاریخ الہام ۲۸ ؍اپریل ۱۹۰۴ء).چنانچہ اس الہام کے بعد طاعون کازور ٹو ٹ گیا.اوربخار کا شدیدحملہ پنجاب میں ہواجس سے قریباً کوئی گھر خالی نہ رہا.اورسرکاری رپورٹوں میں بھی تسلیم کیا گیا کہ بخار کا وہ حملہ غیر معمولی تھا.غرض اس آیت میں بتایاگیاتھاکہ جب لوگوں پر آسمانی نشانوں اور عقلی دلائل کے ساتھ حجت پوری ہوجائے گی تو اس وقت روحانی مردوں اور روحانی بہروں اور روحانی اندھو ں کی سزادہی کے لئے ایک زمینی کیڑا پیدا کیاجائے گا جولوگوں کو کاٹے گا اورانہیں زخمی کرے گا.اس لئے کہ لوگ خدا تعالیٰ کے نشانوں پر ایمان نہیں لائے تھے.بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ دابۃ الارض کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں یہ ڈالا گیاہے کہ اس سے طاعون مراد ہے (نزول المسیح ص ۳۸).اورآپ نے اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ ( صفحہ ۳۹تا۴۲)میں مختلف قرائن سے اس کوثابت کیا ہے.مگر یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ اس دابہ کے خروج کی پیشگوئی میں صرف طاعون ہی کی خبرنہیں بلکہ خوردبین کی ایجاد کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر دنیا کو کیونکر معلوم ہوسکتاتھاکہ اس بیماری کاباعث ایک دابۃ ہے.پہلے لوگ تو بلغم.صفراء.سوداء اوردم پر ہی سب بیماریوں کے بواعث کی زنجیر کوختم کردیتے تھے.وَ يَوْمَ نَحْشُرُ مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ فَوْجًا مِّمَّنْ يُّكَذِّبُ اوراس دن(کویاد کرو) جب ہر (اس )قو م میں سے جو ہمارے نشانات کاانکار کرتی رہی ہوگی ہم ایک بڑاگروہ کھڑا بِاٰيٰتِنَافَهُمْ يُوْزَعُوْنَ۰۰۸۴حَتّٰۤى اِذَا جَآءُوْ قَالَ کریں گے.پھر اس (گروہ)کومختلف گروہوں میں تقسیم کردیاجائے گا (تا خدا تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوکر جواب
اَكَذَّبْتُمْ بِاٰيٰتِيْ وَ لَمْ تُحِيْطُوْا بِهَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ دیں) اورجب و ہ اس کے پاس پہنچیں گے وہ ان سے کہے گا.کیاتم نے میرے نشانات کا اس کے باوجود انکار کیاتھا کہ تَعْمَلُوْنَ۰۰۸۵وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَيْهِمْ بِمَا ظَلَمُوْا فَهُمْ تم نے علم کے ذریعہ سے ان کی پوری واقفیت حاصل نہیں کی تھی یایہ بتائو کہ تم (اسلام کے خلاف کیا)کیا سازشیں کیا لَا يَنْطِقُوْنَ۰۰۸۶ کرتے تھے.اوران کے ظلموں کی وجہ سے ان کے خلاف کی گئی پیشگوئی پوری ہوجائے گی.اوروہ کچھ بات نہ کرسکیں گے.تفسیر.فرماتا ہے.اس دن کو بھی یاد کرو.جبکہ ہم ہراس قوم میں سے جو ہمارے نشانات کا انکار کرتی رہی ہوگی ایک بڑی جماعت کھڑی کریں گے اور پھر وہ گروہ جماعت در جماعت تقسیم کر دیا جائے گایعنی آخر ی زمانہ میں ہرمذہب کے پیروئو ںمیں بے دینی پھیل جائے گی.اورسب قوموں میں سے ایک ایک گروہ بے دینی کی تعلیم دینے لگ جائے گا جیساکہ اس زمانہ میں ہورہاہے.اوریہ سلسلہ اس وقت تک چلتاچلاجائے گا جب تک ان کے متعلق سزاکافتویٰ جاری نہ ہوجائے اورخدا تعالیٰ کاان کویہ پیغام نہ پہنچ جائے کہ کیاتم نے میرے نشانوں کاانکار کردیاہے.حالانکہ تم نے ان پر پوری طرح غور بھی نہیں کیاتھا.اورنہ ان کی دلیلوں کو پرکھاتھا.یااگریہ نہیں تواَور تم کیاکرتے رہے ہو.اس میں بتایاکہ جب آخری زمانہ کے موعود کے ذریعہ سےاسلام کی صداقت ظاہر کی جائے گی تومختلف قومیں تعلیم کے نام پر دہریت پھیلانے کے لئے کھڑی ہوجائیں گی اورمختلف گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گی یعنی مختلف ایسوسی ایشنز اوریونیورسٹیاں بن جائیں گی اوردین حقّہ کاانکار کرنے لگ جائیں گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے زمانوں میں بھی دین حقّہ کاانکار کرنے والے لوگ پائے جاتے تھے مگرجہاں تک منظم مخالفت اورجتھہ بندی کا سوال ہے.یہ پہلے زمانوں میں نظر نہیں آتی.اس زمانہ میں تو تاجروں نے بھی اپنی تنظیم قائم کی ہوئی ہے.صنّاعوںنے بھی اپنی تنظیم قائم کی ہوئی ہے.مزدوروں نے بھی اپنی تنظیم قائم کی ہوئی ہے.اورسرمایہ داروں نے بھی اپنی تنظیم قائم کی ہوئی ہے.بلکہ چوروں اورڈاکوئوں اورعورتوں اوربچوں کواغواکرنے والوں کے بھی منظم گروہ پائے جاتے ہیں.اسی طرح کفر کابھی اسلام پر ایک تنظیم کے ماتحت حملہ ہورہاہے.مگرجہاں شیطانی لشکر اپنی تنظیم میں
مشغول ہے آسمان کے فرشتے بھی خاموش نہیں اور وہ بھی تباہی کی تیاریوں میں مصروف ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَوَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْھِمْ بِمَا ظَلَمُوْافَھُمْ لَایَنْطِقُوْنَ.ایک دن یہ عذاب ان کے گھروں تک پہنچ جائے گا اورخدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں پوری ہوجائیں گی.یعنی اسلام غالب آجائے گا اورکفر کی صف ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی جائے گی تب ان کی زبانیں بند ہوجائیںگی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دینے والے یاتوآپؐ پر درود اور سلام بھیجنے لگ جائیں گے یاتباہی اور بربادی کا شکار ہوجائیں گے.اَلَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا الَّيْلَ لِيَسْكُنُوْا فِيْهِ وَ النَّهَارَ کیاان کومعلوم نہیں کہ ہم نے رات کو اس لئے بنایاہے کہ وہ اس میں آرام حاصل کریں اور دن کو دیکھنے کی مُبْصِرًا١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۰۰۸۷ طاقت دینے والا بنایا.اس میں یقیناً مومن قوم کے لئے بڑے نشان ہیں.تفسیر.فرماتا ہے.کیامسلمانوں نے اتنابھی نہ سوچاکہ ہم جو ان پر رات یعنی نبوت سے بُعد کا زمانہ لائے تھے تواس لئے لائے تھے کہ وہ ا س میں نئی روحانی طاقتیں حاصل کریں اورظلمت کے مقابلہ کے لئے ہرجگہ نورانی قندیلیں روشن کریں لیکن انہوں نے ثواب کے اس عظیم الشان موقعہ سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اب ہم ان کے لئے دن چڑھائیں گے.یعنی اپنا ایک ماموران میں مبعوث کریں گے.اوریہ دن اس لئے چڑھے گاتاوہ حق و باطل میں تمیز کرسکیں.لیکن اس سے فائدہ صرف مومن اٹھائیں گے.جن کے دل مرچکے ہوںگے وہ پھر بھی پرانی تاریکیوں میں ہی پڑے رہیں گے.اس جگہ رات اور دن کے چکر کی مثال دے کر اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان اپنی فطرت کے لحاظ سے متواترکام نہیں کرسکتا.اگراسے متواتر کام پر لگادیاجائے تو ایک وقت ایساآئے گاکہ وہ تھک جائے گااورپھر بے ہوش ہوکر گر پڑے گا.انسان کی اس کمزوری کو ڈھانپنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رات بنائی ہے.جواسے دوبارہ کام کرنے کے قابل بنادیتی ہے.یہی حالت روحانی ترقیات کی بھی ہے.انسان پر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب اس کی روحانیت قبض کی حالت میں ہوتی ہے.اوراس پر ایسے وقت بھی آتے ہیں جب اس کی روحانیت پر بسط کی حالت ہوتی ہے.ایک معمولی درجہ کے مومن پر بھی کوئی وقت ایساآتاہے جب وہ سمجھتاہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مل
گیاہے اوراس کا خدااس کے سامنے ہے اوروہ اپنے سارے جلال اور ساری شان و شوکت کے ساتھ اس پر ظاہر ہورہاہے.اور دوسرے وقت میں وہی مومن اپنی نماز کو کھڑاکرنے میں مشغول ہوتاہے.و ہ اسے کھڑاکرتاہے مگر وہ گرتی ہے وہ اسے پھر کھڑا کرتا ہے اور وہ پھر گرتی ہے.و ہ پھر کھڑاکرتاہے اوروہ پھرگرتی ہے.اوریہ حالت معمولی درجہ کے مومن کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ اونچے درجے کے مومن بھی اپنے اپنے مدارج کے لحاظ سے اس حالت میں سے گذرتے ہیں اوران پر بھی رات اور دن کی طرح قبض اوربسط کی کیفیات وارد ہوتی رہتی ہیں.اگر اس پر ہمیشہ قبض کی حالت رہے تواس کادل مرجائے اور و ہ روحانیت سے محروم ہو جائے اوراگر اس پر ہمیشہ بسط کی حالت رہے تووہ عادتاً عبادت کرنے لگ جائے اوراس کی نیکیوں کے پیچھے عزم وارادہ اورخواہش باقی نہ رہے.پس انسانی مقام کوقائم رکھنے کے لئے اوراس لئے کہ نیکی کرتے ہوئے اس کاارادہ اورعز م بھی قائم رہے اور اس کی توجہ بھی قائم رہے ہرمومن پر خواہ اس کا مقام بڑا ہو یا چھوٹارات اوردن کی طرح لہروں کا زمانہ آتارہتاہے.اور ہرمومن اپنے اپنےمقام کے لحاظ سے کبھی اونچا اٹھتاہے اور کبھی نیچے گرتاہے مگرہردفعہ جب وہ اونچااٹھتاہے توپہلے مقام سے اوپر چلاجاتاہے اورجب نیچے گرتاہے تواس وقت بھی اس کا قدم پہلے مقام سے اوپرچلاجاتاہے.گویاقبض اوربسط کاسلسلہ اسے ہمیشہ ترقی کی طرف ہی لے جاتاہے.تنزل کی طرف نہیںلے جاتا.پھر یہ اتار چڑھائو کاسلسلہ صرف روحانی کیفیات میں ہی نہیں بلکہ قومی حالات میں بھی جاری رہتاہے.بعض قوموں پر بھی کبھی قبض کی حالت آتی ہے اور کبھی بسط کی.کبھی قو م پر ابتلائوں کی گھٹائیں چھائی ہوئی ہوتی ہیں اور کبھی اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہورہی ہوتی ہے.کبھی اس پر کامیابی کاسورج طلوع ہوتاہے اور کبھی رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہوتی ہے.کبھی قوم کے اندرنشوونماکا جوش ہوتاہے اور کبھی غفلت طاری ہوجاتی اور اس کے اندر آرام کرنے کی خواہش پیداہوجاتی ہے.بہرحال جب تک کوئی قوم اپنے مقام کی بلندی اور پستی کے درمیان چکر کھاتی رہتی ہے وہ گرتی نہیں.کیونکہ یہ قبض اوربسط کی حالت ہرانسان او رہرقوم کے لئے مقد رہے.مگرجب کو ئی قوم یاانسان اپنے مقام سے گرکر نچلے درجہ میں چلاجائے توپھر اس کی حالت خراب ہوجاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کی طرف توجہ دلانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کی مثال ہمارے سامنے پیش کی ہے اوربتایاہے کہ تمہار اکام یہ ہے کہ تم رات سے بھی فائدہ اٹھائو اوردن سے بھی.تم پر قبض کی حالت طاری ہوتووہ بھی تمہیں ترقی کی طرف لے جانے والی ہو اور تم پر بسط کی حالت طاری ہوتووہ بھی تمہارے مقام کو اونچا کرنے والی ہو.
وَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّوْرِ فَفَزِعَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي اوراس دن(کوبھی یاد کرو)جس دن بگل میںہوا پھونکی جائے گی جس کے نتیجہ میں آسمانوں اورزمین میں جوکوئی بھی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ۰۰۸۸ ہے گھبرااٹھے گا.سوائے اس کے جس کے متعلق اللہ(تعالیٰ)چاہے گا(کہ وہ گھبراہٹ سے محفوظ رہے) اورسب کے سب اس (یعنی خدا) کے حضورمطیع و فرمانبردارہو کرآئیں گے.حلّ لُغَات.فَزِعَ.فَزِعَ فَزَعًا کے معنے ہیں خَافَ وَ ذُعِرَ.ڈرگیااورہیبت زدہ ہوگیا.(اقرب) دَاخِرِیْنَ.دَاخِرِیْنَ دَخَرَ سے اسم فاعل ہے.اوردَخَرَ وَدَخِرَ دُخُوْرًاوَدَخَرًاکے معنے ہیں ذَلَّ وَصَغُرَ.ذلیل اور حقیر ہوا.(اقرب) تفسیر.فرمایاتم اس دن کو یاد کرو جس دن صُور پھو نکاجائے گا.اورآسمان او رزمین میں جو کچھ ہے ڈر جائے گا.بگل چونکہ فوجوں کو جمع کرنے کے لئے بجایاجاتاہے اس لئے یہاں تمثیلی طورپر بگل کا ذکرکیا.اوربتایاکہ وہ دن قریب ہے جب تمام قوموں کوایک دوسرے کے مقابل پر کھڑاکردیاجائے گا.جس کانتیجہ یہ ہوگاکہ آسمانوں اور زمین میں جو بھی رہتے ہیں سب گھبرااٹھیں گے.اس آیت میں ہوائی جہازوںاورایٹم بموں کا ذکرمعلوم ہوتاہے.ہوائی جہاز آسمان میں اڑتے ہیں اورایٹم بم زمین میں پھٹ کرزمین میں رہنے والوں کوتباہ کردیتاہے.اورپھرآتشیں مادے کو آسمان کی طرف دھکیل دیتاہے.اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ.میں بتایاکہ باجود اس کے کہ یہ تباہی عام ہوگی پھر بھی خدا تعالیٰ کے حضور دعا کارستہ کھلارہے گا.اورجو خدا تعالیٰ کوخوش کرسکے گا و ہ اس تباہی سے محفوظ رہے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سائینسدانوں نے اپنی کوششوں اورتدبیروں کے ساتھ موت کے ذریعہ کو معلوم کرلیا ہے.مگراسلام کوقائم کرنے والا وہ خداہے جس کے ہاتھ میں موت بھی ہے او رحیات بھی وہ موت کے ذریعہ کو اپنے ہاتھ میں لے کریہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر حاکم ہوگئے ہیں.حالانکہ اصل حاکم وہ ہے جس کے قبضہ میں موت اور حیات دونوں ہیں اوراس نے بتایاہے کہ اگرلوگ دعائوں سے کام لیتے رہیں گے تووہ اس تباہی سے بچائوکاکوئی نہ کوئی سامان پیدافرمادےگا.اس میں کوئی شبہ نہیںکہ ایٹم بم بظاہر قیامت کا ایک نشان نظر آتاہے مگرقیامت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اس نے یہ قیامت
نہ روس کے ہاتھ میں رکھی ہے اورنہ امریکہ کے ہاتھ میں.چندسال ہوئے روس کاایک سائینسدان جو ایٹم بم سے تعلق رکھنے والی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کاانچار ج تھا مجھے ملا.میں نے اسے یہی کہا کہ تم توکہتے ہو کہ ہم پبلک کوفائدہ پہنچانے کے لئے کام کرتے ہیں مگرتم نے جو ایٹم بم بنایاہے اس کاکیا فائدہ ہے ؟ اگرتم ایٹم بم گرادو تو امریکہ تباہ ہوجائے گا اوراگر پہلے امریکہ گرادے تو روس تباہ ہوجائے گا.مگر امریکہ یاروس کی تباہی سے پبلک کو کیافائدہ.تمہیں توپبلک کافائدہ سوچناچاہیے.اورایٹم بم کاکوئی توڑ پیش کرناچاہیے.تادنیااس سے محفوظ رہ سکے.وہ کہنے لگا.اس کاکوئی توڑنہیں نکلا اور نہ ہمارے ذہن میں ا س کاکوئی توڑ آتاہے.حقیقت یہ ہے کہ اس کاتوڑ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھاہواہے اورجب وہ لوگوں کو بچاناچاہے گا تووہ اس کاکوئی نہ کوئی توڑ پیداکردے گا.بانی سلسلہ احمدیہ کے جوالہامات چھپے ہوئے ہیں.ان میں ایک جگہ کچھ ہندسے درج ہیں (تذکرہ ایڈیشن تیسرا صفحہ ۱۹۵) اورساتھ ہی ایک نقشہ دیاگیاہے.بعض احمدی سائینسدانوں کاخیال ہے کہ اس میں جوخول بنے ہوئے ہیں.یہ بالکل وہی ہیں جو ہائیڈروجن بم میں استعمال ہوتے ہیں.حالانکہ وہ نقشہ آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے کاہے.جب حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کواتناعرصہ پہلے اس طرف توجہ دلائی گئی تھی اورانہیں بتایاگیاتھاکہ ایسی ایجاد ہونے والی ہے توجس خدا نے اپنے بندوں کواس ایجاد کی توفیق دی وہ لوگوںکو اس سے بچانے کابھی کوئی نہ کوئی سامان پیداکردے گا.مجھے بھی ایک دفعہ ایک گیس کے متعلق خبردی گئی تھی.چنانچہ میں نے رؤیا میں دیکھا کہ میں ایک کمرہ میں بیٹھاہواہوں کہ کسی شخص نے ایک گیس پھینکی.میں نے اس گیس کو سونگھ کرکہا کہ اس میں سے توکلورین کی بُوآرہی ہے اورپھر اس کاخیال کرتے ہی میں باہر کی طرف بھاگا.(آنکھ کھلنے کے بعد میں نے بعض سائینسدانوں سے اس کا ذکر کیا توانہوں نے کہا کہ بیہوش کرنے والی گیس بھی کلورین سے ہی بنتی ہے مگرمیں نے جوخواب میں گیس دیکھی تھی وہ عارضی بیہوش کرنے والی تھی )اس کے بعدمجھ پر سے بھی اثر جاتارہا.اور دوسرے لوگوں پر بھی کوئی اثر نہ رہا.اس رؤیاسے بھی میں سمجھتاہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیداکردے گا کہ جن کے نتیجہ میں دشمن پر فوقیت بھی حاصل ہوجائے گی اور عام تباہی بھی نہیں آئے گی.مگراس کاذریعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی جائے.اوردعائوں سے اس کی مدد اور نصرت حاصل کی جائے.میں جب بیماری کے علاج کے سلسلہ میں یو رپ گیاتوجماعت احمدیہ لنڈن کی طرف سے میرے اعزاز میں ایک دعوت کاانتظام کیاگیا.جس میں لنڈن کے میئر.پاکستان کے ہائی کمشنر.پارلیمنٹ کے ممبر اور کئی سر برآوردہ
لوگ شامل ہوئے.میں نے اس موقعہ پرتقریرکرتے ہوئے یورپین باشندوں کو اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ایٹم بم کی ایجاد کی وجہ سے آج کل لوگوں کے دلوں میں بڑی گھبراہٹ پائی جاتی ہے اوروہ حیران ہیں کہ آئندہ دنیا کی سلامتی کی کیاراہ ہوگی.انہیں سوچناچاہیے کہ ایٹم بم کاعلم آج سے بیس سال پہلے کہاں تھا.اس وقت توکسی کو پتہ بھی نہیں تھا کہ ایسی ایجاد ہوسکتی ہے لیکن پھرعلوم نے ایسی ترقی کی کہ ایٹم بم نکال لیاگیا.اب جس خدا نے اپنے بندوں کو ایٹم بم بنانے کاعلم دیا ہے کیا وہ اس کاتوڑ پیدا نہیں کرسکتا.میں نے کہا میں تو ایک مذہبی آدمی ہوںاورمذہبی آدمی ہونے کی وجہ سے اگرمجھ سے کوئی سوال کرے کہ آیا ایٹم بم کے نکلنے کے بعد کوئی اس کاتوڑ بھی پیداکرسکتاہے یانہیں تو میرا جواب یہی ہوگاکہ ہاں.ایٹم بم کاعلم خدا نے ہی اپنے بندوں کو دیاہے اور اگروہ کسی وقت اپنے بندوں کو اس کا توڑ بھی سمجھادے تواس کے فضل سے یہ کوئی بعید بات نہیں.مگراس فضل کے حصول کا یہی طریق ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی جائے اوراس سے دعائیں مانگی جائیں اوراس امر پر یقین رکھاجائے کہ ایٹم بم کا نکالنے والاخدا اس کاکوئی نہ کوئی توڑ بھی پیداکردے گااور دنیاکے امن کاسامان پیدافرمادے گا.وَ كُلٌّ اَتَوْهُ دٰخِرِيْنَ میں بتایاکہ سب کے سب اس کے حضور مطیع و فرمانبردارہوکرحاضر ہوں گے یعنی کافر سزاپاکر اور مومن یقین و ایمان سے معمو رہوکر.وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ اورتُو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتاہے کہ وہ اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّهٗ چل رہے ہیں.یہ اللہ (تعالیٰ) کی صنعت ہے جس نے ہرچیز کو مضبوط بنایاہے.خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۸۹ و ہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے.تفسیر.فرماتا ہے توپہاڑوں کودیکھتاہے اورسمجھتاہے کہ وہ کھڑے ہیں.حالانکہ وہ اس طرح اُڑتے چلے جارہے ہیں جس طرح بادل.یہ خدا تعالیٰ کی صنعت ہے جس نے ہرچیز کونہایت مضبوط بنایاہے.اوروہ تمہارے اعمال کو خوب جانتاہے.
تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ سے یہ مراد نہیں کہ پہاڑ الگ چلتے ہیں اور زمین الگ چلتی ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ زمین چلتی ہے تو وہ بھی اس کے ساتھ چلتے ہیں.اورجس طرح زمین بادلوں کو اپنے ساتھ کھینچے چلی جاتی ہے.اسی طرح و ہ پہاڑوں کو بھی اپنے ساتھ اٹھائے چلی جاتی ہے.اس آیت میں ظاہر ی طور پرتوپہاڑوں کے چلنے کی طرف اشارہ کیاگیاہے اوربادلوں کے ساتھ ان کی مشابہت بیان کی گئی ہے لیکن باطنی طور پر اس میں بڑی بڑی حکومتوں کی تباہی کی خبر دی گئی ہے.اوربتایاگیاہے کہ تمہیں تواپنے زمانہ کی حکومتیں ایسی مضبوط دکھائی دیتی ہیں کہ تم سمجھتے ہو وہ صدیوں تک بھی تباہ نہیں ہوسکتیں مگر خدا تعالیٰ اسلام کی شوکت ظاہرکرنے کے لئے ان کو اس طرح اڑائے گا کہ ان کا نشان تک بھی نظرنہیں آئے گا.چنانچہ اس کی مثال دیتے ہوئے بتایاکہ جس طرح ہوائیں بادلوں کو اڑاکر لے جاتی ہیں اسی طرح جب اسلام کی تائید میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوائیں چلنی شروع ہوئیں توکفرو شرک کے بڑے بڑے دیوقامت پیکراس طرح اڑیں گے کہ ان کا نشان بھی دکھائی نہیں دےگا.مگریہ سب کچھ انسانی تدابیر سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ہوگا.اوراس کی قدرت اورصنعت کااس سے ظہور ہوگا.آخر میں فرمایاکہ اِنَّہٗ خَبِیْرٌ بِمَاتَعْمَلُوْنَ.یہ عظیم الشان انقلاب ا س صورت میں آسکتاہے جبکہ مسلمان بھی اپنے اندر انقلاب پیداکریں.اگرتم اپنے اندرتبدیلی پیدا نہیں کروگے اورخدا تعالیٰ کی نگاہ میں ظالم بنوگے تو خدا تعالیٰ کوکیاضرورت ہے کہ وہ ایک ظالم کو مٹاکر دوسراظالم اس کی جگہ بٹھادے.خدا تعالیٰ اسی صورت میں ان پہاڑوں کو اڑائے گا جب تم اپنے آپ کو اسلامی احکام کانمونہ بنائو گے.اوراللہ تعالیٰ کی رضا اوراس کی خوشنودی کا مقام حاصل کرلو گے.مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ هُمْ مِّنْ فَزَعٍ جوکوئی نیکی کرے گا.اس کو اس سے بہتر بدلہ ملے گا اورایسے لوگ اس دن کے خوف سے (جس کا ذکر اوپر يَّوْمَىِٕذٍ اٰمِنُوْنَ۰۰۹۰وَ مَنْ جَآءَ بِالسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ ہوچکاہے) محفوظ رہیںگے.اورجو لوگ برے عمل لے کر خدا کی خدمت میں حاضر ہوں گے ان کے سرداروں کو
وُجُوْهُهُمْ فِي النَّارِ١ؕ هَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۰۰۹۱ دوزخ میں اوندھا کرکے گرادیاجائے گا.اورکہا جائے گاکہ کیا تمہاری جزا تمہارے عمل کے مطابق نہیں ؟ حلّ لُغَات.کُبَّتْ.کُبَّتْ کَبَّ کَبًّا کے معنے ہیں قَلَبَہُ عَلیٰ رَاْسِہٖ.برتن کو سر کے بل اُلٹا دیا.کَبَّ زَیْدًاعَلیٰ وَجْھِہٖ وَلِوَجْھِہٖ کے معنے ہیں صَرَعَہٗ زیدکو پچھاڑ دیا (اقرب)پس کُبَّتْ کے معنے ہوں گے.ان کو الٹایا جائے گایاپچھاڑاجائے گا.تفسیر.فرماتا ہے.تم میں سے جو شخص نیک اعمال بجالائے گااسے اپنی نیکیوں سے بہت بہتر بدلہ ملے گا او رایسے ہی لوگ اس دن کی گھبراہٹ سے محفوظ رہیں گے.لیکن جو لوگ برائیوں میں ملوث ہوں گے وہ جہنم میں اوندھے منہ گرادیئے جائیں گے.اوران سے پوچھا جائے گا کہ بتائو کیا یہ جزاتمہارے اعمال کے مطابق ہے یانہیں.اس آیت میں اسلامی تعلیم کاایک بڑااہم مسئلہ بیان کیاگیاہے.آریہ مذہب نجات کے بارہ میں یہ نظریہ پیش کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ جب نیکیوں کی جزادیتاہے تووہ ہرایک روح کاکوئی نہ کوئی گناہ رکھ لیتا ہے جس کی سزااسے بعد میں دی جاتی ہے.وہ پہلے انسانی روح کو نجات دے دیتاہے اور اسے جنت میں داخل کردیتاہے.لیکن کچھ عر صہ کے بعد پھر اس گناہ کی وجہ سے جواس نے کیاہوتاہے اورجس کی سزاابھی اسے نہیں ملی ہوتی پھر اسے مختلف جونوں کے چکر میں ڈال دیاجاتاہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتاجاتاہے گویانعوذ باللہ خدا تعالیٰ بھی ان ہندومہاجنوں کی طرح ہے جو قر ض کاایک حصہ تووصول کرلیتے ہیں لیکن کچھ تھوڑاساباقی رہنے دیتے ہیں تاکہ سودکاسلسلہ جاری رہے.اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پھر سود سمیت ایک بڑی رقم کامطالبہ کردیتے ہیں.ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے بھی نعوذ باللہ دنیا کا سلسلہ اسی رنگ میں جاری کیاہواہے.کہ پہلے تووہ نیک اعمال کی انسان کو جزادے دیتاہے اورپھر کسی برے عمل کی سزا میں اسے دنیا میں مختلف جونوں کی شکل میں لوٹاتارہتاہے.مگرقرآن کریم اس عقیدہ کوکلیۃً ردّکرتاہے.وہ کہتاہے کہ روح اور مادہ کا خالق خداجتنی روحیں اورجتنامادہ جب چاہے صرف ایک کُن کہنے سے پیداکرسکتاہے.اسے روحوں کے ساتھ آریوں کابتایاہواتمسخر کرنے کی ضرورت نہیں.دوسرے وہ یہ بھی بتاتاہے کہ گوانسان کی نیکی محدود ہے مگراس کاارادہ محدود نہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ انسان کو اس کے عمل سے بہت زیادہ بدلہ دےگا.اورسزاکے دن خواہ دنیا میںآئے یاآخرت میں مومنوں کو محفوظ رکھے
گا.اوریہ نہیں دیکھے گاکہ ان کے عمل حقیر تھے.بلکہ وہ اپنے فضل سے انہیں دائمی نجات عطافرمائے گا.ہاں جولوگ بدیاں کرتے تھے ان کو آگ میں اوندھے منہ گرادیاجائے گا.اورکہا جائے گاکہ کیاتمہارے عملوں کے مطابق تم کوجزانہیں مل رہی ؟ یعنی بدی کی سزا بہرحال عمل کے مطابق ہوگی زیادہ نہیں ہوگی.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس بارہ میں وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْء ٍ(الاعراف :۱۵۷)میری رحمت ہرچیز پر غالب ہے.حتی کہ شدید ترین مخالف کی مخالفت اوردشمنی پر بھی غالب ہے.پس اس آیت کے ماتحت بد سے بدترانسان بھی خدا تعالیٰ کی رحمت کامستحق ہوجائے گا اورآخر جنت کے دروازے اس کے لئے کھل جائیں گے.یہ مضمون تو اخروی حیات کے لحاظ سے ہے.دنیوی نقطہ نگاہ سے اس آیت میں یہ بیان کیاگیاہے کہ جوافراد اسلام کے دوبارہ احیاء کے لئے قربانیاں کریں گے انہیں اپنی ان قربانیوں کاجب بدلہ ملے گا تووہ ایساحیرت انگیزہوگا کہ اس کے مقابلہ میں ان کی قربانیاں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھیں گی چنانچہ دیکھ لو بیشک حضرت ابو بکرؓ.حضرت عمرؓ.حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے اسلام کے لئے بڑی قربانیاں کیں.لیکن آج و ہ دوبارہ زندہ ہوجائیں اور وہ دنیا کے گلی کوچوں میں سے گذرتے ہوئے سنیں کہ حضر ت ابو بکر ؓ نے یوںفرمایا ہے.حضرت عمرؓنے یوں فرمایا ہے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے یوں فرمایا ہے.اوردوسری طر ف وہ یہ دیکھیں کہ کچھ لوگ اپنے ہاتھوں میں لٹھ لئے چلے جارہے ہیں اورغصہ سے ان کی آنکھیں سرخ ہورہی ہیں.اورجب ان سے پوچھا جاتاہے کہ کیاوجہ ہے تووہ جواب دیتے ہیں کہ حضرت ابو بکرؓ کو فلاں شخص نے برابھلاکہاہے یاحضرت عمرؓ کو برابھلاکہاہے یاحضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کو برابھلاکہاہے تومیں سمجھتاہوں کہ ان کو اپنی قربانیاں اس لازوال عزت اورشہرت کے مقابلہ میں بالکل حقیر نظر آنے لگیں گی.اوروہ خیال کرنے لگیں گے کہ ہم نے کوئی قربانی نہیں کی.حدیثوں میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک صحابیؓ شہیدہوئے.آپ نے ان کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ سر نیچے ڈالے ہوئے افسردگی کی حالت میں جارہاہے.آپ نے اس سے پوچھاکہ کیا بات ہے.اس نے کہا یارسول اللہ :میراباپ شہیدہوگیاہے اورپیچھے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے خیال سے میں متفکر ہوں.آپؐ نے فرمایا.اگرتمہیں علم ہوتاکہ تمہارے باپ سے اللہ تعالیٰ نے کیا سلوک کیاہے توتم اس طرح افسرد ہ نہ ہوتے.پھر آپؐ نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ کی روح کو اپنے سامنے حاضر کیا اور کہا.میں تم سے بہت خوش ہوں.تم جوکچھ مانگناچاہتے ہو مانگو.میں تمہاری ہرخواہش کو پوراکرنے کے لئے تیار ہوں.اس پر تمہارے باپ نے کہا کہ خدایا میری صرف اتنی خواہش ہے کہ مجھے دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں بھیجاجائے تامیں پھر اسلام کی
خدمت کرتا ہوا مارا جائوں.اللہ تعالیٰ نے فرمایامجھے اپنی جان ہی کی قسم ہے کہ اگر میں نے یہ قانون نہ بنادیاہوتاکہ میں کسی انسان کو دوبارہ دنیا میں واپس نہیں بھیجوں گا.تومیں تیری اس خواہش کو ضرور پوراکردیتا(ترمذی ابواب التفسیر زیر آیت وَلَاتَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْافِی سَبِیْلِ اللہ اَمْوَاتًا).غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان کووقت سے پہلے قربانیاں بڑی بھاری اورگراں نظر آتی ہیں.مگرجب ان قربانیوں کانتیجہ نکلتاہے تواسے اپنی قربانیاں بالکل حقیر نظر آنے لگتی ہیں.ہرطالب علم جوسکول جاتاہے وہ اپنا سکول جاناکتنی مصیبت سمجھتاہے.لیکن تمہیں کوئی طالب علم ایسانظر نہیں آئے گاجواپنی گذشتہ محنت پرافسوس کااظہار کرتاہو.بلکہ جب اس کی محنت کانتیجہ نکلتاہے اوروہ دنیا میں بڑے بڑے مراتب حاصل کرتاہے تو اسے اپنی محنت بالکل حقیر نظر آتی ہے.یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے کہ جوشخص نیک اعمال بجالائے گا اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسابدلہ ملے گا جواس کی قربانیوں سے ہزاروں گنا افضل ہوگا.لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس سکیم کے راستہ میں روک بن کرکھڑاہوگا.وہ اپنے منہ کے بل گرے گااورناکامی ونامرادی کاجہنم اسے جھلس کر رکھ دے گا اوروہ اور اس کی آئندہ نسلیں اللہ تعالیٰ کی برکات سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائیں گی.اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِيْ حَرَّمَهَا وَ مجھے توصرف یہ حکم دیاگیاہے کہ میں اس شہر(یعنی مکہ)کے رب کی جس کو اس (یعنی اللہ)نے معززبنادیاہے عبادت لَهٗ كُلُّ شَيْءٍ١ٞ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَۙ۰۰۹۲وَ کروں اور ہرچیز اسی کے قبضہ میں ہے اورمجھے حکم دیاہے کہ میں فرمانبردار وں میں سے ہوجائوں.اوریہ بھی کہ میں اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ قرآن پڑھ کرسنائوں.پس جواسے سن کر ہدایت پا جائے گا تو اس کاہدایت پاناصرف اسی کی جان کے کام آئے گا لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ۰۰۹۳ اورجو اسے سن کر گمراہ ہوجائے گاتوتُواسے کہہ دے کہ میں صرف ایک ہوشیارکرنےوالا (وجود)ہوں.تفسیر.ان آیات میں بتایاکہ خدا تعالیٰ نے مختلف مقامات کواپنی تجلیات کا مرکز بنایاہے.کبھی وہ نوح ؑ
کے ذریعہ جُودی سے ظاہر ہوا.کبھی ابراہیمؑ کے ذریعہ مکہ مکرمہ سے ظاہر ہوا.کبھی موسیٰ ؑ کے ذریعہ سینا سے ظاہر ہوا.کبھی عیسیٰ ؑ کے ذریعہ جبل زیتون سے ظاہر ہوا.لیکن مجھے اس نے یہ حکم دیاہے کہ میں اس شہر کے رب کی عبادت کروں.یعنی اس جلوہ کے پیچھے چلو ں جو مکہ مکرمہ میں حضرت ابراہیم ؑ کے ذریعہ ظاہر ہواتھا.اورجس نے اس شہر کو عزت اورحفاظت بخشی تھی.اوراس بات کااعلان کروں کہ ہرچیز اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اوریہ کہوں کہ مجھے صرف باتیں بتانے کاحکم نہیں دیاگیا بلکہ یہ حکم دیاگیاہے کہ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ.میں عملاً فرمانبرداری کانمونہ بن کر دکھائوں.یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ اگرچہ اسلام اس مذہب کانام ہے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم کو ملا ہے.او رمسلم کے نام سے وہی لوگ پکارے جاتے ہیں جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین پر ایمان لاکر آپؐ کو اپنا مقتداء او رپیشوامانتے ہیں لیکن قرآن کریم نے محاورہ کے طور پر دوسرے انبیاء اوران کے سچے متبعین کوبھی مسلم کے لفظ سے یادکیاہے (دیکھو آل عمران آیت ۶۸و یوسف آیت ۱۰۲و بقرۃ آیت ۱۲۹و بقرۃ آیت ۱۳۳).یہ ظاہر ہے کہ ان سب کا مسلمان ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد از ظہور ایمان لانے کی وجہ سے تونہیں ہوسکتا.کیونکہ ان کے سامنے تو نہ قرآن مجید کی شکل میں کامل شریعت موجود تھی اورنہ ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت معرض وجود میں آئی تھی.دراصل قرآنی محاورہ کے روسے ان کامسلمان قرار پاناصاف اشارہ کررہاہے کہ اسلام کے دومعنے ہیںایک تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوماننے والا مسلمان ہے اور دوسرے وہ شخص بھی مسلمان کہلاتاہے جو مطیع اورفرمانبردار ہو.چنانچہ مسلمان کی مؤخرالذکر حیثیت کے اعتبار سے ہی ہر وہ شخص جو مطیع وفرمانبردار تھا خواہ وہ آدمؑ کافرمانبردار تھا یانوح ؑ کافرمانبردار تھا یا ابراہیم ؑ کافرمانبردار تھا یاموسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ کافرمانبردارتھا و ہ مسلمان تھا.لیکن مسلمانوںکو دو قسم کااسلام حاصل ہے ایک تواس اعتبارسے وہ مسلمان ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کانام ہی مسلم رکھا گیاہے.دوسرے اطاعت و فرمانبردار ی کی اس روح کے اعتبارسے بھی وہ مسلم ہیں جوہرنبی کے متبعین کے لئے دنیا میں وجہِ امتیاز بنی.پس تما م دوسرے انبیاء کی جماعتوں پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت کویہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ دوہرے مسلم ہیں.انبیاء کی جماعتیں اطاعت و فرمانبردار ی کے باعث تومسلم ہوتی ہی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے علاوہ خاص طور پر ہمارانام بھی مسلم رکھاہے (الحج:۷۹).اوراللہ تعالیٰ جب کسی کانام رکھتاہے تو وہ بندوں کی طرح محض تفاول کے طور پر نہیں رکھتا.بلکہ وہ قادر و تواناجب اراد ہ کرتاہے کہ کسی قوم کے افراد خاص خاص صفات کے حامل ہوں تبھی وہ انہیں کوئی مخصوص نام عطاکرتاہے.پس خدا تعالیٰ
کاہمیں مسلم کالقب عطافرمانا نہ صرف اس بات کا مقتضی ہے کہ ہم وہ صفات اپنے اند رپیداکریں جن کا یہ نام متحمل ہے.بلکہ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اطاعت و فرمانبرداری کے اعلیٰ معیار پر قائم ہوتے ہوئے جب بھی دینی اور دنیوی اعتبار سے بڑھنے اورترقی کرنے کی کوشش کریں گے تو خدا تعالیٰ انہیں اعلیٰ درجات سے ضرور نوازے گا.پس حقیقی اسلام کے یہ معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی کامل فرنبرداری اوراطاعت کی روح ہمارے اندر اس طرح رچی ہوئی ہوکہ اس کی مرضی اورمنشاء کے خلاف کوئی ایک قدم اٹھانا بھی ہمارے لئے ناممکن ہو تاکہ ہم محض نام کے اعتبارسے ہی مسلمان نہ کہلائیںبلکہ ہماراعمل اورہماراکردار بھی اس بات کی گواہی دے کہ فی الواقع ہم اس نام کے مستحق ہیں اورہمارااٹھنا اورہمارابیٹھنا او رہماراچلنااورہماراپھرنا غرض ہماری ہر حرکت اور ہمارا ہرسکون اس نام کے شایانِ شان ہو.پھر فرماتا ہے وَ اَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ مجھے یہ بھی حکم دیاگیاہے کہ میں سب لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سنائوں اور انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کروں.فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَاس کے نتیجہ میں جو شخص ہدایت پائے گااس کافائدہ اسی کو پہنچے گااوراگروہ گمراہ ہوجائے تومجھے یہ کہنے کاحکم ہے کہ میں کسی پر جبر نہیں کروں گا.صرف خدا کاپیغام پہنچائوں گا آگے ہرشخص آزاد ہے و ہ چاہے تومان لے اور چاہے توانکار کردے.وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ سَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ فَتَعْرِفُوْنَهَا١ؕ وَ مَا رَبُّكَ اوریہ بھی کہہ دے کہ اللہ ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے وہ تم کو اپنے نشان دکھائے گا یہاں تک کہ تم ان کو پہچان بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَؒ۰۰۹۴ لو گے اور تمہارارب تمہارے عمل سے غافل نہیں.تفسیر.آخر میں فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ کہنے کابھی حکم دیاگیاہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کو ہی حاصل ہے.یعنی اسلام جس خدا کوپیش کرتاہے وہ ایک زندہ اور طاقتور خداہے اس نے آدمؑ کے زمانہ میں بھی اپنے نشانات دکھائے اورنوح ؑ کے زمانہ میں بھی اپنے نشانات دکھائے اور ابراہیمؑ کے زمانہ میں بھی اپنے نشانات دکھائے اورموسیٰ ؑ کے زمانہ میں بھی اپنے نشانات دکھائے.اوردائود ؑ اورسلیمان ؑ اورصالح ؑ اورلوط ؑ کے زمانے
میں بھی اپنے نشانات دکھائے اور عیسیٰ ؑ کے زمانہ میں بھی اپنے نشانات دکھائے.اورجب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے توان کی تائید میں بھی وہ اپنے نشانات دکھاتارہا.اورپھر جب مسلمانوں پر تنزل کادور آیا تواسلام کے دوبارہ احیاء کے لئے اس نے مسیح موعود ؑ کو مبعوث فرماکر پھر اپنی قدرت اورجلال کے تازہ نشانات دکھانے شروع کردیئے.پس تمام تعریفوں کی مستحق صر ف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے جس نے ہرزمانہ میں اپنی زندگی کادثبوت دیا.اورہرزمانہ میں نشانات کے ذریعہ دنیا کو اپنا چہرہ دکھایا.اگر وہ صرف آدم ؑ یانوح ؑ یاابراہیم ؑ یاموسیٰ ؑ یادائود ؑ یاسلیمانؑ یاعیسیٰ ؑ کے زمانہ تک اپنی قدرت نمائی کوختم کردیتا توہم یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ الحمد للہ !ہمارا الحمد للہ کہنا اسی صورت میں درست ہو سکتا ہے جبکہ ہم خود بھی اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کے چمکتے ہوئے نشانات دیکھیں.اورہرزمانہ میں اس کی قدرتوںکاظہور ہوتاچلاجائے.پس فرمایاتو دنیا کوسنادے کہ اسلام ایک زندہ خداپیش کرتا ہے.اگرتم اس سے تعلق پیداکرلو گے تووہ تمہیں ایسے نشانات دکھائے گا جس کے نتیجہ میں تم اپنی روحانی آنکھوںسے خدا تعالیٰ کودیکھ لو گے.وَ مَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ اوراللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے غافل نہیں و ہ جانتاہے کہ تم اندھیروں میں پڑے ہو اوررسموں میں جکڑے ہوئے ہو.پس وہ تمہیں آزاد کرنے کے لئے خود آسمان سے اترے گا اور ایسے نشانات دکھائے گا جو تمہارے سامنے خدا تعالیٰ کے وجود کولاکرکھڑاکردیں گے.خ خ خ خ
سُوْرَۃُ الْقَصَص مَکِیَّةٌ سورئہ قصص.یہ سورۃ مکی ہے وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ تِسْعٌ وَثَمَانُوْنَ اٰیَۃً وَتِسْعَۃُ رَکُوْعَاتٍ اوربسم اللہ سمیت اس کی نواسی(۸۹)آیات ہیں اورنو(۹)رکوع ہیں.وقت نزول حسنؓ اورعکرمہؓ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے.ریورنڈ وہیری بھی اس سورۃ کومکی قراردیتے ہیں.لیکن مقاتل کے نزدیک اس میں چار آیات مدنی ہیں.یعنی اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَسے لے کر سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ١ٞ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ تک (آیت ۵۳ تا۵۶).بعض کہتےہیںکہ یہ آیات مدینہ میں نہیں بلکہ مکہ اورجحفہ کے درمیان اتری تھیں.اور حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیںکہ مکہ اورجحفہ کے درمیان نہیں بلکہ ہجرت مدینہ کے وقت عین جحفہ کے مقام پران آیات کانزول ہواتھا.لیکن ابن سلام کہتے ہیں کہ ہجرت کے وقت جحفہ میں صرف اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ والی آیت نازل ہوئی تھی.باقی تمام سورۃ مکی ہے(بحرِ محیط).عمرا بن محمد کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکہ سے مدینہ کی طرف سفر کے وقت نازل ہوئی تھی.اس خیال کو اگر صحیح تسلیم کرلیاجائے تب بھی یہ سورۃ مکی ہی سمجھنی چاہیے کیونکہ ابھی ہجرت مکمل نہیں ہوئی تھی.ریورنڈ وہیری کاخیال ہے کہ عمر ابن محمد کایہ خیال اس وجہ سے ہے کہ اس سورۃ میں ذکرکیاگیاہے کہ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍکہ اللہ تعالیٰ آپ کو پھر مکہ واپس لائے گا(تفسیر القرآن للوہیری).مگر وہیری کایہ استدلال بہت کمزور ہے.صحابہؓ تووقتِ نزول کی بنیاد عام طور پر کسی تاریخی گواہی پررکھتے ہیں.پادری وہیری صاحب چونکہ اس بات کے قائل نہیں کہ قرآن کریم میںکوئی سچی پیشگوئیاں ہیں اس لئے وہ اپنے عقیدہ کے مطابق خود بخود کوئی وجہ تلاش کرلیتے ہیں حالانکہ جس کتاب میں پیشگوئیاںہوتی ہیں وہ تو بعض دفعہ سوسوسال بعد کی خبر دے دیتی ہے.چنانچہ اسی سورۃ میں یہ ذکر کیاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ یہود کی طرح جن کو اس نے فرعون پر غالب کردیاتھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع کو بھی مکہ والوں پرغالب کردے گا.(آیت ۶) اور یہ بات ہجرت کے آخری سالوں میں جاکر پوری ہو ئی.اگرمذکورہ بالاآیت سے وہ استدلال ٹھیک ہے جو کہ وہیری نے کیا ہے توپھر فتح مکہ کے مضمون سے یہ نتیجہ نکالناچاہیے کہ یہ سورۃ فتح مکہ کے وقت نازل ہوئی ہے.مگریہ دونوں استدلال غلط ہیں.اصل میں یہ دونوں پیشگوئیاں ہیں جو عالم الغیب خدا نے کئی سال پہلے مکہ میں بیان کردی تھیں.اورمختلف آیات کے مضمونوں
سے تنزیل کا وقت نکالناایک ڈھکونسلہ ہے.جیساکہ پہلے با ربار بیان ہوچکا ہے صحابہؓ عام طور پر وقتِ نزول تاریخ کی گواہی کی وجہ سے مقرر کرتے تھے نہ کہ آیتوں کے مضمون کی وجہ سے.ہم توکہتے ہیں کہ ایک مانی ہوئی مکی سورۃ میں لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ کاآنابتاتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی خبر دی اورپھر فتح مکہ کی بھی خبردی.رَآدُّکَ کے الفاظ بتاتے تھے کہ آپؐ مکہ سے جائیں گے اور اِلیٰ مَعَادٍ کے الفاظ بتاتے تھے کہ آپ ؐ مکہ واپس آئیں گے.پس یہ آیت قرآن کریم کی صداقت کاایک بیّن ثبوت ہے.تعلق و ترتیب علامہ ابن حیان لکھتے ہیں کہ سورۃ نمل کاسورئہ قصص سے یہ تعلق ہے کہ سورۃ نمل کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی حمدکرنے کاحکم دیاتھا اورپھر فرمایاتھا کہ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ وہ تم کو اپنے نشانات دکھائے گا.اوران نشانات سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب کیا کیونکہ معجزات ظاہرکرنے والا درحقیقت خدا تعالیٰ کاوجود ہی تھا.پس اگر وہ انبیاء کے معجزات کو اپنانشان قراردے دے تویہ درست ہوگا.غرض اللہ تعالیٰ نے سورئہ نمل میں جو نشانات دکھانے کاوعدہ کیاتھا.اس کے ثبوت میں اس نے سورئہ قصص نازل کی اور اس کے شروع میں ہی فرما دیاکہ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اس سورۃ کی آیات ایک مدلّل کتاب کی آیات ہیں.اور اس طرح کفار کے سامنے اس نے اپنے وعدہ کی صداقت کے ثبوت میں قرآن کریم کے کتاب مبین ہونے کے نشان کو پیش کردیاکیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام معجزات میں سے سب سے بڑامعجزہ قرآن کریم ہی ہے.لیکن مجھے علامہ ابن حیان کی اس تشریح سے کچھ اختلاف ہے.میرے نزدیک یہ تو صحیح ہے کہ سورئہ نمل کے آخر میں نشانات دکھانے کا ذکر ہے لیکن یہ درست نہیں کہ اس کے ثبوت میں قرآن کریم کے اعجاز کو پیش کیاگیاہے.بلکہ درحقیقت اس سورۃ میں ان نشانات میں سے بعض کا ذکرکرتے ہوئے ان کی وضاحت کی گئی ہے جن کے دکھانے کاسورئہ نمل میں وعدہ کیاگیاتھا.مثلاً مکہ والوں کے مظالم کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی خبردی گئی ہے اور پھر بتایاگیا ہے کہ ایک دن آپ مکہ فتح کریں گے.اورپھر اسی شہر میں فاتحانہ طورپر داخل ہوں گے.جس میں سے آپ کو نکالاجائے گا.گویاجو وعدہ سورئہ نمل میں کیاگیاتھا.اسے سورئہ قصص میں پوراکردیاگیاہے.اوران نشانات کو بیان کردیاگیاہے جن کے ذریعہ کفار پرحجت تمام ہونی تھی.اس سورۃ کاسورۃ نمل سے دوسراتعلق یہ ہے کہ سورۃ نمل کے آخر میں فرمایاتھا وَاَنْ اَتْلُوَا الْقُرْاٰنَ١ۚ فَمَنِ اهْتَدٰى فَاِنَّمَا يَهْتَدِيْ لِنَفْسِهٖ١ۚ وَ مَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ.یعنی مجھے حکم دیاگیاہے کہ میں تمہیں قرآن کریم
پڑھ کرسنائوں.پھر جوکوئی قرآن سن کراس سے ہدایت پائے گا.اس کی ہدایت کا اسے ہی فائدہ پہنچے گا.اورجوکوئی اس سے پیٹھ پھیر کرچلاجائے گا اس پر تجھے کوئی جبر کا اختیار نہیں دیاگیا.بلکہ توکفار سے کہہ دے کہ مجھے توصر ف ہوشیار کرنے کے لئے بھیجا گیاہے زبردستی مسلمان بنانے کے لئے نہیں بھیجاگیا.غرض سور ئہ نمل کے آخرمیں قرآن کریم پڑھ کرسنانے کاحکم دیاگیاتھا.اس حکم کوپوراکرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورئہ قصص نازل کی اوراس کے شروع میں ہی فرما دیاکہ طٰسٓمَّ یعنی خدائے لطیف سمیع اورمجید نے یہ سورۃ نازل کی ہے تاکہ اس وعدے کوپوراکیاجائے جوسورہ نمل میں کیاگیاتھااورانہیں ایک ایسی کتاب دی جائے جو سب مضمونوںکوکھول کربیان کرنے والی ہوتاکہ دنیا کے ہرملک اورہرگوشے میں اسے پڑھاجائے اور قیامت تک آنے والی نسلیں اس کی روحانی راہنمائی سے مستفیض ہوتی رہیں.خلاصہ مضامین اس سورۃ کے ابتدا ء میں حروف مقطعاتطٰسٓمّٓ بیان کئے گئے ہیں.جن میں خدا تعالیٰ کے لطیف.سمیع اورمالک یامجید ہونے کی طرف اشار کیاگیاہے اورپھر خدا تعالیٰ کے لطیف اورسمیع ہونے کی مثال کے طور پر حضرت موسیٰ ؑ اورفرعون کاواقعہ بیان کیاگیاہے اورکہاگیا ہے کہ جوواقعہ ہم بیان کریں گے وہی سچاہوگا.یعنی بائیبل میں جوواقعات بیان کئے گئے ہیں وہ قابل اعتبار نہیںہیں.(آیت ۱تا۴) فرماتا ہے فرعون نے بہت تکبر سے کام لیا تھا.او ررعایامیں شدید اختلاف پیداکردیاتھا.وہ بنی اسرائیل کے بیٹوں کوہلاک کرتاا ور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتاتھااوراس طرح ان کی طاقت کو کچلناچاہتاتھا.لیکن ہم نے یہ اراد ہ کرلیاتھا کہ وہ لوگ جوملک میں کمزور سمجھے جاتے ہیں ان کو دنیا کالیڈر بنادیں اور انہیں ویسی ہی نعمتوں کا وارث بنادیں جیسی فرعون کوحاصل تھیں.اورفرعون او رہامان دونوں کو وہ انجام دکھادیں جس سے وہ ڈررہے تھے.(آیت ۵تا۷) پھر موسیٰ ؑ کی پیداش کاواقعہ بیان کرتاہے اوربتاتاہے کہ ہم نے اُمِ موسیٰ ؑ کو وحی کی کہ اسے بیشک دودھ پلائو مگرجب تجھے اس کی جان کوخطرہ محسوس ہوتو اسے دریا میں ڈال دے.امّ موسیٰ ؑ نے ایسا ہی کیا.اوراسے ٹوکرے میں بند کرکے دریا میں ڈال دیا.ٹوکرابہتے بہتے فرعون کے محلّات کے پاس سے گذراتوفرعون کے خاندان میں سے کسی نے اسے اٹھالیا.اوراس خاندان کی ایک عورت نے بادشاہ سے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اسے قتل نہ کریں.ممکن ہے یہ بڑاہوکر ہمیں کوئی فائدہ پہنچائے یاہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنالیں.(آیت ۸تا۱۰) ادھر موسیٰ ؑ کی والدہ کایہ حال تھا کہ جب اس نے اپنے بیٹے کو سمندر میں ڈال دیا تواس کے دل پر سے فکروغم کا
بوجھ اترگیااوراس کی ایسی حالت ہوگئی کہ اگرہم اس کے دل کومضبوط نہ کرتے توقریب تھاکہ وہ اس راز کو ظاہر کر دیتی.موسیٰ ؑ کی ماں نے اس وقت موسیٰ ؑ کی بہن کوبلایا.اوراسے کہا کہ تواس ٹوکرے کے پیچھے پیچھے جااوردورسے اسے دیکھتی رہ.چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.اوردورسے ٹوکرے کودیکھتی رہی.لیکن فرعونیوںکو اس کاکوئی پتہ نہ چلا.جب موسیٰ ؑ شاہی محلات میں جاپہنچے اورانہیں دودھ پلانے کاسوال پیش آیا.توموسیٰ ؑ نے الٰہی تصرف کے ماتحت دوسری دائیوں کادودھ پینے سے انکار کردیا.اس پر موسیٰ کی بہن جوساتھ ساتھ آئی تھی کہنے لگی کہ میں تمہیں ایک گھر کا پتہ دیتی ہوں جس کے افراد اسے بخوشی پال لیں گے.اوروہ اس کی ہرطرح نگہداشت رکھیں گے.چنانچہ اس الٰہی تدبیر سے موسیٰ ؑ پھر اپنی ماں کی گود میں واپس آگئے اوراس کی آنکھوںکوٹھنڈک پہنچی.(آیت ۱۱تا۱۴) جب موسیٰ ؑ اپنی روحانی بلوغت کو پہنچے تواللہ تعالیٰ نے انہیں صحیح فیصلہ کرنے کی قوت دی اور آسمانی علوم سے نوازا.ایک دفعہ ایساہواکہ رات کے وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام شہر میں گئے توانہوں نے دوآدمیوںکوآپس میں دست و گریبان ہوتے دیکھا.ایک ان کا ہم قوم تھااوردوسراان کی دشمن قوم کافردتھا.موسیٰ ؑ کو دیکھ کر ان کے ہم قوم شخص نے انہیں اپنی مدد کے لئے آوازدی.جب موسیٰ علیہ السلام آئے توانہوں نے دوسرے شخص کو ایک گھونسہ ماردیاجس کے لگتے ہی وہ شخص گرا اور گرکرمرگیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعاکی.کہ اے میرے رب! میرے اس فعل پر جو میں نے اپنی قوم کے ایک مظلوم شخص کی مددکے لئے کیاتھا.مگرنادانستہ طورپر ایک آدمی مرگیا.اپنے فضل سے پردہ ڈال دے.اورمجھے اس کے برے نتائج سے محفوظ رکھ.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسافضل کیاکہ گورنمنٹ کاکوئی آدمی اس وقت نہ آیا اورمعاملہ مخفی رہا.دوسری صبح وہ پھر شہر میں آئے اورانہوںنے دیکھا کہ وہی شخص جس نے کل انہیں اپنی مدد کے لئے بلایاتھا.آج پھر کسی شخص سے لڑ رہاہے موسیٰ ؑ کودیکھتے ہی اس نے پھر آپ کو آواز دی.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب دیکھا کہ آج بھی وہی شخص دوسرے سے لڑ رہاہے توانہوں نے سمجھا کہ یہ شخص بھی گرم مزاج اورلڑاکامعلوم ہوتاہے.اورانہوں نے اسے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ تُو بھی بڑاجوشیلا اور تیز مزاج ہے کہ ہروقت لڑتارہتاہے.مگرجب انہوں نے دوسرے شخص کو پکڑنے کے لئے اپناہاتھ بڑھایاتوان کے ہم قوم شخص نے غلطی سے یہ سمجھا کہ شاید موسیٰ ؑ آج مجھے مارنے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں.اورکہنے لگا.اے موسیٰ!کیاتویہ چاہتاہے کہ آج مجھے بھی اسی طرح ماردے جس طر ح تونے کل ایک شخص کوماراہے.اس کے اس فقرہ سےاردگرد کے سب لوگوں کومعلوم ہوگیاکہ کل جوشخص مراہے اسے موسیٰ ؑ نے ہی ماراتھا.اور چونکہ مقتول فرعونی قوم سے تعلق رکھتاتھا.اس لئے یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی.(آیت ۱۵تا۲۰)
اسی دوران میں اچانک ایک شخص شہر کے دوسرے حصہ سے دوڑتاہواآیا.اوراس نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ اے موسیٰ!سرداران قوم تجھے قتل کرنے کا مشورہ کررہے ہیں.اس لئے توفوراً اس شہر سے نکل کرکسی اَورجگہ چلا جا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اسی وقت شہر سے نکل کر مدین کی طرف چل پڑے.و ہ چاروں طرف احتیاط کے طورپر دیکھتے بھی جاتے تھے اوردعابھی کرتے جاتے تھے کہ الٰہی مجھے ظالم قوم کی شرارتوںسے نجات دے.(آیت ۲۱تا۲۲) آخرچلتے چلتے و ہ مدین کے چشمہ پر پہنچے وہاں انہوں نے دیکھا.کہ لوگ اپنے جانوروں کوپانی پلارہے ہیں.اوردولڑکیاں اپنے جانوروں کو روک کرالگ کھڑی ہیں.موسیٰ علیہ السلام نے ان سے دریافت کیا کہ وہ اس طرح کیوں کھڑی ہیں.انہوں نے کہا.کہ جب تک سب لوگ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلاکر واپس نہ لے جائیں ہم پانی نہیں پلایاکرتیں.کیونکہ ان اوباشوں کے گروہ میںملناہمیںپسند نہیں.اورہم خود اس لئے آتی ہیں کہ ہماراباپ بوڑھا ہے.وہ یہ کام نہیں کرسکتا.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر ان کے جانوروں کوپانی پلادیا او رپھر ایک درخت کے سایہ میں بیٹھ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ الٰہی میرے لئے خیروبرکت کے سامان مہیا فرما.(آیت ۲۳تا۲۵) ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ ان میں سے ایک لڑکی شرماتی ہوئی آئی.اوراس نے کہا کہ میراباپ آ پ کو بلاتا ہے تاکہ آپ کوا س نیک سلوک کی جو آپ نے ہمارے ساتھ کیا ہے جزادے.وہاں پہنچ کرحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی تمام سرگذشت بیان کردی.لڑکیوں کے باپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کوتسلی دی کہ اب کوئی فکر نہ کرو.ظالم قوم سے تم نجات پاچکے ہو.اسی دوران میں ان میں سے ایک لڑکی نے کہا کہ اباجان!آپ انہیں ملازم رکھ لیں.یہ مضبوط بھی ہیںاوردیانت دار بھی.لڑکیوںکاباپ بھی اپنی لڑکیوں سے یہ ذکر سن کر آپ کی دیانت کاقائل ہوچکاتھا اس نے فوراً یہ تجویز پیش کردی کہ اگرآپ آٹھ سال تک خدمت کریں تو میں ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کاآپ سے نکاح کردوں گا.اوراگرآپ آٹھ کی بجائے دس سال تک خدمت کریں تویہ آپ کااحسان سمجھاجائے گا.حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اس تجویزکو قبول کرلیااور فرمایاکہ دونوں مدتوں میں سے جو میعاد بھی میں پوری کرسکا میرے لئے اس کاپوراکرناجائز ہوگا.(آیت ۲۶تا۲۹) مقر رہ میعاد پوری ہونے کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے اہل کے ساتھ وہاں سے چل پڑے.راستہ میں انہوں نے طورکی طرف ایک آگ کاشعلہ دیکھا.اوراپنے اہل سے کہا کہ میں نے ایک آگ دیکھی ہے.میں وہاں جاکریاتو تمہارے لئے کوئی خبر لائوں گا.یااس آگ میں سے کوئی انگارہ لائوں گا.تاکہ تم سینک سکو.(آیت ۳۰)
جب وہ آگ کے پاس پہنچے تو انہیں اس مبارک مقام کے دائیں طرف کے کنارہ کی طرف سے ایک درخت کی جہت سے آواز آئی کہ اے موسیٰ! میں رب العالمین خداہوں.پھر الہام ہواکہ تُواپناعصاپھینک دے.انہوں نے عصاپھینکا.تووہ انہیں ایک چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے حر کت کرتا ہوانظر آیا.حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نظارہ کودیکھ کروہاں سے پیٹھ پھیر کر بھاگے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا.اے موسیٰ !ڈر نہیں.توسلامتی پانے والوں میں سے ہے.پھراللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ اپنے ہاتھ کو اپنےگریبان میں ڈال اور اپنے بازو کو ڈر کی وجہ سے اپنے جسم سے ملالے.یہ نشان ہیں جو فرعون اور اس کے سرداروں کے لئے تجھے عطاکئے گئے ہیں.(آیت ۳۱تا۳۳) جب موسیٰ ؑ کو فرعون کی طرف جانے کاحکم ملا.توانہوں نے کہاکہ خدایا میرے ہاتھ سے تواس کی قوم کاایک فرد مر چکاہے.ایسانہ ہو کہ تیرے پیغام کے پہنچانے سے پہلے ہی میں ماراجائوں.پھر انہوں نے کہا کہ خدایاہارون جو میرابھائی ہے وہ مجھ سے زیادہ فصاحت رکھتاہے تواس کو میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج دے.اللہ تعالیٰ نے اس دعاکوقبول کیا اورفرمایا ہم ہارون کے ساتھ تیرے بازوکو مضبوط کریں گے.اور تم دونوں کوکھلاکھلا غلبہ عطافرمائیں گے.فرعون تم دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے گا.(آیت ۳۴تا۳۶) حضرت موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے پاس گئے.اورآپ نے انہیں اللہ تعالیٰ کاپیغام پہنچایاتو فرعون اور اس کے سرداروںنے آپ کی شدید مخالفت کی.اور اسے ایک سکیم کے ماتحت تیار شدہ فریب قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی باتیںتوہم نے اپنے باپ داداسے کبھی نہیں سنیں.پھر فرعون نے ہامان سے کہا.کہ ایک بہت بلند اور اونچی عمارت بنائو.شائد میں اس پر چڑھ کر موسیٰ ؑ کے خدا کودیکھ سکوں.اس طرح اس نے اور اس کے ساتھیوں نے تکبر سے کام لیا.مگراس کانتیجہ کیانکلا ؟ ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو سمندر میں غرق کردیا اوراب اس دنیامیں بھی ان پر لعنت برستی چلی جائے گی اورقیامت کے دن بھی وہ ذلیل ترین لوگوں میں کھڑے کئے جائیں گے.(آیت ۳۷تا۴۳) فرماتا ہے ہم نے موسیٰ ؑ کو ایسی کتاب دی تھی جو لوگوں کو روحانی بینائی بخشنے والی اورہدایت اور رحمت کاسامان اپنے اندررکھنے والی تھی.مگرانہوں نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.جیساکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہود بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھارہے.اس کے بعداللہ تعالیٰ تورات کی ان پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرتاہے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی.اور فرماتا ہے کہ تُواس وقت موسیٰ ؑ کے ساتھ نہیں تھا جب ہم نے طورکے مغر بی جانب رسالت کاکام اس کے سپرد کیا.اورنہ تُو مدین والوں کے ساتھ رہتاتھاجبکہ ہم نے وہاں تیرے متعلق پیشگوئی کی.اگرایساہوتاتوسمجھاجاسکتاتھا کہ تم دونوں نے مل کر باہم منصوبہ کرلیاہوگا.لیکن
موسیٰ ؑ توتیری پیدائش سے دوہزار سال پہلے گذرچکے تھے.پھراس کی کتاب میں تیرے متعلق پیشگوئیوں کاپایاجانا تیری صداقت کاکیوں ثبوت نہیں.(آیت ۴۴تا۴۷) پھر بتایاکہ نبیوں کی بعثت قوموں پر حجت تمام کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہے.اگرنبی نہ آئیں تو لوگ خدا تعالیٰ کے سامنے عذر کرسکتے ہیں کہ ہماری طرف توکوئی سمجھانے والانہیں آیا.پھر ہمیں کیوں سزادی جاتی ہے.مگراب جبکہ خدا تعالیٰ نے ان کی اصلاح کے لئے ایک نبی کو مبعوث فرما دیا ہے وہ اس پراعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ موسیٰ ؑ کی طرح اس پر یکدم اکٹھی کتاب کیوں نازل نہیں ہوئی.فرماتا ہے.اگر یہی صداقت کی دلیل ہے تو پھر موسیٰ کاکیوں انکار کیاگیا.اس کے زمانہ میں بھی تولوگوںنے یہی کہہ دیاتھا کہ موسیٰ ؑ اورہارون ؑ دونوں جادوگر ہیں جوایک دوسرے کی مددکرتے ہیں.پس تورات کابھی انکار کیاگیااور قرآن کابھی انکا رکیاگیا.تورات کا تواس لئے انکار کیاگیاکہ وہ اکٹھی کیوں نازل ہوئی ہے اورقرآن کااس لئے انکار کیاگیاکہ یہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے کیوں نازل ہوا.اب تم کوئی ایسی کتاب لائو جوکسی تیسرے طریق سے نازل ہوئی ہو.اوراس نے دنیا میں ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پھیلائی ہو مگر تم ایساکبھی نہیں کرسکتے.(آیت ۴۸تا ۵۰) ان لوگوں کے یہ اعتراضات بتارہے ہیں کہ انہیں کسی سچائی سے غرض نہیں.بلکہ جوبھی پراگندہ خیال ان کے دل میں آتاہے.وہ اسے ظاہر کردیتے ہیں اورایسے لوگ جوپراگندہ خیالات او رنفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے ہوں کبھی کامیاب نہیں ہواکرتے.(آیت ۵۱) فرماتا ہے ہم نے اس وحی کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرکے نازل کیاہے اورسارے قرآن میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے.وہ لوگ جنہیں ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی اورجوسچے معنوں میں اہل کتاب ہیں و ہ تورات پر بھی ایمان رکھتے ہیں اورقرآن کریم کی سچائی کو بھی تسلیم کرتے ہیں.ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور دوہرے اجر کے مستحق ہیں.(آیت ۵۲ تا۵۵) پھر ان لوگوں کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ و ہ بدی کانیکی سے مقابلہ کرتے اوراپنی تمام طاقتوں کو خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کرتے ہیں اورہرقسم کی لغو باتوں سے اعراض کرتے ہیں.اوردشمنی کرنے والوں کی بھی سلامتی چاہتے ہیں.(آیت ۵۵و۵۶) پھر بتایاکہ ہدایت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی میسر آتی ہے.مگراس کے لئے ضروری ہوتاہے کہ انسان اپنے دل کوایساصاف رکھے کہ خدا تعالیٰ کے فضل کاہاتھ اسے ہدایت کی طرف کھینچ کرلے جائے.(آیت ۵۷)
یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگرہم اسلام قبول کرلیں تو اردگرد کی قومیں ہمیں فوراًتباہ کردیں گی.حالانکہ ان لوگوں کو سمجھنا چاہیے تھاکہ جس خدا نے ابراہیمؑ کے زمانہ سے مکہ کوحرم قرار دیاہواہے اوراس بے آب و گیاہ جنگل میں ساری دنیا کے پھل اورغلّہ لارہاہے وہ اس زمانہ کی ہدایت کو قبول کرلینے والوں کی کیوں حفاظت نہیں کرے گا اورکیوں انہیں بے یارو مدد گار چھو ڑ دے گا.مگر ان لوگوں کوخدا تعالیٰ پر ایمان نہیں اوراپنی طاقت پر گھمنڈ کررہے ہیں.ان کی آنکھوں کے سامنے وہ بستیاں موجود ہیں جوعذاب سے تباہ ہوگئیں.مگرپھر بھی یہ نصیحت حاصل نہیں کرتے.یہ تباہی ان بستیوں میں رہنے والوں پر اسی لئے آئی تھی کہ انہوں نے رسولوں کاانکار کیا.بے شک دنیوی مال ودولت بھی اچھی چیز ہے.مگرخدا تعالیٰ کی طرف سے جوترقی ملتی ہے وہ اس تھوڑے سے دنیوی مال یاتھوڑے سے سونے چاندی سے بہت بہتر ہوتی ہے مگر ان لوگوں کی عقل ایسی کمزور ہے کہ اتنی موٹی بات بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی.( آیت ۵۸تا۶۱) پھر بتایاکہ جس کے پاس دنیوی دولت ہو وہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتاجن سے اللہ تعالیٰ نے دائمی روحانی برکات کاوعدہ کیاہواہے.کیونکہ اچھی چیز وہی ہے جس کاانجام اچھاہو.اوران لوگوںکاانجام یہ ہوگاکہ قیامت کے دن انہیں جواب دہی کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضورحاضر ہوناپڑے گا.(آیت ۶۲) اس وقت ائمۃ الکفر جولوگوں کو اپنے پیچھے چلاتے تھے خدا تعالیٰ کے سامنے یہ عذر کریں گے کہ ہم نے توان لوگوں کو وہی باتیں سکھائی تھیں.جن کوہم سچاسمجھتے تھے مگران لوگوں پر ہماراکوئی اختیار نہیں تھا.انہوں نے ہماری باتوں کو اس لئے ماناکہ خودان کااپنادل ان باتوں کومانناچاہتاتھا ورنہ درحقیقت یہ ہمارے پیچھے نہیں چلے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کی ہی انہوں نے تقلید کی ہے.( آیت ۶۳و ۶۴) اس کے بعد ان کے جھوٹے معبودوں کی بیچارگی ظاہر کرنے کے لئے انہیں کہا جائے گا کہ اب اپنے معبودوں کوبلائو اورانہیں کہوکہ وہ تمہیں اس عذاب سے نجات دیں.وہ آوازیں دیں گے مگران کاکوئی معبود انہیں جواب نہیں دے گا.اس وقت گمراہ ہونے والے حسرت اور افسوس سے کہیں گے کہ کاش ہم ہدایت اختیار کرتے اور اس غلط راستے پر نہ چلتے.(آیت ۶۵) پھر خدا تعالیٰ ان سے پوچھے گا کہ بتائوجو رسول میں نے تمہاری طرف بھیجے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیاتھا.اس پر وہ ایسے گھبراجائیں گے کہ تمام خیالات ان کے دماغ سے نکل جائیں گے اوروہ ایک دوسرے سے بھی کوئی بات پوچھنے کی طاقت نہیں رکھیں گے.ہاں وہ لوگ جوایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کئے وہ یقیناً بامراد ہوں گے.(آیت ۶۶تا۶۸)
پھربتایاکہ تمام تغیرات اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اورو ہ جو تغیر بھی چاہتاہے جاری کرتاہے.لیکن کفارکو ایساکوئی اختیارحاصل نہیں.اللہ تعالیٰ ان کے ظاہر کوبھی دیکھتاہے اور ان کے دل کے مخفی رازوں سے بھی آگاہ ہے اوروہ وحدہٗ لاشریک ہے ابتداء بھی اسی کی طر ف سے ہوتی ہے اورانجام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے اوروہ اپنے ہرکام میں حمد کاہی مستحق ہوتاہے.(آیت ۶۹تا۷۱) فرمایا.یہ لوگ شرک توکرتے ہیں لیکن اتنانہیں سوچتے کہ اگر رات کواللہ تعالیٰ قیامت تک کے لئے لمبا کردے تو خدا تعالیٰ کے سوااورکون ہے جو ان کے پاس روشنی لائے گا.یااگردن کو قیامت تک کے لئے لمباکردے تو خدا تعالیٰ کے سوااَورکون ہے جوان کے لئے رات کا وقت لائے.خدا تعالیٰ ہی ہے جو سورج کوچڑھاتااورغروب کرتاہے.پھر فرمایا.یہ رات اور دن کاتسلسل اس لئے ہے کہ رات میں تم سکون حاصل کرسکو اوردن میں کام کاج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کافضل تلاش کرو.اوراس طرح اللہ تعالیٰ کے شکر گذار بندے بنو.مگرمشرک لوگ اپنے مزعومہ معبودوں کواس کاشریک قرار دے دیتے ہیں حالانکہ کوئی مشرک نہیں جویہ تسلیم کرتاہوکہ سورج کواس کامعبود چڑھاتاہے یا اس کاغروب ہونا کسی بت کے اشارہ سے ہوتاہے.(آیت ۷۲ تا۷۴) فرمایا.ایک دن آنے والا ہے جب ان مشرکوں سے کہا جائے گاکہ آج تمہارے مزعومہ شرکاء کہاں ہیں.وہ کیوں تمہاری مددنہیں کرتے.اگرتمہارے پاس شرک کی تائید میں دلائل تھے توتمہاری وہ دلیلیں کہاں چلی گئیں.تب مشرکوں پر اپنے بتوں کاجھوٹا ہونا بالکل واضح ہوجائے گا اوروہ کہیں گے کہ سچی بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے کہی تھی.اوران کے تمام مفتریانہ دعاوی ان کو بھول جائیں گے.(آیت ۷۵ تا۷۶) اس کے بعداللہ تعالیٰ مخالفوں کے سامنے قارون کی مثال پیش کرتاہے اوربتاتاہے کہ اس نے دولت کے نشہ میں اپنی قوم پر سختی کرنی شروع کردی و ہ خزانوں کا افسر تھا جن کی کنجیاں اٹھانابھی ایک مضبوط جماعت کے لئے دوبھر ہوتاتھا.اس کی قوم نے اسے سمجھایاکہ تکبر نہ کر.اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کوپسند نہیں کرتا.مگراس نے کہا.یہ رتبہ مجھے یونہی نہیں ملا بلکہ میں نے اپنے علم کے زور سے اسے حاصل کیا ہے.اس نے یہ نہ سوچاکہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے کتنی ہی قوموں کو تباہ کرچکا ہے جوا س سے بھی زیادہ طاقتور تھیں.پھر ایساہوکہ ایک دن وہ بڑی شان و شوکت سے اپنی قوم کے سامنے سے گذرااورقوم نے اس پر رشک کیا مگرجولو گ روحانی نگاہ رکھنے والے تھے انہوںنے کہا کہ یہ کوئی قابل رشک چیز نہیں.رشک کے قابل وہ جزاہے جو مومنوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے.مگریہ جزاانہی لوگوں کوملاکرتی ہے جومشکلات میں صبر سے کام لیتے ہیں.آخر قارون کی سزاکا وقت آگیا اور ہم نے اسے اور اس کے
سارے خاندان کو ایساذلیل کیا کہ نہ توکوئی گروہ اس کی مدد کے لئے نکلا اورنہ وہ خود اپنی حالت کو بدل سکا.اورلوگوں کو اقرار کرناپڑا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والوں کاانجام ایسا ہی ہواکرتاہے.(آیت ۷۷تا۸۳) اس کے بعد بتایاکہ جو لوگ ملک میں ناجائزغلبہ کے حصول کی کوشش نہیں کرتے اورنہ فساد پھیلاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہی کو ترقیات سے حصہ دیاکرتاہے.(آیت ۸۴) پھر نیکی اور بدی کی جزاء کے متعلق روشنی ڈالی اور بتایاکہ ہمارایہ اصول ہے کہ نیکی کابدلہ توکام کی نسبت سے بہت زیادہ دیاجاتاہے لیکن بد ی کی سزا صرف اسی قدر دی جاتی ہے جس قدر قصور ہوتاہے.اورپھر پیشگوئی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ گوایک دن تیری قوم تجھے مکہ سے نکال دے گی لیکن وہ خداجس نے تجھ پر قرآن فرض کیاہے وہ اپنی ذات کی قسم کھاکر تجھ سے یہ وعدہ کرتاہے کہ وہ تجھے پھر مکہ میں واپس لائے گااور تجھے ان لوگوں پر غلبہ عطافرمائے گا.وہ خوب جانتاہے کہ کو ن ہدایت لے کرآیا ہے اورکون اس کا انکار کرکے گمراہ ہوچکاہے.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ ہدایت لانے والا ناکام رہے اور گمراہ کامیاب ہوجائیں.(آیت ۸۵و۸۶) اے قرآن کے مخاطب اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھنے کے بعد تیرافرض ہے کہ توکفار کاکبھی مددگار نہ بن اور کبھی شرک کے قریب مت جااور کبھی اللہ تعالیٰ کے سواکسی اَورکواپنا معبود نہ بنا.کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواکوئی معبود نہیں.دنیا کی ہرچیز حتیٰ کہ ہرمزعومہ معبود بھی ہلاک ہوگا اور صرف وہی بچیں گے جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی کیونکہ حکم بھی اللہ تعالیٰ کا ہی چلتاہے اور سب مخلوقات نے پیش بھی اسی کے حضورہوناہے.
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں )اللہ (تعالیٰ)کانام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا(اور)بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتاہوں) طٰسٓمّٓ۰۰۲ طاہر(پاک)سمیع (دعائیں سننے والا)مجید (بڑی بزرگی والاخدااس سورۃ کونازل کرنے والا ہے).تفسیر.اس سورۃ کے ابتداء میں حروف مقطعات طٰسٓمّٓ رکھے گئے ہیں.جولطیف.سمیع اورمالک یا مجید کے قائم مقام ہیں.اوراس کے معنے یہ ہیں کہ خدا لطیف ہے اوروہ لطف اور مہربانی سے کام لیتا ہے جبر اورسختی سے کام نہیںلیتا.وہ سمیع ہے.جب دنیا ہدایت سے محروم ہوئی اوران کے دلوں میں سے خدا تعالیٰ کی طرف پکار اٹھی کہ ہمیں ہدایت دے تو اس نے یہ قرآن بھیج دیا.وہ مالک ہے مخلوق کا اس لئے وہ اپنے بندوں کویونہی نہیں چھوڑ سکتاتھا.یامیم مجید کاقائم مقام ہے.اس صورت میں اس کے یہ معنے ہیں کہ خدابڑی بزرگی والا ہے.پس یہ اس کی شان کے خلاف تھا کہ اس کے کمزور بندے ہدایت سے محروم ہوتے.اوروہ ان کی خبر نہ لیتا.اور چونکہ انہی صفات کو سورئہ شعراء کے ابتداء میں بھی بیان کیا گیا ہے اس لئے مغزِ مضمون کے لحاظ سے ان دونوں سورتوں کامضمون آپس میں ملتاجلتاہے.بعض لوگ قرآن کریم پر تدبر نہ کرنے کی وجہ سے کہاکرتے ہیں کہ اس کی آیتیں اورسورتیں یوں ہی بے جوڑ رکھی گئی ہیں.حالانکہ ایک ادنیٰ غور سے بھی معلوم ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کی سورتیں بھی کسی خاص مقصد کے ساتھ آگے پیچھے رکھی گئی ہیں.اوراس کی آیتیں بھی اپنے اند رترتیب او رجوڑ رکھتی ہیں.چنانچہ سورۃ شعراء اورسورئہ قصص کودیکھ لو.سورئہ شعراء سے پہلے بھی طٰسٓمّٓ حروف مقطعات کے طور پر رکھے گئے ہیں.اورسورئہ قصص سے پہلے بھی طٰسٓمّٓ حروف مقطعات کے طور پر رکھے گئے ہیں.اورسورئہ شعراء میںبھی ان حروف کے بعد یہ آیت ہے کہ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ.اوراس سورۃ میں بھی طٰسٓمّٓ کے بعد یہ آیت ہےتِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ.اس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ حروف مقطعات کسی خاص غرض کے لئے ہوتے ہیں.اورایک جیسے حروف ایک ہی قسم کے مضمون پر دلالت کرتے ہیں.ہم نے سورئہ نمل کے تفسیری نوٹوں میں بتایاتھاکہ سورئہ نمل کو طٰسٓمّٓ کی بجائے جوشعراء سے پہلے رکھے گئے
ہیں صرف طٰسٓ سے شروع کیاگیا ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کامجد اوراس کی بزرگی جتنی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ظاہر ہوئی ہے جن کاسور ئہ شعراء میں ذکر آتاہے اتنی بزرگی موسیٰ اورسلیمان علیہم السلام کے وجود سے ظاہر نہیں ہوئی جن کا ذکر سورئہ نمل میں آتاہے.اب اس سورۃ میں پھر طٰسٓ کے بعد میم بڑھادیاگیاہے.کیونکہ اس سورۃ میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاخاص طور پر ذکر کیاگیاہے خصوصاً فتح مکہ کا.جس سے اللہ تعالیٰ کی بزرگی ظاہرہوئی.تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ۰۰۳ یہ (یعنی اس سورۃ کی آیات) ایک مدلّل کتاب کی آیات ہیں.تفسیر.فرماتا ہے.اس سورۃ میں جوآیتیں بیان کی گئی ہیں وہ ایک کتاب مبین کی آیتیں ہیں.یعنی اس کتاب کی جوسب مضمونوں کو کھول کربیان کرتی ہے یادوسرے لفظوں میں ہرمضمون کی دلیلیں دیتی ہے.اس آیت میں سورئہ نمل کی آخری آیت وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ اِنَّمَا اَنَا مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ.پروارد ہونے والےاس سوال کابھی جواب دے دیاگیاہے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوصرف منذر بنایاہے زبردستی کرنے کی اجازت نہیں دی.اوراس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ ان پر نازل ہونے والی کتاب ہرمضمون کے دلائل پیش کرتی ہے.اورجس کے ساتھ مدلّل کتاب ہو اورجس کے ہردعویٰ کاثبوت موجود ہو اسے زبردستی کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی.اگر کوئی شخص اس کی باتوں کو سن کر سچے دل سے غور کرے گا توآپ ہی ہدایت پا جائے گا.اوراگرغور نہیں کرناچاہے گاتواس پر زبردستی کرنابیکار ہے کیونکہ جس کودلیل ٹھیک نہیں کرسکتی جبر بھی اس کو ٹھیک نہیں کرسکتا.نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ مومن قوم کے فائدہ کے لئے ہم موسیٰ اور فرعون کے صحیح سوانح تیرے يُّؤْمِنُوْنَ۰۰۴ سامنے پڑھتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے اے محمدؐ رسول اللہ!خدا تعالیٰ کےلطیف اور سمیع ہونے کی مثال کے طور پر ہم تجھے موسیٰ ؑ
کاواقعہ سناتے ہیں لیکن اس شکل میں سناتے ہیں جس شکل میں وہ ہواتھا.یعنی تورات نے اس میں بہت سے انسانی خیالات ملادیئے ہیں.توان انسانی خیالات کو الگ کرکے اصل حقیقت لوگوں کے سامنے بیان کر.قرآن شریف کی اس آیت کی تصدیق پادری وہیری کے نوٹ سے ظاہرہوجاتی ہے.وہ اس جگہ لکھتے ہیںکہ یہاں محمدؐ رسول اللہ نے موسیٰ ؑ کے سارے حالا ت بیان نہیں کئے.جس سے پتہ لگتاہے کہ انہیں یہودیوںسے نامکمل حالات پہنچے تھے.لیکن قرآن نے پہلے سے وہیری کے اس اعتراض کو مد نظررکھتے ہوئے بتادیاتھاکہ سچاواقعہ وہی ہے جو ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں.اگراس کے علاوہ کوئی اَورواقعہ تیرے پاس بیان کیا جائے تواس کو ہرگز سچانہ سمجھ.اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْاَرْضِ وَ جَعَلَ اَهْلَهَا شِيَعًا فرعون نے (اپنے )ملک میں بڑی تعلّی سے کام لیاتھا اوراس کے رہنے والوں کو ٹکڑے ٹکڑ ے کردیاتھا.يَّسْتَضْعِفُ طَآىِٕفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ وَ يَسْتَحْيٖ وہ ان میں سے ایک گروہ کو کمزور کرناچاہتاتھا.(اس طرح کہ) ان کے بیٹوں کو قتل کرتاتھااور ان کی نِسَآءَهُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِيْنَ۰۰۵وَ نُرِيْدُ اَنْ لڑکیوں کوزندہ رکھتاتھا.اوروہ یقیناًفسادیوں میں سے تھا.اورہم نے ارادہ کررکھاتھاکہ جن لوگوں نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ کو اس نے ملک میں کمزور سمجھ رکھاتھا ان پر احسان کریں اوران کو سردار بنادیں اوران کو (تمام نعمتوں کا ) اَىِٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَۙ۰۰۶وَ نُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وارث کردیں.اوران کو ملک میں تمکنت بخشیں اورفرعون اور ہامان اوران کے لشکروں کو وہ کچھ دکھائیں وَ نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۰۰۷ جس کاان کو خوف لگاہواتھا.حل لغات.شِیَعًا:شِیَعًاشِیْعَۃٌ کی جمع ہے اور شِیْعَۃُالرَّجُلِ کے معنے ہیں اَتْبَاعُہٗ وَاَنْصَارُہٗ.
کسی شخص کے پیروکار اورمددگار.نیز اَلشِّیْعَۃُ کے معنے ہیں اَلْفِرْقَۃُ.گروہ(اقرب) یَحْذَرُوْنَ:یَحْذَرُوْنَ حَذِرَسے فعل مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اورحَذِرَ یَحْذَرُ (حِذْرًا وَ حَذَرًا وَمَحْذُوْرَۃً) کے معنے ہیں تَحَرَّزَمِنْہُ.اس سے بوجہ خوف اجتناب کیا (اقرب) پس مَاکَانُوْا یَحْذَرُوْنَ کے معنے ہوں گے جس کاان کو خوف لاحق تھا.تفسیر.فرماتا ہے.موسیٰ ؑ کاواقعہ یوں ہواکہ فرعون نے اپنی حکومت کے گھمنڈ میں تکبر شروع کردیا.اور لوگوں پر تعدّی کرنی شروع کردی.و ہ تمام رعایاکے ساتھ ایک ساسلوک نہیں کرتاتھا.نہ ان کی ترقی کی طرف توجہ کرتاتھا.بلکہ مختلف نسلوں اور مختلف مذہبوں سے تعلق رکھنے والوںکو آپس میں لڑواتاتھا.اوربعض لوگوں کو پسندیدہ اور منتخب جماعت قرار دیتاتھا.اوربعض کو حقیر اورحکومت کی حفاظت سے خار ج قرار دیتاتھا.اوررعایاکے ایک طبقہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرتاتھا.اوران کی نرینہ اولاد وں کو ہلاک کردیتاتھا اور ان کی لڑکیوں کو زندہ رکھتاتھا.و ہ یقیناً زمین میں فساد کررہاتھا.لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیاتھا (اوراس زمانہ میں بھی فیصلہ کیاہے ) کہ جن کوکمزور کیاجارہاہے ہم ان پر احسان کر یں اور ہم ان کو دنیاکاسردار بنادیں اورہم ان کو ان انعامات کاوارث کردیں جو فرعون اور اس کے قریبیوں کو حاصل تھے.اورہم ان کو ملک میں طاقت بخشیں.اورہم نے یہ بھی فیصلہ کردیاتھا کہ فرعون او راس کے ساتھی ہامان کو اوران دونوںکے لشکروںکو وہ انجام دکھا دیں جس سے وہ ڈررہے تھے.یعنی یہ خوف کہ ملک کی بعض قومیں طاقتور ہوکر ان کو نقصان نہ پہنچادیں.وَجَعَلَ اَھْلَھَا شِیَعًا سے ظاہر ہے کہ فرعو ن نے ’’ڈیوائیڈ اینڈ رول‘‘کی پالیسی اختیار کی ہوئی تھی اوروہ جابر بادشاہوں کی طرح لوگوں کو ہمیشہ آپس میں لڑواتارہتاتھا تاکہ ان میں اتحاد او ریکجہتی پیدانہ ہو اوراس کے مظالم کی طرف لوگوں کی توجہ نہ پھر ے.جس طرح جابر بادشاہ بعض قوموں کی حمایت کرنا شروع کردیتے ہیں اوربعض کو ذلیل کردیتے ہیں اور اس طرح مستقل طور پر ایک دوسرے کے خلاف تنافراوربغض اور حسد کے جذبات بھڑ کاتے ہیں اسی طرح فرعون کی بھی یہی کوشش رہتی تھی کہ اسرائیلیوں اورغیراسرائیلیوں کا جھگڑاقائم رہے اوراس کی حکومت کے ظالمانہ افعال کی طرف ان کی توجہ نہ پھر ے.بہرحال قرآن مجید اس پالیسی کی شدید مذمت کرتاہے اوراسے فساد فی الارض کی بنیاد قراردیتاہے.اسلام کے نزدیک قانون کا اطلاق غریب او رامیر اورعالم اورجاہل پر یکساں ہوناچاہیے اوراس بار ہ میں کسی قسم کاامتیاز روانہ رکھناچاہیے.اوردرحقیقت دنیا میں وہی حکومت پائیدار امن قائم کرنے کاموجب ہوسکتی ہے جواس امتیاز کوکلیۃً دور کردے.اورقومی، ملکی ،نسلی یا مذہبی اختلاف کی بناپر عدل و انصاف
کے تقاضوں کو نہ کچلے.فرعون چونکہ بنی اسرائیل کو کمزور کرناچاہتاتھا اس لئے اس نے پہلے توبنی سرائیل کی نسل کو دائیوں کے ذریعہ بند کرناچاہا.مگر جب اس سکیم میں اسے ناکامی ہوئی اوردائیوں نے رحم سے کام لیاتواس نے لڑکوںکو دریامیں ڈالے جانے اور لڑکیوں کو زندہ رکھنے کاحکم دیا.چنانچہ خروج باب ۱ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھاہے.’’تب مصر کے بادشاہ نے عبرانی دائیوں سے جن میںایک کانام سفرہ اوردوسری کافوعہ تھا باتیں کیں.اورکہا کہ جب عبرانی عورتوں کے تم بچہ جنائو.اوران کو پتھر کی بیٹھکو ںپر بیٹھی دیکھو تواگر بیٹاہوتواسے مار ڈالنا اوراگربیٹی ہوتو وہ جیتی رہے.لیکن وہ دائیاں خدا سے ڈرتی تھیں.سوانہوں نے مصر کے بادشاہ کاحکم نہ مانا بلکہ لڑکو ں کو جیتاچھو ڑدیتی تھیں.پھر مصر کے بادشاہ نے دائیوں کو بلواکر ان سے کہا.تم نے ایساکیوں کیا کہ لڑکوں کو جیتارہنے دیا؟دائیوں نے فرعون سے کہا.عبرانی عورتیں مصری عورتوں کی طرح نہیں ہیں.وہ ایسی مضبوط ہوتی ہیں کہ دائیوں کے پہنچنے سے پہلے ہی جَن کر فارغ ہوجاتی ہیں.پس خدا نے دائیوں کابھلاکیا اورلوگ بڑھے اور زبردست ہوگئے.اوراس سبب سے کہ دائیاں خدا سے ڈر یں ا س نے ان کے گھر آباد کردیئے.اورفرعون نے اپنی قوم کے سب لوگوں کو تاکیداً کہا.کہ ان میں جو بیٹاہوتم اسے دریا میں ڈال دینا اورجو بیٹی ہو اسے جیتی چھوڑنا.‘‘ (خروج باب ۱آیت ۱۵ تا۲۲) قرآن کریم نے اس واقعہ کے متعلق يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ کے جو الفاظ استعمال فرمائے ہیں اس سے بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ فرعون بچوں کاگلا گھونٹ دیاکرتاتھا.مگر یہ درست نہیں.ذبح کے ایک معنے لغت میں ہلاک کردینے کے بھی لکھے ہیں(تاج العروس) پس يُذَبِّحُ اَبْنَآءَهُمْ کے معنے یہ ہیں کہ وہ بنی اسرائیل کے لڑکوں کو ہلاک کردیتاتھا.خواہ یہ ہلاکت دریا میں ڈبودینے سے ہو یاکسی اورذریعہ سے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَکُمْ کے الفاظ بھی استعمال فرمائے ہیں (الاعراف :۱۴۲)جس سے ان معنوں کی وضاحت ہوجاتی ہے.قرآن کریم نے بنی سرائیل کے بچوںکے قتل ہونے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سورئہ بقرۃ میں بھی یَذْبَحُوْنَ کی بجائے یُذَبِّحُوْنَ کے الفاظ استعمال کئے ہیں (البقرۃ : ۵۰)کیونکہ عربی زبان کے قواعد کی رُو سے یُذَبِّحُوْنَ کے معنوں میں زیادہ شدت او رسختی پائی جاتی ہے.اگر یَذْبَحُوْنَ کہاجاتاتواس کامطلب صرف یہ ہوتاکہ وہ ہلاک کرتے
تھے.لیکن یُذَبِّحُوْنَ کہہ کراس قو م کے غصہ اور کینہ کی طرف اشارہ کیاہے اوربتایاہے کہ وہ لوگ تلا ش کرکرکے بنی اسرائیل کے لڑکوں کوہلاک کرتے تھے.وَ نُرِيْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَى الَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِي الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَىِٕمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِيْنَ.میں اللہ تعالیٰ نے نُرِیْدُ کالفظ استعما ل فرمایا ہے جومضارع کاصیغہ ہے.جس میں استقبال کے معنے بھی پائے جاتے ہیں.گویااس کے معنے یہ ہیں کہ آئندہ بھی ہمارایہی ارادہ ہے.اس لفظ کو استعمال فرماکراللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نہ صرف موسیٰ ؑ کے وقت ہم نے یہ ارادہ کیاتھا بلکہ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہم نے یہ ارادہ کیاہے کہ حکومتِ ملکی جن لوگوں کو ظالمانہ طورپر کمزور کرناچاہتی ہے ان کو طاقت دی جائے کیونکہ وہ مظلوم ہیں.اورگو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبر کرنے کااختیار نہیں دیاگیا لیکن جس طرح الٰہی تدبیروں سے موسیٰ ؑ کے وقت کام لیاگیااورفرعون کوتباہ کیاگیااوراس کے اور اس کے درباریوں کے تختہء مشق لوگوں کی مدد کی گئی اوران کو اونچا کیا گیا اسی طرح الٰہی تدبیروں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت بھی کام لیاجائے گا اورمکہ والوں کوتباہ کیاجائے گا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو الٰہی تدبیروں کے ذریعہ سے اونچاکیاجائے گا.اوروہ الٰہی تدبیر اس نے شروع میں ہی بیان کردی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا ایک پُرحکمت اوربادلیل کلام ہے جس کے اثر اورطاقت سے لوگوں کے دل فتح ہوجائیں گے.گویانتیجہ تووہی نکلے گا جوموسیٰ ؑ کے وقت میں نکلامگرموسیٰ ؑ کے وقت میں تواحکام الٰہی کی تعمیل کے لئے آپ کو اپنی قوم کے ساتھ سختی بھی کرنی پڑی اورپھر موسیٰ ؑ کی ساری قوم ایمان بھی نہ لائی صرف سیاسی طورپر موسیٰ ؑ کے ساتھ ہوگئی جیساکہ بائیبل سے ظاہر ہے.کہ ایک لمبے عرصہ تک موسیٰ کی قوم موسیٰ ؑ پر اعتراض کرتی چلی گئی.مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں چونکہ پُرحکمت اوربادلیل کلام دیاگیاہے.آپ کی قوم پورے طور پر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے گی.اورموسیٰ ؑ کی قوم سے بھی بڑھ کر اس کوعزت حاصل ہوگی.موسیٰ ؑ کی قوم تو صرف فرعون کی شان و شوکت کے ایک حصہ کی وارث ہوئی تھی لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم اس سے بہت زیادہ ترقیات پائے گی کیونکہ اس کے ساتھ کتاب مبین ہوگی.جیساکہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًاکَبِیْرًا (الفرقان :۵۳) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ ! تجھے لڑائیاں توپیش آئیں گی لیکن وہ لڑائیاں تیر ی زندگی کاماحصل نہیں ہوں گی بلکہ تیری زندگی کے کاموں کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہوں گی.ماحصل تیری زندگی کایہ ہے کہ قرآن سے اپنی قوم کے ساتھ جنگ کر اوریہ جنگ ہی بڑی جنگ ہوگی.تلوار کی جنگ اس کے مقابلہ میں چھوٹی ہوگی.
اب دیکھ لو یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی مکہ والوں کو بے شک بعض عرب قبائل سے جنگیں پیش آئیں.لیکن وہ قبائل بھی چھوٹے تھے اوران کا نتیجہ بھی چھوٹاتھا.مگرجوجنگ آپ کو قرآن کریم کے ذریعہ کرنی پڑی وہ عرب سے بھی ہوئی ایران سے بھی ہوئی اور پھر بعد میں ساری دنیاسے ہوئی اور ہورہی ہے جس دن اس جنگ کانتیجہ نکلے گا ساری دنیا کے دل اسلام کے لئے فتح ہوجائیں گے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت میدانوں اور سمندروں کو پھاندتی ہوئی دنیا کے کناروں تک پہنچ جائے گی.اس کے مقابلہ میں ظاہری جنگوں کا نتیجہ بہت چھوٹاتھا مگر تعجب ہے کہ ان کھلی آیات کی موجود گی میں مغربی لوگ اب تک یہ اعتراض کرتے چلے جارہے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگو ںکے ساتھ اپنے دشمنوں کومغلوب کیا اگرمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فتوحات جنگوں کے ساتھ وابستہ تھیں توپھر قرآن کریم نے اشارۃً ان کو چھوٹاکیوں کہا اورقرآنی جنگ کو بڑاکیوں کہا.اس نے یہ کیوں فرمایاکہ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًاکَبِیْرًا.اے محمدؐ رسول اللہ! تیری اصل جنگ قرآن کریم کے ہتھیار سے ہے.تُواس ہتھیار کے ساتھ اپنے دشمنوں سے جنگ کر.یہی جنگ بڑی جنگ ہوگی.یہ عجیب بات ہے کہ یہ آیت جس میں دوجہادوں کی خبر دی گئی ہے ایک تلوار کے جہاد کی جوچھوٹاہوگا او رایک دلائل اوربراہین کے جہاد کی جو بڑاہوگا یہ سورۃ فرقان کی آیت ہے جو مکی سورۃ ہے.گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے.نہ کوئی فوج آپ کے ساتھ تھی.نہ کوئی ملک آپ کے ساتھ تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے بتایاکہ تجھے اپنے مخالفوں کے ساتھ لڑائیاں پیش آئیں گی کچھ تلوار کی اور کچھ دلائل اور براہین کی.دلائل اور براہین کی لڑائیاں بڑی ہوں گی اورتلوار کی چھوٹی.خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرق کو بیان فرمایا ہے.چنانچہ ایک دفعہ آپؐ جہاد سے واپس آئے تو آپؐ نے فرمایا رَجَعْنَامِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ(رد المختار علی الدر المختار کتاب الجہاد )ہم ایک چھوٹی لڑائی سے واپس آئے ہیں تاکہ بڑی لڑائی یعنی دلائل اور براہین کی لڑائی اوراشاعت قرآن کی لڑائی کو شروع کریں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دلائل اور براہین کی لڑائی کو بڑی لڑائی اور تلوار کی لڑائی کو چھوٹی لڑائی قرار دیاہے.ان آیات میں جو ہامان کا ذکر کیاگیا ہے اس کے متعلق سیل نے اپنے انگریزی ترجمۃ القرآن میں اعتراض کرتے ہوئے لکھاہے کہ قرآن نے ہامان کو فرعونِ موسیٰ ؑ کاہم عصر قراردیدیاہے.حالانکہ ہامان ایک ایرانی بادشاہ اخسویرس کے وزیر کانام تھا.جوموسیٰ ؑ کے ایک لمباعرصہ بعد ہوااورپھر لکھتا ہے کہ گویہ غلطی بالکل واضح ہے لیکن ایک مسلمان کواس غلطی کایقین دلانا اگر ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے (ترجمة سیل للقرآن صفحہ ۳۷۸).ریورنڈ وہیری
نے بھی اپنی کتاب ’’کمنٹری آن دی قرآن‘‘ میں اس اعتراض کو نقل کیا ہے.اسی طرح بعض اوریوروپین مستشرقین نے بھی لکھا ہے کہ ہامان.فرعون موسیٰ ؑ کاکوئی وزیر یااعلیٰ افسر نہیں تھا بلکہ پانچویں صدی قبل مسیح کے ایک ایرانی بادشاہ کاوزیر تھا.جس نے اخسویرس کے عہد حکومت میں یہودیوں کے قتلِ عام کی سازش کی مگربالآخر بادشاہ اس سے ناراض ہوگیااوراس نے ہامان کو صلیب پر لٹکادیا(تفسیر القرآن لوہیری).یوروپین مستشرقین کے اس اعتراض کی بنیاد بائیبل کی کتاب آستر باب۳ تا۷ پر ہے جس میں لکھا ہے کہ ’’اخسویرس بادشاہ نے اجاجی ہمداتاکے بیٹے ہامان کو ممتاز اورسرفراز کیا اوراس کی کرسی کو سب امراء سے جواس کے ساتھ تھے برتر کیا.اورباد شاہ کے سب ملازم جوبادشاہ کے پھاٹک پر تھے ہامان کے آگے جھک کر اس کی تعظیم کرتے تھے کیونکہ بادشاہ نے اس کے بارے میں ایسا ہی حکم کیاتھا.پرمرد کی (جوایک یہودی سردار تھا)نہ جھکتانہ اس کی تعظیم کرتاتھا.تب بادشاہ کے ملازموں نے جو بادشاہ کے پھاٹک پر تھے مردکی سے کہا تُو کیوں بادشاہ کے حکم کوتوڑتاہے.جب وہ اس سے روز کہتے رہے اوراس نے ان کی نہ مانی توانہوں نے ہامان کو بتادیا تاکہ دیکھیں کہ مردکی کی بات چلے گی یانہیں.کیونکہ اس نے ان سے کہہ دیاتھا کہ میں یہودی ہوں.جب ہامان نے دیکھا کہ مردکی نہ جھکتانہ میری تعظیم کرتاہے توہامان غصہ سے بھر گیا.لیکن فقط مردکی ہی پر ہاتھ چلانا اپنی شان سے نیچے سمجھاکیونکہ انہوں نے اسے مردکی کی قوم بتادی تھی اس لئے ہامان نے چاہاکہ مردکی کی قوم یعنی سب یہودیوں کو جو اخسویرس کی پوری مملکت میں رہتے تھے ہلا ک کرے.‘‘ (آستر باب ۳آیت ۱تا۷) اس کے بعد بتایاگیا ہے کہ ہامان اپنی تدبیر میں ناکام رہا اوراس کی بیوی نے جس کانام آستر تھا اور جو یہودن عورت تھی بادشاہ کو ہامان کے خلاف بھڑکادیااوربادشاہ نے اسے قتل کروادیا.آستر کی اس روایت پر انحصار رکھتے ہوئے یوروپین مستشرقین نے کسی ایسے ہامان کے وجودکو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے جوفرعون موسیٰ کاہمعصر ہو.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ کتاب جس پر اس اعتراض کی بنیاد رکھی گئی ہے خود محققین کی نگاہ میں ایک مشکوک اور ناقابل استناد کتاب ہے اوروہ اس کے بیان کردہ واقعات کو درست ہی تسلیم نہیں کرتے.چنانچہ مارٹن لوتھر اور بعض دوسرے عیسائی علماء نے صاف طور پر لکھا ہے کہ آستر کی یہ داستان محض ایک افسانہ ہے جومبالغہ آرائی سے پُرہے.بلکہ انہوں نے یہاں تک لکھا ہے کہ پانچویں صدی قبل مسیح کاکوئی ایرانی بادشاہ
ایسانہیں تھا جس کاوزیر یامصاحب اعلیٰ ہامان نامی گذراہو.اورنہ ہی اخسویرس بادشاہ کی کوئی ملکہ آسترتھی یہ سب خلافِ تاریخ واقعات ہیں جو اس کتاب میں جمع کردیئے گئے ہیں (ہارپرز بائیبل ڈکشنری از ملّر زیر لفظ آستر )پس عیسائیوں نے جس کتاب کی بناپر یہ اعتراض کیاہے وہ تاریخی حیثیت سے ایک ناقابلِ اعتبار کتاب ہے.اور جب خود اس کی حیثیت مخدوش ہے تواس کی بناپر اسلام پر کوئی اعتراض کرناکس طرح درست ہو سکتا ہے.قرآن کریم نے ہامان کے متعلق جو اموربیان کئے ہیں وہ یہ ہیں.اول ھامان کو مصر میں فوجی اقتدار حاصل تھا.اورجس طرح فرعون کالشکر تھا اسی طرح ہامان بھی اپنے ساتھ لشکر رکھتاتھا.چنانچہ فرماتا ہے.اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـِٕيْنَ(القصص : ۹)یعنی فرعون ہامان اوران دونوں کے لشکر خطاکار اور گنہگار تھے.یہی مضمون آیت۷ میں بیان کیاگیا ہے.جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ نُرِيَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ جُنُوْدَهُمَا مِنْهُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ.یعنی ہم نے یہ فیصلہ کردیاتھا کہ ہم فرعون او رہامان اوران دونوں کے لشکروں کووہ کچھ دکھائیں گے جس کاانہیں خطرہ لاحق تھا.دوم.قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بلندو بالا عمارات اور قلعوں وغیرہ کی تعمیرکاکام ہامان کی نگرانی میں ہواکرتاتھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ایک دفعہ فرعون نے ہامان سے کہا.فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ صَرْحًا لَّعَلِّيْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى١ۙ وَ اِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ(القصص : ۳۹)یعنی اے ہامان!میرے لئے ایک بہت بلند اوراونچی عمارت بنائو.شاید کہ اس پر چڑھ کر مجھے کہیں موسیٰ ؑ کا خدانظر آجائے.مگر اس کے ساتھ ہی اس نے کہا کہ اس کے یہ معنے نہیں کہ مجھے موسیٰ ؑ کی سچائی کاکچھ کچھ یقین آگیاہے.میں اسے توجھوٹاسمجھتاہوں.لیکن اس کافائدہ یہ ہوگا.کہ اس سے دوسرے لوگوں کو بھی اس کے جھوٹاہونے کایقین ہوجائے گا.اب اگرقدیم مصر کی تاریخ سے ہمیں کسی ایسی شخصیت کاپتہ لگ جائے جوفرعونِ موسیٰ ؑ کے زمانہ میں ہواور پھر ہمیں یہ بھی پتہ لگ جائے کہ اس کے ساتھ فوجی طاقت بھی تھی اوربلند و بالا عمارات او رقلعے وغیرہ بنانے کاکام بھی اس کے سپر د تھا تو قرآن کریم کی صداقت بالکل واضح ہوجائے گی.اس غرض کے لئے جب ہم تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ مصرِ قدیم میں بہت سے دیوتائوں کی پرستش ہوتی تھی اورہرشخص کاتعلق کسی خاص دیوتایاچند مخصوص دیوتائوں کے ساتھ ہواکرتاتھا.مصر کے دارالخلافہ تھیبس کے رہنے والے اپنے دیوتا کو آمان یاآمون کہا کرتے تھے.قدیم ایام میں تواس کا نام ’’ آمانا‘‘تھا.لیکن رفتہ رفتہ آمن.آمان یا آمون نام لوگوں میں مروج ہوگیا.چونکہ آمن یاآمان یاآمون ان لوگوں کا دیوتاتھا جو مصر کے پائیہ تخت میں رہتے تھے اوردارالسلطنت کاملک
کے دوسرے حصوں پر اثر پڑناایک لازمی امر تھا.اس لئے رفتہ رفتہ آمان نے سب دیوتائوں پربرتری حاصل کرلی اوریہ نام ایسامقدس سمجھاجانے لگاکہ جس طرح مسلمان اللہ تعالیٰ کے نام پر اپنے اوراپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں اسی طرح مصری ناموں اور القابات میں بھی آمن یاآمون کالفظ بکثرت استعمال ہونے لگ گیا (تاریخ مصر مصنّفہ جیمز ہنری بریسٹڈ ص ۶۰۴).چونکہ ہردیوتاکا الگ الگ معبد تھا اورہردیوتا کے الگ الگ کاہن مقررتھے.اس لئے جب آمان دیوتاکی مقبولیت بڑھی توآمان کاکاہن بھی تمام کاہنوں کارئیس تسلیم کیاجانے لگا.اوررفتہ رفتہ اس نے اتنا اقتدار حاصل کرلیا کہ بے شمار املاک اور جائیدادیں جوآمان دیوتاکے لئے وقف تھیں وہ اس کے قبضہ میں آگئیں.اوروہ معبدِ آمان کی متعلقہ عمارات کی تولیّت پر بھی قابض ہوگیا(تاریخ ملل قدیمہ مصنفہ سنیویس مترجم اردوسید محمود اعظم فہمی ص ۳۹).جیمز ہنری بریسٹڈ اپنی کتاب ’’ تاریخ مصر ‘‘میں ان امو رکا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے.’’مصر کے نئے دور حکومت میں فوجی طاقت کے ساتھ ساتھ ایک نئی مؤثر اور طاقتور تحریک جو قدیم نظام کہانت پر مبنی تھی ظہور پذیر ہوئی.درحقیقت سلطنت ِ مصر میں معابد کی بے پناہ دولت کا یہ قدرتی نتیجہ تھا کہ کہانت ایک مخصوص پیشہ کی صورت اختیار کرگئی اورجوںجوں کاہنوں کی تعداد میں اضافہ ہوتاگیا.ویسے ویسے وہ زیادہ سے زیادہ سیاسی رسوخ اور طاقت حاصل کرتے چلے گئے معابد کی دولت و ثروت میں اضافہ کے ساتھ ہی ایک انبوہ کثیر افسرانِ معابدکا بھی پیداہوگیاجن کے ذمہ ان معابد کاانتظام تھا حالانکہ قدیم ایام میں ان کاکوئی وجود نہ تھا.آخر ملک کے تمام الگ الگ دیوتائوں کے کلیسیائی نظام ایک عظیم الشان مقدس تنظیم کے ماتحت متحد ہوگئے.اس تنظیم کارئیس اعلیٰ دارالسلطنت تھیبس کے معبد آمان کابڑاکاہن تھا.اس طرح آمان کے کاہن اعظم کی طاقت پہلے کی نسبت کئی گناہ بڑ ھ گئی.فراعنہ مصر نے جب مفتوحہ ممالک سے دولت حاصل کی تواس کابیشتر حصہ معبدوں کی نذر کردیاگیااورمعبد وسیع اورعالیشان محلّات کی صورت اختیار کرگئے.جن میں کاہنوں کے گروہ در گروہ رہتے تھے.آمان کاکاہن اعظم اس مقدس مذہبی تنظیم کارئیس اعلیٰ تھا وہ ایک مقدس شہزادہ سمجھاجاتاتھا.اوراس کی بیوی ’’خداوند کی کنیز اعلیٰ‘‘کے لقب سے یاد کی جاتی تھی اوراسے ملکہ کادرجہ حاصل تھا.‘‘ (تاریخ مصر مصنفہ جیمز ہنری بریسٹڈ پی.ایچ.ڈی.ص ۲۴۷و۲۴۸) آمان دیوتاکایہ کاہن جس کااوپر ذکر کیاگیاہے اس کے یوں تواور بھی بہت سے خطابات تھے.لیکن عرف
عام میں اسے ’’ھَمْ آمان‘‘ کہاجاتا.جیساکہ مصر قدیم میں رَعْ دیوتاکے بڑے کاہن کو ھَمْ رَعْ اور ’’کا‘‘ دیوتا کے بڑح کاہن کو’’ ھَمْ کا‘‘کہتے تھے.(" THE DWELLERS ON THE NILE" BY SIR E.A.WALLIS BUDGE, KT.P.148,163,173) ھَمْ کے معنے خادم یاغلام کے ہوتے ہیں.پس’’ ھَمْ آمان ‘‘کے معنے تھے.’’آمان دیوتاکاخادم یاغلام ‘‘ لیکن اصطلاحاً ’’ہم‘‘بڑے کاہن کو کہتے تھے.یہ امر بھی یاد رکھناچاہیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جس فرعون کے گھر میں پرورش پائی تھی وہ رعمیس دوم تھا.اور جوآپ کی مخالفت کی وجہ سے تباہ ہواوہ منفتاح تھا.آمان دیوتاکے بڑے کاہن کاپہلی مرتبہ انتخاب رعمسیس دوم کے زمانہ میں ہواتھا اوراسی زمانہ سے آمان کاکاہن اعظم فرعون کے نظام حکومت کاممتاز ترین فردسمجھاجانے لگاتھا.چنانچہ اس بارہ میں ’’الیگزنڈر مارٹ‘‘اپنی کتاب’’ نیل اور مصر کی تہذیب ‘‘میں لکھتاہے.’’ رعمسیس دوم نے اپنے عہد حکومت کے سال اول میں ’’نَے بُنْ نیف‘‘کو آمان کاکاہن اعلیٰ منتخب کیا.یہ شخص اس سے قبل ھاتوردیوتاکاکاہن اول اور مصر کے سب دیوتائوں کے کاہنوں کاسردار تھا.اوربادشاہ اس کی نشاندہی بھی کرچکاتھالیکن اسے باقاعد ہ طور پر نامزد اس وقت کیا گیا جبکہ بادشاہ نے آمان دیوتا کے حضو ر معبدِ کرناک میں حاضر ہوکر اپنے دربار کے تمام افسروں، تمام کاہنوں اور تمام بزرگوں کواس عہدہ کے لئے پیش کیا.مگرآمان دیوتا نے سوائے ’’نَے بُنْ نیف‘‘کے اَورکسی پررضامندی کااظہار نہ کیا.جب انتخاب عمل میں آچکا توبادشاہ نے ’’ نَے بُنْ نیف ‘‘ سے مخاطب ہوکر کہا.اب آپ ہی آمان کے کاہن اعلیٰ ہیں.معبدِ آمان کے دونوں خزانے اوراس کے دوہرے غلّہ کے گودام اب آپ کی مہر کے ماتحت ہیں.ہاتو ردیوتا کامعبد اب آپ کے بیٹے کے عصائے حکومت کے تحت ہوگا.اوراسی منصب پر فائز ہوگاجوآپ کے لئے مخصوص تھا.تمام درباریوں اور اس کے تین ججوں نے اس انتخاب پر بادشاہ اورکاہن اعظم کو مبارکباددی.پھر بادشاہ نے اپنی دوخاص طلائی مہریں اورسونے کاشاہی عصا نَے بُنْ نیف کو نذر کیا اور اسے مندرجہ ذیل خطابات کے ساتھ اپنے عہدہ پر فائز کیا.FIRST PROPHET OF AMON DIRECTOR OF THE DOUBLE TREASURY AND DIRECTOR OF THE SOLDIERS AND ALL THE CRAFTSMEN OF THEBES
یعنی ۱.آمان کا کاہن اعظم ۲.دوہرے خزانوں اوردوہرے گوداموں کا مدارالمہام.۳.سپاہ مصر کاڈائریکٹر ۴.دارالحکومت تھیبس کے تمام کاریگروں اورصنّاعوں کاناظم و منصرم ("THE NILE AND EGYPTIAN CIVILIZATION"BY ALEXANDER MORET P.334) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعونِ مصر کے بعد آمان دیوتاکابڑاکاہن سب سے زیادہ اثر رسوخ رکھتاتھا.اس کافوج میں بھی دخل تھا اورمذہبی عمارات کی تعمیر کاکام بھی اس کے سپرد تھا.جیمزہنری بریسٹڈ بھی اپنی کتاب ’’تاریخ مصر‘‘میں ھَمْ آمان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتاہے.HE (RAMSES II) DIVIDED THESE TROOPS INTO FOUR DIVISION, EACH NAMED AFTER ONE OF THE GREAT GODS: AMON, RE, PTAH AND SUTEKA, AND HIMSELF TOOK THE PERSONAL COMMAND OF THE DIVISION OF AMON.یعنی رعمسیس دوم نے فوجوں کوچار حصوں میں تقسیم کیا اورہرحصہ فوج کو اپنے بڑے دیوتا ئوں آمان.رع.پتاح اور ستیخ میں سے کسی ایک کے نام سے موسوم کیا.اس کے بعد وہ دستہ ءفوج جو آمان دیوتا کے نام پر تھا.اس کی کمان اس نے خود سنبھال لی.(ص ۴۲۵) ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں فرعون مصر کے بعد دوسرے درجہ پر آمان کاکاہن سمجھاجاتاتھا.چونکہ آمان کو تمام دیوتائوں کا بادشاہ سمجھاجاتا.اس لئے آمان کے کاہن کوبھی تمام مذہبی تنظیم کا رئیس اعلیٰ قرار دے دیاگیا.اسے دوہرے خزانوںاور دوہرے گوداموں کامنصرم اور سپاہِ مصر کا ڈائریکٹر قرار دے دیاگیا.اوراسے اس قدر سلطنت حاصل ہوئی کہ فرعونِ موسیٰ کی فوج میں ایک ڈویژن کانام ہی آمان کے نام پر رکھا گیا.اورپھر اس وجہ سے کہ اس کے زیر انتظام تمام مذہبی عمار ات کی تعمیر ہواکرتی تھی اسے صنّاعوں کے رئیس اعلیٰ کاخطاب بھی دیاگیا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں مصر میں ہر جگہ عالیشان مندر.مقابر.محلات اور کئی قسم کے بت اور
مورتیاں بنائی جاتی تھیں اور یہ سب کام آمان دیوتا کے کاہن کی نگرانی میں ہی ہو اکرتا تھا.اسی لئے اِسےGREAT CHIEF OF THE ARTIFICORS.یعنی صنّاعوں کے رئیس اعلیٰ کا خطاب بھی دیاگیا.(انسائیکلو پیڈیا بڑینیکا زیر لفظ مصر صفحہ۶۰) پس قرآن کریم نے جس شخص کو ھامان قراردیا ہے وہ کوئی فرضی وجود نہیں بلکہ ایک اہم تاریخی شخصیت ہے جسے مصر قدیم میں ھَمْ آمان یا ھَمْ آمون کہا جاتا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بائیبل نےموسیٰ ؑ اور فرعون کے حالات بیان کرتے ہوئے ہامانؔ کا کہیں ذکر نہیں کیا لیکن جبکہ تاریخی شواہد نے ہمیں ایک ایسے وجود کا پتہ دے دیا ہے جو فرعونِ مصر سے دوسرے درجہ پر سمجھا جاتا تھا اور جس کے نام پر اس نے ایک بڑا بھاری لشکر بھی رکھا ہوا تھا اور جس کے سپرد تمام مذہبی عمارات کی تعمیرکا بھی کام تھا تو بائیبل میں اس کا ذکر نہ آنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ قرآن کریم نے نعوذ باللہ کوئی غلط بات کہی ہے بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بائیبل جوموسیٰ ؑ کے زمانہ میںلکھی گئی اور جواس زمانہ کے صحیح واقعات بیان کرنے کی دعویدار ہے اس نے تو ایک تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا اور ھامان جیسی شخصیت کو نظر انداز کردیا.لیکن قرآ ن کریم نے جو تورات کے دوہزار سال کے بعد نازل ہوا تھا اس نے تورات کی اس غلطی کی طرف اشارہ کردیا اور بتا دیا کہ صحیح بات وہ ہے جو ہم بیان کر رہے ہیں وہ بات صحیح نہیں جو بائیبل نے بیان کی ہے.اسی وجہ سے قرآن کریم نے اس سورۃ کے شروع میں ہی فرما دیا تھا کہ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ.یہ آیات ایک ایسی کتاب کی آیات ہیں جو تمام حقائق کو روشن کرنے والی اور تمام اسرار کو کھولنے والی ہے اورپھر فرما دیا تھا کہنَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ.ہم بائیبل کے واقعات کو نہیں دوہرا رہے بلکہ موسیٰ اور فرعون کے زمانہ کے سچے واقعات بیان کر رہے ہیں.مگر اس سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جو ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں.وہ لوگ جن کا کام صرف اعتراض کرنا ہے وہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھائیں گے.چنانچہ دیکھ لو سیلؔ اور وھیریؔ نے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا اور انہوں نے لکھ دیا کہ اس جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تاریخی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.انہوں نے مسیح ؑسے پانچ سو سال پہلے گزرے ہوئے ایک ایرانی بادشاہ کے وزیر ہامان کوموسیٰ ؑ کا ہم عصر قرار دے دیا مگر تاریخی کتب نے ظاہر کردیا کہ ان کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے اور سچی بات وہی ہے جو قرآن نے بیان کی.
وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰۤى اُمِّ مُوْسٰۤى اَنْ اَرْضِعِيْهِ١ۚ فَاِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ اور ہم نےموسیٰ ؑ کی ماں کی طرف وحی کی تھی کہ اس کو (یعنی موسیٰ کو) دودھ پلا.پس جب تو اس (کی جان) کے متعلق فَاَلْقِيْهِ فِي الْيَمِّ وَ لَا تَخَافِيْ وَ لَا تَحْزَنِيْ١ۚ اِنَّا رَآدُّوْهُ خائف ہوتو اس کو دریا میںڈال دے اور ڈر نہیں اور نہ کسی پچھلے واقعہ کی وجہ سے غم کر.ہم اس کو تیری طرف لوٹا کے اِلَيْكِ وَ جَاعِلُوْهُ مِنَ الْمُرْسَلِيْنَ۰۰۸فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ لائیں گے اور اس کورسولوں میں سے ایک رسول بنائیں گے.(چنانچہ موسیٰ ؑ کی ماں نے اس وحی کے مطابق عمل کیا لِيَكُوْنَ لَهُمْ عَدُوًّا وَّ حَزَنًا١ؕ اِنَّ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ وَ اورموسیٰ ؑ کو دریا میں ڈال دیا )سو اس کے بعد اس (یعنی موسیٰ) کو فرعون کے خاندان میں سے ایک نے اٹھالیا.جس کا جُنُوْدَهُمَا كَانُوْا خٰطِـِٕيْنَ۰۰۹ نتیجہیہ ہوا کہ ایک دن وہ ان کے لئے دشمن ثابت ہوا اور غم کا موجب بنا.فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکر غلطی میں مبتلا تھے.حلّ لُغَات.اَلْیَمُّ.اَلْیَمُّ کے معنے ہیں اَلْبَحْرُ.سمندر.(اقرب) فَالْتَقَطَہٗ.اِلْتَقَطَہٗ کے معنے ہیں عَثَرَعَلَیْہِ مِنْ غِیْرِ قَصْدٍ وَّلَا طَلَبٍ.کوئی چیز بغیر قصد اور تلاش کے مل گئی اور اس نے اسے اٹھالیا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے.موسیٰ ؑ کی پیدائش پر ہم نے اس کی والدہ کی طرف وحی نازل کی کہ کچھ مدت تک توتو اسے دودھ پلاتی رہ.مگر جب تجھے اس کی جان خطرے میں نظر آئے اور اس راز کے ظاہر ہوجانے کا ڈر ہوتو تو اسے دریا میں ڈال دے اور ڈر نہیں اور نہ ہی غم کر.کیونکہ ہم اسے ایک دن تیری طرف لوٹا کرلے آئیں گے اور اس کو اپنا رسول بنا دیں گے.چنانچہ موسیٰ ؑ کی والدہ نے ایسا ہی کیا.اور اسے سمندر میں ڈال دیا.اور چونکہ موسیٰ ؑکے ہم خود محافظ تھے اس لئے بجائے اس کے کہ وہ غرق ہوتا.فرعون کے خاندا ن کے بعض آدمیوں نے اسے اٹھا لیا تاکہ وہ ان کا دشمن بنے اور آنے والے دور میںا ن کے لئے غم کا موجب ثابت ہو.(اس جگہ لام لامِ عاقبت ہے )
قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات بیان کرتے ہوئے سورۃ طٰہٰ میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کی والدہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ انہیں ایک تابوت میں رکھ کر دریا میں ڈالا جائے یونہی نہیں.چنانچہ اس بارہ میں قرآنی الفاظ یہ ہیں کہ اَنِ اقْذِفِيْهِ فِي التَّابُوْتِ فَاقْذِفِيْهِ فِي الْيَمِّ فَلْيُلْقِهِ الْيَمُّ بِالسَّاحِلِ يَاْخُذْهُ عَدُوٌّ لِّيْ وَ عَدُوٌّ لَّهٗ (طٰہٰ : ۴۰)یعنی موسیٰ ؑ کی والدہ سے ہم نے کہا کہ اسے تابوت میں رکھ دے اور پھر اس تابوت کو دریا میں ڈال دے.دریا ہمارے حکم سے اسے ساحل کی طرف دھکیل دے گا.اور اس کو وہ شخص اٹھاکر اپنے گھر لے جائے گا.جو میرا بھی دشمن ہے اور اس کابھی دشمن ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسا ہی کیا.اور بچے کو سمندر میں ڈال دیا.بائیبل بھی اس واقعہ کو تسلیم کرتی ہے.چنانچہ اس میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے سرکنڈوں کا ایک ٹوکرا لیا اور اس پر چکنی مٹی اور رال لگا کر لڑکے کو اس میں رکھا اور اسے دریا کے کنارے چھوڑ آئی.(خروج باب ۲آیت ۳) سرکنڈوں کا ٹوکرا اور تابوت دراصل ایک ہی چیز ہے.یہ ضروری نہیں کہ تابوت سے مراد لکڑی کا بکس ہی ہو.ہاں یہ ضروری تھا کہ وہ چیز جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو رکھا جائے ایسی ہو جس کے اندر پانی داخل نہ ہوسکے.اسی لئے بائیبل بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ نے چکنی مٹی اور رال لگا کر ٹوکرے کے سوراخوں کو بند کیا اور جب اسے پوری طرح محفوظ کرلیا گیا تو وہ ٹوکرا نہ رہا بلکہ تابوت بن گیا.فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ کی تشریح میں بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے آسیہؔ امرأۃ فرعون مراد ہے.وہ اس دن دریا پر غسل کرنے آئی تھی اس نے جب پانی پر ایک چھوٹا سا تابوت تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے اٹھا لیا اور جب اسے کھولا اور اس میں ایک خوبصورت بچہ دکھائی دیا تو اسے رحم آگیا اور وہ اسے اپنے گھر لے گئی اور اس نے بچہ کو پالنا شروع کردیا(طبری) لیکن بائیبل کا یہ بیان ہے کہ فرعون کی بیٹی دریا پر غسل کرنے آئی اور اس نے جھائو میں ایک ٹوکرا پڑے ہوئے دیکھا.اس نے اپنی ایک سہیلی کو بھیجا کہ وہ جا کر اس ٹوکرے کو اٹھا لائے.جب وہ ٹوکرا اس کے پاس پہنچا.اور اس نے اسے کھولا تو اسے ایک خوبصورت بچہ دکھائی دیا اسے بچے کو دیکھتے ہی رحم آگیا.اور اس نےموسیٰ ؑ کی پرورش شروع کردی(خروج باب ۱ آیت ۱۶).چونکہ قرآن کریم نے فَالْتَقَطَهٗۤ اٰلُ فِرْعَوْنَ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جس میں صاف طور پر اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسے فرعون کے خاندان اور قبیلہ میں سے کسی نے اٹھایا تھا.اس لئے یہاں آلِ فرعون سے اس کی بیٹی ہی مراد ہے بیوی مراد نہیں.
وَ قَالَتِ امْرَاَتُ فِرْعَوْنَ قُرَّتُ عَيْنٍ لِّيْ وَ لَكَ١ؕ اور فرعون کی عورت( یعنی فرعون کے خاندان کی ایک عورت) نے کہا.یہ تیرے لئے اور میرے لئے آنکھ کی لَا تَقْتُلُوْهُ١ۖۗ عَسٰۤى اَنْ يَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا وَّ هُمْ ٹھنڈک کا موجب ہوگا اس کو قتل نہ کرو.ممکن ہے کہ ایک دن وہ ہمیں نفع پہنچائے یا ہم اس کو بیٹا بنا لیں.اور ان کو لَايَشْعُرُوْنَ۰۰۱۰ اصل حقیقت معلوم نہ تھی.تفسیر.فرماتا ہے.جب موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی بیٹی اپنے گھر لے گئی تو فرعون کی بیوی نے اس کے متعلق فرعون سے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو گا.اور اے فرعون!تیری آنکھوں کی بھی ٹھنڈک ہوگا.اس لئے اسے ماریں نہیں ممکن ہے یہ ہم کو نفع دے اور ایک اچھا غلام ثابت ہو.یا اگر بہت ہی ذہین نکلے تو ہم اسے بیٹا بنا کر پال لیں.اور وہ نہیں جانتے تھے کہ اس میں کیا الٰہی راز ہے اور آئندہ چل کر کیا ظاہر ہونے والا ہے.ا س میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی بیٹی نے ہی اٹھایا تھا اور وہی انہیں اپنے گھر لے گئی تھی.لیکن چونکہ کوئی ماں اپنے بیٹے کو اس طرح دریا میں نہیں پھینک سکتی تھی جب تک کوئی شدید خطرہ لاحق نہ ہو اور وہ شدید خطرہ صرف بنی اسرائیل کے لوگوں کو ہی لاحق تھا جن کے بیٹے مارنے کا فرعون نے دائیوں کو حکم دیا ہوا تھا (خروج باب ۱آیت ۱۶).اس لئے جب وہ موسیٰ ؑ کو اٹھا کر اپنے گھر لے گئی تو فرعون نے سمجھ لیا کہ یہ کوئی اسرائیلی لڑکا ہے اور وہ اسے قتل کرنے کے لئے تیا رہوگیا.مگر فرعون کی بیوی نے سفارش کرتے ہوئے کہا کہ یہ لڑکی جو کچھ کرتی ہے اسے کرنے دیں اور اسے میری خاطر مت ماریں.ممکن ہے کہ یہ آگے چل کر ہمارے لئے نفع رساں وجود ثابت ہو یا اس کی اعلیٰ قابلیت ظاہر ہونے پر ہم اسے اپنا بیٹا ہی بنالیں.لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ آئندہ زندگی میں کیا معاملہ پیش آنے والا ہے.
وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا١ؕ اِنْ كَادَتْ لَتُبْدِيْ بِهٖ لَوْ اورموسیٰ ؑ کی ماں کا دل (غم سے) فار غ ہوگیا.قریب تھا کہ اگر ہم اس کے دل کو مومن بنانے کے لئے مضبوط لَاۤ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰى قَلْبِهَا لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۱وَ نہ کرتے تو وہ اس واقعہ کی سب حقیقت ظاہر کردیتی.اور اس (یعنی موسیٰ ؑ کی ماں) نے اس (یعنی موسیٰ ؑ) کی بہن سے قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ١ٞ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جا.پس وہ اس کو دور سے دیکھتی رہی اور وہ (یعنی فرعون کے لوگ) بے خبرتھے.اور ہم نے يَشْعُرُوْنَۙ۰۰۱۲وَ حَرَّمْنَا عَلَيْهِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ فَقَالَتْ اس (یعنی موسیٰ ؑ) پر اس سے پہلے دودھ پلانے والیوں کو حرام کردیا پس اس (یعنی موسیٰ ؑ کی بہن) نے کہا کہ هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰۤى اَهْلِ بَيْتٍ يَّكْفُلُوْنَهٗ لَكُمْ وَ هُمْ لَهٗ کیا میں تمہیں ایک ایسے گھر والوں کی خبر دوں جو اس کو تمہارے لئے پال دیں.اور وہ اس کے خیر خواہ نٰصِحُوْنَ۰۰۱۳فَرَدَدْنٰهُ اِلٰۤى اُمِّهٖ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَ لَا تَحْزَنَ ثابت ہوںگے.اس طرح ہم نے اس (یعنی موسیٰ ؑ ) کو اس کی ماں کی طرف لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں وَ لِتَعْلَمَ اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَؒ۰۰۱۴ اور وہ غم نہ کرے اور جان لے کہ اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہتا ہے لیکن (منکروںمیں سے ) اکثر جانتے نہیں.حلّ لُغَات.اَلْفُؤَادُ.اَلْفُؤَادُ کے معنے ہیں اَلْقَلْبُ لِتَوَقُّدِہٖ.یعنی فُؤَاد دل کو کہتے ہیں کیونکہ وہ جذبات کا محل ہونے کی وجہ سے بھڑکتا اور جلتا ہے.فُؤَادٌ فَأَدَ سے ہے.اور فَأَدَ اللَّحْمَ فِی النَّارِ کے معنے ہوتے ہیں شَوَّاہُ گوشت کو آگ میں بھونا.وَقِیْلَ لِتَحَرُّکِہٖ لِاَنَّ اَصْلَ الْفَأَدِ الْـحَرَکَۃُ.اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ دل کو فُؤاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حرکت کرتا رہتا ہے.کیونکہ فَأدَ کے اصل معنے حرکت کرنے کے ہیں.(اقرب)
تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر جب اللہ تعالیٰ کی یہ وحی نازل ہوئی اور آپ کو معلوم ہوگیا کہ اب اللہ تعالیٰ اس بچہ کو خود حفاظت کرے گا اور فرعون اسے قتل کرنے پر قادرنہیں ہوسکے گا تواس کے دل پر سے غم کا بوجھ اٹھ گیا.اوراسے اتنی خوشی ہوئی کہ اگر ہم اس کے دل کو مومن بنانے کے لئے مضبوط نہ کرتے توقریب تھا کہ وہ اس راز کو ظاہرکردیتی.مفسرین تواس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ ؑ کی والد ہ نے اپنے بیٹے کو دریا میں بہادیاتوان کو ہروقت موسیٰ ؑ کاخیال ہی رہنے لگ گیا.اَورکوئی بات انہیں سوجھتی ہی نہیں تھی.یہی فکر تھا جو آٹھوںپہر انہیں بے تاب رکھتاتھا(الرازی).مگر یہ معنے بالکل غلط ہیں.وَ اَصْبَحَ فُؤَادُ اُمِّ مُوْسٰى فٰرِغًا کے صحیح معنے یہ ہیں کہ جب موسیٰ ؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے انہیں خوشخبری دی کہ فرعون کے حملہ سے وہ محفوظ رہے گا توان کادل مطمئن ہوگیا اوران کاتمام غم جاتارہا.بلکہ انہیں اس بشارت سے اس قدر خوشی ہوئی کہ قریب تھاکہ وہ بول اٹھتیں اورکہتیںکہ یہ میرابچہ ہے.جس کی حفاظت کا خدا نے وعدہ فرمایا ہے.لِتُبْدِیْ بِہٖ میں ضمیر موسیٰ ؑ کی طرف بھی جاسکتی ہے.یعنی ان کاحال بتادیتی اوراس امر کی طرف بھی جاسکتی ہے کہ یہ واقعہ لوگوں کو سناتی پھر تیں کہ مجھے اس طرح الہام ہوااورپھر میں نے اس کی تعمیل میں اس اس طرح کیا.اگران کو موسیٰ ؑ کے متعلق کوئی خطرہ لاحق ہوتا توان کے بول اٹھنے کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا.بولنے کاخیال توانہیں تبھی آسکتاتھا جبکہ و ہ خوش ہوتیں اورموسیٰ ؑ کی زندگی کے متعلق وہ پوری طرح مطمئن ہوتیں.وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ.پھر انہوں نے موسیٰ ؑ کی بہن سے کہا کہ تُو اس کے پیچھے پیچھے جا.چنانچہ وہ دور سے اس کو دیکھتی رہی اورفرعونیوں کو اس کاپتہ نہ لگا.وَحَرَّمْنَا عَلَیْہِ الْمَرَاضِعَ مِنْ قَبْلُ.اورہم نے اس سے پہلے ا س پر دودھ پلانے والیوں کو حرام کردیا.اس آیت کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں.یہ بھی کہ کوئی دائی اس وقت میسر نہ آئی اوریہ بھی کہ موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دوسری دائیوں کا دودھ پینے سے انکار کردیا.اس پر موسیٰ ؑ کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں ایک گھر کاپتہ دیتی ہوںجس کے افراد اس کو پال لیں گے اوروہ اس کی ہر طرح خیر خواہی کریں گے.اس طرح ہم نے موسیٰ ؑ کو اس کی ماں کی طرف لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اوروہ غم نہ کرے اورجان لے کہ اللہ تعالیٰ کاوعدہ سچاہوتاہے.لیکن اکثر لوگ اپنی بیوقوفی سے ان باتوںکو نہیں جانتے.
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًا١ؕ وَ اورجب وہ اپنی پختہ جوانی کوپہنچا اور (اپنے اعلیٰ اخلاق پر ) مضبوطی سے قائم ہوگیا توہم نے اسے حکم اورعلم بخشا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ۰۰۱۵ اورہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیاکرتے ہیں.حلّ لُغَات.اَشُدَّہٗ.محاور ہ میں کہاجاتاہے بَلَغَ فُلَانٌ اَشُدَّہٗ او راس کے معنے ہوتے ہیں قُوَّتَہٗ وَھُوَ مَابَیْنَ ثَمَانِیْ عَشْرَۃَ اِلیٰ ثَلَاثِیْنَ سَنَۃً.یعنی فلاں اپنی جوانی کوپہنچا اور یہ زمانہ ۱۸سے ۳۰ سال کی عمر کاہوتا ہے.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے جب موسیٰ ؑ اپنی جوانی کو پہنچا.اوروہ اپنے اعلیٰ اخلاق پر مضبوطی سے قائم ہوگیا توہم نے اسے حکم اور علم بخشااو رہم محسنوںکوایسا ہی بدلہ دیاکرتے ہیں.جہاں تک لغت کا تعلق ہے بَلَغَ فُلَانٌ اَشُدَّہٗ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ وہ ۱۸سال سے ۳۰ سال کی عمر تک پہنچ گیا.(اقرب) لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ کو ئی خاص عمر نبوت پر فائز ہونے کے لئے مقرر ہے.انبیاء کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ وہ مختلف زمانوں میں مبعوث ہوتے رہے ہیں.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چالیس سال کی عمر میں مبعوث ہوئے (بخاری کتاب مناقب الانصار باب مبعث النبیؐ).او رحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مسیحیوں اور مسلمانوں کامتفقہ عقیدہ ہے کہ وہ تیس سال کے تھے(البدایة و النھایة بیان نزول کتب الاربعة).جب خدا نے ان کو نبی بنایا.اسی طرح حضرت یحیٰ علیہ السلام کی عمر تیس سال سے بھی کم تھی جب ان کو نبو ت ملی (الخازن قولہ تعالیٰ و اتینہ الحکم صبیا).پس تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہرزمانہ کے حالات کے ماتحت ہر مامور کا زمانہ بعثت الگ الگ ہوتاہے.پس بَلَغَ اَشُدَّہٗ کے زمانہ کی تعیین نہ تولغوی طور پر ہم کرسکتے ہیں اور نہ ہی تاریخی طور پر.
وَ دَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰى حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا اور(ایک دن ) وہ شہر میں ایسے وقت میں آیا کہ لوگ غفلت کی حالت میں تھے (یعنی آرام سے اپنے گھروں فَوَجَدَ فِيْهَارَجُلَيْنِ يَقْتَتِلٰنِ١ٞۗ هٰذَا مِنْ شِيْعَتِهٖ میں سورہے تھے دوپہر کویا آدھی رات کو )اس نے اس شہر میں دوآدمیوں کودیکھا کہ آپس میں لڑر ہے تھے ایک اس وَ هٰذَا مِنْ عَدُوِّهٖ١ۚفَاسْتَغَاثَهُ الَّذِيْ مِنْ شِيْعَتِهٖ کے دوستوں کے گروہ میں سے تھا اوردوسرااس کے دشمنوں میں سے تھا.پس اس نے جو اس کی جماعت میں سے تھا عَلَى الَّذِيْ مِنْ عَدُوِّهٖ١ۙفَوَكَزَهٗ مُوْسٰى فَقَضٰى عَلَيْهِ١ٞۗ اس شخص کے خلاف جو اس کے دشمنوں میں سے تھااس کی مددطلب کی.اس پر موسیٰ ؑ نے اس (یعنی دشمن)کو ایک قَالَ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ١ؕاِنَّهٗ عَدُوٌّ گھونسامارا.اوراس (گھونسے)نے اس کاکام تمام کردیا.پھر موسیٰ نے کہا یہ سب واقعہ شیطانی کرتوت سے ہوا مُّضِلٌّ مُّبِيْنٌ۰۰۱۶قَالَ رَبِّ اِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ہے.وہ (یعنی شیطان ) (مومن کا) دشمن اوراسے امن کے راستہ سے کھلا کھلا بہکانے والا ہے.پھر (موسیٰ ؑ نے فَاغْفِرْ لِيْ فَغَفَرَ لَهٗ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ۰۰۱۷ دعاکی کہ)اے میرے رب میں نے اپنی جان کو تکلیف میں ڈال دیا ہے پس تومیرے اس فعل پر پردہ ڈال دے.قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا سو اس نے اس فعل پر پردہ ڈال دیا.و ہ بہت بخشنے والا (اور )بار بار رحم کرنے والا ہے.تب اس (یعنی موسیٰ ؑ ) نے
لِّلْمُجْرِمِيْنَ۰۰۱۸ عرض کی اے میرے رب ! چونکہ تونے مجھ پرانعام کیا ہے میں بھی کبھی مجرموں میں سے کسی مجرم کی مدد نہیں کروں گا.حلّ لُغَات.وَکَزَ: وَکَزَہٗ کے معنے ہیں دَفَعَہٗ.اس کوہٹایا.وَکَزَ فُلَانًا کے معنے ہیں.ضَرَبَہٗ بِجُمْعِ الْکَفِّ.مٹھی بھینچ کر اس کو مارا.وَقَالَ الْکِسَائِیُّ : ’’ وَکَزَہٗ لَکَمَہٗ ‘‘.کسائی کہتے ہیں کہ وَکَزَ کے معنے ہیں مکا مارا.ظَھِیْر.اَلظَّھِیْرُ کے معنے ہیں اَلْمُعِیْنُ مددگار.(اقرب) تفسیر.یہ آیات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم واقعہ کو بیان کرتی ہیں.مگریہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس جگہ ترتیب زمانی کا ذکر نہیں کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے پتہ لگتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت مدین سے واپسی کے وقت ہوئی.لیکن یہ واقعہ جو اس آیت میں بتایاگیا ہے مدین جانے سے پہلے کاہے.پس اس جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے ایک اہم واقعہ کابیان کرنامقصود ہے جوآپ کی بعثت کاموجب تھا.نہ کہ ترتیب زمانی کابیان کرنا مقصود ہے.یہ واقعہ اس طرح پر ہواکہ ایک دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام رات کے وقت (عَلٰى حِيْنِ غَفْلَةٍ ) شہر میں داخل ہوئے اورانہوں نے دوآدمیوں کوآپس میں لڑتے ہوئے دیکھا.ان میں سے ایک ان کی قوم کاتھا اور ایک ان کے دشمنوں میں سے تھا.معلوم ہوتاہے وہ شخص جوان کا ہم قوم تھا عبرانی زبان بولتاتھا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پتہ لگ گیا کہ یہ شخص میری قوم میں سے ہے اورآپ نے اس کی مدد کرناضروری سمجھا.یہاں اَعْدَآ ئِہٖ کی جگہ عَدُوِّہٖ کالفظ اس لئے رکھا گیا ہے کہ عَدُوِّہٖ سے قوم کی طرف اشارہ کرنامقصود ہے اور قوم کی صفت مفرد بھی آسکتی ہے.پس ھٰذَامِنْ عَدُوِّہٖ سے یہ مراد ہے کہ دوسراشخص ان کی دشمن قوم میں سے تھا.تب ان کو دیکھ کر وہ شخص جوان کی قوم میں سے تھا اس نے اس شخص کے خلاف جو ان کی دشمن قو م میں سے تھا.مدد کی درخواست کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہ دیکھ کر کہ اگر میں نے مدد نہ کی توفرعونی قوم کا آدمی اسرائیلی کو مارنے پر تُلا ہواہے آگے بڑھ کر اس شخص کو ایک گھونسہ مارا.یاتوموقعہ کی نزاکت کی وجہ سے انہوںنے گھونسہ بہت زو رسے مارا یااس شخص کادل یا جگر طبعی طور پر کمزور تھا اوروہ گھونسہ اس کے دل یا جگر کے مقام پر لگا.اوروہ مرگیا.اس پر حضرت موسیٰ علیہ اسلام نے کہا کہ هٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ.یہ بات غصہ میں ہوگئی ہے.شیطان کے معنے غضب کے بھی ہوتے ہیں کیونکہ شیطانٌ کا مادہ شَطَنَ بھی ہے اور شَاطَ بھی.اگر شَاطَ اس کامادہ ماناجائے تواس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ شخص جوغصہ سے آگ بگولہ ہوجائے.چنانچہ شَاطَ الشَّیْءُ کے معنے ہوتے ہیں اِحْتَرَقَ کوئی چیز
جل گئی اور اِسْتَشَاطَ عَلَیْہِ: اِلْتَھَبَ غَضْبًا کے معنے ہوتے ہیں غصہ سے آگ بگولہ ہوگیا.پس اس جگہ شَیْطَان کالفظ غضب کے معنوں میں ہی استعمال ہواہے.پھر آپ نے فرمایاکہ اِنَّہٗ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِیْنٌ.یہ غصہ انسان کابڑادشمن ہے اوراس پر نسیان غالب کردیتاہے.چنانچہ ضَلَّ النَّاسِیْ کے معنے ہوتے ہیں غَابَ عَنہُ حِفْظُ الشَّیْءِ کوئی بات یاد نہ رہی یاذہن سے نکل گئی (اقرب) تب انہوں نے سوچا کہ اب فرعون او راس کی قوم تومیرے دشمن ہوجائیں گے.اوردعاکی کہ اے میرے رب ! اپنی قوم کے ایک آدمی کو مصیبت میں دیکھ کر میں نے اپنے نفس کو تکلیف میں ڈال دیاہے پس میری خاطر اس مصیبت پر پردہ ڈال دے.غَفَرَ کے اصل معنے پردہ ڈالنے کے ہوتے ہیں.خواہ مصیبت پر پردہ ڈالنے کے ہوں.خواہ گناہ پر پردہ ڈالنے کے.چنانچہ غَفَرَ الشَّیْءَ غَفْرًا کے معنے ہوتے ہیں سَتَرَہٗ اس کو ڈھانپ دیا(اقرب) اس جگہ فَاغْفِرْلِیْ کے معنے مصیبت پر پردہ ڈالنے کے ہی ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس مصیبت پر اس طرح پرد ہ ڈال دیا کہ گورنمنٹ کاکوئی آدمی اس موقعہ پر نہ آیا.اورپھر بعد میں بھی خدا تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی اورفرعونی حکومت آپ کو قتل کرنے کے ارادہ میں ناکام رہی اورخدا تعالیٰ اپنے بندوں کی مصیبت کودور کرنے والااوربڑارحم کرنے والا ہے.تب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعاکی کہ اے خدا! چونکہ تُونے مجھ پرایک بڑااحسان کیا ہے آئندہ میں کبھی مجرم کامددگار نہیں ہوں گا.واقعہ سے توظاہر ہے کہ جس شخص کی انہوں نے مدد کی تھی وہ مجرم نہیںتھا.لیکن اس آیت میں جوحضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کے لئے مجرم کالفظ استعمال کیاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے روحانی طورپر یہ اندازہ لگایانہ کہ واقعاتی طور پر.انہوں نے سمجھا کہ میں نے تونیک دلی سے اس شخص کی مدد کی تھی.مگرنتیجہ یہ نکلا کہ فرعونی قوم کا ایک آدمی ماراگیا.اورمیں مصیبت میں پڑ گیا.پس یہ نتیجہ بتاتا ہے کہ شائد خدا تعالیٰ کی نظر میں اس شخص کاکوئی جرم تھا.فَاَصْبَحَ فِي الْمَدِيْنَةِ خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ فَاِذَا الَّذِي اس کے بعد وہ شہر میں صبح کے وقت دشمنوں سے خوف کرتاہوا اورادھر ادھر دیکھتاہوانکلا.توکیادیکھتاہے کہ اسْتَنْصَرَهٗ بِالْاَمْسِ يَسْتَصْرِخُهٗ١ؕ قَالَ لَهٗ مُوْسٰۤى اِنَّكَ جس نے اس سے کل مدد طلب کی تھی وہ پھر اسے مدد کے لئے بلارہاہے.اس پر موسیٰ نے اس سے کہا.
لَغَوِيٌّ مُّبِيْنٌ۰۰۱۹فَلَمَّاۤ اَنْ اَرَادَ اَنْ يَّبْطِشَ بِالَّذِيْ هُوَ تویقیناً ایک کھلا کھلا گمراہ ہے.پس جب اس نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو پکڑے جو ان دونوں عَدُوٌّ لَّهُمَا١ۙ قَالَ يٰمُوْسٰۤى اَتُرِيْدُ اَنْ تَقْتُلَنِيْ كَمَا قَتَلْتَ کا دشمن تھا تواس (شخص )نے کہا کہ اے موسیٰ!کیاتوچاہتاہے.کہ تُو مجھے قتل کردے جس طر ح تونے نَفْسًۢا بِالْاَمْسِ١ۖۗ اِنْ تُرِيْدُ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ جَبَّارًا فِي کل ایک اَورشخص کو قتل کیاتھا.تُو صرف یہ چاہتا ہے کہ کمزوروں کو ملک میں دبادے.اوراصلاح کرنے والوں الْاَرْضِ وَ مَا تُرِيْدُ اَنْ تَكُوْنَ مِنَ الْمُصْلِحِيْنَ۰۰۲۰ میں شامل ہوناتیری غرض نہیں.حل لغات.یَتَرَقَّبُ:یَتَرَقَّبُ تَرَقَّبَ سے مضارع معروف واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اور تَرَقَّبَہٗ کے معنے ہیں اِنْتَظَرَہٗ.اس کاانتظار کیا.(اقرب) مفردات میں ہے.تَرَقَّبَ: اِحْتَرَزَ رَاقِبًا یعنی ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی حفاظت کی.پس یَتَرَقَّبُ کے معنے ہوں گے.وہ ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے اپنی حفاظت کرتاہے.یَسْتَصْرِخُہٗ:یَسْتَصْرِخُہٗ اِسْتَصْرَخ سے فعل مضارع واحد مذکر غائب کاصیغہ ہے اور اِسْتَصْرَخَہٗ کے معنے ہیں اِسْتَغَاثَہٗ اسے مدد کے لئے بلایا(اقرب) پس یَسْتَصْرِخُہٗ کے معنے ہیں وہ دوسرے کومدد کے لئے بلاتاہے.تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام صبح کے وقت پھر شہر کی گشت کے لئے نکلے.اوراس بات کو تاڑ رہے تھے کہ کوئی میراپیچھا تونہیں کرتا.اس وقت انہوں نے اچانک دیکھا.کہ وہ شخص جو کل ان سے مدد مانگ رہاتھا پھر ان کو مدد کے لئے بلارہاہے.چونکہ وہ روحانی طورپر سمجھ چکے تھے کہ غالباً پہلے دن بھی اس کاکوئی قصور تھا.دوسرے انہوں نے یہ سمجھا کہ ایک ہی شخص کوساری دنیا مارنے پر کیوں تیار ہوگئی ہے معلوم ہوتاہے کہ یہ شخص بھی جوشیلا ہے اورلوگوں کو بھڑکادیتاہے.اس لئے انہوں نے کہا کہ اِنَّکَ لَغَوِیٌّ مُّبِیْنٌ.اے شخص توبڑا فسادی معلوم ہوتاہے.غَوِیٌّ غَوِیَ
سے صفت مشبہ کا صیغہ ہے.جس کے ایک معنے فساد کے بھی ہوتے ہیں (لسان العرب)پھر جب انہوں نے یہ سمجھ کر کہ بظاہر حالات میں تودوسراشخص ہی ظالم ہے.اس دوسرے شخص کو پکڑنے کے لئے قد م اٹھایا تو چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مونہہ سے اپنی قوم کے آدمی کو کہا تھا کہ توبڑافسادی معلوم ہوتاہے اس نے سمجھا کہ شاید مجھے مارنے کے لئے موسیٰ ؑ آگے بڑھ رہاہے.اوربے سوچے سمجھے چلّااٹھاکہ اے موسیٰ ؑ! کیاتوچاہتاہے کہ آج مجھے مار دے جس طرح کل تونے ایک اَور شخص کوماراتھا.تُو کمزور لوگوں کو دباکر اپنی حکومت قائم کرناچاہتاہے.اوراصلاح تیری نیت نہیں.جَبَّار اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ہے اوراس کے معنے لوگوں کی حاجات پو ری کرنے والے کے ہوتے ہیں.لیکن جب کسی غیر اللہ کے متعلق جبّار کالفظ استعمال ہوتو اس کے معنے سرکش اورقانو ن کی خلاف ورزی کرنے والے کے ہوتے ہیں (اقرب)اس کے شو رمچانے پر اردگرد کے لوگوں کومعلوم ہوگیا کہ موسیٰ ؑ ہی پہلے دن یعنی رات کے پہلے حصہ میں ایک شخص کو مار چکے ہیں.اور چونکہ وہ مقتول فرعونی قوم کا تھا.جس طرح آج کا حملہ آو ربھی فرعونی قوم کاتھا.اس لئے یہ خبر شہر میں آگ کی طرح پھیل گئی اورفرعونیوں میں جوش پیداہوگیا.وَ جَآءَ رَجُلٌ مِّنْ اَقْصَا الْمَدِيْنَةِ يَسْعٰى ١ٞ قَالَ يٰمُوْسٰۤى اوراس وقت ایک شخص شہر کے دور کے حصہ سے دوڑتاہواآیا.اورکہا اے موسیٰ (ملک کے )رؤساء مشور ہ اِنَّ الْمَلَاَ يَاْتَمِرُوْنَ بِكَ لِيَقْتُلُوْكَ فَاخْرُجْ اِنِّيْ لَكَ مِنَ کررہے ہیں کہ تجھے قتل کردیں.پس (میری بات سن اور )اس شہر سے نکل جا.میں تیرے خیر خواہوں میں سے النّٰصِحِيْنَ۰۰۲۱فَخَرَجَ مِنْهَا خَآىِٕفًا يَّتَرَقَّبُ١ٞ قَالَ ہوں تب وہ اس شہر سے ڈرتے ہوئے نکل گیا.اوروہ ہوشیاری سے اِدھر اُدھر دیکھتاجاتاتھا.اس وقت ا س نے رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَؒ۰۰۲۲ دعاکی اورکہا اے میرے رب! مجھے ظالم قوم سے نجات دے.تفسیر.تب ایک شخص شہر کے دوسرے علاقہ سے دوڑتاہواآیا.جہاں یہ خبر پہلے پہنچ گئی تھی اوراس نے
موسیٰ ؑ سے کہا کہ اے موسیٰ ؑ!سرداران قوم تیرے قتل کرنے کامشورہ کررہے ہیں.پس میں ایک خیرخواہ کے طور پر تجھے نصیحت کرتاہوں کہ شہر سے بھاگ جا.اس پر موسیٰ ؑ اسی وقت شہر سے بھاگ گئے.اورچاروں طرف دیکھتے بھی جاتے تھے کہ میراکوئی پیچھا تونہیں کررہا.اوردعاکرتے جاتے تھے کہ الٰہی فرعون کی قوم ظالم ہے.میں دودفعہ دیکھ چکاہوں کہ فرعونیوں کا آدمی ایک اسرائیلی کوقتل کرناچاہتاہے.پس تُو مجھے ان کے مظالم سے نجات دے اوروہاں سے انہوں نے مدین کارخ کیا.مدین حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کانام تھا جو قتورہ کے بطن سے تھے.ان کا ذکر بائیبل کی کتاب پیدائش باب۲۵ میں آتاہے.جہاں لکھا ہے کہ :.’’ابراہام نے پھر ایک اَوربیوی کی.جس کانام قطورہ تھا.اوراس سے زمران ؔ اورلُقیان اور مدانؔ اورمدیانؔ او راسباقؔ اورسُوخ پیداہوئے.‘‘ (آیت ۱و۲) چونکہ قدیم زمانہ میں اولاد بھی اپنے باپ کے نام سے پکاری جاتی تھی اس لئے مدین سے جونسل پیداہوئی وہ بھی مدین ہی کہلائی اورپھر اس قوم نے جو مرکزی شہربنایااس کانام بھی مدین ہی رکھا.یہ شہر خلیج عقبہ کے پاس تھا.یعنی بحیرہ احمر جہاں ختم ہونے لگتاہے وہاں اس کی ایک شاخ مصرکے ساحل کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے اوردوسری شاخ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ چلی جاتی ہے.جوشاخ عرب کے ساحل کے ساتھ ساتھ جاتی ہے اس کو خلیج عقبہ کہتے ہیں.مدین شہر خلیج عقبہ کے پاس عرب کی طرف سمندر کے بالکل قریب واقعہ تھا.عرب سے جوقافلے مصر کو جاتے تھے وہ بھی مدین کے راستے سے ہی ہوکرجاتے تھے.اصل مدین شہرتواب موجود نہیں لیکن اس نام کی کئی بستیاں چھوٹے چھوٹے قصبات کی شکل میں اب بھی وہاںملتی ہیں (اطلس القرآن صفحہ ۹۲ ،۹۳ و تاریخ ارض القرآن اردو جلد دوم صفحہ ۱۱۰،۱۱۱).وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّيْۤ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ اورجب وہ مدین شہر کی طرف چلا.تو اس نے کہا.مجھے امید ہے کہ میرارب مجھے سیدھاراستہ دکھادے گا.سَوَآءَ السَّبِيْلِ۰۰۲۳وَ لَمَّا وَرَدَ مَآءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اورجب وہ مدین شہر کے چشمہ کے پاس آیا.تواس نے اس پر لوگوں کا ایک گروہ کھڑادیکھا جواپنے جانوروں کو پانی
اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ١ٞ وَ وَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ پلارہے تھے.اوران سے پیچھے ہٹ کر کھڑی دوعورتیں دیکھیں جواپنے جانوروں کو (ہجوم سے پرے) تَذُوْدٰنِ١ۚ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا١ؕ قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ ہٹارہی تھیں.موسیٰ نے ان سے کہا تم دونوں کو کیا اہم کام درپیش ہے.اس پر دونوں عورتوں نے کہا.الرِّعَآءُ١ٚ وَ اَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ۰۰۲۴فَسَقٰى لَهُمَا ثُمَّ تَوَلّٰۤى ہم پانی نہیں پلاسکتیں جب تک کہ دوسرے چرواہے چلے نہ جائیں اورہماراباپ بہت بوڑھا ہے (اس لئے ہمارے اِلَى الظِّلِّ فَقَالَ رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ ساتھ نہیں آسکا)پس اس نے ان دونوں کی خاطر (جانوروںکو)پانی پلایا.پھر ایک سایہ کی طرف ہٹ گیا.پھر کہا فَقِيْرٌ۰۰۲۵فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَى اسْتِحْيَآءٍ١ٞ.اے میرے رب! اپنی بھلائی میں سے جوکچھ تُو مجھ پرنازل کرے.میں اس کا محتاج ہوں.اس کے بعد ان قَالَتْ اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ لِيَجْزِيَكَ اَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا١ؕ دونوں لڑکیوں میں سے ایک چلتی ہوئی آئی اوروہ شرمارہی تھی.اوراس نے کہا.میراباپ تجھے بلاتاہے تاکہ تجھے فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ١ۙ قَالَ لَا تَخَفْ١۫ٙ ہماری جگہ پر (جانوروں کو)پانی پلانے کا اجرعطاکرے.پس جب وہ اس (یعنی لڑکیوں کے باپ) کے پاس آیا نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۲۶ اوراس کے آگے (اپنا)ساراواقعہ بیان کیا تواس نے کہا.ڈر نہیں.تواب ظالم قوم کے پنجہ سے نجات پاگیا ہے.حل لغات.تَذُوْدٰنِ :تَذُوْدٰنِ ذَادَ یَذُوْدُ (ذَوْدًاوذِیَادًا) سے مضارع تثنیہ مؤنث غائب کاصیغہ ہے اور ذَادَ کے معنے ہیں طَرَدَہٗ وَدَفَعَہٗ.اسے دھتکارااورہٹایا(اقرب) پس تَذُوْدٰنِ کے معنے ہوں گے.وہ دونوں
ہٹارہی تھیں.خَطْبُکُمَا:اَلْـخَطْبُ کے معنے ہیں اَلْاَمْرُ الْعَظِیْمُ الَّذِیْ یَکْثُرُ فِیْہِ التَّخَاطُبُ(مفردات راغب) ایسااہم معاملہ جس میں کثرت سے باہم گفت وشنید کی جائے.یُصْدِرُ:یُصْدِرُاَصْدَرَ سے فعل مضارع ہے.اور اَصْدَرَ فُلَانًا کے معنی ہیں ذَھَبَ بِہٖ.اسے لے گیا(اقرب) پس یُصْدِرُ کے معنے ہوں گے.وہ لے جاتا ہے یا لے جائے گا.اَلرِّعَاءُ: اَلرِّعَاءُاَلرَّاعِیْ کی جمع ہے.رَاعِیْ چرواہے کوکہتے ہیں.نیز اس کے معنے ہیں کُلُّ مَنْ وَلِیَ اَمْرَ قَوْمٍ.ہروہ شخص جوقوم کے کسی معاملہ کاذمہ وار ہو.(اقرب)پس اَلرِّعَاءُ کے معنے ہوں گے.چرواہے.تفسیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مدین کی طرف چلے توایسامعلوم ہوتاہے کہ جیسے حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایاتھا کہ اِنِّيْ لَاَجِدُ رِيْحَ يُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(یوسف : ۹۵)یعنی اگر تم میرے متعلق یہ نہ کہنا شروع کردو کہ یہ بوڑھا سٹھیا گیاہے اوراسے ہروقت یوسف کاہی خیال رہتاہے.تومیں تمہیں بتاناچاہتاہوں کہ مجھے اب یوسف کی ہواآرہی ہے اورمجھے ایسامحسوس ہوتاہے کہ اس کی ملاقات کے دن اب دروازہ پر کھڑے ہیں.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوبھی اس وقت مدین کی طرف سے ٹھنڈی ہواآئی اورآپ نے فرمایا.عَسٰى رَبِّيْۤ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَآءَ السَّبِيْلِ.مجھے امید ہے کہ اب میرارب مجھے اس منزل پر پہنچا دے گا.جومیرے لئے خیر اوربرکت کاموجب ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعاسن لی اور جب وہ مدین کے چشمہ پر پہنچے تواس کے ارد گرد انہوں نے ایک جماعت دیکھی جو اپنے جانوروں کو پانی پلا رہی تھی.او راس جماعت سے پرے کھڑی ہو ئی انہوں نے دوعورتیں دیکھیں جواپنے جانوروں کوپانی سے ہٹارہی تھیں تاکہ وہ لوگوں کے ہجوم میں گھس کر کہیں گم نہ ہوجائیں اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ان عورتوں کی طرف بڑھے اوران سے کہا کہ مَاخَطْبُکُمَا تم دونوں کو کیا اہم کام درپیش ہے جس کا تمہیں فکرلاحق ہے.خَطْبٌ کے معنے خاص حالت کے بھی ہوتے ہیں اور خَطْبٌ ہراہم امر کو بھی کہتے ہیں.خواہ چھوٹاہویا بڑا.(اقرب) ان دونوں نے کہا کہ ہماری عادت ہے کہ جب تک چرواہے پانی پلاکر اپنے جانوروں کوواپس نہ لے جائیں ہم پانی نہیں پلایاکرتیں.کیونکہ ان اوباشوں کے گروہ میںملنا ہمیں پسند نہیں.پھر انہوں نے خیال کیا کہ ہماری اس بات سے یہ نووارد ہمارے باپ یا ہمارے رشتہ داروں کی نسبت بدظنی کرے گا کہ وہ آپ کیوں نہیں آتے اور لڑکیوں کوکیوں بھیجتے ہیں.اس لئے انہوں نے جھٹ یہ فقرہ اپنی پہلی بات پر زائد کردیا.کہ ہماراصرف باپ ہے اوروہ
بوڑھا ہے.وہ یہ کام نہیں کر سکتا.اس پر موسیٰ ؑ کو ان لڑکیوں پر رحم آیا.اورانہوں نے لڑکیوں کے جانور لے کر اس چشمہ سے ان کو پانی پلوادیا.پھر بغیر کسی مزدوری یا کسی شکریہ کی امید ظاہر کرنے کےایک درخت کی طرف چلے گئے اوراس کے سایہ میں بیٹھ گئے اورخدا تعالیٰ سے دعاکی کہ رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ.یعنی اے میرے رب! میں تواس ملک میں مسافراور اکیلاہوں.اور میرے پاس کچھ نہیں تُوجوکچھ بھی بھلائی کاسامان میرے لئے کرے میں اس کا محتاج ہوں.چنانچہ وہ تھوڑی دیر وہاں بیٹھے رہے.اس کے بعد ان دونوں بہنوں میں سے ایک شرماتی ہوئی ان کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میراباپ تجھے بلاتاہے تاکہ تیرے پانی پلانے کی اُجرت تجھے دے.فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَيْهِ الْقَصَصَ١ۙ قَالَ لَا تَخَفْ١۫ٙ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ.جب موسیٰ علیہ السلام اس کے باپ کے پاس آئے.توباتوں باتوں میں انہوں نے اپناساراواقعہ سناڈالا.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کاواقعہ سن کر ان لڑکیوں کے باپ نے کہا.کہ اب تُوکسی بات سے مت ڈر توظالم قوم سے نجات پاچکا ہے.قَالَتْ اِحْدٰىهُمَا يٰۤاَبَتِ اسْتَاْجِرْهُ١ٞ اِنَّ خَيْرَ مَنِ اس پر ان دونوں (لڑکیوں )میں سے ایک نے کہا.اے میرے باپ!اس کوتو ملازم رکھ لے کیونکہ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْاَمِيْنُ۰۰۲۷قَالَ اِنِّيْۤ اُرِيْدُ اَنْ جن کو توملازم رکھے ان میں سے بہتر شخص وہی ہوگا جو مضبوط بھی ہو اور امانت دار بھی.تب و ہ شخص بولا اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَيَّ هٰتَيْنِ عَلٰۤى اَنْ تَاْجُرَنِيْ ثَمٰنِيَ (اے موسیٰ)میں چاہتاہوں کہ اس شرط پر اپنی ان دوبیٹیوں میں سے ایک کاتجھ سے نکاح کردوں.حِجَجٍ١ۚ فَاِنْ اَتْمَمْتَ عَشْرًا فَمِنْ عِنْدِكَ١ۚ وَ مَاۤ اُرِيْدُ اَنْ کہ توآٹھ سال تک میری خدمت کرے.پس اگر تو آٹھ کے عدد کی جگہ پر دس کے عددسے اَشُقَّ عَلَيْكَ١ؕ سَتَجِدُنِيْۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِيْنَ۰۰۲۸ اپنے وعدہ کو مکمل کردے تویہ تیرااحسان ہوگا.اورمیں تجھ پر کوئی بوجھ ڈالنا نہیںچاہتا.اگر اللہ نے چاہاتوتُو مجھے
قَالَ ذٰلِكَ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكَ١ؕ اَيَّمَا الْاَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا نیک معاملہ کرنے والوں میں سے پائے گا.(اس پر موسیٰ ؑ نے) کہا.یہ بات میرے اورتیرے درمیان پختہ ہوگئی.عُدْوَانَ عَلَيَّ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى مَا نَقُوْلُ وَكِيْلٌؒ۰۰۲۹ ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی میں پوری کروں مجھ پر کوئی الزام نہیں ہوگا اورجوکچھ ہم کہتے ہیں اللہ اس پر گواہ ہے.حل لغات.حِـجَجٌ: حِـجَجٌ حِـجَّۃٌ کی جمع ہے اور اَلْـحِجَّۃُ کے معنے ہیں اَلسَّنَۃُ.سال (اقرب) پس حِـجَجٌ کے معنے ہوں گے کئی سال.تفسیر.ان دونوں بہنوں میں سے ایک نے یہ خیال کرکے کہ ہمیں ہر روز چشمہ پرجانے کی وجہ سے یہاں کے اوباش آدمیوں سے شرمندہ ہونا پڑتا ہے.وہ قسم قسم کی بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں اورمذاق اورچھڑ خانی کرتے ہیں.اگرہماراباپ ا س آدمی کو نوکر رکھ لے توہم اس مصیبت سے نجات پا جائیں گی.اپنے باپ سے کہا کہ اے باپ! اس کونوکر رکھ لیں.کیونکہ سب سے زیادہ نوکر رکھنے کے قابل وہی شخص ہوتاہے جوکہ مضبوط بھی ہو اور امانت دار بھی.معلوم ہوتاہے جس دلیری سے حضرت موسیٰ علیہ السلام اوباش چرواہوں کو دھکے دے کر چشمہ کے پاس جانوروں کو لے گئے تھے اس سے ان لڑکیوں نے نتیجہ نکالاکہ موسیٰ مضبوط آدمی ہے اورجس طرح اس کے بعدآنکھیں جھکائے درخت کے نیچے جابیٹھے تھے اوران لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھاتھا اس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ یہ شخص امانت دار ہے.باپ لڑکیوں سے واقعہ سن کر پہلے ہی یہ نتیجہ نکال چکا تھا.اور چونکہ وہ بھی سکّوں کے لحاظ سے مالدار نہیں تھا گوکچھ جانور اس کے پاس تھے.اس لئے اس نے فوراً تجویز پیش کردی کہ میں چاہتاہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کاتجھ سے نکاح کردو ں اس شرط پر کہ توآٹھ سال میری خدمت کرے پھر اگرآٹھ کوبڑھا کر دس کاعد د پوراکردے تویہ تیرااحسان ہوگا.اورمیں تجھ پر سختی کرنانہیں چاہتا.یعنی میں آٹھ پر ہی قائم رہوں گا اوراس پر زور نہیں دوں گا کہ تُو دس سال ضرور پورے کرے.تو انشاء اللہ معاملہ پڑنے پر دیکھے گاکہ میں ہمیشہ نیک سلوک کیاکرتاہوں.کبھی سختی نہیں کیاکرتا.اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ چلیئے میرے اور آپ کے درمیان معاہدہ ہوگیا.میں ان دونوں مدتوں میں سے جو بھی پوری کروں وہ جائز ہوگی اورمجھ سے یہ امید نہ رکھی جائے گی کہ میں ضرور دس سال والی مدت پوری کرو ں.اور چونکہ ایسے امو رکے لئے گواہ کی ضرور ت ہوتی ہے.
میں یہ کہتا ہوں کہ ہم دونوں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اپنے اس عہد کاگواہ قرار دیتے ہیں.انہیں آیات سے استدلال کرتے ہوئے اگر کوئی مخلص مہر کے متعلق مجھ سے مشورہ لے تومیں اسے یہ مشور ہ دیاکرتاہوں کہ اپنی چھ ماہ کی آمد سے ایک سال تک کی آمد بطور مہر مقررکردو.اورمیرایہ مشورہ دووجوہ پر مبنی ہوتاہے.اول تواس امر پر کہ اللہ تعالیٰ نے حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ’’الوصیت‘‘ کے قوانین میں دسویں حصہ کی شرط رکھوائی ہے گویااسے بڑی قربانی قرا ر دیاہے.اس بنا پر میراخیال ہے کہ اپنی آمدنی کادسواں حصہ باقی اخراجات کو پوراکرتے ہوئے مخصوص کردینا معمولی قربانی نہیں بلکہ ایسی بڑی قربانی ہے کہ جس کے بدلہ میں ایسے شخص کو جنت کاوعدہ دیاگیاہے.اس حساب سے ایک سال کی آمد جو گویامتواتر دس سال تک کی آمد کادسواں حصہ ہوتاہے بیوی کے مہر میں مقرر کردینا مہرکی اغراض کو پوراکرنے کے لئے بہت کافی ہے.بلکہ میرے نزدیک انتہائی حد ہے.لیکن ’’ الوصیت ‘‘کے ارشادکے علاوہ قرآن مجید کی ان آیات سے بھی اس کی تائید ملتی ہے.ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے آٹھ سال بطور مہر کام کرنے کا ذکر آتاہے اورانہیں بڑھا کر دس سال بھی کام کرنے کی اجازت ہے.گویااس واقعہ میں بھی آٹھویں حصہ بلکہ دسویں حصہ کی آمد کو اللہ تعالیٰ نے انتہائی قربانی سے تعبیر کیاہے کیونکہ اس سے یہ مراد تو نہیں کہ اس آٹھ یادس سال کے عرصہ تک حضرت موسیٰ علیہ السلام خود کچھ کھاتے پیتے اورپہنتے نہیں تھے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر ان کے او ران کی بیوی کے اخراجات اداکرتے ہوں گے.ان اخراجات کواداکرنے کے بعد یہی کہاجاسکتاہے کہ جس تنخواہ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام حقدا ر تھے اس کادسواں حصہ بطور امانت ان کے خسر کے پاس رہتاتھااوراسے انہوں نے لڑکی کامہر قرار دیاتھا.بائیبل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسر کانام کہیں تویتروبتایاہے(خروج باب ۳ آیت ۱) جیساکہ خروج باب ۳سے ظاہر ہے اور کہیں رعوایل بتایاہے جیساکہ خروج باب ۲ آیت ۱۸ سے ظاہر ہے.لیکن قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خسرکاکہیں نام نہیں بتایا.البتہ مسلمان مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ خسر حضرت شعیب علیہ السلام تھے جو مدین قوم کی اصلاح کے لئے مبعوث فرمائے گئے تھے(ابن کثیر).مگرمیرے نزدیک یہ درست نہیں اس لئے کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت قومِ شعیبؑ کی تباہی کے بعد ہوئی تھی جیسا کہ سورۃ اعراف میں اللہ تعالیٰ قومِ شعیبؑ کی ہلاکت کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے.ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْۢ بَعْدِهِمْ مُّوْسٰى بِاٰيٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ فَظَلَمُوْا بِهَا (الاعراف :۱۰۴) یعنی اس قوم کی ہلاکت کے بعد ہم نے موسیٰ ؑ کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف کھلی کھلی آیات کے ساتھ مبعوث کیامگرانہوں
نے ظلم سے کام لیا.پس جبکہ قرآن کریم بوضاحت بتارہاہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت شعیبؑ کی قوم کی تباہی کے بعد ہوئی تھی توحضرت شعیب علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کاخسر قراردینا کس طرح درست ہو سکتا ہے.اسی طرح قرآن کریم بتاتاہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قو م کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاکہ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْۤ اَنْ يُّصِيْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ١ؕ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ.(ہود :۹۰) یعنی اے میری قوم دیکھنا کہ کہیں میری دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم اپنے لئے ویسی ہی مصیبت سہیڑ لو جیسی نوح ؑ یاہود ؑ یاصالح ؑ کی قوم پر آئی تھی.اورلوط ؑ کی قوم توتم سے کچھ ایسی دور بھی نہیں ہے.اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت شعیب علیہ السلام حضرت لوط ؑ کے قریب عرصہ بعد میں ہوئے ہیں.پس حضرت شعیب کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں قرا ردینا اورانہیں آپ کا خسر بتانا ان آیات کی روسے درست نہیں ہوسکتا.پس میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ حضرت شعیب علیہ السلام ان کے خسر تھے.آپ کے خسر کایترونام ہو یارعوایل یاکچھ اَوربہرحال و ہ اَور شخص ہیں اور حضرت شعیب علیہ السلام اَورشخص ہیں.یہ قوم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت تک تباہ ہوچکی تھی.اورآپ کے زمانہ میں صرف اس کی نسل کاکچھ بقیہ موجود تھا.اس کی اصل شان و شوکت بالکل زائل ہوچکی تھی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دعویٰ نبوت سے پہلی زندگی کے یہ حالات جوقرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ان کے متعلق قرآن کریم نے اس سورۃ کے ابتداء میں یہ امرواضح فرما دیاتھا کہ ہم یہ واقعات بائیبل کی نقل کے طور پر بیان نہیں کررہے بلکہ موسیٰ ؑ کی زندگی کے صحیح واقعات بیان کررہے ہیں اورپھر یہ واقعات صرف ایک قصہ کے طور پر نہیں بلکہ ان واقعات میں مومن قوم کے لئے بڑے بھاری نشانات ہیں یعنی انہیں یقین رکھناچاہیے کہ جس طرح موسیٰ ؑ کی خدا تعالیٰ نے تائید فرمائی اور ان کے ذریعہ اس نے ایک بے کس اور مظلوم قوم کو بادشاہ بنادیا.اسی طرح وہ لو گ جو محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے بیشک انہیں اسرائیلیوں کی طرح ماراپیٹاجائے گا.اور خدا تعالیٰ کی راہ میں انہیں اپنی جانوں اور اموال کے علاوہ اپنی آئند ہ نسلوں کی بھی قربانی کرنی پڑے گی.مگرجس طرح خدا تعالیٰ نے فرعون کاتختہ الٹ کر رکھ دیاتھا اوربنی اسرائیل کو اسی قسم کی نعماء کاوارث کردیاتھا جوفرعون او راس کے ساتھیوں کو میسر تھیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اس زمانہ کے طاقتو ربادشاہوں کو بھی جوفرعون کی طرح خدائی احکام کے سامنے اپناسر جھکانے کے لئے تیار نہیں ہوں گے سزادے گا اوران کی حکومتوںکو ٹکڑے ٹکڑے کردے گا.چنانچہ اسلامی تاریخ کا ایک ایک ورق اس پیشگوئی کی تصدیق کررہاہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت واضح کررہاہے.
ان واقعات قرآنی کا بائیبل کے جن امور میں اختلاف پایا جاتا ہے وہ یہ ہیں :.اول:.بائیبل نے اس امر کاکوئی ذکر نہیں کیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والد ہ کواللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ حکم دیاتھا کہ جب موسیٰ ؑ کی جان کے متعلق تمہیں خطرہ لاحق ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا.بلکہ وہ اس تدبیر کو خود امِّ موسیٰ ؑ کی طرف منسوب کرتی ہے.لیکن قرآن کریم اس امر کوواضح فرماتا ہے کہ امِّ موسیٰ ؑ کویہ خیال خود بخود نہیں آیا.بلکہ ہمارے حکم سے اس نے ایسا کیا.اگرامِّ موسیٰ ؑ کایہ ذاتی فعل ہوتا اورخدائی تائید اس کے پیچھے کام کر رہی نہ ہوتی توموسیٰ ؑ کی سلامتی اوراس کی شاہی گھرانے میں پرورش کے جوواقعات بعد میں ظاہر ہوئے وہ کبھی نہ ہوتے.یہ واقعات خود اپنی ذات میں اس بات کاثبوت ہیں کہ یہ جو کچھ ہواالٰہی منشاء کے ماتحت ہوا.دوم:.بائیبل یہ بیان کرتی ہے کہ موسیٰ ؑ کی والدہ نے ’’سرکنڈوں کاایک ٹوکرہ لیا.او راس پر چکنی مٹی اوررال لگاکر لڑکے کو اس میں رکھااوراسے دریاکے کنارے جھائو میں چھوڑ آئی ‘‘.(خروج باب ۲آیت ۳) گویا بائیبل کے نزدیک انہیں یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ اپنے ہاتھ سے انہیں دریا میں ڈال دیں.زیادہ سے زیاد ہ انہوں نے یہ کیا کہ دریاکے کنارے ایک جھائو میں جاکرانہیں چھپادیا.اورپھر بائیبل یہ بھی بیان کرتی ہے کہ فرعون کی بیٹی جب دریا پر غسل کرنے گئی اوراس نے جھائومیں ایک ٹوکراپڑادیکھا تواس نے اپنی سہیلی کو بھیجا کہ وہ جاکر ٹوکرااٹھالائے.چنانچہ لکھا ہے.’’ فرعون کی بیٹی دریاپر غسل کرنے آئی اور اس کی سہیلیاں د ریا کے کنارے کنارے ٹہلنے لگیں.تب اس نے جھائو میں و ہ ٹوکرادیکھ کر اپنی سہیلی کو بھیجا کہ اسے اٹھالائے.جب اس نے اسے کھولاتو لڑکے کو دیکھا اوروہ بچہ رورہاتھا.اسے اس پر رحم آیا او رکہنے لگی کسی عبرانی کابچہ ہے.تب اس کی بہن نے فرعون کی بیٹی سے کہا.کیا میں جاکر عبرانی عورتوں میں سے ایک دائی تیرے پاس بلالائو ں جوتیرے لئے اس بچہ کو دودھ پلایاکرے.فرعون کی بیٹی نے کہا.جا.وہ لڑکی جاکر بچے کی ماں کو بلالائی.فرعون کی بیٹی نے اسے کہا.تواس بچے کو لے جاکر میرے لئے دودھ پلا.میں تجھے اجرت دیاکروں گی وہ عورت اس بچے کو لے جاکر دودھ پلانے لگی.جب بچہ کچھ بڑاہواتووہ اسے فرعون کی بیٹی کے پاس لے گئی.اوروہ اس کابیٹاٹھہرا.اوراس نے اس کانام موسیٰ یہ کہہ کر رکھا کہ میں نے اسے پانی سے نکالا.‘‘ (خروج باب ۲آیت ۵تا۱۰)
لیکن تعجب ہے کہ بائیبل ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ موسیٰ ؑ کی والدہ نے اپنے بچے کوجھائو میں جاکر چھپادیااوریہ بھی کہتی ہے کہ فرعون کی بیٹی نے بھی اسے جھائو میں سے ہی اٹھایا.مگردوسری طرف وہ یہ بھی بیان کررہی ہے کہ فرعون کی بیٹی نے ’’اس کانام موسیٰ یہ کہہ کر رکھا کہ میں نے اسے پانی سے نکالا‘‘.جب موسیٰ پانی میں ڈالاہی نہیں گیاتھابلکہ ایک جھائو میں چھپا کر رکھ دیاگیاتھا اورجب فرعون کی بیٹی نے بھی اسے پانی سے نہیں نکالابلکہ اسے جھائو میں سے اٹھایا تواس کانام موسیٰ ؑ کیوں رکھا گیا.اوراس نے یہ کیوں کہا کہ میں نے اس کانام موسیٰ اس لئے رکھا ہے کہ میں نے اسے پانی سے نکالاہے.بائیبل کے اس حوالہ کا آخری فقرہ صاف بتارہاہے کہ موسیٰ ؑ پانی سے نکالاگیاتھا.جس کے دوسرے لفظوں میں یہی معنے ہیں کہ موسیٰ کی والدہ نے بھی انہیں دریامیں ہی ڈالاتھا.اوریہی حقیقت قرآن کریم نے بیان کی ہے.پس قرآن کریم بائیبل کی اس غلطی کو واضح کرتاہے کہ موسیٰ ؑ کوان کی والدہ نے جھائو میں جاکر رکھ دیاتھا اوربتاتاہے کہ انہیں جھائو میں جاکر نہیں رکھا گیابلکہ ایک تابوت میں بند کرکے دریا میں بہادیاگیاتھا.سوم:.بائیبل حضرت موسیٰ علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ انہوں نے عمداً ایک مصری کومار کرریت میں چھپادیا.چنانچہ بائیبل کہتی ہے :.’’جب موسیٰ بڑاہواتو باہر اپنے بھائیوں کے پاس گیا.اوران کی مشقتوںپر اس کی نظر پڑی اوراس نے دیکھا کہ ایک مصری اس کے ایک عبرانی بھائی کومار رہاہے.پھر اس نے اِدھر اُدھر نگاہ کی.اورجب دیکھا کہ وہاں کوئی دوسراآد می نہیں ہے تواس مصری کو جان سے مار کر اسےریت میں چھپا دیا.پھر دوسرے دن وہ باہر آگیا اوردیکھا کہ دوعبرانی آپس میں مار پیٹ کررہے ہیں.تب اس نے اسے جس کاقصورتھا کہاکہ تُواپنے ساتھی کوکیوں مارتاہے ؟اس نے کہا تجھے کس نے ہم پر حاکم یامنصف مقرر کیا؟ کیاجس طرح تونے اس مصری کومار ڈالامجھے بھی مار ڈالنا چاہتاہے ؟ تب موسیٰ یہ سوچ کر ڈراکہ بلاشک یہ بھید فاش ہوگیا.جب فرعون نے یہ سناتوچاہاکہ موسیٰ کو قتل کرے پرموسیٰ فرعون کے حضور سے بھاگ کر ملکِ مدیان میں جابسا.‘‘ (خروج باب ۲آیت ۱۱تا۱۵) بائیبل کے اس بیا ن میں بعض باتیں قرآنی بیان سے مختلف دکھائی دیتی ہیں لیکن ہرشخص جو معمولی عقل وسمجھ بھی اپنے اندر رکھتاہو دونوں بیانات پر نظر ڈالنے سے فوراً اندازہ لگاسکتاہے کہ ان دونوں بیانات میں سے قرآنی بیان عقلی لحاظ سے صحت اور سچائی کے زیادہ قریب ہے.مثلاً پہلی با ت تویہی ہے کہ بائیبل کہتی ہے.جب موسیٰ ؑ نے ایک مصری شخص کو اپنی قوم کے ایک فردسے لڑتے دیکھا تو موسیٰ ؑ نے پہلے ادھر ادھر جھانکا کہ کوئی پولیس مین تونہیں
کھڑا.اورجب تسلی ہوگئی توآگے بڑھ کر اس مصری کو مار دیا.اوراسے ریت میں چھپادیا.گویابائیبل موسیٰ ؑ پر قتل عمد کاالزام لگاتی ہے اورکہتی ہے کہ موسیٰ ؑ کاارادہ ہی اسے مارڈالنے کاتھا.چنانچہ اس نے احتیاط ملحوظ رکھتے ہوئے پہلے ادھر ادھر دیکھا تاکہ گرفت نہ ہوسکے اورپھر اسے قتل کرکے ریت میں چھپا دیا.مگرقرآن بتاتاہے کہ موسیٰ ؑ نے جب دونوں کو لڑتے دیکھا توموسیٰ ؑ خودبخود آگے نہیں بڑھے بلکہ پہلے ان کی قوم سے تعلق رکھنے والے فرد نے انہیں اپنی مدد کے لئے آواز دی.اس پر موسیٰ ؑ بغیرادھر ادھر دیکھنے کے فوری طورپر اس کی مدد کے لئے پہنچ گئے اورآ پ نے مصری کو ایک گھونسہ مارا اورآپ کاکوئی ارادہ نہیں تھا کہ اسے قتل کریں مگر سوء اتفاق سے وہ کسی نازک مقام پر جالگااوراس کی موت واقع ہوگئی.پس قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل عمد کے الزام سے بری ٹھہراتاہے مگربائیبل جو موسیٰ ؑ کوخدا کا نبی بھی قرا ردیتی ہے وہ بڑی دلیری سے کہتی ہے کہ موسیٰ ؑ نے جان بوجھ کر اس مصری کوقتل کیا.پھر دوسرے دن جوواقع ہوااس میں بھی قرآن یہ کہتاہے کہ اس روز پھر وہی عبرانی اورایک مصری آپس میں لڑ رہے تھے مگربائیبل کہتی ہے کہ اس روز کسی مصری سے لڑائی نہیںہوئی.بلکہ دوعبرانی آپس میں لڑرہے تھے.حالانکہ اگر دونوں عبرانی تھے توموسیٰ ؑ کواس میں دخل دینے کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.موسیٰ ؑ کادخل دینابتاتاہے کہ پھر یہ جھگڑا ایک قومی سوال بن گیا تھا جس کے لئے انہیں دخل دیناپڑا.اسی طرح بائیبل کہتی ہے کہ ’’ تب اس نے اسے جس کاقصور تھا کہا کہ تُو اپنے ساتھی کو کیوں مارتاہے.‘‘ حالانکہ موسیٰ ؑ کوکس طرح پتہ لگ سکتاتھا کہ دونوں میں سے قصوروار کون ہے.جب دونوں ان کی اپنی قوم کے افراد تھے اوردونوں آپس میں الجھ رہے تھے توموسیٰ ؑ کو یہ کس طرح پتہ لگ گیا کہ قصوروار کون ہے اورانہوں نے کس بناپر اسے ڈانٹناشروع کردیا.یہ بات بتاتی ہے کہ بائیبل سے اس واقعہ کےبیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے.اصل واقعہ وہی تھا جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے کہ اس روز بھی مصری قوم کے ایک فرد سے لڑائی ہورہی تھی.مگر بائبیل جو انسانی دست بُرد کا شکار ہوچکی ہے اس میںیہ لڑائی دو عبرانیوں کی طرف منسوب کر دی گئی ہے.انجیل نے بھی سچا واقعہ بیان کرنے کی بجائے موسیٰ ؑ کو ہی ملزم قرار دیا ہے.چنانچہ لکھا ہے:.’’پھر دوسرے دن وہ باہر گیا.اور دیکھا کہ دو عبرانی آپس میں مار پیٹ کر رہے ہیں.تب اُس نے اُسے جس کا قصور تھا کہا کہ تو اپنے ساتھی کو کیوں مارتا ہے؟اُس نے کہا.تجھے کس نے ہم پر حاکم یا منصف مقرر کیا ؟کیا جس طرح تو نے اس مصری کومارڈالا مجھے بھی مار ڈالنا چاہتا ہے؟‘‘(خروج باب ۲آیت ۱۳, ۱۴)
اسی طرح اعمالؔ میں لکھا ہے.’’پھر دوسرے دن وہ ان میں سے دو لڑتے ہوؤں کے پاس آنکلا اور یہ کہہ کر انہیں صلح کرنے کی ترغیب دی کہ اے جوانو!تم تو بھائی بھائی ہوکیوں ایک دوسرے پر ظلم کرتے ہو؟لیکن جو اپنے پڑوسی پر ظلم کررہاتھااُس نے یہ کہہ کر اُسے ہٹادیا کہ تجھے کس نے ہم پر حاکم اور قاضی مقرر کیا ؟کیا تو مجھے بھی قتل کرنا چاہتا ہے جس طرح کل اس مصری کو قتل کیا تھا؟ موسیٰ یہ بات سن کر بھاگ گیا اور مدیان کے ملک میں پردیسی رہا کیا.اور وہاں اس کے دو بیٹے پیدا ہوئے.‘‘ ( آیت ۲۶تا۲۹) مگر جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے قرآ ن کہتا ہے کہ یہ بات غلط ہے.دوسرے دن بھی ایک مصری اور عبرانی ہی لڑ رہے تھے اور پھر یہ کہ وہی عبرانی لڑ رہا تھا جس سے کل جھگڑ ا ہوا تھا.کوئی نیا عبرانی نہیں تھا.یہی وجہ ہے کہ اس نے موسیٰ ؑ سے کہا کہ کیا تو چاہتا ہے کہ جس طرح تو نے کل اس مصری کو ماردیا تھااسی طرح آج مجھے مار ڈالے.اگر کوئی اور عبرانی ہوتا تو اسے کل کے اس واقعہ کا کس طرح علم ہوسکتاتھا اور اسے کیونکر پتہ لگ سکتا تھا کہ کل جو واقعہ ہو ا تھا وہ موسیٰ ؑ کے ہاتھ سے ہی ہوا تھا.یہ الفاظ جو توراۃ اور انجیل دونوں میں نقل کئے گئے ہیں خود اس بات کی اندرونی شہادت ہیں کہ یہ وہی شخص تھا جس نے کل لڑائی کی تھی کوئی نیا آدمی نہیں تھا.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ با ئیبل ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ موسیٰ ؑ نے جس آدمی کو مارا تھا.اسے اس نے ریت میں چھپا دیا تھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ معاملہ بالکل مخفی رہا.مگر پھر وہی بائیبل یہ بیان کرنا شروع کردیتی ہے کہ دوسرے دن ایک اور عبرانی نے کہہ دیا کہ کیا تو مجھے بھی اسی طرح مارنا چاہتا ہے جس طرح تو نے کل ایک آدمی کو مار دیاتھا.گویا یہ واقعہ تمام لوگوں میں مشہور ہوچکا تھا.حالانکہ جس شخص کو نظروں سے بچا کر ریت میں چھپا دیا گیا ہو اس کی موت کا دوسروں کو علم ہی کیونکر ہوسکتا ہے.اس کا علم تو صرف ایک شخص کو تھا پس یہ فقرہ لازماً اسی شخص کے منہ سے نکل سکتا تھا جس نے پہلے دن کے واقعہ کو دیکھا تھا ورنہ کوئی دوسرا شخص یہ بات نہیں کہہ سکتا تھا خصوصاً ایسی حالت میں جب کہ بائیبل کے نزدیک مقتول کو ریت میں چھپا دیا گیا تھا اور اس کا کسی کو علم نہیں ہوسکتا تھا.چہارم:.بائیبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بھاگ کر مدین پہنچے تو ’’وہاں وہ ایک کنوئیں کے نزدیک بیٹھا تھا.اور مدیان کے کاہن کی سات بیٹیاں تھیں وہ آئیں اور پانی بھر بھر کر گھڑوں میں ڈالنے لگیں تاکہ اپنے باپ کی بھیڑ بکریوں کو پلائیں.اور گڈریے آکر
ان کو بھگا نے لگے لیکن موسیٰ کھڑا ہو گیا اور اس نے ان کی مدد کی اور ان کی بھیڑ بکریوں کو پانی پلایا.‘‘ (خروج باب ۲آیت ۱۵تا۱۷) ا.گویا بائیبل کہتی ہے کہ مدین کے کاہن کی سات بیٹیاں پانی لینے کے لئے آئیں.مگرقرآن کہتاہے کہ اس کی صرف دولڑکیاں اپنے جانوروں کو پانی پلانے کے لئے آئی تھیں.یہ فرق اس لئے ہے کہ قرآن کریم میں صرف بڑی لڑکیوںکا ذکر کیا گیاہے.کیونکہ آگے چل کر ان کے بیاہ کا معاملہ پیش آنے والاتھا.لیکن بائیبل نے اس کے خلاف چھوٹی بڑی سب لڑکیوں کا ذکر کردیا.ب.پھر قرآن کہتاہے کہ وہ لڑکیاں آگے نہیں بڑھیں بلکہ شرم و حیاکی وجہ سے اپنے جانوروں کو روک کر الگ کھڑی رہیں تاکہ دوسرے لوگ فارغ ہولیں توپھر وہ اپنے جانوروںکو پانی پلائیں.مگر بائیبل کہتی ہے کہ وہ پہلے سے پانی بھررہی تھیں مگرگڈریوں نے آکر انہیں روک دیا.حالانکہ جب وہ کنوئیں پر ان سے پہلے پہنچ چکی تھیں اورپانی بھی بھر رہی تھیں توبعد میں آکر گڈریوں کاانہیں روکنا خلاف عقل بات ہے.ج.بائیبل کے بیان سے مترشح ہو تاہے کہ جب گڈریوں نے ان لڑکیوں کو بھگایاتو موسیٰ ؑ کھڑے ہوگئے اورانہوں نے لڑکیوں کی مدد کی.گویادوسرے الفاظ میں انہوں نے گڈریوں سے لڑائی کی اورسختی کے ساتھ ان کامقابلہ کیا.مگرقرآن بتاتاہے کہ اس وقت موسیٰ ؑ نے کوئی مقابلہ نہیں کیا بلکہ لڑکیوں کی صرف اس رنگ میں مدد کی کہ ان کے جانوروں کو آگے بڑھ کر پانی پلادیا.اورعقل بھی قرآن کریم کے بیان کی ہی تصدیق کرتی ہے کیونکہ موسیٰ علیہ السلام اس وقت ایک اجنبی علاقہ میں تھے بالکل بے سروسامانی کی حالت میں تھے.کوئی دوست او رمددگار ان کانہیں تھا ایسی حالت میں و ہ ان سے لڑائی کس طرح مول لے سکتے تھے.انہوں نے صرف ہمدردی اور خدمت خلق کے نقطئہ نگاہ سے ان لڑکیوں کی مدد کی اوران کے جانوروںکو پانی پلادیا.پھر بائیبل نے یہ نہیں بتایاکہ جب لڑکیوں نے اپنے باپ سے یہ واقعہ بیان کیا اوران کے باپ نے کہا کہ ’’ تم اسے کیوں چھوڑ آئیں.اسے بلالائو کہ روٹی کھائے.‘‘ (خروج باب ۲ آیت ۲۰) توآیا ساتوں لڑکیاں انہیں بلانے کے لئے آئی تھیں یا دویاچار.مگرقرآن کریم بتاتاہے کہ صرف ایک لڑکی آئی تھی اور وہ بھی شرماتی ہوئی.اوراس نے اپنے باپ کا آپ کو پیغام دیا.اسی طرح بائیبل نے اس معاہدہ کاکوئی ذکر نہیں کیا جوموسیٰ ؑ اور ان کے خسر کے درمیان ہواتھا.صرف اتنا لکھ دیا کہ
’’ موسیٰ اس شخص کے ساتھ رہنے کو راضی ہوگیا.‘‘ (خروج باب ۲ آیت ۲۱) حالانکہ بتانایہ چاہیے تھاکہ موسیٰ ؑ کاخسر انہیں رکھنے پر راضی ہوگیا.ورنہ موسیٰ ؑ توچاہتے ہی تھے کہ انہیں کوئی ٹھکانہ مل جائے جہاں وہ رہائش اختیار کرسکیں.لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ موسیٰ ؑ اوران کے خسر کے درمیان ایک معاہدہ ہواتھا.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام آٹھ یادس سال تک اس کی خدمت کرنے کو تیار ہوگئے تھے.چنانچہ بائیبل نے اس معاہدہ کاکوئی ذکرنہیں کیا.مگراتنا اسے بھی تسلیم کرناپڑاہے کہ ’’موسیٰ اپنے خسر یتروکی جو مدیان کا کاہن تھا بھیڑ بکریاں چراتاتھا.‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱) یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ قرآن کریم نے جس معاہدہ کا ذکر کیاہے اسی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ کام کیاکرتے تھے.غرض قرآن کریم کو یہ عظیم الشان فضیلت حاصل ہے کہ اس نے دوہزار سال کے بعد نازل ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے صحیح واقعات دنیا کے سامنے پیش کئے جب کہ تورات نے موسیٰ ؑ کی کتاب کہلا کر کئی واقعات کو چھو ڑ دیااور کئی واقعات کو غلط بیان کردیا.اسی وجہ سے قرآن کریم نے اس سور ۃ کے شروع میں ہی یہ بیان فرما دیاتھا کہ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ یہ آیات ایک ایسی کتاب کی آیات ہیں جوتمام ضروری باتوں کو کھو ل کربیان کرنے والی ہے.یعنی بے شک تورات بھی کتاب ہے مگر انسانی دست بُرد کا شکار ہونے کی وجہ سے اب اس سے استفادہ ناممکن ہے کتاب مبین جو تمام سربستہ رازوں سے پر دہ اٹھانے والی اور تما م احکام کو دلائل کے ساتھ پیش کرنے والی ہے وہ صر ف قرآن کریم ہی ہے.اوراسی کی اقتداء نوعِ انسانی کو نجات دلاسکتی ہے.فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ جب موسیٰ ؑ نے وقت مقرر ہ کو پو راکرلیا اوراپنے گھروالوں کو لے کے چلا تواس نے طور کی طرف سے ایک آگ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّيْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْۤ دیکھی.(اور)اپنے گھروالوں سے کہا تم یہاں ٹھہرو.میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں وہاں سے تمہارے اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ لئے کوئی( ضروری)خبر لائوں.یاکوئی آگ کاانگارہ لائوں تاکہ تم سینکو.پھر جب وہ اس (آگ ) کے پا س
تَصْطَلُوْنَ۰۰۳۰فَلَمَّاۤ اَتٰىهَا نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ پہنچاتومبارک مقام کے ایک مبارک حصہ کی طرف سے ایک در خت کے پاس سے اسے پکاراگیا کہ اے موسیٰ! الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُوْسٰۤى میں اللہ ہوں سب جہانوں کا رب.اوریہ کہ تواپنا عصاپھینک دے.پس جب اس نے اس (یعنی عصا) اِنِّيْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۳۱وَ اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ؕ فَلَمَّا کوحرکت کرتے ہوئے دیکھا گویاکہ وہ ایک چھوٹاسانپ ہے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا.رَاٰهَا تَهْتَزُّ كَاَنَّهَا جَآنٌّ وَّلّٰى مُدْبِرًا وَّ لَمْ يُعَقِّبْ١ؕ (تب اسے کہا گیا ) اے موسیٰ! آگے بڑھ او رڈر نہیں.يٰمُوْسٰۤى اَقْبِلْ وَ لَا تَخَفْ١۫ اِنَّكَ مِنَ الْاٰمِنِيْنَ۰۰۳۲اُسْلُكْ توسلامتی پانے والے لوگوں میں سے ہے.(اور)اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال.وہ بغیر کسی بیماری کے سفید يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ١ٞ وَّ اضْمُمْ نکلے گا.اوراپنے بازو کو خوف کی وجہ سے (زورسے )کھینچ کر (اپنے جسم سے )ملا لے.اِلَيْكَ جَنَاحَكَ مِنَ الرَّهْبِ فَذٰنِكَ بُرْهَانٰنِ مِنْ رَّبِّكَ یہ دو دلیلیں (علاوہ دوسری دلیلوں کے )جوفرعون اوراس کے درباریوں کی طرف اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىِٕهٖ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فٰسِقِيْنَ۰۰۳۳ تیرے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہیں.کیونکہ وہ اطاعت سے نکلنے والے لوگ ہیں.(موسیٰ نے )کہا.قَالَ رَبِّ اِنِّيْ قَتَلْتُ مِنْهُمْ نَفْسًا فَاَخَافُ اَنْ اے میرے رب ! میںنے فرعون کی قوم میں سے ایک شخص کو قتل کیاتھا پس میں ڈرتاہوں
يَّقْتُلُوْنِ۰۰۳۴وَ اَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں (اورتیراپیغام نہ پہنچ سکے)اورمیرابھائی ہارون بات کرنے میں فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْۤ١ٞ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ مجھ سے زیادہ فصیح ہے.پس اس کو میرے ساتھ مددگار کے طورپربھیج.تاکہ وہ میری تصدیق کرے.میں ڈرتا يُّكَذِّبُوْنِ۰۰۳۵قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِاَخِيْكَ وَ نَجْعَلُ ہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں.فرمایا.ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرے بازو کو مضبوط کریں گے اور لَكُمَا سُلْطٰنًا فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا١ۛۚ بِاٰيٰتِنَاۤ١ۛۚ اَنْتُمَا وَ مَنِ تم دونوں کے لئے غلبہ کے سامان پیداکریں گے پس وہ تم تک نہیں پہنچ سکیں گے.تم دونوں اورجو تم دونوں کے اتَّبَعَكُمَا الْغٰلِبُوْنَ۰۰۳۶ متبع ہوں گے ہماری آیات کے ذریعہ سے غالب ہوں گے.حل لغات.اٰنَسَ: اٰنَسَ الشَّیْءَ کے معنے ہیں اَبْصَرَہٗ.اسے دیکھا.نیز اٰنَسَ الصَّوْتَ کے معنے ہیں سَمِعَہٗ وَاَحَسَّ بِہٖ.آواز کوسنااورمحسوس کیا.پس اٰنَسْتُ کے معنے ہوں گے.میں نے دیکھا.(اقرب) جَذْوَۃ: اَلْجَذْوَۃُ کے معنے ہیں اَلْجَمْرَۃُ الْمُلْتَھِبَۃُ.سلگتاہواانگارہ.(اقرب) تَصْطَلُوْنَ:تَصْطَلُوْنَ اِصْطَلیٰ سے فعل مضارع معروف جمع مذکر مخاطب کاصیغہ ہے.اوراِصْطَلیٰ بِالنَّارِ اِصْطِلَاءً کے معنے ہیں اِسْتَدْفَاَبِھَا آگ سینکی.(اقرب) شَاطِیء: شَاطِیءُ الْوَادِیْ کے معنے ہیں جَانِبُہٗ وادی کاکنارہ.(المفردات) تَھْتَزُّ:تَھْتَزُّ اِھْتَزَّ سے فعل مضارع معروف واحد مؤنث غائب کاصیغہ ہے اوراِھْتَزَّتِ الْاِبِلُ کے معنے ہیں تَحَرَّکَتْ فِیْ سَیْرِھَا.یعنی اونٹ تیز رفتاری سے چلے.اور اِھْتَزَّ الْمَآ ئُ فِیْ جَرَیَانِہِ کے معنے ہیں تَطَلَّقَ.پانی خوب بہ پڑا.(اقرب) پستَھْتَزُُّّکے معنے ہوں گے.وہ تیزی سے چلتا ہے.
جَآنٌّ.جَآنٌّ جَنَّ سے اسم فاعل ہے اورجَآنٌّ پو شیدہ رہنے والی چیز کو کہتے ہیں.اِسْمُ جَمْعٍ مِنَ الْجِنِّ.جنّ کا اسم جمع ہے.نیز جَآنٌ کے معنے ہیں حَیَّۃٌبَیْضَآءُ کَحْلا ءُ الْعَیْنِ لَاتُؤْذِیْ.سفید رنگ کا سانپ جس کی آنکھیں سُرمگیں ہوتی ہیں اور کوئی نقصان نہیں پہنچاتا.رِدْءً.اَلرِدْءُ کے معنے ہیں اَلْعَوْنُ.مدد کرنا اَلْنَاصِرُ.مدد گار.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے جب موسیٰ ؑ نے پیش کردہ مدّت پوری کرلی اور اپنے اہل کو لے کر چل پڑا.تو راستہ میں طُور (طور کی تشریح کے لئے دیکھیں تفسیر کبیر سورۃ التین ) کی طرف اس نے ایک آگ کا شعلہ دیکھا اوراپنے اہل سے کہا کہ ذرا یہیں ٹھہرو.میں نے ایک قسم کی آگ دیکھی ہے.میَں وہاں جارہا ہوں.ممکن ہے کہ میَں وہاں سے تمہارے لئے کوئی خبر لاؤں.یا اُس آگ میںسے کوئی انگارہ لاؤں.جس سے تم سینکو.جب وہ اس آگ کے پاس آیا تو اُس مبارک زمین کے ایک مبارک حصّہ کی طرف سے ایک درخت کی جہت آواز آئی.(یعنی موسیٰ کو الہام ہوا )کہ اے موسیٰ!میں اللہ ربّ العالمین ہوں.پھر دوسراالہام یہ ہوا کہ اے موسیٰ!تُو اپنا عصاپھینک دے موسیٰ ؑ نے ایسا ہی کیا لیکن جب اس نے اسے ایک چھوٹے سانپ کی طرح تیزی سے ہلتے ہوئے دیکھا تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگا.اور اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا.ہم نے کہا.اے موسیٰ!آ اور ڈر نہیں.تو سلامتی پانے والوں میں سے ہے.پھر ہم نے کہا کہ اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا.اور اپنے بازوکو خوف کی وجہ سے اپنے جسم سے چمٹا لے.یہ دو دلیلیں تیرے رب کی طرف سے تجھے ملی ہیں تاکہ تو ان کو فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے پیش کرے.کیونکہ وہ ایک اطاعت سے نکلی ہوئی قوم ہے.موسیٰ ؑ نے کہا.اے میرے رب! فرعون کی قوم کا ایک آدمی میرے ہاتھ سے مارا جا چکا ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ وہ کہیں مجھے دیکھتے ہی قتل نہ کردیں اور تیرا پیغام فرعون اور اس کے سرداروں کو نہ پہنچ سکے.اور اے میرے رب ! میرا بھائی ہارون مجھ سے زیادہ فصاحت رکھنے والا ہے.اس کو میرے ساتھ مددگار کے طورپر مقرر فرما دیجئیے.تاکہ وہ میرے دعاوی کی تصدیق کرے اور میری صداقت اور راستبازی پر گواہی دے.مجھے یہ ڈر ہے کہ صرف میری زبان سے اس پیغام کو سن کر وہ پرانی عداوت کی وجہ سے فوراً ہی جھٹلانے پر آمادہ نہ ہو جائیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کو تیرے ساتھ ہی مبعوث کرکے تیری مدد کریں گے اور تمہارے لئے اپنے پاس سے دلائل مہیا کریں گے جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فرعون اور اس کے ساتھی تم کو کوئی نقصان نہیںپہنچا سکیں گے.بلکہ تم دونوں اور تمہارے اتباع ہمارے نشانوں کے ذریعہ غالب رہو گے.ان آیات میں نُوْدِيَ مِنْ شَاطِئِ الْوَادِ الْاَيْمَنِ فِي الْبُقْعَةِ الْمُبٰرَكَةِ مِنَ الشَّجَرَةِ اَنْ يّٰمُوْسٰۤى اِنِّيْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ
الْعٰلَمِيْنَ سے یہ مراد نہیں کہ درخت نے کہا کہ میں اللہ سب جہانوں کی ربوبیت کرنے والا ہوں.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس جگہ حضرت موسیٰ ؑ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا.اور انہیں یوں معلوم ہوا جیسے الہام کی آواز درخت کی طرف سے آرہی ہے.وَاضْمُمْ اِلَیْکَ جَنَاحَکَ مِنَ الرَّھْبِ میں بازو سے مراد بنی اسرائیل ہیں.اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا بنی اسرائیل کو اپنے وجود سے دور رکھنا خطرے کا موجب ہوگا.پس تو اس خوف سے کہ وہ کہیں بے دین نہ ہوجائیں انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ چمٹائے رکھیؤ.اور ان کی نیک تربیت کی طرف توجہ رکھیؤ.یہ واقعہ بھی ایسا ہے جس میں بائیبل اور قرآن کریم کے بیان کردہ امور میں بعض اختلافات پائے جاتے ہیں.مثلاً اول.بائیبل کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ابھی مدین میں ہی تھے کہ ایک دن اپنے خُسر کی بھیڑ بکریوں کو چراتے ہوئے وہ حوربؔ پہاڑ پر جا پہنچے اور وہاں ’’خدا وند کا فرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں سے اس پر ظاہر ہوا.‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱،۲) اور خدا وند تعالیٰ نے انہیں فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا.اس کے بعد لکھا ہے.’’ موسیٰ لوٹ کر اپنے خسر یتروؔکے پاس گیا اور اسے کہا کہ مجھے ذرا اجازت دے کہ اپنے بھائیوں کے پاس جو مصر میں ہیں.جائوں اور دیکھوں کہ وہ اب تک جیتے ہیں کہ نہیں.یتروؔنے موسیٰ سے کہا سلامت جا.اور خداوند نے مدیان ؔ میں موسیٰ سے کہاکہ مصر کو لوٹ جا کیونکہ وہ سب جو تیری جان کے خواہاں تھے مر گئے.تب موسیٰ اپنی بیوی اور بیٹوں کو لے کر اور ان کو ایک گدھے پر چڑھا کر مصر کو لوٹا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۸تا ۲۰) لیکن قرآن کریم بتاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ا س وقت بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے نہیں گئے تھے.بلکہ میعاد مقررہ پور ی ہوجانے کے بعد اپنے اہل کو لے کر کسی دوسری جگہ تشریف لے جار ہے تھے کہ راستہ میں اللہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوا.اور اس نے انہیں رسالت کے مقام پر کھڑ اکر کے فرعونِ مصر کی طرف جانے کا حکم دیا.دوم.بائیبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی طرف جانے کا حکم دیا گیا.تو انہوں نے باربار انکارکیا اور کہا کہ.
’’میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جائوں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائوں.‘‘ (خروج باب ۳ آیت ۱۱) بلکہ انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’’اے خداوند ! میں تیری منّت کرتا ہوں کہ کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۳) جب انہوں نے باربار نکار کیا تو بائیبل کہتی ہے کہ :.’’تب خداوند کا قہر موسیٰ پر بھڑکا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴) گویا نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کا وہ قہر جس کے مورد خدا اور اس کے نبیوں کے دشمن ہو ا کرتے ہیں اس کا پہلا نشانہ خو د حضرت موسیٰ علیہ السلام ہی بن گئے اور ان پر خدا تعالیٰ کا قہر بھڑکنا شروع ہوگیا.لیکن قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان تمام الزامات سے بری قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم نےموسیٰ ؑ سے کہا کہ اِنَّکَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ.اے موسیٰ! تجھے کسی قسم کا خطرہ محسوس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ تو سلامتی پانے والوں میں سے ہے.پھر اس نے نہ صرف موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ کو غلبہ کا وعدہ دیا بلکہ انہیں یہ بھی بشارت دی کہ وہ لوگ جو تم پر ایمان لائیں گے اللہ تعالیٰ انہیں بھی غلبہ عطا فرمائے گا غرض بائیبل نے توموسیٰ ؑ کو مورد قہر قرار دیا ہے.مگر قرآن کریم انہیں خدائی انعامات اور برکات کا مورد قرار دیتا ہے.سوم.بائیبل کہتی ہے کہ ’’پھر خداوند نے اسے یہ بھی کہا.کہ تو اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر ڈھانک لے.اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا.اور جب اس نے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۶) لیکن قرآن کریم کہتاہے کہ اُسْلُكْ يَدَكَ فِيْ جَيْبِكَ تَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ تو اپنے ہاتھ کو اپنے گریبان میں ڈال وہ بغیر کسی بیماری کے سفید نکلے گا یعنی تیرا ہاتھ سفید تو ہوگا مگر کوڑھ کی وجہ سے نہیں جیسا کہ بائیبل کہتی ہے بلکہ ایک الٰہی نشان کے طور پر اس میں نور نظر آئے گا.چہارم.بائیبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خدا تعالیٰ کاقہر بھڑکاتواس نے کہا :.’’ کیا لاویوں میں سے ہارون تیرابھائی نہیں ہے؟ میں جانتاہوں کہ وہ فصیح ہے.اور وہ تیری
ملاقات کو آبھی رہاہے.اورتجھے دیکھ کردل میں خو ش ہوگا.سوتو اسے سب کچھ بتانا اوریہ سب باتیں اسے سکھانا اورمیں تیری اور اس کی زبان کا ذمہ لیتاہوں اور تم کوسکھاتارہوں گا کہ تم کیاکیاکرو.اوروہ تیری طرف سے لوگوں سے باتیں کرے گا.اوروہ تیرامنہ بنے گا.اورتو اس کے لئے گویا خدا ہوگا.‘‘ (خروج باب ۴ آیت ۱۴تا۱۶) یہ عبارت بتاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اظہارِ ناراضگی کے طور پر موسیٰ ؑ کے ساتھ ہارون ؑ کوبھی مبعوث کردیا.لیکن قرآن کریم بتاتاہے کہ یہ بات غلط ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خود یہ درخواست کی تھی کہ ہارونؑ کو میری تائید کے لئے میرے ساتھ کھڑاکیاجائے.چنانچہ قرآن کریم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے یہ الفاظ بیان فرماتا ہے کہ وَ اَخِيْ هٰرُوْنُ هُوَ اَفْصَحُ مِنِّيْ لِسَانًا فَاَرْسِلْهُ مَعِيَ رِدْاً يُّصَدِّقُنِيْۤ١ٞ اِنِّيْۤ اَخَافُ اَنْ يُّكَذِّبُوْنِ.یعنی اے خدا!ہارون بات کرنے کے لحاظ سے مجھ سے زیادہ فصیح ہے.پس تُواس کو میرے ساتھ مدد گار کے طور پر بھیج دے تاکہ وہ میری تصدیق کرے.میں ڈرتاہوں کہ وہ میری تکذیب نہ کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کی اس دعاکوقبول فرماتے ہوئے حضرت ہارون ؑ کوبھی ان کی معیت میں نبی بنادیا.پس قرآن کریم حضرت ہارونؑ کی بعثت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کانتیجہ قرار دیتاہے.اوراسے اپنا انعام او راحسان قرار دیتاہے.لیکن بائیبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خدا کاقہر بھڑکاتواس نے ہارون ؑ کوبھی ساتھ لے جانے کاحکم دےدیا.پنجم.بائیبل کہتی ہے کہ حضرت ہارونؑ صرف خاندانِ بنی لاوی کاایک فردہونے کی وجہ سے حضرت موسیٰ ؑ کے بھائی تھے حقیقی یامادری بھائی نہیں تھے.لیکن قرآن کریم حضر ت ہارون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کاسگابھائی یاکم از کم ماں کی طرف سے بھائی قرار دیتاہے.جیساکہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے.’’قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَاْخُذْ بِلِحْيَتِيْ وَ لَا بِرَاْسِيْ‘‘(طٰہٰ :۹۵) یعنی حضرت ہارونؑ نے کہا.اے میری ماں کے بیٹے ! میری ڈاڑھی اور سرکے بالوں کو نہ پکڑ.غرض قرآن کریم نے جواس سورۃ کے شروع میں ہی فرما دیاتھا کہ نَتْلُوْا عَلَيْكَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰى وَ فِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ.اس کی صداقت بائیبل اور قرآن کے بیان کردہ واقعات کے اختلاف سے بالکل ظاہر ہوجاتی ہے.
فَلَمَّا جَآءَهُمْ مُّوْسٰى بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا هٰذَاۤ اِلَّا پس جب موسیٰ ؑ ہماری کھلی کھلی آیتیں لے کر آیا.توفرعون کے لوگوں نے کہا.یہ تو ایک فریب ہے سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ۰۰۳۷وَ جو بنالیاگیا ہے.ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسی بات کبھی نہیں سنی.اورموسیٰ ؑ قَالَ مُوْسٰى رَبِّيْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ نے کہا میرارب اس کو جواس کی طرف سے ہدایت لائے خوب جانتاہے.اوراس کو بھی جس کا مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۰۰۳۸ انجا م اچھا ہو.حق یہ ہے کہ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتے.تفسیر.فرماتا ہے.جب موسیٰ ؑ ان کے پاس ہماری کھلی کھلی آیات لے کر آیاتوبجائے اس کے کہ فرعون اوراس کے سردار ان نشانات پر غور کرتے اور ان سے فائدہ اٹھاتے انہوں نے ان نشانات کو سحر کہنا شروع کردیا.لغت کے لحاظ سے سحر ہر ایسی بات کو کہاجاتاہے جس کاماخذ بہت دقیق ہو.اسی طرح جھوٹ کو سچ بنا کر دکھلانابھی سحر کہلاتاہے.اورسحر کااطلاق ہر فریب اورچالاکی پربھی کیا جاتا ہے اور سَحَرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں خَدَعَہٗ یعنی دوسرے کواپنی چالاکی سے دھوکادے دیا.پس فرعون کایہ کہنا کہ یہ تو ایک سحر ہے اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ ایک بڑادھوکااو رفریب ہے جو تمہیں دیاجارہاہے.یایہ ایک بڑاجھوٹ ہے جو سچ کی شکل میں تمہارے سامنے پیش کیا جارہاہے.یایہ ایک بڑی چالاکی ہے جس کے ذریعہ تمہیں ورغلانے کی کوشش کی جارہی ہے اور چونکہ یہ سوال پیداہوسکتاتھا کہ یہ چالاکیاں موسیٰ ؑ نے کہاں سے سیکھیں اس لئے اس نے کہا کہ یہ تمام فریب خود موسیٰ ؑ کاطبع زاد ہے.اس کایہ کہنا کہ مجھے خداتعالی نے یہ نشانات دیئے ہیں ایک افتراء ہے جس کی غر ض سوائے اس کے کچھ نہیں کہ لوگوں کو ان کے مذہب سے منحرف کرنے کی کو شش کی جائے.پھر اس نے لوگوںکو بھڑ کانے کے لئے ایک دوسرا ہتھیار استعمال کیااورکہا کہ مَا سَمِعْنَا بِهٰذَا فِيْۤ اٰبَآىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ.ہمارے باپ داداکتنے عقلمند اورداناتھے اورانہوں نے اپنی حکمت اوردانائی کے کیسے کیسے مظاہر ے کئے مگر یہ شخص ہمارے ان باپ داداسے بھی اپنے آپ کو بڑھ کر
سمجھنے لگا ہے اورہمیں وہ رستہ بتاتاہے جس کو ہمارے اسلاف نے کبھی اختیار نہیں کیا.اگر موسیٰ ؑ کابتلایاہواراستہ ہی سچا راستہ ہے.تواس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے باپ داد ا سب بیوقو ف اورجاہل تھے اورانہیں وہ روشنی دکھائی نہ دی جو موسیٰ ؑ کو نظر آگئی.اس طرح اس نے موسیٰ ؑکے خلاف وہی حر بہ استعمال کیا جو ہمیشہ سے حق کے مخالف لوگوں کواشتعال دلانے کے لئے استعمال کرتے چلے آئے ہیں.حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اس کاکیا ہی لطیف جواب دیا ہے.فرمایا.رَبِّيْۤ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى مِنْ عِنْدِهٖ وَ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ.میرارب اس شخص کوجواس کی طرف سے ہدایت لایا ہے خوب جانتا ہے.اوراسے بھی خوب جانتاہے جس کاانجام اچھا ہوگا.یقیناً ظالم لوگ کبھی کامیاب نہیں ہوتے.یعنی تم نے مجھے مفتری توقرار دے دیا ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا میں اپنے دعویٰ کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کررہاہوں یانہیں؟ جب میں باربار اپنا دعویٰ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتاہوں تومفتری ہونے کی صورت میں کیا خدا تعالیٰ مجھے سزادینے کے لئے کافی نہیں؟جب دنیوی گورنمنٹیں بھی یہ برداشت نہیں کرسکتیں کہ ان کی طرف سے کوئی جعلی افسر بن کر لوگوںکو دھوکا دے اوروہ ایسے شخص کو فوراً پکڑ کر جیل خانہ میں ڈال دیتی ہیں.تویہ کس طرح سمجھاجاسکتاہے کہ اگر میں نے افتراء کیاہے تو خدا کو اس کاعلم نہیں اور وہ مجھے سزانہیں دے گا.خدا تعالیٰ اس شخص کو جو اس کی طرف سے ہدایت کاپیغام لے کرآیاہے خوب جانتاہے اور اُسے بھی خوب جانتاہے جس کے لئے آخر میں فتح اور کامیابی مقدر ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ تم مجھے جھوٹااور مفتری کہو تم اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے فیصلہ پر چھو ڑدو.اگر میں مفتری ہواتو خدا تعالیٰ کاہاتھ میری رگِ جان کو کاٹ کررکھ دے گا.اور میرا انجام وہی ہوگا.جوہمیشہ سے افتراء کرنے والوں کاہوتاچلاآیاہے.لیکن اگرمیں اس کے حکم سے تمہاری طرف آیاہوں اور اس نے مجھے اپنی کامیابی کی بشارات دی ہیں توتم خود سوچ لو کہ تم نے مجھے مفتری قرار دے کر کتنے بڑے جرم کا ارتکار ب کیا ہے.یہ ویساہی فقر ہ ہے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مقام پر اپنے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ.’’ دنیا مجھ کو نہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتاہے جس نے مجھے بھیجا ہے.یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اورسراسر بدقسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کومالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے.جو شخص مجھے کاٹناچاہتاہے اس کانتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اوریہودہ اسکریوطی اورابوجہل کے نصیب سے کچھ حصہ لیناچاہتاہے.‘‘ (اربعین نمبر ۳روحانی خزائن جلد ۱۸ص۵۱)
پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی دلیل دیتے ہوئے فرمایاکہ اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ یقیناً ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتے.یعنی میری سچائی کامعیار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامیاب کرے گااور تم نے مجھے مفتری قرار دے کر جس ظلم کاارتکاب کیا ہے اس کی پاداش میں تم پر عذاب نازل ہوگا.اس جگہ ظالم سے مفتری علی اللہ بھی مراد ہو سکتا ہے اوروہ شخص بھی مراد ہے جوکسی سچے مامورکاانکار کرنے والاہو.چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے.وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْکَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّاجَآئَ ہٗ (العنکبوت :۶۹)یعنی بڑے ظالم دنیا میں دوہی شخص ہواکرتے ہیں.ایک وہ جو خدا تعالیٰ پر افتراء کرے اوردوسراوہ جوکسی سچے مدعی نبوت کاانکار کرے.پس اِنَّہٗ لَایُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کواس طرف توجہ دلائی کہ جہاں خدا تعالیٰ پر افتراء ایک قابل پاداش جر م ہے وہاں ایک سچے مدعی کاانکار بھی بڑا بھاری ظلم ہے.اس لئے صرف مجھے برابھلاکہہ کر خوش نہ ہوجائو.بلکہ سوچو کہ کہیں تم ہی ایک سچے مامور کاانکار کرکے ظالم تو نہیں بن رہے.وَ قَالَ فِرْعَوْنُ يٰۤاَيُّهَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ اورفرعون نے کہا اے درباریو ! مجھے اپنے سواتمہاراکوئی معبود معلوم نہیں.پس غَيْرِيْ١ۚ فَاَوْقِدْ لِيْ يٰهَامٰنُ عَلَى الطِّيْنِ فَاجْعَلْ لِّيْ اے ہامان! میرے لئے گیلی مٹی پر آگ جلا (یعنی اینٹیں بنوا) پھر میرے لئے ایک قلعہ تیار کر.شاید میں اس صَرْحًا لَّعَلِّيْۤ اَطَّلِعُ اِلٰۤى اِلٰهِ مُوْسٰى١ۙ وَ اِنِّيْ لَاَظُنُّهٗ مِنَ پر چڑھ کر موسیٰ کے خدا کومعلوم کرلوں.اورمیں تواس کوجھوٹوں میں سے سمجھتاہوں.اوراس نے بھی اوراس کے الْكٰذِبِيْنَ۰۰۳۹وَ اسْتَكْبَرَ هُوَ وَ جُنُوْدُهٗ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ لشکروں نے بھیملک میں بغیر کسی حق کے تکبر سے کام لیا.اورخیا ل کیا کہ وہ ہماری طرف لوٹا
الْحَقِّ وَ ظَنُّوْۤا اَنَّهُمْ اِلَيْنَا لَا يُرْجَعُوْنَ۰۰۴۰فَاَخَذْنٰهُ وَ کرنہیں لائے جائیں گے.پس ہم نے اس کوبھی او راس کے لشکروں کو بھی پکڑ لیا.اوران کو جُنُوْدَهٗ فَنَبَذْنٰهُمْ فِي الْيَمِّ١ۚ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الظّٰلِمِيْنَ۰۰۴۱ سمندر میں پھینک دیا.پس دیکھ کہ ظالموں کاانجام کیساہوا؟ حل لغات.صَرْحًا: اَلصَّرْحُ کے معنے ہیں اَلْقَصْرُ.مضبوط مکان.وَکُلُّ بِنَآءٍ عَالٍ.نیز ہربلند عمارت کوبھی صَرْحٌ کہتے ہیں(اقرب) تفسیر.جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی صداقت کے ثبوت میں بار بار خدا تعالیٰ کو پیش کیا.اورکہا کہ میرارب جانتاہے کہ میں اس کی طرف سے آیاہوں اورمیرارب مجھے حسنِ انجام اور کامیابی کی بشارات دے رہاہے اوراس کی تائیدات اورنشانات میری صداقت پر گواہ ہیں توفرعون نے اپنے درباریوں کی طرف دیکھا.اور انہیں کہا کہ مجھے تو اپنے سواتمہاراکو ئی معبود نظر نہیں آتا.پھر نہ معلوم یہ کونساخداہے جس کانام موسیٰ باربار لے رہاہے.پھر اسی جوش کی حالت میں اس نے ہامان کو بلوایااور اسے حکم دیا کہ فوراً بڑے بڑے بھٹوں میں پختہ اینٹیں تیار کروائو.اور پتھیروںکو بلاکر ایک اونچا محل بنائو.شاید اس پر چڑ ھ کر میں موسیٰ ؑ کے خدا کودیکھ سکوں.اورآخر میں کہا کہ میں تو اسے بالکل جھوٹاسمجھتاہوں.یعنی کوئی یہ خیال نہ کرے کہ مجھے شبہ ہے کہ شاید جس خدا کاموسیٰ ؑ ذکرکرتاہے وہ موجود ہے تبھی تومیں ایک اونچا محل اس کی تلاش کے لئے بنواناچاہتاہوں.میرے اس حکم کی غرض شبہ نہیں بلکہ میری غرض موسیٰ ؑ کوجھوٹاثابت کرکے دکھاناہے یعنی دنیا دیکھ لے گی کہ باوجود اس کے کہ میں نے اتنا بڑامحل بنوایاپھر بھی موسیٰ ؑ کا خداکہیں نظر نہیں آیا.دراصل قدیم اقوام میں بڑی شدت سے یہ تصور پایاجاتاتھا کہ بلند میناروں پر آسمانی ارواح اتراکرتی ہیں.بلکہ بلند میناروں پر خود خدا تعالیٰ کے اُترنے کاتصور بھی ان میں پایاجاتاتھا.چنانچہ اس کے ثبوت میںبائیبل کاایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے.کتاب پیدائش میں لکھا ہے:.’’ اور تمام زمین پر ایک ہی زبان اور ایک ہی بولی تھی.اورایساہواکہ مشرق کی طرف سفر کرتے کرتے ان کو ملک سِنعار (یعنی بیبلونیا) میں ایک میدان ملا.اوروہ وہاں بس گئے.اورانہوں نے آپس میں کہا آئوہم اینٹیں بنائیں اوران کو آگ میں خوب پکائیں.سوانہوں نے پتھر کی جگہ اینٹ
سے اورچونے کی جگہ گارے سے کام لیا.پھر و ہ کہنے لگے کہ آئو ہم اپنے واسطے ایک شہر اورایک برج جس کی چوٹی آسمان تک پہنچے بنائیں اوریہاں اپنا نام کریں.ایسانہ ہوکہ ہم تمام روئے زمین پر پراگندہ ہوجائیں اورخداوند اس شہر اوراس برج کو جسے بنی آدم بنانے لگے دیکھنے کواترا.‘‘ (پیدائش باب ۱۱آیت ۱تا۵) غرض بلنداور اونچے میناروں پر خدا تعالیٰ کے نازل ہونے کاتصور چونکہ دیر سے چلا آتاتھا اس لئے فرعون نے بھی چاہاکہ موسیٰ ؑ کوجھوٹاثابت کرنے کے لئے ایک اونچا سامحل بنائے اورپھر لوگوں کو بتائے کہ موسیٰ ؑکے جھوٹاہونے کااس سے بڑااور کیاثبوت ہوگا کہ میں نے اتنا اونچا محل بھی بنوایااورپھر بھی اس کا خدانیچے نہ اُترا.غرض موسیٰ ؑ کی تعلیم پر ایمان لانے کی بجائے فرعون نے بھی اوراس کے لشکروں نے بھی تکبر سے کام لیا.اورانہوں نے خیال کیا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لئے حاضر ہونانہیں پڑے گا.آخرایک دن اس بغاوت اورسرکشی کی سزامیں ہم نے اسے اور اس کے لشکروںکو پکڑ لیا.اوروہ جو اونچے محل پر چڑھ کر ہمیں دیکھنے کے خواب دیکھ رہاتھا اسے ہم نے سمندر کی تہ میں اپنا جلوہ دکھادیا.پس دیکھو کہ ظالموںکاکیساعبرتناک انجام ہوا.یہی وہ انجام تھا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پہلے ہی خبردار کردیاتھا اورکہا تھا کہ رَبِّیْ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآءَ بِالْھُدٰی مِنْ عِنْدِہٖ وَمَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ.مگرانہوں نے اپنی طاقت اورحکومت کے گھمنڈ میں اس انذار کی کوئی پرواہ نہ کی.اورخیال کرلیا کہ ہمیں کون تباہ کرسکتاہے.کون ہمارا بال بھی بیکاکرسکتاہے.مگرآخر وہی ہواجس کی موسیٰ ؑ انہیں خبر دے چکے تھے.موسیٰ ؑ کامیاب ہوئے اور فرعو ن نے اپناحسرت ناک انجا م اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا.وَ جَعَلْنٰهُمْ اَىِٕمَّةً يَّدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ١ۚ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اورہم نے ان کو (یعنی فرعونیوںکو )سرداربنایاتھا جو(اپنی سرداری کے غرورمیں)لوگوں کو دوزخ کی طرف لَا يُنْصَرُوْنَ۰۰۴۲وَ اَتْبَعْنٰهُمْ فِيْ هٰذِهِ الدُّنْيَا لَعْنَةً١ۚ وَ بلاتے تھے اورقیامت کے دن ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی.اوراس دنیا میں بھی ہم نے ان پر لعنت بھیجی
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ هُمْ مِّنَ الْمَقْبُوْحِيْنَؒ۰۰۴۳ اورقیامت کے دن بھی وہ بدحال لوگوں میں سے ہو ںگے.حل لغات.اَلْمَقْبُوْحِیْنَ:اَلْمَقْبُوْحِیْنَ قَبَحَ سے اسم مفعول ہے.اورقَبَحَہُ اللّٰہُ عَنِ الْخَیْرِ قَبْحًا کے معنے ہیں نَحَّاہُ عَنْہُ.نیکی سے اسے دور رکھا (اقرب)پس مَقْبُوْحٌ کے معنے ہوئے.نیکی سے دور رکھا ہوا.بدحال.تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے توان کواپنی قوم کا لیڈر اورراہنمابنایاتھا.مگرانہوں نے لوگوں کو ہلاکت اور بربادی کی راہوں پر چلاناشروع کردیا جس کانتیجہ یہ ہواکہ دنیا میں بھی وہ خدا کی مدد سے محروم رہے اورقیامت کے دن بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی اور چونکہ وہ دنیا میں لوگوں کو ایسے راستوں پر چلاتے رہے جوہلاکت اوربربادی تک پہنچانے والے تھے اس لئے ہم نے اس دنیا میں بھی ان پر لعنت بھیجی اورقیامت کےد ن بھی وہ بدحال لوگوں میں شامل ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو.تین ہزار سال سے زیادہ عرصہ گذر گیا مگرموسیٰ ؑ پراب تک صلوٰۃ اورسلام بھیجاجارہاہے اورقیامت تک اس پر خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی چلی جائیں گی.لیکن فرعون پر دنیا کی ہرقوم لعنت بھیجتی رہی ہے اورقیامت تک اس پر لعنت ہی برستی چلی جائے گی.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی پر لعنت ڈالتاہے تووہ لعنت اس وقت ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ چلتی چلی جاتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک غزوہ پر جارہے تھے کہ حِجر شہر آپ کے راستہ میں آیا.اوراس جگہ پر تھوڑی دیر کے لئے آپ نے پڑائو کیا.پڑائو کی صورت دیکھ کر صحابہؓ نے اپنے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر روٹی پکانے کی تیاری کرنے لگے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آٹاگوندھتے اور روٹی پکانے کی فکرکرتے دیکھاتو آپؐ گھبراگئے اورآپ نے اپنے صحابہؓ کو مخاطب کرکے فرمایا.جلدی اپنی سواریوں پرچڑھ جائو.اوراپنے آٹے پھینک دو.کیونکہ اس جگہ خدا کاغضب نازل ہواتھا.و ہ لوگ جن پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہواتھا مرگئے.جس شہر پر غضب نازل ہواتھا اجڑ گیا.سالوں کےبعد سال اورصدیوں کے بعد صدیاں گذرتی چلی گئیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اب بھی اس مقام پر عذاب نازل ہوتا نظرآرہاتھا.آپؐ نے نہ صرف صحابہؓ کو وہاںسے جلدی نکل جانے کا ارشاد کیا بلکہ ساتھ ہی مسلمانوں کی دولت کاایک حصہ یعنی وہ آٹاجوانہوں نے روٹی پکانے کے لئے گوندھاتھا اسے بھی آپ ؐنے پھینکنے کا حکم دے دیا او رفرمایا کہ اس جگہ کے پانی سے گوندھا ہوا آٹا کھانا
بھی تمہارے لئے جائزنہیں ہے (بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول اللہ تعالیٰ و الی ثمود اخاھم صالحا).حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے متعلق مجھے یاد ہے کہ وہ عبدالحکیم مرتدپٹیالوی سے جب وہ احمد ی تھا بہت محبت کیاکرتے تھے اوروہ بھی آپ سے بہت تعلق رکھتاتھا.یہاں تک کہ جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کی.تواس وقت بھی اس نے یہی لکھا کہ آپ کی جماعت میں سوائے حضرت مولوی نورالدینؓ صاحب کے اَورکوئی نہیں جوصحابہؓ کا نمونہ ہو.یہ شخص بے شک ایساہے جوجماعت کے لئے قابل فخر ہے عبدالحکیم پٹیالوی نے ایک تفسیر بھی لکھی تھی اوراس میں بہت کچھ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ سے پوچھ کر لکھا تھا.لیکن جب عبدالحکیم نے اپنے ارتداد کااعلان کیا.تومیں نے دیکھا آپ نے گھبراکر اپنے شاگردوںکو بلایااور ان سے فرمایا.جائو اورجلدی میرے کتب خانہ میں سے عبدالحکیم کی تفسیر نکال دو.ایسانہ ہو کہ اس کی وجہ سے مجھ پر خدا کی ناراضگی نازل ہو.حالانکہ وہ قرآن کریم کی تفسیر تھی اوراس کی بہت سی آیات کی تفسیر اس نے خود آپ سے پوچھ کرلکھی تھی مگر اس وجہ سے کہ ا س پر خدا کاغضب نازل ہوا.اس کی لکھی ہوئی تفسیر کو بھی آپ نے اپنے کتب خانہ سے نکلوادیا.اسی طرح فرعون جو اپنے آپ کومصریوںکا خداقرار دیتاتھا اورکہتاتھاکہ معلو م نہیں یہ کون ساخداہے جس کوماننے کی موسیٰ ؑ ہم کو تلقین کررہاہے.اس پر جب خدا تعالیٰ کاعذاب نازل ہواتوباوجوداس کے کہ تین ہزارسال سے زیادہ عرصہ گذر چکا ہے اب تک فرعون پر لعنت برستی چلی جاتی ہے.اور ہرشخص جب اس کانام لیتا ہے یاقاہر ہ میں اس کی لاش دیکھتاہے جوخدائی نشان کے طور پر اب تک محفوظ چلی آرہی ہے تواس کے دل میں فرعون کے متعلق ادب اوراحترام کے جذبات پیدا نہیں ہوتے بلکہ نفرت او رحقارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.یہ واقعات خدا تعالیٰ نے اہل مکہ کے سامنے اس لئے بیان کئے تھے کہ جس طرح فرعون نے موسیٰ ؑ کامقابلہ کیااسی طرح مکہ کاابوالحکم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر لوگوں کوبھڑکار ہاہے.مگریادرکھو جس طرح فرعون اپنے لشکروں کے ساتھ ہلاک ہوااسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بھی جوشخص اٹھے گا و ہ تباہ کردیاجائے گا اورقیامت تک آنے والی نسلیں اس پر اسی طرح لعنت ڈالیں گی جس طرح فرعون پرلعنت ڈالی جاتی ہے.چنانچہ ابو جہل اور دوسرے سرداران مکہ جنہوں نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی بڑی تکالیف پہنچائی تھیں ان پر آج تک لعنت ڈالی جاتی ہے.یہاں تک کہ ان کی نسلیں ان کی طرف منسوب ہونا اپنے لئے ہتک کاموجب سمجھتی ہیں.مگرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف دنیا کے کونہ کونہ میں ہورہی ہے اورکوئی ملک اورکوئی علاقہ ایسانہیں جہاں آپؐ پردرودوسلام بھیجنے والے اورآپؐ پر اپنی جانیں قربان کرنے والے لوگ موجود نہ ہوں.
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ اورہم نے موسیٰ ؑ کو بعد اس کے کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک کردیاتھا کتاب بخشی اس کی تعلیم لوگوںکو الْاُوْلٰى بَصَآىِٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ روحانی بینائی بخشتی تھی اوروہ ہدایت اور رحمت کاموجب تھی.(اور)اس غرض سے (دی گئی تھی ) يَتَذَكَّرُوْنَ۰۰۴۴وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَاۤ کہ وہ نصیحت حاصل کریں.اور تُو (طور کے) مغربی جانب نہیں تھا جب ہم نے موسیٰ ؑ کے سپرد (رسالت کا) اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِيْنَۙ۰۰۴۵وَ لٰكِنَّاۤ کام کیاتھا.اورنہ تُو(اس وقت ) گواہوںمیں سے ایک گواہ تھا.لیکن ہم نے بہت سی قوموں کو پیدا کیا.پس ان اَنْشَاْنَا قُرُوْنًا فَتَطَاوَلَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ١ۚ وَ مَا كُنْتَ ثَاوِيًا پر عمر لمبی ہوگئی (اوروہ اپنی پیشگوئیوں کو بھول گئے ).اورتُو اہل مدین کے ساتھ بھی نہیں رہتاتھا.کہ ان کے سامنے فِيْۤ اَهْلِ مَدْيَنَ تَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا١ۙ وَ لٰكِنَّا كُنَّا نشان پڑھ کر سناتا.لیکن ہم ہی رسول بھیجنے والے ہیں.اوراس وقت بھی تُو موسیٰ ؑ کے ساتھ نہیں تھا جبکہ طورپر مُرْسِلِيْنَ۰۰۴۶وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَ لٰكِنْ ہم نے موسیٰ ؑ پر وحی نازل کی.لیکن جو کچھ موسیٰ ؑ سے کہاگیا وہ ا س لئے کہاگیا کہ تیری آمد پر اس قوم کو یقین ہو رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ اورخدا تعالیٰ کی رحمت میں وہ بھی شریک ہوجائے اوراس لئے بھی کہ تواس قوم کو ہوشیار کرے جن کے پاس
قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ۰۰۴۷ تجھ سے پہلے کوئی ہوشیار کرنے والانہیں آیاتھا.تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں.حل لغات.ثَاوِیًا.ثَاوِیًاثَوَی سے اسم فاعل کاصیغہ ہے.اور اَلثَّوَاءُ کے معنے ہیں اَلْاِقَامَۃُ مَعَ الْاِسْتِقْرَارِ.یعنی مستقل رہائش (مفردات )اورجب ثَوَی بِالْمَکَانِ کافقرہ استعمال کریں تومعنے ہوں گے اَقَامَ یعنی وہ کسی جگہ ٹھہرا.(اقرب) تفسیر.فرماتا ہے قرونِ اولیٰ کی ہلاکت اور بربادی کے بعد جبکہ دنیا ایک نئی شریعت کی محتاج تھی اوروہ ہرقسم کی خیر اوربرکت کے سامانوں سے محروم ہوچکی تھی ہم نے موسیٰ ؑ پر ایک آسمانی کتاب نازل کی جو لوگوںکو روحانی بینائی بخشنے والی تھی اوران کے لئے ہدایت او ررحمت کاموجب تھی.یہ کتاب انہیں اس لئے دی گئی تھی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور اس کی روشنی میں اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیداکرنے کی کوشش کریں.ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ تورات کے نزو ل کی صرف یہی غرض نہیں تھی کہ اس زمانہ کے لوگ اس کی تعلیم سے فائدہ اٹھائیں اورانہیں وہ روحانی بصیرت حاصل ہو جائے جس سے وہ خیر اور شر میں تمیز کرسکیں اوراپنے مخالفین پر انہیں غلبہ میسر آجائے.بلکہ وہ اپنے اندر ہدایت اور رحمت کاایک پیغام بھی رکھتی تھی.یعنی اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق بھی پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں تاکہ جب وہ موعود آئے توتورات کے ماننے والے اسے قبول کرنے سے محروم نہ رہیں.چنانچہ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ انہی پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ اِذْ قَضَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ وَ مَا كُنْتَ مِنَ الشّٰهِدِيْنَ.یعنی اے محمدرسول اللہ !(صلی اللہ علیہ وسلم)تُوا س وقت موسیٰ ؑ کے ساتھ نہیں تھا جبکہ ہم نے مغربی جانب کلام الٰہی کولوگوں تک پہنچانے کاکام اس کے سپرد کیاتھا.اورنہ تُواس وقت اس واقعہ کے چشم دید گواہوں میں سے تھا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دہی فرمائی کہ وہ مقام جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلی دفعہ تجلّی الٰہی کو ایک آگ کی صورت میں دیکھاتھاوہ جانبِ غرب تھا.یہ جانبِ غرب اگر عرب سے سمجھاجائے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ تُواس وقت عرب کے مغربی جانب نہیں تھا جبکہ موسیٰ ؑ کے سپرد ہم نے رسالت کاکام کیا.اوراگراس سے دشتِ سینا مراد لیاجائے جس میں یہودیوں کے نزدیک حورب پہاڑ تھاجیساکہ خروج باب ۱۹ آیت ۱تا۳ سے ظاہر ہے تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ مقام جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہلی مرتبہ الٰہی تجلّی دیکھی وہ دشتِ سینا کے مغرب میں تھا.تورات
نے اس بار ہ میں جونظریہ پیش کیا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک دن بھیڑ بکریوںکو چراتے ہوئے ’’ بیابان کی پر لی طرف سے خداکے پہاڑ حورب کے نزدیک لےآیا اور خداوند کافرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا.‘‘ (خروج باب ۳آیت۱و۲) اس حوالہ میں ’’بیابان کی پر لی طرف ‘‘ کے جوالفاظ استعمال کئے گئے ہیں علماء بائیبل نے ان کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چراتے ہوئے بیابان یعنی دشتِ سینا کے مغرب میں خداوند کے پہاڑ حورب میں آئے تھے.(کنائز تفسیر بائیبل ص ۳۵۸) پس اس جگہ وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيِّ سے یہ مراد بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مقام جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر الٰہی انوار نازل ہوئے عرب کے مغربی جانب تھااور یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ وہ مقام دشتِ سیناکی مغربی جانب تھا.یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اس آیت میں جو امر کالفظ استعمال ہواہے.یہ کلام الٰہی کے معنوں میں استعمال ہواہے یوں امر کالفظ قرآن کریم میں بعض اورمعنوں میں بھی استعمال ہواہے بعض جگہ پیدائش باذن اللہ کے معنے لئے گئے ہیں اوربعض جگہ قضاء الٰہی کامفہوم لیاگیاہے مگر اس جگہ امر کلام الٰہی کے معنے رکھتاہے اور اس مفہوم میں لفظ امر کااستعمال قرآن کریم کی بعض اورآیات میں بھی کیاگیاہے.مثلاً بنی اسرائیل کے متعلق اللہ تعالیٰ ایک مقام پر فرماتا ہے کہ وَاٰتَیْنَاھُمْ بَیِّنَاتٍ مِّنَ الْاَمْرِ(الجاثیۃ :۱۸) یعنی ہم نے انہیں کلام الٰہی کی بیّنات دی تھیں.اسی طرح فرماتا ہے فَلَایُنَازِعُنَّکَ فِی الْاَمْرِ وَادْعُ اِلیٰ رَبِّکَ(الحج :۶۸) یعنی چاہیے کہ اس کلام کے بارہ میں لوگ تجھ سے جھگڑا نہ کریں.کیونکہ اس میں ان کی ہدایت کاسامان ہے لیکن وہ چونکہ اس کلام الٰہی کی حقیقت سے ناواقف ہیں اس لئے تیرافرض ہے کہ تُولوگوں کوخدا تعالیٰ کی طرف بلاتاچلاجا.پس قَضَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسَى الْاَمْرَ کے یہ معنے ہیں کہ جب موسیٰ ؑ کے سپر د ہم نے کلام الٰہی پہنچانے کاکام کیا.اس جگہ موسیٰ علیہ السلام کی ان پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر دی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تُو تواس وقت موسیٰ ؑ کے ساتھ نہیں تھا جب ہم نے رسالت کاکام اس کے سپرد کیا.اگرموسیٰ ؑ اس زمانہ کے آدمی ہوتے تو سمجھاجاسکتاتھاکہ تم دونوں نے منصوبہ کرلیا ہے.لیکن موسیٰ علیہ السلام توتیری پیدائش سے سینکڑوں سال پہلے بلکہ دوہزارسال پہلے گذر چکے ہیں.پھر یہ کس طرح ممکن تھاکہ موسیٰ نے اس منصوبہ کی وجہ سے رسالت کادعویٰ کردیاہو.تُوتواس وقت دنیا میں تھا ہی نہیں جبکہ موسیٰ ؑ کے سپر د رسالت کاکام کیاگیا.پھر اگرموسیٰ ؑ کے کلام سے تیری صداقت ظاہر ہوتی ہے تویہ تواس بات کاثبوت ہے کہ تُوخدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے.
ورنہ تیرے اند ریہ کہاں طاقت تھی کہ تواپنی پیدائش سے بھی دوہزار سال پہلے موسیٰ ؑ کو کہتاکہ تُو نبوت کادعویٰ کر اورپھر دعویٰ کے بعد میرے متعلق پیشگوئیاں بھی کر تاکہ لوگ مجھے مان لیں.اس نے اگر دعویٰ کیاتو اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے اسے رسالت کے مقام پر کھڑاکیاتھا.پس اس کے کلام میں جو پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں ان کاانکار صرف تیراانکار نہیں بلکہ خود موسیٰ ؑ کابھی انکار ہے جسے خدا نے نبوت کے مقام پر کھڑاکیاتھا.پھر فرماتا ہے کہ ان پیشگوئیوں کی طرف لوگوںکواس لئے توجہ نہیں رہی کہ اَنْشَاْنَا قُرُوْنًافَتَطَاوَلَ عَلَیْھِمُ الْعُمُرُ.ہم نے موسیٰ ؑ کےبعد قوموں پرقومیں پیداکیں اور ایک عرصہء دراز گذر گیا.جس کی وجہ سے یہ قومیں اپنی تاریخ کوبھول گئیں اورانہیں یاد ہی نہ رہاکہ موسیٰ ؑ پر ہم نے کہا ں جلوہ گری کی تھی اوراس جلوہ میں ہم نے اس پر کیاکیاغیب ظاہرکئے تھے.وَمَاکُنْتَ ثَاوِیًافِیْ اَھْلِ مَدْیَنَ تَتْلُوْاعَلَیْھِمْ اٰیٰتِنَا وَلَکِنَّاکُنَّامُرْسِلِیْنَ.فرماتا ہے.تُواہل مدین میں بھی نہیں رہتاتھا کہ انہیں ہماری آیات پڑھ کرسناتا.بلکہ ہم نے ہی ان کی ہدایت کے لئے رسو ل بھیجاتھا.اس آیت سے ان واقعات کی طرف اشارہ کرنامقصود ہے جوخروجِ مصر کے بعد موسیٰ ؑ اوربنی اسرائیل کوپیش آئے اور بتایا گیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جب مصرسے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر نکلے توآپ دوبارہ اہل مدین میں آکر ٹھہرے تھے.جہاں ایک لمباعرصہ آپ اللہ تعالیٰ کے نشانات سے لوگوں کے ایمان کو جِلابخشتے رہے.بائیبل کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر آئے توآپ موآب اور مدین کے میدانوں میں ہی خیمہ زن ہوئے تھے.آپ کاخسر بھی آپ کی ملاقات کے لئے آیا تھا اوراس نے بنی اسرائیل کی تنظیم کے سلسلہ میں آپ کو بہت سے مشورے بھی دیئے تھے (خروج باب ۱۸) لیکن جب مدین کی عورتیں بنی اسرائیل کو شرک میں مبتلاکرنے لگیں (گنتی باب ۲۵) توحضرت موسیٰ علیہ السلا م نے ان پر چڑھائی کی اورساری کی ساری قوم کو تباہ کردیا (گنتی باب ۳۱)اسی طرح تاریخ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ مدین کی تباہی کے بعد ان کے خسر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہی آگئے تھے اور وہیں انہیں رہائش کے لئے زمین دے دی گئی تھی.(قدامۃ الیہود کتاب ۵ باب ۲ بحوالہ ارض القرآن جلد دوم).پس اس آیت میں اس زمانہ قیام کا ذکر ہے جبکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام دوبارہ مدین تشریف لائے تھے.اوروہاں آپ ایک لمبے عرصہ تک ٹھہرے رہے اورجماعت کی تربیت او ران کی تنظیم کے کام میں مشغول رہے.لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ اس آیت میں اس طرف اشارہ کیاگیاہو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ابھی مدین میں ہی تھے کہ ان پر
الہاماتِ الٰہیّہ نازل ہونے شروع ہوگئے تھے.اور وہیں انہوں نے اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی پیشگوئی فرما دی تھی.گوفرعون کی طرف جانے کاانہیں بعد میں حکم دیاگیا.پھر یہ بھی ممکن ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور والی پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دودفعہ اُتری ہو.ایک دفعہ مدین میںاورایک دفعہ طور پر.جیساکہ قرآن کریم کی بھی کئی سورتیں دودفعہ اتری ہیں.ایک دفعہ مکہ میں ، ایک دفعہ مدینہ منورہ میں.بہرحال یہ کسی دوسرے نبی کا ذکر معلوم نہیں ہوتاکیونکہ اول و آخر موسیٰ ؑ کاہی ذکر کیاگیا ہے.اللہ تعالیٰ اس آیت میں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں موسیٰ ؑ کے اس واقعہ کو پیش فرماتا ہے جبکہ وہ مدین میں ٹھہرے اورلوگوں کواس طرف توجہ دلاتاہے کہ باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ ؑ کے ساتھ مدین میں نہیںرہے پھر بھی جوواقعات موسیٰ ؑ کو پیش آئے وہی اس کو بھی پیش آئیں گے اورجس طرح وہ مظفرو منصو رہوااسی طرح یہ بھی مظفرو منصور ہوگا.چنانچہ مدین میں موسیٰ ؑ کے قیام کا ذکر فرماکر اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ جس طرح موسیٰ علیہ السلام مصری قوم کے مظالم سے تنگ آکر مصر سے بھاگے تواللہ تعالیٰ نے انہیں مدین میں پناہ دی اوروہاں کے ایک نیک دل انسان نے اپنے گھر کے دروازے اس کے لئے کھو ل دئیے اور وہ وہاں آٹھ یا دس سال رہے.اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان کی قوم ایک دن مکہ سے نکال دے گی اورجس طرح موسیٰ ؑ کو مدین میں پناہ دی گئی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ مدینہ میں لے جائے گا اوروہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو کھڑاکردے گا جواس کے لئے اپنے گھر وں کے دروازے کھول دیں گے اوراس پر اپنی جانیں او راپنے اموال قربان کردیں گے اور پھر جس طرح موسیٰ ؑ مدین میںآٹھ یادس سال رہے.اسی طرح محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقیام بھی مدینہ میں اتنا ہی ہوگا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مماثلت کو اس رنگ میں ظاہر فرما دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے آٹھویں سال مکہ فتح کیا اورمدینہ میں آپ کا کل قیام دس سال ہی رہا.مگراس مماثلت میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام پررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ فضیلت ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تو ہجرت کے بعد شادی ہوئی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوگئی تھی.پھر فرماتا ہے وَ مَا كُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ اِذْ نَادَيْنَا وَ لٰكِنْ رَّحْمَةً مِّنْ رَّبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ.اے محمدرسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم)تُو اس وقت بھی طُور کے پا س نہیں تھا.جب کہ ہم نے موسیٰ ؑ پر وحی نازل کی اوراسے ہم نے تیری بعثت کی خبر دی.ہاں یہ خبر تیرے رب کی طرف سے ایک بڑی بھاری رحمت تھی تاکہ تُواس قوم کو ہوشیارکرے جس کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ہوشیارکرنے والانہیں آیا.اورتاکہ وہ
لوگ نصیحت حاصل کریں.مکہ والے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے توتھے مگر چونکہ ایک لمباعرصہ گذر چکاتھا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم سے ناآشناہوچکے تھے اورشرک اختیار کرچکے تھے.اس آیت میں طور سیناپر نازل ہونے والی جس عظیم الشان پیشگوئی کی طرف اشارہ کیاگیا ہے و ہ استثناء باب ۱۸ میں پائی جاتی ہے اوراس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکروں گا اوراپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اورجو کچھ میں اسے حکم دوں گاوہی وہ ان سے کہے گا.اورجو کوئی میری ان باتوںکوجن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے تومیں ان کاحساب اس سے لوںگا.لیکن جونبی گستاخ بن کر کوئی ایسی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کامیں نے اس کو حکم نہیں دیایا اورمعبودوں کے نام سے کچھ کہے تووہ نبی قتل کیاجائے.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸تا۲۱) بائیبل تسلیم کرتی ہے کہ یہ خبر موسیٰ علیہ السلام کو خروجِ مصر کے بعد طورپر دی گئی تھی.پس یہی وہ عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی طر ف اس آیت میں اشارہ کیاگیا ہے.اوراللہ تعالیٰ نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاانکار کرنے والوں کوتوجہ دلائی ہے کہ کیایہ اس وقت طو رکے پاس موجود تھا جب موسیٰ ؑ نے اس کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.یاکیا اس پیشگوئی میں موسیٰ ؑ اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باہمی سمجھوتے کادخل ہے.اگر یہ پیشگوئی زمین و آسمان کے خدا کی طرف سے تھی جودوہزار سال کے بعد ٹھیک اسی طرح تمہاری آنکھوں کے سامنے پوری ہوئی تو تمہارا فرض تھا کہ تم دوڑتے ہوئے آتے اور اس موعود کے آگے اپنے سر جھکادیتے تاکہ تم بھی ان رحمتوںاور برکتوں سے حصہ پاتے جو اس پر ایمان لانے کے ساتھ وابستہ ہیں.مگرتم نے موسیٰ ؑ کی اس عظیم الشان پیشگوئی کی بھی پرواہ نہ کی اورجب وہ موعو د آگیاجس کادوہزار برس سے انتظار کیاجارہاتھا توتم سب سے پہلے اس کے منکر ہوگئے اوراس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے.یہ پیشگوئی جواستثناء با ب ۱۸ میں کی گئی ہے اپنی تفاصیل کے لحاظ سے اس قدراہم ہے کہ اس پر جتنا بھی غور کیاجائے اتناہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کانقشہ انسان کی آنکھوں کے سامنے پھرنے لگتاہے.اس پیشگوئی میں سب سے پہلی بات تویہ بتائی گئی تھی کہ یہ آنے والاموعود بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ ان کے بھائیوں یعنی بنی اسماعیل میں سے آئے گا.دوسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ وہ موسیٰ ؑ کی طرح صاحب ِ شریعت رسول ہوگا.اوراس کے واقعات زندگی موسیٰ ؑ کے واقعات زندگی کےساتھ ملتے جلتے ہوں گے.اس میں کہا گیا ہے کہ
’’میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپاکروں گا.‘‘ اوریہ ظاہر ہے کہ وہ موسیٰ ؑ کی مانند نبی اس وقت تک نہیں کہلاسکتا جب تک وہ موسیٰ ؑ کی طرح صاحبِ شریعت نہ ہو.اوراس کے واقعات زندگی بھی موسیٰ ؑ سے نہ ملتے ہوں.تیسری بات یہ بتائی گئی تھی کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالے گا.یعنی اس کاالہام لفظی ہوگا.یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو وہ اپنے الفاظ میں بیان کردے.چوتھی بات یہ بتائی گئی تھی کہ ’’جوکچھ میںاسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا.‘‘ یعنی باوجود اس کے کہ اس کی شدید مخالفت ہوگی اورخدا تعالیٰ کاپیغام پہنچانے پراُسے ہرقسم کے خطرات لاحق ہوںگے پھر بھی وہ ایک نڈر اور بہادر انسان کی طرح خدا تعالیٰ کا پیغام لوگوںکو پہنچاتاچلاجائے گا.اوراس راستہ میں کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کرے گا.پانچویں بات یہ بتائی گئی تھی کہ اس پیشگوئی کاموعود نبی اپنی تعلیم کو خدا تعالیٰ کانام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا.جس میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ اس کا کلام شرک کی کامل طور پر تردید کرنے والا ہوگا.چھٹی بات یہ بتائی گئی تھی کہ جو لوگ اس کی تعلیم کاانکار کریں گے وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کامورد بنیں گے.ساتویں بات اس میں یہ بتائی گئی تھی کہ اگر کوئی شخص افتراء کے طورپر اس پیشگوئی کااپنے آپ کو مصداق قرار دے گا.تووہ قتل کردیاجائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بائیبل کے اردوتراجم میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں کہ ’’وہ نبی قتل کیاجائے ‘‘مگریہ ترجمہ صحیح نہیں.انگریزی بائیبل میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں کہ He shall die یعنی وہ ہلاک ہوگا.نہ یہ کہ وہ قتل کیاجائے.جیساکہ اردوبائیبل میں ہے.پیشگوئی کے ان تمام پہلوئوں پرغورکرنے سے صاف معلوم ہوتاہے کہ اس پیشگوئی کا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوااَورکوئی شخص مصداق نہیں ہوسکتا.کیونکہ (۱)محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مقدس موعود ہیں جو بنواسحاق کے بھائیوںیعنی بنواسمٰعیل میں پیداہوئے.(۲) محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مقدس موعود ہیں جنہوں نے موسیٰ ؑ کی مانند ہونے کادعویٰ کیا اورجن کے متعلق خداوند تعالیٰ نے کہا کہ اِنَّااَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَااَرْسَلْنَآ اِلیٰ فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا.(المزمل :۱۶) یعنی ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ہی ایک مقدس انسان کو اسی طرح رسول بنا کرکھڑاکیا ہے جس طرح فرعون کی
طرف ہم نے موسیٰ ؑ کو رسول بناکربھیجاتھا.چنانچہ جس طرح حضرت موسیٰ ؑ کوتورات دی گئی جوایک شریعت کی کتاب تھی اسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن دیاگیا.جوایک کامل شرعی قانون ہے.پھر آپؐ کی زندگی کے واقعات بھی موسیٰ ؑ کے واقعات سے ملتے جلتے ہیں.چنانچہ جس طرح موسیٰ ؑ کے بعدامتِ موسوی کی اصلاح اور تجدید دین کے لئے متواتر مجددین اورانبیاء آتے رہے اورآخرتیرہ سوسال کے بعد حضرت مسیح ناصریؑ کو آپ کاخلیفہ اورنائب بناکر بھیجاگیااسی طرح محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہرصدی میں مجددین کے ظہور کی خبر دی.پھر آپؐ نے یہ بھی بتایاکہ آخر میں مسیح موعود آئے گا جواسلام کے عروج اوراس کی نشأۃِ ثانیہ کاموجب ہو گا.جیساکہ آپؐ نے فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلاگیاتو ایک فارسی الاصل انسان اسے واپس لے آئے گا.(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ) (۳) پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مقدس موعو د ہیں جن کے مونہہ میں خدا تعالیٰ کاکلام ڈالا گیا.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى.اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النجم:۴،۵)یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے منشاء کو الفاظ کاجامہ نہیں پہناتے بلکہ صرف وہی الفاظ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جو وحی کی شکل میں آپ پر نازل کئے جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کاایک نام کلام اللہ بھی رکھا گیاہے.(بقرۃ ع۹) کیونکہ اس میں شروع سے لیکر آخر تک صرف کلام اللہ ہی ہے.لیکن باقی انبیاء کی کتب میں خدا تعالیٰ کاکلام کم او ربندوں کاکلام زیادہ پایا جاتا ہے.(۴) پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مقدس موعو د ہیں جنہوں نے دنیا کی شدید مخالفت کے باوجود خدا تعالیٰ کاکلام بلاکم و کاست لوگوں کوپہنچادیا.چنانچہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب آپؐ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ(المائدۃ :۴) آج میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو مکمل کردیاہے توآپؐ نے تمام مسلمانوں کو دوبارہ ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور آخر میں فرمایا.اَللّٰھُمَّ.ھَلْ بَلَّغْتُ یعنی اے اللہ کیامیں نے تیرا پیغام پوری طرح پہنچادیا ہے ؟ اورسب مسلمانوں نے یک زبان ہوکر کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کوگواہ رکھ کرکہتے ہیں کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کاپیغام ہم سب کو پہنچادیاہے.(سیر ۃ ابن ہشام خطبة الرسول فی حجة الوداع) (۵) پھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ مقدس موعود ہیں جن کی الہامی کتاب کاہرباب اس آیت سے شروع ہوتاہے کہ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ گویاہرمسلمان جب کسی سورۃ کی تلاوت کرتاہے تواس کی آنکھوں کے سامنے موسیٰ ؑ کی پیشگوئی آجاتی ہے کہ اس آنے والے موعود پر جوکلام نازل ہوگا وہ اسے خدا کانام لے کر دنیاکے
سامنے پیش کرے گا.(۶) پھر کہاگیاتھاکہ جولوگ اس کی تعلیم کاانکار کریں گے وہ اس جرم کی پاداش میں خدا تعالیٰ سے سزاپائے بغیر نہیں رہیں گے چنانچہ پیشگوئی کایہ حصہ بھی بڑی شان سے پوراہوا.اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامقابلہ کرنے والے تباہ اوربرباد کردیئے گئے.یہاں تک کہ قیصر و کسریٰ جیسے عظیم الشان بادشاہوںکی فوجیں مسلمانوں سے ٹکرائیں اورخدا تعالیٰ نے ان کی حکومتوںکو پاش پاش کردیا.(۷) پھر کہاگیاتھا کہ جوشخص افتراء کے طورپر اپنے آپ کو اس پیشگوئی کامصداق قراردے گا.اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کردے گا.اوروہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا.پیشگوئی کایہ حصہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا کےسامنے واضح کررہاہے.کیونکہ تاریخ شاہد ہے کہ آپ کو ہلاک کرنے کے لئے دشمنوں نے ایڑی چوٹی کازور لگایا اورہرناجائز سے ناجائز طریق اختیار کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھو ڑی مگرخدا تعالیٰ نے آپؐ کی مدد فرمائی اوردشمن آپؐ کابال تک بیکانہ کرسکا.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمدؐ رسول اللہ! جب طورپر ہم نے موسیٰ ؑ کو تیرے آنے کی خبردی تھی توکیاتُواس وقت موسیٰ ؑ کے ساتھ تھا اور کیاتُونے اسے اس پیشگوئی پر آمادہ کیاتھا ؟ یہ کام توصرف عالم الغیب خدا کاتھاجس نے دوہزار سال پہلے تیرے آنے کی خبر دے دی.مگران لوگوںکوکیاہوگیاکہ یہ ان پیشگوئیوں سے بھی کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے اورتیراانکار کرتے چلے جاتے ہیں.حالانکہ اتنا لمبازمانہ پہلے یہ پیشگوئی اس لئے کی گئی تھی کہ بعد میں آنے والے اس نبی کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے حصہ پائیں اورتاکہ اے محمدؐرسول اللہ ! تُو ا س قوم کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرے مَّاۤ اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ جن کے پاس تجھ سے پہلے کوئی ہوشیارکرنے والانہیں آیا.یعنی اہل مکہ کو.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کفار مکہ حضرت ابراہیمؑ کی نسل میں سے تھے مگر حضرت ابراہیمؑ ان سے صدیوں پہلے گذرچکے تھے.اسی طرح حضرت اسمٰعیلؑ بھی اس وقت مبعوث ہوئے جبکہ ابھی ان کی نسل ملک عرب میں نہیں پھیلی تھی.پس ضروری تھاکہ کوئی نیا نبی آکر ان کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلائے اور انہیں توحید حقیقی پر قائم کرے.
وَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُصِيْبَهُمْ مُّصِيْبَةٌۢ بِمَا قَدَّمَتْ اَيْدِيْهِمْ اوراگر یہ خیال نہ ہوتاکہ وہ اپنے اعمال کی وجہ سے کسی مصیبت کے آنے پر کہیں گے.اے ہمارے رب !تُو نے فَيَقُوْلُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ وَ ہماری طر ف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا تاکہ ہم تیری آیتوں کے پیچھے چلتے اور مومنوں میں سے بن جاتے (توشاید ہم نَكُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۴۸ تجھے رسول بناکر نہ بھیجتے مگر کفار پرحجت قائم کرناضروری تھا ).تفسیر.فرماتا ہے کہ اگر ہمیں یہ خیال نہ ہوتاکہ ان لوگوںکو اپنے برے اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب پہنچا تویہ فوراً کہہ دیں گے.کہ اے ہمارے رب !تُو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا.ہم ذلیل اور خوار ہونے سے پہلے تیرے احکام کی تعمیل کرتے اورمومن بن جاتے توہم ان پر رسول بھیجنے کے بغیر ہی عذاب نازل کردیتے.اس آیت کی یہ جزاکہ ’’ ہم ان پر رسول بھیجنے کے بغیر ہی عذاب نازل کردیتے ‘‘ اس جگہ محذوف کردی گئی ہے.جیساکہ قرآن کریم کے بعض اورمقامات میں بھی جزامحذوف ہے اوربتایاگیاہے کہ اگر نبی نہ آ ئیں توقوموں پر حجت تمام نہیں ہوتی اوروہ خدا تعالیٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ تُونے ہم میں نبی نہیں بھیجا اس لئے ہم ہدایت سے محروم رہیں.اگرہم میں نبی آتا تو ہم اس کے احکام کی تعمیل کرکے تیری رضا حاصل کرلیتیں اور چونکہ یہ ایک معقول عذرہوتا اس لئے ہم نے سلسلہ نبوت جاری کیا ہے.اوراسی کے مطابق اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودنیا کی اصلاح کے لئے بھیجاگیاہے.اگران لوگوں نے خدا تعالیٰ کی آیات کی اتباع کرنے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے کی بجائے ظلم اور سرکشی کارویہ اختیار کیا توموسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ کاعذاب ان پر نازل ہوجائے گااورپھر ان کاشور مچانا بیکارہو جائے گا.
فَلَمَّا جَآءَهُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُوْتِيَ مِثْلَ پس جب (ان کے پاس ) ہماری طرف سے حق آگیا.توانہوں نے کہا کیوںاس (یعنی محمد رسول اللہ )کوویسی تعلیم مَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى١ؕ اَوَ لَمْ يَكْفُرُوْا بِمَاۤ اُوْتِيَ مُوْسٰى مِنْ قَبْلُ١ۚ نہیں ملی جیسی کہ موسیٰ ؑ کوملی تھی.کیاانہوںنے موسیؑ کی تعلیم کا اس سے پہلے انکار نہیں کیاتھا؟ انہوں نے توکہہ دیاتھا کہ یہ قَالُوْا سِحْرٰنِ تَظَاهَرَا١ٙ۫ وَ قَالُوْۤا اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ۰۰۴۹ دوبڑے جادو گر ہیں جوایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں.اورکہہ دیاتھا کہ ہم ان میںسے ہرایک کے دعویٰ کے منکر ہیں.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے پر بجائے اس کے کہ آپؐ کی قوم آپؐ کی پاک تعلیم سے فائدہ اٹھاتی اورآپؐ پر ایما ن لاکر اللہ تعالیٰ کے انعامات کی وارث بنتی اس نے ایک نیا اعتراض کردیا اوریہ کہنا شروع کردیا کہ موسیٰ ؑ کی طرح کی کوئی کتاب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرکیوں نہیں اتاری گئی.یعنی جس طرح موسیٰ ؑ پر اکٹھی کتاب اتری تھی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیوں نہیں اتری.جیسا کہ دوسری جگہ قرآن کریم نے اس اعتراض کو تفصیل سے بیان کیا ہے اوربتایاہے کہ کفار یہ اعتراض کرتے ہیں کہ لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً (الفرقان : ۳۳) اس پر قرآن ایک دفعہ ہی کیوں نازل نہیں کردیاگیا.ٹکڑے ٹکڑے کرکے کیوں اتاراگیاہے حالانکہ ان کی یہ بات بالکل غلط تھی کہ موسیٰ پراکٹھی کتاب اتری ہے.جتنے عرصہ میں قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتراہے اس سے بہت زیادہ عرصہ میں تورات موسیٰ ؑ پر اُتری ہے.چنانچہ بائیبل کے بیان کے مطابق شروع میںتوصرف دس احکام موسیٰ پرنازل ہوئے لیکن باقی تورات کئی سالوں میں مکمل ہوئی.اوردشتِ سینا کے مختلف مقامات میں اس کی متعددآیات اتریں.پس یہ اعتراض تو غلط ہے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہاری یہ بات درست بھی مان لی جائے کہ اکٹھی کتاب نازل ہوتی توتم مان لیتے توسوال یہ ہے کہ موسیٰ ؑ کو ان کے مخاطبوں نے کب مان لیاتھا ؟اس پر تو تمہارے نزدیک اکٹھی کتاب اتری تھی.مگراس کے زمانہ کے لوگوں نے بھی یہی کہا تھا کہ سِحْرٰنِ تَظَاھَرَا ہارونؑ اورموسیٰ ؑ دوبڑے جادوگر ہیں جوایک دوسرے کی مدد کررہے ہیں اورکہہ دیاتھاکہ اِنَّا بِكُلٍّ كٰفِرُوْنَ ہم موسیٰ ؑ کے بھی منکر ہیں.اورہارون ؑ کے بھی.یعنی
گویہ کتاب اکٹھی اتری ہے مگرپھر بھی ہم انکار کرتے ہیں.پس اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی اکٹھا قرآن اترتاتوتم نے کب مان لیناتھا تم پھر بھی اعتراض کرتے چلے جاتے.سِحْرٰنِ تَظَاھَرَا میں موسیٰ ؑ اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے.یعنی جب ان کے تمام اعتراضات کوواضح طورپر ردّکردیاجاتاہے اوران کا بوداپن کھل جاتاہے تووہ جھنجھلاکر کہہ اٹھتے ہیں کہ ہم موسیٰ ؑ کوبھی نہیں مانتے موسیٰ ؑ بھی نعوذ باللہ جھوٹاتھا اور تم بھی نعوذ باللہ جھوٹے ہو.تم بار بار موسیٰ ؑ کو اپنی تائید میں پیش کرتے ہو اورموسیٰ ؑ اپنی کتاب میں تمہارے متعلق پیشگوئیاں کرتاہے.پس درحقیقت تم دونوں ہی جھوٹے ہو جو ایک دوسرے کی تائید کررہے ہو.اصل بات یہ ہے کہ جب انسان ایک سچائی کا انکار کرتاہے تواسے دوسری سچائی کابھی لازماً انکار کرناپڑتا ہے.جب انہوں نے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاانکار کیاتوچونکہ موسیٰ ؑ کے کلام میں آپؐ کے متعلق پیشگوئیاں پائی جاتی تھیں اس لئے انہیں موسیٰ ؑ کابھی انکار کرناپڑا اورانہوں نے کہہ دیا کہ یہ سب جھوٹ اورفریب کاایک چکر ہے جو چلایا جارہاہے.اس میں ہمیں کوئی سچائی نظر نہیں آتی.قُلْ فَاْتُوْا بِكِتٰبٍ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ هُوَ اَهْدٰى مِنْهُمَاۤ اَتَّبِعْهُ تُو کہہ دے کہ (اگرموسیٰ ؑ اورہارونؑ اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کی باتیں جھوٹی ہیں تو )اگر تم سچے ہوتو اللہ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۵۰ کے پاس سے ایک ایسی کتاب لائو جو ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت دیتی ہو تاکہ میں اس کی اتباع کروں.تفسیر.فرماتا ہے.اے محمدرسول اللہ تم اپنے دشمنوں کو کہوکہ تورات کا تواس لئے انکار ہواکہ وہ اکٹھی نازل ہوئی تھی اور قرآن کاانکار اس لئے ہواکہ وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکرنازل ہواہے تواب تم کو ئی ایسی کتاب لائو جس نے دنیا میں ان دونوں کتابوں سے زیادہ ہدایت پھیلائی ہواور کسی تیسرے طریق پر نازل ہوئی ہو.مگرتم کبھی ایسانہیں کرسکوگے کیونکہ تم جھوٹے ہو.باقی رہا مَیں.سومَیں توہرصداقت کو ماننے کے لئے تیار ہو ں.تم کوئی صداقت میر ے سامنے لائو پھر دیکھو کہ میں اسے مانتاہوں یا نہیں مانتا.
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ پھر اگر وہ کوئی جواب نہ دیں.توجان لے کہ وہ صرف اپنی خواہشوں کی پیروی کر رہے ہیں.اوراس سے اَهْوَآءَهُمْ١ؕ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَيْرِ هُدًى زیادہ کون گمراہ ہے جواللہ کی ہدایت کو نظرانداز کرکے اپنی خواہش کے پیچھے چلتاہے.اللہ(تعالیٰ) مِّنَ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَؒ۰۰۵۱ یقیناً ظالم قوم کو کامیابی کاراستہ نہیں دکھاتا.تفسیر.فرماتا ہے.اگروہ تیرے اس مطالبہ کو پورانہ کریں.توتجھے معلوم ہوجائے گاکہ یہ لوگ کسی سچائی کی تلاش میں نہیں بلکہ جوبھی پراگندہ خیال ان کے دل میں آتاہے اسے ظاہر کردیتے ہیں.اورپراگندہ خیالات اور خواہشوں کے پیچھے چلنے والا تونہایت گمراہ اور ظالم ہوتاہے.اوراللہ تعالیٰ ظالموں کو کبھی کامیابی کاراستہ نہیں دکھاتا.وَ لَقَدْ وَصَّلْنَا لَهُمُ الْقَوْلَ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَؕ۰۰۵۲ اورہم ان کے لئے پے درپے وحی اتارتے رہے.تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں.تفسیر.وَصَّلْنَالَھُمُ الْقَوْلَ کے دومعنے ہیں.ایک تویہ کہ ہم ان کے لئےپے درپے اپنے رسول بھیجتے رہے ہیں.یاپے درپے ان کے لئے کلام الٰہی نازل کرتے رہے ہیں.اور دوسرے یہ کہ ہم نے اس قول یعنی قرآن کریم کوان کے لئے مربوط طورپرنازل کیا ہے یعنی سارے قرآن میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں.پہلے مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ آیت اس مضمون کی حامل ہے جواللہ تعالیٰ نے وَاِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَافِیْھَا نَذِیْرٌ یا اَرْسَلْنَارُسُلَنَا تَتْرًا(المومنون :۴۵) وغیرہ آیات میں بیان فرمایا ہے.یعنی دنیا کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسول بھیجتارہاہے.یہاں تک کہ کوئی قوم ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کاکوئی ہادی اورراہنمانہ گذراہو.اورجس نے انہیں نیکی اور ہدایت کے راستے پر چلانے کی کوشش نہ کی ہو.چنانچہ جب ہم مختلف اقوام کے
متعلق تحقیق کرتے ہیں تووہ سب کی سب ا س بات کی متفقہ طور پرقائل نظر آتی ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کاکوئی نہ کوئی مصلح ضرور آیاتھا.جب ہم ہندوئوں سے پوچھتے ہیں تووہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں حضرت کرشن اور رامچندر جی خدا تعالیٰ کاپیغام لے کرآئے تھے.ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں تو وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کانام بتاتے ہیں.ہم یہودیوںسے پوچھتے ہیںتو وہ حضرت موسیٰ ؑ اورہارونؑ کانام بتاتے ہیں.ہم ایرانیوں سے پوچھتے ہیںتووہ حضرت زرتشت علیہ السلام کانام بتاتے ہیں.ہم چینیوں سے پوچھتے ہیں تووہ حضرت کنفیوشس کانام لیتے ہیں.ہم یونانیوں سے پوچھتے ہیں تو وہ سقراط کانام لیتے ہیں.غرض کوئی قوم ایسی نہیں جس کی ہدایت کا اللہ تعالیٰ نے سامان نہ کیا ہو.کیونکہ اللہ تعالیٰ جیسے عرب کا خداہے ویساہی وہ ہندوستان اورچین اور شام اور مصر اورایران اور یونان کابھی خداہے.جب اس نے تمام دنیا کی جسمانی ضرورتوںکو پوراکیا ہے تووہ ان کی روحانی ضرورتوںکو کس طرح نظر انداز کرسکتاتھا جبکہ روح کی حفاظت جسم کی حفاظت سے بھی زیادہ ضروری تھی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے اسی احسان کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہم نے ہمیشہ اپنی مخلوق پر رحم فرمایا اور اس کی ہدایت کاخیال رکھا اوراس کی طرف پے درپے اپنے رسول بھیجے.پے درپے ان کے لئے وحی نازل کی تاکہ کوئی شخص نادانستہ طورپرہلاک نہ ہو.دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ ہم نے اس قول یعنی قرآن کریم کو ایسابنایاہے کہ اس کی ہرآیت دوسری آیت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اوراس کے تمام مضامین میں نہایت اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے مگرافسوس کہ مسلمانوں نے ترتیب قرآن کے مسئلہ کوہی نظر انداز کردیااوریہ کہنا شروع کردیا کہ نعوذ باللہ یہ ایک بے جوڑ کلام ہے جس کاآپس میں کوئی تعلق نہیں.گویاان کے نزدیک مسلمانوں کویہ توایمان رکھناچاہیے کہ یہ خدا کاکلام ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھناچاہیے کہ انسانی کلام میں جویہ خوبی ہوتی ہے کہ اس میں ربط پایا جاتا ہے وہ اس میں نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ پہلے مفسرین میں سے ابن حیّانؒ کے سواکسی نے ترتیب کے مسئلہ کی طرف توجہ نہیں کی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں قرآن کریم کی فضیلت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اس میں ایک اعلیٰ درجہ کی ترتیب پائی جاتی ہے.تاکہ لوگ اس پرغورکرکے نصیحت حاصل کریں.لیکن یہ امر بھی یاد رکھناچاہیے کہ الہامی کتابوںکی ترتیب عام کتابوں کی ترتیب سے جداگانہ رنگ رکھتی ہے.عام کتابوں میں تویہ ہوتاہے کہ مثلاً پہلے مسائل وضو بیان کئے جائیںگے.پھرمسائل عبادت بیان کئے جائیں گے پھرایک باب میں مسائل نکاح بیان کئے جائیں گے اسی طرح کسی باب میں طلاق و خلع کااور کسی باب میں کسی اورچیز کا ذکرہوگا.مگرالہامی کتابوں میں یہ رنگ نہیں ہوتا.بلکہ ان کی ترتیب بالکل اَور قسم کی ہوتی ہے.جودنیا کی ترتیب سے بالکل نرالی ہوتی ہے.یہاں تک کہ جاہل لوگ کہہ دیتے
ہیں کہ اس میں کوئی ترتیب ہے ہی نہیں.اب سوا ل پیدا ہوتاہے کہ الہامی کتابوں میں دنیا کی تمام کتابوں سے نرالی ترتیب کیوں رکھی جاتی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں بھی کئی حکمتیں ہیں:.(الف ) اس ترتیب سے سارے کلام سے دلچسپی پیداکرنی مدنظر ہوتی ہے.اگرالہامی کتاب کی ترتیب اس طرح ہو جس طرح مثلاً ھدایۃ کی ترتیب ہے کہ وضو کے مسائل یہ ہیں.نکاح کے مسائل وہ ،توعام لوگ اپنے اپنے مذاق کے مطابق انہی حصوں کوالگ کرکے ان پرعمل کرناشروع کردیتے اورباقی قرآن کو نہ پڑھتے.مگراللہ تعالیٰ نے سارے مسائل کو اس طرح پھیلا کررکھ دیاہے کہ جب تک انسان سارے قرآن کو نہ پڑھ لے مکمل علم اسے حاصل ہی نہیں ہوسکتا.(باء) لوگوں کو غوروفکر کی عادت ڈالنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے یہ ترتیب اختیار کی ہے.اگر عام کتابوں کی طرح اس میں مسائل بیان کردیئے جاتے تولوگوں کاذہن اس طرف منتقل نہ ہوتاکہ ان مسائل کے باریک مطالب بھی ہیں.وہ صرف سطحی نظر رکھتے اور غوراورفکر سے محروم رہتے.مگراب اللہ تعالیٰ نے ان مسائل کو اس طرح پھیلادیا ہے اورایک دوسرے میں داخل کردیا ہے کہ انسان کوان کے نکالنے کے لئے غوراور فکرکرناپڑتا ہے.اوراسے معلوم ہوتاہے کہ یہ ایک سمندر ہے.(ج) یہ ترتیب اس لئے بھی اختیارکی گئی ہے.تاخشیت الٰہی پیداہو.مثلاً اگریوں مسائل بیان ہوتے کہ وضویوں کرو اورکلی اس طرح کرو.عبادت اس طرح کرو.اتنی رکعتیں پڑھو توخشیت الٰہی پیدانہ ہوتی.جیسے عبادت وغیرہ کے تمام مسائل قدوری اورہدایۃ وغیرہ میں موجود ہیں مگرقدوری اورہدایۃ پڑھ کر کوئی خشیت اللہ پیدا نہیں ہوتی.لیکن وہی مسئلہ جب قرآن میں آتاہے توانسان کا دل اللہ تعالیٰ کی خشیت سے لبریز ہو جاتا ہے اس لئے کہ قرآن ان مسائل کو خشیت اللہ کاایک جز بناکر بیان کرتاہے.اوردراصل نماز اورروزہ اورحج اورزکوٰۃ وغیرہ مسائل کااصل مقصد تقویٰ ہی ہے.پس قرآن تقویٰ کو مقدم رکھتاہے.تاکہ جب انسان کو یہ کہا جائے کہ وضوکروتو وہ وضوکرنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو.اسی طرح جب کہا جائے کہ نماز پڑھوتوانسان نماز پڑھنے کے لئے پہلے ہی تیار ہو.اگر قرآن میں نماز کاایک باب ہوتا تواسے پڑھ کر خشیت اللہ پیدانہ ہوتی.غرض الہامی کتاب چونکہ اصلاح کو مقدم رکھتی ہے اس لئے وہ سطحی ترتیب کوچھوڑ کر ایک نئی ترتیب اختیارکرتی ہے جوجذباتی ہوتی ہے یعنی قلب میں جوتغیر ات پیدا ہوتے ہیں الہامی کتاب ان کا ذکر کرتی ہے یہ نہیں کہ وہ وضو کے
بعد نماز کا ذکرکرے بلکہ وہ وضو سے روحانیت طہارت او رخدا تعالیٰ کے قرب کی طرف انسان کو متوجہ کرے گی.کیونکہ وضو سے طہارت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.پھر جب نماز کامسئلہ آئے گاتویہ نہیں ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نماز کے مسائل بیان کرناشروع کردے بلکہ سجدہ اور رکوع کے ذکر سے جوجذبات انسانی قلب میں پیدا ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اسے اپنی طرف متوجہ کرے گا.تاکہ جو جذبات بھی انسان کے اند ر پیداہوں ان سے وہ ایسااثر لے جواسے خدا تعالیٰ کے قریب کردے.غرض ترتیب قرآن ظاہر پر مبنی نہیں بلکہ قلب کے جذبات کی لہروں پر مبنی ہے.اوریہ لہریں مختلف ہوتی ہیں.مَیں اس کی وضاحت کے لئے ایک مثال دےدیتاہوں.کہتے ہیں کسی مسجد کامُلّا ایک د ن جماعت کرانے لگا.تواس نے دیکھا کہ مقتدی آسودہ حال ہیں.اس پر نماز میں ہی اسے خیال آیا کہ اگریہ مجھے تحفے تحائف دیں تومیرے پاس بہت سامال اکٹھاہوجائے گا.پھر جب مال جمع ہوجائے گا تومیں اس سے تجارتی سامان خریدوں گا.خوب تجارت کروں گا.کبھی دلّی میں اپنی اشیاء لے جائوں گا کبھی کلکتے چیزیں لے جائوں گا.غرض وہ اس طرح خیالات دوڑاتاچلاگیا.پھرہندوستان اور بخاراکے درمیان اس نے تجارت کی سکیم بنانی شروع کردی.اب بظاہر وہ رکو ع اورسجود کررہاتھا مگرخیالات کہیں کے کہیں جاپہنچے.ایک بزرگ بھی ان مقتدیوں میں شامل تھے.ان پر کشفی حالت طاری ہوئی اورانہیں امام کے تمام خیالات بتادیئے گئے.اس پروہ نماز توڑ کرالگ ہوگئے.جب اس ملّا نے نماز ختم کی تو وہ ان پرناراض ہوا اورکہنے لگا تمہیں معلوم نہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے اسے بلاوجہ توڑا نہیں کرتے.وہ کہنے لگے.مسئلہ تومجھے معلوم ہے مگرمیری صحت کچھ کمزور ہے.میں آپ کے ساتھ چلااوردلّی تک گیا.پھر دلی سے بخاراگیااورمیں تھک کررہ گیا اور چونکہ اتنے لمبے سفر کی میں برداشت نہیں کرسکتاتھا اس لئے آپ سے الگ ہوگیا.اس پر وہ شرمندہ ہوکر خاموش ہوگیا.اب یہ بیہودہ خیالات تھے جو اس کے دل میں پیداہوئے مگران خیالات میں بھی وہی ترتیب رہی جواس کے جذباتِ قلب کی تھی.یہی حال نیک خیالات کاہے اوروہ بھی اسی رنگ میںپیدا ہوتے ہیں.مثلاً تم سجدہ میں گئے اور تم نے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعلیٰ کہا.تواگراس وقت تمہارادل بھی حاضر ہے تواللہ تعالیٰ کی سبّوحیت کانقشہ تمہارے سامنے آنے لگتاہے گواس وقت تمہارے مونہہ سے دوسری اورتیسری دفعہ بھی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعلیٰ نکل رہاہوتاہے مگرتمہارادل پہلے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعلیٰ کو ہی چھوڑنے کونہیں چاہتا یا اَلحمد للّٰہِ کہتے ہو اور تمہاراد ل اس وقت حاضر ہوتاہے.تواس وقت حمد کے ماتحت اللہ تعالیٰ کے احسانات تمہارے سامنے یکے بعد دیگرے آنے شروع ہوجاتے ہیں اور تم انہی احسانات کی یاد میں محوہوجاتے ہو.اب اگرایسی حالت میں تم
کسی کے پیچھے نماز پڑ ھ رہے ہو توگو تم اس کی اقتداء میں کبھی سجدہ کرو گے کبھی رکوع میںجاؤگے اورمونہہ سے سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم وغیرہ بھی کہو گے.مگرتمہارے دل پر حمد ہی جاری ہوگی.توقلوب پربعض روحانی واردات آتی ہیں اور وہی حقیقی نماز ہوتی ہیں.اس وقت انسان گوالفاظ مونہہ سے نکال رہاہوتاہے مگراس کے جذبات روحانیت کے لحاظ سے ایک خاص راستہ پر چل رہے ہوتے ہیں.پس وہ واردات جو انسانی قلب پر آتی ہیں قرآ ن کریم کی ترتیب اس پر مبنی ہے.وہ نماز کے بعد روزہ کا ذکر نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتاہے کہ میری یہ آیت پڑھنے کے بعد کیاکیاخیالات انسان کے اندرپیداہوں گے.پس وہ خیالات جواس کے نتیجہ میں انسانی قلب میں پیداہوسکتے ہیں قرآن کریم ان کو بیان کرے گا.پس قرآن کریم کی ترتیب ان جذبات پر ہے جوقرآن کریم پڑھتے وقت پیدا ہوتے ہیں.اور چونکہ خدائے عالم الغیب جانتاتھا کہ فلاں آیت یافلاںحکم کے نتیجہ میں کس قسم کے خیالات پیداہوسکتے ہیں اس لئے بجائے ظاہر ی ترتیب کے اس نے قرآن کریم کی ترتیب ان جذبات پر رکھی جوقلبِ مومن میں پیدا ہوتے ہیں مگراس کا نتیجہ یہ ضرور نکلتاہے کہ جو لوگ محبت اور اخلاص سے قرآن مجید کونہیں پڑھتے انہیں یہ کتا ب پھیکی معلوم ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں یہ کیاہواکہ ابھی موسیٰ ؑ کا ذکر تھا پھر نوح ؑ کا ذکرشروع کردیا.پھر شعیبؑ کے حالات بیان ہو نے لگ گئے.ابھی سُود کا ذکر تھا کہ ساتھ نماز کا ذکر آگیا.ان کے نزدیک یہ باتیں اتنی بے جوڑ ہوتی ہیں کہ وہ ان کا آپس میں کوئی تعلق سمجھ ہی نہیں سکتے.مگروہی مضمون جب کسی عالم کے پاس پہنچتاہے تووہ سنتاہے اورسر دُھنتاہے.اگرکہوکہ پھر اس کاعلاج کیا ہے ؟ تویاد رکھنا چاہیے کہ اس کاپہلاعلاج تویہ ہے کہ انسان سارے کلام کو پڑھے اوربار با ر پڑھے.یہ نہیں کہ کوئی خاص حصہ چن لیا اوراسے پڑھنا شروع کردیا.دوم جن لوگوں کاجذبہ محبت ہروقت کامل رہتاہے ان کے لئے تویہ کافی ہے کہ و ہ صبح یا شام کا وقت تلاوت کے لئے مقررکریں.مگرجن کاجذبہ محبت ایساکامل نہ ہو وہ صبح یاشام کو تلاوت کرنے کے علاوہ خصوصیت سے اس وقت بھی تلاوت کیاکریں جب ان کے دل میں محبت کے جذبات ابھر رہے ہوں چاہے دوپہر کو ابھریں یاکسی اوروقت.سوم قرآن کریم کو اس یقین کے ساتھ پڑھا جائے کہ اس کے اندر غیر محدود خزانہ ہے.جوشخص خیا ل کرتاہے کہ جوکچھ علماء مجھے اس کا مطلب بتائیں گے یاجوکچھ پہلی تفسیروں میں لکھاہواہے وہیں تک اس کے معارف ہیں اس کے لئے یہ کتاب بند رہتی ہے مگرجوشخص یہ یقین رکھتاہے کہ اس میں علوم اور معارف کے غیر محدود خزانے موجود ہیں.اس کے لئے یہ کتاب معرفت کاایک بحر بیکراں ثابت ہوتی ہے.جس طرح اگرتم کسی جنگل میں سے گذر رہے ہوتوتمہارے سامنے ہزاروں درخت آئیں گے مگرتم کسی کوغور سے نہیں دیکھو گے.لیکن اگر محکمہ جنگلات کاکوئی افسر معائنہ کرنے کے لئے آجائے توو ہ بیسیوں نئی باتیں
معلوم کرلیتا ہے.اسی طرح جوشخص اس نیت سے قرآن پڑھتاہے کہ یہ غیرمحدود خزانہ ہے اوراس کی ترتیب نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے وہ اس سے فائدہ اٹھالیتا ہے.مگرجواس نیت سے نہیں پڑھتا وہ فائدہ اٹھانے سے محروم رہتاہے.اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِهٖ هُمْ بِهٖ يُؤْمِنُوْنَ۰۰۵۳ وہ لوگ جن کو ہم نے اس (قرآن) سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس (قرآن) پر(دل میں )ایمان رکھتے ہیں.وَ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِهٖۤ اِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَاۤ اِنَّا اورجب وہ (یعنی قرآن) ان کے سامنے پڑھاجاتاہے تووہ کہتے ہیں ہم اس پرایمان لاتے ہیں.یہ كُنَّا مِنْ قَبْلِهٖ مُسْلِمِيْنَ۰۰۵۴اُولٰٓىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ ہمارے رب کی طر ف سے برحق کلام ہے ہم توآج سے پہلے ہی اس (کتاب کے مضامین)کے متبع تھے مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وَ مِمَّا (گوخفیہ).ان لوگوں کو ان کا بدلہ ان کے صبر کی وجہ سے دودفعہ ملے گا اور وہ نیکی سے بدی کامقابلہ کرتے ہیں اور رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ۰۰۵۵وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ جوکچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس کو خرچ کرتے ہیں.اور(یہودیوں سے جب مسلمان) کوئی لغوبات سنتے ہیں تواس قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ٞ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ١ٞ لَا سے اعراض کرتے ہیں.اورکہتے ہیں (اے کافرو!) ہمارے عمل ہمارے لئے ہیں اور تمہارے عمل تمہارے لئے نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ۰۰۵۶ ہیں.تم پر سلامتی نازل ہو(یعنی خداتمہیں ایمان نصیب کرے )ہم جاہلوں سے تعلق رکھنا پسند نہیں کرتے.حلّ لُغَات.یَدْرَءُ وْنَ: یَدْرَءُوْنَ دَرَأَ سے فعل مضارع جمع مذکر غائب کاصیغہ ہے اوردَرَأَ ہٗ (دَرْأً وَدَرْأَۃً) کے معنے ہیں دَفَعَہٗ.اس کوہٹایا.وَقِیْلَ دَفَعَہٗ شَدیْدًا اوریہ بھی کہاگیا ہے کہ اس کے معنے زورسے ہٹانے
کے ہیں (اقرب) پس یَدْرَءُ وْنَ کے معنے ہوں گے وہ سختی سے ہٹاتے ہیں.تفسیر.فرماتا ہے.و ہ لوگ جن کو قرآن کریم سے پہلے صرف نام کے طورپر کتاب نہیں ملی بلکہ حقیقی طورپر ملی ہے اوراس پر سچاایمان رکھتے ہیں وہ قرآن کریم کی سچائی پر بھی صدق دل سے ایمان لاتے ہیں.کیونکہ خود ان کی کتاب میں قرآن کریم کے متعلق پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں چنانچہ جب ان کے سامنے قرآن کریم پڑھاجاتاہے تووہ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ ہم توا س قرآن پر ایمان لاتے ہیں.یہ یقیناً ہمارے رب کی طرف سے ایک سچی کتاب ہے اور ہم اس سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے احکام کے فرماں بردار رہے ہیں اور اب بھی اس کے فرمانبردار ہیں.اُولٰٓىِٕكَ يُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَيْنِ بِمَا صَبَرُوْا فرماتا ہے.اہل کتاب میں سے جولوگ یہ نمونہ دکھائیں گے اور اس کی وجہ سے اپنی قوم سے مختلف قسم کی تکلیفیں پائیں گے ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوہرااجر دیاجائے گا.یعنی ایک تواس بات کااجر کہ وہ تورات پر قائم رہے اور دوسرے اس بات کااجر کہ انہوں نے قرآن کریم کو مان لیایاایک تووہ اجرجودنیا میں ان کو دیاجائے گا اوردوسراوہ اجر جواگلے جہان میں دیاجائے گا.صَبَرُوْا میں بتایاکہ ان کو یہ دوہرااجر ان کے صبر کی وجہ سے دیاجائے گا.صبر کے عربی زبان میں تین معنے ہوتے ہیں.اول.گناہ سے بچنا.دوم.نیک اعمال پر استقلال سےقائم رہنا.سوم.تکالیف پر شکوہ اورجزع فزع کے اظہار سے اجتناب کرنا.پس صَبَرُوْا کہہ کر بتایاکہ یہ لوگ اس لئے دوہرے اجر کے مستحق ہیں کہ یہ ہمیشہ گناہوں سے بچتے رہے جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ان کو یہ توفیق عطافرمائی کہ انہوں نے اس کے مامور کی آواز پر لبیک کہہ دیا.دوسرے یہ لوگ اس لئے دوہرے اجر کے مستحق ہیں کہ یہ نیک اعمال پر استقلال سے قائم رہے.اورخدا تعالیٰ کو ان کی یہ نیکی ایسی پسند آئی کہ اس نے انہیں اس دوسری نیکی کی بھی توفیق عطافرمائی کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرلیا.تیسر ے یہ لوگ اس لئے دوہرے اجر کے مستحق ہیں کہ انہوں نے تورات کو مان کر بھی دشمنوں سے تکلیفیں سہیں.اوراب قرآن کریم کومان کر بھی اپنی قو م کی لعن طعن کا نشانہ بنے ہوئے ہیں.مگران تمام تکالیف کے باوجود ان کی زبانوں پر کبھی حرف شکایت نہیں آیا.بلکہ ہمیشہ یہ اپنے رب کی رضا ء پر راضی رہے.پس یہ نیکیاں ایسی نہیں جوضائع ہوسکیں.اللہ تعالیٰ ان کو ان کے نیک اعمال کااس جہان میں بھی بدلہ دے گا اور آخر ت میں بھی انہیں اپنی رضاکا مقام عطافرمائے گا.پھر بتایا کہ اہل کتاب میں بعض اورخوبیاں بھی ہیں چنانچہ ایک خوبی تویہ ہے کہ وَ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ وہ بدی کونیک سلوک کے ساتھ دو رکرتے ہیں یعنی اول بدی کومٹانے کے لئے وہ اپنانیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش
کرتے ہیں.اوراس طرح لوگوںکو جرأت دلاتے ہیں کہ بدیوں سے بچناکوئی مشکل کام نہیں اگر ہم نے بدیوں کوترک کردیا توتمہارے لئے ان پر غالب آنا کون سا مشکل امر ہے.دوم وہ نیکی پھیلانے کے لئے متواتر وعظ و نصیحت سے کام لیتے ہیں.تاکہ برائیوں کا لوگوں کے ذہنوں سے خودبخود استیصال ہوتاچلاجائے.اوربرائیوں کی شناعت ان کے دلوں میں پیداہوجائے.سوم.وہ بدی کومٹانے کے لئے ایسارویہ اختیا رکرتے ہیں جو نیک نتائج پیداکرنے والاہوتاہے.یعنی اگر عفو میں اصلاح دیکھیں تو دوسرے کو معاف کردیتے ہیں.اوراگر مجر م کی اصلاح سزاکے بغیر نہ ہوسکتی ہو تو اسے سزادیتے ہیں.تورات کی طرح نہ ہرموقعہ پر انتقام لینے کی کو شش کرتے ہیں اورنہ انجیل کی طرح ہرجرم کو معاف کرنے کی کو شش کرتے ہیں بلکہ وہ موقع اورمحل کو دیکھ کر بدی کو اس طریق سے دور کرتے ہیں جواچھے نتائج پیداکرنے والاہو.چہارم.وہ ظلم کے مقابلہ میں ظلم اوربے انصافی کے مقابلہ میں بے انصافی اور شرار ت کے مقابلہ میں شرار ت سے کام نہیں لیتے بلکہ ہمیشہ سچائی اور انصاف اور خداترسی کو مدنظررکھتے ہیں.اوربدی کے مقابلہ میں بھی نیکی ہی اختیار کرتے ہیں.دوسری خوبی یہ بتائی کہ وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ.ہم نے ان کو جوکچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.یعنی خدا تعالیٰ نے انہیں جوبھی نعمت عطافرمائی ہے وہ اسے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لئے صرف کرتے ہیں.وہ غرباء کے لئے صرف اپنا روپیہ ہی صرف نہیں کرتے بلکہ ہم نے ان کو جو کچھ بھی دیاہے اس کا ایک حصہ وہ دوسروں کے لئے ہمیشہ خرچ کرتے ہیں.عربی زبان میں رِزْق اللہ تعالیٰ ہرعطاکردہ چیز کو کہاجاتاہے.چنانچہ مال بھی رزق میں شامل ہے.علم بھی رزق میں شامل ہے.طاقت بھی رزق میں شامل ہے.رزق بمعنیٰ اناج بھی رزق میں شامل ہے.وقت بھی رزق میں شامل ہے.غرض ہروہ چیز جس سے انسا ن کو کسی نہ کسی رنگ میں فائدہ پہنچتاہووہ رزق ہے.پس مِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ فرماکر اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ انسان کو جو کچھ بھی دے.اسے لوگوں کے فائدہ کے لئے خرچ کرناچاہیے.اگر کوئی شخص ہنرتوجانتاہے لیکن سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے ہنرسے فائدہ نہیں اٹھاسکتا توتم اس کی سرمایہ سے مدد کرو.جس کے پاس کھانے کو نہیں ہے اس کو تم کھانے کے لئے دو.جس کے پاس پینے کو نہیں ہےاسےپینے کے لئے دو.جس کے پاس پہننے کو نہیں ہے اسے پہننے کے لئے مہیا کرو.اسی کے مطابق ایک لطیفہ حضرت خلیفہ او ل رضی اللہ عنہ بیان فرمایاکرتے تھے.کہ ایک بزرگ قرآن کریم پڑھتا جارہا تھا.وہ منہ سے بھی پڑھتاتھا.آنکھوں سے بھی الفاظ کو دیکھتاتھا اورانگلی بھی الفاظ کے ساتھ ساتھ قرآن کریم پر پھیرتا جاتا
تھا.کسی نے اسے کہا.کہ تم یہ کیا کررہے ہو ؟ اس نے جواب دیا کہ یہ تینوں چیزیں مجھے خدا تعالیٰ نے دی ہوئی ہیں.اگر میںصر ف زبان سے قرآن کریم پڑھوں گا تو خدا تعالیٰ کہے گا ہاتھوںاورآنکھوں سے کیوں کام نہ لیا.اگر میں زبان او ر ہاتھوںکواستعمال کروں گا.تواللہ تعالیٰ کہے گاآنکھوں کو کیوں نہ استعمال کیا.اوراگرصرف آنکھوں سے قرآن کریم پڑھوں گا اورزبان اور ہاتھ نہ ہلائوں گا تو خدا تعالیٰ کہے گاان سے کیوں نہ کام لیا.اس لئے میں ان تینوں اعضاء کو ایک ہی وقت میں استعمال کرلیتاہوں.غرض اللہ تعالیٰ اہل کتاب میں سے ایمان لانے والوں کی یہ خوبی بیان فرماتا ہے کہ ان کے دلوں میں بنی نوع انسان کی اتنی گہری محبت ہے کہ انہیں جوکچھ بھی ملے اس کاایک حصہ وہ دوسروں کی فلاح و بہبود کے لئے ضرور صرف کرتے ہیں.و ہ صرف روپیہ دے کر یہ نہیں سمجھ لیتے کہ انہوں نے خدمت کا حق اداکردیا ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کی عطاکردہ ہرچیز میں دوسروںکو شریک کرتے ہیں اوراس طرح ان کے معیار زندگی کو بلند کرنے کی کو شش کرتے ہیں.میں نے اپنی تائی صاحبہ مرحومہ کودیکھا ہے کہ باوجو د اس کے کہ ان کی اسّی پچاسی سال کی عمر ہوگئی تھی.پھر بھی وہ ساراسال روئی کاتتیں.پھر اٹّیاں بناتیں پھر جولاہوں کو دے کر اس کا کپڑابنواتیں اورپھر رضائیاں اورتوشکیں بنواکر غریبوں میں تقسیم کرتیں.اوراس میںسے بہت ساکام وہ خود اپنے ہاتھ سے کرتیں.اورجب کہاجاتاکہ دوسروں سے کروالیاکریں تو کہتیں اس طرح مزانہیں آتا.تواللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہرچیز کو خدا کی راہ میں خرچ کرناضروری ہوتاہے.وہ لوگ جوکسی غریب کو چند پیسے دے کر سمجھ لیتے ہیں کہ اس پر عمل ہوگیا وہ غلطی کرتے ہیں.جو شخص پیسے توخرچ کرتاہے مگرزبان سے تبلیغ نہیں کرتا وہ نہیں کہہ سکتاکہ اس نے اس حکم پر پوری طرح عمل کرلیاہے یاجوتبلیغ بھی کرتاہے مگر بیوائوں او ریتیموں کی خدمت نہیں کرتا وہ بھی نہیں کہہ سکتاکہ اس نے اس حکم پر پوری طرح عمل کرلیا ہے.اسی طرح اپنے جذبات کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کرناضروری ہوتاہے.مثلاً کسی پر غصہ چڑھا تو معاف کردیا.اس حکم میں خدمت خلق سے تعلق رکھنے والے مختلف قسم کے کام بھی شامل ہیں جن کی طرف ہماری جماعت کے نوجوانوں کو خصوصیت سے توجہ کرنی چاہیے اورمذہب و ملت کے امتیاز کے بغیر تمام بنی نوع انسان کی احمدی معیار کے مطابق خدمت کرنی چاہیے تاکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل ہو.تیسری خوبی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی کہ وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ وَ قَالُوْا لَنَاۤ اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ١ٞ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ١ٞ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ.جب و ہ خدائے واحد کاانکار کرنے والوں سے کوئی بیہودہ بات سنتے ہیں تواس سے اعراض کرلیتے ہیں اوران سے کہتے ہیں کہ تم ہماری دشمنی کیوں کرتے ہو.ہمارے اعمال کابدلہ ہم کو
ملے گااور تمہارے اعمال کابدلہ تم کو ملے گا.ہم توتمہارے خیر خواہ ہی ہیں لیکن ہم کسی جاہل مطلق غصیلے کی صحبت پسند نہیں کرتے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب میں سے ایمان لانے والے لوگوں کی یہ خوبی بیان فرمائی ہے کہ وہ لغو سے اعراض کرتے ہیں.مگرافسوس کہ آج مسلمان بھی جن کی کتاب قرآن ہے اوریوروپین امریکن نو مسلم بھی جن کااس آیت میں ذکر ہے سینما اور تھیٹروں کی طرف جاتے ہیں.اورلغوسے اعراض کرنے کی بجائے لغوسے محبت کرتے دکھائی دیتے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوعورت کے اختلاط کوممنوع قرار دیا ہے.اورتھیٹر سارے کے سارے مردوعورت کے اختلاط کاہی نتیجہ ہوتے ہیں.اگر وہ اختلاط نہ کریں اوراگر وہ مل کر ناچیں نہیں تو فلم بن ہی نہیں سکتی.فلم اسی طرح بنتی ہے کہ مرد بھی ناچتے ہیں اور عورتیں بھی ناچتی ہیں اورفلم تیارہوجاتی ہے.اوریہ چیز اسلامی نقطہ ء نگاہ سے ناجائز ہے.مگرآج کامسلمان بھی اس لغو پر جان دے رہاہے اورآج کا یوروپین اور امریکن نومسلم بھی اس لغو میں ملوّث ہے.کاش وہ نصیحت حاصل کریں اور اپنے اندریہ خوبیاں پیداکرنے کی کوشش کریں.اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ تُوجس کو پسند کرے ہدایت نہیں دے سکتا.لیکن اللہ(تعالیٰ) جسے چاہے ہدایت دیتاہے.اوروہ ہدایت يَّشَآءُ١ۚ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ۰۰۵۷ پانے والوں کو خوب جانتاہے.تفسیر.فرماتا ہے.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توجس کو چاہے اسے ہدایت نہیں دے سکتا.ہاں اللہ تعالیٰ جسے پسند کرتاہے اسے ہدایت دے دیتاہے.اورخداہی جانتاہے کہ کون لوگ ہدایت کے مستحق ہیں.یعنی تُوتوسب دنیا کاخیر خواہ ہے.اورچاہتاہے کہ سب کو ہدایت میسر آجائے.مگر تیری یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انہی لوگوں کے لئے ہدایت کے سامان پیداکرتاہے جوخود ہدایت کے جویاں ہوتے ہیں.
وَ قَالُوْۤا اِنْ نَّتَّبِعِ الْهُدٰى مَعَكَ نُتَخَطَّفْ مِنْ اَرْضِنَا١ؕ اَوَ اور وہ کہتے ہیں اگر ہم اس ہدایت کی جو تجھ پر نازل ہوتی ہے اتباع کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے.لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰۤى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ (تو کہہ دے) کیا ہم نے ان کو محفوظ اور امن والے مقام میں جگہ نہیں دی.جس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ۰۰۵۸ جاتے ہیں.یہ ہماری طرف سے عطیہ ہے.مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں.حلِ لغات.نُتَخَطَّفْ نُتَخَطَّفْ تَـخَطَّفَہٗکے معنے ہیں اِنْتَزَعَہٗ.اس جگہ کوسے ہلا دیا وَاجْتَذَبَہُ اور اسے کھینچا.وَاسْتَرَقَہٗ وَاسْتَلَبَہٗ وَمَرّبِہِ سَرِیْعًا.اُسے اُچک لیا اور چھین کر جلدی سے چلا گیا.(اقرب)پس نُتَخَطَّفْ کے معنے ہوں گے ہم اُچک لئے جائیں گے.یُـجْبیٰ:یُـجـْبیٰ جَبیٰ یَجْبِیْ( جِبَابَۃً) جَبَا یَجْبُو (جَبْوَۃً وَجَبَاوَۃً)سے مضارع مجہول کا صیغہ واحد مذکر غائب ہے اورجَبَاالْـخَرَاجَ وَجَبَی الْمَالَ وَالْخَرَاجَ کے معنے ہیں جَمَعَہٗ.مال اورخراج اکٹھاکیا.اَلجَابِیَۃُ : الْـحَوْضُ الَّذِیْ یُجْبَی فِیْہِ الْمَآءُ لِلْاِبِلِ.جَابِیَہ اس حوض کوکہتے ہیں جس میں اونٹوں کے لئے پانی جمع کیاجاتا ہے.(اقرب)پس یُجْبیٰ کے معنے ہوں گے جمع کیا جاتا ہے.تفسیر.فرمایا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمن ان سے کہتے ہیں کہ اگر ہم بھی تیرے ساتھ مل کر اسلام کو مان لیں تولو گ ہم کو اُچک کرلے جائیں.یعنی تیری تعلیم توامن والی ہے اگر ہم بھی امن کاراستہ اختیار کرلیں تواردگرد کی قو میں ہمیں فوراً تباہ کردیں گی.اورہمیں غلام بناکر لے جائیں گی.اللہ تعالیٰ ان کو جواب دیتاہے کہ کیا ہم نے ان کو حرم میں جگہ نہیں دی.جو محفوظ اورامن والا مقام ہے.اورجس کی طرف ہرقسم کے پھل کھنچے چلے آتے ہیں.جوہماری طرف سے بطور رزق اورعطیہ کے ہیں.لیکن افسوس ان میں سے اکثر سمجھتے نہیں اور یہ نہیں جانتے کہ جس خدا نے ابراہیم ؑ کے زمانہ سے مکہ کو حرم قرار دیا اور اس کی حفاظت فرمائی ہے.جس نے ابرہہ کے لشکر کوتباہ کردیا اوربیت اللہ کو محفوظ رکھا.اورجوایک بے آب و گیاہ جنگل میں ساری دنیا کے پھل اور غلّے لارہاہے کیااس زمانہ کی آئی ہوئی ہدایت کے ماننے پر وہ ان کی حفاظت نہیں کرے گا.اورانہیں بے یارومددگار چھو ڑدے گا.یعنی یہ
کیسی نابینائی کی علامت ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ ابراہیمؑ کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان نشان کو دیکھ رہے ہیں کہ جہاں گھاس کی ایک پتی تک نہیں پائی جاتی اورجہاں معمولی روٹی بھی انہیں کھانے کے لئے میسر نہیں آسکتی تھی وہاں دنیا بھر کے عمدہ سے عمدہ میوے اوراعلیٰ سے اعلیٰ پھل خدا تعالیٰ نے جمع کردیئے ہیں.پھر بھی وہ اس خیالی خطرہ کی وجہ سے کہ اردگرد کی قومیں انہیں نوچ کر کھاجایئں گی اسلام کو قبول کرنے سے محروم ہورہے ہیں.اورخدا تعالیٰ کا اتنابڑانشان دیکھنے کے باوجود و ہ یہ نہیں سمجھتے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے قربانی کرتاہے اللہ تعالیٰ اسے کبھی ضائع نہیں کرتا.اگروہ اسلام کو قبول کرلیں توجس خدا نے ابراہیمؑ کے زمانہ سے ان کی تائید فرمائی ہے اورانہیں ایک بے آب و گیاہ جنگل میں اپنی نعمتیں پہنچائی ہیں.وہ اب بھی ان کی حفاظت کے سامان پیداکردے گااور ان کے دشمنوںکو ان پر غالب نہیں آ نے دے گا.وَ كَمْ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍۭ بَطِرَتْ مَعِيْشَتَهَا١ۚ فَتِلْكَ اوربہت سی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کیا جو اپنی معیشت (کے افراط) کی وجہ مَسٰكِنُهُمْ لَمْ تُسْكَنْ مِّنْۢ بَعْدِهِمْ اِلَّا قَلِيْلًا١ؕ وَ كُنَّا سے متکبر ہوگئی تھیں.پس (دیکھ) یہ ان کی بستیاں ہیں جن میں ان کے نَحْنُ الْوٰرِثِيْنَ۰۰۵۹ بعد کوئی نہیں رہا.اورہم ہی ان کے وارث بنے.حل لغات.بَطِرَتْ:بَطِرَتْ بَطِرَ (یَبْطَرُ بَطَرًا) کے معنے ہیں اَخَذَتْہُ دَھْشَۃٌ وَ حَیْرَۃٌ عِنْدَ ھُجُوْمِ النِّعْمَۃِ عَنِ الْقِیَامِ بِحَقِّھَا.نعمت کی فراوانی پر اس کے حقوق کی ادائیگی میں لاابالی اوربے پرواہی برتنے لگا.اَوْ طَغٰی بِالنِّعْمَۃِ اَوْ عِنْدَھَا.نیز اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ نعمت کے سبب سے یانعمت کی موجودگی میں آپے سے باہر ہوگیا.اورسرکش بن گیا.نیز بَطِرَ الشَّیْ ئَ کے معنے ہیں کَرِھَہٗ مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّسْتَحِقَّ الْکَرَاھَۃَ.یعنی ایسی چیز کوناپسند کیا جوناپسندیدگی کے لائق نہیں تھی.کہتے ہیں.بَطِرَ الْحَقَّ اورمعنے یہ ہوتے ہیں کہ تَکَبَّرَ عَنْہُ فَلَمْ یَقْبَلْہُ.حق سے تکبر کیا اوراسے قبول نہ کیا.وَعِنْدَ بَعْضِھِمْ لَمْ یَرَہٗ حَقًّافَتَکَبَّرَ عَنْ قُبُوْلِہٖ اوربعض نے اس
کامفہوم یہ لیا ہے کہ اس نے اس چیز کوحق نہ سمجھا جس کی بناپر اس کے قبول کرنے میں تکبرکیا اوربَطِرَ فُلَانٌ النِّعْمَۃَ کے معنے ہیں اِسْتَخَفَّھَا فَکَفَرَھَا.نعمت کو خفیف سمجھا اور اس کی بناء پر اس کی ناقدری کی.اوراَبْطَرَہُ الْمَالُ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ بَطِرًا.مال نے اس کو متکبر بنادیا.(اقرب) پس بَطِرَتْ مَعِیْشَتَھَا کے معنے ہیں.بستیاں اپنی معیشت کے افراط کی وجہ سے متکبرہوگئیں.تفسیر.فرمایا.انہیں اپنی اس عزت کی وجہ سے جوابراہیمی دعائوں کی وجہ سے حاصل ہے مغرور نہیں ہوناچاہیے.دنیا میں بہت سی بستیا ں ایسی ہیں جواپنی معیشت کے سامانوں کے افراط کی وجہ سے تکبر میں مبتلاہوگئی تھیں.مگر پھر دیکھ لو تمہارے سامنے ان کے گھر موجود ہیں جو اُجڑ گئے.اوران کے بعد ان میں کوئی نہ رہا.اورہم ہی ان ملکوں کے وارث ہوگئے یعنی ان کی اولادیں تک باقی نہ رہیں اور ان کے آباد مکانات ویران اورسنسان جنگلات کی طرح بن گئے.پھر مکہ والے کیوں نصیحت حاصل نہیں کرتے.اورمحض خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق پر کیوں اترارہے ہیں.اورکیوں سچائی کو قبول نہیںکرتے جواصل چیز ہے.وَ مَا كَانَ رَبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى حَتّٰى يَبْعَثَ فِيْۤ اُمِّهَا اورتیر ارب جب تک (کسی بستیوںکے مجموعہ کی ) مرکزی بستی میں ایسارسول نہ بھیج دے جو ان کے سامنے ہماری آیتیں رَسُوْلًا يَّتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِنَا١ۚ وَ مَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرٰۤى اِلَّا وَ پڑھ کر نہ سنائے ان بستیوں کے مجموعہ(یعنی ملک)کوہلاک کرنے کاارتکاب نہیں کرسکتاتھا(کیونکہ یہ انصاف کے اَهْلُهَا ظٰلِمُوْنَ۰۰۶۰ خلاف ہے )اورہم کسی بستیوں کے مجموعہ (یعنی ملک)کوکبھی ہلاک نہیں کرتے سوائے اس کے کہ ان کے رہنے والے ظالم ہوجائیں.تفسیر.ا س آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ جب تک کسی ملک کے مرکز ی مقام پر یعنی اس مقام پر جوخدا تعالیٰ کی نگاہ میں دین کامرکز ہونے کے لائق ہو اللہ تعالیٰ کسی رسول کو نہ بھیج لے جو اس ملک کے لوگوں کوخدا تعالیٰ کے احکام سے آگاہ کرے اس وقت تک خدا تعالیٰ اس ملک پر عذاب نازل نہیں کیا کرتا.
اورنہ خدا تعالیٰ کبھی کسی ملک کواس وقت تک ہلاک کرتاہے جبکہ اس ملک کے رہنے والے انصاف پسند ہوں.عذا ب صرف قوم کے ظالم ہوجانے کی وجہ سے یانبی کے ردّ کرنے کی وجہ سے آتاہے.اسی مضمون کواللہ تعالیٰ نے سورۃ طٰہٰ میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَلَوْ اَنَّااَھْلَکْنٰھُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہٖ لَقَالُوْارَبَّنَا لَوْ لَٓااَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَنَخْذٰی(طٰہٰ:۱۳۵) یعنی اگر رسول کی بعثت سے پہلے ہم ان پر عذاب نازل کر دیتے تو یہ ہم پر اعتراض کرتے کہ جب ہم گمراہ تھے اور ہدایت کے محتا ج تھے تو تُو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیرے احکام کو قبول کرلیتے.اور خدا تعالیٰ ان کے اعتراض کو صحیح تسلیم کر تا ہے اور اس کا رد نہیں کرتا.بلکہ اس مضمون کو قرآن کریم کے متعدد مقامات پر بیان کرکے اس کی اہمیت کو ثابت فرماتا ہے.چنانچہ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اَلَمْ يَاْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ وَ يُنْذِرُوْنَكُمْ۠ لِقَآءَ يَوْمِكُمْ هٰذَا١ؕ قَالُوْا شَهِدْنَا عَلٰۤى اَنْفُسِنَا وَ غَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَ شَهِدُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَنَّهُمْ كَانُوْا كٰفِرِيْنَ.ذٰلِكَ اَنْ لَّمْ يَكُنْ رَّبُّكَ مُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا غٰفِلُوْنَ(الانعام :۱۳۱،۱۳۲) یعنی اے جنّوں اورا نسانوں کی جماعتو!کیا تم میں سے ہی تمہارے پاس ہمارے رسول نہیں آئے تھے.جو تمہیں ہمارے احکام پڑھ پڑھ کر سُناتے اور تم پر جو یہ دن آنے والا تھا اس سے تمہیں ڈراتے تھے وہ کہیں گے.ہم اپنے خلاف آپ گواہی دیتے ہیں.اور درحقیقت انہیں ورلی زندگی نے دھوکا دے دیا.اور انہوں نے اپنے خلاف آپ گواہی دے دی کہ وہ کافر تھے.یہ (رسولوں کا بھیجنا اور کفارپر حجت قائم کرنا )اس لئے تھا کہ تیرا خدا شہروں کو اس حالت میں کہ لوگ غافل تھے ظالمانہ طور پر ہلاک نہیں کرسکتا تھا.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بلا ہوشیا رکردینے کے کسی قوم کی ہلاکت کا فتویٰ لگا دینا ظلم ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی قوم ہدایت کی محتاج ہو.اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہادی نہ بھیجے لیکن قیامت کے دن اسے سزا دے کہ تم نے کیوں احکامِ الٰہی پر عمل نہیں کیا تھا تو یہ ظلم ہوگا اور اللہ تعالیٰ ظالم نہیں.غرض اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ وہ اس وقت تک کوئی عالمگیر عذاب دنیا پر نازل نہیں کرتا جب تک کہ اس سے پہلے لوگوں کو ہوشیا ر کرنے کے لئے وہ اپنا کوئی رسول مبعوث نہ کردے.اور چونکہ اس زمانہ میں بھی دنیا پر ایسی تباہیاں اور عذاب آ رہے ہیں کہ جن کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی.اس لئے یہ عذاب اور تباہیاں بھی بانی سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا ثبوت ہیں.جنہیں خدا تعالیٰ نے رسول بنا کر مبعوث فرمایا اور جنہوں نے دنیا کو قبل از وقت ہوشیار کرتے ہوئے فرما دیا تھا کہ
’’ دنیا میںایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کوقبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آورحملوں سے اس کی سچائی ظاہر کردے گا.‘‘ (براہین احمدیہ جلد چہارم روحانی خزائن جلد اول صفحہ ۵۵۷) چنانچہ اس الہام کے بعد خدا تعالیٰ کے حملے مختلف زلازل اور لڑائیوں اور بیماریوں اور سیلابوں کی شکل میں اس زور سے ہوئے کہ ان کے نتیجہ میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوگئے.اور انہوں نے دنیا میں ہی قیامت کا نظارہ دیکھ لیا.مگر افسوس کہ اتنی شدید تباہیوں کے بعد بھی بعض لوگوں کے دل ایسے سخت ہوجاتے ہیں کہ وہ بڑی دلیری سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان زلازل اور طوفانوں اور بیماریوں اور لڑائیوں کا کیا ہے.یہ مصائب تو ہمیشہ دنیا میں آتے رہے ہیں اور چونکہ پہلے زمانوں میں بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنے نبیوں کے مقابلہ میں اس قسم کے خیالات کا اظہار کیا.اور ان کے نشانات کی تحقیر کی اس لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس اعتراض کا بھی ذکر کردیا ہے.اور فرمایا ہے کہ :.وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا فِيْ قَرْيَةٍ مِّنْ نَّبِيٍّ اِلَّاۤ اَخَذْنَاۤ اَهْلَهَا بِالْبَاْسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُوْنَ.ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ حَتّٰى عَفَوْا وَّ قَالُوْا قَدْ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ(الاعراف :۹۵،۹۶).یعنی ہم نے کبھی کوئی رسول کسی بستی کی طرف نہیں بھیجا کہ اس کے بھیجنے کے ساتھ ہی وہاں کے لوگوں کو ہم نے مالی اور بدنی مصائب میں گرفتار نہ کیا ہو.اور اس سے ہماری غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے حضور عاجزی کریں.پھر اس کے بعد ہم ان کی تکلیف کو سہولت سے بدل دیا کرتے ہیں.یہاں تک کہ جب وہ خوب ترقی کر جاتے ہیں تو یہ کہنا شروع کردیتے ہیں کہ دُکھ اور سُکھ دونوں ہمارے باپ دادا کو بھی پہنچا کرتے تھے.پھر ان دکھوں میں نبیوں کی صداقت کا کیا ثبوت ہے ؟ پس ہم ان کو اچانک پکڑ لیتے ہیں اور وہ نہیں سمجھتے کہ ایسا کیوں ہو ا.(اعراف ع۲ آیت ۹۵,۹۶) پس یہ ایک خطرناک خیال ہے جو حق سے دور ہونے والے لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے.حق یہی ہے کہ عالمگیر عذاب اسی وقت اور اسی زمانہ میں آتے ہیں جب پہلے کوئی رسول مبعوث ہوچکا ہو.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا (اسراء:۱۶)یعنی ہم کبھی عذاب نہیں بھیجاکرتے جب تک کہ اس سے پہلے رسول نہ بھیج لیا کریں.پس یہ عذاب اس قابل نہیں کہ ان کو معمولی سمجھاجائے بلکہ یہ اس بات کی علامت ہیں کہ اس وقت خدا تعالیٰ کاکوئی رسول مبعوث ہوچکاہے.
وَ مَاۤ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ زِيْنَتُهَا١ۚ وَ اورجوکچھ تمہیں دیاجاتاہے وہ توصرف ورلی زندگی کاسامان ہے اوراس کی زینت ہے.اورجواللہ کے پاس ہے مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّ اَبْقٰى ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَؒ۰۰۶۱ و ہ بہتر اور باقی رہنے والا ہے.کیا تم عقل نہیں کرتے.تفسیر.فرماتا ہے لوگ بعض دفعہ اپنی نادانی سے دنیوی سامانوں کو ہی اپنی ترقی اورکامیابی کامعیار سمجھ لیتے ہیں اوروہ اسی پر اتراتے پھرتے ہیں کہ ان کے پاس بڑامال ہے یاانہیں بڑی عز ت یارسوخ حاصل ہے.حالانکہ وہ سامان بہت تھوڑے عرصہ کے لئے ان کے آرام کاموجب ہوتاہے.لیکن خدا تعالیٰ کے فیصلہ کے مطابق جوقوم کوترقی ملتی ہے وہ تھوڑی سی تجارت یا تھوڑ ے سے سونے چاندی کانام نہیں ہوتابلکہ وہ اس سے بہت بہتر چیز ہے اورباقی رہنے والی ہے یعنی اقتدار اورغلبہ.اَفَلَاتَعْقِلُوْنَ کیاتم عقل نہیں رکھتے کہ اس بات کو سمجھ سکو اورانفرادی ترقی کی بجائے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر قومی ترقی کے حصول کی کوشش کرو.اَفَمَنْ وَّعَدْنٰهُ وَعْدًا حَسَنًا فَهُوَ لَاقِيْهِ كَمَنْ مَّتَّعْنٰهُ کیا وہ شخص جس سے ہم نے اچھا (یعنی اخروی زندگی کی کامیابی کا)وعدہ کیاہو اوروہ اسے (یقیناً)پالینے والاہو اس مَتَاعَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنَ شخص کی طرح ہو سکتا ہے جس کو ہم نے صرف دنیوی زندگی کاکچھ سامان دیاہو.پھر وہ قیامت کے دن (خداکے الْمُحْضَرِيْنَ۰۰۶۲ روبرو جواب دہی کے لئے) پیش کیاجانے والاہو.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ جس شخص کواللہ تعالیٰ دنیوی دولت دیتاہے.و ہ باوجود دنیا کی دولت پر قابض ہونے کے اس شخص کے برابر نہیں ہوسکتا جس سے اللہ تعالیٰ آئند ہ روحانی برکات کاوعدہ کرتاہے.کیو نکہ اگر
وہ مومن ہے تووہ خدا تعالیٰ کے وعدے کو حاضر سے کم نہیں سمجھے گا.اور چونکہ اس کاحاضر مادی ہے اور اس کاموعود روحانی ہے ا س لئے اس کے ایمان کی علامت یہی ہوسکتی ہے کہ یہ اس موعود کو بڑاسمجھے او راس کے حاضر کو حقیر سمجھے.وَعَدْنٰہُ کے ساتھ وَعْدًاحَسَنًا کے الفاظ اس لئے بڑھائے گئے ہیں کہ عربی زبان میں وعدہ کالفظ بعض دفعہ عذاب کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے جیسے سورئہ اعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَنَادٰٓی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبَ النَّارِ اَنْ قَدْ وَجَدْنَا مَاوَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا فَھَلْ وَجَدْتُمْ مَاوَعَدَ رَبُّکُمْ حَقًّا.قَالُوانَعَمْ.فَاَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَیْنَھُمْ اَنْ لَّعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ.(الاعراف : ۴۵) یعنی جنتی لوگ دوزخیوں سے کہیں گے کہ ہم سے ہمارے رب نے جووعدہ کیاتھا اس کو توہم نے سچاپالیا.کیا تم نے بھی اس وعدہ کو جو تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیاتھا سچاپالیاہے؟ اس پردوزخی کہیں گے ہاں ہاں!پس ایک پکارنے والا ان کے درمیان زورسے پکارے گاکہ ان ظالموں پر خدا کی لعنت ہو.پس چونکہ صرف و عدہ کالفظ بعض دفعہ وعید کے لئے بھی استعمال ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے وَعَدْنٰہُ کے ساتھ وَعْدًاحَسَنًا کے الفاظ بھی بڑھادیئے یہ بتانے کے لئے کہ اس جگہ وہ وعدہ مراد ہے جومومنوں کی اخروی ترقی اوران کے روحانی انعامات کے ساتھ تعلق رکھتاہے.ثُمَّ هُوَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ میں بتایاکہ اچھی بات تووہی ہے جس کاانجام اچھاہو.لیکن جس کو دنیا میں مال و متاع مل گیا اورقیامت کے دن وہ جواب طلبی کے لئے بلایاگیاتووہ اس شخص کے برابر کس طرح ہو سکتا ہے جس سے نیک سلوک کاوعدہ کیاگیاہے.قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بسا اوقات بڑے وسیع مطالب صرف صیغوں کے ذریعہ ہی اداکردیتاہے اس جگہ بھی مُحْضَریْنَ میں مجہول کاصیغہ استعمال کرکے اس طرف اشار ہ کیاگیاہے کہ وہ خود توحاضر ہونانہیں چاہیں گے لیکن جس طرح مجرموں کو ہتھکڑی لگاکر عدالت میں لایاجاتاہے.اس طرح انہیں بھی کشاں کشاں لایاجائے گا.اورانہیں اللہ تعالیٰ کافیصلہ سنایاجائے گا.
وَ يَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَآءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ اور(یاد کرو) جس د ن وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) ان کو بلائے گا پھر پوچھے گا کہ میرے مزعومہ شرکاء کہاں ہیں جن کو تم میرے تَزْعُمُوْنَ۰۰۶۳قَالَ الَّذِيْنَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ رَبَّنَا هٰؤُلَآءِ مقابل پر معبود قرار دیتے تھے.(تب )جن پر ہمارے عذاب کی خبر پوری ہوچکی ہوگی کہیں گے.اے ہمارے الَّذِيْنَ اَغْوَيْنَا١ۚ اَغْوَيْنٰهُمْ كَمَا غَوَيْنَا١ۚ تَبَرَّاْنَاۤ اِلَيْكَ١ٞ رب! یہ وہ لوگ ہیں جنکو ہم نے بہکایاتھا.ہم نے ان کو اسی طرح بہکایاتھا جس طرح ہم خود بہک گئے تھے.آج ہم مَا كَانُوْۤا اِيَّانَا يَعْبُدُوْنَ۰۰۶۴وَ قِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ تیرے پاس اپنی گمراہی سے برأت ظاہر کرتے ہیںوہ لوگ ہمارے عبادت گذار نہیں تھے (بلکہ اپنے خیالوں کے فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَ رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ لَوْ پیچھے چلتے تھے)اور(جب یہ سب کچھ ہوجائے گا توپھر ان سے ) کہا جائے گا کہ (اب تو تمہیں مہلت مل چکی ہے شاید اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ۰۰۶۵ اب تم کو اپنے مزعومہ معبودوں کو بلانے کی طاقت ہوگئی ہو اگر ٹھیک ہے تواب)اپنے جھوٹے معبودوں کو بلاکر دیکھ لو.اس پر وہ (لوگ )پھر ان (یعنی جھوٹے معبودوں)کو بلائیں گے.لیکن وہ ان کے بلانے کے نتیجہ میں آئیں گے نہیں.اور(سارے کے سارے مل کر)خدائی عذاب کواپنی آنکھوں کے سامنے کھڑادیکھ لیں گے.کاش کہ وہ (اس کو دیکھ کر ہی)ہدایت پاجاتے (مگرافسوس کہ ایسا بھی نہ ہوا).تفسیر.ا س آیت میں ان شرک کرنے والے لوگوںکا ذکرکیاگیاہے جودنیا میں بڑے سمجھے جاتے تھے.اورفرماتا ہے کہ اس دن کو بھی یاد کرو جس دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کوبلائے گااورکہے گا اَیْنَ شُرَکَآءِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ.وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کے متعلق تم بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے.یعنی وہ شریک تھے تونہیں لیکن تم ان کو شریک قرار دیتے تھے.
قَالَ الَّذِیْنَ حَقَّ عَلَیْھِمُ الْقَوْلُ اس پر وہ مزعومہ شریک جن کے خلاف ہمارے عذاب کی خبر پوری ہوچکی ہوگی کہیں گے کہ اے ہمارے رب !یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیاتھا.لیکن شرارتاًگمراہ نہیں کیاتھا بلکہ ہم خو د بھی گمراہ ہوچکے تھے.آج ہم تیرے حضور اپنی برأت کااظہار کرتے ہیں.یہ لوگ ہماری عبادت نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی ہواوہوس کو انہوں نے اپنا معبود بنایاہواتھا.اس مضمو ن سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ایسے معبودوںکا ذکر ہے جودنیا میں شرارتیں کر کے لوگوں کو بہکادیتے تھے.نہ کہ کسی غیر مرئی وجود کا.اورشریک سے مراد واقعہ میں خداقرار دینا نہیں کیونکہ جن کو لوگ واقعہ میں خداقرار دیتے ہیں وہ نہ تو خو د گمراہ ہیں اورنہ کسی کو گمراہ کرتے ہیں بلکہ ان کو تویہ بھی پتہ نہیں کہ لوگ ان کے متعلق کیا کہہ رہے ہیں.جیساکہ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اوران کی والدہ کے متعلق آتاہے کہ جب قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گاکہ اَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ کیا تُونے لوگوں سے یہ کہاتھا کہ مجھے اور میری ماںکو اللہ تعالیٰ کے سوامعبود بنالو.تو حضرت مسیح علیہ السلام جہاں اور جواب دیں گے وہاں ایک یہ جواب بھی دیں گے کہ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ١ۚ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ١ؕ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ(المائدۃ: ۱۱۸)یعنی جب تک میں ان میں موجود رہا میں ان کانگران رہا.مگر جب تو نے میری روح قبض کرلی.اورمجھے اپنی طرف بلالیاتوتُوہی ان کانگران تھا.میں نہ تھا.اورتُو ہی ہرچیز کاحقیقی نگران ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام او ران کی والدہ جنہیں عیسائی خداقرار دیتے ہیں ان کوتوپتہ بھی نہیں کہ لوگ ان کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں.مگرآیت بتارہی ہے کہ وہ شرکاء کہیں گے کہ خدایاہم نے ان لوگوں کو خود گمراہ کیاتھااوراس وجہ سے کیاتھا کہ ہم خود بھی گمراہ ہوچکے تھے.پس یہاں ائمۃ الکفر مراد ہیں جو لو گوں کو اپنی وجاہت اوراپنے اثر اوررسوخ کی وجہ سے اپنے پیچھے چلاتے تھے.وہ یہ عذر پیش کریں گے کہ خدایا ہم نے ان کو وہی باتیں سکھادیں جن کو ہم سچاسمجھتے تھے اوریہ لو گ ان کوا س لئے مانتے تھے کہ خود ان کا اپنادل چاہتاتھا ورنہ ہماراان پر کیازورتھا.اس کے بعد پھر دوسری قسم کے معبودوں کے متعلق سوال شروع ہوگا جن کی لوگ واقعہ میں عبادت کیاکرتے تھے اورپرستش کرنے والوں سے کہا جائے گاکہ ان شریکوں کو اب بلائو اورانہیں کہو کہ وہ تمہیںاس مصیبت سے بچائیں وہ انہیں پکاریں گے مگران کے معبود ان کوکوئی جواب نہیں دیں گے اورخدائی عذاب کی علامتیں ان کی آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوجائیں گی.
لَوْاَنَّھُمْ کَانُوْایَھْتَدُوْنَ کاش یہ لوگ ہدایت کاراستہ اختیار کرتے اور شرک کا ارتکاب کر کے عذاب الٰہی کامورد نہ بنتے.وَ يَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ مَا ذَاۤ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِيْنَ۰۰۶۶ اوراس دن(کو بھی یاد کرو جب )خداان کو پکارے گا اورکہے گا تم نے رسولوں (کے وعظ) فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ يَوْمَىِٕذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ۠۰۰۶۷ کاکیا جواب دیاتھا ؟پس اس دن ساری دلیلیں انہیں بھول جائیں گی.اوروہ ایک دوسرے سے کوئی سوال نہ فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ کرسکیں گے.پس جوکوئی توبہ کرے گا اورایمان لائے گا اورمناسب حال عمل کرے گاقریب ہوگا مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ۰۰۶۸ کہ وہ بامراد لوگوں میں شامل ہوجائے.حل لغات.عَمِیَتْ:عَمِیَتْ عَمِیَ سے مؤنث کاصیغہ ہے اور عَمِیَ کے معنے ہیں ذَھَبَ بَصَرُہٗ کُلُّہٗ مِنْ عَیْنَیْہِ کِلْتَیْھِمَا اس کی دونوں آنکھوںکی بینائی جاتی رہی.اورعَمِیَ فُلَانٌ کے معنے ہیں ذَھَبَ بَصَرُ قَلْبِہٖ وَجَھِلَ.اس کے دل کی بصیرت جاتی رہی.اوروہ جاہل رہ گیا.عَمِیَ عَلَیْہِ الْاَمَرُ کے معنے ہیں اِلْتَبَسَ وَ اشْتَبَہَ وَمِنْہُ فَعَمِیَتْ عَلَیْھِمُ الْاَنْبَآءُ یَوْمَئِذٍ.یعنی ساری چیز یں ان پر مشتبہ ہوجائیں گی اوربھو ل جائیں گی اور عَمِیَتِ الْاَخْبَارُ عَنْ فُلَانٍ کہیں تومعنے ہوں گے خَفِیَتْ.فلاں شخص سے خبریں مخفی ر ہ گئیں.(اقرب) تفسیر.فرمایا.تم اس دوسرے وقت کوبھی یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ کفارکواپنے سامنے حاضر کرے گا اور ان سے پوچھے گا کہ جو رسول میں نے تمہاری ہدایت کے لئے بھیجے تھے تم نے ان کو کیا جواب دیاتھا ؟ اس پر بجائے اس کے کہ وہ کوئی بات کریں جہنم کو اپنے سامنے دیکھ کر وہ ایسے پریشان ہوں گے کہ تمام خیالات ان کے دماغ سے نکل جائیں گے اور انہیں کچھ یاد نہیں رہے گا کہ ہم کیا کچھ کرتے تھے بلکہ و ہ ایسے گھبراجائیں گے کہ ایک دوسرے سے بھی کچھ پوچھ نہیں سکیںگے.
فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰۤى اَنْ يَّكُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِيْنَ.ہاں جو لوگ توبہ کی توفیق پا گئے اور ایمان لے آئے اوراس کے مطابق انہوں نے عمل بھی کئے وہ یقیناً اس دن کامیاب ہوں گے.عَسٰی کالفظ گوامید کے معنے دیتاہے مگر جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ لفظ استعمال کیاجائے توپھر اس کے معنے یقین اورقطیعت کے ہوتے ہیں (تفسیر قرطبی جلد ۱۳ص ۳۰۴) پس عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ایسے لوگ یقیناً کامیاب ہوں گے.وَ رَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ وَ يَخْتَارُ١ؕ مَا كَانَ لَهُمُ اورتیرارب جو چاہتاہے پیداکرتاہے.اورجس کو چاہتاہے چن لیتا ہے.ان کو اس بار ہ میں کوئی اختیار الْخِيَرَةُ١ؕ سُبْحٰنَ اللّٰهِ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۶۹وَ رَبُّكَ حاصل نہیں.اللہ( تعالیٰ )پاک ہے اوران کی مشرکانہ باتوں سے بلند ہے.اورتیرارب اس کو بھی جانتاہے جس يَعْلَمُ مَا تُكِنُّ صُدُوْرُهُمْ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ۰۰۷۰ کو وہ سینہ میں چھپاتے ہیں اوراسے بھی جسے و ہ ظاہر کرتے ہیں.حل لغات.اَلْـخِیَرَۃُ:اَلْـخِیَرَۃُ خَارَ کامصدر ہے اور خَارَ الرَّجُلَ عَلیٰ غَیْرِہٖ کے معنے ہیں فَضَّلَہٗ اس کو غیر پر فضیلت دی.اور جب خَارَ الشَّیْءَ کہیں تو معنے ہوں گے اِنْتَقَاہُ.اس کو چن لیا.اورخَیَّرَ فُلَانًا فِیْ الْاَمْرِ وَبَیْنَ الْاَمْرَیْنِ کے معنے ہیں فَوَّضَ اِلَیْہِ الْخِیَارَ.دوکاموں میں اس کواختیار دیا.پس اَلْـخِیَرَۃُ کے معنے ہوں گے.فضیلت.اختیار یاچننا.تُکِنُّ: تُکِنُّ اَکَنَّ سے مضارع واحد مؤنث کاصیغہ ہے اوراَکَنَّ الشَّیْءَ کے معنے ہیں سَتَرَہٗ فِیْ کِنِّہٖ وَغَطَّاہُ وَاَخَفَاہُ.ایک چیز کو تھیلی میں چھپایا.اَلْکِنُّ :وِقَآءُ کُلِّ شَیْءٍ وَسِتْرُہٗ اور کِنّ اس تھیلی وغیرہ کوکہتے ہیں جس میں چیزوں کو محفوظ کیاجائے او ر انہیں چھپاکررکھاجائے (اقرب)پس تُکِنُّ صُدُوْرُھُمْ کے معنے ہوں گے.و ہ باتیں جن کو وہ اپنے سینوں میں چھپاتے ہیں.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ تیرار ب جو چاہتاہے پیداکرتاہے.یعنی دنیا میں جس تغیر کو چاہتاہے جاری
کردیتاہے اور جس کو چاہتاہے اسے دنیا کی ہدایت کے لئے کھڑاکردیتاہے.لیکن ان کفار کے مزعومہ شرکاء کو اس تغیر و تبدل پر کچھ اختیار حاصل نہیں.یہ اس بات کاثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقائص اورکمزوریوں سے منزّہ ہے اوروہ ان لوگوں کے مشرکانہ اعتقادات اورخیالات سے بہت بالاہے.رَبُّکَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کابھی ردّکردیا ہے جوروح اور مادہ کوازلی سمجھتے ہیں.اورخدا تعالیٰ کو خالق الاشیاء نہیں بلکہ محض روح اورماد ہ کوجوڑ کر نئی نئی شکلیں قائم کرنے والا قرا دیتے ہیں.اسی طرح رَبُّکَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان نیچریوں کابھی ردّکردیاہے جن کاخیال ہے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں پیداکرکے پھر چھوڑ دیاہے اور اب اس کاان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا.گویاان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی حیثیت نعوذ باللہ ایک معمار کی سی ہے کہ جس طرح معمارمکان بناکر اس سے الگ ہو جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس جہان کو توپیدا کیا ہے مگر پھراس سے الگ ہوگیا ہے.اللہ تعالیٰ نے وَرَبُّکَ یَخْلُقُ مَایَشَآءُ وَیَخْتَارُ کہہ کر ان دونوں قوموں کاردّ کردیا ہے اورفرمایا ہے کہ وہ خالق بھی ہے اور پھر وہ انسان کو پیداکرکے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ اس کی ترقیات میں اس کی پوری پوری نگہداشت رکھتااورہرقدم پر اس کی خبرگیری کرتاہے.چنانچہ جب دنیا ہدایت کی پیاسی ہوتی ہے توربوبیت کی صفت کے ماتحت ہی وہ ان کی طرف اپنارسول مبعوث کرتاہے جو دنیا میں پھر ایک نیاتغیر پیداکردیتاہے.لیکن یہ مشرک بھی تو بتائیں کہ ان کے مزعومہ شرکاء دنیا میں کیاکررہے ہیں اورکون سے تغیرات ہیں جو ان کی ذات سے وابستہ ہیں.اوراگروہ کوئی ایک تغیربھی ایساپیش نہیں کرسکتے جوان کے مزعومہ شرکاء کی وجہ سے ظہور میں آیاہو توان کادوسروں کو شریک باری ٹھہرانا کس طرح درست ہو سکتا ہے ؟ پھر فرمایا وَرَبُّکَ یَعْلَمُ مَاتُکِنُّ صُدُوْرُھُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ.تیرارب ان کے سینوں کی چھپی ہوئی باتوں کوبھی جانتاہے اور ان تدبیروں کو بھی جانتاہے جنہیں وہ ظاہر کررہے ہیں.مگروہ یاد رکھیں کہ نہ ان کے منصوبے ان کے کسی کام آسکتے ہیں اورنہ ان کی تدبیریں انہیں کامیابی کامونہہ دکھاسکتی ہیں.زمین وآسمان کا خدااب فیصلہ کرچکا ہے کہ وہ اپنی توحید کو دنیا میں پھیلائے او رشرک کومٹادے.پس اب شرک کی تائید میں ظاہری اور مخفی تدابیر انہیں کامیاب نہیں کرسکتیں.
وَ هُوَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ١ٞ اورحقیقت یہ ہے کہ اللہ (تعالیٰ )کی ذات ایسی ہے کہ اس کے سواکوئی معبود نہیں.ابتدائے آفرینش میں بھی وہی وَ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۷۱ تعریف کامستحق تھااورآخرت میں بھی وہی تعریف کا مستحق ہوگا.سب بادشاہت اسی کے قبضہ میں ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کرجاناہوگا.تفسیر.شرک کی تردید کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ توحید حقیقی کا مقام دنیا کے سامنے واضح کرتاہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ایسی ہے کہ اس کے سوااورکوئی معبود نہیں.ابتداء میں بھی وہی تعریف کامستحق تھا اورآخرت میں بھی وہی تعریف کامستحق ہوگا.تمام بادشاہت اسی کے قبضہ قدرت میں ہے اورپھر تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کرجاناپڑے گا.یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کاثبوت یہ ہے کہ ابتداء اورانجام سب اسی کی طرف سے ظاہر ہوتاہے.اورجہاں جہاں اس کاہاتھ کام کرتادکھائی دیتاہے وہاں تعریف کے پہلو ہی نکلتے ہیں اورپھر سب چیزیں آخر میں فناہوجاتی ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہتی ہے جواس کی احدیت کاثبوت ہے.لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ میں درحقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات رحمانیت اور رحیمیت کا ذکر کیاگیا ہے.کیونکہ رحمانیت آغاز کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.اوررحیمیت انجام کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.بنی نوع انسان کے تمام تعلقات خواہ وہ خداتعالی سے ہوں یا بنی نوع انسان سے ان میں پہلاواسطہ رحمانیت سے ہی ہوتاہے اوراس پر جتنا بھی غور کیاجائے اللہ تعالیٰ ہی کی حمد ثابت ہوتی ہے.ماں بچے کو پیٹ میں رکھ کر اورپھر دودھ پلاکر بچے کی محسن سمجھی جاتی ہے.لیکن اگر اس امر پرغورکیاجائے کہ پیٹ میں پرورش کے سامان کس نے پیداکئے اور چھاتیوں میںدودھ کس نے بنایا تواللہ تعالیٰ ہی حمد کامستحق ثابت ہوتاہے.اسی طرح باپ بچہ کی کفالت کرتااوراس پرخرچ کرنے کی وجہ سے اس کا محسن سمجھاجاتاہے.لیکن جن قوتوں سے وہ کماتاہے اورجن سامانوں سے وہ کام لیتا ہے انہیں وہ خود نہیں بناتابلکہ اللہ تعالیٰ کاہی عطیہ ہوتے ہیں.پس اصل تعریف اللہ تعالیٰ کی ہی ہوتی ہے اوراسی کی طرف لوٹ کر جاتی ہے.دنیا حسن کی تعریف کرتی ہے مگرکیاکوئی شخص اپنی شکل خود بناتاہے.دنیا علم کی تعریف کرتی ہے مگرکیایہ حقیقت نہیں کہ علم جن چیزوں سے پیدا ہوتاہے وہ بھی خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں اورجس حافظہ سے یاد رکھاجاتاہے وہ بھی خدا تعالیٰ نے
بنایاہوتاہے.دنیا ذہین اورعقلمندلوگوں کی تعریف کرتی ہے مگرذہن اور عقل دونوں کسب سے حاصل نہیں ہوتے بلکہ یہ دونوں چیزیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں.پس حمد کااصل مستحق وہی ہے جس نے وہ سامان پیداکئے.کم عقل انسان خیال کرتاہے کہ دنیا میں مخلوق کی تعریف ہورہی ہے لیکن حقیقت شناس انسان جانتاہے کہ یہ سب عقل کادھوکا ہے اصل تعریف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوتی ہے.اور وہی اس کامستحق ہے.پھر فرماتا ہے کہ آخرت میں بھی وہی تعریف کامستحق ہے.یعنی وہ صرف رحمٰن ہی نہیں بلکہ رحیم بھی ہے اور رحیم کے معنے بار بار رحم کرنے والے کے ہیں.اوربار بار رحم کا سلسلہ تبھی جاری رہ سکتاہے جبکہ انسان کو ابدی زندگی عطاہو.اورہرانسان خواہ وہ کتنا ہی گناہگارکیوں نہ ہو آخر خدا تعالیٰ کی رحمت کی آغوش میں آجائے اور اس کے گناہ معاف کردیئے جائیں.مسیحیت دنیا کے سامنے یہ عقید ہ پیش کرتی ہے کہ دوزخ ابدی ہے مگراللہ تعالیٰ کی صفتِ رحیمیت اس عقید ہ کو ردّکرتی ہے.کیونکہ بدیاں اگر اپنی جگہ پر کھڑی رہیں اور بار بار خدا تعالیٰ کارحم نازل ہوتارہے اورنیکیاں ترقی کرتی چلی جائیں تویقیناً اس کا یہ نتیجہ نکلے گاکہ ایک د ن ہرجہنمی کی نیکیاں اس کی بدیوں سے زیادہ ہوجائیں گی اورجب نیکیاں بڑھ جائیں گی توایسے شخص کو جہنم میں نہیں رکھاجاسکتا.وہ یقیناً جنت میں داخل کیاجائے گا.اوراس طرح آخر میں بھی اللہ تعالیٰ ہی تعریف کامستحق ثابت ہوگا.جس نے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت دوزخیوں کی نیکیوں کوبھی بڑھایااوران پر اس طرح متواتر اوربار بار رحم نازل کیا کہ آخر وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے مستحق ہوگئے اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ا س حدیث میں اشارہ کیاگیاہے.کہ یَأْتِیْ عَلیٰ جَھَنَّمَ زَمَانٌ لَیْسَ فِیْھَااَحَدٌ وَنَسِیْمُ الصَّبَائِ تُحَرِّکُ اَبْوَابَھَا.یعنی جہنم پرایک زمانہ ایساآئے گاکہ اس میں کوئی شخص بھی نہیںہوگا اورنسیم صبااس کے دروازوں کو کھٹکھٹائے گی.اسی وجہ سے جنتیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وَاٰخِرُ دَعْوٰھُمْ اَنِ الْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (یونس : ۱۱) یعنی وہ آخر میں یہی کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ ہی سب تعریفوں کامستحق ہے جس نے ہماری نیکیوں کو اتنا بڑھایا کہ ایک ایک نیکی کا دس دس گنا بدلہ دیا.اورجس نے دوزخیوں کی نیکیوں کو بھی اتنا بڑھایاکہ آخر وہ بھی جنت میں آگئے اور خدا تعالیٰ کی رضاانہیں حاصل ہوگئی.غرض لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ میں یہ بتایاگیا ہے کہ جس طرح ہرکام کے ابتداء میں اللہ تعالیٰ ہی حمد کامستحق ثابت ہوتاہے کیونکہ وہی انسان کے لئے سامان مہیاکرتاہے اوراگراس کی طرف سے سامان مہیا نہ ہوں توکوئی انسان کام نہیں کرسکتا.اسی طرح آخر میں بھی وہی حمد کامستحق ثابت ہوتاہے کیونکہ نتائج کاظہوربھی اسی کی
طرف سے ہوتاہے اورپھر اس کی رحیمیت تھوڑی سی نیکیوںکو بطور بیج کے قبول کرکے بڑھاتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے نبیوں کاانکار کرنے والے اورجہنم میں اپنے اعمال کی سزابھگتنے والے بھی اس کی رحیمیت کے نتیجہ میں آخر دوزخ سے نکل آئیں گے اورخدا تعالیٰ انہیں اپنی مغفرت کی چادر میں لپیٹ لے گا.غرض اللہ تعالیٰ ہی اول ہے او راللہ تعالیٰ ہی آخر ہے.اورایک مومن اس کے گرد اس طرح چکرکاٹ رہاہوتاہے جیسے حاجی حج کے ایام میں حجرِاسود کے گرد طواف کرتے ہیں اورجہاں سے وہ چلتے ہیں وہیں آکر اپنا چکر ختم کرتے ہیں.اسی طرح انسان خدا تعالیٰ کے ارد گرد چکرلگارہاہے اور وہیں سے اس کی ابتداء ہوتی ہے اور وہیں آخر میں جاکرگرتاہے.جیسے نہریں دریاسے نکلتی ہیں اورپھر دریامیں ہی جاپڑتی ہیں یاجیسے رہٹ ایک طرف سے کنوئیں سے پانی نکالتاجاتاہے اوردوسری طرف پھر کنوئیں میں ڈوبناشروع ہو جاتا ہے یہی حال مومن کاہے.وہ خدا تعالیٰ سے نکلتااورپھر خدا تعالیٰ کی طرف واپس چلاجاتاہے اورہرحالت میں اس کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی حمد اوراس کی تعریف ہی جاری ہوتی ہے.اسی طرح لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ میں ایک یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی تعریف ہوگی او رآخری زمانہ میں بھی جبکہ یاجوج وماجوج نکلیں گے اوران کو زیرکیاجائے گا خدا تعالیٰ کی تعریف ہوگی.اوراس کی بادشاہت دنیا میں قائم کردی جائے گی.قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا اِلٰى توان سے کہہ.مجھے بتائو تو سہی اگراللہ (تعالیٰ )تمہارے لئے قیامت کے دن تک رات کو لمباکردے تو يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِضِيَآءٍ١ؕ اَفَلَا تَسْمَعُوْنَ۰۰۷۲ اللہ کے سوا اَورکو ن ہے جوتمہارے پاس روشنی لائے گا؟ کیاتم سنتے نہیں.حلّ لُغَات.سَرْمَدًا.اَلسَّرْمَدُ کے معنے ہیں اَلدَّائِمُ.دائمی.اَلطَّوِیْلُ مِنَ اللَّیَالِیْ یُقَالُ لَیْلٌ سَرْمَدٌ.طویل یعنی لمبی رات.اَلسَّرْمَدِیُّ: مَالَااَوَّلَ لَہٗ وَلَااٰخِرَ.سرمدی اس کو کہتے ہیں جس کی ابتداء اور انتہانہ ہو.(اقرب) تفسیر.فرمایا.اے محمدؐرسول اللہ! تُوان مشرکین سے کہہ دے کہ رات بے شک ایک فائدہ بخش چیز ہے لیکن اگررات کو خدا تعالیٰ قیامت تک کے لئے لمباکردے تو خدا تعالیٰ کے سوااَورکون ہے جو تمہارے لئے سورج
چڑھاسکتاہے.تمہارے سارے معبود مل کربھی رات کی تاریکی کو دن کی روشنی میں تبدیل نہیں کرسکتے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک مباحثہ میں یہ کہا کہ فَاِنَّ اللّٰہَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِھَامِنَ الْمَغْرِبِ (البقرۃ: ۲۵۹) اللہ تعالیٰ توسورج کو مشرق کی طرف سے لاتاہے تُواسے مغرب کی طرف سے لے آ.تو فَبُھِتَ الَّذِیْ کَفَرَ وہ کافر جوآپ سے بحث کررہاتھا مبہوت ہوکررہ گیا اوراس سے کوئی جواب بن نہ پڑا.کیونکہ کوئی مشرک نہیں ہے جو یہ مانتاہوکہ سورج کواس کامعبود چڑھاتاہے.اگروہ کہتاکہ تیراخداسورج کو مشرق سے نہیں چڑھاتا بلکہ میں چڑھاتاہوں توخود اس کی قوم جوستارہ پرست تھی اس کی مخالف ہوجاتی اورکہتی کہ کیاتُواپنے آپ کو سورج دیوتاسے بھی بڑاقرار دیتاہے جوایسادعویٰ کررہاہے.پس اس کے لئے سوائے خاموشی کے اَورکوئی چارہ نہ رہا.قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا اِلٰى تُو کہہ دے.مجھے بتائوتوسہی کہ اگر اللہ(تعالیٰ ) دن کو قیامت کے دن تک تمہارے لئے لمبا يَوْمِ الْقِيٰمَةِ مَنْ اِلٰهٌ غَيْرُ اللّٰهِ يَاْتِيْكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ کردے تواللہ(تعالیٰ ) کے سواکونسامعبود ہے جوتمہارے پاس رات کولے آئے.فِيْهِ١ؕ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ۰۰۷۳ جس میں تم سکون پاؤ.کیاتم دیکھتے نہیں.تفسیر.پھر فرمایاکہ اگرخدا تعالیٰ قیامت تک کے لئے دن کو لمباکردے تو اللہ تعالیٰ کے سوااَورکون ہے جو تمہارے لئے رات کا وقت لائے گا جس میں تم آرام حاصل کرسکو.یہ دلیل بھی مشرکین پر اتمام حجت کرنے والی ہے.مشرک لوگ سورج کے ڈوبنے کوبھی کسی بت یاکسی معبود باطلہ کی طرف منسوب نہیں کرتے.ان آیات میں رات کے لئے اَفَلَاتَسْمَعُوْنَ اوردن کے لئے اَفَلَاتُبْصِرُوْنَ کے الفاظ اس حکمت کے ماتحت رکھے گئے ہیں کہ رات کو انسان زیادہ ترآنکھوں کی بجائے کانوں سے کام لیتا ہے اوردن کوکانوں کی بجائے آنکھوں سے کام لیتا ہے.
وَ مِنْ رَّحْمَتِهٖ جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ وَ النَّهَارَ لِتَسْكُنُوْا فِيْهِ اوریہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لئے رات اوردن بنائے ہیں کہ اس (یعنی رات)میں تم سکون وَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ۰۰۷۴ حاصل کرو اوراس (یعنی دن)میں تم اس کافضل تلاش کرو.تاکہ تم شکر گذا ربنو.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ اللہ تعالیٰ نے بڑے رحم سے کام لیتے ہوئے تمہارے لئے رات اور دن بنائے ہیں تاکہ رات کو سوکر تم آرام اورسکون حاصل کرو اور دن میں دولت کما کر اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرو.اورپھر یہ رات اور دن کاسلسلہ اس لئے بھی جار ی کیاگیا کہ تم ہمیشہ خدا تعالیٰ کاشکر اداکرتے رہو.رات کے آنے پر بھی تمہارے اندر جذبہء شکر گذاری پیداہواوردن کے آنے پر بھی تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کے شکر سے تر ہو.پھرجس طرح مادی عالم میں اللہ تعالیٰ نے رات اوردن کاسلسلہ جاری کیاہواہے.اسی طرح روحانی عالم میں بھی ایک وقت انسان پر ایساآتاہے کہ جب اس پر قبض کی کیفیت طاری ہوتی ہے اورایک وقت ایساآتاہے کہ جب اس پر بسط کی حالت ہوتی ہے اوریہ قبض اوربسط کاسلسلہ بھی رات اوردن کے سلسلہ کی طرح انسانی ترقی کے لئے ایک ضروری چیز ہے.اگر روحانی واردات میں بھی اتار چڑھائو کاسلسلہ جاری نہ ہوتواس کی ترقی رک جائے اوروہ اپنے پہلے مقام کوبھی کھو بیٹھے.حدیثو ںمیں آتاہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک صحابیؓ آئے اورکہنے لگے.یارسو ل اللہ! میں تومنافق ہوں.آپ ؐ نے فرمایا.تمہیں کس طرح پتہ لگاکہ تم منافق ہو.انہوں نے کہا یارسول اللہ! جب میں آپ کی مجلس میں بیٹھتاہوں تومجھے یو ں معلوم ہوتاہے کہ میرے ایک طرف جنت ہے اوردوسری طرف دوزخ.لیکن جب میں آپؐ کی مجلس سے واپس چلاجاتاہوں تویہ کیفیت نہیں رہتی.آپؐ نے فرمایا.اگرتم پر ہروقت ایک ہی حالت رہے تو تم زندہ ہی نہ رہو.غرض جس طرح رات کو اللہ تعالیٰ نے سکون کے لئے اور دن کو سامانِ معیشت کی فراہمی کے لئے بنایاہے اورداناانسان وہی ہوتاہے جورات سے بھی فائدہ اٹھائے اور دن سے بھی.رات کو سوکر اپنے اندر نئی طاقتیں پیداکرے.اوردن کو کام کرکے پہلے سے بھی زیادہ ترقی حاصل کرنے کی کوشش کرے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قبض اوربسط کاسلسلہ انسان کی روحانی ترقی کے لئے جاری کیا ہے تاکہ ہر حالتِ قبض کے بعد وہ پہلے سے بھی زیادہ آسمان روحانی کی طرف پرواز کرے اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کی
شکر گذاری کازیادہ سے زیادہ مادہ اس کے اندر پیداہو.وَ يَوْمَ يُنَادِيْهِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَآءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ اورجس دن وہ ان کو پکار ے گا اورکہے گاکہ کہاںہیں وہ میرے مزعومہ شرکاء جس کو تم( معبود)خیال کرتے تَزْعُمُوْنَ۰۰۷۵وَ نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا فَقُلْنَا هَاتُوْا تھے.اور(اس وقت )ہم ہرایک(مشرک) امت میں سے (ایسے )گواہ کھڑے کریں گے (جن کو یہ لوگ بُرْهَانَكُمْ فَعَلِمُوْۤا اَنَّ الْحَقَّ لِلّٰهِ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا معززسمجھتے تھے)پھر ہم (ان سے)کہیں گے کہ اپنی(وہ )دلیلیں لائو (جن سے تم شرک کو جائز قرار دیتے تھے ) يَفْتَرُوْنَؒ۰۰۷۶ تب وہ جان لیں گے کہ کامل حق اللہ (تعالیٰ)ہی کے پاس ہے.اوران کاسب افتراء ان سے کھویاجائے گا.تفسیر.فرمایا.تم اس وقت کو بھی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ مشرکین سے کہے گاکہ وہ میرے مزعومہ شرکاء کہاں ہیں جن کو تم معبود خیال کرتے تھے؟اس وقت ہم ہرقوم میں سے گواہ کھڑے کریں گے اورپھر ہم ان سے کہیں گے کہ لائو اپنی اپنی دلیلیں پیش کرو.تب مشرک جان لیں گے کہ حق بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے کہی تھی.اورسب افتراء ان کو بھول جائیں گے.اس آیت میں نَزَعْنَا اور فَقُلْنَا دونوں جگہ نا کالفظ استعمال ہواہے جو جمع کاصیغہ ہے.یہ کلام الملوک کہلاتا ہے.یعنی بادشاہوں کاطریق کلام.بادشاہ اپنی طاقت کے اظہار کے لئے ہم کالفظ استعمال کیاکرتے ہیں کیونکہ بادشاہوں کے احکام کےجاری کرنے میں اورلوگ بھی شامل ہوتے ہیں.نَزَعْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ شَهِيْدًا میں شہید سے مراد ہرقوم کا نبی ہے.جیسے حضرت مسیح ناصر یؑ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حضور کہیں گے کہ کُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًامَّادُمْتُ فِیْھِمْ (مائدہ :۱۱۸)میں جب تک ان میں رہاان کاشہید یعنی نگران رہا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّااَرْسَلْنَآ اِلَیْکُمْ رَسُوْلًا شَاھِدًاعَلَیْکُمْ (المزمل :۱۶) یعنی ہم نے تمہاری طرف ایک ایسارسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے لغت میں بھی شہید
کے ایک معنے اَلشَّاھِدُ یعنی نگران کے کئے گئے ہیں.پس اس جگہ شہید سے مراد قوم کانبی ہے جسے مشرکوں کے خلاف بطور گواہ کے کھڑاکیاجائے گا اوراس کے نمونہ کو پیش کرکے مشرکوں کو شرمندہ کیاجائے گا کہ دیکھو تم نے اپنے نبیوں کی تعلیم کے خلاف کیساغلط راستہ اختیار کرلیا.حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رات دن شرک کے خلاف تعلیم دی.مگرتم نے ان کی تعلیم کو بھلادیا اور تم خدائے واحد کو چھو ڑکر بتوں کے آستانہ پر جاگرے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی نمونہ مقررکیاہواہے جب ہم اس نمونہ کی نقل کرلیتے ہیں توہم اپنے کام میں کامیاب سمجھے جاتے ہیں ورنہ نہیں.مثلاً ہمارے ملک میں روزانہ لین دین کے معاملات میں لڑائیاں ہوتی ہیں.ایک شخص دوسرے سے کہتاہے کہ یہ سوروپے لو اوراس کے عوض مجھے گندم دے دو.جب گندم والا اسے گند م بھجواتاہے تووہ کہتاہے میں نے توایسی گند م بھجوانے کے لئے نہیں کہاتھا.میں نے تو اَورقسم کی گندم کامطالبہ کیاتھا.یوروپین قوموں نے انہی جھگڑوںکودیکھتے ہوئے ہرقسم کے نمونے اپنے پاس رکھے ہوئے ہوتے ہیں اورانہی نمونوں کے مطابق وہ اجناس کی خریدوفروخت کرتے ہیں.اچھی گندم.اچھی کپاس.اچھی جواراو راچھے چاولوں وغیرہ کے نمونے انہوں نے شیشے کے بڑے بڑے مرتبانوں میں بند کرکے رکھے ہوئے ہوتے ہیں اوران کے اوپر لیبل لگا کر لکھ دیتے ہیں کہ گندم یاکپاس فلاں قسم کی ہے یایہ خصوصیات اپنے اند ررکھتی ہے اورجب وہ اس قسم کی جنس کہیں سے خریدناچاہتے ہیں توکہہ دیتے ہیں یہ نمونہ موجود ہے ہمیں ایسی گندم یاکپاس چاہیے.اوراگر کوئی تاجر گندم یاکپاس بھجوائے توماہرین فن نمونہ کو سامنے رکھ کردیکھتے ہیں کہ آیایہ گندم یاکپاس نمونہ کے مطابق ہے یانہیں اوراگرنہ ہوتوگورنمنٹ اس مال کو رد ّکردیتی ہے.غرض یقینی طور پر کسی چیز کے اعلیٰ ہونے کاتبھی فیصلہ کیاجاسکتاہے جب ہمارے پاس کوئی نمونہ موجود ہو.اوراسے دیکھ کر یہ فیصلہ کیاجاسکے کہ آیامطلوبہ جنس نمونہ کے مطابق ہے یانہیں.جس طرح دنیا کی اَور چیزوں کے متعلق نمونہ کی ضرورت تسلیم کی گئی ہے اسی طرح اخلاقی اور روحانی امورمیں بھی کسی نمونہ کی ضرورت ہوتی ہے اوریہ نمونہ ہمیشہ ہی انبیا ء کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجاجاتاہے جو شخص اس نمونہ کے مطابق اپنے آپ کو بنالیتا ہے اسے قبول کرلیاجاتاہے اورجو اس نمونہ کے مطابق نہ ہو اسے ردّ کردیاجاتاہے.چنانچہ کسی زمانہ میں اس نے آدم ؑ کو بھیج کر یہ اعلان کرادیا کہ جو شخص آدمؑ کے نمونہ کے مطابق ہو گا اسے قبول کرلیاجائے گااورجو آدم کے مطابق نہیں ہوگااسے قبول نہیں کیاجائے گا.اور کسی زمانہ میں اس نے نوح ؑ کو لوگوں کے لئے نمونہ بنا کر بھیج دیا.اسی طرح کسی زمانہ میں اس نے ابراہیمؑ کونمونہ بناکر بھیج دیا.کسی زمانہ میں اس نے
کرشن ؑ کو اوررامچندرؑجی کو نمونہ بنا کر بھیج دیا.کسی زمانہ میں زرتشت کو نمونہ بناکربھیج دیا.کسی زمانہ میں ایوب ؑ کونمونہ بناکر بھیج دیا.کسی زمانہ میں دائودؑ اورسلیمان ؑ کو نمونہ بناکر بھیج دیا.کسی زمانہ میں مسیح ناصری ؑ کو نمونہ بناکربھیج دیا اورجب آخری زمانہ آیاتواس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کومبعوث فرماکر اعلان فرما دیاکہ اب قیامت تک صرف یہی ہمارانمونہ ہے.اگرتم اپنی زندگیاں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کے مطابق بنائو گے تومیں تمہیں قبول کرلوں گاورنہ نہیں.اسی امر کی طرف اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں اشار ہ فرمایا ہے کہ قیامت کے دن ہم ہر امت کے سامنے ان کے نبی کو جسے نمونہ کے طور پر بھیجاگیاتھا پیش کریں گے اورکہیں گے کہ ہم نے یہ نمونہ تمہاری طرف بھیجاتھا اب تم جو کہتے ہو کہ ہمیں جنت میں داخل کیاجائے توتم پہلے یہ بتائو کہ تم نے اپنے آپ کو کہاں تک اس نمونہ کے مطابق بنایا.ضَلَّ عَنْھُمْ مَاکَانُوْایَفْتَرُوْنَ میں بتایاکہ وہ لوگ جو دنیا میں بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے قیامت کے دن ان کے سب دعاوی غائب ہوجائیں گے.یعنی وہ تمام افتراء جو ذات باری تعالیٰ کے متعلق کیاکرتے تھے اس روز ان کے ذہن سے ایسے نکل جائیں گے کہ انہیں یادہی نہیں رہے گاکہ وہ کیاکچھ کرتے رہے ہیں.دوسرے یہ کہ ان کے وہ تمام اعمال جن کی افتراء پر بنیاد تھی رائیگاں چلے جائیں گے اوران عبادتوںاور ریاضتوں کا جو وہ اپنے بتوں اوردیوتائوں کی خوشنودی کے لئے کرتے تھے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا.اِنَّ قَارُوْنَ كَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰى فَبَغٰى عَلَيْهِمْ١۪ وَ قارون(دراصل ) موسیٰ ؑ کی قوم میں سے تھا.مگروہ انہی کے خلاف ظلم پر آمادہ ہوگیا اورہم نے اس کو اتنے خزانے اٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ دیئے تھے کہ جن کی کنجیاں ایک مضبوط جماعت کے لئے بھی اٹھانامشکل تھیں.(یاد کر) جب اس کی قوم نے اسے کہا اُولِي الْقُوَّةِ١ۗ اِذْ قَالَ لَهٗ قَوْمُهٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ۰۰۷۷ کہ (اتنا )فخرمت کر.اللہ (تعالیٰ ) فخر کرنے والوںکو یقیناًپسند نہیں کرتا.حل لغات.اَلْکُنُوْزُ:اَلْکُنُوْزُکَنْزٌ کی جمع ہے اور اَلْکَنْزُ کے معنے ہیں اَلْمَالُ الْمَدْفُوْنُ فِی
الْاَرْضِ.زمین میں دفن کیاہوامال.وَقِیْلَ اِسْمٌ لِلْمَالِ اِذَااُحْرِزَفِیْ وِعَاءٍ.اوریہ بھی کہاگیاہے کہ کَنْزٌ اس مال کانام ہے جسے کسی حفاظت کے سامان میں محفو ظ کرلیاجائے.اَلذَّھَبُ وَالْفِضَّۃُ.سونااورچاندی.مَایُحْرَزُ فِیْہِ الْمَالُ کَالْمَخْزَنِ وَالصَّنْدُوْقِ.وہ چیزجس میں مال سنبھال کررکھاجائے جیسے خزانہ اورصندوق.(اقرب) مَفَاتِحَ:مَفَاتِـحَ مِفْتَحٌ وَمِفْتاحٌ کی جمع بھی ہوسکتی ہے اور مَفْتَحٌ کی بھی.مِفْتَحٌ اور مِفْتَاحٌ کے معنے ہیں چابی.اور مَفْتَحٌ کے معنے ہیں اَلْخَزَانَۃُ.خزانہ.اَلْکَنْز ُ.محفوظ کیا ہو امال.اَلْمَخْزَنُ.خزانہ گاہ(اقرب) تَنُوْاُ:تَنُوْاُ نَاءَ سے مضارع مؤنث کاصیغہ ہے اورنَاءَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں نَھَضَ بِجَھْدٍوَّ مَشَقَّۃٍ.کوئی شخص محنت و مشقت سے اٹھا.اورنَائَ بِالْحِمْلِ کے معنے ہیں نَھَضَ بِہٖ مُثْقَلًا.بھاری بوجھ کومشکل سے لےکر اٹھا.اورجب نَاءَ بِہِ الْحِمْلُ کہیں تو معنے ہوں گے اَثْقَلَہٗ وَاَمَالَہٗ.اسے بوجھل بنادیا اور جھکادیا.(اقرب) پس تَنُوْٓاُ کے معنے ہوں گے.جنہیں مشکل سے اٹھایاجاتاتھا.العصبة:العصبۃ کے لئے تفسیر کبیر سورۃ النور آیت نمبر ۱۲.عُصْبَۃٌ جماعت کو کہتے ہیں لیکن بعض کے نزدیک تین سے دس افراد تک کی جماعت کو عُصبہ کہتے ہیں اور بعض صرف دس افراد کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں.بعض دس سے پندرہ افراد تک کی جماعت کو عصبہ کہتے ہیں.اور بعض کہتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک کی جماعت کو عُصبہ کہا جاتا ہے.( اقرب و فتح البیان ) تفسیر.قارون کانام بائیبل میں قورح آتاہے اوراس کا ذکر گنتی باب ۱۶ میں اس طرح کیاگیا ہے کہ ’’ وہ اور بنی اسرائیل میں سے اڑھائی سواَور اشخاص جوجماعت کےسردار اور چید ہ اور مشہور آدمی تھے موسیٰ ؑ کے مقابلہ میں اٹھے اوروہ موسیٰ او رہارون کے خلاف اکٹھے ہوکر ان سے کہنے لگے تمہارے توبڑے دعوے ہوچلے.کیونکہ جماعت کاایک ایک آدمی مقد س ہے اورخداوند ان کے بیچ رہتاہے.سوتم اپنے آپ کو خداوند کی جماعت سے بڑاکیونکر ٹھہراتے ہو.موسیٰ یہ سن کر منہ کے بل گرا.پھر اس نے قورح اور اس کے کل فریق سے کہاکہ کل صبح خداوند دکھادے گا کہ کون اس کا ہے او رمقدس ہے.اوروہ اس کو اپنے نزدیک آنے دے گا کیونکہ جسے وہ خود چنے گااسے وہ اپنی قربت بھی دے گا.سواَے قورح اوراس کے فریق کے لوگو ! تم یوں کرو کہ اپنا اپنا بخوردان لو اوراس میں آگ بھر و.اورخداوند کے حضور کل ان میں بخو رجلائو.تب جس شخص کو خداوند چن لے وہی مقدس ٹھہرے گا.اے لاوی کےبیٹو! بڑے بڑے دعوے تو تمہارے ہیں.پھر موسیٰ نے قورح کی طرف مخاطب ہوکر کہا اے
بنی لاوی سنو! کیایہ تم کو چھوٹی بات دکھائی دیتی ہے کہ اسرائیل کے خدا نے تم کو بنی اسرائیل کی جماعت میں سے چن کر الگ کیا تاکہ تم کو وہ اپنی قربت بخشے اور تم خداوند کے مسکن کی خدمت کرو.اورجماعت کے آگے کھڑے ہوکر اس کی بھی خدمت بجالائو اورتجھے اورتیرے سب بھائیوں کو جو بنی لاوی ہیں اپنے نزدیک آنے دیا سوکیااب تم کہانت کو بھی چاہتے ہو.اس لئے تُواور تیرے فریق کے لوگ یہ سب کے سب خداوند کے خلاف اکٹھے ہوئے ہیں اورہارون کو ن ہے جو اس کی تم شکایت کرتے ہو.پھر موسیٰ نے داتن اور ابیرام کو جوالیاب کے بیٹے تھے بلوابھیجا.انہوں نے کہا.ہم نہیں آتے کیایہ چھوٹی بات ہے کہ توہم کو ایک ایسے ملک سے جس میں دودھ اور شہد بہتاہے نکال لایا ہے کہ ہم کو بیابان میں ہلاک کر ے.اوراس پر بھی یہ طرّہ ہے کہ اب تو سردار بن کر ہم پر حکومت جتاتاہے.ماسوااس کے تُونے ہم کو اس ملک میں بھی نہیں پہنچایا جہاں دودھ اورشہد بہتاہے.اورنہ ہم کو کھیتوں اورتاکستانوں کاوارث بنایا.کیاتُوان لوگوں کی آنکھیں نکال ڈالے گا.ہم تونہیں آنے کے.تب موسیٰ نہایت طیش میں آکر خداوندسے کہنے لگا.تُوان کے ہدیہ کی طرف توجہ مت کر.میں نے ان سے ایک گدھابھی نہیں لیا.نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایاہے.پھر موسیٰ نے قورح سے کہا.کل تُو اپنے سارے فریق کے لوگوں کو لے کر خداوند کے آگے حاضر ہو.تُو بھی ہو او روہ بھی ہوں.اورہارون بھی ہو.تم میں سے ہر شخص اپنے بخور دان کو جوشمار میں اڑھائی سوہوں گے خداوند کے حضور لائو.اورتُوبھی اپنے بخوردان لانا اورہارون بھی لائے.سوانہوں نے اپنا اپنا بخور دان لے کر اوران میں آگ رکھ کر اس پر بخور ڈالا.اورخیمئہ اجتماع کے دروازہ پر موسیٰ او رہارون کے ساتھ آکھڑے ہوئے.اورقورح نے ساری جماعت کو ان کے خلاف خیمئہ اجتماع کے دروازہ پر جمع کرلیا تھا.تب خداوند کاجلال ساری جماعت کے سامنے نمایاں ہوا.اورخداوند نے موسیٰ اورہارون سے کہا.کہ تم اپنے آپ کو اس جماعت سے بالکل الگ کرلو.تاکہ میں ان کو ایک پل میں بھسم کردو ں تب وہ منہ کے بل گرکرکہنے لگے.اے خدا! سب بشر کی روحوں کے خدا! کیاایک آدمی کے گناہ کے سبب سے تیراقہر ساری جماعت پرہوگا.تب خداوند نے موسیٰ سے کہا.توجماعت سے کہہ کہ تم قورح اور داتن اور ابیرام کے خیموں کے آس پاس سے دو رہٹ جائو.اورموسیٰ اٹھ کر داتن او رابیرام کی طرف گیا اوربنی اسرائیل کے بزرگ اس کے پیچھے پیچھے گئے.
اوراس نے جماعت سے کہا.ان شریر آدمیوں کے خیموں سے نکل جائو.اوران کی کسی چیز کوہاتھ نہ لگائو تاایسانہ ہوتم بھی ان گناہوں کے سبب سے نیست ہوجائو.سو وہ لوگ قورح اور داتن اورابیرام کے خیموں کے آس پاس سے دور ہٹ گئے اور داتن اور ابیرام اپنی بیویوں اوربیٹیوںاور بال بچوں سمیت نکل کر اپنے خیموں کے دروازوں پرکھڑے ہوئے.تب موسیٰ نے کہا.اس سے تم جان لو گے کہ خداوند نے مجھے بھیجا ہے کہ یہ سب کام کروں.کیونکہ میں نے اپنی مرضی سے کچھ نہیں کیا.اگریہ آدمی ویسی ہی موت سے مریں جو سب لوگوں کو آتی ہے.یاان پر ویسے ہی حادثے گذریں جوسب پر گذرتے ہیں تومیں خداوند کابھیجاہوانہیں ہو ں.پر اگر خداوند کوئی نیا کرشمہ دکھائے اورزمین اپنا منہ کھول دے اوران کو اور ان کے گھر بار سمیت نگل جائے اوریہ جیتے جی پاتال میں سماجائیں توتم جاننا کہ ان لوگوں نے خداوند کی تحقیر کی ہے.اس نے یہ باتیں ختم ہی کی تھیں کہ زمین ان کے پائوں تلے پھٹ گئی اورزمین نے اپنا منہ کھول دیا.اوران کو او ران کے گھر با رکو اورقورح کے ہاں کے سب آدمیوںکو اوران کے سارے مال واسباب کونگل گئی.سووہ اوران کاساراگھر بار جیتے جی پاتال میں سماگئے اور زمین ان کے اوپر برابر ہوگئی اوروہ جماعت میں سے نابود ہوگئے اورسب اسرائیل جوان کے آس پاس تھے ان کاچلّانا سن کر یہ کہتے ہوئے بھاگے کہ کہیں زمین ہم کوبھی نگل نہ لے.اورخداوند کے حضو رسے آگ نکلی اوران اڑھائی سوآدمیوں کوجنہوں نے بخورگذرانا تھا بھسم کرڈالا.‘‘ (گنتی باب ۱۶ آیت ۲تا۳۵) بائیبل کے ان بیان کرد ہ واقعات سے ظاہر ہے کہ فرعونِ مصر کی تباہی کے بعد دشتِ سینا میں قارون اوراس کے بعض ساتھیوںنے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ایک بہت بڑافتنہ کھڑاکیا.اورانہوں نے آ پ پر قسم قسم کے اعتراضات کرنے شروع کردیئے.اوریہ کہنا شروع کردیا کہ موسیٰ ؑ کاکیاحق ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہم سے بڑاسمجھے اورہم پر اپنی حکومت جتائے.اس جماعت کاایک ایک فرد مقدس ہے اورپھر انہوں نے یہ بھی پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ موسیٰ ہمیں ایک ایسے ملک سے نکال لایا.جہاں دودھ اورشہد کی نہریں بہتی تھیں اورپھراس نے ہمیں ایک جنگل میں لاکرڈال دیا اورکنعان کی حکومت دلانے کاوعدہ بھی اس نے پورانہیں کیا.بائیبل بتاتی ہے کہ قارون کے ساتھ اس فتنہ انگیزی میں اڑہائی سوآدمی ملوث ہوگئے تھے.آخر موسیٰ ؑ نے دونوں گروہوں کو الگ الگ کھڑاکردیا.اوراللہ تعالیٰ سے دعاکی جس کے نتیجہ میں زمین پھٹی اورقارون او ر اس کے ساتھیوںکو نگل گئی.اگربائیبل کایہ بیان
درست ہوتو اس کے معنے یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قارون کے ساتھ مباہلہ کیاتھا.جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک ہوگیا لیکن قرآن کریم نے قارون اور فرعون اور ہامان کا اکٹھاذکرکیاہے (سورئہ عنکبوت آیت ۴۰) جس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے بعد کانہیں بلکہ اس سے پہلے کا ہے.اورقارون جو اسرائیل قوم کاہی ایک فردتھا فرعون کاافسرِ خزانہ تھا اوربہت مالدار شخص تھا لیکن دولت کے نشہ میں اس نے اپنی قو م پر ہی سختی شروع کردی اوریہ خیال کرلیا کہ میں اپنی قوم پرجتنا بھی ظلم کروں گا فرعون مجھ پر اتنا ہی خوش ہوگا اوراتنا ہی میرااعزاز بڑھائےگا.ہم نے اس کے افسر خزانہ ہونے کااستنباط اس سے کیا ہے کہ قرآن کریم کہتاہے کہ قارون اپنی قوم پر ہی ظلم کرنے لگ گیاتھا.اورمحض مالدار ہونا کوئی ایسی وجہ نہیں جس کی بناپرکوئی شخص اپنی قوم پر ظلم کرنے لگ جائے ہاں سرکاری عہدیدار ہونے کی وجہ سے بیشک کوئی شخص ظلم کرسکتاہے.پھرقرآن کریم کا اٰتَیْنَاہُ مِنَ الْکُنُوْزِ کہنابھی بتاتاہے کہ یہ اس کے ذاتی خزانے نہیں تھے بلکہ سرکاری خزانے تھے جو اس کی تحویل میں رہتے تھے.وَ اٰتَيْنٰهُ مِنَ الْكُنُوْزِ مَاۤ اِنَّ مَفَاتِحَهٗ لَتَنُوْٓاُ بِالْعُصْبَةِ اُولِي الْقُوَّةِ میں بتایاکہ ہم نے اس کو اتنے خزانے دئیے تھے کہ اس کی کنجیاں اٹھاناایک مضبوط جماعت پر بھی دوبھر ہوتاتھا.اصل بات یہ ہے کہ پرانے زمانے میں لکڑی کے تالے ہواکرتے تھے بلکہ آج سے چالیس سال پہلے تک مکہ مکرمہ میں بھی لکڑی کے تالے ہی استعمال ہوتے تھے اگر لوہے کے تالے بھی ہوں توچونکہ اس وقت تک صنعتِ قفل سازی ابھی ابتدائی مراحل میں تھی.بڑے بڑے موٹے تالے اور بڑی بڑی موٹی موٹی کنجیاں بنائی جاتی تھیں.اوربادشاہ جب سفر کرتاتھا تو خزانے کے بہت سے صندوق ساتھ رکھتاتھا.تاکہ مزدوروںکو تنخواہیں دی جاسکیں اورفوج کے لئے رسد خریدی جاسکے پس ان سینکڑوں ہزاروں صندوقوں کے ہزارہاتالوں کی موٹی کنجیوںکو اٹھانا جن کامجموعی طور پر کئی سومن وزن ہوجاتاتھا ایک مضبوط جماعت کے لئے بھی مشکل ہوتاتھا.خصوصاً جبکہ انہوں نے لگاتار لمباسفرکرناہو یہ بھی ممکن ہے کہ ان کنجیوں کو صندوقوں میں بند کرکے اونٹوں پر لاداجاتاہو.کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ آدمی ان کنجیوں کو اٹھاتے تھے بلکہ یہ کہا کہ اگرآدمی اٹھاتے تو ان کی ایک مضبوط جماعت کے لئے بھی ان کا اٹھانابارگراں بن جاتا.یعنی دس بارہ مضبوط آدمی بھی بمشکل ان کو اٹھاسکتے.اِذْقَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَاتَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ.جب یہ شخص فرعون کاافسر خزانہ ہونے کی وجہ سے خود بھی مالدارہوکر متکبر ہوگیا.اوربنی اسرائیل پر ہی جواس کی اپنی قوم تھی محض فرعون کی خوشنودی کے لئے ظلم کرنے لگ گیاتواس کی قوم نے اسے کہا کہ تکبر نہ کر.اللہ تعالیٰ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا.
وَ ابْتَغِ فِيْمَاۤ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَ لَا تَنْسَ اورجوکچھ تجھے اللہ(تعالیٰ) نے دیاہے اس سے اخروی زندگی کے گھرکی تلاش کر.اوردنیوی زندگی سے تجھے جو حصہ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَ اَحْسِنْ كَمَاۤ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَ ملاہے اسے بھی بھول نہیں اور(ہم تجھے ایک حد تک دنیا کی آسائشوں کے استعمال سے نہیں روکتے )اورجس طرح لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۰۰۷۸ اللہ(تعالیٰ) نے تجھ پراحسان کیاہے توبھی لوگوں پر احسان کر.اورملک میں فساد پھیلانے کی کوشش نہ کر.اللہ (تعالیٰ)یقیناً مفسدوں کوپسند نہیں کرتا.تفسیر.اس کی قوم نے اسے یہ بھی کہا.کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تجھے دولت بخشی ہے اس سے اپنے اخر وی گھر کو زیادہ سے زیادہ اچھا بنانے کی کوشش کر.ہاںدنیا میں سے بھی اپنا حصہ نہ چھوڑکیونکہ سچامذہب میانہ روی کو پسند کرتاہے.وہ یہ نہیں چاہتاکہ انسان دنیاکو بالکل ہی چھو ڑ دے.بلکہ وہ چاہتاہے کہ انسان دنیا بھی کمائے اوردینی کاموں میں بھی حصہ لے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرمایاکرتے تھے کہ مجھے ایک صوفی کایہ قول بہت پسند ہے کہ ’’دست در کار و دل بایار ‘‘ یعنی اصل طریق یہی ہے کہ انسان دنیا کے کام بھی کرے اورخدا تعالیٰ کو بھی یاد رکھے.لیکن پرانے لوگوں میں سے بعض نے یہ سمجھ رکھاتھا کہ دست د رکار نہیں ہوناچاہیے جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کوضائع کردیا اور بعض نے یہ سمجھ لیا کہ دل بایار نہیں ہوناچاہیے صرف دست درکار ہوناکافی ہے.گویادنیا میں دوکیمپ بن گئے.ایک کیمپ والے دین کو بیکار سمجھنے لگ گئے اور دوسرے کیمپ والے دنیا کو بے کار سمجھنے لگ گئے حالانکہ صداقت ان دونوں کے درمیان درمیان تھی.صداقت یہ تھی کہ دین کےساتھ دنیا کی طرف بھی توجہ رکھی جائے اوردنیاسے بالکل ہی منہ نہ موڑ لیاجائے.لیکن ہوایہ کہ ایک فریق توخالص دنیاساتھ لے گیا.اورایک فریق نے خالص دین لے لیا اورانہوں نے یہ نہ سمجھا کہ اگرخالص دین کی طرف ہی توجہ رکھنی ضروری ہوتی تو خدا تعالیٰ یہ کیوں فرماتاکہ وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا( اٰل عمران :۹۸)کہ جو لوگ استطاعت رکھیں ان پر حجِ بیت اللہ کرنافرض
ہے.پھر زکوٰۃ کے متعلق اسلام یہ کیوں ہدایت دیتاکہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبۃ : ۱۰۳) یعنی اے رسول! ان کے مالوں میں سےصدقہ لے تاکہ تُوانہیں پاک کرے اوران کی ترقی کے سامان مہیا کرے.پھراگرخدا تعالیٰ یہ چاہتاکہ صرف دین ہی اختیار کیاجائے اوردنیاسے مونہہ موڑ لیاجائے تووہ یہ کیوں فرماتاکہ اگرتم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہواور تم ان میں سے ایک کوڈھیروں ڈھیرسونابھی دے چکے ہوتواس سے واپس مت لو (النساء آیت ۲۱)اگرمال اپنے پاس رکھنا ہی نہیں توحج کس طرح کیاجاسکتاہے زکوٰۃ کس طرح کی جاسکتی ہے اوراپنی بیوی کو ڈھیروں ڈھیرسوناکس طرح دیاجاسکتاہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا میں بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کیاہوتاہے.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سنا ہے کہ کسی نے ایک بزرگ سے سوال کیا کہ کتنے رپوئوں پرزکوٰۃ فرض ہے.انہوں نے جواب دیا کہ تمہارے لئے یہ مسئلہ ہے کہ تم چالیس روپے میں سے ایک روپیہ زکوٰ ۃ دو.اس نے کہا.’’تمہارے لئے ‘‘کاکیامطلب ہے.کیازکوٰۃ کامسئلہ بدلتارہتاہے ؟انہوں نے کہا.ہاں.تمہارے پاس چالیس روپے ہوں تو ان میں سے ایک روپیہ زکوٰۃ دینا تمہارے لئے ضروری ہے.لیکن اگر میر ے پاس چالیس روپے ہوں تو مجھ پر اکتالیس روپے دینے لازمی ہیں کیونکہ تمہارامقام ایساہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم کمائو اورکھائو.لیکن مجھے وہ مقام دیا ہے کہ میرے اخراجات کاوہ آپ کفیل ہے.اگربیوقوفی سے میں چالیس روپے جمع کرلوں تومیں وہ چالیس روپے بھی دوں گااور ایک روپیہ جرمانہ بھی دوں گا.غرض بعض لوگوں کافرض ہوتاہے کہ وہ صرف دین کی طرف اپنی توجہ رکھیں.لیکن باقی دنیاکاصرف یہی مقا م ہے کہ وہ دنیا کمائیں اور اپنے مال اور وقت کاکچھ حصہ مناسب نسبت کے ساتھ عبادت اوردین کے کاموں میں بھی لگائیں.وہ ذکر الٰہی کریں.وظائف کریں.تہجد پڑھیں اوراستغفاراوردعائوں سے کام لیں.قارون کو بھی اس کی قوم کے نیک افراد نے بھی یہی نصیحت کی کہ ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ تم اپنی دولت خدا تعالیٰ کے لئے خرچ کردو بلکہ ہماری نصیحت یہ ہے کہ تمہارااصل مقصد تودارِ آخرت ہوناچاہیے.اوراسی کے لئے تمہیں اپنے اموال خرچ کرنے چاہئیں.لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی اوراپنے خاندان کی ترقی کے لئے بھی بیشک کوشش کرو.اوراپنے اموال کاایک حصہ اس کے لئے مخصوص کرلو.یہ ناجائز امر نہیں.ناجائز امر یہ ہے کہ تم خدا کو بھول جائو.اورصرف دنیا کوہی اپنامطلوب قراردے دو.پھر انہوں نے کہا.اَحْسِنْ کَمَااَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ تُولوگوں سے نیک سلوک کر.اوران کو اپنے مال اور اپنے علم اوراپنے رسوخ میںشریک کر.کیونکہ تجھ پر اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ہے.یعنی جن قوتوں
اورطاقتوں سے تونے کمایاہے اورجن چیزوںکے ذریعہ سے تونے عزت اورشہرت حاصل کی ہے وہ سب کی سب اللہ تعالیٰ کی پیداکردہ ہیں.اورتجھے بطور احسان ملی ہیں.پس جس طرح تجھ پر احسان کیاگیا ہے.تیرابھی فرض ہے کہ تُو لوگوں سے احسان کے ساتھ پیش آ.اورزمین میں فساد پھیلانے کی کوشش نہ کر.کیونکہ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ اللہ تعالیٰ شریر اورمفسد لوگوں کو پسند نہیں کرتا.آخر یہ سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کاخالق اوراس کارب ہے.جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فساد برپاکرنے کی کوشش کرے گا تواس مخلوق کاخالق اوررب فساد کرنے والے سے کس طرح محبت کرے گا؟اگرکسی بچہ سے انسان کو نفرت ہوتو اس کی ماں کبھی نفرت کرنے والے سے پیار نہیں کرسکتی.جب تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جوشخص فساد ڈلواتاہے اورلوگوں کی آپس میں لڑائیاں کرواتارہتاہے خدا تعالیٰ اسے کبھی پسند نہیں کرسکتا.انگریزی میں ایک حکایت مشہور ہے کہ کسی شخص کو ایک عورت سے عشق ہوگیا.وہ عورت بیوہ تھی اوروہ اس سے شادی کرناچاہتاتھا.مگریوروپین طریق کے مطابق خالی پیغام سے شادی نہیں ہوسکتی تھی.ضروری تھا کہ پہلے اسے اپنی طرف متوجہ کیاجائے.کیونکہ یورپ کے لوگوں میں مرد عورت کی دوستی کے بعد شادی ہوتی ہے پہلے نہیں.وہ اسے اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی کوشش کرتا مگراسے کامیابی حاصل نہ ہوتی.آخر اس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے اس اس طرح فلاں عورت سے محبت ہے اور میں اسے شادی کرناچاہتاہوں مگر وہ میری طرف توجہ ہی نہیں کرتی.اس نے کہا.عورت کاکوئی بچہ ہے یانہیں.اس نے کہابچہ توہے.اس نے کہا توپھرمحبت میں کون سی مشکل ہے.بچہ کو اٹھاکر اس سے چند دن پیار کرو.عورت تم سے خود بخود بے تکلف ہوجائے گی.توجس سے کسی کو محبت ہو اس سے نفرت رکھنے سے کبھی اس شخص کی محبت حاصل نہیں کی جاسکتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ’’خاکم نثارِ کوچہء آلِ محمدؐ است ‘‘ (درثمین فارسی صفحہ ۸۹) اب آل محمد ؐمیں اچھے بھی ہوتے ہیں اوربر ے بھی.مگر اس وجہ سے کہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان ان سے محبت کرے.یہ خیال کرنا کہ آل محمدؐ سے بے شک محبت نہ ہو لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے حاصل ہوجائے گی غلط ہے.اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ فرماکر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگرتم فساد کروگے توتمہیں
یاد رکھناچاہیے کہ خداتم سے محبت نہیں کرے گا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پیارے ہیں.جو ان سے محبت نہ کرے گا اوران کابدخواہ ہواللہ تعالیٰ اس سے کبھی محبت نہیں کرسکتا.قَالَ اِنَّمَاۤ اُوْتِيْتُهٗ عَلٰى عِلْمٍ عِنْدِيْ١ؕ اَوَ لَمْ يَعْلَمْ اَنَّ اس (یعنی قارون )نے کہا.یہ سب رتبہ مجھے ایک ایسے علم کی وجہ سے ملا ہے جوصرف مجھے حاصل ہے.کیا وہ اللّٰهَ قَدْ اَهْلَكَ مِنْ قَبْلِهٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ هُوَ اَشَدُّ جانتانہیںتھا کہ اس سےپہلے اللہ(تعالیٰ)نے بہت سی نسلوں کو جواس سے زیادہ طاقت ور اور اس سے زیادہ مالدار تھیں مِنْهُ قُوَّةً وَّ اَكْثَرُ جَمْعًا١ؕ وَ لَا يُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَ۰۰۷۹ ہلاک کردیاتھااورمجرموں کو(جب عذاب دیاجاتاہے تو)ان کے گناہوں کے متعلق ان سے پوچھ گچھ نہیں کی جاتی.تفسیر.قارون کو جب اس کی قوم نے یہ نصیحت کی تواس احمق نے تکبر میں آکر کہا کہ کیاتم سمجھتے ہو کہ یہ مال مجھے یونہی مل گیاہے.یہ مال مجھے ذاتی علم اورذہانت اورمحنت کی وجہ سے ملا ہے.اس نادان نے یہ نہ سوچاکہ جس دماغ سے وہ کام لے رہاہے وہ اس کاپیداکردہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کاپیداکردہ ہے.جن ذرائع اوراسباب سے اس نے دولت حاصل کی ہے وہ ذرائع اوراسباب بھی اللہ تعالیٰ نے ہی پیداکئے ہیں.اس نے خود پیدا نہیں کئے.وہ خدا تعالیٰ کو بھول گیا اورا س نے اپنی تمام ترقی کو اپنی طرف منسوب کرلیا.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے انسان اس بات کو بھول جاتاہے کہ گندھک خدا تعالیٰ نے پیداکی ہے.وہ بھول جاتاہے کہ سنکھیا خدا تعالیٰ نے پیدا کیاہے.وہ بھول جاتاہے کہ پارہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اورکہہ دیتاہے کہ میں نے آتشک کاٹیکہ ایجاد کیا ہے.حالانکہ یہ ٹیکے بعض چیزوں کے مرکب ہیں اوروہ چیز یں اللہ تعالیٰ نے پیداکی ہیں.پھر تارکول خدا تعالیٰ نے پیداکی ہے اوراس سے عام استعمال میں آنے والی آدھی سنتھیٹک دوائیں بنتی ہیں لیکن انسان بڑے غرورسے کہتاہے کہ یہ دوامیں نے ایجاد کی ہے یافلاں نے ایجاد کی ہے اوروہ بالکل بھو ل جاتاہے کہ جن چیزوں سے اس نے یہ دوابنائی ہے وہ خدا تعالیٰ کی ہی پیداکرد ہ ہیں.گویاخدا تعالیٰ تواس پر احسان کرتاہے مگر وہ اس احسا ن کی قدرکرنے کی بجائے یہ کہناشروع کر دیتا ہے کہ میں بڑالائق تھا.میں بڑاقابل تھا میں نے یہ جدوجہد کی اوریہ ترقی حاصل کرلی.حالانکہ نہ صرف ہرکام میں
کامیابی حاصل کرنے کے سامان اورذرائع خدا تعالیٰ مہیاکرتاہے بلکہ ہرکام کانتیجہ بھی خدا تعالیٰ ہی پیداکرتاہے.آخرایسابھی تو ہوتاہے کہ ایک شخص ساراسال لوہارے کاکام سیکھتاہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا.پھرایسابھی توہوتاہے کہ ایک کاریگرہوتاہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا.پھر یہ بھی توہو سکتا ہے کہ روپیہ مل جائے توکوئی ڈاکو اس کا ساراروپیہ چھین لے.پھر یہ بھی توہو سکتا ہے کہ وہ کما کر اپنے گھرروپیہ لے آئے.لیکن گھر میں آتے ہی اس کے پیٹ میں درد اٹھے اوروہ جانبر ہی نہ ہوسکے.پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی جلدی بیماری پیداہوجائے کہ وہ کپڑانہ پہن سکے.پس جوکچھ ہوتاہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتاہے.اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے تب بھی اسے جوکچھ ملتاہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتاہے.اوراس کافرض ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جتنا بڑابنائے اتناہی وہ جھکتاچلاجائے.دیکھو جس پر بوجھ زیادہ ہوتاہے وہ دوسروں کی نسبت زیادہ جھکاہواہوتاہے.اسی طرح کسی کو دولت کامل جاناایسا ہی ہے جیسے کسی کے سرپر بوجھل گٹھڑی رکھی ہوئی ہو.ایسی حالت میں اس کے اندر زیادہ فروتنی اورزیادہ انکسار پایاجاناچاہیے نہ یہ کہ وہ متکبرہوجائے اوردوسروں کو ذلیل سمجھنے لگے.بہرحال جو شخص دولت و ثروت اورعزت کو خدا تعالیٰ کاانعام سمجھے گا وہ دوسروں کی نسبت زیادہ جھکے گا اورجواس کواپناذاتی کمال قرار دے گا و ہ تکبر میں مبتلاہوگا اورآخرخدا تعالیٰ سے دور چلاجائے گا.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے تکبرکوشدید طورپر ناپسند کیا ہے اسلام یہ نہیں کہتاکہ تم اپنی ترقیات کے لئے کوشش نہ کرو.تم اپنی ترقیات کے لئے جتنی بھی کوشش کرو.جائز ہے مگر اس کے بعد تمہیں جتنی بھی ترقی ملے اتنا ہی اپنے آپ کو متواضع بنائو.ورنہ اگرتم متکبر ہوگئے تو خدا تعالیٰ تم سے خو ش نہیں ہوگا بلکہ ناراض ہوگا اوروہ ترقی تمہارے لئے رحمت کاموجب نہیں بلکہ ابتلاء کاموجب ہوگی اور تم آئندہ کے لئے انوار سماوی سے محروم ہوجائو گے.حدیثوں میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا.یارسو ل اللہ! مجھے سخت مالی تنگی ہے.آپ دعافرمائیں کہ اللہ تعالیٰ کشائش رزق کے سامان پیدافرمائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاکی اور آخر آپ کی دعاکی برکت سے وہ اس قدر امیرہوگیا کہ ساری وادی اس کے جانوروں سے بھر جاتی تھی شہروں میں رہنے والے شائد اس امر کو نہ سمجھ سکیں کہ ایک شخص کے پاس اتنے جانور کہاں سے آسکتے ہیں.مگرگائوں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ ایک ایک آدمی کے پاس کس قدرجانور ہوتے ہیں.میں ایک دفعہ سلسلہ کی زمینوں کے معائنہ کے لئے سندھ گیا.تو ایک جگہ میں نے تین چار سوجانور دیکھے.میں نے ان جانوروں کو دیکھ کر پوچھا کہ کیایہ اس گائوں کے جانور ہیں؟اس پروہاں کامنیجر ہنسااورکہنے لگا کہ یہ توصرف ایک آدمی کے جانور ہیں.لیکن شہریوں کے لئے ایک گائے یاایک بھینس کارکھنابھی مشکل ہوتاہے.تواس کے پاس اس قدر جانو رہوگئے
کہ ان سے وادی بھرجاتی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا آدمی اس کے پاس بھجوایا اورکہاکہ اس سے زکوٰۃ لائو.جب اس نے زکوٰۃ مانگی تو کہنے لگا کہ کیامصیبت ہے جانوروں کوکھلانے کے لئے ہمارے پاس رقم نہیں ہوتی اوران کو ہروقت چندوں کی سوجھتی رہتی ہے.انہیں ہمارے بوجھوںکاکوئی فکر ہی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ بات پہنچی.توآپؐ نے فرمایا.اسے چھوڑ دو.ہم اس سے زکوٰۃ نہیں لیں گے.بعد میں اسے کسی نے کہا کہ کمبخت تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاکرواکرواکےامیربناتھا اوراب تونے زکوٰۃ دینے سے ہی انکار کردیا.اس پراسے ندامت پیداہوئی اوروہ زکوٰۃ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم سے زکوٰۃ نہیں لی جائے گی.اس پر وہ روتاہواواپس چلاگیا.دوسرے سال پھر وہ زکوٰۃ کامال لے کر آیا مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہ فرمایا.غرض اسی طرح ہرسال وہ زکوٰۃ کامال لاتااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ردّ فرما دیتے یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد وہ حضرت ابوبکرؓ کے پاس مالِ زکوٰۃ لایامگرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جس شخص کامال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا میں بھی اس کامال قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.چونکہ اس کے دل میں نیکی تھی اس لئے و ہ ہرسال باقاعدگی کے ساتھ زکوٰۃ لاتامگراس کی زکوٰۃ قبول نہ کی جاتی.اسی طرح بعض لوگ امتحان دے رہے ہوتے ہیں تولکھتے ہیں کہ دعاکریں ہم امتحان میں کامیاب ہوجائیں.اور کسی اعلیٰ عہدہ پر لگ جائیں.جب امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں اورعہد ہ مل جاتاہے توپھر لگتے ہیں احمدیوں سے بھاگنے.کبھی کہتے ہیں کہ احمدیوں کی سوسائٹی ادنیٰ ہوتی ہے.کبھی کہتے ہیں احمدی مالدار نہیں ہوتے.کبھی کہتے ہیں احمدیوں کے گھر صاف نہیں ہوتے.وہ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ پہلے ہم سے دعائیں کروایاکرتے تھے اورپھروہ ہمیں سے بھاگتے ہیں.یہ چیزیں بتاتی ہیں کہ ایسے آدمیوں کے دلوں میں ایمان نہیں ہوتا.اگرایمان ہوتاتووہ دین کی خدمت کرتے.دینداروں کی خدمت کرتے.جماعت کی خدمت کرتے اورتکبر میں مبتلانہ ہوتے.میں نے دیکھا ہے غریبوں میں تواضع اورانکسا رزیادہ پایا جاتا ہے.اسی لئے انبیاء کی جماعتوں میں عموماً غریب ہی شامل ہوتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ خداانہیں غریب رکھناچاہتاہے.بلکہ خداان غریبوں کو اس لئے دین کی خدمت کاموقعہ دیتاہے کہ ان میں حرص نہیں ہوتی.اورشکرکامادہ ان میں زیادہ ہوتاہے.بے شک وہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جوامراء ہیں اور مخلص ہیں.اوروہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جن پر دبائو ڈالاجائے تومان جاتے ہیں.لیکن وہ لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو چندوں سے کھسکتے رہتے ہیں.اورپھرجہاں بیٹھیں گے کہیں گے کہ بڑی
مصیبت ہے ہروقت چندہ ہی چندہ مانگاجاتاہے.و ہ غریب آد می جو پچیس روپے کما کرچندہ دے رہاہوتاہے وہ حیران ہوتاہے کہ یہ اڑہائی ہزار روپیہ لے کر بھی کیوں چندہ نہیں دے سکتا.ان نقائص اورخرابیوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہی ہوتاہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے انعامات کی قدر کرے اور اس کے احسانوں کویاد رکھے.لیکن جب وہ کہتاہے اِنَّمَا اُوْتِیْتُہٗ عَلیٰ عِلْمٍ عِنْدِیْ.مجھے جو کچھ ملا ہے اپنی کو شش اور علم کی وجہ سے ملا ہے.یاجب وہ کہتاہے کہ ہم تو پہلے ہی مررہے ہیں.ہم دین کے لئے روپیہ کہاں سے دیں.یاکہتاہے بڑی مصیبت آگئی ہروقت چندے ہی چندے کامطالبہ کیاجارہاہے.تواس وقت وہ خدائی برکات سے محروم ہو جاتا ہے.خدائی برکات سے وہ اسی وقت حصہ لے سکتاہےجب اسے ایک پیسہ بھی ملتاہے تووہ اسے خدائی انعام سمجھتاہے.یاپندرہ کی بجائے اسے بیس روپے ملتے ہیں تووہ ان پانچ روپوئوں کی زیادتی کو خدا تعالیٰ کاانعام سمجھتاہے.پھراسے سوروپیہ ملتاہے تووہ سوکوخدا تعالیٰ کااحسان سمجھتاہے.ہزارروپیہ ملتاہے تووہ ہزارکو خدا تعالیٰ کااحسان سمجھتاہے.پندرہ سوروپیہ ملتاہے تووہ ان پندرہ سوکو خدا تعالیٰ کااحسان سمجھتاہے.ایسے شخص کے واہمہ اورگمان میں بھی نہیں آسکتاکہ اگرمجھ سے دین کی خدمت کے لئے کسی چندے کامطالبہ کیا جاتا ہے تویہ ایک مصیبت ہے جو مجھ پر آگئی کیونکہ وہ جانتاہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے اسی کا ہے میرااپناکچھ نہیں.جب تمہارے پاس کو ئی شخص امانت رکھتاہے اورپھر وہ تم سے مانگنے آجاتاہے.توکیاتم اس امانت کی واپسی کو مصیبت سمجھتے ہو ؟اسی طرح خدا تعالیٰ کی طرف سے جوروپیہ تمہیں ملتاہے اگرتم اس کے متعلق اپنے دلوں میں یہ یقین اور ایمان پیداکرو کہ وہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تمہیں دیاہے توتم خداکے لئے اس روپیہ کو خرچ کرنے میں کبھی دریغ نہ کرو.کیونکہ تم سمجھو کہ یہ میری چیز نہیں تھی بلکہ اسی کی تھی.جیسے انسان بعض دفعہ سفر پرجاتاہے تو وہ اپنی بھینس ہمسایہ کودے جاتاہے اورکہتاہے کہ آپ دس دن اس کادودھ پئیں.سفرسے واپس آکر میں لے لوں گا.اب کوئی کمینہ اور ذلیل انسان ہی ہوگا جو اس کے مانگنے پر اپنے دل میں کہے کہ یہ مرکیوں نہ گیا.بھینس میرے قبضہ میں ہی رہتی.ورنہ جو شریف انسان ہوگا.وہ کہے گاکہ میں آپ کابڑاممنون ہوں.آپ کی بھینس سے میں نے بڑافائدہ اٹھایاہے.مگردنیا میں توامانت رکھنے والے اپنی ساری امانت واپس لے لیتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ اپنی امانت میں سے ہمیشہ ایک حصہ مانگتاہے سارانہیں مانگتا.پس وہ توامانت دار ہی نئی قسم کا ہے.اس کے مانگنے پر جو شخص ناراض ہوتاہے و ہ بڑاہی ذلیل او رزٹیل قسم کاانسان ہے.اس نے رات دن خدا تعالیٰ کی نعمتوںسے فائدہ اٹھایا.پھر کسی موقعہ پر اگر اس نے ایک آدھ چیز مانگ لی تواس نے شور مچاناشروع کردیا کہ مجھ پر ظلم کیاجارہاہے.حقیقتاً یہ تمام باتیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی ناقدر ی اورناشکری سے پیداہوتی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ
نے بار بار کہا ہے کہ میری نعمتوں کاشکر اداکرو.اور میرے احسانات کو یاد رکھو.جب انسان ہرچیز کو خدا تعالیٰ کاانعام سمجھتااوراس کی نعمتوں کی قدرکرتاہے تو اسے سارادین مل جاتاہے.قارون کے اس جواب پراللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّمِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًا کیایہ جواب دیتے ہوئے اس نے یہ نہ جاناکہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے کئی ایسی بستیوں کو اجاڑاہے جو اس سے زیادہ طاقتور تھیں اوراس کے جتھہ سے ان کے پاس زیادہ جتھہ تھا.یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ اس کی دولت ذاتی نہیں تھی.کیونکہ اگراس کی ذاتی دولت ہوتی تواللہ تعالیٰ فرماتاکہ ہم اس سے پہلے اس سے بھی بڑے بڑے مالدار لوگوںکوتباہ کرچکے ہیں.مگراللہ تعالیٰ نے یہاں قارون کے مقابلہ میں پہلی ہلاک شدہ قوموں کی دولت اور ان کی طاقت کو پیش کیاہے.پس یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قارون کے قبضہ میں بھی قومی دولت تھی یعنی وہ حکومت مصرکاایک بڑاافسرتھا.اس کی ذاتی دولت و ثروت کااس جگہ ذکر نہیں کیاگیا.وَ لَا يُسْـَٔلُ عَنْ ذُنُوْبِهِمُ الْمُجْرِمُوْنَمیں بتایاکہ مجرم اپنے اعمال سے آپ پہچاناجاتاہے اس کے متعلق کسی جستجو اورپوچھ گُچھ کی ضرورت نہیں ہوتی.کیونکہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوسزاآتی ہے وہ طبعی ہوتی ہے اورطبعی سزاآپ ہی بتادیتی ہے کہ مجرم اس کامستحق تھا.مثلاً اگر کوئی شخص آنکھوں سے کام نہ لینے کی وجہ سے نابیناہوجائے یاہاتھ پائوںسے کام نہ لینے کی وجہ سے چلنے پھرنے کی طاقت سے محروم ہوجائے یادماغ سے کام نہ لینے کی وجہ سے سوچنے اورسمجھنے کی قوت سے محروم ہوجائے یانیک تعلیموں کاانکار کرنے کی وجہ سے ہدایت سے محروم ہوجائے توہرشخص سمجھ جائے گا کہ اس کی سزااس کے اعمال کے عین مطابق ہے.اوروہ اس سزاپرکوئی اعتراض نہیں کرسکے گا.فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِيْ زِيْنَتِهٖ١ؕ قَالَ الَّذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ (ایک دن ایساہواکہ) وہ اپنی زینت (یعنی اپنے باڈی گارڈ) کے ساتھ نکلا.اس پر وہ لوگ جو کہ دنیا الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ قَارُوْنُ١ۙ اِنَّهٗ کی زندگی کاسامان چاہتے تھے بول اٹھے.اے کاش! ہمیں بھی وہی کچھ ملتا جو قارون کو دیاگیا.اس کوتو(دنیا
لَذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ۰۰۸۰وَ قَالَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَيْلَكُمْ کاایک )بہت بڑاحصہ ملا ہے.اورجن لوگوں کو علم دیاگیا تھا و ہ بولے.تمہاراستیاناس! اللہ کی طرف سے ملنے ثَوَابُ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا١ۚ وَ لَا يُلَقّٰىهَاۤ والی جزا ء مومن اور ایمان کے مناسب حال عمل کرنے والے کے لئے بہت اچھی ہوتی ہے.اوریہ(جزاء) اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ۰۰۸۱فَخَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ١۫ فَمَا صرف صبرکرنے والوں کاگروہ ہی پاتاہے.پھر ہم نے اس کو او ر اس کے قبیلہ کو مکروہات میں مبتلاکردیا.اورکوئی كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ۗ وَ مَا كَانَ جماعت ایسی نہ نکلی جو اللہ کے سوااس کی مدد کرتی اور کسی تدبیر سے بھی وہ (اپنے دشمن سے )بچ نہ سکا.اوروہ لوگ جو مِنَ الْمُنْتَصِرِيْنَ۰۰۸۲وَ اَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ کل تک اس کے مقام پر ہونے کی تمنا کرتے تھے کہنے لگ گئے تجھ پر ہلاکت ہو اللہ (تعالیٰ)ہی یقیناً بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتاہے رزق میں فراخی دیتاہے اورجس کے لئے چاہتاہے تنگی کرتاہے.يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ١ۚ لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا اگرہم پر اللہ(تعالیٰ ) نے احسان نہ کیاہوتاتوہمیں بھی مصیبتوں کاشکارکردیتا.تجھ پر ہلاکت ہو لَخَسَفَ بِنَا١ؕ وَيْكَاَنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَؒ۰۰۸۳ (بات یہی ہے کہ)کافرکبھی کامیاب نہیں ہوتے.حل لغات.وَیْکَ: وَیْ تعجب کا کلمہ ہے.چنانچہ کہتے ہیں وَیْ لِزَیْدٍ یعنی زید پر تعجب کرو نیز یُکْنٰی
بِھَا عَنِ الْوَیْلِ کبھی ا س لفظ سے ہلاکت مراد لی جاتی ہے.جیسے کہتے ہیں وَیْکَ اِسْتَمِعْ قَوْلِیْ.تُو ہلاک ہو.میری بات سن.کبھی کبھی وَیْ کے ساتھ کَاَنْ یا کَاَنَّ بھی داخل کردیتے ہیں.(اقرب) تفسیر.خَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِيْ زِيْنَتِهٖ کے یہ معنے ہیں کہ ایک دن وہ بڑی شان و شوکت سے اپنے تمام اہلکاروں اورباڈی گارڈز وغیرہ کے ساتھ اپنی قوم کے سامنے سے گذرا.اوراس نے اپنے شاہانہ اقتدار کی نمائش کی اورانہیں دکھایاکہ میری کتنی بڑی عزت ہے اورکس طرح یہ سب لوگ میری رضاء اورخوشنودی کے حصول کے لئے میرے آگے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں اورمجھے سلام کرتے اور میرے سامنے ادب کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں.اس کااپنی قوم کے سامنے اس شاہانہ کرّوفرسے گذرنا درحقیقت اپنی قوم کی تذلیل کے لئے تھا.اوروہ انہیں دکھاناچاہتاتھاکہ کامیابی کااصل راز فرعون کی اطاعت میں ہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بحیثیت قوم فرعون بنی اسرائیل کادشمن تھا اوروہ ان کی طاقت کو کچلناچاہتاتھا.مگران کی طاقت کو کچلنے کے لئے اس نے جو ذرائع اختیار کئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ا س نے بنی اسرائیل میں سے ہی قارون کو سرکاری افسر بنادیاتاکہ ایک طرف تو وہ یہ ظاہر کرے کہ میں بنی اسرائیل کے قابل افراد کی قدرکرتاہوں اوردوسر ی طرف جب وہ اپنے ہی ہم قوم افراد پرظلم کرے تووہ ظلم فرعون کی طرف منسوب ہونے کی بجائے قارون کی طرف منسوب ہوجائے اور لوگ یہ کہیں کہ اس میں فرعون کا کیا قصورہے یہ ظلم تو قارون نے کیا ہے.انگریز نے بھی اپنے زمانہء اقتدا رمیں ایسا ہی کیاتھا.اوراس نے بھی ہندوستان پرحکومت کرنے کے زمانہ میں بعض ماتحت افسر خود ہندوستانیوں میں سے مقررکئے ہوئے تھے اوروہ انگریز کی خوشنودی کے لئے حاکم قوم کے افراد سے بھی زیادہ ظلم کرتے تھے.قارون بھی ایسے ہی ظالم افسروں میں سے تھا.جس کے پیش نظر ہمیشہ بنی اسرائیل کی تذلیل رہتی تھی.چنانچہ اسی پروگرام کے ماتحت اس نے ایک دن اپناشاہانہ جلوس نکالا اوربنی اسرائیل کوحکم دیا کہ وہ سب جمع ہوں اوراس نظارہ کو دیکھیں اوراپنی ذلّت اوربیچارگی پر آنسو بہائیں.قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَایٰلَیْتَ لَنَامِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ.اِنَّہٗ لَذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.چونکہ ہرقوم میں بعض کمزور افراد بھی ہوتے ہیں جودین اور تقویٰ اورخداترسی کی بجائے دنیوی شان و شوکت اور ظاہر ی مال و دولت کوزیادہ اچھی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے بنی اسرائیل میں سے کمزورافراد نے قارون کے اس شاہانہ کرّوفرکو دیکھ کر اس پر رشک کیا.اورانہوں نے کہنا شروع کردیا کہ کاش ہم بھی قارون کی طرح ہوتے.یہ توبڑاخوش نصیب ہے جس نے اتنا بڑااقتدار حاصل کرلیاہے.
وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْاالْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا.جب ان باتوں کا چرچاہوااورقوم کے بعض کمزورافراد نے قارون کی تعریف کرنی شروع کردی بلکہ اس بات پر آہیں بھر نی شروع کردیں کہ انہیں بھی یہ مقام کیوں حاصل نہیں ہواتوحقیقت حال کاعلم رکھنے والوں یعنی علماء اورربّانی لوگوں نے انہیں سمجھایا.کہ تم اس چندروزہ زندگی پر کیوں مرتے ہو یہ توآج نہیں توکل ختم ہوجائے گی.دائمی زندگی تووہ ہے جو موت کے بعد شروع ہونے والی ہے اوراس زندگی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان لانے والوں اوراس ایمان کے مطابق عمل کرنے والوں کوجوجزائے نیک ملے گی اس کے مقابلہ میں اس چندروزہ زندگی کامال و متاع کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتا.اگرسوسال بھی تم نے عیش سے گذار لئے لیکن اگلی زندگی میں جو غیر محدود ہے تمہارے لئے کوئی سکھ کاسامان نہ ہوا تو تمہیں یہ آرام کیافائدہ دے گا؟ تم دائمی سکھ اورآرام حاصل کرنے کی کوشش کرو.اوراس دنیاسے اپنا دل مت لگائو.وَ لَا يُلَقّٰىهَاۤ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ.میں بتایاکہ جس طرح اگلے جہان کی جزائے نیک ایک غیر معمولی انعام ہے اسی طرح اس انعام کامستحق بننابھی ایک بڑی قربانی چاہتاہے اوریہ مقام ایسے ہی لوگوں کو حاصل ہوتاہے جوصبر سے کام لیاکرتے ہیں.صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ بر ے خیالات کا اثر قبو ل کرنے سے رکنے.ان کامقابلہ کرنے اورنیکیوں پر ثابت قدم رہنے کے بھی ہوتے ہیں.پس انہوں نے دین کو دنیا پرمقدم کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے اس طرف بھی توجہ دلائی کہ یہ مقام تمہیں اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے کہ تم ان بداثرات کامقابلہ کرو.جوقارون او ر اس جیسے دوسرے افراد کی دنیوی شان وشوکت کودیکھ کر تمہارے دل میں پیدا ہوتے ہیں.اورپھر قارون کی طرح ظلم پر کمربستہ ہونے کی بجائے ہمیشہ بدیوں سے بچتے رہو اور نیکیوں پر پورے ثبات اوراستقلال کے ساتھ قائم رہو.اگرتم ایساکروگے.توتمہاری روحانی آنکھیں کھل جائیں گی.اور تمہیں نظر آنے لگ جائے گا کہ یہ دنیاآخرت کے مقابلہ میں بالکل حقیر اورذلیل چیز ہے.فَخَسَفْنَابِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ میں بتایاکہ آخرقارون کاپیمانہ لبریز ہوگیا.اورخدائی عذاب اس پر نازل ہوگیا.بنی اسرائیل پر اس کے تما م مظالم اس طاقت اورعز ت کی وجہ سے تھے جو فرعون کی خوشنودی کی وجہ سے اسے حاصل تھی.مگرجب خدا تعالیٰ نے اسے تباہ کرناچاہاتوایساانقلاب پیداہواکہ قارون بھی اوراس کاتمام خاندان بھی ذلیل کردیاگیا.بائیبل میں لکھا ہے کہ زمین پھٹی اور قارون اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ اس میں غرق ہوگیا(گنتی باب ۱۶ آیت ۳۱،۳۲).گویااس کی تباہی ایک زلزلہ کی وجہ سے ہوئی.اور خَسَفَ کے لفظی معنے زمین میں دھنسنے کے ہی ہیں.لیکن خَسَفَ فُلَانًا کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اسے ذلیل کردیا.اوراس کے ساتھ ایساسلوک کیا جسے وہ ناپسند
کرتاتھا.اس جگہ خَسَفْنَا بِهٖ وَ بِدَارِهِ الْاَرْضَ سے یہی مراد ہے کہ ہم نے اس کو اوراس کے سارے خاندان کو دنیا بھر میں ذلیل کردیا.فَمَا كَانَ لَهٗ مِنْ فِئَةٍ يَّنْصُرُوْنَهٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ کے یہ معنے ہیں کہ وہ ایساذلیل ہواکہ ملک بھر میں کو ئی اس کانام نہ لیتاتھا.اورکوئی گروہ اس کی مدد کرنے کے لئے نہ نکلا.وَمَاکَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ.اورنہ وہ خود اپنی حالت بد ل سکا.اِنْتَصَرَ کے معنے ہوتے ہیں اِمْتَنَعَ مِنْ عَدُوِّہٖ(اقرب) اپنے دشمن سے بچ گیا.پس اس کے معنے یہ ہیں کہ نہ وہ بیرونی تدبیرسے اپنی اس ذلت کو مٹاسکااورنہ وہ اپنے علم سے کام لے کر جس پراسے بڑاناز تھا اپنے آپ کو اس تباہی سے بچاسکا.وَ اَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَنَّوْا مَكَانَهٗ بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللّٰهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ١ۚ لَوْ لَاۤ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا١ؕ وَيْكَاَنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ.جب قارون خدائی عذاب کی گرفت میں آگیاتووہ لوگ جو کل تک اس پر رشک کررہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کاش ہمیں بھی قارون جیسامقام میسر آتا.ان کی بھی آنکھیں کھل گئیں.اورکہنے لگے کہ تعجب کی بات ہے کہ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتاہے وافر رزق عطافرماتا ہے اورجس کوچاہتاہے اسے تنگی میں مبتلاکردیتاہے.اگراللہ تعالیٰ ہم پر احسان نہ کرتا اورہماری اس کوتاہی کو معاف نہ کرتا کہ ہم نے قارون کو ایک بڑاآدمی سمجھ کر یہ خواہش کرنی شروع کردی تھی کہ کاش ہم بھی ایک دوسرے قارون بن جائیں توآج ہم کو بھی وہ بے نام و نشان کردیتا اور وہی عذاب جواس پر مسلطّ کیاگیا اس میں ہم بھی شریک ہوتے.اس سے ظاہر ہے کہ مجرموں کی تائید کرنایاان کی پیٹھ ٹھونکنا یاان کے ظالمانہ افعال کی حمایت کر نایا مجرموں کے مقابلہ میں آواز بلند کرنے والوں کی مخالفت کرنابھی انسان کوسزاکامستحق بنادیتاہے.اوراگروہ توبہ اور استغفار سے کام نہ لیں اوراپنے رویہ کو تر ک نہ کریں توخطرہ ہوتاہے کہ وہ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجائیں.وَيْكَاَنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ میں بتایاکہ انبیاء کے مخالفین کو دنیا میں عارضی کامیابیاں توحاصل ہوسکتی ہیں مگرفلاح جواپنے مقاصد میں بامراد ہونے کانام ہے انہیں کبھی حاصل نہیں ہوتی.اوروہ نبیوں کے مقابلہ میں ضرور تباہ ہوتے ہیں.
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي یہ (جو )اخروی زندگی(ہے) ہم اسے انہی کے لئے مخصوص کردیتے ہیں جو ملک میں الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ۰۰۸۴ ناجائز غلبہ اورفساد نہیں چاہتے.اورانجام متقیوں کاہی (اچھا)ہوتاہے.تفسیر.اس میں بتایاکہ اخروی زندگی کے انعامات ہم نے انہی لوگوں کے لئے مخصوص کئے ہوئے ہیں جو نہیں چاہتے کہ لوگوں کو ذلیل کرکے آپ بڑے بن جائیں اور نہ فساد اورفتنہ انگیزی کی روح اپنے اندر رکھتے ہیں.اورگوابتداء میں یہی سمجھتی ہے کہ امن پسندی سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی.کامیابی اورعزت حاصل کرنے کایہی ذریعہ ہے کہ دوسروںکو گرایاجائے اورملک میں شورش پیداکی جائے.لیکن بڑائی کے آخر وہی مستحق ہوتے ہیں جومتقی ہوں اورانجام ہمیشہ امن پسند اورنیک لوگوں کاہی اچھاہوتاہے.اور وہی کامیاب ہوتے ہیں.فتنہ و فساد پھیلانے والے خواہ کچھ عارضی کامیابی حاصل بھی کرلیں پھر بھی ان کاانجام حسرتناک ہوتاہے اوروہ اپنے اعمال کی اس دنیا میں بھی سزاپاتے ہیں اورآخرت میں بھی ذلیل اوررسواہوں گے.مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا١ۚ وَ مَنْ جَآءَ جوشخص پسندیدہ عمل کرے اسے اس سے بہتر بدلہ ملے گا اورجوکوئی بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِيْنَ عَمِلُوا السَّيِّاٰتِ اِلَّا مَا براعمل کرے گا توبرےاعمال کرنے والوں کو ان کے اپنے عمل کے كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۸۵ برابر جزاء دی جائے گی.تفسیر.نیکی اوربدی کی جزاء کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنا قانون بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام بجالائے اسے اپنے کا م سے بہت زیادہ بدلہ ملتاہے اورجوشخص کوئی براکام کرے.اسے
صرف اپنے عمل کے مطابق بدلہ ملتاہے یوں تودنیا میں جو بھی نیک کام کیاجائے اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ طاقتوں سے ہی کیا جاتا ہے اوراس نقطہء نگاہ سے اگر عملِ نیک کی کوئی بھی جزانہ دی جاتی توکوئی قابلِ اعتراض امر نہ تھا کیونکہ جن سامانوں سے کام لے کر نیک کام کئے جاتے ہیں وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے پیداکردہ ہیں.اگرہاتھ سے کوئی شخص نیکی کاکام کرتاہے توہاتھ اس کے بنائے ہوئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں.ہاتھ کے اندر جوکام کرنے کی طاقت پائی جاتی ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کی ہی پیداکی ہوئی ہوتی ہے اس کی اپنی نہیں.پھراگرہاتھ سے اس نے کسی پیاسے کو پانی پلایاہے توپانی بھی خدا تعالیٰ کاپیداکردہ ہے.گلاس جس دھات سے بنایاجاتاہے وہ بھی خدا تعالیٰ کی پیداکردہ ہے اورپھروہ دماغ جس کے اند رنیکی کایہ جذبہ پیداہواوہ بھی خدا تعالیٰ کاہی پیداکردہ ہے.پس جب شروع سے لے کرآخر تک ہرچیز خدا تعالیٰ ہی کی ہے اور اس کی دی ہوئی طاقتوں سے کام لے کر عملِ نیک کیا جاتا ہے تواگروہ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان بھی قربان کردیتاہے توبوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ انسان کاخالق ہے اوراس کی مملوکہ اشیاء کا بھی مالک ہے انسان اپنے اعمال کے بدلہ میں کسی انعام کامستحق نہیں ہوسکتا.جیساکہ غالب نے کہا ہے.؎ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا (شرح دیوان غالب صفحہ ۸۳) یعنی اگرجان بھی انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دے تواس کایہ فعل کوئی قربانی نہیں کہلاسکتا.کیونکہ جان خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی.اگرکسی کی چیز انسان نے ا س کو واپس کردی اوروہ بھی سالہاسال کے استعمال کے بعد تواس صورت میں بھی وہ خدا تعالیٰ کا ہی ممنون احسان ہوتاہے وہ یہ نہیں کہہ سکتاکہ اس نے کوئی کام کیا ہے لیکن باوجود اس کے کہ تمام نیک اعمال خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں سے عمل میں لائے جاتے ہیںاوراگران اعمال کاکوئی بھی بدلہ نہ ملے تب بھی درست ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی ملکیت کا اس رنگ میں اظہار نہیں کیا کہ وہ انسان کے اعمال کو بدلہ سے محروم کردے بلکہ اس رنگ میں کیا ہے کہ وہ انسانی اعمال کا ان کے مناسب معاوضہ سے زیادہ بدلہ دے.اورباوجود اس کے کہ سب اعمال حسنہ اسی کی دی ہوئی توفیق سے انسان بجالاتاہے پھر بھی اللہ تعالیٰ ایسا ہی قرا ر دیتاہے کہ گویاانسان نے وہ نیک عمل اپنی طاقت اوراپنے سامانوں سے کئے ہیں اورنہ صرف یہ کہ اس کے عمل کاپورابدلہ دیتابلکہ اپنے پاس سے زائد نعمتیں بھی عطافرماتا ہے.لیکن اس کے مقابلہ میں جب کوئی شخص گناہ کرتاہے تو
اول تواس کی توبہ پراسے معاف کردیتاہے اوراگر کوئی شخص توبہ نہ کرے توپھر وہ گناہ کی سزاتودیتاہے لیکن اسی قدرجتنا کہ گناہ ہو.گویانیک لوگوں کے ساتھ تووہ احسان کامعاملہ کرتاہے.اورگنہگاروں کے ساتھ انصا ف کاسلوک روارکھتاہے اوران کی بدیوں کے برابر ہی ان کوسزادیتاہے اس سے بڑھ کرکسی صورت میں سزانہیں دی جاتی.اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ١ؕ قُلْ وہ خداجس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیاہے اپنی ذات کی قسم کھا کرکہتا ہے کہ وہ تجھے اس مقام کی طرف لوٹاکر لائے گا رَّبِّيْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ جس کی طرف لوگ لوٹ لوٹ کر آتے ہیں.تُوکہہ دے میرارب اس کو بھی خوب جانتاہے جو ہدایت پر قائم ہوتاہے مُّبِيْنٍ۰۰۸۶ اور(اس کو بھی)جوکھلی گمراہی میں مبتلاہوتاہے.تفسیر.اب اللہ تعالیٰ اس بات کے ثبوت میں کہ انبیاء کامقابلہ کرنے والے خواہ کتنی بڑی طاقت رکھتے ہوں تباہ کردیئےجاتے ہیں.اورانجام کار مومن ہی کامیاب اورمظفر ومنصور ہوتے ہیں.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ایک اہم ترین واقعہ کو بطور پیشگوئی بیان کرتاہے.اور فرماتا ہے کہ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ.یعنی وہ خداجس نے تجھ پرقرآن نازل کیااوراس کی اطاعت فرض کی ہے وہ اپنی ذات ہی کی قسم کھاکرکہتاہے کہ تُوبہرحال اس مقام کی طرف پھرواپس لوٹایاجائے گا جس کی طرف لوگ بار بار اور بار بار آتے ہیں.باربار لوگ کس طرف آتے تھے ؟ اسی مقام کی طرف جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہاتھا کہ ہم نے اسے مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ بنایاہے (سورۃ بقرۃآیت ۱۲۶) اگریہاں مَعَادٍ کی جگہ مَثَابَۃ کالفظ رکھاجاتا تواِخفاء نہ رہتا.اس لئے مثابۃ کاہم معنے لفظ مَعَادٍ رکھ دیاتاکہ پیشگوئی بھی ہوجائے اوراخفاء بھی رہے.فرماتا ہے ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھاکرکہتے ہیں.کہ ہم تجھے پھر اس مقام یعنی مکہ مکرمہ کی طرف واپس لائیں گے جس کی طرف لوگ بہ نیتِ حج اورحصول ثواب کے لئے بار بار آتے ہیں.اوریہ سیدھی بات ہے کہ واپس اسی کو لاتے ہیں جوگیاہو.اورجوگیا ہی نہ ہو اس کے واپس آنے کا سوال ہی کس طرح پیداہو سکتا ہے.پس اس آیت میں دوعظیم الشان پیشگوئیاں کی گئی
تھیں.ایک یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ سے ہجرت کرنی پڑے گی اور دوسری یہ کہ ہجرت کے بعد آپ پھر ایک فاتح کی صورت میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے.یہ آیت قرونِ اولیٰ میں اتنی دوہرائی جاتی تھی اورا تنی اہم سمجھی جاتی تھی کہ بعض بیوقوفوں کو اس سے بڑے بڑے دھوکے بھی لگ گئے.چنانچہ عبداللہ بن سباجو اس موومنٹ کابانی تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا.جس نے اسلام میں ایک بہت بڑافتنہ برپاکیااور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لڑائیاں کیں.وہ اسی آیت کو پیش کرکے کہاکرتاتھاکہ اسلام تناسخ کاقائل ہے.وہ کہتاتھا کہ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ میںمَعَادٍ سے مراد دنیا ہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ و ہ دوبار ہ دنیا میں آئیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انبیاء کی تمثیلیں دنیا میں آتی رہتی ہیں.اگرانبیاء کی تمثیلیں نہ آئیں تو دوسروں کی تمثیلوں سے کیا فائد ہ؟ دنیا میںا گریہ ایک سچی حقیقت ہے جو انگریزی زبان میں بیان کی جاتی ہے کہ HISTORY REPEATS ITSELF ’’تاریخ اپنے آپ کو با رباردوہراتی ہے ‘‘.تویقیناً انبیاء بھی بار بار تمثیلی طور پر دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں.اور ظاہر ہوتے رہیں گے.اوردرحقیقت اگر کوئی چیز دوبار ہ واپس لانے کے قابل ہوتی ہے تواچھی چیز ہی ہوتی ہے لیکن اس آیت میں کسی تناسخ کا ذکر نہیں اورنہ معادٍ سے مراد دنیا ہے.بلکہاِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ میں درحقیقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کریں گے اورپھر اس شہر میں واپس آئیں گے جس کوعباد ت کامرکز بنایاگیاہے.اورجس کی طرف با ربا ردنیا حج او رعمر ہ کے لئے آتی ہے.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مکہ میں ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر دی کہ ایک دن کفار تجھے اپنے وطن سے نکلنے پرمجبور کردیں گے.مگروہ خداجس نے تجھ پر قرآن نازل کیا اوراس کی اطاعت فرض کی ہے تجھ سے قسم کھا کر وعدہ کرتاہے کہ جب دشمن تجھے تیرے وطن سے نکال دے گا تو ہم پھر تجھے تیرے وطن میں لے آئیں گے.غورکرو اور سوچو کہ اس آیت میں آپ کی مکہ سے ہجرت کی خبر کس لطیف پیرایہ میں دی گئی ہے.بجائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ یہ فرماتاکہ ایک دن تجھے ہجرت کرنی پڑے گی اوراس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حساس دل کوصدمہ پہنچتا اس نے پہلے ہی آپؐ کو واپس آنے کی خوشخبری دیدی.اور چونکہ واپس وہی آسکتاہے جو گیاہو اس لئے ضمنی طور پر اس میں یہ بھی بتادیا کہ ایک دفعہ آپ کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑے گی.اورموسیٰ ؑ کے ساتھ آپ کی مماثلت ظاہرہوجائے گی.سورئہ قصص کے مکی ہونے کے متعلق مسلمان علماء تو متفق ہی ہیں لیکن عیسائی مصنفین بھی اسے مکی تسلیم کرتے
ہیں.(کمنٹری آن دی قرآن مصنفہ وہیری جلد ۳ص ۲۵۱) اوراس طرح و ہ اپنے ہاتھوں اس بات کاثبوت بہم پہنچاتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں.کیونکہ اگریہ سور ۃ مکی ہے تو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے پتہ لگ گیا تھاکہ میں مکہ سے ہجرت کروں گا اور اس کے بعد میںایک فاتح کی حیثیت سے دوبار ہ اس شہر میں داخل ہوں گا.اگر باوجود اس کے کہ آپ کو اپنے مستقبل کے متعلق کوئی علم نہیں تھا آپ یہ پیشگوئی فرماتے ہیں اورپھر وہ پوری بھی ہوجاتی ہے.تویہ آ پ کی صداقت کی ایک واضح دلیل ہے.پس عیسائی مستشرق اس سورۃ کو مکی کہہ کر خود پھنس گئے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت کرگئے.اگر وہ لکھ دیتے کہ یہ سور ۃ مدنی ہے توکہاجاسکتاتھا کہ مدینہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو طاقت حاصل ہوگئی تھی ا س لئے اس قسم کی پیشگوئی کرناآ پ کے لئے کوئی مشکل امر نہیں تھا.لیکن انہوںنے ا س سورۃ کو مکی قرار دیااو راس طرح اپنی تحقیق سے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کااظہار کردیا.یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے مفسرین کہتے ہیں کہ اس سورۃ میں بعض آیا ت مدنی بھی ہیں.لیکن عیسائی مصنفین اسے خالص مکی سورۃ قرار دیتے ہیں.اوراس طرح وہ اپنے ہاتھ سے اسلام کی صداقت کاثبوت مہیا کرتے ہیں.بعض عیسائی مصنّف لکھاکرتے ہیں کہ ہمیں سورتوں کے سٹائل سے ہی پتہ لگ جاتاہے کہ اس سورۃ کی فلاں آیت مدنی ہے اورفلاں مکی.حالانکہ اگر یہ بات درست ہے کہ انہیں قرآن کریم کے سٹائل سے ہی پتہ لگ جاتاہے کہ اس کی فلاں آیت مکی ہے اور فلاں مدنی تویہ قرآن کریم کاکتنابڑاکمال ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کو جس میں ہجرت کی پیشگوئی تھی اس سٹائل میں اتاراجس کی وجہ سے عیسائیوں نے یہ فیصلہ کرناتھا کہ یہ سورۃ مکی ہے اوراس کی وجہ سے انہیں اپنی زبان سے اس بات کااقرار کرنا پڑا کہ مکی زندگی میں ہجرت اور فتح مکہ کے متعلق جو پیشگوئی قرآن کریم نے کی تھی وہ سچی نکلی.ورنہ اگر یہ کسی انسان کی بنائی ہوئی کتاب ہوتی تو اسے اس بات کا کیسے علم ہوسکتاتھا کہ آج سے اتنے سالوں کے بعد وہیری، نولڈ کے اور دوسرے مستشرقین نے کسی سورۃ کے سٹائل کی وجہ سے اسے مکی یامدنی کہناہے.اس لئے اس کا سٹائل ایسارکھو کہ اس سورۃ کے پڑھتے ہی ہرشخص یہ معلوم کرلے کہ یہ مکی ہے.پھر کیا یہ عجیب بات نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کریم کے نازل کرنے والی ہستی کو ان اعتراضا ت کاعلم تھا جو بیسویں صدی کے عیسائی مصنفین نے کرنے تھے.لیکن ان عیسائیوں کو خود بیسویں صدی میں بھی یہ علم نہیں کہ ہم نے ان آیتوں کی کیاتفسیر کرنی ہے.وہ ایک آیت پر اعتراض کرتے ہیں.لیکن اس آیت کی جب ہم تفسیر کرتے ہیں توان کا اعتراض ردّ ہو جاتا ہے.اوراس طرح قرآن کریم کی فضیلت اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا پر ظاہر ہوجاتی ہے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ کلام کسی
انسان کابنایاہوانہیں بلکہ عالم الغیب خدا کااتاراہواہے.اوراس کثرت سے اس میں علم غیب بھراہواہے کہ ہرآیت سے کوئی نہ کوئی نیا نکتہ نکل آتاہے.گویا جیسے پنجابی میں کہتے ہیں کہ اینٹ اینٹ کے نیچے فلاں چیز موجود ہے اسی طرح تم کوئی آیت اٹھائو اس کے نیچے ایک معجزہ نکل آتاہے اوراس طرح قرآن کریم سارے کاسارا معجزوں سے بھراہوادکھائی دیتاہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی طرف اس آیت میں ہی خبرنہیں دی گئی بلکہ بعض اور بھی مکی آیات میں یہ خبر واضح طور پر دے دی گئی تھی.چنانچہ سورۃ بلد جومکی سورۃ ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دیتے ہوئے فرمایاکہ لَٓا اُقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ(البلد:۲،۳) یعنی میں اس بات کے ثبوت میں کہ کفار اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں مکہ شہر کو پیش کرتاہوں اوراس امر کاعلان کرتاہوں کہ اے محمد رسول اللہ تُوایک دن پھر اس شہر میں کامیاب طورپر واپس آنے والا ہے.پھر آپ کی ہجرت اورمکہ مکرمہ میں کامیاب واپسی کی اس آیت میں بھی خبر دی گئی تھی کہ رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَّ اجْعَلْ لِّيْ مِنْ لَّدُنْكَ سُلْطٰنًا نَّصِيْرًا ( بنی اسرائیل :۹) یعنی اے میرے رب! مجھے مکہ میں داخل ہونے کابھی بابرکت موقعہ دیجئیو اورمجھے مکہ سے نکلنے کابھی بابرکت موقعہ دیجئیو.یعنی میرامکہ میں واپس آنابھی میری کامیابی کاموجب ہواورایسانشان ہو جو ہمیشہ قائم رہنے والاہو.اورمیرامکہ سے نکلنابھی میری کامیابی کاموجب ہو.اورایسانشان ہوجوہمیشہ قائم رہنے والاہو اوراپنے پاس سے مجھے غلبہ عطا فرمائیو.وہ غلبہ جو مجھے کامیاب کردے.اور میرے دشمنوںکو مغلوب کردے.بعض لوگ ا س آیت پر یہ اعتراض کیاکرتے ہیں کہ قرآن کریم نے داخل ہونے کاپہلے کیوں ذکرکیا ہے حالانکہ آپ نکلے پہلے اورداخل بعد میںہوئے.کہنایہ چاہیے تھا کہ رَبِّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ مگر کہا یہ گیا ہے رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ یعنی اے رب مجھے اچھے طو رسے داخل کیجئیو اورمجھے اچھے طور سے نکالیو.صدق کالفظ جب عربی زبان میں کسی چیز کی طرف منسوب کیاجائے تواس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی چیز جو ہمیشہ یاد گار رہے.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ یہ دعاسکھاتاہے کہ اے میرے رب تومیراداخلہ ایساکیجئیو جودنیا میں ہمیشہ یاد گا ررہے اورمجھے نکالیو بھی ایسی شان سے کہ قیامت تک یاد گا ررہے.یہ سوال کہ اَدْخِلْنِیْ پہلے کیوں رکھا گیاہے اور اَخْرِجْنِیْ کو بعد میں کیوں رکھا گیاہے اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنے نبیوںکوڈرایانہیں کرتا.بلکہ امید اوریقین کاپہلو ہمیشہ ان کے سامنے روشن رکھتاہے.اگرپہلے ہی یہ الہام ہوتاکہ رَبِّ اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ تومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادل گھبراجاتا کہ یہ کیاہونے والا ہے
اوردل میں خیال پیدا ہوتاکہ نہ معلوم یہ نکلناعارضی ہے یامستقل.اس لئے بجائے نکلنے کاپہلے ذکرکرنے کے اللہ تعالیٰ نے داخل ہونے کاپہلے ذکر کردیاتاکہ آپ کادل مطمئن رہے اورآپ سمجھیں کہ یہ نکلنامحض عارضی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کایہ فیصلہ ہے کہ ہم پھر مکہ میں داخل ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو رَّبِّ اَدْخِلْنِيْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّ اَخْرِجْنِيْ مُخْرَجَ صِدْقٍ کی دعاکس شان کے ساتھ پوری ہوئی.آپؐ نکلے توکس شان کے ساتھ نکلے اور آئے توکس شان کے ساتھ آئے.گھر سے نکلے تواس وقت کفار نے آپ کے گھر کے ارد گرپہرہ لگایاہواتھا.مگرآپ ان کی آنکھوں کے سامنے نہایت دلیری اورجرأت کے ساتھ گھر سے باہر نکل گئے.انہوں نے آپؐ کو دیکھابھی مگرخیال کیا کہ یہ کوئی اَورشخص ہوگا.اس طرح آپ کفار کی صفوں میںسے نکل گئے اوران کاذہن اس طرف مائل ہی نہیں ہواکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جارہے ہیں بلکہ انہوں نے سمجھا کہ یہ کو ئی اَورشخص ہے.پھر وہ ساری رات دروازہ کی دراڑوں میں سے جھانک جھانک کر آپ کو دیکھتے رہے.اور چونکہ حضرت علیؓ آپ کے بستر پرسوئے ہوئے تھے انہیں کوئی شبہ نہ پڑابلکہ انہوں نے سمجھا کہ آپؐ ہی سوئے ہوئے ہیں اتنے میں صبح ہوئی اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت علیؓ اند رسے نکل آئے ہیں.یہ بھی ایک بہت بڑانشان تھا جو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا.پھر آپ غار ثو رمیں جاکر چھپ رہے جومکہ سے تین چار میل پرے ایک غار ہے.میں بھی وہاں گیاہوں لیکن میرے دل میں کچھ ایسی کمزوری ہے کہ میں پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا.ارادہ توتھا کہ جائوں اورغا رثور دیکھو ں مگرسودوسوگز تک جاکر رہ گیا.اس پر میں نے اپنے ایک ساتھی کو بھیج دیا.اس نے جوکیفیت بتائی اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کئی گز کی جگہ ہے اوراس کاخوب کھلااورچوڑامونہہ ہے.گویا کئی گز چوڑااور کئی گز لمباایک کمرہ ہے.آپؐ حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ گئے اور اس غار میں جاکر بیٹھ رہے.جب صبح ہوئی اورمکہ والوں نے دیکھا کہ آپ کہیں چلے گئے ہیں توانہوں نے مشورہ کیا کہ آپ کاپیچھاکیاجائے.ادھر انہوں نے اعلان کردیاکہ جوشخص آپؐ کو پکڑ کرلائے گااسے سواونٹ انعام دیاجائے گا.اس کے بعد انہوں نے کھوجی کو اپنے ساتھ لیا اور آپ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے.کھوجی پائوں کے نشانات کو دیکھتے دیکھتے ان سب کو غار ثور کے مونہہ پر لے کر پہنچ گیا.اوراس نے کہا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاتویہاں ہیں اوریاپھر آسمان پرچلے گئے ہیں.اب باوجو د اس کے کہ مکہ والوںکو کھوجیوں پر بڑااعتبار ہواکرتاتھا.ان کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ آگے بڑھیں اورغارثورکواندرسے دیکھ لیں.حالانکہ وہ کئی گز لمبی اور کئی گز چوڑی جگہ تھی اوراس کامنہ بہت کھلاتھا.یہ کیسازبردست نشان ہے جواللہ تعالیٰ نے ظاہر کیا.وہ اس کی بات کوسن کرہنسنے لگ گئے اورکہنے لگے یہ محض بکواس ہے ہم تمہاری بات پر اعتبار نہیں کرسکتے.وہ اس وقت اتنے قریب پہنچ
چکے تھے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبرائے کہ ایسانہ ہو یہ ہمیں دیکھ لیں اورانہوں نے آہستگی سے اس خطرہ کااظہار بھی کردیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.اگریہ ہمارے سرپربھی کھڑے ہیں توکیاہوا.خداہمارے ساتھ ہے بھلا یہ ہمیں دیکھ سکتے ہیں.حضرت ابو بکر ؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! مجھے اپنی جان کا فکر نہیںکیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں.اگرمیں مارابھی جائوں تو صرف ایک فرد ماراجائے گا.لیکن آپ کوکوئی نقصان پہنچاتو ساراجہان مرجائے گا.غرض کفار چند منٹ تک ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے اور پھر واپس مکہ میں آگئے.تیسرے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس غار میںسے نکلے اورمدینہ تشریف لے گئے (السیرة النبویة بخاری کتاب المناقب باب مناقب المھاجرین).اب دیکھورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کامکہ میں سے نکلناکس شان کے ساتھ ہوا.یہ اسی دعاکی برکت تھی جواللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو سکھائی گئی تھی اَخْرِجْنِیْ مُخْرَجَ صِدْقٍ مجھے مکہ میں سے نکالیوتواس شان کے ساتھ کہ میرانکلناقیامت تک یادگار رہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ہی کیا.کیاکوئی شخص اس واقعہ کو بھلاسکتاہے کہ وہ لوگ جومارنے کے لئے آتے ہیں جوگھر کے اردگرد بیٹھے ہوتے ہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہی کی صفوں میں سے گذر جاتے ہیں اور انہیں پتہ تک نہیں لگتا.پھرکھوجی ساتھ جاتاہے وہ نشان بتاتاہے اوربڑے یقین کے ساتھ کہتاہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاتویہیں کہیں ہیں اوریاپھر آسمان پر چلے گئے ہیں.مگروہ اپنے کھوجی پراعتبا ررکھنے کے باوجود اس کی بات کوتسلیم نہیں کرتے آپ کی ادھر ادھر تلاش نہیں کرتے بلکہ ہنستے ہوئے واپس آجاتے ہیں.اورکہتے ہیں ہمارے کھوجی کی عقل ماری گئی ہے.پھر اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ والی دعابھی کس شان کے ساتھ پوری ہوئی.مکہ والوں کی کتنی بڑی طاقت تھی ان کو کتنا بڑااقتدار حاصل تھا.مگراللہ تعالیٰ نے ان کی ساری طاقت کو توڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومکہ میں فاتحانہ طور پرداخل کیا اوراس شان کے ساتھ داخل کیا کہ بڑے بڑے دشمن آپ کی غلامی میں شامل ہوگئے ھندہ جس نے حضرت حمزہؓ کاکلیجہ کٹوایااورمثلہ کیاتھا اورجواسلام کی شدید ترین دشمن تھی اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ حکم تھاکہ اسے قتل کردیاجائے.مگرجب عورتوں کی بیعت ہونے لگی تووہ بھی چھپ کر ان عورتوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کرنے کے لئے آگئی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لیتے ہوئے عورتوں سے کہا کہ کہوہم شرک نہیں کریں گی توہندہ سے نہ رہاگیا.اوراس نے کہا یارسول اللہ کیااب بھی ہم شرک کریں گی.ہم مالدار تھے اورآپ غریب تھے.ہماراجتھہ تھا.اورآپ اکیلے تھے اگربتوں کی کوئی بھی حیثیت ہوتی توکیایہ ممکن تھاکہ آپ ہمارے مقابلہ میں جیت جاتے.جب آپ ہمارے مال او رہماری طاقت اورہماری شوکت اورہمارے جتھہ اورہمارے اثر
و رہمارے اقتدار کے باوجود جیت گئے تواس کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے بتوں میں کوئی طاقت نہیں.یہ وہ عظیم الشان نشان تھا جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ فتح مکہ کے وقت ظاہر ہوا.اورجس کی لَرَآدُّکَ اِلیٰ مَعَادٍ میں خبردی گئی تھی.پھر جب ہم کتب سابقہ کو دیکھتے ہیں توہمیں ان میں بھی یہ پیشگوئی نظرآتی ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوایک دن اپنے وطن سے ہجرت کرنی پڑے گی.اورپھردس ہزا رقدوسیوں کے ساتھ آپ فاتحانہ طورپرمکہ میں داخل ہوں گے.چنانچہ آپ کی ہجرت کی خبریسعیاہ باب۲۱ میں پائی جاتی ہے جہاں لکھا ہے:.’’عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو ! پانی لے کر پیاسے کااستقبال کرنے آئو.اے تیماکی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کربھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے.ننگی تلوار سے اورکھچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اورتیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے.اورخداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا.‘‘ (یسعیاہ باب ۲۱آیت ۱۳تا۱۷) اس پیشگوئی میں دوانیوں کے قافلوں اورتیماکی سرزمین کے باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے ان کو توجہ دلائی گئی ہے کہ تم روٹی اورپانی لے کر ان لوگوں کا استقبال کرنے کے لئے آگے بڑھو جومخالفین کے جوروستم اوران کی ننگی تلواروں اورکھچی ہوئی کمانوں کاایک لمبے عرصے تک نشانہ بنے رہے.اورجواب بھاگ کر تمہارے ملک میں پناہ لینے کے لئے آرہے ہیں.دوان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک پوتے کانام ہے جو آپ کی تیسری بیوی قطور ہ کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے لُقیان کی اولاد میں سے تھا.(پیدائش باب ۲۵آیت ۱و۲) تیما حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نویں بیٹے کانام تھا.(پیدائش باب ۲۵آیت ۱۶) اورقیدار حضر ت اسماعیل علیہ السلام کے دوسرے بیٹے کانام ہے.پیدائش باب ۲۵آیت ۶ سے معلوم ہوتاہے کہ بنی اسماعیل اور بنی قطورا دونوں ارض مشرق یعنی عرب میں آباد ہوئے.چنانچہ دوان کی اولاد پہلے یمن میں آباد ہوئی.مگرپھر اس کے قبائل عرب میں چاروں طرف پھیل گئے.اوس اورخزرج بھی اسی شاخ سے تعلق رکھتے تھے.اسی طرح تیما کی اولاد مدینہ
کے نواح میں آباد ہوئی.لیکن قیدار کی اولاد مکہ کے نواح میں بسی.قریش مکہ اسی کی نسل سے تھے (البدایة و النھایة ذکر اخبار العرب و تاریخ ابن خلدون جزء ثانی الخبر عن بنی عدنان و انسابھم).حضرت یسعیاہ نے دوان اورتیما کی نسلوں کو جونواح مدینہ میں آباد تھیں بتایاکہ ایک زمانہ میں قریش کے مظالم اور ان کی شب و روز کی جنگ کے نتیجہ میں آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنی پڑے گی.تمہارافرض ہے کہ تم ان کے استقبال کے لئے آگے بڑھو.اوراپنی آنکھوںکو فرش راہ کرو.اورروٹی اورپانی لے کر ان کے ملنے کو نکلو.یعنی اپنے گھروں کے دروازے ان کے لئے کھول دو.اور ان کی خدمت کو اپنے لئے برکت او ررحمت کاباعث سمجھو.چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ سے نکلے اورایسی حالت میں نکلے جب کہ ننگی تلواروں کے ساتھ دشمن نے آپ کے مکان کامحاصرہ کیاہواتھا.اوروہ چاہتاتھاکہ آپ کاخاتمہ کردے مگراللہ تعالیٰ نے ایسی قدرت نمائی فرمائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے سے نکل آئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی.پھراس پیشگوئی میں یہ بھی بتایاگیا تھا کہ اس ہجرت کے ٹھیک ایک سال بعد آپؐ کے اورآپؐ کے دشمنوں کے درمیان ایک جنگ ہو گی جس میں دشمن شکست کھائے گا.قریش کاتمام رعب و دبدبہ خاک میں مل جائے گا.چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگ بد رہوئی جس میں اسلام کو عظیم الشان فتح حاصل ہوئی اور قریش مکہ اپنے کمانڈر اورجرنیلوں کی لاشیں میدان جنگ میں چھوڑ کر ہی بھا گ کھڑے ہوئے (بخاری کتاب المغازی باب دعا النبی علی کفار قریش).پھر یہ تو ہجرت کی خبر تھی.فتح مکہ کی خبر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان الفا ظ میں دی کہ ’’خداوند سیناسے آیا.شعیر سے ان پرطلوع ہوااورفاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گرہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.‘‘ (استثناء باب ۳۳آیت ۱و۲) اس آیت میں فاران سے ظاہر ہونے والے جس موعود کی پیشگوئی کی گئی تھی وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اوربتایاگیاتھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار صحابہؓ کے لشکر کے ساتھ مکہ میں اس طرح داخل ہوں گے کہ ان کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہوگی آتشی شریعت سے مراد دلوں کوصاف کرنے والی شریعت بھی ہوسکتی ہے اوراس موقعہ کے مناسب اس کے معنے تلوار کے بھی ہوسکتے ہیںکہ جب مکہ والے قرآن کی حکومت
کوجورحمت کاپیغام تھا قبول نہیں کریں گے بلکہ اسے مٹانے کی کوشش کریں گے تواللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ ایک آتشی شریعت یعنی تلوار دیگا اورآخر مکہ کے لوگ تلوار کے آگے اپناسر جھکادیں گے.یہ پیشگوئی جوبائیبل میں پائی جاتی ہے اس کی طرف یہود کے اہل علم طبقہ کی نگاہ رسول کریم صلی اللہ عیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی اٹھ چکی تھی.چنانچہ اس کاثبوت اس سے ملتاہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی دفعہ وحی نازل ہوئی توآپ گھبراگئے اورآپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس کا ذکرکیا.وہ آپ ؐ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جوصحفِ انبیاء سے خوب واقف تھااور کہا کہ ان کے پاس اپنی کیفیت کا ذکر کریں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں باتیں بتائیں کہ کس طرح ان پر وحی نازل ہوئی ہے توورقہ بن نوفل نے کہا.کاش میں اس وقت جوان ہوتا اِذْ یُخْرِجُکَ قَوْمُکَ.جب تیری قوم تجھے مکہ سے نکال دے گی.اس سے معلوم ہوتاہے کہ صحف سابقہ کی یہ پیشگوئیاں ان کے ذہن میں تھیںکہ عرب میں ایک عظیم الشان نبی پیدا ہوگاجسے اس کی قوم کے لوگ اپنے شہر میںسے نکال دیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ بات سنی توآپؐ سخت حیران ہوئے کیونکہ اس وقت تک ابھی آپ نے کوئی دعویٰ نہیں کیاتھا اورساراعرب آپ کو راستباز اور امین سمجھتااور آپ کو عزت کے مقام پر بٹھاتاتھا.اسی حیرت کے عالم میں آپؐ نے ورقہ بن نوفل سے کہا.اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ کیامیری قو م مجھے نکال دے گی ؟ انہوں نے کہا.ہاں!ضرور نکال دے گی (بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف بدءالوحی).اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس پیشگوئی کی طرف پہلے ہی واقف لوگوں کے ذہن منتقل ہوچکے تھے کہ عرب میں ایک عظیم الشان نبی آئے گا جوموسیٰ ؑ کامثیل ہوگا.اس کی قوم کے لوگ اسے اپنے شہر سے نکال دیں گے.پھر وہ کسی اَور مقام میں پناہ لے گااوروہاں سے طاقت حاصل کرکے مکہ فتح کرے گا.چنانچہ جب اس پیشگوئی کے ظہورکا وقت آیا توابھی آپ مکہ میں ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دی کہ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ یعنی وہ خداجس نے تجھ پر قرآن کی اطاعت فرض کی ہے اپنی ذات کی قسم کھا کرکہتاہے کہ خداتجھے پھر اس شہر کی طرف واپس لائے گا جس کی طر ف لوگ با ربار لوٹ کر آتے ہیں.یعنی اب تیری ہجرت کا زمانہ قریب آچکا ہے اورتجھے مکہ سے نکال کردشمن خوش ہوگاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا مگرتیراخداہجر ت سے بھی پہلے خوشخبری دیتاہے کہ وہ پھر تجھے اس مقام میں واپس لائے گا اوردشمنوں کی جھوٹی خوشیوں کوپامال کردے گا.قُلْ رَّبِّيْۤ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى وَ مَنْ هُوَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.فرماتا ہے اے محمدؐ رسول اللہ تُوان لوگوںسے کہہ دے کہ جوہدایت لاتاہے اس کو بھی اور جوگمراہی میںپڑاہواہے اس کوبھی اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے پھر یہ کس
طرح ہو سکتا ہے کہ ہدایت لانے والا ناکام رہے اور گمراہ لوگ کامیاب ہوجائیں.آخری فیصلہ بہرحال اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو ہدایت لے کر آیا ہے وہ کامیاب ہواوراس کے دشمن ہلاک ہوں.وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْۤا اَنْ يُّلْقٰۤى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ اِلَّا رَحْمَةً اورتُو(کوئی )امید نہیں رکھتاتھا کہ تجھ پر ایک مکمل کتاب نازل کی جائے گی.مگرتیرے رب کی طرف مِّنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّلْكٰفِرِيْنَٞ۰۰۸۷وَ لَا يَصُدُّنَّكَ سے رحمت کے طور پر ایساہوا.پس تُوکافروں کامددگار کبھی نہ بنیئو.اور تجھے کوئی شخص اس کے بعد کہ اللہ (تعالیٰ) کی عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ وَ لَا آیتیں تجھ پراتاری گئیں ان سے روکنے والانہ بنے.اورتُواپنے رب کی طرف (لوگوںکو) تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۚ۰۰۸۸ بلا اورمشرکوں میں شامل نہ ہو.تفسیر.فرمایا.اے محمدؐرسول اللہ تیرے واہمہ میں بھی یہ بات کب آسکتی تھی کہ تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طر ف سے ایک کامل کتاب نازل ہوگی یہ صرف تیرے رب کی رحمت کاہی تقاضاتھاکہ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق تجھ پروہ کتاب نازل کی جاتی جو دنیا کے تمام دکھوںکادرماں ہوتی اور جوقیامت تک آنے والی تمام نسلوں کے لئے اپنے اندر ہدایت اورراہنمائی کاسامان رکھتی.پس اب جبکہ ایسی کامل کتاب ہم نے دنیا میں نازل کردی ہے.اے محمدؐ رسول اللہ کی پیروی کادم بھرنے والے تُوکبھی کافروں کامدد گار نہ بن.اس جگہ الکِتٰب کاترجمہ ہم نے ’’کامل کتاب‘‘ اس لئے کیا ہے کہ عربی زبان میں جس چیز پر الف لام داخل ہو.اس کے ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ چیز اپنی ذات میں کامل ہے.جیسے الحمد للہ کے ایک معنے یہ ہیں کہ حمد اپنے سارے کمال کے ساتھ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے.پس یہاں الکتاب کے معنے ہیں جوتمام روحانی ضرورتوں کے سامان اپنے اندررکھتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہاں بظاہر محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کیاگیاہے مگرقرآن کریم کایہ طریق
ہے کہ وہ کئی مقامات پرمخاطب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتاہے مگر مراد آپ کی امت کے افراد ہوتے ہیں.اس جگہ بھی فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّلْكٰفِرِيْنَ میں امت محمدؐیہ کے افراد سے خطاب کیاگیاہے.ورنہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تواللہ تعالیٰ فرماچکاہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ.لَا شَرِيْكَ لَهٗ١ۚ وَ بِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ.(الانعام :۱۶۳،۱۶۴) یعنی توان لوگوں سے کہہ دے کہ میری عبادتیں اور میری قربانیاں اورمیری زندگی اورمیری موت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہیں.جو تمام جہانوں کارب ہے او راس کاکوئی شریک نہیں.اورمجھے اسی امر کاحکم دیاگیاہے اورمیں سب سے پہلا فرمانبردار ہوں.پس اس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عبادتیں بھی اورآپؐ کی قربانیاں بھی بلکہ آپؐ کی زندگی بھی اور آپ کی موت بھی سب خداکے لئے تھی.اورآپ اَنَااَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ کے مصداق تھے.اورنہ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی شرک کیااورنہ نبوت کے بعد.تویہ تصور بھی کس طرح کیاجاسکتاہے کہ آپ کسی وقت کفار کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوجائیں گے.پس فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّلْكٰفِرِيْنَ کے مخاطب امت محمدیہؐ کے افراد ہیں اوراللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ اب جبکہ میں نے ایک کامل کتاب نازل فرماکر تمام دنیا کے لئے خیر او ربرکت کاسامان مہیاکردیاہے اورقیامت تک اب کسی اورشریعت کی ضرورت نہیں رہی توتمہارے لئے یہ ہرگز جائز نہیں کہ تم اس کتاب کے علوم سے غفلت اختیار کرو.اوراس پر عمل کرنے میں تساہل سے کام لو.کیونکہ اگرتم ایساکروگے تو تم دنیا میں گمراہی پھیلانے کاموجب بن جائو گے اوراپنے عمل سے کفار کے مددگار ہوجائو گے.کیونکہ مومن اورکافر دومختلف راستوں پر جارہے ہیں.مومن اس کتاب کو اپنے ہاتھ میں لے کرنکلے گا اورکافر اس کتاب کو مٹانے کی کوشش کرے گا لیکن اگر کسی وقت اس کتاب پرایمان رکھنے کادعویٰ کرنے والا ہی اس کتاب کو پس پشت پھینک دے گا تووہ کفار کامددگا رہوجائے گا.پس اے مسلمانو! تم ہمیشہ اس کتاب کو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور کبھی کفار کے ان بد ارادوں میں جو وہ اپنے دلوں میں خدااوراس کے رسول کے نام کو مٹانے کے لئے رکھتے ہیں مددگار مت بنو بلکہ ہمیشہ اس کی تعلیم کو پھیلاتے چلے جائو.وَ لَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ بَعْدَ اِذْ اُنْزِلَتْ اِلَيْكَ.دوسری نصیحت اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی کہ قرآن کریم گوایک کامل کتاب ہے جس کے بعد کوئی شریعت نہیں مگراس کے یہ معنے نہیں کہ نزولِ قرآن کے بعد آیاتِ الٰہیہ کابھی
نزول نہیں ہوگا.آیاتِ الٰہیہ کاہرزمانہ میں مختلف شکلوں میں نزول ہوتاچلاجائے گا.کبھی مجددین کی شکل میں.کبھی مامورین کی شکل میں اور کبھی معجزات ونشانات اورآسمانی تائیدات کی شکل میں اس لئے جب بھی تم پر خدا تعالیٰ کی آیات نازل ہوں یعنی تمہارے زمانہ میں تمہاری ترقی اوربہتری کے لئے خدا تعالیٰ مختلف نشانات کے آئینہ میں اپنی شکل دکھائے توان پرایمان لانے کے سلسلہ میں کوئی روک تمہارے راستہ میں حائل نہیں ہونی چاہیے.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب آخری زمانہ میں مسیح موعود آئے او رتمہارے کانوں میں اس کی آواز پہنچے توتم فوراًاس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑ پڑو.خواہ تمہیں گھٹنوں کے بل چل کرہی اس کے پاس کیوں نہ جانا پڑے.وَ ادْعُ اِلٰى رَبِّكَ اور پھر ایمان لانے کے بعد تمہاراکام یہ ہے کہ تم دوسرے لوگوں کو بھی اس نعمت میں شریک کرو.اورانہیں خدا تعالیٰ کے مامور پر ایمان لانے کی تحریک کرو.اورتبلیغ کے سلسلہ کو وسیع کرو.وَ لَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اورمشرکوں میں شامل نہ ہو.اس جگہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب نہیں بلکہ آپؐ کی امت سے خطاب کیاگیا ہے.ورنہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تونہ نبوت سے پہلے کبھی شرک کیاتھا اورنہ نبوت کے بعد آپؐ نے کبھی شرک کیا.پس اس آیت کی مخاطب آپ کی جماعت ہے.اوراللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ آیات الٰہیہ کاانکار اور تبلیغ میں کوتاہی بھی اپنے اندر شرک کا ہی ایک رنگ رکھتی ہے.کیونکہ آیات الٰہیہ کاانکار وہی شخص کرتاہے جوڈرتاہے کہ اگر میں نے اپنے ایمان کااظہار کیاتولوگ میری مخالفت کے لئے کھڑے ہوجائیں گے.اسی طرح تبلیغ سے بھی وہی شخص بھاگتاہے جولوگوں کی مخالفت اور ان کی ایذارسانی سے گھبراتاہے اوریہ دونوں چیزیں اپنے اندر شرک کاایک رنگ رکھتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے نصیحت فرمائی کہ تم مشرکوں میں سے مت بنو.دلیری سے آیاتِ الٰہیہ پر ایمان لائو.اورپھر دلیری سے ان کی دنیا میں اشاعت کرو.اوراپنی نگاہیں ہمیشہ آسمان کی طرف بلندرکھو.زمینی لوگوں سے مت ڈرو کہ یہ بھی ایک مخفی شرک ہے.
وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ١ۘ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١۫ كُلُّ شَيْءٍ اور(اے مخاطب ) اللہ (تعالیٰ ) کے سواکسی معبود کومت پکار.اس کے سواکوئی معبو د نہیں.ہرایک چیز ہلاک ہونے هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ١ؕ لَهُ الْحُكْمُ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَؒ۰۰۸۹ والی ہے سوائے اس کے جس کی طرف اس (یعنی خدا تعالیٰ) کی توجہ ہو.حکم اسی کے اختیار میں ہے اور(تم سب)اسی کی طرف لوٹ کر لے جائے جائو گے.تفسیر.اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوںکو ایک اوراہم نصیحت کرتاہے.فرماتا ہے.وَلَا تَدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرََ.اے مسلمانو!تم اللہ تعالیٰ کے سوااَورکسی کو اپنامعبود سمجھ کر مت پکار و کیونکہ لَااِلٰہَ اِلَّاھُوَ اللہ تعالیٰ کے سوااَورکوئی معبود نہیں.چونکہ گذشتہ آیات میں مسلمانوںکو اشاعت اسلام کی طر ف توجہ دلائی گئی تھی اوراسلام کے ساتھ سب سے زیادہ ٹکر اورسب سے لمبی ٹکر عیسائیت نے لینی تھی اس لئے قرآن کریم میں عیسائیت کے غلط عقائد کی تردید پر بڑازور دیاگیاہے.اورمسلمانوںکو با ربارتوجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں سب سے بڑا مقابلہ عیسائیت کے ساتھ پیش آنے والا ہے.جوتین خدائوں کی قائل ہے.اس لئے تمہارافرض ہے کہ تم عیسائیت کے مقابلہ میں مضبوطی سے ڈٹے رہو.اور کبھی خدائے واحد کی توحید کادامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑو.کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کاکوئی شریک نہیں.وہ اپنی ذات میں احد یعنی اکیلا ہے.اورغیرمنقسم ہے.اس لئے نہ وہ کسی بیٹے کا محتاج ہے اورنہ روح القدس کا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ بیمار تھے اورہم آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے آنکھ کھو لی او رفرمایا.مجھے ابھی لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنے سمجھائے گئے ہیں.اوربتایاگیاہے کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ صرف اللہ کی ذات ہی مفرد ہے باقی سب چیز یں مرکب ہیں.پس روح او رمادہ کے ازلی ہونے کی بحث بالکل لغو ہے.روح اور مادہ ہرگز مفرد نہیں بلکہ یہ بھی مرکب ہیں.اوران پر خدا تعالیٰ کاہرگز قیاس نہیں کیاجاسکتا.یہی وجہ ہے کہ فناسے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی پاک ہے.کیونکہ مفرد پر فنانہیں آتی.فناہمیشہ مرکب پرآتی ہے.کیونکہ فنا کے معنے ہیں مرکب اجزاء کاالگ الگ ہوجانا.اورمفرد کے اجزاء ہی نہیں ہوتے.اس لئے ان کے کسی وقت الگ الگ ہونے کاکوئی امکان نہیں ہوتا.یہی دلیل اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اگلے ٹکڑے میں بیان کی ہے اورفرمایا ہے كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ.دنیا ہی ہرچیز بلکہ ہرمزعومہ معبود بھی ہلاک ہونے والا ہے اوریہ
ہلاکت ثابت کرتی ہے کہ کو ئی چیز اپنی ذات میں قائم نہیں بلکہ کوئی اوروجود اسے قائم رکھ رہاہے.اس آیت میںضمنی طور پر وحدتِ وجودوالوں کا بھی ردّکردیاگیا ہے.یہ لوگ کہاکرتے ہیں کہ دنیا میں خداکے سوااَورکچھ نہیں جو کچھ نظر آرہاہے یہ خدا تعالیٰ کاہی جلوہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاتم نہیں دیکھتے کہ ہروہ چیز جوپیداہوتی ہے ،وہ ہلاک ہوتی ہے اگریہ سب کچھ خداہی خداہے تودنیاکی کوئی چیز تغیر پذیر نہیں ہوسکتی تھی.مگراس کاتغیر پذیر ہونا بتاتاہے کہ یہ چیزیں خدا کا حصہ نہیں ورنہ اگر کسی چیز کے ایک حصہ میں تغیرہو سکتاہے.توپھر کُل میں بھی تغیر تسلیم کرنا پڑے گا.اِلَّاوَجْھَہٗ میں بتایا کہ صرف وہی بچیںگے جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی.یہ استثناء اللہ تعالیٰ نے اس لئے کیا کہ كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ سے یہ شبہ پڑ سکتاتھاکہ شائد جنت بھی ایک دن فناہوجائے گی.یاوہ روحانی علوم جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دنیا میں نازل کئے ہیں وہ بھی تباہ ہوجائیں گے یااللہ تعالیٰ کے مقرب بندے بھی ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے.اس شبہ کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے اِلَّاوَجْھَہٗ کے الفاظ بڑھادیئے.اور بتادیاکہ کچھ چیزیں اس ہلاکت سے محفوظ بھی رہیں گی.مگر وہ وہی ہوں گی جن کی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی.ورنہ اللہ تعالیٰ کے سواہرچیز کے لئے موت لازمی ہے اورانسانوں میں سے بھی کوئی اس موت سے محفو ظ نہیں رہ سکتا.ہاں وہ لوگ جو وَجْہُ اللّٰہ میں محو ہوکر ایک نئی زندگی حاصل کرلیتے ہیں وہ جسمانی موت سے تو نہیں بچ سکتے لیکن ان کی روحیں ہمیشہ کے لئے زندہ رکھی جائیں گی.کیونکہ ان ارواح کا خدا تعالیٰ کی ذات سے اتصال ہو جاتا ہے.ا وردنیا میں ہی خدانماوجود بن جاتے ہیں.جیسے حدیثوں میں آتاہے کہ بندہ میرے قر ب میں اتنا بڑھتاہے کہ آخر مَیں اس کے ہاتھ ہوجاتاہوں جن سے وہ پکڑتاہے.اس کے پائوں ہوجاتاہوں جن سے وہ چلتاہے.اوراس کی زبان ہوجاتاہوں جس سے وہ بولتاہے.جو اس پر حملہ کرتاہے وہ اس پر نہیں بلکہ خدا پر حملہ کرتاہے.اورجواس کو عزت دیتاہے.وہ اس کو نہیں بلکہ خدا کو عزت دیتاہے.یہی وہ مقام ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ؎ سر سے میرے پائو ں تک وہ یا ر مجھ میں ہے نہاں اے میرے بد خواہ کرنا ہوش کرکے مجھ پر وار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۳۳) یعنی تم مجھے دیکھتے ہوتویہ خیال کرتے ہو کہ یہ مرزا غلام احمدؐ ہے.اگر ہم نے اس پر حملہ کرلیاتوکیاہواحالانکہ اگر
تم حملہ کرتے ہو توتمہاراحملہ مرزا غلام احمدؐ پر نہیں بلکہ خدا پر ہوتاہے کیونکہ خدا نے میرے وجود کو اپنا لیا ہے.پرانے زمانہ میں طریق تھا کہ بادشاہ ایک بکرالے کر اس کو کھلاچھوڑ دیتے تھے.کہ جو اس پر حملہ کرے گا و ہ ہم پر حملہ کرنے والا سمجھاجائے گا.وہ تمام ملک میں آزاد پھرتاتھا اورکوئی اس کو چھیڑنے کی جرأت نہیں کرتاتھا.اوراگرکسی علاقہ میں وہ ماراجاتا توبادشاہ اس پر چڑھائی کردیتاتھا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے بعض بندے اس کے اتنے پیارے اور محبوب ہوتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان پر حملہ اپنی ذات پر حملہ سمجھتاہے.قرآن کریم میں اسی قسم کاایک واقعہ حضرت صالح علیہ السلام کابیان کیاگیا ہے.حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی اونٹنی کے متعلق لوگوں میں اعلان کردیا کہ دیکھنا اس کو نہ چھیڑنا.ورنہ تم اللہ تعالیٰ کے عذاب میں گرفتار ہوجائو گے.اس کامطلب در حقیقت یہی تھا کہ جس طرح حضرت صالح ؑ خداکے ہوگئے تھے اسی طرح خداصالح ؑ کاہوگیاتھا جس طرح حضرت صالح ؑ کے بغیر خداظاہر نہیں ہوسکتاتھا.اسی طرح اونٹنی کے بغیر صالح ؑ بھی تبلیغ نہیں کرسکتے تھے.پس جو اونٹنی کومارتاتھا وہ اس لئے نہیں مارتاتھاکہ وہ ایک اونٹنی ہے بلکہ اس لئے مارتاتھا کہ صالح ؑ تبلیغ نہ کرے.اورجو صالح ؑ کومارتاتھاوہ اس لئے نہیں مارتاتھاکہ صالح ؑ اورافراد کی طرح ایک فرد ہے بلکہ اس لئے مار تاتھاکہ صالح ؑ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کاچہرہ دنیا پرظاہرنہ ہو.اس لئے جن لوگوں نے اونٹنی پر حملہ کیا.انہوں نے اونٹنی پر نہیں بلکہ صالح ؑپر حملہ کیااورخدا نے انہیں اپنے غضب کا نشانہ بنادیا.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کہاتھا کہ تم نے اونٹنی کو ما رکرصالح ؑ کومارا.اورصالح ؑ کو مار کر مجھے مارا.پس ایسے وجود چونکہ خدا تعالیٰ کے وجود میں ہی شامل ہوتے ہیں.اس لئے اِلَّاوَجْھَہٗ فرماکران کااستثنیٰ کردیاگیاہے.اورانہیں دائمی حیات کاوارث قرار دے دیاگیاہے.پھر كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ کے ایک یہ بھی معنے ہیں کہ جس چیز میں اللہ تعالیٰ کاوجہہ نظر آتارہے.یعنی وہ اپنی غرضِ پیدائش کو پوراکرتی رہے وہ محفوظ رہتی ہے.ورنہ ہلاک ہوجاتی ہے.اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ کائنا ت کا ہر ذرہ وجودِ باری کو ظاہر کرنے والا ہے اور اس میں خدا تعالیٰ کاچہر ہ نظر آتاہے.کسی میں رحمت کااور کسی میں غضب کااور کسی میں ربوبیت کا او رکسی میں حفاظت کا اور کسی میں قضا و انصاف کا.اگرکہوکہ کیا گندی چیزوں میں بھی خدا کاچہرہ نظرآتاہے تواس کا جواب یہ ہے کہ چہرہ سے مراد ظہور ِ صفات ہے ورنہ یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کاکوئی حقیقی چہرہ ہے.اوراس میں کیا شبہ ہے کہ گندی اورپاک دونوں چیزوں سے خدا تعالیٰ کی صفات کاظہور ہورہاہے.صرف ظہورمختلف قسم کا ہے.ہاں انسان ایک وقت میں صرف ایک ہی صفت کو نمایاں طورپر ظاہرکرسکتاہے یاچند صفات ظاہر کرسکتاہے لیکن اللہ تعالیٰ ایک ہی وقت میں غضب اوررحم اور باقی سب صفات ظاہرکررہاہوتاہے.پس یہ
کوئی اعتراض نہیں کہ ایک ہی وقت میں اس کاچہرہ مختلف آثار کیونکر ظاہرکررہاہے.پھر فرماتا ہے لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کرکہاں جاسکتے ہوبادشاہت بھی اسی کے ہاتھ میں ہے.اورپھر تم سب نے مرکر پیش بھی اسی کے حضور ہوناہے.اورجب یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سواہرچیز نے فناہوناہے.صرف وہی چیز باقی رہے گی جس کی طرف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی اور تمام بادشاہت بھی اسی کے قبضہ میں ہے توپھر مشرکوں سے ڈرنے کاکیافائدہ ؟ جب فناہوناہے توپھر اس ذات کے ساتھ انسان کیوں تعلق پیدانہ کرے جس کی توجہ سے انسان کو دائمی اورابدی زندگی مل سکتی ہے اورمرنے کے بعد انسان ہمیشہ کاسکھ پاسکتاہے.
سُوْرَۃُ الْعَنْکَبُوْتِ مَکِیَّۃٌ سورۃ عنکبوت.یہ سورۃ مکی ہے.وَھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ سَبْعُوْنَ اٰیَۃً وَّسَبْعَۃُ رُکُوْعَاتٍ اوربسم اللہ سمیت اس کی ستر(۷۰) آیتیں ہیں اورسات (۷)رکوع ہیں.وقت تنزیل حضرت ابن عباسؓ.ابن زبیر ؓ.حسن.عکرمہ.عطاء اور جابر بن زید کے نزدیک یہ تمام سورۃ مکی ہے.یحیٰ بن سلام کے نزدیک اس کی صرف بارہ ابتدائی آیات مدنی ہیں.باقی ساری سورۃ ان کے نزدیک بھی مکی ہے.لیکن قتادہ اسے مدنی قراردیتے ہیں اور حضرت علیؓ کے نزدیک یہ سورۃ مکہ اور مدینہ کے درمیان نازل ہوئی تھی.یوروپین مستشرقین میں سے نولڈکے اور وہیری دونوں اسے مکی قرا ر دیتے ہیں.البتہ وہ اسکی ابتدائی دس آیات اورآیت ۴۵ کو مدنی قرا ردیتے ہیں.تعلق اورترتیب سورۃ قصص کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ لَاتَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ لَآاِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْءٍ ھَالِکٌ اِلَّاوَجْھَہٗ یعنی اے محمدؐ رسول اللہ کے ساتھیو !ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی توحید پرقائم رہو.اوردنیا میں اس کی اشاعت کرتے رہو.اوراس بات سے نہ ڈروکہ مشرکوں کاملک ہے وہ تم کو تکالیف پہنچائیں گے.اللہ تعالیٰ کے سواہر چیز نے فناہوناہے.صرف وہی چیز باقی رہے گی جس کی طر ف اللہ تعالیٰ کی توجہ ہوگی.اس لئے مشرکوں سے ڈرنے کاکیافائدہ.تمہیں اپنااصل تعلق اللہ تعالیٰ سے رکھناچاہیے اوراسی کی رضاء اورخوشنودی کی جستجو کرنی چاہیے.اب سورئہ عنکبوت کو بھی اسی مضمون کے تسلسل میں جاری رکھا گیاہے اورفرماتا ہے کہ بے شک تم چاروں طرف سے مشرکوں میں گھرے ہوئے ہو اور تمہاری مثال اس وقت ایسی ہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے.مگرتمہیں یاد رکھناچاہیے کہ ایمان کی شان بھی اسی وقت ظاہر ہوتی ہے جب دشمنوں کی مخالفت اپنے انتہاکوپہنچ چکی ہو.اگرتم یہ سمجھو کہ تمہیں پھولوں کی سیج پر چلتے ہوئے کامیابی حاصل ہوجائے گی تویہ تمہاری غلطی ہے.تم نے بے شک اپنی زبانوں سے اپنے ایمانوں کااظہار کردیاہے.لیکن اللہ تعالیٰ چاہتاہے کہ تمہاراعمل بھی اس ایمان کی شہادت دے اور تم اپنے خون کے نقوش سے اس ہدایت کے اقرار کاایک عملی ثبوت قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے مہیاکرو اور یہ مت سمجھو کہ اس قربانی کاصرف تم سے ہی مطالبہ کیاگیا ہے بلکہ پہلے لوگوں سے بھی ایسا ہی مطالبہ کیاگیاتھا.کیونکہ سنت اللہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف منہ کے اقرار سے کسی قوم کو انعامات کاحقدارقرار نہیں دیتا بلکہ وہ انہیں آزمائشوں
اور امتحانات کی بھٹی میں ڈالتاہے اور انہیں صبر آزمامصائب کے ایک ہولنا ک دور میں سے گذارتاہے تاکہ ان کے ایمانوں کاصدق یاکذب بھی لوگوں پر ظاہر ہوجائے اور لوگوں کویہ بھی پتہ لگ جائے کہ کس پایہ کاایمان اللہ تعالیٰ کے حضورمقبول ہواکرتاہے.خلاصہ مضامین فرماتا ہے.کیالوگ یہ سمجھتے ہیںکہ صرف منہ سے اپنے آپ کو مومن کہہ دینے سے ان کو اللہ تعالیٰ چھوڑ دے گا.اوران کے ایمان کاامتحان لے کر ان کی حقیقت کو دنیا پر ظاہر نہیں کرے گا.(آیت ۳) مومنوں کو یاد رکھناچاہیے کہ ان سے پہلے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے امتحان میں ڈالا.پس اس زمانہ کے مومنوںکو بھی اللہ تعالیٰ ممتاز کرکے چھوڑے گا.اوردنیا پر ظاہر کردے گا کہ وہ صادق ہیں یاجھوٹے.(آیت۴) پھر فرماتا ہے کہ کیا وہ لوگ جوبدیاں کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو سزانہیں دیں گے.یاوہ کسی نہ کسی طرح ہماری سزاسے بچ جائیں گے.ان کایہ خیال بالکل باطل ہے.ہماری سزاسے بچنے کاطریق یہی ہے کہ انسان توبہ کرے اورہماری طرف رجوع کرے.(آیت ۵) اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا وقت آخر ضرور آئے گا.ہاں یہ یادر کھناچاہیے کہ نیکی کرنا انسان کے اپنے فائدے کے لئے ہوتاہے خدا کوکوئی فائدہ نہیں ہوتا.جونیکی کرے گاوہ اپنے فائدہ کے لئے کرے گا.اورجو بدی کرے گا اس کانقصان اسے خود پہنچے گا.اللہ تعالیٰ انسان کے اعمال سے بے نیاز ہے.(آیت ۶،۷) ہاں بدی اور نیکی کی جزاء میں ایک فرق ہے.ہم چونکہ رحیم وکریم ہیں.اگر کوئی نیکی کرے توہم اس کی نیکیوں کا اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتے ہیں.اوراگرلوگوں سے کوئی غلطیاں ہوجائیں توہم ان پر پردہ ڈال دیتے ہیں.(آیت ۸) پھر فرماتا ہے.ہم نے انسان کو اپنے والدین سے نیک سلوک کرنے کاحکم دیاہے.ہاں اگر وہ توحید کے خلاف کوئی بات کریں تونہ مانے کیونکہ آخر معاملہ خدا سے پڑنا ہے ماں باپ سے نہیں پڑنا.اس لئے جوبات خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتی ہے اس کو خدا تعالیٰ پر چھو ڑے.اس میں ماں باپ کی بات نہ مانے.(آیت ۹) پھربتایاکہ مومنوں کومرنے کے بعد اعلیٰ مقامات ملیں گے او ران کو ہم نیک لوگوں کی جماعت میں داخل کریں گے.(آیت ۱۰) پھر اس سو ر ۃ کی پہلی آیت کے تسلسل میں بتایا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کی وجہ سے ان کو تکلیف دی جاتی ہے تووہ انسانوں کی تکلیفوںکو اتنا ہی بڑاسمجھتے ہیں جتناخداکے عذاب کو.وہ خدا کی رحمت کے دروازہ تک پہنچ کر پھر لوٹ جاتے ہیں.مومن کو ایسانہیں ہوناچاہیے بلکہ ہمت اوراستقلال کے ساتھ سچ پر قائم
رہناچاہیے.پھرفرماتا ہے بزدل لوگ بزدلی کی وجہ سے منافق بھی بن گئے ہیں.اگرمومنوں کو خدا کی مدد آجائے توکہتے ہیں ہم بھی تمہارے ساتھ تھے لیکن وہ اتنابھی نہیں جانتے کہ ایمان کاانعام تو خدا نے دینا ہے محمدؐ رسول اللہ نے نہیں دینا.اورخداتود ل کی باتوں کوجانتاہے.محمدؐ رسول اللہ تونہیں جانتے.پس آرام او رترقی کے راستے کھلے دیکھ کر اپنے متعلق مومنوں کے ساتھ ہونے کادعویٰ کرنے کاکیافائدہ ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ لوگوںکو ضرو رآزمائش میں ڈالے گا.یہاں تک کہ دنیا پر ظاہر ہوجائے گاکہ مومن کون سے ہیں اورمنافق کون سے.اوراللہ تعالیٰ کاعلمِ قدیم علم واقعہ سے بدل جائے گا.تاکہ اس علم کے مطابق اللہ تعالیٰ جو سزایاجزاء دے اس پر کسی کو اعتراض کاموقعہ نہ رہے (آیت ۱۱و۱۲) پھر فرماتا ہے کہ کفر انسان کے دل پر ایسازنگ لگادیتاہے کہ خلافِ عقل باتیں کافر کے منہ سے نکلتی چلی جاتی ہیں.یہاں تک کہ کافر کہنے لگ جاتے ہیں کہ اگر تم ہمارے پیچھے چلو توہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے.حالانکہ ہرشخص جانتاہے کہ یہ بات ناممکن ہے.وہ اپنا بوجھ بھی اٹھائیں گے او راس قسم کی دھوکابازی کے بدلہ میں اَوربھی بوجھ ان پر ڈالاجائے گا کیونکہ انہوں نے یہ با ت کہہ کر اَوربھی گناہ کیا ہے.(آیت ۱۳و۱۴) اس کے بعد حضرت نوح ؑ کا ذکر شروع کیاہے.جن کے سلسلہ میں حضرت ابراہیم ؑ آئے تھے اورجن کے سلسلہ میں آگے حضرت موسیٰ ؑ آئے.فرماتا ہے انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک دنیا میں تبلیغ کی لیکن لوگوں نے نہ مانا.آخرخدا تعالیٰ کو انہیں ایک طوفان کے ذریعہ سےتباہ کرناپڑا.لیکن نوح ؑ او راس کے ساتھیوںکو خدا تعالیٰ نے بچالیا اور آنے والوں کے لئے ایک نشان بنادیا.(آیت ۱۵و۱۶) پھر ابراہیم ؑ کا ذکرفرماتا ہے او ر بتاتاہے کہ نوح ؑ کے واقعہ سے ابراہیمؑ کے زمانہ کے لوگوں نے فائد ہ نہ اٹھایا.چنانچہ فرماتا ہے کہ ابراہیمؑ کے زمانہ میں بھی لوگوں نے شرک کرناشروع کردیا.اورابراہیمؑ نے اپنے زمانہ کے لوگوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور خدا تعالیٰ کاتقویٰ اختیار کرو.اگرتمہیںکچھ بھی علم ہو توا س نصیحت پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا.تم اتنا تو سوچو کہ تم خدا کو چھو ڑکر بتوںکوپوجتے ہو او رخدا تعالیٰ پر ان کے بارہ میں افتراء باندھتے ہو اور یہ نہیں سمجھتے کہ تم تو اپنی زندگی کے لئے رزق کے محتاج ہو اور تمہارے معبود رزق دینے کی طاقت نہیں رکھتے.رزق اللہ تعالیٰ ہی دیتاہے جوآسمان سے پانی اتارتاہے اورزمین سے غلّہ اگاتاہے.پس جو رزق دیتاہے اسی کی طرف توجہ کرو.اوراس کی عبادت کروکیونکہ آخر تم نے اسی کے پاس جاناہے.اگرتم اس بات کو نہیں مانوگے تویاد رکھو کہ پہلی قومیں بھی شرک کرتی آئی ہیں اور تمہیں پتہ ہے کہ ان کے شرک
کاکیانتیجہ نکلا.میں تورسول کی حیثیت میں صرف بات پہنچانے کاذمہ وار ہوں.جبراً کسی کو ایمان دینا میراکام نہیں.(آیت ۱۷تا۱۹) پھر فرماتا ہے لو گ اتناغور نہیں کرتے کہ خدائی نظام بھی ایک عرصہ کے بعد لوگوں کے بد لنے کی وجہ سے بدل جاتاہے.پھر لوگ کس طرح سمجھتے ہیں کہ ان کے زبردستی ٹھونسے ہوئے نظام ہمیشہ قائم رہیں گے.اورجس نظام یا عقیدہ نے ایک دن بدل ہی جاناہے اس کو زبردستی ٹھونسنے کی کیاوجہ ہے ؟(آیت۲۰و۲۱) پھر فرماتا ہے.عذاب الٰہی بھی انہی لوگوں پر آتاہے جوخدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق عذاب کے مستحق ہوتے ہیں.اوررحم بھی انہی پر نازل ہوتاہے جوخدائی تقدیر کے ماتحت رحم کے مستحق ہوتے ہیں.(آیت ۲۲) پھر فرماتا ہے کہ خدائی تقدیر کامقابلہ انسان نہیں کرسکتا.اگرخداکسی قوم کو اونچا کرناچاہتاہے تووہ ضرو راونچی ہوکر رہے گی.اوراگرکسی کونیچاکرناچاہے تو وہ ضرور نیچی ہوکررہے گی.(آیت ۲۳) پھربتایاکہ جولوگ اللہ تعالیٰ کے نشانات اوراس کی لقاء کے منکر ہوتے ہیں ان کے اس انکار کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایو س ہوتے ہیں.اورآخر یہی مایوسی انہیں بڑے بڑے گناہوں پر دلیرکردیتی ہے.چنانچہ دیکھ لوجب ابراہیمؑ نے اپنے زمانہ کے لوگوںکو خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی نصیحت کی.توان لوگوں نے جو خدا تعالیٰ کی لقاء سے مایوس ہونے کی وجہ سے گناہوں پر دلیرہوچکے تھے ایک دوسرے سے کہا کہ اسے قتل کردو.یاآگ میںڈال کر جلاڈالو.مگراللہ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو معجزانہ رنگ میں آگ سے نجات دے دی.(آیت ۲۴و۲۵) اس کے بعد بتایا کہ بت پرستی کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں بلکہ صر ف اس لئے بتوں کی پرستش کی جاتی ہے کہ تمام بت پرستوں کا ایک نقطئہ مرکزی قائم ہوجائے او ران کاایک جتھہ بن جائے.مگریہ تمام دوستیاں اور تعلقات صرف دنیا کی زندگی تک محدود ہیں آخر ت میں یہ لوگ ایک دوسرے پر لعنت ڈالیں گے اوران کے مزعومہ معبودوں میں سے کوئی ان کی مدد نہیں کرسکے گا.(آیت ۲۶) پھر بتایاکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جولوگ ایما ن لائے ان میں سے ایک حضرت لوط ؑ بھی تھے.مگر چونکہ ان کی قوم ان کی شدید دشمن تھی اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کردیا کہ مَیں اب اس ملک سے ہجرت کرنے والاہوں.اور چونکہ انہوں نے خداکے لئے اپنے وطن کو چھوڑااو راپنے عزیزوں او ررشتہ داروں سے منہ موڑا.اس لئے خدا نے اس اخلاص کو دیکھ کر انہیں اسحاق ؑ اور یعقوبؑ عطاکئے.یعنی بیٹابھی ایسالائق بخشا جو خدا تعالیٰ کانبی بنا او رپھر پوتابھی ایسادیا جونبوت کے مقام پر فائز ہوا.بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص کو دیکھ کر یہ
فیصلہ کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہی ہوں اوراس طرح خدا تعالیٰ نے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو دنیا میں بڑااجر دیا.اورآخرت میں بھی وہ بڑے درجات حاصل کرے گا.(آیت ۲۷و۲۸) پھر لوط ؑ کا ذکر کیاجو ایک ایسی قو م کی طرف رسول بناکربھیجے گئے تھے جوخلاف وضعِ فطرت افعال کی عادی تھی اورڈاکے ڈالتی تھی اور پبلک مقامات میںبھی فواحش کے ارتکاب سے احتراز نہیں کرتی تھی.حضرت لوط علیہ السلام کے سمجھانے پر ان کی قو م نے یہی کہا کہ اگرتم سچے ہوتو وہ عذاب لائو جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو.حضرت لوط ؑ نے خدا تعالیٰ سے دعاکی کہ خدایا مجھے اس مفسد قوم کے مقابلہ میں اپنی مددسے سرفراز فرما.(آیت ۲۹تا۳۱) اللہ تعالیٰ نے اس دعاکو قبول فرمایا اور قومِ لوطؑ کی تباہی کافیصلہ کردیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ خبر اس علاقے کے بعض برگزیدہ بندوں کودی اوروہ لوگ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس انہیں حضرت اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کی ولادت کی خوشخبری دینے آئے اورپھر بتایاکہ اللہ تعالیٰ حضرت لوط ؑ کی قوم پر عذاب نازل کرناچاہتاہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ سنکر گھبراگئے اورفرمانے لگے کہ اس بستی میں تولوط ؑ بھی رہتاہے جوخدا تعالیٰ کابرگزیدہ بندہ ہے.انہوں نے کہا کہ لوطؑ اوراس کے تمام لواحقین اس عذاب سے محفوظ رہیں گے.صرف اس کی بیوی کے متعلق اللہ تعالیٰ کایہ فیصلہ ہے کہ وہ بھی عذاب کاشکار ہوگی.(آیت۳۲و۳۳) پھر خدا تعالیٰ کے یہ برگزیدہ بندے حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے.چونکہ انہیں قو م نے بڑی سختی سے غیر قوموں کے افراد سے تعلق رکھنے اور انہیں اپنے ہاں ٹھہرانے اور ان کی مہمان نوازی کرنے سے منع کیاہواتھا اس لئے جب یہ لو گ آپ کے پاس پہنچے توحضرت لوط ؑ نے پیش آمدہ مخالفت کاتصورکرتے ہوئے تکلیف محسوس کی.انہوں نے کہا کہ اب کسی خوف کی ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ اس قوم کی تباہی کافیصلہ کرچکا ہے.چنانچہ عذاب آیااوروہ لوگ تباہ ہوگئے.اورآنے والی نسلوں کے لئے ایک عبرت کا نشان قائم کرگئے.(آیت ۳۴و۳۵) اس کے بعد ہم نے مدین کی طرف شعیبؑ کو رسول بناکربھیجا.مگرا س قوم نے بھی قومِ لوط ؑ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حضرت شعیب علیہ السلام کاانکار کردیا.جس کانتیجہ یہ ہواکہ ایک دل ہلادینے والے عذاب نے ان کوپکڑ لیا.اسی طرح عاد او ر ثمود بھی ہلاک کئے گئے.اورقارون اورفرعون اورہامان بھی موسیٰ ؑ کی مخالفت کی وجہ سے تباہ ہوئے مگران میں سے ہرقوم صر ف اپنی ہی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہے.خدا نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا.(آیت ۳۶تا۴۱)
پھر بتایاکہ مشرک لوگ جومعبودان باطلہ کو اپنی جائے پناہ سمجھتے ہیں ان کی یہ پناہ گاہیں مکڑی کے گھرسے بھی زیادہ کمزور ہوتی ہیں.اوروقت آنے پر ان کاتمام تار پود بکھر جاتاہے.کاش! یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھتے.(آیت ۴۲) اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ یہ مشرکین اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے کن کن لوگوں کواپنے ساتھ ملارہے ہیں.اور انہیں اپنی مدد پرآمادہ کررہے ہیں.مگران کی یہ تدبیریں انہیں کامیاب نہیں کرسکتیں.کیونکہ خدابڑاغالب اورحکیم ہے.(آیت ۴۳) اورہم نے ان واقعات او رامثال کاا س لئے ذکر کیاہے کہ لوگ نصیحت حاصل کریں مگرخدا تعالیٰ کی خشیت رکھنے والوں کے سوااَورکوئی نصیحت حاصل نہیں کرتا.(آیت ۴۴) ان لوگوں کو چاہیے تھاکہ یہ آسمانوں او رزمین کی تخلیق پر غو رکرتے اورسوچتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک عظیم الشان مقصد کے لئے پیدا کیا ہے اوراس میں مومنوں کے لئے ایک بڑابھاری نشان ہے یعنی وہ جانتے ہیں کہ جس طرح جسمانی عالم میں یہ زمین و آسمان ضروری ہیں اسی طرح روحانی عالم میں بھی عقل کے ساتھ الہام کاوجود ضروری ہے.(آیت ۴۵) فرماتا ہے اے محمدؐ رسول اللہ!لوگوںکی اصلاح کاذریعہ یہ ہے کہ تُوقرآن کریم لوگوں کو سنااور نماز باجماعت کودنیا میں قائم کر.اس سے ہرقسم کی بری اورناپسندید ہ باتوں کااستیصال ہوجائے گا.اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس ذریعہ سے لوگوں کو ذکر الٰہی کاموقعہ ملتا رہے گا.جواپنی ذات میں تمام مقاصد میں سے بڑامقصد ہے.اور اگراہل کتاب سے کبھی بحث کی نوبت آجائے تواس وقت قرآنی دلائل کو مد نظر رکھاکرو.اٹکل پچّو باتیں نہ کیا کرو.ہاں جو ان میں سے شریر او رظالم طبع لوگ ہوں.انہیں تم الزامی جواب بھی دے سکتے ہو.اس کے ساتھ ہی انہیں اس طرف بھی توجہ دلاتے رہو کہ آپس میں جھگڑ نے کاکیا فائدہ ؟ تم بھی موحد ہواورہم بھی موحد ہیں.آئو ہم دونوں فریق مل کر خدائے واحد کی توحید دنیا میں پھیلائیں اورشرک کومٹانے کی کوشش کریں.(آیت ۴۶،۴۷) پھر بتایاکہ جس طرح موسیٰ ؑ پرتورات نازل ہوئی تھی.اسی طرح اب تجھ پر قرآن کریم نازل کیاگیا ہے.اورمسلمان ا س کی صداقت پر کامل یقین رکھتے ہیں.بلکہ یہودیوں میں سے بھی سعادت مند لوگ اس پر ایمان لارہے ہیں.لیکن جو لوگ ناشکری پر مصر ہیں وہ قرآن کریم کے بیان کردہ مسائل کاانکار کرتے چلے جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس میں تورات اور انجیل کے قصے دوہرائے گئے ہیں.حالانکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزولِ قرآن سے پہلے کسی آسمانی کتاب کی تلاوت نہیں کرتے تھے بلکہ ان کتابوںکو نقل بھی نہیں کرسکتے تھے.پھر یہ کس
طرح کہاجاسکتاہے کہ انہوںنے پہلوں کی کہانیاں بیان کردی ہیں.یہ کہانیاں نہیں بلکہ آیاتِ بیّنات ہیں.اوراس کاثبوت یہ ہے کہ جن کوقرآنی علم دیاگیاہے ان کے سینوں سے اس کے معارف کے دریابہہ رہے ہیں.مگرظالم لوگ پھر بھی انکار کرتے چلے جاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ اس پرآسمانی نشانات کیوں نازل نہیں ہوئے؟ فرماتا ہے.تمہارا منشاء تونشان سے عذاب مانگناہی ہے اورخدا تعالیٰ ایک دن یہ عذا ب بھی لے آئے گامگرکیاان لوگوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ تجھ پر ایک کامل کتاب نازل کردی گئی ہے جودنیا کے تمام مفاسد کاعلاج اور اقوامِ عالم کے لئے رحمت کاپیغام ہے.اورمومنوں کے لئے نصیحت کابڑابھاری سامان اپنے اندر رکھتی ہے.(آیت ۴۸تا۵۲) فرماتا ہے اگراس دلیل سے بھی ان کااطمینان نہ ہوتوتُوانہیں کہہ دے کہ اب میں اس جھگڑے کافیصلہ اپنے خدا پرہی چھوڑتاہوں.وہ زمین وآسمان کے تمام رازوں کوجانتاہے اوریہ ناممکن ہے کہ سچاہارجائے اور جھوٹاکامیاب ہوجائے.ہلاکت اوربربادی انہی لوگوں کے حصہ میں آتی ہے جوجھوٹ پر ایمان لاتے اور خدااوراس کے رسولوں کاانکار کرتے ہیں.(آیت ۵۳) فرماتا ہے.یہ لوگ توچاہتے ہیں کہ ان کی تباہی کے متعلق جوتجھے خبریں دی گئی ہیں وہ فوراً پوری ہوجائیں لیکن اللہ تعالیٰ غضب میں دھیماہے.وہ ان لوگوں کو کچھ ڈھیل دیناچاہتاہے.مگرانہیں یاد رکھناچاہیے کہ دنیوی عذاب جب بھی آیا اچانک آئے گااور ایک عذاب ایسابھی آئے گا جوتمام منکرین اسلام کا احاطہ کرلے گا.اس وقت یہ عذاب انہیں اوپر سے بھی ڈھانک لے گااور نیچے سے بھی.نہ ان کے لیڈر ان کے کچھ کام آئیں گے اورنہ عوام اپنے لیڈروں کے کام آئیں گے اورانہیں کہا جائے گاکہ اب اپنے عملوں کامزہ چکھو.(آیت ۵۴تا۵۶) پھر فرمایاکہ اے مومنو!اگرکفار تمہیں دکھ پہنچاتے ہیں تو تم غیر ممالک میں نکل جائو.اورمیری عبادت کو دنیا میں قائم کرو.اورمت ڈروکہ اگر باہر نکلے توتم موت کاشکارہوجائو گے.موت سے توکوئی متنفس بھی نہیں بچ سکتا.لیکن اگرتم خداکے لئے مروگے توچونکہ تم نے ہمارے پاس ہی آناہے ہم تمہیں بہترین انعامات دیں گے اور بلندوبالا مکانات عطاکریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.(آیت ۵۷تا۵۹) پھربتایاکہ اس راہ میں صبر اور توکلّ سے کام لینا ضروری ہے.اس بات سے کبھی نہ گھبرائو کہ اگر تم نے خدا کے لئے اپنی زندگیاں وقف کیں توتم کھائو گے کہاں سے ؟ تم جانوروں کودیکھوکیا وہ اپنارزق اپنےساتھ اٹھائے پھرتے ہیں.پھر کس طرح خداان کو رات دن کھلاتااور ان کی ضروریات کوپوری کرتاہے پس اگر تم خداکے ہوجائوگے تو وہ تمہیں بھی رزق دے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ دعائوں کوسننے والااور اپنے بندوں کے حالات کوخوب جاننے
والا ہے.(آیت۶۰و۶۱) اس کے بعد بتایاکہ جب تم لوگ توحید کی اشاعت کے لئے نکلو.اورمشرک قوموں سے تمہارامقابلہ ہوتوتم ان سے پوچھو کہ آسمانوںاورزمین کو کس نے پیدا کیا ہے اورسورج او رچاند کو بغیر مزدوری کے کس نے بنی نوع انسان کی خدمت پرلگارکھاہے.کیا تمہارے مزعومہ معبودوں میں سے کسی معبود کا یہ کارنامہ ہے؟ وہ اس کے جواب میں سوائے اس کے کچھ نہیں کہیں گے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کاہی پیداکردہ ہے.اب دیکھو کہ وہ اس اقرار کے باوجود کس طرف کو بہکے جارہے ہیں.پھر رزق کی فراوانی اورتنگی بھی ایک قانون کیساتھ وابستہ ہے جس میں کسی غیر معبود کا کوئی دخل نہیں.اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں میں سے جس کوچاہتاہے کشائش عطافرماتا ہے اورجس کو چاہتاہے تنگی میں مبتلاکردیتاہے.اوریہ رزق کی کمی بیشی بڑی حکمتوںپر مبنی ہے اوراس کے پیچھے ایک علیم ہستی کاہاتھ کام کررہاہے.(آیت ۶۲و۶۳) پھر فرمایا.اگر ان مشرک لوگوں سے پوچھو کہ آسمان سے کس نے پانی اتار ا اورکس نے ایک مردہ زمین کو پھر زندہ کردیا ہے.کیا یہ طاقت تمہارے کسی معبود میں بھی تھی.تووہ اس کے جواب میں کہیں گے کہ اللہ ہی نے ایساکیا ہے.توکہہ دے کہ پھر اس سے ثابت ہواکہ اللہ ہی تمام تعریفوں کامستحق ہے اورجب ہر تعریف اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے تویہ جھو ٹے معبود کہاں سے آگئے.جن کا تم ذکر کررہے ہو.(آیت۶۴) پھربتایاکہ علمی رنگ میں تو ان پر حجت تما م ہو چکی ہے.مگراس کے باوجودجو انہیں اپنے غلط عقائد پر اصرار ہے توصرف اس لئے کہ خدا کومان کر دنیا چھوڑ نی پڑتی ہے اوردنیا چھوڑ نے کے لئے ان کادل نہیں چاہتا.حالانکہ یہ دنیوی زندگی لہو اورلعب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی.اصل زندگی وہی ہے جو اگلے جہان میں حاصل ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لو جب یہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں اوروہ کشتی بھنور میں پھنس جاتی ہے.توانہیں اپنے تمام دیوتا بھول جاتے ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اپنی عقیدت کو مخصوص کرتے ہوئے وہ اسے پو رے درد اور سوز کے ساتھ پکارتے ہیں.لیکن جب کشتی بھنور میں سے نکل جاتی ہے توپھر شرک کی طرف دوڑپڑتے ہیں.اورہمارے انعامات کا انکارکر دیتے ہیں.لیکن ایک دن ایساضرور آئے گا جبکہ وہ اپنے اعمال کی جزا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ انہوں نے توحید کاانکار کرکے کتنی بڑی غلطی کی.(آیت ۶۵تا۶۷) پھر فرمایا.کیایہ لو گ نہیں دیکھتے کہ ہم نے مکہ مکرمہ کو کیسی پر امن بستی بنایاہے.اس کے ارد گرد کے علاقہ میں قتل و خونریزی اورفساد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں.مگرمکہ کے رہنے والوں پر کوئی انگلی تک نہیں اٹھاتا.پھر کیوں
یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے اتنے بڑے احسان کو دیکھنے کے بعد بھی باطل کی طرف جھکتے ہیں.اوراللہ تعالیٰ کی اس نعمت کا انکار کرتے ہیں جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں انہیں عطا کی گئی ہے.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ دنیا میں بڑے ظالم دوہی شخص ہوتے ہیں.ایک وہ جو خدا پر افتراء کرے اوردوسراوہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے رسول کی تکذیب کرے اوریہ دونوں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے.مگروہ لو گ جوہمارے قرب کی اپنے دلوں میں سچی خواہش رکھتے ہیں اوراس کے لئے متواتر جدوجہداورقربانی اورایثار سے کام لیتے ہیں ہم ان کو اپنے قرب کی غیرمتناہی راہوں کی طرف بڑھاتے چلے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کنارِ عاطفت میں آجاتے ہیںیہی سلوک اب بھی ہوگا.اور محسنوں کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوگی.اور کفار ناکامی و نامرادی کی آگ میں جلتے رہیں گے.(آیت ۶۸تا ۷۰)
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں )اللہ (تعالیٰ) کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور )بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں) الٓمّٓۚ۰۰۲اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.کیا اس زمانہ کے لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ان کا یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ۰۰۳وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ لے آئے ہیں(کافی ہوگا) اور وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ؟حالانکہ جو (لوگ) ان سے پہلے فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ۰۰۴ گزرچکے ہیں ان کوہم نے آزمایا تھا (اور اب بھی وہ ایسا ہی کرے گا ) سو اللہ (تعالیٰ) ظاہر کردے گا ان کو بھی جنہوں نے سچ بولا اور ان کو بھی جنہوں نے جھوٹ بولا.تفسیر.جیسا کہ سورئہ بقرہ کی تفسیر میں لکھا جا چکا ہے کہ الٓمّ تین حروف مقطعات سے مرکب ہے.الفؔ اَنَا کا قائم مقام ہے لؔ اللہ کا اور مؔ اَعْلَمُ کا.اور ان حروف کے معنے یہ ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.جیسا کہ پہلے بتایا جاچکا ہے حروفِ مقطعات درحقیقت سورۃ کے آنے والے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہیں.چنانچہ اس جگہ بھی فرمایاگیا ہے کہ کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف ان کے منہ کے ان دعووں کی وجہ سے کہ وہ ایمان لے آئے ہیں ان کو آزاد چھو ڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی ؟اب بظاہر یہ آیت الٓمّٓ کے مضمون کے خلاف معلوم ہوتی ہے کیونکہ الٓمّٓ کے معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے.اور یہ آیت بتاتی ہے کہ جب تک آزمائش میں ڈال کر مومنوں کے ایمان کی حقیقت نہ کھولی جائے.صرف مونہہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں کافی نہیں ہوتا.گویا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کو آزمائشوں میں ڈال کر ان کے ایمان کے متعلق صحیح علم حاصل کرے.لیکن درحقیقت اگر غور کیا جائے.تو ان دونوں معنوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں کیونکہ گو اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے لیکن نہ کافر اس بات پر یقین رکھتے ہیں اور نہ کمزور مومن کہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ جانتا ہے.خدا تعالیٰ چونکہ وراء الوراء ہے اور اس کا علم بھی وراء الوراء ہے.جب تک
ظاہری آثار ظاہر نہ ہوں.لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آتا اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گو ہم تو جانتے ہیں لیکن ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ بنی نو ع انسان کی بھی تسلی ہو اور ان کو بھی معلوم ہوکہ کون مومن ہے اور کون غیر مومن.اس لئے اگر کوئی شخص منہ سے ایمان کا دعویٰ کرے تو ہم اس پر خاموش نہیں ہوجاتے بلکہ باربار ایمان کا دعویٰ کرنے والوں کی آزما ئش کرتے ہیں.یہاں تک کہ سب دنیا کو معلوم ہو جاتاہے کہ یہ گروہِ مومنین جس کو خدا تعالیٰ نے چنا تھا واقعہ میں مومن ہے.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ.پھر مثال دیتا ہے کہ یہ طریق ہم نے آج ہی اختیار نہیں کیابلکہ پہلے زمانہ کے لوگوں کو بھی مختلف قسم کی آزمائشوں میں ڈالا گیا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ لوگوں کے دلوں کے مخفی یقین اور ایمان کو دوسروں پر ظاہر کردے.اس جگہ عِلْم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اوراس کے ظاہری معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعہ جان لے گا کہ کون مومن ہے اور کون منافق.اس پر سوال پید ا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تو ازلی ہے اور وہ ہمیشہ سے ہر واقعہ کو جانتا ہے خواہ وہ آدمؑ کے وقت ہوا ہو یا قیامت کے دن ہونے والا ہو.پھر ایسا کیوں کہا گیاہے کہ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعہ سے جان لے گا کہ کون مومن ہے اور کو ن منافق.سوا س کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ علم الٰہی دو قسم کا ہے.ایک کسی چیز کے واقعہ ہونے سے پہلے کااورایک واقعہ ہونے کے بعد کا.جووقوعہ سے پہلے کاعلم ہے وہ بھی سچا ہے.لیکن مجرم کواس کی بناء پر سزادی جائے یااچھاکام کرنے والے کوانعام دیاجائے تواس کی تسلی نہیں ہوتی.اس کو شک رہتاہے کہ میری سزایاانعام ٹھیک تھا یا غلط.لیکن وقوعہ کے بعد کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا اوراس کو سزایاجزاء کے حق ہونے کااقرار کرنا پڑتا ہے.قرآن کریم نے اس آیت میں جو لَیَعْلَمَنَّ فرمایا ہے اس کے یہی معنے ہیں کہ ہم اپنے علم قدیم کو علمِ واقعہ سے بدل دیں گے.یعنی مومنوں کو ایسے حالات میں سے گذرنے دیں گے کہ ان پر بھی ا وران کے ساتھیوں پر بھی یہ بات کھل جائے گی کہ وہ سچے مومن تھے.اورکفار کو بھی ا س اعتراض کاموقعہ نہیں ملے گا کہ ان کو یونہی انعام مل گیاہے یہ اس کے مستحق نہ تھے.پس درحقیت لَیَعْلَمَنَّ کے معنے ظاہرکردینے کے ہیں.یعنی صادق مومنوں کاجب صدق ظاہر ہوجائے گا اورباوجود ابتلائوں کے وہ ثابت قدم رہیں گے تواللہ تعالیٰ اپنے علمِ ازلی کو علم واقعہ سے بدل دے گا.کیونکہ علمِ ازلی تو خدا کو ہے مگربندے تونہیں جانتے کہ ایساہوگا.بندے اس وقت جانتے ہیں جب کوئی بات وقوع میں آجائے.مثلاًاللہ تعالیٰ ہمیشہ سے جانتاہے کہ زید فلاں مہینہ میں فلاں دن مرے گا لیکن بندوں کوتو معلوم نہیں اورنہ
خدا تعالیٰ کے مخفی علم کی وجہ سے ان کو اس علم پر تسلی ہوسکتی ہے.ہاں جب خدا تعالیٰ کاازلی علم واقعہ میں بھی ظاہر ہوجائے اورمقررہ مہینہ کے مقررہ دن وہ شخص مرجائے توپھر دنیا کے لوگوں کو یقین ہو جاتا ہے کہ واقعہ میں وہ مرگیاہے اسی کی طرف لَیَعْلَمَنَّ کے لفظ سے اشارہ کیاگیا ہے اوربتایاگیاہے کہ خدا تعالیٰ توہمیشہ سے جانتاہے کہ کون مومن ہے اورکون نہیں مگربندے نہیں جانتے اورجب تک اللہ تعالیٰ کاازلی علم وقوعہ سے نہ بدل جائے وہ شک میں رہتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ طرح طرح کے فتنوں میں ڈال کر جب کہ مومن اپنے ایمان پر قائم رہتے ہیں دنیا کویہ یقین دلادیتاہے کہ یہ سچے مومن ہیں.اوراگرابتلاء کے موقعہ پر کوئی پھسل جائے تو خدا تعالیٰ کا ازلی علم جو اس کے جھوٹے ہونے کے متعلق تھا علم وقوعہ میں بدل کر دوسرے انسانوں کوبھی یقین دلادیتاہے کہ وہ کمزورایمان والاتھا اوراس طرح خدا تعالیٰ کے سلوک پر کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں رہتی.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے قاعدہ کلیہ کے طور پر یہ امر بیان فرمایا ہے کہ دعویٰء ایمان اور ابتلاء وا ٓزمائش لازم و ملزوم ہیں.یہ ممکن ہی نہیںکہ مومنوں کو صرف ان کے دعویٰٔ ایمان کی وجہ سے ہی کامل مومن سمجھ لیاجائے اورانہیں آزمائشوں اور ابتلائوں کی بھٹی میں نہ ڈالاجائے.اس طرح نہ پہلے کبھی ہواہے اور نہ آئندہ ہوگا.چنانچہ دیکھ لو جن لوگوں نے کسی زمانہ میں بھی سچا دین قبول کیا ان کے لئے فوراً ہی آرام اورسکھ کاراستہ نہیں کھولاگیا.بلکہ پہلے پہل تویہی ہواکہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ بھی انہیں دینا پڑا.اگرکچے گھروں والے تھے تو دین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کے محل بن جاتے وہ گھر بھی انہیں چھوڑنے پڑے.اگرقوموں میں معززتھے تودین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ بادشاہ اور حکمران بن جاتے انہیں پہلی عزتیں بھی چھوڑنی پڑیں.اگرمالدا ر تھے تودین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کا مال دگنا ، چوگنا،بیس گنا اورہزار گناہوجاتا انہیں اپنا پہلا مال بھی ترک کرناپڑا.اگرلوگوں سے تعلقا ت تھے تودین قبول کرنے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کے تعلقات وسیع ہوجاتے وہ بھی کٹ گئے.غرض جو راحت ،آرام،عز ت، دولت، طاقت اوررسوخ انہیں پہلے حاصل تھا.وہ بھی جاتارہا.اوربجائے فوراً سکھ ملنے کے بظاہر انہیں دکھ ملا.یہاںتک کہ خداکے لئے انہیں اپنے وطنوں کو بھی چھوڑنا پڑا.حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق کے رہنے والے تھے.مگرانہیں لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے فلسطین جاناپڑا.حضرت نوح علیہ السلام آئے توانہیں بھی اپنا مقام چھوڑنا پڑا.حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے توانہیں بھی اپنے گھر با رسے جداہوناپڑا.حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے توان کو صلیب پر لٹکایاگیااس کے بعد ہمارے نزدیک تووہ صلیبی موت سے بچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے.اورغیر احمدیوں کے نزدیک آسمان پر چلے گئے.پھر ان کی جماعت
پر مظالم ہوئے.تووہ جزیرہ سائپر س میں چلے گئے پھر مظالم ہوئے تووہ روماچلے گئے.پھر بھاگے تومصر میں آئے.مصر میں مظالم ہوئے تو پھررومابھاگ گئے.پھررومامیں مظالم ہوئے توصقلیہ میں آگئے.اس طرح متواتر تین سوسال تک اس جماعت کو اپنے مرکز بدلنے پڑے.اسی طرح بنی اسرائیل پر بخت نصر کے حملہ کے موقعہ پر اتنی عظیم الشان تباہی آئی کہ ان کے تمام مقدس مقامات گرادیئے گئے.شہر مٹادیئے گئے.اورساری قو م کوپکڑ کرغلام بنادیا گیا.یہ کتنا بڑاابتلاء ہے کہ کوئی شخص بھی آزاد اورحریت والا نہ رہا.قوم غلام بن گئی.معبد گرادیاگیا.متبر ک مقامات مٹادیئے گئے.شہروں کو آگ لگادی گئی.اور تمام فلسطین اور شام کے حصے ویرانہ بن کر رہ گئے.مگراس کے باوجود ان کی کوشش اورجدوجہد برابر جاری رہی.چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتاہے (دیکھو سورئہ بقرہ آیت ۲۶۰).جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کاایک نبی ایک مردہ بستی کے پاس سے گذرااو راس نے کہا کہ خدایایہ مردہ بستی دوبارہ کس طرح زندہ ہوگی؟ اللہ تعالی نے انہیں کشف میں سوسال کانظار ہ دکھایا اوربتایا کہ سوسال کے بعد میں پھر اسے زند ہ کردوں گا.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ شبہ دورکرنے کے لئے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ میں واقعہ میںسوسال سوتارہاہوں.اللہ تعالیٰ نے کہا دیکھ لوتمہاراگدھابھی زند ہ ہے اورکھانابھی سلامت ہے.اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ ایک کشفی نظارہ ہے.جو تمہیں دکھایاگیا ہے.چنانچہ جس طرح رؤیا میں بتایاگیاتھا عین سوسال کے بعد فارس او رمید کابادشاہ جس کانام سائر س تھا بابل پرحملہ آورہوااور چونکہ اندر کے قلعوں تک پہنچنا اس کے لئے مشکل تھا.اس نے پیغام رسانی کی اور یہودکو اپنے ساتھ ملاناچاہا.ا س وقت کے انبیاء نے یہود کو اس بادشاہ کے ساتھ ملنے کی اجازت دے دی.اس کا بھی قرآن کریم میں ذکر آتاہے اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک زمانہ ایساگذراہے جس میں بعض انبیاء کے حکم کے ماتحت یہودیوں نے خفیہ سوسائٹیاں بنائیں.جن میںصرف مرد شامل کئے جاتے تھے عورتیں شامل نہیں کی جاتی تھیں (دیکھو سورئہ بقرہ آیت ۱۰۳).یہ اس زمانہ کاواقعہ ہے جس میں انبیاء نے یہ فیصلہ دیاکہ یہود بادشاہ کے ساتھ مل جائیں.چنانچہ انہوں نے خفیہ کوششیں کیں.نتیجہ یہ ہواکہ جب فارس اور مید کابادشاہ حملہ آور ہواتواند ر سے یہود نے بغاوت کر دی اوران کی مدد سے بادشاہ کو فتح حاصل ہوئی.اوراس نے اعلان کردیا کہ یہود کو اپنے شہروں میں بسنے اورپھر دوبارہ اپنے معابد اورمقدس مقامات وغیرہ بنانے کی اجازت ہے.بلکہ اس نے یہ بھی کہا کہ اس پر جس قدر روپیہ خرچ ہو وہ سرکاری خزانہ میں سے دیاجائے (ہسٹورینز ہسٹری آف داورلڈ جلد۲صفحہ ۱۲۶).یہ وہی واقعہ ہے جو آیت مَاکَفَرَ سُلَیْمَانُ کے دوسرے حصہ میں بیان ہواہے.پہلے حصہ میں یہ ذکرکیاگیا ہے کہ یہودی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں بھی مخفی کاروائیاں کرتے ہیں.اوران
کاخیال ہے کہ جیسے مید اور فارس کے بادشاہ کے ساتھ مل کر انہوں نے نینوہ کی حکومت کو تباہ کردیاتھا اسی طرح اب بھی وہ کسریٰ کے ساتھ مل کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تباہ کردیں گے.اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے کہ تم نے دودفعہ خفیہ سوسائٹیاں بنائی ہیں ایک دفعہ حضرت سلیمانؑ کے زمانہ میں اور دوسری دفعہ حجی اور زکریاہ کے زمانہ میں.پہلی دفعہ جب تم نے خفیہ سوسائٹی بنائی تو خدا کانبی تمہارے مقابلہ میں تھا اور تم اس کے مخالف تھے.اور دوسرے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہاروت اور ماروت تمہارے ساتھ تھے.یہ درحقیقت ان انبیاء کے صفاتی نام ہیں جو بنی اسرائیل کی جلاوطنی کے زمانہ میں ان کوواپس لانے پر مقرر ہوئے تھے.ھاروت ھرت سے نکلاہے جس کے معنے پھاڑنے کے ہیں.اورماروت مَرَتَ سے نکلا ہے جس کے معنے توڑ دینے کے ہی (تاج العروس) گویاان کاکام حکومت کو پھاڑنا اور طاغوتی طاقتوں کو توڑناتھا.ان دومثالوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم ایک نبی کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے تو تم ہارے اور جب انبیاء تمہارے ساتھ رہے اس وقت تم اپنے مخفی منصوبوں میں کامیاب ہوئے.اب تمہیں غو رکرناچاہیے کہ تمہارے مقابلہ میں مدعیء نبوت ہے یاتمہارے ساتھ مدعیٔ نبوت ہے.اگرتو وہ تمہارے مقابلہ میں ہے توتمہاری کوششیں ایسی ہی ہیں جیسی تم نے سلیمانؑ کے وقت میں کیں اور اگریہ مدعیٔ نبوت تمہارے ساتھ ہے تو پھر بے شک تمہاری مثال ایسی ہوسکتی ہے جیسے خور س کے حملہ کے وقت ہارو ت اور ماروت کے زمانہ میں کو ششیں کی گئیں.اور چونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کانبی تمہارے مقابلہ میں ہے اس لئے تمہیں سمجھ لینا چاہیے کہ تمہارے ساتھ وہ واقعہ گذرے گا جو سلیمان کے وقت ہوا.چنانچہ ایسا ہی ہوااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں یہود بالکل تباہ ہوگئے.غرض ا س وقت بنی اسرائیل پرایسی تباہی آئی تھی کہ انبیاء تک بھی حیران تھے کہ ا ب یہ قوم دوبارہ کس طرح زندہ ہوگی.چنانچہ حزقیل نبی نے یہی کہاتھا کہ خدایاتواس کو کس طرح زندہ کرے گا ؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے بتایاکہ سوسال کے بعد یہ قوم پھر زندہ ہوجائے گی.تواللہ تعالیٰ کے انبیاء کی جماعتوں پر یہ اوقات ہمیشہ آئے اوردرحقیقت یہی اوقات اس کے دعویٔ ایمان کے صدق اورکمال پردلالت کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کو بھی سالہاسال تک ایسی تکالیف میں سے گذرنا پڑاجوانتہائی درد انگیز تھیں.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہؓ کی ایک جماعت ایک جگہ بھیجی مگران لوگوں نے جن کی طرف وہ بھیجے گئے تھے دھوکہ دے کر ان پر حملہ کردیا.جب انہوں نے دیکھا کہ یہ لوگ اب اپنی جانوں پر کھیل جائیں گے.توانہوں نے کہا خدا کی قسم ہم تمہیں کچھ نہیں کہیں گے تم نیچے اترآئو.(وہ اس وقت ایک پہاڑی ٹیلے پر چڑھے ہوئے تھے ) ان کے لیڈرنے کہا.میں ان کی باتوں پراعتبار نہیں کرسکتا.یہ لوگ جھوٹے اور دھوکہ باز ہیں.ان کی قسموں کاکوئی
اعتبار نہیں.چنانچہ وہ لڑتے لڑتے شہید ہوگئے.مگرباقیوں نے سمجھا کہ جب یہ لوگ قسمیں کھاکھاکرکہہ رہے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کہیں گے توہمیں ان پر اعتبارکرتے ہوئے نیچے اترآناچاہیے.جب وہ نیچے اترے توانہوں نے رسیاں باندھ کر انہیں گھسیٹناشروع کردیا.اس پر ان لوگوں نے پھر مقابلہ کیامگر وہ کیا کرسکتے تھے باقیوں کوتوانہوں نے مار دیا لیکن دوکو پکڑ کرمکہ لے گئے اوران لوگوں کے ہاتھ میں انہیں بیچ دیا جن کے بعض آدمی مسلمانوں سے مار ے گئے تھے ان میں سے ایک کوقتل کرنے سے پہلے مکہ کے لوگوں نے پوچھا کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری جگہ پریہاں ہوتے اور تم اپنے بیوی بچوں میں مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوئے ہوتے.اس نے جواب دیاخدا کی قسم تم تو یہ کہتے ہو کہ میں مدینہ میں آرام سے بیٹھاہواہوتا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں میری جگہ ہوتے.مَیں تویہ بھی پسند نہیں کرتا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں آرام سے بیٹھے ہوں اور آپ کے پائوں میں کانٹاتک چبھے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک قبیلہ کارئیس آیا.اوراس نے کہا میری قوم اسلام لانے کے لئے تیار ہے.آپ میرے ساتھ کچھ آدمی بھجوادیں.وہ تو اپنی اس بات میں سچاتھا اوربعد میں ایما ن بھی لے آیا مگر اس کی قوم نے غداری کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اعتبا رکرتے ہوئے ستّر حفاظ کاقافلہ اس کی قوم کی طرف روانہ کردیا.جب وہ اس قبیلہ کے پا س پہنچے توانہوں نے اس رئیس کے بھتیجے کے پاس ایک آدمی کے ذریعہ پیغام بھجوادیاکہ ہم لو گ آگئے ہیں.اب ہمیں بتایاجائے کہ ہماراکیاکام ہوگا.اس نے ان کے سردار کو بلوایا.اورجب وہ ان سے باتیں کررہاتھا.اس رئیس نے ایک شخص کو اشارہ کیا جس نے پیچھے سے اس صحابیؓ کی گردن میں نیزہ مار ااوروہ وہیں ڈھیر ہوگیا.جب اسے نیزہ لگا.توتاریخ میں لکھا ہے کہ اس نے نعر ہ لگایااورکہا فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ.کعبہ کے رب کی قسم میں اپنے مقصد میں کامیا ب ہوگیا.پھر وہ اکٹھے ہوکر تمام صحابہؓ پر ٹوٹ پڑے.انہی لوگوں میں حضرت ابو بکرؓ کاوہ غلام بھی تھا جوہجرت کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا.جب ہزاروں آدمیوں کے ہجوم نے ان ستر صحابہؓ پر حملہ کردیاتویہ لازمی بات تھی کہ انہوں نے ماراجاناتھا.چنانچہ وہ سارے کے سارے وہیں قتل ہوگئے.اوران میں سے کسی نے بھی ہتھیار نہ ڈالا.یکے بعد دیگرے جب وہ لوگ مرتے یاکسی کو خنجر لگتا یاتلوار سے کسی کاسر کٹتا تویہی الفاظ ان کی زبان پر ہوتے کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ خدائے کعبہ کی قسم میں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا.ایک شخص کہتاہے کہ مَیں اسلام سے واقف نہیں تھا.میں باہر سے آیاتھا.اورقبیلہ والوں کے ساتھ مل کر لڑائی میں شامل ہوگیا تھا میں نے جب دیکھا کہ یہ لوگ مرتے وقت بجائے یہ کہنے کے کہ ہائے
اماں یاہائے ابایہ کہتے ہیں کہ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃ.کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا تومجھے حیرت آئی کہ یہ لوگ کیاکہتے ہیں.کیاموت میں کامیابی ہواکرتی ہے؟ آخر میںنے ایک شخص سے اس بارہ میں پوچھا.اس نے کہا تم مسلمانوں کونہیں جانتے یہ ایسے ہی پاگل ہیں.ان کاخیال ہے کہ جوشخص خدا کی راہ میں ماراجاتاہے وہ سب سے زیادہ کامیاب ہوتاہے.چونکہ اس کے دل میں نیکی تھی و ہ کہتاہے میں نے جب یہ بات سنی توسمجھا کہ اس میں ضرور کوئی راز ہے.چنانچہ آہستہ آہستہ میں نے اسلام کی تحقیق کی.اورمیں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا.غرض یکے بعد دیگرے ان لوگوں نے موت کو قبول کیا اورموت میں ہی اپنی ساری کامیابی سمجھی.یہی چیز تھی جس کی وجہ سے وہ قلیل ترین عرصہ میں ساری دنیا پر غالب آگئے اورایسی شان سے غالب آئے کہ اس کی مثال پہلی کسی قوم میں نہیں ملتی.پھر دیکھ لومصائب کا یہ سلسلہ جلدی ختم نہیں ہوگیا بلکہ ایک لمبے عر صہ تک جاری رہا.خلافت قائم ہوئی توحضرت عمرؓ شہید ہوئے.حضرت عثمانؓ شہید ہوئے.حضرت علی ؓ شہید ہوئے اورکربلا کے میدان میں تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاقریباً ساراخاندان ہی شہید ہوگیا.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ابتلاء صرف ابتدائی زمانہ میں آتے ہیں ترقی کے زمانہ میں ابتلاؤں کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے.مگریہ درست نہیں انبیاء کی جماعتوں کی ترقی اور ابتلاء یہ دوتوام بھائی ہیں جوایک دوسرے سے جدانہیں ہوسکتے.ابتدائی سے ابتدائی زمانہ میں بھی ابتلاء آتے ہیں.اورترقی کے انتہائی زمانہ میں بھی ابتلاء آتے ہیں.اس طر ح ابتداء سے انتہاء تک ابتلائوں کاسلسلہ جاری رہتاہے.جب نبی ایک منفرد وجود ہوتاہے اوراس پر صرف ایک یادوآدمی ایمان لانے والے ہوتے ہیں.اس وقت بھی ابتلاء آتے ہیں اورانتہائی عروج کے وقت جب سلسلہ کوترقی پر ترقی حاصل ہورہی ہوتی ہے اس وقت بھی ابتلاء آتے ہیں.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوپہلے دن بھی مصائب ومشکلات میں سے گذرناپڑا اورآپ ؐ کو اور آپؐ پر ایمان لانے والوں کو مختلف قسم کے ابتلاء پیش آئے اوراس کے بعد جب ترقیات کا زمانہ آیا اس وقت بھی ان ابتلائوں کاسلسلہ جاری رہا.یہ نہیں ہواکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں کسی دن اس خیال کے ساتھ سوئے ہوں کہ اب تمام مشکلات پر قابو پالیاگیا ہے.اورو ہ تمام مسائل جو مسلمانوں کی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتے تھے حل ہوچکے ہیں.نہ حضرت ابوبکرؓ نے کبھی ایسا خیال کیا.نہ حضرت عمر ؓ نے کبھی ایساخیال کیا.نہ حضرت عثمانؓ نے کبھی ایساخیال کیا.اورنہ ہماری جماعت کو کبھی ایسا خیال کرناچاہیے.یہ چیزیں الٰہی سلسلوں کے ساتھ وابستہ ہیں.اور کبھی کوئی روحانی جماعت ان کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی.ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کی نوعیت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ١ؕ وَ بَشِّرِ
الصّٰبِرِيْنَ.یعنی ہم ضرور تم کو کسی قدر خوف اور بھو ک اوراموال او رجانوں اور پھلوںکے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے اوراے ہمارے رسول تُوان لوگوںکوجو ان ابتلائو ں کے اوقات میں اپنے راستہ سے ہٹیں نہیں اورمضبوطی سے دین کی راہ میں قربانیاں کرتے چلے جائیں ہماری طرف سے بشارت اور خوشخبری دے دے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے.غرض جب تک کوئی قوم مر نے کے لئے تیار نہ ہو.وہ زندہ نہیں ہوسکتی کیونکہ زندگی موت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی.جب تک دانہ مٹی میں نہیں ملتا شگوفہ نہیں نکلتا.بچہ پیدا نہیں ہوتاجب تک رحم کی تاریکیوں میں سے نہیں گذرتا.اسی طرح کوئی قوم بھی ترقی نہیں کرسکتی جب تک وہ ایک موت اختیار نہ کرے.ہماری جماعت میںسے بھی بعض لوگ اس سلسلہ میں داخل ہونے کی وجہ سے کابل میں شہید کئے گئے اور بعض کواپنے وطن چھوڑنے پڑے لیکن انہوں نے صداقت کو نہ چھپایا اور ایساتوشائد ہی کوئی انسان ہو جس کوکسی قسم کابھی دکھ نہ دیا گیا ہو.اگراَو رکچھ نہیں توفتوٰئے کفر کے ذریعہ ہی اسے ڈرانے کی ضرورکوشش کی گئی.بہرحال اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ بندوں کوپہلے اپنے ابتلائوں کے دریائوں میں سے گذارتاہے تب انہیں اپنے قرب سے مشرف کرتاہے.یہ بزدلوں اور منافقوں کاکام ہوتاہے کہ وہ مصائب کے آنے پر گھبراجاتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورئہ بقرہ کے ابتداء میں ہی منافق کی یہ علامت بیان فرمائی ہے کہ جب کو ئی مصیبت آتی ہے تووہ ٹھہر جاتاہے اورجب آرام او رراحت کا وقت آتاہے توچل پڑتا ہے.مومن وہ ہوتاہے جو مصائب کے وقت اَور بھی مضبوط ہو جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ غزوئہ احزاب کے موقعہ پر جب مسلمانوں سے کہا گیا کہ لوگ اکٹھے ہو رہے ہیں.اوروہ تمہیں مارنے کی فکر میں ہیں.توانہوں نے کہا.ھٰذَامَاوَعَدَنَااللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗ.(الاحزاب :۲۳) یعنی یہ تووہی لشکر ہیں جن کااللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیاتھا.ان لشکروں سے ہمارے ایمان متزلزل کیوں ہوںگے.وہ تواَوربھی بڑھیں گے او رترقی کریںگے.پس ایسے امورسے مومنوں کو یہ سمجھناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مدارج کو بلند کرنے کے سامان پیداکررہاہے.ہم میں سے کو ن ہے جس نے ایک دن مرنانہیں.مگرایک موت کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ طبعی موت ہوتی ہے.اوردوسری موت کے متعلق فرماتا ہے کہ ایسے مرنے والے ہمیشہ کے لئے زند ہ ہیں.بلکہ فرماتا ہے.تم ان کو مردہ مت کہو.وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رزق مل رہا ہے.یعنی ان کی روحانی ترقیات کے سامان متواترہوتے چلے جائیں گے.دشمن تویہی چاہتاہے کہ وہ مومنوں کومٹادے اورانہیں غمگین بنادے مگرجب وہ دیکھتاہے کہ انہیں ماراجاتاہے تو یہ اَوربھی زیادہ دلیر ہوجاتے ہیں.اورکہتے ہیں خدا نے ہماری ترقی کے کیسے سامان پیداکئے ہیں.توا س کاحوصلہ پست
ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب سیالکوٹ تشریف لے گئے تومولویوں نے یہ فتویٰ دیدیاکہ جو شخص مرزا صاحب کے پا س جائے گا یاان کی تقریروں میں شامل ہوگا.اس کانکاح ٹو ٹ جائے گا.یہ کافر اوردجال ہیں ان سے بولنا ،ان کی باتیں سننا اوران کی کتابیں پڑھنا بالکل حرام ہے.بلکہ ان کو مارنااور قتل کرناثواب کاموجب ہے مگر آپ کی موجود گی میں انہیں فساد کی جرأت نہ ہوئی.کیونکہ چاروں طرف سے احمدی جمع تھے.انہوں نے آپس میںیہ مشورہ کیا کہ ان کے جانے کے بعد فساد کیاجائے.میں بھی اس وقت آپ کے ساتھ تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃوالسلام وہاں سے روانہ ہوئے اورگاڑی میں سوار ہوئے تودورتک آدمی کھڑے تھے جنہوں نے پتھر مارنے شروع کردیئے.مگرچلتی گاڑی پر پتھر کس طرح لگ سکتے تھے.شاذونادرہی ہماری گاڑی کو کوئی پتھرلگتا.وہ مارتے ہم کو تھے اورلگتاان کے کسی اپنے آد می کو تھا.پس ان کایہ منصوبہ توپورانہ ہوسکا.باقی احمد ی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے وہاں جمع تھے ان میں سے کچھ توارد گرد کے دیہات کے رہنے والے تھے جوآپ کی واپسی کے بعد ادھر ادھر پھیل گئے اورجوتھوڑے سے مقامی احمدی رہ گئے یاباہر کی جماعتوں کے مہمان تھے ان پرمخالفین نے ا سٹیشن پرہی حملے شروع کردیئے.ان لوگوں میں سے جن پرحملہ ہواایک مولوی برہان الدین صاحبؓ بھی تھے.مخالفوں نے ان کاتعاقب کیا.پتھر مارے اوربرابھلاکہا.اورآخرایک دکان میں انہیں گرالیا اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ گوبرلائو ہم اس کے مونہہ میں ڈالیں.چنانچہ وہ گوبر لائے او رانہوں نے مولوی برہان الدین صاحبؓ کامنہ کھول کر اس میں ڈال دیا.جب وہ انہیں ماررہے تھے اورگوبر ان کے مونہہ میں ڈالنے کی کوشش کررہے تھے توبجائے اس کے کہ مولوی صاحب انہیں گالیاں دیتے یاشور مچاتے.جنہوں نے و ہ نظارہ دیکھا ہے بیان کرتے ہیں کہ و ہ بڑے اطمینان اورخوشی سے یہ کہتے جاتے تھے کہ سبحان اللہ! یہ دن کسے نصیب ہوتاہے.یہ دن تواللہ تعالیٰ کے نبیوں کے آنے پر ہی نصیب ہوتے ہیں.اوراللہ تعالیٰ کابڑااحسان ہے جس نے مجھے یہ دن دکھایا.نتیجہ یہ ہواکہ تھو ڑی دیر میں ہی جولوگ حملہ کررہے تھے ان کے نفس نے انہیں ملامت کی اور وہ شرمندگی اورذلت سے آپ کو چھوڑ کرچلے گئے.توبات یہ ہے کہ جب دشمن دیکھتاہے کہ یہ لوگ موت سے ڈرتے ہیں توکہتاہے آئو ہم انہیں ڈرائیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو ڈراتاہے.پس جب کوئی شخص ڈرتاہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ یہ شیطانی آدمی ہے لیکن اگروہ ڈرتانہیں بلکہ ان حملوںاورتکالیف کو خدا تعالیٰ کاانعام سمجھتاہے اور کہتاہے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے یہ عز ت کا مقام عطافرمایا ہے اور اس نے مجھ پراحسان کیا ہے کہ میں اس کی خاطر مار کھارہاہوں تودشمن مرعوب ہو جاتا ہے اورآخر اس کے دل میں ندامت پیداہوجاتی ہے.
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے متواتربتایاکہ جماعت احمدیہ کوبھی ویسی ہی قربانیا ں کرنی پڑیں گی جیسی پہلے انبیاء کی جماعتو ںکو کرنی پڑیں.چنانچہ ایک د فعہ آپ نے رؤیا میں دیکھا کہ مَیں نظام الدین کے گھرمیں داخل ہواہوں.نظام الدین کے معنے ہیں ’’ دین کانظام‘‘اوراس رؤیاکامطلب یہ ہے کہ آخراحمدیہ جماعت ایک دن نظام دین بن جائےگی.اوردنیا کے اور تمام نظاموں پرغالب آجائے گی.مگریہ غلبہ کس طرح ہوگا.اس کے متعلق رؤیا میں آپ فرماتے ہیں ہم اس گھر میں کچھ حسنی طریق پر داخل ہوں گے اور کچھ حسینی طریق پر داخل ہوں گے.(تذکرہ ایڈیشن دوم ص ۷۸۸،۷۸۹)یہ سب لوگ جانتے ہیں کہ حضرت حسنؓ نے جوکامیابی حاصل کی وہ صلح سے کی اور حضرت حسینؓ نے جوکامیابی حاصل کی وہ شہادت سے حاصل کی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوبتایاگیا کہ نظام الدین کے مقام پر جماعت پہنچے گی تو سہی مگر کچھ صلح محبت اورپیار سے اور کچھ شہادتوں اورقربانیوں کے ذریعہ.اگرہم میں سے کو ئی شخص یہ سمجھتاہے کہ بغیر صلح اور محبت اورپیار کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تووہ بھی غلطی کرتاہے.اوراگر کوئی شخص یہ سمجھتاہے کہ بغیر قربانیوں اور شہادتوں کے یہ سلسلہ ترقی کرے گا تووہ بھی غلطی کرتاہے.ہمیں کبھی صلح اورآشتی کی طرف جاناپڑے گا اور کبھی حسینی طریق اختیار کرناپڑے گا.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے دشمن کے سامنے مرجاناہے مگراس کی بات نہیں ماننی.یہ دونوں طریق ہمارے لئے مقدر ہیں.نہ خالی مسیحیت والاسلوک ہمارے لئے مقدر ہے نہ خالی مہدویت والاسلوک ہمارے لئے مقدر ہے.ایک درمیانی راستہ ہے جس پر ہمیں چلنا پڑے گا.ایک غلبہ ہوگا صلح اور محبت اورپیار کے ساتھ اور ایک غلبہ ہوگا قربانیوں کے ساتھ.اس کے بعد جماعت نظام الدین کے گھر میں داخل ہوگی اور اسے کامیابی حاصل ہوگی.یہی پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’ انوار الاسلام‘‘ میں بھی دیا ہے.آپؑ تحریرفرماتے ہیں :.’’ مجھے اس کی عزت اورجلال کی قسم ہے کہ مجھے دنیاوآخرت میں اس سے زیادہ کو ئی چیز بھی پیاری نہیں کہ اس کے دین کی عظت ظاہر ہو.اس کاجلال چمکے او راس کابول بالاہو.کسی ابتلاء سے اس کے فضل کے ساتھ مجھے خوف نہیں اگر چہ ایک ابتلاء نہیں کروڑ ابتلاء ہو ابتلائوں کے میدان میں اوردکھو ں کے جنگل میں مجھے طاقت دی گئی ہے ؎ من نہ آنستم کہ روزِ جنگ بینی پُشتِ من آں منم کاندر میانِ خاک و خوں بینی سرے
پس اگر کوئی میرے قدم پر چلنا نہیں چاہتا تومجھ سے الگ ہوجائے.مجھے کیا معلوم کہ ابھی کون کون سے ہولناک جنگل او رپُرخار بادیہ درپیش ہیں جن کو مَیں نے طے کرناہے پس جن لوگوں کے نازک پیر ہیں وہ کیوں میرے ساتھ مصیبت اٹھاتے ہیں.جومیرے ہیں وہ مجھ سے جدانہیں ہوسکتے نہ مصیبتوں سے نہ لوگوں کے سبّ و شتم سے.نہ آسمانی ابتلائوںاورآزمائشوں سے اورجو میرے نہیں وہ عبث دوستی کادم مارتے ہیں کیونکہ وہ عنقریب الگ کئے جائیں گے اوران کاپچھلا حال ان کے پہلے حال سے بدترہوگا.‘‘ (انوارالاسلام ص ۲۲) غرض قومی ترقی کا ایک ہی گُر ہے اوروہ یہ ہے کہ خداکے لئے اپنے آپ کوفناکردینا.اوراس راہ میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرنا.اب میں یہ بتاتاہوں کہ ابتلاء کیوں آتے ہیں ؟ سویاد رکھناچاہیے کہ اول توابتلاء عموماً اس لئے آتے ہیں کہ انسان کاایمان مضبوط ہو.لیکن اس لئے نہیںکہ خدا تعالیٰ کو اس کاعلم نہیں ہوتا.بلکہ اس لئے کہ خود انسان کو معلوم نہیں ہوتاکہ میرے ایمان کی کیاحالت ہے.چنانچہ ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت کی لڑکی سخت بیمار تھی.وہ روزانہ دعاکیاکرتی تھی کہ اس کی بیماری مجھے لگ جائے اورمیں مرجائو ں.ایک رات اس کی گائے کامنہ ایک تنگ برتن میں پھنس گیا.اوروہ اسے برتن سے نکال نہ سکی.اورگھبراکر اس نے ادھر ادھر دوڑناشروع کردیا.اس عورت کی آنکھ کھل گئی اور ایک عجیب قسم کی شکل اپنے سامنے دیکھ کر اس نے سمجھا کہ ملک الموت میری جان نکالنے کے لئے آگیا ہے.اس عورت کانام میستی تھا وہ بے اختیارہوکر کہنے لگی ؎ ملک الموت من نہ میستی ام من یکے پیرزالِ محنتی ام یعنی اے ملک الموت میں میستی نہیں ہوں.مَیں تو ایک غریب محنت کش بڑھیاہوں اوراپنی لڑکی کی طرف اشارہ کرکے کہا میستی وہ لیٹی ہوئی ہے اس کی جان نکال لے.ا ب دیکھو و ہ عورت خیال کرتی تھی کہ اسے اپنی لڑکی سے بے انتہامحبت ہے لیکن جب اس نے سمجھا کہ جان نکالنے والا فرشتہ آگیا ہے تومعلوم ہوگیا کہ اسے اتنی محبت نہ تھی کہ وہ اس کے بدلہ میں جان دے دیتی.یہ ہے تو ایک حکایت لیکن یہ بات کثرت سے پائی جاتی ہے کہ انسان بسا اوقات اپنے خیالات کابھی اچھی طرح اندازہ نہیں لگاسکتا اورجب اس پر ابتلاء آتے ہیں تب اسے معلوم ہوتاہے کہ اس کاکسی چیز سے محبت یانفرت کا دعویٰ کہاں تک صادق تھا.
اسی طرح ابتلاء میں اس لئے بھی ڈالاجاتاہے تالوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں کاایمان کیساہے ورنہ یوں دوسروں کو کیامعلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں کا ایمان پختہ ہے یا نہیں.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کوئی انسان جتنا بڑاہواس پراتنے ہی بڑے ابتلاء آتے ہیں.اورسب سے زیادہ ابتلاء نبیوں کو آتے ہیں جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے متعلق فرمایاکہ کربلا یست سیر ہر آنم صد حسینؓ است در گریبانم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک کی ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ لصلوٰۃوالسلام نے اس جگہ اپنے ابتلائوں کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا ہے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ تو ایک بار مارے گئے لیکن دشمن مجھے ہروقت مارنے کے درپے رہتے اور ایذائیں دیتے ہیں.اورمیں ہروقت کربلاکانظارہ دیکھتارہتاہوں.سولی پرایک دفعہ چڑھ کر مرنا اتنی بڑی بات نہیں جتنی کہ ہروقت ابتلائوں میں پڑے رہنا.عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح چونکہ سولی پر چڑھ کر مرگئے اس لئے ان کو خدا کابیٹامان لو.ہم کہتے ہیں کہ اگریہ بات درست ہے توپھر جولوگ ہر وقت سولی پر چڑھائے جاتے ہیں ان کوکیاماننا چاہیے.سب ابنیاء کی یہی حالت ہوتی ہے.اورجب انہیں متواتر تکالیف دی جاتی ہیں تولو گ دیکھ لیتے ہیں کہ ان کا کیساپختہ ایمان ہے.کہتے ہیں اَلْاِسْتَقَامَۃُ فَوْقَ الْکَرَامَۃِ اورسب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ دشمن بھی خوبی کومان لے اوراس کاانکار نہ کرسکے.پس اخلاق اور روحانیت کی پختگی کے لئے ابتلائوں کاآنا اوران کے آنے پر صبر و رضاء کا مقام اختیار کرنا ایمان کی تکمیل کے لئے نہایت ضروری ہوتاہے.اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّسْبِقُوْنَا١ؕ سَآءَ کیاجولوگ بدیاں کرتے ہیں وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہماری سزاسے بچ جائیں گے ؟ مَا يَحْكُمُوْنَ۰۰۵ ان کافیصلہ بہت براہے.تفسیر.فرمایا.وہ لوگ جو نارواافعال میں اپنی زندگی بسرکرتے ہیں.کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ وہ کسی نہ
کسی طرح سے ہماری سزاسے بچ جائیں گے ان کایہ خیا ل بالکل باطل ہے.دنیا میںکو ئی شخص دھوکاسے خدا تعالیٰ کی سزاسے نہیں بچ سکتا.یہ آیت بتاتی ہے کہ دوسرے لوگوں کے متعلق کوئی فیصلہ کرنا توالگ رہا انسان خود اپنی ذات کے متعلق بھی صحیح فیصلہ کرنے سے قاصر رہتاہے.چنانچہ بعض دفعہ وہ ہوتابد ہے لیکن سمجھتااپنے آپ کو نیک ہے اورخیال کرتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچ جائے گا.حالانکہ اس کایہ فیصلہ جھوٹاہوتاہے.اوروہ عذاب میں پکڑاجاتاہے اوراس دن اسے پتہ لگتاہے کہ میں اپنے آپ کو غلط طورپر مومن سمجھتارہاہوں.یہ مقام خاص خاص مومنوں کو حاصل ہوتاہے کہ وہ پہلے سے اپنے ایمان کی پختگی کے واقف ہوجاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ.(الاحزاب : ۲۴) یعنی صحابہؓ میں سے بعض توایسے ہیں جنہوں نے اپنے دعوٰئے ایمان کوثابت کردیاہے.اوربعض اس موقعہ کے منتظر ہیں جب وہ اپنے دعو ٰئے ایمان کو ثابت کردیں گے.چنانچہ ایک حدیث میں آتاہے کہ حضرت مالک بن انس ؓ ایک انصاری صحابی جوغلطی کی وجہ سے جنگِ بد رمیں شامل ہونے سے رہ گئے تھے.جب انہوں نے بدری صحابہؓ سے بدر کی جنگ کے کارنامے سنے توجوش سے اٹھ کرٹہلنے لگ گئے اورکہنے لگے یہ کیابات ہے جب مجھے موقعہ ملاتومیں بتائوں گا کہ مومن کیسی قربانیاں کرتاہے.چنانچہ اُحد کی لڑائی میں وہ شامل ہوئے اور جب پیچھے کی طرف سے یک دم حملہ کی وجہ سے مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے.اوروہ میدان جنگ سے ہٹ کر کچھ فاصلہ تک آگئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے رہ گئے اورکفار کے پتھرائو کی وجہ سے زخمی ہوکر دوسرے زخمیوں کے جسموں پر گر گئے اوراتنے میں کچھ اورلوگ زخمی ہوکر آپؐ پر گر گئے اورچند منٹ کے بعد لوگوں نے آپ کوغائب دیکھ کرسمجھ لیا کہ آپؐ شہید ہوگئے ہیں توبعض لوگوں نے دوڑ کرمدینہ میں جواُحد کے قریب ہی تھا یہ مشہور کردیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں.یہ خبران لوگوں پربھی جو میدان جنگ سے صرف تھوڑے فاصلہ پرپیچھے تھے بجلی کی طرح گری.ان میں حضرت عمرؓ بھی تھے.وہ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے تھے.کہ مالک بن انسؓ جنہوں نے جنگ سے پہلے کھانانہیں کھایاتھا.دوتین کھجوریں کھاتے ہوئے ان کے پاس سے گذرے.اور چونکہ وہ اس وقت میدان جنگ سے آئے تھے جبکہ مسلمان فاتح ہوچکے تھے اورکفار شکست کھاچکے تھے اور حضرت عمر ؓ اس وقت میدان جنگ سے آئے تھے جبکہ پیچھے کی طرف سے دشمن نے دوبارہ حملہ کیاتھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوکر گر گئے تھے اوربعض صحابہؓ نے سمجھ لیاتھا کہ آپ شہید ہوگئے ہیں اس لئے آپ رورہے تھے اورمالکؓ خوش تھے کہ ہم کو فتح نصیب ہوچکی ہے.پس ان
کارونامالکؓ کوعجیب معلوم ہوااوروہ حیرت سے حضرت عمرؓ کودیکھنے لگے اورکہنے لگے.عمرؓ! یہ خوشی کاموقعہ ہے یارونے کا.اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی ہے ہمیں توخوشی منانی چاہیے.حضرت عمر ؓ نے سراٹھاکر ان کی طرف دیکھا اورکہا مالکؓ! شاید تمہیں معلوم نہیں کہ بعد میں جنگ کانقشہ بدل گیا.دشمن نے پہاڑی کے پیچھے سے آکر دوبارہ حملہ کردیااوراچانک حملہ کی تاب نہ لاکر اسلامی لشکر بکھرگیااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے.اس وقت مالکؓ کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی.انہوں نے کھجوراٹھاکرزمین پرپھینک دی اورکہا میرے اور میرے محبوب کے درمیان سوائے اس کھجور کے اَورکیاحائل ہے.پھر حضرت عمرؓ کودیکھا اورکہاجوکچھ تم کہتے ہو اگر وہ سچ ہے توپھر بھی رونے کا موقعہ نہیں ہمیں بھی ادھر جانے کی تیار ی کرنی چاہیے جدھر ہمارا محبوب گیا ہے.یہ کہہ کر تلوار میان سے نکال لی اور دشمن کے جم غفیر پرجاپڑے اکیلا آدمی سینکڑوں آدمیوں کاکیامقابلہ کرسکتاہے.تھوڑی ہی دیر میں ٹکڑے ٹکڑ ے ہوکر ان کاجسم زمین پربکھر گیا.اورجب خدا تعالیٰ نے پھرمسلمانوں کوغلبہ دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مالک بن انسؓ کو تلاش کرو.وہ کہاں ہیں تولوگوں نے آکر خبردی کہ ان کا تو کہیں پتہ نہیں لگتا آپؐ نے پھر ان کی تلاش کاحکم دیا.اتنے میں ان کی بہن مدینہ سے یہ وحشتناک خبر سن کر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں دوڑتی ہوئی میدان جنگ میں پہنچی اورآخر ایک جگہ پراس نے ایک لاش کے ٹکڑے دیکھے.جن ٹکڑوں میں سے ایک انگلی کے ذریعہ اس نے پہچان لیا کہ یہ میرے بھائی مالکؓ کی نعش ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبردی.مفسرین کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی یہ آیت کہ مِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ انہی کے متعلق تھی.میں وجوہِ تنزیل کا اتنا قائل نہیں لیکن مالک بن انسؓ کاواقعہ تاریخوں اورحدیثوں میں اتنے تکرار سے آیا ہے اورقرآنی الفاظ اتنے واضح ہیں کہ ماننا پڑتا ہے کہ اورکہیں ہو یانہ ہو اس جگہ وجہِ تنزیل صحیح ہے.پس جس طرح بعض کفار آخر تک سمجھتے چلے جاتے ہیں کہ ہم عذاب سے بچ رہیں گے اورہمارے کام اچھے ہیں لیکن جب سزا آتی ہے توپھر انہیں پتہ لگتاہے کہ ان کے اعمال بر ے ہیں.اسی طرح بعض مومن سمجھتے ہیں کہ ہم سچے ہیں اورواقعات ثابت کردیتے ہیں کہ ان کاخیال ٹھیک ہے جیساکہ میں نے اوپر ایک واقعہ بیان کیاہے چنانچہ ایسے ہی لوگوں کی طرف اگلی آیت میں اشارہ کیاگیا ہے.
مَنْ كَانَ يَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ١ؕ وَ هُوَ جوشخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتاہے (اسے معلو م ہوناچاہیے کہ) اللہ(تعالیٰ) کامقررکردہ وقت ضرور آنے السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۰۰۶ والا ہے.اوروہ بہت سننے والا (او ر)بہت جاننے والا ہے.تفسیر.فرمایا جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ملاقات کی امید رکھتاہے و ہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کاوعدئہ ملاقات بالکل سچا ہے اور پوراہوکررہے گا اور خدا تعالیٰ بہت دعائیں سننے والا اور جاننے والا ہے.چونکہ اوپر کی آیات میں ان ابتلائوں کا ذکر ہے جو انبیاء کی جماعتوں پر آتے ہیں اس لئے یہاں لِقائے الٰہی سے مراد اللہ تعالیٰ کی تائیداوراس کی نصرت کانزول ہے اورمومنوں کو ا س طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ دشمنوں کی شرارتوں کودیکھ کر تمہارے دلوں میں مایوسی نہیں آنی چاہیے.اور تمہیں کبھی یہ تصور بھی نہیں کرناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اکیلاچھوڑ دے گا اوردشمن تمہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گا.وہ ابتلائوں کے ذریعہ صرف تمہاراامتحان لیناچاہتاہے ورنہ وہ تمہارے ساتھ ہے اوراس کے فرشتے تمہاری تائید میں کام کررہے ہیں.پس دشمن خواہ تمہیں کس قدر ستائے اور تم پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کوشش کرے تمہیں اس بات پر کامل یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جوتم سے ترقی کے وعدے کئے ہوئے ہیں وہ پورے ہوکررہیں گے اوروہ تمہاری مدد کے لئے دوڑتاچلاآئے گا.اگرتم ابتلائوں میں ثابت قدمی دکھائو گے اورخدا تعالیٰ پر کبھی بدظنی نہیں کروگے بلکہ امید رکھو گے کہ خدا تعالیٰ آسمان سے اترے گا اور تمہارے دشمنوں کی گردنیں مروڑ دے گاتوتمہاراخداتم سے ایسا ہی سلوک کرے گا.اور وہ تمہارے لئے ایسی غیرت دکھائے گا جس کی مثال اَور کہیں نظر نہیں آئے گی.اس زمانہ میں مسلمانوں کے تنزل کی سب سے بڑی وجہ یہی ہوئی کہ ان کاایک زند ہ خدا پرایمان نہ رہا.اورمعجزات اورخوارق کے متعلق انہوں نے یہ خیال کرلیا کہ یہ صرف پہلے زمانہ کے لوگوں کے لئے دکھائے جاتے تھے اب خدانعوذ باللہ ان نشانات کے دکھانے کی طاقت نہیں رکھتا.اس کانتیجہ یہ ہواکہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کاکوئی ولولہ نہ رہا اور وہ مایوسی کا شکار ہوگئے.اسلام اس نظریہ کو غلط قرار دیتاہے اورفرماتا ہے کہ جولوگ اپنے محبوب کی ملاقات یعنی اس کی نصرت اورتائید پر کامل یقین رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی مدد کے لئے آسمان
سے اترآتاہے اوروہ اسی طرح ان کی تائید کرتاہے جس طرح پہلے انبیاء کی جماعتوں کی اس نے تائید کی.مگرہر چیزکاایک وقت مقرر ہے.ابتلائوں کابھی ایک دور ہوتاہے اورکامیابیوں اور فتوحات کا بھی ایک دورہوتاہے اورمومن کامل وہی ہوتاہے جو مصائب اورآفات میں اللہ تعالیٰ کی مدد پربھروسہ رکھتاہے.جب اس کایقین اپنے کمال کو پہنچ جاتاہے تو اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ کااسے مژدہ سنایاجاتاہے اوراللہ تعالیٰ اس کے دشمن کو تباہ کردیتاہے.اسی کی طرف آیت کے آخری حصہ میں یہ کہہ کراشارہ فرمایاکہ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ.اللہ تعالیٰ مومنوں کی دعائوں کوسننے والا اوران کے حالات کو جاننے والا ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی دعائوں کوقبول نہ کرے اوردشمن کے ظالمانہ رویہ کوروکتے ہوئے اسے سزانہ دے.ایک مشہو رتاریخی واقعہ ہے کہ روس کا بادشاہ پیٹر ایک دفعہ کسی ضروری امر پرغور کرنے کے لئے اپنے بالاخانہ پر بیٹھ گیا.اوراس نے حکم دے دیاکہ کسی شخص کو اند رآنے کی اجازت نہ دی جائے.پرانے زمانہ میں دروازے نہیں ہوتے تھے.صرف پردے لٹکالئے جاتے تھے.اور عربی کتابوں سے پتہ لگتاہے کہ مسلمانوں کے مکانوں میں بھی دروازے نہیں ہوتے تھے.اسی لئے حکم تھا کہ جب آئو تواجازت لے کر آئو.بہرحال اس نے ڈیوڑھی پر ٹالسٹائے کو جواس کاچپڑاسی تھا.بٹھادیا او راسے کہہ دیا کہ کسی کو اندر نہ آنے دینا.میں ایک ضروری امر کے متعلق غور کررہاہوں.اتفاقاً کوئی شہزادہ آگیا.اس نے بادشاہ کے پاس کسی کام کے لئے جاناچاہا.روس کے شاہی قانون کے مطابق شہزادہ کوکوئی شخص روک نہیں سکتا.شہزادوں کویہ اجازت تھی کہ وہ بادشاہ کے پاس جب چاہیں چلے جائیں.انہیں کسی اجازت کی ضرورت نہیں.پھر یہ بھی روسی قانون تھاکہ کوئی غیر فوجی آدمی کسی فوجی کو نہیں مار سکتا.کسی بڑے افسر کوچھوٹاافسر نہیں مارسکتا.اور کسی شہزادہ کو کوئی غیرشہزادہ نہیں مارسکتا.یاکسی نواب کوکوئی غیر نواب نہیں مار سکتا.پس چونکہ قانون اجازت دیتاتھا کہ شہزادے بغیر کسی روک کے بادشاہ کے پاس چلے جایاکریں.اس لئے شہزادے نے اند رداخل ہوناچاہامگرجونہی وہ اند رداخل ہونے لگا.ٹالسٹائے نے آگے بڑھ کر کہا.حضور شہزادہ صاحب بادشاہ کاحکم ہے کہ کسی کو اندر نہ آنے دیاجائے.اس نے کہا ٹھیک ہے مگر تمہیں پتہ ہے میں شہزادہ ہوں.اورشہزادوں کے متعلق یہ قانون ہے کہ وہ بغیر کسی روک کے بادشاہ کے پاس جاسکتے ہیں.اس نے کہا پتہ ہے.اس پر شہزادے کوغصہ آیا اوراس نے اسے دوچار کوڑے لگائے اور کہا باوجود اس قانون کے معلوم ہونے کے تم یہ جرأت کرتے ہوکہ مجھے اندر داخل نہیں ہونے دیتے.اس نے مار کھالی اور شہزادے نے بھی دوچار ہنٹر مارنے کے بعد سمجھ لیا کہ اسے اب سبق آگیا ہوگا.چنانچہ وہ پھر اندرداخل ہونے کے لئے آگے بڑھا.مگرٹالسٹائے نے پھر اسے روک لیااورکہا حضور بادشا ہ
نے اندر جانے سے منع فرمایا ہے.اس پر اس نے پہلے سے بھی زیادہ اسے مارا.اورخیال کیا کہ اب اسے سمجھ آگئی ہوگی.مگر جب اس نے پھرمحل میں داخل ہونے کی کوشش کی.توٹالسٹائے نے پھر اپنے ہاتھ پھیلادیئے اورکہا حضوربادشاہ کاحکم ہے کہ کوئی شخص اندر نہ آئے اس پر شہزادے نے پھر اسے تیسری بار مارا.شہزادہ کے با ر بار مارنے او رپھر غصہ سے اس کی آواز کے بلند ہونے کی وجہ سے جب شور پیداہواتو قدرتی طور پر بادشاہ بھی اس طر ف متوجہ ہوگیا.اوروہ تمام نظار ہ اوپر بیٹھ کر دیکھتارہا.جب شہزادہ اسے تیسری دفعہ مارچکاتو بادشاہ نے غصہ والی آواز بنا کرکہا.ٹالسٹائے! ادھر آئو.ٹالسٹائے دوڑ کراندر گیا.ساتھ ہی شہزادہ بھی جوش کی حالت میں داخل ہوگیا.اوراس نے چاہاکہ وہ بادشاہ سے شکایت کرے.جب ٹالسٹائے پہنچاتو بادشاہ نے کہا.ٹالسٹائے یہ کیساشور تھا ؟ اس نے کہا حضورشہزادہ صاحب تشریف لائے تھے اوراند رآناچاہتے تھے مگر مجھے چونکہ حضور کاحکم تھا کہ کسی کواندر نہیں آنے دینا اس لئے میں نے عرض کر دیا کہ آپ کو اندر جانے کی اجازت نہیں.اورجب یہ زبردستی اندرداخل ہونے لگے تومیں نے ان کوروکا.بادشاہ نے کہا.پھر.اس نے کہا.پھرانہوں نے مجھے مارا.بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا.کیا یہ ٹھیک ہے.اس نے کہا.ٹھیک ہے.لیکن روس کاقانون یہ اجازت نہیں دیتاکہ شہزادہ کو اند رداخل ہونے سے روکاجائے.بادشاہ نے کہا یہ درست ہے کہ روس کاقانو ن یہ اجازت نہیں دیتا کہ شہزادہ کو اند رآنے سے روکاجائے لیکن کیاتم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ بادشاہ پراپنے ملک کی کئی قسم کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں.جن کے لئے بسا اوقات اسے غوراورفکر کی ضرورت ہوتی ہے اورغور و فکر کے لئے علیحدگی ضروری ہوتی ہے کیاتم یہ چاہتے ہوکہ حکومت کی ذمہ داریاں تواداہوں یانہ ہوں لیکن قانون کے محض الفاظ پورے ہوتے چلے جائیں.میرے سامنے اس وقت ایک بہت بڑی مہم تھی جوحکومت سے تعلق رکھی تھی اورمیں چاہتاتھا کہ مجھے کچھ وقت ملے تومَیں اس کے متعلق سکیم سوچوں اورغور کروں کہ کس طرح اپنے ملک کو خطرہ سے بچایاجاسکتاہے.کیاان حالات میں میرایہ حق نہ تھا کہ مَیں حکم دے دیتاکہ کوئی شخص اند رنہ آئے اورمیری توجہ کوکسی اورطرف نہ پھیرے.ٹالسٹائے نے عقلمندی اور ادب سے کام لیا اور اس نے میرے حکم کی فرمانبردار ی کی.مگرتم نے میرابیٹاہوتے ہوئے میرے حکم کی نافرمانی کی.اور تم نے جو اس کو ماراتواس کے کسی جرم کی وجہ سے نہیں مارا بلکہ اس لئے مار اکہ اس نے میری فرمانبردار ی کیوں کی.اس کے بعد بادشاہ نے ٹالسٹائے کے ہاتھ میں کوڑادے کر کہا ٹالسٹائے اٹھواور اس کوڑے سے شہزادے کومارو.شہزادے نے کہا.روس کا قانون اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ کوئی غیرفوجی کسی فوجی آدمی کومارے.میں فوجی ہوں اور یہ غیر فوجی ہے اس لئے یہ مجھے مار نہیں سکتا.بادشاہ نے کہا.ٹالسٹائے میں تم کوفوجی عہدہ دیتاہوں تم اسے مار و.گویابادشاہ نے بتایاکہ
اگر روس کاقانو ن یہ ہے کہ کوئی غیر فوجی کسی فوجی کونہیں مارسکتا توفوجی عہدے دینا بھی تو میرے اختیار میں ہے.میں ٹالسٹائے کوفوجی عہدہ دے دیتاہوں.اس پر پھر شہزادے نے کہا.میں فوج میں کرنیل یاجرنیل ہوں.مجھے میرے برابر کاآدمی ہی مار سکتاہے چھوٹانہیں.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے میں تم کو بھی وہی عہدہ دیتاہوں.اس پر شہزادہ نے کہا روس کاقانون یہ ہے کہ کسی نواب کوکوئی غیر نواب سزادینے پر مقر ر نہیں کیاجاسکتا.بادشاہ نے کہا.نواب بنانابھی میرے اختیار میں ہے اے نواب ٹالسٹائے میں تم کو حکم دیتاہوں کہ تم اس شہزادہ کومار و.اوراس طرح بادشاہ نے شہزادہ کے ہرعذرکو توڑااورآخر ٹالسٹائے سے اس کو پٹوایا.کیونکہ ٹالسٹائے نے بادشاہ کی خاطر مارکھائی تھی.اسی طرح جو شخص ا س لئے پیٹاجائے گاکہ وہ خدا کی بات پرایمان لایا.یاخدا کی آواز پر اس نے لبیک کہا.دنیا کا چھوٹاہویابڑا جواس کو مارے گا اورسزادے گا خدااسے نہیں چھوڑے گا جب تک اسے سزانہ دے لے خدا تعالیٰ کے کوڑے کے مقابلہ میں کسی انسان کاکوڑانہیں چل سکتا.لوگ اپنی کثرت پر گھمنڈ کرتے ہیں.لوگ اپنے جتھے پر گھمنڈ کرتے ہیں.لوگ اپنی حکومتوں پر گھمنڈ کرتے ہیں مگرہمارے خدا کی حکومت دنیا کی حکومتوں سے بہت بڑی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نبیوں نے کہا کہ وہ کونے کاپتھر ہوگا.جس پر وہ گرے گاوہ بھی چکنا چور ہوجائے گااور جوکوئی اس پر گرے گا وہ بھی چکناچور ہوجائے گا.یعنی خواہ وہ کسی پر حملہ آورہو یاکوئی اس پر حملہ آور ہو دونوں صورتوںمیں وہ سزاپائے بغیر نہیں رہےگا.اسی طرح آپ کے متبع بھی ظلی رنگ میں کونے کے پتھر ہیں.پس جولوگ خدا پرتوکل رکھتے ہیں خداان کے دشمنوں کوسزادیئے بغیر نہیں رہتا.وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِيٌّ اورجو شخص خدا(تعالیٰ )کے لئے کوشش کرتاہے درحقیقت وہ اپنی جان ہی کے لئے کرتاہے.اللہ (تعالیٰ ) تمام عَنِ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۷ جہانوں سے بے نیاز ہے (اوران کی عبادت کا محتاج نہیں).تفسیر.اس آیت میں مومنوں کو اس طر ف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہاری تمام نیک کوششیں تمہارے اپنے لئے فائدہ بخش ہیں.خدا تعالیٰ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کی عبادت یا ان کی قربانیوں سے بے نیاز ہے.
پس قربانیاں کرتے وقت تم کبھی یہ خیال نہ کرو کہ تم خدااوراس کے رسول پرکوئی احسان کررہے ہو.خدا تعالیٰ قربانیوں کا محتاج نہیں بلکہ تم اس کے فضل کے محتاج ہو اوراگرتمہیں کسی نیکی کی توفیق ملتی ہے توتم خدا پر یااس کے سلسلہ پرکوئی احسان نہیں کرتے بلکہ خو د اپنی جان پر احسان کرتے ہو.جولوگ اس نکتہ کو نہیں سمجھتے وہ بعض دفعہ نیکیاں کرتے کرتے جنت کے دروازہ تک پہنچ جاتے ہیں اوران کاغرور ان کے راستہ میں دیوا ربن کر حائل ہو جاتا ہے.اوروہ دوزخ میں جاگرتے ہیں.پس نیکیوں کے بعد کبر یا خودپسندی کے جذبات کی بجائے ہمیشہ خدا تعالیٰ کاشکر اداکرناچاہیے جس نے ایمان کی توفیق دی.اورمصائب و آفات میں ثباتِ قدم عطافرمایا.وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ اورجولوگ ایمان لائے او رایمان کے مطابق انہوں نے عمل کئے ہم ان کی بدیوں کو سَيِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا ان سے دو رکردیں گے اورجوکام وہ کرتے تھے اس کے مطابق جو بہترین جزاء ان کومل سکتی ہوگی يَعْمَلُوْنَ۰۰۸ وہ ہم ان کودیں گے.حلّ لُغَات.لَنُکَفِّرَنَّ.لَنُکَفِّرَنَّ کَفَّرَ سے جمع متکلم مؤکد بہ نونِ ثقیلہ کاصیغہ ہے اور کَفَّرَ اللّٰہُ لَہُ الذَّنْبَ کے معنے ہیں مَحَاہُ یعنی گناہ کے اثر اوراس کے نشان کو مٹادیا (اقرب).اسی طرح کَفَّرَ کے معنے بدلہ دینے کے بھی ہوتے ہیں.قرآن کریم میں آتاہے.ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَاحَلَفْتُمْ(المائدۃ: ۹۰) جب تم قسم کھاکراسے توڑ دو توا س کابدلہ وہ ہے جو اوپر بیان ہوچکا ہے وَالتَّکْفِیْرُ سَتْرُہٗ وَتَغْطِیَتُہٗ یَصِیْرَحَتّٰی بِمَنْزِلَۃِ مَالَمْ یَعْمَلْ.اورتکفیر (جو کَفَّرَ کامصدر ہے جس سے کفارہ بناہے) کے معنے کسی عمل کو اس حد تک چھپادینے اورڈھانپ دینے کے ہوتے ہیں کہ گویا اس کاوجود ہی نہ تھا اوراس کے کرنے والے نے وہ عمل کیا ہی نہ تھا.وَیَصِحُّ اَنْ یَّکُوْنَ اَصْلُہٗ اِزَالَۃَ الْکُفْرِ وَالْکُفْرَانِ نَحْوَ التَّمْرِیْضِ فِیْ کَوْنِہٖ اِزَالَۃً لِّلمَرَضِ وَتَقْذِیَۃِ الْعَیْنِ فِیْ اِزَالَۃِ الْقَذٰی عَنْہُ (مفردات ) اوریہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس لفظ کی بنیاد بابِ تفعیل کے اس خاصہ پر ہو کہ وہ اصل مادہ
کے معنوں کودورکرنے پردلالت کرتاہے اور کَفَّرَ کے معنے ہوںکفریاکفران نعمت کودورکرنا.جیسے عربی زبا ن میں تَمْرِیْض کے معنے مرض پیداکرنے کے نہیں بلکہ مرض کے دور کرنے کے ہوتے ہیں.اسی طرح تَقْذِیَۃُ الْعَیْن کے معنے آنکھ میں قَذٰی یعنی تنکاڈالنے کے نہیں ہوتے بلکہ آنکھ سے تنکا دورکرنے کے ہوتے ہیں.اوپرکے لغات کے حوالوں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کفارہ کے معنے مٹادینے کے بھی ہیں جس میں تین باتیں شامل ہیں (۱) گناہ کی خواہش اورعادت کومٹادینا.(۲)گناہ کی سزا اورنتیجہ کو مٹادینا.(۳) گناہ کی شہرت اور بدنامی کومٹادینا اسی طرح کفار ہ کے معنے بدلہ دینے یا گناہ کودورکرینے کے بھی ہیں.تفسیر.اس آیت میں جزائے نیک کے بار ہ میں اسلام کایہ اصول بیان کیاگیا ہے کہ جب کوئی شخص سچی توبہ کرتاہے تو خدا تعالیٰ صرف گناہ کوہی معاف نہیں کرتا بلکہ گناہ کی یاد بھی مٹادیتاہے.یعنی جولوگ گناہ سے واقف ہوتے ہیں.مثلاً خود گناہ گار کا اپنا وجود ہے اللہ تعالیٰ اس کے اوردوسروں کے ذہن سے اس گناہ کی یاد کومٹادیتاہے اوربدی کے نقش کو یاتودھندلاکردیتا ہے یااسے بالکل محو کردیتاہے تانفس میں شرمندگی نہ رہے اورنیکی کاجذبہ غالب آجائے.چنانچہ فرماتا ہے.وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.یعنی وہ لوگ جو سچاایمان لائے ہیں اوراپنے ایمان کے مطابق انہوں نے عمل کئے ہیں ہم ان کے گناہوں کو مٹادیں گے اوران کے اعمال میں سے بہترین اعمال کے مطابق ا ن سے سلوک کریں گے.اس جگہ مٹادینے سے مراد ان کا فراموش کردینا ہی ہے کیونکہ جب عمل صالح کرنے والے اور کامل ایمان والوں کا ذکر ہو.تومٹادینے کے یہ معنے نہیں ہوسکتے کہ گناہ کی عادت چھٹ جائے گی.کیونکہ ایسا شخص عمل نیک توپہلے ہی کرنے لگ گیا ہے.پس اس جگہ مٹانے سے مراد ان کافراموش کردینا ہی ہے تاکہ ان کی عزت پرکوئی حرف باقی نہ رہے.لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْایَعْمَلُوْنَ سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ انسانی اعمال کی جزادیتے وقت اس کی کمزوریوں پر انعام کی بنیاد نہیں رکھے گا بلکہ اس کی اعلیٰ سے اعلیٰ حالت پر اس کی بنیاد رکھے گا.اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بدلہ دیتے وقت انسان کی کمزوریوں کاخیال رکھاجاتاہے.یعنی یہ دیکھاجاتاہے کہ عام طور پر اس سے کس قسم کے اعمال کاظہو رہواہے.جسے قاعدئہ اوسط کہاجاتاہے.دنیا کی تمام جزاء اس اوسط کے قاعد ہ پر مبنی ہے.حتیٰ کہ حکومتیں پنشن دیتے وقت بھی قاعدئہ اوسط سے کام لیتی ہیں اوریہ دیکھتی ہیں کہ تین سال کی تنخواہ کااوسط کیا ہے پھراس اوسط کے مطابق پنشن دیتی ہیں.مثلاً اگر کوئی شخص پنشن کے وقت سے تین سال پہلے تین سوروپیہ تنخواہ لیتاتھا.دوسال پہلے چارسوروپیہ اورآخری سال میں پانچسوتووہ اسے دوسوپنشن دے گی جوچار سوکانصف بنتاہے نہ کہ اڑھائی سوجو
اس کی آخری تنخواہ کانصف ہوتاہے.لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہے.اس کے انعام سے دوسروں کاحق نہیںماراجاتا اوروہ جوکچھ دیتا ہے اپنی ملکیت سے دیتاہے.اس نے جزاء نیک کے بارہ میں دنیا کے ا س قاعدہ کے خلاف یہ قاعدہ مقررکررکھاہے کہ جوشخص مرتے ہوئے نیک ہواورایمان پرجان دے اس کا درجہ وہ نہیں سمجھاجائے گا جوموت کے وقت اسے حاصل تھا بلکہ اس کا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ سمجھاجائے گا جو اس کی زندگی میں کسی وقت اسے حاصل ہواہو.مثلاً فرض کرونیکی کے دس درجے ہیں.اورایک شخص مرتے ہوئے ساتویں درجہ پر تھا لیکن دوچار سال پہلے اسے آٹھواں یانواں درجہ حاصل تھا پھرکسی جسمانی یا دماغی کمزور ی کی وجہ سے اس کی نیکی کادرجہ گرگیا.اوردین کی خدمت کا اسے اس قدر موقعہ نہ ملا جو اس سے پہلے ملاکرتاتھا توایسے شخص کو اللہ تعالیٰ موت کے وقت کے درجہ پرفائز نہ کرے گا بلکہ اسے اس درجہ میں رکھے گا جواسے پہلے حاصل تھا اورجوسب سے اعلیٰ تھا.غرض انسان کو جزاء دیتے وقت ا س امر کاخیال رکھاجائے گا کہ اپنی زندگی میں کس اعلیٰ سے اعلیٰ مقام کویہ پہنچ چکا ہے.اوربعد کے تغیر ات کو نظر انداز کرکے اس اعلیٰ درجہ کے مطابق اس سے سلوک کیاجائے گا.اس بارہ میں قرآن کریم کی متعدد آیات ہیں جن میں سے ایک یہ آیت بھی ہے.ظاہر ہے کہ اس آیت کے یہ معنے توہونہیں سکتے کہ جو اچھے سے اچھا عمل ہوگااس کابدلہ مل جائے گا اور دوسرے چھوڑ دیئے جائیں گے کیونکہ اس سے توبندوں کافائدہ نہیں نقصان ہے کیونکہ چھوٹے اعمال بڑے عملوں سے مل کر بدلہ کو بڑھادیتے ہیں کم نہیں کرتے.اورخالی بڑاعمل چھوٹے عملوں سے علیحد ہ رہ کر بڑانہیں چھوٹاہوتاہے.کیونکہ ان سے الگ ہو کر اس کی طاقت کم ہو جاتی ہے.دس کاعدد چھ اور سات سے بڑاہے لیکن ۱۰+۶+۷ سے بڑانہیں.جمع کی صورت میں دس کواگرچھ اور سات سے الگ کر دیاجائے تو یہ چھوٹاہوجائے گا.پس اللہ تعالیٰ کایہ مطلب ہرگز نہیں ہوسکتاکہ تمہارے ادنیٰ اعمال کوہم بغیر بدلہ کے چھوڑ دیں گے اور صرف بڑے عمل کا بدلہ دیں گے.لازماً ماننا پڑتا ہے کہ اس جگہ عام جزاکا ذکر نہیں بلکہ خاص قسم کی جزاکا ذکر ہے.عام جزامیں تو بے شک چھوٹے سے چھوٹے عمل کوبھی ضائع نہیں کیاجائے گا.جیساکہ فرماتا ہے فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًایَّرَہٗ.لیکن اس جگہ جس قسم کی جزاکا ذکر ہے اس میں صرف بڑے عمل کو الگ کرلینے سے انسان کافائد ہ زیادہ ہوتاہے اور دوسرے اعمال کے ساتھ شامل کردینے سے بڑے عمل کی طاقت بھی کم ہوجاتی ہے.جیسے ایک مصورہزاروں تصویریں بناتاہے لیکن اس کی سب تصویر یں یکساں نہیں ہوتیں.اس کی بہت سی تصویروں میں سے کوئی بہت اعلیٰ ہوتی ہے اور کوئی درمیانی اورکوئی ادنیٰ.اعلیٰ تصویر جو اس کے کام کا منتہاء کہلاتی ہے اورجسے انگریزی محاورہ میں ’’ ماسٹر پیس ‘‘ کہتے ہیں اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ انسان کی آخری
تصویر ہی ہو.کبھی وہ ابتدائی زمانہ کی تصویر ہوتی ہے کبھی درمیانی زمانہ کی او ر کبھی آخری زمانہ کی.ا ب اگراس مصور کو ایک نئی زندگی دی جائے اوراس کی لیاقت کی اوسط نکال کر یااس کی آخری عمر کی حالت کے مطابق اسے اس کی نئی زندگی میں ذہانتِ مصور ی بخشی جائے تویقیناً اس کانقطہء مسابقت ادنیٰ ہوگا.لیکن اگراس کے ذہن کو اس سطح پر رکھ دیاجائے جواسے اپنی چوٹی کی تصویر بناتے وقت میسر تھا تواس کانقطئہ مسابقت یقیناً بہت اعلیٰ درجہ کاہوگا.گویاذہن کی عام قابلیت اگراعلیٰ سے اعلیٰ کام کے مطابق رکھی جائے تووہ یقیناً اعلیٰ ہوگی.بہ نسبت تما م کام کی اوسط نکال کر اس کے مطابق رکھنے کے.کیونکہ انسانی زندگی میں قبض اور بسط کے دورآتے رہتے ہیں اوران دونوں کی اوسط گوقبض کی گھڑیوں سے اعلیٰ ہوتی ہے لیکن بسط کی اعلیٰ گھڑیوں سے بہت اد نیٰ ہوتی ہے.اسی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسری زندگی میں ہم جو قوتِ عمل انسان کو بخشیں گے و ہ اس کی پہلی زندگی کی ترقیات کی اوسط کے مطابق نہ ہوگی بلکہ اس کی پہلی زندگی کی ان گھڑیوں کے مطابق ہوگی جن میں انسان نے اپنا انتہائی کمال ظاہر کیاہوگا خواہ وہ کمال زندگی کے کسی دو ر میں ظاہر ہواہواوراس طرح ہم اسے ایک ایسا اعلیٰ نقطئہ مسابقت بخشیں گے جس پر کھڑے ہوکر و ہ اعلیٰ مقامات کو بہت سرعت سے حاصل کرسکے گا.اوران معنوں کے روسے اعلیٰ سے اعلیٰ عمل کے مطابق جزاء کاملنا ایک انعام ہے او رانعام بھی وہ جس کاخیال کرکے بھی دل خوشی سے اچھل پڑتا ہے.فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا١ؕ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ اورہم نے انسا ن کواپنے والدین سے اچھا سلوک کرنے کاحکم دیاہے اور(کہا ہے کہ) اگر و ہ دونوں تجھ سے اس لِتُشْرِكَ بِيْ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا١ؕ اِلَيَّ بات میں بحث کریں کہ تُو کسی کومیراشریک قرار دے حالانکہ اس کاتجھے کوئی علم نہیں توتُوان دونوں کی فرمانبرداری نہ
مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۰۰۹ کرکیونکہ تم سب نے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے اورمیں تمہارے عمل (کی نیکی بدی) سے تم کوواقف کروں گا.تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق بڑی تاکید کی ہے کہ ان سے نیک سلوک کیاجائے.ہاںاگر وہ تم سے اس بات کے لئے جھگڑیں کہ تم کسی کومیراشریک قرار دے دو.جس کاتمہیں کوئی علم نہیں تو پھران کی بات نہ مانو.یعنی مومن کو جب اس کے ماں باپ سے اچھا معاملہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے توپھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ مومن خدا تعالیٰ سے جو ماں باپ سے بھی زیادہ محسن ہے اچھامعاملہ نہ کرے.اورجب ماں باپ خدا تعالیٰ کے خلاف کوئی بات کہیں توان کی بات کو رد ّ نہ کرے.بہرحال اس استثنا ء کے سواہرانسان کافرض ہے کہ و ہ اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان کے کسی حکم کی خلاف و رزی نہ کرے.مجھے افسوس ہے کہ اس زمانہ میں بہت سے نوجوان ایسے دکھائی دیتے ہیں جو اپنے ماں باپ کامناسب احترام نہیں کرتے اورنہ ان کے حقوق کاخیال رکھتے ہیں بلکہ اولاد میں سے کسی کواگر کوئی اچھا عہدہ مل جائے تووہ اپنے غریب والدین سے ملنے میں بھی شرم محسوس کرتاہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سنایاکرتے تھے کہ کسی ہندونے بڑی تکلیف برداشت کر کے اپنے لڑکے کو بی.اے یاایم.اے کرایااوراس ڈگری کوحاصل کرنے کے بعد وہ ڈپٹی ہوگیا.آجکل ڈپٹی ہوناکوئی بڑااعزاز نہیں سمجھاجاتا.لیکن پہلے وقتوں میں ڈپٹی ہونا بھی بڑ ی بات تھی.اس کے باپ کو خیال آیا کہ میرالڑکاڈپٹی ہوگیا ہے.میں بھی اس سے مل آئو ں.چنانچہ جس وقت وہ ہندو اپنے بیٹے کو ملنے کے لئے مجلس میں پہنچا تواس وقت اس کے پاس وکیل اوربیرسٹر وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے.یہ بھی اپنی غلیظ دھوتی کے ساتھ ایک طرف بیٹھ گیا.باتیں ہوتی رہیں کسی شخص کواس غلیظ آدمی کابیٹھنا برامحسوس ہوااوراس نے پوچھا کہ ہماری مجلس میں یہ کون آبیٹھاہے.ڈپٹی صاحب اس کی یہ بات سن کر کچھ جھینپ سے گئے اورشرمندگی سے بچنے کے لئے کہنے لگے یہ ہمارے ٹہلیا ہیں.باپ اپنے بیٹے کی یہ بات سن کر غصے کے ساتھ جل گیا.وہ اپنی چاد رسنبھالتے ہوئے اٹھ کھڑاہوا.اورکہنے لگا.جناب میں ان کا ٹہلیا نہیں ان کی ماں کاٹہلیا ہوں.ساتھ والوں کو جب معلوم ہواکہ یہ ڈپٹی صاحب کے والد ہیں توانہوں نے اس کو بہت لعن طعن کی اورکہا کہ اگرآپ ہمیں بتاتے توہم ان کی مناسب تعظیم و تکریم کرتے.اورادب کے ساتھ ان کو بٹھاتے.بہرحال اس قسم کے نظارے روزانہ دیکھنے میں آتے ہیں کہ لوگ رشتہ داروں کے ساتھ ملنے سے جی چراتے ہیں تاکہ ان کی اعلیٰ پوزیشن میں کوئی کمی واقع نہ ہوجائے.گویاماں باپ کانام روشن کرناتوالگ رہا ان کے
نام کو بٹہ لگانے والے بن جاتے ہیں.اورسوائے ان لوگوں کے جو اس نقطہ نگاہ سے والدین کی عزت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کاحکم ہے کہ والدین کی عزت کرو.دنیاداروں میں سے بہت کم لو گ ایسے ہوتے ہیں جووالدین کی پورے طور پر عزت کرتے ہیں.اورزمینداروں اورتعلیم یافتہ طبقہ دونوں میں یہی حالات نظر آتے ہیں.اسی طرح بعض نوجوان اپنی مائوں کی خبرگیری ترک کردیتے ہیں اورجب پوچھاجاتاہے توان کا جواب یہ ہوتاہے کہ اماں جی کی طبیعت تیز ہے اورمیری بیوی سے ان کی بنتی نہیں.حالانکہ بیوی کوماں سے کیانسبت.بیوی نے اس کے فائدے کے لئے کیاکیاہوتاہے.وہ نوجوانی کی حالت میںاس کی خدمت کرتی ہے لیکن ماں جس نے اپنی چھاتیوں سے دودھ پلایاہوتاہے اورجس نے اپنا خون دودھ کی شکل میں تبدیل کرکے اس کی پرورش کی ہوتی ہے اورمحنت و مشقت کرکے پڑھایاہوتاہے اس سے اس لئے اعراض کرلیاجاتاہے کہ بیوی سے اس کی بنتی نہیں.پس اس خطرناک نقص کودور کرو.اوراپنے والدین کی خدمت بجالائو.ورنہ تم اس جنت سے محروم ہوجائو گے.جوتمہارے ماں باپ کے قدموں کے نیچے رکھی گئی ہے.آخرمیں فرمایا اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ.آخر تم نے خدا تعالیٰ کی طرف ہی لوٹنا ہے اور تمام اعمال کا نتیجہ اسی نے ظاہر کرنا ہے اس لئے تمہاراکام یہی ہے کہ جب شرک کاسوال آئے تواپنے ماں باپ کی اطاعت کرنے سے انکار کردو.مگراس استثناء کے علاوہ تمام دنیوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئو.اوران کی کامل فرمانبردار ی کرو.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ایک لڑکی کے پاس جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی کی بہن تھیں ان کی والدہ آئیں.انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میری ماں آئی ہے اورچاہتی ہے کہ میں اس سے کچھ سلوک کروں مگروہ کافرہ ہے.کیامیں اس سے حسن سلوک کرسکتی ہوں؟ آپؐ نے فرمایا.ہاں بیشک کرو.یہ دنیوی معاملہ ہے.اس میں کوئی حرج نہیں.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کوایک دفعہ ایک جبّہ دیا جو ریشمی تھا.انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! میں نے ایک دفعہ آپؐ کوایک ریشمی جبّہ پیش کیاتھا.مگرآپؐ نے اس کو پسند نہ فرمایا.اب آپ مجھے خود ریشمی جبّہ دے رہے ہیں.کیامیں اس کو پہن لوں.آپؐ نے فرمایا.میں نے پہننے کے لئے نہیں دیا کسی کو تحفۃً دے دو یا بیچ ڈالو.اس پر انہوں نے اپنے بھائی کوجو مکہ میں رہتاتھااورکافرتھادے دیا.اس سے معلوم ہوتاہے کہ مذہبی اختلاف کی وجہ سے تعلقات منقطع نہیں ہوجاتے بلکہ مومن کافرض ہوتاہے کہ وہ ہرحالت میں اپنے والدین اور دوسرے رشتہ داروں کا احترام کرے اورہمیشہ ان سے حسن سلوک کرتارہے.
یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ ابتلائوں کے ذکر میں ماں باپ سے حسن سلوک کی تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ نبیوں کے آنے پر بسا اوقات نوجوا ن طبقہ تو پرانے خیالات سے آزاد ہونے کی وجہ سے صداقت کوقبول کرلیتا ہے لیکن ان کے والدین اپنے پرانے عقائد پر ہی قائم رہتے ہیں اور چونکہ مذہبی عقائد کااختلاف ماں باپ اوران کی اولاد میں ایک وسیع خلیج حائل کردیتاہے.اس لئے بعض دفعہ والدین ایسی سختی پر اترآتے ہیں کہ وہ اپنے بیٹوں کواپنے گھروں سے نکال دیتے یاانہیں اپنی جائیدادوں سے بے دخل کردیتے ہیں.اللہ تعالیٰ مومنوںکوتوجہ دلاتاہے کہ بیشک تمہاراصداقت قبول کرنا ایک بڑی بھاری نیکی ہے لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ تم ان سختیوں کی وجہ سے اپنے ماں باپ سے حسن سلوک ترک کردو.تمہاراکام یہی ہے کہ تم ہمیشہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرو.اوردنیوی معاملات میں ان سے محبت کے ساتھ پیش آئو.ہاںاگر وہ تمہیں کبھی خدااوراس کے رسول سے برگشتہ کرنے کی کوشش کریں توتم فوراً کہہ دوکہ اس معاملہ میں ہم آپ کی اطاعت کرنے کے لئے تیار نہیں.وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُدْخِلَنَّهُمْ فِي اورجولوگ ایمان لائے ہیں اور اس کے مطابق انہوں نے عمل بھی کیاہے ہم ان کو اچھے بندوں میں الصّٰلِحِيْنَ۰۰۱۰ داخل کریں گے.تفسیر.اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ جولوگ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرسچے دل سے ایمان لائے ہیں اورپھراس ایمان کے مطابق انہوں نے اعمال صالحہ بھی کئے ہیں ہم انہیں یقیناً صالحین میں داخل کریں گے یعنی ان صادق اورراستباز لوگوں میں شامل کریں گے جن کے متعلق زبو ر (زبور باب ۳۷ آیت ۲۹) میں ہم نے وعدہ کیاتھا کہ انہیں فسلطین کی بادشاہت دی جائے گی.گویا وہ وعدہ جوبنی اسرائیل سے کیاگیا تھااب مسلمانوں کے ایمان اور عمل صالح کرنے کی وجہ سے ان کی طرف منتقل ہوجائے گا.چنانچہ جب تک مسلمان صالح رہے فلسطین مسلمانوں کے پاس رہا.اورجب ان میں بگاڑ پیداہوگیا فلسطین بھی ان سے چھن گیا.مگرجیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ظاہر ہے یہ فلسطین کاچھننا عارضی ہے ایک دن اللہ تعالیٰ ان کو پھراس ملک میں لائے گا اور ان کی موجودہ پسپائی فتح سے بدل جائے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.امریکن قوم بڑی ہوشیار ہے مگراس موقعہ پر اس نے سخت غلطی کی ہے اورایک
ایسی قوم کی حمایت کے لئے کھڑی ہوگئی ہے جس کوبائیبل بھی ملزم قرار دیتی ہے اورقرآن کریم بھی ملزم قرار دیتاہے.یہودی اگر فلسطین میں مستقل طور پر رہنا چاہتے ہیں تواس کاایک ہی ذریعہ ہے کہ وہ صالحین میں شامل ہوجائیں.خدا تعالیٰ کوان سے کوئی دشمنی نہیں.وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں.اگروہ صالح بن جائیں تووہ اس ملک میں رہ سکتے ہیں.لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صالح کی تشریح میں فرماتا ہے کہ جولوگ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں وہ صالح اورشہید اور صدیق وغیرہ کا مقام پائیں گے.پس صالح بننے کے لئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی ضروی ہے.اگر یہود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لے آئیں.تواللہ تعالیٰ ان کو اس ملک میں قائم رکھے گااوروہ اسی طرح مسلمانوں کے بھائی ہوں گے جس طرح اسحاق ؑ اسماعیل ؑ کابھائی تھا.پس کوئی وجہ نہیں کہ وہ ہمت کرکے خدا تعالیٰ کے قانون کواپنی تائید میں نہ بنالیں.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِيَ فِي اللّٰهِ اورلوگوں میں سے (بعض ایسے بھی ہوتے ہیں)جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ(تعالیٰ )پرایمان لے آئے ہیں پھرجب جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَىِٕنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ اللہ (تعالیٰ )کی وجہ سے ان کو تکلیف دی جاتی ہے وہ لوگوں کے عذاب کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیتے ہیں اور رَّبِّكَ لَيَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ١ؕ اَوَ لَيْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا اگرتیرے رب کی طرف سے مددآتی ہے تووہ کہتے ہیں(درحقیقت) ہم بھی تمہارے ساتھ تھے.کیادنیا جہان کے فِيْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۱وَ لَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اس کو اللہ(تعالیٰ ) اچھی طرح نہیں جانتا؟ اور اللہ(تعالیٰ )ضرو رظاہر کردے گا لَيَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ۰۰۱۲ ان کو بھی جو ایمان لائے اوران کو بھی جو منافق ہیں.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ جولوگ صرف منہ کے ایمانوں پر بھروسہ کرتے ہیں ان کی یہ حالت ہوتی
ہے کہ جب کبھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں ان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگوںکے عذاب دینے کو وہ اللہ کے عذاب دینے کے برابر سمجھ لیتے ہیں.اورجب کبھی تیرے رب کی طرف سے نصر ت آجائے توپھر اپنی اصل حالت کو چھپانے کے لئے مسلمانوں کے پاس آ آکر کہتے ہیں کہ ہم توتمہارے ساتھ تھے.حالانکہ وہ صرف منہ سے ساتھ تھے دل سے ساتھ نہیں تھے.مومنوں کو اس قسم کے بزدلانہ رویہ سے بچناچاہیے اورصداقت پرپوری مضبوطی سے قائم رہناچاہیے.آج سب سے بڑی مصیبت سچ کی اشاعت میں یہی ہے کہ لوگ قوم اور ملک کی رسوم کا مقابلہ نہیں کرسکتے.یورپ میں سےلاکھوں آدمی ایسے ہیں.جن کے دلوں پر اسلام کی سچائی نے اثر کرلیا ہے مگروہ ملک کی اور قوم کی رسوم کامقابلہ کرنے اوراپنے ہمسائیوں کے تمسخر سے گھبراتے ہیں.اگروہ دلیرہوجائیں تونہ صرف ان کو سچائی قبول کرنے کاموقعہ ملے بلکہ ان کو دیکھ کرہزاروں اورآدمی آگے آجائیں اورسچائی دنوں میں اتنی پھیل جائے جوپچھلی صدیوں میں نہیں پھیلی تھی.کیونکہ اس زمانہ کی تمام خرابیوں کے باوجود اس میں اتنی خوبی موجود ہے کہ علوم کے خزانے باہر آگئے ہیں اورہرعلم کے متعلق اتنی کتابیں موجود ہیںکہ انسان آسانی سے ان علوم کو حاصل کرسکتاہے.یہ بات پہلے لوگوں کو میسر نہ تھی.پس مبارک ہے وہ جو اس سامان سے فائدہ اٹھاتاہے اورسچے مذہب کے قائم کرنے میں اپنی نیک مثال سے مدد دیتاہے.یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل اس پر نازل ہوں گے.اورآنے والی نسلیں ان کو دعائیں دیں گی.ہم انتظار کررہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں سے کون کون سے لوگ اس مقام کوحاصل کرتے ہیں.جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ سے معلوم ہوتاہے کہ ابتلاء اورعذاب میں بہت بڑافرق ہوتاہے مگرلوگ اپنی نادانی سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھتے اورخدا تعالیٰ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کووہ اپنی تباہی کاموجب سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ وہ ان کی ترقی کاپیش خیمہ ہوتی ہیں.ابتلاء او رعذاب میں فرق یہ ہوتاہے کہ (۱) عذاب کانتیجہ ہلاکت اورتباہی ہوتی ہے مگرابتلاء کا نتیجہ یہ نہیں ہوتا.تکلیفیں تو دونوں طرح ہی آتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہی دیکھ لو.بارہاایساہواہے کہ آپ دشمن کے نرغے میں اکیلے پھنس گئے.مگرپھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچالیا مگر ابوجہل ایک ہی دفعہ فوجوں سمیت پکڑا گیا اورہلاک ہوگیا.(۲) عذاب کے نتیجہ میں نقصان کی زیادتی ہوتی ہے اورابتلاء میں نفع کی زیادتی ہوتی ہے.ابتلاء کی مثال تو ایسی ہوتی ہے جیسے ربڑ کے گیند کو جتنے زور سے پھینکاجائے وہ اتنا ہی اچھلتاہے.مگرعذاب میں گرکر انسان اوپر نہیں اٹھ سکتا.
(۳ ) عذاب جس انسان پر نازل کیا جاتا ہے اس کے دل میں مایوسی اور گھبراہٹ ہوتی ہے.مگرجس پر ابتلاء نازل ہوتاہے اس کے دل میں اطمینان او رتسلی ہوتی ہے.جب عذاب نازل ہوتاہے تومغضوب کہتا ہے.ہائے میں ہلاک ہوگیا.یااگروہ اس سے گھبراتانہیں تو اس کے دل میں کبراورخودپسندی کے جذبات جوش مارنے لگتے ہیں اوروہ سمجھتاہے کہ مجھے کون ہلاک کرسکتاہے ؟ لیکن جب ابتلاء آتاہے توانسان کہتاہے کوئی پرواہ نہیں میں کمزور اوربے کس ہوں لیکن میرابچانے والاطاقت و رہے اوروہ خدا تعالیٰ پر یقین میں اوربھی ترقی کرجاتاہے اور خدا تعالیٰ پراس کی حسن ظنی بہت بڑھ جاتی ہے.(۴) عذاب کے دو رکرنے کی انسان جب کوشش کرتاہے توٹھوکریں کھاتاہے.مگرجس پر ابتلاء آتا ہے اس کا فہم رساہو جاتا ہے اوروہ بات کو خوب سمجھنے لگ جاتاہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھ لو.کفار آپ کا کھوج لگاتے لگاتے غار ثور تک پہنچ گئے اور وہاں جاکرکھوجی نے کہہ دیا کہ یاتووہ آسمان پر چلا گیا ہے اوریایہیں ہے.ان میں کھوجی کی بات کا بڑالحاظ کیاجاتاتھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جان اس وقت سخت خطرہ میں تھی.مگررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوذرابھی گھبراہٹ نہ ہوئی.بلکہ آپؐ نے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کوبھی تسلی دینی شروع کردی اورفرمایاکہ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا.غم نہ کرو.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.اسی طرح ایک دفعہ آپؐ سوئے ہوئے تھے کہ ایک کافرنے آپؐ کی تلوار اٹھالی اورآپ کو قتل کرناچاہا.لیکن آپ ذرابھی نہ گھبرائے.اوراس کے اس سوال پر کہ اب آپؐ کو کون بچاسکتاہے آپؐ نے نہایت تسلی سے جواب دیا کہ ’’ اللہ‘‘.ا س غیر معمولی حالت اطمینان کودیکھ کر اس کافرپراس قدر دہشت طاری ہوئی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار گرپڑی.(۵)پانچواں فرق یہ ہے کہ ابتلاء میں انسان کو احساسِ بلاء نہیں ہوتا.جب ابتلاء آتاہے تو انسان ان تکالیف کو حقیر سمجھتاہے او ران میں لذت محسوس کرتاہے کیونکہ اس کے دل میں یقین ہوتاہے کہ میں ادنیٰ چیز کو اعلیٰ پر قربان کررہاہوں.مثلاًاس کامال جا تاہے توکہتاہے خداکے لئے ہی گیا ہے اس لئے کیاپرواہ ہے.یااگر اس کا بیٹا مرجاتا ہے توکہتاہے خدا نے ہی دیاتھا اگر اس نے واپس لے لیا ہے توکیاغم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاہی واقعہ ہے.مبارک احمد سے آپ کو بڑی محبت تھی اوراس کی بیمار ی میں آپ نے بڑی تیمار داری کی.اس سے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ تک کو بھی یہ خیال تھا کہ اگرمبارک احمد فوت ہوگیاتو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بڑاصدمہ ہوگا.آخری وقت حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ اس کی نبض دیکھ رہے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوانہوں نے کہا مُشک لائیں اور چونکہ اس کی نبض بندہورہی تھی.آپ پراس خیال کاکہ اس کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ
السلام کو بہت صدمہ ہوگا اس قدر اثر ہواکہ آپ کھڑے کھڑے زمین پرگرگئے.مگرجب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومعلوم ہواکہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے.تواسی وقت نہایت صبر کے ساتھ دوستوں کو خط لکھنے لگ گئے کہ مبارک احمد فوت ہوگیا ہے.مگراس امر پر گھبرانا نہیں چاہیے یہ اللہ تعالیٰ کی ایک مشیئت تھی جس پر ہمیں صبر کرناچاہیے اورپھر باہر آکر مسکرامسکراکر تقریر کرنے لگ گئے کہ مبار ک احمد کے متعلق خدا تعالیٰ کاجو الہام تھا وہ پوراہوگیا.چنانچہ آپ کاایک شعر بھی ہے کہ ؎ بلانے والا ہے سب سے پیار ا اسی پہ اے دل توجاں فداکر غرض ابتلاء میں دکھ کااثر قلب پر ہمت شکن نہیں ہوتاکیونکہ انسان سمجھتاہے کہ میں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کررہاہوں.بعض اوقات سخت عذاب میں بھی احسا سِ تکلیف مٹ جاتاہے.مگر یہ اختلال حواس کی وجہ سے ہوتاہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے ایک عورت دکھائی اوراس سے پوچھا تمہارے فلاں رشتہ دار کاکیاحال ہے ؟ اس نے ہنس کربتایا کہ وہ تو مرگیاہے.اسی طرح ایک دواوررشتہ داروں کے متعلق پوچھااوروہ ہنس ہنس کر بتاتی رہی.اب وہ معرفت کے لحاظ سے اس طرح نہیں کرتی تھی.بلکہ اس کو بیماری تھی اور اس میں غم محسوس کرنے کی حس ہی باقی نہیں رہی تھی.(۶)چھٹافرق یہ ہے کہ عذاب میں روحانیت کم ہوجاتی ہے مگرابتلاء میں زیادہ ہوجاتی ہے.کیونکہ عذاب میں خدا تعالیٰ سے دوری ہوجاتی ہے مگرابتلاء میں خدا تعالیٰ کی طرف اور زیادہ توجہ ہوجاتی ہے.ابتلاء اور عذاب میںیہ چھ موٹے موٹے فرق ہیں جن کو یاد رکھناچاہیے.اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَافِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ میں بتایاکہ و ہ بزد ل لوگ جو مشکلات کے دورمیں مومنوں کاساتھ نہیں دیتے لیکن جب مصائب کے بادل چھٹ جاتے ہیں اورفتوحات کادورآجاتاہے تومومنوںکوآآکرکہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں ہمیں بھی انعامات میں شریک کیاجائے.کیاانہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ ایمان کاانعام تو خدا نے دینا ہے مسلمانوں نے نہیں دینا اگرانہیں دنیوی مال و دولت یاحکومتی عہدوں میںسے کوئی عہدہ مل بھی گیاتوکیاہوااصل انعام تواللہ تعالیٰ نے دینا ہے اوروہ تمہاری اس دھوکابازی کو خو ب جانتاہے اس لئے یہ چالاکیاں تمہارے کسی کام نہیں آسکتیں.بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ دنیا میں بھی ابھی کئی جھٹکے ایسے لگیں گے جن سے تمہاری اس منافقت کا پر دہ چاک ہوجائے گا.چنانچہ فرمایا وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ.اللہ تعالیٰ متواتر ایسے ابتلاء پیداکرتاچلاجائے گا جن سے دنیا پر بھی ظاہر ہوجائے گا کہ کون سچامومن تھا اورکون منافق.اورخودان
منافقوں پر بھی اپنے دعوٰئے ایمان کی حقیقت ظاہرہوجائے گی.وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّبِعُوْا سَبِيْلَنَا اورکافرمومنوں سے کہتے ہیں تم ہمارے پیچھے چلو.ہم تمہارے گناہ اٹھالیں گے.حالانکہ وہ ان کے گناہ وَ لْنَحْمِلْ خَطٰيٰكُمْ١ؕ وَ مَا هُمْ بِحٰمِلِيْنَ مِنْ خَطٰيٰهُمْ مِّنْ (بالکل )نہیں اٹھاسکتے.و ہ یقیناًجھوٹے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اوراپنے بوجھوں کے شَيْءٍ١ؕ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ۰۰۱۳وَ لَيَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا سوااورلوگوں کے بوجھ بھی اٹھائیں گے (جن کو وہ دھوکادیتے ہیں)اورقیامت کے دن ان سے ان کے مَّعَ اَثْقَالِهِمْ١ٞ وَ لَيُسْـَٔلُنَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا يَفْتَرُوْنَؒ۰۰۱۴ اس افتراء کے بارہ میں سوال کیاجائے گا.تفسیر.فرمایا.ایسے موقعہ پرمسلمانوں سے مایوس ہوکر کافر کہہ دیاکرتے ہیں کہ تم ہمارے رستہ پر چلو ہم تمہارے بوجھ اٹھالیں گے.حالانکہ وہ اپنے مخاطبین کاذراسابوجھ بھی نہیں اٹھاسکتے وہ بالکل جھوٹے ہیں.ہاں ان کی اس بے ہودہ گوئی کا نتیجہ یہ ضرور نکلے گا کہ وہ اپنے بوجھ بھی اٹھائیں گے اوراس کے علاوہ مزید سزابھی حاصل کریں گے اورقیامت کے دن ان سے پوچھاجائے گا کہ تم اتنا جھوٹ کیوں بولتے رہے.یہ آیت بتاتی ہے کہ کفر انسان کی عقل پر ایسا پردہ ڈال دیتاہے کہ بڑے بڑے عقل مندکہلانے والے آدمی بھی ایسی باتیں کہنے لگ جاتے ہیں جوایک بچہ کے نزدیک بھی قابل ہنسی ہوتی ہیں.مثلاً ایک طرف اس طبعی طریق کو دیکھو جوقرآن کریم نے اوپر کی آیات میں بیان فرمایا ہے کہ گناہوں سے بچنے کاصحیح طریق یہ ہے کہ انسان توبہ کرے لقائِ الٰہی کے حصول کی کوشش کرے اوراللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد سے کام لے اور دوسری طرف اس غیر طبعی طریق کودیکھو جس کادعویٰ کفار کیاکرتے تھے بلکہ اب بھی کرتے ہیں تومعلوم ہوجائے گاکہ قرآن کریم کی باتیں نہایت سچی اور صحیح ہیں اور اس کے مخالفوں کی باتیں نہایت بودی اورکچی ہیں.کفار کا یہ دعویٰ کہ اگرمومن ان کی با ت مان کر کافرہوجائیں تو وہ ان کابوجھ اٹھالیں گے بالکل خلاف عقل ہے.حقیقت یہ ہے کہ کوئی کسی کابوجھ نہیں اٹھاسکتا.نہ
مومن کافر کا نہ کافرمومن کا.بو جھ تو اللہ تعالیٰ معاف کرکے اٹھاتاہے اوراسی کے حقیقی ذریعہ کانام توبہ ہے.غرض اسلام جو ایک فطرتی مذہب ہے و ہ گنہگارکے لئے توبہ کادروازہ کھو لتاہے اوراسے لقاء الٰہی کی امید دلاتاہے مگرغیر مذاہب اس فطری طریق کے خلاف قد م اٹھاتے ہیں.مثلاً عیسائیت لوگوں کو یہ ترغیب دیتی ہے کہ اگروہ یسوع مسیح پر ایمان لے آئیں تومحض ا س ایمان کی برکت سے ہی ان کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے.عیسائیت اس بارے میں یہ نظریہ پیش کرتی ہے کہ شیطان نے آدمؑ اوراس کی بیوی حواکو ورغلایااور گنہگار کردیا.جس کانتیجہ یہ ہواکہ اب ہرشخص جودنیا میں پیدا ہوتاہے وہ گناہ کا ورثہ لے کر آتا ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ عادل ہے اوراس کے عدل کاتقاضاہے کہ ہرگنہگار کوسزادے اس لئے آدمؑ و حواکے گناہ کی وجہ سے دنیا کاہرشخص سزاکا مستحق ہے.مگردوسری طر ف خدا تعالیٰ کارحم تقاضاکرتاہے کہ وہ گنہگاروں کو معاف کردے سواس مشکل کے حل کے لئے اس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دنیا میں بھیجا تاکہ وہ بے گناہ ہو کرصلیب پرلٹکایاجائے اورسچاہوکر جھوٹاقرار پائے.چنانچہ وہ مسیح کی شکل میں دنیامیں ظاہر ہوااوریہود نے اسے بلاکسی گناہ کے صلیب پر لٹکادیا اوروہ تما م ایمان لانے والوں کے گناہ اٹھاکر ان کی نجات کاموجب ہوا.یہ نظریہ جوعیسائیت پیش کرتی ہے.اس قد رخلافِ عقل ہے کہ اس پر جتنابھی غورکیاجائے اتنا ہی انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے تعجب آتاہے کہ یہ گناہوں کی معافی کی کونسی صورت ہے.اگرگناہ گارکے گناہ کومعاف کرنا عدل کے خلاف ہے توبے گناہ کو سزادینا بھی توعدل کے خلاف ہے.پھر یہ کس طرح ہواکہ خداکے بیٹے نے دوسروں کے گناہ اپنے سر پرلے لئے اورخدا نے اس بے گناہ کو پکڑ کر سزادے دی؟پھر عقلاً بھی یہ بالکل غلط بات ہے کہ باپ جوکچھ کرے بیٹے کو اس کا ضرورورثہ ملتاہے.اگرایساہوتاتوجاہل ماں باپ کے لڑکے ہمیشہ جاہل رہتے اور عالموں کے عالم.مسلول ماں باپ کے بچے ہمیشہ مسلول نہیں ہوتے نہ کوڑھیوں کے بچے ہمیشہ کوڑھی ہوتے ہیں.بعض باتوں میں ورثہ ہے اوربعض میں نہیں.اورجہاں ورثہ ہے وہاں بھی خدا تعالیٰ نے ورثہ سے بچنے کے سامان پیداکئے ہیں.اگرورثہ سے بچنے کے سامان نہ ہوتے توتبلیغ اور تعلیم کامقصد کیارہ جاتا.کافروں کے بچوں کاایمان لے آنابتاتاہے کہ ایمان کے معاملہ میں خدا تعالیٰ نے ورثہ کاقانون جاری نہیں کیا اگراس میں بھی ورثہ کاقانون جاری ہوتا تومسیح کی آمد ہی بے کار ہوجاتی.اسلام کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کونیک طاقتیں دےکر پیدا کیاہے.پھر بعض انسان ان حالتوں کو ترقی دیتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں.اوربعض ان کو پائوں تلے روند دیتے ہیںاورنامراد ہوجاتے ہیں.قانونِ شریعت بے شک سب کاسب قابل عمل ہے لیکن نجات کی بنیاد عمل پر نہیں بلکہ ایمان پر ہے جو فضل کو جذب کرتاہے.عمل اس کی تکمیل کا ذریعہ ہے اورنہایت ضروری ہے.لیکن پھر بھی وہ تکمیل
کاذریعہ ہے اورذریعہ کی کمی سے چیز کافقدان نہیں ہوتا.بیج سے درخت پیدا ہوتاہے.لیکن پانی سے وہ بڑھتاہے.ایمان بیج ہے اور عمل پانی جو اسے اوپر اٹھاتاہے.خالی پانی سے درخت نہیں اگ سکتا لیکن بیج ناقص ہو اورپانی میں کسی قد رکمی ہوجائے تب بھی کسی قدر درخت اگ آتاہے.کسان ہمیشہ پانی دینے میں غلطیاں کرجاتے ہیں لیکن اس سے کھیت مارے نہیں جاتے جب تک بہت زیادہ غلطی نہ ہوجائے.انسانی عمل ایمان کو تازہ کرتاہے.اوراس کی کمی اس میں نقص پیداکرتی ہے.لیکن اس کی ایسی کمی جوشرارت او ربغاوت کارنگ نہ رکھتی ہو اورحد سے بڑھنے والی نہ ہو ایمان کی کھیتی کوتباہ نہیں کرسکتی اوراگرشرارت اور بغاوت بھی ہو تو خدا کاعدل توبہ کے راستہ میں روک نہیں.عدل اس کونہیں کہتے کہ ضرو ر سزادی جائے بلکہ اس کوکہتے ہیں کہ بے گناہ کوسزانہ دی جائے.پس گنہگار کو رحم کرکے بخشنا اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کے مخالف نہیں بلکہ عین مطابق ہے.اگرعدل کے معنے یہ ہوں کہ ہر عمل کی عمل کے برابرجزاملے توبخشش اورنجات کے معنے کیا ہوئے؟کیونکہ عدل کے معنے برابر کے ہیں اوراگریہ صحیح ہوتوکسی شخص کو اس کی عمر کے برابر ایام کے لئے ہی نجات دی جاسکتی ہے اوروہ بھی اس کے اعمال کے وزن کے برابر.مگراسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا.پھر نہ معلوم خدا تعالیٰ کی رحمت کو اس مسئلہ سے کیوں محدود کیا جاتا ہے.اسلام بتاتاہے کہ خدا تعالیٰ مالک ہے اورمالک کے لئے انعام اوربخشش میں کوئی حدبندی نہیں.و ہ بے شک وزن کرتاہے لیکن اس کاوزن اس لئے ہوتاہے کہ کسی کو اس کے حق سے کم نہ ملے.نہ اس لئے کہ اس کے حق سے زیادہ نہ ملے.مسیح بے شک بے گناہ انسان اور خدا کارسول تھا.لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ وہ دوسروں کابوجھ اٹھالے گا.قیامت کے دن ہر شخص کو اپنی صلیب خود ہی اٹھانی ہو گی.اورجو خود اپنی صلیب نہ اٹھاسکے گا وہ نجات بھی نہ پاسکے گا.سوائے اس کے کہ خداکے فضل کے ماتحت اس کی بخشش ہو اورخدا تعالیٰ خود کسی کابو جھ اٹھالے.حضرت مسیح ؑ نے بھی انجیل میں یہی نظر یہ پیش کیاہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:.’’ جوکوئی اپنی صلیب اٹھا کر میرے پیچھے نہیں آتا میرے لائق نہیں ہے.‘‘(متی باب ۱۰ آیت ۳۸) حضرت مسیح ؑ کے یہ الفاظ بتاتے ہیں کہ عیسائیوں کا یہ کہنا کہ مسیح نے گناہگاروں کابوجھ اٹھالیا ہے بالکل غلط ہے.ہرشخص کو اپنا بوجھ خود اٹھاناپڑے گا اوراپنی صلیب آپ اٹھانی پڑے گی.
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اورہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجاتھا.پس وہ ا ن میں نوسوپچاس سا ل تک رہا.سواس کی قو م اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا١ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ وَ هُمْ ظٰلِمُوْنَ۰۰۱۵ کے لوگوں کوطوفان نے آلیا اوروہ ظالم تھے.تفسیر.اس آیت میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرکیاگیاہے حالانکہ پہلی آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کاکوئی ذکر نہیں بلکہ صرف مسلمانوں کا ذکر ہے اورکہا گیا ہے کہ کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کو کسی فتنہ میں نہیں ڈالاجائے گا اوریوں ہی چھوڑ دیاجائے گا.پس سوال پیدا ہوتاہے کہ مسلمانوں کا ذکر کرنے کے بعد نوح ؑ کا ذکر کیوں کیاگیا.سویاد رکھناچاہیے کہ نوح ؑ کی قوم کا اس لئے ذکر شروع کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ فتنہ میں ڈالنے کاطریق قدیم سے چلاآتاہے.اورنوح ؑ شرعی نبیوں میں سے سب سے پہلے نبی ہیں یاکم سے کم حضرت آدم ؑ کے بعد دوسرے.پس اس وقت سے لے کر اگربعد کے چند نبیوں کا ذکر ہوجائے تومومنوں کوآزمائش میں ڈالنے کاجو ذکرتھااس کی تصدیق ہوجاتی ہے.پس نوح ؑ کے ذکرسے مومنوں کے ابتلائو ںکی کڑ ی کا ذکر کیاگیاہے.ا س آیت میں جو یہ ذکر آتاہے کہ لَبِثَ فِیْھِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّاخَمْسِیْنَ عَامًا نوح ؑ اپنی قو م میں ساڑھے نوسوسال رہے اس کے یہ معنے نہیں کہ حضرت نوح ؑ کی عمر ساڑھے نوسو سال تھی.بلکہ اس رہنے کے معنے روحانی رہنے کے ہیں.یعنی نوح ؑ کی تعلیم اپنی قوم میں ساڑھے نوسوسال تک رہی پھر مٹ گئی.فَاَنْجَيْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ پس ہم نے اس کواوراس کی کشتی میں بیٹھنے والے ساتھیوںکونجات دی اورہم نے اس واقعہ کو تمام جہان کے اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ۰۰۱۶ لوگوں کے لئے ایک نشان بنادیا.تفسیر.اس جگہ ان ابتلائوںکا ذکر ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کی جماعت کو پیش آئے.اوربتایاگیا
ہے کہ نوح ؑ اوراس کے ماننے والوں کو لوگو ں نے بڑی تکلیف دی.یہاں تک کہ ان سب کو ایک کشتی کے ذریعہ اپناملک چھوڑنا پڑا.اوروہ کشتی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے خدا تعالیٰ کاایک نشان قرار پائی.چنانچہ آج تک اس کشتی پر بحث ہورہی ہے.اورمحکمہ آثارِ قدیمہ کے لوگ کبھی اس کشتی کے آثار آرمینیا میں دیکھتے ہیں.اور کبھی روس میں.حالانکہ بالکل ممکن ہے کہ چونکہ ہررسول کو دوسرے رسول کاقائمقام قرار دیاجاتاہے.بہت سے نبیوں کے مخالفین پر نوح ؑ کے زمانہ کے سے عذاب آئے ہوںاور کئی نبیوں کو کشتی کے ذریعہ سے بچناپڑاہو.جیساکہ حضرت یونسؑ کامشہورواقعہ ہے.پس ممکن ہے ایک کشتی نہ ہوبلکہ بہت سی کشتیاں ہو ں جواپنے اپنے زمانہ میں خدا تعالیٰ کا نشان بنی ہوں.جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مصر چھوڑنا پڑا اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ چھوڑ نا پڑا.اسی طرح معلوم ہوتاہے مختلف ملک اور مختلف قومیں تھیں جن پر نوح ؑ کے زمانہ کے سے عذاب آئے.مگربعد کے لوگوں نے غلطی سے سب کوایک سمجھ لیا.وَ اِبْرٰهِيْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ اور(ہم نے )ابراہیم(کوبھی رسول بناکر بھیجاتھا)جب ا س نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اللہ (تعالیٰ) کی عبادت کرو خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۱۷ اوراس کا تقویٰ اختیار کرو.اگرتم جانتے ہو تویہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے.تفسیر.حضرت نوح علیہ السلام کے بعد اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرماتا ہے کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی حضرت نوح علیہ السلام کی امت میں سے ہی تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر اس حقیقت کاان الفاظ میںاظہار فرماتا ہے کہ وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرَاھِیْمَ (الصفّٰت : ۸۴)یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے متبعین میں سے تھے.پس اس مناسبت کی وجہ سے حضرت نوح علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکرکیاگیا.اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کا زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک ممتد ہوا.پس حضرت نوح علیہ السلام کی ساڑھے نوسوسال کی عمر سے یہ مراد نہیں کہ ان کو ساڑھے نوسوسال کی جسمانی زندگی ملی.بلکہ مراد یہ ہے کہ ساڑھے نوسوسال تک جوحضرت ابراہیمؑ او رحضرت موسیٰ ؑ تک ممتد ہوتے تھے حضرت نوح ؑ کی تعلیم اورتلقین لوگوں کے لئے مشعل راہ بنی رہی اوراس طرح و ہ روحانی رنگ میں
ساڑھے نوسوسال تک زندہ رہے.اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْكًا١ؕ تم اللہ (تعالیٰ) کے سوا(دوسری ہستیوں کی )عبادت کرتے ہو.اورمذہب کے بارے میں اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ جھوٹی باتیں بناتے ہو.وہ (ہستیاں )جن کی تم اللہ(تعالیٰ)کے سواپرستش کرتے ہو تمہیں رزق رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْهُ وَ اشْكُرُوْا لَهٗ١ؕ نہیں دے سکتیں.پس اللہ (تعالیٰ)سے اپنا رزق مانگو.اوراس کی عبادت کرو.اوراس کاشکراداکرو.اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۱۸ تم کو اسی کی طرف لوٹاکرلے جایاجائے گا.تفسیر.حضرت ابراہیم علیہ السلام جس زمانہ میں مبعوث ہوئے اس زمانہ کے لوگوں میں بھی شرک پایاجاتاتھا.جس کومٹانے کے لئے آپ کو بہت بڑاجہاد کرنا پڑا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں بھی شرک پیداہوچکاتھا.لیکن چونکہ وہ دورصفات الٰہیہ کے احساس کاابتدائی دو رتھا اس لئے شرک بھی صرف بسیط شکل میں تھا.یعنی بعض لوگ اپنے بزرگوں کے مجسمے پوجنے لگ گئے تھے یابعض نے کو ئی اورسادہ قسم کا شرک اختیار کرلیاتھا.مگرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں شرک ایک فلسفیانہ مضمون بن گیا تھا.اوراب عقلو ں پر فلسفہ کا غلبہ شروع ہوگیاتھا اوراس کے ساتھ ہی توحید کی باریک راہیں بھی نکل آئی تھیں جن پرعمل کرنا صرف توحید کے موٹے موٹے مسائل پرعمل کرنے سے بہت مشکل تھا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے بت پرستی دنیا میں آج بھی موجود ہے مگرآج جب بت پرستوں کو کہا جاتاہے کہ تم کیوں بت پرستی کرتے ہو تووہ کہتے ہیں ہم توکوئی بت پر ستی نہیں کرتے ہم توصرف اپنی توجہ کے اجتماع کے لئے ایک بت سامنے رکھ لیتے ہیں.گویاشرک تو وہی ہے جو پہلے تھا مگراب شرک کو ایک نیا رنگ دے دیاگیا ہے.اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں شرک کو ایک نیا رنگ دے دیاگیاتھا.
یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قو م کو صرف یہی نصیحت نہیں فرمائی کہ اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًاوَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْکًا کہ تم خدا کو چھوڑ کر بتوں کی پرستش کرتے ہو اورخدا تعالیٰ پر ان کے بارہ میں افتراء کرتے ہو.بلکہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَایَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًافَابْتَغُوْاعِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْہُ وَاشْکُرُوْالَہٗ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.یعنی وہ ہستیاں جن کی تم اللہ تعالیٰ کے سواپرستش کرتے ہو تمہیں رزق نہیں دے سکتیں.پس اللہ تعالیٰ سے اپنا رزق مانگو.اوراس کی عبادت کرو اوراس کاشکراداکرو.تم کو اسی کی طرف لوٹاکرلے جایا جائے گا.اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں پانچ امورکی طرف توجہ دلائی تھی.اول اس امر کی طرف کہ معبودانِ باطلہ جن کی تم پرستش کرتے ہو ان کے متعلق تمہارایہ خیال بالکل غلط ہے کہ وہ تمہاری حاجت روائی کرتے یا مشکلات میں تمہارے کام آتے ہیں.ان میں نہ توکسی کو ایک ذرّہ بھر نفع پہنچانے کی طاقت ہے اورنہ وہ کسی کو ایک ذرّہ بھر نقصان پہنچاسکتے ہیں.دوم.ہرقسم کارزق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے.اس لئے تم اسی سے مانگوجوتمام خیر و برکت کا منبع ہے.اور جس کے ہاتھ میں تمام نعمتوں کے ذخائر ہیں.سوم.عبادت بھی اللہ تعالیٰ ہی کی بجالائو.کسی اَور کو قابل پرستش نہ سمجھو.چہارم.ان نعمتوں پر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہیں عطا کی گئی ہیںاس کاشکر بجالائو.اوران کی قدروقیمت کااحساس اپنے اندرپیداکرو.پنجم.تم مرنے کے بعد پھر زندہ ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے والے ہو اس لئے ایسے اعمال بجالائو جوتمہیںخدا تعالیٰ کی خوشنودی کامستحق بناسکیں.یہ امو ربتاتے ہیں کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں صرف بتوں کی پرستش سے نہیں روکا بلکہ اس فلسفہ کابھی ردّکیا ہے جو اس بت پرستی کے پیچھے اس زمانہ میں کام کررہاتھا.اورانہیں بتایاہے کہ پتھرکے بے جان بتوںنے تمہیں کیاد یناہے.تم اگرکچھ لینا چاہتے ہو تواللہ تعالیٰ سے مانگوجواپنے اندر تمام طاقتیں رکھتاہے.پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کوصرف یہ نصیحت ہی نہیں کی کہ فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ بلکہ آپ نے اپنا عملی نمونہ ان کے سامنے اس طرح پیش کیاکہ جب آپ کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ جااوراپنے بچے اسمٰعیلؑ اوراس کی ماں ہاجرہؑ کوایک وادی غیرذی ذرع میں چھو ڑآتوانہوں نے یہ نہیں سوچاکہ وہاں ان کے کھانے پینے اوررہنے کاکیاانتظام ہوگا.بلکہ وہ گئے اورہاجرہؑ اوراسمٰعیلؑ کوایک بے آب و گیاہ جنگل میں چھو ڑکرچلے آئے.کیونکہ انہیں
یقین تھا کہ جو خداانہیں گھر پررزق دیتارہاہے وہ انہیں اس جنگل میں بھی رزق عطافرمائے گا.پھر فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ فرماکر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں سامان عطاکئے ہوئے ہیںان سے کام لوپھر تم دیکھو گے کہ کس طرح تمہاری تمام ضرورتیں پوری ہوتی چلی جاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں انسان کچھ دولتیں کماتاہے اور کچھ دولتیں انسان کوخدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی ہوتی ہیں.جودولتیں انسان دنیا میں کماتاہے وہ کسی انسان کے پاس زیادہ ہوتی ہیں کسی کے پاس کم ہوتی ہیں اور کسی کے پاس ہوتی ہی نہیں.مثلاً زمین بھی دولت ہے لیکن دنیا کے سب لوگ زمیندار نہیں.کسی کے پاس زمین بہت زیادہ ہے کسی کے پاس بہت کم زمین ہے اور کسی کے پاس زمین ہے ہی نہیں.تجارتیں ہیں ان کابھی یہی حال ہے.کوئی پھیری کرکے گذار ہ کرتاہے اور کوئی بڑے بڑے کارخانوں کامالک ہے.بینکنگ کابھی یہی حال ہے.مالی لحاظ سے کسی کے پاس پانچ سات روپے ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کومالدار سمجھتاہے اور کسی کے پاس کروڑوں روپے ہوتے ہیں اورپھر بھی وہ اورمال حاصل کرنے کی کوشش کرتارہتاہے امریکہ میں بعض لوگوں کی سالانہ آمد کروڑوں ڈالر ہے ان کوبھی مالدار کہتے ہیں.اورغرباء کے علاقہ میں اگرکسی کے پاس سودوسوروپیہ آجاتاہے تولوگ کہتے ہیں یہ شخص بہت مالدارہے.غرض وہ دولت جوانسان کماتاہے اورجو ظاہر میں نظر آتی ہے سب کو یکساں طور پر نہیں ملی.کیونکہ اس کے لئے محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے.اوراسی وجہ سے انسانوں میں بہت بڑا تفاوت پایا جاتا ہے.یہ تفاوت کبھی قانون کے طور پر ہوتاہے جیسے جو شخص زیادہ محنت کرتاہے زیادہ کمالیتا ہے.اور کبھی استثناء کے طورپر ہوتاہے.جیسے ماں باپ مالدار ہوں توان کا بیٹابغیر کسی محنت کے مالدار بن جاتاہے.لیکن ایک دوسری قسم کی دولت بھی انسان کو ملتی ہے جو حقیقتاً بہت زیاد ہ قیمتی ہوتی ہے.مگرافسوس ہے کہ انسان اس کی قدر نہیں کرتے.حالانکہ وہی دولت اصل دولت ہے.اور پھر وہ ایسی دولت ہے جو تمام انسانوں کو یکساں طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہےاور وہ دولت ہےحافظہ کی.فکر کی.ذہانت کی.عقل کی.تدبّر کی.یہ دولت ہرایک انسان کوملی ہے سوائے پاگل اور فاترالعقل کے اوریہ چیز بطور استثناء کے ہے و رنہ جو انسان بھی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے.اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خزانہ دے کر بھیجاجاتاہے.اسے پیدائش کے ساتھ ہی حافظہ اورذہانت او رفکر اورتدبّر کی قوتیں عطا کی جاتی ہیں.اگربعد میں وہ ان کی ناقدری کرتاہے تویہ قوتیں کلّی طور پر یاجزوی طور پرضائع ہوجاتی ہیں.مثلاً اگروہ آنکھوںکواستعمال نہیں کرتا تووہ اندھاہو جاتا ہے.پائوں سے نہیں چلتاتو پائوں شل ہوجاتے ہیں.ہاتھ سے کام نہیں لیتا تو ہاتھ شل ہوجاتے ہیں.اسی طرح اگر وہ جسم کے دوسرے اعضاء کو استعمال نہیں کرتا
تواس کی جسمانی طاقتیں ضائع ہوجاتی ہیں.اورجوشخص ان کی قدرکرتاہے اس کی قوتیں بڑھ جاتی ہیں.مثلاً اگر کوئی شخص محنت کرتاہے اوراپنے اسباق کویاد کرتا ہے توا س کاحافظہ تیز ہو جاتا ہے.اورجومحنت نہیں کرتا اوراپنے اسباق کویاد نہیں کرتا اس کاحافظہ کمزورہو جاتا ہے.پھر جولوگ بات کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی استبناط کی قوت بڑھ جاتی ہے اورجولوگ بات کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ان کی استنباط کی قوت جاتی رہتی ہے.جولوگ اپنے اردگرد کے ماحول پرغورکرنے کی عادت ڈال لیتے ہیں ان کی قوت فکر بڑھ جاتی ہے اور جنہیں اپنے ماحول پر غورکرنے کی عادت نہیں ہوتی ان کی قوت فکر جاتی رہتی ہے پھرجولوگ اپنے مختلف جذبات کو اپنی اپنی حد کے اندرقائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی عقل ترقی کرتی ہے اورجوایسانہیں کرتے.ان کی عقل ماری جاتی ہے.جولوگ خداداد سامانوں کو صحیح طور پر اورمناسب موقعہ پراستعمال کرنے کی سکیم بنالیتے ہیں ان کی قوتِ مدبّرہ ترقی کرتی ہے او رجواس قسم کی سکیم نہیں بناتے ان کی قوت مدبرہ جاتی رہتی ہے.لیکن پیدائش کے وقت یہ سب قوتیں ہرانسان کو ملتی اور قریباً برابرملتی ہیں.بعد میں ناقدری کی وجہ سے یہ قوتیں کم ہوجائیں تویہ اَوربات ہے.یاماں باپ نے جس قسم کامعاملہ کیاہواس کے مطابق یہ قوتیں کم یازیاد ہ ہوجاتی ہیں.مثلاً ایام طفولیت میں اگرماں باپ نے بچہ کی صحیح نگرانی نہیں کی.یاماں نے حمل کے دوران میں پور ی احتیاط نہیں کی تواس سے بچہ کی قوتوں پر اثر پڑ سکتاہے لیکن اس امر کو مستثنٰی کرتے ہوئے اگرانسانوں کوبحیثیت مجموعی دیکھاجائے توکروڑوں کروڑ لوگ ایسے نکلیں گے جوان خداداد قوتوںسے مالامال ہوں گے.لیکن ظاہری لحاظ سے یہ صورت نہیں.اگرتمام انسانوں کی مالی حالت کااندازہ لگایاجائے توظاہری مالدار اس دنیا میں دس پندرہ لاکھ سے زیادہ نہ ہوںگے.اس وقت دنیا کی آبادی اڑھائی ارب ہے اگر ظاہر ی دولت رکھنے والے پندر ہ لاکھ ہوں اوردنیا کی آبادی پندرہ کروڑ ہوتی توان کی نسبت کروڑ میں سے ایک لاکھ ہوتی.لیکن دنیا کی آبادی اڑھائی ارب ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قریباًسترہ سو(۱۷۰۰)میں سے ایک شخص ایساہے جس کے پاس ظاہری دولت ہے.لیکن حافظہ ذہانت تدبّر اور فکر کی دولت ۱۷۰۰میں سے ۱۶۸۰کے پاس ہوگی صرف بیس اشخاص ایسے نکلیں گے جن کی یہ طاقتیں مائو ف ہوںگی.باقی سب لوگوں کے پاس یہ دولت موجود ہوگی.ہاں عدمِ استعمال کی وجہ سے ان پر زنگ لگ جائے تواَوربات ہے.جیسے اگر کوئی چاقو بارش میں پھینک دیاجائے تواس پر زنگ لگ جائے گا.لیکن اگر اسے پانی میں سے اٹھا کر صاف کیا جائے تووہ ویساہی صاف نکل آئے گاجیسے پہلے تھا.لیکن سب سے زیادہ بے قدر ی اسی دولت کی کی جاتی ہے جواللہ تعالیٰ کی طرف سے ہرانسان کو عطا کی گئی ہے اگرکسی شخص سے دریافت کیاجائے کہ تمہارے پاس کیاکیامال ہے تووہ کہے گا.میرے پاس اتنی زمین
ہے.مکان ہے.بھینس ہے.گھوڑاہے لیکن وہ دولت جو سب سے بڑی ہے یعنی ہواہے.پانی ہے.جواسے نہ ملے تومرجائے اس کا ذکر تک نہیں کرے گا.بھینس اورگھوڑاضائع ہوجائے توانسان نہیں مرے گا.کپڑوں کا ایک حصہ ضائع ہوجائے تووہ موسم کی برداشت کرلے گا.لیکن اگر ہوانہ ملے تو چند منٹ میں ہی مرجائے اگرپانی نہ ملے تو وہ ایک دن یااس سے کچھ زائدعرصہ میں مرجائے گا.غرض انسان سب سے بڑی دولت کو گنے گاہی نہیں حالانکہ اگریہ دولت اسے نہ ملے تو اس کازندہ رہنا ناممکن ہے.وہ کبھی آنکھوں کانوں ناک اور زبان کانام نہیں لے گا.حالانکہ وہ یہ نہیں جانتاکہ اگر وہ کہتاہے کہ میرے پاس گُڑ ہے تووہ گڑ کس کام کاجب زبان نہ ہوگی.اگرزبان گڑ کونہ چکھتی توانسان کے نزدیک گڑ اور پھیکا برابر ہوتا یامثلاً وہ کہتاہے میری بیوی اور بچے خوبصورت ہیں لیکن اس کویہ خیال نہیں آئے گا کہ اگراس کی آنکھیں ہی نہ ہوں تواسے وہ خوبصورت کیسے معلوم ہوں.غرض دولت کے جوحقیقی خزانے ہیں انسان ان کی قدر نہیں کرتا اور جودولتیں نسبتی ہیں اوربالواسطہ ملتی ہیں ان کے پیچھے ہروقت پڑارہتاہے.مثلاً کپڑاہے.اگرکپڑامیرے جسم کو نرم اور ملائم معلوم ہوتاہے تواس کی قیمت ہے لیکن اگر میراجسم کپڑے کی ملائمت محسوس نہیں کرتا تواس کی کوئی قیمت نہیں.پھر اگر اس کی کوئی قیمت ہے تواس لئے کہ میرے ملنے والے دوستوںکو اچھا لگے.اورانہیں لذت محسوس ہو.اگرمیرے دوست کی آنکھیں ہی نہ ہوں اورمیری حس موجود نہ ہوتو چاہے وہ کپڑالاکھ روپے گزکاہو یاچند آنے کا مجھے اس کاکیافائدہ.پھر زبان او رمعدہ ہیں.یہ دونوں مل کر کھانے کی قیمت بناتے ہیں اگر کوئی دودھ پئے.مکھن کھائے.لسی پئیے یاپلائو اور زردہ کھائے.لیکن اس کی زبان نہ ہوتویہ چیز یں کچھ بھی نہیں.غرض ہمارے سب کپڑوں اورکھانوں کی قدر ان نعمتوں کی وجہ سے ہے جوخدا تعالیٰ نے عطا کی ہیں.اگرتم اپنی آنکھیں نکال دو.یاجسمانی حس ماردو توخوبصور ت اورردّی کپڑوں میں تمہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوگا.چاہے کپڑالاکھ روپے گز ہو یا چارآنہ گز.تمہارے لئے دونوں برابر ہوں گے.پس اللہ تعالیٰ نے جونعمتیں دی ہیں وہ بہت زیادہ قیمتی ہیں مگرافسوس ہے کہ لوگ ان سے کام نہیں لیتے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کواسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم اپنی طاقتوں کو کیوں ضائع کرتے ہو.تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرو اوران سے فائدہ اٹھائو اوراللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو.ان معنوں کے لحاظ سے یہاں عِنْدَاللّٰہِ کے الفاظ کااستعمال ویساہی ہے جیسے سورئہ نور میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ بدکاری کاالزام لگانے کے بعد چار عینی گواہ نہ لائیں فَاُولٰٓئِکَ عِنْدَ اللّٰہِ ھُمُ الْکَاذِبُوْنَ (النور: ۱۴) وہ اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق جھوٹے ہیں.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی
فرمایاکہ تم سارادن بتوں کے آگے کیوں پڑے رہتے ہو.تمہیں خدا تعالیٰ نے ہاتھ پائوں دیئے ہیں تم ان سے کام لو اور اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق رزق حاصل کرنے کی کوشش کرو.یہ مضحکہ انگیز روش جوتم نے اختیار کررکھی ہے اس کاکچھ فائدہ نہیں.وَ اِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ١ؕ وَ مَا عَلَى اوراگر تم میر ی بات کو جھوٹاقراردو تو(یہ کوئی نئی بات نہیں )تم سے پہلی قوموں نے بھی (اپنے رسولوں کو)جھٹلایاتھا.الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۰۰۱۹ اور رسول کاکام تو کھو ل کھو ل کرپہنچانا ہوتا ہے (زبردستی منوانانہیں ہوتا ).تفسیر.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت نو ح علیہ السلام کے درمیان اَور بھی بہت سے نبی گذرے ہیں اوران سب نبیوں کی امتوں کو اپنے اپنے زمانہ کے کفار سے تکلیفیں پہنچیں.مگر انہوں نے ہرقسم کی مشکلات کامردانہ وار مقابلہ کیااور آخر خدا تعالیٰ نے انہیںکامیاب کردیا.وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ میں اس طرف اشارہ کیاگیا ہے کہ تلوار کی بجائے تبلیغ سے کام لینا ہی ایک دیرینہ اصول ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اسی اصول کو اختیار کیاتھا.اوران کے زمانہ کے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہی ارشاد ہواتھا کہ ہمارے اس رسول کاکام صرف بات پہنچادینا ہے تلوار سے منوانانہیں اوریہی سارے قرآن کاخلاصہ ہے کہ دلیل کے ساتھ بات منوانامذہبی لوگوںکا کا م ہوتاہے جبرسے منوانا مذہبی لوگوں کا کام نہیں.مگرافسوس ہے کہ اب تک دنیا اس مسئلہ کونہیں سمجھی بلکہ خودمسلمانوں میں بھی قتلِ مرتد کوجائز سمجھاجاتاہے.حالانکہ کسی کا عقید ہ جھوٹ ہویاسچ عقیدہ رکھنے والا اسے بہرحال ویساہی سچا سمجھتاہے جیسے ایک مسلمان اپنے مذہب کو سچاسمجھتاہے.عیسائیت جھوٹی سہی مگرسوال تویہ ہے کہ دنیا کااکثر عیسائی عیسائیت کو کیاسمجھتاہے وہ یقیناً اسے سچا سمجھتاہے.ہندومذہب جھوٹاہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ دنیا کااکثرہندواپنے مذہب کوکیاسمجھتاہے وہ یقیناً اسے سچاسمجھتاہے.یہودی مذہب یقیناًاس وقت سچانہیں.لیکن سوال تو یہ ہے کہ یہودیوں کااکثر حصہ یہودیت کو کیاسمجھتاہے وہ یقیناً اسے سچاسمجھتاہے.پس اگر اس بات پر کسی کو قتل کرناجائز ہے کہ میں سمجھتاہوں میرامذہب سچا ہے دوسرے کانہیں توپھر ایک عیسائی کویہ کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جس مسلمان کوچاہے قتل
کردے.ایک ہندوکوکیوں حق حاصل نہیں کہ و ہ جبراً دوسروںکو ہندوبنالے یاانہیں مارڈالے.چین میں کنفیوشس مذہب کے پیروئو ںکو یہ کیوں حق نہیں کہ وہ زبردستی لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرلیں.فلپائن میں جہاں اب بھی پندر ہ بیس ہزار مسلمان ہے عیسائیوں کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ مسلمانوں کوجبراً عیسائیں بنالیں.امریکہ کو کیوں حق حاصل نہیںکہ وہ جبراً ان مسلمانوںکو جو اس کے ملک میں رہتے ہیں عیسائی بنالے.روس کوکیوں حق حاصل نہیں کہ و ہ جبراً سب کو عیسائی بنالے یا جبراً سب کو کمیونسٹ بنالے.اگرمسلمان دوسروں کو جبراً اپنے عقیدہ پرلا سکتے ہیں توویساہی حق عقلاً دوسروں کو بھی حاصل ہے.لیکن کیا اس حق کو جاری کرکے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتاہے.کیااس حق کوجاری کرکے تم اپنے بیٹے کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے یابیوی کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنالیں.مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ عیسائیوں کو زبردستی مسلمان بنالیں.ایران والوں کاحق ہے کہ وہ سب حنفیوں کو زبردستی شعیہ بنالیں اورحنفیوں کاحق ہے کہ وہ سب کو زبردستی سنی بنالیں.غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کو ئی انسان اس کو ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کرسکتا.گذشتہ انبیاء کی قوموں نے جب بھی خدائی ہدایت کوماننے سے انکار کیاتو خدا تعالیٰ نے انہیں مخاطب کر تے ہوئے یہی فرمایا کہ اَنُلْزِمُکُمُوْھَاوَاَنْتُمْ لَھَاکَارِھُوْنَ (ہود:۲۹)یعنی اگر تم خود ہدایت لینا پسند نہیں کرتے توہم جبراً تمہیں ہدایت نہیں دے سکتے.لیکن افسوس کہ موجو د ہ زمانہ میں مسلمانوں میںاس اصل کاانکار کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں.اگردنیا اس مسئلہ کوسمجھ جائے تویقیناً ظلم اور تعدّی مذہبی اور سیاسی امور میں بند ہوجائے.نہ لوگ اپنے عقیدے لوگوں پر جبراً ٹھونسیں اور نہ اپنے سیاسی نظام دوسرے ملکوں میں جبراًجاری کرنے کی کوشش کریں.اَوَ لَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ١ؕ اِنَّ کیاان کو معلوم نہیں کہ اللہ (تعالیٰ )پیدائش عالم کو کس طرح پہلی دفعہ شروع کرتاہے پھر اس کوبار بار ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيْرٌ۰۰۲۰قُلْ سِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا لوٹاتاجاتاہے.یہ کام اللہ کے لئے بالکل آسان ہے.تُو کہہ ملک میں چاروں طرف پھرو.پھر دیکھو کہ كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللّٰهُ يُنْشِئُ النَّشْاَةَ الْاٰخِرَةَ١ؕ اِنَّ اللہ(تعالیٰ)نے مخلوق کی پیدائش کس طرح شروع کی تھی پھر مرنے کے بعد ان کودوبارہ زندہ کرتاچلاگیا.
اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌۚ۰۰۲۱ اللہ(تعالیٰ )ہرایک چیز پر قادر ہے.تفسیر.ان آیات میں وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ کی دلیل پیش کی گئی ہے اوراللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیاان کومعلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح پچھلے نبیوں کے ذریعہ سے ایک روحانی جماعت قائم کرتارہاہے.پھر جب ان نبیوں کاروحانی اثر جاتارہااورپھر وہ کسی نئے نبی کے ذریعہ سے روحانی جماعتوں کوقائم کرتارہا.تویہ بات اللہ تعالیٰ پر آسان ہے.چنانچہ تم زمین میں پھر واوردیکھو کہ کیانبی کے بعد نبی نہیں آتارہا اورجماعت کے بعد جماعت نہیں قائم ہوتی رہی.بعینہٖ اسی رنگ میں اب اللہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پھرایک جماعت قائم کرے گااوروہ اس بات پر قادر ہے.تمہاری مخالفانہ کوششیں اللہ تعالیٰ کے اس اراد ہ میں مزاحم نہیں ہوسکتیں.يُبْدِئُ اللّٰهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہاں آخرت کا ذکر کیاگیا ہے مگریہ در ست نہیں.اس جگہ آخر ت کانہیں بلکہ اسی دنیاکا ذکر ہے اور چونکہ اس دنیا میں مردے زندہ نہیں ہوتے اس لئے پیدائش اول سے مراد قوموں کو تمکنت بخشنااورپیدائش ثانی سے مراد غالب قوموں کے زوال کے بعد پھر دوبارہ ان میں بیدار ی پیداکرنا ہے.مگراس کے یہ معنے نہیں کہ اُخروی زندگی ہے ہی نہیں بلکہ ہمارایہ مطلب ہے کہ اس آیت میں اس دنیا میں قوموں کے اتا رچڑھائو کا ذکر ہے.جیسا کہ سِیْرُوْافِیْ الْاَرْضِ کے الفاظ سے اوران الفاظ سے ظاہر ہے کہ دنیا پر غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے پہلی دفعہ پیدائش کاکام شروع کیااور مرنے کے بعد دوبارہ زندگی دینی شروع کی.فَانْظُرُوْا كَيْفَ بَدَاَ الْخَلْقَ میں اللہ تعالیٰ نے علمِ بَدئِ عالم کابھی ذکرکردیاہے جسے اصطلاحاً ایتھنالوجی کہتے ہیں.یعنی اس بات کاپتہ لگاناکہ پیدائشِ عالم کس طرح ہوئی ہے.فرماتا ہے تم زمین میں پھر کردیکھو پھرتمہیں پتہ لگے گاکہ پیدائش عالم کس طرح ہوئی تھی یعنی اگر تم نے تاریخ عالم کاصحیح پتہ لگاناہو.تویہ پتہ تمہیں کسی ایک ملک سے نہیں لگ سکتا بلکہ مختلف ملکوں کے دیکھنے سے اس کا پتہ لگے گا.کیونکہ مختلف اوقات میں مختلف تہذیبیں عروج پر رہی ہیں.اگرتم اقوام عالم کی صحیح تاریخ معلوم کرناچاہتے ہو توتم ساری دنیا میں پھرو کیونکہ کسی صدی میں ہندوستان میں تہذیب پھیلی تھی توکسی صدی میں ایران میں تہذیب پھیلی.کسی صدی میں روم میں تہذیب پھیلی تھی توکسی صدی میں عرب میں پھیلی.اسی طرح کسی صدی میں شام میں تہذیب پھیلی تھی توکسی صدی میں مصر میں پھیلی.غرض ایتھنالوجی کے علم کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرو اوران میں مختلف اقوام کے جو آثار پائے جاتے ہیں ان
سے تاریخ عالم کاپتہ لگائو پھر تم کسی صحیح نتیجہ پر پہنچ سکوگے.يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَرْحَمُ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ اِلَيْهِ تُقْلَبُوْنَ۰۰۲۲ وہ جس کو چاہتاہے عذاب دیتاہے اورجس پر چاہتاہے رحم کرتاہے اوراسی کی طرف تم کو لوٹاکرلایاجائے گا.تفسیر.فرماتا ہے.وہ جس پر چاہتاہے عذاب نازل کرتا ہے اور جس پرچاہتاہے رحم کرتاہے اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ اندھادھند عذاب نازل کرتاہے اوراندھادھند رحم کرتاہے.کیونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں پررحم کرتاہے جوایک دوسرے کو نیکی کی تلقین کرتے ہیں اوربرائیوں سے بچنے کی نصیحت کرتے ہیں اورنماز باجماعت قائم کرتے اور زکوٰ ۃ دیتے اور خدااوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ١ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ يُطِيْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللّٰهُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ.(التوبۃ : ۷۱)یعنی مومن مرداورمومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں.وہ نیک باتوں کاحکم دیتے ہیں اوربری باتوںسے روکتے ہیں اورنماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں.یہ ایسے لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان پر رحم کرے گا.اللہ تعالیٰ غالب اوربڑی حکمت والا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.عَذَابِيْۤ اُصِيْبُ بِهٖ مَنْ اَشَآءُ١ۚ وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ.(الاعراف :۱۵۷)یعنی میں اپناعذاب جس کوچاہتاہوں پہنچاتاہوں.اورمیری رحمت ہرایک چیز پرحاوی ہے.پس میں ضرور اس کوان لوگوں کے لئے لکھوں گاجو تقویٰ اختیار کرتے اورزکوٰۃ دیتے اور ہماری آیتوں پرایمان لاتے ہیں.ان آیات سے معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ اندھادھند رحم نہیں کرتا بلکہ جولوگ اپنے اعمال کی وجہ سے اس کے رحم کے مستحق ہوتے ہیں صرف انہی پر رحم کرتاہے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے عذاب کے بارہ میں بھی یہ اصول بیان فرما دیاہے کہ وہ کسی کو اندھادھند عذاب نہیں دے گا بلکہ صرف ایسے ہی لوگ عذاب میں مبتلاکئے جائیں گے جنہوں نے خدا تعالیٰ اوراس کے رسول کی تکذیت کی ہو گی.چنانچہ فرماتا ہے.فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ وَ يَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ١ۚ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ اسْتَنْكَفُوْا وَ اسْتَكْبَرُوْا فَيُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا اَلِيْمًا.(النساء : ۱۷۴) یعنی
وہ لوگ جومومن ہوں گے اورانہوں نے نیک اورمناسب حال اعمال کئے ہوں گے.وہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے بدلے دے گا اوراپنے فضل سے انہیں زائد انعامات سے بھی سرفراز فرمائے گا.لیکن جن لوگوں نے خدائی ہدایات سن کر برامنایاہوگا اورتکبر سے کام لیاہوگاوہ انہیں درد ناک عذاب دے گا.اسی طرح سورۃ غاشیہ میں فرماتا ہے.لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ.اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَ.فَيُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ (الغاشیۃ:۲۳تا۲۵) یعنی اے محمدؐ رسول اللہ !تُوان لوگوں پر داروغہ کے طورپر مقررنہیں.ہاں جس نے پیٹھ پھیر لی اور کفرکامرتکب ہوا اللہ تعالیٰ اس کے کفر کے نتیجہ میں اسے بہت بڑاعذاب دے گا.اسی طرح فرماتا ہے.فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّ شَهِيْقٌ.خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيْدُ.وَ اَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ.( ھود: ۱۰۷تا۱۰۹)یعنی جو بدبخت ثابت ہوں گے وہ آگ میں داخل ہوں گے.اس میں کسی وقت توان کے درد سے لمبے لمبے سانس نکل رہے ہوں گے.اور کسی وقت ہچکی کی حالت کے مشابہ سانس نکل رہے ہوںگے.وہ اس میں اس وقت تک رہتے چلے جائیں گے جب تک کہ آسمان و زمین قائم ہیں.سوائے اس عرصہ کے جوتیرارب چاہے.تیرارب جو چاہتاہے اسے کر کے رہتاہے.اورجو خوش نصیب ثابت ہوں گے.وہ جنت میں ہوں گے.و ہ اس میں اس وقت تک رہتے چلے جائیں گے جب تک آسمان اورزمین قائم ہیں سوائے اس وقت کے جو تیرارب چاہے.یہ ایسی عطاء ہے جوکبھی کاٹی نہیں جائے گی.سورئہ فرقان میں بھی فرماتا ہے.وَ يَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰى يَدَيْهِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا.يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا.(الفرقان:۲۸،۲۹)اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کوکاٹے گا اورکہے گا.اے کاش! میں رسول کے ساتھ چل پڑتا.وائے بدبختی! میں فلاں شخص کودوست نہ بناتا.غرض قرآن کریم نے صرف یہی نہیں بتایاکہ وہ کن لوگوں پر رحم کرے گا بلکہ اس نے یہ بھی بتادیا ہے کہ وہ کن لوگوں کوعذاب دے گا.ایسی صورت میں کسی پر اندھا دھند رحم کرنے یا کسی کو اندھادھند سزادینے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.پھراگر و ہ اندھادھند سزادے تو یہ ظلم ہوگااور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس امر کی تصریح فرمائی ہے کہ وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا.چنانچہ فرماتا ہے.وَ نَضَعُ الْمَوَازِيْنَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْـًٔا١ؕ وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَيْنَا بِهَا١ؕ وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِيْنَ.( الانبیاء: ۴۸)یعنی ہم قیامت کے دن ایسے تول کے سامان پیداکریں گے کہ جن کی وجہ سے کسی جان پر ذراسابھی ظلم نہیں کیاجائے گا.اوراگرایک رائی کے دانہ کے
برابربھی کوئی عمل ہوگا توہم اس کو موجود کردیں گے اورہم حساب لینے میں کافی ہیں.اسی طرح فرماتا ہے.وَ الْوَزْنُ يَوْمَىِٕذِ ا۟لْحَقُّ١ۚ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.وَ مَنْ خَفَّتْ مَوَازِيْنُهٗ فَاُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ خَسِرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَظْلِمُوْنَ.(الاعراف : ۹،۱۰) یعنی اس دن تمام اعمال کاوزن کرناایک ثابت شدہ حقیقت ہے.جس کے وزن بھاری ہوئے وہ لوگ بامراد لوگوں میں شامل ہوںگے اورجن کے وزن ہلکے ہوئے تو سمجھ لو کہ ایسے لوگ اپنی جانوں کے معاملہ میں خسارہ پانے والے ہیں.یہ اس لئے ہواکہ وہ ہماری آیتوں کے معاملہ میں ظلم سے کام لیتے تھے.پھر فرماتا ہے.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ(النساء : ۴۱) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایک ذرہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا.اسی طرح فرماتا ہے.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـًٔا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ(یونس :۴۵)یعنی اللہ تعالیٰ کی شان یقیناًایسی ہے کہ وہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا.ہاں لوگ اپنی جانوں پر آپ ہی ظلم کرتے ہیں.پھر یہ سوال اس لئے بھی باطل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ اصول بیان فرما دیاہے کہ ہرانسان کے ساتھ جوکچھ سلوک ہوگا کے عمل کے مطابق ہوگا.چنانچہ فرماتا ہے.لَيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى.وَ اَنَّ سَعْيَهٗ سَوْفَ يُرٰى.ثُمَّ يُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰى ( النجم : ۴۰تا۴۲)کہ انسان کو وہی کچھ ملتاہے جس کی وہ کوشش کرتاہے اورانسان ایک دن اپنی کوشش کانتیجہ ضرور دیکھ لے گا اوراس کو اپنے اعمال کی پوری پوری جزاء مل جائے گی.پھر فرماتا ہے.فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ.وَ مَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٗ.( الزلزال :۸،۹)یعنی جس نے ایک ذرہ کے برابر بھی نیکی کی ہوگی و ہ اس کے نتیجہ کو دیکھ لے گااورجس نے ایک ذرہ کے برابر بھی بدی کی ہوگی وہ اس کے نتیجہ کودیکھ لے گا.اسی طرح فرماتا ہے.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا.( الشمس : ۱۰،۱۱) یعنی جس نے اپنے نفس کوپاک کیا سمجھو کہ وہ اپنے مقصود کو پاگیا.اورجس نے اسے مٹی میں گاڑ دیا سمجھ لوکہ وہ نامراد ہوگیا.ان اصول کی موجود گی میں کسی کو اندھادھند عذاب دینے یاکسی پراندھادھند رحم کرنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.پس جسے چاہتا ہے عذاب دیتاہے.اورجسے چاہتاہے بخشتاہے کے یہ معنے نہیں کہ وہ اندھادھند ایساکرتاہے بلکہ جیساکہ اوپر کی آیات سے ثابت ہے جولو گ اپنے اندر خدا تعالیٰ کی محبت کی قابلیت پیداکرتے ہیں ان پر وہ رحم کرتاہے اورجو لوگ اپنے نفسوں میں گند پیداکرتے ہیں ان پرعذاب نازل کرتاہے.پس اس آیت میں جو مَنْ یَّشَآئُ فرمایا ہے تواس کایہ مطلب نہیں کہ خدا تعالیٰ کاعذاب یارحم بغیر کسی اصول کے نازل ہوتاہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ و ہ حالات کے مطابق سلوک کرتاہے.پس ’’چاہتاہے ‘‘ سے یہ مراد ہے کہ حالات کے مطابق چاہتاہے نہ کہ اندھادھند.باقی رہایہ سوال کہ اللہ تعالیٰ نے مشیئت کالفظ کیوں استعمال کیا ہے.
اورکیوں یہ نہیں کہا کہ جو نیک ہوگا اسے بخشے گااوربدکوسزادے گا.تواس کی وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی مشیئت اورمقتضائے انصاف ایک ہی شے ہے.انسان پر چونکہ سچائیاں حاکم ہوتی ہیں.اس کے اعمال کااندازہ اس کے نفس پر نہیں بلکہ سچائیوں پر کیا جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ سچائیوں کامنبع ہے اور وہ اسی میں سے نکل رہی ہیں.اس لئے یہ نہیں کہاجاسکتاکہ وہ سچائیوں کے مطابق عمل کرے گا بلکہ یہ کہاجاتاہے کہ وہ اپنی مشیئت پر عمل کرے گا.کیونکہ اس کی مشیئت ہی سچائیوں کامنبع ہے.وہ حسن کی کان ہے.ہرسچائی اس کی مشئیت کاایک بیرونی پرتوہے.اس کے حسن کی جھلک ہے.اس کے ارادہ کی ایک تصویرہے.پس اس کی مشیئت کو سچائی کاتابع کہناایسا ہی بے ہودہ ہے جس طرح ایک بیٹے کو اپنے باپ کاباپ قرار دینا.یہ نکتہ ایساہے کہ اس کے ذریعہ سے اس قسم کی تمام آیات حل ہوجاتی ہیں.وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَ لَا فِي السَّمَآءِ١ٞ وَ مَا اور تم نہ زمین میں نہ آسمان میں خدا(تعالیٰ)کواس کی مرضی کے خلاف مجبورکرسکوگےاورخدا(تعالیٰ ) لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّ لَا نَصِيْرٍؒ۰۰۲۳ کے سوا نہ کوئی تمہارادوست ہے نہ مددگار.تفسیر.اس میں بتایاکہ اے کفار!خواہ تم زمینی تدبیریں کرو یا آسمانی.یعنی خواہ اسلام کے خلاف تم دنیوی تدابیر عمل میں لائو یادعائوں سے آسمانی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرو.دونوں صورتو ں میں تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترقی کو نہیں روک سکتے.کیونکہ زمینی سامان بھی اس کی مددکے لئے تیار رہیں گے اور آسمانی مدد بھی اس کے لئے تیار رہے گی.ہاں الٹاتم تباہ ہو گے او راللہ تعالیٰ کے سواتمہیں کوئی دوست اورمددگا ر نہیں ملے گا.اس آیت میں زمینی اور آسمانی دونوں تدبیروں کو بروئے کار لانے کااس لئے ذکرکیاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرے مقام پر مومنوں کوبھی اشاعت اسلام کے لئے انہی دونوں تدبیروں کے استعمال کرنے کی ہدایت کی ہے.چنانچہ سورئہ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكَ اِعْرَاضُهُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِيَ نَفَقًا فِي الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِي السَّمَآءِ فَتَاْتِيَهُمْ بِاٰيَةٍ١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِيْنَ.(الانعام : ۳۶).یعنی اے ہمارے رسول یااے قرآن کے پڑھنے والے !اگرمخالفین کااعراض کرناتمہیں بر ی بات
معلوم ہوتی ہے اور تم سمجھتے ہوکہ ان کی مخالفت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب ان کی اصلاح مشکل ہے تواے انسان تُوکبھی اس وہم میں مبتلانہ ہونا.یعنی دشمن کے انکار اوراس کی مخالفت کوکبھی ایسانہ سمجھنا کہ اس کی اصلاح ناممکن ہوگئی ہے بلکہ اگرتمہیں طاقت ہو کہ تم زمین میں کوئی سرنگ لگائو یاتمہیں طاقت ہوکہ تم آسمان کے لئے کوئی سیڑھی تیار کرو اوران کے لئے کوئی نشان لے آئوتو ایساکرو.اب ہم دیکھتے ہیں کہ جوچیزیں یہاں بیان کی گئی ہیں وہ ایسی نہیں جوممکن نہ ہوں.دنیا میں بھی انسان جب جنگوں میں کسی قلعہ کو فتح کرناچاہتاہے تودوذرائع ہی اختیار کر تاہے.یعنی کبھی تو سرنگ لگاکرقلعہ کواڑادیتااوراس کوفتح کرلیتا ہے اور کبھی سیڑھیوں سے اس کے اوپرچڑھتااوراندر اترجاتاہے.گویادنیا میں یاتوقلعوں کی دیواریں اڑائی جاتی ہیں یادیواریں مغلوب کرلی جاتی ہیں.یہ دونوں باتیں ناممکن نہیں.پس یہاں وہ ذرائع بتائے گئے ہیں جن کو دنیا ہمیشہ استعمال کرتی چلی آئی ہے اوریہی دوذرائع فتوحات حاصل کرنے کے ہیں.یعنی یاتوسرنگ لگاکر یادوسرے ذرائع سے دیواریں توڑدی جاتی ہیںیاسیڑھیوں پر چڑھ کر قلعوں کو فتح کیا جاتاہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روحانی طور پر بھی یہی دوذرائع خدا تعالیٰ نے تمہاری کامیابی کے لئے مقررکئے ہیں.یعنی جب تم سمجھو کہ دشمن کی مخالفت بہت بڑھ گئی ہے تو ایک طرف جس قدر دنیوی سامان ہیں سب ان کی ہدایت کے لئے استعمال کرو.اوردوسری طرف آسمان سے سیڑھی لگائو اوراس کے اوپر چڑھنا شروع کردو.یہ سیڑھی کون سی ہوسکتی ہے معمولی عقل رکھنے والاانسان بھی سمجھ سکتاہے کہ یہ سیڑھی دعاکی سیڑھی ہے اوراللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ جس طرح دنیا کے قلعے فتح ہوتے ہیں اسی طرح تم روحانی قلعے فتح کرو.و ہ دیواروں کویااڑادیتے ہیں یاان کو پھاند کر اندر داخل ہوجاتے ہیں اوریہی دوذریعے ایسے ہیں جن پر عمل کرکے روحانی جنگ میں بھی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.یعنی ایک طرف ان کو سمجھانے کے لئے پوری کوشش اورجدوجہدسے کام لیاجائے اوردوسر ی طرف ان کی ہدایت کے لئے دعائیں کی جائیں.اس کانتیجہ یہ ہوگاکہ جس شخص میں ذرہ بھر بھی سنجیدگی ہوگی اس کے کفر کی عمارت گرنی شروع ہوجائے گی.پھرفرماتا ہے وَلَوْشَآئَ اللّٰہُ لَجَمَعَھُمْ عَلَی الْھُدٰی فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ.اے مومن تومایوس نہ ہو.اگرخداچاہے توان کافروں کو بھی ہدایت دے دے.فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ پس تواس نکتہ کو بھولیونہیں.کیونکہ جب انہیں ہدایت دینا خدا تعالیٰ کی طاقت میں ہے تومایوسی کی کوئی وجہ نہیں.مایوسی ہمیشہ اس وقت پیداہوتی ہے.جب انسان کو اپنی تدابیر میں رخنے ہی رخنے نظرآتے ہوں.لیکن جب وہ یہ سمجھ لے کہ ایک کیاخدا تعالیٰ ساروں کو ہدایت دے سکتاہے تواس وقت وہ کبھی مایوس نہیں ہوسکتا.پس فَلَاتَکُوْنَنَّ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ کے یہ معنے ہیں کہ اس نکتہ
سے غافل نہ رہو کہ تمہارے خدامیں بہت بڑی طاقت ہے.اوروہ ایک کیا ساری دنیاکوہدایت دے سکتاہے.غرض چونکہ مومنوں کو کامیابی کا یہ طریق بتایاگیاتھاکہ جب دشمن کی مخالفت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے توتم بھی اپنی تدابیر کوانتہاتک پہنچادو اوران تدابیر کے دوحصے کرو.ایک حصہ تویہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میںسرنگ لگائو اورتبلیغ کواپنے کمال تک پہنچادو.اوردوسراطریق یہ ہے کہ آسمان کی طرف سیڑھی لگائو.یعنی اللہ تعالیٰ کے حضورکثرت سے دعائیں کرو اوراس سے مددمانگو.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںانہی دونوں طریقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کفار کوتوجہ دلائی ہے کہ مومنوں کی ان کوششوں کے مقابلہ میں اگرتم بھی یہی طریق اختیارکرلو تو یاد رکھو تم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے.تم خواہ تما م دنیوی ذرائع اختیار کرلواورخواہ دعائوں اورگریہ زاری سے کام لو.دونوں صورتوں میں تمہارے لئے ناکامی ہی مقدر ہے کیونکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کردیا ہے کہ وہ اور ان کی قوم جیتیں گے اوران کا دشمن جو جبر سے کام لیتا ہے وہ ہارے گا.اوراس فیصلہ کواب دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآىِٕهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ يَىِٕسُوْا مِنْ وہ لوگ جو اللہ (تعالیٰ) کے نشانوں کا اوراس سے ملاقات ہونے کاانکار کرتے ہیں و ہ لوگ ایسے ہیں جو رَّحْمَتِيْ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۲۴ میری رحمت سے مایوس ہوگئے اور وہی ہیں جن کو درد ناک عذاب ملے گا.تفسیر.فرمایاجو لوگ اللہ تعالیٰ کے نشانوں کے منکر ہوتے ہیںاوراس کی ملاقات کی امید نہیں رکھتے درحقیقت اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ میری رحمت سے مایوس ہوتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ہمیں ضرور عذاب ملے گا اس لئے ہمیںموت سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اوریہ موت نبی اور اس کے ساتھیوں پر ڈالنی چاہیے تاکہ مرنے کے بعد کی باتیں نہ ہم ان سے سنیں اورنہ گھبراہٹ پیداہو.چنانچہ وہ نبیوں اور ان کی جماعتوں پر حملہ شروع کردیتے ہیں اورانہیں ہلاک کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جس کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آجاتے ہیں.اور چونکہ انہوں نے نبیوں اور ان کی جماعتوں پردردناک مظالم کئے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ بھی انہیں دردناک عذاب میں مبتلاکردیتاہے.
فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ پس اس کی (یعنی ابراہیمؑ کی ) قوم کا جواب اس کے سواکچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہا کہ اس کو قتل کردو.یااس کو فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ جلادو.(چنانچہ انہوں نے اس کوآگ میں ڈال دیا )مگراللہ(تعالیٰ)نے اس کو آگ سے بچالیا.اس میں یقیناً يُّؤْمِنُوْنَ۰۰۲۵ مومن قوم کے لئے بڑے نشان ہیں.تفسیر.فرماتا ہے جب ابراہیم ؑ سے اس زمانہ کے لوگوں نے یہ باتیں سنیں کہ بتوں کی پرستش ترک کردو اور خدائے واحد کی عبادت کرو.توانہوں نے ایک دوسرے کوآپ کے خلاف اکساناشروع کردیا اورکہاکہ آئواوراس کو قتل کردویااس کو آگ میں ڈال کر جلادو.مگر اللہ تعالیٰ نے اسے آگ سے بچالیا.دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طریق کا ذکر کرتے ہوئے جس سے کام لے کر آپ کو بچالیاگیاتھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قُلْنَایٰنَارُکُوْنِیْ بَرْدًاوَّ سَلٰمًاعَلٓیٰ اِبْرٰھِیْمَ (الانبیاء: ۵)یعنی ہم نے اس وقت آگ سے کہا.کہ اے جسمانی آگ تیرے اند رایک روحانی آگ داخل ہورہی ہے.اب تیراکام یہ ہے کہ اس آگ کے مقابلہ میں سرد ہوجا.ابراہیمؑ کے دل میں میری محبت کی آگ بھڑک رہی ہے اور میرے عشق کی آگ کاکوئی مقابلہ نہیں کرسکتا.جس طرح سورج کے مقابل پرشمعیں ماند پڑ جاتی ہیں.اسی طرح میری محبت کی آگ کے مقابلہ میں تیری آگ کوئی حیثیت نہیں رکھتی.پس ابراہیمؑ کے لئے توسرد ہوجا.جس طرح انگارہ کے مقابلہ میں کسی اور گرم چیز کی گرمی کم محسوس ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ ایسی شدید ہے کہ دوسری تمام آگیں اس کے مقابلہ میں سرد پڑ جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کوبھی ایک دفعہ الہام ہواکہ ’’ آگ سے ہمیں مت ڈراکہ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے.‘‘ اس کابھی یہی مفہوم ہے کہ ہمارے دل میں عشق الٰہی کی آگ شعلہ زن ہے.اس آگ کے مقابلہ میں ظاہری آگ کی کیاحیثیت ہے.ایک گرم تواانسان کے ہاتھ کو توجلادیتاہے مگر انگارے کونہیں جلاسکتا.اسی طرح آگ اس شخص کونہیں جلاسکتی جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑ ک رہی ہو.چنانچہ اسی وقت بادل آیا اوربرسا اور
وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی.اوریہ معجزہ دیکھ کراس کی قوم کے بعض لوگوں کے دلوں میں ایمان پیداہوگیااوراس کے لئے سلامتی کے سامان پیداہوگئے.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ ابتداء میں اس آیت کے یہ معنے کیاکرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کی مخالفت کی آگ کو ٹھنڈاکردیاتھا.مجھے یاد ہے ۱۹۰۳ء میں جب ایک شخص عبدالغفور نے جواسلام سے مرتد ہوکر آریہ ہوگیاتھا اور اس نے اپنا نام دھرم پال رکھ لیاتھا ’’ترک اسلام‘‘ نامی کتاب لکھی.توحضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب لکھا.جو’’نور الدین‘‘ کے نام سے شائع ہوا.یہ کتاب روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنائی جاتی تھی.جب دھرم پال کایہ اعتراض آیا کہ اگرحضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ ٹھنڈی ہوئی تھی تودوسروں کے لئے کیوں نہیں ہوتی.اوراس پر حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کایہ جواب سنایاگیا کہ اس جگہ ’’نار ‘‘ سے ظاہری آگ مراد نہیں بلکہ مخالفت کی آگ مراد ہے توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے فرمایاکہ اس تاویل کی کیا ضرورت ہے.مجھے بھی خدا تعالیٰ نے ابراہیم کہا ہے اگر لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے آگ کس طرح ٹھنڈی ہوئی تووہ مجھے آگ میں ڈال کردیکھ لیں کہ آیامیں اس آگ میں سے سلامتی کے ساتھ نکل آتاہوں یانہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کی وجہ سے حضر ت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب ’’نورالدین‘‘ میں یہی جواب لکھا اورتحریر فرمایاکہ ’’تم ہمارے امام کو آگ میں ڈال کردیکھ لو.یقیناً خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے مطابق اسے اس آگ سے اسی طرح محفوظ رکھے گاجس طرح ا س نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کومحفوظ رکھاتھا.‘‘ (نورالدین صفحہ ۴۶) اورپھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس جر ح کی وجہ سے ہی میں نے جہاں کہیں قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر کی ہے میں نے یہ نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مخالفت کی آگ کو ٹھنڈاکردیاتھابلکہ یہی لکھا ہے کہ مخالفوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالاتھالیکن وہ آگ ٹھنڈی ہوگئی اور چونکہ اللہ تعالیٰ دنیا میں اسباب سے ہی کام لیاکرتاہے.اس لئے ممکن ہے اس وقت بادل آگیاہو.اوربارش ہوگئی ہو جس کی وجہ سے آگ بجھ گئی ہو.بہرحال ہماراایمان یہی ہے کہ دشمنوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے واقعہ میں آگ جلائی لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیداکئے کہ جن کی وجہ سے ان کی تدبیر کارگرنہ ہوئی اورآپ آگ سے محفوظ رہے.
یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں اورڈائریوں میں بھی بیان فرمایا ہے.چنانچہ ایک دفعہ ایک دوست کاخط حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خد مت میں پیش ہواکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام پرجوآگ ٹھنڈی ہوگئی تھی آیا وہ فی الواقعہ آتشِ ہیزم تھی یافتنہ و فساد کی آگ تھی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا.’’ فتنہ وفساد کی آگ توہرنبی کے مقابل میں ہوتی ہے اور وہی ہمیشہ کوئی ایسارنگ اختیار کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک معجزہ نماطاقت اپنے نبی کی تائید میں اس کے بالمقابل دکھاتاہے.ظاہری آتش کاحضرت ابراہیم علیہ السلام پر فروکردینا خدا تعالیٰ کے آگے کوئی مشکل امر نہیں اور ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق ان واقعات کی اب بہت تحقیقات کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ ہزاروں سالوں کی بات ہے.ہم خود اس زمانہ میں ایسے واقعات دیکھ رہے ہیں اوراپنے اوپرتجربہ کررہے ہیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھاتو ایک د ن بارش ہورہی تھی.جس کمرہ کے اند ر میں بیٹھاہواتھا اس میں بجلی آئی.ساراکمرہ دھوئیں کی طرح بھر گیا اور گندھک کی سی بُوآتی تھی.لیکن ہمیں کچھ ضررنہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر میںگری جوکہ تیجاسنگھ کامندر تھا اوراس میں ہندوئو ں کی رسم کے مطابق طواف کے واسطے پیچ درپیچ اردگرد دیوار بنی ہوئی تھی اوروہ اندربیٹھاہواتھا.بجلی ان تمام چکروں میں سے ہو کر اند رجاکر اس پر گری اورو ہ جل کرکوئلہ کی طرح سیاہ ہوگیا دیکھووہی بجلی کی آگ تھی جس نے اس کو جلادیا.مگرہم کو کچھ ضرر نہ دے سکی.کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.ایسا ہی سیالکوٹ کاایک اَورواقعہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو میں ایک مکان کی دوسری منز ل پرسویا ہواتھا اوراسی کمر ہ میں میرے ساتھ پندرہ سولہ اورآدمی بھی تھے.رات کے وقت شہتیر میں ٹک ٹک کی آواز آئی.میں نے آدمیوں کو جگایا کہ شہتیر خوفناک معلوم ہوتاہے یہاں سے نکل جاناچاہیے.انہوں نے کہا کوئی چوہاہوگا.کچھ خوف کی بات نہیں اوریہ کہہ کر پھر سوگئے تھوڑی دیر کے بعد پھر ویسی ہی آواز سنی.تب میں نے ان کودوبارہ جگایا.مگرپھر بھی انہوں نے کچھ پرواہ نہ کی.پھر تیسر ی بار شہتیر سے آواز آئی.تب میں نے ان کو سختی سے اٹھایا.اورسب کومکان سے باہر نکالا اور جب سب نکل گئے توخود بھی وہاں سے نکلاابھی میں دوسرے زینہ پرتھا کہ وہ چھت نیچے گری اوردوسری چھت کو بھی ساتھ لے کر نیچے جاپڑی اورچارپائیاں ریزہ ریزہ ہوگئیں اورہم سب بچ گئے.
یہ خدا تعالیٰ کی معجزہ نماحفاظت ہے جب تک کہ ہم وہاں سے نکل نہ آئے شہتیر گرنے سے محفوظ رہا.ایسا ہی ایک دفعہ ایک بچھو میرے بسترکے اندرلحاف کے ساتھ مراہواپایاگیا اوردوسری دفعہ ایک بچھو لحاف کے اندر چلتاہواپکڑاگیا.مگرہردوبار اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے ضررسے محفوظ رکھا.ایک دفعہ میرے دامن کو آگ لگ گئی تھی مجھے خبربھی نہ ہوئی ایک اَورشخص نے دیکھااو ربتلایا اوراس آگ کو بجھادیا.خدا تعالیٰ کے پاس کسی کے بچانے کی ایک راہ نہیں بلکہ بہت راہیں ہیں.آگ کی گرمی او ر سوزش کے واسطے بھی کئی ایک اسباب ہیں اوربعض اسباب مخفی درمخفی ہیں جن کی لوگوں کوخبرنہیں اورخدا تعالیٰ نے وہ اسباب اب تک دنیا پر ظاہر نہیں کئے.جن سے اس کی سوزش کی تاثیر جاتی رہے.پس اس میں کون سے تعجب کی بات ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ پرآگ ٹھنڈی ہوگئی.‘‘(الحکم ۱۰؍جون ۱۹۰۷ ) اسی طرح ’’براہین احمدیہ ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں :.’’برہموسماج والوں کی یہی بھاری غلطی ہے کہ وہ خدائےتعالیٰ کی غیر متناہی قدرتوں اور ربوبیتوں کواپنے تنگ اورمنقبض تجار ب کے دائرہ میں گھسیڑناچاہتے ہیں اور نہیں سمجھتے کہ جو امور ایک قانون مشخص مقررکے نیچے آجائیں ان کامفہوم محدود ہونے کولازم پڑاہواہے اورجوحکمتیں او رقدرتیں ذات غیر محدود میں پائی جاتی ہیں ان کاغیر محدود ہوناواجب ہے.کیاکوئی داناکہہ سکتاہے کہ اس ذات قادرِ مطلق کو اس اس طور پر بنانایا د ہے اوراس سے زیادہ نہیں.کیااس کی غیر متناہی قدرتیں انسانی قیاس کے پیمانہ سے وزن کی جاسکتی ہیں ؟ یااس کی قادرانہ اورغیرمتناہی حکمتیں تصرف فی العالم سے کسی وقت عاجز ہوسکتی ہیں.بلاشبہ اس کا پُرزور ہاتھ ذرہ ذر ہ پرقابض ہے.اور کسی مخلوق کاقیام اوربقااپنی مستحکم پیدائش کے موجب سے نہیں بلکہ اسی کے سہارے اورآسرے سے ہے.اوراس کی ربانی طاقتوں کے آگے بے شمار میدان قدرتوں کے پڑے ہیں.نہ اندرونی طور پر کسی جگہ انتہاہے اور نہ بیرونی طورپر کوئی کنارہ ہے.جس طر ح یہ ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ ایک مشتعل آگ کی تیزی فروکرنے کے لئے خارج میں کوئی ایسے اسباب پیداکرے جن سے اس آگ کی تیزی جاتی رہے اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اس آگ کی خاصیت احراق دور کرنے کے لئے اسی کے وجود میں کوئی ایسے اسباب پیداکردے جن سے خاصیتِ احراق دو رہوجائے کیونکہ اس کی غیرمتناہی حکمتوں اور قدرتوں کے آگے کوئی بات انہونی نہیں.اورجب ہم اس کی حکمتوں اورقدرتوںکو غیر متناہی مان چکے توہم پر یہ
بھی فرض ہے کہ ہم اس بات کو بھی مان لیں کہ اس کی تمام حکمتوںاور قدرتوں پر ہم کو علم حاصل ہونا ممتنع اورمحال ہے.سوہم اس کی ناپیداکنارحکمتوںاور قدرتوں کے لئے کوئی قانون نہیں بناسکتے.اورجس چیز کی حدود ہمیں معلوم ہی نہیں اس کی پیمائش کرنے سے ہم عاجز ہیں.ہم بنی آدم کی دنیا کا نہایت ہی تنگ اور چھوٹاسادائرہ ہیں اورپھر اس دائرہ کابھی پوراپوراہمیں علم حاصل نہیں.پس اس صورت میں ہماری نہایت ہی کم ظرفی اورسفاہت ہے کہ ہم اس اقل قلیل پیمانہ سے خدا تعالیٰ کی غیر محدود حکمتوںاور قدرتوں کوناپنے لگیں.‘‘ (براہین احمدیہ حصہ اول روحانی خزائن جلد ۱ حاشیہ نمبر ۱۱ص ۴۸۲تا۴۸۸) پھر یہی مضمون ’’برکات الدعا‘‘میں بھی آپ نے بیان فرمایا ہے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں :.’’اس جگہ ایک اورسرّ یاد رکھنے کے لائق ہے اوروہ یہ ہے کہ اولیاء سے جوخوارق کبھی اس قسم کے ظہور میںآتے ہیں کہ پانی ان کو ڈبو نہیں سکتا اور آگ ان کو نقصان نہیں پہنچاسکتی اس میں بھی دراصل یہی بھید ہے کہ حکیم مطلق جس کے بے انتہااسرار پر انسان حاوی نہیں ہوسکتااپنے دوستوں اور مقربوں کی توجہ کے وقت کبھی یہ کرشمہء قدرت دکھلاتاہے کہ وہ توجہ عالم میں تصرف کرتی ہے اورجن ایسے مخفی اسباب کے جمع ہونے سے مثلاً آگ کی حرارت اپنے اثر سے رک سکتی ہے خواہ وہ اسباب اجرام علوّی کی تاثیریں ہوںیاخود مثلاًآگ کی کوئی مخفی خاصیت یااپنے بدن کی ہی کوئی مخفی خاصیت یاان تمام خاصیتوں کامجموعہ ہووہ اسباب اس توجہ اور اس دعاسے حرکت میں آتے ہیں تب ایک امر خارق عادت ظاہرہوتاہے مگراس سے حقائقِ اشیاء کااعتبار نہیں اٹھتا اورنہ علوم ضائع ہوتے ہیں.بلکہ یہ توعلوم الٰہیہ میں سے خود ایک علم ہے اوریہ اپنے مقام پر ہے اورمثلاً آگ کامحرق بالخاصیت ہونا اپنے مقام پر بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ روحانی مواد ہیں جو آگ پرغالب آکر اپنااثر دکھاتے ہیں اوراپنے وقت اور محل سے خاص ہیں.اس دقیقہ کو دنیا کی عقل نہیں سمجھ سکتی کہ انسانِ کامل خدا تعالیٰ کی روح کاجلوہ گاہ ہوتاہے اورجب کبھی انسان کامل پر ایک ایسا وقت آجاتاہے کہ وہ اس جلوہ کا عین وقت ہوتاہے تواس وقت ہرایک چیز اس سے ایسی ڈرتی ہے جیساکہ خدا تعالیٰ سے.اس وقت اس کو درندہ کے آگے ڈال د و.آگ میں ڈال دووہ اس سے کچھ بھی نقصان نہیں اٹھائے گا.کیونکہ اس وقت خدا تعالیٰ کی روح اس پر ہوتی ہے اورہریک چیز کاعہد ہے کہ اس سے ڈرے یہ معرفت کاایک آخری بھید ہے جو بغیر صحبتِ کاملین سمجھ میں نہیں آسکتا.چونکہ یہ نہایت دقیق اور پھرنہایت درجہ ناد رالوقوع
ہے اس لئے ہرایک فہم اس فلاسفی سے آگاہ نہیں.مگریادرکھو کہ ہریک چیز خدا تعالیٰ کی آواز سنتی ہے.ہریک چیز پر خدا تعالیٰ کاتصرف ہے اورہریک چیز کی تمام ڈوریاں خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں.اس کی حکمت ایک بے انتہا حکمت ہے جو ہریک ذرہ کی جڑھ تک پہنچی ہوئی ہے اورہریک چیز میں اتنی ہی خاصیتیں ہیں جتنی اس کی قدرتیں ہیں.جوشخص اس بات پرایمان نہیں لاتا وہ اس گروہ میں داخل ہے جو مَاقَدَرُوْااللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖٓ کے مصداق ہیں.اور چونکہ انسان کامل مظہرِ اتم تمام عالم کاہوتاہے اس لئے تمام عالم اس کی طرف وقتاً فوقتاً کھینچاجاتاہے.وہ روحانی عالم کاایک عنکبوت ہوتاہے اور تمام عالم اس کی تاریں ہوتی ہیں اورخوارق کایہی سرّہے.‘‘ (برکات الدعا روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۲۹تا۳۱ حاشیہ) وَ قَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْثَانًا١ۙ مَّوَدَّةَ اس (یعنی ابراہیمؑ) نے کہا.تم نے اللہ (تعالیٰ )کے سوابتوں سے تعلق قائم کرچھوڑاہے (اور تمہارایہ فعل )صرف بَيْنِكُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا١ۚ ثُمَّ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُ ورلی زندگی میں دوسرے مشرکوں سے محبت بڑھانے کے لئے (ہے)پھر قیامت کے دن تم میں سے بعض بعض بَعْضُكُمْ بِبَعْضٍ وَّ يَلْعَنُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا١ٞ وَّ مَاْوٰىكُمُ کاانکا رکریں گے اور تم میں سے بعض بعض پرلعنت ڈالیں گے اور تمہاراٹھکانہ دوزخ ہوگا اورجن کوتم مددگارسمجھتے ہو النَّارُ وَ مَا لَكُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَۗۙ۰۰۲۶ ان میں سےکو ئی تمہاری مدد کو نہ آئے گا.تفسیر.اس میں بتایاکہ باوجو د اس کے کہ ابراہیم ؑ کو اس کی قوم نے آگ میں ڈال دیاتھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اسے معجزانہ رنگ میں نجات دی پھر بھی ابراہیم ؑ توحید کاایساعاشق تھا کہ آگ سے نجات پاتے ہی اس نے اپنی قوم کو پھر سمجھانا شروع کردیا اورکہا کہ تم نے توبتوں کو اس لئے خدابنالیا ہے تاکہ اس دنیا میں وہ تمہارے درمیان محبت پیداکرنے کاموجب ہوں.یعنی ایک مرکزی نقطہ بن جائے.اور تم سب ایک بت کے پجاری اپنے
آپ کو بھائی بھائی کہنے لگ جائو لیکن یہ بت اس دنیا تک ہی ہیں.اگلے جہان میں یہ تم کو کوئی فائدہ نہیں دیں گے بلکہ اگلے جہان میںپجاری بتوں کے تعلق سے اوربت پجاریوں کے تعلق سے انکار کرنے لگیں گے.اورآپس میںایک دوسرے پر لعنت ڈالیں گے اورنتیجہ یہ ہوگاکہ کافر آگ میں داخل کئے جائیں گے اورکوئی ان کی مددنہیں کرسکے گا.اس آیت میںبتایاگیا ہے کہ شرک کی بنیاد کسی دلیل پر نہیں بلکہ صرف قوم کے لوگوں کو خوش کرنے اور ان کی تعریف حاصل کرنے کے لئے اختیارکیا جاتا ہے.لیکن سچادین ہمیشہ دلیل پر قائم ہوتاہے اورسچے دین کے پیرولوگوں کو خوش کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو مقد م رکھتے ہیں.گویامشرک تو دنیاکودین پرمقدم کرتاہے لیکن مومن دین کودنیا پر مقد م کرتاہے.مشرک لوگوں سے ڈرتاہے اوران کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے.لیکن مومن صر ف خدا سے ڈرتا اوراسی کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے.یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًا میں بتایا کہ کفر کی دوستی ایسی ناپائیدارہوتی ہے کہ دنیا میں بھی وہ لوگ جن کو خوش کرنے کے لئے خدااور اس کے رسول کی مخالفت کی جاتی ہے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اوراگلے جہان میں بھی یہ دوستیاں انسان کے کسی کام نہیں آسکتیں.فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ١ۘ وَ قَالَ اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ اس (نصیحت )کے بعد لوط اس پر ایمان لے آئے اور(ابراہیمؑ نے )کہا.میں تواپنے ر ب کی طرف ہجرت الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۰۰۲۷وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ يَعْقُوْبَ وَ کر کے جانے والاہوں وہ یقیناً غالب (اور)بڑی حکمت والا ہے.اورہم نے اسے اسحاق اوریعقوب بخشے جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ وَ اٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي اوراس کی ذرّیت کے ساتھ نبوت اورکتاب مخصوص کردی اورہم نے اس کو دنیا میں بھی اس کا اجر بخشا اور الدُّنْيَا١ۚ وَ اِنَّهٗ فِي الْاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيْنَ۰۰۲۸ آخرت میں بھی وہ نیک بندوں میں شامل کیاجائے گا.تفسیر.حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے آگ سے زندہ نکل آنے کامعجزہ دیکھ کر جولوگ آپ کی طرف
راغب ہوئے تھے ان میں سے ایک حضرت لوط ؑ بھی تھے جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھائی حاران کے بیٹے تھے.(پیدائش باب ۱۲آیت ۵) چنانچہ فرماتا ہے کہ اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد لوط ؑ ابراہیم ؑ پرایمان لے آیا اورپھرابراہیم ؑ نے لوگوں میں اپنی ہجرت کااعلان کردیا.اورکہا کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر اب اپنا وطن بھی چھوڑ رہاہوں اورمجھے یقین ہے کہ میراخداجوغالب ہے اورجس کے تمام کام حکمتوں پر مبنی ہیں مجھے بھی غلبہ عطافرمائے گااور میری اس ہجرت کو رائیگاں نہیں جانے دے گا.بلکہ اس کے اعلیٰ نتائج عطافرمائے گا.پھر فرماتا ہے.جب ابراہیمؑ نے خداکے لئے اپنے وطن او رعزیزوں اور رشتہ داروں کو چھوڑاتو وَھَبْنَالَہٗ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ.ہم نے اس کے اخلاص کو دیکھ کر اسے اسحاق ؑ جیسابیٹااوریعقوبؑ جیساپوتاعطا کیا.اوراس کی ذریّت میں نبوت اور کتاب رکھ دی.تاریخ سے ثابت ہے اوربائیبل بھی اس امر پر گواہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے غیرقوموں میں بھی نبی آتے رہے ہیں پس جَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَکے صرف یہ معنے ہیں کہ ابراہیمؑ کی ذریت میں سے نبی آتے رہے اوران کاسلسلہ بند نہیں ہوا.یہ معنے نہیں کہ دوسری قوموں میں نبی نہیں آئے.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّاخَلَافِیْھَانَذِیْرٌ (الفاطر : ۱۵)یعنی دنیا کی کوئی قوم نہیں جس میں ہماری طرف سے کوئی نبی مبعوث نہ ہواہو.اسی طرح فرماتا ہے وَلِکُلِّ قَوْمٍ ھَادٍ(الرعد:۷) دنیا کی ہر قوم کی طرف ہادی اورراہنماآتے رہے ہیں.اوراللہ تعالیٰ اس کوکسی زمانہ سے مخصوص نہیں کرتا.پس اس آیت کے یہ معنے نہیں کئے جاسکتے کہ نبوت اور کتاب کوان معنوں میں آپ کی ذریّت سے مخصوص کردیاگیا کہ کسی غیر قو م میں نبی نہیں آئے گا.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ابراہیمؑ کے اخلاص کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایاکہ اَلنَّبِیْ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جن کی خبر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دی تھی اورجن کو ایک آتشی شریعت دی جانے والی تھی وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے ہوں.اور چونکہ ان کے بعد کوئی نبوت تامہ مستقلہ نہیں آئےگی بلکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ظلّی اور بروزی نبوت آئے گی اس لئے قیامت تک آ پ کے ذریعہ سے اب نبوت ابراہیم کے خاندان کے ساتھ چسپاں ہوگئی.مادی لحاظ سے بھی اور اس لحاظ سے بھی کہ کوئی شخص حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ایک مہرِ تاباں یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی لئے بغیر بارگاہ الٰہی تک پہنچ ہی نہیں سکتا.وَاِنَّہٗ فِیْ الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ کے ایک معنے تویہ ہیں کہ آخرت میں بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبڑے درجات حاصل ہوں گے اوروہ منعم علیہ گروہ میں شامل کئے جائیں گے مگراس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ آخری زمانہ
میں بھی ابراہیمؑ کولوگ بہت نیک قرا ر دیں گے.چنانچہ ا س آخری زمانہ میں بھی جوامتیں قائم ہیں وہ ساری کی ساری حضرت ابراہیم علیہ السلام کومانتی ہیں.یعنی مسلمان بھی.یہودی بھی.عیسائی بھی.اسی طرح اس کے تیسرے معنے یہ ہیں کہ ساعتِ آخرت میں جو بروزِ ابراہیمؑ ظاہرہوگا وہ بھی خداکے نزدیک اپنے کام کااہل ہوگا.اوراس پر اعتراض کرنے والے غلطی کریں گے.وَ لُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اِنَّكُمْ لَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ١ٞ مَا اورلوطؑ کوبھی (ہم نے رسول بناکربھیجا) جبکہ اس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایک ایسی بدی کرتے ہو جس کا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ۰۰۲۹اَىِٕنَّكُمْ ارتکاب دنیا میں تم سے پہلے کسی نے نہیں کیاتھا.کیاتم (عورتوںکو چھوڑ کر )مردوں کے پاس آتے ہو.لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ١ۙ۬ وَ تَاْتُوْنَ فِيْ اورڈاکے مارتے ہو.اوراپنی مجالس میں ناپسندیدہ حرکتیں کرتے ہو.اس پر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا نَادِيْكُمُ الْمُنْكَرَ١ؕ فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖۤ اِلَّاۤ اَنْ کچھ نہ تھا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ اگرتُو سچے لوگوں میں سے ہے.تواللہ (تعالیٰ ) کاعذاب قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِيْنَ۰۰۳۰ ہم پرنازل کردے.اس پرلوطؑ نے کہا.اے میرے رب! قَالَ رَبِّ انْصُرْنِيْ عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِيْنَؒ۰۰۳۱ مفسد قوم کے خلاف میری مددکر.تفسیر.فرماتا ہے.ہم نے لوط ؑ کوبھی رسول بناکربھیجااوراس نے اپنی قوم سے کہا کہ تم ایک خاص بدی میں مبتلاہو جوتم سے پہلے کسی اَورقوم میں نہیں پائی گئی.کیاتم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پا س آتے ہو او رڈاکے
ڈالتے ہو.اوراپنی مجالس میں بے حیائی کی باتیں کرتے ہو او رخدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں ڈرتے.تَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ سے معلوم ہوتاہے کہ جس طرح آجکل یورپ اورامریکہ میں بے حیائی پائی جاتی ہے اورپبلک میں عورتوں کو چمٹانااور انہیں پیار کرنایاپارکوں میں زناکاری کرناکوئی عیب نہیں سمجھاجاتا.اسی طرح اس زمانہ میں بھی تمدن بہت بڑھ گیاتھا.اوروہ مجالس میں ایک دوسرے کے سامنے اس قسم کی فواحش کادلیری سے ارتکاب کرلیاکرتے تھے اورکوئی شخص برانہیں مناتاتھا.حضرت لوط علیہ السلام کی قوم اس نصیحت کے باوجود اپنی حرکات سے باز نہ آئی بلکہ اس نے لوط ؑ سے صاف صاف کہہ دیا کہ اگر تم سچے ہوتوکوئی نشان لائو اورہم پرعذاب نازل کرو.آخر لوط ؑ نے تنگ آکر اپنے رب سے دعاکی کہ خدایامجھے مفسد قوم کے خلاف مدددے.وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا اورجب ہمارے رسول ابراہیمؑ کے پاس بشار ت لائے.توانہوں نے کہا.ہم اس بستی کو ہلاک کرنے والے ہیں.مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ١ۚ اِنَّ اَهْلَهَا كَانُوْا کیونکہ اس کے باشندے ظالم ہیں.(ابراہیم نے جواب میں )کہا کہ اس (بستی)میں تولوطؑ بھی رہتاہے.ظٰلِمِيْنَۚۖ۰۰۳۲قَالَ اِنَّ فِيْهَا لُوْطًا١ؕ قَالُوْا نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَنْ انہوں نے کہا ہم اس (بستی )میں رہنے والوں کو خوب جانتے ہیں.ہم اس (یعنی لوطؑ)کواوراس کے گھر والوںکو فِيْهَا١ٞٙ لَنُنَجِّيَنَّهٗ۠ وَ اَهْلَهٗۤ اِلَّا امْرَاَتَهٗ١ٞۗ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۰۰۳۳ سوائے اس کی بیوی کے جوپیچھے رہنے والوں میں شامل ہوجائے گی نجات دیں گے.تفسیر.فرمایاجب ہمارے پیغامبر (یعنی علاقہ کے بعض ملہم جن کوخدا تعالیٰ نے حضر ت لوط علیہ السلام کوکسی محفوط مقام پر پہنچانے اوران کا رہبر بننے کے لئے بھجوایاتھا )حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بشارت لائے.توانہوں نے کہا کہ ہم اس بستی یعنی لوطؑ کی بستی کو ہلاک کرنے کے لئے بھجوائے گئے ہیں.رُسُلُنَا سے مفسرین نے فرشتے مراد لئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس جگہ رسولوں سے اس علاقہ کے بعض
اولیاء مراد ہیں جوخدا تعالیٰ سے وحی پاکر پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور پھر حضرت لوط علیہ السلام کوعذاب کی خبر دینے کے لئے چلے گئے.ان رُسُل کے انسان ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس جب یہ لوگ آئے توآپ فوراً اپنے گھرتشریف لے گئے اور ان کے کھانے کے لئے ایک بچھڑاذبح کردیا (سورۃ ہود آیت ۷۰)اگرحضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھتے کہ یہ فرشتے ہیں تو آپ ان کے لئے کھانے کاکیوں انتظام فرماتے.پھر جب انہوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال گذراکہ مہمان نوازی میں کوئی سقم نہ رہ گیا ہو جس کی وجہ سے یہ کھانے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھارہے توانہوں نے کہا کہ لَاتَخَفْ اِنَّااُرْسِلْنَآاِلیٰ قَوْمِ لُوْطٍ.یعنی آپ تسلی رکھیں.آپ کی مہمان نوازی کاشکریہ.مگربات یہ ہے کہ ہم اس وقت ایک عذاب کی خبر دینے کے لئے جارہے ہیں اس لئے کھاناکھانے سے معذورہیں.ان کایہ جواب بھی بتاتاہے کہ و ہ فرشتے نہیں تھے ورنہ وہ یہ جواب دے سکتے تھے کہ ہم توفرشتے ہیں اورہم نے کبھی کھاناکھایاہی نہیں اس لئے آپ کاکھانابھی ہم نہیں کھاسکتے.پھروہ لوگ جب حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے توانہوں نے بھی دیکھ کر یہ نہیں کہا کہ خداکے فرشتے آگئے ہیں.بلکہ انہوں نے بھی یہی کہاکہ اِنَّکُمْ قَوْمٌ مُّنْکَرُوْنَ (الحجر :۶۳) یعنی آپ لوگ تواس علاقہ میں اجنبی معلوم ہوتے ہیں.گویاان کا ذہن بھی فرشتوں کی طرف نہیں گیا بلکہ انہوں نے بھی ان کو انسان ہی سمجھا.پھران رُسُل کے انسان ہونے کاایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُلْ لَّوْ كَانَ فِي الْاَرْضِ مَلٰٓىِٕكَةٌ يَّمْشُوْنَ مُطْمَىِٕنِّيْنَ۠ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَكًا رَّسُوْلًا(بنی اسرائیل:۹۶)یعنی تُوانہیں کہہ کہ اگرزمین پرفرشتے بس رہے ہوتے جو زمین پراطمینان سے چلتے پھرتے تواس صورت میں ہم ضروران پر آسمان سے کسی فرشتہ کو ہی رسول بناکر اتارتے.اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ فرشتے رسول ہو کر صرف نیک لوگوں کے لئے آتے ہیں.بدکاروں کے لئے نہیں آتے.مگریہ واقعہ بتاتاہے کہ ان فرشتوں کو سدوم کے تمام لوگوں نے دیکھا.اوران کے آنے پر حضرت لوطؑ کولوگوں نے برابھلاکہا.پس ان کاایسے لوگوں کے سامنے جسمانی رنگ میں ظاہر ہوناجن پر عذاب نازل ہونے والاتھااس آیت کے خلاف ہے.پس اس جگہ رسل سے مراد ارد گرد کے علاقہ کے بعض ملہم ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس اس لئے بھیجا کہ وہ عذاب کے وقت اپنے آپ کو بے یارومددگار نہ پائیں اور حضرت لوطؑ کو کسی امن کی جگہ پہنچادیں.بائیبل جو ہرقسم کے رطب ویابس سے بھری ہوئی ہے اس نے ان رسل کو کبھی توانسان قرار دیا ہے اور کبھی
فرشتے.چنانچہ پیدائش باب۱۸آیت ۱،۲ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے.’’وہ دن کو گرمی کے وقت اپنے خیمہ کے درواز ہ پر بیٹھا تھا اوراس نے اپنی آنکھیں اٹھا کر نظر کی اور کیادیکھتاہے کہ تین مرد اس کے سامنے کھڑ ے ہیں.‘‘ اسی طرح پیدائش باب ۱۸آیت ۱۶میں لکھا ہے.’’تب وہ مرد وہاں سے اٹھے اور انہوں نے سدوم کارخ کیا.‘‘ مگرپیدائش باب ۱۹آیت ۱ میں لکھاہے.’’وہ دونوں فرشتے شام کوسدوم میںآئے اورلوط سدوم کے پھاٹک پربیٹھاتھا.‘‘ گویابائیبل کبھی توانہیں انسان قرار دیتی ہے اور کبھی فرشتے اور کبھی تین مرد قرار دیتی ہے اور کبھی دوفرشتے.مگرفرشتہ کہنے کے ساتھ ہی بائیبل یہ بھی کہتی ہے کہ حضرت لوطؑ نے ’’ ان کے لئے ضیافت تیار کی اور بے خمیری روٹی پکائی اورانہوں نے کھایا.‘‘ (پیدائش باب۱۹آیت۳) حالانکہ اگروہ فرشتے تھے توان کے روٹی کھانے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتاتھا.پس یہ رسل فرشتے نہیں تھے بلکہ انسانوں میں سے ہی بعض نیک لوگ تھے جو ان کی طرف بھجوائے گئے تھے.یہ سوال کہ وہ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس کیوں آئے اورکیوں نہ سیدھے حضرت لوط علیہ السلام کے پا س چلے گئے.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت لوط ؑ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانے والوں میں سے تھے اوراس لحاظ سے وہ ایک تابع نبی کی حیثیت رکھتے تھے جس طرح حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ بھی تابع نبی تھے یاحضرت ہارونؑ حضر ت موسیٰ ؑ کے تابع تھے گوان میں سے امتی نبی کوئی نہیں تھا.کیونکہ اس زمانہ میںنبوت براہِ راست ملاکرتی تھی.کسی سابق نبی کے فیض سے نبوت حاصل نہیں ہوتی تھی.پس چونکہ حضرت لوط علیہ السلام نبوت سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام پرایمان لاچکے تھے اورآ پ کے ساتھ ہی ہجرت کر کے وہ شام میں آئے تھے اس لئے ان کی قوم کی تباہی کی خبر بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہی دی.مگراللہ تعالیٰ نے اس عذاب کی خبر سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک خوشخبری بھی پہنچادی جس کا ذکر وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى میں کیاگیا ہے.یہ بشارت حضرت اسحاق علیہ السلام کی پیدائش کی خبر تھی جس کا ذکر سورئہ ہود آیت ۷۲، سورۃ الحجر آیت ۵۴ اورسورۃ الذاریات آیت ۲۹ میں کیاگیا ہے.علامہ ابوحیانؒ نے بھی بُشْرٰی سے
حضرت اسحٰق علیہ السلام اورپھران کے پوتے حضرت یعقوب علیہ السلام کی ولادت کی خبرمراد لی ہے (بحرمحیط جلد ۷ص ۱۵۰) گویا خدا تعالیٰ نے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک نیک نسل کی پیدائش کی خوشخبری دی اورپھر قومِ لوط ؑ کی ہلاکت کی خبردی تاکہ آپ کاصدمہ کم ہوجائے.اگر کوئی کہے کہ اگریہ رسول انسان تھے اورالہام کے ذریعہ سے خبرپاکر لوطؑ کوبتانے آئے تھے تو خدا تعالیٰ نے براہ راست حضرت لوط ؑ پرکیوں نہ الہام نازل کردیاتواس کا جواب یہ ہے کہ جیساکہ بائیبل سے ظاہر ہے حضرت لوط ؑ جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اُورسے جوعراق کے علاقہ کاایک قصبہ تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہی ہجرت کرکے کنعان یعنی فسلطین کی طرف چلے آئے تھے یہاں پہنچ کر و ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے الگ ہوکر سدوم نامی بستی میں رہنے لگے.(پیدائش باب۱۲آیت۴،۵) اورطالمود جویہود کی روایات اورتاریخ کی کتاب ہے اس میں لکھاہے کہ سدوم اورعمورہ کے لوگ مسافروں کولوٹ لینے کے عادی تھے (جیوش انسائیکلوپیڈیا زیر لفظ سدوم )اسی کی طرف قرآن کریم نے بھی وَتَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ کے الفاظ میں اشارہ کیاہے.اورجوقوم ہمسائیوں کواس طرح دکھ دینے کی عادی ہو لازماًو ہ اپنے ہمسائیوںسے خائف بھی رہے گی کہ شاید وہ کسی وقت اسے نقصان پہنچادیں.اورسدوم والوں سے ان کے ہمسائیوں کی عملاً لڑائی بھی رہتی تھی.بلکہ بائیبل بتاتی ہے کہ ایک دفعہ سدوم اورعمورہ کے بادشاہوں پر ارد گرد کے بادشاہوں نے مل کرحملہ کردیا اوروہ سدوم اورعمورہ کاسب مال اوروہاں کاسب اناج لے کرچلے گئے.بلکہ لکھا ہے کہ وہ حضرت لوط ؑ کو بھی قیدی بنا کراپنے ساتھ لے گئے.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کواس بات کاعلم ہواتوانہوں نے تین سواٹھارہ بہادروں کے ساتھ ان کاتعاقب کیا اوروہ حضرت لوط ؑ کواورسدوم اورعمورہ کے باقی سب مردوںاورعورتوں کوجنہیں وہ پکڑ کر لے گئے تھے چھڑاکرلے آئے اورمال بھی انہوں نے واپس لے لیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام اس مہم سے کامیاب واپس آئے توسدوم کے بادشاہ نے آپ کااستقبال کیا اورملک صدق جوسالم کابادشاہ تھا اس نے بھی آپ کی دعوت کی اورسدوم کے بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ مجھے صرف آدمی دے دیئے جائیں.اورمال خودرکھ لیں مگرحضرت ابراہیم ؑ نے کہا کہ میں جوتی کاایک تسمہ بھی اپنے پاس نہیں رکھوںگااورسب چیزیں آپ نے انہیں دےدیں.(پیدائش باب ۱۴) پس چونکہ حضرت لوط علیہ السلام اس علاقہ سے پوری طرح واقف نہیں تھے بلکہ اس ملک میں سدوم والوں کے دشمن بھی موجود تھے.اگربراہ راست ان پر الہام ہوتاکہ یہاں سے نکل جائو تووہ گھبراتے کہ جاؤںکہاں.
سواللہ تعالیٰ نے ان کی تسلی کے لئے یہ تدبیر کی کہ ارد گرد کے بعض نیک لوگوں کو الہام کیا کہ لوطؑ کے پاس جائو اوران کوبتادو کہ ان کی قوم پر عذاب آنے والا ہے اورانہیں حفاظت کے ساتھ کسی محفوظ مقام تک پہنچادو.کیونکہ وہ اس علاقہ کے واقف نہیں.اس جگہ سوال پیدا ہوتاہے کہ کیاکبھی پہلے بھی ایساہواہے کہ نبی کو توپتہ نہ لگاہو کہ میری قوم ہلاک ہونے والی ہے لیکن دوسروں کوعلم ہوگیا ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سوال قلّت تدبّر کانتیجہ ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کو پہلے سے عذاب کی خبر دے چکے تھے.چنانچہ سورئہ حجر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ رسول آپ کے پاس آئے توانہو ں نے کہا کہ بَلْ جِئْنَاکَ بِمَاکَانُوْافِیْہِ یَمْتَرُوْنَ (الحجر:۶۴)ہم آپ کے پاس اس عذاب کی خبر لے کر آئے ہیں جس کے بارہ میں یہ لوگ شک کررہے ہیں.گویاوہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عذاب کی خبرحضرت لوط علیہ السلام پہلے ہی دے چکے تھے.مگر چونکہ یہ عذاب اب بالکل قریب آپہنچا تھااس لئے اللہ تعالیٰ نے اس علاقہ کے چند نیک لوگوں کواس لئے آپ کے پاس بھیجاکہ وہ حضرت لوط علیہ السلام کواپنے ساتھ لے کر کسی محفوظ مقام پرپہنچادیں.اگراللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے ماتحت یہ انتظام نہ فرماتاتوحضرت لوط علیہ السلام کو بڑی پریشانی ہوتی کہ اب جب اس شہر پر عذاب آنے والا ہے تومیں کہاںجاؤ ں.جبکہ باقی علاقہ میں میری واقفیت بھی کوئی نہیں.اورپھر ارد گرد سب سدوم کے دشمن آباد ہیں.اسلام میں بھی اس قسم کی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ بعض اہم معاملات کی دوسرے مسلمانوں کو خبردی گئی.مثلاً رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میںحضرت عبداللہ بن زیدؓ ایک صحابی تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کورؤیاکے ذریعہ سے اذان سکھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی رؤیاپرانحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کارواج ڈالا.بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کردی.حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی.مگربیس دن تک میں خاموش رہا.اس خیال سے کہ ایک اَورشخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کرچکا ہے(سنن ابی دائود جزواول مطبوعہ مصر ص۸۰،۸۱ وسنن ابن ماجہ جزواول ص ۲۴۰،۲۴۱مطبوعہ مصر) اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بھی اشارہ کرتی ہے کہ اَلْمُؤْمِنُ یَرٰی اَوْ یُرٰی لَہٗ (السنۃ لابن ابی عاصم الجزء الاول صفحہ ۲۱۴).یعنی مومن کوکبھی توبراہ راست خبر دی جاتی ہے اور کبھی دوسروں کی معرفت اسے خبرپہنچائی جاتی ہے.پس حضرت لوط علیہ السلام کوبعض دوسرے لوگوں کے ذریعہ عذاب کے بالکل قریب آجانے کی خبرپہنچاناکوئی قابل اعتراض امر نہیں.
اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ سے یہ مرادنہیں کہ ان کوکوئی خاص طاقت حاصل تھی بلکہ مرادیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کے ماتحت ہم اس بستی کی ہلاکت کی خبر دینے کے لئے بھیجے گئے ہیں.کیونکہ اس بستی کے لوگ ظالم ہیں.اگربالفرض ان کو فرشتے بھی سمجھ لیاجائے جیساکہ مفسرین کہتے ہیں.تب بھی فرشتے خود عذاب نہیں دیاکرتے بلکہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی خبر دیاکرتے ہیں.پس اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ سے عذاب کی خبر دینا مراد ہے نہ کہ خود عذاب نازل کرنا.قَالَ اِنَّ فِیْھَا لُوْطًا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خبر سن کر کہا کہ اس بستی میں تولوط ؑ بھی ہے اوروہ خدا تعالیٰ کابرگزیدہ ہے.انہوں نے کہا.ہم اس بستی میں رہنے والوں کوخوب جانتے ہیں.ہم اس کواور اس کے اہل کو سوائے اس کی بیوی کے جوپیچھے رہ جانے والوں میں سے ہے نجات دیں گے.یعنی انہیں کسی محفوظ مقام میں پہنچادیں گے.کیونکہ ان لوگوں کو حضرت لوط ؑ کی آئندہ رہائش کے انتظام کے لئے ہی بھیجاگیا تھا.وَ لَمَّاۤ اَنْ جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِيْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ اورجب ہمارے رسو ل لو طؑ کے پاس آئے توان کی وجہ سے اسے دکھ پہنچا.اورنیز ان کی وجہ سے ذَرْعًا وَّ قَالُوْا لَا تَخَفْ وَ لَا تَحْزَنْ١۫ اِنَّا مُنَجُّوْكَ وَ اس کا دل تنگ ہوگیا اور(اس کی اس حالت کودیکھ کر )ان پیغام لانے والوں نے کہا کہ کسی (آئندہ)بات کاخوف اَهْلَكَ اِلَّا امْرَاَتَكَ كَانَتْ مِنَ الْغٰبِرِيْنَ۰۰۳۴اِنَّا مُنْزِلُوْنَ نہ کر.اورنہ کسی گزشتہ واقعہ پرافسوس کر.ہم تجھ کواور تیرے گھر والوں کو سوائے تیری بیوی کے جوپیچھے رہنے والوں عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا میں شامل ہوجائے گی نجات دینے کے لئے آئے ہیں.ہم اس بستی پر ان کی نافرمانی کی وجہ يَفْسُقُوْنَ۰۰۳۵وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰيَةًۢ بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ سے عذاب نازل کرنے والے ہیں.اورہم نے اس بستی کے(واقعہ کے)ذریعہ سے ایک کھلی عبرت کا
يَّعْقِلُوْنَ۰۰۳۶ سامان عقل والے لوگوں کے لئے پیچھے چھوڑاہے.تفسیر.فرماتا ہے.جب وہ لو گ وہاںسے چل کر ہمارے رسول حضرت لوط ؑ کے پاس پہنچے توان کو دیکھ کراسے بڑی تکلیف ہوئی اوراس کا دل تنگ ہوگیا کیونکہ اس کی قوم کے لوگوں نے غیر قوموں کے آدمیوں کی مہمان نوازی سے اسے منع کیاہواتھا.چنانچہ قرآن کریم میں آتاہے کہ حضر ت لوطؑ کے مخالفین نے ان سے کہا اَوَلَمْ نَنْھَکَ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(الحجر:۷۱)کہ اے لوطؑ! کیا ہم نے تجھے غیرمعلوم مسافروں کو گھرمیں لانے سے نہیں روکاہوا؟ اس زمانہ میںشہرچھوٹے چھوٹے اور دور دور ہوتے تھے.اورغیر معلوم مسافروں کے لانے سے ڈر ہوتاتھا کہ کہیں ڈاکہ نہ پڑے اور چونکہ سدوم کے باشندے خود بھی ڈاکوتھے وہ دوسروں کو بھی اپنے جیساسمجھتے تھے اورغیر معرو ف مسافروں کو شہر میں نہیں آنے دیتے تھے تاایسانہ ہوکہ رات کو وہ شہرکے دروازے کھو ل دیں اوردشمن غفلت کی حالت میں آکر حملہ کر دے.حضرت لوط ؑ چونکہ مہمان نواز تھے وہ مسافروں کو لے آتے اورسمجھتے کہ اگر وہ باہر رہیں گے تو لوٹے جائیں گے.اوریہ لوگ ان کوا س سے منع کیاکرتے تھے.اس دفعہ جب پھر حضرت لوط ؑ ان لوگوں کو ساتھ لے آئے تویہ لوگ غصہ سے بھر گئے اور حضرت لوطؑ کے پاس دوڑتے ہوئے آئے.حضرت لوط ؑ کو بہت دکھ پہنچا.اورآپ ڈرے کہ کہیں یہ لوگ مہمانوں کے سامنے مجھے شرمند ہ نہ کریں.مگرانہوں نے کہا کہ ڈر نہیں اورغم نہ کر.یعنی اب تجھے کسی آئندہ خطرہ سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ ان کی تباہی کافیصلہ کرچکا ہے.مگرچونکہ قوم کی تباہی کی خبر سے حضرت لوط علیہ السلام کاغمگین ہونا ایک طبعی امر تھا.اس لئے انہوں نے ساتھ ہی آپ کو تسلی دی کہ لَاتَحْزَنْ آپ ان کی تباہی پر غم بھی نہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی کے بیج کوضائع نہیں کرے گا بلکہ وہ آپ کواورآپ کے تمام اہل کو سوائے آپ کی بیوی کے اس عذاب سے محفوظ رکھے گا اوراس طرح ان کے ذریعہ پھر دنیا میں نیکی اورتقویٰ کی کھیتی سرسبز ہونی شروع ہوجائے گی.اِنَّامُنَجُّوْکَ میں انہوں نے اس نجات کو اپنی طرف اس لئے منسوب کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اسی غرض کے لئے بھجوائے گئے تھے کہ لوطؑ اوران کے اہل کوکسی محفوظ مقام پرپہنچا دیں.باقی رہاان رسولوں کااس تباہی کو اپنی طرف منسوب کر نا ااوریہ کہنا کہ اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ.یہ ایسا ہی ہے جیسے سورئہ مریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرشتہ نے حضرت مریم
سے کہا کہ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ١ۖۗ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِيًّا (مریم :۲۰)یعنی میں تیرے رب کاایک پیغامبرہوں تاکہ میں تجھے ایک پاک لڑکادوں.حالانکہ سب جانتے ہیں کہ لڑکا خدادیا کرتاہے.فرشتہ نہیں دیاکرتا.پس جس طرح لِاَھَبَ لَکِ سے مراد صر ف لڑکے کی پیدائش کی خبر دینا ہے نہ کہ لڑکادینا.اسی طرح اِنَّا مُهْلِكُوْۤا اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ اور اِنَّا اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِيْنَ.لِنُرْسِلَ عَلَيْهِمْ حِجَارَةً مِّنْ طِيْنٍ.مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُسْرِفِيْنَ۠یا اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ سے یہ مراد نہیں کہ ان رسولوں نے عذاب نازل کرناتھا بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی خبر کے ماتحت یہ اطلاع دیتے ہیں کہ لوط ؑ اوراس کے اکثر اہل بیت بچ جائیں گے.اورمخالف تباہ ہوجائیں گے.ورنہ عذاب تو خدا تعالیٰ نے ہی نازل کیاتھا.جیسے سورئہ ہود میں اللہ تعالیٰ نے اس امرکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے.فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَ اَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّنْ سِجِّيْلٍ١ۙ۬ مَّنْضُوْدٍ.مُّسَوَّمَةً عِنْدَ رَبِّكَ(ہود : ۸۳و۸۴)یعنی جب ہماراحکم آگیاتوہم نے اس بستی کے اوپر والے حصہ کو نیچے والا حصہ بنادیا.اوراس پر سوکھی مٹی کے بنے ہوئے پتھروں کی یکے بعد دیگرے بارش برسائی جوتیرے رب کی تقدیر میں ان کے لئے ہی مقدر اورنامزد کئے گئے تھے.اس جگہ بھی وَ لَقَدْ تَّرَكْنَا مِنْهَاۤ اٰيَةًۢ بَيِّنَةً لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ فرماکراللہ تعالیٰ نے اس عذاب کو اپنی طرف منسوب کیا ہے.اوربتایا ہے کہ ہم نے اس ذریعہ سے عقل رکھنے والے لوگوں کے لئے ایک بڑی عبرت کاسامان پیچھے چھوڑا.یہ آیت صاف بتاتی ہے کہ عذاب خدا تعالیٰ نے اتاراتھا.ان رسولوں نے نہیں اتاراتھا.وہ صرف خبر دینے آئے تھے.اگران رسولوں نے عذاب اتاراہوتا تو خدا تعالیٰ یہ کیوں کہتا کہ ہم نے اس عذاب کے ذریعہ سے ایک کھلا نشان پیچھے چھوڑدیا کیونکہ اگررسولوں نے عذاب اتاراتھا تونشان انہوں نے چھوڑانہ کہ خدا تعالیٰ نے.پس اِنَّا مُنْزِلُوْنَ عَلٰۤى اَهْلِ هٰذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا كَانُوْا يَفْسُقُوْنَ یااسی قسم کی بعض دوسری آیات سے یہ مراد نہیں کہ وہ عذاب ان رسولوں نے نازل کیاتھا.بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم اس بستی کے باشندوں پر خدائی عذاب کے نازل ہونے کی خبر دیتے ہیں.ورنہ عذاب تو خدا تعالیٰ نے ہی نازل کرناتھا.
وَ اِلٰى مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا١ۙ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اورمدین کی طرف ہم نے ان کے بھائی شعیب کو رسول بناکر بھیجا تھا.(جب وہ آیا )تواس نے کہا.اے میری قوم! ارْجُوا الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ۰۰۳۷ اللہ کی عباد ت کرو اوراخروی زندگی کے وقت کو یادرکھو اورایسے مفسدانہ کام نہ کرو کہ ملک میں تمہارے کاموں کی وجہ فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دَارِهِمْ سے فساد پھیل جائے.اس پر انہوں نے اس کو جھٹلادیا اورایک ہلادینے والے عذاب نے ان کوپکڑ لیا.جس کے نتیجہ جٰثِمِيْنَٞ۰۰۳۸ میں وہ اپنے گھروں میں (زمین سے ) چمٹے کے چمٹے رہ گئے.تفسیر.فرمایا.ہم نے لوط ؑ کے بعد مدین کی طرف ان کے بھائی شعیبؑ کو بھیجاتھا اورانہوں نے بھی اپنی قوم کو یہی کہاتھا کہ ایک خدا کی پرستش کرو.اوریو م آخرت پرایمان رکھو.اوردنیا میں فساد مت پیداکرو.وَلَاتَعْثَوْافِیْ الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ سے معلوم ہوتاہے کہ یہ قوم ڈاکہ زنی اورقتل وغارت کی خوگرتھی.چونکہ مدین قوم کا مرکزی شہر جس کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام مبعوث ہوئے تھے عرب.شام اورمصر کے راستوں پر واقع تھا اوروہاں سے قافلے گذراکرتے تھے اس لئے یہ لو گ مسافروں کولوٹ لینے کے عادی تھے.اس قیاس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ مدین قوم کے قبضہ میں قریب ہی ایک بڑابھاری جنگل تھا.جس میں رہنے والوں کا قرآن کریم نے ’’ اصحاب الایکہ‘‘ نام رکھاہے.اوریہ لوگ بھی حضرت شعیب علیہ السلام کے مخاطبین میں ہی شامل تھے اورہرشخص جانتاہے کہ جنگل میں ڈاکے ڈالنے زیادہ آسان ہوتے ہیں کیونکہ انسان اس میں بڑی آسانی سے چھپ سکتاہے.پس یہ لوگ ڈاکہ زنی او رقتل و غارت کے ارتکاب سے بھی فساد پیداکررہے تھے او ربیع و شر اکرتے وقت تول اور ماپ میں بھی کمی بیشی کرکے فساد پیداکررہے تھے.حضرت شعیب علیہ السلام نے انہیں بہت سمجھایامگران کی قوم نے ان نصائح کی کوئی پرواہ نہ کی او رنہوںنے آپ کو جھٹلادیا.آخر ان پر ایک شدید زلزلہ آیا.جس کے نتیجہ میں وہ اپنے گھروں میں دوزانو بیٹھے ہوئے رہ گئے.حضرت شعیب ؑچونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت سے پہلے
گذرے ہیں اس لئے ان کے ذکر سے خدا تعالیٰ نے نوح ؑ سے لےکر موسیٰ ؑ تک نبیوں کے آنے اوران کے ماننے والوں کے امتحان میں پڑنے کا ذکرفرما دیا.وَ عَادًا وَّ ثَمُوْدَاۡ وَ قَدْ تَّبَيَّنَ لَكُمْ مِّنْ مَّسٰكِنِهِمْ١۫ وَ اورعاد کو بھی او رثمود کو بھی (ہماری طرف سے ایک ہلادینے والے عذاب نے پکڑ لیا) اور(اے اہل مکہ) تم پر ان کی زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ وَ بستیو ںکاحال ظاہر ہے.اورشیطان نے ان کوان کے عمل اچھے کرکے دکھائے.اوراس نے (یعنی شیطان نے ) كَانُوْا مُسْتَبْصِرِيْنَ۠ۙ۰۰۳۹ ان کو (اللہ تعالیٰ)کے راستہ سے روکا.حالانکہ و ہ خوب سمجھتے تھے.تفسیر.اس میں بتایاکہ عاد او رثمود میں بھی بڑے بڑے بھاری نشانات ہیں.کیونکہ یہ دونوں قومیں اپنے عروج کے زمانے میں دنیا کی معلم اوراستاد تھیں اورفنِ تعمیر میں بھی بڑی بھاری دسترس رکھتی تھیں.چنانچہ قوم عاد کے نبی حضرت ہودؑ نے انہیں نصیحت فرمائی تھی کہ اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ.وَ تَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ(الشعراء: ۱۲۹،۱۳۰) یعنی تم نے یہ کیاطریق اختیار کیاہواہے کہ تم ہراونچی جگہ پرنشان کھڑے کرتے ہو.اور بڑ ے بڑے محلّات تعمیر کرتے ہو اورسمجھتے ہوکہ اس طرح تمہارانام ہمیشہ کے لئے قائم رہے گا.میں نے خود عدن میں بعض پرانی عمار تیں دیکھی ہیں جوعادِ اولیٰ کے آثار میں سے ہیں اوروہاں کے مقامی لوگوں میں یہ روایتیں پائی جاتی ہیں کہ یہ عاد کی عمارتیں ہیں.اسی طرح ثمود جو عاد ہی کی ایک شاخ تھے ان کے متعلق بھی قرآن کریم بتاتاہے کہ وہ میدانوں میں بڑے بڑے قلعے بناتے اور پہاڑوںکو کھود کھود کر رہائشی مکانات تیار کرتے تھے(سورئہ اعراف آیت ۷۵)مگرجب انہوں نے خدا تعالیٰ کے نبیوں کا مقابلہ کیااوراپنے ناشائستہ افعال کواچھا قرار دیا.تو خدا تعالیٰ نے ان کو تباہ کردیااو رآج سوائے ان کے ٹوٹے پھوٹے آثا رکے جوعرب میں دکھائی دیتے ہیں ان کی طاقت اور شوکت کاکوئی نشان نہیں پایاجاتا.
زَیَّنَ لَھُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَھُمْ سے ظاہر ہے کہ ان کے اعمال تو شیطانی تھے مگرتواتراورتسلسل سے برے اعمال بجالانے کایہ نتیجہ ہواکہ انہیں اپنا روحانی کوڑ ھ بھی خوبصورت نظرآنے لگ گیا.گویاان کی آنکھیں بھی ماری گئیں اور احساسات بھی کندہوگئے.نہ اپنے اعمال کی شناعت انہیں دکھائی دی اور نہ ان کی مضرتوں کاانہیںاحساس رہا.کَانُوْامُسْتَبْصِرِیْنَ سے ظاہر ہے کہ ان پر یہ امر اچھی طرح واضح ہوچکاتھا کہ ان کی ان حرکات کانتیجہ اچھا نہیں مگر طاقت نے ان کو مغرور کردیا.اورآخر ا س کا جونتیجہ نکلا وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے.چند ٹوٹے پھوٹے قلعے اورمکینوں سے خالی عمارات دیکھنے والوں کے لئے عبرت کاسامان مہیاکررہی ہیں.اسی طرح کَانُوْامُسْتَبْصِرِیْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی اشار ہ فرمایا ہے کہ شیطان کے گمراہ کرنے سے انسان معذور نہیں سمجھاجاسکتا کیونکہ اس کے لئے حقیقت معلوم کرنے کاراستہ خدا تعالیٰ نے کھلارکھاہے جیسے ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَلَمْ نَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ وَلِسَانًاوَّ شَفَتَیْنِ وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ( البلد : ۹تا۱۱) یعنی کیا ہم نے اس کی دوآنکھیں نہیں پیداکیں اور کیا ہم نے اسے زبان او ردوہونٹ نہیں دیئے اور کیاہم نے اسے ہدایت او رگمراہی کے دونوں راستے نہیں بتادیئے؟یعنی جبکہ ہم نے اپنے انبیاء کے ذریعے اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ ہدایت کیا ہے اور گمراہی کیاہے توا س کے بعد بھی اگروہ گمراہی کی طرف جاتاہے تواس کااپناقصور ہے ورنہ خدا تعالیٰ نے اس کو اندرونی اوربیرونی دونوں آنکھیں دی ہوئی ہیں اوراگرآنکھوں سے کوئی چیز نظر نہ آئے تووہ زبان اورہونٹوں کواستعمال کرکے علماء سے اپنے شبہات کو دورکراسکتاہے لیکن اگران تما م ذرائع کی موجودگی میں بھی کوئی شخص ہدایت کاراستہ اختیار نہیں کرتا تووہ اپنی تباہی کاآپ ذمہ وار ہوتاہے.وَ قَارُوْنَ وَ فِرْعَوْنَ وَ هَامٰنَ١۫ وَ لَقَدْ جَآءَهُمْ مُّوْسٰى اورقارون اورفرعون اورہامان کو بھی (ہم نے عذاب میں گرفتار کیا).اور موسیٰ ؑ ان کے پاس کھلے کھلے نشان لے بِالْبَيِّنٰتِ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ فِي الْاَرْضِ وَ مَا كَانُوْا سٰبِقِيْنَۚۖ۰۰۴۰ کرآئے تھے.پھر بھی (وہ نہ مانے بلکہ )انہوں نے تکبر سے کام لیا اور(ہمارے عذاب سے ) بھاگ کر بچ نہ سکے.فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ١ۚ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ پس ہم نے ان میں سے ہرایک کواس کے گنا ہ کی وجہ سے پکڑلیا.سوان میں سے کوئی توایساتھا کہ ہم نے اس پر
حَاصِبًا١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ١ۚ وَ مِنْهُمْ پتھروں کا مینہ برسایا.اورکوئی ایساتھا کہ اس کوکسی اورسخت عذاب نے پکڑ لیا.اورکوئی ایساتھا کہ ہم نے اس کو مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ١ۚ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا١ۚ وَ مَا ملک میں ذلیل کردیا.اورکوئی ایساتھا کہ ہم نے اسے غرق کردیا.اوراللہ (تعالیٰ) ان پر ظلم کرنے والانہیں تھا.كَانَ اللّٰهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَ لٰكِنْ كَانُوْۤا اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ۰۰۴۱ بلکہ و ہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے.تفسیر.قارو ن اور فرعون او رہامان عاد کے بہت بعد ہوئے ہیں.مگرچونکہ ثمود فرعونِ موسیٰ ؑ کے زمانہ میں مدین کے علاقہ میں بس گئے تھے اورثمود عاد کی ہی ایک شاخ تھے اس لئے عاد اورثمود کے ذکرکے ساتھ ہامان اور فرعون کابھی ذکر کردیا.یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے بھاگ کر مدین میں ہی آئے تھے.کیونکہ وہاں عر ب آباد تھے.اسی طرح قارون کابھی ذکرکردیا جوموسیٰ ؑ کی قوم میں سے تھا.فرماتا ہے ان سب کے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام نشانات لے کر آئے لیکن انہوں نے زمین میں بڑے تکبر سے کام لیا.اورموسیٰ ؑ کاانکار کردیا.مگرجب ہماراعذاب آیاتوان کا تمام تکبر دھرےکادھرارہ گیا اوروہ ہمارے عذاب سے نہ بچ سکے.ان قوموں میں سے ہرایک کوہم نے اس کے گناہوں کی پاداش میں پکڑا.چنانچہ بعض پر توہم نے پتھروں کامینہ برسایا جیسے قوم ِ لوطؑ کے متعلق فرماتا ہے اِنَّااَرْسَلْنَاعَلَیْھِمْ حَاصِبًااِلَّآ اٰلَ لُوْطٍ(القمر : ۳۵)یعنی ہم نے ان کے تباہ کرنے کے لئے کنکروں سے بھری ہوئی ہواچلائی جس نے آلِ لوط ؑ کے سواسب کو تباہ کردیا.اسی طرح سورئہ ہود میں فرماتا ہے.وَاَمْطَرْنَاعَلَیْھَاحِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ(آیت ۸۳) ہم نے ان پرسوکھی مٹی کے بنے ہوئے پتھروں کی یکے بعد دیگرے بارش برسائی.یعنی شدید زلزلہ سے ان کی زمین باقی زمین سے کٹ کر اوپراڑ گئی اورپھر گرگئی اوروہ سب کے سب اس کے نیچے دفن ہوگئے.پھر فرماتا ہے وَمِنْھُمْ مَنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ کوئی قوم ایسی تھی جوزلزلہ سے ہلاک ہوئی.جیسے قوم ثمود کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّااَرْسَلْنَاعَلَیْھِمْ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃًفَکَانُوْاکَھَشِیْمِ الْمُحْتَظِرِ.( القمر : ۳۲)یعنی ہم نے ان پر ایک ہی دفعہ عذاب نازل کیااوروہ ایک باڑ بنانے والے کے درختوں سے گرائے ہوئے پتوں کے چُورے یا
روندے ہوئے بھس کی طرح ہوگئے.اسی طرح سورئہ ہود میں فرماتا ہے.وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاالصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(آیت ۶۸) یعنی جنہوں نے ظلم کاارتکاب کیا تھا انہیں صیحہ نے پکڑ لیا اوروہ اپنے گھروں میں زمین سے چمٹے ہوئے رہ گئے.یعنی زلزلہ کی وجہ سے ان کے مکانوں کی چھتیں ان کے اوپرآگریں اوروہ اسی حالت میں مرگئے.پھرفرماتا ہے وَمِنْھُمْ مَّنْ خَسَفْنَابِہِ الْاَرْضَ بعض ایسے تھے کہ ان کو ہم نے ملک میں ذلیل کردیا جیسے قارون کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَخَسَفْنَابِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ( القصص : ۸۲) ہم نے اسے اوراس کے قبیلہ کو مکروحات میں مبتلاکردیا اوروہ ذلیل ہوکر رہ گئے.وَمِنْھُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا.اوربعض ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے پانی میں غرق کردیا.جیسے نوح ؑ کی قوم بھی پانی میں غرق کی گئی اورفرعون بھی سمندر میں غرق ہوا.وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیَظْلِمَھُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓااَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَ میں بتایاکہ ان میں سے کوئی قو م بھی ظلماً ہلاک نہیں ہوئی بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ ان سب قوموں نے اپنی تباہی کے خود سامان پیداکئے تھے خدا تعالیٰ نے ان پرکوئی ظلم نہیں کیاتھا.مَثَلُ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَوْلِيَآءَ كَمَثَلِ ان لوگوں کاحال جنہوں نے اللہ (تعالیٰ)کو چھو ڑ کر او ردوست بنالئے مکڑی کاساحال ہے.الْعَنْكَبُوْتِ١ۚۖ اِتَّخَذَتْ بَيْتًا١ؕ وَ اِنَّ اَوْهَنَ الْبُيُوْتِ جس نے (اپنے لئے ) ایک گھرتوبنایا لیکن گھروں میں سے سب سے کمزورگھر مکڑی لَبَيْتُ الْعَنْكَبُوْتِ١ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۰۰۴۲اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ کاہی ہوتاہے.کاش! کہ یہ لوگ جانتے.اللہ (تعالیٰ ) ہراس چیز کو جس کو یہ لوگ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَيْءٍ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ اس کے سواپکارتے ہیں جانتاہے.اوروہ غالب (اور )حکمت والا ہے.
الْحَكِيْمُ۰۰۴۳وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ١ۚ وَ مَا اوریہ مثالیں ہیں.جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں.لیکن عالموں کے سواکوئی يَعْقِلُهَاۤ اِلَّا الْعٰلِمُوْنَ۰۰۴۴ ان کو اپنے پلّے نہیں باندھتا.تفسیر.گذشتہ قوموں کی ہلاکت اوربربادی کا ذکر کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ ان کی ہلاکت کے اسباب کا ذکر کرتا ہے اورفرماتا ہے کہ ان کی تباہی اس لئے ہوئی کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو چھو ڑ کر اپنے لئے بعض اورپناہ گاہیں تجویزکرلی تھیں.کسی نے کہا ہامان بڑا معزز ہے لاکھوں افراد پر اس کی حکومت ہے اگر میں نے ہامان کو خوش کرلیا تو سمجھو کہ میں کامیاب ہوگیا.کسی نے کہا ہمیں قارون سے اپنے تعلقات بڑھانے چاہئیں.مال و دولت تو اس کے قبضہ میںہے.اگرہم نے اسے خوش نہ کیا توہم توبھوکے مر جائیں گے.ا یک اورشخص کے دل میں خیال آیا کہ قارون او رہامان بھی بے شک بڑے ہیں لیکن اصل طاقت توفرعون کی ہے کیوں نہ فرعون کی غلامی اختیار کی جائے اوراس کے اشاروں پر چلنے کی کوشش کی جائے.اگر فرعون خوش ہواتو ہامان اور قارون کی بھی مجال نہیں کہ وہ ہمیں کوئی دکھ پہنچا سکیں.یہی حال عاد اورثمود کے وقت ہوا.ہودؑ اورصالح ؑ کو لوگ دیکھتے توسمجھتے کہ ان لوگوں کے پاس تو نہ کوئی طاقت ہے نہ جتھہ.نہ مال ہے نہ دولت.ہم نے ان کی بات مان لی اورایک خدا پر ایمان لے آئے توہمیں کون سا سُرخاب کاپر لگ جائے گا.ہمیں توعاد کے بادشاہوں کے ساتھ اپنے تعلقات رکھنے چاہئیں تاکہ ہم اپنی دنیوی زندگی کو بہتر بناسکیں.اورآنے والی آفات سے محفوظ رہ سکیں.قوم ثمود نے بھی یہی نظر یہ اختیار کیااوراپنی قوم کے صنادید کو اپنی پناہ گاہ بنالیا.غرض ہر ایک نے خدا کو چھو ڑکر بعض خیالی پناہ گاہیں تجویز کرلیں مگرانہیں کیامعلوم تھاکہ ان کی یہ پناہ گاہیں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہیں اوروقت آنے پر ان کاتمام تارپود بکھر جائے گا.اورنہ فرعون ان کے کام آئے گا اور نہ ہامان اورقارون انہیں خدائی عذا ب سے بچاسکیں گے.چنانچہ جب فرعون اپنے لشکر سمیت غرق ہواتواس وقت ان کامجازی خداکہاں گیااوراس نے کیوں اپنے لشکر کو غرق ہونے سے نہ بچالیا؟ بلکہ اس نے کسی اورکوکیابچاناتھاخود بھی سمندر میں غرق ہوگیا.اوراسے اپنی پناہ سمجھنے والے بھی غرق ہوگئے اوردنیاپر ثابت ہوگیا کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کو چھو ڑکر دوسروں کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں وہ ویسے ہی تباہی کے قریب جارہے ہوتے ہیں
جس طرح مکڑی اپنے جالے میں بیٹھ کر یہ سمجھتی ہے کہ وہ حوادث زمانہ سے محفوظ رہے گی.قرآ ن کریم نے بار بار مسلمانو ں کو اس اہم نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے اوربا ربار کہا ہے کہ اِتَّقُوْااللّٰہَ اے مسلمانو! تم خدا کواپنی ڈھال بنائو.یعنی اسے اپنے بچائو کاذریعہ سمجھو.بے شک تم اسباب سے بھی کام لو.کیونکہ اسباب سے کام لینا خود خدا تعالیٰ کے پیداکردہ سامانوں سے کام لینا ہے مگر کبھی یہ خیال نہ کرو کہ و ہ اسباب اور ذرائع ہی حقیقی چیز ہیں.اصل مدد خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اوراگراس کی مدد شامل حال نہ ہوتوکوئی سامان فائدہ نہیں پہنچا سکتا.آخرسوچو کہ کیا عاد اور ثمود کے پاس کم سامان تھے.کیاقارون اور فرعون اورہاما ن کم طاقتیں رکھتے تھے.پھر کیا ان کی یہ طاقتیں انہیں خدائی عذاب سے بچاسکیں.پس اسباب پرانحصار رکھنااور انہی کو اپنی نجات کاموجب سمجھنا بڑی نادانی ہے مومن کااصل مقام وہی ہے جو اِیَّاکَ نَعْبُدُوَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں بیان کیاگیا ہے.یعنی عبادت بھی سچے دل سے خدا تعالیٰ کی ہی کی جائے اورمدد بھی اسی سے حاصل کی جائے.کیونکہ خدا تعالیٰ کی احتیاج عبادت بھی ہے لیکن بندوں کی احتیاج ذلت ہے.اگر کوئی شخص کامیابی کے اس ایک ہی دروازہ کو اپنے اوپر بند کرلیتا ہے تواس کی ہلاکت اس کے سر پر منڈلاناشروع کردیتی ہے.اورآخراسے انتہائی حسرت کے ساتھ ناکامی کامنہ دیکھناپڑتا ہے.پھر بیت العنکبوت کی مثال دے کر اللہ تعالیٰ نے ا س امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ جس طرح گھر کہہ دینے سے عنکبوت کا گھر گھر کاکام نہیں دے سکتا.اسی طرح محض مذہب کا لبادہ اوڑھ لینے اوراس کے نام کا لیبل اپنے اوپر چپکا لینے سے وہ مذہب انسان کی نجات کا موجب نہیں بن سکتا.نجات کا موجب وہ صرف اسی صور ت میں بن سکتا ہے جب انسا ن کے اندر و ہ روح بھی پیداہوجائے جومذہب پیداکر ناچاہتاہے.اگر یہ روح پیدا نہیں ہوتی تواس کامحض ایک نام اختیار کرکے تسلی پاجانااور عملی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی بجائے غیر اللہ کی طرف جھکے رہنا ایسی ہی کم عقلی کی بات ہے.جیسے عنکبوت کا اپنے گھر کو گھر سمجھ لینا.حقیقت یہ ہے کہ گواس دنیا میں ہزاروں مذاہب پائے جاتے ہیں اورہرمذہب کاپیرو دوسرے مذاہب کے پیروئو ںسے شدید اختلاف رکھتاہے لیکن سینکڑوں اختلافات کے باوجود دنیا کے تما م مذاہب کے پیرو اس امر پر متفق ہیں کہ مذہب کی حقیقی غرض اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرناہے.اورجب مذہب کی اصل غر ض یہی ہے تو ایک دیانتدار انسان کافرض ہے کہ وہ ہروقت اپنے اعمال کاجائز ہ لیتارہے او ریہ دیکھتارہے کہ اس نے کہا ں تک ان پھلو ں کوحاصل کیا ہے جو سچے مذہب پر چلنے کے نتیجہ میں حاصل ہواکرتے ہیں.حضر ت مسیح ناصر ی علیہ السلام نے اسی نکتہ کی طرف اشار ہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ درخت اپنے پھلو ںسے
پہچاناجاتاہے.مگراس کایہ مفہوم نہیں کہ اگر درخت کو پھل نہ لگا ہو تو درخت پہچانانہیں جاسکتا.معمولی زمیندار بھی چاہے وہ باغبان نہ ہو درختوں کو بغیر پھل کے پہچان لیتے ہیں.کیونکہ در ختوں کی شاخیں او رپتے الگ الگ قسم کے ہوتے ہیں.آم کاپتہ الگ قسم کاہوتاہے.انار کاپتہ الگ قسم کاہوتاہے.شہتوت کاپتہ الگ قسم کاہوتا ہے لیچی کاپتہ الگ قسم کاہوتاہے.مالٹے کاپتہ الگ قسم کا ہوتاہے.سیب کا پتہ الگ قسم کا ہوتاہے یہ علیحدہ بات ہے کہ ایک پنجاب کارہنے والا آد می افغانستان یاکشمیر کے درختوں کو نہ پہچان سکے لیکن عام درخت جواس کے علاقہ میں پائے جاتے ہیںان کو وہ پہچان لیتا ہے خواہ ان درختوں کو پھل نہ لگا ہواہو.پس حضرت مسیح ناصریؑ کے اس قو ل کے یہ معنے نہیں کہ جب تک درخت پر پھل نہ لگے و ہ پہچانانہیں جاتا بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ درخت کی اصل قیمت اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے پھل لگاہواہو.چنانچہ دیکھ لو ہرآم کے درخت کو آم لگتے ہیں لیکن بعض آم ا س قسم کے ہوتے ہیں کہ وہ کھانے کے کام نہیں آتے بلکہ لوگ ان کاآچار ڈال لیتے ہیں اور بعض ایسے ردی ہوتے ہیں کہ آچار کے کام بھی نہیں آتے.اوربعض آم ایسے ہوتے ہیں جوسودودوسوروپے سینکڑہ بکتے ہیں.اب نام تو سب کاآم ہی ہوتاہے.لیکن بعض درختوں کا پھل بہت مہنگا بکتاہے اورباغبان ان کی خاص طور پر حفاظت کرتاہے اوربعض درختوں کے ردّی پھل کو دیکھ کر باغبان کاٹ ڈالتاہے اورکہتاہے کہ ان کی جگہ میں کوئی اورپودہ لگائوں گا.اسی طرح مذہب بھی اپنے ساتھ بعض پھل رکھتاہے.اگروہ پھل کسی شخص میں پائے جائیں تواس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ سچے مذہب کاپیروہے.لیکن اگروہ پھل نہ پائے جائیں تومحض زبان سے کسی مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا اسے نجات نہیں دے سکتا.خود حضرت مسیح ناصریؑ کاایک حواری ایساتھا جس نے تیس درہم یعنی ساڑھے سا ت روپے میں حضر ت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا.بیچنے کالفظ اس لئے بولاجاتاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو پولیس تلاش کرتی رہتی تھی لیکن آپ ان کے ہاتھ نہیں آتے تھے.آپ کو پولیس کی آمد کاعلم ہوجاتاتھااورآپ وہاں سے روپو ش ہوجاتے تھے.ایک شخص جو کہ کئی سال تک دھڑلّے سے اپنی تبلیغ کودنیا تک پہنچاتا رہا اور لوگوں کے سامنے تقریریں کر تارہااس کے متعلق ہم یہ تونہیں سمجھ سکتے کہ پولیس ا سے پہچان نہ سکتی تھی.پولیس آپ کو پہچانتی توتھی.لیکن معلوم ہوتاہے مسیح علیہ السلام ایسے طور پر رہتے تھے کہ لوگوں کو آپ کاعلم نہ ہوتا.جیساکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کرتے ہوئے اپنے ار د گرد ایسے طور پر چادر لپیٹ لی کہ کو ئی آپ کو پہچان نہ سکے.روایات میں آتاہے کہ ایک شخص نے حضرت ابو بکر ؓ سے پوچھا کہ یہ آپ کے ساتھ کون ہے توآپؓ نے فرمایا.یہ میراہادی ہے.ھادی کے دونوں معنے ہوسکتے ہیں.یہ بھی کہ یہ میراآقاہے اور یہ بھی کہ یہ مجھے راستہ دکھانے
والا ہے.اس شخص نے سمجھا کہ یہ شخص راستہ دکھانے والا ہے.اوروہ خاموشی سے چلا گیا.یہ سچ کاسچ تھا او ربات کا پتہ بھی نہ لگ سکا.اسی طرح معلوم ہوتاہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام لباس وغیرہ تبدیل کرلیتے تھے اورجگہ بدل لیتے تھے اور پہچانے نہ جاتے تھے.آخر پولیس نے یہ تجویز کی کہ مسیح ؑ کے حواریوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ ملایاجائے.چنانچہ انہوں نے یہودااسکر یوطی کو تیس درہم دے کر اپنے ساتھ ملایا.اس نے کہا کہ مجلس میں مَیں جس کے ہاتھ پربوسہ دو ںوہی مسیح ہوگا.چنانچہ وہ مجلس میں آیا اور اس نے آتے ہی اے استاد کہہ کر حضرت مسیح علیہ السلام کے ہاتھ کو چوم لیا.اس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا.اب وہ شخص بھی بظاہر مومن کہلاتاتھا اور حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں میں اپنے آپ کو شامل کرتاتھا.مگراپنی بدبختی سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی گرفتاری کاموجب بن گیا.حضرت مسیح علیہ السلام کو پکڑوانے سے پہلے وہ آپ کے ساتھ کھاناکھارہاتھا کہ آ پ نے الہام کے ذریعہ خبر پاکر بتایاکہ جو شخص میرے پکڑ وانے کاموجب ہوگا اس کااورمیراہاتھ اس وقت پیالے میں اکٹھاپڑ رہاہے.ا س وقت یہودااسکریوطی آپ کے ساتھ کھاناکھارہاتھا وہ سمجھ گیا کہ یہ میرے متعلق ہے اوراس نے کہا کہ اے استاد! یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ مسیح علیہ السلا م نے کہا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جوپوری ہوکررہے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور اس شخص نے ساڑھے سات روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا.ذلیل سے ذلیل چوروں کے سامنے بھی گورنمنٹ بعض دفعہ پانچ پانچ دس دس ہزار روپے پیش کرتی ہے کہ اپنے ساتھیوں کوپکڑوادو.لیکن وہ نہیں پکڑواتے مگر ا س نے ساڑھے سات روپے لے کر اپنے رہبر کو پکڑوادیا.تودرحقیقت صرف مذہب کالبادہ اوڑھ لینا اور مذہب کے نام پرخوش ہوجاناانسان کے کسی کام نہیں آسکتا.جس طرح عنکبوت کاگھر بظاہر گھرہی کہلاتاہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتاکہ اس میں گھر کی خصوصیات بھی موجود ہیں اسی طرح صرف سچے مذہب میں شامل ہونا انسان کی نجات کاباعث نہیں بن سکتا نجات کے لئے ضروری ہوتاہے کہ انسان غیراللہ سے کامل انقطاع کرکے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجائے اوراسی سے اپناتعلق قائم رکھے.اگروہ ایسا نہیں کرتا تووہ بیت العنکبوت میں اپناسرچھپاتاہے.درحقیقت اگرسوچاجائے تومذہب جس پر دنیا کااکثر حصہ فریفتہ ہے وہ اپنے اندر ایک ہی خصوصیت رکھتاہے.اوروہ خصوصیت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ او ربندہ کے درمیان تعلق پیدا کیاجائے.دنیا میں کئی قسم کی نیکیاں پائی جاتی ہیں.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہوتوبھی لوگ وہ کام کرتے ہیں اوردوسروں سے کرواتے ہیں.مثلاً ماں باپ سے محبت کرنا.ایک دہریہ بھی اپنے ماں باپ سے محبت کرتاہے.ایک فلسفی بھی اپنےماں باپ سے محبت رکھتاہے.ایک حریص اورلالچی انسان جودوسروں کامال لو ٹ کراپنا گھر بھر ناچاہتاہے وہ بھی جب ماں باپ کے سامنے آتا ہے تواس کی
آنکھوں میں محبت کی جھلک آجاتی ہے.ایک ڈاکو اورقاتل انسان بھی ماں باپ سے محبت کرتاہے اوربسا اوقات وہ قاتل اور ڈاکو بنتاہی اس لئے ہے کہ کسی نے اس کے ماں باپ ،بہن بھائی یاکسی اوررشتہ دار پر ظلم کیاہوتاہے اوروہ اس کابدلہ لینے کے لئے ڈاکو بن جاتاہے.اورمذہب بھی یہی کہتاہے کہ ماں باپ سے محبت کاسلوک کرو اوران کا احترام کرو.پھر مذہب کہتاہے بیوی سے محبت کرو.اوراس کااحترام کرو.مذہب کہتاہے عورت اپنے خاوند سے محبت کرے اورا س کا احترام کرے.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہوتو بھی لو گ اپنی بیویوں سے محبت کریں گے.اگر مذہب نہ بھی ہوتو بھی عورتیں اپنے خاوندوں سے محبت کریں گی اوران کاحترام کریں گی.پھر مذہب کہتاہے جھوٹ نہ بولو.اب اس کے لئے کسی مذہب کی ضرورت نہیں.جن قوموں میں کو ئی مذہب نہیں پایاجاتا مثلاً پرانے حبشی قبائل ہیں جو خدااوراس کے رسول اورکتاب پر ایمان نہیں رکھتے انہیں دیکھ لووہ بھی شریف انسان کی یہی تعریف کریں گے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا.حالانکہ وہ کسی مذہب کے متبع نہیں.ان کارسول اورکتاب پر ایمان نہیں ہوتا.لیکن شرافت کے ساتھ سچ کاتعلق وہ بھی مانتے ہیں.پھرچوری کے ساتھ بھی مذہب کاکوئی تعلق نہیں.مذہب بے شک یہ کہتاہے کہ چوری نہ کرو.لیکن جہاں مذہب نہیں وہاں بھی شرافت یہ کہتی ہے کہ چوری کرنا براہے.پھر لڑائی جھگڑادنگافساد.غیبت اور دوسرے سے بغض اور کینہ رکھنا ہے.مذہب ان سے منع کرتاہے.لیکن اگر مذہب نہ بھی ہوتوبھی ایک شریف انسان ان برائیوں سے اجتناب کرے گا.پس یہ تمام چیزیں ایسی ہیں کہ جہاں مذہب نہیں وہاں بھی پائی جاتی ہیں.اورجہاں مذہب ہے وہاں بھی یہ سب موجود ہیں.اگر کوئی چیز ایسی ہے کہ جہاں مذہب ہے وہاںتووہ موجود ہے لیکن جہاںمذہب نہیں وہاں وہ موجود نہیں.تووہ خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کاخیال ہے.اگر مذہب نہیں توانسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کاخیال نہیں رکھتا.وہ کہے گامجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی کیا ضرورت ہے یاوہ سرے سے خدا تعالیٰ کاہی انکار کردے گا.لیکن ایک مذہب کاپابند انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کا محتاج ہوتاہے.ہرمذہب کاماننے والاکہے گاکہ مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی ضرورت ہے.لیکن اس امتیازی شان کو کس حد تک اختیار کیا جاتا ہے.کہنے کوتوہر مذہب والا یہی کہتاہے کہ مجھے خدا تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی ضرورت ہے لیکن کتنے لوگ ہیں جن میں تعلق باللہ پیداکرنے کااحساس ا س شدت سے پایا جاتا ہے جس شدت سے وہ پایاجاناچاہیے.سومیں سے ننانوے نہیں.ہزار میں سے نوسوننانوے نہیں بلکہ ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نوسوننانوے اورشائداس سے بھی کم وہ لوگ نکلیں گے جن میں مذہب کاخیال توہے لیکن خدا تعالیٰ کی محبت نہیں اورصرف یہی نہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ سے محبت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ سے محبت پیداکرنے کا خیال بھی ان میں
نہیںپایاجاتا.ایسی صورت میں کون خیال کرسکتاہے کہ انہوں نے سچے دل سے کسی مذہب کواختیارکیاہواہے.تم اگر عرق گائو زبان کی بوتل پر روح کیوڑہ لکھ دوتوکیا وہ روح کیوڑہ بن جائے گا؟ پانی پر اگر روح گلاب لکھ لیاجائے تواس سے کیا بنتاہے جب اندر روح گلاب نہ ہو.یہ تودھوکاہوگا.دھوکہ بازعطاراسی طرح کرتے ہیں.علاقہ میں وباء شروع ہوتی ہے مثلاً ملیریا شروع ہوتاہے اورحکیم لکھناشروع کردیتے ہیں کہ مریض کو عرق مکو اورعرق گائو زبان پلائو تو ایک دیانت دار عطار بعض دفعہ کہہ دے گا کہ میرے پاس عرق مکو اورعرق گائو زبان تیار نہیں.لیکن بددیانت عطارکہے گا.میرے پا س دونوں چیزیں موجود ہیں.وہ پانی لے گابوتل میں بھر ے گااو رکہے گا.یہ عرق مکو ہے یہ عرق کاسنی ہے.یہ عرق گلاب ہے.تم جو عرق بھی مانگو گے وہ اس کے پاس موجود ہوگا.اسی طرح تم کوئی نام رکھ لو.تم مٹی کانام سونارکھ لو تومٹی سونانہیں بنے گی.تم دنیا داری کانام مذہب رکھ لیتے ہوتوتمہیں مذہب کوئی فائدہ نہیں دے گا.مذہب اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں دیتا جب تک کہ تعلق باللہ پیدانہ ہو.اوراگر تعلق باللہ کے بغیرکوئی شخص کسی مذہب کواختیار کرکے یہ سمجھتاہے کہ وہ محفوظ ہوگیاہے تووہ ایسا ہی نادان ہے جیسے مکڑی کے گھر کو گھر سمجھنے والا.پھر فرمایا.اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَایَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْءٍ.اللہ تعالیٰ کوچھوڑ کر جن ہستیوں پر یہ لوگ انحصار رکھتے ہیں.ان کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ خوب جانتاہے یہ لوگ توفانی اورکمزور انسانوںکواپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں.بلکہ بعض دفعہ پتھر کے بے جان بتوں کے آگے اپنے سرجھکادیتے ہیں اوربعض دفعہ مردوں کی قبروں پر کھڑے ہوکر ان سے دعائیں کرتے اورانہیں اپنی مدد کے لئے پکار تے ہیں.مگراللہ تعالیٰ جانتاہے کہ ان ہستیوں کی کیاحقیقت ہے.بڑے سے بڑازبردست بادشاہ بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک مچھر کے پرجتنی حقیقت بھی نہیں رکھتا.چلتے چلتے اگرکسی کاہارٹ فیل ہوجائے توخواہ دنیا کابڑے سے بڑابادشاہ بھی اس کادوست ہو وہ دنیا کی ساری دولت خرچ کرنے کے باوجود اسے زندہ نہیں کرسکتا.کسی پر بجلی آگرے یاوہ دریامیں غرق ہوجائے یاآگ میں جل جائے یاہوائی جہاز کے حادثہ میں ہلاک ہوجائے یاریل اورموٹر کی ٹکر کے نتیجہ میںمرجائے توکون ہے جواسے بچاسکے.دنیا کے ڈاکٹر امراض کے علاج میں بڑی بھاری مہارت رکھتے ہیں مگرجب خدا تعالیٰ کی طرف سے موت کاپیغام آجاتاہے توبڑے بڑے ڈاکٹر منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں.اورانسانی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرجاتی ہے.پھرایسی بے حقیقت پناہ گاہوں پر انحصاررکھنا اورخدا تعالیٰ کو چھو ڑکر دوسروں کی طرف اپنی مدد کے لئے ہاتھ پھیلاناکتنی بڑی نادانی ہے.پھر وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ فرماکراس طرف اشارہ کیاکہ انسان کو کامیابی اسی صورت میں حاصل ہوسکتی ہے جب وہ ایک غالب ہستی سے تعلق رکھے جیسے کسی نے کہاہے ؎
’’ یارِ غالب شَو کہ تاغالب شوی ‘‘ اورغالب ہستی سوائے خدا تعالیٰ کے اورکوئی نہیں.مگرمحض غلبہ کے نتیجہ میں چونکہ یہ ڈر بھی ہو سکتا ہے کہ دوسرے لوگ ناانصافی کاشکار نہ ہوجائیں اس لئے خدا تعالیٰ صرف عزیز ہی نہیں بلکہ و ہ حکیم بھی ہے یعنی اس کے تمام کام اور تمام حکم حکمت پر مبنی ہوتے ہیں.ان میں کسی ظلم یاحق تلفی کاکوئی امکان نہیں ہوتا.پس انسان کی سلامتی کی یہی راہ ہے کہ وہ عنکبوت کی سی خیالی پناہ گاہوںکو چھوڑ کر عزیز اورحکیم خدا سے اپنا تعلق پیداکرے.آخر میں وَمَایَعْقِلُھَآاِلَّاالْعٰلِمُوْنَ کہہ کربتایا کہ ہم نے قارون اورفرعون اورہامان وغیرہ کے واقعات توبیان کردیئے ہیں.مگران سے فائدہ صرف وہی لوگ اٹھائیں گے جواپنے اندر خدا تعالیٰ کی خشیت کامادہ رکھیں گے باقی لوگ فرعون اورہامان وغیرہ کے نقش قدم پر انبیاء کاانکار کرتے چلے جائیں گے.اس جگہ عالم سے دنیوی علوم کے ماہر مرادنہیں بلکہ وہ لوگ مرادہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی خشیت پائی جاتی ہے.اورجن کے متعلق قرآن کریم نے ایک دوسری جگہ صراحت فرما دی ہے کہ اِنَّمَایَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(الفاطر : ۲۹) یعنی اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے صرف علماء ہی اس سے ڈرتے ہیں.یعنی وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھتے ہیں.خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً اللہ (تعالیٰ ) نے آسمانوں اور زمین کو خاص مقصد کے لئے پیدا کیاہے.اس میں مومنوں کے لئے لِّلْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۴۵ ایک بڑانشان ہے.تفسیر.اب اللہ تعالیٰ اپنے عزیز اورحکیم ہونے کے ثبوت میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق کو پیش کرتاہے اور فرماتا ہے کہ اگر بڑی بڑی طاقتور قوموں او رحکومتوںکی تباہی دیکھ کر بھی تمہیں خدا تعالیٰ کے عزیز اورحکیم ہونے کاثبوت نظر نہیں آتا توتم آسمانوں اورزمین کی پیدائش پرغور کرو.تمہیں معلوم ہوگاکہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایاہے.یعنی ان میں ایسے قوانین جاری کئے ہیں جن کو کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا.ایک دہریہ اپنی زبان سے خدا تعالیٰ کا انکار تو کرسکتاہے لیکن وہ خدائے عزیزکے قانون کو
بدل کرکانوں سے بولنے اورزبان سے سننے کاکام نہیں لے سکتا.اسی طرح اگر وہ چاہے کہ آگ انسانی جسم کو نہ جلائے یاٹھنڈاپانی اس کے جسم کو ٹھنڈانہ کرے تووہ ایسانہیں کرسکتا.یااگروہ سورج اورچاند اورستاروں کے افعال میں کوئی تغیر پیداکرناچاہے.تونہیں کرسکتا.وہ اگر تیز مرچ استعمال کرےگا تو خدائے عزیز کاقانون اسے پیچش کی صورت میں اس کے اس جرم کی ضرورسزادے گا اوراگروہ اسے دورکرناچاہے گا توپھر بھی اسے خدا تعالیٰ کے ایک دوسرے قانون کی طرف جاناپڑے گا یعنی ایسی اشیاء استعمال کرنی پڑیں گی جوان مرچوں کے اثر کوباطل کردیں.بہرحال خداتعالی کاقانون اس پر غالب ہے اورپھر آسمانوں او رزمین کی تخلیق سے خدا تعالیٰ کاحکیم ہونابھی ظاہر ہے کیونکہ دنیا کے تمام علوم کی بنیادیں اشیاء کے غیر متبدل خواص او رقدرت کے اٹل قوانین پر ہیں.اگرآگ کبھی جلاتی اور کبھی نہ جلاتی یاپانی کبھی پیاس بجھاتااور کبھی آگ لگادیتا توسائینس کبھی ترقی نہ کرسکتی.پس جہاں انبیاء کے مخالفین کی تباہی خدا تعالیٰ کے غالب اورحکیم ہونے کاثبوت ہے.وہاں زمین وآسمان کااٹل قوانین پرمبنی ہونا بھی بتارہاہے کہ خدا تعالیٰ ہی سب پر غالب ہے.پھر زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اتنے بڑے کارخانہ پرغورکرکے تم سمجھ سکتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اسے بےفائدہ پیدا نہیں کیا.اگریہ تمام نظام صرف اس لئے ہوتا کہ انسان اس پر چند دن زندگی گذارے اورپھر ہمیشہ کے لئے فناہوجائے تویقیناً یہ تمام کام عبث ٹھہرتا.پس آسمان اور زمین کی پیدائش خود اپنی ذات میں اس بات کاثبوت ہے کہ انسان ایک بہت بڑے مقصد کے لئے پیدا کیاگیاہے او رموت صرف جسم اور روح کے جداہوجانے کانام ہے ورنہ زندگی غیرمحدود ہے.اورہرانسان اپنے اعمال کے مطابق آئندہ ترقی یا تنزل کے راستہ پر چلنے والا ہے.اسی طرح زمین وآسمان کی پیدائش کا ذکر کرکے دشمنانِ انبیاء کوا س طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ جس طرح زمین آسمانوں کے بغیر اپنی طاقت اورقابلیت کااظہار نہیں کرسکتی اسی طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں صرف اپنی عقل اور دماغ سے کام لے کر و ہ ترقی کرسکتے ہیں و ہ بھی اپنی تباہی کااپنے ہاتھو ںسامان کرتے ہیں کیونکہ زمین اسی صورت میں کام کے قابل ہوسکتی ہے جب اس پرآسمان ہو.اسی طرح کوئی عقل انسانی راہنمائی کے لئے کافی نہیں جب تک آسمان سے الہام کاپانی نازل نہ ہو.اگروہ آسمان روحانی سے قطع تعلق کرلیںگے تو ایک مردہ زمین کی طرح ہرقسم کے منافع سے محروم ہوجائیں گے.اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ کہہ کر بتایا کہ آسمانوںا ورزمین کی تخلیق میںبڑابھاری نشان توہے مگراس سے
فائدہ صرف مومن اٹھاتے ہیں دوسرے لو گ اتنا بڑانشان دیکھنے کے باوجود کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے حالانکہ انسان اگر سوچے تو ہماری یہ زمین عالم شمسی کے مقابلہ میں بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک بڑے باغ میں کوئی مالٹارکھاہو اہو.مثلاً شالامار باغ میں کوئی مالٹایابیر پڑاہوتواس بیریامالٹے کی جوحیثیت شالامار کے مقابلہ میں ہے اس زمین کی عالم شمسی کے سامنے اتنی حیثیت بھی نہیں.پھر عالم شمسی یعنی سورج کے ساتھ جوسیار ے وغیر ہ ہیں ان کی حیثیت قطب ستارے کے نظام کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک بیر کی حیثیت باغ کے مقابلہ میں.یاایک مکھی کی حیثیت شہر کے مقابلہ میں ہوتی ہے.پھر قطب ستارے کے ساتھ جو دنیا ہے اس کی حیثیت معلومہ دنیا کے مقابلہ میں اتنی بھی نہیں جتنی ایک مکھی کی شہر کے مقابلہ میں.اگرانسان اس کا اندازہ لگا ناشروع کردے کہ عالم خلق کے مقابلہ میں مکھی کی کیا حیثیت ہے اورپھر سوچے کہ عالم خلق کے مقابلہ میں انسان جوایک خورد بینی ذرے کی حیثیت رکھتاہے بلکہ وہ اس کے مقابلہ میں ایک خوردبینی ذرے کے اربویں حصہ توکیااس کے اربویں حصہ کے اربویں حصہ کی حیثیت رکھتاہے اس انسان کوپیداکرنے کاخیال خدا تعالیٰ کوکیوں آیا.تویقیناً اسے اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کاخیال آسکتاہے اوروہ سمجھ سکتاہے کہ اس کی حیثیت کتنی کمزو رہے اوراس کاغرور کتنا احمقانہ ہے.و ہ انسان جو کہتاہے کہ مکاماروں توتمہارے دانت نکال دو ں.فرشتوں کے نزدیک اس کی حیثیت ایک چیونٹی کے پنجے کی طرح ہے جس طرح چیونٹی(اگراسے زبان مل جائے )کہے کہ میں لات مارکر امریکہ کو اڑادوں توتمہیں کتنی ہنسی آئے گی.اسی طرح جب انسان کہتاہے کہ میں مکا مارکرتمہارے دانت نکال دوں گا توفرشتوں کے نزدیک اس کی حیثیت چیونٹی کے پنجے کی سی بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے.گویاعالم مخلوق کے مقابلہ میں انسان کی کچھ بھی حیثیت نہیں.وہی بادشاہ جن کے اعلانوں سے دنیا میں کھلبلی مچ جاتی ہے ان کے جسم میں ایک باریک خوردبینی کیڑا دق.سل یاہیضہ کا چلاجاتاہے تووہ تڑپنے لگ جاتے ہیں اور ایک معمولی ڈاکٹر کے سامنے چلّاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب خداکے لئے میراعلاج کریں.مجھے سخت تکلیف ہے.یاتو وہ اپنے سامنے کسی دوسرے کو سمجھتے ہی کچھ نہیں اوریاوہ دوچار سوروپیہ پانے والے ایک ڈاکٹر کے سامنے تڑپ رہے ہوتے ہیں.وہ ڈاکٹر جس کے دل میں ان کی تندرستی کے دنوں میں اگرانہیں ملنے کی خواہش ہوتووہ انہیں مل بھی نہ سکے وہ بیماری میں اس کے آگے سر جھکادیتے ہیں.پس انسان کو سوچنا چاہیے کہ آخر اس کی پیدائش کی کیاغر ض ہے.اس کی پیدائش کی کوئی نہ کوئی غرض توہوگی.قرآن کریم کہتاہے کہ خدا تعالیٰ نے کوئی چیز بے فائدہ اور عبث پیدا نہیں کی اور جب کوئی چیز بھی بے فائدہ نہیں توہرانسان کو اپنی پیدائش کے مقصد پر غور کرنا چاہیے اورسوچناچاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے کے لئے پیدا کیاہے؟ اوراگر وہ اس بات پر غور نہیں کرتا تووہ یقیناً اپنی
زندگی کو ضائع کرتاہے.اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ اس کتاب (یعنی قرآن )میں سے جوکچھ تیری طرف وحی کیا جاتا ہے اسے پڑھ (اورلوگوںکوپڑھ کرسنا )اورنماز الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ کو (اس کی سب شرائط کے ساتھ )اداکر.یقیناً نماز سب بری اورناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے.اوراللہ (تعالیٰ ) اَكْبَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۰۰۴۶ کی یاد یقیناً(اورسب کاموں سے )بڑی ہے.اوراللہ (تعالیٰ) تمہارے اعمال کو جانتاہے.تفسیر.فرماتا ہے چونکہ مومنوں کے لئے آسمان اور زمین کی پیدائش میں ایک بہت بڑانشان ہے مگر کافراس کی حقیقت کو نہیں سمجھتے اس لئے اب یہی علاج باقی ہے کہ توقرآن کریم لوگوں کو سنا تارہ تاکہ اس کی مدد سے لوگ حقیقت کوسمجھیں اور انہیں بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی طرف توجہ پیداہو.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی کاتما م دارومدار قرآن کریم پر ہی ہے اوران کے تنزل کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ دیا ہے.نہ وہ خود قرآن کریم پر عمل کرتے ہیں اور نہ دوسروں کوقرآن کی طرف توجہ دلاتے ہیں.حالانکہ مسلمانوں کی زندگی کادارومدار ہی قرآن کریم پر ہے.یہ ایک روحانی غذاہے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے تیار کی ہے.لیکن جس طرح غذاکی کئی شکلیں ہوتی ہیں.مثلاً آٹے سے کبھی پراٹھے تیار کئے جاتے ہیں کبھی پھُلکے اور کبھی تنور کی روٹیاں بنائی جاتی ہیں.اسی طرح قرآن کریم کی غذابھی کئی شکلوں میں تبدیل ہوگئی ہے.کہیں یہ غذانماز کی شکل اختیار کر گئی ہے کہیں روزہ کی شکل اختیار کرگئی ہے کہیں حج کی شکل اختیار کرگئی ہے.کہیں زکوٰ ۃ کی شکل اختیار کرگئی ہے.گویاکہیںیہ پراٹھا بن گئی ہے کہیں پنجیری بن گئی ہے.کہیں گُلگُلے بن گئی ہے.مگر ہے وہی چیز.لیکن ان چیزوں کاصرف بن جاناکافی نہیں جب تک ہم انہیں چبائیں نہیں.انہیں نگلیں نہیں.جب تک یہ غذامعدہ اورانتڑیوں کے دَور سے نہ نکلے اس سے فائدہ حاصل نہیں کیاجاسکتا.اسی لئے میں نے ’’ذہنی جگالی‘‘کی ایک اصطلاح بنائی ہوئی ہے.یعنی بغیر ذہنی جگالی کے روحانی غذاہضم نہیں ہوتی.ایک جانورمعدہ سے چارہ نکالتاہے اورپھر اسے چباتاہے.کیونکہ اس
کے معدہ میں اتناسامان نہیں ہوتا کہ وہ چار ہ کوہضم کرے.اور چونکہ معدہ اس غذاکو ہضم نہیں کرتا اس لئے وہ پہلے جلدی جلدی چار ہ کھا لیتا ہے اورجب کھُرلی پربیٹھتاہے توو ہ جگالی کرتاہے.چونکہ ایک جانور چوبیس گھنٹہ تک خوراک جنگل میں نہیں کھاسکتا.اس لئے وہ جلدی جلدی خوراک کھاتاجاتاہے لیکن جب کھرلی پر آتاہے توپہلے ایک لقمہ نکالتاہے اورجگالی کرتاہے اوراسے خوب چباتاہے پھرایک اورلقمہ نکالتاہے اوراسے چباتاہے.پھر ایک اور لقمہ نکالتاہے اوراسے چباتاہے.اسی طرح روحانی جگالی کی کیفیت ہوتی ہے.جوشخص قرآن کریم پڑھ لیتا ہے یا اس کی تلاوت کرلیتا ہے قرآن کریم اسے ہضم نہیں ہوتا.اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے ایک جانور گھاس کھالیتا ہے یاانسان کوئی لقمہ منہ میں ڈال لیتا ہے لیکن اگرتم لقمے نگلتے جائو اورانہیں چبائو نہیں توتمہاری انتڑیوں میں سوزش پیدا ہوجائے گی.دست آنے لگ جائیں گے یا قے آجائے گی اورروٹی باہر نکل آئے گی.یہی حال روحانی غذاکا ہے.جولوگ جگالی نہیں کرتے.وہ اس غذاسے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے یہودیوں کی مثال اس گدھے سے دی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں.جولوگ ذہنی جگالی نہیں کرتے وہ کتاب تو پڑھ لیتے ہیں لیکن اس پر غور وفکر نہیں کرتے اوراس وجہ سے اس سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے.قرآن کریم سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے ان مراتب میں سے گذاراجائے جس سے اس کے مضامین ہضم ہوجائیں.جب تک اسے ان مراتب میں سے گذارانہیں جائے گا و ہ ہضم نہیں ہوگا.پس قرآن کریم پڑھنے کے بعد سوچنے کی عادت ڈالو.اورسوچنے کے بعد اس پر عمل کرو.اگر تم ایساکرو گے توتم ایک زندہ اورفعال قوم نظر آنے لگ جائو گے اوردنیا تمہیں دیکھ کر حیران رہ جائے گی.لو ہے کودیکھ لو.یور پ اس سے انجن بناتا ہے.لیکن ہمارے ملک میں اس سے محض ہتھوڑے وغیرہ بنائے جاتے ہیں.یازیاد ہ سے زیادہ قینچیاں بنالیتے ہیں.پرانے زمانہ میں عورتیں سیرسیر سوناکانوں میں ڈال لیتی تھیں.ان کے کان لٹک جاتے تھے ان میں بڑے بڑے سوراخ ہوجاتے تھے اوروہ سمجھتی تھیں ہم بڑی مالدار ہیں.لیکن اسی سونے سے یورپ کے ممالک نے بعض اشیاء تیار کیں.اوران کے ذریعے دوسرے ممالک سے کئی گنازیاد ہ مال لے آئے.پس کسی چیز کاموجود ہوناکافی نہیں.تم اس بات پر فخر نہ کرو کہ تمہارے پاس قرآن کریم موجود ہے.اگرتمہارے پاس قرآن کریم موجود ہے توسوال یہ ہے کہ تم نے اس سے کیافائدہ اٹھایا؟ اگرتم قرآن کریم پڑھ کراس سے فائدہ اٹھاتے ہو توتم سے بڑھ کر خوش قسمت اورکوئی نہیں.اوراگرتم اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے توتم سے بڑھ کر بدقسمت بھی اورکوئی نہیں.کیونکہ تمہاری جیبوں میں سونابھراہے مگرتم اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکے.
میرے پاس ایک دفعہ دیوبند کے دوطالب علم آئے.انہوں نے کہیں سے یہ سن لیاتھا کہ میں نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی.میرے پاس کچھ او ردوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ دونوں طالب علم بھی آکر بیٹھ گئے.اوران میں سے ایک جو زیادہ تیز معلوم ہوتاتھا اس نے کہا.آپ کہاں تک پڑھے ہوئے ہیں.مَیں سمجھ گیا کہ وہ گستاخ ہے.میں نے کہا میں نے کچھ نہیں پڑھا.اس نے کہا پھر بھی آپ کس مدرسے میں پڑھے ہیں.میں نے کہا.اگر میں پڑھاہوتاتو میں پہلے ہی بتادیتا.وہ کہنے لگا.کیا آپ ہندوستان یا پنجاب کے کسی سکول کے فارغ التحصیل نہیں ہیں؟ میں نے کہا کہ میں نے ایک دفعہ واضح کردیاہے کہ جس چیز کوآپ پڑھائی خیال کرتے ہیں.وہ میں نے کہیں سے بھی حاصل نہیں کی.جس وقت میں نے یہ کہا تواس کے دوسرے ساتھی نے جو ذراہوشیار معلوم ہوتاتھا اس کے گھٹنے کو چھو کر چپ کرانے کی کوشش کی.لیکن چونکہ وہ جوش میں تھا چپ نہ ہوا.اس نے کہا.اس کامطلب تو یہ ہے کہ آپ بالکل اَن پڑھ ہیں.میں نے کہا.آپ کی گفتگو کی بنیاد اس بات پر تھی کہ میں کس مدرسے میں پڑھاہواہوں اورکس نصاب کو میں نے پاس کیاہے.سومیں نے کوئی سکول کانصاب پاس نہیں کیا.میں نے اسی کتا ب سے تعلیم حاصل کی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوملی او رآپؐ نے اپنے متبعین کو دی اوروہ قرآن کریم ہے.اب آپ فیصلہ کرلیں کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم(نعوذباللہ) ہرقسم کے علوم سے ناواقف تھے یاعالم؟ بلکہ حقیقت تویہ ہے کہ ساری دنیا کوآپؐ نے عالم بنادیا.بے شک جو درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل ہے وہ بہت بلند ہے.مگر ہم دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں.چنانچہ میرے اس جواب پر وہ خاموش ہوگیا.غرض لوگوں کے نزدیک جب تک کسی نے سُلّم شمس بازغہ.شروح کافیہ.شروح شافیہ اور ہدایتہ وغیرہ کتب نہ پڑھی ہوں و ہ عالم نہیں کہلاسکتا حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں نہ منطق تھی نہ فلسفہ صرف قرآن ہی قرآن تھا.لیکن لوگ چاہتے ہیںکہ وہ خدا تعالیٰ سے ہٹ کر بندوں کی طرف مائل ہوجائیں.اگرمیں یہ کہتا ہوں کہ میں فلاں کتاب پڑھاہواہوں جومصنفہ خدا تعالیٰ ہے تویہ بات انہیں تسلی نہیں دیتی.ا نہیں یہ بات تسلی دیتی ہے کہ کسی نے وہ کتاب جو مصنفہ بیضاوی ہے پڑھی ہو.مصنفہ خدا تعالیٰ ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں.حالانکہ تمام علوم کاسرچشمہ صرف قرآن کریم ہی ہے.پھر اُتْلُ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے صرف قرآن کریم کے پڑھنے اوراس پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دلائی بلکہ اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ تم قرآن کریم کی تعلیم دنیا کے تمام غیر مذاہب کے سامنے پیش کرو اورانہیں بھی اسلام میں شامل کرنے کی کوشش کرو.گویاتبلیغ میں دوسری چیزوں پر زیادہ زور نہ دو.بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ
سے ہی تبلیغ کیاکرو.یہ حکم بھی ایساہے جس کی طرف سے مسلمانوں نے اپنی توجہ کو کلیۃً ہٹارکھا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ یعنی تم میں سے ہمیشہ ایک ایسی امت ہونی چاہیے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے او رانہیں نیکی کاحکم دے اوربرائی سے منع کرے.اورامت کے معنے ایک ایسی جماعت کے ہیں جواپنے اندر نظم رکھتی ہو اور و ہ کسی مرکزی نقطہ کے گرد چکر کھارہی ہو.پس اس آیت میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے یہ حکم دیاگیاتھا کہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو مقصدِ تبلیغ کو لے کر کھڑے ہو ں اوران کاعمر بھر یہی کام ہو کہ وہ ایک نظام کے ماتحت رہیں او راسلام پھیلائیں.اسلام کی گذشتہ تاریخ میں جہاں مسلمانوں سے بعض بڑی بڑی غلطیاںسرزد ہوئی ہیں وہاںایک اہم غلطی ان سے یہ بھی ہوئی کہ تبلیغ کو انفرادی فرض سمجھ لیاگیا.بیشک مسلمانوں میں مبلّغ رہے بلکہ گذشتہ صدیاں توالگ رہیں قریب کے زمانہ تک بھی مسلمانوں میں مبلّغ رہے.لیکن اجتماعی رنگ میں تبلیغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد ہی قریباً مفقود ہوگئی کیونکہ خلفاء ان جنگوں میں جوعیسائیوں اورزردشتیوں کے خلاف لڑی گئیں اس قدرالجھ گئے کہ اس وقت جہاد اورتبلیغ دونوں کوایک سمجھ لیاگیا اورخلفاء کے بعد مسلمانوں پر جمود طاری ہوگیااور اسلام کی اشاعت بند ہوگئی.وہ دنیوی شان و شوکت او رترقیات کو ہی اپنا منتہائے مقصود سمجھ بیٹھے اورانہوں نے قرآن کریم کو چھو ڑکر دوسرے علوم کواختیار کرلیا اورتبلیغ کے جوش اور اس کے نتائج سے محروم رہ گئے.اس کانتیجہ یہ نکلا کہ عیسائی غالب آگئے جوتبلیغ میں لگے ہوئے تھے اورمسلمان کمزور ہوگئے جوجہا د کے خیال میں پڑے رہے.قرآن کریم میںاللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پربھی فرماتا ہے کہ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًاکَبِیْرًا.یعنی اے مسلمانو! تم اس قرآن کے ذریعہ دشمنوں سے جہاد کرو کہ یہی جہاد کبیر ہے.پس بڑاجہاد وہی ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ سےکیاجائے اور تبلیغ اسلام پر زو ردیاجائے جیساکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں قرآن کریم کو پیش کرکے اسلام کی فضیلت اوراس کی برتری ثابت کی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہرمسلمان کوتوجہ دلائی ہے کہ تم قرآن کریم ہاتھ میں لواور دنیا میں نکل جائو.اورخود بھی قرآن پڑھو اوراس پر عمل کرو او ردوسروں کو بھی قرآن سنائواور ان سے عمل کروائو اورپھر جولوگ اسلام کی خوبیوںسے روشناس نہیں ان کوبھی قرآن کریم کے ذریعہ اسلامی انواراوربرکات سے آگاہ کرو او رکوشش کرو کہ دنیا میں ہر جگہ قرآن کی حکومت ہواسلام کی حکومت ہو اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہو.
میں سمجھتاہوں مسلمانوں کے لئے یہ بھی ایک بہت بڑاامتحان تھا کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہواتاکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے کہ وہ اسے ہرجگہ پہنچاتے ہیں یانہیں پہنچاتے.لیکن بدقسمتی سے خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ قرآن کریم کاترجمہ کرنا کفر ہے.گویادوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ کہا کہ ہرجگہ قرآن کریم کاپہنچاناکفر ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل ہمیں سمجھ دی کہ قرآن کریم کاترجمہ کرناکفر نہیں بلکہ ضروری ہے.اوراگر قرآن کریم کاترجمہ نہیںکیاجائے گا تولوگ کس طرح سمجھیں گے کہ خدا تعالیٰ نے ان سے کیا کہا ہے.دنیا میں اس وقت تیرہ سوزبانیں بولی جاتی ہیں.اورتیرہ سوزبانوں میں ہی قرآن کریم کاترجمہ ہوناضروری ہے.کیونکہ قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے نازل ہواہے اوردنیاکاکوئی فردایسا نہیں جسے قرآن کریم مخاطب نہیں کرتا.پس دنیاکاکوئی فردا یسانہیں ہوناچاہیے جس کی زبان میں ہم اس کاترجمہ نہ کردیں.تاکہ کوئی فرد یہ نہ کہہ سکے کہ اے اللہ ! تونے مجھے فلاں زبان بولنے والے لوگوں میں پیدا کیاتھا اورقرآن کریم تو عربی زبان میں ہے پھر میں قرآن کریم کس سے سیکھتا ؟ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ قرآن کریم کے پڑھنے اورپڑھانے او رسننے او رسنانے اورقرآن کریم کے ذریعہ تما م دنیا کو ہدایت اورراستی کی راہوں کی طرف بلانے کی نصیحت کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف قرآن کریم سنانابھی کافی نہیں.اس کے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ توخود ان کے لئے نمونہ بنے اوران کے لئے دعائیں کرتارہے.پس تونماز باجماعت کودنیا میں قائم کر اور نماز میں تمام مومنوں اورغیرمومنوں کے لئے دعائیں کیاکرکہ اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے.اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِنماز یقیناً بری اور ناپسندیدہ باتوں سے لوگوںکوروکتی ہے.ان بری باتوں سے بھی جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اوران سے بھی جو سوسائٹی پرگراں گذرتی ہیں.کیونکہ نماز باجماعت مسلمانوں میں پانچ وقت کی مقرر ہے.اگرنماز باجماعت ان میں قائم ہوجائے گی توان کابہت ساوقت خدا تعالیٰ کی عبادت میں لگ جائے گا.اورنماز میں خرچ ہونے والا وقت ان کو بے حیائیوں اوربدکاریوں سے بچاتارہے گا.اسی طرح نماز میں جب دعائیں ہوتی رہیں گی.اپنے لئے بھی او ردوسروں کے لئے بھی تووہ دعائیں خدا تعالیٰ کافضل کھینچ کر ان کی اپنی اصلاح کا بھی موجب ہو ںگی.اوردوسروں کی اصلاح او رترقی کاموجب بھی بن جائیں گی.اسی طرح نماز میں جوقرآن کریم کی آیات پڑھی جاتی ہیں اورتسبیح وتحمید کی کثرت ہوتی ہے اس کادل پر ایسااثر ہوتاہے کہ انسان گناہوںسے نفرت کرنے لگ جاتاہے.
غرض اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ کے معاً بعد اَقِمِ الصَّلٰوةَ اور اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ کا ذکرفرماکر اس طرف اشارہ فرمایاکہ بغیر دعائوں کے پاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی.تلاوت قرآن سے تم دنیا کے خیالات بے شک تبدیل کرسکتے ہو.لیکن دنیا میں پاکیزگی بغیر فضلِ الٰہی کے نہیں ہوسکتی اوریہ فضل دعائوںسے ہی حاصل ہوگا.پس نماز یں پڑھو اوردعائیں مانگو.تاکہ اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے تمہیں کھڑاکیا ہے اس میں تمہیں کامیابی حاصل ہو.انجیل میں حضرت مسیح ؑ نے بھی ایک مقام پر فرمایا ہے کہ ’’یہ جنس سوائے دعااور روزہ کے کسی اَورطرح سے نکل نہیں سکتی.‘‘ (مرقس باب ۹آیت ۲۹) مگرانجیل کی ایک تعلیم کے اچھا ہونے کے یہ معنے نہیں کہ عیسائی مذہب اچھاہے.کیونکہ ا س میں توصرف ایک بات اچھی ہے اورقرآن میں ساری باتیں اچھی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ عبادت کی غرض اللہ تعالیٰ کے حضوراپنے جذباتِ شکر کااظہار کرناہوتاہے کیونکہ انسان فطرتاً اپنے محسن کاشکریہ اداکرنے پر مجبور ہوتاہے.جیساکہ احادیث میں آیا ہے کہ جُبِلَتِ الْقَلُوْبُ عَلیٰ حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا.انسانی دل کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرنے پرمجبور ہوتاہے.پس نماز کی ایک بہت بڑی غرض تویہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے رب کے سامنے اس کے احسانوں کااپنی زبان سے اقرار کرتا رہے.مگراس کے علاوہ عبادت کی ایک اوربھی غرض ہے جس کا اس آیت میں ذکر ہے اور وہ گناہوں اوربدیوں سے پاک کرناہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ انسانی عبادتوں کا محتاج نہیں.بلکہ جس قد راحکام اس نے انسان کو دیئے ہیں ان میں اصل غرض اس کے دل کو پاک کرناہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ پاک ہے اوروہ ناپاک سے تعلق نہیں رکھ سکتا.پس تمام عبادات میں یہ مدنظر رکھا گیا ہے کہ ان سے نفس انسانی بدیوں سے پاک ہواوران کے ذریعہ اسے ایسی طاقت مل جائے کہ وہ مختلف قسم کی ہواوہوس کوچھوڑنے کے قابل ہوجائے.اورایک طرف اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلقات درست ہوجائیں اور دوسری طرف مخلوق الٰہی سے بھی اس کے معاملات بالکل ٹھیک ہوں.چنانچہ اسلام نے مذہب کی تعریف ہی یہی کی ہے کہ وہ بندے کے خدا تعالیٰ سے تعلقات کو مضبوط کرتاہو اوربندوں کے تعلقات کو قائم کرتاہو.اوراگر کوئی مذہب ان دونوں باتو ں میںسے کسی ایک کے پوراکرنے سے قاصر ہو تووہ مذہب نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس سے مذہب کی ضرورت پوری نہیں ہوتی.پس جس قدرعبادات مقررکی جاتی ہیں ان کی اصل غرض یہی ہوتی ہے کہ بندہ کو خدا تعالیٰ کے نزدیک کردیاجائے اور ان میں گناہوں سے بچنے کی طاقت پیدا کی جائے اورجوعبادت ان دونوں
باتوں کے حصول کے ذرائع پیداکرے وہی عبادت مفیدسمجھی جاسکتی ہے.ورنہ اس میں مشغول ہونا اپنے وقت کو ضائع کرنے والی بات ہوگی.قرآن کریم نے اس مضمو ن کو یوں اداکیا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ نماز بدیوں اورگناہوں سے روکتی ہے.گویانماز صر ف عبودیت کااقرار نہیں.بلکہ قلب انسانی کو جِلادینے والی شے بھی ہے اوراس کی مدد سے انسان بدیوں اوربدکرداریوں سے بچتاہے اوراس کاوجود بنی نوع انسان کے لئے مفید ہو جاتا ہے.اب جبکہ یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کی اصل غرض اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنااور اس کا شکر ادا کرنا اور نفس کی اصلاح کرناہے توجس طریق عبادت سے یہ دونوں باتیں حاصل ہوتی ہوں وہ ہی عبادت سچی عبادت سمجھی جائے گی اوراسی عبادت کی طرف ہدایت کرنے والا مذہب سچامذہب ہوگا.اسلام نے اپنے پیروئو ںکے لئے جوطریق عبادت رکھا ہے اس میں ان اغراض کوپوراکرنے کے لئے جوذرائع استعمال کئے ہیں وہ اَورکسی مذہب نے نہیںکئے.اورہرایک انسان معمولی غورسے کام لے کربھی سمجھ سکتاہے کہ وہی ذرائع اس قابل ہیں کہ عبادت کی غرض کو پوراکرسکیں اوروہ ذرائع یہ ہیں.اول.انسانی جسم او رروح کا ایساگہراتعلق ہے کہ ایک کااثر دوسر ے پرپڑتا ہے.جس طرح غم کی خبر سن کر جسم ایسامتاثر ہوتاہے کہ اس پر اُداسی کے آثار ظاہر ہوجاتے ہیں.اسی طرح جسم کو جب کوئی صدمہ پہنچتاہے توروح بھی غمگین ہوجاتی ہے.اوریہی حال خوشی کاہے.پس قلب کو خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے کاایک یہ بھی طریق ہے کہ عبادت کے وقت جسم کوبھی کسی ایسی حالت میں رکھاجائے جس سے تذلّل پیداہواور اس کااثر روح پر پڑکر دل میں بھی رقّت اورنرمی پیداہوجائے.اورانسان خدا تعالیٰ کی طر ف ایک جو ش کے ساتھ متوجہ ہوجائے.تذلّل کے اظہار کے لئے دنیا میں مختلف صورتوں کواختیار کیاگیاہے کسی ملک کے لوگ جھک جاتے ہیں.کسی ملک میں ہاتھ باندھ کر کھڑاہونا تذلّل کا نشان قرا ردیاگیاہے.کسی ملک میں گھٹنوں کے بل گرنے کو کسی میں سجدہ کرنے کو.اسلام چونکہ خالقِ فطرت کی طرف سے ہے اس نے تمام فطرتوںاور عادتوں کاخیال رکھتے ہوئے نماز میںان سب نشانات کوجمع کردیاہے.اورمختلف المذاق لوگ جس جس حالت میں بھی تذلل کااظہار کرتے ہیں نمازان کے مذاق کے مطابق ہے.اوران مختلف اشکالِ تذلّل کے اثرسے انسانی قلب جوش سے بھرجاتاہے اوروہ خدا تعالیٰ کے حضو رجھک جاتاہے.درحقیقت وہ ایک قابل دید نظارہ ہوتاہے جب ایک مسلمان اپنے رب العالمین خداکے حضور کبھی ہاتھ باندھ سےکھڑاہوتاہے کبھی جھک جاتاہے.کبھی ہاتھ کھو ل کر کھڑاہو جاتا ہے کبھی سجدہ میں گرجاتاہے کبھی گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتاہے اوراس کادل اس محبت سے پر ہوتاہے جوایک مخلوق کو خالق سے ہوسکتی ہے.اوروہ زبانِ حال سے اقرار کرتاہے کہ دنیا کی مختلف اقوام جس جس طریق میں بھی اپنی عبودیت کااظہار کرتی ہیں اے خدامیں تیرے
سامنے مجموعی طورپران سب طریقوںسے اپنی عبودیت کااقرار کرتاہوں.یہ نظارہ نماز اداکرنے والے کو ہی نہیں بلکہ اس کے دیکھنے والے کے دل کو بھی متاثر کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف جھکادیتاہے.دوسرااصل اسلام نے نماز کی غایت کو حاصل کرنے کا یہ تجویز کیاہے کہ دعاکونمازکامغز قراردیاہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے اَلدُّعَآءُ مُخُّ العِبَادَۃِ (ترمذی ابواب الدعوات باب فضل الدعاء) دعانماز کامغز ہے اور دعااپنے اند رایک ایسا مقناطیسی اثررکھتی ہے کہ ایک طرف تو بندے کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتی ہے اوردوسری طرف اس کے لئے ایسی آسانیاں بہم پہنچادیتی ہے کہ جن سے و ہ گناہوں سے محفوظ رہ سکے.جب ہماری استدعائوں اور التجائوںکو والدین اورحکام دنیا بھی قبول کرتے ہیں توکیونکر خیال کیاجاسکتاہے کہ خدا تعالیٰ جوسب مہربانوںسے زیادہ مہربان ہے اپنے بندوں کی دعائوں کو ردّکردے گا.پس نماز کیا ہے ؟ دعائوں کاایک مجموعہ ہے جس سے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پید ا ہو تی ہے اور دوسری طرف دعائیں قبولیت کا درجہ حاصل کر کے انسان کی ہدایت اور نیکیوں میں ترقی کا ذریعہ بن جاتی ہیں.تیسرا ؔ طریق اسلام نے یہ بتا یا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا معا ئنہ کیا جائے.کیونکہ جب تک کسی چیز کا کامل علم انسان کو نہ ہو اس سے تعلق مکمل نہیں ہوسکتا.مثلاً جس انسان کو علم کی خوبی معلوم نہیں وہ اس کے حصول کی کوشش نہیں کرسکتا.اسی طرح جوشخص زہر کے اثر سے نا واقف ہے وہ زہر سے نہیں ڈر سکتا پس اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھنے اور بدیوں سے بچنے کے لئے اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کی کامل معرفت ہو.جس کے لئے اسلام نے نماز میں ایسی عبادتوں کا پڑھنا ضروری رکھا ہے جن سے انسان پر اللہ تعالیٰ کا پر جلال اور قابلِ محبت ہونا ظاہر ہوتا ہے اور وہ بے اختیار اس کے حضور گر جاتا ہے.اور اس کا دل محبت اور خوف سے بھر جاتا ہے.کیونکہ جب اس کے سامنے ایک ہی وقت میں اللہ تعالیٰ کے احسانات پیش کئے جاتے ہیں اور نافرمانی اور قطع تعلق کے نتائج سے آگاہی کی جاتی ہے تو اس پر ایک ایسی انقطاعی حالت طاری ہوتی ہے کہ وہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے.اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ادنیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ تُو یہ سمجھے کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے اور اعلیٰ درجہ کی نماز یہ ہے کہ تُو یہ سمجھے کہ تُو اپنی آنکھوں سے خدا کو دیکھ رہا ہے.اس سے معلوم ہوتاہے کہ صرف نماز اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں نماز کی اصل غرض یہ ہوتی ہے کہ عملی زندگی میں وہ انسان کو فحشاء اور منکر سے روکے.گویا اصل مقصود یہ ہوا کہ انسان فحشاء اور منکر سے رُکے.اور روحانی لحاظ سے نماز کی غرض یہ ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کے سامنے آجائے اور وہ یہ سمجھے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.اب یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تُو
یہ سمجھے کہ تُو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر تجھے یہ مقام حاصل نہیں تو تُو یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے اس کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تو ہر انسان کو ہر حالت میں دیکھ رہا ہے.کیا اسلام کے رُو سے یہ کہنا جائز ہو گا کہ خدا فلاں کو دیکھ رہا ہے اور فلاں کو نہیں دیکھ رہا.یا خدا عیسائیوں کو نہیں دیکھ رہا.ہندوؤں کو نہیں دیکھ رہا.سکھوں کو نہیں دیکھ رہا لیکن مسلمانوں کو دیکھ رہا ہے.یا زیدؔ نماز نہ پڑھنے والے کو خدا نہیں دیکھ رہا اور زید ؔ نماز پڑھنے والے کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے.اگر ایسا ہو تا کہ جب بندہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا تبھی خد ا اسے دیکھتا تو کئی لوگ جان بوجھ کر نماز چھوڑ دیتے اور سمجھتے کہ نہ ہم نما ز پڑھیں گے اور نہ خد ا ہمیں دیکھے گا.پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ نماز کاادنی مقام یہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے تو اس کے یہ معنے تو نہیں ہوسکتے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ نماز پڑھنے والے کو تو دیکھتا ہے اور جو نما ز نہیں پڑھتا اسے نہیں دیکھتا کیونکہ اس صورت میں کمزور لوگ نماز نہ پڑھنے کو اپنے لئے زیادہ برکت کو موجب سمجھتے اور وہ خیال کرتے کہ نہ ہم نماز پڑھیں گے اور نہ ہمیں خدا دیکھے گا.پھر اور معنے بھی اس کے لئے جاسکتے ہیں اور وہ یہ کہ فی الواقعہ تو خدا تعالیٰ انسان کو نہیں دیکھ رہا لیکن تم یہ سمجھو کہ خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.اگر یہ معنے لئے جائیں تو یہ جھوٹ بن جاتا ہے.اگر خدا ہمیں نہیں دیکھ رہا او رہم یہ سمجھ رہے ہیں کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے تو ہم اپنے نفس کو دھوکا دیتے ہیں.اور ایک جھوٹا تصور اپنے ذہن میں پیداکرتے ہیں.پس یہ دونوں معنے نہیں لئے جاسکتے.نہ یہ معنے لئے جاسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو عا م طور پر نہیں دیکھتا لیکن جب ہم نما ز پڑھتے ہیں تو وہ ہمیں دیکھتا ہے.اور نہ یہ معنے لئے جاسکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہم کو حقیقتاً نہیں دیکھ رہا لیکن ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ہمیں دیکھ رہا ہے.جب یہ دونوں معنے غلط ہیں تو لازماً ہمیں اس کے کوئی اور معنے لینے پڑیں گے جو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہوں.اور وہ معنے یہی ہیں کہ اس جگہ سمجھ لو کے معنے یقین کر لینے کے ہیں.گویارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرماناکہ تم سمجھ لو کہ خداتمہیں دیکھ رہاہے اس کے معنے یہ ہیںکہ تمہیں یقینی طور پر اس بات کومحسوس کرناچاہیے کہ خداتمہیں دیکھ رہاہے اوریقینی علم اورمحض خیال اوروہم میں زمین و آسمان کا فرق ہے.ایک آدمی صرف خیا ل کرتاہے کہ خدااسے دیکھ رہا ہے.اورایک آدمی اس یقین کامل پرقائم ہوتاہے کہ خدااسے دیکھ رہاہے.بظاہردونوں یہی سمجھتے ہیں کہ خداانہیں دیکھ رہاہے لیکن ایک کاتصور محض وہم پر مبنی ہوتا ہے جوجھوٹ بھی ہو سکتا ہے اوردوسرایقین کی مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتاہے.ایک کو بڑی آسانی کے ساتھ متزلزل کیاجاسکتاہے اوردوسراشخص جوا پنے اندر کامل یقین پیداکئے ہوئے ہوتاہے اسے دنیا کی کوئی طاقت متزلزل نہیں کرسکتی.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا یہ مطلب نہیں کہ گویہ واقعہ تو نہیں کہ خداتمہیں دیکھ رہاہے مگرتم نماز پڑھتے وقت یہ تصور کرلیا کرو کہ خداتمہیں دیکھ
رہاہے.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ نماز کاادنیٰ درجہ یہ ہے کہ انسان اس یقین کامل پرقائم ہوجائے کہ خدااسے دیکھ رہاہے.یہاں دیکھنے کے عام معنے توہونہیں سکتے.کیونکہ وہ کافر کوبھی دیکھ رہاہے اورمومن کو بھی دیکھ رہاہے عیسائی کو بھی دیکھ رہاہے اورہندوکوبھی دیکھ رہا ہے.نماز پڑھنے والے کو بھی دیکھ رہاہے اور نماز نہ پڑھنے والے کو بھی دیکھ رہاہے.ایسی صورت میں ایک نماز پڑھنے والابھی اگر یہ سمجھ لیتا ہے کہ خدااسے دیکھ رہاہے تواس میں اسے کوئی خصوصیت حاصل نہیں ہوسکتی.کیونکہ خداجس طرح اسے دیکھ رہاہے اسی طرح ایک کافراو رمنافق کو بھی دیکھ رہا ہے.خصوصیت اسے تبھی حاصل ہوسکتی ہے جب دیکھنے والے کے بھی اَورمعنے لئے جائیں او روہ معنے حفاظت اور مددکرنے کے لئے اس کی طرف متوجہ ہونے کے ہیں.جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَاوَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ( طور:۴۹)یعنی تُو ہماری آنکھوں کے سامنے ہے.پس چاہیے کہ جب تُو نماز کے لئے کھڑاہو توہماری تسبیح کیاکر.اب آنکھوں کے سامنے ہونے کایہ مطلب تونہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن خدا تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے نہیں تھا.بلکہ اس کامطلب یہی ہے کہ تُوایسے مقام پر پہنچ گیا ہے کہ اب ہم تیر اخاص خیال رکھتے ہیں کوئی تجھ کو چھیڑ نہیں سکتا.کوئی تجھ پر حملہ نہیں کرسکتا.کوئی تجھے ذلیل اوررسوانہیں کرسکتا.جیسے حفاظت کے لئے اگر کسی کی ڈیوٹی مقررہو تووہ حملہ آورکودیکھ کرچپ نہیں رہ سکتا.اسی طرح ہماراتیرے ساتھ ایساتعلق قائم ہوچکا ہے کہ اب ہم تجھ پرحملہ ہوتے دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتے.دنیا میں بھی انسان جب کسی معاملہ میں دخل دینا مناسب نہیں سمجھتا توآنکھیں پھیرلیتا ہے.اورجب دخل دیناچاہتاہے تو کہتا ہے.’’ میں دیکھ رہاہوں.‘‘بہرحال جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ادنیٰ سے ادنیٰ درجہ نماز کایہ ہے کہ انسان یہ سمجھے کہ خدااسے دیکھ رہاہے تو اس کے معنے یہی ہیں کہ اسے یہ یقین کامل حاصل ہوناچاہیے کہ میری نماز اتنی درست ہے کہ اب میرے ساتھ کوئی شخص ایساسلوک نہیں کرسکتاجسے خدانظر انداز کردے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کواللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایاکہ اِنِّیْ مُعِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِعَانَتَکَ وَاِنِّیْ مُھِیْنٌ مَّنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ کہ جوشخص تیری مدد کاارادہ کرے گا میں اس کی مدد کروں گا.اورجوشخص تیری اہانت کاارادہ کرے گا میں اس کی اہانت کروں گا.گویااس مقام پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نیکی اوربدی دونوں کاردّعمل ظاہرہو جاتا ہے اوروہ اپنے بند ے سے نیکی کرنے والے کی نیکی کوضائع نہیں ہونے دیتا.اورنہ اپنے بندے کے ساتھ برائی کرنے والے کی برائی کو نظر انداز کرتاہے.اگر کوئی اس سے نیکی کرتاہے تووہ اس سے بڑھ کراس کےساتھ نیک سلوک کرتاہے اوراگر کوئی اس کے
ساتھ بدی کرتاہے توو ہ اس سے بڑھ کراس کے ساتھ براسلوک کرتاہے اوریہ ادنیٰ درجہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق ہرمومن کوحاصل ہوناچاہیے.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نماز کے اعلیٰ درجہ کی طرف مومنوں کوتوجہ دلاتے ہیں اورفرماتے ہیں اصل مقام یہ ہے کہ تُو نماز پڑھتے وقت یہ سمجھے کہ میں خدا کو دیکھ رہاہوں.یہاں بھی کَاَنَّکَ تَرَاہُ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اب اس کے بھی یہ معنے نہیں ہوسکتے کہ تُوفرض کرلے کہ میں خدا کودیکھ رہاہوں.کیونکہ یہ جھوٹ بن جاتاہے.اول توجو چیز ہے ہی نہیں اس کے متعلق کسی نے سمجھنا ہی کیا ہے.اگر کوئی ایساکمزور دل ہو جو اپنے دل پر بارباراثر ڈالنے کی کوشش کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہاہوں تواس کافائدہ کیاہو سکتا ہے.پس کَاَنَّکَ تَرَاہُ کے یہ معنے تونہیں ہوسکتے کہ تُو یہ فرض کرلے کہ تُوخدا کودیکھ رہاہے.درحقیقت اس کے معنے یہ ہیں کہ پہلامقام حاصل ہوجانے کے بعد مومن ایسے مقام پر پہنچ جاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے نشانات کی حقیقت اس پر واضح ہوجاتی ہے اوروہ خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے رحم و کرم کواپنی آنکھوں سے بھی دیکھ لیتا ہے.پس نماز کااعلیٰ مقام یہ ہے کہ انسان جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑاہو تواسے یہ یقین کامل ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کودیکھ رہاہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ جیسے ہندوکہتے ہیں کہ انسان عبادت کے وقت یہ سوچنا شروع کردے کہ ایک بت جو اس کے سامنے ہے وہ خداہے اسی طرح وہ مسلمان بھی یہ سوچنا شروع کردے.کیونکہ اسلام وہم نہیں سکھاتا.اسلام کوئی جھوٹاتصور انسانی ذہن میں پیدا نہیں کرتا.اسلام یہ سکھاتاہے کہ جب تم نماز کے لئے کھڑے ہوتو تمہیں اس امر کی معرفت حاصل ہو کہ تم سے نیک سلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ نیک سلوک کرتاہے اور تم سے براسلوک کرنے والے سے خدا تعالیٰ براسلوک کرتاہے اگر تم کو بھی یہ نظر آجائے اور تم کو بھی یہ محسوس ہونے لگ جائے کہ جس نے تمہارے ساتھ نیک سلوک کیاتھا اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے نیک سلوک کیا اور جس نے تمہارے ساتھ براسلوک کیاتھااس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے براسلوک کیا تواس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تمہاری محبتِ الٰہی کامل ہوجائے گی اور تمہاری نماز اپنی ذات میں مکمل ہوجائے گی.غر ض اسلام واہمہ کی تعلیم نہیں دیتا.اسلام ہمیں یقین اور معرفت کے مقام پرپہنچاناچاہتاہے.اسلام ہم سے تقاضاکرتاہے کہ ہم اپنی نمازوں کواس طرح سنوار کراداکریں اورانہیں اتنا اچھااوراعلیٰ درجہ کابنائیں کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ ہم سے اتناتعلق رکھے کہ ہمارے ساتھ حسن سلوک کرنے والے سے وہ حسن سلوک کرے اور ہمارے ساتھ براسلوک کرنے والے سے وہ براسلوک کرے اوردوسری طرف ہماری اپنی آنکھیں اتنی روشن ہوں اورہمارے دل میں اتنا نور بھراہو کہ ہم کو خود بھی نظر آجائے کہ خدا تعالیٰ ہماری تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتاہے.جب یہ مقام کسی کوحاصل ہوجائے تووہ ہرقسم کے شکوک و شبہات سے بالاہوجاتا ہے.
اللہ تعالیٰ کے روشن نشانات اس کی تائید میں ظاہر ہونے لگتے ہیں اوروہ اس یقین سے لبریز ہو جاتا ہے کہ خدااسے ضائع نہیں کرے گا.کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھ رہاہوتاہے وہ اس کے حسن سلوک اور انعامات کامشاہدہ کررہاہوتاہے اوروہ اس یقین پر مضبوطی سے قائم ہوتاہے کہ دنیا اسے چھو ڑدے مگر خدااسے نہیں چھوڑے گا.نادان اس کونہیں سمجھ سکتا مگروہ جس نے خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیاہو وہ ایسی مضبوط چٹان پر قائم ہوتاہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے عزم کو متزلزل نہیں کرسکتی.افسوس ہے کہ اس زمانہ میں مسلمانوں میں ایک بہت بڑاطبقہ ایساہے جو نماز نہیں پڑھتااس لئے نہیں کہ وہ نماز کاقائل نہیں بلکہ اس لئے کہ وہ سمجھتاہے کہ اللہ تعالیٰ رحمٰن اوررحیم ہے اگرہم نماز نہیں پڑھیں گے تووہ ہمیں بخش دے گا.آخر اس نے گناہگاروں کوہی بخشناہے.اگرگنا ہ کرنے والے نہ ہوئے تو وہ بخشے گاکن کو ؟ یہ جواب غلط ہے یا صحیح اس کے متعلق بحث نہیں.بہرحال یہ ایک جواب ہے جو انہوں نے سوچاہواہے.لیکن ایک طبقہ ایسابھی ہے جوسمجھتاہے کہ یہ احکام پرانے زمانہ میں محض عربوں کی اصلاح کے لئے دیئے گئے تھے.عرب لوگ بالکل وحشی تھے.اوروہ گندے اور غلیظ رہتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دے دیا کہ تم اپنے کپڑوں اوربدن کوصاف رکھاکرو.اسی طرح ان میں کوئی تنظیم نہیں تھی.وہ بالکل پراگندہ حالت میں تھے.اسلام نے ان کو حکم دے دیاکہ وہ پانچ وقت مسجد میں اکٹھے ہو جایاکریں.اس طرح گو بظاہرنماز کاحکم دیاگیا مگردراصل یہ غرض تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے ڈر کے مارے جب مسجد میں آئیں گے اورانہیں قوم اور ملک کے حالات بتائے جائیں گے.توا ن میں سیاسی بیداری پیداہوجائے گی اوروہ دنیا پر غالب آنے کی کوشش کریں گے.مجھے یاد ہے.میں بچہ تھا کہ میں نے ایک اخبار میں ایک دفعہ اسی کے متعلق ایک مضمون پڑھا.ایک صاحب جومسلمانوں کے مبلغ سمجھے جاتے تھے اورجاپان او رامریکہ میں تبلیغ کرکے آئے تھے انہوں نے واپس آنے پر علی گڑھ میں ایک لیکچردیا جواخبار میں شائع ہوا.اورمیں نے بھی پڑھا اس لیکچر میں انہوں نے بیان کیا کہ یہ جو کہاجاتاہے کہ نماز بڑی ضروری چیز ہے اورپانچ وقت مسجد میں باجماعت اداہونی چاہیے دراصل ایساکہنے والے حقیقت پر کبھی غور نہیں کرتے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے.پرانے زمانہ کے لحاظ سے اس کے احکام اور رنگ رکھتے تھے اوراس زمانہ کے لحاظ سے اس کے احکام اوررنگ رکھتے ہیں.بیشک احکام وہی رہیں گے مگرحالات کے لحاظ سے ان کی ہیئت بدلتی چلی جائے گی.عرب لوگ جاہل تھے و ہ ننگے پائو ں رہتے تھے.کپڑے ان کے پاس بہت کم ہواکرتے تھے.اس لئے ان کو سجدہ اور رکوع کاحکم دے دیاگیا.مگر اب وہ زمانہ ہے کہ اگر سجدہ کیاجائے یارکوع کےلئے جھکاجائے تو پتلونوں
کی کریزیں بالکل خراب ہوجائیں.اس زمانہ میں اگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے تووہ یقیناً اس حکم میں ترمیم کرتے اور یقیناً وہ یہی کہتے کہ بنچ پر بیٹھے بیٹھے اگر سر جھکالیاجائے تواتناہی کافی ہے رکو ع اورسجدہ کی کوئی ضرور ت نہیں.اسی طرح روزہ ہے.یہ روزہ ان لوگوں کے لئے ہے جو بہت کھا جاتے ہیں.عرب لوگ وحشی تھے اوروہ اپنے معدوں کا خیال نہیں رکھتے تھے اس لئے اسلام نے انہیں روزوں کاحکم دے دیا.مگراب تہذیب کادور دور ہ ہے.اب لوگ اپنے معدہ کا خا ص طور پر خیال رکھتے ہیں.اب اگر صبح و شام صرف ناشتہ کرلیاجائے اورکیک بسکٹ کھالئے جائیں لیکن دن بھر کچھ نہ کھایاجائے توروزہ کے لئے اتنا ہی کافی ہے.غرض مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جوان عبادات کے متعلق سمجھتے ہیں کہ یہ آئوٹ آف ڈیٹ OUT OF DATEہیں.موجودہ زمانہ میں ان کی ضرورت نہیں.اورایک طبقہ ایساہے جو کہتاہے کہ نماز تودل کی ہی نماز ہے ظاہری حرکات کی کیا ضرورت ہے.حقیقت یہ ہے کہ نماز ظاہر کی بھی ہے اوردل کی بھی.اوران دونوں چیزوں کامجموعہ انسان کے لئے برکت کاموجب ہوتاہے.اگرہم دل میں خداخداکرتے ہیں مگرظاہر میں نماز نہیں پڑھتے توہمار اد ل سے خداخداکہنا محض دھوکا اور فریب ہوگا.کیونکہ محبوب کی با ت ماناکرتے ہیں.ردّنہیں کیاکرتے.عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم خدا تعالیٰ سے اپنی محبت کااظہار کرتے ہیں اوردوسر ی طرف ہم اپنی محبت کاکوئی ثبوت پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے.ہم یہ بھی مانتے ہیں کہ اس نے کہا ہے سجدہ کرو.مگرہم سجدہ کرنے کے لئے تیار بھی نہیں ہوتے.یاظاہر میں تونماز پڑھی جائے مگر دل خدا کی طرف متوجہ نہ ہو.تویہ بھی کوئی نماز نہیں ہو گی بلکہ محض ایک ورزش کہلائے گی.جیسے ورزش سے سپاہی کاجسم مضبوط ہوتاہے.اسی طرح نماز سے اس کاجسم بھی مضبوط ہوگا.مگراس کے دل میں نور ایمان پیدا نہیں ہوگا.کچھ عر صہ کی بات ہے.میں سند ھ گیا تو ایک ہندو مجھ سے ملنے کے لئے آیا.پارٹیشن کے موقعہ پر وہ وہاں سے بھاگانہیں تھا.کیونکہ اس کے مسلمانوں سے تعلقات تھے.میں نے اس سے کہا کہ تمہارے مسلمانوں سے دیر سے تعلقات چلے آرہے ہیں.کبھی تم نے ان کے دین پر بھی غور کیا.وہ کہنے لگا.سب مذاہب اچھی باتیں کہتے ہیں.ہمارامذہب بھی اچھا ہے اورآپ کامذہب بھی اچھا ہے.میں نے کہا.اگرسب میں ایک جیسی اچھی باتیں ہیں تو پھر تم مسلمانوں کے ساتھ مل کیوں نہیں جاتے.آخرکوئی نہ کوئی فرق ہی ہے جس کی وجہ سے تم ہندوہو اور ہم مسلمان.اگران دونوں مذاہب میں ایک جیسی باتیں پائی جاتی ہیں تویاتم مسلمان بن جاتے یا ہم ہندو بن جاتے.بہرحال کوئی نہ کو ئی فرق ضرور تسلیم کرنا پڑے گا.جس کی وجہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنا علیحدہ وجودقائم رکھناچاہیے.پھر میں نے اس سے کہا کہ کبھی تم نے نماز اوردیگر عبادات کااپنے مذہب کی عبادات سے مقابلہ کیا.اوریہ دیکھا کہ ان
میںسے کون سی عبادت زیادہ بہتر ہے.اس پر وہ کہنے لگاکہ کعبہ اوردَیر تودونوں دل میں ہیں.کسی ظاہری نماز کی کیاضرورت ہے.میں نے اس سے پوچھا.فرمایئے.آپ شادی شدہ ہیں.اس نے کہا.ہاں.میں نے کہا.بچے بھی ہیں.اس نے جواب دیا کہ بچے بھی ہیں.میں نے کہا.آپ نے کبھی بیوی بچوں کوپیار بھی کیاہے.اس نے کہا.کیوں نہیں کیا.میں نے کہا اصل پیار تودل میں ہوتاہے پھرآپ ظاہر میں پیارکیوں کرتے ہیں.اسی لئے کہ آپ سمجھتے ہیں اس پیار کی کوئی ظاہر ی علامت بھی ہونی چاہیے.اگربیوی سے پیار کرنے کے لئے آپ صرف دل کا پیار کافی نہیں سمجھتے.بچوں سے پیار کرنے کے لئے صرف دل کاپیار کافی نہیں سمجھتے.بلکہ انہیں بوسہ بھی دیتے ہیں.تو خداکے پیار کے معاملہ میں یہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ کعبہ اوردَیر تو دونوں دل میں ہیں.کسی ظاہری عبادت کی ضرورت نہیں.بات یہ ہے کہ ظاہر اورباطن دونوں چیزیں مل کر انسان کوکامل بناتی ہیں.اگریہ دونوںچیزیں ملائی نہ جائیں توکوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا.اگراچھی سے اچھی چیز آپ لوگ ایسے برتن میں لیں گے جوغلیظ ہوگاتوو ہ چیز بھی غلیظ ہوجائے گی.اوراگربغیر برتن کے اس چیز کو لے لیں گے تووہ گرجائےگی.گویابرتن کی بھی ضرورت ہے اورپھر اس بات کی بھی ضرور ت ہے کہ و ہ برتن اچھا ہو.اوراس کے اندر کوئی اچھی چیز ہو.اسی طرح نما ز اورروزہ اور حج اورزکوٰ ۃ اوردوسری عبادتوں کاحال ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے ادھر یہ فرمایا ہے کہ قربانی کرو.مگرادھر یہ بھی فرما دیا ہے کہ تم یہ مت سمجھو کہ قربانی کاگوشت اورخون خدا کو پہنچتاہے.خدا کو صرف دل کااخلاص پہنچتاہے.مگرباوجوداس کے کہ قربانی کاگوشت اور خون خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچتا.خدا تعالیٰ نے یہ نہیںکہا کہ قربانی نہ کرو بلکہ کہاہے کہ قربانی توکرو مگریہ سمجھتے ہوئے کرو کہ میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے محبوب کی بات پوری کرنے کے لئے اوران مقاصد کی تکمیل کے لئے جوخدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں قربانی کررہاہوں.مثلاً و ہ غریب آدمی جو فاقے کرتاہے یاوہ غریب آدمی جو ہمیشہ دال روٹی کھاتاہے اس ذریعہ سے اسے بھی گوشت مل جاتاہے گویادل بھی صاف ہوتاہے.ہمسایوں اور غرباء کے لئے محبت کے جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں اورخدا تعالیٰ کاحکم بھی پوراہو جاتا ہے.پس مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو نماز باجماعت کاپابند بنانے کی کوشش کریں.جوشخص اپنے محبوب کو بھول جاتاہے اوراس کی یاد اپنے دل میں تازہ نہیں رکھتا.و ہ یہ دعویٰ نہیں کرسکتاکہ مجھے اپنے محبوب سے محبت ہے.سچی محبت ہمیشہ اپنے ساتھ بعض ظاہری علامات بھی رکھتی ہے اورمحبت کی ایک بڑی علامت یہ ہے کہ انسان اٹھتے بیٹھتے اپنے محبوب کا ذکر کرتاہے اوراس کی یاد اپنے دل میں تازہ رکھتا ہے.جب کوئی شخص اپنے
کسی عزیز کو یاد کرلیتا ہے تواس کی محبت دل میں تازہ ہوجاتی ہے.اوراس کی صورت آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اسی لئے کہتے ہیں اَلْمَکْتُوْبُ نِصْفُ الْمُلَاقَاۃِ یعنی جب انسان اپنے کسی دوست یارشتہ دار کوخط لکھتاہے توگویاوہ اس سے نصف ملاقات کرلیتا ہے.جب وہ السلام علیکم لکھتاہے اورپھر وہ اپنے حالات بتاتاہے اوراس کے حالات دریافت کرتاہے.تو ایک رنگ میں وہ ایک دوسرے کے سامنے ہوجاتے ہیں او ران کی محبت تازہ ہوجاتی ہے.گویا جس طرح ملاقات سے آپس کے تعلقا ت بڑھتے ہیں.اسی طرح خط لکھنے سے بھی آپس کے تعلقات بڑھتے ہیں اورخط لکھنا ملاقات کاقائم مقام ہو جاتا ہے.نماز بھی خدا تعالیٰ کی ملاقات کا ایک ذریعہ ہے اور چونکہ نماز خدا تعالیٰ کی ملاقات کاایک ذریعہ ہے اس لئے اسلام نے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ انسان تھو ڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کانام لے اور نماز کے لئے کھڑاہوجائے.خواہ جنگ ہورہی ہو.دشمن گولیاں برسارہاہو.پانی کی طرح خون بہہ رہاہو.پھر بھی اسلام یہ فر ض قرار دیتاہے کہ جب نماز کا وقت آجائے تواگر ممکن ہو مومن اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے.(نہایت خطرناک حملہ کی صورت میں وہ نمازیں جو جمع نہیں کی جاسکتیں ان کو بھی جمع کرنے کاحکم ہے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر چار نماز یں جمع کی ہیں ) بیشک جنگ کی وجہ سے نماز کی ظاہر ی شکل بدل جائے گی لیکن یہ جائز نہیں ہوگا کہ نماز میں ناغہ کیاجائے.مگرآج کل مسلمانوں میں جہاں اوربہت سی خرابیاں پیداہوچکی ہیں وہاں ان میں ایک نقص یہ بھی پیداہوگیا ہے کہ وہ ریل میں آرام سے بیٹھے سفرکررہے ہوں گے مگرنماز نہیں پڑھیں گے اورجب پوچھا جائے کہ تم نماز کیوں نہیں پڑھتے ؟ توکہیں گے سفرمیں کپڑوں کے پاک ہونے کاکوئی اعتبار نہیں ہوتا ا س لئے ہم نماز نہیں پڑھتے.حالانکہ سفرتوالگ رہا.میراعقیدہ تویہ ہے کہ اگر سر سے پیر تک کسی شخص کے کپڑے پیشاب میں ڈوبے ہوئے ہوں اور اس کے پاس اورکپڑے نہ ہوں جن کو بدل سکے اورنماز کا وقت آجائے تووہ انہی پیشاب آلودہ کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لے.یااگرپردہ ہے توکپڑے اتار کرننگے جسم کے ساتھ نماز پڑھ لے اوریہ پرواہ نہ کرے کہ اس کے کپڑے پاک نہیں یاجسم پرکوئی کپڑانہیں.کیونکہ نماز کی اصل غر ض یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کانام لیاجائے اوراس طرح اس کی یاد اپنے دل میں تازہ کی جائے.جس طرح گرمی کے موسم میں تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد انسان ایک ایک دودوگھونٹ پانی پیتارہتاہے تاکہ اس کا گلہ تررہے اوراس کے جسم کو تراوت پہنچتی رہے.اسی طرح کفر اور بے ایما نی کی گرمی میں انسانی روح کو حلاوت اورتروتازگی پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تھوڑ ے تھوڑے وقفہ کے بعد نماز مقرر کی ہے.تاکہ وہ گرمی اس کی روح کو جھلس نہ دے اوراس کی روحانی طاقتوںکو مضمحل نہ کردے.خداتعالی کانام لینے سے اس کی محبت تازہ ہوجاتی ہے
فرشتے قریب آتے ہیں اورشیطان دور بھاگتاہے.بیشک حکم یہی ہے کہ کپڑے پاک رکھو.لیکن فرض کرو کسی کے پاس اورکپڑے نہیں توبھی اس کے لئے یہ اجازت نہیں ہوگی کہ وہ نماز نہ پڑھے بلکہ اسے یہی کہا جائے گا کہ خواہ تمہارے کپڑے گندے اور ناپاک ہیں پھر بھی تم انہی گندے اورناپاک کپڑوں کے ساتھ نماز پڑھ لو.مثلاً کسی شخص کے پاس صرف ایک ہی تہ بند ہے اوراسے شبہ ہے کہ وہ تہ بند پاک نہیںرہا تواس کے متعلق شریعت کایہ حکم نہیں ہوگاکہ وہ نماز نہ پڑھے.بلکہ اس کے متعلق حکم یہ ہوگاکہ وہ اسی تہ بند کے ساتھ نماز پڑھ لے.کیونکہ کپڑوں کی پاکیزگی سے دل کی پاکیزگی بہرحال مقدم ہے مگرہمارے ملک میں لوگ کپڑوں کاتو خیال رکھتے ہیں اوراپنے دل کوناپاک ہونے دیتے ہیں.اگرہم کپڑے کی ناپاکی کاخیال کرکے نماز چھو ڑدیتے ہیں تواس کے معنے یہ ہیں کہ ہم کپڑے کے پاک کرنے کاخیال توکرتے ہیں لیکن اپنے دل کوپاک کرنے کاخیال نہیں کرتے اوریہ سراسر حماقت ہے.پس اس وقت جو کپڑامیسر ہو اسی کے ساتھ نماز پڑھ لینا جائز ہوگا.مگریہ جائز نہیں ہو گاکہ کپڑے کی ناپاکی کے خیال سے اپنے دل کو ناپاک کرلیاجائے اورنماز کوچھوڑ دیاجائے.نماز روحانی جسم کی اصلاح کا ایک ذریعہ ہے.جس طرح ایک بیمار جسم محض یہ کہہ کر موت سے بچ نہیں سکتاکہ وہ بیمار ہے اوربیمار ہونے کی وجہ سے وہ روٹی نہیں کھا سکتا اسی طرح ایک روحانی جسم بھی یہ کہہ کرموت سے نہیں بچ سکتاکہ وہ بیمار ہے اورنماز نہیںپڑھ سکتا.باوجودا س کے کہ ایک شخص بیمار ہے اور کھانا نہیں کھاسکتا.مثلاً اس کے گلے میں ورم ہوگیا ہے.یاجبڑاجُڑ گیا ہے.یامعدہ غذاکواپنے اندر رکھ نہیں سکتا.یاغذا کو انتڑیوں کی طرف دھکیل دیتاہے.یامنہ کی طرف سے باہر پھینک دیتاہے.یاکوئی رسولی پیداہوگئی ہے.یاسرطان ہوگیاہے.اورغذامعدہ میں ٹھہرتی نہیں بلکہ قے ہوجاتی ہے.یاغذامعدہ کے اند رجاتی نہیں یاانتڑیوں میں کوئی بیماری لاحق ہے اس لئے انتڑیوں میں غذاٹھہرتی نہیں یاپچتی نہیں.پھر بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ مرے گا نہیں اس لئے کہ روٹی کے بغیر انسانی جسم بچ نہیں سکتا.اسی طرح باوجود اس کے کہ ایک شخص کسی عذ ر کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا وہ مرے گا.بعض لوگ عد م فراست کی وجہ سے یہ خیال کرلیتے ہیں کہ چو نکہ وجہ جائز ہے اس لئے نتیجہ نہیں نکل سکتا.حالانکہ ان کا یہ خیال درست نہیں.وجہ جائز ہو یاناجائز نتیجہ ضرور نکلے گا.تم اپنے سر پر اپنی کمائی سے خرید اہواتیل لگائو یاچوری سے حاصل کیاہواتیل لگائو سرضرور چکنا ہوگا.یہ نہیں کہ اپنی کمائی سے حاصل کردہ تیل سے سرچکناہو جاتا ہے اورچوری کے تیل سے سر سوکھارہ جاتاہے.یہ نہیں کہ اپنی کمائی سے حاصل کئے ہوئے کپڑے سے تمہاراجسم ڈھک جائے اور چوری کئے ہوئے کپڑے سے جسم نہ ڈھکے.کپڑاچاہے چوری کاہویااپنی کمائی سے خریداہوااس سے جسم ڈھک جائے گا.جیسے اپنی
کمائی سے خریدے ہوئے کپڑے سے جسم ڈھک جاتاہے اسی طرح چوری سے حاصل کئے ہوئے کپڑے سے بھی جسم ڈھک جاتاہے.نتیجے دونوں کے ایک سے ہوں گے.روٹی کانہ کھاناتوانسان پھر بھی برداشت کرسکتاہے.مثلاً وہ خیال کرسکتاہے کہ اگر وہ مرجائے گا توکیاہوگااسے اگلے جہان میں تو زندگی مل جائے گی.یعنی اسے موت کے بعد اگلے جہان کی زندگی مل جاتی ہے.لیکن روحانی موت کاکوئی قائم مقام نہیں.جسمانی موت کے متعلق تم کہہ دوگےکہ سارے لوگ مرتے ہیںہمیں موت آجائے گی توکیاہوا.اگلے جہان میں ہمیں زندگی مل جائے گی.لیکن اگرتمہیں روحانی موت آجائے توتم کیاکروگے.روحانی موت کاتوکوئی قائم مقام نہیں.پس نماز باجماعت کی عادت ڈالواور اپنے بچوں کو بھی اس کاپابند بنائو.کیونکہ بچوں کے اخلاق اور عادات کی درستی اوراصلاح کے لئے میرے نزدیک سب سے زیادہ ضروری امر نماز باجماعت ہی ہے.مجھے اپنی زندگی میں اتنے لوگوں سے ملنے اور مختلف حالات کی جانچ پڑتال کاموقع ملا ہے اورساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میری طبیعت کو ایساحساس بنایاہے کہ سوسال کی عمر پانے والے بھی اپنی عمر کے تجربوں کے بعد دنیا کی اونچ نیچ اور اچھے برے کو اتنا محسوس نہیں کرسکتے جتنا میں محسوس کرتاہوں.اورمیں نے اپنے تجربہ میں نماز باجماعت سے بڑھ کر اورکو ئی چیز نیکی کے لئے ایسی مؤثر نہیں دیکھی.سب سے بڑھ کر نیکی کااثر کرنے والی نماز باجماعت ہی ہے.اگر میں اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ کی پوری پوری تشریح نہ کرسکوںتومیں اپناقصور سمجھوں گا.ورنہ میرے نزدیک نماز باجماعت کاپابند خواہ اپنی بدیوں میں ترقی کرتے کرتے ابلیس سے بھی آگے نکل جائے پھر بھی میرے نزدیک اس کی اصلاح کاموقعہ ہاتھ سے نہیںگیا.ایک شمّہ بھر اورایک رائی کے برابربھی میرے خیال میں نہیں آتاکہ کوئی شخص نماز باجماعت کاپابند ہواورپھر اس کی اصلاح کاکوئی موقعہ نہ رہے.خواہ وہ کتنا ہی بدیوں میںمبتلا کیوں نہ ہوگیاہو.نیکی کے متعلق نماز کے مؤثرہونے کا مجھے اتنا کامل یقین ہے کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر بھی کہہ سکتاہوں کہ نماز باجماعت کاپابند خواہ کتنا ہی بداعمال کیوں نہ ہوگیا ہو اس کی ضرور اصلاح ہوسکتی ہے اوروہ ضائع نہیں ہوتا.اورمیں شرح صدر سے کہ سکتاہوں کہ آخری وقت تک اس کے لئے اصلاح کا موقعہ ہے مگر وہ نماز باجماعت کاپابند اس رنگ میں ہو کہ ا س کو اس میں لذت اور سرور حاصل ہو.مجھے اپناواقعہ یاد ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کچھ بیمار تھے اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جاسکے.میں اس وقت بالغ نہیں تھا کہ بلوغت والے احکام مجھ پرجاری ہوں.تاہم میں جمعہ کے لئے مسجد کوجارہاتھا کہ ایک دوست مجھے ملے اس وقت کی عمر کے لحاظ سے توان کی شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی تھی.مگر
اس واقعہ کااثر مجھ پر ایسا ہواکہ اب تک مجھے ان کی صور ت یاد ہے.محمد بخش ان کانام تھا.میں نے ان سے پوچھا.آپ واپس آرہے ہیں کیا نماز ہوگئی ہے؟ انہوں نے کہا.آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی اس لئے میں واپس آگیاہوں.میں بھی یہ جواب سن کر واپس آگیا.اورگھر میں آکر نماز پڑھ لی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا مسجدمیں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے.خدا تعالیٰ کافضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کاادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتاتھا.میں نے دیکھا.آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اورآپ کے چہرہ سے غصہ ظاہرہوتاتھا.آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا.جواب میں میں نے کہا.میں گیاتوتھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا.آپ یہ سن کر خاموش ہوگئے.لیکن جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کاحال پوچھنے کے لئے آئے توسب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی کہ کیا آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے.اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیداہوئی.کیونکہ میں خود تومسجد میں گیا نہیں تھا.معلوم نہیں بتانے والے کوغلطی لگی یامیری سمجھ میں غلط مفہوم آیا دونوں صورتو ں میں الزام مجھ پر آئے گا کہ میں نے جھو ٹ بولا.مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا.ہا ں حضو ر! آج واقعہ میں بہت لوگ تھے.میں اب بھی نہیں جانتاکہ اصلیت کیاتھی.خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرادی یا فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طورپر زیادہ لوگ آئے تھے.بہرحال یہ ایک واقعہ ہواجس کاآج تک میرے قلب پر ایک گہرااثر ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کونماز باجماعت کاکتنا خیال رہتاتھا.بڑاآدمی اگرخود نماز باجماعت نہیں پڑھتاتو وہ منافق ہے.مگروہ لو گ جو اپنے بچوں کونماز باجماعت اداکرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ ان کے خونی اورقاتل ہیں.اگرماں باپ بچوں کو نماز باجماعت کی عادت ڈالیں توکبھی ان پر ایساوقت نہیں آسکتاکہ یہ کہاجاسکے کہ ان کی اصلاح ناممکن ہے اوروہ قابل علاج نہیں رہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آجکل مسلمان مساجد میں جاکر نماز یں بھی پڑھتے ہیںاورپھر مسجد سے نکل کرکسی قسم کے گناہ سے بھی ان کو پرہیز نہیں ہوتا.جھو ٹ وہ بولتے ہیں رشوت وہ لیتے ہیں.فریب وہ کرتے ہیں.خیانت سے ان کوپرہیز نہیں.تجارتی دھوکوں سے وہ مجتنب نہیں.غرض ہزاروں قسم کے گناہوں میں مبتلاہیں.مگراس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز کو ان شرائط کے ساتھ ادانہیں کرتے جواسلام نے مقرر کی ہیں.اگروہ ان شرائط کے ساتھ نماز اداکرتے توان کے قلوب پاک ہوجاتے اورگناہوں کی میل دورہوجاتی اورہرقسم کے گناہوں اور بدیوں سے وہ محفوظ ہوجاتے
.کیونکہ نماز کوسنوار کرپڑھنے والا اوران شرائط کوملحوظ رکھنے والا جواللہ تعالیٰ نے ادائے نماز کے لئے مقرر فرمائی ہیں اپنے اند رفوراً ایک تبدیلی پاتاہے اورزیادہ دن نہیں گذرتے کہ اس کے اند رایک خاص ملکہ پیدا ہوجاتا ہے جس سے اسے بدیوں کی شناخت ہوجاتی ہے اورپوشیدہ درپوشیدہ بدیوں پر اسے اطلاع دی جاتی ہے اورمخفی درمخفی گناہوں کا علم جودوسروں کونہیں ہوتا اسے دیاجاتاہے.اورملائکہ اسے ہرموقعہ پرہوشیار کردیتے ہیں.کہ دیکھنا یہ گناہ ہے ہوشیار ہوجانا.ااوراسے شیطان کے مقابلہ کی مقدرت عطاہوتی ہے.کیونکہ نمازی اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کرتاہے اورخدا تعالیٰ کسی کااحسان نہیں رکھتابلکہ اپنے بندہ کواس کے اعمال کااعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ دیتاہے.جب نماز میں کمال تذلل اورخشوع او رخضوع کے ساتھ انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں گرجاتاہے اوروہ تمام تذلل کے طریق جن کو کسی ملک کے باشندوں نے اظہار عبودیت کے لئے تجویز کیا ہے استعما ل کرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے اٹھاتاہے اورجس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتاہے خدا تعالیٰ ملائکہ کو فرماتا ہے کہ دیکھو میرے اس بندہ نے میری پاکیزگی کا اقرار کیاہے تم اسے پاک کردو.اوراس نے میری حمد کی ہے تم اس کی حمد کودنیا میں پھیلائو.اوراس نے میرے حضور میں کمال تذلل اورانکسار کااظہار کیاہے تم اس کو عزت و رفعت دو.غرض جوں جو ںا نسان نمازیں پڑھتاہے اوراللہ تعالیٰ کی پاکیزگی اور حمد اورعظمت کااقرار کرتاہے خدا تعالیٰ اس کے اعمال حسنہ کے ترازو کو بوجھل کرتاجاتاہے اور انسان کا رفع ہوتاجاتاہے.اور چونکہ گناہ نتیجہ ہے مادیت کے تعلق کا.جب انسان اس عالم سے بلند ہوتاجاتاہے تواس کاتعلق مادیت سے کم ہوتاجاتاہے اوروہ گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.پھر فرماتا ہے وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ.بری اور ناپسندیدہ باتوں سے رکنا بھی ایک بڑامقصد ہے.مگرنماز میں جو اللہ تعالیٰ کویاد کیا جاتا ہے یہ اس سے بھی بڑامقصد ہے.وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَاتَصْنَعُوْنَ اوراللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خوب واقف ہے.اس لئے جب تم اللہ تعالیٰ کویاد کروگے تووہ بھی تمہیں یاد کرے گا.تمہیں اپنے قرب اورالہام سے عزت بخشے گا اور تمہاری او رتمہاری قوم کی اصلاح کے سامان پیدافرمائے گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دوسرے خطبہ میں جو کلمات پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اس کے کچھ الفاظ یہ بھی ہیں کہ اُذْکُرُوْااللّٰہَ یَذْکُرْکُمْ یعنی اللہ کویاد کروجس کے نتیجہ میں وہ تمہیں یاد کرے گا.اسی طرح قرآن کریم میں آتاہے کہ فَاذْکُرُوْنِٓیْ اَذْکُرْکُمْ(البقرۃ:۱۵۳)یعنی چاہیے کہ تم مجھے یاد کرو اس کے نتیجہ میں میں بھی تمہیں یاد کروں گا.یعنی تمہیں اپنے قرب میں جگہ دوں گا اور تمہاری ہرتکلیف اور مصیبت میں تمہاری مددکروںگااورظاہر ہے کہ جوشخص اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل
کر لے گا وہ بہت سی بدیوں سے بچ جائے گا.اورخدا تعالیٰ کامعاملہ بھی اس سے محبت او رپیار کاہوجائے گا.اسی وجہ سے اسلام نے تما م اجتماعات میں ذکر الٰہی اورعبادت پر بڑازوردیاہے.چنانچہ دیکھ لوہم حج کے لئے جاتے ہیں.تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے.عیدین میں جاتے ہیں تووہاں بھی ذکرالٰہی ہوتاہے.شادی اوربیاہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکرالٰہی ہوتاہے.جنازہ کے لئے جاتے ہیں تووہاں بھی ذکر الٰہی ہوتاہے.گویاہمارے سب اجتماعوں کو بابرکت بنانے کا نسخہ رسول کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ ان میں ذکر الٰہی اورعبادت زیادہ کی جائے.اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس مجلس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتاہے خدا تعالیٰ کے فرشتے اس میں اترآتے ہیں.پس مومن کافرض ہے کہ وہ اپنے اوقات کو اس طرح صرف کر ے کہ ذکرالٰہی اس کی زبان پر جاری ہو اور نمازوں میں اسے شغف اور رغبت ہو.ذکرالٰہی کرناگویا سوچ آن SWITCH ON کرناہے سوچ آن SWITCH ON کردیاجائے تو روشنی پیداہوجاتی ہے اوراگر سوچ آنSWITCH ON نہ کیاجائے توپھر اندھیراہی رہتا ہے.اسی طرح اگر ذکرالٰہی نہ کیاجائے تو طبیعت روشن نہیں ہوتی.پس اپنے اندر ذکر الٰہی کی عادت پیداکرو تا خدا سے تمہاراتعلق بڑھ جائے.تمہارے اندرہمت پیداہوجائے تمہاری نظروں میں تاثیر پیداہوجائے اوردشمن کے دلوں میں بھی تمہارارعب بیٹھ جائے.اوردشمن خود بول اٹھے کہ یہ لوگ واقعی روحانیت کے پتلے ہیں.وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ١ۖۗ اِلَّا اوراہل کتاب سے کبھی بحث نہ کرو مگراعلیٰ اورمضبوط دلیل کے ساتھ.سوائے ان لوگوں کے جوان میں سے ظلم کرنے الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِيْۤ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَ والے ہوں (ان کو الزامی جواب دے سکتے ہو)اوران سے کہو کہ جو ہم پر نازل ہواہے ہم اس پر بھی ایمان لاتے ہیں اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ۰۰۴۷ اورجوتم پر نازل ہواہے اس پر بھی.اورہماراخدااور تمہاراخداایک ہے.اورہم اس کے فرمانبردار ہیں.تفسیر.چونکہ قرآنی تبلیغ کے بڑے مخاطب یہوداورعیسائی ہی ہوسکتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُتْلُ مَآاُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ کاحکم دینے کے بعد اہل کتاب کاخصوصیت سے ذکرکیا اورفرمایاکہ جب تم قرآن ان کے
سامنے پیش کرو گے تولازماً تورات او رانجیل کے ساتھ قرآن کامقابلہ ہوجائے گا اور تمہاری ان سے بحثیں شروع ہوجائیں گی.ایسی صورت میں ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں.کہ جب کبھی اہل کتاب سے بحث پیش آئے توایسی بات پیش کیاکرو جومضبوط ہواورخوبصورت نظر آنے والی ہو.کیونکہ ان کے پاس خدائی کتاب موجود ہے خواہ وہ محرّف ومبدّل ہی کیوںنہ ہو.مگربہرحال اس میں کچھ نہ کچھ کلام تو خدا کاہے.پس ان کے ساتھ بحث کرتے ہوئے قرآن کریم کومدنظر رکھاکروکیونکہ قرآنی دلیلیں بہت زبردست ہیں.اس کے مقابلہ میں بائیبل کی دلیلیں نہیںچل سکتیں.اس جگہ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ سے قرآنی دلائل کی طرف ہی اشارہ کیاگیاہے.چنانچہ قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر وضاحتہً فرماتا ہے کہ اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ١ۖۗ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ١ۚ ثُمَّ تَلِيْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ(الزمر: ۲۴) یعنی ہم ایک قانون جاری کررہے ہیں.مگروہ کوئی جبری قانون نہیں وہ محض اپنی بادشاہت منوانے کے لئے نہیں بلکہ بہتر سے بہتربات جوکہی جاسکتی ہے خواہ دینی رنگ میں یادنیوی رنگ میں خواہ عقل سے خواہ نقل سے خواہ روایت سے خواہ درایت سے خواہ چھوٹوں کے لئے خواہ بڑوں کے لئے خواہ مردوں کے لئے خوا ہ عورتوں کے لئے ان تمام بہترین باتوں کو اس قانو ن میں جمع کردیاگیاہے اوراب قیامت تک یہ قانون منسوخ نہیں ہوسکتا.دنیوی حکومتیں بعض دفعہ بڑی سوچ بچار کے بعد قانون بناتی ہیں.مگر تھوڑ ے عرصہ کے بعد ہی انہیں اپنا قانون اپنے ہاتھوں سے منسوخ کرناپڑتا ہے.امریکہ نے بڑازورلگایاکہ وہ کسی طرح شراب کے استعمال کو روک دے اوراس نے اس پر قانونی پابندیاں بھی لگائیں مگرتھوڑے عرصہ کے بعد ہی امریکہ کو شراب نوشی کی پھر اجازت دینی پڑی اورشراب کی ممانعت کاقانون اسے منسوخ کرناپڑا.مگراللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم جس قانون کے نفاذ کااعلان کررہے ہیں وہ اَحْسَنُ الْحَدِیْث پرمشتمل ہے.ہربہتر سے بہتر بات اس میں موجود ہے اوروہ انتہائی طور پر پاک اوربے لوث قانون ہے.جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیاہے.وہ ایساقانون نہیں جو آ ج سے سویاہزار سال کے بعد منسوخ ہوسکے یاجس میں ردّوبدل کی کوئی گنجائش نکل سکے.پس اس جگہ احسن سے مراد قرآنی دلائل ہی ہیں.یعنی اہل کتاب سے بحث کرتے وقت قرآنی دلائل کومدنظر رکھاکرو.اٹکل پچوباتیں نہ کیاکرو.اِلَّاالَّذِیْنَ ظَلَمُوْامِنْھُمْ اس میںبتایاکہ ہماری اصولی ہدایت تویہی ہے کہ بحث میں کبھی سختی سے کام نہ لو اور صرف دلائل تک اس گفتگو کومحدود رکھو.لیکن چونکہ دنیا میں بعض ایسے ظالم لوگ بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے بزرگوں اور ان کے مقدس نبیوں پر بھی گند اچھالنے سے باز نہیں آتے اس لئے کبھی ایسے گندہ دہن دشمنوں سے تمہیں
مقابلہ پیش آجائے تو تم انہیں الزامی جواب بھی دے سکتے ہو.جیسا کہ موجودہ زمانہ میں جب عیسائی پادریوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نہایت گندے اورناپاک اعتراضات کرنے شروع کردیئے اورانہوں نے اپنی بدزبانی کے تیروں سے کروڑوں مسلمانوں کے دلوںکو مجروح کردیا اور آپؐ کو (نعوذ باللہ) دجال اور کذاب کہناشروع کردیا اور’’امہات المومنین‘‘وغیرہ کتب لکھ کر اپنے اس بغض اورکینہ کوانتہاتک پہنچادیاجوانہیں اسلام اوربانیئے اسلام سے تھاتوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اناجیل کی روسے انہیں الزامی رنگ میں بتایاکہ تم جس مسیح کوخداقرار دے رہے ہو اس کی اپنی کیاحیثیت تھی اوراس کی پاکیزگی اوراخلاق کے متعلق تمہارے دعوے کہاں تک حق بجانب ہیں.آپ کے اس جواب پرعیسائی پادریوںکاشور مچاناتو ایک طبعی امر تھا.مگربدقسمتی سے بعض مسلمانوں نے بھی اس کی حکمت کونہ سمجھتے ہوئے یہ اعتراض کرناشروع کردیا کہ آپ نے (نعوذ باللہ) حضرت مسیح ؑ کی ہتک کی ہے.حالانکہ آپ کے یہ جوابات قرآن کریم کی اسی آیت کی روشنی میں تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے گندہ دہن مخالفین کا استثناء کیا ہے اورفرمایا ہے کہ تم ہمیشہ نرمی اورمحبت کے ساتھ دلائل پیش کرو.لیکن اگرکبھی کسی ایسے مخالف سے بحث پیش آجائے جوگالیوں اوربدزبانی پر اترآئے اوراسلام اوراس کے بزرگوںپرحملے شروع کردے توتم بھی مناسب رنگ میں اسے الزامی جواب دے کر خاموش کرا سکتے ہو.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پراسی طریق سے کام لیا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر ذکرآتاہے کہ مخالف یہ اعتراض کیاکرتے تھے کہ یہ کیسانبی ہے یہ توعام انسانوں کی طرح کھاتاپیتاہے اور قرآن کریم اس کاالزامی رنگ میں یہ جوا ب دیتاہے کہ پہلے نبی بھی کھاتے پیتے تھے اورپہلے نبیوں کے بھی بیوی بچے تھے.اسی طرح گذشتہ زمانوں میں اسلامی بزرگ بھی اس طر یق سے کام لیتے رہے ہیں.چنانچہ ایک مشہورتاریخی واقعہ ہے کہ ایک دفعہ روم کے بادشاہ نے ایک مسلمان بادشاہ کو لکھا کہ آپ اپنا کوئی عالم ہمارے پاس بھجوائیں.ہم مذہب کی تحقیق کرناچاہتے ہیں.چنانچہ مسلمان بادشاہ نے ایک عالم کو بھجوادیا.عیسائیوں نے پہلے ہی منصوبہ کیاہواتھا.انہوں نے خیال کیا کہ مسلمان عالم کو آتے ہی ہم شرمندہ کریں گے.چنانچہ جب دربار لگ گیا تو ایک پادری اٹھا او رکہنے لگا.مولوی صاحب! آپ کے رسول ؐ کی بیوی عائشہؓ پرالزام لگایاگیاتھا.اورالزام لگانے والے بھی آپ کی قو م ہی میں سے تھے.اس لئے یہ اعتراض کچھ مضبوط معلوم ہوتاہے.مسلمان عالم جوغالباً امام ابن تیمیہ ؒ یاان کے کوئی دوست تھے.بڑ ے ہوشیار تھے.کہنے لگے.پادری صاحب ! دنیا میں دوعورتیں گذری ہیں.ایک کاخاوند تھا.خبیث لوگوں نے اس پر الزام لگایا.مگرساری عمر اس کے کوئی بچہ نہیں ہوا.لیکن ایک
اَورعورت (یعنی حضرت مریم ؑ) تھی.جس کاخاوند بھی نہیں تھا.اس پر دشمنوں نے الزام لگایا.ا وراس کے ہاں بیٹاپیداہوگیا.اب آپ بتائیے کہ الزام کس عورت پرلگتاہے.اس پر پادر ی سخت شرمندہ اورلاجواب ہوگیا او رکہنے لگا کہ مولوی صاحب آپ نے توسختی شروع کردی.و ہ با ت تو ہم نے یو نہی کہی تھی.خود میرے ساتھ بھی ایک ایسا ہی واقعہ گذراہے.ایک دفعہ میرے پاس ایک انگریز آیااوراس نے کہا میں آپ سے اسلام کے متعلق کچھ باتیں کرناچاہتاہوں.لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کوئی الزامی جواب نہ دیں.میں نے کہا اگرتم اسلام پر حملہ نہیں کروگے تومیں بھی الزامی جواب نہیں دوں گا.لیکن جب باتیں شروع ہوئیں توتھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پرحملہ کرناشروع کردیا.میں نے جواب میں حضرت عیسیٰ ؑ پر حملہ کردیا اس سے اس کاچہرہ سرخ ہوگیا.اورکہنے لگا میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں سن سکتا.میں نے کہا.دیکھومیراتم سے وعدہ تھا کہ اگرتم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ نہیں کروگے تومیں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر حملہ نہیں کروںگا.چنانچہ میں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی بات نہیں کی.لیکن تم نے اپنے وعدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا ہے.اگرتم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے غیرت ہے توکیا میں ہی اتنا بے غیرت ہوں کہ مجھے اسلام اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت پر حملہ دیکھ کر غیرت نہ آئے.اگر تم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تائید میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرایک حملہ کروگے تومیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بیس حملے کروں گا.چنانچہ وہ اسی وقت اٹھ کھڑاہوااورکہنے لگامیں عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا عیسائیوں کو الزامی جواب دینا ہرگز قابل اعتراض امر نہیں تھااورنہ آپ کے بعض سخت الفاظ کے مخاطب تمام اقوام کے نیک اور مہذب اورسنجیدہ لوگ تھے.بلکہ صرف ایسے ہی لوگ آپ کے مخاطب تھے جنہوں نے شرافت سے کام نہ لیااوراسلام پر گند اچھالناشروع کردیا چنانچہ آپ اس بار ہ میں وضاحت کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم نیک علماء کی ہتک اورمہذب شرفاء کی عیب چینی کریں.خواہ وہ مسلمان ہوں یامسیحی ہوں یا ہندوہوں بلکہ ہم ان اقوام میں سے جو بیوقوف ہیں ان کے لئے بھی سخت کلامی نہیں کرتے.ہم صر ف ان کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں جوبیہود ہ گوئی میں مشہور ہیں اوربدکلامی کی اشاعت جن کاکام ہے.لیکن وہ جو ان باتوں سے پاک ہیں اوران کی زبان
گند سے آلود ہ نہیں.ہم ایسے لوگوں کا ذکر ہمیشہ نیکی سے کرتے ہیں اوران کی عزت کرتے ہیں اوران کوبلند درجہ پر بٹھاتے ہیں اوران سے اپنے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں.‘‘ (لجّۃ النور روحانی خزائن جلد ۱۶ص ۶۷) پھر لکھا ہے:.’’ ہماری اس کتاب میں اوررسالہ ’’ فریادِ درد‘‘میں وہ نیک چلن پادر ی اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافت ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بدگوئی سے کنار ہ کرتے ہیں اوردل دکھانے والے لفظوں سے ہم کو دکھ نہیں دیتے اورنہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے ہیں اور نہ ان کی کتابیں سخت گوئی او ر توہین سے بھری ہوئی ہیں.ایسے لوگوں کو بلاشبہ ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اوروہ ہماری کسی تحریر کے مخاطب نہیں صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے ہیں یاعیسائی.جو حداعتدال سے بڑھ گئے ہیں اورہماری ذاتیات پربدگوئی سے حملہ کرتے یاہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں منہ پرلاتے اور اپنی کتابو ںمیں شائع کرتے ہیں سوہماری اس کتاب اوردوسری کتابوں میں کوئی لفظ یاکوئی اشارہ ایسے معززلوگوں کی طرف نہیں ہے جو بدزبانی اورکمینگی کے طریق کواختیار نہیں کرتے.‘‘ (ٹائیٹل پیج ’’ ایام الصلح‘‘روحانی خزائن جلد ۱۴) یہ تشریح جو اوپر بیان کی گئی ہے اس کومدنظر رکھتے ہوئے اس جگہ اِلَّا کواستثناء متصل قراردیاجائے گا.اوریہی نقطہ نگاہ مفسرین نے اختیارکیا ہے.لیکن علامہ ابوالبقاءؒ نے لکھا ہے کہ اِلَّا کواستثنا ء منقطع بھی قراردیاجاسکتاہے.اس صورت میں اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسے ظالموں سے جھگڑوہی نہیں بلکہ یہ کہہ دوکہ تم بھی خدا کی کتاب کے ماننے والے ہو اورہم بھی.اورہماراتمہاراخداایک ہی ہے.پھرلڑنے سے کیافائدہ ؟ ہم تم سے بحث ہی نہیں کرناچاہتے.گویااگر وہ بدزبانی کریں تب بھی ان سے سختی کے ساتھ پیش نہ آئو بلکہ عفو سے کام لو اوران سے اعراض اختیارکرو.پھر فرمایاہم تمہیں ایک اورنصیحت یہ کرتے ہیں کہ جب اہل کتاب سے تمہیں مقابلہ پیش آئے تو قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِيْۤ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ.تم انہیں یہ کہاکرو کہ ہم تواس کلام کوبھی مانتے ہیں جو ہم پر نازل ہوااوراس کلام پر بھی اصولی رنگ میں ایمان رکھتے ہیں جوتم پر نازل ہوا.اور تمہارا معبوداور
ہمارا معبود ایک ہی ہے اورہم اسی کے فرمانبردار ہیں پس آپس میں جھگڑنے سے کیافائدہ.ہم لوگوں کو مل کرخدائے واحد کی تبلیغ کرنی چاہیے.چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس طریق کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـًٔا وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران:۶۵) اے اہل کتاب! کم سے کم ایک ایسی بات کی طرف تو آجائو.جو ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں اور نہ ہم اللہ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو رب کا درجہ دیا کریں.پھر اگر وہ پھر جائیں تو ان سے کہہ دو کہ تم گواہ رہو کہ ہم تو خدا کے فرمانبردار ہیں.یہ ایک مختصر سی آیت ہے.لیکن اگر غور سے کام لیا جائے تو اس میں اسلام کی حقیقت پسندی کا ایک نہایت ہی زبردست مظاہرہ کیا گیا ہے.وہ لوگ جنہوں نے اسلام کا مطالعہ کیا ہوا ہے جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یہود کو مسلمانوں کا بدترین دشمن قراردیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاالْیَھُوْدَوَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا.(المائدۃ :۸۳)یعنی تُو مومنوں سے عداوت رکھنے میں یقیناًیہودیوں کو اوران لوگوں کو جو مشرک ہیں سب سے زیادہ سخت پائے گا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہرقسم کے نیک سلوک کے باوجود یہود بڑی بے شرمی اوربے حیائی سے آپ کی ہرقسم کی مخالفتیں کرتے رہے.اکثر جنگیں یہود کے اکسانے پر ہی ہوئیں بلکہ کسریٰ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کروانے پر بھی انہوں نے ہی اکسایاتھا گوخدا نے ان کامونہہ کالاکیا.مگرانہوں نے اپنے خبث باطن کا اظہار کردیا.غزوئہ احزاب کی لیڈری بھی یہودہی کے ہاتھ میں تھی.ساراعرب اس سے قبل کبھی اکٹھانہیں ہواتھا.دراصل مکہ والوں میں ایسی قوت نظام تھی ہی نہیں.یہ مدینہ سے جلاوطن شدہ یہودی قبائل کاہی کارنامہ تھا کہ انہوں نے قریش اورغطفان اور بنوسلیم اوربنواسد اوربنوسعد اورعرب کے دوسرے زبردست قبائل کو اکٹھاکرکے مدینہ کے سامنے لاڈالا.خدا نے اس وقت بھی ان کامنہ کالا کیا.مگریہود نے اپنی طرف سے کوئی کسر اٹھانہ رکھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل دشمن مکہ والے تھے.مگرمکہ والوں نے کبھی دھوکاسے آپ کی جان لینے کی کوشش نہیں کی.آپؐ جب طائف گئے اورملک کے قانون کے مطابق مکہ کے شہری حقوق سے آپ دستبردار ہوگئے مگرپھر آپ کو لوٹ کرمکہ میں آنا پڑاتواس وقت مکہ کاایک شدید ترین دشمن آپؐ کی امداد کے لئے آگے آیا.اورمکہ میں اس نے اعلان کردیا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہریت کے حقوق دیتاہوں.و ہ اپنے پانچوں بیٹوں سمیت آپ کے ساتھ ساتھ مکہ میں داخل ہوااوراس نے اپنے
بیٹوں سے کہا.کہ محمد ؐہمارادشمن ہی سہی پرآج عرب کی شرافت کاتقاضا ہے کہ جب وہ ہماری امداد سے شہر میں داخل ہوناچاہتا ہے توہم اس کے مطالبہ کو پوراکریں.ورنہ ہماری عزت باقی نہیں رہے گی اوراس نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اگر کوئی دشمن آپ پرحملہ کرناچاہے توتم میں سے ہرایک کو اس سے پہلے مرجاناچاہیے کہ وہ آپ تک پہنچ سکے.یہ تھا عرب کاشریف دشمن.اس کے مقابلہ میں بدبخت یہودی جس کو قرآن کریم مسلمانوںکاسب سے بڑادشمن قرار دیتا ہے اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر پربلایا او رصلح کے دھوکا میں چکی کاپاٹ مکان کی چھت پر سے پھینک کرآپ کومارناچاہا.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے منصوبہ کی خبردے دی.اورآپؐ سلامتی سے وہاں سے نکل آئے.اسی طرح یہودی قوم کی ایک عورت نے آپ کی دعوت کی اورزہر ملاہواکھاناآپ ؐ کوکھلایا.آپ کو خداتعالی نے اس موقعہ پر بھی بچالیا.مگریہودی قوم نے اپنا اندرونہ ظاہر کردیا.ظاہر ہے کہ ایسی بدترین دشمن قوم سے کسی تعاون کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتاتھا.مگراتنے اختلافات کے ہوتے ہوئے بھی قرآن کریم یہود کو دعوت اتحاددیتاہے اورکہتاہے کہ اے ہمارے رسول یہودیوں کو جو تیرے اتنے دشمن ہیں اورعیسائیوں کوجوتجھے جھوٹااور کذاب سمجھتے ہیں کہو کہ تم مجھے جھوٹاکہو مگرتم میرے خدا کوتومانتے ہو.آئو ہم اس خدا کی وحدانیت قائم کرنے کے لئے اکٹھے مشن کھولیں اور توحیدکودنیا میں پھیلائیں.لیکن اگراس دعوت اتحاد کے باوجود وہ پھر بھی اکٹھے نہ ہوں توتُوانہیں کہہ دے کہ ہم تو خداکے اس حکم کی تعمیل کریں گے.زیر تفسیر آیت میں بھی اسی امر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ اگراہل کتاب سے بحث ہوہی جائے.توقرآنی دلائل کو کام میں لایاکرو.لیکن بہتر یہی ہے کہ ان کو ادھر توجہ دلاتے رہوکہ بے ہودہ باتوں سے کیافائدہ ہم بھی موحد ہیں اور تم بھی موحد ہو.ہم بھی خداکے کلام پر ایمان لاتے ہیں اور تم بھی خداکے کلام پر ایمان لاتے ہو.بلکہ ہم تم سے بڑھ کرہیں کہ تم پر نازل ہونے والے کلام پر بھی ایمان لاتے ہیں اوراپنے اوپر نازل ہونے والے کلام پر بھی ایما ن لاتے ہیں.پس بحثوں میں وقت ضائع کرنے سے کیافائدہ.آئو ہم مل کر ان لوگوں میں خدائے واحد کی تبلیغ کریں جوخدائے واحد کو نہیں مانتے.افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ تیرہ سوسال سے یہ تعلیم قرآن میں موجود ہے.آج تک عیسائیوں اوریہودیوں نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں ۵۵ ء میں بیماری کے علاج کے لئے یورپ گیاتو ایک کالج کے منتظمین نے مجھے لیکچر کی دعوت دی اور بہت سے گریجوایٹ وغیرہ لیکچر سننے کے لئے آئے.انہوں نے مجھے انگریزی میں تقریر کرنے کے لئے کہا.جس کی مجھے عادت نہ تھی.مگران کے اصرار پرمیں نے ان کی بات مان لی.چونکہ طالبعلم مختلف قوموں کے تھے کچھ جرمن سمجھتےتھے کچھ فرانسیسی کچھ سوس کچھ آسٹریلین.کچھ یہودی.اس
لئے انہوں نے یو.این.او کی طرح یہ انتظام کیاہواتھا کہ میری انگریزی تقریر ریڈیوکے ذریعہ مختلف کمروں میں جاتی.جہاں مختلف قوموں کے علماء بیٹھے ہوئے تھے اوروہ ترجمہ کرکے فوراً اس زبان میں اسے ریلے کردیتے تھے.ہرزبان کے جاننے والے نے اپناآلہ اپنے کانوں کو لگایاہواتھا جس کے ذریعہ سے وہ ساتھ ساتھ میری انگریزی کی تقریرکواپنی زبان میں سنتاجاتاتھا.میری تقریر کے بعد بہت سے سوالات ہوئے.جن میں سے ایک سوال یہ تھا.کہ آپ نے جو اسلام کی باتیں بتائی ہیں.یہ تووہی ہیں جو عیسائیت اوریہودیت پیش کرتی ہے.پھر یہ کیا جھگڑانظرآتاہے کہ مسلمان عیسائیوں کوبرابھلاکہتے ہیں اورعیسائی مسلمانوں کوبرابھلاکہتے ہیں.یہودی عیسائیوں اورمسلمانوںکو برا سمجھتے ہیں اورعیسائی اورمسلمان یہودیوں کوبراسمجھتے ہیں.گویادنیا نہ موسیٰ ؑ کے خدا کومانتی ہے نہ عیسیٰ ؑ کے خدا کومانتی ہے.اورنہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کومانتی ہے ایسی صورت میں ان جھگڑوں کے تصفیہ کے لئے سب مل کریہ کیوں نہیں طے کرلیتے کہ سب لوگ ایک خدا کومانیں اس کی سچے دل سے عبادت کریں اور اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں.میں نے کہا.مجھے یہ سوال سن کر بڑی خوشی ہوئی کیونکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآج سے تیرہ سوسال پہلے اللہ تعالیٰ نے ان جھگڑوں کے تصفیہ کا یہی طریق بتایاتھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا.قُلْ يٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۭ بَيْنَنَا وَ بَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَ لَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْـًٔا(اٰل عمران :۶۵) یعنی اے اہل کتاب آئو میں تمہیں ایک کلمہ پر جمع ہونے کاطریق بتائو ں.جو تمہارے نزدیک بھی مسلّمہ ہے اورہمارے نزدیک بھی مسلّمہ ہے.وہ طر یق یہ ہے کہ ہم سب ایک خدا کی عبادت کریں اوراس کے ساتھ کسی کو شریک قرارنہ دیں.تیرہ سوسال ہوئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ علاج بتایاتھا اور تمام اہل کتاب کواس اصل کی طرف توجہ دلائی گئی تھی.مگرتمہارے باپ دادانے قرآن کریم کی اس دعوت کو قبول نہ کیا.پس بجائے ہم سے سوال کرنے کے تم اپنے باپ داداکاشکوہ کرو.اوراپنے بزرگوں سے کہو کہ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنی اچھی تعلیم پیش کی تھی توتم نے اسے قبول کیو ں نہ کیا اوراپنا منہ کیوں پھیر لیا.بہرحال اس اتحاد کے نہ ہونے کاالزام اگرآتاہے.توتمہارے باپ داداپر آتاہے.ورنہ تیرہ سوسال سے قرآن کریم میں یہ بات موجود ہے اب اگرتمہیں کوئی شکوہ ہے تواپنے باپ داداسے شکوہ ہوناچاہیے.ہم سے نہیں ہوناچاہیے.
وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ١ؕ فَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰهُمُ اوراسی طرح(پہلی کتابوں کی مصدق بناکر )ہم نے تجھ پر یہ مکمل کتاب (یعنی قرآن کریم )اتاری ہے.پس وہ الْكِتٰبَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ١ۚ وَ مِنْ هٰؤُلَآءِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِهٖ١ؕ لوگ جن کو ہم نے یہ کتاب دی ہے وہ اس پر ایمان لاتے ہیں.اوران لوگوں سے (یعنی اہل کتاب میں سے ) وَ مَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَاۤ اِلَّا الْكٰفِرُوْنَ۰۰۴۸ بھی بعض ا س پرایمان لاتے ہیں.اورہماری آیتوں کاضد کے ساتھ انکار صرف کافر ہی کرتے ہیں.تفسیر.فرمایاجس طرح موسیٰ ؑ پرتورات نازل ہوئی تھی.اسی طرح اب ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل کی ہے.گویا اس زمانہ میں تیراوجود موسیٰ ؑ کاوہ طور ہے.جہاں خدابول رہاہے.پس وہ خوش قسمت لوگ جن کو ہم نے یہ کتاب عطافرمائی ہے یعنی محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو.وہ تواس کتاب کے ایک ایک حرف کی صداقت پرکامل یقین رکھتے ہیں.اوراس کی سچائی کے ثبوت میں اپنی جانیں تک قربان کررہے ہیں بلکہ اہل کتاب میں سے بھی بعض (کیونکہ مِنْ بعضیہ بھی ہوتاہے)ایسے ہیں جو اس قرآن کوموسیٰ ؑ کی پیشگوئیوں کامصدق سمجھتے ہوئے اس پرایمان لے آئے ہیں جیسے حضرت عبداللہ بن سلامؓ جویہود کے ایک بہت بڑے عالم تھے.لیکن ایسے لوگ بھی ہیں جو جانتے بوجھتے ہوئے محض ضداورتعصب کی وجہ سے اس کاانکارکررہے ہیں.یہ لوگ اول درجہ کے ناشکر گذارہیں.کیونکہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھاکہ اس کتاب نے دنیا میں ایک عظیم الشان انقلاب پیداکردیاہے اورمردہ دنیا میں زندگی کے آثار پیداہورہے ہیں.لیکن اتنے بڑے نشان کو دیکھنے کے باوجود انہوں نے صداقت کو قبول کرنے کی جرأت نہیں کی.پس یہ لوگ درحقیقت کافرِ نعمت ہیں اورایسے ہی لوگ ہمارے روشن نشانات کی تکذیب کیاکرتے ہیں.
وَ مَا كُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِهٖ مِنْ كِتٰبٍ وَّ لَا تَخُطُّهٗ اوراس (یعنی قرآن) کے نازل ہونے سے پہلے تُوکوئی کتاب نہ پڑھتاتھا.نہ لوگوں کوسناتاتھا اورنہ اسے اپنے بِيَمِيْنِكَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ۰۰۴۹بَلْ هُوَ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ دائیں ہاتھ سے لکھتاتھا.اگرایساہوتاتوجھٹلانے والے شبہ میں پڑ جاتے.مگریہ (قرآن)توکھلی کھلی نشانیاں ہیں ان فِيْ صُدُوْرِ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ١ؕ وَ مَا يَجْحَدُ بِاٰيٰتِنَاۤ اِلَّا الظّٰلِمُوْنَ۰۰۵۰ لوگوں کے دلوں میں جن کو علم دیاگیاہے اورہمارے نشانات کاظالموں کے سواکوئی انکار نہیں کرتا.تفسیر.اس آیت کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیے.کہ یہاں صرف تلاوت کی نفی مقصود نہیں بلکہ یَتْلُوْاصُحُفًامُّطَھَّرَۃً (سورۃالبَیَّنَہ آیت ۳)کی تشریح کی گئی ہے او رمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ آپ نہ توکوئی کتاب پڑھ سکتے تھے اورنہ اپنے ہاتھ سے کچھ لکھ سکتے تھے یعنی ظاہری علوم سے آپ قطعی طورپر ناواقف تھے.اگرایسانہ ہوتاتو انکار کرنے والے شبہ میں پڑسکتے تھے کہ شاید دوسری کتابو ںسے اس نے علم حاصل کرلیا ہے.مگراب تو ان کے لئے اس قسم کے شبہ کی بھی کوئی گنجائش نہیں.تلاوت درحقیقت دوطرح ہوتی ہے.ایک کتاب کو دیکھ کر اور دوسرے کسی بات کودوہرانے سے خواہ وہ دوہرانے والانابینایااَن پڑھ ہی کیوں نہ ہو.اگرایک اَن پڑھ آدمی جس نے قرآن کریم کاکچھ حصہ زبانی یاد کیاہواہو.قرآن کریم پڑھے تووہ بھی تلاوت کہلاتی ہے.اسی طرح اگر کوئی نابیناشخص قرآن کریم یاد کرلے اورپھر قرآن کریم پڑھے.تب بھی یہی کہاجاتاہے کہ اس نے قرآن کریم کی تلاوت کی.چنانچہ اما م الصلوٰ ۃ جوروزانہ نمازوں میں تلاوت کرتے ہیں.وہ قرآن کریم کو دیکھ کرتلاوت نہیں کرتے.بلکہ جو کچھ انہیں یاد ہوتاہے اسے پڑھ دیتے ہیں.پس مِنْ کِتٰبٍ کہہ کر دونوں طرح کی تلاوت کی نفی کردی گئی ہے اس تلاوت کی بھی جو کتاب کو دیکھ کرکی جاتی ہے اوراس تلاوت کی بھی جو زبانی کی جاتی ہے.کتاب کالفظ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ خط کے لئے استعمال ہواہے.ورنہ عام کتابوں کے لئے قرآن کریم میں کتاب کالفظ کہیں استعمال نہیں ہوا.کتاب کے لفظ کا استعمال ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کتابوں کے متعلق ہی کیا جاتا ہے.پس مِنْ کِتٰبٍ سے مراد مِنَ الْکُتُبِ السَّمَاوِیَّۃِ ہے.یعنی کتب سماویہ میں سے آپ نے کوئی کتاب نہیں پڑھی اوریہ ذکراس لئے کیاگیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے
مخالفین کہہ دیاکرتے تھے کہ آپ تورات او رانجیل کی باتیں دوہرادیتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ مجھے یہ یہ الہام ہواہے.بلکہ اب تک عیسائی بھی یہی اعتراض کرتے رہتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ ان کے اس اعتراض کا ذکرکرتے ہوئے فرماتا ہے کہ منکرین کہتے ہیں ھِیَ تُمْلیٰ عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا اسے صبح شام لوگ تورات کی آیتیں سناتے ہیں.جنہیں یہ دوہرادیتاہے.یعنی ہماری کتابوں سے چُراچُراکریہ باتیں بیان کردیتاہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارایہ رسول اُمّیوں میں رہتاہے اوران سے سارادن باتیں کرتارہتاہے مگرشام تک تویہ تورات اور انجیل کے کسی واقعہ کا ذکرنہیں کرتا.پھر یہ کیابات ہے کہ صبح کواٹھتاہے توان کتابوں کے واقعات دوہراناشروع کردیتاہے اوردہراتابھی اس شان سے ہے کہ تورات اور انجیل کے تما م غلط واقعات کی تصحیح کرتاچلاجاتاہے.اورجن واقعات کو بائیبل نے ترک کردیاہے ان کو بیان کردیتاہے.گویاوہ تورات کی نقل نہیں کرتا بلکہ تورات کی خامیوں کی اصلاح کرتا اور پھر اس گردوغبارکو بھی دور کرتاہے جومرورِ زمانہ کی وجہ سے یہود اور نصاریٰ کے ہاتھوں انبیاء کے مقدس چہروں پر پڑ گئی تھی.پھر بعض مسائل تورات کے ایسے بھی تھے جن کو اس وقت خود یہود ی بھی نہیں جانتے تھے.مثلاًاحادیث میں لکھا ہے کہ مدینہ کے یہودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک آدمی کو لے کر آئے جس پر زناکاالزام تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تورات میں زانی کے لئے کیاسزاہے؟ وہ کہنے لگے ہمارے ہاں تواس کاکوئی ذکرنہیں.آپ نے فرمایا.نکالوتورات.انہوں نے تورات کھو لی.تواتفاق کی بات ہے کہ وہی صفحہ نکلا جس میں زانی کے لئے رجم کاحکم تھا.ایک یہودی نے جلدی سے اس جگہ اپناہاتھ رکھ دیا.لیکن حضرت عبداللہ بن سلام نے دیکھ لیا اورانہوں نے اس سے کہا کہ اپناہاتھ اٹھائو اس نے ہاتھ اٹھایاتو نیچے زانی کے لئے رجم کا حکم موجود تھا.جب ا س قسم کے موٹے موٹے مسائل سے بھی اکثریہود ناواقف تھے توان کے متعلق یہ کیسے گمان کیاجاسکتاہے کہ وہ باریک مسائل کے متعلق علم رکھتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ علوم ان سےحاصل کرتے تھے.بلکہ حدیثوں سے تویہاں تک پتہ چلتاہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تورات پڑھنی شروع کی توآپؐ سخت ناراض ہوئے (مشکوٰۃ باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ) ایسی صورت میں یہ خیال بھی کس طرح کیاجاسکتاہے کہ آپؐ یہودی علما ء سے تورات کی باتیں معلوم کیاکرتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دشمنوں کے اس اعتراض کا جواب دیا ہے اورفرمایا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ لوگ جھوٹاالزام لگاتے ہیں کہ آپؐ نے تورات اور انجیل پڑھ کر یہ باتیں معلوم کرلی ہیں آپؐ کے
لئے توتورات اور انجیل پڑھنے کاکوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا.کیونکہ آپؐ اُمّی اوراَن پڑھ تھے.اوراگر بالفرض آپؐ نے وہ کتابیں پڑھی ہوتیں توان کے واقعات کے متعلق ضروری تھا کہ آپ ؐ دوسروں سے باتیں بھی کرتے.آخر جب کو ئی شخص علم حاصل کرتاہے توو ہ ایک دوون میں ہی اس کے تمام مسائل سے واقف نہیں ہوجاتابلکہ وہ سال دوسال بلکہ اس سے بھی زیادہ مدت تک پڑھنے کے بعد اس کے مسائل کے متعلق واقفیت حاصل کرتاہے.اورپھر جوعلم وہ حاصل کرتاہے اس کے متعلق دوسرے لوگوں سے گفتگو بھی کرتاہے.لیکن تم جانتے ہوہمارے اس رسولؐ نے اس سے پہلے کسی سے اس قسم کی باتیں نہیں کیں پھر اب جو یکدم اس قسم کی باتیں کرنے لگ گیاہے تومعلوم ہواکہ یہ باتیں اسے کسی ایسی ہستی نے بتائی ہیں جوتمام دنیا کے عالموں سے زیادہ علم رکھنے والی ہے.ورنہ ہمارایہ رسول ؐ تواپنی زبان میں لکھی ہوئی کتاب بھی نہیں پڑھ سکتا.کسی دوسری زبان میں لکھی ہوئی کتاب کس طرح پڑھ سکتاہے.پس یہاں مِنْ کِتٰبٍ سے مراد کتب سماویہ ہیں اورخدا تعالیٰ مخالفین اسلام کواس طرف توجہ دلاتاہے کہ ہمارایہ رسول تم میں ہی رہتاہے کیااس کو کبھی کسی نے تورات یاانجیل کے متعلق باتیں کرتے دیکھا.اگرنہیں توپھر کس طرح ایک ہی رات میں اس نے ان کتابوں کو پڑھ لیا.اورایک ہی رات میں غیر زبان سیکھ لی.اوران کتابوں کے سارے مضامین ازبرکرلئے.اگرایساہواہے تویہ بھی تو ایک معجزہ ہے.مگریہ توان کتابوںسے بالکل ناواقف تھا.اس نے کبھی ان کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی.پھر سوچنے والی بات یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات پڑھنی کس سے تھی.مکہ میں صرف ایک ہی شخص ورقہ بن نوفل تھے جوتورات کے بعض حصے عبرانی سے عربی میں نقل کیاکرتے تھے.مگرساری تورات وہ بھی نہیں جانتے تھے.دعویٰ کرنے کے بعد جب آپؐ نے دیکھا کہ بعض لوگ تورات پڑھتے ہیں تو آپؐ نے ان کو منع فرما دیاتاکہ ان پر قرآن کریم اورتورات کے مسائلمختلط نہ ہوجائیں.یعنی ایسانہ ہوکہ کوئی مسئلہ تورات میں ہواوروہ اس کے متعلق یہ خیال کرلیں کہ یہ قرآن کریم میں ہے.یاکوئی مسئلہ قرآن کریم میں ہواوروہ اس کے متعلق یہ سمجھیں کہ یہ تورات میں ہے.اس لئے آپ نے تورات کے پڑھنے سے منع فرما دیا.اسی طرح حدیثوں کے لکھنے سے بھی منع فرما دیا.کیونکہ اس وقت قرآن کریم اتررہاتھا.اورخطرہ تھاکہ دوسری باتیں اس میں مخلوط نہ ہوجائیں.وَلَاتَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ میں اس طرف اشارہ فرمایاکہ جس کتاب کی تلاوت کی نفی کی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھابھی نہیں کرتے تھے.یہ نفی بھی عام ہے.یعنی کتب سماویہ میں سے کوئی کتاب آپ لکھابھی نہیں کرتے تھے.یہ نفی اس لئے بھی ضروری تھی کہ ممکن تھاکوئی شخص یہ خیال کرلیتاکہ ورقہ بن نوفل نے جس قدر تورات کاترجمہ کیاتھا
شاید اسی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نقل کرلیاہو.کیونکہ بعض دفعہ انسان گومضمون نہیں سمجھتا مگرنقل کرتاجاتاہے.جیسے کاپی نویس بعض دفعہ مضمون نہیں سمجھتے مگرنقل کرلیتے ہیں.اورجوشخص اس طرح نقل کرے وہ کچھ نہ کچھ حروف سمجھ بھی جاتاہے.مثلاً مجھے عبرانی نہیں آتی.لیکن بعض الفاظ جوعربی سے ملتے جلتے ہیں سمجھ آجاتے ہیں.جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کاقول ہے.’’اِیْلِی اِیْلِی لِمَاسَبَقْتَانِیْ‘‘یہ عبرانی زبان کے الفاظ ہیں مگرعر بی کے ساتھ ملتے ہیں اوران کاعربی زبان میں یہ مفہوم ہے کہ اِلٰھِیْ اِلٰھِیْ لِمَ تَرَکْتَنِیْ خَلْفًاوَذَھَبْتَ اَمَامًا.سَبَقَ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ کوئی شخص آگے نکل جائے اوراپنے ساتھیوںکوپیچھے چھوڑ جائے گویا سَبَقْتَنِیْ کے معنے تَرَکْتَنِیْ کے ہیں.اب گو میں عبرانی نہیں جانتا لیکن چونکہ میںعربی جانتاہوں.اس لئے ایسے الفاظ کو آسانی سے سمجھ سکتاہوں.تواللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تنزل کے طورپر فرمایاکہ تُوتوان کتابوں کونقل بھی نہیں کرسکتاتھاکہ اس طرح تجھے کچھ نہ کچھ معلوم ہوجاتا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ سے ایسا ہی لکھنا مراد ہے جیسے کاتب بے سوچے سمجھے لکھ دیتے ہیں.بَلْ ھُوَ اٰیٰتٌ بَیِّنٰتٌ فِیْ صُدُوْرِ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ میں بتایاکہ اس قرآن میں ایسی تعلیم ہے کہ آسمانی علم والے لوگ فوراً اسے اپنے دلوں میں محسوس کرنے لگتے ہیں اورسمجھ جاتے ہیں کہ یہ خدا کاکلام ہے.صرف ظالم ہی اس کاانکار کرتے ہیں.یعنی اگریہ خدائی کلام نہ ہوتاتوخشیۃ اللہ رکھنے والے لوگوں کے دلوں میں اس کے ذریعہ سے علم وعرفان کے چشمے کیوں پھوٹ پڑتے.یہ بات تو صر ف الٰہی تائید سے ہوتی ہے اورتائید الٰہی اسی کلام کوحاصل ہوتی ہے جوخدا کی طرف سے ہو.غرض اس آیت میں اس اعتراض کاردّکیاگیاہے جوبالعموم دشمنان اسلام کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تورات اور انجیل کو پڑھ پڑھ کر یالوگوں سے سن سن کر یہ باتیں قرآن میں درج کرلی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں تو ایسے علوم ہیں جو پہلی کتابوں میں ہیںہی نہیں.اورجب وہ ان علوم سے خالی ہیں تونقل کیسے ہوگئی.مخالفین کافرض ہے کہ وہ پہلے یہ ثابت کریں کہ ان کی کتابو ںمیں یہ مضمو ن موجود تھے.لیکن جب ان کی کتابیں ان تمام حقائق و معارف سے خالی ہیں جوقرآن کریم نے بیان کئے ہیں تو یہودیوں اور عیسائیوں کایہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری کتابوں سے یہ باتیں اخذ کی ہیں سورج کوچراغ دکھانے کے مترادف ہے.
وَ قَالُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْهِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّهٖ١ؕ قُلْ اِنَّمَا اوروہ کہتے ہیں کہ کیوں اس کے رب کی طرف سے اس پر کوئی نشانات نہیں اترے.کہو کہ نشانات تو الْاٰيٰتُ عِنْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ اِنَّمَاۤ اَنَا نَذِيْرٌ مُّبِيْنٌ۰۰۵۱اَوَ لَمْ خداکے پاس ہیں (جب وہ فائدہ دیکھتاہے اتار تاہے)اورمیں تو ایک کھلاکھلا ہوشیارکرنے والاہوں.يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ فِيْ کیاان کے لئے (یہ نشان)کافی نہ تھا کہ ہم نے تجھ پرایک مکمل کتاب(یعنی قرآن)کونازل کیا جوانہیں پڑھ کر ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۰۰۵۲ سنائی جاتی ہے اس امر میں مومنوں کے لئے توبڑی رحمت اورنصیحت کے سامان ہیں.تفسیر.فرمایا.ظالم لوگ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشان کیوں نہیں اترے.اے محمدؐ رسول اللہ! توان سے کہہ دے کہ تمہارے نزدیک تو نشان سے مراد نشان عذاب ہی ہوتاہے اورایسے نشان بھی خداکے پاس موجود ہیں.مگرمیراکام توصرف ہوشیار کرناہے.اورپھر سوال یہ ہے کہ کیا ان لوگوں کے لئے یہ نشان کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پرایک مکمل کتاب اتاری ہے جوان کے لئے اپنے اندر رحمت کابڑابھاری سامانِ ہدایت رکھتی ہے.فرماتا ہے اَوَ لَمْ يَكْفِهِمْ اَنَّاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَرَحْمَةً وَّ ذِكْرٰى لِقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ.ارے اب بھی ان کوکسی اَورجگہ جانے کی ضرورت ہے.جبکہ ہم نے انہیں اتنی بڑی چیز دے دی ہے جس کی اَورکہیں مثال ہی نہیں ملتی.یعنی ہم نے ایک کامل کتاب اتار دی ہے اوروہ ایسی کتاب ہے کہ يُتْلٰى عَلَيْهِمْ.سمندر کے پاس تولوگ جاتے ہیں.مگریہ سمندر ایساہے کہ آپ تمہارے پاس چل کرآگیاہے.پھر دنیا میں تولوگ استادوں کے پاس جاتے اوران سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایاجائے کہ فلاں بات کس طرح ہے.مگر یہاں وہ استاد بھیجاگیاہے کہ جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ (المائدۃ :۶۸) تم خود لوگوں کے پاس جائو اورانہیں یہ تمام باتیں پہنچائو.اوریاد رکھو کہ اگرتم نے ان میں سے ایک بات بھی نہ پہنچائی توہم کہیں گے
کہ تم نے کچھ بھی نہیں پہنچایا.گویاہمارااستاد اورہماراآقا خود ہمارے گھروں پر چل کرآگیاہے.اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً.اگرتم سوچوتوتمہیں معلوم ہوکہ ہم نے اپنے رسولؐ کو جویہ حکم دیا ہے یہ تم پرہمارااتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حدہی نہیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کانام بھی قرآن کریم میں رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ رکھا گیا.گویاپنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آرہی ہے کہ ’’ چوپڑیاں تے دودو‘‘یعنی روٹیاں گھی سے چُپڑی ہوئی بھی ہوں اورپھر ملیں بھی دودو.توکیاچاہیے.اللہ تعالیٰ بھی کہتاہے کہ ہم تمہیں ایک توچپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اورپھر دودودے رہے ہیں.ایک توہم نے وہ کتاب دی جوہرطرح کامل اورمکمل ہے اورجس کی نظیر کسی اورالہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھراپنے رسول کو یہ حکم دے دیاہے کہ جائو اورہماری کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کرانہیں سنائو.اوراس کی تعلیموں سے انہیں آگاہ کرو.وَذِکْرٰی.ایک نعمت تویہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی.اوردوسری نعمت یہ ہے کہ جواس کتاب کو مان لیں گے دنیا میں ان کی عز ت قائم کردی جائےگی.بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں.یہ معنے بھی درست ہیں مگراس کے یہ معنے بھی ہیں کہ جولوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے ان کا ذکر نیک دنیا میں جاری رہے گا.اورکہا جائے گاکہ فلاں نے یہ خدمت کی اورفلاں نے وہ خدمت کی.گویایہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اورعظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ اس پر صدق دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معززاور مکرّم ہوجائیں گے اور چونکہ یہ سوال پیداہوسکتاتھا کہ قرآن کریم قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے کس طر ح کافی ہو سکتا ہے جبکہ ہرزمانہ اپنے ساتھ نئی ضرو ریات لاتااور نئے تغیرات پیداکرتاہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شبہ کے ازالہ کے لئے فرما دیاکہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں.عام طورپرلوگوں نے اس حدیث کو پوری طرح نہیں سمجھا.اس کامطلب یہ بھی ہے کہ مختلف زمانوں کے تغیرات کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنے کھلتے جائیں گے.یہی وجہ ہے کہ پہلے لوگوںکوقرآن کریم کی کئی آیات کے وہ معنے نظر نہ آئے جوبعد میں تغیر آنے والے زمانہ کے لوگوں کو نظر آئے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم کے جونکات او ر معارف نکالے وہ قرآن کریم میں نئی آیات داخل کرکے نہیں نکالے آیات وہی تھیں ہاں آپ پرا س زمانہ کے مطابق ان کا بطن ظاہر ہوا.چونکہ زمانہ کے حالات بدلتے رہتے ہیں.اور موجودہ زمانہ مذہب کے متعلق امن اورصلح کا زمانہ تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم سے امن کے احکام اور صلح کی تعلیم پیش فرمائی اوربتایاکہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح الفاظ میں
فرمایا ہے کہ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ.اِلَّا مَنْ تَوَلّٰى وَ كَفَرَ.فَيُعَذِّبُهُ اللّٰهُ الْعَذَابَ الْاَكْبَرَ.یعنی تجھے اس لئے نہیں بھیجاگیا کہ تُولوگوں سے جبری طور اپنامذہب منوائے.نہ ہم نے ان پر جبر کرنے کے لئے بھیجاہے جو منہ پھیر لیتے ہیں اورکفراختیار کرتے ہیں.ان لوگوں کوسزادینا خدا کاکام ہے.تیراکام نہیں.کیونکہ خدادلوں کے حالات کوجانتاہے تونہیں جانتا.یہ دوسرا بطن تھاجواس زمانہ کے حالات کے مطابق آپ پر کھولاگیا.اوراسلام کی تائید میں تلوار اٹھانے سے منع کیاگیا.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ قرآن کریم کے سات بطن ہیں اس کے ایک معنے یہ ہیں کہ دنیا میں سات بڑے بڑے تغیرات آئیں گے اورہرتغیر کے زمانہ میں لوگوں کے ذہن بدل جائیں گے.اس وقت خدا تعالیٰ قرآن کریم کے ایسے معنے کھو ل دے گاجولوگوں کے اس وقت کے ذہنوں اورقلوب کو تسلی دینےوالے ہوںگے.اس زمانہ میں بیسیوں مسائل ایسے رنگ میں کھلے ہیں کہ پہلے ان کی ضرورت اوراہمیت محسوس نہیں کی جاسکتی تھی.مثلاً آیات قرآنی کے نسخ کامسئلہ ہے.پہلے ایسے وقت میں نسخ کاسوال پیداہواکہ اس وقت کے لوگوں کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہ تھی.کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاعمل تھا.پس باوجود نسخ کے عقیدہ کے یہ بات قرآن کریم کی سچائی کے معلوم کرنے میں روک نہ بن سکتی تھی.لیکن جب ایسازمانہ آیاکہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے دور ہوئے اوردنیا کے ذہنی اورعلمی تغیر کے مطابق قرآن کریم کی آیات کے معنے نہ کرسکے توکہنے لگے یہ آیت بھی منسوخ ہے اوروہ آیت بھی منسوخ ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کوکھڑاکیا اور آپ نے ثابت کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ان معنوں میں منسوخ نہیں ہے کہ اس پر عمل نہیں کیاجاسکتا.اورجن آیات کو منسوخ قرار دیاجاتاتھا ان کے ایسے معنے بیان فرمائے جنہیں لوگوں کی عقلیں بآسانی قبول کرسکتی ہیں.یہ ان آیات کادوسرابطن تھا جوخدا تعالیٰ نے آپ پر کھو لا.توقرآن کریم کے سات بطن سے مرادسات عظیم الشان ذہنی اورعقلی اورعلمی تغیرات ہوسکتے ہیں اوراس میں بتایاگیا ہے کہ ہرایسے تغیر میں قرآن کریم قائم رہے گا اورکوئی یہ نہیں کہہ سکے گاکہ ہمارے زمانہ کی ضروریات کو قرآن پورانہیں کرتا.باقی الہامی کتابیں توایسی ہیں کہ جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب زمانہ بدلا اوردنیا میں تغیرآیا توان کتب میں جوکلام تھااس کے وہ معنے نہ نکلے جواس زمانہ کے ذہنوں کے مطابق ہوتے.اس لئے وہ قابل عمل نہ رہیں مگرقرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جوں جوں دنیا میں تغیر آتے جائیں گے اورلوگ قرآن پڑھیں گے اس زمانہ کی ضرورت کوپوراکرنے والامفہوم اس میں سے نکلتاآئے گا اورلوگ تسلیم کریں گے کہ ہاں قرآن کریم
ہی اس زمانہ کے لئے بھی کافی ہے اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس زمانہ کے لئے بھی رسول ہیں.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایاکہ قرآن کے سات بطن ہیں اس سے ضروری نہیں کہ یہی مراد ہو کہ سات ہی بطن ہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ د س،بیس، پچاس، سو،ہزار،دوہزار بطن ہوں.کیونکہ عربی زبان میں سات کا عدد کثرت پر دلالت کرتاہے.چنانچہ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ نے انسانی ترقیات کے لئے ہزاروں بلندیاں پیداکی ہیں.غرض فرمایاکہ قرآن کریم کوہم نے ایسابنایاہے کہ یہ ہرزمانہ کے لئے کافی ہوگا.اس میں ہرزمانہ کے خیالات پر بحث موجود ہوگی.اگراس زمانہ کے لوگوں کے خیالات غلط ہوں گے توان کی تردید کی جائے گی اوراگرصحیح ہوں گے توتائید کی جائے گی.درحقیقت قرآن کریم میں یہ ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ جب وہ کوئی مضمون لیتا ہے تواس کے تمام متعلقہ مضامین کواس کے نیچے تہ بہ تہ جمع کر دیتاہے.بالکل اسی طرح جس طرح زمین کے طبقات ہوتے ہیں.اوپر کے طبقہ میں اورقسم کی مٹی ہوتی ہے.دوسرے طبقہ میں اورقسم کی مٹی ہوتی ہے.تیسرے طبقہ میں اورقسم کی مٹی ہوتی ہے.اورجب ہم کسی زمین کودیکھتے ہیں تواندازہ لگاتے ہیں کہ یہ زمین اچھی پیداوار دینے والی ہے.یابری پیداوار دینے والی ہے.یہ کنکریلی زمین ہے یااس میں عمدہ لیسدار مٹی پائی جاتی ہے اوراس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس میں فصل اچھی ہوگی یاخراب ہوگی.مکان اچھے تعمیر ہوں گے یاخراب ہوں گے.بنیادیں گہری کھودنی پڑیں گی یا تھوڑی.عمارت کئی منزلوں کی بن سکے گی یا یہ زمین زیادہ بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی.لیکن ایک ماہر فن اس زمین کوکھودے گاتو کہہ دے گاکہ اتنے گز زمین کھودنے کے بعد پتہ لگتاہے کہ اتنے ہزار سال پہلے اس جگہ پانی ہوتاتھا اوروہ اپنے اند ر فلاں قسم کے جانور اورحیوانات رکھتاتھا.پھر وہ چندگز اورمٹی کھودے گا اوراس زمین سے جس کو سرسری طورپر دیکھ کرہم نے یہ اندازہ لگایاتھا کہ اس میں فصل زیادہ ہوگی یاکم.عمارت کئی منزلوں والی بن سکے گی یا نہیں.و ہ ماہر فن یہ نتیجہ نکالے گاکہ فلاں فلاں وقت میں اس زمین میں یہ یہ تبدیلیاں اندرونی آگ یا گرمی کی وجہ سے پیداہوئیں یادھاتوں نے پگھل پگھل کر اس کے اندریہ یہ تغیرات پیداکردیئے.اسی طرح وہ نیچے چلتاچلاجائے گا اورتاریخ کے مختلف زمانے بیان کرتاچلاجائے گا.وہ محض اس زمین کودیکھ کر دودوتین تین ہزار تک کے واقعات بیان کردے گااوریہ سب چیز یں زمین کے اندر مخفی ہوں گی.یہی حال قرآن کریم کاہے.اس کے مطالب بھی الفاظ کی تہوں کے نیچے چھپے ہوئے ہوتے ہیں.اگرزمین کی سب چیزوں کو باہر نکال کر پھیلادیاجائے توانسان کا زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہوجائے گا.لیکن چونکہ وہ سب چیزیں زمین کے اندر تہ بہ تہ رکھی ہوئی ہیں اس لئے ہم اس کے اوپرچلتے
پھرتے ہیں.لیکن جب اسے کھودتے ہیں تومعلوم ہوتاہے کہ مثلاً اس کے اندر چونے کی چٹانیں ہیں.اگروہ چونے کی چٹانیں باہر نکال کرسطح پرپھیلادی جائیں تو کیاتم خیال کرسکتے ہو کہ یہاں آبادی ہوسکتی تھی.یہ جگہ بجائے آدمیوں کے چٹانوں سے بھری ہوئی ہوتی.اسی طرح وہ سب مطالب جو قرآنی الفاظ کی تہوں میں چھپے ہوئے ہیں اگرباہر نکال لئے جاتے اورظاہر ی الفاظ میں انہیں بیان کیاجاتا توجیسے اس زمین کی اندر کی چیز یں اگرباہر آجائیں تووہ چیز یں میں پھیل کر سینکڑوں میل کاعلاقہ رک جاتا.اسی طرح قرآن کریم بھی اتنا پھیل جاتاکہ کوئی انسان اسے پڑھ نہ سکتا.اوریہ کتاب نہ رہتی بلکہ ایک عظیم الشان لائبریری ہو جاتی اوراس میں ہزاروں کتب رکھی ہوئی ہوتیں.ایک نسل انسانی کہہ دیتی کہ ہم نے اس کے پانچسوصفحات پڑھے ہیں.دوسری کہتی ہم نے اس کے ایک ہزار صفحات پڑھے ہیں.لیکن اب قرآن کریم ایک چھوٹی سی کتاب کی شکل میں ہے اورزمین کی طرح اس کی ایک تہ کے نیچے ایک مضمون ہے.دوسری تہ کے نیچے دوسرامضمون ہے.تیسری تہ کے نیچے تیسرامضمون ہے اوراس طرح تھوڑے سے الفاظ میں ہزاروں مضامین بیان کردیئے گئے ہیں.حفظ کرنے والے اسے آسانی سے حفظ کرسکتے ہیں اورپڑھنے والے اسے جلدی جلدی پڑھ لیتے ہیں.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہاہے کہ فِیْھَاکُتُبٌ قَیِّمَۃٌ یعنی اس کے اندر تمام ایسی تعلیمیں پائی جاتی ہیں جوقیامت تک کام آنے والی ہیں.اورکوئی ایسی تعلیم جو دائمی ہو اس سے باہر نہیں رہی.اسی شان او رعظمت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم کاایک نام قرآن مجید بھی رکھااور دنیا میں یہ اعلان فرما دیا کہ وَلَوْاَنَّ مَافِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَانَفِدَتْ کَلِمَاتُاللہِ (لقمان :۲۸) یعنی زمین میں تمہیں جس قدردرخت دکھائی دیتے ہیں اگر ان تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنالیا جائےاورسمندر سیاہی بنادیاجائے اورپھراَورسات سمندروں کاپانی بھی سیاہی بنادیاجائے اوران قلموں اورسیاہی سے اللہ تعالیٰ کے کلمات لکھے جائیں تو دنیا بھر کے درختوں اورباغات کے درختوںکی قلمیں ٹوٹ جائیں گی اور ساتوں سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے گی مگرقرآنی سمندر پھر بھی بھراہواہی دکھائی دے گا اوراس کے معارف کبھی ختم ہونے میں نہیں آئیں گے.کیونکہ جس طرح خدامجید ہے اسی طرح یہ قرآن بھی مجید ہے.(البروج) اوربڑی شان اور عظمت کا کلام ہے.دنیا پر کوئی زمانہ ایسانہیں آسکتا.جس میں قرآن مجید لوگوں کی راہنمائی کرنے سے قاصر ہو.و ہ ہرزمانہ میں ایک نئی شان سے جلوہ گرہوتااورمخالفینِ اسلام کی آنکھوں کو اپنی چمک سے خیرہ کردیتاہے.وہ تورات اورژندو اوستااوروید کی طرح ایک مردہ کتاب نہیں جوہرزمانہ کی مشکلات کا حل پیش کرنے سے قاصر ہو بلکہ وہ ایک زندہ کتاب ہے جس سے ہرزمانہ میں زندگی کاتازہ سامان لوگوں کو میسرآ سکتاہے
اوروہ معارف اورحقائق کاایک ایساخزانہ ہے جو کبھی ختم ہونے میں نہیں آسکتا.مگربدقسمتی سے مسلمانوں میں جہاں اور بہت سی خرابیاں پیداہوئیں وہاں انہوں نے اس قرآنی حسن سے بھی اپنی آنکھیں بند کرلیں اوریہ کہناشروع کردیاکہ تفسیر بیضاوی اور جلالین وغیرہ میں جو کچھ لکھا جاچکاہے اب اس سے زیادہ کوئی بات بیان کرناحرام ہے.انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ کلام ایک مجید خدا کانازل کردہ ہے جوخود بھی بڑی شان اوربزرگی کاحامل ہے اورجس طرح قانون قدرت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے اسی طرح کلام الٰہی کے خزانے بھی کبھی ختم نہیں ہوتے.دنیا میںکوئی زمانہ ایسانہیں گذراجب ایجادیں ختم ہوگئی ہوں.ریل نکلی توکہاگیا اب کوئی چیز اس سے زیادہ کیا نکلے گی.اس وقت ریل پندرہ میل فی گھنٹہ چلتی تھی.پھر تیس میل فی گھنٹہ چلنی شروع ہوگئی.پھر ۳۵ میل فی گھنٹہ چلنی شروع ہوگئی.پھر چالیس میل فی گھنٹہ چلنی شروع ہوگئی.پھر پچاس میل فی گھنٹہ چلنی شروع ہوگئی.پھر ساٹھ میل فی گھنٹہ چلنی شروع ہوگئی.حتیٰ کہ اب ۷۵ میل فی گھنٹہ تک ریل چل سکتی ہے.اس کے بعد موٹر نکل آئی.پہلے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی.و ہ سمجھتے تھے کہ ریل تو لوہے کی پٹڑی پر دوڑتی ہے مگرموٹر کیسے دوڑے گی.پھر ریل کے انجن میں کوئلہ ڈالاجاتاہے.پانی ڈالاجاتاہے اورتھوڑی تھوڑ ی دیر کے بعد مزید کوئلہ اور پانی ڈالاجاتاہے اورا س کوئلے اور پانی سے بھاپ بنتی ہے جس سے ریل چلتی ہے لیکن یہ موٹر کیسے چلے گی.لیکن موٹریں ایجاد ہوئیں اورلوگوں نے خیال کیا کہ اس سے بڑھ کر اور کیاچیز ہوگی؟ پھر کاریں آگئیں.تولوگوں نے خیال کیا یہ بڑی عجیب چیز ہے.پہلے پہل جوکار آئی تھی وہ بڑی اونچی او ربے ڈول سی تھی اس سے بڑی آواز پیداہوتی تھی اورجھٹکے لگتے تھے.پھر آہستہ آہستہ کارنیچی ہونی شروع ہوئی.پھر جھٹکے کم لگنے شروع ہوئے.پھر سلنڈر بڑھنے شرو ع ہوئے توآواز کم ہونے لگی اورآہستہ آہستہ آواز اتنی کم ہوگئی کہ اب کا ر پاس سے گذرے تو معلوم بھی نہیں ہوتا.صرف سڑک کے ساتھ لگنے سے جو آواز پیداہوتی ہے وہی آتی ہے.پھر لوگوں نے خیال کیاکہ اس سے بڑھ کر اَورکیاایجادہوگی.لیکن کچھ عرصہ کے بعد ہوائی جہاز نکل آئے.پہلے ایسے ہوائی جہاز نکلے جو صر ف پچاس ساٹھ میل چل کر پرواز ختم کردیتے تھے.پھرسوڈیڑھ سومیل تک چلنے والے جہاز نکلے.جب پچھلی جنگ عظیم ہوئی تو سوڈیڑھ سومیل کی رفتار پر بھی لو گ حیران ہوئے تھے لیکن اب ایسے جہا زنکل آئے ہیں جو چھ سومیل فی گھنٹہ کی رفتار سے اُڑان کرتے ہیں بعض ایسے ہیں جو ایک ہی دفعہ پٹرول لے کر چھ چھ ہزار میل چلے جاتے ہیں.پھر گولیاں نکل آئیں.پہلے بندوقیں ایجاد ہوئیں جن میں ایک ایک گولی بھری جاسکتی تھی.لیکن بعد میں رائفلیں ایجاد ہوئیں جن میں سات سات دس دس گولیاں بھری جاتی ہیں.پھر ٹامی گنیں نکل آئیں جن کی چرخی پر سوسوڈیڑھ ڈیڑھ سوگولیاں چڑھادی جاتی ہیں.پھر برین گنیں نکل
آئیں جوتین تین میل تک گولی پھینکتی ہیں.اورایک منٹ میں تین تین سوچارچار سوفائرکردیتی ہیں.پھرایسی توپیں نکل آئیں جوچلتے ہوئے ہوائی جہاز وں اور ٹینکوںکوبھی تباہ کرسکتی ہیں.پھر بم نکلااوربم پھینکنے سے صرف قریب کے لوگوں کو نقصان پہنچایاجاسکتاتھا لیکن بعد میں ایسی رائفلیں نکل آئیں جن کے ساتھ وہی بم دور تک پھینکا جاسکتاتھا.پھرتوپوں کے ساتھ پھینکنے والے بم ایجاد ہوئے پھر ایٹم بم نکلا جوحجم کے لحاظ سے چھوٹے سائز کاہوتاہے.لیکن نقصان پہنچانے میں دوسرے بموںکو مات کرگیا ہے.اورمیلوں تک اثر کرتاہے.اب Hبم نکلا ہے اورکوبلٹ بم کے متعلق بھی معلوم کرلیاگیاہے کہ وہ تیار کیاجاسکتاہے.پھر پہلے کوئی آدمی خندق میں چھپ جاتاتھاتو وہ بم کے اثرا ت سے بچ سکتاتھا.لیکن اب ایسے ذرائع معلوم کرلئے گئے ہیں کہ جن کی وجہ سے بموں کی گرمی اور اثر سال سال تک باقی رہتاہے.اورخندق میں چھپاہواآدمی جب بھی نکلے گا موت کا شکار ہوجائے گا.غرض دنیا میں نت نئی ایجادیں ہوتی چلی جاتی ہیں پھر کیاخدا کاکلام ہی اتنا کمزور تھا کہ اس میں سے نئی چیزیں نہ نکل سکتیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکرلوگو ں کو بتایاکہ کلام الٰہی کے خزانے ختم نہیں ہوگئے بلکہ جس طرح قانونِ قدرت کے خزانے ختم نہیں ہوتے اسی طرح کلام الٰہی کے خزانے بھی ختم نہیں ہوتے.اوریہ خیال کرلینا سخت حماقت ہے کہ کوئی شخص اس کے نئے مطالب بیان نہیں کرسکتا.حقیقت یہ ہے کہ ہرزمانہ کی ضرورت کے مطابق اس کے نئے نئے معانی اورمطالب نکلتے آئیں گے کیونکہ یہ مجید خدا کانازل کردہ کلام ہے جو کُلَّ یَوْمٍ ھُوَفِیْ شَاْنٍ کامصداق ہے.جب نئے معنوں میں یہ چیز یںپائی جاتی ہوں کہ قرآنی آیات ان کی مصدّق ہوں.فطرت انسانی ان کی تصدیق کرے اورپھر لغت عرب بھی ان کے خلاف نہ ہوتووہ ٹھیک ہوں گے.اگران کو غلط کہا جائے تویہ ایسی ہی بات ہوگی جیسے کسی بیوقو ف کے متعلق کہاجاتاہے کہ وہ جنگ میںزخمی ہوگیا وہ بزدل تھااسے باوجود زخمی ہونے اورخون دیکھنے کے یہ شک تھا کہ شاید زخم نہیں ہوا.وہ بھاگتاجاتاتھا اورکہتاجاتاتھا کہ یااللہ یہ خواب ہی ہو.یااللہ ! یہ خواب ہی ہو.اب یہ کتنی حماقت کی بات ہے کہ زخم ہوچکا ہے اوراس سے خون بہہ رہاہے.مگروہ کہتاجاتاہے کہ یہ خواب ہی ہو.اسی طرح قرآن کریم نے ہمیں چودہ سو سال پہلے سے بتادیا ہے کہ قرآنی آیات کے نئے نئے معانی زمانہ کی ضرورت کے لحاظ سے نکلتے رہیںگے.اگروہ معنے لغت عر ب کے مطابق ہیں اوردوسری قرآنی آیات اس کی مصدّق ہیں یاکم از کم اس کو ردّنہیں کرتیںتووہ غلط کیسے ہوسکتے ہیں.ہم نے تویہ دیکھنا ہے کہ آیا وہ معیار پر ٹھیک اترتے ہیں یا نہیں.مثلاًکیا وہ عقل کے خلاف تونہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں نے ہی عقل کو پیدا کیا ہے اورایک ہی منبع سے نکلنے والی دوچیز یں متضاد
نہیں ہوسکتیں.پھر ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ وہ معنے دوسری قرآنی آیات کے خلاف نہ ہوں کیونکہ کلام الٰہی میں اختلاف نہیں ہوسکتا.پھر یہ دیکھنا ہے کہ عربی لغت ان کی تائید کرتی ہو.کیونکہ قرآن کریم نے خود یہ بیان کیا ہے کہ وہ عربی زبان میں نازل ہواہے پس لغتِ عربی اوردوسری آیات جن معنوں کی تائید کرتی ہوں وہ غلط نہیں ہوسکتے.ورنہ اپنے طور پرقیاس کرلینے سے تواندھیرآجاتاہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب ’’مِنَنُ الرَّحمٰن‘‘ کتاب لکھی اورثابت کیا کہ عربی زبان تما م زبانوں کی ماں ہے.تویہ بات سن کر بعض لو گ اسی بات میں لگ گئے کہ وہ ہر لفظ کوقرآن کریم سے نکلاہواثابت کریں.چنانچہ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک دوست سے کسی نے پوچھا کہ کیا قرآن میں مرچوں کا ذکربھی ہے.انہوں نے کہا.کیوں نہیں.اللُّؤْلُؤُ وَ الْمَرْجَانُ میں مرجان مرچیں ہی تو ہیں.پھران دنوں سائوتھ افریقہ میں لڑائی ہورہی تھی.کسی نے پوچھا کہ اس لڑائی کاقرآن کریم میں کہیں ذکر ہے توانہوں نے کہا.قَوْمًابُوْرًا میں یہی لوگ مراد ہیں کیونکہ سائوتھ افریقہ والوں کو بؤرکہتے ہیں.اس قسم کے معنے کرناجائز نہیں اگراس قسم کے معنے بیان کرنے شروع کردیئے جائیں توتباہی آجائے.لیکن جو معنے لغتِ عربی کے مطابق ہوں.عقل ان کی تائید کرتی ہو.اورباقی قرآنی آیات بھی ان کی مخالف نہ ہوں.و ہ آج نکلیں یاآج سے چار پانچ سو سال بعد نکلیں و ہ درست ہوں گے.بلکہ ہم تویہاں تک کہیں گے کہ اگرایک ایک آیت کے سوسو.دودوسو معنے بھی کئے جائیں تووہ درست ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعے علوم کاایک خزانہ ہمیں عطافرمایا ہے اوراپنی مجد اور شان کے اظہار کے لئے اسے ایک گواہ بنایاہے.اس زمانہ میں صرف بہائیوں کایہ دعویٰ ہے کہ قرآنی شریعت منسوخ ہوچکی ہے.مگران کا یہ دعویٰ تب سچا سمجھاجاسکتاتھا جب بہائی لوگ اس میں سے پندرہ بیس باتیں ایسی نکال کر پیش کرتے جن پر عمل نہ ہوسکتا.یابہائیت کی تعلیم میں سے پندرہ بیس باتیں ایسی دکھاتے جو قرآن کریم میں موجود نہ ہوتیں اوراس کی تعلیم سے بہتر ہوتیں.مگروہ آج تک کوئی ایسی مثال پیش نہیں کرسکے.پس قرآن کریم نہ فیل ہوانہ آئندہ کبھی فیل ہوگا.بلکہ یہ قیامت تک فیل نہیں ہوگا.زمین بدل سکتی ہے.آسمان بدل سکتاہے.ایک قوم کی جگہ دوسری قوم آسکتی ہے.ایک حکومت مٹے تواس کی جگہ دوسری حکومت آسکتی ہے.زبانیں مٹ سکتی ہیں لیکن قرآن کریم کبھی فیل نہیں ہوسکتا.یہ خدا تعالیٰ کانازل کردہ آخری قانون ہے.جو ہمیشہ قائم رہے گا.اورجوشخص یہ کہتا ہے کہ یہ فیل ہوگیاہے وہ جھوٹ بولتاہے اورہم اب بھی اسے چیلنج کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے چند ایسے احکام پیش کرے جوناقابل عمل ہوں یاوہ کچھ باتیں ایسی پیش کرے جونہایت مفید اور اعلیٰ درجہ
کی تعلیمات پرمشتمل ہوں اوربہائیت میں ہوں قرآن کریم میں نہ ہوں.رنگون سے ایک دفعہ ایک بہائی نے ایک کتاب شائع کی جس میں اس نے ذکرکیاکہ بہائیت نہایت اعلیٰ درجہ کی تعلیمات پر مشتمل ہے بہائیت کہتی ہے کہ عورت سے نیک سلوک کرو.لڑکیوں کوتعلیم دو.ظلم نہ کرو.چوری نہ کرو.جھوٹ نہ بولو.میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ تم کو ئی ایک ہی مذہب ایسا بتادو.جوکہتاہوکہ عورت سے نیک سلوک نہ کرو.لڑکیوں کو تعلیم نہ دو.ظلم کرو.چوری کرو.جھو ٹ بولو.دنیا میں کوئی مذہب ایسانہیں جو اس قسم کی تعلیم دیتاہو.دراصل بات یہ ہے کہ بہائیوں نے قرآن کریم کی تعلیم میں سے بعض پوائنٹ لے کر انہیں ایک علیحدہ تعلیم کے رنگ میں پیش کردیا ہے.ورنہ ہرسچائی قرآن کریم میں موجود ہے.اورپھر ان لوگوں کی اپنی حالت یہ ہے کہ جب عباس آفندی امریکہ سے واپس آیا تواس نے لکھا کہ میں سب سے پہلے بہاء اللہ کی قبر پرنماز پڑھنے گیا اورمیں نے وہاں سجدہ کیا.اس قدر شرک میں ملوث ہوتے ہوئے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم فیل ہوگیا ہے اوراس کی جگہ بہائیت نے لے لی ہے.حالانکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے دنیا سے بت پرستی کاقلع قمع کردیاتھا.لیکن بہائیوں نے دوبارہ بت پرستی شروع کردی ہے.کون عقلمند سمجھ سکتاہے کہ قبر کی مٹی پر سجدہ کرنا کسی کو فائدہ پہنچاسکتاہے.اور کیاایسا مذہب اسلام کے آگے ٹھہر سکتاہے جس نے عر ب سے شرک کوکلی طور پر مٹادیاتھااورجس کے بانی نے مرض الموت میں باربار کہا کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ پر لعنت کرے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کوسجدہ گاہ بنالیا.ایسے عظیم الشان مذہب کے متعلق بہائیوں کایہ کہنا کہ اسلام فیل ہوگیاہے نہایت احمقانہ بات ہے.قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ بَيْنِيْ وَ بَيْنَكُمْ شَهِيْدًا١ۚ يَعْلَمُ مَا فِي تو کہہ دے.میرے اور تمہارے درمیان بطورگواہ فیصلہ کرنے والا اللہ ہی کافی ہے.اورجوکچھ آسمانوں میں ہے السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْبَاطِلِ وَ كَفَرُوْا اورزمین میں ہے اسے وہ جانتاہے.اورجولوگ باطل پر عمل کرتے ہیں اوراللہ(تعالیٰ)کے احکام کاانکار بِاللّٰهِ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۰۰۵۳ کرتے ہیں وہی گھاٹے میںپڑنے والے ہیں.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ اللہ تعالیٰ تو تمہارے سامنے قرآن کریم کے ذریعہ ایک بہت بڑا
نشان رحمت ظاہرکرچکا ہے.لیکن اگرتم عذاب کا نشان ہی دیکھناچاہتے ہو تواللہ تعالیٰ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے.وہ عذاب کا نشان بھی تمہیں دکھادے گا اورجھوٹافناہوجائے گا اورسچافتح پا جائے گا.اورخدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والا امتیازی نشان جھوٹا نہیں ہوسکتاکیونکہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اورزمین کی ہر بات کو جانتاہے.پس اس کے عذاب سے وہی لوگ تباہ ہوسکتے ہیں جوجھوٹ پر ایمان لاتے ہیں اوراس کے نشانات کاانکار کرتے ہیں.وَ يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ١ؕ وَ لَوْ لَاۤ اَجَلٌ مُّسَمًّى اوروہ تجھ سے عذاب کے جلدی لانے کی خواہش کرتے ہیں.اوراگرایک مقرر وقت نہ ہوتا لَّجَآءَهُمُ الْعَذَابُ١ؕ وَ لَيَاْتِيَنَّهُمْ بَغْتَةً وَّ هُمْ توعذاب ان کے پاس آجاتا.اوراب بھی وہ ان کے پاس ضرور(آئے گااور)اچانک آئے گا اس حالت میں لَا يَشْعُرُوْنَ۰۰۵۴ کہ وہ جانتے بھی نہ ہوں گے.تفسیر.فرمایا.یہ لوگ جوعذاب کے آنے کی جلد ی کررہے ہیں.ان کویاد رکھناچاہیے کہ خدا تعالیٰ عذاب دینے میں دھیما ہے.اگراس نے ایک وقت مقر ر نہ کیاہوتا توعذاب ابھی آجاتا.اب بھی آئے گاتوسہی مگر اچانک آئےگااورایسی حالت میں آئے گاکہ و ہ جانتے بھی نہ ہوں گے.جیسے فتح مکہ ایسی اچانک ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کالشکر مکہ کے پاس بھی پہنچ گیا.اورمکہ والوں کوخبر تک نہ ہوئی.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب اسلامی لشکر رات کو مکہ کے قریب پہنچااو رہرسپاہی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت اپنے اپنے کھانے کے لئے علیحدہ علیحدہ آگ جلائی توابوسفیا ن اوراس کے بعض ساتھی جو مکہ والوں کی طرف سے پہرہ پر مقر ر تھے انہوں نے دورسے اتنی بڑی روشنی دیکھی تووہ گھبراگئے اور اسی گھبراہٹ میں ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا.کیاتم اندازہ لگاسکتے ہو کہ یہ کس کالشکرہے؟ اس پر پہلے توان کا خزاعہ کی طرف خیال گیا کہ شاید خزاعہ کے آدمی ہو ںگے جواپنابدلہ لینے کے لئے آئے ہیں.لیکن ابوسفیا ن نے کہا.خدا کاخوف کرو خزاعہ تواس کادسواں حصہ بھی نہیں.یہ اتنا بڑالشکر ہے کہ خزاعہ کی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں.انہوں نے کہا پھرفلاں قبیلہ ہوگا.کہنے لگا.آخر وہ کیوں آتا
اورپھر ان کی تعداد بھی اتنی نہیں.غرض اسی طرح وہ پانچ سات قبائل کے نام لیتے چلے گئے کہ فلاں ہوگا.فلاں ہوگا اورہربار ابوسفیا ن نے کہا کہ یہ غلط ہے.آخر انہوں نے کہا.یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کالشکرہوگااورکس کاہوگا.کہنے لگا بالکل جھوٹ ہے.میں توانہیں مدینہ میں آرام سے بیٹھاچھوڑ کر آیاہوں.ان کی تولڑائی کی کوئی تیار ی ہی نہیں تھی.یہ باتیں ابھی ہوہی رہی تھیں کہ اسلامی لشکر کے چند سپاہی جو پہرہ پرمتعین تھے و ہ پہرہ دیتے ہوئے قریب پہنچ گئے.اورانہوں نے ابوسفیا ن کی آواز سنی.ان میں حضرت عباسؓ بھی تھے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور ابوسفیان کے بڑے گہرے دوست تھے.اس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سوار تھے.انہوں نے آواز سنی توکہنے لگے.ابوسفیان!ابوسفیا ن نے کہا.عباسؓ ! تم کہاں؟حضرت عباس ؓ نے کہا.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کالشکر لے کرآگئے ہیں.تُوجلدی سے میرے پیچھے بیٹھ اور خداکے نام پر ان کی منتیں کر اوراپنی اوراپنی قوم کی معافی کے لئے درخواست کر ورنہ تباہی آجائے گی.پھر خود ہی انہوں نے اس کاہاتھ پکڑااورخچر کے پیچھے بٹھاکر اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.غر ض فتح مکہ ایسی اچانک ہوئی کہ کفار ابھی سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ اسلامی لشکر ان کے صحنوں میں اترگیا.يَسْتَعْجِلُوْنَكَ بِالْعَذَابِ١ؕ وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمُحِيْطَةٌۢ (اور)وہ تجھ سے عذاب کے جلدی لانے کامطالبہ کرتے ہیں.اورجہنم کافروں کو بِالْكٰفِرِيْنَۙ۰۰۵۵ یقیناً تباہ کرنے والی ہے.تفسیر.فرمایا.یہ لوگ عذاب کے متعلق جلدی توکررہے ہیں مگریہ نہیں جانتے کہ جب وہ عذاب آئے گا تووہ سب منکر ینِ اسلام کا احاطہ کرلے گا.متواترایک مطالبہ کو آگے پیچھے بیان کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ ایک مطالبہ دنیوی عذاب کے متعلق ہے اوردوسرامطالبہ اُخروی عذاب کے متعلق ہے.ایک مطالبہ سے یہ مراد ہے کہ ہم پر تیری پیشگوئیوں کے مطابق دنیا میں عذاب کیوں نہیں آجاتا اور دوسرے مطالبہ سے یہ مراد ہے کہ کیوں ہم تیری مخالفت کی وجہ سے مرنہیں جاتے او رجہنم میں داخل نہیں ہوتے.چنانچہ دوسرے مطالبہ کے بعد جہنم کابھی ذکر ہے جو پہلے مطالبہ کے بعد نہیں.
يَوْمَ يَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ (جس دن کہ جہنم کا عذاب کافروں کو گھیر کرتباہ کردے گا )یہ وہ دن ہوگا کہ خدائی عذاب ان کے اوپر سے بھی انہیں اَرْجُلِهِمْ وَ يَقُوْلُ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۰۰۵۶ ڈھانک لے گا اوران کے پائوں کے نیچے سے نکل کر بھی ان کو گھیر لے گا.اور(خدا)کہے گااپنے عملوں کانتیجہ چکھو.تفسیر.يَغْشٰىهُمُ الْعَذَابُ مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ میں اس طرف اشارہ فرمایاکہ جب وہ عذاب آئے گا تواوپرسے بھی آجائے گااورنیچے سے بھی آجائے گا.یعنی سردارانِ مکہ بھی مکہ والوں کو چھوڑ دیں گے جیساکہ عمروبن العاصؓ اورخالد بن ولیدؓ نے چھوڑ دیااور عوام النا س بھی اپنے سرداروں کاساتھ چھوڑ دیں گے اوراللہ تعالیٰ کہے گاکہ اب اپنے اپنے اعمال کی سزابھگتو.اسی طرح مِنْ فَوْقِھِمْ میں ہرقسم کا آسمانی عذاب ،بیرونی حملے ،حکومتِ وقت کی گرفت ،بالاافسروں یامذہبی پیشوائوں کی ناراضگی اور خاندان کے اکابر کامختلف قسم کی مشکلات اور تکالیف میں مبتلاہونابھی شامل ہے اور مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ میں ہرقسم کے زمینی عذاب شامل ہیں.خواہ وہ ماتحت ملازمین کی طرف سے پیداہوں یاماتحت افسروں کی طرف سے.اسی طرح فساد بغاوت اورتدابیر کاالٹ جانابھی ایسے ہی عذاب ہیں جو خودانسان کے پائوں کے نیچے سے ظاہرہوتے ہیں.يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ اَرْضِيْ وَاسِعَةٌ فَاِيَّايَ فَاعْبُدُوْنِ۰۰۵۷ اے میرے مومن بندو ! میری زمین وسیع ہے.پس تم میری ہی عبات کرو.كُلُّ نَفْسٍ ذَآىِٕقَةُ الْمَوْتِ١۫ ثُمَّ اِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ۰۰۵۸ ہرجاندار موت کامزہ چکھنے والا ہے.پھر ہماری طرف ہی تم (سب )کولوٹایاجائے گا.تفسیر.اس آیت میں بتایاکہ کفار پر عذاب تو ضرور آئے گا.لیکن اس وقت انہیں اپنی طاقت اورجتھے پر غرور ہے اوریہ سمجھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو اپنے زورِ بازو سے کچل سکتے ہیں.سوہم مسلمانوں کونصیحت کرتے ہیں کہ
اگر تمہاراملک تمہیں امن دینے کے لئے تیار نہیں تو تم غیرممالک میں نکل جائو.اورگائوں گائوں اورقریہ قریہ میں پھر کر خدائے واحدکی عبادت قائم کرو اوراگردیکھو کہ کسی جگہ تمہاری تبلیغ میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں توگھبرائونہیں.زمین کو خدا تعالیٰ نے بڑاوسیع بنایاہے تم اس علاقہ کے ساتھ ملتے ہوئے دوسرے علاقوں میںتبلیغ شروع کردو.اوراس بات سے مت ڈروکہ اگر ہم نے تبلیغ کی تودنیا ہماری دشمن ہوجائے گی.اوروہ ہمیں جانی اورمالی مشکلات میں مبتلاکردےگی.تمہاری جانیں آخر کب تک سلامت رہیں گی.ہرانسان نے ایک دن مر کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوناہے.پس اگرتم اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے مرگئے توکیافائدہ ؟ جائواوردنیا کے کناروں میںپھیل جائو اوراسلام او رقرآن کی تبلیغ کرو.اس جہاد کے دوران میںاگرتمہیں موت بھی آگئی تو وہ بڑی مبارک موت ہوگی.تم شہادت کامرتبہ حاصل کرو گے اورخدا تعالیٰ کی جنت کے وارث ہوگے.آج تک دنیا میں جتنی بھی فاتح قومیں گذری ہیں انہوں نے پہلے اپنے وطنوں کو چھوڑااوراس کے بعد انہیں فتوحا ت نصیب ہوئیں.عربوں نے اپنے وطن کو چھوڑا.ترکوں نے چھوڑا.یہودیوں نے چھوڑا.آرین نسل کے لوگوں نے چھوڑا.اوروہ دور دورملکوں میں پھیل گئے.اگروہ اپنے وطنوں کو نہ چھو ڑتے توانہیں فتوحات بھی نصیب نہ ہوتیں اوروہ نئے نئے ملکوں کے وارث نہ بنتے.پس اگرمومنوں کوبھی خداکے دین کی اشاعت کے لئے اپنے وطن چھوڑنے پڑیں تواس میںکوئی بڑی بات نہیں.مگریاد رکھناچاہیے کہ ایک ہجرت قومی ہوتی ہے اورایک فردی ہوتی ہے.بیشک بعض افراد کی ہجرت قو م کے معیار کوبلندکردیتی ہے.لیکن قومی زندگی اسی صورت میں پیداہوتی ہے جب قوم کاہرفرد خدا تعالیٰ کے دین کے لئے اپنے وطن کوچھوڑنے اورخدا تعالیٰ کی خاطرغیر ممالک میں نکل جانے کے لئے تیار ہو.اسی امر کی طرف زیر تفسیر آیت میں توجہ دلائی گئی ہے.اوریہی حقیقت ایک دفعہ مجھے رؤیا میں بھی بتائی گئی.میں نے دیکھا.کہ میں اپنے گھرسے نکلاہوں اور میراخیال ہے کہ میں اپنے لئے کوئی مکان تلاش کروں.جب میں باہر آیاتومیں نے دیکھا کہ ماسٹر محمدابراہیم صاحب جمونی کھڑے ہیں اورلوگ ان کے پاس مکانوں کے لئے آتے جاتے ہیں.ایسامعلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں کے پاس مکان ہیں انہوں نے وہ مکان انتظام کے لئے ان کے سپرد کئے ہوئے ہیں اوروہ آگے دوسروںکودیتے ہیں.میں نے بھی ان سے ذکر کیا کہ مجھے اپنے لئے مکان کی ضرورت ہے.انہوں نے مجھے ایک مکان دکھایاجس کے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں مگران کمروں پر چھت نہیں اورکمروں کی دیواروں پر چھوٹے چھوٹے کپڑے لٹکے ہوئے ہیں.میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کپڑے کیسے ہیں.انہوں نے کہاکہ چونکہ ان کمروں پر چھت نہیں اس لئے دھوپ کے وقت انہیں اوپر ڈال لیاجاتاہے.میں اس وقت اپنے دل
میں خیال کرتاہوں کہ یہ کمرے بیشک چھوٹے ہیں لیکن ہمارے کمرے تواس سے بھی چھوٹے تھے.اس وقت مجھے ربوہ کے وہ کچے مکان یاد آتے ہیں جن میں ہم پہلے رہائش رکھتے تھے.لیکن ساتھ ہی میں کہتا ہوں کہ و ہ کمرے روشن زیادہ تھے.پھر میں کہتا ہوں.وہ کمرے اس لئے روشن تھے کہ ان پر گیری کاسرخ رنگ لگاکرانہیں خوب چمکایاگیاتھا اوراندر سفیدی کی گئی تھی.جب ان پر بھی رنگ کیاجائے گااوراندر سفیدی ہوجائے گی تویہ بھی روشن ہوجائیںگے.اس کے بعد میں نے کسی کو یہ کہتے سنا کہ ’’جوقوم ہجرت کے لئے تیار رہتی ہے اورنوآبادی کاشدت سے اشتیاق رکھتی ہے وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی‘‘ جب میں نے یہ سناتومجھے خیال آیا کہ ہجرت کے لئے تیار رہنے کے یہ معنے نہیں کہ وہ ہجرت پر خوش ہوتے ہیں.یاہجرت کی اپنے دلوں میں خواہش رکھتے ہیں.چنانچہ خواب میں ہی مجھے صحابہ ؓ کاخیال آیاکہ انہیں بھی ہجرت کرنی پڑی تھی.مگرحدیثوں میں آتاہے کہ مدینہ آکر بعض صحابہؓ مکہ کی یاد میں رویاکرتے تھے.جس سے معلوم ہوتاہے کہ انہوں نے خوشی سے نہیں بلکہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے ہجرت کی تھی.پس جب اس نے یہ کہا کہ جو قوم ہجرت کے لئے تیار رہتی ہے اورنوآبادی کا شدت سے اشتیاق رکھتی ہے وہ کبھی تباہ نہیں ہوتی تومیں خواب میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ ’’ہجرت تووہ مجبور ی سے کرتے ہیں مگربعد میں ہجرت پر وہ رضاء بالقضاء کاجو نمونہ دکھاتے ہیں وہ بتاتاہے کہ وہ ہجرت کے لئے تیار تھے.پس تیار ی کے یہ معنے نہیں ہیںکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہجرت ہو.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اگرہجرت کا وقت آئے تو وہ رضاء بالقضاء کانمونہ دکھاتے ہیں اورپھر اپنے آپ کو فوراً دوسری جگہ آباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں.‘‘ شہد کی مکھیوں کودیکھو وہ شہدبناتی ہیں اور بناتی چلی جاتی ہیں.لیکن انسان انہیں کھانے نہیں دیتا.وہ ان کے نیچے دھواں رکھ کر گرم پانی پھینک کر یا کوئی اَورذریعہ اختیار کرکے ان کاچھ ماہ کابنایاہواشہد اڑاکر لے جاتاہے وہ مکھیاں دومنٹ کابھی انتظار نہیں کرتیں.وہ اس جگہ کے چھو ڑ دینے کے معاً بعد دوسری جگہ تلاش کرلیتی ہیں اور دوبار ہ شہد بناناشروع کردیتی ہیں.ایک گھنٹہ کے بعد اگر انہیں آکردیکھو تو وہ قریب ہی کسی دوسری جگہ شہد بنانے میں مشغول ہوں گی.بعض دفعہ ان سے سالہا سال تک ایساکیا جاتاہے.مثلاً پالتو مکھیاں ہوتی ہیں.وہ جب بھی شہد بنالیتی ہیں شہدا ڑالیاجاتاہے اورانہیں اپنابنایاہواشہد کھانے کاموقعہ نہیں ملتا.و ہ شہدبناتی ہیں اورلوگ شہد لے جاتے
ہیں.اگرایک مکھی شہد بناتی ہے اس لئے کہ لو گ لے جائیں اوراس سے بیماریاںدو ر ہوں.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ (النحل :۷۰)اس میں لوگوں کے لئے شفاء ہے.یاپھر ایک مکھی شہد بناتی ہے اوربناتی چلی جاتی ہے اورلوگ اس کے پاس شہدنہیں رہنے دیتے وہ ہمیشہ اڑالے جاتے ہیں اوروہ مکھی پھر بھی شہد بنانانہیں چھوڑتی.توکیا انسان ہی ایساضعیف ہے کہ وہ اس طرح مایوس ہوجائے جوشخص اپنی کوشش میں ناکام ہوجانے کے بعد ہمت چھوڑ بیٹھتاہے وہ آدمی نہیں بلکہ وہ مکھیوں سے بھی بد تر ہے.دنیا کی فتح کوئی معمولی چیز نہیں.اس کے لئے بڑی بھاری قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا.چنانچہ جب آپؐ نے دیکھا کہ مکہ میں رہنا ناقابل برداشت ہوگیا ہے توآپؐ نے صحابہؓ کو جمع کیااور فرمایاتم کسی اورجگہ چلے جائوجہاں دین کے بارہ میں ظلم نہ ہواور تم امن سے خدا تعالیٰ کانام لے سکو.صحابہؓ نے آپؐ سے پوچھا.یارسول اللہ وہ کونسی جگہ ہے.آپؐ نے حبشہ کی طرف اشارہ کیا اورفرمایا.وہاں عیسائیوں کی حکومت ہے اگرتم وہاں چلے جائو توتم پر دین کے بارہ میں کوئی سختی نہیں ہوگی.پس مومن کافرض ہے کہ جہاں وہ خداکے لئے اپنے وطنوں کو خیر بادکہنے کے لئے ہمیشہ تیار رہاکریں وہاں باہرجاکرروحانی نوآبادی قائم کرنے کے اشتیا ق کابھی پوراپورامظاہر ہ کریں تاکہ ان کاوجود ایک امت کی طرح ہو اوروہ ایک دوکو نہیں بلکہ امت کی امت کو اسلام اورمحمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کریں.وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُبَوِّئَنَّهُمْ مِّنَ اوروہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اوراس کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں ہم ان کو جنت میں بالاخانوں میں جگہ دیں گے الْجَنَّةِغُرَفًا تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ (ایسی جنت میں)کہ اس کے (سایوں )تلے نہریں بہتی ہوں گی.وہ (یعنی مومن)ان جنتوں میں ہمیشہ کے لئے رہتے نِعْمَ اَجْرُالْعٰمِلِيْنَۗۖ۰۰۵۹الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى چلے جائیں گے اوراچھے عمل کرنے والوں کااجر بہت اچھا ہوتاہے.ان (مومنوں)کاجو(اپنے عقیدہ اورعمل پر)
رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ۰۰۶۰ جمے رہتے ہیں اوراپنے رب پر توکل کرتے ہیں.تفسیر.اللہ تعالیٰ اس آیت میں بتاتاہے کہ جولوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان لاتے ہوئے اسلام کی اشاعت کے لئے مناسب حال اعمال بجالائیں گے.یعنی اگرانہیں خداکے لئے اپناوطن چھوڑناپڑاتو وطن چھو ڑ دیں گے اوراگرجان قربان کرنی پڑی توجان قربان کردیں گے.ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھاکرکہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے اسلام اور قرآن کواونچاکرنے کی کوشش کی.اسی طرح ہم بھی دنیااو رآخرت میں ان کو بلند درجات عطاکریں گے اور بہتر سے بہتر مقامات ان کو رہائش کے لئے عطاکریں گے اوریہ عزت دنیوی عزتوں کی طرح عارضی یافانی نہیں ہوگی بلکہ ایک غیرمعلوم عرصہ تک جاری رہنے والی عزت ہوگی.اوریقیناً خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانی کرنے والے کبھی ضائع نہیں کئے جاتے.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے بتایاہے کہ ان جنتیوں کو جو بالاخانے عطاکئے جائیں گے ان کے نیچے نہریں بہتی ہو ںگی دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے باغا ت کے متعلق بھی فرمایا ہے کہتَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ (البقرۃ :۲۶) ان باغوں کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی.اور تیسری جگہ مومنوں کے متعلق فرماتا ہے کہ وَنَزَعْنَامَافِیْ صُدُوْرِھِمْ مِّنْ غِلٍّ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ(اعراف : ۴۴) یعنی ہم جنتیوں کے سینہ میں سے ایک دوسرے کے متعلق ہرقسم کی کدورت نکال دیں گے اورنہریں ان کے نیچے بہتی ہوں گی.اب یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ یہ کیسی نہریں ہیں کہ باغ ہیں توان کے نیچے نہریں بہتی ہیں اورمکان ہیں توان کے نیچے نہریں بہتی ہیں اورآد می ہیں توان کے نیچے نہریں بہتی ہیں.ظاہر ہے یہ نہریں عام نہریں نہیں ہوسکتیں بلکہ کچھ اَورہی شے ہیں کہ مکانوں کے نیچے بھی بہتی ہیں باغوں کے نیچے بھی بہتی ہیں اورآدمیوں کے نیچے بھی.پس جب نھر کے اصل معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے تولازماً ہمیں تسلیم کرناپڑے گاکہ یہاں استعارۃً یہ لفظ استعمال ہواہے اورنہرکے کچھ اَورمعنے ہیں.اس غرض کے لئے جب ہم قرآن کریم پرغور کرتے ہیں اوردیکھتے ہیں کہ پانی کی اس میں کیاخصوصیات بیان کی گئی ہیں توہمیں معلوم ہوتاہے کہ قرآن کریم نے اس کی دوخصوصیات بیان کی ہیں.اول میل کچیل دورکرنا اور جسم کوپاک کرنا.جیسے فرمایا وَاَنْزَلْنَامِنَ السَّمَآئِ مَآئً طَھُوْرًا(الفرقان : ۴۹) ہم نے بادلوں سے پاک و صاف کرنے والاپانی اتاراہے.اور دوسرے زندگی بخشنا.جیسے فرمایا.وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ(الانبیاء : ۳۱)ہم نے پانی
سے ہرچیز کوزندہ کیا ہے.پس ان آیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھَارُ کے یہ معنے ہو ںگے کہ انہیں پاک و صاف رکھنے اورہمیشہ کے لئے زندگی بخشنے کے سامان بڑی کثرت سے ملیں گے.کیونکہ اس جگہ صرف پانی نہیں بلکہ نھر کالفظ استعمال ہواہے.یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن کریم میں جنت کی زندگی کی بھی دوہی بڑی خوبیاں بیان کی گئی ہیں.اول دائمی زندگی جوانسانوں کو بھی عطاہو گی.باغوں کو بھی عطاہوگی اور غُرَف کو بھی عطاہوگی.انسانوں کی دائمی حیات کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خَالِدِیْنَ فِیْھَااَبَدًا (النساء : ۱۲۳)اورجنتی باغوں کے دوام کے متعلق فرماتا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ (الرعد: ۲۴) اسی طر ح فرماتا ہے.اُکُلُھَادَآئِمٌ وَّظِلُّھَا(الرعد : ۳۶)اور غُرَف کے دائمی ہونے کی طرف سورۃ زمر کی اس آیت میں اشارہ کیاگیاہے کہ لٰكِنِ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ لَهُمْ غُرَفٌ مِّنْ فَوْقِهَا غُرَفٌ مَّبْنِيَّةٌ١ۙ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ۬ وَعْدَ اللّٰهِ١ؕ لَا يُخْلِفُ اللّٰهُ الْمِيْعَادَ(الزمر : ۲۱) یعنی وہ لوگ جو اپنے رب کاتقویٰ اختیار کرتے ہیں انکو کئی منزل والے مکان عطاہوں گے جن کے اوپر اور منزلیں مضبوطی کے ساتھ بنی ہوں گی.ان کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی یہ اللہ تعالیٰ کاایک پختہ عہد ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے وعدوںکوتوڑانہیںکرتا.اس جگہ مَبْنِیَّۃٌ کے معنے ہمیشہ رہنے والے کے بھی ہوسکتے ہیں.جیسے کہتے ہیں اس کی جڑیں گاڑ دی گئی ہیں.ورنہ یوں توہرغُرفہ کی ہی بنیاد ہوتی ہے.غرض تینوں چیزوں کوقرآن کریم نے قائم رہنے والابتایاہے.نہ مکان ٹوٹیں گے نہ باغ اجڑیں گے نہ ساکن و منتفع مریں گے.دوسری طرف ان تینوں چیزوں کی نسبت فرمایا کہ ان کے نیچے نہریں ہوں گی.پس جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ کی آیت کے مطابق نہروں سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بکثرت ایسے سامان پیداکئے جائیںگے جن کی وجہ سے نہ باغ سوکھیں گے نہ مکان ٹوٹیں گے نہ آد می مریں گے.پانی کی دوسری غرض جیسا کہ اوپر بتایاجاچکا ہے مَیل کچیل سے صاف رکھنا ہوتی ہے.یہ خوبی بھی جنت میں پورے طو رپر پائی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يَسْمَعُوْنَ فِيْهَا لَغْوًا وَّ لَا تَاْثِيْمًا.اِلَّا قِيْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا( الواقعۃ :۲۶،۲۷)یعنی مومن جنتوں میں نہ توکوئی لغو بات سنیں گے اور نہ گناہ کی کوئی بات ان کے کانوں میں پڑے گی.وہ صرف ایسی ہی باتیں سنیں گے جوسلامتی کی دعائوں پر مشتمل ہوں گی.گویاہر روحانی گند اورمیل کچیل سے انہیں دو ررکھاجائے گا.اسی طرح احادیث میں آتاہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ انسان جنت میں کھائے پیئے گا توکیاپاخانہ پیشاب نہ ہوگا؟ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کھایاپیاصرف
ہواکی صور ت میں نکلے گا جس میں مُشک کی خوشبو ہوگی.پس جب باغ سڑے گانہیں اورپاخانہ پیشاب بھی نہ ہوگاتوجنت بھی پا ک رہے گی اوراسی طرح مکان بھی کیونکہ اندر رہنے والے کو جب میل سے صاف رکھاجائے گا تومکان کو صاف رکھ کر ہی ایساکیاجاسکتاہے.پس تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَاالْاَنْھٰرُ اور تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھِمُ الْاَنْھٰرُ کے معنے قرآن سے صاف رکھنے اور قائم رکھنے کے ثابت ہوگئے اوریہی معنے یہاں چسپاں ہوتے ہیں.ورنہ آدمیوں اور مکانوں کے نیچے نہروںکے معنے ظاہری رنگ میں چسپاں نہیں ہوسکتے.سوائے اس کے کہ یوں معنے کئے جائیں کہ نہریں ان کے قبضہء و تصرف میں ہوں گی مگراس صورت میں تینوں کے لئے الگ الگ کہنے کی ضرورت نہ تھی.پھر الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ.کہہ کر بتایاکہ یہ جزائے نیک ان کو اس لئے ملے گی کہ وہ ہرقسم کی مشکلات اور دشمنوں کی مخالفت کے باوجود اپنے عقائد پرمضبوطی سے قائم رہے اورانہوں نے اپنے رب پر سچا توکل رکھا.وَ كَاَيِّنْ مِّنْ دَآبَّةٍ لَّا تَحْمِلُ رِزْقَهَا١ۗۖ اَللّٰهُ يَرْزُقُهَا وَ اس دنیا میں بہت سے جانو ر بھی ہیں جو اپنے ساتھ (انسانوں کی طرح )اپنا رزق نہیں اٹھائے پھر تے.اللہ ہی ان کو اِيَّاكُمْ١ۖٞ وَ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۰۰۶۱ رزق دیتاہے اور تم کوبھی.اور وہ بہت دعائیں سننے والا (اور )حالات سے خوب آگا ہ ہے.تفسیر.ایک اَو رمشکل جو بسا اوقات کمزو رانسان کے قد م کو ڈگمگادیتی اوراسے اپنے آپ کو قربانیوں کی آگ میں جھونکنے سے روکتی ہے وہ مالی مشکلات ہیں.ایک طرف دنیااپنے پور ے حسن کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی ہوتی ہے اوردوسری طر ف خدا تعالیٰ کادین اسے آواز دے رہاہوتاہے کہ آئو اورمیری مددکرو.وہ دنیاکی طرف جھانکتاہے تووہ اسے مال و دولت اورزیب و زینت کے ساتھ آراستہ و پیراستہ نظر آتی ہے.اور دین کی طر ف دیکھتاہے تووہاں اسے روپوئوں کی جھنکار سنائی نہیں دیتی.یہ دیکھ کرایک کمزو رانسان کا دل دہل جاتاہے.اوروہ کہتا ہے میں خداکے لئے اپنی زندگی کو کس طرح وقف کروں.میں نے خداکے لئے اپنے آپ کو وقف کردیاتومیں بھوکامر جائوں گا.میری بیوی بچے کیا کھائیں گے.ہم اپنا معیار زندگی کس طرح قائم رکھ سکیں گے.اوراگریہ لالچ
اس کے دل میں غالب آجاتی ہے تووہ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت سے محروم ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اشرف المخلو ق ہوکر زمین و آسمان کے خدا پر کتنی بدظنی کررہے ہو.تم زمین کے چرندوں اورجنگل کے درندوں اورہواکے پرندوںکو دیکھو.کیاتم ان کے لئے رزق مہیا کرتے ہو یاخداان کو رزق بہم پہنچا رہا ہے.اگرتم کائنات عالم کے اربوں ارب کیڑے مکوڑوں اورجانداروں کے سامان معیشت پر ہی غور کرو توتمہاری عقل دنگ رہ جائے اور تم پر علم و معرفت کاایک نیا باب کھل جائے.دنیاعلمی لحاظ سے بڑی بھاری ترقی کرچکی ہے مگرابھی تک وہ یہ نہیںمعلوم کرسکی کہ اِن اَن گنت جانوروں کے لئے کس طرح غذامہیاہوتی ہے.ایک موٹی تقسیم تو یہی ہے کہ کھیتی میں دانے پیدا ہوتے ہیں توساتھ ہی اللہ تعالیٰ جانوروں کے لئے بھوسہ بھی پیداکردیتاہے.اسی طرح کانٹے دار جھاڑیاںاوردرخت اونٹوںوغیرہ کی غذاہیں تونجاست بھیڑوں کے کام آجاتی ہے.مگرکروڑوں کروڑ جانور جو سمندروں اور دریائوں میں رہتے ہیں یاغاروں میں بستے ہیں یادرختوں کی چوٹیوں پر بسیراکرتے ہیں یاہوائوں میں اڑتے ہیں یاخون کے ایک ایک قطرہ میں خوردبین سے دکھائی دیتے ہیں ان سب کو کون رزق دے رہاہے.کون سی سوسائٹی یاانجمن یاحکومت ہے جو ان کا بجٹ تیار کرتی اورانہیں تنخواہیں تقسیم کرتی ہے.یہ خداہی ہے جو اتنابڑاکارخانہ چلارہاہے اوران اربوں ارب جانوروںکو رزق مہیاکر رہاہے.پھرانسان کیسانادان ہے کہ جب اسے کہاجاتاہے کہ آئو اورخدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے اپنے آپ کو وقف کروتوو ہ کہتاہے میں آئوں توسہی مگرمیں ڈرتاہوں کہ اگرمیں آگیا توکھائوں گاکہاںسے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میں کائنات عالم کی اتنی بڑی مخلوق کو رزق پہنچارہاہوں.تواگرتم میری آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئے توکیا میں تمہیں بھوکامرنے دوں گا.فرمایا.اس بدظنی کواپنے دل سے نکال دو.تمہاراخداسمیع اورعلیم ہے.اگرتم سچے دل سے خدا تعالیٰ کو پکارو گے تواس وجہ سے کہ وہ تمہارے حالات کوجانتاہے وہ تمہاری دعائوں کو قبول کرے گا اور تمہیں ہرقسم کی مشکلات سے نجات دے گا.پس ان وساوس میں اپنی زندگی مت بسر کرو.بلکہ نڈر او ربہادر بن کر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے آگے بڑھو.
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ سَخَّرَ اوراگرتُو ان لوگوں سے پوچھے کہ آسمانوں او رزمین کو کس نے پیدا کیاہے؟ اورسورج اور چاند کو (بغیر مزدوری کے) الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ۚ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ۰۰۶۲ کس نے انسانوں کی خدمت میں لگایا ہوا ہے ؟تو وہ کہیں گے اللہ نے.(پھر جب وہ یہ بات جانتے ہیں )تو کس طرف کو بہکے جارہے ہیں.تفسیر.اشاعتِ اسلام کے راستہ میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ پھر ان مذہبی مباحثات کی طرف لوٹتا ہے جن کا ذکر گذشتہ رکوع سے شروع ہے اور فرماتا ہے کہ جب تم باہر نکلو گے اور دنیا میں اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے وطنوں کی بھی قربانی کرو گے.اپنی جانوں کی بھی قربانی کرو گے.اپنے مالوں کی بھی قربانی کرو گے اور صبرواستقامت اور توکل علی اللہ کا نمونہ دکھاتے ہوئے اسلام اور قرآن کی تبلیغ کرو گے تو تمہیں سب سے بڑا مقابلہ ان اقوام سے پیش آئے گا جو کسی نہ کسی رنگ میں خدا تعالیٰ کی توحید کی منکر ہیں.اس لئے تمہیں چاہیے کہ جب ا ن سے مذہبی گفتگو شروع ہوتو ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے ؟ اور سورج اور چاند کو کس نے بے مزد خدمت پر کس نے لگا رکھا ہے ؟ وہ اس کے جواب میں سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تمام کارخانہء عالم اللہ تعالیٰ نے ہی پید اکیا ہے اور وہی اس کو چلا رہا ہے.پھر ان سے کہو کہ جب خدا تعالیٰ نے اتنا بڑا کارخانہ پید اکردیا ہے.اور اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے تو تم خدا کو چھوڑ کر اور معبود وں کی طرف کیو ں بہکے جارہے ہو.پھر وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ کہہ کر اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ جب تم توحید کی مخالف اقوام کے سامنے اسلام اور قرآن کا پیغام پیش کروگے تو وہ اپنی طاقت اور سامانوں کی فراوانی کی وجہ سے تمہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور کہیں گے تم کس طرح غالب آسکتے ہو تم تو کینیوٹؔ کی طرح سمندر کو پیچھے دھکیلنے کے خواب دیکھ رہے ہو.کینیوٹؔ ایک انگریز بادشاہ تھا جس کو خدا تعالیٰ نے بہت اقبال دیا تھا.ایک دن وہ سمندر کے کنارے بیٹھا تھا کہ اس کے درباریوں نے خوشامد کے طور پر کہنا شروع کیا کہ آپ کی حکومت تو زمین اور سمندر بھی مانتے ہیں وہ دانا بادشاہ تھا.اس نے اپنی کرسی سمندر کے کنارے بچھائی اور وہاں بیٹھ گیا.وہ وقت مدکا تھا جس وقت سمندر میں
جو ش آتا ہے وہ میل میل خشکی پر چڑھ جاتا ہے.لہریں اُٹھنے لگیں اور پانی کرسی کے گرد اونچا ہونے لگا کینیوٹؔ ظاہر میں غصہ کی شکل بنا کر لہروں کو حکم دیتا کہ پیچھے ہٹ جائو.مگر پانی بڑھتا چلا گیا.یہاں تک کہ بادشاہ کے ساتھیوں کو جان کا خطرہ پید ا ہوگیا.اس وقت بادشاہ اٹھ کر خشکی کی طرف آیا اور درباریوں سے کہا کہ دیکھا تم کس قدر جھوٹ کہتے تھے.جس طرح کینیوٹؔ بادشاہ کے حکم سے باوجود اس کے اقتدار کے سمندر پیچھے نہیں ہٹتا تھا اسی طرح یورپ کو ایشیائی طریق کا مسلمان بنانا مشکل نظر آئے گا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پید ا کیا ہے اور کس نے سورج اور چاند اور ستاروں کو ایسی طرز پر کام میں لگارکھا ہے کہ لاکھوں سال کا زمانہ گزرنے کے باوجود وہ برابراپنا کام کرتے چلےجارہے ہیں اور آسمانی اور زمینی نظام میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا.وہ اس کے جواب میں سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہی ایسا کیا ہے.پھر ان سے کہو کہ جس خدا نے بغیر ظاہری سامانوں کے بڑے بڑے وزنی سیارے اور ستارے آسمان میں قائم کر رکھے ہیں وہ خد ا جب کسی قوم کو غالب کرنا چاہے تو اسے مادی سامانوں کی ضرورت نہیں ہوتی.وہ ایسے باریک اور غیر مرئی سامانوں سے کام لیتا ہے جن کو انسانی آنکھ دیکھ بھی نہیں سکتی اور غالب مغلوب اور مفتوح فاتح بن جاتے ہیں.اسلام کی بھی اس وقت یہی حالت ہے اس کی چھتیں ستونوں سے خالی دکھائی دیتی ہیں اور اس کی زمین بنجر اور سنگلاخ نظرآتی ہے.لیکن زمین وآسما ن کی تخلیق پر غور کرنے والا دماغ اس نکتہ کو فراموش نہیں کرسکتا.کہ تمام طاقت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور جب وہ کسی کو غالب کرنا چاہے تو بغیر مادی سامانوںکے بھی غالب کردیتا ہے.دیکھو ٹائن بیؔ جو اس وقت سب سے بڑا مؤرخ ماناجاتا ہے اور قریباً گبن ؔ کی پوزیشن ا س کو ملنے لگ گئی ہے بلکہ بعض تو اسے گبن سے بھی بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا مؤرخ کبھی نہیں گذرا.اس نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ دنیا میں جو تغیر آیا کرتے ہیں وہ اخلاقی اقدار کی وجہ سے آتے ہیں.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی بڑی طاقت ہوتو اس کی وجہ سے تغیرات پیدا ہوتے ہیں یہ غلط بات ہے.پھر اس نے لکھاہے کہ عیسائیت کے ساتھ اب اسلام کی ٹکر ہوگی.جس کے سامان نظرآرہے ہیں اور مسلمانوں میں سے احمدیوں میں مجھے آئندہ لڑائی والی جھلک نظر آرہی ہے.اس ٹکر کے بعد یہ فیصلہ ہوگا کہ آئندہ تہذیب کی بنیاد اگلی صدیوں میں اسلام پر قائم ہوگی یا عیسائیت پر قائم ہوگی.پھر اس نے ایک مثال دی ہے کہتا ہے ہم تو گھوڑ دوڑ کے شوقین ہیں.ہمارے ہاں عام گھوڑ دوڑ ہوتی ہے.ہم گھوڑ دوڑ والے جانتے ہیں کہ بسا اوقات جو گھوڑا سب سے پیچھے سمجھا جاتا ہے وہ آگے نکل جاتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ احمدی اس وقت کمزور ہیں.کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پچھلا گھوڑا آگے نکل جاتا ہے.اسی طرح اب تم کو یہ کمزور نظرآتے ہیں لیکن مجھے ان میں وہ ترقی کا بیج نظر
آرہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی وقت عیسائیت کے ساتھ ٹکر لیں گے اور شائدیہی جیت جائیں.دیکھو اتنا بڑاشخص جس کے متعلق یہ سمجھاجاتاہے کہ دہ دنیا میں سب سے بڑامؤرخ ہے اس کو بھی مانناپڑاکہ احمدیت کے اندر وہ بیج موجود ہے جس نے عیسائیت سے ٹکر لینی ہے اورپھر ممکن ہے یہی جیت جائیں.و ہ آخر مخالف ہے اس نے ممکن ہی کہنا تھا.یہ تونہیں کہناتھا کہ یقینی امر ہے کہ جیت جائیں.مگراللہ تعالیٰ بتاتاہے کہ اسلام کاعیسائیت پر غالب آناایک یقینی امر ہے.وہ پہلے آسمان اورزمین کو بدل کر ایک نیاآسمان اور نئی زمین پیداکردے گا اورایک نیا نظام روحانی دنیا میں جاری ہوجائے گا.اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ يَقْدِرُ لَهٗ١ؕ اللہ ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتاہے رزق پھیلاتاہے اورجس کے لئے چاہتاہے تنگ کردیتاہے.اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ۰۰۶۳ اللہ (تعالیٰ ) یقیناً ہرچیز سے اچھی طرح واقف ہے.تفسیر.اس آیت میں مخالفینِ اسلام کو انتباہ کیاگیاہے کہ تم دنیا کی دولتوںاورحکومتوں پر کیوں فریفتہ ہو.تمام ترقیات اللہ تعالیٰ کے قبضہء قدرت میں ہیں.اوروہ کمزورو ں کو طاقتور اورناداروںکو امیر اوربادشاہوں کوفقیر بنانے کی طاقت رکھتاہے.بیشک آج تمہیں اسلام ایک کمزو رمذہب دکھائی دیتاہے اوراس مذہب کے پیروئوںکوتم ذلیل سمجھتے ہولیکن اللہ تعالیٰ عنقریب تم سے یہ نعمتیں چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متبعین کودے دے گا.اوراس طرح تمہاراوافررزق تمہارے لئے تنگ ہوجائےگا اورمسلمانوں کی تنگی ان کی فراخی میں بدل جائے گی.پہلے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوااوراب بھی ایسا ہی ہوگا.اسلام زندہ ہوگا.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماننے والے ترقی کریں گے.اوریورپ اورامریکہ اپنی ہرقسم کی ترقی کے باوجود اسلام سے شکست کھائیں گے.اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ میں بتایاکہ اللہ تعالیٰ جانتاہے کہ مسلمانوں میں زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں.اورکفراپنے آخری سانس لے رہاہے اورجبکہ دونوں میں ترقی اورتنزل کی علامات ظاہرہیںتویہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان ترقی نہ کریں اور کافر مغلوب نہ ہوں.
وَ لَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَحْيَا بِهِ اوراگرتُوان سے پوچھے کہ بادل سے کس نے پانی اتار اہے؟ اورپھر اس کے ذریعہ سے زمین کواس کے مرنے کے الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ١ؕ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ١ؕ بعد زندہ کیاہے؟تووہ کہیں گے.یقیناً اللہ نے.تُو کہہ دے کہ سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے.لیکن ان بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَؒ۰۰۶۴ (یعنی انسانوں)میں سے اکثر سمجھتے نہیں.تفسیر.اس میں بتایاکہ وہ اقوام جن سے تمہار امقابلہ ہوگا وہ وحی والہام کی بھی منکر ہوں گی اس لئے تم ان سے پوچھو کہ آسمان سے کون پانی نازل کرتا اورمردہ زمین کو زندہ کرتاہے ؟ وہ اس کے جواب میں بے ساختہ یہی کہیں گے کہ اللہ.تم کہو کہ الحمد للہ جوخداہمیشہ مردہ زمین کو آسمانی بارش سے زندہ کرتاچلاآیاہے.اس نے اب بھی دنیا کی پکار سنی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودنیا کی نجات کے لئے بھیج دیا.یہ کتنے بڑے شکر کا مقام ہے کہ تاریک دنیا کوروشن کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک سورج چڑھادیا.مردہ زمین کوزندہ کرنے کے لئے اس نے ایک بہت بڑارحمت کابادل بھجوادیا جواتنی شان سے برساکہ پیاسی دنیا سیراب ہوگئی اورمردہ زمین نے بھی روئید گی پیداکر نی شروع کردی.خدا تعالیٰ کے اتنے بڑے انعام او راحسان کودیکھتے ہوئے ان لوگوں کوچاہیے تھا کہ دوڑتے ہوئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس پہنچتے اورآپؐ کو قبول کر کے آسمانی بارش سے فیضیاب ہوتے اوراپنے حوضوں اورتالابوں کو بھر لیتے مگرانہوںنے عقل سے کام نہ لیا.مردار دنیا پر گرکر رہ گئے.اوردنیوی مال و متاع انہیں اس دولت سے زیادہ اچھا دکھائی دینے لگا.گویاٹھیکریوں کو تو انہوں نے لے لیااور ہیروںاورجواہرات کو پھینک دیا.آسمان سے بار ش نازل ہونے کی مثال دے کر کفار کواس امر کی طرف بھی متو جہ کیاگیاہے کہ جب آسمان سے بارش نازل ہوتی ہے توزمین اپنی ہرقسم کی روئید گی کوظاہر کرناشروع کردیتی ہے.مگریہ روئیدگی یکساں نہیں ہوتی.کئی گھاس اور پودے صرف نصف انچ یا ایک انچ تک ہی رہ جاتے ہیں.اور کئی چھوٹی چھوٹی سبزیاں ترقی کرکے اتنا بڑادرخت بن جاتی ہیں کہ سینکڑوں آدمی اس کے سایہ کے نیچے آرام کرسکتے ہیں.ابتدائی حالت میں وہ بالکل یکساں
ہوتی ہیں لیکن انتہائی حالت میں وہ بالکل مختلف ہوجاتی ہیں.کوئی روئیدگی ایسی ہوتی ہے کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ میں ہی اس کاساراجوش ختم ہو جاتا ہے.اورکوئی سبزہ ایک مضبوط درخت بن جاتاہے یاایک چھوٹاساپوداسینکڑوں سال کی عمر تک چلاجاتاہے.بعض پھول ایک یادودن میں سوکھ جاتے ہیں.لیکن انگور کادرخت ہزار سال تک کی عمر بھی پالیتا ہے.بڑ کادر خت سینکڑوں سال تک چلاجاتاہے.اسی طرح جب آسمان سے روحانی بارش نازل ہوتی ہے توکفر کی زمین بھی اپنی روئید گیاں ظاہر کرناشروع کردیتی ہے اورایمان کی زمین بھی پھل اورپھو ل پیداکرناشروع کردیتی ہے.لیکن کفرکاسبز ہ صرف چند دن بہاردکھانے کے بعد سوکھ جاتاہے او رکوڑاکرکٹ بن جاتاہے لیکن ایمان کادرخت اَصْلُھَاثَابِتٌ وَّفَرْعُھَافِی السَّمَآئِ کامصداق بن جاتاہے.اس کی جڑیں پاتال تک چلی جاتی ہیں اوراس کی شاخیں آسمان تک پھیل جاتی ہیں.پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعہ کفار کواس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ پر تمہارے اندر جو ایک غیر معمولی حرکت پیداہوئی ہے اور تمہاری قوموں میں ابھار شروع ہواہے یہ اسی روحانی بارش کانتیجہ ہے جوہماری طرف سے نازل ہوئی ہے کیونکہ بار ش کے نتیجہ میں جس طرح اعلیٰ درجہ کاآم اورانگور ترقی کرتاہے اسی طرح حنظل اور آک بھی ترقی کرتاہے.مگریہ مت سمجھو کہ تم محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کامیاب ہوجائو گے.کیونکہ تمہاری مثال اس گھاس کی سی ہے جو چند دنوں کے بعد ہی گل سڑ جاتاہے اورپھر اس میں اتنی سڑاند پیداہوجاتی ہے کہ وہ اپنا رنگ بھی چھوڑ دیتاہے اورمختلف قسم کی بیماریوں اوروبائوں کاموجب بن جاتاہے.پس قانون قدرت کے اس نظارہ کو دیکھتے ہوئے تمہیں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں جلدی کرنی چاہیے تاکہ تم ایک پھلدار درخت بنواوردنیا تمہارے وجود سے فائدہ اٹھائے.تھو ہریا آک یاحنظل کادرخت مت بنو.وَ مَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ١ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ اوریہ ورلی زندگی صر ف ایک غفلت اورکھیل کاسامان ہے اوراُخروی زندگی کاگھر ہی درحقیقت اصلی زندگی کاگھر الْاٰخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ١ۘ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۰۰۶۵ کہلاسکتاہے.کاش کہ وہ لوگ جانتے.تفسیر.اس آیت میں دنیوی اوراخروی زندگی کامقابلہ کرتے ہوئے منکرین اسلام کوا س امر کی طرف
توجہ دلائی گئی ہے کہ اگرتم سوچواورغورسے کام لو توتمہیں معلوم ہوکہ یہ دنیالھواورلعب سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی.یعنی دنیوی کاموں کی اگرتقسیم کی جائے توان کاایک حصہ تو لھو قرا ر پائے گا اوردوسرالعب.لھو سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو غفلت پیداکرنے والی ہیں.اورلعب سے مراد ایسی چیز یں ہیں جواپنے اندرکھیل کودکارنگ رکھتی ہیں.اوردرحقیقت انسانی زندگی انہی دوچیزوں کے مجموعے کانام ہے.یعنی زندگی حرکت اورسکون کے ایک دور کانام ہے جویکے بعد دیگرے آتاچلاجاتاہے.اوریہ دونوں چیزیں جسمانی قوتوںکو برقراررکھنے کے لئے ضرور ی ہیں.گویالعب حرکت کاوہ زمانہ ہے جس میں انسان مختلف طریق پر اپنی قوتوںکوبروئے کارلاتاہے.اورلھو انسان کی وہ حالت ہے جس میں وہ آرام او رسکون حاصل کرنے کاخواہشمند ہوتاہے.یہ دونوں چیزیں ایسی ہیں جن کاہرانسان محتاج ہے خواہ وہ روحانیت کے بڑے سے بڑے مقام پر بھی کیوں نہ پہنچاہواہو.کیونکہ انسانی زندگی اگرایک طرف حرکت کے ساتھ قائم ہے خواہ یہ حرکت سیر کے ذریعہ سے ہو یاچلنے پھر نے کے ذریعہ سے یادنیوی مشاغل اورکاروبار میں حصہ لینے سے تودوسری طرف کوئی انسان نہیں جوآرام اورسکون کا محتاج نہ ہو.اگرنیند کے ذریعہ سے دماغی اوراعصابی سکون حاصل نہ ہو یاخوشگوارمناظر اور خوشگوار آب و ہوااس کےلئے سکون اورلذت کاموجب نہ ہوں تووہ اپنی زندگی کو کسی صورت میں بھی برقرار نہیں رکھ سکتا.غرض لہواورلعب کے ساتھ ہی یہ دنیوی زندگی قائم ہے اگران دونوں کوانسانی زندگی میں سے نکال دو تو ساتھ ہی زندگی بھی ختم ہوجاتی ہے.مگرفرمایاکہ اس لہواورلعب کااصل مقصد یہ ہے کہ تم ا س کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی محبت کے حصول کی کوشش کرو.گویایوں سمجھ لوکہ تمہارے مقصد حیات کے مقابلہ میں جواُخروی زندگی ہے اس دنیاکا مقام صر ف لہو اورلعب کاساہے جس طرح ایک طالب علم کے لئے کھیل کود ضروری ہے اسی طرح تمہارے لئے بھی دنیوی مشاغل ضروری ہیں.کیونکہ اسلام بدھ مذہب کی طرح اپنے پیروئوں کو یہ نہیں کہتاکہ دنیا چھوڑ دواوررات دن کسی جنگل میں بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے رہو بلکہ وہ لھو اورلعب کو بھی ضروری قرار دیتاہے کیونکہ اگرہروقت آخرت کاخوف ہی انسان کے ساتھ رہے توو ہ ہلاک ہوجائے.مگرلھو اورلعب میں ہروقت مستغرق رہنا بھی انسان کے اصل مقصدکوتباہ کردیتاہے جس طرح کھیل تو ایک طالب علم کے لئے ضروری ہے لیکن اگروہ ہروقت کھیل کود میں مشغو ل رہے تو و ہ اپنی تعلیم کونقصان پہنچائے گااورکوئی بھی اس کے اس فعل کو مستحسن قرار نہیں دے گا.اسی طرح اسلام دنیوی لذات سے متمتع ہونے کی اجازت تودیتاہے.مگروہ یہ پسند نہیں کرتاکہ انسان دنیا میں ہی مشغول ہوجائے اورآخرت کو نظرانداز کردے.پس وَمَاھٰذِہِ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآاِلَّالَھْوٌوَّ لَعِبٌ فرماکراللہ تعالیٰ نے منکرین اسلام کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ
ہم نے تواس دنیا کو آخرت کے لئے ایک سیڑھی کے طور پر بنایاتھا اورچاہاتھاکہ تم اس دنیاکااتناہی مقام سمجھو.جتناایک طالم علم کھیل کا مقام سمجھتاہے.مگرتم نے اپنی نادانی سے دنیا کو ہی اپنا منتہٰی سمجھ لیااوراسی کے لئے تم نے اپنی تمام مساعی وقف کردیں.حالانکہ وَاِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ لَھِیَ الْحَیَوَانُ اصل زندگی تو دارِ آخرت کی زندگی ہی ہے.اس جگہ حَیَوَان کالفظ حَیٰوۃ کے مبالغہ کے طور پر استعمال ہواہے.جیسے کہتے ہیں زَیْدٌ عَدْلٌ یعنی زید کاانصاف کے ساتھ اتنا گہراتعلق ہے کہ اگریہ کہا جائے کہ زید ہی مجسّم انصاف ہے تو یہ بالکل جائز ہوگا.اسی طرح فرمایاکہ گواس جہان میں بھی تمہیں ایک زندگی حاصل ہے لیکن چونکہ انسان حقیقی طور پر دارآخرت میں ہی زندہ ہوگا اوراصل زندگی وہی ہے جواگلے جہان میں حاصل ہوگی.اس لئے اگرہم یہ کہیں کہ دارآخرت ہی حقیقی زندگی ہے تویہ بالکل جائز ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس جگہ محض الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ کی تنقیص کی گئی ہے.مگریہ درست نہیں.وہ زندگی جو خودخدا تعالیٰ نے پیداکی ہے.اورجوتمام انبیاء ؑ اوراولیاءؒاورصلحاء ؒ کوحاصل ہوتی ہے وہ بیہودہ اورفضول کس طرح ہوسکتی ہے.اللہ تعالیٰ توبار بار فرماتا ہے کہ کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بے کار پیداکردیاہے اور تم ہمارے پاس نہیں آئو گے.اسی طرح وہ زمین و آسمان کی پیدائش کوبھی بڑی حکمتوں پر مبنی قراردیتاہے.پھرانسانی زندگی جواسی پیدائش کاایک حصہ ہے بے کار کس طرح ہوگئی.اگریہ زندگی بے کار ہوتی تواللہ تعالیٰ بار بار اپنے احسانات کیوں گنواتا.اورکیوں فرماتاکہ اَمَّابِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.اپنے رب کی نعمتوںکویاد کرو اوران کاشکر اداکرو.پس وَ مَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَاۤ اِلَّا لَهْوٌ وَّ لَعِبٌ فرماکر اللہ تعالیٰ نے دنیوی زندگی کی مذمت نہیں کی بلکہ اسے اُخروی حیات کاایک ضروری حصہ اوراس کاابتدائی زینہ قرار دیاہے جس پر قدم رکھے بغیر اخروی حیات کی صلاحیتیں انسانی روح میں پیدا نہیں ہوتیں.اس دنیوی زندگی کو لہوو لعب قراردےکر اللہ تعالیٰ نے مومنوںکو توکل کابھی شاندار سبق دیاہے اوربتایاہے کہ یہ دنیااوراس کے سامان درحقیقت ایک کھیل کی سی حیثیت رکھتے ہیں.جس طرح کھیل میں خواہ بادشاہ بن جائو یافقیر دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.نہ بادشاہ بن کر انسان متکبر ہو جاتا ہے نہ فقیر بن کررونے لگتاہے اس طرح مومن سمجھتاہے کہ میری اصل زندگی تو میرے خداکے پا س اگلے جہا ن میں ہے.یہ دنیوی زندگی تومحض ایک کھیل ہے اورجب اس کایہ نقطہ ء نگاہ ہو جاتا ہے توپھر اگراسے کروڑوں روپے بھی مل جائیں تومال کی ناجائز محبت اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتی اوراگراسے فاقے بھی کرنے پڑیں تب بھی اسے خدا تعالیٰ کے متعلق کوئی شکوہ پیدا نہیں ہوتا.اس کے بالمقابل چونکہ
کافر دنیا کو ہی اصل چیز سمجھتے ہیں.اس لئے اگرانہیں کروڑوں مل جائیں تووہ سرتاپادنیا کے کیڑے بن جاتے ہیں اوراگرمال و دولت چھینی جائے توان پر موت آجاتی ہے اوروہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شکوہ وشکایت کاباب کھو ل دیتے ہیں.گویاوہ کسی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا ء پر مطمئن نہیں ہوتے اگرانہیں اموال اورجائدادیں مل جائیں توبجائے اس کے کہ ان کی خدا تعالیٰ کی طرف نظر اٹھے وہ انہیں اپنی لیاقت اورقابلیت کانتیجہ قرار دے دیتے ہیںاوراگران سے مال چھن جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے متعلق شکوہ و شکایت کرنے اور اسے (نعوذ باللہ)ظالم قرار دینے لگ جاتے ہیں.غرض کافر کسی حالت میں بھی مطمئن نہیں ہوتا اورمومن کو ہرحالت میں اطمینان قلب نصیب ہوتااوروہ رضاء بالقضاء کا نمونہ ہوتاہے.اوپرچونکہ کفارکو مخاطب کیاگیاتھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںپھر انہیں اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگرتم سمجھتے کہ دنیادارِ آخرت کی تیاری کے لئے رکھی گئی ہے اوراس کی حیثیت لہواورلعب کی سی ہے توتم دنیا پر لات مار کر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اختیار کرلیتے اور سمجھتے کہ مادی ترقیات روحانی ترقیات کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.مگرتم نے تودارآخرت پر دنیوی زندگی کوترجیح دے دی اورچند کھوٹے پیسوں کے لئے آسمانی دولت کوردّکردیا.فَاِذَا رَكِبُوْا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ١ۚ۬ اورجب وہ لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں تواپنی عقیدت کو خالصۃً اللہ(تعالیٰ ) کے لئے کرکے اس سے دعامانگتے فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ اِذَا هُمْ يُشْرِكُوْنَۙ۰۰۶۶لِيَكْفُرُوْا بِمَاۤ ہیں.مگرجب وہ ان کوخشکی کی طرف نجات دے کرپہنچادیتاہے تواچانک پھر شرک کرنے لگ جاتے ہیں.تاکہ ہم اٰتَيْنٰهُمْ١ۙۚ وَ لِيَتَمَتَّعُوْا۠١ٙ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ۰۰۶۷ نے جوکچھ انہیں دیا ہے اس کاانکار کردیں( اوراس انعام کو خداکے سوادوسرے شریکوں کی طرف منسوب کردیں ) اوراس (عارضی توبہ)کانتیجہ یہ ہوتاہے کہ (اللہ تعالیٰ ان کوچھوڑ دیتاہے اور)وہ ایک عرصہ تک دنیوی سامانوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.پس( ایک دن یہ بخشش ختم ہوجائے گی اور)وہ(اپنی حقیقی جزاکو)دیکھ لیں گے.تفسیر.اس میں بتایاکہ لوگ دنیا سے اپنا دل تولگاتے ہیں.لیکن انہیں اپنی زندگیوں میں ہی ایسے کئی
حوادث اور واقعات پیش آجاتے ہیں جن کے نتیجہ میں انہیں خدا تعالیٰ کی طر ف توجہ کرنی پڑتی ہے.مگربدقسمت انسان جب مشکلات سے نجات پاجاتاہے تووہ پھر خدا تعالیٰ کوبھول جاتاہے اور یہ چکر اسی طرح چلتاچلاجاتاہے.درحقیقت اگرہم غورسے کام لیں توانسان پر دنیامیں کبھی توایسی حالت آتی ہے کہ وہ اپنی ساری ضرورتیں خود پوری کرلیتا ہے.اس وقت اس کی توجہ اپنی طاقت اورقوت کی طرف جاتی ہے اوروہ اپنی کوشش پر گھمنڈ کرتاہے.لیکن کبھی ایساہوتاہے کہ وہ خود اپنی ضرور ت کو پورا نہیں کرسکتا اوراپنی مدد کے لئے اپنے عزیزوں دوستوں اور رشتہ داروں کا محتاج ہوتاہے اس وقت اس کے ذہن میں خیال آتاہے کہ رشتہ داری بھی اچھی چیز ہے.پھرایک وقت اس کے اہل و عیال اورمتعلقین بھی اس کے کام نہیںآسکتے اوراس کے ملنے والے اوردوست اس کی مددکرسکتے ہیں.ایسے وقت اس کی نظر اپنے دوستوں پر پڑتی ہے اورو ہ سمجھتاہے کہ دوست احباب بھی دنیا میں مفید ہوتے ہیں جوآڑے وقت کام آتے ہیں.پھر کبھی ایسازمانہ اس پر آتاہے کہ دوست بھی اس کاساتھ نہیں دے سکتے ایسے اوقات میں وہ بعض دفعہ بعض نظاموں کی طرف توجہ کرتا ہے اوروہ سلسلہ یاجماعت جس سے وہ تعلق رکھتاہے اس کی مددکرتی ہے.اس طرح جب اس کاکام بن جاتاہے.تو اس کے دل میں خیال آتاہے کہ نظام سے تعلق اچھی بات ہے اور سلسلہ یاجماعت سے اس کی وابستگی بڑھ جاتی ہے.پھر کوئی وقت ایسابھی آتاہے کہ اس کے اہل و عیال رشتہ دار.دوست احباب کوئی بھی اس کی مددنہیں کرسکتے بلکہ نظام بھی اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتا اس وقت حکومت جس کے ساتھ وہ تعلق رکھتاہے اس کی مدد کرتی ہے.تب وہ محسوس کرتاہے کہ حکومت بھی اچھی چیز ہے.پھر کوئی وقت ایسابھی آتاہے کہ حکومت بھی انسان کاساتھ نہیں دے سکتی.ایسے وقت میں عام انسانی ہمدردی اس کے کام آتی ہے تب اس کی نظر تمام دنیا پر پڑتی ہے اوروہ سوچتاہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانوں میں کیساعجیب رشتہ قائم کیا ہے.لیکن ایک وقت ایسابھی آتاہے کہ اس کے اہل و عیال.دوست احباب.قوم یانظام بلکہ حکومت اورانسانی ہمدردی کی مددسے بھی اسے کامیابی ناممکن نظر آتی ہے.ایسی صور ت میں کامیاب ہونے پر وہ سمجھتاہے.میری کامیابی میں کچھ حصہ غیبی امداد کابھی ہے اورجس حدتک اسے غیبی امداد کایقین ہوتاہے وہ خیال کرتاہے کہ یہ کام خدا تعالیٰ نے کردیا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جو کام اس نے خود کیا.رشتہ داروں اوردوستوں نے کیا.نظام نے کیا.قوم یاحکومت نے کیا یاعام انسانی ہمدردی نے کیا وہ بھی سب خدا تعالیٰ نے ہی کیاتھا.لیکن ان میں چونکہ ظاہر ی ذرائع موجودتھے خدا تعالیٰ کی طرف اس کی نظر نہیں اٹھی تھی.لیکن جب اسے کچھ غیبی امدادکاخیال ہوا.اس وقت اسے خدا تعالیٰ کاخیال آیا.بہرحال انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتاہے جب تمام انسانی تدابیر اس کے لئے باطل ہوجاتی
ہیں اورصرف خدا تعالیٰ ہی اس کے سامنے رہ جاتاہے.زیر تفسیرآیت میں اللہ تعالیٰ نے یہی مضمون بیان فرمایا ہے کہ ایسے وقت مشرک اور دہریہ بھی بے اختیار ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں.چنانچہ اس کی مثال دی ہے کہ جب طوفان پیدا ہوتاہے تومشرک بھی کہہ اٹھتے ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے سواکوئی بچانے والانہیںاس وقت انسان کا قلب اور احساسات پورے طور پر یقین رکھتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کے سواکوئی بچانے ک طاقت نہیں رکھتا.۱۹۰۵ء کازلزلہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلا م کی پیشگوئی کے مطابق آیا.اس وقت لاہور میڈیکل کالج میں ایک طالب علم تھا جو روزانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی ہستی کے متعلق بحث کیاکرتاتھا.جب زلزلہ آیااوراس نے محسوس کیاکہ اب چھت گر کے ہی رہے گی تووہ بے اختیار رام رام کہتے ہو ئے کمرہ سے بھاگ کرباہر آگیا.اگلے دن اس کے دوستوں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں اس وقت کیاہوگیا تھااور تم نے کیوں رام رام کہناشروع کردیاتھا.اس نے کہا.معلوم نہیں اس وقت کچھ عقل ہی مار ی گئی تھی.لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت اس نے صحیح عقل سے کام لیا.جب بچانے والے دنیوی اسباب اس کی نظر سے پوشیدہ ہوگئے تواسے ذاتِ باری کے سوا کوئی مددگار دکھائی نہ دیا.دراصل جب تک ایسے انسان کو دوسرے ذرائع نظر آتے رہیں وہ ادھر متوجہ رہتاہے.لیکن جب کوئی اَورذریعہ نظر نہ آئے تو اس وقت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف ہی اس کی نظر اٹھتی ہے.۱۹۱۸ ء میں جب جرمنی نے اپنی ساری طاقت جمع کرکے اتحادی افواج پر حملہ کردیاتوانگریزی فوج پر ایک وقت ایساآیاکہ کوئی صورت اس کے بچائو کی نہ رہی.سات میل لمبی لائن تہ و بالاہوگئی.کچھ حصہ فوج کاایک طرف سمٹ گیا اور کچھ حصہ دوسری طرف اوردرمیان میں اتنا خلاپیداہوگیاکہ جرمنی کی افواج وہاں سے گذرکرپیچھے سے حملہ کرکے تمام فوج کو تباہ کرسکتی تھیں.اس وقت جرنیل نے کمانڈر انچیف کواطلاع دی کہ یہ حالت ہے اور میرے پاس سپاہی اتنے نہیں کہ اس صف کو درست کیاجاسکے.یہ ایسی حالت تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ آج ہماری تمام فوج تباہ ہوجائے گی اورانگلستان اورفرانس کانام و نشان دنیاسے مٹ جائے گا.انگریزی کمانڈر انچیف نے ا س وقت وزارت کو تاردیا کہ یہ وقت انتہائی بے بسی کاہے.ہماری صف ٹوٹ چکی ہے اور ہرلمحہ تباہی کاخطرہ لاحق ہے.جب یہ تار پہنچا تو وزیراعظم دوسرے وزراء کے ساتھ مل کرکوئی مشورہ کررہاتھا.اس وقت مادہ پرست یورپ جس کی نگاہ کبھی خدا تعالیٰ کی طرف نہیں اٹھتی اس کی ایک زبردست مادہ پرست حکومت کاسب سے بڑاسردار جو اپنی طاقت وقوت اورشان وشوکت کے گھمنڈ میں مست رہتاتھااس نے بھی محسوس کیا کہ اس وقت کوئی ظاہری مدد نہیں جو ہمیں اس مصیبت سے نجات دلاسکے.اس نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھااور کہا.آئو خدا سے دعاکریں کہ وہ ہماری مددکرے.چنانچہ
وہ سارے کے سارے گھٹنوں کے بل جھک گئے اورانہوں نے خدا تعالیٰ سے دعاکی.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کردیئے.کہ جرمن سپاہیوں کو خبرتک نہ ہوسکی کہ ان کے سامنے فوج کی صف ٹوٹ چکی ہے.اس وقت کمانڈر انچیف نے اپنے سٹاف کے ایک افسر کوبلایااو راسے کہاکہ اس وقت یہ حالت ہے اورسوائے تمہارے مجھے کوئی ایساافسر نظر نہیں آتاجواس کاانتظام کرسکے.پس تم جائو.اورمجھ سے دوسراسوال نہ کرو.ایسے موقعہ پر وہ کہہ سکتاتھا کہ عجیب مصیبت ہے.فوج تودی نہیں جاتی مگر کہاجاتاہے دشمن کامقابلہ کرو.مگروہ افسر بھی سمجھ گیا کہ اس وقت فوج کامہیاہونا ناممکن ہے.اس نے موٹر لی اور سیدھا اس مقام پر پہنچا جہاں باورچی.نانبائی.دھوبی.موچی.درزی اورمہتر وغیرہ تھے اورانہیں کہاکہ تمہارے دلوں میں حسرت پیداہوتی ہوگی کہ ہمیں ملک کے لئے لڑنے کاموقعہ کبھی نہیں دیاگیا.لیکن آج تمہارے لئے ایک موقعہ پیداہوگیا ہے.ہماری صف ٹو ٹ چکی ہے اورملک کی نگاہ اس وقت تم پر پڑرہی ہے کہ تم آگے بڑھواور صف بندی کردو.اس پر جوکچھ کسی کے ہاتھ آیا لے کر چل پڑااورجاکر صف بندی کردی اور یہ نظر آنے لگاکہ فوج کھڑی ہے اس طرح چوبیس گھنٹے تک مقابلہ کیاگیا.یہاں تک کہ دوسرے علاقوں سے فوج سمیٹ کر وہاں جمع کردی گئی.یہ مادہ پرستوںکا ایک نظارہ ہے.جب خداکے سواانہیں کوئی مدد کرنے والانظر نہیں آتاتو اس وقت وہ بھی خداکے قائل ہوجاتے ہیں.لیکن جب مصیبت ٹل جاتی ہے توپھر و ہ اللہ تعالیٰ کوبھول جاتے ہیں.اوراس کامیابی کواپنی تدبیر اور زور بازو کی طرف منسوب کرناشروع کردیتے ہیں.یا اسے بعض دیوتاؤں کی طرف منسوب کرنا شروع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ لوگ آخر کب تک ایساکرتے چلے جائیں گے.بیشک ہم انہیں ایک عر صہ تک توبہ کاموقعہ دیتے ہیں.اوراس کے نتیجہ میں وہ دنیوی سامانوںسے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں.لیکن ایک دن وہ ان مواقع سے بھی محروم ہوجائیں گے اورپھر دیکھ لیں گے کہ ان کاکوئی جھوٹامعبود ان کی مد د نہیں کرسکے گااوروہ عذاب کی طوفانی موجوں سے رہائی کی کوئی صورت نہیں پائیں گے.اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا وَّ يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ کیاانہیں معلوم نہیں کہ ہم نے حرم(یعنی مکہ)کوامن کی جگہ بنادیاہے.اوران لوگوں کے ارد گردسے (یعنی مکہ کے حَوْلِهِمْ١ؕ اَفَبِالْبَاطِلِ۠ يُؤْمِنُوْنَ وَ بِنِعْمَةِ اللّٰهِ يَكْفُرُوْنَ۰۰۶۸ باہرسے) لوگ اچک لئے جاتے ہیں توکیا وہ جھوٹ پر تو ایمان لاتے ہیں اوراللہ(تعالیٰ) کی نعمت کاانکار کرتے ہیں؟ تفسیر.توحید باری تعالیٰ کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ نے پہلے توفطرت انسانی کی شہادت کوپیش کیاتھااور
بتایاتھا کہ مشرک لوگ خدا تعالیٰ کاانکار توکرتے ہیں مگر جب مصیبت آتی ہے اوران کے دل اور دماغ پرسے وہ پردے دو رہوتے ہیں جوقومی تعصب یا جہالت وغیرہ کے نتیجہ میں پڑ جاتے ہیں تووہ بے اختیار اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر جھک جاتے اور اس کو خلوص کے ساتھ پکار ناشروع کردیتے ہیں.ان کی یہ فطرتی پکار اس بات کاثبوت ہوتی ہے کہ ان کے دل خدا تعالیٰ کی عظمت اوراس کی کبریائی کومحسوس کرتے ہیں ورنہ مصیبت کے وقت ان کی فطرت اس طرح عریان ہوکر خدا تعالیٰ کی وحدانیت کااقرار کرنے پرکیوں مجبورہوتی.اب اللہ تعالیٰ اس توحید کے ثبوت کے لئے خانہ کعبہ کے وجودکو پیش کرتاہے اورفرماتا ہے کہ کیایہ لوگ نہیں دیکھتے کہ عرب میں چاروں طرف لوٹ گھسوٹ اورقتل وغارت کابازار گرم رہتاہے.اور کسی کی جان اورعزت و آبرومحفوظ نہیں سمجھی جاتی.لیکن مکہ والوں کو حدود حر م میں رہنے کی وجہ سے اتنا بڑاامن حاصل ہے کہ کوئی ان پر انگلی تک نہیں اٹھاسکتا یہ عظیم الشان انعام آخر مکہ والوں کوکیوں حاصل ہوا؟ کیا اس میں ان کی کسی ذاتی قابلیت کادخل ہے.یااس کے پیچھے صرف وہ دعائے ابراہیمی کام کررہی ہے جو بیت اللہ کی بنیادیں اٹھاتے وقت انہوں نے کی اور اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ رنگ میں التجاء کی کہ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ( البقرۃ :۱۲۷) یعنی اے میرے رب ! اس جگہ کو ایک پُرامن شہربنادے اوراس کے باشندوں میں سے جو بھی اللہ اور یوم آخرت پرایمان لائیں انہیں ہرقسم کے پھل عطافرما.پھر جبکہ دعائے ابراہیمی ؑکی وجہ سے ہی انہیں امن میسر آیا اوردعائے ابراہیمیؑ کی وجہ سے ہی انہیں روزق ملا اور دعائے ابراہیمیؑ کی وجہ سے ہی انہیںعزت اورشہر ت نصیب ہوئی توانہیں سوچناچاہیے کہ ابراہیمؑ نے بیت اللہ کی تعمیر کیااس لئے کی تھی کہ یہاں خدائے واحد کی بجائے تین سوساٹھ بت رکھ دیئے جائیں اورانسان اپنی جبینِ نیاز رب العالمین کی بجائے پتھر کے بے جان بتوں کے آگے جھکادے یااس لئے کی تھی کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو حکم دیاتھا کہ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّآىِٕفِيْنَ وَ الْعٰكِفِيْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ (البقر ۃ : ۱۲۶)یعنی میرے اس گھر کوطواف کرنے والوں.اعتکاف بیٹھنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے ہمیشہ پاک و صاف رکھو.جب اس گھر کی تعمیر ہی خدائے واحد کی عباد ت کاایک مرکز بنانے کے لئے کی گئی تھی اورجبکہ انہی دعائوں اورکعبہ کے متولی ہونے کی وجہ سے مکہ والوںکوتمام عرب میں ایک نمایاں اعزاز حاصل ہواتویہ کتنی شرم کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کااتناعظیم الشان نشان ان کی آنکھوں کے سامنے رہتاہے اوربیت اللہ کی ایک ایک اینٹ انہیں خدائے واحد کی عبادت کی طرف متوجہ کررہی ہے پھر بھی ان کی خطاکار پیشانی ہمیشہ باطل کے سامنے جھکتی ہے اوروہ اپنے عمل سے احسان ناشناسی کابدترین مظاہرہ کرتے رہتے ہیں.
یہ معنے توصرف مکہ والوں کی مناسبت کے لحاظ سے کئے گئے ہیں لیکن ایک دوسرے نقطہءِ نگاہ سے اس آیت کو دیکھاجائے تواللہ تعالیٰ نے اس میں بیت اللہ کو جوتوحید کامرکز ہے امنِ عالم کے قیام کا ایک زبر دست ذریعہ قرار دیا ہے اوربتایاہے کہ دنیاکوحقیقی امن صرف اسی صورت میں میسر آسکتاہے جب وہ توحید کے اس مرکز سے تعلق رکھے.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اس وقت اتنے مذاہب پائے جاتے ہیں اوران مذاہب کی تعلیمیں آپس میں اس قدر مختلف ہیں اوران مختلف مذاہب کے پیرواپنے خیالات میں اتنا اختلاف رکھتے ہیں کہ بظاہر دنیا میں یکجہتی اور اتحاد پیداہوناناممکن دکھائی دیتاہے صرف ایک ہی نقطہ مرکزی ہے جس پر تمام مذاہب کااتحادہو سکتا ہے اوروہ توحید باری تعالیٰ کانقطہ ہے.جس طرح بھائی بھائی کاآپس میں اختلاف ہو سکتا ہے لیکن باپ پر سب کااتحاد ہو جاتا ہے.اسی طرح مذاہب کاآپس میں ہزار اختلاف سہی توحید باری تعالیٰ ایک ایساعقیدہ ہے جس سے دنیاکاکوئی مذہب اختلاف نہیں کرسکتا اوریہی حقیقی مواخات پیداکرنے کاایک زبردست ذریعہ ہے.جب تک دنیا یہ نہ سمجھے کہ زید اوربکر اورعمر اورخالد سب میرے رب کی مخلوق ہیں اورانہیں بھی اسی خدا نے پیدا کیاہے جس نے مجھے پیدا کیاہے اس وقت تک ایک دوسرے کی تحقیر اورعناد کاجذبہ دلوں سے مٹ نہیں سکتا.اسلام نے امن عالم کے قیام کے لئے سب سے پہلے اسی نقطئہ مرکزی کو لیا.اورتوحید باری تعالیٰ کو دنیا میں قائم کیا اورانسانی قلوب میں یہ امر راسخ کیا کہ اسلام کا خدا رب العالمین ہے.یعنی وہ اسی طرح مسلمانوں کا خداہے جس طرح ہندوئوں اورعیسائیوں اور یہودیوں اور زرتشتیوں وغیرہ کا خداہے.جب ایک عیسائی اور یہودی بھی ہمارے خدا کاویساہی بندہ ہے جیسے ایک مسلمان تو ایک سچے مسلمان کے دل میں کسی ہندویاعیسائی یایہودی یازرتشتی کابغض کبھی پیدا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ ان سب کو اپنابھائی تصور کرے گااوراس کی محبت کاہاتھ ان سب کی طرف اسی شوق کے ساتھ بڑھے گا جس شوق کے ساتھ ایک مسلمان کی طر ف بڑھتاہے.پس اسلام نے امن عالم کے قیام کے لئے توحید کاسبق پیش کیا اورپھر اس سبق کوہمیشہ کے لئے ذہنوں میں راسخ کرنے کے لئے اس نے مسلمانوں کو بیت اللہ کے ساتھ وابستہ کردیا.قرآن کریم کہتاہے کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ(اٰل عمران: ۹۷)یعنی سب سے پہلا گھر جوتمام دنیا کے فائدہ کے لئے بنایاگیاتھا وہ ہے جو مکہ میں ہے.اب ظاہر ہے کہ ایسا گھر جوتمام د نیاکے اتحاد کا نقطئہ مرکزی تھا اسے وہ مذاہب نہیں بناسکتے تھے جن کی نگاہ کبھی قومی حد بندیوں سے آگے نہیں گئی.ایساگھر صرف خدا تعالیٰ کے الہام او راسی کے منشاء کے مطابق تعمیر ہوسکتاتھا.سوخدا نے تمام دنیا کو ایک
نقطہء مرکزی پر جمع کرنے کے لئے خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی اورزمانہ ابراہیمیؑ میں اس عمارت کی تجدید ہوئی اوردنیا کےسامنے پہلی دفعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ اعلان کیاکہ یہ گھر اس لئے بنایاگیاہے کہ یہاں لوگ آئیں.اس مقدس گھر کاطواف کریں.اس میں عبادت اور ذکر الٰہی کریں اوردین کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں.اللہ تعالیٰ اپنے اس احسان کی طرف زیر تفسیر آیت میں توجہ دلاتاہے اورفرماتا ہے کہ کیایہ لوگ غور نہیں کرتے کہ ہم نے بیت اللہ کے ذریعے امن عالم کے قیام کی کتنی زبردست تدبیر کی ہے اورکس طرح ہم نے عر بی اور غیر عربی مشرقی اورمغربی.گورے اور کالے.سرخ اورزرد سب کوایک مرکز پر جمع کردیاہے اورپھرا س گھرسے تعلق رکھنے والے لوگوںکو ایسی پُرامن تعلیم عطافرمائی ہے جس پر رعمل کرنے والے کانہ اپنا امن برباد ہوتاہے نہ ا س کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کاامن برباد ہوتاہے.بلکہ اسلامی تعلیم کے ماتحت بیت اللہ سے سچاتعلق رکھنے والا وہی سمجھا جاسکتاہے جس کے ہاتھ ا ور جس کی زبان کے شر سے دنیاکاہرشخص محفوظ ہو.گویابیت اللہ کے ذریعہ نہ صرف ایک مدرسئہ امن کھول دیاگیاہے بلکہ جو لوگ اس مدرسہ میں تعلیم پاتے ہیں.و ہ بھی دنیا میں امن کے علمبردا ربن جاتے ہیں.وہ جھوٹ نہیں بولتے.وہ بدظنی نہیں کرتے.وہ ظلم نہیں کرتے.وہ بے جاغضب سے کام نہیں لیتے.وہ لالچ میں مبتلانہیںہوتے.اوریہی چیزیں دنیاکاامن برباد کرنے والی ہوتی ہیں.پھر خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک سچا تعلق قائم ہوجانے کی وجہ سے انہیں اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے.جبکہ باقی دنیا لالچ اورحرص کی آگ میں جل رہی ہوتی ہے.اورلوگوں کو نہ اپنے قلو ب میں اطمینان نظر آتاہے.اورنہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے اپنے آپ کو مطمئن پاتے ہیں.اسی امر کی طر ف وَیُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِھِمْ میں اشارہ کیاگیا ہے کہ کعبۃ اللہ سے تعلق رکھنے والوں نے تو خدائے واحد کی تعلیم پر عمل کرکے ہمیشہ کاامن حاصل کرلیا.لیکن ان کے اردگرد جواقوام بس رہی ہیں وہ اسلامی تعلیم کوقبول نہ کرنے کی وجہ سے بدامنی کاشکار ہورہی ہیں.ان میں لڑائیاں بھی ہوتی ہیں.ان میں جھگڑے اورفسادات بھی ہوتے ہیں ان کے مال و اسباب بھی لوٹے جاتے ہیں.غرض امن صرف انہی لوگوں کو میسر ہے.جوخدائے واحد پر ایما ن لاکر بیت اللہ کے ساتھ سچاتعلق رکھتے ہیں.باقی سب دنیا میں بدامنی ہی بدامنی پائی جاتی ہے اورہردل بے چینی اوراضطراب کاشکار ہے.اللہ تعالیٰ اس نمایاں امتیاز کو پیش کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ جب بیت اللہ کے ذریعے دنیا میں اتنا بڑاانقلاب پیداہوچکاہے توکیااس کے بعد بھی انہیں اپنی باطل سکیموں کی کامیابی پر یقین ہے اوروہ خدا تعالیٰ کے اس عظیم الشان انعام کی ناقدری کرتے ہیں جوخدا تعالیٰ نے ان کی بے چینی اورخلش کودورکرنے کے لئے خودآسمان سے نازل فرمایا ہے.اگر وہ عالمگیر امن قائم کرنے کے خواہشمند ہیں تواس کاطریق
یہی ہے کہ وہ خدائے واحد پرایمان لاکر بیت اللہ سے تعلق رکھنے والے گروہ میں شامل ہوجائیں.کیونکہ سچاامن کبھی بھی روحانیت کے درست ہوئے بغیر دنیا میں قائم نہیں ہوسکتا.دنیاکوشش کررہی ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ صلح کوقائم رکھے.قانون کے ساتھ صلح کو قائم رکھے یاعقل کے ساتھ صلح کوقائم رکھے.لیکن یہ تینوں چیز یں ناقص ہیں گواپنے اپنے دائر ہ میں ضروری بھی ہیں.یہ تینوں چیزیں جب تک روحانیت کے ساتھ نہ ملیں اس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا.ہتھیاروں کے ساتھ اس لئے امن قائم نہیں رکھا جاسکتاکہ ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوجاتی ہے اورپھر یہ عادت ایسی پڑ جاتی ہے کہ صلح کے بعدبھی صلح کرانے والی قومیں ہتھیار جمع کرتی چلی جاتی ہیں.جس طرح ایک مالدار بھرے ہوئے بٹوے کے بغیر سفر نہیں کرسکتا حالانکہ غریب آدمی چندپیسوں کے ساتھ سفرپر نکل کھڑاہوتاہے.اسی طرح ہتھیار جمع کرنے والی قومیں ہتھیاروں کی ضرورت کےختم ہونے کے بعد بھی ہتھیار جمع کرتی چلی جاتی ہیں کیونکہ اپنے ہمسایہ سے ڈر نے کی عادت انہیں پڑ جاتی ہے اور کافی ہتھیاروں کے بغیر ان کے دل اطمینان نہیں پاتے.قانون اس لئے امن قائم نہیں کرسکتاکہ قانون ظاہر پرحکومت کرتاہے باطن پر نہیں.اورعقل اس لئے امن قائم نہیں کرسکتی کہ عقل اخلاق کے تابع نہیں ہوتی وہ یہ دیکھتی ہے کہ میرا یا میرے دوست کا فائدہ کس میں ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بعض ظاہر ی فائدے باطنی نقصان کاموجب ہوتے ہیں اورقریب کی دوستی بعید کوخراب کردیتی ہے.لیکن روحانیت ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو دائمی طور پر نیکی کی طرف مائل رکھتی ہے کیونکہ روحانیت نام ہے جذبات کے اخلاقی رنگ میں ڈھل جانے کا.اورجب جذبات اخلاقی رنگ میں ڈھل جائیں تولازماًعقل بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے اورایک ایسادوام پیداہو جاتا ہے جس کوکوئی لالچ یاکوئی حرص یاکوئی خوف اپنے مقام سے ہلانہیں سکتا.وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ اورجو شخص اللہ (تعالیٰ) پر جھوٹ باند ھ کر افترا ء کرتاہے اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے ؟یا(ا س سے)جوسچی بِالْحَقِّ لَمَّا جَآءَهٗ١ؕ اَلَيْسَ فِيْ جَهَنَّمَ مَثْوًى لِّلْكٰفِرِيْنَ۰۰۶۹ بات کو اس وقت جھٹلاتاہے جب وہ اس کے پاس آجاتی ہے.کیاایسے کافروں کی جگہ جہنم میں نہیں ہونی چاہیے ؟ تفسیر.فرمایا.اس شخص سے بڑھ کر اورکون ظالم ہو سکتا ہے جواللہ تعالیٰ پرافتراء کرتا اور اس افتراء کی
جھوٹ پربنیاد رکھتاہے.اسی طرح اس شخص سے بڑھ کر اَورکون ظالم ہو سکتا ہے جوکسی سچائی کو اس وقت جھٹلاتاہے جب وہ اس کے پاس آجاتی ہے.افْتَرٰى عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا کے متعلق یہ امر یاد رکھناچاہیے کہ ایک تووہ شخص ہوتاہے جوخدا تعالیٰ پر افتراء توکرتاہے.مگر وہی بات اس کی طرف منسوب کرتاہے جواس کے الہام میں موجود ہوتی ہے گواسے نہیں کہی جاتی.اورایک اَورشخص ہوتاہے جو اللہ تعالی کی طرف ایک بات غلط طورپر منسوب کرتاہے اورخدا تعالیٰ نے وہ بات کسی کتاب میں بھی نہیں کہی ہوتی.پس یہ شخص افتراء بھی کرتاہے اوراس افتراء کی بنیاد بھی جھوٹ پر ہوتی ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ منکرینِ اسلام کواس امر کی طرف توجہ دلاتاہے کہ تم میں دوعیب پائے جاتے ہیں جو انتہائی طورپر خطرناک ہیں.ایک یہ کہ تم خدا تعالیٰ پر افتراء کرتے ہو.اورافترا ء بھی ایساجس کی بنیاد کسی الہام پر نہیں بلکہ جھوٹ پر ہے.مثلاً تم کہتے ہو کہ اِتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا اللہ تعالیٰ نے فلاں شخص کواپنابیٹابنالیاہے حالانکہ یہ خدا تعالیٰ پرسراسر افتراء ہے اوراس کی بنیاد بھی کذب پر ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں کفارکے اس عقیدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ وَّ لَا لِاٰبَآىِٕهِمْ١ؕ كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ اَفْوَاهِهِمْ١ؕ اِنْ يَّقُوْلُوْنَ اِلَّا كَذِبًا(الکہف :۶) یعنی انہیں اس بار ہ میں کچھ بھی علم نہیں اورنہ ان کے باپ دادوں کو اس بارہ میں کوئی علم تھا.یہ ایک انتہائی خطرناک بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ وہ محض جھوٹ بول رہے ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں آتاہے.وَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً قَالُوْا وَجَدْنَا عَلَيْهَاۤ اٰبَآءَنَا وَ اللّٰهُ اَمَرَنَا بِهَا١ؕ قُلْ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(الاعراف :۲۹) یعنی جب وہ کوئی براکام کرتے ہیں توکہتے ہیں.ہم نے اپنے باپ داداکواسی طریق پر چلتے دیکھاتھا.اوراس کے بعد وہ ایک اورقدم آگے بڑھتے ہیں اورکہتے ہیں ہمیں تواللہ تعالیٰ نے ہی ان کاموں کاحکم دیا ہے.تو کہہ دے.اللہ تعالیٰ کبھی بری باتوں کاحکم نہیں دیتا.کیاتم اللہ تعالیٰ کے متعلق جھوٹے طور پر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تم کچھ بھی نہیں جانتے.سورئہ انعام میںبھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَ خَلَقَهُمْ وَ خَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَ بَنٰتٍۭ بِغَيْرِ عِلْمٍ١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ(الانعام : ۱۰۱) یعنی انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنّوں میں سے کچھ شریک مقرر کئے ہوئے ہیں.حالانکہ اسی نے انہیں پیدا کیاہے.اورانہوں نے اس کے لئے جھوٹے طور پر بغیرکسی یقینی علم کے بیٹے اور بیٹیاں تجویز کرلی ہیں.خدا تعالیٰ ان تمام نقائص اورعیوب سے منزہ ہے اورجوکچھ وہ بیان کرتے ہیں اس سے وہ بہت بلند اورارفع ہے.
غرض مشرک قوموں میں ایک خرابی تویہ پائی جاتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتے ہوئے محض جھوٹے طورپر اس کی طرف بیٹے یابیٹیاں یابعض اورشریک منسوب کردیتے ہیں.اوردوسری خرابی یہ پائی جاتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت ان کے سامنے پیش کی جاتی ہے توو ہ اس کاانکار کردیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو ایک طرف تو خدا تعالیٰ پربہتان باندھتے ہوئے نہ شرمائیں اوردوسری طرف سچائی کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو ں وہ اگراپنی کامیابی کا تصورکریں تویہ محض ان کی خوش فہمی ہے.کامیابی کاگُر یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے سچاتعلق پیدا کیاجائے اور اس کی طرف سے آنے والی ہدایت کو قبول کیاجائے اور چونکہ یہ دونوں خوبیاں مسلمانوں میں پائی جاتی ہیں اس لئے اب الٰہی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں صادر ہونے والا ہے اورکفرکے لئے ناکامی کی موت کے سوااور کچھ مقدر نہیں.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ اوروہ(لوگ)جوہم سے ملنے کی کو شش کرتے ہیں.ہم ان کو ضرور اپنے رستوں کی طرف آنے کی توفیق لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَؒ۰۰۷۰ بخشیں گے.اوراللہ(تعالیٰ) یقیناً محسنوں کے ساتھ ہے.تفسیر.کفار کی ناکامی اور کفر وشرک کی تباہی کی پیشگوئی کرنے کے بعد اب اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے حسن انجام کا ذکرفرماتا ہے جنہوں نے اس کی خاطر ہرقسم کے ابتلائوں کوبرداشت کیا.مگران کے پائے ثبات میں لغزش پیدانہ ہوئی.اوروہ خدااور اس کے رسول کے لئے متواتر قربانیاں کرتے چلے گئے.فرماتا ہے.وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا وہ لوگ جوہماری محبت میں محو ہوکر ہمارے قرب کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں اورہمارے دروازہ پر ہروقت گرے رہتے ہیں لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ہماراسلوک ان سے یہ ہوتاہے کہ ہم انہیں یکے بعد دیگرے کامیابی اورعروج کے غیر متناہی راستوں کی طرف بڑھاتے چلے جاتے ہیں.گویادشمن توچاہتاہے کہ ان پر ہرقسم کی ترقیات کے دروازے بندکردے.مگرخدا تعالیٰ کاسلوک ان سے یہ ہوتاہے کہ دشمن اگرایک دروازہ بندکرتاہے تو خدا تعالیٰ ان کے لئے سودروازے کھول دیتاہے اوراس طرح نہ صرف انہیں اپنے دنیوی مقاصد میں کامیابی ہوتی ہے بلکہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں.اوران کاہرقدم انہیں زیادہ سے زیادہ خدائی برکات
اورانوارکامورد بنادیتاہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ایک ایساامید افزاپیغام دیاہے جوان کے مردہ قلوب میں بھی زندگی کی لہر پیداکرنے والا اورانہیں فرش سے اٹھاکر عر ش تک پہنچادینے والا ہے.حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ناکامیاں اس مایوسی کی وجہ سے ہوتی ہیں کہ انسان سمجھتاہے میرے لئے اب ترقی کاکوئی امکان نہیں.مگراللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ بات غلط ہے جو لوگ ہماری محبت اورہمارے وصال کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم متواتر ان راستوں کاپتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جوہم تک پہنچنے والے ہیں.مگرشرط یہ ہے کہ یہ جدوجہد اپنے خود ساختہ معیاروں کے مطابق نہ ہو بلکہ ہمارے بتائے ہوئے اصول کے مطابق ہو جس پر فِیْنَا کے الفاظ دلالت کرتے ہیں.پھر یہ آیت نہ صرف مسلمانوں کے لئے ایک عظیم الشان مژدہ کی حامل ہے بلکہ اس میں غیر مسلم دنیا کے لئے بھی ایک بہت بڑازندگی بخش پیغا م ہے.بلکہ وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے وجود پر بھی ایمان نہیں رکھتے انہیں بھی اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ اسلام کا خداجورب العالمین ہے اس نے اپنی محبت کے دروازے دنیا کے تمام انسانوں کے لئے کھول رکھے ہیں پس ان کے لئے بھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.اگران کے دلوں میں سچائی کی تڑپ پائی جاتی ہے اوروہ چاہتے ہیں کہ اگراس دنیا کاکوئی پیداکرنے والا ہے توانہیں بھی اس کاپتہ لگ جائے.اوروہ بھی شکوک و شبہات سے رہائی حاصل کرسکیں تواس کاطریق یہ ہے کہ وہ سچے دل سے یہ دعائیں کریں کہ اے خدا! اگرتُوہے اور جس طرح تیرے ماننے والے کہتے ہیں توغیر محدود طاقتوں کامالک ہے توتُو ہم پر رحم فرمااور ہمیں بھی اپنی طرف ہدایت دے اورہمارے دل میں بھی یقین اورایمان ڈال دے تاکہ ہم تیری محبت سے محروم نہ رہیں.اورتیرے وجود کے قائل ہوجائیں.اگراس طرح سچے دل سے کو ئی شخص دعاکرے او رکم سے کم چالیس دن تک لگاتا ر کرتاچلاجائے توخواہ اس کے دل پر کتنے بھی تاریک پردے پڑ چکے ہوں اورخواہ وہ کسی ملک کاباشندہ ہو رب العالمین خدااس کوضرور ہدایت دے گا.اوروہ جلد دیکھ لے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ایسے رنگ میں اپناوجود ظاہر کرے گاکہ اس کے دل سے شکوک و شبہات کی تاریکی بالکل دورہوجائے گی اوراس کی روح خدا تعالیٰ کے آستانہ پر ناصیہ فرساہوجائے گی.پھراس آیت کے ذریعہ تمام غیر مذاہب کے پیروئو ں کوبھی یہ مژدہ سنایاگیاہے کہ اگرمذاہب کے اختلاف کودیکھ کر ان کے دلوں میں سچے مذہب کی جستجو کااحساس پیداہواور وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعائوں اورگریہ وزاری سے کام لیں تویقیناً اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان پیداکردے گااور کسی نہ کسی رنگ میں ان پر سچائی کے راستہ
کاانکشاف فرمادے گا.میں نے دیکھا ہے ہرسال کبھی کم اور کبھی زیادہ لیکن بہرحال اوسطاً آٹھ دس ایسے غیراحمدیوں کی چٹھیاں مجھے ضرو رآجاتی ہیں جولکھتے ہیں کہ ہم پہلے احمدیت کے شدید مخالف تھے مگراللہ تعالیٰ نے رؤیاکے ذریعہ ہمیں بتایاکہ احمدیت سچی ہے.اس لئے ہم توبہ کرتے ہوئے احمدیت میں داخل ہوتے ہیں.پس جو شخص بھی سچے طور پر اللہ تعالیٰ کی طر ف رجوع کرے.اللہ تعالیٰ اس کی ہدایت کے سامان پیدافرما دیتاہے.مگرشرط یہی ہے کہ اس میں سنجید گی پائی جائے اوراس کااصل مقصد اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کاحصول ہو.اوراگرو ہ ایساکرے تو خدا تعالیٰ کسی نہ کسی رنگ میں اس کے لئے ہدایت کا راستہ ضرو رکھول دیتاہے.پھر اس آیت میں مومنوں کو بھی یہ عظیم الشان بشارت دی گئی ہے کہ اگر وہ سچے دل سے کوشش کرتےر ہیں کہ انہیں خدا تعالیٰ کاقرب حاصل ہوتواللہ تعالیٰ ان کو اپنے قرب کے غیر متناہی راستوں پر چلاتاچلاجائے گا.اوران کے دامن کو گوہرِ مقصود سے بھردے گا اور انہیں اپنے الہام او رکلام سے مشرف فرمائے گا.اسی امر کی طرف میری ایک رؤیا بھی اشار ہ کرتی ہے.جوکچھ عرصہ ہوامیں نے دیکھی.میں نے رؤیامیںدیکھا کہ ایک جگہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں اورمیں انہیں مخاطب کرکے کہتا ہوں کہ مختلف مذاہب میں جواللہ تعالیٰ کاتصورپایا جاتا ہے.وہ میں تمہارے سامنے بیان کرتاہوں.چنانچہ پہلے میں نے بدھ مذہب میں جوخدا تعالیٰ کاتصور پایا جاتا ہے وہ ان کے سامنے بیان کیا اور اس پر ایک تقریر کی.صبح کے وقت جب میں نے اس رؤیا پر غور کیا تو مجھے معلوم ہواکہ خدا تعالیٰ کے تصور کے الفاظ اختصاراً بولے گئے ہیں.ورنہ اس سے مراد خدا تعالیٰ سے ملنے کاتصور تھا چنانچہ میں نے ان کے سامنے جوتقریرکی وہ یہ تھی کہ دیکھو مچھلی پانی میں رہتی ہے لیکن اس پانی پر جوسورج کی شعاعیں گرتی ہیں یادریامیں بہنے والی ریت کے ذرات سے جو چمک پیداہوتی ہے وہ آہستہ آہستہ مچھلی پر ایسااثرڈالتی ہے کہ اس پرچانے پڑ جاتے ہیں.درحقیقت یہ چانے اس لئے ہوتے ہیں کہ دیر تک اس پر ریت کی چمک اور سورج کی شعاعوں کااثرہوتارہتاہے اورآخر اس کے جسم پر بھی ویسی ہی چمک آجاتی ہے.اگرسنہری ریت ہوتویہ چانے سنہر ی بن جاتے ہیں.چنانچہ کئی مچھلیوں پر میں نے خود سنہری رنگ کے چانے دیکھے ہیں بلکہ بعض دفعہ ان پر سات سات آٹھ آٹھ رنگ کے چانے ہوتے ہیں اوربعض دفعہ تو ایسے نیلے رنگ کاچانہ ہوتاہے کہ یوں معلوم ہوتاہے کہ فیروزہ رکھا ہے.پھر میں کہتا ہوں کہ دیکھو جسم جوایک کثیف چیز ہے اگراس اتصا ل کے نتیجہ میں دوسری چیزوںکااثر قبول کرلیتا ہے توروح جو ایک نہایت ہی لطیف چیز ہے وہ کیوں اثر قبول نہیں کرے گی.پھر میں دوسرے مذاہب پراسلام کی فضیلت بیان کرتے
ہوئے کہتا ہوں کہ دیکھوبدھ مذہب نے صرف یہ بتایاہے کہ خدا تعالیٰ سے اتصال پیداہو سکتا ہے.مگراتصال پیدا کرنے کاطریق ا س نے نہیں بتایا.اورجو بتایاہے وہ اتنا لمباہے کہ انسان کے لئے اس پر عمل ممکن نہیں.وہ کہتے ہیں کہ بد ھ ساٹھ سال تک اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے ایک جنگل میں بانس کے درخت کے نیچے بیٹھااورخدا تعالیٰ کی عبادت اورذکرالٰہی میں اتنامحوہواکہ اس کے نیچے سے ایک درخت نکلا جواس کے جسم کو چیرتا ہواسرسے نکل گیا.اوراسے پتہ تک نہ لگا.اب یہ ایک لایعنی سی بات ہے.جسے عقل قبول نہیں کرسکتی.لیکن اسلام نے نہ صرف وصال الٰہی کاتصور بیان کیاہے بلکہ وہ راستہ بھی بتایاہے جس پر چل کرانسان خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتاہے.مثلاً بدھ مذہب نے دعاکی قبولیت پر کوئی زور نہیں دیا.صرف نروانا پرزور دیا ہے.یعنی اس نے کہا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کی تمام خواہشات کو نکال دے.حالانکہ خدا تعالیٰ کے قرب کی خواہش بھی تو ایک خواہش ہی ہے اگروہ سب خواہشات کونکالے گا تویہ خواہش کیسے باقی رہ سکتی ہے.پس بد ھ نے متضاد بات کہی ہے.لیکن اسلام کہتاہے کہ خدا تعالیٰ کے وصال کے لئے کسی لمبے چوڑے مجاہدے کی ضرور ت نہیں.اگرکسی شخص کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیداہوجائے اوروہ ہمہ تن التجاء بن کر دعاکرے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب سے نوازے اوراس کے لئے اپنی برکتوں کے دروازے کھو لے تواللہ تعالیٰ اسے اپنا قرب عطاکردیتاہے.چنانچہ و ہ فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَادَعَانِ(البقرۃ :۱۸۷)جب کوئی پکارنے والامجھے پکارے تومیں اس کی دعاکو ضرورقبول کرتاہوں.اب کجایہ طریق کہ بدھ بانس کے درخت کے نیچے ساٹھ سال بیٹھارہا.یہاں تک کہ اس کے نیچے سے ایک درخت نکلاجواس کے سرکے پار ہوگیا.اورکجا یہ آسان طریق کہ اللہ تعالیٰ سے دعاکی اور وہ جھٹ مل گیا.غرض اسلام میں اللہ تعالیٰ نے وصال الٰہی کاراستہ ایساآسان کردیاہے کہ اگرمومن کے دل میں ذرابھی محبت ہوتو وہ اللہ تعالیٰ کوپاسکتاہے.اسی طرح میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا کہ میں لکھنئو میں ہوں اور کچھ رؤسا ء شہر مجھ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اورایک کمرہ میں جس میں قالینوں کافرش بچھاہواتھا بیٹھ گئے.اس وقت ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ روح کے زندہ رکھنے کی کیاصورت ہے.میں نے انہیں جواب میں کہا کہ زندہ رہنے والی دوچیزیں ہوتی ہیں.جسم اورروح.جب بچہ پیدا ہوتاہے تو نہ بول سکتاہے نہ چل سکتاہے نہ خود کوئی کام کرسکتاہے.اسے زندہ رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیاسامان پیدا کیاہے؟ یہی کہ اس کے اندر رونے کی طاقت پیداکردی ہے.اس کی ماں ہروقت تواس کے پاس نہیں رہتی.کبھی کھاناپکارہی ہوتی ہے کبھی کپڑے دھو رہی ہوتی ہے کبھی برتن مانجھ رہی ہوتی ہے.کبھی اپنی سہیلیوں سے باتوں میں مشغول ہوتی ہے اور کبھی اپنے خاوند سے چونچلے کررہی ہوتی ہے.
اس وقت کبھی بچہ کو کوئی مرض ستاتاہے.کبھی بھو ک لگتی ہے.کبھی کوئی اورخطر ہ پیش آتاہے تووہ زور سے چلّاتاہے اورروتاہے تواس کی ماں دوڑ کر اس کے پاس آجاتی ہے.یہ طریق خدا تعالیٰ نے جسم کو زندہ رکھنے کے لئے تجویز کیا ہے.بعینہٖ ایسا ہی طریق روح کے زندہ رکھنے کے لئے اس نے تجویز کیاہے.جب رو ح کمزورہو اور اس پر مردنی طاری ہونے لگے.انسان سجدہ میں گرجاتاہے.اوربچہ کی طرح خدا تعالیٰ کوروروکر پکار تاہے.تب خدا تعالیٰ بھی اس کی طرف دوڑ کر آتاہے اوراس کی ضرورت کو پو راکرتاہے.اس وقت میری تقریر میں جو ش پیداہوگیا اورآواز بلند ہوگئی اورمیں نے انگلی اٹھاکر اوراسے الٹاکر کےقالین پرمارا.اورکہا.یوں مصلیّٰ پر سررکھ کر جب روح کابچہ روتاہے اوروہاں اس کے آنسو گرتے ہیںتو اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اس کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے اس کے پاس آتا ہے جس طرح ماں بچہ کے پا س آجاتی ہے.غرض رونااورآنسو ہی جسم کو بچاتے ہیں اوررونااور آنسو ہی روح کو بچاتے ہیں.وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایاہے کہ جیسے ایک محبت کرنے والی ماں اپنے بچہ کی آواز پر دوڑتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے کی محبت کا جواب محبت میں دینے کے لئے دوڑتاہے.اوراگران محبت کے تعلقات میں کبھی کوئی کوتاہی ہوتی ہے تو بندے کی طرف سے ہوتی ہے ورنہ خدا تعالیٰ ایک محبت کرنے والی ماں سے بھی بڑھ کر چاہتاہے کہ اپنے بندوں سے پیار کرے.و ہ چاہتاہے کہ اپنے بندوں سے محبت کاسلوک کرے.اورو ہ چاہتاہے کہ بندے کواپنی محبت بھری گو دمیں اٹھا کراسے تسلی دے لیکن انسان وہ انسان جو مصائب میں مبتلاہوتاہے وہ انسان جو آلام کے بو جھ تلے دباہوتاہے و ہ انسان جو ہروقت محتاج ہوتاہے کہ خدا تعالیٰ اس کی مدد کرے اوراسے ان مصائب و آلام سے نجات بخشے اوروہ انسان جو ہروقت محتاج ہوتاہے اس بات کا کہ کوئی اس کاسہار ا بنے اوراسے تسلی دے وہ محتاج اورکمزور انسان مستغنی بنارہتاہے مگروہ مستغنی خداعر ش پر بے تاب رہتاہے اس بات کے لئے کہ اس کابندہ اس کی طرف آئے اور وہ اسے اپنے قرب میں جگہ دے.پھر اس آیت میں دعائوں کی قبولیت کی طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے اورکہاگیاہے کہ جو لوگ ہم میں ہوکر اورہم سے مدد مانگتے او ردعائیں کرتے ہوئے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہیں.ہم ان کے مقاصدکے حصول کے دروازے ان پر کھو ل دیتے ہیں اورناممکن دکھائی دینے والی باتیں بھی ان کے لئے ممکن ہوجاتی ہیں.ایک بزرگ کاواقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ ان کی طرف سرکاری سمن آیا جس میںیہ لکھاتھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام لگایاگیا ہے اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں.وہ یہ سن
کر حیران رہ گئے.کیونکہ وہ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے مگرچونکہ سرکاری سمن تھا و ہ چل پڑے.دس بیس میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی.اندھیراچھاگیا.آسمان پر بادل امڈ آئے اوربارش شروع ہوگئی.وہ اس وقت ایک جنگل میں سے گذر رہے تھے جس میں دو ردور تک آبادی کاکو ئی نشان تک نہ تھا.صرف چند جھو نپڑیاں اس جنگل میں نظر آئیں.وہ ایک جھو نپڑی کے قریب پہنچے اورآواز دی کہ اگراجازت ہو تواندر آجائوں.اندرسے آواز آئی کہ آجائیے.انہوں نے گھوڑاباہرباندھا اوراند رچلے گئے.دیکھاتو ایک اپاہج شخص چا رپائی پرپڑاہے.اس نے محبت اورپیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بٹھالیا اورپوچھا کہ آپ کا نام کیا ہے اورآپ کس جگہ سے تشریف لارہے ہیں.انہوں نے اپنانام بتایااورساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے جارہاہوں.اورحیران ہوں کہ مجھے یہ سمن کیوںآیا.کیونکہ میں نے کبھی دنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا.وہ یہ واقعہ سن کرکہنے لگا کہ آپ گھبرائیں نہیں.یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پا س پہنچانے کے لئے کیاہے.میں اپاہج ہوں رات دن چارپائی پر پڑارہتاہوں مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں.لیکن میں نے اپنے دوستوں سے آپ کاکئی بار ذکر سنا.اورآپ کی بزرگی کی شہر ت میرے کانوں تک پہنچی.میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیںکیاکرتاتھا کہ یااللہ قسمت والے تووہاں چلے جاتے ہیں میں غریب مسکین اورعاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں تُواپنے فضل سے ایسے سامان پیدافرماکہ میری ان سے ملاقات ہوجائے.میں سمجھتاہوں اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہا ںلایا ہے.ابھی وہ یہ باتیں کرہی رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی.بارش ہورہی ہے اگراجازت ہوتواندرآجائو ں.انہوں نے دروازہ کھولا اورایک شخص اندرآیا.یہ سرکاری پیادہ تھا.انہوں نے اس سے پوچھا آپ اس وقت کہاں جارہے ہیں.و ہ کہنے لگا.بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں بزرگ کے پاس جائو ں اوران سے کہوں کہ آپ کو بلانے میں غلطی ہوگئی ہے دراصل وہ کسی اَورکے نام سمن جاری ہوناچاہیے تھا مگرنام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہوگیا.اس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں.یہ بات سن کر وہ اپاہج مسکرایااور اس نے کہا.دیکھا.میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے.سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے.یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میںبیان فرمائی ہے کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا.پھر وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا میں اس طرف بھی اشارہ کیاگیا ہے کہ صرف اسلام کو قبول کرلینا اورمنہ سے اپنے آپ کو مومن کہہ لیناکافی نہیں.علم و عرفان اورقر ب الٰہی کے راستے صرف ایسے ہی لوگوں پر کھو لے
جاتے ہیں جوسچی محبت اورتڑپ سے کام لیتے اوراس کے لئے دیوانہ وار جدوجہدکرتے ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے یہ تو کہا ہے کہ جوہماری طرف آتے ہیں ہم ان کی مددکرتے ہیں لیکن اس نے یہ کہیں نہیں کہاکہ جو ہم سے بھاگتے ہیں ہم ان کو پکڑ کر واپس لاتے ہیں.جو ہم سے منہ پھیرتے ہیں ہم ان کواپنی تائید سے نوازتے ہیں جو بیٹھنا چاہتے ہیں ہم ان کو جبراً کھڑا کر تے ہیں.جوگرناچاہتے ہیں ہم ان کو زبردستی اٹھالیتے ہیں.جو بے ایمان ہوناچاہتے ہیں ہم ان کو مجبورکرکے ایماندار بناتے ہیں.قرآن یہی کہتاہے کہ جوبے ایمان ہوناچاہتاہے ہم اسے بے ایمان بنادیتے ہیں.اورجوایمان دار ہوناچاہتاہے ہم اسے ایمان دار بنادیتے ہیں.بہرحال انسانی زندگی کاخلاصہ صرف اتنا ہے کہ وہ اپنے اندرایک پختہ عزم پیداکرے اوراچھی چیز کو پکڑ کر اس طرح بیٹھ جائے جیسے شکاری کتا اپنے شکار کو پکڑ کر بیٹھ جاتاہے.اس کے دانت ٹوٹ جائیں توٹوٹ جائیں مگروہ اپنے شکار کو نہیں چھوڑتا.جب انسان اس نیت اور ارادہ کے سا تھ ایک راستہ کو اختیا رکرلیتا ہے.اوراچھی چیز کو پکڑ کر بیٹھ جاتاہے توپھر نیکیوں کی طرف اس کاقدم اٹھناشروع ہو جاتا ہے کیونکہ کوئی نیکی نہیں جواس سے اگلی نیکی کی توفیق نہیں دیتی.اگر کوئی انسان سچے دل سے صدقہ دیتاہے توضرور ہے کہ اسے نماز کی بھی توفیق ملے اورزکوٰۃ کی بھی توفیق ملے اورروزہ کی بھی توفیق ملے اوراگر کوئی اخلاص کے ساتھ روزے رکھتا ہے توضرور ہے کہ اس نیکی کے نتیجہ میں اسے نماز اورزکوٰۃ اور حج کی توفیق ملے.کیونکہ ہرنیکی دوسری نیکی کی طرف لے جاتی ہے.بھلا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک شخص جو کسی غریب سے ہمدردی کرتاہے اس سے محبت اورپیار کاسلوک کرتاہے اوردنیاداری کے خیالات کے ماتحت نہیں بلکہ سچے دل سے اسے کھاناکھلاتاہے ایسے شخص کے پاس اگرامانت رکھی جائے تووہ کھاجائے گا.یہ قطعاً ناممکن بات ہے.جس شخص کے دل میں دوسر وں کااتنا درد ہے اورجو ان کے لئے ہروقت قربانی کر نے کے لئے تیار رہتاہے کس طرح ممکن ہے کہ وہ دوسروں کے مال میں خیانت کرے.اگرسب لو گ مل کر بھی کہیں گے کہ اس نے دوسروں کامال کھایاہے توہم کہیں گے وہ جھوٹ بولتے ہیں.کیونکہ جس کے دل میںا پنامال قربان کرنے کی خواہش پائی جاتی ہے.و ہ دوسروں کے مال کوکبھی کھانہیں سکتا.اسی طرح جس شخص کے دل میں خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ خداکے لئے بھوکارہے کس طرح ماناجاسکتاہے کہ وہ نماز نہیں پڑھے گا.وہ ایک دن نماز نہیں پڑھے گادودن نماز نہیں پڑھے گا تین دن نماز نہیں پڑھے گا مگرآخراس کانفس اسے کہے گا کہ احمق تُو خداکے لئے بھوکارہتا ہے اورپھر اس کی عبادت نہیں کرتا اوروہ مجبور ہو گاکہ نماز پڑھے اورجب وہ نماز پڑھنے لگ گیا.توپھر اسے کوئی ہٹانابھی چاہے تووہ نہیں ہٹ سکتا.اسے قید کردو تووہ قید میں ہی نماز پڑھنے لگ جائے گا.چارپائی پر باندھ دوتو لیٹے لیٹے نماز پڑھتارہے گا.کیونکہ ایک نیکی دوسری نیکی کی طرف لے
جاتی ہے.پس اصل گُر انسانی ترقی کایہی ہے کہ جوچیز اسے اچھی نظر آئے اسے مضبوطی سے پکڑ لے.پہلے وہ اپنے دل میں فیصلہ کرلے کہ میں نے اچھی چیز کو لینا ہے اورپھر اسے چھو ڑنا نہیں.اس فیصلہ کے بعد اسے جوچیز بھی اچھی نظرآتی ہو اسے اس نیت کے ساتھ پکڑ لے کہ اب میں نے اسے چھو ڑنا نہیں.جب انسان اس مقام پر آجاتاہے تووہ ساری دنیا سے سبق حاصل کرنے کے لئے تیار رہتاہے.ایک بچے سے بھی سبق لے لیتا ہے ایک بوڑھے سے بھی سبق لے لیتا ہے.ایک پاگل سے بھی سبق لے لیتا ہے.غرض دنیا کی ہرچیز سے وہ فائدہ حاصل کرلیتا ہے.حضرت امام ابو حنیفہ ؒ سے ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ آپ توبہت بڑے آدمی ہیںاور ساری دنیا آپ سے سبق لیتی ہے.کیاآپ نے بھی کسی سے سبق لیا ہے.انہوں نے کہا.بہت دفعہ لیا ہے اورسب سے بڑاسبق میں نے ایک چھوٹے سے بچے سے لیا ہے.اس نے کہا.کس طرح؟ انہوں نے کہا.وہ اس طرح کہ میں ایک دفعہ باہر جارہاتھا.بارش ہورہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ ایک سات آٹھ سال کابچہ گذررہاہے اورتیز تیز قدم اٹھارہا ہے.میں نے اسے تیز قدم اٹھاتے دیکھ کرکہا.بچے ذراسنبھل کرچلو.کیچڑ ہے.ایسانہ ہو کہ تم پھسل جائو.اس لڑکے نے میری طرف دیکھااورکہا.امام صاحبؒ میرے پھسلنے کا فکر نہ کیجئے.آپ اپنا فکر کیجئیے.اگرمیں پھسلاتو صرف میں پھسلوں گا.لیکن اگرآپ پھسلے توساری دنیا پھسل جائے گی.کیونکہ جب امام غلطی کرتاہے تواس کے ماننے والے بھی وہی غلطی کرنے لگ جاتے ہیں.و ہ کہتے ہیں کہ لڑکاتویہ بات کہہ کر چلاگیا مگرمیں دیر تک کھڑا اس وعظ سے لطف اندوز ہوتارہا.اورحقیقت یہی ہے کہ ساری عمر میں نے اتنی کارگراورمؤثر نصیحت کسی سے نہیں سنی.توسیکھنے والا ایک بچہ سے بھی سبق سیکھ لیتا ہے.بلکہ اگرانسان سیکھنے کی نیت رکھے اورسوچنے کی عادت ڈالے توزمین کی اینٹیں اورپہاڑوں کے درخت اورجنگلوں کی جھاڑیاں بھی انسان کے لئے قرآن اور حدیث کی تفسیر بن جاتی ہیں.اوراگروہ سمجھنے کاارادہ نہ کرے توایسے بدبخت انسان کو نہ قرآن فائدہ دیتاہے نہ حدیث فائدہ دیتی ہے اورنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فائدہ دیتے ہیں.وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْافِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا میں اطمینانِ قلب کے حصول کا نسخہ بھی بتادیا گیا ہے جس کے لئے آج ساری دنیا مضطرب ہے.اورہرشخص یہ سوال کرتادکھائی دیتا ہے کہ ہمیں دل کااطمینان کیسے حاصل ہو سکتا ہے.اطمینان قلب درحقیقت دوہی طرح حاصل ہو سکتا ہے (۱)یاتواس طرح کہ جو خواہش دل میںپیداہوپوری ہوجائے.(۲)یااس طرح کہ تمام فضول اور لغو خواہشوںسے دل ہٹ جائے اورصر ف ایسی خواہشات رہ جائیں جواچھی بھی ہوں اور حاصل بھی ہوسکیں.جب کوئی اس مقام پر پہنچ جائے تواسے اطمینا ن قلب حاصل ہو سکتا ہے.قرآن کریم کہتاہے کہ ہم نے انسان کو صرف اس لئے پیدا کیاہے کہ وہ صفات الٰہیہ کواپنے اندر پیداکرے.اورپھرفرماتا ہے کہ
جو لوگ اس مقصد کے لئے سچی کوشش کریں ہم ذمہ وار ہیں کہ ان کو یہ مقصد حاصل ہوجائے گا.گویاقرآن کریم اطمینان قلب کی ذمہ واری لیتا ہے.پہلی آیت میں تووہ یہ ہدایت دیتاہے کہ انسان کو یہ مدنظر رکھناچاہیے کہ اس دنیا میں میری پیدائش کسی اعلیٰ مقصد کے لئے ہے.اوروہ مقصد یہ ہے کہ صفات الٰہیہ کو میںاپنے اندر پیداکرلوں.یادوسرے لفظوں میں خدا تعالیٰ کے لئے آئینہ بن جائو ں جس میں اس کی صورت نظر آئے.اوردوسری آیت میں یہ بتایاہے کہ اس مقصد کے حاصل کرنے میں اگرسچی نیت سے کوئی کوشش کرے گا تومیں اس کو ضرو رکامیاب کردو ں گا.ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بات سمجھ جائے کہ میں فانی نہیں ہوں.ا س لئے مجھے فانی چیزوں کی خواہش اتنی نہیں کرنی چاہیے.صرف میراجسم فانی ہے اس کے لئے میں کچھ فانی چیزوں کے لئے کوشش کرلوں توکرلو ں.میری روح فانی نہیں ہے اس کے لئے میں غیر فانی اخلاق کی جستجو کروں گا.اورپھر خدا کی مددسے اس کی یہ جستجو پوری بھی ہوجائے توچونکہ اس کی تمناپوری ہوجائے گی اسے اطمینا ن قلب بھی حاصل ہوجائے گا.لیکن اگروہ بندرکی طرح درخت کی شاخوں پر ناچتا پھر ے گا اوراپنی لافانی ہستی کو بھول کر فانی جسم کے لئے فانی لذتوں کی تلاش میں لگارہے گا.تواتنی چیزوں کی خواہش اسے پیداہوجائے گی کہ وہ اسے پوراکرنے کے قابل نہیں ہوسکے گا.اوران چیزوں کی تلاش میں خدا تعالیٰ کی مددبھی اسے حاصل نہیں ہوگی.اس لئے ا س کی ناکامیوں کی تعدا د کامیابیوں سے بڑھ جائے گی اوراطمینانِ قلب حاصل نہیں ہوسکے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض لو گ خدا تعالیٰ کی طرف سے دلی یکسوئی CONCENTRATION OF MIND کابڑاحصہ پاتے ہیں.وہ لوگ کبھی کوئی سیاسی مقصد اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں.کبھی تعلیمی مقصد اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں.کبھی تمدنی مقصد اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں اورمتواترکوششوں سے کچھ کامیابیاں بھی دیکھ لیتے ہیں.ان لوگوں کو بھی ظاہری طور پر اطمینان قلب حاصل ہو جاتا ہے.لیکن یہ اطمینان قلب ایسا ہی ہوتاہے جیسے بچہ کو کھلونامل جانے سے ہوتاہے.ان کے اطمینا ن قلب کی وجہ مقاصد عالیہ کاپورا ہونانہیںہوتا بلکہ مقاصد عالیہ کو بھلادیناہوتاہے.وہ فکری افیون کاشکار ہوتے ہیں.ان کا دماغ انہیں فکری افیون کھلادیتاہے اوروہ درد کی موجودگی میں اس کے احساس سے محروم ہوجاتے ہیں.سُبُلَنَا کے متعلق بعض لوگ سوال کیاکرتے ہیں کہ قرآن کریم میں تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوْہُ وَلَاتَتَّبِعُواالسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ(الانعام :۱۵۴)یعنی یقیناً یہ میراسیدھاراستہ ہے پس اس کی اتباع کرو.اورمختلف راستوں کے پیچھے نہ پڑو.ورنہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ کے راستہ سے ادھر ادھر لے
جائیں گے.گویاخدا تعالیٰ کاایک ہی راستہ ہے اورشیطان کے کئی راستے ہیں.مگر سُبُلَنَا میں بتایاگیاہے کہ خدا تعالیٰ کے بھی کئی راستے ہیں.سواس کے متعلق یاد رکھناچاہیے کہ ان دونوں آیتوں میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں.بلکہ جہاں ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًافَاتَّبِعُوْہُ کہاگیا ہے.وہاںیہ مراد ہے کہ خداتک پہنچنے کے لئے مختلف مذاہب کے قبول کرنے کی ضرورت نہیں صرف اسلام ہی ایک ایسامذہب ہے جس پر چل کر انسان خداتک پہنچ سکتاہے اور سُبُلَنَا سے یہ مراد ہے کہ روحانی ترقیات کے غیر محدود راستے ہیں اورایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسراراستہ آجاتاہے.جب مومن خدتعالیٰ تک پہنچانے والے ایک راستہ پر چلتے ہیں تو انہیں قر ب کے اورراستے بتائے جاتے ہیں اورجب وہ ان پر بھی چلناشروع کردیتے ہیں تواللہ تعالیٰ ان کی ترقی کے اورمواقع پیداکردیتاہے.اس طرح قدم بہ قدم وہ نیکی اورعرفان کے میدان میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.بعض لو گ اس آیت سے یہ بھی استدلال کرتے ہیں کہ نعوذباللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اورآپؐ کے احکام پرعمل کرناضروری نہیں بلکہ ہندوعیسائی سکھ اور پارسی وغیرہ اپنے اپنے طریق پرچل کربھی نجات حاصل کرسکتے ہیں.مگریہ درست نہیں.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صراحتاً فرماتا ہے کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ.یعنی اے محمد ؐرسول اللہ! تُولوگوں سے کہہ دے کہ اگرتم اللہ تعالیٰ کے محبوب بنناچاہتے ہو تو میری پیروی کرو.اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.پس یہ ہرگز درست نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کے بغیر بھی خدامل سکتاہیں.اس آیت کاصرف یہ مطلب ہے کہ جب کو ئی شخص سچے دل سے کوشش کرتاہے تواللہ تعالیٰ اسے ہدایت کاراستہ بتادیتاہے اوروہ ہدایت اس طرح ملتی ہے کہ یاتورؤیا اورکشوف کے ذریعہ ایسے شخص پر اسلام کی صداقت کھو ل دی جاتی ہے اوریاپھر اس کے دل میں اسلام اورمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت پیداکردی جاتی ہے اوروہ آپ کو قبول کرکے اورآپؐ کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرلیتا ہے.ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اوراسلام کی متابعت کے بغیر کبھی نجات حاصل نہیں ہوسکتی.آخر میں وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ.فرماکراللہ تعالیٰ نے ان تمام ابتلائوں اورآفات کی طرف اشارہ فرما دیا جن کااس سور ۃ کے شروع سے ذکر چلاآرہاہے اوربتایا ہے کہ تم پھونکوں سے ہنڈیانہیں پکاسکتے.تم خلال سے پہاڑ نہیں کھودسکتے.تم تنکے پر بیٹھ کر دریاپار نہیں کرسکتے.تم اگراللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرناچاہتے ہو توتمہیں ہرقسم کے امتحانوں میں ثابت قدم رہنا پڑےگااورقربانیوں کی آگ میں متواتراپنے آپ کو جھونکنا پڑے گا.اگرایساکرلو گے
تواللہ تعالیٰ تمہیں ہرمیدان میں کامیابی عطافرمائے گا.اوروہ تمہارے لئے ایسی غیرت دکھائے گا کہ کوئی ماں اپنے بچے کے لئے بھی ایسی غیرت نہیں دکھاسکتی.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ تم خدا تعالیٰ پر سچاایمان رکھو اوراس کے دین کی خاطر کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرو.مُحْسِن کے معنے عربی زبان میں اس شخص کے ہوتے ہیں جوحکم کواس کی تمام شرائط کے ساتھ پوراکرے.پس اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جو لوگ اس پہلی بات پر پوری طرح عمل کریں گے جوہم نے کہی ہے یعنی وہ پوری طرح جہاد کریں گے اورہماری رضاکے حصول کی کوشش کریں گے ہم ان کے ساتھ ہوں گے.اورہرمیدان میں ان کوکامیابی بخشیں گے.پس جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضاحاصل کرنے کی کوشش توکریں مگران کی کوششوں کاکوئی نتیجہ نہ نکلے انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ کوئی نہ کوئی غلطی کررہے ہیں جس کی وجہ سے وہ خدائی قرب اور اس کی نصرت سے محروم ہیں.گویابجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ پر الزام لگایاجائے اورکہا جائے کہ اس نے ہماری طر ف توجہ نہیں کی ہمیں اپنی ذات پر الزام لگاناچاہیے اورسمجھ لینا چاہیے کہ ہم محسنوں والاکام نہیں کررہے.ورنہ خداجھوٹانہیں ہوسکتا.وہ اپنے وعدوں میں سچاہےاوروہ جوبات بھی کہتاہے اسے پوراکرکے رہتاہے.جھوٹے ہم ہی ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کی محبت کاتودعویٰ کرتے ہیں مگراس کے مطابق اپنے اندرکوئی تغیرپیدا نہیں کرتے.احادیث میں آتاہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پا س ایک شخص آیا اوراس نے کہا.یارسول اللہ! میرے بھائی کودست آرہے ہیں.چونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شہد میں شفاء ہے (نحل ع۹) اس لئے آپؐ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو شہد پلائو.حالانکہ طبی طور پر شہد دست لاتاہے.انہیں بند نہیں کرتا و ہ گیااوراس نے جاکر شہد پلادیا مگراس کے بھائی کے دست اَوربھی بڑھ گئے.و ہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہنے لگا.یارسول اللہ میرے بھائی کے دست تو اَورزیادہ ہوگئے ہیں.آپؐ نے فرمایا جائو اورشہد پلائو.و ہ گیااورپھر اس نے شہد پلادیا.جس پر اس کے اسہال اور بھی بڑھ گئے.وہ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.اوراس نے کہا یارسول اللہ اس کوتواورزیادہ دست آنے لگ گئے ہیں.آپؐ نے فرمایاکہ تیرے بھائی کاپیٹ جھوٹاہے اور خدا سچا ہے.جائو اس کواور شہد پلائو.چنانچہ اس نے پھر شہد پلایاجس کانتیجہ یہ ہواکہ اس کے اندر سے ایک بڑاساسدّہ نکلااور اس کے اسہال جاتے رہے.اسی طرح اگرہماری کوششوں کاکوئی نتیجہ نہ نکلے توہم اپنے متعلق کہیںگے کہ ہم جھوٹے ہیں اورہم نے وہ شرطیں پو ری نہیں کیں جن کے پوراکر نے سے اللہ تعالیٰ کاقرب حاصل ہوسکتاتھاورنہ
خداسچاہے.اگرہم اس کی بیان کردہ شرائط کوپوراکریں اورابتلائوں کے طوفانوں میں ایمان کادامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اوراپنی جانی اورمالی قربانیوں کے ذریعہ اخلاص اورفدائیت کانمونہ پیش کریں تواللہ تعالیٰ یقیناً ہماری مدد کے لئے آسمان سے اترے گا اوروہ ہمیں ایک پیارے بچے کی طرح اپنی گود میں اٹھالے گا.خ خ خ خ