Tafseer-e-Kabeer Volume 1

Tafseer-e-Kabeer Volume 1

تفسیر کبیر (جلد ۱)

Chapters: 1-2
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Holy Quran

مصنفہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد، خلیفة المسیح الثانیؓ


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

Page 6

Page 7

لفظ سورۃ اور اس کے معانی سورۃ کے معنی عربی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں.(۱) مَنْزِلَـۃٌ یعنی درجہ (۲) شَرَفٌ یعنی بزرگی ،بڑائی (۳) عَـلَا مَۃٌ یعنی نشان (۴) اونچی دیوار یا عمارت جو خوبصورت بھی ہو.(اقرب الموارد) (۵) یہ لفظ سُؤْرَۃٌ سے بھی ہو سکتا ہے یعنی اس میں ہمزہ ہے جو ماقبل مضموم کی وجہ سے وائو سے بدل گیا ہے.اس لفظ کے معنی بقیہ کے ہیں.عرب کہتے ہیں جَآءَ فِیْ اَسْأَرِ النَّاسِ یعنی وہ قوم کے بقیہ لوگوں میں سے ہے.(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی باب ذکر معنی السورۃ..) (۶) ایسی شے جو پوری اور مکمّل ہو.عرب جوان تندرست اونٹنی کو سورۃ کہتے ہیں.(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی) (آئندہ اس تفسیر کا حوالہ دیتے وقت سارے نام کی جگہ صرف قرطبی لکھا جائے گا) سُوْرَۃ کی جمع سُوَرٌہے یعنی سورتیں.قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سورۃ کہے جانے کی وجہ قرآن کریم کے بعض ٹکڑوں کو سُوْرَۃٌ کیوں کہتے ہیں؟ اس کے متعلق مختلف علماء نے مختلف توجیہات بیان کی ہیں.بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے پڑھنے سے انسان کا درجہ بڑھتا ہے.بعض کے نزدیک اس لئے کہ اس سے بزرگی حاصل ہوتی ہے بعض کے نزدیک اس لئے کہ سورتیں مضامین کے ختم ہونے کا نشان ہیں.بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ ایک بلند اور خوبصورت روحانی عمارت کو دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں.بعض کے نزدیک اس لئے کہ وہ سارے قرآن کا بقیہّ یا حصّہ ہیں.بعض کے نزدیک اس لئے کہ ان کے اندر ایک مکمل او رپورا مضمون آ جاتا ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ یہ اختلاف صرف ذوقی ہے

Page 8

Page 9

الصلٰوۃ باب و جوب قِرَائَ ۃِ الْفَاتِحَۃِ میں بھی مروی ہے.سورۃ فاتحہ کے نو نام اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں سے مشہور نام جو بعض قرآن کریم سے اور بعض رسول کریم صلعم سے ثابت ہیں ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.(۱) سُورۃ الصّلٰوۃ حضرت ابوہریرۃ ؓ فرماتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ(مسلم کتاب الصلٰوۃ باب و جوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کلّ رکعۃ...) یہی روایت جابر ابن عبداللہؓ سے ابن جریر نے بھی نقل کی ہے (مصری جلد اوّل صفحہ ۶۶) میں نے صلوٰۃ (یعنی سورۃ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف کر کے تقسیم کر لیا ہے یعنی آدھی سورۃ میں صفات الٰہیہ کا ذکر ہے اور آدھی میں بندے کے حق میں دعا ہے.(۲) سُورۃُ الْحَمْد ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے.قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ اُمُّ القُرْاٰنِ وَاُمُّ الْکِتَابِ وَالسَّبْعُ الْمَثَانِیْ یعنی سورۃ اَلْحَمْدُلِلّٰہکے دوسرے نام اُمُّ الْقُرْآن اور اُمُّ الْکِتَابِ اور اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ بھی ہیں.(ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب فاتحۃ الکتاب) (۳و۴و۵) اُمُّ الْقُرَآنِ.اَلْقُرْآنُ العَظِیْمُ اور اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ یہ تین نام بھی اس سورۃ کے ہیں.مسند امام احمد بن حنبل میں ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ھِیَ اُمُّ الْقُرْآنِ وَھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیْ وَھِیَ الْقُرْآنُ الْعَظِیْمُ.سورۃ فاتحہاُمُّ الْقُرْآن بھی ہے اور اَلسَّبْعُ الْمَثَانِی بھی ہے اور اَلقُرْآنُ الْعَظِیْمُ بھی ہے.(مسند احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرۃؓ) اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ کا لفظ قرآن کریم میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے.وَ لَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ (الحجر:۸۸) پس یہ نام قرآن کریم کا رکھا ہوا ہے.(۶) اُمُّ الْکِتَاب اس نام کا ذکر ابودائود میں حضرت ابوہریرۃ ؓ کی روایت میں موجود ہے اور اوپر نمبر۲ میں اس کا ذکر آ چکا ہے.(۷) اَلشَّفَاءُ یہ نام حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے.فرماتے ہیں.قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاتِحَۃُ الکِتَابِ شِفَائٌ مِّنْ کُلِّ دَآئٍ.سورۃ فاتحہ ہر بیماری سے شفا دیتی ہے.(سنن الدارمی کتاب الفضائل باب فضل فاتحۃ الکتاب) بیہقی فی شعب الایمان (باب فی تعظیم القرآن فصل فی فضائل السور والآیات)میں یہی

Page 10

روایت مروی ہے لیکن مِنْ کُلِّ دَآئٍ کی جگہ شِفَاءٌ مِّنَ السَّمِّ کے الفاظ ہیں یعنی زہر کا علاج ہے.(۸) اَلرُّقْیَۃُ یعنی دَم کرنے والی سورۃ.یہ نام بھی حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت مذکورہ مسند احمد بن حنبل و بخاری میں درج ہے.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فاتحۃ الکتاب اور مسند احمد بن حنبل مسند ابی سعید خدری) ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ کسی کو سانپ نے ڈس لیا تھا میں نےاس پر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا اور اسے شفا ہو گئی اس پر آپؐ نے فرمایا.مَا یُدْرِیْکَ اَنَّہَا رُقْیَۃٌ تم کو کس طرح معلوم ہوا کہ یہ دَم کرنے والی سورۃ ہے.اس صحابی نے جواب دیا.یا رسول اللہ! بس میرے دل میں ہی یہ بات آگئی.(۹ ) سُوْرَۃُ الْکَنْزِ بیہقی نے حضرت انسؓ سے روایت کی ہے عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اِنَّ اللّٰہَ اَعْطَانِیْ فِیْمـَا مَنَّ بِہٖ عَلَیَّ فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ وَقَالَ ھِیَ کَنْزٌ مِّنْ کُنُوْزِ عَرْشِیْ (تفسیرفتح البیانزیر تفسیر سورۃ الفاتحۃ) یعنی رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے جو احسان فرما کر مجھے انعام دیئے ہیں ان میں سے ایک فَاتِحَۃُ الْکِتَابِ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ یہ میرے عرش کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے.فاتحہ نام میں پہلے بیان کر چکا ہوں.پس یہ نو نام قرآن و حدیث سے ثابت ہیں.ان کے علاوہ اور نام بھی اس سورۃ کے صحابہ سے مروی ہیں.امام سیوطیؒ نے ان کی تعداد پچیس تک لکھی ہے.علامہ قرطبی نے بارہ نام لکھے ہیں.لیکن باقی نامو ںکا ثبوت چونکہ قرآن و حدیث سے مجھے نہیں ملا.میں نے انہیں بیان نہیں کیا.سورۃ فاتحہ کے متعلق پہلی کتب میں پیشگوئی فاتحہ نام جو اس سورۃ کا بیان ہوا ہے اس کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ یہ نام پیشگوئی کے طو رپر پہلی کتب میں بھی آیا ہے.چنانچہ مکاشفات باب ۱۰ آیت ۲ ،۳میں لکھا ہے.’’اور اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کتاب کھلی ہوئی تھی اور اس نے اپنا داہنا پائوں سمندر پر اور بایاں خشکی پر دھرا اور بڑی آواز سے جیسے ببر گرجتا ہے پکارا.او رجب اس نے پکارا تب بادل نے گرجنے کی اپنی سات آوازیں دیں.‘‘ اس سورۃ کا نام اور اس کی آیات کی تعداد بطور پیشگوئی مرقوم ہے.مترجم نے پیشگوئی کی اصل حقیقت سے ناآشنا ہونے کے باعث عبرانی لفظ فتوحہ کا ترجمہ کھلی ہوئی کتاب کیا ہے حالانکہ فتوحہ یعنی فاتحہ سورۃ کا نام بتایا گیا تھا.اس پیشگوئی میں جو گرج کی سات آوازوں کا ذکر ہے ان سے مُراد اس سورۃ کی سات آیات ہیں.مسیحی مصنّفین بالاتفاق تسلیم کرتے ہیں کہ مکاشفات کے مذکورہ بالا حوالہ میں مسیح کی آمد ثانی کے متعلق پیشگوئی ہے اور یہ بات بالکل درست ہے.پیشگوئی کے الفاظ سے ثابت ہے کہ آنے والے مسیح کے زمانہ تک یہ سورۃ مقفّل رہے گی یعنی اس کا

Page 11

تفصیلی مفہوم مسیح موعود کے زمانہ میں ظاہر ہو گا.چنانچہ مکاشفات میں لکھا ہے کہ نبی کو ایک آسمانی آواز نے کہا کہ ’’بادل کی ان سات رعدوں سے جو بات ہوئی اس پر مُہر کر رکھ اور مت لکھ.‘‘ (مکاشفہ باب ۰ا آیت ۴) سورتوں کے نام رسول کریم ؐ کے رکھے ہوئے ہیں میں نے تفصیلاً سورۃ فاتحہ کے نام اس لئے گنوائے ہیں تایہ بتائوں کہ سورتوں کے نام بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں اور جیسا کہ سورۃ فاتحہ کے بعض ناموں سے ثابت ہے.آپؐ نے بھی وہ نام الہاماً اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر رکھے ہیں.سورۃ فاتحہ کے مختلف ناموں سے اس کے وسیع مطالب کی طرف اشارہ دوسرے میری غرض ان ناموں کے گنوانے سے یہ ہے کہ ان سے سورۃ فاتحہ کے وسیع مطالب پر روشنی پڑتی ہےیہ نو نام درحقیقت دس مضمون ہیں جو سورۃ فاتحہ بیان کرتی ہے.وہ فَاتِحَۃُالْکِتَابِ ہے.یعنی قرآن کریم میں سب سے پہلے اس کے رکھنے کا حکم ہے.دوسرے وہ مطالب قرآنی کے لیے بمنزلہ ایک کلید کے ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کھلتے ہیں.پھر سورۃ فاتحہ سُوْرَۃُ الْحَمْد ہے یعنی اس سورۃ نے انسان اور خدا کے تعلقات پر اور انسانی پیدائش پر اس رنگ میں روشنی ڈالی ہے کہ اس سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ انسانی پیدائش اعلیٰ ترقیات کے لئے ہے اور یہ کہ خدا تعالیٰ کا تعلق بندوں سے رحم اور فضل کی بنیادوں پر قائم ہے.پھر وہ اَلصَّلٰوۃ ہے یعنی کامل دعا اس میں سکھائی گئی ہے جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی اور وہ اُمّ الکتاب ہے اس میں وہ تمام علوم جن کے ذریعہ سے دوسروں کو خطاب کیا جاتا ہے بیان کردئے گئے ہیں اور یہ بھی کہ وہ کتاب کریم یعنی قرآن مجید کے لئے بمنزلہ ماں کے ہے یعنی قرآن کریم کے نزول کا موجب وہ دعائیں ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں اور جو درد مند دلوں سے اُٹھ کر عرشِ عظیم سے قرآن کریم کو لائی ہیں اور وہ اُمُّ الْقُرْآن ہے اس میں وہ تمام علوم جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ اَلسَّبْعُ الْمَثَانِی ہے یعنی گو صرف سات آیتیں اس میں ہیں لیکن ہر ضرورت ان سے پوری ہو جاتی ہے.روحانیت کا کوئی سوال ہو کسی نہ کسی آیت سے اس پر روشنی پائی جائےگی گویا علمی سوالوں کے حل کرتے وقت بار بار حوالہ کے طو رپر اس کی سات آیتیں دُہرائی جائیں گی اور اس لئے بھی وہ مثانی ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں اسے پڑھا جاتا ہے.وہ قرآن عظیم بھی ہے یعنی باوجود اُمُّ الْکِتَاب اور اُمُّ الْقُرْآن کہلانے کے وہ قرآن کریم کا حصہ بھی ہے اور اس سے الگ نہیں جیسا کہ بعض لوگوں نے غلطی سے سمجھ لیا ہے.قرآن عظیم سورۃ فاتحہ کو انہی معنوں سے کہا گیا ہے جس طرح ہم کسی سے کہتے ہیں قرآن سنائو اور مراد اس سے ایک سورۃ یا ایک رکوع ہوتا ہے

Page 12

سورۃ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام ان وساوس کا ردّ ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں او روہ رُقْیَۃ ہے کہ علاوہ دم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذرّ ّیت کے حملوں سے انسان کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بے ضرر ہو جاتے ہیں اور وہ کَنز بھی ہے کہ علوم و فنون کے اس میں دریا بہتے ہیں.اُردو میں دریا کوزے میں بند کرنے کا ایک محاورہ ہے اس کا صحیح مفہوم شاید سورۃ فاتحہ کے سوا اور کسی چیز سے ادا نہیں ہو سکتا بلکہ اس سورۃ کے بارہ میں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر کوزہ میںبند کر دیا گیا ہے.غرض اسماء کے گنانے سے میرا منشاء پڑھنے والے کے ذہن کو ان وسیع مطالب کی طرف توجہ دلانا تھا جو رسول کریم صلعم نے مختلف ناموں کے ذریعہ سے اس سورۃ کے بیان فرمائے ہیں ورنہ حقیقت سے خالی نام کسی سورۃ کے نوچھوڑ سوبھی ہوں تو ان سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا اور رسول کریم صلعم ایسا بے فائدہ فعل ہر گز نہیں کر سکتے تھے.پس سوچنے والوں کے لئے ان ناموں میں ایک اعلیٰ روشنی اور کامل ہدایت ہے.فضائل سور ۃ فاتحہ سورۃ فاتحہ کے فضائل مختلف احادیث میں اس سورۃ کے بہت سے فضائل حدیثوں میں بیان ہیں جن میں سے بعض کی طرف تو میں اس کے ناموں میں اشارہ کر چکا ہوں اور بعض جو زیادہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ان کا ذکر اب کرتا ہوں.نسائی نے اُبی ّبن کعب سے روایت کی ہے.قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَنْزَلَ اللّٰہُ فِی التَّوْرَاۃِ وَلَا فِی الْاِنْجِیْلِ مِثْلَ اُمِّ الْقُرْآنِ وَھِیَ السَّبْعُ الْمَثَانِیْ وَھِیَ مَقْسُوْمَۃٌ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ(سنن النسائی کتاب الافتتاح باب تاْویل قول اللہ عزوجل ولقد اٰتیناک سبعا من المثانی) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ نے نہ توراۃ میں نہ انجیل میں کوئی ایسی سورۃ اُتاری ہے جیسی کہ اُمُّ الْقُرْآن (یعنی سورۃ فاتحہ) ہے اور اس کا ایک نام اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ بھی ہے.سورۃ فاتحہ کی ایک فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے اس کے بارہ میں مجھے فرمایا ہے کہ وہ میرے اور میرے بندے کے درمیان بحصّہ مساوی بانٹ دی گئی ہے اور اس کے ذریعہ سے میرے بندے جو دُعا مجھ سے کریں گے وہ ضرور قبول کی جائے گی.یہ فضیلت نہایت اہم ہے کیونکہ اس میں ایک عملی ُگر بتایا گیا ہے جو انسان کے لئے دین و دُنیا میں مفید ہے یعنی جو دُعا اس کے ذریعہ سے کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے.

Page 13

Page 14

پانچواں اصل پانچویں یہ کہ دعا میں اللہ تعالیٰ کی صفت مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کا بھی خیال رکھا گیا ہو یعنی دُعا کرتے وقت ان ظاہری ذرائع کو نظر انداز نہ کر دیا گیا ہو جو صحیح نتائج پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کئے ہیں کیونکہ وہ سامان بھی اللہ تعالیٰ نے ہی بنائے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے طریق کو چھوڑ کر اس سے مدد مانگنا ایک غیر معقول بات ہے.گویا جہاں تک اسباب ظاہری کا تعلق ہے بشرطیکہ وہ موجود ہو ںیا ان کا مہیّا کرنا دُعا کرنے والے کے لئے ممکن ہو ان کا استعمال بھی دُعا کے وقت ضروری ہے.ہاں! اگر وہ موجود نہ ہو ںتو پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کی صفت اسباب سے بالا ہو کر ظاہر ہوتی ہے.ایک اشارہ اس آیت میں یہ بھی کیا گیا ہے کہ دُعا کرنے والا دوسروں سے بخشش کا معاملہ کرتا ہو اور اپنے حقوق کے طلب کرنے میں سختی سے کام نہ لیتا ہو.چھٹا اصل یہ بتایا ہے کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق ہو اور اس سے کامل اخلاص حاصل ہو اور وہ شرک اور مشرکانہ خیالات سے کلی طو رپر پاک ہو.اور ساتواں اصل سا تویں بات یہ بتائی ہے کہ وہ خدا کا ہی ہو چکا ہو اور اس کا کامل توکل اسے حاصل ہو اور غیر اللہ سے اس کی نظر بالکل ہٹ جائے اور وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ خواہ کچھ ہو جائے اور کوئی بھی تکلیف ہو.مانگوں گا تو خدا تعالیٰ ہی سے مانگوں گا.آنحضرتؐ اور آپؐ کے اتباع کا مذکورہ ذرائع سے قبولیت دعا کا نشان دکھلانا یہ سات امور وہ ہیں کہ جب انسان ان پر قائم ہو جائے تو وہ لِعَبْدِیْ مَاسَأَ لَ کا مصداق ہو جاتا ہے اور حق بات یہ ہے کہ اس قسم کی دُعا کا کامل نمونہ رسول کریم صلعم یا آپؐ کے کامل اتباع نے ہی دکھایا ہے اور انہی کے ذریعہ سے دُعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دُنیا نے دیکھے ہیں جن سے اندھوں کو آنکھیں اور بہروں کو کان اور گونگوں کو زبان عطا ہوئی ہے مگر اتباع رسول کا مقام بھی کسی کے لئے بند نہیں جو چاہے اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کر سکتا ہے اور اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے.بخاری ؒ نے سعید ابن المعلّٰی سے ایک روایت کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ آئو میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ سکھائوں اور پھر سورۃ فاتحہ سکھائی.(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل فاتحۃ الکتاب) سورۃ فاتحہ مطالب کے لحاظ سے اَعْظَمُ السُّوَر ہے آپؐ نے جو اسے اَعْظَمُ السُّوَر فرمایا تو اس کے یہی معنی ہیں کہ اس کے معانی اور مطالب لمبی لمبی سورتوں سے بھی زیادہ ہیں اور کیوں نہ ہو کہ یہ سارے

Page 15

قرآن کریم کے لئے بطور متن کے ہے.میں اس جگہ ایک اپنا مشاہدہ بھی بیان کر دینا چاہتا ہوں.میں چھوٹا ہی تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا.میں مشرق کی طرف منہ کر کے کھڑا ہوں اور سامنے میرے ایک وسیع میدان ہے.اس میدان میں اس طرح کی ایک آواز پیدا ہوئی جیسے برتن کو ٹھکورنے سے پیدا ہوتی ہے.یہ آواز فضا میں پھیلتی گئی اور یوں معلوم ہوا کہ گویا وہ سب فضا میں پھیل گئی ہے اس کے بعد اس آواز کا درمیانی حصہ متمثل ہونے لگا او راس میں ایک چوکھٹا ظاہر ہونا شروع ہوا جیسے تصویروں کے چوکھٹے ہوتے ہیں پھر اس چوکھٹے میں کچھ ہلکے سے رنگ پیدا ہونے لگے آخر وہ رنگ روشن ہو کر ایک تصویر بن گئے اور اس تصویر میں حرکت پیدا ہوئی اور وہ ایک زندہ وجود بن گئی اور میں نے خیال کیا کہ یہ ایک فرشتہ ہے.وہ فرشتہ مجھ سے مخاطب ہوا اور اس نے مجھے کہا کہ کیا میں تم کو سورہ فاتحہ کی تفسیر سکھائوں؟ تو میں نے کہا کہ ہاں ! آپ مجھے ضرور اس کی تفسیر سکھائیں.پھر اس فرشتہ نے مجھے سورۃ فاتحہ کی تفسیر سکھانی شروع کی یہاں تک کہ وہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُتک پہنچا.یہاں پہنچ کر اس نے مجھے کہا کہ اس وقت تک جس قدر تفاسیر لکھی جا چکی ہیں وہ اس آیت تک ہیں.اس کے بعد کی آیات کی کوئی تفسیر اب تک نہیں لکھی گئی.پھر اس نے مجھ سے پوچھا.کیا میں اس کے بعد کی آیات کی تفسیر بھی تم کو سکھائوں ؟اور میں نے کہا ہاں!جس پر فرشتہ نے مجھے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ اور اس کے بعد کی آیات کی تفسیر سکھانی شروع کی اور جب وہ ختم کر چکا تو میری آنکھ کھل گئی اور جب میری آنکھ کھلی تو میں نے دیکھا کہ اس تفسیر کی ایک دو باتیں مجھے یاد تھیں.لیکن معاً بعد میں سو گیا اور جب اُٹھا تو تفسیر کا کوئی حصّہ بھی یاد نہ تھا.اس کے کچھ عرصہ بعد مجھے ایک مجلس میں اس سورۃ پر کچھ بولنا پڑا اور میں نے دیکھا کہ اس کے نئے نئے مطالب میرے ذہن میں نازل ہو رہے ہیں اور میں سمجھ گیا کہ فرشتہ کے تفسیر سکھانے کا یہی مطلب تھا.چنانچہ اس وقت سے لےکر آج تک ہمیشہ اس سورۃ کے نئے نئے مطالب مجھے سکھائے جاتے ہیں.جن میں سے سینکڑوں میں مختلف کتابوں اور تقریروں میں بیان کرچکا ہوں اوراس کے باوجودوہ خزانہ خالی نہیں ہوا.چنانچہ دُعا کے متعلق جو ُگر اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں اور جن کا ذکر میں اُوپر کر آیا ہوں وہ بھی انہی تجارب میں سے ہیں.کیونکہ سورۃ فاتحہ کی تفسیر لکھتے وقت میرے دل میں خیال گزرا کہ اس موقع پر بھی اللہ تعالیٰ کوئی نئے مطالب اس سورۃ کے کھولے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سات اصول کا انکشاف ہوا جو دُعا کے متعلق اس سورۃ میں بیان ہیں.فَالْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰ لِکَ.اوریہ جو کچھ لکھا گیا ہے محض خلاصہ کے طور پر لکھا گیا ہے ورنہ ان اصول میں بہت وسیع مطالب پوشیدہ ہیں.ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ.

Page 16

سورۃ فاتحہ کا نزول سورۃ فاتحہ کا نزول اس سورۃ کے نزول کے بارہ میںابن عباسؓ قتادہ اور ابو العالیہ کا بیان ہے کہ یہ ّمکی سورۃ ہے اور ابوہریرۃ ؓ اور مجاہد اور عطاء اور زُہری کا قول ہے کہ یہ مدنی ہے لیکن قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ یہ سورۃ مکہ میں نازل ہو چکی تھی کیونکہ اس کا ذکر سورۃ الحجر میں جو بالا جماع مکیّ سورۃ ہے ان الفاظ میں آ چکا ہے.وَ لَقَدْ اٰتَيْنٰكَ سَبْعًا مِّنَ الْمَثَانِيْ وَ الْقُرْاٰنَ الْعَظِيْمَ (الحجر:۸۸) (قرطبی تفسیر سورۃ فاتحۃ) بعض ائمہ کا خیال ہے کہ دو دفعہ یہ سورۃ نازل ہوئی ہے ایک دفعہ مکہ میں اور دوسری دفعہ مدینہ میں.پس یہ مکی بھی ہے او رمدنی بھی.(قرطبی میں بحوالہ ثَعلبی یہ روایت لکھی ہے مگر ثعلبی کی تفسیر میں جو مطبوعہ الجزائر ہے یہ رائے درج نہیں.شاید ثَعلبی کی کسی اور کتاب سے یہ رائے قرطبی نے درج کی ہو) میرے نزدیک یہی خیال درست ہے.اس کا مکی ہونا یقینی ہے اور اس کا مدنی ہونا بھی معتبر رواۃ سے ثابت ہے.سورۃ فاتحہ مکہ اور مدینہ میں دو دفعہ نازل ہوئی پس حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دو دفعہ نازل ہوئی ہے اور جب دوسرے نزول کا رسول کریم صلعم نے کسی مجلس میں ذکر کیا تو بعض لوگوں نے سمجھا کہ یہ سورۃ نازل ہی مدینہ میں ہوئی تھی حالانکہ آپؐ کا مقصد اس سے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ یہ سورۃ مدینہ میں بھی نازل ہوئی ہے.اس کے مکی ہونے کا یہ ثبوت بھی ہے کہ تمام روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ ہمیشہ سے نماز میں پڑھی جاتی رہی ہے اور نماز باجماعت مکہ میں ہی پڑھی جانی شروع ہو گئی تھی بلکہ شروع زمانہ سے ہی شروع ہو گئی تھی.سورۃ فاتحہ قرآن کا حصّہ ہے سورۃ فاتحہ کو قرآن کا حصہ نہ سمجھنے کے دلائل کا جواب بعض لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآن کریم کا حصّہ نہیں ہے اور اس خیال کی دلیل یہ بتاتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے اپنے نسخہ میں سورۃ فاتحہ کو نہیں لکھا تھا مگر یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ نے سورۃ فاتحہ اور مُعَوَّذَ تَیْنِ یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس تینوں سورتیں قرآن کریم میں نہیں لکھی تھیں او ران کا یہ خیال تھا کہ سورۃ فاتحہ ہر سورۃ کے ساتھ چونکہ نماز میں پڑھی جاتی ہے اس لئے یہ ہر سورۃ کی تمہید ہے اور غالباً مُعَوَّذَ تَیْن کے بارہ میں بھی ان کا یہ خیال تھا کہ بوجہ اس کے کہ ان کا مضمون مختلف نقصانات اور شرور سے بچنے کی دُعا پر مشتمل ہے اس لئے وہ گویا باوجود قرآن عظیم کا حصّہ ہونے کے متنِ قرآن سے باہر ہیں اور وہ غالباً انہیں بھی ہر سورۃ سے متعلق سمجھتے تھے.سورۃ فاتحہ کے بارہ میں تو

Page 17

ان کے اس خیال کا ذکر احادیث سے ثابت ہے چنانچہ ابوبکر الانباری نے عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ ایک حدیث نقل کی ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنے نسخہ ٔ قرآن میں سورۃ فاتحہ کیوں نہیں لکھی تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ لَوْکَتَـبْتُہَا لَکَتَبْـتُہَا مَعَ کُلِّ سُورَۃٍ.یعنی اگر میں سورۃ بقرہ سے پہلے اسے لکھتا تو سب سورتوں کے ساتھ لکھتا یعنی یہ سورۃ ہر سورۃ سے متعلق ہے اس لئے میں نے اسے حذف کر دیا ہے تایہ غلط فہمی نہ ہو کہ صرف سورۃ بقرہ کے ساتھ اس کا تعلق ہے (قرطبی) معلوم ہوتا ہے یہی استدلال مُعَوَّذَ تَیْن کے بارہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کیا ہے ورنہ وہ سورۃجسے رسول کریم صلعم نے صاف طورپر قرآن کریم کی سورتوں میں سے سب سے بڑی قرار دیا ہے (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل فاتحۃ الکتاب عن سعید بن المعلّی ) اسے کس طرح قرآن کریم سے خارج قرار دے سکتے تھے.سورۃ فاتحہ ہر نماز میں اور ہر رکعت میں پڑھنی ضروری ہے سوائے اس کے کہ مقتدی کے نماز میں شامل ہونے سے پہلے امام رکوع میں جا چکا ہو اس صورت میں اسے تکبیر کہہ کر بغیر کچھ پڑھے رکوع میں چلے جانا چاہیے.امام کی قراء ت ہی اس کی قراء ت سمجھ لی جائے گی.سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں سورۃ فاتحہ کے نماز میں پڑھنے کی تاکید مختلف احادیث میں آئی ہے.مسلم میں آتا ہے حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ قَالَ (رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) مَنْ صَلّٰی صَلٰوۃً لَمْ یَـقْرَأْ فِیْہَا بِاُمِّ الْقُرْآنِ فَھِیَ خِدَاجٌ (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے نماز ادا کی مگر اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے اور بخاری ،مسلم میں عبادۃ بن الصامت کی روایت ہے کہ رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِـحَۃِ الکِتَابِ (بخاری کتاب الصلوٰۃ باب وجوب قراء ۃ الامام و المأْموم فی الصلٰوۃ کلہا نیز مُسلم باب وجوب قراءۃ الفا تحۃ فی کل رکعۃٍ) یعنی جس نے فاتحۃ الکتاب نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی اور صحیح بن خزیمہ اور ابن حبان میں ابوہریرۃؓ سے بھی ایسی ہی روایت آتی ہے (قرطبی) نیز ابو دائود میں حضرت ابوہریرۃ ؓسے روایت ہے کہ اَمَرَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ اُنَادِیْ اَنَّہٗ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِقِرَائَ ۃِ فَاتِـحَۃِ الْکِتَابِ فَـمَازَادَ (ابوداؤدکتاب الصلٰوۃ باب من ترک القراء ۃ فی صلوٰتہٖ) یعنی رسول کریم صلعم نے مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں میں اعلان کر دوں کہ کوئی نماز بغیر اس کے نہیں ہوسکتی کہ سورۃ فاتحہ او راس کے ساتھ کچھ اور حصہ قرآن کریم کا پڑھا جائے.صحابہ میں سے حضرت عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، ابوہریرہ ؓ، ابی بن کعبؓ، ابو ایوب انصاریؓ، عبداللہ بن

Page 18

عمرو بن العاصؓ، عبادۃ بن الصامتؓ، ابو سعید خدریؓ، عثمان بن ابی العاصؓ خوّات بن جبیر اور عبداللہ بن عمر سے یہی عقیدہ احادیث میں مذکور ہے.(قرطبی تفسیر سورۃ فاتحۃ) ابن ما جہ میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت آتی ہے کہ لَاصَلٰو ۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ فِیْ کُلِّ رَکْعَۃٍ بِالْـحَمْدِ لِلّٰہِ وَسُوَرۃٌ فِیْ فَرِیْضَۃٍ اَوْغَیْرِھَا یعنی جو شخص ہر رکعت میں الحمدللہ اور کوئی اور سورۃ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی اور یہ حکم فرض نماز اور غیر فرض نماز سب کے متعلق ہے.(ابن ماجۃ کتاب الصلٰوۃ باب القرا ءَ ۃ خلف الامام) اس روایت کو محققین نے ضعیف کہا ہے مگر جبکہ صحابہ کا تعامل یہی ہے کہ اس کے مضمون کی صحت میں کلام نہیں ہو سکتا.ابو دائود کی ایک اور روایت بھی اس کی تائید میں ہے اور وہ عبادہ بن الصامت سے مروی ہے.نافع بن محمود بن الربیع انصاری کہتے ہیں کہ ایک جگہ حضرت عبادہ امام الصلوٰۃ تھے ایک دفعہ وہ دیر سے پہنچے اور ابو نعیم نے نماز شروع کر ا دی.نماز شروع ہو چکی تھی کہ عبادہ بھی آ گئے.میں بھی ان کے ساتھ تھا ہم صفوں میں کھڑے ہو گئے.ابونعیم نے جب سورۃ فاتحہ پڑھنی شروع کی تو میں نے سنا کہ عبادہ بھی آہستہ آہستہ سورۃ فاتحہ پڑھتے رہے.جب نماز ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا کہ جبکہ ابو نعیم بالجہر نماز پڑھا رہے تھے آپ بھی ساتھ ساتھ سورۃ فاتحہ پڑھتے جا رہے تھے یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے.رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ ہمیں نماز پڑھائی اور سلام پھیر کر جب بیٹھے تو پوچھا کہ جب میں بلند آواز سے نماز میں تلاوت کرتا ہوں تو کیا تم بھی منہ میں پڑھتے رہتے ہو؟ بعض نے کہا ہاں.بعض نے کہا نہیں اس پر آپؐ نے فرمایا.لَاتَقْرَءُوْا بِشَيْ ئٍ مِّنَ الْقُرْآنِ اِذَا جَھَرْتُ اِلَّابِاُمِّ الْقُرْآنِ (ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب من ترک القِرا ءَ ۃَ فی صلوٰتہٖ) جب میں بلند آواز سے قرآن کریم نماز میں پڑھوں تو سوائے سورۃ فاتحہ کے اور کسی سورۃ کی تلاوت تم ساتھ ساتھ نہ کیاکرو.اس بارہ میں اور بہت سی احادیث بھی ہیں.مثلاً دار قطنی نے یزید بن شریک سے روایت کی ہے اور اس کے اسناد کو صحیح قرار دیا ہے کہ سَأَلْتُ عُمَرَ عَنِ الْقِرَائَ ۃِ خَلْفَ الْاِمَامِ فَاَمَرَ نِیْ اَنْ اَقْرَأَ، قُلْتُ وَ اِنْ کُنْتَ اَنْتَ قَالَ وَاِنْ کُنْتُ اَ نَا قُلْتُ وَاِنْ جَھَرْتَ قَالَ وَاِنْ جَھَرْتُ.یعنی میں نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کیا میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھا کروں انہوں نے کہا ہاں.میں نے پوچھا کیا جب آپ نماز پڑھا رہے ہوں تب بھی.انہوں نے کہا ہاںخواہ میں نماز پڑھا رہا ہوں.میں نے کہا کہ کیا جب بلند آواز سے پڑھا رہے ہوں تب بھی.انہوں نے کہا ہاں تب بھی.(سنن دار قطنی کتاب الصلٰوۃ باب و جوب قراء ۃ اُمّ الکتاب فی الصلوٰۃ) حضرت مسیح موعود ؑ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ سورۃ فاتحہ امام کے پیچھے بھی پڑھنی چاہیے خواہ وہ جہراً نماز پڑھا رہا ہو سوائے اس کے کہ مقتدی رکوع میں آ کر ملے.اس صورت میں وہ تکبیر

Page 19

کہہ کر رکوع میں شامل ہو جائے اور امام کی قراء ت اس کی قراء ت سمجھی جائے گی.یہ ایک استثناء ہے استثناء سے قانون نہیں ٹوٹتا.اسی طرح یہ بھی استثناء ہے کہ کسی شخص کو سورۃ فاتحہ نہ آتی ہو.مثلاً نو مسلم ہے جس نے ابھی نماز نہیں سیکھی یا بچہ ہو جسے ابھی قرآن نہیں آتا تو اس کی نماز فقط تسبیح و تکبیر سے ہو جائے گی خواہ وہ قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی نہ پڑھے سورۃ فاتحہ بھی نہ پڑھے.سُورۃ فاتحہ کے مضامین کا خلاصہ قرآن کریم کے مضامین کو مختصر طو رپر اس میں بیان کر دیا گیا ہے تاکہ پڑھنے والے کو شروع میں ہی قرآنی مطالب پر اجمالاً آگاہی ہو جائے.سورۃ فاتحہ میں سترہ باتوں کی طرف اشارہ پہلے بِسم اللّٰہ سے شروع کیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ ایک مسلمان (۱) خدا تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے ( بِسم اللّٰہ ) (۲) وہ اس امر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ فلسفیوں کے عقیدہ کے مطابق صرف دُنیا کےلئے علّتِ اولیٰ کا کام نہیں دے رہا بلکہ دُنیا کے کام اس کے حکم اور اشارہ سے چل رہے ہیں اس لئے اس کی مدد اور اعانت بندہ کے لئے بہت کچھ کار آمد ہو سکتی ہے ( بِسم اللّٰہ ) (۳) وہ صرف ایک اندرونی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستقل وجود رکھتا ہے اور اس کا مستقل نام ہے اور مختلف صفات سے وہ متصف ہے (اللّٰہ.الرّحـمٰن.الرّحیم) (۴) وہ منبع ہے سب ترقیات کا اور تمام سامان جن سے کام لے کر دُنیا ترقی کر سکتی ہے اسی کے قبضہ میں ہیں (الرّحـمٰن) (۵) اس نے انسان کو اعلیٰ ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.جب وہ اللہ کے پیدا کردہ سامانوں سے صحیح طو رپر کام لیتا ہے تو اس کے کام کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوتے ہیں جو اسے مزید انعامات کے مستحق بنا دیتے ہیں اور بناتے چلے جاتے ہیں (الرّحیم) (۶) اس کے سب کاموں میں جامعیت اور کمال پایا جاتا ہے اور ہر حسن سے وہ متصف ہے اور سب تعریفوں کا مالک ہے کیونکہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے سب اُسی کا پیدا کردہ ہے (اَلْـحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ )(۷) کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے سوا ایسی نہیں جس کی ابتدا اور انتہاء یکساں ہو بلکہ اس کے سوا جس قدر اشیاء ہیں ادنیٰ حالت سے شروع ہوئی ہیں اور ترقی کرتے کرتے کمال کو پہنچی ہیں.پس اللہ تعالیٰ سب اشیاء کا خالق ہے اورکوئی چیز آپ ہی آپ نہیں (ربّ العٰلمین) (۸) یہ دنیا ایک متنوع دنیا ہے یعنی اس کی ہزاروں شاخیں ہیں اور ہزاروں قسم کے مزاج ہیں.پس کسی چیز کے سمجھنے کے لیے اس کی جنس پر غور کرنا چاہیے نہ کہ دوسری

Page 20

جنس کی اشیاء پر.خدا تعالیٰ کا معاملہ ہر جنس سے اس کی حیثیت کے مطابق ہے.پس دنیا میں خدا تعالیٰ کے سلوک میں اگر اختلاف نظر آئے تو اس سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے.وہ اختلاف حالات کے اختلاف کی وجہ سے ہے نہ کہ ظلم کی وجہ سے یا عدم توجہ کی وجہ سے (رَبّ العٰلَمین)(۹) جس طرح اللہ تعالیٰ ہر کام لینے والی شے کا خالق نظر آتا ہے وہ ہر سامان کا بھی خالق نظر آتا ہے پس ہر چیز ہر وقت اس کی مدد کی محتاج ہے.(اَلرَّحْمٰن) (۱۰) پھر جس طرح خدا تعالیٰ اشیاء اور ان سامانو ںکا خالق ہے جن سے ان اشیاء نے فائدہ اُٹھانا ہے اسی طرح وہ ان نتائج پربھی تصرّف رکھتا ہے جو سامانوں کے استعمال کرنے کے بعد پیدا ہوتے ہیں مثلاً انسان کو بھی اس نے پیدا کیا ہے اور اس کھانے کو بھی اس نے پیدا کیا ہے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے اور پھر وہ اچھا یا بُرا خون جو اس کھانے کے استعمال سے پیدا ہو گا وہ بھی اسی کے حکم اور امر سے ہی ہو گا ( اَلْرَّحِیم) (۱۱) پھر اس نے جزا سزا کا بھی ایک طریق مقرر کیا ہے یعنی ہر چیز اپنے حالات کے مطابق اپنے کامو ںکے اچھے یا بُرے نتائج کا مجموعی نتیجہ ایک دن دیکھ لیتی ہے یعنی کاموں کے نتیجے دو طرح کے ہوتے ہیں ایک درمیانی کہ ہر کام کا نتیجہ کچھ نہ کچھ نکلتا آتا ہے او رایک آخری کہ سب کاموں کا مجموعی نتیجہ نکلتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے صرف یہی انتظام نہیں کیا کہ ہر کام کا نتیجہ نکلے جس کی طرف رحیم کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے بلکہ اس نے یہ تدبیر بھی اختیار کی ہے کہ سب کاموں کا ایک مجموعی نتیجہ نکلے جس کے سبب سے وہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِکہلاتا ہے.(۱۲) پس ایسی ہی ہستی اس امر کی مستحق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے اور اسی سے محبت کا تعلق رکھا جائے (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ) (۱۳) پھر بتایا ہے کہ انسانی ترقی کا انحصار دو امر پر ہے.اعمالِ بدن اور اعمالِ قلب پر (اعمالِ قلب سے مراد فکر، خیال، عقیدہ، ارادہ وغیرہ ہیں) ان دونوں کی اصلاح ضروری ہے اور یہ اصلاح بغیر اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کے نہیں ہو سکتی (اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ)(۱۴) پھر یہ بتایا ہے کہ وہ اپنے بندوں سے ملنے کی اور ان کی اصلاح کی خود خواہش رکھتا ہے صرف اس امر کی ضرورت ہے کہ بندہ اس کی طرف جھکے اور اس کی ملاقات کے لیے اسی سے التجا کرے (اِھْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ)(۱۵) پھر یہ بتایا ہے کہ بظاہر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے بہت سے راستے نظر آتے ہیں لیکن صرف راستہ کا معلوم ہونا کافی نہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ (الف) وہ راستہ سب سے چھوٹا ہوتا انسان جدوجہد کے دوران میں ہی ہلاک نہ ہو جائے (صِرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ) (ب) وہ راستہ دیکھا بھالا ہو اور اس پر چل کر لوگوں نے خدا کو پایا ہو تاکہ درمیانی خطرات اور ان کے علاج کا بندہ کو پہلے سے علم ہو جائے تادل مطمئن رہے اور مایوسی پیدا نہ ہو اور اچھے ساتھیوں کی صحبت نصیب رہے پس ایسا راستہ اللہ تعالیٰ سے طلب کرنا چاہیے (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ)(۱۶) ترقیات کے ملنے کی صورت میں دل میں کبر اور خود پسندی

Page 21

کے خیالات پیدا ہو کر انسان کو تباہ کر دیتے ہیں پس ان سے بچتے رہنا چاہیے.اور ترقیات کو ظلم اور فساد کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے بلکہ امن اور خدمت کا ذریعہ بنانا چاہیے.اور اللہ تعالیٰ سے اس غرض کے لئے دُعائیں کرتے رہنا چاہیے (غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ)(۱۷) جس طرح انسان ترقیات کو ظلم کا ذریعہ بنا لیتا ہے کبھی وہ ادنیٰ اشیاء کو رحم اور ناجائز محبت کی وجہ سے اونچا درجہ بھی دے دیتا ہے.اس سے بھی بچنا چاہیے اور اس نیکی کے حصول کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے.(وَ لَا الضَّآلِّيْنَ).بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں ) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں).حلّ لُغَات.حرف باء اور اس کے معنے بِسْمِ اللّٰہِ کی ابتداء میں جو با ء آئی ہے وہ حروف ہجاء کا حرف نہیں بلکہ بامعنی حرف ہے.عربی زبان میں حروف سے ہجاء کا کام لینے کے علاوہ معنوں کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بعض حروف ہجاء کی علامت ہونے کے علاوہ بعض معنے بھی دیتے ہیں.ان حروف میں سے باء بھی ہے.یہ حروف ہجاء کا دوسرا حرف بھی ہے اور بامعنی حرفوں میں سے بھی ہے.اس کے معنی معیّت اور استعانت کے ہیں اور اس کا لفظی ترجمہ ’’سے ‘‘اور ’’ساتھ ‘‘ہے مگر چونکہ ان لفظوں سے معنی واضح نہیں ہوتے اس لئے ’’لےکر‘‘ ترجمہ کیا گیا ہے جو دونوں معنوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے زیادہ مناسب ہے.مطلب آیت کا یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پکڑتے ہوئے اور اس سے مدد مانگتے ہوئے میں یہ کلام پڑھنے لگا ہوں.بِسْمِ اللّٰہِ کے پہلے باء کا متعلق محذوف ہے باء حروف جارہ میں سے ہے یعنی جس اسم پر یہ حرف آتے ہیں اس کے آخری حرف پر زیریا زیر کی علامت آتی ہے.عربی قاعدہ کی رُو سے ان حروف سے پہلے اکثر ایک متعلق محذوف ہوتا ہے جو عبارت کے مفہوم کے مطابق نکال لیا جاتا ہے.اس آیت سے پہلے اِقْرَأْ یا اِشْرَعْ بعض نے محذوف نکالا ہے یعنی پڑھ یا شروع کر.اور اس کی وجہ سورۃ علق کی یہ آیت بیان کی ہے.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ(العلق:۲).پس جو لفظ وہاں بیان ہوا ہے وہی یا اس کے ہم معنی لفظ یہاں نکالا جائے گا.زمخشری نے اِقْرَاْ یا اِشْـرَعْ کی جگہ جو امر کے صیغے ہیں اَقْرَأُ یا اَشْرَعُ جو مضارع کے صیغے ہیں محذوف نکالے ہیں یعنی میں پڑھتا ہوں یا شروع کرتا ہوں.اور اس کی جگہ بِسْمِ اللّٰہِ کے بعد تجویز کی ہے یعنی میں پڑھتا ہوں اللہ کا نام لےکر کی

Page 22

بجائے میں اللہ کا نام لے کر پڑھتا ہوں.اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس میں اللہ کے نام پر زور پیدا ہوتا ہے لیکن اگر پڑھتا ہوں پہلے رکھا جائے تو پڑھتا ہوں پر زور آجاتا ہے.زمخشری کے یہ معنی لطیف ہیں.میں نے ترجمہ میں انہی معنوں کو اختیار کیا ہے.بِسْمِ اللّٰہِ کے محذوف متعلق کے رکھے جانے کی مناسب جگہ زمخشری نے سورۃ علق میں جو اِقْرَأْ پہلے آتا ہے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اس موقع پر اِقْرَأْ پر زور دینا منظور تھا کیونکہ رسول کریم صلعم پڑھنے سے ہچکچاتے تھے.(بخاری کتاب بدء الوحی) لیکن بِسْمِ اللّٰہِ میں پڑھنے پر زور دینا مقصود نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر پڑھنے پر زور دینا مقصود ہے.اس لئے اس جگہ پڑھنے کا لفظ بعد میں محذوف قرار دینا زیادہ مناسب ہے.زمخشری کی یہ تشریح بھی نہایت لطیف ہے اور میں نے جو بِسْمِ اللّٰہِ کے دہرانے کے دلائل بیان کئے ہیں ان کے بالکل مطابق آتی ہے.اسم بِسْمِ بَاء اور اسـم سے مرکب ہے اسم کا ہمزہ گر کر بسم ہو گیا.عربی زبان میں بعض ہمزے بولے نہیں جاتے انہیں وصلی ہمزے کہتے ہیں.لیکن بِسْمِ اللّٰہِ میں ہمزہ لکھا بھی نہیں گیا.اس کی وجہ علمائِ صرف ونحو کثرت استعمال بتاتے ہیں.نسائی اور اَخْفَش کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تمام ناموں سے پہلے جہاں بھی اسم کا لفظ آئے گا اس کا ہمزہ لکھا نہیں جائے گا لیکن فَرّاء کا خیال ہے کہ اس جگہ حذف چونکہ نقلاً ثابت ہے.ہم بِسْمِ اللّٰہِ میں تو حذف کر دیں گے لیکن دوسرے صفات الٰہیہ سے پہلے چونکہ ایسا کرنا نقلاً ثابت نہیں.ہم اس کے ہمزہ کو لکھنے میں ترک نہیں کریں گے.(تفسیر البحر المحیط تفسیر سورۃ الفاتحۃ ) اِسْمٌ کے معنی اور اس کا اشتقاق اِسْـمٌ کے معنی صفت یا نام کے ہوتے ہیں (قاموس) اور یہ اس م سے نہیں بلکہ وس م یا س م و سے بنا ہے وائو الف سے بدل گئی ہے.جنہوں نے اسے وس م سے بنا ہواقرار دیا ہے انہوںنے اس کے معنی نشان اور علامت کے قرار دیئے ہیںکیونکہ وَسَـمَ کے معنی نشان اور علامت کے ہوتے ہیں مگر جنہوں نے اسے س م و سے بنا ہو اقرار دیا ہے انہو ںنے اس کے معنی اونچا ہونے کے کئے ہیں.(اقرب الموارد) اللّٰہ اللہ اس ذات پاک کا نام ہے جو ازلی ابدی اور اَلْحَیُّ الْقَیُّوْم ہے او رمالک اور خالق اور رب سب مخلوق کا ہے اور اسم ذاتی ہے نہ کہ اسم صفاتی.اللہ اسم ذاتی ہے عربی زبان کے سوا کسی اور زبان میں اس خالق و مالکِ ُکل کا کوئی ذاتی نام نہیں پایا جاتا.

Page 23

صرف عربی میں اللّٰہ ایک ذاتی نام ہے جو صرف ایک ہی ہستی کے لئے بولا جاتا ہے اور بطور نام کے بولا جاتا ہے.اللّٰہ کا لفظ بھی اسم جامد ہے مشتق نہیں.نہ یہ اور کسی لفظ سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی اور لفظ بنا ہے.اللہ اسم جامد ہے نہ کہ مشتق بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لَاہَ یَلِیْہِ سے مشتق ہے جس کے معنی تَسَتُّر، عَلُوّ اور اِرتِفَاع کے ہیں (اقرب) لیکن یہ درست نہیں بعض لوگ کہتے ہیں اللہ لَاہَ یَلُوْہُ سے نکلا ہے جس کے معنی چمکنے کے ہیں اور لَاہَ اللّٰہُ الْخَلْقَ کے معنی ہیں اللہ نے مخلوق پیدا کی.لیکن لسان العرب میں لکھا ہے کہ یہ معنی غیر معروف ہیں.پس یہ قیاس کہ یہ لَاہَ یَلُوْہُ سے نکلا ہے بالکل غلط ہے.بعض لوگ اسے غیر زبان کا لفظ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سریانی کے لفظ لاھاسے نکلا ہے لیکن یہ بھی بالکل غلط ہے بلکہ سریانی زبان سے ناواقفیت کے نتیجہ میں ہے چنانچہ یورپین محققین کی رائے ہے کہ عربی کا لفظ اِلٰہ ابتدائی مادہ سے زیادہ قریب ہے.جرمن عالم NOLDEKE لکھتا ہے کہ عربی کا اِلٰہ اور عبرانی کے ایل پرانے زمانہ سے پہلو بہ پہلو چلے آتے ہیں اور عبرانی زبان جب عربی سے علیحدہ ہوئی ہے اس سے بھی پہلے سے یہ لفظ سامی زبانو ںمیں استعمال ہوتا تھا.(انسائیکلو پیڈیا ببلیکا زیر عنوان نیمز یعنی اسماء کی بحث) اَلرَّحْمٰن رحم سے ہے اور فَعْـلَان کے وزن پر ہے.اس وزن کے الفاظ امتلاء اور غلبہ پر دلالت کرتے ہیں.(تفسیر البحر المحیط تفسیر سورۃ الفاتحۃ ) پس رحمٰنکے معنی یہ ہوئے کہ وسیع رحم کا مالک جو ہر اک پر حاوی ہے اور یہ رحم وہی ہو سکتا ہے جو بلا مبادلہ اور بغیر کسی استحقاق کے ہو کیونکہ ہر شخص حق کے طو رپر رحم کا مطالبہ نہیں کر سکتا.اَلرَّحِیْم بھی رَحِمَ سے نکلا ہے اور فَعِیْلٌ کے وزن پر ہے جس کے معنوں میں تکرار اور استحقاق کے مطابق سلوک کا مفہوم پایا جاتا ہے.(تفسیر البحر المحیط تفسیر سورۃ الفاتحۃ) پس اس کے معنی ہوئے جو رحم کے حق دار کو اس کے کام کی اچھی جزا دیتا ہے اور بار بار اس پر رحم نازل کرتا جاتا ہے.علمِ صَرف کے زبردست امام ابو علی فارسی کہتے ہیں.اَلرَّحْـمٰنُ اِسْمٌ عَامٌ فِیْ جَمِیْعِ اَنْوَاعِ الرَّحْمَۃِ یُخْتَصُّ بِہِ اللّٰہُ تَعَالٰی وَالرَّحِیْمُ اِنَّمَا ھُوَ فِیْ جِہَۃِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ قَالَ تَعَالٰی کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا(تفسیرفتح البیان زیر تفسیر سورۃ الفاتحۃ) یعنی اَلرَّحْـمٰن اسم عام ہے اورہر قسم کی رحمتوں پر مشتمل ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے مخصوص ہے اور اَلرَّحِیْم مومنوں کی ذات سے تعلّق رکھتا ہے یعنی اَلرَّحِیْم کی رحمت نیکو کاروں سے مخصوص ہے.چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم کی آیت وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا ہے.(الاحز اب :۴۴) ابن مسعودؓ اور ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے کہ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلرَّحْمٰنُ رَحْمٰنُ

Page 24

Page 25

اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اِحْدٰی آ یُـہَا (دار قطنی جلد اوّل باب وجوب قراء ۃ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِی الصَّلٰوۃ) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب تم الحمدللہ پڑھو تو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھا کرو کیونکہ سورۃ فاتحہ اُمُّ الْقُرآن ہے اور اُمُّ الْکِتَابِ ہے اور سَبْعُ مَثَانی ہے اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ اس کی آیتوں میں سے ایک آیت ہے.امام بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں بھی یہ روایت نقل کی ہے (مرفوع بھی اور موقوف بھی).(فتح البیان زیر تفسیر سورۃ الفاتحۃ) بسم اللہ تمام سورتوں کا حصہ ہے اس حدیث میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ دوسری سورتوں کا بھی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ حصّہ ہے.کیونکہ رسول کریم صلعم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سورۃ فاتحہ کا حصہ ہے بلکہ اس کے حصّہ ہونے کی دلیل دی ہے اور وہ یہ کہ چونکہ یہ اُمُّ الکتاب اور اُمُّ القرآن ہے اس لیے بسم اللہ اس کے ساتھ ضرور پڑھنی چاہیے اور یہ دلیل اسی صورت میں ٹھیک ہوتی ہے جب یہ آیت باقی سورتوں کا بھی حصّہ ہو اور دلیل بالاولیٰ کے طور پر کہا گیا ہو کہ جب باقی سورتوں کابِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ حصہ ہے.تو تم سمجھ سکتے ہو کہ سورۃ فاتحہ جو اُمُّ الکتاب اور اُمُّ القرآن ہے اس کا حصّہ بھی ضرور ہو گی پس اس کی تلاوت سے پہلے اس آیت کو ضرور پڑھا کرو.بسم اللہ کے سورتوں کے ایک حصہ ہونے کے متعلق مزید ثبوت احادیث سے اس استدلال کے علاوہ اور دلائل بھی اس بارہ میں ہیں مثلاً مسلم کی روایت ہے.عَنْ اَنَسٍ قَالَ ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اُنْزِلَتْ عَلَیَّ سُوْرَۃٌ اٰنِفًا فَقَرَأَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْمِ اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَر(مسلم کتاب الصلاة بَابُ حُجَّۃُ مَنْ قَالَ البَسْمِلَۃُ اٰیۃٌ مِنْ اَوَّلِ کُلِّ سُوْرَۃٍ) یعنی انسؓ کہتے ہیںکہ رسول کریم صلعم نے ایک دفعہ فرمایا کہ مجھ پر ابھی ایک سورۃ اُتری ہے جو یہ ہے بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.اِنَّاۤ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ.پس آپؐ نے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِکو سورہ کوثر کا حصہ قرار دیا ہے بعض اور سورتوں کے متعلق بھی ایسی روایات ہیں.اس روایت پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے او رانسؓ انصاری ہیں جو ہجرت کے وقت آٹھ نو سال کے بچے تھے.حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ آپؐ نے یہ بات سورۃ کے نازل ہوتے ہی فرمائی تھی پھر انسؓ نے اس کو کیونکر سن لیا؟ اگر دوسرے دلائل اس قول کی تائید میں نہ ہوتے تو یہ اعتراض یقیناً اس حدیث کو ضعیف بنا دیتا لیکن دوسرے دلائل کی موجودگی میں اس اعتراض کو زیادہ وقعت حاصل نہیں کیونکہ صحابہ بعض دفعہ دوسرے صحابہ سے سن کر بھی روایات بیان کر دیتے تھے اور یہ امر مسلّم ہے کہ جب کوئی روایت رسول کریم صلعم کی طرف کوئی صحابی

Page 26

منسوب کرے تو وہ بہرحال درست ہے کیونکہ کسی صحابی پر جھوٹ کا الزام ثابت نہیں ہوتا.اگر انسؓ نے رسول کریم صلعم کی طرف یہ قول منسوب فرمایا ہے تو اس کے یہ معنی ہیں کہ آپؐ نے کسی مہاجر صحابی سے یہ روایت سنی ہے اور جب صحابی تک روایت پہنچ گئی تو اس کے سچا ہونے میں شبہ نہ رہا.بسم اللہ کے قرآن کے ایک حصہ ہونے کے متعلق احناف کا خیال احناف کے متعلق جو بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیںکہ وہ بسم اللہ کو گویا قرآن کریم کا حصہ نہیں سمجھتے یہ غلط ہے.امام ابو حنیفہ ؒ کا یہ مذہب نہیں بلکہ یہ ہے کہ یہ آیت مستقل آیت ہے اور سورۃ کا حصہ نہیں.امام ابوبکر رازی جو حنفیوں کے اَئمہ سے ہیں اپنی کتاب احکام القرآن جزء اوّل میں لکھتے ہیں.وَلَمَّا ثَبَتَ اَنَّہَا لَیْسَتْ مِنْ اَوَائِلِ السُّوَرِوَ اِنْ کَانَتْ آیَۃً فِیْ مَوْضِعِہَا عَلٰی وَجْہِ الْفَصْلِ بَیْنَ السُّوْرَتَیْنِ اُمِرْنَا بِا لْاِبتِدَائِ بِہَا تَبَرُّکًا.ترجمہ.اس وجہ سے کہ یہ ثابت ہو گیاہے کہ یہ آیت کسی سورۃ کا حصہ نہیں گو دو سورتوں کا فاصلہ بتانے کے لئے ایک مستقل آیت کے طور پر اُتاری گئی ہے.ہمیں اس کے ساتھ نماز شروع کرنے کا حکم بطور تبرک کے دیا گیا ہے.پس یہ محض ناواقفوں کا خیال ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ کو اَحناف قرآن کا حصہ نہیں قرار دیتے بیشک وہ اسے کسی سورۃ کا حصہ نہیں قرار دیتے لیکن قرآن کریم کا حصہ ضرور قرار دیتے ہیں.گو میرے نزدیک ان کا یہ عقیدہ بھی درست نہیں اور حق یہی ہے کہبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ ہر سورۃ کا حصہ ہے اور جیسا کہ آگے بیان ہو گا.ہر سورۃ کے پہلے اس کے رکھنے میں بہت سی حکمتیں ہیں.بِسْمِ اللّٰہِ کی فضیلت ہرکام سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ پڑھنے کا حکم بِسْمِ اللّٰہِ کی فضیلت پر رسول کریم صلعم نے خاص زور دیا ہے آپؐ فرماتے ہیں کُلُّ اَمْرٍ ذِیْ بَالٍ لَایُبْدَأُ فِیہ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَقْطَعُ (اربعین حافظ عبدالقادر عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃ بحوالہ الدررالمنثور سورۃ الفاتحۃ زیر آیت بسم اللہ) یعنی جس بڑے کام کو بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع نہ کیا جائے وہ بے برکت ہوتا ہے.چنانچہ رسول کریم صلعم نے یہ سنت قائم کی ہے کہ مسلمان اپنے سب کاموں کو بسم اللہ سے شروع کیا کریں.چنانچہ ایک حدیث ہے.أَغْلِقْ بَابَکَ وَ اْ ذکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاِنَّ الشَّیْطٰنَ لَایَفْتَحُ بَا بًا مُغْلَقًا وَاطْفِیْٔ مِصْبَاحَکَ وَاْ ذکُرِاسْمَ اللّٰہِ وَخَمِّرْ اِنَائَ کَ وَلَوْ بِعُوْدٍ تَعْرِضُہٗ عَلَیْہِ وَ اذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ وَاَوْکِ سِقَائَ کَ وَا ذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ (مسند احمد بن حنبل مسند جابر بن عبداللہ) یعنی اپنا دروازہ بند کرتے ہوئے بھی بسم اللہ کہہ لیا کرو اور چراغ بجھاتے ہوئے بھی.اور برتن کو ڈھانکتے ہوئے بھی او راپنی

Page 27

مشک کا منہ باندھتے ہوئے بھی.اسی طرح بیوی کے پاس جاتے ہوئے.وضو کرتے ہوئے.کھانا کھاتے ہوئے.پاخانے میں داخل ہونے سے پہلے.لباس پہنتے ہوئے بِسْمِ اللّٰہِ کا کہنا دوسری احادیث سے ثابت ہے.قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے ایک خط کا ذکر کیا گیا ہے کہ انہوں نے بھی اپنا خط بِسْمِ اللّٰہِ سے شروع کیا تھا.چنانچہ آتا ہے.اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (النمل :۳۱) یعنی یہ خط سلیمان کی طرف سے ہے اور بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ سے شروع ہوتا ہے.حضرت نوح ؑ کا ذکر کر کے بھی قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے کشتی میں چڑھتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اِرْكَبُوْا فِيْهَا بِسْمِ اللّٰهِ مَـجْرٖهَا وَ مُرْسٰىهَا (ھود :۴۲).ہر سورۃ سے پہلے بسم اللہ کے رکھے جانے کی پانچ وجوہات ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ اس لئے رکھی گئی ہے کہ قرآن کریم کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نہیں کھولا جا سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا يَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَ۠ (الواقعہ :۸۰) سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس امر کے لئے چُن لے.دوسرے لوگ قرآنی اسرار کو نہیں سمجھ سکتے.اسی طرح فرماتا ہے يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا (البقرة :۲۷) قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ بعض کے لئے ہدایت کا موجب اور بعض کے لئے گمراہی کا موجب بنا دیتا ہے گویا لفظ اور عبارت تو سب کے لئے ایک ہے مگر اثر جُدا جُدا رنگ کا ہوتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اچھے اثر کو حاصل کرنے اور بُرے سے بچنے کے لئے اور اس کے اسرار کو سمجھنے کے لئے کیا ذریعہ اختیار کرنا چاہیے؟ سو اس کا جواب اِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ (النحل :۹۹) کے حکم سے اوربِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنَ الرَّحِیْمِ ہر سورۃ کے پہلے رکھ کر دیا گیا ہے.یعنی قرآن کریم پڑھنے سے پہلے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے شیطان کے حملہ سے بچنے کے لئے دُعا کر لیا کرو.دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمانیّت اور رحیمیّت کا واسطہ دےکر اس کی مدد حاصل کر لیا کرو اس طرح گمراہی سے بچ جائو گے اور ہدایت حاصل ہو گی.بسم اللہ سے یہود اور نصاریٰ پر حجت دوسری وجہبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کو ہر سورۃ کے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا کہ آخری زمانہ میں جو موسیٰ کا ایک مثیل آنے والا ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہو گا کہ ’’جو کوئی میری باتوںکو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اس سے لوںگا.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۱۹) اس پیشگوئی کے مطابق مثیل موسیٰ کے لئے مقدر تھا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی باتیں کرے اس سے پہلے کہہ لے کہ میں یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کے نام پر کہہ رہا ہوں اپنی طرف سے نہیں.پس ضروری تھا کہ اس پیشگوئی کے مطابق ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ رکھی جاتی.تاایک طرف تو موسیٰ کی پیشگوئی پوری ہو اور دوسری طرف یہود اور نصاریٰ کو تنبیہ ہوتی رہے کہ اگر وہ اس کلام کو نہ سنیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کے الہام کے مطابق

Page 28

اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بنیں گے.بِسْمِ اللّٰہِ سے آنحضرت ؐ کی صداقت کا ثبوت تیسری وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ بائبل میں لکھا تھا’’وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا ، یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے.‘‘ (استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰) اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کا نام لے کر کوئی جھوٹی بات کہے گا اسے اللہ تعالیٰ ہلاک کر دے گا.پس اس حکم کے مطابق قرآن کریم کی ہر سورۃ کی ابتداء میں بِسْمِ اللّٰہِ رکھی گئی تاکہ یہود و نصاریٰ پر خصوصاً اور باقی دُنیا پر عموماً حجت ہو اور اس حکم کی موجودگی میں رسول کریم صلعم کی کامیابی اور ترقی کو دیکھ کرہرحق کا متلاشی یہ سمجھ لے کہ آپؐ نے جو کچھ کہا خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا.اگر ایسا نہ ہوتا تو جب خدا تعالیٰ کا نام لے کر آپؐ نے اس کلام کو پیش کیا تھا کیوں آپؐ ہلاک نہ ہوتے؟ پس بسم اللہ یہود پر خصوصاً حجت ہے.ہر سورۃ کے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ رکھ کر گویا ایک سو چودہ دفعہ یہود کو ملزم بنایا گیا ہے اور محمدؐ رسول اللہ صلعم کی صداقت کی ایک سو چودہ دلیلیں پیش کی گئی ہیں.اگر صرف قرآن کریم کے شروع میں یہ آیت ہوتی تو یہ بات حاصل نہ ہو سکتی تھی.بِسْمِ اللّٰہِ میں قرآن مجید کے پڑھنے والوں کی راہنمائی چوتھی وجہ اس آیت کو ہر سورۃ کے شروع میں رکھنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے والا تین حال سے خالی نہیں یا تو وہ تہی دست اور بے سرمایہ ہو گا یا گناہوں کے ارتکاب سے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو بھڑکا چکا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچنے کا کوئی طبعی ذریعہ اس کے پاس نہ ہو گا یا پھر وہ دین کی راہ میں قربانی کرنے والا ہو گا.یہ ظاہر ہے کہ ان تینوں قسم کے لوگوںکی قلبی کیفیت الگ الگ ہو گی.پہلی قسم کا انسان حیران دوسری قسم کا مایوس اور تیسری قسم کا مغرور ہو سکتاہے.پہلی قسم کا انسان اس حیرانی میں مبتلا ہو گا کہ میں کہاں سے صداقت تلاش کروں؟ دوسری قسم کا انسان اس غم میں گھلا جا رہا ہو گا کہ میں کس منہ سے مانگوں؟ اور تیسری قسم کا اس اثر کے نیچے ہو گا کہ جو کچھ حاصل ہو سکتا تھا مجھے حاصل ہو گیا.دل کی ان تینوں کیفیتوں کے ماتحت انسان نفع حاصل کرنے سے محروم رہ جاتا ہے.پس ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رکھا گیا تا جو تہی دست ہے اسے راستہ بتایا جائے کہ تہی دستوں کی مدد کرنے والا ایک خدا موجود ہے جو بغیر استحقاق کے فضل کرتا ہے اور جو نافرمانی کر کے اپنا حق کھو چکا ہے اسے توجہ دلائی جائے کہ مایوس نہ ہو.جس خدا نے یہ سورۃ اُتاری ہے وہ گناہوں کو بخشنے پر بھی آمادہ رہتا ہے اور جو قربانی کی وجہ سے مغرور ہو رہا ہو اُسے توجہ دلائی جائے کہ خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے خزانے غیر محدود ہیں.پس کسی ایک جگہ پر قدم نہ روک کہ ابھی غیرمتناہی ترقیات باقی ہیں.ظاہر ہے کہ دل

Page 29

کی اس قسم کی اصلاح کے بعد قرآنی مطالب جس طرح کھل سکتے ہیں اس کے بغیر نہیں کھل سکتے.پس ہر سورۃ سے پہلے اس آیت کو رکھ کر قرآنی مطالب کے اظہار کا ایک زبردست ذریعہ مہیا کیا گیا ہے.پانچویں وجہ اس آیت کو ہر سورۃ سے پہلے رکھنے کی یہ ہے کہ یہ ہر سورۃ کے لیے کنجی کا کام دیتی ہے.تمام دینی اور روحانی مسائل رَحْمٰن اور رَحِیْم دو صفات کے گرد چکر کھاتے ہیں.چونکہ غلط فہمی دو طرح دور ہوتی ہے کبھی تفصیل سے اور کبھی اِجمال سے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہر سورۃ کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہِ رکھ دی تاکہ سورۃ کے مطالب میں جو اشتباہ پیدا ہواُسے پڑھنے والا بِسْمِ اللّٰہِ سے دُور کر لے یعنی جو مطلب وہ سمجھتا ہے اگر رحمٰن اوررحیم کے مطابق ہو تو اسے درست سمجھے اور اگر اس کے خلاف ہو تو اسے غلط قرار دے.اس طرح بِسْمِ اللّٰہِ کی شارح سورۃ ہو جاتی ہے اور سورۃ کی مفسّر بسم اللہ اور دونوںکی مدد سے صحیح مفہوم پڑھنے والے کے ذہن نشین ہو جاتا ہے.بِسْمِ اللّٰہِ کا ذکر پہلی کتب میں بِسْمِ اللّٰہِ کے متعلق عیسائیوں کا اعتراض کہ وہ پہلی کتب سے نقل کی گئی ہے بعض معترضین کہتے ہیں کہ بِسْمِ اللّٰہِ جس پر تم کو اس قدر ناز ہے پہلی کتب میں بھی پائی جاتی ہے مثلاً زر دشتی کتب میں بھی لکھا ہےکہ بنام یزدان بخشائش گر دادار بعد کی فارسی میں اس کا اس طرح ترجمہ کیا ہے.بنام خداوند بخشایندہ بخشائش گر (تفسیر ریورنڈوھیری جلد ۱ صفحہ ۲۸۹) یا یہ کہ یہود میں بھی بسم اللہ کا رواج تھا.ان سے سیکھ کر عربوں میں رائج ہوا اور پہلے پہل طائف کے امیر نے اس کا رواج دیا.(راڈول ترجمہ قرآن صفحہ ۱۹) بِسْمِ اللّٰہِ کے پہلی کتب سے نقل کئے جانے کے اعتراضات کا جواب راڈول کا جواب تو یہ ہے کہ یہ قطعاً غلط ہے کہ عربوں میں اس صورت میںبِسْمِ اللّٰہِ کا رواج تھا عرب تو اَلرَّحْمٰن کے کثرت استعمال کو پسند ہی نہ کرتے تھے بہرحال اس کا کوئی تاریخی ثبوت چاہیے کہ ان میںبِسْمِ اللّٰہِ اس شکل میں رائج تھی مگر ایسا ثبوت ہر گز موجود نہیں.باقی رہا کہ یہود میں بھی اس کا رواج تھا اگراس سے یہ مراد ہے کہ زمانہ نبوی یا قریب زمانہ میں یہود کی قوم اس عبارت کو استعمال کیا کرتی تھی یا ان کی تاریخ میں اس کا ثبوت ملتا ہے تو یہ بالکل خلاف واقعہ ہے اور اگر یہ مراد ہے کہ خود قرآن کریم میں ہی لکھا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے اس آیت کو اپنے خط میں استعمال کیا تو یہ اوّل درجہ کی بددیانتی ہے کہ قرآن کریم کے حوالہ کو دوسروں کی طرف منسوب کر کے قرآن کریم پر اعتراض کا ذریعہ بنایا جائے.جب خود قرآن کریم حضرت سلیمان علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ انہوں نے ملکہ سباء کو جو خط لکھا تھا اس

Page 30

میں یہ عبارت بھی تھی کہ اِنَّهٗ مِنْ سُلَيْمٰنَ وَ اِنَّهٗ بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ (النمل:۳۱) تو پھر یہ کہنا کہ مسلمانوں کا یہ دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے اس آیت کا مضمون دُنیا میں رائج نہ تھا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ اسلام کا یہ دعویٰ نہیں کہ اس آیت کا مضمون نیا ہے.اللہ.رحمٰن.رحیم یہ سب ہی لفظ پہلے موجود تھے اور استعمال ہوتے تھے.اسلام کا تو یہ دعویٰ ہے کہ اس کا وہ استعمال جو قرآن کریم میں ہوا ہے اس سے پہلے موجود نہیں.اگر کوئی دشمن اسلام اس کا ثبوت پیش کرے تو بیشک اس کی بات قابلِ توجہ ہو سکتی ہے مگر یہ ناممکن ہے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی ایسی کتاب نہیں جس کی نسبت دعویٰ کیا گیا ہو کہ اس کا ہر ہر لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پس کوئی آسمانی کتاب نہیں جس کے ہر ٹکڑے سے پہلے یہ عبارت درج کی جا سکے سوائے قرآن کریم کے.باقی رہا تبرک کے طو رپر اللہ اور اس کی صفات کا ذکر اپنے خطوں یا مضمونوں سے پہلے کرنا.سو یہ عام بات ہے.اس کا نہ اسلام کو انکار ہے نہ مسلمانو ںکو.اس امر میں اگر دوسرے لوگ مسلمانوں کے شریک ہوں توہزار دفعہ ہوں.باقی رہا ریورنڈوھیری کا اعتراض.سو اس کا بھی ایک جواب اوپر آ چکا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ دونوں عبارتوں کے معنوں میں اس قدر فرق ہے کہ وہی ان کو ہم معنی قرار دے سکتا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہو.بخشائش گر اور دادار کا مفہوم رحمٰن اور رحیم کے مفہوم کا بیسواں حصہ بھی تو نہیں.(جیسا کہ اس سورۃ کے متعلق تفسیری نوٹوں سے معلوم ہو جائے گا) لیکن جس حد تک اس میں خوبی ہے اس کا ہمیں انکار نہیں.اسلام کا دعویٰ ہے کہ پہلی سب قوموں میں نبی گزرے ہیں اور آیت وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر :۲۵) اس پر شاہد ہے پھر اگر کوئی اچھا فقرہ زرد شتیوں کی کتب میں موجود ہو تو مسلمانوں کو کیوں بُرا لگنے لگا.برُا تو ریورنڈوھیری یا ان کے ہم مذہب لوگوں کو لگے گا.جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں اور بنو اسرائیل کی قوم سے باہر نبوت اورالہام کا نشان انہیں کہیں نہیں ملتا.اسلامی نقطہ نگاہ سے زردشت خدا کا پیغامبر ہے اور ہمارے لئے واجب صد احترام.اس کے کلام کا منبع قرآن کا منبع ہے.پس ان دونوں میں اشتراک یا موافقت کونسا قابلِ تعجب امر ہے! لفظ اللّٰہ کے عَلم ہونے کے متعلق خلیل اور سیبویہ کا خیال پہلے حلِّ لُغات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ کے لفظ کے بارہ میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اسم مشتق ہے مگر جیسا کہ وہاں پر ثابت کیا جاچکا ہے یہ سب خیال غلط ہیں اور اَئمہ نحوان کو ردّ کرتے ہیں چنانچہ سیبویہ اور خلیل دونوں کا خیال ہے کہ اللّٰہ َعلم ہے اور کسی دوسرے لفظ سے مشتق بھی نہیں ہے.(تفسیر کبیرلامام فخر الدین رازی تفسیر سورۃ الفاتحۃ الباب التاسع فی المباحث المتعلقة بقولنا ’’اللہ‘‘) اس کے دلائل مختلف علماء نے یہ دیئے ہیں کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے مستعمل نہیں ہے حتیّٰ کہ

Page 31

عرب کے مشرک بھی اور کسی معبود کے لئے یہ لفظ نہیں بولتے تھے.اگر ال اور الٰہ یا ال اور لٰہ سے یہ لفظ بنا ہوتا تو جس طرح یہ لفظ اوروں کے لئے بولے جاتے ہیں.اللہ کا لفظ بھی بولا جاتا مگر عرب ایسا ہر گز نہ کرتے تھے.(۲) صفات الٰہیہ ہمیشہ اللہ کے لئے بطور صفت کے استعمال ہوتی ہیں لیکن اللہ کا لفظ اور کسی اسم کے لئے بطور صفت استعمال نہیں کیا جاتا اور یہی اصل علامت َعلم کی ہے.لفظ اللہ کے استعمال کے متعلق بعض شبہات کا ردّ بعض کہتے ہیں کہ سورۃ ابراہیم میں ہے اَلْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ.اللّٰہُ(ابراہیم:۲،۳) اس میں اللہ بطور صفت استعمال ہوا ہے لیکن یہ درست نہیں.اس میں صفت کے طور پر نہیں بلکہ عطف بیان کے طور پراستعمال ہوا ہے اور اس موقع پر عَلَم کا استعمال جائز ہے.جیسے کہتے ہیں ھٰذِہِ الدَّارُ مِلْکٌ لِلْعَالِمِ الْفَاضِلِ زَیْدٍ.ایسے موقع پر عَلَم کا استعمال اشتباہ کے دُور کرنے کے لئے ہوتا ہے اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ عزیز اور حمید سے مراد ہماری اللہ ہے.بعض کہتے ہیں کہ ھُوَ اللّٰہُ فِیْ السَّمٰوٰتِ وَ فِیْ الْاَرْضِ (الانعام:۴) سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عَلَم نہیں بلکہ صفاتی نام ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ جب کوئی نام اپنی صفات کے ساتھ مشہور ہو جاتا ہے تو وہ بھی صفاتی رنگ میں استعمال ہونے لگتا ہے جیسے حاتم.رستم کہ ہیں توخاص اشخاص کے نام لیکن ایک سخاوت اور دوسرا بہادری کے لئے مشہور ہو گیا ہے اور اب حاتم کو سخی کی جگہ اور رستم کو بہادر کی جگہ استعمال کرتے ہیں.مثلاً فلاں شخص رستم ہے فلاں حاتم ہے.اسی طرح اللہ کا لفظ چونکہ اپنی صفات کے ساتھ ایک کامل ہستی پر دلالت کرنے لگ گیا اس لئے یُوں کہنا جائز ہو گیا کہ آسمان میں وہی اللہ ہے یعنی تمام صفات میں کامل ذات جس کا نام اللہ ہے ایک ہی ہے اور دوسرا کوئی اس کے نام میں شریک نہیں اور نہ کام میں.اللہ کا ال اصل ہے بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لفظ فَعَّال کے وزن پر ہے پس اس پر تنوین آنی چاہیے لیکن استعمال میں تنوین نہیں آئی پس معلوم ہوا کہ ال اس کے اصلی حروف سے نہیں بلکہ ال تعریف کا ہے پس یہ لفظ مرکب ہوا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہر قاعدہ میں استثناء ہوتے ہیں.اللہ کے لفظ پر تنوین کا نہ آنا بھی ایک استثناء کی صورت ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ال پر اگر ندیٰ کا حرف آئے تو اس کے بعد اَیُّہَا کا لفظ بڑھایا جاتا ہے.مثلاً اگر النّاس کو بلانا ہو تو کہیں گے یٰٓـاَ یُّہَا النَّاسُ لیکن یَا اَیُّہَا اللّٰہ نہیں کہا جاتا جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اللّٰہ کا ال اصلی ہے ال تعریف کا نہیں ہے.بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں.کہ چونکہ اللہ کے لفظ کا ہمزہ وصلی ہے اس سے معلوم ہوا کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں بلکہ

Page 32

زائد ہے اسی طرح جب اللہ پر لام آتا ہے یعنی لِللّٰہ کہتے ہیں.تو الف گر جاتا ہے یہ بھی ثبوت ہے کہ یہ اصلی ہمزہ نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ ہمزہ کا گر جانا زائد ہمزہ کی علامت نہیں.اسم اور ابن کے ہمزے زائد نہیں ہیں بلکہ دوسرے حرف کے قائم مقام ہیں اور یہ بھی گر جاتے ہیں.چنانچہ بِسْمِ اللّٰہِ میں اسم کا ہمزہ گر گیا ہے حالانکہ وہ ہمزہ زائد نہیں بلکہ تبدیل شدہ ہے پس معلوم ہوا کہ ہمزہ کا وصلی ہونا یا گر جانا اس کے زائد ہونے کا ثبوت نہیں.غرض اللہ کے لفظ کا استعمال اسلام اور اسلام سے پہلے دونوں ہی زمانہ میں اس کے عَلَم اور غیر مشتق ہونے پر دلالت کرتا ہے او رجو دلائل اس کی بعض خصوصیات کی وجہ سے اس کے مشتق ہونے کے دیئے گئے ہیں وہ درست نہیں ہیں بلکہ دوسری مثالوں سے ان کی غلطی ثابت ہے.بِسْمِ اللّٰہِ میں اسم کی زیادتی ایک اور سوال اس جگہ پیدا ہوتا ہے کہ کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اللہ کی مدد مانگتے ہوئے قرآن کریم پڑھتا ہوں او رکہا یہ گیا ہے کہ اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں.نام کا لفظ کیوں زیادہ کیا گیا ہے ؟ اس کے مفصّلہ ذیل جواب ہیں.(۱) باء استعانت کے علاوہ قسم کے لئے بھی آتی ہے اگر خالی بِاللّٰہ ہوتا تو شُبہ ہو سکتا تھا کہ شائد قسم کھائی گئی ہے پس اس شبہ کے ازالہ کے لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا (۲) اللہ تعالیٰ کی ذات مخفی ہے اور صفات ہی سے وہ پہچانا جاتا ہے.اس لئے اسم کا لفظ بڑھایا گیا.اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کے ذکر سے مُراد بھی یہی ہے کہ میں خدا تعالیٰ سے اس کی رحمانیّت اور رحیمیّت کا واسطہ دے کر مدد طلب کرتا ہوں (۳) یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں بھی برکت ہے اور ان کی طرف انسان کو توجہ رکھنی چاہیے (۴) قرآن کریم ایک بند خزانہ ہے اور جب کوئی کسی ایسے مکان میں جس میں داخلہ بلا اجازت ممنوع ہو داخل ہوتا ہے تو اس کے محافظوں کو یا مکین کو مالک کا حکم یا اجازت دکھاتا ہے یا اس کا ذکر کرتا ہے چنانچہ پولیس جب کسی کے گھر میں داخل ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ حکومت کے نام پر ہم داخل ہو رہےیا فلاں مال پر قبضہ کرتے ہیں پس اس جگہ نام کا لفظ بڑھا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو شخص بِسْمِ اللّٰہِ پڑھ کر قرآن کریم پڑھتا ہے وہ گویا قرآن کریم کی خدمت پر مامور فرشتوں سے کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خود اس سورۃ کے پڑھنے کا حکم دیا ہے پس میرے لئے اس کے مطالب کے دروازے کھول دو اور وہ اختصاراً اس مضمون کو یوں ادا کرتا ہے کہ اللّٰہ، رَحْمٰن ، رَحِیْم کے نام پر اس خزانہ کے کھولے جانے کی میں درخواست کرتا ہوں.ظاہر ہے کہ جو اس طرح خدا تعالیٰ کے اذن سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہو گا.اس کے علوم سے حصہ پائے گالیکن جو اس کے اِذن اور اس کے نام سے توجہ نہیں کرے گا بلکہ شرارت اور بُغض سے توجہ کرے گا اس کے لئے

Page 33

اس کے خزانے نہیں کھولے جائیں گے.پانچویں اور چھٹی حکمت اس کی ان دو پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کرنا ہے جو استثناء باب ۱۸آیت ۱۸ اور آیت ۲۰ میں مذکو رہیں او رجن کا ذکر مَیں اس سوال کی بحث میں کر آیا ہوں کہ ہر سورۃ کے شروع میں بِسْمِ اللّٰہِ کیوں دہرائی گئی ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں لکھا تھا کہ وہ خدا کا نام لےکر کلام الٰہی سنائے گا پس ان پیشگوئیوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ضروری تھا کہ اسم کا لفظ اس جگہ بڑھایا جاتا.اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۲ ہر (قسم کی) تعریف اللہ (ہی) کا حق ہے (جو٭) تمام جہانوں کا رب (ہے) حَلّ لُغَات.اَلْحَمْدُ.حَـمْدٌ کے معنی تعریف کے ہیں.عربی میں تعریف کے لئے کئی الفاظ آتے ہیں.حمد.مدح.شکر اور ثناء میں فرق حمد.مدح.شکر.ثناء.اللہ تعالیٰ نے حمد کا لفظ چنا ہے جو بلاوجہ نہیں.شکر کے معنی احسان کے اقرار اور اس پر قدردانی کے اظہار کے ہوتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ استعمال ہو تو صرف قدردانی کے معنی ہوتے ہیں.ظاہر ہے کہ حمد اس سے زیادہ مکمل لفظ ہے کیونکہ حمد صرف احسان کے اقرار کا نام نہیں ہے بلکہ ہر حسین شیَ کے حسن کے احساس اور اس پر اظہار پسندیدگی اور قدردانی کا نام بھی ہے.پس یہ لفظ زیادہ وسیع ہے.دوسرا لفظ ثَنَاء ہے.ثناء کے اصل معنے دُہرانے کے ہوتے ہیں اور تعریف کو ثناء اس لئے کہتے ہیں کہ ذکر خیر لوگوں میں پھیل جاتا ہے اور لوگ وقتاً فوقتاً اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں (مفردات امام راغب) یہ ظاہر ہے کہ ثناء میں ذاتی تجربہ سے زیادہ لوگوں میں ذکر خیر کے پھیلنے کی طرف اشارہ ہے اور گو یہ ایک خوبی ہے لیکن بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو ذاتی تعلق ہوتا ہے اس پر یہ لفظ اس قدر روشنی نہیں ڈالتا جس قدر کہ مدح کا لفظ ڈالتا ہے کیونکہ یہ لفظ ذاتی تشکر اور احسان مندی پر زیادہ دلالت کرتا ہے.مدح کے معنی اب رہا مَدَح.سو مدح کا لفظ جھوٹی اور سچی دونوں قسم کی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن نوٹ.آیت اوّل اور آیت دوم میں صفت کے ترجمہ میں فرق ہے.پہلی آیت میں ’’جو ‘‘ اور ’’ہے‘‘ کو ظاہر کیا گیا ہے لیکن دوسری آیت میں دونوں لفظوں کو خطوط میں رکھا گیا ہے اس کی وجہ ترجمہ کی دقت ہے.دوسری آیت میں چونکہ فقرہ مکمل تھا.وہاں ’’جو‘‘ اور ’’ہے‘‘ کے ظاہر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی.پہلی آیت میں فقرہ میں ’’ہے‘‘ کا لفظ ظاہر نہ تھا.اس لئے وہاں مقدر کو ظاہر کرنا پڑا.آئندہ بھی جہاں جہاں یہ فرق ہو گا ترجمہ میں فرق کیا جائے گا.

Page 34

حَمد صرف سچی تعریف کے لئے استعمال ہوتا ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے اُحْثُوْا فِیْ وُجُوْہِ الْمَدَّاحِیْنَ التُّرَابَ (مسند احمد بن حنبل حدیث المقداد) جھوٹی تعریف کرنے والوں کے مونہوں پر مٹی ڈالو.اسی طرح مدح ان اعمال کے متعلق بھی ہو سکتی ہے جو بغیر اختیار کے ہوں لیکن حمد انہی اعمال کے متعلق ہوتی ہے جو اختیار اور ارادہ سے کئے جائیں (مفردات امام راغب) پس حمد کا لفظ مدح سے بہرحال افضل ہے اور اللہ تعالیٰ کے متعلق زیادہ مناسب.یہ جو میں نے کہا تھا کہ ثنا ایسی تعریف پر دلالت کرتا ہے جو لوگوں میں پھیل جائے اور یہ بھی ایک خوبی ہے.اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ حمد کے لفظ سے یہ خوبی تو پیدا نہ ہوئی تو اس کا جواب یہ ہے کہ الحمد کے الفاظ سے یہ خوبی بھی پیدا ہو گئی ہے کیونکہ ال استغراق کے معنی دیتا ہے یعنی تمام افراد کو اپنے اندر شامل کر لیتا ہے پس اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے معنے ہوئے.سب قسم کی تعریف.اور ہر شخص کی تعریف اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہے اور اسی کا حق ہے ان معنوں میں ذکر خیر کی کثیر اشاعت آ جاتی ہے بلکہ ثناء سے بھی زیادہ اس عبارت سے اللہ تعالیٰ کی حمد کی اشاعت کا مفہوم نکلتا ہے.رَبّ ربّ کے معنی اِنْشَائُ الشَّیْ ئِ حَالًا فَـحَالًا اِلٰی حَدِّ التَّـمَامِ کے ہیں (مفردات امام راغب) یعنی کسی چیز کو پیدا کر کے تدریجی طور پر کمال تک پہنچانا.خالی تربیت کے معنی بھی یہ دیتا ہے.خصوصاً جبکہ انسان کی طرف منسوب ہو مثلاً قرآن کریم میں ماں باپ کی نسبت آتا ہے.كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا (بنی اسرائیل :۲۵) یا اللہ! میرے ماں باپ پر رحم فرما جس طرح انہوں نے اس وقت میری تربیت کی جبکہ میں چھوٹا تھا.ربّ کے معنی مالک کے بھی ہوتے ہیں.(اقرب) اسی طرح سردار اور مُطَاع کے بھی (اقرب) جیسے قرآن کریم میں حضرت یوسفؑ کا قول ہے اذْكُرْنِيْ عِنْدَ رَبِّكَ (یوسف:۴۳) اور مصلح کے بھی معنی ہیں (اقرب) ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہو سکتا ہے.لیکن بغیر اضافت کے مطلق رب کا لفظ کبھی غیر اللہ کے لئے استعمال نہیں ہو سکتا.مثلاً رَبُّ الدَّارِ.گھر کا مالک یا رَبُّ الْفَرَسِ.گھوڑے کا مالک تو انسان کو کہہ سکتے ہیں مگرجب خالی یہ کہیں کہ رب نے یوں کہا ہے یا کیا ہے تو اس کے معنے صرف اللہ تعالیٰ کے ہوںگے (مفردات امام راغب) ربّ کے معنے مفسرین نے خالق کے بھی کئے ہیں.( البحرالمحیط) اَلْعَالَمِیْنَ عَالَمٌ کی جمع ہے اور مخلوق کی ہر صنف اور قسم عالم کہلاتی ہے.(مفردات امام راغب) اور عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْنَ کے سوا اس کی جمع عَلَالِمُ یا عَوَالِمُ بھی آتی ہے اور غیر ذوی العقول کی صفات میں سے ون یا یان سے صرف عَالَم یا یَاسَم دو لفظوں کی جمع بنتی ہے.اور عالم مخلوق کو اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے خالق کا پتہ

Page 35

لگتا ہے (اقرب) بعض مفسرین نے کہا کہ عَالَمٌ کی جمع عَالَمُوْنَ یا عَالَمِیْنَتب بنائی جاتی ہے جبکہ ذوی العقول کا ذکر ہو.مثلاً انسان، فرشتے وغیرہ.مگر یہ قاعدہ لغت کے بھی خلاف ہے.اور قرآن کریم کے محاورہ کے بھی خلاف.لغت کا حوالہ اوپر گزر چکا ہے.قرآن کریم کی یہ آیت اس پر شاہد ہے.قَالَ فِرْعَوْنُ وَ مَا رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ.قَالَ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ مُّوْقِنِيْنَ.قَالَ لِمَنْ حَوْلَهٗۤ اَلَا تَسْتَمِعُوْنَ.قَالَ رَبُّكُمْ وَ رَبُّ اٰبَآىِٕكُمُ الْاَوَّلِيْنَ.قَالَ اِنَّ رَسُوْلَكُمُ الَّذِيْۤ اُرْسِلَ اِلَيْكُمْ لَمَجْنُوْنٌ.قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَيْنَهُمَا١ؕ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ.(الشعر اء:۲۴تا۲۹) اس آیت میں عَالَمِین میں انسانوں کے سوا آسمان زمین اور ان کے درمیان کی سب اشیاء اور مغرب اور مشرق اور ان کے درمیان کی سب اشیاء کو عالمین میں شامل بتایا گیا ہے.اسی طرح سورۃ حٰـمٓ سجدہ میں ہے.قُلْ اَىِٕنَّكُمْ لَتَكْفُرُوْنَ بِالَّذِيْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِيْ يَوْمَيْنِ وَ تَجْعَلُوْنَ لَهٗۤ اَنْدَادًا١ؕ ذٰلِكَ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ.وَ جَعَلَ فِيْهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بٰرَكَ فِيْهَا وَ قَدَّرَ فِيْهَاۤ اَقْوَاتَهَا فِيْۤ اَرْبَعَةِ اَيَّامٍ١ؕ سَوَآءً لِّلسَّآىِٕلِيْنَ (حٰمٓ سجدہ :۱۰،۱۱) اس آیت میں بھی زمین اور پہاڑوں وغیرہ کو عالمین میں شامل کیا گیا ہے.اَلْعَالَمِیْنَ کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک حضرت مسیح موعود ؑ بھی تحریر فرماتے ہیں.اَنَّ الْعَالَمِیْنَ عِبَارَۃٌ عَنْ کُلِّ مَوْجُوْدٍ سِوَی اللّٰہِ … سَوَائً کَانَ مِنْ عَالَمِ الْاَرْوَاحِ اَوْمِنْ عَالَمِ الْاَجْسَاِم… اَوْ کَالْشَّمْسِ وَالْقَمَرِ وَغَیْرِ ھِمَا مِنَ الْاَجْرامِ (اعجاز المسیح.روحانی خزائن جلد۱۸صفحہ ۱۳۹،۱۴۰) یعنی عالم سے مراد جاندار اور غیر جاندار سب اشیاء ہیں.اسی طرح سورج، چاند وغیرہ کی قسم کے اجرام فلکی.غرض سب جاندار یا غیر جاندار اس میں شامل ہیں.جو صرف ذوی العقول کے لئے اسے قرار دیتے ہیں.وہ مَا ھُوَ اِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ(القلم :۵۳) کی آیت سے استدلال کرتے ہیں مگر یہ استدلال درست نہیں.کیونکہ جب اس کا استعمال غیر ذوی العقول کے لئے قرآن کریم میں موجود ہے تو اس آیت کے متعلق صرف یہ کہا جائے گا کہ عام لفظ خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں یہی لفظ اس سے بھی خاص معنوں میں استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَ اَنِّيْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ(البقرۃ :۴۸) اے یہود! ہم نے تم کو سب جہانوں پر فضیلت دی ہے حالانکہ مراد صرف اپنے زمانہ کے لوگ ہیں نہ کہ ہر زمانہ کے لوگ.کیونکہ خیر الامم مسلمانوں کو کہا گیا ہے.پس خاص معنوں کا استعمال جبکہ عام معنوں میں یہ لفظ استعمال ہو چکا ہے اس کے معنوں کو محدود نہیں کرتا.اور حق یہی ہے کہ عَالَمِیْن میں ہر قسم کی مخلوق شامل ہے.خواہ جاندار ہو یا غیرجاندار.تفسیر.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ میں اللہ کی حمد کرتا ہوں نہ یہ کہ ہم کرتے ہیں.بلکہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ

Page 36

فرمایا ہے.اس طرح کئی معانی پیدا کر دیئے گئے ہیں.اوّل مصدر کے استعمال سے معروف اور مجہول دونوں معنی پیدا کر دیئے گئے ہیں یعنی یہ بھی کہ سب حمد جو مخلوق کر سکتی ہے یا کرتی ہے خدا تعالیٰ کو ہی پہنچتی ہے اور وہ سب قسم کی تعریفوں کا مستحق ہے.کوئی اچھی بات نہیں جو اس میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی بُری بات نہیں جس سے وہ پاک نہ ہو اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کی صحیح حمد کر سکتا ہے کیونکہ وہ عالم الغیب ہے.بندے بندے کی تعریف کرتے ہیں لیکن بسا اوقات وہ غلط ہوتی ہے بعض دفعہ جس قدر کسی میں خوبی ہوتی ہے اس کا اظہار نہیں کر سکتے اور بعض دفعہ ایسی تعریف کرتے ہیں جو موصوف میں پائی نہیں جاتی.پس اصل حمد وہی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو بلکہ دوسرے لوگ تو الگ رہے انسان خود اپنی نسبت رائے قائم کرنے میں غلطی کر جاتا ہے اور اپنی طاقتوں کا غلط اندازہ لگا لیتا ہے مگر جو بات خدا تعالیٰ بندہ کے متعلق فرماتا ہے نہ اس میں کوئی کمی ہوتی ہے نہ زیادتی.اگر اَلْحَمْدُ کی بجائے اَحْـمَدُ یا نَـحْمَدُ کے الفاظ ہوتے تو یہ معنی پیدا نہ ہو سکتے تھے.نیز اگر حـمد کا صیغہ فعل استعمال کیا جاتا یعنی یہ کہا جاتا کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں تو یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ شاید انسان اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن یہ درست نہیں.انسان کی حمد محدود ہوتی ہے اور وہ صرف اپنے علم کے مطابق حمد کرتا ہے.حالانکہ اللہ تعالیٰ میں اس کے سوا غیر محدود اسباب حمد کے اور بھی پائے جاتے ہیں.غرض اَحْـمَدُ یا نَـحْمَدُ سے جو معنے پیدا ہو سکتے تھے وہ بھی اَلْـحَمْدُ میں پائے جاتے ہیں اور ان سے زائد بھی.اس لئے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کے الفاظ کا اس مختصر سورۃ میں رکھنا جو سب مطالب کی جامع ہے ضروری تھا.بیشک قرآن کریم میں حمد مخلوق کی طرف بھی منسوب ہوئی ہے جیسا کہ فرمایا وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ (البقرۃ :۳۱) لیکن کہیں بھی اَحْمَدُ یا نَحْمَدُکے الفاظ مخلوق کی طرف منسوب نہیں ہوئے.گو نُسَبِّحُ اور نُقَدِّسُ کے الفاظ یا یُسَبِّحُ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اس میں اس امر کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ خالص حمد کا مکمل طور پر سمجھنا بندہ کی شان سے بالا ہے حدیثوں میں یہ الفاظ آتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں الفاظ کے اور معنے ہوتے ہیں اور بندہ کے کلام میں اور.بندہ جب اپنی طرف سے ایک لفظ بولتا ہے تو اس کے معنے اتنے وسیع نہیں لئے جاتے جتنے وسیع کہ اس وقت لئے جاتے ہیں جب خدا تعالیٰ کے کلام اور پھر کلام شریعت میں وہ الفاظ آئیں.لِلّٰہ کے الفاظ سے اس شبہ کو بھی دُور کیا ہے کہ حمد تو انسانو ںکی بھی کی جاتی ہے.پھر سب تعریف خدا تعالیٰ کی کس طرح ہوئی؟ اور وہ اس طرح کہ لام ملکیت ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے.پس لام کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا

Page 37

ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد حقیقی ہوتی ہے اور غیر اللہ کی طفیلی کیونکہ انسان میں جو خوبیاں پائی جاتی ہیں ذاتی نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے عطا شدہ ہوتی ہیں.پس جو تعریف کسی انسان کی کی جاتی ہے اس کا بھی اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے.آیت کے مطالب اَلْـحَمْدُ لِلہِ کی آیت کے دس مطالب اس آیت کے بعض مطالب ذیل میں لکھے جاتے ہیں.(۱) اس جہان کا خالق سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع ہے (۲) وہ تمام مخلوق کی ُکنہ اور حقیقت سے واقف ہے اور اس کے سوا کوئی شخص بھی کسی چیز کی کامل ماہیت سے واقف نہیں.اس دعویٰ کا روشن ثبوت سائنس کی ترقی سے مل چکا ہے.مختلف اشیاء کی تحقیق میںسینکڑوں علماء لگے ہوئے ہیں لیکن اب تک ادنیٰ سے ادنیٰ شے کی کامل حقیقت سے بھی کوئی آگاہ نہیں ہو سکا.اور ہر چیز کے متعلق تازہ انکشافات ہوتے چلے جا رہے ہیں.(۳) خدا تعالیٰ کامل حمد کا مالک تب ہی ہو سکتا ہے کہ وہ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہو.اگر رَبُّ الْعَالَمِیْن نہ ہو تو وہ کامل حمد کا مالک نہیں ہو سکتااس لئے ضروری ہے کہ جس طرح اس کا جسمانی نظام سب کے فائدہ میں لگا ہوا ہے اس کا روحانی نظام بھی سب پر حاوی ہو.اور کوئی ملک اور کوئی قوم روحانی ترقی کے سامانوں سے محروم نہ ہو.پس اگر کوئی الہام کسی خاص قوم سے مخصوص ہے تو دوسری قوم کے لئے الگ الہام نازل ہونا چاہیے.اور جب دوسری قوموں کے لئے الگ الہام نازل نہ ہو تو ایسے وقت میں جو الہام نازل ہو وہ سب دنیا کی ہدایت کے لئے ہونا چاہیے (پس جو مذاہب اس امر کے قائل ہیں کہ الہام صرف انہی کی قوم کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہے یا یہ کہ نجات صرف انہی کی قوم یا مذہب کا حق ہے غلطی پر ہیں).(۴) انسانوں کے اندر جس قدر کمالات ہیں وہ سب خدا تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں.اس لئے جو نیکی بھی وہ کریں اس کی تعریف کا حقیقی مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے.(۵) حمدکو ربوبیت عالمین کے ساتھ وابستہ کر کے یہ بتایا ہے کہ حقیقی خوشی انسان کو اسی وقت ہونی چاہیے جب اللہ تعالیٰ کی صفت رب العالمین ظاہر ہو.جو شخص اپنے فائدہ پر خوش ہوتا ہے اور دُنیا کے نقصان کی طرف نگاہ نہیں کرتا وہ اسلام کی تعلیم کو نہیں سمجھتا.حقیقی خوشی یہی ہے کہ سب دنیا آرام میں ہو.(۶) یہ فرما کر کہ اللہ تعالیٰ رَبُّ الْعَالَمِیْن ہے.اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہرشے ربوبیّت کا محل ہے یعنی ارتقاء کے قانون کے ماتحت ہے.یہ بتایا ہے کہ دنیامیں کوئی چیز نہیں جس کی ابتداء اور انتہا یکساں ہو.بلکہ اللہ تعالیٰ کے ِسوا ہر چیز تغیرّ پذیر ہے اور ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ کی طرف جاتی ہے.

Page 38

جس سے دو امر ثابت ہوتے ہیں.اوّل خدا تعالیٰ کے ِسوا ہر شے مخلوق ہے کیونکہ جو چیز ترقی کرتی اور تغیرّ پکڑتی ہے وہ آپ ہی آپ نہیں ہو سکتی.آیت ھٰذا میں مسئلہ ارتقاء کے درست ہونے کی طرف اشارہ دوسرے ارتقاء کا مسئلہ درست ہے.ہر شےادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف گئی ہے خواہ انسان ہوںخواہ حیوان.خواہ نباتات ہوں خواہ جمادات.کیونکہ رَبُّ الْعَالَمِیْن کے معنی یہ ہیں کہ ہر شے کو ادنیٰ حالت سے اعلیٰ کی طرف لے جا کر اللہ تعالیٰ کمال تک پہنچاتا ہے پس ثابت ہوا کہ ارتقاء کا مسئلہ دُنیا کی ہرشے میں جاری ہے (۷) نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء مختلف وقتوں اور مدارج (STAGES) میں حاصل ہوتا ہے.کیونکہ ربّ کے معنی ہیں.اِنْشَائُ الشَّیْ ئِ حَالًافَـحَالًا اِلٰی حَدِّ التَّـمَامِ چیز کو مختلف وقتوں اور مختلف درجو ںمیں ترقی دے کر کمال تک پہنچانا (نہ کہ ایک ہی کڑی کو مکمل کرنا).(۸) یہ بھی معلوم ہوا کہ ارتقاء اللہ تعالیٰ کے وجود کے منافی نہیں.کیونکہ فرمایا کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ارتقاء کے ذریعہ سے پیدائش خدا تعالیٰ کے عقیدہ کے خلاف نہیں پڑتی.بلکہ اس سے وہ حمد کا مستحق ثابت ہوتا ہے.اسی لئے رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کے الفاظ استعمال فرمائے.(۹) انسان لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو لامتناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا گیا ہے.کیونکہ فرماتا ہے کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے کہ وہ مختلف انواع و اقسام کی مخلوق کو ادنیٰ حالت سے اُٹھا کر اعلیٰ تک پہنچاتا ہے اور یہ مضمون صحیح نہیں ہو سکتا جب تک ہر مقام اور درجہ سے اوپر کوئی اور درجہ تسلیم نہ کیا جائے.(۱۰) سب سے آخر میں یہ کہ اس سورۃ کو جو سب سے پہلی سورۃ ہے اور قرآن کریم کے مطالب کا خلاصہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَسے شروع کر کے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل حمد اب شروع ہو گی کیونکہ اسلام جو رَبُّ الْعَالَمِیْن کی صفت کا کامل مظہر ہے سب دنیا کی طرف آیا ہے اور جسمانی عالم کی طرح روحانی عالم میں بھی اتحاد پیدا کر دیا گیا ہے پہلے جب مختلف اقوام کی طرف الگ رسول آتے تھے بعض نادان متبع دوسرے انبیاء کی تعلیم کو غلط سمجھ کر ان کی تردید کرتے تھے.ہندو کہتے ہم یہووا کو نہیں جانتے پر میشور کو جانتے ہیں یہود پر میشور پر ہنسی اُڑاتے.لیکن اسلام کے ظہور سے سب دنیا کے لئے ایک دین ہو گیا.اور ہندی اور چینی اور مصری اور ایرانی اور مغربی اور مشرقی سب خدا کی تعریف میں لگ گئے اور یہ تسلیم کیا گیا کہ ہر قوم کا خدا الگ نہیں ہے بلکہ سب اقوام کا خدا ایک ہی ہے.

Page 39

الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِۙ۰۰۳ بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا (ہے).حلّ لُغات رَحْمٰن اور رَحِیْم کے لئے دیکھیں لغت سورۃ ہذاآیت نمبر ۱.تفسیر.الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ.ان الفاظ کے معنی بِسْمِ اللّٰہِ میں بیان ہو چکے ہیں.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ ان دونوں صفات کا ذکر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ میں ہو چکا ہے پھر ان کو دُہرایا کیوں گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بِسْمِ اللّٰہِ میں ایک مستقل مضمون بیان ہوا ہے اور وہ ہر سورۃ کی کنجی ہے.اس لئے سورۃ کے مضمون میں اگر اپنے موقع پر انہی صفات کو دوبارہ بیان کیا جائے تو یہ امر تکرار نہیں کہلا سکتا.چنانچہ یہاں بھی اسی حکمت سے ان صفات کو دُہرایا گیا ہے.رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ میں یہ مضمون بتایا گیا تھا.کہ خدا تعالیٰ پیدا کر کے آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اعلیٰ ترقیات تک پہنچاتا ہے.آیت زیر تفسیر میں اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْمِ کے الفاظ سے طریق ربوبیت بتایا ہے اور وہ یہ کہ (۱) اللہ تعالیٰ رحمٰن ہے اس نے ہر چیز کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جواس کی ترقی میں ممد ہوتے ہیں اور باریک درباریک سامان پیدا کر کے مخفی در مخفی قوتوں کو قوتِ ظہور عطا فرمائی ہے اور ترقی کے ذرائع بہم پہنچائے ہیں.انسان، حیوان، نباتات، جمادات سب اپنے گرد و پیش سے متاثر ہو رہے ہیں اور اپنے قیام یا اپنی تکمیل کے سامان حاصل کر رہے ہیں (۲) وہ رَحِیْم ہے پس جب کوئی مخلوق اپنے فرائض کو اچھی طرح ادا کرتی ہے تو اس کی قدر دانی کی جاتی ہے اور اس پر خاص فضل کیا جاتا ہے اور مزید ترقی کی اس میں اُمنگ پیدا کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ لامتنا ہی طور پر چلا جاتا ہے.الرَّحْمٰنِ.لفظ الرَّحْـمٰن کا اطلاق ایسی صفت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اس کا استعمال دوسروں پر نہیں ہوتا سوائے اضافت کے.جیسا کہ مسیلمہ کذاب اپنے آپ کو رَحْمٰنِ یَمَامَہکہلواتا تھا.لفظ رحمٰن میں کفارہ کا ردّ اس کے معنی جیسا کہ بتایا جا چکا ہے بلا مبادلہ اور بلا استحقاق رحم کرنے کے ہیں اور اس مفہوم میںکفارہ کا ردّ پایا جاتا ہے کیونکہ کفارہ کی بنیاد اس خیال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ بلااستحقاق رحم نہیں کر سکتا.مسیحیوں کو اس کا اس قدر احساس ہے کہ عرب کے نصاریٰ بھی جب اپنی تصنیفات یا خطوں پر خدا تعالیٰ کا نام لکھتے ہیں تو بسم اللہ کے بعد اور صفات کا ذکر کر دیتے ہیں رَحْمٰنکا لفظ استعمال نہیں کرتے سوائے ایسے شخص کے جو اسلامی تمدن سے متاثر ہو.مثلاً یہ لکھ دیں گے.بِسْمِ اللّٰہِ الْکَرِیْمِ الرَّحِیْم یا اور کوئی صفت بیان کر دیںگے.رَحْمٰن کا

Page 40

لفظ استعمال نہیں کریں گے کیونکہ ان کا دل مانتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ رَحْمٰن ہے تو پھر اس کے لئے مسیح کا کفارہ لئے بغیربندوں کے گناہ بخشنا کچھ بھی مشکل نہیں.رَحِيْمٌکی صفت میں تناسخ کا ردّ رحیم کی صفت میں تناسخ کا رد ہےکیونکہ تناسخ کی بنیاد محدود عمل کی غیر محدود جزا نہ مل سکنے کا عقیدہ ہے صفت رحیم بتاتی ہے کہ محدود عمل کی غیر محدود جزا نہیں ملتی بلکہ نیک عمل کی خاصیت یہ ہے کہ وہ مکر ّرہوتا ہے پس اس کے بدلہ میں جزاء بھی مکرّر ملتی ہے.رَحِیْم کا لفظ باربار رحم کرنے پر دلالت کرتا ہے اور بار بار رحم کے معنے یہ نہیں کہ ایک ہی فعل کا بار بار انعام ملتا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہے کہ جو شخص نیکی کی حقیقت کو سمجھتا ہے وہ باربار نیک اعمال بجا لاتا ہے اور کم سے کم اس کے دل میں بار بار نیک عمل بجا لانے کی خواہش ضرور پائی جاتی ہے.پس ہر دفعہ جب نیک عمل کی جزا بندہ کو ملتی ہے اور نیکی کرنے کی طاقت اور اس کے بار بار بجا لانے کی خواہش اور بھی ترقی کر جاتی ہے جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اس پر پھر رحم کرتا ہے اور مومن کی نیکی کی خواہش او ربھی زیادہ ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے کاموں میں اور بھی بڑھ جاتا ہے اور اس طرح رحم بار بار نازل ہوتا جاتا ہے.گویا اللہ تعالیٰ کا رحم صرف گذشتہ فعل پر انعام کا رنگ ہی نہیں رکھتا بلکہ آئندہ نیکی کے لئے ایک بیج کا کام بھی دیتا ہے.در حقیقت محدود عمل کا خیال ہندوئوں میں محض اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ انہوں نے جنت کو بیکاری اور بے عملی کا ایک مقام سمجھ لیا ہے اور ان کو سمجھنا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ وہ نجات کے معنی نروان یعنی تمام خواہشات ا ور اعمال سے آزاد ہونا سمجھتے ہیں.پس ان کے نزدیک عمل اسی دُنیا میں ختم ہو جاتا ہے اور اس وجہ سے محدود ہوتا ہے.اور چونکہ عمل محدود ہوتا ہے ان کے نزدیک اس کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہیے.مگر اسلام بار بار رحم اور بار بار عمل کے مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور جنت کو دارالعمل ہی قرار دیتا ہے.جب خدا تعالیٰ ربّ العالمین ہے تو جنت بھی تو ایک عالمَ ہے وہاں بھی ترقی ہو گی ورنہ ربّ العالمین صحیح نہیں ٹھہرتا.اور جب انسان وہاں بھی ترقی کرے گا تو لازماً اس کے تقویٰ اور اس کی محبت الٰہی میں بھی ترقی ہو گی اورجب ان چیزوں میں ترقی ہو گی تو اس ترقی کے مقابل پر اللہ تعالیٰ کا رحم بھی پھر سے نازل ہو گا.اور جب یہ رحم اور عمل کا بار بار تبادلہ ہوتا رہے گا تو نجات کا وقت محدود کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس دنیا اور اگلے جہاں کے عمل میں صرف یہ فرق ہے کہ اس دُنیا میں تنزّلکا خطرہ بھی ساتھ لگا ہوا ہے مگر اگلے جہان میں صرف ترقی ہو گی تنزّل نہ ہو گا ورنہ روحانی عمل اور روحانی ترقی وہاں بھی ہو گی.پس محدود عمل اور غیر محدود جزا کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

Page 41

مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِؕ۰۰۴ جزا سزا کے وقت کا مالک (ہے).حل لغات.مَالِکِ.مَالِکِ.مَلَکٌ اور مَلِکٌ تین ملتے جلتے ہوئے لفظ ہیں.مالک جسے کسی چیز پر جائز قبضہ اور اقتدار حاصل ہو.مَلَکٌ.فرشتہ.اور مَلِکٌ بادشاہ یعنی جسے سیاسی اقتدار حاصل ہو.یَوْمٌ.یَوْمٌ اس کے معنی مطلق وقت کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے.اِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (الحج:۴۸) خدا تعالیٰ کا بعض دن ہزار سال کا ہوتا ہے.ایک شاعر کہتا ہے ؂ یَوْمَاہُ یَوْمُ نِدًی وَیَوْمَ طَعَانٍ میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں.یا ِتو وہ سخاوت میں مشغول ہوتا ہے یا دشمنو ںکو قتل کرنے میں.اسی طرح عرب کہتے ہیں.یَوْمَاہُ یَوْمُ نُعْمٍ وَیَوْمُ بُؤسٍ اَیْ اَلدَّھْرُ.یعنی زمانہ دو حال سے خالی نہیں یا تو انسان کے لئے نعمتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے.(لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں.اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا لَا یُرِیْدُوْنَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلٰـکِنَّھُمْ یُرِیْدُوْنَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا تو اس سے مراد چوبیس گھنٹہ والا دن نہیں ہوتا بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے.اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے.اس سے بھی مُراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے.(لسان العرب) پھر لکھا ہے وَقَدْ یُرَادُ بِالْیَوْمِ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الحَدِیْثُ تِلْکَ اَ یَّامُ الْھَرَجِ اَیْ وَقْتُہٗ (لسان العرب) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے جیسے حدیث میں ہے کہ یہ دن فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں.مراد یہ کہ یہ فتنہ اور لڑائی کا زمانہ ہے.اَلدِّیْنُ.اَلْجَزَاءُ وَ الْمُکَافَاۃُ.بدلہ.اَلطَّاعَۃُ.اطاعت.اَلْحِسَابُ.محاسبہ.اَلْقَھْرُ وَ الْغَلَبَۃُ وَالْاِسْتِعْـلَآءُ غَلَبَۃُ السُّلْطَانِ وَالْمَلَکِ وَالْحَکَمِ.تصرّف.حکومت.اَلسِّیْرَ ۃُ خصلت.اَلتَّدْ بِیْرُ.تدبیر.اِسْمٌ لِـجَمِیْعِ مَایُعْبَدُ بِہِ اللّٰہُ وہ تمام طریقے جن سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے وہ سب دین کہلاتے ہیں.یعنی شریعت.نیز اس کے معنی ہیں.اَلْمِلَّۃُ.مذہب.اَلْوَرَعُُ.نیکی.اَلْمَعْصِیَۃُ نافرمانی.اَلْحَالُ.کیفیت.اَلْقَضَائُ.فیصلہ.اَلْعَادَۃُ.عادت.اَلشَّانُ.خاص حالت.(اقرب)

Page 42

تفسیر.آیت کے یہ معنی ہوئے کہ اللہ تعالیٰ جزا سزا کے وقت کا مالک ہے.شریعت کے وقت کامالک ہے.فیصلہ کے وقت کا مالک ہے.مذہب کے زمانہ کا مالک ہے.نیکی کے زمانہ کا مالک ہے.گناہ کے زمانہ کا مالک ہے.محاسبہ کے وقت کا مالک ہے.اطاعت کے وقت کا مالک ہے.غلبہ کے وقت کا مالک ہے.خاص اور اہم حالتوں کا مالک ہے.عام طور پر تو اس کے معنی قیامت کے دن کا مالک کئے جاتے ہیں لیکن جیسا کہ ُلغت سے ظاہر ہے.یہ معنی محض تفسیری ہیں لغوی نہیں.دین کے ایک معنی جزا سزا کے ہیں.اور جزا سزا کاکامل مظاہرہ چونکہ قیامت کے دن ہو گا اس لئے مفسرین نے جزا سزا کے معنوں کی بنیاد پر اس آیت کے یہ معنی کر دیئے کہ قیامت کے دن کا مالک ہے.حالانکہ لُغت کے رو سے اس آیت کے مختلف معنی ہوتے ہیں اور سب کے سب قرآنی مطالب کے مطابق اور درست ہیں.پس کوئی وجہ نہیں کہ ایک معنوں کو تو لے لیا جاوے اور دوسروں کو چھوڑ دیا جائے.آیت مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کے پانچ معنے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے.مفسرّین اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزا سزا کے وقت کا مالک ہے.ان معنوں کے رو سے ایک تو اس آیت کی یہ تشریح ہو گی کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا مالک ہے.یعنی اس دن جزا سزا میں کسی اور کا دخل نہ ہو گا بلکہ جزا سزا صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے گی.اس طرح اس دُنیا اور اگلے جہان کے نتائج میں فرق بتایا ہے کہ اس دُنیا میں تو اچھے برُے افعال کی جزا سزا انسانوں کے ذریعہ سے بھی ملتی ہے اور اس میں لوگوں سے غلطی بھی ہو جاتی ہے مگر قیامت کے دن صرف اللہ تعالیٰ ہی جزا سزا دے گا اور یہ ناممکن ہو گا کہ کسی پر ظلم ہو اور اسے بے گناہ سزا مل جائے یا جُرم سے زیادہ سزا مل جائے.نیز مجرم کے لئے بھی ناممکن ہو گا کہ جھوٹ فریب سے کام لے کر سزا سے محفوظ ہو جائے.مَالِک اور مَلِک میں فرق نیز اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جزا سزا کے وقت صرف بطور مَلِک نہیں کام کرے گا بلکہ بطور مَالِک کام کرے گا.مَلِک یعنی بادشاہ جب فیصلہ کرتا ہے تو اس کا کام صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ انصاف کیا ہے؟ کیونکہ جن امور کا فیصلہ وہ کرتا ہے وہ مدعی اور مدعا علیہ کے حقوق کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں.اس لئے اسے یہ اختیار حاصل نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو معاف کر دے لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ بادشاہ ہی نہیں بلکہ مَالِک بھی ہے اس لئے اُسے حق حاصل ہے کہ وہ اپنے حق میں سے جس قدر چاہے معاف کر دے.اس مضمون سے ایک طرف تو امید کا ایک اہم پہلو پیدا کر دیا گیا ہے او رمایوسی سے انسان کو بچا لیا گیا ہے.دوسری طرف انسان کو ہوشیار بھی کر دیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کا خیال دل میں نہ لانا کیونکہ مالک

Page 43

ہونے کے لحاظ سے جہاں وہ رحم کر سکتا ہے وہاں اپنی پیدائش کو گندہ دیکھنا بھی برداشت نہیں کر سکتا.گویا امید اور خوف کے خیالات یکساں پیدا کر کے انسان کے اندر چستی او رہمت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے.برخلاف مسیحی نجات کی تعلیم کے کہ ایک طرف انصاف کا غلط مفہوم پیش کر کے امید کو توڑ دیا گیا ہے.دوسری طرف کفارہ کے مسئلہ کو پیش کر کے گناہ پر دلیر کر دیا گیا ہے گویا مسیحی عقیدہ کے دونو ںپہلوئوں نے پاکیزگی کی نہیں بلکہ گناہ کی مدد کی ہے.حد سے زیادہ مایوسی نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے اور حد سے زیادہ امید نے بھی گناہ ہی پیدا کیا ہے.کچھ لوگ تو پاکیزگی سے مایوس ہو کر نیکی کو چھوڑ بیٹھیں گے اور کچھ لوگ کفارہ پر توکّل کر کے گناہ پر دلیر ہو جائیںگے.انبیاء کے زمانہ میں صفت مالکیت کا خاص ظہور دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ شریعت اور مذہب کے وقت کا مالک ہے.اس میں ایک لطیف مضمون قانونِ قدرت کے بارہ میں بیان کیاگیا ہے.عام طور پر خدا تعالیٰ کا معاملہ دُنیا کے ساتھ عام قانونِ قدرت کے ماتحت ہوتا ہے.لیکن جس زمانہ میں مذہب یا شریعت کی بنیاد رکھی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ صفت مالکیت کا اظہار کرتا ہے.یعنی نہ صرف بادشاہت کا ظہور ہوتا ہے جو عام قانون سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ان دنوں مالکیت کی صفت کا خاص طور پر ظہور ہوتا ہے یعنی خاص تصرّف سے اللہ تعالیٰ کام لیتا ہے اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی صفات کی باریکیوں سے واقف نہیں بظاہر قانونِ قدرت کو ٹوٹتے ہوئے دیکھتے ہیں.ایک بیچارہ اور بے کس وجود دُنیا کے سامنے آ کر دعویٰ پیش کرتا ہے.سب لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں لیکن باوجود ظاہری سامانوں کے مخالف ہونے کے وہ شخص کامیاب ہو جاتا ہے.اسی طرح اوربہت سے معاملات میں دعائوں اور معجزات کے ذریعہ سے ایسے واقعات ظاہر ہوتے ہیں کہ دنیا انہیں دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے.در حقیقت ان واقعات کی حکمت یہی ہوتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی روحانی سلسلہ کو چلاتا ہے یا کسی شریعت کی بنیاد قائم کرتا ہے توان ایام میں اپنی ملوکیت کی نہیں بلکہ مالکیت کی صفت کو خاص طور پر ظاہر کرتا ہے.یعنی عام قانون کی بجائے اپنے خاص قانون کو جو اس کے محبوبوں سے مخصوص ہے ظاہر کرنا شروع کر دیتا ہے اور ایسے واقعات ان دنوں میں ظاہر ہوتے ہیں جو خارق عادت نظر آتے ہیں.ہر نبی کے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی سنت اسی طرح ظاہر ہوتی چلی آئی ہے.اور اس سورۃ میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں بھی اسی طرح ہو گا.خارق عادت واقعات سے جو بظاہر قانونِ قدرت کے مخالف نظر آئیں گے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدد کرے گا.اور یہ امر اس بات کا ثبوت ہوگا کہ یہ زمانہ قیام شریعت کا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.

Page 44

ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نیکی کے وقت کا اور گناہ کے وقت کا مالک ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا پر دو دَور آتے ہیں.ایک دور تو وہ ہوتا ہے جبکہ نیکی اور بدی یکساں طور پر دنیا میں پائی جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کا عام قانون دنیا میں جاری رہتا ہے لیکن ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ دُنیا میں گناہ ہی گناہ پھیل جاتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ مالک کی حیثیت سے ظاہر ہوتا ہے اور اپنے باغ کی اصلاح کرتا ہے اور نبی مبعوث فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ایک قوم دنیا میں ایسی قائم ہو جاتی ہے جو نیکی کے مقام پر اس طرح قائم ہوتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ گویا وہ سب کی سب نیک ہے.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیروں کے ذریعہ اس قوم کی تائید کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم اپنے اس معیار کو کھو دیتی ہے اور اس میں نیکی بدی کی متوازی تحریکیں جا ری ہو جاتی ہیں.تب اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر کو واپس کر لیتا ہے اور عام قانونِ قدرت کے ماتحت اس سے معاملہ کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ قوم ایک وقت میں جاکر بالکل خراب ہو جاتی ہے تب سنت اللہ کے ماتحت پھر اللہ تعالیٰ مالکیت کی صفت کو ظاہر کرتا ہے.پھر نبی مبعوث ہوتا ہے پھر گناہ کا قلع قمع کیا جاتا ہے پھر ایک پاکوں کی جماعت بنائی جاتی ہے اور اس تمام عرصہ میں قدرت خاص یعنی مالکانہ قدرت اور تصرّف کا ظہور ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پھر وہ قوم نیکی کے اعلیٰ معیار سے نیچے گر جاتی ہے او رپھر وہی پہلا سا دور شروع ہو جاتا ہے.ایک معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اطاعت کے وقت کا مالک ہے یعنی وہی قانون خاص جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اور جو اقوام کے متعلق جاری ہوتا ہے اسے اللہ تعالیٰ خاص افراد کے لئے بھی جاری کرتا ہے یعنی جب کسی شخص کی زندگی اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت میں گزرنے لگتی ہے تو اس کے لئے بھی اللہ تعالیٰ خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے اور وہ انسان عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے خاص قدرت کا اظہار کرتا ہے.ایک معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اہم حالتوںکے وقت کا مالک ہے.اس سے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دُنیامیں ہر کام ایک زنجیر سے مشابہت رکھتا ہے یعنی منفرد نہیں ہوتا بلکہ اس کی بہت سی کڑیاں ہوتی ہیں.جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کی بیماری اس دن کی کسی غلطی کے نتیجہ میں نہیں ہوتی.نہ تندرستی اس دن کی ورزش یا غذا کی وجہ سے ہوتی ہے.پس انسان کے اعمال دو نتیجے پیدا کرتے ہیں.ایک نتیجہ تو عارضی اور وقتی ہوتا ہے.اور ایک نتیجہ آخری او رمستقل ہوتا ہے.ایک بے احتیاط آدمی آنکھوں کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کی آنکھیں دُکھنے آ جاتی ہیں مگر علاج سے اچھی ہو جاتی ہیں.پھر بے احتیاطی کرتا ہے پھر دکھنے آ جاتی ہیں پھر علاج کرتا ہے پھر اچھی ہو جاتی ہیں.آخر ایک دن نظر جاتی ہی رہتی ہے اور علاج بے فائدہ ہو جاتا ہے.ایک محنتی طالب علم سبق یاد کرتا

Page 45

ہے دوسرے دن اُستاد اس سے خوش ہو جاتا ہے.اگلے دن پھر سبق یاد کر تا ہے پھر استاد خوش ہو جاتا ہے یہ نتیجہ تو ساتھ کے ساتھ نکلتا رہتا ہے مگر اس محنت کا ایک خوشگوار اثر اس کے دماغ پر پڑتا جاتا ہے اور اس کتابی علم کے علاوہ جو سبق یاد کرنے سے اسے حاصل ہو رہا تھا.ایک ذہانت، ایک علم کی باریکیوں کے سمجھنے کا ملکہ اس کے دماغ میں پیدا ہوتا چلا جاتا ہے جو ایک دن اسے دنیا کا مرجع اور ممدوح بنا دیتا ہے.یہ آخری نتائج ایسے باریک طور پر پیدا ہوتے ہیں کہ ساتھی اور دوست بھی اسے دیکھ نہیں سکتے اور اس کی وجہ سمجھ نہیں سکتے.اس مضمون سے اللہ تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ آخری اور مستقل کامیابی اللہ تعالیٰ کے تعلق سے ہی حاصل ہو سکتی ہے.بیشک انسان عام قانون کی فرمانبرداری کر کے عزت اور رتبہ حاصل کر لیتا ہے لیکن ایک آخری نتیجہ جو اعمال کی زنجیر کے مکمل ہونے سے پیدا ہوتا ہے اصل میں وہی قابل قدر شے ہے خصوصاً جو موت کے وقت ایمان کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کہ اسی پر اگلے جہان کی زندگی کا انحصار ہے.مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ سے یہ مُراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دُنیاکا مالک نہیں ہے بلکہ اگر اس آیت کے معنی قیامت کے دن کے مالک کے کئے جائیں تب بھی آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس دن ظاہری طورپر بھی کوئی مالک نہ ہو گا جیسا کہ فرمایا.وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ.ثُمَّ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا يَوْمُ الدِّيْنِ.يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا١ؕ وَ الْاَمْرُ يَوْمَىِٕذٍ لِّلّٰهِ.(الانفطار:۱۸تا۲۰) یعنی تم کو کیا معلوم کہ یَوْمُ الدّین کیا ہے.یوم الدّین وہ دن ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے کسی کام نہ آسکے گا.اور صرف خدا تعالیٰ کا حکم جاری ہو گا.پس مالک سے مراد یہ ہے کہ اس دُنیا میں جو ظاہر میں بادشاہ اور حاکم اور مالک نظر آتے ہیں یہ سلسلہ اگلے جہان میں ختم ہو جائے گا.اور یہ مراد نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس جہان کا مالک نہیں ہے.ان چاروں صفات میں اور جس ترتیب سے وہ بیان ہوئی ہیں سلوک کا ایک اعلیٰ نکتہ بیان کیا گیا ہے جب ہم اس امر کو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا مقام اعلیٰ ہے اور بندہ کا ادنیٰ تو یہ امر ہمارے لئے واضح ہو جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اوپر سے نیچے کی طرف آئے گا لیکن جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرے گا تو نیچے سے اوپرکی طرف جائے گا.اس نکتہ کو سمجھ لینے کے بعد ان صفات کو دیکھ کر جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف (۱) رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ (۲) رحمٰن (۳) رحیم (۴) مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات سے درجہ بدرجہ تنزّل کرتا ہے.یعنی جب وہ اپنے بندہ پر ظاہر ہونے لگتا ہے.تو پہلے ربّ العالمین کی صفت کا ظہور ہوتا ہے یعنی وہ ایسے ماحول تیار کرتا ہے جن میں اس کے منظور اور محبوب بندہ کی صحیح نشوونما ہو سکے.پھر وہ ان سامانوں کو اپنے بندہ

Page 46

کے ہاتھ میں دیتا ہے جن سے وہ روحانی ترقی کر سکے.پھر بندہ جب ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے تو اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرتا ہے اور انعامات کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد بندہ کی جدوجہد کا آخری نتیجہ نکالتا ہے یعنی اسے دنیا پر غالب کر دیتا ہے اور اپنی مالکیت کی صفت اس کے لئے ظاہر کر کے اسے دنیا پر غلبہ دے دیتا ہے.اس کے برخلاف جب بندہ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے پہلے مالک کی صفت کا مظہر ہونا پڑتا ہے یعنی وہ انصاف اور عدل کو دنیا میں جاری کرتا ہے مگر اس کے انصاف کے ساتھ رحم کی ملونی ہوتی ہے.اور عفو کا پہلو غالب ہوتا ہے جس کے معنے اِیصالِ شرَ سے اجتناب کے ہیں.جب بندہ اور ترقی کرتا ہے تو رحیمیت کی صفت کا مظہر ہو جاتا ہے.یعنی جو لوگ اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ان کے کاموں کی قدردانی کرتا ہے بلکہ ان کے حق سے زیادہ ان پر انعام کرتا ہے یعنی اِیصالِ خیر کی عادت اس میں پائی جاتی ہے جسے اِحسان کہتے ہیں.پھر اس کے اوپر انسان ترقی کرتا ہے اور رحمانیت کی صفت کا ظہور اس کے ذریعہ سے ہونا شروع ہوتا ہے اور وہ اپنے پرائے سب سے نیک سلوک کرنا شروع کرتا ہے اور اس کا دل وسیع ہو جاتا ہے اور وہ رحمانیت کا مظہر بن جاتا ہے.کافر و مومن سب کی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے.اور خواہ کسی نے اس سے حسن سلوک کیا ہو یا نہ کیا ہواس کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے نیک سلوک کرے اسے اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی کی حالت کہتے ہیں.یعنی جس طرح ماں اپنے بچہ کی خدمت اطاعت کا خیال کئے بغیر یا کسی بدلہ کی امید رکھے بغیر کرتی ہے اسی طرح یہ شخص بنی نوع انسان کا خیر خواہ ہو جاتا ہے پھر اس مقام سے ترقی کر کے انسان ربّ العالمین کا مظہر ہو جاتا ہے یعنی اس کی نظر فرد سے اُٹھ کر نظام تک جا پہنچتی ہے.اور وہ اپنے آپ کو دنیا کا نگران اور داروغہ سمجھ لیتا ہے اور دنیا کی اصلاح کی طرف بحیثیت مجموعی توجہ کرتا ہے اور سوسائٹی کی حالت کو بدل ڈالتا ہے.یہ صعود اور ہبوط کی راہیں جو ان صفات میں بیان کی گئی ہیں.سلوک کے اعلیٰگرُ اپنے اندر مخفی رکھتی ہیں اور سالکوں کے لئے ایک عظیم الشان رحمت ہیں.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ۰۰۵ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں.حَلّ لُغات.اِیَّاکَ.اِیَّاکَ عام قاعدہ کے رو سے نَعْبُدُکَ چاہیے تھا مگر معنوں میں اختصاص پیدا کرنے کے لئے ک کو پہلے لایا گیا.اور چونکہ ک اکیلا پہلے نہیں آ سکتا اس لئے اِیَّا کوجو ضمیر منصوب ہے اس پر بڑھایا

Page 47

گیا.پس اِیَّاکَ نَعْبُدُ کے معنی ہوئے ہم تجھے عبادت کے لئے مخصوص کرتے ہیں.نَعْبُدُ.نَعْبُدُ ہم عبادت کرتے ہیں.اس کا ماضی عَبَدَ ہے اور اس کے مندرجہ ذیل معنی ہیں.عَبَدَ اللّٰہَ طَاعَ لَہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَ خَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائِعَ دِیْنِہٖ وَ وَحَّدَہٗ (اقرب) یعنی عبد کے معنی ہیں اس کی اطاعت کی اور اس کے حکم کے آگے سر جھکایا اور اس کی خدمت کی اور اس کے دین کے احکام پر مستقل طور پر عمل کرنے لگا اور اس کی توحید کا اقرار کیا.عبدکے ایک معنی کسی کے نقش قبول کرنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں طَرِیْقٌ مُّعَبَّدٌ اَیْ مُذَ لَّلٌ ایسا رستہ جو کثرت آمدو رفت سے اس طرح ہو گیاہو کہ پائوں کے نقش قبول کرنے لگ جائے.پس عبادت ایک ایسی کامل ہستی کی ہو سکتی ہے جو اپنے کمالات میں منفرد ہو اور اس کا کوئی شریک نہ ہو اور جس کی اطاعت اور فرمانبرداری انسان کے لئے ممکن ہو کیونکہ جس کی فرمانبرداری ممکن ہی نہ ہو اس کی عبادت ایک بے معنی لفظ ہو گا.یہ ظاہر ہے کہ ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے کیونکہ اس کے سوا کوئی نہیں جس کی حقیقی معنوں میں فرمانبرداری کی جا سکے اور جس کی ذات کو چن کر انسان اسی کا ہو جائے اس کے سوا جس کی بھی انسان اطاعت کرے وہ اطاعت محدود ہو گی اور پھر اس کے سوا اور وجود بھی یا اور قانون بھی ایسے ہوں گے جن کی اطاعت پر انسان مجبو رہو گا.نَسْتَعِیْنُ.نَسْتَعِیْنُ اِسْتِعَانَۃٌ سے ہے جس کے معنی مدد حاصل کرنے یا طلب کرنے کے ہیں.پس اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصوص کرتے ہیں یعنی اور کسی کو لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں.تفسیر.اَلْحَمْدُلِلّٰہِ سے لے کر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تک کی عبارت سے یوں ظاہر ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ بندہ کی نظر سے اوجھل ہے اور وہ اس کی تعریف کر رہا ہے.لیکن اِیَّاکَ نَعْبُدُ سے یکدم خدا تعالیٰ کو مخاطب کر لیا گیا ہے.اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں ضمیر خطاب لانے کی وجہ بعض نادانوں نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حسن ِکلام کے خلاف ہے.حالانکہ یہ حسن ِ کلام کے خلاف نہیں بلکہ حسن ِ کلام کی ایک اعلیٰ مثال ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات وَرَاء ُالوَ رَاء ہے.وہ بندہ کو نظر نہیں آتی.اس کی صفات کے ذریعہ سے وہ اسے شناخت کرتا ہے اور اس کے ذکر کے ذریعہ سے وہ اس کے قریب ہوتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کی آنکھیں اسے دیکھ لیتی ہیں.ان آیات میں سلوک کے اس نکتہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ رَبِّ الْعَالَمِیْن.رَحْمٰن.رَحِیْم.مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن کی صفات پر جب

Page 48

انسان غور کرتا ہے.تو اس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت شدید طور پر اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے تب وہ روحانی طو رپر اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف اور اس کی محبت سے مغلوب ہو کر بے اختیار چِلّا اٹھتا ہے کہ اے رب! میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں.پس اس طرح ضمائر کو بدل کر اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.کہ قرآن کریم میں بتائی ہوئی صفات پر غور کرنے سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی ملاقات حاصل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات بندہ کے سامنے آ جاتی ہے.حدیث میں آتا ہے عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ اللّٰہُ قَسَمْتُ الصَّلٰوۃَ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ فَنِصْفُھَا لِیْ وَ نِصْفُھَا لِعَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اللّٰہُ حَمَدَنِیْ عَبْدِیْ وَ اِذَا قَالَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ.قَالَ اثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ وَ اِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ قَالَ مَجَدَنِیْ عَبْدِیْ وَ رُبَمَا قَالَ فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ وَاِذَا قَالَ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ قَالَ ھٰذَا بَیْنِیْ وَ بَیْنَ عَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ وَ اِذَا قَالَ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ الخ (الٰی اٰخِرِسُوْرَۃٍ) قَالَ ھٰذَا لِعَبْدِیْ وَ لِعَبْدِیْ مَاسَأَلَ (مسلم کتاب الصَّلٰوۃ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ) یعنی حضرت ابوہریرۃ ؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.میں نے سورۃ فاتحہ کو اپنے اور اپنے بندہ کے درمیان تقسیم کر دیا ہے.پس اس کا نصف میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے.اور میرا بندہ جو کچھ مجھ سے (اس کے ذریعہ سے طلب کرتا ہے) وہ میں اُسے دُوںگا.جب بندہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری حمد کی.اور جب بندہ کہتا ہے الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری ثنا کی ہے.او رجب بندہ کہتا ہے مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے اور بعض دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے اپنا معاملہ میرے سپرد کر دیا ہے.اورجب بندہ کہتا ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ آیت میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مانگا ہے میں اُسے دُوںگا.پھر جب بندہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ سے لے کر آخر تک کی آیات پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ دعا میرے بندے کے لئے ہے اور یہ سب کچھ میرے بندہ کو ملے گا.اس حدیث سے مندرجہ ذیل امو رکا استنباط ہوتا ہے.اوّل حمد، ثنا اور تمجید میں فرق ہے.دوم مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ

Page 49

کی آیت کامل تو کل پر دلالت کرتی ہے.یعنی اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو آخری نتائج کا مرتب کرنے والا قرار دے کر جب اَلْـحَمْدُ کہتا ہے تو گویا وہ اس امر پر اطمینان کا اظہار کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ درست ہے اور مجھے منظور ہے اور جب وہ اللہ تعالیٰ پر اس طرح تو کل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کیوں نہ اس سے بخشش اور نرمی کا معاملہ کرے.سوم یہ کہ اس سورۃ میں جن انعامات کے حصول کے لئے دعا سکھائی گئی ہے وہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ضرور ملیں گے کیونکہ اس دُعا کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ لِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ میرے بندہ نے جو کچھ مانگا ہے اُسے ضرور ملے گا.نَعْبُدُ کو نَسْتَعِیْنُ سے پہلے لانے کی دو وجوہات اس آیت میں نَعْبُدُ پہلے آیا ہےاور نَسْتَعِیْنُ بعد میں.بعض لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی توفیق تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی حاصل ہو سکتی ہے پھرنَعْبُدُ کو پہلے کیو ںرکھا.نَسْتَعِیْنُ پہلے چاہیے تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک عبادت بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہوتی ہے لیکن اس جگہ اِعَانَتْ کا ذکر نہیں بلکہ اِسْتِعَانَت کا ذکر ہے.یعنی مدد مانگنے کا.اور اس میں کیا شک ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبودیت اور عبادت کا خیال پیدا ہو گا.اس کے بعد ہی وہ اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگنے کا خیال کرے گا.جو عبادت کی طرف راغب ہی نہ ہو وہ مدد کیوں طلب کرے گا؟ پس گو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اعانت کے بغیر عبادت کی توفیق نہیں ملتی لیکن استعانت یعنی بندہ کا اللہ تعالیٰ کے دروازہ پرجُھکنا عباد ت کا خیال آنے کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے.اس وجہ سے نَعْبُدُ کو پہلے اور نَسْتَعِیْنُ کو بعد میں رکھا گیا ہے.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ارادہ بندہ کی طرف سے ہوتا ہے اور عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے.اگر ارادہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو انسان کے اعمال اضطراری اعمال ہو جائیں.پس اس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ جب بندہ کے دل میں عبادت کا خیال پیدا ہو.اسے اللہ تعالیٰ سے تکمیل ارادہ کے لئے دُعا کرنی چاہیے اور کہنا چاہیے کہ اے میرے رب !میں تیری عبادت کا فیصلہ کر چکا ہوں.مگر اس عہد کی تکمیل تیری امداد کے سوا نہیں ہو سکتی اس لئے تو میری مدد کر او رمجھے اس امر کی توفیق دے کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کروں.عبادت کا حقیقی مفہوم عبادت کامل تذلّل کا نام ہے.پس عبادت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو بندہ اپنے اندر پیدا کر لے.عبادت کی ظاہری علامات صرف قلبی کیفیت کو بدلنے کے لئے مقرر ہیں ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبادت دل کی کیفیت اور اس کے ماتحت انسانی اعمال کے صدور کا نام ہے اور خاص اوقات کی تعیین اور قبلہ رُو ہونا اور ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا یا رکوع سجود کرنا یہ اصل عبادت نہیں بلکہ جسم کی ظاہری حالت کا اثر چونکہ دل پر

Page 50

ہوتا ہے اور توجہ بھی قائم ہوتی ہے نماز کے لئے کچھ ظاہری علامات بھی مقرر کر دی گئی ہیں.مگر وہ بمنزلہ برتن کے ہیں.جس میں معرفت کا دودھ ڈالا جاتا ہے یا بطور چھلکے کے ہیں جس میں عبادت کا مغز رہتا ہے.آیت ھٰذا میں جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی وجہ اس آیت میں اور بعد کی آیات میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے.یعنی یوں کہا گیا ہے کہ ’’ہم عبادت کرتے ہیں‘‘ اور ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اسلام ایک مدنی مذہب ہے وہ سب کے لئے ترقی چاہتا ہے نہ کہ کسی ایک شخص کے لئے اور یہ بھی کہ ہر مسلمان دوسرے کا نگران مقرر کیا گیا ہے.اس کا یہی کام نہیں کہ وہ خود عبادت کرے بلکہ یہ بھی ہے کہ دوسروں کو عبادت کی تحریک کرے او راس وقت تک تحریک نہ چھوڑے جب تک وہ اس کے ساتھ عبادت کرنے میں شامل نہ ہو جائیں.اور وہ آپ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی توکل کی تعلیم دے اور اس وقت تک بس نہ کرے جب تک وہ توکل میں اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں اور وہ خود ہی ہدایت کا طالب نہ ہو بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت طلب کرنے کی نصیحت کرے او ربس نہ کرے جب تک ان کے دل میں بھی ہدایت طلب کرنے کی تڑپ پیدا ہو کر وہ اس کے ساتھ شامل نہ ہو جائیں اور خود بھی ہر دعا میں ’’مَیں‘‘ کی جگہ ’’ہم‘‘ کا لفظ استعمال نہ کرنے لگیں.یہی تبلیغی اور تربیتی روح ہے جس نے اسلام کو چند سالوں میں کہیں کا کہیں پہنچا دیا.اور گر آج مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو صرف اسی جذبہ کو اپنے دل میںپیدا کر کے جب تک مسلمان نَعْبُدُ اور نَسْتَعِیْنُ اور اِھْدِنَا کے الفاظ نہیں کہتے، جب تک ان الفاظ کو سچے طور پر کہنے کیلئے جدوجہد نہیں کرتے، اس وقت تک ان کا نہ دین میں ٹھکانا ہو گا نہ دُنیا میں.حقیقت یہ ہے کہ عبادت بھی اور اِستعانت بھی اور طلب ہدایت بھی بحیثیت جماعت ہی ہو سکتی ہے کیونکہ اکیلا آدمی صرف ایک محدود عرصہ کے لئے اور ایک محدود دائرہ میں عبادت کو قائم کر سکتا ہے.ہاں جو اپنی اولاد کو بھی اور اپنے ہمسائیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیتا ہے وہ عبادت کا دائرہ وسیع کر دیتا ہے اور اس کا زمانہ ممتد کر دیتا ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ سچا عبد وہی ہے جو اپنے آقا کی مملو کہ اشیاء کو دشمن کے ہاتھ میں نہ پڑنے دے.جو اپنے آقا کے باغ کو لٹتے دیکھتا اور اس کیلئے جدوجہد نہیں کرتا وہ ہر گز سچا بندہ نہیں کہلا سکتا.اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے جبر اور قدر کے متعلق غلط خیالات کا ردّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکی آیت میں جبر اور قدر کے متعلق جو غلط خیالات لوگوں میں پھیل رہے ہیں ان کا بھی ردّ کیا گیا ہے.انسانی اعمال کے بارہ میں لوگوں میں دو غلط فہمیاں پیدا ہیں.بعض تو یہ کہتے ہیں کہ جس قدر اعمال انسان سے سر زد ہو

Page 51

رہے ہیں جبر کے ماتحت ہیں یعنی انسان ان کے کرنے پر مجبور ہے.یہ خیال مذہبی لوگوں میں بھی ہے اور فلسفیوں میں بھی.اور اب علم النفس کے ماہرین کا ایک گروہ بھی ایک رنگ میں اس کا قائل ہو رہا ہے اور ان کا سردار ڈاکٹر فرائڈ آسٹرین پروفیسر ہے.جو لوگ اس عقیدہ پر غلط مذہبی عقیدہ کی وجہ سے قائم ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے جس طرح ایک انجینئر جب عمارت بناتا ہے تو کسی اینٹ کو پاخانہ میں اور کسی کو بالاخانہ میں لگاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ مختار ہے کہ جسے چاہے نیک بنائے اور جسے چاہے بدکار بنائے.سو اس نے بعض کو نیک اور بعض کو بدکار بنایا ہے.مسیحیوں نے ورثہ کا گناہ تسلیم کر کے جبر کے مسئلہ کو رائج کیا ہے کیونکہ جب انسان ورثہ کے گناہ سے کفارہ کے بغیر آزاد نہیں ہو سکتا تو جس قدر لوگ کفارہ پر ایمان نہیں لاتے گناہ گار ہونے پر مجبور ہیں.تناسخ کا مسئلہ بھی جبر کی تائید میں ہے کیونکہ جو جون سابق گناہ کی سزا میں ملی ہے لازماً ان حدبندیوں کے نیچے رہے گی جو سابقہ گناہ کی وجہ سے اس پر لگا دی گئی ہیں.اس عقیدہ کا رد کہ انسان اپنے ارادہ میں آزاد ہے فلسفیوں کے عقیدہ کی بنیاد صرف تجربہ پر تھی کہ باوجود کوشش کے بعض لوگ گناہ سے بچ نہیں سکتے لیکن ڈاکٹر فرائڈ نے اس مسئلہ کو علمی مسئلہ بنا دیا ہے.اس کا خیال ہے کہ چونکہ انسان کی تعلیم کا زمانہ اس کے ارادہ کے زمانہ سے پہلے شروع ہوتا ہے یعنی بچپن سے.اور ارادہ اور اختیار بلوغ کے وقت پیدا ہوتا ہے اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ اس کا ارادہ آزاد ہے بلکہ جس چیز کو ہم ارادہ کہتے ہیں در حقیقت وہ وہی میلان ہے جو بچپن کے اثرات کے نتیجہ میں اس کے اندر پیدا ہو گیا ہے.انسان اپنے افعال کو باارادہ اور خیالات کو آزاد سمجھتا ہے لیکن در حقیقت وہ صرف بچپن کے تاثرات کے نتائج ہیں.اور چونکہ وہ اس کے نفس کا جزو بن گئے ہیں وہ اسے بیرونی اثر خیال نہیں کرتا بلکہ اپنا ارادہ سمجھتا ہے.ڈاکٹر فرائڈ کے یہ خیالات نئے نہیں.اسلام میں ان کی سند ملتی ہے جیسے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے.مگر اَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ (بخاری کتاب الجنائز باب ما قیل فی اولاد المشرکین) اس کے ماں باپ اسے یہودی یا مسیحی بنا دیتے ہیں.یعنی ان کی تربیت کے اثر سے وہ بڑا ہونے سے پہلے ان کے غلط خیالات کو قبول کر لیتا ہے اوربے سمجھے بوجھے ان کے راستہ پر چل کھڑا ہوتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بچہ کی پیدائش پر اس کے کان میں اذان کہنے کا حکم دے کر بچپن کے اثرات کی وسعت اور اہمیت کو ظاہر کیا ہے.مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْناور اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں قرآن کریم نے ان خیالات کے غلط حصہ کی تردید کی ہے کیونکہ جبر کی

Page 52

صورت میں جزا سزا ایک بے معنی فعل ہو جاتا ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُکہہ کر بتایا ہے کہ انسانی ارادہ اپنی ذات میں آزاد ہے.گو ایک حد تک وہ محدود ہو لیکن اس کے اس حد تک آزاد ہونے میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ہدایت کو دیکھ کر اپنے لئے ایک نیا راستہ اختیار کرلے مثلاً گو انسان بُرے اثرات کے تابع ہو لیکن اگر اللہ تعالیٰ کی صفات پر وہ غور کرے تو اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی آواز اس کے اندر سے پیدا ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے اور اس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.ڈاکٹر فرائڈ اور ان کے شاگرد اس کا کیا جواب دے سکتے ہیں کہ حالات بدلتے رہتے ہیں اور خیالات بھی بدلتے رہتے ہیں دنیا کبھی ایک حال پر قائم نہیں رہتی؟ اگر بچپن کے اثرات ایسے ہی زبردست ہوتے کہ ان سے انسان آزاد نہ ہو سکتا تو چاہیے تھا کہ آدم سے لے کر اس وقت تک دنیا ایک ہی راہ پر گامزن رہتی لیکن اس میں بار ہا تغیر ہوا ہے اور ہو رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے تغیرات ممکن ہیں جو انسان کے خیالات کی رَو کو اس سمت سے بدل دیں جن پر اس کے بچپن کے تاثرات اسے چلا رہے تھے.قرآن کریم نے اس کے نہایت زبردست دلائل دیئے ہیں مگر اس جگہ ان کی تفصیل کا موقع نہیں.یہاں صرف اجمالی طور پر اس آیت سے جو استدلال ہوتا تھا.اسے بیان کر دیا گیا ہے.اس عقیدہ کا رد کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے جبر کے عقیدہ کے بالکل مخالف ایک اور خیال بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان اپنے خیالات میں بالکل آزاد ہے.اور اللہ تعالیٰ اس کے کاموں میں کوئی دخل نہیں دیتا.اسلام اس خیال کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم ان اثرات کو جو گردو پیش سے انسان پر پڑ رہے ہیں بالکل نظر انداز نہیں کر سکتے.پس ضروری ہے کہ ایک بالا ہستی جو تمام اثرات سے بالا ہے انسان کی نگران رہے اور ایسے بداثرات جب خطرناک صورت اختیار کر جائیں تو انسان کی مدد کر کے ان سے اسے بچائے.اور اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کی دعا سکھا کر اس طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ تمہارا خدا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر نہیں بیٹھا بلکہ تمہاری مجبوریوں کو دیکھ رہا ہے.پس تم اس سے مانگو تو وہ تم کو دے گا.کھٹکھٹائو تو وہ تمہارے لئے کھولے گا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَۙ۰۰۶ ہمیں سیدھے راستے پر چلا.حَلّ لُغَات.اِھْدِنَا.اِھْدِنَا ھَدَی سے ہے کہتے ہیں.ھَدَاہُ اِلَی الطَّرِیْقِ بَیَّنَہٗ لَہٗ اسے رستہ بتایا.ھَدَی الْعُرُوْسَ اِلٰی بَعْلِہَا زَفَّھَا اِلَیْہِ دُلہن کو اس کے خاوند تک لے گیا.ھَدَی فُلَا نًا.تَقَدَّمَہٗ اس کے

Page 53

آگے آگے چلا.کہتے ہیں جَاءَ تِ الْـخَیْلُ یَھْدِیْہَا فَرَسٌ اَشْقَرُ اَیْ یَتَقَدَّ مُہَا.گھوڑے آئے جبکہ ان کے آگے آگے ایک سرخ رنگ کا گھوڑا دوڑتا چلا آ رہا تھا.(اقرب) لفظ ہدایت اور اس کے تین معانی پس ھَدَی کے تین معنی ہیں راستہ دکھانا.راستہ تک پہنچانا اور آگے آگے چل کر منزلِ مقصود تک لئے جانا.قرآن کریم میں ہدایت کے لفظ کا استعمال مختلف معانی میں قرآن کریم میں بھی ھَدَایَۃٌ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوا ہے.ایک معنی اس کے کام کی طاقتیں پیدا کر کے کام پر لگا دینے کے ہیں.مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے اَعْطٰی کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی (طٰہٰ :۵۱) یعنی ہر چیز میں اللہ تعالیٰ نے اس کے مناسب حال کچھ طاقتیں پیدا کیں پھر اسے اس کے مفوضہ کام پر لگا دیا.دوسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے ہدایت کی طرف بلانے کے معلوم ہوتے ہیں.مثلاً فرمایا.وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (السجدة:۲۵) اور ہم نے ان میں سے امام بنائے جو ہمارے حکم کے مطابق لوگوں کو تورات کی طرف بلاتے تھے.تیسرے معنی ہدایت کے قرآن کریم سے چلاتے لئے آنے کے ہیں جیسے کہ جنتیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ کہیں گے.الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا (الاعراف:۴۴) سب تعریف اللہ ہی کے لئے ہے جو ہمیں جنت کی طرف چلاتا لایا اور جس نے ہمیں یہاں تک پہنچا دیا.اسی طرح ہدایت کے معنی سیدھے راستہ کے ساتھ موانست پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے.وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ (التّغابن :۱۲) جو اللہ پر کامل ایمان لاتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ہدایت سے موانست پیدا کر دیتا ہے اور اچھی باتوں سے اسے رغبت ہو جاتی ہے.اس آیت میں راہ دکھانے کے معنی نہیں ہو سکتے کیونکہ جو ایمان لاتا ہے اسے راہ تو پہلے ہی مل چکا.ہدایت کے معنی کامیابی کے بھی قرآن کریم میں آتے ہیں سورۂ نور میں منافقوں کا ذکر فرماتا ہے کہ وہ کہتے تو یہ ہیں کہ انہیں جنگ کا حکم دیا جائے تو وہ ضرور اس کے لئے نکل کھڑے ہوںگے لیکن عمل ان کا کمزور ہے.فرماتا ہے قسمیں نہ کھائو عملاً اطاعت کرو.کیونکہ اللہ تمہارے اعمال سے واقف ہے.پھر فرماتا ہے اے رسول! ان سے کہہ دے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.پھر اگر اس حکم کے باوجود تم پھر گئے تو رسول پر اس کی ذمہ واری ہے.تم پر تمہاری.اور یاد رکھو !کہ اِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا(النور: ۵۵) اگر تم رسول کی بات اس بارہ میں مان لو گے تو نقصان نہ ہو گا بلکہ تم کا میاب ہو جائوگے اور فتح پائو گے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى ( محمد :۱۸) جو لوگ اس ہدایت کو جو انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے اپنے نفس میں جذب کر لیتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں اور ہدایت عطا کرتا ہے.قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ

Page 54

ہدایت کسی ایک چیز کا نام نہیں بلکہ اس کے بے انتہا مدارج ہیں.ہدایت کے ایک درجہ سے اوپر دوسرا درجہ ہے.اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب ہو جاتے ہیں انہیں ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ سے روشناس کرایا جاتا ہے.صِـرَاطٌ.صِـرَاطٌ.راستہ.یہ لفظ ص سے بھی لکھا جاتا ہے اور س سے بھی.صِرَاطٌ یا سِرَاطٌ ایسے راستہ کو کہتے ہیں جو صاف ہو.چنانچہ عربی کا محاورہ ہے سَرَطْتُ الطَّعَامَ میں نے کھانا بسہولت نگل لیا.اور اچھے اور ہموار راستہ کو سِرَاطٌ یا صِرَاطٌ اس لئے کہتے ہیں کہ گویا اس پر چلنے والا اسے کھاتا جاتا ہے.( مفردات) مُسْتَقِیْمٌ.مُسْتَقِیْمٌ.اِسْتِقَامَۃٌ سے ہے.مفردات میں ہے.اَ لْاِسْتِقَامَۃُ یُقَالُ فِی الطَّرِیْقِ الَّذِیْ یَکُوْنُ عَلٰی خَطٍّ مُسْتَوٍوَبِہٖ شُبِّہَ طَرِیْقُ الْمُحِقِّ نَحْوُ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یعنی اِسْتِقَامَۃٌ اس راستہ کے لیے بولا جاتا ہے جو سیدھا ہو اور اس وجہ سے جو شخص راستی پر ہو.اس کے طریق کو بھی مستقیم کہتے ہیں چنانچہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی آیت میں یہی معنی ہیں.تفسیر.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی آیت میں جامع دعا اس آیت میں ایسی اعلیٰ اور مکمل دعا سکھائی گئی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی.یہ دعا کسی خاص امر کے لئے نہیں ہے بلکہ ہر چھوٹی بڑی ضرورت کے متعلق ہے اور دینی اور دنیوی ہر کام کے متعلق اس دعا سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.ہر کام خواہ دینی ہو یا دنیاوی اس کے پورا کرنے کیلئے کوئی نہ کوئی طریق ہوتا ہے اگر اس طریق کو اختیار کیا جائے تو کامیابی ہو گی ورنہ نہ ہو گی.پھر بعض دفعہ کئی طریق ایک کام کو کرنے کے نظر آتے ہیں.جن میں سے بعض ناجائز ہوتے ہیں اور بعض جائز.جو جائز راستے ہوتے ہیں ان میں سے بعض تو مراد تک جلدی پہنچا دیتے ہیںاور بعض دیر سے پہنچاتے ہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا میں ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے رہیں کہ وہ ہماری اس طریق کی طرف راہنمائی کرے جو اچھا اور نیک ہو اور جس پر چل کر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں اور جلد سے جلد کامیاب ہوں.کیسی سادہ اور کیسی مکمل یہ دعا ہے او رپھر کیسی وسیع ہے! زندگی کا وہ کونسا مقصد ہے جس کے متعلق ہم اس دعاکو استعمال نہیں کر سکتے اور جو شخص یہ دعا مانگنے کا عادی ہو وہ کس کس رنگ میں اپنی محنت کو زیادہ سے زیادہ بار آور کرنے کی کوشش نہ کرے گا کیونکہ جس شخص کوہر وقت یہ یادکرایا جائے گا کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اچھے طریق بھی ہیں اوربرُے طریق بھی ہیں اور یہ کہ اسے ہمیشہ اچھے طریق کے تلاش کرنے اور اختیار کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اورپھر اچھے طریقوں میں سے بھی اس طریق کو اختیار کرنا چاہیے جو سب سے قریب ہو.اس کا دماغ کس طرح اس تعلیم کو اپنے اندر جذب کرلے گا.ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا کہ اسے صراط مستقیم دکھایا جائے اس کا دماغ خود بھی اس

Page 55

خیال سے متاثر ہو گا اور اس کی اپنی کوشش بھی اپنے سب کاموں میں ایسے ہی راستہ کی تلاش میں خرچ ہو گی.اعمال کی درستی کے لئے تین زرّیں اصول اور جو شخص اپنے کاموں میں ان اصول کو مدنظر رکھے گا کہ (۱) میرے سب کام جائز ذرائع سے ہوں (۲) میں کسی ایک مقام پر پہنچ کر تسلی نہ پا جائوں بلکہ غیر محدود ترقی کی خواہش میرے دل میں رہے (۳) اور میرا وقت ضائع نہ ہو بلکہ ایسے طریق سے کام کروں کہ تھوڑے سے تھوڑے وقت میں ہر کام کو پورا کر لوں.اس کے مقاصد کی بلندی اور اس کے اعمال کی درستی اور اس کی محنت کی باقاعدگی میں کیا شک کیا جا سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان اس دعا کو اخلاص سے مانگتے رہیں اور اس کے مطالب کو ذہن نشین کریں تو دعا کے رنگ میں تو جو فائدہ ہو گا وہ تو ہو گا ہی اس کا جو اثر طبعی طور پر مسلمانوں کے دماغ پر ہو گا وہ بھی کچھ کم قابل قدر نہیں ہے.آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں طلب ہدایت کے متعلق ایک اعتراض کا جواب بعض معترض کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو ہر نماز میںاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کہنے کا حکم دیا گیاتھا اور ان کے رسول بھی یہ دُعا روزانہ مانگتے تھے پھر کیا انہیں صِرَاطِ مُسْتَقِیْم ملی نہ تھی کہ بار بار یہ دعا مانگتے تھے.کس قدر مضحکہ خیز یہ اعتراض ہے اور کس قدر تعجب ہے کہ پڑھے لکھے مسیحی اور ہندو بے تکلّفی سے یہ اعتراض بیان کرتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ مسلمان اب اس کا کیا جواب دیں گے! اوّل تو جیسا کہ اوپر ہدایت کے معنے بیان ہو چکے ہیں ہدایت کے معنے صرف کسی بات کے بتانے کے نہیں ہوتے بلکہ بتانے.اُس تک لے جانے اور آگے ہو کر لئے چلے جانے کے ہوتے ہیں.ہدایت کے غیر محدود درجات پس مختلف قسم کے دعا کرنے والوں کے لئے اس کے مختلف معنے ہوںگے وہ جنہیں ہدایت کا علم بھی ابھی حاصل نہیں ہوا ان کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس کے یہ معنی ہوںگے کہ ہمیں بتا کہ ہدایت کیا ہے اور کس مذہب یا کس طریق میں ہے ؟اور جن لوگوں کو ہدایت کا علم تو ہو چکا ہے لیکن اس کے قبول کرنے میں ان کے لئے مشکلات ہیں نفس میں کمزوری ہے یا دوست احباب ایسے مخالف ہیں کہ صداقت قبول کرنے سے باز رکھ رہے ہیں یا رہبرِ کامل دُور ہے اور اس تک پہنچنا مشکل ہے یا اس علاقہ میں صحبتِ صالح میسّر نہیں اس شخص کے لحاظ سے اس دعا کے یہ معنے ہوںگے کہ مجھے ہدایت تک پہنچا دے یعنی علمی رنگ میں تو میں ہدایت کو سمجھ گیا ہوں مگر عملی طورپر اس کے اختیار کرنے میں جو دقتیں ہیں انہیں بھی دور کر دے.لیکن اگر کوئی ایسا شخص ہے جسے علمی طور پر بھی

Page 56

ہدایت میسر آ گئی ہے او رعملی مشکلات بھی دُور ہو گئی ہیں اور وہ ہدایت کے راستوں پر قدم زن ہے تو اس کے لئے اس دُعا کے یہ معنے ہوںگے کہ اے خدا! تیری ہدایت وسیع ہے اور عرفان کی راہیں غیر محدود ہیں.مجھے اپنے فضل سے ہدایت کے راستہ پر آگے بڑھاتا لئے چل میرا قدم کسی جگہ نہ ٹھہرے اور میں صداقت کے اسرار سے زیادہ سے زیادہ واقف ہوتا جائوں اور آگے سے زیادہ مجھے اس پر عمل کرنے کی توفیق ملتی جائے.ان تینوں معنوں کو مدنظر رکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی انسان بھی ایسا ہو سکتا ہے جسے کسی وقت بھی اس دُعا سے استغنا حاصل ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طلب ہدایت سے مراد مسلمانوں کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیشک بہت کامل تھے لیکن اسلام کا خدا غیر محدود طاقتوں والا ہے.کوئی کتنی بھی ترقی کر جائے پھر بھی ترقی کی گنجائش اس کے لئے باقی رہتی ہے اور پھر بھی اس کے لئے ضرورت باقی رہتی ہے کہ وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا کرتا رہے.دین تو دین دنیا کے متعلق بھی انسان کا علم بڑھتا رہتا ہے اور کوئی علم بھی تو ایسا نہیں جس میں مزید ترقی کی گنجائش نہ ہو پس دُنیا کے کاموں میں بھی انسان محتاج ہے کہ ہمیشہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دُعا کرتا رہے کہ اس کے ذریعہ سے علم کی ترقی ہو.حقیقت یہ ہے کہ یہ دُعا بجائے محلِّ اعتراض ہونے کے علم کے بارہ میں اسلام کا ایسا وسیع نظریہ پیش کرتی ہے جو قرآن کریم کی برتری کی ایک زبردست دلیل ہے قرآن پہلے مذاہب کی موجودگی میں آیا اور انہیں منسوخ کر کے اس نے ایک نئے اور مکمل دین کے قیام کا دعویٰ کیا مگر باوجود اس کے اس نے دوسرے ادیان کی طرح یہ نہیں کہا کہ اس کے زمانہ میں علم ختم ہو گیا بلکہ یہ کہا کہ اس کے ذریعہ سے علم کی زیادتی ہمیشہ ہوتی رہے گی اور اس کے لئے مسلمانوں کو دُعا سکھائی اور ان پر واجب کیا کہ وہ اسے ہر روز تیس پینتیس دفعہ پڑھا کریں اس طرح اس نے علم کی ترقی کے لئے انسانی نظریہ کو کس قدر وسیع کر دیا ہے.کیا قرآن کریم دنیا میں علم کی زیادتی کی وجہ سے کسی وقت منسوخ ہو جائے گا بعض لوگ اس نظریہ پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس سے تو معلوم ہوا کہ قرآن کریم آخری ہدایت نامہ نہیں کیونکہ اگر علم کی زیادتی ہوتی رہتی ہے تو کیوں تسلیم نہ کیا جائے کہ کسی وقت قرآن کریم بھی منسوخ ہو جائے گا اور اس کی جگہ کوئی اس سے بہتر کتاب لے لےگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ قرآن کریم سے بہتر کتاب کوئی لے آئے اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دےدے لیکن تیرہ سو سال میں تو ایسی کتاب کوئی آئی نہیں فلسفیوں اور غلط مذاہب کے دلدادوں نے بہت زور لگایا لیکن اب تک ناکام ہی رہے ہیں.پس جبکہ ایسی کوئی کتاب اب تک مقابل پر پیش نہیں

Page 57

کی جاتی تو ہم اس پر غور ہی کیوں کریں؟ دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ قرآن روحانی عالم ہے جو جسمانی عالم کا حال ہے وہی اس کا ہے دنیوی امور میں بھی انسانی علم ہر روز ترقی کرتا ہے مگر یہ تو نہیں ہوتا کہ ہر روز نئی دنیا بنتی ہے بلکہ اسی پرُانی دنیا کے اسرار اور غوامض لوگوں پر ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے نزول کے بعد جو روحانی عالم ہے کسی نئی کتاب کی ضرورت نہیں رہی مگر علم کی ترقی میں اس نے روک نہیں پیدا کی.جس طرح مادی قانون کے مطالعہ سے دنیوی علم میں ترقی ہو رہی ہے اسی طرح قرآن کریم اپنے اندر وسیع اور انسانی پرواز کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر محدود علم رکھتا ہے جو لوگ اس پر غور کرتے ہیں جس قدر اخلاص ان کی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا میں ہوتا ہے اسی کے مطابق قرآن کریم کے اسرار ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں.پس باوجود قرآن کریم کے آخری کتاب ہونے کے علم کی ترقی میں کمی نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے بھی اس ترقی کی رفتار تیز ہو گئی ہے قرآن کریم کے صریح ارشاد سے ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے.فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (محمّد : ۱۸) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں انہیں اللہ تعالیٰ پھر اورہدایت دیتا ہے پس ہدایت کسی ایک شے کا نام نہیں بلکہ صداقتوں کی ایک وسیع زنجیر کا نام ہے جس کی ایک کڑی ختم ہوتی ہے تو دوسری سامنے آ جاتی ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے کہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں شافی علم قرآن کریم میں نہیں اس حقیقت کی موجودگی میں کسی دوسری شریعت کا پیغام سننا ایسا ہی ہے جیسے چشمہ پر بیٹھا ہوا انسان پانی کی تلاش کے لئے نکل کھڑا ہو.مجھے تعجب آتا ہے اُن لوگوں پر جو ہر روز اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دُعا مانگتے ہیں اور پھر خیال کرتے ہیں کہ جو کچھ پہلے مفسّر لکھ گئے اس سے بڑھ کر کچھ لکھنا ناجائز ہے ان کے بیان کردہ علوم کے باہر کوئی علم قرآن کریم میں نہیں ہے اگر یہ بات سچ ہے تو وہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دُعا کیوں مانگتے ہیں؟ ان کے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کے پاس تو ان کو دینے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں انہیں پرانی تفسیریں خرید کر یا دوسروں سے مانگ کر پڑھ لینی چاہئیں اور اس دُعا میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں دین اور دنیا کے ہر معاملہ کے لئے دعا یہ دُعا ایسی جامع ہے کہ دین اور دُنیا کے ہر معاملہ میں اس سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے او رہدایت کا طالب خواہ کسی مذہب کا ہو اس سے فائدہ اُٹھانے میںکوئی عذر پیش نہیں کر سکتا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں صرف سیدھے اور بے نقص راستہ دکھانے کی التجا ہے کسی مذہب کا نام نہیں کسی خاص طریقہ کا ذکر نہیں.کسی معیّن اصل کی طرف اشارہ نہیں صرف اور صرف صداقت اور غیرمخلوط اور خالص صداقت کی درخواست ہے جسے ہر شخص اپنے عقیدہ اور خیال کو نقصان پہنچائے بغیر دہرا سکتا

Page 58

ہے.ایک مسیحی ایک یہودی ایک ہندو ایک زردشتی ایک بدھ ایک دہریہ بھی ان الفاظ پر اعتراض نہیں کر سکتا.دہریہ خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا لیکن وہ یوں کہہ سکتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو میں اس سے کہتا ہوںکہ مجھے سیدھا راستہ دکھا.پس یہ دُعا جامع بے ضرر اور عام ہے ہر شخص ہر حالت میں اس کا محتاج ہے اور اس کے مانگنے میں اسے کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.میرا تجربہ ہے کہ جن غیر مذاہب کے لوگوں نے میرے کہے پر یہ دُعا مانگی ہے اللہ تعالیٰ نے ان پر اسلام کی سچائی کھول دی ہے اور میں تجربہ کی بناء پر یقین رکھتا ہوں کہ جو کوئی بھی سچے دل سے یہ دُعا مانگے گا اس کی ہدایت کے لئے ضرور کوئی سامان خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جائے گا کہ یہ ممکن نہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا موجود ہو اور ہدایت کے لئے چلانے والا اس کے دروازہ سے مایوس آئے.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ١ۙ۬ۦغَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ ان لوگوں کے راستے پر جن پر تو نے انعام کیا جن پر نہ تو( بعد میں تیرا) غضب نازل ہوا (ہے) وَ لَا الضَّآلِّيْنَؒ۰۰۷ اور نہ وہ گمراہ( ہوگئے) ہیں.حَلّ لُغَات.اَنْعَمْتَ اَنْعَمْتَ.اِنْعَامٌ سے ہے انعام کے معنی فضل کرنے اور زیادہ کے ہیں (اقرب) یہ لفظ ہمیشہ اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جبکہ منعم علیہ یعنی جس پر احسان ہوا ہو عقل والی ہستی ہو (مفردات) غیرذوی العقول کی نسبت مثلاً گھوڑے بیل کی نسبت کبھی نہیں کہیں گے کہ فلاں شخص نے اس گھوڑے یا بیل پر انعام کیا ہاں یہ کہیں گے کہ فلاں انسان پر انعام کیا.اَلْغَضَبُ.اَلْغَضَبُ ثَوْرَانُ دَمِ الْقَلْبِ اِرَادَۃَ الْاِنْتِقَامِ غضب جرم کی سزا دینے کے ارادہ پر دل میں خون کے جوش مارنے کو کہتے ہیں.قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ اِتَّقُوا الْغَضَبَ فَاِنَّہٗ جَمْرَۃٌ تُوْ قَدُ فِیْ قَلْبِ ابْنِ آدَمَ اَلَمْ تَرَوْا اِلٰی اِنْتِفَاخِ اَوْدَاجِہٖ وَ حُمْرَۃِ عَیْنَیْہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.غضب سے بچو کیونکہ وہ ایک چنگاری ہے جو ابن آدم کے دل میں سلگائی جاتی ہے پھر فرمایا کیا تم نے دیکھا نہیں کہ جب کسی کو غضب آتا ہے تو اس کی رگیں پھول جاتی ہیں اور اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.وَاِذَا وُصِفَ اللّٰہُ تَعَالٰی بِہٖ فَالْمُرَادُ اَ لْاِنْتِقَامُ دُوْنَ غَیْرِہٖ اورجب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنی صرف جُرم کی سزا دینے کے ہوتے

Page 59

ہیں دوسری باتیں اس وقت مدنظر نہیں ہوتیں (مفردات) پس غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ کے یہ معنی ہوئے کہ جن کے افعال کو اللہ تعالیٰ نے برا قرار دے کر ان کے لئے سزا کا فیصلہ کر لیا ہے.وَلَا الضَّالِّیْن.ضَلَّ کے معنے سیدھے راستہ سے ہٹ جانے کے ہیں اور یہ لفظ ہدایت کے مقابل پر ہے اور ضلال کا لفظ راستی سے خلاف ہر فعل پر بولا جاتا ہے خواہ دانستہ ہو یا نادانستہ.معمولی فعل ہو یا کوئی بڑا جرم ہو (مفردات) ضَلَّ کے معنے کسی کام میں منہمک ہو جانے کے بھی ہیں قرآن کریم میں آتا ہے.اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (الکہف :۱۰۵) ان کی تمام کوششیں دنیا کی زندگی میں ہی لگی ہوئی ہیں اور وہ بالکل دنیا کے کاموں میں ہی منہمک ہیں.یہ معنے وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى (الضحیٰ:۸) کی آیت میں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.جب ہم نے تجھے اپنی محبت میں منہمک دیکھا اور اپنے عشق میں کھویا ہوا پایا تو اس کے نتیجہ میں ہم نے اپنی ذات تک تیری راہنمائی فرمائی.اردومیں بھی کھویا ہوا ،کھویا رہنا انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آج کل کچھ کھویا کھویا سا رہتا ہے یعنی کسی خاص خیال میں محو رہتا ہے انگریزی میں بھی یہ محاورہ پایا جاتا ہے.میں صرف ان حوالوں سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ایک طبعی محاورہ ہے اور فطرت انسانی سے ایک نہایت قریب مناسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بہت سی زبانوں نے اسے اختیار کر لیا ہے.وَ وَجَدَكَ ضَآلًّا  کے معنی بالکل اسی محاورہ کے مطابق ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشقِ الٰہی میں محو ہو گئے تھے اور ہر وقت کھوئے کھوئے رہنے لگ گئے تھے اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا پسند آئی اور یہ عشق اُس کے عشق کو جذب کرنے کا موجب ہو گیا.پس جو عاشق اس کے عشق میں کھویا گیا تھا وہ اُسے خود جا کر اپنے دروازہ تک لے آیا.مگر یہاں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ضَلَّ کا لفظ عام طور پر برے معنوں میں ہی استعمال ہوتا ہے پس جب اچھے معنوں میں استعمال ہو تو اس کے لئے کسی قرینہ کی ضرورت ہو گی جیسے اوپر کی آیت میں فَھَدٰی کا قرینہ ہے.تفسیر.جب سیدھے راستہ کے دکھانے کی دُعا سکھائی تو اس میں اس امر کو بھی شامل کیا کہ وہ راستہ ان لوگوں کا ہو جن پر تُو نے انعام کیا ہے یعنی معمولی راستہ نہ ہو بلکہ اعلیٰ اور ترقی یافتہ ارواح کا راستہ ہو.مسلمانوں کے لئے ایک شاندار مقصد یہ کیسا شاندار مقصد ہے جوہر مسلمان کے سامنے اسلام نے پہلی ہی سورۃ میں رکھا ہے اسے نیکیوں میں اور اچھی چیزوں میں صرف نیکی کی خواہش نہیں رکھنی چاہیے بلکہ انعام جیتنے والوں کی جماعت میں شامل ہونے کی خواہش رکھنی چاہیے.اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنے والا چھوٹے درجہ پر صبر نہیں کر سکتا.خدا تعالیٰ کی محبت انسان کے دل میں ایسی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ وہ معمولی ترقی پر خوش نہیں ہوتا.وہ خوش ہو ہی

Page 60

نہیں سکتا کیونکہ خدا تعالیٰ کی جستجو کے بعد کونسی چیز ہے جو اسے خوش کر سکے گی؟ جو خدا تعالیٰ کا طالب ہوا وہ ساری ترقیات کا طالب ہوا.اور جس نے خدا تعالیٰ کو سمجھا وہ کسی ترقی کو بھی آخری ترقی نہیں سمجھ سکتا.مگر مومن کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی کا مقام یہ ہے کہ یہ خواہش صرف اس کے دل سے پیدا نہیں ہوتی اس کا ربّ بھی اسے یہی تعلیم دیتا ہے کہ دیکھنا چھوٹے درجہ پر راضی نہ ہو جانا مجھ سے نیکی مانگو مگر معمولی نیکی نہیں بلکہ وہ نیکی جو ان لوگوں کو حاصل تھی جنہوں نے نیکیوں کی دوڑ میں انعام حاصل کئے تھے اور کسی ایک دوڑ کے انعام حاصل کرنے والوں کا انعام نہیں بلکہ سب انعام پانے والوں کے انعام مجھ سے طلب کرو.ُلغت کے متعلق تو میں اوپر بتا آیا ہو ںکہ انعام کے کوئی خاص معنے نہیں بلکہ ہر اچھی چیز کو جو خوشنودی کے اظہار کے لئے کسی کو دی جائے وہ انعام ہے خواہ وہ دنیوی ہو یا دینی.قرآن کریم میں بھی یہ لفظ انہی وسیع معنوں میں آیا ہے سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذَاۤ اَنْعَمْنَا عَلَى الْاِنْسَانِ اَعْرَضَ وَ نَاٰ بِجَانِبِهٖ (بنی اسرائیل:۸۴) یعنی جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ پھیر لیتا ہے او رایک طرف ہو جاتا ہے یعنی بجائے انعام پر شکر گزار ہونے کے ہماری طرف سے غافل ہو جاتا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ انعام کے معنے دنیا کے سامان علم، ُہنر ، دنیاوی عزتیں وغیرہ بھی ہیں کیونکہ یہی چیزیں ہیں جو ایک احسان کا رنگ بھی رکھتی ہیں اور بہت سے لوگ ان احسانات کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کو ُبھلا دیتے ہیں.مصائب اور مشکلات سے بچا لینے کا نام بھی قرآن کریم میں نعمت آیا ہے.فرماتا ہے.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ هَمَّ قَوْمٌ اَنْ يَّبْسُطُوْۤا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ١ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (المائدة: ۱۲) اے مومنو! اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب ایک قوم ( بُری نیّت سے) تمہاری طرف ہاتھ بڑھانے کا قصد کر رہی تھی تو ہم نے ان کے ہاتھوں کو تم (تک پہنچنے) سے روکے رکھا اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ پر ہی توکل کیا کریں.اس آیت میں دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنے کا نام نعمت رکھا گیا ہے.مگر جہاں ہر احسان نعمت ہے وہاں اس کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بعض احسان خاص طور پر نعمت کہلانے کے مستحق ہیں.کیونکہ وہ مختلف قسم کے احسانوں میں سے چوٹی کے احسان ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ (المائدة :۲۱) یعنی اس وقت کو بھی یاد کرو جبکہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم!

Page 61

اللہ نے جو تم پر نعمت کی ہے اسے ہر وقت اپنی نگاہ میں رکھو اور وہ نعمت یہ ہے کہ اس نے تم میں سے نبی بنائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تمہیں وہ کچھ دیا جو نسل انسانی کی مختلف اقوام میں سے اور کسی قوم کو نہ دیا تھا.اس آیت میں ان اشیاء کو جو انسان کے لئے نعمت قرار پا سکتی ہیں گنا گیا ہے اور یہود کو بتایا ہے کہ ان سب اقسام میں سے انہیں کثیر حصہ دیا گیا ہے.تین قسم کے انسانی کمالات انسانی کمالات تین قسم کے ہوتے ہیں (۱) دنیوی ذاتی (۲) دینی ذاتی (۳) اور دینی دنیوی نسبتی یعنی علاوہ دنیوی اور دینی کمالات کی قسموں کے ایک کمال کی قسم یہ بھی ہے کہ کسی فرد یا قوم کو اپنے رقیبوںپر کیا فضیلت حاصل ہے؟ فضیلت کی اس قسم کی طرف انسان فطرتاً بہت راغب ہوتا ہے یعنی وہ صرف کمال کا طالب نہیں ہوتا بلکہ ایسے کمال کا طالب ہوتا ہے جو اسے اپنے ہم عصروں اورر قیبوں پر فضیلت بخشے.مذکورہ بالا آیت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی طرف تینوں قسم کے کمالات منسوب فرمائے ہیں (۱) ان پر دنیوی انعامات ہوئے یہاں تک کہ وہ قوم ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کی وارث کی گئی.تمام دنیوی کمالات اپنے نشوو نماپانے کے لئے بادشاہت چاہتے ہیں اور جس قوم میں بادشاہت آجائے اسے دنیوی ترقی کے سب اسباب میسّر آ جاتے ہیں خواہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے یا نہ اُٹھائے اس لئے کسی قوم میں ایک لمبے عرصہ تک بادشاہت کا وجود قائم کر دینے کے یہ معنے ہیں کہ دنیوی ترقیات کے سب رستے اس کے لئے کھول دیئے گئے (۲) جس طرح بادشاہت دنیوی کامیابیوں کا ذریعہ ہے اس کی آخری منتہاء ہے اسی طرح دینی کامیابیوں کا ذریعہ اور دینی ترقی کی منتہاء نبوت ہے اس بارہ میں حضرت موسیٰ اپنی قوم سے فرماتے ہیں کہ وہ ذریعہ اور وہ انتہائی انعام بھی تم کو دیا گیا ہے.اور ایک دو نبی نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ انبیاء کا تم کو عطا ہوا ہے.(۳) تیسرا انعام نسبتی ترقی ہے یعنی دنیوی یا دینی انعامات نہ ملیں بلکہ دوسری اقوام کے مقابلہ میں بھی زیادہ ملیں.جس سے ہم عصروں پر عزت اور فوقیت حاصل ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ(المائدة:۲۱) فرما کر اپنی قوم کو توجہ دلاتے ہیں کہ دوسری اقوام پر برتری کا انعام بھی اللہ تعالیٰ نے تم کو بخشا ہے تم کو بادشاہت ہی نہیں دی بلکہ شہنشاہیت بھی دی ہے اور نبوت ہی نہیں دی بلکہ ایسے انبیاء عطا کئے جو دوسرے نبیوں کے لئے مشعل ہدایت کا کام دینے والے ہیں اور جن کے ماتحت اور انبیاء ہیں پس تینوں قسم کے انعام تم کو حاصل ہیں دنیوی بھی اور دینی بھی اور دوسری قوموں پر دنیوی اور دینی برتری بھی.یہ قول تو موسیٰ علیہ السلام کا ہے لیکن عبارت قرآن کریم کی ہے.ایک مبصّر اس کے الفاظ کے اختصار اوراس

Page 62

ہے یعنی وہ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوںگے نہ کہ ان میں سے.اس اعتراض کی کمزوری خود ہی ظاہر ہے اگر مَعَ کا لفظ نبیوں کے ساتھ ہوتا تب تو کہا جا سکتا تھا کہ امتِ محمدؐیہ میں نبی نہ ہوںگے مگر ایسے لوگ ہوںگے جو نبیوںکے ساتھ رہیں گے لیکن قرآن کریم نے مَعَ کا لفظ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْکے ساتھ لگایا ہے پس اگر مَعَ کے معنے یہ کئے جائیں کہ جس لفظ پر مَعَ آیا ہے وہ درجہ مسلمانوں کو نہ ملے گا بلکہ اس درجہ کی معیت ملے گی تو پھر اس آیت کے یہ معنی بنیں گے کہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی منعم علیہ یعنی انعام پانے والا نہیں ہو گا بلکہ صرف یہ ہو گا کہ ان کے کچھ افراد انعام پانے والوں کے ساتھ رہیں گے اور ان معنوں کو قرآن.حدیث اور عقلِ سلیم ردّ کرتی ہے.اگر کہا جائے کہ مَعَ کا لفظ در حقیقت اس تشریح کے ساتھ لگتا ہے جو اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ کی اس آیت میں کی گئی ہے تو بھی یہ اعتراض بالبداہت غلط ثابت ہوتا ہے کیونکہ تشریح میں چار گروہوں کا ذکر ہے نبیوں صدیقوں شہیدوں اور صالحوں کا.اب اگر مَعَ کے معنے صرف معیت کے ہیں نہ کہ گروہ میں شمولیت کے تو پھر اس تشریح کے مطابق اس آیت کے یہ معنے ہوںگے کہ مسلمان نبی نہ ہوںگے بلکہ نبیوں کے ساتھ رہیں گے.صدیق نہ ہوں گے بلکہ صدیقوں کے ساتھ رہیں گے.اسی طرح شہید اور صالح نہ ہوںگے بلکہ شہیدوں اور صالحوں کے ساتھ رہیں گے اس سے زیادہ غلط معنے اور کیا ہو سکتے ہیں؟ اور اس سے زیادہ رسول کریم صلیّ اللہ علیہ وسلم کی اور اُمت ِ محمدؐیہ کی ہتک کیا ہو سکتی ہے کہ اس امت میں نبی تو الگ رہے صدیق اور شہید اور صالح بھی نہ ہوںگے.نبوت موھبت ہے تو اس کے لئے دعا کی کیوں ضرورت ہے؟ بعض لوگوں نے اس جگہ پر اعتراض کیا ہے کہ نبوت تو موھبت ہے اس کے لئے دُعا کے کیا معنی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا انسان نبوت کے لئے نہیں کرتا امت ِمحمدؐیہ تو دعااس امر کے لئے کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ اسے اعلیٰ سے اعلیٰ انعام عطا فرمائے.یہی اس آیت کا مفہوم ہے آگے یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ وہ جس پر جو چاہے انعام کرے.اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (الانعام :۱۲۵) نبوت بیشک موھبت ہے مگر یہ موھبت ابوجہل پر کیوںنہ ہوئی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیو ںہوئی؟ موھبت کو جذب کرنے کے لئے بھی تو ایثار اور قربانی کی ضرورت ہوتی ہے دوسرے یہ کون کہتا ہے کہ مومن کو یہ سکھایا گیا ہے کہ وہ دُعا کرے کہ یا اللہ مجھے نبوت عطا کر.ایسی دعائیں روحانی امور تو الگ رہے دنیوی امور کے لئے بھی بعض دفعہ ناپسندیدہ اور مکروہ ہوںگی.کوئی بڑھئی یہ دعا شروع کر دے کہ یا اللہ مجھے کالج کا پرنسپل بنا دے.یا کوئی ُلولا لنگڑا یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے فوج کا سپہ سالار بنا دے تو یہ دعائیں لغو اور فضول ہوںگی.دُعائوں کی قبولیت حالات اور مصالح آسمانی کے ماتحت ہوتی ہیں.پس مومن کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ روحانی مقامات

Page 63

کے لئے نام لے لے کر دعا کرے.نبوت تو الگ رہی اگر کوئی یہ دعا کرے کہ یا اللہ مجھے صدیق بنا دے.مجھے قطب بنا دے.مجھے شہید بنا دے.تو یہ دعا بھی ناپسندیدہ ہو گی.اھدنا.....الخ آیت میں جمع کا صیغہ استعمال کرنے کی حکمت اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اِھْدِنَا کہہ کر دعا سکھائی ہے اِھْدِنِیْ کے الفاظ نہیں رکھے کیونکہ جمع کے الفاظ میں قومی ترقی کی طرف اشارہ ہے.اللہ تعالیٰ قوم میں سے جسے جس قرب کے مقام کے لئے چنا جا سکتا ہے اس کے لئے اسے چن لیتا ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دعا حصولِ انعام کے لئے ہے پس جب نبوت بھی موھبت یعنی انعام ہے تو اگر اس دعا کو قوم کے لئے حصول نبوت کی دعا قرار دیا جائے تواس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.خلاصہ کلام یہ کہ اس دعا میں ہر قسم کے انعامات کے طلب کرنے کی دعا سکھائی گئی ہے اور تمام کاموں میں صحیح راہ نمائی کی دعا سکھائی گئی ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ سب انعامات مسلمانوں کو ملیں گے او ران میں وہ خود نبوت کو شامل فرماتا ہے پس اس انعام کو الگ رکھنے کا حق کسی کو حاصل نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے باوجود کوئی نبی کیونکر ہو سکتا ہے؟ اس جگہ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیّٖن ہیں تو آپؐ کے بعد نبی کس طرح آ سکتا ہے ؟ سو اس اعتراض کا جواب بھی سورۂ نساء کی آیت میں موجود ہے کیونکہ اس آیت میں وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ کے الفاظ ہیں یعنی اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے کو یہ انعام ملیں گے اور یہ ظاہر ہے کہ جو مطیع ہو گا اس کا کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام سے الگ نہیں ہوسکتا.نہ وہ کوئی شریعت لا سکتا ہے پس جو نبی محمد رسول اللہ کے تابع ہو گا وہ خاتم النبیین کے خلاف نہیں بلکہ اس کے معنوں کو مکمل کرنے والا ہو گا.مقام نبوت کے حاصل ہوجانے کے بعد آنحضرت کے اِھْدِنَا کی دعا کرنے سے مراد ایک صاحب جو اس زمانہ کے مفسر ہیں.اور اپنے ترجمہ قرآن کریم کو بار بار پیش کرنے کے عادی ہیں.انہوں نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ اگر یہ دعا نبوت کے حصول کے لئے ہوتی تو کم از کم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام نبوت سے کھڑا ہونے سے پہلے سکھائی جاتی مگر قرآن کریم میں اس کا موجود ہونا بتاتا ہے کہ مقام نبوت کے ملنے کے بعد سکھائی گئی پس نبوت عطا فرمانے کے بعد اس دعا کا سکھانا بتاتا ہے کہ حصول نبوت کے لئے یہ دعا نہیں.یہ اعتراض انتہاء درجہ کا بودا اور مصنف کے قلتِ تدبرّپر دلالت کرتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں جو دعا سکھائی گئی ہے وہ تو ایک طبعی دعا ہے ان الفاظ میں دعا کرنا صرف اس لئے بابرکت ہے کہ قرآنی الفاظ مبارک ہیں اور غلطی سے پاک

Page 64

Page 65

ورنہ تمام حق کے متلاشی خواہ کسی مذہب کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں جب ان کے دل میں صداقت کے پانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے تو وہ انہی کے ہم معنی الفاظ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یا اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا اور اپنے پیاروں کا راستہ دکھا.کیا کوئی معقول انسان بھی یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں نبوت سے پہلے یہ خواہش پیدا نہ ہوئی تھی کہ خدا تعالیٰ انہیں سیدھا راستہ دکھائے اور اپنے پیاروں کی راہ پر چلائے.اس قسم کا تو خیال بھی انسان کو کافر بنا دیتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کی تڑپ ہی تو تھی جس نے خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنی طرف جذب کیا اس تڑپ کو ہی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.قرآنی الفاظ نے صرف یہ فرق پیدا کیا ہے کہ اول الفاظ ایسے چنے ہیں جو کامل ہیں اور ہر نقص سے پاک ہیں.دوسرے ان کے ذریعہ سے ان کے دل میں بھی تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جن کے دل میں یوں تڑپ نہ ہوتی.تیسرے امید پیدا کر دی گئی ہے کہ ایسی دعا کرو گے تو قبول ہو گی بلکہ حکم دیا ہے کہ یہ دعا کرو.ورنہ یہ خیال کرنا کہ اس قسم کا مفہوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا نہیں ہوتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت ہتک ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بھی ہتک ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تو سیدھا راستہ پانے کی کوئی تڑپ نہ تھی مگر اللہ تعالیٰ نے زبردستی آپؐ کو نبی بنا دیا.(نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ الْخَرَافَات) پھر اگر یہ اعتراض معقول ہے تو کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کے نزول سے پہلے نیک تھے یا نہیں خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار تھے یا نہیں.خدا تعالیٰ کا قرب انہیں قرآن کریم کے نزول سے پہلے حاصل تھا یا نہیں؟ اگر ان باتوں کے جواب اثبات میں ہیں تو کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ پھر ہمیں اس نماز کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے روزہ کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہے اس قسم کے جہاد کی کیا ضرورت ہے.یا اور دوسرے شرعی احکام کی کیا ضرورت ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تقویٰ اور محبت ِ الٰہی بغیر ان احکام پر عمل کرنے کے حاصل ہو گیا تھا تو ہمیں بھی ان کے بغیر حاصل ہو جائے گا.بلکہ دین کے معاملات کوجانے دو.دنیوی چیزوں میں ہی اگر کوئی کہے کہ پہلی مرغی یا پہلا انڈا کیونکر بنا تھا.پہلا دانہ اور پہلا درخت کیونکر بنا تھا؟ اب بھی اسی طرح بن جائےگا ہمیں ان کے پیدا کرنے کے لئے قانون قدرت کے مطابق کوشش کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ تو اس شخص کو ہر کوئی نادان کہے گا خدا تعالیٰ کا قانون اس وقت کے لئے جب بیج مٹ جاتا ہے اَور ہے اور جب بیج پیدا کر دیا جاتا ہے اَور ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کے نزول سے پہلے دنیا سے پاکیزہ تعلیم مٹ چکی تھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک فطرت

Page 66

میں جذبات محبت پیدا ہوئے.اور اللہ تعالیٰ نے بغیر اس کے کہ وہ خاص الفاظ یا خاص انداز میں بیان کئے جاتے ان کو قبول کیا اور نوازا.لیکن جب قرآن کریم نازل ہو گیا.ہر اک امر کے لئے خاص قواعد بن گئے تو اب ان کے بغیر وہ نعمتیں حاصل نہیں ہو سکتیں جو اس سے پہلے حاصل ہو سکتی تھیں.محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین اور شریعت کی بنیاد رکھ دی اور اب اس قانون اور شریعت سے باہر رہنے والا ہرگزکامیاب نہیں ہو سکتا.نبی کے مقام کی تشریح اس سوال پر ایک او رپہلو سے بھی نظر کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ کیا نبی صرف ایک عہدہ کا نام ہے یا نبی کے لئے تقویٰ طہارت اور قربِ الی اللہ کی بھی شرط ہے؟ اگر ان باتوں کا پایا جانا نبی کے لئے شرط ہے توپھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ غیر نبی.نبی سے تقویٰ اور طہارت اور قرب الی اللہ میں زیادہ ہو؟ اگر تو اس کا جواب یہ مفسر اور ان کے ہمنوا یہ دیں کہ ہاں یہ ممکن ہے کہ ایک غیر نبی تقویٰ طہارت اور قربِ الی اللہ میں نبی سے بڑھ کر ہو توپھر نزاع لفظی رہ جاتی ہے.لیکن اگر اس سوال کا جواب یہ ہو کہ غیر نبی نبی سے ان باتوں میں افضل نہیں ہو سکتا تو جو شخص یہ کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ظلّی بروزی اور نبوت محمدؐیہ کی تابع نبوت بھی نہیں ہو سکتی وہ یہ کہتا ہے کہ اس امت میں کوئی شخص قرب الی اللہ کے اس مقام کو نہیں پہنچ سکتا جس مقام پر پہلے لوگ پہنچے تھے اور ایسا دعویٰ کرنے والا شخص یقیناً امتِ محمدؐیہ کو انعام سے محروم قرار دیتا ہے.اجرائے نبوت کے متعلق ایک اعتراض کا جواب ایک اعتراض انہی مفسر صاحب نے یہ کیا ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں ایک مسلمان کی بھی دعا اس بارہ میں قبول نہ ہوئی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دعا کی قبولیت تو دعا کی مقدار اور نوعیت پر منحصر ہے یہ معترض صاحب بھی تسلیم کرتے ہیں کہ صدیقیت کا مقام اس امت میں مل سکتا ہے پس یہی سوال ان کے مسلمات کے متعلق بھی کیا جا سکتا ہے کہ اس امت میں کتنے لوگوں کو صدیقیت کا مقام ملا ہے؟ اگر گزشتہ تیرہ سو سال میں صرف ابوبکرؓ کو ملا ہے تو یہی اعتراض پھر بھی پڑے گا کہ کیا تیرہ سو سال میں یہ دعا او رکسی کے حق میں قبول ہی نہ ہوئی اور اگر اوروں کو بھی ملا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ اشخاص عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ سے بڑھ کر تھے یا کم؟ اگر کم تھے تو پھر یہ کیونکر ہوا کہ کم درجہ کے لوگ صدیق بن گئے اور بڑے درجہ کے لوگ شہید تک ترقی پا سکے صدیق نہ کہلا سکے.غرض جو اعتراض نبوت کے اجراء پر ہوتا ہے وہی اعتراض صدّیقیت کا دروازہ کھلا تسلیم کر کے اس پر ہوتا ہے پس یہ اعتراض محض قلّتِ تدبر کی وجہ سے ہے حقیقت پر مبنی نہیں.اس آیت کے بارہ میں ایک اور نکتہ بیان کر دینا میں ضروری سمجھتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے

Page 67

سورۃ فاتحہ کے جو نام بتائے ہیں ان میں سے دو نام اُمُّ الْقُرْآن اور اُمُّ الْکِتَاب بھی ہیں (ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ) میرے نزدیک یہ نام قرآن کریم ہی سے مستنبط ہیں اور ان کا ماخذ یہی آیت ہے.اس آیت اور پہلی آیت میں بتایا ہے کہ عباد ت الٰہی کی آخری منزل یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ سے منعم علیہ گروہ والا صراط مستقیم طلب کرے.اب اگر یہ دعا قبول ہو سکتی ہے تو ظاہر ہے کہ جب انسانی دل سے بہ حیثیت قوم اللہ تعالیٰ کی طرف پکار بلند ہو گی کہ ہم تباہ ہو رہے ہیں ہمارے لئے ہدایت کا راستہ کھولا جائے اور اس کے ساتھ اس زمانہ کے اس مکمل اور پاکیزہ دل کی التجا اور تڑپ بھی شامل ہو جائے گی جسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا مرد میدان بنایا ہے تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا رحم جوش مارے گا اور فضل ِ الٰہی الہام اور ہدایت کی صورت میں نازل ہو گا اسی طرح ہر زمانہ میں ہوتا چلا آیا ہے اور ہوتا چلا جائے گا.نوح ؑ کے وقت کے مظلوموں کی دعائیں حضرت نوح علیہ السلام کے مطہر قلب کی گریہ و زاری سے مل کر اس کلام کو لائی تھیں جو نوح علیہ السلام پر نازل ہوا تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت کی ارواح کی پکار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب صافی کی تڑپ کے ساتھ مل کر صحفِ ابراہیم کے نزول کا موجب ہوئی تھی.یہی قصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میںگزرا اور اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوا.صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نزول قرآن کریم سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے الگ ہو کر غارِ حرا میں جا کر دعائیں اور عبادت کیا کرتے تھے یہ تو قلب اطہر کی حالت تھی جو اپنے خیالات کو پڑھنے کی طاقت رکھتا ہے اس کے علاوہ دنیا کی مخفی آہیں بھی آسمان کی طرف بلند ہو رہی تھیں ان سب نے مل کر خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کیا اور قرآن کریم نازل ہوا.پس اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ درحقیقت اسی حالت کا نقشہ ہے جو نزول کلام سے پہلے دُنیا کی ہوتی ہے خصوصاً اس زمانہ کی پاکیزہ ارواح کی جن کے دل سے صرف آہ ہی نہیں اٹھتی بلکہ ان کے دماغ میں بھی ایک تلاطم برپا ہوتا ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس زمانہ کا کلام نازل ہوتا ہے پس چونکہ یہ دعا سورۂ فاتحہ میں نازل ہوئی ہے او ریہی دعا ہے جو کلام الٰہی کے نزول کا موجب ہوئی ہے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کا نام اُمُّ الْقُرْآن اور اُمُّ الْکِتَاب رکھا.یعنی سورۂ فاتحہ میں وہ مضمون بیان ہوا ہے جو نزول قرآن کا موجب ہوا اور چونکہ کسی امر کے وجود کا موجب بمنزلہ ماں کے ہوتا ہے اس لئے سورۃ فاتحہ اُمُّ الْقُرْآنکہلائی.سورۃ فاتحہ کے قرآن عظیم ہونے سے مراد یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 68

نے جو سورۃ فاتحہ کو قرآن عظیم قرار دیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ سورۂ فاتحہ قرآن عظیم ہے اور باقی قرآن چھوٹا ہے کیونکہ یہ امر بالبداہت غلط ہے پس اس کی وجہ اور ہے اور میرے نزدیک وہ وجہ اُمُّ الْقُرْآن اوراُمُّ الْکِتَاب والے نام ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو اُمُّ الْقُرْآن اوراُمُّ الْقُرْآن کہا تو آپؐ نے خیال فرمایا کہ اس سے شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شائد یہ سورۃ قرآن کریم سے الگ ہے اس لئے آپؐ نے اس کا نام قرآن عظیم بھی رکھا تاکہ مسلمانوں پر یہ واضح رہے کہ سورہ فاتحہ قرآن کریم سے باہر نہیں بلکہ اس کا حصہ ہے کسی چیز کا حصہ بھی چونکہ پوری چیز کے نام میں شریک ہوتا ہے اس لئے آپؐ نے سورۃ فاتحہ کو قرآنِ عظیم فرمایا.ہم ہمیشہ جب قرآن کریم کا کوئی حصہ سننا چاہیں تو کہتے ہیں کہ حافظ صاحب قرآن کریم کی تلاوت فرمائیں یا کہتے ہیں کہ فلاں شخص قرآن کریم پڑھ رہا ہے یا ایک آیت میں جو مضمون ہوتا ہے اس کے بارہ میں کہتے ہیں کہ قرآن یُوں کہتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ہمارے نزدیک صرف وہ سورۃ یا آیت قرآن ہے باقی قرآن نہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ سورۃ یا وہ آیت جسے ہم پڑھتے ہیں یا جس کا حوالہ دیتے ہیں قرآن کا حصہ ہے.اس جگہ ایک اور لطیفہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فاتحہ کو اُمُّ الْقُرْآن اور اُمُّ الْکِتَاب بھی فرمایا ہے اور قرآن عظیم بھی فرمایا ہے گویا ایک طرف اسے ذریعہ پیدائش قرار دیا دوسری طرف اسے وہ چیز بھی قرار دیا جو اس سے پیدا ہوئی ہے اس میں ایک زبردست روحانی نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ روحانی دنیا میں پہلی حالت دوسری حالت کی پیدا کرنے والی ہوتی ہے اس لئے پہلی حالت ایک جہت سے ماں کہلاتی ہے اور بعدکی حالت اولاد کہلاتی ہے اسی نسبت سے سورۃ فاتحہ کو امّ القرآن بھی کہا گیا اور بوجہ اس کے کہ وہ خود قرآن بھی ہے اسے قرآن بھی کہا گیا.انسانوں کے متعلق بھی ایسے ہی تغیرات کے مواقع پر اس قسم کے تشبیہی الفاظ استعمال کر لئے جاتے ہیں چنانچہ سورہ تحریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال اِمْرَأَۃَ فِرْعَوْن اور مریم بنت عمران سے دی جا سکتی ہے اور جن مومنوں کی مثال مریم بنت عمران سے دی ہے ان کے متعلق آخر میں فرمایا ہے.فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمٰتِ رَبِّهَا وَ كُتُبِهٖ وَ كَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِيْنَ(التّحریم :۱۳) ہم نے اس کے اندر اپنا کلام پھونکا اور وہ اپنے رب کے کلام پر اوراس کی کتابوں پر ایمان لائی اور آخر وہ ایک فرمانبردار مرد کی طرح ہو گئی یعنی جو لوگ مریمی صفت ہوتے ہیں جب ترقی کرتے کلام الٰہی کے مورد ہو جاتے ہیں تو مسیحی نفس بن جاتے ہیں.

Page 69

غرض سورۃ فاتحہ کا نام اُمُّ الْقُرآن اور اُمُّ الْکِتَاب بھی رکھنا اور اسے قرآنِ عظیم بھی کہنا اسلامی اصطلاحات پر ایک لطیف روشنی ڈالتا ہے او ران لوگوں کے لئے اس میں ہدایت ہے جو اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکے کہ امت محمدیہ کے ایک شخص کا نام کس طرح مریم بھی رکھا گیا اور عیسیٰ بھی.اگر سورہ فاتحہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی اُم بھی فرماتے ہیں اور قرآن بھی.تو ایک سچے مسلمان کے لئے اس امر کا سمجھنا کیا مشکل ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو مریم بھی فرماتا ہے اور عیسیٰ بھی.اس کی وہ حالت جب وہ خدا کے سامنے اس زمانہ میں ایک مسیح کے ظہور کے لیے چلا رہی تھی مریمی حالت تھی اور اس کی وجہ سے وہ مریم کہلایا جس طرح سورۃ فاتحہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی دعا کی وجہ سے جو ایک ہدایت نامہ کے لئے پکار رہی تھی اُمّ الْقُرْآن اور اُمّ الْکِتَاب کہلائی.لیکن جب اس فرد کامل کی دعا سنی گئی اور خدا تعالیٰ نے اسی کو دنیا کے لئے مسیحی نفس عطا کر کے مبعوث فرما دیا تو وہ عیسیٰ کہلایا.جس طرح اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ کی پکار نے بلند ہو کر جب قرآن کریم کو دنیا کی طرف کھینچا اور یہ دُعا خود اس کا حصہ بن گئی تو اُمّ الْقُرْآن اور اُمّ الْکِتَاب کہلانے کے بعد وہ قرآنِ عظیم کہلانے لگی.مسلمانوں کی ہدایت اور ترقی کے لئے ایک عظیم الشان مطمح النظر اس دعا کے بارہ میں ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے جسے صحابہ نے مدنظر رکھا اور ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی اور اگر بعد کے مسلمان بھی اسے یاد رکھتے تو یقینا وہ بھی ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھاتے کہ دنیا کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ کے لئے یادگار رہ جاتا.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس زرّین ہدایت کو جو اس آیت میں بیان کی گئی تھی بھلا دیا اور اس معیار سے گر گئے جس پر کہ اللہ تعالیٰ انہیں کھڑا کرنا چاہتا تھا.اگر آج بھی مسلمان اس ہدایت کو اپنا مطمح نظر بنا لیں تو سب تکلیفیں ان کی فوراً دُور ہو سکتی ہیں اور پھر وہ بے مثال عزت اور رفعت حاصل کر سکتے ہیں.وہ سبق جو اس آیت میں بیان ہوا ہے یہ ہے کہ ہر قوم کا ایک مقصد ہوتا ہے اور وہ اس مقصد کے حصول کے لئے جدوجہد کرتی ہے.اسی طرح دُنیا کی پیدائش کا بھی ایک مقصد ہے جو قوم اس مقصد کو پورا کر دے دُنیا کی پیدائش کا اصل مقصود کہلانے کی وہی قوم مستحق ہو گی.آدم علیہ السلام دُنیا میں آئے اور کچھ نیکیاں انہوں نے دُنیا کو بتائیں اس زمانہ کے لوگوں کے لئے وہ نہایت اعلیٰ تعلیم پر مشتمل تھیں.ان نیکیوں پر عمل کر کے اس زمانہ کے لوگوں نے بہت بڑی روحانی اور اخلاقی تبدیلی پیدا کی اور ان کی ذہنی قوتیں پہلے لوگوں سے بہت آگے نکل گئیں مگر ابھی انسان اس کمال کو نہ پہنچا تھا جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا پس اس کی ترقی کے لئے جستجو جاری رہی یہاں تک کہ

Page 70

Page 71

عرفان کو یکجائی طو رپر طے کرا دے جنہیں فرداً مختلف انبیاء کے ذریعہ سے مختلف اقوام طے کر چکی ہیں تاکہ انسانی پیدائش کا مقصد اُمت ِ محمدؐیہ کے ذریعہ سے پورا ہو جائے.صحابہؓ نے اس مقصد کو سامنے رکھا اور زمانہ سابق کی سب اقوام کے اخلاق کو یکجائی طور پر اپنے وجود میں پیدا کر کے ایک بے مثال نمونہ دنیا کے سامنے پیش کیا.آج اگر ہماری جماعت اس مقصد کو پھر اپنے سامنے رکھ لے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام محمود پر مبعوث ہونے کا وقت او ربھی قریب ہو جائے گا اور دنیا اپنی پریشان کن بے تابیوں سے محفوظ ہو جائے گی.مَغْضُوْب اور ضَالّ قوم سے مراد ہر شخص یا قوم جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کر کے اس کے غضب کو بھڑکا چکی ہو مَغْضُوْب عَلَیْھِمْ میں شامل ہے اسی طرح ہر قوم جو غیر اللہ کی محبت میں کھوئی گئی ہو اور اللہ تعالیٰ کو بھلا بیٹھی ہو وہ ضالّ ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں لفظوں کے خاص معنے بھی کئے ہیں امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں عَدِی بِنْ حَاتَم سے ایک لمبی روایت نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں ہے.قَالَ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)اِنَّ الْمَغْضُوْبَ عَلَیْھِمْ اَلْیَہُوْدُ وَاِنَّ الضَّالِّیْنَ اَلنَّصَارٰی.مَغْضُوْب عَلَیْہِمْ سے مراد یہود ہیں اور ضَالِّین سے مراد نصاریٰ ہیں.اسی طرح ترمذی نے بھی یہی روایت نقل کی ہے اور اس کے بارہ میں کہا ہے کہ حسن غریب ہے.اِبن مردویہ نے ابو ذر غفاریؓ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ سَأَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمُ قَالَ الیَہُوْدُ وَ قُلْتُ الضَّالِّیْنَ قَالَ النَّصَارٰی (بحوالہ فتح البیان جلد اوّل زیرتفسیر سورۃ الفاتحۃ) یعنی حضرت ابو ذرؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کون ہیں ؟آپؐ نے فرمایا.یہود.پھر میں نے کہا کہ ضَالِّیْن کون ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا.نصاریٰ.مَغْضُوْب اور ضَالِّیْن کی تشریح احادیث اور صحابہ کرام سے بہت سے صحابہؓ سے بھی یہ معنے ثابت ہیں مثلاً ابن عباس اور عبداللہ بن مسعود ابن ابی حاتم تو یہاں تک کہتے ہیں.وَلَا اَعْلَمُ بَیْنَ الْمُفَسِّرِیْنَ فِیْ ھٰذَا اِخْتِلَافًا.یعنی تمام مفسرین ان معنوں پر متفق ہیں اور اس بارہ میں مَیں نے اُن میں کوئی اختلاف نہیں دیکھا.(ابن کثیر تفسیر سورة الفاتحة) یہودیوں کے مَغْضُوْب اور عیسائیوں کے ضَال ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے قرآنی آیات سے بھی ان معنوں پر استدلال ہو سکتا ہے کیونکہ یہود کی نسبت قرآن کریم میں بار بار غضب کا لفظ استعمال ہوا ہے.مثلاً سورۃ بقرہ میں ہی فرماتا ہے.فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ (البقرة :۹۱) یہود خدا کے متواتر غضب کو لے کر اس طرح بن

Page 72

گئے کہ گویا خدا تعالیٰ کا غضب انہی کے لئے ہے.اس کے برخلاف نصاریٰ کے لئے ضَلَّ کا لفظ آیا ہے جیسے فرماتا ہے.اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (الکہف :۱۰۵) اسی طرح سورۂ مائدہ میں مسیحیوں کا ذکر کر کے اور مسیح اور ان کی والدہ کو خدائی کا رتبہ دینے کا بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہےيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِيْلِ (المائدة :۷۸) اے اہل کتاب ! (یعنی نصاریٰ کیونکہ اس جگہ انہی کا ذکر ہے) اپنے مذہبی خیالات میں غلوّ سے کام نہ لو اور ایسے لوگوں کے خیالات اوران کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے سے گمراہ چلے آ رہے ہیں اور بہتوں کو گمراہ کر چکے ہیں اور سیدھے راستہ سے بھٹک چکے ہیں یعنی عام نصاریٰ کو بتایا ہے کہ سب نصاریٰ شرک کے عقیدہ کے قائل نہ تھے ان میں سے موحّد بھی تھے اورمشرک بھی.مشرک گروہ جو مسیح کو خدا قرار دیتا تھا وہ خود بھی گمراہ تھا اور اس نے باقی مسیحیوں میں بھی اپنا عقیدہ پھیلانا شروع کیا اور اکثر حصہ کو اس گمراہی کے عقیدہ پر لے آیا اور جو سیدھا راستہ توحید کا تھا اُسے چھوڑ دیا.غرض قرآن کریم سے بھی اور اقوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ مغضوب علیہم میں خاص طو رپر یہود مراد ہیں اور ضالّین سے خاص طور پر نصاریٰ مراد ہیں.یہ آیت اَ لَّذِیْنَ کا یا اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں جو ھُم کی ضمیر ہے اس کا بدل ہے او راس کامفہوم یہ ہے کہ اے اللہ! ہمیں منعم علیہ گروہ کے راستہ پر چلا اور منعم علیہ سے ہماری مراد ایسے منعم علیہ ہیں جو بعد میں تیرے غضب کے مورد نہ ہو گئے ہوں یا جو کسی اور کی محبت میں تجھے چھوڑ نہ بیٹھے ہوں.اس مضمون میں مومن کے لئے خشیت کا بہت بڑا سامان مہیا ہے.اسے یاد رکھنا چاہیے کہ جب تک انسان اس مقام تک نہ پہنچ جائے جس کے بعد کوئی گمراہی نہیں اسے کبھی مطمئن نہیں ہونا چاہیے اور اس جدوجہد میں لگا رہنا چاہیے کہ اس کا قدم زیادہ سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ تقویٰ کی راہو ںپر پڑتا رہے تا ایسا نہ ہو کہ تھوڑی سی غفلت سے وہ اپنے مقام سے گِر کرتباہ اور برباد ہو جائے.آیت غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں ایک عظیم الشان پیشگوئی اس آیت میں ایک بہت بڑی پیشگوئی ہے جو ہر سوچنے والے کے لئے ترقی ایمان کا موجب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے اس وقت یہود اور نصاریٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھے بلکہ کفار مکہ آپؐ کے مقابلہ پر تھے.یہود اور نصاریٰ کی تعداد مکہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہ تھی او رنہ ان کا حکومت میں کوئی دخل تھا پھر کیا وجہ ہے کہ اس سورۃ میں یہ نہیں سکھایا گیا کہ دعا مانگو کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر مشرک ہونے سے بچائے بلکہ یہ سکھایا گیا ہے کہ دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ یہود اور نصاریٰ کے طریق پر چلنے سے بچائے مشرکین کا ذکر چھوڑ کر یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ مشرکین مکہ کا

Page 73

مذہب ہمیشہ کے لیے تباہ ہو جائے گا اس لئے اس دعا کی ضرورت ہی نہیں کہ خدا مسلمانوں کو مشرکین مکہ سا ہونے سے بچائے لیکن یہود اور نصاریٰ کا مذہب قائم رہے گا اس لئے اس بارہ میں دعا کرنے کی ضرورت رہے گی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہود و نصاریٰ میں شامل ہونے سے بچائے.یہودی فتنہ سے بچائے جانے کی دعا سکھانے کا مطلب اس آیت میں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ مسیحی تو اپنے مذہب میں مسلمانو ںکو شامل کرتے ہیں اس لئے اس دُعاکی ضرورت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو نصارٰے کے فتنہ سے بچائے لیکن یہود تو بالعموم غیر مذاہب کے افرا دکو اپنے اندر شامل نہیں کرتے پھر اس دعا کی کیا ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ انہیں یہود ہونے سے بچائے؟ خدا تعالیٰ کا کلام ایک بے معنی اور بے ضرورت دعا کے کرانے کا مجرم نہیں ہو سکتا نہ یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ محمدؐ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسی غیرضروری دعا دن میں تیس چالیس بار پڑھنے کا حکم دیں گے.پس مسلمانوں کو غور کرنا چاہیے کہ یہودی فتنہ کسی اور رنگ میں تو ان کے لئے ظاہر نہیں ہونے والا.کیا یہ تو ممکن نہیں کہ آنے والے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کی حالت یہود کے مشابہ ہو جائے گی.اوریہ حالت اس وقت ہو گی جبکہ مسیحی فتنہ بھی بڑے زور سے اسلام پر حملہ کر رہا ہو گا.پس ایک طرف تو ایک مثیل مسیح کا انکار کر کے انہیں یہود سے مشابہت ہو جائے گی اور وہ خدا تعالیٰ کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے دوسری طرف مسیحیت ان پر حملے کر کے ان کے ہزاروں جگر کے ٹکڑے ان سے چھین کر لے جائے گی.کیا یہ آیت ایک زبردست پیشگوئی نہیں ہے.کیا اس سے فائدہ اٹھا کر وہ ان دو آگوں سے نجات حاصل نہیں کر سکتے؟ سورۃ فاتحہ کی آیات میں پرُلطف ترتیب اس سورۃ پر نظرِ غائر ڈالنے سے ایک اور لطیف خوبی کاپتہ چلتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس سورۃکی آیات میں رکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ اور دُعائوں کا بیان بالکل ایک دوسرے کے مقابل میں ہوا چنانچہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ (یعنی سب تعریف اللہ کے لئے ہے) کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں) ہے جس سے بتایا ہے کہ جونہی انسان معلوم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سب خوبیو ںکا جامع ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں پھر رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ کے مقابلہ میں اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کو رکھا ہے کیونکہ جب انسان کو یقین ہو جائے کہ ہمارا خدا ہر ایک ذرہ ذرہ کا خالق اور محسن ہے تو وہ کہہ اُٹھتا ہے کہ ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں.اسی طرح الرَّحْمٰن کے مقابلہ میں جس کے معنے بغیر محنت اور مبادلہ کے دینے والا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَکو رکھا ہے.کیونکہ جب انسان دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے کسی عمل کے بغیر

Page 74

اس کی تمام ضروریات کو پورا کیا ہے تو وہ بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے کہ میری سب سے بڑی ضرورت تو حضور تک پہنچنا ہے اس کے پورا کرنے کے سامان بھی پیداکیجئے.پھر الرَّحِیْم (یعنی محنت کا عمدہ بدلہ دینے والا) کے مقابلہ میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا یعنی ایسے لوگوں کا رستہ دکھایئے جن پر آپ نے انعام کئے ہیںسیدھے راستہ پر چلاتے چلاتے مجھے ان انعامات کا وارث کر دیجئے جو پہلے لوگوں کو ملے ہیں.کیونکہ رحیمیّت چاہتی ہے کہ کسی کام کو ضائع نہ ہونے دیا جائے.پھر مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ کے مقابلہ میں غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ کو رکھا کیونکہ جب انسان کو یقین ہو کہ میرے اعمال کا حساب لیا جائے گا تو فوراً اس کے دل میں ناکامی کا خو ف بھی پیدا ہو جاتا ہے.پس بندہ مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ پر غور کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچنے کی دُعا کرتا ہے.فطرت انسانی کے بموجب انسانی راہنمائی اس سورۂ شریفہ کی آیات پر اگر نظر غور ڈالی جائے اور ان کی ترتیب کو چشم تعمّق سے ملاحظہ کیا جائے تو صاف عیاں ہو جاتا ہے کہ اس میں انسان کے لئے بتدریج روحانی منازل طے کرنے اور منزل بہ منزل چل کر آخر قربِ الٰہی کا شرف حاصل کرنے کی ہدایات مندرج ہیں کسی ذات کی فرمانبرداری یا عبادت دوہی وجہ سے ہوتی ہے یا محبت سے یا خوف سے.سو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں اپنی دونوں قسم کی صفات کی طرف متوجہ کیا ہے بعض لوگ جن کی طبیعت میں احسان کی قدر کا مادہ زیادہ ہوتا ہے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرتے ہیں اور بعض لوگ احسانوں کی پرواہ بھی نہیں کرتے مگر خوف ان کو فرمانبرداری پر مجبور کر دیتا ہے.لیکن دانا انسان کا یہ کام ہے کہ پہلے محبت سے کام لے اور اگر اس سے کام نہ چلے تو پھر خوف دلائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس سورۃ میں پہلے اپنی اُن صفات کا بیان کیا ہے جن پر غور کرنے سے انسان کا دل محبت ِ الٰہی سے پُر ہو جاتا ہے اس کا نام اللّٰہ ہے یعنی سب خوبیوں کا جامع اور سب نقائص سے منزّہ ہے.سب اشیاء کا خالق او ران کا رازق ہے.مومن و کافر سب کی ربوبیّت کرتا ہے.اس نے ہماری زیست کے وہ سامان جن سے ہم واقف بھی نہیں ہمارے لئے پیدا کئے ہیں.اور ہم جو نیک عمل کریں ان کا بہتر سے بہتر انعام دیتا ہے جو لوگ کسی چیز کی خوبصورتی یا اس کے احسان کو دیکھ کر فرمانبرداری کرنے کے عادی ہیں وہ ان صفات کو دیکھ کر بے اختیار اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ کر اُس کے آگے جُھک جاتے ہیں لیکن جو لوگ محبت کے اثرات سے ناواقف ہوتے ہیں اور سخت سلوک کے عادی ہوتے ہیں وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنَ کی صفت پر جب غور کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک ہے اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہو کر اس کے سب انعامات کا حساب دینا ہو گا وہ خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو کر اس کے آگے گردن جھکا دیتے ہیں اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ کہہ اُٹھتے ہیں.غرض کوئی انسان ہو خواہ محبت سے متأثر ہونے

Page 75

Page 76

میں آپ کے سوا کسی اور شے کا عشق پیدا ہو جائے اور مَیں آپ کو چھوڑ کر کسی اور طرف چلا جائوں.یہ ایک ایسی کامل اور جامع دُعا ہے جو خدا تعالیٰ نے محض اپنے رحم سے انسان کو اپنے حضور عرض کرنے کے لئے تعلیم کی ہے کہ جس کے مقابلہ میں کوئی اور مذہب اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتا.غور کرو کس طرح انسانی فطرت کا اوّل سے آخر تک نقشہ کھینچ دیا ہے اور کس طرح تمام قسم کے متفرق خیالات کے لوگوں کا علاج اس چھوٹی سی سورۃ میں بتا دیا ہے پس جو سمجھنے والے ہیں سمجھیں اور جو سوچنے والے ہیں سوچیں کہ دُنیا کا نجات دہندہ مذہب سوائے اسلام کے اور روحانی بیماریوں کا علاج سوائے قرآن کے کوئی نہیں.آمِیْن صحیح حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں جب سورۃ فاتحہ کو غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّيْنَ پر ختم کرتے تو آمین کہتے جس کے معنے اَللّٰھُمَّ اسْتَجِبْ لَنَا کے ہیں.یعنی اے اللہ !ہماری یہ عرض قبول فرما.اور باتباع ارشاد نبوی صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل ثابت ہے.خ خ خ

Page 77

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ مَدَنِیَّۃٌ وَ ھِیَ مَعَ الْبَسْمَلَۃِ مِائَتَانِ وَ سَبْعٌ وَّ ثَمَانُوْنَ اٰ یَۃً وَّ اَرْبَعُوْنَ رُکُوْعًا سورۃ بقرۃ.یہ سورت مدنی ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی دو سوستاسی آیتیں ہیں اور چالیس رکوع ہیں.سورۃ البقرۃکے نام کا ذکر مختلف احادیث میں اس سورۃ کا نام سورۃ البقرۃ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے ثابت ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے گو احادیث سے یہ امر ظاہر نہیں ہوتا کہ آپ نے خود ہی یہ نام رکھا یا اللہ تعالیٰ کے فرمانے کے مطابق رکھا.مگر میرا اپنا یقین یہی ہے کہ سورتوں کے نام بھی اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکھے گئے ہیں.اس سورۃ کے نام کے متعلق جو روایات ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں.ترمذی میں ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِکُلِّ شَيْ ئٍ سَنَامٌ وَاِنَّ سَنَامَ الْقُرْاٰنِ سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ وَفِیْہَا اٰیَةٌ ھِیَ سَیِّدَۃُ آیِ الْقُرْاٰنِ ھِیَ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ (ترمذی ابواب فضائل القرآن.باب ماجاء فی سورۃ البقرۃ و آیۃ الکرسی) یعنی ہر چیز کا ایک چوٹی کا حصہ ہوتا ہے اور قرآن کریم کی چوٹی کا حصہ سورۃ البقرہ ہے اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیات کی سردار ہے اور وہ آیۃ الکرسی ہے.سورۂ بقرہ مدنی ہے یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور مختلف وقتوں میں نازل ہوتی رہی ہے اور بعض کے نزدیک اس کی ایک آیت آخری ایام میں حجۃ الوداع کے موقع پر قربانی کے دن نازل ہوئی تھی اور وہ وَ اتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ (البقرۃ :۲۸۲)کی آیت ہے اس سورۃ کی رِبَاء کی آیات (یعنی سود کے احکام پر مشتمل آیات) قرآن کریم کی آخری زمانہ میں نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں.سورۂ بقرہ کے فضائل.سورۂ بقرہ کے یاد کرنے کی وجہ سے ایک نوجوان کا امیرِ لشکر تجویز ہونا ترمذی نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج بھجوائی جو آدمی اس کے لئے چنے گئے.آپؐ نے اُن سے قرآن کریم سنا.آخر آپؐ ایک شخص کی طرف متوجہ ہوئے جو ان سب سے چھوٹی عمر کا تھا اور اس سے پوچھا کہ تم کو کتنا حصہ قرآن کریم کا یاد ہے اس نے کہا فلاں فلاں سورۃ کے علاوہ سورئہ بقرہ بھی یاد ہے آپؐ نے فرمایا کہ کیا سورۃ البقرہ تم کو یاد ہے؟ اس نے کہاہاں یا رسول اللہ !آپؐ نے فرمایا.بس تو تم اس لشکر کے سردار مقرر کئے جاتے ہو.اِس پر اُس قوم کے سرداروں میں سے ایک شخص نے کہا کہ خدا کی قسم !میں سورۂ بقرہ

Page 78

کے یاد کرنے سے صرف اس لئے رکا رہا ہوں کہ کہیں مجھے بعد میں بھول نہ جائے.یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن سیکھو اور اسے پڑھتے رہا کرو کیونکہ جو شخص قرآن سیکھتا ہے او رپھر اسے پڑھتا رہتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مشک بھرا ہوا ہو اور اس کی خوشبو نکل نکل کر سارے مکان میں پھیل رہی ہو.اور جو شخص قرآن سیکھ کر سو جائے اس حالت میں کہ قرآن اس کے اند رہو اس کی مثال اس تھیلی کی سی ہے جس میں مُشک بند پڑا ہو.(ترمذی ابواب فضائل القرآن باب سورۃ البقرۃ.ابن ماجة نے بھی اس روایت کو جزواً روایت کیا ہے) ابن مردویہ نے عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ کی تلاوت کی جائے اس سے شیطان بھاگ جاتا ہے.(ابن کثیر تفسیر سورۃ البقرۃ) اسی طرح دارمی نے اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت درج کی ہے کہ جو شخص سورۃ بقرہ کی دس آیتیں رات کے وقت پڑھے صبح تک شیطان اس کے گھر میں داخل نہیں ہوتا.یعنی سورۂ بقرہ کے ابتداء کی چار آیتیں آیۃالکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ سے آخر کی تین آیتیں جو لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ کے الفاظ سے شروع ہوتی ہیں.(یہ آخری رکوع ہے جس میں صرف تین آیتیں ہیں) (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل اوّل سورة البقرة و آیت الکرسی) بظاہر سورتوں کے ذاتی فضائل کا ذکر ایک تعلیم یافتہ آدمی پر گراں گزرتا ہے کیونکہ کسی سورۃ کا صرف سورۃ کے ہونے کے لحاظ سے کوئی خاص اثر رکھنا بے معنی سا معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس امر کو اس نگاہ سے دیکھا جائے کہ ہر سورۃ خاص مضمون پر مشتمل ہوتی ہے اور وہ مضمون ضرور قلب پر کوئی اثر چھوڑتا ہے تو فضائل کا بیان آسانی سے سمجھ میں آ جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سورۃ بقرہ کے یاد کرنے پر ایک نوجوان کو لشکر کا امیر بنا دیا.اس میں کئی حکمتیں تھیں.اوّل آپؐ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یاد رکھنے کی خواہش پیدا کی.اسلامی لشکروں کی سرداری مالی لحاظ سے منفعت بخش نہ تھی مگر اپنے روحانی باپ کی خوشنودی کی جو قدر صحابہ کے دل میں تھی اسے صرف محبت کی چاشنی سے واقف لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرے اس میں یہ بھی حکمت تھی کہ اس زمانہ میں جو سردار لشکر ہوتا تھا وہی عام طو رپر امام الصلوٰۃ بھی ہوتا تھا اور اسی سے لوگ مسائل وغیرہ بھی دریافت کرتے تھے اور سورۃ بقرہ میں باقی سب سورتوں سے زیادہ مسائل بیان ہوئے ہیں

Page 79

یہاں تک کہ حضرت ابن العربی فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استادوں میں سے ایک اُستاد سے سُنا ہے کہ سورۃ بقرہ میں ایک ہزار حکم ہے اور ایک ہزار مناہی ہے اور ایک ہزار فیصلے اور ایک ہزار خبریں ہیں (قرطبی تفسیر سورۃ البقرۃ) یہ صوفیانہ رنگ کی بات ہے لیکن اس بات سے انکار نہیں ہو سکتا کہ سورۃ بقرہ میں مضامین کی نوعیت اور احکامِ اسلام کی وسعت اس قدر ہے کہ دوسری سورتوں میں سے کسی میں بھی اس قدر نہیں ہے.یہ جو آپؐ نے فرمایا کہ جس گھر میں سورۃ بقرہ پڑھی جائے اس میں شیطان نہیں آتا اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ اس سورۃ میں شیطانی وساوس کا ایسا ردّ موجود ہے کہ اس پر غور کرنے کے بعد شیطان گھر میں نہیں آ سکتا اور یہ جو فرمایا کہ صبح تک شیطان نہیں آتا اس سے اس طرف اشارہ کیا کہ تعلیم خواہ کیسی اعلیٰ ہو جب تک بار بار دہرائی نہ جائے دل پر پورا اثر نہیں ہوتا اور نیک اثر خواہ کس قدر اعلیٰ ہو کچھ عرصہ کے بعد اگر اس کی تجدید نہ کی جائے زائل ہو جاتا ہے.اور یہ جو فرمایا کہ جو شخص سورۂ بقرہ کی پہلی چار آیتیں اور آیۃ الکرسی اور اس کے ساتھ کی دو آیتیں اور سورۂ بقرہ کی آخری تین آیتیں پڑھے اس کے گھر سے بھی شیطان بھاگ جاتا ہے اس سے بھی یہی مراد ہے کہ ان آیتوں میں اسلام کا خلاصہ ہے سورہ بقرہ کی پہلی آیتوں میں پاک عملی زندگی کا نقشہ کھینچا گیا ہے آیۃ الکرسی میں صفات باری کا نہایت لطیف نقشہ ہے اور سورۂ بقرہ کی آخری آیتوں میں دل کو پاک کر دینے والی دعائیں ہیںاور یہ تین چیزیں یعنی (۱) الٰہی کلام کی تتبع میں نیک اعمال کا بجا لانا.(۲) صفات الٰہیہ پر غور کرنا.(۳) او ران دونوں باتوں کے ساتھ دعا میں مشغول رہنا اور اپنے آپ کو آستانہ الٰہی پر گرا دینا جب اکٹھی ہو جائیں تو انسان کا دل پاک ہو جاتا ہے اور شیطان بھاگ جاتا ہے.سورتوں کی ترتیب یہ سورۃ قرآن کریم کی تفصیلی سورتوں میں سے پہلی سورۃ ہے لیکن نزول کے لحاظ سے یہ سورۃ کلام الٰہی کے نزول کے چودھویں سال میں جا کر نازل ہونی شروع ہوئی اور کئی سال تک نازل ہوتی رہی.بالآخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ ہی عرصہ پہلے مکمل ہوئی.سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ کیوں نہ قرآن کریم کو اسی ترتیب سے جمع کیاگیا جس ترتیب سے کہ قرآن کریم نازل ہوا تھا؟ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے ان کے جمع نہ کئے جانے کے دو دلائل بعض دشمنانِ اسلام اور بعض مسلمانوں تک نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ سورتوں کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے قرآن کریم کو جمع کر دیا گیا ہے اور کسی معنوی ترتیب کو مدِّنظر نہیں رکھا گیا.یہ دعویٰ ایک نہایت لغو اور حقیقت سے دُور دعویٰ ہے

Page 80

کیونکہ (۱) قرآن کریم کی سورتوں کی موجودہ ترتیب خود اس دعویٰ کو باطل کرتی ہے پہلی سورۃ فاتحہ ہے جو نہایت چھوٹی اور سات آیتوں کی سورۃ ہے.دوسری بقرہ نہایت لمبی ہے تیسری آل عمران ہے جس کے بیس رکوع ہیں لیکن چوتھی نساء کے چوبیس رکوع ہیں اسی طرح اگلی سورتوں میں بھی کئی جگہ پر فرق ہے پس یہ کہنا کہ لمبائی کے مطابق سورتوں کو آگے پیچھے رکھ دیا گیا ہے درست نہیں.(۲) قرآن کا جمع کرنا کسی بندہ کا فعل نہیں بلکہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فعل نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗ (القیامۃ:۱۸) یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کا دنیا میں پھیلانا یہ دونوںکام میں خود کروں گا اور میرے خاص حکم اور نگرانی سے یہ کام ہوں گے پس ایک مسلمان کے نزدیک تو یہ انسانی کام ہو ہی نہیں سکتا اور غیر مسلموں کے لئے وہ جواب ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے.(۳) تیسرا جواب یہ ہے کہ سب سورتوں کے مضامین میں ترتیب موجود ہے اگر صرف لمبائی اور اختصار پر انہیں آگے پیچھے رکھا گیا تھا تو پھر سورتوں کے مضامین میں جوڑ اور اتصال کیونکر پیدا ہو گیا؟ جیسا کہ آگے چل کر تفسیر میں انشاء اللہ ثابت کیا جائے گا اور جس کا علم ہر سورۃ کے شروع اور آخر کے نوٹوں کو پڑھنے سے اس تفسیر کا مطالعہ کرنے والو ںکو ہو جائے گا.پس عیاں راچہ بیاں.قرآن مجید کی ترتیب نزول اور ترتیب جمع میں فرق کی وجہ بیشک یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگرموجودہ ترتیب خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق ہے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کیوںنہ اُسی ترتیب میں اُتارا جو اس وقت موجود ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کلامِ حکیم کے لئے یہ امر لازمی ہے کہ اس کے اُترنے کی ترتیب اور اس کے جمع کرنے کی ترتیب الگ الگ ہو جب کوئی ایسا نبی دنیا میں آئے جو نئی شریعت لانے والا ہو اور جس نے عقائد اور اعمال کے متعلق ایک مکمل ہدایت نامہ دنیا کو دینا ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے اس کے الہام کا ابتدائی حصہ ترتیبِ تدوین کے لحاظ سے ابتدائی نہ ہو کیونکہ جن باتو ںکی ابتدائی دعویٰ کے وقت جبکہ لوگ اس نئے دین سے بالکل ناواقف ہوں گے سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرور ت ہو گی ان باتوں کو اس وقت سب سے پہلے پیش کرنے کی ضرورت نہیںہو گی جبکہ لوگ اس کے کلام سے ایک حد تک واقف ہو چکے ہوںگے.پس اسی حکمت کے مطابق قرآن کریم کے نزول کی ترتیب او رہے ا ور اس کے جمع کرنے کی ترتیب اور ہے چنانچہ سورتوں کے نزول کا سوال آیتوں کے نزول کی کیفیت سے حل ہو جاتا ہے.احادیث سے ثابت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی آیتیں نازل ہوتی تھیں تو آپؐ کاتبوں کو ُبلوا کر حکم فرما دیتے تھے کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ پر رکھو اور فلاں کو فلاں جگہ پر (ابو داؤد.ترمذی.احمد بحوالہ مشکوٰۃ کتاب فضائل القرآن باب القراءَات وجمع القرآن نیز فتح الباری

Page 81

کتاب فضائل القرآن باب کیف نزل الوحی واوّل ما نزل) اگر صرف نزول کی ترتیب کافی ہوتی تو جب کوئی آیت نازل ہوتی اسے اس سے پہلے کی نازل شدہ آیتوں کے ساتھ رکھ دیا جاتا.سورتوں کی ترتیب مضامین کے لحاظ سے ہے سورۃ بقرہ ہی کو دیکھ لو.اس کی رباء کی آیات قرآن کریم کے سب سے آخر میں نازل ہونے والے ٹکڑوں میں سے ایک ہیں لیکن وہ سورۂ بقرہ کے آخر میں نہیں رکھی گئیں بلکہ کئی رکوع پہلے رکھی گئی ہیں.اسی طرح وَاتَّقُوْا یَوْمًا والی آیت جس کی نسبت احادیث میں آتا ہے کہ حجۃ الوداع میں نازل ہوئی سورۃ کے آخر میں نہیں رکھی گئی.پس معلوم ہوا کہ آیتیں جس ترتیب سے نازل ہوتی تھیں اسی ترتیب سے انہیں سورتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا بلکہ مضمون کے لحاظ سے رکھا جاتا تھا.بعینہٖ یہی صورت سورتوں کی ترتیب کی ہے وہ بھی مضامین کے لحاظ سے جمع کی گئی ہیںنہ کہ نزول کے وقت کے لحاظ سے.سورۂ عَلَقْ اورسُورۂ مُدَّثرکو ابتدا میں اتارنے کی حکمت یاد رہے کہ سب سے پہلے جو سورۃ نازل ہوئی یا یوں کہو کہ جس سورۃ کی بعض آیات نازل ہوئیں وہ سورۃ العلق ہے.اس کی جو آیات سب سے پہلے نازل ہوئیںیہ ہیں.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ.خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ.الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ.عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ.(العلق:۲تا۶).ان آیات میں تبلیغ کے شروع کرنے کا حکم ہے اور بتایا گیا ہے کہ تبلیغ کا حق انسان پر اس لئے ہے کہ اس کا ایک رب ہے جس نے اسے پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں محبت اور تعلق کا مادہ پیدا کیا ہے نیز اس نے انسان کے اندر ترقی کی قوتیں رکھی ہیں اور وہ اپنے بندے پر فضل کر کے اسے بڑھانا چاہتا ہے اور اس غرض سے اس نے انسان کو تحریر و تصنیف کا مادہ عطا کیا ہے تاکہ وہ اپنے علم سے خود ہی فائدہ نہ اٹھائے بلکہ دوسروں تک بھی اُسے پہنچائے اور آئندہ کے لئے بھی ان علوم کو محفوظ کر دے.پھر فرماتا ہے کہ علمی ترقی کا مادہ اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی طاقت اس کے اندر رکھ کر اور علم کے محفوظ کرنے کا طریق بتانے کے بعد اس نے علم کی ترقی کے لئے ایسے سامان پیدا کئے ہیں جو ہر زمانہ میں علم کی ترقی کا موجب ہوتے رہیں گے اور انسان نئی سے نئی باتیں معلوم کرتا رہے گا جو اس کے باپ دادوں کو معلوم نہیں تھیں.ان آیات میں قرآن کریم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے.یہ بتایا ہے کہ زمین و آسمان کا ایک خالق ہے یہ بتایا ہے کہ انسان ہدایت کا محتاج ہے او راس کے اند رہدایت پانے اور ترقی کرنے کی قوت پیدا کی گئی ہے جس کے ابھارنے کے لئے یہ الہام نازل ہوا ہے.یہ سب باتیں وہ ہیں جو نبوت کا دعویٰ کرتے وقت سب سے مقدم ہیں سب سے پہلا مخاطب انسان کا اپنا نفس ہوتا ہے جب تک اس کا اپنا دل جوش اور اخلاص اور کام کی اہمیت اور ضرورت کے احساس سے پُر

Page 82

نہ ہو وہ کبھی ایسے کامو ںکے لئے آمادہ نہیں ہو سکتا جو اس کی جان اور اس کے آرام کی قربانی کا مطالبہ کرتے ہوں.چنانچہ سب سے پہلی قرآنی آیات میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے صرف اسی سورۃ میں نہیں بلکہ دوسری سورتیںجو ابتدائی زمانہ میں نازل ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مضمون ہے.مثلاً سورۂ مُدَّثِّر پہلی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتدائی آیات بھی اسی مضمون کی ہیں فرماتا ہے.يٰۤاَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ.قُمْ فَاَنْذِرْ.وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْ.(المدّثر: ۲ تا ۴)ا ے ماموریت کا خلعت پہننے والے! اُٹھ اور لوگوں کو ہوشیار کر اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر.سورۂ مُزَّمِّل بھی ابتدائی سورتوں میں سے ہے اس کی ابتداء بھی اسی طرح کی ہے.يٰۤاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ.قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا.نِّصْفَهٗۤ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا.اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا.اِنَّا سَنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيْلًا.(المزّمل:۲تا۶) یعنی اے نبوت کی چادر اوڑھنے والے !راتوں کو جاگ کر عبادت کیا کر.نصف رات یا نصف سے کم یا نصف سے زیادہ عبادت میں گزار.اور قرآن کو پڑھتا رہا کر کیونکہ ہم تجھ پر ایک ایسی ذمہ داری نازل کرنے لگے ہیں جس کا اُٹھانا آسان کام نہیں.سورۂ عَلَق و مُدَّثِّر کے مضمون اور ان کی اہمیت ان ابتدائی سورتوں کے مضامین سے ظاہر ہے کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی صفات.انسانی پیدائش کی غرض عبادت کی ضرورت.دنیا میں شرارت اور گناہ کی ترقی وغیرہ کے مضامین بیان کرنے کے علاوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ پر آمادہ کرنے اور اس کے لئے آپؐ کے دل میں جوش پیدا کرنے پر خاص زور دیا گیا ہے.گویا ان آیات میں محمد رسول اللہ کو نبوت کے عظیم الشان کام کے لئے تیار کیا گیا ہے.یہ ظاہر ہے کہ بغیر اس تیاری کے نہ تو آپؐ اس کام کی اہمیت کو سمجھ سکتے تھے جو آپ کے سپرد ہونے والا تھا.اور نہ آپ اس کام کو عمدگی سے انجام دے سکتے تھے.پس ابتداء میں ایسے ہی کلام کی ضرورت تھی اسی طرح اس مضمون کے بعد خدا تعالیٰ کی صفات، ضرورتِ نبوت، تقویٰ اور پاکیزگی کے مضامین، ضرورت دعا، قضا و قدر، بعث بعد الموت وغیرہ مضامین کے متعلق تعلیمات کے بیان کرنے کی ضرورت تھی کیونکہ اس وقت تک کوئی جماعت قائم نہ ہوئی تھی اورنہ دین مکمل ہوا تھا پس ضروری تھا کہ ابتدائی ضروری امور کو اختصار کے ساتھ لوگوں کے سامنے رکھ دیا جائے تاکہ وہ اصولی باتیں جو اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق کرنے والی تھیں لوگوں کے سامنے آ جائیں.لیکن جب قرآن مکمل ہو گیا جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی جب ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے بہت سے مضامین سے غیر مسلموں کو بھی واقفیت ہو گئی اور مسلمانوں کی نسل بھی چل پڑی جس نے ابتدائی اور اصولی باتیں اپنے ماں باپ سے بچپن میں ہی سیکھ لیں تو اب قرآن کریم کے پڑھنے والے کے لئے ایک اور ترتیب کی ضرورت پیش آئی

Page 83

جو آیندہ زمانہ میں ہمیشہ کی ضرورتوں کو پورا کرے.اب اس مضمون کے ابتداء میں بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی کہ اے محمدؐ رسول اللہ! تیری قوم کی حالت خراب ہے اور گو ان میں قابلیت موجود ہے مگر اس قابلیت سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا رہے پس تو اُٹھ اور اُن میں تبلیغ کر اور انہیں خدا تعالیٰ کی طرف بُلا.اب تو قرآن کریم کے پہلے مخاطب وہ لوگ ہوںگے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور جن کے زمانہ میں اسلام کو غلبہ حاصل ہو چکا ہے.اب اس مضمون سے قرآن کریم کا شروع ہونا ضروری ہے جس میں مومنوں کو بتایا جائے کہ قرآن کریم کے نزول کی غرض کیا ہے اور مسلمان ہونے کے لحاظ سے ان پر کیا ذمہ واریاں ہیں؟ اسی طرح اس زمانہ میں غیر مسلم بھی قرآن کو فلسفیانہ نگہ سے دیکھنے کی کوشش کریںگے اور یہ پوچھیں گے کہ دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی کیا ضرورت ہے؟ ایک مسلمان کونسی ایسی غرض پوری کر رہا ہے جو پہلی اقوام کے لوگ نہیں کر سکتے تھے؟ اسی طرح وہ پہلی کتب کی تعلیمات اور اسلام کی تعلیم کا تفصیلی مقابلہ کر کے دیکھنا چاہیں گے نیز اس پر بحث کریںگے کہ پہلے انبیاء نے جو خاتم النبیین کے بارہ میں پیشگوئیاں کی ہیں اسلام اور بانیء اسلام ان پیشگوئیوں کے مصداق ٹھہرتے ہیں یا نہیں؟ غرض قرآن کریم کی تکمیل کے بعد اس کی طرف توجہ کرنے کا طریقہ ماننے والوں اور نہ ماننے والوں دونوں ہی کے لئے مختلف ہو جاتا ہے اور ایک کامل کتاب تبھی اپنے کمال کو قائم رکھ سکتی ہے جبکہ وہ ان تبدیل شدہ حالات کو مدنظر رکھے اور قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اس ضرورت کو پورا کیا ہے.نہ تورا ت نہ انجیل اور نہ اور کسی کتاب میں یہ حکمت مدنظر رکھی گئی ہے کہ ابتداء نزول میں پہلے مخاطبین کو مدنظر رکھ کر اور طرح ترتیب ہو اور مذہب کی اشاعت کے بعد اس وقت کے لوگوں کا خیال کرتے ہوئے کتاب کے مضامین کی ترتیب بدل دی گئی ہوتا ان تبدیل شدہ حالات کے مطابق وہ مضامین زیادہ سے زیادہ مؤثر ثابت ہوں.پس قرآن کریم کی نزول کی ترتیب اور جمع کی ترتیب میں جو فرق ہے یہ قابلِ اعتراض امر نہیں بلکہ قرآن کریم کی فضیلت اور برتری کی ایک علامت ہے.سورۂ بقرہ میں جیسا کہ اس کی تفسیر کے پڑھنے سے ثابت ہو گا فطرت انسانی کے پیدا کردہ ان طبعی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو فلسفیانہ طور پر ایک مکمل مذہب کے متعلق پیدا ہو سکتے ہیں اور اس کا مضمون ہی بتاتا ہے کہ یہ سورۃ ابتداء میں رکھنے کے لئے ہی نازل کی گئی تھی بلکہ جیسا کہ بتایا جائے گا سورۃ فاتحہ کے مضامین کا اس میں جواب دیاگیا ہے اور اس کے مضامین سے اس کا خاص تعلق ہے جو اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ اس کو سب سے پہلے رکھنا اس کی لمبائی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ سورۃ فاتحہ کے مضامین سے اس کے گہرے تعلق کی وجہ سے ہے.سورہ ٔبقرہ اور اس کی معجزانہ فصاحت و بلاغت کا اعتراف ایک شاعر کی زبان سے اس سورۃ کے متعلق

Page 84

ایک ادبی لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے.لبید بن ربیعہ عامری جاہلیت کے مشہور شعراء میں سے گزرا ہے اس کا ایک قصیدہ سبع معلّقہ میں شامل ہے یعنی اس کے کلام کو عرب کے بہترین سات قصائد میں شمار کیا گیا ہے.یہ شاعر آخر عمر میں اسلام لے آیا.اور سورۂ بقرہ کی فصیح زبان سے اس قدر متأثر ہوا کہ اس نے شعر کہنا ہی چھوڑ دیا.ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے اس سے اپنا نیا کلام سنانے کی فرمایش کی.اس نے اس کے جواب میں سورۃ بقرہ کی تلاوت شروع کر دی حضرت عمرؓ نے اس پر اسے کہا کہ میں نے تم سے اپنے شعر سنانے کو کہاہے.اس نے جواب دیا کہ مَاکُنْتُ لِاَقُوْلَ بَیْتًا مِّنَ الشِّعْرِ بَعْدَ اِذْ عَلَّمَنِیَ اللّٰہُ الْبَقَرَۃَ وَاٰلَ عِمْرَانَ یعنی جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سورۃ بقرہ اور آل عمران سکھا دی ہیں تو اب کس طرح ممکن ہے کہ اس کے بعد میں ایک شعر بھی کہوں.حضرت عمرؓ کو اس کا یہ جواب اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس کا وظیفہ جو دو ہزار درہم سالانہ تھا بڑھا کر اڑھائی ہزار کر دیا.(اُسد الغابۃ.للبید بن ربیعۃ) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے مگر جب ہم لبید کے اس مرتبہ کو دیکھتے ہیں جسے عرب کے ادبی حلقہ میں اس زمانہ میں حاصل تھا جو عربی علم ادب کے کمال کا زمانہ کہلاتا ہے اورجس زمانہ کے شعراء کے کلام کو آج تک بہترین کلام سمجھا جاتا ہے اور پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اتنا زبردست شاعر جو خود بادشاہِ سخن کہلاتا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے اس قدر متأثرہوا کہ اس نے شعر کو جو اس کی رُوح کی غذا تھی جو اس کی عزت کا ذریعہ تھا جس نے اسے عرب کے حکمران حلقوںمیں صدر مقام پر بٹھا رکھا تھا سورۂ بقرہ کی زبان سے مرعوب ہو کر بالکل ترک کر دیا اور جب اس سے اپنا تازہ کلام سنانے کو کہا گیا تو اس نے حیرت سے جواب دیا کہ کیا سورۂ بقرہ کے بعد بھی کسی اور کلام کی ضرورت رہ جاتی ہے تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ایک معجزانہ کلام کے سوا یہ تاثیر اور کسی کلام سے پیدا نہیں ہو سکتی.خلاصۂ سورۂ بقرہ پیشتر اس کے کہ میں سورۂ بقرہ کی آیات کا مطلب الگ الگ بیان کروں.میں سورۂ بقرہ کے مضامین کا خلاصہ بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کیونکہ اس سے یہ بھی ثابت ہو جائیگا کہ سورۂ بقرہ کو باوجود آخر میں نازل ہونے کے پہلے کیوں رکھا گیا ہے اور اس کے مضامین کی ترتیب بھی مختصر طورپر ذہن میں آ جائے گی جس سے اس کے مطالب کا سمجھنا آسان ہو جائے گا.سورۂ بقرہ کے مطالب کی تفہیم بطور القاء کے مَیں سورۂ فاتحہ میں بیان کر چکا ہوں کہ اس کی تفسیر مجھے ایک فرشتہ نے رؤیا میں سکھائی تھی سورۂ بقرہ کی تفسیر مجھے اس طرح تو حاصل نہیں ہوئی لیکن اس میںکوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ایک القاء کے طور پر مجھے اس کی تفسیر بھی سکھائی ہے اور جو شخص بھی ذرا غور سے دیکھے گا اسے معلوم ہو گا کہ جو نکتہ اس بارہ میں مجھے بتایا گیا ہے وہ ساری سورۂ بقرہ کو ایک باترتیب مضمون کی صورت میں بدل دیتا ہے اور

Page 85

اس امر کے تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ یہ تفہیم صرف اور صرف فضل ِ الٰہی سے حاصل ہوئی ہے.سورۃ کے مضامین کو سمجھنے کی کنجی تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ستائیس سال کا عرصہ گذرا کہ میں چند دوستوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا.سورۂ بقرہ کا درس تھا جب میں اس آیت پر پہنچا کہ رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ يُزَكِّيْهِمْ١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ(البقرۃ:۱۳۰) تو یکدم میرے دل پر القاء ہوا کہ یہ آیت اس سورۃ کے مضامین کی کنجی ہے اور اس سورۃ کے مضامین اس آیت کے مضامین کے مطابق اور اسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں.مَیں نے جب اس علم سے فائدہ اُٹھا کر سورہ بقرہ کا مطالعہ کیا تومیری حیرت اور عقیدت کی کوئی حد نہ رہی کیونکہ سورۂ بقرہ کو مَیں نے نہ صرف اس آیت کے مضامین کے مطابق پایا بلکہ اس کے مضامین باوجود مختلف قسم کے ہونے کے میرے ذہن میں ایسے مستحضر ہو گئے کہ مجھے یُوں معلوم ہوا کہ گویا اس کے مضامین موتیوں کی لڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں.اس آیت کو دیکھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے مکہ میں ایک نبی کے مبعوث ہونے کے لئے کی ہے اور اس دعا کا مضمون یہ ہے کہ اس شہر اور اس قوم میں ایک ایسا نبی مبعوث ہو جو (۱) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان اور یقین کو درست اور مضبوط کرنے والے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے دلائل لوگوں کے سامنے بیان کرے جو دنیا کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے راستہ کے نشان اور شمع ہدایت ثابت ہوں (۲) وہ لوگوں کے سامنے ایک مکمل کتاب پیش کرے (۳)جو شریعت وہ دنیا کے سامنے پیش کرے اس کے اندر احکام اورمذہب کی اور ان تمام دینی امور کی جن پر مذہب کی ترقی کا مدار ہے حکمت بھی بیان کی گئی ہو (۴) وہ ایسے ذرائع اختیار کرے اورایسے طریق بتائے جن سے قوم کی ترقی اور پاکیزگی کے سامان پیدا ہوں.ان مضامین کو سامنے رکھ کر جب َمیں نے سورۂ بقرہ کو دیکھا تو اس کے مضامین کو لفظاً لفظاً ان مضامین کے مطابق پایا بلکہ َمیںنے دیکھا کہ وہ مضامین بیان بھی اُسی ترتیب سے ہوئے ہیں جس ترتیب سے ان کا اس آیت میں ذکر ہے اور ہر حصہ میں اس آیت کے الفاظ کی طرف اشارہ بھی کر دیا گیا ہے یعنی آیات کے مضمون میں آیات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پھر کتاب اور حکمت کا مضمون بیان کیا ہے اور کتاب اور حکمت کے الفاظ کی طرف اشارہ کیا ہے.پھر تزکیہ کا مضمون بیان کیا ہے تو اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے چنانچہ مضامین کے لحاظ سے يُعَلِّمُهُمُ الْکِتٰبَ کا مضمون بیس رکوع تک بیان ہوا ہے اور کتاب اور حکمت کا مضمون اکتیس رکوع تک بیان ہوا ہے.اور پھر تزکیہ کا مضمون اکتیسویں رکوع سے شروع ہو کر آخر سورۃ پر یعنی چالیسویں رکوع پر ختم ہوا ہے جو شخص اس امر کو مدِّنظر

Page 86

رکھ کر سورۂ بقرہ کو پڑھے گا اس کے مطالب کی وسعت اور جامعیت اور ترتیب کی خوبی اور تاثیر کا حیرت انگیز مطالعہ کرے گا.سورۂ بقرہ کا خلاصہ او ر رکوعات کے مضمون کی ترتیب.خلاصہ رکوع اوّل سورۂ بقرہ سورۂ فاتحہ کے بعد شروع ہوتی ہے.سورۂ فاتحہ میں طلبِ ہدایت کی دعا سکھائی گئی تھی.سورۂ بقرہ کی پہلی آیات میں اس دعا کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ تم نے سورۃ فاتحہ میں جس ہدایت کو طلب کیا تھا اور جو گزشتہ زمانہ کے منعم علیہ گروہ کی ہدایت ہے وہ یہی کتاب یعنی قرآن شریف ہے اور اس کے نزول کے ذریعہ سے فطرت کی اس پکار کو اللہ تعالیٰ نے پورا کیا ہے جو سابق ہدایتو ںکے مٹ جانے کی وجہ سے لوگوں کے دلوں سے پیدا ہو کر عرشِ الٰہی کو ہلا رہی تھی.پھر فرماتا ہے کہ قرآن کریم نے نہ صرف دنیا کے لئے ایک ہدایت نامہ پیش کیا ہے بلکہ ایک ایسا مکمل ہدایت نامہ پیش کیا ہے جو سب مذاہب کی صداقتوں پر مشتمل ہے اور اسی وجہ سے اس کے دعویٰ کی بنیاد اس پر نہیں کہ دوسرے مذاہب پر اعتراض کرے اوران کے متعلق دلوں میں شکوک پیدا کرے اور یہ کتاب انسان کے اخلاق اور اعمال ہی کو درست نہیں کرتی بلکہ ایسے ایسے مقام پر پہنچاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اسے محبت ِخالص والا تعلق پیدا ہو جائے.اس کتاب کو ماننے والوں کے لئے امور اعتقادیہ بھی بیان کئے جائیں گے جن پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے عبادات کے طریق بھی بیان کئے جائیں گے جن پر عمل پیرا ہونا ان کے لئے ضروری ہو گا ان کے لئے حقوق العباد بھی بیان کئے جائیں گے اور ان پر چلنا بھی ان کے لئے ضروری ہو گا اور ان کے لئے سب صداقتوں اور سب سچے مذاہب کے بانیوں اور سب سچائیوں کا جو گزشتہ یا آیندہ زمانہ سے متعلق ہوں اس کتاب میں ذکر کیا جائے گا اور ان سب پر ایمان لانا ان کے لئے ضروری ہو گا او ریہ ایمان رسمی نہ ہو گا بلکہ اس کے لئے انہیں قربانیاں کرنی پڑیں گی اور لوگ مخالفت کریں گے لیکن وہ اپنی مخالفت میں ناکام رہیں گے.خلاصہ رکوع ۲ اور کچھ لوگ منافقت سے تعلق پیدا کریں گے حالانکہ ان کے دلوں میں ایمان نہ ہو گا.اور کچھ لوگ ایمان تو رکھتے ہوںگے مگر ان کے دل بزدلی سے ُپر ہوںگے پس بزدلی کی وجہ سے وہ اس کے دشمنوں سے ساز باز رکھیں گے ان دونوں گروہوں کی مخالفت اور منصوبہ بازی بھی اسلام کا کچھ نہ بگاڑ سکے گی.خلاصہ رکوع ۳ پس جو بھی خدا تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اسے اس مذہب میں داخل ہو کر خدائے واحد کی عبادت میں حصہ لینا چاہیے اور تقویٰ کا مقام حاصل کرنا چاہیے تا وہ قرآن کریم کی مدد سے خدا تعالیٰ تک رسائی پائے کہ پیدائش عالم کی غرض ہی یہ ہے اور اگر کوئی کہے کہ قرآن کریم کے اس دعویٰ کو ہم کیونکر تسلیم کریں توانہیں کہوکہ کسی نہ کسی

Page 87

مذہب کو تو تم تسلیم کرتے ہو اسے اس کی تعلیم کے مقابل پر رکھ کر دیکھ لو اگر اس میں اس سے اعلیٰ تعلیم موجود نہ ہو تو اسے ردّ کر دو ورنہ تم کو خود اپنے مسلّمات کے رو سے ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی کتاب ہے جس میں پہلی الٰہی کتب سے بہتر تعلیم موجود ہے.نیز آسمانی نشانات کے بارہ میں بھی تم اس کتاب کے ماننے والوں سے مقابلہ کرکے دیکھ سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ کِن کے ساتھ ہے؟ لیکن اگر سوچنے کی کوشش نہ کرو اوربلاوجہ انکار کرتے جائو تو اس میں کیا شبہ ہے کہ تم کو عذاب ملے گا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ اس اعلیٰ تعلیم کو مانیں گے انہیں اعلیٰ انعامات عطا ہوںگے جو متواتر انہیں دیئے جائیں گے تاکہ کوئی شخص ان انعامات کو اتفاقی حادثہ نہ کہہ سکے اور گو ہم نے ان انعامات کی طرف مختصر الفاظ میں اشارہ کیا ہے مگر اپنے وقت پر ان پیشگوئیوں کی عظمت ظاہر ہو کر رہے گی.اور منکروں کے لئے اعتراض کا لیکن مومنوں کے لئے زیادتی ایمان کا موجب ہو گی.او رمنکروں کا فائدہ نہ اُٹھانا ایک طبعی نتیجہ ہے کیونکہ بیمار آنکھ نور کو نہیں دیکھ سکتی.پھر فرماتا ہے کہ آخر قرآن کریم کی صداقت کے سمجھنے میں مشکل ہی کیا ہے ؟یہ پہلا کلام نہیں اس سے پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردہ قوموں کی طرف ہدایت آتی رہی اور اس کے ذریعہ سے لوگ زندہ کئے جاتے رہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ سلسلہ اب ختم ہو جائے پس اب بھی اسی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک حق آیا ہے اور آیندہ ایسا ہی ہوتا رہے گا پھر کیا مشکل ہے کہ جن اصول پر سابق صداقتوں کو پرکھا گیا تھا انہی پر قرآن کریم کی صداقت کو بھی پرکھ لیا جائے.پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نظامِ عالم کو نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ارتقاء پر دلالت کرتا ہے جس میں الٰہی ہاتھ نظر آتا ہے پھر کیوں یہ اس ارتقاء کی آخری کڑی کو ماننے میں عذر کرتے ہیںحالانکہ ارتقاء کی آخری کڑی ہی مقصودِ اعلیٰ ہوتی ہے اسے چھوڑ دیا جائے تو سب نظام ہی نامکمل رہ جاتا ہے.خلاصہ رکوع ۴ پھر اس نظام کی پہلی کڑی یعنی آدمؑ یعنی ملہمِ اوّل کا ذکر فرماتا ہے کہ آخر آدم کو تم مانتے ہو اس کی سچائی کا کیا ثبوت تمہارے پاس ہے جس طرح اس کی سچائی کو اس زمانہ کے لوگوں نے مانا.اسی طرح محمد رسول اللہ کی صداقت کو پرکھا جا سکتا ہے اس کی ذات پر بھی اعتراض ہوئے اور معمولی لوگوں کی طرف سے نہیں بلکہ ملائکہ صفت انسانوں کی طرف سے اعتراض ہوئے.مگر کیا اس سے اس کی سچائی میں فرق آیا؟ اللہ تعالیٰ نے اسی کی تائید کی اور پھر وہی ملائکہ صفت رہ سکے جنہوں نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا اور اس کے آگے تذلل سے گر گئے باقی شیطان بن گئے.خلاصہ رکوع ۵ تا۱۴ پھر فرمایا کہ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ اگر آدم ؑ پر کلام نازل ہوا تھا تو پھر کسی اور کلام کی کیا ضرورت ہے کیونکہ آدم ؑ کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے متواتر اور حسبِ ضرورت کلام نازل ہوتا رہا ہے چنانچہ موجودہ زمانہ

Page 88

سے پہلے موسیٰ علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوا.ان کی قوم میں نبی کے بعد نبی اصلاح کے لئے آئے اور چونکہ اس قوم نے بغاوت پر بغاوت کی.اللہ تعالیٰ نے مرکز الہام بدلنے کا فیصلہ کر لیا اور بنو اسمعٰیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری کلام کا مورد بنایا اور اب بنی اسرائیل حسد کی وجہ سے آپؐ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس مخالفت کا بھی وہی نتیجہ ہو گا جو پہلے انبیاء کی مخالفت کا نتیجہ ہوا تھا.خلاصہ رکوع ۱۵ پھر فرمایا بنی اسرائیل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان پر جو فضل ہوئے ہیں وہ حضرت ابراہیم ؑ کے وعدوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور ابراہیم ؑ سے جو وعدے ہوئے تھے وہ صرف بنو اسحاق کے بارہ میں نہ تھے بلکہ بنواسمعٰیل کے حق میں بھی تھے.پس ضروری تھا کہ جب بنو اسحاق ذمہ واری کے ادا کرنے میں کوتاہی کریں تو بنواسمعٰیل کے وعدہ کو پورا کیا جائے اور اسی وعدہ کے پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت اسمعٰیل کو وادی غیرذی زرع یعنی مکہ میں رکھا تھا آخر بنو اسمعٰیل کی قربانی کا بدلہ ملنے کا وقت آ گیا چنانچہ اب ان میں سے نبی مبعوث کیا گیا ہے جس کا یہ کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آیات لوگوں کو سنائے انہیں کتاب اور حکمت سکھائے اور انہیں پاکیزہ کرے.خلاصہ رکوع ۱۶ بنو اسرائیل کو اس پر چڑنے کا حق نہیں.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے آباء ابراہیم اسحاق یعقوب علیہم السلام نے انہیں نصیحت کی تھی کہ اصل عزت کامل فرمانبرداری میں ہے.پس انہیں فرمانبرداری کر کے خدا تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنا چاہیے اور باغی بن کر اس کے عذاب کو نہ بھڑکانا چاہیے.خلاصہ رکوع ۱۷،۱۸ پھر فرمایا کہ بنی اسرائیل محمدؐ رسول اللہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے گزشتہ نبیوں کا قبلہ ترک کر دیا ہے حالانکہ اوّل تو قبلہ مقصود بالذات شے نہیں صرف وحدت کے قیام کا ایک ذریعہ ہے دوسرے ابراہیم نے جو دعا بنو اسمعٰیل کے حق میں کی تھی اس میں کعبہ کے قبلہ اور مکہ کے حج کی جگہ مقرر ہونے کی خبر دی گئی تھی.پس جب محمدؐ رسول اللہاس پیشگوئی کو پورا کرنے والے ہیں تو ان کے لئے ضروری تھا کہ کعبہ کے قبلہ ہونے کا اعلان کریں ورنہ ان کی قوم ان برکات سے حصہ نہیں لے سکتی جو ابراہیمی دعا کے مطابق اس قبلہ سے وابستہ ہیں.پس خدا تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ کعبہ کی ظاہری و باطنی صفائی کریں ظاہری صفائی اس مقام کو فتح کر کے اور وہاں سے آلاتِ شرک کو دُور کر کے اور باطنی صفائی شرک اور کفر کے خیالات کو مٹا کر اور کعبہ کو قبلہ عالم بنا کر.خلاصہ رکوع ۱۹ پھر فرمایا اس کام میں مشکلات ہوںگی اور کفار تلوار کے زور سے مسلمانو ںکو اس کام سے روکیں گے لیکن انہیں اس سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ دعا اور کوشش سے اس کام میں لگا رہنا چاہیے او ریاد رکھنا چاہیے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں وہی ابدی زندگی پاتے ہیں.مسلمانوں کی یہ کوشش ضرور بار آور ہو گی اور

Page 89

مکہ فتح ہو گا اور انہیں اس کی ظاہری باطنی صفائی کا موقع مل جائے گا.خلاصہ رکوع ۲۰ اس رکوع میں خاص طور پر آیات کا لفظ استعمال فرما کريَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ (البقرۃ:۱۳۰) کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ جو باتیں ہم پہلے بیان کر آئے ہیں وہ یونہی نہیں بلکہ زمین و آسمان کی پیدائش اور رات دن کے اختلاف اور قانون قدرت کے تمام مظاہروں سے ان کی تصدیق ہوتی ہے یعنی اوّل تو قانونِ قدرت ایک روحانی قانون کے وجود اور اس کے ارتقاء کے ساتھ مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے.دوسرے خود محمد ؐرسول اللہ کی تائید میں تم آسمان و زمین اور رات اور دن اور بادلوں اور ہوائوں اور خشکی اور تری کے سامانوں کو دیکھو گے اور تم کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کا پیارا ہے تبھی تو سب کائنات اس کی تائید میں لگی ہوئی ہے ورنہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے وہ تو ذلیل ہوا کرتا ہے اس رکوع میں آیات پڑھ کر سنانے کے مضمون کو ختم کیا گیا ہے.خلاصہ رکوع ۲۱ اس رکوع سے ابراہیمی پیشگوئی کے دوسرے پہلو کو لیا ہے یعنی شریعت اور اس کی حکمتوں کے بیان کو اور سب سے پہلے حلال اور طیّب کھانے کی تعلیم دی ہے کیونکہ انسانی اعمال اس کی ذہنی حالت کے تابع ہیں اور ذہنی حالت غذا سے متاثر ہوتی ہے.حلال وہ ہے جس کی شریعت اجازت دے اور طیّب وہ جس کی اصول صحت اور رواج ملکی اور ذوق صحیح اجازت دے.ممنوع غذائوں کے بارہ میں چار اصول بتائے کہ وہ غذائیں استعمال نہ کرو جو مردار ہوں یعنی ان میں سڑاندھ شروع ہو گئی ہو یا جو خون کی مانند ہوں یعنی زہروں پر مشتمل ہوں یا جو سورٔ کے گوشت کی طرح ہوں کہ وہ بداخلاق جانور ہے اور اس کے استعمال سے انسان اس کے اخلاق کو قبول کر لیتا ہے یا جو بے غیرتی پیدا کرنے والی ہوں جیسے مشرکانہ رسوم کے کھانے وغیرہ وغیرہ.خلاصہ رکوع ۲۲ اس رکوع میں اسلامی تعلیم کا خلاصہ بیان کیاہے کہ اللہ.یوم آخر.کتب سماویہ.اور انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے تا کسی سچائی کا انکار نہ ہو اور بندوں سے حسن سلوک بھی ضروری ہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت اور قومی چندے بھی ضروری ہیں اور اخلاق حسنہ صبر اور ایفائے عہد بھی ضروری ہیں اور انصاف کا قیام اور اپنے رشتہ داروں کی جائز مدد اور قوانینِ تمدن کا قیام بھی ضروری ہے جس کے اہم قانونوں میں سے ایک قانون وراثت بھی ہے.خلاصہ رکوع ۲۳ اخلاقی قانون کو پورا کرنے کے لئے ظاہری ریاضت بھی ضروری ہے چنانچہ اس کے لئے اسلام نے روزے مقرر کئے ہیں اس سے اخلاق درست ہوتے ہیں اور دعائوں کی توفیق ملتی اور ان میں اثر پیدا ہوتا ہے.

Page 90

خلاصہ رکوع ۲۴, ۲۵ اس رکوع میں حج کے قواعد بیان کئے گئے ہیں جو اجتماع امت کا ذریعہ ہے اور بتایا ہے کہ ایسے پرُ امن مقام کے رستہ میں جو لوگ فساد پیدا کرتے ہیں ان سے جنگ کرنی فساد نہیں بلکہ امن کا قیام ہے.پس مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے جنگ کرنے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور بتایا ہے کہ ایک مرکز کے بغیر سب عالم ایک رسی میں نہیں بندھ سکتا پس حج کے حکم کو معمولی حکم نہ سمجھیں.خلاصہ رکوع ۲۶ اس میں احکام کی حکمتوں کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ شریعت کو فضول نہیں سمجھنا چاہیے.ظاہر باطن کی درستی کا موجب ہوتا ہے اور شریعت کی مخالفت کی اصل وجہ دنیا کی محبت ہوتی ہے کہ انسان اپنے اوقات او راموال خدا کی راہ میں خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اور بہانے بنا کر اس بوجھ سے بچنا چاہتا ہے ایسے ہی بہانو ںسے دنیا میں اختلافات بڑھتے ہیں اور انبیاء کی لائی ہوئی تعلیم کو لوگ کچھ کا کچھ بنا دیتے ہیں حالانکہ روحانیت بغیر قربانی کے حاصل نہیں ہو سکتی.پھر صدقہ خیرات کا ذکر کیا ہے کہ اس کا َمصرف کیا ہے اور بتایا ہے کہ سب سے بڑا مصرف صدقہ کا جہاد فی سبیل اللہ ہے جبکہ لوگ دین میں دخل اندازی کریں اور حرّیت ضمیر کو روکیں.خلاصہ ع ۲۷ ایسے وقت میں جنگ ضروری ہوتی ہے اور مالی جانی قربانی لازمی.حتی کہ اگر دشمنانِ صداقت حج کے مہینوں میں بھی کہ عام حالتو ںمیں ان میں لڑائی منع ہے جنگ کریں تو تم کو بھی ان میں جنگ کرناجائز ہو جائے گا.جنگ کے ایام میں لوگ جوئے اور شراب کی طرف رغبت کرتے ہیں تاکہ دل کو بہلائیں اور جنگ کے لئے روپیہ جمع کریں.فرمایا کہ مسلمانوںکی جنگ تو ایک دینی جنگ ہے ان کے دل کے بہلنے کا سامان تو اللہ تعالیٰ کی رضا میں موجود ہے.انہیں ان بُرے کاموں سے پرہیز چاہیے.پھر بتایا کہ اموال کی قربانی کی حد کوئی نہیں جو زیادہ سے زیادہ قربانی جس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان نہ پہنچتا ہو انسان کر سکے کرے.پھر فرمایا جنگوں کی وجہ سے کثرت سے یتا ٰمی رہ جائیںگے ان کے بارہ میں حکم یاد رکھو کہ بہتر سے بہتر سلوک ان سے کرنا اور یاد رکھنا کہ مشرک عورتوں مردوں سے شادی نہ کرناکہ اس سے نظام میں خلل آتا ہے.خلاصہ رکوع ۲۸ تا ۳۱ پھر عورتوں کے عام احکام بیان فرمائے کہ حیض میں ان کے قریب نہ جائو اور اُن سے حسنِ سلوک کرو اور اگر کسی مجبوری سے ان سے قطع تعلق کرنا پڑے تو چار ماہ سے زیادہ ایسا نہ کرو ہاں بالکل تعلق قائم نہ رکھ سکتے ہو تو طلاق دے دو.پھر طلاق کے احکام بیان کئے اور رضاعت اور بیوائوں کے بھی.اس جگہ کتاب اور حکمت کا مضمون ختم ہوا.خلاصہ رکوع ۳۲, ۳۳ رکوع ۳۲ سے تزکیہ کے اصول بیان کرنے شروع کئے بتایا کہ قومی ترقی بغیر قربانی

Page 91

کے نہیں ہوتی پس یاد رکھو کہ وہی قوم زندہ ہو سکتی ہے جو اپنے لئے موت کو قبول کر لے اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ احیاء موتیٰ اسی طرح کرتا ہے کہ ایسے احکام دیتا ہے جو قوم کو بمنزلہ موت نظر آتے ہیں مگر جب وہ ان پر عمل کر لیتی ہے تو اسے زندگی مل جاتی ہے.خلاصہ رکوع ۳۴ بتایا کہ زندگی کا اعتبار نہیں اس لئے جلد سے جلد نیکی کی طرف توجہ کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنا چاہیے پھر اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے بارہ میں ایک مختصر مگر جامع بیان دیا جو آیۃ الکرسی کہلاتا ہے اور جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی بہترین آیت قرار دیا ہے.پھر فرمایا ایسی اعلیٰ صفات والے خدا سے تعلق کسی جبر کا محتاج نہیں بلکہ اس کا حُسن خود دلوں کو موہ لیتا ہے او ریہی تعلق مفید ہو سکتا ہے.پس دین کے بارہ میں جبر سے کام نہ لو کیونکہ مذہب کی غرض تزکیہ ہے اور جبر سے دلوں کا تزکیہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ جن کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا ہے ان کے دلوں کی تاریکی کو دلائل و براہین سے دُور کرتا ہے صرف ظاہری اقرار کو وہ پسند نہیں کرتا.خلاصہ رکوع ۳۵ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاکیزگی عطا کرنے کے دو طریق ہیں اوّل افراد کی پاکیزگی جو براہِ راست بندو ںکو عطا کی جاتی ہے جیسے انبیاء کو.دوسرے ا قوام کی پاکیزگی جو انبیاء کے ذریعہ سے انہیں حاصل ہوتی ہے پھر فرمایا کہ پاکیزگی کی یہ اقسام ابراہیم ؑ کی اولاد کو چار زمانو ںمیں خاص طو رپر ملنی مقدر ہیں.خلاصہ رکوع ۳۶ پھر فرمایا کہ قومی پاکیزگی کے حصول کے لئے جدوجہد کی بھی اور تعاونِ باہمی کی بھی ضرورت ہوتی ہے ہاں کوئی یہ اعتراض کرے کہ تعاون باہمی تو ہر قوم کی ترقی کا ذریعہ ہے اس میں خدا تعالیٰ کے ماننے والوں کی کوئی شرط نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایمان سے آزاد ہو کر تعاونِ باہمی کرتے ہیں ان کے اعمال کے نتائج قربانیوں کے مطابق ہوتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ کی خاطر ایسا کرتے ہیں ان کی قربانیوں کے نتائج ان کی کوششوں کے مقابلہ پر بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان لوگوں کی علامت یہ ہے کہ (۱) وہ قربانیاں خدا تعالیٰ کے احکام کے قیام کے لئے کرتے ہیں (۲) وہ اپنی قربانیوں کو خدا تعالیٰ کے لئے سمجھتے ہیں اور بندوں پر احسان نہیں جتاتے.خلاصہ رکوع ۳۷ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں ان کے عمل کبھی ضائع نہیں ہو سکتے.اور ان کے دل قربانیوں پر مطمئن ہوتے ہیں اور ان کے اعمال میں پاکیزگی پیدا ہوتی جاتی ہے.پھر بتایا کہ گو حُسن سلوک کسی سے بھی ہو اچھا کام ہے مگر جو لوگ دنیا کی اصلاح میں مشغول ہوں ان سے حسنِ سلوک زیادہ ثواب کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بھی یاد رہے کہ وہی حسن ِ سلوک مفید ہو گا جو جائز طور پر کمائے ہوئے اموال سے ہو.خلاصہ رکوع ۳۸ فرمایا کہ سود کا کاروبار حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کی روح کے خلاف ہے اس سے مومن

Page 92

کو بچنا چاہیے.چنانچہ سود کا کاروبار کرنے والی قومیںلڑائی پر دلیر ہوتی ہیں اور امن عامہ کی پرواہ نہیں کرتیں اس بات سے مت ڈرو کہ سود کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی دنیا میں ایسے سامان پیدا کر دیئے جائیںگے کہ سود خوار قومیں تباہ ہو جائیںگی.خلاصہ رکوع ۳۹ حسنِ سلوک اور تعاون باہمی کا ایک طریق قرض بھی ہے جو اپنے اموال کلی طو رپر اپنے حاجت مند بھائی کو نہیں دے سکتا لیکن قرض سے اس کی مدد کر سکتا ہے اسے اس سے دریغ نہیں کرنا چاہیے مگر قرض کا چونکہ کچھ مدت بعد مطالبہ ہوتا ہے اس لئے قرض کو لکھ لینا چاہیے اور گواہ مقرر کر لینے چاہئیں تا فساد نہ ہو اور اگر لکھنے والا نہ ہو تو شہادت کے طور پر کوئی چیز رہن رکھ دینی چاہیے.خلاصہ رکوع ۴۰ مگر سب سے بڑا ُگر پاکیزگی اور طہارت کا (۱) اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا (۲) کلام الٰہی پر ایمان اور تدبر (۳) انبیاء اور صلحاء اور اشخاص متعلقہ کی دعا ہے.یہ خلاصہ ہے سورۃ بقرہ کا اور اس میں بلاواسطہ تو یہود و نصاریٰ اور قریش پر اس رنگ میں حجت تمام کی گئی ہے کہ ابراہیم ؑکی ایک دعا کا جو مقبول بارگاہ الٰہی ہو چکی پورا ہونا باقی تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اس دعا کو پورا کرتا ہے پس اگر ان کے وجود کا انکار کیا جائے تو ابراہیم بھی جھوٹے بنتے ہیں اور ان کے جھوٹا ہونے سے موسویت اور مسیحیت بھی ساتھ ہی جھوٹی ہو جاتی ہیں اور بالواسطہ تمام دنیا پر اسلام کی صداقت ثابت کی گئی ہے کیونکہ انسان کی پیدائش بغیر مقصد کے نہیں ہو سکتی اور اس مقصد کو اگر کوئی کلام پورا کرتا ہے تو وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا کلام ہے کیونکہ اسی سے معرفت ِالٰہی صحیح قانون اور فلسفۂ شریعت او رپاکیزگی قلب جیسے ضروری امور حاصل ہوتے ہیں.اگر کوئی ان نوٹوں کی مدد سے سورۂ بقرہ کو پڑھے گا تو مَیں سمجھتا ہوں اسے اس سورۃ میں ایک نیا لطف آئے گا اور اس کے مطالب کا ایک وسیع دروازہ اس کے لئے کھل جائے گا.انشاء اللہ تعالیٰ.سورۃ بقرہ کا تعلق سورہ فاتحہ سے سورۃ فاتحہ کا تعلق تو کلام الٰہی کا خلاصہ ہونے کے وجہ سے سب ہی سورتوں سے ہے لیکن سورۃ بقرہ کو چونکہ اس کے معاً بعد رکھا گیا ہے اس سورۃ کا تعلق سورۃ فاتحہ سے یقینا سب سے زیادہ ہے.سورۂ بقرہ کے مضمون کے سورۂ فاتحہ سے دو تعلق چنانچہ اوّل تعلق تو اس کا اس سے یہ ہے کہ جس طرح سورۃ فاتحہ خلاصہ ہے سارے قرآن کریم کا.اسی طرح یہ سورۃ بھی خلاصہ ہے سب قرآن کا کیونکہ اس میں دلائل و براہین بھی بیان کئے گئے ہیں شریعت بھی اور فلسفۂ شریعت بھی اور پاکیزگی اور طہارت کے ُگر بھی بیان کئے گئے ہیں

Page 93

اور ابراہیمی دعا میں آخری موعود کی بعثت کا یہی مقصد بیان کیا گیا ہے.دوسرا تعلق سورۃ فاتحہ کا سورۃ بقرہ سے یہ ہے کہ اس میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَکی دعا سکھائی گئی تھی اور سورۂ بقرہ کی ابتداء بھی آیت ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠سے ہوئی ہے یعنی یہ سورۃ صراط مستقیم کی طرف لے جانے کے مقصد کو پورا کرتی ہے اور فاتحہ کی دعا کی قبولیت کا ظاہری نشان ہے.بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۰۰۱ (میں) اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں) الٓمّٓۚ۰۰۲ الٓمّٓ تفسیر.حروف مقطّعات اور ان کی تعداد چونکہ یہ حروف الگ الگ بولے جاتے ہیں انہیں حروف مقطعات کہتے ہیں جو ایک سے لے کر پانچ کی تعداد تک بعض سورتوں کے شروع میں بیان کئے گئے ہیں حروف کی اقسام کے لحاظ سے یہ چودہ حرف ہیں اور ان کی تفصیل یہ ہے ا.ل.م.ص.ر.ک.ہ.ی.ع.ط.س.ح.ق.ن.ان میں سے ق اور نون اکیلا اکیلا ایک سورۃ کے پہلے آیا ہے.باقی دو دو یا زیادہ مل کر آئے ہیں.مقطّعات کے معنوں کے بارہ میں مفسرین کا اختلاف ان کے معنوں کے بارہ میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے بعض نے تو لکھا ہے کہ یہ حروف خدا تعالیٰ کے اسرار میں سے ہیں اس لئے ان کے معنوں کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے.بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ مراد ہے کہ قرآن کریم بھی حروف ہجاء سے بنا ہے مگر پھر بھی معجزانہ کلام ہے اگر یہ انسانی کلام ہوتا تو کیوں عرب انہی حروف سے ایسا ہی کلام نہ بنا لیتے.بعض نے کہا ہے کہ یہ سورتوں کے نام ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ قسمیں ہیں جو سورۃ کے مضمون پر اللہ تعالیٰ نے کھائی ہیں.مگر سب مطالب ایسے معمولی ہیں کہ ان کی خاطر حروف مقطّعات کا قرآنی سُوَر کے شروع میں رکھنا نظر میں جچتا نہیں.بعض نے ان کو بامعانی کلام کا خلاصہ قرار دیا ہے مثلاً الف لام میم کے معنے یہ کئے ہیں کہ اللہ جبریل محمد یعنی اللہ تعالیٰ نے جبریل کے ذریعہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر یہ کلام نازل کیا ہے.یہ معنے الف لام میم کے حروف پر تو چسپاں ہو جاتے ہیں.لیکن تمام حروفِ مقطّعات کی اس طرح تشریح نہیں ہو سکتی.

Page 94

مقطّعات کا صحیح مفہوم بعض نے ان حروف کے معنی یہ کئے ہیں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر ہے جن کی تشریح بعد کی سورۃ میں کی گئی ہے اور صفات کے پہلے حروف یا بعض اہم حروف کو مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بیان کر دیا گیا جیسا کہ مَیں آگے چل کر بیان کروں گا یہی معنی سب سے زیادہ درست اور شانِ قرآن اور شہادتِ قرآن کے مطابق ہیں بعض نے ان حروف سے ان آیات کے مضامین کے اوقات کی طرف اشارہ مراد لیا ہے یعنی حروف مقطّعات سے جس قدر عدد نکلتے ہیں اس قدر عرصہ تک کے متعلق ان سورتوں میں واقعات بیان کئے گئے ہیں.یا یہ کہ اس زمانہ کے حالات کی طرف ان سورتوں میں خاص طو رپر اشارہ کیا گیا ہے یہ معنی بھی جیسا کہ بتایا جائے گا درست معلوم ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی کم سے کم ان کی تصدیق کرتی ہے.مقطّعات کے معانی سمجھنے میں مغربی محقّقین کی غلطی بعض مغربی مصنفین نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ ان کاتبوں کے نام ہیں جنہوں نے حضرت محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے یہ سورتیں لکھیں (سیل بحوالہ گولیس) چنانچہ انہوں نے الف سے ابوبکر ع سے علی یا عمر س سے سعد ط سے طلحہ اور ھا سے ابوہریرہؓ وغیرہ مراد لئے ہیں یہ معنے اس ناواقفیت کا ایک اور ثبوت ہیں جس کے باوجود ہر مغربی مصنف اسلام کے بارہ میں علمیت کا دعویٰ کرنے پر تیار رہتا ہے لطف یہ ہے کہ ہ سے حضرت ابوہریرہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے اسلام لائے تھے جبکہ سورۂ مریم اور سورۂ طٰہٰ جن میں ہ آتی ہے دونوں ہی مکی ہیں اور ابوہریرہؓ کے اسلام لانے سے دس پندرہ سال پہلے نازل ہو چکی تھیں علاوہ ازیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ثابت ہے کہ یہ حروف بھی الہامی ہیں.نیز یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر یہ سورتیں دوسرے صحابہ سے تیار کروائی گئی تھیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر افراد کو اپنے جھوٹے ہونے کا (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) گواہ بنا لیا آخر جب باقی قرآن آپ نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) خود بنایا تھا تو ان سورتوں کو صحابہ سے بنوانے کی کیا خاص غرض تھی اور کیوں ان کو ایک افتراء کا گواہ بنایا.اور اگر بفرض محال ایسا کیا بھی تھا تو ان نامو ںکو شروع میں رکھ کر اس افتراء کا ثبوت کیوں بہم پہنچایا ایسا کام تو ایک نیم عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا؟ حروف مقطّعات قرآن کریم کی وحی کا حصہ ہیں اس امر کا ثبوت کہ ان حروف کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی وحی کا حصہ قرار دیا ہے اس حدیث سے ملتا ہے جو بخاری نے اپنی کتاب تاریخ میں نیز ترمذی اور حاکم نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کی ہے.وہ فرماتے ہیں.قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

Page 95

مَنْ قَرَئَ حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَا لِھَا لَا اَقُوْلُ الٓـمّٓ حَرْفٌ وَلٰـکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَّ مِیْمٌ حَرْفٌ (ترمذی ابواب فضائل القرآن.باب ما جاءَ فی من قَرَأ حرفًا من القرآن ما لہ من الاجر) اس روایت کو بزاز اور ابن شیبہ نے بھی عوف بن مالک الاشجعی کی سند پر نقل کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی کتاب یعنی قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھے وہ جنت کا مستحق ہو گا اور اس کی یہ نیکی دس گنے ثواب کا مستحق اسے بنا دے گی اور میں یہ نہیں کہتا کہ الٓم ایک حرف ہے بلکہ الٓمّٓ کا الف ایک مستقل حرف ہے اور لام ایک مستقل حرف ہے اور میم ایک مستقل حرف ہے.(اس جگہ حرف سے مراد لفظ ہے قواعد نحو کے مدوّن ہونے سے پہلے حرف کا لفظ الفاظ کے لئے بھی عربی میں استعمال کیا جاتا تھا اسلامی زمانہ میں قواعد نحو کے مدوّن ہونے پر حرف کا لفظ حروف ہجاء یا ان الفاظ کے لئے مخصوص کر دیا گیا جو دوسرے لفظوں سے ملے بغیر مستقل معنی نہیں دیتے) اس شہادت کی موجودگی میں کون خیال کر سکتا ہے کہ یہ حروف کا تبو ںنے اپنے نام کے لئے بطور علامت کے سورتوں کے شروع میں رکھ دیئے تھے.پھر لطف یہ ہے کہ دعویٰ تو یہ ہے کہ کاتبوں نے اپنے ناموں کی علامت کے طور پر یہ حروف لکھے تھے لیکن الٓـمّٓ کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ اَمَرَلِیْ مُحَمَّدٌ مجھے اس کے لکھنے کا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حکم دیا ہے ان معنوں سے تو کسی شخص کا نام بھی ظاہر نہیں ہوتا.پھر یہ علامت کس بات کی ٹھہرے؟ اس حدیث سے بھی جو جابر بن عبداللہ سے ابھی بیان کی جائے گی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمّٓ کو وحی الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے.حروف مقطّعات کے مطالب ان کے اعداد کے لحاظ سے میں نے ایک معنی ان حروف کے یہ بتائے تھے کہ ان کے عدد کے مطابق سالوں کے واقعات کی طرف ان کے بعد کی سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے.یہ معنی ایک یہودی عالم نے کئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس نے ان کو دہرایا آپؐ نے اس کی تردید نہیں کی بلکہ ایک رنگ میں تصدیق کی.اس لئے یہ معنی بھی قابل ِ غور ضرور ہیں اور تدبرّ کرنےوالوں کے لئے اس تفسیر سے کئی نئے مطالب کی راہ کھل جاتی ہے وہ حدیث جس میں اس تشریح کا ذکر آتا ہے یُوں ہے ابن اسحاق نے اور بخاری نے (اپنی تاریخ میں) نیز ابن جریر نے ابن عباس سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے یوں روایت کی ہے مَرَّ اَبُوْ یَاسِرِ بْنِ اَخْطَبَ فِیْ رِجَالٍ مِنْ یَھُوْدَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ یَتْلُوْ فَاتِحَۃَ سُوْرَۃِ الْبَقَرَۃِ (الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہِ) فَاَتٰی اَخَاہُ حُیَیَّ بْنَ اَخْطَبَ فِیْ رجَالٍ مِّنَ الْیَھُوْدِ فَقَالَ، تَعْلَمُوْنَ.وَاللّٰہِ لَقَدْ سَمِعْتُ مُحَمَّدًا یَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ (الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ) فَقَالَ اَنْتَ سَمِعْتَہٗ فَقَالَ

Page 96

نَعَمْ فَمَشَیٰ حُیَیٌّ فِیْ اُولٰٓئِکَ النَّفَرِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا یَا مُحَمَّدُ اَ لَمْ یُذْکَرْ اَنَّکَ تَتْلُوْ فِیْمَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ (الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ) قَالَ بَلٰی قَالُوْا اَجَائَ کَ بِھٰذَا جِبْرِیْلُ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ.قَالَ نَعَمْ.قَالُوْا لَقَدْ بَعَثَ اللّٰہُ مِنْ قَبْلِکَ الْاَنْبِیَائَ مَانَعْلَمَہٗ بَیَّنَ لِنَبِیٍّ مِنُھُمْ مَا مُدَّۃُ مُلْکِہٖ وَمَا اَجَلُ اُمَّتِہٖ غَیْرَکَ فَقَالَ حُیَیَّ بْنُ اَخْطَبَ وَ اَقْبَلَ عَلٰی مَنْ کَانَ مَعَہٗ اَ لْاَلِفُ وَاحِدَۃٌ وَاللَّامُ ثَـلَاثُوْنَ وَالْمِیْمُ اَرْبَعُوْنَ فَھٰذِہٖ اِحْدٰی وَسَبْعُوْنَ سَنَۃً اَفَتَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ نَبِیٍّ اِنَّمَا مُدَّۃُ مُلْکِہٖ وَاَجَلُ اُمَّتِہٖ اِحْدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ اَقْبَلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ ھَلْ مَعَ ھٰذَا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَ مَا ذَاکَ قَالَ الٓمّٓصٓ قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَلُ وَ اَطْوَلُ اَ لْاَلِفُ وَاحِدَۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ وَالْمِیْمُ اَرْبَعُوْنَ وَالصَّادُ تِسْعُوْنَ فَھٰذِہٖ اِحْدٰی وَسِتُّوْنَ وَمِأَۃَ سَنَۃً ھَلْ مَعَ ھٰذَا یَا مُحَمَّدُ غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَمَا ذَاکَ قَالَ الٓرٰ قَالَ ھٰذِہٖ اَثْقَلُ وَ اَطْوَلُ اَلْاَلِفُ وَاحِدَۃٌ وَاللَّامُ ثَلٰثُوْنَ وَالرَّائُ مِأَتَانِ ھٰذِہٖ اِحْدٰی وَ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً وَ مِأَتَانِ فَھَلْ مَعَ ھٰذَا غَیْرُہٗ قَالَ نَعَمْ (الٓمّرٰ) قَالَ فَھٰذہٖ اَثْقَلُ وَ اَطْوَلُ اَ لْاَلِفُ وَاحِدَۃٌ وَاللَّامُ ثَـلَاثُوْنَ وَالْمِیْمُ اَرْبَعُوْنَ وَالرَّآءُ مِأَتَانِ فَھٰذِہٖ اِحْدٰی وَ سَبْعُوْنَ سَنَۃً وَ مِأَتَانِ ثُمَّ قَالَ لَقَدْ لَبِسَ عَلَیْنَا اَمْرُکَ یَا مُحَمَّدُ حتّٰی مَانَدْرِیْ أَقَلِیْلًا اُعْطِیْتَ اَمْ کَثِیْرًا ثُمَّ قَامُوْا فَقَالَ اَبُوْ یَاسِرٍ لِاَخِیْہِ حُیَیّ وَمَنْ مَعَہٗ مِنَ الْاَحْبَارِ مَایُدْ رِیْکُمْ لَعَلَّہٗ قَدْ جُمِعَ ھٰذَا لِمُحَمَّدٍ کُلُّہٗ اَحْدٰی وَ سَبْعُوْنَ وَ اِحْدٰی وَ سِتُّوْ نَ وَمِأَۃٌ وَاِحْدٰی وَ ثَـلَاثُوْنَ وَ مِأَتَانِ وَاِحْدٰ ی وَ سَبْعُوْنَ وَ مِأَتَانِ فَذَالِکَ سَبْعُ مِأَۃٍ وَّ اَرْبَعٌ وَّ ثَـلَاثُوْنَ سَنَۃً فَقَالُوْا لَقَدْ تَشَا بَہَ عَلَیْنَا اَمْرُہٗ (بحوالہ فتح البیان تفسیر سورۃ البقرۃ) یعنی ابو یاسر بن اخطب (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشہور یہودی علماء سے تھا) کچھ یہود سمیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا جبکہ آپؐ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات پڑھ رہے تھے یعنی الٓمّٓ.ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ.وہ یہ سن کر اپنے بھائی حُیَیّ بن اخطب کے پاس جبکہ وہ یہود کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا ہوا تھا آیااور کہا تم کو کچھ معلوم ہے میں نے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا پڑھتے سنا ہے؟ خدا کی قسم! مَیں نے سنا ہے کہ وہ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے یہ کلام پڑھ رہے تھے الٓمّٓ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ.اس پر حُیَیّ نے کہا کیا فی الواقع تم نے یہ کلام سنا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں اس پر حُیّی اپنے ساتھیوں کو لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے محمد! (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا آپؐ کے متعلق یہ بات نہیں کہی جاتی کہ آپ اپنے اوپر نازل ہونے والے کلام میں سے ایک یہ وحی بھی سناتے ہیں کہ الٓمّٓ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ؟ آپؐ نے فرمایا یہ درست ہے اس نے کہا کیا یہ کلام

Page 97

جبریل نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر نازل کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں حُیـیّ نے کہا کہ آپؐ سے پہلے بھی انبیاء آئے ہیں ہمیں معلوم نہیں کہ سوائے آپؐ کے ان میں سے کسی کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حکومت کی مدت اور اس کی قوم کا عرصہ بیان کیا ہو.پھر اُس نے اپنے ساتھیوں کو مخاطب کیا اور کہا الف کا ایک لام کے تیس اور میم کے چالیس یعنی کل اکہتر سال ہوئے.کیا تم ایسے نبی کے دین کو قبول کرو گے جس کی حکومت کا عرصہ اور جس کی امت کا زمانہ کل اکہتر سال ہے؟ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مخاطب ہوا اور پوچھا کہ اے محمد! (صلے اللہ علیہ وسلم) کیا ان کے علاوہ اور حرف بھی آپؐ پر نازل ہوئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کیا.آپؐ نے فرمایا اَلٓمّٓصٓ.اس نے کہا یہ زیادہ گراں ہے اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ص کے نوے کل ایک سوا کاسٹھ ہوئے.پھر پوچھا کیا ان کے سوا اور حروف بھی آپ پر نازل ہوئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں.اس نے کہا وہ کیا ؟آپؐ نے فرمایا.الٓـٰر اس نے کہا یہ اس سے بھی زیادہ گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس اور ر کے دوسو کل دوسو اکتیس ہوئے.پھر کہنے لگا کیا ان کے سوا اور حروف بھی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اور وہ الٓمٓـٰر کے حروف ہیں اس پر وہ بولا کہ یہ تو پہلے سے بھی گراں اور لمبا عرصہ ہے الف کا ایک لام کے تیس میم کے چالیس اور ر کے دوسو ہوئے کل دو سواکہتر سال کا عرصہ ہوا پھر کہنے لگا اے محمد! (صلے اللہ علیہ وسلم) آپؐ کا معاملہ ہم پر مشتبہ ہو گیا ہے.پتہ نہیں لگتا آپؐ کولمبی عمر عطا ہوئی ہے یا چھوٹی پھر وہ اور اس کے ساتھی اُٹھ کر چلے گئے راستہ میں ابو یاسر نے اپنے بھائی اور دوسرے یہودی علماء سے کہا.کیا معلوم کہ یہ سب زمانے محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) کے لئے اکٹھے کر دئے گئے ہوں جن کی میزان سات سو چونتیس سال ہوتی ہے اس پر سب نے کہا کہ معاملہ کچھ مشتبہ ہی ہو گیا ہے.اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود نے ان حروف سے سالوں کی تعداد مراد لی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے خیال کا اظہار بھی کیا تھا اور آپؐ نے اُن کے خیال کی تردید نہیں فرمائی.یہود کا یہ خیال کہ ان حروف سے اُمتِ محمدؐیہ کا زمانہ بتایا گیا ہے ایک بالبداہت غلط بات ہے کیونکہ اُمت ِ محمدؐیہ کا زمانہ تو تاقیامت ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کاتردید نہ کرنا بھی کچھ معنے ضرور رکھتا ہے اور اس کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اور سورتوں کے مضامین کو دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ حروف اپنی عددی قیمت کے لحاظ سے اس زمانہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کے واقعات خاص طور پر اس سورۃ میں بیان کئے گئے ہیں جس کی ابتداء میں وہ حروف آئے ہیں خواہ اس لحاظ سے کہ بعثت نبوی ؐکے بعد اتنے عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات ہوئے یا اس لحاظ سے

Page 98

کہ اس عرصہ کے اختتام پر وہ واقعات شروع ہوئے.اسلام کے بعض واقعات کی طرف مقطعات میں اشارہ اگر اس خیال کو درست سمجھا جائے تو یہ بات تو واضح ہے کہ سورۂ بقرہ کے واقعات بعثت کے بعد کے اکہتر سال کے واقعات کا مختصر خاکہ ہیں حضرت معاویہ ۶۰ھ میں فوت ہوئے ہیں اس میں تیرہ سال قبل ہجرت کے شامل کئے جائیں تو یہ ۷۳ھ ہوتا ہے.یزید کی بیعت حضرت معاویہ نے وفات سے ایک دو سال پہلے لی ہے چونکہ اسی وقت سے اصل فتنہ شروع ہوا ہے اس لئے ابتدائے اسلام اور ترقی اسلام کا زمانہ اکہتر سال ہوتا ہے اور اسی زمانہ کا نقشہ سورۂ بقرہ میں کھینچا گیا ہے.دوسری سورۃ مریم ہے اس سے پہلے کٓھٰیٰعٓصٓکے الفاظ ہیں جن کی مجموعی رقم ۱۹۵ ہوتی ہے سورۂ مریم میں مسیحیت کی ترقی کا ذکر ہے اور خصوصاً دوسری ترقی کا جو اسلامی ترقی کے بعد ہوئی تھی.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سال سے مسیحیت نے دوبارہ سر نکالا ہے.یہی سال ہے جس میں اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ کوشش کی گئی کہ جس وقت معتصم باللہ مسیحی رومی حکومت کے خلاف لڑ رہا تھا اُسے معزول کر کے عباس بن مامون کو خلیفہ مقرر کر دیا جائے اور اس طرح مسیحیوں کے مقابل پر اسلام کو ضعف پہنچایا جائے اسی زمانہ کے قریب مسیحیوں نے دوبارہ سپین پر حملہ کر کے اس کے کچھ حصے واپس لے لیے اور اسی زمانہ کے قریب یہ بدبختی کا واقعہ دیکھنے میں آیا کہ خلافت ِاندلس نے خلافتِ عباسیہ کے خلاف روما کے عیسائی بادشاہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور عباسی حکومت نے شاہ ِفرانس سے سپین کی اسلامی حکومت کے خلاف دوستانہ تعلقات قائم کئے اور اس طرح اسلامی سیاست میں مسیحیوں کو داخل کر کے مسیحیت کی ترقی اور اسلام کے تنزّل کی داغ بیل ڈالی.میری رائے میں اگر دوسری سورتوں پر بھی غور کیا جائے تو زمانہ کے لحاظ سے کافی روشنی ان مضامین پر پڑے گی.اب مَیں حروفِ مقطعات کے بارہ میں وہ تحقیق لکھتا ہوں جس کی بنیاد حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ کے کئے ہوئے معنوں پر ہے اور وہ تحقیق یہ ہے.حروف مقطعات اپنے اندر بہت سے راز رکھتے ہیں ان میں سے بعض راز بعض ایسے افراد کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جن کا قرآن کریم سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ ان کا ذکر قرآن کریم میں ہونا چاہیے لیکن اس کے علاوہ یہ الفاظ قرآن کریم کے بعض مضامین کے لئے قفل کا بھی کام دیتے ہیں کوئی پہلے ان کو کھولے تب ان مضامین تک پہنچ سکتاہے جس حد تک ان کے معنوں کو سمجھتا جائے اسی حد تک قرآن کریم کا مطلب کھلتا جائے گا.مقطعات میں تبدیلی کیوں ہوتی ہے؟ میری تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جب حروفِ مقطعات بدلتے ہیں تو

Page 99

مضمون قرآن جدید ہو جاتا ہے اور جب کسی سورۃ کے پہلے حروف مقطعات استعمال کئے جاتے ہیں تو جس قدر سورتیں اس کے بعد ایسی آتی ہیں جن کے پہلے مقطعات نہیں ہوتے ان میں ایک ہی مضمون ہوتا ہے اسی طرح جن سورتوں میں وہی حروف مقطعات دُہرائے جاتے ہیں وہ ساری سورتیں مضمون کے لحاظ سے ایک ہی لڑی میں پروئی ہوئی ہوتی ہیں.اس قاعدہ کے مطابق میرے نزدیک سورۂ بقرہ سےلےکر سورہ توبہ تک ایک ہی مضمون ہے اور یہ سب سورتیں الٓمّٓ سے تعلق رکھتی ہیں.سورۃ بقرہ الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۃ آل عمران بھی الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں اور اس طرح گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں جن کی ابتداء الٓمّٓ سے ہوتی ہے ان کے بعد سورہ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں بھی وہی الٓمّٓ موجود ہے ہاں حرف ص کی زیادتی ہوئی ہے اس کے بعد سورۃ انفال اور براء ۃ حروف مقطعات سے خالی ہیں.پس سورۃ براء ۃ تک الٓمّٓ کا مضمون چلتا ہے سورۃ اعراف میں جو ص بڑھایا گیا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حرف تصدیق کی طرف لےجاتا ہے.سورہ اعراف انفال اور توبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے سورۂ اعراف میں اصولی طور پر اور انفال اور توبہ میں تفصیلی طور پر تصدیق کی بحث ہے اس لئے وہاں ص کو بڑھا دیا گیا ہے.سورۂ یونس سے الٓمّٓ کی بجائے الٓـٰر شروع ہو گیا ہے ال تو وہی رہا اور م کو بدل کر ر کر دیا.پس یہاں مضمون بدل گیا.اور فرق یہ ہوا کہ بقرہ سے لیکر توبہ تک تو علمی نقطہ نگاہ سے بحث کی گئی ہے اور سورۂ یونس سے لیکر سورۂ کہف تک واقعات کی بحث کی گئی تھی اور واقعات کے نتائج پر بحث کو منحصر رکھا گیا ہے اس لئے فرمایا کہ الٓـٰر یعنی اَ نَا اللّٰہُ اَرٰی میں اللہ ہوں جو سب کچھ دیکھتا ہوں اور تمام دنیا کی تاریخوں پر نظر رکھتے ہوئے اس کلام کو تمہارے سامنے رکھتا ہوں.غرض ان سورتوں میں رویت کی صفت پر زیادہ بحث کی گئی ہے اور پہلی سورتوں میں علم کی صفت پر زیادہ بحث تھی.حروفِ مقطعات بے معنی نہیں میں فی الحال اس جگہ اختصاراً اتنی بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حروف مقطعات کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بے معنی ہیں.اور انہیں یونہی رکھ دیا گیا ہے مگر ان لوگوں کی تردید خود حروف مقطعات ہی کر رہے ہیں.حروف مقطعات کے استعمال میں ایک خاص ترتیب چنانچہ جب ہم تمام قرآن پر ایک نظر ڈا ل کر یہ دیکھتے ہیں کہ کہاں کہا ںحروف ِمقطعات استعمال ہوئے ہیں تو ان میں ایک ترتیب نظر آتی ہے.سورۂ بقرہ الٓمّٓ

Page 100

سے شروع ہوتی ہے پھر سورہ آل عمران الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے پھر سورۂ نساء ،سورۂ مائدہ، سورہ انعام حروف مقطعات سے خالی ہیں پھر سورۂ اعراف الٓمّٓصٓ سے شروع ہوتی ہے اور سورۂ انفال اور براء ۃ خالی ہیں ان کے بعد سورۂ یونس، سورۂ ہود، سورۂ یوسف الٓـٰرسے شروع ہوتی ہیں اور سورہ رعد میں م بڑہا کر الٓمّٓرٰ کر دیا گیا ہے لیکن جہاں الٓمّٓصٓ میں ص آخرمیں رکھا یہاں م کو ر سے پہلے رکھا گیا ہے.حالانکہ اگر کسی مقصد کے مدِّنظر رکھے بغیر زیادتی کی جاتی تو چاہیے تھا کہ میم کو جو زائد کیا گیا تھا.ر کے بعد رکھا جاتا میم کو الٓـٰر کے درمیان رکھ دینا بتاتا ہے کہ ان حروف کے کوئی خاص معنے ہیںاور جب ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے الٓمّٓ کی سورتیں ہیں.اور اس کے بعد الٓـٰر کی تو صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ مضمون کے لحاظ سے میم کو ر پر تقدم حاصل ہے اور سورۂ رعد جس میں میم او ر ر اکٹھے کردیئے گئے ہیں اس میں میم کو ر سے پہلے رکھنا اس امر کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ سب حروف خاص معنے رکھتے ہیں.اسی وجہ سے ان حروف کو جو معنی تقدم رکھتے ہیں ہمیشہ مقدم ہی رکھا جاتا ہے.سورۂ رعد کے بعد ابراہیم اور حجر میں الٓـرٰ استعمال کیا گیا لیکن نحل، بنی اسرائیل اور کہف میں مقطعات استعمال نہیں ہوئے اور یہ سورتیں گویا پہلی سورتوں کے مضامین کے تابع ہیں.ان کے بعد سورۂ مریم ہے جس میں کٓھٰیٰعٓصٓ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں.سورۂ مریم کے بعد سورۂ طٰہٰ ہے اور اس میں طٰہٰ کے حروف استعمال کئے گئے ہیں.اس کے بعد انبیاء ،حج ،مؤمنون، نور اور فرقان میں حروف مقطعات چھوڑ دیئے گئے ہیں.گویا یہ سورتیں طٰہٰ کے تابع ہیں.آگے سورۂ شعراء طٰسٓمّٓ سے شروع کی گئی ہے گویا طاء کو قائم رکھا گیا ہے اور ھا کی جگہ س اور میم لائے گئے ہیں اس کے بعد سورہ نمل ہے جو طٰسٓ سے شروع ہوتی ہے اس میں سے میم کو اُڑا دیا گیا ہے اور طاء اور س قائم رکھے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ قصص کی ابتدا پھر طٰسٓمّٓ سے کی گئی ہے گویا میم کے مضمون کو پھر شامل کر لیا گیا ہے.اس کے بعد سورہ عنکبوت کو پھر الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے اور دوبارہ علم ِ الٰہی کے مضمون کو نئے پیرایہ اور نئی ضرورت کے ماتحت شروع کیا گیا ہے (اگرچہ میں ترتیب پر اس وقت بحث نہیں کر رہا.لیکن اگر کوئی کہے کہ الٓمّٓ دوبارہ کیوں لایا گیا ہے؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سورۂ بقرہ سے الٓمّٓ کے مخاطب کفار تھے اور یہاں سے الٓمّٓکے مخاطب مومن ہیں) سورۂ سجدہ کو بھی الٓمّٓ سے شروع کیا گیا ہے ان کے بعد سورۂ احزاب.سبا.فاطر.بغیرمقطعات کے ہیں اور گویا پہلی سورتوں کے تابع ہیں.ان کے بعد سورۂ یٰسٓہے جس کو یٰسٓ کے حروف سے شروع کیا گیا ہے.اس کے بعد سورۂ صافات بغیر مقطّعات کے ہے اس کے بعد سورہ صٓ حرف ص سے شروع کی گئی ہے پھر سورئہ زمر حروف مقطّعات سے خالی اور پہلی سورۃ کے تابع ہے اس کے بعد سورۂ مومن حٰمٓ سے شروع کی گئی ہے اس کے بعد سورہ حٰمٓ سجدۃ کو بھی حٰمٓ

Page 101

سے شروع کیا گیا ہے پھر سورۂ شوریٰ کو بھی حٰمٓ سے شروع کیا گیا ہے لیکن ساتھ حروف عٓسٓقٓ بڑھائے گئے ہیں اس کے بعد سورۂ زخرف ہے اس میں بھی حٰمٓ کے حروف ہی استعمال کئے گئے ہیں.پھر سورۂ دخان.جاثیہ اور احقاف بھی حٰمٓ سے شروع ہوتی ہیں.ان کے بعد سورۂ محمد.فتح اور حجرات بغیر مقطعات کے ہیں اور پہلی سورتوں کے تابع ہیں سورہ قٓ حرف ق سے شروع ہوتی ہے اور قرآن کریم کے آخر تک ایک ہی مضمون چلا جاتا ہے.یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ یہ حروف یونہی نہیں رکھے گئے.پہلے الٓمّٓ آتا ہے پھر الٓمّٓصٓ آتا ہے جس میں ص کی زیادتی کی جاتی ہے.پھر الٓرٰ آتا ہے اور پھر الٓمّرٰٓ آتا ہے کہ جس میںمیم کی زیادتی کی جاتی ہے پھر کٓھٰیٰعٓصٓ آتا ہے جس میں ص پر چار اور حروف کی زیادتی ہے پھر طٰہٰ لایا جاتا ہے.اور پھر اس میں کچھ تبدیلی کر کے طٰسٓمّٓ کر دیا جاتاہے.یہ ایک ہی قسم کے الفاظ کا متواتر لانا اور بعض کو بعض جگہ بدل دینا بعض جگہ اور رکھ دینا بتاتا ہے کہ خواہ یہ حروف کسی کی سمجھ میں آئیں یا نہ آئیں جس نے انہیں رکھا ہے کسی مطلب کے لئے ہی رکھا ہے.اگر یونہی رکھے جاتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ کہیں ان کو بدل دیا جاتا کہیں زائد کر دیا جاتا کہیں کم کر دیا جاتا.مقطعات کی دلالت کا اعتراف مخالفین اسلام کی طرف سے علاوہ مذکورہ بالا دلائل کے خود مخالفین اسلام کے ہی ایک استد لال سے یہ مستنبط ہوتا ہے کہ مقطعات کچھ معنی رکھتے ہیں.مخالفین اسلام کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب ان کی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے ہے اب اگر یہ صحیح ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ باوجود اس کے کہ سورتیں اپنی لمبائی اور چھوٹائی کے سبب سے آگے پیچھے رکھی گئی ہے ایک قسم کے حروف مقطعات اکٹھے آتے ہیں ؟ الٓمّٓ کی سورتیں اکٹھی آ گئی ہیں الٓـرٰٓ کی اکٹھی طٰہٰ اور اس کے مشترکات کی اکٹھی پھر الٓمّٓکی اکٹھی حٰمٓ کی اکٹھی.اگر سورتیں ان کے حجم کے مطابق رکھی گئی ہیں تو کیا یہ عجیب بات نہیں معلوم ہوتی کہ حروف مقطعات ایک خاص حجم پر دلالت کرتے ہیں؟ اگر صرف یہی تسلیم کیا جائے تب بھی اس کے معنے یہ ہوں گے کہ حروفِ مقطعات کے کچھ معنی ہیں خواہ یہی معنی ہوں کہ وہ سورۃ کی لمبائی اور چھوٹائی پر دلالت کرتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ ایک قسم کے حروف مقطعات کی سورتوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا بتاتا ہے کہ ان کے معنوں میں اشتراک ہے اور یہ حروف سورتوں کے لئے بطور کنجیوں کے ہیں.حروف مقطعات کے معانی کا استنباط قرآن کریم سے میرے نزدیک حروفِ مقطعات کے معنوں کے لئے ہمیں قرآن کریم ہی کی طرف دیکھنا چاہیے پہلی سورتوں میں الٓمّٓ آیا تھا چنانچہ سورہ بقرہ کے پہلے یہی حروف تھے اور ان کے بعد ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ (البقرة:۳) کا جملہ تھا.اس کے بعد آل عمران میں

Page 102

الٓمّٓ آیا جس کے بعد اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۙ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ.نَزَّلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ (اٰل عمران:۳ ،۴) آیا.یاد رکھنا چاہیے کہ حقّ اور لَارَیْبَ کے دراصل ایک ہی معنے ہیں پس بقرہ میں بھی الٓمّٓ کے بعد ایسی کتاب کا ذکر تھا جس میں ریب نہ ہو اور اس جگہ بھی پھر اعراف میں الٓمّٓصٓ آیا اور اس کے بعد كِتٰبٌ اُنْزِلَ اِلَيْكَ فَلَا يَكُنْ فِيْ صَدْرِكَ حَرَجٌ مِّنْهُ لِتُنْذِرَ بِهٖ وَ ذِكْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ(الاعراف:۳)کی آیت رکھی گئی گویا یہاں بھی لَا رَیْبَ فِیْہِ والی کتاب کا ذکر ہوا ہے کیونکہ فَلَایَکُنْ فِیْ صَدْرِکَ حَرَجٌ ایسی ہی کتاب پر دلالت کرتا ہے جو لَا رَیْبَ فِیْہِ کی صفت سے متصف ہو.ان ابتدائی سورتوں کے بعد وقفہ دے کر عنکبوت الٓمّٓ سے شروع ہوتی ہے فرماتا ہے.الٓمّٓ.اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْۤا اَنْ يَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ.وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَ لَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ (العنکبوت:۲ تا ۴) ان آیات میں بھی ایک یقینی کتاب کا ذکر کیا گیا ہے چنانچہ امتحان شک اور ریب کے دُور کرنے پر ہی دلالت کرتا ہے.پس اس سورۃ میں بھی وہی مضمون ہے جو سورۃ بقرہ وغیرہ میں تھا صرف فرق یہ ہے کہ بقرہ میں انسان بحیثیت مجموعی مخاطب تھے اور یہاں مومنوں سے کہا گیا ہے کہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ابھی شک تمہارے دلوں میں باقی ہو اور ہم تم سے معاملہ کا ملین والا شروع کر دیں.سورۂ روم میں بھی یہی مضمون ہے گو بہت باریک ہو گیا ہے فرماتا ہے الٓمّٓ.غُلِبَتِ الرُّوْمُ.فِيْۤ اَدْنَى الْاَرْضِ وَ هُمْ مِّنْۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَ (الروم:۲ تا ۴) خدا تعالیٰ کا کلام روم کے متعلق نازل ہوا ہے اور وہ ضرور پورا ہوکر رہے گا گویا بجائے سب کتاب کی طرف اشارہ کرنے کے ایک خاص حصّہ کی طرف اشارہ اور اس کے یقینی ہونے پر زور دیا ہے جیسا کہ ’’مِنْ‘‘ اور ’’س‘‘ کے حروف سے ظاہر ہے.سورۂ روم کے بعد سورۂ لقمان الٓمّٓ سےشروع ہوتی ہے.اس میں فرماتا ہے.الٓمّٓ.تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ.هُدًى وَّ رَحْمَةً لِّلْمُحْسِنِيْنَ.الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ.اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (لقمان : ۲ تا ۶) اس سورۃ میں بھی حَکِیْم کا لفظ استعمال کر کے ایک یقینی امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور گویا بقرہ کے ابتدائی مضمون کو دُہرا دیا گیا ہے اور اس کے بعد سورہ سجدہ ہے اس میں آتا ہے.الٓمّٓ.تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ لَا رَيْبَ فِيْهِ مِنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ (السجدۃ: ۲،۳) یہاں بھی ایک بے ریب کتاب کا ذکر ہے پس ان سب آیات سے ظاہر ہے کہ جہاں الٓمّٓ آتا ہے اس کے بعد ایک خاص مضمون آتا ہے اور ایک یقینی علم کے نزول کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اب اس امر کی موجودگی میں کس طرح سمجھ لیا جائے کہ یہ الفاظ یونہی رکھ دیئے گئے ہیں.پس حق یہی ہے کہ الٓـمّٓ کے حروف ازالہ شک اور یقین پر دلالت کرنے کے لئے آتے ہیں اور

Page 103

وہ چیز جس سے شک دور ہوتا ہے اور یقین پیدا ہوتا ہے کامل علم ہی ہوتا ہے.پس الٓمّٓ کے معنی یہی ہیں اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ میں اللہ ہوں جو سب سے زیادہ جاننے والا ہوں پس اگر شک کو دور کرنا اور یقین حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے کلام کی طرف توجہ کرو اور میری کتاب کو پڑھو.اب میں الٓـٰر کو لیتا ہوں ان حروف سے جو سورتیں شروع ہوتی ہیں اگر ان پر غور کیا جائے تو وہ بھی ایک ہی مضمون سے شروع ہوتی ہیں سورۂ یونس میں آتا ہے.الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْحَكِيْمِ.اَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا اَنْ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْهُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؔؕ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ هٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ(یونس: ۲،۳) پھر سورۂ ہود میں آتا ہے.الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ.اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّا اللّٰهَ١ؕ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ.وَّ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّ يُؤْتِ كُلَّ ذِيْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ١ؕ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّيْۤ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْرٍ(ھود : ۲ تا ۴) پھر سورۂ یوسف میں آتا ہے.الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ الْمُبِيْنِ.اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ قُرْءٰنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ.نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ١ۖۗ وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ (یوسف:۲ تا۴) پھر سورۂ رعد میں آتا ہے.الٓمّٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ١ؕ وَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ.اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ؕ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ يُدَبِّرُ الْاَمْرَ يُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ بِلِقَآءِ رَبِّكُمْ تُوْقِنُوْنَ(الرعد : ۲،۳)یہاں میم کا بھی اور راء کا بھی مضمون آ گیا.پھر سورۂ ابراہیم میں آتا ہے.الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ۙ۬ بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اِلٰى صِرَاطِ الْعَزِيْزِ الْحَمِيْدِ.اللّٰهِ الَّذِيْ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ وَ وَيْلٌ لِّلْكٰفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ(ابراھیم: ۲،۳) پھر سورہ حجر میں آتا ہے.الٓرٰ١۫ تِلْكَ اٰيٰتُ الْكِتٰبِ وَ قُرْاٰنٍ مُّبِيْنٍ.رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ كَانُوْا مُسْلِمِيْنَ.ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَ يَتَمَتَّعُوْا وَ يُلْهِهِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ.وَ مَاۤ اَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ اِلَّا وَ لَهَا كِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ.مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّةٍ اَجَلَهَا وَ مَا يَسْتَاْخِرُوْنَ۠ (الحجر:۲تا۶) ان سب مقامات پر مجموعی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں دو مضامین پر زور دیا گیا ہے.ایک پُرانی تاریخ پر جس میں سے خاص طو رپر شریروں کو سزا ملنے کے مضمون کو منتخب کر لیا گیا ہے اور دوسرے پیدائش عالم کے مضمون پر.سورۂ یونس میں استفہام انکاری کے استعمال سے بتایا گیا ہے کہ نذیر و بشیر انبیاء ہمیشہ ہی آتے رہے ہیں.سورۂ ہود میں اوّل تو یہ قاعدہ بتایا ہے کہ کوئی قوم ایک ہی حالت پر قائم نہیں رہتی بلکہ ایک دائرہ کے اندر چکرّ لگاتی ہے او رپیدائش عالم کا ذکر کر کے بتایا کہ دنیا کی ترقی

Page 104

قانونِ ارتقاء کے ماتحت ہے اس کے بعد سورۂ یوسف میں صاف الفاظ میں تاریخ عالم کی طرف اشارہ کیا ہے سورۂ رعد میں چونکہ میم زائد تھا اس میں الٓـمّٓ اور الٓـٰر دو مضمونوں کو جمع کر دیا اور پہلے تو میم کی مناسبت سے ایک یقینی کلام کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے بعد پیدائشِ عالم کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے سورۂ ابراہیم میں پھر قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ اسے دیکھو اس میں تمہیں ایک بیدار آقا کا ہاتھ نظر آئے گا.سورۂ حجر میں پھر پچھلی تاریخ کی طرف توجہ دلائی ہے.یہ امر ظاہر ہے کہ واقعات اور قانون کا تعلق دیکھنے سے ہے حقیقت تک وہی پہنچ سکتا ہے جس کی آنکھو ںکے سامنے واقعات ہوںیا جس کی آنکھوں کے سامنے کوئی قانون ظاہر ہو رہا ہو.پس ان سورتوں کا رویت کے ساتھ تعلق ہے اور الٓـٰر میں یہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ َمیں اللہ دیکھتا ہوں نہ توپرانی تاریخ میری نظر سے پوشیدہ ہے اور نہ قانونِ قدرت کا اجراء یا پیدائش عالم میری نگاہ سے مخفی ہے.پس رویت سے تعلق رکھنے والے اُمور میں میری ہی ہدایت کافی ہو سکتی ہے.ایک اور بات بھی حروف مقطّعات کے متعلق یاد رکھنی چاہیے کہ گو حروفِ مقطّعات کے مضامین حروف کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں لیکن ایک امر میں یہ سب حروف مشترک ہیں اور وہ یہ کہ جو سورتیں حروفِ مقطّعات سے شروع ہوتی ہیں ان کے مضمون کی ابتداء وحیِ الٰہی کے ذکر سے ہوتی ہے.اکثر میں تو صاف الفاظ میں کتاب یا قرآن کا لفظ ہی استعمال ہوا ہے اور چند ایک میں کسی پرانی کتاب کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ مریم میں یا کسی خاص کلام کی طرف اشارہ ہے جیسا سورۂ روم میں (یہ نوٹ جلد ۳ میں سورۂ یونس کی تفسیر میں چھپ چکا ہے لیکن چونکہ حالات کی مجبوری سے پہلی جلد بعد میں چھپ رہی ہے اس نوٹ کو سورۂ بقرہ میں درج کرنا پڑا.تاکہ شروع سے تفسیر پڑھنے والے پر بھی حروفِ مقطّعات کی حقیقت واضح ہو جائے) یہ دو معنے جو اوپر کئے گئے ہیں یعنی (۱) حروف مقطعات صفات الٰہیہ پر دلالت کرتے ہیں اور ہر حرف کسی ایسی صفت پر دلالت کرتا ہے جس کا ذکر اس سورۃ میں پایا جاتا ہے (۲) ان حروف سے اشارہ حروف کی عددی قیمت کی طرف ہے اور جس قدرعد دان حروف سے نکلتے ہیں اس قدر زمانہ کے حالات پر ان سے خاص طور پر روشنی پڑتی ہے دونو ںہی درست ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ایک کو درست اور دوسرے کو غلط کہا جائے اور اس بارہ میں ابتدائِ اسلام کے بعض اَئمہ بھی مجھ سے متفق ہیں چنانچہ ابن ابی حاتم نے ابو جعفر رازی کی روایت سے ابو العالیہ سے ایک روایت نقل کی ہے جس کے ایک حصّہ کا ترجمہ یہ ہے ’’ان حروف میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں (یعنی ا ل م اور دوسرے مقطّعات میں سے) جو اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے کسی صفت کی ُکنجی نہ ہو اور نہ ان میں سے کوئی حرف ہے جو

Page 105

اللہ تعالیٰ کی نعمتو ںمیں سے نہ ہو اور اس کی روشنی سے حاصل نہ ہوا ہو اور ان میں سے ایک حرف بھی ایسا نہیں جو بعض اقوام کی تاریخ اور ان کے زمانہ پر دلالت نہ کرتا ہو‘‘ یعنی ان حروف سے یہ تینو ںمعنے بیک وقت ظاہر ہوتے ہیں ان سے صفاتِ الٰہیہ پر بھی دلالت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں کے بارہ میں پیشگوئی بھی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام کا نمونہ بھی دکھایا گیا ہے اور ابوالعالیہ کا یہ خیال نہایت درست اورمطابق حقیقت ہے.ابن جریر نے بھی اس روایت کو دوسرے لفظوں میں نقل کیا ہے اور اس کے مضمون کی تصدیق کی ہے.حروف ِمقطّعات کی نسبت یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس غیر معمولی طریق کو قرآن کریم نے کیوں استعمال کیا کیوں نہ یہی مضمون سیدھی سادھی عبارت میں بیان کر دیا.تاکہ اوّل عربوں پر او ربعد میں دوسرے لوگوں پر اس کا سمجھنا آسان ہوتا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غیر معمولی طریق نہیں بلکہ عربوں میں یہ طریق کلام رائج تھا اور ان کے بڑے بڑے شاعر بھی اسے استعمال کرتے تھے اور نثر میں بھی اس کا استعمال ہوتا تھا چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع قُلْنَا قِفِیْ لَنَا فَقَالَتْ قاف ہم نے اس سے کہا کہ تو ذرا ہماری خاطر ٹھہر جا تو اس نے جواب میں قاف کہا یعنی وقَفْتُ لو میں کھڑی ہو گئی ہوں.اسی طرح ایک دوسرا شاعر کہتا ہے.؎ بِالْخَیْرِ خَیْرَاتٌ وَ اِنْ شَرًّا فَا وَلَا اُرِیْدُ الشَّرَّ اِلَّا اَنْ تَا یعنی نیکی کے بدلہ میں نیکی کروںگا.لیکن اگر تیرا ارادہ بدی کرنےکا ہو تو میں اس کیلئے بھی تیار ہو ںاور میں بدی کا ارادہ نہیں رکھتا سوائے اس کے کہ تیرا ارادہ ہو.اس شعر میں فَشَرٌّ کی جگہ صرف حرفِ فا استعمال کیا گیا ہے اور تَشَائُ یعنی تو چاہے کی جگہ صرف حرفِ تا استعمال کیا گیا ہے.آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی ہے کہ ’’مَنْ اَعَانَ عَلٰی قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَۃٍ لَقِیَ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ مَکْتُوبٌ بَیْنَ عَیْنَیْہِ آ یِسٌ مِّنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ‘‘ (ابن ماجہ ابواب الدِّیَات باب التغلیظ فی قتل مسلمٍ ظُلْمًا) یعنی جو شخص کسی مسلمان کے قتل میں ایک لفظ کا حصّہ استعمال کرے (یعنی اُقْتُلْ کی جگہ اُقْ کہہ دے) تو وہ قیامت کے دن اس حالت میں اُٹھے گا کہ اس کے ماتھے کے درمیان یہ لکھا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو گیا.پس عرب میں نظم و نثر میں جب قرینہ موجود ہو الفاظ کی جگہ حروف استعمال ہوتے تھے اور اس اسلوب کلام کا ایک لطیف نمونہ حروفِ مقطّعات کے ذریعہ سے قرآنِ کریم نے دکھایا ہے.آج کل یورپ نے تو اس اسلوب کو بےحد استعمال

Page 106

کیا ہے ایم اے.بی اے.بی ٹی.ایم ڈی وغیرہ سینکڑوں ہزاروں حروف الفاظ کے قائم مقام استعمال ہو رہے ہیں اور لوگ ان کے فائدہ کو سمجھتے ہیں.ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ١ۛۖۚ فِيْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ۙ۰۰۳ یہی کامل کتاب ہے.اس (امر) میں کوئی شک نہیں.متقیوں کو ہدایت دینے والی ہے.حلّ لُغَات.ذٰلِکَ.ذٰلِکَ اسم اشارہ ہے اور اشارہ بعید کے لئے آتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں وہ ہے لیکن کبھی ھذا کے معنوں میں یعنی قریب کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے بھی استعمال کر لیا جاتا ہے چنانچہ زجاج کا قول ہے.ذٰلِکَ الْکِتٰبُ اَیْ ھٰذَا الْکِتٰبُ یعنی ذٰلِکَ الْکِتٰبُ کے معنی ہیں یہ کتاب (تاج العروس) لیکن ذٰلِکَ کو اشارہ بعید کے لئے تصوّر کرتے ہوئے بھی ذٰلِکَ کے معنی یہ کئے جا سکتے ہیں کیونکہ کبھی قریب کی چیز کے لئے دور کا اشارہ اس کے فاصلہ کی دوری کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ اس کی شان کی بلندی کے اظہار کے لئے بھی استعمال کر دیا جاتا ہے.(فتح البیان زیر آیت ھٰذا) اَلْکِـتٰبُ.ال کی اقسام اَلْکِـتٰبُ ال اور کتاب کا مجموعہ ہے اور معنوں کے علاوہ ال حرف تعریف بھی ہے اس صورت میں یہ کبھی عہد کے لئے ہوتا ہے اور کبھی جنس کے لئے.جب عہد کے لئے ہو تو کبھی ذکری ہوتا ہے اور کبھی ذہنی اور کبھی حضوری یعنی جس لفظ پر ال آئے کبھی تو اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ وہی امر ہے جس کا ذکر کر آئے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہماری مراد اس چیز سے ہے جو ہم اور تم دونوں اپنے دلوں میں جانتے ہیں اور کبھی یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ یہ جو سامنے چیز پڑی ہے میں اسی کا ذکر کر رہا ہوں.اور جب جنسی ہو تو اِستغراقی ہوتا ہے یعنی اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ اس جنس کے سب افراد اس لفظ میں شامل ہیں.اِستغراقی آگے کبھی حقیقی ہوتا ہے جیسے خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا.انسان ضعیف ہی پیدا کئے گئے ہیں اور کبھی مجازی.مجازی کی صورت میں ال لا کر یہ بتایا جاتا ہے کہ کامل فرد یہی ہے ورنہ حقیقتاً اس قسم کے اور افراد بھی موجود ہوتے ہیں اس کی مثال اَنْتَ الرَّجُلُ ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ بس تو ہی مرد ہے باقی سب عورتیں ہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی مکمل تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے باقی مردوں میں کچھ نہ کچھ نقص ہیں.استغراقی کے علاوہ جنسی ال تعریف حقیقت بیان کرنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے اَ لْاِنْسَانُ اَفْضَلُ مِنَ الْحَیَوَانِ انسان اپنی حقیقت کے لحاظ

Page 107

سے حیوان سے بہتر ہے.(اقرب) کِتَابٌ.کِتَابٌ.کَتَبَ کا مصدر ہے اور اسی لحاظ سے ہر اُس چیز کا نام کتاب رکھا گیا ہے جس میں مختلف مسائل کو فصل باب کے ساتھ لکھ دیا جائے.تو رات کو بھی انہی معنوں میں کتاب کہتے ہیں اور ہر لکھی ہوئی تصنیف کو بھی کِتَاب کہتے ہیں اور کِتَاب کے معنی فرض کے بھی ہیں اور حُکم کے بھی اور قضاء آسمانی کے بھی.اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والے کلام کو بھی کِتَاب کہتے ہیں اور خط کو بھی کِتَاب کہتے ہیں.(اقرب) پس اس لفظ کے اپنے اپنے محل پر مختلف معنی ہوںگے کبھی فروض و احکام کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت والی وحی کو کتاب کہیں گے اور کبھی صرف الہام کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہرقطعی اور یقینی وحی کو کتاب کہیں گے خواہ کتابی صورت میں جمع کی گئی ہو یا نہ کی گئی ہو.رَیْبٌ.اَلظِّنَّۃُ وَالتُّھْمَۃُ.تخمین سے بلا دلیل کوئی بات کہنا یا محض وہم سے کسی پر الزام لگانا اور اس کی سچائی میں شبہ کرنا.اَلشَّکٌّ.شک.اَلْحَاجَۃُ.کمی.ضرورت اور رَیْبُ الْمَنُوْنِ کے معنے ہیں زمانہ کے مصائب آفات.(اقرب) لفظ رَیْبٌ کا استعمال قرآن مجید میں رَیْب کا لفظ قرآن کریم میں اور کئی جگہ استعمال ہوا ہے مثلاً اسی سورۃ میں فرماتا ہے.وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ (البقرۃ:۲۴) اس جگہ مراد صداقت میں شبہ کے ہیں.اسی طرح سورۂ حج میں ہے.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ (الحج :۶) اس جگہ بھی بعث بعد الموت کی صداقت میں شک و شبہ کرنے کے معنے ہیں پھر سورۂ طور میں ہے.اَمْ يَقُوْلُوْنَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ رَيْبَ الْمَنُوْنِ (الطور :۳۱) یعنی کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن یہ کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے جس کے متعلق ہم انتظار کر رہے ہیں کہ زمانہ کے مصائب آخر اسے ہلاک کر دیںگے.اس جگہ رَیْب مصائب ِ دہر اور ہلاکت کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے.قرآن کریم میں رَیْب کا لفظ اچھے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا.مثلاً فرماتا ہے.مَنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيْبِ(ق:۲۶) نیکی سے بہت روکنے والا.حد سے بڑھنے والا.شک و شبہ کا شکار دوزخ میں ڈالا جائے گا.اسی طرح سورۂ مومن میں آتا ہے.كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ (المومن:۳۵) یعنی اللہ تعالیٰ اسی طرح گمراہ قرار دیتا ہے یا ہلاک کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا یا اپنے عقیدہ اور خیالات کی بنیاد غیر معقول شبہات و و ساوس پر رکھنے والا ہو.پس رَیْب اس شک کو نہیں کہتے جو علم کی زیادتی کا موجب ہوتا ہو اور تحقیق میں ممدّ ہو بلکہ اس شک کو

Page 108

کہتے ہیں جو تعصب یا بدظنی کی وجہ سے ہو اور سچائی سے محروم کر دے چنانچہ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَرْتَابَ الَّذِیْنَ اُوتُوا الْکِتٰبَ وَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المدّثر:۳۲) ہم نے یہ (مذکورہ بالا) کام اس لئے کیا ہے کہ تا اہل کتاب اور مومن ریب میں نہ پڑیں گویا مومن ریب میں نہیں پڑتا اور اللہ تعالیٰ مومن کو ریب سے بچاتا ہے حدیث میں آتا ہے دَعْ مَایُرِ یْبُکَ اِلٰی مَالَا یُرِیْـبُکَ (ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ باب حدیث اعقلھا و توکّل… ) یعنی جو چیز تیرے دل میں قلق اور وسوسہ پیدا کرے اسے چھوڑ دے اور اس چیز کو اختیار کر جس کے بارہ میں وسوسہ نہ ہو.اس حدیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریب اس شک کو کہتے ہیں جس کی بنیاد وسوسہ اور وہم پر ہو اور اس شک کو نہیں کہتے جو تحقیق و تدقیق کے لئے ضروری ہوتا ہے.ھُدًی.ھُدًی.اَلرَّشَادُ سیدھے راستہ پر ہونا.اَلْبَیَانُ بیان کرنا.اَلدَّ لَالَۃُ.کسی امر کی طرف رہبری کرنا (اقرب) اَلْھَدَایَۃُ.اَلدَّلَالَۃُ بِلُطْفٍ یعنی ہدایت (جو ھدًی کاہم معنی دوسرا مصدر ہے) کے معنی محبت اور نرمی سے کسی امر کی طرف رہبری کرنے کے ہیں.(مفردات) امام راغب کے نزدیک لفظ ہدایت کے چار معنے امام راغب کے نزدیک ہدایت کا لفظ قرآن کریم میں مندرجہ ذیل چار معنوں میں آتا ہے (۱) ہر عقل یا سمجھ یا ضروری جزوی ادراک کی طاقت رکھنے والی شے (جیسے حیوانات وغیرہ کہ اِدراکِ کامل ان کو حاصل نہیں ہوتا صرف جزوی یا سطحی اِدراک ایسے ضروری امو رکا جو ان کی حیات اور محدود عمل سے تعلق رکھتے ہیں ان کو حاصل ہوتا ہے) کو اس کی صلاحیت کے مطابق کام کا طریق بتانا.اس کی مثال قرآن کریم میں یہ ہے.رَبُّنَا الَّذِيْۤ اَعْطٰى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهٗ ثُمَّ هَدٰى (طہٰ:۵۱) یعنی ہر چیز کو پیدا کر کے اس کی عقل یا سمجھ یا اس کے ضروری تقاضوں کے مطابق اسے رہنمائی کی (میرے نزدیک اس جگہ ھَدٰی کے معنے یہ ہیں کہ ہر شے میں مناسب قوتیں پیدا کر کے پھر انہیں کام پر لگا دیا کیونکہ صرف قوتوں کا موجود ہونا کافی نہیں ہوتا بلکہ انہیں ابتدائی حرکت دے کر کام پر لگانا ان کی حیات کے شروع کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے بچہ پیدا ہوتا ہے تو گو پیدائش سے پہلے آلاتِ تنفّس کامل طور پر موجود ہوتے ہیں مگر باہر نکلنے کے بعد جب تنفّس کے آلات کو ہوا لگنے یا پانی کا چھینٹا دینے سے ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے بچہ کی عملی زندگی در حقیقت اسی وقت سے شروع ہوتی ہے جس طرح ایک گھڑی کے اندر سب ہی پُرزے موجود ہوتے ہیں مگر جب تک اُسے ُکنجی دے کر حرکت نہ دی جائے پُرزے کام کرنا شروع نہیں کرتے غرض حیات کو شروع کرنے سے پہلے ایک ابتدائی دھکے کی ہر شے کو ضرورت ہوتی ہے اور ہدایت سے مراد وہی حرکت اُولیٰ ہے اور اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو مناسب قویٰ

Page 109

کے ساتھ پیدا کیا ہے او رپھر حرکت ِ اُولیٰ دے کر اسے مفوضہ کام پر لگا دیا ہے) علّامہ راغب کے نزدیک ہدایت کے دوسرے معنے اس ارشاد کے ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں کے ذریعہ سے بندوں تک پہنچاتا ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے.جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَىِٕمَّةً يَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (السّجدۃ :۲۵) ہم نے بنی اسرائیل میں سے ایسے امام مقرر کئے جو ہمارے الہام سے لوگوں کو ہماری طرف بلاتے تھے.ہدایت کے تیسرے معنے ان کے نزدیک اس توفیق کے ہیں جو ہدایت پانے والوں کو ملتی ہے یعنی ہدایت ملنے کے بعد جو عمل کی توفیق یا فکر کی بلندی پیدا ہوتی ہے یا مزید ہدایت کے حصول کی خواہش پیدا ہوتی ہے وہ بھی ہدایت کہلاتی ہے اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے وَ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى (محمد:۱۸) جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیتا ہے (یعنی عمل کی توفیق اور ہدایت کے سلسلہ میں مزید فکر کرکے اور علوم حاصل کرنے کا موقعہ عطا کرتا ہے) چوتھے معنی ہدایت کے انجام بخیر کے اور جنت کو پالینے کے ہیں اس کی مثال قرآن کریم کی یہ آیت ہے.سَيَهْدِيْهِمْ وَ يُصْلِحُ بَالَهُمْ(محمد:۶) اللہ تعالیٰ ان کا ا نجام بخیر کر کے انہیں جنت تک پہنچا دے گا اور ان کے حالات کو درست کر دے گا اور قرآن کریم میں جہاں یہ آتا ہے.یَـھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا (الانبیاء:۷۴)وہ ہمارے حکم کے مطابق ہدایت دیتے تھے یالِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ(الرعد :۸) ہر قوم میں ہادی آیا ہے اس جگہ ہدایت سے مراد لوگو ں کو ہدایت کی دعوت دینے کے ہیں اور ایسی آیات جیسے کہ اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ (القصص:۵۷) اور ایسی آیات جن میں یہ ذکر ہے کہ کافروں اور ظالموں کو ہدایت نہیں مل سکتی.اس سے مراد تیسری اور چوتھی قسم کی ہدایتیں ہیں یعنی ہدایت پاجانے کے بعد توفیق ِ عمل کا ملنا یا نورِ ایمان کا عطا ہونا یا جنت میں داخلہ کی نعمت کا حصول.پس ان آیات کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ کفار کو مذکور ہ بالا انعامات نہیں مل سکتے (اور یہ ظاہر ہے کہ جو دوسری قسم کی ہدایت یعنی دعوت انبیاء کو قبول نہیں کرتا.وہ تیسری اور چوتھی قسم کی ہدایتوں کو جو دوسری قسم کی ہدایتوں کے نتائج ہیں حاصل نہیں کر سکتا) (مذکورہ بالا تمام مضمون سوائے ان عبارتوں کے جو خطوط و حدانی میں ہیں عربی کی مشہور لغت کی کتاب مفردات راغب سے لیاگیا ہے) اَلْمُتَّقِیْنَ.اَلْمُتَّقِیْنَ متقی کی جمع ہے جو اِتَّقٰی کا اسم فاعل ہے.اِتِّقَائٌ وَقٰی سے بابِ اِفْتِعال کا فعل ماضی ہے وَقٰـی کے معنے ہیں بچایا‘ حفاظت کی.اور اِ تَّقٰی کے معنے ہیں.بچا.اپنی حفاظت کی (اقرب) مگر اس لفظ کا استعمال دینی کتب کے محاورہ میں معصیت اور بُری اشیاء سے بچنے کے ہیں اور خالی ڈر کے معنو ںمیں یہ لفظ استعمال نہیں ہوتا.وِقَایَۃٌ کے معنی ڈھال یا اس ذریعہ کے ہیں جس سے انسان اپنے بچائو کا سامان کرتا ہے بعض نے کہا

Page 110

Page 111

میں ہیں مثلاً عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ (السّجدۃ:۷)تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَيْنٰهَاۤ اِبْرٰهِيْمَ (الانعام :۸۴) قرآن کریم میں دوسری جگہ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کی جگہ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ (الانعام : ۹۳)بھی آیا ہے.غرض اوّل تو ذٰلِکَ عرب کے محاورہ کے مطابق ھٰذَا کے معنوں میں بھی استعمال ہو جاتا ہے.دوم ضروری نہیں کہ جس چیز کے بارہ میں ذٰلِکَ آئے وہ دُور ہو.اگر ذہنی طورپر دُور ہو یعنی اس کا ذکر ختم ہو چکا ہو تو اس کے لئے بھی ذٰلِکَ کالفظ استعمال کر لیا جاتا ہے.ذٰلِکَ الْکِتَابُکے چار معنے اس تشریح کے ماتحت ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کے کئی معنے ہو سکتے ہیں (۱) یہ وہ کتاب ہے (۲) وہ یہ کتاب ہے (۳) یہی کامل کتاب ہے (۴) وہی کامل کتاب ہے.ذٰلِکَ الْکِتَابُ کی ترکیب مذکورہ بالا معانی اس صورت میں ہیں کہ ذٰلِک مبتدا ہو اور اَلْکِتاب خبر.لیکن ایک صورت یہ بھی ہے کہ ذٰلِکَ کو مبتدا اور اَلْکِتَابُ کو عطف بیان اور لَارَیْبَ فِیْہِ کو اس کی خبر سمجھا جائے اس صورت میں اس کے معنی یوں ہوںگے (۱) یہ یعنی کامل کتاب اپنے اندر کوئی رَیْبکی بات نہیں رکھتی (۲) وہ کامل کتاب (یعنی ہدایت انبیاء) اپنے اندر کوئی رَیْب کی بات نہیں رکھتی.ذٰلِکَ الْکِتَابُ کے تین تفسیر ی معنے لغوی معنے بیان کرنے کے بعد اب میں تفسیری معنی بیان کرتا ہوں.(۱) جن لوگوں نے الٓمّٓ کو سورۃ کا نام قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ یہ کتاب ہے یعنی الٓمّٓ نام ہے اس سورۃ کا.یا یہ معنے کئے ہیں کہ الٓمّٓ ایک کامل کتاب ہے (۲) جنہوں نے ذٰلِکَ کا استعمال قرآن کریم کی عظمت شان کی وجہ سے قرار دیا ہے انہوں نے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ عظیم الشان کلام وہ کتاب ہے جس کی تعریف ُصحف ِ موسیٰ اور دوسری کتب میں آ چکی ہے (۳) بعض نے اشارۂ بعید لے کر یہ معنی کئے ہیں کے لوحِ محفوظ میں جو کتاب ہے وہ یہی ہے یعنی قرآنِ کریم.مگر یہ معنے بہت بعید ہیں اور الفاظ قرآنی ان کی تصدیق نہیں کرتے.اس رنگ میں بعض اور معنے بھی مفسّرین نے کئے ہیں مگر وہ سب کے سب اسی طرح بعید از قیاس ہیں اور ان کے لکھنے کی ضرورت نہیں.میرے نزدیک ان تینوں قسم کے معنوں میں سے دوسرے معنے ہی ایسے ہیں جو الفاظ قرآنیہ کے مطابق ہیں.کیونکہ مشہور عام بات کی طرف اس طرح اشارہ کیا جاسکتا ہے.چونکہ پہلے ادیان کے لوگ ایک کتاب کے منتظر تھے.انہیں مخاطب کر کے قرآن شریف کے شروع میں کہا جا سکتا تھا کہ جس کتاب کے تم منتظر ہو یہ وہی کتاب ہے.مگر میرے نزدیک زیادہ صحیح معنے جو الفاظ قرآنیہ کے بالکل مطابق ہیں.دو ہیں.۱.یہی کامل کتاب ہے.عرب لوگ کہتے ہیں زَیْدُنِ ا لْعَادِلُ زید ہی عادل ہے اسی طرح یہ جملہ ہے.ذٰلِكَ

Page 112

الْكِتٰبُ کتاب کہلانے کی مستحق تو یہی کتاب ہے یعنی اَلْ جنسی استغراقی مجازی ہے ان معنوں کی رو سے کسی ایسی چیز کی طرف اشارہ نہیں نکالنا پڑتا جس کا ذکر اس جگہ نہیں ہے اور یہ معنے مناسب موقع بھی ہیں.ایک الہامی کتاب جو دوسری کتب کی موجودگی میں اپنے آپ کو پیش کرے اسے ابتداء کلام میں ایسا ہی دعویٰ پیش کرنا چاہیے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں یہ نئی کتاب کیوں پیش کی جاتی ہے؟ اس فطرتی سوال کے جواب میں قرآن کریم کے شروع میں ہی یہ الفاظ رکھ دیئے گئے کہ یہی کامل کتاب ہے اور متلاشیانِ حق کو بتلایا گیا کہ بیشک اس کے سوا اور کتب بھی موجود ہیں لیکن کتاب کا موجود ہونا اور شے ہے اور اُس کا انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنا اور شے ہے.اگر کتاب کی غرض یہ ہے کہ انسان کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرے تو پھر صرف یہی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے اس لئے دوسری کتب کی موجودگی میں بھی اس کی ضرورت ہے.قرآن مجید کا دعویٰ کمال اور اس کا ثبوت الٓمّٓ کے حروف کو جن کے معنے اوپر بتائے جا چکے ہیں مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی یہی معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں کیونکہ َمیں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں کے الفاظ اسی پر دلالت کرتے ہیں کہ میرا علم جب اور جو تعلیم دنیا کو دے وہی اس زمانہ کے لحاظ سے کامل اور مکمل تعلیم ہو سکتی ہے.نیز میں سب سے زیادہ جاننے والا ہوں ایک دعویٰ ہے جس کا ثبوت بھی چاہیے اور اس کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی علمی چیز پیش کی جائے جو اپنی نظیر نہ رکھتی ہو پس الٓمّٓکے معنوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بھی ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کے بہترین معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ یہی کامل کتاب ہے.جب ہم واقعات کو دیکھتے ہیں تو یہ دعویٰ قطعی طور پر ثابت ہے.بیشک قرآن کریم سے پہلے توریت، انجیل، و ید، ژند وغیرہ کتب موجود تھیں لیکن ان کی تعلیم اور قرآن کریم کی تعلیم کا مقابلہ کر کے دیکھ لو.قرآن کی جامعیت کسی اور کتاب میں نہ ملے گی انجیل کا سب سے بڑا کمال محبت الٰہی پر زور ہے قرآن کریم میں وہ سب تعلیم موجود ہے بلکہ اس سے بڑھ کر.توریت کا فخر جامع شریعت پر ہے لیکن شریعت کی جامعیت میں قرآن کریم کے آگے وہ بھی خم کھاتی ہے حالانکہ حجم میں قرآن کریم دونوںکتب سے چھوٹا ہے.قرآن مجید کی دوسری کتب کی تعلیم کے مقابل جامع اور مکمل تعلیم قرآن کریم کی یہ جامعیت ایسی کامل ہے کہ ایک مسلمان کے نزدیک شریعت کا مفہوم ہی دوسروں سے جداگانہ ہو گیا ہے.جب ایک مسلمان شریعت کا لفظ بولتا ہے تو فوراً اس کا ذہن اس طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس میں والدین اور اولاد کے تعلقات میاں بیوی کے تعلقات.شادی اور اس کے اغراض کے متعلق.میاں بیوی کے فرائض کے متعلق.میاں بیوی کے انتخاب

Page 113

کے متعلق.وراثت کے متعلق.وصیت کے متعلق.ہمسایہ اور اہلِ محلہ کے متعلق.تجارت اور زراعت کے متعلق.حاکم و محکوم کے تعلقات اور ذمہ داریوں اور حکومت کی نوعیت کے متعلق.مزدوروں اور مزدور رکھنے والوں کے متعلق.حکومتوں کے باہمی تعلقات کے متعلق.اقتصادی مسائل کی بنیادوں کے متعلق.انسانوں اور جانوروں کے متعلق.اور سب سے آخر میں لیکن سب سے مقدّم یہ کہ اللہ اور بندہ اور اس کے رسولوں کے متعلق تفصیلی اور مکمل احکام ان کی حکمتوں سمیت بیان کئے گئے ہوںگے یہ سب مسائل اور ان کے علاوہ اور بہت سے اپنی حکمتوںسمیت قرآن کریم میں بیان ہیں اور ان کا عشر عشیر بھی اور کسی کتاب میں موجود نہیں.ویدوں کو لو.تو اوّل عام ہندو ویدوں کو جانتا بھی نہیں اور جو تھوڑے سے جانتے ہیں ان میں سے اکثر انہیں بطور منتر جنتر استعمال کرتے ہیں اور جو اسے سمجھتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس کی بڑی خوبی دعائیں اور پیدائش انسانی کی غرض بیان کرنا ہے مگر دعائوں اور انسانی پیدائش کے فلسفہ پر جو مکمل اور تفصیلی بحث قرآن کریم نے کی ہے اس کے مقابل میں ویدوں کی تعلیم بالکل ماند پڑ جاتی ہے.قرآن کریم کی دعائیں انسانی فطرت کی باریکیوں پر مشتمل ہیں وہ لفاظی سے پُر نہیں وہ انسان کی ضروریات کو پہلے ننگا کر کے دکھاتی ہیں پھر انہیں قدو سیت اور پاکیزگی کی چادر اُڑھاتی ہیں.اسی طرح قرآن کریم انسانی پیدائش کی ایسی تفصیلات بیان کرتا ہے جو استعاروں میں چھپ کر انسانی دماغ کو پریشان نہیں کر دیتیں بلکہ اسے مشاہدہ اور تجربہ کے میدان میں کھڑا کر کے اس کے ذہن کو صاف کرتیں اور اس کے فکر کو جلا بخشتی ہیں.اسلام نے انسان کے انجام کو یعنی مابعد الموت کے مسئلہ کوجس طرح بیان کیا ہے اس کے مقابل پر سب کتب شکست خوردہ ہیں.توریت خاموش ہے انجیل بالکل نامکمل سا ذکر کرتی ہے.ویدوں میں مابعدالموت کا کوئی ذکر نہیں.زر تشت کی کتاب میں کچھ ذکر ہے مگر صرف استعارہ کے طو رپر اور مادی الفاظ میں دیا ہوا.اس کے مقابل پر قرآن کریم تفصیلاً بتاتا ہے کہ نیک و بد کو کیا جزا ملے گی اور کس طرح ملے گی اس کی کیا کیفیت ہو گی اور اس کی غرض کیا ہو گی.دوسری زندگی کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کس جدوجہد کی ضرورت ہے جزا سزا کے اُصول کیا ہیں؟؟ قرآن مجید میں فلسفۂ اخلاق کا بیان اور دوسری کتب پھر فلسفہ اخلاق ہے جس پر مذہب کی بنیاد ہے اور دنیاوی امن و امان کے قیام کا انحصار ہے اس مضمون کو بھی دوسری کتب نے یا ُچھوا نہیں یا صرف اس کے حوالی کو ُچھو کر چھوڑ دیا ہے.ُبدھ کی تعلیم میں بیشک جذبات پر بحث ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مقابل پر وہ بھی کچھ نہیں.قرآن کریم نہ صرف جذبات پر بحث کرتا ہے بلکہ وہ ان کے پیدا ہونے کی وجوہ اور ان کی ضرورت اور پھر ان کے

Page 114

Page 115

گیا ہے جس ہدایت کو تم نے طلب کیا تھا وہ یہی کتاب ہے اور تم نے چونکہ معمولی ہدایت طلب نہیں کی.بلکہ اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ گروہ کی ہدایت طلب کی ہے اس لئے ہم تم کو بتاتے ہیں کہ یہ کتاب هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ ہے یعنی معمولی ہدایت نہیں دیتی بلکہ کامل متقی کو اور اوپر لے جا کر اَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ کے اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں شامل کر دیتی ہے اور تمام انبیاء کی تعلیموں اور ان کے حاصل کردہ انعامات کی جامع ہے.لَا رَيْبَ فِيْهِ.ریب کے معنے بتائے جا چکے ہیں.کہ تہمت.شک.کمی.نقص اور آفت و مصیبت کے ہیں.لفظ رَیْب میں قرآن مجید کے متعلق چار دعوے اور ان کا ثبوت یہ سب کے سب معنی اس آیت میں چسپان ہوتے ہیں اور قرآن کریم کے متعلق اس میں چار دعویٰ کئے گئے ہیں.(۱) اس میں کسی ہستی کی حق تلفی نہیں کی گئی اور کسی پر ناواجب الزام نہیں لگایا گیا.نہ خدا تعالیٰ پر اس میں تہمت لگائی گئی ہے اور نہ کسی نبی یا رسول پر نہ ملائکہ پر نہ بنی نوع انسان پر نہ انسانی فطرت پر.غرض کسی کی اس میںحق تلفی نہیں کی گئی.کسی پر اتہام نہیں لگایا گیا.یہ اتنا بڑا دعویٰ ہے کہ اس کی نظیر دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملتی اور یہ ایسی زبردست صداقت ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا.قرآن کریم کے شروع کرتے ہی یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ اس کتاب کی دوسری کتب کی موجودگی میں کیا ضرورت تھی؟ اس سوال کا سہل ترین جواب یہ ہو سکتا تھا کہ پہلی کتب کی بعض مضحکہ خیز باتیں پیش کر دی جاتیں اور کہا جاتا کہ ان کتب میں فلاں فلاں عیوب ہیں اس لئے ان سے دنیا ہدایت نہیں پاسکتی.پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو اُتارا ہے یہ جواب باوجود اس ادّعا کے کہ قرآن کریم سب نبیوںکی تعلیم کی طرف ہدایت دینے کے لئے نازل ہوا ہے درست ہوتا کیونکہ قرآن کریم گو اس امر کا مُدّعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نبی آتے رہے ہیں اوران میں سے بعض کو شریعت بھی ملی ہے اس امر کو تسلیم نہیں کرتا کہ ان انبیاء کی تعلیم موجودہ وقت میں بھی محفوظ ہے پس اس کا یہ جواب کہ موجودہ زمانہ میں پہلے نبیوں کی کتب غیرمحفوظ ہیں اور خراب ہیں بالکل درست ہوتا اور مخالفین قرآن کریم کے لئے نہایت درجہ ُمسکت بھی ہوتا مگر ایک عظیم الشان بشارت کی اس رنگ کی ابتداء نفیس طبیعتوں پر گراں ضرور گزرتی کیونکہ گو پہلی کتب کی غلطیوں پر مطلع کرنا قرآن کریم کے ضروری فرائض میں سے ہے مگر ابتداء ہی میں اس مضمون کو چھیڑ دینا نہ تو ایک غیر معمولی شان کی کتاب کے شایاں تھا اور نہ اس سے اس عظمت و شوکت کا اظہار ہو سکتا تھا جو اس مضمون سے ظاہر ہوتی ہے کہ ہم کسی فرد یا ہستی کو اس کے مقام سے نہیں گراتے بلکہ سب کے مناسب مقام اور درجہ کو تسلیم کرتے ہیں.اس دعویٰ سے قرآن کریم نے ابتداء ہی میں اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے کسی قدر مشکلات پیدا کرلی ہیں؟ اعتراض کرنا

Page 116

آسان ہوتا ہے اور اعتراضوں پر ہی مختلف مذاہب کے مدعی اپنی تبلیغ کی بنیاد رکھتے ہیں لیکن قرآن کریم ابتدا ہی اس طرح کرتا ہے کہ اپنی ضرورت کے ثبوت کے لئے پہلے مذاہب کے نقائص کو پیش نہیں کرتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ میرا الکتاب یعنی کامل کتاب ہونے کا دعویٰ اس امر پر مبنی نہیں کہ دوسری کتب میں نقص ہیں اور مجھ میں نہیں ہیں دوسروں کے مقابل میں نسبتی کمال کو اپنے سچا ہونے کی دلیل نہیں دیتا بلکہ بغیر کسی مذہب پر اتہام لگانے کے اپنے ذاتی کمالات اور اپنے فضائل اور دینی امتیازی تعلیمات سے اپنی ضرورت اور اپنی صداقت کو ثابت کرتا ہوں.یہ مقام کیسا شاندار ہے اور پھر ساتھ ہی کیسا مشکل بھی! مگر قرآن کریم اسی کو اختیار کرتے ہوئے اپنی صداقت کو کامیاب طور پر ثابت کرتا ہے.قرآن مجید میں کسی پر کوئی اتہام نہیں لگایا گیا قرآن کریم اپنی سچائی کی دلیل یہ نہیں دیتا کہ دوسرے مذہب جھوٹے ہیں اس لئے ایک سچے مذہب کی ضرورت تھی جسے وہ پورا کرتا ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ (الفاطر:۲۵)کوئی قوم بھی ایسی نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا نبی نہ گذرا ہو اور اسی طرح فرماتا ہے لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (الرعد :۸) اور ہر قوم میں ایک ہادی ہماری طرف سے آ چکا ہے اور اسی طرح وہ تمام اقوام کے متعلق اصولی طور پر اس امر کو تسلیم کر لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے ہر ایک کے سمجھانے کے لئے بھی اپنی طرف سے ہدایت نامے بھجواتا رہا ہے اور اصولی طو رپر تمام مذاہب کو جو خدا تعالیٰ کی تصدیق کی مُہر رکھتے ہیں جھوٹ اور فریب سے بَری قرار دیتا ہے اور ان کی سچائی کا اقرار کرتا ہے برخلاف مثلاً یہود نصاریٰ اور آریو ںکے مذاہب کے کہ وہ اپنے سوا دوسرے مذاہب کو جھوٹا قرار دیتے ہیںاور یہ خیال کرتے ہیں کہ تورات انجیل اور وید کے سوا باقی سب جگہ ظلمت ہی ظلمت ہے اور ان اقوام کے سوا اللہ تعالیٰ نے باقی سب اقوام کو ہدایت کے سامانوں سے محروم کر دیا تھا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اسلام کے سوا اور سب ادیان کسی نہ کسی شکل میں دوسرے مذاہب کو جھوٹا یا ادنیٰ ہی قرار دیتے ہیں لیکن اسلام ایسا نہیں کرتا وہ ہر زمانہ اور ہر قوم کے لئے آسمانی ہدایت کو ضروری قرار دیتا ہے اور اپنے اپنے زمانہ کے لئے سب کو کامل اور انسانی حاجتو ںکو پورا کرنے والا تسلیم کرتا ہے اور اس طرح قرآن کریم دوسرے مذاہب سے اتہام سے پاک ہونے میں بالکل ممتاز ہے.توریت میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر اتہام اور اس کا ردّ قرآن مجید میں اگر تفصیلات کو دیکھا جائے تو اس میں بھی قرآن کریم کو اتہام سے پاک ہونے میں دوسرے مذاہب کے مقابل پر ایک امتیاز حاصل ہے سب سے ضروری وجود مذہب کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کا ہے وہ تمام مذاہب کا مرکزی نقطہ ہے.بظاہر یہ نہیں خیال کیا جاسکتا

Page 117

کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی مذہب نے کوئی اتہام لگایا ہو گا لیکن ذرا سے تأ مل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ ناقابلِ فہم غلطی بھی انسان کر چکا ہے اور خوب پیٹ بھر کر کرچکا ہے.توریت خدا کی نسبت کہتی ہے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے تھک گیا اوراسے آرام کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی حالانکہ جو تھکے وہ خدا نہیں ہو سکتا.بائبل میں لکھا ہے کہ دنیا کو پیدا کر کے ساتویں دن اللہ تعالیٰ نے آرام کیا (پیدائش باب ۲.آیت ۲ و ۳ بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے آرام کیا کی جگہ اعتراض کے ڈر سے فراغت پائی لکھ دیا ہے لیکن دوسرے نسخوں اور انگریزی کے نسخوں میں آرام کیا کے الفاظ ہی ہیں) اللہ تعالیٰ کی ذات پر اتہام لگانے کے متعلق قرآن مجید کا بائبل سے اصولی اختلاف اور یہ اللہ تعالیٰ پر اتہام ہے کہ وہ کام کرتے کرتے تھک گیا اور اُسے آرام کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو اس اتہام سے بری قرار دیتا ہے اور اس کی طرف سے یہ قول نقل فرماتا ہے وَ لَقَدْ خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ١ۖۗ وَّ مَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ (ق :۳۹) یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا لیکن اس کام سے ہمیںکوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی اور نہ آرام کرنے کی حاجت پیدا ہوئی.اسی طرح مثلاً بائبل میں اللہ تعالیٰ کی نسبت لکھا ہے کہ ’’تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دلگیر ہوا.‘‘(پیدائش باب ۶ آیت ۶) گویا انسان کو پیدا کرنا ایک غلطی تھی اوراس پر نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ کو ندامت پیدا ہوئی اور وہ اس پر دلگیر ہوا.یہ اللہ تعالیٰ پر ایک اتہام ہے وہ خدا ہی کیا ہوا جو غلطی کرتا ہے اورنہیں جانتا کہ میرے فعل کا کیا نتیجہ ہو گا؟ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ سُبْحَاناور قُدُّوْس یعنی وہ سب عیبوں سے پاک ہے اور سب بزرگیوں کا مالک ہے اور اسی سورۃ میں آگے چل کر فرماتا ہے کہ اِنِّیْ اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ (البقرة :۳۴) یعنی میں اللہ آسمان و زمین کے متعلق تمام امور ابتدائے آفرینش سے اور آئندہ کے تمام زمانوں کے متعلق خوب اچھی طرح جانتا ہوں.اب ظاہر ہے کہ جس کو آسمان اور زمین کے متعلق پورا غیب حاصل تھا اور وہ اس کے حال اور مستقبل سے اچھی طرح واقف تھا اس کی نسبت کب یہ تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اس نے غلطی سے دنیا کو پیدا کر دیا اور بعد میں پچھتانے لگا؟ دنیا کا وجود اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے پھر ایک اصول کے طور پر قرآن کریم میں یہ بھی بیان فرمایا گیا ہے يُسَبِّحُ لِلّٰهِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوْسِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ(الجمعة :۲) یعنی زمین و آسمان کا ذرّہ ذرّہ اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے.اس میں کس طرح اصولاً بائبل کے خیال کے خلاف تعلیم دی ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ جو کام ایک فاعل بالارادہ غلطی سے کرتا ہے یا جو انجام کے لحاظ سے غلط ہو جاتا ہے وہ کام اپنے فاعل کے نقص پر ایک

Page 118

شہادت ہوتا ہے اور اس کی کم علمی یا بصیرت کے ُضعف پر دلالت کرتا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ زمین اور آسمان میں جو بھی ہے انسان ہوں یا حیوان ہوں.فرشتے ہوں یا ارواح ہوں اسی طرح نباتات ہوں کہ جمادات ہوں باریک سے باریک ذرّہ ہو کہ بڑے سے بڑا سماوی ُکرّہ ہو.سب کے سب اس بات پر شہادت دے رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص سے پاک ہے اور اس نے زمین و آسمان کے پیدا کرنے میں کوئی غلطی نہیں کی بلکہ آیت کا مضمون اس بات کو بھی پیش کر رہا ہے کہ مومن ہوں یا کافر مخلص ہوں یا منافق سب ہی باوجود اپنے منہ کے غلط بیانات اور دماغ کے مخالف خیالات کے اپنے وجود اور اپنے عمل سے اس امر کو ثابت کر رہے ہیں کہ زمین و آسمان کی پیدائش میں اللہ تعالیٰ نے غلطی نہیں کی.دنیا کا وجود اللہ کے ہر عیب سے پاک ہونے پر دلالت کرتا ہے اس کے بعد فرماتا ہے کہ اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا کا وجود خدا تعالیٰ کے َملک قدّوس عزیز اور حکیم ہونے پر دلالت کر رہا ہے یعنی نظامِ عالم اس امر پر دلالت کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ مَلِک یعنی بادشاہ ہے اور اس کی طرف سے ایک قانون دنیا کو ملا ہے جس کی پابندی کرنے والے انعام پاتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والے سزا پاتے ہیں.مَلِک سے اس جگہ قانونِ شریعت مراد ہے یا قانون طبعی کا وہ حصہ جس کی خلاف ورزی کا انسان مرتکب ہو سکتا ہے جیسے مثلاًزیادہ کھا جانا یا آنکھ ناک کان سے زیادہ یا کم کام لینا.غرض اللہ تعالیٰ کا وہ قانون جس کی اطاعت جبراً نہیں کی جاتی بلکہ اس پر چلنے یا نہ چلنے کی بندے کو مَقدرت حاصل ہوتی ہے اس کا ملوکیت والا قانون ہے کیونکہ بادشاہی قانون بھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ لوگوں کو ان کے توڑنے کی طاقت ہوتی ہے گو ان کے توڑنے پر وہ سزا پاتے ہیں.اس ملوکیت والے قانون پر عمل کرنے والے انعامات پاتے ہیں.شرعی قانون پر عمل کرنے والے روحانی انعام اور طبعی قانون پر عمل کرنے والے طبعی انعام.اور یہ اس امر کا ثبوت ہے.کہ اس نظام عالم کا کوئی بادشاہ ہے چنانچہ انبیاء اور صلحاء کے ساتھ جو معاملہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ ایک قادر خدا کا جو تمام مخلوقات کا بادشاہ ہے ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کا جملہ عیوب سے مبرا ہونے کا ثبوت اس کی چار صفات سے اس کے بعد فرماتا ہے اَلْقُدُّ وس وہ پاک اور تمام عیوب سے مبرّا ہے یعنی اس کی ملوکیت کے معاملہ پر غور کرو تو تم کو معلوم ہو گا کہ اس کا معاملہ دنیوی بادشاہوں اور سلطنتوںکا سا نہیں ہے کہ ان کے حکاّم اور بادشاہ اپنی حکومت کے قیام کے لئے ہر قسم کے اعمال کو جائز سمجھتے ہیں بلکہ اس کی صفت ملوکیت اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس سے اس کی قدوسیت ثابت ہوتی ہے.مثلاً یہ کہ اس کی طرف سے جو لوگ اس کے قانون کو جاری کرنے کے لئے مبعوث ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق سے

Page 119

متصف ہوتے ہیں اور جس قدر کوئی اس کا قرب حاصل کرتا ہے اسی قدر بنی نوع انسان کا ہمدرد ہوتا ہے.اسی طرح جو اس کے طبعی قانون پر عمل کرتا ہے اس کے اعلیٰ سے اعلیٰ فوائدحاصل کرتا ہے اور طبعی نقائص سے محفوظ ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ کے جاری کردہ قانون کے مطابق آنکھوں سے کام لینے والے کی آنکھیں مضبوط ہوںگی اس کے قواعد کے مطابق معدہ سے کام لینے والے کا معدہ تمام بیماریوں سے بچا رہے گا.غرض اس کا قانون ایسا ہے کہ اس پر عمل انسان کو مشقت اور تکلیف میں نہیں ڈالتا بلکہ اس پر عمل سے انسان قدوسیت کی چادر پہنتا ہے یعنی جس قدر عمل کرتا ہے اسی قدر نقصوں سے پاک ہوتا جاتا ہے.شرعی قانون پر عمل کرنے سے روحانی طہارت ملتی ہے اور طبعی قانون پر عمل کرنے سے جسمانی طہارت اور قوت حاصل ہوتی ہے.پھر فرماتا ہے کہ وہ عَزِیْز بھی ہے یعنی اگر مخلوقات پر نگاہ ڈالو تو اس قانون کے علاوہ جو ملوکیت کے قانون کے مشابہ ہے او رجس پر عمل کرنے یا نہ کرنے پر انسان کو َمقدرت حاصل ہے اس کا ایک اور بھی قانون ہے جس کی خلاف ورزی کوئی نہیں کر سکتا جسے قانونِ فطرت کہنا چاہیے.یہ قانون بھی دو قسم کا ہوتا ہے روحانی بھی اور جسمانی بھی.روحانی قانون تو وہ ہے جسے دِیْنُ الْفِطْرَۃ کہتے ہیں اور جس میں تمام اخلاقی جذبات شامل اور جوہر مومن و کافر میں پایا جاتا ہے اور جو آخر ہر اس شخص کی ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو سچے دل سے دین اور مذہب کو سمجھنا چاہے.اس قانون سے بچنا انسانی طاقت سے باہر ہے.مثلاً رحم اور شکر گزاری کے جذبات ہیں کہ ہر شخص میں پائے جاتے ہیں.ظالم سے ظالم میں بھی یہ جذبات پائے جاتے ہیں.کوئی انسان ان کے اثر سے بچ نہیں سکتا.ایک ڈاکو جو ہزاروں قتل کر کے ندامت محسوس نہیں کرتا اپنے بچے کی بیماری پر چیخیں مار کر رونے لگتا ہے.اسی طرح بسا اوقات دیکھا جاتا ہے.کہ ڈاکو اور چور بھی ان لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتے جنہوں نے ان سے کبھی حسنِ سلوک کیا ہو.غرض بطور جذبۂ فطرت کے یہ مادے ہر انسان میں موجود ہیں گوبد استعمالی کی وجہ سے بعض لوگ ان کا استعمال بہت محدود کر دیتے ہیں.جسمانی نظام میں یہ قانون ان طبعی خواص پر مشتمل ہے جن کے ماتحت تمام نظام عالم چل رہا ہے ایک دہر یہ خدا تعالیٰ کو منہ سے گالیاں دے لیتا ہے لیکن اُس کے اُس قانون کی نافرمانی نہیں کر سکتا جو صفت ِ عزیز کے ماتحت ظاہر ہوتا ہے.مثلاً خدا تعالیٰ نے اس کی زبان کو چکھنے کے لئے بنایا ہے اس میں یہ طاقت نہیں کہ زبان سے دیکھنے کا کام لے سکے.باوجود مذہب میں بغاوت کرنے کے وہ اُس کے اِس قانون کی بلا چون و چرا پابندی کرتا ہے.اسی طرح جو جو خواصِ اشیاء اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں وہ اسی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں کہ جس صورت میں خدا تعالیٰ نے ان

Page 120

کو پیدا کیا ہے اس قانون کے خلاف وہ نہیں جا سکتے.بیشک خواص اشیاء میں بھی تغیرات ہوتے ہیں مگر وہ تغیرات بھی دوسرے طبعی قانونوں کے مطابق ہی ہوتے ہیں.خلاصہ یہ کہ اس دنیا میں ایک قانون صفتِ عزیز کے ماتحت جاری ہے جس سے خدا تعالیٰ کے غلبہ اور قدرت کا اظہار ہوتا ہے.اس قانون کی ہر کہ ومہ پوری پابندی کرتا ہے اور پابندی کرنے پر مجبور ہوتا ہے.ملوکی قانون کی طرح اس کی خلاف ورزی نہیں ہو سکتی اور یہ قانون ایک عزیز ہستی پر دلالت کرتا ہے.پھر فرمایا ہے کہ شاید کسی کو اعتراض ہو کہ زبردستی اور جبر سے کام لینا تو اچھا کام نہیں تو اس کا یہ جواب دیا کہ نہ ہر امر میں قدرت دینا اچھا ہے او رنہ ہر امر میں جبر جائز ہے.قدرت اپنی جگہ اچھی ہے اور جبر اپنی جگہ جائز ہے اور یہ دونوں امرحکمت کے ماتحت برتے جائیں تبھی نتائج اچھے نکلتے ہیں اگر قانونِ قدرت نہ بنایا جاتا تو تمام علمی ترقی انسان کی محدود ہو جاتی کیونکہ کیمیا اور فزکس اور بایالوجی اور زوالوجی وغیرہ تمام علوم کی بنیاد ہی غیر متبدل قوانین اور خواص پر ہے.اگر آگ کبھی جلاتی اور کبھی پیاس بجھاتی اور پانی کبھی سرد کرتا اور کبھی آگ لگاتا تو کارخانۂ عالم ہی درہم برہم ہو جاتا.غرض قانونِ قدرت ہو یا قانونِ فطرت ہو ان کا غیر متبدّل ہونا زبردست حکمتوں کے ماتحت ہے اور بلاوجہ اوربے فائدہ نہیں ہے.خلاصہ یہ کہ اس آیت میں آسمان و زمین کی پیدائش کو خدا تعالیٰ کی چار صفات اَلْمَلِک.اَلْقُدُّوْس.اَلْعَزِیْز اور اَلْحَکِیْم کا ظاہر کرنے والا بتایا گیا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ جو فعلِ الٰہی ان چار صفات کا اور خصوصاً حکمت ِ الٰہی کا ظاہر کرنے والا ہو اس پر نادم ہونے یا پچھتانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.معمولی سے معمولی شخص بھی اچھے کام پر پچھتایا نہیں کرتا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے خاص اسی مضمون کو لے کر بھی وضاحت سے اس کی تردید کی ہے.فرماتا ہے.وَ مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ مَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ(الدخان:۳۹) یعنی آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے اس کو یونہی بے سوچے ہوئے پیدا نہیں کیا یہ ہمارا کام کوئی کھیل نہیں بلکہ حکمت اور حق کے ساتھ اس کی پیدائش ہوئی ہے.اس مضمون کی تائید میں فرماتا ہے.خَلَقَ اللّٰهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ بِالْحَقِّ (العنکبوت:۴۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو ایک نہایت پختہ اور اٹل قانون کے ماتحت بنایا ہے.اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے بڑا اتہام شرک کا ہے.قرآن کریم سب کا سب اسی اتہام کے ردّ کے دلائل سے بھرا ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے شریک کئی قسم کے تجویز کئے گئے ہیں.بعض نے دو خدا تجویز کئے ہیں.ایک نور کا اور

Page 121

ایک ظلمت کا خدا.بعض نے تین خدا تجویز کئے ہیں.باپ.بیٹا اور رُوح القدس.بعض نے خدا تعالیٰ کے لئے بیویاں تجویز کی ہیں.بعض نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس نے بعض ہستیوں کو پیدا کر کے اپنی صفات اُن میں بانٹ دی ہیں اور مختلف صفات کے ظہور کے لئے مختلف دیوتا مقرر کر دیئے ہیں.بعض نے یہ کہا ہے کہ خدا تعالیٰ بندوں میں سے بعض کو چن کر اپنے اختیارات ُکل یا بعض اُن کو سونپ دیتا ہے.بعض تمام بڑے مظاہر قدرت ِکو خدا تعالیٰ کی صفات کا بالارادہ ظاہر کرنے والا قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ مضر اشیاء اور خوف دلانے والے جانوروں کو دیوتا تجویز کرتے ہیں.بعض مظاہرِ حسن کو خدا کا مظہر اور الوہیت کی صفت سے متصف قرار دیتے ہیں.قرآن کریم نے ان تمام قسم کے شرکوں کو تفصیل سے ردّ کیا ہے.اور ان عقائد کے غلط ہونے کے دلائل دیئے ہیں مگر اس مفصّل مضمون کو حوالوںکے ساتھ بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.اگلے کسی موقعہ پر ان آیات کے ماتحت ان کا ذکر آجائےگا جن میں توحید یا شرک کی تفصیلات کا ذکر ہے.(انشاء اللہ) قرآن مجید کا اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بیان اسی طرح قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بالتّفصیل بیان کیا ہے جس کی مثال اور کسی کتاب میں نہیں ملتی اور اس طرح ان تمام اتہاموں سے جو مختلف صفات کے ناقص بیان سے یا ناقص طو رپر سمجھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف مختلف مذاہب یا مختلف فلسفے منسوب کرتے چلے آئے ہیں اللہ تعالیٰ کو بری قرار دیا ہے.غرض قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے درجہ کو مدنظر رکھتے ہوئے جن امور کو اس کی طرف منسوب کرنے سے اس کی کسرِشان ہوتی ہے ان کو اس کی طرف منسوب کرنے سے قرآن کریم نے اجتناب کیا ہے بلکہ اُن کا بادلیل رد کیا ہے اور جن امور سے اس کی وہ شان جو ایک معبود اور کامل الصفات خدا تعالیٰ میں ہونی چاہیے ظاہر ہوتی ہے ان امو رکواس کی طرف منسوب کیا ہے اور نہایت بسط اور عمدگی سے اُن کا ذکر کیا ہے.قرآن مجید میںملائکہ کے وجود کو جملہ نقائص سے پاک قرار دیئے جانے کی تعلیم اللہ تعالیٰ کے بعد کارخانۂ قدرت کے چلانے والی ابتدائی علتوں میں ملائکہ کا وجود ہے.ملائکہ کو بھی قرآن کریم نے تمام نقائص اور عیوب سے جو ان کی ذات کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں پاک قرار دیا ہے.مثلاً فرماتا ہے لَا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَاۤ اَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (التّحریم :۷) یعنی ملائکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو انہیں حکم دیا جاتا ہے اس کی پوری طرح اطاعت کرتے ہیں اور اس طرح ان تہمتوں کا ردّ کر دیا ہے جو مثلاً یہود کی طرف سے ملائکہ پر لگائی جاتی ہیں کہ فرشتوں نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی اور اُس کے احکام کو پسِ پشت ڈال دیا.ہندوئوں میں ہے

Page 122

کہ دیوتائوں نے فلاں فلاں گناہ کیا اور اس تہمت سے فرشتوں کو بچانا ایک ضروری امر تھا کیونکہ فرشتے نیکی کی تحریکوں کا سرچشمہ ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ اگر ایک مصفّٰی پانی کے چشمہ کے متعلق شک اور شبہ پیدا ہو جائے تو انسان اُس سے فائدہ اُٹھانے سے محروم رہ جائے گا اور نیکی کا وہ دروازہ اس کے لئے بند ہو جائے گا.تیسرا ستون انسان کی روحانی اور اخلاقی عمارت کی تکمیل کے لئے کلام الٰہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے انسان یقین اور معرفت حاصل کرتا ہے.اس پر بھی مختلف مذاہب اور فلسفوں نے تہمت دھرنے سے دریغ نہیں کیا تھا مثلاً بعض یہ کہتے تھے کہ الہام صرف خیالاتِ صافیہ کا نام ہے حالانکہ محض خیالات کا نام الہام رکھ کر اس یقین اور اعتماد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے جو لفظی الہام کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے کیونکہ اس صورت میں ہر شخص اپنے خیال کا نام الہام رکھ سکتا ہے.قرآن مجید میں جملہ کتب سماویہ کے کلام الٰہی ہونے کے متعلق تعلیم اس بارہ میں قرآن کریم فرماتا ہے.كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِيْمًا (النّساء :۱۶۵) اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے بالمشافہ اور الفاظ میں باتیں کی تھیں.اسی طرح قرآن کریم کی نسبت فرماتا ہے.وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰى يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ(التوبة:۶) یعنی اگر ان مشرکوں میں سے جو تجھ سے برسرِ جنگ ہیں کوئی شخص تجھ سے پناہ مانگے تو اُسے پناہ دے تاکہ وہ اس کتاب کو سُن سکے جو تجھ پر نازل ہوئی ہے اور ساری کی ساری کلام اللہ سے ہے نیز کسی بندہ کا بنایا ہوا کوئی لفظ بھی اس میں شامل نہیں.پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن لے اور چاہے کہ اپنے لوگوں کے پاس واپس جائے تو چاہیے کہ حکومت کی حفاظت میں اُسے اس علاقہ میں جو اس کی اپنی قوم کا ہے اور اس کے لئے امن کی جگہ ہے ُتو اُسے واپس پہنچا وے.غرض قرآن کریم نے کتب سماویہ کو بھی اس تہمت سے بچایا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ بعض بڑے لوگوں کے خیالات ہیں جو انہو ںنے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیئے ہیں.قرآن مجید کی انبیاء کے معصوم ہونے کے متعلق تعلیم چوتھا ستون مذہب کی عمارت کا انبیاء کا وجود ہے ان کے متعلق بھی قرآن کریم نے جو تعلیم دی ہے وہ ہر اک اتہام سے پاک ہے.مثلاً ایک تو اصولی طورپر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کے مقرب اور پاک لوگ ہوتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ١ؔۘؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ١ؕ سَيُصِيْبُ الَّذِيْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ وَ عَذَابٌ شَدِيْدٌۢ بِمَا كَانُوْا يَمْكُرُوْنَ (الانعام:۱۲۵) یعنی جب انبیاء خدا تعالیٰ کا معجزانہ کلام یا اس کے آسمانی نشانات دنیا

Page 123

کے سامنے پیش کرتے ہیں تو گنہگار لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو بھی براہ ِراست وہی نعمت ملے جو اللہ کے رسولوں کو ملی ہے تب ہم ایمان لائیں گے.یہ لو گ اپنے اعمال کو نہیں دیکھتے.اللہ تعالیٰ ان پر اپنا پاکیزہ کلام کس طرح نازل کر سکتا ہے جبکہ یہ گنہگار اور مجرم ہیں.اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کا بارکس پر رکھے یعنی اُسی کو یہ خلعت دیتا ہے جو پاکباز اور نیکوکار ہو مجرم نہ ہو.پھر فرماتا ہے کہ یہ گنہگار لوگ انبیاء والے انعامات کے طالب ہیں حالانکہ گنہگاروںکو تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے بدارادوں اور منصوبہ بازیوں کی وجہ سے ذلت اور سخت عذاب پہنچے گا.اس آیت میں اصولی طو رپر انبیاء کی پاکیزہ زندگی اور اُن کے تقدس کی شہادت دی گئی ہے اور اس طرح ان تمام خیالات کی تردید کر دی گئی ہے جو اللہ کے انبیاء پر لگائے جاتے ہیں خواہ اُن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو.جیسا کہ مثلاً کرشن جی علیہ السلام کے بارہ میں خود اُنہی کے متبع کہتے ہیں کہ وہ مکھن چرُایا کرتے تھے اور عورتوں کے ساتھ عیش و عشرت میں مشغول رہا کرتے تھے.نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ.چنانچہ ’’شریمد بھاگوت پرُ ان‘‘ اسگندھ نمبر۱۰ ۸؍۱۰ میں لکھا ہے کہ شری کرشن جی کی والدہ انہیں کہتی ہیں کہ ’’بیٹا نو لاکھ گائیں میرے یہاں دُودھ دینے والی ہیں جتنا دُودھ ماکھن چاہیے کھایا اور لٹایا کرو.دوسروں کے گھر ماکھن کھانے اور چرانے مت جایا کرو.‘‘ اسی طرح برہم وَیٔ ورت پوُران کرشن جنم کھنڈ صفحہ ۴ ادھیائے ۷۲ میں تحریر ہے کہ.’’دن کے چھپنے پر اکرورجی اپنے گھر چلے گئے اور کرشن جی بھی کسی کے گھر چلے گئے.نند اور بلدیو سمیت کرشن جی گوبند بھگت کے ہاں ٹھہرے بھگت نے سب کاستکار (عزّت) کیا جب سب پلنگوں پر سو گئے اور (مسماۃ) کبجا بھی سو گئی.تب کرشن جی بھی کبجاکے گھر چلے گئے.وہاں پر جا کر ُکبجا کو پلنگ پر سوئی ہوئی دیکھا.کرشن جی نے داسیوں (لونڈیوں) کو نہیں جگایا صرف کبجاکو جگا لیا.اس سے کرشن جی نے کہا اے سندری نیند کو چھوڑ کر مجھ کو شرنگار دان ( داد عیش) دے.‘‘ اور اس عبارت کے بعد اور بہت کچھ خرافات ہیں جن کی نقل سے شرم و حیا اور حضرت کرشن کا ادب مانع ہے.مگر یہ سب من گھڑت باتیں دوسرے لوگوں کی ہیں.کرشن جی علیہ السلام ان باتوں سے پاک تھے.جیسا کہ قرآن کریم سے اصولی طور پر سب ربانی مصلحین کی پاکیزگی کا ثبوت ملتا ہے.اسی طرح رام چندر جی کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ سیتا جی سے آخری عمر میں بلاوجہ ناراض ہو گئے اور قطع تعلق کیا.(رامائن اتر کانڈ سرگ ۵۳)

Page 124

جن انبیاء کا ذکر خاص مصالح کے ماتحت اور فوائد جلیلہ کے لئے قرآن کریم نے نام لے کر کیا ہے اُن کی شان کو قرآن کریم نے خاص طو رپر ذکر کیا ہے اور ان پر لگائے ہوئے اتہامات کو خاص طور پر ردّ کیا ہے.مثلاً بائبل کہتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اور دیدہ دانستہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی.قرآن کریم فرماتا ہے.وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ:۱۱۶) یعنی اے محمد رسول اللہ! تجھ سے پہلے ہم نے آدم کو بھی بعض امور شریعت سے اطلاع دی تھی مگر ایک موقع پر وہ ایک حکم کے بارہ میں بھول گیا مگر اس کا ارادہ ہماری نافرمانی کرنے کا نہ تھا.یعنی آدم سے جو غلطی ہوئی تھی وہ بھول چوک کی قسم سے تھی جو گناہ نہیں کہلاتی اور دل کی تاریکی پر دلالت نہیں کرتی.اسی طرح بائبل میں لکھا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْہُ بعض مواقع پر جھوٹ بولا.مسلمانوں کی ایک جماعت نے بھی بعض احادیث سے دھوکا کھا کر اسی قسم کا عقیدہ بنا رکھا ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے.وَ اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰۤى (النّجم:۳۸) یعنی ابراہیم نے جو وعدہ اللہ تعالیٰ سے کیا تھا اُسے کامل طورپر پورا کر دیا.یعنی تمام اخلاق حسنہ کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ دکھایا.کیا عدل اور کیا احسان اور کیا عفو اور کیا ستاری اور کیا رأفت اور کیا شفقت علیٰ خلق اللہ اور کیا سچائی اور کیا معاملہ کی صحت.ہر ایک حکم جو خدا کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا اُسے اُس نے پورا کیا اور معمولی طورپر ہی نہیں بلکہ اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ احکام الٰہی کے پورا کرنے میں دکھایا.تورات میں موسیٰ علیہ السلام پر دو الزام اور قرآن مجید میں ان کا ردّ بعض لوگوں نے کہا تھا کہ موسیٰ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے مصریوں سے دھوکا سے اُن کے زیور مانگ لئے (خروج ب ۱۱ آیت ۲) اور پھر ان کو لے کر مصر سے بھاگ گئے مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ وَ لٰكِنَّا حُمِّلْنَاۤ اَوْزَارًا مِّنْ زِيْنَةِ الْقَوْمِ فَقَذَفْنٰهَا (طٰہٰ:۸۸) یعنی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پر جانے کے بعد اُن کی قوم کے ایک حصہ نے شرک کیا اور حضرت موسیٰ نے آ کر اُن پر ناراضگی کا اظہار کیا تو اُن کی قوم نے جواب دیا کہ ہم نے اپنی مرضی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ سامری کے ورغلانے سے کیا ہے.اور بات یُوں ہوئی ہے کہ مصری قوم کے زیورات جو ہمیں زبردستی دے دیئے گئے تھے ہم اُنہیں اپنے پاس رکھنا نہیں چاہتے تھے سامری کے کہنے پر ہم نے وہ زیورات اُسے دےدیئے.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کے مشورہ سے تو الگ رہا بنی اسرائیل نے خود اپنے ارادہ سے بھی مصریوں کو دھوکا دینا نہ چاہا تھا بلکہ مصریوں نے خود ہی عذابوں سے گھبرا کر بنی اسرائیل کو اپنے زیورات دئے تھے تاکہ کسی طرح وہ چلے جائیں اور ان سے مصریوں کا پیچھا چھوٹے اور یہ کہ ان زیورات کو اپنے پاس رکھنے کی بنی اسرائیل کو بالکل کوئی خواہش نہ تھی.تورات میں کہا گیا تھا کہ موسیٰ کا ہاتھ معجزہ کی وجہ سے مبروص ہو گیا تھا (خروج باب ۴ آیت ۶) حالانکہ خود

Page 125

تورات ہی مبروص کو ناپاک قرار دیتی ہے (احبار باب ۱۳ آیت ۹تا۱۱) اور برص ایک گھنائونی مرض ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہتَخْرُجْ بَيْضَآءَ مِنْ غَيْرِ سُوْٓءٍ(طٰہٰ :۲۳) یعنی ہاتھ کے سفید ہونے کا معجزہ کسی بیماری سے مشابہ نہ ہو گا بلکہ معجزانہ رنگ میں ہاتھ میں چمک پیدا ہو گی.قرآن مجید میں ہارون علیہ السلام کی ذات پر لگائے ہوئے الزام کی تردید تورات میں کہا گیا تھا کہ ہارون نے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک بنی اسرائیل کو بچھڑا بنا کر دیا اور شرک کی راہ پر چلایا لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ يٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖ١ۚ وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ وَ اَطِيْعُوْۤا اَمْرِيْ (طٰہٰ :۹۱) یعنی موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے پہلے حضرت ہارونؑ بھی اپنی قوم کو شرک سے روکتے رہے تھے اور اُن سے کہتے تھے کہ اے قوم !اس بچھڑے کے ذریعہ سے تمہارا ایمان خراب کیا گیا ہے اور تمہارا رب تو رحمن ہے یہ بے حقیقت بچھڑا رب کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس تم میری فرمانبرداری کرو اور میرے حکم پر چلو.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ہارون شرک کرانے والوں میں سے نہ تھے بلکہ شرک کے روکنے والوں میں سے تھے.حضرت سلیمان پر یہود شرک کا الزام لگاتے ہیں اور گنہگار قرار دیتے ہیں.چنانچہ لکھا ہے’’جب سلیمان بوڑھا ہوا تو اس کی جورئووں نے اس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا.‘‘ (۱ـ.سلاطین باب ۱۱ آیت ۴) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ وَ مَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا (البقرۃ:۱۰۳) یعنی سلیمان نے کوئی کفر والی بات نہیں کی بلکہ اس کا انکار کرنے والے اور اس پر الزام لگانے والے کافر تھے.حضرت مسیح علیہ السلام پر یہودیوں کے لگائے ہوئے الزام کی تردید قرآن مجید میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہود نے الزام لگایا تھا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکُ اُن کی پیدائش بدکاری کے نتیجہ میں تھی اور یہ کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک یوسف کے نطفہ سے بغیر شادی کے پیدا ہوئے تھے (انسائیکلوپیڈیابرٹینکاجلد۵ صفحہ ۱۰۲ زیر لفظ CELSUS نیز دیکھو ُجوئش لائف آف کرائسٹ زیر لفظ Jesus) اسی طرح بعض یہودی یہ الزام لگاتے تھے کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکُ ایک رومی سپاہی پینتھرا PENTHERA کے بیٹے تھے جن کا ناجائز تعلق حضرت مریم صدیقہ سے تھا (جوئش انسائیکلو پیڈیا جلد ۷ صفحہ ۱۷۰ کالم اوّل) اسی طرح یہود کا یہ اعتراض تھا کہ انہیں شیطانی الہام ہوتا تھا اور ان کا تعلق بَعْل سے تھا جس کے معنے اُن کے محاورہ میںشیطان کے تھے.چنانچہ لکھا اور فقیہ جو یروشلم سے آئے تھے کہتے تھے کہ اس کے ساتھ بَعْل زَبُول کا تعلق ہے اور یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے (مرقس باب ۳ آیت ۲۲) قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ان سب تہمتوں سے پاک قرار دیا ہے.اُن کی

Page 126

پیدائش کے متعلق فرماتا ہے وَ الَّتِيْۤ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَ جَعَلْنٰهَا وَ ابْنَهَاۤ اٰيَةً لِّلْعٰلَمِيْنَ (الانبیاء :۹۲) یعنی مریم جو حضرت عیسیٰ کی والدہ تھیں انہو ںنے اپنے تمام سوراخوں کو گناہ سے محفوظ رکھا تھا اور ان کو جو حمل ہوا تھا وہ ناپاک اور شیطانی روح کا نہ تھا بلکہ ایک پاک روح جو ہماری طرف سے تھی ان کے اندر داخل ہوئی تھی اور ہم نے اس کو اور اس کے بیٹے عیسیٰ کو دنیا کے لیے ایک نشان بنایا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے شیطان سے تعلق کے ازالہ کیلئے فرماتا ہے.وَ اٰتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنٰتِ وَ اَيَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (البقرة:۸۸) یعنی ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلے کھلے نشانات عطا فرمائے تھے اور اس کو روح القدس یعنی پاک الہام لانے والے فرشتے سے مدد دی تھی یعنی اُن کا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اور فرشتے اس پر نازل ہوتے تھے شیطان سے اُن کا تعلق نہ تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے اپنے متبعین نے بھی ایک شدید الزام اُن پر لگایا تھا کہ وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ صلیب پر مر گئے تھے حالانکہ صلیبی موت تورات کے مطابق لعنتی موت ہوتی ہے.چنانچہ عہد نامہ جدید میں لکھا ہے.’’مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا.اس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے‘‘ (گلتیوں باب۳ آیت۱۳) قرآن کریم اس الزام کو بھی ردّ فرماتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی فرماتا ہے وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا (مریم :۳۴) یعنی جو لوگ مجھ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا میری پیدائش حرام کاری کے نتیجہ میں تھی وہ بھی غلط کہتے ہیں کیونکہ میری پیدائش پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوئی تھی.اور جو لوگ کہیں گے کہ میں صلیب پر لٹکایا جا کر لعنتی موت مرا ہوں وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میری موت بھی خدا تعالیٰ کی حفاظت میں ہو گی اور لعنت کی موت سے مَیں بچایا جائوں گا.اور جو لوگ یہ کہیں گے کہ میں دوسروں کے گناہ اٹھا کر ( نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ) تین دن سزا بھگتوں گا وہ بھی غلطی کریں گے کیونکہ میرا بَعْث بَعْدَ الْمَوت بھی خدا تعالیٰ کی سلامتی سے شروع ہو گا.حضرت مسیح کا مسیحیوں کی مزعومہ صلیبی موت کے بعد دوزخ میں جانا اور گویا اُن کی موت کی لعنت کے اثر کے نیچے ہونا انجیل نقودیمس کے باب ۲۱ سے ثابت ہے.نیز۱.پطرس باب ۳ آیت۱۸ تا ۲۰ میں لکھا ہے.’’کیونکہ مسیح نے بھی ایک بار گناہو ںکے واسطے دکھ اٹھایا یعنی راستباز نے ناراستوں کے لئے.تاکہ وہ ہم کو خدا کے پاس پہنچائے.کہ وہ جسم کے حق میں تو مارا گیا لیکن روح میں زندہ کیا گیا جس میں ہو کے اس نے ان روحوں کے پاس جو قید تھیں جا کے منادی کی جو آگے نافرمانبردار تھیں.جس وقت کہ خدا کا صبر نوح کے دنو ںمیں جب کشتی تیار ہوتی تھی

Page 127

انتظار کرتا رہا.‘‘ بائبل کی تفسیر میں جو متھیو پول(MATTHEW POOL )کی تصنیف شدہ ہے قید سے مراد دوزخ لیا گیا ہے.(تفسیر بائبل مصنفہ متھیوپول جلد ۳ صفحہ ۹۱۱) انسانی وجود پر بعض مذاہب کے لگائے ہوئے الزام اور قرآن مجید میں ان کا ردّ پانچواںستون مذہب کا خود انسان کا وجود ہے کیونکہ وہ مہبط ِ وحی ہے.اس ستون کو بھی بعض مذاہب نے گرانے کی کوشش کی ہے.مثلاً مسیحی مذہب کہتا ہے کہ انسانی روح آدم علیہ السلام کے گناہ کی وجہ سے گنہگار ہو گئی ہے او رانسان طبعاً میلان گناہ رکھتا ہے.رومیوں باب ۵ آیت ۱۲ میں لکھا ہے.’’پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گناہ کیا.‘‘ او رہندو مذہب بھی ظاہر کرتا ہے کہ گویا انسان تمام کوششوں کے باوجود پاک نہیں ہو سکتا اور بار بار ُجونوں میں ڈالا جاتا ہے.(ستیارتھ پرکاش مصنفہ پنڈت دیانند جی بانی آریہ سماج ب ۹) فطرت انسانی سب عیوب سے پاک کی گئی ہے قرآن کریم نے ان مذاہب کے برخلاف انسانی فطرت کی براء ت کی ہے اور وہ فرماتا ہے.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا(الشّمس:۸تا۱۱) یعنی ہم نفسِ انسانی کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ اسے ہم نے سب عیوب سے پاک پیدا کیا ہے اور اس کی فطرت میں نیکی اور بدی کے پہچاننے کی طاقت رکھی ہے.چنانچہ جو شخص اپنی روح کو بیرونی ملونیوں سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کی جبلیّ پاکیزگی کو دنیاوی آلائشوں سے گدلا کر دیتا ہے اور اسے اس کے اعلیٰ مقام سے نیچے گرا دیتا ہے وہ ناکام ہو جاتا ہے یعنی انسانی روح اصل میں پاکیزگی لے کر آتی ہے اور بعد میں لوگ اُسے گندہ کر دیتے ہیں.یہ نہیں کہ آدم یا کسی اور کے گناہ کی وجہ سے وہ ناپاک ہو گئی ہے.قرآن مجید میں تناسخ کا ردّ اسی طرح تناسخ کے چکر کا اس طرح ردّ کرتا ہے کہ اَلَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(النّحل:۲۹) یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حالت میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دائمی سلامتی تم کو ملے گی (سلام کا لفظ جو اسم ہے دائمی سلامتی پر دلالت کرتا ہے) جائو اور اپنے اعمال کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہو جائو.اسی طرح فرماتا ہے کہ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ سُعِدُوْا فَفِي الْجَنَّةِ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَا

Page 128

شَآءَ رَبُّكَ١ؕ عَطَآءً غَيْرَ مَجْذُوْذٍ (ہود:۱۰۹) یعنی جو لوگ سعید اور نیک ہوںگے وہ جنت میں جائیں گے.اس میں جنت کے آسمان زمین کے قیام تک اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع رہتے چلے جائیں گے.پھر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مشیّت کا فیصلہ بھی کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ ان کو کبھی جنت سے نہیں نکالے گا اور اُن کو ایسا انعام بخشے گا جو کبھی بند نہ ہو گا.اس آیت سے انسانی فطرت کے اس حق کو جو دائمی نجات کے متعلق ہے اور جسے آریہ صاحبان نے تناسخ کے عقیدہ سے باطل کر دیا ہے، قائم کر دیا گیا ہے.خلاصہ یہ کہ تمام اہم امور جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اُن کے متعلق جو جو تہمتیں مختلف مذاہب کے پیرؤوں یا فلاسفروں نے لگائی تھیں اسلام نے ان کو دُور کیا ہے اور ہر اک تہمت سے خدا تعالیٰ کو ،ملائکہ کو، کلام الٰہی کو، انبیاء کو اور فطرتِ انسانی کو بری کیا ہے اور یہ ایسی خوبی ہے جو اور کسی کتاب میں اس کی موجودہ حالت میں نہیں پائی جاتی اور صرف قرآن کریم ہی ہے جو سب تہمتوں سے ان مبارک وجودوں اور اصولوں کو پاک کرتا ہے جو مذہب کے لئے بمنزلہ ستون کے ہیں اور یہ ایسا امر ہے کہ اگر قرآن کریم اس کے سوا اور کوئی کام نہ بھی کرتا تو صرف یہی کام دوسرے ادیان کی موجودگی کے باوجود اس کی ضرورت کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھا.قرآن مجید کی نجات کی ضامن بےنظیر تعلیم ظاہر ہے کہ جس کے دل میں خدا تعالیٰ کی نسبت بدظنی ہو گی اور وہ اس کی طاقتوں کے بارہ میں شک میں ہو گا وہ اس سے کامل تعلق پیدا کر کے اس کی بے پایاں رحمت سے فائدہ نہیں اُٹھا سکے گا اور جو ملائکہ کی نسبت بدظن ہو گا وہ ملائکہ سے تعلق جوڑ کر ان کی پاکیزہ تحریکوں سے فائدہ نہ اٹھا سکے گا اور جو انبیاء سے یا اُن میں سے کسی سے بدظن ہو گا وہ ان کے اعلیٰ نمونہ سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا.اور جو کلامِ الٰہی کے متعلق شبہ میں ہو گا وہ اس کی پاک کرنے والی تاثیرات سے محروم رہے گا.اور جو انسانی فطرت سے بدظن ہو گا وہ اپنے نفس کو پاک کرنے کی جدوجہد میں اس عزم اور ارادہ سے محروم رہے گا جو پاکیزگی کے حصول کے لئے ضروری ہے.پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے مطابق تعلیم دے کر قرآن کریم نے انسان کو نیکی کے سر چشموں سے فائدہ اٹھانے، نیک نمونوں کو خضرِ راہ بنانے اور نہ ٹوٹنے والی امید کو اپنے دل میں جگہ دینے کی ایک ایسی راہ کھول دی ہے جو اس کی نجات کی ضامن اور اس کی کامیابی کی کفیل ہو جاتی ہے.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے رَیْب کے دوسرے معنے شک کے ہیں.پس لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ قرآن کریم کی صداقت کا ایک مزید ثبوت اور اس کی ضرورت حقہّ کا ایک زبردست گواہ یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک نہیں.

Page 129

جو لوگ عربی زبان سے ناواقف ہونے کے باوجود قرآن کریم پر اعتراض کرنے میں جلدی کرتے ہیں انہوں نے اس جملہ کے صرف یہی معنے کئے ہیں اور پھر اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کر کے کہ اس میں کوئی شک نہیں گویا خود اپنے مشکوک ہونے کا اعتراف کیا ہے کیونکہ جب دل میں چور نہ ہو تو انسان کو یہ خیال ہی نہیں ہو سکتا کہ لوگ مجھ پر جھوٹا ہونے کا الزام لگائیں گے (ویری بحوالہ رومن قرآن) اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اس نادان معترض کو یہ بھی معلوم نہیں کہ سورۂ بقرہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی وحی نہیں ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ اپنے دل کے خدشہ کی وجہ سے شک کی نفی کی گئی ہے بلکہ یہ سورۃ تو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوتے ہوئے تیرہ سال سے زائد گزر چکے تھے اور اس عرصہ میں کفار ہزاروں شبہات قرآنِ کریم کے بارہ میں پیش کر چکے تھے.پس اس قدر عرصہ تک دشمنوں کے اعتراضات لینے کے بعد بھی اگر قرآن کریم کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ اس میں کوئی شک کی بات نہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جو سچا ہو اُسے کبھی یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہ سچا ہے ورنہ اس کی سچائی میں شک پڑ جائے گا.یہ دعویٰ بالبداہت باطل ہے اور کبھی کسی عقلمند نے اسے قبول نہیں کیا نہ کبھی کسی صادق نے اس پر عمل کیا ہے اور یہ نکتہ صرف رومن قرآن کے مصنف کے ہی ذہن میں آیا ہے اور ریورنڈویری ہی ایک ایسے شخص ہیں جن کو اس خلافِ عقل دعویٰ کی تصدیق کی توفیق ملی ہے.بائبل میںلَارَیْبَ فِیْہِ کے ہم معنی محاورات کا استعمال مگر افسوس ہے کہ ان دونوں پادریوں کو خود اپنی مذہبی کتب پر غور سے مطالعہ کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا.اگر وہ اپنی مذہبی کتب کا غور سے مطالعہ کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ وہ یہ اعتراض قرآن کریم کی صداقت کے خلاف نہیں کر رہے بلکہ خود اپنی کتب کے خلاف کر رہے ہیں چنانچہ مندرجہ ذیل حوالے جو بہت سے حوالوں میں سے چند ہیں ثابت کرتے ہیں کہ بالکل اس قسم کے محاورات بائبل میں بھی استعمال ہوئے ہیں.ا مثال ۸؍۸ ’’میرے منہ کی ساری باتیں صداقت سے ہیں ان میں کچھ ٹیڑھا ترچھا نہیں.‘‘ یسعیاہ ۱۹؍۴۵ ’’میں خداوند سچ کہتا ہوں اور راستی کی باتیں فرماتا ہوں.‘‘ تمطاؤس ۹؍۴ ’’یہ بات سچ اور کمال قبولیت کے لائق ہے.‘‘ طِطُس ۸؍۳ ’’یہ بات سچ ہے.‘‘ مکاشفات ۵؍۲۱، ۶؍۲۲ ’’یہ باتیں سچ اور برحق ہیں.‘‘ ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ اپنی سچائی پر زور دینے کے لئے عہد نامہ قدیم اور جدید دونوں نے بالکل قرآن کریم کے مشابہ الفاظ استعمال کئے ہیں.اور اگر اس قسم کے محاوروں کے استعمال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قائل اپنی سچائی کی نسبت شبہ رکھتا ہے تو یہ شبہ بہت زیادہ مصنفین عہد نامہ قدیم اور جدید کے دل میں پایا جاتا تھا.مگر حق یہ ہے

Page 130

Page 131

دعا کا عقیدہ پیش کرتا ہے تو اس کی تائید میں دلیلیں بھی دیتا ہے.اگر انبیاء پر ایمان لانے کو کہتا ہے تو ان کی صداقت کے ثبوت بھی بہم پہنچاتا ہے.اگر بعث بعد الموت منواتا ہے تو اس عقیدہ کو براہین قویہ سے ثابت بھی کرتا ہے.غرض کوئی ایسا عقیدہ نہیں جسے قرآن کریم پیش کرتا ہو اور اس کی صداقت کے ثبوت میں اس نے دلائل بھی نہ دیئے ہوں.چنانچہ ان امور کی تفصیل قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر میں آگے چل کر بیان ہو گی.پس لَارَیْبَ فِیْہِ کہہ کر قرآن کریم نے اس امر کو پیش کیا ہے کہ گو قرآن کریم ایک کامل کتاب ہے یعنی ہر ضروری امر کے متعلق اس میں بحث کی گئی ہے پھر بھی وہ ظنیّ اور شکیّ امور کو پیش نہیں کرتا بلکہ ہر امر کی دلیل ساتھ دیتا ہے اور تحقیق کے ساتھ ہر مسئلہ کو پیش کرتا ہے اور یہ امر قرآن کریم کی افضلیت کا ایک زبردست ثبوت ہے کیونکہ یہ امر تو آسان ہے کہ ایک دو امور جو تحقیقی طور پر ثابت ہو چکے ہوں ان کو با دلائل بیان کر دیا جائے لیکن یہ امر نہایت مشکل ہے کہ ہر ضروری امر کے متعلق بحث بھی کی جائے اور پھر ہر بات کو دلائل کے ساتھ ثابت بھی کیا جائے اور ظن اور گمان کی حد سے نکال کر یقین اور وثوق کے مقام پر کھڑا کر دیا جائے.ظاہر ہے کہ جو کتاب اپنے تمام دعاوی کو اس طرح پیش کرے گی اس کے سچا ہونے میں کسی منصف مزاج کو شک اور تردّد نہ ہو سکے گا.لَارَیْبَ فِیْہِ میں قرآن مجید کے منسوخ نہ ہونے کے متعلق پیشگوئی لَارَیْبَ فِیْہِ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ قرآن کریم کے محفوظ ہونے میں کوئی شک نہیں اور ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کے بعد یہ الفاظ اس مضمون پر دلالت کرتے ہیں کہ اس کتاب کے بعد کوئی اور کتاب نازل نہ ہو گی اور یہ دنیا کے لئے آخری ہدایت نامہ ہے.کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یہ کامل کتاب ہے اور تمام انسانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان اس میں موجود ہے اس قسم کی کتاب کے بعد دوسری کتاب اسی صورت میں نازل ہو سکتی ہے جب وہ محفوظ نہ رہے.کیونکہ نئے قانون کی دو ہی صورت میں ضرورت ہوتی ہے یا تو اس وقت جبکہ پہلا قانون ناقص ہو اور کسی وقت جا کر لوگوں کی ضروریات کے پورا کرنے سے قاصر ہو جائے یا پھر اس صورت میں کہ پہلا قانون دنیا سے کلی طور پر یا جزوی طور پر مفقود ہو جائے اور اسے دوبارہ تازہ کرنے کی ضرورت ہو سو ذٰلِكَ الْكِتٰبُ کے بعد لَارَیْبَ فِیْہِ فرما کر یہ بتایا کہ یہ کامل کتاب ہمیشہ زمانہ کی دست بُرد سے محفوظ رہے گی اور کوئی زمانہ ایسا نہ آئے گا کہ اس کے بارہ میں یہ شک کیا جا سکے کہ آیا اس کے الفاظ وہی ہیں جو کسی وقت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے یا ان میں کوئی تغیرّ تبدّل ہو گیا ہے اور چونکہ ایسا زمانہ اس پر کوئی نہ آئے گا یہ کتاب منسوخ نہ ہو گی اور آئندہ سب زمانوں میں اسی کے مطابق لوگوں کو رُوحانی زندگی بسر کرنی پڑے گی.یہ مفہوم بھی قرآن کریم کی ایک زبردست خوبی پر دلالت کرتا

Page 132

ہے اور آج بھی جبکہ قرآن کریم کے نزول پر تیرہ سو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے دوست تو الگ رہے دشمن بھی اس کے محفوظ ہونے کی شہادت دیتے ہیں.اور قرآن کریم اندرونی اور بیرونی شواہد بھی ایسے رکھتا ہے جو اُس کے محفوظ ہونے پر گواہ ہیں.قرآن مجید کے زمانہ کی دستبرد سے محفوظ رہنے کے متعلق ایک غیرمسلم کی شہادت چنانچہ سرولیم میور جیسا شخص بھی اس کے بارہ میں گواہی دیتا ہے کہ: THERE IS OTHERWISE EVERY SECURITY INTERNAL AND EXTERNAL THAT WE POSSESS THAT TEXT WHICH MOHAMMAD HIMSELF GAVE FORTH AND USED.یعنی ’’ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے.اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جو خود محمد (صلے اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اُسے استعمال کیا کرتے تھے.‘‘ (لائف آف محمد صفحہ ۵۶۱) قرآن کریم کی یہ فضیلت ایسی ہے جو دوسری کتب کے مقابلہ پر اس کی ضرورت کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتی ہے کیونکہ جس کلام کے محفوظ ہونے میں شک پڑ جائے اس پر عمل کرنے کے لیے انشراح صدر پیدا نہیں ہوتا اور مذہب کےلئے کامل انشراح کا ہونا ضروری ہے.ژند اوستا کے غیرمحفوظ ہونے کا ثبوت بے شک قرآن کریم کے وقت میں عہد نامہ قدیم موجود تھا عہد نامہ جدید موجود تھا.وید موجود تھے.ژند اور اس کی شرح اوستا موجود تھی.مگر ان میں سے ایک کتاب بھی تو نہ تھی جو اس طرح محفوظ ہو جس طرح کہ وہ نازل ہوئی تھی.ژند اوستا کے متعلق تو خود پارسی بھی مقر ہیں کہ اس کے بہت سے حصے ضائع ہو چکے ہیں اور موجودہ ژند ایسی نامکمل صورت میں ہے کہ اس کے غیر محفوظ ہونے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد ۲ صفحہ ۲۶۷ زیر لفظ Avista پر لکھا ہے کہ شاہ یستاسپ (VISHTASPA) نے جو زر تشت مذہب کا سر پرست تھا.اوستا کے دو نسخے سنہری حروف میں لکھوا کر اصطخرہ اور سمرقند میں رکھوائے ہوئے تھے لیکن ۳۳۰ قبل مسیح سکندر کے حملہ کے دوران میں وہ دونوں نسخے تباہ کر دیئے گئے اور سکندراعظم کی تاخت و تاراج نے زر تشتی مذہب کی طاقت کو توڑ دیا.اور ان پانچ صدیوں میں جو اس کے بعد آئیں.سیلیسڈ (SELEUCID ) اور پارتھین( PARTHIAN) کا عہد حکومت زر تشتی مذہب کی

Page 133

تاریخ میں تاریکی اور پستی کا زمانہ ہے جس کے نتیجہ میں اصل مذہبی کتابوں کا بہت بڑا حصہ ضائع ہو گیا.باوجود اس غفلت کے جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوئی مذہبی کتب کے معتدبہ حصے متفرق کتابوں میں اور علماء کے حافظہ میں یاد رہے.ویدوں کے غیرمحفوظ ہونے کا اقرار ہندوئوں کے علماء کی تحریرات سے وید بھی غیر محفوظ ہیں اُن کے مختلف نسخے آپس میں اس قدر اختلاف رکھتے ہیں کہ اُن کے متغیر ہونے کی ایک کھلی دلیل ہیں حتیٰ کہ منتروں کے منتر بعض نسخوں میں موجود ہیں اور بعض میں نہیں اور بعض میں عبارت کسی طرح ہے اور بعض میں کسی طرح ہے چنانچہ زمانہ قدیم کے ہندو علماء میں سے ایک عالم نے آج سے کئی صدیاں قبل وید کے محرّف ہونے کے متعلق ان الفاظ میں گواہی دی ہے کہ ’’وید بیاس نے تودَوَ اپرَ ُیگ میں چاروں ویدوں کا ذکر کیا ہے لیکن رشیوں کی اولاد نے علم کی خامی کی وجہ سے ویدوں کو ایک دوسرے سے مختلف بنا دیا.کہیں منتروں کے ساتھ براہمن بھاگ (تفسیری حصہ) شامل کر دیا اور کہیں اعراب اور الفاظ کے فرق سے رِگ ، یجر اور سام وید کو کئی طرح کا بنا دیا.بعض جگہ ازراہِ تشریح و عام خیالات کے ذریعہ نیز کلپ سوتروں کو ایشوری کلام میں شامل کر کے انہیں مختلف شکلوں میں تبدیل کیا گیا ہے‘‘ (کوُرم ُپوران ُپورو آردھ.ادھیائے نمبر۲۰ شلوک نمبر۴۴ تا نمبر۴۶) ویدوں کے غیر محفوظ ہونے کے متعلق جو کچھ اُوپر لکھا گیا ہے اس کی تائید زمانہ حال کے ہندو اور آریہ سماجی پنڈت بھی کرتے ہیں جس سے وید کی موجودہ حالت کا پتہ لگتا ہے.چنانچہ پنڈت جے دیو شرما اپنے سام ویدبھاش (تفسیر) کے صفحہ ۲۹۵ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کے کئی نسخوں میں آرَنِّیَک کانڈ (باب) نہیں ہے.‘‘ اسی طرح پنڈت ُتلسی رَام سوامی اپنے سام وید بھاش جلد ۲ صفحہ ۸۳۴ میں لکھتے ہیں کہ ’’سام وید کا جو نسخہ پنڈت ستیہ برت سام شرمی نے شائع کیا ہے اس میں ’’مہانامنی سوُکت‘‘ نہیں ہیں حالانکہ یہ آرَنِّیَک کا نڈ اور مہانامنی سوُکت آریوں کے شائع کردہ نسخہ مطبوعہ اجمیر میں موجود ہیں.مگر جو سام وید بنار س میں شائع ہوا ہے اس میں یہ دونوں باب نہیں پائے جاتے.ان دونوں میں ۶۵ منتر ہیں جو بعض نسخوں میں ہیں اور بعض میں نہیں یہی حالت رِگوید، یجر وید اور اتھروید کی ہے.چنانچہ اتھروید کی تحریف کے متعلق پنڈت ویدک منی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ ’’حقیقت میں جتنی برُی حالت اتھروید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی ویدکی نہیں ہوئی سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت (باب) اس میں شامل کئے گئے ہیں.‘‘ (ویدسَرْدَسَو صفحہ ۹۷) تورات کے غیرمحفوظ ہونے کا ثبوت تورات بھی اپنے غیر محفوظ ہونے پر شاہد ہے مثلاً تورات میں جو حضرت موسیٰ کی کتاب ہے لکھا ہے.’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق مو آب کی سر زمین میں مر گیا اور

Page 134

اُس نے اُسے مو آب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا.پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵،۶) پھر آیت۱۰ میں لکھا ہے کہ ’’اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا.‘‘ اب ہر اک شخص سمجھ سکتا ہے کہ موسیٰ پر یہ کلام نازل نہیں ہو سکتا تھا کہ پھر موسیٰ مر گیا اور اب تک اس جیسا شحص کوئی پیدا نہیں ہوا.ضرور ہے کہ یہ فقرہ تورات میں موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد بڑھایا گیا ہو.بائبل کے بعض اندرونی اختلافات واضح الحاقی عبارتوں کے علاوہ بائبل میں ایسے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں جن کی موجودگی میں کسی صورت میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کتاب اس شکل میںموجود ہے جس شکل میں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی.کیونکہ خدا تعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا.مثال کے طور پر اختلافات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.بائبل کے بعض اندرونی اختلافات پیدائش باب ۱میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے حشرات الارض اور جنگلی جانور پیدا کئے اور اس کے بعد انسان کو پیدا کیا.(آیت ۲۴ و ۲۵،۲۶) لیکن پیدائش باب ۲ میں لکھا ہے کہ آدم کی پیدائش کے بعد جانور اور آسمان کے پرندوں کو بنایا گیا.آیت ۱۹.اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق پیدائش باب ۷میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کہا کہ سب پاک جانوروں میں سے سات سات نر اور ان کے مادے اپنی کشتی میں رکھ لے اور نوح نے ایسا ہی کیا (آیت ا،۲،۵ )لیکن اسی باب کی ۸ اور ۹ آیت میں لکھا ہے کہ پاک چار پایوں میں سے دو دو نر اور مادے نوح کی کشتی میں داخل ہوئے جیسے کہ خدا نے فرمایا تھا.گویا ایک ہی جگہ پر دو تین آیتوں کے فرق پر اس قدر اختلاف پیدا ہو گیا ہے.دو تین آیتوں پہلے تو کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے سات سات جانور رکھنے کا حکم دیا اور نوح نے سات سات جانور ہی رکھے.لیکن دو تین آیتوں بعدیہ کہا گیا ہے کہ خدا نے دو دو جانور رکھنے کا حکم دیا تھا اور نوح علیہ السلام نے دو دو جانور ہی رکھے.اس قسم کے بیسیوں اختلافات تورات میں پائے جاتے ہیں جس سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب اس شکل میں موجود نہیں جس شکل میں کہ موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی ورنہ ایسے صریح اختلافات پائے نہ جاتے.انجیل غیر الہامی ہے انا جیل کی بھی یہی حالت ہے اول تو اس امر کا ہی کوئی ثبوت نہیں کہ کون سی انجیل الہامی ہے اور کون سی نہیں کیونکہ اناجیل کئی ہیں.ان میں سے بِلا کسی دلیل کے محض قرعہ ڈال کر چار انجیلوں کا انتخاب کر لیا گیا ہے اور یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ یہ زیادہ معتبر ہیں.پھر جو چار انجیلیں منتخب کر کے بنیادی کتب قرار دی گئی ہیں ان میں بھی

Page 135

مسیح کا کلام بہت تھوڑا ہے اور خدا تعالیٰ کا کلام تو اس میں کوئی ہے ہی نہیں ہاں مسیح کی زبانی چند فقرات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ملتے ہیں.پس حقیقتاً خدا تعالیٰ کا الہام خواہ اس کے الفاظ میں ہو یا مسیح کے الفاظ میں انا جیل میں بہت کم ہے.ہاں تاریخی واقعات پر یہ کتاب مشتمل ہے جو کسی صورت میں الہام نہیں کہلا سکتے بلکہ صرف بعض مؤرخوں کا نقطہ نگاہ ہے مگر اسی پربس نہیں ان اناجیل میں بھی کہ جو عہد نامہ جدید میں شامل کی گئی ہیں (۱) شدید اختلاف ہے اور (۲) اس کے مختلف زمانوں کے ترجموں میں بھی باہم شدید اختلاف ہے.انجیل کے بعض اندرونی اختلافات پہلے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں.متی باب ۱۰ آیت ۹و ۱۰ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ؑنے حواریوں کو یہ نصیحت کی کہ ’‘نہ سونا، نہ روپا، نہ تانبا اپنے کمر بندوں میں رکھو راستے کے لئے نہ جھولی نہ دو کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو‘‘ لیکن مرقس باب ۶ میں حضرت مسیح کی نصیحت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ’’اور حکم کیا کہ سفر کے لیے سوالاٹھی کے کچھ نہ لو نہ جھولی، نہ روٹی، نہ اپنے کمر بند میں پیسے.مگر جوتیاں پہنو پردو کرتے مت پہنو‘‘ (آیت ۸و۹) یہ کیسا صریح اختلاف ہے.متی کا بیان ہے کہ مسیح نے کہا نہ جوتی لو نہ لاٹھی لو.مرقس کہتا ہے کہ مسیح نے یوں کہا کہ لاٹھی کے سوا کچھ نہ لو ہاں جوتی ضرور پہنو.اسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۴۴ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح کو صلیب کے موقع پر ان کے دو نو مصلوب ساتھیوں نے ملامت کی اور طعنے دئے.مرقس باب ۱۵ آیت ۳۲ میں بھی اس کی تائید ہے لیکن لوقا باب ۲۳آیت ۳۹و ۴۰ میں لکھا ہے کہ ان چوروں میں سے جو اس کے ساتھ صلیب دیئے گئے ایک نے اُسے طعنہ دیا لیکن دوسرے نے نہ صرف یہ کہ طعنہ نہیں دیا بلکہ طعنہ دینے والے کو ملامت کی.چنانچہ لکھا ہے کہ ان دو صلیب والوں میں سے ایک چور نے مسیح سے کہا ’’کہ اگر تو مسیح ہے تو آپ کو اور ہم کو بچا.دوسرے نے اُسے ملامت کر کے جواب دیا.کیا تو بھی خدا سے نہیں ڈرتا جس حال کہ اِسی سزا میں گرفتار ہے.‘‘ پھر آگے لکھا ہے ’’اور اُس نے یسوع سے کہا اے خداوند جب تو اپنی بادشاہت میں آوے مجھے یاد کیجیئو‘‘ (آیت ۴۲) اس پر یسوع نے اُسے کہا کہ میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ آج تو میرے ساتھ بہشت میں ہو گا‘‘ (آیت ۴۳) اسی طرح مرقس باب ۱۵آیت ۲۵میں لکھا ہے کہ مسیح کو صلیب تیسرے گھنٹے میں دی گئی.لیکن یوحنا باب۱۹ آیت ۱۴ میں لکھا ہے کہ چھٹی گھڑی تک ابھی مسیح پیلا طوس کی کچہری میں موجود تھا.اسی طرح متی باب۲۷ آیت ۵میں لکھا ہے کہ یہوداہ اسکر یوطی جس نے مسیح علیہ السلام کو پکڑ وایا تھا.اُس نے پھانسی کے ذریعہ خود کشی کر لی لیکن اعمال باب۱ آیت۱۸ میں لکھا ہے کہ وہ اوندھے منہ گر گیا اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی ساری انتڑیاں نکل گئیں.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دیئے جانے کے دوسرے دن کے متعلق اناجیل میں عجیب و غریب

Page 136

اختلاف پایا جاتا ہے.یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ ہفتہ کے پہلے دن (یعنی اتوار کو) مریم میگدلینی قبر پر آئی لیکن متی باب۲۸آیت ۱ میں لکھا ہے کہ سبت کے بعد (یعنی اتوار کے دن) پوپھٹنے کے بعد مریم میگدلینی اور دوسری مریم اس کی قبر کو دیکھنے آئیں.یعنی قبر پر آنیوالی دو عورتیں تھیں.مرقس باب ۱۶ آیت ۱ میں اس سے بھی اختلاف کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اتوار کے دن مریم میگدلینی یعقوب کی ماں مریم اور سلومی یعنی تین عورتیں قبر پر آئیں.لیکن لوقا باب ۲۴آیت ۱۰ میں کہا گیا ہے کہ مریم میگدلینی اور یوحنا اور مریم یعقوب کی ماں اور اَور عورتیں ساتھ تھیں.اور یہ سب مل کر قبر پر گئیں.گویا ہر ایک انجیل دوسری انجیل کے مخالف بیان دے رہی ہے.یوحنا ایک عورت کا جانا بیان کرتا ہے.متی دو عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے.مرقس تین عورتوں کا جانا بیان کرتا ہے.اب یہ کیونکر تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یہ سب کلام خدا تعالیٰ کا ہے.یہ اور اسی قسم کے بہت سے اختلافات اناجیل میں پائے جاتے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ موجودہ اناجیل شک و شبہ سے خالی نہیں.انجیل میں تحریف کے چند نمونے دوسرے دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کی جاتی ہیں.متی باب ۱۷ میں ایک آیت نمبر ۲۱ یوں ہوا کرتی تھی.’’مگر اس طرح کے دیو بغیر دعا و روزہ کے نہیں نکالے جاتے.‘‘ ۱۹۳۰ء کے پہلے کی تمام اناجیل میں یہ آیت پائی جاتی تھی مگر ۱۹۳۰ء اور اس کے بعد کی اناجیل میں سے یہ آیت کی آیت ہی نکال دی گئی.متی باب۱۹ آیت ۱۷ کے الفاظ پہلے انا جیل میں یوں ہوا کرتے تھے ’’تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ لیکن ۱۹۳۰ء کی اناجیل میں اس فقرہ کو بدل کر یوں کر دیا گیا ہے ’’تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے.‘‘ متی باب۲۳میں ایک آیت ۱۴ ہوا کرتی تھی جس کے الفاظ یوں تھے ’’اے ریا کار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس کہ بیوائوں کے گھر نگل جاتے اور مکر سے لمبی نمازیں پڑھتے ہو اس سبب سے تم زیادہ تر سزا پائو گے.‘‘ ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں سے یہ آیت بالکل نکال دی گئی ہے.متی باب۷۲ میں ایک آیت ۵۳ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’تاکہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو.کہ انہوں نے میرے لباس آپس میں بانٹ لئے اور میرے لباس پر چٹھی ڈالی.‘‘ مگر یہ آیت ۱۹۳۰ء کے نسخوں میں موجود نہیں.یوحنا باب ۵ میں ایک آیت ۴ ہوتی تھی جس کے الفاظ یہ تھے ’’کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اس حوض میں اُتر کے اس پانی کو ہلاتا تھا.اورپانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کسی بیماری میں گرفتار ہو اس سے چنگا ہو جاتا تھا.‘‘ یہ آیت ۱۹۳۰ء اور بعد کی اناجیل میں سے بالکل نکال دی گئی ہے.یوحنا باب۷ آیت ۵۳سے باب ۸ آیت ۱۱ تک نسخہ مطبوعہ مرزا پور میں موجود ہیں مگر نسخہ بحروف رومن اردو کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ ساتویں باب کی ۵۳ آیت سے لیکر آٹھویں باب کی گیارہویں آیت تک کی عبارت اکثرقلمی

Page 137

نسخوںمیں نہیں پائی جاتی.عیسائی علماء کا اپنا اقرار کہ بعض آیتیں جو اناجیل میں درج تھیں وہ در حقیقت اناجیل کا حصہ نہیں تھیں.اور پُرانے نسخوں کا آپس میں اختلاف کہ بعض آیتیں بعض میں پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں.یہ امور اس بات کا صاف اور واضح ثبوت ہیں کہ موجودہ اناجیل شک اور شبہ سے پاک نہیں بلکہ اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہیں کہ وہ ملاوٹ سے ہر گز محفوظ نہیں.اور خود عیسائیوں کے مسلمات کے رو سے محرّف اور مبدّل ہیں.پس ایسی کتب کی موجودگی کے باوجود خواہ وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کی جاتی ہوں یقینا ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جس کا ہر ہر لفظ قطعی اور یقینی ہو اور جس کی حفاظت کا دشمن اور دوست کو اقرار ہو.اور اس ضرورت کو قرآن کریم نے پورا کیا.اور اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض کرنا کہ پہلی کتب کی موجودگی میں اس کی کیا ضرورت ہے ایک بے معنے اعتراض تھا کیونکہ محرف مبدل کتب خود ایک محفوظ کتاب کا مطالبہ کرتی تھیں جس پر لوگ اس یقین سے عمل کر سکیں کہ اس کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.پس قرآن کریم نے اپنی ضرورت کی تائید میں اپنے کامل ہونے کی دلیل کے ساتھ یہ دلیل بھی پیش کی کہ ایمان کے لئے اس کتاب پر کامل یقین ضروری ہے جس پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے اور قرآن کریم سے پہلے کی سب کتب اپنی موجودہ شکل میں مجروح اور مشکوک ہو چکی ہیں.پس ایک ایسی کتاب کی ضرورت پیدا ہو چکی ہے جس کے لفظ لفظ کے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں شک نہ کیا جا سکے.پس اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے تاکہ جو لوگ اس پر عمل کریں اس یقین کے ساتھ عمل کریں کہ یہ تمام کا تمام محفوظ ہے اور ہر ہر لفظ اس کا اسی طرح ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے.یہ ایک ایسی دلیل ہے جس کے بعد کوئی شخص قرآن کریم کی ضرورت کا انکار نہیں کر سکتا اورجس کے بعد پہلی کتب کا موجود ہونا اس کی ضرورت کو باطل نہیں کر سکتا.علاوہ ازیں ان الفاظ میں یہ پیشگوئی بھی کر دی گئی ہے کہ یہ کتاب ہمیشہ محفوظ رہے گی اور کبھی بھی انسانی دستبرد کاشکار نہ ہو گی.قرآن مجید میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دین و دنیا میں نقصان اٹھائے ۳.رَیْب کے ایک معنے ہلاکت اور تباہی کے بھی ہیں.ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ کتاب نہ نوٹ.بعض آیات جو پہلے ۱۹۳۰ء کے نسخوں سے نکال دی گئی تھیں.۱۹۳۸ء کی مطبوعہ بائبل میں دوبارہ بریکٹوں میں بطور حاشیہ تبدیلی ٔ حروف کے ساتھ لکھ دی گئی ہیں یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ بائبل الہامی کتاب نہیں بلکہ ایک کھیل ہے.جب چاہا کسی آیت کو داخل کر دیا.جب چاہا خارج کر دیا.

Page 138

صرف سب خوبیوں کی جامع ہے بلکہ سب نقائص سے پاک بھی ہے.کیونکہ بعض دفعہ ایک نسخہ کسی خاص مرض کے لئے مفید تو ہوتا ہے لیکن اس فائدہ کے ساتھ بعض اور نقصان بھی پہنچا دیتا ہے پس ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ جو ضرورت بھی انسان کو مذہب کے بارہ میں پیدا ہو قرآن کریم اس کو پورا کرتا ہے اور ساتھ ہی اس میں یہ خوبی بھی ہے کہ اس پر عمل کرنے سے کسی اور جہت سے انسان کی روحانیت کو نقصان بھی نہیں پہنچتا.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ سورۃ طٰہٰ میں فرماتا ہے.مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى (طٰہٰ : ۳) یعنی اس قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان دین یا دنیا میں نقصان اٹھائے بلکہ اس کی تعلیم مفید ہونے کے ساتھ بے ضرر بھی ہے.اس بارہ میں بھی آئندہ تفسیر میں متعدد مثالیں پیش کی جائیں گی (انشاء اللہ) جن سے معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں کوئی ایسی بات نہیں جس سے انسان کی روحانیت یا اخلاق کو نقصان پہنچتا ہو بلکہ وہ خالص خیر ہی خیر ہے.او ریہ امر بھی اسے دوسری کتب پر ایک زبردست فوقیت عطا کرتا ہے.قرآن مجید میں کوئی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا ۴.چوتھے معنے رَیْب کے حَاجَۃٌ کے بتائے گئے تھے.ان معنوں کے رُو سے لَارَیْبَ فِیْہِ کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کتاب میں کوئی دینی امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں چنانچہ یہ فضیلت بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے اور وہ ایک ایسی جامع کتاب ہے کہ کوئی انسانی ضرورت ایسی نہیں جس کے متعلق اس میں شافی تعلیم موجود نہیں.کوئی اعتقادی او رکوئی عملی اور کوئی اخلاقی اور کوئی اقتصادی اور کوئی مدنی امر نہیں جس کے بارہ میں قرآن کریم میں بحث نہ کی گئی ہو اور اس کے متعلق ہدایت نہ دی گئی ہو بلکہ باوجود قلیل الـحجم ہونے کے قرآن کریم میں سب ضروری امور پر اس طرح روشنی ڈالی گئی ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اسے قرآن کریم کا ایک زبردست معجزہ تسلیم کرنے پر مجبو رہو جاتا ہے.اس خوبی کی طرف شروع سے اس کے دشمنوں کی نگاہ بھی پڑتی چلی آئی ہے.قرآن مجید کے مکمل ہونے کے متعلق یہودیوں کی شہادتیں چنانچہ احادیث میں آتا ہے.کہ قَالَ رَجُلٌ مِّنَ الْیَھُوْدِ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ یَا اَمِیْرَ الْمُؤمِنِیْنَ لَوْ عَلَیْنَا اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِ سْلَامَ دِیْنًا) لَا تَّخَذْنَا ذَالِکَ الْیَوْمَ عِیْدًا، فَقَالَ’’ عُمَرُ بْنُ خَطَّابٍ‘‘ اِنِّیْ لَاَعْلَمُ اَیَّ یَوْمٍ اُنْزِلَتْ ھٰذِہِ الْاٰیَۃُ اُنْزِلَتْ یَوْمَ عَرَفَۃَ فِیْ یَوْمِ الْجُمُعَۃِ (ترمذی کتاب التفسیر باب و من سورۃ المآئدۃ)کہ ایک یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ملا.اور کہنے لگا.کہ اگرہم پر آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ : ۴) اترتی.جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی دینی

Page 139

امر بیان کرنے سے رہ نہیں گیا بلکہ سب ضروری امور اس میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور قرآن مجید کامل کتاب ہے.تو ہم اس دن کو جس دن وہ آیت اُترتی عید کا دن مقرر کرتے.اور خوشی مناتے کہ ہماری شریعت کامل شریعت ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے خوب یاد ہے کہ کب او رکہاں یہ آیت نازل ہوئی.یہ آیت حج کے ایام میں یوم عرفہ میں جمعہ کے روز نازل ہوئی.گویا تم تو ایک دن عید مناتے لیکن ہمارے لئے یہ دو عیدیں تھیں ایک جمعہ کا دن اور دُوسرا یوم عرفہ.اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابن عباسؓ نے آیت اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ پڑھی اور پاس ہی ایک یہودی کھڑا تھا.اس نے اُن سے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو ہم اُس روز عید مناتے.حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا کہ یہ آیت نازل ہی ایسے ایام میں ہوئی جبکہ دو عیدیں جمع تھیں.(ترمذی کتاب التفسیر باب ومن سورۃ المائدۃ) خلاصہ کلام یہ کہ لَا رَیْبَ فِیْہِ میں صرف اس امر کی تاکید نہیں کی گئی کہ یہ کلام سچا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں.بلکہ رَیْب کے معنوں پر نظر کرتے ہوئے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ (۱) اس میں کسی صداقت کا انکار نہیں ہے بلکہ سب صداقتوں کا اقرار کیا گیا ہے اور مذہب کے سب ضروری امورپر سے تہمتوں اور بدگمانیوں کو دور کیا گیا ہے (۲) اس میں کوئی ظنیّ اور شکیّ بات نہیں بلکہ ہر بات دلیل سے بیان کی گئی ہے (۳) یہ کلام محفوظ اور یقینی ہے اور ہمیشہ محفوظ رہے گا (۴) اس میں کوئی ایسا امر نہیں جو انسان کے لئے تکلیف اور تباہی کا موجب ہو (۵) اس میں سب ضروری امور بیان کر دیئے گئے ہیں اور کوئی ایسا مذہبی اخلاقی تمدنی اقتصادی سیاسی وغیرہ مسئلہ نہیں جس کے بارہ میں اس میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو.هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠کے چار معنے هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠.ان الفاظ میںیہ بتایا کہ (۱) قرآن کریم میں وصالِ الٰہی کی تڑپ پیدا کرنے کے سامان موجود ہیں یعنی ہر فطرت صحیحہ کو اس کی تلاوت کے ذریعہ سے وہ ضروری دھکا لگتا ہے جس کے بغیر والہانہ اور عاشقانہ قدم ارواح اپنے معشوقِ حقیقی کی طرف نہیں اٹھا سکتیں.صرف فلسفیانہ خیالات کا پیدا ہونا انسان کے لئے کافی نہیں ہوتا کیونکہ فلسفہ صرف خیالات کو درست کرتا ہے ایک ناقابل برداشت جذبہ اس سے پیدا نہیں ہوتا مگر عمل کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ فطرتِ انسانی کو ایک ایسا دھکا لگے کہ وہ آپ ہی آپ آگے بڑھتی چلی جائے.خدمت اور ایثار پر فلسفی زبردست تقریر کر سکتا ہے ایک جاہل ماں اس کا لاکھواں حصہ بھی بیان نہیں کر سکتی لیکن اپنے بچہ کے لئے جس ایثار اور قربانی کا عملی نمونہ وہ دکھاتی ہے ایک فلسفی بنی نوع انسان کے لئے اس نمونہ کا لاکھواں حصہ بھی پیش نہیں کر سکتا.پس جب تک کوئی کتاب هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ نہ ہو یعنی جن لوگوں کے

Page 140

خیالات و افکار دلیل اور بُرہان سے پاک ہو چکے ہوں اُن کے اندر عشق اور محبت کی آگ نہ بھڑکا دے اور ایک طرف خدا تعالیٰ کی طرف محبت سے بڑھتے چلے جانے اور دوسری طرف مخلوق کی طرف شفقت سے جھکتے چلے جانے کا بے پناہ جذبہ نہ پیدا کر دے وہ دنیا کی عملی اصلاح میں کامیاب نہیں ہو سکتی.اور قرآن کریم هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کے الفاظ سے اسی مقصد کے پورا کرنے کا دعویٰ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے انسانی فطرت کو وہ ابتدائی دھکا لگتا ہے جو اُسے عشق کی ر اہ پر گامزن کر دیتا ہے.قرآن مجید میں وصال الٰہی کی تڑپ پیدا کرنے کے سامان دوسرے معنے ہدایت کے اس ارشاد کے ہوتے ہیں جو نبیو ںکے ذریعہ سے انسانوں کو پہنچایا جاتا ہے.ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جو لوگ اس امر کے شائق ہیں کہ اُن کو اُن کے خالق ومالک کی طرف سے ہدایت ملتی رہے ان کی خواہش کے پورا کرنے کے بھی اس میں سامان موجود ہیں اور خواہ کسی درجہ کا متقی ہو اس کی راہنمائی کے لئے اس کتاب میں پاک اور مصفّٰی الٰہی تعلیم موجود ہے جس سے متقی کے دل کو یہ تسکین حاصل ہوتی ہے کہ وہ صرف اپنی عقل سے کام نہیں لے رہا بلکہ اُسے خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی ہدایت حاصل ہے جس کی مدد سے وہ ہر قدم یقین اور اطمینان سے اُٹھا سکتا ہے اور شک و شبہ کی زندگی سے پاک ہو جاتا ہے.قرآن مجید کے ایک حکم پر عمل کرنے سے مزید نیکیوں کی توفیق ملتی ہے تیسرے معنے ہدایت کے جیسا کہحلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے عمل کی مزید توفیق اور فکر کی بلندی کے ہیں.ان معنوں کے رو سے اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم میں ایسی قوت ہے کہ جب اس کے کسی حکم پر انسان عمل کرے تو اسے مزید نیکیو ںکی توفیق ملتی ہے اور اس کے خیالات میں جلا پیدا ہوتی ہے اور اس کا فکر اور اس کا حوصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے اور باریک در باریک تقویٰ کی راہیں اس پر کھولی جاتی ہیں گویا وہ ایک لامتناہی نیکی اور تقویٰ کی نہ ختم ہونے والی راہوں پر چل پڑتا ہے اور اس کی ترقیات کی کوئی انتہا مقرر نہیں کی جا سکتی.دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ الَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّ اٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ(محمّد:۱۸) یعنی جو لوگ ہدایت پا جائیں انہیں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ سے ہدایت میں اور بھی بڑھاتا ہے اور ان کے مناسب حال تقویٰ انہیں عطا کرتا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ہدایت اور تقویٰ کسی ایک مقام کا نام نہیں ہیں بلکہ ہدایت کے بھی مختلف مقامات ہیں اور تقویٰ کے بھی مختلف مقامات ہیں.قرآن کریم ہدایت یا فتو ںکو ان کے مقام سے اوپر کے مقام ِہدایت کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور پھر اس مقام کے مناسب ِحال تقویٰ کا مقام اس شخص کو دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ لامتناہی ترقیات کی طرف

Page 141

بڑھتا چلا جاتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.وَ الَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت:۷۰) یعنی جو لوگ ہماری محبت اور ہمارے وصال کے حصول کے لئے ہمارے بتائے ہوئے قواعد کے مطابق (اس پر فِیْنَاکے الفاظ دلالت کرتے ہیں اور ان سے ایک مراد قرآن کریم ہے) جدوجہد کرتے ہیں انہیں ہم یکے بعد دیگرے ان راستوں کا پتہ بتاتے چلے جاتے ہیں جو ہم تک پہنچنے والے ہیں.اس آیت میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف ہدایت کے راستے محدود نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا راستہ ہے.اسی طرح فرماتا ہے نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَ بِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَ اغْفِرْ لَنَا١ۚ اِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (التحریم:۹) یہ آیت مابعد الموت زندگی کے متعلق ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کو جب آنحضرت صلعم اور مومن جنت کی طرف جائیں گے تو ان کے ایمان و عمل کے نتیجہ میں پیدا شدہ نور ان کے آگے ہو گااور وہ یہ کہتے جائیں گے کہ اے ہمارے رب! ہمارے نور کو مکمل کر دے او رہماری کمزوریوں کو ڈھانپ دے تو ہر شے پر قادر ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت صرف اِسی دنیا میں نہیں بڑھتی بلکہ بعد الموت بھی ہدایت اور عرفان میں انسان ترقی کرے گا اور نئی طاقتیں اُسے ملتی جائیں گی.خلاصہ یہ کہ ہدایت کے لفظ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری آیاتِ قرآنیہ اس کی موید ہیںکہ روحانی ترقیات غیر محدود ہیں اور قرآن کریم متقیوں کو ان اعلیٰ ترقیات کی طرف بڑھاتا لئے جاتا ہے.قرآن مجید پر عمل کرنے سے انسان منزلِ مقصود کو پا لیتا ہے چوتھے معنے ہدایت کے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے قرآن کریم سے یہ ثابت ہیں کہ انجام بخیر اور جنت حاصل ہو جاتی ہے.ان معنوں کے رُو سے اس جملہ کے معنے ہوتے ہیں کہ قرآن کریم میںایسی تعلیم ہے کہ جس کی امداد سے خدا ترس انسان اپنی منزلِ مقصود یعنی جنت کو حاصل کر لیتا ہے.یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دعویٰ سب مذاہب ہی کرتے ہیں اور بظاہر اس مضمون میں کوئی جدت یا افضلیت نہیں پائی جاتی.لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں جنت کے حصول کے کیا معنے ہیں؟ تو پھر یہ دعویٰ بالکل جدید اور نرالا ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ جنت کے حصول کے یہ معنے نہیں کہ انسان مرنے کے بعد جنت میں داخل ہو جائے بلکہ مرنے کے بعد کی جنت کا حصول اس دنیا میں جنت کے حصول سے وابستہ ہے جسے اس دنیا میں جنت مل جائے صرف اسی کو بعد الموت جنت ملے گی.چنانچہ فرماتا ہے وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:۷۳) یعنی جو شخص تقویٰ کے سچے مقام پر ہوتا ہے اُسے دو جنتیں ملتی ہیں.ایک اس دنیا میں اور ایک

Page 142

اگلے جہان میں.اور ایک دوسری جگہ فرماتا ہے وَ مَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖۤ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى ( بنی اسرائیل :۷۳) یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا ہو یعنی اُسے دیدارِ الٰہی نصیب نہ ہو وہ اگلے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا اور دیدارالٰہی یا دوسرے الفاظ میںجنت سے محروم رہے گا.قرآن مجید کی تعلیم پر عمل کرنے سے جنت مل جانے کا مطلب قرآن کریم کی اس تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے جنت کے ملنے کے معنے صرف یہ نہیں کہ مرنے کے بعد قرآن کریم کا مومن جنت حاصل کرے گا کیونکہ یہ صرف ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں.بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے والا اور اس کی روشنی سے فائدہ اٹھانے والا شخص اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہو جاتا ہے اور ایمان بالغیب اس کے لئے ایمان بالمعاینہ ہو جاتا ہے.وہ صرف عقیدۃً اس امر کو نہیں مانتا کہ اسے مرنے کے بعد جنت مل جائے گی بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ اپنی صفات کو اس کے لئے ظاہر کرتا ہے اور اپنے وجود کو اس کے سامنے لے آتا ہے یہاں تک کہ وہ موت سے پہلے ہی اپنے آپ کو جنت میں محسوس کرنے لگتا ہے اور جسمانی موت صرف اُس کے مشاہدہ کو زیادہ روشن کرنے کا موجب ہوتی ہے ورنہ مشاہدہ اور دیدارِ الٰہی اُسے اسی دنیا میں میسر آ جاتا ہے.ظاہر ہے کہ یہ ایسا مقام ہے جس کے بعد کوئی بے چینی اور شک باقی نہیں رہتا اور ایسا انسان ہر ٹھوکر اور ابتلاء سے محفوظ ہو جاتا ہے اور گویا اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کی گودمیں جا بیٹھتا ہے.پس قرآن کا مومنوں کو قرآن کریم کے ذریعہ سے جنت ملنے کا دعویٰ کرنا محض ایک بے دلیل دعویٰ نہیں بلکہ وہ اسے ایک ایسی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا جھوٹ اور سچ اسی دنیا میں آزمایا جا سکتا ہے.اور اسلام کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ہر زمانہ میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہے ہیں جو اس دعویٰ کے لئے دلیل کے طور پر تھے اور جن کو اللہ تعالیٰ کا وصال اور دیدار کامل طو رپر اسی دنیا میں حاصل ہو گیا اور اسی دنیا میں جنت میں داخل ہو گئے.یعنی ہر قسم کے شیطانی حملوں سے محفوظ ہو گئے اور ہر قسم کی روحانی نعمتوں سے متمتع ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے تازہ بتازہ کلام کو انہو ںنے سُنا اور اس سے بالمشافہ انہوںنے باتیں کیں اور اس کے زندہ نشانوں کو انہو ںنے اپنی ذات میں دیکھا اور دوسروں کے وجودوں میں انہیں دکھایا.آیت هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ پر ایک اعتراض کا جواب بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے تو معلوم ہوا کہ متقی پیدا کرنے کےلئے اور کسی کلام یا کتاب کی ضرورت ہے.سو یاد رہے کہ یہ اعتراض محض قلت تدبر سے پیدا ہوا ہے کیونکہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرنے کا بھی مدعی ہے.چنانچہ

Page 143

فرماتا ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِینَتَہٗ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ وَعَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَالتَّقْویٰ وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَہَا (الفتح :۲۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اور اپنی کتاب پر ایمان لانے والوں پر سکینت اور اطمینان نازل کیا اور اُن سے تقویٰ کی حقیقت کو وابستہ کر دیا اور مومن بالقرآن ہی حقیقت تقویٰ کے مستحق اور اس کے اہل ہیں.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے ذریعہ سے اور اس پر ایمان لا کر انسان کو کامل تقویٰ میسر آتا ہے بلکہ ایسا تقویٰ میسر آتا ہے جو دائمی ہوتا ہے.بلکہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقویٰ کے اہل اور اس کے ساتھ حقیقی تعلق رکھنے والے صرف مومنین قرآن ہیں.اس آیت کی موجودگی میں یہ اعتراض کرنا کہ گویا قرآن کریم صرف متقیوں کو ہدایت دینے کا دعویٰ دار ہے تقویٰ پیدا کرنے کا دعویٰ نہیں کرتا بالبداہت باطل ہے.اس کے برخلاف قرآن کریم تو اس امر کا مدعی ہے کہ حقیقی تقویٰ صرف قرآن کریم پر ایمان لانے سے پیدا ہو سکتا ہے.قرآن کریم میں سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے اس آیت کے علاوہ قرآن کریم کی اور بہت سی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کریم صرف متقیوں کے لیے ہدایت نہیں بلکہ سب بنی نوع انسان کے لئے ہدایت ہے خواہ وہ روحانی زندگی میں اعلیٰ مقام پر ہوں یا ادنیٰ پر.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هٰذَا بَيَانٌ لِّلنَّاسِ وَ هُدًى (آل عمران:۱۳۹) یہ قرآن تمام انسانوں کے لئے ضروری امور بیان کرتا ہے اور انہیں ہدایت دیتا ہے.یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآنی ہدایت صرف متقیوںکےلئے نہیں بلکہ تمام انسانوں کے لئے ہے.اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَيِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى (البقرة :۱۸۶) یعنی قرآن کریم سب انسانوں کے لئے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی تمام اقسام بیان کی گئی ہیں.اسی طرح فرماتا ہے.وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ (الکھف :۵۵) یعنی اس قرآن میں تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے خواہ متقی ہو ںیا غیر متقی ہربات اعلیٰ سے اعلیٰ پیرایہ میں بیان کر دی گئی ہے یعنی ہر انسان کی حالت کے مطابق اس میں ایسی تعلیم ہے جو اسے اوپر کے درجہ کی طرف لے جاتی ہے اور اس کی روحانی ضرورتوں کو پورا کرتی ہے.اسی طرح فرماتا ہے وَ لَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ (الروم:۵۹) اس آیت کے بھی قریباً وہی معنے ہیں جو اوپر کی آیت کے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں صَرَّفْنَا کہا گیا تھا یہاں ضَرَبْنَا کہا گیا ہے.اور صَرَّفْنَا میں اس امر پر زور ہے کہ مختلف پیرایوں سے اس ہدایت کو بیان کیا ہے.اور ضَـرَبْنَامیں اس امر پر زور ہے کہ فطرت کی صحیح مثالوں اور واضح نمونوں کے مقابل پر رکھ رکھ کر ہدایت کو بیان کیا گیا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.

Page 144

وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لِيَذَّكَّرُوْا (بنی اسرائیل:۴۲) یعنی قرآن کریم میں تمام ضروری امور ہدایت مختلف پیرایوں میں بیان کئے گئے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں اور فائدہ اٹھائیں.اس جگہ بھی متقیوں یا مومنوں کے لئے ہدایت کو مخصوص نہیں کیا گیا بلکہ تمام انسانوں کے لئے اسے پیش کیاگیا.قرآن کریم کی متعدد آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی راہیں بھی قرآن کریم نے تمام انسانوں کے لئے بیان کی ہیں چنانچہ فرماتا ہے.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرة:۲۲) یعنی اے انسانو! (نہ کہ مومنو یا مسلمانو) اپنے اس رب کی جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا ہے عبادت کرو تاکہ تم متقی بنو.اسی طرح فرماتا ہے.وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ قُرْاٰنًا عَرَبِيًّا وَّ صَرَّفْنَا فِيْهِ مِنَ الْوَعِيْدِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُوْنَ (طٰہٰ :۱۱۴) یعنی قرآن کریم کو ہم نے عربی زبان میں اُتارا ہے اور اس میں تمام عذاب کی خبریں بھی بیان کی گئی ہیں تاکہ جو مومن نہیں وہ بھی متقی ہو جائیں.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کریم کافروں کو بھی متقی بناتا ہے.اب رہا یہ سوال کہ پھر اس جگہ یہ کیوں فرمایا کہ قرآن کریم متقیوں کے لئے ہدایت ہے یہ کیوں نہ فرمایا کہ قرآن کریم تقویٰ پیدا کرتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کی افضلیت کا ذکر ہے یعنی یہ بیان ہے کہ دوسری کتب کی موجودگی میں اس کتاب کی کیا ضرورت ہے.پس اس مضمون کے لحاظ سے ان اعلیٰ مقامات کے حصول کا ذکر ہی مناسب اور درست تھا جن میں قرآن کریم منفرد ہے او رجس میں اس کا مقابلہ کرنے کا دوسرے مذاہب کو دعویٰ تک بھی نہیں.اس جواب کے علاوہ اس اعتراض کا ایک اور بھی جواب ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم میں تقویٰ کی ایک اور بھی تعریف بیان کی گئی ہے اور اس تعریف کے رُو سے تقویٰ کا تعلق انسانی فطرت سے ہے نہ کہ مذہب سے.چنانچہ سورہ شمس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا(الشّمس:۹).ہر انسان کو اس کی پیدائش کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک امتیازی قابلیت بخشی ہے جس کے ذریعہ سے وہ بُرے اور بھلے میں تمیز کرتا ہے.یہ قابلیت مسلمان یا غیر مسلمان کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی بلکہ ہر انسان میں پیدا کی گئی ہے.پس اس تعریف کے مطابق تقویٰ کے معنے فطرت کی حفاظت کے ہیں نہ کسی خاص مذہب یا عقیدہ کے.اور یہ ظاہر ہے کہ ہدایت وہی لوگ پا سکتے ہیں جو فطرت کو گندے اثرات سے پاک رکھتے ہیں ورنہ جو لوگ فطرت کو پاک رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور صداقت کے ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ ہدایت نہیں پا سکتے ان کو ہدایت تبھی مل سکتی ہے جب جبر سے کام لیا جائے.اور

Page 145

قرآن کریم جبر کے خلاف ہے.خلاصہ یہ کہ اوپر کی تعریف کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ جو لوگ صداقت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں قرآن کریم ان کو ہدایت دیتا ہے اور اعلیٰ مدارج تک پہنچاتا ہے.او رجو لوگ ہدایت کو ماننے کےلئے تیار ہی نہ ہوں وہ گویا اپنی ہلاکت کا خود ہی فیصلہ کر دیتے ہیں اور انہیں ہدایت جبر ہی سے دی جا سکتی ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ جبر سے جو ہدایت ملے اس کا فائدہ جبر کرنے والے کو حاصل ہو سکتا ہے اسے نہیں ہو سکتا جسے ہدایت دی جائے.جیسے مثلاً کسی سے زبردستی مال چھین کر صدقہ کر دیا جائے تو اس صدقہ کا کوئی فائدہ اُسے نہیں مل سکتا جو صدقہ کا قائل ہی نہیں اور صدقہ دینا ہی نہیں چاہتا.دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن مجید کی ضرورت خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت میں دوسری کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کی ضرورت کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ غیر الہامی کتب کی موجودگی میں تو اس کی یہ ضرورت ہے کہ بغیر آسمانی ہدایت کے انسان ہدایت پا ہی نہیں سکتا.اس لئے آسمانی ہدایت کی ضرورت تھی جسے قرآن کریم نے پورا کیا ہے اور الہامی کتب کی موجودگی میں اس کی یہ ضرورت ہے کہ (۱) اس سے پہلے سب ہدایت نامے نامکمل تھے یہ مکمل ہے (۲) ان میں خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں اور یہ سب خرابیوں سے محفوظ ہے (۳) وہ سب ہدایت نامے ایک ایک قوم اور مذہب کے لئے تھے اور یہ ہدایت نامہ سب قوموں کے لئے ہے اور سب قوموں کے بزرگوں کی عزت قائم کرنے اور سب ضائع شدہ ہدایتو ںکو زندہ کرنے کے لئے آیا ہے (۴) ان کتب میں بوجہ اندرونی بیرونی نقائص کے وصال الٰہی پیدا کرنےکی خاصیت باقی نہ رہی تھی اب اس کے ذریعہ سے پھر انسان کو وصالِ الٰہی حاصل کرنے او رکلام الٰہی سے مشرف ہونے کا موقعہ دیا جائے گا وغیرہا وغیرہا.اس چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان ہونا قرآن کریم کا ایک عظیم الشان معجزہ ہے جس کی مثال پیش کرنے سے دوسری کتب قاصر ہیں.ہر شے کی تکمیل کے لئےچار علل کی تکمیل اور ان کا بیان قرآن مجید میں مذکورہ بالا مضمون بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے بتائے ہوئے مطالب کی روشنی اور ہدایت میں لکھے گئے ہیں.لیکن بطور مثال میں اُن بے شمار مطالب سے جو اُن کی کتب میں پائے جاتے ہیں ایک نکتہ براہِ راست بھی ان کی طرف سے اس جگہ بیان کر دیتا ہوں.تا معلوم ہو کہ کس طرح انہوںنے اس آیت کے عمیق سمندر میں سے روحانیت کے موتی نکالے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ ہر شے کی تکمیل کے لئے چار علل کی تکمیل ضروری ہوتی ہے یعنی (۱) اس کے بنانے والا کامل ہو (۲) وہ

Page 146

جس مادہ سے بنائی جائے وہ اعلیٰ ہو (۳) اس کی شکل و صورت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو (۴) جو نتیجہ اس سے پیدا ہو وہ بھی اعلیٰ درجہ کا ہو.گویا علت ِ فاعلی‘ علت ِ مادی‘ علت ِ صوری اور علت ِ غائی.ان چار ِعلتوں کے کمال سے کوئی چیز مکمل ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ نے ابتدائے قرآن میں ہی اس کے حق میں چاروں علتوں کے مکمل ہونے کا دعویٰ کیا ہے.الم جس کے معنے ہیں کہ میں اللہ سب سے زیادہ جانتا ہوں علت ِ فاعلی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے کہ اس کا بنانے والا علم میں کامل ہے اور سب سے افضل ہے.پس ایسی علیم ہستی جس کتاب کو بنائے گی یقینا وہ ان تمام کتب سے افضل ہو گی جو ادنیٰ علم والی ہستیوں کی طرف سے تیار کی جائیں گی.ذٰلِكَ الْكِتٰبُ یعنی یہی کامل کتاب ہے قرآن کریم کی علتِ مادی کے مکمل ہونے پر دلالت کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمام اعلیٰ اور ضروری مطالب اس کتاب میں موجود ہیں.پس اس کا مادہ بھی دوسری کتب کے مادہ سے اعلیٰ اور مکمل ہے.لَا رَیْبَ فِیْہِ کہہ کر یہ بتایا کہ قرآن کریم اپنی بے مثل فصیح زبان اور غیر معمولی حفاظت کی وجہ سے اپنی ظاہری شکل میں بھی نہایت اعلیٰ درجہ کا اور محفوظ کلام ہے.پس اس کی علت صوری بھی تمام دوسری کتب سے مکمل اور اعلیٰ ہے.پھر هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠کہہ کر بتایا کہ دوسری کتب تو صرف متقی کے درجہ تک پہنچاتی ہیں مگر یہ کتاب متقیوں کو بلند مقامات پر لے جا کر اللہ تعالیٰ سے مکالمہ مخاطبہ کا شرف دلواتی ہے اور اس سے کامل اتحاد پیدا کر دیتی ہے پس اس کی علت غائی بھی دوسری کتب سے افضل اور اکمل ہے.یہ خلاصہ ہے بانی سلسلہ احمدیہ کی ایک تحریر کا اور جو صاحبِ بصیرت اس پر غور کرے گا وہ ان سب مطالب کو جو اوپر بیان ہوئے ہیں بلکہ ان کے علاوہ اور مطالب بھی اس لطیف تفسیر میں مخفی پائے گا.الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا (ان متقیوں کو) جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم رکھتے ہیں اور جو (کچھ) رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَۙ۰۰۴ ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.حَلّ لُغَات.یُؤْمِنُوْنَ.یُؤْمِنُوْنَ.اٰمَنَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اٰمَنَـہٗ اِیْمَانًا کے معنی ہیںاَمَّنَہٗ: اس کو امن دیا اور جب اس کا صلہ حرف باء ہو یعنی اٰمَنَ بِہٖ کہیں تو معنے ہوںگے صَدَّقَہٗ وَوَثَّقَ بِہٖ.اس کی تصدیق کی اور اس پر اعتماد کیا اور جب اٰمَنَ کے بعد لام صلہ ہو یعنی اٰمَنَ لَـہٗ کہیں تو اس کے معنے ہوںگے

Page 147

خَضَعَ وَ انْقَادَ یعنی فرمانبرداری اختیار کی.مطیع ہو گیا اور کہنا مان لیا (اقرب) اَلْاِیْمَانْ.اَلتَّصْدِیْقُ.ایمان جو اٰمَنَ کا مصدر ہے اس کے معنے تصدیق کرنے کے ہیں.(اقرب) تاج العروس میں ہے.اَ لْاِیْمَانُ یَتَعَدَّی بِنَفْسِہٖ کَصَدَّقَ وَبِاللَّامِ بِـاِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِذْعَانِ وَبِـالْبَائِ بِـاِعْتبَارِ مَعْنَی الْاِعْتِرَافِ اِشَارَۃٌ اِلٰی اَنَّ التَّصْدِیْقَ لَایُعْتَبرُ بِدُوْنِ اِعْتِرَافٍ.کہ لفظ ایمان کبھی بغیر صلہ کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی اس کا صلہ لام آتا ہے اور اس میں اذعان یعنی فرمانبرداری کے معنے ملحوظ ہوتے ہیں.اور جب باء کے صلہ کے ساتھ استعمال ہو تو اس وقت اس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے تصدیق کے ہیں اور تصدیق کے ساتھ اعتراف بھی ہوتا ہے اس لئے اس کو اعتراف کے معنے میں استعمال کر لیتے ہیں.پس یُؤْمِنُوْنَ کے تین معنے ہوں گے.(۱) تصدیق کرتے ہیں (۲) اعتراف کرتے ہیں (۳) پختہ یقین اور اعتماد رکھتے ہیں.اَلْغَیْبُ.اَلْغَیْبُ.غَابَ (یَغِیْبُ) کا مصدر ہے.کہتے ہیں غَا بَتِ الشَّمْسُ وَغَیْرُھَا: اِذَا اسْتَتَرَتْ مِنَ الْعَیْنِ یعنی غَابَ کا لفظ سورج اور دیگر اشیاء کے لئے اس وقت بولتے ہیں جبکہ سورج اور دوسری چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہو جائیں وَاسْتُعْمِلَ فِیْ کُلِّ غَائِبٍ عَنِ الْحَاسَّۃِ وَعَمَّا یَغِیْبُ عَنْ عِلْمِ الْاِنْسَانِ بِمَعْنَی الْغَائِبِ.جس کا علم حو اسِ ظاہری سے حاصل نہ ہو سکے یا جس کا علم انسان کو نہ ہو اُسے غائب کہتے ہیں.وَالْغَیْبُ فِیْ قَوْلِہٖ: ’’ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ‘‘.مَالَایَقَعُ تَحْتَ الْحَوَاسِّ وَلَا تَقْتَضِیْہِ بَدَایَۃُ الْعُقُوْلِ.اور آیت یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب سے مراد ہر وہ چیز ہے جو حواس ظاہری سے معلوم نہ کی جاسکے اور سرسری نظر میں انسانی عقلیں اس تک نہ پہنچ سکیں (مفردات) لسان میں ہے وَقَوْلُہٗ تَعَالٰی یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ اَیْ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا غَابَ عَنْھُمْکہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ میں غیب کے یہ معنے ہیں کہ جو باتیںاُن کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں اُن پر ایمان لاتے ہیں.وَالْغَیْبُ مَاغَابَ عَنِ الْعُیُوْنِ وَ اِنْ کَانَ مُحَصَّلًا فِی الْقُلُوْبِ اَوْغَیْرَ مُحَصَّلٍ اور غیب کا لفظ ہر اُس امر پر بولا جاتا ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو خواہ وہ ایسا امر ہو کہ دماغی طو رپر اس کا علم حاصل ہو یا ایسا ہو کہ عقلاً بھی اس کا علم حاصل ہو کُلُّ مَکَانٍ لَایُدْرٰی مَافِیْہِ فَھُوَ غَیْبٌ.ہر وہ جگہ جس کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اس کے اند رکیا ہے؟ اس کو غیب کہتے ہیں.وَکَذَالِکَ الْمَوْضِعُ الَّذِیْ لَا یُدْرٰی مَا وَرَائَ ہٗ.اور اسی طرح اس جگہ پر بھی غیب کا لفظ بولتے ہیں جس کے پیچھے کی اشیاء کا علم نہ ہو.نیز کہتے ہیں.غَابَ الرَّجُلُ غَیْبًا اَیْ سَافَرَ اَوْ بَانَ.کہ فلاں شخص نے سفر کیا یا کسی سے جدا ہو گیا.پس غیب ہر وہ امر ہے جو آنکھوں سے پوشیدہ ہو نہ یہ کہ وہ موہوم اور بے ثبوت ہو.پس یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے معنے ہوں گے (۱)ہر وہ چیز (امر) جو ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتی اور ظاہری حواس

Page 148

اُسے پانے سے قاصر ہیں لیکن وہ موجود ہے اور ایمانیات میں داخل ہے اس کے حق ہونے پر پختہ یقین رکھتے ہیں اور اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اس کی تصدیق کرتے ہیں (۲) اس زندگی کے بعد کے پیش آنےوالے حالات پر پختہ یقین رکھتے ہیں (۳) نیز اس کے یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ غیبوبتکی حالت میں یعنی علیحدگی میں بھی ایمان رکھتے ہیں اور ان میں منافقوں کی طرح دورنگی نہیں پائی جاتی.یُقِیْمُوْنَ.یُقِیْمُوْنَ.اَقَامَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور قَامَ سے جو اس کا مجرد ہے بنا ہے.قِیَامٌ (کھڑا ہونا) کا لفظ جُلُوْسٌ(بیٹھ جانے) کا نقیض ہے.کہتے ہیں.قَامَ الْاَمْرُ.اِعْتَدَلَ معاملہ درست ہو گیا.قَامَ عَلَی الْاَمْرِ.دَامَ وَ ثَبَتَ.یعنی کسی چیز پر دوام و ثبات اختیار کیا.قَامَ الْحَقُّ ظَہَرَ وَ ثَبَتَ حق ظاہر اور ثابت ہو گیا.اور اَقَامَ السُّوْقُ کے معنے ہیں نَفَقَتْ بازار بارونق ہو گیا.اور اَقَامَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہیں اَدَامَ فِعْلَہَا نما زپر دوام اختیار کیا.اَقَامَ لِلصَّلٰوۃِ کے معنے ہیں نَادٰی لَہَا نماز کے لئے تکبیر کہی.اَقَامَ اللّٰہُ السُّوْقَ.جَعَلَہَا نَافِقَۃً اللہ تعالیٰ نے برکت دی اور بازار کو بارونق بنا دیا (اقرب) مفردات میں ہے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ اَیْ یُدِیْمُوْنَ فِعْلَہَا وَیُحَافِظُوْنَ عَلَیْہَا.نماز کو اس کی شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس پر دوام اختیار کرتے ہیں.نیز لکھا ہے اِنَّمَا خُصَّ لَفْظُ الْاِقَامَۃِ تَنْبِیْھًا اَنَّ الْمَقْصُوْدَ مِنْ فِعْلِہَا تَوْفِیَۃُ حُقُوْقِہَا وَ شَرَائِطِہَا.کہ صَلٰوۃ کے ذکر کے ساتھ اقامت کا لفظ اس لئے لایا گیا ہے تاکہ اس طرف توجہ مبذول کرائی جائے کہ نماز کے حقوق اور شرائط کو پوری طرح ادا کیا جائے نہ کہ صرف ظاہری صورت میں اس کو ادا کر دیا جائے.لسان میں اَلْقِیَامُ کے معنے اَلْعَزْمُ کے بھی لکھے ہیں یعنی کسی چیز کا پختہ ارادہ کر لینا.اَلصَّلٰوۃُ.اَلصَّلٰوۃُ.صَلَّی سے مشتق ہے اور اس کا وزن فَعْلَۃٌ ہے.الف وائو سے منقلب ہے.صَلَّی (یُصَلِّیْ) کے معنے دعا کرنے کے ہیں اور اَلصَّلٰوۃُ کے اصطلاحی معنے عِبَادَۃٌ فِیْہَا رُکُوْعٌ وَسُجُوْدٌ کے ہیں یعنی اس مخصوص طریق سے دعا کرنا جس میں رکوع و سجود ہوتے ہیں جس کو ہماری زبان میں نماز کہتے ہیں.اس کے علاوہ اس کے اور بھی کئی معانی ہیں جو بے تعلق نہیں بلکہ سب ایک ہی حقیقت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں.چنانچہ اس کے دوسرے معنے مندرجہ ذیل ہیں اَلرَّحْمَۃُ.رحمت.اَلدِّیْنُ.شریعت.اَ لْاِسْتِغْفَارُ.بخشش مانگنا.اَلدُّعَائُ دعا (اقرب) اَلتَّعْظِیْمُ.بڑائی کا اظہار.اَلْبَرَکَۃُ.برکت (تاج) وَالصَّلٰوۃُ مِنَ اللّٰہِ ، اَلرَّحْمَۃُ وَمِنَ الْمَلَآ ئِکَۃِ اَلْاِسْتِغْفَارُ وَمِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ، اَلدُّعَائُ.وَمِنَ الطَّیْرِ وَالْھَوَامِّ، اَلتَّسْبِیْحُ.اور صَلٰوۃ کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے رحم کرنے کے ہوتے ہیں.اور جب ملائکہ کےلئے استعمال ہو تو اس وقت اس کے

Page 149

معنے استغفار کے ہوتے ہیں اور جب مومنوں کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے دعا یا نماز کے ہوتے ہیں اور جب پرند اور حشرات کےلئے یہ لفظ استعمال ہو تو اس کے معنے تسبیح کرنے کے ہوتے ہیں.وَھِیَ لَا تَکُوْنُ اِلَّا فِی الْخَیْرِ بِخَـلَافِ الدُّعَائِ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ فِی الْخَیْرِ وَالشَّرِّ.اور لفظ صلٰوۃ صرف نیک دعا کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن لفظ دعا، بد دعا اور نیک دعا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے.لفظ صلٰوۃ کے ایک معنے حُسْنُ الثَّنَائِ مِنَ اللّٰہِ عَلَی الرَّسُوْلِ کے بھی ہیں یعنی جب صَلَّیفعل کا فاعل اللہ تعالیٰ ہو اور مفعول آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہو تو اس وقت اس کے معنے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم کی بہترین تعریف کے ہوتے ہیں.(اقرب) وَیُسَمَّی مَوْضِعُ الْعِبَادَۃِ الصَّلٰوۃَ اور عبادت گاہ کو بھی اَلصَّلٰوۃ کہہ دیتے ہیں (مفردات) پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے (۱) نماز کو باجماعت ادا کرتے ہیں (۲) نماز کو اس کی شرائط کے مطابق اور اس کے اوقات میں صحیح طو رپر ادا کرتے ہیں (۳) لوگوں کو نماز کی تلقین کر کے مساجد کو بارونق بناتے ہیں (۴) نماز کی محبت اور خواہش لوگوں کے دلوںمیں پیدا کرتے ہیں (۵) نماز پر دوام اختیا کرتے ہیں اور اس پر پابندی اختیار کرتے ہیں (۶) نماز کو قائم رکھتے ہیں یعنی گرنے سے بچاتے رہتے اور اس کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں.رَزَقْنَا.رَزَقْنَا.رَزَقَ سے متکلّم مع الغیر کا صیغہ ہے اور اَلرِّزْقُ (جو رَزَقَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں.اَلْعَطَائُ.عطا کرنا.دینا.جیسے کہتے ہیں رُزِقْتُ عِلْمًا کہ مجھے علم دیا گیا ہے.اور اس کے ایک معنی حصہ کے بھی ہیں جیسے وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ(الواقعۃ:۸۳) کہ تم نے اپنے ذمہ یہ کام لگا لیا ہے کہ رسول اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے ہو (مفردات) اقرب الموارد میں ہے.اَلرِّزْقُ.مَایُنْتَفَعُ بِہٖ ہر وہ چیز جس سے نفع اُٹھایا جائے.اور رَزَقَہُ اللّٰہُ (یَرْزُقُ) رِزْقًا کے معنے ہیں اَوْصَلَ اِلَیْہِ رِزْقًا کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسی اشیاء عطا فرمائیں جن سے فائدہ اٹھایا جا سکے.رزق اس چیز کو بھی کہتے ہیں جو غذا کے طور پر استعمال کی جائے (مفردات) یُنْفِقُوْنَ.یُنْفِقُوْنَ.اَنْفَقَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَنْفَقَ مَالَـہٗ کے معنے ہیں صَرَفَہٗ وَ اَنْفَدَہٗ.مال کو خرچ کرتا رہا اور اس کو ختم کر دیا.اِنْفَاق کے اصل معنے کسی چیز کو مقبول اور ہاتھوں ہاتھ ِبک جانے والا بنا دینے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَنْفَقَ التَّاجِرُ.نَفَقَتْ تِجَارَتُـہٗ کہ تاجر کی تجارت خوب چل پڑی اور سامان تجارت مقبول ہو کر فروخت ہونے لگا.اور اَنْفَقَ السِّلْعَۃَ کے معنے ہیں رَوَّجَہَا.سامان کو ایسا بنا دیا کہ ہاتھوں ہاتھ ِبِکجائے.چنانچہ جب کسی سامان تجارت کے گاہک زیادہ ہوں یا کسی عورت کی شادی کے خواہشمند زیادہ تعداد میں ہوں تو نَفَقَکا لفظ استعمال کرتے ہیں اور کہتے ہیں نَفَقَتِ الْمَرأْۃُ وَالسِّلْعَۃُ اَیْ کَثُرَ طُلَّا بُہَا وَخُطَّا بُہَا یعنی

Page 150

اس عورت یا مال کے بہت سے خواہش کرنے والے یا طالب پیدا ہو گئے ہیں اور اَلنَّافِقُ اس مال کو کہتے ہیں جو بازار میں جاتے ہی ِبکجائے (اقرب) پس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے نکالنے اور جاری کرنے اور مسلسل طو رپر مال کو خرچ کرنے کے ہیں.تفسیر.جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے ایمان کے معنے یقین رکھنے اور فرمانبرداری کرنے کے ہوتے ہیں.جس کو یقین نہ ہو وہ مومن نہیں کہلا سکتا بلکہ منافق کہلاتا ہے.جیسا کہ سورۃ البقرۃ ع ۲ آیت نمبر۹ میں فرمایا وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جو مُنہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لائے ہیں حالانکہ وہ دل سے اس امر کو نہیں مانتے.اسی طرح قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جن میں یقین ہو اور اطاعت نہ ہو وہ بھی مومن نہیں بلکہ کافر کہلاتے ہیں.جیسا کہ سورۃ النمل ع۱ آیت ۱۵ میں فرمایا وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا.یعنی وہ اس کا انکار ظلم اور دشمنی سے کرتے ہیں حالانکہ اُن کے دل اس پر یقین رکھتے ہیں.يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ کے معنے اندھا دھند مان لینے کے نہیں یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے ہر گز نہیں کہ اندھا دُھند مان لیتے ہیں.یہ معنے نہ زبان عرب کے رُو سے درست ہیں اور نہ قرآن کریم ہی ان معنوں کی تصدیق کرتا ہے.کیونکہ بے دلیل ماننے والوں کو قرآن نے بار بار الزام دیا ہے.جیسے کہ سورۃ النجم ع۱ آیت ۲۴ میں فرمایا.اِنْ هِيَ اِلَّاۤ اَسْمَآءٌ سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنْ يَّتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ مَا تَهْوَى الْاَنْفُسُ.یعنی یہ تو چند نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ دادوں نے خود ہی رکھ دیئے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی کوئی دلیل بیان نہیں کی.یہ لوگ صرف اپنے وہموں کی یا اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کر رہے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم دشمنانِ اسلام پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ بے دلیل باتوں کو جن کے لئے نہ آسمانی دلیل ہوتی ہے نہ عقلی، مانتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں اور وہمی باتوں کے پیچھے چلتے ہیں.پس جبکہ اللہ تعالیٰ وہمی باتوں کے ماننے کو قابل اعتراض قرار دیتا ہے تو یہ کس طرح ممکن ہے کہ قرآن کریم کی ابتدا ہی میں وہ مسلمانوں کو بے دلیل باتوں کے ماننے کا حکم دے اور اس امر کو تقویٰ کا جز قرار دے.قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس امر پر زور دیا گیا ہے کہ ایمان دلائل اور براہین پر مبنی ہونا چاہیے نہ کہ وہم اور گمان پر.چنانچہ سورۃ احقاف ع ۱میں فرماتا ہے.قُلْ اَرَءَيْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ١ؕ اِيْتُوْنِيْ بِكِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَاۤ اَوْ اَثٰرَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (الاحقاف:۵).

Page 151

یعنی مجھے بتائو تو سہی کہ خدا کے سوا جن وجودوں کو تم پکارتے ہو کیا ان میں کوئی حقیقت بھی ہے؟ اگر ہے تو مجھے ذرابتائو تو کہ انہوں نے زمین میں سے کس چیز کو پیدا کیا ہے؟ یا یہ تو ثابت کرو کہ آسمانی بادشاہت میں اُن کا کوئی حصہ ہے اور اگر تم سچے ہو تواس کے لئے یا تو قرآن سے پہلے کی کسی آسمانی کتاب میں سے دلیل پیش کرو یا اپنے باپ دادوں کی بتائی ہوئی کسی علمی بات کو ہی پیش کرو.یعنی تمام شرکیہ مسائل نہ تو کسی آسمانی کتاب سے ثابت ہیں نہ کسی علمی دلیل سے ثابت ہو سکتے ہیں پھر ان پر ایمان لانا کس طرح جائز اور ممکن ہو سکتا ہے؟ اسی طرح فرماتا ہے اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُوْا بِهٖ يُشْرِكُوْنَ (الروم:۳۶) یعنی کیا اللہ تعالیٰ کے شریک قرار دینے کی کوئی بھی دلیل ہے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا کی ہو اور وہ شرک کی صداقت پر گواہ ہو ؟اگر ایسا نہیں تو پھر بے دلیل بات کو یہ لوگ کس طرح مان رہے ہیں؟ اسی طرح فرماتا ہے قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِّنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْهُ لَنَا١ؕ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا الظَّنَّ وَ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا تَخْرُصُوْنَ.قُلْ فَلِلّٰهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ(الانعام : ۱۴۹،۱۵۰) یعنی کفار سے کہہ دو کہ کیا تمہارے پاس اپنے دعاوی کی کوئی علمی دلیل بھی ہے جسے تم ہمارے سامنے پیش کر سکو ؟تمہارے پاس ہر گز ایسی کوئی دلیل نہیں بلکہ تم تو صرف وہم کی پیروی کرتے ہو اور صرف ڈھکونسلے مارتے ہو.پھر فرماتا ہے کہ اے ہمارے رسول! ان سے یہ بھی کہو کہ اللہ تعالیٰ تو وہ باتیں اپنے بندوں سے منواتا ہے جن کے دلائل مکمل طور پر موجود ہوتے ہیں.پس جو بات بے ثبوت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتی.اسی طرح مومنوں کی نسبت قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّ عُمْيَانًا (الفرقان:۷۴) یعنی مومنوں کے سامنے جب اُن کے رب کی آیات بیان کی جاتی ہیں تو وہ اُنہیں اندھا دُھند نہیں مانتے بلکہ سوچ سمجھ کر اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں.نیز فرماتا ہے قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْۤ اَدْعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ١ؔ۫ عَلٰى بَصِيْرَةٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِيْ(یوسف :۱۰۹) اے ہمارے رسول! اپنے منکروں سے کہہ دو کہ میرا راستہ مذکورہ بالاراستہ ہے میں اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہوں اور میں اور میرے متبع کسی بے دلیل بات کو نہیں مانتے بلکہ ہم سوچ سمجھ کر اور دلائل قطعیہ کی بناء پر جو شک و شبہ سے بالا ہوتے ہیں ایمان لاتے ہیں.قرآن کریم میں غیب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوا ہے ان سے بھی ثابت ہے کہ اس سے مراد وہمی امور نہیں.فرماتا ہے اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (الحجرات :۱۹) اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین کے غیب کو جانتا ہے اس جگہ غیب کا لفظ حقیقت کے لئے بولا گیا ہے.کیونکہ اگر غیب کے معنے محض وہمی اور بے دلیل باتوں کے ہوں تو اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ بے دلیل اور وہمی باتوں کو جانتا ہے اور یہ ترجمہ بالبداہت غلط ہے.

Page 152

Page 153

ہے سب دنیا کی تسلیم کردہ ہے مگر اس کو حواسِ خمسہ سے تو معلوم نہیں کیا جا سکتا.ایک ماں اپنے بچہ سے حسنِ سلوک کرتی ہے لیکن وہ نہیں جانتی کہ اس حسن سلوک کے نتیجہ میں جو محبت پیدا ہو گی وہ اس کا کوئی مزہ بھی چکھ سکے گی یا نہیں؟ لیکن باوجود اس کے وہ محبت کرتی جاتی ہے.ایک استاد شاگردوں کو پڑھاتا ہے وہ نہیں جانتا کہ اس کی تعلیم کے نتیجہ میں اس کے طلباء کسی اعلیٰ درجہ کو پہنچیں گے یا نہیں ؟مگر وہ پڑھانے سے باز نہیں رہتا.حکومتیں ملک کی حالت ُسدھارنے کے لئے ہزاروں جتن کرتی ہیں اور نہیں جانتیں کہ ان کے خوشگوار نتائج کب اور کس شکل میں پیدا ہوں گے؟ مگر وہ آئندہ کی امید پر اور سابقہ تجربہ کی بناء پر اپنی کوششوں میں لگی رہتی ہیں.سپاہی نہیں جانتے کہ جنگ کا کیا نتیجہ نکلے گا ؟لیکن اپنے ملک کی حفاظت میں جانیں دیتے چلے جاتے ہیں.یہ سب ایمان بالغیب ہی ہوتا ہے یا کچھ اور؟ خلاصہ یہ کہ ایمان بالغیب سے مراد (۱) ان سب صداقتوں پر ایمان لانا ہے جو حواسِ خمسہ سے معلوم نہیں کی جا سکتیں بلکہ ان کا ثبوت اور ذرائع سے معلوم ہوتا ہے.جیسے اللہ تعالیٰ کی ذات ہے کہ اسے حواسِ خمسہ سے معلوم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کے جاننے کے اور دلائل ہیں اور وہ دلائل ایسے یقینی اور قطعی ہیں کہ ظاہری حواس سے معلوم کی ہوئی باتوں سے کم نہیں بلکہ زیادہ یقین کے مقام پر انسان کو کھڑا کر دیتے ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ کا کلام ہے جسے مومن سنتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے علومِ غیبیہ ہیں جنہیں مومن پورا ہوتے دیکھتے ہیں اور اس کی زبردست قدرتیں ہیں جن کا ظہور مومن اپنے نفوس اور باقی دنیا میں دیکھتے ہیں مگر باوجود ان باتوں کے خدا تعالیٰ کی ہستی وَرَاء ُالوَرَاء ہے وہ حواسِ خمسہ سے محسوس نہیں کی جا سکتی.اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے.ملائکہ ظاہری آنکھوں سے نظر نہیں آتے نہ دوسرے حواس ظاہری سے معلوم کئے جا سکتے ہیں لیکن باوجود اس کے اُن کا وجود وہمی نہیں ہے بلکہ ان کے وجود پر قطعی دلائل ہیں جو قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر بیان کئے گئے ہیں.یا مثلاً ایک غیب موت کے بعد کی زندگی ہے قرآن کریم اس پر بے دلیل ایمان لانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ اس کے سچے ہونے پر زبردست دلائل دیتا ہے جو آئندہ مختلف مواقع پر بیان کئے جا ئیں گے.(۲) یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے یہ معنے بھی ہیں کہ متقی صرف ایسے کام نہیں کرتے کہ جن کے نتائج نقد بہ نقد مل جاتے ہیں.جیسے کہ تاجر سودا فروخت کرتا ہے اور اس کی قیمت وصول کر لیتا ہے.بلکہ ان کی زندگی اخلاقی زندگی ہوتی ہے اور وہ اخلاق کی قوت اور ان کے نیک نتائج پر ایمان رکھتے ہیں اور تاجرانہ ذہنیت کو ترک کر کے ایسی قربانیاں کرتے ہیں کہ جو آخر میں اُن کی قوم کو اور باقی دنیا کو اُبھار دیتی ہیں.مثلاً دنیا میں امن کے قیام کے لئے جہاد کا کرنا ایمان بالغیب کا ہی نتیجہ ہے.ورنہ کون جانتا ہے کہ وہ زندہ رہے گا اور لڑائی کے اچھے نتیجہ کو دیکھے گا.سپاہی جب کسی

Page 154

اچھے مقصد کیلئے میدانِ جنگ میں جاتا ہے تو وہ ایمان بالغیب کا ایک مظاہرہ کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول میں کامیاب ہو گیا تو یہ بھی اچھا ہے لیکن اگر وہ اس کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر گیا تب بھی اس کا نتیجہ حق اور صداقت کے لئے اچھا نکلے گا.ایمان بالغیب کے شاندار نتائج حق یہ ہے کہ جس قدر شاندار کام ہیں وہ سب ایمان بالغیب کے نتیجہ میں ہی پیدا ہوتے ہیں.تعلیم، صدقہ، خیرات، غرباء کے اُبھارنے کے لئے کوششیں، ملکی تنظیم سب ایمان بالغیب ہی کی اقسام ہیں.اگر انسان آئندہ نکلنے والے اچھے نتائج پر جوظاہر نگاہ سے پوشیدہ ہوتے ہیں یقین نہ رکھے تو کبھی ایسی قربانیاں نہ کر سکے پس متقی کی علامت ایمان بالغیب بتاکر قرآن کریم نے یہ بتایا ہے کہ مومن ضروری دینی امور پر ایمان رکھنے کے علاوہ اعلیٰ درجہ کی اخلاقی قربانیاں کرتا ہے اور تاجرانہ ذہنیت سے بالا ہو جاتا ہے اور اس امر پر اصرار نہیں کرتا کہ میں وہی کام کروں گا جن کا نقد بہ نقد نتیجہ نکلے بلکہ جب اُسے یقین ہو جائے کہ جو کام اس کے سامنے پیش کیا گیا ہے اچھا اور نیک ہے تو وہ ظاہری حالات سے بے پروا ہو کر اس یقین سے اس کام کے کرنے میں لگ جاتا ہے کہ خواہ حالات کتنے ہی مخالف کیوں نہ ہوں نیک کام کا نتیجہ نیک ہی نکلے گا اور اس امر کی بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ اس نتیجہ کو خود بھی دیکھے گایا نہیں.اگر کوئی شخص تعصّب سے آزاد ہو کر غور کرے تو ایمان بالغیب کا یہ مفہوم ایسا اہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے قرآن کریم نے تمام قومی، ملیّ اور بنی نوع انسان کی ترقی کے لئے قربانیوں کی بنیاد رکھ دی ہے.یہ ایمان بالغیب ہی تھا کہ جس نے صحابہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے وہ قربانیاں کرائیں جنہوںنے عرب کی ہی نہیں بلکہ سب دنیاکی حالت بدل دی.اگر وہ تاجرانہ ذہنیت دکھاتے اور ایمان بالغیب کے ماتحت کام نہ کرتے تو دنیا میں ایسے شاندار نتائج کس طرح پیدا ہو سکتے تھے؟ ایمان بالغیب کے معنی ادنیٰ درجہ کے متقیوں کے لحاظ سے اوپر جو معنے بیان ہوئے ہیں وہ تو ایمان بالغیب کے کامل اور اعلیٰ معنے ہیں.لیکن ایک معنے اس کے اور بھی ہیں جو ادنیٰ درجہ کے متقیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ یہ ہیںکہ ادنیٰ درجہ کا تقویٰ یہ ہے کہ انسان ایمان بالغیب رکھے یعنی دلائل عقلیہ کے ساتھ اسے خدا تعالیٰ اور ملائکہ اور بعث بعد الموت پر یقین ہو گو وہ اس مقام پر نہ پہنچا ہو کہ خدا تعالیٰ اُسے حواسِ باطنی کے ساتھ نظر آنے لگے.یہ مقام تقویٰ کا ادنیٰ ہے یعنی اس تقویٰ کی بنیاد صرف دلائل پر ہوتی ہے مشاہدہ پر نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) یعنی اللہ تعالیٰ کسی انسان پر اس کی طاقت سے زیادہ

Page 155

ذمہ واری نہیں رکھتا.پس ایک انسان جو ابھی تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر نہیں پہنچا اور اُسے ان امور غیبیہ پر جو ہیں تو یقینی او رقطعی لیکن ہیں انسانی ادراک سے بالا ابھی ایسا ایمان اور یقین پیدا نہیں ہوا جو مشاہدہ کی حد تک پہنچا ہوا ہو اس سے اللہ تعالیٰ اس امر کا مطالبہ نہیں کرتا کہ جب تک اسے مشاہدہ اور تجربہ والا ایمان نصیب نہ ہوا ہو اُسے متقی اور مومن نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اس سے صرف اس قدر مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ان دلائل اور براہین پر غور کر کے جو امور غیبیہ کے ثبوت کےلئے اللہ تعالیٰ نے مہیا کئے ہیں ان پر ایمان لے آئے اور یہ امر اس کے متقی ہونے کے لئے ادنیٰ درجہ کے طور پر کافی ہو گا.اب دیکھو کہ یہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو سب مدارج کے انسانوں کی ضرورت کو پورا کر دیتی ہے اور ایسی ہی تعلیم خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی کہلا سکتی ہے جو سب استعداد کے لوگوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والی ہو.یہ ادنیٰ درجہ تقویٰ کا انسان کی نجات محض کے لئے کافی ہے.ہاں جب وہ اس سے ترقی کرتا ہے تو اُسے ایمان بالغیب کا وہ درجہ میسّر ہو جاتا ہے جو امورِ غیبیہ کو مشاہدہ کے رنگ میں اُس کے سامنے لے آتا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں بھی اس فرق کو ظاہر کیا گیا ہے.آپؐ فرماتے ہیں کہ احسان یہ ہے کہ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (مسلم کتاب الایمان با ب الایمان والاسلام والاحسان...) یعنی احسان اس کا نام ہے کہ تو اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا روحانی نظروں سے وہ تیرے سامنے موجود ہے اور تو اُسے دیکھتا ہے لیکن اگر یہ درجہ تجھے حاصل نہ ہو تو کم سے کم اس درجہ پر فائز ہو کہ تجھے یقین اور وثوق سے عبادت کے وقت یہ معلوم ہو کہ خدا تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے.اس حدیث میں ایمان بالغیب کے ان دونوںدرجوں کو بیان کر دیا گیا ہے اعلیٰ درجہ کو بھی اور ادنیٰ درجہ کو بھی.غیب بمعنٰی غائب جیسا کہ حلِّ لُغَات میں بتایا گیا ہے ایک معنے غیب کے غائب ہونے کی حالت کے بھی ہوتے ہیں.ان معنوں کے رو سے ایمان بالغیب کے یہ معنے بھی ہیں کہ جب انسان غیب کی حالت میں ہو یعنی لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو.یعنی اس کا ایمان صرف قومی نہ ہو کہ جب اس کے ہم مذہب لوگ اس کے سامنے ہوں تب تو وہ ان عقائد کو تسلیم کرے جو اس کے مذہب نے اس کے سامنے پیش کئے ہیں لیکن جب وہ اپنے لوگوں سے جُدا ہو تو اس کا ایمان کمزور ہو جائے.غیب کے یہ معنے قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً فرماتا ہے.اَلَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ (الانبیاء: ۵۰) وہ مومن جو علیحدگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے وَ لِيَعْلَمَ اللّٰهُ مَنْ يَّنْصُرُهٗ وَ رُسُلَهٗ بِالْغَيْبِ (الحدید : ۲۶) یعنی ہم نے جنگ کے سامان اس لئے پیدا کئے ہیں تاکہ ظاہر ہو جائے کہ کون خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا دل سے مددگار تھا ؟

Page 156

اور صرف ظاہری دعویٰ نہیں کر رہا تھا.حضرت یوسفؑ کی نسبت آتا ہے اَنِّيْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَيْبِ (یوسف : ۵۳) جس کے یہی معنے ہیں کہ میں نے پسِ پشت نظروں سے اوجھل اپنے آقا کی خیانت نہیں کی.ان معنوں کے رُو سے ان لوگوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جو تقریریں سنتے ہیں یا وعظ کی مجالس میں بیٹھتے ہیں تو اُنہیں خوب جوش آ جاتا ہے لیکن جب وہ علیحدگی میں جاتے ہیں تو ان کا ایمان کمزور پڑ جاتا ہے.ایسے لوگ در حقیقت معمولی مذہب رکھتے ہیں اور ان کی حالت بھیڑ چال کی ہوتی ہے.وہ دوسروں کی آراء کی رَو میں بہ جاتے ہیں ان کا اپنا مذہب کچھ نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو متنبہ کرتا ہے کہ ایسا ایمان بے حقیقت ہے.ایمان وہی ہے کہ جوذاتی ہو اور صرف دوسروں کے جو ش کو دیکھ کر بھڑک نہ اٹھتا ہو.اور جو شخص ذاتی ایمان نہیں رکھتا او راپنی قوم اور جماعت اور پر جوش واعظوں کی صحبت سے الگ ہو کر اس کے دل کا جوش ٹھنڈا پڑ جاتا ہے یا مٹ جاتا ہے وہ متقی نہیں کہلا سکتا.کیونکہ اس کا ایمان اپنا ایمان نہیں بلکہ عارضی طو رپر دوسرے لوگوں سے مانگا ہوا ایمان ہے ایسے لوگوں کی نسبت قرآن کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے.وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ۠(البقرة : ۱۵) بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب مومنوں کی مجالس میں آتے ہیں تو اُن کی باتوں کو سُن کر او راُن کے یقین اور ایمان کو دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بھی ان باتو ںپر ایمان لاتے ہیں لیکن جب اُن سے الگ ہوتے ہیں اور اسلام کے دشمنوں کی مجلس میں جاتے ہیں تو پھر اُن کی سی کہنے لگتے ہیں.اور ان کے خیالات سے متاثر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم بھی تمہارے ہی ہم عقیدہ ہیں اور جو مومنوں کی ہاں میں ہاں ہم نے ملائی تھی یہ صرف ایک مذاق تھا.ایسے لوگوں کا ایمان درحقیقت کوئی ایمان نہیں بلکہ یہ لوگ بے اصولے ہوتے ہیں.يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ میں غیرمتزلزل ایمان پیدا کرنے کی نصیحت پسيُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ متقی وہ ہوتا ہے جس کی زبان ہی ایمان کا دعویٰ نہیں کرتی بلکہ اس کا دل بھی صداقت کا مصدق ہوتا ہے اور وہ جب مومنوں کی صحبت سے دُور ہوتا ہے مثلاً غیرملکوں اور غیرمذاہب کے پیروئوں میں چلا جاتا ہے جہاں اس کے ہم مذہب نہیں ملتے تو بھی اس کا ایمان ڈگمگاتا نہیں یا کمزور نہیں ہوتا کیونکہ وہ دوسروں کی نقل کرنے والا نہیں تھا بلکہ یقین اور وثوق سے ایمان پر قائم تھا.اس مضمون سے اُن مسلمان طلباء کو جو تعلیم کی خاطر کالجوں میں داخل ہوتے ہیں یا دوسرے ممالک میں جاتے ہیں سبق حاصل کرنا چاہیے اور اپنے ایمان کا مطالعہ کرنا چاہیے کہ اگر وہ مومنوں کے ماحول سے جدا ہو کر کمزور ہو جاتا

Page 157

ہے تو اس کے یہ معنے ہیں کہ انہوں نے اپنے مذہب کو سمجھ کر نہیں مانا تھا اور اُن کا ایمان ذاتی نہ تھا بلکہ صرف اپنے ماحول کی ایک صدائے باز گشت تھا.خلاصہ یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِکہہ کر قرآن کریم نے بتایا ہے کہ قرآن کریم ان متقیوں کو جو مندرجہ ذیل صفات اپنے اندر رکھتے ہیں اعلیٰ روحانی مقامات تک پہنچاتا ہے (۱) ان متقیوں کو بھی جو دلائل اور براہین سے روحانی دنیا سے تعلق رکھنے والے عقائد پر ان کی صداقت واضح ہو جانے کے بعد پورا ایمان لے آتے ہیں خواہ ابھی اس مقام پر نہ پہنچے ہوں کہ دلیل سے بڑھ کر ذاتی تجربہ نے بھی ان کے ایمان کو مضبوط کر دیا ہو (۲) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہوں پر چلاتا ہے جن کا ایمان منافقت سے پاک ہو اور ان کا دل اور زبان اور عمل ایک ہو (۳) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت کی اعلیٰ راہو ںپر چلاتا ہے جن کا ایمان قومی نہ ہو بلکہ ذاتی ہو یہ نہ ہو کہ مومنوں کی مجلس میں مومن او رکافروں کی مجلس میں کافر بلکہ خواہ اُنہیں کیسی ہی مخالف سوسائٹی یا قوم میں رہنا پڑے اُن کا ایمان ڈانوا ڈول نہ ہو اور اُن کے مومنانہ عمل میں فرق نہ آئے (۴) وہ ان متقیوں کو بھی ہدایت دیتا ہے جو اِن ظاہری حواس سے محسوس نہ ہونے والی صداقتوں پر کامل یقین اور اعتقاد رکھتے ہیں جن کا وجود دوسرے دلائل اور براہین سے ثابت ہے اور ایسے ایمان کو اپنے تجارب کی بناء پر کمال تک پہنچاتے ہیں (۵) ایسے متقیوںکو بھی ہدایت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے جو تاجرانہ ذہنیت کو چھوڑ کر اخلاقی اور دینی نتائج پر یقین رکھتے ہیں اور ان قربانیوں کے نیک نتائج پر یقین رکھتے ہیں جو بظاہر حالات مقبول ہوتی نظر نہیں آتیں لیکن قومی ترقی اور ملی کامیابی کے لئے اُن کا وجود ضروری سمجھا جاتا ہے اور اپنے ذاتی فوائد کو قومی فوائد پر قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.جن متقیوں میں ان سے ایک یا زیادہ باتیں پائی جائیں وہ قرآن کریم کی اتباع میں حاصل ہونے والی اعلیٰ ہدایتوں کے مستحق سمجھے جاتے ہیں اور وہ ہدایت انہیں دی جاتی ہے.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے چھ معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ.جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا جاچکا ہے اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے معنے (۱) باقاعدگی سے نماز ادا کرنے کے ہیں کیونکہ قَامَ عَلَی الْاَمْرِ کے معنے کسی چیز پر ہمیشہ قائم رہنے کے ہیں پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہوئے کہ نماز میں ناغہ نہیں کرتے.ایسی نماز جس میں ناغہ کیا جائے اسلام کے نزدیک نماز ہی نہیں کیونکہ نماز وقتی اعمال سے نہیں بلکہ اُسی وقت مکمل عمل سمجھا جاتا ہے جبکہ تو بہ یا بلوغت کے بعد کی پہلی نماز سے لے کر وفات سے پہلے کی آخری نماز تک اس فرض میں ناغہ نہ کیا جائے جو لوگ درمیان میں نمازیں چھوڑتے رہتے ہیں اُن کی سب نمازیں ہی ردّ ہو جاتی ہیں.پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب وہ بالغ ہو یا جب اُسے اللہ تعالیٰ

Page 158

توفیق دے اُس وقت سے موت تک نماز کا ناغہ نہ کرے کیونکہ نماز خدا تعالیٰ کی زیارت کا قائم مقام ہے اور جو شخص اپنے محبوب کی زیارت سے گریز کرتا ہے وہ اپنے عشق کے دعویٰ کے خلاف خود ہی ڈگری دیتا ہے.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے دوسرے معنے اعتدال اور درستی سے نماز ادا کرنے کے (۲) دوسرے معنے اِقَامَۃکے اعتدال اور درستی کے ہیں اِن معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ متقی نماز کو اُس کی ظاہری شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے لئے جو قواعد مقرر کئے گئے ہیں ان کو توڑتے نہیں.مثلاً تندرستی میں یا پانی کی موجودگی میں وضوء کر کے نما زپڑھتے ہیں اور وضو بھی ٹھیک طرح ان شرائط کے مطابق ادا کرتے ہیں جو اس کے لئے شریعت نے مقرر کی ہیں.اسی طرح صحیح اوقات میں نماز ادا کرتے ہیں.نماز میں، قیام ،رکوع، سجدہ، قعدہ کو عمدگی سے ادا کرتے ہیں.مقررہ عبارات اور دعائیں اور تلاوت اپنے اپنے موقع پر اچھی طرح اور عمدگی سے پڑھتے ہیں غرض تمام ظاہری شرائط کا خیال رکھتے اور انہیں اچھی طرح بجا لاتے ہیں.اس جگہ یاد رکھنا چاہیے کہ گو شریعت کا حکم ہے کہ نماز کو اس کی مقررہ شرائط کے ماتحت ادا کیا جائے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ جب مجبوری ہو اور شرائط پوری نہ ہوتی ہوں تو نماز کو ترک ہی کر دے نماز بہرحال شرائط سے مقدم ہے.اگر کسی کو صاف کپڑا میسر نہ ہو تو وہ گندے کپڑوں میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے خصوصاً وہم کی بناء پر نماز کا ترک تو بالکل غیر معقول ہے جیسا کہ ہمارے ملک میں کئی عورتیں اس وجہ سے نماز ترک کر دیتی ہیں کہ بچوں کی وجہ سے کپڑے مشتبہ ہیں اور کئی مسافر نماز ترک کر دیتے ہیں کہ سفر میں طہارت کامل نہیں ہو سکتی.یہ سب شیطانی وساوس ہیں لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرة :۲۸۷) الٰہی حکم ہے جب تک شرائط کا پورا کرنا اختیار میں ہو اُن کے ترک میں گناہ ہے لیکن جب شرائط پوری کی ہی نہ جا سکتی ہوں تو اُن کے میسر نہ آنے کی وجہ سے نماز کا ترک گناہ ہے.اور ایسا شخص معذور نہیں بلکہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا.پس اس بارہ میں مومنوں کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃکے تیسرے معنے نماز کو کھڑا کرنے کے (۳) تیسرے معنے اِقَامَۃ کے کھڑا کرنے کے ہیں.ان معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ نماز کو گرنے نہیں دیتے یعنی ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ ان کی نماز درست اور باشرائط ادا ہو.اس میں ان مشکلات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو نماز پڑھنے والے مبتدی کو زیادہ اور عارف کو کسی کسی وقت پیش آتی رہتی ہیں یعنی اندرونی یا بیرونی تاثرات نماز سے توجہ ہٹا کر دوسرے خیالات میں پھنسا دیتے ہیں.یہ امر انسانی عادت میں داخل ہے کہ اس کا خیال مختلف جہات کی طرف

Page 159

منتقل ہوتا رہتا ہے اور خاص صدموں یا جوش یا محبت کے اثر کے سوا جبکہ ایک وقت تک خیالات میں کامل یکسوئی پیدا ہو جاتی ہے انسانی دماغ اِدھر اُدھر گھومتا رہتا ہے اور ایک خیال سے دوسرا خیال پیدا ہو کر ابتدائی خیال سے کہیں کا کہیں لے جاتا ہے.اسی طرح بیرونی آوازیں یا پاس کے لوگوں کی حرکات یا کھٹکے، بو یا خوشبو، جگہ کی سختی یا نرمی اور اسی قسم کے اور اُمور انسانی ذہن کو اِدھر سے اُدھر پھرا دیتے ہیں.یہی مشکلات نمازی کو پیش آتی ہیں او راگراپنے خیالات پر پورا قابو نہ ہو تو اُسے پریشان خیال بنائے رکھتی ہیں اور بعض اوقات وہ نماز کے مضمون کو بھول کر دوسرے خیالات میں پھنس جاتا ہے.اس حالت کی نسبت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میں اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ بعض نمازیوں کو یہ مشکل پیش آئے گی مگر انہیں گھبرانا نہیں چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر درجہ کے انسان کے لئے ترقی کا راستہ کھول دیا ہے.اگر کوئی شخص اپنی نماز میں ایسی پریشان خیالی سے دو چار ہو تو اُسے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور اپنی نماز کو بیکار نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ بندوں سے اسی قدر قربانی کی امید کرتا ہے جتنی قربانی اُن کے بس کی ہو پس ایسے نمازی جن کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہوں اگر نماز کو سنوار کر اور توجہ سے پڑھنے کی کوشش میں لگے رہیں تو چونکہ وہ اپنی نماز کو جب بھی وہ اپنے مقام سے گرے کھڑا کرنےکی کوشش میں لگے رہیں گے اللہ تعالیٰ ان کی نماز کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اُسے قبول کرے گا او راس نماز کو کھڑا کرنے کی کوشش کرنے والے کو متقیوں میں ہی شامل سمجھے گا.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے چوتھے معنے دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دینے کے (۴) لُغت کے مذکورہ بالا معنوں کے رُو سے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک اور معنے بھی ہیں اور یہ کہ متقی دوسرے لوگوں کو نماز کی ترغیب دیتے ہیں کیونکہ کسی کام کو کھڑا کرنے کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ اُسے رائج کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دلائی جائے.پس یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے عامل متقی وہ بھی کہلائیں گے کہ جو خود نماز پڑھنے کے علاوہ دوسرے لوگوں کو بھی نماز کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور جوسست ہیں انہیں تحریک کر کے چست کرتے ہیں.رمضان کے موقع پر جو لوگ تہجد کے لئے لوگوں کو جگاتے ہیں وہ بھی اس تعریف کے ماتحت یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کی تعریف میں آتے ہیں.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے پانچویں معنے نماز باجماعت ادا کرنے کے (۵) نماز باجماعت سے پہلے امام کے نماز پڑھانے کے قریب وقت میں اذان کے کلمات تھوڑی زیادتی کے ساتھ دہرائے جاتے ہیں ان کلمات کو اِقَامَۃ کہتے ہیں اور نماز باجماعت بھی ان معنوں کے رُو سے اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کا مفہوم رکھتی ہے.ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں نماز کھڑی ہو گئی ہے.اس محاورہ کے مطابق یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے معنے ہوںگے کہ وہ نماز باجماعت ادا کرتے ہیں اور دوسروں سے ادا کرواتے ہیں.

Page 160

نماز باجماعت کی ضرورت کو عام طور پر مسلمان بھول گئے ہیں اور یہ ایک بڑا موجب مسلمانوں کے تفرقہ اور اختلاف کا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس عبادت میں بہت سی شخصی اور قومی برکتیں رکھی تھیں مگر افسوس کہ مسلمانوں نے انہیں بھلا دیا.قرآن کریم نے جہاں بھی نماز کا حکم دیا نماز باجماعت کا حکم دیا ہے خالی نماز پڑھنے کا کہیں بھی حکم نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز باجماعت اہم اصول دین میں سے ہے بلکہ قرآن کریم کی آیات کو دیکھ کر کہ جب بھی نماز کا حکم بیان ہوا ہے نماز باجماعت کے الفاظ میں ہوا ہے تو صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک نماز صرف تبھی ادا ہوتی ہے کہ باجماعت ادا کی جائے سوائے اس کے کہ ناقابل ِ علاج مجبوری ہو.پس جو کوئی شخص بیماری یا شہر سے باہر ہونے یا نسیان یا دوسرے مسلمان کے موجود نہ ہونے کے عذر کے سوا نماز باجماعت کو ترک کرتا ہے خواہ وہ گھر پر نماز پڑھ بھی لے تو اس کی نماز نہ ہو گی اور وہ نماز کا تارک سمجھا جائے گا.قرآن کریم میں نماز پڑھنے کا جہاں بھی حکم آیا ہے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے آیا ہے کبھی بھی خالی صَلُّوْا کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے.یہ امر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اصل حکم یہ ہے کہ فرض نماز کو باجماعت ادا کیا جائے اور بغیر جماعت کے نماز صرف مجبوری کے ماتحت جائز ہے جیسے کوئی کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے پس جس طرح کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت رکھتا ہو لیکن بیٹھ کر پڑھے تو یقینا وہ گنہگار ہو گا اسی طرح جسے باجماعت نماز کا موقع مل سکے مگر وہ باجماعت نماز ادا نہ کرے تو وہ بھی گنہگار ہو گا.آج کل بہت سے لوگ ایسے ملتے ہیں جو باجماعت نمازوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرتے ہیں اور باتو ںمیں مشغول رہتے ہیں یہاں تک کہ نماز ہو چکتی ہے او رپھر افسوس کرتے ہیں کہ نماز چلی گئی.ان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ وہ معمولی غفلت سے بہت بڑے ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے چھٹے معنے نماز کو ہوشیاری سے ادا کرنے کے (۶) یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ نماز ُچستی او رہوشیاری سے ادا کی جائے کیونکہ ُسستی اور غفلت کی وجہ سے خیالات میں پراگندگی پیدا ہوتی ہے اور نماز کا مغز ہاتھ سے جاتا رہتا ہے اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں لاتیںڈھیلی چھوڑنے یا سہارا لگانے (مُسْلِمْ کِتَابُ الصَّلٰوۃ.بَابُ کَرَاھَۃُ الاِخْتِصَارِ فِی الصَّلٰوۃِ) یا کہنیاں سجدہ کے وقت زمین پر ٹیکنے سے منع فرمایا ہے (ترمذی اَبْوَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَاجَاءَ فِی الْاِعْتِدَالِ فِی السُّجُوْدِ) اور اس کے بالمقابل رکوع میں کمر سیدھی رکھنے (ترمذی اَبْوَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَاجَآءَ فِیْ مَنْ لَّایُقِیْمُ صُلْبُہٗ) کھڑا ہوتے وقت یا رکوع میں ٹانگوں کو سیدھا رکھنے سجدہ میں پائوں گھٹنوں، ہتھیلیوں اور ماتھے پر بوجھ رکھنے (ترمذی کِتَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَاجَآءَ فِی السُّجُوْدِ عَلٰی سَبْعَۃِ اَعْضَآءٍ) او رکمر

Page 161

اور پیٹ کو لاتوں سے جدا رکھنے(نسائی کِتَابُ اِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ بَابُ صِفَۃِ السُّجُوْدِ وَ التَّجَافِیْ فِی السُّجُوْدِ وَالْاِعْتِدَالِ فِی السُّجُوْدِ) اور قعدہ کے موقع پر دائیں پائوں کی انگلیوں کو قبلہ رُخ رکھ کر پائوں کھڑا رکھنے کا حکم دیا ہے (ترمذی اَبْوَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَاجَآءَ کَیْفَ الْجُلُوْسِ فِی التَّشَھُّدِ) کیونکہ یہ سب امور چستی اور ہوشیاری پیدا کرتے ہیں اور نیند اور اونگھ اور غفلت کو دُور کرتے ہیں اور اسی وجہ سے اسلام نے نماز سے پہلے وضوء کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ سر اور جو ارح کے اعصاب کو تری اور سردی پہنچ کر جسم میں چستی اور خیالات میں یکسوئی پیدا ہو.اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کے لُغوی معنوں کی تصدیق قرآن مجید اور احادیث سے اوپر جو معانی یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے لغوی معنوں سے استنباط کر کے لکھے گئے ہیں قرآن کریم اور احادیث سے بھی ان کی تصدیق ہوتی ہے.مثلاً ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ باقاعدگی سے نماز ادا کریں اور ناغے نہ کریں اس کے مفہوم کی تائید قرآن کریم کی اس آیت سے ہوتی ہے.اَلَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ دَآىِٕمُوْنَ (المعارج :۲۴) یعنی مومن اپنی نمازوں میں ناغہ نہیں ہونے دیتے بلکہ ہمیشہ باقاعدگی سے نماز ادا کرتے رہتے ہیں.دوسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے اعتدال اور درستی کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کئے گئے تھے ان کی تائید اَلَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ کی آیت سے ہوتی ہے (المومنون :۳) یعنی مومن اپنی نمازوں میں خشوع اور فرمانبرداری کو مدنظر رکھتے ہیں یعنی ظاہری اور باطنی احکام جو نماز کے بارہ میں دیئے گئے ہیں سب کو پورا کرتے ہیں.تیسرے معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ وہ نماز کو درست رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.ان معنوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے وَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ (المومنون :۰ ۱) مومنِ کامل اپنی نماز کی حفاظت کرتے رہتے ہیں.یعنی اُسے اعلیٰ اور کامل بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.چوتھے معنے یہ کئے گئے تھے کہ نماز باجماعت کی ترویج میں مومن لگے رہتے ہیں.اِن معنوں کی تصدیق قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَيْهَا (طٰہٰ :۱۳۳) اے ہمارے مخاطب !اپنے اہل کو نماز کی نصیحت کرتے رہا کرو اور اس حکم کو کبھی نہ بھولو بلکہ نماز کی یاد دہانی کو ایک ضروری اور لازمی ذمہ واری سمجھ لو.اور یہ جو معنے کئے گئے تھے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ سے مراد نماز باجماعت کے ہیں سو یہ مندرجہ ذیل آیت سے نکلتے ہیں وَ اِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَآىِٕفَةٌ مِّنْهُمْ مَّعَكَ وَ لْيَاْخُذُوْۤا اَسْلِحَتَهُمْ(النساء :۱۰۳) یعنی جب تو مسلمانوں میں موجود ہو اور نماز میں ان کی امامت کرائے تو چاہیے کہ مومن سب کے سب نماز باجماعت

Page 162

میں شامل نہ ہوں بلکہ بوجہ جنگ کے ان میں سے صرف ایک حصہ نماز باجماعت میں شامل ہو اور وہ حصہ بھی اپنے ہتھیار اٹھائے رہے.اس آیت میں اَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے کہ اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ سے مراد باجماعت نماز ہوتی ہے.ایک معنے یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ کئے گئے تھے کہ نماز ہوشیاری اورچستی کی حالت میں ادا کرتے ہیں.سو ان معنوں پر یہ آیت دلالت کرتی ہے.فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ۠.الَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ (الماعون :۵،۶) یعنی ان نمازیوں پر خدا کا عذاب نازل ہو گا جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں یعنی نماز تو پڑھتے ہیں مگر اُن کے دلوںمیں پوری رغبت اور ُچستی نہیں ہوتی.اسی طرح ظاہری ُسستی اور غفلت کی طرف سے اس آیت میں اشارہ کیا ہے وَ لَا يَاْتُوْنَ الصَّلٰوةَ اِلَّا وَ هُمْ كُسَالٰى (التوبۃ:۵۴) یعنی وہ جب بھی نماز پڑھتے ہیں اُن پرُسستی اور غفلت غالب ہوتی ہے.اسی طرح قرآن کریم میں ہے يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۲ ۳) یعنی اے مومنو! ہر مسجد کے پاس جاتے ہوئے اپنی زینت کے سامان مکمل کر لیا کرو.یعنی وضوء کر لیا کرو اور ہوشیار ہو جایا کرو.اسی طرح فرمایا.يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُكٰرٰى حَتّٰى تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء :۴۴) یعنی اے مومنو !جبکہ تمہارے خیالات پراگندہ ہوں نماز کے قریب مت جائو بلکہ اُسی وقت نماز پڑھو جبکہ تم یہ جانتے ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو یعنی دماغی پراگندگی یا ُسستی کی حالت میں انسان نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی نماز خراب ہو جاتی ہے ایسی حالت میں نماز پڑھنی چنداں مفید نہیں ہوتی.اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ خیالات پراگندہ ہوں تو نماز نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ یہ مراد ہے کہ خیالات کو پراگندگی سے بچائو اور ذہنی بیداری اور ُ چستی پیدا کرو اور جو باتیں کہ پراگندگی کو پیدا کرنے والی ہیں اُنہیں دُور کرو.اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے اسلام نے حکم دیا ہے کہ نماز سے کچھ عرصہ پہلے اذان ہونی چاہیے جسے سُن کر مسلمانوں کو اپنے کاروبار ترک کر کے نماز کی تیاری شروع کر دینی چاہیے.اسی طرح یہ کہ نماز سے پہلے وضوء کرنا چاہیے پھر مسجد میں جا کر یا گھر پر سنتیں پڑھنی چاہئیں پھر مسجد میں امام کے انتظار میں ذکر الٰہی کرنا چاہیے.اِن سب کاموں سے ظاہری اور باطنی ُسستیدُور ہوتی ہے کیونکہ خیالات میں پراگندگی اور سستی اِسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ دھیان کسی اور طرف ہو.مگر جو شخص نماز سے پہلے اپنا کاروبار ترک کر دے گا اس کے خیالات جو تجارتی یا دوسرے کاروبار کی وجہ سے یا گھر کے جھگڑوں یا فکروں کی وجہ سے پراگندہ ہو رہے تھے آہستہ آہستہ نماز اور عبادت کی طرف پھر جائیں گے.پھر مسجد میں جانے اور سنتیں پڑھنے اور ذکرِالٰہی کرنے کی وجہ سے وہ دوسری تمام طرفوں سے ہٹ کر عبادت اور

Page 163

Page 164

کے خالص معنوں میں یہ لفظ سورۂ توبہ میں استعمال ہوا ہے وہاں آتا ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ١ؕ اِنَّ صَلٰوتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ (التوبة : ۱۰۳) اے رسول! جن سچے مومنوں سے کمزوریاں ہو جائیں تو اُن کےلئے استغفار کر کیونکہ تیرا اُن کے لئے استغفار کرنا ان کی تسلی کا موجب ہوتا ہے.دعا کے معنوں میں بھی سورۂ توبہ میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْ١ؕ سَيُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِيْ رَحْمَتِهٖ١ؕ (التوبة:۹۹) یعنی چھوٹے دیہات یا جنگلوں میں رہنے والے بعض عرب بھی ایسے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور یومِ آخر پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ بھی وہ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ کے قرب اور رسول کی دعائیں حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں اور خوب سن رکھو کہ ان کا یہ فعل خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی اس نیک نیّتی اور رسول کی دعائوں کی وجہ سے اُن کو ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا.نماز کے معنو ںمیں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں اصطلاحی نماز کے علاوہ یہ امور بھی مدِّنظر ہوتے ہیں کہ نماز دعا ہے اور اس سے دین کا مغز پورا ہوتا ہے اور شریعت کی غرض پوری ہوتی ہے اور اس میں بندہ اپنی کمزوریوں کی معافی کی درخواست اللہ تعالیٰ سے کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت کو طلب کرتا ہے چنانچہ دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُتْلُ مَاۤ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ١ؕ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ(العنکبوت :۴۶) یعنی قرآن کریم کی تلاوت کر اور نماز باجماعت ادا کر یقینا نماز اُن بُری باتوں سے بھی کہ جو انسان کی ذات سے تعلق رکھتی ہیں اور ان سے بھی کہ جو سوسائٹی پر گراں گزرتی ہیں روکتی ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ نماز کو ایک رسم کے طو رپر مقرر نہیں کیا گیا بلکہ یہ عبادت اس طرح بنائی گئی ہے کہ اس کا لازمی نتیجہ بدی سے نفرت ہوتا ہے اور اندرونی پاکیزگی اس سے حاصل ہوتی ہے.نماز کے بدی سے رو کنے کا مطلب یہ الفاظ استعمال فرما کر کہ نماز بدی سے روکتی ہے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نماز میں یہ ذاتی خوبی ہے کہ وہ بدی سے روکتی ہے.پس جس شخص کو باوجود نماز پڑھنے کے بدی سے نفرت پیدا نہ ہو اُس کی نماز میں ضرور نقص ہے اور یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ میںاسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ متقی صرف رسمی طور پر نماز نہیں ادا کرتے بلکہ ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی نماز کھڑی ہو جائے یعنی وہ اُن کی روحانیت کے لئے بطور سہارے کے بن جائے جس طرح ٹیک اور سہارے جب تک اپنی جگہ پر کھڑے رہیں چھتوں کو کھڑا رکھتے ہیں اسی طرح نماز جب کامل ہو جائے تو متقی کے تقویٰ کو سہارا دے کر اپنی جگہ پر کھڑا رکھتی ہے پس صرف نماز پڑھنے پر تسلی

Page 165

نہیں پانی چاہیے بلکہ نماز کو کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کے سہارے پر انسان کا تقویٰ بھی کھڑا رہے.اسلامی نماز چونکہ قرآن کریم میں نماز قائم کرنے کا حکم یہاں پہلی دفعہ بیان ہوا ہے میں اسلامی نماز کی کیفیت کو اس جگہ مختصراً بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ جو غیر مسلم اس تفسیر کو پڑھیں انہیں نماز کے متعلق کچھ واقفیت ہو جائے.نماز سے پہلے وضو یا تیمم اسلامی نماز کے ا دا کرنے سے پہلے وضو یاتیمم فرض ہے.وضو کا حکم اصل ہے اور تیمم کا حکم بطور قائم مقام کے ہے.(سورۃ مائدہ رکوع اوّل آیت ۷) وضو پانی سے کیا جاتا ہے اور اس میں پہلے ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد کلیّ کر کے منہ صاف کیا جاتا ہے اور نتھنوں سے پانی اوپر کی طرف کھینچ کر ناک کو صاف کیا جاتا ہے اس کے بعد منہ دھویا جاتا ہے پھر کہنیو ںتک، کہنیوں کو شامل کرتے ہوئے دونوں ہاتھ دھوئے جاتے ہیں اس کے بعد ہاتھ گیلے کر کے سر کے بالوں پر ایک ثلث سے دو ثلث تک َمسح کیا جاتا ہے او رپھر انگوٹھے کے پاس کی انگلی سے کانو ںکے سوراخوں کو گیلا کیا جاتا ہے اور انگوٹھوں کو کانو ںکی ُپشتپر پھرایا جاتا ہے تاکہ کان کی ُپشت بھی گیلی ہو جائے اس کے بعد دونوں پائوں ٹخنوں تک دھوئے جاتے ہیں (بخاری کِتَابُ الْوُضُوْءِ بَابُ الْوُضُوْءِ ثَلَاثًا و نَسَائِی کِتَابُ الْوُضُوْءِ بَابُ مَسْحِ الْاُذُنَیْنِ مَعَ الرَّأْسِ) باہو ںاور پائوں کے دھونے میں اس امر کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ دائیں طرف پہلے دھوئی جائے اور بائیں طرف بعد میں.(نسائی کِتَابُ الْوُضُوْء بَابُ بِاَیِّ الرِّجْلَیْنِ یُبْدَأُ بِالْغُسْلِ) وضو کرتے وقت یہ نیّت کرنی بھی ضروری ہوتی ہے کہ نماز کے لئے یا طہارت کے لئے وضو کیا جا رہا ہے (نسائی کِتَابُ الْوُضُوْء بَابُ النِّیَّۃِ فِی الْوُضُوْءِ) اس سے یہ مقصود ہوتا ہے کہ خیالات کی رَو عبادت کی طرف پھر جائے اور اس وقت سے خیالات دوسرے کاموں کی طرف سے ہٹ جائیں.یہ فعل ظاہری صفائی کا بھی موجب ہوتا ہے کیونکہ جن اعضاء کو دھویا جاتا ہے بوجہ بالعموم ننگا رہنے کے وہی گردو غبار کا نشانہ بنتے ہیں.ان اعضاء کا دھونا یا گیلا کرنا خیالات کے اجتماع کے لئے بھی مفید اور ضروری ہوتا ہے کیونکہ خیالات کی پراگندگی حواس خمسہ کے مقامات کی تیزی سے ہوتی ہے اور حواس خمسہ کے مقامات آنکھیں، کان، ناک اور منہ اور جسم ہیں.وضو میں کلیّ کے ذریعہ سے منہ کو تر کیا جاتا ہے اور اس میں یکسوئی کی قوت پیدا کی جاتی ہے.ناک میں پانی ڈال کر اُسے ٹھنڈا کیا جاتا ہے.منہ دھوتے ہوئے آنکھوں کو تری پہنچائی جاتی ہے.کانوں میں گیلی انگلیاں ڈال کر اور اُن کے پیچھے انگوٹھے کو حرکت دے کر کانوں کی ِحسکی پراگندگی کو دُور کیا جاتا ہے.جسم کی زیادہ ِحس کو دُور کرنے کے لئے باہیں اور پائوں دھوئے جاتے ہیں.اور طبیّ تجربہ اس امر پر شاہد ہے کہ بخار کی تیزی کو دُور کرنے کے لئے

Page 166

صرف با ہوں اور پائوں کا ٹھنڈے پانی سے دھونا یا تر کرنا سارے بدن سے بخار کی گرمی دور کرنے کے لئے کافی سمجھا جاتا ہے.سر کی گرمی خیالات کو بہت پراگندہ کر دیتی ہے اس وجہ سے سر کا مسح رکھا گیا ہے جو سر کو ٹھنڈا کر کے سر کی گرمی کو دُور کرتا اور خیالات کے اجتماع میں ممد ہوتا ہے.وضو کی ترکیب اور اس کا فلسفہ اعصابی ماہرین کے تجربہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھوں او رپائوں کی انگلیوں کے ٹھنڈا کرنے سے بھی خیالات کی رَو کو بدلا جا سکتا ہے.چنانچہ مسمریزم کے ماہرین کا تجربہ ہے کہ مسمریزم کے عمل کے بعد اگر ہاتھوں او رپائوں کو پانی ڈال کر ٹھنڈا کر لیا جائے تو اس دماغی برقی طاقت کے ضائع ہونے سے انسان بچ جاتا ہے جو مسمریزم کے عمل کے بعد دیر تک جاری رہ کر انسان کو کمزور کر دیتی ہے.پس ہاتھوں اور پائوں کے دھونے سے بھی ان خیالات کی رَو کو رو کا جا سکتا ہے جو نماز سے پہلے انسان کے دماغ میں جاری ہوتی ہے اور اُسے پھیر کر عبادت اور ذکر الٰہی کی طرف لایا جا سکتا ہے.غرض وضو ایک نہایت پرُ حکمت حکم ہے جس کے ایک جزو کی تجربہ اور علم الاعصاب تائید کرتے ہیں.وضو کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے.(دیکھو سورۂ مائدۃ ع ۲) جب پانی میسر نہ ہو یا انسان بیمار ہو یا وضو سے بیماری کا خطرہ ہو تو اس صورت میں اسلام نے تیمم کا حکم دیا ہے (سورۃ مائدۃ آیت ۷ و نساء ۴۴) اور وہ حکم یہ ہے کہ پاک مٹی یا کسی پاکیزہ گرد والی چیز پر ہاتھ مار کر اپنے منہ پر اور ہاتھوں اور باہوں پر پھیر لے (بخاری کِتَابُ التَّیَمُّمِ بَابُ التَّیَمُّمِ لِلْوَجْہِ وَالْکَفَّیْنِ) یہ حکم بھی انہی حکمتوں سے پُر ہے کیونکہ تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ صاف اور پاک مٹی بھی پانی کا قائم مقام ہو جاتی ہے.چنانچہ اسی حکمت کو کسی وقت سمجھ کر ہندو سادھوئوں نے جسم پر بھبوت ملنے کا طریقہ جاری کیا تھا مگر یہ بات اُن سے نظر انداز ہو گئی کہ یہ طریق ادنیٰ درجہ کا ہے او رپانی کے میسر نہ آنے یا استعمال نہ کر سکنے کی صورت میں ایک قائم مقام کے طور پر ہی استعمال ہو سکتا ہے ورنہ پانی کا استعمال بہرحال افضل اور اعلیٰ ہے.تیمم کا حکم بھی قرآن کریم میں مذکور ہے اور سورۃ نساء ع ۷ میں اس کا ذکر آتا ہے.مرد اور عورت کے شہوانی اجتماع کے بعد کے لئے ایک زائد حکم بھی ہے اور وہ یہ کہ نماز پڑھنے سے پہلے نہا بھی لے.اس حکم میں یہ حکمت ہے کہ یہ فعل جیسا کہ تجربہ اس پر شاہد ہے سارے جسم پر اثر کرتا ہے اور جسم کے ہر حصہ کی برقی طاقت میں ایک ہیجان پیدا کر دیتا ہے.پس اس کو ٹھنڈا کر کے سارے جسم کی برقی طاقت اور خیالات کے انتشار کو دُور کرنا عبادت کی تکمیل اور خدا تعالیٰ کے ساتھ حصولِ اِ ّتصال کے لئے ضروری ہے.اس کا حکم سورۃ نساء کے

Page 167

رکوع۷ میں بیان ہے.مگر جس طرح بیماری اور پانی کے میسّر نہ آنے کی صورت میں وضو کی جگہ تیمم کو کافی قرار دیا گیا ہے اسی طرح ان دونوں صورتوں میں بھی غسل کی جگہ تیمم کو کافی قرار دیاگیا ہے.نماز شروع کرتے ہوئے قبلہ کی طرف منہ کرنا وضو یا تیمم جو بھی صورت ہو اس کے بعد مسلمان کو حکم ہے کہ اگر امن کی حالت ہو اور زمین پر ہو تو قبلہ رُو کھڑا ہو کر (بخاری کِتَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ التَّوَجُّہِ نَحْوَ الْقِبْلَۃِ) دونوںہاتھ اٹھا کر اور ہاتھوں کو قبلہ رُو کر کے انگوٹھوں کو اَللّٰہُ اَکْبَرْ کہتے ہوئے (جس کے معنے ہیں اللہ سب سے بڑا ہے) کانوںکی لوئوں تک لائے (ابو داؤد کِتَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ اِسْتِفْتَاحِ الصَّلٰوۃِ و نسائی کِتَابُ الْاِ فْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَوْضِعُ الْاِبْہَامَیْنِ عِنْدَالرَّفْعِ) نماز کو شروع کرنے کا طریق اور اس نیت کے ساتھ کہ وہ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگا ہے دوسرے سب خیالات کو دور کر کے عبادت الٰہی کے خیال میں محو ہو جائے.اس طرح ہاتھ اُٹھانے میں علاوہ توجہ کے قیام کے یہ بھی حکمت ہے کہ یہ حرکت طبعی طور پر باقی سب امور کو ترک کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے.پس اس حرکت سے مسلمان یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس وقت دنیا کے سب خیالات اور کاموں سے علیحدہ ہو کر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو گیا ہے.ہاتھو ںکی اسی قسم کی حرکت کی طرف غالب نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے.؎ کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہوئے کرتے ہیں سلام جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں پس اس حرکت سے مومن گویا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ سب دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ ہو گیا ہے.اس کے علاوہ اس سے بیداری اور ُچستی بھی پیدا ہوتی ہے.سینہ پر ہاتھ باندھنا اس کے بعد مسلمان اپنے سینہ پر ہاتھ باندھ لیتا ہے.(ابن حُزیمۃ بروایت وائل بن حجر) گویا مؤدب ہو کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ عبارت کہتا ہے.قیام اور اس کی دعائیں سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰـہَ غَیْرُکَ (ترمذی اَبْوَابُ الصَّلٰوۃِ بَابُ مَایَقُوْلُ عِنْدَ اِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ و نسائی کِتَابُ الْاِ فْتِتَاحِ بَابُ الذِّکْرِبَیْنَ اِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ وَ بَیْنَ الْقِرَاءَۃِ) یعنی اے اللہ! توہر نقص سے جو تیرے مقام کے خلاف ہے پاک ہے او رہر خوبی سے جو تیری شان کے لائق ہے متصف ہے اور تیرا نام تمام برکتوں کا جامع ہے اور تیری شان بہت بلند ہے اور تیرے سوا اور کوئی معبود نہیں.اس کے بعد وہ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھتا ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ اے اللہ! َمیں ہر اُس

Page 168

بد روح سے جو تیری درگاہ سے دور کی گئی ہے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ اس کا اثر مجھ پر نہ ہو اور میں تیری درگاہ سے دور ہونے والوں میں شامل نہ ہو جائوں.پھر وہ سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے (نسائی کتاب الافتتاح باب البداء ۃ بفاتحۃ الکتاب قبل السورۃ و ایجاب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب) اس کے بعد وہ قرآن کریم کی کوئی سورۃ یا کم سے کم کسی سورۃ کا اتنا حصہ جو تین آیات پر مشتمل ہو پڑھتا ہے او رپھر اَللّٰہُ اَ کْبَرْ کہہ کر رکوع میں چلا جاتا ہے.رکوع اور اس کی دعا (رکوع اسے کہتے ہیں کہ انسان اس طرح کمر سیدھی کرے کہ اس کا سر اور لاتوں کا اوپر کا حصہ ایک دوسرے کے متوازی ہو جائیں) ُجھک جاتا ہے اور اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتا ہے اور لاتیں بالکل سیدھی رکھتا ہے ان میں خم پیدا نہیں ہونے دیتا.(نسائی کتاب افتتاح الصلٰوۃ باب الاعتدال فی الرکوع) پھر اس حالت میں وہ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کا فقرہ کہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ میرا رب جو اپنی شان کی وسعت میں سب سے بڑھ کر ہے تمام نقائص سے پاک ہے.یہ فقرہ کم سے کم تین بار یا اس سے زیادہ طاق عدد میں وہ دُہراتا ہے.(ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی التسبیح فی الرکوع) رکوع سے کھڑا ہونے کی دعا پھر سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے.اس فقرہ کے یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر اس شخص کی د عا کو سنتا ہے جو سچے دل سے اس کی تعریف بیان کرتا ہے.اس کے بعد وہ پوری طرح کھڑا ہو کر ہاتھ سیدھے چھوڑ کر یہ دعا مانگتا ہے کہ رَبَّنَا وَ لَکَ الْـحَمْدُ حَـمْدً اکَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیْہِ (نسائی کتاب التطبیق باب مایقول المأموم ) یعنی اے میرے رب! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے کثرت سے تعریف اور پاک تعریف جو سب تعریفوں کی جامع ہے.اس کے بعد وہ پھر اللّٰہُ اَ کْبَرْ کہہ کر سجدہ میں چلا جاتا ہے.سجدہ اور اس کا طریق اور اس کی دعا سجدہ اسے کہتے ہیں کہ انسان اپنی سات ہڈیوں پر زمین پر جھک جاتا ہے یعنی اس کا ماتھا زمین پر پوری طرح لگا ہوا ہو اس کے دونوں ہاتھ قبلہ رُو زمین پر رکھ ہوئے ہوں اور اس کے گھٹنے بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اور اس کے دونوں پائوں بھی زمین پر لگے ہوئے ہوں اس طرح کہ دونوں پائوں کی انگلیاں دبا کر قبلہ رُو کی ہوئی ہوں (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب فی اعضاء السجود...) اس حالت میں مسلمان سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰیکہتا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اے میرے رب! تو اپنی شان کی بلندی کے لحاظ سے سب سے زیادہ ہے.یہ فقرہ وہ کم سے کم تین دفعہ یا اس سے زیادہ کسی طاق عدد کے مطابق کہتا ہے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی التسبیح فی السجود) اس کے بعد وہ اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کربیٹھ جاتا ہے.اس طرح کہ اس کی بائیں لا ت تو تہہ ہو کر اس کے نیچے آجائے اور پائوں لیٹا ہوا ہو.اور اس پر وہ سہارا لے کر بیٹھ جائے اور دائیں لات اس طرح ہو کہ ہو تو تہہ

Page 169

کی ہوئی مگر اس کا پائوں اس طرح کھڑا ہو کہ انگلیاں قبلہ رُخ ہوں.دعا بَین السَّجْدَتَین اس وقفہ میں وہ یہ دعا پڑھتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاھْدِ نِیْ وَعَا فِنِیْ وَارْزُقْنِیْ (ابو داؤد بحوالہ مشکٰوۃ کتاب الصلٰوۃ باب السجود و فضلہ) جس کے یہ معنے ہیں کہ اے میرے رب! میرے گناہ معاف کر اور مجھ پر رحم کر اور مجھے سب صداقتوں کی طرف رہنمائی بخش اور مجھے تمام عیبوں سے محفوظ رکھ اور مجھے اپنے پاس سے حلال و طیّب رزق عطا فرما.(بعض احادیث میں وَاجْبُرْنِیْ اور بعض میں وَارْفَعْنِیْ آتا ہے یعنی اے میرے رب! میری تمام کمزوریوں کو دُور کر اور تمام نقصانات سے بچا.اور میرا قدم ہر گھڑی ترقی کی شاہراہ پر گامزن رہے) اس کے بعد وہ پھر بآواز بلند اَللّٰہُ اَ کْبَرْ کہ کر پہلے کی طرح سجدہ میں چلا جاتا ہے.اور پہلے سجدہ کی طرح دعا کر کے پھر اللّٰہُ اَکْبَرْ کہہ کر کھڑا ہو جاتا ہے.اسے ایک رکعت کہتے ہیں اس کے بعد وہ پہلے کی طرح پھر ایک رکعت ادا کرتا ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ سُبْـحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِـحَمْدِکَ والی دعا جس سے اُس نے نماز شروع کی تھی وہ اسے حذف کر دیتا ہے اور صرف سورۂ فاتحہ سے نماز شروع کرتا ہے.اس دوسری رکعت کے ختم کرنے پر وہ اس طرح بیٹھ جاتا ہے جس طرح کہ پہلے سجدہ اور دوسرے سجدہ کے درمیان بیٹھا تھا.تشہد اور تشہد پڑھتا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَ بَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ.اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ (بخاری کتاب الصلٰوۃ باب التشہّد فی الآخرۃ) یعنی تمام وہ کلمات جو تعظیم کے لئے زبان سے نکل سکتے ہیں اور تمام وہ عبادات جو جسم انسانی بجالا سکتا ہے اور تمام وہ مالی قربانیاں جو کسی پاک ذات کے لئے پیش کی جا سکتی ہیں خدا تعالیٰ کا ہی حق ہیں اس کے سوا اور کوئی ہستی ان کی مستحق نہیں اور اے نبی! تجھ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اللہ تعالیٰ کا رحم تجھ پر اُترتا رہے اور اس کی برکتوں سے تو حصہ پاتا رہے اور ہم پر جو اس نماز میں شامل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے تمام نیک بندے جو پہلے گزر چکے ہیں یا اس وقت موجود ہیں یا آئندہ آنے والے ہیں ان سب پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں.درود شریف اس کے بعد وہ درود پڑھتا ہے جو مختلف الفاظ میں آتا ہے مگر مختصر درود یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَجِیْدٌ (بخاری کتاب

Page 170

بدء الخلق باب یزفون النسلان فی المشی و مشکٰوۃ کتاب الصلٰوۃ باب الصلٰوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفضلہ ) اس کے معنے یہ ہیں کہ اے اللہ! محمد پر اپنے فضل اور رحمتیں نازل کر اور اسی طرح تمام ان لوگوں پر جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق رکھتے ہیں جس طرح تو نے ابراہیم پر اور ابراہیم سے تعلق رکھنے والوں پر فضل اور رحمت نازل کی تھی اور اے اللہ! محمد صلعم پر اپنی برکتیں نازل کر اور ان پر بھی جو آپؐ سے تعلق رکھتے ہیں.جس طرح تو نے ابراہیم پر اور اس سے تعلق رکھنے والوں پر برکتیں نازل کی تھیں.تشہد کے بعد پڑھنے کے لئے مسنون دعا اس کے بعد وہ بعض دعائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں پڑھتا ہے مثلاً یہ کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْـحُزْنِ وَأَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَأَعُوْ ذُبِکَ مِنَ الْـجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَأَعُوْ ذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ وَ قَھْرِ الرِّجَالِ(ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب الاستعاذۃ) یعنی اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مجھے کوئی گھبرا دینے والی مصیبت پہنچے یا مجھے غم فکر دبالیں اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ میں وہ سامان کھو بیٹھوں جن سے میری زندگی کے کام چلتے ہیں یا وہ طاقتیں میری جاتی رہیں جن کی مجھے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ضرورت ہے اور اس سے بھی پناہ چاہتا ہوں کہ میرے پاس ترقی میں مدد دینے والے سامان تو موجود ہوں یا ترقی میں مدد دینے والی طاقتیں تو مجھے حاصل ہوں مگر اُن کے استعمال سے میں گریز کروں اور سستی اور کاہلی کا شکار ہو جائوں اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بزُدلی اور ُبخل کی اخلاقی امراض سے.اور اے میرے رب! اس بارہ میں بھی تیری پناہ چاہتا ہوں کہ مجھے قرض دبالے اور میں لوگوں کی نظروں میں قرض نہ ادا کرنے کی وجہ سے ذلیل ہو جائوں اور اس سے بھی پناہ مانگتا ہوں کہ ایسے انسان مجھ پر مسلّط ہو جائیں جو میرے حقوق کو تلف کریں اور مجھے ان ترقیات کے حصول سے روک دیں جو ہر انسان کے لئے تو نے اپنے فضل سے مقدر کر چھوڑی ہیں.نماز کو ختم کرنے کا طریق یہ اور اسی قسم کی اور دعائیںہیں جو رسول کریم صلی اللہ سے ثابت ہیں ان دعائوں کو اس موقع پر مسلمان پڑھتا ہے یا جو اور دعائیں اپنی ضرورت کے مطابق مناسب سمجھتا ہے مانگتا ہے پھر وہ پہلے دائیں طرف منہ کر کے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کے بعد بائیں طرف منہ کر کے اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ کہتا ہے اور اس کی نماز ختم ہو جاتی ہے.یہ اس صورت میں ہے کہ نماز دو رکعت کی ہو اگر دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو بجائے اِدھر اُدھر منہ پھیر کر اَلسَّـلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ کہنے کے مسلمان اَللّٰہُ اَ کْبَرْ کہہ کر پھر کھڑا ہو جاتا ہے اور تین رکعت کی نماز ہو تو ایک

Page 171

رکعت او رپڑھ کر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرتا ہے اور اگر چار رکعت کی نماز ہو تو دو رکعت اور پڑھ کر پھر تشہد میں بیٹھ کر اور اوپر کی دعائیں اور کلمات پڑھ کر سلام پھیر دیتا ہے.جب دو رکعت سے زائد کی نماز ہو تو پہلے تشہد کے بعد ایک یا دو رکعت جو وہ پڑھتا ہے ان میں صرف سورۂ فاتحہ پڑھتا ہے قرآن کریم کی زائد آیات نہیں پڑھتا.مسلمانوں پر پانچ نمازوں کی فرضیت اور ان کی تفصیل اور ان کے اوقات نمازمسلمانوںپر پانچ وقت فرض ہے ایک نماز صبح کی جس کا وقت پَوپھٹنے سے لے کر سورج نکلنے کے وقت تک ہوتا ہے یعنی سورج نکلنے سے پہلے یہ نماز ختم ہو جانی چاہیے اس نماز کی دو رکعت ہوتی ہیں ایک نماز سورج ڈھلنے سے لے کر اندازاً پونے تین گھنٹہ بعد تک پڑھی جاتی ہے گرمیوں میں یہ وقت ہندوستان میں کوئی تین گھنٹہ تک چلا جاتا ہے اس نماز کو ظہر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد تیسری نماز کا وقت شروع ہوتا ہے یہ نماز دھوپ کے زَرد ہونے کے وقت تک پڑھی جا سکتی ہے اسے عصر کی نماز کہتے ہیں اور اس کی بھی چار رکعت ہوتی ہیں اس کے بعد سورج ڈوبنے سے لے کر شفق یعنی مغرب کی طرف کی ُسرخی کے غائب ہونے تک چوتھی نماز کا وقت ہوتا ہے اور اسے مغرب کی نماز کہتے ہیں اس کی رکعتیں تین ہوتی ہیں پہلی دو رکعتوں کے بعد تشہد پڑھتے ہیں اور پھر کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھتے ہیں اور دونوں سجدوں کے بعد تشہد میں بیٹھ کر اور جو دعائیں اوپر بیان ہو چکی ہیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے ہیں.اس کے بعد پانچویں نماز کا وقت شروع ہوتا ہے جسے عشاء کی نماز کہتے ہیں اس کا وقت ہندوستان کے اوقات کے لحاظ سے غروب آفتاب سے کوئی ڈیڑھ گھنٹہ بعد سے شروع ہوتا ہے اور نصف شب تک اور بعض کے نزدیک اس کے بعد تک بھی چلا جاتا ہے اس نماز کی رکعتیں بھی چار ہوتی ہیں جو رکعتیں بیان کی گئی ہیں یہ اس وقت کے لئے ہیں جبکہ انسان وطن میں موجود ہو یا ایسی جگہ پر ہو جہاں اس کی مستقل اقامت ہو.جب سفر میں ہو تو اس صورت میں صبح اور مغرب کی نمازوں کے سوا دوسری نمازیں آدھی پڑھی جاتی ہیں یعنی بجائے چار رکعتوں کے دو دو رکعت پڑھی جاتی ہیں بعض لوگوں میں غلطی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ سفر میں آدھی نماز رہ گئی ہے لیکن اصل بات یہ نہیں بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے جسے امام مالک ؒنے نقل کیا ہے (مؤطا امام مالک کتاب الصلوٰۃ ،باب قصر الصلٰوۃ فی السّفر) ثابت ہے کہ جب نماز فرض ہوئی ہے تو ظہر عصر اور عشاء کی دو رکعتیں ہی تھیں مگر بعد میں سفر کی حالت میں دو دو رکعتیں ہی رہنے دی گئیں لیکن حضر یعنی اقامت کے اَ یّام میں دُگنی نماز کر دی گئی.یعنی دو دو کی جگہ چار چار رکعتوں کا حکم ملا.ان نمازوں میں سے صبح کی نماز باجماعت ہو تو امام سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھتا ہے

Page 172

اور مقتدی سورۃ فاتحہ ساتھ ساتھ آہستہ پڑھتے ہیں اور باقی قرا ئَ ت صرف سنتے ہیں باقی حصہ نماز کا امام بھی آہستہ پڑھتا ہے سوائے تکبیروں اور سَمعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ اور آخری سلاموں کے.ظہر کی نماز میں تمام رکعتوں میں امام آہستہ پڑھتا ہے اور اس کے پیچھے کے نمازی بھی اپنے طور پر سورہ فاتحہ اور قرآن کریم پڑھتے ہیں.عصر کی نماز بھی اسی طرح ہوتی ہے مغرب کی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں امام سورہ فاتحہ بلند پڑھتا ہے اور ساتھ ساتھ اس کے مقتدی آہستہ آہستہ منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے جاتے ہیں سورۂ فاتحہ کے بعد امام قرآن کریم کا کچھ حصہ جب پڑھتا ہے تو مقتدی خاموش اس کے پڑھے ہوئے کو سنتے ہیں خود کچھ نہیں پڑھتے.آخری رکعت میں امام بھی دل میں سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور مقتدی بھی.عشاء کی نماز میں بھی پہلی دو رکعتو ںمیں اسی طرح امام بلند آواز سے سورہ فاتحہ اور قرآن کریم کا کچھ اور حصہ پڑھتا ہے اور مقتدی سورہ فاتحہ منہ میں دُہراتے ہیں اورقرآن کریم کا دوسرا حصہ صرف سنتے ہیں مگر آخری دو رکعتوں میں قیام کی حالت میں امام صرف سورہ فاتحہ پڑھتا ہے اور وہ بھی آہستہ آہستہ منہ میں.اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر آہستہ آہستہ ہی منہ میں سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تمام نمازو ںمیں باجماعت ہوں تو امام تکبیریں اور سَـمِــعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ رکوع سے کھڑے ہوتے وقت اور نماز کے خاتمہ کے بعد کا سلام بہرحال بلند آواز سے کہتا ہے کیونکہ مقتدیوں کو ساتھ چلانا مدِّنظر ہوتا ہے.نمازِ وتر ان پانچ فرض نمازوں کے علاوہ ایک نماز وتر کہلاتی ہے اس نماز کی بھی مغرب کی طرح تین رکعتیں ہیں مگر فرق یہ ہے کہ مغرب کی نماز میں پہلے تشہد کے بعد جو تیسری رکعت پڑھی جاتی ہے اس میں سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی زائد تلاوت نہیں کی جاتی لیکن وترکی نماز میں تیسری رکعت میں بھی سورہ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی چند آیات یا کوئی چھوٹی سورۃ پڑھی جاتی ہے (ترمذی کتاب الصلٰوۃ ابواب الوترباب فی ما یقرأ بہ فی الوتر) دوسرا فرق اس میں یہ ہے کہ اس نماز کو مغرب کی نماز کے برخلاف دو حصوں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی یہ بھی جائز ہے کہ دو رکعتیں پڑھ کر تشہد کے بعد سلام پھیر دیا جائے (نسائی کتاب قیام اللیل و تطوع النہار باب کیف الوتر بثلاث و باب کیف الوتر بواحدۃ وکیف الوتربثلاث) یہ نماز عشاء کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہے اور تہجد کی نماز کے بعد بھی جس کا ذکر آگے آتا ہے.سنتیں ان نمازوں کے علاوہ کچھ سنتیں ہوتی ہیں یعنی ایسی زائد نماز جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بالالتزام ادا فرمایا کرتے تھے اور گو آپؐ ان کو فرض قرار نہ دیتے تھے لیکن ان کی تاکید کرتے رہتے تھے.صبح کی نماز سے پہلے دو

Page 173

رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعتیں ہیں اور بعد میں بھی چار رکعتیں ہیں.چار کی جگہ دو دو بھی پڑھی جا سکتی ہیں.عصر کے ساتھ کوئی ایسی سنتیں نہیں ہیں.مغرب کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اور عشاء کے بعد بھی دو یا چار رکعتیں پڑھی جاتی ہیں.(ترمذی ابواب الصلٰوۃ باب ماجاء فی من صلی فی یوم و لیلۃ ثنتی عشرۃ رکعۃ من السنۃ مالہ من الفضل.وباب ماجاء فی الرکعتین بعد الظہر) اور انہی کے بعد مذکورہ بالا و تر پڑھے جاتے ہیں.نمازِ تہجد ان سنتوں کے علاوہ ایک نماز تہجد کہلاتی ہے نصف شب کے بعد کسی وقت پَوپھٹنے سے پہلے یہ نماز پڑھی جاسکتی ہے مگر جیسا کہ تہجد کے معنوں سے ظاہر ہے یہ نماز سو کر اُٹھنے کے بعد پڑھی جانی چاہیے گو کسی وقت سونے کا وقت نہ ملے اور نصف شب گزر جائے تو یوں بھی پڑھ سکتا ہے مگر قرآن کریم نے جو اس کا نام رکھا ہے اس سے بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق ِ عمل سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ عشاء کے بعد آدمی سو جائے اور سونے سے اُٹھ کر یہ نماز ادا کرے اس نماز کا روحانی ترقیات سے بہت گہرا تعلق ہے اور قرآن کریم میں اس کی خاص تعریف آئی ہے (دیکھو سورۂ مزمل آیت ۱ تا ۶) ان کے علاوہ بعض اور سنتیں بھی ہیں جو مؤکّد تو نہیں یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خاص تاکید تو نہیں فرمائی مگر آپ جب موقع ملتا انہیں ادا کرتے تھے ان میں سے ایک اشراق کی نماز ہے یعنی جب سورج نیزہ دو نیزے اوپر آ جائے اسی طرح اور بعض نوافل ہیں لیکن حکم یہ ہے کہ جب سورج نکل رہا ہو یا ڈوب رہا ہو یا نصف النہار کا وقت ہو تو نماز ناجائز ہے اور جب دھوپ زَرد ہو جائے تب بھی ناپسندیدہ ہے.نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا نمازوں کو ان کے مقررہ وقت پر پڑھنے کا حکم ہے لیکن اگر کسی مجبوری کی وجہ سے مثلاً بارش ہو اور بار بار مسلمانوں کا جمع ہونا مشکل ہو یا کوئی ایسا اجتماعی کام ہو جسے درمیان میں نہ چھوڑا جا سکتا ہو یا سفر ہو تو جائز ہے کہ ظہر اور عصر کی نمازوں کو ملا کر پڑھ لیا جائے اس صورت میں بعض کے نزدیک درمیانی سنتیں معاف ہوتی ہیں اور بعض کے نزدیک پہلی اور پچھلی سنتیں بھی معاف ہوتی ہیں اور میرے نزدیک یہی آخری بات درست ہے.مغرب اور عشاء کو ملا کر پڑھنا بھی انہی حالات میں اور اسی طرح جائز ہے جس طرح کہ ظہر اور عصر کا.مگر صبح ظہر یا عصر مغرب یا عشاء صبح کا ملا کر پڑھنا جائز نہیں سوائے اس کے کہ کوئی ایسے شدید کام میں ہو کہ اس کا ترک جان کے لئے پُرخطر ہو جیسے جہاد میں کہ اگر لڑائی سے ہٹ کر نماز پڑھے تو دشمن قتل کر دے گا یا مثلاً نہر یا دریا کا بند ٹوٹ جائے اور اس کے بند کرنے میں لوگ مشغول ہوں یا آگ لگ جائے اور اس کے بجھانے میں لوگ مشغول ہوں تو ایسے مواقع پر ان نمازوں کو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جن کو امن کی حالت میں جمع نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ آفات ملک اور قوم اور شہر کی تباہی کا موجب ہوتی ہیں.اس صورت میں بھی ان نمازوں کو جو عام طور پر جمع نہیں ہو سکتیں جمع

Page 174

کرنا جائز ہے کہ کوئی شخص بیہوش ہو جائے اور اس وقت ہوش آئے کہ دوسری نماز کا وقت آ جائے مثلاً عصر کی نماز کے وقت بیہوش ہو اور عشاء کے وقت ہوش آئے تو عصر اور مغرب جمع کر کے پڑھ لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ کے موقعہ پر ظہر، عصر مغرب اور عشاء جمع کیں مگر ان مجبوریوں کی وجہ سے جو اوپر بیان ہوئیں ان نمازوں کا جمع کرنا بھی جائز ہے جو عام طور پر جمع نہیں کی جا سکتیں لیکن جو نماز جان بوجھ کر چھوڑ دی جائے اسے دوسرے موقع پرپڑھنا جائز نہیں یعنی وہ نماز کے طورپر قبول نہ ہو گی اس کا علاج صرف توبہ اور استغفار ہے ہاں! بھول اور نسیان کے سبب سے یا سوتے رہنے کی وجہ سے جو نماز ُچھٹ جائے جب بھی یاد آ جائے یا آنکھ کھلے اس کا پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ ممنوع وقت نہ ہو جیسے سورج نکل رہا ہو تو سو کر اٹھنے والا انتظار کرے اور جب سورج پوری طرح نکل چکے تو اس وقت نماز ادا کرے.نمازِ جمعہ ان نمازوں کے علاوہ ایک جمعہ کی نماز ہے جو جمعہ کے دن ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہے اس دن ظہر کی نماز نہیں پڑھی جاتی جمعہ کی نماز سے پہلے امام خطبہ پڑھتا ہے جس میں حسبِ موقع کسی اسلامی مسئلہ یا مسلمانوں کی کسی ضرورت کے متعلق وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اس کے بعد وہ دو رکعت نماز پڑھاتا ہے جس میں برخلاف ظہر کی نماز کے سورۂ فاتحہ اور قرآن کریم کا حصہ بلند آواز سے پڑھا جاتا ہے سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے وقت مقتدی ساتھ ساتھ سورۂ فاتحہ کے الفاظ منہ میں آہستہ طور پر دہراتے جاتے ہیں ا ور دوسری قراء ت کے وقت صرف کلامِ الٰہی سنتے ہیں.صلوٰۃِ عیدَین اس کے علاوہ دو اور نمازیں ہوتی ہیں ایک رمضان کے بعد کی عید کی نماز او رایک حج کے موقع کی عید کی نماز.رمضان کے بعد کی عید پہلی شوال کو ہوتی ہے اس میں دو رکعت ہوتی ہیں اور سورۂ فاتحہ اور تلاوت بلند آواز سے امام پڑھتا ہے اور حج کے موقعہ کی عید حج کے دوسرے دن دسویں ذی الحجہ کو ہوتی ہے اس میں بھی دو رکعتیں ہوتی ہیں اور امام سورۂ فاتحہ اور مزید حصہ قرآن کریم کا بلند آواز سے پڑھتا ہے.یہ دونوں نمازیں دن کے ابتدائی حصہ میں ہوتی ہیں روزوں کے بعد کی عید جسے عیدالفطر کہتے ہیں ذرا دیر سے پڑھی جاتی ہے اور حج کے بعد کی جسے عیدالاضحیہ کہتے ہیں ذرا سویرے پڑھی جاتی ہے.ان دونوں نمازوں کے ساتھ بھی خطبہ ہوتا ہے مگر جمعہ کے خطبہ کے برخلاف ان عیدو ںمیں خطبہ نماز کے بعد ہوتا ہے ان دونوں نمازوں سے پہلے اقامۃ نہیں کہی جاتی.نمازِ جنازہ ان نمازوں کے علاوہ ایک ضروری نماز ،جنازہ کی نماز ہے یہ فرض کفایہ ہے یعنی جب کوئی مسلمان

Page 175

فوت ہو اور کچھ مسلمان اس کا جنازہ پڑھ لیں تو سب کی طرف سے فرض کا ادا ہونا سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر کسی مسلمان کی نماز جنازہ کوئی مسلمان بھی ادا نہ کرے تو سب مسلمان جن کو علم ہوا اور وہ شامل نہ ہوئے مجرم سمجھے جاتے ہیں گویا جنازہ کی ادائیگی انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ قومی ذ مہ داری ہے.جنازہ کی نماز میں دوسری نمازوں کے برخلاف رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کے سب حصے کھڑے کھڑے ادا کئے جاتے ہیں (بخاری کتاب الجنائز باب سنۃ الصلٰوۃ علی الجنائز) اور یہ جنازہ کی نماز میّت کو سامنے رکھ کر پڑھائی جاتی ہے اور یہی وجہ اس میں رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی ہے کیونکہ میّت کے سامنے پڑے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکا لگ سکتا ہے کہ یہ رکوع اور سجدہ اس میّت کو کیا جا رہا ہے اور ایسی لاش جو کسی بزرگ کی ہو اس کا جنازہ پڑھتے ہوئے کئی کمزور طبائع خود بھی اس خیال میں مبتلا ہو سکتی ہیں پس نماز جنازہ سے رکوع اور سجدہ کو اڑا دیا گیا تا شرک کا قلع قمع ہو.اس نماز کے چار حصے ہوتے ہیں امام قبلہ رو کھڑا ہو کر بلند آواز سے سینہ پر ہاتھ باندھ کر تکبیر کہہ کر اس نماز کو شروع کرتا ہے اس نماز سے پہلے اِقامت نہیں کہی جاتی.پہلی تکبیر کے بعد منہ میں آہستہ آواز سے امام اور مقتدی اپنے اپنے طور پر سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتا ہے اور بغیر رکوع میں جانے کے اسی طرح کھڑے ہوئے منہ میں آہستہ آواز سے درود پڑھتا ہے اور مقتدی بھی اپنے اپنے طور پر ایسا ہی کرتے ہیں اس کے بعد امام پھر تکبیر کہتا ہے اور اسی طرح کھڑے کھڑے میّت کی بخشش کے لئے اگر وہ بالغ ہو دعا کرتا ہے اسی طرح دوسرے مسلمان مردوں عورتوں بڑوں چھوٹوں سب کے لئے عموماً اور میّت کے پسماندگاں کے لئے خصوصاً دعا کرتا ہے اور مقتدی بھی یہی کام کرتے ہیں میّت نابالغ ہو تو اس کے ماں باپ کے صبر اور نعم البدل کے لئے دعا کی جاتی ہے اور اس امر کے لئے کہ مرنے والے کو خدا تعالیٰ اس کے رشتہ داروں کے لئے اگلے جہاں میں رحمت اور بخشش کا ذریعہ بنا دے بعض مقررہ دعائوں کے علاوہ اپنے طور پر اپنی زبان میں بھی دعا کی جا سکتی ہے اور کی جاتی ہے.اس کے بعد امام پھر بلند آواز سے تکبیر کہتااور تھوڑے سے وقفہ کے بعد سلام پھیر کر نماز کو ختم کر دیتا ہے.نمازِ اِستِسْقَاء بعض اور قسم کی نمازیں بھی اسلام میں ہیں مثلاً استسقاء کی نماز جو قلت باراں اور خطرۂ قحط کے وقت میں پڑھی جاتی ہے کسوف و خسوف کے موقعہ کی نماز.صلوٰۃِ حاجت صَلوٰۃُ الْحَاجَۃِ یعنی کسی بڑی مصیبت کے دُور ہونے کے لئے یا دُور ہونے پر شکریہ کے طور پر یہ نماز پڑھی جاتی ہے مگر یہ نمازیں چونکہ کبھی کبھی ادا ہوتی ہیں میں ان کے بارہ میں اس جگہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا.فقہ کی

Page 176

کتابوں میں ان کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہے.باجماعت نماز کے لئے صف آرائی تمام باجماعت ادا ہونے والی نمازوں کے لئے حکم ہے کہ امام آگے کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے اتنے اتنے فاصلہ پر صفیں باندھ کر کھڑے ہوں کہ سب آسانی سے سجدہ کر سکیں صفوں کو درست کرنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طو رپر زور دیتے تھے (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ما جاء فی اقامۃ الصفوف) قرآن کریم سے بھی اس بارہ میں استدلال ہوتا ہے.نماز میں سجدہ اور قعدہ کے علاوہ باقی سب حصے کھڑے ہو کر ادا کئے جاتے ہیں لیکن بیمار کے لئے بیٹھ کر اور بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکے تو لیٹ کر اشارہ سے نماز پڑھنا جائز ہے.نماز کے آداب نماز کے وقت اِدھر اُدھر دیکھنا ،نظر پھرانا، بات کرنا یا نماز سے باہر والے کی بات کی طرف توجہ کرنا اور اسی قسم کے اور کام جو نماز کے فعل میں خلل ڈالیں منع ہوتے ہیں.(ابو داؤد کتاب الصلٰوۃ باب الالتفات فی الصلٰوۃ و باب النظر فی الصلٰوۃ و باب تشمیت العاطس فی الصلٰوۃ) بلاوجہ کھانسنا، اِدھر ُادھر ہلنا بھی ناجائز ہے.یہ حکم پہلی تکبیر سے لے کر سلام تک کے وقت کے لئے ہے.صلوٰۃ خوف کا طریق جب نماز ایسے خوف کے وقت پڑھی جائے کہ نماز پڑھی تو جا سکتی ہو لیکن پورے اطمینان سے نہ پڑھی جا سکتی ہو جیسے مثلاً جنگ کا میدان ہو اور عملاً لڑائی نہ ہو رہی ہو لیکن دشمن حملہ کی تیاری میں ہو یا حملہ کا خوف ہو تو اس صورت میں کئی طرح نماز میں تخفیف جائز ہے ایک مسنون طریق یہ ہے کہ ایک حصہ امام کے ساتھ دو رکعتیں اور زیادہ خطرہ ہو تو ایک رکعت ادا کرے دوسرا حصہ دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے جب پہلا حصہ ایک یا دو رکعت جیسا بھی موقعہ ہو ختم کرے تو جو حصہ کھڑا تھا وہ امام کے پیچھے آ جائے اور پہلا پیچھے ہٹ کر دشمن کی طرف منہ کر کے کھڑا رہے اگر دشمن قبلہ کی طرف ہو تو بہرحال سب کا منہ ایک ہی طرف ہو گا (مسلم کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ الخوف) اس نماز کی مختلف صورتیں ہیں جو گیارہ تک پہنچتی ہیں اور خطرہ کی مختلف حالتوں کے مطابق ہیں اس جگہ ان سب کے بیان کا موقع نہیں.خلاصہ یہ ہے کہ نماز باجماعت کا حکم خطرہ جنگ کی صورت میں مختلف حالات کے ماتحت بدل جائے گا اور موقعہ کے مناسب ان صورتوں کے مطابق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں بدلتا رہے گا اس نماز کا ذکر قرآن کریم میں سورہ نساء رکوع ۱۵ آیت ۱۰۲ تا ۱۰۵ میں آتا ہے.اس کے علاوہ جب خطرہ شدید ہو اور سواری پر یا پیدل دوڑ کر دشمن کے مقابلہ کے لئے جانا پڑے یا پیچھے ہٹنا پڑے تو سواری پر ہی یا دوڑتے ہوئے بھی نماز جائز ہے اور اسے جلدی جلدی ادا کرنے کی بھی اجازت ہے اس کا ذکر

Page 177

بھی سورۂ نساء کے رکوع ۱۵ میں آتا ہے.نماز قبلہ رُخ ہو کر پڑھی جاتی ہے یعنی جہاں بھی کوئی ہو کعبہ کی طرف منہ کر کے جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے کھڑا ہوتا ہے اس طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ ایک مرکز کی طرف جمع ہو جاتی ہے یہ کعبہ کی طرف منہ کرنا اس لئے نہیں کہ اسلام نے کعبہ کو کوئی خدائی صفت دی ہے بلکہ جیسا کہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اوریہ اسی سورۃ میں آگے آئے گا ایسا اس لئے کیا گیا ہے کہ کسی نہ کسی طرف منہ کر کے کھڑے ہونے کا حکم باجماعت نماز کے لئے ضروری تھا اگر کوئی خاص جہت مقرر نہ کی جاتی اور صفوں میں کھڑے ہو کر ایک جگہ پر لوگ نماز نہ پڑھ سکتے کسی کا منہ کسی طرف ہوتا اور کسی کا کسی طرف تو نماز جماعتی عبادت کس طرح بنتی؟ پس جب جماعتی عبادت کے لئے کسی نہ کسی طرف منہ کرنا ضروری تھا تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا جس کی نسبت اسلام کا وعدہ ہے کہ سب سے پہلا گھر جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا گیا تھا یہی ہے (آل عمران آیت ۹۷) یہ گھر حضرت ابراہیمؑ سے بھی پہلے کا بنا ہوا ہے مگر حضرت ابراہیمؑ سے پہلے کسی وقت منہدم ہو گیا تھا جس پر خدا تعالیٰ کے حکم سے حضرت ابراہیمؑ نے اپنے لڑکے اسماعیلؑ کی مدد سے اسے دوبارہ بنایا (بخاری کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) حضرت اسماعیلؑ ابھی بچہ ہی تھے کہ انہیں اور ان کی والدہ کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس مقام کی خدمت اور اس میں ذکر الٰہی جاری رکھنے کے لئے حضرت ابراہیم ؑ مکہ میں چھوڑ گئے تھے.(بخاری کتاب بدء الخلق باب یزفون النسلان فی المشی) اور اللہ تعالیٰ نے انہیں خبر دی تھی کہ کسی وقت یہ مقام تمام سچے پرستاروں کا مرکز ہو گا (سورہ بقرۃ آیت ۱۲۶ و حج آیت ۲۷) چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کی (سورہ بقرۃ آیت ۱۳۰ و سورہ جمعہ آیت۳ ) اس لئے اسی مقام کو مسلمانوں کے ظاہری اجتماع کا مرکز بنایا گیا.تا انہیں ہمیشہ وہ فرض یاد رہے جو ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جماعت مسلمین کے قیام کی غرض کے طو رپر مقرر کیا گیا تھا.نماز میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کی وجہ اور حکمت اس کا ثبوت کہ کعبہ عبادت کا حصہ دار نہیں صرف اجتماع کا ذریعہ ہے یہ ہے کہ جب چلتی ہوئی کشتی یا کسی دوسری سواری میں نماز ادا کرنی پڑے تو ایک دفعہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز شروع کر لینا کافی ہوتا ہے اس کے بعد سواری کا منہ کدھر بھی ہو جائے نماز میں خلل نہیں پڑتا (ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب فی الصلٰوۃ الی الراحلۃ و ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب التطوع علی الراحلۃ) اور جب کعبہ کی طرف کا علم نہ ہو سکے تو نماز معاف نہیں ہو جاتی بلکہ جدھر منہ کر کے بھی نماز پڑھ لی جائے جائز ہے بلکہ ضروری ہے کہ نماز

Page 178

پڑھے خواہ کدھر ہی منہ کر کے نماز پڑھے.(ترمذی ابواب الصلوٰۃ باب ماجاء فی الرجل یصلّی لغیر القبلۃ فی الغیم) اگر وضو اورتیمم دونوں نہ کر سکے تو اس صورت میں بھی میرے نزدیک نماز ادا کر سکتا ہو تو ادا کر لے جیسے مثلاً جہاز غرق ہو جائے اور کوئی شخص لائف بیلٹ پہن کر سمند رمیں کود پڑے اور عرصہ تک اسے بچانے والا کوئی نہ آوے تو نہ یہ وضو کر سکے گا نہ تیمم اس سورۃ میں اس کا اشارہ کے ساتھ ہی نماز پڑھ لینا درست ہو گا اور جن فقہاء کے نزدیک اس طرح پانی میں ہونا وضو ہی کا مترادف ہے ان کے خیال کی رو سے تو اس کا وضو ہی ہو گا کیونکہ وضو والے سب اعضاء دُھل چکے ہوںگے.نماز کی شکل میں حکمت بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں جو قیام اور رکوع اور سجدہ اور قعدہ مقرر کئے گئے ہیں یہ ایک رسمی سی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان ہیئتوں کے اختیارکرنے میں خاص حکمتیں ہیں جو نماز کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں اور نماز کا ان پر مشتمل ہونا اسے ایک رسمی عبادت نہیں بناتا.ان ہیئتوںپر اس کا مشتمل ہونا اسے روحانیت کے لئے مکمل بناتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسانی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جسم کا اثر روح پر اور روح کا اثر جسم پر پڑتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جو رونی صورت بنائے اس کی آنکھو ںمیں کچھ دیر کے بعد آنسو آ جاتے ہیں اور دل بھی غمگین ہو جاتا ہے اور جس غمگین آدمی کے پاس بیٹھ کر لوگ ہنسیں اور اسے ہنسائیں تھوڑی دیر کے بعد اس کے دل پر سے غم کا اثر کم ہونے لگتا ہے او راس کے اُلٹ یہ بھی ہوتا ہے کہ دل کے غم اور خوشی کا اثر انسان کے چہرہ اور دوسرے اعضاء پر پڑتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ ایک رات کے صدمہ سے بعض لوگوں کے بال تک سفید ہو گئے ہیں اس طبعی قانون کے مطابق اسلام نے عبادت الٰہی میں چند جسمانی افعال بھی شامل کئے ہیں تاکہ وہ ظاہری ہیئتیں جو ادب کا اظہار کرتی ہیں اس کے باطن میںبھی اسی قسم کاجذبہ پیدا کر دیں.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں ادب اور احترام کے اظہار کے لئے مختلف اقوام نے مختلف شکلو ںکو اختیار کیا ہے بعض قوموں میں ادب کے اظہار کا طریق یہ ہے کہ اپنے بزرگوں کے سامنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور بعض قوموں میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا ادب کے اظہار کی علامت ہے بعض میں رکوع کی طرح جھک جانا ادب کے اظہار کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے اور بعض قومو ںمیں سجدہ کے طور پر گر جانا ادب کے انتہائی اظہار کے لئے علامت مقرر کیا گیا ہے اور بعض قوموں میں گھٹنوں کے َبلبیٹھنا انتہائی ادب کے لئے علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ اسی وجہ سے مختلف اقوام میں عبادت کے وقت ان مختلف صورتوں کو اختیار کیا جاتا ہے.ایرانی لوگ اپنے بادشاہ کے سامنے جسے وہ خدا تعالیٰ کا مظہر قرار دیتے تھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے تھے اسی طرح بعض حالات میں وہ ہاتھ چھوڑ کر

Page 179

کھڑے ہوتے تھے مغربی ممالک میں گھٹنوں کے َبل گرنے کو انتہائی تذلل کا مقام سمجھا جاتا ہے.ہندوستان میں رکوع کی طرح جھکنا ادب کے اظہار کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح اپنے قابلِ تحریم بزرگوں اور بُتوں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے.اسلام چونکہ سب دنیا کے لئے ہے اس نے اپنی عبادت میں ان سب طریقوں کو جمع کر دیا ہے تاکہ ہر قوم کے لوگوں کے دلوں میں اس طریقِ عبادت سے وہ خشیت پیدا ہو جو عبادت میں پیدا ہونی چاہیے کیونکہ ایک تو اپنی قومی عادت کے ماتحت وہ اس خاص ہیئت سے زیادہ متاثر ہوں گے دوسرے اپنی قلبی کیفیت کے ماتحت وہ ان مختلف ہیئتوں سے موقع کے مناسب زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ انسان کے اندر جو مختلف تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ان کے ماتحت وہ کبھی تو شدّتِ محبت اور شدّتِ ادب کے وقت جھک جاتا ہے کبھی دوزانو ہو جاتا ہے کبھی سامنے کھڑا ہو جاتا ہے اور کبھی سجدہ میں گر جاتا ہے پس اس کے قلب کی جو بھی کیفیت ہو گی اس کے مطابق ہیئت کے وقت اس کے قلب میں جوش پیدا ہو جائے گا اور وہ اپنی عبادت سے پورا فائدہ اُٹھا سکے گا.علاوہ طبعی کیفیت کے مختلف جسمانی کیفیتوں کے ماتحت بھی ان مختلف حرکات کا اثر انسانی دل پر مختلف پڑتا ہے مثلاً ایک نزلہ کا مریض سجدہ میں تکلیف پاتا ہے او راس حالت میں اسے پورا جوش نہیں آتا لیکن کھڑے ہونے یا قعدہ کی حالت میں اسے پورا جوش دعا کے لئے پیدا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اس کی صحت کے زیادہ مطابق ہوتی ہے مگر ایک دوسرا آدمی جس کی مثلاً لاتوں میں ُضعف محسوس ہو رہا ہو سجدہ میں زیادہ جوش پاتا ہے.خلاصہ یہ کہ اسلام نے چونکہ عبادت کو ایک اجتماعی فعل قرار دیا ہے اور چونکہ اس نے سب قوموں کو جمع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے اس لئے اس نے اپنی عبادت میں ان تمام ہیئتوں کو جمع کر دیا ہے جن کے ذریعہ مختلف اقوام کو ادب و محبت کے اظہار کی عادت ہے اور جو مختلف حالتوں میں مختلف انسانوں کے دل میں عقیدت اور ادب کے جذبات کو اُبھار دیتی ہیں اور اس کی نماز ایسی جامع اور کامل ہے کہ اور کسی مذہب کی نماز اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسی خصوصیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اسلام نے اجتماعی نمازوں کا حکم دیا ہے کیونکہ جب مختلف استعدادوں کے لوگ ایک جگہ جمع ہوںتو ایک دوسرے کے قلب کی حالت کا اثر دوسرے پر پڑتا ہے اور کمزور قویٰ کی قوت ایمان کو اپنے دل پر تاثیر ڈالتا ہوا محسوس کرتا ہے.چونکہ کبھی کبھی انسان کے دل میں َخلوت میں عبادت کا جوش بھی پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام نے فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی ہے جیسا کہ تہجد کی نماز ہے اور اس طرح انسان کی اس مخصوص ضرورت کو بھی پورا کر دیا گیا ہے.

Page 180

خلاصہ یہ کہ اسلامی نماز ان تمام طریقوں کی جامع ہے جو مختلف اقوام کے دلوں میں اس کیفیت کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنتے چلے آئے ہیں جو عباد ت کے لئے ضروری ہے اور اس میں ہر قوم ہر فرد کی قلبی حالت کو درست کرنے اور عبادت کا سچا جذبہ پیدا کرنے کی قوت موجود ہے او رجن ظاہری ہیئتوں کا اختیا رکرنا نماز میں لازمی قرار دیا گیا ہے ان سے نماز کی عظمت میں کمی نہیں آتی بلکہ وہ ان کے ذریعہ سے مکمل ہوتی ہے اور دوسری عبادت پر اسے فضیلت حاصل ہوتی ہے.اسلامی عبادت دوسری اقوام کی عبادتوں کے مقابل ان ظاہری افعال کے علاوہ اسلامی نماز اللہ تعالیٰ کی تسبیح تحمید اور تعظیم کے ایسے مضامین پر مشتمل ہے جو سنگدل سے سنگدل انسان کے دل کو بھی نرم کر دیتی ہے اور اس میں ایسی دعائیں رکھی گئی ہیں جو انسانی فکر کو بہت بلند کر دیتی ہیں اور اس کے مقاصد کو اونچا کر دیتی ہیں اور اس کے جذبات کو نیکی او ر تقویٰ کے لئے اُبھار دیتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی محبت کی آگ بھڑکا دیتی ہیں اور روحانی حصہ نماز کا وہی ہیں او ران کا دوسری اقوام کی عبادات سے اگر مقابلہ کیا جائے تو دونو ںمیں وہی نسبت معلوم ہوتی ہے جیسے سورج کے مقابلہ پر مٹی کا ایک دیا.اور یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام نے عبادت کو تمام ظاہری دلکشیوں سے خالی رکھا ہے.نہ اس وقت گانا ہوتا ہے نہ باجا ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر دوسری اقوام کی اجتماعی عبادتوں میں ہوتا ہے بلکہ فقط سنجیدگی سے اللہ کے بندے اُس کے حضور میں اپنی عقیدت کے پھول پیش کرتے ہیں اور اس کی محبت کی بھیک مانگتے ہیں اور باوجود اس کے کہ نماز ہفتہ میں ایک وقت ادا نہیں کی جاتی جیسا کہ اکثر مذاہب میں ہے بلکہ دن میں کم سے کم پانچ بار پڑھی جاتی ہے مگر پھر بھی اس بے دینی کے زمانہ میں بھی اس قدر مسلمان پانچ وقت کی نمازیں ادا کرتے ہیں کہ دوسرے تمام مذاہب کے افراد ملا کر ہفتہ میں ایک دفعہ کی عبادت بھی اس تعداد میں ادا نہیں کرتے.یہ نماز کی روحانی کشش کا ایک بیّن ثبوت ہے اور مشاہدہ اس پر گواہ ہے.دوسری عبادت گاہوں میں باجے بجتے ہیں، گانے گائے جاتے ہیں، آرام کے لئے کرسیاں اور صوفے مہیا کئے جاتے ہیںاور صرف ہفتہ میں ایک بار بلایا جاتا ہے لیکن لوگ ہیں کہ پھر بھی ان سے دور بھاگتے ہیں لیکن یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے مخاطب سخت زمین پر سجدہ کرنے کے لئے پانچ وقت مساجد میں شوق سے جمع ہوتے ہیں اور بغیر کسی ظاہری دلکشی کے اور بغیر کسی مادی آرام کے سامان کے موجود ہونے کے وہ لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں کہ دنیا کی سب نعمتیں اس کے آگے مات ہوتی ہیں.اس مشاہدہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ اسلامی عبادت صرف چند ظاہری رسوم کا مجموعہ ہے اور اس میں روحانیت کی نسبت جسمانی ہیئتوں کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے؟ علم النفس اس

Page 181

Page 182

طرف توجہ دلانے کی اس قدر ضرورت نہ ہو گی جس قدر کہ اس وقت جب مقصد کو بھلا دینے کے سامان زیادہ ہوں.پس اگر اس زمانہ میں دنیوی مشاغل بڑھ گئے ہیں تو نماز کی ضرورت بھی زیادہ ہو گئی ہے.اگر نماز صرف ایک اظہارِ عقیدہ کا ذریعہ ہوتا تب یہ اعتراض کچھ وزن بھی رکھتا مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے نماز کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں بلکہ اس کی غرض تو انسانی نفس میں وہ استعداد پیدا کرنا ہے جس کی مدد سے وہ مادی دنیا سے اُڑ کر روحانی عالم میں پہنچ سکے اور اس کا دماغ جسمانی خواہشات میں ہی اُلجھ کر نہ رہ جائے بلکہ اعلیٰ اخلاق کو حاصل کرے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ (العنکبوت :۴۶) یعنی نماز صرف عبودیت کا اقرار نہیں بلکہ قلب انسانی کو جلا دینے والی شے ہے اور اس کی مدد سے انسان بدیو ںاور بدکرداریوں سے بچتا ہے اور اس کا وجودبنی نوع انسان کے لئے مفید بنتاہے اور وہ ملت و قوم کا ایک فائدہ بخش جزو ہو جاتا ہے.پس جو عمل کہ یہ خوبیاں رکھتا ہو مادی اشغال کی کثرت کے زمانہ میں اس کی ضرورت کم نہیں ہوتی بلکہ بہت بڑھ جاتی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس زمانہ میں بدامنی اور شورش اور نفسانفسی اور قوموں کی قوموں پر چڑھائی کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ سچی عبادت میں کوتاہی کرنے لگے ہیں ورنہ اگر صحیح عبادت کا طریق لوگوں میں رائج ہوتا تو اس دنیا کو پیدا کرنے والے مہربان آقا سے اِتّصال کی وجہ سے ُبغض اور نفرت کی جگہ محبت اور ایثار اور قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا.وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ کی تشریح حَلِّ لُغَاتمیں بتایا جا چکا ہے کہ رَزَقَ کے معنے دینے کے ہیں نہ کہ کھانا دینے کے.رَزَقَہٗ کے یہ معنے نہیں کہ اسے کھانا کھلایا بلکہ یہ ہیں کہ اسے کچھ دیا خواہ وہ کوئی ہی چیز کیوں نہ ہو.عربی زبان میں کسی چیز کے دینے کے مفہوم کوادا کرنے کےلئے مختلف الفاظ کا استعمال اور ان کا فرق عربی زبان میں دینے کے لئے کئی الفاظ استعمال ہوتے ہیں رزق بھی اور ھِبَہ بھی اور عَطَاء بھی اور مَنّبھی اور اِحْسَان بھی اور اِنْعَام بھی اور اِیْتَاء بھی او ربھی کئی الفاظ ہیں لیکن قرآن کریم میں یہی سات لفظ استعمال ہوئے ہیں.ان میں اِیْتَاء تو صرف دینے کے معنے میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ اَ تَا سے بنا ہے جس کے معنی کسی کے پاس آنے کے ہوتے ہیں اور اِیْتَاء کے معنے کسی کے پاس لانے کے ہوتے ہیں جس سے آگے دینے کے معنے ہو گئے کیونکہ کسی کے پاس کوئی چیز لانے سے مراد غالب طور پر اُسے وہ چیز دینا ہوتا ہے.غرض یہ لفظ محض دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے خواہ وہ چیز بڑی ہو یا چھوٹی، اچھی ہو یا بُری اور قرآن کریم میں متعدد بار ان معنوں میں استعمال ہوا ہے.دوسرا لفظ عَطَاء ہے یہ لفظ اَتٰی سے زیادہ اہم مفہوم بیان کرتا ہے اور معمولی دینے کے معنوں میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ بالعموم ایسی چیز کے دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جسے اس چیز کا حاصل کرنے والا

Page 183

ایک نعمت خیال کرتا ہو اور اسے شوق سے لے.اس لفظ کو اسی موقع پر استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ چیز جو دی جائے اس کے لئے جسے دی جائے مفید اور کار آمد ہو چنانچہ عَطَاء کے معنی خدمت کے بھی ہوتے ہیں اور تَعَاطٰیکے معنی ایڑیاں اُٹھا کر اور ہاتھ بلند کر کے کسی چیز کے لینے کے ہوتے ہیں مَنّ احسان اور انعام زیادہ تر حسنِ سلوک کے معنوں پر دلالت کرتے ہیں اور لینے والے کی کسی خاص حالت کو ظاہر کرنے کی بجائے دینے والے کے نیک جذبات پر دلالت کرتے ہیں.وَھَب کے معنوں میں اس امر پر زور ہے کہ دینے والے نے جو کچھ دیا ہے اس کے بدلہ میں کسی عوض یا بدلہ کی امید نہیں رکھی.رزق کا لفظ جو آیت زیر بحث میں استعمال ہوا ہے اس کے معنے بھی دینے کے ہیں لیکن اس کے معنوں میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ جو چیز دی گئی ہے اس نے لینے والے کی ضرورت کو پورا کیا ہے.گویا علاوہ دینے کے معنوں کے اس میں پانے والے کی ضرورت کی طرف بھی اور اس کے پورا ہونے کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور چونکہ انسانی ضرورت بار بار پیدا ہوتی ہے رزق اس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار ضرورت کے مطابق نازل ہو چنانچہ مفردات راغب میں لکھا ہے کہ اَلرِّزْقُ یُقَالُ لِلْعَطَائِ الْجَارِیِّ.رِزْقٌ اُس عطاء کو کہتے ہیں جو بار بار نازل ہوتی رہے وَیُقَالُ لِلنَّصِیْبِ اور حصہ کو بھی کہتے ہیں یہ حصہ کے معنے بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئےہیں کہ رزق درحقیقت قدرِ کفایت کا نام ہے اور حصہ بھی اسی کا نام ہے کہ جس جس قدر کسی کو ضرور ت ہو اس کے مطابق اسے چیز مل جائے قرآن کریم میں آتا ہے وَفِی السَّمَآئِ رِزْقُکُمْ یعنی ہر جنس کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے سامان پیدا کر دیئے ہیں.رزق کے معنے صرف کھانے پینے کی چیزوں کے نہیں محض اردو دان طبقہ میں یہ غلط خیال رائج ہے کہ رزق کے معنی صرف کھانے پینے کی چیزوں کے ہیں حالانکہ اصل میں رزق کے معنے بقدر ضرورت سامان مہیا کر دینے کے ہیں بیشک انہی معنوں سے غذا کے معنے بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ وہ بھی انسان کا ضروری حصہ ہیں مگر وہ اصل معنی نہیں ہیں بلکہ بعد میں ضمناً پیدا ہو گئے ہیں پس وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ بھی تم کو ہم نے دیا ہو خواہ علم ہو، عزت ہو، عقل ہو ،مال ہو ،دولت ہو اس میں سے ایک حصہ تم کو خرچ کرنا چاہیے.پس اس جملہ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم کو کھانے پینے کی اشیاء ملی ہیں ان میں سے کچھ غریبو ںکو بھی کھلائو کیونکہ نہ تو اس جملہ میں غریبوں کا ذکر ہے نہ اس چیز کی تعیین ہے جسے خرچ کرنا ہے اور ہمارا کوئی حق نہیں کہ جن اشیاء کو خدا تعالیٰ نے بغیر حد بندی کے چھوڑ دیا ہے ہم ان کے لئے اپنے پاس سے حد بندی مقرر کریں.ہر عطا شدہ طاقت کے خرچ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ اس آیت میں صرف اس قدر فرماتا ہے کہ جو کچھ ہم نے

Page 184

تمہاری ضرورتوں کے مطابق دیا ہے اُسے خرچ کرو یہ ضرورت کے مطابق ملنے والی چیز علم بھی ہو سکتا ہے عقل بھی جرأت بھی غیرت بھی وفا بھی ہاتھ پائوں کی خدمت بھی آنکھ ناک کی خدمت بھی روپیہ پیسہ کی خدمت بھی.غرض کوئی چیز جس کی نسبت کہا جا سکے کہ خدا تعالیٰ نے دی ہے اور کسی ضرورت کے پورا کرنے کے لئے دی ہے اس کے خرچ کرنے کاحکم ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو کہ روپیہ تو دوسروں کو امداد کے طورپر دیتا ہو لیکن مثلاً کھانا نہ دیتا ہویا کھانا دیتا ہو کپڑا نہ دیتا ہو، یا کپڑا تو دیتا ہو لیکن مکان نہ دیتا ہو یا مکان تود یتا ہو مگر اپنے ہاتھوں سے خدمت نہ کرتا ہو یا ہاتھوں سے خدمت تو کرتا ہو مگر اپنے علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچاتا ہو تو وہ اس آیت پر پوری طرح عامل نہ سمجھا جائے گا اور اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہی اس آیت پر عامل نہیں جو غریبوں کو روپیہ دیتا ہے بلکہ وہ بھی عامل ہے جو لوگو ںکو علم پڑھاتا ہے اور وہ بھی عامل ہے جو مثلاً بیوائوں یتیموں کے کام کر دیتا ہے اور وہ سپاہی بھی عامل ہے جو میدانِ جنگ میں ملک کی خاطر جان دینے کی ّنیت سے جاتا ہے اور وہ موجد بھی عامل ہے جو رات دن کی محنت سے دنیا کے فائدہ کے لئے کوئی ایجاد کرتا ہے.اس آیت پر غور کرنے والے لوگ ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ہر طاقت اور اُن کے قبضہ کا ہرسامان ایک حد تک دوسروں کے کام آئے.ان فقہا نے اسلام کی ایک بڑی صداقت کو پا لیا جنہوںنے یہ فیصلہ کیا کہ عورت کا وہ زیور جو پہنا جائے اور کبھی کبھی دوسری غریب عورتوں کو پہننے کے لئے دے دیا جائے اس پر زکوٰۃ نہیں.یہ ایک نہایت سچی بات ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کو پاک کرنے کے لئے ہے او رجو مال خرچ ہو رہا ہو وہ جاری پانی کی طرح ہے اور کوئی چیز اسے گندہ نہیں کر سکتی.جو مال آج ایک کو فائدہ دے رہا ہے کل دوسرے کو وہ بہتے چشمے کی طرح ہے جس کا پانی اس وقت یہاں ہوتا ہے تو دوسرے منٹ آگے.اسی لئے اسلام نے زمینداری، تجارت وغیرہ سے منع نہیں کیا لیکن روپیہ یا سونا، چاندی جمع کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ زمینداری، تجارت وغیرہ سے زمیندار یا تاجر کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کا سرمایہ بھی ایک طرح خرچ ہو رہا ہوتا ہے مگر جو روپیہ جمع پڑا رہے وہ چونکہ دوسروں کے کام نہیں آتا اسے گناہ کا موجب قرار دیا اور یہاں تک فرما دیا کہ اُس مال کو گرم کر کے اُن کے جمع کرنے والوں کے ماتھوں پر داغ لگائے جائیںگے (التوبة آیت ۳۴).آیت ھٰذا میں مقام خرچ کی تعیین نہیں دوسری شق خرچ کرنے کے مقام کی ہے.اس آیت میں یہ کوئی ذکر نہیں کہ جو چیز خرچ کی جائے وہ کس پر خرچ کی جائے.اس آیت میں کوئی لفظ غریب یا مسکین کا نہیں بلکہ محض یہ ہے کہ وہ اس عطیہ کو جو ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے خرچ کرتے ہیں.

Page 185

اس آیت میں غریبوں کا تو کیا ذکر ہے یہ بھی کوئی حد بندی نہیں کہ غیروں کو دیتے ہیں نہ یہ کہ اپنے عزیزوں کو دیتے ہیں اور نہ یہ کہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں.پس جہاں تک اس آیت کا تعلق ہے وہ شخص ہی اس آیت پر عمل نہیںکرتا جو اپنے مال میں سے کچھ غریبوں کو دیتا ہو بلکہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق وہ باپ جو اپنی اولاد پر خرچ کرتا ہے اور وہ ماں جو اپنے بچہ کو دودھ پلاتی ہے او روہ خاوند جو اپنی بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور وہ اولاد جو اپنے ماں باپ کا خیال رکھتی ہے سب ہی اس آیت کے احکام میں سے بعض احکام کو پورا کرتے ہیں کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں ان سب لوگوں پر خرچ کرنا شامل ہے بلکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ خرچ بھی شامل ہے جو ایک شخص خود اپنی ذات پر کرتا ہے.آیت وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں اپنے نفس پر خرچ کرنے کا حکم وہ شخص جو اپنے نفس کو اس کی ضرورت کے مطابق کھانا کھلاتا ہے اس آیت کے مفہوم کے ایک حصہ کو پورا کرنے والا ہے.وہ شخص جو اپنے جسم کے لئے ضرورت کے مطابق کپڑا بناتا ہے اس آیت کے مفہوم کو پورا کرنے والا ہے.ہر وہ شخص جو اپنے نفس کے بارہ میں بخل سے کام لیتا ہے اور ضرورت اور صحت کے مطابق کھانا نہیں کھاتا وہ اس حکم کو توڑنے والا ہے خواہ وہ دوسروں پر کس قدر ہی کیوں نہ خرچ کرے کیونکہ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ غریبوں پر خرچ کرو بلکہ یہ آیت خرچ کرنے کے مقام کو بلا تعیین چھوڑکر خود انسان کے نفس کو بھی اس میں شامل کرتی ہے اور اس کی بیوی کو بھی اور اس کے بچے کو بھی اور اس کے دوستوں کو بھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے اس آیت کے اس مفہوم کی خوب تشریح ہوتی ہے آپؐ کے پاس ایک دفعہ ایک شخص کی شکایت کی گئی جو ہر روز روزہ رکھتا تھا، رات بھر عبادت کرتا تھا اور اپنے بیوی بچوں کی طرف سے غافل تھا اس پر آپؐ نے فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَلِرَبِّکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِاَھْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا فَاعْطِ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہٗ یعنی تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے رب کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی اور بچوں کا بھی تجھ پر حق ہے پس ہر حق والے کو اس کا حق دے او رکسی کو محروم نہ کر.(ترمذی ابواب الزھد باب فی أعطاء حقوق النفس والربّ والضّیف والأھل) آیت ھٰذا میں تمام اقسام رہبانیت کا ردّ اس آیت نے ان تمام اقسام رہبانیت کو جن میں گندہ رہنے، بھوکا رہنے، اپنے عزیز رشتہ داروں کے حقوق سے غافل رہنے کا نام نیکی قرار دیا گیا ہے ردّ کر دیا ہے کیونکہ اسلام کے نزدیک متقی وہ ہے جو ان سب چیزوں کو خرچ کرے جو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں اور اس کی عطا اس کے

Page 186

نفس کے لئے بھی ہو اور اس کے عزیزوں کے لئے بھی اور اس کے دوستوں کےلئے بھی ہو اور اس کے ہمسائیوں کے لئے بھی ہو اور غریبوں کے لئے بھی ہو اور امیروں کے لئے بھی ہو اور جان پہچان والے لوگوں کے لئے بھی ہو اور اجنبیوں کے لئے بھی ہو اور ہم وطنو ںکےلئے بھی ہو اور دُور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے بھی ہو اور انسانوں کے لئے بھی ہو اور حیوانوں کے لئے بھی ہو کیونکہ وہ حکم دیتا ہے کہ ہر نعمت سے خرچ کرو اور ہر ضروری مقام پر خرچ کرو.خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم اس آیت سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ خدا کے دیئے ہوئے میں سے کچھ حصہ خرچ کرنے کا حکم ہے نہ یہ کہ سب ہی خرچ کر دے.قرآن کریم کی دوسری آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ اس طرح اپنے مال کو خرچ کرنا کہ اس کے پاس اپنے گزارہ کا سامان ہی ختم ہو جائے ناجائز ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا (بنی اسرائیل :۰ ۳) یعنی نہ تو اپنے ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھ دے کہ خدا کی نعمتوں کا خرچ بالکل روک دے اور نہ ہاتھ ایسا کھول کہ سب مال ضائع ہو جائے اور لوگ تجھ کو ملامت کریں اور تو آئندہ مال کمانے کے سامانوں سے محروم رہ جائے مَـحْسُوْراُ سے کہتے ہیں جس کی طاقت ضائع ہو جائے اور اس کی کمزوری ظاہر ہو جائے اور اس آیت میں اُس شخص سے مراد ہے جو آئندہ کی ترقی کے سامانوں سے محروم ہو جائے.علم اور فہم میں سے کچھ خرچ کرنے کا حکم اس جگہ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ تمام مال کا خرچ تو بُرا کہلا سکتا ہے مگر اس آیت میں تو علم اور فہم وغیرہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے.ان چیزوں میں سے کچھ خرچ کرنے کے کیا معنے ہیں.کیا انسان اپنا سارا علم لوگوں کو نہ سکھائے یا اپنی عقل سے پوری طرح لوگو ںکو فائدہ نہ پہنچائے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ علم اور فہم اور عقل خرچ کرنے سے بڑھتے ہیں پس ان میں سے کچھ خرچ کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اس طرح علم سے لوگوں کو فائدہ نہ پہنچائے یا فہم سے یا عقل سے کہ ان کے بڑھنے کا منبع خراب ہو جائے مثلاً یہ ہلاک ہو جائے یا اس کی صحت ایسی طرح بگڑ جائے کہ اس کا علم یا فہم یا عقل کام دینے سے رُک جائیں مثلاً دماغ خراب ہو جائے.غرض علم اور فہم اور عقل کا بھی اسی قدر استعمال ہونا چاہیے کہ اُن کا چشمہ نہ سوکھ جائے کیونکہ جو شخص اپنے علم اور عقل سے لوگوں کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے یا اپنے آپ کو اس طرح فائدہ پہنچاتا ہے کہ ان کے منبع میں خرابی واقع ہو جاتی ہے وہ اس آیت کے حکم کے خلاف عمل کرتا ہے.خدا کی راہ میں سار امال خرچ کرنا اگر کہا جائے کہ کیا سارا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے والا گنہگار ہو گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح علم اور فہم اور عقل کا منبع ہوتا ہے اور وہ اس کا رأس المال ہوتا ہے اسی طرح مال کا بھی

Page 187

ایک منبع ہوتا ہے پس سارا مال خرچ کرنے سے یہی مراد ہو گی کہ وہ اس منبع تک کو خرچ نہ کر دے مثلاً ایک شخص کا رأس المال اگر اس کی قوتِ بازو اور اس کی عقل یا اس کا فن ہے تو وہ اگر اپنا وہ مال جو روپیہ کی صورت میں اس کے پاس ہے سب کا سب خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اس کا رأس المال موجود ہے وہ اس سے اور مال کما لے گا لیکن اگر کوئی شخص ایسا ہے کہ اس کا رأس المال اس کی دماغی قوت یا جسمانی قوت نہیں بلکہ اسے اپنی روزی کمانے کے لئے کسی قدر مال کی ضرورت ہے تو اس کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دینا جائز نہ ہو گا.حضرت ابوبکرؓ تجارتی کامو ںمیں بہت ہوشیار تھے وہ اپنی عقل سے پھر مال پیدا کر لینے کا ملکہ رکھتے تھے.مکہ سے نکلتے ہوئے ان کا سب مال قریباً ضائع ہو گیا لیکن مدینہ میں آ کر انہوں نے پھر اور مال کما لیا.ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص چندہ کی تحریک کی توآپؓ نے اپنے گھر کا سب اثاثہ چندہ میں دے دیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابوبکر اپنے گھر میں کیاچھوڑا ہے تو انہوں نے جواب دیا حضور! اللہ اور اس کے رسول کا نام چھوڑا ہے (ترمذی ابواب المناقب مناقب ابی بکر الصدیقؓ) ایسے شخص کے لئے اپنا سارا مال دے دیناکوئی گنہ نہیں کیونکہ اس کا رأس المال اس کا دماغ ہے چنانچہ اس کے بعد بغیر اس کے کہ حضرت ابوبکر ؓ لوگوں سے سوال کرتے آپ نے پھر اور مال کما لیا اور اپنا گزارہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کرتے رہے کسی کے دست نگر نہ ہوئے.پس سارے مال کی تعریف ہر شخص کے حالات کے لحاظ سے مختلف ہو گی.پیشہ ور کے لحاظ سے اور تاجر کے لحاظ سے اور.اور اس تاجر کے لحاظ سے اورجو تجارت صرف روپیہ کے زور سے نہیں کرتا بلکہ اپنے وسیع تجارتی علم اور تجربہ کے زور سے کرتا ہے اورمزید سرمایہ پیدا کر لینا اس کے لئے مشکل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے لوگ اسے خود اپنا سرمایہ پیش کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں کہ اس کو سرمایہ دے کر خود اپنے مال کو بڑھائیں گے.آیت ھٰذا میں حلال اشیاء کے خرچ کرنے کا حکم مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ انسان کو حلال اشیاء خرچ کرنی چاہئیں یہ نیکی نہیں کہ حرام مال یا حرام اشیاء خرچ کرے.بعض لوگ رشوتیں لے کر اور بعض ڈاکے ڈال کر مال جمع کرتے ہیں اور غریبوں میں تقسیم کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ نیکی کرتے ہیںحالانکہ بدی سے بدی پیدا ہو سکتی ہے نیکی نہیں ایسے لوگ بدیوں کی بنیاد رکھتے ہیں.ان کا صر ف اس قدر کام تھا کہ جو خدا تعالیٰ نے ان کو دیا تھا اس میں سے خرچ کرتے اگر کوئی شخص دوسرے کے مال سے جس پر اس کا حق نہیں دوسرے کو کچھ دے دیتا ہے وہ اس حکم کا پورا کرنے والا نہیں کہلا سکتا کیونکہ وہ اس رزق میں سے خرچ نہیںکرتا جو خدا تعالیٰ نے اسے دیا تھا بلکہ اس میں سے خرچ کرتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے نہیں دیا تھا اور یہ آیت کہتی ہے کہ جو ہم نے ان کو دیا ہے اس

Page 188

میں سے خرچ کرتے ہیں.لفظ رزق میں مال خرچ کرتے ہوئے نہ گھبرانے کی نصیحت اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مال خرچ کرنے پر گھبرانا عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہاں خدا تعالیٰ کی نعمت کا نام رزق رکھا گیا ہے اور رزق اس َعطاء کو کہتے ہیں جو جاری ہو اور جو ایک ہی دفعہ ختم نہ ہو جائے پس رزق کا لفظ استعمال کر کے اس جگہ یہ اشارہ کیا گیاہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق جو خرچ کرے گا اس کا مال بڑھے گا کم نہ ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر بار بار انعام کر ے گا.علم اور فہم اور عقل اور جسمانی قوتوں کے خرچ کرنے سے ان اشیاء کا بڑھنا تو ظاہرہی ہے.جو شخص اپنے علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے اس کا علم ہمیشہ بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا.جو لوگ درس و تدریس میں مشغول رہتے ہیں ان کا علم ہمیشہ بڑھتا رہتا ہے اسی طرح جو لوگ اپنی عقل اور اپنے فہم سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں ان کی عقل اور ان کا فہم بڑھتا ہے گھٹتا نہیں اسی طرح جسمانی قوتوں کو صحیح طرح خرچ کرنے والے کی قوت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں اسی طرح مال خرچ کرنے والے کا مال بھی بڑھتا ہے مثلاً یہ ظاہر امر ہے کہ جو شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اپنے نفس پر خرچ کرے گا اس کے جسم میں زیادہ قوت پیدا ہو گی اور وہ زیادہ کما سکے گا اسی طرح جو شخص صحیح طو رپر اپنی بیوی اور اپنی اولاد پر خرچ کرے گا اس کے ہاں کمانے والوں کی تعداد بڑھے گی.جو اپنے ہمسائیوں پر اور دوستوں پر مال خرچ کرے گا اس کے معاون اور مددگار بڑھیں گے جو غرباء پر خرچ کرے گا اس کی قوم کی مالی حالت ترقی کرے گی اور اس کا ردِ ّعمل خود اس کے مال کے بڑھنے کی صورت میں ہو گا غرض مال کا صحیح خرچ کبھی مال کو ضائع ہونے نہیں دیتا بلکہ اسے بڑھاتا ہے پس علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا فضل اس شخص پر روحانی طو رپر نازل ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے طبعی قوانین بھی اسی طرح بنائے ہیں کہ اُن کی مدد سے بھی ایسے حالات میں مال بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا اور صرف کم عقل لوگ اس قسم کے خرچ سے گھبراتے ہیں.وہ نہیں سمجھتے کہ اس طرح وہ اپنے مالوں کو نقصان پہنچاتے ہیں محفوظ نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ کو بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کروانے میں حکمت شاید کوئی اعتراض کرے کہ خدا تعالیٰ کو اس کی کیا ضرورت پیش آئی کہ بندوں کی وساطت سے دوسروں پر خرچ کر وائے کیوں نہ اس نے سب انسانوں کو براہِ راست ان کا حصہ دے دیا ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض قلت ِ تدبرّ کا نتیجہ ہے کہ خیال کیا جاتا ہے کہ بعض لوگ خرچ کرنے والے ہیں اور بعض دوسروں کی امداد پر گزارہ کرتے ہیں کیونکہ در حقیقت سب ہی لوگ ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے ہیں.امراء ظاہر میں غرباء پر مال خرچ کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ غرباء

Page 189

بھی امراء پر خرچ کر رہے ہوتے ہیں.ایک مالدار جو ایک گائوں میں رہتا ہے اس کے مال کی حفاظت ان سینکڑوں غرباء کی ہمسائیگی سے ہو رہی ہوتی ہے جو اس کے ساتھ گائوں میں رہتے ہیں ورنہ ڈاکو اور چور اس کو لوٹ لیں.اگر اس کے گھر پر چور اور ڈاکو حملہ نہیں کرتے تو اس کا موجب صرف اس کے ملازم نہیں ہوتے بلکہ اسی بستی میں رہنے والے سب لوگ ہوتے ہیں جن کے خوف سے ڈاکو اس کے گھر پر حملہ نہیں کرتے ایک امیر اپنی امارت غرباء کی مدد کے بغیر قائم ہی نہیں رکھ سکتا کیونکہ دولت مزدور کی مدد سے آتی ہے مزدور نہ ہو تو دولت کہاں سے آئے؟ پس امیر ہی غریب کی مدد نہیں کرتا بلکہ غریب بھی امیر کی مدد کرتا ہے پس اللہ تعالیٰ نے تعاون اور محبت کے قیام اور زیادتی کے لئے دنیا میں ایسا انتظام کیا ہے کہ ہر شخص کے مال میں کچھ دوسروں کا حصہ بھی رکھ دیا ہے تاباہمی ہمدردی اور تعاون سے محبت بڑھے اور تمدن ترقی کرے.اگر ہر ایک آزاد ہوتا تو مدنیت کبھی ترقی نہ کرتی اور وہ علوم جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتے ہیں کبھی پیدا نہ ہوتے پس رزق کا باہم ملا دینا ایک بڑی حکمت پر مبنی ہے.اس جگہ میں مالی خرچ کے متعلق کسی قدر تفصیل سے قرآنی تعلیم کو بیان کر دینا چاہتا ہوں تاکہ قرآن کریم نے جو اس بارہ میں احکام دیئے ہیں اجمالی طور پر ذہن نشین ہو جائیں.اسلام میں دس قسم کے مالی خرچ قرآن کریم میں مالی خرچ کئی قسم کا بیان ہوا ہے.(۱) زکوٰۃ جو فرض ہے (۲) صدقہ جو نفلی ہے اور انسان کے اندرونی تقویٰ کے فیصلہ پر اسے چھوڑ دیا گیا ہے یہ آگے دو قسم کا ہے (الف) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش کر کے مطالبہ کر لیتے ہیں (باء) ان کے لئے صدقہ جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کرتے.یہ آگے دو قسم کا ہے (۱) جو اپنی ضرورتوںکو پیش نہیں کرتے (۲) جو اپنی ضرورتوں کو پیش نہیں کر سکتے.(۳) وہ خرچ جو انسان قومی ضروریات کے لئے کرتا ہے (۴) شکرانہ (۵) فدیہ (۶) کفارہ (۷) تعاونی خرچ جو مدنی نظام کی ترقی کے لئے ضروری قرار دیا گیا ہے (۸) حق الخدمت (۹) اداء احسان (۱۰) تحفہ.یہ دس قسم کے خرچ ہیں جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن خرچوں میں سے کسی ایک کا ترک بھی جب موقع اس کا مقتضی ہو اس آیت پر عمل کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے اور اس کے تقویٰ میں کمزوری پیدا کر دیتا ہے دنیا میں بہت سے لوگ اس تقسیم کو مدِّنظر نہ رکھ کر اعلیٰ ثوابوں سے محروم ہو جاتے ہیں.زکوٰۃ اور اس کی حکمت (۱) زکوٰۃ وہ خرچ ہے جو قرآن کریم میں فرض کیا گیا ہے اور اس کی حکمت یہ بتائی گئی ہے کہ تمام انسانوں کی دولت دوسرے لوگوں کی مدد سے کمائی جاتی ہے اور اس کمائی میں بہت دفعہ دوسروں کا حق شامل ہوتا ہے جو باوجود انفرادی طور پر دوسروں کا حق ادا کر دینے کے پھر بھی دولتمند کے مال میں باقی رہ جاتا ہے مثلاً

Page 190

ایک مالدار آدمی ایک کان سے فائدہ اٹھاتا ہے وہ کان کے مزدوروں کو ان کی مزدوری پوری طرح ادا بھی کر دے تو بھی وہ جو کچھ ان کو ادا کرتا ہے وہ ان کی مزدوری ہے مگر قرآنی تعلیم کے مطابق وہ لوگ بھی اس کان میں حصہ دار تھے کیونکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ دنیا کے سب خزانے تمام بنی نوع انسان کے لئے پیدا کئے گئے ہیں نہ کہ کسی خاص شخص کے لئے پس مزدوری ادا کر دینے کے بعد بھی حق ملکیت جو مزدوروں کو حاصل تھا ادا نہیں ہوتا اس کی ادائیگی کی یہ صورت ہو سکتی تھی کہ ان مزدوروں کو کچھ زائد رقم بھی دی جائے مگر اس سے بھی وہ حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس طرح ان چند مزدوروں کو تو اُن کا حق ادا ہو جاتا مگر باقی دنیا بھی تو اس میں حصہ دار تھی اُن کا حق ادا ہونے سے رہ جاتا.پس اسلام نے یہ حکم دیا کہ اس قسم کی کمائی میں سے کچھ حصہ حکومت کو ادا کیا جائے تاکہ وہ اسے تمام لوگوں پر مشترک طو رپر خرچ کرے.اسی طرح زمیندار جو زمین میں سے اپنی روزی پیدا کرتا ہے گو اپنی محنت کا پھل کھاتا ہے مگر وہ اس زمین سے بھی تو فائدہ اٹھاتا ہے جو تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی پس اس کی آمد میں سے بھی ایک حصہ حکومت کو قرآن کریم دلواتا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اسے خرچ کیا جائے اسی طرح تجارت کرنے والا بظاہر اپنے مال سے تجارت کرتا ہے لیکن اس کی تجارت کا مدار ملکی امن پر ہے اور اس امن کے قیام میں ملک کے ہر شخص کا حصہ ہے پس اس حصہ کو دلانے کے لئے اس کے مال پر بھی اسلام نے زکوٰۃ مقرر کی ہے تاکہ حکومت کے ذریعہ سے باقی لوگوں کا حق ادا ہو جائے اسی طرح جو شخص مال جمع کرتا ہے اس کے مال جمع کرنے کی وجہ سے دوسرے لوگ اس مال سے نفع حاصل کرنے سے محروم ہو جاتے ہیں جو اس مال میں ازل سے شریک مقرر کئے گئے تھے پس اس مال پر بھی شریعت نے زکوٰۃ مقر ر کی ہے گو جس وقت وہ مال کمایا گیا تھا اس پر زکوٰۃ دی گئی تھی لیکن پہلی زکوٰۃ تو اس حق کے بدلہ میں تھی جو اس مال میں دوسروں کو حاصل تھا اور دوسری زکوٰۃ اس وجہ سے ہے کہ اس مال کو بند رکھنے کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیئے گئے.زکوٰۃ اور اس کا اجمالی حکم زکوٰۃ کے یہ تمام احکام قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں اور بعض کی تشریح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام سے ہوتی ہے وہ سب اپنے اپنے موقع پر تفسیر میں انشاء اللہ بیان ہوں گے اس جگہ زکوٰۃ کے اس اجمالی حکم کی طرف اشارہ کرنا کافی ہے جس میں اس حکم کی حکمت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيْهِمْ بِهَا (التوبة :۱۰۳) یعنی تمام ان مومنوں سے جو اسلامی حکومت تلے رہتے ہیں صدقہ لے اس طرح تو ان کے دلوں کو پاک کرے گا اور ان کے مالوں کو بھی.دوسرے لوگوں کے مالوں

Page 191

کی ملونی سے صاف کر دے گا اور قومی ترقی کے سامان پیدا کرے گا.صدقہ سے مراد اس جگہ زکوٰۃ مفروضہ ہے.یہ لفظ صدقہ کا علاوہ ان متد اول معنوں کے جن معنوں میں کہ یہ اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بہت سے معنوں میںبھی استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک زکوٰۃ مفروضہ بھی ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ بغیر اس قسم کی زکوٰۃ لینے کے لوگوں کے مال پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ جب تک لوگوں کا حق ادا نہ ہو مال پاک نہیں ہو سکتا اور نہ مالدار کا تقویٰ مکمل ہو سکتا ہے یہ زکوٰۃ حکومت لیتی ہے اور اسی کی معرفت خرچ ہو سکتی ہے یا حکومت نہ ہو تو اسلامی نظام اس کے وصول کرنے اور خرچ کرنے کا حقدار ہے جیسے کہ خُذْ یعنی لے کے لفظ سے ظاہر ہے.(۲) نفلی صدقہ اور اس کا حکم نفلی صدقہ جس کی بناء رحم اور شفقت پر ہے یہ کسی مقدارِ معیّن میں فرض نہیں بلکہ ہمسائیوں کی ضرورت اور دینے والے کی مالی حالت اور اس کے دل کے تقویٰ پر اُسے چھوڑا گیا ہے.صدقہ کا حکم اس شکل میں اس لئے دیا گیا ہے تا ہر شخص اپنے تقویٰ اور اپنی مالی حالت کے مطابق اسے ادا کرے چونکہ اس کی حکمت تعاون باہمی کی روح کو پیدا کرنا ہے اس لئے یہ خرچ حکومت کی وساطت سے نہیں رکھا گیا بلکہ ہر فرد کو نصیحت کی گئی ہے کہ وہ خود اس قسم کا خرچ کرے اس کا ارشاد قرآنِ کریم کی اس آیت میں اجمالاً کیا گیا ہے.اَلَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّيْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ (البقرة : ۲۷۵) یعنی جو لوگ اپنے مال رات اور دن خرچ کرتے ہیں اور پوشیدہ بھی خرچ کرتے ہیں اور ظاہر بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے اجر اپنے رب کے پاس پائیں گے اور انہیں نہ آئندہ کا خوف لا حق ہو گا اور نہ سابق کوتاہیوں پر انہیںکوئی گھبراہٹ لاحق ہو گی.اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں زکوٰۃ کا ذکر نہیں جو فرض ہے اور حکومت کو ادا کی جاتی ہے کیونکہ زکوٰۃ مخفی خرچ نہیں کی جاسکتی پس یہ خرچ نفلی صدقہ کا ہے جو انسان خود کرتا ہے اور حسب موقع کبھی مخفی کرتا ہے کبھی ظاہر.مخفی اس لئے تاکہ جس کی امداد کرتا ہے لوگوں میں شرمندہ نہ ہو اور ظاہر اس لئے کہ تا ان لوگوں کو بھی صدقہ کی تحریک ہو جو اس نیکی میں ابھی کمزور ہیں ورنہ اسے اپنی ذات کے لئے کسی شہرت کی تمنا نہیںہوتی ایسے لوگوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ اپنے اس فعل کا بدلہ خدا سے پائیں گے.صدقات کے خرچ کے مواقع جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس خرچ کے دو مواقع قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں (۱) ان افرا دپر خرچ کیا جائے جو اپنی ضرورتوں کے لئے مطالبہ کر لیتے ہیں جیسے کہ وہ غرباء جو سوال کر لیتے ہیں اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اسلام ان پر بھی حسب موقع خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَ فِيْۤ اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّآىِٕلِ وَ الْمَحْرُوْمِ (الذّٰریٰت :۲۰) مومنوں کے اموال میں سائلوں کا بھی حق ہوتا ہے.

Page 192

Page 193

جو غور کرنے کے عادی نہیں انہیں خوشحال سمجھ لیتے ہیں حالانکہ تو اگر دیکھے تو ان کو ان کے چہروںسے پہچان لے گا وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے.اس آخری فقرہ سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ وہ نرمی سے مانگ لیتے ہیں کیونکہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ وہ سوال کرتے ہی نہیں پس چمٹ کر نہیں مانگتے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنی غربت کو چھپانے کے لئے امراء کا سایہ بننے سے بھی گریز کرتے ہیں اور اس طرح سوال مجسم ہو کر انسان لوگوں سے جو فائدہ اٹھا سکتا ہے اس سے بھی محروم رہتے ہیں ایسے لوگوں پر خرچ کرنے پر قرآن کریم نے خاص زور دیا ہے.محروم کے دوسرے معنے یہ بھی ہیں کہ وہ سوال کر ہی نہ سکتے ہوں سو ان معنوں کے روسے اس میں وہ لوگ شامل ہوں گے جو مثلاً گونگے، بہرے ہیں یا پردہ دار عورتیں ہیں یا چھوٹے بچے ہیں یا پھر جانور ہیں کہ زبان ان کو قدرت نے عطا ہی نہیں کی.ان سب پر خرچ کرنا بھی صدقہ کی اقسام میں شامل ہے.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ صدقہ رد بلا کے لئے مفید ہوتا ہے او راسلام آفات اور مصائب کے وقت اس قسم کے صدقات کی تحریک متواتر کرتا ہے.نذر اور اس کا حکم صدقہ میں وہ تمام اخراجات شامل ہیں جو ردِّ بلا کی غرض سے او رمصیبت کے وقت میں یا مصیبتوں کو دُور رکھنے کے لئے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے کئے جاتے ہیں.اسی کی ایک قسم کو نذر کہتے ہیں.اس میں اور عام صدقہ میں یہ فرق ہے کہ عام صدقہ تو اس خرچ کو کہتے ہیں جو ردِّ بلاء کی امید میں کیا جاتا ہے اور نذر اس صدقہ کو کہتے ہیں جس کا وعدہ اس صورت میں کیا جائے کہ اگر فلاں مشکل دُور ہو جائے یا فلاں کام ہو جائے تو یہ خرچ کروں گا یا فلاں عبادت بجا لائوں گا.اس کا ذکر سورۂ دھر رکوع اوّل میں ہے جہاں فرماتا ہے.يُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ (الدھر:۸) مومن نذر کو پورا کرتے ہیں یعنی جب کسی خیرات یا نیک عمل کا عہد کرتے ہیں کہ ردِّعمل یا حصول مقصود کے بعد کریں گے تو اس عہد کو پورا کرتے ہیں.صلحاء امت میں سے جو بڑے پایہ کے صلحاء گزرے ہیں ان کا خیال ہے کہ گو نذر کا پورا کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ایک عہد ہے جو بندہ خدا تعالیٰ سے کرتا ہے لیکن اس طرح عہد کرنے سے کہ اگر خدا تعالیٰ فلاں مصیبت کو ٹلا دے تو اس اس قدر صدقہ کروںگا یہ بہتر ہے کہ پہلے ہی صدقہ کر کے اللہ تعالیٰ پر تو کل کر لے بجائے اس کے کہ خدا تعالیٰ سے سودا کرنے کی کوشش کرے اور یہ خیال ان کا درست اور صحیح ہے.امام بخاری نے امام مالک کے واسطہ سے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے.قَالَ : مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ

Page 194

فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَعْصِیَہٗ فَـلَایَعْصِہٖ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہو تو اسے پورا کرے اور جو ایسی نذر مانے جس میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہو تو وہ نذر کو پورا کرکے نافرمانی نہ کرے.(بخاری کتاب النذور باب النذر فی الطاعۃ) قومی ضروریات کے لئے خرچ کرنے کا حکم (۳) تیسری قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے وہ اخراجات ہیں جو قومی اور ملی ضرورتوں کے مواقع پر اچھے اور نیک افراد کرتے ہیں.یہ اخراجات صدقہ نہیں کہلا سکتے کیونکہ ان سے مساکین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاتیں بلکہ غریب و امیر ان سے متمتع ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ساری قوم ان سے فائدہ اٹھاتی ہے جیسے گھر سے خرچ کر کے جہاد کے لئے جانا یا دوسرے کسی سپاہی کے اخراجات مہیا کرنا کہ وہ خرچ اس سپاہی پر نہیں ہوتا بلکہ قوم پر ہوتا ہے کیونکہ کوئی شخص اس لئے سواری طلب نہیں کرتا کہ تامیدانِ جنگ میں جا کر جان دے یا پانچ دس دن کے لئے روٹی نہیں مانگتا کہ اتنے دنوں میں اپنی موت کا سامان کرے پس اگر سپاہی کو ا ّیام جنگ کے لئے کھانا مہیا کر دیا جائے یا اس کے لئے سواری مہیا کر کے دی جائے تو یہ قومی خرچ ہے فرد کی امداد نہیں کیونکہ جنگ اس شخص کا ذاتی کام نہیں بلکہ ملت کے فائدہ کا کام ہے.قومی اخراجات پر خرچ کرنے کا حکم اسلام نے ان اخراجات پر بھی زور دیا ہے اور یہ حکم زکوٰۃ و صدقہ سے الگ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (التوبة :۴۱) کہ اگر ہلکے پھلکے ہو یعنی سواری مہیا ہے یا گھر کا انتظام مکمل ہے تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے نکلو اور اگر بوجھل ہو یعنی خود بوجھ اٹھا کر جانا پڑے سواری نہ ہو یا پیچھے گھر کا کوئی انتظام نہ ہو تب بھی جہاد کے لئے گھروں سے باہر نکلو اور اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرو یہ تمہارے لئے اگر تم جانو تو بہتر ہو گا.اس آیت میں جو جان و مال کے خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ضروری نہیں کہ دوسروں پر خرچ کیا جائے.جو شخص صرف اپنے لئے سواری مہیا کرتا ہے تاکہ جہاد میں شامل ہوسکے یا اپنے لئے تلوار خریدتا ہے تاجہاد میں شریک ہو سکے یا اپنے لئے کچھ غلّہ خریدتا ہے تاجہاد کے دنوں اُسے کھا کر گزارہ کر سکے وہ ہر ایک چیز اپنے لئے خریدتا ہے.پس یہ معروف صدقہ نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس کا فائدہ وہ خود اٹھاتا ہے.مگر چونکہ یہ خرچ جو اس نے اپنے نفس پر کیا اپنے کسی شوق کو پورا کرنے کے لئے نہیں کیا بلکہ دین و ملت کی خدمت کےلئے کیا اور ایسی حالت میں کیا کہ بجائے لذت کا سامان مہیا کرنے کے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا.یہ خرچ خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق خرچ ہے اور ثوابِ عظیم کا

Page 195

مستحق اس شخص کو بناتا ہے.اشاعت اسلام یا نظام جماعت کی مضبوطی کیلئے خرچ اسی طرح اگر جہاد کی غرض سے یا کسی قومی خدمت کےلئے جو براہ راست اس سے متعلق نہیں.کوئی شخص کسی بھائی کی امداد کرتا ہے تو اس کا وہ خرچ بھی صدقہ نہیں.کیونکہ اس خرچ سے دوسرے بھائی کی ذاتی ضرورت پوری نہیں کی گئی بلکہ اس کے بدلہ میں اس سے ایک قومی کام لیا گیا ہے.سو یہ تیسری قسم کا خرچ ہے جو نہ زکوٰۃ ہے نہ صدقہ مگر ہے نہایت ضروری.اور انسان کو بہت بڑے ثواب کا مستحق بنتا ہے.آج کل تلوار کا جہاد تو ہے نہیں.پس اشاعت اسلام یا تعلیم یا نظام جماعت کی مضبوطی اور اسی قسم کے دوسرے کاموں کے لئے جو رقوم دی جاتی ہیں وہ اسی مد میں شامل ہیں.اور جَاهِدُوْا بِاَمْوَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُمْ کے حکم کے پہلے نصف کے پورا کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں.مگر دوسرا نصف اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے کہ مال خرچ کرنے کے علاوہ کبھی کبھی اپنے کاموں کا حرج کر کے خود بھی کچھ دن تبلیغ کے لئے دے.یا ملی ترقی کی غرض سے تعلیم و تربیت کے کام میں حصہ لے.شکرانہ کے طور پر خرچ کرنے کا حکم (۴) چوتھی قسم خرچ کی جسے اسلام نے پسند کیا ہے اور اس کا حکم دیا ہے وہ خرچ ہے جو بطور شکرانہ کیا جاتا ہے.اس میں اور صدقہ میں یہ فر ق ہے کہ صدقہ تو کسی مصیبت کے دور کرنے یا کسی مقصد کے حصول کے لئے کیا جاتا ہے مگر شکرانہ کا خرچ حصول مقصد کے بعد یا بلا کے دُور ہونے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لئے کیا جاتا ہے.قرآن کریم میں اس کا ذکر مندرجہ ذیل آیت میں ہے.كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ (الانعام :۱۴۲) یعنی جو پھل یا غلّہ خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس میں سے کھائو.اور جس وقت اس پھل یا غلہ کو کاٹو اس وقت خدا تعالیٰ کا حق بھی ادا کرو.یا یہ کہ اس غلّہ یا پھل کو کاٹ کر اپنے قبضہ میں لانے کا حق بھی ادا کرو یعنی کچھ حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں بطور شکر تقسیم کرو.بعض لوگوں نے اس کے معنے زکوٰۃ کے کئے ہیں اور بعض نے اس حکم کو زکوٰۃ سے منسوخ قرار دیا ہے.مگر حق یہی ہے جیسا کہ اس آیت کے موقع پر لکھا جائے گا کہ نہ اس جگہ زکوٰۃ کا حکم ہے اورنہ یہ حکم زکوٰۃ سے منسوخ ہے بلکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو اور تمہاری محنت ٹھکانے لگے تو اس شکریہ میں کہ خدا تعالیٰ نے تم کو اس قابل بنایا اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں کو بھی اس میں سے کچھ حصہ دو.اس حکم پر بھی مسلمانوں میں بہت کم عمل رہ گیا ہے حالانکہ یہ خرچ ایسا طبعی خرچ ہے کہ اسے بھولنا نہیں چاہیے.اورہر کامیابی پر خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ نہ کچھ بطور شکرانہ خرچ کرنا چاہیے.کیونکہ یہ کامیابی پر الحمد للہ کہنے کا ایک عملی نمونہ ہے.

Page 196

فدیہ (۵) خرچ کی پانچویں قسم جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے فدیہ ہے.فدیہ کے معنے صدقہ کے بھی ہیں لیکن اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ جو کمی کسی نیک عمل میں رہ جائے اُسے خدا تعالیٰ کی راہ میں کچھ مال خرچ کر کے پورا کیا جائے.چنانچہ سورۃ بقرہ ع ۲۴ آیت نمبر ۱۹۷ میں حج کے احکام میں لکھا ہے کہ ایام احرام میں سر نہیں منڈانا چاہیے.لیکن اگر کسی کے سر میں کوئی بیماری ہو اور سر منڈوانا پڑے تو بطور فدیہ کچھ صدقہ کرے یا روزے رکھے یا قربانی دے.پس فدیہ وہ خرچ ہے جو کسی عمل میں کمی رہ جانے کے خیال سے دیا جاتا ہے اور گویا عبادت کی اس کمی کو اس خرچ سے پورا کیا جاتا ہے.کفّارہ (۶) خرچ کی ایک چھٹی قسم قرآن کریم سے ثابت ہے اور اس کا نام کفاّرہ ہے.کفارہ کا لفظ ردِّ بلا کرنے والے فعل کے بھی ہیں.لیکن اس کے علاوہ ایک اور اصطلاح بھی قرآن کریم کی ہے.اور اس کے رُو سے کفارہ اس خرچ یا اس عبادت کا نام ہے جو کسی گناہ کا وبال دور کرنے کے لئے کیا جاتا ہے.چنانچہ ان معنوں میں یہ لفظ قرآن کریم میں سورۃ مائدہ کے بارہویں اور تیرہویں رکوع میں آتا ہے.اس میں اور فدیہ میں یہ فرق ہے کہ فدیہ تو اس صورت میں ادا کیا جاتا ہے جب کوئی فعل اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کیا جائے اور اس اجازت سے کوئی حکم جو دوسری صورت میں ضروری تھا ترک کرنا پڑے.یا جب کوئی عمل کر تو لیا جائے مگر اس خیال سے کہ اس میں کوئی کمی نہ رہ گئی ہو کچھ صدقہ کر کے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے.مگر کفاّرہ اس صور ت میں دیا جاتا ہے کہ جب کوئی گناہ صادر ہو جائے.یا گناہ تو صادر نہ ہو لیکن گناہ کے صدور کے قریب ہو جائے اور اس کی غرض اس گناہ کے وبال سے بچنا اور توبہ کا ایک عملی نشان قائم کرنا ہوتی ہے (اس مضمون کو تفصیل کے ساتھ انشاء اللہ آیاتِ متعلقہ کے ماتحت بیان کیا جائے گا) اس جگہ ایک لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے.کہ قرآن کریم تو کفاّرہ کا مفہوم یہ لیتا ہے کہ ایک تائب اپنی توبہ کا عملی ثبوت دلی ندامت اور زبانی اقرار کے علاوہ کچھ مالی یا جسمانی قربانی کے ذریعہ سے دے.لیکن مسیحیوں کے نزدیک کفارہ کا یہ مفہوم ہے کہ ایک اعلیٰ وجود نے اپنے آپ کو گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے قربان کر دیا.گویا توبہ کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں.کیونکہ توبہ تو الگ رہی مسیحیوں کا کفاّرہ گناہ بلکہ گنہگار کے پیدا ہونے سے بھی پہلے اداکیا جا چکا ہے.اور ظاہر ہے کہ ایسے کفارہ کو توبہ سے دُور کا تعلق بھی نہیں ہو سکتا.تعاونی خرچ (۷) ساتویںقسم خرچ کی قرآن کریم سے یہ ثابت ہوتی ہے کہ مدنی نظام کی ترقی کے لئے کچھ اخراجات انسان پر واجب کئے گئے ہیں.جیسے خاوند کا بیوی پر خرچ اور باپ کا اولاد پر خرچ.ان اخراجات کو بھی

Page 197

قرآن کریم نے ضروری اور فرض مقرر کیا ہے.اور اگر کوئی ان اخراجات سے گریز کرے تو اُسے گنہگار قرار دیا گیا ہے.اور اگر اسلامی حکومت ہو یا اسلامی نظام ہو تو اس کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ یہ اخراجات جبراً کرائے.اس خرچ کی تفصیلات بھی آئندہ حسب موقع بیان ہوں گی.حق الخدمت (۸) آٹھویں قسم خرچ کی جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے.حق الخدمت ہے یعنی اگر کوئی شخص کسی کا کام کرے تو اس کا مناسب اجر اُسے دیا جائے اور اس سے نیک سلوک کیا جائے.اس خرچ کی ایک مثال قرآن کریم کا وہ حکم ہے جو اولاد کو دُودھ پلوانے کے متعلق آتا ہے.اس بارے میں قرآن کریم کا حکم ہے کہ اگر اپنے کسی بچہ کو کسی دوسری عورت سے دُودھ پلوانا چاہو تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دودھ پلانے والی عورت کو سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة : ۲۳۴) یعنی جو حق الخدمت حسب دستور اور ملک کے اقتصادی حالات کے مطابق اور اپنی مالی حالت کے مطابق تم اُسے دینے کا وعدہ کرو اُس کے سپرد کر دو.اس حکم میں بتایا گیا ہے کہ حق الخدمت کے لئے ضروری ہے کہ (۱) بلا حجت ادا کر دیا جائے اوراس کے ادا کرنے کا انسان ایسا عہد کر لے کہ گویا اداکر ہی دیا ہے (۲) اس کے ادا کرنے میں معروف کو مدِّنظر رکھا جائے یعنی ( الف ) ملک کی اقتصادی حالت کے مطابق ادا کیا جائے یعنی اس قدر کم نہ ہو کہ اس وقت کی اقتصادی حالت کے مطابق اس سے دُودھ پلانے والی کا گزارہ نہ ہو سکے (ب) پہلی حد بندی تو کم سے کم تھی اس سے زائد یہ بھی مدنظر رکھو کہ اگر تمہاری مالی حالت عام لوگوں سے اچھی ہو تو ایسا حق الخدمت اداکرو جو تمہاری مالی حالت کے بھی مطابق ہو.یعنی کم سے کم حق الخدمت تو وہ ہو جو اس زمانہ کے حالات کے مطابق گزارہ کے لئے کافی ہو.لیکن اگر ہو سکے تو اس سے زیادہ دو.حق الخدمت کا ایک زرّیں اصول اس حکم کے ذریعہ سے قرآن کریم نے حق الخدمت کا ایک ایسا زریں اصل بتا دیا ہے کہ اگر اس کے مطابق حق الخدمت مقرر کیا جائے تو مزدو راور مالک کے جھگڑوں کا بالکل خاتمہ ہو جاتا ہے.مگر اس مضمون کو تفصیل سے آیت مذکورہ بالا اور اس کے ہم معنے آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا.ادائِ احسان اور اس کے مستحقین (۹) نویں قسم خرچ کی قرآن کریم سے.ادائِ احسان کی ثابت ہوتی ہے.جیسے مثلاً والدین کی خدمت کا حکم ہے.یہ سلوک نہ تو حق الخدمت کہلا سکتا ہے کیونکہ والدین خدمت نہیں کرتے بلکہ ایک طبعی جوش سے بچے کی پرورش کرتے ہیں اور بچہ ان کو اس کام پر مقرر نہیں کرتا نہ کوئی اور انسان انہیں مقرر کرتا ہے اور نہ انہیں کسی بدلہ کی تمنا ہوتی ہے.پس والدین کا سلوک بچے سے خدمت نہیں ہے بلکہ احسان ہے.اور اگر بڑا ہو کر کوئی بچہ اپنے والدین کی خدمت کرتاہے تو وہ ان کا حق الخدمت ادا نہیں کرتا.بلکہ اُن کے احسان کا بدلہ اتارنے

Page 198

کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ والدین کی نسبت فرماتا ہے.وَ وَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ (لقمان:۱۵) یعنی ہم نے ہر انسان کو اپنے والدین سے حسن سلوک کا حکم دیا ہے.پھر اسی جگہ آگے چل کر فرماتا ہے اَنِ اشْكُرْ لِيْ وَ لِوَالِدَيْكَ (لقمان:۱۵) یعنی ہم نے انسان کو حکم دیا ہے کہ ہمارا بھی شکر کر اور اپنے والدین کا بھی.شکر کے لفظ سے یہ بتایا ہے کہ والدین کے ساتھ جو سلوک کر اس خیال سے نہ کر کہ میں ان کے ساتھ کوئی احسان کرتا ہوں بلکہ احسان تو انہوںنے تجھ پر کیا ہے.ُتو تو جو نیک معاملہ ان سے کرے گا وہ اظہار شکر اور اقرار احسان کے طور پر ہو گا.قرآن کریم میں بعض جگہ والدین سے سلوک کا نام احسان بھی آیا ہے.جیسا کہ مثلاً اسی سورۃ میں یعنی سورۃ بقرہ میں فرماتا ہے وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا (البقرة: ۸۴) یعنی والدین سے احسان کا سلوک کر.اس سے یہ دھوکا نہ کھانا چاہیے کہ والدین سے سلوک بھی احسان کے معروف معنوں میں کیا جاسکتا ہے.اس آیت میں احسان کا لفظ عام معنوں میں استعمال نہیں ہوا بلکہ ایک اور معنوں میں استعمال ہوا ہے.عربی زبان کا محاورہ ہے کہ کسی امر کے بدلہ کے لئے بھی وہی لفظ استعمال کر دیا جاتا ہے.جیسے مثلاً ظلم کے بدلہ کا نام ظلم رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے مراد ظلم نہیں ہوتا.بلکہ اس کے معنے ظلم کے بدلہ کے ہوتے ہیں.اسی طرح اس آیت میں اور دوسری آیات میں جہاں والدین کے لئے احسان کا لفظ آیا ہے اس کے معنے احسان کے بدلہ کے ہیں.لیکن ان کے سوا دوسرے لوگوں کی نسبت اس لفظ کا استعمال اپنے معروف معنوں میں ہوا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اور الفاظ بھی اس محاورہ کے مطابق استعمال ہوئے ہیں.مثلاً اسی سورۂ بقرہ میں فرمایا ہے فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ(البقرة :۱۹۵) یعنی جو تم پر ظلم کرے اس پر اسی قدر ظلم کر سکتے ہو.اب یہ امر ظاہر ہے کہ ظلم کا اسی قدر بدلہ ظلم نہیں کہلا سکتا.پس بدلہ لینے والے کے لئے جو اعتداء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس کے معنے محض بدلہ کے ہیں نہ کہ ظلم کے.اسی طرح احسان کرنے والے کے حق میں جب احسان کرنے کے الفاظ استعمال کئے جائیں تو اس کے معنے بدلہ احسان کے ہوتے ہیں نہ کہ احسان کے.اسی اداء احسان کے حکم کے نیچے اپنے اُستادوں اور دوسرے محسنوں یا ان کی اولادوں سے حسن سلوک بھی آجاتا ہے.اور اس حکم کے ماتحت سب سے بڑے انسانی محسن آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے حسن سلوک کا بدلہ بھی آ جاتا ہے.جو صحابہ کرام درود اور دعائوں اور خدمت کے ذریعہ سے ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے.سادات کے لئے صدقہ کو ناجائز کرنے میں حکمت میرے نزدیک رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ان کی اولاد کے لئے صدقہ جائز نہیں تواس میں یہی حکمت تھی کہ امت اسلامیہ کو بتایا جائے کہ

Page 199

اس محسن عظیم کی اولاد سے جو سلوک کیا جائے وہ صدقہ ہو ہی نہیں سکتا.وہ تو اس محسن کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ایک ادنیٰ کوشش ہو گی.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس مسئلہ کو خاص زور سے بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ایسے بے نفس تھے کہ آپؐ نے اپنی اولاد کے لئے صدقہ کو حرام کر دیا.اوراُنہیں یہ خیال نہیں آتا کہ آپؐ ایسے بے نفس تھے تو مسلمان ایسے نفس کے بندے کیو ںہو گئے ہیں کہ آپؐ کے احسان کا بدلہ اتارنے کی ادنیٰ کوشش بھی نہیں کرتے؟ محسن کسی بدلہ کا خیال نہیں کرتا.مگر کیا جس پر احسان کیا جائے اس کی شرافت ِ نفس اس کا تقاضا نہیں کرتی کہ وہ محسن کے احسان کا شکریہ عمل سے ادا کرے؟ میرے نزدیک اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانو ںکو یہ ادب سکھایا تھا کہ اگر حضرت رسالت مآب کی اولاد میں سے کوئی غریب ہو تو وہ اس کے ساتھ حضور کے احسان کی یاد میں سلوک کریں کیونکہ آپ کی اولاد کے ساتھ صدقہ کا معاملہ کیا ہی نہیں جا سکتا.کیا اپنے بھائیوں کو لوگ صدقہ دیا کرتے ہیں پھر کیا اس روحانی باپ کی اولاد سے ان کا سلوک بھائیوںجیسا نہیں ہونا چاہیے؟ افسوس کہ اس حکمت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان دو حکموں میں سے ایک کو توڑنے لگ گئے ہیں.یا تو وہ سادات پر صدقہ اور زکوٰۃ خرچ کرنے لگ گئے ہیں یا اُن کی خدمت سے بالکل محروم ہو گئے ہیں.مجھ پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے دیر سے اس نکتہ کو سمجھا ہے اور مجھے کئی دفعہ اس امر کی توفیق ملی ہے کہ غرباء سادات کی خدمت کروں.نہ اس خیال سے کہ میں اُن پر صدقہ کر رہا ہوں بلکہ اس خیال سے کہ اُن سے حسنِ سلوک اس احسان عظیم کے اقرار کی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے ہم پر کئے ہیں ایک ادنیٰ کوشش ہے.فَالْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ.کاش مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں اور سادات کو صدقہ دینے یا ان کی مشکلات کو بالکل نظر انداز کرنے کے دو قبیح جرموں سے محفوظ ہو جائیں.اگر وہ ایسا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ بھی ان کی اولادوں پر رحم فرمائے.ھدیہ (۱۰) دسویں قسم جو قرآن کریم سے خرچ کی ثابت ہے وہ ہدیہ ہے.یعنی بغیر کسی سابق احسان یا صدقہ کے خیال کے ایک دوسرے کو موقع مناسب پر ہدیہ دیا جائے تاکہ آپس میں محبت بڑھے.اس کا بہترین موقع تو وہ ضیافت ہے جو ایک شخص دوسرے کی کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام دو نبیوں کے ذکروں میں آتا ہے.ضیافت صرف ایک صورت ہدیہ کی ہے ورنہ اور مناسب مواقع بھی اس حکم کے عمل کے نکل سکتے ہیں.افسوس مسلمانوں نے اس حکم کو بھی بھلا دیا ہے.اور مسافروں کی مہمان نوازی

Page 200

شاذو نادر کے طورپر رہ گئی ہے بلکہ شہروں کے باشندے تو اس سے قریباً محروم ہی ہو گئے ہیں.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اس قدر تاکید کی ہے کہ ضیافت کو ایک حق قرار دے دیا اور فرمایا کہ اگر کسی بستی کے باشندے ضیافت میں کوتاہی کریں تو ان سے جبراً بھی ضیافت کا حق وصول کیا جا سکتا ہے.اس حق کی تمام تفصیلات بیان کرنے کا یہ موقع نہیں.یہاں اس قدر بیان کر دینا کافی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اس حق کی تشریح میں فرماتے ہیں تَھَادُ وْا تَحَابَّوْا(ابن عساکر عن ابی ہریرہ بحوالہ جَامِعُ الصَّغِیْرلِلسَّیُوْطِی) یعنی ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو اس سے محبت میں ترقی ہوتی ہے.اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ آپؐ نے فرمایا مجھے جبریل علیہ السلام نے ہمسایوں سے نیک سلوک کی اس قدر تاکیدکی کہ میں نے سمجھا کہ اُسے وارث مقرر کر دیا جائے گا.(ترمذی ابواب البّر والصِّلۃ باب ماجاء فی حق الجوار) یہ خرچ صدقہ کی اقسام سے نہیں ہے بلکہ اخوت کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اور تمدن کی ترقی کے لئے نہایت ضروری احکام میں سے ہے.خلاصہ یہ کہ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ میں صرف صدقہ کا ذکر نہیں بلکہ اُوپر کے بیان کردہ سب قسم کے اخراجات اس میں شامل ہیں.اور غریب امیر، بڑے چھوٹے سب کے بارہ میں اس میں نہایت لطیف احکام بیان ہوئے ہیں.اور تقویٰ کے قیام کے لئے یہ ایک ضروری امر ہے.آیت کے مضامین پر مجموعی نظر اِس آیت میں تین احکام بیان ہوئے ہیں.سب سے پہلے تو ان صداقتوں پر ایمان لانے کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانی نظر سے پوشیدہ ہیں.او ربتایا ہے کہ صرف محسوسات پر ایمان رکھنا کوئی خوبی نہیں.کیونکہ ان کو تو ہر بیوقوف سے بیوقوف بھی مانتا ہے.متقی کا مقام اس سے بالا ہے اور وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ ان صداقتوں پر بھی ایمان لائے جو ظاہر نظر سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور یہی روحانیت کے کمال کی علامت ہے ورنہ دریا کو دریا سمجھنا او رپہاڑکو پہاڑ جاننا کوئی خوبی نہیں ہے.دریا کو دریا ماننے والا عالم اور کامل نہیں کہلا سکتا.بلکہ وہ شخص عالم سمجھا جاتا ہے جو اس دریا کے پیچھے بھی نظر کرتا ہے.اور یہ تحقیق کرتا ہے کہ دریا کہاں سے آیا ہے کس طرح بنا ہے، کن طبعی تغیرات کے نتیجہ میں اس کو پانی حاصل ہوا ہے.اور اس پر بھی غور کرتا ہے کہ دریا سے اس وقت کیا کیا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، اور یہ کہ وہ کدھر کو جاتا ہے او رکہاں گرتا ہے.غرض ایک دریا کو دیکھنے والے جاہل اور عالم میں یہی فرق ہے کہ جاہل صرف حاضر کو جانتا ہے اور عالم اس کے غائب حصہ کو بھی جانتا ہے.اور اسی کے جاننے سے وہ اس سے علمی اور عملی فائدہ اٹھا سکتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے.یہی حال روحانیات کے متعلق ایک عالم باعمل یا

Page 201

دوسرے لفظو ںمیں ایک متقی کا ہوتا ہے.وہ بھی اس دنیا کے بارہ میں صرف اس پر قناعت نہیں کرتا جو اس کی آنکھوں کے سامنے ہے بلکہ اس کے مبدا اور منتہٰی کی تحقیق بھی کرتا ہے اور اس کے مخفی خزانوں کو بھی تلاش کرتا ہے اور اسی کا نام ایمان بالغیب ہے.اور یہ ظاہر ہے کہ سوائے اس قسم کی تحقیق کے نہ علم کامل ہو سکتا ہے نہ عمل.پس ایمان بالغیب انسانی تکمیل کا ایک ایسا ضروری جزو ہے کہ اسے نظر انداز کر دینا صرف ایک جاہل کا کام ہو سکتا ہے.ایمان بالغیب کے بعد اِقَامَۃُ الصَّلوٰۃ اور اس کے بعد مِـمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْن کے رکھنے میں حکمت اس اہم اور ضروری امر پر زور دینے کے بعد اس کے لازمی نتائج کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.اوّل یہ کہ جب انسان اس عالم کے مبدا پر غور کرتا ہے اور اسکے پیدا کرنے والے وجود کو دلائل سے معلوم کر لیتا ہے تو اس کے ساتھ شدید تعلق پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ کرتا ہے اور اسی کا نام دوسرے لفظوں میں عبادت یا اقامتِ صلوٰۃ ہے.پھر جب اس کا روحانی تعلق اس مبدئِ ُکل سے ہو جاتا ہے تو لازماً اسے اس کے متعلّقین اورمتوصّلین کی طرف بھی توجہ ہوتی ہے او ران کی بہتری کے لئے کوشش کرنے لگتا ہے کیونکہ مبدائِ کل سے تعلق پیدا ہو جانے کے بعد اس کی مخلوق کی محبت بھی اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے جس طرح کہ ماں باپ سے تعلق کے نتیجہ میں بھائیوں کی محبت پر بھی انسان مجبور ہو جاتا ہے.پس عبادت اور اقامت ِ صلوٰۃ کے بعد متقی کا دوسرا کام وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ بتایا.اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے کہ اس آیت میں ایمان بالغیب کے بعد اِقَامَۃ الصَّلٰوۃ اور اس کے بعد مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ کا رکھنا ایک اتفاقی امر نہیں.بلکہ ایک پُر حکمت ترتیب کو مدنظر رکھتے ہوئے ہے.اِقَامَۃُ الصَّلوٰۃ کے حکم کو مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھنے کا مطلب اس جگہ ایک اور نکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ ہے کہ اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کو اس جگہ پہلے رکھا گیا ہے اور مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ کو بعد میں رکھا گیا ہے.اس سے اس طرف اشارہ ہے کہ رُوحانی عالم میں خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدّم ہے اور یہی طبعی اور درست ترتیب ہے.کیونکہ بغیر اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق کے مخلوق سے کامل محبت ہو ہی نہیں سکتی.روحانی عالم میں خالق سے تعلق مخلوق سے تعلق پر مقدم ہے اس معاملہ میں اسلام اور فلسفیوں کے خیالات میں اختلاف ہے.فلسفی کہتے ہیں اور بعض مذہب سے نامکمل تعلق رکھنے والے بھی ان کی تائید کرتے ہیں کہ جب مخلوق سے تعلق ہو جائے تو اللہ تعالیٰ سے خود بخود ہی تعلق ہو جاتا ہے.اور اُن کے نزدیک جو شخص مخلوق سے تعلق کو درست کر لے اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے بھی آپ ہی آپ درست ہو جاتا ہے.پس اصل چیز جس کی طرف توجہ چاہیے وہ مخلوق سے تعلق ہے.مگر ایک ادنیٰ تأمّل سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ بات بالبداہت باطل ہے.

Page 202

مخلوق سے تعلق پیدا کر کے خالق تک پہنچنے کا خیال رکھنے والوں کے شبہات کا ردّ اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق سے نیک سلوک خدا تعالیٰ کی عباد ت کا حصہ ہے لیکن یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ یہ امر اللہ تعالیٰ سے تعلق کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ حق یہی ہے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق مخلوق سے محبت کا موجب ہوتا ہے او رجو لوگ اس کے اُلٹ خیال کرتے ہیں وہ اس امر کو نہیں دیکھتے کہ مشاہدہ کس امر کی تائید کرتا ہے اگر وہ یہ دیکھتے کہ جن لوگوں نے خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کی ہے وہ کس پایہ کے تھے اور جو لوگ مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے کے مدعی ہیں وہ اگر کہیں پائے جاتے ہیں تو کس پایہ کے ہیں؟ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق سے محبت کرنے والوں میں سے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسٰی، حضرت کرشن، حضرت رام چندر اور حضرت زردشت ہیں اور میرے نزدیک حضرت بدھ اور حضرت کنفیوشس علیہم السلام بھی اور سب کے سردار حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم.ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں.انہو ںنے جس رنگ میں اور جس شان کی بنی نوع انسان اور باقی مخلوق کی خدمت کی ہے اس کی مثال دوسرے لوگوں میں کہاں پائی جاتی ہے؟ خدا تعالیٰ کو پا کر بعد میں مخلوق کے ساتھ محبت کرنے کا عقیدہ رکھنا ہی درست ہے کوئی ایک شخص بھی جس نے مخلوق سے محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پایا ہو ان کے مقابل پر پیش نہیں کیا جا سکتا.اور ان کے مقابل پر ٹھہر نہیں سکتا.اور حق یہ ہے کہ تاریخ ایسے وجود کو پیش ہی نہیں کرتی.جس کا یہ دعویٰ ہو کہ اس نے پہلے مخلوق سے محبت کی اورپھر خدا تعالیٰ کو پایا.لیکن ایسے ہزاروں لاکھوں آدمی دنیا میں گزرے ہیں کہ جن کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کو پایا اور اس کی محبت سے سرشار ہو کر اس کی مخلوق کی محبت کو حاصل کیا.پس جبکہ مشاہدہ اس امر پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کرنے والے تو ہزاروں لاکھو ںوجود دنیا میں گزرے ہیں لیکن مخلوق کی محبت کر کے خدا تعالیٰ کو پانے والے کسی ایک وجود کا بھی پتہ نہیں ملتا.تو ایسی بے دلیل بات کے پیش کرنے کا فائدہ کیا؟ مخلوق کو خالق پر مقدم کرنے کے عقیدہ کا عقلی ردّ دوسرا پہلو اس سوال کا عقلی پہلو ہے.اگر اس پہلو سے غور کیا جائے تب بھی یہ دعویٰ کہ پہلے مخلوق کی محبت ہو تو اس سے خدا تعالیٰ آپ ہی مل جاتا ہے‘ درست ثابت نہیں ہوتا.کیونکہ عقلی طور پر مخلوق کی محبت سے خدا تعالیٰ کے وجود کامل جانا ناممکن اور غیر معقول نظر آتا ہے.کیونکہ مخلوق کی محبت کی وجہ یا تو حبِّ وطن ہو سکتی ہے یا طبیعت کی نرمی.اور ظاہر ہے کہ حبِّ وطن کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے محبت کرتا ہے وہ وطنی تقاضا کے ماتحت ان دوسرے انسانوں سے جو اس کے وطنی نہیں ہیں دشمنی بھی کر سکتا ہے اور اسے خدا تعالیٰ تک پہنچانے والا کوئی بھی موجب موجود نہیں بلکہ اس سے دور لے جانے والے موجبات پیدا ہوتے

Page 203

رہیں گے اور وہ بجائے خالق کی طرف جانے کے سیاسیات میں اُلجھ کر رہ جائے گا.اور اگر اس کا موجب طبعی نرمی ہو تب بھی ایسے شخص کو خدا تعالیٰ کی طر ف پھیرنے والا موجب کوئی موجود نہیں.کیونکہ ایسا شخص کسی عقلی سبب سے مخلوق سے حسن سلوک نہیں کرتا بلکہ محض طبعی نرمی کی وجہ سے ایسا کام کرتا ہے.اس لئے اس کی عقل اُسے کسی دوسرے راستہ کی طرف راہنمائی ہی نہیں کرتی اور نہ کر سکتی ہے.بعض لوگ اس موقع پر کہا کرتے ہیں کہ ُحبِّ وطن نہیں بلکہ حبِّ انسانیت انسان کو بنی نوع سے حسن ِ سلوک کی طرف راغب کرتی ہے اور ایسا انسان یقینا سیاسیات سے بالا رہتا ہے لیکن یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے.کیونکہ ہر فعل کا کوئی طبعی محرک ہوتا ہے اور اُسی کے مطابق اس کے خیالات کی رَو دوسری اطراف کی طرف پھرتی ہے.پس اس صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ انسانیت کی محبت کی وجہ سے بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے والے شخص کے لئے محرک کیا ہوگا.ظاہر ہے کہ اگراس کے افعال کا محرک خدا تعالیٰ کی محبت نہیں توپھر اس کے لئے محرک یہی خیال ہو سکتا ہے کہ چونکہ باقی انسان بھی میری طرح کے انسان ہیں اس لئے بوجہ ہم جنس ہونے کے مجھے اُن سے محبت کرنی چاہیے.ظاہر ہے کہ جو شخص دوسرے انسانوں سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اُسی کی طرح کے انسان ہیں وہ درحقیقت اپنے آپ سے محبت کرتا ہے اور اس کی اپنی ذات کی محبت اُسے کسی اپنے سے بالا وجود کی طرف توجہ نہیں دلا سکتی.او راس کا خاتمہ بھی اسی حالت میں ہو گا جس حالت پر کہ اس کی ابتدا ہوئی ہے اور وہ محض حبِّ انسانیت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف راہنمائی حاصل نہیں کر سکتا.اب صر ف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ جو شخص مخلوق سے محبت کرے اُسے خدا تعالیٰ اس کے نیک فعل کی وجہ سے اپنی طرف کھینچ لے.مگر یہ حالت غیرطبعی ہے کیونکہ یہ صورت اسی شخص کے حق میں پوری ہو سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کا علم نہ رکھتے ہوئے مخلوق سے کامل محبت کرے.کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو عقلی طور پر معلوم کر لیتا ہے او رپھر اس کی طرف سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت پر کفایت کرتا ہے وہ تو ایک زبردست سچائی کا منکر ہے او رہدایت پانے کا مستحق نہیں.ہاں صرف وہ شخص اس حالت میں ہدایت پانے کا مستحق ہو سکتا ہے جسے خدا تعالیٰ کا علم حاصل نہیں ہوا لیکن اس نے اپنے فطری قویٰ کو صحیح طور پر استعمال کیا اور گو صانع کا وجود اس کی نگہ سے پوشیدہ رہا مگر اس نے اس قدر حصہ سے جو اسے نظر آتا تھا (یعنی مخلوق) اپنے تعلق کو مضبوط کر لیا.ایسا شخص بے شک باوجود مخلوق سے پہلے تعلق پیدا کرنے کے صانع کی طرف ہدایت پانے کا مستحق ہے.کیونکہ جس قدر حصہ پر عمل کرنااس کے لئے اس کے علم کے مطابق ممکن تھا اس نے اس پر عمل کر لیا اور اس قسم کی استثنائی حالتو ںمیں مخلوق کو پا کر خالق کو پالینے کے ہم بھی منکر

Page 204

نہیں.نہ قرآن کریم اس کے خلاف ہے.بلکہ قرآن کریم سے صاف ظاہر ہے کہ جو ان سامانوں سے فائدہ اٹھاتا ہے جو اُسے میسر ہیں خدا تعالیٰ اُسے ان دوسرے سامانوں کی طرف ہدایت کرتا ہے جو اُسے میسر نہ تھے.اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شہادت بھی اسے ثابت کرتی ہے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! مجھے ایمان تو اب نصیب ہوا ہے مگر ایمان سے پہلے بھی میں بنی نوع انسان سے نیک سلوک کیا کرتا تھا کیا میرے ان اعمال کا بھی مجھے کوئی صلہ ملے گا یا مجھے اب اپنی گزری ہوئی عمر کے اعمال کی تلافی کرنی چاہیے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ (مسلم کتاب الایمان باب بیان حکم عمل الکافر اذا اسلم بعدہ) یعنی تمہارے وہ عمل ضائع نہیں ہوئے بلکہ تم کو جو اسلام کی صداقت کے قبول کرنے کی توفیق ملی ہے یہ انہی اعمال کی وجہ سے ہے.گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ اعمال جو خدا تعالیٰ کا علم ہونے سے پہلے تم نے کئے گو خدا تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہیں کئے مگر چونکہ اس میں تمہارا قصور نہ تھا خدا تعالیٰ نے ان کو بھی قبول کر لیا اور مخلوق سے نیکی نے تم کو خدا تعالیٰ کے عرفان اور اس پر ایمان کی طرف راہنمائی کی.لیکن اس جگہ سوال یہ نہیں کہ عدمِ علم کی صورت میں بطورِ استثناء انسان سے کیا سلوک کیا جا سکتا ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو خدا تعالیٰ کے وجود کا علم ہو جائے تو پھر وہ اس سے تعلق پیدا کرکے اپنے نفس کی اصلاح میں جلدی کرے یا وہ اس سے منہ موڑ کر مخلوق کی خدمت میں لگ جائے اور اقرار کرے کہ میں تواس ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو پائوں گا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ کوئی عقلمند اس امر کی تائید کرے گا.کہ خدا تعالیٰ کا علم ہو جانے کے بعد بھی انسان کو اس سے منہ موڑ لینا چاہیے اور مخلوق کی خدمت میں لگ جانا چاہیے کہ یہی طبعی راستہ خدا تعالیٰ کو پانے کا ہے بلکہ ہر عقلمند یہ کہے گا کہ اس صورت میں خدا تعالیٰ کی طرف سے منہ موڑ لینا ہدایت پانے کا موجب نہ ہو گا بلکہ ہدایت سے دُور جانے کا موجب ہو گا.خدا تعالیٰ کو پاکر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے خلاصہ یہ کہ مخلوق کی خدمت کر کے خدا تعالیٰ کو پانا ایک استثنائی صورت ہے.اور عدم علم کی صورت میں ہی فائدہ پہنچا سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کو پا کر مخلوق کی محبت کا پیدا ہونا ایک طبعی راستہ ہے کیونکہ جو شخص خدا تعالیٰ کو پا کر اس کی عبادت میں لگ جائے گا وہ لازماً اس کی مخلوق سے بھی محبت کرے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کو پا لینے کے معنے یہ ہیں کہ اس کی صفات کا کامل علم اُسے ہو جائے اور جو شخص خدا تعالیٰ کی صفت ربوبیت ِعالمین اور صفت رحمانیت اور صفت رحیمیت اور صفت مالکیت یوم الدین کو معلوم کر لے گا وہ طبعاً اس کے بندوں سے اسی رنگ میں سلوک کرے گا جس رنگ میں کہ اس کا رب ان بندوںسے

Page 205

سلوک کرتا ہے ورنہ وہ اس کے نقش کو اپنے دل میں پیدا نہیں کر سکتا.پس خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اس کے بندوں سے حسن سلوک کرنا ایک لازمی امر ہے اور خدا تعالیٰ کے تعلق کا ایک نشان ہے اور اسی طبعی امر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم نے اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃ کو مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ سے پہلے رکھا ہے.وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ اور جو اس پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہےاور جو تجھ سے پہلے نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۰۰۵ اور وہ آئندہ ہونے والی (معہود باتوں ) پر (بھی )یقین رکھتے ہیں.حَلّ لُغَات.یُؤْمِنُوْنَ.یُؤْمِنُوْنَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ بقرة آیت ۴.اُ نْزِلَ.اُ نْزِلَ اَ نْزَلَ سے ماضی مجہول کا صیغہ ہے اور اَ نْزَلَ اللّٰہُ الْکَـلَامَ کے معنے ہیںاَوْحٰی بِہٖ.اللہ تعالیٰ نے کسی کلام کو بذریعہ وحی نازل فرمایا (اقرب) پس وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ جو اس کلام پر جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے ایمان لاتے ہیں.اَ لْاٰخِرَۃُ.اَ لْاٰخِرَۃُ اَ لْاٰخِرُ کا مؤنث ہے اور اَ لْاُ وْلٰی کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے (اقرب) یہاں پر اس کا موصوف محذوف ہے معنی یہ ہوں گے کہ آئندہ آنے والی، آئندہ ہونے والی.یُوْقِنُوْنَ.یُوْقِنُوْنَ اَیْقَنَسے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَیْقَنَ الْاَمْرَ وَاَیْقَنَ بِہٖ کے معنے ہیں عَلِمَہٗ وَتَحَقَّقَہٗ.یعنی کسی بات کو معلوم کیا اور اس کی پوری تحقیق کرتے ہوئے اپنے شک و شبہ کو دور کر لیا.اور اَلْیَقِیْنُ (جو اَیْقَنَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں.اِزَاحَۃُ الشَّکِّ وَتَحْقِیْقُ الْاَمْرِ.اپنے شک کو دور کر لینا اور کسی معاملہ کی پوری تحقیق کر کے حقیقت پر قائم ہو جانا.(اقرب) تفسیر.متقیوں کی تین اور صفات کا ذکر اس آیت میں متقیو ںکی تین اور صفات بیان کی گئی ہیں اور اس آیت کی پہلی اور گزشتہ آیت کو ملا کر چوتھی علامت متقی کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمائی ہے کہ جو کلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے متقی اس پر ایمان لاتے ہیں.اس صفت کے بیان کرنے میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے لئے صرف نیک نیتی کافی نہیں ہوتی بلکہ صحیح طریق عمل کا اختیار کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.

Page 206

صرف نیک نیتی اسی حالت میں کام آتی ہے جبکہ صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا اس کے لئے ناممکن ہو.لیکن جب صحیح طریق عمل کا معلوم کرنا ممکن ہو تو نیک نیتی کا عذر نہ صرف یہ کہ غیرمقبول ہوتا ہے بلکہ غیر معقول بھی ہوتا ہے کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص کی نیت نیک بھی ہو اور وہ پھر بھی صحیح طریق عمل کو نظر انداز کر دے اور اس کے معلوم کرنے سے اعراض کرے.نیک نیت تو وہی ہوتا ہے جو اپنی نیت کے مطابق عمل بھی کرتا ہے لیکن جو شخص باوجود استطاعت کے صحیح طریق عمل کو چھوڑ دیتا ہے یا اُسے معلوم کرنے کی کوشش نہیں کرتا وہ تواپنے عمل سے اپنے دعویٰ کو باطل کرتا ہے اور اپنی بدنیتی پر آپ شاہد ہوتا ہے.چونکہ روحانی عالم میں صحیح طریق عمل وہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے اس لئے وہی شخص نیک نیت کہلائے گا کہ جو اس طریق کو معلوم کرنے اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے.اور چونکہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد وہی صحیح طریق عمل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ پر ظاہر کیا ہے اس لئے وہی شخص روحانی مقاصد کو پا سکتا ہے جو آپؐ پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لائے.پس چوتھی صفت متقی کی یہ بیان کی گئی کہ وہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والے کلام پر ایمان لاتا ہو کیونکہ جو شخص اس کلام پر ایمان نہیں لاتا جو اس کے زمانہ کی ہدایت کے لئے نازل ہوا ہو وہ ہدایت کی جزئیات سے نہ باخبر ہو سکتا ہے او رنہ اُن پر عمل کر سکتا ہے.او رظاہر ہے کہ جو کسی مقصد کے حصول کی تمام جزئیات سے واقف نہیں وہ اس مقصد کو پا بھی نہیں سکتا.جو شخص کسی زبان کا عالم بننا چاہے اسے اس زبان کے الفاظ اور الفاظ کی صحیح بندش کے طریق اور اس میں خیالات کے اظہار کے مناسب طریق کو بھی سیکھنا ہو گا ورنہ اس زبان کا ماہر نہیں ہو سکتا.اسی طرح تقویٰ کی تکمیل کے لئے یہ ضروری ہے کہ تقویٰ کی جزئیات سے بھی انسان واقف ہو جو ان سے واقف نہ ہو گا اس کے خیالات اور عمل بسا اوقات تقویٰ کے خلاف ہوں گے اور بجائے تقویٰ میں ترقی کرنے کے وہ آہستہ آہستہ اس اجمالی تقویٰ کو بھی کھو بیٹھے گا جو اُسے نیک نیتی کی وجہ سے حاصل تھا کیونکہ خالی نیت انسان کو صحیح اعمال پر قادر نہیں کر سکتی.کوئی شخص کتنا ہی مضبوط ارادہ رکھتا ہو کہ وہ صحیح زبان بولے گا لیکن اگر اُسے اس زبان کے الفاظ کا علم نہیں، اس کی بندشوں کا علم نہیں تو محض ارادہ سے وہ صحیح زبان نہیں بول سکتا.پس اس جملہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اجمالی تقویٰ کے حاصل ہونے کے بعد متقی اس کی تفصیلات کو معلوم کر کے اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے اور چونکہ اس زمانہ میں تقویٰ کی تفصیلات وہی ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی گئی ہیں اس لئے تقویٰ کے تفصیلی حصہ کو کامل کرنے کے لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا بھی ضروری ہے.

Page 207

بعض لوگوں کا آیت یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ سے آنحضرتؐ کی ذات کو چھوڑ کر قرآن مجید پر ایمان لانے کا غلط استدلال اور اس کا ردّ بعض لوگ اس آیت اور ایسی ہی بعض دوسری آیات سے یہ دھوکا کھاتے ہیں کہ قرآن کریم پر ایمان لانے کا حکم ہے نہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر.اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات کو تسلیم کرنے کی نہ ضرورت ہے، نہ یہ جائز ہے بلکہ شرک ہے.یہ فرقہ چند سال سے ہندوستان میں پیدا ہوا ہے اور اصل میں خوارج کی ایک شاخ ہے کیونکہ خوارج میں بھی اصل جذبہ یہی کار فرما تھا کہ اَلْحُکْمُ لِلّٰہِ وَالْاَمْرُ شُوْرٰى بَیْنَہُمْ یعنی حکم صرف خدا تعالیٰ کا ہے اس کے بعدجن امو رمیں کسی فیصلہ کی ضرورت ہو اس کا فیصلہ مسلمان اپنے مشورہ اور اتفاق سے کریں گے.ان لوگوں کو یہ دھوکا قرآن کریم کے مضامین پر غور نہ کرنے سے لگا ہے.ان کے اس وہم کی بنیاد اس پر ہے کہ چونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ متعدد آیات میں بیان ہوا ہے کہ وہ مکمل کتاب ہے اس لئے اور کسی شخص کی ہدایت یا تشریح کی کیا ضرورت ہے؟ اس بنیاد میں غلو کر کے جہاں جہاں رسول پر ایمان لانے یا اس کی اطاعت کرنے کا حکم قرآن کریم میں آتا ہے اس کے معنے وہ قرآن کریم کے لیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہاں رسول سے مراد قرآن کریم ہے.یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ قرآن کریم میں کتب سماویہ کے نزول کا ذکر دو طرح آتا ہے ایک تو رسول کی طرف نسبت دے کر دوسرے اس کتاب کے ساتھ وابستہ گروہ سے نسبت دے کر.مثلاً قرآن کریم کی نسبت یہ الفاظ بھی ہیں کہ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ اور یہ بھی ہیں کہ وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْزَلَ اِلَيْكُمُ الْكِتٰبَ مُفَصَّلًا (الانعام:۱۱۵) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے تم پر ایک کامل اور مفصّل کتاب اتاری ہے.غور کے قابل بات ہے کہ آخر یہ فرق قرآن کریم نے کیوں کیا ہے؟ کسی جگہ تو فرماتا ہے کہ یہ کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اور کسی جگہ فرماتا ہے کہ یہ کتاب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اگر دوسرے لوگوں کی طرف کتاب نازل ہونے کی نسبت اس غرض سے کی گئی ہے کہ وہ کتاب اُن کے لئے نازل کی گئی ہے تو پھر محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟صرف یہی کہا جاتا کہ جو کتاب تم پر نازل ہوئی ہے اس پر ایمان لائو لیکن قرآن کریم نہ ایک جگہ بلکہ متواتر اس نسبتِ نزول کا ذکر کرتا ہے اور اس شخص کو پیش کرتاہے جس پر وہ کلام نازل ہوا ہے اور یہ طریق بیان اس کا آنحضرت علیہ السلام کی نسبت ہی نہیں بلکہ تمام سابق انبیاء کی نسبت بھی ہے.مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں بھی وہ یہ فرماتا ہے کہ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ (البقرة:۸۸) یعنی ہم نے موسیٰ کو ضرور کتاب دی تھی اور پھر ساتھ یہ بھی فرماتا ہے.وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ (آل عمران :۰۰ ۲) یعنی

Page 208

اہل کتاب میں سے وہ بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر بھی ایمان لاتے ہیں اور اس پر بھی جو اے مسلمانو! تم پر نازل ہوا ہے اور اس پر بھی جو اِن اہل کتاب پر نازل ہوا ہے.ان دو قسم کی نسبتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جہاں قوم پر نزول کتاب کا ذکر کیا گیا ہے وہاںاس امر پر زور دینا مطلوب ہے کہ اس قوم اور اس کتاب کے حالات بالکل متناسب ہیں اور اس قوم کے لئے اس کتاب پر عمل کئے بغیر کوئی چارہ نہیں اور جہاں رسول پر کتاب نازل ہونے کا ذکر ہے وہاں اس مناسبت کی طرف اشارہ ہے جو اس رسول کی فطرۃ کو اس کتاب سے حاصل ہے اور صر ف کتاب کا ذکر ہی مطلوب نہیں بلکہ یہ بتانا بھی مطلوب ہے کہ اس کتاب کی عملی تفسیر اور زندہ نمونہ اس کے وجود میں موجود ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہے اگر یہ نہ ہوتا تو کسی جگہ اُ نْزِلَ اِلَیْکُمْ اور کسی جگہ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ یا اٰتَیْنَا مُوْسٰیکہہ کر دو مختلف نسبتوں کی طرف اشارہ نہ کیا جاتا بلکہ صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ قرآن کریم پر ایمان لائو یا تورات پر ایمان لائو.جب کسی کتاب کا نام رکھ دیا جائے تو اس کا ذکر لمبے چوڑے جملوں سے َعبث اور فضول ہو جاتا ہے اگر اس کی کلام حکیم میں کتاب کے نام کو چھوڑکر اور الفاظ میں اس کتاب کا ذکر کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ اس طریق بیان میں کوئی زائد فائدہ مدنظر رکھا گیا ہے اور وہ فائدہ آیت زیر بحث میں یہی مدنظر ہے کہ کتاب کو مُنَزَّل اِلَیْہ وجود کی طرف نسبت دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کتاب ہادی ہے بلکہ وہ وجود بھی ہادی ہے جس پر یہ کتاب نازل ہوئی ہے چنانچہ اس اشارہ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں دوسری جگہ واضح الفاظ میں بھی بیان فرما دیا ہے.فرماتا ہے وَ اِذَا جَآءَتْهُمْ اٰيَةٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْلَ مَاۤ اُوْتِيَ رُسُلُ اللّٰهِ١ؔۘؕ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ (الانعام :۱۲۵) یعنی جب کفار کو نبیوں کے الہام کے ذریعہ سے کوئی نشان دکھایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ جب تک اسی طرح ہم پر کلام نازل نہ ہو جس طرح ان مدعیانِ نبوت پر نازل ہوا ہے ہم ایمان نہیں لائیں گے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے کہ اس کا کلام کس پر نازل ہو اور کس پر نازل نہ ہو.پس جس کو وہ اس کلام کے نزول کے مناسب حال سمجھتا ہے اسی کے ذریعہ کلام بھجواتا ہے.یہ آیت واضح طور پر اس امر کو ثابت کر دیتی ہے کہ کلامِ الٰہی محض ایک ہر کارہ کے ذریعہ سے نہیں بھیجا جاتا بلکہ وہ ایک ایسے شخص کے ذریعہ سے بھجوایا جاتا ہے جو اس کا صحیح مفہوم لوگوں کو بتا سکے اور اس کا مطلب سمجھا سکے.اگر صرف الفاظ پہنچانے مطلوب ہوتے تو ہر نبی کی قوم میں اچھے اچھے ادیب موجود تھے ان کے ذریعہ سے وہ کلام پہنچایا جا سکتا تھا.مشہور ادیبوں اور شاعروں کو چھوڑ کر بالعموم اُمّیوں اور ظاہر بینوں کی نگاہ میں کم علم لوگوں کی معرفت اس کلام کو بھجوانے کے تویہی معنے ہیں کہ اس کلام کا مطلب بیان کرنے کی کلام لانے والے سے امید کی جاتی ہے اور دوسروں کی نسبت اس کلام کی باریکیوں کو سمجھنے کا اُسے زیادہ

Page 209

اہل سمجھا جاتا ہے اور نہ صرف الفاظِ کتاب اُسے دیئے جاتے ہیں بلکہ فہم کلام بھی اُسے عطا کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی فطرت اس کلام کے مفہوم کے مطابق اور مناسب ہوتی ہے اور جب یہ حقیقت ہو تو پھر یہ کہناکہ جب کلام موجود ہے تو کلام لانے والے میں اور ہم میںکیا فرق ہے ہم کلام پر ایمان لائیں گے اور اس کا مطلب خود سمجھیں گے کس قدر عقل کے خلاف ہے اور بالکل اسی قسم کا قول ہے جیسے کفار نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے بات ہی کرنی تھی تو ہم سے کیوں نہ کر دی درمیان میں ایک واسطہ ڈالنے کی کیا ضرورت تھی کیا ہم اس کی بات کو نہیں سمجھ سکتے تھے؟ نہ خدا تعالیٰ نے ان کفار کے اعتراض کو درست سمجھا نہ یہ مومن کہلانے والے اپنے دعویٰ میں سچے ہیں.اور سچ یہی ہے کہ کلامِ الٰہی پر ایمان لانے میں کلامِ الٰہی لانے والے پر ایمان لانا اور اس کی تشریح کو قبول اور تسلیم کرنا بھی شامل ہے کیونکہ کلامِ الٰہی لفظی کلام ہوتا ہے اور کلامِ الٰہی لانے والا اس کا جسمانی نمونہ.اور اُسے اسی لئے منتخب کیا جاتا ہے تا وہ اپنے عمل سے اس کا نمونہ پیش کرے اور اپنے کلام سے اس کی تفسیر بیان کرے.ہاں یہ ضرور ہے کہ اسی تشریح کو قبول کیا جائے جو اُس تک یقینی طور پر پہنچی ہو نہ یہ کہ ہر رَطب و یا ِبس جو کسی جھوٹے راوی نے اپنے سے پہلے چند معروف لوگوں کی طرف منسوب کرتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دی.چونکہ اس آیت سے بھی اس مضمون کا تعلق ہے اس جگہ اختصاراً اسے بیان کر دیا گیا ہے مفصّل بحث اس کی اُن آیات کے ماتحت آئے گی جو زیادہ وضاحت سے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتی ہیں یا جن آیات سے مذکورہ بالا فاسد عقیدہ کے لوگ استدلال کرتے ہیں.کلام کے آسمان سے اتارے جانے کے محاورہ کا مطلب اس جگہ ایک اور مضمون بھی وضاحت طلب ہے اور وہ کلام کے اتارنے کا محاورہ ہے عام طو رپر جب اسلامی تعلیم سے ناواقف لوگ کلام الٰہی کے اترنے کا محاورہ قرآن کریم میں پڑھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ شائد یہ کلام خدا تعالیٰ نے لکھ کر فرشتوں کو دیا اور وہ اسے آسمان پر سے زمین پر لائے اور رسول کے ہاتھ میں دے دیا.بلکہ غیر مذہب والوں کو کیا کہنا ہے خود مسلمانوں میں سے ایک بڑا طبقہ تعلیم ِ اسلام سے ناواقفی کی وجہ سے اب یہی سمجھنے لگ گیا ہے کہ شائد کوئی چیز آسمان پر سے زمین پر مادی طو رپر اترتی ہے اور رسول کو ملتی ہے.لیکن یہ عقیدہ کئی غلطیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.(۱) ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ آسمان سے کیا مراد ہے (۲) انہوں نے غور نہیںکیا کہ فرشتے کیا ہیں اور ان کے اعمال کس طرح ظاہر ہوتے ہیں؟ (۳) انہوں نے یہ غور نہیں کیاکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس ذریعہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں (۴) انہوں نے غور نہیںکیا کہ نزول کے کیا معنے ہیں؟ ان چار امور پر غور نہ کرنے کے سبب سے ان کو مذکورہ بالا غلط عقیدہ میں مبتلا ہونا پڑا ہے.

Page 210

لفظ نُزُول کے معنی مادی طور پر کسی کلام کے آسمان پر سے اترنے کےنہیں اوّل سوال یہ ہے کہ کیا نزول کے یہ معنے ہیں کہ کلامِ الٰہی آسمان سے مادی طور پر نازل ہوتا ہے جیسا کہ عوام مسلمانوں میں اور اُن سے سن سنا کر دوسرے مذاہب کے لوگوں میں پھیلا ہوا ہے؟ چنانچہ سیل مترجم قرآن انگریزی نے اپنے ترجمہ کے دیباچہ کے باب ۳ میں لکھا ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قرآن کریم ایک جلد میں جبریل فرشتہ کو دیا اور وہ اسے نچلے آسمان پر لے آئے اور یہاں سے آہستہ آہستہ انہو ںنے قرآن کریم حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر اُتارا.(تفسیر ریورنڈ ویری جلد اول صفحہ ۱۰۸) اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض ایسی روایات کی بناء پر جو مسلمانوں میں بدقسمتی سے مشہور ہو گئی ہیں لیکن اُن کے معنوں پر انہوں نے غور نہیں کیا اور نہ ان کی صحت کی تصدیق کی مسیحیوں نے اس قسم کی تاریخ کی بنیاد رکھی ہے اور اس وجہ سے ہم ان پر یہ الزام تو نہیں لگا سکتے کہ انہوں نے یہ روایات خود بنا لی ہیں لیکن جس رنگ میں اُنہوں نے ان روایات کو استعمال کیا ہے وہ ضرور قابل اعتراض ہے نیز وہ اس اعتراض کے نیچے ضرور ہیں کہ جن امور پر وہ اعتراض کرتے ہیں اسی قسم کے امور خود ان کی کتب میں موجود ہیں.جو تاویل وہ اپنی کتب میں کر لیتے ہیں دیانت اور تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ ایسی روایات یا اُن قرآن کریم کی آیات کے متعلق جن میں انہیں کوئی ایسا مضمون نظر آتا وہ ویسی ہی تاویل کر لیتے مذہب تو خشیت اللہ اور تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ہارجیت کا اکھاڑہ بنانے کے لئے.کلامِ الٰہی کے آسمان سے اترنے کے محاورہ کا استعمال تورات میں موسیٰ کی کتاب پیدائش میں لکھا ہے کہ جب سدوم اور عمورہ میں گناہ بڑھ گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تباہی کی خبر دی تو وہ حضرت ابراہیم ؑ سے یوں گویا ہوا ’’میں اب اُتر کے دیکھوں گا کہ انہوں نے سراسر اس چلانے کے مطابق جو مجھ تک پہنچا، کیا ہے یا نہیں‘‘ (پیدائش باب ۱۸ آیت ۲۱) اس آیت سے نہ صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم کامل نہیں اور وہ دوسروں سے خبریں سن کر ان کی تصدیق بعد میں کرتا ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ اس تصدیق کے لئے آپ آسمان سے اترنے پر مجبور ہوتا ہے.اب اگر ان مسیحی مصنّفین میں حقیقی دینی روح ہوتی اور وہ مذہب کو ایک جیت ہار کا اکھاڑہ نہ سمجھتے تو اس آیت کی موجودگی میں انہیں قرآن کریم کے اس مضمون پر کیونکر اعتراض ہو سکتا تھا کہ کلامِ الٰہی آسمان سے اُترتا ہے؟ اس مضمون کے مطابق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے عہد نامہ قدیم کی کتاب ا.سموئیل میں بھی ذکر آتا ہے وہاں لکھا ہے ’’اور خداوند کی روح اس دن سے ہمیشہ دائود پر اُترتی رہی‘‘ (ا.سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۳) خدا کی روح کے معنے اس کے کلام اور اس کی ہدایت کے ہی ہیں.پس اس آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام دائود پر

Page 211

اترتا رہا.اب جو چیز ہمیشہ دائود پر اترتی رہی اور اس کا ذکر بائبل میں موجود ہے کس طرح تسلیم کیا جائے کہ مسیحی مصنفین اس کے مفہوم کے سمجھنے سے قاصر ہیں.کلامِ الٰہی کے آسمان سے اترنے کا ذکر انجیل میں نئے عہد نامہ میں بھی اسی قسم کا محاورہ استعمال ہوا ہے.اس میں آتا ہے ’’اور یوحنا نے یہ کہہ کے گواہی دی کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اس پر ٹھہری اور میں اسے نہ جانتا تھا پر جس نے مجھے بھیجا کہ پانی سے بپتسمہ دوں اس نے مجھے کہا کہ جس پر تو روح کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے وہی ہے جو روح قدس سے بپتسمہ دیتا ہے سو میں نے دیکھا اور گواہی دی کہ یہی خدا کا بیٹا ہے.‘‘ (یوحناباب ۱آیت ۳۲ تا ۳۴) ان آیات سے ظاہر ہے کہ روح القدس جسے قرآنی اصطلاح میں کلام لانے والا فرشتہ یاجبرئیل کہتے ہیں کبوتر کی شکل میں حضرت مسیح ؑپر اترا جیسا کہ عہد نامہ جدید کے متعدد حوالہ جات سے ثابت ہے یہ روح قدس ہی ہے جو خدا کا کلام پہنچاتی ہے پس اس کبوتر نے اُتر کر مسیح پر خدا تعالیٰ کی مرضی ہی کھولی ہو گی چنانچہ متی باب ۳ آیت ۱۶ سے اس کی وضاحت بھی ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں لکھا ہے کہ ’’اس نے (یعنی مسیح علیہ السلام) نے خدا کی روح کو کبوتر کی مانند اترتے اور اپنے اوپر آتے دیکھا‘‘ غرض خدا کی روح سے خدا تعالیٰ کا کلام ہی مراد ہے.پس جبکہ عہد نامہ قدیم او رجدید دونوں خدا تعالیٰ اور اس کے کلام کے اترنے پر شاہد ہیں تو اس قسم کی روایات اگر مسلمانوں میں پائی جائیں تو مسیحیوں کو ان کے سمجھنے میں کیوں دِ ّقت پیش آئے؟ کلام الٰہی کے آسمان پر سے اترنے کا غلط مطلب سمجھنے کی چار وجوہات اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم میں سَـمَآءٌ کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے.کبھی اس کے معنے بادلوں کے ہوتے ہیں کبھی بلندی کے اور کبھی بلندیٔ مقام کے جب اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس کے معنی اس کے بلند مقام کے ہوتے ہیں نہ یہ کہ وہ کسی خاص مقام پر انسانوں کی طرح بیٹھا ہے جس ہستی کی نسبت قرآن کریم خود فرماتا ہے وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ (قٓ :۱۷) وہ انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ اس کے قریب ہے اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ وہ ایک جسمانی آسمان پر بیٹھا ہے اور وہاں سے لکھ لکھ کر اپنا کلام بھجوا رہا ہے کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ عام مسلمانو ںکو بھی یہ ٹھوکر لگی ہے اور انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کی ان صفات پر جو قرآن کریم میں مذکور ہیں غور کئے بغیر ذوالوجوہ روایات اور متشابہ آیات سے دھوکا کھایا ہے.

Page 212

دوسری وجہ جس سے لوگوں نے دھوکا کھایا ہے وہ فرشتوں کے متعلق اور ان کے اعمال کے ظہور کے متعلق اُن کا ناقص علم ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مادی اجسام نہیں ہیں بلکہ تمام کائنات عالم کے لئے علت ِ ثانیہ کا مقام رکھتے ہیں یعنی خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے درمیان پہلے واسطہ کی حیثیت ان کو حاصل ہے اور نظام عالم کا خدا تعالیٰ کے حکم اور اس کے اشارہ کے مطابق چلانا ان کا کام ہے.کوئی فرشتہ کلام الٰہی کو بندہ تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے.کوئی پیدائش کا کارخانہ چلا رہا ہے‘ کسی کے ذمہ موت کا کام ہے اور وہ گویا بمنزلہ تاروں کے ہے جن کے ذریعہ سے دنیا کے کار خانہ کو خدا تعالیٰ حرکت دیتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اُن کی زبان سے فرماتا ہے وَ مَا مِنَّاۤ اِلَّا لَهٗ مَقَامٌ مَّعْلُوْمٌ (الصّٰفّٰت :۱۶۵) ہم میں سے ہر ایک کا ایک معلوم مقام ہے یعنی ہر ایک اپنے مقام پررہتے ہوئے اُسی طرح اپنا کام کر رہا ہے جس طرح کہ سورج اپنی جگہ پر رہتے ہوئے اپنے گرد کے سیاروں تک روشنی پہنچاتا ہے اور انہیں اس کی ضرورت نہیں کہ وہ اپنی جگہ کو چھوڑیں پس جب فرشتوں کا اترنا ایک استعارہ ہے تو اس کلام کا اترنا بھی جو اُن کے ذریعہ سے واقع ہوتا ہے ایک استعارہ ہے.تیسری وجہ غلطی لگنے کی یہ ہے کہ لوگوں نے یہ غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کس طرح ظاہر ہوتے ہیں؟ جاہل لوگ خیال کرتے ہیں کہ جس طرح انسان کو ضرورت ہوتی ہے کہ اپنا کلام پہنچانے کے لئے وہ مادی وسائل کو اختیار کرتا ہے مثلاً کسی پیغامبر کو سواری دے کر اپنے مخاطب کی طرف بھجواتا ہے اسی طرح نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بھی اس امر کا محتاج ہے کہ اپنا پیغام لکھ کر کسی پیغامبر کو دے اوروہ اس کے اُس بندے تک چل کر آئے جس تک پیغام بھجوایا گیا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ تو اپنے کامو ںکے متعلق صاف فرماتا ہے کہ اِذَا قَضٰۤى اَمْرًا فَاِنَّمَا يَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ (البقرہ : ۱۱۸) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی امر کا فیصلہ کرتا ہے تو اُسے اس امر کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ انسانوں کی طرح حرکت کرے اور اس کام کے کرنے کے لئے چل کر جائے بلکہ وہ صرف یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ ایسا ہو جائے پھر اسی طرح ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے کلام بھجوانے کے صرف یہ معنے ہیںکہ وہ اس کا ارادہ کر لیتا ہے اور اس ارادہ الٰہی سے آپ ہی آپ کلام الٰہی کے نزول کا ذمہ وار فرشتہ واقف ہو جاتا ہے پھر وہ اس حکم کی تعمیل کے لیے کائنات کی متعلقہ زنجیروں کو کھینچتاہے اور خود بخود ایک لطیف اور پر معارف کلام اللہ تعالیٰ کے اس بندہ کے کانوں یا دل یا آنکھوں پر نازل ہو جاتا ہے جس تک خدا تعالیٰ کا منشاء پہنچانا مطلوب ہوتا ہے ورنہ یہ ہرگز مراد نہیں کہ خدا تعالیٰ کے ہونٹ ہیں اور زبان ہے اور حلق اور تالو ہے کہ وہ ان کو حرکت دے کر کوئی آواز پیدا کرتا ہے یا انسانوں کی طرح کے ہاتھ ہیں کہ وہ ان سے لکھ کر فرشتوں کو دیتا ہے اور وہ اسے رسول تک پہنچا دیتے ہیں.

Page 213

لفظ نُزُولکا استعمال قرآن مجید میں اور اس کا صحیح مفہوم اس آیت کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کا چوتھا موجب یہ ہے کہ لوگوں نے نُزُول کے معنے غلط سمجھے ہیں.بے شک نزول کے عام معنے جسمانی طور پر اترنے کے ہیں لیکن یہ لفظ اور معانی میں بھی مستعمل ہے اور قرآن کریم میں کئی اور جگہ دوسرے معنوں میں مستعمل ہوا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً (آل عمران :۱۵۵) کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر غم کے بعد امن کے سامان اتارے اور اس سے مراد امن کے سامان پیدا کرنا ہے کیونکہ نہ غم آسمان سے اترتا ہے نہ امن ،دونوں زمینی تغیرات سے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم میںہے.وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْاَنْعَامِ ثَمٰنِيَةَ اَزْوَاجٍ (الزمر:۷) اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے آٹھ قسم کے چوپائے اتارے ہیں.حالانکہ چوپائے آسمان سے اُترا نہیں کرتے بلکہ زمین میں پیدا کئے جاتے ہیں.اسی طرح قرآن کریم میں ہے.يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَ رِيْشًا(الاعراف :۲۷) اے بنی آدم! ہم نے تمہارے لئے لباس اتارا ہے جو تمہارے ننگ کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے موجبِ زینت ہوتا ہے.اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰى (البقرة:۵۸ ) ہم نے تمہارے لئے ترنجبین او ربٹیرے اتارے تھے.اسی طرح قرآن کریم فرماتا ہے.وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ (الحدید :۲۶) ہم نے لوہا اتارا ہے جس میں بہت بڑے جنگ کے سامان مخفی ہیں.اب ان تمام اشیاء میں سے ایک بھی نہیں جو آسمان سے اترتی ہو بلکہ سب ہی چیزیں زمین میں پیدا کی جاتی ہیں.خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ قَدْ اَنْزَلَ اللّٰهُ اِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا.(الطلاق :۱۱،۱۲) ہم نے تم پر ایک بڑے شرف کی بات یعنی اپنا رسول اتارا ہے.کلامِ الٰہی کے اترنے کا مفہوم ادا کرنے کے لئے لفظ نزول کے استعمال میں حکمت اوپر کی تمام آیات سے ثابت ہے کہ نزول کا لفظ پیدا کرنے کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور اس جگہ بولا جاتا ہے جبکہ اس چیز کی پیدائش کا ذکر کیا جائے جسے بطور احسان یا انعام کے پیش کیا جائے.چنانچہ جانوروں کی پیدائش کا ذکر بھی بطور احسان کیا گیا ہے لوہے کی پیدائش کا بھی اور مَنْ و سَلوٰی کی پیدائش کا بھی اور لباس کی پیدائش کا بھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا بھی.پس ان معنوں کے رو سے کلام الٰہی کے اترنے کے اصل معنے صرف یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام بطور ایک خاص نعمت کے ہوتا ہے اور اس کی ناقدری اور ناشکری کرنا انسان کو خدا تعالیٰ کی نظروں سے گرا دیتا ہے ورنہ یہ مراد نہیں کہ وہ کسی کاغذ پر لکھا ہوا آسمان سے اترتا ہے بلکہ وہ تو اللہ تعالیٰ کا ایک خاص اذن ہے جو تمام

Page 214

ملاوٹوں اور وسوسوں سے پاک ہونے کی حالت میں اس کے مقربوں کے کانوں یا آنکھوں یا قلوب پر منکشف کیا جاتا ہے اور جسے الفاظ اور َصوت دی جاتی ہے.صرف ایک خیال کا نام نہیں ہے جیسے کہ برہمو سماج یا بابی وغیرہ خیال کرتے ہیں.اس جملہ سے یہ دھوکا نہیںکھانا چاہیے کہ متقی کی تعریف صرف یہ ہے کہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لائے کیونکہ قرآن کریم سے پہلے زمانہ کے لوگوں میں بھی قرآن کریم متقیوں کا وجود تسلیم کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے.وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ الْفُرْقَانَ وَ ضِيَآءً وَّ ذِكْرًا لِّلْمُتَّقِيْنَ۠(الانبیاء :۹ ۴) یعنی ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان دیا تھا اور وہ تعلیم دی تھی جو متقیوں کے لئے روشنی اور شرف کا موجب تھی.ہر زمانہ کے متقیوں کے لئے ان کے مناسب حال حکم پس جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی متقی تھے جبکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم ظاہر ہوئے تھے اورنہ قرآن کریم اترا تھا تو معلوم ہوا کہ متقی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا دائمی شرط نہیں بلکہ ایک موقت شرط ہے جس کا وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد شروع ہوتا ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ خدا تعالیٰ کے تازہ احکام کو جو نہ مانے وہ متقی کیونکر ہو سکتا ہے؟ غرض موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے متقیوں کے لئے یہ شرط تھی کہ موسیٰ کی وحی پر ایمان لاتے ہوں حضرت عیسیٰ کے زمانہ میں متقیوں کی یہ علامت تھی عیسیٰ علیہ السلام کی وحی پر ایمان لاتے ہوں اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے بعد یہ علامت قرار پائی کہ آپ کی وحی پر ایمان لانے والے ہوں.حصہ آیت وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَکی تشریح وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ.پہلی آیت کو شامل کر کے پانچویں اور اس آیت میں بیان کردہ دوسری علامت متقیوں کی یہ بتائی کہ وہ ان وحیو ںپر بھی ایمان لاتے ہیں جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل ہو چکی ہیں.اللہ اکبر! یہ قرآن کریم کا کیسا شاندار معجزہ ہے کہ ایک اُ ّمی جو اپنی زبان میں بھی پڑھنا لکھنا نہیں جانتا تھا او رپھر عرب قوم کا فرد جو تعصّبِ قومی میں ساری دنیا سے بڑھی ہوئی تھی قرآن کریم سے حکم پا کر اعلان کرتا ہے کہ اسی کلام پر ایمان لانے سے نجات نہ حاصل ہو گی جو مجھ پر نازل ہوا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی ہدایت کے مستحق بننا چاہتے ہو تو جوو حیاں مجھ سے پہلے نازل ہو چکی ہیں اُن پر بھی ایمان لائو.اسی کی تشریح دوسری جگہ یوں فرماتا ہے.وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ (فاطر :۲۵).قرآن کریم کی پہلے نازل شدہ کتب پر ایمان لانے کی بے نظیر تعلیم کوئی قوم ایسی نہیںگزری جس میں خدا تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو اور فرماتا ہے.لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ(الرعد :۸) ہر قوم میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہادی

Page 215

گزرا ہے گویا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم مجمع البحرین ہی نہیں مجمع البحار ہیں جو آپؐ پر ایمان لائے اُس کے لئے ضروری ہے کہ ابتدائی عراقی نبیوں آدم.نوح اور ابراہیم علیہم السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ یہودی نبیوں موسیٰ، دائود، ادریس، الیاس، ذکریا اور یحییٰ پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ مسیحیت کے بانی عیسیٰ علیہ السلام پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ہندوستان کے نبیوں کرشن اور رامچندر پر بھی ایمان لائے اور جو آپؐ پر ایمان لائے وہ ایرانی نبی زردشت پر بھی ایمان لائے.اس سے زیادہ روا داری اور اس سے زیادہ صداقت طلبی کا کیا ثبوت ہے؟ کوئی قومی تعصّب نہیں، کوئی نسلی امتیاز نہیں صرف اور صرف صداقت اور راستی کی طلب ہے جہاں بھی ملے اس کا اقرار، جہاں بھی پوشیدہ ہو اس کا اظہار.آہ! دنیا کی یہ کس قدر قدر ناشناسی ہے کہ اسی کتاب سے سب سے زیادہ ُبغض اور کینہ کا اظہار کیا جاتا ہے.کاش دنیا میں انصاف کا مادہ ہوتا کاش لوگ قرآن کریم کے پہلے ہی رکوع کے مطالب پر غور کر کے اس کی نسبت اپنا فیصلہ صادر کرتے!! قرآن مجید کے بائبل کی تصدیق کرنے کا مطلب مسیحی مصنّف جن کی نظر حسن کی جگہ قبح پر پڑنے کی عادی ہو چکی ہے اس آیت کی مذکورہ بالا خوبی پر نظر ڈالنے اور اس کی عظمت اور خوبی تسلیم کرنے کی بجائے الٹا یہ ناجائز فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن کریم نے بائبل کی تصدیق کی ہے اور چونکہ بائبل کے مضامین قرآن کریم کے خلاف ہیں اس لئے قرآن کریم جھوٹا ہے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ.کیسے شاندار مضمون کے موقعہ پر کیسی بھونڈی بات سوجھی ہے! وہ یہ نہیں سمجھتے کہ قرآن بائبل کے کس حصہ کی تصدیق کرتا ہے.عہد نامہ قدیم کی کہ جس میں شریعت کو روحانیت کے لئے ضروری قرار دیا ہے یا اناجیل کے ان قصوں کی کہ جن میں یہ لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام روزے رکھا کرتے تھے (متی باب۴ آیت ا، ۲) او رلکھا ہے کہ خاص قسم کے جن بغیرروزوں کے نہیں نکلتے (مرقس باب ۹ آیت ۲۹) یا حواریوں کے اقوال کی جن میں یہ لکھا ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے.ان دو متضاد اقوال میں سے وہ کس کی تصدیق کرتا ہے؟ کاش وہ سمجھتے کہ ایک مصلح کو پہلے ادیان کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں اُسے تو صرف منبع کے بارہ میں اپنے خیال کا اظہار کر دینا کافی ہے کیا دنیا میں صلح کے قائم کرنے اور سچائی جہاں بھی ملے اس کا اقرار کرنے کے لئے یہ اصل کم قیمتی ہے کہ اس امر کا اقرار کیا جائے کہ خدائے قـیّـوم سب اہل زمین کا خدا ہے اور اس کا کلام ہر قوم پر نازل ہوتا رہا ہے اور ایک مومن صادق کو اجمالاً اس پر ایمان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کو بھی اپنی ہدایت سے محروم نہیں رکھا.اگر تفصیلی معتقدات مختلف اقوام کے تسلیم کرنے صلح کے لئے ضروری ہوں تو یہ اتحاد تو خود مسیحیوں میں بھی پیدا نہیں بیسیوں فرقے ہیں جو ایک دوسرے کے عقیدے کو غلط کہتے ہیں.رومن کیتھولکس کے نزدیک

Page 216

اناجیل کچھ کہتی ہیں اور پراٹسٹنٹ کے نزدیک کچھ.اور اگر تصدیق کے وہی معنے ہیں جو قرآن کریم کے سر مسیحی مصنّف مڑھنا چاہتے ہیں تو مسلمان کون سے عقائد کی تصدیق کرے پراٹسٹنٹ عقیدہ کی یا رومن کیتھولک عقیدہ کی یا یونی ٹیرین عقیدہ کی یا گریک چرچ کی یا شامی گرجا کی؟ مسیحی مصنفوں کا استدلال اس سے باطل ہوتا ہے کہ (۱) قرآن کریم میں پہلے کلاموں پر ایمان کو بعد میں رکھا گیا ہے اگر تفصیلی ایمان مراد ہوتا توپہلے پہلی وحی کا ذکر ہوتا بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کا.پہلی وحی کا بعد میں ذکر کرنا بتاتا ہے کہ اس پر ایمان قرآن کریم کے توسط سے ہے یعنی اس کے بتائے ہوئے اصول کے مطابق.وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ کے الفاظ سے مسیحیوں کا قرآن مجید کو بائبل کا مصدق قرار دے کر غلط مطالب نکالنا (۲) وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ میں کسی قوم یا مذہب کا مخصوص ذکر نہیں بلکہ ہر قوم و ملّت کے الہام کی تصدیق کی ہے اگر مسیحی اس سے بائبل کی تصدیق نکالیں تو ہندو اپنے ویدوں کی تفصیلی تصدیق نکالنے میں حق بجانب ہوں گے اور زردشتی اپنی الہامی کتب کی.ان سب کتب میں مسیحی اتحاد کیونکر پیدا کریں گے آخر بائبل کو دوسری کتب پر فضیلت کیوں؟ (۳) قرآن کریم میں اﷲتعالیٰ فرماتا ہے.وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المومن:۷۹) ہم نے تجھ سے پہلے جو رسول بھیجے تھے ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے تیرے الہام میں کیا ہے اور بعض کا ذکر تک نہیں کیا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ کئی انبیاء کا ذکر تک نہیں اُن کے کلام پر مسلمان کس طرح ایمان لائیں؟ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ اجمالی ایمان مراد ہے نہ کہ تفصیلی.(۴) قرآن کریم میں آتا ہے.فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ (البینة:۴) قرآن کریم میں تمام سابق صحیح اور غیرمنسوخ تعلیمیں جمع کر دی گئی ہیں پھر فرماتا ہے.وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مُهَيْمِنًا عَلَيْهِ (المائدة :۴۹) اور ہم نے تجھ پر ایسی کتاب اتاری ہے جو تمام سچائیوں پر مشتمل ہے اور کتاب الٰہی میں سے جو کچھ بھی اس کے وقت میں موجود ہے اس کی تصدیق کرتی ہے اور اس کے مضامین کی حفاظت کرتی ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ تفصیلی تعلیم کو مدِّنظر رکھتے ہوئے قرآن کریم کا دعویٰ ہے کہ سب پہلی غیرمنسوخ اور زمانہ حال کے لئے قابل عمل تعلیمات قرآن کریم میں شامل کر دی گئی ہیں.پس جب سب پہلی قابل عمل تعلیمات قرآن کریم کے دعویٰ کے مطابق اس میں شامل ہو چکی ہیں تو پہلی کتب کی تصدیق سے مراد صرف اجمالی تصدیق ہے نہ کہ کچھ اور یہ تصدیق

Page 217

ویسی ہی ہے جیسے کہ مسیحی ابراہیم اور موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ نبی تھے لیکن ان کی تعلیم پر تو عمل نہیں کرتے بلکہ وہ تو اُسے لعنت کہتے ہیں.قرآنِ کریم بھی اسی اجمالی رنگ میں اُن کی بھی اور اُن کے علاوہ دوسری اقوام کے انبیاء کی بھی تصدیق کرتا ہے مگر وہ اُن کی شریعتوں کو لعنت قرار نہیں دیتا بلکہ وہ ان سب راستبازوں کو اپنے اپنے وقت کے لئے رحمت ِالٰہی قرار دیتا ہے.مسیحی مصنّفوں کی سمجھ میں قرآن کریم کا یہ بے نظیر نکتہ اس لئے نہیں آتا کہ وہ نبی مان کر بھی ایک شخص کو مجرم اور گنہگار قرار دینے میں دریغ نہیں کرتے پس ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ قرآنِ کریم کی اس تعلیم سے کہ ہر قوم کے نبیوں اور ان کے الہام کے سچا ہونے کا اقرار کرو.دنیا کو یا اس کے امن کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ کیونکہ وہ تو جن کو نبی سمجھتے ہیں ان پر بھی خلاف اخلاق الزام لگانے سے باز نہیں رہتے اور صرف مسیح علیہ السلام کو پاک قرار دیتے ہیں لیکن قرآن کریم کا مسلک اور ہے وہ سب نبیوں کو پاک اور راستباز قرار دیتا ہے اس لئے جب وہ ہر قوم کے نبیوں کے الہام کو اجمالی طور پر سچا ماننے کا حکم دیتا ہے تو وہ اپنے عقیدہ کے رُو سے دنیا میں امن کے قیام کا راستہ کھول دیتا ہے کیونکہ جب ایک مسلمان یہ تسلیم کر لے گا کہ خدا تعالیٰ نے کرشن اور رام چندر اور زردشت پر اپنا کلام نازل کیا تھا تو وہ قرآنی عقیدہ کے رُو سے اُن کی زندگیوں کو پاک سمجھے گا.اور اُن پر لگائے گئے سب الزاموں کو خواہ ماننے والو ںکی طرف سے ہوں خواہ مخالفوں کی طرف سے غلط اور بے بنیاد قرار دے گا اور ان کا احترام کرے گا اور اس طرح دنیا میں امن قائم ہو گا.اس اجمالی ایمان کا ایک اور بھی فائدہ ہے کہ اس طرح مسلمانو ںکے دل میں خدا تعالیٰ کی حقیقی محبت قائم کی گئی ہے کیونکہ تعصّب کی وجہ سے خواہ کوئی قوم کتنا ہی یقین کرے کہ صرف ہماری ہی کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے لیکن ان خشیت اللہ کے اوقات میں جو ہر انسان پر آتے ہی رہتے ہیں اس کے دل میں ضرور یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ربّ العالمین کس طرح ہو گیا جبکہ اس نے کسی ایک قوم کو اپنے الہام کے لئے چن لیا اور باقی سب اقوام کو چھوڑ دیا ہے؟ اس قرآنی عقیدہ کی بناء پر ایک مسلمان کا عقیدہ ربوبیت عالمین کے متعلق اور بھی پختہ ہو جاتا ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ خدا تعالیٰ واقعہ میں کسی ایک قوم کا خدا نہیں بلکہ سب دنیا کا خدا ہے.حصہ آیت وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَکی تشریح وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ.حلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ اَ لْاٰخِرَۃُ کے معنے بعد میں آنے والی چیز کے ہوتے ہیں اسی وجہ سے بعد الموت زندگی کو حیاتِ آخرت اور قیامت کے دن کو یوم الآخرۃ کہتے ہیں اور اسی وجہ سے انجام کو بھی آخرت کہتے ہیں کیونکہ بعد میں ظاہر ہوتا ہے.

Page 218

الآخرة کے معنی قرآن کریم میں انجام کے معنوںمیں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ لَلْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى (الضحیٰ :۵) یعنی تو جو کام بھی شروع کرتا ہے اس کا انجام ابتداء کی نسبت اچھا ہوتا ہے اور یہ ہر کام میں تیری کامیابی اس امر کی شہادت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا تیرے ساتھ ہے.پس لفظی معنے وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنْوُنَ کے یہ ہیں کہ بعد میں آنے والی شے پر وہ یقین رکھتے ہیں.اب رہا یہ سوال کہ بعد میں آنے والی کیا شے ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر تو اس امر کو دیکھا جائے کہ قرآن کریم میں آخِرَۃ کا لفظ زیادہ تر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے تو اس کے معنے قیامت یا مابعدالموت زندگی کے ہوتے ہیں.مثلاً فرماتا ہے.مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ (البقرة:۱۰۳) ایسے شخص کا حصہ بعدالموت زندگی میں کوئی نہ ہو گا.یا فرماتا ہے.بَلِ ادّٰرَكَ عِلْمُهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ(النمل :۶۷) بعد الموت زندگی کے بارہ میں ان کا علم بعد مشاہدہ کے کامل ہو گیا.اسی طرح اور متعدد مقامات پر ان معنوں میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے.اَ لْاٰخِـرَۃسے مراد آنحضرتؐ کے بعد نازل ہونے والی وحی پس اگر قرآن کریم میں اس لفظ کے استعمال کی کثرت کو دیکھا جائے تو اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں (مگر بالعموم ایسے موقع پر خالی آخرۃ کی جگہ یَوْمُ الآخِرَۃِ کے الفاظ آتے ہیں) لیکن اگر اس آیت کے مضمون اور اُس کے مطالب کو دیکھا جائے تو چونکہ اس جگہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانے کا ذکر ہے پھر آپ سے پہلے جو وحی نازل ہوتی رہی اس پر ایمان لانے کا ذکر ہے اس کے بعد آخرۃ پر یقین رکھنے کا ذکر ہے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آخرۃ سے مراد اس جگہ بعد میں آنے والی وحی ہے اور اس آیت میں تینوں وحیوں پر ایمان لانا متقی کی علامت قرار دیا گیا ہے.اس وحی پر بھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل ہو چکی تھی اور اس پر بھی جو آپؐ کے بعد نازل ہو گی.سباق آیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معنے زیادہ چسپاں ہوتے ہیں.بعض مسلمان اس غلطی میں مبتلا ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کا نزول کس طرح ہو سکتا ہے ؟ لیکن یہ وہم اُن کا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طورپر مسلمانو ںکی نسبت فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ.(حٰم سجدة :۳۱) یعنی جو مسلمان یہ اعلان کر کے کہ اللہ ہمارا رب ہے تمام مصائب کو برداشت کریں گے اور استقامت دکھائیں گے خدا تعالیٰ کے فرشتے ان پر یہ کہتے ہوئے نازل ہوں گے کہ نہ آئندہ کا

Page 219

خوف کرو اور نہ سابق پر غم کرو اور اس جنت کی بشارت سنو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا.اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے.وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَ الصِّدِّيْقِيْنَ۠ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِيْنَ١ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓىِٕكَ رَفِيْقًا(النساء :۷۰) یعنی جو لوگ اللہ اوراس رسول (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کریں گے وہ اس گروہ میں شامل ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں‘ صدّیقوں ‘ شہداء اور صالحین کے گروہ میں اور یہ گروہ ساتھیوں کے لحاظ سے سب سے بہتر گروہ ہے پس جبکہ اس امّت سے یہ وعدہ ہے کہ وہ نبیو ںاور صدّیقوں اور شہداء والے انعام پائے گی تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس امت میں وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو.اصل انعام جو نبیوں اور صدّیقوں اور شہداء کو ملتا ہے وہ تو خدا تعالیٰ کی وحی ہی ہے.وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَمیں حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کی پیشگوئی اس آیت میں اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہے جو سورۂ جمعہ میں کی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِهٖ وَ يُزَكِّيْهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۗ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ.وَّ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(الجمعۃ:۳،۴) یعنی وہ خدا ہی ہے جس نے اُمّیوں میں انہی کی قوم کا ایک رسول بھیجا جو اُنہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور اُنہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گو پہلے وہ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے اور اسی طرح وہ ان کے سوا ایک اور قوم کو سکھائے گا جو اب تک انہیں نہیں ملے اور اللہ غالب اور حکمت والا ہے.جب یہ آیت نازل ہوئی تو احادیث میں آتا ہے کہ صحابہ نے پوچھا وہ کون لوگ ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے جو ہم سے نہیں ملے؟ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا.لَوْکَانَ الدِّیْنُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَذَھَبَ رَجُلٌ مِّنْ فَارِسَ اَوْ اَبْنَائِ فَارِسَ حَتّٰی یَتَنَاوَلَہٗ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ھریرة) کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چڑھ جائے تو فارس سے ایک شخص یا فرمایا ابناء فارس میں سے ایک شخص آسمان پر جا کر دین کو واپس لے آئے گا.اس روایت سے اور بعض اور روایات سے کہ جن میں رَجُلٌ کی جگہ رِجَالٌ کا لفظ ہے (بخاری کتاب التفسیر.تفسیر سورۃ الجمعۃ) معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور ایک شخص بنو فارس سے جس کے ساتھ اور بھی بعض ابناء فارس بطور مددگار ہوں گے ایمان کو واپس لائے گا اور اس کی معرفت اللہ تعالیٰ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہی کام کرنے کا موقع دے گا کہ جو صحابہؓ کے زمانہ میں آپؐ نے کیا یعنی وہ آپؐ کا بروز ہونے کی حیثیت سے خدا تعالیٰ کی وحی سے

Page 220

اصلاحِ امت کرے گا.غرض اس آیت کے سباق کو مدِّنظر رکھتے ہوئے وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جس طرح متقی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان رکھتا ہے اور آپ سے پہلی وحی پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح وہ بعد میں آنے والی وحی پر بھی یقین رکھتا ہے.آنحضرت ؐ اور آپؐ کے پہلے انبیاء کی وحیوں کے متعلق ایمان لانے کے الفاظ اور آخری وحی کے متعلق یقین رکھنے کے الفاظ استعمال کرنے کی وجہ شاید کسی کو یہ شبہ گزرے کہ پہلی دونوں وحیوں کی نسبت تو ایمان کا لفظ ا ستعمال ہوا ہے لیکن آخرۃ کی نسبت یقین کا لفظ استعمال ہوا ہے پس کیوں نہ سمجھا جائے کہ اس جگہ وحی کی بجائے کسی اور چیز کا ذکر ہے ورنہ اس کے لئے بھی ایمان کا لفظ استعمال ہوتا.اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ ایمان کا لفظ عام طو رپر اس شے کے متعلق استعمال ہوتا ہے جس کا وجود معرض وجود میں آ چکا ہو.جس کا وجود معرضِ وجود میں نہ آیا ہو بلکہ آئندہ آنے والا ہو اُس کی نسبت یقین کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہوتاہے.اگر کہا جائے کہ حَیٰوۃ بَعْدَ الْمَوْت کے متعلق بھی تو ایمان کا لفظ آتا ہے حالانکہ وہ بعد میں آنے والی شے ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہحیٰوۃ بَعْدَ الْمَوْت بیشک ایک زندہ شخص کے لئے تو بعد میں آنے والی شے ہے مگر اس کا وجود اس وقت بھی موجود ہے اور جو لوگ مر چکے ہیں وہ معاً ایک قسم کی زندگی پا رہے ہیں پس یہ خدائی فعل پہلے بھی ظاہر ہوتا رہا ہے اب بھی ہو رہا ہے اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا پسحَیٰوۃ بَعْدَ الْمَوْت در حقیقت ایک ایسی چیز ہے جو ہر وقت ہو رہی ہے اس لئے اس کی نسبت ایمان کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے مگر جو وحی آئندہ نازل ہونے والی ہو اس کی نسبت یقین کا لفظ زیادہ مناسب ہے.اگر پہلی وحیوں کی نسبت سے وحی کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ صرف یہ کہا جائے کہ مومن اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہے تو اس موقعہ پر چونکہ مخصوص طو رپر آئندہ وحی کا ذکر نہ ہو گا اس کے لئے ایمان کا لفظ زیادہ مناسب ہو گا.اصل بات یہ ہے کہ وحی الٰہی ہر شخص پر نہیں اُترتی بلکہ بعض ترقی یافتہ اور مقرب وجودوں پر اُترتی ہے اور قومی لحاظ سے متقیوں کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اس امر پر یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آئندہ بھی ان کو بھلائے گا نہیں بلکہ ان میں سے کامل وجودوں پر وحی نازل ہوتی رہے گی اور اس طرح ہر مسلمان کے دل میں یہ خواہش پیدا کی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اعلیٰ درجہ کا متقی بنائے کہ اس پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہو اور اس طرح اعلیٰ امید پیدا کر کے اور

Page 221

اعلیٰ مقصد کو سامنے لا کر مسلمانوں کا مطمح نظر اونچا کر دیا گیا ہے.افسوس کہ مسلمانوں نے اس عظیم الشان احسان کو نہ سمجھااور خود اپنے مستقبل کو تاریک بنا لیا.آج کیوں مسلمان اسلام سے دُور جا رہے ہیں اور کیوں گزشتہ صدی میں ان میں َحسن بصری.سید عبدالقادر جیلانی.جنید بغدادی.معین الدین چشتی.شہاب الدین سہروردی.محی الدین ابن عربی.سید احمد سرہندی اور شاہ ولی اللہ رحم اللہ علیہم جیسے لوگ پیدا نہیں ہوئے؟ اسی وجہ سے کہ اعلیٰ روحانی مقامات کے حصول کے لئے جس امید اور یقین کی ضرورت ہے وہ ان میں نہیں رہی خدا تعالیٰ نے اس ولولہ اور جوش کے پیدا کرنے کے لئے ان سے اعلیٰ روحانی انعامات کا وعدہ کیا تھا اور اس پر یقین رکھنے کے لئے قرآن کریم کے شروع میں ہی انہیں حکم دیا تھا.لیکن انہوں نے اس کی قدر نہ کی اور ان کی ہمتیں سست ہو گئیں اور کوششیں سست ہو گئیں آج مسلمان تعلیم حاصل کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ایم اے، بی اے ہو کر انہیں نوکریاں مل جائیں گی.تجارت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس سے مال ملے گا.زراعت کرتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ اس سے غلہ اور پھل حاصل ہو گا.لیکن نماز اور روزہ اور حج میں وہ جوش نہیں جو اُمید سے پُر دل کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان امور کا بجالانا صرف فرض کی ادائیگی ہے اس کے روحانی نتائج کوئی پیدا نہ ہوں گے.کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ مسلمانوںمیں سے جس نے اس دروازہ کو ُکھلا بتایا.مسلمانوں نے اُس پر کفر کا فتویٰ لگاد یا انہوں نے کہا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے کیونکہ وہ آپؐ کے بعد وحی کا دروازہ کھلا بتاتا ہے اور یہ نہ سمجھا کہ وحی کیا ہے؟ وحی کے معنے ہیں خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کا سننا اور جو شخص خدا تعالیٰ کے تازہ کلام کو سنے گا ظاہر ہے کہ اس کا دل محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ترقی کرے گا اور آپؐ پر اُس کا ایمان بڑھے گا نہ یہ کہ اس کے برعکس ہو گا.کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور چلا جائے؟ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک.خلاصہ کلام یہ کہ آخرۃ پر یقین کی تعلیم مسلمانوں کے حوصلے بڑھانے اور روحانی میدان میں ان کی کوششوں کو تیز کرنے کے لئے تھی اور جو مسلمان بھی آخرۃ پر یقین رکھے گا وہ اس کے حصول کے لئے اسی طرح کوشش کرے گا جس طرح صحابہ کرام نے کی اور سید عبدالقادر جیلانی ؒ اور محی الدین ابن عربی وَغَیْرُھُم نے کی.بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ وحی مذکر ہے اور آخرۃ مؤنث کا صیغہ ہے پھر اس سے وحی کی طرف کس طرح اشارہ ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ وحی کا لفظ نہیں مَا اُنْزِلَ کے الفاظ ہیں اور ان کی تعبیر کسی ہم معنے لفظ

Page 222

سے کی جا سکتی ہے قرآن کریم میں مَا اُنْزِلَ کے لفظ کی تعبیر وحی سے بھی کی گئی ہے اور رِسَالَۃٌ کے لفظ سے بھی.چنانچہ سورۂ احزاب میں ہے.اَلَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسٰلٰتِ اللّٰهِ وَ يَخْشَوْنَهٗ وَ لَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلَّا اللّٰهَ (الاحزاب: ۴۰) یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی وحی لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے غرض رسالت کا لفظ بھی وحی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ مونث ہے پس آخرت کے معنے اَلرِّسَالَۃُ الْاٰخِرَۃُ کے ہیں اور رِسَالَۃٌ کے لفظ کی رعایت سے اٰخِرَۃٌ کا لفظ مؤنث آیا ہے یاد رہے کہ لغت میں بھی وحی کے معنے رسالت کے آتے ہیں.(تاج العروس) اس جگہ یہ امر بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اوپر کی دونوں آیتو ںکی ابتدا یُؤْمِنُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے اور بعد میں دو امور دونوں آیتوں میں بیان ہوئے ہیں اس سے استدلال ہوتا ہے کہ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ کے تابع اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃِ اور اِنفاق مَارَزَقَ اللّٰہ ہیں اور یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلٰی مُحمدٍؐ کے تابع بِمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِہٖ پر ایمان اور اٰخرۃ پر یقین ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زمانہ میں قرآن کریم ہی کے ذریعہ سے اس سے پہلے کی وحیوں پر ایمان اور آخرۃ پر یقین پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ پہلے انبیاء کے حالات ایسے مشتبہ کر دیئے گئے ہیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں ہی ان کی قدر اور صداقت معلوم ہو سکتی ہے اور آئندہ وحی کے نزول کے متعلق بھی قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہی یقین ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے سوا جس قدرادیان ہیں سب نے وحی کا دروازہ بند کر رکھا ہے اور کوئی مذہب اس امر کا مدعی نہیں کہ اسے مان کر خدا تعالیٰ کی وحی اب بھی بندہ پر نازل ہو سکتی ہے.اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ١ۗ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۰۰۶ یہ لوگ ہدایت پر (قائم )ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ہے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.حَلّ لُغَات.عَلٰی.علٰی حرف جر ہے اور اس کے نو معنے ہیں جن میں سے ایک معنے استعلاء کے ہیں یعنی غالب ہونے یا اوپر آ جانے کے (مغنی) ھُدًی.ھُدًی کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ فاتحۃ آیت ۶وسورۃ بقرۃ آیت ۳.رَبِّھمْ.رَبّ کے معنوں کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۲.اَلْمُفْلِحُوْنَ.اَلْمُفْلِحُوْنَ اَفْلَحَ سے اسم فاعل مُفْلِحٌ آتا ہے اور مُفْلِحُوْنَ اس سے جمع کا صیغہ ہے

Page 223

اَفْلَحَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں فَازَوَظَفِرَ بِمَا طَلَبَ یعنی اپنے ارادے میں کامیاب ہو گیا اور مقصود کو پا لیا.اَفْلَحَ زَیْدٌ.نَجَحَ فِی سَعْیِہٖ وَاَصَابَ فِیْ عَـمَلِہٖ.زید نے اپنی کوشش کے پھل کو پا لیا اور اس کی محنت بار آور ہوئی.(اقرب) اَلْفَلَاحُ.اَلظَّفَرُ وَاِدْرَاکُ بُغْیَۃٍ.فلاح کے معنے کسی کام میں کامیابی اور مقصود کو پالینے کے ہیں (مفردات امام راغب) تاج العروس میں ہے یُقَالُ لِکُلِّ مَنْ اَصَابَ خَیْرًا.مُفْلِحٌ.ہر اس شخص کوجو کسی دنیوی یا دینی بھلائی کو حاصل کرے مُفْلح کہتے ہیں اور فلاح ایسی کامیابی کو کہتے ہیں جس پر دوسرے رشک کریں.اَئمہ عرب کا اس پر اتفاق ہے کہ عربی زبان میں فلاح کے لفظ سے بڑھ کر دینی اور دنیوی دونوں بھلائیوں کو شامل رکھنے والا لفظ اور کوئی نہیں.پس مُفْلِحُوْنَ کے معنے ہوں گے اپنے مطالب میں کامیاب ہونے اور اپنے مقصود کو حاصل کر لینے والے.تفسیر.اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ میں متقی کے انجام کا ذکر اس آیت میں اس قسم کے متقی کا انجام بتایا ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے پہلے تو یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم اس قسم کے متقی کو ہدایت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچاتا ہے اس آیت میں اس ہدایت کی نوعیت کو ظاہر کرنے کے لئے فرماتا ہے کہ اوپر کے بیان کردہ شرائط کے ماتحت جو متقی ہوں ’’وہ اپنے رب کی ہدایت پر ہوتے ہیں.‘‘ تفصیل اس مضمون کی یہ ہے کہ ایک تو اس آیت میں مِنْ رَّبِّهِمْ کے الفاظ استعمال کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ ربّ ہے اور ربّ اُسے کہتے ہیں جو بتدریج ترقی کی طرف لے جائے اس لئے جو شخص خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرے اس کا قدم بتدریج آگے کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے دوسرے ربّ کو ھُمْ کی طرف مضاف کر کے یہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ چونکہ اُن کا ربّ ہے اس لئے اصل منشاء اس کا یہ ہے کہ لوگ ہدایت پائیں نہ یہ کہ گمراہ ہوں پس جو شخص ہدایت کی طرف توجہ کرے اسے ضرور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامان میسرہوتے ہیں.تیسرے عَلٰى هُدًىکہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ گویا ایسے متقیوں کے لئے ہدایت ایک سواری کی طرح ہو جاتی ہے جس کی پیٹھ پر وہ سوار ہوتے ہیں اور یہ سواری ان کے ربّ کی طرف سے آتی ہے اور جب کسی کی طرف سے سواری آئے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اس شخص کو ملاقات کے لئے بلایا گیا ہے.پس اس عبارت سے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ ہدایت انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانا شروع کرتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتے ہیں.عَلٰى هُدًىکے الفاظ میں متقیوںکے لئے ہدایت کے ایک سواری کی طرح ہو جانے کی طرف اشارہ ہدایت کے لئے سواری کا محاورہ کوئی ذوقی لطیفہ نہیں بلکہ عربی میں اس قسم کا محاورہ عام مستعمل ہے چنانچہ عرب لوگ کہتے ہیں جَعَلَ الْغَوَایَۃَ مَرْکَبًا فلاںشخص نے تو گمراہی کو اپنی سواری بنا لیا ہے یعنی وہ جس طرف رُخ

Page 224

کرتا ہے گمراہی کی راہ سے کرتا ہے اسی طرح کہتے اِمْتَطَی الْجَھْلَ فلاں شخص جہالت پر سوار ہو گیا ہے.ہدایت کے لئے سواری کا محاورہ اسی محاورہ کے مقابل پر قرآن کہتا ہے کہ اوپر کی صفات والے متقیوں کی سواری ہدایت ہو جاتی ہے یعنی وہ ہر کام خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت کرتے ہیں جہالت اور گمراہی سے ان کے افعال پاک ہو جاتے ہیں او رایسا شخص جو ہر وقت ہدایت پر رہے وہی ہو سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی اور الہام سے ہدایت ملتی رہے ورنہ جو شخص محض عقل سے کام لیتا ہے وہ بسا اوقات غلطی میں پڑ جاتا ہے.عَلٰى هُدًى فرما کر اس طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جانے کا عمل ان کے لئے آسان ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت سواری کی طرح اُن کے سفر کو ہلکا کر دیتی ہے.عَلٰى هُدًى میں جو ھُدًی پر تنوین ہے یہ تعظیم کے لئے ہے یعنی یہ ہدایت بہت بڑا مرتبہ رکھتی ہے.اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَکی تشریح اور اس کے متعلق ایک اعتراض کا جواب وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.مُفْلِحُوْنَ کے معنے حَلِّ لُغَات میں بتائے جا چکے ہیں کہ اپنی مراد کو پالینے کے ہوتے ہیں پس اس جملہ کے یہ معنے ہوئے کہ یہ لوگ اپنی مراد کو پا لیتے ہیں اور مومن کی مراد اپنے ربّ کا قرُب اور اس سے وصال ہوتا ہے پس اس جملہ میں پہلے جملہ کے مضمون کا انجام بتایا ہے کہ ایسے متقی ہدایت کی سواری پر چڑھ کر آخر خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی مراد کو پا لیتے ہیں.بعض لوگ اس جگہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کئی خدا تعالیٰ کے مقرب اور اس زندگی میں تکلیفیں اٹھاتے ہیں اور بعض مارے جاتے ہیں تو پھر کیونکر کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت یافتہ لوگ ضرور کامیاب ہوتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مُفْلِح کے معنے اپنی مراد پا لینے کے ہیں نہ کہ دنیوی ترقیات یا جسمانی راحت کے.اس میں شک نہیں کہ بالعموم خدا تعالیٰ کے مقربوں کو دنیوی کامیابی بھی ہوتی ہے مگر وہ ایک ضمنی شے ہے مقصود نہیں ہے.خدا رسیدہ لوگوں کی مراد تو خدا تعالیٰ کا قُرب اور اس کی بھیجی ہوئی سچائی کی اشاعت ہے.سو اس میں کبھی کوئی خدا رسیدہ ناکام نہیں ہوا.مسیح علیہ السلام کو یہود نے پھانسی پر تو لٹکا دیا مگر کیا وہ مسیح کے مشن کو ناکام کر سکے؟ اپنے مقصد میں تو مسیح علیہ السلام ہی کامیاب ہوئے.حضرت امام حسینؓ یزید کے مقابلہ پر شہید ہوئے مگر کیا یزید کا نام بھی اب کوئی لیتا ہے؟ جس مقصد کے لئے امام حسین کھڑے ہوئے آخر وہی کامیاب ہوا اور دنیا نے اسلامی نظام کی اسی تشریح کو قبول کیا جس کے لئے حضرت امام حسینؓکھڑے ہوئے تھے.یزید کے مقصد کی تو آج ایک مسلمان بھی تائید نہیں کرتا.پس مُفْلِحْ کے لفظ سے مراد کو پالینے کا وعدہ ہے نہ یہ کہ وہ اپنے دشمن کے ہاتھوں ہلاک

Page 225

نہیں ہو سکتے عاجل طور پر وہ ہلاک بھی ہو جائیں تب بھی فتح آخر انہی کے مقصد کو حاصل ہوتی ہے اگر حضرت امام حسینؓ کربلا کے میدان میں جان نہ دیتے تو مسلمانوں کو شاید اسلامی نظام کی اہمیت کا اس قدر احساس نہ ہوتا جس قدر کہ اُن کی شہادت کی وجہ سے ہوا.اس شہادت نے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کی تعلیم کے اِحیاء کے لئے گویا ایک آگ لگا دی اور اسلام کے علماء نے اس تعلیم کو ہمیشہ کیلئے روشن کر دیا.عَلٰى هُدًى الخ میں اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں بیان شدہ ہدایت کی طرف اشارہ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ میں جو دعا بندہ سے منگوائی گئی تھی وہ قرآن کریم کی مدد سے پوری ہو جاتی ہے او راس کے بتائے ہوئے تقویٰ کے طریق پر چل کر انسان خدا تعالیٰ کو حقیقتاً پا لیتا ہے صرف دعا تک ہی اس کی کوشش ختم نہیں ہو جاتی.اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے درآںحالیکہ تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہے ٭ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۰۰۷ ہرگز ایمان نہیں لائیں گے.حَلّ لُغات.کَفَرُوْا.کَفَرَ سے جمع کا صیغہ ہے اور کَفَرَ الرَّجُلُ (یَکْفُرُ کُفْرًا) کے معنے ہیں ضِدُّ اٰمَنَکسی چیز کا انکار کیا.کَفَرَ نِعْمَۃَ اللّٰہِ وَبِنِعْمَتِہٖ.جَـحَدَھَا وَ سَتَرَھَا.اللہ کی نعمتوں کا انکار کیا اور نا شکری کی (اقرب) اَلْکُفْرُ فِی اللُّغَۃِ سَتْرُالشَّیْ ءِ.کفر کے لغوی معنے کسی چیز کو ڈھانپنے کے ہیں.وَکُفْرٌ بِنِعْمَۃٍ وَکُفْرَانُھَا سَتْرُ ھَا بِتَرْکِ اَدَاءِ الشُّکْرِ.او رکفر انِ نعمت کے معنے ہیں نعمت کا شکر ادا نہ کیا.وَلَمَّا کَانَ الْکُفْرُاَنْ یَّقْتَضِیَ جُـحُوْدَ النِّعْمَۃِ صَارَ یُسْتَعْمَلُ فِی الْـجُحُوْدِ.اور کفر انِ نعمت میں نعمت کا شکریہ ادا نہ کرنا ایک طرح پر اس نعمت کا انکار تھا اس لئے کفر کا لفظ صرف انکار کے معنے میں مستعمل ہونے لگا.وَالْکَافِرُ عَلَی الْاِ طْـلَاقِ مُتَعارِفٌ فِیْمَنْ ٭نوٹ.اس جگہ جملہ معترضہ کا ترجمہ حال کا کیا گیا ہے.اس کی وجہ ترجمہ کی دقت ہے.کیونکہ جملہ معترضہ جو حال یا صفت کے مشابہ معنےدیتاہے،اس کاصحیح پورا مفہوم اردو میں ادا کرنا مشکل ہے.اس لئے اس کے قریب ترین مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ’’درآنحالیکہ‘‘ کے الفاظ لکھے گئے ہیں.

Page 226

یَـجْحَدُ الْوَحْدَا نِیَّۃَ اَوِ النُّبُوَّۃَ اَوِ الشَّرِیْعَۃَ اَوْ ثَـلَا ثَھَا اور کافرکا لفظ جب اکیلا استعمال ہو تو اس کے معروف معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا آنحضرتؐ کی نبوت اور شریعت یا ان تینوں کا منکر ہو (مفردات) پس کَفَرُوْا کے معنے ہوں گے جنہوں نے انکار کیا.کفر کیا.حق پوشی کی.یا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا یا آنحضرت صلعم کی نبوت کا یا شریعت کا یا ان تینوں کا انکار کیا.ئَ اَ نْذَرْتَھُمْ.أ.ھمزہ ہے جو استفہام کے معنے بھی دیتا ہے یعنی سوال کے.اور کبھی ان معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے کہ فعل پر آ کر اُسے مصدر کے معنے دیدیتا ہے اس وقت اس کے معنو ں میں استفہام کا مفہوم باقی نہیں رہتا.اَ نْذَرْتَھُمْ.اَنْذَرْتَ.اَنْذَرَ سے مفرد مخاطب کا صیغہ ہے اور اس کا مصدر اِنْذَارٌ ہے.کہتے ہیں اَنْذَرَہٗ بِا لْاَمْرِ.اَعْلَمَہٗ وَحَذَّرَہٗ مِنْ عَوَاقِبِہٖ قَـبْلَ حَلُولِہٖ یعنی کسی امر کی حقیقت سے اُسے آگاہ کیا.اور اس امرکے نتائج ظاہر ہونے سے پہلے اُسے ہوشیار کر دیا.نیز کہتے ہیں.اَنْذَرَہٗ: خَوَّفَہٗ فِیْ اِبْلَاغِہٖ ، یُقَالُ اَنْذَرْتُ الْقَوْمَ سَیْرَ العَدُوِّ اِلَیْھِمْ فَنَذَرُوْا یعنی اَنْذَرَہٗ کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ خبر پہنچاتے ہوئے خوب ہوشیار کیا.چنانچہ جب کہتے ہیں اَنْذَرْتُ الْقَوْمَ سَیْرَ الْعَدُوِّ تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ میں نے قوم کو دشمن کی پیش قدمی سے خوب ہوشیار کیا اس کا فعل لازم یا مطاوع نَذَرَ ہے.جس کے معنے ہیں وہ ہوشیار ہو گیا.(اقرب) یُؤْمِنُوْنَ.یُؤْمِنُوْنَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.تفسیر.پہلی آیات میں ان لوگوں کا حال بتایا تھا.جو قرآن کریم پر عمل کریں گے.اور بتایا تھا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر لیں گے اور ادنیٰ ہدایت سے اعلیٰ ہدایت کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے حتیّٰ کہ ان کا تعلق ہدایت سے دائمی ہو جائے گا اور وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص روشنی حاصل کر کے اپنے روحانی سفر کو کامیابی کے ساتھ طے کر لیں گے.قرآن مجید کی آیات کو سن کر غور نہ کرنے والے کا انجام اس کے بعد اس آیت میں ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جو قرآن کریم کی تعلیم سن کر اس سے اعراض کرتے ہیں اور اس پر سنجیدگی سے غور نہیں کرتے بلکہ اس کے انکار پر باوجود ہر قسم کے دلائل مہیا ہونے کے ُمصِرّ ہوتے ہیں.ان کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو باوجود دلائل کے مہیّا ہو جانے کے صداقت کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں انہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا کیونکہ ایمان اُسی کو نصیب ہو سکتا ہے کہ جو دلائل و براہین سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے (دیکھو یونس ع۴ آیت ۳۴.الاعراف ع ۳

Page 227

آیت ۳۰ ، النحل ع ۵ آیت ۳۸، یٰس ع۱ آیت ۹ تا ۱۲.ان آیات میں بھی اسی آیت کے مضمون کی تشریح ہے) آیت لَایُؤْمِنُوْنَ الخ سے یہ مراد نہیں کہ کفار میں سے آئندہ کوئی ایمان نہ لائے گا اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ کفار میں سے آئندہ کوئی ایمان نہ لائے گا کیونکہ واقعات اس امر پر شاہد ہیں کہ اس آیت کے بعد کثرت سے کفار ایمان لائے بلکہ اس آیت کے بعد سورۂ نصر نازل ہوئی جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَ الْفَتْحُ.وَ رَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِيْ دِيْنِ اللّٰهِ اَفْوَاجًا.(النصر: ۲،۳) یعنی جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص نصرت اور فتح آئے گی اور تو دیکھے گا کہ لوگ دین الٰہی میں فوج در فوج داخل ہوں گے.پس جبکہ سورۂ بقرہ کی اس آیت کے نزول کے کئی سال بعد قرآن کریم میں فوج در فوج لوگوں کے اسلام میں داخل ہونے کی خبر دی گئی ہے تو اس آیت کے یہ معنے کسی طرح درست نہیں ہو سکتے کہ اس میں کفار کے مسلمان نہ ہونے کی خبر دی گئی ہے.یہ شبہ کہ شاید اس آیت میں اس امر کا ذکر ہے کہ آئندہ کوئی کافر ایمان نہ لائے گا اس آیت کے معنوں پر غور نہ کرنے سے پیدا ہوا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت سے کھینچ تان کر بھی یہ معنے نہیں نکالے جا سکتے کہ کافر ایمان نہیں لاتے.اس آیت میں تو یہ ذکر ہے کہ جن کفار کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہو وہ ایمان نہیں لاتے.اور یہ ظاہر ہے کہ نہ ہر کافر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہو اور نہ ہر کافر ہدایت سے محروم ہوتاہے.کافر منکر کا نام ہے اور جب ایسے لوگوں کے سامنے صداقت آئے گی جو اس سے واقف نہیں اور اس کے دلائل ابھی ان کے ذہن نشین نہیں ہوئے تو وہ اس وقت تک اس کا انکار کرنے پر مجبور ہوں گے.لیکن ان میں سے ہر شخص وہ نہ ہو گا جو باوجود صداقت کے روشن ہو جانے کے اس کا منکر ہو گا اور نہ ہر شخص ایسا ہو گا جس کی دماغی قابلیت کے لحاظ سے پہلے ہی دن اس پر صداقت روشن ہو سکے گی.پس ہر ایسا شخص اس آیت کے مصداقوں میں سے نہ ہو گا.اس کا مصداق وہی ہو گا جو باوجود صداقت کھل جانے کے اس کا انکار کرے گا یا اس کوشش میں لگا رہے گا کہ مجھ پر صداقت کھلے ہی نہ.اور ظاہر ہے کہ ان دونوں صفات والا شخص جب تک اپنی اس حالت کو نہ بدلے ایمان نہیں لا سکتا.اصل بات یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں کہ کفار ہدایت نہیں پائیں گے بلکہ یہ ذکر ہے کہ یہ قرآن کافروں کو ہدایت دے گا سوائے اُن کے جو صداقت کے کھل جانے کے باوجود اس کا انکار کریں یا صداقت کے کھلنے کے راستوں کو اپنے اوپر بند کرنے کی کوشش میں لگے رہیں.آیت سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ الخ میں ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ کے معنے ماضی کے نہیں یہ شبہ جو اوپر بیان ہوا اس بات سے پیدا ہوا ہے کہ سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ (البقرۃ: ۷) کو ماضی کے معنی میں سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ

Page 228

اس کے معنے ماضی کے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اگر ان الفاظ کے معنے ماضی کے کئے جائیں تو ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے لئے برابر ہے کیا تو نے انہیں ڈرایا یا نہ ڈرایا.ایک ادنیٰ تامّل سے یہ امر سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ فقرہ بے معنے ہے.اس صورت میں تو استفہام کی کوئی ضرورت نہ تھی.یہ کہنا چاہیے تھا کہ اُن کے لئے یہ امر یکساں رہا ہے کہ تو نے انہیں ڈرایا یا انہیں نہ ڈرایا.استفہام کا طریق اختیار کرنا ظاہر کرتا ہے کہ یہاںکسی واقعہ کا ذکر مراد نہیں بلکہ بعض کفار کی حالت کا اظہار مراد ہے.علاوہ ازیں جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ معنے قرآن کریم کی دوسری آیات کے بھی خلاف ہیں.ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ میں ہمزہ استفہام اور اس کا مطلب ان غلط معنوں کے کرنے والوں کو یہ بات معلوم نہ تھی کہ عربی زبان میں ایسے موقع پر ہمزہ استفہام کے لئے نہیں بلکہ مصدر کے مشابہ معنے دینے کے لئے آتا ہے اور سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ۠ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ کے معنے یہ ہیں کہ تیرا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر رہا ہے.پس یہ جملہ معترضہ ہے اور تاکید کے لئے یا پہلے مضمون سے جو غلطی لگتی ہو اُسے دُور کرنے کے لئے آتا ہے اور حال اور صفت کے معنوں کے مشابہ معنے دیتا ہے.اور مراد یہ ہے کہ وہ کافر جن کا حال یہ ہے یا جن کی یہ صفت ہے کہ تیرا اُن کو ڈرانا یا نہ ڈرانا اُن کے لئے برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے.یعنی جو کافر دلائل پر کان ہی نہیں دھرتے وہ ہدایت نہیں پا سکیں گے.چنانچہ امام سیبویہ جونحو کے سب سے بڑے عالم ہیں لکھتے ہیں کہ اس مقام پر استفہام یعنی سوال کے معنے بالکل نظرانداز کر دیئے جاتے ہیں.(کشّاف زیر آیت ھٰذا) اقرب الموارد جو لغت کی مشہو ر کتاب ہے اس میں لکھا ہے وَتَخْرُجُ الْھَمْزَۃُ عَنْ حَقِیْقَۃِ الْاِ سْتِفْھَامِ فَتَرِدُ لِثَـمَانِیَۃِ مَعَانٍ یعنی کبھی ہمزہ استفہام کے معنوں سے بالکل خالی ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کے آٹھ معنے عربی زبان میں ہوتے ہیں.پھر لکھا ہے اَ لْاَوَّلُ اَلتَّسْوِیَۃُ نَحْوَمَا اُبَالِیْ اَقُمْتَ اَمْ قَعَدْتَّ وَضَابِطَہَا اَنَّھَا تَدْخُلُ عَلٰی جُمْلَۃٍ یَصِحُّ اِسْتِبْدَالُھَا بِالْمَصْدَ رِوَ ھِیَ تَقَعُ بَعْدَ سَوَآءٍ وَمَا اُبَالِیْ وَلَیْتَ شِعْرِیْ وَمَا شَاکَلَھُنَّ.یعنی پہلے معنے اس کے برابر ہونے کے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ فقرہ کہ مجھے تیرے کھڑے رہنے یا بیٹھ جانے کی پرواہ نہیں.او راس کا قاعدہ یہ ہے کہ یہ ایسے جملہ پر داخل ہوتا ہے جس کی جگہ مصدر کا رکھناجائز ہوتا ہے اور اس موقع پر یہ سَوَآ ءٌ کے لفظ کے بعد استعمال ہوتا ہے یا مَا اُبالِیْ یا لَیْتَ شعری یا ان کے ہم معنی دوسرے الفاظ کے بعد استعمال ہوتا ہے.اس آیت میں بھی یہ سَوَآءٌ کے بعد استعمال ہوا ہے.پس اس کے معنے مصدر کے معنوں سے صحیح طو رپر ادا ہوتے ہیں اور سوال کے معنے اس میں ہر گز جائز نہیں بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ سَوَآءٌ اِنْذَارُکَ لَھُمْ وَعَدَمُ اِنْذَارِکَ لَھُمْ یعنی جن کافروں کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے وہ ایمان نہ لائیں گے.

Page 229

جو معنے مَیں نے اوپر بیان کئے ہیں ان کے رُو سے لَا یُؤْمِنُوْنَ اِنَّ کی خبر ہے یعنی ایسے کافر ایمان نہیں لائیں گے.لیکن بعض مفسرین نے سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ کو پہلی خبر اور لَایُؤْمِنُوْنَ کو دوسری خبر بتایا ہے مگر میرے نزدیک گو نحواً یہ درست ہے لیکن معناً درست نہیں.کیونکہ اس صورت میں معنے یہ ہوتے ہیں کہ کافروں پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے اور وہ ایمان نہ لائیں گے.اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ معنے سورہ ٔ نصرکے مضمون کے خلاف ہیں جس میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ کفاّر کثرت کے ساتھ ایمان لائیں گے.سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ الخ کا ترجمہ تین طور پر مذکورہ بالا تشریح کے مطابق اس آیت کے معنے مندرجہ ذیل طریقوں میں سے کسی ایک طریق پر کئے جا سکتے ہیں (۱) کافر در آنحالیکہ تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے لئے برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی جب تک یہ اپنے اس عناد کو دُور نہ کریں وہ ہدایت نہیں پا سکتے (۲) وہ کافر جن کے لئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ایمان نہیں لائیں گے یعنی ایسے لوگ جو انذار کا محل نہیں ہیں انہیں خدا تعالیٰ کا خوف دلانے کا فائدہ نہیں وہ ایمان نہیں لائیں گے.یعنی کافر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو کوئی نہ کوئی مذہب رکھتے ہیں خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں‘ حشر و نشر کو مانتے ہیں.اُن کے سامنے جب صداقت پیش کی جائے اور خشیت اللہ کی طرف توجہ دلائی جائے تو ان کے دلوں میں ایک قسم کا تقویٰ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ غور کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور اگر صداقت ُکھل جائے تو اُسے مان بھی لیتے ہیں لیکن ایسے کافر نہ خدا کو مانیں اور نہ حشر و نشر کو انہیں خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانے کا فائدہ نہیں.وہ تو خدا تعالیٰ کے نام پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں.اُن کے لئے تو پہلے خدا پر ایمان اور حشر و نشر پر ایمان لانے کے دلائل بیان کرنے چاہئیں تب جا کر وہ نبی کی لائی ہوئی صداقت کی طرف توجہ کریںگے کیونکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کے بعد ہی خشیت پیدا ہوتی ہے اور تبھی خشیت اللہ کی طرف توجہ دلانا ایمان کا موجب ہو سکتا ہے (۳) تیسرے معنے اس آیت کے یہ ہو سکتے ہیں کہ وہ کافر جن کیلئے تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے یعنی وہ سننا ہی نہیں چاہتے تو انہیں وعظ کرے یا نہ کرے اُن کے لئے یکساں ہے کیونکہ انہوں نے تو اسے سننا ہی نہیں ایسے لوگ بھی ایمان نہیں لا سکتے اور ایمان نہیں لائیں گے.آیت سَوَآءٌ عَلَيْهِمْ الخ سے ایک غلط استدلال اور اس کا جواب بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے کم سے کم یہ تو معلوم ہوا کہ ایک طبقہ انسانوں کا ایسا ہے جو ایمان سے محروم ہے لیکن یہ اعتراض غلط فہمی پر مبنی ہے کیونکہ کسی حالت کا نتیجہ بتانے کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ وہ حالت بھی نہیں بدل سکتی.اس میں کوئی شک نہیں کہ جس شخص کے لئے ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہو وہ ایمان نہیں لا سکتا لیکن اس حالت کا ہمیشہ رہنا تو ضروری نہیں.

Page 230

بڑے بڑے ضدّی شخص کبھی اپنی ضد کو چھوڑ دیتے ہیں اور اس وقت اُن کے لئے ہدایت کا رستہ کھل جاتا ہے.خود حضرت عمرؓ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے اُن کے متعلق تاریخوںمیں آتا ہے کہ قرآن کا خود سننا تو الگ رہا وہ دوسروں کو بھی سننے نہ دیتے تھے.لیکن ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ وہ قرآن کریم سننے پر اپنے بہنوئی کو مارنے لگے اوربہن درمیان میں آ گئی اور اُسے چوٹ آگئی.چونکہ شریف آدمی تھے عور ت کو زخمی دیکھ کر ندامت پیدا ہوئی اور اس ندامت کی وجہ سے کہا کہ اچھا مجھے دکھائو تم کیا پڑھ رہے تھے.اس کے بعد قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھا اور فوراً ایمان لے آئے (سیرت ابن ہشام.اسلام عمربن الخطاب) پس یہ حالت ایمان سے بے شک محروم کر دیتی ہے مگر یہ حالت بدل بھی جاتی ہے اور اس وقت انسان کے لئے ایمان نصیب ہونے کا راستہ کھل جاتا ہے.خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْ١ؕ وَ عَلٰۤى اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہر کر دی ہے اور ان کی اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ١ٞ وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌؒ۰۰۸ آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا )ہے اور ان کے لئے ایک بڑا عذاب (مقدر )ہے.حَلّ لُغَات.خَتَمَ.خَتَمَ خَتْمًا وَخِتَامًا کے معنے ہیں طَبَعَہٗ وَوَضَعَ عَلَیْہِ الْخَاتَمَ مہر لگائی.خَتَمَ الصَّکَّ وَغَیْرَہٗ: وَضَعَ عَلَیْہِ نَقْشَ خَاتَمِہٖ حَتّٰی لَایَجْرِیَ عَلَیْہِ التَّزْوِیْرُ.کسی تحریر پر مہر لگا دی تاکہ جعلی ہونے کا امکان باقی نہ رہے (اقرب) کُلِّیَاتِ اَبِی الْبَقَاء میں ہے خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ: جَعَلَہٗ حَیْثُ لَا یَفْھَمُ شَیْئًا وَّلَا یَخْرُجُ عَنْہُ شَیْئًا یعنی خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قَلْبِہٖ جب بولا جائے تواس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کے دل کو ایسا بنا دیا کہ وہ کوئی بات نہیں سمجھ سکتا اور نہ اپنی بات سمجھا سکتا ہے.مفردات میں ہے اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ عَلٰی وَجْھَیْنِ مَصْدَرُ خَتَمْتُ وَطَبَعْتُ وَھُوَتَأْثِیْرُ الشَّیْءِ کَنَقْشِ الْخَاتَمِ وَالطَّابِــعِ.کہ لفظ خَتْم اور طَبْع دو طرح استعمال ہوتا ہے.(۱) مصدری معنوں میں یعنی کسی چیز پر کس چیز کا مہر کی طرح کا نقش کر دینا.وَالثَّانِیْ اَلْاَثَرُ الْحَاصِلُ عَنِ النَّقْشِ (۲) اس نقش سے جو اثر حاصل ہوتا ہے یعنی جو مہر لگتی ہے اُس پر بھی ختم کا لفظ اطلاق پاتا ہے.وَیُتَجَوَّزُ بِذَ الِکَ تَارَۃً فِی الْاِ سْتِیْثَاقِ مِنَ الشَّیْ ءِ وَالْمَنْعِ مِنْہُ اِعْتبَارًا بِمَایَحْصُلُ مِنَ الْمَنْعِ بِالْخَتْمِ عَلَی الْکُتُبِ وَالْاَ بْوَابِ او رکبھی کبھی کسی امر سے رُکنے کے مفہوم کو ادا کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے

Page 231

اور یہ معنے اس بات پر اعتبار کرتے ہوئے کئے گئے ہیں کہ جب کتابوں کو یا ابواب کو لکھنے کے بعد اُن پر مہر کر دیتے ہیں تو گویا اب اُن کی تصنیف کو ختم کر دیا اور اس کے لکھنے سے رُک گئے (گویا کسی چیز کو ختم کرنے کے معنے مجازی ہیں) وَقَوْلُہٗ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْ بِھِمْ اِشَارَۃٌ اِلٰی مَا اَجْرَی اللّٰہُ بِہِ الْعَادَۃَ اَنَّ الْاِنْسَانَ اِذَا تَنَاھٰی فِیْ اِعْتِقَادٍ بَاطِلٍ اَوِارْتِکَابِ مَحْظُوْرٍ وَلَا یَکُوْنُ مِنْہُ تَلَفُّتٌ بِوَجْہٍ اِلَی الْحَقِّ یُوْرِثُہٗ ذَالِکَ ھَیْئَۃً تُـمَرِّنُہٗ عَلٰی اِسْتِحْسَانِ الْمَعَاصِیْ وَکَاَنَّـمَا یُخْتَمُ بِذَالِکَ عَلٰی قَلْبِہٖ.اور آیت خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ میں ختم کا لفظ بولنے سے اللہ تعالیٰ کے اس قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان اعتقاد باطل یا ممنوع باتوں کے ارتکاب میں حد سے بڑھ جاتا ہے او رحق کی طرف کسی طرح بھی توجہ نہیں کرتا تو اس کا یہ طرزِ عمل اس کے اندر ایک ایسی حالت پیدا کر دیتا ہے جو گناہوں کے ارتکاب کو عمدہ سمجھتی ہے گویا اس کے دل پر اب مہر لگ گئی کہ نہ اُس پرحق کا اثر ہوتا ہے اور نہ اُس کا دل حق کی طرف رجوع کرتا ہے (مفردات امام راغب) نیز لکھا ہے اَلْخَتْمُ وَالطَّبْعُ وَاحِدٌ فِی اللُّغَۃِ وَ ھُوَ التَّغْطِیَۃُ عَلَی الشَّیْ ئِ وَالْاِسْتِیْثَاقُ مِنْ اَنْ لَّایَدْخُلَہٗ شَیْءٌ.کہ لفظ ختم اور طبع لُغت میں دونوں ہم معنے ہیں اور اُن کے معنے یہ ہیں کہ کسی چیز پر پردہ ڈال دینا اور اس کے اور دوسری اشیاء کے درمیان روک بنا دینا.اس طور پر کہ کوئی چیز اس تک نہ پہنچ جائے.(تاج العروس) قُلُوْبٌ.قَلْبٌکی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَلْفُؤَادُ.دل.وَقَدْ یُطْلَقُ عَلَی الْعَقْلِ اور کبھی قَلب کا لفظ عقل پر بھی بولا جاتا ہے (اقرب) وَیُعَبَّرُ بِالْقَلْبِ عَلَی الْمَعَانِی الَّتِیْ تَخْتَصُّ بِہٖ مِنَ الرُّوْحِ وَالْعِلْمِ وَالشَّجَاعَۃِ.اور لفظ قَلبکے ذریعہ ان کیفیات کو بیان کیا جاتا ہے جو روح.علم اور شجاعت وغیرہ اقسام کی اس کے ساتھ مخصوص ہیں.وَجَائِزٌ فِی الْعَرَبِیَّۃِ اَنْ تَقُوْلَ مَالَکَ قَلْبٌ وَمَا قَلْبُکَ مَعَکَ تَقُوْلُ مَا عَقْلُکَ مَعَکَ.اور عربی زبان میں یہ جائز ہے کہ مَالَکَ قَلْبٌ اور مَا قَلْبُکَ مَعَکَ بول کر قلب سے مراد عقل لی جائے.یعنی تجھے عقل نہیں نیز کہتے ہیں اَیْنَ ذَھَبَ قَلْبُکَ.اور مراد یہ ہوتی ہے کہ تیری عقل کہاں گئی اور مَنْ کَان لَہٗ قَلْبٌ کے تحت میں لکھا ہے اَیْ تَفَھُّمٌ وَتَدَ بُّــرٌ یعنی قلب کے معنے سوچنے اور تدبّر کے ہیں (لسان العرب) پس خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ کے معنے ہوں گے.کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلو ںپر مہر لگا دی ہے یعنی ایسا بنا دیا ہے کہ نہ اُن کے دل کوئی بات سمجھتے ہیں نہ ان کی عقل میں سوچنے اور تدبّر کا مادہ باقی رہا ہے.اَلسَّمْعُ: یہ سَمِعَ (یَسْمَعُ) کا مصدر ہے اور سَمِعَ الصَّوْتَ یَسْمَعُ سَمْعًا کے معنے ہیں اَدْرَکَہٗ بِحَاسَّۃِ الْاُذُنِ.آواز کو کان کی حسّ کے ساتھ معلوم کیا نیز اَلسَّمْعُ کے معنے ہیں حِسُّ الْاُذُ نِ.شنوائی.وَالْاُذُ نُ.کان.

Page 232

وَمَا وَلَجَ فِیْھَا مِنْ شَیْ ءٍ تَسْمَعُہٗ اور جو آواز کان میں پڑے اس پر بھی سمع کا لفظ بولتے ہیں.اَلذِّکْرُ الْمَسْمُوْعُ سنی ہوئی بات.لفظ سَمْعٌ واحد اور جمع دونوں طرح استعمال ہوتا ہے کیونکہ یہ دراصل مصدر ہے جو قلّت اور کثرت کا احتمال رکھتا ہے اس کی جمع اَسْمَاعٌ آتی ہے (اقرب الموارد) مفردات میں ہے اَلسَّمْعُ قُوَّۃٌ فِی الْاُذُنِ بِہٖ یُدْرَکُ الْاَصْوَاتُ یعنی سمع کان کی ایک قوت (شنوائی) کا نام ہے جس کے ذریعہ سے انسان آواز کو معلوم کرتا ہے وَفِعْلُہٗ یُقَالُ لَہُ السَّمْعُ اَیْضًا.اور سننے کے فعل کا نام بھی سمع رکھا جاتا ہے وَیُعَبَّرُ تَارَۃً بِالسَّمْعِ عَنِ الْاُذُنِ اور کبھی لفظ سمع بول کر کان مراد ہوتا ہے وَتَارَۃً عَنْ فِعْلِہٖ کَاَسْمَاعٍ اور کبھی لفظ سمع سے اس کا فعل مراد لیا جاتا ہے.جیسے اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ کہ ان کو سننے کے فعل سے روک دیا گیا ہے وَتَارَۃً عَنِ الْفَہْمِ اور کبھی لفظ سمع سے مراد بات کا سمجھنا ہوتا ہے جیسے کہتے ہیں لَمْ تَسْمَعْ مَا قُلْتُ.کہ جو میںنے کہا تو نے نہیں سمجھا وَتَارَۃً عَنِ الطَّاعَۃِ.اور کبھی اس سے مراد اطاعت ہوتی ہے.اَ لْاَ بْصَارُ.اَ لْاَ بْصَارُ.اَلْبَصَرُ کی جمع ہے.اس کے معنے ہیں حَاسَّۃُ الرُّؤْیَۃِ دیکھنے کی حِسّ.اَلْعَیْنُ آنکھ.اَلْعِلْمُ.علم (اقرب) غِشَاوَۃٌ.اَلْغِشَاوَۃُ کے معنے ہیں اَلْغِطَاءُ.پردہ (اقرب) تاج میں ہے اَلْغِشَاوَۃُ مَایُغْشٰی بِہِ الشَّیْءُ.کہ ہر اس چیز کو جس کے ساتھ کوئی چیز ڈھانپی جائے غِشَاوَۃ کہتے ہیں.اَلْعَذَابُ.کُلُّ مَاشَقَّ عَلَی الْاِنْسَانِ وَمَنَعَہٗ عَنْ مُرَادِہٖ.عذاب کے معنے ہیں ہر وہ چیز جو انسان پر شاق گزرے اور حصول مراد سے اُسے روک دے.وَفِی الْکُلِّیَاتِ کُلُّ عَذَابٍ فِی الْقُرْآنِ فَھُوَ التَّعْذِیْبُ اِلَّا وَ لْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَائِفَۃٌ فَاِنَّ الْمُرَادَ اَلضَّرْبُ.اور کُلِّیَات (ابی البقاء)میں لکھا ہے کہ عذاب سے مراد قرآن مجید میں عذاب دینا ہوتا ہے سوائے وَ لْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا کی آیت کے.وہاں ظاہری سزا مراد ہے (اقرب) اَلْعَذَابُ ھُوَ الْاِیْجَاعُ الشَّدِیْدُ.عذاب کے معنے ہیں سخت تکلیف دینا.فَالتَّعْذِیْبُ فِی الْاَصْلِ ھُوَ حَمْلُ الْاِنْسَانِ اَنْ یَّعْذُبَ اَیْ یَجُوْعَ وَیَسْھَرَ.اگر مادہ کے لحاظ سے اُسے دیکھا جائے تو اس کے معنے ہیں کہ کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر آمادہ کرنا.کیونکہ عَذَ بَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں.اس نے کھانا پینا ترک کر دیا.وَقِیْلَ اَصْلُہٗ مِنَ الْعَذْبِ.فَـعَـذَّبْـتُـہٗ اَیْ اَ زَلْتُ عَذْ بَ حَیٰوتِہٖ.بعض نے کہا ہے کہ عذاب عَذْ بٌ سے نکلا ہے.جس کے معنے میٹھے پانی کے ہیں.تَعْذِیْبٌ کے معنے اور عَذَّبَ کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَابٌ کے معنے ہوئے (۱) تکلیف (۲) ایسی چیز جو زندگی کی حلاوت سے محروم کر دے (۳) مقصودِ حیات سے

Page 233

محروم کر دے.تفسیر.اس آیت میں ان کفار کا انجام بتایا ہے کہ جن میں مذکورہ بالا آیات والی صفت پائی جاتی ہے نہ کہ ہر کافر کا.یہ طبعی قاعدہ ہے کہ جو عضو انسان استعمال نہیں کرتا وہ بے کار ہو جاتا ہے.بعض ہندو سادھو اپنا ہاتھ کھڑا رکھ کر سکھا دیتے ہیں.اسی طرح اگر آنکھ سے کام نہ لیا جائے تو بالآخر اس کی بینائی جاتی رہتی ہے.اور اگر کانوں سے کام نہ لیا جائے تو شنوائی مفقود ہو جاتی ہے.اور اگر زبان کو بند رکھا جائے تو گویائی جاتی رہتی ہے.یہی حال باطنی ِحسوّں کا ہے ان سے بھی اگر کام نہ لیا جائے تو وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد معطّل ہو جاتی ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ چونکہ یہ کفار قلوب کی نظر سے کام نہیں لیتے رہے اس لئے ان کے قلوب کی بینائی جاتی رہی ہے اور وہ مرُدہ دل ہو گئے ہیں.اور چونکہ باوجود کان رکھنے کے وہ ہماری باتیں نہیں سنتے رہے اور باوجود آنکھیں رکھنے کے نشانات اور واقعات نہیں دیکھتے رہے اس لئے اس کا نتیجہ یہ ہوا ہےکہ دین کی طرف سے ان کی یہ ِحسّیں بیکار ہو گئی ہیں.اگر وہ اپنی آنکھوں سے کام لیتے اور حق کی باتیں سنتے اور ان کو سمجھتے تو اس عذاب میں مبتلا نہ ہوتے.چنانچہ دوزخیوں کی نسبت آتا ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہو کر کہیں گے کہ لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِيْۤ اَصْحٰبِ السَّعِيْرِ (الملک :۱ ۱) اگر ہم ان کی باتیں سنتے یا خود سمجھنے کی کوشش کرتے تو آج دوزخ والوں میں شامل نہ ہوتے.آیت خَتَمَ اللّٰهُ الخ میں تین لطیف باتوں کی طرف اشارہ غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تین لطیف باتوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور توجہ دلائی ہے کہ اگر غور کرو تو عنادی کا فرو ہی ہوتے ہیں جو دل، کان اور آنکھوں سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں.اور ہدایت کے یہی تین بڑے ذریعے ہیں اور ہر ایک بات پر غور انہی تین طریق سے ہو سکتا ہے.اوّل دل ہے.سب سے پہلا ہدایت کا ذریعہ یہی ہے.جو شخص سوچنے کا عادی ہوتا ہے وہ بیسیوں صداقتوں کو پا لیتا ہے.دوم کان ہیں اگر کسی میں زیادہ عقل اور سمجھ نہیں ہوتی کہ غور کر کے خود فیصلہ کر لے وہ کسی سے سن کر بات مان لیتا ہے.تیسرے آنکھیں ہیں.اگر کانوں سے سن کر ہدایت نہ پائے تو کم سے کم آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے کہ جو باتیں مجھ سے کہی جاتی ہیں اُن کا نتیجہ دنیا میں کیا پیدا ہو رہا ہے.اگر نتیجہ اچھا نکل رہا ہو تو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ گو کانوں سے سن کر وہ باتیں بھلی معلوم نہیں ہوتیں مگر مشاہدہ نے ان کی تصدیق کر دی ہے لیکن جو بدبخت ان تینوں باتوں سے عاری ہو.وہ کبھی کوئی بات نہیں مان سکتا وہ ہمیشہ دکھ اٹھاتا ہے.پس وہ انسان جو دنیا کی اشیاء پر غور کر کے خود صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا وہ اگرا نبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی باتیں سنے تو اسے ہدایت مل سکتی ہے.اگر ان کو

Page 234

سن کر اس کا دل فیصلہ نہ کر سکے تو وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کے جلوے اور نظارے دیکھ کر مان سکتا ہے کہ وہ کس کی تائید میں ہیں اور اگر وہ نہ خود سوچے اور نہ علم کی باتوں کو سنے اور نہ خدا تعالیٰ کے نشانات کو دیکھے تو اس کا انجام اس کے سوا کیا ہو گا کہ وہ دکھوں میں پڑ جائے.اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ان لوگوں کو ان تینوں باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہم نے انہیں ایسے دل دیئے تھے جو حق و باطل میں تمیز کر سکتے تھے.اگر یہ قوت فکریہ سے کام لیتے تو اسلامی صداقتوں کا چشمہ ان کے دلوں سے ہی پھوٹ پڑتا اور یہ اسلام کی دعوت کو سنتے ہی اسے مان لیتے.اگر دلوں سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا تھا تو ان دلائل کو سنتے جو اسلام نے پیش کئے ہیں.اس طرح بھی ان کو ہدایت مل سکتی تھی.اگر کانو ںسے سن کر اسلام کی صداقت کا فیصلہ نہ کر سکے تھے تو یہ خدا تعالیٰ کے فعل کو ہی دیکھتے کہ خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم سے کیا معاملہ کر رہا ہے مگر انہوں نے یہ بھی نہ کیا.پس جب سب دروازے انہوں نے اپنے لئے خود بند کر لئے تو اب انہیں ہدایت نصیب ہو تو کیسے ہو؟ ان تینوں طاقتو ں کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے اب تو ان کی وہ قوتیں ہی ضائع ہو گئی ہیں.مخالفین اسلام کا آیت خَتَمَ اللّٰهُ الخ سے غلط استدلال اور اس کا جواب اس آیت کا یہ مطلب نہیں جیسا کہ مخالفین ِ اسلام نے اس سے نتیجہ نکالا ہے کہ خدا تعالیٰ جبراً کفار کے دلوںپر اور کانوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ان کی آنکھو ںپر پردے ڈال دیتا ہے یہ تو ظلم ہے اور قرآن کریم خدا تعالیٰ سے ظلم کی نفی فرماتا ہے جیسے کہ فرمایا.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ (النساء :۴۱) یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایک ذرّہ بھر بھی ظلم نہیں کرتا.اور فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ النَّاسَ شَيْـًٔا وَّ لٰكِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُوْنَ(یونس :۴۵) یعنی اللہ تعالیٰ کی شان تو ایسی ہے کہ وہ لوگوںپر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا.ہاں !لوگ اپنی جانوں پر آپ ہی ظلم کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ جبراً کفار کے دلوں پر اور کانوں پر مہر نہیں لگاتا دوسرے اگر ان معنوں کو تسلیم کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود بعض بندوں کے لئے کفر کو پسند کرتا ہے حالانکہ قرآن کریم میں ہے.وَ لَا يَرْضٰى لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ (الزمر:۸) کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے کفر کو ناپسند کرتا ہے.اور فرمایا.وَ كَرَّهَ اِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْيَانَ (الحجرات :۸) یعنی کفر اور خود سری اور نافرمانی سے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نفرت دلا دی ہے.تیسرے ان معنوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.کہ اللہ تعالیٰ جبر سے بعض لوگوں سے کفر کرواتا ہے لیکن قرآن کریم

Page 235

اس مضمون کو بھی ردّ کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے فَمَنْ شَآءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْيَكْفُرْ (الکہف :۳۰) یعنی جو چاہے اللہ کی طرف سے نازل شدہ کلام پر ایمان لے آئے اور جو چاہے اس کا انکار کر دے.بلکہ قرآن کریم نے جبر کی نفی کرتے ہوئے بیسیوں جگہ بتایا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جبر ہوتا تو ایمان پرہوتا نہ کہ کفر پر.جیسے کہ فرمایا.فَلَوْ شَآءَ لَهَدٰىكُمْ اَجْمَعِيْنَ (الانعام :۱۵۰) کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب کو دین حق کی طرف ہدایت کرتا.قرآن کریم سے تو وضاحت سے یہ امر ثابت ہے کہ ایمان لانا اور کفر اختیار کرنا بندو ںکا فعل ہے اوریہی وجہ ہے کہ کوئی مومن ہے تو کوئی کافر.جیسے کہ فرمایا.فَمِنْهُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ كَفَرَ (البقرة : ۲۵۴) یعنی لوگوں میں سے بعض تو ایسے تھے جو ایمان لے آئے اور بعض ایسے تھے جنہوں نے انکار کر دیا.اور فرمایا.مَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهٗ (الروم :۴۵) جو کفر کرتا ہے.تو اُسی پر اُس کے کفر کا وبال پڑے گا.دلوں پر مہر اور آنکھوں پر پردہ پڑ جانا انسانی اعمال کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے.یہ مہر اور پردہ انسان کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے.جیسے فرمایا.طَبَعَ اللّٰهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ(النساء :۱۵۶) کہ اللہ نے اُن کے کفر کی وجہ سے اُن کے دلوں پر مہر کر دی ہے.پھر فرمایا اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ (المنافقون : ۴ ) یعنی یہ لوگ پہلے مسلمانوں کو دکھانے کو ایمان لائے پھر منکروں میں مل کر اسلام سے پھر گئے یہاں تک کہ ان کے دلوں پر مہر کر دی گئی پھر فرمایا.كَذٰلِكَ نَطْبَعُ عَلٰى قُلُوْبِ الْمُعْتَدِيْنَ (یونس :۷۵) یعنی ہم حد سے پڑھنے والوں کے دلوں پر اسی طرح مہر لگایا کرتے ہیں پھر فرمایا يَطْبَعُ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ(المومن:۳۶) کہ اللہ تعالیٰ مغرور اور سرکش لوگوں کے دلوں پر ایسے ہی مہر لگایا کرتا ہے پھر فرمایا.بَلْ١ٚ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (المطففین :۱۵) یعنی اصل بات یہ ہے کہ اُن کے دلوں پر اُن ہی کے اعمال بد کے زنگ بیٹھ گئے ہیں.خَتَمَ اللّٰهُ میں مہر لگانے کی نسبت کا اللہ تعالیٰ کی طرف ہونے کا مطلب اگر کہا جائے کہ پھر کیا وجہ کہ اس آیت میں مہر لگانے کی نسبت خدا تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے ؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان کے اعمال کا یہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ظاہر ہوتا ہے اس لئے اِن آیات میں خَتَمَ اور طَبَعَ کی نسبت جناب الٰہی کی طرف کی گئی ہے.ورنہ ایک دوسری آیت میں اس مہر کو خود کفار کی طرف منسوب کیا گیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(محمد :۲۵) یعنی کیا کفار قرآن کریم کے مضمون پر غور نہیں کرتے یا یہ بات ہے کہ ان کے دلوں پر اُنہی کے دلوں سے پیدا شدہ قفل لگے ہوئے ہیں.اس آیت سے

Page 236

ظاہر ہے کہ نہ ماننے کے دو ہی سبب ہوتے ہیں.یا تو غور نہ کرنا یا غور نہ کرنے کی عادت یا لمبے عناد اور تعصّب کی وجہ سے دلوں میں ایسا مادہ پیدا ہو جانا جو سمجھنے کی طاقت کو ضائع کر دیتا ہے.اور استعارۃً اس کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ دلوں میں قفل پیدا ہو کر دلوں کی کھڑکیوں میں لگ گئے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کا مہر لگانا انہی معنوں میں ہے کہ دوسری قسم کے لوگوں نے چونکہ خود اپنے اوپر ہدایت کے دروازے بند کر دیئے تھے اور اپنے دلوں کو اور کانوں کو اور آنکھوں کو معطّل کر دیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان کے فعل کا مناسب نتیجہ پیدا کر دیا ہے.اس مفہوم کے مطابق قرآن کریم میں ایک اور مثال بھی پائی جاتی ہے.حضرت آدمؑ کے جنت سے نکلنے کے متعلق ایک جگہ فرماتا ہے کہ ہم نے آدم کو کہا کہ اِهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا (البقرة:۳۹) یعنی اللہ تعالیٰ نے آدم سے کہا کہ تم سب نکل جائو.جس کے یہ معنے ہیں کہ جنت سے آدمؑ کو اللہ تعالیٰ نے نکالا.مگر دوسری جگہ فرماتا ہے.يٰبَنِيْۤ اٰدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَجَ اَبَوَيْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ (الاعراف :۲۸) یعنی اے بنی آدم! شیطان تم کو دُکھ میں مبتلا نہ کر دے جس طرح اس نے تمہارے ابتدائی ماں باپ کو جنت سے نکال دیا تھا.اس بارہ میں ایک دفعہ نکالنے کو اپنی طرف منسوب کرنا اور ایک دفعہ شیطان کی طرف اسی حکمت سے ہے.شیطان کی طرف نکالنے کو اس لئے منسوب کیا کہ اس کے فعل کے سبب سے وہ جنت سے نکلنے کے مستحق ہوئے اور خدا تعالیٰ کی طرف اس لئے کہ اس فعل کا آخری اور لازمی نتیجہ خدا تعالیٰ نے نکالا.بعینہٖ اسی طرح مہر لگانے والی بات بھی ہے.مہر لگتی ہے عناد اور جحد سے یعنی جان بوجھ کر صداقت کے انکار سے.لیکن آخری نتیجہ اللہ تعالیٰ نکالتا ہے جس طرح ہر دوسرے فعل کا نتیجہ وہی نکالتا ہے.دلوں پر مہر لگنے کی تشریح احادیث میں.یہ معنے جو میں نے کئے ہیں ان کی تصدیق رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے کلام سے بھی ہوتی ہے.آپ فرماتے ہیں.اِنَّ الْمُؤْمِنَ اِذَا اَذْنَبَ ذَنْبًا کَانَ نُکْتَۃً سَوْدَآءَ فِیْ قَلْبِہٖ فَاِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِّلَ قَلْبُہٗ فَاِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یُغْلَفَ قَلْبُہٗ فَذَالِکَ الرَّانُ الَّذِیْ قَالَ اللّٰہُ جَلَّ ثَنَاءُ ہٗ كَلَّا بَلْ١ٚ رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ (المطفّفین:۱۵)(تفسیرابن جریر زیر آیت ھذا) یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی مومن گناہ کرے تو اس کے دل پر ایک سیاہ داغ پڑ جاتا ہے پھر اگر توبہ کرے اور گناہ ترک کر دے اور استغفار کرے تو اس کے دل کو صاف کر دیا جاتا ہے.لیکن اگر گناہ میں بڑھتا جائے تو یہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے حتٰی کہ اس کے دل پر غلاف چڑھ جاتے ہیں.اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ خبردار بات یہ ہے کہ خود ان کے اعمال نے اُن کے دلو ںپر زنگ لگا دیا ہے.اس کی ابن جریر یہ تشریح بیان کرتے ہیں کہ فَاَخْبَرَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ الذُّنُوْبَ اِذَا تَتَابَعَتْ عَلَی القُلُوْبِ اَغْلَفَتْھَا وَ

Page 237

ِذَا اَغْلَفَتْہَا اَ تَاھَا حِیْنَئَذٍ اَ لْـخَتْمُ مِنْ قِبَلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَلَا یَکُوْنُ لِلْاِ یْمَانِ اِلَیْھَا مَسْلَکٌ وَلَا لِلْکُفْرِ مِنْھَا مَخْلَصٌ فَذَالِکَ ھُوَ الطَّبْعُ وَ الْخَتْمُ یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں یہ خبر دی ہے کہ گناہ جب متواتر صادر ہوں تو وہ دلوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں اور جب وہ دلوں پر پردہ ڈال دیں تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہر آ جاتی ہے.پس اس صورت میںدل میں ایمان داخل نہیں ہو سکتا نہ اس میں سے کفر باہر نکل سکتا ہے.اور اسی کا نام قرآن کریم میں طَبع اور خَتم آتا ہے.اسی مضمون کی ایک حدیث مسلم میں حذیفہؓ سے بھی روایت کی گئی ہے.مہر اور پردہ جسمانی چیز نہیں اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ مہر اور پردہ کوئی جسمانی چیز نہیں ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کفار کی زبانی بیان فرماتا ہے.قَالُوْا قُلُوْبُنَا فِيْۤ اَكِنَّةٍ مِّمَّا تَدْعُوْنَاۤ اِلَيْهِ وَ فِيْۤ اٰذَانِنَا وَقْرٌ وَّ مِنْۢ بَيْنِنَا وَ بَيْنِكَ حِجَابٌ (حٰمّٓ سجدۃ :۶) کہ کفار آنحضرت کو یوں کہتے ہیں کہ جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہمارے دل اس سے پردے میں ہیں اور ہمارے کانوں میں گرانی ہے جس کی وجہ سے تمہاری بات سنائی نہیں دیتی اور تمہارے اور ہمارے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے تم ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.اس سے معلوم ہوا کہ پردہ اور ختم وغیرہ کے الفاظ بطور استعارہ ہیں.اور ان کی تشریح وہی ہے جو مندرجہ ذیل آیت میں کی گئی ہے.لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا١ٞ وَ لَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا١ٞ وَ لَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا(الاعراف :۱۸۰) یعنی اُن کے دل تو ہیں لیکن وہ ان سے سمجھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کی آنکھیں بھی ہیں مگر وہ اُن سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے اور ان کے کان بھی ہیں مگر وہ اُن سے سننے کا کام نہیں لیتے.اسی مضمون کی تشریح ایک اور آیت میں بھی ہے جو یہ ہے.اَفَلَمْ يَسِيْرُوْا فِي الْاَرْضِ فَتَكُوْنَ لَهُمْ قُلُوْبٌ يَّعْقِلُوْنَ بِهَاۤ اَوْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ۚ فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ(الحج : ۴۷) یعنی کیا یہ لوگ ملک میں چلتے پھرتے نہیں.کہ اُن کے دل ایسے ہوتے کہ ان کے ذریعہ وہ انجام کو سمجھتے اور ان کے کان ایسے ہوتے کہ ان کے ذریعے نصیحت کی باتوں کو سنتے.اصل بات یہ ہے کہ اصل نابینائی آنکھوںکی نہیں بلکہ اصل نابینائی ان کے دلوں کی ہے جو سینو ںمیں ہیں.اوپر جو شبہ بیان ہوا ہے اور جس کا جواب دیا گیا ہے وہ در حقیقت اس سے پیدا ہوتا ہے کہ یہ غو رنہیں کیا گیا کہ یہ آیت پہلی آیت کا تتمہ ہے اور اس میں ان کفار کا ذکر ہے جو صداقت کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے اور نہ خدا تعالیٰ کے فعل کو دیکھنے کے لئے تیار ہوتے ہیں پس ان لوگوں کی مہر تو ان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے.اس سے خدا تعالیٰ پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.

Page 238

وَ لَهُمْ عَذَابٌمیں عذاب سے مراد وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ میں جس بڑے عذاب کی خبر دی گئی ہے اس سے صرف بعد الموت کی جہنم کی سزا ہی مراد نہیں بلکہ سب سے زیادہ اس میں خدا تعالیٰ کی دوری کا ذکر ہے.عذاب کے معنے حَلِّ لُغَات میں بتائے جا چکے ہیں.کہ روکنے کے بھی ہوتے ہیں.پس عذاب سے مراد اس جگہ یہ ہے کہ مومن تو خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت پر سوار ہو کر اس تک پہنچ جائیں گے مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ کے دیدار سے روک دیئے جائیں گے اور اس سے بڑا عذاب اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جو لوگ دل.کان اور آنکھوں کے استعمال کو ترک کر دیتے ہیں وہ دنیا کے ہر کام میں بھی ذلت اور دُکھ پاتے ہیں اور عذاب میں مبتلا رہتے ہیں.آیت ھٰذا میں کان کو آنکھ پر مقدم کرنے کی وجہ اس آیت کے متعلق یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس میں دل کے بعد کان کا ذکر ہے اور اُس کے بعد آنکھ کا.اور قرآن کریم میں جہاں بھی اس قسم کا ذکر آیا ہے کان کو آنکھ پر مقدم کیا گیا ہے.اس کی ایک حکمت تو پہلے بیان ہو چکی ہے دوسری حکمت یہ ہے کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان پہلے کام کرنے لگتے ہیں اور آنکھیں بعد میں.چنانچہ بعض جانوروں میں تو آنکھیں کئی دن تک بند رہتی ہیں اور شروع میں کان ہی سے وہ کام لیتے ہیں.آیت ھٰذا میںآنکھوں کے لئے جمع اور کانوں کے لئے مفرد لفظ رکھنے کی وجہ اس آیت کے بارہ میں ایک سوال یہ بھی ہو سکتا ہے کہ دل اور آنکھوں کو تو جمع بیان کیا اور کانو ںکے لئے مفرد کا لفظ رکھا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دلوں اور آنکھوں کا فعل ہر شخص کا ُجداگانہ ہوتا ہے.دلوں کی طاقتوں کا اس قدر فرق ہوتا ہے کہ کوئی تَحْتَ الثَّرٰی میں ہوتا ہے او رکوـئی افلاک پر.اسی طرح آنکھوں کے فعل سے اس جگہ معجزات اور نشانوں کو دیکھنا مراد ہے اس کا اندازہ بھی ہر شخص الگ الگ لگاتا ہے.اور اس طرح گویا مختلف آنکھوں سے ان کو دیکھا جاتا ہے مگر سنی جانے والی شئے ایک معیّن چیز ہے یعنی قرآن کریم.وہ معیّن الفاظ میں سب کے سامنے پڑھا جاتا تھا.پس سوچنے میں گو سب مختلف تھے اور معجزات کا نظارہ کرنے میں بھی مختلف تھے مگر سننے میں مختلف نہ تھے کیونکہ ایک ہی کلام سنتے تھے پس سننے کے لئے مفرد کا لفظ استعمال کیا کہ گویا سب ایک ہی کان سے سنتے تھے.ایک سوال اس آیت کے بارہ میں یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ دلوں اور کان کےلئے تو مہر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو زیادہ سخت ہے لیکن آنکھوں کےلئے پردہ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ہٹ بھی سکتا ہے لیکن سورۃ نحل ع ۱۴ میں فرماتا ہے طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ سَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ۚ وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(النحل:۱۰۹).یعنی اللہ تعالیٰ نےان کے

Page 239

دلوں،ان کے کان اور ان کی آنکھوں پر مہر لگا دی ہے.اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے انسان اپنے دل میں غور کرتا ہے پھر بات سن کر ہدایت پاتا ہے اور جب یہ بھی نہ ہو تو معجزات کو دیکھتا ہے.معجزات کلام کے بعد آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں اس لئے آنکھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیر میں مہر لگائی جاتی ہے کیونکہ اس راستہ کے ذریعہ حجت دیر سے قائم ہوتی ہے.پہلے پردے پڑتے ہیں پھر مہر لگتی ہے.پس سورۂ بقرہ میں اس حالت کا ذکر ہے کہ جب ابھی مہر کا وقت نہ آیا تھا اور سورۃ نحل میں اس حالت کا ذکر ہے جب کہ معجزات کو دیکھ کر بھی ایک لمبے عرصہ تک انسان ایمان نہ لائے.اس جگہ یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قلوب اور کانو ںپر مہر لگانے کو تو اپنی طرف منسوب کیا ہے لیکن آنکھو ںکے پردوں کو اپنی طرف منسوب نہیں کیا.اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کفاریہ کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں سمجھ نہیں دی کہ ہم اس کی باریک حکمتوں کو سمجھ سکیں اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں سننے کا موقع نہیں ملا.گو حق یہ ہے کہ انہوں نے خود ہی نہیں سنا لیکن وہ اس بات کا کیا جواب دیںگے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرتیں ان کے دائیں اور بائیں اور سامنے ظاہر ہو رہی ہیں انہیں انہوں نے کیوں نہیں دیکھا؟ پس اس طرح اس مضمون کو واضح کر دیا ہے کہ ختم کا خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جانا صرف نتیجہ فعل کے طور پر ہے ورنہ یہ دونوں نتائج بھی خود کفار کے اعمال کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں جس طرح ان کا نشانات کو نہ دیکھنا ان کا اپنا فعل ہے.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور آنے والے دن پر ایمان رکھتے ہیں وَ مَاهُمْ بِمُؤْمِنِيْنَ۰۰۹ حالانکہ وہ ہرگز ایمان نہیں رکھتے.حَلّ لُغَات.اٰمَنَّا.اٰمَنَّا اٰمَنَ سے متکلّم مع الغیر کا صیغہ ہے اور مُؤْمِنُوْنَ وَ مُؤْمِنِیْنَ، مُؤْمِنٌ کی جمع ہے جو اسم فاعل کا صیغہ ہے قبل ازیں حَلِّ لُغَات آیت ۴ سورۃ ہذا میں ایمان کے تین معنے لکھے جا چکے ہیں (۱) اعتراف (۲) تصدیق یعنی سچائی کا اقرار کرنا (۳) کسی چیز کے اوپر پختہ ہو جانا.امام راغب اِیْمَانٌ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ: ’’ اَ لْاِیْمَانُ یُسْتَعْمَلُ تَارَۃً اِسْمًا لِّلشَّرِیْعَۃِ الَّتِیْ جَاءَ بِھَا مُحَمَّدٌ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ

Page 240

وَالسَّلَامُ وَ یُوْصَفُ بِہٖ کُلُّ مَنْ دَخَلَ فِیْ شَرِیَعَتِہٖ مُقِرًّا بِاللّٰہِ وَبِنُبُوَّتِہٖ ‘‘.یعنی ایمان کبھی اُس شریعت کے لئے بطور نام استعمال کیا جاتا ہے جو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم لائے اور ایسے شخص کو جو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور آنحضرت صلعم کی نبوت کا اقرار کرتے ہوئے شریعت محمدیہ میں داخل ہو.ایمان کے ساتھ موصوف کرتے ہوئے مومن کہتے ہیں (یعنی لفظ مومن بولنے سے فوراً ذہن میں اس شخص کا تصور آتا ہے جو آنحضرتؐ پر ایمان رکھنے والا ہو) ’’وَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ عَلٰی سَبِیْلِ الْمَدْحِ وَیُرَادُ بِہٖ اِذْعَانُ النَّفْسِ لِلْحَقِّ عَلٰی سَبِیْلِ التَّصْدِیْقِ وَ ذَالِکَ بِاِجْتِمَاعِ ثَلٰـثَۃِ اَشْیَاءَ تَحْقِیْقٌ بِالْقَلْبِ وَ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَعَـمَلٌ بِحَسْبِ ذٰلِکَ بِالْجَوَارِحِ‘‘.نیز کبھی لفظِ ایمان بطور مدح استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تصدیق کے ساتھ ساتھ نفس نے حق کی پوری اطاعت بھی کر لی ہے اور حق کے پوری طرح تابع ہو جانےکا اظہار تین چیزوں کے جمع ہونے سے ہوتا ہے (۱) دل سے صداقت کو حق قرا ردینا (۲) زبان سے اس کا اقرار کرنا (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کر کے پوری طرح صداقت کے تابع ہو جانے کا اظہار کرنا.گویا امام راغب نے اسی شخص کو حقیقی مومن قرار دیا ہے جس کے اندر تینوں مذکورہ بالا باتیں پائی جائیں.اگر کسی میں ان میں سے کوئی ایک بات پائی جائے تو وہ مومن کہلانے کا حق دار نہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ تصریح فرما دی ہے کہ محض زبان سے اقرار یا صرف دل سے یقین کر لینا اور زبان سے اقرار نہ کرنا کوئی معنے نہیں رکھتا جب تک کہ یہ اکٹھے نہ ہوںچنانچہ فرمایا.قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ (الحجرات :۱۵) یعنی اعراب نے مومن ہونے کا دعویٰ کیا ہے حالانکہ یہ درست نہیں.کیونکہ انہو ںنے زبان سے تو کہہ دیا کہ وہ اسلام میں داخل ہو گئے لیکن ان کے قلوب میں ایمان داخل نہیں ہوا اور چونکہ ایسے لوگ مومن نہیں ہوئے اس لئے ان کے ایمان لانے کا دعویٰ غلط ہے.ایک اور جگہ آل فرعون کی نسبت فرمایا.جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَيْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ (النمل :۱۵) کہ انہوں نے ظاہر میں اور عمل سے اللہ تعالیٰ کے نشانات کا انکار کر دیا.حالانکہ ان کے دل ان نشانوں کے سچے ہونے کا اقرار کر چکے تھے.الغرض ایمان صرف منہ سے کسی بات کے اقرار کر لینے یا دل سے کسی کے سچا ہونے کا یقین کر لینے کا نام نہیں بلکہ جب تک (۱) دل سے صداقت کو حق قرار نہ دیا جائے (۲) اور پھر زبان سے اس کا اقرار کرتے ہوئے (۳) اعضاء سے اس کے مطابق عمل کا اظہار نہ کیا جائے اس وقت تک مومن کہلانا درست نہیں.تفسیر.هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠سے ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ تک اُس گروہ کا ذکر کیا جو ایمان پر مستقل طور پر قائم ہے اور اس کے ایمان سے جو فوائد وابستہ ہیں ان سے پوری طرح فائدہ اٹھاتا ہے پھر اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے اُس گروہ کا ذکر کیا

Page 241

جو کفر و عصیان سے مستقل طو رپر وابستہ ہے اور اس کے بد نتائج کا مستحق ہو چکا ہے.انہی کے ذکر میں ضمناً اُن کفار کا بھی ذکر آ گیا جو گو عقیدۃً کافر ہیں لیکن اُن کے دلوں میں تعصب نہیں وہ صداقت کے سمجھ آ جانے پر اُسے قبول کرنے کےلئے بھی تیار ہیں اور اس کے سمجھنے کیلئے بھی کوشش کرتے ہیں کیونکہ جب یہ فرمایا کہ وہ کافر ایمان نہیں لائیں گے جنہوںنے ُسنا اَنْ ُسنا کر چھوڑا ہے اور جو اس حد تک متعصب ہیں کہ سچائی کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں تو اس سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکل آیا کہ جو کافر سنتے ہیں اور سچائی کو اگر سمجھ میں آ جائے ماننے پر آمادہ ہیں وہ جیسے جیسے انکشافِ تام ان پر ہوتا جائے گا ایمان لاتے چلے جائیں گے.منافقین کا ذکر اور ان کی دو اقسام اب اس آیت سے قرآن کریم سے تعلق رکھنے والے ایک اور گروہ کا ذکر کرتا ہے جو منافقوں کا گروہ کہلاتا ہے.مومنوں کی جماعت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے منافق دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو صرف ظاہر میں مومنوں سے ملے ہوئے ہوتے ہیں لیکن دل میں منکر ہوتے ہیں اور ان کی ظاہری شمولیت محض دنیوی فوائد یا قومی جتھا بندی کی وجہ سے ہوتی ہے.اور ایک وہ منافق جو عقلی دلائل سے تو ایمان کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں لیکن اُن کے اندر ایسی مضبوطی نہیں ہوتی کہ اس کے لئے پوری طرح قربانیاں کر سکیں پس ایسے لوگ اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے نہ کہ عقیدہ کے اختلاف کی وجہ سے عمل میںُ سستی دکھاتے ہیں اور کبھی کفار کا زیادہ دبائو پڑے تو ان کی ہاں میں ہاں بھی ملا دیتے ہیں اور اُن سے تعلق و محبت بھی جتا دیتے ہیں اور دل میں خیال کرتے ہیں کہ جب صداقت کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ دینا ہی ہے تو کیا حرج ہے کہ مداہنت کر کے ہم اپنے آپ کو نقصان سے بچا لیں.اور یہ نہیں سمجھتے کہ اگر سب لوگ ہی اس طریق کو اختیار کر لیں تو صداقت کی تائید کون کرے؟ اور یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ صداقت کو تو بے شک اللہ تعالیٰ نے فتح دینی ہی ہے لیکن اُنہیں اپنے انجام کا بھی تو خیال کرنا چاہیے اگر صداقت کامیاب ہو گئی مگر وہ صداقت کے منکروں میں شامل ہو گئے تو ان کو اس سے کیا فائدہ؟ آیت ھٰذا میں اعتقادی منافقوں کا ذکر آیت زیر تفسیر میں اُس تیسرے گروہ کے پہلے حصہ کا یعنی جو دل سے قرآن کریم کے منکر تھے لیکن ظاہر میں مسلمانوں میں شامل تھے ذکر کیا گیا ہے فرماتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ظاہر میں تو وہ مسلمانوں میں شامل ہیں لیکن اُن کے دل میں اسلام کی صداقتوں پر پورا یقین نہیں ہے.وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخر کو مانتے ہیں لیکن اُن کے دلوں میں اللہ اور یوم آخر پر کوئی ایمان نہیں.ایمان لانے کے ذکر میں صرف اللہ اور یوم آخر پر ایمان لانے کے ذکر کی وجہ اس آیت میں صرف اللہ اور یوم آخر پر ایمان کا ذکر ہے کلام الٰہی یا انبیاء وغیرھما کا ذکر نہیں.اس کی یہ وجہ ہے کہ ایمانیات کے سلسلہ کی پہلی

Page 242

کڑی خدا تعالیٰ پر ایمان لانا ہے اور آخری کڑی یومِ آخر پر ایمان لانا.پس اختصار کے لئے صرف پہلی اور آخری کڑی کا ذکر کر دیا گیا اور درمیانی امو رکو چھوڑ دیا گیا کیونکہ ابتدا اور انتہا کے ذکر سے درمیانی اُمور خود ہی سمجھ آ جاتے ہیں.پس گو کفار کا قول اختصاراً یہی نقل کیا ہے کہ ہم اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ سے لے کر یوم آخر تک سب امورِایمانیہ کو مانتے ہیں جیسے کہ ہماری زبان میں بھی کہہ دیتے ہیں کہ الف سے یاء تک سب بات سمجھ لی ہے.قرآن کریم میں یہ طریق ِ کلام عام طور پر مستعمل ہے کیونکہ وہ سب علوم کی جامع کتاب ہے.اس نے روحانی مسائل بھی اور جسمانی مسائل بھی اور الٰہیات بھی اور فلکیات بھی اور مادی ضرورتوں کے مسائل بھی بیان کرنے تھے.اُس نے اقتصادی امور، اجتماعی امور، مدنی احکام، اخلاقی احکام، عبادات کے ساتھ تعلق رکھنے والے احکام، بندوں سے تعلق رکھنے والے احکام، حاکموں سے متعلق احکام، رعایا سے متعلق احکام، مالداروں سے متعلق احکام، غریبوں سے متعلق احکام‘ کارخانہ داروں سے متعلق احکام، مزدوروں سے متعلق احکام، خاندان سے متعلق احکام اور میاں بیوی سے متعلق احکام، جنگ، صلح، قضاء، اکل و شرب کے متعلق احکام غرض بیسیوں اور سینکڑوں اقسام کے احکام بھی اس نے بیان کرنے تھے، اُن کے علل و اسباب بھی بیان کرنے تھے، اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات بھی بیان کرنے تھے.سابق انبیاء کے کام اور خدا تعالیٰ کے ان سے معاملات بھی اس نے بیان کرنے تھے اور آئندہ زمانو ںکے متعلق اخبار غیبیہ بھی بتانی تھیں تا ہر زمانہ کے مسلمانوں کے ایمانوں میں زیادتی ہو اور غیرمومنوں کے لئے موجباتِ ہدایت پیدا ہوں.ایسی کتاب اس چھوٹے سے حجم میں آ ہی کس طرح سکتی تھی اگر اس میں لطیف اختصار سے کام نہ لیا جاتا.عہد نامہ جدید میں ایک دو مضامین کے سوا اور ہے کیا؟ مگر اس کا حجم قرآن کریم سے بڑا ہے.اسی طرح عہدنامہ قدیم بھی قرآن کریم سے بڑا ہے اسی طرح وید بھی قرآن کریم سے بڑے ہیں.مگر وہ مضامین جن پر قرآن کریم نے بحث کی ہے کوئی ان کی صداقت کاقائل ہو نہ ہو اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ اس کے مطالب کی فہرست دوسری کتب میں مذکور شدہ مطالب سے بہت ہی زیادہ ہے اور باوجود اس کے اس کا اختصار ایسا نہیں کہ وہ چیستان بن کر رہ جائے.قرآن کریم کے ایک رکوع کے برابر بھی متنبی کے دیوان کے مضامین نہیں لیکن اس نے ایک ضخیم جلد شعروں کی لکھی ہے مگر وہ ہے ِچیستان ہی.لیکن قرآن کریم نے سینکڑوں مسائل پر اختصار سے گفتگو کر دی ہے مگر پھر بھی پہیلیوںکی صورت نہیں پیدا ہوئی.ہر شخص اپنی لیاقت کے مطابق اس کے مضامین کو سمجھتا ہے اور ایک عام اور سادہ زبان میں بیان کرنے والی کتاب اُسے پاتا ہے کسی جگہ بھی کوئی ایسی عبارت

Page 243

اُسے نظر نہیں آتی کہ جو پہیلیوں کی طرح کی ہو.اس قسم کا اختصار ظاہر ہے کہ ایسے ہی لطیف اصولوں کی اتباع سے پیداہو سکتا ہے.مثلاً ایک طبعی تقسیم کا ذکر کرنا ہو تو ابتدائی اور آخری کڑی کو بیان کر دیا.کسی واقعہ سے کوئی فائدہ حاصل کرنا ہے تواس کے زائد حصوں کو چھوڑ کر صرف اس حصہ کو لے لیا جس سے استنباط کرنا ہے.الفاظ وہ استعمال کئے جو نہایت وسیع معنے رکھتے ہوں.جملوں کی بندش ایسی رکھی کہ ہر لفظ کے ہر معنے دوسرے الفاظ سے مل کر ایک الگ اور مستقل مضمون بیان کرتے ہوں، آیات میں ترتیب ایسی رکھی کہ آیت علیحدہ کر لی جائے تو اور مضمون ظاہر کرے اور دوسری آیات سے مل کر اور مطالب پر روشنی ڈالے.پھر مختلف آیات کا مجموعہ دوسرے مجموعوں سے الگ کر کے الگ مطالب پر روشنی ڈالے اور دوسرے مجموعوں سے ملا کر ایک نئے معنے بھی دینے لگے.ان اصولوں کو قرآن کریم نے اس لئے استعمال کیا تاکہ تھوڑے سے الفاظ میں غیر محدود مضامین بیان ہو جائیں.مجھے اس تفصیل کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ بعض نادان ایسی آیات سے یہ مضمون نکالتے ہیں کہ گویا صرف اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لانا کافی ہوتا ہے کیونکہ اس جگہ ایمان کے ثبوت کے لئے انہی دو باتوں کا ذکر ہے.اور یہ لوگ ان زبردست اصولوں کو بھول جاتے ہیں جو جامعیّت اور اختصار کی خاطر قرآن کریم نے استعمال فرمائے ہیں اور جو تمام قرآن کریم میں استعمال ہوئے ہیں جیسا کہ اس کے مطالب پر غور کرنے والے لوگوں پر یہ امر کَمَاحَقُّہٗ منکشف ہے.شاید کوئی کہے کہ تمہارا یہ استدلال خود ساختہ ہے.کس طرح معلوم ہو کہ قرآن کریم نے واقعہ میں زنجیر کی اوّل اور آخری کڑی بیان کر کے ساری زنجیر کی طرف اشارہ کیا ہے.کیوں نہ سمجھا جائے کہ درحقیقت انہی دو باتوں کا بیان مقصود ہے کیونکہ یہی ایمان کی بنیاد ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنِ کریم کا یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ وہ ان اصولوں کی تشریح بھی خود ہی دوسری جگہ پر کر دیتا ہے.چنانچہ اس آیت میں جو اختصار کیا گیا ہے.اس کی وضاحت بھی دوسری جگہ مل جاتی ہے سورۂ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَ لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰى وَ مَنْ حَوْلَهَا١ؕ وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ هُمْ عَلٰى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ (الانعام:۹۳) یعنی یہ کتاب اس شان کی ہے کہ اِسے خدا تعالیٰ نے اتارا ہے پھر اس کے اندر تمام ان کلاموں کی ضروری تعلیمات جمع ہو گئی ہیں جو اس سے پہلے نازل ہوئے تھے اور ان کتب سماویہ میں بھی اس کے بارہ میں خبریںتھیں جن کو اس کی آمد نے پورا کیا ہے.یہ کتاب دنیا کو ہدایت دینے کے لئے نازل ہوئی ہے اور اس کے گرد کی دنیا کو ہوشیار کرنے

Page 244

کےلئے بھی اور وہ لوگ جو یومِ آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کتاب پر بھی ضرور ایمان لاتے ہیں اور وہ اپنی نمازوں میں بھی بہت باقاعدہ ہیں.اب دیکھو !اس آیت میں کس طرح واضح کر دیا گیا ہے کہ ایمان بالآخرۃ ایمان بالقرآن کا مستلزم ہے اور جو قرآنِ کریم پر ایمان لائے گا لازماً اُسے محمد رسول اللہ پر بھی ایمان لانا ہو گا.کیونکہ آپؐ ہی کے ذریعہ سے قرآنِ کریم دنیا کو ملا ہے.اسی طرح اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ملائکہ پر ایمان بھی یومِ آخر میں شامل ہے کیونکہ جو قرآنِ کریم کو مانے گا وہ ملائکہ کا انکار کر ہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں بار بار ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے بلکہ اس آیت میں تو یہ امر بھی زائد کر دیا گیا ہے کہ یومِ آخر پر ایمان میں اعمال صالحہ بھی شامل ہیں.کیونکہ فرماتا ہے کہ جو یومِ آخرۃ پر ایمان لاتے ہیں نہ صرف یہ کہ وہ قرآن پر ایمان لاتے ہیں بلکہ وہ اس پر عمل بھی کرتے ہیں.غرض مذکورہ بالا آیت اس امر پر شاہد کہ میرا یہ استدلال کہ اللہ اور یومِ آخر کے ذکر پر اقتصار اس لئے نہیں کیا گیا کہ اُن کے سوا کسی اور امر پر ایمان لانا مومن ہونے کے لئے ضروری نہیں بلکہ اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ دونوں امور ایمانیات کی ابتدائی اور آخری کڑیاں ہیں پس ساری زنجیر کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ان کو منتخب کر لیا گیا ہے.ایک اور معنے بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس جگہ منافقوں کا قول بیان کیا گیا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا.پس ہو سکتا ہے کہ منافق یہ الفاظ جان بوجھ کر کہتے ہوں اور ان کی غرض مومنوں کو دھوکا دینا ہو.وہ مومنوں کے سامنے یہ الفاظ کہہ کر ان پر تو یہ اثر ڈالنا چاہتے ہوں کہ ہم تمام اسلامی عقیدوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن دل میں یہ خیال رکھتے ہوں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھی مانتے ہیں اور یومِ آخر کو بھی مانتے ہیں لیکن قرآنِ کریم اور اس کے لانے والے کو نہیں مانتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار عرب میں سے بہت سے ایسے لوگ تھے جو قیامت کے منکر تھے مگر سب کے سب کفار اس خیال کے نہ تھے ان میں سے ایسے لوگ بھی تھے کہ جو بعدالموت زندگی کے قائل تھے.چنانچہ ان کی روایات اور اشعار سے ایسے مطالب کی طرف اشارہ ملتا ہے خصوصاً مدینہ کے پاس کے لوگوں کے خیالات میں نسبتاً زیادہ اصلاح تھی.کیونکہ یہود اور نصار ٰی کے ساتھ مل جل کر رہنے کی وجہ سے اُن میں اہل کتاب کے کئی عقیدے سرایت کر گئے تھے.اور یہ منافقین جن کا ذکر ہے مدینہ ہی کے رہنے والے تھے.خلاصہ یہ کہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں اس دھوکے کی طرف اشارہ کیا گیا ہو جو منافق اپنے کلام سے مومنوں کو دینا چاہتے تھے.چنانچہ اگلی آیات میں ان کے دھوکا دینے اور استہزاء کرنے کا ذکر بھی ہے.اس آیت کو وَمِنَ النَّاسِ سے شروع کرنے میںیہ حکمت بھی ہے کہ منافقوں کو ان کی انسانیت کی طرف توجہ دلائی جائے کیونکہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی نَاسٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے بشر کی اچھی قوتوں اور استعدادوں کی

Page 245

طرف اشارہ کرنے کےلئے استعمال ہوا ہے ورنہ یا تو قرآن کریم کفاّر کا لفظ استعمال کر کے یا صرف ضمیر کے استعمال سے یا ملکوں یا قوموں کا نام بیان کر کے مخالفین صداقت کا ذکر کرتا ہے پس اس جگہ وَمِنَ النَّاسِ کہہ کر ایک لطیف طنز سے انہیں نیکی کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے کہ حیوان ایک مقرر راستہ پر چلتا جاتا ہے اور انسان سمجھ کر کام کرتا ہے سو انسانیت کے جامہ کی تم کو اس قدر تو عز ّت ہونی چاہیے تھی کہ جس امر کو سچا سمجھتے تھے اس پر کاربند ہوتے اور اگر تمہاری قوم مسلمان ہو بھی گئی تھی لیکن تم خود اسلام کو برُا سمجھتے تھے تو بھیڑوں کی طرح ان کے پیچھے نہ چلتے بلکہ جو تمہارا عقیدہ خلافِ اسلام تھا اس پر قائم رہتے.وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ کہہ کراس بات پر زور دیا ہے کہ ان کے اندر کوئی شائبہ بھی ایمان کا نہیں.مَاسے نفی کر کے پھر بعد میں باء کا استعمال عربی میں زور پیدا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور اُردو میں اس کا صحیح ترجمہ ’’ہرگز‘‘ کی زیادتی سے ہوسکتا ہے یعنی اس جملہ کا یہ ترجمہ نہیں کہ وہ مومن نہیں بلکہ یہ ہے کہ وہ ہر گز مومن نہیں.اگر صرف عدمِ ایمان کا اظہار کرنا ہوتا تو اس مضمون کو دوسری ترکیب سے بیان کیا جاتا.مثلاً کہا جاتا کہ وَھُمْ مُنَافِقُوْنَ.اس قسم کے منافقوں کا جو دل سے تو کافر ہوں لیکن منہ سے مومن بنتے ہوں قرآن کریم میں متعدد بار ذکر آیا ہے.مثلاً فرماتا ہے.وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا يَكْتُمُوْنَ (المائدة : ۶۲)یعنی جب یہ منافق تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لا چکے ہیں حالانکہ وہ جب تمہارے پاس آئے تھے تب بھی کافر تھے اور جب تمہارے پاس سے اٹھ کر گئے تب بھی کافر تھے اور جو کچھ وہ دلوں میں چھپاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے.قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِاَفْوَاهِهِمْ وَ لَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُهُمْ(المائدة : ۴۲) یعنی یہ منافق لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں لیکن ان کے دل مومن نہیں.اسی طرح فرماتا ہے.يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ (آل عمران : ۱۶۸) وہ اپنے مونہوں سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے.مذہب اسلام پر جبر سے مسلمان کرنے کے الزام کا ردّ مندرجہ بالا آیات اور آیت زیر تفسیر میں ان لوگوں کے خیالات کی زبردست تردید ہوتی ہے کہ جو کہتے ہیں کہ اسلام نے لوگو ںکو زبردستی مسلمان کرنے کا حکم دیا ہے.اس غلطی میں بعض مسلمان بھی پھنسے ہوئے ہیں اور دشمنانِ اسلام نے تو اس غلط عقیدہ کو اسلام کی طرف منسوب کر کے اس پر اعتراض کرنا ایک مشغلہ بنا رکھا ہے حالانکہ اگر یہ دھوکا خوردہ مسلمان اور وہ دشمنانِ اسلام اسی آیت پر غور کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ اسلام جبر کے سراسر خلاف ہے کیونکہ جبر منافقت پیدا کرتا ہے اورجبراً کسی کو مسلمان

Page 246

بنانے کے یہی معنے ہیں کہ گو تیرا دل اور دماغ اسلام پر تسلیّ نہیں پاتا لیکن تو ظاہر میں کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں.اب ظاہر ہے کہ جو مذہب ایسی مذہبی تبدیلی کو جائز بلکہ پسند کرے گا وہ لازماً منافق کو اپنی جماعت کا جزو سمجھے گا اور اُسے کبھی خارج نہیں کر سکتا.کیونکہ منافقت کے نقص کو جانتے ہوئے اُس نے جبراً ایک ایسے شخص کو اپنے مذہب میں داخل کیا ہو گا جو اس کا قائل نہ تھا لیکن قرآن کریم تو جیسا کہ اوپر کی آیات میں بتایا گیا ہے سختی سے ایسے لوگوں کو ملامت کرتا ہے اور ان کی نسبت اعلان کرتا ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں اور یہ امر ظاہر ہے کہ جو مذہب منافقوں کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے تیار نہیں اور صرف دل کی تسلی کے بعد درست عقیدہ رکھنے والے کو اپنا جزو قرار دیتا ہے وہ زبردستی اور تلوار سے کسی شخص کو نہ اپنے اندر شامل کر سکتا ہے نہ اُسے جائز قرار دے سکتا ہے چنانچہ قرآن واضح الفاظ میں فرماتا ہے.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ (الحجرات :۱۶) یعنی مومن صرف وہی ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لائیں اور اُن کے دل میں بعد میں بھی کوئی شبہ پیدا نہ ہوا ہو اور وہ اپنے مالو ںاور جانوں سے اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بھی کریں اور یہی لوگ سچے مومن ہیں.پس اسلام کے نزدیک مومن ہونے کے لئے دلی یقین شرط لازم ہے.اور جو مذہب دلی یقین کو شرط ایمان قرار دے وہ کسی صورت میں زبردستی اور جبراً تبدیلی ٔ مذہب کی اجازت نہیں دے سکتا.يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ وہ اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (واقعہ میں )اپنے سوا کسی کو اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۰۰۱۰ دھوکہ نہیں دیتےاور وہ سمجھتے نہیں.حَلّ لُغَات.یُخَادِعُوْنَ.یُخَادِعُوْنَ خَادَعَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.خَادَعَ خَدَعَ سے رُباعی مزید فیہ ہے اور خَدَعَ کے اصل لغوی معنے فساد کے ہیں چنانچہ تاج العروس میں ہے خَدَعَ الشَّیْءُ خَدْعًا: فَسَدَ کہ جب خَدَعَ الشَّیْءُ کہیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس چیز میں فساد پیدا ہو گیا.اقرب میں اس لفظ کی تشریح میں لکھا ہے ’’خَدَعَہٗ.خَتَلَہٗ وَ اَ رَادَ بِہِ الْمَکْرُوْہَ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُہٗ ‘‘ کہ خَدَعَ

Page 247

کے معنے ہیں اُسے دھوکا دیا اور ایسے ایسے طریقوں سے تکلیف پہنچانی چاہی جن سے وہ بے خبر تھا وَ فِی الْکُلِّیَّاتِ یُقَالُ خَادَعَ اِذَا لَمْ یَبْلُغْ مُرَادَہٗ وَخَدَعَ اِذَا بَلَغَ مُرَادَہٗ.اور کُلِّیَّات (ابی البقاء) میں ہے کہ جب دھوکا دینے والا کامیاب ہو جائے تو خَدَعَ کا لفظ (مجرّد) استعمال کرتے ہیں.اور اپنی کوشش میں ناکام رہے تو خَادَعَ کا لفظ بولتے ہیں.خَادَعَہٗ کے ایک معنے تَرَکَہٗ یعنی چھوڑ دینے کے ہیں.اور خَادَعَ الْعَیْنَ کے معنے شَکَّکَھَا فِیْمَا تَرٰی.آنکھ پوری طرح دیکھ نہ سکی اور کسی چیز کی اصلیت میں شک پڑ گیا.وَخَادَعَہٗ : کَاسَدَہٗ.خَادَعَ کے معنی گھاٹا دینے کے بھی ہیں نیز مفردات میں ہے اَلْخِدَاعُ اِنْزَالُ الْغَیْرِ عَمَّا ھُوَ بِصَدَدِہٖ بِاَمْرٍیُبْدِ یْہِ عَلٰی خِلَافِ مَایُخْفِیْہِ کسی کو اس کے اصل مقصود سے جس کے وہ درپے ہو ایسے طریق سے ہٹا دینا کہ دل میں کچھ اور ہو اور ظاہر میں کچھ اور.خِدَاع کہلاتا ہے.لِسَانُ الْعَرب میں ہے اَلْخَدْعُ اِظْھَارُ خِلَافِ مَاتُخْفِیْہِ جس بات کو پوشیدہ رکھا گیا ہے اس کے خلاف بات کا اظہار کرنا خَدَعَ کہلاتا ہے.وَ جَازَ یُفَاعِلُ لِغَیْرِ اثْنَیْنِ لِاَنَّ الْمِثَالَ یَقَعُ کَثِیْرًا فِی اللُّغَۃِ لِلْوَاحِدِ نَحْوَعَاقَبْتُ اللِّصَّ اور خَادَعَ باب مفاعلہ ہے جس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ دونوں فریق نے بالمقابل ویسا ہی کام کیا لیکن بعض اوقات اس طرح بھی استعمال ہوتا ہے کہ اس سے صرف ایک شخص کے فعل پر دلالت ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں عَاقَبْتُ اللِّصَّ کہ میں نے چور کو سزا دی حالانکہ سزا صرف حاکم چور کو دیتا ہے.چور حاکم کو سزا نہیں دیتا.وَالْعَرَبُ تَقُوْلُ خَادَعْتُ فُـلَانًا اِذَا کُنْتَ تَرُوْمُ خَدْعَہٗ.اور خَادَعَ عرب ان معنوںمیں بھی استعمال کرتے ہیں جبکہ کوئی کسی کو دھوکا دینے کا قصد کرے خواہ دوسرا شخص دھوکے میں آئے نہیں.تاج العروس میں ہے کہ خَدَعَ کے ایک معنے روک لینے یا روک دینے کے بھی ہیں چنانچہ جب کہتے ہیں کَانَ فُـلَانًا کَرِیْمًا ثُمَّ خَدَعَ تو اس کے معنے ہوتے ہیں اَمْسَکَ وَمَنَعَ کہ فلاں شخص بہت عطا کیا کرتا تھا پھر اس نے اپنے مال کو روک لیا اور اپنے نفس کو اس طرح خرچ کرنے سے باز رکھا.پھر ایک اور معنے کرتے ہوئے لکھا ہے سُوْقٌ خَادِعَۃٌ.اَیْ مُخْتَلِفَۃٌ مُتَلَوِّنَۃٌ تَقُوْمُ تَارَۃً وَتَکْسِدُ اُخْرٰی کہ جب کہیں بازار خَادِع ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ کبھی بھائو بڑھ جاتا ہے کبھی گھٹ جاتا ہے.نیز اقرب میں ہے کہ جب کہیں خَادَعَ الْحَمْدَ تو اس کے معنے تَرَکَہٗ کے ہوتے ہیں کہ اس نے حمد کو چھوڑ دیا.پس يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ کے معنے یہ ہوں گے (۱) کہ وہ اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ دھوکا نہیں کھاتا.(۲) جو اُن کے دلوں میں بات ہے اس کے خلاف اظہار کر کے شک میں ڈالنا چاہتے ہیں (۳) وہ خدا کے دین کے معاملہ میں فساد کرتے ہیں (۴) وہ اللہ کو روکتے ہیں یعنی دین کی اشاعت میں روکیں ڈالتے ہیں (۵) اللہ تعالیٰ سے مضطرب والا معاملہ کرتے ہیں.کبھی ٹھیک ہو جاتے ہیں اور کبھی بگڑ جاتے ہیں.

Page 248

یَشْعُرُوْنَ.یَشْعُرُوْنَ شَعَرَسے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور شَعَرَہٗ کے معنے ہیں عَلِمَ بِہٖ اس کو جانا.شَعَرَ لِکَذَا: فَطَنَ لَہٗ.اس کو خوب سمجھ لیا.عَقَلَہٗ.اس کو جان لیا.وَاَحَسَّ بِہٖ.اس کو محسوس کیا (اقرب) تاج العروس میں ہے اَلشِّعْرُ ھُوَا لْعِلْمُ بِدَقَائِقِ الْاُمُوْرِ وَ قِـیْلَ ھُوَ الْاِدْرَاکُ بِالْـحَـوَاسِّ کہ شعر علم کی وہ قسم ہے جس کے ذریعہ سے امور کی باریکیاں معلوم ہو سکیں.اور بعض نے کہا ہے کہ حواس کے ذریعہ سے کسی امر کو معلوم کر لینا شِعر کہلاتا ہے.نیز لکھا ہے کہ لَایَشْعُرُوْنَ کی جگہ لَایَعْقِلُوْنَ استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ اکثر اوقات ایک چیز معقول تو ہوتی ہے لیکن محسوس نہیں ہوتی.شعور اور علم میںیہ فرق ہے کہ شعور ایک ِحسّ باطنی کے متعلق ہے جو بلا سامان ظاہری بھی اپنا کام کرتی ہے لیکن علم بیرونی چیزوں سے حاصل ہوتا ہے.ممکن ہے علم کا اثر قلب پر نہ ہو لیکن شعور کا بالضرور ہوتا ہے.پس وَ مَا یَشْعُرُوْنَ کے معنے ہوں گے.وہ سمجھتے نہیں.تفسیر.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان وہی کار آمد ہوتا ہے جو نیک نیتی اور اخلاص اور صداقت پر مبنی ہو جس ایمان میں اخلاص نہیں وہ کسی کام کا نہیں کیونکہ وہ تو دھوکا ہے اور خدا تعالیٰ جو عالم الغیب ہے وہ دھوکا کب کھا سکتا ہے؟ اس آیت پر بعض اعتراضات کئے جاتے ہیں جن کا ذکر اس جگہ ضروری ہے.وہ اعتراض یہ ہیں (۱) اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا کب دے سکتا ہے ؟(۲) اگر دھوکا دینے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کو مان کر کوئی شخص اسے دھوکا دینے کا قصد ہی کب کر سکتا ہے؟ (۳) اس جگہ یُخَادِعُوْنَ کے الفاظ ہیں اور خَادَعَ باب مفاعلہ سے ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اس فعل میں دونوں فریق شریک ہیں او ران معنوں کے لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہوں گے کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دیتے ہیں اور خدا تعالیٰ ان کو دھوکا دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف دھوکے کی نسبت کرنا اس کی ہتک ہے.ان اعتراضات کا جواب علی الترتیب یہ ہے.(۱) پہلا اعتراض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی شخص دھوکا کب دے سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ (ا ) اس جگہ خَادَعَ کا لفظ ہے خَدَعَکا نہیں اور خَادَعَ کے معنے عربی زبان میں دھوکا دینے کے نہیں بلکہ دھوکا دینے کا قصد کرنے کے ہیں خواہ دوسرا دھوکا کھائے یا نہ کھائے.جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا جاچکا ہے پس یہ اعتراض اس آیت پر نہیں پڑ سکتا کہ خدا تعالیٰ کو کوئی دھوکا کیونکر دے سکتا ہے؟ (ب) اگر دھوکا دینے کے معنے بھی کئے جائیں تب بھی کوئی اعتراض نہیں پڑتا کیونکہ اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں کہ جو دھوکے کے مشابہ ہوتا ہے یعنی اس میں صداقت اور اخلاص نہیںہوتا اور یہ امر مشاہدہ سے ثابت ہے کہ بعض

Page 249

لوگ اپنے ایمان میں مخلص نہیں ہوتے.پس جب مشاہدہ اس امر کی تائید کرتا ہے تو اس پر اعتراض کیسا؟ آخر ایک منافق خواہ بظاہر مومن ہو اور کفار سے ملا جلا رہے.یا بظاہر کافر ہو اور مسلمانوں سے ملا جلا رہے وہ ایسا فعل کیوں کرتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کی غرض یہی ہوتی ہے کہ بندوں کو دھوکا دے کر فائدہ اٹھائے مگر چونکہ ایمان کا معاملہ خدا تعالیٰ سے ہے اس لئے اس کے اس فعل کے معنے بہر صورت یہ ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ نہیں کر رہا اور جس طرح اخلاص کا تعلق اس سے رکھنا چاہیے اس قسم کا تعلق نہیں رکھتا.پس اس کی نیّت خواہ بندوں کو دھوکا دینے کی ہو اگر اس کے عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے یہی معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتا ہے.اور جب کسی انسان کا دل خراب ہو جائے تو اس سے اس قسم کے متضاد افعال کا صدور غیر ممکن نہیں ہوتا.باقی خدا تعالیٰ پر اس سے کوئی اعتراض نہیں آتا کیونکہ جیسا کہ اس فعل کے معنوں سے ثابت ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خدا تعالیٰ بھی دھوکا کھا جاتا ہے بلکہ جیسا کہ اس آیت کے آخری حصہّ میں وَمَایَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ فرمایا ہے وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا نہیں دیتے بلکہ اپنی جانوں کو دھوکا دیتے ہیں یعنی اس قسم کے نامناسب افعال سے سمجھتے تو یہ ہیں کہ ہم دکھوں سے محفوظ ہو گئے ہیں حالانکہ وہ اس طرح خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو سہیڑ لیتے ہیں اور عذابوں کا موَرد بن جاتے ہیں.خادع کا یہ استعمال عرب شعراء کے کلام میں بھی آتا ہے جیسے کہ ایک شاعر کہتا ہے ع وَ خَادَعْتُ الْمَنِیَّۃَ عَنْکَ سِـرًّا یعنی میں نے ُچھپ کر تیری موت کو دھوکا دے دیا.جس کا مطلب صرف یہ ہے کہ میں نے موت کے اثر کو دور کر دیا.اسی طرح اس جگہ خدا تعالیٰ کے احکام اور ذمّہ واریو ںکو ٹلانے کے لئے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور منافقوں کے اس قسم کے فعل کو مجازاً خداع کہا گیا ہے.(۲) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر دھوکے کے قصد کے معنے کئے جائیں تو بھی درست نہیں کیونکہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کو دھوکا دینے کا قصد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے.یہ اعتراض بھی درست نہیں کیونکہ اوّل تو ایک گروہ دنیا کا ایسا ہے بلکہ تمام فلسفی ہی اس گروہ میں شامل ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کے قائل نہیں بلکہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ُکلیات کا علم ہے جزئیات کا علم نہیں.قرآن کریم کے زمانۂ نزول کے وقت بھی ایسے لوگ پائے جاتے تھے.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَ لٰكِنْ ظَنَنْتُمْ اَنَّ اللّٰهَ لَا يَعْلَمُ كَثِيْرًا مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ.وَ ذٰلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِيْ ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَرْدٰىكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ مِّنَ الْخٰسِرِيْنَ(حٰم سجدۃ: ۲۳،۲۴) یعنی تم وہ لوگ ہو کہ تم کو یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اکثر اعمال کو نہیں جانتا (یعنی اُسے کلیات کا علم ہے جزئیات کا

Page 250

علم نہیں) اور یہی تمہارا وہم جو تم نے اپنے رب کے متعلق غلط طو رپر اپنے دلوں میں بٹھا لیا ہے تمہاری ہلاکت کا موجب ہو گیا ہے.یعنی اس کی وجہ سے تمہیں اپنے اعمال کی اصلاح کا خیال نہیں رہا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم زیاں کار ہوگئے ہو.اسی طرح فرماتا ہے.اَلَاۤ اِنَّهُمْ يَثْنُوْنَ صُدُوْرَهُمْ لِيَسْتَخْفُوْا مِنْهُ١ؕ اَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُوْنَ ثِيَابَهُمْ١ۙ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّوْنَ وَ مَا يُعْلِنُوْنَ١ۚ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (ھود :۶) یعنی سنو !وہ یقینا اپنے سینوں کو اس لئے موڑتے رہتے کہ اس سے چھپے رہیں.سنو !جس وقت وہ اپنے کپڑے اوڑھتے ہیں تو اس وقت بھی جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ وہ ظاہر کرتے ہیں اُسے وہ جانتا ہوتا ہے وہ یقینا سینوںکی باتوں کو بھی خوب جانتا ہے.ظاہر ہے کہ اس عقیدہ کے لوگ اگر ایسے افعال کریں کہ جن میں اللہ تعالیٰ سے اخلاص کی رُوح نہ پائی جائے تو یہ کچھ بعید نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی نسبت جزئیات کے علم کے قائل نہیں اور دراصل اس عقیدہ کی بھی شرط نہیں بالعموم جو لوگ کمزور ایمان کے ہوتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا کامل علم نہ رکھنے کی وجہ سے ہی کمزور ہوتے ہیں اور جب صفات الٰہیہ کا علم کامل نہ ہو تو ایسے متضاد اعتقادات اور اعمال کا صدور اُن سے ناممکن نہیں ہوتا چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ قیامت کو جب مشرک خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہوں گے تو اُن میں سے بعض اُس سے یہ کہیں گے کہ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ (الانعام :۲۴) یعنی ہمیں اللہ اپنے رب کی قسم! کہ ہم مشرک نہ تھے.عربی کی مثل ہے کہ اَلْغَرِیْقُ یَتَشَبَّثُ بِالْحَشِیْشِ یعنی جو شخص غرق ہو رہا ہو وہ تنکے کے سہارے کو بھی نہیں چھوڑتا.پس وہ کمزور ایمان والے جو مصائب اور مشکلات کا مقابلہ نہیں کر سکتے قسم قسم کے بہانوں سے اپنے دل کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں.مثلاً یہ کہ اللہ رحم کرنے والا ہے.اللہ بخشنے والا ہے.اس وقت انسانوں کے عذاب سے اپنے آپ کو بچا لو جب خدا تعالیٰ سے معاملہ ہو گا تو ہم اس کی بخشش کے طالب ہوں گے.اسی قسم کے غلط خیالات ہیں جن کی وجہ سے کسی شاعر نے کہہ دیا کہ ع مستحقِّ شفاعت گناہ گار اند خدا تعالیٰ کی بخشش آخر گنہگاروں کے ذریعہ سے ہی ظاہر ہو گی پس اگر ہم گناہ کرتے ہیں تو کیا ہوا؟ ہم ہی لوگ تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کو ظاہر کرنے والے ہوں گے.اس قسم کے خیالات اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کے قصد کو ظاہر نہیں کرتے تو اور کیا ظاہر کرتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا معاملہ اس کی صفات کے کامل علم سے ہوتا ہے جو لوگ اس علم سے محروم ہوتے ہیں وہ اس قسم کے بیسیوں بہانے بنا کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں حالانکہ یہ تسلی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ کہتے ہیں کہ کبوتر بلّی کے حملہ کے وقت آنکھیں بند کر کے سمجھ لیتا ہے کہ وہ بلّی

Page 251

Page 252

سنو ہم سے کوئی شخص جہالت کا معاملہ نہ کرے ورنہ ہم جاہلوں سے زیادہ جہالت کا معاملہ کریں گے.مطلب یہ کہ ہم طاقتور ہیں جو ہم پر حملہ کرے گا یہ اُس کی حماقت ہو گی ہم اُس کی حماقت کی اُسے سزا دیں گے کیونکہ کمزور کا طاقتو رپر حملہ جہالت کہلا سکتا ہے طاقتور کا جواب حماقت نہیں کہلا سکتا.اسی طرح ابوالفول الطحوی کہتا ہے ؎ فَنَکَّبَ عَنْہُمْ دَرْءَ الْاَعَادِیْ وَ دَاوَوْا بِا لْجُنُوْنِ مِنَ الْجُنُوْنِ یعنی انہوں نے اپنی قوم سے دشمن کے حملہ کو دُور کیا اور جنون کا علاج جنون سے کیا.اس جگہ بھی حملہ آور کے جنون سے مراد اس کا کمزور ہو کر طاقتور پر حملہ کرنا ہے پس طاقتور کا جواب جنون نہیں کہلا سکتا اس کے معنے محض جزاء کے ہیں.غرض اگر باب مفاعلہ کے اصلی معنوں کو قائم رکھا جائے تب بھی اس آیت پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نسبت خَدَعَ کے لفظ کے معنے بسبب اس کے کہ یہ لفظ ایک جُرم کے جواب میں استعمال ہوا ہے صرف یہ ہوں گے کہ وہ اُن کے دھوکے کی سزا دے گا.سورۂ نساء میں جو یہ الفاظ ہیں کہ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْ(النساء :۱۴۳) اس کے بھی یہی معنے ہیں کہ منافق خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں مگر وہ ان کے اس بدعمل کی اُن کو سزا دے گا.يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ َکے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اللہ کو چھوڑتے ہیں.چنانچہ اقرب میں لکھا ہے خَادَعَ الْحَمْدَ.تَرَکَہُ یعنی جب خَادَعَ الْحَمْدَ کا محاورہ بولیں تو اس کے معنے ہوں گے اس نے حمد کو چھوڑ دیا.یُخَادِعُوْنَ اللّٰہَ کا مطلب اللہ تعالیٰ کو دھوکا دینے کا قرآن مجید کی تعلیم کے خلاف ہے غرض اس آیت سے ہر گز یہ مطلب نہیں نکلتا کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی دھوکا دے سکتا ہے یہ تعلیم تو قرآن کریم کی صریح آیات کے خلاف ہے اور محض عناد سے ایسا خیال اس آیت کے متعلق کر لیا گیا ہے.ورنہ قرآن کریم کے رو سے تو اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ سے پوشیدہ بات کو جانتا ہے.اور اس تعلیم کی موجودگی میں یہ کہنا کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیا جا سکتا ہے ایک ظلمِ عظیم ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ١ۖۚ وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ (ق :۱۷) کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دلی خیالات تک سے واقف ہیں اور ہم اس کی شہ رگ سے بھی اس سے زیادہ قریب ہیں.اور فرماتا ہے.اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ (الانفال :۴۴) کہ اللہ تعالیٰ سینوں تک کی باتوں سے واقف ہے.اور فرماتا ہے.عٰلِمِ الْغَيْبِ١ۚ

Page 253

لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِي الْاَرْضِ وَ لَاۤ اَصْغَرُ مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْبَرُ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ(سبا :۴) کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے اور ذرّہ بھر آسمانوں اور زمین کی چیزوں میں سے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور ذرّہ سے چھوٹی اور ذرّہ سے بڑی جتنی چیزیں بھی ہیں سب اس کو معلوم ہیں اور فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِي الْاَرْضِ١ؕ مَا يَكُوْنُ مِنْ نَّجْوٰى ثَلٰثَةٍ اِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَ لَا خَمْسَةٍ اِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَ لَاۤ اَدْنٰى مِنْ ذٰلِكَ وَ لَاۤ اَكْثَرَ اِلَّا هُوَ مَعَهُمْ اَيْنَ مَا كَانُوْا١ۚ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا عَمِلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (المجادلۃ :۸) کہ کیا تم کو معلوم نہیں کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے خدا کو سب معلوم ہے.کسی تین شخصوں کا مشورہ نہیں ہوتا مگر وہ ان میں چوتھا ہوتا ہے اور نہ کہیں پانچ کا مگر وہ ان میں چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم یا زیادہ مگر وہ جہاں ہوں خدا ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے.پھر جو جو کام یہ کرتے ہیں قیامت کے دن ایک ایک کر کے ان کو بتائے گا بے شک خدا ہر چیز سے واقف ہے.پھر فرماتا ہے.يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ (المؤمن :۲۰) وہ آنکھوں کی خیانت کو بھی جانتا ہے اور جو باتیں سینو ںمیں پوشیدہ ہیں ان کو بھی.قرآن کی ایسی تعلیم کی موجودگی میں کسی کا یہ کہنا کہ مسلمانو ںکا خدا دھوکا میں آ جاتا ہے یا اس پر کسی شخص کا دائو فریب چل جاتا ہے ایک صریح ظلم ہے.خلاصہ یہ کہ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ کے معنے اس جگہ یہ ہیں کہ (۱) وہ خدا تعالیٰ سے ایسا معاملہ کرتے ہیں جو دھوکے کے مشابہ ہے (۲) وہ خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ دھوکا میں نہیں آ سکتا (۳) وہ خدا تعالیٰ سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ اُن کے غیر مخلصانہ افعال کی سزا دے گا.(۴) وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ رہے ہیں.(۵) حَلِّ لُغَات میں ایک اور محاورہ بھی لکھا گیا ہے.کہ عرب کہتے ہیں سُوْقٌ خَادِعَۃٌ بازار دھوکا دے رہا ہے اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ منڈی کے بھائو ایک رنگ میں نہیں چل رہے بلکہ کبھی یکدم بڑھ جاتے ہیں کبھی یکدم گھٹ جاتے ہیں.ان معنوں کے رُو سے اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ منافقوں کا معاملہ خدا تعالیٰ سے اخلاص کا نہیں ہے کبھی وہ مومنوں کے رُعب میں آ کر اچھے کام کرنے لگ جاتے ہیں اور کبھی کفار کے اثر کے نیچے دین کی مخالفت شروع کر دیتے ہیں.(۶) ایک معنے خِدَاعٌ کے فساد کے بھی حَلِّ لُغَات میں لکھے جا چکے ہیں.ان معنوں کے رو سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فساد کا معاملہ کرتے ہیں یعنی اُن کے کامو ںمیں اخلاص نہیں ہے.(۷) ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دھوکا کرنے سے مراد یہ ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے رسول

Page 254

اور مومنوں سے دھوکے کا معاملہ کرتے ہیں.چنانچہ اس قسم کا محاورہ قرآن کریم میں کئی جگہ استعمال ہوا ہے.جیسے کہ فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ(الفتح:۱۱) یعنی جو لوگ تیری بیعت کرتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی بیعت کرتے ہیں.بیعت کے وقت خدا تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.اس آیت میں رسول کی بیعت کو خدا تعالیٰ کی بیعت قرار دیا ہے اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتا ہے فَاِنَّھُمْ لَا يُكَذِّبُوْنَكَ وَ لٰكِنَّ الظّٰلِمِيْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ يَجْحَدُوْنَ (الانعام :۳۴) کیونکہ وہ تیری تکذیب نہیں کرتے بلکہ ظالم اللہ تعالیٰ کے نشانات کی تکذیب کرتے ہیں.اِن دونوں آیات میں رسول کے ساتھ ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اسی طرح آیت زیر بحث میں رسول سے ہونے والے ایک فعل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.ایک حدیث قدسی میں بھی اس طریقِ کلام کو استعمال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُوْلُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَا ابْنَ آدَمَ مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْ نِیْ قَالَ یَارَبِّ کَیْفَ اَعُوْدُکَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِیْ فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہُ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْعُدْتَہٗ لَوَجَدْتَنِیْ عِنْدَہٗ یَا ابْنَ اٰدَمَ اِسْتَطْعَمْتُکَ فَلَمْ تُطْعِمْنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اُطْعِمُکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّہٗ اِسْتَطْعَمَکَ عَبْدِیْ فُـلَانٌ فَلَمْ تُطْعِمْہٗ اَمَا عَلِمْتَ اَنَّکَ لَوْ اَطْعَمْتَہٗ لَوَجَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ یَا ابْنَ اٰدَمَ اِسْتَسْقَیْتُکَ فَلَمْ تَسْقِنِیْ قَالَ یَا رَبِّ کَیْفَ اَسْقِیْکَ وَ اَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ قَالَ اِسْتَسْقَاکَ عَبْدِیْ فُـلَانٌ فَلَمْ تَسْقِہٖ اَمَا اِنَّکَ لَوْ اَسْقَیْتَہٗ وَجَدْتَ ذَالِکَ عِنْدِیْ(مسلم کتاب البرّو الصّلۃ والاٰ داب باب فضل عیادۃ المریض) یعنی حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا اے آدم کے بیٹے! مَیں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی.وہ کہے گا اے میرے ربّ !مَیں تیری عیادت کس طرح کر سکتا ہوں حالانکہ تو ربّ العالمین ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے مگر تو نے اس کی عیادت نہیں کی.کیا تجھے یہ معلوم نہیں کہ اگر تو میرے اس بندے کی عیادت کو جاتاتو ُتو مجھے اس کے پاس پاتا.پھر خدا فرمائے گا اے ابن آدم !مَیںنے تجھ سے کھانا مانگا مگر تو نے مجھے کھانا نہیں دیا.وہ کہے گا اے میرے ربّ! میں تجھے کس طرح کھانا کھلا سکتا ہوں حالانکہ تو ربّ العالمین ہے.خدا فرمائے گا کیا تجھے یہ علم نہیں ہوا تھا کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے اُسے کھانا نہیں دیا.کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اُسے کھانا کھلا دیتا تو ُتو اُسے میرے پاس پاتا.اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہیں پلایا.وہ کہے گا اے میرے ربّ! مَیں تجھے

Page 255

پانی کس طرح پلا سکتا ہوں حالانکہ تو ربّ العالمین ہے.خدا فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تھا مگر تو نے اُسے پانی نہیں پلایا.اگر تو اُسے پانی پلا دیتا تو ُتو اُسے میرے پاس پاتا یعنی تیرا یہ پانی مجھے پہنچتا.اس حدیث سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے معاملہ کو اپنے ساتھ معاملہ قرار دیتا ہے.پس جس طرح بندوں کو کھانا نہ کھلانا خدا تعالیٰ کو کھانا نہ کھلانا اور بندوں کی عیادت نہ کرنے کے معنے خدا تعالیٰ کی عیادت نہ کرنا اور بندوںکو پانی نہ پلانا خدا تعالیٰ کو پانی نہ پلانا ہو سکتے ہیں اسی طرح اس کے بندوں کو دھوکا دینا خدا تعالیٰ کو دھوکا دینا کہلا سکتا ہے.اس طریق ِ کلام کو انجیل میں بھی استعمال کیا گیا ہے چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ مسیح کی آمدِ ثانی کے موقع پر سب قومیں اس کے سامنے پیش کی جائیں گی اور وہ مومنوں سے کہے گا کہ خدا تعالیٰ کی میراث حاصل کرو کیونکہ ’’میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.مَیں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.مَیںپردیسی تھا تم نے مجھے اپنے گھر میں اتارا.ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.قید میں تھا تم میرے پاس آئے.اس وقت راستباز اُسے جواب میں کہیں گے اے خداوند! کب ہم نے تجھے بھوکا دیکھا اور کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھا اور پانی پلایا.کب ہم نے تجھے پردیسی دیکھا اور اپنے گھر میں اتارا.یا ننگا دیکھا اور کپڑا پہنایا.ہم کب تجھے بیمار یا قیدی دیکھ کر تجھ پاس آئے.تب بادشاہ اُن سے جواب میں کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہو ںکہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے ایک کے ساتھ یہ کیا تو میرے ساتھ کیا.‘‘ (متی باب ۲۵ آیت ۳۵ تا ۴۰) گو انجیل کے ناقلوں نے خدا تعالیٰ کی جگہ مسیح کو رکھ کر اس لطیف پُر استعارہ کلام کو بھونڈا بنا دیا ہے مگر اس سے یہ تو ثابت ہو جاتا ہے کہ کسی کے مقر ّب یا پیارے سے سلوک کرنا خود اُسی سے سلوک کہلا سکتا ہے اور اسی لطیف استعارہ کو يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ میں استعمال کیا گیا ہے.وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ کا مطلب وَمَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّا اَنْفُسَہُمْ میں اس حقیقت کو ظاہر کیا گیا ہے کہ منافقوںکے غیر مخلصانہ افعال خود اُن کے لئے وبال بن جائیں گے.کیونکہ جو شخص دھوکے سے کام لیتا ہے آخر اس کا وبال اسی پر پڑتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ذلیل ہوتا ہے پس جبکہ وہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں دوسروں کو دھوکا دے رہا ہوں وہ در حقیقت اپنے نفس کو دھوکا دے رہا ہوتا ہے اور خود اپنی تباہی کے سامان کر رہا ہوتا ہے.وَمَا یَشْعُرُوْنَکی تشریح وَمَا یَشْعُرُوْنَ اور وہ سمجھتے نہیں.شعور کے معنے جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے باریک امورکے جاننے کے ہوتے ہیں.قرآن کریم میں اس کے مشابہ الفاظ علم، عرفان، عقل اور فکر کے استعمال ہوئے ہیں.بظاہر یہ الفاظ مشابہ ہیں لیکن ان سب الفاظ کے معانی ایک دوسرے سے مختلف ہیں بلکہ جیسا کہ عربی

Page 256

زبان کے ماہروں نے لکھا ہے دراصل عربی زبان میں کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جو دوسرے لفظ کا ُکلی ّطور پر ہم معنی ہو بلکہ ہر لفظ مختلف اور زائد معنے دیتا ہے.چنانچہ علم اس قسم کے جاننے کیلئے آتا ہے.جو باہر سے پیدا ہو.یعنی سن کر یا دیکھ کر یا ُچھو کر یا َچکھکر پیدا ہو مثلاً کسی شخص کو ایک میٹھی چیز کا َچکھ کر جس ذائقہ کا پتہ چلتا ہے وہ علم کہلا سکتا ہے شعور یا عرفان نہیں کہلا سکتا.اسی طرح عرفان اس علم کو کہتے ہیں جو دوبارہ حاصل ہو کیونکہ عرفان پہچاننے کو کہتے ہیں اور پہچانتا انسان اُس شے کو ہے جس کا علم اُسے پہلے حاصل ہو چکا ہو.ایک شخص کو پہچاننے کے یہ معنے ہیں کہ ہم نے اُسے پہلے دیکھا ہوا تھا دوبارہ دیکھ کر ہمارا وہ سابق علم تازہ ہو گیا اور ہم نے اس علم کے متعلق غلطی نہیں کی.روحانی علوم کو اسی لئے عرفان کے نام سے موسوم کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے ذریعہ سے یا فطرتِ صحیحہ کے ذریعہ سے جو روحانی امورہمیں معلوم تھے ہم نے ان کا جب مشاہدہ کیا توپہچان لیا کہ یہ وہی چیز ہے جس کا علم کلامِ الٰہی یا فطرت صحیحہ کے ذریعہ سے ہم کو حاصل ہو چکا تھا.اسی وجہ سے عارف اُسے کہتے ہیں کہ اس نے خدا تعالیٰ کی صفات کا جن کا علم اُسے کتاب الٰہیہ کے ذریعہ سے حاصل ہو چکا تھا مشاہدہ کر لیا اور سمجھ لیا کہ یہ وہی صفات ہیں جن کو اس نے کلام الٰہی میں پڑھا تھا.عقل اس قوت کو کہتے ہیں کہ جو انسان کو علم، فکر اور شعور کے مطابق کام کرنے کی توفیق بخشتی ہے اور عاقل وہ ہے جو علم صحیح، فکرِ صحیح اور شعور صحیح کے مطابق کام کرے اور اپنے نفس کو ان کے خلاف چلنے سے رو کے.فکر اس قوت کا نام ہے جو بیرونی علم سے نتائج اخذ کرنے میں مدد دیتی ہے.اور مفکرّ اُسے کہتے ہیں کہ جو اس بسیط علم کو جو اُسے حاصل ہو چکا جوڑ کر اور ملا کر ایک نیا نتیجہ پیدا کرے.جو محض بسیط علم سے حاصل نہیں ہو سکتا تھا.اور شعور اس حسّ کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتی ہے اور فطرت صحیحہ کو معلوم کرنے کا نام ہے.پس شعور کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جب انسان اپنی اندرونی طاقتوں کو محسوس کرنے لگتا ہے اور ان جبلیّ طاقتوں کو محسوس کر کے اپنے لئے نیک راہ تجویز کرنے لگتا ہے کہ جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی تھیں.چنانچہ بالوں کو اَشْعَارٌ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندر سے باہر کی طرف اگتے ہیں.اسی طرح شِعَارٌ اس لباس کو کہتے ہیں کہ جو دوسرے کپڑوں کے نیچے ہو اور جسم سے لگا ہوا ہو.شِعَارٌ درخت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ زمین سے باہر نکلتا ہے.اور شِعَارٌ اس اشارہ کو بھی کہتے ہیں کہ جو فوجیں باہم مقرر کر لیتی ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے وہ اپنے سپاہیوں کو اپنا مطلب سمجھا سکیں.اور اسے یہ نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ وہ مخفی ہوتا ہے اور باہمی راز کو ظاہر کرتا ہے اسے انگریزی میںPass Word) یا (watch word کہتے ہیں شِعْرکو بھی شعر اس لئے کہتے ہیں کہ وہ اندرونی جذبات کو بیان کرتا ہے.اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کو ظاہر کرنے والے امو رکوبھی شَعَائِر کہتے ہیں.کیونکہ ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کے منشاء کا پتہ چلتا ہے اور اس کی صفات کا

Page 257

ظہور ان کے ذریعے سے ہوتا ہے.اسی طرح مَشَاعِر باطنی حواس کو کہتے ہیں.پس شعور وہ مخفی حس ہے جو انسان کو اس کے اندرونی قویٰ کا علم دیتی ہے اور اس کا تعلق بیرونی علم سے نہیں.پس وَمَا یَشْعُرُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ دھوکا دینا ایک ایسا فعل ہے جس کے خلاف فطرت صحیحہ گواہی دیتی ہے مگر یہ لوگ ایسے ہیں کہ انہوں نے مذہب کو توکیا سمجھنا ہے خود اپنے نفس کو بھی نہیں سمجھتے اور نہیں جانتے کہ منافقت ان افعال قبیحہ میں سے ہے کہ جن کو فطرت صحیحہ بھی ردّ کرتی ہے اور کسی دوسرے شخص کے بتانے کی بھی ضرورت نہیں.جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اس آیت میں ان مسلمان کہلانے والے لوگوں کا ذکر ہے جو دل سے مسلمان نہ تھے اور صرف ظاہری طور پر مسلمانوں سے مل گئے تھے.یہ لوگ مدینہ کے رہنے والے تھے جب مدینہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کیا تو یہ لوگ بھی دیکھا دیکھی اسلام پر پورا غور کئے بغیر مسلمان ہو گئے مگر جب اسلام میں داخل ہونے کی شرائط پر غور کیا، اُس میں داخل ہو کر جو قربانیاں کرنی پڑتی ہیں انہیں دیکھا تو اسلام میں ترقی نہ کر سکے بلکہ آہستہ آہستہ اس سے دور ہو گئے لیکن اپنی قوم کی وجہ سے ظاہراً اسلام کو ترک بھی نہ کر سکے.اس گر وہ کا ذکر قرآن کریم میں ان الفاظ میں آیا ہے.لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىِٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىِٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِيْنَ.اَلْمُنٰفِقُوْنَ۠ وَ الْمُنٰفِقٰتُ بَعْضُهُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ١ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْكَرِ وَ يَنْهَوْنَ عَنِ الْمَعْرُوْفِ وَ يَقْبِضُوْنَ اَيْدِيَهُمْ١ؕ نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِيَهُمْ١ؕ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (التوبة :۶۶،۶۷) یعنی جب منافق لوگ شرارتیں کرتے ہیں اور انہیں اس پر گرفت ہوتی ہے تو وہ عذر کرنے اور بہانے بنانے لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عذر نہ کرو کیونکہ عذر بے فائدہ ہیں.حقیقت یہ ہے کہ تم پہلے تو رسماً ایمان لے آئے تھے بعد میں پھر کفر میں چلے گئے اگر ہم تم میں سے بعض کو اپنی خاص مصالح کے ماتحت معاف کرتے رہیں گے تو بعض کو حسب موقع سزا بھی دیتے رہیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں.منافق مرد بھی اور منافق عورتیں بھی آپس میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا شغل یہ ہے کہ جن امور سے اسلام روکتا ہے وہ ان کے کرنے کی ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہیں اور جن باتوں کی اسلام تحریک کرتا ہے وہ ان کے نہ کرنے کی ایک دوسرے کو ہدایت کرتے رہتے ہیں اور اسلام کی مدد سے ہاتھ کھینچے رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہوںنے چھوڑ دیا ہے پس خدا تعالیٰ نے ان کو چھوڑ دیا ہے یقینا منافق ہی اطاعت سے باہر نکلنے والے ہیں (ورنہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو آپ نہیں چھوڑتا) ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ لوگ پہلے تو اسلام میں داخل ہو گئے تھے پھر بعد میں اُن کے دلوں سے اسلام نکل گیا.اس گروہ میں کچھ مرد بھی شامل تھے اور کچھ عورتیں بھی.یہ لوگ اسلام پر اعتراض کرتے رہتے تھے لیکن کھلی

Page 258

کھلی مخالفت کی جرأت بھی نہ رکھتے تھے.پوشیدہ مخالفت کرتے تھے.جب اسلام کی مدد کا وقت آتا پیچھے ہٹ جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اُن کے دل میں نہ تھی دنیا کی محبت میں مبتلا تھے اس لئے خدا تعالیٰ کی نصرت بھی جاتی رہی تھی.آنحضرت ؐ پر اہل ِ مدینہ کا ایمان لانا ا صل بات یہ ہے کہ جب مدینہ والوں کو اسلام کی خبر ہوئی اور ایک حج کے موقع پر کچھ اہل مدینہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے اور آپ کی صداقت کے قائل ہو گئے تو انہوں نے واپس جا کر اپنی قوم سے ذکر کیا کہ جس رسول کی آمد کا مدینہ میں رہنے والے یہودی ذکر کیا کرتے تھے وہ مکہ میں پیدا ہو گیا ہے اس پر اُن کے دلوں میں رسول کریمؐ کی طرف رغبت پیدا ہو گئی اور انہوں نے دوسرے حج پر ایک وفد بنا کر آپ کی طرف بھجوایا.اس وفد نے جب آپ سے تبادلہ خیالات کیا تو آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی بیعت کر لی.چونکہ اس وقت مکہ میں آپؐ کی شدید مخالفت تھی یہ ملاقات ایک وادی میں مکہ والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوئی اور وہیں بیعت بھی ہوئی.اس لئے اسے بیعت عقبہ کہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو مدینہ کے مومنوں کی تنظیم کے لئے افسر مقرر کیا اور اسلام کی اشاعت کی تاکید کی اور ان کی امداد کے لئے اپنے ایک نوجوان صحابی مصعب ابن ُعمیر کو بھجوایاتاکہ وہ وہاں کے مسلمانوں کو دین سکھائیں (سیرت ابن ہشام،بیعة العقبۃ الاولٰی و مَصعب بن عُمیر) یہ لوگ جاتے ہوئے آنحضرت صلعم کو یہ دعوت بھی دے گئے کہ اگر مکہ چھوڑنا پڑے تو آپ مدینہ تشریف لے چلیں جب یہ لوگ واپس گئے تو تھوڑے ہی عرصہ میں مدینے کے لوگوں میں اسلام پھیل گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ اور صحابہ کو مدینہ بھجوا دیا جن میں حضرت عمرؓبھی تھے.(سیرت ابن ہشام،ھجو عمر و قصّۃ عباس معہ) اس کے بعدہجرت کا حکم ملنے پر آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور آپؐ کے جاتے ہی بہت تھوڑے عرصہ میں وہ سب اہل مدینہ جو مشرک تھے مسلمان ہو گئے.مدینہ میں اسلام کے پھیلنے سے پہلے مدینہ کی حالت اسلام کے مدینہ میں پھیلنے سے پہلے مدینہ کی یہ حالت تھی کہ اس میں دو عرب قبیلے بستے تھے جن کا نام اَوس اور َخزرج تھا اور تین یہودی قبیلے بستے تھے جن کا نام بنوقریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا.یہودی گو مالدار تھے اور علوم دنیوی سے آراستہ لیکن تھے اقلیّت میں.اور ارد گرد کی عرب آبادی کو ملا کر اور بھی کمزور ہو جاتے تھے.اس وجہ سے انہوں نے مدینہ میں دنیوی سیاست کا جال پھیلا رکھا تھا اور ’’اختلاف پیدا کر اور حکومت کر‘‘ کی سیاسی چال پر عمل پیرا تھے.آئے دن اَوس اور َخزرج میں لڑائیاں کرواتے رہتے تھے او رمدینہ کے امن کو خراب کرتے رہتے تھے.اسلام کے مدینہ میں آنے کے قریب زمانہ میں

Page 259

مدینہ کے لوگوںکو اس حالت کا احساس پیدا ہوا اور انہو ںنے اپنی حالت پر غور کرنا شروع کیا.آخر بعض لوگوں نے یہ تجویز کی کہ اس فتنہ کے سدِّباب کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مدینہ میں ایک منظم حکومت قائم کی جائے اور اپنے میں سے کسی شخص کو بادشاہ تجویز کر لیا جائے.یہ خیال زور پکڑ گیا اور مدینہ کے مشرک لوگ ایک بادشاہ کے انتخاب پر متفق ہو گئے آخر ایک شخص عبداللہ ابن ابی ابن سلول پر جو َخزرَج قبیلہ کا ایک رئیس تھا سب کا اتفاق ہوا.عام رواج کے مطابق اس کے لئے ایک تاج بنوانے کا بھی فیصلہ ہوا.مگر ابھی تاج بنوانے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ان تک اسلام کی آواز پہنچ گئی اور انہوں نے محسوس کیا کہ ان کی مشکلات کا علاج اسلام ہے نہ کہ بادشاہت اور وہ جیساکہ اوپر لکھا جا چکا ہے آخر کار مسلمان ہو گئے.مدینہ کے بعض لوگوں کے منافقت اختیار کرنے کی وجہ قوم کا شدید اخلاص اسلام کی طرف دیکھ کر عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے اور اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ اسلام کی حکومت کے قیام سے ان کی حکومت بالکل جاتی رہے گی.لیکن جب اسلامی نظام قائم ہوا تو ان لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ اب کسی خاص دنیوی وقار کی تمنا ّایک خواب پریشان ہو چکی ہے.چنانچہ اس احساس کے بعد جو خفیف سا لگائو بھی اسلام سے تھا جاتا رہااور اسلام کی مخالفت دل میں پیدا ہو گئی.مگر اِدھر قوم کی بڑی اکثریت اسلام کی شیدا ہو چکی تھی اس وجہ سے ظاہر میں یہ لوگ اسلام سے باہر بھی نہ نکل سکتے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ظاہر میں تو یہ لوگ مسلمان بنے رہے مگر اندر ہی اندر ریشہ دوانیاں شروع کیں.ابتدا میں تو سابق عادت کے مطابق یہود سے مخفی دوستی گانٹھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی تجویزوں میں مشغول ہوئے اور کفار مکہ سے تعلق پیدا نہ کیا کیونکہ قومی تعصبات کی وجہ سے وہ ان سے تعلق پیدا کرنے کو پسند نہ کرتے تھے حتٰی کہ اُحد کی جنگ کے موقع پر منافقین کفارِ مکہ کا مقابلہ کرنے کےلئے مسلمانوں کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گئے تھے لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے بعض احکام سے ناراض ہو کر راستہ میں سے واپس لوٹ آئے (سیرت ابن ہشام.غزوۃحمد.انخذال المنافقین ) اس کے بعد یہود کی انگیخت کی وجہ سے اور مسلمانو ںکی بڑھتی ہوئی طاقت سے متاثر ہو کر انہو ںنے اپنے پرانے قومی تعصب کو بھی بھلا دیا اور کفار مکہ سے بھی ساز باز شروع کر دی مگر پھر بھی ظاہری تعلقات کو قائم رکھنے کے لئے ان کے سردار مختلف جنگوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتے رہتے تھے گو ہمیشہ مسلمانوںکوباہم لڑوانے کے منصوبے کرتے رہتے تھے.منافقین کے منصوبے اور ان کا انجام قرآن کریم کے متعدد مقامات پر ان منافقوں کا ذکر آتا ہے.ان کی آخری شرارت وہ تھی جو انہوں نے فتح مکہ کے بعد کفار مکہ کی طاقت سے مایوس ہو کر قیصر کی حکومت سے ساز باز

Page 260

کر کے کرنی چاہی اسی کے نتیجہ میں غزوۂ تبوک کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جانا پڑا.آخر اس میں بھی ان کو مایوسی ہوئی اور شاید اسی صدمہ سے عبداللہ بن ابی بن سلول تبوک کے واقعہ کے دو ماہ بعد مر گیا اور اس پارٹی کا شیرازہ بکھر گیا اور کچھ لوگ تو سچے دل سے مسلمانوں میں شامل ہو گئے اور باقی گمنامی میں ہلاک ہو گئے.فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ١ۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا١ۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ ان کے دلوں میں ایک بیماری تھی پھر اللہ نے ان کی بیماری کو (اور بھی) بڑھا دیا.اور انہیں ان کے جھوٹ بولنے کے اَلِيْمٌۢ١ۙ۬ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ۰۰۱۱ سبب سے (ایک) دردناک عذاب پہنچ رہا ہے.حَلّ لُغَات.قُلُوْ بُھُمْ.قُلُوْبٌ ، قَلْبٌکی جمع ہے اور اس کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ ہذاآیت نمبر ۸.مَرَضٌ.اَلْمَرَضُ کُلُّ مَاخَرَجَ بِا لْاِنْسَانِ عَنْ حَدِّ الصِّحَۃِ مِنْ عِلَّۃٍ وَّنِفَاقٍ وَّشَکٍّ وَّظُلْمَۃٍ وَّنُقْصَانٍ وَّ تَقْصِیْرٍ فِیْ اَمرٍ.یعنی ہر وہ امر جو انسان کو حدِّ صحت سے نکال دے خواہ وہ بیماری ہو یا نفاق یا شک یا فساد یا ظلمت یا کسی چیز میں کمی اور کوتاہی ہو.وہ مرض کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں مرض کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ہر وہ چیز جو انسان کو صحت کی حد سے باہر نکال دے.اور اس کی دو اقسام ہیں.اوّل جسمانی مرض.دوسرے جملہ برُی عادات جیسے جہالت.بزُدلی.بخل.نفاق وغیرہ اور نفاق اور کفر اور ایسی ہی اور برُی باتوں کو مرض کے ساتھ اس واسطے تشبیہ دی جاتی ہے (۱) کہ جس طرح ظاہری مرض بدن کو پوری طرح سے کام کرنے سے روک دیتا ہے اسی طرح کفر اور نفاق اور دیگر رذائل، فضائل کو پانے سے روک دیتے ہیں (۲) یا اس لئے کہ جو ایسی باتوں کا شکار ہو اُسے اُخروی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی (۳) یا جس طرح مریض آدمی کا بدن مضر اشیاء کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح ایسی باتوں میں پھنسے ہوئے انسان کا َمیلان اعتقادات ردیہّ کی طرف ہوتا ہے اور یہ سب اشیاء مرض کی صورت میں شمار کی جاتی ہیں.تو گویا اس شخص کو جو ان باتوں میں گرفتار ہو مریض قرار دیا گیا ہے.(مفردات) عَذَابٌ.عَذَابٌ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ ہذاآیت نمبر ۸.اَلِیْمٌ.اَلِیْمٌ کے معنے ہیں اَلْمُوْجِعُ.دکھ دینے والا (اقرب) عَذَابٌ اَلِیْمٌ اَیْ مُؤْلِمٌ.یعنی تکلیف دِہ

Page 261

عذاب.(مفردات) یَکْذِبُوْنَ.یَکْذِبُوْنَ کَذَبَ سے مضارع جمع غائب کا صیغہ ہے اور کَذَبَ کے معنے ہیں اَخْبَرَ عَنِ الشَّیْءِ بِخَلَافِ مَا ھُوَمَعَ الْعِلْمِ بِہٖ ضِدُّ صَدَقَ.کسی چیز کے متعلق اپنے علم کے خلاف خبر دینا کذب کہلاتا ہے اور یہ لفظ صدق کے مقابل پر بولا جاتا ہے.وَسَوَائٌ فِیْہِ الْعَمَدُ وَالْـخَطَاءُ خواہ جان بوجھ کر جھوٹ بولا گیا ہو یا نادانستہ غلط بات بیان کر دی ہو.دونوں کے لئے کذب کا لفظ بولیں گے.(اقرب) تفسیر.اس آیت میں بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ کا ترجمہ اُن کے جھوٹ بولنے کے سبب سے کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مَا مصدریہ ہے اور اپنے بعد کے فعل کے معنٰی کو مصدری معنٰی میں تبدیل کر دیتا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کا فطرتِ صحیحہ کے مطابق کام نہ کرنا بتاتا ہے کہ ان کے دل مریض ہیں کیونکہ اگر دل میں مرض نہ ہوتا تو کم سے کم یہ ان باتو ںکو تو محسوس کرتے جو فطرتِ صحیحہ سے پیدا ہوتی ہیں جس طرح صفراء کی زیادتی سے زبان کا مزہ خراب ہو جاتا ہے اور میٹھا بھی کڑوا معلوم دیتا ہے اسی طرح جن کے دل مریض ہوں وہ اپنی فطرت کی آواز کو صحیح طور پر نہیں سن سکتے.اس آیت میں بیماری سے مراد نفاق کی بیماری ہے پہلے رکوع کے شروع میں روحانی طور پر تندرست لوگوں کا ذکر تھا پھر کفر کے بیمارو ںکا ذکر ہوا اب اس آیت میں نفاق کی بیماری کا ذکر کیا گیا ہے.منافق کی علامات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کی بیماری کی مندرجہ ذیل علامات بتائی ہیں اِذَا حَدَّ ثَ کَذَبَ وَ اِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَ اِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَ اِذَا خَاصَمَ فَـجَــرَ (بخاری کتاب المظالم باب اذا خاصم فجر و کتاب الشہادات باب من امر بانجاز الوعد) یعنی جب منافق بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے او رجب وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا اور جب اس کے پاس کوئی امانت رکھائیں تو وہ خیانت کرتا ہے اور جب معاہدہ کرے تو اُسے توڑ دیتا ہے اور جب جھگڑا ہو تو گالیوں پر اُتر آتا ہے.یہ علامات منافقت کا لازمہ ہیں کیونکہ منافق اپنے نفاق کو چھپانا چاہتا ہے اس کا ذریعہ وہ یہی سمجھتا ہے کہ اگر اس پر کوئی الزام لگائے اور اس کے عیب کو ظاہر کرے تو وہ جھوٹ بولے اور اس سے لڑ پڑے اور گالیوں پر اُتر آئے تاکہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف پھر جائے.اسی طرح اُسے جھوٹ بولنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کے بغیر وہ اپنے اند رُونہ کو چھپا نہیں سکتا.وعدہ خلافی اور عہد کو توڑنا بھی اس کے خواص میں ہونا لازمی ہے کیونکہ منافق وہی ہوتا ہے جو ایک قوم سے بظاہر تعلق رکھ کر دراصل اس سے بگاڑ رکھے.امانت میں خیانت بھی اس کا ضروری خاصہ ہوتا ہے

Page 262

کیونکہ اپنے قومی راز غیروں کو بتائے بغیر وہ ان میں مقبول نہیں ہو سکتا.اس آیت میں بیماری کا بڑھانا اللہ تعالیٰ کی طرف اس لئے منسوب کیا گیا ہے کہ یہ اسی کے احکام اور قوانین کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے اور لوگوں کے اعمال پر نیک و بد نتائج بھی وہی مرتب فرماتا ہے.ورنہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کسی کی بیماری کے بڑھانے کے لئے نازل نہیں فرمایا بلکہ لوگوں کی بیماری کے دور کرنے کیلئے بھیجا ہے چنانچہ فرماتا ہے.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ (یونس :۵۸) یعنی اے لوگو ! تمہارے پاس ایک ایسی کتاب آئی ہے جو دل پر اثر کرنے والی نصائح پر مشتمل ہے اور سینہ کی سب بیماریوں کے لئے شفاء ہے.یہ مرض جس کا اس آیت میں ذکر ہے قوتِ فیصلہ کا نہ ہونا بزُدلی اور نفاق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے فَاَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِيْ قُلُوْبِهِمْ اِلٰى يَوْمِ يَلْقَوْنَهٗ بِمَاۤ اَخْلَفُوا اللّٰهَ مَا وَعَدُوْهُ وَ بِمَا كَانُوْا يَكْذِبُوْنَ(التوبۃ:۷۷) یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کی وعدہ خلافی اور جھوٹ کا یہ انجام دکھایا کہ اُن کے دلوں میں نفاق پیدا ہو گیا.(۲) اللہ تعالیٰ کے مرض بڑھا دینے سے ایک یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ جوں جو ںمسلمانوں کو ترقی دیتا اور اُن کی طاقت بڑھاتا گیا منافقو ںکو اپنے دلی عقیدے کے خلاف ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کی وجہ سے اور زیادہ نفاق سے کام لینا پڑا.حالانکہ دراصل اسلام کی شوکت اُن کو ایک آنکھ نہ بھاتی تھی.اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ (آل عمران :۱۲۱) اگر تمہیں کوئی آرام پہنچتا ہے تو ان (منافقوں) کو تکلیف ہوتی ہے.دوسرے شریعت اسلامی آہستہ آہستہ نازل ہوئی پس جوں جوں احکام اور مسائل بڑھتے گئے منافقوں کا نفاق بھی بڑھتا جاتا تھا اور ان کی جلن اور گھبراہٹ اور بزدلی میں اضافہ ہوتا جاتا تھااللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَاِذَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ مُّحْكَمَةٌ وَّ ذُكِرَ فِيْهَا الْقِتَالُ١ۙ رَاَيْتَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يَّنْظُرُوْنَ اِلَيْكَ نَظَرَ الْمَغْشِيِّ عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ١ؕ فَاَوْلٰى لَهُمْ (محمّد:۲۱) یعنی جب کوئی محکم آیات نازل ہوتی ہیں اور ان میں لڑائی کا ذکر ہوتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے وہ تمہاری طرف اس طرح دیکھتے ہیں جیسے کہ کسی پر موت کی غشی طاری ہو.پہلی آیات میں کفار کی نسبت فرمایا تھا وَلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ ان کے لئے بڑا عذاب ہے.اس آیت میں منافقوں کی نسبت فرمایا ہے کہ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ یعنی اُن کے لئے درد ناک عذاب ہے.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ کافر کو خواہ کس قدر عذاب ملتا ہو وہ مقابلہ کر کے اپنے دل کا بخار نکال لیتا ہے اور اس طرح بدلہ لینے سے جو انسان کو

Page 263

تسلی ہوتی ہے وہ اسے حاصل ہو جاتی ہے.مگر منافق بدبخت چونکہ اپنے اندر و نہ کو چھپاتا ہے اندر ہی اندر کڑھ کڑھ کر مرتا ہے.اس لئے منافق کی اس حالت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے عَذَابٌ اَلِیْمٌ کے الفاظ استعمال کئے گئے کہ اُسے دُکھ کے ساتھ جلن کا مزہ بھی چکھنا پڑتا ہے.وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ اور جب ان سے کہا جائے (کہ) زمین میں فساد نہ کرو.تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف مُصْلِحُوْنَ۰۰۱۲ اصلاح کرنے والے ہیں.حَلّ لُغَات.لَاتُفْسِدُوْا.لَاتُفْسِدُوْا نہی جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَلْفَسَادُ کے معنے ہیں خُرُوْجُ الشَّیءِ عَنِ الْاِعْتِدَالِ قَلِیْـلًاکَانَ الْخُرُوْجُ مِنْہُ اَوْ کَثِیْرًا وَیُضَادُّہُ الصَّلَاحُ.کسی چیز کا حدِّ اعتدال سے نکل جانا فساد کہلاتا ہے خواہ وہ خروج کم ہو یا زیادہ.اور اس کے بالمقابل ’’صلاح‘‘ کا لفظ بولا جاتا ہے.(مفردات) اَ لْاَرْضُ.اَ لْاَرْضُ کے مصدری معنے اَلنَّفَضَۃُ وَالرِّعْدَۃُ کے ہیں.یعنی کانپنا (تاج) اقرب میں ہے.اَ لْاَرْضُ.ُکرّۂ زمین.کُلُّ مَاسَفَلَ.ہر نیچے کی چیز.مُصْلِحُوْنَ.مُصْلِحُوْنَ اَصْلَحَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اَصْلَحَ بَیْنَ الْقَوْمِ کے معنے ہیں.وَفَّقَ قوم کے درمیان صلح کرائی اور اَصْلَحَہٗ کے معنے ہیں اَقَامَہٗ بَعْدَ فَسَادِہٖ کسی چیز کے خراب ہو جانے کے بعد اُسے اُس کی اصل حالت پر لے آیا (اقرب) پس مُصْلِحُوْنَ کے معنے ہوئے اصلاح کرنے والے.تفسیر.لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِمیں اَرْض کے معنے.اَرْضٌ کے معنے عربی زبان اور محاورہ کے مطابق ساری زمین کے ہیں اور اُس حصہ زمین کو بھی کہتے ہیں جو کسی چیز کے نیچے آئے جیسے کہتے ہیں اَرْضُ النَّعْلِ جوتی کے نیچے آنے والا حصہ زمین.اور ہر نیچے کی چیز یا دبے ہوئے وجود کو بھی کہتے ہیں.چنانچہ عربی کا محاورہ ہے.اِنْ ضُرِبَ فَاَرْضٌ (اقرب) یعنی اگر اُسے مارا جائے تو وہ ارض ہو جاتا ہے یعنی بالکل دَب جاتا ہے.محاورۂ زبان میں ارضکے معنے ملک یا زمین کے ٹکڑہ کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں اَرْضُ شَامٍ، اَرْضُ مِصْرَ یعنی شام کا ملک ،مصر کا ملک.ہمارے ملک میں بھی زمیندار کی زمین کو اراضی کہتے ہیں.اس آیت میں اَرض

Page 264

سے مراد ملک یا علاقہ کے ہیں کیونکہ جن منافقوں کا ذکر ہے ان کے اعمال ساری دنیا پر حاوی نہ تھے بلکہ ملک عرب یا اس کی سرحدوں تک محدود تھے.منافقوں کا فساد کئی رنگ میں ظاہر ہوتا تھا (۱) وہ مہاجرین اور انصار میں فساد ڈلوانے کی کوشش کرتے رہتے تھے اور قومی سوال کو اپنے بد اغراض کو پورا کرنے کے لئے آڑ بناتے رہتے تھے چنانچہ غزوہ بنی مصطلق کے موقعہ پر جب ایک معمولی سی بات پر مہاجرین اور انصار میں کچھ اختلاف پیدا ہو گیا تو عبداللہ بن ابی بن سلول نے جو اس وقت ساتھ تھا اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شور مچا دیا کہ یہ مہاجر باہر سے آ کر ہم پر حکومت کرنا چاہتے ہیں تم لوگوں نے ان کو سر پر چڑھا رکھا ہے اگر ان کی مدد نہ کرو تو وہ خود ہی تترّ ِبترّ ہو جائیں گے (سیرت ابن ہشام.غزوہ بنی المصطلق جھجاہ و سنان و ماکان من ابن أبیّ) چنانچہ اس قول کا ذکر قرآن کریم میں یوں ہے.هُمُ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا (المنافقون :۸) یہ منافق ہی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ لوگ جو محمد رسول اللہ کے ساتھ جمع ہیں ان پر اپنے روپے نہ خرچ کیا کرو تاکہ یہ تتر بتر ہو جائیں.اور جب عبداللہ بن ابی بن سلول نے دیکھا کہ انصار جوش میں آ گئے ہیں تو جڑ پر تبر چلانا چاہا.یعنی خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی اور کہہ دیا.لَىِٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ (المنافقون :۹) یعنی ہمیں مدینے پہنچ لینے دو وہاں مدینہ کا سب سے بڑا آدمی (یعنی خود عبداللہ بن ابی) اس کے سب سے ذلیل آدمی کو (یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی و روحی کو) وہاں سے نکال دے گا.منافقین کے آنحضرت ؐ کے اعمال پر اعتراضات کبھی یہ لوگ قومی گنہگاروں کی پیٹھ ٹھونکتے تھے کہ تا وہ جوش میں آ کر اسلام سے برگشتہ ہو جائیں کبھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے اعمال پر معترض ہوتے تاکہ لوگوں میں بد دلی پھیلائیں جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَ مِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ (التوبۃ :۵۸) یعنی ان منافقوں میں سے وہ بھی ہیں جو تیری صدقات کی تقسیم پر معترض ہوتے ہیں.اس سے ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ جن کو صدقہ میں سے مال نہ ملا ہو ان میں بد دلی پیدا ہو.اسی طرح آپ کے متعلق اعتراض کرتے کہ هُوَ اُذُنٌ (التوبۃ :۶۱) وہ تو کان ہی کان ہے یعنی اس نے تو چاروں طرف جاسوس چھوڑ رکھے ہوئے ہیں کوئی آدمی آزادی سے اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکتا.کبھی مشکلات کے وقت مسلمانوں میں بد دلی پیدا کرنے کی کوشش کرتے.جیسا کہ فرماتا ہے.وَ اِنْ تُصِبْكَ مُصِيْبَةٌ يَّقُوْلُوْا قَدْ اَخَذْنَاۤ اَمْرَنَا مِنْ قَبْلُ (التوبۃ :۵۰) یعنی اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور مخلصین صحابہ کو کوئی نقصان جنگ میں پہنچتا تو کہتے کہ دیکھا یہ ہمارے مشورہ پر عمل نہ کرنے کا نتیجہ ہے ہم نے پہلے ہی

Page 265

صورتِ حالات کو بھانپ لیا تھا اور اس جنگ میں شامل نہ ہوئے تھے.منافقین کا کفار عرب کو مسلمانوں کے خلاف اکسانا کبھی کفار کو مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے جیسا کہ فرماتا ہے.اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ نَافَقُوْا يَقُوْلُوْنَ لِاِخْوَانِهِمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَىِٕنْ اُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَ لَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ اَحَدًا اَبَدًا١ۙ وَّ اِنْ قُوْتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ (الحشر:۱۲) یعنی کیا تجھے ان منافقوں کا حال معلوم ہے کہ وہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں کو جاکر اُکساتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ چھوڑ جائیں گے اور تمہارے معاملہ میں ہم کسی کی بات نہ سنیں گے اور اگر تم سے جنگ کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑیں گے لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جب اہل کتاب کو جلا وطن کیا گیا تو وہ لوگ ساتھ نہ نکلے.اورجب ان سے لڑائی ہوئی تو انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا.کیونکہ ان کی اصل غرض تو مسلمانوں کے خلاف فساد پھیلانا تھی.اِسی طرح ایک فساد کا طریق یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرتے تھے.چنانچہ فرماتا ہے.وَ اِذَا جَآءَهُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ(النساء:۸۴)جب کوئی امن یا خوف کی بات ان کو معلوم ہو جائے تو اسے خوب پھیلاتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں فساد پیدا ہو جائے.خوف کی بات تو اس لئے کہ مسلمان ڈریں اور امن کی بات اس موقعہ پر کہ جب دیکھیں کہ بعض مسلمان اس صلح پر خوش نہیں تو ایسے موقعہ پر وہ مسلمانوں کو جوش دلانے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ اس طرح صلح کر کے ہم کو ذلیل کیا جا رہا ہے.غرض منافق طرح طرح سے ملک میں فساد پیدا کرتے تھے اور اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح فساد پیدا کرنے سے کیا فائدہ ؟ایسا نہ کرو.تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہم تو صرف اصلاح کی خاطر یہ سب کام کرتے ہیں.یہ بھی منافقوں کی ایک علامت ہے کہ اپنے گندے اعمال کو چھپانے کے لئے ہمیشہ اپنے اعمال کے لئے کوئی نہ کوئی ایسا بہانہ بنا لیتے ہیں کہ جس سے ان کے اعمال بظاہر نیک نظر آئیں.کسی موقعہ پر غریبوں کی امداد کا بہانہ ، کسی موقعہ پر مسلمانوں کو تباہی سے بچانے کا بہانہ.غرض اپنی بدنیتی کو نیک نیتی کے پردہ میں چھپانے کی کوشش ہمیشہ ان کی طرف سے ہوتی رہتی ہے.اور اگر وہ یہ نہ کریں تو اپنی نفاق کو چھپائیںکس طرح؟ ہر قوم اور ہر ملک کے منافق اسی طرح کرتے ہیں اور جن قوموں کی تباہی کے دن آجاتے ہیں وہ ان کے دھوکے میں آ کر سچے خیرخواہوںکو چھوڑ دیتی ہیں.مگر اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کو ان کے دھوکے سے بچایا اور ان کی شرارتیں انہی کے سروںپر الٹ پڑیں.منظم جماعتوں میں منافقوں کا گروہ ضروری ہوتا ہے کیونکہ جب تنظیم نہ ہو تو منافقت کرنے کی ضرورت کم

Page 266

ہی ہوتی ہے لیکن جب ایک جماعت منظم ہو تو اسے چھوڑنا کمزور دل لوگوں کے لئے مشکل ہو جاتا ہے اس لئے وہ ایک طرف تو اپنی جماعت سے بھی تعلق بنائے رکھتے ہیں اور دوسری طرف ُخفیہ ُخفیہ اس کے مخالفوں سے بھی ساز باز شروع کر دیتے ہیں.جماعت احمد یہ چونکہ ایک منظم جماعت ہے اسے اس خطرہ کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہیے.منافقوں کا وجود اس میں پایا جانا اس کی کمزوری کی علامت نہیں بلکہ اس کی تنظیم کا ثبوت ہے.ہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ منافقوں کی چالوں کو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں سمجھے اور انہیں مدِّنظر رکھ کر منافقوں کو پہچانے اور ان سے وہی معاملہ کرے جو قرآن کریم نے تجویز کیا اور ان کے ہتھکنڈوںمیں نہ آئے کہ وہ شیطان کی طرح خیر خواہ بن کر ہی حملے کیا کرتے ہیں.اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا يَشْعُرُوْنَ۰۰۱۳ سنو یقیناًیہی لوگ فساد کرنے والے ہیں مگر(اس حقیقت کو) سمجھتے نہیں.حَلّ لُغَات.اَ لَا کے معنے چوکس اور ہوشیار کرنے کے ہوتے ہیں نہ کہ دھمکی دینے کے.پس خبردار کی بجائے ’’سنو‘‘ کا لفظ رکھا گیا ہے.جو ہوشیار کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.وَلٰـکِنْ.عربی میں واؤ اور لٰـکِنْ دو لفظ عطف کئے ہیں.اور ایک دوسرے کی تاکید کرتا ہے.اردو میں اس کی جگہ ’’ہاں مگر‘‘ یا ’’مگر‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.یَشْعُرُوْنَ.یَشْعُرُوْنَ کے لئے دیکھو حَلّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۰.تفسیر.منافقوں کے اس قول سے کہ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ اِس طرف اشارہ تھا کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں مگر وہ لوگ جن کو سچا مسلمان کہا جاتا ہے فساد کرتے ہیں کیونکہ اِنَّمَا حصر کے لئے آتا ہے.اور جب کوئی شخص کہے کہ میں ہی ایسا ہوں تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ میرے سوا دوسرے لوگ ایسے نہیں ہیں.پس ان کے جواب میں قرآن کریم میں ایسا ہی فقرہ استعمال فرمایا کہ اَ لَآ اِنَّھُمْ ھُمُ الْمُفْسِدُوْنَ یعنی سننے والے سن چھوڑیں کہ منافق ہی تو فساد کرنے والے ہیں اور الزام دوسروں کو دیتے ہیں.پہلے ثابت کیا جا چکا ہے کہ منافق قسم قسم کے فساد کرتے تھے مگر اپنے مفسدانہ اعمال کی کوئی نہ کوئی نیک توجیہ پیش کر دیا کرتے تھے لیکن نیک توجیہ بُرے کام کو اچھا نہیں بنا دیتی.اگر کوئی شخص کسی جماعت کے نظام یا عقیدہ سے خوش نہ ہو تو اس کا فرض ہوتا ہے کہ اُس سےجدا ہو جائے نہ کہ اس میں رہ کر اس میں فساد پیدا کرنے کی کوشش کرے.

Page 267

اس آیت کے آخر میں منافقوں کے اندر شعور کی کمی بتائی ہے کیونکہ نفاق دل سے تعلق رکھتا ہے اور قوتِ شعور ہی سے اس کا پتہ لگایا جاتا ہے.اگر منافق ظاہری تو جیہوں کی بجائے اپنے دلوں کو پڑھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے اعمال اصلاح کے خیال سے نہیں بلکہ بزدلی اور جماعت سے اختلاف رکھنے کے باعث ہیں اور اس طرح ان کو اپنی بیماری کا علم ہو جائے.مگر وہ اپنے دل کے خیالات کو بھی صحیح طور پر پڑھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اس طرح دوسروں کو دھوکہ دینے کی بجائے اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ہیں.وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ اور جب انہیں کہا جائے کہ (اسی طرح) ایمان لاؤ جس طرح(دوسرے) لوگ ایمان لائےہیں.تو کہتے ہیں کیا ہم كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا (اس طرح) ایمان لائیں جس طرح بیوقوف (لوگ)ایمان لائے ہیںسنو ! یقیناً یہی (لوگ )بیوقوف ہیں يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۴ مگر اس حقیقت کو جانتے نہیں.حَلّ لُغَات.اٰمِنُوْا.اٰمِنُوْا اٰمَنَ سے جمع مرکب کا صیغہ ہے.اوراٰمَنَ کے لئے دیکھیں حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۹.اَلسُّفَھَآءُ.اَلسُّفَھَآءُ سَفِیْہٌ کی جمع ہے جو سَفِہَ سے صفت مشبّہ کا صیغہ ہے اور سَفِہَ عَلَیْنَا کے معنے ہیں جَھِلَ وہ جہالت سے پیش آیا.سَفِھَتِ الطَّعْنَۃُ.اَسْرَعَ مِنْھَا الدَّمُ وَخَفَّ.خون نیزہ کے زخم سے تیزی سے نکل کر ہلکے طور پر بہا.سَفِہَ نَصِیْبَہٗ.نَسِیَہٗ اپنے حصہ کو بھول گیا.اَلسَّفَہُ کے معنے ہیں.خِفَّۃُ الْعِلْمِ اَوْنَقِیْضُہٗ بیوقوفی.کم عقلی.برداشت کا کم ہونا.اَوِالْجَھْلُ.جہالت.وَ اَصْلُہُ الْخِفَّۃُ وَالْحَرَکَۃُ وَالْاِضْطِرَابُ اس کے اصل معنے ہلکاپن.حرکت اور اضطراب کے ہیں.اور اَلسَّفِیْہُ کے معنے ہیں ذُوالسَّفْہِ ا یسا شخص جس میں عقل.صبر اور برداشت کم ہوں.(اقرب) مفردات میں ہے اَلسَّفَہُ.اَلْخِفَّۃُ فِی الْبَدَنِ وَ مِنْہُ قِیْلَ زَمَامٌ سَفِیْہٌ کَثِیْرُ الْاِضْطِرَابِ ، وَ ثَوْبٌ

Page 268

سَفِیْہٌ.رَدِیُّ النَّسْجِ.اَلسَّفَہُ کے معنے ہیں.بدن میں ہلکا پن کا پایا جانا.اس واسطے اونٹ کی ایسی مہار کو جو ہلکا ہونے کی وجہ سے بہت حرکت کرے زَمَامٌ سَفِیْہٌ کہتے ہیں.اور ایسا کپڑا جو ناقص طور پر بنا ہوا ہو اور وہ بہت کم قیمت سمجھا جائے اسے ثَوْبٌ سَفِیْہٌ کہتے ہیں.وَاسْتُعْمِلَ فِیْ خِفَّۃِ النَّفْسِ وَ نُقْصَانِ الْعَقْلِ وَفِی الْاُ مُوْرِ الدُّنْیَوِیَّۃِ وَالْاُخْرَوِیَّۃِ.اور دینی یا دنیوی امور میں سمجھ اور عقل نہ ہونے کی وجہ سے جو نفس میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.اس پر بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے (مفردات) لسان العرب میں ہے کہ جب سَافَھْتُ الشَّرَابَ کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہوں گے.اِذَا اَسْرَفْتُ فِیْہِ کہ میں نے شراب کے خرچ کرنے میں اسراف سے کام لیا.پس سَفِیْہٌ کے معنے ہوں گے (۱) خفیف العقل (۲) جاہل (۳) جس کی رائے میں اضطراب ہو.استقامت نہ ہو (۴) ایسا شخص جو دینی و دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو (۵) جس کی رائے کی کچھ قیمت نہ ہو (۶) جو شخص اپنی قیمتی اشیاء کو بے سوچے خرچ کر دے.یَعْلَمُوْنَ.لَایَعْلَمُوْنَ عَلِمَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.اور عَلِمَہٗ (یَعْلَمُہٗ) کے معنے تَیَقَّنَہٗ وَعَرَفَہٗ کسی چیز کا یقین کر لیا اور اس کو جان لیا.جب سمجھنے کے معنوں میں استعمال ہو تو اس وقت اس کے دو مفعول آئیں گے اور اگر معرفت کے معنوں میں استعمال ہو تو ایک.عَلِمَ الْاَمْرَ کے معنے ہیں اَتْقَنَہٗ کسی کام کو مضبوط کیا.عَلِمَ الشَّیْءَ وَ بِالشَّیْءِ: شَعَرَبِہٖ وَاَحَاطَہٗ وَاَدْرَکَہٗ کسی چیز کی پوری واقفیت حاصل کر لی.اس کی حقیقت کا احاطہ کر لیا.اس کا پورا علم حاصل کر لیا.اور اَلْعِلْمُ کے معنے ہیں اِدْرَاکُ الشَّیْ ءِ بِحَقِیْقَتِہٖ کسی چیز کی حقیقت کو معلوم کر لینا (اقرب) پس لَایَعْلَمُوْنَ کے معنے ہوں گے.وہ حقیقت کو نہیں جانتے.تفسیر.گو اس آیت میں صیغہ مجہول کا استعمال کیا گیا ہے مگر گزشتہ آیات کو دیکھتے ہوئے کہنے والے مسلمان ہی معلوم ہوتے ہیں.اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب مسلمان ان منافقوں سے کہتے ہیں کہ جس طرح دوسرے شریف آدمی ایمان لائے ہیں او راپنے عہد کے پکے ہیں تم بھی اسی طرح ایمان لائو.یہ کیا کہ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر.دل میں کچھ اور زبان پر کچھ.تو منافق اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ جن لوگوں کی طرح ایمان لانے کا تم ہم کو مشورہ دیتے ہو وہ تو کم عقل ہیں اور اپنی جانوں اور مالوں کو بے دریغ لٹا رہے ہیں.کیا تم چاہتے ہو کہ ہم بھی ان کی طرح بے عقل ہو جائیں.ایک مٹھی بھر آدمی ہیں اور ساری دنیا سے مقابلہ شروع کر رکھا ہے.ان کو چاہیے تھا کہ سمجھ سے کام لیتے اور سب سے تعلقات بنا کر رکھتے جس طرح ہم سب سے تعلق بنا کر رکھتے ہیں.حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ سَفِـیْـہٌ جس کی جمع سُفَھَآءُ ہے.سَفَہَ سے نکلا ہے اور اس کے معنے

Page 269

حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ سَفِـیْـہٌ جس کی جمع سُفَھَآءُ ہے.سَفَہَ سے نکلا ہے اور اس کے معنے قلتِ عقل کے بھی ہوتے ہیں.اور بے دریغ اپنے اموال کو لٹانے کے بھی ہوتے ہیں.لَایَعْلَمُوْنَ.منافقوں کاالسُّفَهَآءُ کا لفظ کہہ کر مومنوں پر بے دریغ مال خرچ کرنے کا الزام قرآن کریم میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے.چنانچہ آتا ہے.وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَكُمُ (النساء :۶) اپنے مال ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ دو جو ان کو خرچ کرنا نہ جانتے ہوں اور ان کو ضائع کر دیں.منافقوں کا مسلمانوں کو سُفَھَاء کہنا انہی معنوں میں ہے.ان کا خیال تھا کہ یہ لوگ نہ اپنی جانوں کی حفاظت کر سکتے ہیں نہ اپنے مالوں کی اور یونہی بے سوچے سمجھے اپنی جانیں ضائع کر رہے ہیں اور مال لٹا رہے ہیں.لیکن ہم ہوشیار ہیں.ہم مسلمانوں کے ساتھ بھی بنا کر رکھتے ہیں اور کفار سے بھی اس طرح ہم دونوں طرف کے خطروں سے محفوظ ہیں.وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ کہنے والے مسلمان ہیں منافقوں کا یہ اعتراض قرآن کریم میں دوسرے مقامات پر بھی وضاحت سے بیان ہوا ہے.چنانچہ آتا ہے کہ منافق اپنے ہم وطنوں سے کہتے تھے لَا تُنْفِقُوْا عَلٰى مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ حَتّٰى يَنْفَضُّوْا(المنافقون :۸) یہ لوگ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہیں ان پر خواہ مخواہ اپنے مال نہ خرچ کرو تاکہ یہ پراگندہ ہو جائیں اور تم اس وبال سے محفوظ ہو جائو.اسی طرح آتا ہے اَلَّذِيْنَ يَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِيْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الصَّدَقٰتِ وَ الَّذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ اِلَّا جُهْدَهُمْ فَيَسْخَرُوْنَ مِنْهُمْ(التوبۃ :۷۹) یعنی منافق لوگ اُن پر بھی ہنسی اڑاتے ہیں جو صاحب توفیق ہو کر بڑھ بڑھ کر چندے دیتے ہیں اور ان پر بھی جو صاحبِ توفیق نہیں اور جو کچھ تھوڑا سامال ان کے پاس ہوتا ہے حاضر کر دیتے ہیں.گویا ان کو دونو ںپر اعتراض تھا.جو صاحبِ استطاعت تھے انہیں کہتے تھے کہ دیکھو کیسے ریا کار ہیں !اپنے مال شہرت کی خاطر لٹاتے ہیں.جو غریب تھے ان پر ہنستے تھے کہ کیسے بیوقوف ہیں کھانے کو ملتا نہیں اور چندے دیئے جاتے ہیں.جانوں کے اسراف کے بارہ میں بھی ان کا اعتراض تھا.چنانچہ جنگ کا ذکر اور دشمنوں کے غلبہ اور کثرت کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ غَرَّ هٰٓؤُلَآءِ دِيْنُهُمْ (الانفال :۵۰) یعنی منافق اور جن کے دلوں میں مرض ہے کہتے ہیں کہ ان مسلمانوں کو تو ان کے دین نے مغرور کر دیا ہے.یعنی دین میں جو وعدے ترقی کے مذکور ہیں ان سے دھوکہ کھا کر اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کرتے اور جانیں قربان کرتے چلے جاتے ہیں اور انجام کو نہیں دیکھتے.منافقوں کا اَلسُّفَھَآئکے الفاظ مومنوں کے متعلق استعمال کر کے ان کی بے دریغ قربانیوں پر طنز کرنا غرض سَفِیْہٌ سے مراد منافقوں کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی جانوں اور مالوں کو بے سوچے سمجھے برباد کر رہے ہیں اور ہم اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنے مالوں کو بچا رہے ہیں.یہ اعتراض ہمیشہ بڑھنے والی قوموں پر

Page 270

ہوتا ہے.جب بھی خدا تعالیٰ کسی قوم کو بڑھانا چاہتا ہے ایسے ہی حالات میں بڑھاتا ہے کہ باوجود اس کے کہ جو قوم کمزور اور بے سامان ہوتی ہے اور وہ اُسے بے دریغ قربانی کا حکم دیتا ہے جو منافقوں اور دشمنوں کی نظر میں ایک َلغو فعل نظر آتا ہے.کیونکہ وہ قربانی کی قیمت نہیں جانتے.ہاں! جب کامیابی حاصل ہو جاتی ہے تو ان کی اولاد کہتی ہے کہ یہ کامیابی غیر معمولی نہیں اس کا سبب یہ تھا کہ مومن قربانی کرتے تھے اور ان کے مخالف غافل تھے گویا پہلے ان کے آباء اور رنگ کا اعتراض کرتے ہیں اور اولاد بالکل الٹ قسم کے اعتراض شروع کر دیتی ہے.چنانچہ اسلام کی ابتدا میں تو یہ اعتراض کیا گیا کہ مسلمان تو بے وقوف ہیں.اپنے مالوں اور اپنی جانوں کو ضائع کر رہے ہیں اور ایسے طور پر خرچ کر رہے ہیں کہ نتیجہ کچھ نہ نکلے گا یونہی اپنے مذہب کے جھوٹے وعدوں کے دھوکے میں آ گئے ہیں مگر جب اسلام کو غلبہ مل گیا تو اب ان کی اولاد یا ان کے اظلال یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کی ترقی کوئی معجزانہ ترقی نہ تھی.عربوں اور ایرانیوں اور رومیوں کے اخلاق تباہ ہو گئے تھے اور ان میں قوم کی خاطر قربانی کرنے کا جذبہ نہ رہا تھا اس لئے مسلمان غالب آگئے.سچ ہے جب انسان سچائی کو چھوڑتا ہے تو کسی ایک مقام پر کھڑا نہیں ہو سکتا اسے بار بار اپنی جگہ بدلنی پڑتی ہے.بھلا کوئی سوچے کہ اگر مسلمانوں کے اندر ایسی ہی کوئی غیر معمولی طاقت موجود تھی اور ان کے مدِّمقابل ایسے ہی کمز ور تھے تو اندرونی منافق اور بیرونی دشمن ان کی قربانیوں کو اسراف اور ان کے ارادوں کو جنون کیوں قرار دے رہے تھے؟ باقی رہا یہ کہ بعض اسباب ان کی تائید میں پیدا ہو گئے تو یہ معجزانہ غلبہ کے خلاف نہیں.اللہ تعالیٰ جب کوئی خبر دیتا ہے تواس کی تائید میں سامان بھی پیدا کر دیتا ہے.مگر وہ سامان مومنوں کی کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتے.آخر عربوں، ایرانیوں اور رومیوں کو سچی قربانیوں سے مسلمانوں نے تو محروم نہ کیا تھا.پھر یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ دونوں فریق کی طاقت کی باہمی نسبت کیا تھی؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عربوں رومیوں اور ایرانیوں سے سچی قربانی کی روح چھین لی.مگر جس حد تک انہو ںنے طاقت خرچ کی مسلمانوں میں تو اس کے مقابلہ کی بھی ظاہر حالات میں طاقت نہ تھی پھر وہ کیونکر غالب آئے؟ منافقوں کی اس حالت کا کہ وہ کفار کے مقابلہ کو نادانی سمجھتے تھے ایک اور آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے فرماتا ہے.فَتَرَى الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ يُّسَارِعُوْنَ فِيْهِمْ يَقُوْلُوْنَ نَخْشٰۤى اَنْ تُصِيْبَنَا دَآىِٕرَةٌ١ؕ فَعَسَى اللّٰهُ اَنْ يَّاْتِيَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عِنْدِهٖ فَيُصْبِحُوْا عَلٰى مَاۤ اَسَرُّوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ نٰدِمِيْنَ( المائدة :۵۳) یعنی ان منافقو ںکا حال جن کے دلوں میں بیماری ہے تم دیکھتے ہو کہ کس طرح مخالفینِ اسلام میں بھاگ کر ُگھستے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو اس سے

Page 271

ڈرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوئی تو انجام کیسا بُرا ہو گا! پس قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ فتح کے سامان پیدا کر دے یا اور کوئی ایسا امر ظاہر کر دے کہ یہ منافق ان خدشات کی وجہ سے جو اُن کے دلوں میں پیدا ہو رہے ہیں شرمندہ ہو جائیں.اصل بات یہ ہے کہ فتح تو بہادروں اور قربانی کرنے والوں کا حق ہوتا ہے اور مومن دنیا میں سب سے بہادر ہوتا ہے کیونکہ اس کی نظر آسمان کی طرف ہوتی ہے نہ کہ زمین پر.جو قوم بھی سچی قربانی سے ڈرتی ہے تباہ ہوتی ہے.جو اپنے مالوں کو سنبھال کر رکھتے ہیں وہی انہیں ضائع کرتے ہیں جو انہیں صحیح طور پر خرچ کرتے ہیں ان کے مال ہزاروں گنے بڑھ کر واپس آتے ہیں.آخر آیت میں فرمایا کہ اصل میں یہی لوگ اپنے اموال اور جانوں کا نقصان کر رہے ہیں کیونکہ نہ کفار نے فتح پانی ہے کہ ان کے ساتھ تعلق ان کے لئے مفید ثابت ہو اور نہ مسلمانوں نے ہارنا ہے کہ ان سے بگاڑ ا نہیں فائدہ پہنچا سکے.لیکن چونکہ یہ آئندہ کی بات ہے یہ جانتے نہیں اور خدا تعالیٰ پر ایمان نہیں کہ اس کی پیشگوئیوں کے ذریعہ سے اس حقیقت کو سمجھ سکیں حالانکہ اگر جانتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ اس طریق عمل سے اپنے مالوں اور جانوں کو خطرہ میں ڈال رہے ہیں.ایک دوسری آیت میں اس کی تشریح اس طرح فرمائی ہے.فرماتا ہے.وَ لَا تُعْجِبْكَ اَمْوَالُهُمْ وَ اَوْلَادُهُمْ١ؕ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ اَنْ يُّعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَ تَزْهَقَ اَنْفُسُهُمْ وَ هُمْ كٰفِرُوْنَ(التوبة:۸۵) یعنی منافق لوگ اپنے مالوں اور اپنی اولادوں پر ناز کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ان کے مال بھی محفوظ ہیں اور جانیں بھی کیونکہ وہ اپنی اولادوں کو جہاد پر جانے نہیں دیتے لیکن مسلمان ان کے اس فخر سے دھوکہ نہ کھائیں کیونکہ گو بظاہر وہ مالدار ہیں اور بظاہر ان کی اولادیں گھروں میں آرام سے بسر کر رہی ہیں لیکن خدا تعالیٰ انہیں ان کے مالوں اور ان کی اولادوں کے ذریعہ سے اسی دنیا میں عذاب دے گا اور دنیا میں ذلیل ہو جانے کے بعد ایک دن کفر کی حالت میں یہ اس دنیا سے چل بسیں گے.یہ آیت منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول پر خوب صادق آئی.وہ اپنی سب کوششوں کو نامراد ہوتے دیکھ کر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی دیکھ کر آپ کی زندگی میں ہی وفات پا گیا اور اس کا بیٹا نہایت مخلص ثابت ہوا جو اس کے لئے مزید ذ لت اور دکھ کا موجب تھا.

Page 272

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّا١ۖۚ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى اور جب( کبھی) وہ ان لوگوں سے ملیںجو ایمان لائے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو (اس رسول کو )مانتے ہیں.اور شَيٰطِيْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ١ۙ اِنَّمَا نَحْنُ جب اپنے شیطانوںسے علیحدگی میں ملیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں.ہم تو صرف مُسْتَهْزِءُوْنَ۠۰۰۱۵ (ان سے)ہنسی کر رہے ہیں.حَلّ لُغَات.خَلَوْا.خَلَوْا خَلٰیسے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.اور خَـلَا بِالشَّیْءِ کے معنے ہیں اِنْفَرَدَ بِہٖ وَلَمْ یَخْلُطْ بِہٖ غَیْرَہُ.کسی چیز کو الگ رکھا اور اس کے ساتھ کسی اور چیز کو نہ ملایا خَـلَا بِفُـلَانٍ وَمَعَہٗ وَاِلَیْہِ.سَأَلَہٗ اَنْ یَّجْتَمِعَ بِہٖ فِیْ خَلْوَۃٍ فَفَعَلَکسی سے علیٰحدہ ملنے کی خواہش کی اور دوسرے نے یہ بات مان لی.وَقِیْلَ اِنَّ اِلٰی ھٰـھُنَا بِمَعْنٰی مَعَ کَمَا فِیْ قَوْلِہٖ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ.اور بعض نے کہا ہے کہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ میں اِلٰیکے معنے مَعَ کے ہیں.یعنی جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ علیٰحدہ ہوتے ہیں.جیسے کہ آیت مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ میں اِلٰی کے معنے مَعَ کے ہیں اور خَـلَاکَ ذَمٌّ کے معنے ہیں تجھ سے مذمت دور ہو جائے.(اقرب) شَیٰطِیْنِھِمْ.شَیٰطِیْنِھِمْ شَیْطَانٌ کی جمع ہے.اور یہ لفظ دو مختلف مادوں سے بن سکتا ہے.(۱) شَطَنَ (۲) شَاطَ.اگر اسے شَطَنَ کے مادہ سے بنا ہوا قرار دیا جائے تو یہ فَیْعَالٌ کے وزن پر ہے.اور شَطَنَ عَنْہُ کے معنے ہیں اَبْعَدَ دور ہو گیا.شَطَنَ الدَّارُ کے معنے ہیں گھر دور ہو گیا (اقرب) اور اَلشَّطَنُ کے معنے ہیں اَلْحَبْلُ الطَّوِیْلُ لمبارسہّ.اور شَطَنَ صَاحِبَہٗ کے معنے ہیں خَالَفَہٗ عَنْ نِیَّتِہٖ وَ وَجْھِہٖ اپنے ساتھی کی مخالفت کی.اس کو اس نے ارادہ اور مقصد سے پھرا دیا (اقرب) پس اس مادہ کے لحاظ سے اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حق سے خود بھی دور ہے اور دوسروں کو بھی دور کرنے والی ہے.اور وہ ہستی جسے ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتی ہیں اور اس نے حق کی مخالفت کا ٹھیکہ لے لیا ہے.اور اگر شَاطَ اس کا مادہ مانا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ وہ ہستی جو حسد اور تعصب کی

Page 273

وجہ سے جل جائے یا ہلاک ہو جائے.کیونکہ شَاطَ الشَّیْءُ کے معنے ہیں اِحْتَرَقَ کوئی چیز جل گئی.اور اِسْتَشَاطَ غَضْبًا کے معنے ہیں اِذَا احْتَدَّ فِیْ غَضْبِہٖ وَالْتَھَبَ کہ غصہ سے آگ بگولا ہو گیا.شَاطَ فُلَانٌ کے معنے ہیں ھَلَکَہلاک ہو گیا.شَیْطَانٌ اس سے فَعْلَانٌ کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے.اگر تو فَیْعَالٌ کے وزن پر ہو تو یہ منصرف ہو گا وگرنہ غیر منصرف.ان معنوں کے علاوہ شیطان کے معنے لغت میں مندرجہ ذیل لکھے ہیں.رُوْحٌ شَرِیْرٌ.بدروح.کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ.ہر سرکش اور حد سے بڑھنے والا.اَلْحَیَّۃُ سانپ (سانپ کو اس لئے شیطان کہتے ہیں کہ یہ بھی لوگوں کو ہلاک کرتا ہے.مگر شیطان اسی سانپ کو کہتے ہیں جو چھوٹا ہو).جو ہلاک ہونے والا ہو اس کو بھی شیطان کہتے ہیں.چنانچہ حدیث میں ہے کہ اکیلا سفر کرنے والا یا دو سفر کرنے والے شیطان ہیں.ہاں تین اشخاص جا سکتے ہیں.یعنی چونکہ اس وقت ڈاکے پڑتے تھے اور ہلاک ہونے کا خطرہ تھا.اس لئے فرمایا کہ دو شخصوں کے ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے.ہاں تین ہوں تو سلامت آ جانے کی امید ہو سکتی ہے.قاموس میں لکھا ہے: وَ الشَّیْطَانُ مَعْرُوْفٌ وَ کُلُّ عَاتٍ مُتَمَرِّدٍ مِنْ اِنْسٍ اَوْجِنٍّ اَوْ دَآبَّۃٍ.یعنی ایک شیطان تو مشہور ہے ہی نیز ہر ایک حد سے بڑھنے والے سرکش کو بھی شیطان کہتے ہیں خواہ انسان ہو یا جنّ یا چارپایہ.مُسْتَھْرِئُ وْنَ.مُسْتَھْرِئُ وْنَ اِسْتَھْزَأَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتَھْزَأَ کے وہی معنے ہیں جو مجرد ھَزَأَ کے ہیں.کہتے ہیں ھَزَءَ بِہٖ وَمِنْہُ اَیْ سَخِرَمِنْہُ اس سے ہنسی ٹھٹھا کیا (اقرب) اور اَھْزَاَہُ الْبَرَدُ کے معنے ہیں قَتَلَہٗ سردی نے اسے ہلاک کر دیا (لسان) پس مُسْتَھْزِیٌٔ کے معنے ہوں گے ہنسی کرنے والا اور مُسْتَھْزِءُ وْنَ کے معنے ہوں گے ہنسی کرنے والے.تفسیر.شَیْطٰن کے معنے اوپر حَلِّ لُغَات میں لکھے جا چکے ہیں.ہر شخص جو حق سے دُور ہو یا بغض و کینہ سے جل رہا ہو یا سرکش اور باغی ہو شیطان کہلاتا ہے.اس آیت کے مضمون سے ظاہر ہے کہ شیطان کا لفظ قرآن کریم میں یقینی طو رپر انسان کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ میں شیاطین سے مراد کفار اور منافقین کے سردار ہیں اس آیت میں شیاطین سے مراد کفار اور منافقین کے سردار ہیں جو کبر اور نخوت کے باعث خدا تعالیٰ کے دین سے دور اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہونے سے نفور رہتے تھے اور دوسرے زیر اثر لوگوں کو بھی صراطِ مستقیم کی طرف نہیں آنے دیتے تھے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفاّر کہیں گے.رَبَّنَاۤ اِنَّاۤ اَطَعْنَا سَادَتَنَا وَ كُبَرَآءَنَا فَاَضَلُّوْنَا السَّبِيْلَا (الاحزاب :۶۸) کہ اے ہمارے رب! ہم اپنے سرداروں اور بڑوں کے کہنے پر چلے جنہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا.

Page 274

یہی وہ لوگ تھے جو منافقوں کو اکسانے والے تھے اور مسلمانوں کی ترقیوں کو دیکھ کر جلتے اور حق سے دور تھے.مسلمانوں سے جھگڑتے رہتے اور ان کاموں میں مشغول تھے جو ان کی ہلاکت کا باعث تھے.شیطان سے یہاں ابلیس مراد لینا صحیح نہیں اور نہ اس لفظ کے استعمال سے یہود اور مسیحیوں کے رئوساء کو گالی دی گئی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اَلرَّا کِبُ شَیْطَانٌ وَالرَّاکِبَانِ شَیْطَانَانِ وَالثَّلٰـثَۃُ رَکْبٌ یعنی سفر کی مصیبتو ںکی صورت میں اکیلا سفر کرنے والا، اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے.دو کا بھی یہی حال ہے تین ہوں تو مشکلات سے بچ سکتے ہیں.مخالفین اسلام کے لئے شیاطین کے لفظ کے استعمال پر مخالفین کاایک اعتراض اور اس کا جواب مسیحی معترضین مرقس باب ۸ آیت ۳۳ ملاحظہ کریں.’’پر اس نے پھر کے اور اپنے شاگردوں پر نگاہ کر کے پطرس پر جھنجھلایا اور کہا اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو.‘‘ اسی طرح متی باب ۲۳.آیت ۳۳ ملاحظہ ہو جہاں مسیح نے اپنے مخالف فقیہوں اور فریسیوں کو کہا ہے ’’اے سانپو اور اے سانپوںکے بچو تم جہنم کے عذاب سے کیونکر بھاگو گے.‘‘ نیز متی باب ۳ آیت ۷ بھی ملاخطہ ہو جہاں لکھا ہیں.’’پر جب اس نے دیکھا کہ بہت سے فریسی اور صدوقی بپتسمہ پانے کو اُس پاس آئے ہیں تو انہیں کہا کہ اے سانپو کے بچو تمہیں آنے والے غضب سے بھاگنا کس نے سکھلایا.‘‘ انجیل میں ان حوالوں کی موجودگی کے باوجود مسیحیوں کا شیطان کے لفظ پر اعتراض کرنا جو گالی کے طور پر نہیں بلکہ محض ایک حقیقت کے اظہار کے لئے عربی محاورہ کے مطابق استعمال ہوا ہے سخت تعجب انگیز ہے.شیاطین کے معنے یہودیوں کے سرداروں کے شیطان کے جو معنے َمیں نے کئے ہیں وہ صحابہؓ اور اکابر علماء سے بھی ثابت ہیں.ابن جریر حضرت ابن عباسؓ کی روایت نقل کرتے ہیں کہ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ مِنَ الْیَھُوْدِ الَّذِیْنَ یَاْ مُرُوْنَہُمْ بِالتَّکْذِیْبِ یعنی شیاطین سے منافقوں کے دوست یہودی مراد ہیں جو انہیں تکذیب اسلام کی تعلیم دیا کرتے تھے.اسی طرح ابن جریر قتادہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ کے معنے ہیں اِخْوَانُھُمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ یعنی ان کے مشرک بھائی.اِسی طرح ابن جریر مجاہد کا قول نقل کرتے ہیں.اَصْحَابُھُمْ مِنَ الْمُنٰـفِقِیْنَ وَالْمُشْرِکِیْن یعنی ان کے منافق اور مشرک دوست.اسی طرح ابنِ جریر نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول نقل کیا ہے کہ شیاطین سے مراد رُءُ وْسُھُمْ فِی الْکُفِرْ یعنی ان کے کافر سردار مراد ہیں.مُسْتَهْزِءُوْنَ۠ بصیغہ اسم فاعل جو دوام اور ہمیشگی کا فائدہ دیتا ہے.منافق یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ ہم مسلمانوں سے جب بھی ملتے ہیں استہزاء کے طورپر ہی ملتے ہیں.

Page 275

اَللّٰهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ يَمُدُّهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ۰۰۱۶ اللہ انہیں( ان کی) ہنسی کی سزا دے گا اور انہیں ان کی سرکشیوں میں بہکتے ہوئے چھوڑ دے گا.حَل لُغَات.یَمُدُّھُمْ.یَمُدُّ مَدَّسے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے.اور مَدَّہٗ فِیْ غَیِّہٖ کے معنے ہیں اَمْھَلَہٗ وَطَوَّلَ لَہٗ اس کو کسی بات میں مہلت دی اور اس کی میعاد کو لمبا کیا.(اقرب) تاج میں ہے مَدَّہٗ فِی الْغَیِّ وَالضَّلَالِ: اَمْلٰی لَہٗ وَ تَرَکَہٗ اس کو گمراہی میں پڑا رہنے دیا اور اس میں چھوڑ دیا.پس یَمُدُّھُمْ کے معنے ہوں گے وہ انہیں چھوڑ دے گا.ان کو رہنے دے گا.طُغْیَانِـھمْ.طُغْیَانٌ مصدر ہے طَغِیَ یَطْغٰی یا طَغٰی یَطْغِیْ کی.اور اس کے علاوہ طَغًی اور طُغْیَانًا کی صورت پر بھی اس کی مصدر آتی ہے.طَغٰی کے معنے ہیں جَاوَزَ الْقَدْرَ وَالْحَدَّ اندازہ اور حدّ سے بڑھ گیا.طَغَی الْکَافِرُ.غَلَا فِی الْکُفْرِکفر میں زیادہ بڑھ گیا.طَغٰی فُـلَانٌ.اَسْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ وَالظُّلْمِ گناہ اور ظلم میں حد سے بڑھ گیا.طَغَی الْمَاءُ.اِرْتَفَعَ پانی اونچا ہو گیا.طغیانی اور سیلاب آ گیا.(اقرب) یَعْمَھُوْنَ: عَمـَہَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.کہتے ہیں عَمَہَ الرَّجُلُ جس کے معنے ہیں تَرَدَّدَ فِی الضَّلَالِ وَتَحَیَّرَ فِیْ مُنَازَعَۃٍ اَوْ طَرِیْقٍ وہ شخص گمراہی کی حالت میں حیران پھرتا رہا یا جھگڑے یا راستہ میں حیران رہ گیا کہ اصل حقیقت یا اصل راستہ کونسا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے کہ جب کسی کو کوئی دلیل نہ سوجھے یا بات نہ آئے تو اس حالت کو بھی عَمَہٌ کہتے ہیں.جیسا کہ لکھا ہے اَلْعَمَہُ اَنْ لَّایَعْرِفَ الْحُجَّۃَ یعنی عَمَہَ کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو دلیل نظر نہ آئے.اس کا اسم فاعل عَامِہٌ ہے.اور اس کی جمع عُمَّہٌ اورصیغہ مبالغہ عَمِہٌ ہے.جس کی جمع عَمِھُوْنَ آتی ہے.عَمِیَ کا لفظ جو قرآن کریم میں آتا ہے اور جس سے اَعْمٰی کا لفظ بنا ہے اس کے معنے بھی اندھے پن کے ہیں مگر زمخشری کا قول ہے کہ وہ عَمَہٌ سے عام ہے.اَعْمٰی اس شخص کو کہتے ہیں جو آنکھ یا عقل کا اندھا ہو مگر عَامِہٌ صرف اُس کو کہتے ہیں جو عقل کا اندھا ہو.آنکھ کے اندھے کو عَامِہٌ نہیں کہتے.(اقرب) پس معنے یہ ہوئے کہ اپنی ظالمانہ زیادتیوں میں سرگردان پھرتے ہیں اور پھرتے رہیں گے.اور ان کی عقلیں ماری ہوئی ہیں اور ماری رہیں گی.تفسیر.اللہ تعالیٰ کی طرف لفظ استہزاء منسوب کرنے کا مطلب اللہ تعالیٰ اُن سے استہزاء کرے گا کے یہ معنے نہیں جیسا کہ بعض معترضین قرآن کریم نے سمجھا ہے کہ نعوذ باللہ مسلمانوں کا خدا استہزاء کرتا ہے بلکہ اس جگہ جزائے جرم کے لئے جرم کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جو عربی زبان کا عام قاعدہ ہے اور

Page 276

قرآنِ کریم میں مستعمل ہے اور مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے استہزاء کی انہیں سزا دے گا.(اس کی تفصیل کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت ۴و۱۰).قرآن کریم کی تعلیم اس بارہ میں صاف ہے کہ اللہ تعالیٰ استہزاء سے کام نہیں لیتا.چنانچہ اسی سورۃ کے (ع ۸) میںحضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے شرک کی عادات کو چھڑانے کے لئے ایک خاص گائے قربان کرنے کے لئے کہا تو انہوں نے جواب دیا أَ تَتَّخِذُ نَا ھُزُوًاکیا آپ ہم سے ٹھٹھا کرتے ہیں؟ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ جواب نقل کیا گیا ہے اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَ میں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ جاہلوں میں شامل ہو جائوں یعنی استہزاء کرنا تو جاہلوں کا کام ہے اور میں تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہتا ہوں کہ جاہل نہ بنوں میں کس طرح استہزاء کر سکتا ہوں؟ پس جس پاک ہستی کی مدد سے بندے استہزاء سے بچتے ہیں اس کی طرف استہزاء کی نسبت قرآنی تعلیم کے مطابق کس طرح جائز ہو سکتی ہے؟ علاوہ ازیں استہزاء جھوٹ کو کہتے ہیں یعنی کہا کچھ جائے اور دل میں کچھ اور مراد ہو.اور اس سے مخاطب کی تذلیل مراد ہو.مگر اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے.وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ قِيْلًا (النساء :۱۲۳) یعنی اللہ تعالیٰ سے سچا اور کون ہو سکتا ہے؟ اسی طرح ہنسی مذاق کرنے والا شخص لغو گو ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا نام قرآن کریم حکیم رکھتا ہیں یعنی جس کی ہر بات میں حکمت پوشیدہ ہوتی ہے.پس اللہ تعالیٰ کی نسبت استہزاء کا لفظ محض ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ منافقوں کو ان کے استہزاء کی سزا دے گا.ان معنوں کے علاوہ یہ امر بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت جو لفظ استعمال ہو وہ ان معانی سے جُدا ہو جاتا ہے جو بندہ کی نسبت استعمال ہونے کی صورت میں اس میں پائے جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی نسبت بولنے کا لفظ بولا جائے تو یہ معنی نہیں کہ اس کی زبان اور ہونٹ ہیں جن کو اس نے ہلایا بلکہ صرف یہ معنے ہیں کہ بولنے کا جو نتیجہ ہوتا ہے یعنی الفاظ کا پیدا ہونا وہ اس نے اپنی قدرت سے پیدا کر دیا.اللہ کی نسبت آتا ہے.لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ (الشورٰی :۱۲) پس اس تاویل کے رو سے اللہ تعالیٰ کے استہزاء کرنے کے یہ معنے ہوں گے کہ استہزاء کا نتیجہ اس نے ان کے حق میں پیدا کر دیا یعنی انہیں ذلیل کر دیا اور لوگوں کی نظروں میں قابل مضحکہ بنا دیا.یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مومنوں کے سامنے منافقوں نے یہ کہا کہ ہم ہنسی کرنے والے ہیں.یہ ان کی فطرت کی شہادت ہے کہ مومن کیسے ہیں اور کافر کیسے ہیں؟ مومنوں کی نسبت وہ جانتے تھے کہ کافروں سے ہنسی کرنے کا عذر بھی قبول نہ کریںگے اور اسے بھی بُرا منائیں گے اس لئے ان کے سامنے اصلاح کا عذر پیش کیا.مگر کافروں کی

Page 277

نسبت سمجھتے تھے کہ ان میں تقویٰ نہیں ہمارے استہزاء کے عذر پر بُرا نہ منائیں گے بلکہ بوجہ عداوت خود بھی اسے پسند کریں گے اور خوب خوش ہوں گے کہ ہمارے ساتھیوں نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا.منافقوں کی یہ بے ساختہ شہادت مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کفاّر کی تقویٰ سے دُوری کی عجیب مؤثر شہادت ہے.يَمُدُّهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ کا مطلب وَ يَمُدُّهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ.یَمُدُّ.مَدَّسے نکلا ہے جس کے معنے مہلت دینے کے ہیں.(تاج العروس و قاموس زیر لفظ مَدَّ) صاحب تفسیر روح المعانی زجاج اور ابن کیسان نے بھی یہی معنے کئے ہیں.حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے بھی یہی مروی ہے.سورۃ انعام میں فرمایا.نَذَرُهُمْ فِيْ طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُوْنَ (الانعام:۱۱۱)جس سے مہلت دینے کے معنوں کی تائید ہوتی ہے.پس اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ باوجود ان کی شرارتوں کے خدا تعالیٰ ان کو مہلت دیتا ہے کہ وہ سنبھل جائیں مگر وہ طغیان میں بڑھتے جاتے ہیں.یہ معنے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کفار کو ُطغیان میں زیادہ کرتا ہے.اس بات کو سورۃ فاطر ع ۴ میں خوب حل کر دیا ہے کہ مہلت گمراہ کرنے کے لئے نہیں دی جاتی بلکہ اس لئے کہ جو چاہیں اس عرصہ میں توبہ کر لیں.جیسا کہ فرمایا اَوَ لَمْ نُعَمِّرْكُمْ مَّا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذَكَّرَ وَ جَآءَكُمُ النَّذِيْرُ (فاطر:۳۸)یعنی کیا ہم نے تم کو اس قدر عمر نہ دی تھی کہ جس میں نصیحت پکڑنے والا نصیحت پکڑ لیتا ہے اور تمہارے پاس ڈرانے والے بھی آئے.مگر تم نے نہ ڈھیل سے فائدہ اٹھایا نہ نذیر سے.اس سے ثابت ہوا کہ مہلت جو کفار کو ملتی ہے وہ گمراہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت پانے کے لئے ملتی ہے.یَعْمَھُوْنَکی تشریح یَعْمَھُوْنَ.عَمَہُ سے نکلا ہے جو رستہ میں علامات اور نشانات نہ ہونے کو کہتے ہیں.اور اس کے تین معنے مستعمل ہیں.(۱) متحیر، حیران ہونا (۲) رشد سے اندھا ہونا (۳) سر نیچے کر لینا اور جو آگے سے آ رہا ہے اُسے نہ دیکھنا.یہاں یہ مراد ہے کہ منافقین جن شرارتوں میں پڑے ہوئے ہیں بلا سوچے سمجھے انہی میں بڑہتے جاتے ہیں.اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى ١۪ فَمَا رَبِحَتْ یہ وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی کو اختیار کر لیا پس ان کا سودا

Page 278

تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِيْنَ۰۰۱۷ نفع مند نہیں ہوا اور نہ انہوں نے ہدایت پائی.حل لغات.اِشْتَرَوْا.اِشْتَرَوْا اِشْتَریٰ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِشْتَرَاہُ کے معنے ہیں مَلَکَہٗ بِالْبَیْعِ کسی چیز کا خرید کے ذریعہ سے مالک ہو گیا.بَاعَہٗ نیز اس کے معنے ہیں اس کو بیچا یعنی یہ لفظ اضداد میں سے ہے.اور متضاد معنے دیتا ہے خریدنے کے بھی اور بیچنے کے بھی.وَکُلُّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَ تَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِ اشْتَـرَاہُ.ہر وہ شخص جو ایک چیز کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کو اس کی بجائے اختیار کر لے اس پر اِشْتَرٰی کا لفظ بولیں گے.گویا اس نے ایک چیز دے کر دوسری لے لی.(اقرب) عام طور پر شَرَا کسی چیز کو خرید نے اور لفظ بَیْع کسی چیز کے بیچنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے لیکن جب سامان کو سامان کے بدلہ میںتبادلہ کیا جائے تو دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر لیا کرتے ہیں.لیکن لفظ شَرَا اور اِشْتَرٰی کا استعمال اس طرح بھی جائز ہے کہ جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے تو اس کی نسبت کہیں گے کہ شَرَا ہُ یا اِشْتَرَاہُ (مفردات) اَلضَّلٰـلَۃُ.اَلضَّلٰـلَۃُ ضَلَّ یَضِلُّ کے معنے ہیںضِدُّ اِھْتَدٰی یعنی ہدایت کے خلاف حالت پر ہو گیا اور دین اور حق نہ پایا.ضَلَّ عَنْہُ یَضِلُّ.لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ اس طرف راہ نہ پائی.ضَلَّ یَضَلُّ (ضاد کی زبر سے) فُـلَانٌ اَلطَّرِیْقَ وَعَنِ الطَّرِیْقِ : لَمْ یَھْتَدِ اِلَیْہِ راستہ نہ پایا.جب دار یا منزل یا ہر اپنی جگہ پر قائم رہنے والی چیز کا اس کے بعد ذکر ہو تو اس کے یہی معنے ہوتے ہیں.ضَلَّ الرَّجُلُ فِی الدِّیْنِ ضَلَا لًا وَضَلَالَۃً.ضِدُّ اِھْتَدٰی.اس شخص نے دین کے معاملہ میں درست راہ نہ پائی.ضَلَّ فُـلَانٌ الفَرَسَ فلاں شخص نے اپنا گھوڑا گم کر دیا.ضَلَّ عَنِّیْ کَذَا.ضَاعَ مجھ سے فلاں چیز ضائع ہو گئی.ضَلَّ الْمَائُ فِی اللَّبَنِ.خَفِیَ وَغَابَ پانی دودھ میں مل گیا اور غائب ہو گیا.ضَلَّ فُـلَانٌ فُـلَانًا.نَسِیَہٗ اس شخص کو بھول گیا.ضَلَّ النَّاسِیْ : غَابَ عَنْہُ حِفْظُ الشَّیْ ءِ.بھول گیا.اس کے ذہن سے بات نکل گئی.ضَلَّ سَعْیُہٗ.عَمِلَ عَمَلًا لَمْ یَعُدْ عَلَیْہِ نَفْعُہٗ ایسا کام کیا کہ جس کا اسے کوئی نفع نہ ہوا.(اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۷.اَلْھُدٰی.اَلْھُدٰی کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۳.رَبِحَتْ تِّجَارَتُہٗ رَبِحَتْ تِّجَارَتُہٗ کے معنے ہیں رَبِحَ فِیْھَا کہ تاجر نے اپنی تجارت میں نفع اٹھایا (اقرب)

Page 279

مُھْتَدِیْنَ.مُھْتَدِیْنَ اِھْتَدٰی سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے.اور اِھْتَدٰی کے وہی معنے ہیں جو ھَدٰی کے ہیں.ھَدٰی کے لئے دیکھوحَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۶.تفسیر.اِشْتَرَوُا الضَّلٰـلَۃَ کے دو معنے.(۱) اِشْتَرَوُا الضَّلٰـلَۃَ بِالْھُدٰی کے ایک معنے تو یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ہدایت دے کر گمراہی کو خرید لیا ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان لوگوں کے سامنے ہدایت اور ضلالت دونوں پیش کی گئی تھیں انہوںنے ضلالت اختیار کر لی اور ہدایت ترک کر دی.پہلے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک انسان کو فطرت صحیحہ عطا کی ہے اور اسے بہترین قویٰ دیئے ہیں.جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا (الروم :۳۱) اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے.لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِيْۤ اَحْسَنِ تَقْوِيْمٍ (التین :۵) کہ ہم نے انسان کو بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اسے اعلیٰ سے اعلیٰ قویٰ دئیے ہیں.پھر اس کے بعد وہ اپنی یا اپنے والدین کی خرابیوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے فطرتِ صحیحہ اور پاک قویٰ سے محروم ہو جاتا ہے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَا مِنْ مَوْ لُوْدٍ اِلَّا یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَـاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہٖ اَوْ یُنَصِّرَانِہٖ (مسلم کتاب القدرباب معنی کل مولود یولد علی الفطرۃ …) کہ بچہ تو فطرت صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین اس کے بچپن سے فائدہ اٹھا کر اُسے اپنے دین پر کر لیتے ہیں اور اُسے یہودی یا مجوسی یا عیسائی بنا لیتے ہیں گویا وہ ان کی فطرتی ہدایت کو قربان کر دیتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اسے گمراہی خرید دیتے ہیں.یا پھر وہ بڑا ہو کر خود اپنی اچھی طاقتوں کو بُرے طریق پر استعمال کر کے خراب کر لیتا ہے.مثلاً اللہ تعالیٰ نے اُسے جرأت عطا کی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ اس سے کسی کی مدد کرے وہ ظلم کرنے لگ جاتا ہے.اسی طرح اور اچھے جوہر جو اللہ تعالیٰ نے اسے عطا کئے ہیں بُرے استعمال کی وجہ سے ضائع کر دیتا ہے.پس اس جگہ ہدایت سے وہ فطرتی نیک طاقتیں مراد ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہیں.اور اِشْتَرٰی کا مطلب یہ ہے کہ شر یر لوگ ان پاک قویٰ کو جو ان کی ترقی کے لئے ان کو دیئے گئے تھے بُرے مواقع پر استعمال کر کے ان سے گمراہی اور ضلالت خرید لیتے ہیں اور دینی اور دنیوی دونوں فائدوں سے محروم ہو جاتے ہیں.دوسرے معنوں کی بنیاد اس بات پر ہے کہ ایک طرف تو خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کے امتیاز کی مقدرت اور اختیار دیا ہے.دوسری طرف نبیوں کے ذریعہ اس کے پاس نیکی کی تعلیم اور ہدایت بھیج دیتا ہے مگر ساتھ ہی شیطان اپنی بُری تعلیم اس کے سامنے پیش کرتے ہیں.جو لوگ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی عقل سے کام نہیں لیتے وہ

Page 280

خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی ہدایت کو چھوڑ دیتے ہیں اور شیطان یا اس کے چیلوں کی پیش کی ہوئی گمراہی کی باتوں کو قبول کر لیتے ہیں اور اس طرح ہدایت کو ردّ کر کے ضلالت کو اختیار کرنے والے ہو جاتے ہیں.(ب) فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْکی تشریح فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ چونکہ کفار نے ایک چیز چھوڑ دی اور دوسری اس کے بدلہ میں لے لی اس لئے اس کا نام تجارت رکھا گیا ہے.فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنے خیال میں ایک مفید تجارت کی ہے کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نیک فطرت کو ترک کر کے بُری باتوں کو اختیار کر لیا ہے.یا خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم کو چھوڑ کر شیطانی باتوں کو اختیار کر لیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ بہت فائدہ اٹھائیں گے.لیکن انہیں کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا بلکہ وہ نقصان اٹھائیں گے اور یہ سودا انہیں بہت مہنگا پڑے گا.(ج) وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَکی تشریح وَمَا کَانُوْا مُھْتَدِیْنَ یہ نتیجہ پہلے نتیجہ کے علاوہ ہے.اس میں بتایا ہے کہ ان کو صرف یہی نقصان نہیں ہو گا کہ وہ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور نقصان اٹھائیں گے.بلکہ اس کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ وہ ہدایت سے محروم رہیں گے اور ان کی عاقبت بھی خراب ہو گی.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر فعل کے دو نتیجے نکلتے ہیں.ایک نتیجہ تو اس فعل کے ساتھ ہی نکلتا ہے اور دوسرا اس کے بعد پیدا ہوتا ہے.مثلاً ایک انسان چوری کرتا ہے تو اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ وہ ذلیل ہو جاتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اور قید ہوتا ہے یا اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے یا اور کوئی سزا پاتا ہے.دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہدایت کے قبول کرنے کی قابلیت اس میں سے جاتی رہتی ہے اور وہ ہدایت سے دور ہو جاتا ہے.اسی طرح ہر نیکی کا نتیجہ اس کے ساتھ ہی نکلنا شروع ہو جاتا ہے.مثلاً اس نیکی کی وجہ سے اس کے اپنے دل میں خوشی پیدا ہوتی ہے اور لوگوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے اور وہ اسے اچھا خیال کرنے لگ جاتے ہیں.دوسرا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر ہدایت قبول کرنے کی قابلیت بڑھتی جاتی ہے اور وہ ہدایت میں ترقی کرتا جاتا ہے.وَمَاکَانُوْا مُھْتَدِیْنَ میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دوسرا نقصان انہیں یہ پہنچا کہ وہ ہدایت سے دور ہی دور ہوتے چلے گئے ہیں.مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا١ۚ فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ ان کی حالت اس شخص کی حالت کی طرح ہے جس نے آگ جلائی پھر جب اس (آگ )نے اس کے اردگرد

Page 281

مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِيْ ظُلُمٰتٍ لَّا (کے علاقہ ) کو روشن کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روشنی کو لے گیا اور اس نے انہیں (قسما قسم کے)اندھیروں میں يُبْصِرُوْنَ۰۰۱۸ (اس حال میں ) چھوڑ دیا( کہ) وہ( کوئی راہ نجات) نہیں دیکھتے.حَلّ لُغَات.مَثَلُھُمْ.اَلْمَثَلُ کے معنے ہیں اَلشِّبْہُ وَالنَّظِیْرُ.مشابہ اور نظیر.اَلصِّفَۃُ حالت.بیان.اَلْحُجَّۃُ.دلیل.ثبوت.یُقَالُ اَ قَامَ لَہٗ مَثَـلًا اَیْ حُـجَّۃً.اَقَامَ لَہٗ مَثَـلًا کہہ کر مَثَل سے مراد دلیل لیتے ہیں.اَلْحَدِیْثُ بات.اَلْقَوْلُ السَّائِرُ.ضرب المثل.اَلْعِبْرَۃُ.عبرت.اَ لْاٰیَۃُ نشان (اقرب) مفردات میں ہے اَلْمَثَلُ عِبَارَۃٌ عَنْ قَوْلٍ فِیْ شَیْ ءٍ یُشْبِہُ قَوْلًا فِیْ شَیْ ءٍ اٰخَرَ بَیْنَھُمَا مُشَابَھَۃٌ لِیُبَیِّنَ اَحَدُھُمَا الْاٰخَرَ وَیُصَوِّرَہٗ یعنی کسی چیز کے متعلق کسی دوسری چیز سے جو اس سے مشابہ ہو ملتا جلتا بیان کرنا تاکہ ان میں سے ایک کا ذکر دوسرے کی حقیقت کو واضح کر دے مثل کہلاتا ہے.اِسْتَوْقَدَ.اِسْتَوْقَدَ النَّارَ اِسْتِیْقَادًا کے معنے ہیں.اَشْعَلَھَا آگ کو روشن کیا.(اقرب) اَضَآءَ تْ.اَضَآءَ تْ اَضَآءَ سے واحد مؤنث غائب کا صیغہ ہے جو ضَائَ سے باب افعال ہے.اَضَآئَ لازم اور متعدّی ہر دو طرح استعمال ہوتا ہے.چنانچہ یوںبھی کہتےہیںاَضَآءَ تِ النَّارُ اَیْ اِسْتَنَارَتْ کہ آگ روشن ہو گئی (لازم) اور یوں بھی کہتے ہیں کہ اَضَآءَ ھَا یعنی آگ کو کسی نے روشن کیا (متعدّی) (مفردات).اس آیت میں اَضَائَ متعدّی استعمال ہوا ہے.اورفَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ کے معنے ہیں کہ جب اُس آگ نے روشن کر دیا.حَوْلَہٗ.حَوْلَہٗ کہتے ہیں قَعَدَ حَوْلَہٗ اَیْ فِی الْجِھَاتِ الْمُحِیْطَۃِ بِہٖ اس کے ارد گرد بیٹھا (اقرب) ذَھَبَ بِہٖ.ذَھَبَ بِہٖ اَ زَالَہٗ اس کو دور کیا.(اقرب) ظُلُمٰتٌ : اَلظُّلُمَاتُ.اَلظُّلْمَۃُ کی جمع ہے اور اَلظُّلْمَۃُ کے معنے ہیں ذَھَابُ النُّوْرِ روشنی کا نہ ہونا یعنی اندھیرا.وَقِیْلَ ھِیَ عَدْمُ الضَّوْءِ عَمَّا مِنْ شَانِہٖ اَنْ یَکُوْنَ مُضِیْئًا اور بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ جس چیز کے لئے روشنی ضروری تھی اس سے اگر روشنی علیحدہ ہو جائے تو اس پر ظلمت کا لفظ بولتے ہیں.وَرُبَّمَا کُنِیَ بِالظُّلْمَۃِ عَنِ الضَّلٰـلَۃِ کَمَا یُکْنٰی بِالنُّوْرِ عَنِ الْھُدٰی جس طرح نور کا لفظ بول کر ہدایت مراد لیتے ہیں اسی طرح کبھی

Page 282

ظلمت کا لفظ بول کر اس سے ضلالت مراد لیتے ہیں.(اقرب) وَیُعَبَّرُبِھَا عَنِ الْجَھْلِ وَ الشِّرْکِ وَ الْفِسْقِ اور جہل اور شرک اور فسق کو بھی ظلمت کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے.(مفردات) اندھیروں کا لفظ اس امر کے اظہار کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ صرف ظاہری تاریکی ہی نہیں بلکہ وہ جگہ بھی پرُ خطر ہے اور ظاہری اندھیرے کے ساتھ اور کئی قسم کے خطرات بھی لاحق ہو گئے ہیں.اردو میں چونکہ اندھیرے کا لفظ اس موقع پر جمع کے صیغہ میں استعمال نہیں ہوتا.اور اگر استعمال بھی کر لیں تو وہ معنے نہیں دیتا جو عربی سے ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے ’’قسما قسم‘‘ کے الفاظ خطوط میں بڑھا دیئے گئے ہیں تا اصل مفہوم پڑھنے والے پر ظاہر ہو جائے.قرآن کریم میں یہ لفظ ہمیشہ جمع کے طور پر استعمال ہوا ہے.لیکن جب بھی استعمال ہوا ہے اخلاقی یا روحانی امر کی تمثیل بیان کرنے کے لئے ہوا ہے.کیونکہ گناہ اور بد اخلاقیاں اکیلی نہیں رہتیں.بلکہ ایک گناہ دوسرے گناہ کو اور ایک مصیبت دوسری مصیبت کو کھینچتی ہے.لَا یُبْصِرُوْنَ.لَا یُبْصِرُوْنَ اَبْصَرَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.اور اَبْصَرَہٗ کے معنے ہیں رَاٰہُ اس کو دیکھا.وَاَخْبَرَہٗ بِمَا وَقَعَتْ عَیْنُـہٗ عَلَیْہِ اور جس پر اس کی نگاہ پڑی اس کے متعلق خبر دی.اَبْصَرَ فُلَانًا.جَعَلَہٗ بَصِیْرًا کسی کو دیکھنے والا بنا دیا.اَبْصَرَ الطَّرِیْقَ.اِسْتَبَانَ وَ وَضَحَ راستہ واضح ہو گیا (اقرب) تفسیر.آیت اَوْ كَصَيِّبٍ میں اعتقادی منافقوں کا ذکر اس آیت میں اعتقادی منافقوں کی جو دل سے کافر تھے مگر بظاہر مسلمانوں سے ملے ہوئے تھے.ایک مثال دی ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے اس مثال سے ملتے ہوئے بعض الفاظ بیان فرمائے ہیں جن سے بعض لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ وہ اِس آیت کی تشریح میں ہیں.مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں.وہ حدیث جسے اِس آیت کی تشریح سمجھا گیا ہے یوں ہے.عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ اِنَّمَا مَثَلِیْ وَ مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ اِسْتَوْقَدَ نَارًا، فَجَعَلَتِ الدَّ وَآبُّ وَالْفَرَاشُ یَقَعْنَ فِیْہِ (فِیْھَا) فَاَنَا اٰخِذٌ بِحُجَزِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَقَحَّمُوْنَ فِیْہِ (مسلم.کتاب الفضائل باب شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علٰی اُمّتہ) یعنی حضرت ابوہریرہؓ نے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری حالت اور میری امت کی حالت اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ جلائی جب آگ جل اٹھی تو کیڑے مکوڑے آگ میں گرنے لگے.پس میں تو تمہاری کمروں کو پکڑتا ہوں کہ آگ میں نہ گر جائو اور تم اس میں بے تحاشا گر رہے ہو.اس حدیث میں بے شک ایک تمثیل بھی بیان کی گئی ہے.نیز اس میں آگ جلانے والے ایک شخص کا بھی ذکر ہے مگر ساتھ ہی اس میں یہ لفظ بھی ہیں کہ یہ میری اور میری امت کی مثال ہے.لیکن جن کفار کا آیت زیر تفسیر میں ذکر

Page 283

ہے وہ تو اعتقادی کافر ہیں.یعنی دل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ جھوٹا سمجھتے ہیں اور ان کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ.وہ ہر گز مومن نہیں.ایسے لوگوں کو امت رسول اللہؐ کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ پس اِس حدیث میں اس آیت سے ملتے جلتے ہوئے الفاظ بے شک ہیں لیکن اس میں ان منافقوں کا ذکر نہیں بلکہ امت کے بعض گنہگاروں کا ذکر ہے جو عقیدۃً تو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں لیکن پورا تقویٰ نصیب نہ ہونے کی وجہ سے اعمال میں کمزور ہوتے ہیں.میرے نزدیک اِس آیت میں منافقوں کی حالت بیان کی گئی ہے کہ پہلے تو انہوں نے خود آگ جلائی مگر جب اس آگ کا نور پھیل گیا تو بینائی سے محروم ہو گئے اور اس سے فائدہ نہ حاصل کر سکے.آگ جلانے سے یہاں مراد اسلام کو مدینہ میں بلوانا ہے.جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں آنے کی دعوت دی گئی تو اس میں سب ہی اہل مدینہ شامل تھے اور یہ منافق بھی سب کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے مگر جب اسلام کی روشنی پھیل گئی تو ان کے دلوں کے بغضوں اور کینوں نے انہیں حسد پر مجبور کر دیا اور آخر بینائی بھی کھو بیٹھے.یہ ایک روحانی حقیقت ہے کہ جب انسان راستہ کو قبول کر کے پیچھے ہٹتا ہے تو جو نیکی کا مقام اسے پہلے حاصل تھا اسے بھی کھو بیٹھتا ہے.آگ سے مراد الٰہی تعلیم اور نشانات آگ سے الٰہی تعلیم اور آسمانی نشانات کا مراد لینا قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب وہ مدین سے واپس آرہے تھے تو انہوں نے الٰہی تجلی کو آگ کی شکل میں دیکھا.چنانچہ فرماتا ہے اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا (القصص :۳۰) انہوںنے طو ُرکی جانب ایک آگ دیکھی.پھر آگے ذکر ہے کہ جب وہ اس آگ کے پاس آئے.تو انہیں آواز آئی کہ يٰمُوْسٰۤى اِنِّيْۤ اَنَا اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ (القصص :۳۱) اے موسیٰ! مَیں یقینا اللہ سب جہانوں کا ربّ ہوں.پس آگ کا لفظ تجلی ّا لٰہی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں بھی یہی مراد ہو سکتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے تو ان لوگوں نے آگ جلائی یعنی اللہ تعالیٰ کی تجلیّ کو یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں بلوایا مگر بعد میں حسد کرنے لگ گئے.اور آپ کے ساتھ وابستگی کے فوائد سے محروم رہ گئے.منافقوں کے آگ جلانے سے مراد قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی الٰہی کلام کے نزول کو نار سے تشبیہ دی گئی ہے اور وہ یہ ہےيَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ (النور:۳۶) یعنی فطرۃ صحیحہ کا تیل ایسی اعلیٰ طاقت رکھتا ہے کہ الہام کی آگ سے روشن ہونے کے بغیر بھی جلنے کے قریب ہوتا ہے.یعنی گو جلتا تو الہام کی آگ سے ہی ہے مگر استعداد کے لحاظ سے وہ بھڑکنے کے قریب ہوتا ہے.

Page 284

غرض قرآنی محاورہ کے مطابق آگ کا لفظ الٰہی جلوہ یا الٰہی کلام پر بھی دلالت کرتا ہے.اور اس محاورہ کے مطابق اس آیت کا یہی مفہوم ہے کہ منافقوں نے خدا کے کلام کی آگ کو اپنے گھروں میں روشن کیا مگر بعد میں اس کے فوائد سے محروم ہو گئے.آگ کے لفظ کا الٰہی جلوہ یا کلامِ الٰہی کے لئے استعمال کرناکوئی معیوب امر نہیں.کیونکہ آگ بے شک جلانے والی چیز ہے لیکن محبت کے لئے بھی آگ کا لفظ مستعمل ہے کیونکہ وہ ایک نہ مٹنے والی خواہش کو پیدا کر دیتی ہے.اسی طرح جو چیز گندے خیالات اور گناہ کی خواہش کو مٹا دے اور بھسم کر دے.اسے آگ سے تشبیہ دینا بالکل درست اور ایک لطیف تشبیہ ہو گی.اور جلوۂِ الٰہی اور کلامِ الٰہی کا یہی کام ہے.پس ان کی اس تاثیر کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان کو آگ سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے.جس طرح بعض تاثیرات کے لحاظ سے انہیں پانی سے بھی تشبیہ دی جا سکتی ہے.اور قرآن کریم نے دی ہے.آگ سے مراد جنگ آگ عربی کے محاورہ میں جنگ کو بھی کہتے ہیں اس محاورہ کے رو سے اس آیت کا یہ مطلب بھی ہے کہ منافقوں نے کفار سے منصوبے کر کے جنگ کی آگ بھڑکائی اور خیال کیا کہ اس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو نقصان پہنچا سکیں گے.لیکن نتیجہ الٹا نکلا.ان جنگوں سے اسلام کو اور بھی تقو ّیت پہنچی اور اسلام کی شان اور بھی بڑھ گئی.اور یہ بجائے فائدہ اٹھانے کے اپنی بینائی کھوبیٹھے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں کہ نتیجہ تو ہماری توقع کے خلاف نکلا.آگ کا لفظ ان معنوں میں عرب میں عام طور پر مستعمل ہے.کہتے ہیں.خَـمَدَتْ نَارُہٗ اس کی آگ بجھ گئی یعنی لڑائی میں اس کا جتھا شکست کھا گیا.عربوںمیں آگ کا جنگ سے اس قدر تعلق سمجھا جاتا تھا کہ اگر لڑائی کے میدان میں کسی لشکر کی آگ بجھ جاتی تو وہ اسے اپنی شکست کا شگون سمجھتا تھا.چنانچہ غزوۂ احزاب کے موقعہ پر ابو سفیان اس لئے میدان سے بھاگ کھڑا ہوا تھا کہ اس کی آگ بجھ گئی تھی.قرآن کریم نے بھی اس محاورہ کو استعمال فرمایا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.كُلَّمَاۤ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَهَا اللّٰهُ(المائدۃ:۶۵) یعنی جب بھی وہ لڑائی کی آگ جلاتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے.یعنی ان کی شکست اور ذ ّلت کے سامان پیدا کر دیتا ہے.پس اس محاورہ کی روشنی میں اس آیت کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ منافقوں نے لڑائی کی آگ تو اس لئے جلائی تھی کہ اسلام تباہ ہو.اُلٹے خود تباہ ہو گئے.ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْکی تشریح ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ جنگوں کی وجہ سے

Page 285

اسلام کا نورانی جُبّہ جو منافقوں نے پہن رکھا تھا.اللہ تعالیٰ نے اتار لیا یعنی کفار کو فتح تو ملی نہیں الٹا ان کا نفاق ظاہر ہو گیا کیونکہ جب وہ مسلمانوں کی امداد سے دستکش ہو گئے اور لڑائیوں میں شامل نہ ہوئے تو ان کے اسلام کے دعویٰ کی قلعی کھل گئی اور جو مسلمان غلطی سے ان پر ُحسن ظنیّ رکھتے تھے ان پر کھل گیا کہ یہ لوگ منافق ہیں اور اسلام سے ان کو کوئی لگائو نہیں.دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اسلام کی ترقی نے منافقوں کی حقیقت کو آشکار کر دیا.کیونکہ جوں جوں دین کامل ہوتا جاتا ہے اور نورِ الٰہی ترقی کرتا جاتا ہے.شریعت کے احکام بڑھتے جاتے ہیں اور منافقوں کے لئے اس پر عمل کرنا زیادہ سے زیادہ دو بھر ہوتا جاتا ہے اور ان کی منافقت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے.اور نور کا لباس ان سے ِچھن جاتا ہیں.تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَکا مطلب تَرَکَھُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّایُبْصِرُوْنَ سے یہ بتایا ہے کہ جنگ کی آگ تو انہوں نے اس لئے جلائی تھی کہ اس کی بھڑکتی آگ سے فائدہ اٹھائیں گے اور پھر اپنی شوکت قائم کریں گے.مگر ہوا یہ کہ نفاق کے کھل جانے کے سبب سے اور بھی اندھیرے میں جا پڑے یعنی حیران رہ گئے کہ اب کیا کریں یا یہ کہ نفاق کی مرض اور بھی ترقی کر گئی.آگ کے معنے اگر اسلام کے کئے جائیں تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ چونکہ انہوں نے خود اسلام کو بلوایا اور پھر اس سے اعراض کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو اس نور سے بھی محروم کر دیا جو فطرت ِصحیحہ کے ذریعہ سے ہر انسان کو ملتا ہے اور ان کو اسی حالت میں چھوڑ دیا کہ نہ خدا تعالیٰ کے الہام کا نور ان کے پاس رہا اور نہ فطرۃ صحیحہ کی ہدایت ان کے ساتھ رہی.آیت ھٰذا میں آگ جلانیوالے کیلئے مفرد کی ضمیر اور پھر اس کے بعد جمع کی ضمیر رکھنے کی وجہ بعض لوگ اس آیت پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ آگ جلانے والے ایک شخص کا ذکر ہے لیکن بعد میں ضمیر جمع کی آئی ہے اس کا کیا مطلب؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں آگ جلانے والے کے لئے اَلَّذِی کا لفظ آیا ہے اور اَلَّذِیعربی میں مفرد، تثنیہ اور جمع تینوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ جائز ہے کہ کبھی تو اس کی طرف لفظ کی رعایت سے مفرد کی ضمیر پھیری جائے اور کبھی مراد کے لحاظ سے اگر وہ جمع ہو جمع کی ضمیر پھیری جائے چنانچہ ہَمْعُ الْہَوَامِعْ میں جو امام سیوطی کی علْمِ نحو میں نہایت اعلیٰ کتاب ہے لکھا ہے کہ اخفش کہتا ہے اَلَّذِیْ کَمَنْ یَّکُوْنُ لِلْوَاحِدِ وَالْمُثَنّٰی وَالْجَمْعِ بِلَفْظٍ وَاحِدٍ.اَلَّذِیْبھی مَنْ کی طرح ہے اس سے واحد مثنیٰ اور جمع تینوں کی طرف اشارہ کرنا جائز ہوتا ہے.پھر اخفش کی روایت سے ایک مصرعہ لکھا ہے ؎ اُولٰٓئِکَ اَشْیَاخِی الَّذِیْ تَعْرِفُوْنَھُمْ

Page 286

یعنی یہ میرے شیوخ ہیں جن کو تم جانتے ہو.اس مصرعہ میں اشیاخی کے لئے جو جمع ہے اَلَّذِیْ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.قرآن کریم میں بھی دوسرے مقامات پر اسی طرح اَلَّذِیْ جمع کے لئے استعمال ہوا ہے فرماتا ہے وَ الَّذِيْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(الزمر:۳۴)یعنی اَلَّذِیْ کے بعد پہلے مفرد ضمیر استعمال کی اور جَآئَ اور صَدَّقَ کے الفاظ رکھے مگر بعد میں اُولٰٓئِکَ کہہ کر جمع کے لفظ سے اشارہ کیا.اسی طرح ایک اور جگہ آتا ہے وَ خُضْتُمْ كَالَّذِيْ خَاضُوْا (التوبۃ:۶۹) اور تم باتوں میں پڑ گئے جس طرح پہلے لوگ باتوں میں پڑ گئے تھے.یہاں اَ لَّذِیْ کہہ کر خَاضُوْا کہا ہے جس میںجمع کی ضمیر ہے.غرض اس آیت میں پہلے تو اَلَّذِیْ کے لفظ کی رعایت سے اِسْتَوْقَدَ کالفظ لایا گیا جس میں واحد کی ضمیر ہے اورپھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ کہہ کربتا دیا گیا کہ گو لفظ مفرد کا استعمال ہوا ہے مگر مراد اس سے ایک جماعت ہے.نیز اس کا جواب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے اِسْتَوْقَدَ میں ان کے لیڈر کی طرف اشارہ کیا جس نے آگ جلائی تھی اور پھر ذَھَبَ اللّٰہُ بِنُوْرِھِمْ میں اس طرف اشارہ کر دیا کہ وہ شخص اکیلا نہیں بلکہ اس کے ساتھ ایک جماعت بھی ہے.اور یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ فساد شروع منافقوں کے لیڈر نے کیاتھا مگر اس کے نتیجہ میں تباہی سب منافقوںپر آئی.ایک اعتراض اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلے تو فرمایا مَثَلُھُمْ پھر فرمایا کَالَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا یعنی پہلے تو ایک جماعت کی حالت بیان کرنے کا ذکر کیا اور بعد میں ایک شخص کو پیش کیا.اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے.اس جگہ ایک شخص کا ذکر نہیں بلکہ اَلَّذِیْکی وجہ سے واحد کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے مگر مراد جمع ہی ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ ایک جماعت کی حالت بھی ایک شخص کی حالت کے مشابہ ہو سکتی ہے.اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں.تیسرا جواب یہ ہے کہ جماعت کو ایک سے مشابہت دینا محاورہ کے خلاف نہیں.قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ آتا ہے.مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰىةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا (الجمعۃ :۶) یعنی وہ لوگ جن پر تورات حکماً لا دی گئی.پھر انہو ںنے اس کو نہ اٹھایا یعنی اس پر کار بند نہ ہوئے ان کی مثال گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں.صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَۙ۰۰۱۹ وہ بہرے ہیں ،گونگے ہیں، اندھے ہیں پس وہ لوٹیں گے نہیں.حَلّ لُغَات.صُمٌّ.صُمٌّ اَصَمُّ کی جمع ہے اور کہتے ہیں صَمَّ الرَّجُلُ صَمًّا وَصَمَمًا.اِنْسَدَّتْ اُذُنُہٗ

Page 287

وَثَقُلَتْ سَمْعُہٗ اس کے کان بند ہو گئے اور بوجھل ہو گئے یعنی شنوائی جاتی رہی فَھُوَ اَصَمُّ اور ایسے شخص کو اَصَمُّ یعنی بہرہ کہتے ہیں اَ لْاَصَمُّ اَیْضًا اَلرَّجُلُ لَایُطْمَعُ فِیْہِ وَلَا یُرَدُّ عَنْ ھَوَاہُ اور ایسے شخص کو بھی اَصَمّ کہتے ہیں جس کے راہِ راست پر آنے کی امید نہ کی جا سکے اور نہ اس سے کسی بھلائی کی امید کی جا سکے اور اس کو بھی اَصَمّکہتے ہیں جو اپنی شرارت سے باز نہ آئے اور اس کو ہوا پرستی و گمراہی سے روکا نہ جاسکے.(اقرب) بُکْمٌ.اَبْکَمُ کی جمع ہے.جو بَکَمَ سے صفت مشبّہ ہے.اَلْبُکْمُ کے معنے ہیں اَلْخُرْسُ مَعَ عَیٍّ وَبَلْہٍ ایسا گونگاپن جس میں زبان کی رکاوٹ اور سادہ لوحی پائی جائے.وَقِیْلَ ھُوَ الخُرْسُ مَاکَانَ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنے مطلق گونگا پن کے ہیں خواہ کیسا ہی ہو.وَقَالَ ثَعْلَبُ اَلْبُکْمُ اَنْ یُّوْلَدَ الْاِنْسَانُ لَایَنْطِقُ وَلَایَسْمَعُ وَلَایَبْصُرُ.ثعلب جو لغت کے مشہور امام ہیں کہتے ہیں کہ اَبْکَمُ ایسے شخص پر بولا جائے گا جس کی پیدائش ایسی ہو کہ نہ وہ بول سکے اور نہ سُن سکے اور نہ دیکھ سکے.نیز اَبْکَمُ کے معنی ہیں.اَخْرَسُ بَیِّنُ الْخُرْسِ.ایساگونگا جس کا گونگا پن ظاہر ہو قَالَ الْاَزْھَرِیُّ بَیْنَ الْاَخْرَسِ وَالْاَ بْکَمِ فَرْقٌ فِیْ کَلَامِ الْعَرَبَ.ازہری کہتے ہیں کہ اَخْرَسُ اور اَبْکَمُ میں کلام عرب میں فرق ہے فَالْاَخْرَسُ الَّذِیْ خُلِقَ وَلَا نُطْقَ لَہٗ کَالْبَھِیْمَۃِ الْعَجْمَاءِ وَالْاَ بْکَمُ الَّذِیْ بِلِسَانِہٖ نُطْقٌ وَھُوَ لَایَعْقِلُ الْجَوَابَ وَلَا یُحْسِنُ وَجْہَ الْکَلَامِ.اَخْرَس ایسے شخص کو کہتے ہیں کہ جو ایسی ِخلقت میں پیدا ہو کہ اس میں قوت ناطقہ نہ ہو اور وہ حیوان کی طرح ہو اور اَبْکَمْ ایسے شخص کو کہیں گے جس کی زبان میں نطق تو ہو لیکن وہ جواب نہ دے سکتا ہو اور نہ اچھی طرح کلام کر سکتا ہو.(لسان) عُمْیٌ.عُمْیٌ اَعْمٰی کی جمع ہے اس کا فعل عَمِیَ ہے کہتے ہیں عَمِیَ: ذَھَبَ بَصَرُہٗ کُلُّہٗ مِنْ عَیْنَیْہِ کِلْتَیْھِمَا یعنی بکلی آنکھوں سے اندھا ہو گیا.نیز عَمِیَ فُـلَانٌ کے معنے ہیں.ذَھَبَ بَصَرُ قَلْبِہٖ وَ جَھِلَ دل کا اندھا اور بصیرت سے کورا ہو گیا.غَوِیَ: بدراہ ہو گیا (اقرب) لَا یَرْجِعُوْنَ.لَا یَرْجِعُوْنَ رَجَعَ سے مضارع منفی جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور رَجَعَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں اِنْصَرَفَ واپس لوٹا(اقرب) پسلَایَرْجِعُوْنَ کے معنے ہوں گے وہ لوٹیں گے نہیں.تفسیر.فرماتا ہے.یہ منافق بہرے.گونگے اور اندھے ہیں.اس لئے اپنی شرارتوں سے باز نہیں آسکتے.بہرے اس لئے کہ قرآن کریم سنا مگر پھر بھی اس سے فائدہ نہ اُٹھایا گونگے اس لئے کہ اگر دل میں شبہات پیدا ہوتے تھے تو ان کے بارہ میں سوال کر لیتے اور اس طرح دل صاف کر لیتے.مگر جھوٹی عزت کے خیال سے کہ

Page 288

پہلے تو قوم کو پڑھانے والے سمجھے جاتے تھے اب دوسروں سے کس طرح پڑھیں.پوچھنے سے بھی گریز کیا.اور گونگوں کی طرح ہو گئے.اندھے اس لئے کہ سچے مومنوں کے اندر جو نیک تبدیلیاں پیدا ہوئیں ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے فائدہ نہیں اٹھایا.آخر اَوس اور َخزرج ہی میں سے بیسیوں وہ لوگ تھے جو ہر قسم کے اخلاقی عیوب سے پاک ہو گئے تھے.ان کے دل خدا تعالیٰ کی محبت سے پُر تھے اُن کی آنکھیں خدا تعالیٰ کے ذکر سے بہتی تھیں ان کی زبان خدا تعالیٰ کی تقدیس کے گیت گاتی تھی.وہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا سے جُدا تھے اور آخر ان کی پہلی حالت سے بھی یہ منافق واقف تھے اور ایمان کے بعد کی حالت سے بھی آگاہ تھے پھر اگر قرآن کریم سمجھ میں نہ آتا تھا اور اس کے متعلق اپنے شبہات کا ازالہ کروانے سے شرماتے تھے تو اس عظیم الشان تبدیلی ہی کو دیکھتے جو خود ان کے گھروں میں ظاہر ہو رہی تھی عبداللہ بن ابی ابن سلول کا لڑکا مخلص مسلمان تھا کیا عبداللہ کو نظر نہ آتا کہ اس جیسے کذّاب کے لڑکے کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صادق اور راستباز کس طرح بنا دیا اور اُس جیسے بُزدل کے لڑکے کو آپؐ نے بہادر او رجری کس طرح بنا دیا؟ اس جیسے دنیا کے پرستار کے لڑکے کو خدائے ذوالجلال کے عرش کے آگے سجدہ میں کس طرح گروا دیا؟ اسی طرح دوسرے منافقوں کے گھروں اور ہمسائیوں کے گھروں میں یہ تبدیلیاں ہو رہی تھیں مگر دل کی آنکھیں اندھی تھیں اس لئے نظر کچھ نہ آتا تھا سجھائی کچھ نہ دیتا تھا.اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِيْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یا (ان کا حال ) اس بارش کی طرح ہے جو گھٹا ٹوپ بادل سے (برس رہی )ہو (ایسی بارش) جس کے ساتھ يَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِيْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ (قسما قسم کے) اندھیرے اور گرج اور بجلی ہوتی ہے یہ اپنی انگلیوں کو کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے کانوں الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ۰۰۲۰ میں ڈال لیتے ہیں حالانکہ اللہ تمام کافروں کو گھیرنے والا ہے.حَلّ لُغَات.اَوْ.اَوْ حرف عطف ہے.اور مندرجہ ذیل بارہ معنوں کے لئے استعمال ہوتا ہے.(۱) اَ لشَّکُّ (۲) اَ لْاِبْہَامُ (۳) اَلتَّخْیِیْرُ (۴) اَلْـجَمْعُ الْمُطْلَقُ (۵) اَلتَّقْسِیْمُ (۶)اَ لْاِضْرَابُ

Page 289

۷) اَلْاِ بَاحَۃُ (۸) بمعنٰی اِلَّا (۹) بمعنٰی اِلٰی (۱۰) اَلتَّقْرِیْبُ (۱۱) اَلشَّرْطِیَّۃُ (۱۲) اَلتَّبْعِیْضُ.(مغنی اللبیب) آیت ہذا میں ان میں سے دو معنے چسپاں ہو سکتے ہیں جن کی تشریح ذیل میں درج ہے.(۱) اَلْجَمْعُ الْمُطْلَقُیعنی کبھی دو امور کے درمیان لفظ اَوْ استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ’’اور‘‘ کے ہوتے ہیں چنانچہ ؎ وَقَدْ زَعَمَتْ لَیْلٰی بِاَنِّیْ فَاجِرٌ لِنَفْسِیْ تُقَاھَا اَوْ عَلَیْہَا فُجُوْرُھَا میں اَوْ بمعنے یا نہیں بلکہ بمعنے ’’اور‘‘ ہے یعنی میرے نفس کا تقویٰ مجھے ہی فائدہ دے گا اور اس کی برائی بھی مجھ پر ہی وبال ثابت ہو گی.(۲) اَلتَّقْسِیْمُ.کسی چیز کی مختلف اقسام بتانے کے لئے بھی اَوْ آتا ہے.چنانچہ نحو کا یہ جملہ کہ اَلْکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْ حَرْفٌ اس کی مثال ہے اس میں اَوْ تقسیم کے لئے استعمال ہوا ہے اور معنی یہ ہیں کہ کلمہ کی تین قسمیں ہیں یا وہ اسم ہو گا یا فعل ہو گا یا حرف ہو گا.(مغنی اللبیب) کَصَیِّبٍ.اَلصَّیِّبُ کے معنے ہیں اَلسَّحَابُ ذُوالصَّوْبِ.ایسا بادل جو کڑک اور بارش والا ہو (اقرب) اَلصَّوْبُ.خَزُوْلُ الْمَطَرِ اِذَا کَانَ بِقَدَرٍ مَّا یَنْفَعُ یعنی صوب بارش کے ایسے طور پر اور ایسے انداز پر برسنے کو کہتے ہیں جبکہ وہ موجب نفع ہو.وَالصَّیِّبُ.اَلسَّحَابُ الْمُخْتَصُّ بِالصَّوْبِ.اور صَیِّب اُس بادل کو کہتے ہیں جس میں صوب کی صفت پائی جائے یعنی خوب برسے.(مفردات) السَّمَآء.اَلسَّمَآءُ آسمان کُلُّ مَا عَلَاکَ فَاَظَلَّکَ.ہر اوپر سے سایہ ڈالنے والی چیز سَقْفُ کُلِّ شَیْ ءٍ وَبَیْتٍ.چھت.رَوَاقُ الْبَیْتِ گھرکے سامنے کا چھجہ.ظَہْرُ الْفَرَسِ گھوڑے کی پیٹھ.اَلسَّحَابُ بادل.اَلْمَطَرُ بارش.اَلْمَطَرُ الجَیِّدَۃُ ایک دفعہ کی برسی ہوئی عمدہ بارش.اَلْعُشْبُ سبزہ و گیاہ(اقرب) ظُلُمَاتٌ.ظُلُمَاتٌ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۸.نیز تاج العروس جلد ثامن میں ہے کہ اَلْعَرَبُ تَقُوْلُ لِلْیَوْمِ الَّذِیْ تَلْقٰی فِیْہِ الشِّدَّةُ یَوْمٌ مُظْلِمٌ.اہل عرب شدت اور تکلیف کے دن کو ظلمت والا دن کہتے تھے.رَعْدٌ.رَعْدٌ رَعَدَ کا مصدر ہے اور رَعَدَ السَّحَابُ کے معنے ہیں صَاتَ وَ ضَجَّ لِلْاَمْطَارِ بادل برسنے

Page 290

کے لئے گرجا اَلرَّعْدُ کے معنے ہیں.صَوْتُ السَّحَابِ.بادل کی آواز یعنی کڑک (اقرب) ُلغوی معنے رَعْدٌ کے بادلوں کے گرجنے اور گرجنے کی آواز کے ہیں.آیت ہذا میں زبردست احکام.تباہی کی خبروں.وعید کی پیشگوئیوں اور احکام جنگ کو رَعْدٌ یعنی کڑک سے تشبیہ دی گئی ہے.اَلْبَرْقُ.اَلْبَرْقُ وَمِیْضُ السَّحَابِ.بادل کی چمک (اقرب) لغوی طور پر برق چمکتی بجلی کو کہتے ہیں.آیت ہذا میں اس سے مراد لڑائی کے نظارے ہیں یا کھلی کھلی علمی باتیں، صداقت کے نشانات یا مالِ غنیمت و اسلامی فتوحات.یَجْعَلُوْنَ.یَجْعَلُوْنَ جَعَلَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے.جَعَلَہٗ (یَجْعَلُ) جَعْلًا کے معنے ہیں صَنَعَہٗ اُس کو پیدا کیا.چنانچہ انہی معنوں میں جَعَلَ اللّٰہُ الظُّلُمَاتِ وَالنُّوْرَ استعمال ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اندھیروں اور روشنی کو پیدا کیا.جَعَلَ الشَّیْئَ کے ایک معنی وَضَعَہٗ کے ہیں یعنی اس کو کسی جگہ رکھا.نیز جَعَلَ کبھی ظَنَّ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ کہتے ہیں جَعَلَ الْبَصْرَۃَ بَغْدَادًا اَیْ ظَنَّہَا اِیَّا ھَا کہ فلاں شخص نے بصرہ کو بغداد خیال کر لیا.بعض اوقات جَعَلَ کے معنے شَرَعَ کے ہوتے ہیں.چنانچہ کہتے جَعَلَ یَنْشُدُ مرادیہ ہوتی ہے کہ اس نے شعر خوانی شروع کر دی (اقرب) اس آیت میں جَعَلَ وَضَعَ کے معنے میں استعمال ہوا ہے.اس لئے یَجْعَلُوْنَ کے معنے یہ کئے گئے ہیں کہ ڈال لیتے ہیں.الصَّوَاعِقُ.الصَّوَاعِقُ اَلصَّاعِقَۃُ کی جمع ہے اور اَلصَّاعِقَۃُ کے معنے ہیں اَ لْمَوْتُ.موت.کُلُّ عَذَابٍ مُھْلِکٍ.ہر مہلک عذاب.صَیْحَۃُ الْعَذَابِ.عذاب کی آواز.نَارٌ تَسْقُـطُ مِنَ السَّمَآءِ فِیْ رَعْدٍ شَدِیْدٍ لَا تَمُرُّ عَلٰی شَیْ ءٍ اِلَّا اَحْرَقَتْہُ وہ آگ جو بادل سے کڑک کے ساتھ نازل ہوتی ہے اور جس چیز پر گرے اُسے جلا دیتی ہے (یعنی گرنے والی بجلی) (اقرب) اَلصَّاعِقَۃُ.ھِیَ الصَّوْتُ الشَّدِیْدُ مِنَ الْجَوِّ ثُمَّ یَکُوْنُ مِنْہُ نَارٌ فَقَطْ اَوْ عَذَابٌ اَوْ مَوْتٌ وَھِیَ فِیْ ذَاتِھَا شَیْئٌ وَّاحِدٌ وَھٰذِہِ الْاَشْیَآئُ تَأْثِیْرَاتٌ مِّنْھَا.صَاعِقَہ اس ہولناک گرج اور آواز کو کہتے ہیں جو فضاء سے پیدا ہوتی ہے پھر اس سے کبھی تو آگ واقع ہوتی ہے یا عذاب یا موت نازل ہوتی ہے.حَذَرَ.اَلتَّحَرُّزُ وَ مُجَانَبَۃُ الشَّیْءِ خَوْفًا مِّنْہُ کسی چیز سے بچنا اور خوف کے ڈر سے علیحدہ رہنا.(اقرب) اَلْمَوْتُ.اَلْمَوْتُ زَوَالُ الْحَیَاۃِ عَمَّنْ اِتَّصَفَ بِھَا.اس چیز سے زندگی کا علیحدہ ہو جانا جو زندگی کے ساتھ متصف ہو (اقرب) مفردات میں ہے اَلْمَوْتُ زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْحَیَوَانِیَّۃِ وَاِبَانَۃُ الرُّوْحِ عَنِ الْجِسْمِ.

Page 291

قوت حیوانیہ اور رُوح کا جسم سے علیحدہ ہو جانا موت کہلاتا ہے.اَنْوَاعُ الْمَوْتِ بِحَسْبِ الْحَیٰوۃِ.موت کئی قسم کی ہوتی ہے جس قسم کی زندگی ہو گی اسی کے مطابق موت ہو گی.(۱) فَالْاَوَّلُ.مَاھُوَ بِـاِزَاءِ الْقُوَّۃِ النَّامِیَّۃِ الْمَوْجُوْدَۃِ فِی الْاِنْسَانِ وَالْحَیَوَانَاتِ وَالنَّبَاتِ.انسان.حیوانات اور نباتات میں نشوونما کا رُک جانا موت کہلاتا ہے جیسے يُحْيِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا(الروم :۲۰) میں اشارہ فرمایا ہے (۲) اَلثَّانِیْ.زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْحَاسَّۃِ احساس کا زوال بھی موت کہلاتا ہے جیسے حضرت مریم علیھا السّلام کا قول يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا (مریم :۴ ۲) ہے کہ اے کاش میں اس سے پہلے کی بے حس ہو چکی ہوتی (۳) زَوَالُ الْقُوَّۃِ الْعَاقِلَۃِ زوال عقل یعنی جہالت بھی موت کہلاتی ہے جیسے اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ (الانعام :۱۲۳) (۴) اَلرَّابِعُ.الْحُزْنُ الْمُکَدِّرَۃُ لِلْحَیٰوۃِ.ایسے غم جو زندگی کو دوبھر کر دیں جیسے فرمایا يَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَيِّتٍ(ابراہیم :۱۸) (۵) اَلْخَامِسُ.اَلْمَنَامُ نیند (مفردات) لسان میں ہے وَقَدْ یُسْتَعَارُ الْمَوْتُ لِلْاَحْوَالِ الشَّاقَّۃِ کَالْفَقْرِ وَالذُّلِّ وَالسُّؤَالِ وَالْھَرَمِ وَالْمَعْصِیَۃِ.کبھی موت کا لفظ استعارۃً تکلیف دِہ حالتوں پر بھی جیسے فقر.ذ لّت.سوال.بڑھاپا اور معصیت ہیں بولا جاتا ہے.وَاللّٰہُ.وَاللّٰہُ وائو اس جگہ حالیہ ہے یعنی جب کفار خدا کی گرفت تلے آ گئے ہیں اور تباہ ہونے والے ہیں پھر اُن سےڈرنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟ چونکہ وائو حالیہ ہے اس لئے ترجمہ’’حالانکہ‘‘ کیا گیا ہے.مُحِیْطٌ.مُحِیْطٌ اَحَاطَ سے اسم فاعل ہے.اَحَاطَ بِالْاَمْرِ کے معنے ہیں.اَحْدَقَہٗ مِنْ جَوَانِبِہٖ.اس کو تمام طرفوں سے گھیر لیا.(اقرب) پس محیط کے معنے (ہوں گے) گھیرنے والا.تفسیر.آیت اَوْ كَصَيِّبٍالخ میں عملی منافقوں کا ذکر اس آیت میں دوسری قسم کے منافقوں کا ذکرہے جو دل سے کافر نہ تھے مگر کمزوری ایمان کی وجہ سے قربانیوں کے مطالبہ یا دشمن کے حملہ کے وقت گھبرا جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی سزا کی نسبت بندوں کی سزا سے زیادہ خائف تھے اس لئے ایسے اوقات میں کفار کو خوش کرنے کے لئے ان سے مخفی تعلق رکھتے اور ایسی باتیں کرتے جس سے وہ ان کو اپنا خیر خواہ سمجھیں یا بعض خبریں مسلمانوں کی ان کو دیتے اور دل میں یہ سمجھ لیتے کہ اسلام سچا مذہب ہے ہماری اس کمزوری سے اسلام کو حقیقی نقصان تو پہنچ نہیں سکتا پھر کیا حرج ہے اگر ہم اس طرح اپنے آپ کو تکلیف سے بچا لیں؟ اسلام جیسے قربانی والے مذہب میں ایسے لوگوں کی بھی گنجائش نہیں اس لئے ابتدائِ قرآن میں ہی ایسے لوگوں کو بھی کھول کر بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو منافق ہی سمجھتا ہے اور منافقوں والا سلوک ان سے کرے گا.اسلام تو سب کچھ خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے قربان کر دینے کا نام ہے جو اس رنگ میں مخلصانہ تعلق نہیں پیدا کر سکتا اسے ان انعامات کی امید نہیں رکھنی چاہیے جو

Page 292

اسلام کے ساتھ وابستہ ہیں.اس امر کا ثبوت کہ اس آیت اور اس کے بعد کی آیتوں میں کمزور ایمان والوں کا ذکر ہے جو کمزوری ئِ ایمان کی وجہ سے قومی کاموں میں جرأت سے حصہ نہیں لے سکتے اور وقت پر کمزوری دکھا جاتے ہیں یہ ہے کہ پہلی آیات میں تو منافقوں کے آگ جلانے کا ذکر ہے مگر ان آیات میں منافقوں کے آگ جلانے کا ذکر نہیں بلکہ آسمانی سامانوں کے ظہور کا ذکر ہے.پہلی مثال میں یہ ذکر ہے کہ روشنی کے وقت منافقوں کا نور جاتا رہا اور اس میں یہ ذکر ہے کہ روشنی ہو تویہ لوگ سنبھل جاتے ہیں اور چلنے لگ جاتے ہیں.پھر پہلی مثال میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ مومن نہیں ہیں وہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں لیکن اس مثال میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کی نسبت یہ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا تو انہیں بہرے اور اندھے کر دیتا مگر اب تک وہ ایسے ہوئے نہیں.ہاں !ان کی یہ حالت قائم رہی تو بہرے اور اندھے ہو جائیں گے اسی طرح پہلی مثال میں بتایا تھا کہ وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور دوسری مثال والوں کی نسبت یہ بتایا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے بلکہ ڈر کے مارے مصیبت کے وقت ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں.بعض لوگوں کا آیت ھٰذا میں اَوْ کے لفظ سے ایک غلط استدلال اور اس کا ردّ بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے جو اَوْ کا لفظ آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منافقوں پر یا پہلی مثال چسپاں ہوتی ہے یا دوسری.اس عبارت سے شک ظاہر ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کو شک نہیں ہو سکتا پس یہ کلام انسان کا ہے.یہ اعتراض معترضین کے قلت تدبرّ پر دلالت کرتا ہے کیونکہ شک پر تو یہ آیت اس صورت میں دلالت کرتی اگر اس کا یہ مطلب ہوتا کہ ہم کہہ نہیں سکتے کہ منافقوں کی حالت وہ ہے جو پہلے بیان ہوئی یا یہ ہے جو ہم اب بیان کرتے ہیں.مگر اس آیت میں تو کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے یہ مطلب نکلتا ہو.اَوْ کا لفظ بیشک استعمال ہوا ہے جس کے معنے ’’یا‘‘ اور ’’اور‘‘ دونوں کے ہوتے ہیں اور ان دونو ںمعنوں میں سے کوئی بھی اس جگہ لئے جائیں ان سے شک کا اظہار نہیں ہوتا.اگر اس کے معنے ’’اور‘‘ کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ منافقوں کے گروہ پر وہ مثال بھی صادق آتی ہے اور یہ بھی یعنی ان کے دو گروہ ہیں ایک پر پہلی مثال صادق آتی ہے اور دوسرے پر دوسری اور اگر اَوْکے معنے یا کے کئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنے ہوں گے کہ منافقوں کی یا تو وہ حالت ہے جو اوپر بیان ہوئی اور یا پھر یہ حالت ہے جو ہم اب بیان کر رہے ہیں یعنی ان میں سے ایک گروہ کی وہ حالت ہے اور ایک کی یہ.آیت ھٰذا میںاَوْ تقسیم یا مطلق جمع کے لئے ہے حلِّ لُغَات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اَوْ کا لفظ علاوہ

Page 293

شک یا ابہام کے معنوں کے تقسیم کے معنے بھی دیتا ہے یعنی اس سے شے مذکور کی قسمیں بیان کرنی مطلوب ہوتی ہیں جیسے مثلاً یہ کہیں کہ اَلْکَلِمَۃُ اِسْمٌ اَوْ فِعْلٌ اَوْحَرْفٌتو اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ کلمہ اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کلمہ کئی قسم کا ہوتا ہے یا اسم ہوتا ہے یا فعل یا حرف.پس اگر اَوْ کے معنے یا کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ منافقو ںکی دو قسمیں ہیں یا تو وہ کافر جو ظاہر میں مسلمان بن گئے ہیں یا وہ مسلمان جو عقیدۃً تو مسلمان ہیں لیکن ایمان کی کمزوری کی وجہ سے کفار سے تعلق رکھتے اور ان کے ڈر سے اسلام کے لئے قربانیاں کرنے سے گریز کرتے ہیں.حماسہ میں جعفر بن علبہ حارثی کا شعر لکھا ہے ؎ فَقَالُوْا لَنَا ثِنْتَانِ لَا بُدَّ مِنْھُمَا صُدُوْرُ رِمَاحٍ اُشْرِعَتْ اَوْسَلَاسِلُ جس کے یہ معنی ہیں کہ انہو ںنے کہا کہ ہمارے پاس دو چیزیں تمہارے لئے ہیں ان دونوں میں سے ایک کے لینے کے سوا تمہیں کوئی چارہ نہیں یا اُٹھائے ہوئے نیزوں کے سر لینے پڑیں گے یا زنجیریں.مطلب یہ کہ تم میں سے بعض کو ہم مار دیں گے اور بعض کو قید کرلیںگے.اس میں شک کا کوئی شائبہ نہیں ہے بلکہ صرف مخالف کی تقسیم بتائی ہے کہ ہم اسے دو حصو ں میں تقسیم کر دیں گے یعنی مقتولوں اور قیدیوں میں.اَوْ بمعنی مطلق جمع کے لحاظ سے آیت ھٰذا کی تقسیم اسی طرح اَوْ کے ایک معنی لغت میں جمع مطلق کے بھی آتے ہیں یعنی یہ لفظ صر ف جمعکے معنے دیتا ہے اور یا کے معنی نہیں دیتا چنانچہ لغت میں اس کی مثال یہ مصرعہ لکھا ہے ع لِنَفْسِیْ تُقَاھَا اَوْ عَلَیْھَا فُجُوْرُھَا اس کے یہ معنے نہیں کہ یا میرے نفس کو تقویٰ ملے گا یا فجور.بلکہ یہ معنے ہیں کہ میرے نفس کو اس کے تقویٰ کا بھی بدلہ ملے گا.اور اس کے گناہ کا بھی بدلہ ملے گا.پس اس آیت میں شک کا کوئی ذکر نہیں بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ منافق اوپر کی صفات والے بھی ہیں اور ان دوسری صفات والے بھی جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں.عرب کا ایک شاعر کہتا ہے ؎ قَوْمٌ اِذَا سَمِعُوا الصُّرَاخَ رَءَ یْتَہُمْ مَا بَیْنَ مُلْجِمِ مُھْرِہٖ اَوْ سَافِعِ (لسان العرب زیر لفظ سفع) یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ جب کسی فریادی کی آواز سُنتے ہیں تو فوراً ان میں سے کچھ توگھوڑوں کے مُنہ میں لگام

Page 294

دے رہے ہوتے ہیں اور کچھ گھوڑوں کی پیشانی کے بال پکڑ کر ان کو کھینچ رہے ہوتے ہیں یعنی سب کے سب فوراً فریادی کی فریاد کو پہنچنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں غرض ان آیات میں منافقوں کے دو گروہوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی شک کا اظہار ہے.اَوْ بمعنیٰ تقسیم کے لحاظ سے آیت ھٰذا کی تشریح ان معترضین نے اس پرغور نہیں کیا کہ یہاں ایک فرد کا ذکر نہیں بلکہ ایک گروہ کا ذکر ہے جس کے مختلف افراد مختلف حالتوں کے ہیں ایسے موقع پر اَوْ شک کو ظاہر نہیں کرتا شک اسی وقت ظاہر ہوتا ہے جب ایک شخص کی ایک ہی حالت کے متعلق دو باتیں بتائی جائیں.مثلاً یہ کہا جائے کہ زید کھڑا ہے یا بیٹھا ہے لیکن جب قوم کی نسبت کہا جائے کہ وہ کھڑی ہے یا بیٹھی تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس میں سے کچھ کھڑے ہیں اور کچھ بیٹھے ہوئے ہیں.ایک فرد کی نسبت بھی اگر دو مختلف حالتوں کا ذکر ہو تب بھی اَوْ شک کے معنے نہیں دیتا مثلاً ہم بزُدل انسان کی نسبت کہہ سکتے ہیں کہ جب خطرہ پیدا ہو وہ یا بھاگ جاتا ہے یا چھپ جاتا ہے اس کے معنی یہ نہ ہوں گے کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے بلکہ یہ معنی ہوں گے کہ کبھی اس کے قلب کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ بھاگ جاتا ہے اور کبھی ایسی کہ وہ چھپ جاتا ہے.آیت ھٰذا میں بارش و بجلی اور گرج سے مراد خلاصہ یہ کہ ان آیات میں شک کا اظہار نہیں بلکہ یہ بتایا ہے کہ منافقو ںکے ایک گروہ کی حالت یہ ہے کہ جیسے بادل سے بارش نازل ہونے کے وقت جبکہ اس کے ساتھ تاریکی اور گرج اور بجلی ہو تو وہ خوب ڈرتے ہیں اور اگر کبھی بجلی گر پڑے تو پھر تو موت کے ڈر سے کانوںمیں انگلیاں دے کر کھڑے ہو جاتے ہیں حالانکہ بارش تو خدا تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے اور اس کے ساتھ اندھیروں اور گرج اور بجلی کا چمکنا لازمی امر ہے کبھی کبھی اس کے ساتھ بجلی کاِگرنابھی ایک سنت ہے ان باتوں سے گھبرا کر بارش کے فوائد سے محروم ہو جانا بیوقوفی ہے.مثلاً ایک زمیندار اگر بارش کے وقت بجائے اس کے کہ اپنے کھیت کی مینڈھوں کو ٹھیک کرے اور پانی جمع کرنے کی کوشش کرے کانوں میں انگلیاں ڈال کر گھر بیٹھ جائے تو اسے کوئی شخص عقلمند نہیں کہہ سکتا.اسی طرح اسلام کا ظہور آسمانی بار ش کی طرح ہے.اس کے ساتھ بھی اندھیروں اور گرج اور بجلی کا وجود ضروری ہے مومن اس کو سمجھتے ہیں اور اس حالت سے ڈرنے کی بجائے قربانیاں کر کے فائدہ اٹھاتے ہیں.مگر عملی منافق اس حالت سے ڈر کر اپنے گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان فوائد سے بھی محروم رہ جاتے ہیں جو اسلام کی ظاہری ترقی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی بھی حاصل کرتے ہیں پھر فرماتا ہے وَ اللّٰهُ مُحِيْطٌۢ بِالْكٰفِرِيْنَ.آخر یہ ڈرتے کن سے ہیں؟ کیا کافروں کی ایذاء سے ؟ کافروں کی تباہی کا تو اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے.جن کی تباہی کا فیصلہ

Page 295

ہو چکا ہے اور جن کی تباہی کے لئے یہ سامان پیدا ہوا ہے ان سے ڈرنے کا کیا مطلب؟ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدائی سلسلے جب بھی دنیا پر ظاہر ہوتے ہیں بارش برسانے والے بادلوں کی طرح ان کے ساتھ بھی تاریکیاں ہوتی ہیں، گرج ہوتی ہے اور بجلیاں ہوتی ہیں یعنی شروع شروع میں تکالیف کا وجود ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے مثلاً تاریکیاں ہوتی ہیں کہ بُرے رشتہ داروں اور بُرے دوستوں سے قطع تعلق کا حکم ہوتا ہے کبھی ہجرت کا حکم ملتا ہے، مالی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے، جانی قربانیوں کا مطالبہ ہوتا ہے پھر ان کے ساتھ گرج بھی ہوتی ہے یعنی سب دنیا سے مقابلہ کا اعلان ہوتا ہے اور بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سب دنیا کو دشمنی کی دعوت دے کر اپنے مدِّمقابل کھڑا کر لیا گیا ہے پھر ان کے ساتھ بجلی بھی ہوتی ہے یعنی ایسے امور ظاہر ہوتے ہیں جو نظروں کو خیرہ کر دیتے ہیں.پھر یہ بجلیاں کبھی صواعق بن جاتی ہیں.یعنی دشمن مومنوں کو برباد کرنے کے لئے حملے کرتے ہیں یا مومن جوابی طور پر ان پر حملے کرتے ہیں اور بعض دفعہ ان حملوں کے نتیجے میں بعض مومن موت کا شکار بھی ہو جاتے ہیں جو کمزور دل کے لوگ ہوتے ہیں وہ یوں تو سب مشکلات سے ہی گھبراتے ہیں مگر اس آخری حصہ کے ڈر سے تو ان کی رُوح تھرّانے لگتی ہے.اس آیت میں ان لوگوں کا بھی جواب دیا گیا ہے جو انبیاء کی بعثت پر اعتراض کرتے ہیں کہ ان کے آنے سے تو فساد پیدا ہو گیا ہے اور بتایا ہے کہ دیکھو بارش کیسی رحمت الٰہی ہے مگر اس کے نازل ہونے کے وقت بھی پہلے سورج چھپ جاتا ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے اور گرج اور بجلی نمودار ہوتی ہے.اسی طرح انبیاء کا وجود ہے ان کی آمد پر جو شور و شر اُٹھتا ہے وہ نحوست کی علامت نہیں بلکہ آنے والی برکات کا اعلان ہوتا ہے اور انسانوں سے خدا تعالیٰ کے سلوک کا بدل جانا اسی نہج سے ہوتا ہے جس طرح بادل کے آنے پر سورج چھپ جاتا ہے اور روحانی بارش کے بعد الٰہی سورج پھر پہلے سے بھی زیادہ شان کے ساتھ چمکنے لگتا ہے.منافقین کے کانوں میں انگلیاں ڈالنے سے مراد جیسا کہحَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے صَاعِقَہ کے معنی گرنے والی بجلی کے ہیں اور اس کے معنے موت اور عذاب کے بھی ہیں اور یہی وہ امور ہیں کہ جن سے کمزور دل لوگ زیادہ گھبراتے ہیں مگر فرماتا ہے کہ صَاعِقَہ کی وجہ سے کان میں انگلی ڈالنے سے کیا ہوتا ہے اوّل تو صاعقہ کے گرنے کے بعد آواز پیدا ہوتی ہے جو بجلی گر چکی اس سے بچنے کے لئے کان میں اُنگلی دینے سے کیا فائدہ؟ دوسرے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے اعلان جنگ ہو گیا تو پھر ان منافقوں کے ڈرنے سے اس میں تبدیلی تو ہو نہیں سکتی

Page 296

بہرحال کافر حملہ کریں گے تب بھی انہیں کچھ نہ کچھ ضرر پہنچے گا اور مومن حملہ کریں گے تب بھی کچھ نہ کچھ نقصان انہیں پہنچے گا.ان کے کانوںمیں اُنگلیاں ڈال لینے سے وہ اعلان جنگ تو نہ ٹل جائے گا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے.کفر و ایمان کی نبردآزمائی ان بُزدلوں کے اظہارِ بُزدلی سے رُک تھوڑے ہی جائے گی.جیسا کہ اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے صُوَاعِق، ظُلُمَات، رَعْد اور بَرق کے علاوہ ایک تیسری شے ہے ضروری نہیں کہ جب بجلی چمکے اس سے صاعقہ بھی گرے.صاعقہ کبھی گرتی ہے کبھی نہیں.اسی طرح کفروایمان کے ٹکرائو میں ہمیشہ جنگ کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی کبھی بجلی صرف روشنی کا کام دے جاتی ہے اس میں سے صاعقہ نہیں گرتی اور کبھی اس کے ساتھ صاعقہ بھی گرتی ہے جب بجلی کی چمک کے ساتھ صاعقہ نہ ہو تو منافق نہیں گھبراتے کیونکہ خالی بجلی کا چمکنا اسلام کی شوکت کے اظہار کے لئے ہے ہاں جب اس کے ساتھ صاعقہ بھی ہو تب وہ بہت گھبراتے ہیں چنانچہ اگلی آیت میں اس فرق کو ظاہر کیا ہے.اس آیت کی ترکیب کچھ مشکل ہے نحویوں کو اس میں اختلاف ہے کہ مِنَ الصَّوَا عِقِ کا کیا مقام ہے اور حَذَرَ الْمَوْتِ کا کیا؟اکثر مفسر حَذَرَ الْمَوْتِ کو مَفْعُوْل لَہٗ قرار دیتے ہیں لیکن اس پر بعض مفسرین نے اعتراض کیا ہے کہ مِنَ الصَّوَاعِقِ کا پھر کیا مقام ہے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ مِنْ اس جگہ سببیّہ ہے اس پر معترض اعتراض کرتے ہیں کہ اگر مِنْ سببیّہ ہے تو وہ بھی فِیْ معنی مَفْعُوْل لَہٗ ہوا.اس صورت میں دونوں مفعولوں میں عطف چاہیے تھا.اس کا جواب پہلا گروہ یہ دیتا ہے کہ فی معنی مفعول لَـہٗ ہونا اور بات ہے اور مفعول لَـہٗ ہونا اور بات.اس لئے عطف کی ضرورت نہ تھی (تفسیر البحر المحیط) بعض نے حَذَرَ الْمَوْتِ کو مَفْعول مُطْلَق قرار دے کر اس مشکل کو حل کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ حَذَرَ الْمَوْتِ سے پہلے یَحْذَرُوْنَ کا فعل محذوف ہے اس کے مفعول موت کو وہاں سے اُٹھا کر حَذَر مصدر کو اس کی طرف مضاف کر دیا گیا ہے اور معنے یہ ہیں کہ صَوَاعِق کے ڈر سے کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں اور اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح موت سے ڈرنا چاہیے (املاء ابی البقاء) مِنَ الصَّوا عِقِ یَجْعَلُوْنَ کا متعلق ہے.(تفسیر الکشّاف للزمخشری ) يَكَادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْ١ؕ كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوں کو اچک کر لے جاوے جب بھی وہ ان پر چمکتی ہے تو وہ اس (کی روشنی )میں چلنے

Page 297

فِيْهِ١ۙۗ وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوْا١ؕ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا کر دیتی ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً ان کی شنوائی اور ان کی بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌؒ۰۰۲۱ بینائی کو ضائع کر دیتا.اللہ ہر اس امر پر (جس کا ارادہ کرے )یقیناً پوری طرح قادر ہے.حَلّ لُغَات.اَلْبَرْقُ.اَلْبَرْقُ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۰.یَخْطَفُ.یَخْطَفُ خَطَفَ سے مضارع ہے اور خَطَفَ کے معنے ہیں اِسْتَلَبَہٗ بِسُرْعَۃٍ جلدی سے اُچک لیا.خَطَفَ الْبَرْقُ الْبَصَرَ کے معنے ہیں ذَھَبَ بِہٖ بجلی اپنی چمک کے ذریعہ سے بینائی کو لے گئی.(اقرب) اَضَاءَ.اَضَاءَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۸.اَظْلَمَ: اَظْلَمَ عَلَیْہِ اللَّیْلُ کے معنے ہیں رات نے ان پر اندھیرا کر دیا.(اقرب) ذَھَبَ.ذَھَبَ چلا گیا.ذَھَبَ بِہٖ لے گیا.نیز ذَھَبَ بِہٖ کے معنے اَ زَالَہٗ کے بھی ہیں یعنی ضائع کر دے.دُور کر دے (اقرب) قرآن کریم میں یہ لفظ کئی معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً ذَهَبَ عَنْ اِبْرٰهِيْمَ الرَّوْعُ (ہود : ۷۵) ابراہیم کا خوف دُور ہو گیا.فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ (فاطر : ۹) تیرا نفس ان کے پیچھے ہلاک نہ ہو.اَذْھَبَہٗ بھی ذَھَبَ بِہٖ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے اِنْ يَّشَاْ يُذْهِبْكُمْ وَ يَاْتِ بِخَلْقٍ جَدِيْدٍ(ابراہیم :۲۰) اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمہیں ہلاک کر کے اور مخلوق پیدا کر دے.اس آیت میں ذَھَبَ بِہٖ ضائع کرنے اور تباہ کرنے کے معنوں میں ہی استعمال ہوا ہے.شَیْءٌ.شَیْ ءٌ شَاءَ کا مصدر ہے عربی میں مصدر کبھی بمعنی اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور شَیْء کا لفظ انہی معنوں میں مستعمل ہے اور اس کے معنے ہیں چاہی ہوئی بات نیز اس کے معنی ہیں مَایَصِحُّ اَنْ یُّعْلَمَ وَیُخْبَرَعَنْہُ.وہ امر یا بات جس کے متعلق خبر دی جاسکے (اقرب) شَیْ ءٌ کا ترجمہ امر.بات وغیرہ کیا جاتا ہے.مگر شَیْءٌ کے مکمل معنے ہیں وہ چیز جسے کوئی فاعل چاہے یا جس کا وہ ارادہ کرے.ان معنوں کو واضح کرنے کے لئے خطوط میں بعض الفاظ بڑھا دیئے گئے ہیں.جب تک ان معنوں کو مدِّنظر نہ رکھا جائے ناواقفوں کو دھوکا لگ جاتا ہے حتّٰی کہ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کیا خدا چوری پر قادر ہے ،مرنے پر قادر ہے ،حالانکہ خدا تعالیٰ چوری اور مرنے کو پسند نہیں کرتا

Page 298

اور نہیں چاہتا کیونکہ یہ امور اس کی ذات کے لئے نقص ہیں خوبیاں نہیں.قَدِیْرٌ.قَدِیْرٌ مبالغہ کا صیغہ ہے.قَدَرَ عَلَیْہِ (یَقْدِرُ) قَدْرًا وَ قُدْرَۃً کے معنے ہیں قَوِیَ عَلَیْہِ کسی چیز کے کرنے پر طاقت پائی اور اَلْقُدْرَۃُ کے معنے ہیں.اَلْقُوَّۃُ عَلَی الشَّیْ ءِ وَالتَّمَکُّنُ مِنْہُ کسی چیز کے کرنے پر طاقت حاصل کرنا یا کسی پر قابو پا لینا قدرت کہلاتا ہے (اقرب) مفردات میں ہے کہ جب قُدْرَۃ کا لفظ انسان کے لئے بولا جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کو کسی چیز کے کرنے کی طاقت حاصل ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی صفت ہو تو اس سے مراد ہر قسم کی کمزوری و عاجزی کی نفی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لئے قدرت مطلقہ کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو پوری قدرت حاصل نہیں.صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ایسی ذات ہے جسے پوری پوری قدرت ہر بات پر حاصل ہے.قَدِیْرکے معنی کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْفَاعِلُ لِمَا یَشَاءُ عَلٰی قَدْرٍ مَا تَقْتَضِی الْحِکْـمَۃُ لَا زَائِدًا عَلَیْہِ وَلَا نَاقِصًا عَنْہُ یعنی اپنی چاہی ہوئی بات کو اندازے پر جس کا حکمت تقاضا کرتی ہے بغیر کمی یا بیشی کے کرنے والا قَدِیْر کہلاتا ہے.قَدِیْر مبالغہ کا صیغہ ہے اور کثرت و عظمت پر دلالت کرتا ہے.عام طورپر بڑا قادر اور بہت قادر سے اس کا ترجمہ ہوتا ہے لیکن اردو میں جب اس کا مفعول بھی بیان کیا گیا ہو تو بڑا یا بہت کے الفاظ استعمال نہیں ہو سکتے بلکہ یہ مفہوم پورا پورا یا پوری طرح کی قسم کے الفاظ سے ادا کیا جاتا ہے.تفسیر.آیت یَکَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ کی تشریح اس میں بتایا گیا ہے کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوں کو اُچک لے جائے یعنی بار بار صاعقہ کی حالت پیدا ہو توان کے ایمان بالکل ضائع ہو جائیں لیکن خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سامان پیدا کیا گیا ہے کہ کبھی تو بجلی صرف روشنی کا کام دیتی ہے یعنی صرف شوکت اسلام کے ظہور کے سامان پیدا ہوتے ہیں.اس موقع پر یہ مسلمانوں کے ساتھ آشامل ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ساتھ صاعقہ بھی نازل ہوتی ہے اور اس وقت ان کی نگہ میں دنیا تاریک ہو جاتی ہے.اور یہ وہیں دبک کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکاساتھ دینے سے انکار کر دیتے ہیں.اس آیت سے ظاہر ہے کہ بجلی کی دو کیفیتوں کا الگ الگ اثر ان منافقو ںپر ہوتا ہے.جب صرف روشنی ہو تب اور اثر ہوتا ہے اور جب اس کے ساتھ موت اور ہلاکت ہو تو اور اثر ہوتا ہے.الفاظ آیت سے ظاہر ہے کہ روشنی اور تاریکی دونوں بجلی کا فعل ہیں کیونکہ جس طرح اَضَاءَ کی ضمیر برق کی طرف راجع ہے اسی طرح اَظْلَمَکی ضمیر بھی برق کی طرف راجع ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ روشنی تو بجلی سے ظاہر ہوتی ہے مگر بجلی سے اندھیرا نہیں ہوا کرتا.پس اس جگہ اندھیرے سے مراد ظاہری اندھیرا نہیں بلکہ اس کے گرنے کے اثر کے نتیجہ میں جو تباہی اور ہلاکت پیدا ہوتی ہے

Page 299

وہ مراد ہے.اس کا مزید ثبوت یہ ہے کہ اس آیت کے شروع میں فرمایا ہے.كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِيْهِ الخ کا مطلب کہ قریب ہے کہ بجلی ان کی بینائیوںکو اچک کر لے جائے مگر ساتھ ہی یہ فرما دیا کہ جب بجلی ان کے لئے دنیا کو روشن کر دیتی ہے تو یہ چل پڑتے ہیں یعنی اس وقت یہ اپنے آپ کو مطمئن پاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ مل کر کام کرنے لگ جاتے ہیں پس جبکہ روشنی کے وقت وہ اچھے ہو جاتے ہیں اور نقصان کی بجائے فائدہ اٹھاتے ہیں تو بجلی کے ان کی بینائیوں کو اُچک لے جانے کا کونسا موقع ہوا؟ اگر کہا جائے کہ اس کا موقع وہ ہے جب وہ نہیں چمکتی اور اندھیرا ہو جاتا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہے کیونکہ جب بجلی نہ چمکے تو وہ بینائیو ںکو ضائع نہیں کر سکتی.پس معلوم ہوا کہ اس جگہ اندھیرے سے مراد معنوی اندھیرا ہے یعنی تکالیف اور مصائب کی شدّت اور بجلی کے ساتھ مصائب اور شدائد کی نسبت اس وقت ہوتی ہے جبکہ وہ گر کر ہلاک کرتی ہے پس مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب بجلی صرف یہ اثر ظاہر کرے کہ روشنی کرے گرے نہیں تب تو یہ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور مسلمانو ںکے ساتھ چل پڑتے ہیں مگر جب بجلی ظلمات پیدا کر دے یعنی صاعقہ کی صورت اختیار کر کے موت اور ہلاکت کا دروازہ کھول دے تب یہ لوگ ڈر کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں.حصہ آیت وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ الخ کی تشریح وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْ یعنی اگر اللہ چاہے تو ان کے نفاق کی وجہ سے ان کی شنوائی کو بھی زائل کر دے اور بینائیوں کو بھی.حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ ذَھَبَ بِہٖ کے معنے دُور کر دینے اور ضائع کر دینے کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی شنوائی کو بھی برباد کر دے اور بینائیو ںکو بھی.یعنی اب تک تو ان کو یہ توفیق حاصل ہے کہ یہ قرآن سن کر اس پر ایمان لے آتے ہیں لیکن اگر یہ حالت رہی تو بالکل ممکن ہے کہ ان کا یہ ایمان بھی جاتا رہے اور قرآن کریم کو سن کر ان کے دل میںکوئی ایمان نہ پیدا ہو.اسی طرح اگر یہ حالت لمبی چلی تو خطرہ ہے کہ ان کی بینائیاں بھی جاتی رہیں یعنی بوجہ بار بار صاعقہ کے نزول کے اور آفات اور مصائب کے آنے کے یہ مسلمانوں کا بالکل ساتھ چھوڑ دیں اور اب تو یہ حالت ہے کہ روشنی کے وقت مسلمانوں کے ساتھ مل جاتے ہیں پھر یہ حالت ہو جائے کہ روحانی بینائی کے ضائع ہو جانے کے سبب سے ایسے مواقع پر بھی ان کو مسلمانوں کا ساتھ دینے کی توفیق نہ ملے اور یہ کلیّ طور پر مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں.یہ آیت مشکل آیات میں سے ہے اور جن لوگوں نے اس کی تفسیر کی ہے مجملاً کی ہے.الگ الگ حصو ںکا کلی تطابق نہیں کیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں نے اس کی اس طرح وضاحت کر دی ہے کہ اس کے ہر حصہ کا الگ الگ

Page 300

بھی اور دوسرے حصوں کے ساتھ مل کر بھی مضمون واضح ہو جاتا ہے اور کوئی اِغلاَق نظر نہیں آتا.کیا عملی منافقین کا وجود محال ہے بعض لوگ شبہ کرتے ہیں کہ عملی منافق کا وجود قرآنِ کریم سے ثابت نہیں اور یہ کہ دوسری مثال بھی اعتقادی منافقوں کے متعلق ہے چنانچہ مجھے یاد ہے کہ جب ہم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے تو حافظ روشن علی صاحب مرحوم جو ہماری جماعت کے بڑے پایہ کے عالم تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو قرآن کریم کے مضامین کے اخذ کرنے کا خاص ملکہ دیا تھا (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی برکات نازل فرمائے اور ان کی رُوح کو اپنے قرب میں جگہ دے) اکثر حضرت خلیفۃ المسیحؓ سے بحث کیا کرتے تھے کہ عملی منافق کا وجود عقلاً محال ہے.منافق اسی کو کہتے ہیں کہ جس کا عقیدہ خراب ہو مگر علاوہ اس کے کہ ان آیات کا مفہوم بتاتا ہے کہ ان میں عملی منافقوں کا ذکر ہے.عملی منافقین کا ذکر حدیث میں مجھے اس بارہ میں ایک حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مل گئی ہے جس میں عملی منافقوں کا ذکر کیا گیا ہے اور وہ حدیث یہ ہے عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ (رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقُلُوْبُ اَرْبَعَۃٌ قَلْبٌ اَجْرَدُ فِیْہِ مِثْلُ السِّـرَاجِ یَزْھَرُ وَ قَلْبٌ اَغْلَفُ مَرْبُوْطٌ عَلٰی اَغْلَافِہٖ وَ قَلْبٌ مَنْکُوْسٌ وَقَلْبٌ مُصَفَّحٌ فَاَمَّا الْقَلْبُ الاَجْرَدُ فَقَلْبُ الْمُؤْمِنِ سِرَاجُہٗ فِیْہِ نُوْرُہٗ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْاَغْلَفُ فَقَلْبُ الْکَافِرِ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمَنْکُوْسُ فَقَلْبُ الْمُنَافِقِ عَرَفَ ثُمَّ اَنْکَرَ وَ اَمَّا الْقَلْبُ الْمُصَفَّحُ فَقَلْبٌ فِیْہِ اِیْمَانٌ وَنِفَاقٌ فَمَثَلُ الْاِیْمَانِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْبَقْلَۃِ یَمُدُّھَا الْمَاءُ الطَّیِّبُ وَمَثَلُ النِّفَاقِ فِیْہِ کَمَثَلِ الْقَرْحَۃِ یَمُدُّ ھَا الْقَیْحُ وَ الدَّ مُ فَاَیُّ المَدَّتَیْنِ غَلَبَتْ عَلَی الْاُخْرٰی غَلَبَتْ عَلَیْہِ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی سعید خدری ) یعنی انسانی دل چار قسم کے ہوتے ہیں ایک مُصَفّٰی شفاف تلوار کی طرح سُتا ہوا خدمتِ دین کے لئے تیار اور دوسرا وہ دل ہوتا ہے کہ اس پر غلاف چڑھاہوا ہوتا ہے اور غلاف بھی وہ جو خوب بندھا ہوا ہو اور تیسرا وہ دل جو اوندھا رکھا ہوا ہو اور چوتھا وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہو یا پتھروں کے نیچے دبا ہوا ہو.وہ جو پہلا دل ہے یعنی صاف وہ تو مومن کا دل ہے اس کا دیا وہ نور ہے جو اس کے دل میں پیدا ہے.اور وہ دل جو غلافوں میں بند ہے کافر کا دل ہے (کہ صداقت اس کے اندر نہیں جاتی اور کفر باہر نہیں نکلتا) اور اوندھا رکھا ہوا دل منافق کا دل ہے جو پہلے صداقت کو مان لیتا ہے پھر اس کا ایمان ضائع ہو جاتا ہے اور وہ دل جو ٹیڑھا رکھا ہوا ہے یا پتھروں میں دبا ہوا ہے وہ اس شخص کا دل ہے جس میں ایمان اور نفاق دونو ںپائے جاتے ہیں اس کے ایمان کی حالت تو اچھی سبزی کے مشابہ ہے جسے پاک پانی مل رہا ہو اور اس کے نفاق کی حالت ایک زخم کی سی ہے جسے پیپ

Page 301

اور خون خراب کر رہا ہو پھر ان دونوں سے جو حالت غالب آ جائے وہ اُسی گروہ میں شامل ہو جاتا ہے.اس حدیث سے ثابت ہے کہ ایک منافق وہ ہوتا ہے جو ایمان کے لحاظ تو مسلمانوں میں شامل ہوتا ہے مگر عملی لحاظ سے اس میں کمزوریاں ہوتی ہیں اگر اس کی ایمانی حالت غالب آ جائے تو وہ مومن ہو جاتا ہے اور نفاق کی حالت غالب آ جائے تو پورا منافق ہو جاتا ہے یعنی ایمان ضائع ہو جاتا ہے.یہ مضمون آیات مذکورہ بالا کی تشریح ہے کیونکہ ان آیات میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کی روحانی شنوائی اور بینائی باطل نہیں ہوئی لیکن اگر یہ حالت دیر پا رہی تو ضائع ہونے کا خطرہ ہے.ان آیات نے مومن کو بہت ہوشیار کیا ہے.ان میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی ہدایت آتی ہے اس کے ساتھ شروع میں بہت سی مشکلات اور مصیبتیںلپٹی ہوئی ہوتی ہیں.دین کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں ہوتا بلکہ خار دار جنگلوں میں سے گزر کر انسان گوہرِ مراد کو پاتا ہے پس اگر ایمان چاہو تو ان مصائب کو برداشت کرنا پڑے گا اور وہ قربانیاں ضرور دینی پڑیں گی جو اس مراد کے حصول کے لئے مقرر کی گئی ہیں جو شخص ایمان لینا چاہے لیکن قربانیاں پیش نہ کرنا چاہے وہ بیوقوف ہے اور نفاق کی راہ سے خدا تعالیٰ کو پانا چاہتا ہے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اگر صداقت کے متلاشی اس ُگر کو سمجھ لیں تو ان کی کامیابی یقینی ہے ورنہ وہ خیالی پلائو پکانے والے ثابت ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کی بجائے اس کے غضب کو اپنے پر وارد کر لیں گے.اَلْعِیَاذُ بِاللّٰہ.اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ اس میں یہ بتایا کہ کمزور ایمان والو ںکا ڈر اللہ تعالیٰ پرکامل ایمان نہ ہونے اور اس کی صفات کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہوتا ہے.آخر وہ قربانیوں سے کیوں ڈرتے ہیں؟ اسی وجہ سے نہ کہ ایسا نہ ہو کہ کفاّر کے ہاتھوں ہم دکھ اُٹھائیں حالانکہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی صفات پر پورا یقین ہو تو وہ کبھی اس شبہ میں مبتلا نہ ہوں.اگر ان کو یہ یقین ہو کہ خدا تعالیٰ ہر امر جس کا فیصلہ کرے اُس پر قادر ہے تو کفاّر کی طرف سے کسی خطرہ سے وہ کیوں ڈریں ؟ان کو جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جس امر کا ارادہ کر لے اس پر پورا قادر ہوتا ہے اور اس کے ارادہ کو پورا ہونے سے کوئی شخص روک نہیں سکتا.پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اسلام کو ترقی دے اور غلبہ عطا کرے تو اس کے اس ارادہ کو کفار خواہ بظاہر کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہو ںاور ان کے پاس کتنے ہی سامان کیوں نہ ہوں کس طرح پورا ہونے سے روک سکتے ہیں؟ پس چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کریں او ران پر اپنے ایمان کو مضبوط کریں پھر ان کا ڈر آپ ہی آپ دور ہو جائے گا.

Page 302

اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام کمزوریاں اور گناہ صفاتِ الٰہیہ کے نہ سمجھنے اور ان پر کامل ایمان نہ ہونے سے پیدا ہوتے ہیں.پس جس شخص کے دل میں ماَسوَی اللہ کا ڈر پیدا ہو اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اس ڈر کی نسبت کے مطابق اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق ایمان میں کمی ہے ورنہ وہ ڈر پیدا ہی نہ ہو سکتا.اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ مرنے پر بھی قادر ہے یا کیا خدا تعالیٰ جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے؟ یہ اعتراض بالکل بے سوچے سمجھے کیا گیا ہے کیونکہ قَدِیْر کا لفظ تو قدرت اور طاقت کے کمال پر دلالت کرتا ہے پھر کیا مرنا اور جھوٹ بولنا قدرت اور طاقت کی علامتیں ہیں کہ اس آیت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ خدا تعالیٰ مرنے پر اور جھوٹ بولنے پر بھی قادر ہے یہ تو ایسا ہی اعتراض ہے جیسے کوئی کہے کہ فلاں شخص بڑا بہادر ہے تو دوسرا اعتراض کرے کہ کیا وہ ایسا بہادر ہے کہ چور سے ڈر کر بھاگ بھی سکتا ہے؟ ایسے معترض کو کونسا شخص عقلمندوں میں شمار کرے گا؟ دوسرے یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے معترضین کو خامو ش کرنے کے لئے عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اور شَیْ ءٌ کے معنی چاہی ہوئی چیز کے ہوتے ہیں پس اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ہر اس چیز پر قادر ہے جس کا وہ ارادہ کر لے ان الفاظ سے وہ اعتراض کلّی طو رپر باطل ہو جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ موت اور جھوٹ کا ارادہ نہیں کرتا کیونکہ یہ قدرت نہیں بلکہ ضعف کی علامت ہے.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِيْنَ اے لوگو اپنے رب کی جس نے تمہیں (بھی )اور انہیں ( بھی )جو تم سے پہلےگزرے ہیں پیدا کیا ہےعبادت کرو مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ۰۰۲۲ تاکہ تم (ہر قسم کی آفات سے )بچو.حَلّ لُغَات.اُعْبُدُوْا.اُعْبُدُوْا امر مخاطب جمع کا صیغہ ہے.اَلْعِبَادَۃُ.کے معنے ہیں غَایَۃُ التَّذَلُّلِ.کامل تذلّل (مفردات) مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۵.رَبُّکُمْ.رَبّکے معنی کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۲.خَلَقَکُمْ.خَلَقَ (یَخْلُقُ) ا لْاَدِیْمَ کے معنے ہیں قَدَّرَہٗ قَبْلَ اَنْ یَّقْطَعَہٗ..کھال کو کاٹنے سے پہلے اُسے جانچا کہ زیادہ سے زیادہ مفید کٹائی کس طرح ہو سکتی ہے اور جب خَلَقَ الشَیْءَ کہیں تو معنے ہوں گے.

Page 303

اَوْجَدَہٗ وَ اَبْدَعَہٗ عَلٰی غَیْرِ مِثَالٍ سَبَقَ یعنی کسی چیز کو پیدا کیا ، عدم سے وجود بخشا.نیست سے ہست کیا.اختراع کیا.(اقرب) پس خَلْقٌ کے دو معنے ہوئے (۱) اندازہ کرنا (۲) کسی چیز کا اختراع کرنا.لَعَلَّکُمْ.لَعَلَّ حروف مشبّہ بالفعل میں سے ہے اس کے ساتھ یائِ متکلّم بھی لگائی جاتی ہے جیسے لَعَلِّیْ کبھی لَعَلَّاور یاء ِمتکلم کے درمیان نون زائد کیا جاتا ہے جسے نونِ وقا یہ کہتے ہیں جیسے لَعَلَّنِیْ.نون کے بغیر استعمال زیادہ ہے یہ اسم کو نصب اور خبر کو رفع دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زَیْدًا قَائِمٌ.لیکن فرَّاء اور بعض دیگر نحویوں کے نزدیک اسم اور خبر دونوں کو نصب دیتا ہے جیسے لَعَلَّ زَیْدًا قَائِـماً.لَعَلَّکے چار معنے لَعَلَّکے کئی معنے ہیں (۱) پسندیدہ شے کی توقع اور ناپسندیدہ شے سے خوف.ان معنوں میں یہ ایسے امر کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا حصول ممکن ہو گو مشکل ہو.قرآن کریم میں جو فرعون کاقول نقل ہے.اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ.اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ (المومن: ۳۷،۳۸) اس کے متعلق مفسّرین کہتے ہیں یہ اس کی جہالت پر دلالت کرتا ہے وہ اپنی نادانی سے یہی سمجھتا ہو گا کہ میں اونچے مکان پر سے خدا تک پہنچنے کا راستہ پا لوں گا مگر میرے نزدیک یہ درست نہیں.میرے نزدیک اس کی توجیہ یہ ہے کہ یا تو وہ یہ کہتا ہے کہ علم ہیئت کے ذریعہ سے موسیٰ کے مستقبل کو معلوم کر کے اس کا مقابلہ کروں گا اور یہ ُعقدہ گو باطل ہے مگر کثرت سے رائج ہے.یا پھر اس کا قول بطور تمسخر ہے.چونکہ موسیٰ ؑ بار بار خدا کو آسمان پر بتاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ خدا اور فرشتے مجھ سے باتیں کرتے ہیں.اس پر وہ تمسخر سے کہتا ہے کہ لائو ایک مکان بنائو شائد اس طرح ہم موسیٰ کے خدا کو پہنچ جائیں اور ہم بھی اس سے باتیں کر کے دیکھیں.مطلب یہ کہ ایک طرف خدا کو آسمان پر ماننا اور دوسری طرف اس سے باتیں کرنے کا دعویٰ یہ خلافِ عقل ہے.الٰہی علوم سے ناواقف انسانوں کے لئے اس مسئلہ کو نہ سمجھ سکنا قابلِ تعجب نہیں (۲) اس کے معنے محض تعلیل کے بھی ہوتے ہیں جیسے فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى(طٰہٰ : ۴۵) یہی معنے ترجمہ میں استعمال کئے گئے ہیں (۳) کوفیوں کے نزدیک کبھی اس کے معنوںمیں استفہام کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں ایک جگہ یعنیلَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ (الشعراء: ۱۳۰)کے سوا جہاں کہیں بھی لَعَلَّ استعمال ہوا ہے توقع کے معنوں میں نہیں بلکہ تعلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے یعنی ’’تاکہ‘‘ یا ’’تا‘‘ کے معنوں میں (۴) کلام ِ ُملوک کے طو ر پر بھی استعمال ہوتا ہے یعنی بادشاہ کے لئے کوئی اور یا بادشاہ اپنی نسبت خود امید اور توقع کے الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن مراد اس سے یقینی بات یا حکم کے ہوتے ہیں.تَتَّقُوْنَ.تَتَّقُوْنَ اِتَّقٰی سے مضارع مخاطب کا صیغہ ہے اس کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات

Page 304

سورۃ البقرۃ آیت۳.تفسیر.يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا الخ کی تشریح قرآن کریم کی ابتدا اس دعویٰ سے کی گئی ہے کہ بہترین نسخہ وہی ہو سکتا ہے جو علمِ کامل رکھنے والی ہستی کی طرف سے تجویز ہو اور وہ خدا تعالیٰ کی ذات ہے اور اس نے دنیا کی روحانی تکمیل کے لئے قرآن کریم کا نسخہ تجویز کیا ہے جو (۱) تمام کمالات کا جامع ہے (۲) تمام قسم کے ریبوں سے یعنی عیوب سے پاک ہے (۳) کمال کے کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتا بلکہ جس مقام کا بھی کوئی متقی ہو اسے اس کے اوپر کے درجہ تک پہنچاتا ہے اور غیر متناہی ترقیات کے راستے کھولتا ہے.اس کے بعد متقیوںکے لئے جو قرآنِ کریم کے زمانہ کے لوگوں کے لئے شرائط مقرر کی گئی تھیں وہ بتائیں اور پھر بتایا کہ اس کلام کا انکار کرنے والوں کا کیا حال ہو گا؟ اس کے بعد ان لوگوں کا حال بتایا کہ جو قرآن کریم کو ظاہر میں مانتے ہیں مگر دل سے نہیں مانتے یا دل سے مانتے تو ہیں لیکن اس کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں اور ان کی نسبت بیان کیا کہ یہ دونوں قسم کے لوگ قرآن کریم سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے کیونکہ قرآن کریم کوئی نیا جتھا بنانے کے لئے نہیں آیا کہ صرف نام اختیار کرنے پر خوش ہو جائے وہ تو دنیا کی زندگی میں تغیرّ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے پس جب تک اس کو مان کر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کی جائے اس سے فائدہ نہیں اُٹھایا جا سکتا اور نہ ایسے لوگوں کو قرآن کریم کے ماننے والوں میں شمار کیا جا سکتا ہے.اس اجمالی نقشہ کے بعد تیسرے رکوع میں بنی نوع انسان کو اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ چونکہ قرآن کریم متقیوں کو اعلیٰ مقامات پر پہنچاتا ہے اس لئے تم کو متقی بننا چاہیے تاکہ تم اس کے ساتھ جو فوائد وابستہ ہیں ان سے متمتع ہو سکو اور اس کا طریق یہ بتایا کہ اپنے رب کی عبادت کرو اس سے تم متقی بن جائو گے.تیسرے رکوع میں بنی نوع انسان کےلئے کمالات کو کامل کرنے کے طریق کا بیان عبادت کے معنے حَلِّ لُغَاتمیں بتائے جا چکے ہیں کہ کامل تذّلل اور اتباع کے ہیں جب تک پوری اتباع نہ ہو اور انسان اپنے نفس کو الٰہی تاثرات کے قبول کرنے کے قابل نہ بنائے اس کی عبادت عبادت نہیں کہلا سکتی.جو شخص صرف ظاہری شکل عباد ت کی پوری کرتا ہے وہ عابد نہیں کہلا سکتا کیونکہ اس نے تذّلل اور اتباع کا نقشہ نہیں پیش کیا.اس آیت میں عبادت کے بارہ میں ایک لطیف اور مکمل تعلیم دی گئی ہے اور عباد ت کی تکمیل کے لئے جن امور کی ضرورت ہے وہ سب بیان کئے گئے ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ عبادت میں فائدہ کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ کامل عبادت کامل تعلق کو چاہتی ہے اور کامل تعلق کامل احسان سے پیدا ہوتا ہے اور کامل احسان وہ ہوتا ہے جو اس انسان پر بھی ہو

Page 305

جو عبادت کرتا ہے اور اس کے بزرگوں پر بھی ہو کیونکہ دنیا میں لوگ مخلصانہ تعلق دو ہی وجہ سے رکھتے ہیں یا تو اس لئے کہ ان پر احسان کیا جائے یا اس لئے کہ ان کے بزرگوں پر احسان کیا گیا ہو چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں قربانیاں اس لئے پیش کی گئی ہیں کہ قربانی کرنے والوں کے ماں باپ پر کسی شخص کا احسان تھا گو خود ان سے کوئی خاص سلوک نہ تھا.ہزاروں جانیں ظالم بادشاہوں اور امراء کی خدمت میں اس لئے قربان کی جاتی رہی ہیں کہ ان ظالم بادشاہوں کے آباء نے ان قربانی کرنے والوں کے آباء سے حسن سلوک کیا تھا.پس اولاد نے احسان کے بدلہ کے طو رپر باوجود خود مظلوم ہونے کے اپنی جانیں قربان کر دیں تا اس احسان کے ناقدردان نہ قرار دیئے جائیں لیکن اگر دونوں قسم کے احسان جمع ہو جائیں تو پھر تو محبت کا جذبہ نہایت شدّت سے اُبھر آتا ہے چنانچہ اس فطرتی جذبہ کو اپیل کرنے کے لئے اس آیت میں کہا گیا ہے کہ اے لوگو! اُس ہستی کی عبادت کروجو تمہاری بھی خالق ہے اور تمہارے آباء کی بھی.جب عارضی تعلقات کی بناء پر تم اخلاص کا معاملہ کرتے ہو تو کیوں اس ہستی سے اخلاص کا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمہاری بھی ُمحسن ہے اور تمہارے آباء کی بھی ُمحسن رہی ہے؟ اس آیت میں عبادت کی تحریک بھی نہایت عجیب اسلوب سے کی گئی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ضرورت خوب واضح ہو جاتی ہے.اس جگہ عبادت کی تحریک ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ اے لوگو! اُس ربّ کی عبادت کرو جس نے تم کو بھی اور تمہارے بڑوں کو بھی پیدا کیا ہے اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو کسی وجود کو پیدا کرنے والا ہو وہی اس کی صحیح طاقتوں کو سمجھتا ہے.ایک مکان بنانے والا انجینئر جانتا ہے کہ اس کی تعمیر کردہ عمارت کس حد تک بوجھ برداشت کر سکتی ہے اسی طرح حقیقی اصلاح خدا تعالیٰ ہی کر سکتا ہے جس نے انسان کو اور اس کے آباء کو پیدا کیا ہے اور وہی اس کی قوتوں کی حد بندی کو اچھی طرح جانتا ہے.کسی اور ہستی کی عبادت کرنے کے یہ معنی ہیں کہ اپنے آپ کو ایسے ناواقف کے سپرد کر کے تباہ کروایا جائے جو انسان کی قابلیتوں اور اس کی حد بندیوں کو نہیں جانتا پس اصل عبادت جو صرف ظاہری رسوم کا نام نہیں بلکہ روحانی راستہ پر چلنے کا نام ہے خدا تعالیٰ کی ہی مناسب ہے کیونکہ وہی جانتا ہے کہ انسان کی قوتیں کیا ہیں اور انہیں کن ذرائع سے بڑھایا اور مکمل کیا جا سکتا ہے؟ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ عبادت کا حکم کسی ایسی غرض کےلئے نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فائدہ ہو اس کے بعد عبادت کی وجہ بھی بتا دی کہ عبادت کی غرض صرف اقرار عبودیت نہیں اگر صرف اقرار عبودیت کسی عبادت کا مقصد ہوتا تب بھی خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے کسی کی عبادت کرنا گو ظلم ہوتا مگر اس قدر مضر نہ ہوتا مگر عبادت تو حصولِ تقویٰ کے لئے کی جاتی ہے یعنی تکمیل روحانیت کے لئے اور تکمیل روحانیت

Page 306

وہ ہستیاں کس طرح کر سکتی ہیں جو انسان کی خالق نہیں اور اس کی مخفی طاقتوںاور حد بندیوں سے واقف نہیں؟ وہ تو اسے مکمل کرنے کی بجائے توڑ کر رکھ دیں گی.ہم دیکھتے ہیں کہ جب بھی انسان نے اپنی باگ ڈور غیر اللہ کے سپرد کی ہے نقصان اُٹھایا ہے.کسی راہنما نے کھلی آزادی دے کر رُوحانی تکمیل کی راہوں سے بالکل دُور پھینک دیا اور کسی راہنما نے انسانی قوتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایسا بوجھ لاددیا کہ انسان اس بوجھ تلے دب کر رہ گیا.کسی نے رہبانیّت کے اختیار اور طیباّت سے اجتناب کرنے کی تعلیم دی تو کسی نے مضر اور مفید میں فرق نہ کرتے ہوئے شریعت کو لعنت قرار دے کر انسان کو تباہی کے گڑھے میں گرا دیا.اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے ایسی تعلیم دی کہ جس کی مدد سے نہ تو وہ اپنی ذمہ واریوں کو بھلا دے اور نہ ایسے بوجھوں تلے دب جائے جو اس کی فطرت کو کچل کر رکھ دیں.غرض لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ عبادت کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انسان فطرتِ صحیحہ کی راہنمائی میں ترقی کر سکے اور ظاہر ہے کہ فطرت کے مطابق صحیح راہنمائی وہی کر سکتا ہے جو فطرت انسانی کی تمام جزئیات سے واقف ہے اور وہ خالق ہی کی ہستی ہو سکتی ہے نہ کہ کسی اور کی.لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَسے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ عبادت کا حکم کسی ایسی غرض کے لئے نہیں جس میں خدا تعالیٰ کا فائدہ ہو بلکہ عبادت کا حکم خود انسان کے فائدہ کے لئے دیا گیا ہے اور اس کی غرض صرف یہ ہے کہ فطرت کے تقاضوں کو صحیح طور پر پورا کر کے انسان کو مکمل بنایا جائے.اس مضمون سے اُن لوگوں کے شبہات کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو شریعت کو لعنت قرار دے کر اسے ترک کر چکے ہیں.انہوں نے شریعت کو لعنت اسی لئے قرار دیا کہ اس کے احکام کو لغو اور بلا حکمت کے سمجھا اور خیال کیا کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ صرف بندوںپر حکومت جتانا چاہتا ہے مگر قرآن کریم میں لکھا ہے کہ ہمارے بتائے ہوئے احکام لغو اور ِبلا ِحکمت نہیں بلکہ انسان کو صحیح راستہ پر چلانے کے لئے ہیں اور اسے افراط و تفریط کی راہوں سے ہٹا کر ان اعمال کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہیں جن سے اس کی مخفی قوتیں نشوونما پاتی ہیں اور اس قسم کی تعلیم کو لعنت قرار دینے والا عقلمند نہیں کہلا سکتا.ایک اندھے کو راستہ کے گڑھے سے ہوشیار کرنے والا کیا لعنت کی تعلیم دیتا ہے؟ کیا کوئی اس اندھے کو کہہ سکتا ہے کہ میاں! اس طرح ہوشیار کرنے والے تم کو لعنت کا طوق پہناتے ہیں.ایک ڈاکٹر جو مریض کو صحیح پرہیز بتاتا ہے لعنت کا کام نہیں کرتا بلکہ رحمت کا کام کرتا ہے.پس شریعت کو لعنت قرار دینے والوں کے دعویٰ کی بنیاد صرف اس پر ہے کہ وہ شریعت کے احکام کو بے حکمت سمجھتے ہیں ممکن ہے ان کے دین کی یہی حالت ہو مگر قرآنی تعلیم کی یہ حالت نہیں.وہ تو یہ دعویٰ کرتی

Page 307

ہے کہ اس کی غرض تمہیں نفع پہنچانا اور تباہی کے راستوں سے بچانا ہے.تَتَّقُوْنَ کے معنے وضع لغت کے لحاظ سے اِتَّقٰی کا لفظ اِوْتَقٰی سے بنا ہے اور وضع لغت کے لحاظ سے اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی کو اپنی ڈھال بنا لیا.اپنے بچائو کا ذریعہ بنا لیا.پس تَتَّقُوْنَ کے معنے یہ ہوئے کہ تاتم خدا تعالیٰ کو اپنی ڈھال بنا لو یعنی خدا تعالیٰ کی مدد سے تباہیوں سے بچ جائو اور وہ تمہارا ذمہ وار ہو جائے.جس طرح دنیوی راہنما انسان کو جنگل یا نادیدہ راستوں سے صحیح او ربے تکلیف نکال کر لے جاتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ تم کو زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں سے صحیح سلامت بچا کر لے جائے.ایک اور لطیف بات بھی اس آیت کے متعلق یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ اس میں اُعْبُدُوْا رَبَّكُمْ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور رب کے معنے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس ہستی کے ہوتے ہیں جو پیدا کر کے بتدریج ترقی کی طرف لے جائے.اس صفت کے انتخاب سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ہر انسان کی پیدائش میں اس کی آیندہ ترقی کے لئے ایک بنیاد رکھی گئی ہے تاکہ وہ اس پر چل کر کمال تک پہنچے.پس جب تک عبادت رَبّ کی نہ ہو جو اُسے اُن مخفی طاقتوں کے مطابق کمال تک پہنچائے مفید نہیں ہو سکتی.بیشک انسانوں میں مَابِہِ الْاِشْتِرَاکُ بھی ہے اور سب انسان اپنے اندر مشابہ طاقتیں بھی رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہر انسان دوسرے سے مختلف ہوتا ہے باپ کا مزاج اَور.بیٹے کا اَور.بھائی کا اَور.کوئی ایک تعلیم سب کے لئے یکساں مفید نہیں ہو سکتی.اصول تعلیم ایک ہوں گے لیکن جزئیات الگ الگ ہوںگی.پس ایسے راہنما کی ضرورت ہے جسے ان جزئیات کا علم ہو اور ان کے مطابق ترقی دے کر بلند مراتب تک لے جا سکے پس یہ کام ربّ ہی کر سکتا ہے جو پیدائش سے جوانی تک ایک خاص طرز پر اس فرد کو بڑھاتا لایا ہے.وہ جانتا ہے کہ زید یا بکر کے مزاج کی افتاد کس طرح پڑ چکی ہے اور اس کے مزاج کا اس کے باپ یا بھائیوں کے مزاج سے کیا اختلاف ہے پس خالی شریعت پر عمل کافی نہیں بلکہ اپنے ربّ سے اخلاص اور محبت کا تعلق بھی ضروری ہے تاکہ وہ خاص راہنمائی کے ذریعہ اسے شریعت کی ان جزئیات کی طرف راہنمائی کرے جو اس کی ذات کے لئے زیادہ مفید ہیں.بیشک شریعت کہتی ہے نماز پڑھو، زکوٰۃ دو مگر وہ یہ نہیں بتا سکتی کہ اَقل ترین نماز، اَقل ترین صدقہ کے بعد کونسا عمل ایک شخص کی روحانی ترقی کے لئے زیادہ ضروری ہے یہ ہدایت تو ہر شخص کو الگ الگ ہی مل سکتی ہے اور ربّ کی طرف سے ہی مل سکتی ہے.غرض ہدایت عامہ یعنی شریعت کے مل جانے کے بعد بھی انسان محفوظ نہیں ہوتا کیونکہ اسے اعلیٰ ترقیات کے لئے ہدایت خاصہ کی ضرورت ہے جو بطور القاء کے رب کی طرف سے ہی یعنی اس ہستی کی طرف سے ہی جس نے

Page 308

اسے پیدا کر کے اعلیٰ مدارج تک پہنچانے کا ذ ّمہ لیا ہے آ سکتی ہے پس اُس ہستی سے محبت اور عبادت کا تعلق بہرحال ضروری ہے تا ہدایت خاص سے بھی انسان فائدہ اٹھا سکے.تَتَّقُوْنَ میں اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑ دینے والے امور سے بچنے کے علاوہ بندوں کے تعلقات کو خراب کر دینے والے امور سے بچنے کی طرف اشارہ تَتَّقُوْنَ میں جہاں ایسے امور سے بچنے کے معنے نکلتے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور بندے کے تعلق کو بگاڑ دیتے ہیں وہاں اس سے ان امور سے بچنے کا بھی اشارہ پایا جاتا ہے جو بندوں کے باہمی تعلقات سے تعلق رکھتے ہیں.عبادت الٰہی ایسے امور میں غلطی کرنے سے بھی انسان کو بچاتی ہے.جو شخص خدا تعالیٰ کو اپنا ربّ سمجھنے لگے ضرور ہے کہ وہ اس کے بندوں سے بھی اچھا تعلق پیدا کرے گا اور پھر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بندوں پر ظلم نہیں کرے گا کیونکہ جو شخص اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا بندہ بنا لے گا اس کی نظر اپنی سب ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ پر ہی پڑے گی خصوصاً جبکہ وہ اس کے رب ہونے پر ایمان رکھتا ہو گا.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی سب ضرورتوں کا کفیل سمجھے گا وہ بندوں کے اموال پر نظر نہیں رکھ سکتا اور نہ اپنی ضرورتوں کے پورا کرنے کے لئے ان کے مالوں میں خیانت کر سکتا ہے نہ ان پر ظلم کر سکتاہے.پس تَتَّقُوْنَکے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ اگر تم رب کی عبادت اخلاص اور یقین کے ساتھ کرو گے تو آپس کے ظلموں سے بھی بچ جائو گے اور دنیا میں بھی امن قائم ہو گا.صحابہ کرام اپنے رب کے بندے بن گئے تھے.دیکھو! ان کی حکومت میں دنیا کو کس قدر امن ملا حتّٰی کہ دشمن تک ان کے نیک سلوک کے معترف ہوئے اور آج تک ابوبکرؓ اور عمرؓ کی حکومت کی یاد لوگوں کے دلوں میں تازہ ہے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کی حکومت بھی ایسی ہی تھی مگر چونکہ اُن کے بارہ میں اختلاف ہوا ہے میں نے ان کا ذکر نہیں کیا.قرآن مجید کے حکم يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا سے دنیا کو امن مل سکتا ہے سچ بات یہی ہے کہ دنیا میں امن رب کا بندہ بن جانے کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اگر یورپ خدا کا بندہ بن جاتا تو آج یہ جوُعُ الا َرض کی بیماری اسے لاحق نہ ہوتی.حصہ آیت خَلَقَکُمْ الخ میں خَلَقَ کے لفظ سے مادہ کے انادی اور ازلی ہونے کا استدلال اور اس کا جواب بعض لوگ خَلَقَ کے لفظ سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم بھی اس امر کا قائل ہے کہ اس دنیا کی پیدائش ایک ایسے مادہ سے ہوئی ہے کہ جو پہلے سے موجود تھا پس قرآنِ کریم بھی مادہ کے انادی یا ازلی ہونے کا قائل ہے.یہ استنباط ایک وسوسہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ گو خَلق کے معنے ایک موجود شےکے اندازہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں لیکن اس کے معنے جیسا کہحَلِّ لُغَات میں لکھا جا چکا ہے کسی چیز

Page 309

کو بغیر اصل اور نمونہ پیدا کرنے کے بھی ہوتے ہیں.پس ایک خاص موقع کے استعمال سے یہ استدلال کرنا کہ سب جگہ وہی معنے ہیں درست نہیں.قرآن کریم میں وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ (الانعام :۱۰۲) بھی تو آتا ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خلق کا لفظ ہی قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا بلکہ بَدِیْع اور فَاطِر کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے اور بَدِیْع کے معنے ہیں جو شروع کرے اور فَاطِرکے معنے ہیں جو کسی پہلے سے موجود وجود کے بغیر نیا وجود پیدا کرے.اس میں شک نہیں کہ قرآنِ کریم میںفَطَرَنِيْ (ہود :۲ ۵) اور فَطَرَنَا (طٰہٰ : ۷۳) کے الفاظ آتے ہیں مگر اس سے ابتدائے پیدائش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے نہ کہ قریب کی پیدائش کی طرف.یہ آیت اس لحاظ سے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ ترتیب مستقل کے لحاظ سے اس میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم بیان ہوا ہے.اس سے پہلے یہ کہا گیا تھا کہ متقی ایسا ایسا کرتے ہیں مگر حکم کے طور پر بنی نوع انسان کو نہ کہا گیا تھا کہ تم ایسا کرو.حکم سب سے پہلے اسی آیت میں دیا گیا ہے اور سب سے پہلا حکم توحید کا دیا گیا ہے اور ایسے لطیف اور مکمل طو رپر دیا گیا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی مثلاً اوّل تو عبادت کرو کا حکم اَلنَّاس کو دیا گیا ہے یعنی سب دنیا کو مخاطب کیا گیا ہے نہ کہ صرف عربوں کو جو اِس امر کا ثبوت ہے کہ اسلام شروع سے ہی سب دنیاکو دینِ توحید پر جمع کرنے کا مدّعی ہے اور قومی عبادتوں کو مٹا کر ایک جامع حلقہ جس میں سب انسان آ جائیں بنانا چاہتا ہے پھر عبادت کس کی کرو؟ اس کے لئے اللّٰہ کا لفظ نہیں استعمال کیا بلکہ رَبّ کا لفظ چنا ہے جس سے بہت سے معبود انِ باطلہ کا رد ہو گیا کیونکہ دنیا میں بہت لوگ شرک پتھروں سے کرتے ہیں ربّ کے لفظ سے ایسے تمام وجودوں کو عبادت کی حدّ سے نکال دیا.پھر لوگ دریائوں، پہاڑوں، ستاروں کی پرستش کرتے ہیں اَلَّذِيْ خَلَقَكُمْ کہہ کر ان کو خارج کر دیا.پھر کچھ لوگ اپنے بزرگوں کی پوجا کرتے وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ کہہ کران کو بھی عبادت سے خارج کر دیا.غرض ایسی جامع عبارت بیان کی ہےکہ چند لفظوں میں خالص توحید کی تعلیم دے دی ہے.اسی طرح تعلق کی مضبوطی کے لئے فطرت کے َعین مطابق طریق استعمال کیا.دنیا میں تعلق کے دو ہی طریق ہیں یا محبت یا خوف.مختلف اقوام میں عبادت انہی دو اسباب کی وجہ سے کی جاتی ہے جیسا کہ کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions) والوں نے تفصیل سے اس پر بحث کی ہے.آیت ھٰذا میں محبت کی دو وجوہات کی طرف لطیف پیرائے میں اشارہ اس آیت میں دونوں باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے پہلا محبت کے لئے اور لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ خوف کے مضمون کو سامنے لانے کے لئے.محبت آگے دو طرح پیدا ہوتی ہے یا حسن سے یا اِحسان سے.اس مختصر آیت میں ان دونوں باتو ںکو خدا تعالیٰ سے

Page 310

محبت پیدا کرنے کے لئے پیش کیا گیا ہے.وہ حسین ہے کیونکہ ربّ ہے کیسا اعلیٰ درجہ کا صَنَّاع ہے کہ ایک چیز کو نہایت ادنیٰ حالت میں پیدا کرتا ہے پھر درجہ بدرجہ ترقی دے کر کمال تک پہنچا دیتا ہے.پھر احسان کو کس لطیف طورپر پیش کیا کہ وہ تمہارا بھی حسن ہے اور تمہارے ماں باپ کا بھی.پھر جہاں لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ میں خوف کی طرف اشارہ کیا مستقبل کے احسان کی طرف بھی توجہ دلائی.اس قدر چھوٹی سی آیت میں اس قدر وسیع مطالب کا بیان کرنا کیسا معجزانہ کلام ہے فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ.عجیب بات ہے کہ حضرت مسیح ناصری سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا حکم شریعت میں کونسا ہے ؟تو انہوں نے جواب دیا کہ خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری سمجھ سے پیار کر پہلا اور بڑا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند ہے کہ تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۷ تا ۳۹) لیکن انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو اس میں پہلے اور باتیں بیان کی گئی ہیں اس حکم کا نام و نشان نہیں بلکہ جو سب سے بڑا اور پہلا حکم تھا مسیح ناصری نے بیان ہی نہیں کیا جب تک لوگوں نے سوال نہیں کیا حالانکہ اہمیت کے لحاظ سے پہلے اس حکم کو بیان کرنا چاہیے تھا جو سب سے بڑا ہے پُرانے عہد نامہ کو دیکھو تو اس میں بھی اس حکم کو کہیں بعد میں جا کر بیان کیا گیا ہے پہلے اِدھر اُدھر کی باتیں لکھی گئی ہیں یہی حال دوسری کتب کا ہے کوئی ایک مذہبی کتاب نہیں جس میں اس حکم کو جو نہ صرف مسیح علیہ السلام کے قول کے مطابق بلکہ عقل کے مطابق بھی سب سے بڑا اور سب سے پہلا ہے پہلے جگہ نہیں دی گئی.یہ فضیلت صرف قرآن کریم کو حاصل ہے کہ اس نے سب سے پہلا حکم جو قرآن کریم میں بیان کیا ہے یہی ہے کہ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ(البقرۃ:۲۲) کیا یہ قرآن کریم کی فضیلت نہیں کہ اس نے پہلے حکم کو پہلی جگہ دی ہے جبکہ دوسری تمام کتب نے اس پہلے حکم کو پیچھے ڈال دیا ہے.اگر حکم کے لفظ پر زور نہ دیا جائے تو اس سے بھی پہلے جہاں متقیوں کے عمل کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے وہاں يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ فرمایا ہے جس کے معنے یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لائو اور اس کی عبادت کرو اور اس کے بعد اس حکم کو جسے مسیح علیہ السلام نے دوسرے درجہ پر رکھا ہے بیان کیا ہے کہ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ اس بارہ میں بھی قرآنِ کریم کی تعلیم فائق ہے کیونکہ مسیح نے تو صرف دل کی حالت کی طرف اشارہ کیا ہے اور قرآن کریم نے جامع الفاظ رکھے ہیں اور وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَکہہ کر فرمایا ہے کہ اپنی دلی محبت بھی اپنے ہمسائیوں کو دے اور اپنا علم بھی اور اپنا مال بھی اور اپنی جان بھی.غرض ان دونوں احکام کو اسلام نے ان کے مناسب حال جگہ دی ہے اور مسیح کے الفاظ سے زیادہ شاندار الفاظ میں.اگر کوئی کہے کہ مسیح نے تو سارے دل اور ساری جان اور ساری سمجھ کے الفاظ استعمال کئے

Page 311

ہیں جو زیادہ شاندار ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے وہی مضمون ایک لفظ میں ادا کر دیا ہے جو مسیحؑ نے ایک فقرہ میں بیان کیا ہے کیونکہ قرآن کریم کہتا اُعْبُدُوْا عبادت کرو اور عبادت کے معنے جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بیان کیا گیاہے غَایَۃُ التَّذَلُّلِ کے ہیں یعنی اپنی سب طاقتوں کو انتہائی درجہ پر خرچ کرنا.پس عبادت میں سارا دل بھی اور ساری جان بھی اور ساری سمجھ بھی اور اس کے سوا ساری قوت بھی اور سارے اسباب بھی شامل ہیں اور اس ایک لفظ سے قرآن کریم نے وہ سب کچھ بیان کر دیا ہے.جو حضرت مسیح ناصری بیان کرنا چاہتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ.(ذات باری کے متعلق ایک نوٹ اگلی آیت کے بعد دیکھو) الَّذِيْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآءَ بِنَآءً١۪ وَّ اَنْزَلَ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونے اور آسمان کو چھت کے طور پربنایا ہے اور بادلوں سے مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ١ۚ فَلَا پانی اتارا ہے.پھر اس (پانی )کے ذریعہ سے میووں کی قسم کا رزق تمہارےلئے نکالا ہے تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۲۳ پس تم سمجھتے بوجھتے ہوئے اللہ کے ہمسر نہ بناؤ.حَلّ لُغَات.اَ لْاَرْضُ.اَ لْاَرْضُ کرّۂز مین.کُلُّ مَاسَفَلَ.ہر نیچے کی چیز (اقرب) فِرَاشًا.فِرَاشًا فَرَشَ الشَیْ ءَ (یَفْرُشُ) فَرْشًا وَّفِرَاشًا کے معنے ہیں.بَسَطَہٗ کسی چیز کو پھیلایا.کہتے ہیں فَرَشَ فُـلَانٌ بِسَاطًا.بَسَطَہٗ لَہٗ اس کے لئے غالیچہ بچھایا.اور اَلْفِرَاشُ کے معنے ہیں مَا یُفْرَشُ وَ یُنَامُ عَلَیْہِ جو بچھایاجائے اور اس پر سویا جائے (اقرب).اَلْفَرْشُ کے معنے ہیں بَسْطُ الثِّیَابِ کپڑوں کا پھیلانا وَیُقَالُ لِلْمَفْرُوْشِ فَرْشٌ وَ فِرَاشٌ اور بچھائی ہوئی چیز کے لئے فِرَاشٌ اور فَرْشٌ کا لفظ بولتے ہیں.قَالَ ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا.اَیْ ذَلَّلَھَا وَلَمْ یَجْعَلْہَا نَائِیَۃً لَایُمْکِنُ الْاِسْتِقْرَارُ عَلَیْہَا اور آیت ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا میں

Page 312

زمین کو فراش بنانے کے یہ معنی ہیں کہ اس کو ایسا بنایا ہے کہ وہ ہموار اور درست ہے اور اس طو رپر اُٹھا ہوا نہیں بنایا کہ اس پر آرام حاصل نہ ہو سکے وَالْفَرْشُ مَایُفْرَشُ مِنَ الْاَنْعَامِ اَیْ یُرْکَبُ اورفرش ایسے چار پایوں کو بھی کہتے ہیں جن پر سواری کی جاتی ہے.(المفردات) بِنَاءٌ.اَلْبِنَاءُ بَنَی (یَبْنِیْ) کا مصدر ہے اور اس کی جمع اَبْنِیَۃٌ آتی ہے.کہتے ہیں.بَنَاہُ یَبْنِیْہِ ( بَنْیًا وَبِنَاءً ) نَقِیْضُ ھَدَمَہٗ یعنی کسی مکان کو بنایا اور جب بَنَی الْاَرْضَ کہیں تو معنے ہوں گے بَنَیٰ فِیْہَا دَارًا اَوْ نَحْوَھَا کہ کسی رقبۂ زمین میں کوئی مکان بنایا (اقرب) اَلْبِنَاءُ اِسْمٌ لِمَا یُبْنیٰ بِنَائً لفظ بناء ہر اُس چیز کے لئے بولا جائے گا جو بنائی جاوے (مفردات).وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ.اَلسَّمَاءُ کے معنی یہاں بادل کے ہیں.یعنی بادلوں سے پانی اُتارا.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۰.اَخْرَجَ.نکالا.پیدا کیا (مفردات) اَلثَّمَرَاتُ.اَلثَّمَرَۃُ کی جمع ہے اور اَلثَّمَرَۃُ کے معنے ہیں حِمْلُ الشَّجَرِ یعنی درخت کا پھل (اقرب) مفردات میں ہے اَلثَّمَرُ اِسْمٌ لِکُلِّ مَایُتَطَعَّمُ مِنْ اَحْمَالِ الشَّجَرِ کہ درختوں کے ان پھلوں کو جن کو کھانے کے کام میں لایا جاتا ہے ثَـمَرٌ کہتے ہیں.رِزْقًا کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.اَنْدَ ادًا.اَنْدَ ادًا نِدٌّ کی جمع ہے اور اَلنِّدُّ کے معنے ہیں اَلْمِثْلُ.مثل.ہم رتبہ وَلَایَکُوْنُ اِلَّا مُخَالِفًا لفظ نِدٌّ کا استعمال صرف اس نظیر اور مشابہ کے لئے ہوتا ہے جو مخالف ہو اور مَالَہٗ نِدٌّ کے معنے ہیں مَالَہٗ نظِیْرٌ کہ اس کا کوئی مثل او رہم رتبہ نہیں (اقرب) نِدُّ الشَّیْ ءِ مُشَارِکُہٗ فِی الْجَوْھَرِ وَمِثْلُہٗ مُشَارِکُہٗ فِیْ أَیِّ شَیْ ءٍ کَانَ کسی چیز کا نِدّ وہ ہوتا ہے جو اس کے جوہر میں شریک ہو اور مثل اس پر بولتے ہیں جو اپنے ممثل کی کسی بات میں شریک ہو یعنی ندّ خاص ہے اور مثل عام ہے.اور ان دونوں میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے.نیز نِدُّ الشَّیْءِ کے معنے ہیں مَایَسُدُّ مَسَدَّہٗ جو کسی چیز کے قائم مقام ہو سکے.قَالَ ابْنُ الْاَ ثِیْرِ ھُوَ مِثْلُ الشَّیْ ءِ الَّذِیْ یُضَادُّہٗ فِیْ اُمُوْرِہٖ وَیُنَادُّہٗ اَیْ یُخَالِفُہٗ ابن اثیرفرماتے ہیں کہ ند کسی چیز کے اُس مثیل پر بولیں گے جو اس کے جملہ امور کے مخالف ہو.(تاج العروس) تفسیر.آیت ھٰذا میں پہلی آیت کے مضمون کی تکمیل اس آیت میں پہلی آیت کے

Page 313

مضمون کو مکمل کیا ہے.پہلی آیت میں تو یہ بتایا تھا کہ عبادت صرف رَبّ کی اور اس ربّ کی جس نے تم کو پیدا کیا ہو اور تمہارے آباء کو بھی پیدا کیا ہو صحیح ہو سکتی ہے کیونکہ وہی تمہاری قوتوں کی صحیح راہنمائی کر سکتا ہے.اب اس آیت میں بتاتا ہے کہ آسمان و زمین بھی خدا تعالیٰ نے بنائے ہیں اور ظاہر ہے کہ انسانی اعمال کا وجود ان اشیاء سے پیدا ہوتا ہے جو اس کے گر دو پیش ہیں آخر انسانی عمل کس چیز کا نام ہے؟ اس کی تجارت اس کی زراعت اس کی صنعت و حرفت اس کی سیر و سیاحت یہی اعمال ہیں جو انسان بجا لاتا ہے او ریہ سب امور زمین و آسمان اور ان کی تاثیرات سے پیدا ہوتے ہیں.پس وہی ہستی انسان کے اعمال کو صحیح راستہ پر چلا سکتی ہے جو زمین و آسمان اور ان کی تاثیرات کو پیدا کرنے والی ہے دوسری کوئی ہستی اس بارہ میں کامل ہدایت نہیں دے سکتی کیونکہ وہ بوجہ ان اشیاء کی خالق نہ ہونے کے ان کی تاثیرات اور قوتوں کی پوری طرح واقف نہیں ہو سکتی.نہ وہ ان اشیاء کو انسان کی مدد پر لگا سکتی ہے کیونکہ اسے ان پر کوئی اختیار حاصل نہیں.پس فرمایا کہ اس خدا کی عبادت کرو جس نے زمین کو تمہارے لئے فراش کے طور پر بنایا ہے یعنی ایسا بنایا ہے کہ اس سے تم فائدہ اُٹھا سکتے ہو اور اس میں آرام کر سکتے ہو.جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے فراش سے مراد اس طرح پھیلانے کے ہیں کہ اس پر آرام کیا جا سکے پس زمین کو فراش کی طرح بنانے کے یہ معنے ہیں کہ اس میں انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے گئے ہیں لیکن یہ ظاہر ہے کہ زمین پر ہر قسم کا تصرّف انسان کے آرام کا موجب نہیں ہوتا یہی زمین انسان کی ہلاکت کا موجب بھی ہو جاتی ہے پس زمین کی طاقتوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے بھی کسی قاعدہ اور دستور کی ضرورت ہے اور وہی قاعدہ اور دستور سب سے زیادہ مناسب ہو سکتا ہے جو زمین کے پیداکرنے والے کی طرف سے مقرر کیا جائے.آسمان کو چھت بنانے سے مراد اسی طرح آسمان کوبطور چھت کے بنایا گیا ہے یعنی حفاظت کا ذریعہ.سورج اور چاند اور ستاروں کی روشنیاں کس طرح ہزاروں فائدے انسان کو پہنچا رہی ہیں مگر ان کی مخالف تاثیرات بھی ہیں جو انسان کے اخلاق و عادات پر اثر ڈالتی ہیں.ہزاروں بیماریاں اور حادثات اجرام فلکی کے دوروں سے تعلق رکھتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ سائنسدان تسلیم کریں یا نہ کریں دنیا پر بعض ایسے حوادث آتے ہیں جو زمینی تغیرّات کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے.مثلاً میں نے دیکھا ہے کہ بعض ا یاّم میں عورتیں کثرت سے اسقاط کی مرض میں مبتلا ہوتی ہیں بعض ا یاّم میں لڑکیوں کی پیدائش کی کثرت ہوتی ہے اور بعض میں لڑکوں کی بعض ایام میں تکلیف دِہ زچگی کی شکایات بڑھ جاتی ہیں بعض ا یاّم میں دیکھا گیا ہے کہ ہڈی ٹوٹنے کے حادثات کثرت سے ہوتے ہیں بعض ا یاّم میں ریلیں کثرت سے ٹکراتی ہیں ان تغیرّات کو محض حادثہ نہیں قرار دیا جا سکتا.کیونکہ آخر اس کی کوئی وجہ ہونی چاہیے کہ

Page 314

کیوں بعض ا یاّم میں گر کر سر کو چوٹ آنے کے حادثات زیادہ ہوتے ہیں اور بعض ا یاّم میں گر کر لاتوں کو زیادہ ضربیں آتی ہیں.میں نے اپنے ہسپتال کے ڈاکٹر صاحب سے اس کا ذکر کیا اور انہو ںنے اس کا خیال رکھا تو بعد میں کئی دفعہ اس کی رپورٹ کی کہ آج فلاں حادثہ کے مریض کثرت سے آ رہے ہیں حالانکہ وہ تکلیفیں بیماریوں کا نتیجہ نہ تھیں کہ انہیں وبا ءکہا جائے بلکہ حادثات تھے جو ایک ہی صورت میں ظاہر ہوئے اور لطیفہ یہ کہ چوٹوں کے مریض آنے شروع ہوئے تو کبھی پے در پے سر کی چوٹوں کے مریض آئے اور کبھی پے در پے لاتوں کی چوٹوں کے مریض آئے اس تجربہ کے بعد انہوںنے تسلیم کیا کہ واقعہ میں یہ امر ایک حیرت انگیز قانون قدرت کے مخفی اسباب پر دلالت کرتا ہے.زمین و آسمان کا ملکر سارے عالم پر مختلف اثرات ڈالنا غرض علاوہ اس کے کہ بارشوں، خشک سالی، کھیتوں کے پکنے یا موسمی تغیرات کا تعلق اجرام فلکی سے ہے.حوادث اور بعض غیر متعدی بیماریوں کا تعلق بھی اجرام فلکی سے ہے چنانچہ میں نے یہ تجربہ کیاہے کہ جس علاقہ میں پورا چاند گرہن ہو اس علاقہ میں اس موسم میں زچگی کی تکالیف بہت زیادہ نمایاں طور پر پیدا ہو جاتی ہیں میں نے کئی دفعہ دوستوں کو اس طرف توجہ دلائی ہے اور بعد میں اسی طرح مشاہدہ کیا ہے پس ان امور سے ایک عام اندازہ اس امر کا کیا جا سکتا ہے کہ زمین و آسمان مل کر سارے عالم پر مختلف اثرات ڈالتے ہیں اور اسی قسم کے بعض مشاہدات سے بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ سورج، چاند، ستارے بھی خدائی میں شریک ہیں اور ان کے خوش کرنے کے لئے کئی قسم کی عبادات بجا لاتے ہیں مگر یہ سب وہم ہیں جو انسان کو انسانیت سے گراکر حیوانیت کے مقام تک پہنچا دیتے ہیں.اصل حقیقت تو ان تاثیرات میں صرف اس قدر ہے کہ انسان اس تمام کائنات کو ایک طبعی مؤثر اپنے اعمال اور قویٰ پر سمجھے اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی اعانت کا طالب ہو تاکہ اپنے علم سے کام لینے کے بعد جن باتو ںکا اسے علم نہیں ان میں خدا تعالیٰ کی مدد اس کی راہنمائی کرے اور اس کی غیبی حفاظت کے سامان کرے ورنہ اس قسم کے امو رکو دیکھ کر اجرام فلکی کی عبادت کرنی تو ایسی ہی ہے جیسے کوئی طاعون کے کیڑوں یا ہیضہ کے کیڑوں کی عبادت شروع کر دے.اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک کے بعض جاہل ان چیزوں کی عبادت کربھی رہے ہیں چنانچہ چیچک کی دیوی کی عبادت تو ہمارے ملک میں مشہور ہے.اسی وہم کی بناء پر ہمارے ملک میں چیچک کا نام نہیں لیتے بلکہ اسے ماتا یعنی ماں کہتے ہیں تاکہ وہ مزعومہ دیوی خوش ہو کر ماتا کہنے والے ماں باپ کی اولاد کو چھوڑ دے.نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ.غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے آرام کے سامان پیدا کئے

Page 315

ہیں لیکن یہ سب سامان ظاہر نہیں ان میں سے ظاہر بھی ہیں اور مخفی بھی.پس انسان کو اس دنیا کے پیدا کرنے والے رب سے تعلق پیدا کرنا چاہیے تاکہ وہ ان سے صحیح فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ان کی مخفی مضرّتوں سے محفوظ رکھے کیونکہ انسان ساری تدبیریں کر لینے کے بعد بھی ارضی و سماوی تغیرّات کے ضرروں سے کامل طور پر نہیں بچ سکتا خدا تعالیٰ ہی پوری طرح اس کی حفاظت کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ کا انبیاء کو خارق عادت طور پر ضرروں سے محفوظ رکھنا اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو دیکھو! لوگ ان کے تباہ کرنے کے لئے کیسے جتن کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان کی سب تدبیرو ںکو باطل کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ان کے دشمنوں نے طرح طرح کے حملے کئے.آپؐ کو زہر دینے کی کوشش کی گئی مگر آپؐ کے ایک ساتھی تو شہید ہو گئے لیکن آپؐ جن کو زہر دینے کی اصل کوشش تھی محفوظ رہے.آپؐ پر خفیہ کمینوں میں بیٹھ کر حملہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر دشمن ناکام رہا.علیحدگی میں آپؐ پر حملہ کرنے کی تدبیر کی گئی مگر اللہ تعالیٰ نے وہاں بھی دشمن کو نامراد رکھا.گھر بلا کر اوپر سے پتھر پھینکنے کا منصوبہ یہود نے کیا مگر اللہ تعالیٰ نے الہام سے خبردار کر دیا اور دشمن کو شرارت کا اقرار کرنا پڑا.غارِ ثور میں دشمن سر پر پہنچ کر جس طرح لوٹا آج تک دنیا اس پر حیران ہے.یہ سب کچھ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے فضلوں سے ہوا.آپؐ نے اس سے تعلق جوڑا تو اس نے آپؐ سے جوڑا.اور سارے عالم کو آپؐ کی خدمت میں لگا دیا.حضرت مسیح ؑ ناصری کو جب ان کے دشمنوں نے اپنی طرف سے صلیب پر لٹکا کر مار ہی دیا تھا خدا تعالیٰ نے کس طرح ایک تاریک آندھی بھیج کر حاکم اور یہود دونوں کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کو وقت سے پہلے صلیب پر سے اُتار لیں اور اس طرح حضرت مسیح اس ذلت کی موت سے محفوظ ہو گئے جو دشمنوں نے ان کے لئے تجویز کی تھی.خدا تعالیٰ کے خارق عادت طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو محفوظ رکھنے کے متعلق بعض واقعات کا ذکر اس زمانہ میں بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ سے ایسے بیسیوں واقعات ظاہر ہوئے.آپؐ کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ طاعون سے آپ کا گھر محفوظ رہے گا سو باوجود اس کے کہ سالہا سال تک قادیان میں طاعون پھیلتی رہی اور آپؑ کے گھر کے دائیں بائیں بھی اس سے کئی موتیں ہوئیں مگرآپؑ کے گھر میں کوئی حادثہ نہ ہوا.آپ کی جوانی کا ایک واقعہ ہے جس کے بعض ہندو صاحبان بھی گواہ ہیں چنانچہ مسٹر جسٹس کنور سین جو جموں کی ریاست کے چیف جسٹس رہ چکے ہیں.ان کے و الد لالہ بھیم سین بھی اس کے گواہ تھے او رانہو ںنے اپنے صاحبزادے کے سامنے اس کے متعلق شہادت بھی دی ہوئی ہے جن سے اب بھی پوچھا جا سکتا ہے وہ واقعہ یوں ہے

Page 316

کہآپؑ سیالکوٹ میں ایک مکان پر تھے کہ ایک معمولی سی آواز چھت میں پیدا ہوئی آپؑ نے سب ساتھیوں کو جگایا جن میں لالہ بھیم سین صاحب وکیل بھی تھے او رکہا کہ فوراً نیچے اُترو مگر انہوں نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ آپؑکو وہم ہو گیا ہے مگر پھر تھوڑی دیر بعد آپ نے سب کو اُٹھا کر دوستانہ جبر سے اُترنے پر مجبور کر دیا.پھر اُن سب سے کہا کہ پہلے تم اُترو کیونکہ یہ چھت تب تک قائم ہے جب تک میں اس پر ہوں اس لئے میں سب سے آخر میں اُتروں گا.جب سب دوست سیڑھیاں اُتر چکے تو پھر آپ اُترے اور جونہی آپ سیڑھی پر آئے چھت یکدم زمین پر آ رہی.یہ سب امور جو دنیا کی پیدائش سے اس وقت تک ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور ظاہر ہوتے رہیں گے اس امر کا ثبوت ہیں کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا ایک وجودہے اور اس سے تعلق پیدا کرنے سے ہی انسان کامل طو رپر ہلاکت سے بچ سکتا ہے.اور یہی اس آیت کا مطلب ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ ز مین اور آسمان کو خدا تعالیٰ نے ہی تمہارے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے.پس ان سے کامل فائدہ تم اسی سے تعلق پیدا کر کے حاصل کر سکتے ہو اور نقصانات سے بھی تم اسی سے تعلق پیدا کر کے محفوظ ہو سکتے ہو.یاد رہے کہ اس فائدہ سے وہ ظالمانہ فائدہ مراد نہیں جو ظالم بادشاہ اور جابر رئوسا اُٹھاتے ہیں کیونکہ وہ فائدہ اُٹھانا نہیں بلکہ لعنت مول لینا ہے.پس خدا رسیدہ لوگوں کی زندگی کے مقابلہ پر ظالم بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں کے حالات رکھ کر مقابلہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ انہوں نے عزت نہیں بلکہ ذلت حاصل کی تھی.سَمَآء سے مراد یاد رہے کہ اس آیت میں سَمَآئسے مراد بلندی ہے نہ کہ کوئی ٹھوس دائرہ جیسا کہ عوام الناس کا خیال ہے اور اس بلندی سے مراد وہ تمام فضاء ہے جس میں ستارے اور سیارے پائے جاتے ہیں اور چھت بنانے سے یہ مراد ہے کہ بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے.حفاظت کے لئے چھت کا لفظ اس لئے استعمال کیا کہ چھت بھی بہت سی تکالیف سے حفاظت کا ذریعہ ہوتی ہے اور یہ ایک محاورہ ہے.بلندی کو حفاظت کا ذریعہ بنایا سے یہ مطلب ہے کہ انسان کی زندگی کے قیام کے لئے جن اشیاء کی ضرورت ہے وہ بلندی سے تعلق رکھتی ہیں.پانی بھی بلندی سے برستا ہے.ہوا بھی اوپر ہے.اسی طرح سورج، چاند وغیرہ ہیں اور انہی اشیاء سے وہ سب چیزیں تیار ہوتی ہیں جن سے انسان زندہ رہتا ہے.روحانیات میں بھی انسان اوپر کا محتاج ہے.سَمَآء کے معنے بادل مِنَ السَّمَآءِ مَآءً سے مراد یہ ہے کہ بادلوں سے پانی اُتارا ہے.اس جگہ سَمَآء سے مراد فضاء کی بلندی نہیں بلکہ بادل ہے اور بادل کے معنے استعارۃً نہیں کئے گئے بلکہ لغت سے ثابت ہیں اور قرآن شریف میں دوسری جگہوں پر بھی اس معنے میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنَا السَّمَآءَ عَلَيْهِمْ مِّدْرَارًا.(الانعام :۷)

Page 317

کہ ہم نے ان پر بادلوں سے موسلادھار مینہ برسایا.اسی طرح پھر فرماتا ہے يُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا ( نوح :۱۲ و ہود :۳ ۵) کہ اللہ تعالیٰ تم پر موسلا دھار برسنے والا بادل بھیجے گا.آیت زیر تفسیر میں سَمَآء بمعنے بادل استعمال ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ یہاں دو دفعہ سَمَاء کا لفظ استعمال ہوا ہے اگر دوسری جگہ پر فضاء ہی کے معنے ہوتے تو صرف ضمیر لانی کافی تھی دوبارہ سَمَآء کے لفظ کو لانا بتاتا ہے کہ دوسری جگہ پر اس کے دوسرے معنے ہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ نِدّ تجویز کرنے کا لطیف ردّ اس امر کو بیان کر دینے کے بعد کہ زمین و آسمان اور ان کے پیدا کردہ تغیرات جیسے بادل وغیرہ کا آنا سب اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں.فرماتا ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی بنائی ہوئی ہے تو تم کو سمجھ لینا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی نِدّ نہیں ہے یعنی ایسا کوئی وجود نہیں ہے جو خدا تعالیٰ کا ذات اور صفات میں شریک ہو اور اس کے برابر ہو (نِدّ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغَات) اور جب تمام نظامِ عالم ایک قانون کے ماتحت نظر آتا ہے اور کوئی بات بھی اس پر دلالت نہیں کرتی کہ اس کا کوئی حصہ کسی نے پیدا کیا ہے اور کوئی کسی اور نے تو پھر خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت کے معنے ہی کیا ہوئے؟ پس تم کو چاہیے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے فضلوں سے فائدہ اُٹھائو اور اس کے سوا دوسروں کی عبادت کر کے اپنے مستقبل اور حاضر کو خراب نہ کرو.حصہ آیت وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَمیںا سلام کی برتری کی طرف اشارہ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ نظامِ عالم میں یکسوئی ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس سے کوئی عقلمند شخص بھی ناواقف نہیں ہو سکتا اور سب کو اس کا علم اور اقرار ہے کہ کل کائنات ایک قانون کے مطابق چل رہی ہے پس اس امر کو جانتے بوجھتے ہوئے شرک میں مبتلا نہ ہو بلکہ اس علم سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے توحید پر قائم ہو جائو.ان الفاظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ جُرم کامل اسی صورت میں ہوتا ہے کہ علم کے ماتحت ہو.اس سے اسلام کی کیسی برتری ثابت ہوئی ہے کہ وہ صرف عمل پر ہی فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اس امر کا بھی لحاظ کرتا ہے کہ وہ عمل کن حالات میں کیا گیا ہے اور کس قسم کے علم کے نتیجہ میں صادر ہوا ہے.بارش کے ذکر سے الہام الٰہی کے نزول کی طرف اشارہ اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ مادی دنیا کی تکمیل بھی زمینی اور آسمانی قوتوں کے ملنے سے ہوتی ہے.زمین پر پانی کو لوگ خراب کر دیتے ہیں تو آسمان سے نیا پانی آ کر مصفّٰی پانی مہیا کر دیتا ہے.ہوا جیسی مصفّٰی چیز کو جب انسان سانس سے گندہ کر دیتا ہے تو وہ اوپر جا کر پھر پاک ہو جاتی ہے.آنکھ مفید ہے مگر آسمان یعنی سورج کی روشنی کے بغیر وہ کس کام کی؟ غرض اگر زمین

Page 318

انسان کے لئے بچھونا ہے تو آسمان چھت کا کام دیتا ہے اسی طرح روحانی دنیا کا حال ہے انسان کے اندر بیشک عقل موجود ہے مگر عقل کا وجود آنکھ کی طرح ہے جب تک روحانی سورج کی روشنی یعنی الہام اس کے ساتھ نہ ملے وہ صحیح طور پر کام نہیں کر سکتی.فطرتی تقاضے بیشک نہایت پاک ہیں لیکن دنیوی لالچوں سے مل کر وہ گندے ہو جاتے ہیں اور الہام کے آسمانی پانی کے ذریعہ سے ہی پاک ہوتے ہیں پس اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بغیر انسان کامیاب زندگی کسی صورت میں بسر نہیں کر سکتا.او راللہ تعالیٰ نے مادی زندگی کو زمین اور آسمان دو حصوں کے ساتھ متعلق کر کے روحانی عالم کی طرف راہنمائی کی ہے اور بتایا ہے کہ روحانی امور میں بھی صرف زمینی سامانو ںپر کفایت نہ کر لینا اور اپنی عقل اور اپنی فطرت کو ہی اپنے لئے کافی نہ سمجھ لینا کہ جس طرح مادی دنیا آسمانی امداد کی محتاج ہے روحانی دنیا بھی آسمانی امداد کی ہر وقت محتاج ہے جس طرح مادی دنیا میں زمین کے اوپر آسمان ہے اسی طرح روحانی دنیا میں انسانی دل اور دماغ زمین ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیوض و ہدایات آسمان ہیں یہ دونوں مل کر ہی روحانی دنیا کو کامل کرتے ہیں.ان کے ملے بغیر وہ دنیا نامکمل اور بے فائدہ ہو جاتی ہے.فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ کے الفاظ سے الہام الٰہی کے نزول کی طرف لطیف اشارہ فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا میں اسی مضمون کی مزید تشریح کی ہے اور بتایا ہے کہ زمین میں قوتِ نمو موجود ہے مگر کیا آسمانی پانی کے بغیر وہ پھل پیدا کر سکتی ہے پھر تم کس طرح خیال کرتے ہو کہ تمہارے دماغ خواہ کیسے ہی زرخیز کیوں نہ ہوں اور کیسی ہی نمو کی قابلیت کیوں نہ رکھتے ہوں وہ خدا تعالیٰ کی مدد کے بغیر اچھے پھل دینے لگیں گے؟ جس طرح بارش بند ہو جائے تو زمین کے پانی بھی خراب ہو جاتے ہیں اور زمین اچھے پھل دینے سے قاصر ہو جاتی ہے اسی طرح الہام الٰہی نہ آئے جو خدا تعالیٰ کی عبادت کا نتیجہ ہے تو انسانی دماغ بھی پاکیزہ خیالات پیدا کرنے سے جو روحانی ثمرہ ہوتے ہیں قاصر رہ جاتے ہیں پس یہ دعوے نہ کرو کہ ہم اپنی عقلوں سے اپنے لئے ہدایت نامے تجویز کر سکتے ہیں.اور کریں گے.اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تم کو ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اعلیٰ تک پہنچایا اور تم اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ کو اس کے مقام سے نیچے گراتے ہو اور اس کے اَنْدَاد تجویز کرتے ہو جن کو انداد بناتے ہو وہ نہایت معمولی ہستیاں ہیں.پس تم دوسرے لفظوں میں یہ کہتے ہو کہ اللہ بھی ایسا ہی ہے.ہم نے تو تم کو مخلوقات میں لاشریک بنا دیا.زمین آسمان کو تمہاری خدمت میں لگا دیا مگر تم نے ہم کو جو فی الحقیقت لاشریک تھے باشریک بنا دیا.کیسے جاہل اور اندھے اور قابلِ افسوس ہیں وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے ان احسانات کے ہوتے

Page 319

ہوئے کہتے ہیں کہ خدا نے انسان کو نہیں بنایا بلکہ انسان نے خدا کو بنایا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا وجود کوئی نہیں.انسان نے اپنی عقل سے ایک ایسا وجود گھڑ لیا ہے.یہ لوگ فلسفی کہلاتے ہیں حالانکہ ان سے زیادہ جاہل اس دنیا کے پردہ پر کوئی نہیں مل سکتا.آیت ھٰذا میں بیان شدہ توحید پر آنحضرتؐ کا عمل توحید کی وہ تعلیم جو اس آیت میں دی گئی ہے ہمارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر کیسا عمل تھا؟ اس کی ایک مثال لکھتا ہوں ایک دفعہ ایک صحابی نے آپؐ کے سامنے کہا کہ مَاشَآئَ اللّٰہُ وَشِئْتَ یعنی فلاں معاملہ میں اسی طرح ہو گا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یا آپؐ چاہیں گے آپؐ نے فرمایا اَجَعَلْتَنِیْ لِلّٰہِ نِدًّا کیا تو مجھے خدا کا نِدّ بناتا ہے ؟یوں کہو کہ مَاشَآءَ اللّٰہُ وَحْدَہٗ یعنی وہی ہو گا جو خدائے واحد چاہے گا (تفسیر ابن کثیر زیر آیت ھٰذا) آیت ھٰذا اور اس سے پہلی آیت کے مضمون کے متعلق فلسفیوں کا ایک سوال اس آیت اور پہلی آیت کے تعلق سے ایک سوال کے متعلق جو اس زمانہ میں یورپین مصنفین نے اُٹھایا ہے کچھ تحریر کرنا ضروری سمجھتا ہوں.یہ سوال مسٹر ہر برٹ اسپنسر مشہور فلسفی اور مسٹر فریزر نے نمایاں طور پر پیش کیا اور ان کے بعد ڈاکٹر رابرٹسن سمتھ ،مسٹر لارنس گوم، مسٹرگرانٹ ایلن وغیر ھم نے اسے پھیلایا.کیا خدا تعالیٰ کی نسبت عقیدہ روحوں، جنوں، پریوں کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے؟ ان لوگوں کے دو گروہ ہیں ایک گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی نسبت عقیدہ روحو ںجنوں اور پریوں کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے اور دوسرے گروہ نے یہ اصل پیش کیا ہے کہ ابتدائی انسان نے درندوں اور زہریلے کیڑوں سے متاثر ہو کر ان کی پوجا شروع کی اور آہستہ آہستہ خدا کا خیال پیدا ہوا.دونوں فریق کا خیال ہے کہ ابتدا میں کئی خدائوں کا خیال پیدا ہوا اور رفتہ رفتہ اس کی جگہ ایک خدا نے لے لی.اِن لوگوں کے دعویٰ کی بنیاد اس پر ہے کہ ابتدائِ آفرینش میں انسان کی تاریخ کئی خدائوں کے اعتقاد پر دلالت کرتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک واحدنیت سے پہلے کا ہے اور چونکہ شرک وحدانیت سے پہلے کا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ایک خدا کا خیال شرک کی ترقی پذیر صورت ہے.ان میں سے بعض نے مذاہب کے پیروئوں سے ڈر کر اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ ہمارے عقیدہ کی زَد مذہب پر نہیں پڑتی کیونکہ ایک معقولیت پسند خدا سے یہ بعید نہیں کہ جس طرح اس نے دنیا پر قوانین نیچر کو بتدریج ظاہر کیا اسی طرح اس نے اپنی نسبت عقیدہ کو بھی دنیا پر بتدریج ظاہر کیا.

Page 320

میں اس امر کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ ان لوگوں نے اِس خیال کو پورے غور کے بعد پیش کیا ہو بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یا تو یہ خیال انہوں نے مذہبی دنیا کی مخالفت کے ڈر سے پیش کیا ہے یا پھر انہو ںنے اس سوال پر غور کی ضرورت ہی نہیں سمجھی اور مذہبی لوگوں کی دلجوئی کے لئے بغیر کافی غور کرنے کے یہ بات پیش کر دی ہے.اس عقیدہ کا ردّ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے وجود کو بتدریج ظاہر کیا میرے اس خیال کی بنیاد اِس پر ہے کہ تمام اہم مذاہب مذہب کی بنیاد الہام پر رکھتے ہیں اور اگر مذہب کی بنیاد الہام پر رکھی جائے تو یہ فلسفہ کہ خدا تعالیٰ نے آہستہ آہستہ اپنے آپ کو ظاہر کیا اور پہلے اپنے سوا دوسرے وجودوں کی طرف دنیا کی راہنمائی کی ایک منٹ کے لئے بھی نہیں ٹھہر سکتا.کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے مردہ ارواح کی طرف لوگوں کی راہنمائی کی یا پتھروں، دریائوں، سانپوں، شیروں کی طرف دنیا کی راہنمائی کی اور بعد میں اپنے آپ کو ظاہر کیا کیونکہ ایک خدا کے وجود کی طرف راہنمائی اگر شروع زمانہ سے بھی کی جاتی تو اس میں عقلاً کوئی امر مستبعد نہیں.علاوہ ازیں مختلف مذاہب جو اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیںوہ ابتدائے آفرینش کے الہام کے قائل پائے جاتے ہیں اور اس امر کا کوئی بھی قائل نہیں کہ الہام بعد کے کسی زمانہ سے شروع ہوا ہے.ہندو مذہب بھی اِسی کا قائل ہے کہ ابتدائِ آفرینش سے الہام ہونا شروع ہوا اور یہودی مذہب بھی اِسی کا قائل ہے اور مسیحیت چونکہ یہودی مذہب کی آخری کڑی ہے وہ بھی اِسی امر کی قائل ہے اور زردشتی مذہب بھی اِسی امر کا قائل ہے اور اسلام بھی اِسی کا قائل ہے پس اگر یہ خیال درست ہے توماننا پڑے گا کہ وید اور تورات اور انجیل اورژند اوستا اور قرآن کریم سب کی بنیاد جھوٹ پر ہے.انسانی پیدائش کے بعد اس پر الہام کا نزول بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نےبتدریج اپنا وجود ظاہر نہیں کیا بائبل صاف طور پر اِس امر کی مدعی ہے کہ جب انسان دنیا پر نمودار ہوا اُسے الہام ہوا اور اسے خدائے واحد کا پتہ دیا گیا اور انجیل اس کے بیان کو صحیح تسلیم کرتی ہے پس اگر دنیا میں ابتداءً خدا تعالیٰ کا علم نہ تھا تو بائبل کا یہ دعویٰ یقیناً جھوٹا ہے کہ خدا نے آدم سے کہا کہ ’’پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پر جو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو‘‘ (پیدائش باب ۱آیت ۲۸) اس آیت سے ثابت ہے کہ آدم کے زمانہ سے جو پہلا انسان تھا اس کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ آسمان و زمین میں جو کچھ پیدا کیا گیا ہے انسان کا محکوم اور اس کے فائدہ کے لئے ہے.اس تعلیم کے بعد آدم کے دل میں یہ خیال کس طرح پیدا ہو سکتا تھا کہ پہلے ستاروں اور سورج اور چاند کو خدا سمجھے یا زمین کے جانوروں کو خدا سمجھے یا آدم سے پہلے کون سے آباء تھے جن کو وہ خدا سمجھ سکتا تھا؟ پس یقیناً یا تو بائبل کو جھوٹا کہنا ہو گا یا اس خیال کو کہ خدا کا خیال آہستہ آہستہ پیدا ہوا غلط کہنا پڑے گا.

Page 321

اسلام نے بھی اسی عقیدہ کو پیش کیا ہے جیسا کہ اگلے رکوع میں آدم کے ذکر میں آئے گا کہ انسان کے نمودار ہوتے ہی خدا تعالیٰ نے پہلے انسان کواپنے کلام سے مشرف کیا اور اپنے وجود کی اسے خبر دی.ان تعلیمات کی موجودگی میں مذہب کے دعویٰ اور ان خیالات کا اجتماع کسی صورت میں نہیں ہو سکتا اور یقیناً دونوں میں سے ایک کو باطل کہنا پڑے گا پس میں ان دونوں اصول کے درمیان موازنہ کر کے بتاتا ہوں کہ کونسا درست اور کونسا غلط؟ اس خیال کی جو خدا تعالیٰ کے متعلق فلاسفروں نے پیش کیا ہے بنیاد ان دو باتو ںپر ہے.اوّل وحی الٰہی کے وجود سے انکار.دوم مسئلہ ارتقاء کا غلط مفہوم.وحی الٰہی کا انکار محض اس لئے پیدا ہوا ہے کہ ان فلاسفروں کو اس کا تجربہ نہیں اور وہ مسیحی ممالک میں پیدا ہوئے ہیں جن میں ایک لمبا عرصہ سے الہام کا وجود ناپید ہے.چونکہ اُنہوں نے نہ خود الہام پایا اور نہ الہام پانے والوں کو دیکھا وہ اس وہم میں مبتلا ہو گئے کہ وحی کا وجود ہی کوئی نہیں.اور جب وحی الٰہی کے منکر ہوئے تو خدا تعالیٰ کے خیال کے لئے کوئی عقلی وجہ تلاش کرنے لگے اور چونکہ ارتقاء کے مسئلہ کی طرف ان کی توجہ اِن دنوں ہو رہی تھی اسے بھی اِس مسئلہ کے ماتحت حل کرنا چاہا اور اس غلط عقیدہ میں مبتلا ہو گئے.جیسا کہ میں سورۃ ھٰذا (زیر آیت وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ) میں بتا آیا ہوں قرآنِ کریم نہ صرف وحی ٔ الٰہی کا قائل ہے بلکہ اس کے وجود کو ہر زمانہ میں تسلیم کرتا ہے اور اگراِس کا یہ دعویٰ صحیح ثابت ہو تو اِس فلسفہ کی جڑ آپ ہی آپ اُکھڑ جاتی ہے.قرآنِ کریم اپنی نسبت دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا ہر ہر لفظ لفظی وحی کی قسم سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلعم پر نازل کی اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ اس سے پہلے ابتدائِ آفرینش سے اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں اور ان کے اتباع پر وحی نازل کرتا چلا آیا ہے اور اپنے وجود کو ان پر ظاہر کرتا چلا آیا ہے اور وہ اس امر کا بھی مدعی ہے کہ قرآن کریم کے ماننے والوں پر بھی وحی نازل ہوتی رہے گی.چنانچہ اِس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود مہدی مسعود علیہ السلام بانی سلسلہ احمدیہ بھی وحی الٰہی پانے کے مدعی تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ قرآن کریم کی برکت سے اور اس کی خدمت کے لئے ان پر بھی وحی نازل ہوتی ہے او رہزار ہا الہام انہیں ہوئے جو کتاب تذکرہ کی صورت میں یکجائی طور پر ان کی جماعت نے شائع کر دیئے ہوئے ہیں.ان میں ہزاروں پیشگوئیاں اور معجزات پر مشتمل کلام ہے جو پورا ہو چکا ہے او رپورا ہو رہا ہے.اس تازہ مشاہدہ کے بعد ہم کس طرح ان فلسفیوں کی باتوں کو تسلیم کر سکتے ہیں.بلکہ اِن نشانات کو دیکھنے کے بعد ہماری نگہ میں تو یہ لوگ اِس روایتی لال بجھکڑ

Page 322

کے مثیل ہیں کہ جو ہر سادہ سے سادہ بات کا کوئی غیر معقول سبب نکالنے کا عادی تھا.آپؑ کے بعد آپ کی برکت سے ہم لوگوں نے بھی وحی الٰہی کا مزہ چکھا ہے اور راقم حروف بھی سینکڑوں بار اس کا تجربہ اور مشاہدہ کر چکا ہے اس مشاہدہ کے بعد مجھ پر ان فلسفیوں کی باتوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے سوائے اس کے کہ میں ان کی حالت کو قابلِ رحم سمجھ کر ان کی روحانی دنیا سے ناواقفی پرحیرت کروں.اگر یہ لوگ ہماری طرف رجوع کریں تو ہم انہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ روحانی دنیا کے بادشاہ جو گزشتہ زمانوں میں گزرے ہیں ان کی صداقت مشاہدات اور قوی دلائل سے ہم اب بھی بفضلہ تعالیٰ ثابت کرنے کو تیار ہیں.غرض جب وحی الٰہی ایک مجرب اور مشاہدہ سے ثابت شدہ امر ہے تو ان عقلی وجوہ کی جو محض ظنیاّت اور قیاسات پر مبنی ہیں کوئی وقعت بھی باقی نہیں رہتی.ان لوگوں کے خیال کی دوسری بنیاد مسئلہ ارتقاء کے غلط مفہوم پر ہے ان کا یہ خیال کہ دنیا کی ابتدا میں محض آباء یا طبعی مظاہروں یا جانوروں وغیرہ کی پرستش ہوتی تھی بالکل باطل ہے اور تاریخ اور عقل سے غلط ثابت ہوتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ ارتقاء کا تعلق جہاں تک عقل انسانی سے ہے صرف اس حد تک محدود ہے کہ باریک مسائل آہستہ آہستہ دنیا پر کھولے گئے ہیں اور انسانی عقل کی نشوونما کے مطابق انہیں ظاہر کیا گیا ہے.اس قدر ارتقاء کا یہودی مذہب بھی قائل ہے اور مسیحیت بھی اور اسلام بھی.لیکن یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود کا بسیط علم بھی انسان کو ابتدا میں نہیں دیا گیا بالکل غیر معقول ہے.بھلا وہ کونسی روک تھی جو ابتدائی انسان کو ایک پیدا کرنے والے کے وجود کو ماننے میں مانع تھی؟ کوئی بھی عقلی وجہ اس کی معلوم نہیں ہوتی.پھر ایسے غیر معقول عقیدہ کو کوئی کس طرح تسلیم کر سکتا ہے؟ اِن فلسفیوں کا یہ خیال کہ چونکہ غیر مہذب اقوام میں خدا تعالیٰ کے متعلق جو علم بھی ہے مشرکانہ عقیدوں کے ذریعہ سے ہے اس لئے یہی عقیدہ خدا تعالیٰ کے وجود کی بنیاد ہے.اس حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے کہ غیر مہذب ہونا ابتدائی ہونے کی علامت نہیں.اگر وہ تاریخ کو دیکھتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ مختلف اقوام پر تہذیب کے مختلف دور آئے ہیں اور کسی وقت ایک قوم مہذب اور علوم سے آراستہ تھی تو دوسرے وقت میں وہی قوم غیر مہذب اور علوم سے تہی ہو گئی.کیا انہوں نے یونان اور ایران اور عراق اور مصر کی تاریخوں کو نہیں پڑھا.کیا ہندوستان اور چین کی تاریخ ان سے پوشیدہ ہے.کیا قدیم آثار سے جن کو خود انہی کے بھائی بندوں نے دریافت کیا ہے انہیں یہ بات معلوم نہیں ہوئی کہ گذشتہ زمانو ںمیں ان ملکوں میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی تہذیب پائی جاتی تھی لیکن اب وہ مفقود ہے؟؟ قدیم زمانہ میں یہ ممالک علوم کے گہوارہ تھے مگر بعد میں جہالت کا مرکز ہو گئے.کیا موجودہ یونان باوجودیورپ

Page 323

کا حصہ ہونے کے انہی علوم کا سرچشمہ ہے جو ارسطو اور افلاطون کے وقت میں وہاں سے پھوٹ رہا تھا.کیا ہندوستان میں اب ان ترقیات کے زندہ آثار موجود ہیں جو سابق زمانوں میں یہاں پائے جاتے تھے.مصر نے اپنے وقت میں کس قدر ترقی کی اس کا ایک ادنیٰ کرشمہ اس کی ممیوں (مصالحوں سے محفوظ کردہ لاشوں) میں نظر آتا ہے جس کے نسخے کو اب تک بھی یورپ معلوم نہیں کر سکا.لیکن اب ان علوم کا نشان کہاں ہے؟؟ پس جب تہذیب اور تمدن کے دوروں کے بعد جہالت اور کم علمی کے دور آتے رہے ہیں تو اس میں کیا استبعاد ہے کہ توحید کے بعد شرک کے دور آتے رہے ہوں اورکس بناء پر ان شرک کے دوروں کو توحید کے دوروں پر مقدم سمجھا جائے اور اگر شرک کے دور کا توحید کے دو رپر تقدّم ثابت نہ ہو تو ان فلسفیوں کے خیال کی بنیاد کس بناء پر ہے؟اس اِمکان کے پیدا ہونے کی صورت میں تو وہ خود بخود باطل ہو جاتا ہے.ہندو مذہب کی کتب سے اس بات کا ثبوت کہ توحید کا دور شرک کے دور سے پہلے تھا میں اس سوال پر روشنی ڈالنے کے لئے موجودہ مذاہب ہی کی مثال پیش کرتا ہوں.ہندو قوم کے ایک بزرگ جو دو ہزار سال پہلے گزر چکے ہیں ان کا کلام اب تک موجود ہے اور وہ حضرت کرشن ہیں.ان کی کتاب گیتا ایک معروف کتاب ہے.اس کتاب کی تعلیم کو آج سے پانچ سو سال پہلے کے ہندوئوں کے عقائد سے مقابلہ کر کے دیکھو کہ کوئی لگائو بھی ان میں پایا جاتا ہے؟ آج سے پانچ چھ سو سال پہلے جب مسلمان اس ملک میں آئے ہیں گھر گھر میں بت خانہ تھا.تو ہم پرستی تھی.مذہب کا حقیقی وجود کہیں بھی پایا نہ جاتا تھا مگر کیا گیتا میں بھی اِن بتوں کا کہیں ذکر ہے جن کی حکومت آج سے چند سو سال پہلے ہندوستان میں تھی کیا گیتا میں بھی ان توہمات کی کوئی سند ہے جو اس وقت ملک میں پھیلے ہوئے تھے.اگر یہ درست ہے کہ شرک کا دور پہلے تھا اور اس سے آہستہ آہستہ توحید کا خیال پیدا ہوا تو چاہیے تو یہ تھا کہ پہلے توہمات کا راج ہوتا.بتوں کا زور ہوتا او ربعد میں توحید آتی لیکن یہاں توہمیں یہ نظر آتا ہے کہ پہلے توحید کا دور تھا اور کرشن جی جیسا مؤحد انسان ہندوستان کا رہنما تھا مگر بعد میں شرک اور توہم پرستی نے جگہ لے لی.اگر کہو کہ بعد میں لوگ بگڑ کر مشرک ہو گئے تو میں کہتا ہوں کہ یہی خیال ان دوسرے شرک کے دوروں کی نسبت کیوں درست نہیں جو ان لوگو ںکو دھوکا دینے کا موجب ہوئے ہیں؟ اصل سوال تو یہ تھا کہ ارتقاء چاہتا ہے کہ پہلے ادنیٰ حالت ہو بعد میں اچھی ہو جائے مگر جب یہ بات غلط ثابت ہو گئی تو اس عقیدہ کی بنیاد گر گئی.تورات سے اس بات کا ثبوت کہ توحید کا دور شرک کے دور سے پہلے تھا دوسری مثال یہودی مذہب کی ہے تورات کو پڑھ کر دیکھ لو اس سے صاف ثابت ہے کہ توحید کے دوروں کے بعد یہود پر شرک کے دور

Page 324

آتے رہے بلکہ دور کیوںجائیں تورات میں جس توحید کا ذکر ہے اس کے خلاف یہود میں موجودہ زمانہ میں بھی مشرکانہ خیالات پیدا ہو گئے ہیں.پھر مسیحیت کو لو اس عقیدہ کے پیش کرنے والے بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مسیح نے ایک سادہ خدا کی تعلیم دی تھی مگر وہ عقیدہ بگڑ کر اب کیا شکل اختیار کر چکا ہے کیا یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دو رپہلے تھا یااس امر کا کہ شرک کا دورپہلے تھا.اسلامی کتب سے اس بات کا ثبوت کہ توحید کا دور شرک کے دور سے پہلے تھا سب سے آخر میں اسلام ظاہر ہوا اسی کی تاریخ دیکھ لو وہ مذہب جو ابتدا سے انتہا تک ایک خالص توحید کا پیش کرنے والا مذہب تھا جس میں ارواح پرستی کا کبھی نام نہ تھا جس کے نبی نے اس کو بھی برداشت نہ کیا کہ اس کا کوئی صحابی اسے یہ کہے کہ جو تم چاہو وہ ہو گا جیسا کہ اس (سورۂ ہذا زیر آیت لَاتَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا دیکھو) سے پہلے بتایا جا چکا ہے.جس کے نبی نے مرتے وقت اپنی قوم کو ان الفاظ سے ہوشیار کیا کہ خدا لعنت کرے یہود اور نصاریٰ پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ کی جگہ بنا لیا (بخاری کتاب الصلوۃ باب الصلوٰۃ فی البِیَعَۃ) ان کی امت بگڑی تو ان کا کیا حال ہوا؟ قبروں پر سجدے انہو ںنے کئے.اولیاء کو خدا کی صفات انہوں نے دیں.مُردوں سے مرادیں انہوں نے مانگیں غرض وہ کونسی مشرکانہ بات تھی جو انہوں نے نہ کی کیا ان کی حالت کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا جائز ہو گا کہ اسلام کی ابتدا شرک سے ہوئی اور بعد میں ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیونکہ ارتقاء کے مسئلہ کے ماتحت بسیط عقیدہ اپنی تمام شاخوںمیں کامل ہو جانے والے عقیدہ سے پہلے ہونا چاہیے؟ اگر ان سب تاریخی حوالوں کا جواب یہ ہو کہ ان اقوام میں توحید پہلے تھی اور شرک بعد میں آیا تو ایسے زبردست تاریخی شواہد کے باوجود اس ڈھکونسلے کے پیش کرنے کے کیا معنے جو اِن نام نہاد فلسفیو ںنے پیش کیا ہے؟ کیا یہ شواہد اس امر کا ثبوت نہیں کہ جس طرح ان اقوام میں توحید کے بعد شرک آیا ان سے پہلی اقوام میں بھی توحید کے بعد شرک آیا؟ اصل بات یہ ہے کہ انسانی ترقی دوروں کی صورت میں ہوتی ہے اور ترقی کے بعد زوال اور زوال کے بعد ترقی کا دور آتا ہے پس انسانی خیالات کے متعلق کسی دور سے یہ قیاس کرنا کہ صرف زوال کا دور پہلے تھا جس سے پہلے کوئی اور ترقی کا دور نہ تھا ایک ایسا بودا قیاس ہے جو کسی صورت میں بھی درست نہیں.دوسرا جواب اس خیال کے غلط ہونے کے بارہ میں یہ ہے کہ اگر ارتقاء سے خدا تعالیٰ کا خیال پیدا ہوا ہے تو چاہیے تھا کہ سورج چاند ستاروں کی پرستش پہلے شروع ہوتی.لیکن مشرکانہ قبائل کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سانپ

Page 325

کی پرستش اور دوسرے حیوانات کی پرستش پہلے کی ہے اور چاند سورج کی پرستش نسبتاً مہذب اقوام میں پائی جاتی ہے حالانکہ اگر انسان نے ابتدا میں اپنے گرد و پیش کے حالات سے مرعوب ہو کر خدا کا خیال اخذ کیا تھا تو چاند سورج ستاروں کی پرستش پہلے چاہیے تھی کیونکہ وہ ہر جگہ میں نظر آتے ہیں اور ہر روز نظر آتے ہیں اور دنیا پر ایک خاص اثر ہر روز پیدا کرتے ہیں جو علم ہیئت سے ناواقف انسان کے دل کو خاص طورپر مرعوب کرنے والا ہوتا ہے.اس کے برخلاف شیر چیتے سانپ کبھی کبھی نظر آتے ہیں اور ان کا اثر اس قدر وسیع نہیں.علاوہ ازیں اگر انسان ارتقاء کے قواعد کے ماتحت ترقی کر کے بنا ہے توانہی شیر چیتوں سانپوں سے اس کا واسطہ ہزار ہا سال سے پڑ رہا تھا مگر اس نے ان کو کوئی خاص عظمت نہ دی تھی.پھر کیا وجہ کہ یکدم اس نے ان کو خدائی کا مرتبہ دے دیا حالانکہ ان کے وجود میں ستاروں سورج اور چاند کی طرح کوئی پر اسرار کیفیت نہ تھی جو خدا بنانے کے خیال کے لئے ضروری ہے.غرض ان حیوانات اور کیڑوں کی پرستش کا خیال پہلے پیدا ہونا جو انسانی ارتقاء کی ترقی کے مسئلہ کے مطابق تو اس کے ہم صحبت بھی رہے تھے اور بندر کی شکل میں یا لنگور کی شکل میں انسان ان سے لڑتا بھڑتا بھی رہا تھا اور بعض کو مارتا بھی رہا تھا اور ستاروں کا خیال بعد میں پیدا ہونا ان فلسفیو ںکے خیالات کی ایک کھلی تغلیط ہے.تیسری دلیل یہ ہے کہ انسان سانپ بچھو اور سورج چاند کو ہزاروں سال اپنے ارتقائی دو رمیں خدا نہ سمجھا اس کے بعد انہی اشیاء کو جن کو وہ پہلے معمولی وجود سمجھتا تھا خدا سمجھنے لگا تو اس کی وجہ خوف یا ہر اس نہیں ہو سکتی خوف و ہراس تو پہلے دن سے ہی اثر کرتے ہیں مگر ہزاروں سال کے معاملہ کے بعد اس خیال کا پیدا ہونا بتاتا ہے کہ اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب در حقیقت اتفاقی حادثات سے تعلق رکھتا ہے جو انسان کے تو ہم اور اس کے ادھورے علم سے مل کر اسے صداقت سے پھرا کر غلط تعلیم کی طرف لے جاتا ہے افسوس کہ ان فلسفیوں نے علم النفس کو مطالعہ کر کے شرک کے مسئلہ پر غور نہ کیا ورنہ انہیں معلوم ہوتا کہ شرک کا مقام طبعاً توحید کے بعد ہی ہے پہلے نہیں.بھلا کونسا عقلمند مان سکتا ہے کہ انسان روزانہ سب جانوروں کو مرتے ہوئے دیکھ کر ایک دن اپنے مرنے پر خدا کے خیال کو ایجاد کر بیٹھا حالانکہ وہ پہلے بھی مرتا تھا اور اگر وہ ارتقائیوں کے خیال کے مطابق بندر کی قسم کے کسی جانور سے بنا ہے تو اس وقت بھی تو وہ مرتا تھا اور اس کے گردو پیش کے سب جانو رہی مرتے تھے موت تو اگر کوئی خیال پیدا کر سکتی تھی تو صرف یہ کہ دنیا کی ہر چیز ایک عرصہ کے بعد اپنی قوت کھو کر بیکار ہو جاتی ہے نہ یہ کہ مرنے کے بعد کوئی اور زندگی بھی ہے.اگر ایسی زندگی کا خیال پیدا ہو سکتا ہے تو خوابوں سے ہو سکتا ہے اور جب دماغی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کر لی جائے تو سچی خوابوں پر غلط خیالات کی بنیاد تسلیم کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا اور یہ سب جھگڑا ہی ختم ہو جاتا ہے.

Page 326

ایک اور ثبوت بھی اس کے ردّ میں مَیں پیش کرتا ہوں جو خود ان فلسفیوں کی تحقیقاتوں سے ہی ملتا ہے اور وہ ثبوت یہ ہے کہ تہذیب کے ادنیٰ ترین مقام پر جو قبائل اس وقت دنیا میں پائے جاتے ہیں اور مشرکانہ خیالات میں شدت سے مبتلا ہیں ان میں بھی ایک خدا کا خیال پایا جاتا ہے اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ توحید کا دور پہلا تھا کیونکہ ان کے حالات سے ثابت ہے کہ وہ باوجود ایک بڑے خدا کو ماننے کے اس کی پوجا نہیں کرتے.پوجا وہ اپنے قومی دیوتائوں کی ہی کرتے ہیں.آسٹریلیا مکسیکو افریقہ کے قبائل کی تحقیق جو کمپیریٹو ریلیجنز (Comparative Religions)والوں نے کی ہے اس میں تسلیم کیا ہے کہ ان اقوام میں ایک بڑے خدا کا خیال موجود ہے جو ان کے نزدیک نظر نہیں آتا اور آسمانو ںپر ہے.اب سوال یہ ہے کہ عقلی طور پر ایسے انسان اس خیال کی طرف زیادہ راغب ہوں گے جو پہلے پیدا ہوا یا بعد میں پیدا ہونے والے خیال کی طرف زیادہ راغب ہوں گے.ظاہر ہے کہ انسان پر وہی خیال زیادہ غالب ہوتا ہے جو آخر میں پیدا ہوا ہو.اب اگر ایک خدا کا خیال بعد میں پیدا ہوا تھا تو چاہیے تھا کہ ان وحشی قبائل میں جو قدیم زمانہ کی یادگارہیں اس غیر مرئی خدا کی پرستش زیادہ کی جاتی اور ان خدائوں کی پرستش کم کی جاتی جو پہلے خیالات کا نتیجہ تھے کیونکہ ترقی یافتہ خیال غالب ہوا کرتا ہے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ اس کے برخلاف ہے مکسیکو ،آسٹریلیا اور افریقہ کے ان وحشی قبائل میں جن میں ایک غیر مرئی اور سب سے بڑے خدا کا خیال پایا جاتا ہے اس کی عبادت بالکل مفقود ہے یا نہ ہونے کے برابر ہے اور چھوٹے خدائوں اور قومی دیوتائوں کی پرستش وہ لوگ خوب کرتے ہیں جس سے صاف ثابت ہے کہ مشرکانہ خیالات توحید کے خیالات کے بعد پیدا ہوئے اسی لئے ان کی زندگی پر وہی غالب نظر آتے ہیں.اس امر کے ثبوت میں کہ غیر مہذب قدیم وحشی قبائل میں ایک غیر مرئی خالقِ کل خدا کا یقین پایا جاتا ہے مَیں مندرجہ ذیل مثالیں پیش کرتا ہوں میکسیکو کے قدیم باشندے قدیم ترین اقوام کے نمائندے سمجھے جاتے ہیں کمپیریٹو ریلیجنز کے محققین نے ان کی نسبت لکھا ہے کہ ان میں بھی یہ خیال موجود ہے کہ ایک خدا ایوونا ویلونا ہے جو سب کا خالق ہے اور سب پر محیط ہے اور سب باپوں کا باپ ہے.ابتدا میں جب کچھ نہ تھا ویلونا نے خیال کیا اور اس کے خیال کرنے کے بعد اس خیال سے نَمُوّ کی طاقت پیدا ہوئی اور وہ طاقت بڑھتے بڑھتے وسیع فضا کی صورت میں تبدیل ہو گئی اور اس سے خدا کی روشنی جلوہ گر ہوئی اور وہ فضا سکڑنے لگی جس سے یہ چاند اور سورج اور ستارے بنے.اس خیال کو موجودہ مذاہب کے خیالات سے ملا کر دیکھو تو عجیب مشابہت معلوم ہوتی ہے بلکہ پیدائش عالم کے متعلق جو خیالات ہیں وہ تو موجودہ علم ہیئت کی تحقیق سے اور نیبولائی تھیوری سے ملتے جلتے ہیں.

Page 327

اس امریکن قدیم قبیلہ کے علاوہ افریقہ میں بعض نہایت وحشی قدیم غیر مہذب قبائل پائے جاتے ہیں یہ لوگ ایسے ابتدائی ہیں کہ ان کے دماغوں کی بناوٹ جانوروں سے بہت ملتی ہے اور بعض تو جوانی کا یاد کیا ہوا بڑھاپے میں بالکل بھول جاتے ہیں.ان قبائل میں بھی ایک سب کے خالق خدا کا خیال پایا جاتا ہے جسے ان کی زبان میں نینکمُو کہتے ہیں.پرانے اور غیرمہذب قبائل میں ایک خَالِقُ کُل اور غیرمَرئی خدا کے وجودکا عقیدہ بابل کا زمانہ کیسا قدیم ہے ان میں بھی ایک خدا کا پتہ چلتا ہے چنانچہ بابل کے آثارِ قدیمہ میں سے ایک کتبہ ملا ہے جس پر لکھا ہے ’’اے دائمی بادشاہ تمام مخلوق کے مالک تو میرا خالق ہے اے بادشاہ تیرے رحم کے مطابق اے آقا جو تو سب پر رحم کرنے والا ہے تیری وسیع بادشاہت رحم کرنے والی رحم والی ہو.اپنی الوہیت کی عبادت کی محبت میرے دل میں گاڑ دے اور جو کچھ تجھے اچھا معلوم دیتا ہے وہ مجھے دے کیونکہ تو ہی ہے جس نے میری زندگی کو اس رنگ میں ڈھالا ہے.‘‘ یہ کیسا اعلیٰ اور موجودہ مذاہب سے ملتا جلتا خیال ہے حالانکہ اس زمانہ کے بعد بابل مرکز شرک بن گیا تھا.اسی طرح کینیڈا کے قدیم باشندوں میں بھی ایک خدا کے عقیدہ کا پتہ چلتا ہے.پھر آسٹریلیا کا علاقہ جو چند صدیوں سے ہی دریافت ہوا ہے اور جہاں کے لوگ باقی دنیا سے بالکل منقطع ہو رہے تھے اور اس قدر وحشی اور خونخوار تھے کہ ان کا قریباً خاتمہ ہی کر دیا گیا ہے ان کے ایک قبیلہ کا نام آرَنٹا ہے وہ ایک ایسے خدا کا قائل ہے جسے آلٹجیرا کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ چونکہ وہ حلیم ہے اس لئے سزا نہیں دیتا پس اس کی عبادت کی ضرورت نہیں.افریقہ کا ایک وحشی قبیلہ جسے زولو کہتے ہیں ان میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ایک غیر مرئی خدا ہے جو سب دنیا کا باپ ہے.اس کا نام ان کے نزدیک اُنْکُوْ لُنْکِرْلُوْ ہے.اسی طرح آسٹریلیا کے بعض اور قدیم باشندے نُورِینڈیئر کو شریعت دینے والا خدا سمجھتے ہیں.وُومِـمْبُو ایک پرانا وحشی قبیلہ ہے وہ نوریلی کے نام سے ایک زبردست خدا کی پرستش کرتا ہے.افریقہ کا مشہور بنٹو قبیلہ نِزَامبی نام خدا کو تمام دنیا کا پیدا کرنے والا اور بنی نوع انسان کا باپ قرار دیتا ہے.ان مثالوں سے یقینی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ پرانے اور غیر مہذب قبائل میں مشرکانہ خیالات کے علاوہ اور قبائلی خدائوں کے علاوہ ایک خالقِ ُکل اور غیرمرَئی غیرمادی خدا کا وجود بھی تسلیم کیا جاتا ہے او رپھر یہ بھی ثابت ہے کہ

Page 328

وہ اس غیر مادی.سب پر حاکم خدا کی پرستش یا تو کرتے ہی نہیں یا سب سے کم کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے کسی وقت ان میں توحید کا خیال رائج تھا اس کے بعد مشرکانہ خیالات پیدا ہو گئے اور جھوٹے خدائوں نے ان کے دل میں سچے خدا کی جگہ لے لی اور توحید کے بعد شرک کا دور دَورہ ہوا.خلاصہ یہ کہ اگر الہام کا وجود تسلیم کیا جائے اور بوجہ ہر زمانہ میں اس کا ثبوت ملنے کے اس کا انکار ایسا ہی ہے جیسے کہ سورج کا انکار کر دیا جائے تو ماننا پڑتا ہے کہ توحید کا خیال ابتدا سے تھا اور شرک کا خیال قومی زوال کا نتیجہ ہے.دوسرے یہ کہ تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ تاریخی زمانہ کی اقوام میں توحید کا خیال شرک کے خیالات سے پہلے کا ہے جس سے ماننا پڑتا ہے کہ جن اقوام کی تاریخ معلوم نہیں ان میں بھی توحیدشرک سے پہلے تھی.تیسرے یہ کہ قدیم اقوام کے جو نمونے اس وقت دنیا میں ملتے ہیں ان میں بھی ایک بڑے اور غیرمرئی خدا کا وجود پایا جاتا ہے مگر اس کی عبادت ان میں مفقود ہے جس سے معلوم ہوا کہ توحید کا خیال پہلا ہے اور شرک کے خیالات بعد کے ہیں تبھی پہلا خیال بعد کے خیالات سے دَب گیا.شرک کو توحید سے پہلے سمجھنے والے فلسفیوں کا غلط خیال اور اس کا ازالہ ان فلسفیوں کو اس غلط خیال کی طرف ایک اور چیز نے بھی راہنمائی کی ہے.مَیں اس کا بھی ازالہ کردینا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بائبل اور دوسری کتب میںانہوں نے جب یہ پڑھا کہ ہمارے قبیلہ کا خدا ایسا ہے اور ویسا ہے تو یہ نتیجہ نکالا کہ گو ایک خدا کا وجود ان میں پایا جاتا ہے مگر یہ خیال قبائلی خدا کے خیال سے ترقی پا کر بنا ہے حالانکہ یہ غلطی محض اس لئے لگی ہے کہ اسلام سے پہلے تمام مذاہب ایک ایک قوم کی طرف آتے تھے اور چونکہ وہ قبائلی مذاہب ہوتے تھے اپنی بول چال میں وہ لازماً ہمارے خدا اور ان کے خدا کے الفاظ بولتے تھے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مذاہب الہامی نہ تھے بلکہ یہ محاورات محض اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ مختلف اقوام کے مذاہب بھی مختلف تھے.جاہل لوگ جو مذہب کی اس حقیقت سے ناواقف تھے یہ خیال کرتے تھے کہ جس خدا نے ہمیں مذہب عطا کیا ہے وہ اور ہے اور دوسروں کا خدا اور ہے حالانکہ خدا ایک ہی تھا صرف مختلف اقوام کے لحاظ سے اس نے ہر قوم کی ضرورت کے لحاظ سے مختلف تعلیم دی تھی اور یہ محاورات خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ تھے بلکہ قومی اختلافات سے دھوکہ کھا کر لوگوں نے ایسا سمجھا لیا تھا.یہووا ہ وہی تھا جو ہندوستان میں برہما یا پرم ایشور کہلاتا تھا اور جو ایران میں یزدان کہلاتا تھا.مختلف ناموں کی وجہ سے اور مختلف تعلیمات کی وجہ سے ان مذاہب کے جاہل پیروئوں نے ان کو الگ الگ خدا سمجھ لیا.مگر مذاہب کے بعض ناواقف ماننے والوںکی غلطی سے یہ نتیجہ ہر گز نہیں نکالا جا سکتا کہ ایک خدا کا وجود ان میں نہ تھا.اسلام نے اس

Page 329

غلطی پر سے پردہ اُٹھا دیا اور صاف کہہ دیا کہ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ (فاطر:۲۵) یعنی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے نبی گزر چکے ہیں.ہندوستان میں بھی اور ایران میں بھی اور کنعان میں بھی اور عرب میں بھی.اور ان ممالک کے مذاہب کے پاس جو کتب ہیں وہ سب خدائے واحد کی نازل کردہ تھیں.اس حقیقت کو نہ سمجھ کر ایک غلط عقیدہ کی بناء پر ایک تاریخی نتیجہ نکال لینا ایک صریح ظلم ہے.قوم کے ناواقفوں یا مذہبی تعصب رکھنے والوں کی رائے پر حقائق کی بنیاد نہیں رکھی جاتی بلکہ اصل صداقت سے نتائج نکالے جاتے ہیں.اگر اس طرح بعض جاہلوں کی غلطیوں پر بنیاد رکھ کر صداقتیں معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تو دنیا میں اندھیر پڑ جائے اور علم کی جگہ جہالت لے لے.مجھے تعجب آتا ہے ان لوگوں پر جو موسیٰ کے بعد ایک ترقی پذیر یَہوواہ کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ موسیٰ سے پہلے حضرت ابراہیم ؑ کا وجود گذر چکا ہے.ان کی نسل سے ایک قوم عرب کی مکہ میں بستی تھی وہ عقیدتاً یہود کے خلاف تھی اور خطرناک مشرک تھی کعبہ جیسے مقام میں جو توحید کا مرکز تھا اس نے بتوںکی ایک فوج رکھ چھوڑی تھی بیرونی تہذیب کے اثر سے وہ بالکل غیر متاثر تھی.ان میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کی وہ قوم جانی دشمن تھی ببانگ بلند یہ دعویٰ کیا کہ ان کے دادا ابراہیم مو ّحد تھے مشرک نہ تھے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.مَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ (البقرہ :۱۳۶) ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ خالص موحد تھے مگر ان مشرکوں میں سے ایک بھی نہ بولا کہ ابراہیم تو مشرک تھے.باوجود شرک میں مبتلا ہونے کے وہ اس امر کو تسلیم کرتے تھے کہ ابراہیم علیہ السلام مشرک نہ تھے اور ایک بت کی نسبت بھی ان کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ ابراہیم علیہ السلام اُس کی پوجا کیا کرتے تھے.ایسی مشرک قوم کا ابراہیم کی نسبت تسلیم کرنا کہ وہ مشرک نہ تھے اور قرآن کریم کے بار بار اعلان کی کہ ابراہیم مشرک نہ تھے تردید نہ کرنا جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے بتاتا ہے کہ عربو ںکا یہ عقیدہ تھا کہ ابراہیم مشرک نہ تھے بلکہ مو ّحد تھے اور ان کی قدیم روایات اسی امر کی تصدیق کرتی تھیں اور ایسی قدیم روایات خصوصاً ایسی قوم کی جو بیرونی دنیا کے خیالات سے متأثر نہ ہوئی تھی ایک زبردست ثبوت ہے اس امر کا کہ موسیٰ ؑکے ظہور سے پہلے ایک خدا کا وجود دنیا میں مانا جاتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کے آباء میں مانا جاتا تھا.پھر اس حقیقت کی موجودگی میں یہ کہنا کہ ایک خدا کا وجود یہود میں جو حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد ہوئے اور اُن کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتے تھے پایا نہ جاتا تھا اور ایک یُہوواہ نامی دیوتا کے ڈر سے جس کی نسبت ان کا خیال تھا کہ وہ بڑا غیوّر ہے انہوں نے دوسرے دیوتائوں کو چھوڑ کر اس کی عبادت شروع کر دی اور اس طرح ایک خدا کا خیال پیدا ہوا کیسا بودا استدلال ہے.خلاصہ یہ کہ ایک خدا کا عقیدہ جسے ان آیات میں پیش کیا گیا ہے کسی مشرکانہ عقیدہ کی ارتقائی کڑی نہیں بلکہ

Page 330

ایک حقیقت ہے جس پر وہ دلائل و براہین جو اوپر بیان کئے گئے ہیںشاہد ہیں اور تاریخ اور تمام غیر مہذب اقوام کے حالات اس پر گواہ ہیںکہ توحید کا عقیدہ ہی اصل اور پرانا عقیدہ ہے اور شرک صرف قوموں کے زوال کی حالت میں پیدا ہوا ہے اور ابتدائی انسانی عقیدہ نہیں ہے.میں ان فلسفیوں کی محنت کے نتائج کا بالکل منکر نہیں.اُن کی اِن تحقیقاتوں کو اس حد تک مان سکتا ہوںکہ انہوںنے شرک کے اسباب کو ایک حد تک دریافت کیا ہے اور جن اقوام میں شرک پھیلا ہے ان کے خیالات میں تنزل جس جس وجہ سے ہوا اس کی انہوں نے ایک حد تک تحقیق کی ہے مگر اس تحقیق سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شرک ایک خدا کے خیال کا موجب تھا بالکل درست نہیں اور ویسی ہی غیرمعقول چھلانگ ہے جیسے کہ انسانی نسل کے ارتقاء کی نسبت انہو ںنے لگائی ہے اور دوسرے حیوانات اور انسان کی بناوٹ کی مناسبتوں اور ان کے باہمی اختلافات اور ان کے اور انسان کی بناوٹ کے اختلافات سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان حیوانات کی زنجیر کی آخری کڑی ہے.جس طرح پیدائش کے ارتقاء کی ایک غائب کڑی کو نظر انداز کر کے انہوں نے غلط نتیجہ نکال لیا ہے اسی طرح اس بارہ میں بھی ایک غلط نتیجہ نکال لیا ہے اگر وہ اپنی تحقیق کا نام شرک کے اسباب کی دریافت رکھتے تو یہ ایک حد تک معقول ہوتا اور ان کے خیالات سے ہمیں جس حد تک کہ ان کا نتیجہ درست اور معقول ہوتا.اتفاق ہوتا.وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ اور اگر اس (کلام) کے سبب سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تم کسی(قسم کے) شک میں (مبتلا) ہو مِّثْلِهٖ١۪ وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۲۴ تو اس جیسی ایک سورۃ لے آؤ.اور اگر تم سچے ہو تو اپنے غیر اللہ مددگاروں کو (بھی اپنی مدد کے لئے) بلا لو.حَلّ لُغَات.رَیْبٌ.رَیْب کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۳.نَزَّلْنَا: نَزَّلَ (جو نَزَلَسے باب تفعیل ہے) سے جمع متکلمّ کا صیغہ ہے.اور نَزَّلَہٗ کے معنے ہیں صَیَّرَہٗ نَازِلًا.اس کو اُترنے والا کر دیا.یعنی اس حالت میں کر دیا کہ وہ اُترے.اور نَزَّلَ الْقَوْمَ کے معنے ہیں اَ نْزَلَھُمُ الْمَنَازِلَ لوگوں کو ان کی جگہوں پر اُتارا.نَزَّلَ الشَّیْءَ.رَتَّبَہٗ کسی چیز کو مرتّب کیا.نَزَّلَ الْعِیْرَ.قَدَّرَ لَھَا الْمَنَازِلَ قافلہ کے امام نے قافلہ کے لوگوں کے لئے جگہیں مقرر کر دیں.تَنْزِیْلٌ اصل میں آہستہ آہستہ اتارنے کو کہتے ہیں

Page 331

چنانچہ لکھا ہے اَلتَّنْزِیْلُ یَکُوْنُ تَدْرِیْجِیًّا وَمَرَّۃً بَعْدَ مَرَّۃٍ وَالْاِ نْزَالُ اَعَمُّ مِنْہُ کہ تنزیل میں تدریجاً اور یکے بعد دیگرے اُترنا ہوتا ہے لیکن لفظ انزال تنزیل سے عام ہے.اس میں یہ شرط نہیں (اقرب) مفردات میں ان دونوں میں فرق کرتے ہوئے لکھا ہے.وَالْفَرْقُ بَیْنَ الْاِنْزَالِ وَالتَّنْزِیْلِ اَنَّ التَّنْزِیْلَ یُخْتَصُّ بِالْمَوْضِعِ الَّذِیْ یُشِیْرُ اِلَیْہِ اِنْزَالُہٗ مُفَرَّقًا وَمَرَّۃً بَعْدَ اُخْرٰی وَالْاِنْزَالُ عَامٌکہ انزال اور تنزیل میں یہ فرق ہے کہ تنزیل کا لفظ آہستہ آہستہ اُتارنے اور یکے بعد دیگرے اتارنے کے معنوں سے مخصوص ہے لیکن لفظ انزال (اُتارنا) عام ہے یعنی خواہ اکٹھا اُترے یا یکے بعد دیگرے.(مفردات) عَبْدِنَا: عَبَدَ لَہٗ کے معنے ہیں تَاَ لَّہَ لَہٗ تمام تر کوشش کے ساتھ پرستش میں لگ گیا.اور عَبَدَاللّٰہَ کے معنی ہیں طَاعَ لَہٗ وَخَضَعَ وَ ذَلَّ وَخَدَمَہٗ وَالْتَزَمَ شَرَائِعَ دِیْنِہٖ وَ وَحَّدَہٗ یعنی اللہ کا فرمانبردار بن گیا اور اپنے آپ کو اسی ایک کا بنا کر اس کے احکام کا پابند ہو گیا (اقرب) اَلْعُبُوْدِیَّۃُ اِظْہَارُ التَّذَلُّلِ وَالْعِبَادَۃُ اَبْلَغُ مِنْہَا لِاَنَّھَا غَایَۃُ التَّذَلُّلِ.عبودیت کے معنی عاجزی کے اظہار کے ہیں اور لفظ عبادت اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زیادہ بلیغ ہے.کیونکہ اس کے معنے انتہائی عاجزی کرنے کے ہیں.وَلَا یَسْتَحِقُّہَا اِلَّا مَنْ لَہٗ غَایَۃُ الْاِفْضَالِ وَھُوَ اللّٰہُ تَعَالٰی اور انتہائی عاجزی اسی کے سامنے کی جا سکتی ہے جس کے انعام و اکرام بہت زیادہ ہوں اور ایسی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہی ہے.وَالْعِبَادَۃُ ضَرْبَانِ.عِبَادَۃٌ بِالتَّسْخِیْرِ وَ عِبَادَۃٌ بِا لْاِخْتِیَارِ.اور عبادت کی دو اقسام ہیں (۱) کسی چیز کا اپنے طبعی اعمال کے ذریعہ سے اظہار فرمانبرداری کرنا (۲) اختیاری عبادت اور یہ انسانوں کے ساتھ خاص ہے.وَالْعَبْدُ یُقَالُ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اَضْرُبٍ اور عبد کا لفظ چار طرح پر استعمال ہوتا ہے (۱) عَبْدٌ بِحُکْمِ الشَّرْعِ شریعت کی رو سے غلام جس کا بیچنا اور خریدنا جائز ہو.ان معنوں کے اعتبار سے لفظ عَبْدٌ کی جمع عَبِیْدٌ ہو گی (۲) عَبْدٌ بِا لْاِ یْجَادِ وَ ذَالِکَ لَیْسَ اِلَّا لِلّٰہِ پیدا کئے جانے کے باعث عبد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور اس لحاظ سے عَبد کی اضافت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف ہو گی کیونکہ خالق صرف وہی ذات ہے (۳) عَبْدٌ بِالْعِبَادَۃِ وَالْخِدْمَۃِ عبادت اور خدمت کے باعث عبد کا لفظ استعمال ہوتا ہے اس لحاظ سے لوگ دو حصوں میں تقسیم ہو جائیں گے (ا) جو محض اللہ تعالیٰ کے لئے عبادت کرنے والے ہیں یعنی عَابِد ان معنوں کے لحاظ سے اس کی جمع عِبَادآتی ہے (ب) جو دنیا کے غلام اور دنیا دار ہوں (مفردات) مصنف تاج العروس کہتے ہیں قَالَ بَعْضُ اَئِمَۃِ الْاِشْتِقَاقِ اَصْلُ الْعُبُوْدِیَّۃِ اَلذُّ لُّ وَالْخُضُوْعُ یعنی علم اشتقاق کے بعض اَئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت کے اصل معنے عاجزی اور خضوع کے ہیں.وَقَالَ اٰخَرُوْنَ اَلْعُبُوْدَۃُ.اَلرِّضَا بِـمَا یَفْعَلُ الرَّبُّ وَالْعِبَادَۃُ فِعْلُ مَا یَرْضٰی بِہِ الرَّبُّ

Page 332

وَالْاَوَّلُ اَقْوٰی اور بعض اَئمہ نے کہا ہے کہ عبودیت اللہ تعالیٰ کی قضا کے ساتھ راضی رہنے کو کہتے ہیں اور عبادت وہ فعل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ راضی رہتا ہے لیکن بقول مصنف تاج العروس پہلے معنے زیادہ صحیح ہیں نیز اَلْعَابِدُ کے معنے ہیں اَلْمُوَحِّدُ توحید پرست اور اَلتَّعْبِیْدَۃُ کے معنی ہیں اَلْعُبُوْدِیَّۃُ عاجزی کرنا.کہتے ہیں مَا عَبَدَکَ عَنِّیْ اَیْ مَا حَبَسَکَ کس چیز نے تجھ کو مجھ سے روکا اور جب عَبَدَ بِہٖ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے لَزِمَہٗ وَلَمْ یُفَارِقْہُ اس کے ساتھ اس طرح چمٹ گیا کہ اس سے جدا نہ ہوا.قَالَ ابنُ الْاَنْبَارِیْ فُلَانٌ عَابِدٌ وَھُوَ الْخَاضِعُ لِرَبِّہِ الْمُسْتَسْلِمُ الْمُنْقَادُ لِاَمْرِہٖ ابن اَنباری کہتے کہ عابد کے معنے ہیں وہ شخص جو اپنے رب کے سامنے عاجزی کرنے والا ہو اور اس کے حکموں کے سامنے سر تسلیم خم کرنیوالا ہو وَالْمُتَعَبِّدُ.اَلْمُنْفَرِدُ بِالْعِبَادَۃِ اور وہ شخص جو عبادت میں ہی لگا رہے اسے مُتَعَبِّد کہتے ہیں.(تاج العروس) الغرض عبد کے معنی کے اندر انتہائی عاجزی ،تذلل ، خضوع، توحید پرستی، خدمت گزاری، کسی کے ساتھ چمٹ جانا اور مفارقت اختیار نہ کرنا اور دنیا سے اپنے آپ کو روک کر اللہ کا ہی ہو جانے کی طرف اشارہ ہے.سُوْرَۃٌ.سُوْرَۃٌکی تشریح کے لئے دیکھو تعارف سورۃالفاتحۃ.شُھَدَآءُ.شُھَدَآءُ شَھِیْدٌ کی جمع ہے اور یہ شَھِدَ سے صفت مشبّہ کا صیغہ ہے.شَھَادَۃٌ اور شُہُوْدٌ (جو شَہِدَ کے مصدر ہیں) کے معنی ہیں اَلْحُضُوْرُ مَعَ الْمُشَاھَدَۃِ اِمَّا بِالْبَصَرِ اَوْ بِالْبَصِیْرَۃِ کہ کسی واقعہ کے وقت حاضر ہو کر اس کا مشاہدہ کرنا خواہ وہ مشاہدہ ظاہری آنکھ سے ہو یا بصیرت سے وَقَدْ یُقَالُ لِلْحُضُوْرِ مُفْرَدًا اور کبھی صرف حاضر ہونے پر شَہَادَۃٌ اور شُہُوْدٌ کا لفظ بولا جاتا ہے وَالشَّہَادَۃُ قَوْلٌ صَادِرٌ عَنْ عِلْمٍ حَصَلَ بِمُشَاھَدَۃِ بَصِیْرَۃٍ اَوْ بَصَرٍ اور کسی واقعہ کے متعلق اس بیان کو جو ایسے علم کے ساتھ دیا جائے جو آنکھ کے ساتھ مشاہدہ کرنے یا بصیرت کے ذریعہ حاصل ہوا ہو شہادت کہتے ہیں.وَقَدْ یُعَبَّرُ بِالشَّھَادَۃِ عَنِ الْحُکْمِ وَالْاِ قْرَارِ اور کبھی شہادت کے لفظ سے مراد کسی بات کا اقرار ہوتا ہے وَقَوْلُہٗ مَا شَہِدنَا اِلَّا بِمَا عَلِمْنَا اَیْ مَا اَخْبَرْنَا اور آیت مَا شَھِدْنَا… الخ میں شہادت سے مراد خبر ہے کہ ہمیں جس چیز کا علم تھا اسی کی خبر دی نیز شَہَادَۃٌ کے معنے یقینی خبر کے کئے گئے ہیں وَادْعُوْا شُھَدَآ ءَ کُمْ کے معنے کرتے ہوئے لکھا ہے.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ مَعْنَاہُ اَعْوَانُـکُمْ کہ ابن عباسؓ نے شُہَدَاءَ کے معنے مددگاروں کے کئے ہیں وَقَالَ مُجَاھِدٌ اَ لَّذِیْنَ یَشْہَدُوْنَ لَکُمْ اور مجاہد کے نزدیک شہداء سے مراد وہ لوگ ہیں جو گواہی دیں.وَقَالَ بَعْضُہُمْ اَلَّذِیْنَ یُعْتَدُّ بِحُضُوْرِھِمْ کہ شہداء ان لوگوں کو کہیں گے جن کی گواہی کی کوئی وقعت سمجھی جائے (مفردات) اَلشَّھِیْدُ.اَلشَّاھِدُ گواہ.اَ لْاَمِیْنُ فِیْ شَہَادَتِہٖ.

Page 333

سچی گواہی دینے والا.اَلَّذِیْ لَایَغِیْبُ عَنْ عِلْمِہٖ شَیْ ءٌ جس کے علم سے کوئی چیز پوشیدہ نہ ہو.(اقرب) پس وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ کے یہ معنے ہوںگے (۱) کہ تم اپنے معاونوں اور دوستوں کو بلا لو.(۲) تم اپنے گواہوں کو بلا لو (۳) اپنے معبودوں کو بلا لو.دُوْنَ : دُوْنَ کے ایک معنی غَیْرَکے ہیں.یعنی ِسوا (اقرب) پس دُوْنَ اللّٰہِ کے معنے ہوں گے غَیْرُ اللّٰہِ یعنی اللہ کے سوا.تفسیر.اس آیت سے پہلی دو آیات میں قرآن کریم کا سب سے پہلا حکم، حکم کی شکل میں نازل ہوا تھا.اس سے پہلے بیشک قرآنی خوبیاں اور متقیوں کے فرائض اور سورۃ فاتحہ میں مومنوں کی دعائوں، ارادوں او رکاموں کا ذکر ہوا تھا مگر انسان کو خدا کی طرف سے مخاطب کر کے کوئی حکم نہ سورۃ فاتحہ میں بیان ہوا تھا اور نہ سورۂ بقرہ کی ان آیات میں جو اس سے پہلے گزر چکی ہیں اور یہ ایک طبعی امر ہے کہ انسان خطاب پر ہی اعتراض کی طرف مائل ہوتا ہے کیونکہ جب تک اسے مخاطب نہ کیا جائے وہ سمجھتا ہے کہ اس کلام سے مجھے کیا تعلق ہے؟ لیکن جب اس کو مخاطب کیا جائے تو فوراً اس کی توجہ یا ماننے کی طرف یا غور کی طرف یا مقابلہ کی طرف مائل ہو جاتی ہے پس پہلے حکم کے بعد جو اس کا لازمی نتیجہ نکلا یعنی وہ ردّ عمل جو قرآن کریم کے حکم کو سن کر کفار کے دل میں پیدا ہوا اس کا ذکر آیت زیر تفسیر میں کیا گیا ہے اور وہ رد عمل یہ تھا کہ یہ کلام تو ہم کو کوئی ایسا اچھا معلوم نہیںہوتا اس نے تو ہمارے امن کو برباد کر دیا ہے اور ہمارے دلوں کو اس یقین سے بھی محروم کر دیا ہے جو اس سے پہلے ہم کو حاصل تھا اور شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دیا ہے.یہ استدلال جو میں نے کیا ہے اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا کے الفاظ سے کیا ہے کیونکہ رَیْب کے معنے جب شک کے ہوں تو شک کی طرح اس کا صلہ بھی فِیْ آنا چاہیے مثلاً کہیں گے فِیْہِ رَیْبٌ یہ امر شک پیدا کرنے والا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ہے اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيْهَا (الکہف :۲۲)موعود ساعت کے بارہ میں کوئی شک نہیں.اسی طرح فرماتا ہے وَ السَّاعَةُ لَا رَيْبَ فِيْهَا (الجاثیۃ :۳۳) ساعت مقررہ کے آنے میں کوئی شک نہیں.قرآن کریم میں ایک اور جگہ پر مِنْ اس کے بعد استعمال کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے.اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ (الحج :۶) مگر اس کے معنے بھی یہ کئے جاسکتے ہیں کہ اگر بَعْثکے مسئلہ کے سبب سے تم شکوک میں پڑ گئے ہو.یہ نہیں کہ بعث کے مسئلہ میں تم کو شک ہے کیونکہ کفار کو تو بعث کے بارہ میں شک نہ تھا بلکہ و ہ قطعی طو رپر اس کا انکار کرتے تھے.رَیْب اور شَک میں فرق.رَیْب اور شَک میں یہ فرق ہے کہ شک انسان کرتا ہے لیکن ریب انسان نہیں

Page 334

کرتا بلکہ ریب کو ہمیشہ اس چیز کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جس سے شک پیدا ہوا ہو مثلاً یہ تو کہیں گے کہ اَشُکُّ فِیْ ذَالِکَ میں اس معاملہ میں شک کرتا ہوں مگر یہ نہیں کہیں گے کہ اُرِیْبُ فِیْہِ بلکہ یوں کہیں گے رَابَنِیْ یَا اَرَابَنِیْ ھٰذَا الْاَمْرُ اس بات نے مجھے شک میں ڈال دیا ہے.غرض کفار نے صرف قرآن کریم کے دعویٰ کے بارہ میں شک کا اظہار نہیں کیا بلکہ اس سے بڑھ کر یہ اظہار کیا ہے کہ (۱) قرآن کریم نے ہمارے شکوک کیا دور کرنے تھے اس کے مضامین کی وجہ سے تو ہمارے دلوں میں بعض اور صداقتوں کے بارہ میں بھی جن کو ہم پہلے مانتے تھے شکوک پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور اس کتاب نے بجائے شک دور کرنے کے ہمارے دلوں میں شکوک پیدا کر دئے ہیں (۲) ہم پہلے تو محمد رسول اللہ کے دعویٰ کو قابلِ غور سمجھتے تھے اور اس پر غور کرنے پر تیار تھے لیکن جوں جوں قرآن نازل ہوا ہمارے دلوں میں اس کے مضامین کی وجہ سے اس کے دعویٰ کے بارہ میں شکوک کا سلسلہ بڑھنا شروع ہو گیا گویا وہ قرآن پر دو اعتراض کرتے ہیں ایک یہ کہ اس کے مضامین اس غرض کو پورا نہیں کرتے جس کے لئے یہ نازل ہوا ہے.دوم یہ کہ اگر اسے مانا جائے تو کئی صداقتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے اور بجائے صداقت کی طرف لے جانے کے یہ اور کئی صداقتوں سے دور کر دیتا ہے.مِمَّانَزَّلْنَا کی ترکیب علاّمہ اَبوُ البقاء مِمَّا نَزَّلْنَا کی ترکیب دو طرح کرتے ہیں.ایک تو یہ کہ یہ رَیْب کی صفت ہے یعنی تم ایسے رَیْب میں پڑ گئے ہو جو ہمارے بندے پر اُتارے گئے کلام سے پیدا ہوا ہے اور اس کی یوں تشریح کرتے ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ کَائِنٍ مِنَ الَّذِیْ نَزَّلْنَا اور دوسرا مقام اس کا یہ بتاتے ہیں کہ مِـمَّا نَزَّلْنَا ریب کا متعلق ہے اور معنے یہ ہیں کہ فِیْ رَیْبٍ مِنْ اَجْلِ مَانَزَّلْنَا یعنی ایسے شک میں ہو جو ہمارے اتارے ہوئے کلام کے سبب سے پیدا ہوا ہے.علامہ ابو حیان اپنی تفسیر بحر محیط میں اس آیت کے ماتحت لکھتے ہیں.وَ ’’مِنْ‘‘ یَحْتَمِلُ اِبْتَدَاءَ الْغَایَۃِ وَالسَّبَبِیَّۃِ.مِنْ کے معنے اس جگہ یہ ہیں کہ مَا نَزَّلْنَا سے شک پیدا ہوا ہے یا یہ کہ مَا نَزَّلْنَا شک کا باعث ہوا ہے.خلاصہ اوپر کے حوالوں کا یہ ہے کہ مِمَّا کے الفاظ نے اس امر پر دلالت کی ہے کہ جس شک کا ذکر اوپر ہوا ہے وہ قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے والوں کے نزدیک قرآنِ کریم سے پیدا ہوا تھا اور ان کا یہ اعتراض اس جگہ بیان کیا گیا ہے کہ ہمیں تو قرآن کریم نے قلق اور اضطراب میں ڈال دیا ہے.اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کے الفاظ شک پر دلالت نہیں کرتے اس آیت میں جو اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہ شک پر دلالت نہیں کرتے بلکہ کفار کے اعتراض کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتے ہیں

Page 335

کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں تو اس قرآن نے شکوک میں ڈال دیا ہے ان کے اس دعویٰ کے جھوٹا ہونے کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرمایا کہ اگر تم کو قرآن کی وجہ سے شک ہوا ہے تو ایسا ایسا کرو یعنی تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کی وجہ سے شک پڑ گیا ہے غلط ہے.چنانچہ عربی کا محاورہ ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ اگر تو میرا غلام ہے تو میری اطاعت بھی کر.یہ ایسے موقع پر بولا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹا دعویٰ کرتا ہے کہ میں تو آپ کا غلام ہوں.اس کے جواب میں وہ شخص جس کی غلامی کا دعویٰ قائل کرتا ہے کہتا ہے کہ اِنْ کُنْتَ عَبْدِیْ فَاَطِعْنِیْ یعنی تو اپنے اس قول میں کہ تو میرا غلام ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے تو پھر میری اطاعت بھی کر لیکن جبکہ تو اطاعت نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ صرف منہ سے غلامی کا دعویٰ کرتا ہے.کفار کے اس دعویٰ کا ابطال کہ قرآن کریم نے انہیں شکوک میں ڈال دیا ہے اسی مفہوم میں یہاں اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور مراد یہ ہے کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ تم کو قرآن کریم نے شک میں ڈال دیا ہے جھوٹا ہے اگر سچا ہے توپھر اس کا ثبوت اس طرح تم دے سکتے ہو کہ ایسی ہی ایک سورۃ بنا کر پیش کرو لیکن اگر تم ایسی سورۃ کے لانے کی کوشش بھی نہ کرو تو معلوم ہوا کہ تمہارا یہ دعویٰ کہ قرآن کریم نے تم کو شکوک میں ڈال دیا ہے باطل ہے اور صرف دفع الوقتی کے طور پر ہے ورنہ جو کلام اس قدر گندہ اور خراب ہو کہ اس سے دلوں میں شکوک پیدا ہو جاتے ہیں اس کی مثل تو ایک بچہ بھی لا سکتا ہے کجا یہ کہ تمام کفار اور ان کے انصار مل کر بھی اس کی مثل نہ لا سکیں بلکہ اس کی کوشش تک کی جرأت نہ کر سکے ہوں پس ان کے عمل سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں.مخالفین کے اس اعتراض کا جواب کہ قرآن مجید میں دوسری کتب کی تعلیمات موجود ہیں اعتراض کرنا سہل ترین کام ہے جو کوئی شخص اپنے مدِّمقابل کے خلاف کر سکتا ہے.صداقت کے منکر ہمیشہ اعتراضوں تک ہی اپنے حملہ کو محدود رکھتے ہیں.کبھی کوئی ٹھوس کام مقابل پر نہیں کرتے جس سے ان کے جوہر بھی ظاہر ہوں اور ان کے اعتراض کی حقیقت بھی ظاہر ہو.یہی حال قرآن کریم کے منکروں کا تھا.وہ قرآن کریم پر اعتراض تو کرتے تھے لیکن اس کے مقابل پر کوئی تعلیم ایسی پیش نہ کرتے تھے جو اس سے برتر تو الگ رہی اس کے برابر بھی ہو.آج تک قرآن کریم کے مخالفوں کا یہی حال رہا ہے مسیحی مصنف قرآن کریم پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں لیکن آج تک اس مطالبہ کو پورا کرنے کی جرأت نہیں کر سکے کہ اس کی مثل لائیں.وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم نے انجیل کا فلاں مسئلہ چرا لیا ہے.تو رات سے فلاں بات اڑا لی ہے زرد شتی کتب سے فلاں تعلیم اخذ کر لی ہے لیکن یہ جرأت نہیں کہ انجیل، تورات اور زردشتی کتب میں سے مضامین لے کر خود کوئی کتاب ایسی بنا دیں جو قرآن کریم جیسی

Page 336

جامع ہو.شہد پر انسان اعتراض تو آسانی سے کر سکتا ہے کہ مکھیوں نے پھولوں سے خوشبو اُڑا لی.پھلوں میں سے مٹھاس چرا لی.مگر بات تو تب ہے کہ ویسا شہد بنا کر دکھا دے.اچھی چیزوں کو مختلف جگہوں سے اڑا کر کوئی نئی اور اعلیٰ چیز بنا دینا بھی تو ایک کمال ہے اگر یہ آسان بات ہے تو معترض ویسا ہی کام کر کے کیو ںنہیں دکھا دیتے؟ مگر یہ جواب بطور تنزل ہے ورنہ قرآن کریم کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں وہ سب صداقتیں بھی موجود ہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں چنانچہ فرماتا ہے فِيْهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ(البینة:۴) اس میں سب قائم رہنے والی صداقتیں جو زمانہ کے لحاظ سے منسوخ کرنے کے قابل نہ تھیںموجود ہیں اور اس کے علاوہ فرماتا ہے وَ يُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (البقرة:۱۵۲) یعنی یہ رسول تم کو وہ کچھ سکھاتا ہے جو تم پہلے نہ جانتے تھے.یعنی اس کی تعلیم صرف انہی اچھی تعلیمات پر مشتمل نہیں جو پہلی کتب میں پائی جاتی ہیں بلکہ اس سے زائد اس میں ایسی باتیں بھی ہیں جو پہلے دنیا کو معلوم نہ تھیں.اسی طرح فرماتا ہے فَاِذَاۤ اَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ (البقرة :۲۴۰) یعنی جب تم امن میں آ جائو تو اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے یاد کرو جو خدا تعالیٰ نے اس قرآن کریم کے ذریعہ سے تم کو سکھائی ہیں اور جن کا علم اس سے پہلے تم کو حاصل نہ تھا اِس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں صفات الٰہیہ کا ایسا زائد علم دیا گیا ہے جو اس سے پہلے دنیا کو حاصل نہ تھا.اسی طرح فرماتا ہے کہ قرآن کریم میں بعض متشابہات ہیں یعنی ایسے امور ہیں جو پہلی کتب سے ملتے جلتے ہیں.اور بعض محکمات ہیں یعنی ایسے امور ہیں کہ جو دوسری کتب کے علاوہ ہیں اور فرماتا ہے هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ (آل عمران :۸)وہی اس کتاب کی ماں ہیں یعنی وہی اس کے نزول کا سبب ہیںاسی طرح فرماتا ہے يَمْحُوا اللّٰهُ مَا يَشَآءُ وَ يُثْبِتُ١ۖۚ وَ عِنْدَهٗۤ اُمُّ الْكِتٰبِ(الرعد:۴۰) یعنی کفار اعتراض کرتے ہیں کہ یہ شخص پہلی کتب کے خلاف تعلیم لایا ہے اور یہ اس کے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے.تُو ان سے کہہ دے کہ ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس تعلیم کے بعض حصوں کو جو اسے دی گئی تھی مٹا دیتا ہے اور بعض حصے رہنے دیتا ہے اور اس کے پاس وہ احکام محفوظ ہیں جو اس کے زمانہ کے لئے ضروری ہیں اور جو نئے نبی کو دیئے جاتے ہیں.پس ان کا اعتراض فضول ہے.پہلی کتب کے مفید حصوں کو بھی ہم نے لے لیا اور ان کے علاوہ وہ نئی تعلیم جو پہلے زمانہ کے مناسب حال نہ تھی اور اسی زمانہ کے مناسب حال تھی وہ بھی تجھ کو عطا کر دی.قرآن مجید میں پہلی کتب کی تعلیمات کے علاوہ اور زبردست محکم تعلیمات خلاصہ یہ کہ قرآن کریم پہلی کتب کی مفید تعلیم اخذ کرنے کا تو خود اقرار کرتا ہے مگر وہ اس کے علاوہ اور اس سے زائد نئی تعلیمات کے پیش کرنے کا بھی دعویٰ دار ہے پس صرف چند متشابہ باتو ں کو پیش کر کے اعتراض کرنا خلافِ دیانت ہے جسے دعویٰ ہو کہ

Page 337

قرآن کریم صرف چوری کے مضامین پر مشتمل ہے وہ پہلی کتب سے مضامین اخذ کر کے قرآن کریم کی مثل پیش کر دے اور پھر دیکھے کہ کیا اس کی محنت ان مضامین کا ہزارواں حصہ بھی پیش کرتی ہے جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں.آیت اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ کا تعلق پہلی آیات سے اس آیت کا تعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ شروع سورۃ میں کہا گیا تھا کہ لَارَیْبَ فِیْہِ اس میں کوئی بات ریب والی نہیں.جب تمام بنی نوع انسان کو ایک خدا کی پرستش کی طرف بلایا گیا اور مخالفینِ قرآن کی رگِ حمیّت پھڑکی تو انہوں نے یہ اعتراض کر دیا کہ تم ہمیں کیا دعوت دیتے ہو تمہارا دعویٰ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں کوئی ریب والی بات نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب نے شروع میں ہی وہ تعلیم دے دی ہے کہ جو شکوک و شبہات کا دروازہ کھول دیتی ہے یعنی ایک خدا کی تعلیم دیتی ہے حالانکہ توحید کا مسئلہ (ان کے خیال کے مطابق) بالکل باطل ہے.اس قسم کی تعلیم کو سن کر تو ہم کو مذہب پر ہی شکوک و شبہات شروع ہو جاتے ہیں کہ کوئی یقینی سے یقینی بات بھی اعتراض سے محفوظ نہیں.پھر مذہب کا کیا فائدہ ہوا اور اس سے کیا تسلی حاصل ہوئی؟ کفار کو ان کے اعتراض کا جواب فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ کے الفاظ سے دینے کا مطلب اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا کہ (۱)فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ (۲) وَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ تم دو کام کرو اوّل تو اس قسم کی کوئی سورۃ بنا لائو یعنی جو مضامین اس سے پہلے سورۃ بقرہ میں بیان ہوئے ہیں اس قسم کے مطالب پر مشتمل کوئی کلام پیش کر دو اور دوسرے یہ کہ اپنے شہداء کو پکارو.اوپر کی تشریح سے ظاہر ہے کہ اس جگہ جس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ سورۃ بقرہ کی پہلی آیات میں جو مضمون گذرا ہے اسے مدِّنظر رکھتے ہوئے کوئی سورۃ ایسی لے آئو جو اس معیار کو پہنچتی ہو جو ان مضامین میں بیان کیا گیا ہے.اس کے یہ معنے نہیں کہ باقی قرآنِ کریم کی مثل لوگ لا سکتے ہیں بلکہ یہ حجت ِ ملزمہ ہے کہ قرآنِ کریم میں جو اور اصول بیان ہوئے ہیں ان کی مثال تو تم نے کیا لانی ہے ان چند آیات میں بیان کردہ مضمون کے مطابق ہی کوئی سورۃ لے آئو کیونکہ وہی تمہارے اعتراض کا موجب ہوئے ہیں.اب ہم دیکھتے ہیںکہ اس اعتراض سے پہلے قرآن کریم میں کیا مضامین گزرے ہیں تو ہمیں پہلی آیت میں ہی جس میں لَا رَیْبَ فِیْہِ کہا گیا ہے اور جس کی بناء پر کفار نے اپنے ریب کا ذکر کیا ہے یہ مضامین نظر آتے ہیں (۱) ذٰلِکَ الْکِتٰبُ(الف) یہ موعود کتاب ہے یعنی پہلے انبیاء نے ایک کامل کتاب کی خبر دی تھی یہ وہی ہے اور اس کے ذریعہ سے ان انبیاء کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں (ب) یہ ایک کامل کتاب ہے اس میں تمام ضروری امور جو روحانی

Page 338

تکمیل کے لئے ضروری ہیں بیان ہیں (ج) یہ کتاب اس دعا کو پورا کرنے والی ہے جو سورۃ فاتحہ میں سکھائی گئی ہے یعنیاِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ.صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہمیں سیدھا راستہ دکھا وہ راستہ جو منعم علیہ گروہ یعنی انبیاء صدیقوں شہداء اور صالحین کو دکھایا گیا تھا (تفصیل کے لئے دیکھو نوٹ ۷سورۃ فاتحہ زیر آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَ) (۲) لَا رَیْبَ فِیْہِ یعنی (الف)اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جو فی الحقیقت قلق و اضطراب پیدا کرنے والی ہو بلکہ یہ ہر امر کے لئے دلائل و براہین مہیا کرتی ہے اور ہر گناہ اور نیکی کے اسباب بتا کر بدی کا دروازہ بند کرتی.اور نیکی کے لئے راستہ کھولتی ہے (ب) اس میں کوئی بات ایسی بیان نہیں کی گئی جس سے خدا تعالیٰ پر یا کسی راستباز انسان پر یا کسی سچی تعلیم پر کوئی تہمت لگائی گئی ہو (ج) اس سے کوئی بات ایسی نہیں رہ گئی جس کا بیان کرنا روحانی تکمیل کے لئے ضروری ہو (د) اس میں کوئی تعلیم ایسی نہیں دی گئی کہ جو انسان کو مشقّت یا ہلاکت میں ڈالتی ہو.اس کے بعد کی آیات میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں.(۳) هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ یہ صرف انسان سے ہی اعمال حسنہ کا مطالبہ نہیں کرتی بلکہ وعدہ کرتی ہے کہ جو لوگ اس کی تعلیم پر چلیں گے انہیں خدا تعالیٰ اپنے وصال کے مقام پر پہنچائے گا اور اپنے قرب میں جگہ دے گا اور اپنے منشاء سے انہیں مطلع فرمائے گا.(۴) اس کا ضد سے انکار کرنے والے خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوں گے.(۵) جو لوگ اس سے اخلاص کا معاملہ نہ کریں گے خواہ عقیدہ کے لحاظ سے یا اخلاص عمل کے لحاظ سے وہ بھی آسمانی سزائوں میں مبتلا ہوں گے.(۶) یہ ذاتِ باری کے متعلق سچی اور مدلّل تعلیم پیش کرتی ہے.یہ وہ امو رہیں جو اس آیت سے پہلے گزر چکے ہیں اور مثل کا مطالبہ وہی سورۃ پورا کر سکتی ہے جو ان تمام امور پر مشتمل ہو مگر ظاہر ہے کہ ان امور میں مثل کا مطالبہ پورا کرنا انسانی طاقت سے بالا ہے ایسی مثل تو وہی کتاب پیش کر سکتی ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو.چونکہ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ میں ایک ایسا دعویٰ قرآن کریم کی نسبت کیا گیا تھا کہ جو انسان کے بس کا ہی نہیں بلکہ اسے صرف خدا تعالیٰ ہی پورا کر سکتا ہے اس لئے آخر میں یہ بھی فرما دیاوَ ادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ تم اپنے معبودوں کو بھی بلا لو کہ وہ تم کو الہام کریں کیونکہ ایک دعویٰ اس کتاب کا یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمانی الہام کا دروازہ کھلے گا.

Page 339

یہ وہ مطالعہ ہے جو اس آیت میں کیا گیا ہے اس میں زبان کی خوبی بھی شامل ہے کیونکہ اگر زبان اعلیٰ نہ ہو تو مطلب واضح نہیں ہوتا اور شک پیدا ہوتا ہے پس جب یہ فرمایا اس میں کوئی امر ایسا نہیں جو قلق و اضطراب پیدا کرے تو اس میں یہ دعویٰ بھی آ گیا کہ اس کی زبان بھی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے اور اس کا کلام فصیح و بلیغ ہے.لیکن اس آیت کے یہ معنے کرنے کہ اس میں صرف اس امر کا مطالبہ ہے کہ قرآن کریم جیسی فصیح و بلیغ عبارت پیش کرو درست نہیں اور سمندر میں سے ایک قطرہ لے کر پیش کرنے والی بات ہے قرآن کریم کا مطالبہ وسیع ہے اور صرف زبان پر مشتمل نہیں اور نہ زبان کا یہاں کوئی ذکر ہے زبان کا ذکر تو لَارَیْبَ فِیْہِ سے ہی نکل سکتا ہے مگر اس میں بھی اور مطالب کا ذکر ہے اور یہ درست نہیں کہ لَارَیْبَ فِیْہِ کے ایک معنی کو لے لیا جائے اور باقی معانی کو چھوڑ دیا جائے اور نہ یہ درست ہے کہ صرف لَارَیْبَ فِیْہِ کے حصہ کو لے لیا جائے اور باقی مطالب جن کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ان کو چھوڑ دیا جائے.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں کفاّر کے اس اعتراض کا کہ ہمیں تو قرآن کریم کے مضامین سے اور بھی شبہات دین پر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں اور یا یہ کہ قرآنی مضامین کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں اور بھی شبہات پیدا ہو گئے ہیں ایسا منہ توڑ جواب دیا ہے کہ نہ اس سے کوئی اس سے پہلے عہدہ بَرا ہو سکا ہے اور نہ آئندہ کوئی ہو سکتا ہے.باقی رہے اعتراض تو وہ لوگ پہلے بھی کرتے چلے آئے ہیں اور پھر بھی کرتے چلے جائیں گے جب تک انسانوں میں تقویٰ سے خالی لوگ موجود ہیں اس وقت تک یہ سلسلہ ختم نہیں ہو سکتا.ہاں ! تعصب سے خالی ہو کر کوئی شخص اس مطالبہ کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو اسے اپنے عجز کے اقرار کے سوا کوئی چارہ نہ ہو گا چنانچہ قرآن کریم اگلی آیت میں خود ہی فرماتا ہے کہ تم لوگ اس کی مثل نہ قریب زمانہ میں نہ آئندہ کسی زمانہ میں لاسکو گے.قرآن کریم میں مثل لانے کا پانچ جگہ مطالبہ.قرآن کریم میں یہ مثل کا مطالبہ پانچ جگہ ہوا ہے.اور میرے نزدیک پانچوں جگہ میں اس کا مفہوم جدا جدا ہے ایک تو اسی آیت میںجس کی تفسیر اوپر بیان کی گئی ہے.دوم.سورہ یونس ع ۴ آیت ۳۹میں.وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّثْلِهٖ وَ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.سوم.سورۃ ہود ع ۲آیت ۱۴ میں جہاں فرماتا ہے اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ١ؕ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّ ادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ.چہارم سورہ بنی اسرائیل ع ۱۰ آیت ۶۹ میں.وہاں آتا ہے.قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ

Page 340

لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَ الْجِنُّ عَلٰۤى اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَ لَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا.پنجم سورۃ طور ع ۲ آیت ۳۴ و ۳۵ میں وہاں آیا ہے.اَمْ يَقُوْلُوْنَ تَقَوَّلَهٗ١ۚ بَلْ لَّا يُؤْمِنُوْنَ.فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖۤ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ.ان مطالبات میں مقدار مطلوبہ کے اختلاف کی وجہ ان پانچ جگہوں میں سے سورہ بقرہ اور سورہ یونس میں تو ایک ہی قسم کا مطالبہ ہے.باقی تین جگہ میں علیحدہ علیحدہ مطالبے کئے گئے ہیں.چنانچہ سورہ بنی اسرائیل میں سارے قرآنِ کریم کی مثال کا مطالبہ کیا گیا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر سارے جنّ و انس بھی اکٹھے ہو جائیں تو قرآنِ کریم کی مثال نہیں لا سکیں گے سورۃ ہود میں فرمایا ہے اگر تم سچے ہو تو دس سورتیں اپنے پاس سے بنا کر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے شائع کرو.سورہ بقرہ اور سورہ یونس میں ایک سورۃ کا مطالبہ ہے اور سورہ طور میں ایک سورۃ کی بھی شرط نہیں ہے خواہ وہ ایک بات ہی بنا کر لے آئیں اب بظاہر یہ بات عجیب نظر آتی ہے کہ کہیں سارے قرآن کا مطالبہ ہے کہیں دس سورتوں کا مطالبہ ہے اور کہیں ایک سورۃ کا اور کہیں ایک ہی بات پر اکتفا کی گئی ہے اور طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ فرق کیوں ہے ؟بعض لوگوں نے یہ کہا ہے کہ ترتیب نزول کے لحاظ سے ایسا ہوا ہے.آیات کی تحدّی و مطالبہ کی نظیر پہلے سارے قرآن کی مثال کا مطالبہ کیا.جب وہ نہ لا سکے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیا.جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کہ ایک سورۃ ہی لے آئو.جب وہ بھی نہ لا سکے تو پھر فرمایا کچھ ہی لے آئو.خواہ ایک بات ہی ہو.میرے نزدیک اس میں کچھ اشتباہ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ ان سورتوں میں سے کہ جن میں اس مضمون کا ذکر آیا ہے نزول کے لحاظ سے سب سے پہلے سورہ طور ہے اور اس میں قرآن کریم کی بجائے بِحَدِيْثٍ مِّثْلِهٖۤ ہے.یعنی اس جیسا کوئی کلام لے آئو اور شرط ایک سورۃ کی بھی نہیں رکھی گئی.خواہ وہ کلام ایک سورۃ سے بھی کم ہو.پس عقلاً یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ سورۃ طور میں تو بغیر مقدار مقرر کرنے کے مثل کا مطالبہ کیا گیا ہو.اور اس کے بعد سورۃ بنی اسرائیل میں پورے قرآن کا مطالبہ کیا گیا ہو اور بعد میں اس مطالبہ کو گرا کر دس سورتوں میں اور پھر دس سورتوں سے گرا کر ایک سورۃ میں محصور کر دیا گیا ہو.ان مطالبات میں مقدارمطلوبہ کے اختلاف کی وجہ دوسرے یہ کہ یہ کوئی واقعہ تو ہے نہیں کہ ہم اس سے عبرت پکڑیں بلکہ ایک چیلنج ہے جو ہم نے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے اب ہم دنیا کے سامنے کیا پیش کریں آیا یہ کہ سارا قرآن لائو یا یہ کہ دس سورتیں لائو یا ایک سورۃ یا ایک آیت لائو اگر ایک آیت کا مطالبہ کافی ہے تو ایک سورۃ کا مطالبہ کیوں کریں.اور اگر ایک سورۃ کا لانا کافی ہو سکتا ہے تو دس سورتوں کا مطالبہ کیوں کریں.اور اگر دس سورتوں کا

Page 341

لے آنا کافی ہے تو سارے قرآن کی مثل لانے کے لئے کیوں کہیں؟؟ تحدّی والی سورتوں کے زمانہ نزول کا مختلف ہوناثابت نہیں میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اس میں ترتیب نکالنے کی ضرورت نہیں.اوّل تو اِن میں سے بعض سورتیں ایسے قریب قریب کے زمانہ کی نازل شدہ ہیں کہ ان کی صحیح ترتیب کا پتہ لگانا مشکل ہے.دوسرے قرآن کریم کی تنزیل اس طرح نہیں ہوئی کہ ایک وقت میں ایک ہی سورۃ نازل ہوئی ہوبلکہ قریب قریب نازل ہونے والی سورتیں بعض دفعہ ایک ہی وقت میں تین تین چار چار نازل ہوتی جاتی تھیں اور اِن میں سے ایک کو پہلی کہنا اور دوسری کو بعد کی کہنا اس لحاظ سے تو گو درست ہو کہ ایک کی آخری آیت پہلے اور دوسری کی آخری آیت پیچھے نازل ہوئی ہو لیکن ایک کی سب آیتوں کے متعلق کہنا کہ یہ پہلے نازل ہوئی ہیں اور دوسری کی سب آیتوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ پیچھے نازل ہوئی ہیں درست نہیں ہو سکتا پس میرے نزدیک ان آیتوں میں ایسے مطالبات ہیں جو ترتیب نزول کے حل کرنے کے محتاج نہیںہیں اور سب کے سب ایک ہی وقت میں آج بھی اس طرح پیش کئے جا سکتے ہیں جس طرح کہ زمانہ نزول میں پیش کئے جا سکتے تھے.تحدّی مثل کے ساتھ اکثر جگہ مال و دولت اور طاقت کا ذکر پیشتر اس کے کہ میں ان مختلف تحدّیوں کی تشریح کروں جو ان آیات میں مذکور ہیں.میں اس عجیب بات کی طرف توجہ پھرانی چاہتا ہوںکہ یہ چیلنج جس جس جگہ کے لئے ہیں اُن کے ساتھ ہی مال و دولت اور طاقت و قدرت کا بھی ذکر آیا ہے سوائے سورہ بقرہ کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا چیلنج نہیں ہے بلکہ سورۃ یونس کے چیلنج کو سورۃ بقرہ کے مضامین کی ضرورت کے لحاظ سے دہرایا گیا ہے (سورۃ یونس مکی ہے اور سورۃ بقرہ مدنی ہے) اس لئے اس میںاس ذکر کو غیر ضروری سمجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے اس کے سوا باقی سب سورتوں کو دیکھ لو.سب میں مال و دولت یا طاقت و قدرت کا ذکر ہے سورۃ یونس میں اس مطالبے سے چند آیات پہلے آیا ہے.قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ مَنْ يُّخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَ يُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَ مَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ اللّٰهُ١ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(یونس:۳۲)گویا دعویٰ کیا ہے کہ سب خزانے اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں خواہ وہ رزق کے ہوں یا قوائے طبعیہ کے یا قوائے عملیہ کے ہوں یا مختلف قوتوں کو ایک نظام میں لانے کے متعلق ہوں.اور پھر اس کے بعد فرمایا قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ.قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآىِٕكُمْ مَّنْ يَّهْدِيْۤ اِلَى الْحَقِّ١ؕ قُلِ اللّٰهُ يَهْدِيْ لِلْحَقِّ١ؕ اَفَمَنْ يَّهْدِيْۤ اِلَى الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ يُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا يَهِدِّيْۤ اِلَّاۤ اَنْ يُّهْدٰى ١ۚ فَمَا لَكُمْ١۫ كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ.(یونس:۳۵،۳۶)اس میں بھی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.پھر سورۃ طور میں تحدّی کے بعد

Page 342

فرماتا ہے.اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخٰلِقُوْنَ.اَمْ خَلَقُوا السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ بَلْ لَّا يُوْقِنُوْنَ.اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَبِّكَ اَمْ هُمُ الْمُصَۜيْطِرُوْنَ(الطور:۳۶تا۳۸) یہاں پر بھی دولت اور حکومت اور طاقت و قدرت کا ذکر کیا گیا ہے.ان تحدّیوں میں مطالبہ خزائن کے جواب میں قرآن کریم کو بطور خزانہ پیش کیا گیا ہے سورۃ ہود کی آیت سے پہلے بھی لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ (ھود:۱۳)آیا ہے.سورۂ بنی اسرائیل میں تحدی کے بعدآیا ہے وَ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا.اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّ عِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا.اَوْ تُسْقِطَ السَّمَآءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةِ قَبِيْلًا.اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَآءِ (بنی اسرائیل:۹۱تا۹۴)اس جگہ بھی مال و دولت اور طاقت و قوت کا ہی ذکرہے.غرض چاروں جگہ پر ایک ہی قسم کا مطالبہ بیان ہوا ہے یا مطالبہ کا ذکر نہیں.لیکن مطالبہ کا جواب دیا گیا ہے.پس معلوم ہوتا ہے کہ خزانوں کے سوال اور مطالبہ مثل میں کوئی گہرا تعلق ہے.اور وہ یہی تعلق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو خزانہ قرار دیا ہے اور مخالفین کے خزانہ کے مطالبہ کا یہ جواب دیا ہے کہ اُس کا اصل خزانہ قرآن کریم ہے اور لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ مَلَکٌ کا بھی یہی جواب دیا ہے کہ ملائکہ ظاہری مقابلوں کے لئے نہیں اُترتے بلکہ کلام الٰہی لے کر اُترا کرتے ہیں اور وہ اس پر نازل ہو چکا ہے.پس یہ کہنا کہ اس پر ملک نہیں اُترا یا یہ کہ اُترنا چاہیے بے معنی قول ہے اور ایسی چیز کا مطالبہ ہے جو پہلے سے حاصل ہے.پھر چونکہ ملائکہ کا اُترنا یا روحانی خزانہ کا حصول بظاہر ایک دعویٰ معلوم ہوتا ہے جس کا ثبوت نہیں اس کے لئے خود قرآنِ کریم کے بے مثل ہونے کو پیش کیا ہے کہ یہ اپنی صداقت کی آپ دلیل ہے اور اس کے اندر ایسے دلائل موجود ہیں جو اسے لاثانی خزانہ اور منجانب اللہ کلام ثابت کرتے ہیںاور یہ جو فرق کیا ہے کہ جس جگہ زیادہ کلام کا مطالبہ ہے اس جگہ کفار کی طرف سے خزانوں یا مَلک کا مطالبہ ہے اور جس جگہ تھوڑے کلام کی مثل کا مطالبہ ہے اس جگہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ کیا یہ کفاّر خزانوں کے مالک اور قانونِ قدرت کے متولیّ ہیں؟ سو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن مقامات پر پورے قرآن یا دس سورتوں کا مطالبہ ہے اس جگہ سوال ایسا ہے جو کفار کے ذہن میں آ سکتا تھا اور موٹا تھا.پس ان کے سوال کو پیش کر کے اس کا جواب دے دیا گیا ہے لیکن بعض پہلو قرآن کریم کے بے مثل ہونے کے ایسے رہ جاتے ہیں جن کے متعلق سوال کرنے کا بھی کفار کو خیال نہیں آ سکتا تھا اگر ان کابیان کرنا بھی کفار کے سوالات پر منحصر رکھا جاتا تو وہ پہلو پوشیدہ ہی رہتے.اس لئے ان پہلوئوں کو قرآن کریم نے خود سوال پیدا کر کے بتا دیا اور اس طرح قرآن کریم کی تکمیل کے

Page 343

سب پہلوئوں کو روشن کر دیا.فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ.تمام تحدّیوں پر تفصیلی نظر اب میں تفصیل کے ساتھ ایک ایک مطالبہ کو الگ الگ لے کر بتاتا ہوں کہ کس طرح اِن آیات میں قرآن کریم کی مختلف خوبیوں کے مقابلہ کی دعوت دی گئی ہے اورہر جگہ کے مناسب حال زیادہ یا کم کلام کا مطالبہ کیا گیا ہے.سب سے بڑا مطالبہ سارے قرآن کی مثل لانے کا ہے.سورۃ بنی اسرائیل والی تحدّی اور یہ سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس مطالبہ میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ جس کلام کو منکر پیش کریں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف بھی منسوب کریں بلکہ جائز ہے کہ اُن کا پیش کردہ کلام مفتریات میں سے نہ ہو اور ان کا صرف یہ دعویٰ ہو کہ گو ہم نے یہ کلام خود بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہے لیکن یہ کلام قرآن کریم کی مثل یااس سے بڑھ کر ہے.چونکہ مثل کی حد بندی بھی ضروری تھی کہ وہ کلام کس امر میں مثل ہو.اس لئے اس کی تشریح بھی خود کر دی اور فرمایا کہ وَ لَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِيْ هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ١ٞ فَاَبٰۤى اَكْثَرُ النَّاسِ اِلَّا كُفُوْرًا(بنی اسرائیل:۹۰) اس کلام میں ہر پہلو سے لوگوں کے فائدہ کے لئے ہر اک ضروری دینی امر پر روشنی ڈالی گئی ہے لیکن پھر بھی بہت سے لوگ اس کے انکار پر مصر ہیں.یہی چیز ہے جس میں مثل کا مطالبہ کیا گیا ہے اگر فی الواقع وہ اس کلام کو انسانی کلام سمجھتے ہیں تو ان چار خوبیوں والا کلام پیش کریں جو اپنی خوبیوں میں قرآن کریم کے برابر ہو (۱) اس میں ہر ضروری دینی مسئلہ پر روشنی ڈالی گئی ہو یعنی اعتقادات.فلسفۂ اعتقادات.صفاتِ باری اور فلسفۂ ظہور صفاتِ باری.علمِ کلام.عبادات.فلسفۂ عبادات.علم ِاخلاق.فلسفۂ اخلاق.معاملات.فلسفۂ معاملات.مدنیّت.اقتصادیات.سیاسیات کا جو حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا فلسفہ معاد اور اس کے متعلق تمام امور وغیرہ وغیرہ.سب امور ضرور یہ پر اس میں روشنی ڈالی گئی ہو (۲) وہ بحث جو ان امور کے متعلق کی گئی ہو َسیر ُکن ہو نہ صرف وسعت کے رُو سے احاطہ ہو یعنی سب علوم کے متعلق کچھ نہ کچھ بحث ہو بلکہ حق کی گہرائی کا بھی احاطہ ہو اور ہر مسئلہ کے ہر پہلو کو پیش کر کے اس میں ہدایت دی گئی ہو (۳) وہ تمام تعلیم باوجود اپنی وسعت اور باریکی کے مضرت رساں نہ ہو بلکہ اس میں نفع ہی نفع ہو.(۴) اس میں کسی ایک قوم یا طبقہ کے فائدہ کو مدِّنظر نہ رکھا گیا ہو بلکہ تمام بنی نوع انسان کی فطرت کو مدنظر رکھا گیا ہو اور ہر قسم کی طبیعت او رہر قسم کے حالات اور ہر درجہ اور ہر فہم کے انسان کے متعلق اس میں ہدایت موجود ہو.بجائے مطالبہ کی صورت کے پیشگوئی کی صورت میں تحدّی چونکہ قرآن کریم ابھی مکمل نہیں ہوا تھا اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ تم ابھی اس کی مثل لے آئو بلکہ یہ فرمایا ہے کہ نہ لا سکو گے یعنی نہ اس کی موجودہ حالت میں اور

Page 344

نہ اس وقت جب یہ مکمل طو رپر نازل ہو جائے گا.حق یہی ہے کہ قرآن کریم نے ایسے رنگ میں روحانی امور پر بحث کی ہے کہ اوپر کے چاروں امو رکے مقابلہ میںاس قدر کلام میں بھی کوئی شخص اس کی کوئی مثل نہیں لا سکتا تھا جو اس وقت تک نازل ہو چکا تھا.اور اس وقت کے لحاظ سے قرآن کہلاتا تھا.سپریچوئلزم کا ابطال اس آیت کے مطالب میںایک اور امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس کا بیان کرنا فائدہ سے خالی نہ ہو گا اور وہ یہ کہ اس میں علم الارواح کے ماہرین کو بھی جنہیں انگریزی میں سپر یچولسٹ کہتے ہیں مخاطب کیا گیا ہے اور جن سے مراد وہی ارواح ہیں جن سے تعلق پیدا کر کے روحانیت کی باریکیاں معلوم کرنے کے علم الارواح کے علماء مدعی ہیں اور بتایا ہے کہ قرآن کریم کی مثل نہ تو انسان خود لا سکتے ہیں اور نہ پوشیدہ ارواح کی مدد سے لا سکتے ہیں جن کی مدد کا ان کو دعویٰ ہے اس جگہ جنّ سے مراد وہ جنات نہیں کہ جو عوام الناّس میں مشہور ہیں کیونکہ اِن کی مدد سے کلام لانے کا مطالبہ ایک مہمل بات ہو جاتی ہے نیز اس آیت سے پہلے وَ يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِ١ؕ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ (بنی اسرائیل :۸۶)بھی مذکور ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جگہ ارواح کا ہی ذکر ہے نہ کہ جناّت کا.(تفصیل کے لئے دیکھو اس آیت کی تفسیر بنی اسرائیل رکوع ۱۰ میں) دس سورتوں کا مطالبہ کفار کی فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ والے طمع کے جواب میں دوسری آیت جس میں کفار کا یہ اعتراض بیان کیا ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور َملک نہیں.اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ درست ہے تو تم دس سورتیں مفتریات کی اس کے مقابلہ میں لے آئو.پس اس جگہ سورتوں کو بطور خزانہ کے پیش کیا اور مفتریات کا مطالبہ کر کے بتایا ہے کہ اگر اس کا دعویٰ وحی یا ملائکہ کا جھوٹا ہے اور اس کے ساتھ ملائکہ نہیں آئے تو تم بھی زیادہ نہیں تو دس سورتیں ایسی پیش کرو جن کے متعلق دعویٰ ہو کہ ملائکہ نے باذنِ الٰہی ہم پر اتاری ہیں پھر دیکھو کہ تمہارا کیا انجام ہوتا ہے؟ اور اگر تم میں یہ جرأت نہیں کہ تم ایسا جھوٹا دعویٰ کر سکو تو محمد رسول اللہ کی نسبت کس طرح خیال کر سکتے ہو کہ اس قدر افترا کر رہا ہے؟ اور اگر افترا کر رہا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی گرفت سے محفوظ کیوں ہے ؟ غرض اس جگہ عقلی مقابلہ کے ساتھ آسمانی مقابلہ کو بھی شامل کیا گیا ہے اور یہ جو اس جگہ فرمایا کہ دس سورتیں ایسی لائو اس کی یہ وجہ ہے کہ اس جگہ قرآن کریم کے ہر رنگ میں مکمل ہونے کا دعویٰ نہ تھا بلکہ کلام بعض القرآن کے متعلق تھا یعنی مخالف معترض تھا کہ اس کے بعض حصے قابل اعتراض ہیں جیسا کہ آیت فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ (ھود:۱۳)سے ظاہر ہے اور اسی طرح کفار کے اس سوال سے بھی ظاہر ہے کہ اس کے پاس خزانہ اور ملک نہیں.پس اس جگہ سارے قرآن کے مقابلہ کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ یہ مطالبہ کیا ہے کہ تم قرآن میں جو بھی کمزور سے

Page 345

Page 346

الطور : ۳۵) اگر تم سچے ہو تو کوئی ایسی ہی بات پیش کر کے دکھائو.میرے نزدیک اس آیت میں سب سے چھوٹا مطالبہ ہے اور وہ صرف ایک مثال کا ہے خواہ وہ ایک سورۃ سے بھی چھوٹی ہو اور یہ مطالبہ بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں ہے نہ کہ کفار کے دعویٰ کے ردّ میں اور وہ دعویٰ وہی ہے جو اس سورۃ کے شروع میں کیا گیا ہے یعنی وَ الطُّوْرِ.وَ كِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ.فِيْ رَقٍّ مَّنْشُوْرٍ.وَّ الْبَيْتِ الْمَعْمُوْرِ.وَ السَّقْفِ الْمَرْفُوْعِ.وَ الْبَحْرِ الْمَسْجُوْرِ.اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ.مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ(الطور :۲ تا۹).یعنی یہ کتاب جس کا وعدہ کوہِ طور پر دیا گیا تھا اور جو لکھی جائے گی ہمیشہ پڑھی جائے گی اور دنیا میں پھیلائی جائے گی اور اسلام جس کے متبعین کی تعداد بہت بڑھ جائے گی اور نہ صرف عوام بلکہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ روحانی و جسمانی فضائل والے اس میں داخل ہوں گے اور یہ روحانیت کا چشمہ جو مختلف ملکوں کو سیراب کرے گا ان دونوں امور کو ہم بطور قیامت کی دلیل کے پیش کرتے ہیں.اس ذکر کے بعد فرمایا کہ کیا یہ لوگ اس کلام کو بناوٹی کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو جو جو اور جس جس قسم کی پیشگوئیاں اوپر پیش کی گئی ہیں ان کی مانند یہ بھی ایک پیشگوئی پیش کر دیں اور مفتریات کی بھی ہم شرط نہیں لگاتے انہیں اجازت ہے کہ چاہیں تو پچھلی الہامی کتب سے ہی کوئی ایسی مثال نکال کر پیش کر دیں.مگر یاد رکھیں کہ یہ اس کی نظیر کہیں سے نہیں لا سکتے.اس مطالبہ میں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے کی بھی کوئی شرط نہیں اور نہ یہ شرط ہے کہ اپنے پاس سے کوئی پیشگوئی کریں بلکہ اجازت دی ہے کہ خواہ خود بنالیں یا پچھلی کتب سے جو خواہ الہامی ہو خواہ غیر الہامی نکال کر پیش کر دیں اور پھر مطالبہ بھی نہایت چھوٹا رکھا ہے کہ ایسی ایک ہی پیشگوئی پیش کر دیں حالانکہ قرآن کریم میں اور بھی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں اور پھر دشمن کے عاجز رہنے کی وجہ بھی بتا دی ہے کہ ایسی پیشگوئی کے بیان کرنے کے لئے تو زمین اور آسمان کے خالق اور خزانوں کے مالک اور نگران اور روحانی ترقی کے مالک اور غیب کے مالک کی ضرورت ہے اور یہ باتیں ان میں موجود نہیں پس یہ کیونکر اس کی مثل بنا سکتے ہیں؟ دوسرے حصہ کو یعنی پہلی کتب سے مثال نہ لا سکنے کے دعویٰ کو ردّ کرنا ضروری نہیں سمجھا کیونکہ وہ کتب سچی تھیں صرف درجہ کا سوال تھا یہ مطالبہ بھی باقی مطالبوں کی طرح اب تک قائم ہے.اب کیا کوئی انسان خواہ کسی مذہب کا ہو.سورۃ طور کی اس آیت کی مثل لانے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ اگر ہے تو آگے آ کر اُسے پیش کرے.پانچواں مطالبہ سورۃ بقرہ کا ہے جس کی تشریح اوپر گذر چکی ہے.اوپر کی تشریحات سے یہ امر ثابت ہے کہ درحقیقت یہ پانچوں مطالبے الگ الگ ہیں اور سب ایک ہی وقت

Page 347

میں قائم ہیں کوئی مطالبہ کسی دوسرے مطالبہ کو منسوخ نہیں کرتا.اور سب غلطی اس امر سے لگی ہے کہ خیال کر لیا گیا ہے کہ جہاں جہاں مثل طلب کی گئی ہے وہاں صرف فصیح عربی کی مثل طلب کی گئی ہے اور سب آیتو ںمیں ایک ہی مطالبہ ہے حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے ان پانچ سورتوں میں ایک ہی مطالبہ نہیں بلکہ مختلف مطالبے ہیں اور ہر مطالبہ کے مناسب حال پورے قرآن یا بعض قرآن کی مثل طلب کی گئی ہے.اوپر کی تشریح سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ مثل کا مطالبہ انہی سورتوں تک محدود ہے جن میں اس دعویٰ کو پیش کیا گیا ہے کیونکہ گو ایک جگہ سارے قرآن کی مثل لانے کا اور ایک جگہ دس سورتوں کی مثل لانے کا اور ایک جگہ اِس دعویٰ کی مثل لانے کا مطالبہ ہے جو سورہ طٰہٰ کے شروع میں بیان کیا گیا ہے اور سورہ یونس کا مطالبہ بھی اسی مضمون کے متعلق ہے جو سورہ یونس میں بیان ہوا ہے مگر سورہ بقرہ کا مطالبہ عام ہے کیونکہ سورہ بقرہ کے شروع میں جو مضمون ہے وہ ساری سورتوں میں مشترک ہے.قرآن کریم کی ہر ایک سورۃ گذشتہ انبیاء کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والی ہے.(دیکھو سورہ فاتحہ میں بسم اللہ کی حل لغت ) اسی طرح سب کی سب سورتیں ریب والی تعلیم سے پاک ہیں اور سب ہی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ہیں پس اِس سورۃ میں جو مطالبہ ہے وہ باقی ساری سورتوں کے متعلق بھی ہے اور کسی ایک سورۃ کی مثل بھی اگر کوئی ان شرائط کے مطابق لے آئے جو سورہ بقرہ کے شروع میں بیان ہوئی ہیں اور جو سب سورتوں میں پائی جاتی ہیں وہ قرآنی دعویٰ کو غلط ثابت کرنے والا ہو گا مگر ایسی مثل لانی ناممکن ہے اورجو شخص ایسی کوشش بھی کرے گا مُنہ کی کھائے گا.ایک جاہل شخص نے جو عربی بھی صحیح طور پر نہ لکھ سکتا تھا چند سال ہوئے تمسخر کے رنگ میں قرآن کریم کی مثل پیش کی تھی آج اس کا نام و نشان بھی کہیں باقی نہیں اور قرآن کریم کے پیش کردہ امورمیں سے صرف ایک امر کو لے لیا جائے یعنی هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠کو تو اس کا دعویٰ مثل کا جھوٹا ہو جاتا ہے کیونکہ اس کا تو ماننے والا دنیا میں کوئی بھی نہیں پھر وہ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کیونکر ہوئی؟ هُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۠ کے الفاظ کتاب کے الہامی ہونے پر بھی دلالت کرتے ہیں اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو الہام کا جھوٹا دعویٰ کرے تباہ کر دیا جاتا ہے کسی زمانہ میں ُمسیلمہ کذّاب نے بھی جھوٹے الہام کا دعویٰ کیا تھا مگر چند ہی سال میں ہلاک ہوا اور اُس کی تباہی نے اور قرآن کریم کے قائم رہنے نے بتا دیا کہ اُس کا پیش کردہ کلام قرآن کریم کی مثل نہ تھا.امام رازیؒ نے ایک مضحکہ خیز کلام اس کا نقل کیا ہے جو اس نے سورۃ الکوثر کے مقابل پر پیش کیا تھا جو یہ ہے اِنَّا اَعْطَیْنَاکَ الْجَمَاھِرَ فَصَلِّ لِرِبِّکَ وَ ھَاجِرْ اِنَّ مُبْغِضَکَ رَجُلٌ کَافِرٌ.اس کلام کو مثل قرار دینا کسی مجنون کا کام ہے یہ تو اس سے بھی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص غالب اور میر کی غزلوں کو لے کر اس میں بعض الفاظ بدل کر غالبؔ او ر میرؔ کے مدِّمقابل ہونے کا دعوٰی کرے.قرآن کریم کی ہی

Page 348

سورۃ میں سے بعض الفاظ بدل کر ایک کلام پیش کرنا اور وہ بھی معنے اور مطلب سے عاری حالانکہ سورہ کوثر زبردست پیشگوئیو ںپر مشتمل ہے جن میں سے بہت سی غیر معمولی حالات میں پوری ہو چکی اور بعض پوری ہونے والی ہیں ایک مجنون ہی کا کام ہو سکتا ہے اور بعض مسیحی مصنفوں کا اس پوچ عبارت کو قرآن کریم کی سورۃ کے مدِّمقابل پیش کرنا یقینا ان کے تقویٰ کو اچھی شکل میں پیش نہیں کرتا.مگر میں پھر کہتا ہوں قرآن کریم کا دعویٰ ہر سورۃ کے بارہ میں ہے کہ اس پر قیامت تک عمل کیا جائے گا مگر ُمسیلمہ کا کلام کہاں ہے اور اُسے کون مانتا ہے؟ حصہ آیت مِمَّا نَزَّلْنَاسے بعض مفسرین کا نَزَّلْنَا کے لفظ سے ایک غلط استنباط مِمَّا نَزَّلْنَا… …الخ اس آیت کے متعلق ایک یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بعض مفسّرین نے کفار کے شبہ کی وجہ نَزَّلْنَا کے لفظ کو قرار دیا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ چونکہ نَـزَّلَ بابِ تفعیل سے ہے اور بابِ تفعیل میں ایک خاصیّت آہستہ آہستہ یا بار بار فعل کے صدور کی پائی جاتی ہے اس لئے مراد یہ ہے کہ اے کفار! اگر تم کو قرآن کے آہستہ آہستہ اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے نازل ہونے پر اعتراض ہے اور تمہارے نزدیک سارا قرآن اکٹھا اُترتا تو اور بات تھی مگر وہ چونکہ آہستہ آہستہ پیش کیا جا رہا ہے اور آہستہ آہستہ پیش کرنے میں اس کے مصنف کو آسانی رہتی ہے کہ جوں جوں واقعات پیش آتے جائیں وہ ان کے مطابق کلام بناتا جاتا ہے اس لئے وہ معجزانہ کلام نہیں ہو سکتا تو ہم تم کو کہتے ہیں کہ تم ایک ٹکڑا ہی قرآن جیسا بنا دو اگر تم ایک ٹکڑا ہی بنا سکے تو تمہارا اعتراض درست ہو گا ورنہ نہیں.معناً تو یہ استنباط لطیف معلوم ہوتا ہے لیکن عربی زبان کے قواعد کے لحاظ سے یہ امر درست نہیں ثابت ہوتا کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بابِ تفعیل میں تکرار اور کثرت کا مفہوم پایا جاتا ہے جن کے مجرّد کا صیغہ متعدی ہو مثلاً ضَرَبَ کا لفظ ہے اس کے معنی ہیں کسی کو مارا یہ متعدّی ہے اس کو اگر ضَرَّبَ بنا دیا جائے تو اس میں تکرار اور شدّت کے معنے پیدا ہو جائیں گے اور ضَرَبَ کے معنے اگر مجرّد مارنے کے ہوں گے تو ضَرَّبَ کے معنے بار بار اور خوب مارنے کے ہوں گے.یا ذَبَـحَ کا لفظ ہے اس کے معنے کسی کو ذبح کرنے یا ہلاک کرنے کے ہوتے ہیں اگر ذَبَّـحَ کہیں گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ اسے بار بار ذبح کیا یعنی ایک ہی وار میں ذبح نہیں کر دیا بلکہ بار بار چھری پھیر کر آہستہ آہستہ ذبح کیا مگر نَزَلَ جو نَزَّلَ کا مجرد ہے اس کے معنے اُتارنے کے نہیں ہوتے بلکہ اُترنے کے ہوتے ہیں یعنی وہ لازم ہے متعدی نہیں اس صورت میں نَزَّلَ کی زاء کا دوبارہ لانا صرف اسے متعدی بنائے گا بار بار یا آہستہ آہستہ اُتارنے کے معنے نہ دے گا.کیونکہ عربی زبان کا اصل قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی حرف زیادہ کیا جائے تو وہ کچھ نہ کچھ زیادتی معنوں میں کرتا ہے اور اس جگہ لازم کو متعدّی بنا کر زیادتی حرف نے اپنی غرض کو پورا کر دیا ہے.اس امر کا مزید ثبوت کہ خالی نَزَّلَ کے

Page 349

لفظ سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا اس امر سے بھی ہو سکتا ہے کہ کفار کا یہ اعتراض کہ قرآن کریم کیوں ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا جس آیت میں بیان کیا گیا ہے اس کے الفاظ یہ ہیں.وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً(الفرقان :۳۳) یعنی کفار کہتے ہیں کہ کیوں اس پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہیں اُتارا گیا اور اس آیت میں بھی نُزِّلَ ، زَاء کی تضعیف سے استعمال ہوا ہے پس کم سے کم اس آیت میں نَزَّلَ (بِتَشْدِیْدِالزَّاءِ) سارے قرآن کے اکٹھا نازل ہونے کے معنوں میںاستعمال ہوا ہے ؟پس جب اکٹھا اُتارنے کے لئے بھی تَنْزِیْل کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس آیت سے یہ استدلال کرنا کہ اس جگہ قرآن کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اُتارنے پر اعتراض ہے درست ثابت نہ ہوتا کیونکہ کفار کے مُنہ سے اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو بیان کرتے وقت اُنْزِلَ کا لفظ بیان نہیں کیا بلکہ نُزِّلَ کا لفظ بیان فرمایا ہے.پس اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں معلوم ہوتا لیکن اس کے یہ معنے نہیں کہ نَزَّلَ تشدید کے ساتھ کہیں بھی آہستہ آہستہ اُترنے کے معنوں پر دلالت نہیں کرتا.کیونکہ بعض جگہ پر اس لفظ کے بعد مصدر بھی لایا گیا ہے جیسے نَزَّلْنٰهُ تَنْزِيْلًا کہا گیا ہے (بنی اسرائیل :۱۰۷) جس سے یہ غرض پوری ہو گئی ہے اور مصدر کی زیادتی نے وہ معنے پیدا کر دیئے ہیں مگر بہرحال آیت زیر تفسیر میں بار بار اور آہستہ اُترنے پر اعتراض نہیں بلکہ توحید کے مضمون پر اعتراض ہے جو اس آیت سے پہلے بیان ہؤا ہے اور مراد یہ ہے کہ توحید کی تعلیم نے دلوں میں قسم قسم کے شک پیدا کر دیئے ہیں.فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَ قُوْدُهَا اور اگر تم نے (ایسا) نہ کیا اور تم ہرگز (ایسا )نہ کر سکو گے تو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں بچو.النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ۰۰۲۵ وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے.حَلّ لُغَات.فَاتَّقُوْا.فَاتَّقُوْا بَابِ اِفْتِعَالسے امر جمع کا صیغہ ہے اور اِتَّـقٰی.یَتَّـقِیْ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۳.وَقُوْدُھَا.اَلْوَقُوْدُ.مَا تُوْ قَدُ بِہِ النَّارُ مِنَ الْحَطَبِ.ایندھن جس سے آگ جلائی جاتی ہے.(اقرب) اَلْـحِـجَارَۃُ.اَلْـحِـجَارَۃُ اَلْـحَجَرُ کی جمع ہے اور اَلْحَجَرُ کے معنی ہیں اَلْجَوْھَرُالصُّلْبُ پتھر (مفردات) اس کی

Page 350

جمع اَحْجَارٌ بھی آتی ہے اور حَجَرَانِ سونے اور چاندی کو کہتے ہیں (اقرب) اُعِدَّتْ.اَعَدَّ سے ماضی مجہول مؤنث کا صیغہ ہے اور اَعَدَّہٗ لِاَمْرِکَذَا کے معنی ہیں ھَیَّأَہٗ وَاَحْضَرَہٗ اس کو اس کے لئے تیار کیا اور حاضر کیا (اقرب) پس اُعِدَّتْ کے معنے ہوں گے وہ تیار کی گئی ہے اور حاضر رکھی گئی ہے.اَلْکَافِریْنَ.اَلْکَافِرِیْنَ اَلْکَافِرُ کی جمع ہے اور یہ کَفَرَ کا اسم فاعل ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۷.تفسیر.فرماتا ہے کہ اگر تم اس دعویٰ کا مقابلہ نہ کر سکو اور قرآن کریم کی کسی سورۃ کی مثل نہ لا سکو اور وہ امور جو یہاں بیان کئے گئے ہیں اپنے کلام میں بتا نہ سکو اور تم ایسا کبھی نہ کر سکو گے تو سمجھ لو کہ یہ کلام خدا تعالیٰ کا ہے اور تم انسان کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا مقابلہ کر رہے ہو اور اس صورت میں تم کو اِس سزا کے بھگتنے کے لئے بھی تیار ہو جانا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی صداقتوں کا مقابلہ کرنے والو ںکو ملتی ہے.حصہ آیت وَلَنْ تَفْعَلُوْاکے دو معنی وَلَنْ تَفْعَلُوْا کے معنے یہ بھی ہیں کہ تم ایسا ہر گز نہ کر سکو گے اور یہ بھی کہ تم ایسا نہیں کرو گے.دوسرے معنوں کے رُو سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو کفار خدا تعالیٰ کے ساتھ بعض ہستیوں کو شریک قرار دیتے تھے مگر اپنے دلوں میں جانتے تھے کہ ان میں الہام نازل کرنے کی طاقت نہیں اور وہ کبھی وحی نازل نہیں کرتے پس وہ کس منہ سے اپنے شہداء کو بلاتے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب مشرکوں کو توجہ دلائی کہ اپنے معبودوں سے پوچھو کہ وہ فلاں امر کے بارہ میں کیا کہتے ہیں تو انہوں نے مجبور ہو کر جواب دیا کہ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هٰؤُلَآءِ يَنْطِقُوْنَ (الانبیاء :۶۶) یعنی تم جانتے ہو کہ وہ بولتے نہیں.اسی طرف قرآن کریم بھی اشارہ کرتا ہے کہ ہم تو اس کلام کو خدا تعالیٰ کے کلام کے طور پر پیش کرتے ہیں تم کو بھی یہ کہنا ہو گا کہ ہمارے بتو ںنے یا خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے خود ساختہ معبودوں نے اس سورۃ کے مضامین ہمیں بتائے ہیں جو قرآن کریم کے مقابل پر ہم پیش کرتے ہیں مگر تم شرک کے دعوے تو بہت کرتے ہو مگر اس مقابلہ کے لئے تم کبھی تیار نہیں ہو گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ تمہارے معبود تمہارے ذہنوں میں ہی ہیں ان کا خارجی وجود کوئی نہیں ا ور وہ زندہ خدا کی طرح بول نہیں سکتے.وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ کا مطلب جس سزا سے ڈرایا گیا ہے اس کے متعلق بتایا کہ وہ سزا آگ ہے جس کا ایندھن ناس اور حجارہ ہیں.نار کے معنی اگر دوزخ کے کئے جائیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ جس دوزخ میں کافر جائیں گے اِس کا ایندھن کچھ انسان اورپتھر ہیں یعنی مشرک اور ان کے بُت جن کو وہ پُوجتے ہیں چنانچہ ایک دوسری جگہ آتا ہے اِنَّكُمْ وَ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ حَصَبُ جَهَنَّمَ (الانبیاء :۹۹) تم اور تمہارے بُت جہنم میں جائو

Page 351

گے.یہ بھی مراد ہے کہ وہ آگ پتھروں کی ہو گی جو زیادہ سخت ہوتی ہے جیسے پتھر کے کوئلہ یا چوُنہ کے پتھر کی آگ نہایت سخت ہوتی ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایندھن کا لفظ استعارہ کے طور پر ہو اور معنے یہ ہوں کہ اس آگ کے بھڑکانے کا موجب انسانوں اور پتھرو ںکا تعلق ہو گا یعنی بُت پرستی.حصہ آیت وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ میں نَاس اور حِجارۃ کی تشریح بانیءِ سلسلہ احمدیہ کے قلم سے اور اس کی تائید قرآن مجید سے نَاس او رحِـجَارۃ کی تشریح بانی ئِ سلسلہ احمدیہ نے یہ کی ہے کہ ان الفاظ سے دوزخیوں کی دو اقسام بیان کی گئی ہیں ایک وہ جو کسی قدر محبت الٰہی اپنے دل میں رکھتے ہیں اور ناس کے لفظ سے جو محبت پر دلالت کرتا ہے بالکل خارج نہیں ہو گئے مگر ایک گروہ دوزخ میں وہ جائے گا جو حجارۃ کے مشابہ ہو گا یعنی ان کے دل محبت ِ الٰہی سے بالکل سرد ہوں گے او روہ پتھروں کی مانند ہوں گے کہ کوئی رأفت اور شفقت ان کے دلو ںمیں باقی نہ رہی ہو گی.یہ معنے نہایت لطیف ہیں اور قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں کفار کو پتھروں سے مشابہت دی گئی ہے چنانچہ یہود کی نسبت فرماتا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً (البقرۃ:۷۵) یعنی اللہ تعالیٰ کے نشانات دیکھنے کے بعد بھی تمہارے دل پتھروں کی طرح ہو گئے بلکہ بعض کے دل تو پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے پس اس تشبیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اس آیت کے یہ معنے ہیں کہ دوزخ کی آگ میں عام کفار بھی ڈالے جائیں گے اور وہ لوگ بھی جو شقاوت کی وجہ سے پتھروں کے مشابہ ہو گئے ہیں.اگر کہا جائے کہ اس صورت میں تو حجارۃ کو پہلے بیان کرنا چاہیے تھا اور ناس کو بعد میں کیونکہ وہ لوگ جو پتھروں کی طرح ہو گئے ہیں دوزخ کے زیادہ مستحق ہیںتو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں فرمایا یہ گیا ہے کہ فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِيْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ(البقرۃ:۲۵).یعنی تم کو آگ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ظاہر ہے کہ اس حکم سے فائدہ اٹھانے کی زیادہ قابلیت انہی لوگوں میں ہو سکتی ہے کہ جو کسی قدر انسانیت کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہوں پس موقع کے لحاظ سے ناس کا لفظ حجارۃ سے پہلے ہی رکھنا مناسب تھا.قرآن کریم نے شرارت کے لحاظ سے بھی کفار کے دو نام رکھے ہیں جِنّ اور نَاس اور سزا کے لحاظ سے بھی دو نام رکھے ہیں حجارۃ اور ناس.سورۃ الناس میں فرماتا ہے اَ لَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ.مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ (الناس:۶،۷) یعنی وسوسے ڈالنے والے وجود سے میں پناہ مانگتا ہوں جو کبھی جِنّ ہوتا ہے اور کبھی انسان.اس محاورہ کا استعمال سورۃ حٰم سجدہ میں بھی ہوا ہے وہاں فرماتا ہے کہ دوزخ میں ڈالے جانے کے وقت عام دوزخی کہیں گے کہ

Page 352

رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَيْنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ نَجْعَلْهُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِيَكُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِيْنَ(حٰمٓ السجدۃ :۳۰) یعنی اے ہمارے رب جن لوگوں نے ہم کو گمراہ کیا تھا خواہ جِنّتھے خواہ اِنس ان کو ہمارے حوالے کر کہ انہیں خوب پائوں تلے روندیں.اس آیت میں بھی گمراہ کرنے والے انسانوں کو دو گروہ قرار دیا ہے ایک کو جِنّ کہا ہے اور ایک کو اِنس (جِنّ کی پوری تشریح کے لئے دیکھوالحجرآیت ۲۸ ) غرض گمراہ کرنے کے لحاظ سے کفاّر کی دو قسمیں بتائی گئی ہیں جِنّ اور اِنس.اور سزا کے لحاظ سے بھی دو قسمیں بتائی ہیں ناس اور حجارہ.اس فرق کی یہ وجہ ہے کہ شرارت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے تو اخفا کے پہلو پر زور دینا ضروری ہوتا ہے کیونکہ شریر لوگ ہمیشہ باریک راہوں سے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں.اگر وہ اپنی شرارتوں کو ظاہر کر دیں تو لوگ ان کے فریب میں نہ آویں پس ان کی اس کوشش کے مدِّنظر ان کا نام جِنّ رکھا لیکن سزا کا جب ذکر ہو تو ان کی سزا کی سختی کی وجہ بتانے کے لئے ان کے دلوں کی سختی کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہوتا ہے تا سزا کے ذکر کے ساتھ اس کی سختی کی معقولیت بھی ثابت ہو پس ایسے موقع پر انہی انسانوں کو جو شرارت اور فساد کے لحاظ سے جِنّ کہلاتے تھے دوزخ کی سزا کے لحاظ سے پتھر کے نام سے یاد کیا.گو اِس آیت میں آگ اور خصوصاً پتھروں کی آگ کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ماَبعدَالموت سزا اور جزا کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم نے بیان کیا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے جیسا کہ آگے چل کر مختلف آیات کے ماتحت بتایا جائے گا صرف عذاب اور ثواب کو انسانی ذہن کے قریب لانے کے لئے وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن کو انسان اس دنیا میں سمجھتا ہے تا وہ بعدَ الموت عذاب یا ثواب کی کیفیتوں کو ایک حد تک سمجھ سکے.اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَکا مطلب اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ عذابِ الٰہی صرف انکار کی صورت میں آتا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو نجات کے لئے پیدا کیا ہے.اِس آیت سے بعض مسلمانو ں کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مومن و کافر دوزخ کا مزہ تھوڑا بہت ضرور چکھے گا کیونکہ اس آیت سے صاف ثابت ہے کہ دوزخ صرف کفار کے لئے تیار کی گئی ہے مگر یہ بھی اس کے معنی نہیں کہ کوئی مومن کہلانے والا دوزخ میں نہ جائے گا کیونکہ قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو جو اسلام کی تعلیم پر پوری طرح عمل نہیں کرتے اور اپنی اصلاح کی بھی کوشش نہیں کرتے بمنزلہ کفار کے قرار دیا ہے پس ایسے لوگ جو عقیدۃً مسلمان ہوں لیکن عملاً کفار کا سا رنگ رکھتے ہوں اس آیت کے مضمون کی وجہ سے عذاب سے محفوظ نہیں سمجھے جا سکتے.یہ بھی یاد رہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے سزا دائمی اور ابدی نہیں ہوتی نہ اس کی غرض انتقام اور بے حکمت

Page 353

تکلیف دینا ہے بلکہ اسلام کی تعلیم کے رو سے سزا وقتی ہوتی ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ وہ پاکیزگی پیدا کی جائے جو انسان کو اللہ تعالیٰ کے قرب کے قابل بنا دے اور اس کی حیثیت ایک شفا خانہ کی ہے جو بیماری کے علاج کے لئے مقرر کیا جاتا ہے.اس کی تفصیل آئندہ متعلقہ آیات کے ماتحت آئے گی.(مثال کے لئے دیکھو سورۃ ہود آیت ۱۰۹) وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ اور تو ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں اور انہوں نے نیک عمل کئے ہیں خوشخبری دے کہ ان کے لئے (ایسے) باغ ہیں تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جب بھی ان (باغوں )کے پھل میں سے کچھ رزق انہیں دیا جائے گا رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ وہ کہیں گے یہ تو وہی (رزق) ہے جو ہمیں اس سے پہلے بھی دیا گیا تھا اور ان کے پاس لایا جائے گا وہ (رزق ) مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۲۶ ملتا جلتا اور ان کے لئے ان (باغوں) میں پاک جوڑے ہوں گے اور ان (باغوں) کے اندر (ہمیشہ) بسیں گے.حَلّ لُغَات.بَشِّرْ.اَلْبَشَرَۃُ ظَاھِرُ الْجِلْدِ جلد کے اوپر کے حصہ کو بَشَرَۃٌ کہتے ہیں اور بَشَّرْتُہٗ کے معنے ہیں اَخْبَرْتُہٗ بِسَارٍّ بَسَطَ بَشَرَۃَ وَجْھِہٖ وَ ذَالِکَ اَنَّ النَّفْسَ اِذَا سُرَّتْ اِنْتَشَرَالدَّ مُ فِیْہَا اِنْتِشَارَ الْمَآءِ فِی الشَّجَرِ مَیں نے اُسے خوشخبری سنائی جس سے اُس کے چہرہ پر اثر ہوا اور چہرہ خوشی سے پھیل گیا.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نفس انسانی خوش ہو تو خون اس میں ایسے ہی پھیل جاتا ہے جس طرح درخت میں پانی.وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذابٍ اَلِیْمٍ فَاسْتِعَارَۃُ ذَالِکَ تَنْبِیْہٌ اَنَّ اَسَرَّ مَا یَسْمَعُوْنَـہُ الخَبَرُ بِمَایَنَالُھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ اور کفار کو عذاب کی خبر دیتے ہوئے بشارت کا لفظ استعمال کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ خوش کرنے والی بات جو وہ سنیں گے وہ اس عذاب کی خبر ہو گی جو انہیں پہنچے گا(مفردات) تاج میں ہے اَلْبَشَارَۃُ الْمُطْلَقَۃُ لَا تَکُوْنُ اِلَّابِالْخَیْرِ بشارت کا لفظ جب بغیر کسی قید کے بولا جائے تو اس سے مراد اچھی خبر ہوتی ہے.وَ

Page 354

اِنَّمَا تَکُوْنُ بِالشَّرِّ اِذَا کَانَتْ مُقَیَّدَۃً کَقَوْلِہٖ تَعَالٰی فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ اور وہ بُری چیز کے لئے اُس وقت بولا جاتا ہے جبکہ ساتھ کسی بُری بات کا ذکر ہو جیسے کہ آیت مذکورہ میں عَذَابٌ اَلِيْمٌکے ساتھ اسے مقیّد کیا گیا ہے وَالتَّبْشِیْرُ یَکُوْنُ بِالْخَیْرِ وَالشَّرِّکَقَوْلِہٖ تَعَالٰی فَبَشِّرْ ھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ لیکن تبشیر کا لفظ خیر اور شر دونوں معنوں کے ادا کرنے کے لئے بولا جاتا ہے وَقَدْ یَکُوْنُ ھٰذَا عَلٰی قَوْ لِہِمْ تَحِیَّتُکَ الضَّرْبُ وَعِتَابُکَ السَّیْفُ اور تبشیر کا یہ استعمال ایسا ہی ہے جیساکہ کسی شخص کو جو سخت غُصیلا ہو کہتے ہیں کہ تیرا تحفہ مار ہے اور تیری ناراضگی تلوار.یعنی معمولی غصہ میں ُتو تلوار نکال لیتا ہے اور کسی پر خوش ہو تو مار کا تحفہ دیتا ہے اسی طرح یہ کہہ دیا گیا کہ انہیں عذاب کی بشارت ملے گی وَالتَّبْشِیْرُ فِیْ عُرْفِ اللُّغَۃِ مُخْتَصَّۃٌ بِالْخَبَرِ الَّذِیْ یُفِیْدُ السُّرُوْرَ اِلَّا اَنَّہٗ بِحَسْبِ اَصْلِ اللُّغَۃِ عِبَارَۃٌ عَنِ الْخَبَرِ الَّذِیْ یُؤَثِّرُ فِی الْبَشَرَۃِ تَغَیُّرًا وَّھٰذَا یَکُوْنُ لِلْحُزْنِ اَیْضًا فَوَجَبَ اَنْ یَّکُوْنَ لَفْظُ التَّبْشِیْرِ حَقِیْقَۃً فِی الْقِسْمَیْنِ اور لفظ تبشیر عام لغت میں خوشی کی خبر دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن اصل لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کے معنی ایسی خبر دینے کے ہیں جس سے چہرہ پر اثر ہو اور یہ دونوں طرح ہو سکتا ہے خوشی سے بھی اور غم و اندوہ سے بھی.اس لئے در حقیقت یہ لفظ دونوں معنے اپنے اندر رکھتا ہے (تاج) اَلصَّالِحَاتُ.اَلصَّالِحَۃُ کی جمع ہے جو صَلَحَ سے نکلا ہے اور صَلَحَ الشَّیْءُ کے معنے ہیں ضِدُّ فَسَدَ کوئی چیز فساد سے پاک ہو گئی نیز کہتے ہیں ھٰذَ ایَصْلُحُ لَکَ اَیْ مِنْ بَا بَتِکَ یعنی یہ تیرے مناسب حال ہے اور صَالَحَہٗ کے معنے ہیں وَافَقَہٗ اس سے موافقت کی اَلصَّالِحُ کے معنے ہیں ضِدُّ الْفَاسِدِ فساد سے پاک وَالصَّلَاحِیَۃُ حَالَۃٌ یَکُوْنَ بِھَا الشَّیْءُ صَالِحًا وہ حالت جس سے کوئی چیز مناسب و موزوں ہو جائے (اقرب) پس صالحاتکے معنے ہوں گے وہ اعمال جو فساد سے پاک اور بامصلحت اور مناسب حال ہوں.جَنّٰتٌ.جَنَّۃٌ کی جمع ہے اور اَلْجَنَّۃُ جَنَّ میں سے ہے وَاَصْلُ الْجَنِّ سَتْرُ الشَّیْ ءِ یعنی جَنَّ کے اصل معنے کسی چیز کو ڈھانپنے کے ہیں.یُقَالُ جَنَّہُ اللَّیْلُ چنانچہ جَنَّہُ اللَّیْلُ کا محاورہ یہی معنے ادا کرنے کے لئے مستعمل ہے کہ رات نے اس کو ڈھانپ لیا.وَالْجَنَّۃُ کُلُّ بُسْتَانٍ ذِیْ شَجَرٍ یَسْتُرُ بِاَشْجَارِہِ الْاَرْضَ اور جنت ہر اُس باغ کو کہتے ہیں جس میں کثرت سے درخت ہوں اور وہ درختوں کے سایہ سے زمین کو ڈھانپ لے.وَقَدْ تُسَمَّی الْاَشْجَارُ السَّاتِرَۃُ جَنَّۃً اور ڈھانپنے اور چھپانے والے یعنی گھنے درختوں کو بھی جنت کہتے ہیں وَسُمِّیَتِ الْجَنَّۃُ اِمَّا تَشْبِیْھًا بِالْجَنَّۃِ فِی الْاَرْضِ وَاِنْ کَانَ بَیْنَھُمَا بَوْنٌ وَاِمَّا لِسَتْرِہٖ نِعَمَھَا عَنَّا الْمُشَارَ اِلَیْھَا بقَوْلِہٖ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ (السجدۃ:۱۸) اور جنت کو اس لئے جنت کے نام سے پکارا گیا ہے کہ یا تو وہ

Page 355

دنیاوی باغات کے مشابہ ہے اگرچہ ان میں اور اس میں بہت فرق ہے.یا اس وجہ سے ہے کہ اس کی نعمتیں ہم سے پوشیدہ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ میں فرمایا ہے کہ جنت کی نعماء کاکسی کو علم نہیں.(مفردات) اَ لْاَنْھٰرُ.اَلنَّھْرُ کی جمع ہے او ر اَلنَّھْرُ کے معنے ہیں مَجْرَی الْمَاءِ الْفَائِضِ بہنے والے پانی کے چلنے کی جگہ.وَجَعَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی ذٰلِکَ مَثَـلًا لِّمَایُدِرُّمِنْ فَیْضِہٖ وَفَضْلِہٖ فِی الْجَنَّۃِ عَلَی النَّاسِ قَالَ اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ نَهَرٍ(القمر:۵۵) اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے بطور مثال کے اپنے اس فیض اور فضل کو جو اس کے بندوں پر جنت میں بکثرت نازل ہو گا بیان کیا ہے.جیسے کہ فرمایا اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ نَهَرٍ کہ متقی باغات اور نہروں میں ہوں گے وَالنَّھَرُ اَلسَّعَۃُ تَشْبِیْھًا بِنَھْرِ المَآءِ.نَھَر کے معنی وسعت کے ہیں.نہر کا پانی چونکہ وسیع ہوتا ہے اس لئے اس کو اس پر قیاس کر لیا.چنانچہ کہتے ہیں نَھْرٌ نَھِرٌ اَیْ کَثِیْرُ الْمَآءِ بہت پانی والا دریا.(مفردات) اَزْوَاجٌ.زَوْجٌ کی جمع ہے اور زَوْجٌ کے معنے ہیں کُلُّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرُ مِنْ جِنْسِہٖ ہر اک وہ چیز جس کے ساتھ اُس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو (اقرب) عام لوگ زَوْجٌ کے معنے سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ زَوْجٌ کے معنے جوڑے کے ہیں حالانکہ عرب لوگ اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے زَوْجٌ کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ وہ تثنیہ کا صیغہ بولتے ہیں مثلاً وہ کبوتروں کے جوڑے کے لئے (مذکر اور مؤنث کے لئے) زَوْجُ حَمَامٍ نہیں کہیں گے بلکہ زَوْجَانِ مِنْ حَمَامٍ کہیں گے.اسی طرح دو موزوں کے لئے زَوْجَانِ مِنْ خَفَافٍ کہیں گے چنانچہ قرآن مجید میں سورہ ہود کی آیت قُلْنَا احْمِلْ فِيْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ (ھود:۴۱)بھی اس استعمال کو واضح کرتی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ زوج کے معنے نرو مادہ کے نہیں بلکہ یا نریا مادہ کے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے اس آیت میں اِثْنَیْنِ کا لفظ لگا کر واضح کر دیا گیا ہے کہ مراد دو ہم جنس جانور ہیں نہ کہ دو جوڑے (یعنی چار جانور مراد نہیں) حضرت نوح ؑ کو حکم تھا کہ ضروری جانوروں میں سے ایک ایک نر اور ایک ایک مادہ اپنے ساتھ رکھ لیں.پس آیت وَلَہُمْ فِیْھَا اَزْوَاجٌ میں اَزْوَاجٌ سے مراد ہم جنس ساتھی کے ہیں یعنی ایسے وجود جن کے ساتھ مل کر تمام ترقیاں اور تمام آرام مکمل ہوں گے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے ذات باری کے ہر چیز ایک جوڑے کی محتاج ہے اس قاعدہ کے مطابق جنتی بھی جوڑوں کے محتاج ہوں گے خواہ مرد ہوں یا عورتیں.باقی رہا یہ سوال کہ وہ جوڑے کس قسم کے ہوں گے یہ تفصیل اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے.انسان اس کو تفصیلاً اسی وقت معلوم کرے گا جب وہ جنت میں جائے گا.

Page 356

مُطَھَّرَۃٌ.مُطَھَّرَۃٌ طَھَّرَ سے اسم مفعول مؤنث کا صیغہ ہے اور طَھَرَ (مجرّد) کے معنی ہیں ضِدُّ نَجِسَ پاک ہو گیا اور طَھَّرَہٗ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ طَاھِرًا اسے پاک کیا (اقرب) مفردات میں ہے اَلطَّھَارَۃُ ضَرْبَانِ طَھَارَۃُ جِسْمٍ وَ طَھَارَۃُ نَفْسٍ پاکیزگی دو قسم کی ہوتی ہے (۱) جسمانی (۲) باطنی.پس اَ زْوَاجٌ مُّطَھَّرَۃٌ کے معنے ہوں گے پاک ساتھی.خَالِدُوْنَ.خَالِدُوْنَ خَلَدَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور اَلْخُلْدُ کے معنے عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اَلْبَقَاءُ باقی رہنا.اَلدَّوَامُ چلتے ہی چلے جانا.اور خَلَدَ (یَخْلُدُ) خُلُوْدًا کے معنے ہیں دَامَ وَ بَقِیَ دائم رہا اور باقی رہا کہتے ہیں خَلَدَ الرَّجُلُ خَلْدً ا وَ خُلُوْدًا اَیْ اَبْطَأَ عَنْہُ الْمَشِیْبُ وَ قَدْ اَ سَنَّ کہ اس آدمی کی عمر زیادہ ہو گئی.اور بڑھاپا نہ آیا.خَلَدَ بِالْمَکَانِ وَاِلَی الْمَکَانِ کے معنے ہیں اَقَامَ بِہٖ کسی جگہ میں ٹھہر گیا بس گیا اور جب خَلَدَ اِلَی الْاَرْضِکہیں تو یہ معنے ہوں گے کہ لَصِقَ بھَا وَاطْمَأَنَّ اِلَیْھَا کہ وہ زمین پر چمٹ گیا اور اس پر مطمئن ہو گیا (اقرب) کلّیاتِ اَبی البقاَء میں ہے کُلُّ مَایَتَبَاطَأُ عَنْہُ التَّغَیُّرُ وَالْفَسَادُ تَصِفُہُ العَرَبُ بِالْخُلُوْدِ کَقَوْلِھِمْ لِلْاَ یَّامِ خَوَالِدُ وَ ذٰلِکَ لِطُوْلِ مَکْثِھَا لَا لِلدَّ وَامِ کہ ہر وہ چیز جس سے تغیر اور فساد دُور رہے اس پر عرب خُلُوْدٌ کا لفظ بولتے ہیں جیسے اَ یَّام کے لئے خَوَالِد کا لفظ بولتے ہیں او ریہ ان کی لمبائی کے لئے کہا جاتا ہے نہ اس لئے کہ وہ ہمیشہ رہتے ہیں اور مفردات میں ہے کہ اَلْخُلُوْدُ ھُوَ تَبَرِّ یُّ الشَّیْ ءِ مِنْ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ وَ بَقَاءُ ہٗ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِیْ ھُوَ عَلَیْہَا کسی چیز کا خراب ہونے سے محفوظ اور اپنی اصلی حالت پر رہنا خُلُودکہلاتا ہے وَاَصْلُ الْمُخَلَّدِ اَلَّذِیْ یَبْقٰی مُدَّۃً طَوِیْلَۃً اور مُخَلَّد کے اصلی معنے اس چیز کے ہیں جو ایک لمبے عرصہ تک رہے.ثُمَّ اسْتُعِیْرَ لِلْمَبْقِیِّ دَائِمًا پھر ہمیشہ رہنے والی چیز کے لئے یہ لفظ استعارۃً استعمال ہونے لگا.وَالْخُلُوْدُ فِی الْجَنَّۃِ بَقَاءُ الْاَشْیَاءِ عَلَی الْحَالَۃِ الَّتِیْ عَلَیْہَا مِنْ غَیْرِ اِعْتِرَاضِ الْفَسَادِ اور جنت میں خُلُوْد سے مراد یہ ہے کہ اشیاء بغیر خراب ہونے کے اپنی حالت پر رہیں گی.تفسیر.آیت وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا الخ میں مومنوں کےلئے انعامات کے طور پر جنات کا وعدہ اور مخالفین اسلام کے اس پر پانچ اعتراضات اس آیت میں مومنوں کے انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انہیں جناّت میں جگہ ملے گی جن کے ساتھ نہریں متعلق ہوںگی.مومنوں کے انعامات کا مسئلہ مخالفین اسلام کے لئے قابلِ اعتراض بنتا چلا آیا ہے اس پر ذیل کے اعتراض کئے جاتے ہیں.(۱) اس قسم کے انعام کا وعدہ انتہائی درجہ کی لالچ ہے اور کامل ایمان کے منافی ہے کیونکہ جس ایمان کا باعث لالچ ہو وہ ایمان نہیں کہلا سکتا.

Page 357

۲)ایمان کے نتیجہ میں مادی انعامات قرآن نے تجویز کئے ہیں جو قابل اعتراض ہے.(۳) اگر مرنے کے بعد مادی انعامات ملنے ہیں تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک مرنے کے بعد پھر یہی جسم زندہ کیا جائے گا جو عقل کے خلاف ہے کیونکہ یہ جسم تو فنا ہو جاتا ہے اور ایک ہی جسم کے اجزاء کئی کئی انسانوں میں استعمال ہو جاتے ہیں پھر وہ جسم کس کس کو ملے گا؟ (۴) اِس آیت میں اور متعدد آیات میں بتایا گیا ہے کہ مومنوں کو جنت میں بیویاں ملیں گی اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں جنسی تعلقات بھی ہوں گے جو قابلِ اعتراض ہے اور جنسی تعلقات کی خواہش کا اخروی زندگی کے متعلق پیدا کرنا اور بھی قابلِ اعتراض ہے نیز جنسی تعلقات تو نسل چلانے کے لئے ہوتے ہیں پھر کیا وہاں بھی نسل چلے گی.(۵) جنات کی کیفیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک عیش و طرب کا مقام ہو گا نہ کہ روحانی اور یہ انعام قابلِ قدر نہیں.خلاصہ ان اعتراضات کا یہ ہے کہ اسلام نے محض نفسانی خواہشات کو انگیخت کر کے اُخروی زندگی کو بہت ادنیٰ درجہ دے دیا ہے اور اس طرح اس زندگی کا پاک مفہوم خراب کر دیا ہے.مخالفین اسلام کے مومنوں کے انعامات پر اعتراضات کی حقیقت کو سمجھنے کےلئے بعض امور کا ذکر ان اعتراضات کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ جنت کے اُس نقشہ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا جائے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے.اوّل.تو یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم نے صاف طور پر بیان کر دیا ہے کہ اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے.پس اس دنیا کی زندگی سے اُخروی زندگی کا قیاس کرنا درست نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ١ۚ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(السجدة:۱۸) یعنی کوئی انسان بھی اِس کو نہیں سمجھ سکتا کہ ان کے لئے اگلے جہان میں کیا کیا نعمتیں مخفی رکھی گئی ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے بارہ میں جو کچھ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ تمثیلی زبان میں ہے اور اس سے وہ مفہوم نکالنا درست نہیں جو اس دنیا میں اسی قسم کے الفاظ سے نکالا جاتا ہے.اگلے جہان کے انعامات کا سمجھنا انسانی عقل سے بالا ہے اس مضمون کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اَعْدَدْتُ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ(بخاری کتاب بدء الخلق باب ما جاء فی صفۃ الجنّۃ … و مسلم کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واھلہا) یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے آخرت کی زندگی میں وہ کچھ تیار کر چھوڑا

Page 358

ہے کہ جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے فکر نے اس کی حقیقت کو سمجھا ہے.اس تشریح سے بھی ظاہر ہے کہ جنت کی نعماء کی حقیقت اِس دنیا کی حقیقت سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اگر وہاں بھی اسی قسم کے مادی باغ اور مادی نہریں اور مادی پھل اور مادی بیویاں ہونی ہیں تو یہ چیزیں تو ایسی ہیں جنہیں آنکھوں نے دیکھا بھی ہے اور کانوں سے سنا بھی ہے اور فکر انسانی ان کی حقیقت کو سمجھتا بھی ہے.جنت کا نقشہ ازروائے قرآن مجید اصولی طور پر ان انعامات کے متعلق سورہ رعد میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اُكُلُهَا دَآىِٕمٌ وَّ ظِلُّهَا١ؕ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِيْنَ اتَّقَوْا١ۖۗ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِيْنَ النَّارُ(الرعد:۳۶) یعنی متقیوں کو جن جنات کا وعدہ دیا گیا ہے ان کی کیفیت یہ ہے کہ نہریں ان کے تابع ہو کر بہتی ہوںگی اور ان کے پھل بھی دائمی ہوں گے اور ان کے سائے بھی دائمی ہوں گے یہ مومنوں کا آخری مقام ہو گا اور کافروں کا آخری مقام آگ ہو گا.قرآن مجید میں بیان شدہ جنات مادی نہیں اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ باغات جو اُخروی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اِس دنیا کے باغوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے پھل بھی دائمی ہیں اور اُن کے سائے بھی دائمی ہیں یعنی ان میں زوال نہیں.لیکن مادی اشیاء میں زوال کا پیدا ہونا لازمی ہے کیونکہ مادی اشیاء میں تحلیل کا سلسلہ چلتا ہے اور جن چیزوں میں تحلیل کا سلسلہ چلے انہیں غذا کی ضرورت بھی ہوتی ہے اس کے برخلاف جن میں تحلیل کا سلسلہ نہ ہو ان کو غذا کی بھی ضرورت نہیں ہوتی.پس وہ جناّت ایسی ہیں کہ نہ غذا کی محتاج ہیں اور نہ ان پر فنا آتی ہے.ظاہر ہے کہ ایسی جناّت ہر گز مادی نہیں ہو سکتیں.جناّت کی تفصیل ایک اور جگہ قرآن کریم میں یوں بیان ہوئی ہے.مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ فِيْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَيْرِ اٰسِنٍ١ۚ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرْ طَعْمُهٗ١ۚ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ١ۚ۬ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ (محمد :۱۶) یعنی جس جنت کا وعدہ متقیوں کو دیا گیا ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اس میں نہریں بہتی ہیں ایسے پانی کی جس کے لئے سڑنا ناممکن ہو گا.اور ایسے دودھ کی نہریں بہتی ہیں جن کا مزہ کبھی بگڑا نہیں اور ایسی شرابوں کی نہریں رواں ہیں جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوتی ہیں اور ایسی شہد کی نہریں جاری ہیں جو بالکل مصفّٰے ہے موم وغیرہ کوئی شے اس میں نہیں.اور انہیں وہاں تمام اقسام کے پھل ملیں گے اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت بھی ملے گی.اس آیت میں جو امور بیان ہوئے ہیں ان سے ظاہر ہے کہ یہ جنتیں مادی نہیں کیونکہ جو پانی کبھی سڑے نہیں جو دودھ کبھی بگڑے نہیں جو شراب خمار پیدا نہ کرے جس

Page 359

شہد میں موم نہ ہو وہ ان مادی اقسام کی اشیاء میں سے تو ہو نہیں سکتا.قرآن مجید میں جنت میں خمار نہ پیدا کرنے والی شراب کا ذکر جنت کی شراب کے متعلق جو یہ آیا ہے کہ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ اور اس سے مَیں نے یہ استدلال کیا ہے کہ وہ خمار پیدا کرنے والی نہ ہو گی اس کا ثبوت قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ملتا ہے جس میں مذکور ہ بالا آیت کے مفہوم سے ملتا جلتا مضمون بیان ہوا ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِكَاْسٍ مِّنْ مَّعِيْنٍۭ.بَيْضَآءَ لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَ.لَا فِيْهَا غَوْلٌ وَّ لَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُوْنَ (الصافات:۴۶تا۴۸) یعنی مومنوں کے پاس چھلکتے ہوئے پیالے بار بار لائے جائیں گے.وہ سفید ہوں گےاور پینے والوں کے لئے موجب لذت ہوں گے نہ تو اُن سے خمار ہو گا او رنہ مومن ان کو پی کر مدہوش ہوں گے.اس آیت میں بھی لَذَّةٍ لِّلشّٰرِبِيْنَکے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور بعد میں لذت کی تشریح کر دی ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نہ تو نشہ ہو گا اور نہ نشہ اُترنے کے بعد کا خمار.اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیوی شراب حقیقی لذت کا موجب نہیں ہوتی بلکہ در حقیقت غفلت پیدا کر کے غم غلط کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے مگر جنت کی شراب نہ نشہ کرے گی اور نہ بعد کا خمار اس سے پیدا ہو گا.اسی طرح اس شراب کے بارہ میں ایک دوسری جگہ آتا ہے وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا(الدھر :۲۲) اللہ تعالیٰ انہیں وہ کچھ پینے کو دے گا جو پاک اور پاک کر دینے والا ہو گا.اسی طرح فرماتا ہے.يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ.خِتٰمُهٗ مِسْكٌ١ؕ وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ.وَ مِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِيْمٍ.عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ۠(المطففین:۲۶تا۲۹) مومنوں کو جنت میں خوشبودار شراب پینے کو دی جائے گی جس پر مہریں لگی ہوئی ہوںگی اور اس کا آخری حصہ مشک کا ہو گا اور چاہیے کہ جس نے خواہش کرنی ہو ایسی چیز کی خواہش کرے اور اس کی ملاوٹ کثرت اور بلندی سے ہو گی.وہ کثرت او ربلندی ایک چشمہ ہے جس سے مقرب لوگ پانی پیا کرتے ہیں.اسی طرح لکھا ہے يَتَنَازَعُوْنَ فِيْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِيْهَا وَ لَا تَاْثِيْمٌ (الطور :۲۴) یعنی مومن جنت میں ایسے شراب سے بھرے ہوئے پیالے ایک دوسرے سے چھین جھپٹ کر لیں گے جن میں نہ توکوئی لغو بات ہو گی اور نہ اس کو پی کر ایک دوسرے کو گالیاں دیںگے.اوپر کی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں ایک ایسی شراب ملے گی جو نہ نشہ لائے گی نہ خمار پیدا کرے گی.کثرت او ربلندی والے ایک چشمہ کا پانی ملا کر وہ مومنوں کو دی جائے گی.اس میں مشک کی سی خوشبو ہو گی.وہ پاک ہو گی اور جو اسے پئے گا اسے پاک کردےگی اور وہ ایسی شراب ہو گی کہ اس کے پینے والے نہ تو لغو باتیں کریں گے اور نہ ایک دوسرے کو گالیاں دیںگے.یہ تو جنت کی شراب کا حال بیان ہوا ہے لیکن دنیا میں جو شراب بنتی ہے وہ نشہ لاتی ہے اور اس کو پینے والے لغو باتیں کرتے ہیں اور بعض دفعہ گالیاں

Page 360

دینے لگتے ہیں.اس کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ.اِنَّمَا يُرِيْدُ الشَّيْطٰنُ اَنْ يُّوْقِعَ بَيْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِي الْخَمْرِ وَ الْمَيْسِرِ وَ يَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِ١ۚ فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ.(المائدة :۹۱،۹۲) یعنی اے مومنو! شراب اور جوَُا اور جو بتوں کے لئے عبادت گاہیں بنائی جاتی ہیں اور لاٹریاں سب گندی باتیں ہیں پس تم ان سے بچو تاکہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکو.شیطان تم میں شراب اور جوئے کے ذریعہ سے صرف عداوت اور بغض پیداکرنا چاہتا ہے نیز اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اور نماز سے روکنا چاہتا ہے پھر کیا تم ایسے اعلیٰ درجہ کے کاموں سے رُک جائو گے؟ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ شراب ایک گندی چیز ہے اس کا پینا شیطانی فعل ہے یعنی دین کے خلاف ہے اس سے عداوت اور بغض پیدا ہوتا ہے اور اس کے پینے سے ذکر الٰہی اور نماز میں روک پیدا ہوتی ہے.اب ان باتوں کو جنت کی شراب کی خصوصیات سے ملا کر دیکھو تو دونوں میں اندھیرے اور نور کا فرق نظر آتا ہے.اگر دنیا کی شراب کو گندہ کہا گیا ہے تو جنت کی شراب کو پاک اور پاک کرنے والی قرار دیا گیا ہے اگر دنیا کی شراب کو بغض اور عداوت پیدا کرنے والی بتایا گیا ہے تو اُخروی شراب کا نتیجہ یہ بتایا ہے کہ لغو باتیں کرنے اور گالی گلوچ سے وہ بچانے والی ہو گی.اگر دنیاکی شراب کو عمل شیطان کہا گیا ہے تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ وہ کثرت اور بلندی پیدا کرنے کا موجب ہو گی.اگر دنیوی شراب نشہ اور خمار پیدا کرنے والی ہوتی ہے تو اُخروی شراب کی نسبت کہا گیا ہے کہ نہ اس سے نشہ پیدا ہو گا اور نہ خمار.اگر دنیا کی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اس سے بچو تو اُخروی شراب کی نسبت یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی خواہش کرنی ہو تو وہ اس شراب کے حصول کی خواہش کرے.ان اختلافات سے روزِروشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ جنت کی وہ چیز جس کا نام شراب رکھا گیا ہے نہ صرف یہ کہ دنیوی شراب سے مختلف ہے بلکہ وہ مادی چیز بھی نہیں کیونکہ مادی چیز خواہ کیسی اعلیٰ بھی ہو وہ نہ تو دل کو پاک کر سکتی ہے اور نہ اس سے کثرت اور بلندی پیدا ہوتی ہے.کثرت اور بلندی تو کسی روحانی چیز سے ہی پیدا ہو سکتی ہے.جنت کی نعماء سے مراد بعض روحانی نعمتیں ہیں خلاصہ یہ کہ جنت کی نعمتوں کے نام گو دنیا کی چیزوں جیسے رکھے گئے ہیں لیکن ان سے مراد بعض رُوحانی نعمتیں ہیں نہ کہ کوئی جسمانی اشیاء.کجا یہ کہ وہی اشیاء جو اس دنیا میں پائی جاتی ہیں.صحابہؓ کے کلام سے بھی اس مفہوم کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لَیْسَ فِی

Page 361

الدُّنْیَا مِـمَّا فِی الْجَنَّۃِ (شَیْءٌ ) اِلَّا الْاَسْمَآء (تفسیر ابن جریر زیر آیت ھٰذا) یعنی جو کچھ جنت میں ہے اس دنیا میں صرف ان کے نام معلوم ہیں ان کی حقیقت معلوم نہیں.اُخروی زندگی میں باغات، نہروں ، پانی ، دودھ شراب اور شہد سے مراد غرض اُخروی زندگی میں باغات او رنہروں اور پانی اور دودھ اور شراب اور شہد سے مراد صرف یہ ہے کہ وہ بعض چیزیں ہوںگی جو اس قسم کی رُوحانی تاثیرات پیدا کریںگی جو یہ دنیا کی اشیاء مادی جسم پر پیدا کرتی ہیں سوائے شراب کے کہ اس کے سب خواص مراد نہیں بلکہ بعض خاص خواص مراد ہیں اور چونکہ اس کا نام استعمال کرنے سے دھوکہ لگ سکتا تھا.قرآن کریم نے اُخروی شراب اور دنیوی شراب کا فرق بالتفصیل بیان کر دیا.وہ دھوکہ جو شراب کے نام سے لگ سکتا تھا یہ تھا کہ کیا وہ شراب بھی عقل پر پردہ ڈالنے والی ہو گی اور جسمانی نشہ کی سی کیفیت پیدا کرے گی؟ سو اس کا جواب یہ دیا کہ ان باتوں میں اس کو دنیوی شراب سے مشابہت نہ ہو گی بلکہ اس کی مشابہت اور لحاظ سے ہے اور وہ مشابہت یہ ہے کہ جس طرح شراب انسان کے دماغ پر اثر ڈال کر یکسوئی پیدا کر دیتی ہے وہ شراب بھی یکسوئی پیدا کر دے گی اور اسے پی کر قلوب ُکلیّ طور پر خدا تعالیٰ کی محبت میں َمست اور مدہوش ہو جائیںگے.جنت کی نعماء کے دنیوی نام اختیار کرنے کی وجہ اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب جنت کی نعماء بالکل اور قسم کی ہیں اور روحانی ہیں توپھر دنیوی نام کیوں اختیارکئے گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب سب قسم کے لوگوں کے لئے ہوتا ہے مخالفوں کے لئے بھی اور ادنیٰ لوگوں کے لئے بھی اور اعلیٰ قسم کے لوگوں کے لئے بھی.ان امور کے متعلق جن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو ضروری ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ میں کلام کیا جائے کہ ان میں مخالفوں کا بھی جواب آ جاوے اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی تسلی کا بھی وہ موجب ہو اور اعلیٰ درجہ کے لوگ بھی اس سے فائدہ اُٹھا سکیں اس حکمت کو مدِّنظر رکھ کر قرآن کریم نے اُخروی نعماء کے لئے ایسے الفاظ استعمال کئے ہیں جو سب قسم کے لوگوں کے لئے ان کی عقل اور درجہ کے بموجب تشفیّ کا موجب ہوں چونکہ کفار کہا کرتے تھے کہ دیکھو! محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تو ہم سے سب قسم کی نعمتیں چھڑوانا چاہتے ہیں اور ان کی جماعت بھی تمام نعمتوں سے محروم ہے.اللہ تعالیٰ نے اُخروی نعمتوں کو ان کے ذہن کے قریب کرنے کے لئے وہ اشیاء جن کو وہ نعمت سمجھتے تھے انہی کے نام لے کر بتایا کہ مومنوں کو یہ سب کچھ حاصل ہو گا.یہ ایسی ہی بات ہے کہ جیسے کوئی مالدار کسی عالم سے کہے کہ میرے پاس مال ہے تو وہ عالم اپنے کتب خانہ کی طرف اشارہ کر کے کہے کہ میرے پاس تم سے بھی بڑھ کر خزانہ ہے اس

Page 362

جواب کا یہ مطلب ہر گز نہ ہو گا کہ ان کتب میں روپیہ بھرا ہوا ہے بلکہ صرف یہ کہ جس چیز کو تم خزانہ کہتے ہو اس سے زیادہ فائدہ والی چیز میرے پاس موجود ہے پس جب قرآنِ کریم نے یہ کہا کہ مومنوں کو وہ جنتیں ملیں گی جن میں سایہ دار درخت اور نہریں اور نہ خراب ہونے والا دودھ اور نہ سڑنے والا پانی اور موم اور آلائش سے پاک شہد اور نشہ نہ دینے والی بلکہ دل کو پاک کرنے والی شراب ہو گی تو اس سے ان کے اعتراض کا جواب اس رنگ میں دیا کہ جن چیزوں کو تم نعمت سمجھتے ہو وہ حقیقی مومنوں کو ملنے والے انعامات سے ادنیٰ ہیں.جن نہروںکو تم نعمت سمجھتے ہو ان کا پانی تو سڑ جاتا ہے مومنوں کو وہ نہریں ملیں گی جن کا پانی سڑنے والا نہ ہو گا اور جن باغوں کو تم نعمت خیال کرتے ہو وہ اصل نعمت نہیں اصل نعمت تو وہ باغ ہیں جو کبھی برباد نہ ہوں گے اور مومنوں کو ملیں گے.جس شراب کو تم نعمت سمجھتے ہو اس کی مومنوں کو ضرورت نہیں وہ شراب تو گندی اور عقل پر پردہ ڈالنے والی شےہے مومنوں کو تو خدا وہ شراب دے گا جو عقل کو تیز کرنے والی اور پاکیزگی بڑھانے والی ہو گی.اور جس شہد پر تم کو ناز ہے اس میں تو آلائش ہوتی ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو وہ شہد دے گا جو ہر آلائش سے پاک ہو گا اور جن ساتھیوں پر تم کو نا زہے وہ نعمت نہیں کیونکہ وہ گندے ہیں مومنوں کو اللہ تعالیٰ وہ ساتھی دے گا جو پاک ہوں گے جن پھلوں پر تم کو ناز ہے وہ تو ختم ہو جاتے ہیں مومنوں کو تو وہ پھل ملیں گے جو کبھی ختم نہ ہوں گے اور ہر وقت اور خواہش کے مطابق ملیں گے یہ مضمون ایسا واضح ہے کہ ہر شخص جو تعصّب سے خالی ہو کر غور کرے اس کے مفہوم کو سمجھ سکتا ہے اور اس کے لطیف اشارہ کو پا سکتا ہے مگر جو متعصّب ہو یا جاہل.اس کا علاج تو کوئی ہے ہی نہیں.مسیحی کتب میں اُخروی انعامات کا ذکر اور ان کے مسلمانوں پر اعتراضات کے جواب مسیحی معترضین کو ہی سب سے زیادہ اس کلام پر اعتراض ہے مگر وہ خود اپنی کتب میں نہیں دیکھتے کہ وہاں لکھا ہوا ہے ’’بلکہ مال اپنے لئے آسمان پر جمع کرو‘‘ (متی باب ۶ آیت ۲۰) اسی طرح لکھا ہے ’‘تو جا کے سب کچھ جو تیرا ہے بیچ ڈال اور محتاجوں کو دے کہ تجھے آسمان پر خزانہ ملے گا‘‘ (متی باب ۱۹ آیت ۲۱) اگر آسمان پر خزانہ جمع کرنا اور مرنے کے بعد آسمان پر خزانہ کا ملنا انسان کے لئے ممکن ہے تو جنتوں اور نہروں اور پانی اور دودھ اور شہد اور بے نشہ پاک کرنے والی شراب کا ملنا کیوں عقل کے خلاف ہے؟ اسی طرح لکھا ہے کہ مسیح ’’خدا کے تخت کے داہنے جا بیٹھا‘‘ (عبرانیوں باب ۱۲ آیت ۲) اگر خدا کو تخت پر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور مسیح کو بھی آسمان پر جا کر تخت کی ضرورت پیش آئی تو مومنوں کو جنتوں کی کیوں ضرورت نہیں اور اس پر کیا تعجب ہے؟ اگر ان کا جواب ہو کہ انجیل میں مذکور خزانہ سے مراد یہ ہے کہ جو کوئی شخص خدا تعالیٰ کے لئے اپنے خزانہ کو چھوڑے گا اسے خدا تعالیٰ روحانی خزانہ عطاکرے گا.اور خدا تعالیٰ کے

Page 363

تخت سے مراد لکڑی یا سونے چاندی کا تخت نہیں بلکہ اس سے مراد اس کے جلال کا تخت ہے تو یہی توجیہہ انہو ںنے قرآنی پانی اور دودھ اور شراب کی کیوں نہ کر لی اور کیوں نہ سمجھا کہ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ جب مومن خدا تعالیٰ کی خاطر پانیوں سے محروم کئے گئے، ان کے اموال چھین کر انہیں دودھ اور شہد سے محروم کر دیا گیا.انہوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے روزے رکھے اور خود اپنے لئے دوددھ اور شہد اور پانی کو حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلہ میں انہیں رُوحانی دودھ اور روحانی شہد اور روحانی پانی دے گا اور چونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے اوپر شراب کا استعمال حرام کر لیا تو اللہ تعالیٰ انہیں محبت کی شراب پلائے گا اور چونکہ وہ خدا کے لئے اپنے گھروں سے نکالے گئے یا انہو ںنے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو غریبوں کے ٹھہرنے کی جگہ اور مہمانوں کی آسائش کا مقام بنا دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی انہیں اپنی رحمت کے باغوں میں جگہ دی.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم میں جن باغوں اور نہروں اورپھلوں اور جس دودھ اور شہد اور شراب کا ذکر آتا ہے وہ اس دنیا کے باغوں اور نہرو ںاور پھلوں سے بالکل مختلف ہیں اور وہاں کا دودھ اور شہد اور شراب اس دنیا کے دودھ اور شہد اور شراب سے بالکل مختلف ہے اور قرآن کریم نے ان امور کی خود ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے بعد اس امر میں شک کرنا محض تعصّب کا اظہار ہے اور یہ محاورات چونکہ پہلی کتب میں بھی موجود ہیں اس لئے ان آیات میں کوئی ایسی بات نہیں جس کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہو.اخروی زندگی میں رُوح کے لئے جسم مَیں اس جگہ یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ مطلب نہیں کہ اخروی زندگی ایک ایسی روحانی زندگی ہو گی جو ُکلیّ طور پر جسم سے پاک ہو گی اور جہاں صرف دل کے احساسات پر ہی سب انعامات ختم ہو جائیں گے بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ رُوح اپنی ہر حالت میں ایک جسم کی محتاج ہے اور اخروی زندگی میں بھی اسے ایک جسم ملے گا جو اس مادی دنیا سے بالکل مختلف ہو گا.اخروی زندگی کو سمجھانے کیلئے عالم ِ خواب کا سلسلہ اور اس زندگی کے سمجھانے کے لئےاللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں عالم خواب کا سلسلہ جاری کیا ہے تاکہ انسان اگلے جہان کی زندگی کا کچھ اندازہ کر سکے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے کہ اُخروی زندگی اور عالم خواب کا ایک گہرا جوڑ ہے چنانچہ فرماتا ہے اَللّٰهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَ الَّتِيْ لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِهَا١ۚ فَيُمْسِكُ الَّتِيْ قَضٰى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَ يُرْسِلُ الْاُخْرٰۤى اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ۠(الزمر :۴۳) یعنی کفار اُخروی زندگی اور اس کے عذابو ںکے منکر ہیں حالانکہ اگر غور کریں تو انہیں اس کا ثبوت اپنی زندگیوں میں مل سکتا ہے.وہ دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر رُوح کو موت

Page 364

کے وقت قبض کر لیتا ہے اور جو مرتی نہیں اسے نیند کے وقت قبض کر لیتا ہے پھر جس پر تو موت کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے اسے اپنے پاس رہنے دیتا ہے اور دوسری رُوح کو یعنی سونے والے کی رُوح کو ایک وقت مقررہ تک کے لئے واپس کر دیتا ہے.اس مشاہدہ میں فکر کرنے والے لوگوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ موت اور نیند آپس میں مشابہ ہیں.صرف فرق یہ ہے کہ موت میں ُکلیّ طور پر رُوح کو مادی جسم سے علیحدہ کر دیا جاتا ہے اور نیند کے وقت اس کے تعلق کو عارضی طور پر مادی جسم سے قطع کر دیا جاتا ہے.اس عارضی قطعِ تعلق کے وقت روح انسانی کئی نظارے دیکھتی ہے اور اپنے لئے ایک نیا جسم اور نیا ماحول پاتی ہے اس سے اُخروی زندگی کے متعلق بہت کچھ قیاس کر سکتے ہیں.عالمِ خواب میں دیکھے ہوئے نظاروں کی تعبیریں اب ہم دیکھتے ہیں کہ نیند کی حالت میں جو انسان کو نظارے نظر آتے ہیں انہیں محض روحانی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ کبھی کوئی شخص خواب میں خالی رُوح نہیں دیکھتا بلکہ اس کے ساتھ ایک جسم بھی دیکھتا ہے اور بسا اوقات وہ اپنے آپ کو باغوں میں پاتا ہے اور نہروں میں دیکھتا ہے اور پھل کھاتا ہے اور دودھ پیتاہے.یہ بھی محض روحانی نہیں ہوتے بلکہ ظاہری شکل میں باغوں اور نہروں اور دودھ اور شہد وغیرہ سے مشابہ ہوتے ہیں مگر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خواب کا دودھ ظاہری دودھ ہے یا خواب کا پانی ظاہری پانی ہے بلکہ اس کا مفہوم روحانی عالم میں کچھ اور ہوتا ہے مثلاً جب کوئی شخص اپنے آپ کو ایک ایسے باغ میں دیکھتا ہے جس میں نہر چل رہی ہو اور اس کی یہ خواب اس کے کسی خیال کا نتیجہ نہ ہو بلکہ سچی ہو اور اللہ تعالیٰ نے دکھائی ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کا ایمان خدا تعالیٰ کے فضل کا جاذب ہو رہا ہے اور اس کا عمل خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے اور اس کے ایمان اور اس کے عمل نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو جس رنگ میں جذب کیا ہوتا ہے اسے وہ باغ اور نہر کی صورت میں دیکھ کر روحانی لذت محسوس کرتا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ آم کھا رہا ہے اور اس کی رئو یا سچی ہو تو اس کی تعبیر یہ ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نیک اعمال کے بدلہ میں اُسے نیک اولاد یا نیک دل دینے کا فیصلہ کیا ہے یا مثلاً کوئی دیکھے کہ وہ انگور کھا رہا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہوتی ہے کہ اس کے دل میں خشیت اللہ بڑھے گی اور محبت الٰہی ترقی کرے گی اور اس پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو گا.اور اگر کوئی دیکھے کہ وہ کیلا کھا رہا ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اسے حلال اور طیّب او ربے مشقت رزق دینے کا فیصلہ فرما چکا ہے.پس جبکہ انسان بظاہر کیلا یا انگور یا آم کھا رہا ہوتا ہے درحقیقت اس کی رُوح میں ان انعامات کے قبول کرنے کی قابلیت پیدا کی جا رہی ہوتی ہے جو ان پھلوں سے مشابہت رکھتے ہیں.

Page 365

خلاصہ یہ کہ رُوحانی انعامات سے یہ مراد نہیں کہ اُخروی زندگی میں محض ایک اندرونی احساس خدا تعالیٰ کی نعمتوںکا ہو گا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی سب نعمتیں جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباسؓ نے فرمایا ہے اُخروی نعماء کی تمثیل ہیں اور بجائے یہ کہنے کے کہ اُخروی زندگی میں اس دنیا کی نعمتوں کی مثل ملے گی یُوں کہنا چاہیے کہ اخروی نعمتیں تو اصل ہیں اور یہاں کا پانی اور یہاں کا دودھ اور یہاں کا شہد اور یہاں کے پھل سب اُخروی زندگی کی تمثیل ہیں اور ان نعمتوں کا نقشہ کھینچنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور چونکہ یہ دنیا مادی ہے انہیں مادی شکل دے دی گئی ہے ورنہ اللہ تعالیٰ نے ان نعماء سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ جب تمثیل ایسی لذیذ ہے تو اصل شے کہیں لذیذ ہو گی کیونکہ رُوح اپنے احساس کے لحاظ سے جسم سے بہت زیادہ شدت رکھتی ہے.اس تشریح کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان اعتراضات کا جواب الگ الگ دینے کی ضرورت نہیں جو اوپر درج ہو چکے ہیں ان سب اعتراضوں کا سوائے ایک کے اس تشریح میں جواب آ گیا ہے اور وہ ایک اعتراض وہ ہے جو بیویوں کے متعلق ہے سو اس کا جواب آ گے چل کر اس ٹکڑے کی تفسیر کے نیچے دیا جائے گا.اب میں آیت زیرتفسیر کی تفسیر بیان کرتا ہوں اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں اور اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں.انہیں جنتیں ملیں گی او ریاد رکھنا چاہیے کہ جیساکہحَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے.صَلَحَ کے معنے مناسبِ حال کے ہوتے ہیں پس اعمالِ صالحہ کے معنے مناسب حال اعمال کے ہیں قرآن کریم اور دوسری کتب میں یہ فرق ہے کہ دوسری کتب میں نیک اعمال کرنے کا حکم ہے اور نیک اعمال کا مطلب خدا تعالیٰ کی عبادت اور بندوں سے حُسنِ سلوک مثلاً صدقہ و خیرات، عفو ،احسان وغیرہ اعمال کو سمجھا جاتا ہے مگر قرآن کریم اس کی جگہ عمل صالح کے بجا لانے کا حکم دیتا ہے جو نیک عمل سے زیادہ وسیع مفہوم پر مشتمل ہے قرآن کریم کے نزدیک ایک عمل کی ظاہری اچھی شکل انسان کو پاک کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کا مناسب حال ہونا بھی ضروری ہے مثلاً قرآنِ کریم کے نزدیک خدا تعالیٰ کی عبادت کی ظاہری شکل کا بجالانا کافی نہیں جب تک کہ وہ ریا اور نمائش سے بھی پاک نہ ہو.عملِ صالح کرنے کا مطلب نماز نیک عمل ہے لیکن اگر اس کے ساتھ ریا شامل ہو تو گو بظاہر وہ خدا تعالیٰ کی عبادت ہے مگر خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں کیونکہ وہ عمل صالح نہیں اسی طرح مثلاً کوئی شخص ڈوب رہا ہو اور ایک شخص جو تیرنا جانتا ہو اور اسے اس ڈوبنے والے کا علم ہو جائے وہ اگر اس وقت نماز شروع کر دے تو نماز گو نیک عمل ہے مگر اس وقت عملِ صالح نہ ہو گا کیونکہ اس وقت کے مناسب حال عمل اس ڈوبنے والے کو بچانا ہے نہ کہ نماز پڑھنا.

Page 366

یا مثلاً ایک شخص فطرۃً رحم کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو اور وہ کسی شخص کو دیکھے کہ دوسرے آدمی پر ظلم کر رہا ہے تو اگر وہ اس ظالم کے متعلق عفو ظاہر کرنا چاہے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر اس وقت وہ عمل صالح نہیں ہو گا بلکہ عمل صالح یہ ہو گا کہ وہ اس ظالم کا مقابلہ کرے اور مظلوم کی حمایت کرے یا مثلاً ایک شخص جج کی کرسی پر بیٹھا ہو اور ملک نے اسے مجرموں کی سزا کے لئے مقرر کیا ہو تو اگر وہ ایک چور کو یا ڈاکو کو اپنے طبعی رحم کی وجہ سے چھوڑ دے تو گو عفو نیک عمل ہے مگر چونکہ اس وقت وہ عمل صالح نہ ہوگا خدا تعالیٰ کے حضور میں مقبول نہ ہو گا کیونکہ جج کی کرسی پر بیٹھنے والے کے مناسب حال عمل یہ ہے کہ جو فرض اس کے ذمہّ لگایا گیا ہے اُسے پورا کرے گو جس حد تک قانون اسے اجازت دیتا ہو وہ رحم سے بھی کام لے سکتا ہے.یا مثلاً کسی شخص کے پاس کسی نے اپنا روپیہ امانت رکھوایا ہوا ہو اور وہ امین شخص اس روپیہ کو غرباء میں تقسیم کر دے تو گو غرباء کی امداد نیک عمل ہے مگر اس کا یہ فعل عمل صالح نہیں ہو گا کیونکہ امین کی حیثیت سے اس کے لئے مناسب حال عمل یہی تھا کہ وہ اس روپیہ کو محفوظ رکھتا اور اگر کسی مستحق کا اسے علم ہوتا تو مال کے مالک کو اس سے حُسن سلوک کرنے کی طرف توجہ دلاتا.اسی طرح مثلاً اگر کوئی شخص دوسرے کسی شخص کو دربان کے طور پر مقرر کرے اور اس دربان کو علم ہو کہ کوئی ایسی مصیبت دنیا پر نازل ہو رہی ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوق خدا کا تباہ ہونا ممکن ہے تو گو اس وقت وہ ایک امانت پر مقرر ہے مگر اس کا فرض ہو گا کہ وہ اس وسیع تباہی کے دور کرنے میں لگ جائے کیونکہ اس وقت عمل صالح یہی ہے کہ وہ تھوڑے نقصان کی پرواہ نہ کرے اور بڑے نقصان کو دُور کرے.نیک اعمال اور اعمالِ صالحہ میں فرق غرض عمل صالح نیک عمل سے زیادہ وسیع معنے رکھتا ہے اور عملِ صالح اس نیک عمل کو کہتے ہیں کہ جو نہ صرف ظاہری طور پر اچھا ہو بلکہ باطنی طور پر بھی اچھا ہو اور صرف اپنی ذات میں اچھا نہ ہو بلکہ موقع کے لحاظ سے بھی اچھا ہو اور عملِ صالح کرنے والا وہ شخص ہے کہ جو اندھادھند لفظوںکی اتباع نہیں کرتا بلکہ اپنی عقل خداداد سے کام لے کر یہ بھی دیکھتا ہے کہ موقع کے لحاظ سے وہ عمل کس صورت میں ظاہر ہونا چاہیے یا وہ اس پر کفایت نہیں کرتا کہ وہ کوئی نیک عمل بجا لا رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ ہر قسم کے نیک اعمال جو اس کی اور دوسروں کی روحانی یا مادی بہتری کے لئے ضروری ہیں بجا لا رہا ہے.قرآن کریم میں اس فرق کو ایک نہایت لطیف پیرا یہ میں بیان کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِ (الشوریٰ :۴۱) یعنی جس شخص پر ظلم ہو وہ اس کا بدلہ اس قدر لے سکتا ہے جس قدر اس پر ظلم ہوا ہو لیکن جو شخص معاف کرے مگر ساتھ اس کے اصلاح کا پہلو مدِّنظر رکھے تو اس کا اجر اللہ پر ہو گا.اس آیت میں عفو جو ایک نیک عمل ہے اس کی تعریف کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ شرط لگا دی ہے کہ عفو اسی صورت میں خدا تعالیٰ کے حضور پسندیدہ ہو گا جبکہ اس کے نتیجہ میں اصلاح بھی پیدا ہو

Page 367

ورنہ نہیں.اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص کو کوئی ڈاکو ملے جو پاس کے گائوں میں لوٹنے جا رہا ہو وہ ڈاکو اس کی طاقت کا غلط اندازہ لگاتے ہوئے جاتے جاتے اس پر بھی ہاتھ صاف کرنا چاہے مگر اس سے مغلوب ہو جائے تو گو اس کا اس ڈاکو کو معاف کر دینا بظاہر نیک عمل ہو گا لیکن اگر اسے معلوم ہو کہ اس ڈاکو کا دل صاف نہیں اور وہ اس سے چھٹ کر گائوں کے کسی اور غریب اور کمزور آدمی پر حملہ کر کے اس کے مال یا اس کی جان کو نقصان پہنچائے گا توچونکہ اس ڈاکو کو معاف کرنا اصلاح کا نہیں بلکہ فساد کا موجب ہو گا اگر وہ شخص اس ڈاکو کو معاف کر دے تو باوجود عفو سے کام لینے کے عمل صالح کا بجا لانے والا نہ سمجھا جائے گا.اعمال صالحہ اور نیک اعمال میں فر ق کی طرف اشارہ احادیث میں احادیث رسول کریم سے بھی اس فرق کا پتہ چلتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا اِیْمَانٌ بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ قِیْلَ ثُمَّ مَا ذَا قَالَ جِہَادٌ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا اللہ اور اس کے رسول پر ایمان پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد تو آپؐ نے فرمایا اللہ کے رستہ میں جہاد کرنا.(بخاری کتاب الحج باب فضل الحج المبرور) ایک دوسرے موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے آپؐ سے پوچھا یا رسول اللہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے تو آپؐ نے فرمایا اَلصَّلٰوۃُ عَلٰی مِیْقَاتِہَا یعنی اپنے وقتوں پر نمازو ںکا ادا کرنا.وہ کہتے ہیں میں نے پھر پوچھا یا رسول اللہ !اس کے بعد کونسا عمل ہے تو آپؐ نے فرمایا ثُمَّ بِرُّالْوَالِدَیْنِاس کے بعد والدین سے نیکی کرنا.فرماتے ہیں میں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کے بعد پھر کون سا عمل اچھا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا اَلْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ پھر اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا اچھا عمل ہے.(بخاری کتاب الجہاد والسیر باب فضل الجہاد والسیر) جو لوگ شریعت کی باریکیوں سے واقف نہیں.انہیں اس میں اختلاف نظر آیا ہے اور انہوں نے بحث شروع کر دی ہے کہ اس اختلاف کو کس طرح دُور کیا جائے اور یہ کہ اصل میں کونسا اچھا عمل ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ انہو ںنے غور نہیں کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیک اعمال کا مقابلہ نہیں کیا بلکہ اعمال صالحہ کا مقابلہ کیا ہے جس شخص کو آپؐ نے یہ فرمایا کہ ایمان کے بعد جہاد سب سے اچھا عمل ہے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص جہاد کے موقع پر ُسستی دکھاتاتھا اور اس نیک عمل کے بجا لانے کے متعلق اس کے دل میں قبض تھا پس وہ اپنے تقویٰ کے مکان کو ادھورا رکھ رہا تھا اُسے آپؐ نے یہ بتایا کہ جہاد سب سے اچھا عمل ہے اور مراد یہ تھی کہ تمہارے مناسب حال عمل جہاد ہے کیونکہ تم باقی نیک اعمال بجا لاتے ہو مگر

Page 368

جہاد میں ُسستی کرتے ہو.اور جس وقت یہ فرمایا کہ سب سے اچھا عمل وقت پر نماز ادا کرنا ہے اور پھر ماں باپ کی خدمت اور پھر جہاد.اس وقت معلوم ہوتا ہے بعض ایسے لوگ مجلس میں بیٹھے تھے جو وقت پر نماز ادا کرنے میں ُسست تھے اور ماں باپ سے اچھا سلوک نہ کرتے تھے.پس ان کے مناسب حال یہی حکم تھا کہ وہ نماز وقت پر ادا کریں اور ماں باپ کی خدمت کریں تا ان کی نیکیوں میں یہ رخنہ باقی نہ رہ جائے.ایمان کی حیثیت ایک باغ کی اور عمل باغ کو تروتازہ رکھنے کا ایک ذریعہ اس آیت میں ایمان اور عملِ صالح بجا لانے والے کو جنتو ںکی بشارت دی گئی ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ ایمان ایک باغ کی حیثیت رکھتا ہے اور عمل اسے سر سبز کرتا ہے اور اس کو پانی دے کر بڑھاتا ہے.جو شخص ایمان لانے کے بعد عمل نہیں کرتا اس کے ایمان کا درخت سوکھ جاتا ہے چنانچہ عملی منافقوں کی مثال میں اوپر بتایا جا چکا ہے کہ اگر وہ ایمان کے بعد اعمال کی طرف توجہ نہ کریںگے تو ان کا ایمان بھی ضائع ہو جائے گا (دیکھو آیت ۲۰سورہ ھٰذا)قرآن کریم میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهٗ (فاطر :۱۱) یعنی جب انسان ایمان کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف جاتا ہے لیکن اسے خدا تعالیٰ تک اُٹھا کر لے جانے والا عمل صالح ہوتا ہے یعنی ایمان کی تکمیل عمل صالح سے ہوتی ہے اگر عمل صالح نہ ہو تو ایمان درمیان میں ہی رہ جائے اور اپنا پھل پوری طرح نہ دے.ایک دوسری آیت میں کلمہ طیبہ یعنی پاک تعلیم کو جس کا نتیجہ ایمان ہوتا ہے شجرہ طیبہ سے مثال دی ہے فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً (ابراہیم :۲۵) یعنی کیا تم کو معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاک کلمہ کو پاک درخت سے تمثیل دی ہے.پاک درخت سے مشابہت دینے کے معنے یہ بھی ہیں کہ جس طرح درخت پانی کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح کلمہ طیبہ کا اختیار کر لینا ہی کافی نہیں.اسے عمل کے پانی سے سیراب کرنا بھی ضروری ہے تبھی اس کی سرسبزی اور شادابی قائم رہے گی.عمل صالح کرنے والے مومنوں کو ایسے باغات کی بشارت دے کر جن کے نیچے نہریں بہتی ہوںگی اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ چونکہ انہوں نے اپنے ایمان کی کھیتی کو عمل کے پانی سے سینچا تھا اللہ تعالیٰ بھی انہیں ایسے باغوں میں رکھے گا جن کے اندر نہریں بہتی ہوںگی اور یہ نہروں کا بہنا انہیں یاد کراتا رہے گا کہ ان کا ایمان اور عمل ضائع نہیں ہوا بلکہ اس سے ہمیشہ کی راحت پیدا ہوئی.باغوں کے سائے ان کی توجہ کو ایمان کی طرف کھینچیں گے جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو کھینچتا ہے اور اس کے اندر بہنے والی نہریں انہیں ان کے اعمال صالحہ کی یاد دلائیںگی جنہو ںنے ایمان کے درخت کو سوکھنے سے بچایا.جنا ّت میں نہروں کے باغوں کے نیچے بہنے کا مطلب یہ جو فرمایا ہے کہ ان باغوں کے نیچے نہریں بہتی

Page 369

ہوںگی اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جنت میں ہر شخص کا دائرہ عمل دوسروں کے اثر اور دخل اندازی سے آزاد ہو گا اور نیچے بہنے سے مراد یہی ہے کہ ہر باغ کی نہر اس سے متعلق ہو گی اور اس کے انتظام کا حصہ ہو گی اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ ایک نہر کئی باغوں اور کھیتوںکو پانی دیتی ہے اور بسا اوقات لوگو ںمیں اس کے پانی کی تقسیم پر جھگڑا ہو جاتا ہے.كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًاکے دو معنے كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا اس میں رِزْقًا مفعول مطلق بھی ہو سکتا ہے او رمفعول بہٖ بھی.مفعول مطلق کی صورت میں رِزْقًاکے معنے ہوں گے اچھی طرح دینا.اور آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ جب کبھی پھلوں کی قسم سے کوئی چیز انہیں بطریق احسن دی جائے گی.ان معنوں کے لحاظ سے آیت کا یہ مفہوم ہو گا کہ مومنوںکو ان کے ایمان کا پھل ہی نہیں ملے گا بلکہ ان کا ایسا اعزاز کیا جائے گا کہ وہ پھل کامل طور پر انہیں ملے گا اور خدا تعالیٰ کی عطا اسی طرح ہو گی کہ جو عطا کرنے کا حق ہے.رِزْقًا کو اگر مفعول بہٖ ما نا جائے تو اس کے معنے مَرْزُوْقٌ کے کئے جائیں گے یعنی کھانے کی چیز یا دی جانے والی چیز اور اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ جب کبھی کوئی کھانے کی چیز انہیں دی جائے گی جو پھلوں کی قسم سے ہو گی تو وہ اگلا بیان کردہ فقرہ دہرائیں گے.اس صورت میں زور عبارت کا مِنْ ثَمَرَۃٍ پر ہو گا اور اس طرف اشارہ سمجھا جائے گا کہ جو کچھ انہیں ملے گا وہ ان کے ایمان اور اعمال کا نتیجہ ہو گا.قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَاکے دو معنی قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ.وہ کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں پہلے مل چکا ہے.مفسرین لکھتے ہیں کہ یا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ ہمیں جو پھل دیتا تھا وہی پھل ہمیں وہ یہاں بھی دے رہا ہے یا اس کے یہ معنے ہیں کہ بار بار پھل ملیں گے اور وہ ہر دوسری بار کہیں گے کہ یہ وہی چیز ہے جو ہمیں پہلے بھی مل چکی ہے.گویا جنت کی نعمتوں کی تکرار کی طرف اشارہ کریں گے لیکن میرے نزدیک یہ دونوں معنی درست نہیں کیونکہ اگر اس کے یہ معنی کئے جائیں کہ دنیا میں بھی ہم کو پھل ملے تھے اور اب بھی ملے ہیں تو اس کے معنے تو یہ ہوںگے کہ دنیا کے پھل اور آخرت کے پھل ایک قسم کے ہیں حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ(السجدة :۱۸) کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ جنت میں اُسے کیا ملنے والا ہے پھر جنت کے پھلوں کو دنیا کے مادی پھلوں جیسا قرار دینے کے معنے کیا ہوئے اور اگر یہ معنے کئے جائیں گے کہ ایسے پھل ہمیں جنت میں پہلے بھی مل چکے ہیں تو اول تو اس پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے جب بھی انہیں پھل ملیں گے وہ یہ فقرہ کہیں گے لیکن ظاہر ہے کہ پہلی دفعہ پھل ملنے پر وہ یہ فقرہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ رُزِقْنَا مِنْ

Page 370

قَبْلُکے یہ معنی ہیں کہ ہمیں پہلے یہ پھل مل چکے ہیں.دوسرا اعتراض اس پر یہ پڑتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا کفران ہے شکریہ نہیں کیونکہ احسان کی قدردانی کے موقع پر تو انسان یہ کہتا ہے کہ آج جیسی لطیف چیز ملی ہے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی.کسی میزبان کو یہ کہنا کہ ایسا کھانا آپ مجھے پہلے بھی کھلا چکے ہیں اس کی ہجو ہے نہ کہ تعریف.اس کا تو یہ مطلب نکلتا ہے کہ اب کچھ او رکھلائو کب تک وہی چیز دوبارہ دیتے رہو گے.میرے نزدیک اس کے دو معنے ہیں ایک تو یہ کہ چونکہ باغ ایمان کی تمثیلی شکل ہوں گے اور پھل ایمان کی لذت کا تمثل ہو گا.مومنو ںکو جب بھی جنتی پھل ملیں گے وہ کہیں گے کہ یہ وہی ایمان کی حلاوت ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہم کو دنیا میں عطا فرمائی تھی اور ہمارا وہ ایمان ضائع نہیں ہوا بلکہ برابر پھل لا رہا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ فقرہ شکریہ اور امتنان کے جذبات سے بھرا ہوا ہے اور مومن اور خدا تعالیٰ دونوں کے شایانِ شان ہے.ہر دفعہ پھل ملنے پر وہ ایمان کی نعمت کو یاد کریں گے اور اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو بھی یاد کریں گے کہ اس نے انہیں ایمان بخشا تھا اور ساتھ ہی وہ اس نعمت کا بھی شکریہ ادا کریں گے جو ہمیشہ کے لئے ایمان کے نتیجہ کے طورپر روحانی پھل کی شکل میں انہیں آخرت میں ملے گی.دوسرے معنی اس کے یہ ہیں کہ رُزِقْنَا کے معنی وعدہ کے کئے جائیں اور آیت کے معنے یہ ہوں کہ جب کبھی بھی انہیں جنتی پھل ملیں گے وہ کہیں گے کہ یہی وہ پھل ہیں جن کا ہم سے دنیا میں وعدہ کیا گیا تھا اور وعدہ کے لئے ماضی کے لفظ کا استعمال قرآن کریم سے ثابت ہے چنانچہ اُجرت پر دودھ پلانے والی عورتوں کے ذکر میں فرماتا ہے اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (البقرة :۲۳۴) جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ جب تم دودھ پلانے والیوں کو دے دو جو حسب قاعدہ دے چکے ہو مگر مراد یہ ہے کہ جس کے دینے کا ان سے پختہ وعدہ کر چکے ہو اس محاورہ کے مطابق رُزِقُوْاکے معنے اس آیت میں یہ کئے جائیں گے کہ جس کے دینے کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ جس بات کا وعدہ ہم سے دنیا میں کیا گیا تھا وہ آج اس نعمت کے ذریعہ سے پورا کیا جا رہا ہے.اور جب بھی جنتی پھل ملیں گے وہ بے اختیار کہہ اُٹھیں گے کہ لو اس وعدے کے مطابق آج بھی ہم کو یہ پھل ملے ہیں.ان معنوں کو بعض سابق مفسرین نے بھی اختیار کیا ہے.وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاکا مطلب پہلے مفسرین کے نزدیک وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا.یعنی وہ پھل انہیں متشابہ صورت میں دیئے جائیں گے کے معنے مفسرین نے یہ کئے ہیں کہ دنیا کے پھلوں سے ملتے ہوئے پھل دیئے جائیں

Page 371

گے.یا یہ کہ جو پھل آخرت میں ملیں گے ان کی شکل تو آپس میں ملتی جلتی ہو گی مگر مزہ میں فرق ہو گا.پہلے معنوں کی کمزوری مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں دوسرے معنی بالبداہت باطل ہیں کیونکہ پھل ہی دیئے جائیں گے تو انہیں ایک شکل میں دینے کا کیا فائدہ.پھر مزہ کے مختلف ہونے کا ثبوت کہاں سے ملا؟ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاکے چار معنے میرے نزدیک اس کے صحیح معنے یہ ہیں (۱) جنتی پھل اپنی لذت کے لحاظ سے ان عبادات کی لذتوں کے مشابہ ہوں گے کہ جو مومن اس دنیا میں کرتے رہے ہیں یعنی مومن ان پھلوں کو کھا کر محسوس کرے گا کہ یہ وہی نماز ہے جو میں نے پڑھی تھی ، یہ وہی روزہ ہے جو میں نے رکھا تھا ،یہ وہی حج ہے جو میں نے کیا تھا، یہ وہی صدقہ ہے جو میں نے دیا تھا ،یہ وہی عفو ہے جس سے میں نے اپنے دشمن سے معاملہ کیا تھا.غرض تمام نیک اعمال ایک ایک کر کے ان کے لئے جنت میں متمثل ہوں گے اور ان کے دل خدا تعالیٰ کے شکر سے بھرتے جائیں گے کہ میری فلاں نماز بھی اس نے نہیں بھلائی.میرا فلاں صدقہ بھی اس نے نہیں بھلایا.غرض ہر ہر پھل میں وہ خدا تعالیٰ کی قدردانی کو محسوس کرینگے اور انہیں وہ لذت یاد آ جائےگی کہ جو اس دنیا میں اس نیک عمل کے بجا لاتے وقت ان کو حاصل ہوئی تھی.وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاسے مراد مومنوں کے اعمال کے مشابہ لذتیں رکھنے والے پھل ان معنوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مومنوں کو اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کرنا چاہیے جو اعمال صالحہ کے بجا لاتے وقت ان پر عائد ہوتی ہے.اگر ہماری نماز جنت میں پھل کی شکل میں آنے والی ہے ہمارا صدقہ پھل کی شکل میں سامنے آنے والا ہے تو ہمیں اپنی نماز اور اپنے صدقہ کو درست کرنا چاہیے کیونکہ جیسی ہماری نماز اور جیسا ہمارا روزہ ہو گا اسی قسم کے مزہ کا وہ پھل ہو گا جو ہمیں جنت میں ملے گا.اگر ہم اپنے اعمال کو پوری دلجمعی اور شوق سے بجا نہیں لاتے تو ہم اپنی روحانی غذا کو جو ہمیں جنت میں ملنے والی ہے دوسروں سے کم لذیذ بناتے ہیں اور اگر ہم اپنے صدقہ اور اپنے عفو اور خدمت خلق کو اور عبادت کو ٹھیک کرتے ہیں تو گویا اپنی روحانی غذا کو لذیذ بناتے ہیں.کیونکہ اس غذا کی لذت ہماری اس لذت کے مشابہ ہو گی جو اس وقت ہم نیک اعمال میں محسوس کرتے ہیں.وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاسے مراد متشابہ خاصیتوں کا رزق دوسرے معنے اس جملہ کے یہ ہیں کہ جو رزق جنتیوں کو ملے گا وہ متشابہ خاصیتو ںکا ہو گا یعنی اس دنیا میں تو جو غذا انسان کھاتا ہے وہ بسا اوقات ایک دوسرے کے اثر کو باطل کرنے والی ہوتی ہے.ایک چیز معدہ کے لئے مقوی اور دوسری مضعف.ایک چیز دل کے لئے اچھی دوسری بری.ایک دماغ کو طاقت دینے والی دوسری کمزو رکرنے والی ہوتی ہے.اس طرح بہت سی غذا آپس میں ٹکرا

Page 372

کر اپنے اثر کو کمزور کر لیتی ہے اور بہت تھوڑی غذا حقیقتاً ہمارے جسم کے کام آتی ہے.اسی طرح اِس دنیا میں رُوحانی اعمال کا حال ہوتا ہے.کوئی نیک عمل ظاہر ہوتا ہے تو کوئی بد.اور بدیاں نیکیوں کے اثرات کوکم کرتی رہتی ہیں مگر اُخروی زندگی کے متعلق فرماتا ہے کہ وہاں جو روحانی غذا ملے گی وہ متشابہ ہو گی یعنی تاثیر کے لحاظ سے ہر چیز دوسری کی ممد ہو گی اور یہ نہ ہو گا کہ کوئی غذا رُوحانیت کی طرف لے جائے تو کوئی اس سے دور کرے بلکہ ساری کی ساری غذا ایک دوسری کی ممد ہو گی اور رُوحانی ترقی کا موجب ہو گی اور انسانی رُوح ہر قسم کی روحانی بیماریوں سے محفوظ ہو جائے گی اور روحانی بیماریاں اسی مادی دنیا میں رہ جائیں گی.وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاسے مراد اندرونی قویٰ کے مشابہ غذا ایک معنی اس کے یہ بھی ہیں کہ جنت کی غذا ہر شخص کے اندرونی قویٰ کے مطابق ہو گی جیسی اس کی طاقت ویسی غذا.یعنی جس جس انسان کو روحانی ترقی کے لئے جس جس قسم کی روحانی غذا کی ضرورت ہو گی وہی غذا اس کے لئے مہیا کی جائے گی تاکہ اس کی رُوحانی طاقتیں بڑھتی چلی جائیںاور کوئی روک پیدا نہ ہو.وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًاسے مراد جناّت کے پھلوں کا اس دنیا کے پھلوںسے ہم شکل ہونا ایک معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ گو جنت کے پھل دنیا کے پھلوں کے ہم شکل ہوں گے مگر یہ مشابہت صرف شکل کی ہو گی ورنہ اپنی لذت اور تاثیر اور حقیقت کے لحاظ سے وہ اِن سے مختلف ہوں گے کیونکہ یہ مادی جسم والے پھل ہیں اور وہ روحانی جسم والے پھل ہوں گے.وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌکا مطلب اور ازواج سے مراد پاک ساتھی یا بیویاں وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ.انہیں وہاں پاک ساتھی یا پاک بیویاں یا پاک خاوند ملیں گے.پاک ساتھی کے معنوں کی صورت میں تو کسی کے لئے اعتراض کرنے کی گنجائش ہی نہیں کیونکہ اِس صورت میں اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ جنت میں جس طرح غذا ایک دوسرے کی ممد ہو گی اس طرح اس کے سب مکین ایک دوسرے کی رُوحانی ترقی میں مدد کرنے والے ہوں گے گویا اندرونی اور بیرونی ہر طرح کا امن اور تعاون حاصل ہو گا.اور اگر خاوند یا بیوی کے معنی کئے جائیں کیونکہ ازواج مرد اور عورت دونوں کے لئے بولا جاتا ہے عورت کا زوج اس کا خاوند ہے او رمرد کا زوج اس کی بیوی تو اس صورت میں اس کے ایک معنی یہ ہوں گے کہ ہر جنتی کے پاس اس کا وہ جوڑا رکھا جائے گا جو نیک ہو گا.اس صورت میں بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں پڑ سکتا بلکہ یہ تحریک ہے کہ مرد کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنی بیوی کی نیکی کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور عورت کو اپنی نیکی کے ساتھ اپنے خاوند کی نیکی کا بھی

Page 373

خیال رکھنا چاہیے کیونکہ اگر وہ دنیوی زندگی کی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھا رہنا چاہتے ہیں تو چا ہیئے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کو بھی نیک بنانے کی کوشش کرے تا ایسا نہ ہو کہ میاں جنت میں ہو اور بیوی دوزخ میں ہو یا بیوی جنت میں اور میاں دوزخ میں ہو.ان معنوں کے رُو سے یہ روحانی پاکیزگی کی ایک اعلیٰ تعلیم ہے جس پر اعتراض کرنے کی بجائے اس کی خوبی کی داد دینی چاہیے.باقی رہا یہ کہ اِس کے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہر شخص کو ایک پاک جوڑا دیا جائے گا تو ان معنوں کے رو سے بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر یہی معنی ہوں کہ ہر مرد کو ایک پاک بیوی دی جائے گی اور ہر عورت کو ایک پاک مرد دیا جائے گا تو اس پر کیا اعتراض ہے.اعتراض تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کسی ناپاک فعل کی طرف اشارہ کیا جائے.جب قرآن شریف پاک کا لفظ استعمال کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ جنت میں وہی کچھ ہو گا جو جنت کے لحاظ سے پاک ہے پھر اِس پر اعتراض کیسا؟ سرولیم میور کا آیت وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ پر ایک اعتراض سرولیم میور نے اِس آیت کے مضمون پر ایک نہایت ناپاک اعتراض کیا ہے اور ریورنڈ وہیری نے حسب ِ عادت اس کی تصدیق کی ہے.وہ اعتراض یہ ہے کہ قرآن کریم کی مکی سورتوں میں جنت میں عورتوں کا ذکر کثرت سے اور زیادہ جوش سے کیا گیا ہے لیکن مدنی سورتوں میں صرف دو دفعہ اور نہایت مختصر الفاظ میں جو یہ ہیں کہ مومنوں کو جنت میں پاک بیویاں ملیں گی ذکر کیا گیا ہے اس سے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِک) یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چونکہ مکہ میں آپؐ کی صرف ایک بیوی تھی اور وہ بھی عمر میں بڑی اس لئے محمد صاحب (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو عورتوں کا خیال زیادہ آتا تھا مگر مدینہ میںچونکہ یہ خواہش پوری ہو گئی اور کئی جوان بیویاں مِل گئیں یہ خیال کم ہو گیا.سرولیم نے جو اعتراض کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی آئینہ میں اپنا منہ دیکھا ہے اور ریورنڈ وہیری نے پادریوں کے روایتی تعصب کو قائم کیا ہے.مجھے تعجب آتا ہے کہ یہ لوگ تعلیم یافتہ کہلاتے ہوئے اور تہذیب کا دعویٰ کرتے ہوئے کروڑوں انسانوں کے پیشوائوں پر قیاسی باتوں کی بناء پر کس طرح حملہ کر دیتے ہیں حالانکہ خود ان لوگوں کے اخلاق اس قدر گرے ہوئے اور ذلیل ہوتے ہیں کہ انسانیت کو ان سے شرم آتی ہے.ان کی یہ جرأت محض اس وجہ سے ہے کہ اس وقت عیسائیوں کو حکومت حاصل ہے اور ان کو یہ شرم بھی نہیں آتی کہ جب مسلمان دنیا پر حاکم تھے اور مسیحیوں کا اس سے بھی پتلا حال تھا کہ جو اس وقت مسلمانوں کا مسیحیوں کے مقابل پر ہے اس وقت بھی مسلمانوں نے یسوع ناصری کے بارہ میں سخت الفاظ کبھی استعمال نہیں کئے.مسلمانوں نے ہزار سال تک مسیحی

Page 374

ممالک پر حکومت کر کے اُن کے سردار کی جس عزت کا اظہار کیا کاش مسیحی لوگ دو تین سو سال کی حکومت پر ایسے مغرور نہ ہو جاتے کہ اس نبیوں کے سردارؐ پر اس طرح درندو ںکی طرح حملے کرتے اور مسلمانوں کے اس احسان کا کچھ تو خیال کرتے کہ انہو ںنے یسوع کے خلاف کبھی جارحانہ قدم نہیں اٹھایا ور نہ حق یہ ہے کہ مسلمان یسوع کی نسبت اس سے بہت زیادہ کہہ سکتے ہیں جو مسیحی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کہتے ہیں.سرولیم میور کے اعتراض کا جواب سر ولیم نے اپنی طرف سے ایک گندہ اعتراض تو کر دیا لیکن یہ نہیں سوچا کہ مکی اور مدنی سورتوں میں اس قسم کا فرق صرف عورتوں کے بارہ میں ہی نہیں ہے بلکہ اور امورمیں بھی ہے مثلاً یہ کہ مکی سورتوں میں یہ ذکر آیا ہے کہ جنت میں شراب ہو گی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں، مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں شہد ہو گا مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں.مکی سورتوں میں یہ ذکر ہے کہ جنت میں دودھ کی نہریں ہوںگی مگر کسی مدنی سورۃ میں یہ ذکر نہیں، (جیسا کہ اوپر گزری ہوئی آیات سے ثابت ہے) اب اگر سرولیم کا خود ساختہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے کہ چونکہ مکہ میں محمد (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ ٖ و اصحابہٖ ) کی ایک ہی بیوی تھی اور وہ بڑی عمر کی اس لئے آپؐ کو جنت کے نقشے میں عورتیں نمایاں نظر آتی تھیں تو کیا شراب کے ذکر میں بھی سر ولیم کا یہ نکتہ چسپاں ہو سکے گا؟ کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ میں شراب نہ ملتی تھی اس لئے جنت میں بھی انہیں شراب نظر آتی تھی اور مدینہ میں چونکہ شراب ملنے لگی اس لئے مدنی زندگی میں قرآنی جنت میں سے شراب کا ذکر حذف ہو گیا ، یا کیا اسی قاعدہ کی رُو سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکے گا کہ مکہ میں آپؐ کو دودھ نہ ملتا تھا اس لئے جنت میں دودھ میسر ہونے کا آپؐ خیال کیا کرتے تھے؟ مگر مدینہ میں چونکہ دودھ ملنے لگا یہ خیال کمزور پڑ گیا یا کیا یہ کہنا درست ہو گا کہ مکہ میں چونکہ آپؐ کو شہد نہ ملتا تھا اس لئے آپؐ اس کے شوق کی وجہ سے جنت میں شہد کی کثرت کا خیال کرتے تھے؟ مگر مدینہ میں چونکہ شہد ملنے لگا آپؐ نے اس کے ذکر کو چھوڑ دیا.کیا کوئی انسان بھی جس کے دماغ میں عقل ہو اس قسم کی خرافات کو تسلیم کر سکتا ہے اگر وہ نفسیاتی نکتہ صحیح ہے تو پھر ان دوسری باتوں پر بھی اسے چسپاں کر کے دکھائیں.حقیقت یہ ہے کہ مکی زندگی کے اکثر حصہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے زیادہ فراخی حاصل تھی جس قدر کہ مدنی زندگی میں حاصل تھی کیونکہ آپؐ کی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بہت مالدار تھیں اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے انہوں نے اپنا سب مال آپؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا چنانچہ آپؐ کی وہ اولاد جو مکہ میں جوان ہوئی اور بیاہی گئی اس کی نسبت ثابت ہے کہ اسے قیمتی زیورات جہیز میں دیئے گئے مگر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو مدینہ میں بیاہی گئیں انہیں ایک چھلّا تک نہیں ملا.غرض دنیوی لحاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 375

کی حالت مکہ میں اچھی تھی لیکن چونکہ آپؐ نے حضرت خدیجہؓ کی دولت کو آہستہ آہستہ نیک کامو ںمیں خرچ کر دیا اس لئے مدینہ منورہ کے ایام میں آپؐ کی وہ آسودگی کی حالت نہ رہی تھی پس اگر یہ فرق کسی نفسیاتی اثر کے ماتحت ہوتا تو معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا جیسا کہ سر ولیم نے سمجھا ہے.اگر سر ولیم کا طریق استدلال ٹھیک ہو تو پھر مسیحیت کے مخالفوں کو بھی یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کہیں کہ یسوع کو چونکہ بوجہ غربت اور یہود کی مخالفت کے اِدھر اُدھر بھاگے پھرنا پڑتا تھا اس لئے وہ اپنے دل کی تکلیف کا ازالہ اِن خیالات کے ذریعہ کرتا رہتا تھاکہ وہ یہودیوں کا بادشاہ ہونے والا ہے اسی طرح سرولیم کے مقرر کردہ اصل کے ماتحت یسوع کی نسبت یہ اعتراض بھی درست تسلیم کیا جانا چاہیے کہ چونکہ ان کو شادی کی توفیق نہ ملی اس لئے ان کے ذہنی جذبات انہیں ایک دوبارہ آمد کے خیال میں مبتلا رکھتے تھے جبکہ وہ دُلہا کی شکل میں آئیں گے اور ایک نہیں دو نہیں اکٹھی پانچ کنواریوں کو لے کر مکان میں گھس جائیں گے چنانچہ انجیل میں لکھا ہے کہ یسوع نے کہا ’’اس وقت آسمان کی بادشاہت دس کنواریو ںکی مانند ہو گی جو اپنی مشعلیں لے کر دُلہا کے استقبال کے واسطے نکلیں.اُن میں پانچ ہوشیار اور پانچ نادان تھیں جو نادان تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں لیں مگر تیل ساتھ نہ لیا پر ہوشیاروں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ برتنو ںمیں تیل لیا.جب دُلہا نے دیر کی سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں.آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دُلہا آتا ہے اس کے استقبال کے واسطے نکلو تب ان سب کنواریوں نے اُٹھ کر اپنی مشعلیں درست کیں اور نادانوں نے ہوشیاروں سے کہا اپنے تیل میں سے ہمیں بھی دو کہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں، پر ہوشیاروں نے جواب میں کہا ایسا نہ ہو کہ ہمارے اور تمہارے واسطے کفایت نہ کرے بہتر ہے کہ بیچنے والوں کے پاس جائو اور اپنے واسطے مول لو.جب وے خریدنے گئیں دُلہا آ پہنچا اور وَے جو تیار تھیں اس کے ساتھ شادی کے گھر میں گئیں اور دروازہ بند ہوا پیچھے وے دوسری کنواریاں بھی آئیں اور کہنے لگیں اے خداوند، اے خداوند ہمارے لئے دروازہ کھول، تب اس نے جواب میں کہا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تمہیں نہیں پہچانتا‘‘ (متی باب ۲۵.آیت ۱ تا ۱۲) اب دیکھو اگر سر ولیم میور او رپادری وہیری جیسے شخص اسی تمثیل سے یہ نتیجہ نکالیں کہ شادی نہ ہونے کی وجہ سے یسوع کو کنواریوں کا ہی خیال رہتا تھا تو کیا یہ درست ہو گا؟ کیا مسیحی دنیا ایسے اعتراض کرنے والے کو منصف قرا ردے گی.اگر نہیں تو میں کہتا ہوں کیوں انہوں نے اس قسم کے لوگوں کا مقابلہ نہ کیا جنہوں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پر ایسے َلغو اور بیہودہ اعتراض کئے اور کیوں مسیحیت کی اِس تعلیم کو یاد نہ رکھا کہ ’’تو اپنے پڑوسی کو ایسا پیار کر جیسا آپ کو‘‘ (متی باب ۲۲ آیت ۳۹)

Page 376

اگر سر ولیم اور پادری وہیری غور کرتے تو انہیں معلوم ہو سکتا تھا کہ یہ فرق جو مکی اور مدنی سورتوں کے بیان میں ہے اِس کی نہایت معقول وجہ موجود ہے اور و ہ یہ کہ مکہ میں مسلمانوں پر کفار کا یہ طعنہ ہوتا تھا کہ یہ ذلیل اور غریب ہیں ان کے پاس وہ نعمتیں نہیں ہیں جو ہمیں حاصل ہیں اس لئے انہیں کے الفاظ میں جنت کی حقیقت کو بیان کیا گیا.اوربتایا گیا کہ جن چیزوں پر تم کو فخر ہے ان سے بہتر مسلمانوں کو ملیں گی لیکن مدینہ میں جب مسلمانوں کے قدم اللہ تعالیٰ نے جما دیئے تو کفار کے اس اعتراض کی گنجائش نہ رہی اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی اس رنگ کے جواب کو ترک کر دیا.اب آئندہ زمانوں کے لئے قرآن شریف میں دونوں طرح کی تشریح جنت کی موجود ہے جن کا اعتراض مسلمانو ںپر مکی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مکی زندگی کی آیات میں جواب موجود ہے اور جن کا اعتراض مدنی زندگی کے دشمنوں کا سا ہو ان کے لئے مدنی زمانہ کی آیات موجود ہیں.دوسرا جواب یہ ہے کہ مکی زمانہ میں اعتقادات کی تشریح پر زور دینا ضروری تھا کیونکہ ابتداء میں اعتقادات کی درستی اور تلقین ہی ضروری ہوتی ہے اس لئے ان سورتوں میں اعتقادی مسائل کی تشریح زیادہ تفصیل سے موجود ہے اور جنت بھی اعتقادات میں سے ہے پس جنت کے متعلق زیادہ تفصیل مکی سورتوں میں ہے مدنی سورتوں میں چونکہ اسلامی تمدن کا قیام زیادہ مقدم تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے حسبِ حال تعلیم مدنی سورتوں میں دی ہے اور وہ مدنی احکام کی زیادہ تفصیل بیان کرتی ہیں اور ان میں ان مسائل کی طرف (جب بھی ان کا ذکر آئے) صرف اشارہ ہوتا ہے جو مکی سورتوں میں بیان ہو چکے تھے اور کلام حکیم میں ایسا ہی ہونا چاہیے.سر ولیم نے اعتراض کا ایک اور پہلو بھی اختیار کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ بات نہیں جو اوپر بیان ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مدینہ میں آئے تو یہود و نصاریٰ کے اثر سے انہوں نے جنت کے بارہ میں اپنے کلام کو بدل دیا.کسی نے سچ کہا ہے کہ دروغ گورا حافظہ نباشد.مسیحی مصنف کفارِ مکہ کے اِسی اعتراض کو بڑی وقعت دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ کو کوئی اور شخص سکھاتا ہے اور اس پر زور دیتے ہیں کہ بعض مسیحی لوگ جو غلام تھے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مسیحی کتب کی باتیں بتاتے تھے اور کبھی وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپؐ نے ایک مسیحی راہب سے اپنی جوانی میں مسیحی مذہب کی تعلیم حاصل کی تھی اور اسے قرآن میں نقل کر دیا.سر ولیم میور نے اپنی کتاب میں اس امر کی تصدیق کی ہے کہ آپؐ نے صہیب رضی اللہ عنہ سے جو ایک رومی غلام تھے اور مکہ میں رہتے تھے عیسائیت کے بارہ میں علم حاصل کیا تھا (Life of Mohammad ch:Extension of islam and early converts) اگر یہ بات درست ہے تو مدینہ میں آنے سے پہلے ہی آپ کو مسیحی تعلیم کا علم تھا اور مدینہ

Page 377

میں آ کر جنت کے بارہ میں مسیحی تعلیم سے متاثر ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اگر واقعہ میں مسیحی اور یہودی غلام آپؐ کو پرانے اور نئے عہد نامہ کی باتیں بتایا کرتے تھے تو یہ علم آپ کو مکہ میں ہی حاصل ہو جانا چاہیے تھا.بات یہ ہے کہ یہودی اور نصرانی لٹریچر میں جنت کا کوئی ذکر ہی نہیں اسرائیلی لوگوں کو اس دنیا کی زندگی سے ایسی اُلفت رہی ہے اور اُن کی شاخ مسیحیت بھی اسی مرض میں مبتلا رہی ہے کہ اُخروی زندگی کے بارہ میں اُن کی کتب میں کوئی معین تعلیم موجود نہیں.وہ سب ان وعدوں کو جو انبیاء نے اُخروی زندگی کے بارہ میں کئے ہیں اِسی دنیا پر چسپاں کرتے چلے آئے ہیں.پس ان سے کسی کا متاثر ہونا امر محال ہے.ان کی کتب میں نہ ان مسائل پر بحث ہے اور نہ کوئی ان سے کچھ اخذ کر سکا ہے.وہ تو اِسی دنیا کی طرف راغب رہے ہیں جیسا کہ قرآن کریم ان کے حق میں فرماتا ہے کہ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا (الکہف :۱۰۵) یعنی ان کی تمام کوششیں اسی دنیا میں غائب ہو کر رہ جاتی ہیں پس اگر کوئی ان سے اس بارہ میں حاصل کرنا بھی چاہے تو کچھ حاصل نہیں کر سکتا.ہاں !قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے ان مسائل پر َسیر ُکن بحث کی ہے جو اپنے اپنے موقع پر بیان ہو گی.میں آخر میں اس امر کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس آیت کے بارہ میں جو مضامین میں نے بیان کئے ہیں وہ بانی سلسلہ احمدیہؑ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں.عالم اُخروی کے متعلق اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے کوئی شخص جو اس مسئلہ کے متعلق کچھ بیان کرے اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا.وَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَکی تشریح وَ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.وہ جنت میں بستے چلے جائیں گے.فنا کبھی اُن پر نہ آئے گی.یہ پہلی دونوں باتوں کا لازمی نتیجہ ہے.فنا اسی صورت میں ہوتی ہے کہ جب انسان کی غذا اس پر متضاد اثر ڈالے آخر ایک دن اس کی متضاد غذا کا اثر موت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے یا موت اس طرح آتی ہے کہ کوئی اسے مار دے.جب وہاں کی ہر غذا دوسرے کی مؤید ہو گی اور انسان کی اندرونی طاقتوں کے بھی مطابق ہو گی اورجب سب ساتھی نیک اور پاک ہوں گے اور کوئی کسی کو نقصان پہنچانے والا نہ ہو گا تو ظاہر ہے کہ موت کے دروازے بند ہو جائیں گے اور ابدی زندگی کا مقام انسان پائے گا.اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيٖۤ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا اللہ ہرگز نہیں رکتاکسی بات کے بیان کرنے سے (خواہ وہ) مچھر کے برابر ہو یا اس سے (بھی)بڑھ کرہو.پھر جو

Page 378

فَوْقَهَا١ؕ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ لوگ (تو) ایمان رکھتے ہیں وہ تو جان لیتے ہیں کہ وہ ان کی رب کی طرف سے بالکل (حق ) بات ہے اور جو لوگ کافر رَّبِّهِمْ١ۚ وَ اَمَّا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَيَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ ہوئے ہیں وہ کہتے ہیں کہ (آخر) اللہ کا اس (بات) کے بیان کرنے سے منشا کیا ہے (اصل بات یہ ہے کہ) وہ بہت بِهٰذَا مَثَلًا١ۘ يُضِلُّ بِهٖ كَثِيْرًا١ۙ وَّ يَهْدِيْ بِهٖ كَثِيْرًا١ؕ وَ مَا (سے لوگوں) کو اس کے ذریعہ سے گمراہ قرار دیتا ہے اور بہت(سے لوگوں) کو اس کے ذریعہ سے ہدایت دیتا ہے يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَۙ۰۰۲۷ اور وہ اس کے ذریعہ سے ان نافرمانوں کے سوا (کسی کو) گمراہ نہیں قراردیتا.حَلّ لُغَات.یَسْتَحْیٖ.یَسْتَحْیٖ اِسْتَحْیَا سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اِسْتَحْیَا حَیِیَ سے باب اِستفعال ہے حَیِیَ مِنْہُ حَیَاءً کے معنے ہیں اِحْتَشَمَ اس سے رُکا (اقرب) اَلْحَیَاءُ (جو حَیِیَ کا مصدر ہے) کے معنی ہیں اِنْقِبَاضُ النَّفْسِ مِنْ شَیْءٍ وَتَرْکُہٗ حَذَرًا مِنَ اللَّوْمِ فِیْہِ یعنی طبیعت کا کسی امر سے رُکنا اور کسی امر کو لوگوں کی ملامت کے خوف سے چھوڑ دینا حَیَاء کہلاتا ہے اور اِسْتَحْیَاہُ وَ اِسْتَحْیَامِنْہُ کے معنی ہیں.اِنْقَبَضَ عَنْہُ وَامْتَنَعَ مِنْہُ کسی چیز سے رُکا.اِسْتَحْیَاکے ایک معنی خَجَلَ کے بھی ہیں یعنی شرم کے مارے حیرانگی اور اضطراب میں پڑ گیا.اس آیت میں اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيٖۤ کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہیں رُکتا.(اقرب) اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا.ضَرَبَہٗ بِیَدِہٖ کے معنی ہیں اَصَا بَہٗ وَ صَدَمَہٗ بِھَا اس کو ہاتھ سے مارا.ضَرَبَہٗ بِالسَّوْطِ کے معنے ہیں جَلَدَہٗ.اس کو کوڑے سے مارا.(اقرب) اَلْمَثَلُکے معنی ہیں اَلشِّبْہُ وَالنَّظِیْرُ.مشابہ.اَلصِّفَۃُ بیان.اَلْحُجَّۃُ.دلیل.یُقَالُ اَقَامَ لَہٗ مَثَـلًا اَیْ حُـجَّۃً: اَقامَ لَہٗ مَثَـلًا کے معنی ہیں کہ اس پر حجت قائم کی.اَلْحَدِیْثُ.عام بات.اَلْقَوْلُ السَّائِرُ.ضرب المثل.اَلْعِبْرَۃُ.عبرت.اَ لْاٰیَۃُ.نشان (اقرب) اور ضَرَبَ لَہٗ مَثَـلًا کے معنے ہیں وَصَفَہٗ وَ قَالَہٗ وَ بَیَّنَہٗ.بیان کیا اور اچھی طرح سے واضح کیا (اقرب) پس اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسْتَحْيٖۤ اَنْ

Page 379

يَّضْرِبَ مَثَلًا کے معنی ہوں گے کہ اللہ نہیں رُکتا کسی بات کے بیان کرنے سے.فَوْقَھَا.فَوْقٌ عربی زبان میں دونوں معنی رکھتا ہے اگر بڑائی کا مقابلہ ہو تو اس کے معنے زیادہ بڑے کے ہو سکتے ہیںاور اگر چھوٹے ہونے کا ذکر ہو تو زیادہ چھوٹا ہونے کے معنے دے سکتا ہے.اِس آیت میں دونوں معنی کئے جا سکتے ہیں یہ بھی کہ مچھر سے بڑی بات.یا یہ کہ اس سے بھی چھوٹی بات.کہتے ہیں فُـلَانٌ اَسْفَلُ النَّاسِ وَ اَذَلُّہُمْ کا جواب اگر ھُوَ فَوْقَ ذَالِکَ دیا جائے تو اس کے یہ معنی نہ ہوں گے کہ وہ اس قدر کمینہ نہیں بلکہ یہ کہ وہ اس سے بھی زیادہ کمینہ ہے.(کشّاف) اٰمَنُوْا.اٰمَنَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اٰمَنَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴ اور آیت ۹.اَلْحَقُّ.اَلْحَقُّ ضِدُّ الْبَاطِلِ جھوٹ کے خلاف چیز یعنی سچ.اَ لْاَمْرُ المَقْضِیُّ ہو کر رہنے والی بات.اَلْعَدْلُ انصاف.اَ لْمِلْکُ مالکیّت.اَ لْمَوْجُوْدُ اَلثَّابِتُ یعنی ثابت رہنے والی چیز.اَلْیَقِیْنُ بَعْدَ الشَّکِّ شک کے بعد یقین کا آنا.(اقرب) کَفَرُوْا.کَفَرُوْا کَفَرَ سے جمع مذکر کا صیغہ ہے اور کَفَرَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت ۷.یُضِلُّ.یُضِلُّ اَضَلَّ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے جو ضَلَّ (مجرد) سے بنا ہے.ضَلَّ کے معنی حَلِّ لُغَات سورہ فاتحہ آیت ۷ میں بتائے جا چکے ہیں.اور اَضَلَّہٗ کے معنے ہیں.دَفَنَہٗ وَغَیَّبَہٗ اس کو دفن کر دیا اور غائب کر دیا.اَضَاعَہٗ اس کو ضائع کر دیا.اَھْلَکَہٗ اس کو ہلاک کر دیا.اَضَلَّ اللّٰہُ فُــلَانًا کے ایک معنے یہ بھی ہیں صَیَّرَہٗ اِلَی الضَّـلَالِ اللہ نے اُسے گمراہی کی طرف پھیر دیا.اور جب اَضَلَّ فُـلَانُ الْفَرَسَ وَالْبَعِیْرَ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ شَرَدَا وَ ذَھَبَا عَنْہُ وَلَمْ یَدْرِ اَیْنَ اَخَذَا کہ فلاں شخص کا اونٹ اور گھوڑا غائب ہو گئے اور علم نہ ہوا کہ وہ کدھر چلے گئے ہیں (اقرب) کلیات ابی البقاء اورمفردات راغب میں ہے کہ اِضْلَال کا لفظ جب اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنی دو طرح ہوتے ہیں (۱) کہ انسان گمراہ تو خود ہوتا ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اس کے گمراہ ہونے کا فیصلہ کر دیتا ہے.اور آخرت میں اسے اس کے نتیجہ میں دوزخ کی طرف لے جاتا ہے (۲) فطرتِ انسانی میں یہ بات رکھ دی گئی ہے کہ جب وہ کسی برُی بات کو یا اچھی بات کو بار بار کرتا ہے تو وہ اچھا سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس سے رُکنا اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ اس بات کا کرنا اس کی عادت میں داخل ہو جاتا ہے چونکہ فطرت کو اللہ تعالیٰ ہی نے اس قسم کا بنایا ہے اس لئے اضلال یا

Page 380

ہدایت انسانی کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے.(کلّیات ابی البقاء و المفردات للامام راغب) اس آیت میں یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًاکے معنے یَحْکُمُ اللّٰہُ بِالضَّلَالِ عَلَیْہِمْ کے کئے گئے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کے گمراہ ہونے کا فیصلہ کرتا ہے یا یہ کہ اس کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کو گمراہ قرار دیتا ہے.یَھْدِیْ.یَھْدِیْ ھَدٰی سے مضارع ہے اور ھُدًی کے لئے دیکھوحَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت ۶ و سورۃ البقرۃ آیت۳.اَلْفَاسِقِیْنَ.اَلْفَاسِقِیْنَ فَسَقَ سے اسم فاعل فَاسِقٌ آتا ہے اور فَاسِقُوْنَ.فَاسِقِیْنَ.فَسَقَۃٌ.فُسَّاقٌ فَاسِقٌکی جمع ہیں.فَسَقَ کے معنے ہیں (۱) تَرَکَ اَمْرَ اللّٰہِ اللہ کے حکم کو ردّ کر دیا.(۲) عَصٰی وَجَارَ عَنْ قَصْدِالسَّبِیْلِ نافرمانی کی اور سیدھے راستہ سے ہٹ گیا.چنانچہ کہتے ہیں فَسَقَتِ الرِّکَابُ عَنْ قَصْدِ السَّبِیْلِ کہ قافلہ چلتے چلتے ٹھیک راستہ سے اِدھر اُدھر ہو گیا.(۳) خَرَجَ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ حق کے راستہ سے نکل گیا.وَقِیْلَ فَـجَرَ اور بعض لغت کے ائمہ نے اس کے معنی بدکار ہو گیا کے کئے ہیں.نیز کہتے ہیں.فَسَقَتِ الرُّطَبَۃُ عَنْ قَشْرِھَا اَیْ خَرَجَتْ.کہ کھجور اپنے چھلکے سے باہر نکل آئی.اور جب فَسَقَ فُـلَانٌ مَالَـہٗ کہیں تو معنے یہ ہوں گے کہ اَھْلَکَہٗ وَاَنْفَقَہٗ اس نے مال کو ضائع کر دیا.اور خرچ کر دیا.(اقرب) لسان میں ہے اَلْفُسُوْقُ.اَلْخُرُوْجُ عَنِ الدِّیْنِ.یعنی فسوق دین سے خروج کرنے کا نام ہے اور اَلْفِسْقُ کے معنی ہیں.اَلْعِصْیَانُ وَالتَّرْکُ لِاَ مْرِ اللّٰہِ وَالْخُرُوْجُ عَنْ طَرِیْقِ الْحَقِّ یعنی نافرمانی اور خدا تعالیٰ کے حکم کو ترک کرنے اور سچے راستے سے خروج کا نام فسق ہے اَلْمَیْلُ اِلَی الْمَعْصِیَۃِ گناہ کی طرف میلان کو بھی فسق کہتے ہیں نیز لکھا ہے وَتُسمَّی الْفَأْرَۃُ فُوَیْسَقَۃً لِخُرُوْجِہَا عَلَی النَّاسِ وَ اِفْسَادِ ھَا یعنی چوہے کو فُوَیْسَقَہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو دُکھ دیتا ہے اور کام خراب کرتا ہے.(لسان) امام راغب فاسق کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اَکْثَرُمَا یُقَالُ الْفَاسِقُ لِمَنِ الْتَزَمَ حُکْمَ الشَّرْعِ وَ اَقَرَّ بِہٖ ثُمَّ اَخَلَّ بِجَمِیْعِ اَحْکَامِہٖ اَوْبِبَعْضِہٖ کہ فاسق کا لفظ اکثر اس شخص کے لئے بولا جاتا ہے جو پہلے تو شریعت کے احکام کی پابندی کرے اور ان احکام کو درست سمجھنے کا اقرار کرے لیکن بعدازاں تمام احکام شریعت کو یا بعض احکام کو ترک کر دے.وَاِذَا قِیْلَ لِلْکَافِرِ الْاَضْلِیِّ فَاسِقٌ فَـلِاَ نَّـہٗ اَخَلَّ بِحُکْمِ مَا اَلْزَمَہُ الْعَقْلُ وَاقْتَضَتْہُ الْفِطْرَۃُ اور جب شریعت کے احکام کے منکر کے لئے فاسق کا لفظ استعمال کریں تو یہ مفہوم مدِّنظر ہو گا کہ

Page 381

اس نے ان احکام کو چھوڑ دیا اور ان کے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا.جن کو عقل لینے کا فتویٰ دیتی تھی.اور جن کو تسلیم کرنے کا فطرت تقاضا کرتی تھی.(مفردات) پس فَاسِقٌ کے معنی ہوئے (۱) نافرمان (۲) خدا تعالیٰ کے حکم کو ترک اور ردّ کرنے والا (۳) حق کو قبول کر کے پھر اُسے ترک کر دینے والا.تفسیر.اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا کے معنے اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا کے یہ معنی نہیں کہ کوئی مثال بیان کرے بلکہ یہ معنے ہیں کہ کوئی بات بیان کرے.مَثَلٌ کے معنے حقیقت بیان وغیرہ کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں آتا ہے وَ سَكَنْتُمْ فِيْ مَسٰكِنِ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ وَ تَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَ ضَرَبْنَا لَكُمُ الْاَمْثَالَ (ابراہیم :۴۶) یعنی تم ان لوگوں کے گھرو ںمیں رہتے ہو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور تم کو معلوم ہو چکا ہے کہ ہم نے ان سے کیا معاملہ کیا اور ہم ان کے احوال تم سے بیان کر چکے ہیں.آیت زیر تفسیر میں بھی ضرب المثل کا کوئی موقع نہیں اور معنے صاف ہیں کہ ضرب مثل سے مراد صرف حال یا کیفیت یا حقیقت بیان کرنے کے ہیں.فرماتا ہے ہم اس بات سے نہیں رکتے کہ ہم کوئی بات بیان کریں خواہ وہ مچھر کے برابر ہو یعنی بہت چھوٹی ہو یا مچھر سے بھی چھوٹی ہو اس جگہ فَمَا فَوْ قَھَا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور فَوقکے عام معنے اُوپر کے ہوتے ہیں مگر عربی میں فَوقکا لفظ نسبتی طور پر استعمال ہوتا ہے.بڑی کے لئے بھی فَوقکالفظ استعمال کر دیتے ہیں اور چھوٹی کے لئے بھی.اور اس موقع پر اس کے معنے پہلی بیان کردہ حقیقت میں زیادتی پر دلالت کرنے کے ہوتے ہیں اگر کسی کی شرافت کا ذکر ہو اور کوئی کہے ھُوَ فَوْقَہٗ تواس کے معنے یہ ہوں گے کہ اس کی شرافت اس سے بھی زیادہ ہے جو تم بیان کرتے ہو.اور اگر دنائت کا ذکر ہو اور کوئی ھُوَ فَوْقَہٗ کہے تو اس کے معنے ہوں گے اس کی کمینگی اس سے بھی زیادہ ہے جو تم بتاتے ہو.یہاں چونکہ چھوٹی چیز کی مثال دی گئی ہے پس فَمَا فَوْقَہَا کے معنی ہیں کہ مچھر سے بھی چھوٹی بات بیان کرنے سے اللہ نہیں رکتا.اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةًمیں نحوی لحاظ سے بَعُوْضَة کا مقام اس آیت میں ما نکرہ پر دلالت کرنے کے لئے آیا ہے اور مَثَـلًا مَّا کے معنی ہیں کوئی بات.اور آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کوئی بات بیان کرنے سے نہیں رُکتا.رہا یہ کہ بَعُوْضَۃً کا مقام ترکیب کیا ہے؟ سو اس بارہ میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اس پر نصب اس لئے آئی ہے کہ یہ مَا کی صفت ہے جو بدل ہے مَثَـلًا کا جو آگے مفعول ہے یَضْرِبُ کا.بعض نے کہا ہے کہ یہ مَثَلًا کا عطف بیان ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ بدل ہے مَثَـلًا کا.بعض کہتے ہیں کہ یہ

Page 382

یَضْرِبُ بمعنی یَجْعَلُ کا ثانی ہے.بعض نے یہی توجیہ کی ہے مگر اسے مفعول اوّل مؤخر قرار دیا ہے بعض نے کہا ہے کہ بَعُوْضَۃً کو نصب اِسقاطِ جار کی وجہ سے آئی ہے اور آیت یوں ہے اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَیْنَ بَعُوْضَةٍ اِلٰی مَا فَوْقَهَا یعنی اللہ تعالیٰ اس سے نہیں رُکتا کہ مچھر سے لے کر اس سے بہت چھوٹی چیز تک کسی بات کو بیان کرے.اس آخری امر کو فَرّاء اور کسائی جیسے ائمہ نحو نے ترجیح دی ہے (ابن کثیر زیر آیت ھٰذا) اور یہی توجیہ سب سے درست ہے عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ اگر کوئی لفظ مجرور ہو یعنی اس پر لفظاً یا معناً زیر آئی ہو اور پھر زیر دینے والے لفظ کو وہاں سے حذف کر دیا جائے تو اس زیر والے لفظ کی زیر نصب سے بدل جاتی ہے یعنی لفظاً یا مقاماً اس پر زبر آ جاتی ہے اس جگہ چونکہ بَعُوْضَۃً کی طرف بَیْنَ کا لفظ مضاف تھا جسے اس لئے حذف کر دیا گیا کہ فَمَا فَوْقَہَا اس پر دلالت کر رہا تھا اس لئے بَعُوْضَۃً کی جرَ نصب سے بدل گئی اور بَعُوْضَۃٍ کی جگہ بَعُوْضَۃً ہو گیا.اس توجیہ کے مطابق جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے آیت کے معنے یہ ہوئے کہ خواہ ایک مچھر کے برابر بات ہو یا اس سے بھی چھوٹی ہو اگر اس کے بیان کرنے میں کوئی فائدہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے بیان کر دیتا ہے اور اس کی پرواہ نہیں کرتا کہ لوگ کہیں گے کہ ایسی بات بیان کرنے سے کیا فائدہ؟ میرے نزدیک یہی توجیہہ سب سے درست ہے مگر میرے نزدیک محذوف بجائے بَیْنَ کے لفظ کے مَثَل کا لفظ نکالنا زیادہ مناسب ہے یعنی مچھر کے برابر یا اس سے بھی چھوٹا.عربی زبان میں مچھر کو چھوٹی بات کی تمثیل کےلئے لاتے ہیں عربی زبان میں مچھر کو چھوٹی بات کی تمثیل کے لئے لاتے ہیں چنانچہ حدیث میں آتا ہے لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَاسَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ (ترمذی ابواب الزہد باب ماجاء فی ہوان الدنیا علی اللہ) یعنی اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی قیمت مچھر کے پَر کے برابر بھی ہوتی تو اللہ تعالیٰ کافر کو اس میں سے ایک گھونٹ پانی بھی پینے نہ دیتا.اس حدیث سے اِس آیت کے لفظوں اور معنوں دونوں پر روشنی پڑتی ہے.معنوں پر تو اس طرح کہ اس دنیا اور آخرت کی زندگی میں کوئی حقیقی مشابہت نہیں کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ اس دنیا کی نعمتوں کی اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ایک مچھر کے پَر کے برابر بھی قیمت نہیں او رلفظی مشابہت اس سے ثابت ہے کہ حدیث میں چھوٹا پَن بیان کرنے کے لئے مچھر کے پَر کی مثال دی ہے اور اس حدیث کے معنوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم مچھر سے بھی چھوٹے کے معنے مچھر کے پَر کے کر سکتے ہیں اور آیت کے معنے یہ ہو سکتے ہیں کہ ایک مچھر کے برابر بلکہ اس کے پَر کے برابر بھی کوئی بات بیان کرنی پڑے تو اللہ تعالیٰ اس سے نہیں رُکتا.آیت اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا کے مطالب کی تفسیر لفظوں اور عبارت کی تشریح کرنے کے بعد اب میں

Page 383

Page 384

نقشہ نہیں بلکہ بطور استعارہ کے استعمال ہوئی ہیں جیسے کسی استقلال والے شخص کو کہہ دیتے ہیں کہ وہ تو پہاڑ ہے اب پہاڑ سے اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں ہوتا کہ وہ اُونچا اور ایک جگہ ٹھہرا ہوا ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ پہاڑ کو جو مقام جسمانی دنیا میں حاصل ہے وہ مقام اس شخص کو اخلاق کی دنیا میں حاصل ہے اور وہ اخلاقی طور پر بلند حوصلہ اور اپنے ارادہ سے نہ ٹلنے والا ہے لیکن پھر بھی چونکہ ان استعاروں کے علاوہ قرآن کریم میں جنت کی نعماء کی امتیازی خصوصیات بھی بیان کی گئی ہیں اس لئے مومن ان استعاروں کو سُن کر فوراً ان دوسرے مضامین کو یاد کر کے کہتے ہیں کہ جو کچھ فرمایا سچ فرمایا اور یہ صداقت معمولی نہیں بلکہ وہ ہے جو ہمارے رب کی طرف سے آئی ہے یعنی یہ استعارے اور تشبیہات بالکل اس مضمون کے مطابق ہیں جو دوسری جگہوں پر جنت کی روحانی کیفیات کے متعلق بیان ہوا ہے گویا مومن ان استعاروں کی صحت اور ان کی مطابقت کی داد دیتے ہیں اور ان کے دل اس لذت سے مسرور ہو جاتے ہیں مگر اس کے مقابلہ میں کفار جو قرآن کریم کے دوسرے مضامین کو جو اس بارہ میں بیان ہوئے ہیں (جیسا کہ وہ مضامین جو میں جنت کی نعمتوں کے بارہ میں آیات قرآنیہ میں سے ہی پہلے بیان کر آیا ہوں) یا توجانتے نہیں یا جاننا چاہتے نہیں ان استعاروں اور تشبیہوں کو سن کر کہتے ہیں کہ مَاذَا اَرَادَ اللّٰہُ بِھٰذَا مَثَـلًا آخر اس قسم کی بات بیان کرنے سے خدا تعالیٰ کا منشاء کیا ہے یہ تو جیسی بیان ہوئی جیسی نہ ہوئی.یہ تعصب او رجہالت کا نتیجہ ہوتا ہے ورنہ اِس دنیا میں استعاروں اور تشبیہات سے بہت بڑا کام لیا جاتا ہے استعارہ اور تشبیہ ہر زبان کا ایک جزو اہم ہیں اور اعلیٰ ادیب اس سے کام لیتے ہیں.ایک بہادرکو بہادر کہنے سے اگرکام لیا جا سکتا تو اسے شیر کے نام سے کیوں موسوم کرتے ایک سخی کو اگر سخی کہنے سے وہی فائدہ حاصل ہو سکتا جو حاتم کہنے سے حاصل ہو سکتا ہے تو اسے حاتم کیو ںکہتے ہیں؟ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ میں جنّت کے متعلق پرُاِستعارہ کلام پر مومنوں کے ایمان رکھنے کا ذکر اصل بات یہ ہے کہ غیر مرئی اور لطیف وجودوں کو تشبیہات کے ذریعہ سے ہی ذہن کے قریب کیا جاسکتا ہے.آواز کے اُتار چڑھائو، سمٹنے اور پھیلنے کو بیان کرنے کے لئے انسان کے پاس کوئی معیار نہیں.جب ایک شخص دوسرے کے سامنے آواز کی خوبی بیان کرتا ہے تو کس طرح اُسے میٹھی کے لفظ سے ظاہر کرتا ہے حالانکہ میٹھا تو زبان کے ذائقہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن پھر بھی آواز کی خوبی کو بیان کرنے کے لئے خوب اچھی وغیرہ الفاظ سے انسان کو تسلی نہیں ہوتی اور آخر وہ میٹھی آواز کہہ کر اپنے مطلب کو بیان کرتا ہے.خوشبو کا ذکر بھی مشکل ہوتا ہے اور خوشبو کے مختلف اثرات کو بیان کرنے والے کسی خوشبو کو پھسلنے والی، کسی کو گول اور کسی کو چپٹی کہہ کر اس کی کیفیت ذہن نشین کراتے ہیں حالانکہ خوشبو

Page 385

کا گول یا چپٹاہونا عقل کے خلاف ہے.یہ محض استعارات ہیں اور اِن کے بغیر صرف یہ کہہ کر کہ اچھی خوشبو ہے، عمدہ ہے ہم کبھی اپنے مطلب کو واضح نہیں کر سکتے مگر جب ہم استعارہ استعمال کرتے ہیں تو مضمون کو نہایت قریب کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.غرض استعارہ اور تشبیہ ضروری امور میں سے ہیں اور صرف مبالغہ کا کام نہیں دیتے بلکہ حقیقت کو قریب کرنے کا کام دیتے ہیں اور کفار کا یہ اعتراض کہمَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا محض جہالت اور تعصب کا اظہار تھا.مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا میںمَثَـلًا کا اعراب مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًامیں مَثَـلًا پر نصب اس لئے ہے کہ وہ بطور تمیز کے واقع ہوا ہے اور تمیز کا اصول یہ ہے کہ اسے اسم کی طرف مضاف کر کے معنے صحیح ہو سکیں چنانچہ اس آیت کے معنے یوں ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کا اس بات کے بیان کرنے سے کیا منشاء ہے؟ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَہْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا اس میں اس قسم کے ناقص ذکر کی غرض کو بیان فرمایا اور بتایا کہ ایسے ذکر سے فائدہ کیوں نہیں.مومن چونکہ رُوحانی آدمی ہیں انہوں نے روحانی لذتیں حاصل کی ہوئی ہیں اس لئے جب وہ یہ استعارے قرآن میں پڑھتے ہیں تو اُن کے قلوب کچھ نہ کچھ اندازہ ان نعمتو ںکا لگا لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے ان دونوں نعمتوں کو الگ الگ چکھا ہوا ہوتا ہے.نماز کی لذت ‘روزہ کی لذّت‘ صدقہ و خیرات کی لذّت بھی انہوں نے چکھی ہوئی ہوتی ہے اور پھلوں کی لذّت بھی چکھی ہوئی ہوتی ہے.پس اِس لطیف ذوق کی وجہ سے جو صاحبِ کمال لوگوں میں ہوتا ہے وہ ان روحانی پھلوں اور ان جسمانی پھلوں کی مشابہت کو سمجھتے ہیں اور جب قرآن کریم میں استعارہ اور تشبیہ کے طور پر ان جسمانی نعمتوں کے الفاظ کا استعمال دیکھتے ہیں توان کے دل اس مناسبت کو جو ان دونوں میں ہے اپنے ذوق صحیح کی وجہ سے محسوس کر لیتے ہیں اور یہ امر ان کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتا ہے لیکن کافر جن کی رُوحانی حِس مری ہوئی ہے اور وہ عبادات کی لذت سے آشنا ہی نہیں.اور ان کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ نازل ہوتا ہے وہ انہوں نے کبھی چکھا ہی نہیں اس لئے ان کی مثال اس اندھے کی طرح ہوتی ہے جس کے سامنے رنگوں کا ذکر کیا جائے تو وہ کچھ سمجھ نہیں سکتا.اور اس کے قلب کی کوئی تار خوبصورت نظارو ںکے ذکر سے پھڑکتی نہیں.اور وہ بجائے فائدہ اُٹھانے کے اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اندر کی گمراہی کو ظاہر کر دیتے ہیں.جس طرح مثلاً کسی کی آنکھ بظاہر سلامت ہو مگر اُسے نظر کچھ نہ آتا ہو اور کسی مجلس میں لوگ کسی نظارے کی طرف اشارہ کریںاور وہ بول اُٹھے کہ ایسی کوئی چیز موجود نہیں تو اس کے اندھے پن کا راز افشاء ہو جائے گا اسی طرح فرماتا ہے کہ ایسے بیان سے ایک فائدہ مومنوں کے بارہ میں ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے اندرونی ذوقوں کاپتہ چل جاتا

Page 386

ہے اور ایک فائدہ کافروں کے بارہ میں حاصل ہوتا ہے.کہ ان کی اندرونی گمراہی کا پتہ چل جاتا ہے.اِضْـلَالکے معنے گمراہی کے متعلق فیصلہ صادر کرنے کے حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا میں گو نسبت گمراہ کرنے کی خدا تعالیٰ کی طرف ہے مگر ایک تو اس کے معنی ہلاک کرنے کے بھی ہوتے ہیں.دوسرے اِضْـلَال کے معنی گمراہی کا نتیجہ نکالنے کے بھی ہوتے ہیں جیسے کہ ائمہ کتب لغات نے بیان کیا ہے اور جیسا کہ خود آیت کا اگلا ٹکڑا بتا رہا ہے کیونکہ اس ٹکڑے میں یہ فرمایا گیا ہے کہ وَ مَا يُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ یعنی خدا تعالیٰ اس قسم کے استعارہ اور تشبیہ والے بیانات سے صرف فاسقوں کو گمراہ کرتا ہے.اور فاسق چونکہ پہلے سے ہی گمراہ ہوتا ہے اس لئے اس کے معنی یہی ہوئے کہ جو گمراہ ہوں ان کی گمراہی کو ظاہر کر دیتا ہے اور ان کی گمراہی کے متعلق اپنا فیصلہ صادر فرما دیتا ہے.الَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ١۪ وَ جو اللہ کے عہد کواس کے پختہ کرنے کے بعد توڑ دیتے ہیں يَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ وَ يُفْسِدُوْنَ فِي اور اس چیز کو جسے ملانے کا اللہ نے حکم دیا ہے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں الْاَرْضِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۰۰۲۸ وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں.حَلّ لُغَات.یَنْقُضُوْنَ.نَقَضَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور نَقَضَ الْعَہْدَ وَالْاَمْرَ کے معنی ہیں ضِدُّ اَبْرَمَہٗ.وَاَفْسَدَہٗ بَعْدَ اِحْکَامِہٖ کہ کسی عہد کو پختہ کرنے کے بعد پھر توڑ دیا (اقرب) پس یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ کے معنے ہیں وہ اللہ کے عہد کو توڑتے ہیں.عَھْد.اَلْوَ فَاءُ.وفا.اَلضَّمَانُ ضمانت.اَلْمَوَدَّۃُ دوستی.اَلذِّمَّۃُ ذمہ داری.عہد.اَلْوَصِیَّۃُ.وصیّت.اَلْمَوْثِقُ.عہد.نیز کہتے ہیں عَھِدَ فُـلَانُ الشَّیْءَ اور معنے یہ ہوتے ہیں حَفِظَہٗ وَرَاعَاہُ حَالًا بَعْدَ حَالٍ اس کی حفاظت کی اور ہر گھڑی اس کی نگہداشت میں لگا رہاہے.قِیْلَ ھٰذَا اَصْلُہٗ ثُمَّ اسْتُعْمِلَ فِی الْمَوْثِقِ الَّذِیْ

Page 387

یَلْزِمُ مُرَا عَاتَہٗ بعض نے کہا ہے کہ یہ تو عَہد کے لغوی معنے ہیں لیکن پھر ایسے اقرار کے متعلق یہ لفظ استعمال ہونے لگا جس کی نگہداشت اور حفاظت ضروری ہو.(اقرب) یُفْسِدُوْنَ.یُفْسِدُوْنَ فَسَدَ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۱۲.اَلْخَاسِرُوْنَ.اَلْخَاسِرُوْنَ خَسِرَ سے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے اور خَسِرَ التَّاجِرُ فِی بَیْعِہٖ (یَخْسِرُ) کے معنے ہیں وُضِعَ فِیْ تِجَارَتِہٖ تاجر کو تجارت میں گھاٹا ہوا ضِدُّرَبِـحَ.خَسِرَ کا لفظ نفع کے مخالف معنوں میں استعمال ہوتا ہے.خَسِرَ الرَّجُلُ کے معنی ہیں ضَلَّ وَھَلَکَ گمراہ ہو گیا اور ہلاک ہو گیا (اقرب).عربی زبان میں یہ لفظ ہمیشہ لازم ہی استعمال ہوتا ہے میں نے بڑی تحقیق کی ہے مگر مجھے نہیں ملا کہ یہ لفظ عربی کے استعمال میں کہیں بھی متعدّی استعمال ہواہو مگر عجیب بات ہے کہ تمام کے تمام مفسرین خَسِرُوْا کے معنے اَھْلَکُوْا کرتے ہیں لیکن تاج العروس والا کہتا ہے وَلَا یُسْتَعْمَلُ ھٰذَا الْبَابُ اِلَّا لَازِمًا کَمَا صَرَّحَ بِہٖ اَئِمَّۃُ التَّصْرِیْفِکہ سارے اہلِ تصریف اس کو لازم ہی قرار دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ وہ غلطی پر ہیں کیونکہ قرآن کریم میں متعدی استعمال ہوا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ لازم ہی ہے اور افسوس یہ ہے کہ ہماری لغتیں مذہبی اثر کے نیچے ہیں اور تفسیروں کے ماتحت لغت کو بھی کر دیا ہے جس سے اسلام کو فائدہ نہیں پہنچا بلکہ نقصان پہنچا ہے اور کئی معارف قرآنیہ اس تصرف کی وجہ سے لوگوں کی نظر سے مخفی ہو گئے ہیں کاش کوئی شخص ہمت کر کے ایسی لغت تیار کرے جو تفسیروں کے اثر سے بالکل آزاد ہوتا کہ لوگ اس ناجائز دبائو سے بالکل آزاد ہو جائیں اور قرآن مجید کے سمجھنے میں لوگوں کو سہولت حاصل ہو جائے.خَسِرَ کے لفظ کے متعلق ہی اگر تفسیرو ںکا رُعب ماننے کی بجائے عربی کے قواعد پر نظر کی جائے تو اسے خلافِ محاورہ متعدّی بنانے کی ضرورت نہ تھی ہم اس کے معنے اس طرح کر سکتے ہیں کہ جس طرح سَفِہَ نَفْسَہٗ کے کرتے ہیں یعنی حرفِ جار محذوف تصور کرتے ہیںاور جملہ کویوں تصوّر کرتے ہیں کہ سَفِہَ فِیْ نَفْسِہٖ یا تمیز خیال کرتے ہیں جو شاذو نادر کے طور پر معرفہ بھی آ جاتی ہے اسی طرح ہم خَسِرُوْا اَنْفُسَہُمْ کے بھی یہ معنے کر سکتے ہیں کہ اپنے نفسوں کے بارہ میں گھاٹا میں پڑ گئے اور یہ معنے دوسرے معنوں سے زیادہ زور دار بھی ہو جاتے ہیں اور یہ مطلب نکلتا ہے کہ ان کا سب فریب خود اپنے ہی نفسوں کے خلاف پڑا ہے تمیز کی صورت میں بھی زور قائم رہتا ہے اور معنے اوپر والے ہی رہتے ہیں.تفسیر.فاسقوںکی تین صفات اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ فاسق جن کو اللہ تعالیٰ گمراہ کرتا ہے

Page 388

کن صفات کے مالک ہوتے ہیں اور وہ صفات یہ بیان فرمائی ہیں (۱) اللہ تعالیٰ سے جو عہد انہوں نے باندھا ہوا ہے اسے توڑنے والے ہوتے ہیں (۲) جن تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط کرنے کا حکم دیا ہے وہ ان کو کاٹنے والے ہوتے ہیں (۳) اور زمین میں فساد کرنے والے ہوتے ہیں.فاسقوں کے عہد توڑنے سے مراد امر اوّل یعنی اللہ تعالیٰ کے عہد کو توڑنے سے مراد اوّل تو توحید کا ترک ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا.وَ اِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْۤ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ اَشْهَدَهُمْ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ١ؕ قَالُوْا بَلٰى ١ۛۚ شَهِدْنَا١ۛۚ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ(الاعراف :۱۷۳) یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر رُوح کے اندر ایک ایسا مادہ رکھا ہے کہ گویا وہ زبانِ حال سے اس امر کی شہادت دے رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا رب ہے پھر فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ بھی گویا اپنی صفات کے مخفی ظہور کے ذریعہ سے ان سے کہتا ہے کہ کیا تم اس پر گواہ ہو اور وہ بزبانِ حال کہتی ہیںکہ ہاں! ہم گواہ ہیں.یہ انسانی فطرت کی ایک لطیف شہادت قرآن کریم نے بیان کی ہے لیکن کچھ لوگ اس فطرتی شہادت کو جو ہر انسان کے نفس میں پائی جاتی ہے ُبھلا کر شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اس طرح گویا اس عہد کو توڑ دیتے ہیں جو ہر فطرت نے ہوش آتے ہی توحید پر قیام کے متعلق کیا تھا.دوسری مراد عہد سے وہ عہد ہے جوہر نبی اپنے سے بعد میں آنے والے نبی پر ایمان لانے کے متعلق لیتا ہے.فرماتا ہے.وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ ( آل عمران :۸۲) یعنی ہم نے ہر نبی سے اس کے وقت میں عہد لیا ہے کہ جو کلام اور جو مامور بعد میں میری طرف سے آئے اسے بھی ماننا ہو گا.پس فاسق وہ ہوتے ہیں جو اس عہد کو بھول جاتے ہیں اور وقت کے مامور کا انکار کر دیتے ہیں.یَقْطَعُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ کا مطلب اور یہ جو فرمایا کہ وَ يَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ اس کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور سچائیوں کی محبت ان کے دلوں سے سرد ہو جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.بلکہ دنیا کی محبت میں سرشار ہو جاتے ہیں.اور ان کی تمام توجہ دنیا کی طرف پھر جاتی ہے.

Page 389

پھر فرماتا ہے کہ دنیا کی محبت بھی ان کی صادق نہیں ہوتی.کیونکہ محبوب چیز کی تو عقلمند حفاظت کرتا ہے مگر وہ دنیا کو بھی خراب کر دیتے ہیں اور اس کے امن کو بدامنی سے اور اس کی خوبصورتی کو بد صورتی سے بدل دیتے ہیں اور ہونا بھی یہی چاہیے کیونکہ دنیا کو خوبصورت تو اس کا خالق ہی بنا سکتا ہے جو خالق سے منہ موڑ لیں وہ دنیا کی مشین کو سمجھ ہی کس طرح سکتے ہیں؟ او رجو کسی مشین کو سمجھتا نہیں وہ اسے خراب ہی کرے گا درست کس طرح کر سکتا ہے؟چنانچہ فرماتا ہے اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ یہ لوگ ہی گھاٹا پانے والے ہیں.سمجھتے تو یہ ہیں کہ مومن دنیوی نعمتوں سے محروم ہو کر گویا زندگی کا لُطف کھو بیٹھے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود سرچشمۂ حیات سے قطع تعلق کر کے ازلی زندگی سے محروم ہو گئے ہیں.كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُمْ١ۚ ثُمَّ تم کس طرح اللہ (کی باتوں)کا انکار کرتے ہوحالانکہ تم بے جان تھے پھر اس نے تمہیں جاندار بنایا پھر يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ۰۰۲۹ (ایک دن آئے گا کہ ) وہ تمہیں مارے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا پھر تمہیں اسی کی طرف لوٹایا جائے گا.حَلّ لُغَات.تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ.تَکْفُرُوْنَ کَفَرَ سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے او رکَفَرَ بِاللّٰہِ کے معنی ہیں خدا کی ہستی کا انکار اس کی صفات یا احکام کا انکار کیا.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۷.اَمْوَاتًا.اَمْوَاتًا مَیِّتٌ اور مَیْتٌ کی جمع ہے اور مَیِّتٌ اور مَیْتٌ کے معنے ہیں.اَلَّذِیْ فَارَقَ الْحَیٰوۃَ جو زندگی سے علیحدہ ہو جاوے (اقرب) موت کے مختلف معانی ہیں جیسی زندگی ہو گی اسی کے مقابل اس چیز کے نہ ہونے کو موت کہیں گے.مزید تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۲۰.ثُمَّ.حرفِ عطف ہے جو ترتیب اور تراخی کے لئے آتا ہے یعنی یہ ظاہر کرتا ہے کہ معطوف اپنے معطوف علیہ کے بعد ترتیباً اور کچھ دیر کے بعد واقع ہوا ہے.اُردو زبان میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ’’پھر‘‘ ’’تب‘‘ ’’بعدازاں‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.اور بعض اوقات ثُمَّکے آخر میں تا بھی لے آتے ہیں جیسے کہ اس شعر

Page 390

میں اسے لایا گیا ہے ؎ وَلَقَدْ اَمُرُّ عَلَی اللَّئِیْمِ یَسُبُّنِیْ فَمَضَیْتُ ثُمَّتَ قُلْتُ لَا یَعْنِیْنِیْ (اقرب زیر لفظ ’’ثم‘‘ ) یعنی میں جب کبھی گالیاں دینے والے ایک کمینے شخص کے پاس سے گزرتا ہوں تو خاموشی سے گزر جاتا ہوں اور اپنے نفس میں کہتا ہوں کہ وہ مجھے مخاطب نہیں کرتا.تفسیر.کفر باللہ دو طرح ہوتا ہے کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ.کفر باللہ دو طرح ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کا انکار کرےیا اس کے احکام یا بعض صفات کا انکار کرے.اس جگہ دوسرے معنے مراد ہیں.خدا تعالیٰ کی ذات کا انکار مراد نہیں بلکہ کفر سے مراد کلام الٰہی کا انکار ہے جس کا ذکر اوپر وَ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا میں ہو چکا ہے.كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ میں عقلی طو پر اللہ تعالیٰ کی صفت تکلم کی دلیل اصل ذکر آیات میں کلامِ الٰہی کا ہی تھا آگے اس کے انکار کے ذکر میں کافروں کی سزا اور مومنوںکی جزاء کا ذکر ضمناً ہوا تھا پس اس آیت میں پھر اصلی مضمون کی طرف رجوع کر کے عقلی طور پر کلام الٰہی کے ثبوت میں دلیل بیان فرمائی اور بتایا کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفتِ تکلمّ کا انکار کر کس طرح سکتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تم کو زندہ کیا.یہ دلیل اس لئے دی کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوحانی زندگی بغیر وحی کے ناممکن ہے کیونکہ رُوح کی زندگی کے معنے یہ ہیںکہ وہ ابدی زندگی پانے کے قابل ہو جائے اور ابدی زندگی کا معاملہ اسرارِ قدرت میں سے ہے اِسے انسان عقلاً معلوم نہیں کر سکتا اس کے معلوم کرنے کا ذریعہ صرف ایک ہی ہے کہ خدا تعالیٰ جو اگلی زندگی کی حقیقت سے واقف ہے اپنے الہام سے اس کے مطابق قابلیت پیدا کرنے کا گرُ بتائے.پس روحانی زندگی صرف وحی اور الہام سے مل سکتی ہے مجرد عقل اس کے ذرائع کو معلوم نہیں کر سکتی پس اس آیت میں بتاتا ہے کہ سوچو تو سہی! کہ جس خدا نے جسم کے لئے زندگی کا سامان پیدا کیا ہے کس طرح ہو سکتا ہے کہ اُخروی زندگی کا جو دنیوی زندگی سے کہیں اہم ہے سامان پیدا نہ کرے گا.اَمْوَاتٌ کی تشریح اور مَوْتٌ کے چھ معانی اَمْوَاتٌ جمع مَیِّتٌ کی ہے.اور ّمیت اُسے کہتے ہیں جس پر موت وارد ہو.اور موت حیات کے مقابل کا لفظ ہے جو معنی حیات کے ہوں اس کے اُلٹ معنے موت کے ہوتے ہیں.حیات کے معنی لغت میں (۱) نمو کے ظاہر ہونے کے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يُحْيِ

Page 391

الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الروم :۲۰) یعنی اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے خشک اور ویران ہونے کے بعد زندہ کرتا ہے یعنی اس میں سبزہ ،چارہ اُگاتا ہے (۲) دوسرے معنی حیات کے حِس کا درست ہونا ہے اور موت کے معنے حِس کے زائل ہونے کے ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے يٰلَيْتَنِيْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا (مریم :۲۴) حضرت مریم نے دردِزِہ کے وقت میں فرمایا کاش میں اس سے پہلے بیہوش ہو جاتی.اس جگہ موت سے مراد حقیقی موت نہیں بلکہ درد کی وجہ سے انہوں نے بیہوشی کی خواہش کی ہے (۳) تیسرے معنی حیات کے علم اور عرفان کے ہوتے ہیں.اور موت کے معنی جہالت کے ہوتے ہیں.قرآن کریم میں آتا ہے اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاَحْيَيْنٰهُ (الانعام :۱۲۳) یعنی کیا وہ شخص جو جاہل ہو اور پھر ہم نے اسے علم رُوحانی بخشا ہو اس جیسا ہو سکتا ہے جو اس کے برخلاف ہے؟ اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے فَاِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى (الروم :۵۳) تو مُردوں کو نہیں سُنا سکتا.مراد یہ ہے کہ تو جاہلوں سے بات نہیں منوا سکتا (۴) زندگی سے مراد خوشیاں ہوتی ہیں اور موت کے معنے تکلیفوں اور دُکھوں کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے.يَاْتِيْهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَّ مَا هُوَ بِمَيِّتٍ(ابراہیم :۱۸)یعنی دوزخی کو چاروں طرف سے موت آئے گی مگر وہ مرا ہوا نہ ہو گا.یعنی غم اور پریشانی لاحق ہو گی مگر موت نہ آئے گی (۵) پانچویں معنی حیات کے جاگنے اور ہوشیار ہونے کے ہیں.اور اس کے بالمقابل موت کے معنی نیند کے ہیں (۶) چھٹے معنے حیات کے جاندار کا سانس لینا.یا سانس کی حالت کا پایا جانا ہے اور موت کے معنے اس کے سانس کا بند ہو جانا یا سانس کے بغیر ہونا ہے.آیت ھٰذا میں اَمْوَاتٌ سے مراد بے جان ہونے کے اس آیت میں پہلے اَمْوَاتٌکے معنے تو بے جان ہونے کے ہیں نہ کہ وہ معنے جو اُردو میں مُردہ ہونے کے ہوتے ہیں.یعنی یہ مراد نہیں کہ زندہ تھے اور مر گئے بلکہ یہ معنی ہیں کہ بے جان تھے پھر ہم نے تم کو زندہ کیا اور جاندار بنایا.پھر فرماتا ہے کہ جاندار بنانے کے بعد پھر تمہاری روح قبض کرے گا اور مار دے گا.اس کے بعد پھر زندہ کرے گا اور اس کے بعد تم اس کی طرف لوٹائے جائو گے یعنی قرآن کریم کے نزدیک انسان پر چار حالتیں آتی ہیں.اوّل بے جان ہونا.پھر جاندار بننا.پھر مرنا اور پھر زندہ ہونا.اور آخری حالت جو چاروں کا نتیجہ ہے خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہونا ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس خدا نے تم کو بے جان سے جاندار بنایا.اور پھر جان دینے کے بعد موت دیتا ہے.اس کی نسبت یہ خیال کرنا کہ اس موت کے بعد دوسری زندگی نہ دے گا خلاف عقل ہے.اور اگر دوسری

Page 392

زندگی ملنی ہے.تو پھر کوئی ہدایت بھی اس کی طرف سے ضرور آنی چاہیے تاکہ وہ انسان کو دوسری زندگی کے لئے تیار کرے.کیا سادہ اور لطیف استدلال ہے کہ ایک بیجان کو جاندار بنانے کی اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت تھی؟ اگر کوئی خاص مقصد اس کے سپرد نہ تھا پھر فرض کرو کہ کوئی مقصد نہ تھا تو ایک صاحب فہم و فراست وجود کو پیدا کر کے مارا کیوں؟ اگر اسی دنیا کی خوشی اور چین انسان کے لئے مقدر تھا تو پھر اس قدر لمبے عمل کے بعد بے جان سے جاندار بنا کر اِسے موت کا مزہ کیوں چکھایا جب تک کہ اس موت کے بعد ایک اور اعلیٰ حیات دینی مدنظر نہ تھی؟ آیت وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا الخ میں اس خیال کا ردّ کہ مرنے کے بعد عذاب قبر کوئی نہیں اس آیت میں اُن لوگوںکا بھی ردّ ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ مرنے کے بعد عذاب قبر کوئی نہیں بلکہ جنت، دوزخ سے ہی جب واسطہ پڑے گا پڑے گا کیونکہ اس میں پانچ زمانوں کا ذکر ہے.ایک بے جان ہونے کا زمانہ.دوسرا دنیوی زندگی کا زمانہ.تیسرا جسمانی موت کا زمانہ.چوتھا پھر ایک نئی زندگی کا زمانہ اور اس کے بعد وہ زمانہ جب انسان خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش ہو گا.یعنی حشر موت کے بعد حیات اور حیات کے بعد ثُمَّ کا لفظ رکھ کر اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ فرمانا بتاتا ہے کہ موت کے جلد بعد ایک قسم کی حیات تو مل جاتی ہے مگر حشر بعد میں ہوتا ہے.یہ حیات جو حشر سے پہلے ملتی ہے لازم ہے کہ اس میں کوئی نیک یا بد سلوک انسان سے ہو ورنہ اس حیات کے معنی ہی کوئی نہیں.اور اگر نیک و بد سلوک ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ حشر سے پہلے بھی ایک نامکمل ثواب اور نامکمل عذاب ہے اور اسی کو سزا و جزاء قبر کہتے ہیں.جو احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ ٖوسلم سے بھی ثابت ہے قرآن کریم کی ایک اور آیت واضح طو رپر اس عذاب کا ذکر کرتی ہے.فرماتا ہے اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّا١ۚ وَ يَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ١۫ اَدْخِلُوْۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ (المومن:۴۷) یعنی فرعون کی قوم کو صبح اور شام دوزخ کے سامنے کیا جاتا ہے.اور جب قیامت کا دن آئے گا تو کہا جائے گا کہ آل ِفرعون کو سخت عذاب میں داخل کرو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ دوزخ میں داخل ہونے سے پہلے آلِ فرعون کو عذاب ملتا رہے گا اور قرآن کریم کے نزول کے وقت میں بھی مل رہا تھا.آیت وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا الخ میں اسلام کی دو ترقیوں کی طرف اشارہ اس آیت میں جس طرح جسمانی موت کے بعد ایک حیات کے وعدہ کا ذکر ہے دنیا کی قومی موت اور زندگی کی طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے اور مراد یہ ہو سکتی ہے کہ دنیا مرُدہ تھی خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ سے اسے زندہ کیا ہے پھر ایک دفعہ وہ مرے گی اور پھر اللہ تعالیٰ اسے زندہ کرے گا گویا اسلام کی دو ترقیو ںکی خبر اس میں دی گئی ہے ایک شروع زمانہ میں اور ایک آخر زمانہ میں یعنی اس جگہ سورۃ جمعہ کی آیت وَ اٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ (الجمعۃ:۴)

Page 393

والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے.اِن معنوں کے رُو سے ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ سے یہ مراد ہو گی کہ پھر قیامت آجائے گی اور اس طرف اشارہ نکلے گا کہ دینِ اسلام آخری دین ہے اور اس کے بعد قیامت تک کوئی اَور دین یا مذہب نہیں.هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَكُمْ مَّا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا١ۗ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى وہ (خدا ) وہی (تو)ہے جس نے ان تمام چیزوں کو جو زمین میں ہیں تمہارے(فائدہ کے) لئے پیدا کیا ہے.پھر السَّمَآءِ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ١ؕ وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌؒ۰۰۳۰ وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو انہیں مکمل بنا دیا یعنی ساتوں آسمانوں کو اور وہ ہر ایک بات (کی حقیقت )کو خوب جانتا ہے.حَلّ لُغَات.خَلَقَ.خَلَقَ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۲.اِسْتَوٰی.اِسْتَوٰی کے معنی (۱) برابر ہو گیا (۲) معتدل ہو گیا (۳) اس میں کوئی کمی یا نقص باقی نہ رہا.(۴) کھانے کے لئے آئے تو معنے ہیں َپک گیا (۵) لکڑی یا اور دھات وغیرہ کے لئے آئے تو معنے ہوں گے اس میں کجی نہ رہی (۶) انسان کے لئے ہو تو اس کے معنے ہوں گے جوان ہو گیا یا کمال کو پہنچ گیا (۷) اِسْتَوَی الْمَلِکُ عَلٰی سَرِیْرِ الْمُلْکِ کے معنے ہیں بادشاہ تخت ِ حکومت پر قابض ہو گیا (۸) اِسْتَوَیٰ عَلَی الشَّیْ ءِ کے معنی ہیں اُس پر غالب آ گیا (اقرب).ایک شاعر کہتا ہے.ع فَلَمَّا عَلَوْنَا وَاسْتَوَیْنَا عَلَیْھِمٗ (محیط) یعنی جب ہم ان پر بھاری ہو گئے اور غالب آ گئے.(۹) اِسْتَوٰی کے معنے عَلَا اور اِرْتَفَعَ کے بھی ہیں یعنی اونچا ہوا.(۱۰) جب اس کا صلہ اِلٰی آئے تو اس کے معنی کامل توجہ کرنے کے ہوتے ہیں.(اقرب) اَلسَّمَآءُ.اسم جنس ہے ایک کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور زیادہ کے لئے بھی.چونکہ آگے اس کی طرف جمع کی ضمیر پھیری گئی ہے معلوم ہوا یہاں جمع مراد ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۰.پس ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآءِ کے معنی ہوئے پھر وہ آسمانوں کی طرف متوجہ ہوا.

Page 394

سَوّٰھُنَّ.سَوَّی الشَّیْ ءَ تَسْوِیَۃً کے معنے ہیں جَعَلَہٗ سَوِیًّا کسی چیز کو درست کیا.صَنَعَہٗ مُسْتَوِیًّا کسی چیز کو ایسا بنایا کہ اس کی سب ضرورتوں کا لحاظ کر لیاگیا تھا.جب سَوَّاہُ بِہٖ یا سَوَّی بَیْنَہُمَا کہیں تو معنے ہوں گے عَدَّلَ کہ دو چیزوں کو برابر کر دیا (اقرب) اس آیت میں سَوّٰھُنَّ کے معنے ہوں گے کہ ان کو ایسا بنایا کہ ان کی سب ضرورتوں کا لحاظ کر لیا گیا تھا.سَبْعٌ.سَبْعٌ کے معنے کبھی سات کے ہوتے ہیں اور کبھی زیادہ کے.سَبْعٌ سے مراد ضروری نہیں کہ سات ہی ہو کیونکہ عربی زبان میں سات اور سترّ کے الفاظ مجرّد کثرت کیلئے بھی استعمال ہوتے ہیں.(لسان) شَیْ ءٍ.شَیْ ءٍ کا ترجمہ اس جگہ بجائے چیز کے بات کیا گیا ہے کیونکہ اُردو میں چیز کا لفظ اس موقع پر پورا مفہوم ادا نہیں کرتا لیکن بات کا لفظ اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے بات کے معنی اس جگہ قول کے نہیں بلکہ امر اور حقیقت کے ہیں.تفسیر.ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ کی تشریح ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.دنیا میں جو کچھ بھی ہے انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے اس رنگ میں صرف قرآن کریم ہی نے پیش کیا ہے اوّل تو اس سے شرک کا ردّ ہوتا ہے کیونکہ جب ہر چیز انسان کے لئے ہے تو پھر اس کا خدا ہونا بے معنی ہے کیونکہ خادم آقا نہیں ہو سکتا.دوسرے اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے ہے اس میں سائنس کی ترقی کا راستہ کھول دیا کیونکہ سائنس کا دارو مدار تحقیق پر ہے اور تحقیق اسی وقت شروع ہو سکتی ہے جب یہ یقین ہو کہ جس چیز کے بارہ میں تحقیق کی جائے گی اس میں سے کوئی فائدہ مند علم پیدا ہو گا.آیت خَلَقَ لَکُمْ الخ میں قرآن کریم کا جہالت کے زمانہ میں ایک علمی بیان پس جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ دنیا جہان کی ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے ہے تو اوّل یہ ثابت ہوا کہ دنیا کی کوئی چیز نہیں جس میں فائدہ نہ ہو.کسی ردّی سے ردّی شے کو بھی بیکار نہ سمجھنا چاہیے کیونکہ اگر کوئی ایک چیز بھی دنیا کی بے کار ثابت ہو تو یہ آیت غلط ہو جاتی ہے.کس جہالت کے زمانہ میں قرآن کریم نے یہ زبردست علمی بات بیان فرمائی.اس زمانہ میں تو سوائے دنیا کی محدو دے چند چیزوں کے باقی سب چیزوں کو بے کار محض خیال کیا جاتا تھا لیکن قرآن کریم نے فرمایا یہ غلط ہے کوئی چیز بے کار محض نہیں بلکہ ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے ہے آج ہزاروں لاکھوں اشیاء کے فوائد معلوم ہو چکے ہیں اور باقیو ںکے آئندہ معلوم ہوتے چلے جائیں گے اور جو کوئی کہے کہ دنیا کی ایک شے بھی ایسی ہے کہ بے کار ہے اور اس میں انسان کے فائدہ کا کوئی سامان نہیں ہے وہ جاہل ہے اور قرآن کریم اس کی بات کو

Page 395

ردّ کرتا ہے.دوسرا امر اس سے یہ نکلتا ہے کہ جن چیزوں میں فوائد نکلیں اگر وہ مرکب ہوں تو جن اجزاء سے وہ بنی ہیں آگے وہ اجزاء بھی پھر انسان کے لئے مفید ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا.جَمِیْعًا کا لفظ اِسی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہے کہ خواہ مفردات ہوں ،خواہ مرّکبات، خواہ ذرّات ہوں، خواہ مجموعۂ ذرّات.سب کی سب اشیاء انسان کے لئے مفید ہیں پس اگر سائنس کسی مرکب وجود کو پھاڑ کر اس کے اجزاء دریافت کرے تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ان مفرادت میں پھر آگے اور فوائد مخفی نکلیں گے اور صرف فوائد مخفی نہ ہوں گے بلکہ ایسے فوائد مخفی ملیں گے جو انسان کے لئے مفید ہوں گے.تیسرے یہ بتایا گیا ہے کہ جو چیزیں بظاہر انسانی زندگی یا اس کے جسم کے لئے مضر نظر آتی ہیں ان میں بھی انسان کے فائدہ کے اسباب موجود ہیں خواہ کوئی کس قدر ہی خطرناک زہر کیوں نہ ہو.اس کا بھی کوئی نہ کوئی مفید استعمال ضرور ہے جس میں انسان کے لئے فائدہ کا پہلو ہے.اس نکتہ کو سمجھ کر لوگوں نے سنکھیا.کچلہ، سانپ کے زہروں وغیرہ سے فوائد طیّبہ حاصل کئے ہیں مگر افسوس کہ اس کتاب کے کمال کا اعتراف نہیں کیا.جس نے ان ایجادات سے بہت پہلے اس زبردست سچائی کی طرف اشارہ کیا تھا.اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیاہے کہ اس دنیا میں جو کچھ ہے وہ تمہارے فائدہ کے لئے ہے پس اس کو فساد اور جھگڑے کا ذریعہ بنانا درست نہیں.دنیا میں جو کچھ ہے سب بنی نوع انسان کی مشترک وراثت ہے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ ہے سب بنی نوع انسان کی مشترک وراثت ہے پس اس کا استعمال اس رنگ میں نہ ہونا چاہیے کہ وہ ایک فرد یا ایک قوم کی مخصوص ملکیت ہوجائے اس نکتہ کو نظرانداز کر کے اس وقت یورپ تباہی کی طرف جا رہا ہے اگر قرآن کریم کی اس تعلیم پر عمل کیا جاتا تو یہ حسد اور بغض جو مختلف ممالک اور مختلف اقوام اور مختلف گروہوں اور مختلف افراد میں پیدا ہو رہا ہے کبھی نہ ہوتا.اسلام نے صدقہ اور زکوٰۃ کا حکم بھی اسی اصل پر مبنی رکھا ہے کہ اصل میں زمین کی سب اشیاء سب انسانوں کے لئے پیدا کی گئی ہیں اور انسان مجموعی طور پر ان کا مالک ہے پس گو انفرادی قبضہ کو تسلیم کیا جائے مگر یہ ایسے رنگ میں نہیں ہونا چاہیے کہ دوسرے حقدار اس سے فائدہ اُٹھانے سے ُکلیّ طور پر محروم ہو جائیں.آیت ھٰذا میں مذاہب کی جنگ کا فیصلہ اس آیت میں مذاہب کی جنگ کا بھی عجیب طرح فیصلہ کیا گیا

Page 396

Page 397

ذکر ہے کہ زمین کی ہر چیز تمہارے لئے پیدا کی گئی ہے پس نہ تو یہاں زمین کی پیدائش کا ذکر ہے اور نہ آسمان کی پیدائش کا.بلکہ صرف یہ بیان ہے کہ ہم نے تمہارے نفع کے لئے دنیا کی ہر چیز کو پیدا کر کے بلندی کی طرف توجہ کی اور سات بلندیوں میں اسے مکمل بنایا.پس اس سے تو صرف اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کو انسان کے فائدہ کے لئے بنا کر اللہ تعالیٰ نے اس سے فائدہ اُٹھانے والے کے لئے سات مدارج ترقیات کے تیار کئے.یعنی جو لوگ ان سامانوں کو درست طو رپر استعمال کریں گے ان کو اعلیٰ درجہ کی رُوحانی ترقیات ملیں گی.جیسا کہحَلِّ لُغَات میں بتایا گیا ہے سات سے مراد ضروری نہیں کہ سات ہی کا عدد ہو بلکہ اس سے مراد کثرت بھی ہو سکتی ہے اور آیت کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ زمین میں تمہارے عمل کے لئے بے انتہا سامان پیدا کر کے ہم بلندی کی طرف متوجہ ہوئے یعنی اس کے بعد تمہاری رُوحانی ترقیات کے سامان ہم نے مقرر کئے اور بے عیب سامان ترقی کے کثرت سے تیار کئے.وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ کا مطلب وَ هُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین میں ہر چیز تمہارے فائدہ کے لئے بنا کر ضروری تھا کہ اس امر کا انتظام کیا جاتا کہ جو لوگ اس مقصد کو پورا کریں یعنی زمینی سامانوں سے خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق کام لیں اور اس طرح کام لیں کہ ان سے دنیا کو فائدہ ہو نقصان نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات کے بھی مستحق ہو ںپس فرمایا کہ ایسے لوگوں کے انعامات کے لئے ہم نے بے انتہا رُوحانی مدارج تجویز کئے ہیں تاکہ جو لوگ زمین میں نیکی اور امن پھیلائیں انہیں بلند کر کے آسمانِ روحانیت پر جگہ دی جا سکے پس بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ اس امر پردلالت کرتا ہے کہ ہمارا پہلا فعل جس امر کا مقتضی تھا ہم اس سے غافل نہ تھے پس چونکہ زمین کی ہر شے کو انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کر کے ضروری تھا کہ اس کے صحیح استعمال کرنے والے کو اعلیٰ مقامات دیئے جائیں.ہم نے ان اعلیٰ مقامات کو بھی نہیں بھلایا اور ہر شخص جو زمین میں اچھا کام لے اس کے لئے آسمان پر اس کے درجہ کے مطابق جگہ بنائی گویا جنت کے مفہوم کو دوسرے لفظوں میں اس آیت میں واضح کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ کا کلام خدا تعالیٰ کے فعل سے کسی طرح ٹکرا نہیں سکتا اس آیت میں ایک اور زبردست ثبوت اسلام کی حقانیت کا نکلتا ہے کیونکہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اسلام جو خدا تعالیٰ کا کلام ہے سائنس سے جو خدا تعالیٰ کے فعل کی تشریح ہے کسی صورت میں ٹکرا نہیں سکتا کیونکہ سائنس کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ وہ خواصِ اشیاء معلوم کرے اور خواصِ اشیاء کے معلوم ہونے پر اسلام کی صداقت ثابت ہو گی اور اس آیت کی تصدیق ہو گی نہ کہ

Page 398

اسلام کو کوئی نقصان پہنچے گا.پس سائنس کی ترقی پر جبکہ دوسرے مذاہب کو فکر ہوتی ہے کہ ان کے مذہب کی تردید نہ ہو جائے اسلام کو خوشی ہوتی ہے کہ اس کی صداقت کا ایک اور ثبوت مہیا ہو گیا.فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍمیں روحانی مدارج کے تعدد اور کثرت کی طرف اشارہ فَسَوّٰىهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ میں رُوحانی مدارج کے تعدّد اور کثرت کی طرف اشارہ کر کے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ جس طرح جسمانی عالم میں ارتقاء ہے اسی طرح روحانی عالم میں بھی ارتقاء ہے اور اسے کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور آخری حصہ وہ ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا.حدیث اسراء جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم کو پہلے آسمان پر دیکھا اور اپنی نسبت یہ دیکھا کہ آپ آسمان کی آخری منزل تک گئے اس میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ روحانی عالم کے ارتقاء کی پہلی کڑی آدم تھے اور آخری کڑی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے گویا جس روحانی دنیا کی ابتداء آدمؑ کی صورت میں ظاہر ہوئی اس کی انتہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوئی.اس آیت میں اس مضمون کو ختم کیا گیا ہے جو الہام کے بارہ میں تردّد کے متعلق تھا اور بتایا ہے کہ دنیا کو جس طرح خدا تعالیٰ نے پیدا کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ الہام ہو کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے الہام دے کر انسان کو ترقی نہ دینی تھی تو اس کے عمل میں بے انتہا تنوع پیدا کرنے کے لئے وہ زمین میں بے انتہا ایسی اشیاء کیوں پیدا کرتا جو سب کی سب انسان کے لئے مفید ہوں؟ اس قدر پُر حکمت عالم پیدا کرنا اور انسانی اعمال کو ایسی وسعت دینا بغیر کسی اعلیٰ مقصد کے نہیں ہو سکتا.اس مضمون کو ایک دوسری آیت میں وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جو میرے بیان کردہ معنوںکی پوری تصدیق کرتی ہے.فرماتا ہے وَ هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ وَّ كَانَ عَرْشُهٗ عَلَى الْمَآءِ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (ہود :۸) یعنی اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ وقتوں میں تدریجاً پیدا کیا ہے اور اس کا تخت حکومت رُوحانی پانی یعنی الہام پر قائم ہے تاکہ وہ دیکھے کہ تم میں سے کون اچھے عمل کرنے والا ہے.یعنی زمین اور آسمان کو پیدا کر کے خدا تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ سے انسان پر حکومت شروع کی تاکہ جو باکمال انسان ہیں انہیں اپنے ہُنر دکھانے کا موقع ملے اور وہ ادنیٰ سے اعلیٰ مقامات کی طرف ترقی کریں.وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ اور (اے انسان تو اس وقت کو یاد کر) جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا (کہ) میں زمین میں ایک خلیفہ بنا نے والا

Page 399

خَلِيْفَةً١ؕ قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُّفْسِدُ فِيْهَا وَ يَسْفِكُ ہوں (اس پر) انہوں نے کہا (کہ) کیا تو اس میں (ایک ایسا شخص )پیدا کرے گا جو اس میں فساد کرے گا اور خون الدِّمَآءَ١ۚ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ١ؕ قَالَ بہائے گا.اور ہم (تو وہ ہیں جو) تیری حمد کے ساتھ (ساتھ تیری) تسبیح بھی کرتے ہیں اور تجھ میں سب بڑائیوں اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۳۱ کے پائے جانے کا اقرار کرتے ہیں (اس پر اللہ نے)فرمایا.میں یقیناً وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.حَلّ لُغَات.قَالَ.قَالَ ماضی کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اس کا مصدر قَوْلٌ ہے.مفرداتِ راغب میں لکھا ہے کہ اَلْقَوْلُ یُسْتَعْمَلُ عَلٰی اَوْجُہٍ لفظ قَوْل کئی معانی کو ادا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے.اَظْھَرُ ھَا اَنْ یَّکُوْنَ لِلْمُرَکَّبِ مِنَ الْحُرُوْفِ الْمُبْرَزِ بِالنُّطْقِ مُفْرَدًا کَانَ اَوْجُمْلَۃً (۱) زیادہ تر حروف سے مرکب مفہوم پر بولا جاتا ہے خواہ وہ مفرد ہو یا جملہ.اَلثَّانِیْ یُقَالُ لِلْمُتَصَوَّرِ فِی النَّفْسِ قَبْلَ الْاِبْرَازِ بِاللَّفْظِ قَوْلٌ (۲)نفس میں کسی سوچی ہوئی بات پر جو ابھی بول کر ظاہر نہ کی گئی ہو اس پر بھی قول کا لفظ استعمال کرتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں فِیْ نَفْسِیْ قَوْلٌ لَمْ اُظْھِرْہُ کہ میرے نفس میں ایک خیال ہے جس کو میںنے ظاہر نہیں کیا.اَلثَّالِثُ لِلْاِعْتِقَادِ (۳) کسی کے کوئی عقیدہ رکھنے کے مفہوم کو ظاہر کرنے پر بھی قول کا لفظ بولتے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں فُـلَانٌ یَقُوْلُ بِقَوْلِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ کہ فلاں شخص امام ابو حنیفہؒ کا عقیدہ رکھتا ہے اَلرَّابِعُ یُقَالُ لِلدَّلَا لَۃِ عَلَی الشَیْءِ (۴) اگر کسی چیز کی حالت کسی بات پردلالت کرے تو اس وقت بھی قَوْل کا لفظ استعمال کرتے ہیں چنانچہ اِمْتَـلَأَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ میں قَالَ انہی معنوں میںاستعمال ہوا ہے یعنی جب حوض پانی سے بھر گیا تو اس نے کہا بس! بس! اب زیادہ پانی نہ ڈالو (اس کا مطلب یہ نہیں کہ حوض زبان سے بولا.بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ حوض کی حالت بزبان حال یہ کہہ رہی تھی کہ وہ بھر گیا ہے اور اس میں مزید پانی کی گنجائش نہیں چنانچہ اس قسم کی مثالیں لغت

Page 400

کی کتب میں بکثرت ملتی ہیں.کہ کسی واقعہ کی حقیقت کو ظاہر کرنے کےلئے قَالَ کا لفظ استعمال کر لیاجاتا ہے چنانچہ مندرجہ ذیل اشعار بھی اس امر کی مثالیں ہیں.؎ قَالَتْ لَہُ الْعَیْنَانِ سَمْعًا وَطَاعَۃً وَ حَدَرَتَا کَالدُّرِّ لَمَّا یُثَـقَّبُ (لسان) یعنی اسے دونوں آنکھوں نے کہا کہ تمہارا کہنا سر آنکھوں پر اور پھر وہ ایسے موتیوں کی طرح بہہ پڑیں جن میں ابھی چھید نہ ڈالا گیا ہو.؎ قَالَتْ لَہُ الطَّیْرُ تَقَدَّمْ رَاشِدًا اِنَّکَ لَا تَرْجِعُ اِلَّا حَامِدًا (لسان) یعنی پرندے نے اسے کہا کہ سیدھا راستہ اختیار کر کے آگے بڑھ اور تو واپس نہیں لوٹے گا مگر تعریف کرتا ہوا.ان اشعار میں قَوْل کے لفظ کی اضافت ایسی اشیاء کی طرف کی گئی ہے جو غیر ناطق ہیں یعنی پہلے شعر میں قول کا لفظ آنکھوں کی طرف منسوب کیا گیاہے اور مطلب یہ ہے کہ آنکھوں نے بزبانِ حال کہا اور دوسرے میں پرندے کی طرف.اور مطلب یہ ہے کہ پرندہ بزبانِ حال کہہ رہا تھا.تو گویا ان ہر دو اشعار میں قَالَ کے لفظ کو ایک واقعہ پر دلالت کرنے کےلئے استعمال کیا گیا ہے).اَلْخَامِسُ یُقَالَ لِلْعِنَایَۃِ الصَّادِقَۃِ بِالشَّیْ ءِ (۵) اگر کسی چیز کی طرف خاص توجہ ہو تو اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے بھی قَالَ کا لفظ استعمال کرتے ہیں.اَلسَّادِسُ فِی الْاِلْھَامِ (۶) قَوْلٌکا لفظ الہام کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہےقُلْنَا يٰذَا الْقَرْنَيْنِ کہ ہم نے ذوالقرنین کو الہام کرتے ہوئے کہا کہ اے ذوالقرنین! (مفردات) پس قَالَ کے معنے صرف یہ نہیں کہ انسان کسی کو مخاطب کرتے ہوئے منہ سے کوئی بات کہے بلکہ لفظ قَوْل مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اورہر مقام پر اس کے مناسب حال معنی ہوں گے.رَبُّکَ.رَبّ کے معنے کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۲.اَلْمَلٰٓئِکَۃُ.مَلَا ئِکَةٌ.مَلَکٌکی جمع ہے جو بعض کے نزدیک أَ لَکَ سے بنا ہے جس کے معنے ہیں.خبر پہنچا دی پس مَلَائِکَہ کے معنے ہوئے خبر پہنچانے والے.بعض کے نزدیک یہ لفظ اَ لَاکَہٗ سے بنا ہے اس کے معنے بھی خبر پہنچانے کے ہوتے ہیں مَلْأَکٌ کے معنے پیغام کے ہیں.بعض کے نزدیک یہ لفظ مِلْکٌ سے بنا ہے جس کے معنے قبضہ اور اقتدار کے ہوتے ہیں.چنانچہ مفردات میں لکھا ہے کہ مِلْکٌ سے دو لفظ بنے ہیں مَلَکٌ بھی اور مَلِکٌ بھی.

Page 401

فرشتوں میں سے جو نظامِ عالم کے نگران ہیں ان کو مَلَکٌ (لام کی زبر سے) کہتے ہیں.اور انسانوں میں سے جو نظام کے نگران ہوں.ان کو مَلِکٌ (لام کی زیر سے) کہتے ہیں یعنی بادشاہ.اسی طرح مفردات میں لکھا ہے مَلَائِکَۃٌ اور مَلَکٌ کا اصل مَاْلَکٌ ہے.بعض کے نزدیک مَلْأَکٌ سے مَقْلُوْب ہے جو اَلَکَ سے بنا ہے (لسان العرب نے اس کے اُلٹ لکھا ہے کہ مَلْأَکٌ مَالَکٌ سے مقلوب ہے اور یہی قواعد کے مطابق درست ہے گو یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب اَلَکَ اور اَ لَاکَ دونوں کے معنے خبر دینے کے ہیں تو پھر مقلوب ماننے کی کیا ضرورت ہے؟ دونوں مادوں میں سے ہی مِلَکٌ کا لفظ بن سکتا ہے اور جائز ہے).مَأْ لَکٌ اور اُلُوْکٌ کے معنی پیغام کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اَلِکْنِیْ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اَبْلِغْہُ رِسَالَتِیْ کہ اسے میرا پیغام پہنچا دو.(مفردات) صاحب ِ مفردات نے اس کی وضاحت نہیں کی.اصل بات یہ ہے کہ أَلِکْنِیْ کے معنے ہیں مجھے رسول بنا دے.لیکن تقلیب کے طور پر استعمال اُلٹ معنو ںمیں ہونے لگ گیاہے اور مطلب یہ لیا جانے لگا ہے کہ مجھ سے خبر لے کر دوسرے کو پہنچا دے.یہ محاورہ ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ پرَنالہ چلتا ہے.حالانکہ پرَنالہ کھڑا ہوتا ہے پانی چلتا ہے.پس اصل معنے مجھے پیغامبر بنا دے کے ہیں محاورہ میں الٹ گئے.اس امر کی لسان العرب والے نے وضاحت کر دی ہے.نیز صاحب مفردات سے ایک اور سہو ہو گیا ہے اور وہ یہ کہ انہوں نے أَلِکْنِیْ کو أَ لَکَ کے مادہ کے نیچے درج کیا ہے.حالانکہ أَ لَکَ کا صیغہ امر تو آلِکْنِیْ ہوتا ہے اَلِکْنِیْ کا لفظ اَلَکَ سے نہیں بلکہ اَ لْأَکَ سے بنا ہے جو مہموز العین ہے اس کا ماضی أَ لْأَکَ ہوا.اور اس سے امر اَلِکْنِیْ ہو گیا.بعض کے نزدیک مَلَکٌ لَأَکَ سے بنا ہے کہتے ہیں اَ لَاکَہٗ اِلٰی فُـلَانٍ اِلَاکَۃً اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ اَبْلَغَہٗ عَنْہُ اس کی طرف سے کسی کو پیغام دیا.اس صورت میں مَلَکٌ اصل میں مَـلْأَکٌ تھا.ہمزہ کثرت استعمال کی وجہ سے حذف ہو گیا اور باقی مَلَکٌ رہ گیا.(اقرب) تاج میں ہے لَاکَ الشَّیْ ءَ.اَدَارَہٗ فِیْ فِیْہِ کہ لَاکَ کے معنے کسی چیز کو مُنہ میں پھیرنے کے ہیں چنانچہ گھوڑا جب مُنہ میں لگام پھیرتا ہے.توکہتے ہیں لَاکَ الْفَرَسُ (تاج) گویا پیغامبر بھی پیغام کے الفاظ کو مُنہ میں دُہراتا ہے اور پھیرتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی پیغامبر ہستیوںکوملائک کہا گیا.پس ملائکہ ان ہستیو ںکو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا پیغام انسانوں کی طرف لاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ارادے کا اجراء اس دنیا میں کرتی ہیں یا یہ کہ طاقتور ہستیاں.

Page 402

اَ لْاَرْضُ.کی تشریح کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۲۳.خَلِیْفَۃ.مَنْ یَّخْلُفُ غَیْرَہٗ وَیَقُوْمُ مَقَامَہٗ جو کسی کا قائم مقام اور جانشین ہو (۲) اَلسُّلْطَانُ الْاَعْظَمُ حاکمِ اعلیٰ.شاہنشاہ (۳) وَفِی الشَّرْعِ اَ لْاِمَامُ الَّذِیْ لَیْسَ فَوْقَہٗ اِمَامٌ.اور شرعی لحاظ سے خلیفہ کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ پیشرو اور حاکم جس کے اوپر اورکوئی حاکم نہ ہو.اور اَلْخِلَافَۃُ کے معنے ہیں اَ لْاِمَارَۃُ حکومت.اَلنِّیَا بَۃُ عَنِ الْغَیْرِ اِمَّا لِغَیْبَۃِ الْمَنُوْبِ عَنْہُ اَوْ لِمَوْتِہٖ اَوْ لِعَجْزِہٖ اَوْ لِتَشْرِیْفِ الْمُسْتَخْلَفِ.یعنی دوسرے کی نیابت کرنا خلافت کہلاتا ہے خواہ وہ نیابت جس کی نیابت کی گئی ہو اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت یاکام سے عجز کی وجہ سے ہو اور بعض اوقات یہ نیابت صرف عزت افزائی کے لئے ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو زمین پر خلیفہ بناتا ہے تو یہ صرف ان کے اعزاز کی خاطر ہوتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے اور شرعی معنے خلافت کے امامت کے ہیں.(اقرب) یَسْفِکُ.یَسْفِکُ سَفَکَ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور سَفَکَ الدَّ مَ کے معنے ہیں صَبَّـہٗ.خون کو بہایا (اقرب) پس یَسْفِکُ کے معنی ہوں گے وہ بہائے گا.اَلدِّمَاءَ.اَلدِّمَاءَ اَلدَّمُ کی جمع ہے اور اَلدَّمُ کے معنے ہیں خون.(اقرب) نُسَبِّحُ.نُسَبِّحُ سَبَّحَ سے مضارع متکلّم مع الغیر کا صیغہ ہے اور سَبَّحَ اللّٰہَ کے معنی ہیں نَزَّھَہٗ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام عیوب و نقائص سے پاک سمجھا اور مبرّ ا قرار دیا (بعض اوقات سَبَّحَ کا صلہ لام آتا ہے چنانچہ سَبَّحَہٗ کی بجائے سَبَّحَ لَہٗ کہہ دیتے ہیں لیکن معنی دونوں کے ایک ہی ہوتے ہیں) بعض اوقات سَبَّحَ کے معنے صَلَّی کے ہوتے ہیں.یعنی اس نے نماز ادا کی.نیز بعض اوقات سَبَّحَکا لفظ بولتے ہیں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اس نے سُبْحَانَ اللّٰہِ کہا.(اقرب) لسان میں ہے اَلتَّسْبِیْحُ اَلتَّنْزِیْہُ یعنی تسبیح کے معنی ہیں پاک قرار دینا اور پاک سمجھنا.او رجب سُبْحَانَ اللّٰہِ کہیں تو اس کے معنی ہوں گے تَنْزِیھًا لِلّٰہِ مِنَ الصَّاحِبَۃِ وَالْوَلَدِ یعنی اللہ تعالیٰ کو بیوی اور لڑکے سے پاک قرار دینا وَقِیْلَ تَنْزِیْہُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَنْ کُلِّ مَالَا یَنْبَغِیْ لَہٗ اَنْ یُوْصَفَ بِہٖ اور بعض ائمہ لغت نے یہ کہا ہے کہ جب سُبْحَانَ اللّٰہِ کا فقرہ کہیں تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام اُن باتوں سے مبرّ اقرار دینا جو اس کے شایان و مناسب حال نہیں.پھر لکھا ہے وَجِمَاعُ مَعْنَاہُ بُعْدُہٗ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی عَنْ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ مِثْلٌ اَوْ شَرِیْکٌ اَوْنِدٌّ اور سُبْحَانَ اللّٰہِ کے جامع معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی مثل

Page 403

یا شریک یا ذات یا صفات میں اس کا کوئی حصہ دار ہو.(لسان) مصنف تاج العروس لکھتے ہیں کہ جب ہم اللہ تعالیٰ کے لئے سُبْحَانَکَ کے الفاظ استعمال کریں تو اس کے معنے ہوں گے اُنَزِّھُکَ یَا رَبِّ مِنْ کُلِّ سُوْءٍ وَاُبَرِّئُکَ کہ اے میرے ربّ! میں تجھے ہر نقص سے پاک سمجھتا ہوں اور ہر عیب سے مبرّ اقرار دیتا ہوں.پھر لکھا ہے کہ سُبْحَانَ ہے تو مصدر لیکن فعل کے قائم مقام ہو کر استعمال ہوتا ہے.اور جب اللہ تعالیٰ کے لئے اسے استعمال کریں تو اس کے مفہوم میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے کامل پاکیزگی کا اقرار پایا جائے گا چنانچہ لکھا ہے دَلَّ عَلَی التَّنْزِیْہِ الْبَلِیْغِ مِنْ جَمِیْعِ الْقَبَائِـحِ الَّتِیْ یُضِیْفُہَا اِلَیْہِ الْمُشْرِکُوْنَ کہ یہ لفظ اس وقت ایسی کامل پاکیزگی پر دلالت کرے گاجو ان تمام عیوب سے اللہ کی ذات کو پاک قرار دیتی ہو جو اس کی طرف مشرک لوگ اس کی ذات کو کماحقّہٗ نہ سمجھ کر منسوب کر دیتے ہیں نیز لکھا ہے فِی الْعَجَائِبِ لِلْکِرْ مَا نِیْ اَنَّ سُبْحَانَ مَصْدَرُ سَبَّحَ اِذَا رَفَعَ صَوْتَہُ بِالدُّعَاءِ وَالذِّکْرِ کہ کرمانی اپنی کتاب عجائب میں لکھتے ہیں کہ سُبْحَانَ سَبَّحَ کا مصدر ہے اور یہ اس وقت بولیں گے جبکہ کوئی شخص اپنی آواز دعا اور ذکر کے ساتھ بلند کرے.وَالتَّسْبِیْحُ قَدْ یُطْلَقُ وَیُرَادُ بِہِ الصَّلٰوۃُ وَالذِّکْرُ وَالتَّحْمِیْدُ وَالتَّمْجِیْدُ.کبھی لفظ تسبیح سے مراد نماز.ذکر الٰہی.خدا تعالیٰ کی تحمید اور اس کی بزرگی کا اقرار و اظہار کرنا ہوتا ہے.( وَسُمِّیَتِ الصَّلٰوۃُ تَسْبِیْحًا لِاَنَّ التَّسْبِیْحَ تَعْظِیْمُ اللّٰہِ وَتَنْزِیْھُہٗ مِنْ کُلِّ سُوْءٍ نماز کو تسبیح کے نام سے اس لئے موسوم کرتے ہیں کہ تسبیح سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار اور اس کو جملہ عیوب و نقائص سے مبرّ اقرار دینا ہوتا ہے اور نماز میں بھی یہی امور مدِّنظر ہوتے ہیں).(تاج) امام راغب لکھتے ہیں اَلتَّسْبِیْحُ تَنْزِیْہُ اللّٰہِ تَعَالٰی کہ تسبیح کے معنی اللہ تعالیٰ کی ذات کو جملہ نقائص سے پاک سمجھنے او رپاک قرار دینے کے ہیں.وَاَصْلُہٗ اَلْمَرُّ السَّرِیْعُ فِیْ عِبَادَۃِ اللّٰہِ تَعَالٰی اور تسبیح کے اصل معنے وضع لغت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت میں جلدی جلدی تیزی سے گزرنے کے ہیں کیونکہ اس کا اصل مادہ اَلسَّبْحُ ہے جس کے معنے تیزی سے ہوا میں یا پانی میں گزرنے کے ہیں وَجُعِلَ ذٰلِکَ فِیْ فِعْلِ الْخَیْرِ کَمَا جُعِلَ الْاِ بْعَادُ فِی الشَّرِّ فَقِیْلَ اَبْعَدَہُ اللّٰہُ یعنی تسبیح کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کمال کا ذکر مقصود ہو اور اس کے برخلاف اِبْعَاد کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی حقیقی کمزوری اور خرابی سے حفاظت کا ذکر کرنا ہو.وَجُعِلَ التَّسْبْیِحُ عَامًا فِیْ الْعِبَادَاتِ قَوْلًا کَانَ اَوْ فِعْـلًا اَوْ نِیَّۃً.نیز لفظ تسبیح کے اند رہر قسم کی عبادات آ جاتی ہیں.خواہ وہ عبادات قولاً ہوں، خواہ فِعْـلًا یا نِیّۃً.(مفردات) بِحَمْدِکَ.حمد کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۲.

Page 404

نُقَدِّسُ.نُقَدِّسُ قَدَّسَ سے مضارع متکلّم مع الغیر کا صیغہ ہے.اور قَدَّسَ الرَّجُلُ اللّٰہَ کے معنی ہیں.نَزَّھَہٗ وَوَصَفَہٗ بِکَوْنِہٖ قُدُّوْسًا اللہ تعالیٰ کو تمام عیوب سے پاک اور جامع جمیع صفاتِ حسنہ قرار دیا.(اقرب) مفردات میں ہے.اَلتَّقْدِیْسُ : اَلتَّطْھِیْرُ کہ تقدیس کے معنے ہیں پاک کرنا.اور آیت نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِکَ وَ نُقَدِّسُ لَکَ میں نُقَدِّسُ لَکَ کے معنے ہیں نُطَھِّرُ الْاَشْیَائَ اِرْتِسَامًا لَکَ کہ جن کو تو پاک کرنے کا حکم دیتا ہے ہم انہیں تیرے حکم کے مطابق پاک کرتے ہیں.وَقِیْلَ نُقَدِّ سُکَ اَیْ نَصِفُکَ بِالتَّقْدِیْسِ اور بعض نے کہا ہے کہ نُقَدِّ سُکَ کے یہ معنے ہیں کہ ہم تجھے تقدیس کے ساتھ موصوف کرتے ہیں یعنی یہ کہ تو خود پاک ہے اور تو دوسروں کو پاک کرتا ہے.(مفردات) لسان میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات سُبُّوْحٌ اور قُدُّ وْسٌ ہیں.ان میں یہ فرق ہے کہ سُبُّوْحٌ کے معنے ہیں اَلَّذِیْ یُنَزَّہُ عَنْ کُلِّ سُوْءٍ کہ وہ ذات جو تمام نقائص سے پاک ہے.اور اَلْقُدُّوْسُ کے معنے ہیں اَلْمُبَارَکُ جس میں سب قسم کی خوبیاں جمع ہیں.بابرکت.اَلطَّاھِرُ خود پاک اور دوسروں کو پاک کرنے والا.(لسان) تسبیح اور تقدیس میں یہ فرق ہے کہ تسبیح میں تنزیہ ہوتی ہے اور تقدیس میں اس کے علاوہ تعظیم بھی ہوتی ہے.تفسیر.اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ الخ کے متعلق سابق مفسرین کے خیالات پیشتر اس کے کہ اس آیت کے مضمون پر کچھ لکھا جائے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعلق سابق مفسرین کے خیالات کا اظہار کر دیاجائے.نیز اس بارہ میں جو کچھ سابق کتب میںبیان ہوا ہے اس کا بھی ذکر کر دیا جائے مفسرین نے اس آیت کے متعلق اختلاف کیا ہے بعض کہتے ہیں کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً سے مراد آدم ہے اور مراد یہ ہے کہ انسانوں سے پہلے اس دنیا پر ملائکہ رہتے تھے پس خدا تعالیٰ نے ان سے کہا کہ میں تم کو آسمان پر بُلا لوں گا اور تمہاری جگہ ایک اور وجود پیدا کروں گا یعنی آدم (ابن کثیر) اس صورت میں خلیفہ بمعنی اسم فاعل لیا جائے گا.ان معنوں کے قائلین میں سے بعض نے یہ توجیہ کی ہے کہ آدم کو اس لئے خلیفہ نہیں کہا گیا کہ ان سے پہلے فرشتے بستے تھے اور انہوں نے ان کی جگہ لے لی بلکہ اس لئے کہ ان سے پہلے دنیا پر جن بستے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کو ہموار زمین سے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا اور آدم کو ان کی جگہ رکھا (ابن کثیر بحوالہ ابن جریر عن ابن عباس) بعض کہتے ہیں کہ خلیفہ سے مراد ایسا وجود ہے جس کے نائب آئندہ پیدا ہوتے رہیں.پس اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً سے مراد آدم ان معنوں میں ہیں کہ ان کی نسل اس دنیا پر پھیلنے والی تھی (فتح البیان) اس صورت میں خلیفہ بمعنے اسم مفعول ہو گا جیسے کہ ذَبِیْحَۃٌ بمعنی مَذْبُوْحٌ آتا ہے.اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد نسلِ انسانی ہے نہ آدم.چنانچہ اس کی تائید

Page 405

میں بعض نے اس آیت کی یہ قرا ء ت بھی نقل کی ہے کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً یعنی میں زمین میں ایک مخلوق پیدا کرنے والا ہوں (عن زید ابن علی.قرطبی زیر آیت ھٰذا) اور بعض نے اس خیال کی بنیاد قرآن کریم کی اس آیت پر رکھی ہے.هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ (فاطر:۴۰) خدا ہی ہے جس نے تم کو دنیا میں ایک دوسرے کے بعد اس کی جگہ لینے والا بنایا ہے قتادہ نے بھی یہی مراد لی ہے کہ اس جگہ خلیفہ سے مراد نسل انسانی ہے وہ کہتے ہیں فَکَانَ فِیْ عِلْمِ اللّٰہِ اَنَّہٗ تَکُوْنَ فِیْ تِلْکَ الْخَلِیْفَۃِ اَنْبِیَآءُ وَ رُسُلٌ وَ قَوْمٌ صَالِحُوْنَ وَسَاکِنُوا الْجَنَّۃِ (ابن کثیر) یعنی اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اس خلیفہ کے وجود میں نبی بھی ہوں گے اور رسول بھی اور صلحاء کی جماعت بھی اور جنت کے بسنے والے بھی.اس فقرے سے ظاہر ہے کہ قتادہ کے نزدیک خلیفہ سے آدم کے وجود کی طرف اشارہ نہیں کیا گیا بلکہ ان کی نسل کے کاملین کی طرف.یہ قائلین اپنے دعویٰ کی تائید میں اس بات سے بھی استدلال کرتے ہیں کہ فرشتوں نے جو یہ کہا ہے کہ کیا تو اسے پیدا کرے گا جو فساد کرے گا اور خون بہائے گا یہ بتاتا ہے کہ خلیفہ سے مراد آدم نہیں بلکہ بنی نوع انسان ہیں کیونکہ آدم نے نہ خون بہانا تھا اور نہ فساد کرنا تھا.(ابن کثیر) آیت اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً میں خلیفہ سے مراد بعض نے کہا ہے کہ خلیفہ سے مراد آدم ہیں کیونکہ خلیفہ اسے کہتے ہیں کہ جو کسی کی نیابت میں احکام و اوامر کو جاری کرے پس چونکہ آدم خدا تعالیٰ کے نبی ہونے والے تھے اور اس کے احکام کو دنیا میں جاری کرنے والے تھے ان کا نام خلیفہ رکھا گیا.میرے نزدیک بھی خلیفہ کا لفظ اسی لئے استعمال ہوا ہے کہ آدم خدا تعالیٰ کے احکام و مناہی کو دنیا میں جاری کرنے والے تھے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب دنیا میں خدا تعالیٰ کا ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے.یہ کہنا کہ آدم سے پہلے فرشتے دنیا پر رہتے تھے ایک بے ثبوت قول ہے اور یہ کہ جِنّ پہلے رہتے تھے جو بشر کے سوا کوئی اور مخلوق تھی ویسا ہی بے ثبوت قول ہے اور اس کی وجہ سے آدم یا اس کی نسل کو خلیفہ کہنا بھی بے معنی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ اس کی مخلوق کب سے چلی آ رہی ہے اگر خلیفہ کے لفظ سے بعد میں آنے والی کسی دوسری جنس کی مخلوق مراد لی جائے تو ہر مخلوق ہی خلیفہ کہلانی چاہیے کیونکہ وہ اپنے سے پہلے کسی او رمخلوق کی قائم مقام ہو گی کیونکہ خدا تعالیٰ کی صفت خلق کی نسبت نہیں کہا جا سکتا کہ صرف چند ہزار سال یا چند لاکھ سے جاری ہوئی ہے اس سے پہلے کچھ نہ تھا.خلیفہ سے مراد بنی نوع انسان نہیں بلکہ آدم ہیں میرے نزدیک یہ بھی درست نہیں کہ خلیفہ سے مراد اس جگہ آدم کی ذرّیت ہے کیونکہ قرآنِ کریم میں جہاں قوموں کی نسبت خلیفہ کا لفظ آیا ہے جمع کی شکل میں آیا ہے چنانچہ

Page 406

سورۂ انعام میں ہے وَ هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ الْاَرْضِ (الانعام:۱۶۶) اور سورۃ فاطر میں ہے.هُوَ الَّذِيْ جَعَلَكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ (فاطر:۴۰) اور سورئہ یونس میں ہے ثُمَّ جَعَلْنٰكُمْ خَلٰٓىِٕفَ فِي الْاَرْضِ(یونس:۱۵)اور پھر سورئہ یونس میں ہے وَجَعَلْنٰھُمْخَلٰٓىِٕفَ (یونس:۷۴) اسی طرح سورئہ اعراف میں دو جگہ ہے وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ (الاعراف :۷۰،۷۵) پھر سورۂ نمل میں ہے وَ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ(النمل:۶۳) ان حوالوں سے ثابت ہے کہ قرآن کریم نے جب کسی قوم کے خلیفہ ہونے کا ذکر کیا ہے جمع کے لفظ سے کیا ہے اس لئے کہ قوم بہت سے افراد پر مشتمل ہوتی ہے اور ہر فرد اپنی قسم کے فرد کا خلیفہ ہوتا ہے.پس جب تک کوئی خاص غرض نہ ہو کوئی وجہ نہیں کہ اس کے لئے مفرد لفظ کا استعمال ہو.اس کے برخلاف قرآن کریم میں جہاں ایک شخص کے خلیفہ ہونے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لفظ خلیفہ مفرد استعمال کیا ہے مثلاً حضرت دائود کی نسبت آتا ہے اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ (ص :۲۷) پس ان حوالہ جات سے یہی استنباط ہوتا ہے کہ آیت زیر تفسیر میں بھی خلیفہ سے مراد حضرت آدم ہیں نہ کہ بنی نوع انسان.اب رہا یہ سوال کہ اگر خلیفہ سے اس جگہ مراد حضرت آدم ہیں تو پھر فرشتوں نے یہ کیوں کہا کہ وہ فساد کرے گا اور خون بہائے گا.سو اس کا جواب آیت کے اس ٹکڑا کے ماتحت دیا جائے گا.آیت اِنِّيْ جَاعِلٌ الخ کا تعلق پہلی آیات سے اب میں آیت کی تفسیر بیان کرتا ہوں.اس آیت کا تعلق پہلی آیات سے یہ ہے کہ سورۂ بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کی نسبت یہ دعویٰ کیاگیا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو دنیا کی ہدایت کے لئے آیا ہے.اس دعویٰ پر چونکہ کفار کو اعتراض تھا جیسا کہ اِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰى عَبْدِنَا (البقرة:۲۴) کی آیت میں بتایا گیا تھا.اس کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ حضرت آدم کو پیش کرتا ہے تا یہ بتائے کہ الہام الٰہی کا نزول کوئی نئی شے نہیں بلکہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا چلا آیا ہے چنانچہ سب سے پہلا انسان آدم تھا اور اس کی پیدائش کے ساتھ ہی خدا تعالیٰ کا الہام نازل ہوا پس الہام اور وحی پر شبہ کرناکوئی معقول بات نہیں اگر اللہ تعالیٰ نے ابتدائِ آفرینش میں الہام اور وحی نازل کی تو اب کیوں نہ کرے؟ غرض وحی کے ابتدائِ آفرینش سے متواتر نازل ہونے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونے کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے اور یہ وہ دلیل ہے جو سب مذاہب کے ماننے والوں پر حجت ہے کیونکہ تمام مذاہب کیا ہندو، کیا زردشتی اور کیا یہود و نصاریٰ ابتدائِ آفرینش میں وحی کے نزول کے مصدق ہیں پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے ذکر کے بعد آدم اور اس کی وحی کو پیش کیا تا بتائے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یونہی نہیں چھوڑ دیا بلکہ شروع

Page 407

ہے جو اُذْکُرُوْا ہے یعنی یاد کرو جس کا استدلال اِذْ کے لفظ سے ہوتا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اے لوگو !آدم کے واقعہ کو یاد کرو کہ اس کی پیدائش کے وقت خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے اِس اِس طرح کلام کیا تھا.فرشتوں کے اس مکالمہ سے اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ نبی کی بعثت سے پہلے اس کی ضرورت لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا کرتی کیونکہ نبی کا وجود خدا تعالیٰ کے غیبو ںمیں سے ایک غیب ہوتا ہے.اس کی ضرورت ُکلیّ طور پر اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب وہ ظاہر ہو کر اپنا کام پورا کر لیتا ہے تب ان تغیرّات کی وجہ سے جو اس کے ذریعہ سے ظاہر ہوتے ہیں لوگوں کو ماننا پڑتا ہے کہ اگر وہ ظاہر نہ ہوتا تو دنیا ایک عظیم الشان اور مفید انقلاب سے محروم رہ جاتی.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو عظیم الشان انقلابات پیدا کرنیو الے ہیں ان کا اندازہ اسی وقت ہو سکے گا جبکہ وہ اپنی خدا داد قابلیتوں کو ظاہر کر چکیں گے.اس سے پہلے ان انقلابات کا تصور بھی لوگوں کے لئے مشکل ہے.جس بات کو خدا تعالیٰ کے مقرب فرشتے بھی نہ سمجھ سکیں جاہل انسانوں نے اسے کیا سمجھنا ہے؟ پس چاہیے کہ انتظار کرو اور اس کے کام کے نتیجہ کو دیکھو اور انکار میں جلدی نہ کرو.اس مضمون کو دوسری جگہ پر قرآن کریم میں یوں بیان کیا گیا ہے اَتٰۤى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ۠١ؕ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ.يُنَزِّلُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِهٖ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖۤ اَنْ اَنْذِرُوْۤا اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاتَّقُوْنِ(النحل :۲،۳) یعنی خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ تغیرّات کا زمانہ نزدیک آ پہنچا ہے.پس اسے جلد دیکھنے کی خواہش نہ کرو کہ و ہ اپنے وقت میں ظاہر ہو گا اور دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ تمام نقائص سے پاک ہے اور لوگوں کے شرک سے بہت بلند ہے.حضرت آدم کی بعثت پر فرشتوں کے مکالمہ کا مطلب خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ ملائکہ کو اپنا کلام دے کر اپنے پسندیدہ بندو ںپر نازل کیا کرتا ہے اور ان سے کہتا ہے کہ لوگوں کو ہوشیار کر دو کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں پس میرا تقویٰ اختیار کریں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ انبیاء خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے اور اس کی طرف لوگوں کو لانے کے لئے آتے ہیں مگر اس وقت کے لوگ یہ سمجھ ہی نہیں سکتے کہ وہ اس مقصد میں جو بظاہر بالکل خلاف عقل نظر آتا ہے کامیاب ہوں گے مگر آخر وہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور دنیا حیران رہ جاتی ہے او رپھر ایک دفعہ دنیا پر خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے اور توحید کا دور دورہ ہو جاتا ہے.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت کا دعویٰ کیا کون کہہ سکتا تھا کہ آپؐ عرب سے ہی نہیں بلکہ سب دنیا سے شرک کو بیخ و بنیاد سے اُکھاڑ کر پھینک دیں گے.دعویٰ کی ابتدا میں یہ بات کسی کی سمجھ میں نہ آ سکتی تھی مگر جب آپؐ نے یہ کام ختم کر لیا تو ہر اک کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ انقلاب پیدا ہو گیا.

Page 408

آدم کے واقعہ میں فرشتوں کے مکالمہ کو ذکر کرنے سے نبی کے وقت کے لوگوں کو ایک نصیحت غرض آدم کے واقعہ کے ذکر میں فرشتوں کے مکالمہ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بد اور ادنیٰ لوگ تو الگ رہے نیک اور ملائکہ صفت لوگ بھی نبی کے نزول کے وقت اس انقلاب عظیم کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے جو اس کے ذریعہ سے ہونے والا ہے پس شرافت یہ ہے کہ انسان اگر مان نہیں سکتا تو کم سے کم قبل ازوقت مخالفت تو نہ کرے اور اس دن کا انتظار کرے جب وہ اپنا کام کر چکے.اگر وہ سچا ہے تو خود ہی اس کے کام سے اس کی سچائی ظاہر ہو جائے گی اور اگر جھوٹا ہے تو اس کا کام اس کے جھوٹا ہونے کا شاہد ہو گا.ایک دوسری جگہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذکر میں فرعون کی قوم کے ایک فرد کی زبانی اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے وَ اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهٗ١ۚ وَ اِنْ يَّكُ صَادِقًا يُّصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِيْ يَعِدُكُمْ (المومن :۲۹) یعنی اگر موسیٰ جھوٹے ہیں تو تم کو جوش دکھانے کی کیا وجہ ہے خود ہی ان کا جھوٹ ان کو تباہ کر دے گا اور اگر سچے ہیں تو اس مخالفت کی وجہ سے تم کو خدا تعالیٰ کا عذاب پکڑ لے گا.حضرت آدم کے ذکر کے ساتھ ملائکہ کا ذکر کرنے کی ایک خاص وجہ ایک دوسری غرض اس جگہ ملائکہ کا ذکر کرنے کی یہ ہے کہ قرآن کریم کا دعویٰ ہے اور سب مذاہب اس کے کسی نہ کسی رنگ میں مصدق ہیں کہ اس دنیا کا کارخانہ ملائکہ کے تو ّسط سے چلایا جاتا ہے.مختلف ملائکہ دنیا کے مختلف کاموں پر مقرر ہیں.کوئی موت کا فرشتہ ہے کوئی سیاروںکی گردش وغیرہ کا نگران ہے اور کسی کے سپرد نظامِ عالم میں بارش کا انتظام ہے.اس کی تفصیل آگے آئے گی.اس جگہ پر اسی قدر ذکر کافی ہے پس فرشتو ںکو آدم کے خلیفہ بنانے کی خبر دینے سے اور انہیں اس کی پیدائش پر سجدہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ جب کوئی نبی دنیا میں ظاہر ہوتا ہے ملائکہ کو جو نظام ِعالم کے مدبر ّہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس لئے باوجود سب دنیا کی مخالفت کے نبی جیتتا ہے کیونکہ سب نظام عالم بوجہ اس کے کہ نظام کے مدبرّوں کو اس کی تائید کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اس کی تائید میں ہوتا ہے چنانچہ انبیاء کی زندگی میں اس کی ناقابلِ انکار مثالیں پائی جاتی ہیں.طوفان کے وقت حضرت نوحؑ کا محفوظ رہنا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دشمنوں کا آگ میں ڈالنے کی کوشش کرنا لیکن باوجود کوشش کے آگ کا نہ جلنا.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سمندر میں سے گزرنے کے وقت ان کی قوم کا بچ جانا لیکن فرعون کی فوج کے سمندر میں داخل ہوتے ہی طوفان کا آ جانا اور پانی کا زمین پر چڑھ جانا اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب پر لٹکائے جانے کے وقت آندھی کا آنا اور یہود کے عقیدہ کے مطابق کہ سبت کے دن کوئی شخص صلیب پر نہ لٹکا رہے.ان کا چند گھنٹوںمیں صلیب

Page 409

پر سے اُتار لیا جانا اور صلیبی موت سے محفوظ رہنا.رام چندر جی کا باوجود اکیلے ہونے اور دشمنوں کے نرغے میں ِگھرے ہوئے ہونے کے رَاوَن پر فتح پانا.کرشن جی کا زبردست دشمنوں کے مقابلہ پر جبکہ ان کے ساتھی جی چھوڑ رہے تھے فتح پانا.زردشت کا زبردست مخالفتوں کے باوجود کامیاب ہونا اور ان سب سے آخر لیکن شان کے لحاظ سے سب سے شاندار طو رپر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تنِ تنہا سارے عرب کا مقابلہ کرنا اور غیر معمولی سامانوں سے فتح پانا یہ سب ایسے واقعات ہیں کہ کوئی اندھا ہی ان کے غیر معمولی ہونے سے انکار کر سکتا ہے اور یہ سب واقعات اس امر پر شہادت ہیں کہ جب کوئی نبی دنیا میں مبعوث ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نظام ِعالم کو اس کی تائید میں لگا دیتا ہے اور چونکہ نظامِ عالم ملائکہ کے ماتحت ہے اللہ تعالیٰ نبی کے مبعوث کرنے سے پہلے انہیں اپنے ارادہ سے مطلع کر دیتا ہے.آدم کی بعثت پر ملائکہ کو اس کی مدد کا حکم اور اسی کی طرف وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً کے الفاظ میں اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ آدم کی بعثت کے وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اس کی بعثت کے بارہ میں اطلاع دے دی تھی اور وہ اس کی تائید میں لگ گئے تھے جس کی وجہ سے ان کے دشمن باوجود عارضی طور پر ان کے مقابلہ میں کامیاب ہو جانے کے آخر ناکام رہے.اور آدم علیہ السلام اس مقصد میں کامیاب ہو گئے جس کے پورا کرنے کے لئے انہیں مبعوث کیا گیا تھا اور ساتھ ہی اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس وقت بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں ملائکہ کو لگا دیا گیا ہے جو دنیا میں ایسے تغیرات پیدا کریںگے جن کی وجہ سے باوجود شدید مخالفت کے اور دشمنوں کے قوی ہونے کے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر کامیاب ہو کر رہیں گے.حضرت آدم علیہ السلام کی جنّت اسی دنیا کی جنّت تھی اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت آدم کو اسی دنیا میں پیدا کیا گیا تھا او رجو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہیں اُسی جنت میں رکھا گیا تھا جو مرنے کے بعد انسان کو ملنے والی ہے وہ غلطی پر ہیں.تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ میں اس زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں لیکن بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہیں جنت میں رکھا گیا تھا.اس مشکل کو بعض لوگوں نے بزعم خود اس طرح حل کیا ہے کہ پہلے اسی دنیا میں پیدا کیا پھر ان کو جنت میں لے جایا گیا لیکن یہ آیت اس توجیہ کی بھی اجازت نہیں دیتی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً میں اسی دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ دنیا میں خلیفہ کے مقرر کرنے کی کوئی غرض ہو گی پھر اسے جنت میں لے جانے سے وہ غرض کس طرح پوری ہو سکتی تھی؟ یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ ایک خاص مقصد کے لئے آدمؑ کو اس دنیا میں خلیفہ مقرر کرے اور پھر اسے جنت

Page 410

میں لے جائے جہاں وہ مقصد پورا نہیں ہو سکتا.آدم ؑ کو جنت میں لے جانے کے بعد اس مقصد کو دنیا میں کون پورا کرتا جس کے لئے آدم کو خلیفہ مقرر کیا گیا تھا؟ قرآن کریم کی دوسری آیات بھی اس خیال کو ردّ کرتی ہیں مثلاً فرماتا ہے لَا لَغْوٌ فِيْهَا وَ لَا تَاْثِيْمٌ(طور: ۲۴) یعنی جنت میں نہ کوئی لغو بات ہو گی اور نہ ایک دوسرے کے خلاف گناہ کا الزام لگایا جائے گا یعنی سب غلطیوں سے پاک ہوں گے لیکن جس جنت میں آدم علیہ السلام رکھے گئے تھے اس میں تو شیطان بھی داخل ہوا اور اس نے آدم علیہ السلام سے ایک ایسا کام کروایا جو منشائے الٰہی کے خلاف تھا پھر جنت کی نسبت تو آتا ہے کہ لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ (الحجر:۴۹) کہ اس جنت میں لوگوں کو نہ کسی قسم کی تکان ہو گی اور نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں گے مگر آدم ؑ تو اس جنت میں سے جس میں وہ رکھے گئے تھے نکالے گئے.اسی طرح اس جنت کے متعلق جو مرنے کے بعد ملنے والی ہے فرماتا ہے کہ وَ لَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ (حٰمٓ سجدة:۳۲) جو تم طلب کرو گے تمہیں ملے گا.مگر آدم ؑ جس جنت میں رکھے گئے اس میں تو ان کی خواہش کے پورا کرنے پر یعنی شجرہ کے پاس جانے پر انہیں جنت میں سے نکال دیا گیا.اسی طرح مرنے کے بعد ملنے والی جنت کے بارہ میں تو آتا ہے کہ اس میں داخل ہونے والے لوگ کہیں گےنَتَبَوَّاُ مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَآءُ (الزمر:۷۵) اس جنت میں ہم جہاں چاہیں جا سکتے ہیں لیکن آدم علیہ السلام کو جس جنت میں رکھا گیا اس کے بارہ میں آتا ہے کہ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ (البقرة :۳۶) اس فلاں درخت کے قریب بھی نہ جانا.غرض قرآن کریم میں مرنے کے بعد ملنے والی جنت کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ اس نقشہ سے بالکل مخالف ہے جواس جنت کا بتایا گیا ہے جس میں آدم علیہ السلام کو رکھا گیا تھا پس آدم کی جنت اسی دنیا کا کوئی مقام تھا کیونکہ آدم علیہ السلام اسی دنیا کے لوگو ںکے لئے خلیفہ مقرر کئے گئے تھے اور تا موت اسی میں ان کا رہنا ضروری تھا.وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ الخ پر تین اعتراض اور اس کے جوابات وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ (۱) خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے مشورہ کیا.کیا اللہ تعالیٰ ملائکہ کے مشورہ کا محتاج ہے؟ (۲) فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر اعتراض کیا کہ انسان تو فساد کرے گا پھر اسے پیدا کرنے کی کیا وجہ ہے.کیا ملائکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر اعتراض کر سکتے ہیں؟ (۳) ملائکہ کی بات درست نکلی کہ آدم کی نسل نے دنیا میں فساد کیا اور خدا تعالیٰ کا فعل قابل اعتراض ٹھہرا.ان سوالو ںکا جواب دینے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ قَالَ کا لفظ جو اس آیت میں استعمال ہوا ہے ضروری نہیں کہ اس کے معنے یہ ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں اور انسانوں کی کوئی مجلس بلائی تھی اور فرشتوں سے کوئی

Page 411

بات کی تھی اور انہوں نے اس کے بارہ میں کوئی جواب دیا تھا بلکہ جیسا کہحَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے.قَالَکے معنی صرف زبان سے بولنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ علاوہ بولنے کے دل میں خیال آنے کے بھی ہوتے ہیں جیسا کہ مفردات راغب میں لکھا ہے.یُقَالُ لِلْمُتَصَوَّرِ فِی النَّفْسِ قَبْلَ الْاِبْرَازِ بِاللَّفْظِ قَوْلٌ یعنی دل میں کسی خیال کا آنا بھی خواہ اسے الفاظ میں ادا نہ کیا جائے قول کہلاتا ہے چنانچہ کہتے ہیں فِیْ نَفْسِیْ قَوْلٌ لَمْ اُبْرِزْہُ.میرے دل میں ایک بات ہے جو میں نے بتائی نہیں.قرآنِ کریم میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوا ہے فرماتا ہے.وَ يَقُوْلُوْنَ فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ لَوْ لَا يُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ(المجادلة:۹) یعنی منافق اپنے دلوں میں خیال کرتے ہیں کہ اگر محمد رسول اللہ سچے ہیں تو پھر ان کی باتوںکی وجہ سے جو ہم ان کے بارہ میں کہتے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں عذاب میں کیوں مبتلا نہیں کرتا؟ اسی طرح اس کے معنی اعتقاد کے بھی ہیں چنانچہ کہتے ہیں فُـلَانٌ یَقُوْلُ بِقَوْلِ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ یعنی فلاں شخص حضرت ابو حنیفہ کے عقیدہ کے مطابق عقیدہ رکھتا ہے.نیز قول عملی دلالت کے معنے بھی دیتا ہے.یعنی ایسی چیز کی نسبت بھی جو بول ہی نہیں سکتی قول کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ وہ اپنی حالت سے کسی امر کا اظہار کرے چنانچہ عرب کا محاورہ ہے اِمْتَـلَأَ الْـحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ حوض بھر گیا اور اس نے کہا کہ بس بس اب زیادہ پانی نہ ڈالو.قرآن کریم میں یہ بھی محاورہ استعمال ہوا ہے چنانچہ زمین و آسمان کی نسبت آتا ہے کہ ثُمَّ اسْتَوٰۤى اِلَى السَّمَآءِ وَ هِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا١ؕ قَالَتَاۤ اَتَيْنَا طَآىِٕعِيْنَ(حٰمٓ سجدة :۱۲) یعنی پھر اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف جبکہ وہ ابھی دخانی حالت میں تھا متوجہ ہوا اور اسے کہا اور زمین کی طرف بھی کہ وہ بھی اسی حالت میں تھی متوجہ ہوا اور کہا کہ چاہو تو مرضی سے اور چاہو تو مجبوری سے میرے احکام کی فرمانبرداری کرو اس پر ان دونوں نے جواب دیا کہ ہم اپنی مرضی سے تیری فرمانبرداری کریںگے.اس آیت میں خدا تعالیٰ کا قول بھی تسخیر کے معنوں میں ہے یعنی خدا تعالیٰ نے انہیں ایسا بنایا کہ ان کے بعض حصے اپنی مرضی سے فرمانبردار ہیں اور بعض جیسے انسانوں کا ایک حصہ کہ جبر سے فرمانبرداری کرتے ہیں اور آسمان و زمین کا جواب جو بیان کیا ہے وہ بھی اس کی حالت کا بیان ہے نہ یہ کہ واقع میں وہ زبان سے بولے اور اس سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اپنی حالت سے یہ بتایا کہ وہ خوشی سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کریںگے یعنی وہ کلیّ طور پر خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کے فرمانبردار ہیں.دوسرے حصہ میں جو صرف طَائِعِیْنَ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو حصہ ناخوشی سے خدائی قانون کی فرمانبرداری کرتا ہے وہ خوشی سے فرمانبرداری کرنے والے حصہ کے مقابل پر تھوڑا ہے اور یا یہ کہ دوسرے کا ذکر محذوف ہے.اور یہ عربی کا عام قاعدہ ہے جو قرآن کریم میں بھی متعدد جگہ پر استعمال ہوا ہے کہ بات کا ایک حصہ محذوف کر دیا جاتا ہے اور جملہ کی بناوٹ

Page 412

کی دلالت کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَ جَعَلَ لَكُمْ سَرَابِيْلَ تَقِيْكُمُ الْحَرَّ (النحل :۸۲) ہم نے تمہارے لئے ایسی قمیصیں یا لباس بنائے ہیں جو تم کوگرمی سے بچاتے ہیں اس جگہ سردی سے بچانے کے ذکر کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ گرمی کے لباس کے ذکر میں خود ہی آ گیا ہے.زبانِ حال سے کسی حقیقت کے اظہار کے لئے قول کی طرح اور الفاظ بھی عربی میں استعمال ہوتے ہیںاور قرآن کریم میں بھی استعمال ہوئے ہیں مثلاً قرآن کریم میں آتا ہے فَوَجَدَا فِيْهَا جِدَارًا يُّرِيْدُ اَنْ يَّنْقَضَّ فَاَقَامَهٗ (الکہف :۷۸) یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی نے اس گائوں میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے کا ارادہ کر رہی تھی.اس پر حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھی نے اس کی مرمت کر دی.اس جگہ دیوار کی نسبت آتا ہے کہ وہ گرنے کا ارادہ کر رہی تھی اور مراد یہ ہے کہ اس کی حالت بتاتی تھی کہ وہ گرنے والی ہے.امام ابو منصور الثَّعَالَبی اپنی کتاب فِقہُ اللُّغَہ میں لکھتے ہیں مِنْ سُنَنِ الْعَرَبِ اَنْ تُعَبَّرَ عَنِ الْجَمَادِ بِفِعْلِ الْاِ نْسَانِ کَمَا قَالَ الرَّاجِزُ اِمْتَـلَأَ الْحَوْضُ فَقَالَ قَطْنِیْ یعنی عربی کا محاورہ ہے کہ کبھی بے جانوں کی نسبت انسانوں جیسے افعال کو منسوب کر دیتے ہیں جیسے راجز نے کہا ہے کہ اِمْتَـلَأَ الْحَوْضُ فَقَالَ قَطْنِیْ (فقہ اللّغہ فصل فی اضافة الفعل الی ما لیس بفاعل علی الحقیقة) خلاصہ یہ کہقَول کا لفظ اور اسی قسم کے اور الفاظ جو انسانوں کے لئے آتے ہیں کبھی حالت کے بتانے کے لئے عربی میں غیر ذی رُوح اشیاء کی نسبت بھی بول دیئے جاتے ہیں اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے زبانِ حال سے یوں ظاہر کیا.اس تمہید سے میرا یہ منشا ہے کہ اِس آیت میں اور بعد کی آیات میں جو سوال و جواب کا ذکر ہوا ہے ضروری نہیں کہ اسی طرح سوال و جواب ہوا ہو بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہر اک چیز نے اپنی اپنی حالت کے مطابق خدا تعالیٰ کے حکم کا جو جواب دیا وہ الفاظ میں اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں فرشتوں نے اپنے عمل سے جواب دیا.ابلیس نے اپنی حالت کو پیش کیا اور دوسری اشیاء نے اپنی حالتوں سے اس کا جواب دیا نہ کہ الفاظ میں اور بول کر اس طرح کہا.اُردو زبان کا بھی محاورہ ہے کہ انتڑیاں قُلْ ھُوَ اللّٰہ پڑھ رہی ہیں اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ بھوک کی شدت کی وجہ سے پیٹ اپنے عجز کا اظہار کر رہا ہے اور اپنی حالت سے ظاہر کر رہا ہے کہ ہر مصیبت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے.فرشتوں کا مکالمہ زبانِ حال کا مکالمہ ہے اس تمہید کے بعد مَیںبتاتا ہوں کہ جو کچھ اس آیت میں بیان ہوا ہے یا تو وہ اوپر کی تمہید کے مطابق زبانِ حال کا ایک مکالمہ ہے لیکن اگر اسے زبانِ حال کا مکالمہ نہ کہا جائے اور میرا ذاتی رُجحان اس طرف ہے کہ اس آیت میں جو کچھ ملائکہ کے متعلق کہا گیا ہے وہ بذریعہ الہام گزرا ہے صرف

Page 413

زبانِ حال کا محاورہ نہیں تو پھر جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا وہ بطور فیصلہ سنانے کے تھا مشورہ نہ تھا اور الفاظ قرآنیہ اس امر پر دلالت کر رہے ہیں.آیت کا کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کچھ پوچھا ہے بلکہ الفاظ بالوضاحت بتا رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے یہ کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں پھر نہ معلوم معترضین نے مشورہ کا مفہوم کہاں سے نکال لیا؟ ہاں! یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سوال کرنے کی اجازت دی ہے کیونکہ جیسا کہ بتایا جا چکاہے فرشتوں کو اس امر کے بتانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ اپنے اپنے دائرہ میں آدم کی تائید میں لگ جائیں اور جس کے سپرد کوئی کام کیا جاوے اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اُسے اچھی طرح سمجھ بھی لے.پس انہوں نے سمجھنے کے لئے یہ سوال کیا ہے کہ الٰہی کیا آپ کوئی ایسی مخلوق پیدا کرنے والے ہیں جو فساد کرے گی اور خون بہائے گی ؟اور یہ سوال ان کا خلیفہ کے لفظ سے استدلال کر کے ہے جس کے معنے جیسا کہ بتایا جا چکا ہے ایسے وجود کے ہیں جو نظام قائم کرے اور نیکوں کو انعام اور بدوں کو سزا دے اور ظاہر ہے کہ ہرسوال اعتراض کے طو رپر نہیں ہوتا بلکہ بعض سوال زیادتی علم کے لئے ہوتے ہیں.ہر روز اس دنیا میں افسر ماتحتوں کو جب حکم دیتے ہیں تو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ان کا یہ فعل اعتراض نہیں کہلاتا.اَتَجْعَلُ فِيْهَا الخ کے الفاظ سے فرشتوں کا اعتراض کرنا زیادتی علم کے لئے تھا تعجب ہے کہ فرشتے تو ادب کے طور پر فوراً سوال کے ساتھ ہی کہہ دیتے ہیں کہ وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ لیکن متعصب معترض پھر بھی اُن کے سوال کو اعتراض قرار دیتا ہے.جو شخص بات کے ساتھ ہی کہہ دے کہ ہم تجھے سب نقصوں سے پاک اور سب خوبیوں کا جامع سمجھتے ہیں اس کے سوال کو اعتراض کس طرح کہا جا سکتا ہے؟ اس فقرہ سے تو انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ہمارا سوال زیادتی علم کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کی حکمت پر اعتراض کی نیت سے.اَتَجْعَلُ فِيْهَا الخ کے الفاظ کو اعتراض قرار دیتے ہوئے آیت کا مطلب ہاں! ایک اور پہلو بھی اس آیت کا ہے جس کے رُو سے اُسے اعتراض بھی قرار دیا جا سکتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح آدم خدا تعالیٰ کا نائب تھا اسی طرح بعض اور وجود بشروں میں سے ایسے تھے جو ملائکہ کے نائب تھے اور ظلّی طور پر ملائکہ کہلا سکتے تھے اگر ایسے وجود نہ ہوتے اور صرف آدم کا دماغ ہی ترقی یافتہ ہوتا تو شریعت کا نزول عبث رہتا.ایسے وجودوں کے دِلوں میں یہ بات بطور اعتراض کے پیدا ہو سکتی تھی کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق کر رہے ہیں تو پھر کسی شریعت لانے والے انسان کی کیا ضرورت ہے؟ پس ہو سکتا ہے کہ اس آیت میں ایسے لوگوں کے دلی خیالات کا بھی جواب دیا گیاہو اور اِس صورت میں اسے اعتراض قرار دینے میں کوئی قباحت لازم نہیں آتی.جب بھی اللہ تعالیٰ

Page 414

کی طرف سے کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اس وقت کے ظاہری تقویٰ شعار لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے پھر جو تقویٰ کے اصلی مقام پر ہوتے ہیں وہ تو اپنی غلطی کو سمجھ جاتے ہیں اور وقت کے امام کو مان لیتے ہیں لیکن جن کا تقویٰ کامل نہیں ہوتا وہ ٹھوکر کھا جاتے ہیںاور آخر ملائکہ کی صف سے نکل کر ابلیسوں کی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں یہ نظارہ بھی ہر نبی کے زمانہ میں نظر آتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ایک شخص زید نامی کا ہمیں پتہ ملتا ہے جواپنے آپ کو ابراہیمی دین پر کہتا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب میں شرک کے خلاف لیکچر دیتا پھرتا تھا.ایک دفعہ اس شخص کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھانے کا موقع ملا تو اس نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا کہ میں مشرکوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتا تو آپؐ نے فرمایا کہ میں نے تو کبھی شرک نہیں کیا.جب آپؐ نے دعویٰ کیا تو اس شخص کو ایمان لانے کی توفیق نہ ملی کیونکہ اس نے کہا کہ اگر خدا تعالیٰ نے نبی بنانا ہوتا تو مجھے بناتا جس نے اس قدر شرک کے خلاف جہاد کیا ہے (بخاری کتاب مناقب الانصار باب حدیث زید بن عمرو بن نفیل و سیرت ابن ہشام ذکر ورقۃ بن نوفل… وزید بن عمروبن نفیل) یہ شخص بعثت نبوی سے پہلے گویا عربوں میں ایک فرشتہ کا رنگ رکھتا تھا مگر اس کے دل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گریز کیا اور آپ ؐ کی بعثت کو لغو قرار دیا اور ایمان سے محروم رہ گیا.ایسے وجود ہر نبی کے زمانہ میں ہوتے ہیں اور باوجود ملائکہ کے اَظلال ہونے کے نبی کی بعثت پر اعتراض کر کے ابلیس بن جاتے ہیں.باقی رہا تیسرا سوال کہ جو فرشتوں نے کہا وہ پورا ہوااور خدا تعالیٰ کا مقصد پورا نہ ہوا.یہ بھی نا سمجھی پر دلالت کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے کب کہا کہ انسانوں میں فساد اور سفکِ دماء نہیں ہو گا.یہ مضمون تو خلیفہ کے لفظ سے ہی ظاہر تھا.اللہ تعالیٰ تو صرف یہ فرماتا ہے کہ باوجود اس کے کہ آدم کے خلیفہ ہونے کے معنے ہی یہ ہیں کہ اب انسانی افعال شریعت کے تابع ہوں گے اور اس کے افعال آئندہ فساد اور سفکِ دم کہلائیں گے پھر بھی انسان کی پیدائش ایک ایسی غرض کو پورا کرے گی جو کوئی دوسری مخلوق پورا نہیںکر سکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کی اس بات کو ردّ نہیں کرتا کہ انسان سے فساد و خون کا ظہور ہو گا بلکہ صرف یہ فرماتا ہے کہ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ یعنی آدم کے ذریعہ سے ایک نئے نظام میں جو غرض پوشیدہ ہے وہ باوجود فساد اور سفکِ دم کے ایسی اہم ہے کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.الفاظ آیت کو معترض غور سے دیکھیں تو یہاں یہ نہیں کہا کہ جو تم جاننے کا دعویٰ کرتے ہو غلط ہے بلکہ یہ کہاہے کہ جو تم نہیں جانتے اسے میں جانتا ہوں پس فرشتوں کے قول کو ردّ نہیںکیا بلکہ اس سے زائد امور کی طرف اشارہ کیا ہے جو فرشتوں کے شبہ کے درست ہونے کے باوجود انسان کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ کی بات ہی پوری ہوئی.

Page 415

اور فرشتوں نے جو سوال کیا تھا اس کا جواب انہیں مل گیا.اَتَجْعَلُ فِیْہَا الخ کے فقرہ میں بیان کردہ امر آدم اور ان کی نسل ہر دو کی نسبت ہے قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّ مَآءَ کے متعلق سوال یہ ہے کہ یہ آدم کی نسبت ہے یا ان انسانوں کی نسبت جن سے اس کا واسطہ پڑنا تھا یا اس کی آئندہ نسل کی نسبت.سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فقرہ سب ہی کی نسبت ہے آدم کی نسبت اس طرح کہ آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی ہیں اور ان کے ذریعہ سے انسان کو شریعت کا تابع کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص نظام کا افسر مقرر کیا جائے اسے نظام کی حرمت کے قیام کے لئے کبھی لوگوں کو قید بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی قاتلوں کو قتل بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی جبراً ٹیکس بھی وصول کرنے پڑتے ہیں اور یہ بظاہر فساد نظر آتا ہے کیونکہ بعض لوگ جو نظام کے فوائد کو نہیں سمجھتے وہ حیران ہوتے ہیںکہ دو سروں کا مال جبراً لینا کس طرح جائز ہے اور آزاد کو قید کرنا کس طرح درست ہو سکتاہے اور کسی شخص کو قتل کر دینا کیونکر حلال ہو سکتا ہے حالانکہ حکومت کے لئے اِن سب امو رپر عمل کرنا ضروری ہے.حکومت ٹیکس لینے اور مجرموں کو قید اور قاتلوں کو قتل کرنے کے بغیر امن قائم ہی نہیں کر سکتی اور نظام کی خوبیاں جو فردی آزادی سے بدر جہا زیادہ فوائد انسانو ںکو پہنچاتی ہیں ظاہر نہیں ہو سکتیں پس پہلی دفعہ نظام کے قیام کے اعلان پر فرشتوں نے اس بات کو عجیب دیکھا کہ اب ایک شخص مقرر کیا جائے گا جسے قید کرنے اور قتل کرنے او رلوگوں سے طوعاً یا کرہاً ان کے اموال کا ایک حصہ لینے کا حق ہو گا اور انہوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے علم کی زیادتی کے لئے سوال کیا کہ یہ نظام کس رنگ میں زیادہ بہتر اور زیادہ مفید ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ یہ امر ابھی تم نہیں سمجھ سکتے.یہ نظام جس وقت مکمل ہو گا اس کے نتیجہ میں ایسے اعلیٰ درجہ کے انسان پیدا ہوں گے کہ اس سے پہلے موجود نہ تھے اور بنی نوع بشر کو وہ فائدہ پہنچے گا جو اب تک انہیں نہیں پہنچا تھا.اور اس سے مراد آدم کے مخاطبین بھی ہو سکتے ہیں اور آئندہ نسل بھی.کیونکہ شریعت ہی انسان کو گنہگار قرار دیتی ہے.شیر انسانوں اور دوسرے جانوروں کو کھاتا ہے.سانپ جانوروں اور انسانوں کو ڈستا ہے لیکن نہ شیر کو اور نہ سانپ کو مفسد قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ عقل سے عاری ہیں اور شریعت کے تابع نہیں.مگر آدم علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کرنے کے یہ معنے تھے کہ بشر اَب ایسی عقل کو حاصل کر چکا تھا کہ شریعت کے تابع ہو اس لئے خدا تعالیٰ نے اسے آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے حکم دیا کہ آئندہ کسی دوسرے انسان کو مت مارو اور اگر تمہارے کسی شخص کو کوئی مار دے تو اُسے بھی خود قتل نہ کرو بلکہ حکومت سے اپنے نقصان کی تلافی چاہو پس اس حکم کے بعد کوئی بشر اگرکسی دوسرے بشر کو قتل کرے تو وہ مفسد اور قاتل کہلائے گا.اس سے پہلے اس کا فعل اسے مفسد اور قاتل نہیں بناتا تھا کیونکہ وہ کسی

Page 416

اور فرشتوں نے جو سوال کیا تھا اس کا جواب انہیں مل گیا.اَتَجْعَلُ فِیْہَا الخ کے فقرہ میں بیان کردہ امر آدم اور ان کی نسل ہر دو کی نسبت ہے قَالُوْا اَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّ مَآءَ کے متعلق سوال یہ ہے کہ یہ آدم کی نسبت ہے یا ان انسانوں کی نسبت جن سے اس کا واسطہ پڑنا تھا یا اس کی آئندہ نسل کی نسبت.سو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ فقرہ سب ہی کی نسبت ہے آدم کی نسبت اس طرح کہ آدم علیہ السلام سب سے پہلے نبی ہیں اور ان کے ذریعہ سے انسان کو شریعت کا تابع کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ جو شخص نظام کا افسر مقرر کیا جائے اسے نظام کی حرمت کے قیام کے لئے کبھی لوگوں کو قید بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی قاتلوں کو قتل بھی کرنا پڑتا ہے اور کبھی جبراً ٹیکس بھی وصول کرنے پڑتے ہیں اور یہ بظاہر فساد نظر آتا ہے کیونکہ بعض لوگ جو نظام کے فوائد کو نہیں سمجھتے وہ حیران ہوتے ہیںکہ دو سروں کا مال جبراً لینا کس طرح جائز ہے اور آزاد کو قید کرنا کس طرح درست ہو سکتاہے اور کسی شخص کو قتل کر دینا کیونکر حلال ہو سکتا ہے حالانکہ حکومت کے لئے اِن سب امو رپر عمل کرنا ضروری ہے.حکومت ٹیکس لینے اور مجرموں کو قید اور قاتلوں کو قتل کرنے کے بغیر امن قائم ہی نہیں کر سکتی اور نظام کی خوبیاں جو فردی آزادی سے بدر جہا زیادہ فوائد انسانو ںکو پہنچاتی ہیں ظاہر نہیں ہو سکتیں پس پہلی دفعہ نظام کے قیام کے اعلان پر فرشتوں نے اس بات کو عجیب دیکھا کہ اب ایک شخص مقرر کیا جائے گا جسے قید کرنے اور قتل کرنے او رلوگوں سے طوعاً یا کرہاً ان کے اموال کا ایک حصہ لینے کا حق ہو گا اور انہوں نے خدا تعالیٰ سے اپنے علم کی زیادتی کے لئے سوال کیا کہ یہ نظام کس رنگ میں زیادہ بہتر اور زیادہ مفید ہو گا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ یہ امر ابھی تم نہیں سمجھ سکتے.یہ نظام جس وقت مکمل ہو گا اس کے نتیجہ میں ایسے اعلیٰ درجہ کے انسان پیدا ہوں گے کہ اس سے پہلے موجود نہ تھے اور بنی نوع بشر کو وہ فائدہ پہنچے گا جو اب تک انہیں نہیں پہنچا تھا.اور اس سے مراد آدم کے مخاطبین بھی ہو سکتے ہیں اور آئندہ نسل بھی.کیونکہ شریعت ہی انسان کو گنہگار قرار دیتی ہے.شیر انسانوں اور دوسرے جانوروں کو کھاتا ہے.سانپ جانوروں اور انسانوں کو ڈستا ہے لیکن نہ شیر کو اور نہ سانپ کو مفسد قرار دیا جاتا ہے کیونکہ وہ عقل سے عاری ہیں اور شریعت کے تابع نہیں.مگر آدم علیہ السلام کو خلیفہ مقرر کرنے کے یہ معنے تھے کہ بشر اَب ایسی عقل کو حاصل کر چکا تھا کہ شریعت کے تابع ہو اس لئے خدا تعالیٰ نے اسے آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے حکم دیا کہ آئندہ کسی دوسرے انسان کو مت مارو اور اگر تمہارے کسی شخص کو کوئی مار دے تو اُسے بھی خود قتل نہ کرو بلکہ حکومت سے اپنے نقصان کی تلافی چاہو پس اس حکم کے بعد کوئی بشر اگرکسی دوسرے بشر کو قتل کرے تو وہ مفسد اور قاتل کہلائے گا.اس سے پہلے اس کا فعل اسے مفسد اور قاتل نہیں بناتا تھا کیونکہ وہ کسی شریعت کے تابع نہ تھا.پس آدم کے خلیفہ قرار دینے پر فرشتوں نے صحیح استدلال کیا کہ بشر جو اس سے پہلے کسی شریعت کے تابع نہ ہونے کے سبب سے اپنے افعال کے جواب دِہ نہ تھے آئندہ جواب دِہ قرار دئے جائیں گے اور اگر وہ اپنے طبعی تقاضوں کو قانون کے مطابق پورا نہ کریں گے تو مفسد اور قاتل قرار دیئے جائیں گے اور وہ پوچھتے ہیں کہ کیا آئندہ بشر بھی اسی طرح خدا تعالیٰ کے منشا پر چلنے کے لئے مجبور کئے جائیں گے جس طرح ملائکہ مجبور ہیں اور ان کی طبعی حیوانیت آئندہ قانونِ شریعت کے تابع کر دی جائے گی؟ یہ استدلال ملائکہ کا بالکل درست تھا اور واقعہ میں ایسا ہی ہونے والا تھا.وہ بشر جو آدم کی بعثت سے پہلے عام حیوانوں کی سی ایک حیثیت رکھتا تھا آدم کے ذریعہ سے شریعت سن کر اور اس پر عمل کر کے اب ملائکہ کے درجہ کو پہنچنے والا تھا اور اس کی مخالفت کر کے سزا کا مستحق بننے والا تھا اور مفسد اور قاتل کہلانے والا تھا.یہ ایک عجیب لطیفہ ہے کہ انجیل نے بھی اس نکتہ کو پیش کیا ہے لیکن ادھورا پیش کرنے کی وجہ سے مسیحیوں کو اس سے سخت ٹھوکر لگی ہے.پولوس کے خط رومیوں میں لکھا ہے ’’کیونکہ شریعت کے ظاہر ہونے تک گناہ دنیا میں تھا پر جہاں شریعت نہیں گناہ ِگنا نہیں جاتا‘‘ (باب ۵ آیت ۱۳) اسی طرح لکھا ہے ’’شریعت قہر کا سبب ہے اس لئے کہ جہاں شریعت نہیں وہاں نافرمانی بھی نہیں‘‘ (رومیوں باب ۴ آیت ۱۵) یہ وہی خیال ہے جسے فرشتوں نے پیش کیاہے لیکن انہو ںنے اپنے تقویٰ کے ماتحت اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا کہ ایسے وجود کا پیدا کرنا ترقی کے راستہ میں ضرور روک ہو گا بلکہ سوال اور زیادتی علم کی خواہش کی حد تک اپنے آپ کو محدود رکھا ہے لیکن مسیحیت نے اس سے نتیجہ بھی خود ہی نکال لیا اور سمجھ لیا کہ شریعت صرف بطور سزا کے تھی اور مسیح کے ذریعہ سے اسے دُور کر دیا گیا حالانکہ گناہ تو ایک زہر ہے وہ زہر اس لئے نہیں بنتا کہ خدا تعالیٰ نے اسے گناہ قرار دیا ہے بلکہ چونکہ وہ زہر ہے اس لئے خدا تعالیٰ اسے گناہ قرار دیتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ زہر کا علم دینا زہر کے ضرر کو بڑھاتا نہیں بلکہ اس سے بچنے کی خواہش رکھنے والوں کے لئے بچنے کی ایک راہ کھول دیتا ہے.جب تک بچہ میں سمجھ نہیں ہوتی اسکی حرکات کسی گرفت کے ماتحت نہیںہوتیں اس لئے نہیںکہ وہ برُی نہیں ہوتیں بلکہ اس لئے کہ وہ برائی کو ابھی سمجھتا نہیں لیکن جب وہ سمجھنے کے قابل ہو جاتاہے ہمارا فرض ہوتا ہے کہ اسے کرنے کے قابل اور نہ کرنے کے قابل امور کا علم دیں اور اس کا فرض ہوتاہے کہ اِس علم کے مطابق عمل کرے.ہمارا اسے ان امور سے خبردار کرنا ظلم نہیں کہلاتا بلکہ احسان کہلاتا ہے اورحسنِ تربیت سمجھا جاتا ہے اسی طرح بشر جب سمجھنے کے قابل ہوا خدا تعالیٰ نے اسے ان کاموں کا علم دیا جو اس کے کرنے کے تھے اور ان کاموں کا بھی اسے علم دیا جو اس کے کرنے کے قابل نہ تھے.یہ اس پر قہر نہ تھا بلکہ احسان اور رحم تھا.اس میں شک نہیں کہ اس

Page 417

علم اور اس قابلیت کے بعد ہی وہ مفسد اور قاتل کہلانے کا مستحق ہوا لیکن جب وہ بُرے کاموں سے بچنے کا اہل ہو گیا تو اسے اس کا علم نہ دینا یقیناً اس پر ظلم ہوتا.ملائکہ کے سوال کا خلاصہ خلاصہ یہ کہ ملائکہ کے سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا شریعت کے نزول کے بعد بشر کی حالت بدل جائے گی؟ پہلے وہ جن افعال کو کرنے کے سبب سے مجرم قرار نہیں دیا جاتا تھا اب انہی افعال کے کرنے کی وجہ سے مجرم قرار دیا جائے گا.اور یہ خیال ان کا درست تھا اس لئے نہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو بعض کامو ںکی وجہ سے زبردستی مجرم قرار دینے والا تھا بلکہ اس لئے کہ بشر کا دماغ اب کامل ہو چکا تھا اور وہ بُرے کام اس کے دل پر بُرے اثرات ڈالنے کا موجب ہو سکتے تھے پس خدا تعالیٰ نے آدم کو خلیفہ بنا کر اپنا الہام نازل کرنے کا ارادہ کیا تا بشر اپنے اندر پیدا ہونے والی نئی تبدیلی سے آگاہ ہو جائے اور اپنے مقام کو سمجھنے لگے اور اس اعلیٰ مقام کے حصول کے لئے کوشش کرنے لگے جس کے حاصل کرنے کا اب وہ اہل ہو چکا تھا.آدم کو خلیفہ بنانے کے وقت دو مختلف نظریئے اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے او روہ یہ ہے کہ آدم کو خلیفہ بنانے کے موقع پر جو کچھ خدا تعالیٰ نے فرمایا وہ بھی درست تھا اور جو فرشتوں نے کہا وہ بھی درست تھا صرف نقطۂ نگاہ کا فرق تھا.اللہ تعالیٰ کی نظر اُن صلحاء پر تھی جو آدم کی نسل میں ظاہر ہونے والے تھے اور اس نظام کی خوبیوں پر تھی جو آدم اور اس کے اَظلال کے ذریعہ سے دنیا میں قائم ہونے والا تھا لیکن فرشتوں کی نظر ان بدکاروں پر تھی جو انسانی دماغ کی تکمیل کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کا مورد عتاب بننے والے تھے.خدا تعالیٰ آدم کی پیدائش میں محمدی جلوہ کو دیکھ رہا تھا اور فرشتے بوجہلی صفات کے ظہور کو دیکھ کر لرزاں و ترساں تھے اور گویہ درست ہے کہ جو کچھ فرشتوں نے خلافت کے قیام سے سمجھا تھا درست تھا مگر ان کا یہ خوف کہ ایسا نظام دنیا کے لئے لعنت کا موجب نہ ہو غلط تھا کیونکہ کسی نظام کی خوبی کا اس کے اچھے ثمرات سے اندازہ کیا جاتا ہے نہ کہ اس میں کمزوری دکھانے والوں کے ذریعہ سے.اگرکسی اچھے کام کو اس کے درمیانی خطرات کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے تو کوئی ترقی ہو ہی نہیں سکتی.ہر بڑا کام اپنے ساتھ خطرات رکھتا ہے.ملک کی حفاظت کی خاطر جو جنگ کی جاتی ہے اس میں ہزاروں لاکھوں آدمی مارے جاتے اور زخمی ہوتے ہیں.طالب علم علم کے سیکھنے میں جانیں ضائع کر دیتے ہیں مگر ان نقصانوں کی وجہ سے نہ ملک کی حفاظت ترک کی جاتی ہے اور نہ علم کا سیکھنا.پس گو خلافت کے قیام سے انسانوں کا ایک حصہ مورد سزا بننے والا تھا اور مفسد اور قاتل قرار پانے والا تھا مگر ایک دوسرا حصہ خدا تعالیٰ کا محبوب بننے والا تھا اور فرشتوں سے بھی اُوپر جانے والا تھا.وہ کامیاب ہونے والا حصہ ہی انسانی نظام کا موجب تھا اور اس حصہ پر نظر کر کے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ

Page 418

انسانی نظام ناکام رہا بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس اعلیٰ حصہ کا ایک ایک فرد اس قابل تھا کہ اس کی خاطر اس سارے نظام کو تیار کیا جاتا.اسی حکمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بعض اپنے کامل بندوں سے فرمایا ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا (ابن عسا کر بحوالہ موضوعات الکبریٰ باب حرف اللّام) اگر تو نہ ہوتا تو ہم دنیا جہان کے نظام کو ہی پیدا نہ کرتے.یہ حدیث قدسی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت وارد ہوئی ہے.بعض اور کامل وجودوں کو بھی اسی قسم کے الہام ہوئے ہیں پس یہ کامل لوگ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ کا ارادہ ہی حکمت کے مطابق تھا اور فرشتوں کا خدشہ اس کے مقابل پر کوئی وزن نہ رکھتا تھا.وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ اس جملہ میں فرشتوں نے اس شبہ کا ازالہ کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ارادہ پر کوئی اعتراض کرتے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم تیری تسبیح اور حمداور تقدیس کرنے والے ہیں.ہم یہ سوال صرف حقیقت حال کو سمجھنے کے لئے کرتے ہیں اعتراض کے طور پر نہیں کرتے.اس جملہ کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ چونکہ خلیفہ کا وجود خدا تعالیٰ کا ِظلّ ہوتا ہے وہ اس فقرہ سے اس شبہ کا اظہار کرتے ہیںکہ ہم تو اپنی طرف سے تیری تسبیح اور تحمید اور تقدیس کرتے ہیں کیا ہماری تسبیح اور تحمید اور تقدیس میں کوئی نقص ہے کہ ایک اور وجود کو پیدا کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے جو تیر ا ِظلّ ہو اگر یہ معنے لئے جائیں تب بھی فرشتو ںکا قول اعتراض نہیں بنتا بلکہ خشیت اللہ کا ایک لطیف اظہار ہے جو مقربینِ الٰہی کی شان کے عین مطابق ہے.اس جملہ کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ یہ سوال جو ہم نے کیا ہے زیادتی علم کے لئے ہے ورنہ اجمالی طو رپر ہم تیرے ارادے کی تصدیق کرتے ہیں اور چونکہ تو ہر عیب سے پاک ہے اور ہر خوبی کا مالک ہے ہم یقین رکھتے ہیں کہ جو ارادہ تو نے کیا ہے اس میں ضرور کوئی بڑی حکمت ہو گی مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں بھی وہ بات آ جائے تاکہ ہم اپنے فرض منصبی کو اچھی طرح ادا کر سکیں.قَالَ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اس میں فرشتوں کے سوال کا اجمالی جواب دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت کے نزول کے بعد بشر اس سے پست حالت میں جانے کے قابل بھی ہو جائے گا جو اسے اب حاصل ہے کیونکہ وہ گنہگار اور خدا تعالیٰ کا مغضوب بھی بن سکے گا لیکن باوجود اس کے شریعت کا نزول اپنے اندر ایسے فوائد رکھتا ہے جن کو ابھی تم نہیں سمجھ سکتے اور جو اپنے وقت پر ظاہر ہوں گے تو ان کی حقیقت تم پر کھل جائے گی.یہ اجمالی جو اب ہے جو ملائکہ جیسے مقرب وجودوں کے لئے کافی ہے کیونکہ ان کو خدا تعالیٰ کی شان کا علم تھا جب خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس میں عظیم الشان فوائد ہیں جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے تو انہیں یقین ہو گیا کہ ضرور ایسا ہی

Page 419

ہو گا لیکن چونکہ یہ بات خدا تعالیٰ اپنے کلام کے ذریعہ سے آئندہ انسانو ںپر بھی ظاہر کرنے والا تھا اس لئے اس نے ان کو تفصیلی جواب بھی دیا جو اگلی آیات میں مذکور ہے.دوسری الہامی کتب کے خلاف قرآن مجید میں تسبیح کے ساتھ تحمید اور تقدیس کا ذکر کرنے کی وجہ اس جگہ ایک او رنکتہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم خدا تعالیٰ کی صفت تسبیح کے ساتھ تحمید اور تقدیس کا بھی ذکر کرتا ہے جو امر اسے دوسری کتب سے ممتاز کرتا ہے.تسبیح میں صرف تنزیہ آتی ہے یعنی اس کے نقصوں سے پاک ہونے کا ذکر آتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس قدر بیان صفاتِ الٰہیہ کا اعلیٰ درجہ کے متفکرّ انسان کے لئے کافی نہیں.کامل دماغ کے لئے صفاتِ تنزیہیہ کے ساتھ صفاتِ حقیقیہ ُمثبتہ کا اظہار بھی ضروری ہے ہم اگر کسی شے کی نسبت یہ کہتے ہیں کہ وہ ایسی بھی نہیں اور ویسی بھی نہیں تو بے شک اسے انسانی دماغ کے قریب توکر دیتے ہیں لیکن اس کی حقیقت کو پوری طرح واضح نہیں کرتے اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ کہیں کہ وہ مادہ نہیں.اسے بھوک نہیں لگتی ،پیاس نہیں لگتی، وہ مرتا نہیں، وہ سوتا نہیں، وہ طبعی خواہشات کا شکار نہیں تو اس سے یہ تو ضرور ہوتا ہے کہ سننے والے کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ دوسری مادی اشیاء سے کسی قدر مختلف ہے لیکن اس کی شان کا کما حقہ اظہار نہیںہوتا اور یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ ہے کیا؟ قرآن مجید سے پہلی کتب میں صرف تسبیح پر زور دینے کی وجہ ابتدائی مذاہب میں چونکہ اس وقت انسانی دماغ کا نشوونما اچھی طرح نہ ہوا تھا تسبیح پر زیادہ زور تھا اور حمد اور تقدیس کا پہلو بہت کمزور تھا مثلاً ہندو مذہب ہی کو لے لو اس میں اللہ تعالیٰ کے وجود کو نفی کے ذریعہ سے ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور اس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ نظر نہیں آتا، وہ کسی جگہ میں سماتا نہیں، اس کے آگے پیچھے کوئی نہیں ،اسے خواہش کوئی نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ.بدھ مذہب کے موجودہ لٹریچر میں خدا تعالیٰ کی تعلیم کسی معیّن صورت میں تو پائی نہیں جاتی مگر انسانِ کامل جو خدا تعالیٰ کی مادی تصویر ہے اس کا نقشہ اسی طرح کھینچا گیا ہے کہ اس کے دل میں کوئی خواہش نہیں ہوتی سب خواہشات سے وہ آزاد ہوتا ہے حالانکہ خواہشات سے آزاد ہونا صرف تنزیہی صفت ہے اس میں کسی کمال کا اظہار نہیں.یہودی مذہب میں ایک حد تک صفات الٰہیہ کے مثبت پہلو کا بھی ذکر ہے مگر اس قدر نہیں جس قدر کہ قرآن کریم میں ہے.ان صفات حمد اور تقدیس کو جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور جس رنگ میں بیان ہوئی ہیں اگر بائبل کے بالمقابل رکھا جائے تو بائبل کا بیان بالکل پھیکا پڑ جاتا ہے غرض قرآن کریم ہی ایک کتاب ہے جس نے تسبیح کے ساتھ تحمید پر زور دیا ہے اور خدا تعالیٰ کو نفی کے ساتھ روشناس نہیں کرایا بلکہ اس کی صفات حمد اور تقدیس پر خاص زور دیا ہے.

Page 420

خدا تعالیٰ کے متعلق قرآن مجید میں نفی کی صفات کا ذکر اور ان کا مطلب نفی کی صفات پر قرآن کریم میں بہت ہی کم زور ہے مثلاً آتا ہے لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ (الشوریٰ :۱۲) اس جیسی اور کوئی شے نہیں یا آتا ہے لَا يَمُوْتُ (الفرقان :۵۹) وہ مرتا نہیں یا فرمایا ہے.لَمْ يَلِدْ (الاخلاص:۴) اس نے کسی کو جنا نہیں یا فرمایا کہلَمْ يُوْلَدْ (الاخلاص:۴) وہ کسی کے ہاں پیدا نہیں ہوا.یا فرمایا وَ هُوَ يُطْعِمُ وَ لَا يُطْعَمُ (الانعام :۱۵) وہ دوسروں کو کھلاتا ہے پر اُسے کوئی نہیں کھلاتا.یا فرمایا.لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ (البقرة :۲۵۶) اسے اونگھ یا نیند نہیں آتی.ان صفات کو بھی اگر دیکھا جائے تو سوائے لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌکیآیت کے باقی سب خدا تعالیٰ کی شان کے اظہار کے لئے نہیں بلکہ مشرکانہ عقائد کے ردّ کے لئے بیان ہوئی ہیں چونکہ مسیحی لوگ اور اسی قسم کے اور مشرک لوگ بعض انسانوں کو خدا تعالیٰ کی صفات سے متصف بتاتے تھے اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ وہ معبود انِ باطلہ تو کھانا بھی کھاتے تھے اور ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور آگے انہوں نے بیویاں کیں اور ان کے ہاں اولادیں پیدا ہوئیں اور وہ سوتے بھی تھے تھک کر اونگھتے بھی تھے مگر اللہ تعالیٰ ان باتوں سے پاک ہے.پس ان صفات کا ذکر اس قدر اللہ تعالیٰ کے وجود کے سمجھانے کے لئے نہیں جس قدر کہ معبود انِ باطلہ کی اُلوہیت کو باطل کرنے کے لئے ہے.اب رہا لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌکا عقیدہ سو یہ بھی خالص سلبی نہیں یعنی اس میں یہ بتانا مقصود نہیں کہ وہ جو دوسروں جیسا نہ ہو خدا ہوتا ہے بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ انسانی فہم کے قریب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی جو ایجابی صفات بیان کی گئی ہیں ان سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہیے کہ اپنی حقیقت میں وہ انسانی صفات سے ملتی ہیں بلکہ ان کا استعمال صرف خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ وہ حقیقت میں انسانی صفات سے بالکل مختلف ہیں مثلاً یہ جو آتا ہے کہ خدا تعالیٰ بولتا ہے تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اس کی بھی زبان ہے، تاَلوُ ہے، َحلق ہے، ہونٹ ہیں اور دانت ہیں جن کی مدد سے وہ آواز نکالتا ہے بلکہ جب بولنے کا لفظ بولا جائے تو اس سے صرف یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ اپنے عندیہ کو دوسری مخلوق پر الفاظ پیدا کر کے یا دل میں خیال پیدا کر کے ظاہر کر دیتا ہے یہی حال اس کے سننے اور دیکھنے کا ہے.ان الفاظ کے استعمال سے بھی یہ مراد نہیں کہ اس کے کان ہیں یا آنکھیں ہیںبلکہ محض یہ مراد ہے کہ وہ مخلوق کی خواہشات اور پکار کو معلوم کرتا اور ان کے حالات کو معلوم کرتا ہے پس لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ کا جملہ بھی اس قدر صفات سلبیہ پر دلالت نہیں کرتا جس قدر کہ صفاتِ حقیقیہّ کی تاکید اور تشریح کرتا ہے.نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ میں اس طرف اشارہ کہ کامل عرفان والے صفاتِ حقیقیہ مثبتہ سے اللہ کا عرفان حاصل کرتے ہیں خلاصہ یہ کہ ملائکہ کایہ فقرہ بیان کر کے کہنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ

Page 421

اس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ کامل عرفان والے وجود صفاتِ سلبیہّ سے خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کی صفات حقیقیہ ُمثبتہ سے اس کا عرفان حاصل کرتے ہیں اور نیز اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کریم جو صفات حقیقیہ پر زور دیتا ہے ایسے ملکوتی وجود پیدا کرے گا جو تسبیح کے ساتھ حمد اور تقدیس پر بھی زور دیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو اس کی ان صفات کے ذریعہ بندوں کے قریب کریں گے جو اس کی قدرتوں کے ظہور سے تعلق رکھتی ہیں اور صرف نفی پر بحث کر کے اسے ایک وراء الوراء اور بندوں سے بے تعلق ہستی ثابت نہیں کریں گے.حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کامل تعلق صفاتِ اِیجابیہّ پر غور اور ان سے فائدہ اُٹھانے کے بغیر نہیں ہو سکتا.جو صرف تسبیح کرتا ہے وہ صرف اس امر کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ایک بالاہستی ہے مگر جو اس کی تحمید کرتا ہے وہ اسے ایک زندہ اور فعاّل خدا ثابت کرتا ہے اور اس کی صفات سے خود فائدہ اُٹھاتا اور دوسروں کو فائدہ پہنچاتا ہے.قرآن مجید میں سَبِّحْکے ساتھ لفظ حـمد کا استعمال یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم میں سَبِّحْ امر کا صیغہ سترہ دفعہ استعمال ہوا ہے اور اس میں سے آٹھ جگہ اس کے ساتھ بِحَمْدِ رَبِّکَ یا بِحَمْدِہٖ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں یعنی حجر ع۶ نصر ع۱ طٰہٰ ع۸ مومن ع۶ ق ع۳ طور ع۲ سجدہ ع۲ میں.باقی نو جگہیں رہ جاتی ہیں جہاں یہ امر بغیر حمد کے لفظ کے استعمال ہوا ہے ان میں سے ایک تو طٰہٰ ع ۸ میں ہے مگر یہ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ کے بعد استعمال ہوا ہے اور ساری آیت یُوں ہے وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَا١ۚ وَ مِنْ اٰنَآئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضٰى ( طٰہٰ :۱۳۱)یعنی تسبیح کر اپنے رب کی اس کی حمد کے ساتھ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اور رات کے دونوں سروں پر بھی تسبیح کر اور دن کی دونوں طرفوں میں بھی تسبیح کرتا کہ تو خدا تعالیٰ کے انعام پا کر اس سے راضی ہو جائے.اس آیت کے مضمون سے ظاہر ہے کہ دوسرا سَبِّحْ جو خالی آیا ہے پہلے مضمون کی تکرار ہے اور اس میں بِحَمْدِکَ کا حکم شامل ہے خالی تسبیح مراد نہیں.دوسری اور تیسری آیات جن میں خالی تسبیح کا لفظ استعمال ہوا ہے سورہ ق اور سورہ طور کی ہیں ان میں بھی پہلی آیت کی طرح یہ لفظ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ کے بعد اور اس کے تابع کے طور پر استعمال ہوا ہے اور بِحَمْدِکَ کا مفہوم اس میں شامل ہے.چوتھی آیت جس میں سَبِّحْ کا لفظ بغیر حمد کے استعمال ہوا ہے سورۂ دَھر کی آیت ہے جو یوں ہے وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَّ اَصِيْلًا.وَ مِنَ الَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهٗ وَ سَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيْلًا.(الدھر:۲۷) یعنی اپنے رب کا نام صبح شام

Page 422

لیا کر اور رات کے وقت بھی اس کے حضور میں سجدہ کیا کر اور دیر تک رات کو اس کی تسبیح کیا کر.اس آیت میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ رب کا نام لے کر تسبیح کر اور سجدہ میں تسبیح کرنے کا ذکر ہے جس میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہا جاتا ہے پس یہ بھی خالی تسبیح نہیں بلکہ تسبیح اور تحمید ملی ہوئی ہے.کیونکہ رب تنزیہی صفت نہیں بلکہ ایجابی صفت ہے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ میرا اعلیٰ رب ہر نقص سے پاک ہے تو ہم نفی سے اس کی تعریف نہیں کرتے بلکہ اس کے اعلیٰ ہونے اور رب ہونے سے اس کی تعریف کرتے ہیں جو خالی تسبیح نہیں بلکہ تسبیح اور تحمیدکا مرکب ہے.پانچویں چھٹی اور ساتویں آیات سورہ واقعہ اور حاقہ کی ہیں دو دفعہ سورہ واقعہ (ع ۲ و ع ۳ ) میں آتا ہے فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (الواقعۃ :۷۵)اور ایک دفعہ حاقّہ (ع۲ ) میں آتا ہے فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (الحاقۃ:۵۳) ان تینوں آیات میں بھی گوحمد کا لفظ نہیں مگر یہ مضمون ہے کہ اپنے رب عظیم کا نام لے کر تسبیح کر یعنی سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم کہو جو رکوع میں مسلمان کہا کرتے ہیں اور یہ مضمون بھی حمد پر مشتمل ہے نہ کہ خالی تسبیح پر.آٹھویں آیت آل عمران ع ۴ کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں.وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَ الْاِبْكَارِ (آل عمران:۴۲)یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا سے کہا کہ اپنے رب کا ذکر کثرت سے کر اور صبح شام اس کی تسبیح کر اس میں بھی رب کے لفظ کے ساتھ تسبیح کرنے کا حکم ہے جو خالی تسبیح نہیں بلکہ حمد اس کے ساتھ شامل ہے.نویں آیت سورہ مریم کی ہے اس میں آتا ہے.فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰۤى اِلَيْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِيًّا(مریم:۱۲) یعنی حضرت زکریا مقام عبادت سے باہر آئے اور اپنے دوستوں سے اشارہ سے کہا کہ صبح شام تسبیح کرو اس آیت میں بیشک حمد شامل نہیں مگر یہ اللہ تعالیٰ کا حکم نہیں حضرت زکریا کا ہے اور ہو سکتا ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ کے حکم میں تحمید شامل تھی اس کے دوبارہ ذکر میں یہاں بھی تخفیف کےلئے حمد کے ذکر کو چھوڑ دیا گیا ہو بہرحال مسلمانوں کو قرآن کریم میں پندرہ جگہ مخاطب کیا گیا ہے اور سب جگہ تسبیح کے ساتھ حمد الٰہی کو شامل کرنے کا حکم دیا ہے جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خالی صفاتِ سلبیہّ پر زور نہ دیا کرو کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات سے فائدہ اُٹھانے کا موقع نہیں ملتا بلکہ اس کے ساتھ حمد کو شامل کیا کرو تاکہ اِیصالِ خیر کی صفات سے تم کو فائدہ پہنچے.ایک حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمَانِ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ(بخاری کتاب الایمان والنذور باب اذا قال : واللہ لا اتکلم الیوم....) دو کلمے ایسے ہیں کہ بولنے کے لحاظ سے تو بہت ہلکے پھلکے ہیں مگر نتیجہ کے لحاظ سے بہت بھاری ہیں اور رحمن کو بہت ہی پیارے ہیں اور وہ یہ ہیں سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ

Page 423

الْعَظِیْمِ.اس حدیث کا مفہوم بھی یہی ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی صفات ایجابیہ کا ذکر کرتا ہے وہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کر کے ان کے مقابل کی الٰہی صفات کو اپنے پروارد کر لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعامات کا مستحق ہو جاتا ہے.نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ کے فقرہ کے بیان کرنے سے امت محمدیہ کے لئے ایک عظیم الشان سبق خلاصہ یہ کہ ملائکہ کا یہ فقرہ اس جگہ دُہرا کر اللہ تعالیٰ نے اُمت محمدیہ کو ایک عظیم الشان سبق دیا ہے کہ صفاتِ سلبیہّ پر اکتفا نہ کر وبلکہ صفاتِ ایجابیہّ کو ساتھ یاد کیا کرو تاکہ ان سے فائدہ اُٹھا سکو اور تا تمہارا وجود ملائکہ کے اس سوال کا جواب ہو کہ ہم تو تسبیح اور تحمید کرتے ہیں پھر انسانی نظام کے چلانے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ تم بھی تسبیح اور تحمید کرنے والے وجودبن کر بنی نوع انسان کی پیدائش کی ضرورت کا عملی ثبوت بن جائوگے اور خدا تعالیٰ کی حکمت کی شہادت ہو جائو گے.قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں اس آیت کے بعض مطالب کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں آیت ھٰذا کے مضامین کی تشریح اب میں قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں اس آیت کے بعض مضامین کو بیان کرتا ہوں.اوّل میں آدم علیہ السلام کے ذکر کو لیتا ہوں.آدم علیہ السلام انسانی نظام کی پہلی کڑی ہیں اور قرآن کریم کے بیان کے مطابق الہامِ الٰہی کا سلسلہ انسانوں میں اُن سے چلا ہے.میں سب سے پہلے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آدم علیہ السلام کے ذکر سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ بشر کی پیدائش آدم علیہ السلام کے ذریعہ سے چلی ہے یا یہ کہ خدا تعالیٰ نے یکدم ایک بشر یعنی آدم کو پیدا کر دیا اور پھر اس کی پسلی سے اس کے لئے بیوی بنا دی اور ان سے آگے انسانی نسل چلی.اس خیال کی تصدیق قرآن کریم سے ہرگز نہیں ہوتی بلکہ یہ بیان بائبل اور دوسری کتب کا ہے اور اسے غلطی سے اسلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے.بائبل میں آدم ؑ کی پیدائش کا واقعہ بائبل میں آدم کے واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے.’’تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بنائیں کہ وہ سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں اور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں

Page 424

سرداری کریں اور خدا نے انسان کواپنی صورت پر پیدا کیا.خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا نرَو ناَری اُن کو پیدا کیا.اور خدا نے انہیں برکت دی اور خدا نے انہیں کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو… اور خداوند خدا نے عدَن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا…… اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بنائوں گا…… اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اس نے اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلہ گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اس پسلی سے جو اس نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ایک ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلائے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی.(پیدائش باب ۱ ، ۲) ہندوؤں کی کتب میں پیدائش انسانی کی حقیقت کا بیان ہندوئوں نے پیدائش انسانی کی حقیقت اس طرح بیان کی ہے.رگوید میں لکھا ہے: ’’کون یقیناً جانتا ہے اور کون بیان کر سکتا ہے کہ یہ کائنات کہاں سے آپیدا ہوئی اور کس طرح اس کی تخلیق ہوئی کیونکہ دیوتا اس کے بعد کے ہیں پھر کون کہہ سکتا ہے کہ یہ کہاں سے نمودار ہوئی.یہ خلقت کہاں سے آ موجود ہوئی اے پیارے.آکاش میں جو اُس کا منتظم ہے وہ بھی اس کو جانتا ہے یا وہ بھی نہیں جانتا.‘‘ (رگوید منڈل نمبر ۱۰ سوکت نمبر ۱۲۹) اس عدم علم کے اظہار کے بعد رگوید نے خود ہی پیدائش عالم اور پیدائش انسانی کی یوں تشریح کی ہے ’’اس َیگِیْہ سے کہ جس میں سب نے ہوَن کیا دہی اور گھی پیدا ہوا اور ان حیوانوں کو پیدا کیا جو ہوا کے سہارے ہیں اور جنگل اور آبادی میں رہنے والے ہیں.اس َیگِیْہ سے کہ جس میں سب نے ہوَن کیا رچا (رِگوید) سام وید چَھنْد (بحر) اور یجروید پیدا ہوئے جب وَراٹ پرش کو تقسیم کیا گیا تو کتنی طرح سے اس کا خیال کیا گیا کون اس کا منہ قرار دیا گیا.کس سے بازو کس سے رانیں اور کس سے پائوں.اس کا منہ کیا ہے بازو کون ہیں رانیں کیا ہیں اور پائوں کون؟ براہمن اس کے مُنہ سے پیدا ہوا کھشتری اس کے بازو سے اور شودر اس کے پائوں سے مَنْ سے چاند پیدا ہوا.آنکھ سے سورج پیدا ہوا ُمنہ سے اِندر اور اَگنی اور پرَُان سے ہوا پیدا ہوئی (رگوید منڈل نمبر ۱۰ سوکت نمبر ۹۰) ہندوئوں کی ایک معتبر کتاب ہے جس کا نام بَرِہْدَا رَنّیِکْ اُپنشد ہے اور ستاتنیوں اور آریوں دونوں میں عزت کی

Page 425

نگاہ سے دیکھی جاتی ہے اس میں ویدوں کے بیان کی تشریح اس طرح کی گئی ہے ’’اس کو (یعنی ایشور کو) تنہائی میں آنند نہ ہوا (یعنی خدا تعالیٰ نے محسوس کیا کہ وہ اکیلا آرام سے نہیں رہ سکتا) اس لئے دنیا میں اکیلے کسی کو انند نہیں آتا (تب) اس نے دوسرے ساتھی کو چاہا (پھر) وہ اتنا موٹا ہوا کہ جتنے دومرد عورت مل کر ہوتے ہیں اس کے بعد اس نے (آتمایا ایشورنے) اپنے موٹے جسم کے دو حصے کئے ایک حصہ سے تو مرد اور دوسرے سے عورت بنی (پھر) اس سے (دوسرے) انسان پیدا ہوئے‘‘ اس کے آگے مخلوق بننے کی تفصیل اس طرح لکھی ہے ’’عورت نے دیکھا کہ اس نے (یعنی ایشور نے) مجھ کو اپنے جسم سے بنا کر مجھ سے رَ َمنْ (یعنی مواصلت) کیا ہے اس لئے وہ دُکھ کے مارے کہیں چھپ گئی اور گائے بن گئی تب ُپرش نے بھی سانڈھ بن کر اُس گائے سے صحبت کی تب اُس سے گائے کی نسل پیدا ہوئی.اسی طرح وہ شرم کے مارے دوسرے حیوانات کی شکل اختیار کرتی چلی گئی اور پرمیشور بھی اسی جانور کے نر کی شکل میں اس سے صحبت کرتا رہا اور تمام حیوانات چرند پرند کی پیدائش ظہور میں آئی.(برہدا رنیک اُپنشد ادھیائے نمبر۱ براہمن نمبر ۴ کھنڈ نمبر ۱ تا ۴) َمنوُ َسمرتی میں جانوروں کے بننے کا ذکر تو نہیں لیکن اس طریقِ پیدائش کو تسلیم کیا گیا ہے ( َ منوُ َسمرَتی ادھیائے نمبر ۱ شلوک نمبر ۳۲) پَرشَن اُپنشد میں لکھا ہے ’’پرجاپتی (ایشور) کو مخلوق کی خواہش ہوئی تو اس نے تپ کیا (ریاضت کی) اور تپ کرنے کے بعد ایک جوڑا پیدا کیا رییٖ اور پَران (مادہ اور زندگی) اس لئے کہ یہ دونوں مل کر میرے لئے مختلف قسم کی مخلوق پیدا کریں گے.( پَرشَن اُپنشد پرشن نمبر ۱ منتر ۳ و ۴) آئیتری اُپنشد میں لکھا ہے آغاز میں بیشک اکیلا صرف آتما (ایشور) ہی تھا اور کچھ بھی آنکھ جھپکتا ہوا نہ تھا اس نے سوچا میں لوکوں (کرہ ہائے عالم) کورَچوں اس نے لوکوں (آسمان و زمین) کو بنایا…… تب اس نے دیکھا یہ ہیں لوگ تب اس نے سوچا لوک پالوں (ان کروں میں رہنے والوں) کو بنائوں تب اس نے پانیوں میں سے ہی نکال کر پرُش کو بنایا اس نے اسے تپایا جب وہ تپ گیا تو اس (پرُش) کا منہ ُکھلا جیسے انڈا پھٹتا ہے منہ سے کلام ظاہر ہوئی کلام سے آگ پھر دونوں نتھنے کھلے نتھنوں سے سانس کھلا.سانس سے ہوا (نکلی) دونوں آنکھیں کھلیں آنکھوں سے بصارت (پیدا ہوئی) بصارت سے سورج (بنا) کان ُکھلے کانوں سے قوّتِ سماعت (پیدا ہوئی) قوّتِ سماعت سے اطراف بدن سے کھال ظاہر ہوئی اس سے روئیں پیدا ہوئے ان روئوں سے ادویات بوٹیاں پیدا ہوئیں دل کھلا دل سے من (قوتِ فکریہ پیدا ہوئی) مَنْ سے چاند پیدا ہوا.ناف کھلی ناف سے اَپان وَایُو (قوتِ ہاضمہ پیدا ہوئی) اس سے موت.عضو مخصوص کھلا اس سے بیج نکلا بیج سے پانی پیدا ہوا (آئیتری اُپنشد ادھیائے نمبر ۱ کھنڈ ۱)

Page 426

شِو پُر ان میں لکھا ہے ’’برہما بولے دلو ںمیں محیط شنکر سے تحریک پا کر میں نے اپنے آپ کو دو حصوں میں تقسیم کیا اے ُمنی میں دو رُوپوں والا ہو گیا پس آدھے سے عورت اور آدھے سے مرد ہو گیا.اس مرد سے عورت میں تمام صفتوں سے متصف جوڑے کو پیدا کیا اس میں ُپرش تو پَرَوْپکاری (بہی خواہِ خلائق) سُوَیمبْھَوَمنوُ پیدا ہوا اور وہ عورت َتپسیاّ اور ریاضت کرنے والی شَتْ رُوپا نام کی پیدا ہوئی پھر وہ ُسندری َمنوُ سے بیاہی گئی اور َمنوُ اور َشتْ رُوپا کے اختلاط سے انسانی نسل چلی‘‘.( ِشوْ پرُان ردّر سنتہا نمبر ۲ سرننٹی کھنڈ نمبر ۱ اد ھیائے ۱۶) ان بیانات کی تفصیلات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ان سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو مذہب کے نزدیک شروع میں ایک جوڑا پیدا کیا گیا تھا جو بعض کے نزدیک ایشور کے دو ٹکڑے ہو کر بنا اور بعض کے نزدیک برہما کے دو ٹکڑے ہونے سے بنا اور پھر آگے اس سے انسانی نسل چلی.میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ یہ حوالے استعاروں سے ُپر ہیں اور ان میں انسانی پیدائش کے متعلق بعض امور کو استعارہ کی زبان میں بیان کیا گیا ہے اور ممکن ہے بعض بعد کے مصنفین نے ابتدائی الہام کو صحیح نہ سمجھ کر اس میں بعض باتیں اپنی عقل سے بھی داخل کر دی ہوں مگر اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ویدوں اور اُپنشدوں کے بیانات میں ایک مطابقت ضرور پائی جاتی ہے میں ان کے بیانات پر معترضانہ نظر نہیں ڈالنا چاہتا کیونکہ تفسیر قرآنی اس کا مقام نہیں مَیں اس جگہ صرف یہ بتانا چاہتا ہو ںکہ مختلف معتبر ہندو کتب میں یہ امر متفق طو رپر پایا جاتا ہے کہ بشر کی نسل ایک جوڑے سے چلی جسے خدا تعالیٰ کے وجود سے یا دیوتائوں کے وجود سے ہستی میں لایا گیا.بابلیوں کے نزدیک ابتدائے نسلِ انسانی قدیم مذاہب میں بھی جو تاریخی زمانہ سے پہلے کے ہیں جیسے بابلی مذہب ہے ایسی روایات پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دیوتائوں سے پیدا ہوا ہے مثلاً بابلی مذہب کی تحقیق سے یہ امر معلوم ہوا ہے کہ بابل کے باشندوں میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ انسان دیوتائوں سے بنا ہے بابل کے قدیم آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بابلیوں کے نزدیک ابتدا میں صرف دو خدا تھے ایک اَپسوُ دوسرا ِتھیامۃ.اَپسوُ میٹھے پانیوںکا دیوتا تھا اور ا ِ تھیامۃ شوُرِیلے پانیوں کی دیوی تھی ان شوریلے پانیو ںکے ملنے سے آسمان و زمین کے دیوتا پیدا ہوئے جنہوں نے اَپسو اور تھیامہ سے بغاوت کی اور ایک منظم دنیا کے پیداکرنے کا ارادہ کیا اس جنگ میں ای آ اور آسمان کا خدا آنو شکست کھا کر بھاگے مگر ای آکالڑ کا مر دُوک ِتھیامۃکے خاوند ِکنگو سے لڑنے گیا جو ِتھیامۃ کے لشکروں کا سردار تھا اور اس کے بعد خود تھیامۃ سے لڑا آخر اُس نے سب ظلمت کے دیوتائوں کو شکست دی اور ان کو ستاروں سے باندھ دیا.ِتھیامۃ کے جسم کو اس نے دو حصوں میں تقسیم کر کے آدھے سے آسمان بنائے اور دوسرے

Page 427

نصف سے اَپسوُ کو قید رکھنے کی جگہ تیار کی اور ِکنگو جو تھیامۃ کا خاوند تھا اس کے خون سے ای آنے انسان بنایا.زمانہ حال کے فلاسفروں کے نزدیک انسانی پیدائش زمانۂ حال کے فلاسفر سائنسدانوں میں سے ڈارون نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ایک لمبے عرصہ کے تغیرّ کے بعد زندگی کے ذرّہ نے ترقی شروع کی اور مختلف حیوانوں کی شکلوں میں ترقی کرتے ہوئے ایک جانور سے جو موجودہ بندر کے مشابہ تھا انسان بنا.اس فلسفہ کے ماتحت انسانی پیدائش ذرّۂ ِحیات کی ترقی کی آخری کڑی ہے اور فوری طور پر کوئی انسان پیدا نہیں ہوا.موجودہ زمانہ کے بعض جرمن اور فرانسیسی فلاسفروں کا نسلِ انسانی کی ابتدا کے متعلق نظریہ موجودہ فلاسفروں میں سے بعض جرمن اور فرانسیسی فلاسفروں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود ہی ترقی پاتے ہوئے انسان بنا ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ازلی قانون مختلف تغیرّات کے بعد انسان کی شکل کو پا گیا ہے.اور انسان اس کے ارتقاء کی آخری معلوم کڑی ہے گویا ان لوگوں نے ہندو اور بابلی عقائد کو سائنس کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی ہے.نسل انسانی کی ابتداء کے متعلق مختلف نظریوں کے مقابل ایک نیا قرآنی نظریہ قرآن کریم نے ان سب سے مختلف اور نیا راستہ دنیا کی پیدائش کے راز کو کھولنے کا اختیار کیا ہے قرآنی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں ارتقاء کا قانون ضرور رائج ہے روحانی دنیا میں بھی اور مادی دنیا میں بھی.مادی دنیا بھی ایک لمبے ارتقاء کے بعد کمال کو پہنچی ہے اور روحانی دنیا بھی ایک لمبے ارتقاء کے بعد کمال کو پہنچی ہے مگر قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہ اصل ماننے کے قابل نہیں کہ انسان مختلف حیوانوں کی ارتقائی حالت کی آخری کڑی ہے قرآن کریم کے نزدیک انسانی ارتقاء اپنی ذات میں مستقل اور جداگانہ ہے اور حیوانی ترقی کا اتفاقی مظاہرہ نہیں ہے اس بارہ میں قرآن کریم کی تعلیم سورہ نوح سے ظاہر ہے اس میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کا یہ قول نقل فرماتا ہے.مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًا.وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا.اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللّٰهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا.وَّ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا.وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا.ثُمَّ يُعِيْدُكُمْ فِيْهَا وَ يُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًا (نوح : ۱۴ تا۱۹) یعنی اے لوگو! تم کو کیا ہوا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نسبت یہ یقین نہیں رکھتے کہ اس کے سب کام حکمتوں کے مطابق ہوتے ہیں حالانکہ اس نے تم کو متعدد دَوروں میں سے گزار کر پیدا کیا ہے کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ کس طرح اُس نے سات آسمان اس طرح بنائے ہیں کہ اُن کے اند رکامل مطابقت پائی جاتی ہے اور ان آسمانوں میں چاند بھی پیدا کیا ہے جو نور والا ہے اور سورج کو بنایا ہے جو روشنی بخشتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے تم کو زمین سے اس طرح اگایا ہے جو اگانے کا حق ہے پھر وہ تم

Page 428

کو اسی زمین میں واپس لے جاتا ہے اور ایک دن تم کو اسی میں سے اچھی طرح سے نکالے گا.ان آیات سے یہ امور ظاہر ہیں (۱) انسانی پیدائش کئی دوروں میں ہوئی ہے کیونکہ فرماتا ہے خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا اور طَوْرٌ کے معنی عربی زبان میں اندازہ اور ہیئت اور حال کے ہوتے ہیں.(اقرب) آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے انسان کا وجود پس اَطْوَارکے معنے ہوئے کئی حدوں میں سے گزار کر کئی ہئیتوں اور احوال میں بدلتے ہوئے پیدا کیا ہے اندازہ اور حدّ کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر اندازہ اور حدّ میں تم دوسرے اندازہ اور حد سے ممتاز اور جداگانہ حیثیت رکھتے تھے اور ایک حد میں جب تھے تو دوسری حد کی طاقتوں سے محروم تھے اور ہیئت اور حالت کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے کہ مختلف دوروں میں تمہاری شکل مختلف تھی اور مختلف حالتو ںکے ماتحت تم ترقی کر رہے تھے (۲) دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک دَور انسانی پیدائش پر وہ آیا ہے جو آسمان و زمین کی پیدائش سے بھی پہلے تھا کیونکہ اس آیت میں انسانی پیدائش کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ آسمان و زمین کی پیدائش سے پہلے بیان کیا ہے اور ایک حصہ آسمان و زمین کی پیدائش کے بعد بیان کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حصہ انسانی پیدائش کا اس وقت سے شروع ہے جبکہ ابھی آسمان و زمین بھی اپنی موجودہ شکل میں ظاہر نہ ہوئے تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جبکہ آسمان و زمین کا مادہ ابھی دُخانی حالت میں تھا اور سمٹ کر جِر م کی شکل میں نہ بنا تھا اس وقت بھی وہ ذرّۂِ حیات کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا جو بعد میں انسان بنا (۳) تیسری بات ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب وہ دُخانی مادہ جس سے کائنات بنی سمٹ کر ِجرْم کی شکل میں آ گیا اور آسمان و زمین کے اَجرام تیار ہو گئے تو انسان پر ایک نیا دَور آیا اور وہ زمین سے باہر نمودا رہوا اور جس طرح نباتات کی حالت ہوتی ہے کہ چل پھر نہیں سکتے اور غذا نَمدار جگہ سے لیتے ہیں وہ بھی کمزور تھا اور ابھی حرکت کرنے کے قابل نہ ہوا تھا پھر آہستہ آہستہ اس نے ایک حرکت کرنے والے مستقل وجود کی شکل اختیار کرنی شروع کی (۴) چوتھی بات جو اس دعویٰ کے ثبوت میں پیش کی گئی ہے یہ ہے کہ جب انسان مر جاتا ہے تواس کا جسم پھر مٹی میں مل جاتا ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ اس کی ابتدا مٹی کے اجزاء سے ہی کی گئی تھی ورنہ وہ سڑ کر مٹی نہ بن سکتا پس اس کا مٹی میں مل جانا اور اس کے اجزاء کا مٹی کے اجزاء میں شامل ہو جانا اس کی اصلیت پر ایک دلیل ہے پھر فرماتا ہے کہ اس مٹی میں مل جانے سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ انسان کے تمام اجزاء پھر بے جان ہو جاتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی مقدر کر رکھا ہے کہ اس کی وہ ترقی یافتہ حالت جو مٹی سے بننے کے بعد اس نے حاصل کی تھی ایک مستقل حیثیت قائم رکھتی ہے اور اس حیثیت کو اللہ تعالیٰ کسی وقت پر نمایاں کرے گااور انسان پھر

Page 429

ایک اور زندگی حاصل کرے گا جس میں اسے اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا.انسانی پیدائش کئی دوروں میں ہوئی خلاصہ یہ کہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ انسان کی پیدائش قرآن کریم کے رو سے فوری اور ایک وقت میں نہیں ہوئی بلکہ جس وقت سے کہ کائنات کی پیدائش کا اللہ تعالیٰ نے انتظام کیا اسی وقت سے اس نے انسان کی پیدائش کی بنیاد رکھی اور مختلف اوقات میں ترقی دیتے دیتے زمین سے نکال کر اُسے بڑھایا اور انسانی شکل اُسے دی اور شعور اور عقل اُسے بخشی.اس حالت سے بھی پہلے کی ایک حالت قرآن کریم نے بیان کی ہے جو یہ ہے کہ انسان یا اس کے ابتدائی ذرّات کا بھی کوئی وجود نہ تھا چنانچہ فرماتا ہے اَوَ لَا يَذْكُرُ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ يَكُ شَيْـًٔا (مریم :۶۸) یعنی کیا انسان اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ ہم نے اس کی حیاتی شکل سے پہلے جو وجود اسے دیا تھا وہ اس حالت میں بنا تھا کہ اس سے پہلے اس کا کوئی اور کسی رنگ میں بھی وجود نہ تھا یعنی وہ ذرّۂِ حیات بھی موجود نہ تھا جس نے ترقی کرتے کرتے آخر انسانی شکل اختیار کی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک اللہ تعالیٰ صرف مادہ کا جوڑنے والا ہی نہیں بلکہ مادہ کا پیدا کرنے والا بھی ہے اور ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جبکہ کوئی مادہ موجود نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے مادہ پیدا کیا جو سورہ نوح کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق ترقی کرتے کرتے انسان بنا.انسانی پیدائش کے مذکورہ ادوار تائید قرآن کریم کی دیگر آیات سے وہ اَدوار جو سورۂ نوح میں بیان کئے گئے ہیں ان کی مزید تشریح قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات سے ہوتی ہے (۱) فرماتا ہے وَ اللّٰهُ خَلَقَكُمْ مِّنْ تُرَابٍ (فاطر:۱۲) اللہ تعالیٰ نے تم کو خشک مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی ایک وقت انسان پر ایسا آیا ہے کہ اس کا ذرہ حیات خشک مٹی میں ملا ہوا تھا.(۲) اَلَّذِيْٓ اَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ(السجدة :۸) وہ خدا ہی ہے جس نے ہر چیز جو اس نے بنائی ہے اس میں اس کی ضرورت کے مطابق نہایت اچھی طاقتیں رکھی ہیں اور انسانی پیدائش کی ابتداء پانی ملی ہوئی مٹی سے کی ہے یعنی خشک مٹی جس میں ذرّۂِ حیات تھا اس میں اُس نے پانی ملایا اور ذرّۂِ حیات کے نشوونما کے سامان پیدا کئے قرآن کریم سے ظاہر ہے کہ ذرّۂِ حیات کے نشوونما کا زمانہ وہ ہے جب مٹی میں پانی ملا.چنانچہ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ١ؕ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ (الانبیاء :۳۱) ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے پھر کیا وہ اس پر ایمان نہیں لاتے اس آیت سے ظاہر ہے کہ حیات یعنی زندگی اور اس کے نشوونما کا تعلق پانی سے ہے پس جب ُتراب کے بعد طین سے انسانی پیدائش کا ذکر کیا تواس طرف اشارہ کیا کہ ذرّۂِ حیات کی نشوونما کا زمانہ اس وقت سے شروع ہوتا ہے جبکہ پانی مٹی سے ملا اور اس میں نشوونما کی طاقت پیدا ہوئی اس امر کا

Page 430

Page 431

اور مختلف راستوں پر چلنے کی طاقت رکھتا ہے تمام باقی حیوانوں کی نسل نطفۂ امشاج سے پیدا نہ ہونے کے سبب سے اپنے باپ دادوں کے راستہ پر چلتی ہے اور آج کا بندر وہی طاقتیں رکھتا ہے جو ہزاروں سال پہلے کا بندر رکھتا تھا اور آج کا شیر وہی دماغی حالت رکھتا ہے جو ہزاروں سال پہلے کا شیر رکھتا تھا مگر انسان کی اولاد بوجۂ نطفہ امشاج سے پیدا ہونے کے اپنے آباء سے مختلف ہونے کی طاقت رکھتی ہے اور بالفعل اس کا اظہار کرتی رہتی ہے اور علوم و فنون میں ترقی کرتی جاتی ہے گویا نطفۂ امشاج کے الفاظ سے انسان کے حیوان ناطق ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان جس وقت سے حیوانی جامہ میں ظاہر ہوا ہے اس کا نطفہ اسی وقت سے دوسرے حیوانوں سے مختلف تھا اور اس میں غیر محدود ترقی کا مادہ رکھا گیا تھا.انسان کے نطفہ امشاج سے پیدا ہونے اور اس کے سمیع و بصیر ہونے کا مطلب یہ آیت بھی اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک انسانی پیدائش شروع سے ہی دوسرے حیوانوں سے مختلف تھی کیونکہ جب سے وہ نطفہ سے پیدا ہونے لگا ہے اس کا بیج نطفۂ امشاج سے بننا شروع ہوا ہے جبکہ دوسرے حیوانوں کا تناسل نطفۂ غیر امشاج سے ہوتا چلا آیا ہے.ہاں ایک بات ضرور ہے کہ گو انسان کی پیدائش شروع سے ہی نطفۂ امشاج سے ہوئی ہے مگر ابتداء میں وہ بالقوۃ تو نطفۂِ امشاج کی خصوصیات رکھتا تھا مگر بالفعل اس سے نطفۂِ امشاج کی قوتیں ظاہر ہونی شروع نہ ہوئی تھیں بلکہ آہستہ آہستہ ترقی کرنے کے بعد ظہور میں آنے لگیں چنانچہ قرآنِ مجید فرماتا ہے.فَجَعَلْنٰهُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا (الدہر:۳) یعنی نطفۂ امشاج سے پیدا کرنے کے بعد ایک زمانہ وہ آیا کہ انسان باِلقوّۃ سے باِلفعل بھی انسان بن گیا اور سمیع و بصیر ہو گیا.سمیع و بصیر سے مراد صرف سننے والا اور دیکھنے والا نہیں ہے بلکہ سمیع بہت سننے والے اور بصیر دیکھنے پر قادر کو کہتے ہیں.یہ الفاظ حیوانوں کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے ان کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ سمیع اور بصیر ہیں بلکہ وہ صرف سننے والے اور دیکھنے والے ہیں سننے اور دیکھنے کے قویٰ ان میں کامل طور پر نہیںپائے جاتے سمیع اور بصیر وہی ہستی کہلا سکتی ہے جس کی سننے اور دیکھنے کی قوت کمال کو پہنچی ہوئی ہو چنانچہ اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی سمیع و بصیر کے الفاظ آتے ہیں مثال کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی جا سکتی ہے اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا(النساء:۵۹) اللہ تعالیٰ یقیناً سمیع اور بصیر تھا اور سمیع و بصیر ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا.غرض سمیع و بصیر اس ہستی کی نسبت بولا جاتا ہے جو سننے اور دیکھنے میں کمال رکھتی ہو اور قرآن کریم کے محاورہ میں انسان کو اسی لئے سمیع و بصیر کہا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی

Page 432

آواز کو سنتا اور اس کی قدرتوں کو دیکھتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں ان لوگوں کو جو الٰہی کلام کے سننے سے انکار کرتے ہیں اور اس کی قدرتوں کے دیکھنے سے اعراض کرتے ہیں اندھے اور بہرے قرار دیا گیا ہے فرماتا ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى رَبِّهِمْ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ.مَثَلُ الْفَرِيْقَيْنِ كَالْاَعْمٰى وَ الْاَصَمِّ وَ الْبَصِيْرِ وَ السَّمِيْعِ١ؕ هَلْ يَسْتَوِيٰنِ مَثَلًا١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (ہود:۲۴،۲۵) یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے ایمان کے مطابق اعمال بھی کئے اور اپنے رب کی طرف عجز کے ساتھ جھکے اور اس کے سلوک سے مطمئن ہو گئے وہی لوگ جنت کے مستحق ہیں وہ اس میں بستے چلے جائیں گے.ان دونوں فریق (یعنی خدا تعالیٰ کا کلام سن کر اس پر ایمان لانے والوں اور اس کی قدرتوں کو دیکھنے والوں او رمنکروں) کی حالت اندھوں اور بہرو ںاور دیکھنے والوں اور سننے والوں کی حالت کی طرح ہے کیا یہ دونوں حالتیں برابر ہو سکتی ہیں پھر کیا یہ لوگ نصیحت حاصل نہیں کرتے؟ اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم حقیقی سمیع و بصیر انہی کو قرار دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کی بات سُننے اور اس کی قدرتوں کے دیکھنے کے عادی ہیں.پس اوپر کی آیت میں انسان کے سمیع و بصیر بنانے سے یہی مراد ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا آیا کہ نطفۂ امشاج سے جو خاصیتیں اس کے اندر باِلقوّہ رکھی گئی تھیں وہ باِلفعل بھی ظاہر ہو گئیں اور یہی وہ تغیرّ تھا جس کے اوّل مظہر اور اپنے زمانہ کے کامل مظہر آدم علیہ السلام تھے ورنہ یہ نہیں کہ ان سے پہلے کوئی بشر نہ تھا ان سے پہلے بھی بشر تھے کیونکہ وہ نطفۂ امشاج سے پیدا ہوتے تھے مگر آدم علیہ السلام کے ظہور سے پہلے وہ ابھی سمیع و بصیر نہ ہوئے تھے یعنی ان کی قوتیں ابھی اس حد تک ترقی پذیر نہ ہوئی تھیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو سننے کے اہل ہو جاتے اور اس کی قدرتوں کو دیکھنے کے لائق ہو جاتے پس اس زمانہ میں ان پر الہام نازل نہ ہوتا تھا اور خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کو جو شریعت سے تعلق رکھتی ہیں ان کے لئے ظاہر نہ کرتا تھا لیکن جب انسان ترقی کرتے کرتے سمیع و بصیر کے مقام پر پہنچ گیا اور اس کا پہلا کامل وجود آدم علیہ السلام کی شکل میں ظاہر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنے کلام کے لئے چن لیا اور اپنے الہام سے اسے مشرف کیا اور رُوحانی دور کی ابتدا ہو گئی اور انسان گویا اس جنت کا مستحق ہو گیا جس کے لئے اسے پیدا کیاگیا تھا اس سے پہلے بشر گو باِلقوّۃ انسانیت کی طاقتیں رکھتا تھا مگر باِلفعل ان قوتوں کو ظاہر کرنے کے قابل نہ تھا اور اس کی دماغی حالت دوسرے حیوانوں سے زیادہ ممتاز نہ تھی او راس وجہ سے اسے شریعت کا پابند نہ کیا گیا تھا.اوپر کی آیات سے یہ امر ظاہر ہو چکا ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک بشر کی پیدائش یکدم نہیں ہوئی اور آدم علیہ السلام سے اس کی ابتدا نہیں ہوئی بلکہ آدم علیہ السلام بشر کی اس حالت کے پہلے ظہور تھے جب سے وہ حقیقی

Page 433

طور پر انسان کہلانے کا مستحق ہوا اور شریعت کا حامل ہونے کے قابل ہوا اور اس وجہ سے گو آدم علیہ السلام رُوحانی لحاظ سے اَبوُ البشر ہیں کیونکہ روحانی دنیا کی ابتدا ان سے ہوئی اور وہ پہلے ملہم انسان تھے مگر جسمانی لحاظ سے ضروری نہیں کہ وہ سب موجودہ انسانوں کے باپ ہو ںبلکہ ہو سکتا ہے کہ کچھ حصہ انسانوں کا ان دوسرے بشروں کی اولاد ہو جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں موجود تھے اور جو ان پر ان کے زمانہ میں ایمان لائے یا ان کے زمانہ میں تو ایمان نہ لائے مگر بعد میں آہستہ آہستہ ایمان لاتے رہے.قرآن کریم میں بیان شدہ واقعہ آدم سے اس بات کا ثبوت کہ نسل انسانی کی ابتدا آدم سے نہیں ہوئی اب میں بتاتا ہو ںکہ قرآن کریم میںجو آدم کا واقعہ بیان ہوا ہے اس میں کہیں بھی اس امر کا اظہار نہیں کیا گیا کہ آدم علیہ السلام سے نسل انسانی کی ابتداہوئی ہے یا یہ کہ ان کے زمانہ میں اور کوئی بشر نہ تھا.قرآن کریم میں آدم علیہ السلام کا نام لے کر ان کے واقعہ کو مندرجہ ذیل مقامات پر بیان کیا گیاہے.اوّل تو اسی آیت میں جس کی تفسیر مَیں اس وقت لکھ رہا ہوں.اس آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس میں انسانی پیدائش کا کوئی ذکر نہیں صرف یہ فرماتا ہے کہ یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین پر ایک خلیفہ بنانے والا ہوںاور یہ فقرہ اپنی بناوٹ سے ہی ظاہر کرتا ہے کہ آدم اور اُن کے کچھ ہم جنس پہلے ہی موجود تھے ان کے بنانے کا اس وقت سوال نہ تھا بلکہ سوال صرف بشر میں سے ایک خلیفہ بنانے کا تھا اور ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے ہر گز یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس سے پہلے کوئی انسان نہ تھا بلکہ صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس وقت خلیفۃ اللہ نہ تھا.قرآن کریم میں حضرت دائود ؑ کو بھی خلیفۃاللہ کہا گیا ہے اور حضرت دائود ؑ کسی لحاظ سے بھی پہلے انسان نہ تھے ان کی نسبت آتا ہے.يٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰكَ خَلِيْفَةً فِي الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الْهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ(صٓ :۲۷) یعنی اے دائود! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس سچائی کے مطابق لوگوں میں فیصلہ کر اور اپنی خواہشات کی پیروی نہ کر کیونکہ اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کے راستہ سے بھٹک جائے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ خلیفہ بنانے سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں انصاف کی حکومت قائم کرے اور انسانی عقل کو اللہ تعالیٰ کے الہام کی ہدایت کے تابع کرے.پس جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانے کا اعلان کیا تواس سے بھی صرف اسی قدر مراد تھی یہ مطلب ہر گز نہ تھا کہ آدم کو اس وقت پیدا کیا گیاتھا بلکہ ان کی بلوغت روحانی کے زمانہ میں انہیں الہام کا مرکز بنانے کا اعلان تھا اس کے بعد کی آیت بھی اسی امر پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا.اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو خلیفہ بنانے کی خبر دے کر آدم پر الہام نازل کیا اور اسے تمام اسماء سکھائے.

Page 434

اسماء کیاتھے ؟اس کی نسبت تو میں اگلی آیت میں روشنی ڈالوں گا.اس وقت اس امر کی طرف توجہ دلانی چاہتا ہوں کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ اس وقت آدم پہلے سے موجود تھے کیونکہ خلیفہ بنانے کا ذکر کرنے کے بعد یہ نہیں کہا گیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا بلکہ یہ کہا ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ نے آدم پر الہام نازل کیا جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس وقت سے پہلے آدم پیدا ہو چکے تھے.دوسری آیت جس میں آدم کا ذکر کیاگیا ہے یہ ہے وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ (الاعراف :۱۲) یعنی ہم نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قویٰ بخشے پھر اعلیٰ قویٰ بخش کر فرشتوں سے کہا کہ آدم کی فرما نبرداری کرو.میں نے صورت دینے کے معنے اس جگہ اعلیٰ قویٰ بخشنے کے کئے ہیں اور یہ لغت کے مطابق ہیں.مفرداتِ راغب میں لکھا ہے صورت دو قسم کی ہوتی ہے.اَحَدُھُمَا مَحْسُوْسٌ یُدْرِکُہُ الْخَاصَّۃُ وَالْعَامّۃُ بَلْ یُدْرِکُہُ الْاِنْسَانُ وَکَثِیْرٌ مِّنَ الْحَیَوَانِ کَصُوْرَۃِ الْاِنْسَانِ وَالْفَرَسِ وَالْحِمَارِ بِالْمُعَایَنَۃِ یعنی ایک صورت تو وہ ہوتی ہے جو حواس ظاہری سے معلوم ہوتی ہے اسے خاص و عام سب معلوم کر لیتے ہیں بلکہ انسانوں کے سوا بہت سے جانور بھی اسے دیکھتے ہیں جیسے انسان یا گھوڑے یا گدھے کی شکل وَالثَّانِیْ مَعْقُوْلٌ یُدْرِکُہُ الخَاصَّۃُ دُوْنَ الْعَامَّۃِ کَالصُّوْرَۃِ الَّتِی اخْتُصَّ الْاِنْسَانُ بِھَا مِنَ الْعَقْلِ وَالرَّوِیَّۃِ وَالْمَعَانِی الَّتِیْ خُصَّ بِھَا شَیْءٌ بِشَیْ ءٍ (المفردات لامام راغب زیر لفظ صُوَر)اور دوسری صورت وہ ہے جو صرف عقل کے ذریعہ سے دیکھی جا سکتی ہے اسے صرف خاص ہستیاں دیکھ سکتی ہیں.جانور توالگ رہے عام انسان بھی اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے جیسے کہ وہ صورت جس سے انسان کو ممتاز کیا گیا ہے یعنی اس کی عقل اور قوت فکریہ، اسی طرح وہ ممتاز کرنے والی طاقتیں جو مختلف اشیاء کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ عربی زبان میں صورت کا لفظ ظاہری شکل کے لئے بھی اور باطنی شکل یعنی اندرونی طاقتوں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور انہی دوسرے معنوں کے مطابق میں نے ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ کے معنی یہ کئے ہیں کہ تم کو اعلیٰ سے اعلیٰ قویٰ بخشے.اس کے بعد جوفرمایا کہ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ محض پیدائشِ انسان کے معاً بعدہی ملائکہ کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم نہ دیا گیا تھا بلکہ انسان کے پیدا ہونے کے بعد جب درجہ بدرجہ ترقی کر کے انسان نے اپنی روحانی قوتوں کو کامل کیا تھا.اس وقت آدم کے سجدہ کا حکم دیا گیا تھا.ایک اور امر بھی اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم کے سجدہ یا دوسرے لفظوں میںمطاع یا خلیفہ بننے سے پہلے متعدد انسان موجود تھے کیونکہ اس آیت میں یہ نہیں کہا گیا کہ آدم کو پیدا کرنے اور اُسے صورت رُوحانیہ دینے کے

Page 435

بعد ہم نے ملائکہ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا بلکہ جمع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ ہم نے تم کو پیدا کیا اور تم کو صورت روحانیہ بخشی اس کے بعد آدم کے سجدہ کا حکم ملائکہ کو دیا.’’تم کو پیدا کیا اور تم کو صورت روحانیہ بخشی‘‘ کے الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ آدم پہلا بشر نہ تھا بلکہ اس کے زمانہ میںمتعدد بشر موجود تھے جو صورت روحانیہ پا چکے تھے ان میں سے آدم چونکہ کامل وجود تھا اسے خلافت کے لئے چنا گیا اور اس کی فرمانبرداری کا فرشتوں کو حکم دیا گیا.تیسری جگہ جہاں آدم کا ذکر کیا گیا ہے سورہ طہٰ کی یہ آیت ہے وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ:۱۱۶) یعنی ہم نے اس سے پہلے آدم کو بھی خاص احکام دیئے تھے پھر وہ ایک موقع پر بھول گیا مگر ہم نے اس کی اس بھول میں ارادہ کا ظہور نہیں پایا.بلکہ یہ فعل اس سے نادانستہ ہوا.اس آیت میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آدم کو سب بشروں سے پہلے پیدا کیا گیا تھا بلکہ محض یہ ذکرہے کہ آدم کو بھی اللہ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی تھی.ان آیات کے علاوہ سورہ آل عمران میں آدم کا ذکر ہے (اٰل عمران :۳۴) جس میں صرف ان کی بزرگی کا اظہار کیا گیا ہے اور پھر دوسری دفعہ اسی سورۃ میں آدم کا ذکر ہے (اٰل عمران:۶۰) جس میں یہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح ؑ کو آدم سے ایک مشابہت ہے مگر ان آیات میں سے کسی میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے پہلا بشر بنا کر پیدا کیا.بعض لوگوں کا قرآن کریم کی بعض آیتوں سے آدم علیہ السلام کے پہلے بشر ہونے کا استدلال اور اس کا ردّ فرشتوں کے سجدہ کا ذکر بغیر آدم کا نام لئے بعض اور مقامات پر ہے اور بعض لوگ ان آیتوں سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام پہلے بشر تھے لیکن ان سے بھی یہ مضمون ثابت نہیں ہوتا.یہ ذکر مندرجہ ذیل آیات میں ہے فرماتا ہے.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ.وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ.فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ(الحجر :۲۷تا۳۰) اور ہم نے انسان کو ایک آواز دینے والی مٹی سے پیدا کیا جو ایک پانی ملے ہوئے گارے سے بنی تھی اور ِجنوّں کو اس سے پہلے پیدا کیا.ایک ایسی آگ سے جو گرم ہوا کی شکل کی تھی.اور اس وقت کو بھی یاد کر جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں آواز دینے والی مٹی سے جو پانی ملے ہوئے گارے سے تیار ہوئی ہے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں پھر جب میں اس کی قوتوں کو مکمل کر لوں اور اس میں اپنی رُوح ڈال دوں تو اس کے سامنے فرمانبرداری کا طریق اختیار کرتے ہوئے جھک جائو.اسی طرح سورہ صٓ میں ہے اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اِنِّيْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ طِيْنٍ.فَاِذَا سَوَّيْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِيْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِيْنَ (صٓ:۷۲،۷۳) یعنی یاد کر! جب تیرے رب نے ملائکہ سے کہا تھا کہ میں ایک بشر گیلی مٹی سے پیدا کرنے والاہوں

Page 436

پھر جب میں اس کی قوتوں کو مکمل کر دوں اور اس میں اپنی رُوح ڈال دوں تو اس کے آگے فرمانبرداری کے طریق سے جھک جائو.ان دو آیتوں سے شبہ پڑ سکتا ہے کہ چونکہ بشر کی پیدائش کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجدہ کا حکم دیا ہے اور دوسری طرف آدم کے اندر نفخ رُوح کرنے کے بعد اس کی فرمانبرداری کا حکم ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ بشر سے مراد آدم ہے اور آدم ہی پہلا بشر ہے.لیکن یاد رہے کہ اس جگہ آدم کا ذکر نہیں محض ایک بشر کی پیدائش کا ذکر ہے.اور کوئی وجہ نہیں کہ ان آیات کے یہ معنی نہ کئے جائیں کہ اللہ تعالیٰ نے بشر کی پیدائش کے وقت فرشتوں کو بتا دیا تھا کہ ایک دن بشر میرے الہام پانے کا مستحق ہو گا.پھر آدم کے زمانہ میں اس کے خلیفہ بنانے کا وقت جب قریب آ گیا.تو دوبارہ انہیں اپنے اس ارادہ کی خبر دی اور بتایا کہ جس امر کی میں نے تم کو خبر دی تھی اب اس کا وقت آ گیا ہے اور سَوَّیْتُہٗ میں جس وقت کی طرف اشارہ تھا اسی وقت کی طرف جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً کے الفاظ سے دوبارہ اشارہ کیا گیا اور یہ بتایا گیا کہ اب بشر کا تسویہ ہو گیا ہے اور وہ الہام پانے کے قابل ہو گیا ہے اس لئے اب تم اس امر کے لئے تیار ہو جائو کہ اس پر الہام نازل ہوں اور اس کی تائید کرنے لگ جائو.قرآن کریم کی ایک دوسری آیت سے ان معنوں کی تصدیق بھی ہوتی ہے.چنانچہ سورہ سجدہ میں آتا ہے اَلَّذِيْٓاَحْسَنَ كُلَّ شَيْءٍ خَلَقَهٗ وَ بَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ.ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ.ثُمَّ سَوّٰىهُ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ١ؕ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (السجدۃ:۸ تا۱۰) یعنی خدا ہی ہے جس نے ہر اس چیز کو کہ اُس نے پیدا کیا ہے ،اُس کے مطابقِ حال طاقتیں بخشی ہیں اور انسان کی پیدائش کو اس نے گیلی مٹی سے شروع کیا ہے پھر اس نے اس کی نسل کو ایک بظاہر حقیر نظر آنے والے پانی کے خلاصہ سے (یعنی نطفہ سے) بنانا شروع کیا پھر اس نے اُسے مکمل قویٰ والا بنایا اور اس میں اپنی رُوح داخل کی اور تم کو اس نے کان اور آنکھیں اور دل عطا کئے مگر باوجود اس کے تم شکر نہیں کرتے.اس آیت میں پیدائش کی ترتیب یوں بیان کی گئی ہے.(۱) انسان کو گیلی مٹی سے پیدا کیا گیا (۲) اس کے بعداُس کی نسل نطفہ سے چلی (۳) اس کے بعد انسانی قویٰ ایک وقت میں جاکر مکمل ہوئے (۴) اس کے بعد اس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا.اس ترتیب سے صاف ظاہر ہے کہ کلامِ الٰہی نطفہ سے چلنے والی مخلوق پر نازل ہوا نہ کہ اس ابتدائی انسان پر جو گیلی مٹی سے بنا تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے گیلی مٹی سے انسان بنا پھر اس کی نسل نطفہ سے جاری ہوئی.اس کے بعد اس کے قویٰ مکمل ہوئے اور اس کے بعد کلامِ الٰہی نازل ہوا.پس آدم جس پر کلام نازل ہوا تھا نطفہ سے پیدا ہونے والے انسانو ںمیں سے تھا نہ کہ ان انسانوں میں سے جو نطفہ کی پیدائش سے پہلی ابتدائی کڑی کے طور پر مٹی سے ترقی دے کر بنائے گئے تھے کیونکہ یہ آیت صاف بتا

Page 437

رہی ہے کہ کلامِ الٰہی نطفہ سے پیدا ہونے والے انسانوں میں سے کسی ایک پر نازل ہوا تھا اور نطفہ سے پیدا ہونے والا انسان وہی ہو سکتا ہے جس کے ماں باپ موجود ہوں اور جس کے ماں باپ موجود ہو ںوہ پہلا انسان نہیں کہلا سکتا پس اس آیت کی روشنی میں پہلی نقل کردہ دونوں آیتوں کا یہی مطلب لینا پڑے گا کہ جس ابتدائی بشر کا ان میں ذکر کیا گیا ہے وہ آدم نہ تھا بلکہ اس کے آباء میں سے کوئی تھا اور فرشتوں کو جو سجدہ کا حکم دیا گیا تھا وہ اس ابتدائی بشر کے متعلق نہ تھا بلکہ اس کامل انسان کے متعلق تھا جس نے انسانی نسل کے دماغی ترقی کر جانے کے بعد سب سے پہلے کلام الٰہی سے مشرف ہونا تھا.ان آیات کے علاوہ اور آیات بھی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ آدم پہلے انسان نہ تھے بلکہ ان کے زمانہ میں اور لوگ بھی موجود تھے.چنانچہ سورہ بقرہ کی ان آیات میں جو آیت زیر تفسیر کے بعد میں فرمایا گیا ہے.وَ قُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ (البقرۃ:۳۶) اے آدم! تو اور تیرے ساتھی یا یہ کہ تو اور تیری بیوی جنت میں رہو.اگر زوج کے معنے ساتھی کے لئے جائیں جو ُلغت کے لحاظ سے درست ہیں تو بھی اس کے یہ معنی بنتے ہیں کہ اس وقت آدم کے اور ہم جنس بھی موجود تھے اور اگر اس کے معنی بیوی کے لئے جائیں تو بھی اس کے یہ معنی ہیں کہ اس وقت عورت اور مرد پیدا ہو چکے تھے کیونکہ اس جگہ کوئی لفظ بھی ایسا نہیں جس سے معلوم ہو کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کے لئے کوئی بیوی پیدا کی تھی بلکہ ایک امر واقعہ کے طو رپر اس کا ذکر ہے کہ تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پہلے سے موجود تھی اور عورت کو اس وقت پیدا نہیں کیا گیا تھا اگر اس وقت عورت کا وجود نہ تھا اور نئے سرے سے عورت بنائی گئی تھی تو چاہیے تھا کہ اس کا بھی ذکر کیا جاتا مگر قرآن کریم تو عورت کے وجود کو ایک تسلیم شدہ حقیقت کے طور پر لیتا ہے اور آدم علیہ السلام کو اسی طرح اپنی بیوی سمیت جنت میں رہنے کا حکم دیتا ہے جس طرح کہ موجودہ زمانہ میں کسی مرد اور اس کی بیوی کے متعلق کو ئی حکم دیا جا سکتا ہے.سورۂ اعراف آیت نمبر۲۰ میں بھی یہ حکم اس رنگ میں بیان ہوا ہے اور وہاں بھی بیوی کے پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں.سورۂ طٰہٰ میں بھی بیوی کا ذکر ہے اور ان الفاظ میں ہوا ہے.فَقُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ (طٰہٰ :۱۱۸) اے آدم! شیطان تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے یہاں بھی بیوی کا اس طرح ذکر ہے گویا کہ اس کا وجود عام قاعدہ کے مطابق تھا نہ کہ کسی معجزانہ رنگ میں اور اس کے خاص طور پر پیدا کرنے کا کوئی ذکر نہیں.اسی طرح آیت زیر تفسیر کے بعد لکھا ہے.وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ وَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ (البقرۃ:۳۷) اور ہم نے کہا کہ یہاں سے چلے جائو.تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے اور تم

Page 438

سب کے لئے اسی دنیا میں ایک وقت تک رہنا اور فائدہ اٹھانا ہو گا.اس آیت میںجن لوگوں کو وہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ایک جماعت ہے پس معلوم ہوا کہ آدم اور اس کی بیوی کے سوا اور اشخاص بھی اس وقت ان کے ساتھ رہتے تھے اگر کہا جائے کہ جمع کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان بھی وہاں تھا تو بھی وہ استنباط باطل نہیں ہوتا جو اس آیت سے میں نے کیا ہے کیونکہ اگر شیطان کو اس حکم میں شامل کیا جائے تو ماننا پڑے گا کہ شیطان بھی آدم کی جنس میں سے تھا کیونکہ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم کے ساتھ نکلنے والے سب کے سب اکٹھے اس زمین پر رہیں گے اور ایک دوسرے سے معاملات رکھیں گے.پس اگر شیطان اس حکم میں شامل ہے تو وہ بھی جنس آدم سے قرار پاتا ہے اور اس طرح بھی آدم پہلا انسان قرار نہیں پا سکتا اور اگر شیطان کو اس حکم سے باہر رکھا جائے تو پھر آدم اور اس کی بیوی کے سوا اور انسانی وجودوں کو ماننا پڑے گا کیونکہ اس آیت میں دو سے زیادہ اشخاص کو نکلنے کا حکم دیا گیا ہے اور انسانوں کی ایک جماعت کے پائے جانے کا ثبوت ملتا ہے (میرا یہی خیال ہے کہ اس حکم میں شیطان بھی شامل ہے اور یہ کہ شیطان جس نے آدم کو دھوکا دیا اس وقت کے ان بشروں میں سے ایک بشر تھا جو آدم پر ایمان نہ لائے تھے اور ان کی شریعت کے جوئے کو اُٹھانے کے لئے تیار نہ تھے) اس کے بعد پھر اگلی آیت میں فرمایا ہے.قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا١ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ(البقرۃ:۳۹)اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ اس وقت بہت سے اور افراد بھی آدم علیہ السلام کے ساتھ موجود تھے کیونکہ اس آیت میں پھر جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے بلکہ اس آیت سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے سوا ایک جماعت تھی کیونکہ فرماتا ہے کہ اے جماعت! اگر تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے تو یاد رکھو کہ جو میری ہدایت پر چلیں گے ان کو کوئی خوف یا حزن پیش نہ آئے گا.ظاہر ہے کہ اس حکم کے مخاطب حضرت آدم علیہ السلام نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ تو خود وقت کے نبی تھے پس اس کے مخاطب ان کے ساتھی تھے جو قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ایک جماعت کی حیثیت رکھتے تھے.یہی الفاظ سورۂ اعراف میں بھی بیان ہوئے ہیں.شاید اس جگہ کوئی کہے کہ سورہ طٰہٰع ۷ میں قَالَ اھْبِطَا مِنْہَا کے الفاظ آئے ہیں یعنی تم دونوں یہاں سے چلے جائو.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف آدم اور ان کی بیوی کو وہاں سے نکلنے کا حکم دیا گیا تھا اور ان کے ساتھ اس وقت کوئی اور آدمی نہ تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک سورۂ طٰہٰ میں اِهْبِطَا کے الفاظ آئے ہیں مگر ان کے آگے جَمِیْعًا کا لفظ بھی رکھا ہوا ہے.اس لفظ کو ساتھ ملا کر ترجمہ کیا جائے تو ترجمہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اس جنت سے تم

Page 439

دونوں سب کے سب چلے جائو.ساری آیت یوں ہے.قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيْعًۢا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ١ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى١ۙ۬ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَ لَا يَشْقٰى ( طٰہٰ :۱۲۴) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں سب کے سب چلے جائو پس جب تم سب کی طرف میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے وہ نہ گمراہ ہوں گے نہ دُکھ میں پڑیںگے.ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ تم دونوں سے مراد آدم اور ان کی بیوی نہیں بلکہ آدم اور شیطان کی جماعتیں مراد ہیں کیونکہ اگر آدم اور ان کی بیوی دونوں مراد ہوتے تو اس کے بعد ’’تم سب‘‘ کے الفاظ استعمال نہ ہوتے.’’تم سب‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ دونوں سے مراد دو فرد نہیں بلکہ دو جماعتیں ہیں پس یہ آیت میرے استدلال کے خلاف نہیں بلکہ اس کی تائید کرتی ہے.پھر ہدایت کے ذکر میں بھی جمع کا لفظ استعمال کر کے اس امر کی اور وضاحت کر دی گئی ہے.سورۂ حجر میں بھی آتا ہے کہ جب شیطان نے آدم کے خلافت پر مبعوث ہونے پر فرمانبرداری سے انکار کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق زجر کی تو اس نے کہا کہ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَيْتَنِيْ لَاُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ.اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ(الحجر:۴۰،۴۱) یعنی اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے آدم کی وجہ سے ہلاک کیا ہے میں ان سب کو زمین میں بُری باتیں خوبصورت کر کے دکھائوں گا اور ان سب کو ہلاک کروں گا سوائے ان کے جو ان میں سے تیرے مخلص بندے ہوں گے.اس آیت سے بھی ظاہر ہے کہ شیطان اس وقت اپنے خلاف ایک جماعت کو پاتاتھا.بیشک کہا جا سکتا ہے کہ اس سے شیطان کی مراد آدم کی اولاد سے ہے لیکن آدم کی اولاد تو دوسرے نمبر پر آئے گی پہلا ارادہ اس کا تو آدم اور اس کے ساتھیوں کے متعلق ہی ہو سکتا ہے پس جب وہ ایک جماعت کا ذکر کرتا ہے تومعلوم ہوتا ہے کہ اس وقت ایک جماعت موجود تھی.کیا شیطان بشر کی نسل سے تھا شائد اس جگہ کسی کو یہ اعتراض پیدا ہو کہ اوپر کی تشریح سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بھی بشر کی نسل میں سے تھا حالانکہ قرآن کریم میں مذکور ہے کہ قَالَ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ١ؕ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ(الاعراف:۱۳) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے ابلیس سے فرمایا کہ باوجود اس کے کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا.تجھے کس امر نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کی فرمانبرداری کرے تو اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہترہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے پیدا کیا ہے.اسی طرح ابلیس کی نسبت آتا ہے کہ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖ (الکہف :۵۱) یعنی ابلیس جنوّں میں سے تھا تبھی اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور جنوں کی نسبت آتا ہے کہ وَ خَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (الرحمٰن:۱۶) اللہ تعالیٰ نے جنوّں کو آگ کے تیز شعلہ سے پیدا کیا ہے پس جبکہ انسان اورجن کی پیدائش میں فرق

Page 440

ہے.ایک طین سے پیدا ہوا ہے اور دوسرا آگ سے تو اِن دونوں کو ایک جنس کیونکر سمجھا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو قرآنِ کریم میں ابلیس اور شیطان میں فرق کیا گیا ہے جہاں کہیں آدمؑ کو سجدہ نہ کرنے کا ذکرہے وہاں ابلیس کا ذکر ہے اور جہاں کہیں آدمؑ کو ورغلانے کی کوشش کا ذکر ہے وہاں شیطان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.مثلاً انہیں آیات زیر تفسیر میں جہاں سجدہ کا ذکر ہے وہاں تو ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جب آدم ؑ کو ورغلانے کا ذکر کیا ہے تو فرمایا فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا (البقرۃ:۳۷)یعنی پھر شیطان نے ان کو اِس حالت سے پھسلا دیا.اسی طرح سورۂ اعراف کے رکوع ۲ میں اِس واقعہ کا ذکر ہے.وہاں بھی جہاں سجدہ کے حکم کا ذکر ہے ابلیس کا لفظ استعمال کیا گیاہے لیکن جہاں ورغلانے کا ذکر ہے وہاں فرمایا ہے.فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ (الاعراف:۲۱) پھر انہیں شیطان نے شک میں ڈال دیا.تیسری سورۃ جہاں اس واقعہ کا ذکر ہے سورہ طٰہٰ ہے.وہاں بھی جہاں کہ سجدہ نہ کرنے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن جہاں آدم کو شک میں ڈالنے کا ذکر ہے وہاں فرماتا ہے فَوَسْوَسَ اِلَیْہِ الشَّيْطٰنُ شیطان نے آدمؑ کے دِل میں شک پیدا کر دیا.( طٰہٰ :۱۲۱) ہر آیت میں دونوں مواقع پر الگ الگ الفاظ کا استعمال کرنا حکمت سے خالی نہیں.قرآن کریم جو لفظ لفظ میں حکمت کو مدِّنظر رکھتا ہے ممکن ہی نہیں کہ اس فرق میں کہ ہر جگہ سجدہ کے ذکر میں ابلیس کا لفظ استعمال کرتاہے اور آدم کو ورغلانے کے ذکر میں شیطان کا لفظ استعمال کرتا ہے کوئی حکمت مدنظر نہ رکھتا ہو پس ضرور ہے کہ سجدہ سے انکار کرنے والا کوئی اور وجود ہو اور ورغلانے والا کوئی اور وجود ہو.اسی وجہ سے ایک کا نام ابلیس بتایا گیا اور دوسرے کا شیطان.پس اگر کوئی اس شبہ پر زور دے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناَر سے پیدا کرنے کا ذکر تو ابلیس کے متعلق ہے نہ کہ شیطان کے متعلق (میرے نزدیک جو اس فرق کی وجہ ہے آگے چل کر متعلقہ آیات کے ضمن میں بیان کی جائے گی) ابلیس کے آگ سے پیدا کئے جانے کا مطلب دوسرا جواب اور یہی اصلی جواب ہے یہ ہے کہ نار سے پیدا کرنے کے یہ معنی ہر گز نہیں کہ ابلیس یا جنّ اس مادی آگ سے پیدا کئے گئے تھے بلکہ یہ ایک عربی کا محاورہ ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی اور وہ اطاعت کی برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ یہ محاورہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے.خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ١ؕ سَاُورِيْكُمْ اٰيٰتِيْ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنِ۠ (الانبیاء :۳۸) یعنی انسان کو ُعجلت سے پیدا کیا گیا ہے میں تم کو اپنی آیات دکھائوں گا پس جلدی نہ کرو.اب یہ ظاہر ہے کہ اس آیت کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ُعجلت اور جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کو بنایا گیا ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ انسانی طبیعت جلد باز واقع ہوئی ہے وہ ہر کام کا نتیجہ جلدی دیکھنا چاہتا ہے.اسی طرح قرآن کریم میں

Page 441

ہے اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ (الروم :۵۵) اللہ ہی ہے جس نے تم کو ضعف سے پیدا کیا ہے اس آیت کا بھی یہ مطلب نہیں کہ ضعف کوئی مادہ ہے جس سے انسان کو پیدا کیاگیا ہے.بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میں کمزوری ہے.وہ خود اپنے لئے ہدایت کا راستہ تیار نہیں کر سکتا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت آنے کا محتاج ہے.ان محاوروں کے رو سے جنوّں کے اور ابلیس کے نَار سے پیدا کرنے کے یہ معنے ہیں کہ ان کی طبیعت ناری تھی یعنی جب تک انسان میں تمد ّن کی حکومت قبول کرنے کا ملکہ پیدا نہ ہوا تھا وہ ناَری مزاج کا تھا اور اس کے لئے دوسرے کی اطاعت قبول کرنا آسان نہ تھا مگر جب وہ ترقی کرتے کرتے طینی جوہر کو جو اس کا اصل تھا پا گیا تو اس میں اطاعت کے قبول کرنے کا مادہ پیدا ہو گیا اور ابلیس کے مقاَل کا صرف یہ مطلب ہے کہ آدم تو غلام ذہنیت رکھتا ہے کہ دوسرے کی اطاعت کر سکتا ہے مگر میں ناری مزاج ہوں اور دوسرے کی اطاعت نہیں کر سکتا.پس میں اس سے اچھا ہوں اور یہ دعویٰ ابلیس اور اس کے ساتھیوں کا طبعی دعویٰ تھا.وہ اپنی خیالی حرّیت کو اطاعت سے بہتر خیال کرتے تھے اور ایک نظام کے ماتحت چلنے کو عیب خیال کرتے تھے.آج بھی جو لوگ ابلیس کے اَظلاَل ہیں اسی غلطی میں مبتلا ہیں کہ کسی دوسرے انسان کی اطاعت کرنا گویا اپنے نفسوں کو ذلیل کرنا ہے.انار کسٹ رجحانات کے لوگ اسی قسم میں شامل ہیں.قرآن کریم میں اس ناَری طبیعت کا محاورہ ایک اور جگہ بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے کہ تَبَّتْ يَدَاۤ اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ(اللھب:۲) یعنی شعلہ کے باپ کے دونوں ہاتھ برباد ہو گئے اور وہ خود بھی برباد ہو گیا.اس آیت میں ابو لہب یعنی شعلوں کا باپ کسی کا نام نہیں بلکہ ایک مخالفِ اسلام کی صفت بتائی ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے ہاں آگ پیدا ہوتی تھی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس کی طبیعت ناری تھی اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ُبغض اور حسد سے جلتا رہتا تھااور آپؐ کی مخالفت میں آگ بنا رہتا تھا.اوپر کی آیات میں جو یہ ذکر آیا ہے کہ صَلْصَال سے پیدا ہونے والے انسانوں سے پہلے دنیا میں جن بستے تھے اس کی تشریح متعلقہ آیات کے ماتحت آئے گی.(کسی قدر اس کا ذکر سورہ حجر کے آیت نمبر ۲۷ میں بھی آیا ہے) جو کچھ قرآن کریم کی آیات زیر تفسیر اور دوسری آیات کی روشنی میں اوپر لکھا جا چکا ہے اس سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق (۱) انسان کی پیدائش یکدم نہیں ہوئی بلکہ باریک در باریک ذرّات کی صورت نے ترقی کر کے اور مختلف احوال میں سے گزر کر انسانی شکل اختیا رکی ہے.(۲) انسان شروع سے ہی بطور انسان پیدا کیا گیا ہے اور وہ فلاسفروں کے خیال کے مطابق جانوروں کے ارتقاء کا اتفاقی نتیجہ نہیں ہے (۳) سب سے پہلا

Page 442

الہامِ الٰہی پانے والا وجود وہ تھا جو نطفہ سے پیدا ہونے والا تھا یعنی سب سے پہلے حیوانی شکل اختیار کرنے والا وجو د ملہم من اللہ نہ تھا بلکہ اس کی نسل میں سے ایک کامل وجود اس مقام کا مستحق ہوا جس کا نام قرآنِ کریم کے رو سے آدم تھا (۴) اس سے پہلے ملہم کے زمانے میں اس کے علاوہ اس کے اور ہم جنس بھی تھے اور انہی کے نظام اور ہدایت کے لئے اسے خلیفہ بنایا گیاتھا.یہ لوگ اس کے ساتھ اس جنت ِ اَرضی میں رہتے تھے جس میں آدم علیہ السلام رکھے گئے تھے اور ان کے ساتھ ہی وہ اس جنت ِ اَرضی سے نکالے بھی گئے.اس شبہ کا جواب کہ اگر آدم اور ان کی بیوی ایک ہی جوڑا تھے تو ان کی اولاد کی شادی کس سے ہوئی تھی اگر اوپر کے مطالب کو درست سمجھا جائے (اور َمیں سمجھتا ہوں کہ َمیںقرآنِ کریم کی مختلف آیات سے اس امر پر کافی روشنی ڈال چکا ہوں کہ وہ مطالب درست ہیں) تو یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ بعض لوگوں کا یہ ُشبہ کہ آدم اور اس کی بیوی اگر ایک ہی جوڑا تھے تو پھر اُن کی اولاد کی شادی کس سے ہوئی تھی اگر بھائی بہنوں کی آپس میں شادی ہوئی تھی تو یہ قابلِ اعتراض اور گھنائونا امر ہے.بے بنیاد شبہ ہے کیونکہ اوپر کی تشریح کے مطابق شریعت آدم سے شروع ہوئی اور اس وقت تک بہت سے دوسرے انسان پیدا ہو چکے تھے باقی رہا ان سے پہلے کا زمانہ سو اس وقت تک انسانی دماغ بالقوۃ انسانی دماغ نہ بنا تھا اور شریعت کو سمجھنے یا اس پر عمل کرنے کے قابل ہی نہ تھا پس اس کے کسی فعل کو قابل اعتراض نہیں کہا جا سکتا نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ آدم علیہ السلام سے پہلے کے بشر ایک ہی جوڑے سے ترقی پاکر بنے ہوں جس طرح یہ ممکن ہے کہ وہ ایک ہی جوڑے سے ترقی پا کر بنے ہوں اسی طرح یہ بھی ممکن ہے بلکہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ وہ کئی جوڑوں سے ترقی پا کر بنے ہوں.ابتداء نسل انسانی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک انگریز سے مکالمہ اس بارہ میں مَیں بانی ٔسلسلہ احمد یہ علیہ السلام کے اس مکالمہ کے ذکر کے بغیر نہیں رہ سکتا جو ان میں اور ایک آسٹریلین اسٹرانومسٹ کے درمیان ہوا یہ آسٹریلین پروفیسر ۱۹۰۸ ء میں ہندوستان کی سیر کو آیاتھا اور اس نے ہندوستان کے مختلف شہروں میں لیکچر بھی دیئے تھے.جن دنوں وہ لاہور میں تھا وہ بانی سلسلہ احمدیہ سے بھی ملا تھا اور اس نے ان سے اس مضمون کے بارے میں سوال کیا تھا.اس کا سوال اور آپ کا جواب اس بارہ میں میں ذیل میں نقل کرتا ہوں.سوال.بائبل میں لکھا ہے کہ آدم یا یوں کہیے کہ پہلا انسان جَیحُوْن سَیْحُون میں پیدا ہوا تھا اور اس کا وہی ملک تھا تو پھر کیا یہ لوگ جو دنیا کے مختلف حصوں امریکہ.آسٹریلیا وغیرہ میں پائے جاتے ہیں یہ اس آدم کی اولاد سے ہیں؟

Page 443

جواب.فرمایا:.’’ہم اس بات کے قائل نہیں ہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم تو ریت کی پیروی کرتے ہیں کہ چھ سات ہزار سال سے ہی جب سے یہ آدم پیداہوا تھا اس دنیا کا آغاز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا.اور خدا گویا معطل تھا.اور نہ ہی ہم اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ تمام نسلِ انسانی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصوں میں موجود ہے یہ اس آخری آدم کی نسل ہے.ہم تو اس آدم سے پہلے بھی نسل انسانی کے قائل ہیں جیسا کہ قرآن شریف کے الفاظ سے پتہ لگتا ہے.خدا نے یہ فرمایا کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ :۳۱)خلیفہ کہتے ہیں جانشین کو.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آدم سے پہلے بھی مخلوق موجود تھی پس امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ کے لوگوں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آخری آدم کی اولاد میں سے ہیں یا کہ کسی دوسرے آدم کی اولاد میں سے ہیں.(الحکم ۳۰ مئی ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ کالم نمبر۲،۳) انسانی وجود کی ابتدا پر روشنی ڈالنے والا حضرت محی الدّین ابن عربی کا ایک کشف اس بارہ میں امتِ اسلامیہ کے گزشتہ اہم ترین صاحبِ کشف لوگوں میں سے ایک حضرت محی الدین صاحب ابنِ عربی اپنے ایک عجیب کشف کا ذکر اپنی کتاب فتوحاتِ مکّیّہ میں فرماتے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ میں خانہ کعبہ کاطواف کر رہا ہوںاس وقت کچھ اور لوگ بھی طواف کر رہے تھے اور یہ شعر پڑھتے جاتے تھے ؎ لَقَدْ طُفْنَا کَمَا طُفْتُمْ سِنِیْنَا بِھٰذَا الْبَیْتِ طُرًّا اَجْمَعِیْنَا یعنی ہم سب نے بھی اسی طرح اس گھر کا سالوں طواف کیا ہے جس طرح تم نے اس گھر کا طواف کیاہے.اس پر وہ کہتے ہیں مَیں نے اُن لوگوں میں سے ایک شخص سے بات کی اس نے جواب میں کہا کہ کیا تم مجھ کو نہیں پہچانتے میں تمہارے پہلے دادوں میں سے ایک ہوں.فرماتے ہیں میں نے اس سے پوچھا آپ کو کتنا عرصہ گزرا ہے.اس نے جواب دیا چالیس ہزار سال سے زیادہ گزرے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے کہا کہ اتنا عرصہ تو آدم پر نہیں گزرا اس کے جواب میں اس شخص نے جواب دیا کہ تم کون سے آدم کے متعلق سوال کرتے ہو جو سب سے زیادہ تم سے قریب ہے یا کسی اور کے متعلق.اس جواب کو سن کر وہ کہتے ہیں کہ مجھے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث یاد آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ آدم پیدا کئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس پر میں نے اپنے دل میں کہا کہ وہ جَدِّ اکبر جس نے مجھے اپنی طرف منسوب کیا ہے ان میں سے ایک ہوں گے.(فتوحات مکیة الفصل الخامس، الباب تسعون و ثلٰث مائۃ،فی معرفة المنازلات) اس کشف سے معلوم ہوتا ہے کہ ملہم آدم جس کی طرف اس زمانہ کے لوگ منسوب ہوتے ہیں پہلا آدم نہیں بلکہ

Page 444

آخری آدم ہے او ریہ بھی کہ آدم کا لفظ کبھی بطور صفت کے استعمال ہوتا ہے یعنی جدِّ اکبر کے معنوں میں اور ضروری نہیں کہ اس سے مراد وہی آدم اوّل ہو جو الہام کے لحاظ سے سب سے اوّل تھا.اس کشف سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بشر کی نسل بہت قدیم زمانہ سے چلی آتی ہے اور یہ جو سات ہزار سال کا دور اس دنیا کی پیدائش کے متعلق احادیث میں مذکور ہے اس سے مراد صرف آخری آدم کا دور ہے نہ کہ دورِ بشر بحیثیت مجموعی.غرض اوپر کی شہادتوں سے ثابت ہے کہ مجھ سے پہلے ایسے صاحب ِ کشف لوگوں نے جن کی رائے ہی قرآن کریم کی تفسیر کے بارے میں ماننے کے قابل ہے اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے کہ نسلِ انسانی ایک آدم سے نہیں چلی بلکہ متعدد آدم پہلے گزر چکے ہیں اور یہ کہ آدم مذکور جس کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے ان آدموں میں سے ایک فرد ہے نہ کہ صرف ایک ہی فرد.انسانوں کو نفس واحد سے پیدا کئے جانے کا مطلب اس موقع پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر یہ بات درست ہے کہ آدم مذکور سے پہلے بھی بشر کی نسل موجود تھی اور ان کی نطفہ سے پیدائش ہو رہی تھی تو پھر قرآنِ کریم میں یہ کیوں فرماتا ہے کہ تم کو ایک جوڑے سے پیدا کیا گیا ہے اور احادیث میںیہ کیوں آتا ہے کہ عورت کو مرد کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس امر کا ذکر مندرجہ ذیل آیات میں آتا ہے کہ سورۂ نساء رکوع ۱ آیت۲ سورۂ اعراف رکوع ۲۴آیت۱۹۰.اور سورۂ زمر رکوع۱ آیت ۷ ،ان میں سے سورۂ نساء میں تو یہ لفظ ہیں خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَہَا ا س نفس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور سورۂ اعراف میں یہ الفاظ ہیں جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا اس نفس سے اس کا جوڑا بنایا اور سورۂ زمر میں یہ الفاظ ہیں ثُمَّ جَعَلَ مِنْہَا زَوْجَھَا پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا.ان تینوں حوالوں میں آدم کا کہیں ذکر نہیں صرف یہ ذکر ہے کہ تم کو ہم نے ایک نفس سے پیدا کیا ہے پھر اس سے اس کا جوڑا بنایا.ان تینوں آیات میں سے جو ہم معنی ہیں زیادہ صراحت سورہ اعراف کی آیات میں ہے وہاں فرماتا ہے.هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ.فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِيْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ(الاعراف :۱۹۰،۱۹۱) یعنی اللہ تعالیٰ نے تم کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا ہے تاکہ اس کی طرف مائل ہو کر تسکین حاصل کرے پھر جب اس نفسِ واحدہ نے اپنی بیوی سے مباشرت کی تو وہ ایک ہلکا سا حمل لے کر جدا ہوئی پھر جب وہ حمل نمایاں ہوا تو اس نفسِ واحدہ اور اسکی بیوی نے

Page 445

اللہ اپنے رب سے دعا کی کہ اگر تو ہم کو تندرست بچہ عطا کرے تو ہم ضرور شکر گزار ہوں گے.پھر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں تندرست بچہ عطا فرمایا تو انہوں نے اس کے متعلق شرک کرنا شروع کر دیا یعنی یہ کہنے لگے کہ یہ بچہ تو ہمیں فلاں بُت یا دیوی کی بدولت ملا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ان کے شرک سے بہت بلند ہے.اس آیت پر غور کرو کہ یہ کسی صورت میں بھی آدم اور ان کی بیوی پر چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ آدم علیہ السلام تو خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور اس نفس واحدہ کی نسبت اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ وہ اولاد ہونے پر مشرک ہو گیا تھا اور اس کی بیوی بھی مشرک ہو گئی تھی.پس حق یہ ہے کہ نفس واحدہ سے اس جگہ پہلا بشر مراد نہیں اور نہ آدم علیہ السلام بلکہ اس سے صرف یہ مراد ہے کہ ایک ایک انسان سے بڑی بڑی اقوام پیدا ہو جاتی ہیں اور اولاد اپنے ماں باپ کے اثر کو قبول کرکے وہ کافر ہوں تو کافر ،مشرک ہوں تو مشرک اور مؤحد ہوں تو مؤحد ہو جاتی ہے پس شادی کرتے ہوئے انسان کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور اپنی اولاد کی تربیت کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا یہ نہ ہو کہ ماں باپ کی غلطیاں اولاد میں پیدا ہو کر ہزاروں لاکھوں انسان گند میں مبتلا ہو جائیں.یہ جو فرمایا وَجَعَلَ مِنْھَا زَوْجَھَا اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ اس قسم سے اس کا جوڑا بنایا یعنی بیوی اور میاں ایک ہی جنس میں سے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے خیالات سے متاثر ہوتے ہیں نہ یہ کہ بیوی میاں کی پسلی سے پیدا کی جاتی ہے کیونکہ اگر یہ معنے کئے جائیں تو ماننا پڑے گا کہ جس قدر مشرک لوگ ہوتے ہیں ان کی بیویاں ان کی پسلیوں سے پیدا کی جاتی ہیں کیونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ اس آیت میں پہلا بشر مراد نہیں اور جب پہلا بشر یہاں مراد نہیں تو ماننا پڑے گا کہ ہر مرد کی بیوی اس کی پسلی سے پیدا کی جاتی ہے جو بالبداہت باطل ہے (اس مضمون کو پوری تفصیل کے ساتھ سورۂ نساء کی آیت کے نیچے انشاء اللہ بیان کیا جائے گا) عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مطلب اب رہا یہ سوال کہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اس سے تو ضرور معلوم ہوتا ہے کہ آدم اکیلے پیدا کئے گئے تھے اور ان سے پہلے کوئی بشر نہ تھا پھر جب آدم کی پسلی سے عورت پیدا ہوئی تو اس سے انسانی نسل چلی.اس کا جواب یہ ہے کہ وہ حدیث جس سے بعض لوگ دھوکا کھاتے ہیں ان الفاظ میں ہے.’’ اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآءِ خَیْرًا فَاِنَّ الْمَرْأَۃَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلْعٍ‘‘ (مسلم کتاب الرضاع باب الوصیّة بالنّسآء) یعنی عورتوں کے متعلق نیک سلوک کرنے کے بارہ میں میری نصیحت کو قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے.اس حدیث کی پوری تشریح تو میں سورۂ نساء کی آیت کے ماتحت ہی لکھوں گا اس جگہ کے مناسب حال صرف اس قدر کہنا کافی ہے کہ اس حدیث میں آدم کی بیوی کا ذکر نہیں بلکہ عورت کا ذکر ہے

Page 446

او رہر عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا بیان ہے اور ہر عورت کی پیدائش جس طرح ہوتی ہے اسے ہم سب لوگ جانتے ہیں پس مشاہدہ کے خلاف اس حدیث کے یہ معنے ہر گز نہیں کئے جا سکتے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوتی ہے بلکہ اس کے معنی وہی ہیں جو اَئمہ ُلغات نے کئے ہیں.حدیث کی مستند لغت کی کتاب مجمع البحار میں شیخ محمد طاہر صاحب لکھتے ہیں.فَاِنَّھُنَّ خُلِقْنَ مِنَ الضِّلْعِ اسْتِعَارَ ۃٌ لِلْمِعْوَجِ اَیْ خُلِقْنَ خَلْقًا فِیْہِ الْاِ عْوِجَاجُ (مجمع البحارالانوار زیر لفظ ضِلْعٌ ) یعنی یہ جو حدیث میں آتا ہے کہ عورتیں پسلی سے پیدا کی گئی ہیں یہ کلام استعارہ کی قسم سے ہے اور مراد یہ ہے کہ ان کے اخلاق میں ناز کا پہلو غالب ہوتا ہے یعنی خاوند سے اختلاف کرنے کو ان کا دل طبعاً چاہتا ہے اور یہ امر تجربہ سے ثابت ہے کہ عورت اپنے خاوند سے اختلاف کر کے اس سے اپنی بات منواتی ہے اور اس پر اثر ڈال کر اس پر حکومت کرتی ہے اسی کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ عورت پر جبری حکومت نہ کیا کرو بلکہ محبت سے اسے منوایا کرو اور اس کے احساسات کا خیال رکھا کرو کیونکہ وہ بہت سی باتوں میں مرد کے تابع ہوتی ہے.طبعاً مرد کے ہر حکم کو پرکھنا چاہتی ہے اور اس سے اختلاف ظاہر کرتی ہے تا حقیقت کو معلوم کرے پس مرد کو بھی چاہیے کہ عورت سے جو بات منوائے دلیل اور محبت سے منوائے.اگر جبر اور زور سے منوائے گا تو عورت کا دل ٹوٹ جائے گا.اور اس کا پیار کا تعلق مرد سے نہیں رہے گا.خلاصہ یہ کہ اوپر کی آیات اور حدیث سے بھی ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آدم پہلے بشر تھے اور یہ کہ ان کے جسم سے ان کی بیوی پیدا کی گئی.بلکہ آیات اور حدیث دونوں میں تمام بنی نوع انسان کا ذکر بطور قاعدہ کلیہ کے ہے نہ کہ خاص طور پر آدم اور ان کی بیوی کا.اور جب یہ ثابت ہو گیا تو وہ اعتراض بھی دُور ہو گیا جو بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب سب انسان آدم کی اولاد سے ہیں تو کیا آدم کی نسل میں بہن بھائی کی شادی ہوا کرتی تھی کیونکہ یہ اعتراض صرف آدم کی نسل پر پڑ سکتا تھا جو پہلا کامل العقل اور حامل الشریعت انسان تھا لیکن جب اس کے زمانہ میں اور انسانوں کا وجود ثابت ہو گیا تو یہ اعتراض بھی باقی نہ رہا.باقی رہے اس سے پہلے کے انسان توان پر یہ اعتراض نہیں پڑ سکتا کیونکہ وہ اوّل تو کامل العقل اور حامل شریعت ہی نہ تھے.دوسرے ان کی نسبت بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ ایک ہی بشر سے پیدا ہوئے تھے بلکہ ممکن ہے کہ وہ بھی ایک ہی وقت میں کئی مرد اور کئی عورتیں پیدا کئے گئے ہوں.انسان صفاتِ الٰہیہ کا ظِلّی حامل اسی آیت سے یہ امر بھی ثابت ہوتا ہے کہ انسان صفات الٰہیہ کاظلّی طور پر حامل ہے کیونکہ اس آیت میں آدم کو

Page 447

Page 448

(۶).مکان بنائیں اور اکٹھے رہیں.تین سے چھ تک کے امور اس آیت سے ظاہر ہوتے ہیں اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَ لَا تَعْرٰى.وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَ لَا تَضْحٰى(طٰہٰ : ۱۱۹،۱۲۰) یعنی اے آدم! جس مقام پر ہم تم کو رکھنے لگے ہیں.اس میں تمہارا فرض ہو گا کہ بھوکے نہ رہو اور ننگے نہ رہو اور پیاسے نہ رہو.اور دُھوپ کی تکلیف نہ اُٹھائو.بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا ہے کہ یہ آدم کی جنت کی تفصیل ہے.لیکن یہ جنت کی تفصیل نہیں ہو سکتی.بھوکے پیاسے تو درندے بھی نہیں رہتے اور نہ وہ دھوپ میں تپتے ہیں.یہ امور تو اسی دنیا میں جانوروں تک کو میسر ہیں.پس یہ جنت کی تفصیل نہیں.آدم کے تمدن کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور پہلی انسانی سوسائٹی کو بتایا گیا ہے کہ ایک جگہ رہنے سہنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ ایک حصہ آبادی کا اپنی خوراک مہیا نہیں کر سکتا یا لباس مہیا نہیں کر سکتا.پس جہاں تم کو تمدن کی برکات سے حصہ دیا جاتا ہے وہاں اس کی خرابیوں کے دور کرنے کا خیال رکھنا بھی تمہارا فرض ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا تمہارے ذمہ لگایا جاتا ہے اگر کوئی بوڑھا ہو جائے یا غریب ہو جائے یا اور کسی طرح معذور ہو جائے تو یہ سب کا فرض ہوگا کہ اس کے لئے روٹی اور لباس اور پانی اور رہائش کا انتظام کریں.یہ اصول تمدن ایسے اعلیٰ درجہ کے ہیں کہ دنیا کبھی ان سے آزاد نہیں ہوئی لیکن افسوس کہ کبھی بھی دنیا نے اس طرف پوری طرح توجہ نہ کی.سوائے اسلام کے جس کے اصولوں میں حکومت کے فرائض میں یہ امور داخل ہیں مگر افسوس کہ انھوں نے بھی بعد زمانہ خلافت ان اصول پر عمل نہیں کیا اور اس کا نتیجہ آج دنیا کو فسادوں اور جھگڑوں اور قتل و خونریزی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے.خلیفہ جیسا کہ پہلے حَلِّ لُغَات اور نوٹوں میں بتایا جا چکا ہے لفظ خلیفہ کے مندرجہ ذیل معانی ہیں (۱) جو کسی پہلی قوم یا فرد کا قائم مقام ہو (۲) جو کسی بالا افسر کا اس کی زندگی ہی میں دوسرے مقام پر اس کے احکام کے نافذ کرنے کے لئے مقرر ہو (۳) جس کے بعد کوئی اس کا قائم مقام ہو خواہ (الف) اس کے اختیارات یا کام کو چلانے والا (ب) خواہ اس کی نسل.لیکن اس آیت میں جو لفظ خلیفہکا آیا ہے اس کے معنوں کو قرآنِ کریم کے محاورہ کی روشنی میں دیکھنا چاہیے.لفظ خلیفہ کے معنے قرآن کریم کے محاورہ کی روشنی میں سو جب ہم قرآنِ کریم کودیکھتے ہیں تو اس میں یہ لفظ مندرجہ ذیل تین معنوں میں استعمال ہوتا ہے (۱) نبی اور مامور کے معنوں میں.جیسا کہ اس آیت میں استعمال

Page 449

ہوا ہے کیونکہ گو آدم اس معنے میں بھی خلیفہ تھا کہ ایک پہلی نسل کے تباہ ہونے پر اس نے اور اس کی نسل نے جگہ لی اور اس معنے میں بھی خلیفہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعہ سے ایک بڑی نسل چلائی.لیکن وہ سب سے بڑی اہمیت جو اسے حاصل تھی وہ نبوت اور ماموریت ہی کی تھی جس کی طرف اس آیت میں سب سے پہلا اشارہ ہے.لفظ خلیفہ کے معنے نبی یا مامور کے نبی یا مامور اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ہوتے ہیں یعنی صفات الٰہیہ کو اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق دنیا پر ظاہر کرتے ہیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ظل بن کر ظاہر ہوتے ہیں.انہی معنوں میں حضرت دائود کو بھی خلیفہ کہا گیا ہے (صٓ :۲۷) (۲) دوسرے ہر قوم جو پہلی قوم کی تباہی پر اس کی جگہ لیتی ہے ان معنوں میں بھی خلیفہ کا لفظ قرآن کریم میں متعدد بار استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت ہود کی زبان سے فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ(الاعراف :۷۰) یاد کرو جبکہ خدا تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد ان کا جانشین بنایا یعنی قوم نوح کی تباہی کے بعد ان کی جگہ تم کو دنیا میں حکومت اور غلبہ حاصل ہو گیا اسی طرح حضرت صالح کی زبانی فرماتا ہے.وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ(الاعراف :۷۵) یاد کرو جب تم کو خدا تعالیٰ نے عاد اولیٰ کی تباہی کے بعد ان کا جانشین بنایا اور حکومت تمہارے ہاتھ میں آ گئی (۳) نبی کے وہ جانشین بھی خلیفہ کہلاتے ہیں جو اس کے نقش قدم پر چلنے والے ہوں یعنی اس کی شریعت پر قوم کو چلانے والے ہوں اور ان میں اتحاد قائم رکھنے والے ہوں خواہ نبی ہوں یا غیر نبی جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام موعودراتوں کے لئے طوُر پر گئے تو اپنے بعد انتظام کی غرض سے انہوں نے حضرت ہارون سے کہا کہ اُخْلُفْنِيْ فِيْ قَوْمِيْ وَ اَصْلِحْ وَ لَا تَتَّبِعْ سَبِيْلَ الْمُفْسِدِيْنَ(الاعراف :۱۴۳) یعنی میرے بعد میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور ان کی اصلاح کو مدنظر رکھنا اور مفسد لوگوں کی بات نہ ماننا.حضرت ہارون خود نبی تھے اور اس وقت سے پہلے نبی ہو چکے تھے.پس یہ خلافت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دی تھی وہ خلافت ِ نبوت نہ ہو سکتی تھی اس کے معنے صرف یہ تھے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر حاضری میں ان کی قوم کا انتظام کریں اور قوم کو اتحاد پر قائم رکھیں اور فساد سے بچائیں.جہاں تک اس خلافت کا تعلق ہے یہ خلافتِ نبوت نہ تھی بلکہ خلافت انتظامی تھی مگر جیسا کہ میں اوپر لکھ چکا ہو ںاس قسم کی شخصی خلافت علاوہ خلافتِ انتظامی کے خلافتِ نبوت بھی ہوتی ہے.یعنی ایک سابق نبی کی امت کی درستی اور اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ ایک اور نبی کو مبعوث فرماتا ہے جو پہلے نبی کی شریعت کو ہی جاری کرتا ہے کوئی نئی شریعت جاری نہیں کرتا پس جہاں تک کہ شریعت کا تعلق ہوتا ہے وہ پہلے نبی کے کام کو قائم رکھنے والا ہوتا ہے اور اس لحاظ سے پہلے نبی کا خلیفہ ہوتا ہے لیکن عہدہ کے لحاظ سے وہ پہلے نبی کا مقرر کردہ نہیں ہوتا نہ اس

Page 450

کی امت کا مقرر کردہ بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے مقرر کیا جاتا ہے.اس قسم کے خلفاء بنی اسرائیل میں بہت سے گزرے ہیں بلکہ جس قدر انبیاء بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل میں آئے ہیں سب اسی قسم کے خلفاء تھے یعنی وہ نبی تو تھے مگر کسی جدید شریعت کے ساتھ نہ آئے تھے بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو ہی دنیا میں جاری کرنے کے لئے آئے تھے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّاۤ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰىةَ فِيْهَا هُدًى وَّ نُوْرٌ١ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوْا وَ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتٰبِ اللّٰهِ وَ كَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَآءَ(المائدة: ۴۵) یعنی ہم نے تورات اُتاری تھی جس میں ہدایت اور نور تھے.تورات کے ذریعہ سے بہت سے نبی جو (موسیٰ ؑ کے) فرمانبردار تھے اور اسی طرح رباّنی اور احبار بوجہ اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی حفاظت کرنے کا انہیں حکم دیا گیا تھا یہود کے درمیان فیصلے کرتے تھے اور یہ انبیاء اور رباّنی اور احبار تورات پر بطور نگران مقرر تھے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کچھ انبیاء ایسے آئے تھے جن کا کام موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کا قیام تھا اور وہ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے.(۲) ان انبیاء کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی جن کو رباّنی اور احبار کہنا چاہیے اس کام پر مقرر تھے.اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء اور مجددین کا ایک لمبا سلسلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کے خلفاء کے طو رپر ظاہر ہوتا رہا جن کا کام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کام کی تکمیل تھا.اس سلسلہ کی آخری کڑی حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تھے جن کو تدبرّ فیِ القرآن نہ کرنے کے سبب کئی مسلمان خصوصاً آخری زمانہ کے مسلمان باشریعت نبی سمجھ بیٹھے ہیں.اسی طرح اس زمانہ کے مسیحی ان کی نسبت یہ خیال کرنے لگے ہیں کہ وہ ایک نیا قانون لے کر آئے تھے اور اسی وجہ سے وہ ان کی کتاب کو نیا عہد نامہ کہتے ہیں حالانکہ قرآنِ کریم ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دین کا قائم کرنے والا ایک خلیفہ قرار دیتا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت سے چند آیات بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ قَفَّيْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرٰىةِ (المائدة:۴۷) یعنی ہم نے مذکورہ بالا نبیوں کے بعد جو تورات کی تعلیم کو جاری کرنے کے لئے آئے تھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو ان کے نقش قدم پر چلنے والے تھے اور توریت کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والے تھے.خود مسیح ناصری فرماتے ہیں.’’یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں.ایک نقطہ یا شوشہ توریت کا ہر گز نہیں مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.‘‘(متی باب ۵ آیت ۱۷ و ۱۸)

Page 451

غرض یوشع سے لے کر جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے معاً بعد ان کے خلیفہ ہوئے حضرت مسیح ناصری تک کے سب انبیاء اور مجدّدین حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور ان کی شریعت کو جاری کرنے والے تھے.امت محمدیہ میں تین قسم کی خلافتوں کا وعدہ اُمتِ محمدؐیہ میں ان تینوں قسم کی خلافتوں کا وعدہ بھی قرآنِ کریم سے ثابت ہے جن سے افسوس کہ بعض مسلمان غافل رہے اور ان سے صحیح فائدہ نہ اُٹھا سکے چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(النّور :۵۶) یعنی اللہ تعالیٰ تم میں سے مومنوں اور مناسبِ حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتا ہے کہ ضرور ان کو بھی زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اور ضرور ان کے لئے ان کے اس دین کو جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مضبوطی سے قائم کرے گا اور ان کے خوف کے بعد امن کی حالت پیدا کر دے گا وہ میری عبادت کریںگے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیںگے اور جو لوگ اس کے بعد بھی کفر کریںگے وہ نافرمان قرار دیئے جائیں گے.مسلمانوں کی شوکت کے ضائع ہونے کی ایک وجہ اس آیت میں مسلمانوں سے وعدہ کیا گیا ہے کہ ان کو پہلی اُمتوں کی طرح کی خلافت حاصل ہو گی اور پہلی امتوں کی خلافت جیسا کہ قرآنِ کریم سے اوپر ثابت کیا جا چکاہے تین قسم کی تھی (۱) ایسے انبیاء ان میں پیدا ہوئے جو ان کی شریعت کی خدمت کرنے والے تھے (۲) ایسے وجود ان میں کھڑے کئے گئے جو نبی تو نہ تھے لیکن خدا تعالیٰ کی خاص حکمت نے ان کو ان امتوں کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اور وہ اُمت کو صحیح راستہ پر رکھنے کے کام پر خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت لگائے گئے تھے (۳) ان امتوں کو خدا تعالیٰ نے پہلی قوموں کا قائم مقام بنایا اور پہلوں سے شوکت چھین کر ان کو دی.یہ تین قسم کی خلافتیں ہیں جن کا مسلمانوں سے وعدہ تھا اور تینوں کے حصول سے ہی اسلام کی شوکت پوری طرح ظاہر ہو سکتی تھی.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مسلمانوں کو اس وعدہ کے مطابق پہلی قوموں کی جگہ پر متمکن کر دیا اور ان کے دشمنوں کو ہلاک اور برباد کر دیا اور اگر مسلمان ایمان اور عملِ صالح پر قائم رہتے تو ہمیشہ کے لئے ان کی شوکت قائم رہتی لیکن افسوس کہ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ دین کی طرف سے ہٹ کر دنیا میں مشغول ہو گئے اور انہوں نے غلطی سے سمجھا کہ دوسری اقوام کی طرح وہ دنیا میں مشغول ہو کر بھی ترقی کر سکتے ہیں حالانکہ قرآنِ کریم صاف فرما چکا تھا کہ مسلمانو ںکی ترقی دوسری اقوام کی طرح نہ ہو گی بلکہ وہ جب ترقی کریںگے ایمان اور عملِ صالح

Page 452

کے ذریعہ سے ترقی کریں گے.صدیوں کے تجربہ نے اس صداقت کو ثابت کر دیا ہے.کاش وہ اب بھی اپنی ترقی کےگر کو سمجھ کر ایمان اور عملِ صالح کی طرف توجہ کریں.دوسری قسم کی خلافت انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ملی.جبکہ اوّل حضرت ابوبکرؓ اور پھر حضرت عمرؓ اور پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ یکے بعد دیگرے نعمتِ خلافت سے متمتع ہوئے اور ان کی اس نعمت سے تمام مسلمانوں نے حصہ پایا.اگر بعد کے مسلمان اس نعمت کی قدر کرتے تو وہ صحابہ کی ترقی کی راہ پر گامزن رہتے اور آج اسلام کہیں کا کہیں پہنچا ہوا ہوتا لیکن افسوس انھوں نے اس نعمت کی بھی قدر نہ کی اور بادشاہت کی طرف متوجہ ہو گئے اور اس شان کو کھو بیٹھے جو خلافت کے ذریعہ ان کو حاصل ہوئی تھی.تیسری قسم کی خلافت جو تابع انبیاء کے ذریعہ حاصل ہوئی تھی اس کی طرف سے مسلمان ایسے غافل ہوئے کہ آخری زمانہ میں اس قسم کی نبوت کا سرے ہی سے انکار کر دیا اور بابِ نبوت کو خواہ غیر تشریعی ہی کیوں نہ ہو بند کر کے اس عظیم الشان فضل سے منکر ہو گئے جو اس زمانہ میں صرف اسلام سے ہی مخصوص تھا اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زندہ نبی ہونے کا ایک زبردست ثبوت تھا کیونکہ تابع کی نبوت متبوع کی نبوت اور شان کو بڑھاتی اور روشن کرتی ہے نہ کہ کم کرتی ہے.جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے خلافت کا احیاء جماعتِ احمدیہکا ایمان ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے ذریعہ سے اس پرُ فتن زمانہ کی اصلاح اور اسلام کو دوبارہ اس کے مقام پر کھڑا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پھر اس تابع نبوت کا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی شان کے مناسب حال امتی نبوت ہے دروازہ کھولا ہے اور آپ کے ذریعہ سے اس نے پھر آپ کے ماننے والوں میں خلافت کو بھی زندہ کر دیا ہے جس سے پھر ایک دفعہ ساری دنیا میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ایک ہاتھ پر جمع ہو کر خدمتِ اسلام کر رہا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کو ان کا حق دلانے کے لئے رات دن جدوجہد کر رہا ہے اور وہ دن دُور نہیں جب پھر دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور کفر بھاگ جائے گا.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ(القمر:۴۶).انشاء اللہ تعالیٰ.ملائکہ اس آیت میں ملائکہ کا بھی ذکر آتا ہے پس ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ کے متعلق قرآنی تعلیم کو اجمالی طور پر بیان کر دیا جائے تا آئندہ جہاں جہاں ملائکہ کا ذکر آئے ان کے بارہ میں قرآنی نقطہ نگاہ سمجھنے میں آسانی ہو ہاں

Page 453

تفصیلات متعلقہ آیات کے نیچے اپنی اپنی جگہ بیان ہوںگی.جدید فلسفہ سے متأثر نوجوانوں نے اللہ تعالیٰ کی ہستی کا غلط اندازہ لگا کر ملائکہ کی نسبت یہ خیال پیدا کر لیا ہے کہ ملائکہ کا وجود چونکہ الوہیت کے منافی ہے اس لئے ملائکہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور جو لوگ مذہب کے اثر سے ابھی تک پوری طرح آزاد نہیں ہوئے انھوں نے فرشتوں کے لفظ کی توجیہ کر کے اپنے نفس کو تسلی دے لی ہے.وہ کہتے ہیں کہ ملائکہ سے مراد وہ نیک جذبات ہیں جو انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں ان کا کوئی علیحدہ وجود نہیں.ملائکہ کے وجود کو الوہیت کے منافی قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ایسے نوجوان اللہ تعالیٰ کا نقشہ یہ کھینچتے ہیں کہ وہ ایک وراء الوریٰ ہستی ہے اور اوّل تو اس کا اس دنیا کے کاروبار سے کوئی تعلق ہی نہیں اس لئے اسے کسی واسطہ کی ضرور ت نہیں اور اگر اس کا کوئی تعلق ہے تو یہ یقین کرنا کہ وہ فرشتوں سے کام لیتا ہے اس کی قدرت کاملہ کے خلاف ہے اور اس کی صفات میں نقص پر دلالت کرتا ہے پس دونوں صورتوں میں فرشتوں کا وجود محال ہے.اوّل الذکر عقیدہ کہ خدا تعالیٰ تو ہے مگر اس کا دنیا کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں صرف ایک خوشکن پردہ ہے جو دہریت کے خیالات پر ڈالا گیا ہے.در حقیقت اس عقیدہ اور دہریت میں کوئی فرق نہیں.اگر خدا ہے بھی اور اس کا دنیا سے کوئی تعلق بھی نہیں تو سوال یہ ہے کہ وہ ہے کیوں؟ خدا تعالیٰ کا وجود دو صورتوں سے خالی نہیں یا تو وہ کوئی دخل دنیا کے نظام میں رکھتا ہے یا بے تعلق محض ہے اگر بے تعلق محض ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں یا تو وہ ہمیشہ سے بے تعلق محض ہے یا دنیا کو پیدا کر کے بے تعلق ہو گیا.اگر ہمیشہ سے بے تعلق محض ہے تو پھر اس کے وجود کا کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ بھی ثبوت نہیں پھر اس کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے نہ کوئی معنی ہیں نہ اس کی کوئی ضرورت ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کے ماننے والوں سے ایک منافقانہ ارتباط ظاہر کر کے ان کی خوشنودی اور ہمدردی حاصل کی جائے جو ایک نہایت ہی ذلیل مقصد ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ وہ دنیا کو پیدا کر کے بے تعلق ہو گیا تو پھر اس کا بارِ ثبوت ان لوگوں پر ہے جو خدا تعالیٰ کو اس صورت میں پیش کرتے ہیں کیونکہ ایک فعال ہستی کو بے کار اور بے تعلق قرار دینے کا کوئی ثبوت ہونا چاہیے.خدا تعالیٰ کو ہمیشہ فعاّل اور زندہ ماننے والے تو صرف اس کے اس فعل کے تسلسل کے قائل ہیں جس کو یہ دوسرے عقیدہ والے بھی مانتے ہیں لیکن اسے اب غیر فاعل اور عاجز قرار دینے والے اس کی فعاّلیت کو ایک وقت تک جاری قرار دے کر پھر بعد میں باطل اور ساکن قرار دیتے ہیں پس یہ بار ثبوت ان کے ذمہ ہے کہ وہ بتائیں کہ کس دلیل سے معلوم ہوا کہ پہلے تو وہ کوئی کام کرتا تھا لیکن بعد میں وہ اس کام سے علیحدہ ہو گیا اور اب بالکل بیکار اور دنیا سے بے تعلق بیٹھا ہے اور نظامِ عالم آپ ہی آپ چل رہا ہے.

Page 454

اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو اپنے امور کے لئے واسطہ بنانا اس کی قدرت کے منافی نہیں بہرحال دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی تسلیم کی جائے فرشتوں کا وجود محلِ اعتراض نہیں ٹھہرتا کیونکہ اگر خدا تعالیٰ کسی وقت کوئی کام کرتا تھا.تو سوال یہ ہے کہ اس وقت کوئی واسطہ وہ استعمال کرتا تھا یا نہیں؟ یعنی کیا ابتدائے آفرینش میں دنیا کے وجود میں آنے کا ذریعہ کوئی طبعی قواعد تھے یا جادو کے وہمی کرشموں کی طرح ہر تغیر بغیر کسی قانون یا ذریعہ کے ہو جاتا تھا؟ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ اس عالم کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اس کے اند رکا ہر تغیر کسی قاعدہ کے ماتحت معلوم ہوتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عالم کو وجود میں لانے کے لئے بعض و سائط بھی پیدا کئے تھے اور بعض قانون جاری کئے تھے جن کے ماتحت یہ عالم پیدا ہوا اور اس نے موجودہ صورت اختیار کی.اگر یہ تسلیم کیا جائے اور اس کے تسلیم کرنے کے بغیر چارہ نہیں تو پھر یہ بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ فرشتوں کے وجود پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیونکہ جس طرح ایک وسیلہ اور واسطہ کا اختیار کرناخدا تعالیٰ کی قدرت کے منافی نہیں اسی طرح دوسرے وسیلے یا واسطے کا استعمال کرنا بھی اس کی قدرت کے منافی نہیں.اسی طرح اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خدا تعالیٰ اب بھی نظامِ عالم کے چلانے میں کوئی دخل رکھتا ہے تب بھی فرشتوں کے وجود پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر خدا تعالیٰ بچہ پیدا کرنے کے لئے انسانی نطفہ سے کام لیتا ہے.حیوان کی پیاس بجھانے کے لئے پانی سے کام لیتا ہے.دنیا کو روشن کرنے کے لئے سورج سے کام لیتا ہے اور اس کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آتا.تو نظامِ عالم کے جاری رکھنے کے لئے اگر اس نے فرشتوں کو بھی واسطہ بنایا ہو تو اس کی قدرت پر کیوں حرف آنے لگا.اصل بات جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور قانونِ قدرت اس کی تصدیق کرتا ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکمت ِ کاملہ سے کارخانہ عالم کو ایک وسیع قانون کے ماتحت چلایا ہے قرآن کریم فرماتا ہے.رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوّٰىهَا.وَ اَغْطَشَ لَيْلَهَا وَ اَخْرَجَ ضُحٰىهَا (النازعات :۲۹،۳۰) یعنی آسمان کو دیکھو کہ ہم نے اس کی بلندی کو خوب بلند بنایا ہے اور پھر اسے تمام ضروری قوتیں اور کمالات دیئے ہیں اور اس کی قوتوں کو دو طرح کا بنایا ہے ایک مخفی جورات کی طرح پوشیدہ ہیں اور ایک ظاہر کہ دوپہر کی طرح روشن ہیں.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ نظامِ آسمانی ایک کامل قانون پر مبنی ہے جس میں سے کچھ مخفی ہے اور غور اور فکر اور تدبر سے اس کا علم ہوتا ہے اور کچھ ظاہر و روشن ہے کہ ظاہری آنکھ بھی اس کا مطالعہ کر سکتی ہے یہ دونوں قسم کے قانون.قانونِ قدرت کا مطالعہ کرنے والوں پر روشن ہیں.سورج اور چاند کو ہی لے لو کچھ اثرات ان کے ایسے واضح ہیں کہ جاہل اور ان پڑھ لوگ بھی ان سے

Page 455

واقف ہیں اور کچھ قانون ان کے ایسے مخفی ہیں کہ ہزاروں سالوں کے مشاہدہ کے بعد ان کا ایک نہایت خفیف حصہ علم ہیئت کے ماہر اور سائنسدان دریافت کر سکے ہیں اور مزید تحقیقاتیں ہوتی جا رہی ہیں.اس وسیع سلسلہ علت و معلول اورسبب او رمُسبّب کی اوّل کڑی ملائکہ ہیں اور جس طرح آخری کڑیوں کو دیکھ کر کوئی شخص خدا تعالیٰ کے قادر ہونے پر اعتراض نہیں کر سکتا اسی طرح پہلی کڑی کی وجہ سے بھی اس کی قدرت پر کوئی اعتراض نہیں کیا جا سکتا.غرض یہ اور بات ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کا ہی انکار کرے.اس صورت میں تو اسے پہلے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل معلوم کرنے چاہئیں لیکن خدا تعالیٰ کو مان کر اور یہ مان کر کہ خدا تعالیٰ اس دنیا میں قانون اور وسائط سے کام لے رہا ہے اور سب کارخانہ اس دنیا کا مختلف وسیلوں اور اسباب اور علتوں کے ماتحت چلایا جا رہا ہے یہ کہنا کہ فرشتوںکا وجود خدا تعالیٰ کی قدرت کے خلاف ہے ایک نہایت ہی کمزور وہم ہے.اگر اورہزاروں وسیلوں اور اسباب اور علتوں اور قانونوں سے کام لینے سے خدا تعالیٰ کی قدرت میں فرق نہیں آتا تو فرشتوں کے پیدا کرنے سے کیوں خدا تعالیٰ کی قدرت میں فرق آ جائے گا؟ اگر آنکھ کو دیکھنے کے قابل بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے روشنی پیدا کی ہے او راس سے خدا تعالیٰ کے قادر ہونے میں فرق نہیں آیا اور کانوں کو شنوائی پر قادر کرنے کے لئے اس نے ہوا پیدا کی ہے اور اس سے اس کی قدرت پر کوئی حرف نہیں آیا تو اسی طرح فرشتوںکو کارخانہ عالم کے چلانے میں ایک علت ِ اُولیٰ بنانے میں اس کی قدرت میں کوئی فرق نہیں آتا.قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نظامِ عالم کا سلسلہ جس طرف بھی اسے لے جایا جائے آہستہ آہستہ باریک درباریک ِعلل یا نتائج میں غائب ہو جاتا ہے.صرف اس کی درمیانی کڑیاں ظاہر او ر روشن ہوتی ہیں.انسان ہی کو لے لو اس کی پیدائش کے پہلے کے علل اور اسباب بھی مخفی ہیں اور اس کی موت کے بعد کے نتائج بھی مخفی ہیں.ان دونوں مخفی اور باریک حالات کا فرشتوں سے جو مخلوق کی زنجیر کی باریک ترین کڑیاں ہیں گہرا تعلق ہے گویا وہ خدا تعالیٰ اور دوسری مخلوق کے درمیان ایک واسطہ کے طو رپر ہیں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَ اَنَّ اِلٰى رَبِّكَ الْمُنْتَهٰى (النجم :۴۳) اور بات یہ ہے کہ ہر چیز کی انتہا تیرے رب کی طرف جاتی ہے اور اس انتہا کا ذریعہ خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ مخلوق کا آخری واسطہ خدا تعالیٰ سے ملنے کے لئے ملائک ہیں.جب چیز پیدا ہوتی ہے تو اس کی پہلی کڑی ملائکہ ہوتے ہیں اور جب ختم ہوتی ہے یا اپنی منزل ختم کرتی ہے تو اس کی آخری کڑی بھی ملائکہ ہوتے ہیں اور اس طرح باریک درباریک اسباب سے شروع ہو کر مخلوق ظاہری شکل اختیار کرتی ہے اور پھر باریک در باریک شکلوں میں بدلتے ہوئے فرشتوں کے ذریعہ سے اپنی منزل مقصود کو پہنچ جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ

Page 456

تمام نظامِ عالم کی ابتدائی کڑیاں ہیں اور خدا تعالیٰ کے حکم کو چلانے والے ہیں قرآن کریم فرماتا ہے.اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَ مَنْ حَوْلَهٗ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ وَ يَسْتَغْفِرُوْنَ۠ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا (المومن :۸) یعنی فرشتے جو عرش کو اُٹھا رہے ہیں اور وہ بھی جو عرش کے گرد ہیں اپنے رب کی حمد کرتے ہیں اور اس پر ایمان لاتے ہیں اور مومنوں کے قصوروں کے لئے معافی کی دعائوں میں لگے رہتے ہیں.عرش کے معنے سورہ یونس آیت نمبر ۴میں بیان کئے گئے ہیں اور ثابت کیا گیا ہے کہ اس سے مراد صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کے ہیں.پس عرش کو اُٹھانے کے معنے یہ ہوئے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرتے ہیں.چونکہ کارخانۂِ عالم صفاتِ الٰہیہ کے ماتحت چلتا ہے اس کا مطلب یہ نکلا کہ تمام کارخانۂِ عالم کے چلانے کی وہ پہلی کڑیاں ہیں اور خدا تعالیٰ کی صفات کو عالمِ مادی میں جاری کرتے ہیں.فرشتوں کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم دینے سے مراد آدم کی قبولیت کا دنیا میں پھیلانا قرآنِ کریم کی مختلف آیات میں فرشتوں کے کام بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً وحی الٰہی کا نزول، قانونِ قدرت کا اجراء، موت و حیات کے قانون کو چلانا، نیک تحریکوں کا دلو ںمیں پیدا کرنا وغیرہ وغیرہ جن کو ان کی متعلقہ آیات کے ماتحت بیان کیا جائے گا اس آیت زیر تفسیر میں جو ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ چند آیات چھوڑ کر بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے.وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا (البقرة:۳۵) یعنی یاد کرو جب ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو پس سب نے فرمانبرداری کی.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ملائکہ کا ایک کام یہ بھی ہے کہ چونکہ وہ تمام اسباب مادیہ کی علت ِاُولیٰ ہیں جب اللہ تعالیٰ کسی مامور کو مبعوث فرماتا ہے تو ساتھ ہی انہیں بھی حکم ملتا ہے کہ وہ تمام کائنات کو اس کی تائید میں لگا دیں اور اس طرح کل دنیا ہی مامور کی خدمت میں لگ جاتی ہے اور وہ باوجود شدید مخالفت کے آخر غالب آ جاتا ہے اور اس مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کے لئے اسے بھیجا جاتا ہے.حدیث نبوی میں بھی یہ امر بیان ہوا ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے اِذَا اَحَبَّ اللّٰہُ عَبْدًا نَادیٰ جِبْرِیْلَ: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُـلَانًا فَاَحِبَّہٗ فَیُحِبُّہٗ جِبْرِیْلُ، فَیُنَادِیْ جِبْرِیْلُ فِیْ اَھْلِ السَّمَآءِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ فُـلَا نًا فَاَحِبُّوْہُ فَیُحِبُّہٗ اَھْلُ السَّمَآءِ ، ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقَبُوْلُ فِیْ اَھْلِ الْاَرْضِ (بخاری کتاب الادب باب الْمِقَةِ مِنَ اللہ تعالٰی) یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے تو جبریل سے فرماتا ہے کہ میں خدا فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر.اس پر جبریل بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے پھر جبریل دوسرے آسمانی فرشتوں سے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص سے محبت کرتا ہے پس تم بھی اس سے محبت کرو اس پر سب آسمانی وجود اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اس کے بعد دنیا کے لوگوں میں بھی اس کی قبولیت کی رُوح پیدا کر دی جاتی ہے.اس حدیث میں اوپر کی آیت کا مضمون ہی دوسرے لفظوں میں بیان کیا

Page 457

گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ دنیوی تغیرات جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوتے ہیں ان کی علت ِ اُولیٰ ملائکہ ہیں اور ان کا ایک کام اللہ تعالیٰ کے مامورین کی قبولیت کا پھیلانا ہے.چونکہ وہ دنیوی تغیرات کے سربراہ ہوتے ہیں ان کی تائید سے کل کارخانہ عالم مامورین کی تائید میں لگ جاتا ہے اور آسمانی تائیدات کو دیکھ کر سفلی وجود آخر ہدایت پا جاتے ہیں اور ماموروں کو قبول کر لیتے ہیں.ملائکہ انسان کی مخفی طاقتوں کا نام نہیں خلاصہ یہ کہ ملائکہ روحانی وجود ہیں اور مادی عالم کی پہلی کڑیاں اور اس کے مدَبرّ ہیں اور ان کا وجود درباریوں کے طور پر نہیں ہے بلکہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے کارخانۂ عالم کو چلانے کے لئے مختلف اسباب پیدا کئے ہیں اسی طرح انہیں کائناتِ عالم کے تغیرات کے لئے پہلی علّتیں اور ابتدائی اسباب بنایا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے بنائے ہوئے قواعد کے ماتحت دنیا میں تغیرّات پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی تدبیر سے یہ کارخانۂِ عالم صحیح طور پر مقررہ قوانین کے مطابق چلتا جاتا ہے.بیشک بوجہ ان کے نظر نہ آنے کے تدبرّ سے کام نہ لینے والے لوگ ان کے وجود کا انکار کرتے ہیں لیکن یہ انکار ایسا ہی ہے جیسا کہ بعض جاہل قانونِ قدرت کے باریک اسباب کو نہ جاننے کی وجہ سے ان کا انکار کر دیتے ہیں چنانچہ اب تک دنیا میںایسے لوگ موجود ہیں جو بیماریوں کے جراثیم کا انکارکرتے ہیں اور انہیں دیوی دیوتائوں کے غصہ اور ناراضگی کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں.ورنہ جو لوگ روحانیت سے ادنیٰ تعلق بھی رکھتے ہیں انہیں ملائکہ کو دیکھنے کا بھی موقع ملا ہے جیسا کہ انجیل میں حضرت مسیح پر جبریل کے اُترنے کا ذکر آتا ہے اور قرآن کریم میں اور احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جبریلِ امین کے اُترنے کا ذکر آتا ہے اور موجودہ زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہؑ نے ملائکہ سے تعلق کا دعویٰ کیا ہے.راقم سطور بھی اس امر میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی قدر مشاہدہ رکھتا ہے اور اس ذاتی مشاہدہ کے بعد ہمیشہ ان لوگوں پر حیران ہوتا ہے جو ملائکہ کو صرف انسان کی مخفی طاقتیں قرار دیتے ہیں ذاتی مشاہدات کے بعد ایسے لوگوں کے خیالات کو محض وہم اور عدم علم میں قرار دیا جا سکتا ہے.ملائکہ کے کاموں، ان کی پیدائش کی غرض، ان سے تعلق رکھنے کے ذرائع اور فوائد اور ایسے ہی بہت سے امور کے متعلق میری کتاب مَلَا ئِکَۃُ اللّٰہ دیکھنی چاہیے.اس طویل مضمون کو یکجائی طور پر تفسیر میں بیان نہیں کیا جا سکتا.ہاں! مختلف آیتوں کے ماتحت متعلقہ امور کو بیان کیا جائے گا.خلاصہ آیت وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ الخ خلاصہ اس آیت کا یہ ہے کہ اس میں پہلی آیات کے اس

Page 458

دعویٰ کی دلیل دی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ ضرورت کے موقع پر اپنے مامور بھجواتا ہے اور شروع زمانہ سے ایسا کرتا چلا آیا ہے جب وہ ایسا مامو ربھجواتا ہے تو فرشتوں کو اس کی آمد کی اطلاع دیتا ہے تاکہ وہ اپنے اپنے حلقۂ نظام میں ان کی تائید کی رَو چلائیں.اور یہ بھی کہ ہمیشہ سے یہ سنت اللہ چلی آئی ہے کہ جب وہ مامور آتا ہے بدکار تو الگ رہے نیکوکار اور فرشتہ خصلت لوگ بھی بوجہ نبوت کے زمانہ سے ُبعد کے اور اس کی خصوصیات سے ناواقفیت کے نبوت کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور اس نئے نظام کی حقیقت سے بے خبر ہونے کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ وقت کے نبی کے ذریعہ سے قائم کرنا چاہتا ہے اس کی بعثت کی ضرورت کا انکار کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ بہرحال اس نظام کو قائم کرتا ہے اور دنیا کی غیر معمولی بہتری کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اس آیت سے اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور قرآن کریم کے نزول کے وقت میں بھی ایسا ہی ہونا لازمی تھا اگر اس وقت کے کفار ان کی بعثت کی عدمِ ضرورت کے قائل ہیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں جب نبوت کی ابتدا ہوئی تھی تو ملائکہ تک اس کی ضرورت کو نہیں سمجھ سکتے تھے مگر آخر واقعات نے ان سے اس کی عظمت کا اقرا رکروا کر چھوڑا.وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ١ۙ اور (اللہ نے) آدم کو سب نام سکھائے پھر(جن چیزوں کے وہ نام تھے) ان کو ملائکہ کے سامنے (پیش ) کر کے فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِيْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۳۲ فرمایا(کہ ) اگر تم درست بات کہہ رہے ہو تو تم مجھے ان کے نام بتاؤ.حَلّ لُغَات.آدَمَ.آدَمَ.ابوالبشر (صلوٰت اللہ علیہ) کا نام ہے بعض لوگوں نے اسے اعجمی قرار دیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ مشتق ہے اور میرے نزدیک یہی درست ہے.اس صورت میں اس کے غیر ُمنصرف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہعَلَم بھی ہے اور وزنِ فعل پر بھی ہے اگر مشتق مانا جائے اور ہے بھی یہی درست تو پھر آدم کا نام اس لئے آدم رکھا گیا کہ وہ لوگوں کو ایک تمدن پر جمع کرنے والے تھے چنانچہ کہتے ہیں اَدَمَ بَیْنَہُمْ (یَأْدِمُ) اَدْمًا: اَلَّفَ وَوَفَّقَ لوگوں کو جمع کیا.یا پھر اس وجہ سے ان کو آدم کہا گیا کہ وہ مختلف عناصر سے بنے تھے.اور ان میں مختلف قویٰ جمع کر دیئے گئے تھے کیونکہ اٰدَمَ الْخُبْزَ کے معنی ہیں خَلَطَہٗ بِا لْاِدَامِ کہ روٹی کو سالن کے ساتھ ملا دیا.یا اس

Page 459

لئے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے لئے نمونہ تھے.چنانچہ جب اٰدَمَ اَھْلَہٗ کہیں تو اس کے معنے ہوتے ہیں صَارَ لَہُمْ اُسْوَۃً کہ وہ اپنے خاندان کے لئے نمونہ بن گیا.یا اس وجہ سے کہ وہ سطح زمین پر رہتے تھے کیونکہ سطح زمین کو اَدِیْمُ الْاَرْضِکہتے ہیں.یا اس لئے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان ایک وسیلہ تھے.کیونکہ اَ لْاُدْمَۃُ کے معنے اَلْوَسِیْلَۃُ کے بھی ہیں.(اقرب) اَ لْاَسْمَآءَ.اَ لْاَسْمَآءَ اِسْمٌ کی جمع ہے اور اَ لْاِسْمُ کے معنے ہیں اَللَّفْظُ الْمَوْضُوْعُ عَلَی الْجَوْھَرِ وَالْعَرَضِ لِتَمْیِیْزِہٖ کہ جو لفظ کسی چیز کی حقیقت کے بیان کے لئے او راس کی صفات کے بیان کے لئے لاتے ہیں اسے اسم کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے نیز کہتے ہیں اِسْمُ الشَّیْ ءِ عَلَامَتُہٗ کہ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے جو اس کے بالمقابل لفظ رکھا جاتا ہے اسے اس کا اسم کہتے ہیں (اقرب) کلیاتِ ِاَبی البقاء میں ہے اَ لْاِسْمُ.ذَاتُ الشَّیْ ءِ وَالْاِسْمُ اَیْضًا اَلصِّفَۃُ کہ اسم اس کو بھی کہیں گے کہ جو کسی چیز کی حقیقت اور ذات کو بیان کرے.اور اس کو بھی کہیں گے جو اس چیز کی صفات کو بیان کرے.(کلیات) عَرَضَھُمْ.عَرَضَھُمْ عَرَضَ الشَّیْ ءَ لَہٗ کے معنے ہیں اَظْہَرَہٗ لَہٗ اس کے سامنے کسی چیز کو پیش کیا.اور جب عَرَضَ المَتَاعَ لِلْبَیْعِ کہیں تو معنے یہ ہوں گے کہ اَظْھَرَہٗ لِذَوِی الرَّغْبَۃِ لِیَشْتَرُوْہُ کہ سامان خریداروں کے سامنے پیش کیا.اور عَرَضَ الشَّیْ ءَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں اَرَاہُ اِیَّاہُ.اسے کوئی چیز دکھائی.(اقرب) اَنْبئُوْنِیْ.اَنْبِئُوْنِیْ امر جمع کا صیغہ ہے.اور اَنْبَاَہُ الْخَبَرَکے معنی ہیں خَبَّرَہٗ اس کو خبر دی (اقرب) پس اَنْبِئُوْنِیْ کے معنے ہوں گے مجھے خبر دو.صٰدِقِیْنَ.صٰدِقِیْنَ صَدَقَ (یَصْدُقُ) صَدْقًا وَصِدْقًاسے اسم فاعل جمع کا صیغہ ہے.اور صَدَقَ فِی الْحَدِیْثِ کے معنے ہیں اس نے سچی سچی بات کہی (اقرب) صَدَقَہُ الْحَدِیْثَ اَنْبَأَہٗ بِالصِّدْقِاُسے اُس نے جو بات کہی وہ درست تھی (اقرب) تاج العروس میں ہے صَدَقَنِیْ فُـلَانٌ.قَالَ لِیَ الصِّدْقَ یعنی اس نے جو بات کہی درست تھی (تاج) بخاری اور مسلم میں حدیث ہے کہ ایک دفعہ جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کیا.اور آپ کے جواب پر اس نے کہا صَدَقْتَ یعنی آپ نے درست کہا.یہ نہیں کہ آپؐ نے سچ بولا.پس اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ کے معنے ہوںگے اگر تم درست بات کہہ رہے ہو.تفسیر.آیت وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَمیں اسماء سے مراد آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کیا نام سکھائے اس میں مفسرین نے اختلاف کیا ہے بعض نے کہا ہے کہ اشیاء کے نام سکھائے مثلاً پیالہ کا نام پیالہ.ہنڈیا کا

Page 460

نام ہنڈیا سکھایا یعنی زبان سکھائی (دُ رِّمنثور زیر آیت ھٰذا) بعض نے اس پر یہ زیادتی کی ہے کہ تمام زبانیں سکھائیں (فتح البیان زیر آیت ھٰذا) یہ معنے بالکل خلافِ عقل و نقل ہیں.بعض نے کہا ہے کہ آدم کو اس کی اولاد کے نام بتائے.(دُ رِّمنثور زیر آیت ھٰذا) اسماء سکھانے سے مراد صفات الٰہیہ کا علم اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ظاہر الفاظ میں نہیں فرمایا کہ کیا نام سکھائے؟ اس وجہ سے اختلاف ہوا ہے لیکن اگر ہم قرآن کریم کو غور سے دیکھیں تو آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اَسْمَاء سے کیا مراد ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانوں کے متمدن ہونے کی صورت میں ان کے لئے ایک زبان کی ضرورت تھی اور اللہ تعالیٰ نے ضرور آدم کو زبان کا علم سکھایا ہو گا لیکن قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ایک خاص اسماء بھی ہیں جن کا سیکھنا انسان کے دین اور اخلاق کی تکمیل کے لئے ضروری ہے اور جن کو خدا تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں سکھا سکتا.پس اس جگہ جن اسماء کے سکھانے کا ذکر ہے ان سے وہ اسماء ضرور مراد ہیں اور ان اسماء کا قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر ہے.وَ لِلّٰهِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا١۪ وَ ذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْۤ اَسْمَآىِٕهٖ١ؕ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ(الاعراف :۱۸۱) یعنی اللہ تعالیٰ تمام نیک ناموں یعنی صفات کا مالک ہے.پس اللہ کو ان ناموںسے یاد کیا کرو اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جو اس کے ناموں یعنی صفات میں غلط راستہ کو اختیار کرتے ہیں اور شک اور جھگڑے سے کام لیتے ہیں وہ اپنے اعمال کا بدلہ پائیں گے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ کے اسماء یعنی صفات کا صحیح علم حاصل کئے بغیرانسان اللہ تعالیٰ کا عرفان حاصل نہیں کر سکتا اور اس کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا (۲) ان اسماء یعنی صفات کا صحیح علم اسی کے سکھانے سے آ سکتا ہے.جو لوگ اپنے خیال اور عقل سے کام لیتے ہیں وہ ضرور غلطی کرتے ہیں اور اسماء الٰہیہ کا صحیح علم حاصل نہیں کر سکتے.پس آدم چونکہ مذہب کے قیام اور اللہ تعالیٰ سے مخلوق کے وصال کی غرض سے مبعوث ہوئے تھے ضروری تھا کہ انہیں اسمائِ الٰہیہ سکھائے جاتے تا ان کی امت ان ناموں کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کو شناخت کرتی اور اس سے تعلق پیدا کرتی اور اگر وہ نام نہ سکھائے جاتے تو اس کے ُ ملحد اور بے دین ہونے کا خطرہ تھا.جب یہ ثابت ہو گیا کہ اسماء الٰہیہ کا آدم کو سکھانا ضروری تھا تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ جن اسماء کے سکھانے کا اس آیت میں ذکر ہے ان میں اسماء الٰہیہ ضرور شامل تھے بلکہ مذہب کی ضرورت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہی نام اصل میں مقصود تھے اور ان کے سوا جو نام بھی ہوں وہ ان کے تابع ہوں گے.سابق مفسرین میں سے مظہری نے اسماء کے معنی اسمائِ الٰہیہ کے ہی کئے ہیں.(فتح البیان زیر آیت ھٰذا) مصنف فتح البیان نے اسے بے دلیل قرار دیا

Page 461

ہے مگر جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ معنی سب معنوں سے زیادہ بادلیل ہیں.ان معنوں کی تعیین اس امر سے بھی ہو جاتی ہے کہ اگلی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو اسماء آدم کو سکھائے گئے تھے فرشتے ان سے پوری طرح واقف نہ تھے اور وہ اسماء جن سے فرشتے فرداً فرداً کلی طور پر واقف نہیں صفات الٰہیہ ہی ہیں کیونکہ ان کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے کہ يَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ (النحل :۵۱) انہیں جو حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کرتے اور کر نہیں سکتے.اور جب فرشتے وہی کچھ کرتے ہیں جو انہیں کہا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی بخشش اور خدا تعالیٰ کی ستاّری اور خدا تعالیٰ کی قہاّری کی صفات کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے.انسان ہی ہے جسے خدا تعالیٰ نے علم دے کر مقدرت دی ہے کہ وہ جو راستہ چاہے اپنے لئے اختیار کرے اور خطا اور نسیان کا اسے محل بنایا ہے.وہ خدا تعالیٰ کے علم کے بعد کبھی نافرمانی کرتا ہے اور کبھی توبہ اور کبھی نسیان کا مرتکب ہوتا ہے اور کبھی پھر صحیح راستہ کی طرف واپس آتا ہے اور اسی طرح خدا تعالیٰ کی بخشش اور اس کی راہنمائی سے فائدہ اٹھاتا ہے اور کبھی نافرمانی پر اصرار کر کے خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑکاتا ہے.آیت وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا میں کُلَّھَا کی قید کے معنی پس صفاتِ الٰہیہ کا کامل علم انسان کو ہی حاصل ہوتا ہے ملاـئکہ کو نہیں.وہ صرف اس صفت کوہی جانتے ہیں جو ان سے متعلق ہے اسی لئے اس آیت میں کُلَّہَا کا لفظ رکھ کر اس پر زور دیا ہے کہ گو ملائکہ اپنے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک صفت یا ایک سے زیادہ صفات سے تو واقف ہوتے ہیں مگر انسان تمام صفات الٰہیہ سے واقف ہوتا ہے.وہ رحیم ہے یہ بھی رحیم بننے کی قابلیت رکھتا ہے، وہ غَفَّار ہے یہ بھی غفار بننے کی قابلیت رکھتا ہے، وہ قَہّار ہے یہ بھی قَہّاربننے کی قابلیت رکھتا ہے، وہ جَبَّار ہے یہ بھی جَبَّار بننے کی قابلیت رکھتا ہے، وہ شکُورہے یہ بھی شکور بننے کی قابلیت رکھتا ہے.ظاہر ہے کہ فرشتے ان سب صفات کے حامل نہیں ہو سکتے.مثلاً موت کے فرشتے ہیں ان کا کام صرف جان نکالنا ہے وہ کسی پر رحم نہیں کر سکتے.رزق پر مامور فرشتے کسی کی جان نہیں نکال سکتے.کلامِ الٰہی لانے والے فرشتے کوئی اور کام نہیں کر سکتے.مگر ایک کامل انسان اپنے اپنے موقع پر جلاتا بھی ہے مارتا بھی ہے بخشتا بھی ہے اور سزا بھی دیتا ہے پس انسان تمام صفاتِ الٰہیہ کا حامل ہے مگر فرشتے صرف ایک یا چند صفات کے حامل ہیں اس لئے انسان کو صفات الٰہیہ کا جو کامل علم دیا گیا ہے وہ فرشتوں کو نہیں دیا گیا اور اس کی بنیاد آدم کے ذریعہ سے اور ان کے وقت سے رکھی گئی ہے ان سے پہلے کا انسان چونکہ کامل نہ تھا وہ یہ علم نہ رکھتا تھا اور تمام صفاتِ الٰہیہ سے واقف نہ کیا گیا تھا.آیت عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ سے مراد خدا تعالیٰ کا آدم کو زبان کے اصول سکھانا جیسا کہ پہلے اشارہ

Page 462

کیا گیا ہے زبان کا مفہوم بھی اس آیت کے مفہوم میں بطور تنزّل شامل ہے.کیونکہ تمدن کے قیام کے لئے کسی زبان کا ہونا ضروری تھا اور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو زبان کے اصول سکھائے جن کے مطابق انہو ںنے زبان کا علم جاری کیا اور اسی آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زبان عربی زبان تھی کیونکہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم کو اسماء مسمّیات کے ذریعہ سے سکھائے گئے تھے.یعنی جس زبان کا انہیں علم دیا گیا تھا اس کی بناء مسمّیات اور اسماء کے اتحاد پر تھی یعنی ہر چیز کا نام اس کی خصوصیت کی بناء پر رکھا گیا تھا نہ کہ بے تعلق اور بے ربط اور یہ خصوصیت صرف عربی زبان میں ہے کہ اس کے تمام اسماء مسمّیات سے گہرا تعلق رکھتے ہیں.دوسری زبانوں میں یہ بات نہیں ہے.ان زبانوں میں نام سے صرف شناخت کا فائدہ حاصل کیا گیا ہے اگر ان ناموں کو بدل دیا جائے تو بھی کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا مثلاً اُردو میں غلہ سے بنائی ہوئی غذا کو روٹی کہتے ہیں.انگریزی میں بریڈ اور فارسی میں نان.اگر ان ناموں کی جگہ مثلاً جوئی یا جریڈ یا پان.اس چیز کے نام رکھ دئے جائیں تو کوئی ہرج واقع نہیں ہوتا مگر عربی زبان میں اس چیز کا نام خُبْزٌہے جو با معنٰی ہے.عربی زبان میں خ ب ز جمع ہوں تو ان کے معنوں میں عمل اور پھولنے کے معنے پائے جاتے ہیں.چنانچہ بَزَخَ کے معنی ہیں سینہ کو باہر نکالا اور خَزَبَ کے معنی ہیں بغیر بیماری اور نقص کے موٹا ہو گیا اور خَبَزَ کے معنے ہیں جلدی جلدی ہاتھ مار کے عمل کیا.پس خُبْزٌکے معنے ہوئے وہ چیز جسے جلدی جلدی ہاتھوں سے تیار کیا جائے اور وہ موٹی ہو جائے اور پھول جائے اور یہ روٹی کا عین نقشہ ہے.روٹی کو جلدی جلدی ہاتھ مار کر تیار کیا جاتا ہے اور آگ میں رکھنے کے بعد وہ پھول جاتی ہے.اب ظاہر ہے کہ روٹی کے لئے اگر عربی زبان میں خُبْزٌ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھا جائے تو اس سے روٹی کی حقیقت ظاہر نہیں ہوتی بلکہ روٹی کا مفہوم خ ب ز کے حروف کے ملانے سے ہی پیدا ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے نام ربّ کو لے لو.ربّ کے معنے تربیت کرنے اور ادنی سے اعلیٰ حالت تک پہنچانے کے ہیں.اس لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ رکھو تو یہ غرض کبھی پوری نہ ہو گی.پھر عربی میں آسمان کو سَمَآئٌ کہتے ہیں س م و جس سے یہ لفظ بنا ہے بلندی اور اِرتفاع پر دلالت کرتاہے مگر آسمان فارسی کا لفظ یا سکائی انگریزی کا لفظ اس حقیقت کو ظاہر نہیں کرتا پس عربی ہی ایک ایسی زبان ہے جس میں سب نام، نام والے کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اگر ان نامو ںکوبدل دو تو وہ اس حقیقت کو ظاہر نہیں کریںگے بلکہ صرف ایک علامت رہ جائیںگے لیکن دوسری زبانوں میں اس حقیقت کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اِلَّا مَاشَآئَ اللّٰہ.آدم علیہ السلام کو عربی زبان کے اصول سکھائے گئے پس زبان سکھانے کے معنو ںسے یہ مراد لی جائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک ایسی زبان سکھائی جو بے معنے او ربے ربط نہ تھی بلکہ اس کی بنیاد فلسفہ پر تھی اور اس

Page 463

کے تمام لفظ بامعنٰی تھے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہ آدم علیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے عربی زبان سکھائی جو بعد میں دوسری زبانوں کی ماں بنی.عربی زبان اُمُّ الْاَلْسِنَہ ہے (اس لطیف نکتہ کے لئے بانی ٔ سلسلہ احمدیہ کی کتاب مِنَنُ الرَّحْمٰن دیکھو جس میں نہایت لطیف پیرایہ میں عربی زبان کے اُمُّ الْاَلْسِنَہ ہونے کا مسئلہ بتایا گیا ہے).میری مراد اوپر کی تحریر سے یہ ہر گز نہیں کہ عربی زبان اپنی موجودہ شکل میں آدم علیہ السلام کو سکھائی گئی یا یہ کہ آدم علیہ السلام کے بعد اس نے ترقی نہیں کی بلکہ میری مراد صرف یہ ہے کہ اس آیت کے مفہوم کے مطابق عربی زبان کے بعض اصول پر اس وقت بنیاد رکھی گئی تھی باقی رہا یہ کہ وہ بعد میں تبدیل بھی ہوئی یا اس میں اور الفاظ کی ترقی ہوئی اس کا نہ اس مسئلہ سے تعلق ہے نہ اس سے عربی زبان کی اس افضلیت یا خصوصیت میں کوئی فرق آتا ہے.اصول وہی ہیں ہاں !ان اصول کی اتباع میں زبان آگے ترقی کرتی چلی گئی ہے اور آئندہ بھی ترقی کر سکتی ہے.عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ میں علم کے معنے خارجی ذرائع سے سکھانے کے عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کی ایک اور تفسیر بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ عَلَّمَ کے معنے خارجی ذرائع سے سکھانے کے علاوہ طبعی طورپر سکھانے کے بھی ہوں یعنی یہ مطلب بھی ہو کہ آدم کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے مختلف علوم کے سیکھنے کا مادہ رکھا.یہ ظاہر ہے کہ ہر جنس کے افراد گو اپنی جنس سے تعلق رکھنے والے علوم کو بھی ایک دوسرے سے کم و بیش سیکھتے ہیں لیکن جو علوم ان کے دائرہ سے باہر ہوں انہیں وہ بالکل نہیں سیکھ سکتے.پس معلوم ہوا کہ ہر جنس کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ الگ قوتوں کے دائرے مقرر کئے ہیں.انسان کے علم حاصل کرنے کا دائرہ اور ہے طوطے کا اور مینا کا اور گھوڑے کا اور.اور کتے کا اور.مینا طوطا بھی سکھانے سے چند لفظ سیکھ لیتے ہیں لیکن پوری طرح بات سمجھ کر ہر قسم کے موضوع پر بات نہیں کر سکتے لیکن انسان ایسا کر سکتا ہے.گھوڑے اور کتے بھی بعض کرتب سیکھ لیتے ہیں لیکن انسان کی طرح ان کا یہ سیکھنا وسیع نہیں ہوتا.پس ایک معنی اس آیت کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر وسیع علوم سیکھنے کی قابلیت پیدا کی.اس صورت میں عَلَّمَ الْاَسْمَآءَ کے یہ معنے ہوں گے کہ اس نے مختلف اشیاء کے خواص سمجھنے کی قابلیت انسان میں پیدا کی چنانچہ آدم کے وقت سے اس وقت تک انسان مختلف علوم میں ایجادیں کر رہا ہے اور ہر روز اس کا علم پہلے سے بڑھ رہا ہے اس صورت میں اسماء کے معنی خواص اور صفات کے ہی ہوں گے مگر صفات الٰہیہ کی بجائے صفات طبعیہ کے معنے کئے جائیں گے.منطقی اصطلاح کی روشنی میں ان معنوں کی تشریح یہ ہو گی کہ آدم کو ہم نے حیوانِ ناطق بنایا یعنی مختلف اشیاء پر غور کرنے اور اس کی کنہ کو پہنچنے اور دوسروں کو سکھانے کی قابلیت اس میں رکھی

Page 464

جیسا کہ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ کے الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے.اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا تعلق ان اسماء کے سکھانے سے ہے جن کا ذکر پہلے کیا گیا ہے کیونکہ پہلی آیت میں صرف اس امر کا اظہار تھا کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے ایک خلیفہ بنانے کا ذکر کیا.اس کے بعد اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بعض اسماء سکھائے.اس کے بعد کی دو آیتوں میں انہی اسماء کے متعلق باتیں بیان کی گئی ہیں.ان کے بعد فرماتا ہے کہ ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو.اس سے ظاہر ہے کہ آدم کی خلافت ان اسماء کے سکھانے کے بعد شروع ہوئی اور اسی وقت سے ملائکہ کو اس کی تائید اور نصرت کا حکم ملا پس پہلی آیت آدم کی خلافت کی خبر نہیں دیتی تھی بلکہ صرف خلافت کی خبر دیتی تھی اس کے بعد جب آدم علیہ السلام کو اسماء سکھائے گئے تو یہ گویا اس شخص کی تعیین کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے خلافت کے لئے چُنا تھا.یہ جو فرمایا گیا ہے وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا آدم کو اللہ تعالیٰ نے سب نام سکھائے اس سے یہ دھوکہ نہ کھانا چاہیے کہ تمام صفاتِ الٰہیہ کا مکمل علم آدم کو دیا گیا یا زبان کا مکمل علم آدم کو دیا گیا کیونکہ کُلّ کا لفظ عربی زبان کے محاورہ کے مطابق ضروری نہیں کہ تمام افرادِ جنس پر مشتمل ہو بلکہ بسا اوقات یہ لفظ ضرورت کے مطابق اشیاء پر بولا جاتا ہے قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر کُلّ کا لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ(الانعام :۴۵) یعنی جب تجھ سے پہلی قوموں نے اس نصیحت کو بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھی تو ہم نے پہلے تو ہر قسم کی ترقیات کے دروازے ان پر کھول دیئے (اور پھر ان پر عذاب نازل کیا) جیسا کے ظاہر ہے اس آیت میں کُلَّ کے لفظ کے یہ معنی نہیں کہ ہر نعمت دنیا کی ان کو ملی بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ اس زمانہ کی اور ان کے ملک کی بڑی بڑی نعمتوں سے اُنہیں حصہ ملا.اسی طرح اہل مکہ کی نسبت آتا ہے اَوَ لَمْ نُمَكِّنْ لَّهُمْ حَرَمًا اٰمِنًا يُّجْبٰۤى اِلَيْهِ ثَمَرٰتُ كُلِّ شَيْءٍ رِّزْقًا مِّنْ لَّدُنَّا(القصص : ۵۸) یعنی کیا اہلِ مکہ کو ہم نے ایک عزت والے اور محفوظ مقام میں جگہ نہیں دی کہ ہماری طرف سے انعام کے طور پر اس کی طرف ہر قسم کے میوے لائے جاتے ہیں.اس آیت میں بھی کُلَّسے تمام دنیا کے میوے مراد نہیں بلکہ بہت سے میوے جو اہلِ مکہ کی صحت کی درستی اور ان کی لذت کا سامان پیدا کرنے کے لئے ضروری تھے مراد ہیں.ان کے علاوہ بھی اور کئی آیات میں کُلّ کا لفظ بہت سے یا حسبِ ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.عربی زبان کے علاوہ باقی سب زبانوں میں بھی کُلَّ یا اس کے ہم معنی الفاظ علاوہ اپنے اصلی معنوں کے کثرت یا حسب ِ ضرورت کے معنوں میں استعمال ہوتے ہیں اور سیاق و سباق یا محلِّ استعمال سے ان کے اصلی

Page 465

معنوں اور ان مجازی معنوں میں فرق کیا جاتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کو کل اسماء سکھانے کا مطلب جیسا کہ میں نے اوپر بتایا ہے آیت زیر تفسیر میں بھی کُلَّہَا سے مراد نہ تمام صفاتِ الٰہیّہ مراد ہیں اور نہ انسان سے تعلق رکھنے والی سب صفات یا ان کا کامل علم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ علمِ دین جو صفاتِ الہٰیہ سے تعلق رکھتا ہے دنیا پر آہستہ آہستہ کھولا گیا ہے اور اس کی پوری تکمیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے ہوئی ہے جیسا کہ فرماتا ہے.اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ(المائدة :۴) آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر کمال تک پہنچا دی.پس آدم علیہ السلام پر تمام صفاتِ الٰہیہ کا پورا انکشاف نہ ہوا تھا بلکہ وہ انکشاف آہستہ آہستہ کامل ہوتا ہوا رسول کریم صلعم کے ذریعہ سے اپنی انتہا کو پہنچا اور آدم کو سب اسماء سکھانے کا صرف یہ مطلب ہے کہ ان کے زمانہ کے ساتھ جن صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کا تعلق تھا اور جس حد تک تعلق تھا اسی حد تک انہیں ظاہر کیا گیا اسی طرح جو صفاتِ الٰہیہ کہ انسانوں سے متعلق نہیں ان کا انکشاف بھی کُلَّکے لفظ میں شامل نہیں.ہاں کُلَّکے لفظ سے انسانوں سے تعلق رکھنے والی کل صفات بھی مراد لی جا سکتی ہیں مگر اس صورت میں آیت کے یہ معنے ہوں گےکہ کل صفات کے سمجھنے کی قابلیت آدم اور اس کی ذرّیت میں رکھی یعنی یہ تعلیم بالقوّہ اور بالا جمال تھی بالفعل اور بالتفصیل نہ تھی.بالفعل اور تفصیلاً یہ تعلیم مکمل صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری ہوئی.اسی طرح زبان کے اسماء سکھانے سے یہ مراد نہیں کہ کل اسماء اور زبان کے مادے آدم علیہ السلام کو سکھائے گئے بلکہ اصول مراد ہیں جو بعد میں ترقی کرتے کرتے کامل عربی زبان کی شکل میں ظاہر ہوئے.ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ سے مراد یہ جو فرمایا کہ ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ پھر انہیں ملائکہ کے سامنے پیش کیا.اس سے مراد اسماء نہیں ہو سکتے کیونکہ اسماء کا لفظ عربی زبان کے قاعدہ کے مطابق مؤنث ہے چنانچہ اس سے پہلے اسماء کی طرف کُلَّہَا کے لفظ میں ھا کی ضمیر آ چکی ہے جو مؤنث ہے لیکن عَرَضَھُمْ میں جمع مذکر کی ضمیر آئی ہے پس معلوم ہوا کہ ملائکہ کے سامنے اسماء نہیں پیش کئے گئے بلکہ جن کے نام تھے ان کے وجود پیش کئے گئے.اسی طرح عَرَضَھُمْ میں جو ھُمْکی ضمیر استعمال ہوئی ہے اس سے بھی ظاہر ہے کہ جن کو پیش کیا گیا ہے وہ چیزیں نہ تھیںیعنی پیالے یا لوٹے یا ہنڈیاں پیش نہیں ہوئیں کیونکہ اگر ان چیزوں کا ذکر ہوتا تو بھی عَرَضَھَا آنا چاہیے تھا کیونکہ بے جان چیزوں کی طرف بھی بلکہ جاندار اور غیر ذوی العقول کی طرف بھی عربی زبان میں ھُمْکی ضمیر نہیں پھیری جاتی ھُمْ کی ضمیر صرف ذوی العقول کی طرف پھیری جاتی ہے پس عَرَضَھُمْ کے الفاظ سے یہ بھی

Page 466

ظاہر ہے کہ جو وجود ملائکہ کے سامنے لائے گئے وہ ذوی العقول تھے.عَرَضَھُمْ کے معنوں میں یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ وجود عملاً پیش کئے گئے ہوں کیونکہ عَرَضَھُمْ کے ایک معنی دکھانے کے بھی ہیں پس اگر ھُمْ کی ضمیر آدم کی آئندہ نسل یا اس کے کامل ظہوروں کی طرف پھرائی جائے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ مُسَمِّیات ملائکہ کو دکھائے یعنی کشف کے ذریعہ سے آئندہ ہونے والے مظاہر کا نقشہ ملائکہ کو دکھا دیا.اب رہا یہ سوال کہ وہ کیا تھے؟سو سیاق و سباق پر غور کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ملائکہ کو خلیفہ بنانے پر اس لئے تعجب تھا کہ اس کے سبب سے خونریزی ہو گی اور فساد ہو گا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو ان صفات الٰہیہ کے جو آدم اور اس کی نسل پر ظاہر ہونے والی تھیں کامل مظاہر دکھائے اور پوچھا کہ اگر تمہاری بات درست ہے تو پھر ان کے نام بتائو یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات رحم کی یا غضب کی جس طرح ان کے ذریعہ سے ظاہر ہونے والی تھیں ان کا نقشہ ان وجودوں کے ذریعہ سے دکھایا اور ملائکہ سے پوچھا کہ کیا تم ان کی تفصیل بتا سکتے ہو.دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ آدم کو تعلیمِ اسماء کے بعد اور خلافت سونپنے کے بعد جو اعوان و انصار ملے اور جن کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کی مختلف صفات کا ظہور ہوا ان افراد کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کہ اگر تمہارا خیال درست ہے تو ان کے نام بتائو یعنی ان کی صفات کاملہ کی تفصیل بیان کرو مطلب یہ کہ یہ افراد تو صلح و آشتی کا نمونہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور آدم کے پیدا کردہ لوگ تو یہ ہیں ان سے سَفکِ دَم اور فساد کس طرح پیدا ہو سکتا ہے اور ان کے بالمقابل جو لوگ آدم کے دشمن ہیں یا اس کی تعلیم پر ظاہر میں ایمان لائے ہیں مگر سچے متبع نہیں اگر ان سے سَفکِ دَم یا فساد پیدا ہو تو ان کے اعمال کا آدم کس طرح ذمہ وار ہو سکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ آج تک کوئی نبی بھی دنیا میں نہیں آیا جس کی بعثت کے ساتھ ساتھ سَفکِ دَم اور فساد بھی نہ ہوا ہو مگر وہ سَفکِ دَم اور فساد اس کے یا اس کے اتباع کے اعمال کی وجہ سے یا ان کی خواہش کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ ان کے منشاء کے خلاف اور ان کے مخالفوں کی شرارتوں کی وجہ سے ہوتا ہے.پس جو فساد بظاہر نیا پیدا شدہ نظر آتا ہے وہ دیرینہ فساد کا اظہار اور اس کی آخری سرکشی کا شعلہ ہوتا ہے.نبی فساد پیدا نہیں کرتا بلکہ شریروں کے اندرونی ُخبث کے اظہار کا ذریعہ ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جب تک اندرونی ُخبثباہر نہ آئے اس کا علاج اور قلع قمع بھی ناممکن ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اسی مضمون کو ان الفاظ میں ادا کیا ہے.’’یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا.صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے کو آیا ہوں کیونکہ میں آیا ہوںکہ مرد کو اس کے باپ اور بیٹی کو اس کی ماں اور بہو کو

Page 467

Page 468

بولنے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے معنے درست بات کہنے کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنی اس آیت میں ہیں.اوپر جو معنے اس آیت کے کئے گئے ہیں ان کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو اپنے بعد آنے والے انبیاء اور اپنی جماعت کے افراد کی قابلیتوں کا بھی ایک حد تک علم دیا جاتا ہے کیونکہ آدم کے بعد آنے والے انبیاء کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا یہ سلوک نظر آتا ہے کہ وہ اپنے بعد آنے والے ایک یا ایک سے زیادہ نبیوں کی خبر دیتے رہے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم جو جامع جمیع کمالات تھے ان کی تو ہر ایک نبی نے ہی خبر دی ہے اسی طرح انبیاء کی زندگی پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اتباع میں سے جو خاص وجود ہوتے ہیں ان پر ان کے حالات بھی اجمالی طور پر منکشف کئے جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی نبی نے اپنے انصار چننے میں غلطی نہیں کی یعنی ان کے انصار کی اکثریت کبھی غلطی پر جمع نہیں ہوئی.کاش شیعہ لوگ اس حقیقت کو دیکھتے اور خلفاء کی مخالفت سے باز آتے.آیت وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا میں جدید طریقۂ تعلیم کنڈرگارٹن کی طرف اشارہ.لطیفہ آج کل کے تعلیم کے طریقوں میں سے جدید ترین طریقہ کنڈرگارٹن کہلاتا ہے جو جرمنی کی ایجاد ہے اس کے لفظی معنے تو بچوں کے باغ کے ہیں مگر محاورہ میں اس کے معنے بچوں کا سکول کے لئے جاتے ہیں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے.اس طریق تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ کتابوں سے علم پڑھانے کی بجائے چیزیں دکھا کر ان کے نام سکھائے جائیں.اس طرح بات اچھی طرح یاد رہتی ہے اور بچہ حافظہ پر بوجھ پڑے بغیر سبق یاد کر لیتا ہے.اس طریق تعلیم میں یا تو عملاً باغ میں بچہ کو پھرا کر مختلف اشیاء کے نام یاد کرائے جاتے ہیں اور یا تصویروں اور مٹی اور لکڑی کے بنے ہوئے نمونوں کو دکھا کر مختلف اشیاء کا علم دیا جاتا ہے.یورپ کو اور خاص کر جرمنی کو اس طریق تعلیم پر بڑا نا زہے مگر دیکھو کہ قرآن کریم کی اس مختصر آیت میں اسی کنڈرگارٹن کے طریق کو کس لطیف طور پر پیش کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ نے آدم کو زبان اس طرح نہیں سکھائی کہ الفاظ یاد کراتا بلکہ اشیاء کو پیش کر کے اور ان کے اعمال دکھا کر ان کے نام بتائے اور جب فرشتوں کے سبق کا وقت آیا تو انہیں بھی صرف الفاظ میں جواب نہیں دیا گیا بلکہعَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ فرشتوں کے سامنے بھی اصل اشیاء کو یا ان کے کشفی وجود کو پیش کر کے پھر آدم سے کہا کہ ان کے نام بتائو کیونکہ علم سکھانے کا مؤثر ترین طریقہ یہی ہے کہ اصل چیز یا اس کے نمونہ یا تصویر کو پیش کر کے اس کا نام اور کام بتایا جائے اس طرح سبق خوب یاد رہتا ہے پس پہلا سبق جو کنڈرگارٹن کے اصول پر دیا گیا وہ نہ تھا جو جرمنی میں دیا گیا بلکہ جنت یا باغ آدم پہلا کنڈرگارٹن کا سکول تھا جس میں خدا تعالیٰ کی وحی نے پہلے آدم کو اور پھر آدم کے ذریعہ سے فرشتوں کو اسماء کا سبق

Page 469

مسمیات دکھا کر دیا تا اس کا نقش گہرا ہو اور پوری کیفیت ذہن میں سما جائے.اللہ تعالیٰ کے تعلیم دینے کی ایک تازہ مثال اس زمانہ میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ ؑ جنہوںنے کسی باقاعدہ مدرسہ میں تعلیم نہ پائی تھی انہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم سے عربی زبان میں کتب لکھنی شروع کیں تو ایک دفعہ انہیں ایک رات میں چالیس ہزار عربی الفاظ سکھائے گئے چنانچہ اس کے بعد انہوں نے دعویٰ سے عربی کتب لکھیں اور دنیا کو چیلنج دیا کہ اس قسم کی فصیح عبارت اور لطیف مضامین پر مشتمل کتب الگ الگ یا مل کر لکھ کر پیش کریں لیکن باوجود اس کے کہ ان کتب کو عربی بلاد میں بھی کثرت سے پھیلایا گیا آج تک کوئی ان کی مثل نہیں لکھ سکا اور یہ معجزہ قرآنی معجزہ کی تائید میں اور اس کے افاضۂ کمال کے ثبوت میں تھا.اس سوال کا جواب کہ اگر ملائکہ سیکھ نہ سکتے تھے تو ان کو نام بتانے سے کیا فائدہ؟ اس جگہ ایک سوال کا جواب دیا جانا ضروری ہے.کہا جا سکتا ہے کہ اگرملائکہ سیکھ نہ سکتے تھے تو پھر انہیں نام بتانے سے کیا فائدہ تھا؟ اور اگر وہ سیکھ گئے تو آدم و ملائکہ کی قابلیت کے تفاوت کا مسئلہ غلط ہو گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ آدم کا علم تفصیلی ہے اور ملائکہ کا اجمالی.اجمالی طور پر کسی شے کا علم ان افراد کو بھی ہو جاتا ہے جو اس کا تفصیلی علم حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوتے ملائکہ کو صرف یہ بات بتانی مقصود تھی کہ آدم اپنی قابلیت سے صفاتِ الٰہیہ کا علم جس رنگ میں حاصل کر سکتا ہے ملائکہ نہیں کر سکتے اور اس قدر بات کا ملین کا وجود پیش کرنے سے ان کی سمجھ میں آ سکتی تھی ورنہ یہ مراد نہیں کہ کاملین کا وجود دیکھنے کے بعد فرشتے تمام صفات الٰہیہ کا تفصیلی علم سیکھ گئے.قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ انہوں نے کہا تو بے عیب ہے جو (کچھ)تو نے ہمیں سکھایا ہے اس کے سوا ہمیں کسی قسم کا علم نہیں ہے الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۰۰۳۳ یقیناً تو ہی کامل علم والا (اور ہر قول اور فعل میں ) حکمت کو مدنظر رکھنے والا ہے.حَلّ لُغَات.سُبْحَانَکَ.سُبْحَانَ مصدر ہے اور اس کے معنی عیوب سے پاک سمجھنے اورپاک کرنے کے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں.سُبْحَانَ اللّٰہِ اَیْ اُبَرِّ ءُ اللّٰہَ مِنَ السُّوْءِ بَرَائَ ۃً کہ میں اللہ تعالیٰ کی ذات کو تمام عیوب سے پاک سمجھتا ہوں (اقرب) مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۳۱.

Page 470

اَلْحَکِیْمُ.اَلْحَکِیْمُ اَلْعَالِمُ.عالم.صَاحِبُ الْحِکْمَۃِ.حکمت والا.اَلْمُتْقِنُ لِلْاُ مُوْرِ.تمام کامو ںکو اچھی طرح کرنے والا جس کے کامو ںکو کوئی بگاڑ نہ سکے.(اقرب) حِکْمۃٌ کے معنے ہیں عدل.علم.حلم.یعنی دانائی.مَایَمْنَعُ مِنَ الْجِہَالَۃِ یعنی ہر وہ بات جو جہالت سے روکے.کُلُّ کَلَامٍ مُوَافِقٍ لِلْحَقِّ.ہر وہ کلام جو سچائی کے موافق ہو.بعض کے نزدیک اس کے معنے وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ مَوْضِعِہٖ کے ہیں.یعنی ہر امر کو اس کے مناسبِ حال طور پر استعمال کرنا.نیز اس کے ایک معنی ہیں صَوَابُ الْاَمْرِ وَسِدَادُہٗ بات کی حقیقت او راس کا مغز.(اقرب) حَکَمَ جو حَکِیْمٌ کا مادہ ہے اس کے معنے ہیں.مَنَعَ مَنْعًا لِاِ صْلَاحٍ.اصلاح کی خاطر کسی کو کسی کام سے روکنا.اور اسی وجہ سے جانور کی لگام کو حَکَمَۃٌ کہتے ہیں.ایک شاعر کہتا ہے ع أَ بَنِیْ حَنِیْفَۃَ اَحْکِمُوْا سُفَہَائَکُمْ کہ اے بنی! حنیفہ اپنے بیوقوفوں کو سمجھائو اور بُری باتوں سے روکو.(مفردات) تفسیر.ملائکہ نے ان وجودوں کے دکھلائے جانے پر کہا کہ اے اللہ! تو پاک ہے ہمیں تو اسی قدر علم ہے جس قدر تو نے ہمیں دیا ہے.تو بہت جاننے والا اور حکمت والا خدا ہے یعنی آدم کی خلافت کا مسئلہ ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا اور ہمارا خیال تھا کہ اس کی وجہ سے خونریزی اور فساد ہو گا مگر اب اس اظہار سے کہ گو اس کے خلیفہ ہونے پر خونریزی اور فساد ہو گا مگر اس کی ذمہ واری آدم پر نہ ہو گی بلکہ جس مقام پر آدم کو کھڑا کیا گیا ہے اس کا یہ بھی ایک لازمہ ہے جس کا باعث بیرونی دشمن یا اندرونی کمزور وجود ہوتے ہیں نہ کہ خلیفہ اور اس کے ساتھی.مگر ہم اب سمجھ گئے ہیں کہ اس حالت کا پیدا کرنا حکمت سے خالی نہیں اور یہ فعل تیرے حکیم ہونے پر دلالت کرتا ہے.اس اعتراض کا جواب کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے.پھر اس میں فرشتوں کا کیا قصور؟ بعض لوگ غلطی سے یہ اعتراض کرتے ہیںکہ خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے پھر اس میں فرشتوں کا کیا قصور.اور ان کی بات کو غلط کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ یہ اعتراض صرف اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ پہلی آیت جس میں خلافت کا سلسلہ شروع کرنے کا اعلان ہے اس کے یہ معنے سمجھے گئے ہیں کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مشورہ کیا (۲) فرشتوں نے جواب میں کہا کہ ہم جو تیری تسبیح کرنے والے موجود ہیں ہماری موجودگی میں کسی اور خلیفہ کی کیا ضرورت ہے کیا ہم کافی نہیں.لیکن یہ دونوں نتیجے جو اخذ کئے گئے ہیں غلط ہیں.(۱) اس آیت میں کسی مشورہ کا ذکر نہیں.آیت کے الفاظ

Page 471

یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.ان الفاظ میں مشورہ کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں اگر مشورہ ہوتا تو یوں کہنا چاہیے تھا کہ اے فرشتو! بتائو کہ میں زمین میں کوئی خلیفہ بنائوں یا نہ بنائوں؟ مگر اس قسم کا کوئی جملہ نہ اس جگہ ہے نہ قرآن کریم میں کسی اور جگہ ہے پس جب مشور ہ لیا ہی نہیں گیا تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے جن کو علم تھا ہی نہیں مشورہ کیوں لیا اور اگر مشورہ لیا تھا تو ان کے مشورہ پر اعتراض کیسا؟ (۲) فرشتوں نے جو کچھ کہا ہے جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں بتایا جا چکا ہے اس میں ہر گز یہ کوئی ذکر نہیں کہ ہماری موجودگی میں کسی اور خلیفہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور وہ ایسا کہہ بھی کب سکتے تھے جبکہ زمین پر خلیفہ بنانے کا ذکر تھا نہ کہ آسمان پر.فرشتوں نے جو کچھ کہا اس کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس نئے نظام کی جو دنیا پر قائم کیا جانے والا ہے جبکہ اس کے ساتھ خونریزی اور فساد کا امکان بھی موجود ہے کیا ضرورت ہے پس ان کا سوال حقیقت کو سمجھنے کے لئے تھا نہ کہ خدا تعالیٰ پر اعتراض کے طور پر یا اپنے آپ کو خلافت کا مستحق ثابت کرنے کے لئے.اب ان کے اس سوال کا صحیح جواب دو ہی طرح ہو سکتا تھا (۱) یا تو انہیں یہ بتایا جاتا کہ خلیفہ کے قیام کے بعد کوئی خونریزی یا فساد نہ ہو گا (۲) یا یہ بتایا جاتا کہ خونریزی اور فساد تو بیشک ہو گا لیکن اس کے باوجود یہ نظام ضروری ہے اور اس کے فوائد اس کے نقصانوں سے زائد ہیں چونکہ خلافت انسانیہ کے نظام کے متعلق یہی دوسرا جواب صحیح اور درست تھا اللہ تعالیٰ نے اسی جواب کو ملائکہ کے سامنے پیش کیا ہے.اس نے یہ نہیں کہا کہ خلافت انسانیہ کے ساتھ خونریزی اور فساد نہیں ہو گا بلکہ یہ بتایا ہے کہ گو اس نظام کی وجہ سے کچھ لوگ خونریزی اور فساد کے مجرم ہوں گے لیکن اس کے نتیجہ میں ایسے وجودوں کا بھی ظہور ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات کے حامل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے مظہر ہوں گے اور ایسے وجودوں کو پیدا کرنا ان ناقص وجودوں کی موجودگی کے باوجود جو انسانوں میں سے ظاہر ہوں گے صفاتِ الٰہیہ کے ظہور کے لئے ضروری ہے اور نظامِ عالم کے لئے مفید.یہ جواب بھی دو طرح دیا جا سکتا تھا (۱) فلسفیانہ رنگ میں دلائل کے ساتھ (۲) عملی رنگ میں پہلے خلیفہ کی قوتوں کا اظہار کر کے اور اس کی نسل کے کاملین کو کشفی رنگ میں فرشتوں کو دکھا کر.ظاہر ہے کہ یہ دوسرا طریق زیادہ اعلیٰ اور زیادہ مؤثر ہے.سو اللہ تعالیٰ نے اس طریق کو اختیار کیا اور آدم کو صفاتِ الٰہیہ کی تعلیم دی اور اس نے ان پر عمل کر کے بتا دیا کہ صفاتِ الٰہیہ کا کامل ظہور بغیر ایسے وجود کے جس میں خیر اور شر دونوں قسم کی طاقتیں موجود ہوں اور اسے دونوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کی مقدرت دی جائے اور پھر وہ محبت الٰہی کے جذبہ سے متاثر ہو کر خیر کی طاقتوں کو اپنے اندر نشوونما دے کر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے ممکن نہیں.پس چونکہ صفات الٰہیہ کے کامل ظہور کے لئے ایسے وجود کا ہونا جسے خیر و شر کی تعلیم دے کر اپنے لئے

Page 472

خود راستہ تجویز کرنے کی مقدرت دے دی جائے ضروری ہے ایسے ناقص افراد کے پیدا ہونے کے خطرہ کو بھی جو شر کی طاقتوں کو اختیار کر کے خونریزی اور فساد کریں برداشت کر لیا جائے گا.اگر یہ مقدرت نہ دی جائے اور اس وجود کو خیر پر مجبور کیا جائے تو وہ صفاتِ الٰہیہ کا مظہر نہیں کہلا سکتا.صرف ایک بے جان اور بے مقدرت آلہ کار کہلا سکتا ہے.جواب کی اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد یہ امر آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یہ اعتراض کہ جب خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا اور فرشتوں کو نہ سکھایا تو پھر اس کا یہ پوچھنا کس طرح درست تھا کہ مجھے ان مُسَمّیات کی صفات اورخواص سے اطلاع دو.درست نہیں.کیونکہ یہاں تو سوال ہی یہ تھا کہ ایسے وجودوں کی کیا ضرورت ہے جو گناہ بھی کر سکیں گے اور شریعت کے مجرم ہو سکیں گے.اس سوال کا جواب اس کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا کہ بیشک وہ گناہ کے مرتکب بھی ہو سکیں گے مگر اس مقدرت کے باوجود ان میں سے کاملین کانیکی کو اختیار کرنا اور صفاتِ الٰہیہ کو اپنے وجود سے ظاہر کرنا اور پھر ایک نظام کے ماتحت دوسروں کو نیکی کی راہ پر چلانا ہی تو ان کے مقرب بارگاہ ہونے کا ذریعہ ہو گا اور یہی تو ان کے اعلیٰ کمالات کا ثبوت ہو گا اور جس طرح ان کامل وجودوں کو دکھا کر جو فرشتوں کے دائرہ عمل سے اوپر نکل چکے ہوں اور صفاتِ الٰہیہ کو مجموعی طور پر بہتر رنگ میں ظاہر کرنے والے ہوں.فرشتوں کو حقیقتِ حال سے آگاہ کیا جا سکتا تھا اور کوئی ذریعہ انہیں حقیقتِ انسانیہ سے آگاہ کرنے کا ممکن نہ تھا.پس یہ آیات قابلِ اعتراض نہیں بلکہ ان میں ایک اعلیٰ حقیقت ایک ایسے مکمل پیرایہ میں ظاہر کی گئی ہے کہ اس سے بہتر ذریعہ اور ممکن ہی نہیں.آیت ھٰذا میں فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کی صفات اَلْعَلِيْمُ اور اَلْحَكِيْمُ بیان کرنے کا مطلب فرشتوں کا جواب ظاہر کرتا ہے کہ باوجود معترضین کے اعتراض کے جو وہ فرشتوں کی طرف سے کرتے ہیں فرشتوں کی اس جواب سے پوری تسلی ہو گئی اور انہوں نے اقرار کیا کہ ان کا علم محدود ہے اور انسان کا ان کے مقابل پر غیر محدود اور انہوں نے تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ اَلْعَلِيْمُاور اَلْحَكِيْمُہے یعنی اس کا علم کامل ہے اور اس کا کوئی فعل بلاحکمت نہیں ہوتا.بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ علیم ہے یہ تو نتیجہ نہ نکلا کہ انسان بھی کوئی ذاتی خوبی رکھتا ہے.اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کے رو سے او ریہی حقیقت بھی ہے.حقیقی طور پر ذاتی خوبی تو خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی وجود میں ہے ہی نہیں.اور فرشتوں نے اپنے پہلے اظہار خیال میں ہی اس حقیقت کو تسلیم کیا ہے کیونکہ انہوں نے شروع میں ہی کہہ دیا تھا کہ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَ (البقرۃ:۳۱) پس یہ سوال تو زیر بحث ہی نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ کو علم کامل حاصل ہے یا نہیں سوال یہ تھا کہ آیا انسانی پیدائش کی کوئی غرض ہے یا نہیں ؟ اور اسی کا جواب آدم ؑ کو صفاتِ الٰہیہ کا علم دے کر دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کو سیکھنے کی قابلیت جس

Page 473

قدر ایسے وجود میں پائی جا سکتی ہے جو خیر و شر دونوں کی مقدرت رکھتا ہو وہ قابلیت ان وجودوں میں نہیں ہو سکتی جو صرف خیر کا ہی مادہ رکھتے ہوں اور شر کو اختیار کرنے کی مقدرت ان میں نہ ہو.فرشتوں نے اس حقیقت کو سمجھا اور عَلِیْم کے ساتھ حَکِیْم کا لفظ لگا کر اقرار کیا کہ خدا تعالیٰ کی صفت علیم کا کامل مظہر وہ نہیں ہوسکتے بلکہ انسان ہی ہو سکتا ہے اس لئے اس کی پیدائش خدا تعالیٰ کی صفت حکیم کے ماتحت ہے یعنی بڑی بھاری حکمت اپنے اندر رکھتی ہے.آدم کے واقعہ کی تفصیل بیان کرنے کی غرض جیسا کہ اوپر کی تشریحات سے ثابت ہے کہ آدم کے واقعہ کی اس تفصیل کے بیان کرنے سے پیدائش عالم کی غرض اور حکمت بتانا مقصود ہے اور یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ ہر زمانہ میں الہامِ الٰہی کا نزول اسی غرض کو پورا کرنے کے لئے ہوتا ہے اور جو لوگ نبیو ںکی بعثت پر معترض ہوتے ہیں وہ گویا دوسرے الفاظ میں اس امر پر معترض ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانی پیدائش کی غرض کو کیوں پورا کرنے لگا ہے اور یہ اعتراض ان کا ایسا بودا ہے کہ اس کی بناء پر نبوت کے سلسلہ کو منقطع نہیں کیا جا سکتا.یہ جو ملائکہ نے کہا کہلَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ہمیں اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھایا اس کا یہ مفہوم نہیں کہ جو تو نے ہمیں سکھایا ہے اسی قدر ہمیں علم ہے کیونکہ یہ تو ایک ظاہر حقیقت ہے بلکہ اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمارا علم اس طرح بڑھتا نہیں جس طرح کہ انسان کا بڑھتا ہے اور اسے اس کے بڑھانے کی مقدرت حاصل ہے اور دوسرے یہ کہ ہمارے اندر وہی طاقتیں ہیں جو تو نے ہمارے اندر رکھی ہیں اور ان طاقتوں کے ساتھ ہم انسان کے مُتَنَوّع اور جامع علوم کو نہیں پہنچ سکتے یعنی ہم یہ سمجھ گئے ہیں کہ انسان کی پیدائش میں حکمت ہے اور اس کے سپرد ایک ایسا کام ہے جو ہم بھی نہیں کر سکتے اس لئے اگر بعض انسان خونریزی کرنے والے ہوں یا خونریزی کا موجب بننے والے ہوں یا شریروں کی شرارتوں کو روکنے کے لئے جائز خونریزی پر مجبور ہوں تب بھی انسان کی پیدائش ضروری اور حکیمانہ فعل ہے.قَالَ يٰۤاٰدَمُ اَنْۢبِئْهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ١ۚ فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ١ۙ (اس پر اللہ نے )فرمایا اے آدم ان (فرشتوں)کو ان (چیزوں) کے نام بتا پھر جب اس (یعنی آدم) نے ان کو ان قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ کے نام بتائے (تو) فرمایا کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں یقیناًآسمانوں اور زمین کی چھپی باتیں جانتا ہوں اور

Page 474

وَ الْاَرْضِ١ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ۰۰۳۴ میں (اسے بھی)جاتنا ہوں جو تم ظاہر کرتے ہو اور (اسے بھی )جو تم چھپاتے تھے.حَلّ لُغَات.غَیْبٌ تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.اَلسَّمٰوٰت.تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۰.الْاَرض.تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۲.تُبْدُوْنَ.تُبْدُوْنَ اَبْدٰی (یُبْدِیْ) سے مضارع جمع مذکر مخاطب کا صیغہ ہے.اور بَدَا (یَبْدُوْا) سے جو اس کا مجرّد ہے بنا ہے.بَدَا الْاَمْرُ کے معنے ہیں ظَھَرَ کوئی امر واضح اور ظاہر ہو گیا.اور اَبْدَی الْاَمْرَ کے معنے ہیں اَظْھَرَہٗ کسی امر کو ظاہر کیا (اقرب) پس تُبْدُوْنَ کے معنے ہوں گے تم ظاہر کرتے ہو.تَکْتُمُوْنَ.تَکْتُمُوْنَ کَتَمَ (یَکْتُمُ کَتْمًا وَ کِتْمَانًا) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے کَتَمَ الشَّیْ ءَ کے معنی ہیں اَخْفَاہُ اس کو پوشیدہ رکھا.بعض اوقات کَتَمَ کے دو مفعول آ جاتے ہیں چنانچہ کہتے ہیںکَتَمَ زَیْدَ نالْحَدِیْثَ کہ اس نے زید سے بات کو مخفی رکھا.اس میں زَیْد اور اَلْحَدِیْثَ دونوں کَتَمَ کے مفعول ہیں (اقرب) نیز اہل عرب کہتے ہیں کَتَمَ الْفَرَسُ الرَّبْوَ اور اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ ضَاقَ مَنْخِرُہٗ عَنْ نَفْسِہٖ کہ گھوڑا جب دوڑتے ہوئے ہانپ گیا اور لمبے سانس لینے لگا تو نتھنوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے وہ پوری طرح سانس نہ لے سکا (اقرب) گویا جب کسی چیز کی وضع ایسی ہو کہ وہ کسی بات کے ظاہر کرنے سے قاصر ہو تو اس وقت بھی اس کے متعلق کَتَمَ کا لفظ استعمال کر لیتے ہیں.مفرداتِ راغب میں امام راغب لکھتے ہیں کہ لَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا کے معنی حضرت ابن عباسؓ اور حسنؓ نے یہ کئے ہیں کہ ان کا اللہ تعالیٰ سے کوئی بات نہ چھپا سکنا اس طور پر ہو گا کہ اُن کے جوارح تمام باتوںکو ظاہر کر دیںگے.(مفردات) گویا آپ ہی آپ جو بات ظاہر ہو جائے وہ خلاف کَتَمَ ہے.پس جو بات آپ ہی رکی ہوئی ہو اس پر کَتَمَ بولیں گے.پس تَکْتُمُوْنَ کے دو معنے ہوئے (۱) جو تم چھپاتے ہو (۲) جو تم سے ظاہر نہیں ہو سکتا.جو چیز باہر آنی تھی وہ بسبب ناقابلیت کے نہیں آ سکتی یعنی تمہاری خِلقت ایسی ہے کہ تم سے یہ کام نہیں ہو سکتا.تفسیر.گو فرشتوں نے اجمالی طور پر انسانی پیدائش کی غرض کو سمجھ لیا تھا مگر دلیل کو مکمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آدم کو حکم دیا کہ وہ ان کا ملین کے خواص اور خصائص کو جو اس کی امت میں ہونے والے تھے یا اس کی

Page 475

نسل میں ہونے والے تھے بیان کرے تاکہ وہ حقیقت جو علمی طور پر ظاہر تھی عملی طور پر بھی ظاہر ہو جائے.اس سے یہ مراد نہیں کہ فرشتوں یا آدم میں واقعی کوئی ایسا مکالمہ ہوا بلکہ عربی محاورہ کے مطابق ایک حقیقت جو ظاہر کی جائے اسے مکالمہ کا رنگ دے دیا جاتا ہے.عربی زبان کا شاعر را جز کہتا ہے اِمْتَـلَا ءَ الْحَوْضُ وَقَالَ قَطْنِیْ حوض بھر گیا اور اس نے کہا کہ بس بس میں بھر گیا ہوں.اس سے یہ مراد نہیں کہ حوض بھر گیا تو چیخ اُٹھا کہ بس کرو بلکہ مراد یہ ہے کہ حوض نے بزبان حال ایسا کہا (فِقہُ اللغۃ لِلثّعالبی فصل فی افاضة الفعل الی ما لیس بفاعل علی الحقیقة) اسی طرح ایک اور عرب شاعر کہتا ہے ع قَالَتْ لَہُ الْعَیْنَانِ سَمْعًا وَ طَاعَۃً (لسان) آنکھوں نے اس سے کہا کہ ہم نے آپ کی بات سنی اور ہم فرمانبرداری کریں گی.دوسری زبانوں میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے.اُردو کے مشہور شاعر جلال الدین لکھنوی جن سے بچپن میں میں نے بھی اصلاح لی تھی کہتے ہیں ؎ حکم دل کا ہے لگی آ کے بجھاؤ میری عرض کرتے ہیں یہ آنسو کہ جناب آنکھوں سے اس شعر کا بھی یہی مطلب ہے کہ دل کے درد کا نتیجہ آنکھو ںسے آنسوئوں کا بہنا ہے پس کبھی قول کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ زبان حال سے یہ امر ظاہر ہوا اسی طرح اس جگہ یہ ضروری نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے ایسا کہا ہو بلکہ یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آدم علیہ السلام نے ان صفاتِ الٰہیہ کا اظہار کرنا شروع کیا جو ان کی نسل سے ظاہر ہونے والی تھیں اور اس طرح عملی طور پر ملائکہ پر انسان کی روحانی ترقیات کی حقیقت کھل گئی اور آدم علیہ السلام کو تعلیم دینے کے بھی یہ معنی نہیں کہ بالمشافہ بٹھا کر درس دیا گیا تھا بلکہ الہام َجلی یا َخفی دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ سے یا دونوں سے انہیں صفاتِ الٰہیہ اور ُلغت اور خواصِ اشیاء کا علم بخشا گیا.فَلَمَّاۤ اَنْۢبَاَهُمْ بِاَسْمَآىِٕهِمْ یعنی جب آدم علیہ السلام نے ان کمالات کو ظاہر کرنا شروع کیا جو ان کی امت سے عام طو رپر اور ان کی نسل کے کاملین سے خاص طور پر ظاہر ہونے والے تھے تو ملائکہ کو معلوم ہو گیا کہ جس رنگ میں صفاتِ الٰہیہ کو انسان ظاہر کرنے والا ہے اور کوئی وجود ظاہر نہیں کر سکتا.قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۙ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ.اس میں پہلی آیت کے ان الفاظ کی طرف اشارہ ہے کہ قَالَ اِنِّيْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اور اسی مضمون کی تشریح کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ زمین کی ضرورتوں کو بھی بہتر طور پر جانتا ہے اور آسمانی فضل کی بارشیں جس طرح زمین پر نازل

Page 476

ہونا چاہتی ہیں اور اس کی صفات کا جو تقاضا ہے اسے بھی بہتر طور پر جانتا ہے.فرشتوں کے ظاہرکرنے اور چھپانے کا مطلب وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ سے یہ مراد نہیں کہ فرشتوں کے دلوں میں کوئی ایسا اعتراض تھا جسے وہ چھپاتے تھے اور منہ سے کچھ اور کہتے تھے کیونکہ جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے فرشتے گناہ سے پاک ہیں وہ اس قسم کا فعل کر ہی نہیں سکتے.اس جملہ کا صرف یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان قوتوں کا بھی علم ہے جو فرشتوں سے ظاہر ہوتی ہیں اور ان کا بھی جو ان کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہو سکتیں.حَلِّ لُغَات میں کَتَمَکے معنوں میںبتایا جا چکا ہے کہ کَتَمَ کے معنے کبھی روک بننے اور معذور ہونے کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ چسپاں ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ کس حد تک تم صفات الٰہیہ کو ظاہر کرنے پر قادر ہو اور کس حد تک ان کے اظہار سے قاصر ہو.اس لئے میری صفاتِ کاملہ نے چاہا کہ وہ ایک ایسا وجود بھی کھڑا کرے جو خدا تعالیٰ کی تمام صفات کو ظاہر کر سکنے کی مقدرت رکھتا ہو.وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ١ؕ اور(اس وقت کو بھی یاد کرو ) جب ہم نے فرشتوں سے کہا تھا آدم کی فرمانبرداری کرو.اس پر انہوں نے تو اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١ٞۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ۰۰۳۵ فرمانبرداری کی مگر ابلیس (نے نہ کی.ابلیس) نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافروں میں سےہو گیا.حَلّ لُغَات.قُلْنَا.قُلْنَا قَالَ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے اور قَالَکے لئے دیکھو حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۳۱.اُسْجُدُوْا.اُسْجُدُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور اَلسُّجُوْدُ جو (سَجَدَ کا مصدر ہے) کے معنے ہیں اَلتَّذَلُّلُ عاجزی اطاعت اور فرمانبرداری کرنا.وَقَوْلُہٗ اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ، قِیْلَ اُمِرُوْا بِالتَّذَلُّلِ لَہٗ وَالْقِیَامِ بِمَصَالِحِہٖ وَ مَصَالِحِ اَوْلَادِہٖ یعنی آیت اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ الخ میں فرشتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ آدم کی فرمانبرداری کریں اور اس کے ماتحت چلیں (یعنی اصلاح کا وہ کام جو آدم دنیا میں کریںگے اس میں اس کی مدد کریں اور اس کی قبولیت لوگوں میں پھیلائیں) اور اس کی مدد کریں اور اس کی اولاد کے لئے ممدّ او رمعاون بنیں اَوِ اسْجُدُوْالِاَجَلِ خَلْقِ اٰدَمَ نیز اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَکے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ آدم کی پیدائش کی وجہ سے اللہ کے حضور

Page 477

سجدہ میں گر جائو.وَقَوْلُہٗ اُدْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا اَیْ مُتَذَ لِّلِیْنَ مُنْقَادِیْنَ اور قرآن کریم میں جو یہ آیا ہے کہ تم اس دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جائو اس کے معنے بھی یہی ہیں کہ تم فرمانبرداری کرتے ہوئے جائو.(مفردات) سَجَدَ (یَسْجُدُ) سُجُوْدًاکے معنی ہیں خَضَعَ وَ اِنْحَنٰی اُس نے عاجزی کی اور عجز کا اظہار جھکنے سے کیا.سَجَدَ الْبَعِیْرُ.خَفَضَ رَأْسَہٗ اونٹ نے اپنا سر نیچا کیا.سَجَدَتِ السَّفِیْنَۃُ الرِّیَاحَ : اَطَاعَتْہَا وَمَالَتْ بِمَیْلِہَا کشتی نے ہوا کی پیروی کی اور جدھر کو ہوا اُسے لے گئی اُدھر چل پڑی.اہلِ عرب کہتے ہیں فُـلَانٌ سَاجِدُ الْمِنْخَرِ اور مراد یہ ہوتی ہے ذَلِیْلٌ خَاضِعٌ کہ فلاں شخص مطیع ہے اور عاجزی کرنے والا ہے (اقرب) پس اُسْجُدُوْا کے معنے ہوں گے اطاعت و فرمانبرداری کرو.اِلَّا.اِلَّا حرف استثناء ہے اور اپنے مابعد اسم کو اکثر نصب دیتا ہے.استثناء دو قسم کاہوتا ہے (۱) متصل جیسے جَائَ نِی الْقَوْمُ اِلَّا زَیْدًا یعنی زید کے سوا باقی سب لوگ میرے پاس آئے (۲) منقطع جیسے مَا جَاءَ نِی الْقَوْمُ اِلَّا حِمَارًا.یعنی لوگ تو میرے پاس نہیں آئے مگر گدھا آیا ہے.اِبْلِیْس.اِبْلِیْس اَبْلَسَ سے بنا ہے اور اَبْلَسَ کے معنے ہیں قَلَّ خَیْرُہٗ ا س سے کسی بھلائی کی توقع کم ہو گئی یعنی بے خیر ہو گیا.اِنْکَسَرَ وَحَزَنَ شکستہ خاطر ہو گیا.غمگین ہو گیا.اور جب اَبْلَسَ مِنْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ کہیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے یَئِسَ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا (ان معنوں میں لازم معنے کے علاوہ متعدّی معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ کہتے ہیں اَ بْلَسَہٗ غَیْرُہٗ اس کو کسی نے ناامید اور مایوس کر دیا) اور اَبْلَسَ فِیْ اَمْرِہٖ کے معنے ہیں تَحَیَّرَ وہ اپنے معاملہ کے بارہ میں حیرانگی میں پڑ گیا.اَبْلَسَ فُـلَانٌ کے ایک معنے سَکَتَ غَمًّا کے بھی ہیں یعنی غم و اندوہ کی وجہ سے خاموش ہو گیا (اقرب) پس اِبْلِیْس کے معنے ہوں گے (۱) ایسی ہستی جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گئی (۲) ایسی ہستی جس سے بھلائی کی امید کم ہو (۳) ایسی ہستی جو اپنے معاملہ میں حیران رہ گئی ہو کہ اُسے کیا کرنا چاہئے (۴) ایسی ہستی جو غم و اندوہ سے بھری رہے.اَبَـیٰ.اَبَـٰی اَبَاہُ اِبَاءً وَ اِبَا ءَ ۃً کے معنے ہیں لَمْ یَرْضَہُ اس کو پسند نہ کیا.(اقرب) امام راغب اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیں کہ اَ لْاِ بَائُ کے معنی ہیں شِدَّۃُ الْاِمْتِنَاعِ کسی امر سے سختی سے رُکنا (ہر امتناع کو اِبَاء نہیں کہیں گے) (مفردات) مصنف تاج العروس لکھتے ہیں اَبَاہُ.کَرِھَہٗ کہ اَبٰی کے معنے کسی چیز سے نفرت کرنے کے ہیں نیز لکھا ہے کہ اَلْاِ بَا ءُ: ھُوَ الْاِمْتِنَاعُ عَنِ الشَّیْ ءِ وَالْکَرَاھِیَۃُ لَہٗ بِغَضِّہٖ وَ عَدَمِ مُلَایَمَتِہٖکسی چیز کو ردی اور اپنے

Page 478

مناسب حال نہ سمجھ کر اس سے انکار کر دینا اور اس سے نفرت کرنا اِبَاء کہلاتا ہے.(تاج) اِسْتَکْبَرَ.اِسْتَکْبَرَ الشَّیْ ءَ کے معنی ہیں رَاٰہُ کَبِیْرًا وَعَظُمَ عِنْدَہٗ کسی چیز کو بڑا سمجھا نیز اِسْتَکْبَرَ کے معنے ہیں کَانَ ذَاکِبْرِیَاءٍ بڑا بنا.مغرور ہوا (اقرب) مفردات میں لکھا ہے.اَلْکِبْرُ.اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَتَخَصَّصُ بِھَا الْاِنْسَانُ مِنْ اِعْجَابِہٖ بِنَفْسِہٖ وَ ذٰلِکَ اَنْ یَّـرَی الْاِنْسَانُ نَفْسَہٗ اَکْبَرَ مِنْ غَیْرِہٖکہ کِبْر اس حالت کو کہتے ہیں کہ جب انسان خود پسند بن کر کسی بات کو اپنے ساتھ مخصوص سمجھ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز اور بڑا خیال کرنے لگ جاتا ہے وَالْاِ سْتِکْبَارُ یُقَالُ عَلٰی وَجْھَیْنِ اور اِسْتِکْبَار (اپنے آپ کو بڑا سمجھنا) دو طور پر ہوتا ہے (۱) اَنْ یَّتَحَرَّی الْاِنْسَانُ وَیَطْلُبَ اَنْ یَّصِیْرَ کَبِیْرًا کہ انسان بڑا بننے کی خواہش او رکوشش کرتا ہے (اور یہ اگر مناسب محل و مقام پر کوشش کی جائے تو قابلِ تعریف بات ہوتی ہے) (۲) اَنْ یَّتَشَبَّعَ فَیُظْھِرَ مِنْ نَفْسِہٖ مَالَیْسَ لَہٗ کہ کوئی شخص بعض ایسی باتوں کے ساتھ اپنے نفس کو متصف کرے جو اس میں پائی نہیں جاتیں اور مقصد یہ ہو کہ وہ کسی طرح دوسروں پر فوقیت لے جائے.(مفردات) کَانَ.کَانَ اَفعالِ ناقصہ میں سے ہے یہ مبتدا اور خبر پر داخل ہو کر مبتدا کو رَفع اور خبر کو نصب دیتا ہے.اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ایک فعل گزشتہ زمانے میں سرزد ہو کر ختم ہو گیا.بعض اوقات اس کے معنے صرف کسی بات کے حدُوث اور وُقو ع کے ہوتے ہیں اس وقت اس کی خبر نہیں آتی.چنانچہ کہہ دیتے ہیں کَانَ الْاَمْرُ کہ فلاں کام ہو چکا.علاوہ ازیں یہ کئی اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ان میں سے ایک معنی صَارَ کے ہیں یعنی ہو گیا.(اقرب) چنانچہ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ میں کَانَ کے معنی صَارَ کے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ کافروں میں سے ہو گیا.اور یہ بھی کہ کافروں میں سے تھا.اَلْکَافِرِیْنَ.اَلْکَافِرِیْنَ کَفَرَ سے اسم فاعل کَافِرٌ آتا ہے اور کَافِرُوْنَ اور کَافِرِیْنَ اس کی جمع ہے مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۷.تفسیر.آیت وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا میں سجدہ کرنے کا حکم پیشتر اس کے کہ اس آیت کی مجموعی تفسیر بتائی جائے یہ واضح کر دینا مناسب ہو گا کہ اس آیت میں سجدہ کرنے سے کیا مراد ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا کسی صورت میں جائز نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِيْ خَلَقَهُنَّ (حٰم سجدة :۳۸) یعنی نہ تو سورج کو سجدہ

Page 479

کروجس نے ان کو پیدا کیا ہے پس اس حکم کے ہوتے ہوئے کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرشتو ںکو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں.بعض لوگ اس پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ شائد آدم کے وقت میں سجدہ غیر اللہ کے لئے جائز ہو گا بعد میںمنع ہوا لیکن یہ خیال درست نہیں کیونکہ توحید پر قائم رہنے کا حکم ایک دائمی حکم ہے وقتی حکم نہیں کہ مختلف زمانوں میں بدلتا رہا ہو.علاوہ ازیں فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ عِنْدَ رَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ يُسَبِّحُوْنَهٗ وَ لَهٗ يَسْجُدُوْنَ (الاعراف :۲۰۷) وہ ہستیاں جو اللہ تعالیٰ کے قرب میں رہتی ہیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کو بڑا نہیں سمجھتیں اور اس سے جی نہیں چراتیں وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی رہتی ہیں اور صرف اس کے سامنے سجدہ کرتی ہیں.فرشتوں کو سجدہ کے حکم کا مطلب اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ ملائکہ کا ہمیشہ سے یہ طریق ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کے سامنے سجدہ کرتے ہیں اور کسی کے آگے سجدہ نہیں کرتے.پس جب ملائکہ اور ملائکہ کے نقش قدم پر چلنے والے وجودوں کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتے تو یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اللہ تعالیٰ نے خود حکم دے کر ملائکہ سے غیر اللہ کو سجدہ کروایا اور انہوں نے سجدہ کیا؟ آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے مراد خلافت ِ آدم کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم جب یہ ثابت ہو گیا کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا قرآنی تعلیم کے خلاف ہے اور یہ بھی کہ ملائکہ نے کبھی بھی کسی غیر اللہ کے سامنے سجدہ نہیںکیا تو اب یہ سوال رہ گیا کہ اس آیت میں سجدہ کے حکم سے کیا مراد ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ (۱) عربی زبان میں گو کبھی لام سَجَدَ کے بعد اس کے معنوں کو تقویت دینے کے لئے بھی آتا ہے اور اس وقت اس کے معنے اس چیز کو سجدہ کرنے کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا.وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ (حٰم السجدة:۳۸) یعنی اللہ کو سجدہ کرو لیکن کبھی لام عام صلہ کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس وقت اس کے اپنے مستقل معنے ہوتے ہیں اور وہ معنے علت اور سبب کے ہیں چنانچہ عرب کا مشہور شاعر امرء القیس کہتا ہے ع وَ یَوْمَ عَقَرْتُ لِلْعَذَارٰی مَطِیَّتِیْ (سبعہ معلقات معلقہ امراء القیس) اور یاد کرو اس دن کو جبکہ میں نے کنواری عورتوں کی خاطر اپنی سواری کی اونٹنی ذبح کر دی تھی.اس جگہ لام تعدیہ کی تقویت کے لئے نہیں آیا بلکہ مستقل معنے دیتا ہے اور وہ سبب اور علت کے معنے ہیں اور مراد یہ ہے کہ میرے اونٹنی ذبح کرنے کا سبب کنواری لڑکیو ںکی دل بستگی کا حصول تھا اسی طرح اسْجُدُوْالِاٰدَمَ کے معنے یہ نہیں کہ آدم کو سجدہ کرو بلکہ یہ معنی ہیں کہ آدم کے خلیفہ بننے

Page 480

کے سبب سے خدا تعالیٰ کو سجدہ کرو کہ اس نے ایک ایسے اچھے نظام کوقائم کیا.گویا جب اللہ تعالیٰ نے دلائل اور مشاہدات سے فرشتوں پر ثابت کر دیا کہ آدم کی خلافت اللہ تعالیٰ کے پُر حکمت افعال میں سے ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات کا ایک نیا اور کامل ظہور وابستہ ہے تو اس نے ملائکہ کو کہا کہ اس خوشی میں اب تم میرے حضور سجداتِ شکر بجا لائو.یہ حکم ویسا ہی ہے جیسے خدا پرست لوگوں کو جب کوئی خدا تعالیٰ کی قدرت نظر آتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.خلاصہ یہ کہ آدم کو سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ خلافت ِ آدم کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور آیت کے یہ معنے ہیں کہ آدم کی وجہ سے یعنی اس کے مقام خلافت پر فائز ہونے کی وجہ سے سجدہ کرو.سجدہ کسے کرو اس کے اظہار کی ضرورت نہ تھی کیونکہ سجدہ سوا خدا تعالیٰ کے کسی کو جائز ہی نہیں.ان معنوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے مومن کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب کوئی فضل خدا تعالیٰ کا نازل ہو اسے اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گر جانا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ تعالیٰ کے مزید فضل نازل ہوتے ہیں لیکن افسوس کہ بہت سے لوگ انعامات کے حصول پر بجائے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے مغرور ہو جاتے ہیں اور اپنی ترقیوں کو اپنے ہنر اور اپنے کمال کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں.فرشتوں کو آدم کو سجدہ کرنے کے حکم سے مراد آدم کی فرمانبرداری کا حکم (۲) دوسرے معنے سجدہ کرنے کے یہ بھی ہو سکتے ہیں اور ہیں کہ آدم کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے سجدہ کے معنے علاوہ جسمانی سجدہ کے فرمانبرداری اور اطاعت کے بھی ہیں.چنانچہ راغب لکھتے ہیں اَلسُّجُوْدُ.اَلتَّذَلُّلُ سجدہ کے معنے فرمانبرداری اور عاجزی کے بھی ہیں حَلِّ لُغَات میں راغب کایہ قول لکھا جا چکا ہے کہ بعض اَئمہ نے اُسْجُدُوْا لِاٰدَمَ کے یہ معنی بھی کئے ہیں کہ اُمِرُوْا بالتَّذَلُّلِ لَہٗ وَالْقِیَامِ بِمَصَالِحِہٖ وَ مَصَالِحِ اَوْلَادِہٖ یعنی ملائکہ کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ آدم کی فرمانبرداری کریں اور اس کی مصلحتوں اور اس کے ارادوں اور اس کی اولاد کے ارادوں اور خواہشوں کے پورا کرنے میں لگ جائیں.ان معنوں کی رُو سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو خلعتِ خلافت بخشا تو ملائکہ کو حکم دیا کہ اب یہ دنیا پر ہماری مرضی ظاہر کرنے والا ہے تم کو بھی چاہیے کہ جو کام یہ کرے اس کی امداد کرو اور اس کی تائید میں اس نظام کو لگا دو جو تمہارے ماتحت ہے اور جس کی تم ابتدائی کڑیاں ہو چنانچہ فرماتا ہے فَسَجَدُوْا اس پر وہ سب کے سب آدم کی تائید میں لگ گئے اور اس کے ارادوں کو پورا کرنے کی کوششوں میں منہمک ہو گئے.حصہ آیت اِلَّاۤ اِبْلِيْسَمیںاِلَّا استثناء منقطع کے لئے ہے اِلَّاۤ اِبْلِيْسَ.یعنی ملائکہ نے تو حکمِ الٰہی

Page 481

کے ماتحت سجدہ کر دیا مگر ابلیس نے نہ کیا.ابلیس کون تھا ؟اس کا تفصیلی جواب آگے آئے گا مگر یہ امر سمجھ لینا چاہیے کہ بہرحال وہ فرشتوں میں سے نہ تھا.دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ (الکہف :۵۱) وہ جنوں میں سے تھا پس اپنی جبلت کے مطابق اس نے فرمانبرداری سے انکار کیا.بعض کہتے ہیں کہ اگر ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو اِلَّا کا لفظ کیوں یہاں استعمال ہوا ہے کیونکہ اِلَّا کے معنے سوائے کے ہیں.اور سوائے کے لفظ سے تو انہی اشیاء کا استثناء کیا جاتا ہے جو اس سے پہلے کی مذکورہ چیزوں میں سے ہوں مثلاً جب یہ کہیں کہ سب دو ست آ گئے سوائے زید کے تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ زید ہمارے دوستوں میں سے ہے پس اس آیت میں بھی سوائے ابلیس کے الفاظ کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ ابلیس بھی فرشتوںمیں سے تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ اِلَّا کے معنے سوائے کے ہیں اور بالعموم اِلَّاکے بعد جس وجود کا ذکر ہو وہ اِلَّاکے پہلے کے بیان کردہ گروہ کی جنس میں تو شریک ہوتا ہے مگر اس خاص فعل میں جس کا پہلے ذکر ہوا ہو اس سے مختلف ہوتا ہے جیسا کہ اوپر کی مثال میں ہے کہ ’’سوائے‘‘ سے پہلے جن دوستوں کا ذکر ہے ان میں تو زید شامل ہے لیکن آنے کے فعل میں ان کا شریک نہیں لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اِلَّا کے بعد مذکور وجود اِلَّاسے پہلے کے مذکورہ گروہ سے الگ ہوتا ہے اور جب ایسا ہو تو عربی میں اس اِلَّا کو منقطع کہتے ہیں یعنی اس کے بعد جس وجود کا ذکر ہے وہ نہ صرف یہ کہ پہلے بیان کردہ فعل میں ان کا شریک نہیں بلکہ اس فعل کے مرتکب لوگوں کا بھی جزو نہیں.اس کی مثال میں علماء نحو کا یہ مشہور فقرہ ہے کہ جَاءَ الْقَوْمُ اِلَّاحِمَارَ ھُمْ یعنی قوم تو آگئی مگر ان کا گدھا نہیں آیا.اس استعمال کے موقع پر اُردو زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے سوائے کا لفظ استعمال نہ کیا جائے گا بلکہ ’’مگر‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے گا کیونکہ اُردو زبان میں ’’سوائے‘‘ کا لفظ وہی معنے دیتا ہے جن میں اِلَّاکے بعد کا مذکور اس سے پہلے کے مذکور کا حصہ ہو اور وہ دوسرے معنے اِلَّا کے جو اوپر بیان ہوئے ہیں سوائے کے لفظ سے ادا نہیں ہوتے.ان دوسرے معنوں کے ادا کرنے کے لئے ’’مگر‘‘ کا لفظ زیادہ مناسب اور ٹھیک ہوتا ہے.خلاصہ یہ کہ اس جگہ اِلَّا منقطع ہے اور اس کے معنے ’’سوائے‘‘ کے نہیں بلکہ ’’مگر‘‘ کے ہیں.ان معنوں پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ابلیس ملائکہ میں سے نہیں تو پھر ملائکہ کو سجدہ کا حکم دینے اور ان کے فرمانبرداری کرنے کے ذکر میںابلیس کا ذکر کیو ںکیا گیا ہے.جب اسے حکم ہی نہ دیا گیا تھا تو پھر اس نے سجدہ کرنا ہی کیوں تھا؟ مگر یہ اعتراض ملائکہ کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.پہلی آیات میں بتایا جا چکا ہے کہ ملائکہ اس نظام عالم کے مدبرّ ہیں

Page 482

چنانچہ قرآن کریم میں انہیں مختلف امور کی پہلی کڑی اور سببِ اُولیٰ بتایا گیا ہے اور سورۃ نازعات میں ان کی نسبت آتا ہے فَالْمُدَبِّرٰتِ۠ اَمْرًا (النازعات:۶) ہم شہادت کے طور پر اُن ارواح کو پیش کرتے ہیں جو کارخانہ عالم کو چلاتی ہیں پس جب ملائکہ کارخانہ عالم کو چلانے والے اور پہلی علّت ہیں تو جو انہیں دیا جائےگا وہ ان کے لئے ہی نہ ہو گا بلکہ ان افراد کے لئے بھی ہو گا جو ان کے تابع ہیں چنانچہ اس حدیث میں جو پہلے بیان ہو چکی ہے کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی شخص کی قبولیت دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو جبریل سے کہتا ہے اور جبریل دوسرے ملائکہ سے.اور پھر ملائکہ سے یہ بات عالم سفلی میں اُتر آتی ہے اور اس شخص کی قبولیت انسانوں میں پھیل جاتی ہے.(بخاری کتاب الادب باب الْمِقَةِ من اللہ تعالٰی) ملائکہ کو سجدہ کا حکم دینے میں ابلیس کا ذکر حقیقت یہ ہے کہ کارخانۂ عالم ایک زنجیر کی طرح ہے اور اس کی پہلی کڑی ملائکہ ہیں اور جو زنجیر کی پہلی کڑی کو ہلائے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس کے ہلنے سے بعد کی کڑیاں بھی حرکت کریں.اسی طرح جب اللہ تعالیٰ ملائکہ کو کوئی حکم دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عالم دنیاوی میں اس قسم کی تحریک شروع ہو جائے.جب ملائکہ کو آدم کی فرمانبرداری کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا تو اس کا بھی یہی مطلب تھا.ملائکہ توپہلے مخاطب تھے لیکن حکم سب دنیا کے لئے تھا پس جس نے اس حکم کا انکار کیا نافرمان ٹھہرا.چنانچہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس کی نسبت فرماتا ہے کہ مَا مَنَعَكَ اَلَّا تَسْجُدَ اِذْ اَمَرْتُكَ (الاعراف :۱۳) جب میں نے تجھے حکم دیا تھا تو تجھے سجدہ کرنے سے کس امر نے روکا؟ اس سے معلوم ہوا کہ ملائکہ کے حکم میں سب کے لئے حکم شامل تھا اور ابلیس بھی اس کا ویسا ہی پابند تھا جیسا کہ اور مخلوق.پس ابلیس کی نافرمانی کا ذکر یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ ملائکہ میں سے تھا بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ اس نے ملائکہ کی تحریک کا انکار کیا اور خدا تعالیٰ کے حکم کو جسے فرشتوں نے آگے چلایا قبول نہ کیا.ملائکہ کی تحریک کے انکار کے چار سبب اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ١ٞۗ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ.اس جملہ میں ملائکہ کی تحریک کے انکارکے چار اسباب بیان فرمائے ہیں (۱) اول اِبَاء.اِبَاْء کے معنے جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتائے جا چکے ہیں ایسی چیز کے ردّ کرنے کے ہیں جسے انسان ناقص اور اپنے مناسب حال نہ سمجھتے ہوئے ردّ کر دے.پس اَبٰی کے معنے ہوئے کہ ابلیس نے اس تحریک کو اپنے مناسب حال نہ سمجھا اور ناقص خیال کیا اور اس وجہ سے اِسے نفرت کرتے ہوئے ٹھکرا دیا.سچائیوں کے انکار کا یہ ایک بہت بڑا سبب ہوتا ہے.لوگ سچائی کو اس نظر سے نہیں دیکھتے کہ ان سے دنیا کو کیا فائدہ پہنچے گا بلکہ اس نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ ان کے قریب کے مصالح پر ان کا کیا اثر پڑے گا اور جب ان کے قریب کے مصالح پر برُا اثر پڑتا ہے تو وہ اپنے انجام کو اور دنیا کے فوائد کو بھلا دیتے ہیں اور سچائی کی مخالفت

Page 483

کرنے لگ جاتے ہیں (۲) دوسری وجہ اِسْتَکْبَرَ کے ان معنوں سے بتائی ہے جو تکبر کرنے کے ہیں.ابلیس نے اس وجہ سے آدم کی فرمانبرداری سے انکار کیا کہ وہ اپنے آپ کو بڑا سمجھتا تھا اور آدم کی اطاعت میں اپنی بڑائی کے کھوئے جانے کا خطرہ محسوس کرتا تھا.قرآن کریم میں دوسری جگہ آتا ہے کہ ابلیس نے آدم کی فرمانبرداری سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ١ۚ خَلَقْتَنِيْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِيْنٍ (الاعراف :۱۳ و صٓ :۷۷) مَیں اس سے بہتر ہوں کیونکہ تو نے اسے تو پانی ملی ہوئی مٹی سے بنایا ہے اور مجھے آگ سے بنایا ہے یعنی یہ تو گیلی مٹی کی طرح غلامانہ فطرت رکھتا ہے جس سانچے میں چاہو اسے ڈھال لو مگر میں تو آگ ہوں کسی کی بات مان نہیں سکتا.آزاد مزاج رکھتا ہوں.ایسے غلام مزاج والے کی فرمانبرداری کس طرح کر سکتا ہوں.صداقت کے انکار کی یہ دوسری وجہ بھی عام ہے.صداقت کے ساتھ جو انکسار اور فروتنی انسان کی طبیعت میں پیدا ہو جاتی ہے اسے صداقت کے دشمن حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ملک و ملت کے مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کو قوم کا دشمن اور ملک کا غدّار خیال کرتے ہیں اور اپنی شورش پسند اور شریر طبیعت پر فخر کرتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس جارحانہ عادت سے وہ ملک اور قوم کو اعلیٰ مقام پر لے جائیں گے اور یہ خیال نہیں کرتے کہ حقیقی ترقی استقلال اور قربانی اور پابندیِ ٔ نظام سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ شورش اور فساد سے کہ وہ عارضی طور پر جاذبِ توجہ ہوتا ہے مستقل فوائد کا موجب نہیں ہو سکتا.استکبار کے لفظ سے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے اصل روک یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی سرداری کھوئے جانے سے ڈرتے ہیں.قوم کا فائدہ اور دنیا کا نفع ان کے سامنے نہیں ہوتا.(۳) تیسری وجہ استکبار کے ان معنوں سے بتائی ہے جو بڑا سمجھنے کے ہیں جیسا کہحَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے.استکبار کے ایک معنی تکبر اور خود پسندی ہیں اور دوسرے کسی چیز کو بڑا سمجھنے کے ہیں.قرآن کریم میں یہ لفظ ان معنوںمیں بھی استعمال ہوا ہے فرماتا ہے.وَ قَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَوْ نَرٰى رَبَّنَا١ؕ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ وَ عَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا (الفرقان :۲۲) یعنی جو لوگ ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعاوی کو سن کر کہا کہ اگر فرشتے اُترتے ہیں تو ہم پر کیوں نہیں اُترتے اور اگر خدا تعالیٰ کو کوئی دیکھ سکتا ہے تو ہمیں خدا تعالیٰ کیوں نظر نہیں آتا؟ بات یہ ہے کہ یہ اپنے دلو ںمیں ان دونوں باتوںکو بہت بڑا اور ناممکن سمجھتے ہیں اور شرارتوں میں حد سے بڑھ گئے ہیں.یہ تیسری وجہ بھی صداقتوں کے انکار میں بہت بڑا دخل رکھتی ہے.منہ سے تو مخالف یہ کہتے ہیں کہ انبیاء جھوٹ

Page 484

بول رہے اور قوم کے دشمن ہیں لیکن اپنے دلوں میں یہ خیال کرتے ہیں کہ قوم کو جس مقام تک پہنچانے کے وہ مدعی ہیں اسے حاصل نہیں کیا جا سکتا گویا بظاہر مخالفت کی وجہ تو قوم سے غداری بیان کرتے ہیں اور بہ باطن ان کے دعووں کو ناقابلِ حصول سمجھتے ہیں اور اس مایوسی کی وجہ سے ان قربانیوں کے لئے جو ان کے ساتھ مل کر کرنی پڑتی ہیں اپنے نفوس میں جرأت نہیں پاتے.(۴) چوتھی وجہ جو ابلیس کے انکار کا سبب ہوئی یہ بیان فرمائی ہے کہ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِيْنَ ابلیس پہلے سے منکروں میں شامل تھا یعنی صداقتوں کے انکار کی اسے عادت تھی.یہ وجہ بھی اکثر لوگوں کو صداقت کے قبول کرنے میں روک بنتی ہے.وہ اچھے اخلاق نہ رکھنے کی وجہ سے اچھی باتو ںکا انکار کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں اور کمزوری اور بزُدلی اور اچھی باتو ںکے ترک کرنے کی عادت کی وجہ سے جب صداقت اُن پر کھل بھی جاتی ہے اسے قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے.ایسے ہزاروں لوگ ہر زمانہ میں پائے جاتے ہیں کہ صداقت تو ان پر کھل جاتی ہے لیکن جس طرح عنکبوت اپنے گرد خود ایک جالاتن کر اس میں گرفتار ہو جاتا ہے وہ بھی سچائیوں کے انکار کا ایک ایسا جالا اپنے گرد تن چکے ہوتے ہیں کہ باوجود صداقت کا علم ہو جانے کے اسے قبول کرنے کی جرأت اور توفیق نہیں پاتے.ابلیس میں یہ چاروں عیب جمع تھے.وہ آدم کی تعلیم کو اپنے مفاد کے خلاف سمجھتا تھا.وہ آدم سے اپنے آپ کو دنیوی وجاہت میں بڑا سمجھتا تھا اور اس کی اطاعت اس پر گراں گزرتی تھی.وہ آدم کے مطمح نظر کو ناقابلِ حصول سمجھتا تھا اور اس کے دعاوی کو ایک ہوائی قلعہ خیال کرتا تھا.وہ اس کے بیان کردہ عقائد کا ایک حد تک قائل تھا لیکن جھوٹ سے ملوث زندگی بسر کرنے کی وجہ سے ان کا قبول کرنا اس کے لئے ناممکن ہو گیا تھا کیونکہ اس کا دل اپنے سابق اعمال کے جال میں پھنس رہا تھا آج بھی صداقتوں کے منکروں کی یہی حالت ہے.کاش لوگ ان چاروں عیبوں سے پاک ہو کر صداقتوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ اس وقت بھی خدا تعالیٰ نے دنیا کے لئے ترقی کا ایک وسیع دروازہ کھولا ہے اور اسلام کے غلبہ کے سامان پیدا کئے ہیں مگر تھوڑے ہیں جو اس موت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں جس کے بعد انہیں بھی اور اسلام کو بھی نئی زندگی ملے گی.وہ وقتی قربانیوں پر جان دیتے ہیں اور دائمی قربانی کے دینے سے کتراتے ہیں.کاش ان کے دل کھل جائیں.کاش ان کے دلوں کے زنگ دُھل جائیں.ابلیس کے معنے اِبْلِیْس.حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ ابلیس بَلَسَ اور اَبْلَسَ سے بنا ہے.اَبْلَسَ کے معنی ہیں (۱) نیکی کا مادہ کم ہو گیا (۲) ہمت ٹوٹ گئی اور غمگین ہو گیا (۳) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا (۴) حیران رہ گیا اور اسے کوئی راہ کام کی نظر نہ آئی.ان معنوں کے رُو سے ابلیس کے معنی ہوئے وہ ہستی جس میں

Page 485

نیکی کا مادہ کم ہو گیا اور بدی کی طاقتیں زیادہ ہو گئیں.جس کی ہمت ٹوٹ گئی اور ناکامی کے غم نے اسے دبا لیاجو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہو گیا.جس نے اپنے مقاصد کے پانے کے لئے کوئی راستہ کھلا نہ پایا اور حیران رہ گیا.ابلیس کا صفاتی نام ان معنو ںکو مدِّنظر رکھتے ہوئے یہ سمجھ میں آ سکتا ہے کہ یا تو یہ نام صفاتی طور پر کسی ایسی رُوح کو دیا گیا ہے جو اس قسم کی کیفیات اپنے اندر رکھتی ہے اوریا پھر یہ صفاتی نام کسی ایسے انسان کا ہے جس کا نام خواہ کچھ ہو مگر اس کی دلی کیفیت کے لحاظ سے وہ اس قسم کے نام پانے کا مستحق تھا اور قرآن کریم نے اسے یہ نام دیا ہے.قرآن کریم میں ابلیس اور شیطان کے الفاظ کے استعمال میں ایک خاص امتیاز قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابلیس کا نام قرآن کریم میں گیارہ جگہوں میں آتا ہے (۱) یہی مقام جس کی تفسیر لکھی جا رہی ہے (۲) اعراف (۳ و ۴) حجر دو دفعہ (۵) بنی اسرائیل (۶) کہف (۷) طٰہٰ (۸) شعراء (۹) سبا (۱۰ و ۱۱) صٓ.ان گیارہ مقامات میں سے سوائے شعراء اور سباء کے باقی سب جگہ آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کے ذکر میں ابلیس کا ذکر آتا ہے باقی دو جگہوں میں آدم کے سجدہ کا ذکر نہیں.سورۃ شعراء میں یہ ذکر ہے کہ ابلیس کے سب تابع جہنم میںجائیں گے اور سورۂ سباء میں یہ ذکر ہے کہ سباء کی قوم نے ابلیس کے گمان کو پورا کر دیا یعنی ابلیس نے انہیں اپنا شکار سمجھا اور وہ اس کا شکار بن گئے.بہرحال جہاں آدم کا ذکر ہے وہاں سجدہ نہ کرنے کے موقع پر ہر جگہ ابلیس کا لفظ استعمال ہوا.اس کے مقابل پر آدم کو ورغلانے کی کوشش کا جہاں ذکر ہے وہاں ہر جگہ ہی شیطان کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کسی ایک جگہ بھی ابلیس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا.اس فرق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم نے ابلیس اور شیطان کے الفاظ کے استعمال میں ایک خاص امتیاز سے کام لیا ہے اور یہ امتیاز بتاتا ہے کہ یہ سجدہ نہ کرنے والا، ابلیس اور آدم کو دُکھ میں ڈالنے کی کوشش کرنے والا شیطان دو الگ وجود ہیں.جب ہم دیکھتے ہیں کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں فرما دیا تھا کہ ابلیس کی بات کو نہ ماننا یہ تمہارا دشمن ہے تو اس کے بعد آدم کا ابلیس کے دھوکے میں آنا سمجھ میں نہیں آتا چنانچہ سورۂ طٰہٰ میں آتا ہے فَقُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا۠ مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى (طٰہٰ :۱۱۸) یعنی ہم نے ابلیس کے سجدہ سے انکار کے بعد آدم سے کہہ دیا تھا کہ یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی یا تیرے ساتھیوں کا دشمن ہے.پس ایسا نہ ہو کہ یہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے اور تو تکلیف میں پڑ جائے.اس واضح ارشاد کے بعد آدم علیہ السلام ابلیس کے دھوکے میں نہ آسکتے تھے سوائے

Page 486

اس کے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی پر آمادہ ہوتے مگر قرآن کریم اس کا انکار فرماتا ہے اور فرماتا ہے فَنَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا (طٰہٰ :۱۱۶) یعنی آدم علیہ السلام سے جو غلطی ہوئی وہ بھول سے ہوئی اور ہم نے اس میں اس غلطی کے ارتکاب کے متعلق کوئی ارادہ نہیں پایا.ان دونوں امور کی تطبیق اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہم یہ سمجھیں کہ ابلیس اور تھا اور وہ شیطان جس نے آدم علیہ السلام کو دھوکادیا اور تھا.چونکہ آدم کو ابلیس سے بچنے کا حکم دیا تھا وہ اس کے ظلّ اور نمائندہ کو ابلیس کا نمائندہ سمجھنے میں غلطی کر گئے اور اسے دوسرا وجود سمجھ کر اس کے بارہ میں انہوں نے پوری ہوشیاری سے کام نہ لیا اور اس طرح غلطی کے مرتکب ہو گئے.ان معنوں کا مؤیدّ وہ امتیاز ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے کہ قرآن کریم نے جہاں بھی سجدہ نہ کرنے کا ذکر کیا ہے وہاں ابلیس کا لفظ استعمال کیا ہے اور اسی وجود سے آدم کو ہوشیار کیا گیا ہے اور جہاں دھوکا دینے والے کا ذکر کیا ہے وہاں اسے شیطان کے نام سے یاد کیا ہے.حقیقت جیسا کہ اوپر کے حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے یہ ہے کہ ابلیس تو اس وجود کا نام رکھا گیا ہے جو فرشتوں کے مقابل پر بدی کا محرّک ہے اور شیطان ایک عام نام ہے.اس ابلیس کو بھی شیطان کہہ سکتے ہیں اور ان تمام لوگوں کو بھی جو ابلیس کے نائب کے طور پر اور اس کے ورغلائے ہوئے اس دنیا کے پردہ پر بدیوں کی راہنمائی کرتے ہیں اور نبیو ںاور ان کی تعلیم کا مقابلہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں کسی انسان کو ابلیس کے نام سے یاد نہیں کیا گیا.جہاں بھی ابلیس کا ذکر ہے فرشتوں کے مقابلہ کرنے والے وجود کے متعلق یہ لفظ استعمال ہوا ہے یا بدی کی محرّک رُوح کے لئے استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۂ شعراء اور سورۂ سباء کے مذکورہ بالا حوالوں میں گزر چکا ہے اس کے برخلاف شیطان کا لفظ مختلف ارواحِ خبیثہ کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے اور انسانوں کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے.ارواحِ خبیثہ کے متعلق یہ لفظ بہت دفعہ استعمال ہوا ہے اور انسانوں کے متعلق اس کا استعمال بھی بہت ہے مگر نسبتاً کم ہے اور مندرجہ ذیل مثالوں سے ثابت ہے (۱) سورۂ بقرہ میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ (البقرة :۱۵) جب وہ اپنے شیطانوں کے ساتھ الگ جمع ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.اس آیت کے الفاظ سے یہ امر واضح ہے کہ یہاں شیاطین سے مراد اَئمہ کفر ہیں اور صحابہ نے بھی اس آیت میں شیاطین کے یہی معنی کئے ہیں (دیکھو آیت نمبر ۱۵ سورہ بقرہ) اسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے کہ لوگ مومنوں سے کہتے ہیں کہ کفار بڑی تعداد میں ان پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں پھر فرماتا ہے اِنَّمَا ذٰلِكُمُ الشَّيْطٰنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَآءَهٗ١۪ فَلَا تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ(آل عمران :۱۷۶) یعنی یہ تو شیطان

Page 487

ہے جو اپنے دوستوں سے تم کو ڈراتا ہے پس تم کفار سے مت ڈرو بلکہ اگر مومن ہو تو مجھ سے ڈرو.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ یہاں شیطان سے مراد کفار کے وہ ایجنٹ ہیں جو مسلمانو ںکو کفار سے مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے چنانچہ سابق مفسرین نے بھی اس جگہ شیطان سے نعیم بن سعود یا ابو سفیان یا عام کفار مراد لئے ہیں جو مسلمانوں کو کفار کی طاقت سے ڈراتے تھے (فتح البیان.ابن کثیر زیر آیت اٰل عمران:۱۷۵) اسی طرح قرآن کریم میں ہے وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ (الانعام :۱۱۳) یعنی اسی طرح ہم نے ہر نبی کا دشمن انسانوں میں سے شیطانوں اور جنوں میں سے شیطانوں کو بنایا ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کے دلوں میں وسوسے ڈالتے ہیں.شیطان اور ابلیس ہر دو کے الگ الگ وجود غرض شیطان کا لفظ قرآن کریم میں ارواحِ خبیثہ کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے جو دلوں میں وساوس ڈالتے ہیں اور انسانوں کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے لیکن ابلیس کا لفظ صرف اسی ہستی کی نسبت استعمال کیا گیا ہے جس نے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا پس ابلیس سے مراد تو وہ رُوحِ خبیثہ ہے جو فرشتوں کے مدِّمقابل ہے اور دلوں میں وساوس ڈالتی ہے اور شیطان اسے بھی کہتے ہیں اور اس کے ان اَظلال کو بھی جو انسانوں میں سے اس جیسے کام کرتے ہیں.ابلیس کو ابلیس اور شیطان یعنی دو ناموں سے یاد کئےجانےکی وجہ اس جگہ ایک نکتہ یاد رکھنے کے قابل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو دو ناموں سے یاد کیا ہے (۱) ابلیس اور (۲) شیطان.حَلِّ لُغَات میںبیان کیا جا چکا ہے کہ ابلیس کے معنے مایوس اور حیران کے ہیں اور شیطان کے معنے حق سے دور ہونے والے یا حق سے دور کرنے والے کے اور جلنے والے کے ہیں.پہلا نام اس وجود کا ابلیس رکھا گیا ہے اور دوسرا نام شیطان.اس سے یہ نفسیاتی نکتہ نکلتا ہے کہ گمراہی اور ضلالت کا تغیرّ جب بھی انسان میں پیدا ہوتا ہے اس کے دو مدارج ہوتے ہیں پہلے مایوسی اور حیرانی یا دوسرے لفظوں میں جہالت پیدا ہوتی ہے اور اس کے بعد حق سے دوری اور دوسروں کو گمراہ کرنے اور حسد کی حالت جو آگ میں جلنے کے مشابہ مرض ہے پیدا ہوتی ہے پس گناہ سے بچنے کے لئے انسان کو مایوسی اور جہالت کا مقابلہ کرنا چاہیے اگر مایوسی اور جہالت کو دنیا سے دُور کر دیا جائے تو گمراہی اور دوسروں کو گمراہ کرنے اور حسد کا فساد بھی خود بخود دور ہو جائے کیونکہ یہ دوسری حالت پہلی حالت کا نتیجہ ہے.ملائکہ اور ابلیس اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو کیوں پیدا کیا.کیا وہ اپنے بندوںکو خود گمراہ کرنا چاہتا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے خیر و شر کی مقدرت بخشی تو ساتھ ہی ملائکہ اور ابلیس اور ان کے

Page 488

اَظلال کا وجود بھی پیدا کیا کہ ایک گروہ تو نیکی کی تحریک دلوںمیں پیدا کرتا ہے اور دوسرا بدی کی تحریک پیدا کرتا ہے پھر جو شخص ملائکہ اور ان کے اَظلال کی تحریک کو قبول کرتا ہے انعام کا مستحق ہوتا ہے اور جو ابلیس اور اس کی ذرّیت کی تحریک کو قبول کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے.انسان کے کامل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ اس کے سامنے دونوں قسم کی تحریکات پیش ہوں تا وہ اپنے فیصلہ سے ایک تحریک کو قبول کرے اور اعلیٰ انعامات کا وارث ہو اگر بدی کی تحریکات اس کے راستہ میں نہ آئیں تو وہ اعلیٰ انعامات کا مستحق نہیں بن سکتا.لوگوں کا اپنی مرضی سے ابلیس کی پیروی کرنا ہاں ایک بات قرآن کریم نے واضح فرما دی ہے اور وہ یہ کہ ابلیس یا شیطان کسی کو بھی انسان پر تصرّف حاصل نہیں لوگ اپنی مرضی سے ان کی اتباع کریں تو کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ (الحجر:۴۳) یعنی اے ابلیس! میرے بندوں پر تجھے دلیل اور برہان کے ذریعہ سے غلبہ حاصل نہ ہو گا ہاں مگر جو سرکش لوگ تیرے متبع ہو جائیں گے انہیں تیری باتیں وزنی معلوم ہوںگی.اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں بھی ابلیس کے متعلق فرمایا ہے اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا(بنی اسرائیل :۶۶) اے ابلیس! تجھے میرے بندوں پر دلائل اور براہین کے ذریعہ غلبہ حاصل نہ ہو گا اور تیرا رب ان کا کارساز ہو گا.میں نے سُلْطَانٌ کے معنے دلیل اور برہان کے ذریعہ غلبہ کے کئے ہیں یہ معنی قرآن کریم سے ثابت ہیں.سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ لَوْ لَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَيِّنٍ (الکہف :۱۶) یعنی یہ ہماری قوم ہے جس نے خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود اختیار کر لئے ہیں اگر یہ سچے ہیں تو کیوں ان کے بارہ میںکوئی کھلی دلیل پیش نہیں کرتے.اسی طرح یہ لفظ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی واضح دلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے پس ابلیس کو خدا تعالیٰ کے بندوں کے خلاف کوئی سلطان حاصل نہ ہونے کے یہی معنے ہیں کہ ابلیس کا پلّہ دلیل کی وجہ سے کبھی بھاری نہ ہو گا بلکہ وہ جھوٹ اور خوف اور لالچ اور حرص کے ذریعہ سے لوگوں کو ورغلائے گا جیسا کہ فرماتا ہے.وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (بنی اسرائیل :۶۵) یعنی اے ابلیس! ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اسے اپنی آواز سے خوف دلا کر یا دھوکا دے کر اپنی طرف بلا اور اپنے سواروں اور پیادو ںکو ان پر چڑھالا اور ان کے مالوں اور اولادوں میں حصہ دار بن اور ان سے جھوٹے وعدے کر اور شیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب دینے کے لئے ہی کرتا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس کے ورغلانے کا طریق یہ اَظلال کا وجود بھی پیدا کیا کہ ایک گروہ تو نیکی کی تحریک دلوںمیں پیدا کرتا ہے اور دوسرا بدی کی تحریک پیدا کرتا ہے پھر جو شخص ملائکہ اور ان کے اَظلال کی تحریک کو قبول کرتا ہے انعام کا مستحق ہوتا ہے اور جو ابلیس اور اس کی ذرّیت کی تحریک کو قبول کرتا ہے وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے.انسان کے کامل ہونے کے لئے ضروری تھا کہ اس کے سامنے دونوں قسم کی تحریکات پیش ہوں تا وہ اپنے فیصلہ سے ایک تحریک کو قبول کرے اور اعلیٰ انعامات کا وارث ہو اگر بدی کی تحریکات اس کے راستہ میں نہ آئیں تو وہ اعلیٰ انعامات کا مستحق نہیں بن سکتا.لوگوں کا اپنی مرضی سے ابلیس کی پیروی کرنا ہاں ایک بات قرآن کریم نے واضح فرما دی ہے اور وہ یہ کہ ابلیس یا شیطان کسی کو بھی انسان پر تصرّف حاصل نہیں لوگ اپنی مرضی سے ان کی اتباع کریں تو کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِيْنَ (الحجر:۴۳) یعنی اے ابلیس! میرے بندوں پر تجھے دلیل اور برہان کے ذریعہ سے غلبہ حاصل نہ ہو گا ہاں مگر جو سرکش لوگ تیرے متبع ہو جائیں گے انہیں تیری باتیں وزنی معلوم ہوںگی.اسی طرح سورۂ بنی اسرائیل میں بھی ابلیس کے متعلق فرمایا ہے اِنَّ عِبَادِيْ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطٰنٌ١ؕ وَ كَفٰى بِرَبِّكَ وَكِيْلًا(بنی اسرائیل :۶۶) اے ابلیس! تجھے میرے بندوں پر دلائل اور براہین کے ذریعہ غلبہ حاصل نہ ہو گا اور تیرا رب ان کا کارساز ہو گا.میں نے سُلْطَانٌ کے معنے دلیل اور برہان کے ذریعہ غلبہ کے کئے ہیں یہ معنی قرآن کریم سے ثابت ہیں.سورۂ کہف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هٰٓؤُلَآءِ قَوْمُنَا اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اٰلِهَةً١ؕ لَوْ لَا يَاْتُوْنَ عَلَيْهِمْ بِسُلْطٰنٍۭ بَيِّنٍ (الکہف :۱۶) یعنی یہ ہماری قوم ہے جس نے خدا تعالیٰ کے سوا دوسرے معبود اختیار کر لئے ہیں اگر یہ سچے ہیں تو کیوں ان کے بارہ میںکوئی کھلی دلیل پیش نہیں کرتے.اسی طرح یہ لفظ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بھی واضح دلیل کے معنوں میں استعمال ہوا ہے پس ابلیس کو خدا تعالیٰ کے بندوں کے خلاف کوئی سلطان حاصل نہ ہونے کے یہی معنے ہیں کہ ابلیس کا پلّہ دلیل کی وجہ سے کبھی بھاری نہ ہو گا بلکہ وہ جھوٹ اور خوف اور لالچ اور حرص کے ذریعہ سے لوگوں کو ورغلائے گا جیسا کہ فرماتا ہے.وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْهُمْ بِصَوْتِكَ وَ اَجْلِبْ عَلَيْهِمْ بِخَيْلِكَ وَ رَجِلِكَ وَ شَارِكْهُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَعِدْهُمْ١ؕ وَ مَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (بنی اسرائیل :۶۵) یعنی اے ابلیس! ان میں سے جس پر تیرا بس چلے اسے اپنی آواز سے خوف دلا کر یا دھوکا دے کر اپنی طرف بلا اور اپنے سواروں اور پیادو ںکو ان پر چڑھالا اور ان کے مالوں اور اولادوں میں حصہ دار بن اور ان سے جھوٹے وعدے کر اور شیطان جو وعدے بھی کرتا ہے فریب دینے کے لئے ہی کرتا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ابلیس کے ورغلانے کا طریق یہ

Page 489

نہیں کہ وہ کوئی معقول دلیل دیتا ہے بلکہ اس کا طریق یہ ہے کہ دلوں میں خوف پیدا کرتا ہے اور جھوٹے وعدے دیتا ہے پھر جو لوگ اس خوف اور جھوٹ کی وجہ سے اس کا ساتھ دیتے ہیں ان کی مدد سے ان سے کم درجہ کے خراب لوگوںکو ڈرا دھمکا کر ہدایت سے محروم کر دیتا ہے.خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے ابلیس کی تحریکات کسی دلیل پر مبنی نہیں ہوتیں بلکہ خوف اور جھوٹے وعدوں پر مبنی ہوتی ہیں اس وجہ سے نہیں کہہ سکتے کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو پیدا کر کے انسان کو گمراہ کیا ہے کیونکہ گمراہی کا الزام اللہ تعالیٰ پر تب لگ سکتا تھا اگر ابلیس کی تائید میں بھی اس نے کوئی علمی دلیل پیدا کی ہوتی.دلیلیں سب ملائکہ کی تائید میں ہوتی ہیں پس جو لوگ ابلیس کی اتباع کرتے ہیں اپنی مرضی سے کرتے ہیں اور اپنے عمل کے خود ذمہ وار ہوتے ہیں.یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے رو سے لمّۂِ خیر یعنی نیکی کی تحریک کا پلّہ بھاری ہوتا ہے چنانچہ اس کی پہلی دلیل تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ملائکہ کے تابع قرار دیا ہے جو امر کہ اِلَّا اِبْلِیْسَ کے الفاظ سے ظاہر ہے سجدہ کا حکم ملائکہ کو دیا گیا تھا لیکن اس کی نافرمانی پر ابلیس کو بھی تنبیہ کی گئی ہے اور میں بتا چکا ہوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز ملائکہ کے تابع رکھی گئی ہے پس جو حکم ملائکہ کو دیا گیا اس میں ابلیس شامل تھا.پس اِلَّا اِبْلِیْسَکہہ کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اصل تحریک ملکی ہے اس سے انحراف کا نام ابلیسی تحریک ہوتا ہے جس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ ملائکہ کو ابلیس پر غلبہ حاصل ہے.دوسری دلیل اس امر کی یہ ہے کہ قرآنِ کریم نے بار بار فطرتِ انسانی کے نیک ہونے کا اظہار فرمایا ہے ہاں بعد میں انسان خود اسے خراب کر دیتا یا اس کے والدین یا مربیّ اسے خراب کر دیتے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىهَا.فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا.قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا.وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا (الشمس:۸تا۱۱) یعنی ہم انسانی جان اور اس کی درستی اور تکمیل کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں.اس کے مکمل بنانے کے بعد جن باتوں سے اس کے اندر خرابی پیدا ہو سکتی ہے اور جن امور سے اس میں نیکی پیدا ہو سکتی ہے ہم نے ان سے اسے خبردار کیا پس جو شخص اپنے نفس کو بیرونی اثرات سے پاک رکھتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے اور جو شخص اپنے نفس کو مٹی میں ملا دیتا ہے ناکام ہو جاتا ہے.ان آیات سے ظاہر ہے کہ نفسِ انسانی کو پاک بنایا گیا ہے او ربُرے بھلے کی پرکھ کا مادہ اس میں رکھ دیا گیا ہے.اس کے بعد انسان کا کام صرف اس قدر ہے کہ فطرت کے مطابق چلے اگر وہ ایسا کرے اور بیرونی اثرات کو جو فطرت کے خلاف ہوں قبول نہ کرے تو وہ نیکی میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے لیکن جو ایسا نہ کرے اور فطرت کے خلاف اثرات کو قبول کر کے اپنے پاک نفس کو گندگی

Page 490

سے ملوث کر دے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنی ہیں کہ انسان اپنی پیدائش کے لحاظ سے ملائکہ کی تحریکوں کو قبول کرنے کے قابل بنایا گیا ہے.پیدائش کے وقت اس میںابلیس کا کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن بعد میں وہ خود ابلیس کو دعوت دے کر ہلاک ہو جاتا ہے.احادیث نبی کریمؐ میں بھی اس مضمون کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کُلُّ مَوْلُوْدٍ یُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَوَاہُ یُھَوِّدَانِہٖ اَوْیُنَصِّرَانِہٖ اَوْ یُمَجِّسَانِہ(بخاری کتاب الجنائز باب ماقیل فی اولاد المشرکین) یعنی ہر بچہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کے مادہ کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی بچہ کی فطرت میں خرابی پیدا نہیں کی.یہ خرابی بعد میں پیدا ہوتی ہے گویا اصل تعلق بچہ کا ملائکہ سے ہوتا ہے.ابلیس سے اس کا تعلق خارجی اسباب سے پیدا ہوتا ہے.اس عقیدہ کی تردید کہ ابلیس سفلی زندگی کا مظہر ہے جس میں سے گزر کر انسان کو روحانی ترقی حاصل ہوتی ہے بعض حال کے مفسرین نے اس آیت میں ابلیس کی ضرورت یہ بتائی ہے کہ وہ سفلی زندگی کا مظہر ہے جس میں سے گزر کر انسان کوروحانی ترقی حاصل ہوتی ہے مگر یہ تشریح درست نہیں.کیونکہ اگر سفلی زندگی سے مراد جسمانی خواہشات کا پورا کرنا ہے جیسے کھانا، پینا،پہننا یا شہوات بہ حدِّ اعتدال پورا کرنا تو اسے ابلیس سے رکھنے والی زندگی نہیں کہا جا سکتا.ان تقاضوں کو اللہ تعالیٰ کے انبیاء بھی پورا کرتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يٰۤاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا (المومنون :۵۲) اے رسولو! پاک چیزیں کھائو اور نیک اعمال کرو یعنی طیبات کا استعمال نیک کاموں کی توفیق دیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لَارَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ (مسند احمد بن حنبل مسند عائشةؓ) اسلام میں رہبانیت نہیں.یعنی اسلام طیّب اشیاء کے استعمال سے خواہ کھانے پینے کے متعلق ہوں یا پہننے اوڑھنے کے متعلق ہوں یا رہنے سہنے کے متعلق ہوں منع نہیں کرتا بلکہ ضرورت کے مطابق ان اشیاء کے استعمال نہ کرنے کو گنہ قرار دیتا ہے پس جہاں تک طیبات کو حدِّ اعتدال کے اندر استعمال کرنے کا سوال ہے اسلام اسے دین کا حصہ قرار دیتا ہے اور ان کے ترک کو گنہ گردانتا ہے.اب اگر اس فعل کو ابلیس کے متعلق قرار دیا جائے اور سفلی زندگی کہا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گویا خدا تعالیٰ تمام انبیاء اور مومنوں کو ابلیس اور شیطان سے تعلق پیدا کرنے کا حکم دیتا ہے.اگر کہا جائے کہ سفلی زندگی سے مراد حدِّ اعتدال سے زیادہ ان اشیاء کا استعمال ہے تو اس صورت میں بھی مذکورہ بالا خیال غلط قرار پاتا ہے کیونکہ اس صورت میں سفلی زندگی کو اعلیٰ زندگی کے حصول کے لئے ضروری قرار دینے کے یہ

Page 491

معنے ہوںگے کہ خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے انسان کو کھانے پینے اور پہننے میں اسراف کرنا چاہیے اس کے بعد اسے اعلیٰ زندگی مل سکتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ سب انبیاء اور کامل مومن خدا تعالیٰ کو پانے سے پہلے اسراف کرتے اور حدِّ اعتدال سے بڑھتے ہیںاور یہ بھی بالبداہت باطل ہے.پس ابلیس کی یہ تشریح کہ وہ سفلی زندگی کا مظہر ہے اور اس میں سے ہو کر خدا تعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے ایک غلط عقیدہ ہے اور قرآن کی تعلیم کے خلاف ہے.وَ قُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا اور ہم نے (آدم سے )کہا(کہ) آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور اس میں رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا١۪ وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ سے جہاں سے چاہو بافراغت کھاؤ مگر اس درخت کے قریب نہ جانا ورنہ تم الظّٰلِمِيْنَ۰۰۳۶ ظالموں میں سے ہو جاؤ گے.حَلّ لُغَات.اُسْکُنْ.اُسْکُنْ واحد امر مخاطب کا صیغہ ہے اور سَکَنَ (یَسْکُنُ) سُکُوْنًا کے معنے ہیں قَرَّکسی جگہ قرار پکڑا.ٹھہر گیا.سَکَنَ فُـلَانٌ دَارَہٗ کے معنے ہیں اِسْتَوْطَنَہَا وَ اَقَامَ بِھَا وہ اپنے گھر میں قیام پذیر ہوا.رہ پڑا اور بس گیا (اقرب) پس اُسْکُنْ کے معنے ہوں گے رہو.زَوْجُکَ.زَوْجٌ کے معنے کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۶.اَلْجَنَّۃُ.اَلْجَنَّۃُ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۶.رَغَدًا.رَغَدَ عَیْشُہٗ رَغَدًا کے معنے ہیں طَابَ وَا تَّسَعَ اس کے لئے زندگی کے سامان وسیع طور پر اور بافراغت مہیّا ہو گئے.(اقرب) تاج العروس میں ہے اَلرَّغَدُ: اَلْکَثِیْرُ الْوَاسِعُ الَّذِیْ لَایُعْیِیْکَ مِنْ مَّالٍ اَوْمَآءٍ اَوْ عَیْشٍ اَوْکَلَإٍ ضروریات زندگی کا سہولت اور کثرت کے ساتھ مل جانا رَغَد کہلاتا ہے.(تاج) حَیْثُ.حَیْثُ ظرف ِمکان ہے یعنی یہ بتاتا ہے کہ کوئی کام کس جگہ واقع ہوا ہے.جمہور علماء کے نزدیک اس

Page 492

کے بعد جملہ کا آنا ضروری ہے.بعض اوقات اس کے ساتھ مَا لگتا ہے یعنی حَیْثُ کی بجائے حَیثُمَا کہہ دیتے ہیں اس وقت اس کے معنی میں شرط کا مفہوم آ جاتا ہے اس لئے یہ اپنے بعد دو جملوں کو جزم دیتا ہے جیسے کہ ایک شاعر کا شعر ہے ؎ حَیْثُمَا تَسْتَقِمْ یُقَدِّرْ لَکَ اللّٰہُ نَجَاحًا فِیْ غَابِرِ الْاَ زْمَانٖ کبھی یہ کسی فعل کے وقوع کا زمانہ بتانے کے لئے آتا ہے چنانچہ اوپر کا شعر بھی انہی معنو ںمیں استعمال ہوا ہے (اقرب) پس حَیْثُ شِئْتُمَا کے معنی ہوں گے جہاں سے چاہو.(۲) جب چاہو.اَلظّٰلِمِیْنَ.اَلظّٰلِمِیْنَ ظَلَمَ سے اسم فاعل ظَالِمٌ آتا ہے اور اَلظّٰلِمُوْنَ اور اَلظَّالِمِیْنَ اس کی جمع ہیں ظَلَمَ فُـلَانٌ ظُلْمًا وَظَلْمًا کے معنے ہیں وَضَعَ الشَّیْ ءَ فِیْ غَیْرِ مَوْضِعِہٖ کسی چیز کا بے محل اور بے موقع استعمال کیا نیز ظَلَمَ فُـلَانًا کے معنے ہیں فَعَلَ لَہُ الظُّلْمَ اس پر ظلم کیا.ظَلَمَ فُـلَانٌ حَقَّہٗ.نَقَصَہٗ اِیَّاہُ اُس کو اُس کا حق پورا نہ دیا (اقرب) نیز حد سے بڑھ جانے اور دوسرے کی ملکیت پر دست درازی کرنے کو بھی ظلم کہتے ہیں.(اقرب) مفردات میں ہے کہ ظلم کی تین قسمیں ہیں (۱) ظُلْمٌ بَیْنَ الْاِنْسَانِ وَ بَیْنَ اللّٰہِ تَعَالٰی.اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ظلم.یعنی جو حقوق اللہ تعالیٰ کے بندے کے ذمہ ہیں وہ اس کو دینے کی بجائے دوسروں کو دیئے جائیں وَ اَعْظَمُہُ الْکُفْرُ وَالشِّرْکُ وَ النِّفَاقُ اوران معنوں کے لحاظ سے سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کیا جائے اس کے ساتھ شریک قرار دیا جائے اور نفاق سے کام لیا جائے حالانکہ مناسب تو یہ ہے کہ اللہ کے احکام کو مانا جائے اور اس کی توحید کا اقرار کیا جائے.اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ (لقمان:۱۴)کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے (۲) ظُلْمٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ النَّاسِ لوگوں کا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم کرنا.(۳) ظَلْمٌ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ نَفْسِہٖ انسان کا اپنے نفس پر ظلم کرنا چنانچہ آیت فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ(فاطر:۳۳)میں یہی ظلم مراد ہے (مفردات) پس ظالم کے معنے ہوں گے (۱) بے محل و بے موقع کام کرنے والا.(۲) کسی کے حق کو کم دینے والا.(۳) حد سے بڑھ جانے اور دوسرے کی ملکیت پر دست درازی کرنے والا.(۴) شرک کرنے والا.(۵) ظلم کرنے والا.تفسیر.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدم اور اس کی بیوی یا آدم اور اس کے ساتھیوں کو اللہ تعالیٰ نے جنت میں رہنے کا حکم دیا جس کی تشریح دوسری جگہ یہ کی گئی ہے کہ وہ اس میں نہ بھوکا رہے گا نہ پیاسا اور نہ ننگا رہے گا

Page 493

اور نہ دُھوپ کی تکلیف اُٹھائے گا اور یہ بھی حکم دیا کہ وہ اس میں جہاں سے چاہیں بافراغت کھائیں.حضرت آدم علیہ السلام کی جنت جنت سے مراد بعض نے کہا ہے کہ وہی جنت ہے جس میں انسان بعدَ الموَت جائے گا اور بعض مفسرّین نے اسے اسی زمین کا کوئی ٹکڑا قرار دیا ہے.بائبل میں ہے’’ اور خداوند خدا نے عدن میں پورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کوجسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۸) اس کے بعد آیت ۱۴ میں یہ ذکر ہے کہ اس باغ کو دجلہ اور فرات سیراب کرتے ہیں گویا بائبل کا یہ بیان استعارہ اور حقیقت اور صحیح اور غلط سے مخلوط ہے لیکن دَجلہ اور فرُات کے پاس کے علاقہ کی اس سے تعیین ہو جاتی ہے چونکہ حضرت نوح ؑ اور ان کی قوم کے واقعات بھی اسی علاقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ علیہ السلام کا مولد بھی اُ وْر ہے جو عراق میں ہے اور جدید تحقیق سے بھی اُ وْراور اس کے گرد کا علاقہ کھودنے سے معلوم ہوا ہے کہ یہ ملک نہایت قدیم تمدّن کا گہوارہ رہا ہے پس ان حالات سے قرینِ قیاس یہی ہے کہ آدم کا َمولد عراق کا علاقہ ہی تھا اور جس جنت کا ان کے متعلق ذکر آتا ہے وہ بھی اسی علاقہ کا کوئی مقام تھا جسے مقام کے آرام دِہ ہونے اور اس اچھے نظام کی وجہ سے جو آدم نے قائم کیا جنت کہا گیا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کی جنت کی تعیین جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے آثار قدیمہ کی تازہ کھدائیوں سے یہ علاقہ ایک نہایت قدیم تمدن کا گہوارہ ثابت ہوتا ہے چنانچہ اُوْر جو بائبل کے بیان کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا وطن تھا اور جو دجلہ اور فرات کے ملنے کی جگہ کے قریب واقع ہے اس کی کھدائی جنگِ عظیم کے بعد اوّل اوّل مسٹرہال نے اور ان کے بعد مسٹر وُدلے نے کی ہے ان دونوں کی کھدائیوں کے نتیجہ میں اس شہر کے دبے ہوئے جو آثار ملے ہیں ان کا زمانہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ سے ۳۵۰۰ سال پہلے معلوم ہوتا ہے (انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا زیر لفظ Ur) بلکہ بعد کی تحقیق سے یہ آثار اس سے بھی بہت پہلے کے تمدن کے معلوم ہوتے ہیں (ایضاً) پس جبکہ ہم ایک طرف مغربی عرب میں کعبہ جیسے قدیم معبد کو دیکھتے ہیں دوسری طرف مشرقی طرف اُوْر کی قدیم ترین تہذیب کے آثار ہمیں ملتے ہیں او رمعلومہ تاریخ کے زبردست تغیرّات کا اس علاقہ کو مرکز پاتے ہیں تو یہ نتیجہ نکالنا بعیداز قیاس نہیں معلوم ہوتا کہ آدم کا مولد یا بشر کی تمدنی ترقی کا مبدء یہی علاقہ تھا.حضرت آدم علیہ السلام کی جنت بعدَ الموت ملنے والی جنت نہ ہونے کے دلائل یہ خیال کہ آدمؑ کو اس جنت میں رکھا گیا تھاجس میں نیک انسان بعد الموت جائیں گے باِلبداہت باطل ہے.اوّل تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ اِنِّيْ جَاعِلٌ فِي الْاَرْضِ خَلِيْفَةً (البقرۃ:۳۱) میں زمین میں خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں اور یہ امر

Page 494

خلافِ عقل ہے کہ آدم علیہ السلام کو انتظام تو دنیا کا سپرد کیا گیا اوررکھا انہیں آسمان پر گیا.دوسرے اس جنت کی نسبت جو بعدالموت ملنے والی ہے خود حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ کے تسلسل میں اللہ تعالیٰ سورہ حجر میں فرماتا ہے لَا يَمَسُّهُمْ فِيْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ (الحجر:۴۹) یعنی جنت اُخروی میں نہ تو انسانوں کو کسی قسم کی تکان ہو گی اور نہ وہ اُس سے نکالے جائیںگے لیکن آدم علیہ السلام کو جس جنت میں رکھا گیا وہ اس سے نکالے گئے.پس معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کی جنت ارضی تھی آسمانی نہ تھی.تیسرے یہ کہ آدم علیہ السلام کی جنت میں شیطان کا داخل ہونا ثابت ہے بلکہ اس کی ذرّیت کا بھی.پس بفرضِ محال آدم کا جنت سماوی میں رکھنا اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو یہ خلافِ عقل ہے کہ آدم کے ساتھ شیطان اور اس کی ذریت کو بھی جنت میں رکھ دیا گیا.اس آیت سے اس امر کا بھی استدلال ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام پہلے کسی اور جگہ رہتے تھے پھر جب ان پر الہام الٰہی نازل ہوا تو اپنی بیوی یا ساتھیوں سمیت اس مقام میں جا بسے جسے جنت کہا گیا ہے کیونکہ آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ اے آدم! تو اور تیرا زوج جنت میں ہی بسو.پس معلوم ہوا کہ وہ پہلے کسی دوسری جگہ رہتے تھے.رَغَدًاکی تشریح جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا گیا ہے یہ ہے کہ ضروریاتِ زندگی سہولت کے ساتھ اور کثرت کے ساتھ مل جائیں.اس میں تمدن کی خوبی بتائی گئی ہے.تمدن ہی ہے جو انسان کے لئے بافراغت سامانِ زندگی مہیا کرتا ہے بغیر تمدن کے کھانے پینے کی اشیاء کا نہ تو خزانہ رکھا جا سکتا ہے اور نہ کثرت سے ان اشیاء کی پیداوار کی جا سکتی ہے.حیوانی زندگی میں ضروری اشیاء کے پیدا کرنے کی طرف توجہ نہیں کی جا سکتی اور نہ ان کا ذخیرہ رکھا جا سکتا ہے اور کمی کے وقت انسان تکلیف اُٹھاتا ہے پس ان الفاظ میں تمدّن کی خوبی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تم مل کر رہو گے تو ضروریاتِ زندگی کو کثرت سے پیدا کر سکو گے اور ضرورت کے موقع کے لئے ان کا ذخیرہ رکھ سکو گے اور یہی وہ ارضی جنت ہے جس کی بنیاد تمدّن کے ذریعہ سے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے رکھی گئی.جو قومیں اس تمدّن کی نگہداشت کرتی ہیں ان کے تمام افراد آرام سے رہتے ہیں.اسلام نے اپنے ابتدائی ایام میں اس تعلیم کے مطابق عمل کیا اور مسلمانوں کا بچہ بچہ بھوک اور پیاس اور تنگی کی زندگی سے محفوظ ہو گیا.بظاہر یہ ایک دنیاوی حکم معلوم ہوتا ہے لیکن حق یہ ہے کہ یہ طریقِ زندگی انسان کو گناہ سے بچانے والا ہے.لوُٹ کھسوُٹ اور دھوکے فریب کا بڑا باعث غربت اور بے سرو سامانی ہوتے ہیں.جو قوم اپنے تمام افراد کے کھانے پینے اور پہننے کا سامان مہیا کر دیتی ہے وہ اس کو گناہ میں پڑنے سے بچا لیتی ہے اور اس بڑے سبب کو جو ظلم اور گناہ کی طرف کھینچتا ہے دُور کر دیتی ہے.پس گو بظاہریہ کام دنیاوی اور سیاسی نظر آتا ہے لیکن حقیقتاً خالص دینی انتظام ہے اور

Page 495

گناہ کو جڑ سے اُکھیڑنے میںممد ہے.اس وقت دنیا میں جو جھگڑا اور فساد پھیلا ہوا ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض افراد تو مالا مال ہیں اور دوسرے بھوکے مر رہے ہیں اگر سب دنیا میں ایسا نظام قائم ہو جائے کہ ہر شخص کو اس کی ضروریاتِ زندگی سہولت سے مل جائیں تو لڑائی جھگڑے کی جڑ کٹ جائے.حَیْثُ شِئْتُمَامیں انسانی تمدّن کے کمال کے ایک ضروری جزو کی طرف اشارہ حَیْثُ شِئْتُمَا جہاں چاہو کے الفاظ سے یہ بتایا ہے کہ انسانی تمدن کے کمال کا ایک ضروری جزو یہ بھی ہے کہ انسان کو سفر اور اقامت کی سہولت حاصل ہو.اور اس پر سے غیر ضروری پابندیاں اُٹھا دی جائیں.موجودہ زمانہ کے فسادات کی ایک بڑی وجہ اس حکم کی طرف سے عدمِ اِعتنا بھی ہے.مختلف اقوام ایک دوسرے کے خلاف پابندیاں لگاتی ہیں کہ فلاں قوم ہمارے ملک میں نہ آئے یا ہمارے ملک میں نہ رہے اور اس طرح خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو اپنے لئے مخصوص کرنا چاہتی ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سب دنیا کو سب انسانو ںکے لئے پیدا کیا ہے اور اس قسم کی روکیں پیدا کر کے دوسروں کو خدائی نعمتوں سے محروم کرنا بڑا گناہ ہے اس وقت بعض بڑے بڑے برِّاعظموں میں صرف چند لاکھ آدمی رہ رہے ہیں اور دوسروں کو ان ممالک میں آ کر بسنے سے روکا جاتا ہے.ہندوستان میں چالیس کروڑ کے قریب آبادی ہے اور آسٹریلیا جو اُس سے دُگنے کے قریب ہے اس میں کل سترّ لاکھ آبادی ہے.لیکن ہندوستانیوں کو اس میں جا کر بسنے سے روکا جاتا ہے اسی طرح جنوبی افریقہ میں ہندوستانیوں کو کامل شہری کے حقوق حاصل نہیں بلکہ اس ملک کے قدیم باشندو ںکو بھی یہ حقوق حاصل نہیں چنانچہ ہندوستان کے موجودہ سیاسی لیڈر گاندھی جی کی تمام طاقت کی بنیاد انہی زخمی جذبات پر ہے جو جنوبی افریقہ کی رہائش کے ایام میں ان کے دل میں پیدا ہوئے.اسلام کسی قوم کو کسی ملک میں جاکر بسنے سے نہیں روکتا اس قسم کے امتیاز سے دلوں میں ُبغض اور کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے.اسلام نے آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہی اس قسم کی پابندیوں سے منع فرمایا ہے.اور تمام بنی نوع انسان کو دنیا سے یکساں فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے کاش لوگ اس تعلیم پر عمل کرتے اور ُبغض اور فساد کا قلع قمع ہو کر یہ دنیا جو اس وقت بعض لوگوں کے لئے جہنم بن رہی ہے سب کے لئے جنت بن جاتی.شاید اس جگہ کسی کے دل میں یہ ُشبہ پیدا ہو کہ اسلام نے بھی تو حجاز میں دوسرے مذاہب کے لوگوں کا داخلہ منع کیا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک اسلام نے حجاز میں دوسرے مذاہب کے لوگو ںکا داخلہ منع کیا ہے لیکن اس کا اثر دنیا کے اقتصادی معاملات پر نہیں پڑتا.حجاز ایک وادی غیر ذِی زَرعٍ ہے جہاں نہ کچھ پیدا ہوتا ہے نہ اُگتا ہے پس اس علاقہ کے ساتھ دنیا کے کھانے پینے کا تعلق نہیں.جس علاقہ میں نہ فصل ہوتی ہو نہ میٹھا پانی ملتا ہو، اقتصادی

Page 496

ضرورتوں کے لئے لوگوں نے وہاں جا کر کرنا کیا ہے؟ وہاں تو وہی لوگ جا کر بسنے کی خواہش کریںگے جن کو اس جگہ سے مذہبی لگائو ہو اور وہ لوگ خواہ کسی قوم کے ہوں اس جگہ جا سکتے ہیں.شاید اللہ تعالیٰ نے اپنی اوّل اور آخر مسجد کے لئے اس وادی غیر ذِی زَرعٍ کو چنا ہی اس لئے تھا تاکہ اس کے مذہبی نظام کے قیام کے لئے دوسرے مذاہب کو اس سے روکا جائے تو کسی کو یہ اعتراض نہ ہو کہ اس طرح ہمیں دنیوی فوائد اور ثمرات سے محروم کر دیا گیا ہے ورنہ ہو سکتا تھا کہ کعبہ کو کسی سر سبز جگہ بنایا جاتا مگر ایسا ہوتا تو دوسرے مذاہب کے لوگ دنیوی فوائد سے محروم رہ جاتے یا پھر اسے دین کے لئے محفوظ قلعہ نہ بنایا جا سکتا.وَلَا تَقْرَبَا ھٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ.اور اس شجرہ کے قریب نہ جائو ورنہ تم ظالم ہو جائو گے.شجرہ ممنوعہ کے متعلق پہلے مفسرین کا خیال اور اس کا ردّ یہ شجرہ جس کے پاس جانے سے آدم کو روکا گیا تھا کیا تھا؟ یہ سوال بڑا ہی محلِّ اختلاف بنا رہا ہے بعض نے اسے عورت کہا ہے بعض نے گندم کا دانہ اور بعض نے انگور لیکن یہ سب معانی خلافِ قرآن ہیں.عورت اس سے مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ آدم علیہ السلام کو بیوی سمیت اس میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے گندم بھی اس سے مراد نہیں ہو سکتی اور نہ انگور.کہ یہ دونوں اشیاء حلال ہیں اور اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا اس میں سے اپنی غذا با افراط حاصل کرو.بائبل کا شجرۂ ممنوعہ کو شجرۂ علم قرار دینا اور اس کا بطلان بائبل میں اسے شجرۂ علم قرار دیا گیا ہے لکھا ہے ’’اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا ضرور مرے گا.‘‘ (پیدائش باب ۲ آیت ۱۶ و ۱۷) بائبل کا یہ بیان بالبداہت باطل ہے کیونکہ نیک و بد کی پہچان ہی تو انسان کو دوسرے حیوانوں سے افضل بناتی ہے ورنہ بیل، گھوڑے، گدھے اور انسان میں فرق ہی کیا ہے اور جبکہ خود بائبل کہتی ہے کہ’’ خدا تعالیٰ نے انسان کو اپنی صورت پر اور اپنی مانند بنایا‘‘ (پیدائش باب ۱ آیت ۲۶) تو اس کے معنے ہی یہ ہیں کہ اس میں نیک و بد کی پہچان رکھی اور علم اور عرفان کا مادہ رکھا ورنہ خدا کی صورت اور اس کی مانند کے اور کیا معنی ہو سکتے ہیں؟ اور جب آدم کو خدا کی صورت اور اس کی مانند بنایا گیا تھا تو وہ تو اپنی پیدائش کے ساتھ ہی نیک و بد کو پہچاننے والا تھا اس غرض کے لئے اسے کسی درخت کا پھل کھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اپنی مانند پیدا کر کے اسے نیک و بد کی پہچان کا درخت کھانے سے روکنے کے تو یہ معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے خود اپنا کام باطل کیا اور بچوں کا سا کھیل کھیلا جو پہلے ایک گھروندا بناتے ہیں اور پھر اسے توڑ دیتے ہیں.شجرہ کا لفظ استعارۃً استعمال ہونے کے چار ثبوت اب سوال یہ ہے کہ اگر اس درخت سے مراد نہ تو گندم

Page 497

اور انگور ہے اور نہ نیک و بد کی شناخت ہے تو پھر اس درخت سے کیا مراد ہے جس کے پاس جانے سے آدم علیہ السلام کو روکا گیا؟ قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کا پھل کھانے سے آدم علیہ السلام پر ان کا ننگ ظاہر ہو گیا پس معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ درخت کا لفظ استعارتاً استعمال ہوا ہے کیونکہ دنیا کے پردہ پر کوئی ایسا درخت نہیں جس کا پھل کھانے سے انسان پر اس کا ننگ ظاہر ہوتا ہو.دوسرے ہم دیکھتے ہیں کہ نہ اسلامی شریعت میں اور نہ کسی قدیم شریعت میں کوئی درخت ایسا ملتا ہے جس کے پھل کا استعمال شرعاً ممنوع ہو تو یہ امر اس امر کے لئے مزید شہادت ہے کہ شجرہ سے مراد اس جگہ درخت نہیں بلکہ استعارۃً کسی اور چیز کا نام درخت رکھا گیا ہے.تیسرے قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس درخت کے قریب جانے سے آدم اور اس کی بیوی یا اس کے ساتھی ظالم ہو جائیں گے یہ امر بھی ظاہر کرتا ہے کہ درخت کا لفظ اس جگہ استعارۃً استعمال ہوا ہے کیونکہ اگر کوئی ممنوع درخت ہوتا تو اس کے پھل کے استعمال سے وہ گنہگار تو ہو سکتے تھے ظالم نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ ظلم کا لفظ یا تو شرک کے معنوں میں قرآنِ کریم میں استعمال ہوا ہے یا پھر دوسروں کے حقوق کے َتلف کرنے کے معنوں میں.چوتھے ایک طرف تو ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک خاص درخت کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کر کے آدم کو منع فرمایا کہ اس درخت کے قریب نہ جانا.دوسری طرف فرماتا ہے کہ شیطان کے بہکانے پر انہو ںنے اس درخت کا پھل کھا لیا.اب اگر یہ ممنوع چیز ظاہری درخت ہوتا تو یہ قصور آدم کا دیدہ دانستہ ہو سکتا تھا.ایک معیّن درخت جس سے منع کیا گیا تھا اس کا پھل کھانا کسی صورت میں غلطی کا نتیجہ نہیں ہو سکتا.لیکن تیسری طرف ہم قرآن کریم میں یہ لکھا ہوا دیکھتے ہیں فَنَسِیَ (طٰہٰ :۱۱۶) آدم نے اس پھل کو بھول کر کھایا تھا جان بوجھ کر نہیں کھایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درخت سے مراد کوئی ظاہری درخت نہ تھا بلکہ کوئی اور چیز تھی جس کے بارہ میں غلطی لگنے کا امکان ہو سکتا ہے اور یہ چیز معنوی درخت ہی ہو سکتی ہے مثلاً ظلم کا درخت کہ اگر اس کے قریب جانے سے منع کیا جائے تو یہ کوئی ایسا معین حکم نہ ہو گا جس میں غلطی نہ لگ سکے یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص کو ظلم سے منع کیا جائے اور وہ اس سے بچنا بھی چاہے لیکن اس سے کوئی ایسا فعل سر زد ہو جائے جو ہو تو ظلم لیکن وہ شخص اسے ظلم نہ سمجھے.غرض ان سب امور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس چیز سے آدم علیہ السلام کو روکا گیا تھا اسے استعارۃً شجر کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے ورنہ وہ تھی کچھ اور.اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں شجرہ کا لفظ کسی اور معنو ںمیںبھی استعمال ہوا ہے یا نہیں یا یہ کہ استعارۃً کسی اور چیز کو بھی شجرہ کہا گیا ہے یا نہیں؟

Page 498

قرآن کریم میں شجرہ کے لفظ کا استعمال برُی اور اچھی باتوں کےلئے شجرہ کا لفظ قرآن کریم میں استعارۃً اچھی اور بری باتو ںکی نسبت استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ (ابراہیم :۲۵) یعنی کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح پاک بات کی کیفیت پاک درخت کی مثال سے بیان فرمائی ہے پھر فرماتا ہے وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيْثَةِ (ابراہیم :۲۷) بُری بات کی کیفیت بُرے درخت کی طرح ہوتی ہے.ان معنوں کے رُو سے اس درخت کے پاس نہ جائو کے یہ معنے ہوں گے کہ جس طرح اوپر بعض اچھی باتوں کا ذکر تھا ان کے مدِّمقابل کاموں سے اللہ تعالیٰ نے آدم کو منع فرمایا اور چونکہ اس اچھے نظام کو جو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو دیا تھا جنت یعنی باغ سے مشابہت دی تھی اس نظام کے خلاف جو امور تھے انہیں بھی درخت کے نام سے یاد کیا گیا اور فرمایا کہ جہاں اس جنت میں تم کو رہنے کا حکم ہے وہاں اس کے خلاف امور سے بچنے کی بھی تاکید ہے تا وہ جنت ضائع نہ ہو جائے.ان معنوں کے رو سے آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ بعض باریک امور میں آدم علیہ السلام کو غلطی بھی لگ سکتی تھی اور کوئی دوسرا آدمی انہیں دھوکا بھی دے سکتا تھا.شجرۂ ممنوعہ سے مراد ابلیس اور اس کی ذرّیت گو شجرہ سے مراد تمام وہ بدیاں ہو سکتی ہیں جن سے آدم علیہ السلام کو منع کیا گیا تھا مگر اس آیت کے مضمون کے لحاظ سے خصوصیت سے یہ امر اس شجرۂ ممنوعہ میں داخل ہو گا کہ ابلیس اور اس کی ذریت سے بچ کر رہیں کیونکہ اس نے آدم اور ان کی اولاد کو گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی تھی چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَقُلْنَا يٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا۠ مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى (طٰہٰ :۱۱۸) یعنی ہم نے کہا کہ اے آدم! یہ ابلیس تیرا اور تیری بیوی یا ساتھیوں کا دشمن ہے پس اس سے بچتے رہیو ایسا نہ ہو کہ یہ تم کو جنت سے نکال دے تو تم تکلیف میں پڑو.اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم کہ ابلیس سے بچتے رہو اس شجرہ کی ایک ضروری شاخ تھی جس کے قریب نہ جانے کا آدم کو حکم دیاگیا تھا.جب ہم دیکھتے ہیں کہ سلسلہ نسب کو بھی شجرہ کہتے ہیں تو اس موقع پر شجرہ کے لفظ کا استعمال نہایت لطیف معلوم ہوتا ہے کیونکہ ابلیس سے بچنے کا حکم جب دیا گیا تو اس کی ذرّیت یعنی اس کے اتباع اس حکم میں شامل تھے.یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آدم اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو عام انسانی بول چال کی طرح نہیں تھی وہ لازماً اسی طرح ہوئی ہو گی جس طرح سب انبیاء کے ساتھ خدا تعالیٰ کی گفتگو ہوتی ہے یعنی الہام اور وحی کے ذریعہ سے اور الہام اور وحی میں استعارہ اور مجاز اور تمثیل کا استعمال کثرت سے پایا جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام جمیل و حسین ہوتا ہے اور

Page 499

Page 500

فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ۰۰۳۷ (انہیں) کہا (کہ یہاں سے) نکل جاؤ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہیں.اور(یاد رکھو کہ) تمہارے لئے ایک (مقرر)وقت تک اسی زمین میں جائےرہائش اور سامان معیشت (مقدر )ہے.حَل لُغَات.اَ زَلَّھُمَا.اَزَلَّہٗ کے معنے ہیں اَ زْلَقَہٗ اس کو اس کے مقام سے ہٹا دیا حَمَلَہٗ عَلَی الزَّلَّۃِ اس کو لغزش پر آمادہ کیا.(اقرب) مفردات میں ہے.اَلزَّلَّۃُ فِی الْاَصْلِ اِسْتِرْسَالُ الرِّجْلِ مِنْ غَیْرِ قَصْدٍ کہ اصل وضع لغت کے لحاظ سے زَلَّۃٌ کے معنے ہیں پائوں کا بغیر قصد کے پھسل جانا.وَقِیْلَ لِلذَّنْبِ مِنْ غَیْرِ قَصْدٍ زَلَّۃٌ تَشْبِیْھًا بِزَلَّۃِ الرِّجْلِ بغیر ارادہ کے کسی غلطی اور قصور کے ہو جانے کو بھی زَلَّۃ سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ جس طرح بغیر ارادہ کے پائوں پھسل جاتا ہے اسی طرح بعض اوقات بعض غلطیاں بھی بغیر ارادہ کے واقع ہو جاتی ہیں گویا پائوں کا بغیر ارادہ کے پھسلنا اور غلطی کا بغیر ارادہ کے وقوع پذیر ہونا دونوں آپس میں مشابہ ہیں.(مفردات) لسان میں ہے اَ زَلَّہٗ اَیْ حَمَلَہٗ عَلَی الزَّلَلِ اس کو قصور اور خطا کرنے پر آمادہ کیا.(لسان) اَلشَّیْطٰنُ.اَلشَّیْطٰنُ کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۵.عَنْھَا.عَنْ حرفِ جا رہے اور یہ دس معانی ادا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جن میں سے ایک تعلیل کے ہیں (مغنی) یہی معنی ادا کرنے کے لئے آیت فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا میں عَنْ استعمال ہوا ہے یعنی حَمَلَہُمَا عَلَی الزَّلَّۃِ بِسَبَبِھَا اَی بِسَبَبِ الشَّجَرَۃِ یعنی اس درخت کے ذریعہ سے ان دونوں کو ان کے مقام سے ہٹا دیا.اِھْبِطُوْا.اِھْبِطُوْا امر مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور ھَبَطَہٗ (یَھْبُطُ ھَبْطًا) مِنَ الْجَبَلِ کے معنے ہیں اَ نْزَلَہٗ اس کو پہاڑ سے اُتارا.ھَبَطَ بَلَدًا کَذَا: دَخَلَہٗ کسی شہر میں داخل ہوا (یہ متعدّی بھی استعمال ہوتا ہے چنانچہ ھَبَطَہٗ بَلَدًا کَذَا کے معنے ہوں گے اَدْخَلَہُ اس کو فلاں شہر میں داخل کیا) ھَبَطَ السُّوْقَ.اَتَاھَا بازار میں آیا.ھَبَطَ فُـلَانٌ مِنَ الْجَبَلِ (یَھْبُطُ وَ یَھْبِطُ ھُبُوْطًا) نَزَلَ پہاڑ سے اُترا.ھَبَطَ الْوَادِیَ.نَزَلَہٗ وادی میں اُترا.ھَبَطَ مِنْ مَوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ آخَرَ.اِنْتَقَلَ ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا گیا (اقرب) پس اِھْبِطُوْاکے معنے ہوں گے (۱) اپنی جائے قیام کو چھوڑ کر کسی اور جگہ قیام پذیر ہو جائو (۲) نکل جائو.اَ لْاَرْض اَ لْاَرْض کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۲.

Page 501

مُسْتَقَرٌّ.اَلْمُسْتَقَرُّ اِسْتَقَرَّ سے ظرف ہے اور اِسْتَقَرَّ بِالْمَکَانِ کے معنے ہیں ثَبَتَ وَ سَکَنَ کسی جگہ میں ٹھہرا.رہائش اختیار کی اور اَلْمُسْتَقَرُّ کے معنے ہیں مَوْضِعُ الْاِسْتِقْرَارِ.قرار گاہ.جائے رہائش.(اقرب) مَتَاعٌ.کُلُّ مَایُنْتَفَعُ بِہٖ مِنَ الْـحَوَائِـجِ کَالطَّعَامِ وَالْبَزِّ وَ اَثَاثِ الْبَیْتِ وَالْاَدَوَاتِ وَالسِّلَعِ وہ تمام اشیاء جن سے ضرورت کے وقت فائدہ اٹھایا جاتا ہے مَتَاعٌ کہلاتی ہیں.جیسے خوراک، پوشاک، گھر کا سامان، فروخت کی چیزیں وغیرہ وَقِیْلَ مَایُنْتَفَعُ بِہٖ مِنْ عُرُوْضِ الدُّنْیَا قَلِیْلِہَا وَکَثِیْرِھَا مَاسِوَی الْفِضَّۃِ وَالذَّھَبِ.اور بعض کے نزدیک دنیا کا سامان جس سے نفع اُٹھایا جاتا ہے وہ متاع ہے خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت سوائے سونے اور چاندی کے وَعُرْفًا کُلُّ مَایَلْبِسُہُ النَّاسُ وَیَبْسُطُہٗ اور عرف عام میں متاع ان کپڑوں کو کہتے ہیں جو انسان پہنتا ہے یا فرش وغیرہ جو بچھائے جاتے ہیں وَفِی الْکُلّیَّاتِ اَلْمَتَاعُ وَالْمُتْعَۃُ مَایُنْتَفَعُ بِہٖ اِنْتِفَاعًا قَلِیْلًا غَیْرَ بَاقٍ بَلْ یَنْقَضِیْ عَنْ قَرِیْبٍ کلیاتِ اَبی البقا میں ہے کہ مَتَاع اور مُتْعَہ اس چیز کو کہتے ہیں جس سے قلیل فائدہ حاصل کیا جاتا ہو.اور جس کا فائدہ مستقل نہ ہو بلکہ جلدی ختم ہو جائے.وَاَصْلُ الْمَتَاعِ مَایُتَبَلَّغُ بِہٖ مِنَ الزَّادِ.متاع اصل میں وہ زاد ہے جس کے ذریعہ سے منزلِ مقصود تک پہنچا جائے وَیَأْتِی الْمَتَاعُ اِسْـمًا بِمَعْنَی التَّمْتِیْعِ اور یہ لفظ اسم و مصدر کے طور پر تمتیع کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے یعنی سامانِ دنیا.(اقرب) حِیْن.اَلْحِیْنُ کے معنے ہیں وَقْتٌ مُبْہَمٌ یَصْلَحُ لِجَمِیْعِ الْاَزْمَانِ طَالَ اَوْقَصُرَ مطلق وقت خواہ وہ تھوڑا ہو یا زیادہ.وَقِیْلَ اَوِ الدَّ ھْرُ بعض محققینِ ُلغت نے اس کے معنے ’’ایک لمبے زمانہ‘‘ کے کئے ہیں.نیز اس کے ایک معنی اَلْمُدَّۃُ کے ہیں یعنی کچھ وقت.(اقرب) تفسیر.فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا کی ضمیر جنت وشجرہ دونوں کی طرف جا سکتی ہے عَنْھَا میں ھَاکی ضمیر جنت کی طرف بھی جا سکتی ہے اور شجرہ کی طرف بھی.جنت کی طرف ضمیر پھیرنے کی صورت میں اس کے یہ معنی ہوں گے کہ شیطان نے آدم کو جنت سے الگ کر دیا یا یہ کہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے جنت کی حالت میں فرق آ گیا اور وہ ایک وقت کے لئے تکلیف کا مقام بن گئی.شجرہ کی طرف ضمیر پھرنے کی صورت میں عَنْ کے معنے سبب کے ہوں گے او رمطلب یہ ہو گا کہ اس درخت کو ذریعہ بنا کر آدم کو اس کے مقام سے پھسلا دیا لیکن جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا گیا ہے اَزلَّ کے لفظ میں یہ مفہوم بھی پایا جاتا ہے کہ جس شخص سے وہ فعل ہوا اس کا اس میں ارادہ نہ تھا پس معنے یہ ہوں گے کہ اس درخت کے ذریعہ سے شیطان نے آدم کا قدم پھسلا دیا لیکن آدم کا اس میں ارادہ شامل نہ تھا سب کچھ دھوکے اور فریب سے ہوا.

Page 502

عَنْھَاکی ضمیر شجرہ کی طرف پھیرنے سے عَنْکے معنے سببیّت کے ہوتے ہیں عَنْکے معنے سببیّت کے عربی زبان میں عام ہیں.لُغت میں لکھا ہے اَلرَّابِعُ التَّعْلِیْلُ نَحْوَ وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرَاھِیْمَ لِاَبِیْہِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَۃٍ (اقرب) یعنی چوتھے معنے عَنْ کے تعلیل کے ہوتے ہیں جیسے کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَ مَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ (التوبة:۱۱۴) جس کے معنے یہ ہیں کہ ابراہیم نے جو استغفار اپنے باپ کے لئے کیا تھا وہ صرف ایک وعدہ کے سبب سے تھا جو وہ اس سے کر چکے تھے.ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے عَنْہَاکے معنے یہ ہوںگے کہ شَجَرَۃ کو سبب اور ذریعہ بنا کر شیطان نے حضرت آدم کے قدم کو بغیر اس کے کہ ان کا اپنا ارادہ ہوتا پھسلا دیا.فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ.اور اس طرح جس حالتِ امن میں وہ تھے اس سے انہیں نکال دیا یا یہ کہ جس جنت میں وہ تھے وہاں سے انہیں نکال دیا.مگر پہلے معنے زیادہ درست ہیں کیونکہ جنت میں سے نکلنے کا حکم اس کے بعد دیا گیا ہے ہاں اگر یہ مطلب لیا جائے کہ جنت میں سے نکالے جانے کا مستحق بنا دیا تو دوسرے معنے بھی درست ہو سکتے ہیں.قُلْنَا اهْبِطُوْاکی تشریح وَقُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْہَا.اور ہم نے کہا کہ جائو تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے یعنی اس دشمنی کو یہیں ختم نہ سمجھنا یہ دشمنی آئندہ جاری رہے گی اور ہر نبی کے وقت میں پھر شیطان اسی طرح حملہ کرنے کی کوشش کیا کرے گا.وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ میں مومنوں کو اپنی اولاد کو شیطان سے بچاتے رہنے کا حکم وَ لَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِيْنٍ.یعنی اسی زمین میں تم کو رہنا اور فائدہ اُٹھانا ہے پس ہوشیاری سے کام کرنا.شیطان کی ذرّیت سے الگ ہو کر رہنے کی کوئی صورت نہیں اس کے ساتھ ہی رہنا ہو گا.پس ہر وقت چوکس رہنے کی کوشش کرو.دوسرے یہ زندگی آئندہ زندگی کے لئے سامان جمع کرنے کا ذریعہ ہے اس سے غافل نہ رہو اور دوسری زندگی کے لئے سامان جمع کرتے رہو.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مومن و کافر نیک اور بد کو ایک ہی جگہ رہنا پڑتا ہے اس لئے مومنوں اور نیکوں کو اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو شیطان کے حملہ سے بچانے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے.یہ حکم ایسا ضروری ہے کہ اسے نظر انداز کرنے کی وجہ ہی سے ہمیشہ نیکی کا زمانہ مٹ جایا کرتا ہے.جب بھی مومن اور نیک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شیطانی حملہ سے محفوظ ہو گئے ہیں تنزّل کا دور شروع ہو جاتا ہے اور شیطان غالب آنے لگ جاتا ہے.کاش کوئی قوم ایسی پیدا

Page 503

ہو جو اس حکم کو مدِّنظر رکھے اور شیطان کا سر پوری طرح کچلا جائے.لوگ خود نیک بھی ہو جائیں تو اولاد کی محبت یا ان پر حد سے زیادہ اعتماد کر کے اسے خرابی میں پڑنے کا موقع بہم پہنچا دیتے ہیں اور پھر قوم نیکی کی چوٹی سے نیچے گر جاتی ہے.آیت وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ الخ سے مسلمانوں کے ایک غلط عقیدہ کا قلع قمع اس آیت سے ایک اور زبردست استدلال ہوتا ہے جو مسلمانوں کے ایک غلط عقیدہ کا قلع قمع کرتا ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کے لئے اسی دنیا میں رہنے کا فیصلہ فرمایا ہے اور شیطانی حملہ سے بچنے کے لئے کسی اور جگہ جانے کو ناممکن بتایا ہے لیکن باوجود اس کے بعض مسلمان یہ خیال کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر شیطان کی ذرّیت نے حملہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سے بچانے کے لئے انہیں آسمان پر لے گیا.یہ عقیدہ اس آیت کے صریح خلاف ہے اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ باوجود شیطان کے حملہ کے آدم اور ان کی اولاد کو اسی دنیا میں رہنا ہو گا پھر کس طرح ہو سکتا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ آسمان پر لے جاتا؟ اگر کوئی حقدار تھا کہ اسے آسمان پر لے جایا جاتا تو وہ آدم علیہ السلام تھے جو سب سے پہلے نبی تھے یا پھر سیدِ وُلدِ آدم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر حضرت آدم کی نسبت تو مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں شیطان کے حملہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آسمان سے زمین پر پھینک دیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ جانا پڑا اگر اللہ تعالیٰ نے ان دو کی نسبت اس آیت کا بیان کردہ قانون نہیں بدلا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیونکر بدل دیا اور خود اپنے فیصلہ کو کیوں غلط کر دیا؟ اس سوال کا جواب کہ آدم علیہ السلام کو شجرہ کے ذریعہ سے شیطان نے کس طرح دھوکا دیا آدم علیہ السلام کو اس شجرہ کے ذریعہ سے شیطان نے کس طرح دھوکا دیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے کیونکہ کہا جاتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آدم کو ابلیس سے بھی اور اس درخت سے بھی ہوشیار کر دیا تھا تو پھر وہ شیطان کے دھوکے میں کس طرح آئے کچھ جواب تو اس کا مَیں اوپر دے آیا ہوں کچھ اس جگہ بیان کرتا ہوں.میں بیان کر چکا ہو ںکہ جہاں تک ابلیس سے دھوکا کھانے کا سوال ہے اس دھوکے کی وجہ یہ ہے کہ گو آدم علیہ السلام کو ابلیس سے بچنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ تھا کہ ابلیس اور اُس کے اتباع سے بچو کیونکہ ابلیس تو ایک بدی کی محرّک روح ہے وہ براہ ِراست تو آ کر آدم کو دھوکا دے نہ سکتی تھی اس کے اتباع ہی برُی تحریکوں کا موجب ہو سکتے تھے مگر یہ اتباع چونکہ انسان ہوتے ہیں بسا اوقات ان کا پہچاننا مشکل ہو جاتا ہے.کبھی وہ ظاہر میں مومن بن کر ساتھ آ ملتے ہیں اور اس طرح دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور انسان کے لئے یہ جاننا مشکل ہو

Page 504

جاتا ہے کہ کیا یہ اب بھی ابلیس کے اتباع ہیں یا مومن ہو کر خیر خواہ ہو گئے؟ جس شیطان کا اس جگہ ذکر ہے اس نے بھی اس ترکیب کو استعمال کیا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَ قَاسَمَهُمَاۤ اِنِّيْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ (الاعراف :۲۲) یعنی اس شیطان نے آدم اور اس کے ساتھی کے سامنے قسمیں کھا کر کہا کہ میں یقیناً تمہارا خیر خواہ ہوں گویا مخالفت کا رنگ چھوڑ کر وہ ساتھ آ شامل ہوا او راپنے اخلاص کا انہیں یقین دلایا اس صورت میں آدم علیہ السلام کو دھوکا لگنا بالکل ممکن تھا کیونکہ انہوں نے یہ اجتہاد کیا کہ گو یہ شخص پہلے ابلیس کا ظِلّ تھا اور اس وقت اس سے بچنا ضروری تھا مگر اب تو یہ مخالفت کا راستہ ترک کر کے ہمارے ساتھ آ ملا ہے اور قسمیں کھاتا ہے کہ میں تمہارا مخلص خادم ہوں اب اس سے تعلق رکھنے میں کوئی ہرج نہیں.یہ اجتہاد گو غلط تھا مگر باوجود ابلیس سے بچنے کے حکم کے اس اجتہاد کی وجہ سے دھوکا کھا جانا بالکل ممکن تھا اور یہ دھوکا خلاف عقل نہیں.ایسے ہی لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِ١ۘ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَكٰذِبُوْنَ.اِتَّخَذُوْۤا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ؕ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ.ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ اٰمَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُوْنَ.وَ اِذَا رَاَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ اَجْسَامُهُمْ١ؕ وَ اِنْ يَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ١ؕ كَاَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ١ؕ يَحْسَبُوْنَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ١ؕ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١ٞ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (المنافقون :۲تا۵) یعنی جب منافق تیرے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ تو یقیناً اللہ کا رسول ہے اور اللہ جانتا ہے کہ تو واقع میں اس کا رسول ہے مگر اللہ ان کی گواہی کے مقابل پر یہ گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں.ان لوگوںنے اپنی َقسموں کو اپنے بچائو کے لئے ڈھال بنا رکھا ہے اور اس طرح یہ اللہ کے راستہ سے لوگوں کو روکتے ہیں.ان کے یہ عمل بہت ہی برُے ہیں.یہ اعمال ان سے اس وجہ سے سر زد ہوتے ہیں کہ یہ لوگ پہلے ایمان لائے پھر کافر ہو گئے پس ان کے دلوں پرمہریں کر دی گئیں اور اب یہ کچھ نہیں سمجھتے اور جب تو ان پر نگہ کرے تو ان کے جسم تجھے پسند آتے ہیں اور اگر یہ بات کریں تو ان کی باتوں کو معقول سمجھ کر سنتا ہے.وہ یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے بڑی بڑی لکڑیاں ٹیک لگا کر کھڑی کی ہوں.یعنی مجالس میں بڑی شان سے اور رُعب سے بیٹھتے ہیں.جو عذاب بھی آئے یہ اسے اپنے ہی خلاف سمجھتے ہیں یہ لوگ اصل دشمن ہیں ان سے بچ کر رہ.اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کدھر َلوٹے جا رہے ہیں.ان آیات میں منافقوں کی حالت کا وہی نقشہ کھینچا گیا ہے جو اوپر کی آیت میں شیطان کا کھینچا گیا ہے.یہ بھی قسمیں کھاتے تھے جس طرح شیطان نے قسمیں کھائیں تھیں یہ بھی اپنے اخلاص کا دعویٰ کرتے تھے جس طرح

Page 505

شیطان نے کیا تھا اور ان کی باتیں بھی بظاہر ایسی ہوتی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے دھوکا کھا جاتے کہ بڑے اچھے مشورے دے رہے ہیں اسی طرح شیطان کی بات پر آدم نے یقین کر لیا صرف فرق یہ ہے کہ سیّد وُلدِ آدم چونکہ آخری نبی تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان شیطانوں کے حملہ سے اپنے الہام سے بروقت خبردار کر دیا اور وہ اسلام کو عارضی نقصان بھی نہ پہنچا سکے مگر آدم کا شیطان یا اپنے وقت کا عبداللہ بن ابی ابن سلول عارضی طور پر آدم کو جنت سے نکالنے میں کامیاب ہو گیا.شیطان کا یہ کہنا کہ میں آپ کا مخلص ہوں اسی لئے تھا کہ آدم علیہ السلام کو یقین دلائے کہ ابلیس اور اس کی ذرّیت سے بچنے کا حکم بیشک آپ کو ملا تھا میں تو اب آپ کا مخلص ہوں اس لئے اب میں ابلیس کی ذرّیت سے نہیں رہا بلکہ آپ کی ذرّیت سے ہو گیا ہوں.اس کی ان چکنی چپڑی باتوں سے آدم علیہ السلام کو دھوکا لگ گیا اور انہوں نے سمجھا کہ یہ سچ تو کہتا ہے جب یہ ہمارا مخلص ہو گیا ہے تو اب اس سے بچنے کی کیا ضرورت ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خبردار کر دیا کہ منہ سے یہ منافق کس قدر ہی اخلاص کے دعوے کریں مگر ھُمُ الْعُدُوُّ فَاحْذَرْ ھُمْ اصل دشمن یہی ہیں پس تو ان سے بچ.اس سوال کا جواب کہ حضرت آدم علیہ السلام شیطان کے دھوکے میں کیونکر آئے اب سوال کا یہ دوسرا پہلو حل کرنے کے قابل رہ جاتا ہے کہ شیطان چونکہ ابلیس کے علاوہ اور وجود تھا اس لئے اس نے اپنے مومن اور مخلص ہونے کا دھوکا دے کر حضرت آدم ؑ کو غافل کر دیا مگر وہ بات جو اس نے کی ہو گی وہ تو خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف ہی ہو گی پھر اس بات کے ماننے کے لئے آدم علیہ السلام کس طرح تیار ہو گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح آدمی ایک غلط جُبّہ پہن کر دوسرے کو دھوکا دے دیتا ہے اسی طرح وہ باریک امور میں غلط امور کو غلط رنگ دے کر اچھا بنا کر بھی دکھا دیتا ہے.دیکھو اسی سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ منافقوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وَ اِذَا قِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ١ۙ قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(البقرة :۱۲) یعنی جب ان منافقوں سے کہا جاتا ہے کہ کفار سے میل جول رکھ کر فساد پیدا نہ کرو.تو وہ کہتے ہیں کہ واہ ہم پر فساد کا الزام لگاتے ہو حالانکہ ہم ہی اصلاح کی سچی کوشش کرنے والے ہیں.ہمارا کفار سے ملنا تواس غرض سے ہے کہ ان جوشوں کو دبائیں اور مسلمانوں کی طرف ان کو مائل کریں.اس جواب میں انہوں نے اپنے برُے فعل کی اچھی توجیہ کر دی ہے اور اس طرح مسلمانوں کو بھی رغبت دلائی ہے کہ تم بھی اسی طرح کرو تاکہ فساد جاتا رہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے بھی یہی طریق اختیار کیا تھا چنانچہ فرماتا ہے شیطان نے آدم علیہ السلام

Page 506

کو شجرۂ ممنوعہ کے قریب لے جانے کے لئے کہا کہ قَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ (الاعراف :۲۱) یعنی شیطان نے آدم علیہ السلام سے کہا کہ آپ کو شجرۂ ممنوعہ سے بچنے کی حکمت پر غور کرنا چاہیے صرف حکم کے ظاہری الفاظ کو نہیں دیکھنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ اس شجرہ سے بچ کر آپ فرشتے ہو جائیں اور ہمیشہ کی زندگی پائیں پس جب یہ حکم آپ کو نیک بنانے اور دائمی زندگی دینے کے لئے تھا تو اب اگر اس شجرہ کے قریب جانے سے وہی غرض پوری ہوتی ہو تو اللہ تعالیٰ کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس کے قریب جانے سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس کے قریب جانے کو ہی منشائے الٰہی کو پُورا کرنے والا سمجھنا چاہیے چنانچہ دوسری جگہ اس کی تشریح یُوں آتی ہے فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا يَبْلٰى (طٰہٰ :۱۲۱) یعنی شیطان نے آدم علیہ السلام کو یہ دھوکا دیا کہ اے آدم !کیا تم کو وہ درخت بتائوں جو دائمی زندگی بخشنے والا ہے اور ایسی بادشاہت بخشے گا جو کبھی تباہ نہ ہو گی؟ (یعنے فرشتوں جیسی زندگی جو کبھی تنزل کی طرف نہیں جاتے).سورۂ اعراف کی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے اس امر کو آدم علیہ السلام کے سامنے رکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس درخت سے اس لئے روکا تھا کہ تا اس سے رُک کر آپ فرشتے ہو جائیں اور دائمی زندگی پائیں اورطٰہٰ کی آیت بتاتی ہے کہ اس درخت کے قریب لے جانے کے لئے اس نے کہا کہ اس کے قریب جا کر آپ دائمی زندگی پائیںگے.ان دونوں آیتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا فریب یہی تھا کہ اس نے ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کی بات کی تصدیق کر کے آدم علیہ السلام کے سامنے اپنے ایمان کا ثبوت دیا دوسری طرف اجتہاد کی آڑ لے کر یہ بتایا کہ اب حالات بدل گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کی غرض اور اس کا منشاء اس درخت سے دُور رہ کر نہیں بلکہ اس کے قریب جاکر پُورا ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کے لئے اور اس کے حکم کی رُوح کو مقدم رکھتے ہوئے اب آپ کو اس درخت کے قریب جانا چاہیے.آدم علیہ السلام اس کے اس دھوکے میں آ گئے اور اس کی بات کو مان لیا اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنت دُکھ کا مقام بن گئی.ظاہر ہے کہ اس قسم کا دھوکا بعض باریک مسائل کے متعلق خواص کو بھی لگ سکتا ہے اور آدم علیہ السلام تو پہلے نبی تھے.ان سے پہلے اسی قسم کی مثالیں عبرت کے لئے موجود نہ تھیں بلکہ بالکل ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آئندہ لوگوں کی عبرت کے لئے ان سے اس غلطی کے صدور کو روا رکھا ہو.ہمارے زمانہ میں بھی عام مسلمان باوجود پہلی قوموں میں عبرت کی مثالوں کے موجود ہونے کے اس قسم کے اجتہادوں سے دھوکا کھا رہے ہیں مثلاً تاجروں کو بعض علماء یہ دھوکا دیتے ہیں کہ سوُد جو اسلام نے منع کیا تھا وہ وہ سود نہ

Page 507

تھا جو اب بنکوں کو دینا پڑتا ہے.موجودہ سود سے بچنا تو قوم کو تباہ کرتا ہے اور اس سود کا لینا قوم کو تباہ کرتا تھا اس لئے اب بنکوں کا سود لینا منع نہیں بلکہ قومی زندگی کے لئے ضروری ہے اور کئی مسلمان جو دل سے اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے خواہشمند ہیں اس دھوکے میں آ کر سود لے رہے ہیں.اسی طرح بعض لوگوں نے عورتوں کو دھوکا دیا ہے کہ عرب کا ملک جاہل تھا اور پردہ نہ کرنے کی وجہ سے اس وقت کی عورتیں گمراہ ہو سکتی تھیں لیکن اب تعلیم کا زمانہ ہے اب پردہ چھوڑنے میں حرج نہیں بلکہ مسلمان عورتوں کے باہر آنے میں اسلام کی مضبوطی ہے اور کئی عورتیں جو دل سے اسلام سے محبت رکھتی ہیں اس دھوکے میں آ کر پردہ چھوڑ رہی ہیں.اس سوال کا جواب کہ وہ امر کیا تھا جس کے بارہ میں شیطان نے دھوکہ دیا؟ باقی رہا یہ سوال کہ وہ کیا امر تھا جس کے بارہ میں شیطان نے دھوکا دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مصلحت سے اس امر کو پوشیدہ رکھا ہے پس اجمالاً اس امر پر یقین رکھنا کافی ہے کہ ممنوع باتوں میں سے کسی ایک کو جس کے بارہ میں دھوکا لگ سکتا تھا شیطان نے پیش کیا اور اس کی نسبت یہ دھوکا دیا کہ حالات کے بدل جانے کی وجہ سے اب اس کا ترک دین کے لئے مضر ہے جس طرح کہ پہلے اس کا اختیار کرنا دین کے لئے مضر تھا.ممکن ہے کہ اس وقت کے دشمنوں سے تعلقات پیدا کرنے کے متعلق ہی تحریک کی ہو جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے منافق کہا کرتے تھے.ہماری جماعت کو بھی اس بارہ میں ایک حصہ سے اس قسم کا تلخ تجربہ ہوا ہے اور حال کے زمانہ کی یہ دو مثالیں ہمیں اس طرف رہبری کرتی ہیں کہ آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی شیطان نے کوئی ایسی ہی چال چلی تھی.شائد کسی کے دل میں یہ ُشبہ پیدا ہو کہ جب اس امر کو جس کے بارہ میں شیطان نے آدم علیہ السلام کو دھوکا دیا تھا ظاہر نہیں کیا گیا تو (۱) اس سے ہم فائدہ کیا اُٹھا سکتے ہیں (۲) دشمنانِ قرآن پر یہ مبہم بیان حجت کیونکر ہو سکتا ہے؟ پہلے شبہ کا جواب یہ ہے کہ اس واقعہ سے جس امر سے ہوشیار کرنا ہمیں مقصود ہے وہ صرف یہ ہے کہ کبھی دشمن نیکی کے جُبّہ میں آ کر اور بُری بات کو نیک توجیہ کے پردہ میںچھپا کر گمراہ کرناچاہتا ہے مسلمانوں کو اس سے ہوشیار رہنا چاہیے.یہ غرض اس مضمون سے روزِ روشن کی طرح واضح ہے باقی رہا یہ کہ آدم علیہ السلام کو کسی خاص امر میں شیطان نے دھوکا دیا تھا اس کا بیان کرنا ضروری نہیں کیونکہ ہر زمانہ میں شیطان نیا رنگ اختیار کرتا ہے اگر اس خاص امر کو بیان کر بھی دیا جاتا تو مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہ ہو سکتا تھا.جس قدر واقع بیان کیا گیا ہے وہ مومنوں کو منافقوںکی چالبازیوں سے ہوشیار کرنے کے لئے کافی واضح اور بیّن ہے.

Page 508

دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ منکرین قرآن کے فائدہ اُٹھانے کا یہاں سوال ہی نہیں قرآن کریم کی تعلیم دو حصوں پر مشتمل ہے (۱) وہ حصہ جو مومن و کافر سب کے لئے مشترک ہے (۲) وہ حصہ جو صرف مومنوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہے.جن حصص میں عقلی دلائل اور معجزاتِ عامہ اور مختلف مذاہب کی کتب کے نقلی دلائل بیان ہوئے ہیں وہ تو مومن و کافر یا مومنوں اور خاص خاص مذاہب کے کافروں کے لئے حجت ہیں اور جن حصوں میں خالص روحانی امور بیان ہوئے ہیں وہ صرف مومنوں کے لئے مفید ہیں اور کافروں کے لئے اسی وقت مفید ہو سکتے ہیں جب پہلے ان کے عقائد کی اصلاح ہو جائے اور یہ حصہ صرف مومنوں سے تعلق رکھتا ہے اس لئے کفار کو اگر اس کی حکمت سمجھ میں نہ آئے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں.جس طرح ایک دہریہ کی وجہ سے جو خدا تعالیٰ کو نہیں مانتا نبوت کے دلائل بیان کرنے سے رُکا نہیں جا سکتا اسی طرح جو لوگ کسی خاص نبی کو نہیں مانتے ان کی وجہ سے اُس نبی کے اتباع کے فائدہ کی باتوں کے بیان کو چھوڑا نہیں جا سکتا.لفظ اِھْبِطُوْاسے بعض لوگوں کا غلط استدلال اور اس کا صحیح مطلب اِھْبِطُوْا کے لفظ سے دھوکا کھا کر بعض لوگوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدم علیہ السلام آسمان پر تھے پھر انہیں زمین پر پھینکا گیا مگر جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں بتایا گیا ہے اس لفظ کے معنے چلے جانے کے بھی ہوتے ہیں اور اس امر کو دیکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو زمین میں خلیفہ بنایا تھا اس جگہ اس کے یہی معنے ہیں.قرآن کریم میں ان معنوں میں یہ لفظ دوسری جگہ پر بھی استعمال ہوا ہے مثلاً بنی اسرائیل کی نسبت فرماتا ہے.اِهْبِطُوْا مِصْرًا (البقرة:۶۲) شہر کی طرف چلے جائو یا شہر میں داخل ہو جائو.فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ١ؕ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ اس کے بعد آدم نےاپنے رب سے کچھ(دعائیہ) کلمات سیکھے(اور ان کے مطابق دعا کی ) تو وہ(یعنی اللہ )اس کی الرَّحِيْمُ۰۰۳۸ طرف (پھر فضل کے ساتھ )متوجہ ہوا.یقیناً وہی (بندوں کی مصیبت کے وقت) بہت ہی توجہ کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.حَل لُغَات.تَلَقّٰی.تَلَقّٰی لَقِیَ سے باب تفعّل کا واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور تَلَقَّاہُ کے معنے ہیں اِسْتَقْبَلَہٗ اس کو آگے سے جا کر ملا.چنانچہ کہتے ہیں فُـلَانٌ یَتَلَقّٰی فُـلَانًا اَیْ یَسْتَقْبِلُہٗ فلاں شخص فلاں کو آگے

Page 509

سے جا کر ملتا ہے اور تَلَقَّی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ کے معنے ہیں اَخَذَ ھَا عَنْہُ کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے کلمات لئے وَقِیْلَ تَعَلَّمَہَا بعض نے اس کا پورا مفہوم یُوں ادا کیا ہے کہ انہوں نے سیکھے.(لسان) اقرب میں لکھا ہے کہ تَلَقَّی الشَّیْءَ کے معنے ہیں لَقِیَہٗ کسی کو آگے جا کر ملا (کسی چیز کو آگے جا کر لیا) اورجب تَلَقَّی الشَّیْئَ مِنْہُ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے تَلَقَّنَہٗ کسی کے منہ سے کوئی بات بالمشافہ سن کر اخذ کی اور اس کو ضبط کر لیا (اقرب) پس فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کے معنے ہوں گے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے کچھ دعائیہ کلمات بذریعہ الہام سیکھے.کَلِمٰتٌ.کَلِمَۃٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیں اَللَّفْظَۃُ منہ سے بولا ہوا مفرد لفظ وَکُلُّ مَایَنْطِقُ بِہِ الْاِنْسَانُ مُفْرَدًا کَانَ اَوْ مُرَکَّبًا نیز ہر اس بات پر بھی جو انسان بولے خواہ وہ مفرد ہو یا مرکب کَلِمَۃٌ کا لفظ بولا جاتا ہے.کَلِمَۃٌ کے ایک معنے اَلْخُطْبَۃُ وَالقَصِیْدَۃُ کے بھی ہیں.یعنی خطبہ اور قصیدہ.(اقرب) تَابَ.تَابَ اِلَیْہِ وَعَلَیْہِ کے معنے ہیں رَجَعَ عَلَیْہِ بِفَضْلِہٖ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوا.(اقرب) تَوَّابٌ.تَوَّابٌ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنے ہیں فضل کے ساتھ بہت متوجہ ہونے والا.اَلرَّحِیْمُ.اس کے لئے دیکھو حَلّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۳.تفسیر.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت آدم کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی غلطی سے آگاہ کیا تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا١ٚ وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ (الاعراف:۲۴) یعنی اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.اور اگرتو ہماری غلطی کو معاف نہ فرمائے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا پانے والوں میں سے ہو جائیں گے.پس معلوم ہوتا ہے کہ یہی دعا انہوں نے سیکھی تھی.فَتَابَ عَلَیْہِ میں اس طرف اشارہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے رحم کی جاذب زیادہ تر الہامی دعائیں ہوتی ہیں اس آیت میں ایک اور لطیف بات بتائی گئی ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کی جاذب زیادہ تر وہی دعائیں ہوتی ہیں جو وہ خود سکھلاتا ہے.بہت سے انسان اپنی طرف سے دعائیں بناتے ہیں لیکن وہ ایسی ناقص اور َلغو ہوتی ہیں کہ بعض اوقات وہ دعائوں کی بجائے بد دعائوں کا مفہوم ادا کرتی ہیں اس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنے الفاظ میں دعا مانگے ہی نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسا مضبوط تعلق پیدا

Page 510

کرے کہ جب وہ کسی مصیبت یا مشکل میں گرفتار ہو تو آدم اور دوسرے بزرگوں کی طرح اللہ تعالیٰ خود ہی اسے وہ دعا سکھلا دے جس کے مانگنے سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر سکے.قُلْنَا اهْبِطُوْا مِنْهَا جَمِيْعًا١ۚ فَاِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ مِّنِّيْ هُدًى فَمَنْ ہم نے کہا (جاؤ) اس میں سے سب کے سب نکل جاؤ (اور یاد رکھو کہ ) پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۰۰۳۹ ہدایت آئے تو جو لوگ میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ تو کوئی خوف (ہوگا)اور نہ وہ غمگین ہوں گے.حَلّ لُغَات.اِمَّا.اِمَّا اِنْ اور مَاسے مرکب ہے (مغنی) اِنْ حرف شرط ہے.اور مَا تاکید کے لئے زائد لایا گیا ہے.ھُدًی.ھُدًی کے لئے دیکھو حَلّ لُغات سورۃ الفاتحۃ آیت۶ اور حل لغات سورۃ البقرۃ آیت۳.خَوْفٌ.خَوْفٌ کے معنے ہیں اِنْفِعَالٌ فِی النَّفْسِ یَحْدُثُ لِتَوَقُّعِ مَایَرِدُ مِنَ الْمَکْرُوْہِ اَوْیَفُوْتُ مِنَ الْمَحْبُوْبِکسی آئندہ وقت میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کے خیال سے جو طبیعت پر گھبراہٹ طاری ہوتی ہے اسے خوف کے نام سے موسوم کرتے ہیں.(اقرب) یَحْزَنُوْنَ.یَحْزَنُوْنَ حَزِنَ (یَحْزَنُ) حَزَنًا سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور حَزِنَ لَہٗ وَ عَلَیْہِ کے معنے ہیں ضِدُّ سَرَّ غمگین ہوا (اقرب) اَلْحُزْنُ کے معنے ہیں الْغَمُّ غم و اندوہ خِلَافُ السُرُوْرِ خوشی کے متضاد معنے دیتا ہے یعنی غمگینی.نیز لکھا ہے کہ اَلْحُزْنُ.اَلْغَمُّ الْحَاصِلُ لِوَ قُوْعِ مَکْرُوْہٍ اَوْ فُوَاتِ مَحْبُوْبٍ فِی الْمَاضِیْ زمانہ ماضی میں کسی ناپسندیدہ امر کے وقوع پذیر ہونے یا کسی پسندیدہ چیز کے ہاتھ سے چلے جانے کی وجہ سے جو طبیعت میں افسوس پیدا ہوتا ہے اُسے حُزن کے نام سے تعبیر کرتے ہیں.(تاج) مفردات راغب میں ہے.اَلْحُزْنُ.خُشُوْنَۃٌ فِی النَّفْسِ لِمَا یَحْصُلُ فِیْہِ مِنَ الْغَمِّ دل کی بیقراری جو غم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے.وَیُضَادُّہُ الْفَرَحُ اور اس کے بالمقابل فَرَح کا لفظ بولا جاتا ہے (مفردات) خوف اور حُزن میں یہ فرق ہے کہ خوف آیندہ زمانے کے متعلق ہوتا ہے اور حُزن کسی گزشتہ واقعہ کی بنا پر ہوتا ہے.

Page 511

تفسیر.اس آیت میں اِھْبِطُوْا جمع کا لفظ ہے جس سے ظاہر ہے کہ اس جنت میں صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی نہ تھے بلکہ آدم کے اتباع بھی تھے.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آدم کی اولاد میں ہادی پیدا ہوتے رہیں گے اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے کہ آدم کی اولاد میں ہمیشہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی طرف بلاتے رہیں گے اور ایسے لوگ جو ہدایت کو مان لیںگے وہ اسی دنیا میں جنت میں آ جائیں گے یعنی ان کے دلوںمیں ایسی ایمانی قوت پیدا ہو جائے گی کہ ہر حالت میں ان کے دل مطمئن رہیں گے اور خوف یعنی آئندہ نقصانات کا ڈر اورحُزن یعنی پچھلے نقصانات پر افسوس ان کو غمگین نہ کر سکے گا بلکہ ان کا دل جنت کا قائم مقام ہو جائے گا اور ماَبعدَالموت الٰہی انعامات کے وارث ہوں گے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آدم علیہ السلام کے بعد وحی کا سلسلہ ختم نہیں ہو گیا بلکہ اسی وقت سے اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ آئندہ بھی وحی الٰہی آتی رہے گی اور اس کے ماننے والوں پر اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوتے رہیںگے.وَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَاۤ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ۚ اور جو (لوگ) کفر کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے وہ دوزخ (میںپڑنے )والے ہیں هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَؒ۰۰۴۰ اور وہ اس میں بسیں گے.حَلّ لُغَات.کَذَّبُوْا.کَذَّ بَ سے جمع کا صیغہ ہے.اور کَذَّ بَ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ کَاذِبًا وَنَسَبَہٗ اِلَی الْکِذْ بِ اُسے جھٹلایا.اور اس کی نسبت جھوٹ کی طرف کی.وَقِیْلَ قَالَ لَہٗ کَذَبْتَ اور بعض نے کہا ہے کہ کَذَّبَ کے معنے ہیں کسی کو یہ کہا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے اور جب کَذَّبَ بِا لْاَ مْرِتَکْذِیْبًا وَکِذَّابًا کا فقرہ بولیں تو معنے یہ ہوںگے اَنْکَرَہٗ وحَجَدَہٗ کہ کسی معاملہ کا انکار کیا.(اقرب) پس کَذَّبُوْا کے معنے ہوں گے انہوں نے جھٹلایا.اٰیٰتٌ.اٰیَۃٌ کی جمع ہے اور اٰیَۃٌ کے معنے علامت، نشان اور دلیل کے ہوتے ہیں نیز قرآن کریم کے ہر ایسے ٹکڑے کو جسے کسی لفظی نشان کے ساتھ دوسرے سےجدا کر دیا گیا ہو اٰیَۃٌ کہتے ہیں.(تاج) خٰلِدُوْنَ.خٰلِدُوْنَ کی تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۲۶.

Page 512

تفسیر.یعنی جو لوگ ہدایت کو چھوڑ کر ان نشانوں کا انکار کریںگے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی شناخت کے لئے اس وقت پیدا کئے ہوں گے وہ ایک آگ میں پڑ جائیں گے.اور دلی اطمینان اور قلبی راحت ان کو حاصل نہ ہو گی خواہ بظاہر ہزاروں نعمتوں میں گھرے ہوئے ہوں اور مابعدالموت سزائوں کے وارث ہوں گے.وَھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَکی تشریح وَھُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْنَ.خلود کے معنے ہیں ایک لمبا عرصہ رہنا.دیکھو کلّیات ابی البقاء وَفِی الْاَصْلِ اَلثَّبَاتُ الْمَدِیْدُ دَامَ اَمْ لَمْ یَدُمْ یعنی خلود کے اصل معنے ایک لمبا عرصہ تک رہنے کے ہیں خواہ ہمیشہ رہیں یا نہ رہیں.یہ معنے نہیں کہ وہ ہمیشہ رہیں گے.اسلام دائمی عذاب کا قائل نہیں.بلکہ دوزخ کو ایک شفا خانہ کی طرح قرار دیتا ہے جس میں لوگ صرف اصلاح کے لئے داخل کئے جائیںگے.اسلام کا خدا غیظ اور کینہ کے طور پر انتقام نہیں لیتا بلکہ وہ سزا کی یہ وجہ بیان فرماتا ہے کہ انسان کی اصلاح ہو جائے.جب یہ بات حاصل ہو جاتی ہے تو عذاب ٹل جاتا ہے اسی لئے حدیث میں آیا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس میں کوئی بھی دوزخی نہ رہے گا اور نسیم اس کے دروازے ہلائےگی.(تفسیر مَعَالِمُ التَّنزِیل سورۃ ھود زیر آیت فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا (ھود :۱۰۷).واقعہ آدم میں ہر ایک مسلمان کے لئے نصیحت گو یہ واقعہ کسی پچھلے زمانہ میں انسانی نسل کے کسی خاص جدّ کے ساتھ بھی گزرا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس کے بیان فرمانے میں ایک ایسا رنگ اختیار کیا ہے جس سے ہر ایک مسلمان نصیحت حاصل کر سکتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ بہت سی باتوں کا ذکر بطور قصہ کے نہیں کیا بلکہ ایسے الفاظ میں ان کو ظاہر کیا ہے کہ جنہیں ہر انسان اپنے پر چسپاں کر سکے مثلاً یہ کہ اسماء کی نسبت نہیںبتایا کہ وہ کیا تھے؟ نہ شجرہ کی نسبت بیان کیا کہ وہ کونسا تھا ؟پھر جہاں آدم کو بہکانے والے کا ذکر ہے وہاں ابلیس کی جگہ شیطان کا لفظ رکھ کر بتا دیا ہے کہ ابلیس کے اضلال چاروں طرف موجود ہیں تایہ واقعہ لوگوں کے لئے نصیحت اور فائدہ کا موجب ہو اور ایسا نہ ہو کہ وہ ایک قصے کے طور پر اسے پڑھیں.ہر ایک انسان جو پیدا ہوتا ہے وہ آدم ہے.ملائکہ کو جو دنیا کے رُوحانی نظم و نسق کو قائم رکھنے کے لئے ایک واسطہ کے طور پر پیدا کئے گئے ہیں انہیں اس کی مدد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے.ملائکہ جن اشیاء کے نگران ہیں وہ سب انسان کی مدد کرتی اور اس کی زندگی کو بہ آرام بنانے میں کار آمد ہوتی ہیں.لیکن بعض شریر لوگ دوسرے بھائیوں کا سکھ نہیں دیکھ سکتے.وہ شیطان بن کر ان کو اس رُوحانی جنت سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہر ایک انسان کو اس کی پیدائش سے ملا ہے اور بہت کچھ دُکھ دیتے ہیں.لیکن وہ جو آدم کی طرح اپنے رب کے حضور جھکتا ہے اور اس سے اپنی مصیبت کے دُور کرنے کی التجا کرتا ہے آخر کامیاب ہو جاتا ہے اور ہر خوف و حزن کی

Page 513

حد سے باہر نکل جاتا ہے لیکن جو لوگ آدم کے نقشِ قدم پر نہیں چلتے بلکہ ابتلائوں میں اُن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور شیطان سے صلح کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو ردّ کر دیتے ہیں وہ دُکھ میں پڑ جاتے اور ہلاک ہو جاتے ہیں.ہر ایک سورج جو چڑھتا ہے اس واقعہ کو بار بار دُہرا رہا ہے.لیکن نادان انسان جو خود ہزاروں خطرناک بدیوں میں مبتلا ہوتا ہے آدم پر اظہار افسوس کرتا ہے کہ اس نے شیطان کا کہنا کیوں مانا؟ حالانکہ آدم بھول کر ایک غلطی کا مرتکب ہوا تھا اور یہ معترض اپنے دل میں شیطان کو لئے بیٹھا ہوتا ہے اور آدم پر اعتراض کرتے ہوئے نہیں شرماتا.بعض مفسرین نے اصل حقیقت سے قطع نظر کر کے اس جگہ عجیب عجیب قصے ّبیان کئے ہیں جن کی صحت کا ثبوت نہ قرآن مجید سے ملتا ہے نہ احادیث صحیحہ سے پس ان کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہیے اور نہ غیرمذاہب کی طرف سے ان کی بناء پر کوئی اعتراض قرآن مجید پر آ سکتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں آنحضرت صلعم کے دعویٰ کی طرف لطیف طور پر توجہ کا مبذول کرانا مذکورہ بالا آیات میں حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ سے علاوہ انسان کو اس کے ذاتی حالات کی طرف توجہ دلانے کے جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کی طرف بھی لطیف طور پر توجہ دلائی گئی ہے.اور بتایا گیا ہے کہ (۱) الہامِ الٰہی میں انسانی برتری کا ذریعہ ہے.بشر کو دوسرے حیوانات پر فضیلت الہامِ الٰہی کے ذریعہ سے ہی ملی پس جو اقوام الہام الٰہی سے محروم ہیں یا اس کی قدر نہیں کرتیں وہ حیوانیت کو انسانیت پر ترجیح دینے کی مجرم ہیں.اور تمدنی ترقی کے راستہ میں روک ثابت ہو رہی ہیں اور ہوںگی.وہی لوگ تمد ّنی ترقی کا موجب ہوتے ہیں جو آسمانی آواز پر لبیک کہتے ہیں.اس زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہنے والے ایک جدید اور مفید تمدّن کی بنیاد رکھیں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کے مطابق اس جدید رُوحانی سلسلہ کے متبع ایک جدید اور عظیم الشان تمدن کے بانی ہوئے.موجودہ مغربی تمدّن گو بہت شاندار نظر آتا ہے مگر وہ بہت حد تک اسلامی تمدّن کا خوشہ چین ہے اور جس حد تک وہ اس کے خلاف چلا ہے امن کا موجب نہیں ہوا بلکہ فساد اور خونریزی کا موجب ہوا ہے (۲) جب بھی کوئی نئی اصلاح دنیا کے لوگوں کے سامنے آتی ہے دنیا اس کی مخالفت کرتی ہے.وہ ایسی عظیم الشان ہوتی ہے کہ شروع شروع میں نیکوکار بھی اس کی گہرائیوں اور تاثیروں کو نہیں سمجھ سکتے.اسلام کے ظہور کے وقت میں ایسا ہی ہونا لازمی ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا (۳) نیک لوگ بعد میں اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کی عظمت کے قائل ہو جاتے اور اس کی تائید میں لگ جاتے ہیں لیکن شریر مخالف مقابلہ شروع کر دیتے ہیں.ایسا ہی اسلام سے ہوا اور ہو گا چنانچہ تمام نیک فطرت لوگ ایک ایک کر کے اسلام میں داخل ہوئے اور

Page 514

اس کی تائید میں لگ گئے لیکن ابلیس مزاج نافرمانی پر اُتر آئے (۴) جب ظاہری مخالفت ناکام رہتی ہے تو الٰہی سلسلوں کے دشمن ان میں شامل ہو کر ان کی مخالفت کرتے ہیں جیسا کہ آدم کے وقت میں شیطان نے کیا اور ایسا ہی معاملہ اسلام سے وہ کریںگے اور کر رہے ہیں لیکن جس طرح آدم کا شیطان ناکام رہا اور حقیقی نقصان آدم علیہ السلام کو نہ پہنچا سکا.یہ منافق بھی اسلام کو کوئی حقیقی نقصان نہ پہنچا سکیں گے اور باوجود ان کی مخالفت کے اسلام ترقی کرے گا اور اس کے دشمن ایک دائمی عذاب میں مبتلا ہوں گے (۵) الٰہی ہدایت کا سلسلہ محدود نہیں.ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق اللہ تعالیٰ ہدایت بھجواتا رہے گا اگر ہدایت کا سلسلہ محدود ہوتا تو پھر اسے پہلے نبی کے ساتھ ہی بند ہو جانا چاہیے تھا جیسا کہ مثلاً ہندوئوں کا خیال ہے لیکن وہ آدم اوّل کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ آدم اوّل کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے آئندہ ہدایتوں کے آنے کی خبر دی.پس آئندہ کسی وقت میں اس کا بند ہو جانا خلافِ عقل و خلافِ وحی الٰہی ہے.(۶) جو لوگ آسمانی ہدایت پر ایمان لاتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ان کی سابق خطائوں کے بداثرات سے بچا لیتا ہے جیسا کہ آدم علیہ السلام سے ہوا اور آئندہ کا ہر قدم ان کا ایسا مضبوط پڑتا ہے کہ مستقبل کے خطرات کم ہوتے ہوتے بالکل مٹ جاتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر ایمان رکھتے ہوئے مومن دلیر بہادر اور جری ہوتا ہے وہ قربانیوں کے وقت عواقب اور انجام سے نہیں ڈرتا کیونکہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وحی اس کے لئے ایسا عُرْوَئہ وُثْقٰی ہے کہ اسے پکڑنے کے بعد وہ ہر دُکھ سے محفوظ ہو گیا.اگر وہ جیتا رہا تو دنیا کا رہنما ہو گا اگر مارا گیا تو خدا تعالیٰ کی محبت بھری گود میں.پس اسے کس امرکا خوف ہو سکتا ہے؟ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِيَ الَّتِيْۤ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَ اے بنی اسرائیل! میرے اس احسان کو یاد کرو جو میں تم پر کر چکا ہوں اور (تم نے) میرے (ساتھ جو) عہد(کیا تھااس) اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِيَّايَ کو پورا کرو تب (میں نے) تمہارے(ساتھ جو) عہد( کیا تھا اس )کو میں پورا کروں گا اور مجھ (ہی )سے ڈروپھر فَارْهَبُوْنِ۰۰۴۱ (میں کہتا ہوں کہ) مجھ (ہی) سے ڈرو.حَلّ لُغَات.بَنِیْ اِسْرَآ ئِیْل.اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جو بائبل کے بیان کے

Page 515

مطابق ان کو ان کی بہادری کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ملا.تورات میں آتا ہے ’’کہ تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کیونکہ تو نے خدا اور آدمیوں کے ساتھ زور آزمائی کی اور غالب ہوا.‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) عبرانی کی ُلغت ANALYTICAL HEBREW AND CHALDEC میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے لقب کے علاوہ ان کی نسل پر (بھی) یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی کبھی بنی اسرائیل کو خالی اسرائیل بھی کہہ دیتے ہیں.عربی اسرائیل کا عبرانی تلفظ یَسْرَائِیْل ہے اور یہ مرکب ہے یَسر اور اِیل سے.یَسر کے معنے ہیں جنگجو بہادر سپاہی.اور اِیل کے معنے ہیں خدا.پس یَسْرَائِیْل کے معنے ہوئے خدا کا بہادر سپاہی WARRIOR OR SOLDIER OF GOD عربی زبان کے لحاظ سے یہ لفظ اِسْر اور اِیْل سے مرکب ہے گو یہ ہو سکتا ہے کہ یہ کلیۃً عبرانی لفظ ہو اور عربی میں مستعار طور پر استعمال ہوتا ہو لیکن عربی زبان اور عبرانی زبان در حقیقت ایک ہی ہیں اور ہماری تحقیق میں عبرانی زبان عربی کی بگڑی ہوئی صورت ہے.یورپین مصنّفوں میں سے بھی بعض اس خیال کے ہیں گو اکثر مذہبی تعصب کی وجہ سے ان دونوں زبانوں کو ایک اور زبان کی شاخ ہی قرار دیتے ہیں بلکہ بعض تو عربی کو عبرانی کی شاخ تک قرار دے دیتے ہیں لیکن یہ موقع اس بحث کا نہیں اس موقع کے مناسب حال اس قدر کہنا کافی ہے کہ عربی اور عبرانی کا اشتراک ایک مسلّمہ حقیقت ہے اسے مدِّنظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اصل میں عربی ہے اور عبرانی زبان میں اس کی شکل بدل گئی ہے اور ہمزہ نے یاء کی شکل اختیار کر لی ہے.عربی زبان میں اَسَرَالرَّجُلُ کے معنے ہیں قَبَضَ عَلَیْہِ وَ اَخَذَہٗ.(اقرب) یعنی فلاں شخص اپنے مدمقابل پر غالب آگیا اور اسے اپنی گرفت میں لے لیا.ان معنوں کے اعتبار سے اِسْـرکے معنے ہوں گے وہ شخص جس کے اندر بہادری اور قوت ہو اور وہ اپنے مدِّمقابل پر غلبہ پا کر اسے اپنی گرفت میں لے لے.اگر عبرانی کے تلفظ اور رسم الخط کو دیکھا جائے تو یَسْر کے معنے ہیں اَللِّیْنُ وَالْاِ نْقِیَادُ (لسان) کسی کی بات کو آسانی سے قبول کر لینا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا.لفظ اِیْل عربی زبان میں خدا تعالیٰ کے معنوں میں نہیں آتا.ہاں اگر غور کیا جائے تو اس کے حقیقی معنے اللہ تعالیٰ پر ہی صادق آتے ہیں کیونکہ یہ آلَ سے بنا ہے اور آلَ کا اسم فاعل آئِلٌ بنتا ہے اور اِیْل اس سے صفت ِ مُشَبّہ کا صیغہ ہے آلَ کے معنے ہیں سَاسَ یعنی اس نے نگہداشت کی.چنانچہ کہتے ہیں آ لَ الرَّجُلُ اَھْلَہٗ اَیْ سَاسَہُمْ کہ فلاں شخص نے اپنے کنبہ کی پوری نگہداشت کی (اقرب) نیز کہتے ہیں آ لَ الْمَلِکُ الرَّعِیَّۃَ کہ بادشاہ نے اپنی رعیّت کی نگرانی رکھی اور رعیّت کے ساتھ تعلق رکھنے والے امور کی تدبیر کی.نیز کہتے ہیں آ لَ عَلَی الْقَوْمِ.وَلِیَ.کہ وہ قوم پر بادشاہ ہو گیا.پس آئِلٌ کے معنے ہوئے مدبر.حاکم.بادشاہ.اور اِیْلٌ کے معنے ہوں گے ایسی ہستی جس کی

Page 516

ذات میں تدبیر امور اور حکومت اور بادشاہت کی صفات پائیداری کے ساتھ پائی جاتی ہیں اور یہ صفات سوائے خدا تعالیٰ کے کسی اور ذات میں نہیں پائی جاتیں.کیونکہ وہی ایک ذات ہے جو ازلی اور ابدی ہے.آ لَ کے ایک معنے لوٹنے کے ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے اِیْل کے معنے ہوں گے کہ وہ ذات جس کے اندر لوٹنے کی صفت پائیداری اور ہمیشگی کے ساتھ پائی جاتی ہے اور یہی معنے بلفظ دیگر تَوَّابٌ کے ہیں.یعنی بار بار رحمت کے ساتھ اپنے بندوں پر لوٹنے والا.الغرض پہلے مادہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اسرائیل کے معنے مندرجہ ذیل ہوں گے (۱) ازلی ابدی بادشاہ (یعنی خدا تعالیٰ) کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۲) ازلی ابدی مُدَبّرہستی کا سخت گرفت رکھنے والا بندہ (۳) بار بار لوٹنے والے کا (یعنی تَوَّاب خدا کا) بہادر بندہ.دوسرے مادہ یعنی یَسْر کے لحاظ سے اسرائیل کے معنے ہوںگے اللہ تعالیٰ کا پورا مطیع و فرمانبردار اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لینے والا.عبرانی زبان چونکہ عربی سے نکلی ہے اس لئے اگرچہ اسرائیل کا تلفظ عبرانی میں بدل گیا اور اِسْرکو یَسر اور اِیْل کو ایل (نرم زبان سے یعنی زبر اور زیر کے درمیانی تلفظ سے) کر دیا گیا اور عربی زبان جو کہ اپنے اصل معنے کا انکشاف کرتی ہے عبرانی نے اسے محدود کر دیا.کیونکہ عبرانی میں اسرائیل کے معنے صرف خدا کے جنگجو بہادر سپاہی کے ہیں لیکن عربی زبان میں جہاں یہ معنے بھی بالوضاحت پائے جاتے ہیں وہاں ایک اور معنے کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ یہ لفظ یَسْـرسے بھی صفت مشبہ کا صیغہ بن سکتا ہے اور یہ لفظ اس خاص حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو انبیاء کی فطرت میں پائی جاتی ہے یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کے لئے سرِ تسلیم َخم رکھنا.گویا اسرائیل اس شخص کو کہیں گے جو اللہ تعالیٰ کا مطیع و فرمانبردار ہو اور اس کے احکام کے ماننے کے لئے ہر وقت اپنے تئیں تیار رکھے.ان معنوں کی تصدیق تاج العروس والے نے بھی کی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ مَعْنَاہُ صَفْوَۃُ اللہِ وَقِیْلَ عَبْدُاللہِ کہ اسرائیل کے معنے ہیں اللہ تعالیٰ کا برگزیدہ کیا ہوا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کے احکام کا فرمانبردار.بعض لوگوں نے اس کے معنے سَرِیُّ اللہِ کے کئے ہیں (تاج ) سَرِیٌّ کے معنے عربی زبان میں صاحب شرف و مروت اورفَیّاض کے یا معزز شریف سردار کے ہیں.لیکن HEBREW AND ENGLISH LAXICON OF THE OLD TESTAMENT میں اس بات کی تصریح کر دی گئی ہے کہ یَسْرٌ کے حقیقی معنے سَرِیٌّ کے نہیں ہاں اس سے ملتا جلتا مفہوم ہے (اصل بات یہ ہے کہ یَسْرٌ چونکہ جنگجو بہادر کو کہتے ہیں اور ایسا شخص ہی سردارِ لشکر ہو سکتا ہے جو بہادر اور جنگجو ہو اور عرب لوگ

Page 517

بھی ایسے شخص کو سردار مانتے تھے جو صاحبِ شرف اور مروت اور فیاض ہو اور ایسا شخص ہی جنگوں میں پیشرو ہو سکتا تھا تو گویا ان معنوں کے لحاظ سے یَسْرٌ کے معنے سَرِیٌّ کے مشابہ ہو گئے).اُذْکُرُوْا.اُذْکُرُوْا امر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور ذَکَرَ الشَّیْ ءَ (یَذْکُرُ ذِکْرًا وَ تَذْ کَارًا) کے معنے ہیں حَفِظَہٗ فِیْ ذِھْنِہٖکسی چیز کو اپنے ذہن میں یاد کر لیا اور جب ذَکَرَ الشَّیْ ءَ بِلِسَانِہٖ کہیں تو معنے ہوں گے قَالَ فِیْہِ شَیْئًا کہ اس نے کسی بات کے متعلق اپنی زبان سے کچھ کہا.اور ذَکَرَ لِفُلَانٍ حَدِیْثًا کے معنے ہیں قَالَہٗ لَہٗ کوئی بات بیان کی جب ذَکَرَ مَا کَانَ قَدْ نَسِیَ کا فقرہ بولیں تو اس کے معنے ہوںگے فَطَنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئی بات کی یاد تازہ ہو گئی.(اقرب) امام راغب لکھتے ہیں اَلذِّکْرُ تَارَۃً یُقَالُ وَیُرَادُ بِہٖ ھَیْئَۃٌ لِلنَّفْسِ بِھَا یُمْکِنُ لِلْاِنْسَانِ اَنْ یَّحْفَظَ مَا یَقْتَنِیْہِ مِنَ الْمَعْرِفَۃِ کہ ذکر کا لفظ بول کر کبھی نفس کی وہ ہیئت مراد لی جاتی ہے جس کے ذریعہ سے انسان کے لئے ممکن ہوتا ہے کہ وہ معلوم شدہ باتوں کو یاد رکھ سکے وَھُوَ کَا لْحِفْظِ اِلَّا اَنَّ الْحِفْظَ یُقَالُ اِعْتِبَارًا بِـاِحْرَازِہٖ وَالذِّکْرُ یُقَالُ اِعْتَبَارًا بِـاِسْتِحْضَارِہٖ.اور ان مذکورہ بالا معنوں میں ذکر کا لفظ حفظ کے لفظ کے ہم معنی ہے.ہاں حفظ اور ذکر ہر دو کے مفہوم میں تھوڑا سا امتیاز ہے.حفظ کسی شخص کے یاد کرنے پر اس وقت بولیں گے جب وہ ذہن میں بعض باتوں کو جمع کرتا چلا جائے اور ذکر اس کے اس طور پر یاد رکھنے کو کہیں گے کہ اس کو وہ باتیں ُمستحضر رہیں اور جب چاہے انہیں استعمال کر لے وَتَارَۃً یُقَالُ لِحَضُوْرِ الشَّیْ ءِ الْقَلْبَ اَوِالْقَوْلَ اور کبھی دل میں کسی امر کا خیال لانے یا زبان پر کسی بات کے لانے کا نام ذکر رکھا جاتا ہے وَلِذٰ لِکَ قِیْلَ اَلذِّکْرُ ذِکْرَانِ ذِکْرٌ بِالْقَلْبِ وَ ذِکْرٌ بِاللِّسَانِ اسی لئے کہتے ہیں کہ ذکر دو طرح ہوتا ہے (۱) قلبی ذکر (۲) زبانی ذکر.وَکُلُّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا ضَرْبَانِ ذِکْرٌ عَنْ نِسْیَانٍ وَ ذِکْرٌ لَاعَنْ نِسْیَانٍ بَلْ عَنْ اِدَامَۃِ الْحِفْظِ کہ خواہ قلبی ذکر ہو یا قولی ہر دو کی دو دو قسمیں ہیں(۱) بھول جانے کے بعد کسی بات کا یاد کرنا (۲) یا بغیر بھولنے کے یاد رکھنا (مفردات) پس اُذْکُرُوْا کے معنے ہوں گے.تم یاد کرو.نِعْمَتِیْ.اَلنِّعْمَۃُ کے معنے ہیں(۱) اَلصَّنِیْعَۃُ وَالْمِنَّۃُ احسان.(۲) مَا اُنْعِمَ بِہٖ عَلَیْکَ مِنْ رِّزْقٍ وَ مَالٍ وَغَیْرِہٖ.وہ مال یا رزق یا اس کے علاوہ کوئی اور چیز جو بطور انعام ملے.(۳) اَلْمَسَرَّۃُ.خوشی.(۴) اَلْیَدُ الْبَیْضَاءُ الصَّالِحَۃُ ایسا احسان جس میں کوئی کدورت او رکمی نہ ہو.وَفِی الْکُلِّیَاتِ اَلنِّعْمَۃُ فِی اَصْلِ وَضْعِھَا ’’اَلْحَالَۃُ الَّتِیْ یَسْتَلِذُّ بِھَا الْاِنْسَانُ‘‘ وَھٰذَا مَبْنِیٌّ عَلٰی مَا اشْتَھَرَ عِنْدَ ھُمْ مِنْ اَنَّ النِّعْمَۃَ بِالْکَسْرِ لِلْحَالَۃِ

Page 518

وَ بِالْفَتْحِ لِلْمَرَّۃِ.اور کلیاتِ اَبی البقاء میں یوں لکھا ہے کہ نعمت اصل وضع کے لحاظ سے اس حالت کو کہتے ہیں جس سے انسان لذّت اُٹھاتا ہے اور یہ اس بناء پر ہے کہ حالت بیان کرنے کے لئے عربی زبان میں فِعْلَۃٌ اور کسی کام کے ایک ہونے کا اظہار کرنے کے لئے فَعْلَۃٌ کا وزن لاتے ہیں اور نِعْمَۃٌ ن کی زیر سے چونکہ فِعْلَۃٌ کے وزن پر ہے اس لئے اس میں نعمت والی حالت کے معنے پائے جاتے ہیں.وَنِعْمَۃُ اللّٰہِ.مَا اَعْطَاہُ اللّٰہُ لِلْعَبْدِ مِـمَّالَایَتَمَنّٰی غَیْرَہٗ اَنْ یُّعْطِیَہٗ اِیَّاہُ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اپنے بندے پر وہ احسان ہے جس کے بعد بندہ اس کے متعلق کسی اور سے خواہش نہیں رکھتا.اس کی جمع اَنْعُمٌ اور نِعَمٌ آتی ہے اور جب فُـلَانٌ وَاسِعُ النِّعْمَۃِ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے وَاسِعُ الْمَالِ یعنی فلاں مالدار ہے.(اقرب) اَلْعَھْدُ.اَلْعَھْدُکے مصدری معنے ہیں حِفْظُ الشَّیْ ءِ وَ مُرَاعَاتُہٗ حَالًا بَعْدَ حَالٍ.کسی چیز کی حفاظت کرنا اور وقتاً فوقتاً اس کی دیکھ بھال کرتے رہنا.وَسُمِّیَ الْمَوْثِقُ الَّذِیْ یَلْزَمُ مُرَاعَا تُہٗ عَھْدًا.اور اس عہد و پیمان کو جس کی ہر لحاظ سے حفاظت کی جائے عہد کے نام سے موسوم کرتے ہیں وَعَھْدُ اللّٰہِ تَارَۃً یَکُوْنُ بِمَا رَکَزَہٗ فِیْ عُقُوْلِنَا اور اللہ تعالیٰ کا بندوں سے عہد تین طور پر ہے (۱) یہ کہ بعض باتیں اس نے فطرت انسانی میں رکھ دی ہیں اور اس عہد کی حفاظت اس طور پر کی جا سکتی ہے کہ خلاف فطرت کام نہ کیا جائے (۲) وَتَارَۃً یَکُوْنُ بِمَا اَمَرَنَا بِہٖ بِالْکِتَابِ وَبِسُنَّۃِ رُسُلِہٖ اور کبھی اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں سے عہد لینے سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ باتیں جو اس نے اپنی نازل کردہ کتاب اور اپنے رسولوں کی سنت کے ذریعہ ہمارے پاس بھیجی ہیں ہم ان کو بجالائیں (۳) وَتَارَۃً بِمَا نَلْتَزِمُہٗ بعض اوقات اس بات کو بھی عہد کہہ دیتے ہیں جو برضاور غبت اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے ذمہ لگالیا جائے کہ میں خدا تعالیٰ کی خاطر فلاں جائز کام ضرور کروں گا.(مفردات) تاج العروس میں ہے اَلْعَھْدُ اَلْوَصِیَّۃُ وَالْاَمْرُ کہ عہد کے معنے کسی تاکیدی حکم کے ہوتے ہیں نیز اس کے معنے ہیں اَلْمَوْثِقُ وَ الْیَمِیْنُ پکا عہد و پیمان.قسم.اَلْحِفَاظُ وَرِعَایَۃُ الحُرْمَۃِ کسی بات کی حفاظت اور اس کی حرمت کی نگہداشت کرنا.اَ لْاَمَانُ.امان.اَلذِّ مَّۃُ.ذمّہ.اَ لْاِلْتِقَاءُ.ملنا.ملاقات.اَلْمَعْرِفَۃُکسی چیز کو جاننا.اَلزَّمَانُ.زمانہ.اَلْوَفَاءُ.وفا.تَوْحِیْدُ اللّٰہِ تَعَالٰی.اللہ تعالیٰ کو واحد گرداننا.اَلضَّمَانُ.ضمانت.اَلَّذِیْ یُکْتَبُ لِلْوُلَاۃِ.پروانۂ شاہی جو کسی شخص کو کسی ملک کا حاکم مقرر کرتے وقت لکھ کر دیا جاتا ہے.(تاج) اِرْھَبُوْنِ.اِرْھَبُوْا.جمع مخاطب کا صیغہ امر ہے اور رَھِبَ الرَّجُلُ (یَرْھَبُ رَھْبَۃً) کے معنے ہیں خَافَ ڈر گیا (اقرب) اِرْھَبُوْنِ اصل میں اِرْھَبُوْنِیْ تھا.ی کو گراد یا گیا اور نونِ وَقایَۃ کے کسرہ پر اکتفا کیا گیا.

Page 519

اِرْھَبُوْنِ کے معنے ہیں.مجھ سے ڈرو.تفسیر.ترتیب مضمون آدم علیہ السلام کی مثال دے کر یہ بتایا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کوئی نیا دعویٰ نہیں بلکہ جب بشر کی عقل مکمل ہوئی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام پر الہام نازل کیا تھا.اس کے بعد یہ سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جب شروع میں الہام نازل کر دیا تو پھر اور کسی الہام کی کیا ضرورت ہے کیا وہ الہام کافی نہیں؟ یہ سوال عام ہے اور اکثر نبوت کے مخالف بلکہ پُرانے مذہب کے مدعیان بھی یہ اعتراض کرتے چلے آتے ہیں.مخالفین نبوت کے اعتراض کی غرض تو صرف نبوت میں شک پیدا کرنا ہوتی ہے وہ اس اعتراض سے صرف یہ فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کہ موجودہ مدّعی غلطی پر ثابت ہو گا سابق کا کوئی دعویدار اور نائب موجود ہی نہیں کہ اس کی اطاعت کا سوال ہو لیکن جو مذاہب قدیم ہیں ان کی غرض اس سوال سے یہ ہوتی ہے کہ ہمارے مذہب کی موجودگی میں اور کسی نبی کی ضرورت نہیں.اس سوال کا دو طرح جواب دیا جا سکتا ہے ایک اس طرح کہ عقلاً نبوت کی ضرورت ثابت کی جائے.دوسرے اس طرح کہ واقعات کی شہادت سے ثابت کر دیا جائے کہ نبوت آدم علیہ السلام کے بعد بھی جاری رہی.قرآن کریم نے نبوت کے اجراء کی ضرورت کو عقلی طور پر کئی دوسرے مقامات پر ثابت کیا ہے مگر اس جگہ دوسرے طریق جواب کو اختیار کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام کے قریب زمانہ تک نبوت کے مدّعی ہوتے رہے ہیں پس یہ کہنا کہ پہلی شریعت کے بعد اور کسی شریعت یا وحی نبوت کی ضرورت نہیں درست نہیں.جن لوگوں کی صداقت شواہد اور دلائل سے ثابت ہو چکی ہو ان کے دعویٰ کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے تو پہلی وحی کے بعد دوسرے زمانوں کی وحیوں کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ اور اگر پہلی وحی کے بعد بھی الہام ہوتا رہا بلکہ اسلام کے قریب زمانہ تک بھی خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے تو پھر اسلام کی وحی پر اس بناء پر اعتراض کرنا کہ پہلی وحی کے بعد دوسری وحی کی ضرورت نہیں کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ آدم علیہ السلام کا واقعہ بیان کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو مخاطب کرنے کی وجہ اس طریق جواب کو اختیار کرنے میں ایک مزید فائدہ بھی تھا اور وہ یہ کہ قرآن کریم کے پہلے مخاطبین میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو یہودی مذہب یا عیسوی مذہب سے تعلق رکھتے تھے اور انہی کے نبیوں کو قرآن کریم نے وحی کے جاری ہونے کے ثبوت میں پیش کیا ہے اس سلسلۂ نبوت کی ایک کڑی جس کے بغیر ان پہلے نبیوں کی تکمیل نہیں ہو سکتی بنو اسمٰعیل میں ایک نبی کا وجود بھی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے یہ خبر دی گئی تھی کہ بنو اسماعیل میں بھی ایک نبی ہو گا.اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بعد کے نبیوں نے اس نبی کی آمد کی مزید وضاحت کی تھی.پس ان انبیاء کی وحی کو بطور

Page 520

شہادت پیدا کرنے میں دو فائدے تھے.ایک تو وحی کے اجراء کا ثبوت، دوسرے اس امر کا ثبوت کہ اس سلسلۂ نبوت کے بعد وحی الٰہی کا بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہونا لازمی اور ضروری تھا پس وحی نبوت کا اجراء ہی ثابت نہیں بلکہ اس کا آخری زمانہ کے مورد کا بنو اسمٰعیل اور عرب میں ہونا بھی ضروری تھا.چنانچہ اس دلیل کو بیان کرنے کے لئے اس رکوع سے بنو اسرائیل کو مخاطب کر لیا گیا ہے.اور اللہ تعالیٰ ان سے فرماتا ہے کہ اے بنی اسرائیل! تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کرو او راس امر کی سچی گواہی دو کہ خدا تعالیٰ کا الہام دنیا میں ہمیشہ نازل ہوتا رہا ہے اور تم بھی اس کے مہبط رہے ہو.بلکہ یہ بھی کہ تمہاری کتب میں یہ بھی موجود ہے کہ ایک دن وحی ِ الٰہی کا سلسلہ تم سے ہٹ کر تمہارے بھائیوں یعنی بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل ہو جائے گا.اسرائیل لفظ بنواسرائیل کی وضاحت پیشتر اس کے کہ میں اس اجمال کی تفصیل بیان کروں.مَیں بنو اسرائیل کے لفظ کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام تھے.ان کے بیٹے کا نام یعقوب (علیہ السلام) تھا.جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد تھے.حضرت یعقوبؑ یہود میں خاص حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی قوم کا نسلی امتیاز انہی کے نام سے قائم ہے.اسرائیل کا نام خدا تعالیٰ کی طرف سے انہیں ملا تھا جس کی وجہ سے ان کی اولاد بنی اسرائیل یعنی اسرائیل کی اولاد کہلائی.بائبل میں لکھا ہے کہ یعقوب علیہ السلام سے ایک سفر کے دوران میں رات کے وقت ایک شخص نے کشتی لڑنی شروع کی اور ساری رات کشتی لڑتا رہا.بائبل کے بیان کے مطابق وہ کُشتی لڑنے والا خدا تعالیٰ تھا.(پیدائش باب ۳۲ آیت ۳۰) صبح کے وقت اس ُکشتی لڑنے والے نے حضرت یعقوبؑ سے ان کا نام پوچھا تو انہو ںنے یعقوب نام بتایا اس پر اس نے کہا کہ ’’تیرا نام آگے کو یعقوب نہیں بلکہ اسرائیل ہو گا کہ تو نے خدا اور خلق پاس قوت پائی اور غالب ہوا.‘‘ (پیدائش باب ۳۲ آیت ۲۸) بائبل کے شارحین کُشتی لڑنے والے کو فرشتہ کہتے ہیں گو اس کا کوئی ثبوت نہیں دیتے بہرحال وہ فرشتہ ہو یا خدا تعالیٰ کوعالم تمثیل میں انہوں نے دیکھا ہو.لفظ اسرائیل کے معنی اس نے حضرت یعقوبؑ کو اسرائیل کا نام دیا.اور اس کے معنے بھی بتا دیئے کہ خدا تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک وہ قوی سمجھا گیا اور غالب ہوا.پس اسرائیل کے معنے بائبل کے بیان کے مطابق خدا کا قوی بندہ یا خدا کا غالب بندہ ہیں.لغت کے معنے حَلِّ لُغَات میں بتائے جا چکے ہیں کہ خدا کے جنگجو بہادر یا قوی سپاہی کے ہیں

Page 521

یا فرمانبردار کے ہیں بہرحال حضرت یعقوبؑ کو رؤیا یا کشف میں اسرائیل کا نام دیا گیا تھا اور اس کی وجہ سے ان کی اولاد بنو اسرائیل کہلائی.بنو اسرائیل اور یہودی گو اس آیت میں یہودی کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن قرآن کریم کے دوسرے مقامات میں یہودی یا اس کی جمع ھوُد کا لفظ استعمال ہوا ہے اور مناسب ہے کہ ان دونوں لفظوں کا فرق بھی بتا دیا جائے تا معلوم ہو سکے کہ بنو اسرائیل کا لفظ کس موقع پر استعمال ہوتا ہے اور یہودی کا لفظ کس موقع پر استعمال ہوتا ہے.لفظ بنواسرائیل اور یہودی کے استعمال میں فرق بنو اسرائیل کا لفظ قرآن کریم میں اڑتیس جگہ استعمال ہوا ہے اور یہودی کا لفظ نو جگہ اور ھُوْدیہود کی جمع کے معنوںمیں تین دفعہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے.ان مقامات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی یا ھُوْد جہاں بھی استعمال ہوا ہے مذہب کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور بنواسرائیل کا لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے قوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے.یعنی جہاں حضرت یعقوب کی نسل کی طرف اشارہ مقصود ہے وہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں ان لوگوں کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جو اپنے آپ کو موسیٰ کے پیرو کہتے تھے وہاں یہودی یا ھوُد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.چنانچہ ھوُد کا لفظ جن تین جگہ پر استعمال ہوا ہے اس کے ساتھ نصاریٰ کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے.گویا یہودی مذہب اور نصرانی مذہب کے متبعین کی طرف ان آیات میں اشارہ کیا گیا ہے اسی طرح یہود کا لفظ جن نو مقامات میں استعمال کیا گیا ہے ان میں سے بھی آٹھ مقامات میں نصاریٰ کے مقابل پر استعمال کیا گیا ہے جس سے واضح ہے کہ وہاں اسرائیلی قوم مراد نہیں بلکہ موسوی مذہب مراد ہے.باقی ایک مقام میں نصاریٰ کا لفظ ساتھ استعمال نہیں.یعنی المائدہ : ۶۵ میں.اس کی بھی سب آیتیں واضح طور پر دلالت کرتی ہیں کہ اس جگہ یہودی مذہب کے پیروئوں کا ذکر ہے نہ کہ کسی نسل کے لوگوں کا.کیونکہ اس میں عقائد پر بحث ہے.اس کے بالمقابل بنی اسرائیل کا لفظ جہاں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے موسوی قوم پر دلالت کرنے کے لئے استعمال ہوا ہے اور قرآن کریم کے کسی ایک مقام پر بھی اسے نصاریٰ کے مقابل پر استعمال نہیں کیا گیا.لفظ بنی اسرائیل کا اطلاق ان لوگوں پر جو حضرت یعقوب ؑ کی اولاد سے ہوں.خواہ وہ یہودی ہوں یا نصرانی یا مسلمان اس امتیاز کی وجہ سے جہاں تو بنی اسرائیل کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے

Page 522

لوگ بھی مخاطب ہو سکتے ہیں جو یہودی مذہب تو چھوڑ چکے ہوں لیکن ہوں حضرت یعقوبؑ کی نسل سے مثلاً ان میں سے عیسائی یا مسلمان ہو جانے والے لوگ اسی طرح جہاں یہود یا ھود کا لفظ استعمال ہوا ہے اس میں ایسے لوگ بھی شامل سمجھے جا سکتے ہیں جو بنی اسرائیل سے تو نہ ہو ںلیکن موسوی مذہب کو مانتے ہوں.شائد کسی کو یہ شبہ گزرے کہ یہودی لوگ تو اپنے مذہب میں کسی کو داخل نہیں کرتے اس لئے جہاں یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ بنی اسرائیل میں سے بعض نصرانی یا مسلمان ہو گئے ہوں وہاں یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکتی کہ کوئی غیر اسرائیلی یہودی مذہب میں داخل ہو گیا ہو.اس کا جواب یہ ہے کہ بے شک بنی اسرائیل موسوی مذہب کو اپنے لئے مخصوص سمجھتے تھے مگر اس میں بعض مستثنیات بھی تھے اور بعض قسم کے لوگوں کو یہودی مذہب میں شامل کرنے کی اجازت بھی ہوتی تھی مثال کے طور پر یہودیوں کے غلام یا ان کے ملک میں آ کر اور ان کے تابع ہو کر بسنے والے لوگوں کو یہودی مذہب قبول کرنے کی اجازت ہوتی تھی چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب خروج میں لکھا ہے کہ ’’اور اگر کوئی بیگانہ تمہارے ساتھ مقیم ہو اور خداوند کی فسح کیا چاہے (یعنی یہود کی تہواروں میں شامل ہونا چاہے) تو اس کے سب مرد اپنا ختنہ کروائیں.تب وہ نزدیک آئے اور فسح کرے.اور اب وہ گویا تمہاری زمین میں پیدا ہوا ہے.کیونکہ نامختون انسان اسے نہ کھائے گا.وطنی اور بیگانے کی جو تمہارے بیچ میں ہے ایک شریعت ہو گی‘‘ (خروج باب ۱۲ آیت ۴۸.۴۹) ان آیات سے ظاہر ہے کہ موسوی شریعت گو اپنے آپ کو بنی اسرائیل سے مخصوص قرار دیتی ہے لیکن سوسائٹی میںیک جہتی قائم رکھنے کے لئے اس امر کی اجازت دیتی ہے کہ جو لوگ بنی اسرائیل کے درمیان آکر بس جائیں اور ان کے ساتھ مل کر ایک حکومت کا جزو بننا چاہیں وہ موسوی شریعت میں داخل ہو سکتے ہیں.اسی طرح استثناء باب ۲۳.آیت ۳ تا ۸ میں ان قوموںکی لسٹ بتائی ہے جن کے افراد بعض قیود کے ماتحت یہودی نظام میں شامل ہو سکتے ہیں.یسعیاہ میں لکھا ہے ’’اور بیگانے کی اولاد بھی جنہوں نے اپنے آپ کو خداوند سے پیوستہ کیا ہے اس کی بندگی کریں اور خداوند کے نام کو عزیز رکھیں.اور اس کے بندے ہوویں.وے سب جو سبت کو حفظ کر کے اسے ناپاک نہ کریں اور میرے عہد کو لئے رہیں میں ان کو بھی اپنے مقدس پہاڑ پر لائوںگا اور اپنی عبادت گاہ میں انہیں شادمان کروںگا اور ان کی سوختنی قربانیاں اور ان کے ذبائح میرے مذبح پر مقبول ہوں گے کیونکہ میرا گھر ساری قوموں کی عبادت گاہ کہلائے گا.‘‘ (باب ۵۶ آیت ۶،۷) عہد کو قائم رکھیں سے اس جگہ مراد ختنہ کرانا ہے کیونکہ عہد ابراہیمی کی علامت ختنہ کو قرار دیا گیا تھا اِس کی تائید استثناء باب ۱۲ کے مذکورہ بالا حوالہ سے بھی ہوتی ہے.

Page 523

مشہور یہودی عالم جوزیفس لکھتا ہے کہ مذہب بدل کر یہودی بننے والا شخص وہ ہے جو یہودی رسموں کو اختیار کرے اور جو یہودی قانون کی اتباع کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی اس رنگ میں عبادت کرتے ہوئے کہ جس رنگ میں کہ یہود عبادت کرتے ہیں (یہودی ہو جائے).(جوئش انسا ئیکلوپیڈیا زیر لفظ Proselyte) بنی اسرائیل کے علاوہ اور لوگوں کو موسوی مذہب میں داخل ہونے کی اجازت بائبل سے بھی اس امر کا ثبوت ملتا ہے کہ عملاً بھی بعض لوگ موسوی مذہب کو قبول کر لیتے تھے چنانچہ بائبل کی ایک کتاب روت نامی ہے یہ روت جس کا اس میں ذکر ہے.موآبی لڑکی تھی جو ایک اسرائیلی سے بیاہی گئی اور اس نے موسوی مذہب کو قبول کر لیا تھا.اسی طرح عزرا باب ۳ آیت ۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسوری لوگ جو فلسطین میں بس گئے تھے انہوں نے بھی یہودی طریقہ کو اختیار کر لیا تھا تاریخ سے بھی اس امر کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ رومی مؤرخین ٹیسیٹس (Tacitus)ڈیوکیسیس (Diocassious)اور ہوریس (Horece) وغیرھم نے اپنی کتب میں ان رومیوںکا ذکر کیا ہے جنہوں نے یہودی مذہب کو قبول کر لیا تھا (جوئش انسا ئیکلوپیڈیا زیر لفظ Proselyte) اسلامی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ کے عربو ںمیں سے بھی بعض لوگوں نے یہودی مذہب کو اختیار کیا ہوا تھا.چنانچہ کعب بن اشرف مشہور دشمن اسلام جس نے معاہدین میں شامل ہونے کے باوجود دشمنانِ اسلام کو مدینہ پر چڑھائی کے لئے اکسایا تھا اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے کئے تھے اور اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا فتویٰ دیا تھا.ایسے ہی لوگوں میں سے تھا.اس کا باپ بنو بنہان قبیلہ کا عرب تھا ایک شخص اس کے ہاتھ سے قتل ہو گیا اور وہ بھاگ کر مدینہ آ گیا وہاں اس نے یہودی قبیلہ بنو نضیر سے معاہدہ کر لیا اور اسی قبیلہ کی ایک لڑکی عقیلہ بنت ابی الحقیق سے شادی کر لی اور اس طرح یہودیوں میں شامل ہو گیا آگے اس کا بیٹا کعب بھی یہودی المذہب رہا.(زرقانی زیر عنوان قتل کعب ابن الاشرف) اسی طرح بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مشرکین مدینہ نذر کے طو رپر اپنی اولاد کو یہود میں داخل کرنے کا اقرار کر لیتے تھے اور وہ بڑے ہو کر یہودی مذہب کے ہو جاتے تھے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.’’کَانَتِ الْمَرْأَۃُ تَکُوْنُ مِقْلَاۃً فَتَجْعَلُ عَلٰی نَفْسِہَا اِنْ عَاشَ لَھَا وَلَدٌ اَنْ تُھَوِّدَہٗ فَلَمَّا اُجْلِیَتْ بَنُوالنَّضِیْرِکَانَ فِیْہِمْ مِنْ اَبْنَاءِ الْاَنْصَارِ فَقَالُوْالَا نَدَعُ اَبْنَاءَ نَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کہ مدینہ کی عورتوں میں سے جب کسی عورت کے بچے بچپن میں ہی فوت ہو جاتے تو وہ نذر مان لیتی کہ اگراس کا بچہ بچ جائے تو وہ اس کو یہودی مذہب میں داخل کر دے گی.چنانچہ جب بنو نضیر کو جلا وطن کیا گیا تو ان میں انصار

Page 524

مدینہ کے ایسے بچے تھے جن کو یہودی بنایا گیا تھا تو انصار نے ان کو ان کے ساتھ بھیجنے سے انکار کیا.اس وقت یہ آیت لَااِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ نازل ہوئی کہ مذہب کے بارے میں کوئی جبر نہیں کیا جا سکتا.(ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی الاسیر یکرہ علی الاسلام) موسوی مذہب کے بنی اسرائیل کے لئے مخصوص ہونے کے معنے خلاصہ یہ ہے کہ موسوی مذہب کے بنی اسرائیل کیلئے مخصوص ہونے کے یہ معنے نہیں کہ کوئی غیر اسرائیلی کبھی یہودی ہو ہی نہ سکتا تھا بلکہ خود حضرت موسیٰ کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق غلام یا تابع رہنے والے لوگ اگر موسوی دین پر عمل کریں اور ختنہ کرالیں تو وہ موسوی مذہب میں داخل ہو سکتے تھے.موسوی مذہب کے اسرائیلیوں تک مخصوص ہونے کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ مذہب تبلیغی نہیں اور انہیں حکم نہیں کہ دوسری قوموں میں جا کر تبلیغ کریں اور اس میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے خاص ترقیات کے وعدے ہیں وہ اسرائیلیوں کے لئے ہیں.دوسری اقوام کو طفیلی اور تابع کے طور پر اگر کامل طور پر ان سے مل جائیں حصہ دیا جا سکتا ہے برخلاف اسلام کے کہ اس کے پیروئوں کو تبلیغ کرنے اور استثنائی طور پر نہیں بلکہ قاعدہ کلیہ کے طور پر ساری دنیا میں اسلام پھیلانے کا حکم ہے اور اس میں داخل ہونے والوں سے کوئی وعدہ نہیں جو صرف عربوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر وعدہ اپنی انتہائی صورت میں اسی طرح غیر عربوں کے لئے ہے جس طرح کہ عربوں کے لئے.خلاصہ یہ کہ چونکہ موسوی دین کے تابع لوگوں کو استثنائی صورتوں میں غیر اسرائیلیوں کو بھی اپنے دین میں شامل کرنے کی اجازت تھی اور محدود تعداد غیر قوموں کی ان میں شامل بھی ہوتی رہتی تھی اس لئے ضروری تھا کہ بنی اسرائیل کے سوا ان کا کوئی اور نام بھی ہوتا جس کے ذریعہ سے اس کے افراد کی قوم کی طرف نہیں بلکہ مذہب کی طرف نسبت ثابت کی جاتی.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے آہستہ آہستہ یہودی کے لفظ کو اختیار کیا گیا.بنی اسرائیل کے علاوہ لفظ یہود کو اختیار کرنے کی وجہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قریب زمانہ میں چونکہ ایسے لوگ بہت کم تھے جو باوجود غیر اسرائیلی ہونے کے یہودی مذہب قبول کریں انہیںاپنے اندر رہنے والے غیر یا بیگانہ کے لفظ سے یاد کیا جاتا تھا مگر جب حضرت دائود علیہ السلام کے ذریعہ سے بنی اسرائیل میں حکومت آ گئی اور ان کی حکومت کا حلقہ وسیع ہو گیا اور غیر قومیں اسرائیلیوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگیں اور اسرائیلی حکومت تلے بسنے والوں میں سے ایک خاصے طبقے نے موسوی مذہب اختیار کر لیا تب یہ ضرورت بشدت محسوس ہوئی کہ اسرائیل کے سوا کوئی اور نام بھی ہو جو ایسے لوگوں پر بھی مشتمل ہو.اس نام کا انتخاب بعض سیاسی حالات نے خود ہی کر دیا اور وہ اس طرح کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد

Page 525

ان کا لڑکا ایک دنیا دار آدمی تھا اس کی تخت نشینی پر بنی اسرائیل کے سردار اس کے پاس ملنے آئے اور اس سے قانون میں بعض نرمیاں کرنے کی درخواست کی اِس پر اُس نے اپنے نوجوان دوستوں کے مشورہ سے انہیں سخت جواب دیا اور دھتکار کر دربار سے رخصت کر دیا اس پر بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں میں سے دس کے سرداروں نے دربار سے باہر نکلتے ہی بغاوت کا فیصلہ کر لیا اور رحبعام بن سلیمان سے باغی ہو گئے اوررحبعام کے ماتحت صرف یہود کا علاقہ (جسے اب فلسطین کہتے ہیں) اور یہودا اور بن یامین دو قبیلوں کے آدمی رہ گئے جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت دائود یہودا کے قبیلہ میں سے تھے اور بن یامین کے قبیلہ میں وہ پیدا ہوئے تھے اور انہیں کی مدد سے انہوں نے پہلے یہودا قبیلہ کے علاقہ کو اور پھر باقی اسرائیل کے علاقہ کو فتح کیا تھا (زیر لفظ David جوئش انسائیکلو پیڈیا) پس ان دونوں قبیلوں میں آپس میں بہت جوڑ تھا اور اس بغاوت کے وقت میں وہ اکٹھے رہے.اس بغاوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسرائیلیوں کی دو حکومتیں ہو گئیں ایک اس وجہ سے کہ حضرت دائود یہودا قبیلہ میں سے تھے (۱.تو اریخ باب ۱.۳ و ۹ تا ۱۵ نیز متی باب ۱ آیت ۲ ولوقا باب۳ آیت ۳۳) اورجو یہودا کے علاقہ میں رہتے تھے یہودیہ کہلائی اس میں یہود اور بن یامین قبائل کے افراد شامل تھے (۲.تواریخ باب ۱۱ آیت ۱) اور دوسری اس وجہ سے کہ اسرائیل کے اکثر قبائل اس میں شامل تھے اسرائیل کی حکومت کہلائی.یہودیہ حکومت کا زور فلسطین میں تھا تو اسرائیل کی حکومت کا شمالی فلسطین اور مغربی شام کی طرف.اس اختلاف کے بعد اسرائیل کی حکومت متواتر بت پرستی کی طرف راغب ہوتی گئی اور تورات کے علماء اسے چھوڑ کر یہودیہ کی طرف بھاگ آئے اور موسوی مذہب کا گڑھ یہودیہ کی حکومت بن گئی جو آہستہ آہستہ موسوی مذہب کی واحد علمبردار ہو گئی چنانچہ پہلے تو اسرائیل کی حکومت کے باشندوں اور یہودیہ کی حکومت کے باشندوں میں فرق کرنے کے لئے یہودیہ کے باشندوں کو یہودی کہا جانے لگا لیکن جوںجوں مذہبی اختلاف کی خلیج بڑھتی گئی یہودی کا لفظ مقام رہائش کو بتانے کی بجائے مذہب کو بتانے کے لئے استعمال ہونے لگا اور عُزیر اور نحمیاہ دو نبیوں کے ذریعہ سے جب یہودیہ دوبارہ بسایا گیا اور مذہب موسوی کی باگ ڈور کلی ّطور پر یہودا کے لوگوں کے ہاتھ میں آ گئی تو یہودی کا لفظ نسلی امتیاز یا مقام رہائش کے معنوں سے بالکل الگ ہو کر مذہب (موسوی کے پیرو) کے معنوںمیں استعمال ہونے لگا کیونکہ اس زمانہ سے موسوی مذہب کا احیاء صرف یہودا کے لوگوں کے ذریعہ سے ہی ہوتا تھا اور جب یہ لفظ خالص مذہبی معنوں میں استعمال ہونے لگا تو اس کا اطلاق ان غیراسرائیلی لوگوں پر بھی کیا جانے لگا جو نسلاً تو اسرائیلی نہ تھے لیکن مذہباً موسوی مذہب کے پیرو تھے.پھر حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ اسرائیلیوں کا ایک حصہ حضرت مسیح پر ایمان لے آیا تو اسرائیلیوں کی بھی دو

Page 526

اقسام ہو گئیں ایک جو یہودی مذہب پر تھے اور دوسرے جو مسیحی تھے اسلام نے آ کر اسرائیلیوں میں سے بعض کو مسلمان بنا لیا اور اس طرح ایسے اسرائیلی بھی ہو گئے جن کا مذہب اسلام تھا.لفظ یہود کے استعمال کی ابتدا اور اس کے معنے کی وسعت خلاصہ یہ کہ یہودیہ کے رہنے والوں میں چونکہ موسوی مذہب نے فروغ پایا اور تمام بڑے انبیاء وہیں پیدا ہوئے یا اسی سے تعلق رکھتے تھے جیسے یرمیاہ، حزقیل، دانی ایل، عزرا ،نحمیاہ وغیر ھم.اور اسرائیلی حکومت میں بت پرستی رائج ہو گئی.یہودیہ کی حکومت کے توابع یہودکے نام سے مشہور ہوئے اور چونکہ اس زمانہ میں بہت سے غیر اسرائیلی بھی موسوی مذہب میں داخل ہوئے.مذہب موسوی رکھنے والوں کا نام قوم سے ممتاز کرنے کے لئے یہودی ہو گیا.اور اسلام سے چند صدی پہلے یہودی کے معنے موسوی مذہب رکھنے والے کے ہو گئے.مگر چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وعدے جو دنیاوی عزّت اور اعلیٰ روحانی مراتب سے متعلق تھے ان کی نسلوں سے خاص تھے.بنی اسرائیل کا لفظ الگ طو رپر قومی امتیاز کو بتانے کے لئے قائم رہا.قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگانے والوں کا جواب میں نے کسی قدر تفصیل سے یہ امر اس لئے بیان کیا ہے تایہ بتائوں کہ قرآن کریم جس پر یہودی مذہب اور اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگایا جاتا ہے اس امتیاز کوصحیح طور پر بیان کرتا ہے یعنی جہاں مذہب کا سوال ہوتا ہے یہودی کا لفظ استعمال کرتا ہے لیکن جہاں ان قومی وعدوں کا ذکر کرتا ہے جو آل ِابراہیم ؑ یا آلِ موسیٰ ؑ یا آلِ دائود ؑ سے خاص تھے یا موسوی انبیاء کے مخاطبین کا ذکر کرتا ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرماتا بلکہ بنی اسرائیل کا لفظ استعمال فرماتا ہے کیونکہ وہ وعدے موسوی دین اختیار کرنے والوں سے نہ تھے بلکہ ان بنی اسرائیل سے تھے جو خدا تعالیٰ کے عہد کو قائم رکھیں خواہ موسوی دین پر ہوں خواہ اس کے بعد آنے والے کسی اور الٰہی دین پر ہوں جیسے کہ مسلمان ہونے والے بنی اسرائیل مگر لطیفہ یہ ہے کہ اس کے برخلاف ان معترضین کا جو قرآن کریم پر اسرائیلی تاریخ سے ناواقفیت کا الزام لگاتے ہیں یہ حال ہے کہ ان کی مذہبی کتب تک اس بارہ میں غلطی کر جاتی ہیں چنانچہ اناجیل نے بھی اس بارہ میں غلطی کی ہے مثلاً مسیح علیہ السلام کی نسبت لکھا ہے ’’یہودیوں کا بادشاہ‘‘ چنانچہ لکھا ہے کہ پیلاطوس نے مسیح علیہ السلام سے پوچھا ’’کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے یسوع نے اس سے کہا ہاں تو سچ کہتا ہے‘‘ (متی باب ۲۷ آیت ۱۱.مرقس باب ۱۵ آیت ۲ ولوقا باب۲۳.آیت ۳) اس بادشاہت کے دعویٰ کی بنیاد زکریاہ نبی کی کتاب پر ہے اس میں لکھا ہے ’’اے صیحون کی بیٹی تو نہایت خوشی کر.اے یروشلم کی بیٹی تو خوب للکار کہ دیکھ تیرا بادشاہ تجھ پاس آتا ہے‘‘ (زکریاہ باب ۹ آیت ۹ )

Page 527

اس عبارت سے ظاہر ہے کہ زکریاہ نے ایک اسرائیلی بادشاہ کی خبر دی ہے جو یروشلم کو پھر اس کی سابق شوکت پر لائے گا پس اس سے مراد اسرائیلیوں کا بادشاہ ہے نہ یہود کا بادشاہ چنانچہ یوحنا باب۱ آیت ۴۹ میں لکھا ہے ’’تو اسرائیل کا بادشاہ ہے‘‘ اور یہی درست ہے کیونکہ موسوی سلسلہ کے ترقی کے وعدے بنی اسرائیل سے مخصوص تھے نہ کہ ہر یہودی مذہب کو قبول کرنے والے سے.اسی طرح حضرت مسیح کاخطاب صرف بنی اسرائیل سے تھا چنانچہ لکھا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے مریدوں کو تبلیغ کے لئے بھجوایا تو کہا کہ ’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) یاد رہے کہ سامری مخلوط نسل کے آدمی تھے اور اکثر ان میں سے یہودی باپوں کی نسل میں سے تھے اور تورات کو مانتے تھے اور اسی پر ان کا عمل تھا.جب سامریوں تک سے علیحدہ رہنے کا حکم مسیح نے دیا تو جو بالکل غیر قومیں ہیں ان کا کیا ذکر ہے.یہ غلطی مسیحیوں کو ایسی چمٹی ہے کہ آج تک وہ اس غلطی میں مبتلا ہیں چنانچہ آج جرمنی اور بعض دوسرے یورپین ممالک میں اسرائیلی نسل کے خلاف جو جوش پیدا ہے اس میں یہی کہا جاتا ہے کہ ’’یہودیوں‘‘ کو ملک سے نکال دو اور اس سے ان کی مراد یہ نہیں ہوتی کہ جو موسوی مذہب کے تابع ہیں ان کو ملک سے نکال دو بلکہ یہ مخالفت ان لوگوں کے خلاف بھی ہے جو نصرانی مذہب اختیار کر چکے ہیں حالانکہ وہ بنی اسرائیل تو بیشک ہیں مگر یہودی کسی صورت میں بھی نہیں کیونکہ اپنا مذہب تبدیل کر چکے ہیں جرمنی میں تو یہ جوش اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ جن لوگوں کی رگوں میں کسی اسرائیلی عورت کا خون بھی ہے اسے بھی ملک کا دشمن قرار دیا جاتا ہے لیکن کہا یہی جاتا ہے کہ یہ یہودی ہیں یا یہودی خون ان کے اندر ہے حالانکہ نہ وہ یہودی مذہب کے پابند ہیں اور نہ ان مائوں کا مذہب یہودی تھا جن کی وہ اولاد ہیں بلکہ ان کی مائیں بھی مسیحی تھیں اور ان کی نسل بھی مسیحی ہے.غرض اس علمی زمانہ میں بھی کہ جس کی علمی ترقی پر یورپ کو اس قدر ناز ہے اسرائیلی اور یہودی کے فرق کو بالکل نہیں سمجھا جاتا لیکن قرآن کریم نے تیرہ سو سال پہلے اس فرق کو تسلیم کیا ہے اور جہاں جہاں نسلی ترقی کے وعدوں کا ذکر ہے یا نبیوں کے خطاب کا ذکر ہے وہاں بنی اسرائیل کا لفظ استعمال کیا ہے اور جہاں صرف مذہب کا ذکر ہے وہاں یہودی کا لفظ استعمال کیا ہے.چنانچہ آیات زیر تفسیر میں چونکہ ان وعدوں کی طرف اشارہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھے یا ان وعدوں کا ذکر ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ابراہیمی نسل سے تھے اس لئے ان آیات میں اور ان کے بعد کی آیات میں ہر جگہ لِبَنِٓیْ اِسْرَآئِیْلَ کہا گیا ہے ایک جگہ بھی یہودی کا لفظ استعمال نہیں فرمایا.اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ.اُذْکُرُوْا نِعْمَتِیْ نہیں فرمایا بلکہ اس کے بعد

Page 528

اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ زائد کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ صرف اپنی نعمت نہیں جتائی بلکہ اس سے زائد مضمون کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عربی زبان کے قواعد کے مطابق جب حروف یا الفاظ میں زیادتی کی جائے تو وہ جدید یا زائد مضمون پیدا کرنے کے لئے ہوتی ہے پس اس آیت میں اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ وہ نعمت ہے جو تمہاری قوم کے لئے خاص ہے.اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی نعمتیں اللہ تعالیٰ کی دو قسم کی نعمتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو عام ہیں مومن و کافر کو مل رہی ہیں جیسے ہوا، پانی، آگ ،خوراک وغیرہ لیکن ایک اس کی نعمتیں وہ ہیں جو خاص شرائط پورا کرنے والے مقربوں کو ملتی ہیں یا خاص وعدوں کے مطابق نازل ہوتی ہیں اگر تو عام نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے جو خاص وعدہ کے مطابق نہیں ملتیں بلکہ ہر کافر و مومن پر نازل ہوتی ہیں تو خالی اُذْکُرُوْا نِعَمِیْ کہنا کافی تھا لیکن اس جگہ اوّل تو نِعْمَتِیْ کا لفظ مفرد رکھا گیا ہے جس سے خاص نعمت مراد ہے اور پھر اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ کے الفاظ بڑھائے گئے ہیں اور بتایا ہے کہ وہ نعمت تم پر خاص تھی دوسرے لوگ دنیا کے اس میں شامل نہ تھے.بنی اسرائیل کو ملنے والی نعمت کیا تھی ؟ یہ نعمت کیا ہے؟ اسے ہم قرآن کریم سے ہی دیکھتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ يٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ اَنْۢبِيَآءَ وَ جَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا١ۖۗ وَّ اٰتٰىكُمْ مَّا لَمْ يُؤْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ(المآ ئدۃ :۲۱) یعنی یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جبکہ اس نے تم میں بہت سے انبیاء مبعوث فرمائے اور تم کو بادشاہ بنایا اور تم کو وہ کچھ دیا جو اور کسی کو جہانو ںمیں سے نہ دیا تھا.بنی اسرائیل پر اتمام نعمت کرنے سے مراد ان کو بادشاہ بنانا اور ان میں انبیاء کا مبعوث کرنا تھا یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے جو انہوں نے اس وقت بنی اسرائیل سے کہا تھا جب وہ ارضِ مقدسہ کے قریب پہنچ گئی تھی اور اس میں داخل ہونے کا اسے حکم دیا گیا تھا.ظاہر ہے کہ اس وقت تک موسیٰ علیہ السلام کی قوم بادشاہ نہ بنی تھی بلکہ ابھی تک جنگلوں میں سرگرداں پھر رہی تھی.اس سے پہلے بھی کسی زمانہ میں وہ بادشاہ نہ بنی تھی کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت یوسف ؑ تک ان میں سے کوئی بادشاہ نہ ہوا تھا اور حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد تو وہ مصر میں غلام ہو کر رہی تھی.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں اسے اس غلامی سے نکالا گیا لیکن بادشاہت اب تک اسے نصیب نہ ہوئی تھی صرف اس سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ارضِ مقدسہ میں اسے بادشاہت دی جائے گی اور جیسا کہ اگلی آیت میں بتایا گیا ہے اس قول تک وہ ارضِ مقدسہ میں داخل نہ ہوئی تھی پس جَعَلَکُمْ مُّلُوْکًا سے یہ مراد

Page 529

نہیں کہ تم کو گزشتہ زمانہ میں بادشاہ بنایا گیا تھا بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ تم کو بادشاہ بنانے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے اور چونکہ ساری آیت میں مضمون کا ایک ہی سلسلہ پیش کیا گیا ہے اِذْ جَعَلَ فِیْکُمْ اَنْبِیَآءَ بھی خدا تعالیٰ کے آئندہ وعدے کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس میں سابق انبیاء کا ذکر نہیں.اور مطلب اس قول کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد کرو جو اس نے تم سے کیا ہے کہ وہ تم میں سے کثرت سے نبی بنائے گا اور تم کو بادشاہ بنائے گا اور تم کو وہ کچھ دے گا جو اور کسی قوم کو نہیں دیا گیا گویا سابق شوکت کا ذکر نہیں بلکہ آئندہ ملنے والی شوکت کا ذکر ہے اور ماضی کے الفاظ حتمی وعدہ کے لحاظ سے استعمال کئے گئے ہیں نہ اس لئے کہ ایسا گزشتہ زمانہ میں ہو چکا ہے اس وعدہ کو یاد دلا کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم کو ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور بتایا کہ وہ وعدہ ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کے بعد شروع ہوتا ہے پس تم ارضِ مقدسہ کو فتح کرنے میں دیر نہ کرو تاکہ اس وعدہ کا ظہور شروع ہو جائے.آئندہ زمانہ کے واقعات نے اس وعدہ کو پورا ہونے کا عملی ثبوت بہم پہنچا دیا اور بنی اسرائیل میں کثرت سے نبی آئے اور ان کو بادشاہ بنا دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے ذریعہ سے ان پر پے در پے روحانی علوم کھولے جس کی مثال اور کسی گزشتہ قوم میں نہیں ملتی.بنی اسرائیل پر اتمام نعمت کا وعدہ حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ سے شروع ہوا یہ وعدہ کب ہوا؟ بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وعدہ کی ابتداء ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے شروع ہوئی.بائبل میں لکھا ہے ’’تب اس نے اسے (ابراہیم کو) کہا کہ میں خداوند ہوں جو تجھے کسدیوں کے اُوْر سے نکال لایا کہ تجھ کو یہ ملک میراث میں دُوں.‘‘ (پیدائش باب ۱۵ آیت ۷) اس کے آگے اسی باب میں بتایا ہے کہ یہ وعدہ اس طرح پورا ہو گا کہ پہلے ان کی قوم ایک اور ملک میں جا کر غلام بنے گی اور چار پشت بعد ان کو وہاں سے نکالا جائے گا.وہاں سے نکالا جانے کے بعد وہ فلسطین کی بادشاہ بنے گی یہ وقفہ اس لئے پڑے گا کہ اسوری جو فلسطین میں بستے ہیں ابھی تک ان کے گناہ اس حد کو نہیں پہنچے کہ ان کو سزا دے کر اس ملک سے نکالا جائے.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ پہلے وعدہ ابراہیم علیہ السلام سے کیا گیا تھا اور اس کے پورا ہونے کا وقت وہ بتایا گیا تھا جب بنی اسرائیل مصر میں غلام بن کر رہنے کے بعد وہاں سے نکلیں گے اور یہ زمانہ جیسا کہ بائبل تاریخ اور قرآنِ کریم سے ثابت ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ تھا.پس ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جو قول بتایا گیا ہے اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وعدہ کی طرف اشارہ ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس وعدہ میں بادشاہت کا تو ذکر ہے مگر نبوت کا ذکر نہیں مگر بائبل کے دوسرے مقامات کو ملا کر اس حصہ کا بھی پتہ لگ جاتا ہے.چنانچہ سترھویں باب میں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان عہد کرتا

Page 530

ہوں کہ میں تجھے نہایت بڑھائوںگا تب ابراہیم منہ کے بل گرا اور خدا اس سے ہمکلام ہو کر بولا کہ دیکھ میں جو ہوں میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قومو ںکا باپ ہو گا اور تیرا نام پھر ابرام نہ کہلایا جائے گا بلکہ تیرا نام ابرہام ہو گا (جس کا عربی تلفّظ ابراہیم ہے) کیونکہ میں نے تجھے بہت قوموں کا باپ ٹھہرایا اور میں تجھے بہت برومند کرتا ہوں اور قومیں تجھ سے پیدا ہوں گی اور بادشاہ تجھ سے ـــــــــنکلیں گے اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو کرتا ہوں کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے ملک ہو اور میں ان کا خدا ہونگا.‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۲ تا ۸) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ نے دو وعدے کئے تھے ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی قوم کو کنعان میں داخل کرے گا اور اس کے بعد (۱) انہیں وہاں کا بادشاہ کرے گا (۲) دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کا خدا ہوگا.خدا ہونے کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ یہاں روحانی ترقیات کا وعدہ ہے کیونکہ بادشاہت میں دنیاوی ترقیات کا وعدہ آ چکا تھا.اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو جاتا ہے کہ بائبل کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کی اولاد آئندہ زمانہ میں کنعان میں آئے گی اور ان کو بادشاہت اور اعلیٰ روحانی ترقیات عطا ہوںگی.یہ وعدہ بعد میں حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے بھی دہرایا گیا ہے لیکن ابتداءً اس کا اظہار حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے ہی کیا گیا تھا پس سورۂ مائدہ کی مذکورہ بالا آیت میں جس نبوت اور بادشاہت کے دیئے جانے کا ذکر ہے وہی موعود بادشاہت اور نبوت ہے اور آیت زیر تفسیر میں نعمت سے مراد وہی نعمت مراد ہے جس کا ذکر سورۂ مائدہ میں ہے اور جس کا ثبوت بائبل سے َمیں پیش کر چکا ہوں اس نعمت کو یاد دلا کر یہ اشارہ کیا ہے کہ انعام نبوت آدم پر ختم نہیں ہو چکا بلکہ بنی اسرائیل میں ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایک لمبا سلسلہ نبوت کا جاری رہا ہے.قرآن کریم میں بنی اسرائیل پر اتمام نعمت کے مذکور وعدہ کا ذکر بائبل میں قرآن کریم میں بھی اسی سورۃ میں اس موعود نعمت کا ذکر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں کیا گیا ہے چنانچہ فرماتا ہےوَ اِذِ ابْتَلٰۤى اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّ١ؕ قَالَ اِنِّيْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا١ؕ قَالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ١ؕ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظّٰلِمِيْنَ(البقرۃ :۱۲۵) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی بعض کلمات کے ذریعہ آزمائش کی تو ابراہیم نے ان احکام الٰہی کو پورا کر دیا اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تجھے لوگوں کے لئے امام بنانے والا ہوں.تب ابراہیم ؑ نے عرض کیا کہ میری

Page 531

اولاد میں سے بھی بعض کو امام بنایا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ظالموں کو میرا عہد نہیں پہنچے گا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ (۱) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام بنانے یعنی اولوالامر نبی کے درجہ پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا(۲) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کی نسبت بھی اس وعدہ کی توسیع کی درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے مشروط وعدہ فرمایا یعنی وعدہ کیا کہ تمہاری اولاد میں سے بعض اس عہد سے حصہ پائیں گے مگر حصہ پانے والے وہی ہوں گے جو قومی ظلم کے ذریعہ سے اپنے آپ کو محروم نہ کر چکے ہوں.وَاَوْ فُوْا بِعَھْدِیْمیں اس طرف اشارہ کہ بنی اسرائیل کے ساتھ وعدہ مشروط تھا وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ اس جملہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو آخری قوم جس میں الہام کا سلسلہ دیر تک جاری رہا بنی اسرائیل کی قوم تھی لیکن ان سے جو وعدہ کیا گیا تھا وہ مشروط تھا.جب تک بنی اسرائیل اس وعدہ کے مستحق رہے اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو پورا کرتا رہا مگر جب بنی اسرائیل کلّی طور پر اس عہد کے انعامات کے ناقابل ہو گئے تو لازماً وہ عہد دوسری طرف منتقل ہو گیا.اوپر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو وعدہ کیا گیا تھا اس کا ذکر آ چکا ہے.وہ وعدہ یہ تھا کہ ان کی اولاد میں بھی نبی ہوں گے مگر جب ان کی اولاد کا کوئی حصہ ظالم ہو جائے گا تو پھر وہ اس عہد کا مستحق نہیں رہے گا اور عہد اولاد کے دوسرے حصہ کی طرف منتقل ہو جائے گا.خدا تعالیٰ کے اتمام نعمت کا وعدہ مشروط ہونے کا ذکر بائبل میں بائبل میں بھی اس عہد کے مشروط ہونے کا ذکر ہے.پیدائش باب ۱۷ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.’’پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر اک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۹ تا ۱۱) ’’اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا‘‘ (آیت ۱۴) ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کی نسبت جو عہد کیا گیا تھا وہ مشروط تھا اور اس کی ظاہری علامت ختنہ تھا اور صاف کہہ دیا گیا تھا کہ اولاد میں سے جو اس عہد کی پابندی نہ کریں گے خدا تعالیٰ کا عہد بھی ان سے کوئی نہ رہے گا اور ان کو وہ انعامات نہ ملیں گے جن کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے وعدہ کیا گیا تھا.یاد رہے کہ اس وعدہ میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ یہ اس عہد کا نشان ہے جو اللہ تعالیٰ اور بندہ کے درمیان کیا

Page 532

گیا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ بندہ کی طرف سے عہد ختنہ کا نہیں بلکہ عہد اَور ہے ہاں! اس کا ظاہری نشان ختنہ ہے.یہود نے اس کو نہ سمجھا اور صرف ختنہ پر خوش ہو گئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے یہود کو اس طرف توجہ دلائی کہ وہ صرف کسی ایک حکم پر عمل کر کے خوش نہ ہوں اور یہ نہ سمجھیں کہ اس کے ذریعہ سے انہوں نے عہد کا اپنا حصہ پورا کر دیا ہے.وہ اپنی قوم کو خدا تعالیٰ کا یہ حکم پہنچاتے ہیں.’’پر اگر تم میرے سننے والے نہ ہو اور ان سب حکموں پر عمل نہ کرو اور میری سنتوں کو حقیر جانو یا تمہارے دل میری عدالتوں کو ناپسند کریں ایسا کہ تم میرے حکموں پر عمل نہ کرو اور مجھ سے عہد شکنی کرو تو میں بھی تم سے ویسا ہی کروں گااور خوف اور سل اور تپ ِ سوزاں کو تمہارے اوپر غالب کرائونگا جس سے تمہاری آنکھیں پھوٹیں اور دل دکھیں اور تم اپنے بیج بے فائدہ بوئوگے اس لئے کہ تمہارے دشمن اسے کھائیں گے اور میرا چہرہ تمہارے برخلاف ہو گا‘‘ (احبار باب ۲۶ آیت ۱۴ تا ۱۷) (آخری الفاظ کو عہد کے ان الفاظ کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے کہ میں تیرا اور تیری نسل کا خدا ہونگا) اس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ختنہ صرف ایک ظاہری نشان تھا ورنہ اصل عہد جس کی پابندی کی حضرت ابراہیم ؑکی اولاد سے توقع کی گئی تھی یہ تھا کہ وہ دل کے پاک ہوں خدا تعالیٰ کی سنتو ںپر مطمئن ہوں اور اس کے سب احکام پر عمل کریں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے نبیوں نے بھی اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا ہے.یرمیاہ نبی بنی اسرائیل کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے ہوئے فرماتے ہیں ’’اسرائیل کے سارے گھرانے کے دل نامختون ہیں‘‘ (یرمیاہ باب ۹ آیت ۲۶) اسی طرح فرماتے ہیں ’‘دیکھ وے دن آتے ہیں خداوند کہتا ہے کہ میں ان سب کو جو مختون ہیں نامختون کے ساتھ سزا دوں گا.‘‘ (یرمیاہ باب ۹ آیت ۲۵) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یرمیاہ نبی جسم کے مختون ہونے کو عہد کا پورا کرنا نہیں سمجھتے بلکہ دل کے مختون ہونے کو اصل ذریعہ عہد کے پورا کرنے کا قرار دیتے ہیں.حضرت ابراہیم ؑ کے واسطہ سے ان کی اولاد سے خدا تعالیٰ کے دو وعدے خلاصہ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واسطہ سے ایک معاہدہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد سے کیا تھا.اس معاہدہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ تھا کہ وہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے خدا رسیدہ لوگ پیدا کرے گا جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق امام یعنی اولوالعزم نبی ہوں گے اور دوسرے یہ کہ وہ انہیں کنعان کا ملک بطور میراث دے گا جس کے وہ بادشاہ ہوں گے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی چونکہ اصل صورت میں محفوظ نہیں اس کا جس قدر حوالہ بائبل سے مل سکتا ہے بیشک اس میں ختنہ کی پوری تشریح نہیں مگر حضرت موسیٰ کی کتاب احبار اور یرمیاہ نبی کی وحی سے میں نے ثابت کر دیا ہے کہ ختنہ سے مراد صرف ظاہری ختنہ نہیں بلکہ اصل مراد دل کی صفائی اور کامل فرمانبرداری ہے.جسمانی ختنہ اس

Page 533

کے لئے بطور علامت قرار دیا گیا ہے.اس تشریح کے مطابق آیت زیر تفسیر کے معنے یہ ہوئے کہ اے بنی اسرائیل! یاد کرو کہ ہمارے تمہارے درمیان ایک عہد ہوا تھا اس عہد کا جو حصہ ہمارے متعلق تھا وہ ہم نے پورا کر دیا.تم میں سے پے در پے نبی بھی بھجوائے اور بادشاہ بھی بنائے اور اس کے بالمقابل جو حصہ عہد کا تم سے تعلق رکھتا تھا وہ تم نے پورا نہ کیا اور تمہارے دل نامختون ہو گئے اور تم نے اپنے خدا کے حکمو ںکو بھلا دیا اور اس کے نتیجہ میںتمہارے دلو ںمیں غیر اللہ کا خوف جاگزیں ہو گیا اگر تم اپنے حصہءِ عہد کو پورا کرو تو میں بھی پھر اپنے عہد کو تم سے پورا کرنے کو تیار ہوں لیکن تمہارا یہ امید کرنا کہ میں تو عہد کے اس حصہ کو پورا کرتا جائوں جو مجھ سے تعلق رکھتا ہے لیکن تم متواتر اس حصہ کو نظر انداز کرتے جائو جو تمہارے متعلق ہے درست نہیں.بنی اسرائیل پر اتمام نعمت والا عہد دوسرے انبیاء کے ذریعہ سے کئی بار دہرایا گیا جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد یہی عہد دوسرے انبیاء کے ذریعہ سے پھر دہرایا گیا ہے چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جو اسرائیلی قوم کی شریعت لانے والے تھے ان کے ذریعہ سے بھی یہ عہد دہرایا گیا تھا.یہ عہد ایسا مشہور و معروف ہے کہ بائبل میں بیسیوں جگہ اس کا ذکر آتا ہے اور بار بار اسے عہد کے نام سے پکارا گیا ہے.خروج باب ۲۰ میں وہ دس احکام جو حضرت موسیٰ ؑ کی معرفت دیئے گئے اور بنی اسرائیل کے ساتھ ایک نیا عہد باندھا گیا تفصیلاً درج ہیں.استثنا باب ۵ آیت ۲ اور باب ۱۸ آیت ۱۸ و ۱۹ کو ملا کر معلوم ہوتا ہے کہ سینا پہاڑ پر یا حورب پر جو نام کوہِ سینا کا کتاب استثنا میں مستعمل ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو بلا کر دس حکم دیئے اور بنی اسرائیل سے ایک نیا عہد باندھا (استثنا باب ۵ آیت ۲) اور کہا کہ اگر وہ ان احکام کے پابند رہیں تو میں ان کی قوم کو زندہ رکھوںگا اور ان کا بھلا ہو گا اور ارضِ مقدس پر ان کے قبضہ کی مہلت لمبی ہوتی چلی جائے گی (استثنا باب ۵ آیت ۳۳) جس وقت یہ احکام نازل ہو رہے تھے اور خدا تعالیٰ کا جلال کوہ سینا یا حورب پر ظاہر ہو رہا تھا.خطرناک بجلی چمک رہی تھی اور مہیب آوازیں آ رہی تھیں جسے دیکھ کر بنی اسرائیل جو خدا تعالیٰ سے عہد باندھنے کے لئے اپنے خیموں سے باہر نکل کر دامنِ کوہ میں کھڑے تھے ڈر گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ سے کہا کہ ہم اس کلام کو نہیں سنتے.تُوخدا سے سن کر ہمیں سنا دیا کر ہم ڈرتے ہیں کہ ہم اس کلام کو سن کر کہیں مر نہ جائیں.(خروج باب ۲۰ آیت ۱۹) موعود عہد کی تجدید حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اس پر خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑسے کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اچھا کہا ہے.جب تک یہ ان احکام پر کاربند ہوں گے برکت پائیں گے لیکن آئندہ

Page 534

جب کوئی نبی تیری مانند کھڑا کیا جائے گا (یعنی صاحبِ شریعت ہو گا)تو وہ ان کے بھائیوں میں سے ہو گا(یعنی ان میں سے نہ ہو گا) گو حضرت موسیٰ نے کہا ہے کہ تم میں سے تمہارے بھائیوں میں سے نبی کھڑا کیا جائے گا.(استثنا باب ۱۸ آیت ۱۵) لیکن اوّل تو یہ خدا تعالیٰ کے اس کلام کے خلاف ہے جو اس نے موسیٰ ؑ سے کیا.کیونکہ اس میں ’’تم میں سے‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ صرف یہی ہے کہ تیرے بھائیوں سے.دوم یہ فقرہ ہی بے معنی ہے کہ تم میں سے.تمہارے بھائیوں میں سے جبکہ اس کلام کے سب بنی اسرائیل مخاطب تھے تو پھر تم میں سے کہہ کر تمہارے بھائیوں میں سے کہنا لغو تھا.جب بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے کہا جائے گا کہ تمہارے بھائیوں سے نبی کھڑا کیا جائے گا.تو وہ بنی اسرائیل کے سوا کسی اور قوم میں سے ہو گا نہ ان میں سے اور اگر ان میں سے ہو تو پھر بھائیوں سے نہیں کہلا سکتا.بنی اسرائیل کا خدا تعالیٰ کے کلام کو سننے سے انکار سوم بنی اسرائیل کے بھائیو ںمیں سے نبی کھڑا کرنا تو سزا کے طور پر تھا.اگر انہیں میں سے نبی ہو.تو سزا نہیں رہتی.جیسا کہ استثنا باب ۱۸ آیت ۱۶ میں لکھا ہے ’’اس سب کی مانند جو تو نے خداوند اپنے خدا سے حورب میں مجمع کے دن مانگا اور کہا کہ ایسا نہ ہو کہ میں خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنوں اور ایسی شدت کی آگ َمیں پھر دیکھوں تاکہ میں مر نہ جائوں‘‘ پھر لکھا ہے ’’اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا.سو اچھا کہا.میں ان کے لئے ان کے بھائیوںمیں سے تجھ سا ایک نبی برپا کرونگا.اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالونگا.اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا.‘‘ (استثنا باب ۱۸آیت ۱۷ و ۱۸) بنی اسرائیل کے عہد پر قائم نہ رہنے سے اُن سے نعمت کا چھن کر بنواسماعیل میں آنا اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ بنی اسرائیل نے خدا کا کلام سننے سے انکار کر دیا جو کلام کہ شریعت کے متعلق تھا تو آئندہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے شریعت کا دروازہ بند کر دیا اور کہا کہ جب کسی ایسے نئے نبی کی ضرورت ہو گی جو موسیٰ کی مانند ہو تو وہ ان کے بھائیوں میں سے کھڑا کیا جائے گا.اس عہد کے ماتحت بنی اسرائیل کو ہر قسم کی ترقی ملتی رہی اور ان کی روحانی زندگی کے لئے بادشاہ ہوتے رہے.اور ان کو سوائے ایک قلیل درمیانی مدت کے ارضِ مقدس پر حکومت میسر رہی گو مسیح کے نزول کے بعد ارضِ مقدس کا قبضہ اس گروہ کے ہاتھ آ گیا جو مسیح کا ماننے والا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں اسی عہد کی طرف اہل کتاب کو متوجہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہم سے تمہارا ایک عہد تھا.جس کے پورا کرنے کی صورت میں ہم نے تم سے برکت کی زندگی کا وعدہ کیا تھا.تم اگر اس عہد کو پورا کرو.تو میں اپنے عہد کو پورا کرنے کے لئے تیار ہوں جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عہد کا ذکر قرآن کریم میں ہے جو اوپر گزر چکا ہے.موسوی عہد کا ذکر قرآن مجید میں مذکورہ بالا موسوی عہد کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے فرماتا ہے

Page 535

وَ رَحْمَتِيْ وَ سِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ الَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ.اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ١ٞيَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ١ؕ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(الاعراف :۱۵۷، ۱۵۸) یعنی میری رحمت ہر ایک چیز پر وسیع ہے میں ضرور ان لوگوں کے لئے جو تقویٰ کریں اور زکوٰۃ دیں اور ہماری آیات پر ایمان لائیں اسے لازم کردوں گا (خواہ وہ کسی قوم کے ہوں) ہاں! ان لوگوں کے لئے جو اس رسول نبی اور اُمیّ کی فرمانبرداری کرتے ہیں جسے وہ اپنی اپنی کتب تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیںاچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور برُی باتوں سے روکتا ہے او رپاک چیزوں کو ان کے لئے حلال کرتا ہے (برخلاف یہود کے جو بہت سی پاک چیزوں کو اپنی تنگ ظرفی کی وجہ سے حرام قرار دیتے ہیں) اور گندی چیزوں کو حرام کرتا ہے (برخلاف نصاریٰ کے جو سؤر اور خون جیسی ممنوع اور بُری چیزوں کو حلال قرار دیتے ہیں) اور ان کے کمرتوڑ دینے والے بوجھوں کو دُور کرتا ہے اسی طرح ان طوقوں کو بھی جو ان کے گلوں میں پڑے ہوئے ہیں.پس وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اپنی زبانوں اور تلواروں سے اس کی اعانت کرتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں اور اس نور کی اتباع کرتے ہیں جو اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے (یعنی قرآن کریم) وہ ضرور کامیاب ہوںگے یعنی باوجود غیر عرب ہونے کے ان برکات سے حصہ پائیں گے جو عرب کے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت سے وابستہ ہیں کیونکہ وہ کسی ایک قوم کا نبی نہیں بلکہ سب دنیا کا نبی ہے چنانچہ اگلی آیت میں اس مضمون کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرماتا ہے.قُلْ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَا (الاعراف:۱۵۹) تو کہہ دے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں یعنی مجھ پر ایمان لانے والے سب کے سب ان انعامات کے وارث ہوں گے جن کا مجھ سے وعدہ ہے اور صرف میری قوم ہی کے لوگ ان سے فائدہ نہ اٹھائیں گے.حضرت موسیٰ ؑکی زبان سے ایک موعود نبی کی پیشگوئی اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں ایک نبی اُمّی کا ذکر موجود ہے اور اس پر ایمان لانے کا حکم ہے اور اس کی اطاعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے اس وعدہ کے پورا ہونے کا تعلق ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی قوم سے کیا گیا تھا کیونکہ موسیٰ علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جب وہ موعود نبی آئے گا تو اس وقت اس عہد کو جو موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ سے کیا گیاتھا اللہ تعالیٰ صرف انہی سے

Page 536

پورا کرے گا جو اس پر ایمان لائیںگے چنانچہ لکھا ہے ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروںگا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کر کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اُس سے لُوں گا‘‘ (استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸، ۱۹) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بنی اسرائیل کے متعلق جو وعدہ کیا تھا اس کا زمانہ اس موعود نبی کی بعثت تک تھا.اس کی بعثت کے بعد یہ شرط تھی کہ اگر بنی اسرائیل اس نبی کو مانیںگے تو انعام پائیں گے ورنہ سزا پائیںگے اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرۃ:۴۱)تم اپنا عہد مجھ سے پوراکرو تو میں اپنا عہد تم سے پُورا کروںگا.بنی اسرائیل کے عہد کے ٹوٹنے کے متعلق دو شبہات کا ازالہ اس جگہ دو شبہات پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ ہر نبی کے منکروں کو ہی سزا ملتی ہے اور بنی اسرائیل میں موسیٰ کے بعد بہت سے نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزر چکے تھے جن کا انہوں نے انکار کیا پس عہد تواس وقت ہی ٹوٹ چکا تھا پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پیشگوئی کا خاص تعلق کیونکر ہوا؟ (۲) دوسرے یہ کہ اگر پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متعلق تھی تو ان کی بعثت سے بنی اسرائیل کا زمانہ تو ختم ہو گیا پھر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ تم اپنا عہد پورا کرو تو میں اپنا عہد پورا کروں گا؟ بنی اسرائیل کے توبہ کر لینے سے نبوت ان کی قوم میں واپس تو جا نہ سکتی تھی پھر یہ الفاظ کیوں کہے گئے.پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بنی اسرائیل نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بہت سے نبیوں کا انکار کیا لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ وہ چونکہ ان کے قومی نبی تھے بعد میں ان کے حالات اور الہام ان کی مقدس کتب کے مجموعہ میں شامل ہو گئے پس وہ انکار عارضی تھا اس سے قومی تفریق نہیں ہوتی تھی.اس وجہ سے قوم ان انبیاء کی معرفت آنے والے انعامات سے محروم نہ ہوتی تھی.ان کی مثال ایسی ہی تھی جیسے کہ عرب نے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا لیکن آخر میں ان پر ایمان لے آئی.ہاں آخری نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انکار بنی اسرائیل نے شدّت سے کیا اور بعد میں ان پر ایمان بھی نہ لائے لیکن بہرحال وہ بھی اسرائیلی نبی تھے اور بنی اسرائیل کا وہ حصہ جو ان پر ایمان لایا اس عہد کے تسلسل کو قائم رکھنے والا تھا اور اگر وہ اپنے عہد کو قائم رکھتا تو نبوت کا انعام پھر بھی ان کو ملتا لیکن انہوں نے بھی اس عہد کو قائم نہ رکھا اور نبوت دوسری طرف منتقل ہو گئی.یہود نے تو عہد کے روحانی پہلو کو ُبھلا کریعنی دل کی پاکیزگی کو نظر انداز کر کے خدا تعالیٰ سے عہد کو توڑ دیا اور جو بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے تھے انہوں نے ظاہری ختنہ کو چھوڑ کر عہد کے نشان کو مٹا دیا.پس

Page 537

اس طرح بنی اسرائیل کا کوئی حصہ بھی عہد پر قائم نہ رہا اور خدا تعالیٰ نے عہد کو بنی اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا.خلاصہ یہ کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی بنی اسرائیل نے نبیوں کا انکار کیا لیکن وہ انکار عارضی ہوتا تھا اور بعد میں وہ اس نبی کو قومی نبی کے طور پر تسلیم کر لیتے تھے سوائے حضرت مسیح کے کہ جن کو بنی اسرائیل کی باقی قوم نے قبول نہ کیا لیکن چونکہ وہ اسرائیلی نبی تھے اسرائیل ہی کی طرف آئے تھے اور جیسا کہ اناجیل سے ثابت ہے موسوی شریعت پر چلنے کا ہی حکم دیتے تھے اور ان کے پہلے مومن اسرائیل میں سے ہی تھے اس لئے ان پر ایمان لانے والے اسرائیلیوں کے ذریعہ سے وہ وعدہ قومی طور پر پورا ہوتا رہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور رنگ کا تھا.آپ موسوی شریعت کے تابع نہ تھے بلکہ موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کے مطابق ایک نئی شریعت لائے تھے اور اسرائیل کی طرف مبعوث نہ تھے بلکہ سب دنیا کی طرف مبعوث تھے پس آپ کے ذریعہ سے جو دین قائم ہوا وہ موسوی دین کا تسلسل نہ تھا اور اسرائیل اس پر قومی فخر نہ کر سکتے تھے اور ان کی قومی برتری کا دور اس سے ختم ہو جاتا تھا اس لئے فرمایا گیا کہ چونکہ تم نے اپنا عہد توڑ دیا ہم نے بھی اپنا عہد ختم کر دیا.دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے اسرائیلی نبیوں کا تسلسل ٹوٹ گیا اور بنی اسرائیل کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے وہ تسلسل پہلی شکل میں پھر قائم نہ ہو سکتا تھا لیکن پھر بھی اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ(البقرۃ:۴۱)کے ارشاد کے مطابق بنی اسرائیل پر خدا تعالیٰ کی رحمتو ںکا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْكِتٰبِ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّاٰتِهِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰهُمْ۠ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ.وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ١ؕ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ١ؕ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَ.يٰۤاَيُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ (المائدة :۶۶تا۶۸) یعنی اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور تقویٰ سے کام لیتے تو ہم ان کی غلطیوں پر پردہ ڈال دیتے اور ہم انہیں نعمت والی جنتوںمیں جگہ دیتے اور اگر وہ تورات کو قائم کرتے اور انجیل کو اور اس کلام کو بھی جوان پر (یعنی موجودہ زمانہ کے اہل کتاب پر) ان کے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے تو وہ اپنے اوپر سے بھی کھاتے یعنی روحانی غذا کے دروازے ان کے لئے کھولے جاتے اور آسمانی الہام ان پر نازل ہوتا وہ اپنے قدموں کے نیچے سے بھی کھاتے یعنی مادی انعامات بھی ان پر نازل ہوتے.ان میںسے ایک جماعت میانہ رو ہے (یعنی جو اسلام لے آئے ہیں) اور اکثر ان میں سے بُرے عمل کرتے ہیں.اے رسول! جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے اسے پوری طرح پہنچا اور اگر تو

Page 538

ایسا نہ کرے گا تو گویا تو نے کوئی حصہ بھی کلام الٰہی کا نہیں پہنچایا اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.اللہ تعالیٰ کافروں کو کامیابی کا راستہ کبھی نہیں دکھاتا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ تورات اور انجیل کے ماننے والے اگر ان کی تعلیم کو مانتے ہوئے اس کلام کو جو آخری زمانہ میں ان کی ہدایت کے لئے نازل کیا گیا ہے مان لیں اور ایمان اور تقویٰ سے کام لیں تو اللہ تعالیٰ ان کے لئے الہام اور رزقِ طیّب کا دروازہ کھول دے گا اور اپنی سابق بدیوں کے عذاب سے وہ محفوظ ہو جائیں گے.گویا اس رنگ میں اللہ تعالیٰ اپنے عہد کو ان سے پورا کرے گا اوراُن کو آسمانی و دنیاوی انعامات سے متمتع کرے گا.پھر فرمایا ہے کہ اے رسول! ان اقوام کو خوب تبلیغ کر‘ تا ان پر حجت پوری ہو جائے اور ان میں سے جو بچائے جا سکیں بچائے جائیں پس گو نبوت حسب ِ پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں سے نکال کر بنی اسمٰعیل میں آ گئی لیکن پھر بھی اگر بنی اسرائیل اپنے عہد کو پورا کرنے میں لگ جائیں تو ان کے لئے خدا تعالیٰ اپنے عہد کو پوراکرنے کے لئے تیار ہے.استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے اس آیت میں ایک لطیف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل کو ایمان لانے کی ہدایت کے بعد یہ آیت رکھی گئی ہے کہ اے رسول! جو تجھ پر نازل کیا گیا ہے سارا کا سارا پہنچا دے اور یہی الفاظ استثناء کی پیشگوئی کے آخر میں ہیں کیونکہ وہاں لکھا ہے ’’اور جو کچھ میں اسے فرمائوںگا وہ سب ان سے کہے گا.‘‘ (استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸) آیت اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ سے یہ استدلال کہ اُمت ِ محمدیہ میں غیرتشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں آیت اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ (البقرۃ:۴۱)سے یہ استدلال بھی ہوتا ہے کہ اُمتِ محمدیہ میں غیر تشریعی نبوت کا دروازہ بند نہیں اور وہ اس طرح کہ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے کہ اگر تم میرا عہد پورا کرو یعنی خدا کی باتو ںکو مان لو اور وقت کے نبی محمد رسول اللہ پر ایمان لائو تو میں نے جو تم سے عہد کیا تھا وہ میں پھر تم سے پورا کروں گا اور اوپر بتایا جا چکا ہے کہ وہ عہد یہ تھا کہ ان سے نبی پیدا ہوتے رہیں گے.پس معلوم ہوا کہ اُمت ِمحمدیہ میں نبوت کا دروازہ مسدود نہیں صرف شریعت ختم ہوئی ہے ورنہ بے شریعت والے اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع اور خادم نبی اب بھی پیدا ہو سکتے ہیں کیونکہ اگر ایسا ممکن نہ تھا تو اللہ تعالیٰ کے اس قول کے کیا معنے ہوئے کہ اگر اب بھی تم اپنا عہد پورا کرو تو میں تم سے اپنا عہد پورا کروں گا؟ یہ قول اسی وقت درست ہو سکتا ہے جبکہ اُمت ِمحمدیہ میں نبوت کا دروازہ کھلا ہو اور بنی اسرائیل میں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو اس کا وعدہ دیا جائے.یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مذکورہ بالا پیشگوئی کے مطابق بنی اسرائیل میں آئندہ

Page 539

شرعی نبوت کا دروازہ مسدود ہو چکا تھا اور صرف موسوی شریعت کے تابع نبوت کا دروازہ کھلا تھا کیونکہ استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ میں صاف لکھا تھا کہ شریعت والا نبی آیندہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے آئے گا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی ان میں بغیر شریعت کے نبی آتے تھے اور نبوت محمدیہ پر ایمان لانے کے بعد بھی یہ دروازہ ان کے لئے بند نہ تھا.پس فرمایا کہ اگر اب بھی اپنے عہد کو پورا کرنے لگو تو اس انعام سے حصہ پا سکتے ہو.وَ اِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ وَ اِيَّايَ فَارْهَبُوْنِعام طور پر اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ پس مجھ ہی سے ڈرو مگر یہ پورے معنے اس جملہ کے نہیں کیونکہ اِیَّایَ مفعول ہے اور اس کا فعل محذوف نکالنا ضروری ہے جو اگلے الفاظ کو مدنظر رکھتے ہوئے اِرْھَبُوْا ہے پس وَاِیَّایَ کے معنے ہوئے اور ڈرو مجھ سے، اس کے بعد’’فا‘‘ آیا ہے جو امر محذوف پر دلالت کرتا ہے اور وہ امر بھی عبارت کے مطابق ہی نکالنا ہو گا اور وہ اِرْھَبُوْا ہی ہو سکتا ہے پس محذوف کو ظاہر کر کے عبارت یہ ہو گی وَارْھَبُوْا اِیَّایَ اِرْھَبُوْا فَارْھَبُوْنِ.اور ترجمہ یہ ہو گا کہ او رمجھ ہی سے ڈرو ڈر جائو پس مجھ ہی سے ڈرو گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو تین دفعہ بیان کیاگیا ہے.اس وہم کا ازالہ کہ خدا تعالیٰ کے خوف پر کیوں زور دیا جاتا ہے اس جگہ بعض مغرب کے فلسفہ سے متأثر لوگوں کو شاید یہ وہم ہو کہ خدا تعالیٰ کے خوف پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے؟ ایسے لوگوں کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خوف بُری چیز نہیں.خوف تقویٰ کے پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے.انسان مختلف حالتوں کے ہوتے ہیں.بعض محبت سے مانتے ہیں اور بعض خوف سے.پس جس ہستی کے مدِّنظر اصلاح ہو گی وہ خوف اور محبت دونوں سے کام لے گی.فلسفہ انسان کی اصلاح نہیں کر سکتا اصلاح تو مرض کے مطابق علاج کرنے سے ہوتی ہے پس جو لوگ گندے ہو چکے ہوں ان کو ان کے عیوب کے بدنتائج سے ڈرا کر ہی ان کی اصلاح کی جا سکتی ہے جو اس طریق کو استعمال نہ کرے گا.اصلاح کے کام میں ناکام رہے گا.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ رَھْبٌ کے معنے عام خوف کے نہیں بلکہ رَھْبٌ کے معنوں میں کوشش اور جدوجہد کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے چنانچہ عرب کہتے ہیں رُھِبَتِ النَّاقۃُ اور اس کے معنے ہوتے ہیں جَہَدَھَا السَّیْرُ یعنی اونٹنی خوب دوڑائی گئی اور تھک گئی.پس رَھْبٌ اس خوف کو کہتے ہیں جو کام کی طرف رغبت پیدا کرے.اسی وجہ سے عابد لوگوں کو راہب کہتے ہیں.

Page 540

اس سوال کا جواب کہ حضرت اسماعیل کی نسل کو ایک لمبے عرصہ تک انعام سے کیوں محروم رکھا گیا؟ ایک اور شبہ کا ازالہ بھی میں اس جگہ کر دینا چاہتا ہو ں.کہا جا سکتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل ؑ تو بڑے بھائی تھے.ان کی نسل کو ایک لمبے عرصہ تک اللہ تعالیٰ نے انعام سے کیوں محروم رکھا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بنو اسحاق گو بعد میں کیسے ہی بگڑے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سینکڑوں سال تک انہوںنے دین کی شمع کو اُٹھائے رکھا اس لئے وہ یقیناًخدا تعالیٰ کے خاص فضلوں کے وارث ہوئے.بنو اسمٰعیل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک اس رتبہ کو نہیں پہنچے اس لئے بقدر ضرورت ہی انہیں انعام ملا.ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے جوہرِ کامل بنو اسمٰعیل میں سے ہوئے کہ جنہوں نے سب کمی کو پورا کر دیا.اور چونکہ آپؐ خاتم النبیین ہونے والے تھے اس لئے ضروری تھا کہ سب دوسرے انبیاء کو جو براہِ راست نبوت کے مقام پر کھڑے ہونے والے تھے پہلے گزرنے دیا جاتا تا آخر میں آپ تشریف لاتے اور شریعت والی اور براہِ راست نبوت کا دروازہ مسدود کر دیا جاتا.وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ اور اس کلام پر ایمان لاؤ جو میں نے (اب) اتارا ہےاور جو اس (کلام )کو جو تمہارے پاس ہے سچا کرنے والا ہے كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ٞ وَ اِيَّايَ اور تم اس کے (سب سے )پہلے کافر نہ بنو اور میری آیتوں کے بدلے میں تھوڑی قیمت مت لو اور مجھ (ہی) سے فَاتَّقُوْنِ۰۰۴۲ (ڈرو) پھر( میں کہتا ہوں کہ) مجھ(ہی) سے ڈرو.حَلّ لُغَات.اٰمِنُوْا.اٰمِنُوْا امر حاضر جمع کا صیغہ ہے.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.اَنْزَلْتُ.اَنْزَلْتُ اَنْزَلَ سے واحد متکلم کا صیغہ ہے اور اَنْزَلَ کے لئے دیکھو.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۵.مُصَدِّقًا.مُصَدِّقًا صَدَّقَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور صَدَّقَہٗ کے معنے ہیں.ضِدُّ کَذَّ بَہٗ اسے سچا قرار

Page 541

دیا اور اَلتَّصْدِیْقُ کے معنے ہیں نِسْبَۃُ الصِّدْقِ بِالْقَلْبِ اَوِ اللِّسَانِ اِلَی الْقَائِلِ.کسی بات کرنے والے کو اس کی بات میں دل سے سچا سمجھنا یا زبان سے سچا قرار دینا.وَقِیْلَ ھُوَ اَنْ تُنْسِبَ بِـاِخْتِیارِکَ الصِّدْقَ اِلَی الْمُخْبِرِ اور بعض نے تصدیق کے یہ معنے کئے ہیں کہ اپنے اختیار سے سوچ سمجھ کر مخبر کی طرف صدق کا منسوب کرنا تصدیق کہلاتا ہے.نیز لکھا ہے اَلْمُصَدِّقُ.اَلَّذِیْ یُصَدِّ قُکَ فِیْ حَدِیْثِکَ کہ جو کسی کی باتوں کو سچا قرار دے اسے اس کا مصدق کہیں گے.(اقرب) کَافِرٌ.کَافِرٌ کَفَرَ سے اسم فاعل ہے.اور کفر کے معنی مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۷ و ۲۵.لَاتَشْتَرُوْا.لَاتَشْتَرُوْا نہی مخاطب کا جمع کا صیغہ ہے.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۱۷.بِاٰ یَاتِیْ.اٰیٰتٌ.اٰیَۃٌ کی جمع ہے.اٰیۃٌ کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴۰.اَلثَّمَنُ.اَلثَّمَنُ مَاقَدَّرَہُ الْعَاقِدَانِ عِوَضًا لِلْمَبِیْعِ کہ خرید و فروخت کرنے والے جو کسی چیز کی قیمت ٹھہراتے ہیں وہ ثَـمَن کہلاتی ہے.(اقرب) مفردات میں ہے اَلثَّمَنُ اِسْمٌ لِمایَاْخُذُہُ البَائِعُ فِیْ مُقَابَلَۃِ الْمَبِیْعِ عَیْنًا کَانَ اَوْسِلْعَۃً کہ ثَـمَنْ اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بیچنے والا بیچی ہوئی چیز کے بدلہ میں لیتا ہے خواہ نقدی کی صورت میں ہو یا سامان کی وَکُلُّ مَایَحْصُلُ عِوَضًا عَنْ شَیْ ءٍ فَھُوَ ثَمَنُہٗ ہر وہ چیز جو کسی چیز کے عوض حاصل کی جائے اس پر بھی ثَـمَنْ کا لفظ بول دیا جاتا ہے.(مفردات) لسان میں لکھا ہے کہ اَلثَّمَنُ مَاتَسْتَحِقُّ بِہِ الشَّیْ ءَ.ثَـمَنْ ہر اس چیز پر بولیں گے جس کے ذریعہ کسی دوسری چیز کے لینے کا حق ہو جائے وَالثَّمَنُ ثَمَنُ الْبَیْعِ وَثَمَنُ کُلِّ شَیْ ءٍ قِیْمَتُہٗ کہ ثَـمَنْ کا لفظ کسی چیز کی اس قیمت پر بھی بولا جاتا ہے جو اس کو لینے کے لئے ادا کی جائے اور اس پر بھی بولا جاتا ہے جو کسی چیز کی اصل قیمت ہو (یعنی بعض اوقات ایک چیز کی اصلی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن بکتی کم قیمت پر ہے تو اصل قیمت پر اور اس قیمت پر جس پر وہ بک رہی ہوتی ہے ثَـمَنْ کا لفظ بولا جاتا ہے) فَـرَّاء کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں جہاں بھی ثَـمَن پر نصب آئی ہے اور مُبِیْع پر بَاء داخل کی گئی ہے وہاں ان دونوں میں سے کوئی بھی معیّن ثَـمَنْنہیں ہوتی.ہر دو اشیاء میں سے جس کو چاہیں ثَـمَنْ بنا سکتے ہیں مثلاً جب یہ کہیں

Page 542

کہ اِشْتَرَیْتُ ثَوْبًا بِکَسَاءٍ کہ میں نے چادر دے کر کپڑا خریدا.تو اس میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کپڑے کی قیمت چادر ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کپڑا چادر کی قیمت ہے گویا ہر دو اشیاء ایک دوسرے کی قیمت بن سکتی ہیں او رجب یہ بتانا مقصود ہو کہ فلاں چیز اتنی رقم سے خریدی گئی ہے اور وہاں مال کا ذکر ہو تو اس وقت مال کو ثَـمَنْکہیں گے اور اس پر بَـاء داخل ہو گی جیسے حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق آتا ہے وَ شَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ دَرَاهِمَ(یوسف:۲۱)کہ قافلہ والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو چند دراہم دے کرخرید لیا تو یہاں درہم ثَـمَن بن سکتے ہیں.(لسان) اِتّقُوْنِ.اِتَّقُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے.نِ.نِیْ کا قائم مقام ہے.اِتَّقُوْنِ کے معنے ہیں.مجھ سے ڈرو.اِتَّقٰی کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۳.تفسیر.اس آیت میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْ کے معنے استثنا باب ۱۸ کے موعود نبی کو قبول کرنا ہے کیونکہ اَوْفُوْا بِعَهْدِيْۤ کے بعد اٰمِنُوْا بِمَا اَنْزَلْتُ کہا گیا ہے جس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ایفاءِ عہد اور خدا تعالیٰ کا خوف اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی پر ایمان لانا یہ سب امور ان انعامات کی تکمیل کے ساتھ گہرا تعلق رکھنے والے ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مقرر تھے.بِمَا اَنْزَلْتُ.اَنْزَلْتُ کے بعد ضمیر واحد غائب محذوف ہے کیونکہ مَا کی طرف ضمیر کا پھرنا ضروری ہے پس اصل جملہ یہ ہو گا بِمَا اَنْزَلْتُہٗ یعنی اس پر ایمان لائو جسے میں نے نازل کیا ہے.مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ.یہ جملہ اَنْزَلْتُ کے بعد جو ضمیر محذوف ہے اس کا حال ہے اور مطلب یہ ہے کہ میرے اُتارے ہوئے اس کلام پر ایمان لائو جو اس کا جو تمہارے پاس ہے مصدّق ہے.مطلب یہ ہے کہ اس کلام کے ذریعہ سے موسیٰ علیہ السلام کی استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی پوری ہوئی ہے.اسی طرح اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں پس اس کلام اور اس کے لانے والے پر ایمان لانا اپنے سابق الہامی کلام کی تصدیق کرنا ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنا ہے اور اس کو نہ ماننا اس کلام کی تکذیب اور تردید ہے گویا بنی اسرائیل میں سے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیش کردہ کلامِ الٰہی قرآنِ کریم پر ایمان لاتا ہے وہ حضرت موسیٰ اور دوسرے اسرائیلی نبیوں پر بھی ایمان لاتا ہے کیونکہ انہوں نے ان کی خبر دی تھی اور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل شدہ کلام کو رد کرتا ہے وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور دوسرے اسرائیلی نبیوں کو بھی رد کرتا ہے کیونکہ وہ ان کی تصدیق کو ٹھکرا دیتا ہے.پس وہ ان انعامات کا مستحق نہیں رہتا جو ان کی تصدیق اور ان پر ایمان لانے سے وابستہ کئے گئے تھے.

Page 543

ایک غیر مسلم سوال کر سکتا ہے کہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اور ان کے بعد میں آنے والے انبیاء نے واقع میں کسی ایسے نبی کی خبر دی تھی جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت نے پورا کر دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کی ہر قوم میں ایک آخری زمانہ کے نبی کی خبر دی گئی تھی اور اس کی بعض علامات بھی بتائی گئی تھیں جو پورے طو رپر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پوری ہو گئیں خصوصاً اسرائیلی نبیو ںکی پیشگوئیاں تو اس بارہ میں بکثرت ملتی ہیں اس کثرت سے کہ ان پر ایک ضخیم کتاب لکھی جا سکتی ہے.اس آیت میں سب انبیاء اور اقوام کی پیشگوئیوں کا ذکر نہیں اس لئے اس وقت میں ان کو بیان نہیں کرتا لیکن مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ کے مضمون کی مطابقت سے بنی اسرائیل کے نبیو ںکی پیشگوئیوں کا ذکر چونکہ ضروری ہے میں اختصار کے ساتھ ان کا ذکر اس جگہ کرتا ہوں.تصدیق نمبر۱ قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی تورات اور انجیل کی سات تصدیقات.قرآن کی پہلی تصدیق حضرت ابراہیم ؑ کی پیشگوئیوں کی پہلی تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کرتا تھا جنہوں نے بنو اسمٰعیل کی ترقی کی پیشگوئی کی تھی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے اور آپ پر وحی نازل نہ ہوتی تو حضرت ابراہیم جھوٹے قرار پاتے.حضرت ابراہیم ؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ ’’اسمٰعیل کے حق میں َمیں نے تیری ُسنی.دیکھ میں اسے برکت دوںگا اور اسے برومند کروںگا اور اسے بہت بڑھائوںگا اور اس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور میں اسے بڑی قوم بنائوںگا.‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت۲۰ و ۲۱) اس پیشگوئی سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اسحاق کی اولاد سے وعدہ تھا کہ انہیں بہت بڑھائوںگا اور اسے برکت دوںگا اور اس سے بڑی قوم بنائونگا.اسی طرح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے متعلق بھی وعدہ تھا گو باوجود اس کے بائبل میں لکھا ہے کہ یہ عہد اسحاق کی اولاد سے پورا ہو گا مگر یہ تو قلم درکفِ دشمن کی وجہ سے ہے ورنہ ساری باتیں جو حضرت اسحاق کی نسبت کہی گئی تھیں حضرت اسمٰعیل کی نسبت بھی کہی گئیں.تو پھر عہد کا حضرت اسحاق سے مخصوص ہونا بے معنی ہے.بائبل کے قول کے مطابق خدا کا کلام حضرت ہاجرہ پر بھی نازل ہوا تھا اور اس میں اسمٰعیل ؑ کی نسبت یہ پیشگوئی تھی.حضرت ابراہیم ؑ اور ہاجرہ کی بنواسماعیل کی ترقی کے متعلق پیشگوئیاں ’’میں تیری اولاد کو بہت

Page 544

بڑھائوںگا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے گی اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی.اس کا نام اسمٰعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا.وہ وحشی آدمی ہو گا.اس کا ہاتھ سب کے‘ اور سب کے ہاتھ اس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودو باش کرے گا.‘‘ (پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲) گو یہ الہام ہاجرہؓ پر نازل ہوا ہے مگر موسیٰ کی وحی میں اسے شامل کر کے اس کے خدائی الہام ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے پس یہ الہام بھی اسی طرح بنی اسرائیل پر حجت ہے جس طرح حضرت ابراہیم کا اپنا الہام.اس الہام میں یہ امور بیان ہیں کہ (۱) حضرت اسمٰعیل کی اولاد بھی حضرت اسحاق کی اولاد کی طرح بے انتہا ترقی کرےگی حتّٰی کہ گنی نہ جا سکے گی (۲) اسے ایسی عظمت ملے گی کہ سب دنیا اس سے حسد کرے گی (۳) باوجود اس کے کہ سب دنیا اس کی مخالفت کرے گی وہ ان سے دبے گی نہیں بلکہ ان کے مقابل پر عزت کی زندگی بسر کرے گی.اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ بنو اسمٰعیل کے لئے عالمگیر عزت، شہرت اور عظمت مقدر کی گئی تھی.اس قدر کہ اس کے نتیجہ میں دنیا کی سب قومیں ان سے حسد کرنے لگیں گی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے متعلق آ کر یہی دعویٰ کیا کہ وہ ایسی عظمت حاصل کریںگے کہ سب دنیا ان پر حسد کرنے لگے گی خصوصاً بنو اسحاق.اور یہ کہ آپ کو سب دنیا پر خدا تعالیٰ غلبہ دے گا.اس دعویٰ کے ساتھ گویا آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ کے الہاموں کو پورا کرنے کا دعویٰ کیا.اگر آپ ظاہر نہ ہوتے تو ظاہر ہے کہ نہ ابراہیم علیہ السلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوتی جو انہوں نے حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد کے بارہ میں کی تھی اور نہ ہاجرہ پر نازل ہونے والا الہام جو بائبل میں موجود ہے پورا ہوتا مگر رسول کریمؐ کی بعثت کے ساتھ یہ دونوں الہام پورے ہو گئے اور قرآن کریم بائبل کا مصدق ہو گیا یعنی اس کے الہام کو سچا کرنے والا.یہ جو بائبل میں ہے کہ حضرت اسحاق اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے جو حضرت ابراہیم ؑ سے ہوا تھا اس کا ایک جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں کہ بائبل انسانوں کی دست برُد سے پاک نہیں.بنو اسحاق کو بنواسمٰعیل سے سخت عداوت تھی.پس جو کتاب زمانہ جہالت میں ایک لمبے عرصہ تک ان کے ہاتھو ںمیں رہی خدا ہی جانے کہ اس میں انہوں نے کیا کیا تحریف کی ہو گی.دُور جانے کی ضرورت نہیں.بائبل کے وہ نسخے جو عزرانبی کے بعد تاریخی زمانہ میں لکھے گئے ہیں ان میں ہی کافی اختلاف ہے یہودیوں، سامریوں اور مسیحیوں کی بائبل کے نسخو ںمیں اختلاف پایا جاتا ہے گو اصولی طور پر وہ متفق ہیں لیکن پھر بھی کافی اختلاف موجود ہے.جب یہ اختلاف تاریخی زمانہ کا ہے تو خدا تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ عزرا نبی سے پہلے زمانہ میں کیا کیا دست بُرد یہودی کتب میں کر چکے ہوں گے.

Page 545

اگر اس دست برُد کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی میں کہتا ہوں کہ ان پیشگوئیوں کو دیکھتے ہوئے جو حضرت اسمٰعیل کے حق میں بائبل میں اس وقت تک موجود ہیں ہم جائز طو رپر کہہ سکتے ہیں کہ یہ جو بائبل میں لکھا ہے کہ ’’لیکن میں اسحاق سے جس کو سرہ دوسرے سال اسی وقت معیّن میں جنے گی اپنا عہد قائم کرونگا‘‘ (پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۱) اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ یہ عہد ابتداء ً اسحاق کی اولاد کے ذریعہ پورا ہونا شروع ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ پہلے یہ عہد ایک لمبے عرصہ تک بنواسحاق کے ذریعہ سے پورا ہوتا رہا پھر خدا تعالیٰ نے اسے بنو اسمٰعیل کی طرف منتقل کر دیا.اور اس امر کی وجہ کہ گو اسحاق چھوٹے تھے مگر خدا تعالیٰ کا عہد پہلے ان کی اولاد کے ذریعہ سے پُورا ہونا شروع ہوا ہے یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل کی اولاد کو وہ نبوت ملنی تھی جو منسوخ نہ ہونے والی تھی.اگر ان کے ذریعہ سے پہلے عہد پورا ہوتا تو بنو اسحاق نعمت سے بالکل محروم رہ جاتے.پس اللہ تعالیٰ نے پہلے بنو اسحاق کو ایک لمبے عرصہ تک نبوت کے انعام سے حصہ دیا اس کے بعد بنو اسمٰعیل میں وہ نبی مبعوث فرما دیا جو خاتم النبیین تھا اور جس کی شریعت کو کسی اور شریعت نے منسوخ نہ کرنا تھا بلکہ اس نے قیامت تک دنیا پر حکومت کرنی تھی.اس امر کا قطعی ثبوت کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد سے جو عہد تھا اس میں حضرت اسمٰعیل ؑ کی اولاد بھی شامل تھی اس سے ملتا ہے کہ جس طرح عہد کا ظاہری نشان بندوں کی طرف سے ختنہ قرار دیا گیا تھا اسی طرح عہد کا ظاہری نشان خدا تعالیٰ کی طرف سے کنعان کی حکومت قرار دیا گیا تھا.بائبل کا حوالہ میں اوپر نقل کر آیا ہوں لیکن اس جگہ مضمون کو واضح کرنے کے لئے پھر لکھ دیتا ہوں لکھا ہے ’’اور میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان اُن کے ُپشت در ُپشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو.کرتا ہو ںکہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا اور میں تجھ کو اور تیرے بعد تیری نسل کو کنعان کا تمام ملک جس میں تو پردیسی ہے دیتا ہوں کہ ہمیشہ کے لئے مِلک ہو اور میں ان کا خدا ہوںگا.پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل ُپشت در ُپشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو.سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جاوے اور تم اپنے بدن کی کھلٹری کا ختنہ کرو اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘.(پیدائش باب ۱۷ آیت ۷ تا ۱۱) اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ عہد خداوندی کے مادی حصہ کی دو شقّیں تھیں.ایک شق اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھتی تھی اور وہ آلِ ابراہیم ؑ کو کنعان کی بادشاہت دینے کا وعدہ تھا.اور دوسری شق آل ِابراہیم سے تعلق رکھتی تھی اور وہ ختنہ کرانے کی رسم تھی.خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ ہمیشہ آلِ ابراہیم کے پاس کنعان رہے گا اور آل ابراہیم سے مطالبہ کیا

Page 546

کہ وہ بھی ہمیشہ نرینہ اولاد کا ختنہ کرائیں.ایک زمانہ وہ آیا کہ خدا تعالیٰ نے کنعان یہود سے لے کر مسیحیوں کو دے دیا بوجہ اس کے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسرائیلی نبی تھے اس وقت بھی پیشگوئی قائم رہی اور کنعان آلِ ابراہیم کے قبضہ میں ہی رہا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئیاں بنواسماعیل کے متعلق آنحضرتؐ کے وجود میں پوری ہوئیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد سے لے کر ۱۹۱۸ء تک اندازاً تیرہ سو سال تک یہ ملک مسلمانوں کے پاس رہا.اگر تو بنو اسمٰعیل آل ابراہیم کے وعدہ میں شامل نہ تھے او رپھر بھی یہ ملک تیرہ سو سال ان کے اتباع کے قبضہ میں رہا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی قطعاً باطل ٹھہرتی ہے لیکن چونکہ خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی ثابت ہوا کہ بنو اسمٰعیل عہدِ ابراہیم میں بنو اسحاق سے برابر کے شریک تھے.اس جگہ یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اگر خدا تعالیٰ کی اس فعلی شہادت سے یہ نتیجہ نکالا جائے کہ عہد ابراہیم میں بنو اسمٰعیل بھی شامل تھے اس وجہ سے ان کے قبضہ میں کنعان کا آنا عہدِ الٰہی کے پورا ہونے کے تسلسل میں تھا.تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عہد الٰہی کا رُوحانی حصہ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت کا ملنا اور بندہ کی طرف سے دل کا ختنہ کرنا بھی بنو اسمٰعیل کے حق میں پورا ہونا ضروری تھا اور یہ ایفائِ عہد خدا تعالیٰ او ربندہ کی طرف سے جہاں تک بنواسمٰعیل کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پورا ہوا ورنہ بنو اسمٰعیل میں سے کوئی اور ایسا وجود پیش کیا جائے جس کی ذات سے یہ وعدہ پورا ہوا ہو.تصدیق نمبر ۲ قرآن کریم اور آنحضرتؐ کا موسیٰ علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرنا دوسری تصدیق قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کی کی.(۱) کتاب استثنا میں لکھا تھا ’’میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.او رجو کچھ میں اسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو َمیں اُس کا حساب اُس سے لوں گا لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے‘‘ (استثنا باب ۱۸ آیت ۱۸ تا۲۰) اس پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی کہ (الف) آئندہ بنو اسرائیل کے بھائیوں

Page 547

میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ایک نبی کھڑا کیا جائے گا (ب) وہ موسیٰ کی مانند ہو گا یعنی صاحب شریعت ہو گا اور اس کے واقعات حضرت موسیٰ کے واقعات سے ملتے جلتے ہوں گے (ج) اس کی زبان پر خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہو گا یعنی اس کا الہام کل کا کل لفظی ہو گا یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے حکم کو اپنے الفاظ میں بیان کرے (د) وہ خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر لوگوں کے سامنے بیان کرے گا اور سارا کلامِ الٰہی لوگوں کو سنائے گا (ھ) اور جو الہام سنائے گا خدا کا نام لے کر سنائے گا اورشرک کی تردید کرنے والا ہو گا (و) اس کے منکر عذابِ الٰہی میں مبتلا ہوں گے (ز)اگر کوئی شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بننے کی کوشش کرے گا تو خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ وہ ہلاک ہو جائے (یاد رہے کہ انگریزی زبان میں اس جگہ یہ الفاظ ہیں He shall die یعنی وہ ہلاک ہو گا نہ کہ وہ قتل کیا جائے جیسا کہ اُردو میں ہے).ان پیشگوئیوں کے مطابق (الف) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو اسمٰعیل میں سے یعنی بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے ظاہر ہوئے.(ب) آپ نے مثیلِ موسیٰ ہونے کا دعویٰ کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےاِنَّاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلَيْكُمْ رَسُوْلًا١ۙ۬ شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَاۤ اَرْسَلْنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا(المزّمل:۱۶) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھجوایا ہے جو تم پر گواہ ہے اسی طرح جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھجوایا تھا یعنی موسیٰ ؑ.آپؐ موسیٰ علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت نبی تھے اور آپؐ کے حالات حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بڑی مشابہت رکھتے ہیں یعنی ایک کامل شریعت آپؐ کو دی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح آپؐ سے وعدہ کیا گیا کہ آپؐ کی امت میں سے متواتر مجدّدین آتے رہیں گے اور یہ کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا آخری خلیفہ حضرت مسیح تھے اسی طرح قریباً اتنا ہی عرصہ آپؐ کے بعد ایک آپؐ کا خلیفہ ظاہر ہوگا جو مسیح کے نام سے موسوم کیا جاسکے گا چنانچہ اس پیشگوئی اور مشابہت کے مطابق حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اتناہی عرصہ بعد بانی ٔسلسلہ احمدیہ مسیح موعود بن کر خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوئے (ج) آپ نے دعویٰ کیا کہ خدا تعالیٰ کا کلام آپ کی زبان پر جاری ہے یعنی اپنی وحی کے جو الفاظ آپ پیش کرتے ہیں وہ بعینہٖ وہ الفاظ ہیں جو آپ کے دل پر نازل ہوئے.تمام گزشتہ نبیوں کی کتب کو پڑھ کر دیکھ لو ان میں خدا کا کلام کم اور بندہ کا زیادہ ہوتا ہے.انجیل میں تو شاید ایک دو فقرے ہی خدا کے ہیں باقی سب کچھ مسیح کا اپنا کلام یا انجیل کے داستان نویسوں کا نوشتہ ہے صرف قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے کہ الف سے یاء تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی آنحضرت ؐ کے متعلق غرض میں اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں

Page 548

گا سے یہی مراد تھا کہ پہلے انبیاء کا سارا کلام لفظی نہ ہوتا تھا بلکہ اکثر حصہ ان کے دل پر بطور مفہوم نازل ہوتا یا بطور نظارہ دکھایا جاتا اور بعد میں وہ اسے اپنے الفاظ میں بیان کرتے.محمدرسول اللہ صلعم کی یہ خصوصیت اس پیشگوئی میں بتائی گئی کہ وہ خدا تعالیٰ کے مفہوم کو اپنے الفاظ میں بیان نہ کریں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے مفہوم کو خدا تعالیٰ کے ہی الفاظ میں بیان کریںگے اور جو الفاظ وہ اپنے منہ سے خدا تعالیٰ کا منشاء بتانے کے لئے نکالیں گے وہ خود خدا تعالیٰ ہی کے الفاظ ہوں گے پس فرمایا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا یعنی باقی انبیاء کے تو دلو ںپر کلام نازل ہوتا تھا اور مُنہ تک آتے ہوئے وہ نبیوں کے کلام کے لباس میں ملبوس ہو جاتا تھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل پر بھی خدا تعالیٰ کا کلام اُتارا جائے گا اور منہ پر بھی وہی لفظ بعینہٖ جاری ہوں گے جو خدا تعالیٰ نے کہے ہوں گے اسی کی طرف قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى (النّجم :۴،۵) محمد رسول اللہ اپنی مرضی سے خدا تعالیٰ کے منشاء کو الفاظ کا جامہ نہیں پہناتے بلکہ صرف وہی الفاظ وحی کے جو خدا تعالیٰ نے معین شکل میں ان کے دل پر نازل کئے ہیں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں (د) آپؐ نے خدا تعالیٰ کے کلام کو نڈر ہو کر سنایا اور سارا کلام سنایا چنانچہ قرآن کریم کا وجود اس پر شاہد ہے.شدید مخالفت آپؐ کی کی گئی اور کفار نے ہزار لالچ آپ کو دی کہ کسی طرح بعض حصے جو ان کے بتوں کے خلاف تھے حذف کر دیئے جائیں یا کمزور کر دیئے جائیں مگر آپؐ نے ذرا ان کی پروا نہیں کی اور خدا تعالیٰ کا کلام پورا کا پورا اصلی شکل میں لوگوں تک پہنچا دیا چنانچہ قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں ہےفَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ وَ ضَآىِٕقٌۢ بِهٖ صَدْرُكَ اَنْ يَّقُوْلُوْا لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ عَلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ جَآءَ مَعَهٗ مَلَكٌ١ؕ اِنَّمَاۤ اَنْتَ نَذِيْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ(ہود:۱۳)یعنی تیرے مخالف اس امر کی طمع رکھتے ہیں کہ شاید ان کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر تو اس وحی میں سے جو تجھ پر نازل کی گئی ہے کچھ چھوڑ دے اور شائد کہ تیرا سینہ ان کے اس اعتراض سے ڈر کر کہ کیوں اس کے ساتھ خزانہ نہیں اترا یا اس کے ساتھ کوئی فرشتہ آسمان سے تائید کے لئے نہیں آیا بعض حصہ وحی کا چھوڑ دے ؟مگر ایسا نہیں ہو سکتا کیونکہ تو ایک ڈرانے والا ہے.ڈرانے والا ان لوگوں سے کس طرح ڈر سکتا ہے جن کے متعلق تباہی کی خبر دی گئی ہے؟ اور اللہ تو ہر چیز پر نگران ہے پھر اس کے حکم سے کوئی باہر کیونکر نکل سکتا ہے (اس آیت کی پوری تفسیر کے لئے آیت نمبر ۱۳سورۂ ہود) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس امر پر شہادت دی اور لوگوں سے بھی دلوائی کہ آپؐ نے خدا تعالیٰ کا کلام سب کا سب دنیا کو پہنچا دیا چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپؐ کو یہ قرآنی وحی ہوئی کہ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (المائدۃ:۴) آج میں نے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے تو آپؐ نے تمام مسلمانوں کے سامنے دوبارہ مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی اور پھر فرمایا

Page 549

اَللَّھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ اے لوگو! خدا تعالیٰ کو گواہ رکھ کر بتائو کیا میں نے خدا تعالیٰ کا حکم پوری طرح دنیا کو پہنچا دیا ہے یا نہیں؟ اس پر سب صحابہ یک زبان ہو کر بولے اَللّٰہُمَ نَعَمْ ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام اچھی طرح پہنچا دیا ہے اس پر آپ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ.اے خدا !تو اس پر گواہ رہ کہ یہ سب لوگ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ تبلیغ کلام الٰہی کا کام میں نے پورا کر دیا.( سیرة النبی لابن ہشام.خطبۃ الرسول فی حجۃ الوداع) اس پیشگوئی کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ چونکہ موعود نبی خاتم النبین ہونے والا تھا اس پر جو دینی وحی ہو گی دنیا کو پہنچانے کے لئے ہوگی تاکہ دین کا کوئی حصہ نامکمل نہ رہ جائے.اس سے پہلے کے نبیوں کا یہ حال نہ تھا ان پر دین کے بعض اسرار کھولے جاتے تھے مگر انھیں ان کے بتانے کی اجازت نہ ہوتی تھی کیونکہ ان کے زمانہ کے لوگ اس کے سمجھنے کے قابل نہ ہوتے تھے گو نبی کا ترقی یافتہ دماغ اسے سمجھنے کے قابل ہوتا تھا.پس یہ کہنا کہ وہ نبی سب کچھ جو اسے کہا جائے گا لوگوں سے کہہ دے گا.اس کے یہ معنے ہیں کہ اس کے زمانہ میں انسانی دماغ مکمل ہو چکا ہو گا اور آخری اور کامل شریعت جو تمام اسرار روحانی پر مشتمل ہوگی اسے دے دی جائے گی اور اسے حکم دیا جائے گا کہ وہ اپنی امت کو سب باتیں سکھا دے کیونکہ وہ ان کے سننے کے اہل ہیں.ان معنوں کی طرف انجیل میں بھی اشارہ ہے حضرت مسیح فرماتے ہیں’’میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تم سے کہوں.پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا وے گی.‘‘ (یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ و ۱۳).اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے اپنی سب وحی لوگوں کو نہ سنائی کیونکہ وہ ان کے لئے خاص تھی ان کی امت اسے سمجھنے کے قابل نہ تھی لیکن انہوں نے یہ خبر دے دی کہ ان کے بعد ایک روح حق آئے گی وہ لوگوں کو سب باتیں سنا وے گی کیونکہ اس وقت لوگ سب باتوں کے سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے گویا وہ روح حق خاتم النبیّین کے مقام پر فائز ہو گی.(ھ ) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ وہ آنے والا جو کچھ کہے گا خدا کا نام لے کر کہے گا اس طرح پورا ہوا ہے کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ سے پہلے بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ کی آیت رکھی گئی ہے جس کے معنے ہیں میں اللہ جو رحمٰن و رحیم ہے اُس کا نام لے کر اس کلام کو پیش کرتا ہوں (و) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ اس کے منکر ہلاک ہوں گے جس شان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت پورا ہوا ہے اس کے دشمن بھی معترف ہیں گو وہ اسے دنیوی سامانوں کی طرف منسوب کرتے ہیں جو ایک خلافِ عقل و خلاف واقعہ اعتراض ہے (ز) پیشگوئی کا یہ حصہ کہ جو شخص اس پیشگوئی کا جھوٹا مصداق بنے گا اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا نہایت شان سے پورا ہوا.باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلعم

Page 550

اکیلے تھے اور ان کے دشمنوں نے انہیں ہلاک کرنے کے لئے پورا زور لگایا.وہ ہر میدان میں کامیاب ہوئے اور کوئی شخص انہیں نقصان نہ پہنچا سکا اور یہ امر اتفاقی طو رپر نہیں ہوا بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کہہ دیا تھا اور دنیا کو یہ حکم سنا دیا گیا تھا کہ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.(المائدۃ :۶۸) آپ کا دشمنوں کے منصوبوں سے غیر معمولی طور پر محفوظ رہنا ایک ایسا نشان ہے کہ بہت سے سخت دشمنوںکی ہدایت کا موجب ہوا ہے چنانچہ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ہند ابو سفیان کی بیوی فتح مکہ کے بعدجب دوسری عورتوں سے مل کر بیعت کرنے کے لئے آئی اور آپ نے عورتوں سے اقرار لیا کہ ہم شرک نہیں کریں گی.اس پر ہند جوش سے بول پڑی کہ کیا ہم اب بھی شرک کر سکتی ہیں حالانکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ تو اکیلا تھا اور ہم لوگ ایک مضبوط جتھا تھے.ہم نے اپنا سارا زور تجھے تباہ کرنے کے لئے خرچ کیا لیکن باوجود اس کے تجھے ہلاک نہ کر سکے اگر بتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو ہم تجھے تباہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے مگر نتیجہ الٹا نکلا.ہم ہلاک ہوئے اور تو کامیاب.(الروض الانف فصل فی ذکر کسر الاصنام و طمس التماثیل...) اب غور کرو کہ اگر بنو اسمٰعیل میں سے کوئی نبی شریعت کے ساتھ موسیٰ ؑ کے نقشِ قدم پر ظاہر نہ ہوتا، اگر باوجود مخالفت کے وہ خدا کا کلام لوگوںکو نہ سناتا اور سب کا سب کلام نہ سناتا اور اس کے دشمن تباہ نہ ہوتے اور وہ باوجود دشمنوں کے زور اور ان کی مخالفت کے کامیاب نہ ہوتا اور خدا تعالیٰ اس کے منہ میں اپنا کلام نہ ڈالتا تو موسیٰ ؑ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور اس کی سچائی کس طرح ثابت ہوتی؟ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹ کے الزام سے بچایا اور ان کی تصدیق کا موجب ہوئی.تصدیق نمبر ۳ قرآن اور آنحضرتؐ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک اور پیشگوئی کی تصدیق کرنا موسیٰ علیہ السلام نے ایک اور پیشگوئی کی تھی کہ ’’اس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.‘‘ (استثنا باب ۳۳ آیت ۲) اس پیشگوئی میں تین آسمانی نشانوں کا ذکر ہے ایک سینا سے خدا تعالیٰ کے جلوہ گر ہونے کا جس سے حضرت موسیٰ ؑ کی ترقی کی طرف اشارہ ہے دوسرے شعیر سے خدا تعالیٰ کے طلوع کااس میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور

Page 551

کی خبر تھی جو شعیر کے علاقہ میں ظاہر ہوئے.تیسرے الٰہی جلوہ کے ظہور کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کی تفصیل پہلے دونوں جلووں سے زیادہ بیان کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی جلوہ کا ذکر اس جگہ اصل میں مقصود ہے.اس جلوہ کا مقام فاران بتایا گیا ہے اور اس جلوہ کے ظہور کی کیفیت یہ بیان کی گئی ہے کہ دس ہزار قدوسیوں کی معیت میں وہ ہوگا.اور اس کی مزید خصوصیت یہ بتائی گئی ہے کہ جس شخص کے ذریعہ سے وہ جلوہ ظاہر ہو گا اس کے داہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ہو گی.یہ تینوں نشانیاں بتمام و کمال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود میں پائی جاتی ہیں.آپؐ قرآن کریم کی واضح پیشگوئیوں کے مطابق جب کفارِ مکہ پر غالب آ کر مکہ میں داخل ہوئے تو فاران کی طرف سے ہی آپؐ کا داخلہ ہوا کیونکہ مدینہ اور مکہ کے درمیان میں فاران کی وادی واقع ہے اور جس وقت آپ مکہ پر حملہ آور ہوئے آپ کے ساتھ دس ہزار صحابہ کا لشکر تھا اور آپ ایک آتشی شریعت دنیا کے لئے لائے تھے یعنی جو اللہ تعالیٰ کی محبت سے انسان کی بدیو ں اور اس کے گناہوں کو جلا دینے والی ہے اور اس لحاظ سے بھی وہ آتشی شریعت ہے کہ اس میں نہ صرف ماننے والوں کے لئے انعامات کے وعدے ہیں بلکہ منکرو ںاور شریروں کے لئے سزائوں کا بھی ذکر ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر نہ ہوتے انہیں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت نہ کرنی پڑتی.اور پھر خدا تعالیٰ آپؐ کو دشمنوں پر غلبہ نہ دیتا، آپؐ کے ہاتھ پر مکہ فتح نہ ہوتا، آپؐ کے ساتھ اس وقت دس ہزار صحابہ نہ ہوتے، آپؐ کے ہاتھ میں ایک کامل شریعت جو صرف مومنوں کے لئے ترقی کی خبر دینے والی نہ تھی بلکہ دشمنانِ حق کی سزائوں کی خبروں پر بھی مشتمل تھی نہ ہوتی تو استثنا باب ۳۳ آیت ۲ کی پیشگوئی کس طرح پوری ہوتی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وحی کی تصدیق کس طرح ہوتی؟ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اس پیشگوئی کو پورا کرنے اور اسے سچا ثابت کرنے کا موجب ہو کر مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ ثابت ہوئی.تصدیق نمبر ۴ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت سلیمان علیہ السلام کے کلام کی تصدیق کرنا تصدیق نمبر ۴ حضرت سلیمان علیہ السلام کے الہام کی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام غزل الغزلات میں فرماتے ہیں.’’میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیو ںکے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اور اس کا سر ایسا ہے جیسا چوکھا سونا.اس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں.اس کی آنکھیں ان کبوتروں کی مانند ہیں جو لبِ دریا دودھ

Page 552

میں نہا کے تمکنت سے بیٹھے ہیں.اس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں.اس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا ُ مر ٹپکتا ہے.اس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے.اس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم کے گل بنے ہوں.اس کے پیر ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں.اس کی قامت لبنان کی سی.وہ خوبی میں رشک سروہے.اس کا منہ شیرینی ہے.ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا یہ میرا جانی ہے.‘‘ (غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶) اس پیشگوئی میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بتایا ہے جو تاریخ سے سرخ و سفید ثابت ہے پھر فتح مکہ کا نقشہ کھینچا ہے اوربتایا ہے کہ آپؐ دس ہزار آدمیوں کے ساتھ فتح مندانہ اپنے ملک کو واپس آئیں گے.یہ دس ہزار آدمی وہی دس ہزار قدوسی ہیں جن کا ذکر استثنا باب ۳۳ کی پیشگوئی میں تصدیق نمبر ۳ میں گزر چکا ہے پھر آخر میں آپ کا نام بھی بتا دیا ہے یعنی محمد.اس نام کو چھپانے کے لئے بائبل کے مترجموں نے اُردو میں ’’عشق انگیز‘‘ کے الفاظ لکھ دیئے ہیں لیکن عبرانی زبان کے اصل الفاظ جو اس جگہ ہیں اُن کا اردو ترجمہ یوں ہے ’’ہاں وہ محمدیم ہے ‘‘محمدیم میں ی اور م ادب کیلئے بڑھائے گئے ہیں جیسے الوہ جس کے معنے خدا کے ہیں اسے بائبل میں بہت جگہ الوھیم لکھا جاتا ہے پس ہاں وہ محمدیم کے معنے ہیں ہاں وہ بزرگ مـحمّدہے چنانچہ اس پیشگوئی کی وجہ سے یہ دیکھتے ہوئے کہ کئی نشانات ظہور مـحمّدکے ظاہر ہو چکے ہیں لوگ اپنے بچوں کے نام مـحمّدرکھنے لگ گئے تھے چنانچہ مدینہ میں بھی کئی ایک شخص کا نام ان کے والدین نے مـحمّدرکھے ہوئے تھے چنانچہ ان میں سے ایک محمّد بن اُحَیحہ بھی تھے جو صحابہ میں شمار ہوتے ہیں (اُسد الغابۃ زیر اسم محمد بن أُحَیْحَہ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی نے اس پیشگوئی کی بھی تصدیق کی.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر خدا تعالیٰ کا کلام نہ اُترتا تو سلیمان علیہ السلام کی یہ پیشگوئی جھوٹی جاتی.تصدیق نمبر ۵ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یسعیاہ نبی کے کلام کی تصدیق کرنا ’’وہ کس کو دانش سکھاوے گا ،کس کو وعظ کر کے سمجھاوے گا.ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا.جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے.کیونکہ حکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون، قانون پر قانون ہوتا جاتا.تھوڑا یہاں.تھوڑا وہاں.ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹھوں

Page 553

اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے اُن سے کہا کہ یہ وہ آرام گاہ ہے تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیئو اور یہ چین کی حالت ہے پروے شنوانہ ہوئے.سو خدا کا کلام ان سے یہ ہو گا حکم پر حکم، حکم پر حکم.قانون پر قانون، قانون پر قانون.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں.تاکہ وے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں (یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹ تا ۱۳) اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام ایک زمانہ میں (۱) اسی قوم کے پاس آئے گا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دی گئی اور جو اپنی والدہ سے جدا کئے گئے یعنی نبوت پانے کے بعد اس سے محروم کر دیئے گئے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت آئے جب نبوت پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا تھا اور آپ نے بنی اسرائیل کو بھی مخاطب کیا جو الہام کے دودھ سے محروم کر دیئے گئے تھے اور نبوت کی چھاتیوں سے جدا کر دیئے گئے تھے.قرآن کریم میں آتا ہےيٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ قَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلٰى فَتْرَةٍ مِّنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِيْرٍ وَّ لَا نَذِيْرٍ١ٞ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَشِيْرٌ وَّ نَذِيْرٌ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ(المائدۃ:۲۰) یعنی اے اہل کتاب! تمہارے پاس ہمارا رسول آیا ہے.رسولوں کے ناغہ کے بعد وہ تمہارے فائدے کی باتیں بیان کرتا ہے تایہ نہ کہو کہ ہمارے پاس تو نہ کوئی خوشخبری دینے والا آیا ،نہ ڈرانے والا.پس خوب سن لو! کہ تمہارے پاس اب ایک خوشخبری دینے والابھی اور ڈرانے والا بھی آ گیا ہے.اور اللہ ہر امر پر خوب قادر ہے.غرض اسی آیت میں یسعیاہ نبی کے ان الفاظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ’’وہ کس کو دانش سکھائے گا، کس کو وعظ کر کے سمجھا ویگا.ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا.جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے.‘‘ (۲) دوسرے وہ کلام جو اس قوم کے لئے نازل ہو گا یکدم نازل نہ ہو گا نہ کسی ایک شہر میں نازل ہو گا بلکہ حکم پر حکم اور قانون پر قانون مختلف مقامات پر اُتریںگے.قرآن کریم اسی طرح اُترا.کچھ مکہ میں ،کچھ مدینہ میں ،کچھ سفروں میں حتّٰی کہ دشمنوں نے اعتراض کیا کہ لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً (الفرقان :۳۳) یعنی کیوں محمد پر سارا قرآن ایک ہی دفعہ نہ اُترا؟ اور باوجود یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مسیحی لوگ آج تک قرآن کریم پر یہ اعتراض کرتے جاتے ہیں اور اس طرح اپنی قلموں سے اس امر کا ثبوت مہیا کر رہے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مصداق تھے (۳) تیسرے وہ کلام ایک عرب کی زبان سے سنایا جائے گا اور غیر زبان یعنی عربی زبان میں سنایا جائے گا کیونکہ وحشی کا لفظ عرب پر دلالت کرتا ہے اوپر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۲ کا حوالہ دیا جاچکا ہے جس میں حضرت ہاجرہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش کی خبر دی تھی اس میں لکھا تھا ’’وہ (یعنی اسماعیل) وحشی آدمی ہو گا.پس وحشی حضرت اسماعیل ؑ کا نام ہے جو بائبل میں آتا ہے اور در حقیقت عرب کا ترجمہ ہے جو تعصب کی وجہ سے بنو اسرائیل نے وحشی

Page 554

کے لفظ سے کیا ہے.ع ر ب کے معنے عربی زبان میں اظہار کے ہوتے ہیں اور عرب عربو ںکا نام اسی لئے ہے کہ وہ خیموں میں رہتے تھے.ادب کے دلدادہ تھے اور نہایت فصیح بلیغ کلام کرتے تھے.خیموں اور بادیہ میں رہنے کی وجہ سے ان کے مخالف بجائے خیموں میں رہنے والوں کے انہیں وحشی کہتے تھے.بائبل نے بھی یہی طریق اختیار کیا اور جہاں حضرت اسماعیل کا ذکر آیا وہاں بھی انہیں وحشی کے لفظ سے یاد کیا ہے.اور جہاں ان کی اولاد میں سے آنے والے نبی کا ذکر آیا وہاں بھی بجائے یوں کہنے کے کہ وہ اسماعیل کی اولاد میں سے ہو گا یہ لکھ دیا کہ وہ وحشی کے ہونٹوں سے کلام کرے گا گو قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر اک کو نظر آتا ہے اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی مگر پھر بھی یسعیاہ نبی کی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے قرآن کریم فرماتا ہےوَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ هٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ وَ بُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ۠(الاحقاف:۱۳) یعنی اس قرآن سے پہلے موسیٰ کی کتاب گزر چکی ہے یہ قرآن اس کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق یہ عربی زبان میں اُترا ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے اس جگہ قرآن کریم کا عربی زبان میں ہونا موسوی کتب کی تصدیق کا موجب قرار دیا ہے.اس سے اشارہ کتاب پیدائش کی اس پیشگوئی کی طرف ہے جس میں حضرت اسماعیل کو وحشی یعنی عرب قرار دیا گیا ہے اور دوسرے استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی اس پیشگوئی کی طرف جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ شریعت والا کلام بنو اسحاق میں سے کسی فرد پر نہیں بلکہ ان کے بھائی بنو اسماعیل پر اُتارا جائے گا اور ضمناً حضرت یسعیاہ کی پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہو گیا جو حضرت موسیٰ کے تابع نبی تھے اور جن کی مذکورہ بالا پیشگوئی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں بیان شدہ پیشگوئی کی مزید وضاحت تھی.(۴) چوتھے یہ بتایا گیا تھا کہ وہ نبی یہود سے کہے گا کہ اس کا جائے رہائش آرام گاہ یعنی امن کا مقام ہے پس تم اُن کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجیو.اس طرح تم چین سے رہو گے مگر یہود نبی کی اس بات کو نہ مانیںگے اور اس جگہ کو آرام گاہ نہ بننے دیں گے اور تھکے ہوئوں کو تکلیف دیں گے.یہ امر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتا ہے.آپؐ نے مدینہ منورہ کو جہاں یہود بھی رہتے تھے مکہ مکرمہ کی طرح امن کی جگہ قرار دیا اور یہود سے مدینہ منورہ کو با امن رکھنے کے لئے معاہدہ کیا (السیرةالحلبیة باب الھجرۃ الی المدینۃ) لیکن انہوں نے ’’تھکے ہوئوں کو‘‘ یعنی مہاجرین کو جو دُور سے سفر کر کے آئے تھے آرام سے نہ رہنے دیا اور مطابق پیشگوئی خود بھی چین نہ پایا (۵) پانچویں اس پیشگوئی میں تھا.حکم پر حکم نازل ہو گا ’’تاکہ وے چلے جاویں اور پچھاڑی گریں اور شکست کھاویں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں‘‘.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں پوری

Page 555

ہوئی.یہود نے جب تھکے ہوئوں کو آرام میں نہ رہنے دیا تو وہ ’’چلے بھی‘‘ گئے یعنی کچھ ان میں سے مدینہ سے جلاوطن کئے گئے.وہ ’’پچھاڑی بھی گرے‘‘ یعنی بعض قتل بھی کئے گئے.انہوں نے شکست بھی کھائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے اور دام میں پھنسے اور گرفتار بھی ہوئے.بعض ان میں سے غلام بھی بنائے گئے.یہ کیسی واضح پیشگوئی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ کتاب عَرَبِّیٌ مُّبِیْنٌ نازل نہ ہوتی اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی اس طرح تصدیق نہ ہوتی تو یسعیاہ جھوٹے قرار پاتے لیکن قرآن کریم کے ذریعہ سے ان کی پیشگوئی پوری ہو کر ان کے کلام کی تصدیق ہو گئی.تصدیق نمبر ۶ قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یسعیاہ نبی کے ایک اور کلام کی تصدیق کرنا یہی یسعیاہ نبی فرماتے ہیں ’’باوجود اس کے خداوند یہووا یوں فرماتا ہےدیکھو میں صیحون میں بنیاد کے لئے ایک پتھر رکھوںگا ایک آزمایا ہوا پتھر، کونے کے سرے کا ایک مہنگ مولا ،ایک مضبوط ہونیوالا پتھر اس پر جو ایمان لاوے اُتاولی نہ کرے گا ‘‘.(یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۶) قرآن مجید کا حضرت دائود اور حضرت دانیال کے کلام کی تصدیق کرنا حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں’’ وہ پتھر جسے معماروں نے رد کیا کونے کا سرا ہو گیا ہے.یہ خداوند سے ہوا جو ہماری نظروں میں عجیب ہے.‘‘ (زبور ۱۱۸.آیت ۲۲ و ۲۳) پھر فرماتے ہیں ’’مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام سے آتا ہے.ہم خداوند کے گھر میں سے تم کو مبارک بادی دیتے ہیں‘‘ (آیت ۲۶) پھر اسی بارہ میں دانیال علیہ السلام پر الہام نازل ہوا اس کا قصہ یوں ہے کہ نبوکد نضر بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جسے وہ بھول گیا.اس نے اپنے منجموں سے اس کا حال پوچھا مگر انہوں نے بھولی ہوئی خواب کی تعبیر بتانے سے معذوری ظاہر کی اس پر بادشاہ نے ان کے قتل کا حکم دیا.دانیال نبی جو یروشلم سے لائے ہوئے قیدیوں میں سے تھے انہوں نے یہ حال سنا تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اس نے ان کو خواب اور اس کی تعبیر بتا دی اس پر انہوں نے بادشاہ سے خواب اور اس کی تعبیر بتانے پر آمادگی ظاہر کی اور مندرجہ ذیل الفاظ میں خواب اور اس کی تعبیر بتائی.’’تو نے اے بادشاہ نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی.اس مورت کا سر خالص سونے کا تھا.اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کا.اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں.اس کی ٹانگیں لوہے کی

Page 556

اور اس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا.تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوَا انہیں اُڑا لے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا.وہ خواب یہ ہے.اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں.تُو اے بادشاہ !بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا.توُ ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہو گی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہو گی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے.ہاں! لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اس کے پائوں اور انگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی.اور کچھ لوہے کی تھیں سو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا.مگر جیسا کہ تو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلاوے سے ملا ہوا تھا.سو لوہے کی توانائی اس میں ہو گی اور جیسا کہ پائوں کی انگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں.سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملاویںگے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیساوے باہم میل نہ کھاویںگے اور ان بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو وے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضے میں نہ پڑے گی.ان سب مملکتو ںکو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سےآپ نکلا اور اس نے لوہے اور تانبے اور مٹی او رچاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا.خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اس کی تعبیر یقینی.‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۳۱ تا ۴۵) ان تین انبیاء کی بتائی ہوئی خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں ایک روحانی بادشاہ کا ظہور ہونے والا تھا جس نے کونے کے پتھر کی حیثیت پانی تھی یعنی وہ روحانی سلسلہ کا آخری وجود ہونے والا تھا.وہ پتھر بڑا قیمتی ہو گا مضبوط ہونےوالا.جو اس پر ایمان لائیںگے صاحب وقار ہوں گے اور جلد باز نہ ہوں گے.وہ پتھر ایسا ہو گا جسے

Page 557

معماروں نے رد کیا ہوا ہو گا.وہ زبردست بادشاہوں کو کچل ڈالے گا.وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اور کسی انسان کے ہاتھ نے اسے نہ گھڑا ہو گا.قرآن مجید اور آنحضرتؐ کا حضرت مسیح ؑ کے کلام کی تصدیق کرنا حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اس پیشگوئی کا ذکر کیا ہے.وہ فرماتے ہیں.’’ایک اور تمثیل سنو.ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کی چاروں طرف روندھا اور اس کے بیچ میں کھود کے کو لہوگاڑا اور برج بنایا اور باغبانوں کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں پاس بھیجا کہ اس کا پھل لاویں پر ان باغبانوںنے اس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کوپیٹا اور ایک کو مار ڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا.پھر اس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کے تھے بھیجا انہوں نے ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا آپس میں کہنے لگے وارث یہی ہے آئو اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا جب انگورستان کا مالک آوے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا وے اسے بولے ان بدوں کو بری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راج گیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کے میوہ لا وے دی جائے گی‘‘.(متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳).اس حوالہ میں حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک تمثیل دی ہے اور بتایا ہے کہ بنی اسرائیل نے بہت سے نبیوں کا انکار کیا آخر خدا تعالیٰ نے ایک ایسے نبی کو بھیجا جو خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا یعنی خود مسیح علیہ السلام لیکن بنی اسرائیل اُن کا بھی انکار کریں گے اور انہیں قتل کریں گے یعنی قتل کرنے کی کوشش کریںگے(جیسا کہ دوسرے حوالوں سے جو اپنے وقت پر بیان ہوں گے ثابت ہے) اس پر ایک ایسا نبی آئے گا جو خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا اور وہ کونے کا پتھر ہو گا اس کی آمد پر بنی اسرائیل کو مکمل سزا دی جائے گی اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت ایک ایسی قوم کے سپرد کی جائے گی جو خدا تعالیٰ کو وقت پر میوہ پہنچائیں گے یعنی خدا تعالیٰ کے احکام کو پوری طرح بجا لائیں گے وہ پتھر اس شان کا ہو گا جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا وہ بھی چُور چُور ہو گا.آنحضرتؐ کا اپنے آپ کو کونے کا پتھر کہنا یہ پیشگوئیاں جن کے بیان کرنے میں چار نبیوں نے حصہ لیا

Page 558

ہے یعنی دائودؑ.یسعیاہؑ.دانیالؑ اور حضرت مسیح ؑ ایسی واضح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پوری ہوتی ہیں کہ سوائے تعصب سے اندھے شخص کے کوئی ان کا انکار نہیں کر سکتا.آپ بنو اسماعیل میں سے تھے جن کو بنو اسحاق نے ہمیشہ ردّ کیا اور ابراہیم ؑ کی برکتوں سے ہمیشہ محروم رکھنے کی کوششیں کیں آپ نے خود دعویٰ فرمایا کہ میں کونے کا پتھر ہوں چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِکَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بُنْیَانًا فَاَحْسَنَہٗ وَاَجْمَلَہٗ فَجَعَلَ النَّاسُ یُطِیْفُوْنَ بِہٖ یَقُوْلُوْنَ مَارَءَ یْنَا بُنْیَانًا اَحْسَنَ مِنْ ھٰذَا اِلَّا ھٰذِہِ اللَّبِنَۃَ فَکُنْتُ اَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُ (مسلم.کتاب الفضائل باب ذکرُ کونہ خاتم النبیین) یعنی میرا اور دوسرے انبیاء کا حال یوںہے کہ جیسے کسی نے ایک عمدہ اور خوبصورت محل تیار کیا پھر لوگ کثرت سے اسے دیکھنے کے لئے آنے لگے اور کہتے تھے کہ ہم نے اس سے عمدہ محل کوئی نہیں دیکھا.ہاں! یہ کونہ اس کا ننگا ہے پھر خدا تعالیٰ نے مجھے مبعوث کیا اور میں وہ کونے کا پتھر ہوں.آپؐ کا وجود نہایت قیمتی وجود تھا اور آپ کی بنیاد مضبوط جیسا کہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ باوجود دنیا کی شدید مخالفت کے تیرہ سو سال سے آپؐ کے مقام کو کوئی نہیں ہلا سکا.آپؐ کے صحابہ مسیح کے حواریوں کی طرح جلد بازی کرنے والے نہ تھے بلکہ نہایت صاحب ِ وقار تھے.مسیح کے حواریوں کا تو یہ حال تھا کہ جب مسیح ؑ کو رومی سلطنت نے پکڑا تو وہ ان کا انکار کر بیٹھے اور تتر بتر ہو گئے (متی باب ۲۶ آیت ۵۶.۷۰.۷۲.۷۴) مگر آپؐ کے صحابہ نے خطرناک مواقع پر کہا کہ یا رسول اللہ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیںگے بائیں بھی اور آگے بھی لڑیںگے پیچھے بھی اور دشمن آپؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.قرآن کریم ان کی شان میںفرماتا ہے.وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِيْنَ يَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (الفرقان :۶۴) یعنی محمد رسول اللہ پر ایمان لانے والے اللہ کے بندے ایسے ہیں کہ زمین پر بڑے اطمینان سے چلتے ہیں اور جلدبازی سے کام نہیں لیتے اور جب جاہل لوگ ان کو گالیاں دیتے ہیں تو وہ غصہ میں آ کر گالیاں نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہم تو تمہاری سلامتی چاہتے ہیں پھر فرماتا ہے.وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا (الفرقان :۷۳) یعنی جب وہ لہو ولعب کے امور کے مواقع کے پاس سے گزرتے ہیں تو دنیوی لذّات سے متأثر ہو کر ان میں شامل نہیں ہو جاتے جیسے کہ مسیح کی اُمت ہے کہ ذکر الٰہی کو بُھول کر ناچ گانے اور موسیقی میں مشغول ہو گئی ہے بلکہ وہ اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے اُخروی زندگی کی طرف جس کے پھل دیر سے ملتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں.کونے کا پتھر یعنی آنحضرتؐ کی شان پھر اس کونے کے پتھر کی شان یہ بتائی تھی کہ اس کا آنا خدا تعالیٰ کا آنا کہلائے گا اور وہ خدا تعالیٰ کے نام پر آئے گا.مسیح علیہ السلام نے اس کی مزید تشریح یہ کر دی ہے کہ یہ خدا تعالیٰ

Page 559

کے نام پر آنے والا خدا کا بیٹا کہلانے والے کے بعد آئے گا چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد تشریف لائے اور آپ کا آنا خدا کا آنا کہلایا.چنانچہ آپؐ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُوْنَكَ اِنَّمَا يُبَايِعُوْنَ اللّٰهَ١ؕ يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ(الفتح :۱۱) یعنی وہ لوگ جو تیرے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں تیرا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہوتا ہے.ان الفاظ میں کہ آپ کا آنا خدا کا آنا ہے اس طرف بھی اشارہ ہے کہ آپ مثیل موسیٰ ہوں گے کیونکہ حضرت موسیٰ کی نسبت آتا ہے کہ وہ خدا کی مانند تھا.چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں ہے کہ ’’پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا.دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا.‘‘ پس خدا کے مانند ہونے کے معنے دوسرے لفظوں میں یہ ہیں کہ وہ مثیل موسیٰ ہو گا اور اس طرح گویا استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جنگوں کا نقشہ کھینچنا پھر اس پیشگوئی میں ہے کہ وہ پتھر جس پر گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جو اس پر گرے گا ُچور ُچور ہو گا سو ایسا ہی آپ سے ہوا.باوجود انتہائی غربت اور کمزوری کے ساری قوموں سے آپؐ کی لڑائی ہوئی اور آپؐ کامیاب رہے حضرت مسیح علیہ السلام نے تو آپؐ کی جنگوں کا نقشہ ہی کھینچ دیا ہے یعنی فرماتے ہیں.’’جو اس پتھر پر گرے گا وہ چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا‘‘ یعنی اس کی جنگوں کی یہ کیفیت ہو گی کہ پہلے دشمن اس پر حملہ کرے گا اور سخت نقصان اٹھاتا رہے گا بعد میں وہ دشمن پر حملہ کرے گا اور اسے تباہ کر دے گا اسی طرح آپؐ سے ہوا کہ پہلے آپؐ کے دشمن آپؐ پر حملہ کرتے رہے اور چوُر ہوتے رہے بعد میں آپؐ نے حملہ کیا اور ان کی شوکت کو بالکل توڑ دیا.دانیال نبی نے یہ خبر بھی دی تھی کہ اس کی جنگ اپنی ہی قوم سے نہ ہو گی بلکہ اس کے زمانہ کی زبردست حکومتوں سے بھی ہو گی اور وہ بھی اس کے ہاتھوں تباہ ہوں گی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں آپ کی پیشگوئی کے مطابق قیصر کی حکومت تباہ ہوئی دانیال نبی نے اس حکومت کے مذہب کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے فرماتے ہیں ’’اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے کو انسان کی نسل سے ملا دیں گے لیکن جیسے لوہا مٹی سے میلنہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھائیں گے‘‘ (دانیال باب ۲ آیت ۴۳) اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ قوم ایک ایسے مذہب سے وابستہ ہو گی جس میں داخل ہونے کا اسے حق نہ ہو گا کیونکہ یہ فرمانا کہ وہ قوم اپنے آپ کو انسان کی نسل سے ملاوے گی.اس سے یہ مراد تو نہیں ہوسکتی کہ وہ انسان نہ ہوں گے کیونکہ انسان ہونا تو ان کا ظاہر ہے پس اس کے کوئی معنے کرنے پڑیںگے اور وہ معنے یہی ہو سکتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ابن آدم سے ملانے کی کوشش کریںگے یعنی

Page 560

مسیح علیہ السلام سے لیکن ان کا یہ دعویٰ باطل ہو گا کیونکہ ابن آدم یعنی مسیح تو صرف بنی اسرائیل کے لئے آئے گا غیر قوموں کو اس کے مذہب میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہ ہوگی جیسے کہ خود مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں ’’میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ (متی باب ۱۵ آیت ۲۴) اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جب اپنے بعض حواریوں کو مبلّغ بنا کر بھیجوایا تو انہیں مندرجہ ذیل الفاظ میں حکم دیا.’’غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا‘‘ (متی باب ۱۰ آیت ۵) پس رومی لوگ جو اپنے آپ کو مسیحی کہتے تھے ان کی مثال ایسے وجود کی تھی جو اپنے آپ کو ایسی نسل میں شامل کرتا ہے جس میں وہ شامل ہونے کا حق نہیں رکھتا اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ انسان سے مراد مسیح ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام بار بار انجیل میں ابن آدم آتا ہے چنانچہ متی باب ۲۴ آیت ۲۷ میں لکھا ہے ’’جیسے بجلی پورب سے کوندھ کے پچھم تک چمکتی ویسا ہی ابن آدم کا آنا بھی ہو گا.‘‘ پس انسان سے مراد اس جگہ ابنِ آدم کے ساتھ اپنے آپ کو منسوب کرنا ہے.اَن گھڑ پتھر سے مراد آنحضرتؐ کا اُمیّ ہونا پھر لکھا تھا کہ وہ ان گھڑ پتھر ہو گا اس سے مراد یہ تھی کہ وہ پڑھا لکھا نہ ہو گا اور انسانوں نے اسے تعلیم نہ دی ہو گی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امّی تھے اور قرآن کریم نے اس پیشگوئی کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کیا ہے.اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ (الاعراف :۱۵۸) یعنی وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اس رسول نبی اور امّی کی جس کا ذکر تورات اور انجیل میں موجود ہے اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تورات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تین ناموں سے کیا گیا ہے.(۱) ر سول کے نام سے(۲)نبی کے نام سے(۳)اور اُمیّ یعنی اَن پڑھ کے نام سے.اور جیسا کہ اوپر کے حوالجات میں بتایا گیا ہے عہد نامہ قدیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اَن گھڑے پتھر کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انجیل نے اس پیشگوئی کی تصدیق کی ہے اور گویا عربی زبان کے محاورہ کے مطابق آپ کے اُمّی ہونے کی خبر دی ہے.اَن پڑھ ہونے کی پیشگوئی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتی بعض لوگ اس پیشگوئی کو نادانی سے مسیح ناصری پر چسپاں کرتے ہیں لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ مسیح اَن پڑھ نہ تھا اس کے انسان اُستاد تھے چنانچہ لکھا ہے ’’تب یسوع جلیل سے یردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا تاکہ اس سے بپتسمہ پاوے.‘‘ (متی باب ۳ آیت ۱۳) پھر لکھا ہے ’’اور یسوع بپتسمہ پا کے وہیں پانی سے نکل کے اوپر آیا.‘‘ (آیت ۱۶) پس مسیح نے نہ صرف مادی تعلیم پائی بلکہ رُوحانی تعلیم کے لئے بھی وہ یحییٰ ؑ کا شاگرد ہوا پس وہ امّی نہیں کہلا سکتا اور اس پیشگوئی کے مصداق کے لئے اُمّی

Page 561

ہونے کی شرط ہے نیز مسیح میں یہ بات بھی پائی نہیں جاتی کہ جو اس پر گرے ُچور ُچور ہو جائے اور جس پر وہ گرے اسے نیست کر دے لوگ مسیح پر گرے اور اسے ایذا دی اور اُسے کسی پر گرنے کا موقعہ ہی نہیں ملا.اب اگر یہ پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے پوری نہ ہوتیں تو دائودؑ.یسعیاہؑ.دانیالؑ.اور مسیح علیہ السلام سب کے سب نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ جھوٹے قرار پاتے.پس ان پیشگوئیوں کو پورا کر کے قرآن کریم نے ان انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے.تصدیق نمبر ۷ قرآن مجید اور آنحضرتؐ کا مسیح کے حواریوں کے اقوال کی تصدیق کرنا کتاب اعمال میں لکھا ہے ’’پس توبہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوند کے حضور سے تازگی بخش ایاّم آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاوےگا جو کچھ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا بلکہ سب نبیوں نے سموایل سے لے کے پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی ہے تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو جو خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراھام سے کہا کہ تیری اولاد سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے‘‘ (اعمال باب ۳ آیت ۱۹ تا ۲۶) یہ پیشگوئی اعمال میں ہے لیکن ظاہر ہے کہ پیشگوئی بہرحال حضرت مسیح علیہ السلام نے کی ہو گی کیونکہ حواری انہی کے اقوال کو نقل کرتے ہیں اور مسیحیوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ حواری جو کچھ کہتے تھے مسیح کے روحانی اثر کے نیچے کہتے تھے اسی وجہ سے حواریوں کے اعمال و اقوال کو انہو ںنے الہامی نوشتوں میں جگہ دی ہے اور بائبل کا حصہ قرار دیاہے علاوہ ازیں جیسا کہ تصدیق نمبر ۶ میں بیان کیا جا چکا ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے دوسرے لفظوں میں اس پیشگوئی کو بیان کیا ہے پس جو کچھ اعمال کے حوالہ میں کہا گیا ہے ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کا کہا ہوا ہے.اس حوالہ میں مندرجہ ذیل امور بیان ہوئے ہیں (۱) مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں نازل نہ ہوں گے جب

Page 562

تک کہ وہ پیشگوئی موسیٰ کی پوری نہ ہو لے کہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ایک نبی موسیٰ کی مانند آئے گا.(۲) موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ سمو ایل سے لے کر آخر تک سب نبیوں نے اس آنے والے کی خبر دی ہے.(۳) مسیح اوّل کی آمد اس نبی کے لئے بشارت دینے والے کی تھی کیونکہ لکھا ہے تمہارے پاس خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم کو اپنی بدیوں سے پھیر کے برکت دے.میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ موسیٰ کی مانند نبی یا انجیل کے محاورہ کے مطابق وہ نبی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.پس اس پیشگوئی میں جو کہا گیا ہے کہ ضروری ہے کہ مسیح آسمان پر ہی رہے جب تک سب پیشگوئیاں خصوصاً مثیلِ موسیٰ کے آنے کی پیشگوئی پوری نہ ہو جائے.اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر دی گئی تھی نیز یہ بھی بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح کی پہلی آمد اس لئے تھی کہ تا وہ اس نبی کے لئے راستہ صاف کریں اور لوگوں کے دلوں کو گناہوں سے صاف کر دیں تا وہ اس پر ایمان لائیں کیونکہ لکھا ہے خدا نے یسوع کو اُٹھا کے پہلے بھیجا.یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ مسیح کی آمد بطور ایک مبشر کے تھی اور غرض یہ تھی کہ کچھ لوگوں کے دل صاف ہو جائیں اور یہودیت کی سختی ان کے دلو ںپر سے جاتی رہے اور ایسا ہی ہوا.قرآن کریم فرماتا ہے.لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَهُوْدَ وَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا١ۚ وَ لَتَجِدَنَّ اَقْرَبَهُمْ مَّوَدَّةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّا نَصٰرٰى١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَ رُهْبَانًا وَّ اَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ۠.وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْيُنَهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ١ۚ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِيْنَ (المائدۃ :۸۳،۸۴) یعنی مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن تو یہود کو پائے گا اسی طرح مشرک لوگوں کو.اور مسلمانوں سے محبت کرنے میں سب سے زیادہ قریب تو ان لوگوںکو پائے گا جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں یہ اس لئے ہے کہ ان میں پادریوں اور زاہدوں کا گروہ پایا جاتا ہے اور اس لئے بھی کہ ان میں فروتنی پائی جاتی ہے اور جب وہ اس کلام کو جو ہمارے اس رسول پر نازل ہوا ہے سنتے ہیں تو اس وجہ سے کہ انہوں نے سچ کو پہچان لیا ہے تجھے ان کی آنکھوں سے آنسو ٹپکتے ہوئے نظر آتے ہیں وہ کہتے ہیں اے ربّ! ہم ایمان لے آئے ہمارا نام بھی گواہوں میں لکھ لے.غرض قرآن کریم بھی مسیح کی اس پیشگوئی کی تصدیق کرتا ہے کہ مسیح نے پہلے آ کر بہتوں کے دلو ںکو گناہوں سے پھیر دیا اور انہیں برکت دی حتّٰی کہ وہ اس نبی کو جو موسیٰ کی مانند تھا ماننے کے قابل ہو گئے.اوپر کی پیشگوئی کو پورا کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح اور سمو ایل سے لے کر آخر تک کے سب نبیوں کی تصدیق کی.اگر آپؐ نہ آتے تو یہ سب کے سب جھوٹے ٹھہرتے.

Page 563

پیشگوئیاں تو بہت ہیں جن کو پورا کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے انبیاء کے کلام کی تصدیق کی ہے مگر میں اس موقعہ پر اس پر بس کرتا ہوں انہی مثالوں سے ہر غیر متعصب اس امر کو سمجھ سکے گا کہ قرآن کریم کا بنی اسرائیل سے یہ کہنا کہ وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ کیسا سچا دعویٰ ہے قرآن کریم بنی اسرائیل کی کتب کی خبروں کو پورا کرنے والا ہے بنی اسرائیل میں سے جو کوئی اس کا انکار کرتا ہے وہ اس کا انکار نہیں کرتا وہ اپنی کتب کا انکار کرتا ہے جنہوں نے اس کے ظہور کی خبر دی تھی.قرآن کریم کے مصدّق ہونے پر عیسائیوں کا اعتراض اور اس کا جواب بعض مسیحی مصنف اس آیت کی نسبت اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قرآن کریم نے اس آیت میں یہ اعلان کیا ہے کہ جو کچھ تمہاری موجودہ کتب میں لکھا ہے وہ سب سچ ہے اور یہ معنے کر کے وہ اعتراض کرتے ہیں کہ جبکہ قرآن کریم کے نزدیک موجودہ بائبل درست ہے تو پھر قرآن کریم جھوٹا ہوا کیونکہ وہ موجودہ بائبل کے خلاف مضامین بیان کرتا ہے میری سمجھ میں یہ ذہنیت کبھی بھی نہیں آتی کہ چونکہ الف ، باء کو سچا کہتا ہے اس لئے وہ جھوٹا ہے یہ تو گویا احسان کا بدلہ ظلم سے دینا ہے مگر جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں.تصدیق کے دو معنی کسی کو سچا کہنے اور کسی کی بات کو پورا کرنے کے اس آیت کے وہ معنے ہیں ہی نہیں جو یہ پادری صاحب کرتے ہیں انہیں تصدیق کے لفظ سے دھوکا لگا ہے حالانکہ تصدیق کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے کسی کو سچا کہنے کے معنوں میں بھی اور اس کی بات کو پورا کرنے کے معنو ںمیں بھی.اور یہاں وہ دوسرے معنے ہیں قرآن کریم دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ النَّبِيّٖنَ لَمَاۤ اٰتَيْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ١ؕ قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِيْ١ؕ قَالُوْۤا اَقْرَرْنَا١ؕ قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ.فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (آل عمران :۸۲،۸۳) یعنی جب اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء سے یہ فرماتے ہوئے پختہ عہد لیا کہ میرے تم کو کتاب اور حکمت دینے کے بعد جو ایسا رسول آئے کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اس کا مصدق ہو تو تم اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا پھر فرمایا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو اور اس بارہ میں مجھ سے پختہ عہد باندھتے ہو، انہوں نے جواب میں کہا کہ ہاں ہم اقرار کرتے ہیں اس پر فرمایا کہ اب تم بھی گواہ رہو اور میں بھی تمہارا گواہ رہوں گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ اب اس عہد کے بعد جو لوگ اس سے پھر جائیں گے وہ فاسقوں میں سے گنے جائیں گے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم کے نزدیک تمام انبیاء کو ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی گئی تھی جو سب انبیاء کی کتب کی تصدیق کرے گا اور اس پر ایمان لانا سب

Page 564

قوموں کے لئے ضروری ہو گا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نبیوں کے متعلق فرماتا ہے.وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ(فاطر:۲۵) کوئی قوم ایسی نہیں گزری کہ اس میں نبی نہ آیا ہو پھر اس کے بعد فرمایا ہے.وَ الَّذِيْۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِعِبَادِهٖ لَخَبِيْرٌۢ بَصِيْرٌ(فاطر:۳۲) یعنی جو کتاب اللہ تعالیٰ نے تجھ پر وحی سے نازل کی ہے وہ ساری کی ساری حق ہے اور اس سے پہلے جس قدر و حیاں نازل ہو چکی ہیں سب کی مصدّق ہے اور اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں سے خبردار اور ان کے حال کا دیکھنے والا ہے ان آیات کو پہلی آیت کے ساتھ ملا کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی سب دنیا میں اور ہر قوم میں آئے ہیں اور یہ کہ اس آیت کا موعود نبی ہر نبی کی کتاب کا مصدّق ہو گا اور ہر نبی کی امت کو اس پر ایمان لانا ہو گا.دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس قسم کی تصدیق قرآن کریم بائبل کی کرتا ہے ویسی ہی تصدیق وہ ویدوں کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی تصدیق وہ ژند کی بھی کرتا ہے اور ویسی ہی ان تمام نبیوں کی کتب کی جو دنیا کے کسی گوشہ میں گزرے ہوں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب کتب کی موجودہ شکلو ںمیں شدید اختلاف ہے اگرانہیں موجودہ شکل میں درست قرار دیا جائے تو چونکہ وہ ایک دوسرے کی مکذّب ہیں مذہب کا کچھ باقی نہیں رہ جاتا.او رہم انہیں موجودہ شکل میں خدا تعالیٰ کی کتاب کہہ کر گویا خود ان نبیوں کی تکذیب کرتے ہیں جن کی طرف وہ منسوب ہیں مثلاً کیا ہم موجودہ تورات کو کلیّ طور پر موسیٰ ؑ کا الہام کہہ سکتے ہیں اس میں تو یہ لکھا ہے ’’سو خداوند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سر زمین میں مر گیا اور اس نے اسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا.پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا.‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۵ و ۶) پھر لکھا ہے.’’اور نون کا بیٹا یشوع دانائی کی روح سے معمور ہوا کیونکہ موسیٰ نے اپنے ہاتھ اس پر رکھے تھے اور بنی اسرائیل اس کے شنوا ہوئے اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو فرمایا تھا انہو ںنے ویسا ہی کیا.اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں اُٹھا جس سے خداوند آمنے سامنے آشنائی کرتا.‘‘ (استثنا باب ۳۴ آیت ۹ و ۱۰) ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ موسیٰ کی وفات کے لمبے عرصہ بعد لکھی گئی ہیں بلکہ اس وقت جبکہ موسیٰ کی قبر کا نشان تک مٹ گیا تھا اور بہت سے نبی بنی اسرائیل میں آ چکے تھے کیونکہ لکھا ہے اب تک موسیٰ کی مانند نبی بنی اسرائیل میں کوئی نہیں آیا.کیا کوئی عقلمند مان سکتا ہے کہ حضرت موسیٰ اپنی وفات کے سینکڑوں سال بعد دوبارہ دنیا میں آئے تھے اور یہ الفاظ اپنی کتاب میں بڑھا گئے تھے اگر ایسا نہیں بلکہ کسی اور ہاتھ نے صدیوں بعد موسیٰ کی کتاب کے آخر میں یہ الفاظ بڑھا دیئے تھے تو کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے اور کیا کیا اس کتاب میں نہ بڑہا دیا ہو گا ؟پھر قرآن کریم کی تصدیق ہم کس کس آیت پر چسپاں کریں اور کیونکر معلوم کریں کہ اس محرف کتاب میں کہ جسے آج بائبل کے اپنے علماء بھی بہت سے ہاتھوں اور

Page 565

بہت سے زمانوں کا لکھا ہوا بتاتے ہیں کونسا کلام خدا کا ہے جس کی ہم تصدیق کریں.اورکونسا انسانوں کا ہے کہ جسے ہم ردّ کرنے کے مجاز ہوں؟ اسی طرح انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے کہا کہ ’’میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ ان میں سے جو یہاں کھڑے ہیں بعضے ہیں کہ جب تک ابن آدم کو اپنی بادشاہت میں آتے دیکھ نہ لیں موت کا مزہ نہ چکھیں گے.‘‘ (متی باب ۱۶ آیت ۲۸) لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ سب لوگ مر گئے اور اس وقت تک ان کی سوسو ُپشت مر چکی ہے مگر مسیحیوں کے نزدیک ابھی تک ابن آدم اپنی بادشاہت میں نہیں آیا اگر مسیح کی آمد سے اس کی قوم کی ترقی مراد لی جائے تب بھی یہ بات غلط ہوئی کیونکہ مسیحیوں کو ترقی تین سو سال واقعہ صلیب کے بعد ملی اور اس وقت تک ایک آدمی بھی مسیح کے زمانہ کا زندہ نہ تھا اب یہ پادری صاحبان جو تصدیق کے معنے اس کے سچا ہونے کا اقرار کرتے ہیں.ہمیں بتائیں کہ قرآن کریم اس قسم کی باتو ںکی کس طرح تصدیق کر سکتا ہے؟ قرآن مجید کا عام معنوں کے لحاظ سے تورات اور انجیل کی تصدیق کرنا ان کے محرّف ہونے کی وجہ سے ناممکن ہے بڑی بات تو یہ ہے کہ مسیحی صاحبان کے نزدیک اناجیل میں مسیح کی خدائی اور اقنوم ثلاثہ کا ذکر ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ١ۘ وَ مَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّاۤ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ (المائدۃ :۷۴) یعنی وہ لوگ جو کہتے ہیں اللہ تین اقنوم میں سے ایک اقنوم ہے (یعنی نصاریٰ) وہ کافر ہیں اور حق یہی ہے کہ دنیا کا معبود صرف ایک ہی ہے اور اگریہ شرک کرنے والے لوگ اپنے شرک سے رکیں گے نہیں تو جو اُن میں سے کفر پر اصرار کریں گے انہیں درد ناک عذاب پہنچے گا.یہ آیت اور ایسی ہی اوربہت سی آیات صاف بتاتی ہیں کہ قرآنِ کریم اس انجیل کا یقینا مصدّق نہیں جسے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ کریم انجیل کے اس مفہوم کا ہر گز مصدّق نہیں جسے آج کل کے مسیحی لوگ پیش کرتے ہیں پھر ان معنوں سے مسیحی لوگ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ تصدیق انسانوں کی دو طرح ہوتی ہے.اوّل یہ کہ کسی انسان کو راستباز کہا جائے دوم یہ کہ اس کی کسی بات کو سچا ثابت کر دیا جائے خواہ زبان سے مثلاً کہا جائے کہ اس قول میں یہ سچا ہے یا فعل سے کہ عملاً اس کے قول کی تصدیق کی جائے مثلاً اس نے اس کے متعلق کسی کام کے کرنے کی خبر دی ہو اور یہ وہ کام کر دے.کتب سماویہ کی تصدیق تین طرح ہوتی ہے لیکن کتب سماویہ کی تصدیق تین طرح ہوتی ہے اس طرح بھی کہ انہیں کلیّ طور پر سچا کہا جائے، اس طرح بھی کہ ان کے بعض حصص کی تصدیق کی جائے اور اس طرح بھی کہ ان

Page 566

کی ابتدائی حالت کی تصدیق کی جائے مثلاً اس امر کا اقرار کہ وہ ابتدا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں اور ان کے پیش کرنے والے راستباز تھے جھوٹے نہ تھے گو اب اس کتاب میں لوگوں نے خرابیاں پیدا کر دی ہیں.میں ثابت کر چکا ہوں کہ کلّی تصدیق پہلی کتب کی نہ تو ممکن ہے اور نہ قرآن کریم ایسا کر سکتا ہے ممکن اس لئے نہیں کہ وہ سب کتب اس وقت دنیا میں موجود ہی نہیں اور قرآن کریم کی شان کے لائق اس لئے نہیں کہ وہ خود ہی ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے پس جب وہ ان کتب کی غلطیاں بیان کرتا ہے تو ان کی تصدیق کیونکر کر سکتا ہے؟ اب صرف دو طریق تصدیق کے رہ گئے.جزُئی تصدیق یا ابتدائی حالت کی تصدیق.قرآن مجید کی دو طرح سے کتب سماویہ کی تصدیق سو سابق کتب کی تصدیق قرآن کریم انہی دو طریق سے کرتا ہے جو کتب تو دنیا میں موجود ہیں ان کی تو دونوں قسم کی تصدیق کرتا ہے یعنی ان کے بعض مسائل کی تصدیق کرتا ہے اور ان کی بعض پیشگوئیوں کو اپنی ذات میں پورا کر کے انہیں سچا ثابت کرتا ہے دوسری تصدیق وہ یہ بھی کرتا ہے کہ سب کتب سماویہ کے متعلق وہ یہ خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہیں دنیا کے سامنے پیش کیا گیا وہ سچی تھیں.وہ حضرت آدمؑ کے الہام.حضرت نوح ؑ کے الہام.حضرت ابراہیم ؑ کے الہام.حضرت موسیٰ ؑ کے الہام.حضرت مسیح ؑ کے الہام.حضرت کرشنؑ کے الہام.حضرت رامچندرؑ کے الہام.حضرت زردشتؑ کے الہام اور باقی ان تمام انبیاء کے الہامو ںکی تصدیق کرتا ہے جو وقتاً فوقتاً اور مختلف ملکوں اور قوموں میں ظاہر ہوئے خواہ ان کے نام بھی ہمیں معلوم نہیں چنانچہ فرماتا ہے وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَّنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ١ؕ وَ مَا كَانَ لِرَسُوْلٍ اَنْ يَّاْتِيَ بِاٰيَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ۚ فَاِذَا جَآءَ اَمْرُ اللّٰهِ قُضِيَ بِالْحَقِّ وَ خَسِرَ هُنَالِكَ الْمُبْطِلُوْنَ(المؤمن :۷۹) یعنی اے محمد رسول اللہ! ہم تجھ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں ان میں سے بعض کا ذکر ہم نے قرآن میں کیا ہے اور بعض کا نہیں کیا اور یاد رکھو کہ کسی رسول کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کوئی نشان لے آئے.پس جب اللہ کا حکم آ جائے تو سچائی کے ساتھ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور جو بھی جھوٹا ہو ہلاک ہو جاتا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف وہی نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہیں جو قرآن کریم میں مذکور ہیں ان کے سوا اور لوگ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آ چکے ہیں پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں نہیںہم کیونکر جانیں کہ وہ سچے تھے تو اس کی یہ علامت بتائی ہے کہ رسول نشان لے کر آتا ہے اور نشان خدا تعالیٰ کی امداد کے بغیر کوئی نہیں دکھا سکتا.پس جو نشان دکھاتا ہے وہ یقینا سچا ہے پھر یہ سوال ہو سکتا تھا کہ بہت سے نشان عینی شہادت اور واقعات کے تفصیلی علم کو چاہتے ہیں اور مختلف اقوام جن لوگوں کو بطور اپنے نبیوں کے پیش کرتی ہیں ان کے تفصیلی حالات کا ہمیں علم نہیں پھر ان

Page 567

کی سچائی کو کس طرح معلوم کریں تو اس سوال کا جواب اس طرح دیا کہ ایک نشان ایسا ہے جو سب نبیوں میں مشترک ہے اور وہ اپنی شہادت ہر وقت ساتھ رکھتا ہے اور وہ یہ کہ جب کوئی نبی دنیا میں آتا ہے آخر کار (۱) اس کے مخالف ہلاک ہو جاتے ہیں اور (۲) اس کا نام دنیا میں رہ جاتا ہے اور اس کے اتباع کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے جس مدعی ٔالہام کی تائید میں یہ امر دیکھو سمجھ لو کہ خدا تعالیٰ کی تائید اس کے حق میں ہے اور وہ جھوٹا نہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم صرف انہی انبیاء کا مصدّق نہیں جن کے نام اس نے لئے ہیں بلکہ اُن انبیاء کا بھی مصدّق ہے جن کے نام اس نے نہیں لئے اور جب وہ ایسے انبیاء کا مصدّق ہے تو ان کے کلام کا بھی مصدّق ہے اور اس ناپید یا غیر مذکور کلام کی تصدیق اسی طرح ہو سکتی ہے کہ اجمالاً ایمان لایا جائے کہ وہ سچے ہیں پس تصدیق کے دوسرے معنے اجمالی ایمان کے ہیں یعنی ان کلاموں کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی اور ایسی ہی تصدیق قرآن کریم یہود و نصاریٰ کی کتب کی بھی کرتا ہے پس اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ قرآن کریم ان کی موجودہ صورت کو صحیح قرار دیتا ہے ظلم ہے اور دیگر آیاتِ قرآنیہ اور واقعات اور خود ان کی کتب کی اندرونی شہادت کے خلاف ہے.تصدیق کو لِمَا مَعَکُمْ کے الفاظ کے ساتھ مقیدّ کرنے کے لحاظ سے قرآن مجید کے تورات و انجیل کے مصدّق ہونے کا مطلب یہ لطیفہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آیت زیر بحث میں تورات و انجیل کی تصدیق کا ذکر نہیں بلکہ لِمَا مَعَکُمْ کی تصدیق کا ذکر ہے یعنی قرآن جو کچھ ان کے پاس ہے اس کا مصدّق ہے اب اگر ان الفاظ کے وسیع معنے لئے جائیں تو ان کے یہ معنے ہوں گے کہ ان کے قصوں کہانیوں کی بھی وہ تصدیق کرتا ہے لیکن یہ معنے بالبداہت باطل ہیں اور یہ ماننا پڑے گا کہ ان الفاظ کو بعض قیود سے مقیّد کرنا ہو گا اور وہ قیود معقول طور پر یہی ہو سکتی ہیں (۱) اس کے یہ معنے لئے جائیں کہ جو مضمون اس قسم کی آیات سے پہلے یا بعد میں بیان ہو رہا ہے یہ الفاظ ساری کتاب کی نہیں بلکہ صرف اس کی تصدیق کے بارہ میں ہیں اور یہ مطلب لیا جاوے کہ اس مسئلہ کے متعلق جو تعلیم ہماری ہے وہی تمہاری کتب میں ہے پس تصدیق خاص ہو گی نہ کہ عام.انہی معنوں کے رو سے میں نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ یہ قرآن کریم تمہاری کتب میں بیان شدہ پیشگوئیوں کی تصدیق کرتا ہے یعنی انہیں پورا کرتا ہے (۲) یا پھر لِمَا مَعَکُمْ کو اس حد بندی سے محدود کیا جائے گا کہ تمہارے پاس جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق قرآن کریم کرتا ہے اور ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں اس میں کیا شک ہے کہ پہلی کتب میں جو خدا کا کلام ہے اس کی تصدیق ہر دوسرے آسمانی کلام کو کرنی چاہیئے مگر اس تصدیق کے یہ معنے نہیں ہو سکتے کہ جو کچھ

Page 568

بھی ان کتب میں ہے وہ ضرور خدا کا کلام ہے.لفظ تصدیق کے ساتھ دو مختلف صلے لا کر دو مختلف باتوں کی طرف اشارہ اس سوال کے متعلق ایک اور بات بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ پہلی کتب کے لئے جس جس جگہ قرآنِ کریم میں تصدیق کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں اس کا صلہ لام آیا ہے سوائے دو جگہوں کے جہاں کوئی صلہ استعمال نہیں ہوا لیکن جہاں قرآنِ کریم یا رسولِ کریم کی نسبت یہ لفظ آیا ہے وہاں اس کا صلہ با آتا ہے اور لغت سے بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تصدیق کے معنے اس کوسچا قرار دینے کے ہوں وہاں با صلہ آتا ہے پس اس اختلاف سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جہاں جہاں پرانی کتب کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے اس کے اور معنے ہیں اور وہ یہی ہو سکتے ہیں کہ پہلی کتب میں جو پیشگوئیاں تھیں قرآن کریم ان کا پورا کرنے والا ہے یہ نہیں کہ ان کے اندر جو کچھ غلط یا درست لکھا ہوا ہے اس کو سچا قرار دیتا ہے قرآنِ کریم کی بعض آیات بھی اس استدلال کی تصدیق کرتی ہیں.سورۂ احقاف میں ہے.قُلْ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ كَفَرْتُمْ بِهٖ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْۢ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ عَلٰى مِثْلِهٖ فَاٰمَنَ وَ اسْتَكْبَرْتُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ.وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَوْ كَانَ خَيْرًا مَّا سَبَقُوْنَاۤ اِلَيْهِ١ؕ وَ اِذْ لَمْ يَهْتَدُوْا بِهٖ فَسَيَقُوْلُوْنَ۠ هٰذَاۤ اِفْكٌ قَدِيْمٌ.وَ مِنْ قَبْلِهٖ كِتٰبُ مُوْسٰۤى اِمَامًا وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ هٰذَا كِتٰبٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا١ۖۗ وَ بُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ۠.(الاحقاف :۱۱تا۱۳) یعنی اے لوگو! بتائو تو سہی کہ اگر یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی اور تم نے اس کا انکار کر دیا تو کیا بنے گا اور ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گواہ نے اپنے مثل نبی آنے کی خبر دی ہے پس وہ تو ایمان لے آیا اور تم نے تکبر سے کام لیا یاد رکھو! کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیاب نہیں کرتا اور کافر مسلمانوں کے حق میں کہتے ہیں کہ اگر اس کلام میں کوئی بھلائی ہوتی تو یہ لوگ ہم سے پہلے کس طرح ایمان لے آتے.بات یہ ہے کہ چونکہ ان کو ہدایت نہیں ملی اب تو انہوںنے یہی کہنا ہے کہ پہلے کلام بھی جھوٹے تھے یہ بھی ویسا ہی جھوٹ ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گزر چکی ہے جو لوگوں کو ہدایت دیتی تھی اور رحمت کا موجب تھی اور اب یہ کتاب اس کی مصدق ہے اور عربی زبان میں نازل ہوئی ہے تاکہ ظالموں کو ڈرائے اور محسنوں کو بشارت دے.ان آیات سے پہلے کی آیات پڑھو تو معلوم ہو گا کہ اس جگہ یہود نہیں بلکہ کفار مکہ مخاطب ہیں ان سے کہا گیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک اپنے مثیل کی خبر دی تھی (جس میں یہ بھی خبر تھی کہ وہ بنی اسمٰعیل میں سے ہو گا) اب کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ موسیٰ ؑ نے بنو اسحاق میں سے ہو کر اس پر ایمان کا اظہار کیا اور تم جن کو عزت ملی تھی اپنی قوم کے نبی کے ماننے میں تکبر سے کام لے رہے ہو.اس پر کفار کا اعتراض بیان فرمایا ہے کہ ہم تو اس کے جھوٹا

Page 569

ہونے کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہمارے پاس یہ ہے کہ اس کو ماننے والے ادنیٰ لوگ ہیں بڑے لوگ تو سب اس کے مخالف ہیں اگر یہ سچا ہوتا تو سب سے پہلے ہمیں اس پر ایمان لانے کا موقعہ ملتا.اس کا جواب یہ فرمایا کہ اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب گزر چکی ہے جو اپنی ہدایت اور فائدہ کے لحاظ سے اپنی سچائی کا ثبوت دے چکی ہے اس میں اس کتاب کے بارہ میں پیشگوئیاں ہیں جن کو یہ کتاب پورا کرتی ہے چنانچہ ان پیشگوئیوں کا ایک حصہ یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان عربی ہو گی اور دوسری یہ کہ اس کی قوم کے لوگ اس کے مخالف ہوں گے اب ان صدیوں پہلے کی پیشگوئیوں کو جب یہ کتاب پورا کرتی ہے تو تم اس کا انکار کیونکر کر سکتے ہو؟ آیندہ شریعت کے عربی زبان میں ہونے کی پیشگوئی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ سے نکلتی ہے جہاں بتایا ہے کہ آنے والا موعود بنو اسرائیل کے بھائیوں میں سے یعنی بنو اسمٰعیل میں سے ہو گا اور اس کی مخالفت کی خبر استثناء باب ۳۳ آیت ۲ سے نکلتی ہے جہاں لکھا ہے کہ وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آئے گا اور اس کے داہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ہو گی یعنی وہ ضرورت کے موقعہ پر جنگ کرے گا اور جنگ کی اجازت دے گا.ظاہر ہے کہ جنگ کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب قوم مخالفت کرے اور مخالف زبردست ہوں.پس مکہ والوں کا یہ کہنا کہ ہم جو بڑے لوگ ہیں ایمان نہیں لاتے یہ ان کے سچا ہونے کی دلیل نہیں بلکہ قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے موسیٰ ؑ کی خبر کا ایک اور حصہ پورا ہوا اور ایک طرف اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوئی تو دوسری طرف حضرت موسیٰ کی سچائی ظاہر ہوئی.اس آیت سے تصدیق کے معنے بالکل واضح ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ زبانی تصدیق کہ تورات سچی ہے کفارِ مکہ پر کیا اثر کر سکتی تھی وہ قرآن اور تورات دونو ںکو جھوٹا سمجھتے تھے.کفار مکہ پر وہی تصدیق حجت ہو سکتی تھی جس میں کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر ہوکیونکہ پیشگوئی خواہ کسی نبی کی ہو چونکہ علم غیب پر مشتمل ہوتی ہے ہر ایک شخص پر حجت ہوتی ہے.وَلَا تَکُوْنُوْا الخ کی تشریح خلاصہ یہ کہ سورۂ احقاف کی مذکورہ بالا آیت میں تصدیق کے معنے پیشگوئی پورا کرنے کے سوا اور کوئی ہو ہی نہیں سکتے اور یہی معنی ہیں جو مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ والی آیت اور اسی قسم کی دوسری آیات میں استعمال ہوئے ہیں.وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ.اس جملہ کا پہلا حصہ جمع ہے اور دوسرا مفرد یعنی لَا تَکُوْنُوْا کے معنے ہیں کہ اے بنی اسرائیل! تم نہ بنو اور اس کا جواب کہ کیا نہ بنو یہ دیا ہے کہ اوّل کافر نہ بنو اور کافرمفرد ہے اُردو کے لحاظ سے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں کیونکہ اردو میں ایسے موقعہ پر مفرد کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن عربی کے محاورہ

Page 570

کے مطابق یہ قابلِ اعتراض ہے کیونکہ عربی میں اس جگہ جمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے.عربی کے علماء نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جب افعل التفضیل کا صیغہ استعمال ہو جیسا کہ اوّل کا لفظ ہے اور وہ کسی ایسے نکرہ کی طرف مضاف ہو جو صفت کا صیغہ ہو جیسا کہ کافر کا لفظ ہے تو اس وقت اس نکرہ کو جو صفت کا صیغہ ہو مفرد لانا بھی جائز ہے اور جمع لانا بھی جائز ہے اور اس کی مثال کے طورپر فَرَّاء نے ایک شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے ؎ وَاِذَا ھُمْ طَعِمٌ فَاَ لْأَ مُ طَاعِمٍ وَاِذَا ھُمْ جَاعُوْا فَشَرُّ جِیَاعٍ یعنی جب وہ قوم کھاتی ہے تو کھانے والوں میں سے سب سے بُری ہوتی ہے اور جب وہ بھوکی ہوتی ہے تو بھوکوں میں سے بدترین ہوتی ہے.اس شعر میں پہلے مصرعہ میں طَاعِمٍ کافر کی طرح مفرد آیا ہے لیکن دوسرے مصرعہ میں جِیَاعٍ جمع کا صیغہ آیا ہے گویا ایک ہی شعر میں دونوں طرح کا محاورہ استعمال ہو گیا ہے.جب صفت نکرہ افعل التفضیلکا مضاف الیہ ہو تو فَرَّاء کے نزدیک مَنْ کے بعد فعل استعمال کر کے اس کے معنے کئے جاتے ہیں مثلاً اس شعر میں طَاعِم کے معنے مَنْ طَعَمَ کئے جائیں گے اور آیت میں کافر کے معنے مَنْ کَفَرَ کئے جائیں گے بعض دوسرے نحویوں نے کہا ہے کہ اس صور ت میں یہ تو جیہ ہو گی کہ اوّل فریق کَافِرٍ بِہٖ یعنی ابتداء ہی میں کفر کرنے والے گروہ میں شامل نہ ہو.بعض دوسروں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ وَلَا یَکُنْ کُلُّ وَاحِدٍ مِنْکُمْ اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ تم میں سے ہر ایک اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنے.سیبویہ امام لغت کہتے ہیں کہ ایسے موقعہ پر مفرد نکرہ جمع کے معنے دیتا ہے اور اس جملہ کی ترکیب یوں ہے.لَاتَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرِیْنَ بِہٖ اوّل درجہ کے کافروں میں سے نہ بنو (بحرمحیط، زیر آیت ھٰذا) اس کے یہ معنے نہیں کہ پہلے کافر نہ بنو ہاں دوسروں کے بعد بیشک کفرکرو.یہ عربی کا محاورہ ہے کہ ایک حصہ جملہ کا بیان کر دیتے ہیں اور دوسرا چھوڑ دیتے ہیں اسے وہ تحسینِ کلام میں سے سمجھتے ہیں اس کے رو سے جملہ یہ ہو گا کہ لَا تَکُوْنُوْا اَوَّلَ کَافِرٍ بِہٖ وَلَا تَکُوْنُوْا اٰخِرَ کَافِرٍ بِہٖ یعنی نہ اس کے کفر میں جلدی کرو اور نہ بعد میں کفر کرو.اس کی مثال مفسرین اس شعر سے دیتے ہیں ؎ مِنْ اُنَاسٍ لَیْسَ فِیْ اَخْلَا قِھِمْ عَاجِلُ الْفُحْشِ وَلَا سُوْءُ جَزَعٍ وہ شخص ایسے لوگوں میں شامل ہے جن کے اخلاق میں نہ تو فحش میں جلدی کرنا شامل ہے اور نہ سخت گھبرانا.وہ کہتے ہیں اس کے یہ معنے نہیں کہ فوراً فحش کو اختیار نہیں کرتا بلکہ دیر سے کرتا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ فحش کو نہ جلدی اختیار کرتا ہے نہ دیر سے.(بحر محیط زیر آیت ھٰذا)

Page 571

میرے نزدیک اس کی ایک اور تشریح بھی ہو سکتی ہے اور وہ یہ کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ جب یہ کتاب تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کی مصدّق ہے تو تمہارا اس کتاب کا انکار کرنا اوّل درجہ کا کفر ہو گا کیونکہ جو لوگ جاہل ہیں ان کا انکار نظر انداز کیا جا سکتا ہے اور انہیں معذور سمجھا جا سکتا ہے لیکن تم کو معذور نہیں سمجھا جا سکتا.گویا یہ مراد نہیں کہ چھوٹا کفر جائز ہے یا بعد میں انکار کرنا جائز ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کفر بہرحال ناجائز ہے مگر تمہارا کفر تو اوّل درجہ کا کفر ہے اور زیادہ خطرناک ہے یا یہ کہ تم کو کفار کی اوّل صف میں لاکھڑا کرتا ہے.یہ محاورہ قرآن کریم میں دوسری جگہ بھی استعمال ہوا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَاۤ اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيْدِ (قٓ :۳۰) میں اپنے بندوں پر بہت بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہوں اس کے یہ معنے نہیں کہ میں تھوڑا ظلم کر لیتا ہوںبلکہ یہ معنے ہیں کہ پہلا مضمون جو گزرا ہے اگر اسے تسلیم کیا جائے تو اللہ تعالیٰ بڑا ظالم ثابت ہوتا ہے مگر وہ ایسا نہیں ہے اُردو میں بھی یہ محاورہ مستعمل ہے کہتے ہیں اتنا قہر کیوں توڑتے ہواس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ چھوٹا قہر بیشک توڑو بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی پر ظلم کرنا تو ناجائز ہے پھر تم اس قدر بڑا ظلم کیو ںکرتے ہو یا یہ کہ جھوٹ بولنا تو ناپسندیدہ ہے پھر تم اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولتے ہو؟ کَافِر بِہٖ میں بِہٖ کا مرجع کَافِرٍ بِہٖ میں ہٖ کی ضمیر بِمَا اَنْزَلْتُ میں جو مَا ہے اس کی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے معنے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ کے نئے کلام یعنی قرآن کریم کے کافرنہ بنو اور لِمَا مَعَکُمْ کے مَاکی طرف بھی جا سکتی ہے اس صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ قرآن تو تمہاری کتب کی پیشگوئیوں کو پُورا کرنے والا ہے دوسرے لوگ ان پیشگوئیوں کے مُنکر ہوں تو ہوں تم کیوں دوسروں سے بھی جلدی کر کے خود اپنی کتب کی تکذیب کرتے ہو.وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْمیں ثَـمَن سے مراد دنیا کا سامان وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا میری آیات کو چھوڑ کر تھوڑی قیمت نہ لو.مسلمانوںکی بدقسمتی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کے معنوں کو بگاڑنے والے لوگ پیدا ہو گئے ہیں.بعض مُلَّا چار پانچ آنہ والا قرآن خرید کر دیہاتیوں کے ہاتھوں میں دو چار روپیہ کو فروخت کرتے ہیں اور کوئی اعتراض کرے تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو.مُردوں پر جو قُلْکئے جاتے ہیں ان میں بھی اس بیہودہ خیال پر بناء رکھ کر قرآن بخشا جاتا ہے یہ سب بیہودہ خیالات ہیں اور اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں اگر اس آیت کے یہ معنے ہوتے تو الفاظ یوں ہوتے وَلَا تَشْتَرُوْا اٰیٰتِیْ بِثَمَنِ قَلِیْلٍ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق ب قیمت پر آیا کرتی ہے پس تھوڑی قیمت لینی مراد ہوتی تو ب ثَـمن پر آتی مگر ب ثَـمن پر نہیں بلکہ آیات پر آئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اِشْتِرَاءٌ کا لفظ خریدو فروخت کے معنوں میں استعمال ہی

Page 572

نہیں ہوا بلکہ اِسْتِبْدَال کے معنوں میں استعمال ہوا ہے (بحر محیط زیر آیت ھٰذا)آیت نمبر ۱۷ میں بتایا جا چکا ہے کہ لغت کے رو سے ایک معنٰی اِشْتِرَاء کے یہ بھی ہیں کہ ایک چیز کو چھوڑ دیا اور دوسری کو لے لیا.لغت میں لکھا ہے وَکُلُّ مَنْ تَرَکَ شَیْئًا وَتَمَسَّکَ بِغَیْرِہٖ فَقَدِاشْتَرَاہُ (اقرب) یعنی جو شخص ایک چیز کو ترک کر دے اور دوسری کو اختیار کرے اس کے لئے بھی اشتراء کا لفظ عربی میں استعمال کیا جاتا ہے.اس آیت میں یہی معنے ہیں اور یہ مطلب نہیں کہ میری آیات دے کر تھوڑا مال نہ لو بلکہ یہ معنے ہیں کہ میری آیات کو نہ چھوڑو اور تھوڑے مال کو اختیار نہ کرو.تھوڑے مال سے مراد دنیا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہےقُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْلٌ (النّساء:۷۸) دنیا کا سب سامان تھوڑا ہے.پس مراد یہ ہے کہ دین چھوڑ کر دنیا کو اختیار نہ کرو.اس میں بنی اسرائیل کو زجر کی ہے کہ تمہارا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے سے انکار کرنا باوجود اس کے کہ تمہاری کتب میں ان کی پیشگوئیاں موجود ہیں محض اپنی لیڈری کے کھوئے جانے کے خوف سے ہے تم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا گراں گزرتا ہے اور ان کی مخالفت کر کے اپنی قوم کی سرداری قائم رکھنا زیادہ عزیز ہے گویا دنیا کی معمولی عزت اور تھوڑے سے پیسوں کے لئے تم ان پیشگوئیوں کو ترک کر رہے ہو جو تمہاری کتب میں موجود ہیں.یہود کا محض دنیا کی خاطر آنحضرتؐ کا انکار کرنا حدیثوں میں آتا ہے.دو یہودی عالم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے واپس جاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ نبی وہی ہے جس کا ذکر ہماری کتب میں آتا ہے لیکن ماننا تو نہیں کیونکہ ہماری جماعت کے لوگ ہمیں قتل کر دیں گے یہی ذہنیت ہے جو اکثر لوگوں کو سچائی سے محروم کر دیتی ہے.(مسند احمد بن حنبل مسند الکوفیین حدیث صفوان بن عسال) وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ اس فقرہ کی بناوٹ بھی وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ کی طرح ہے (دیکھو آیت نمبر ۴۱ سورۃ ہذا ) اور یہ پورا جملہ یوں ہوتا ہے وَاتَّقُوْا اِیَّایَ تَنَبَّھُوْا فَاتَّقُوْنِ مجھ سے ڈرو ہوشیار ہو جائو اور مجھ سے ڈرو اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ انسان دنیا کو اس لئے اختیار کرتا ہے کہ زندگی میں تکلیف سے ڈرتا ہے مگر یہ ڈر عبث ہے کیونکہ تکلیف اور آرام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے پس دنیا کا آرام بھی خدا تعالیٰ کو خوش کر کے مل سکتا ہے اسے چھوڑ کر نہیں مل سکتا.

Page 573

وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۴۳ اور جانتے بوجھتے ہوئے حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور نہ حق کو چھپاؤ.حَلّ لُغَات.لَا تَلْبِسُوْا.لاَ تَلْبِسُوْانہی جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور لَبَسَ عَلَیْہِ (یَلْبِسُ) الْاَمْرَ لَبْسًا کے معنے ہیں خَلَطَہٗ وَجَعَلَہٗ مُشْتَبِھًا بِغَیْرِہٖ ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ کے ساتھ ملا کر مشتبہ کر دیا (اقرب) پس لَاتَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ کے معنے ہوں گے کہ حق کو باطل کے ساتھ نہ ملائو.اَلْـحَقُّ.اَلْـحَقُّ ضِدُّ الْبَاطِلِ جھوٹ کے خلاف چیز یعنی سچ.اَ لْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ ہو کر رہنے والی بات.اَلْعَدْلُ انصاف.اَ لْمِلْکُ مالکیّت.اَ لْمَوْجُوْدُ اَلثَّابِتُ یعنی ثابت رہنے والی چیز.اَلْیَقِیْنُ بَعْدَ الشَّکِّ شک کے بعد یقین کا آنا.(اقرب) اَلْبَاطِلُ.اَلْبَاطِلُ نَقِیْضُ الْحَقِّ وَھُوَ مَالَاثَبَاتَ لَہٗ عِنْدَ الْفَحْصِ.یعنی باطل حق کے مقابل پر بولا جاتا ہے اور باطل اس چیز پر بولتے ہیں جس کی تحقیق کی جائے تو کوئی حقیقت نہ نکلے.(مفردات) تفسیر.انبیاء کے مخالفین کا سچی باتوں کے ساتھ جھوٹی باتیں ملا کر انبیاء کے دعویٰ کو جھوٹا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنا تَلْبِسُوْا لَبَسَ سے بنا ہے.لَبَسَ ضَرَبَ یَضْرِبُ کے وزن پر بھی آتا ہے اور عَلِمَ یَعْلَمُ کے وزن پر بھی.جب یہ ضَرَبَ یَضْرِبُ کے وزن پرہو تو اس کے معنے چیز کو مخلوط کر کے مشتبہ کر دینے کے ہوتے ہیں اور جب عَلِمَ یَعْلَمُ کے وزن پرہو تو اس کے معنے پہننے کے ہوتے ہیں.لباس اسی میں سے بنا ہے اس آیت میں چونکہ تَلْبِسُوْاہے یعنی ب کے نیچے زیر ہے اس لئے اس کے معنے مخلوط کر کے مشتبہ بنا دینے کے ہیں اور آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ حق میں باطل ملا کر اسے مشتبہ نہ بنا دو.انبیاء کے دشمن ہمیشہ یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں یعنی کوئی سچی بات لی اور اس میں ایک جھوٹ ملا دیا اور شور مچا دیا کہ مدّعی کا دعویٰ جھوٹا ہے یہود سب علامتوں کو تسلیم کر کے کبھی کہہ دیتے کہ اصل علامت آنے والے کی یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں سے ہو گا کبھی کہہ دیتے کہ اصل علامت یہ ہے کہ وہ یروشلم میں ظاہر ہو گا اس طرح عوام کو سچ قبول کرنے سے محروم کر دیتے ہیں حالانکہ صداقت کے پہچاننے میں اصل چیز جسے مدنظر رکھا جاتا ہے یہ ہے کہ موعود اس غرض کو پُورا کرتا ہو جس کے لئے اس کی خبر دی گئی تھی اس زمانہ میں ظاہر ہو جس میں اس کے ظہور کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور کچھ حصہ پیشگوئیوں کا ظاہر میں اس کے حق میں پورا ہو جائے ورنہ پیشگوئیوں میں چونکہ اخفاء کو مدِّنظر رکھا جاتا ہے کچھ حصہ ان کا تعبیر طلب ہوتا ہے بیشک

Page 574

بعض جگہ بنی اسرائیل میں سے اُس نبی کے آنے کی خبر ہے مگر چونکہ دوسری جگہ بنو اسمٰعیل میں سے ہونے کی خبر ہے اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ اس کی قوم بنی اسرائیل کی برکات کی وارث ہو گی اور گویا آیندہ زمانہ میں وہ بنی اسرائیل کی قائم مقام ہو گی.اور صیحون میں اس کے ظاہر ہونے کے الفاظ بیشک آتے ہیں لیکن اس کے معنے صر ف یہ ہیں کہ جس جگہ وہ ظاہر ہو گا وہ بھی خدا تعالیٰ کے مقدس مقامات میں سے ہو گا یعنی مکہ.بہت سی دوسری علامات کے حرف بہ حرف پورا ہو جانے کے بعد اور سب سے زیادہ یہ کہ اس زمانہ میں ظاہر ہونے کے بعد جس میں کہ اس موعود کو ظاہر ہونا چاہیے تھا اور وہ کام کرنے کے بعد جو اس کے لئے مقدر تھا پھر بنی اسرائیل کا یہ اعتراض کہ فلاں فلاں پیشگوئی ابھی پوری نہیں ہوئی یا لفظاً پوری نہیں ہوئی محض حق اور باطل کو ملانے والی بات تھی اور لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکنے کی ایک ناواجب کوشش.مگر ایسی کوششیں نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی تھیں نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ہوئیں اور نہ آیندہ کبھی ہوں گی.تَكْتُمُوا الْحَقَّ کی تشریح وَتَکْتُمُوا الْحَقَّ.اس جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اس لئے وہی لَا جو پہلے گزر چکا ہے دوبارہ دہرایا جائے گا اور جملہ یوں ہو گا وَلَا تَکْتُمُوا الْحَقَّ.اور تم حق کو نہ چھپائو.یہ بنی اسرائیل کی دوسری شرارت بتائی وہ ان پیشگوئیوں کے چھپانے کی کوشش کرتے تھے جن سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت ثابت ہوتی تھی.گویا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو طرح مقابلہ کرتے تھے.اوّل اس طرح کہ پیشگوئیوں کو مخلوط کر کے بیان کر دیتے تھے.مثلاً لفظاً پورا ہونے والی پیشگوئیوں سے تعبیری پیشگوئیوں کو ملا دیتے تھے یا موعود آخر الزمان کی پیشگوئیوں کے ساتھ بعض سابق نبیوںکے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں انہیں ملا دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بھی آنے والے کی علامت ہے حالانکہ وہ کسی اور نبی کی علامت ہوتی تھی اور اس کے وجود میں پوری ہو چکی تھی (اسی طرح آج کل بعض علمائے اسلام کرتے ہیں اسلام نے بہت سے مہدیوں کی خبر دی ہے بعض آ چکے اور اپنے متعلق پیشگوئیوں کو پورا کر چکے.مگر یہ علماء آنے والے مہدی کے بارہ میں ان پیشگوئیوں کو بتا کر ان پیشگوئیوں کو مشتبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اس کے بارہ میں ہیں اور پہلے زمانہ میں پوری ہو چکی ہیں) دوسرا حربہ وہ یہ استعمال کرتے تھے کہ بعض پیشگوئیوں کو عوام کی نظر سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور ان کا ذکر اپنے وعظوں میں چھوڑ جاتے تھے ا ور اگر مسلمان انہیں بیان کرتے تو صاف انکار کر دیتے تھے اگر کوئی واقف آدمی ان کو مجبور کر دیتا تو بہانے تراشنے لگ جاتے.وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَکی تشریح وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.درآنحالیکہ تم جانتے ہو یعنی یہ حق و باطل کو ملانا اور بعض حق کو

Page 575

چھپانا اتفاقی حادثہ نہیں اور نہ غلطی کی وجہ سے ہے بلکہ تم ایسا دیدہ و دانستہ کرتے ہو اور جو دیدہ و دانستہ ایسے گناہ کا مرتکب ہو ہر گز خدا تعالیٰ کے فضل کا وارث نہیں ہو سکتا.وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ۰۰۴۴ اور نماز کو قائم رکھو اور زکوٰة دو اور خدا کی خالص پرستش کرنے والوں کے ساتھ مل کر خدا ہی کی خالص پر ستش کرو.حَلّ لُغَات.اَقِیْمُوْا اَقِیْمُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے.مزید تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.اَلصَّلٰوۃُ.تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.اَلزَّکٰوٰۃُ.زَکَا (یَزْکُوْا) تَزْکِیَۃً کا اسم ہے اور زَکَی الشَّیْءُ کے معنے ہیں نَـمَا کوئی چیز زیادہ اور بکثرت ہو گئی.کہتے ہیں زَکَا الرَّجُلُ.صَلَحَ وَ تَنَعَّمَ وَکَانَ فِیْ خَصْبٍ.کوئی شخص اچھی عمدہ حالت میں ہو گیا.خوشحالی میں ہو گیا (کیونکہ زَکَتِ الْاَرْضَ اس وقت بولتے ہیں جبکہ وہ سرسبز ہو جائے) اور جب زَکَّاہُ اللّٰہُ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے.اَنْمَاہُ اللہ تعالیٰ نے اس کو پروان چڑھایا.طَھَّرَہٗ اسے پاکیزہ کیا.زَکّٰی فُـلَانٌ مَالَہٗ کے معنے ہیں اَدَّی عَنْہُ زَکٰوۃً اس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کی اور جب زَکّٰی نَفْسَہٗ کہیں تو معنے ہوں گے کہ مد حھا اپنے نفس کو اس نے تعریف کے قابل بنایا اور تَزَکَّی کے معنے ہیں تَصَدَّقَ اس نے صدقہ دیا اور اَلزَّکٰوۃُ کے معنے ہیں (۱) صَفْوَۃُ الشَّیْ ءِ اعلیٰ درجہ کی چیز(۲) طَاعَۃُ اللہِ اللہ کی اطاعت.(۳) مَا اَخْرَجْتَہٗ مِنْ مَالِکَ لِتُطَھِّرَہٗ بِہٖ.مال کا وہ حصہ جو بطور زکوٰۃ نکالا جاتا ہے تاکہ باقی مال پاک ہو جائے.وَقِیْلَ سُمِّیَتِ الصَّدَقَۃُ بِالزَّکٰوۃِ لِاَنَّھَا تَزِیْدُ فِی الْمَالِ الَّذِیْ تُخْرَجُ مِنْہُ وَ تُوَفِّرُہٗ وَتَقِیْہِ مِنَ الْاٰفَاتِ.اور صدقہ کا نام اس لئے زکوٰۃ رکھا گیا ہے کیونکہ جس مال سے زکوٰۃ نکالی جائے وہ اس مال میں برکت ڈالتی ہے اور اس کو بڑھاتی ہے اور اُسے آفات سے بچاتی ہے.(اقرب) اِرْکَعُوْا.اِرْکَعُوْا امر جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ (رَکْعًا وَ رُکُوْعًا) کے معنے ہیں طَأْطَأَ رَاْسَہٗ.نمازی نے اپنا سر نیچے کیا اور جب رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ کہیں تو معنے ہوں گے اِطْـمَأَنَّ اِلَیْہِ اس نے اللہ کی طرف تسلی پائی.نیز رَکَعَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں اِنْحَطَتْ حَالَتُہٗ وَ افْتَقَرَ اس کی مالی حالت کمزور ہو گئی اور وہ محتاج ہو

Page 576

گیا (یہ مجازی معنے ہیں) اور رَکَعَ الْمُصَلِّیْ فِی الصَّلٰوۃِ رُکُوْعًا کے معنے ہیں خَفَضَ رَأْسَہٗ بَعْدَ قَوْمَۃِ الْقِرَاءَ ۃِ حَتّٰی تَنَالَ رَاحَتَاہُ رُکْبَتَیْہِ اَوْحَتّٰی یَطْمَئِنَّ ظَھْرُہٗ.نمازی نے قراء ت کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کمر کو جھکایا نیز لکھا ہے وَالرَّاکِعُ کُلُّ شَیْ ءٍ یَخْفِضُ رَأْسُہٗ اور ہر اس چیز پر جو سر نیچے جھکائے رکھتی ہے رَاکِع کا لفظ بولتے ہیں.(اقرب) مفردات میں ہے اَلرُّکُوْعُ اَ لْاِنْحِنَاءُ کہ رکوع کے معنے جھک جانے کے ہیں.فَتَارَۃً یُسْتَعْمَلُ فِی الْھَیْئَۃِ الْمَخْصُوْصَۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَ تَارَۃً فِی التَّوَاضُعِ وَالتَّذَلُّلِ اِمَّا فِی الْعِبَادَۃِ وَ اِمَّا فِیْ غَیْرِھَاکبھی تو یہ لفظ اس مخصوص ہیئت پر استعمال کیا جاتا ہے جو نماز میں کی جاتی ہے.یعنی قرأت کے ختم کرنے کے بعد گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جانا.اور کبھی یہ لفظ عاجزی کرنے اور تذّلل اختیار کرنے پر بولا جاتا ہے خواہ یہ عاجزی نماز میں کی جائے یا اس کے علاوہ کسی اور حالت یا مقام میں.(مفردات) تاج العروس میں ہے کُلُّ شَیْ ءٍ یَنْکَبُّ لِوَجْھِہٖ فَتَمَسُّ رُکْبَتَیْہِ الْاَرْضَ اَوْ لَا تَمَسُّہَا بَعْدَ اَنْ یَّخْفِضَ رَأْسَہٗ فَھُوَ رَاکِعٌ کہ ہر اُس چیز پر جو اوندھے منہ ہو کر چلتی ہے رَاکِعٌ کا لفظ بولتے ہیں (گویا اس کی ہیئت کذائی عاجزی پر دلالت کرتی ہے) وَقَالَ ثَعْلَبٌ.اَلرُّکُوْعُ: اَلْخُضُوْعُ.لغت کے مشہور امام ثعلب کہتے ہیں کہ رکوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں.وَکَانَتِ الْعَرَبُ فِی الْجَا ھِلِیَّۃِ تُسَمِّی الْحَنِیْفَ رَاکِعًا اِذَا لَمْ یَعْبُدِ الْاَ وْ ثَانَ وَ یَقُوْلُوْنَ رَکَعَ اِلَی اللّٰہِ اور عرب لوگ قبل اسلام موحد کو راکع کہتے تھے کیونکہ وہ بتو ںکی پوجا نہ کرتا تھا اور اس کے لئے رَاکِعٌ کا لفظ اس لئے استعمال کرتے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کی اور اس کے سامنے عاجزی اختیار کی (تاج) الغرض رَکَعَ کے لفظ کے اندر عاجزی اور تذلل کے معنے پائے جاتے ہیں پس رَاکِعٌ کے معنے ہوں گے.(۱) عاجزی کرنے والا (۲) اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرنے والا.اور اِرْکَعُوْا کے معنے ہوں گے تم عاجزی کرو.(۲) تم اللہ تعالیٰ کی خالص پرستش کرو.تفسیر.آیت ھٰذا میں بنی اسرائیل کو اعمال کی درستی کی توجہ دلائی گئی ہے پہلی آیات میں ایمان کی درستی کی بنی اسرائیل کو ہدایت کی تھی اب اعمال کی درستی کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرماتا ہے کہ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لا کر اپنے ایمان کی تکمیل تمہارے لئے ضروری ہے اسی طرح آپ پر ایمان لا کر اپنے اعمال کی درستی تمہارے لئے ضروری ہے بیشک تم اپنے رنگ میں عبادت کرتے ہو مگر اب وہ عبادات تمہاری مقبول نہیں.اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق کے مطابق نمازیں پڑھو گے تو عبادت قبول ہو گی.

Page 577

اسی طرح بیشک تم قومی چندے دیتے ہو مگر اب تو شریعت محمدیہ کے مطابق زکوٰۃ نہ دو گے تو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل نہ کر سکو گے اسی طرح بیشک تمہاری عبادات اور تمہارے اعمال شرک سے ایک حد تک پاک ہوں گے مگر اب وہ معیار توحید کا جو پہلے تھا بدل گیا ہے اب تو اس وقت تک تم خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں ہو سکتے جب تک اس معیار توحید کو قائم نہ کرو جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے قائم کیا ہے.وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ کی تشریح وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ میں زکوٰۃ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے یہ ایک مقررہ طریقہ اپنے اموال کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا ہے زکوٰۃ کے بارے میں آ گے چل کر تفصیلی بحث ہو گی اسی سلسلہ میں آیت ۳ سورہ ہذا بھی دیکھ لینی چاہیے جس میں اسلامی ذمہ داریاں مال کے متعلق بیان کی گئی ہیں.وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَمیں لفظ رکع کے معنے موحد کے وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ میں جو لفظ رَکَعَ استعمال ہوا ہے اس کے بارہ میں حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ اس کے معنے علاوہ رکوع یعنی جھکنے کے موحدانہ زندگی بسر کرنے کے بھی ہوتے ہیں.حقیقت الاساس میں لکھا ہے کَانَتِ الْعَرَبُ تُسَمِّیْ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَلَمْ یَعْبُدِ الْاَوْثَانَ رَاکِعًا.یعنی عرب لوگ اسے جو اللہ پر ایمان لاتا ہو اور بتوں کی پوجا نہ کرتا ہو رَاکِعٌ کہتے ہیں اسی طرح لسان العرب میں لکھا کہ رَاکِعٌ توجہ کو خالص ایک طرف کر دینے والے کو کہتے ہیں اور اس کی تائید میں نابغہ ذبیانی کا یہ شعر لکھا ہے ؎ سَیَبْلُغُ عُذْرًا اَوْ نَجَاحًا مِنِ امْرَءٍ اِلٰی رَبِّہٖ رَبِّ الْبَرِیَّۃِ رَاکِعُ یعنی وہ شخص جو صرف اپنے رب کی طرف جو سب دنیا کا رب ہے خالص طور پر متوجہ ہو جاتا ہے ضرور یا نجات پا جائے گا یا معذور قرار پا جائے گا.پس وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ کے معنے اس جگہ نماز کے رکوع کے نہیں کیونکہ نماز میں صرف رکوع ہی نہیں ہوتا بلکہ رکوع کے سوا اور اجزاء بھی ہوتے ہیں.پس کوئی وجہ نہ تھی کہ صرف رکوع کا ذکر کیا جاتا.دوسرے اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ میں نہ صرف خالی نماز کا بلکہ باجماعت نماز کا ذکر ہو چکا ہے جس میں قیام رکوع سجدہ سب ہی شامل ہیں.پھر کوئی وجہ نہیں کہ ساری نماز کا جس میں رکوع بھی شامل ہے ذکر کر کے صرف رکوع کا الگ ذکر کیا جائے.پس ان امور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رکوع کے معنے اور ہیں نماز والے رکوع کے نہیں اور وہ معنے مَیں اوپر بیان کر چکا ہوں پہلے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کی تلقین کی پھر مسلمانوںکی طرح زکوٰۃ دینے کی تلقین کی پھر یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کی طرح اپنے سب اعمال کو خدا تعالیٰ کے لئے کر دو اور کامل توحید کو اختیار کر لو شرک کی ملونی کو اپنے اعمال سے بالکل جدا کر دو تب جا کر تم ان فضلوں کے

Page 578

دوبارہ وارث ہو سکو گے جن کا وعدہ عہد ابراہیم میں بیان ہوا ہے.اس تشریح کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ تا کوئی یہ دھوکا نہ کھائے کہ یہود کے لئے تورات کے احکام پر عمل کرنا اب بھی کافی ہے اور یہ امر واضح ہو جائے کہ اب عمل صالح سے مراد وہی عمل ہو گا جو شریعت محمدیہ میں نازل ہوا ہے اور اسی صورت میں مقبول ہو گا کہ اسلامی طریق کے مطابق ادا کیا جائے.اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ کیا تم (دوسرے) لوگوں کو( تو) نیکی (کرنے) کے لئے کہتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کردیتے ہو حالانکہ تم اپنی تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَ١ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۰۰۴۵ کتاب پڑھتے ہو پھر بھی کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے.حَلّ لُغَات.اَلْبِرُّ.اَلْبِرُّ (۱) اَلصِّلَۃُ.انعام.احسان اور عطیہ.(۲) اَلطَّاعَۃُفرمانبرداری.(۳)اَلصِّدْقُ سچائی.(اقرب) تاج العروس میں ہے اَصْلُ مَعْنَی البِرِّ اَلسَّعَۃُکہ بِرّ کے اصل معنے وسعت کے ہوتے ہیں ثُمَّ ھَاعَ فِی الشَّفْقَۃِ وَالْاِ حْسَانِ وَالصِّلَۃِ پھر یہ لفظ شفقت.احسان اور انعام عطیہ وغیرہ کے معنوں میں مشہور ہو گیا.ابو منصور جو لغت کے امام ہیں کہتے ہیں کہ اَلْبِرُّ.خَیْرُ الدُّنَیا وَالْاٰخِرَۃِ.بِرّ کے لفظ کے اندر دنیا و آخرت ہر دو کی بھلائیاں آ جاتی ہیں.نیز اَلْبِرُّ کے معنے ہیں (۱) اَلصَّلَاحُ صلاحیت.(۲) اَلْخَیْرَ بھلائی.(۳) اَ لْاِ تِّـسَاعُ فِی الْاِحْسَانِ اِلَی النَّاسِ.لوگوں کے ساتھ احسان کرنے میں وسعت.(تاج العروس) تَنْسَوْنَ.تَنْسَوْنَ نَسِیَ (یَنْسٰی) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور نَسِیَ الشَّیْئَ نَسْیًا کے معنے ہیں ضِدُّ حَفِظَہٗ کسی چیز کو بھول گیا.قَالَ الرَّاغِبُ ’’ اَلنِّسْیَانُ تَرْکُ الْاِنْسَانِ ضَبْطَ مَا اسْتُـوْدِعَ اِمَّا لِضَعْفِ قَلْبٍ وَ اِمَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَ اِمَّا عَنْ قَصْدٍ حَتّٰی یَنْحَذِفَ عَنِ القَلْبِ ذِکْرُہٗ‘‘ امام راغب لکھتے ہیں کہ انسانی دماغ میں جو باتیں محفوظ ہوں ان کو اس کا ضائع کر دینا نسیان کہلاتا ہے خواہ یہ ضائع کرنا اس کی دماغی کمزوری کا نتیجہ ہو خواہ غفلت کی وجہ سے ہو یا ارادۃً ہو حتّٰی کہ ان باتوںکا نقش ذہن سے مٹ جائے.(اقرب) تاج العروس میں لفظ نِسْیَان کی تشریح میں لکھا ہے اَکْثَرُ اَھْلِ اللُّغَۃِ فَسَّرُوْہُ بِالتَّرْکِ.کہ اکثر اہل لغت

Page 579

تاج العروس میں لفظ نِسْیَان کی تشریح میں لکھا ہے اَکْثَرُ اَھْلِ اللُّغَۃِ فَسَّرُوْہُ بِالتَّرْکِ.کہ اکثر اہل لغت نے نِسْیَان کے معنے چھوڑنے کے کئے ہیں پھر امام ثعلب جو عربی لغت کے مشہور اما م ہیں ان کا قول آیت نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ(التوبۃ:۶۷)کی تشریح میں لکھا ہے کہ لَایَنْسَی اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِنَّمَا مَعَنَاہُ تَرَکُوا اللّٰہَ فَتَرَکَھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ کی شان سے یہ امر بعید ہے کہ وہ کسی چیز کو بھول جائے.اس لئے آیت نَسُوا اللّٰهَ فَنَسِیَهُمْ (التوبۃ:۶۷)میںنسیان کے معنے چھوڑنے کے ہیں یعنی لوگوں نے خدا تعالیٰ کو چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو چھوڑ دیا.پھر لکھا ہے وَ اِذَا نُسِبَ ذٰلِک اِلَی اللّٰہِ فَھُوَ تَرْکُہٗ اِیَّا ھُمْ اِسْتِہَانَۃً وَ مَجَازَ اۃً لِمَا تَرَکُوْہُ.جب لفظ نسیان اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب ہو تو اس کے معنے چھوڑنے کے ہوتے ہیں کیونکہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ دیتے ہیں اور اُس کے احکام سے رُو گردانی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ایسے اعمال کے بدلہ میں ان کو چھوڑ دیتا ہے.(تاج) اقرب میں لَا تَنْسَوُ الْفَضْلَ کی تشریح میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں لَا تَقْصُدُ وا التَّرْکَ وَالْاِھْمَالَ کہ اپنی فضیلت کو چھوڑنے کا قصد نہ کرو.(اقرب) پس تَنْسوْنَ کے معنے ہوں گے تم بھلاتے ہو.فراموش کرتے ہو.تم چھوڑتے ہو.اَنْفُسَکُمْ.اَنْفُسٌ نَفْسٌ کی جمع ہے اور اَلنَّفْسُ کے معنے ہیں (۱) اَلرُّوْحُ.رُوح.(۲)اَلْجِسْمُ جسم.(۳) وَیُرَادُ بالنَّفْسِ اَلشَّخْصُ وَالْاِنْسَانُ بِجُمْلَتِہٖ بعض اوقات نفس کا لفظ بول کر رُوح اور جسم کا مجموعہ انسان اور اس کا خاص تشخص مراد لیاجاتا ہے.(۴) اَلْعَظْمَۃُ.عظمت (۵) اَلْعِزَّۃُ عزت.(۶) اَلْھِمَّۃُ ہمت.(۷) اَ لْاِرَادَۃُ.ارادہ(۸) اَلرَّأْیُ رائے.(اقرب) تَتْلُوْنَ.تَتْلُوْنَ تَلٰی (یَتْلُوْ) سے مضارع جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور تَـلَا الْکَلَامَ تِلَاوَۃً کے معنے ہیں قَرَأَ ہُ کسی کلام کو پڑھا (اقرب) پس تَتْلُوْنَ کے معنے ہوں گے تم پڑھتے ہو.تَعْقِلُوْنَ.تَعْقِلُوْنَ عَقَلَ (یَعْقِلُ) سے مضارع مخاطب جمع کا صیغہ ہے اور عَقَلَ الدَّوَاءُ بَطْنَہٗ کے معنے ہیں اَمْسَکَہٗ دوائی نے اس کے پیٹ کو روک دیا.یعنی قبض کر دی.اور جب عَقَلَ الْغُلَامُ کہیں تو معنے ہوں گے اَدْرَکَ لڑکا بالغ ہو گیا.یعنی اچھی اور بُری باتوں کو سمجھنے لگ گیا.اور عَقَلَ الشَّیْ ءَ عَقْلًا کے معنے ہیں فَھِمَہٗ وَ تَدَ بَّرَہٗکسی چیز کو سمجھا اور اس کے متعلق غور و فکر کیا.عَقَلَ الْبَعِیْرَ.ثَنٰی وَظِیْفَہٗ مَعَ ذَرَاعِہٖ فَشَدَّھُمَا مَعًا بِحَبْلٍ اُونٹ کی ٹانگ کو اس کی ران کے ساتھ باندھ دیا.عَقَلَ الْوَعْلُ عَقْـلًا کے معنے ہیں صَعَدَ وَامْتَنَعَ فِی

Page 580

الْجَبَلِ الْعَالِیْپہاڑی بکر اپہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں جا کر رُک کر محفوظ ہو گیا.نیز اَلْعَقْلُ کے معنے ہیں نُوْرٌ رُوْحَانِیٌّ بِہٖ تُدْرِکُ النَّفْسُ الْعُلُوْمَ الضَّرُوْرِیَّۃَ وَالنَّظَرِیَّۃَ کہ عقل اس روحانی روشنی کا نام ہے جس کے ذریعہ سے نفس بدیہی باتوں کو یا غورو فکر سے معلوم ہونے والی باتوں کو معلوم کرتا ہے.(اقرب) پس اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَ کے معنے ہوں گے (۱) کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے (۲) کیا تم اپنی ناواجب حرکات سے رُکتے نہیں.تفسیر.بِرٌّ کے معنے جیسا کہ حَلِّ لُغَات میں لکھا جا چکا ہے اعلیٰ درجہ کے احسان اور نیکی کے ہوتے ہیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے کہ بنی اسرائیل اپنی کتب کے حکم کے مطابق لوگوں کو بہت احسان کرنے اور نیکی کرنے کا حکم دیتے تھے لیکن اپنا یہ حال تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عظیم الشان نبی کو صرف دنیوی نقصان کے ڈر کے مارے قبول نہ کرتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو تو اپنی جانوں کو بھی تو نہ بھولو ، ان کا حق تو تم پر زیادہ ہے.نسیان کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں.اس کے رو سے یہ معنی ہوں گے کہ لوگوں کو اعلیٰ نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفسوں کو چھوڑ دیتے ہو انہیں ایسا حکم کیوںنہیں دیتے کہ تمہارا عمل تمہارے قول کے خلاف نہ ہو.اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَکے یہ معنے نہیں کہ تورات غیرمحرّف ہے وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ کے یہ معنے نہیں کہ تمہاری کتاب محرّف مبدل نہیں جیسا کہ بعض ناواقف نتیجہ نکالتے ہیں بلکہ کتاب کا ذکر پہلے حکم کے سلسلہ میں ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم تو اپنی کتاب پڑھتے ہو اس میں تو یہ حکم نہیں کہ دوسروں کو تو نیکی کا حکم دو اور اپنے آپ کو بد راہ پر چلائو پس جب تم جس کتاب کو مانتے ہو وہ بھی اس طریق کو جائز نہیں قرار دیتی تو تم نے اس طریق کو کیوں اختیار کر رکھا ہے چاہیے کہ جس طرح دوسروں کو قربانی کا حکم دیتے ہو خود بھی حق کے لئے قربانی کرو اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو.اَفَلَا تَعْقِلُوْنَکے معنے رکنے کے اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ پھر کیا تم باز نہیں آتے یعنی اگر تمہاری کتب میں یہ تعلیم نہ ہوتی کہ اپنے نفس کو بھی نیکی کی راہ پر چلائو تو تم کو معذور سمجھا جا سکتا تھا لیکن اس تعلیم کی موجودگی میں تمہارا نیکی کے راستہ سے بھٹکنا تو سخت افسوسناک ہے.پس کسی دوسرے کی نہیں مانتے تو اپنی کتاب کے حکم ہی کو مانو اور نیکی اور تقویٰ کی راہ پر چلو.

Page 581

وَ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَى صبر اور دعا کے ذریعہ سے (اللہ سے )مدد مانگو اور بے شک فروتنی اختیار کرنیوالوں کے سوا( دوسروں کے لئے) الْخٰشِعِيْنَۙ۰۰۴۶ یہ (امر) مشکل ہے.حَلّ لُغَات.اِسْتَعِیْنُوْا.اِسْتَعِیْنُوْا امر حاضر جمع کا صیغہ ہے اور اِسْتِعَانَۃٌ کے معنے مدد طلب کرنے یا مدد حاصل کرنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں اِسْتَعَنْتُہٗ فَاَعَانَنِیْ میں نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے مدد دے دی.(اقرب) اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُکے معنے ہوئے ہم مدد طلب کرنے کے لئے تجھے مخصوص کرتے ہیں یعنی اور کسی کو لائق نہیں سمجھتے کہ اس سے مدد طلب کریں.اَلصَّبْرُ.صَبْر کے معنی ہیں تَرْکُ الشِّکْوٰی مِنْ اَلَمِ الْبَلْوٰی لِغَیْرِ اللّٰہِ لَا اِلَی اللّٰہِ کہ مصیبت کے دُکھ کا شکوہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کے پاس نہ کرنا فَاِذَا دَعَا اللّٰہَ الْعَبْدُ فِیْ کَشْفِ الضُّرِّ لَا یُقْدَحُ فِیْ صَبْرِہٖ اگر بندہ اپنی رفع مصیبت کی خدا تعالیٰ کے پاس فریاد کرے تو اس کے صبر پر اعتراض نہ کیا جائے.کلّیات ابی البقاء میں لکھا ہے کہ اَلصَّبْرُ فِی الْمُصِیْبَۃِ کہ صبر مصیبت کے وقت ہوتا ہے وَصَبَرَ الرَّجُلُ عَلَی الْاَمْرِ نَقِیْضُ جَزِعَ اَیْ جَرُؤَ وَ شَجُعَ وَتَجَلَّدَ اور صبر جزع یعنی شکوہ کرنے اور گھبرانے کے مقابل کا لفظ ہے اور صبر کے معنے ہوتے ہیں دلیری دکھائی جرأت دکھائی ہمت دکھائی اور صَبَر عَنِ الشَّیْ ءِ کے معنے ہیں اَمْسَکَ عَنْہُ کسی چیز سے رُکا رہا.صَبَرَ الدَّابَۃَ حَبَسَہَا بِلَا عَلَفٍ اور جب صَبَرَ کا مفعول دَآبۃ کا لفظ ہو تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ جانور کو چارہ نہ دیا نیز کہتے ہیں صَبَرْتُ نَفْسِیْ عَلٰی کَذَا.حَبَسْتُھَا کہ میں نے فلاں بات پر ثابت قدمی دکھائی چنانچہ محاورہ ہے صَبَرْتُ عَلٰی مَا اَکْرَہُ وَ صَبَرْتُ عَمَّا اُحِبُّ یعنی جب صَبَرَ کا صلہ عَلٰی ہو تو اس کے معنے کسی امر پر ثابت قدم رہنے کے ہوتے ہیں اور جب اس کا صلہ عَنْ ہو تو اس کے معنے کسی چیز سے رُکنے یا کسی کو اس سے روک دینے کے ہوتے ہیں.(اقرب) پس صَبْرٌ کے معنے (۱) بدیوں سے رُکتے رہنا اور نیکیوں پر ثابت قدم رہنا.(۲) خدا تعالیٰ کے راستہ میں تکلیف پر جزع فزع نہ کرنا.اَلصَّلوٰۃُ.تشریح کے لئے دیکھو حَلِّ لُغات سورۃ البقرۃ آیت۴.

Page 582

اَلْـخٰشِعِیْن.خٰشِعِیْنَ اور خٰشِعُوْنَ خَاشِعٌ کی جمع ہے جو خَشَعَ سے اسم فاعل ہے.خَشَعَ کے معنے ذَلَّ وَتَطَأْمَنَ تابعدار ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کیا اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہیں غَضَّہٗ آنکھ نیچے کر لی.نِـھَایَۃ میں لکھا ہے کہ اَلْخُشُوْعُ فِی الصَّوْتِ وَالْبَصَرِ کَالْخُضُوْعِ فِی الْبَدَنِ جس طرح بدن کی عاجزی اور کمزوری ظاہر کرنے کے لئے خضوع کا لفظ بولا جاتا ہے اسی طرح آواز کے کمزور ہونے اور آنکھ کے عجز کو ظاہر کرنے کے لئے خشوع کا لفظ استعمال ہوتا ہے.(اقرب) مفردات میں ہے کہ اَلْخُشُوْعُ اَلضَّرَاعَۃُ خشوع کے معنے عاجزی کرنے کے ہوتے ہیں.وَاَکْثَرُ مَا یُسْتَعْمَلُ الْخُشُوْعُ فِیْمَـا یُوْجَدُ عَلَی الْجَوَارِحِ ، وَالضَّرَاعَۃُ اَکْثَرُ مَا تُسْتَعْمَلُ فِیْمَـا یُوْجَدُ فِی الْقَلْبِکہ خشوع کا استعمال اکثر اس عاجزی پر ہوتا ہے جو اعضاء سے ظاہر ہو رہی ہے اور تضرع اکثر دل میں عاجزی پیدا ہو جانے کے متعلق بولا جاتا ہے (مفردات) پس خٰشِعِیْنَ کے معنے ہوں گے عاجزی اختیار کرنے والے.فروتنی اختیار کرنے والے.تفسیر.صداقت کے ماننے میں دو روکیں اور ان کا حل صداقت کے قبول کرنے میں دو روکیں ہوتی ہیں (۱) حکومت قوم رشتہ داروں اور دوستوں کا دبائو جو حق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا ضد تعصب یا خود غرضی کی وجہ سے حق کو قبول نہیں کرتے اور دوسروں کو بھی قبول نہیں کرنے دیتے (۲) سابق عادات یا گناہوں کا زنگ دل کو مرُدہ کر دیتا ہے اور ہمت کو سلب کر دیتا ہے.اس آیت میں ان دونوں روکوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ اے بنی اسرائیل! اگر تم پر حق کھل گیا ہے تو اسے قبول کرنے میں دیر نہ کرو بیشک تم کو تمہارے ہم قوموں اور رشتہ داروں دوستوں کی طرف سے روکا جائے گا تم پر ظلم کیا جائے گا.تکلیفیں دی جائیںگی مگر ان باتوں کی پروا نہ کرو اور صبر کی پسندیدہ عادت سے اس روک کا مقابلہ کرو دوسرے اپنے دل کو صاف کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو تاکہ دل کے زنگ دور ہوں اور تم میں صداقت کو قبول کرنے کی اہلیت پیدا ہو.آیت ھٰذا میں ایک نفسیاتی نکتہ یعنی کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی ضرورت ایک اور نفسیاتی نکتہ بھی اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی کام کی درستی کے لئے دو امور کی ضرورت ہوتی ہے اوّل بیرونی بد اثرات سے حفاظت ہو دوسرے اندرونی طاقت کو بڑھایا جائے اس آیت میں صبرکے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بیرونی بد اثرات کا مقابلہ کرو اور صلوٰۃ کے لفظ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر کے اس

Page 583

کے فضلوں کو جذب کرو اس طرح کمزوری کے راستے بند ہوں گے اور طاقت کے حصول کے دروازے کھل جائیں گے اور تم کامیاب ہو جائو گے حَلِّ لُغَات میں بتایا جا چکا ہے کہ صبر کے معنے صرف جزع فزع سے بچنے کے ہی نہیں ہوتے بلکہ برُے خیالات کا اثر قبول کرنے سے رکنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے بھی ہوتے ہیں اوپر کی تفسیر میں یہی معنے مراد ہیں جب کوئی بد اثرات کو ردّ کرے اور نیک اثرات کو قبول کرنے کی عادت ڈالے جو دعائوں سے حاصل ہو سکتی ہے تو اس کے دل میں روحانیت پیدا ہو کر جو کام پہلے مشکل نظر آتا تھا آسان ہو جاتا ہے اور روحانی ترقی کی جنگ میں اسے فتح حاصل ہوتی ہے.وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ میں کبیرہ کے معنی مشکل امر کے اگلے جملہ میں جو کَبِیْرَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کے معنے بڑی کے ہیں اور اس آیت میں موقعہ کے لحاظ سے مشکل امر کے معنے ہوتے ہیں اور خَاشِعٌ کے معنے ڈرنے والے کے ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ جس جگہ بھی استعمال ہوا ہے اس ہستی سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے جس سے ڈرنا مناسب ہو چنانچہ خَاشِعٌ کا لفظ سارے قرآن کریم میں یا تو خدا تعالیٰ سے ڈرنے یا اس کے عذاب سے ڈرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.بندوں یا دوسری چیزوں سے ڈرنے کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں ہوا.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوسکتا تھا کہ اس قسم کا علاج بتانا آسان ہے اس پر عمل کرنا مشکل ہے پس اس کا جواب وَ اِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِيْنَمیں دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس علاج پر عمل مشکل کام ہے لیکن جو خَاشِع ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں رہتا گویا گناہوں اور کمزوریوں سے بچنے کا حقیقی علاج خدا تعالیٰ پر ایمان ہے بغیر اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان کے انسان دوسری تدبیروں سے گناہ سے نہیں بچ سکتا.دنیا نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے لیکن افسوس کہ وہ بار بار اس نکتہ کو بھول جاتی ہے حقیقی نیکی اور کامل نیکی کبھی بھی خدا تعالیٰ پر کامل یقین کے بغیر نہیں پیدا ہوتی فلسفیانہ دلائل انسان کے اندر سچا تقویٰ نہیں پیدا کر سکتے.خدا تعالیٰ پر کامل ایمان کے بعد جو خوف بدیوں سے پیدا ہوتا ہے وہ اور کسی طرح پیدا نہیں ہوتا اسی وجہ سے انبیاء کی جماعتوں نے جو نیکی اور قربانی کا نمونہ دکھایا ہے وہ اور کوئی جماعت دنیا کی نہیں دکھا سکتی.آیت ھٰذامیں بنی اسرائیل کے لئے حددرجہ کی خیرخواہی اس آیت میں جس محبت اور خیر خواہی سے بنی اسرائیل کو نصیحت کی گئی ہے وہ اس اعلیٰ روح کا جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے ایک بیّن ثبوت ہے لفظ لفظ سے ان کی خیر خواہی ٹپکتی ہے اور ان الفاظ کا کہنے والا بنی اسرائیل کو غلطی سے بچانے کا پورا خواہشمند معلوم ہوتا ہے

Page 584

بعض نادان کہتے ہیں کہ یہ کلام محمد رسول اللہ کا ہے اور وہ اس طرح یہودیوں میں اپنے آپ کو مقبول بنانا چاہتے تھے مگر اس آیت کے الفاظ پر غور کرو کیا یہ الفاظ کسی شہرت کے طالب کے ہو سکتے ہیں؟ پھر یہ بھی سوچو کہ بنی اسرائیل نے باوجود اس نصیحت کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت قوم کے نہیں مانا مگر اس سے کس کا نقصان ہوا کیا اسلام کو اس سے کوئی نقصان بھی پہنچا؟ جس وقت یہ نصیحت کی گئی تھی صرف چند سو آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاچکے تھے لیکن اب چالیس کروڑ آدمی آپؐ کا کلمہ پڑھ رہا ہے ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے دنیا پر حکومت کی ہے اور اب پھر ان کی ترقی کے سامان اللہ تعالیٰ پیدا کر رہا ہے.بنی اسرائیل اگر آپ پر ایمان لے آتے تو وہ ان حالات میں اور کیا تبدیلی کر دیتے اگر کچھ فائدہ تھا تو انہی کا تھا.ان میں سے لاکھوں مسیحی ہوئے ہیں مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا ہے ؟ملکوں میں سے نکالا جانا.جائدادوں کا لُوٹا جانا ان کا حصہ ہے اور نہ وہ اِدھر کے رہے ہیں نہ اُدھر کے.اگر اسلام لاتے تو آج کروڑوں مسلمانوں کے برابر کے شریک ہوتے اور کوئی ان کو غیر قرار دے کر دُکھ نہ دیتا پس ان حالات کے باوجود مسیحی مصنفوں کا یہ کہنا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل کو لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانا چاہتے تھے ایک خلافِ عقل اور خلافِ واقع اعتراض ہے محض بنی اسرائیل کے فائدہ کی ایک بات کہی گئی تھی انہوں نے نہ مانا اور تکلیف اُٹھا رہے ہیں.الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَ اَنَّهُمْ اِلَيْهِ جو( اس بات پر) یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ملنے والے ہیں اور( اس بات پر بھی )کہ وہ اسی کی طرف رٰجِعُوْنَؒ۰۰۴۷ لوٹ کر جانے والے ہیں.حَلّ لُغَات.یَظُنُّوْنَ.یَظُنُّوْنَ ظَنَّ سے مضارع جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور ظَنَّ الشَّیْ ءَ کے معنے عَلِمَہٗ وَاسْتَیْقَنَہٗ کہ کسی چیز کو معلوم کیا اور اس کے متعلق یقین کر لیا اور اَلظَّنُّ کے معنے کے ماتحت لکھا ہے ھُوَ الْاِعْتِقَادُ الرَّاجِـحُ مَعَ اِحْتِمَالِ النَّقِیْضِ وَیُسْتَعْمَلُ فِی الْیَقِیْنِ وَالشَّکِّ یعنی ظنّ کے معنے زیادہ تر خیال غالب کے ہوتے ہیں اور بعض وقت وہ یقین کے معنے میں اور بعض وقت شک کے معنے میں بھی استعمال ہوتا ہے.(اقرب) اس آیت میں ظن بمعنے یقین کے استعمال ہوا ہے اور یَظُنُّوْنَ کے معنے ہیں وہ یقین رکھتے ہیں.

Page 585

تفسیر.آیت ماقبل میں لفظ خُشُوْع کے معنے کامل ایمان رکھنے اور ایک دن خدا کے سامنے حاضر ہونے کے متعلق پورا یقین رکھنے کے قرآن کریم کا یہ عام طریق ہے کہ جب کسی لفظ کو خاص معنوں میں استعمال کرتا ہے تو اس اصطلاح کی ساتھ ہی تشریح بھی کر دیتا ہے اس آیت میں بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق خَاشِعِیْنَ کے معنے بتائے گئے ہیں خَاشِعٌ چونکہ ڈرنے والے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اس جگہ عام ڈرنے والے کے معنوں میں یہ لفظ استعمال نہیں ہوا بلکہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور ایک دن اس کے سامنے حاضر ہونے پر انہیں پورا یقین ہے.پس خَاشِعِیْنَ کے معنے اوپر کی آیت میں صرف ڈرنے والے کے نہیں کئے جائیں گے بلکہ اس سے مراد وہ شخص لیا جائے گا جس کا خوف خدا تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین سے پیدا ہوتا ہے اور اس خوف کی بناء نقصان کے ڈر پر نہیں بلکہ اس امر پر ہے کہ میں اعلیٰ ترقیات سے محروم نہ رہ جائوں گویا یہ ڈر ایک بزدل کا ڈر نہیں بلکہ ایک عارف کی گھبراہٹ ہے جو دلیر سے دلیر آدمی میں بھی پائی جاتی ہے اور پائی جانی چاہیئے.یہی وجہ ہے کہ یہود کو دنیاوی تکلیفوں سے ڈرنے سے روکتے ہوئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا ہے کہ اس ڈر کا دُور کرنا ہے تو مشکل مگر خَاشِعِیْنَ کے لئے مشکل نہیں ڈر کے عام معنوں کے رو سے یہ فقرہ عجیب معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی ظاہری شکل یوں بنتی ہے کہ لوگوں سے ڈرو نہیں بیشک ڈرنے سے بچنا مشکل ہے مگر ڈرنے والوں کے لئے مشکل نہیں.مگر جیسا کہ بتایا گیا ہے.اَلْـخُشُوْعُ کے معنے عام ڈر کے نہیں بلکہ ایک کامل ہستی پر ایمان رکھتے ہوئے قرب سے محروم رہنے کے خوف کے ہیں اور ان معنوں کی رو سے اس فقرہ میں کوئی امر قابلِ تعجب نہیں اور اس کے معنے صرف یہ ہیں کہ دنیوی مشکلات سے نہ ڈرو یہ بیشک مشکل امر ہے لیکن جو لوگ اپنے لئے ایک اعلیٰ مقصد قرار دے لیں اور اس مقصد کو چھوڑنا ان پر سخت گراں گزرنے لگے ان کے لئے ایسے خطرات برداشت کرنے مشکل نہیں رہتے اس قسم کا ڈر درحقیقت بہادری اور احتیاط کی ایک قسم ہے نہ کہ بزدلی کا مظاہرہ.وَ اَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو مابعدالموت زندگی پر اس کے مناسب حال زور دیتا ہے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب تقویٰ کی بنیاد کو بعدالموت زندگی پر نہیں رکھتا.اسلام اس دنیا کی زندگی کو ایک لمبی زندگی کی ایک کڑی قرار دیتا ہے جس میں انسانی روح کی تکمیل ہوتی ہے وہ اس زندگی کے ختم ہونے کو رُوح کی کشمکش کا خاتمہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس کے بعد بھی اس کشمکش کو جاری بتاتا ہے صرف فرق یہ ہے کہ اس زندگی میں انسان نسبتی طورپر اندھیرے میں کوشش کرتا ہے اور مرنے کے بعد نیک و بد دونو ںکو ایک بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس کی

Page 586

رہنمائی میں وہ آیندہ ترقی کے لئے کوشش کرتے ہیں.بد لوگ اپنے پیدا کردہ ماحول سے نجات پانے کے لئے اور نیک لوگ مزید ترقیات کے لئے یہی وہ یقین ہے جس نے سچے مسلمانوں کو ہمیشہ موت سے نڈر بنائے رکھا ہے اورجب بھی اس ایمان کے ساتھ مسلمان اُٹھتے ہیں دنیا پر غالب آتے ہیں.جو لوگ اس دنیا کو اپنی ترقیات کا انجام سمجھتے ہیں کبھی نیکی کے لئے جدوجہد نہیں کر سکتے جو بعد الموت زندگی پر ایمان لانے والے کر سکتے ہیں اس دنیا کو منتہا قرار دینے والے بار بار دنیاوی لذات کی طرف راغب ہو جاتے ہیں اور جسمانی آرام کو کسی صورت میں نظر اندازنہیں کر سکتے.٭٭٭

Page 587

Page 588

Page 589

Page 590

Page 591

Page 592

Page 593

Page 594

Page 595

Page 596

Page 597

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 604

Page 605

Page 606

Page 607

Page 608

Page 609

Page 610

Page 611

Page 612

Page 613

Page 614

Page 615

Page 616

Page 617

Page 618

Page 619

Page 620

Page 621

Page 622

Page 623

Page 624

Page 625

Page 626

Page 627

Page 628

Page 629

Page 630

Page 631

Page 632

Page 633

Page 634

Page 635

Page 636

Page 637

Page 638

Page 639

Page 640

Page 641

Page 642

Page 643

Page 644

Page 645

Page 646

Page 647

Page 648

Page 649

Page 650

Page 651

Page 652

Page 653

Page 654

Page 655

Page 656

Page 657

Page 657

Next Book →