Haqaiqul-Furqan Volume 4

Haqaiqul-Furqan Volume 4

حقائق الفرقان (جلد ۴)

Chapters: 49-114
Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

Page 5

سُوْرَۃُ الْحُجُرَاتِ مَکِّیَّۃٌ ۳.  .:کلام اﷲ قول الرّسول کے مقابل پر اپنی آواز نہ بڑھاؤ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۱) ۸.  .:کہ تم میں محمد خدا کا رسول ہے.اگر تمہاری رائے پر چلے تو تمہیں مشکلوں اور دُکھوں کا سامنا ہو.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۱۱) ۱۱. .

Page 6

تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.امیر سے غریب تک.شریف سے وضیع تک.اجنبی سے اپنے پرائے ہم قوم تک.اگر ایمان والوم میں رنج آجاوے تو ان بھائیوں میں صلح کرادو اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم ہو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۳) اس آیت کی رُو سے مجھے یقین ہے.کہ کم از کم اس آیت کے نزول تک جس قدر صحابہ تھے.وہ آپس میں بھائی بھائی تھے.اور یہ شیعہ کے خلاف نصّ صریح ہے.(بدر ۳۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۷) ۱۲.   .مرد مردوں سے ہنسی نہ کریں.ہو سکتا ہے کہ وہی ان سے اچھے ہوں.اور نہ عورتیں عورتوں سے ہو سکتا ہے کہ وہی ان سے اچھی ہوں اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب گیری مت کرو.بُرے بُرے اور چھیڑ کے ناموں سے کسی کو مت پکارو.مومن ہونے کے بعد یہ ناپاک نام بہت بُری بات ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۹) اے ایمان والو! ٹھٹھّا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے.شاید وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے.شاید وہ بہتر ہوں اُن سے.اور عیب نہ دو ایک دوسرے کو اور نہ نام ڈالو.چڑھ ایک دوسرے کی.بُرا نام ہے گنہگاری پیچھے ایمان کے اور جو کوئی توبہ نہ کرے.تو وہی ہیں بے انصاف.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۲) او ایمان والو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے.جس سے تم ہنسی کرتے ہو اور جسے تم مسخرہ بناتے ہو

Page 7

شاید تم سے اچھا ہو اور نہ عورتیں ہنسی کریں عورتوں سے،کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس سے ایک عورت تمسخر کرتی ہے دوسری سے اچھی ہو اور اپنوں کو کوئی طعن مت دیا کرو اور کسی کی نسبت بُرا لقب مت بولو.ایسی کرتوتوں سے بُرے لقب دینے والا اﷲتعالیٰ کے یہاں سے فاسق و بدکار ہونے کا لقب پاتا ہے.اور مومن کہلا کر فاسق بننا بُرا ہے.جو لوگ بُرے کاموں سے باز نہ آئے وہی بدکار ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۳) مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھا تا بہت ہی بُری بات ہے.یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنّی سے اس لئے فرماتا ہے.اِجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ بدگمانیوں سے بچو.حدیث میں بھی آیا ہے.ایاکم و الظن.فَاِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْثِ.اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے.میں نے ایک کتاب منگوائی.وہ بہت بے نظیر تھی.میں نے مجلس میں اس کی خوب تعریف کی.کچھ دنوں کے بعد وہ کتاب گم ہو گئی مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا.مگر یہ خیال ضرور آیا.کسی نے چُرالی.ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریا ں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں.الماری کے پیچھے بیچبیچ کتاب پڑی ہے.جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور پیچھے جا پڑی.اس وقت مجھے دو معرفت کے نکتے کھُلے.ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی.دومؔ میں نے صدمہ کیوں اٹھایا.خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیز اور عمدہ میرے پاس موجود تھی.اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ تہیں ہوں گی.ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا.ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی.اسے اس کام کا بہت شوق تھا.اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی.تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی.مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی نہ میرے بچوں کے سر پر.مگر میرے عَکْس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کو پسند آگئی ہو گی.مدّت ہوئی.اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کیلئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہہ سے نکل آئی.دیکھو بدظن کیسا خطرناک ہے اﷲ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیساکہ اس نے محض اپنے فضل سے میری راہنمائی کی.اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے.اس بدظنی کی جڑھ ہے ’’کرید‘‘خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی.اس لئے فرمایا وَ لَا تَجَسَّسُوْا اور پھر اس تجسسّ سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے.ان آیات میں تم کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ گناہ شروع میں بہت چھوٹا ہے اور آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے جیسے بَڑ کا بیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہے.جب بعض آدمیوں کو آرام ملتا ہے.فکرِ معاش سے گونہ بے فکری حاصل ہوتی ہے.وہ نکمّے بیٹھنے لگتے ہیں.اب اور کوئی مشغلہ تو ہے نہیں.تمسخر کی خُو ڈال لیتے ہیں.یہ تمسخر کبھی زبان سے ہوتا ہے.کبھی اعضاء سے

Page 8

کبھی تحریر سے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تمسخر کا نتیجہ بہت بُرا ہے.وحدت باطل ہو جاتی ہے.پھر وحدت جس قوم میں نہ ہو وہ بجائے ترقی کے ہلاک ہو جاتی ہے.حدیث میں آیا کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا.زَنَیْتِ.سَرَقْتِ تُو نے زنا کیا.تُو نے چوری کی.ایک سُننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعاکی کہ الہٰی میری اولاد ایسی نہ ہو.گود میں لڑکا بول اٹھا کہ الہٰی مجھے ایسا ہی بنائیو.کیونکہ اس عورت پر بدظنی کی جا رہی ہے.یہ واقعہ میں بہت اچھی چیزہے.اسی طرح ایک اور کا ذکر ہے کہ ماں نے دُعا کی.الہٰی میرا بچّہ ایسا ہی ہو.مگر بچے نے کہا کہ الہٰی میں ایسا نہ بنوں.غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہو سکتی ہے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.ممکن ہے کہ ایک شخص ایسا نہ ہو جیسا اسے سمجھا جاتا ہے.لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہو مگر خدا کے نزدیک مقرّب ہو مگر اَلْاَعْمَالُ بِالْخَواتِیْمِکے مطابق ممکن ہے.جس سے تمسخر کیا جاتا ہے اس کا انجام اچھا ہو.وَ لَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ:آیت میں آیا ہے.یہاں عورتیں بیٹھی ہوئی نہیں مگر آدمی کا نفس بھی مؤنث ہے.ہر ایک اس کو مراد رکھ سکتا ہے.دومؔ اپنے اپنے گھروں میں یہ بات پہنچا دو.کہ کوئی عورت دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے.اور اس سے ٹھٹھانہ کرے.تم ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نام نہ رکھو.تم کسی کا بُرا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا.پھر بعض جڑیں ایک ایک میل تک چلی گئی ہیں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو.اور بدی کو اس کے ابتداء میں چھوڑ دو.(بدر ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھوبلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کو اﷲ نے علم.طاقت اور آبرودی ہے تو اس کے شکریہ میں اسکی، جو نعمت سے متمتع نہیں، مدد کرے، نہ یہ کہ تمسخر اڑائے.یہ منع ہے.چنانچہ اس نے فرمایا.لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ.(بدر ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۲) ۱۳.

Page 9

او ایمان والو!بُہتی بدگمانیوں سے بچو.بعضے بدگمانی بدکاری ہوتی ہے.لوگوں کی عیب جوئی مت کیا کرو اور ایک دوسرے کا گلہ کبھی نہ کرو.گلہ کرنا ایسا بُرا ہے جیسا بھائی کا گوشت کھا لینا.کیا یہ امر کسی کو پسند ہے.بے ریب کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں.اﷲ سے اس کی نافرمانیوں پر ڈرو.اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو جو نافرمانیوں کو چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، رحم کرتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۴) بعضے گناہ ہوتے ہیں کہ وہ اور بہت سے گناہوں کو بلانے والے ہوتے ہیں.اگر ان کو نہ چھوڑا جائے تو ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے بُتوں کو تو توڑا جائے مگر بُت پرستی کو اس کے دل سے دور نہ کرایا جاوے.اگر ایک بُت کو توڑ دیا تو اس کے عوض سینکڑوں اور تیار ہو سکتے ہیں.مثلاً صلیب ایک پیسہ کو آتی ہے اگر کسی ایک کی صلیب کو توڑ ڈالیں تو لاکھوں اور بن سکتی ہیں.غرض جب تک شرارتوں اور گناہوں کی ماں اور جڑھ دور نہ ہو.تب تک کسی نیکی کی امید نہیں ہو سکتی اور تاوقتیکہ اصلی جڑھ اور اصلی محرّک بدی کا دور نہ ہو.فروعی بدیاں بکلّی دور نہیں ہو سکتیں.جب تک بدیوں کی جڑھ نہ کاٹی جاوے.تب تک تو وہ اور بدیوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور دوسری بدیاں اپنا پیوند اس سے رکھیں گی.مثلاً شہوت بد ایک گناہ ہے.بدنظری ،زنا، لواطت.حُسن پرستی سب اسی سے پیدا ہوئی ہیں.حرص اور طمع جب آتا ہے.تو چوری جعلسازی.ڈاکہ زنی.ناجائز طور سے دوسروں سے مال حاصل کرنے اور طرح طرح کی دھوکہ بازیاں سب اسی کی وجہ سے کرنی پرتی ہیں.غرض یہ یاد رکھنے والی بات ہے.کہ بعض باتیں اصل ہوتی ہیں اور بعض انکی فروعات ہوتی ہیں.جو لوگ اﷲ تعالیٰ کو نہیں مانتے.وہ کوئی حقیقی اور سچی نیکی ہرگز نہیں کر سکتے اور وہ کسی کامل خلق کا نمونہ نہیں دکھا سکتے.کیونکہ وہ کسی صحیح نتیجہ کے قائل نہیں ہوتے.میں نے بڑے بڑے دہریوں کو مل کر پوچھا کہ کیا تم کسی سچے اخلاق کو ظاہر کر سکتے ہو اور کوئی حقیقی نیکی عمل میں لا سکتے ہو تو وہ لاجواب سے ہو کر رہ گئے ہیں.ہمارے زیرِ علاج بھی ایک دہریہ ہے.میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا تو وہ ہنس کر خاموش ہو گیا تھا.ایسے ہی جو لوگ قیامت کے قائل نہیں ہوتے.وہ بھی کسی حقیقی نیکی کو کامل طور پر عمل میں نہیں لا سکتے.نیکیوں کا آغاز جزا سزا کے مسئلہ سے ہی ہوتا ہے.جو شخص جزا سزا کا قائل نہیں ہوتا.وہ نیکیوں کے کام بھی نہیں کر سکتا.ایسے ہی جو شخص یہ سمجھتا ہے.کہ دوسرے لوگوں کے اس قسم کے الفاظ سے مجھے رنج پہنچتا ہے.وہ کسی کی نسبت ویسے الفاظ کیوں استعمال کرنے لگا.یا جو شخص اپنی لڑکی سے بدنظری اور بدکاری کروانا نہیں چاہتا اور اسے ایک بُرا کام سمجھتا ہے.وہ دوسروں کی لڑکیوں سے بدنظری کرنا کب جائز سمجھتا ہے.ایسے ہی جو اپنی ہتک کو بُرا خیال کرتا ہے وہ دوسروں کی ہتک

Page 10

کبھی نہیں کرتا.بہر حال یہاں اﷲ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کا ایک گُر بتایا ہے.. ایماندارو! ظن سے بچنا چاہیئے کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں.اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.اِیَّاکُمْ وَ الظَّنَّ فَاِنَ الظَّنَّ اکْذَبُ الْحَدِیْثِ ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے.لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے.اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑا.تب محض ظن کی بناء پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہیئے تھی.عداوت کا بیج بویا جاتا ہے.اور آہستہ اہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں.کئی لوگوں سے میں نے پوچھا ہے کہ جب تم نے میرا نام سنا تھا تو میری یہی تصویر اور موجودہ حالت کا ہی نقشہ آپ کے دل میں آیا تھا.یا کچھ اور ہی سماں اپنے دل میں آپ نے باندھا ہوا تھا تو انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ جو نقشہ ہمارے دل میں تھا اور جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ نقشہ نہیں پایا.یاد رکھو.بہت بدیوں کی اصل جڑھ سوء ظن ہوتا ہے.میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے.تو اﷲ تعالیٰ نے میری تعلیم فرما دی کہ بات اس کے خلاف نکلی.میں اس میں تجربہ کار ہوں.اس لئے نصیحت کے طور کہتا ہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو.اس سے سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے.اسی واسطے اﷲ کریم فرماتا ہے.وَ لَا تَجَسَّسُوْا.تجسّس نہ کرو.تجسّس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.جب انسان کسی کسی کی نسبت سوء ظن کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے.اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے.اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا.اپنی بدظنی کو پورا کرنے کیلئے تجسُّسْ کرتا ہے اور پھر تجسّس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے فرمایا.اﷲ کریم نے وَ لَا یَغْتَبْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا.غرض خوب یاد رکھو سوء ظن سے تجسُّسْ اور تجسُّسْ سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے.اور چونکہ آجکل ماہ رمضان ۱؎ ہے.اور تم لوگوں میں سے بہتوں کے روزے ہوں گے.اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے اگر ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسّس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے.تو وہ اپنے ۱؎ ماہ اکتوبر ۱۹۰۷؁ء.مرتّب

Page 11

مُردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.جیسے فرمایا اَیُحِبُّ اَحدَکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا؟ فَکَرِھْتُمُوْہُ! اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے.وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مُردہ بھائی کے گوشت کے اور یہ بالکل سچّی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہوتا ہے.جو اپنے مُردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے.مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا.ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی.تب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بُو بھی آتی تھی.یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں.یہ واقعات ہیں.جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں.جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے.نہیں مرتے! اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور دردِ دل سے کہتا ہوں.کہ غیبتوں کو چھوڑ دو.بُغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلّی پرہیز کرو اور بالکل الگ ۱؎ ماہ اکتوبر ۱۹۰۷؁ء.مرتّب تھلگ رہو.اس سے بڑا فائدہ ہو گا.میری نہ کوئی جاگیر مشترک ہے.نہ کوئی مکان مشترک ہے.میرا کوئی معاملہ دنیا کا کسی سے مشترکہ نہیں.اسی طرح میں اوروں پر قیاس کرتا ہوں کہ وہ بھی یہاں آ کر ۱؎ الگ تھلگ ہوں گے اور اگر کچھ بھی معمولی سے شراکت ہو گی بھی تو کوشش کرنے سے بالکل الگ رہ سکتے ہیں.انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسا لیتا ہے ورنہ بات سہل ہے جو لڑکے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں.اﷲ کریم ان کو پسند نہیں کرتا.اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خدا تعالیٰ اس کو راہِ راست پر چلنے کی توفیق دیوے.یاد رکھو اﷲ کریم تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ ہے.وہ معاف کر دیتا ہے.جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارانہ کرے.کسی دوسرے کو سُکھ نہیں پہنچا سکتا.بدصحبتوں سے بہ کُلّی کنارہ کش ہو جاؤ.خوب یاد رکھو.کہ چوہڑی یا لوہار کی بھٹی یا کسی عطّار کی دکان کے پاس بیٹھنے سے ایک جیسی حالت نہیں رہا کرتی.ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ.کیونکہ اس سے پھر تجسّس پیدا ہو گا.اور اگر تجسّس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جاؤ کہ اس سے غیبت تک پہنچ جاؤ گے اور یہ ایک بہت بڑی بداخلاقی ہے.اور مُردار کھانے کی مانند ہے.ٌ: تقوٰی اختیار کرو اور پورے پورے پرہزگار بن جاؤ.مگر یہ سب کچھ اﷲ توفیق دے تو حاصل ہوتا ہے.ہم تو انباروں کے انبار ہر روز معرفت کے پیش کرتے ہیں.گو فائدہ تو ہوتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ بہت فائدہ ہو اور بہتوں کو ہو خدا تعالیٰ توفیق عنایت فرمائے.آمین ( الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۸.۹) ۱۴. ۱؎ قادیان.مرتّب

Page 12

ہم نے ہی تم کو پیدا کیا نر و مادہ سے اور تم کو قوموں اور قبائل پر تقسیم کی.تاکہ ایک دوسرے سے تعارف رکھو اور تمہیں یاد رہے کہ خداکے یہاں تم میں سے وہی معزز ہے جو بڑا پرہیزگار ہے.اور جان رکھو.اﷲ تعالیٰ علیم و خبیر ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۴ نیز فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۳) ْ: یعنی تم میں سے معزّز اور زیادہ مکرّم وہ ہے جو زیادہ تر متّقی ہے.جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ ہوتے ہیں وہی زیادہ معزّز و مکرّم ہے.کیا بے جاشیخی اور انانیت نہیں ہو رہی؟ پھر بتلاؤ.اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟ یہ اخوّت اور برادری کا واجبالاحترام مسئلہ اسلام کی دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے کیا.پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب و ملّت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پرہیز کرتے تھے.مگر اب شُدھ کرتے اور ملاتے ہیں.گوکامل اخوّت اور سچّے طور پر نہیں.مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف غور کرو کہ حضورؐ نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں.اسلامء مقدّس اسلام نے قوموں کی تمیزکو اٹھا دیا جیسے وہ دنیا میں توحید زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے.اسی طرح ہر بات میں اس سے وحدت کی رُوح پھونکی اور تقوٰی پر ہی امتیاز رکھا.قومی تفریق پر جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علیٰ خلق اﷲکے اصول کی دشمن ہو سکتی تھی اُسے دور کر دیا.ہمیشہ کا منکر جب اسلام لاوے تو شیخ ؔکہلاوے.یہ سعادت کا تمغہ یہ سعادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا صرف تقوٰی تھا.( الحکم ۵؍ مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴) ۱۵.  .اعراب نے کہا ہم ایمان لائے تو کہہ کہ تم مومن نہیں ہوئے لیکن بولو کہ ہم فرماں بردر ہوئے اور ابھی

Page 13

ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۸۱) ۱۶. .کہ مومن وہی ہوتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اﷲ پر اور ایمان لاتے ہیں اﷲ کے رسولؐ اور اگر ان پر کچھ مشکلات آ پڑیں تو کوئی شک و شبہ نہیں لاتے بلکہ ِ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ کسی اور کی کمائی سے یا کسی اور کا مال حاصل کر کے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ پھر ان کو کہاں سے دوں گا اس لئے وہ خود کما کر اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.آجکل قحط کا زور ہوتا جاتا ہے.مومن کو چاہیئے کہ اپنی روٹی کا ایک حصّہ کسی ایسے شخص کو دے دیا کرے جس کے پاس روٹی نہیں.اگر اس میں سے نہیں دے سکتا تو کوئی پیسہ ہی سہی کہ وہ بیچارہ خرید کر کے ہی کھالیوے مومن آدمی کو تو خدا کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا.دیکھو آجکل سردی کا موسم ہے.کسی شخص کو اوڑھنے کیلئے کپڑا دینے سے تم کو دریغ نہیں کرنا چاہیئے.مومن کو جوں جوں ضرورتیں پیدا ہوتی رہیں.سب میں شرکت لازمی ہے.اس واسطے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں.کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اﷲ پر اور اﷲ کے رسول پر ایمان ہوتا ہے.اور وہ اپنے مال اور جانیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خرچ کرنا ضائع نہیں جائے گا.اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک بھی صادق اور سچے مومن ہوتے ہیں.اور پھر اس کے آگے فرمایا.ْ کہ کیا تم لوگ زبانی دعوے کرنے سے اﷲ تعالیٰ کو اپنی دینداری جتلانی چاہتے ہو.اﷲکے نزدیک تو تب ہی صادق ٹھہر سکو گے.جب عملی طور پر دُکھوں دردوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہو گے.اور اپنے مالوں اور جانوں سے دوسروں کی غم خواری کرو گے اور محتاجوں اور غریبوں کی امداد کرو گے.یاد رکھو.دوسروں کی غم خواری بہت ضروری ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی توفیق سے ہو سکتا ہے.اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.( الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۷ء)

Page 14

 ۲..: قیامت ہے اور اس کا شاہد قرآن مجید ہے کہ تم بعد الموت مبعوث ہو گے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) ۱۰..اتارا ہم نے بادلوں سے پانی برکت والا پھر لگائے ہم نے اس کے ساتھ باغ اور اناج کاٹنے کے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۱) ۱۱،۱۲.. .اور کھجوریں بلند جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں.رزق ہے بندوں کیلئے اور زندہ کیا ہم نے اس کے ساتھ مُردہ شہر کو.اسی طرح نکلنا ہے ( یعنی زمین سے پر نکلنا ہے).(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۱) ۱۶..

Page 15

کیا ہم پہلی پیدائش سے تھک گئے ہیں.نہیں یہ لوگ نئی پیدائش سے شبہ میں ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۱۰) ۱۹..مومن کو چاہیئے کہ ہر ایک چیز سے کوئی نہ کوئی نصیحت حاصل کرے.گراموفون کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھا گیا ہے.انسان غور کرے تو اس کیلئے عبرت کا موجب ہے.جس طرح ایک شخص کی آواز اس میں بند ہوتی ہے اور پھر اس کے تمام انداز محفوظ ہو جاتے ہیں اور عام مجالس میں ظاہر ہوتے ہیں.اسی طرح اگر انسان یہ یقین رکھے کہ جو کچھ وہ بولے گا.اس کا ریکارڈ بھرنے والے ٌ.کے ماتحت پاس ہی موجود ہوتے اور اس کے اعمال و اقوال کا اثر ذرّاتِ عالم پر پڑ کر محفوظ رہتا ہے.اور پھر یہ سب کچھ ظاہر ہو گا.تو وہ کبھی ایسا جملہ نہ بولے، نہ کام کرے جو خلاف شریعت ہو.کیا کوئی شخص جسے یقین ہو کہ میری آواز فونوگراف میں بھری جا رہی ہے.کوئی ایسا فقرہ بولتا ہے جس سے اس کا ناپاک اور خبیث ہونا ظاہر ہوتا ہو؟ ہرگز نہیں! تو پھر باوجودیکہ کلامِ الہٰی میں نصّ صریح ہے کہ .وہ کیوں گندی باتیں کرے.ایک دن آتا ہے.کہ یہ سب کچھ ظاہر کیا جائے گا اس وقت جو ندامت اور فضیحت ہو گی.وہ ایک شریف انسان کیلئے عذاب سے بڑھ کر ہے.یاد رکھو کہ جو کچھ ہم منہ سے بولتے ہیں اسے محفوظ کرنے والے خداکے فرستادہ وجود ہوتے ہیں اور ہماری باتوں اور کاموں کا اثر ذرّاتِ عالم اور اعضاء انسانی پر پڑتا ہے.قیامت کے دن گراموفون کی طرح یہ سب کچھ واپس ہو گا اور اس وقت فضیحت ہو گی.اگر پہلے ہی سے ہم نہ سنبھل سکے.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۴ صفحہ ۱۷۶.۱۷۷) ۳۰..بدلتی نہیں بات میرے پاس اور میں ظلم نہیں کرتا بندوں پر.( فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴۴) ۳۱..

Page 16

ایک آریہ کے اعتراض’’مفسر کہتے ہیں.خدا اپنے دونوں پاؤں دوزخ میں ڈال دے گا اور جہنم کو سیر کر دے گا‘‘ کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا: ’’تمہارے یہاں پر میشور کا نام سرب بیاپک ہے.تو کیا وہ نرگ میں نہیں.قرآن کریم میں صرف اس قدر ہے کہ اور جو تم نے مفسروں کا قول نقل کیا ہے.اس میں یہ ہے کہ جَھَنَّمَکہتی رہے گی حَتّٰی یَضَعَ رَبُّ الْعِذَّۃِ قَدَمَہٗ اور کہیں ہے یَضَعُ الْجَبَّارُ قَدَمَہٗ اور کہیں ہے حَتّٰی یَضَعَ اﷲُ رِجْلَہٗ پس قبل اس کے کہ تم کو مفصّل جواب دیں.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ ذیل کے معنی لغت عرب سے لکھ دیں.جھنم.ربّ.عزت.جبّار.قدم.رجل ۱.جَھَنَّم: دوزخ.نرگ.عذاب کی جگہ.۲.ربّ کے معنی بڑا پالن ہار.یہ لفظ ا تعالیٰ پر بھی بولا گیا ہے اور دنیاداروں.بڑے آدمیوں پر بھی.فرعون نے کہا.اَنَارَبُّکُمُ الْاَعْلٰی (نازعات:۲۵) یوسف علیہ السلام نے ایک قیدی کو جو رہا ہونے والا تھا.فرمایا کہ (یوسف:۴۳)یعنی اپنے مالک و امیر کے پاس میرا ذکر کیجئیواور اسی رب کی جمع ارباب ہے جس کے متعلق فرمایا کہ (یوسف:۴۰) ۳.عزت،بڑائی،حمایت،جاہلوں کی ہٹ،قرآن شریف میں شریروں کے متعلق فرمایا.(بقرہ:۲۰۷) اور فرمایا ہے کہ جب شریر کو غذاب اور دُکھ دیا گیا تو کہا جائے گا (دخان:۵۰) پس ربّ العزّت کے یہ معنے بھی ہوئے.متکبّر ضدّی.ہٹ والا.۴.جبّار کے معنے مصلح کے بھی ہیں.اور ظالم کے بھی.مصلح کو تو عذاب ہو نہیں سکتا.اور ظالم کے حق میں آیا ہے.خَابَ کُلُّ جَبَّارٍ عَنِیْدٍ.مشکوٰۃ صفحہ ۴۹۶ میں ہے.ھب ھب دوزخ میں ایک وادی ہے اس میں جبّار لوگ داخل ہوں گے.۵.قدم.جس شخص کو کہیں بھیجا جاوے.اُسے قدم کہتے ہیں.قاموس اللُّغَۃ میں ہے قَدَمُہٗ اَیْ اَلَّذِیْنَ قَدَمُھُمْ مِنَ الْاَشْرَارِفَھُمْ قَدَمُ اﷲِ لِلنَّارِ.کَمَا اَنَّ الْخِیَارَ قَدَمُ اﷲِ لِلْجَنَّۃِ.وَ وَضْعُ القَدَمِ مِثْلَ الرَّوْعِ وَالْقَمْعِ.احادیث میں ہے دِمَائُ الجھلیۃ موضوعۃِ تحت قَدَمِیْ.ترجمہ قدم اس کا وہ بد لوگ ہیں جن کو وہ حسب ان کے اعمال کے آگ میں بھیجے گا.جیسے کہ برگزیدہ لوگ بہشت کیلئے قدم اﷲ ہیں.یعنی وہ

Page 17

جنہیں حسب ان کے اعمال اﷲ تعالیٰ بہشت میں بھیجے گا.اور قدم رکھنے کے اصل معنی ہیں روک دینا اور بیخکنی کر دینا.جیسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.جاہلیت کے خون میرے قدم کے نیچے رکھے گئے ہیں.یعنی میں ان کے انتقاموں سے قوم کو منع کرتا ہوں اور ان کو مُسلتا ہوں.۶.رجل کے معنی قوم.جماعت.عربی زبان میں آتا ہے رجل مّن جرادٍیعنی ٹڈیوں کا ٹڈی دل جماعت.اب کس قدر صاف معنی ہیں کہ ا ﷲ تعالیٰ جہنم کو فرمائے گا.کیا تو بھر چکی.وہ عرض کریگی.کیا کچھ اور ہے تب اﷲ شریروں اور ظالموں اور انکی جماعت کو جو جہنم کے لائق ہیں.سب کو جہنم میں ڈال دے گا.خاصہ مطلب یہ ہو کہ نرگی اور جہنمی نرگ اور جہنم میں داخل کئے جاویں گے اور یہی انصاف و عدل ہے اب بتاؤ اس پر کیا اعتراض ہوا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۲۰۷.۲۰۸) اسی آیت پر پادریوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا:.’’ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ حدیث(یَضَعُ فِیْھَا رَبُّ الْعِزَّۃِ قَدَمَہٗ) کا مطلب صاف اور درست ہے مگر زبان اور محاورۂ عرب نہ جاننے کے سبب سے پادری صاحب اس بھُول بھُلیّاں میں جا پڑے ہیں خود ان کے چالاک ہاتھوں کی کرتوت ہے.اصل منشاء آپ کے اعتراض کا جملہ (یَضَعُ فِیْھَا رَبُّ الْعِزّۃِ َقَدَمہٗ) ہے جس کا ترجمہ ہے رکھے گا اس میں عزّت والا اپنے قدم.اب ہم آپ کو اُن الفاظ کا صحیح مطلب اور منشاء بتاتے ہیں.جن سے آپ کو بوجہ عدمِ فہم زبانِ عرب دھوکہ ہوا ہے.گو الفاظ تو صاف تھے.اور محاورۂ عرب کی طرف ذرا ہی سے رجوع کرنے سے بآسانی حل ہو سکتے تھے.مگر چونکہ عادۃً نصارٰی کا خاصہ ہے.کہ کسی کلام کا اصل مقصد عمدًا یا جہلاً بدوں توضیح و تفسیر نہیں سمجھتے یا سمجھ نہیں سکتے اور یہ عادت نسلًا بعد نسلٍ حضرات حواریین سے وراثت میں انہیں ملی ہے کہ وہ سادہ مزاج حضرات بھی مسیحؑ کے کلام کو بدوں تفسیر و تمثیل سمجھ نہیں سکتے تھے.اس لئے ضرور ہوا کہ ہم پوری تفسیر ان الفاظ کی کر دیں.سنو! جواب نمبر۱.پہلا لفظ جس پر پادری صاحب کو دھوکہ ہوا.لفظ ربّ ہے.سننا چاہیئے.کہ ربّ کا لفظ بڑے بڑے آدمیوں پر بولا گیا ہے.جیسے یوسف علیہ السلام کا قول اُس زندانی کو اُذْکُرْنِیْ عِنْدَ رَبِّکَ کہ مجھے اپنے آقا کے رُوبرو یاد کرنا.اور فرعون کہتا ہے.اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلٰی.میں تمہارا ربّ ہوں.یہ لفظ عام بڑے بڑے رئیسوں اور امیروں پر بھی اطلاق ہوتا ہے.اس لئے اس کی جمع ارباب سے امراء ار دنیادار مُراد لئے جاتے ہیں.اور ٹھیک اسی طرح عبرانی زبان میں بھی جسے عربی کے ساتھ مشابہت تامہ

Page 18

ہے.استعمال ہوا ہے.چنانچہ رِبِّیْ بڑے بڑے کاہنوں اور عالموں پر بولا جاتا ہے.اور بعض جگہ جب کسی اسم کے ساتھ ترکیب میں مذکور ہوتا ہے.جیسے مثلاً اسی جگہ ربّ العزّۃ یا ربّ البیت یا ربّ المنزل اُس وقت مراد ف لفظ صاحب کے ہوا کرتا ہے.مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں.صاحب العزّۃ صاحب البیت.صاحب المنزل.عزّت والا.گھر والا.منزل والا یا مالکِ منزل.جواب نمبر۲.اور عزّت بمعنی جمیّت، ضدجاہلیت ہے.دیکھو قرآن میں ایک جگہ اس کا استعمال ہوا ہے.اَخَذَتْہُ الْعِذَّۃُ بِالّاِثْمِ فَحَسْبُۂ جَھَنَّمَ: یعنی جب اُسے خدا سے ڈرنے کو کہا جاتا ہے تو اُسے عزّت(ضد و حمیت جاہلانہ) گناہ پر آمادہ کرتی ہے.پس ایسے کیلئے جہنم ہے.اور عزیزؔ کا لفظ جو اس سے مشتق ہوا ہے قرآن میں ( سورۃ دخان: ۵۰) شریر جہنمی پر جب جہنم میں ڈالا جائیگا بولا گیا ہے.ذُقْ.اِنّکَ اَنْتَ الْعَزِیَذُ الْکَریْمُ.چکھ کیونکہ تو بڑی حمیّت والا اور بزرگ بنا بیٹھا تھا.اور عزیزؔ اور ربّالعزّۃؔ کے معنی ایک ہی ہیں.ربّ الْعِذَّۃ اُس شخص سے مراد ہے.جو دنیا میں متکبّر اور جبار اور بڑا ضدی کہلاتا ہے.اسی حدیث کی بعض روایات میں آیا ہے.حَتّٰی یَضَعَ فِیْھَا الْجَبَّارُ قَدَمَہٗ.جَبَّار اور رَبّ الْعِزَّۃ کے ایک ہی معنے ہیں.یعنی متکبّر سرکش حدود سے نکل جانے والا.پس گویا دونوں روایتیں علیٰ اختلافِ الفاظ معنی واحد رکھتی ہیں.اب حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ دوزخ زیادہ طلبی کرتی رہے گی جب تک شریر متکبر اپنے تئیں عزیز جاننے والے اس میں اپنا پاؤں رکھیں یعنی داخل ہوں.یاد رہے کہ اہل اسلام کے اعتقاد میںدوزخ شریروں اور بد ذاتوں کی جگہ ہے.جیسا حدیث ذیل میں مذکور ہے.مشکوٰۃ صفحہ ۴۹۶.ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ دوزخ میں ایک وادی ہے اس کا نام ھَب ھَب ہے اس کی تسکین کا باعث ہر ایک جبّار ہو گا.اس کے آخری جملے کے الفاظ یہ ہیں یُسَکِّنُہٗ کُلُّ جَبَّارٍ.جواب نمبر ۳.بعض روایات میں اگر آیا ہے.حَتّٰی یَضَعُ فِیْھَا رَبُّ الْعِزّۃِ َقَدَمہ.اوّل تو یہ روایت حدیث کے اعلیٰ طبقہ کی روایت نہیں کیونکہ اس میں روایت بالمعنٰی کا احتمال ہے.اگر مان بھی لیا جاوے.قدمؔ سے مراداشرارہیں.پاؤں نہیں.دیکھو.قاموس اللغۃ مَدَمَہٗ ای الَّذِیْنَ قَدَمُھُمْ مِنَ الْاَشْرَارِ.فَھُمْ قَدَمُ اﷲِ لِلنَّار کَمَا اَنَّ الْخِیَارَ قَدَمُہٗ لِلْجَنَّۃِ یعنی قدم سے مراد وہ شریر لوگ ہیں جن کو خدا نے دوزخ کے آگے دھر دیا.پس وہ لوگ خدا کے طرف سے آگ کے لئے آگے آگے کئے گئے جیسے اچھے لوگ خدا ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کی طرف سے جنّت کی جانب آگے کئے گئے.پس حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ دوزخ

Page 19

جب تک خدا اشرار کو اس میں نہ ڈالے.پھر وہ بس کریگی.جواب نمبر۴: وَضْعُ الْقَدَمِ مَثَلٌ لِلرَّدْعِ وَ الْقَمْعِ.یعنی وضع قدم ایک محاورہ ہے جس کے معنے ہیں روکنا.اور تھام لینا.اب حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ ’’یہاں تک اﷲ تعالیٰ اپنی روک اور تھام رکھے گا.اور ایسی روک کردیگا کہ دوزخ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ کہنے سے رک جائے گی.‘‘ جواب نمبر۵: وَضْعُ الْقَدَم : (پاؤں رکھ دینا) ذلیل اور خوار کرنے پر بولا جاتا ہے.چونکہ عبری اور عربی قریب قریب زبانیں ہیں اور کتبِ مقدّسہ میں بھی یہ محاورہ برتا گیا ہے.بنظرِ ثبوت اتنا ہی بس ہے.۱.یسعیاہ ۳۷ باب ۲۵.خدا فرماتا ہے میں اپنے پاؤں کے تلووں سے مصر کی سب ندیاں سُکھا دوں گا.۲.۲.سموئیل ۲۲ باب ۳۹.ہاں وہ میرے قدموں تلے پڑے ہیں.۳.۱.سلاطین ۵ باب ۳.جب تک کہ خدا نے ان کو اُس کے قدموں تلے نہ کر دیا.۴.زبور ۸.۶.تو نے سب کچھ اس کے قدم کے نیچے کر دیا.۵.لوقا۲۰ باب ۴۲ ومرقس ۱۲ باب ۳۶.جب تک تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤ ںکی چوکی کروں.دیکھو ان محاورات میں لغوی معنوں میں قدم کا لفظ نہیں بولا گیا.بلکہ مجازی معنوں میں.پس حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ ’’یہاں تک کہ خدا جہنم کو ذلیل و خوار کر ڈالے اور اسے چُپ کرا دے.ہاں یہ محاورہ اس خطبہ میں بھی آیا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آخری حج میں بمقام عرفات پڑھا ’’ وَ دِمَآئُ الْجَاھِلِیَّۃِ مَوْضُوْعَۃٌ تَحْتَ قَدَمِیْ ‘‘ جواب نمبر۶: یہ جواب گوالزامی جواب ہے مگر ہم نے اس بارہ میں مسیحؑ کے اس قول کی پیروی ہے کہ ’’الزام مت لگاؤ تاکہ تم پر الزام نہ لگایا جاوے‘‘ اور نیز الزامی جواب اس لئے بھی اخیتارکیا جاتا ہے.کہ معترض اپنی مسلّمہ و مألوفہ کتابوں سے اس قسم کے اشتباہ کو رفع کرے.اب جواب سنئے.مسیحی اعتقاد میں مسیحؑ ملعون ہوا ( نعوذ باﷲ) اوع ملعون کا ٹھکانہ جہنم ہے.دیکھو حل الاشکال اوع پولوس نامۂ گلتیاں ۳ باب ۱۳ جو کاٹھ پر لٹکایا جاوے.وہ ملعون ہے.اور نیز مسیحی اعتقاد میں مسیحؑ خدا ہیں اور ربّ العزّت بھی ہیں ( صاحب عزّت) پس معنے یہ کہ جہنم کو تسکین نہ ہو گی.جب تک عیسائیوں کے خدا اس میں قدم نہ رکھیں.اب سارے جوابوں کی آپ ہی کوشش کریں.حاصل الامر چونکہ پادری صاحب نے حدیث کا مطلب غلط سمجھا اور بطور بانئے فاسد علی الفاسد اس سے غلط استنباطات کئے.پس ان کے اعتراض کے باقی شقوق بھی بیکار و معطّل ہو گئے.اس لئے ہمیں ان شقوق پر فضول خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں.کیونکہ فاسد مقدمہ کا نتیجہ لابد فاسد ہی ہوا کرتا ہے.

Page 20

اگر قدم کے معنے پاؤ لیں جیسے عام مشہور ہے.تب بھی اعتراض نہیں رہتا.اور عیسائی مذہب کے طور پر ہرگز محّلِ اعتراض نہیں.دیکھو خروج ۱۳ باب ۲۱ خدا آگ کے ستونوں میں اور خروج ۱۹ باب ۱۸ اور استثناء ۱ باب ۳۳ آگ کو خدا کا قدم نہ جلاتے میں بخلاف اور لوگوں کے بے ریب امتیاز ہے.دیکھو استثناء ۴ باب ۱۲ پہاڑ جلا پر خدانہ جلا.اور استثناء ۴ باب ۳۶ میں.خد آگ میں کلام سناتا تھا اور دیکھو دانیال ۳ باب ۲۵ خداکے چند پیارے کُھلےآگ میں پھرتے تھے اور آگ انہیں نہیں جلاتی تھی.اور قانونِ قدرت میں دیکھو آگ ذرّاتِ عالم کو نہیں جلا سکتی.آگ کا کام تو چند اشیاء کے جلانے کا ہے.وہ اشیاء جو الہٰی مخلوق ہیں.نہ خالق کے جلانے کا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۵۸.۱۶۲) ۳۶..: جنابِ الہٰی کا دیدار.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) : ہاں ہمارے ہاں تو ترقی ہی ترقی ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۸۳)

Page 21

سُوْرَۃِ الذّٰرِیٰتِ مَکِّیَّۃٌ  ۱۴،۱۵.. .فتنہ کے معنے کیلئے دیکھو مفرداتِ راغب کو جو قرآن کریم کی معتبر لغت اور بہت پرانی کتاب ہے.’’ اصل الفتن اِدْخَالُ الذَّھَبِ النَّارَ لِیَظْھَرَ جَوْدَتُہٗ مِنْ رَدَائَتِہٖ‘‘ فتنہ کے اصل معنے ہیں.زر کو آگ میں ڈالنا تاکہ اس کی میل کچیل نکل جاوے.اور قرآن کریم میں فرمایا ہے..جب وہ آگ میں ڈآلے جا کر عذاب دیئے جائیں گے.۲.الفتنۃ: الْعَذَابُ.فتنہ کے معنے ہیں عذاب.اس کے ثبوت میں قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو..اپنی سزا کا مزہ لو.۳.اسبابِ عذاب کو بھی فتنہ کہتے ہیں.قرآن کریم میں ہے.(توبہ:۴۹) دیکھ وہ عذاب کے موجبات میں جا پڑے ہیں.۴.امتحان لینا.محنت لینا بھی فتنہ کے معنی ہیں.قرآنِ کریم میں ہے. (طٰہٰ:۴۱) اور ہم نے تیرا خوب امتحان لیا. (انبیاء:۳۶) اور ہم امتحان کے طور پر تمہیں بدی اور نیکی میں مبتلا کرتے ہیں.۵.فتنہ کے معنے دُکھ بھی قرآن کریم میں آئے ہیں.چنانچہ فرمایا ہے.وَ قَاتِلُوْھُمْ (بقرہ:۱۹۴) اور ان لڑنے والوں سے تم بھی لڑوتا انکی ایذارسانی بند ہو جائے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۸۰.۸۱)

Page 22

۲۱،۲۲...ہمہ اُوست کے مسئلہ پر ایک آیت بھی نصّ لریح الدلالہ نہیں.یہ دیگر بات ہے کہ خود غرض لوگوں نے اپنے مدعا کے اثبات کے لئے قرآن کریم سے اس پر استدلال کیا ہے.میں نے یہ دو آیتیں قائیلین وحدت الوجود سے استدلال میں سُنی ہیں.اوّل:.مگر جب اس آیت کا ماقبل ان سے دریافت کیا جاوے تو حیران رہ جاتے ہیں.اس کا ماقبل یہ ہے.: بات نہایت صاف ہے کہ اس زمین میں بس موجودات میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں اور جب تم اس سیر بیرونی سے فارغ ہو جاؤ تو پھر اپنے نفوس میں مطالعہ کرو.تدبّر کرو.دوسری آیت شریف. (الحدید:۴) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۳۰) ۳۰. .: جماعت میں بولتی.جھروکہ.حیرت.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۸۲) ۴۸..اس سوال کے جواب میں کہ ’’خدا نے زمین و آسمان کو اپنے ہاتھ سے بنایا اور خدا کو تکان نہ ہوئی.ہاتھ سے بنانے کی کیا ضرورت تھی.کُنْ سے بناتا وغیرہ وغیرہ ‘‘ فرمایا.’’کیا اﷲ تعالیٰ کے حضور تمہارے مشورہ کی بھی ضرورت ہے.پرمیشر احکم الحاکین حضرت ربّ العٰلمین سرب شکتیمان ہیں.القادر الصمّد اور الغنی ہیں.پھر سرشٹی کو میتھنی کیوں بنایا.پھر کیا ضرورت تھی کہ عورتوں سے صحبت ہو.ان میں مرد کا نطفہ پڑے اور بشکل لڑکا ایک تنگ سوراخ سے نکل کر محنت و مشقّت سے جوان ہو.

Page 23

زمیندار اور گاؤ ماتا کے بچے دُکھ اٹھاویں اور غلّہ پیدا ہو.زیرِ اعتراض یہ آیتیں ہیں.(پ ۲۷.ذاریات) (ق:۳۹)کس قدر صاف اور صریح بات ہے مگر بدفطرت نکتہ چین ہر ایک حسن کو بدصورتی ہی قرار دیتا ہے اس میں ایک لفظ یدؔہے.جس پر صفاتِ الہٰیہ سے جاہل کو اعتراض کا موقعہ مل سکتا ہے…… صفات اپنے موصوف کی حیثیت اور طرز پر واقع ہوتی ہیں.مثلاً چیونٹی کا ہاتھ.میرا ہاتھ.شیر کا ہاتھ اور مثلاً اس وقت ہند کی حکومت لارڈ کرزن کے ہاتھ میں ہے.بیہودہ بکواس کرنا.اناپ شناپ کہہ دینا اور بدُوں علم و فہم کے اور بدُوں اس کے کہ ویدوں کا تمہیں علم ہو.ویدوں کی تائید میں گالی دینا.جھوٹ بولنا تمہارے ہاتھ میں ہے.اور اس کے سوا تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں اور اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں تمام جہان کا تصرّف ہے وغیرہ.وغیرہ.اسی طرح ضروری ہے کہ جنابِ الہٰی کی شان کے مطابق اس کے ہاتھ مانو اور اگر یوں نہیں مانتے تو سُنو! سام وید فصل دوم حصّہ دو کاپرچھانک نمبر ۶ صفحہ ۷۴ میں ہے.’’ اندر بطور اس دیوتا کے جس کا بازو قوی ہے ہمارے لئے اپنے ہاتھ سے بہت سی پرورش کرنے والی لُوٹ جمع کر‘‘بتاؤ اندر کون ہے؟ پھر اس کا داہنا ہاتھ کیا ہے؟ اور اس سے لُوٹ کرناکیسے الفاظ ہیں؟ کیا تم نے پرمیشر کا نام سہنسر باہو نہیں پڑھا اگر نہیں پڑھا تو یجروید کاپرش سکت دیکھو.پھر اور سنو! یَدْ کے معنے قوّت کے ہیں.قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے(صٓ:۱۸)یعنی یاد کرو ہمارے بندے داؤدؑ کو بہت ہاتھوں والا ( بڑا طاقت ور)وہ جنابِ الہٰی کی طرف توجہ کرنے والا ہے اور یدؔ کے معنی نصرت وغیرہ کے بھی ہیں.راغب میں ہے. (فتح:۱۱)اَيْ نُصْرَتِہٖ وَ نِعْمَتِہٖ وَقُوَّتِہٖ یَدؔ کے معنی ملک و تصرّف کے بھی ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (بقرہ:۲۳۸) ا ن معنوں میں سے ہر ایک یہاں چسپاں ہو سکتا ہے.اور عام انسانی بول چال میں ہاتھ کا لفظ ان سب معنوں پر بولا جاتا ہے.(نور الدین طبع سوم صفحہ۲۰۳.۲۰۴) ۵۷..جنّ و انس کی پیدائش اس لئے ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری کریں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۲۶ دیباچہ)

Page 24

سُوْرَۃُ الطُّوْرِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۵.... .: فرمایا.طور میں ہم نے جس سے باتیں کیں.اس کے دشمنوں کو ہلاک کیا.ایسا ہی اے غارِ حرا کے عابد! تیرے دشمن ہلاک ہوں گے.: موسیٰ کو کتاب فرعون کی ہلاکت کے بعد ملی.آپ کو پہلے ملی.: خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے اصحابِ فیل کو ہلاک کیا تو کیا تم اس سے بڑھ کر ہو؟ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) ۲۱..تکیہ لگائے ہوئے قطار تختوں پر اور بیاہ دیا ہم نے ان کو بڑی آنکھ والی گوری عورتوں سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۸۴) ۲۲ تا ۲۵. .

Page 25

ہم مومنوں کے ساتھ ان کی مومن اولاد کو ملا دیں گے اور ان کے عملوں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے.ہر شخص کو اپنی اپنی کمائی کا بدلہ ملے گا.اور ہم انہیں میوے اور ان کے پسند کے گوشت دیں گے اور اس میں ایسے پیالے پئیں گے کہ ان کا نتیجہ بیہودہ خیالات اور بدکاری نہیں اور ان کے ارد گرد موتیوں کے دانہ جیسے بچے پھریں گے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.بہشتیوں کی اولاد ان کے پاس پھرے گی.وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے.اور ان کیلئے نہ ترسیں گے…… اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورۃ دھر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غِلْمَانٌ کے بدلہ وِلدان کا لفظ جو وَلَد یا وَلِیْد کی جمع ہے.فرمایا ہے.(نور الدّین صفحہ ۱۴۵) جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی.ان کی اولاد کو بھی ہم ان سے لا حق کر دیں گے اور ان کے عمل سے کچھ بھی کمی نہ کریں گے ہر شخص اپنی انی کمائی کا گرویدہ ہو گا اور ہم ان کو من بھاتے گوشت اور میوے عنایت کریں گے.ان میں ایسے پیالوں کا دور دیں گے جن میں ( بخلاف دنیوی مَے) بہکنا اور بدخیالات کا اثر نہ ہو گا اور ان کے دُرّمکنون کے ایسے لڑکے بالے ان کے ارد گرد اُچھلتے کودتے ہوں گے.باری تعالیٰ فرماتا ہے ’’ بہشتیوں کی اولاد ان کے پاس پھرے گی وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ وَ لَا تَاثِیْمٌ صریح اس کی صفت میں موجود ہے جس کے معنے ہیں.نہ گناہ میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسا ناشایاں خیال کیوں گزرا.اس معنے کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورۃ دھر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلْمَان کے بدلے وِلْدَان کا لفظ جو ولد یا ولید کی جمع ہے.فرمایا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۴۶) غِلْمَانٌ : اعلیٰ آدمیوں کے بچّے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) ۳۰..

Page 26

َاھِن: ان لوگوں کی تین عادات ہیں ۱.طبیعت میں یکسوئی ۲.ہر وقت ناپاک رہنا.۳.خلوت میں رہتے ہیں.اختلاط سے بچتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) ۳۴،۳۵.. .کیا وہ کہتے ہیں اس کو ایسے ہی گھڑ لیا ہے.نہیں بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے پھر اس کی مانند کوئی حدیث لاویں اگر وہ سچے ہیں.باری تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اگر اس کتاب کو تم لوگ مصنوعی جانتے ہو تو اس کی مثل کوئی کتاب لاؤ اور فرمایا  .  .(بقرہ: ۲۴،۲۵) اور مکّہ میں شرفاء و شعرائے قریش کو فرمایا:  .(بنی اسرائیل:۸۹) (فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۹۲.۹۳) ۳۶ تا ۳۸..  .ایک آریہ کے اعتراض ’’ یہ عالم کس نے بنایا؟ کیوں بنایا؟ کب بنایا؟ کن اشیاء سے کس طرح بنایا ؟کے جواب میں فرمایا.قرآن کریم اپنے ہر اک دعویٰ کی دلیل خود دیتا ہے.......

Page 27

کیا یہ لوگ خود بخود ہو گئے.عدم سے وجود بلا مرجح کیونکر ہوا کیا یہ اپنے آپ خالق ہیں ؟یہ بات ہمیں وجدان اور اپنی طاقتوں کے لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے.اوّل تو اس لئے کہ جوں جوں ہم پیچھے جاویں کمزوری بڑھتی نظرآتی ہے.دوم ہم تجارب کے بعد بھی انسان کیا،کیڑا بنانے کے قابل نہیں.علاوہ بریں( اس میں تقدم اپنی ذات سے.اور دور لازم آتا ہے)کیا آسمانوں اور زمینوں کے یہ خالق ہیں؟یہ صریح غلط ہے اور اس سے تعداد آلہ بھی لازم آتا ہے.کیا ان کے پاس بے انت خزانے ہیں؟ جن سے ان کو پتہ لگا کہ یہ چیز مثلاً ارواح یا فلاں اشیاء مادہ وزمانہ وغیرہ غیر مخلوق نہیں.نفس انسانی تو محدود ہے.خدا کی بے انت باتوں کا احاطہ کیونکر کر سکتا ہے.کیا یہ آزاد ہیں اور کسی کے تحت و تصرف میں نہیں؟ یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے انسان کھانے پینے جننے مرنے سب میں کسی کے نیچے ہے اور کسی کے قبضہ قدرت میں ہے.پس جب یہ باتیں غلط ہیں تو خدا سب اشیاء کا خالق ہے.(دیباچہ نور الدین طبع ثالث صفحہ 29-30)

Page 28

سُوْرَۃُ الْنَّجْمِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۵... ..وہ اﷲ تعالیٰ جس کی ذاتِ بابرکات نے جسمانیظلمتوں میں تمہارے آرام کے واسطے ایسے جسمانی سامان بنائے ہیں جن سے تم آرام پاؤ بشرطیکہ انکی طرف توجّہ کرو.اس نے تمہارے ابدی آرام اور روحانی راحتوں کے واسطے تدابیر نہ رکھی ہوں.بے ریب رکھی ہیں.جسمانی لیل اور چند گھنٹوں کی رات میں اگر کوئی راہنما ستارہ موجود ہے تو اس روحانی لیل اور غموم اور ھموم کی نہایت بڑی لمبی رات کے وقت بھی اﷲتعالیٰ کے فضل نے تمہاری منزلِ مقصود اور جاودانی آرام تک پہنچانے کا راہنما بھی ضرور رکھا ہو گا.وہ کون ہے؟ بے ریب حضرت محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے.ثبوت.مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی.وجہ ثبوت.اپنے ہی ملک میں ذرا تجربہ اور بلند نظری سے کام لو.نظر کو اونچا کر کے دیکھو یہ شخص تمہارے شرکاء تمہارا ہم صحبتی جس کا نام محمد، احمد، امین ہے اور جس کو تمہارے چھوٹے بڑے انہیں پیارے ناموں سے پکارتے ہیں.کیسا ہے؟ کیا تمہارے لئے کافی راہنما نہیں؟ بے ریب ہے.کیونکہ نظریات کا علم ہمیشہ بدیہات سے ہوتا ہے.اور غیر معلومہ نتائج تک پہنچنا ہمیشہ معلومہ مقدمات سے ممکن ہے.نہایت باریک فلسفی کا پتہ عامہ قواعد سے لگتا ہے.جانتے ہو.کسی انسان کو انسانِ کامل یقین نہ کرنے کے تین اسباب ہوتے ہیں.اوّلؔیہ کہ تم اس شخص کے حالات سے پورے واقف نہیں جس نے ہادی اور انسانِ کامل ہونے کا دعوٰی کیا.دومؔ یہ کہ وہ شخص جس نے ہادیٔ کامل اور انسانِ کامل ہونے کا دعوٰی کیا اُسے صحیح علم نہ ہو.سومؔ یہ کہ باوجود علمِ صحیح رکھنے کے اس کی عادت ایسی ہو کہ علم صحیح پر عمل نہ کرے.سو اس رسول خاتم الرسل محمد صلی اﷲعلیہ وسلم میں ان تینوں عیوب میں سے ایک بھی نہیں.مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی.یعنی نہ بھولا اور نہ بے علمی سے کام

Page 29

کیا تمہارے ساتھ رہنے والے نے اور نہ کبھی علمِ صحیح کے خلاف کرنے کا ملزم ہوا.پہلی وجہ عدمِ تسلیم کا جواب تو یہ ہے کہ چالیس برس کامل کے تجربہ سے دیکھ لو.یہ شخص محمد امین ( بابی واقی صلی اﷲ علیہ وسلم) بھلا اس میں کوئی عیب رکھنے کی بات ہے.دوسری وجہ کا جواب یہ ہے کہ مَاضَل جس کے معنے ہیں کبھی نہ بھولا.ہمیشہ تمہاری اور اپنی بہتری کی جو تدبیر نکالی وہ تدبیر آخر مثمر ثمرات نیک ہوئی.تیسری وجہ کا جواب دیا.وَمَاغَوٰی.چالیس برس تمہارے ساتھ رہا اور تمہارا صاحب کہلایا مگر کبھی کسی بدعملی کا ملزم ہوا؟ ہرگز نہیں.چالیس برس تک جس نے راستی اور راست بازی کا برتاؤ کیا.جس کے ہاتھ پر صدیق نے بھی بیعت کی.جس کے سینکڑوں مریدوں میں سے ایک بھی تبلیغ احکامِ اسلام میں کذب کا ملزم نہ ہوا.وہ جس نے کبھی مخلوق پر افتراء نہ باندھا اب وہ کیا ہماری ذات پاک پر مفتری ہو گا؟ ہرگز نہیں.اگر اپنے پہلے تجارب اور اپنے پہلے معلومات صحیحہ پر نظر کرو گے اور اس کے چالیس سال کے برتاؤ سے پتہ لو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا.وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی.اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی اور سُنو! اس کے علوم اور اس کی ہدایات کسی کمزور معلّم کی تعلیم کا نتیجہ نہیں اور نہ ایسا ہے.کہ یہ پورا تعلیم یافتہ نہ ہو.اس کی تعلیم تو اس کی نبوّت اور رسالت کا عمدہ نشان ہے.اس کی تعلیم بڑے طاقت ور معلم کی تعلیم ہے اور یہ بھی تعلیم کے اعلیٰ مدارج پر پہنچ کر ٹھیک اور درست ہو چکا ہے.یہی معنی ہیں آیات ثلٰثہ: اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے مگر جو بولا وہ الہٰی الہام ہے جو بھیجا گیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۳.۱۹۵) جب کوئی ہادی دنیا میں آتا ہے تو اس کی شناخت کے کئی طریق ہوتے ہیں.اوّلؔ.جاہل اور بے علم نہ ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نادان اور بے خبرنہ ہو.اب کتاب اﷲ کو پڑھو اور دیکھو کہ جو معارف اور حقائق اس میں بیان کئے گئے ہیں.وہ ایسے ہیں کہ کسی جاہل اور نادان کے خیالات کا نتیجہ ہو سکتے ہوں.سوچو! اور پھر سوچو!!! نادان ایسی معرفت اور روح و راستی سے بھری ہوئی باتیں نہیں کر سکتے.دومؔ.وہ ہادی اجنبی نہ ہو.کیونکہ ایک ناواقف انسان دور دراز ملک میں جا کر بدکار اور شریر ہونے کے بھی چند روز تصنّع اور ریاکاری کے طور پر اپنے آپکو نیک ظاہر کر سکتا ہے.پس ہادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کا واقف ہو.اب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دعوٰے صاف ہے کہمَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی.تیسری بات یہ ہے کہ ہادی یا امام مرشد اپنے سچے علوم کے مطابق عمل در آمد بھی کرتا ہو.اوروں کو بتلادے

Page 30

اور خود نہ کرے.پس اس امر کو حضور علیہ اصللوٰۃ والسلام کی نسبت فرمایا ہے.مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَاغَوٰی.حضور کے علمدر آمد کا یہ حال ہے کہ جنابہ صدیقہ علیہا السلام نے ایک لفظ میں سوانح عمری بیان فرما دی کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ یعنی آپؐ کے اعمال و افعال بالکل قرآن کریم ہی کے مطابق ہیں.(الحکم ۱۹؍اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ۵) اﷲ تعالیٰ نے ایک ہادی کی ضرورت اور پھر اس میں جو ضروری اوصاف ہونے چاہئیں.پھر ان اوصاف کا اعلیٰ و اکمل و اتم طور پر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں پایا جانا جس دل آویز و دلنشین پیرائے میں بیان کیا ہے.وہ قرآن مجید کی ان اعجازی خواص سے ہے.جو بالخصوص اسی کتاب حکیم میں پائے جاتے ہیں.پہلے تو وَ النَّجْمِ اِذَا ھَوٰی فرما کر جسمانی انتظام سے روحانی نظام کی طرف متوجّہ کیا.النَّجم کے سمت الرّاس سے نیچے ہونے کی وجہ سے مغرب،مشرق، جنوب، شمال کے راستوں کا علم ہوتا ہے.جب جسمانی بہتری و بہبودی کے لئے یہ انتظام ہے.تو روحانی دنیا میں صراط مستقیں کی ہدایت کے واسطے کسی النجم کی ضرورت کیوں نہ ہو.اس کے بعد فرمایا کہ تین وصف اس راہنما میں ہونے ضروری ہیں.ایک تو وہ خود واقفِ کار ہو.اسے نیکی و بدی نافع و ضار کا علم ہو دومؔ.وہ اجنبی نہ ہو.اس ملک کے رسم و رواج.مذاق.عادات.حالات سے آگاہ ہو.اور اس ملک کے باشندے بھی اس کے کیریکٹر.علم.قابلیت کو خوب جانتے ہوں تاکہ نہ وہ دھوکہ کھائے.نہ اس کے بارے میں احتمال ہو کہ یہ ہمیں دھوکہ دے گا.سومؔ عالم باعمل ہو.اپنے علم کو اپنی اور اپنے بھائی بندوں کی اصلاح میں خرچ کرنے والا ہو.نہ یہ کہ وہ اپنے علم سے مفاسد و شرارت کو بڑھانے والا ہو.یہ اوصاف حضر ت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کے انتہائی کمال کے ساتھ پائے جاتے ہیں.آپؐ کا علم ایسا کہ شدید القوٰی نے آپؐ کو سکھایاوَ ھُوَ بِالْاُفُقِ الْاَعْلٰی کا خطاب پا کر (الجمعہ:۳) آپ کی شان میں آیا.پھر جو کچھ آپ نے فرمایا.وہ ھَوٰی نہیں تھا.بلکہ وَحْيٌ یُّوْحیٰ تھا.اس لئے آپ پر مَاضَلَّ خوب صادق آتا ہے.اور اجنبی نہیں.اس کے لئے صَاحِبُکُمْ فرمایا.عرب کے عمائد و اہل الرائے آپ کے مکارم اخلاق کے مقرّ تھے.آپؐ نے اپنے اعلیٰ کیریکٹر کا دعوٰی بڑی تحدّی سے پیش کیا اور فرمایا. (یونس:۱۷)امین کا لقب تو آپؐ پا ہی چکے تھے اور یہ کہ آپؐ اپنے علم سے لوگوں کو سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں.واقعات اس کی تصدیق کر رہے تھے.وہ لوگ جو زنا.شراب.جوآبازی ایسے بدترین گناہوں کو اپنی مجالس میں بڑے فخر کے ساتھ ذکر کرتے تھے.وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور شراب کے پانچ بلکہ آٹھ وقتوں کی بجائے اتنے وقتوں کی نمازیں پڑھنے لگے.ایسا ہی ہر بدی کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ میں انہوں نے ایک نیکی اختیار کر لی.پس مَاغَوٰی آپؐ پر صادق آیا ( تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر ۵ صفحہ ۲۲۵.۲۲۶)

Page 31

۶ تا ۱۰... ...سکھایا اس کو بڑے طاقتور نے.بڑے جگر ے کا تھا پس پورا نظر آیا اور وہ اب بلند کنارے پر ہے.قانونِ قدرت کا عام قاعدہ ہے.جس قدر کوئی چیز دوسری چیز سے تعلق پیدا کرے گی.اسی قدر اس دوسری چیز سے متائثر اور متحد ہو گی.ایک عادل بلکہ ہمہ عدل مالک اور علیم و خبیر سلطان کے لائق اور جاں نثار.چُست و ہوشیار.رصامندی کے طالب نوکر اور کادم کو جو جو انعام اور اکرام ملیں گے.اور ایسے مقتدر اور مقدّس بادشاہ کے ایسے پیارے خادم جن جن انعامات اور الطاف کے مورد ہوں گے.ویسے نالائق اور نکمّے خودپسند.مطلبی کاہل نام کے نوکر اور جھوٹے خادم ہرگز ہرگز نہیں ہو سکتے.اﷲ تعالیٰ کی ذات سے جس قدر اس کے بندوں کو تعلق ہو گا اسی قدر وہ قابلِ انعام ہوں گے جتنی بندگی اور عبودیت کامل ہو گی اتنا ہی الوہیت کا میل اس سے زیادہ ہو گا اور بقدر ترقی عبودیت رُوح القدس کا فیضان ہوتا ہے.  (المجادلہ:۲۳) یاد رہے.یہی توحید اور تثلیث کا مسئلہ تھا جس کو عیسائی نہ سمجھ کر شرک میں گرفتار ہو گئے اور یہی وہ بھید ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کے اور اس کے انبیاء اور رسل اور اولیاء کے باہمی تعلق کے باعث فیضان رُوح کا پتہ لگ سکتا ہے.طالب صداقت سچی ارادت سے چند روز بحضور مرزا صاحب حاضر ہو کر استقلام و صبر سے منتظر ہو اور دیکھ بھی لے.عرب کا دستور تھا.جب دو آدمی باہم اتحاد پیدا کرتے اور معاہدہ کر لیتے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں اس طرح ملاتے کہ ایک کمان کی لکڑی دوسری کی کمان کی لکڑی سے ابتداء تا انتہاء ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملائی جاتی اور ایک کمان کی تار دوسری کمان کی تار سے ملائی جاتی تب دونوں قوسوں کے دو قاب ایک قاب کی شکل دکھلائی دیتی.پھر دو کمانوں کو اس طرح ملا کر دونوں معاہدہ کنندے ایک تیر.ان دونوں کمانوں مگر اب ایک ہو گئی ہوئی کمان میں رکھ کر چھوڑتے.اور یہ رسم عرب کی اس امر کا نشان ہوتا تھا کہ اس وقت کے بعد ایک کمان

Page 32

والے کا دوست دوسرے کمان والے کا دوست ہو گااور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن قرار پائے گا.اسی طرح انبیاء اور رسولوں کی پاک ذات کا خاصہ اور ان کی فطرت ہوتی ہے.کہ وہ پاک گروہ اور ان کے اتباع مگر گرویدہ اتباع اَلْحُبُّ لِلّٰہِ وَ الْبُغْضُ فِی اﷲِ میں منفرد ہوتے ہیں.اپنے ہر ایک اعتقاد اور قول اور فعل میں حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضامندی کو مقدّم رکھتے ہیں.اس بلائے سے بولتے اور اسی کے چلائے سے چلتے ہیں.ان کارحم اور ان کا غضب اﷲ تعالیٰ کا رحم اور اﷲ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے.ایسی وحدت و اتحاد کا باعث ان کے ہاتھ پر بیعت اور اقرار اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت اور اسی سے اقرار ہوتا ہے اور اسی اتحاد کا بیان آیاتِ ذیل میں ہے.(الفتح:۱۱) (النساء:۸۱) (الانفال:۱۸) وغیرہ آیات کریمہ میں ہے.وَ اِلَّا وہ تو بشر ہوتے ہیں.اور اپنی بشریت اور عجز اور فقر کو اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ.وَ اِنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ.وَمَآ اَدْرِیْ مَا یُفْعَلُ بِیْ وَ لَا بِکُمْ.وَلَآ اقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِیْ خَزَآئِنُ اﷲِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَیْبَ.فرما کر ثابت کرتے اَللّٰھُمَّ.  باری تعالیٰ کی گرامی اور مقدّس ذاتِ پاک سے ان کی ذات کو دُنُّو اور تقرّب ہوتا ہے اور ان کی کمان اﷲ تعالیٰ کی کمان سے بالکل وحدت پیدا کرتی ہے.اسی عمدہ مضمون کو قرآن کریم نے اس سورہ والنجم میں بایں کلمات فرمایا ہے. (پھر نزدیک ہوا اور پاس کھڑا ہوا.پس دونوں کمانوں کا قاب یا اس سے بھی قریب تر ہو گیا.) اب حسبِ بیان سابق ضرور تھا کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ تقرّب اور اس بارگاہِ معلّی میں عبودیت تامہ کے ثبوت کے بعد روح حق اور روح القدس کا فیضان ہوتا.اس لئے جناب رسالت آب کی اعلیٰ درجہ کی عبودیت اور فرماں برداری اور حُبّ لِلّٰہِ اور بغض فی اﷲ ِکے نتیجہ اور فیضان کا بیان ہوتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۵ تا صفحہ ۱۹۷)

Page 33

۱۱ تا ۱۳....اس دل نے جو دیکھا.خوب دیکھا ( یعنی مغالطہ نہ کھایا) کیا تم اس کی دید پر جھگڑتے ہو. میں ابہام نہیں… عربی لفظ موصولہ اور معرقہ ہے. اس کا صلہ ہے. کیا چیز ہے.یہی قرآن کریم اور حضور علیہ السلام کی تمام پاک تعلیم جس کو اﷲ تعالیٰ نے دوسری جگہ روح بھی فرمایا ہے.جہاں فرمایا وَ کَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا اور یہ وہی روح ہے جو الوہیت اور عبودیت کے کامل میل سے پیدا ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اس کا اﷲ سے فیضان ہوتا ہے اَللّٰھُمَّ اَیِّدْنِیْ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.آمین.اب اس کی عمدگی اور راستی کی نسبت فرمایا اور مدعی الہام کی حالت کو بتاتا ہے.مَاکَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاٰی.اَفْتُمَارُوْنَہٗ عَلٰی مَایَرٰی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۸) ۱۴ تا ۱۹.. ... .اور یقیناً اس نے اسے بارِ دیگر دیکھا ( یعنی نظر ثانی کی ) سدرۃ المنتہیٰ کے پس ( سب سے بڑی بیری) جس کے پاس جنّت الماوٰی ہے.اس سدرہ ( بیری) کو بڑے اعلیٰ درجہ کے انوار ڈھانکے ہوئے ہیں.اس کی آنکھ نے کجی نہیں.اور غلطی نہیں کھائی.ضرور اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے.عرب کا یہ بھی دستور تھا.جیسے قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب بڑے بڑے کاموں کے واسطے پبلک اور عام اہل الرّائے کی رائے لی جاتی تو کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ جاتے.کیونکہ ان کے چھوٹے خیمے جلسہ کے قابل نہ ہوتے تھے.اور عام سایہ دار درختوں میں سے بیری کا درخت اس ملک میں بڑا درخت سمجھا جاتا تھا.اس رسم کے مطابق باری تعالیٰ حجاز کے باشندوں کو جو حضرت صاحب الوحی کے مخاطب ہیں.اور آپ کی دعوت کا ابتدأً

Page 34

روئے سُخن ان ہی کی جانب ہے.یوں فرماتا ہے کہ جہاں اس ہادی.محسن خلق.رحمت عالمیاں نے مشورہ لیا.وہ بیری تمام دنیا کی بیریوں سے بڑی بیری تھی.اور وہ تمام دنیا کی سی بیری نہ تھی.وہ تمہارے نظامِ شمسی سے کہیں اونچی سات آسمانوں سے پرے کی بیری ہے.وہ بیری تو کچھ ایسی بیری ہے.جس کی جڑھ سے تمام دینی اور دنیاوی منافع کی ندیاں نکلتی ہیں.باغِ عدن کی ندیاں بھی اسی کی جڑھ سے نکلتی ہیں.جن کو تم جیحوں اور سیحوں اور نیل و فرات کہتے ہو.اسی کی جڑھ سے نکلتے ہیں.جنتہ الخلد کی ندیاں بھی وہاں ہی سے رواں ہیں.خود جنّت الماوٰی بھی اسی کے پاس ہیں.اس مضمون کو اﷲ تعالیٰ ان آیتیوں میں بیان فرماتا ہے... ..کا مَآ بھی موصولہ اور معرفہ ہے…یاد رہے یہ کلمہ مَا کا عربی میں تفخیم اور تعظیم کے معنی دیتا ہے.وہاںمیںجناب رسالت آب فخرِ نبی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا دیکھا اپنے رب تعالیٰ کے بڑے بڑے نقش قدرت دیکھے.کمالاتِ انسانیہ کے حاصل کرنے کے نشانات کا نظارہ کیا جیسے فرماتا.مَازَاغَْ الْبَصَرُ وَ مَاطَغٰی.لَقَدْ رَاٰی مِنْ اٰیٰتِ رَبِّہِ الْکُبْرٰی مشرکو! اس مہربان ہادی کے منکرو! بُت پرستو! تم نے کیا دیکھا جس کے دیکھنے کے بعد بُت پرستی جیسے گڑھے میں ڈوب مرے.بت پرستی کے لوازم وہم پرستی اور جہالت میں مبتلا ہو گئے.نہ کوئی تمہارے ملک میں تمدّن کا قاعدہ نہ معاشرت کا اصل نہ سیاست کا ڈھنگ اور نہ روحانی تعلیم کا ذریعہ نہ حقیقی عزّت اور فخر کا تم میں وسیلہ.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۹.۲۰۰) ۲۰ تا ۲۳.....( واہ.تم نے تو لات و عزَّی کو دیکھا اور منات کو جو تیسرا اور سب سے گیا گزرا ہے.) ان آیات کریمہ کو جناب رسالت آب صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کی راستی اور عظمت اور بزرگی کے اثبات میں ایک خاص تعلق ہے… ہر دو آیات … کسی لطیف ہیں اور کس خوبی کے ساتھ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل

Page 35

کرتی ہیں.سنو! مطالب دو قسم کے ہوتے ہیں.اوّلؔ بڑے ضروری.دوسرےؔ ان سے کم درجہ کے.بڑے مطالب کو بہ نسبت دوسرے مقاصد کے بلاریب تاکید اور براہین و دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میرا دعوٰی بہت صاف اور ظاہر ہے.تاکید کے واسطے ہر زبان میں مختلف کلمات ہوا کرتے ہیں.ایسے ہی عربی میں بھی تاکید کیلئے بہت الفاظ ہیں مگر ایشیائی زبانوں میں جیسے علی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں.ایسے ہی عربی کے لڑیچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تاکیدی لفظ نہیں.قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اس لئے اس میں عربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا… رہی یہ بات کہ اہم اور بہت ضروری مطالب میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے.سو یاد رہے.جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے.وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے.وہ چیز قانون قدرت میں قسم والے مضمون کے واسطے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے اور یہ قسم قدرتی نظروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہو گا.مثلاً…الخ (اللیل:۵)یک مطلب ہے جس کے معنی ہیں’’ لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں.اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں‘‘ قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے... .کیا معنی؟ رات پر نظر کرو جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن پر نظر ڈالو.جب اُس نے اپنے انوار کو ظاہر کیا.پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر غور کرو.اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام جان و مال کو دینے اور نافرمانیوں سے بچنے والا اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مصدق.اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والا نافرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مکذّب بھی الگ الگ ہیں اور الگ نتیجہ حاصل کریں گے.ہمارے پاک ہادی.سرورِ اصفیاء.خاتم الانبیاء کی اثبات نبوّت اور آپ کی عظمت اور بڑائی ثابت کرنا بڑا احقاقِ حق اور آپ کے منکروں کو ملزم کرنا بڑا ابطالِ باطل تھا.قرآن کریم نے اس احقاقِ اور ابطالِ باطل پر پُر زور دلائل دئے ہیں.ان دلائل کا بیان اس جگہ موزوں نہیں.البتہ ان براہین میں سے اس ون النَّجمکے پہلے رکوع میں.احقاقِ حق اور ابطال باطل کا ایک ثبوت ہے.اور قبل اس کے کہ حضور علیہ السلام کی صداقت اور راستی اور سچائی کو ثابت کیا جاوے.نفس نبوّت اور مصلح کی ضرورت کو قرآن میںالنَّجمکا لفظ فرما کر

Page 36

باری تعالیٰ نے ثابت فرمایا ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے.عرب ایک ایسا جزیرہ نما تھا جس میں علی العموم پانی کی قلّت تھی اور اس کے ملک حجاز میں بخصوص سڑکوں اور میلوںکے نشانات.اس کے راہوں میں ہرگز نہ تھے.اس لئے عرب لوگ غالباً رات کو سفر کرتے تھے.اور ثُریّا نام النجم سے سمت کو قائم کر لیتے تھے.جس طرح آج جہازی مسافر قطب نما سے سمت کو قائم کر لیتے ہیں.اندھیری راتوں میں وہ النجم گو بدرقہ کا کام دیتا تھا.قرآن کریم نے جہاں النجم کے فائدے بیان کئے ہیں.وہاں یہ بھی فرمایا.(نحل:۱۸)اور یہ بھی بالکل ظاہر کہ النجم اگر سمت الرٔاس پر واقع ہو تو اس سے مسافروں کو راستہ کا پتہ نہیں لگ سکتا.اس النّجم کا مشرق یا مغرب میں ہونا سفر والوں کے لئے ضروری ہے.عربی زبان میں ھَوٰی چڑھنے اور ڈھلنے دونوں کے معنے دیتا ہے.اس رکوع کی پہلی آیت کے معنے یہ ہوئے.قسم ہے النجم (ثرّیا) کی جبکہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف ہو.باری تعالیٰ رات کے اندھیروں میں جنگلوں اور راستوں کے چلنے والوں کو فرماتا ہے.لوگو!تمہارے لئے تم کو منزلِ مقصود تک جانے کے واسطے اور جسمانی سمتوں کے سمجھنے کی خاطر ہم نے النجم کو تمہارے کام میں لگایا.تو کیا جسمانی ضرورتوں سے بڑھ کر تمہاری ضرورت کے واسطے اور روحانی منزلِ مقصود تک پہنچ جانے کے واسطے تمہارے لئے کوئی ایسا مصلح اور کوئی ایسا ریفامر سلیمۃ الفطرت سچا ملہم نہ ہو گا جو تو کو تمہارے روحانی اندھیروں اور اندرونی ظلمتوں کے وقت راہنمائی کرے.فانی اور چند روزہ تکلیف جسمانی راہوں کے نہ سمجھنے میں جب تمہارے گردوپیش کے نشانات تم کو راہنمائی نہیں کرتے تو ہمارے روشن اور بلند ستاروں سے ضرور تمہاری جہالتوں.تمہاری نادانیوں.تمہاری بدرسومات اور عادات اور ہرص اور ھَوَیٰ اور بے جا خود پسندی اور ناجئز آزادی کی اندھیری رات آ جاتی ہے اور اس وقت تم ابدی نجات کی منزل تک پہنچنے سے حیران و سرگرداں ہو جاؤ تو کیا ہماری رحمتِ خاص اور فضلِ عام سے کوئی روشنی بخش اور راہ نما سیارہ نہ ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۴،۱۹۲،۲۰۰) تکذیب براہین احمدیہ کے مصنّف نے سورۃ نجم کے حوالہ سے یہ لغو فقرہ ’’تِلْکَ الْغَرانِیْقُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجیٰ‘‘اعتراض کرنے کو لکھا.اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا.’’اسلام کے مختلف فرقے دنیا میں موجود ہیں.سب کے پاس قرآن ہے.مگر تعجب ہے کہ کسی میں یہ موجود نہیں اور ہو کیسے؟ قرآن کریم کی شان اس سے اعلیٰ وارفع ہے کہ اس مجموعہ توحید میں ایسا مشرکانہ مضمون ہو.اب حقیقت میں قرآن پر کوئی اعتراض نہ رہا.‘‘

Page 37

مکذّب.’’ مفصل حال اس کا معالمؔ جلالینؔ بیضاوی معتمد میں ذکر ہے‘‘ مُصَدّق نے ان تفاسیر کی طرف رجوع کیا مگر ان میں یہ لکھا پایا جو ناظرین کے عرضِ خدمت ہے.بیضاویؔ نے اس واہی قصّہ کو کہ رسول کریم صلی ا علیہ وسلم نے یہ فقرہ تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی…الخ پڑھا تھا لکھ کر کہا ہے.وَ ھُوَ مَرْدُوْدٌ عِنْدَ الْمُحَقِّقِیْنَ اور یہی بات معالم کے حاشیہ پر مرقوم ہے.تفسیر فتہ البیان میں لکھا ہے تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی…الخ کی نسبت یہ کہنا کہ رسول اﷲ نے سورہ نجم ؔمیں اس کو پڑھا صحیح نہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں.لَمْ یَصِحّ شَیْیئٌ مِنْ ھٰذَا وَ لَا ثَبَتَ بِوَجْہٍ مِنَ الْوُجُوْہِ وَ مَعَ عَدَمِ صِحَّتِہٖ بَلْ بُطْلَانِہٖ فَقَدْ دَفَعَہ، الْمُحَقِّقُوْنَ بِکِتَابِ اﷲِ سُبْحَانَہ، حَیْثُ قَالَ اﷲُ تعالٰے ( وَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَ قَاوِیْلِ لَاَ خَذْنَا مِنْہُ بِالْیَمِیْنَ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِیْنَ) وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی ( وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی) وَ قَوْلُہٗ تَعَالٰی( وَلَوْلَآ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْکِدْتَّ تَدْکَنُ اِلَیْھِمْ) فَنَفَی الْمُقَارَبَۃَ لِلرُّکُوْنِ فَضْلاً عَنِ الدُّکُوْنِ‘‘ قَالَ الْبَزَّارُ.ھٰذَا حَدِیْثٌ لَا نَعْلَمُہٗ یُروٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِاسْنَادٍ مُتَّصِلٍ.قَالَ الْبَیْھَقِیُّ.ھٰذِہِ الْقِصَّۃُ غَیْرُ ثَابِتَۃٍ مِنْ جِھَۃِ النَّقْلِ ثُمَّ اَخَذَیَتَکَلَّمُ اَنَّ رُوَاۃَ ھٰذِہِ القِصَّۃِ مَطْعُوْنُوْنَ فِیْھِمْ.قَالَ اِمَامُ الْأَئِمَّۃِ ابْنُ خُزَیْمَۃَ اِنَّ ھٰذِہِ الْقِصَّۃَ مِنْ وَضْعِ الزَّنَادِتَۃِ قَالَ الرَّازِیُّ ھٰذِہِ الْقِصَّۃُ بَاطِلَۃٌ مَوْضُوْعَۃٌ لَاَیُجْوزُ الْقَوْلُ بِھَا.ترجمہ:.اس قسم کی کوئی بات ہی کسی وجہ سے ثابت اور صحیح نہیں.اگرچہ خود ہی اس کی عدم صحت اور اس کا بطلان ظاہر ہے مگر محققین کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہی تو اسے ردّ کر رہی ہے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر یہ (نبی) ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات لگاتا تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑتے.پھر ہم اس کی رگِ حیات کو کاٹ ڈالتے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ نبی اپنی طرف سے نہیں بولتا اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم تجھ کو مضبوط نہ رکھتے تو تو ان کی جانب قریب تھا کہ مائل ہو جاتا.اب یہ آیت مقاربت میلان کی نفی کرتی ہے چہ جائیکہ آنجناب کا میلان ان کی جانب ہوتا.بَزَّار کہتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس حدیث کو متصل اسناد سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو.بیہقی کہتے ہیں.یہ قصّہ نقل کے قانون کے لحاظ سے ثابت نہیں ہو.پھر بیہقی نے یہ کلام کیا ہے کہ اس قصّہ کے راویو ںمیں طعن کیا گیا ہے.امام الائمۃ ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ اس قصّہ

Page 38

قَالَ اﷲُ تَعَالٰی.وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی اِنْ ھُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰی.وَ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی.سَنُقْرِئُکَ فَلاَ تَنْسٰی.وَ لَا شَکَّ اَنَّ مَنْ جَوّزَ عَلَی الرَّسُوْلِ تَعْظِیْمَ الْاَوْثَانِ فَقَدْکَفَرَ لَاِنَّ مِنَ الْمَعْلُوْمِ بِالضَّرُوْرِۃٌ اَنّ اَعْظَمَ سَعْیِہٖ کَانَ فِی نَفْیِ الْاَوْثَانِ قَالَ ابْنُ کَثِیْرٍ فِی تَفْسِیْرِہٖ اَنَّ جَمِیْعَ الرِّوَایَاتِ فِی ھٰذَا الْبَابِ اِمَّا مُرْسِلَۃٌ اَوْ مُنْقَطِعَۃٌ لَا تَقُوْمُ الْحُجَّۃَ بِشَیئٍ مِنْھَاثُمَّ قَالَ فَقَدْ عَرَفْنَاکَ اَنَّھَا جَمِیْعَھَا لَا تَقُوْمُ بِھَا الحُجَّۃُ لِاَنَّہٗ لَمْ یُرْوِھَا اَحَدٌ مِنْ اَھْلَ الْصِّحَۃِ وَلَا اَسْنَدَھَا ثِقَہٗ نَدٍ صَحِیْحٍ اَوْسَلِیْمٍ مُتَّصِلٍ (فتح البیان مختصرا) وَ قَالَ فِی الْکَبِیْرِ رُوِیَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ بْنِ خُزَیْمَۃَ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ ھٰذِہِ القِصَّۃِ وَ قَالَ ھٰذَا وَ ضْعٌ مِنَ الزَّنَادِقَۃِ وَ صَنَّفَ فِیْہِ کِتَابًا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۳۶.۲۳۸) ذرا غور تو کرو.انصاف سے کام لو.عقل کو بیکار نہ رکھو.اس عجیب و غریب تفرقہ پر نگاہ تو کرو.محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے سدرۃ المنتہٰی تک پہنچنے کا نتیجہ کیا ہے؟ اور تمہارے لات اور عزّٰی اور منات کی پرستش کا ثمرہ کیا ہے؟.ایک وہ توحید کا واعظ.سچے علوم کا معلّم.قوم کو ذلّت اور ادبار سے عزّت و سلطنت عالمگیر پر پہنچانے والا.دوسرے تم لوگ پتھروں سے حاجات کے مانگنے والے فسق و فجور میں قوم اور ملک کو تباہ کرنے والے اور وہم پرست ایسے کہ اپنے لئے تو اولادِ نزینہ کو پسند کریں.اور باری تعالیٰ کی پاک ذات پر ہ کو زندیقوں نے وضع کیا ہے.امام رازی کہتے ہیں.یہ قصّہ جھوٹا بناوٹی ہے.اس کا ماننا ناجائز ہے.کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نبی اپنے طرف سے کچھ نہیں بولتا.یہ تو وہی کہتا ہے جو اس کے دل میں وحی کی جاتی ہے.اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے عنقریب ہم تجھے قرآن پڑھاتے ہیں.پھر تو اسے فراموش نہ کرے گا.جو شخص رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی نسبت یہ کہنا روا رکھے کہ آپ نے بُتوں کی تعظیم کی.ایسا شخص بیشک کافر ہے.اس لئے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بڑی بھاری کوشش بُتوں کا نابود کرنا تھی.ابن کثیر اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس باب میں جتنی روایتیں ہیں یا تو مرسلہ ہیں یا منقطعہ ہیں اور ایسی روایتیں حجت نہیں ہو کرتیں.پھر امام صاحب فرماتے ہیں.ہم تمہیں سمجھا چکے ہیں کہ یہ تمام روایتیںحجّت پکڑنے کے قابل نہیں ہیں.کیونکہ اہلِ صحت میں سے کسی نے انہیں روایت نہیں کیا اور نہ کسی ثقہ نے سند صحیح یا سلیم متصل سے انہیں اسناد کیا.اور امام صاحب تفسیرکبیر میں کہتے ہیں.محمد بن اسحاق ابن خزیمہ سے روایت ہے کہ اس سے اس قصّہ کی بابت سوال کیا گیا.اس نے جواب دیا کہ زندیقوں نے اسے گھڑا ہے اور اس نے اس بارہ میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے.

Page 39

یہ عیب لگا دیں.اور یہ بداعتقاد کریں کہ معاذ اﷲ فرشتے اور ملائکہ اﷲ تعالیٰ رحمن کی بیٹیاں ہیں.مشرکو! دیکھا بُت پرستی نے تم کو کس کنوئیں میں گرایا.ان کی اسی نادانی کا بیان ہے.. .(النجم:۲۲،۲۳) کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں ہیں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۰۰) ۳۸..(وہ ابراہیم) جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق و وفا کا پُورا نمونہ دکھایا.۴۰تا۴۲....امتحان کے اصل معنی ہیں.محنت کا لینا.ایک دنیادار امتحان کے لئے اخذ امتحان کے جواب مثلاً دیکھتا ہے تو اس لئے کہ طالب العلم کی محنت کا اس کو پتہ لگ جائے اور محنت کا نتیجہ اس کو دے اور اﷲ تعالیٰ بھی امتحان لیتا ہے یعنی محنت کرانا چاہتا ہے.سُستی کو ناپسند کرتا ہے.ہاں علیم و خبیر ہے.جب کوئی محنت کرتا جیسے کوئی محنت کرے.ویسے ہی جنابِ الہٰی سے محنت کرنے کا اجر ملتا ہے ؎ گندم از گندم بروید جَو زِجَو از مکافاتب عمل غافل مشو اس امتحان کے معنوں کو ایک حکیم مسلمان نے نظم کیا ہے.اور اسی سچے علم کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے ’’ اور انسان کو اس کی سعی کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ملیگا.اور یہ پختہ بات ہے کہ اس کی سعی دیکھی جائے گی.پھر اسی کے مطابق واقع اسے پورا بدلہ دیا جائے گا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۷۳.۷۴) ۴۳..

Page 40

موجودہ امور گزشتہ امور کے نتائج ہوتے ہیں اور مستقبل حال کا ثمرہ.یہ سلسلہ ماضی کی طرف اگرچہ ان لوگوں کے نزدیک جو الہٰی ہستی سے بے خبر ہیں لامنتہٰی ہے مگر خدا کے ماننے والے جانتے ہیں کہ بات یہی سچ ہے. یعنی سب چیزوں کا منتہٰی اور انجام تیرے رب کی طرف ہے.زمانہ بھی آخر مخلوق ہے.کیونکہ زمانہ مقدارِ فعل کا نام ہے.مقدار فعل، فعل سے پیدا ہو سکتا ہے اور فعل، فاعل سے.جناب الہٰی کی ذات پاک چونکہ ازلی ہمہ دان.ست اور چت ( عالم) ہمہ قدرت اور سامرتھ ہے وہ اپنے ازلی علم سے جانتا تھا کہ فلاں اپنے پیارے بندے کو مجھے فلاں وقت مؤیّد و مظفر اور منصور کرنا ہے اور فلاں وقت فلاں شریر کو جو اس کے مقابل ہو گا ذلیل اور خوار اور غائب و خاسر کر دینا ہے.اس لئے اس نے ابتداء ہی سے ایسے اسباب اور مواد مہیا کر ئے کہ اس وقت مُعَیّن اور مُقَدَّر میں اس کا مخلص مومن متّقی محسن اور برگزیدہ بندہ لا محالہ فتح مند ہو جاتا ہے.اور اس کا دشمن اﷲ سے دور، فضل سے ناامّید ابلیس شریر اور شرارت پیشہ تباہ و ہلاک ہو جاتا ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۸۴)

Page 41

سُوْرَۃُ الْقَمَرِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..: اوپر سے ایسے پتھر دنیا میں گرے ہیں کہ جن کے بارے میں مان لیا گیا کہ وہ پتھر زمین کے نہیں.قَمَر: عرب کا قومی نشان ہے.اس سے کبھی مذہبی جنگ نہ ہوئی تھی.صفیہؓ نے خواب دیکھا کہ چاند میری گود میں آ پڑا تو اس کے باپ نے چانٹا مارا.کیا تو عرب کے کسی بادشاہ کے نکاح میں جانا چاہتی ہے.۳..: جنون کو کہتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۲) اﷲ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل روحانیت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے.اس کا نام قرآن ہے.میں نے اس کو سامنے رکھ کو بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے.اور ژند و ادستا کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے.وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے.قرآن بڑا آسان ہے.مَیں ایک دفعہ لاہور میں تھا.ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا.ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے.اس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ مگر قرآن کہاں آسان ہے.میں نے کہا آسان ہے.ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے

Page 42

تو پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل.پھر اس کی تفسیر کون کرتا.قرآن کریم نے دعوٰی کیا ہے. (البیّنۃ:۴)جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں.ان تمام کا جامع قرآن ہے.باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.قرآن کریم میں تین خوبیاں ہیں.پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصّہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے.اور جو ضروریات موجودہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا.اس کے سوا جتنے مضامین ہیں اﷲ کی ہستی، قیامت، ملائکہ، کتب، جزا سزا، اخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں ان کو بیان کیا.(الفضل ۱۰؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) ۴۵،۴۶.. .کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقریب یہ سب لوگ شکست دیئے جائیں گے اور بھاگ نکلیں گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۶) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بے یارو غمگسار اور پھر آپؐ نے ارشاد الہٰی کی تعمیل میں دعوٰی نبوّت کیا اور تمام مشرکانِ عرب کو کھول کھول کر سنا دیا گیا.مگر یہ تمہارے بُت کسی کام کے نہیں.پرستش کے لائق صرف ایک ذات جامع صفات ہے.جس کا نام.اﷲ.تو چاروں صرف سے بڑے بڑے لوگ مخالفت کے لئے اٹھے اور ناخنوں تک زور لگایا.آپ ایک یتیم بے سروسامان مقابلہ میں بڑے بڑے عمائد، بڑے بڑے اراکین اور دولتمند لیکن آخر  کا الہام صداقت نشان پورا ہوا.اور ان کو نیچا دیکھنا پڑا.جس قدر لائق فائق لوگ تھے.وہ سب کے سب آپ کی غلامی میں آ گئے.حضرت ابوبکرؓ.حضرت عمرؓ.حضرت عثمانؓ ایسے علمِ سیاست جاننے والے خالدؓبن ولید.ابوعبیدہؓ ایسے سپہ سالار سب آپؓ ہی کے حلقہ بگوش تھے.یہ تو سب نے اس وقت دیکھ لیا.پھر بعد میں جو اﷲ نے اپنے دین کی نصرت فرمائی.جس طرح پر مصر و شام و ایران ہندو سندھ پر فتح حاصل ہوئی وہ کچھ ایسا نظارہ نہیں کہ بھول جانے والا ہو اور اس شان و شوکت.رعب و سطوت اور حیرت ناک تغیّرو تبدّل کو دیکھ کر اور اس کے ساتھ ان مکّی پیشگوئیوں کو پڑھ کر جو

Page 43

قرآن مجید میں مذکور ہیں.اور جو بے بسی و بے کسی کے عالم میں کی گئیں.کون خدا ترس شخص ہے جو بے اختیار ....(الحاقّۃ:۴۱ تا ۴۴) نہ پڑھ اُٹھے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ۲۳۰.۲۳۱) ۵۰..ہم نے ہر چیز بنائی پہلے ٹھہرا کر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۳) ۵۵..: نعمت کی جگہ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳)

Page 44

سُوْرَۃُ الرَّحْمٰنِ مَکِّیَّۃٌ  ۲،۳...انسان بڑا کمزور.ناتواں اور سُست ہے.علمِ حقیقی سے بہت دور ہے.آہستگی سے ترقی کر سکتا ہے ہم تو چیزہی کیا ہیں.اُس عظیم الشان انسان علیہ الف الف صلوٰۃ والسلام کی بھی یہ دعا تھی.رَبِّ ِّ (:۱۱۵)تو جب خاتم الانبیاء.افضل البشرؐ کو بھی علمی ترقی کی ضرورت ہے جو اَتْقَی النَّاس اَخْشَی النَّاس.اَعْلَمُ النَّاس ہیں اور ان کے متعلق . وارد ہو جانے کے باوجود بھی ان کو ترقیٔ علم کی ضرورت ہے تو ہماوشما حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں.کہ ہم علمی ترقی نہ کریں اگر میں کہہ دوں کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق ہے اور میرے پاس اﷲ کے فضل سے کتابوں کا ذخیرہ بھی تم سب سے بڑھ کر موجود ہے.اور پھر یہ بھی اﷲ کا خاص فضل ہے کہ مَیں نے ان سب کو پڑھا ہے.اور خوب پڑھا ہے.اور مجھے ایک طرہ کا ہق بھی حاصل ہے کہ ایسا کہہ سکوں.مگر بَاِیْں مَیں نہیں کہہ سکتا.کہ مجھے علم کی ضرورت نہیں.بلکہ مجھے بھی ترقی علم کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.علم سے میری مراد کوئی دنیوی علم اور ایل ایل بی اور ایل ایل ڈی کی ڈگریوں کا حصول مراد نہیں ہے.لاَحَوْلَ وَ لَا قُوََََّّّّّۃَ اِلَّا بِاﷲ بلکہ ایسا تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسی میری کبھی اپنی ذات یا اپنی اولاد کے واسطے خواہش ہوتی ہے.عام طور پر لوگوں کے دلوں میں آج علم سے بھی ظاہری علم مراد لیا گیا ہے.اور ہزارہا انسان ایسے موجود ہیں کہ جن کو دن رات یہی تڑپ اور لگن لگی ہوئی ہے.کہ کسی طرح وہ بی اے یا ایم اے یا ایل ایل بی کی ڈگریاں حاصل کر لیں.ان لوگوں نے اصل میں ان علوم کی دُھن ہی چھوڑ دی ہے.جن پر سچے طور پر علم کا لفظ صادق آ سکتا ہے.پس ہماری مراد ترقی علوم سے خدا کی رضا مندی کے علوم اور اخلاقِ فاضلہ سیکھنے کے علوم وہ علوم جن سے خدا کی عظمت اور جبروت اور قدرت کا علم ہو اور اس کے صفات.اس کے حسن و احسان کا علم آ جاوے.غرض وہ کُل علوم جن سے تعظیم لامر اﷲ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ کا علم آ جاوے.مرادہیں.(الحکم ۱۸؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۴)

Page 45

۶..تورات میں کچھ شمسی حسابات ہیں، دونوں میں غور کرو.نبی کریمؐ کی پیدائش کا وقت مل جائے گا.( تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۳) انسان کے الفاظ میں کمزوری ہے.انسان کے فلسفے میں کمزوری ہے.جوں جوں زمانہ نئے نئے علوم دریافت کرتا ہے.وہ اپنے حالات، اپنی اصطلاحات کو بدلتا جاتا ہے.لیکن خدا کے کلام میں اس قسم کی کمزوری نہیں ہوتی.بلکہ جوں جوں سائنس ترقی کرتی ہے.اس کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.دیکھئے انسان کے جبرو اختیار میں بعض علماء نے بڑی بحث کی ہے.اور اس میں کوئی فیصلہ کُن بات نہیں کہہ سکتے.قرآن مجید نے ان الفاظ کو اختیار ہی نہیں کیا بلکہ ان کی بجائے استطاعت ، مقدرت اور تمکّن فرمایا اور اعجاز معجزے کے بدلے سلطان و آیات رکھا.اسی طرح حُسْبَانٍ ایسا لفظ ہے کہ تمام دنیا کا فلسفہ پرانا ہو یا نیا.اس کو نہیں جھٹلا سکتا.بخاری نے اس کے معنے کئے ہیں حُسبان کحسبان الرَّحٰی.سورج اور چاند کا حساب دیکھو.ایک سیکنڈ کی بھی اس میں غلطی نہیں ہوتی.اگر ہم قطب شمالی یا قطب جنوبی میں ہوں تو چاند اور سورج چکّی کی طرح چلتے معلوم ہوتے اور اگر ہم خطِ استوا پرسوں تو فلک الغزل چرخ کی طرح چلتے معلوم ہوں گے.اور حُسْبَانٍ ان دونوں صورتوں میں صادق آتا ہے.( تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ۲۲۶) ۹..ہر چیز.ہر کام.ہر کامیابی کے لئے ایک اندازہ مقرّر ہے.اس سے باہر نہ جاؤ.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳) ۱۳..: یہ تمام چیزیں کسی کام کے لئے بنائی گئیں تو کیا تو اے انسان نکمّا.تو بھی کوئی کام کر.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳) ۱۸..

Page 46

: صیف و شتاء کے مطالعہ کے اختلاف کے اعتبار کہا.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳) ۲۰..: بحیرہ قلزم و بحیرہ روم.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳) ۲۷..بقاء صرف ذات الہٰی کے واسطے ہے.دیکھو ۱.تمطاؤس ۶ باب ۱۶.لفظ وَجْہٌکے معنی لغت عربی میں دیکھو.اَلْوَجْہُ مُسْتَقْبَلُ کُلِّ شَیْیئٍ وَ نَفْسُ الشَّییئِ یعنی وَجْہٌہر چیز کے حصّہ مقدّم اور نفس شے کو کہتے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۴۷ طبع دوم) ۲۸..: خدا کی توجہ جس شے میں ہے وہ رہ جائے گی.باقی سب فنا.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۳) ۳۴. .کوئی خوبی اگر کسی میں ہے تو اس کا پیدا کرنے والا وہی اﷲ ہے.اسی طرح اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ محسن ہے.تو سب محسنوں سے بڑا محسن تو اﷲ ہے.جس نے تمہارے محسن کو بھی سب سامان اپنی جناب سے دیا اور پھر اس سامان سے تمتع حاصل کرنے کے موقعے دئے اور قوٰی بھی اُسی کے دئے ہوئے ہیں.اگر کسی کی اطاعت اس لئے کرتے ہو کہ وہ بادشاہ حکمران ہے.تو تم خیال کرو.ا ﷲ وہ احکم الحاکمین ہے.جس کا احاطہ سلطنت اس قدر و سیع ہے کہ تم اس سے نکل کر کہیں باہر نہیں جا سکتے چنانچہ فرماتا ہے.…….

Page 47

یہ دنیا کے حاکم تو یہ شان نہیں رکھتے.جب ان کی اطاعت کرتے ہو تو پھر اس احکم الحاکمین کی اطاعت تو ضروری ہے.( تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ۲۲۹) ۴۷..قرآن کریم میں میں دو جنتوں کے وعدے ہم کو دئے ہیں.ایک دنیوی اور دوم بعد الموت.ایک وہ ہے جس کو تورات کے پیدائش باب ۲:۱۵ میں جنت عدن کہا ہے اور مسلم کی صحیح میں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۳۶ حاشیہ) : ایک ایمان کا بدلہ، ایک اعمال کا، ایک دنیا میں ، ایک آخرت میں.ایک قبر میں.ایک حشر میں.۵۹..: ایشیا ئے کوچک کی عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں.

Page 48

سُوْرَۃُ الْوَاقِعَۃِ مَکِّیَّۃٌ  ۱۸،۱۹.. .اور پھرتے ہیں ان کے پاس بچّے.سدا رہنے والے.آبخورے.تتّیاں.اور پیالے ستھرے پانی کے لے کر.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۴۷) غِلْمَان جمع ہے غلام کی اور ولدان جمع ہے ولید کی.یہ دونوں لفظ بیٹوں.جوان خدمتگاروں کے لئے ہیں.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۳۶ دیباچہ ) اور ان کے ارد گرد عمر دراز بچّے کوزوں اور لوٹوں اور خالص نتھرا صاف پانی کو لئے پھریں گے.اور اصل بات یہ ہے کہ یئہ ایک بشارت ہے.جو فتوہاتِ ایران و روم میں اپنے جلال کے ساتھ طاہر ہوئی.جوان اور ادھیڑ شاہی کاندان کے شاہزادے اور شہزادیاں مسلمانوں کے خادم ہوئے.مُخَلَّدٌ ادھیڑ کو بھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۳۶) ۳۵..: اعلیٰ خاندان کی بیویاں.۳۸،۳۹...: جن کے اعمالِ صالحہ بڑھتے ہیں.حضرت ابنِ عربیؒ نے لکھا ہے.انبیاء علیہم السلام کے مقام جنت میں چاندی کے ہوں گے.کیونکہ سفیدی تمام رنگوں کی جامع ہے اور

Page 49

اولیاء کے سونے کے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۳) سوال: حوروں پر اعتراض، گوری، کنواری، ہم عمر ، نوجوان، سیاہ آنکھوں والی دوشیزہ عورتیں ملیں گی.برہم چاری اس قسم کی شکیل باتوں کا منہ پر لانا بھی مہاں پاپ سمجھتا ہے.قرآن کریم کے کلمہ طیّبہ ،، پر اعتراض کیا ہے.الجواب: کیا الہٰی کتب صرف برہمچریہ کے لئے ہو ا کرتی ہیں.نادان انسان اگر خاص خاص مذاق کے لئے الہٰی کتابیں ہوں تو دوسرے مذاق والے کیا کریں.وہ شُتر بے مہار رہیں.بتا ان کی اصلاح کون کرے.نیز چاہیئے کہ نہ تم نے سیارتھ پرکاش پڑھنا اور نہ منوکاشاستر اور چاہیئے کہ تم وید کو بھی نہ پڑھو کیونکہ ۱۰۴ اور ۱۰۵ صفحہ ستیارتھ پرکاش میں لکھا ہے.اشونی.بھرنی وغیرہ ستاروں کے نام والی.تُلسی گلابی وغیرہ پودوں کے نام والی.گنگا جمنا ندی کے نام والی.پاربتی پہاڑ کے نام والی.پرندوں کے نام وال اور اس قسم کے نام والیوں سے نکاح نہ کرنا نمبر۹ میں کہا ہے.نہ زرد رنگ والی.نہ بھُوریآنکھ والی وغیرہ.نمبر۱۱ میں کہا ہے جس کا نام زیبا جیسے بشودھا.سکھدا وغیرہ ہنس اور ہتھنی کے برابر جس کی چال ہو جس کے سر کے بال باریک اور چھوٹے دانت والی ہو.اور جس کے سب اعضاء ملائم ہوں.ایسی عورت کے ساتھ بیاہ کرنا.اس قدر حوالے غالباًاگر تم شریف الطبع ہو تو کافی ہیں.پس بڑا اور مہان پاپ کیا اس پاپی نے جس نے ست کے ارتھ میں ایسی شلیل باتوں کا ذکر کیا اور اس کے پڑھنے کو کہا! بدبخت! کامل کتاب ضروریات اور حقیقی راحت بخش بات کا بیان نہ کرے تو کیا چنڈالوں کی کتابیں سچائی بیان کریں.کامل کتاب وہ نہیں ہو سکتی.جس میں صرف برہم چریہ زندگی کا ہی تذکرہ ہو.نہ وہ جس میں صرف چند اخلاقی باتوں کا ہی تذکرہ ہو.نہ وہ جس میں صرف سوشل امور کا بیان ہو.نہ وہ جس میں صرف سیاست و انتظام کا معاملہ بیان ہو.نہ وہ جس میں صرف سیاست و انتظام کا معاملہ بیان ہو.نہ وہ جو صرف امورِ آخرت کے متعلق بحث کرے.کہ وہ جس میں صرف عبادات کا ذکر ہو کامل کتاب تو وہ ہے.جس میں انسانی اخلاق و عادات.معاملات.سیاست.تمدّن.امور بعد الموت اور الہٰی تعلیمات کی تعلیم بوجہ اتم بیان ہو.یہ بھی ایک موقع اسلام پر اعتراض کا بعض احمقوں کو ملا ہے.مثلاً کسی نے دیکھاکہ عورتوں کے متعلق قرآن شریف میں بحث ہے، پولیٹیکل بحثیں ہیں.تو ایک نامرد و نامراد کسمپرس بول اٹھا کہ ان مباحث کی کتابِ الہٰی میں کیا ضرورت ہے.صرف بھجن اور توصیفب الہٰی کے گیت کافی تھے.چند لڑکے ان کو یاد کر لیتے اور وہ ڈھولکی پر گاتے.اور نگر کیرتن کرتے.ایک کنجوس اور غریب و مفلس بول اُٹھتا ہے کہ زکوٰۃ اور اعطائِ صدقات کا کیوں قرآن کریم میں

Page 50

ارشاد ہے.ہمیشہ کا مفتوح ملک اور جس نے کبھی ذرہ سر اٹھایا تو منہ کے بل گرا.شریروں بدمعاشوں سے جنگ کا تذکرہ سُن کر کیا خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ جس کو کبھی مکالماتب الہٰیہ کا شرف حاصل نہیں ہوا.وہ برہمو مت کا آدمی یا عام طور کا غافل یا جس کو یقین ہے کہ الہٰی مکالمہ کا شرف دو ارب برس کے قریب ملہمان وید کے بعد کسی کو بھی نصیب نہیں.وہ انبیاء کی وحی و مکالمہ کو ڈھکو سلانہ سمجھے تو کیا کرے؟ یا جس قوم کو باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ان کو ضرورتیں پیش آئیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ بعص جگہ گائے کا دودھ اور جَو کے ستّو اور ساگ نہیں مل سکتا.گو بیہودہ لاف زنی سے کہتے ہیں کہ ہمارے بزرگ چکر ورتی راجہ تھے وہ (مائدہ:۶) کا سرّکس طرح سمجھے؟ تجربہ کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا! غرض جامع کتاب کو سب کچھ جو انسان کے لئے ضروری البیان ہے بیان کرنا پڑتا ہے.اگر وہ کتاب بیان نہ کرے جو اپنے آپ کو کامل و جامع کہتی ہے تو کون بیان کرے؟ اگر آپ نہ سمجھیں یا نہ جاہیں تو آپ کی خاطر کیوں ضرورتوں کے بیان کو ترک کیا جاوے؟ کیا ساری دنیا پر برہمچر یہ مذہب رکھتی ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے دماغ برین اور اعصاب میں مختلف خواص رکھے ہیں.ان خواص کو مدّنظر رکھنا کامل کتاب کا کام ہے! شلیل کہنا تمہاری شیریں کلامی کا ثبوت ہے.،، کے معنی کنواریاں.اپنے خاوندوں سے محبت کرنے والیاں.قریب العمر.کیا نیکوں کو ایسی نہ ملیں تو چڑیلیں ملیں؟ (نورالدّین طبع سوم صفحہ ۱۳۳.۱۳۴) ۵۲ تا ۵۶.. ... .ترجمہ: پھر تم اے گمراہ اور مکذّب لوگو! ضرور کھاؤ گے تھوہر کے درخت سے.پھر اس سے پیٹ بھرنا ہو گا.پھر اس پر گرم پانی پینا ہو گا.اور اس طرح پیو گے جس طرح پیاسا اونٹ بے تکا ہو کر

Page 51

پانی پیتا ہے.میں نے ایک شخص کو ایک بے نماز دکھلایا جس کے گلے میں ایک زخم آتشک کا تھا جس میں پیپ بھری ہوئی تھی.ار اس کا کھانا.پینا پیپ سے آلودہ ہو کر اندر جاتا تھا اس طرح سے پیپ کھانے کا عذاب میں نے دنیا میں دیکھا ہے.اﷲ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے اس سے ڈرنا چاہیئے.جب میں جوان تھا.مجھے طبّ کا بھی شوق تھا.ایک شخص میرے پاس آتشک زدہ آیا.مجھے خیال آیا کہ جَو بھُون کر اس میں تھوہر کا دودھ جذب کر کے گولیاں بنائیں.میں نے طعام الاثیم(یعنی گناہ گاروں کی غذا) سمجھ کر اُس کو بھی وہ گولی دی.اس نے اس کو بہت گھبرایا.اور کہنے لگا.میرے اندر تو آگ لگ گئی ہے.پانی دو.پھر مَیں نے ( اس آیت کا خیال کر کے) گرم پانی چند گھونٹ پلا دیا.اس کو قے اور دست شروع ہو گئے.مگر آتشک اچھا ہو گیا.(بدر ۱۵؍مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۷) ۷۲ تا ۷۴.. ..اس آگ کو جسے جلاتے ہو سمجھتے ہو کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا یا ہم پیدا کرنے والے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۵۴) ۷۶..: ان لوگوں کے دل جن پر قرآن نازل ہو.قرآن کو پاک لوگ ہی سمجھتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۳) ۸۰..ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ پاک میں اس (قرآن مجید) کے نسخے موجود تھے.اسی واسطے فرمایا کیسا مشہور قصّہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ ایمان لائے تو اس وقت آپؓ نے اپنی بہن کے پاس سے

Page 52

بیسویں سورت کی نقل لینی چاہی.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۲۳۵) کوئی فرماں برداری بدوں فرمان کے نہیں ہو سکتی.اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا.جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو.پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلّم کی ضرورت ہے اور الہٰی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزکّی اور مطہرا لقلب کے کسی کو نہیں آتی کیونکہ .خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس کیسی ضرورت ہے امام کی.کیسی مزکّی کی.میں تمہیں اپنی بات سناؤں.تمہارا کنبہ ہے.میرا بھی ہے تمہیں ضرورتیں ہیں.مجھے بھی آئے دن اور ضرورتوں کے علاوہ کتابوں کا جنون لگا رہتا ہے.مگر اس پر بھی تم کو وقت نہیں ملتا.کہ یہاں آؤ.موقعہ نہیں ملتا کہ پاس بیٹھنے سے کیا انوار ملتے ہیں.فرصت نہیں.رخصت نہیں سنو! تم سب سے زیادہ کمانے کا ڈھب بھی مجھے آتا ہے.شہروں میں رہوں.تو بہت سا روپیہ کما سکتا ہوں مگر ضرورت محسوس ہوتی ہے بیمار کو ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی لْبَرِّ وَ الْبَحْرِ کا زمانہ ہے.میرے لئے تو یہاں سے ایک دم بھی باہر جانا موت کے برابر معلوم ہوتا ہے.تم شاید دیکھتے ہو گے کہ یہاں کھیت لہلہا رہے ہیں دنیا اپنے کاروبار میں اسی طرح مصروف ہے.مگر میرا ایک دوست لکھتا ہے.کہ وباء کے باعث گاؤں کے گاؤں خالی ہو گئے ہیں.بے فکر ہو کر مت بیٹھو.خدا کے دردناک عذاب کا پتہ نہیں.کس وقت آ پکڑے.غرض تو اس وقت سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اس شخص کے پاس بار بار آؤ.جو دنیا کی اصلاح کے واسطے آیا ہے.تم نے دیکھ لیا ہے.کہ جو شخص اس زمانہ میں خدا کی طرف سے آیا ہے.وہ أَبْکَمْ نہیں ہے بلکہ علیٰ وجہ البصیرت تمہیں بلاتا ہے.تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر اٹھا لو.اور انہیں ہی کافی سمجھو.میں سچ کہتا ہوں میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہرگز نہیں! کیا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز و اقارب کو چھوڑا تھا.پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے.کیا تم ہم کو نادان سمجھتے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ کیا ہماری ضرورتیں نہیں؟ کیا ہم کو روپیہ کمانا نہیں ٓتا ؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے ؟ شاید اس لئے کہ میری بیماری بڑھی ہوئی ہو؟ دعاؤں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے! مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا !مختلف اوقات میں ٓنا چاہیئے! بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہے اس لئے وہ شخص جو اسی دن آ کر چلا گیا.وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصّہ کر رہے ہوں گے اس وقت جو عورت آئی ہو گی.تو حیران ہی ہو کر گئی ہو گی.غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم یہاں بار بار آؤ اور مختلف اوقات میں آؤ.(الحکم ۱۵؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۳)

Page 53

حضرت امام شافعیؒ کا ایک شعر ہے ؎ فَاِنَّ الْعِلْمَ نُوْرٌ مِّنْ اِلٰہٍ وَ ن نُوْرُ اﷲِ لَا یُعْطٰی لِعَاصِیْ یہ دراصل تفسیر ہے. کی.پس قرآن مجید کے غوامض کی تہہ کو پہنچنے اور معضلات مسائل کے حل کے لئے پاک زندگی اور مطہر قلب ہونا چاہیئے.ایک معمولی مہمان کے لئے مکان صاف کیا جاتا ہے.اور حتی الوسع کوئی ناپاکی و گندگی نہیں رہنے دی جاتی.تو خدا کے کلام کے معانی کے نزول کے لئے ایک مصفٰی دل کی کیوں ضرورت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاملہ میں اگر لوگ اس اصل پر چلتے تو کبھی دھوکہ نہ کھاتے اور نہ مستوجب و عید ہوتے.چاہیئے تھا.کہ وہ خدا کے حضور رو رو کر عرض کرتے کہ الہٰی ہم پرحق کھُل جائے.استغفار کرتے صدقہ و خیرات دیتے ار پاک زندگی اختیار کرتے.انسان جو بُرے کام کرتا ہے.ان کی ابتداء ان وسوسوں سے ہوتی ہے.جو سینہ میں اٹھتے ہیں انکا علاج یہ ہے کہ جب ایسے خیالات کا سلسلہ اٹھنے لگےتو اس جگہ کو بدل کر باہر چلا جائے.کسی سے باتوں میں لگ جائے.موت کو یاد کرے.ایک مشغلہ میں اگر وہ سلسلہ نہ ٹوٹے تو دوسرا مشغلہ اختیار کرے.تنہا نہ رہے.قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دے.عام طور پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ بہت پڑھے.الحمد پڑھے.استغفار کرے.نبی صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجے.لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاﷲِ کا ورد کرے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ ۱۳۷.۱۳۸)

Page 54

سُوْرَۃُ الْحَدِیْدِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲..: عرب ستاروں کی پرستش ہوتی تھی.مٹادی.خانہ کعبہ میں بُت تھے.توڑ ڈالے گئے یہ سب تسبیح میں داخل ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۳) جوچیز نئی دنیا میں آتی ہے.کیسی پاکیزگی اپنے ساتھ لاتی ہے.جب یہ پتّے گرے تھے کیسی خراب شکل تھی ( جس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر درس دے رہے تھے.اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا) جب نئے پتّے نکلتے ہیں.کیسے بھلے معلوم ہوتے ہیں.اروڑیوں پر کیسا گند ہوتا ہے مگر وہاں بھی جو پتّہ نکلتا ہے.کیسا صاف ہوتا ہے.بارش کا پانی برستا ہے کیسا صاف ہوتا ہے.ماں کے پیٹ سے جو بچّہ پیدا ہوتا ہے.کیسا مصفی اور بے عیب ہوتا ہے.نہ مشرک ہوتا ہے.نہ بے ایمان ہوتا ہے.بھینسوں اور کتیوں کے چھوٹے بچوں میں جو خوبصورتی پائی جاتی ہے وہ بڑوں میں نہیں پائی جاتی.اگر یہ آنکھیں نہ ہوں.کیسی دقّت ہو.کان سے کیسی باتیں سُنتے ہیں.زبان سے کیسی پاک باتیں نکلتی ہیں.خدا کے یہاں سے سب چیزیں پاک آتی ہیں. ہر چیز اﷲ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے.میرے پاس کوئی ایسا چاقو نہیں جس سے میں اپنا دل چِیر کر تمہیں دکھلا سکوں.کہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے.قرآن کا ایک ایک حرف کیسا عمدہ اور پیارا لگتا ہے.مجھے قرآن کے ذریعہ سے بڑی بڑی فرحتوں کے مقام پر پہنچایا جاتا ہے.دنیا میں جتنی حکمتیں بنی ہوئی ہیں.سب اسی حکیم کی بنائی ہوئی ہیں.(بدر ۱۵؍مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۷) ۳.

Page 55

.وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.ہر گھڑی میں پیدا بھی ہو رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں.کوئی ایسا نہ پیدا ہوا.جو موت کی دوا کرے.یا کسی انسان کو پیدا ہی کر سکے.موت سے بچنے کے لئے بادشاہوں نے فوجیں رکھیں.ہتھیار اور قلعے بانئے.دوائیں اور منتر اور ختم اور انتظام بنائے یہ سب کچھ ہوا.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی اس سے بچا ہو.(بدر ۱۵؍مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۷) ۴..: کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کہ ایک مخلوق اپنی ابتداء میں اُس کا محتاج ہے ویسا ہی بقاء و انتہاع میں بھی اس کا محتاج ہے.یہ معنے غلط ہیں کہ وہ مخلوق کے پہلے تھا اور جب کل مخلوق فنا ہو جائے گی.تب وہی ہو گا اس سے تو جنّت کی حقیقت فانی ہی رہ جاتی ہے.(بدر ۲؍ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) اﷲ تعالیٰ کی چار صفتیں ہر وقت رہتی ہیں.اﷲ اوّل ہے اور جس وقت وہ اوّل ہے اسی وقت آخر بھی ہے اور ظاہر بھی اور باطن بھی. کے یہ معنی غلط کئے گئے ہیں کہ ایک وقت میں خدا اکیلا تھا.پھر جہان بنایا.دیانندیوں نے بھی غلطی کی ہے کہ کہا کہ چار ارب سال ہو گیا.حالانکہ اگر مہاں سنکھ کو مہاں سنکھ میں مہاں سنکھ دفعہ بھی ضرب دیں.تب بھی خدا کی ہستی کا پتہ نہیں لگ سکتا.مگر قربان جایئے الحمد شریف کے جس نے ربّ العٰلمین فرما کر فیصلہ کر دیا.سب لوگوں نے جہان کی تاریخیں لکھیں.مگر قرآن نے ان کو چھوڑ دیا.عیسائی بڑے بے ہنگم مؤرخ ہیں.سات آٹھ ہزار سے نیچے ہی رہتے ہیں.پانڈوؤں کی لڑائی مسیحؑ سے چار ہزار برس پہلے ہوئی.قرآن کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ اﷲّ شانہٗ کے بنانے کی کوئی تاریخ نہیں بتائی.در اصل کوئی ہے ہی نہیں.آج بھی اﷲ اوّل ہے اور آج ہی آخر بھی ہے جس وقت وہ مجھ بنا رہا تھا.نطفہ سے بھی پہلے بقول ؎ ہم چو سبزہ بارہا روئیدہ ام کے جب کہ اناج تھا.پھر روٹی بنی.خؤن بنا.نطفہ بنا.غرض کہ جس وقت وہ بنا رہا تھا.جتنا حصّہ

Page 56

میرا بن چکا تھا.ان سب وقتوں میں میری حفاظت فرماتا رہا.وہ ہر چیز کے بنانے کے وقت اس کی ابتداء.اوسط اور انتہاء میں موجود ہوتا ہے.اوّل: لَیْسَ قَبْلَہٗ شَیْیئٌ (جس سے پہلے کوئی شَئے نہ تھی) آخر: لَیْسَ بَعْدَہٗ شَیْیئٌ (جس سے بعد کوئی شَئے نہ تھی) الظّاھر: لَیْسَ فَوْقَہٗ شَیْیئٌ (اس پر کسی وقت کوئی حکمران نہیں) الباطن: لَیْسَ دُوْنَہٗ شَیْیئٌ اﷲ کی ربوبیّت.رحمانیّت اور رحیمیّت اور مالکیّت.اس سے کوئی الگ چیز ہو ہی نہیں سکتی.ایسی کوئی چیز نہیں جس پر اﷲکی ان صفات کا تسلّط نہ ہو.لوگوں نے اس بات پر ہنسی اڑائی ہے کہ تم ہمیشہ کا بہشت کس طرح لو گے جب کہ صرف خدا ہی پیچھے رہ جائے گا.ربّ.رحمن.رحیم.مالک.یہ چاروں صنعتیں کبھی خالی نہیں رہتیں.زمانہ ہر وقت فنا ہوتا رہتا ہے.ماضی مر گیا.مستقبل دنیا پر آیا نہیں حال کا کوئی زمانہ ہی نہیں.یہ زمانہ ہر وقت فنا ہوتا رہتا ہے.اس کے اوّل.آخر خدا ہی ہے.ہر آن میں خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ معنی سوائے قرآن کریم کے اور کسی کو نہیں آتے.(بدر ۱۵؍ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۲۷) ایک عیسائی کے اعتراض ’’ قرآن نے خدا کا نام ظاہر یا تو صرف قافیہ بندی کے لئے لیا ہے یا ویدانتیوں کی مَتْ مخلوق کو خدا کہا ہے‘‘ کے جواب میں فرمایا : ’’ اس آیت میں پہلا نام الاوّل ہے اور دوسرا نام الٰاخر.یہ دونوں نام یسعیاہ ۴۴ باب ۶ میںموجود ہے.ربّ الافواج فرماتا ہے ’’ میں اوّل اور آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں‘‘ تیسرا نام اس آیت میں الظاہرؔ ہے اور چوتھا الباطن ہے.ظاہرؔ کے معنی لغت عرب میں غالب اور بڑے زور والے کے ہیں.اور ظاہرؔ اونچے کو بھی کہتے ہیں اور باطن مخفی کو.اب دیکھو ٹھیک انہی الفاظ کے مراد معنی ایوب ۱۱ باب ۸.وہ تو آسمان سا اُونچا ہے تو کیا کر سکتا ہے؟ اور پاتال سے نیچے ہے تو کیا جان سکتا ہے‘‘؟ اور حدیث صحیح میں اس آیت کی تفسیر خود افصح العرب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمائی ہے .لَیْسَ قَبْلَہٗٗ شَیْیئٌ یعنی جب مخلوق میں سے کسی موجود چیز کو دیکھو تو خدائے تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات اُس موجود مخلوق سے پہلے موجود ہے.مخلوقات سے کوئی ایسی چیز نہیں جو خدا سے پہلے ہو.ھُوَ

Page 57

الْاَخِرُ لَیْسَ بَعْدَہٗ شَیْیئٌ یعنی ہر چیز کی فنا اور زوال کے بعد اُس کی ذات پاک موجود ہے.ھُوَ الظَّاھِرُ لَیْسَ فَوْقَہٗ شَیْیئٌ یعنی ہر چیز سے اُوپر اور غالب وہی ہے.اُس سے اُوپر اور غالب کوئی شَے نہیں.ھُوَ الْبَاطِنُ لَیْسَ دُوْنَہٗ شَیْیئٌ وہی پوشیدہ ہے.سوا اس کے کوئی چیز نہیں ہے.یہ تفسیر خوب واضح کرتی ہے کہ زبانِ عرب میں ان الفاظ کا مفہوم اور مراد یہ ہے.اور وہی معتبر ہے (فصل الخطاب حصّہ اوّل اطبع دوم صفحہ ۱۳۹.۱۴۰) میں نے یہ دو آیتیں قائلین وحدۃ الوجود سے استدلال میں سُنی ہیں.اوّل: .(ذاریات : ۲۲)… دوسری آیت شریف:  مگر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ جس چیز کے اوّل و آخر وہ ہو.وہ چیز آپ کیا ہوئی؟اور جس چیز کا ظاہر و باطن وہ ہو.وہ خود کیا ہوئی؟ تو عوام مدعیان و حدۃ الوجود ساکت رہ جاتے ہیں.ہاں البتہ وید میں مسئلہ وحدتب وجود کی بنیاد مستحکم رکھی گئی ہے.اس لئے کہ آریہ ورت میں وحدت وجود کے مسئلہ کو ویدانت کہتے ہیں.اور خود یہ لفظ ہی ظاہر کئے دیتا ہے کہ اس کی اصل کہاں سے ہے.اور حصرت مرزا صاحب کے ’’شحنۂ حق اور سُرمہ چشم آریہ‘‘ کے جواب میں ایک میرٹھ کے آریہ صاحب جو چھاؤنی نصیر آباد ضلع اجمیر کی عدالت میں سر رشتہدار ہیں.اپنی کتاب ’’ تنقیہ‘‘ میں فرماتے ہیں.’’ وہی پر آتما اپنی اچھّا سے بہوروپ ہو گیا.یعنی رب سکلوں میں ظاہر ہوا.یہ تیسرے اپنشد کا بچن ہے.‘‘ (انتہٰی تنقیہ نمبر۷) پھر صفحہ نمبر ۸ میں کہا ہے.’’ اس تمام عالم مجسّم کا ظہور نمت کا رن پر کرتی یعنی علت فاعلی پرمیشر سے ہے ‘‘ (انتہٰی) پھر صفحہ نمبر ۲۷ میں لکھا ہے.’’ یہ بھی واضح ہو کہ ویدانتی یعنی آریوں کے فلاسفر پرمیشر کو واحد لاوجود مانتے ہیں یعنی جو کچھ ہے اﷲ ہی اﷲ ہے.ماسوا کچھ نہیں.صفحہ نمبر۳۰میں لکھا ہے.’’ ارجن سرشٹی کا آد ( ابتداء).اور مدّہ (اوسط).اور انت (آخر) مَیں ہوں.ودیاؤں (علم)میں برہم ودیا ( عرفان الہٰی ) چرچا ( تذکرہ) کرنے والوں میں یاد مَیں ہوں‘‘ مدّہ کا لفظ جس کے معنے اوسط کے ہیں.بہت ہی توجہ کے قابل ہے.

Page 58

’’ صرف پرمیشر ہی یہ تمام دنیا ہے.جو کچھ ہو چکا ہے وہی تھا.اور جو کچھ ہو گا وہی ہو گا‘‘ رگ وید بھاگ۲ سکت ۹۰ منتر دوم سُیُن اچارج کہتے ہیں ’’ جو کچھ گزشتہ زمانوں میں تھا.پرمیشور تھا.جو کچھ اب موجود ہے پرمیشر ہے.آدمیوں کے جسم جواب موجود ہیں اور گزشتہ زمانوں میں زندہ تھے.تمام پر میشور ہیں اور تھے.جو کچھ آئندہ زمانوں اور دنیا بھی اس کے ساتھ بڑھتی ہے.مایاؔ کے سبب سب چیزیں مختلف نظر آتی ہیں.لاکن در اصل ہر ایک شئی پرمیسر ہے.برہم کے تین حصّے اس دنیا سے پرے ہیں.اس کا ایک حصّہ تمام دنیا ہے.یہی تمام ہے جو اس کے ایک حصّہ سے بنا ہے منتر ۴‘‘ پھر سنو! تنقیہ دماغ کا مصنّف آریہ کیا کہتا ہے :.’’ بموجب قرآن کے صرف اس قدر توحید ہے.کہ پیدا کرنے والا ایک ہے.دو نہیں ہیں.مگر بمقابلہ خدا کے دوسری موجودات مخلوق کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا.گو اس نے ہی گھڑے پیدا کئے ہوں.مگر اس کے مقابلہ میں اسے علیحدہ موجود ہونا اور تا ابد موجود رہنا،اہل اسلام کے یہاں ثابت ہے.جب اسے علیحدہ دوسری چیز کا موجود ہونا ثابت و ظاہر ہے.تو پھر توحید کہاں؟ یہ تو ڈوئی ہو گئی‘‘ تنقیہ صفحہ ۲۸ اب میں ان دونوں آیات کا مطب سناتا ہوں.مگر بیان سروع کرنے سے قبل مختصر سی تمہید کا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے.جب دو یا کئی چیزیںباہم کسی امر میں شریک ہوتی ہیں اور کسی امر میں مختلف ہوتی ہیں تو ظاہر ہے.کہ امرِ مشترک کے احکام میں ان مشترکہ اشیاء کو اتحاد ہو گا.اور جن جن باتوں میں ان چیزوں کو باہمی اختلاف ہوتا ہے ان باتوں میں جو جو احکام ہوں گے ان میں بھی اختلاف ہو گا.مثلاً حیوانات و نباتات جسمیت اور نمو میں باہم شریک ہیں.مگر حیوانات تحرّک بالارادہ.خورد.نوش وغیرہ اوصاف میں نباتات سے ممتاز ہیں.پس حیونات و نباتات کو جسمیت اور نموکے احکام میں بھی شرکت ہو گی.مگر خورد.نوش.جماع وغیرہ احکام میں حیوانات اور نباتات میں اشتراک نہ ہو گا بلکہ حیوانات کو ان باتوں اور ان کے احکامات میں امتیاز و خصوصیت ہو گی.اسی طرح انسان و حیوان کے درمیان کھانے، جماع کی خواہش میں جس قدر اشتراک ہے اسی قدر کھانے، پینے.جماع کے احکام میں بھی اشتراک ہو گا.مگر انسان، ترقی سطوت، جبروت، نئے علوم و فنون کی تحصیل اور نئے علوم کو اپنے ابنائے جنس کے سکھلا دینے میں حیوان سے ممتاز ہے.ان اشیاء کے احکام میں بھی حیوان سے ممتاز ہو گا.ایسے ہی ہادی، رسولوں اور عامّہ آدمیوں میں گو عام احکامِ بشریت کے لحاظ سے اشتراک ہوتا ہے.رسولوں کا گروہ بخلاف اور آدمیوں کے، الہٰی مُلہمَ، مصلحِ قوم، مویّد من اﷲ ہوتا ہے.اس

Page 59

لئے عام احکامِ بشریت میں اگر چہ عامّہ بشر سے اشتراک رکھتے ہیں.کیکن اپنی خصوصیتِ رسالت.نبوّت.اصلاح قوم کے احکام میں عامہ خلائق سے ضرور جدا ہوتے ہیں.بلاتشبیہ ایک مفتوح ملک کی رعایا کے ساتھ ایک فاتہ اور ہکمران گورنمنٹ کا سپہ سالار یا مجاز حاکم اپنی گورنمنٹ کے حکم سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کو اپنی گورنمنٹ کے احکام سُنا دے.تو اگر اس مفتوح رعایا کے لوگ ان معاہدات اور احکام کی تعمیل نہ کریں.تو ضرور وہ رعایا اس گورنمنٹ کی مجرم.باغی.غدّار.نافرمان ٹھہرے گی.مگر وہی سپہ سالار اور گورنمنٹ کا ماتحت حکمران اس رعایا کو کوئی اپنا ذاتی کام بتا دے.اور اپنے طور پر ان رعایا میں سے کسی سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کا آدمی اس سپہ سالار اور اس حاکم کی بات نہ مانے یا معاہدہ کا خلاف کرے تو یہ شخص جو اس سپہ سالار اور گورنمنٹ کے ماتحت حکمران کے معاہدہ اور حکم کا مخالف ٹھہرا ہے.گورنمنٹ کی بغاوت کا مجرم نہ ہو کیونکہ پہلی قسم میں اس سپہ سالار اور ہاکم کے احکام.فاتح گورنمنٹ کے احکام ہوا کرتے ہیں.اور اس سپہ سالار کی زبان فاتح گورنمنٹ کی زبان.اس کی تحریرفاتح گورنمنٹ کی تحریر ہوا کرتی ہے.غور کرو.ایک قاتل کو مجاز ہاکم کے حکم سے قتل کرنے والے یا پھانسی دینے والے کے ہاتھ اسی گورنمنٹ کے ہاتھ ہوتے ہیں جس کے حکم سے قاتل کو قتل کرنے والے اور پھانسی دینے والے نہ قتل کیا اور پھانسی دیا.در صورت دیگر وہی پھانسی دینے والا کسی اور ایسے آدمی کو جس پر اس گورنمنٹ نے موت کا فتوٰی نہیںدیا.قتل کر کے دیکھ لے.کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے.پس اسی طرہ اﷲ تعالیٰ کے رسولوں کی بھی دو ہالتیں ہیں.اور دو جہتیں ہیں ایک حالت و جہت میں وہ آدمی ہیں بشر ہیں.اور دوسری ہالت ان کی رسالت و نبوت کی ہے.جس کے باعث وہ رسول ہیں.نبی ہیں.الہٰی احکام کے مظہر اور احکام رساں ہیں جس کے باعث ان کو پیغامبر کہتے ہیں پہلی حالت و جہت سے اگر وہ حکم فرما دیں تو اس حکم کا منکر باغی.منکرِ رسول نہ ہو گا.جس کو شرعی اصطلاہ میں کافر.فاسق.فاجر کہتے ہیں اور دوسری حالت و جہت سے اگر کوئی ان کے حکم کو نہ مانے تو صرور ان کے نزدیک اس پر بغاوت.انکار کا جرم قائم ہو گا اور ضرور وہ کافر،فاسق، کہلا وے گا اس جہت سے چونکہ وہ کداوندی اہکام کے مظہر ہیں اور جس سے معاہدہ کرتے ہیں اس سے خدا کے حکم سے معاہدہ کرتے ہیں.اور معاہدہ کنندہ جو معاہدہ ان سے کرتا ہے.وہ اصل میں باری تعالیٰ سے معاہدہ کرتا ہے.پس اگر معاہدہ کنندہ معاہدہ کے خلاف کرے تو باغی و منکر بلکہ کافر ہو گا.نبیٔ عرب محمد بن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رسالت و نبوّت کا دعوٰی کیا اور اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کا رسول بتایا.اب ان کو جن لوگوں نے نبی و رسول مانا اور ان کے احکام کو الہٰی احکام یقین کیا.لامحالہ آپؐ سے ان کا معاہدہ حقیقۃً اﷲ تعالیٰ سے معاہدہ ہو گا.ہاں جو احکام اور مشورے اس عہدہ رسالت کے علاوہ فرماویں ان احکام کی خلاف ورزی

Page 60

میں کفروفسق نہ ہو گا.صحابہ کرام آپؐ کے عہدِ سعادت مہد میں یہ تفرقہ عملاً دکھاتے تھے.بریرہ نام ایک غلام عورت تھی.جب وہ آزاد ہو گئی.وہ اپنے خاوند سے جو ایک غلام تھق بیزار ہو گئی.مگر اس کا شوہر اس پر قدا تھا.اور اس کی علیحدگی کو گوارانہ کرتا تھا.وہ اس پر سخت کبیدہ خاطر ہوا.اور آنجناب کی خدمتِ اقدس میں ہاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی.آپؐنے بریرہ سے اس کے ساتھ مصالحت کرلینے کو ارشاد فرمایا.بریرہ نے جواب دیا.آپ یہ وحی سے فرماتے ہیں یا عہدہ نبوّت سے علاوہ بطور مشورہ کے فرماتے ہیں.آپؐ نے فرمایا میں رسالت کے لحاظ سے یہ حکم نہیں دیتا.اپنی ذاتی رائے سے تجھے کہتا ہوں.اس نے نہ مانا اور کہا مجھے اختیار حاصل ہے.اسی طرح  (کہف:۱۱۱) اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس امر کا بیان ہے کہ میں ایک بسر ہوں بشریت میں تمہاری مثل ہوں.خبردار کبھی شرک نہ کرنا.مجھے خدا نہ کہہ بیٹھنا.نہ میری عبادت کرنا.اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرنا.اور ایسا ہی ان آیات کریمہ میں غور کرنے والا یقین کر سکتا ہے کہ اسلام کہاں تک شرک سے بیزاری ظاہر کرتا ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۳۰ تا ۲۳۵) ۲۲.  .دوڑو اپنے ربّ کی معافی کی طرف اور بہشت کی جس کا پھیلاؤ ہے.جیسے پھیلاؤ آسمان اور زمین کا.رکھی گئی ہے ان کے واسطے جو یقین لائے ا پر اور اس کے رسولوں پر.یہ بڑائی ا ﷲکی ہے.دیوے اس کو جس کو چاہے اور اﷲ کا فضل بڑا ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۱) جنّت کے متعلق عام طور سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے.کہ وہ آسمان پر ہے لیکن  .پر غور کریں تو بالجزم ایسا نہیں کہہ سکتے.کیونکہ

Page 61

جب جنّت کی چوڑائی زمین و آسمان دونوں کو ملا کر پوری ہوتی ہے.تو پھر اس کا صرف آسمان پر ہونا کیونکر اس آیت کے مطابق ہو سکتا ہے.( تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۲۲۶.۲۲۷) ۲۶.  .اختلافات سے گھبرانا بھی مومن کا کام نہیں.اﷲ تعالیٰ نے اختلافات کے رفع کے لئے یہ آیت فرمائی ہے … یعنی اختلاف رفع ہوتے ہیں کتاب سے اور پھر میزان سے، جس میں علم مناظرہ شامل ہے، پھر لوہا بھی فیصلہ کرتا ہے.جو پچھلے زمانہ میں اگر بصورتِ تلوار فیصلہ کن تھا.تو اس زمانہ میں بصورتِ قلم.غرص اسلام نے ہر مشکل کے حل کرنے کے لئے طریق سکھایا ہے.مبارک وہ جو قرآن شریف پر عمل کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۱۳۸) ۲۸.   

Page 62

 .: اور ایک دنیا چھوڑنا انہوں نے نیا نکالا.ہم نے نہیں لکھا تھا یہ ان پر.فرقے یہود کے خلوث تشین اور جَتی سَتی جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خدا داد انعامات سے محروم تھے.اس بے جا تشدّد کو  فرما کر مٹا دیا اور قدرتی انعامات سے متمتّع ہونے کے لئے الآیۃ  (مومنون:۵۲) اے لوگو.کھاؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا.اور (اعراف: ۳۳) (تو کہہ کس نے منع کیا ہے رونق اﷲ کی جو پیدا کی اس نے اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی ) کا فرمانِ راحت عنوان جاری فرمایا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۰۴)

Page 63

سُوْرَۃُ الْمُجَادَلَۃِ مَدَنِیَّۃٌ  ۴. .اس میں عرب کی ایک رسم کا ابطال فرمایا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) جو لوگ اپنی بیبیوں کو ماں کہہ بیٹھے.اور انہیں الگ کرنا چاہتے ہیں.پھر اس بات پر نادم ہوئے ان پر لازم ہے.کہ بی بی کے پاس جانے سے پہلے غلام آزاد کریں وغیرہ وغیرہ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۳) ۶. .جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول کے مخالف ہوتے ہیں.ردّ کئے جائیں گے.جیسے کہ پہلے ردّ ہوئے.اور ہم کُھلے کُھلے نسان اتار چکے ہیں.ان کے منکروں کے لئے اہانت کا عذاب ہے.گویا ایک سبب ذلّت کا اﷲ اور اس کے فرستادہ کی ( خواہ وہ کسی زمانہ میں ہو ) مخالفت ہے اور خدا کے کُھلے کُھلے نشانوں کا انکار.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۳۹۳)

Page 64

۹ تا ۱۱.   . .  .تارک اسلام آریہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا.’’ عیسائیوں سے زیادہ تم طاقتور نہیں ہو سکتے.وہ بھی اسلام کے معدوم کرنے میں ناکام ہیں.جن تدابیر پر تم چلا رہے ہو اور تمہارے چھوٹے بڑے دھرماتما پارٹی اور گریجوایٹ.حج.وکیل وغیرہ جس راہ سے اسلام پر حملہ آور ہیں.یہ راہ کامیابی کی نہیں.تم سے پہلے مدینہ کے یہود نے اسی راہ کو اختیار کیا تھا اور ان کی مخفی کمیٹیاں استیصالِ اسلام کے لئے جان توڑ کر کوشش کر رہی تھیں.جن کا ذکر اﷲتعالیٰ کی پاک کتاب میں یوں آیا ہے..

Page 65

ترجمہ: کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کی طرف کہ منع کئے گئے مخفی کانا پھوسی سے پھر باز نہیں آتے.اور کمیٹیاں کئے جاتے ہیں اور فرمایا. یہ کانا پھُوسی اور مشورہ اﷲ سے دور ہلاک ہونے والی خبیث روہ شیطان سے ہے.کہ غم میں ڈالے مومنوں کو اور یہ لوگ کچھ بھی مومنوں کو ضرر نہیں دے سکیں گے.پہلے سپارے میں بھی ایسی مخفی مجالس کا ذکر ہے.مگر دیکھ لو وہ تمامف ممبران اور گرینڈ ۱؎ ماسٹر خائب و خاسر ہو گئے.آخر اﷲ تعالیٰ سمیع بصیر علیم و خبیر ہے.اپنی مخلوق (کے)حرکت و سکون جانتا ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۲۵۱) ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا: انہوں نے بات کی اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں.۱؎ GRAND MASTEFR ۲.ایک دفعہ نہیں بلکہ پھر کہہ دیتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) انسان کے دُکھوں میں اَور خیالات ہوتے ہیں.سُکھوں میں اَور.اور کامیاب ہو تو اَور طریق ہوتا ہے ناکام ہو تو اور طرز.طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرمِ راز بانتے ہیں اور جس کے بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں.ا ﷲ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا.. .ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصوبہ کرتے ہو انجمنیں بناتے ہو مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ ت گناہ.سرکشی اور رسول کی فرماں برداری کے بارے میں نہ ہو.بلکہ نیکی اور تقوٰی کا مشورہ ہو.بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے.مگر خدا نے رحم کیا اور موسٰی علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی.یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے.اور وہ اپنے تئیںنَحْنُ اَبْنَآئُ اﷲِ وَ اَحِبَّآئُ ہٗ سمجھنے لگے.لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی.ان میں بہت ہی حرامکاری شرک اور بدذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اﷲ تعالیٰ نے ان پر مسلّط کر دیا.(بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳)

Page 66

۱۲.  .اﷲ ایمان داروں اور پاک علوم کے عالموں کو ہی درجات پر پہنچاتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۸) ۱۳. .: یہ حکم منسوخ نہیں ہوا.فرض نہ تھا.کیونکہ فرمایا.فَاِذْلَمْ تَفْعَلُوْا کے ساتھ وَ تَابَ اﷲُ عَلَیْکُمْ فرمایا.یعنی پہلے ہی اﷲ رجوع برحمت کر چکا ہے.کہ یہ حکم واجب نہ ٹھہرایا بلکہ مستحب ہے.چنانچہ اب بھی صلحاء امت حدیث پوچھنے سے پہلے صدقہ کر لیتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) ۲۰. .

Page 67

نبی کریمؐ اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرام تمام مخالفوں کے سامنے مظفر منصور بامراد رہے.اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات نہ ہوتی تو اس کے خلاف ہوتا اور یہ بات مجنون کی بَڑ بن جاتی.مخالفوں کے حق میں فرمایا یہ مخالف شیطانی گروہ ہے.خبردار رہو.بے ریب شیطانی گروہ ناکام رہے گا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۲۳۹) ۲۳.    .: یہی لوگ خدا کی جماعت ہیں.اور یاد رکھو خدا کی جماعت مظفر و منصور ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۹۸)

Page 68

سُوْرَۃ الْحَشْرِمَدَنِیَّۃٌ  اس سورۃ نے سنّی و شیعہ کے جھگڑے دربارہ فِدک کا فیصلہ کر دیا.کہ یہ وراثت میں آہی نہیں سکتا.یہ مال فَئے سے ہے.جس کے مصارف بتادئے.مدینہ کے یہود نے بہت شرارتیں کیں.کئی قتل کر دئے.نبی کریمؐ کو اپنے محلہ میں بلا کر اوپر سے پتھر گرانے کی تجویز کی.حضور نے ان کو خیبر میں جلاوطن کر دیا.( اوّل الحشر) پھر حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں وہاں سے بھی نکالے گئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) ۲،۳. .   .تورات میں بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ سچّے نبی سے ڈریں.لیکن ان لوگوں نے کفّارِ مکّہ کی طرح نبی برحق کی مخالفت کی.وعیدِ الہٰی سے نڈر ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی نضیر (بنی اسرائیل) ویران اور تباہ ہو کر مدینے سے نکل گئے.(فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۳۳)

Page 69

بُت پرست قومیں اسلام کے مقابلہ سے ہار کر بُت پرستی کے دعوے سے باز آ رہی ہیں اور بالکل اس مسئلہ میں صلح جُو ہو رہی ہیں.کیونکہ انڈیا میں کچھ برہمو ہو گئے ہیں اور کچھ آریہ سماج.ادھر یورپ و امریکہ میں یونی ٹیرین فری تھنکروں کا سمندر موج مار رہا ہے.اور کیا خوب ہوا.حضرت مسیحؑ کی خدائی نیست و نابود ہو رہی ہے..مخلوق اسلام کے مقدّس مذہب میں آ رہی ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۴۴.۱۴۵) وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانہ میں لوگ خوف کھاتے تھے آج خود عیسائی قومیں اس مذہب کے عقائد سے متنفّر ہو کر اس برخلاف کوشش میں ایسے سرگرم ہیں کہ  کے مصداق بن رہے ہیں اور شرک کے ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصولوں کی طرف اپنا رُخ کر رہے ہیں جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.یہ سب واقعات قرآن شریف کی اس پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں.کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے.اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.(بدر ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) ۱۱. .ٔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپؐ کے دین کے سچًّ خادموں جو صحابہ، اولیاء، اصفیاء، اتقیاء ابدال کے رنگ میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے.ان کے واسطے بھی بوجہ ان کے حُسنِ خدمات کے جن کی وجہ سے انہوں نے بعد رسول اکرمؐ ہم پربہت بھاری احسانات اور انعامات کئے.ان کے واسطے بھی دعا کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی مخالفت کرے گا.اور اس کو نظرِ عزّت سے نہ دیکھے گا.ان کے احکام اور فیصلوں کی پرواہ نہ کرے گا.تو وہ فاسق ہو گا.بلکہ وہاں تک جہاں تک تعظیم الہٰی اور تعظیمِ کتاب اﷲ اور تعظیمِ رسول اﷲ اجازت دیتی ہو.اس گروہ کا ادب و عزّت کرنی اور اس

Page 70

خیلِ پاک کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم قرآنِ شریف سے ثابت ہے.چنانچہ آیتِ ذیل میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ  .غرض اپنے پہلے بزرگوں اور کادمانِ اسلام و شریعتِ محمدیہؐ کے واسطے دعائیں کرنا اور ان کی طرف سے کوئی بُغض و کینہ.غِلّ و غشِ دل میں نہ رکھنا.یہ بھی ایمان اور ایمان کی سلامتی کا ایک نشان ہے.پس انسان کو مرنج و مرنجان ہونا چاہیئے.اور خدا کی باریک درباریک حکمتوں اور قدرتوں پر ایمان لانا چاہیئے.اور کسی سے بغض و کینہ دل میں نہ رکھنا چاہیئے.خدا کی شانِ ستّاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا چاہیئے.(الحکم ۶؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۱۹. .تقوٰی اﷲ اختیار کرو.اور ہر ایک جی کو جاہیئے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کیلئے کیا کیا.جو کام ہم کرتے ہیں.ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں.اس لئے جو کام اﷲ کے لئے نہ ہو گا.تو وہ سخت نقصان کا باعث ہو گا.کیکن جو اﷲ کے لئے ہے.تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمز ثمراتِ حسنہ بنا دیتا ہے.(الحکم ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۳) اے ایمان والو! اﷲ کا تقوٰی اکتیار کرو اور ہر نفس کو چاہیئے کو دیکھتا رہے کہ کل کے لئے اس نے کیا کیا اور تقوٰی اپنا شعار بنائے.اور اﷲ جو کچھ تم کرتے ہو.اس سے خوب آگاہ ہے.غرض دنیا و عقبٰی میں جس کامیابی کا ایک گُر بتایا کہ انسان کل کی فکر آج کرے.اور اپنے ہر قول و فعل میں یہ یاد رکھے کہ خدا تعالیٰ میرے کاموں سے خبردار ہے.یہی تقوٰی کی جڑھ ہے.اور یہی ہر کامیابی کی رُوحِ رواں ہے.برخلاف اس کے انجیل کی یہ تعلیم ہے جو ( متی) باب ۶ آیت ۳۳ میں مذکور ہے بایں الفاظ کہ

Page 71

’’ کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرے گا آج کا دُکھ آج کے لئے کافی ہے‘‘.اگر ان دونوں تعلیموں پر غور کریں تو صرف اسی ایک مسئلہ سے اسلام و عیسائیت کی صداقت کا فیصلہ ہو سکتا ہے.ایک نیک دل پارسا طالبِ نجات، طالبِ حق خوب سمجھ لیتا ہے.کہ عملی زندگی کے اعتبار سے کون سا مذہب احق بالقبول ہے.اگر انجیل کی اس آیت پر ہم کیا، خود انجیل کے ماننے والے عیسائی بھی عمل کریں تو دنیا کی تمام ترقیاں رُک جائیں اور تمام کاروبار بند ہو جائیں.نہ تو بجٹ بنیں.نہ ان کے مطابق عمل درامد ہو.نہ ریل گاڑیوں اور جہازوں کے پروگرام پہلے شائع ہوں.نہ کسی تجارتی کارخانے کو اشتہار دینے کا موقعہ ملے.نہ کسی گھر میں کھانے کی کوئی چیز پائی جائے.اور نہ غالباً بازاروں سے مل سکے.کیونکہ کل کی تو فکر ہی نہیں.بلکہ فکر کرنا گناہ ہے.برخلاف اس کے قرآن مجید کی تعلیم کیا پاک اورعملی زندگی میںکام آنیوالی ہے.اور لطف یہ ہے کہ عیسائیوں کا اپنا عمل در آمد بھی اسی آیت پر ہے.ورنہ آج ہی سے سب کاروبار بند ہو اجائیں.اور کوئی نظامِ سلطنت قائم نہ رہے.قرآن پاک کی تعلیم وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍپر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دُنیا میں کامران ہوتا ہے بلکہ عقبیٰ میں بھی خدا کے فضل سے سرخرو ہو گا.ہم کبھی آخرت کے لئے سرمایۂ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دارالقرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ ۲۲۷،۲۲۸) چاہیئے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے.انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے.جو ہر وقت مبدّل ہے.کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے.جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے.اور اس کے ذرّات جُدا ہوتے جاتے ہیں.اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں.اور اس حفاظت کے واسطے سامان مہیّا کئے جاتے ہیں.تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہیئے جس کے ذمّہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے.اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے.کاش کہ اتنا فکر اس کے نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے والا ہے.: اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے.اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرتِ انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے.اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے.(بدر ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) مومن کو چاہیئے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے.گالی نکالتا ہے.مگر سوچے کہ اس کا انجام کیا ہو گا.اس اصل کو مدّنظر رکھے تو تقوٰی کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی.نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو.اس لئے اس بات پر ایمان رکھے

Page 72

کہ جو کام تم کرتے ہو.اﷲ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.انسان اگر یہ یقین کرے کہ کوئی خبیر و علیم بادشاہ ہے.جو ہر قسم کی بدکاری،دغا، فریب، سُستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے.ار اس کا بدلہ دے گا.تو وہ بچ سکتا ہے.ایسا ایمان پیدا کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری.ہرقہ.مزدوری وغیرہ میں سُستی کرتے ہیں.ایسا کرنے سے رزقِ حلال نہیں رہتا.اﷲ تعالیٰ سب کو تقوٰی کی توفیق دے.(الحکم ۲۱،۲۸؍مئی ۱۹۱۱ء صفحہ۲۶) ۲۰..ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کی نسبت فرمایا..یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدّوس خا کو چھوڑ دیا اور اپنی شرارتوں.چالاکیوں.ناعاقبت اندیشیوں غرض قسم قسم کی حیلہ سازیوں اور رُوْباہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں.مشکلات انسان پر آتی ہیں.بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں.کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے.دوست بھی ہوتے ہیں.دشمن بھی ہوتے ہیں.مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے.کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو.دوست پر بھروسہ ہو.ممکن ہے وہ درست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اُٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے.حاکم پر بھروسہ ہو تو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور اُن احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کر وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے.اﷲ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس قدر دُور ڈال دے کہ وہ کام نہ آ سکیں.پس ہرآن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہیئے.جو زندگی.موت.کسی حالت میں ہم سے جدا نہیں ہو سکتا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خدا سے قطع تعلق کر لیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دُکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے.اور سکھ نہ پاؤ گے.بلکہ ہر طرف سے ذلّت کی مار ہو گی.اور ممکن ہے کہ وہ ذلّت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے.ایسے لوگ جو خدا سے قطع تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق.فاجر ہوتے ہیں!.اُن میں سچّا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا! یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچّے ہیں.نہیں ان میں شفقت علیٰ خلق اﷲ بھی نہیں ہوتی! (الحکم ۱۰؍فروری ۱۸۹۹ء صفحہ۸.۹)

Page 73

۲۳..وہ ذات پاک جس کا نام ہے اﷲ.تمام صفات کاملہ سے موصوف.تمام برائیوں سے پاک.وہی جس کے سوا کوئی بھی پرستش و فرمانبرداری کے لائق نہیں.اپنی ذات کو جو تمام غیبوں کا غیب ہے.آپ ہی جانتا ہے تمام ان اشیاء کو جو موجود ہو کر فنا ہو گئیں یا اب تک ابھی پیدا ہی نہیں ہوئیں صرف اس کے علم میں ہی ہیں اور تمام موجودات کو جانتا ہے.وہ رحمان بُروں بھُلوں سب کا روزی رساں.بن مانگے فضل کرنیوالا.وہ رحیم جو پہلوں کو اپنے فضل و رحم سے بخشے اور کسی کے سوال و محنت کو ضائع نہ کرے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۴) ۲۴. .اسلام کا اصلی سر چشمہ اور اس کا حقیقی منبع اﷲتعالیٰ کی ذات پاک ہے جس کا نام السَّلَام ہے.قرآن کریم میں اس مبارک نام کا مبارک ذکر اس کلمہ طیّبہ میں آیا ہے. یعنی وہی اﷲ ہے.کوئی معبود اور کاملہ صفات سے موصوف اس کے سوا نہیں.وہ حقیقی بادشاہ ہر ایک نقص سے منزّہ بے عیب و سلامت ہے.اور اسلام کا ہقیقی ثمرہ دارالسّلام ہے.جس کا آسمان و زمین اور درو دیوار اور اس کے تمام یار و غمگسار طیّب ہوں گے.اور ان کے میل جول میں سلامتی وسلام ہی ہو گا.جیسے فرمایا.(یونس:۱۱) (نور الدّین طبع سوم صفحہ۱،۲) قرآن مجید نے بھی اﷲ تعالیٰ کو اَلْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ فرما کر اہلِ اسلام کو یقین دلایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر ایک الزام سے پاک ہے.مگر دیانندی آریہ کہتے ہیں.خدا ارواہ کا خالق نہیں.اگر رزق دیتا ہے تو یہ صرف ارواح کے اعمال کی مزدوری ہے اور وہ ابایں کہ ارواح کا خالق نہیں.مگر ان کے پیچھے ایسا پڑا ہے کہ اس کی دست بُرو سے انہیں کبھی ابدی نجات نہ ہو گی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۵۹.۱۶۰)

Page 74

وہی اﷲ جس کے سوا کوئی دوسرا پرستش و فرماں برداری کے لائق نہیں.اَلْمَلِکُ پورا مالک اشیاء کی خلق و بقاء پر.اَلْقُدُّوْسُ.تمام ان اسباب عیوب سے پاک جن کو حس دریافت کر سکے.یا خیال تصوّر کرے یا وہم اس طرف جس سکے.یا قلبی قوٰی سمجھ سکیں.اَلسَّلَامُ تمام عیوب سے مبرّا.سلامتی کا دینے والا.الْمُؤْمِنُ.امن کا بخشنے والا.اپنے کمالات و توحید پر دلائل قائم کرنے والا.اَلْمُھَیْمِنُ.سب کے اعمال کا واقف سب کا محافظ.اَلْعَزِیْرُّ.بے نظیر.سب پر غالب.ذرّہ ذرّہ پر متصرف.اَلْجَبَّارُ.سنوارنے والا ہمارے بگاڑوں پر اصلاح کے سامان پیدا کرنے والا.اصلاح کی توفیق دینے والا.اَلْتَکَبِّرُ.تمام مخلوقی عیوب اور مخلوق کے اوصاف سے مبرّا.تمام چھوٹوں بڑوں آسمانی اور زمینی شریک اور ساجھی سے اس کی ذات بلند.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۴،۲۵۵) ۲۵. .: وہ خود بخود موجود جس کا نام ہے..ہر ایک چیز کا کامل حکمت کے ساتھ اندازہ کرنے والا..ہر ایک چیز کو اس کے اندازہ کے مطابق بے نقص و تفاوت طاہر کرنیوالا.… اسی اندازہ اور عمدگی سے صورتوں اور شکلوں کا عطا کرنے والا.اسی کے ایسے نام ہیں کہ تمام خوبیوں پر شامل ہوں.اسی کی تسبیحیں کرتی اور اسی کی پاک اور کامل ترین ہستی کو تمام وہ چیزیں جو آسمان و زمین میں ہیں ثابت کرتی ہیں.وہ غالب جس کے تمام کام حکمتوں پر مبنی ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۵) :ا ﷲ تعالیٰ ہے اندازہ کرنے والا رخلق کے معنے لُغتِ عرب میں تقدیر کے بھی آئے ہیں.اسی واسطے(بقرہ :۳۰) بلفظ ماضی میں صحیح ہے) وجود بخشنے والا اور رنگ برنگ صورتیں عطا کرنے والا.تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف تمام نقصوں سے منّہ.نیست سے ہست کرنے والا.کیونکہ یہ ایک کمال ہے اور خدا کو سب کمالات حاصل ہیں خدا کو انسان اپنے پر قیاس نہ کرے.کیونکہ انوپیم لَیْسَ کَمِثْلِہٖہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ دیباچہ) خ خ خ

Page 75

سُوْرَۃُ الْمُمْتَحِنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲.    .:اور جو کوئی یہ کام کرے تم میں سے وہ بھُولا سیدھی راہ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۶) ۸. .خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ کچھ عجیب نہیں کہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہیں

Page 76

عداوت ہے.ایک وقت دوستی پیدا کردے اور ا اس بات پر قادر ہے.اس کے متعلق کلامِ نبوّت میں نہایت عمدہ نصیحت فرمائی.اَحْبِبْ حَبِیْبِکَ ھَوْنًامَّا عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ بَغِیْضِکَ یَوْمًا مَّّا وَ اَبْغِضْ بَغِیْضِکَ یَوْمًا مَّا وَاَوبْغِضْ بَغِیْضِک ھَوْنًا مَّا عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ حَبِیْبِکَ یَوْمًامَّا.کسی سے دوستی کرو تو اس قدر نہ بڑھ جاؤ اور یہاں تک اسے اپنا راز دار نہ بنا لو کہ اگر وہ تمہارا دشمن ہو جائے تو تمہیں نقصان پہنچا سکے اور اگر کسی سے دشمنی کرو تو اس قدر نہ بڑھو کہ اگر وہ تمہارا دوست بن جائے تو پھر تمہیں اپنی باتوں پر شرمسار ہونا پڑے.کیا پاک تعلیم ہے.دنیا میں ہزاروں مثالیں ایسی موجود ہیں.بظاہر موجودہ صورتِ ہالات نے یہی فتوٰی دیا ہے کہ اب ان شخصوں میں کبھی اتحاد نہیں ہو سکتا.مگر پھر کچھ ایسے واقعات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے.ایک دوسرے کے جاں نثار بنگ گئے.اس وقت ناکردنی و ناگفتنی سلوکوں کی یاد کیا تکلیف پہنچاتی ہے.پس انسان کو چاہیئے کہ پہلے ہی معتدلانہ روش اختیار کرے تاکہ بعد میں شرم یا ندامت پیش نہ آئے.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ۲۲۸) ۹.  .جو لوگ تم سے مذہبی عداوت پر نہیں لڑتے.اور نہ انہوں نے تم کو جلاوطن کیا.اُن سے سلوک اور انصاف کے برتاؤ سے اﷲتعالیٰ کبھی منع نہیں کرتا.بلکہ ایسے منصف تو اﷲ تعالیٰ کو محبوب و پیارے ہیں.اﷲ تعالیٰ تو ان لوگوں کی محبت و دوستی سے تم کو منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے مذہبی جنگ کی اور اسلام کے باعث تم سے لڑے اور تم کو جلاوطن کیا.اور تمہاری جلاوطنی میں تمہارے دشمنوں کے مدگار ہوئے.اور جو ایسے دشمنوں سے پیار کریں وہی ظالم ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۶) تارک اسلام آریہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ قرآن کہتا ہے ’’ مشرک ار کافر ناپاک ہیں ان سے دوستی مت لگاؤ‘‘ فرمایا’’ منوادھیا نمبر۲ شلوک نمبر۱۳.جو شخص وید کے احکام کو بذریعہ علم منطق سمجھ کر وید شاستر کی توہین کرتا ہے.وہ ناستک یعنی کافر ہے.اس کو سادہ لوگ اپنی منڈلی سے باہر کر دیں.کافر کا لفظ بعینہٖ مطبوع نول کشور میں ہے پھر ستیارتھ پرکاش سملاس نمبر۱۰ صفحہ ۳۵۲ فقرہ نمبر۶ میں ہے.کبھی

Page 77

ناستک.شہوت پرست.دغاباز.دروغ گو.خود غرض.فریبی.حیلہ باز وغیرہ بُرے آدمیوں کی صُحبت نہ کرے.آپت (اہل کمال) یعنی جو سچ بولنے والا دھرماتما اور دوسروں کی بہبودی جن کو عزیز ہے.ہمیشہ ان کی صحبت کرنے کا نام سریشٹ آچار ( پاکیزہ چلن) ہے.ستیارتھ سملاس صفحہ ۶ ستیارتھ صفحہ ۲۱۱ فقرہ ۵۳.منو ۷.۱۹۵،۱۹۶.دشمن کو چاروں طرف محاصرہ کر کے رکھے اور اس کے ملک کو تکلیف پہنچا کر چارہ.خوراک.پانی اور ہیزم کو تلف و خراب کر دیوے.دشمن کے تالاب شہر کی فصیل اور کھائی کو توڑ پھوڑ دیوے.رات کے وقت ان کو خوف دیوے اور فتح پانے کی تجاویز کرے او نادان.کیا ناپاک اور بے ایمان اور منکر سے پاک اور ایماندار اور حق کے ماننے والے دِلی تعلق پیدا کر سکتے ہیں.چیت رامیوں.اگھوریوں.ناستکوں سے اب تجھے تعلق ہو سکتا ہے اور کیا سعید و شقی.بُرے بھلے دیواسرین سنگرام ( جنگ) چاہیئے.یا باہم پریم.اے سچائی سے دانستہ دشمنی کرنیوالے.فلاح سے کوسوں بھاگنے والے کبھی تو غور سے کام لے.کیا یہ تیرے اعتراض کچھ بھی راستی اپنے اندر رکھتے ہیں.اور اظہارِ حق کے لئے ایک اور آیت جو تمہارے اعتراض کی بیخ کنی کر دے.تجھ کو سناتا ہوں.  .  .( نورالدّین طبع سوم صفحہ ۲۱۲.۲۱۳) .احسان کرو تم ان سے اور انصاف کرو طرف ان کے تحقیق اﷲ دوست رکھتا ہے انصاف کرنے والوں کو.یہ آیت کسی بے قابو مجذوب کا قول نہیں ہے نہ کسی فلسفی کا خام خیال ہے.بلکہ یہ اس شخص کافرمودہ ہے جو ایسی سلطنت کا بادشاہ تھا.جو اتنی قدرت رکھتی تھی.اور جس کا انتظام ایسا عمدہ تھا کہ جیسے اصول کو چاہتی نافذ کرسکتی تھی.اور فرقوں اور اشخاص نے دین میں بھی اور سیاست مُدن میں بھی مذہبی آزادی بخشنے کی ترغیب دی ہے مگر اس کے عمل در آمد کی تاکید صرف اس وقت تک کی ہے.جب تک وہ خود بے قابو اور کمزور رہے ہیں.لیکن شارع اسلام نے مذہبی آزادی کی ترغیب ہی نہیں دی بلکہ اُ کو احکامِ شریعت میں داخل کر دیا ہے رسولؐ اﷲ نے بنی حارث اور بنی نجران کے بڑے اسقف اور اساقفہ کو اور اُن کے مریدوں اور راہبوں کو

Page 78

مضمون لکھا.کہ ہر چیز قلیل و کثیر جس حیثیت سے اب تمہارے کنائس اور خانقاہوں میں ہے.اُسی حیثیت سے وہ تمہارے پاس باقی رہے گی.اور تم اُسے اسی طرح کام میں لاؤ.جس طرح اب لاتے ہو.خود خداوندِ عالم اور اس کا رسول عہد کرتا ہے.کہ کوئی اسْقُفِ اعظم اپنی عملداری سے اور کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی اُسْقُفْ اپنے عہدے سے برخاست نہیں کیا جاوے گا.اور ان کی حکومت اور حقوق میں کچھ تغیّر و تبدّل نہ کیا جائے گا.اور نہ اُس بات میں کچھ تغیّر کیا جاوے گا.جو اُن میں مرسوم و مروّج ہو اور جب تک وہ صلح و تدیّن کو اپنا شعار رکھیں گے.اُن پر کسی قسم کا جَور نہ کیا جاوے گا.نہ وہ کسی پر جَور و ظلم کرنے پائیں گے.جس زمانہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے.اُس زمانہ میں مختلف قوموں کے باہمی فرائص کو کوئی جانتا بھی نہ تھا، کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے کیا سلوک کرنا چاہیئے.جب مختلف قومیں یا قبیلے باہم لڑتے بھِڑتے تھے.تو نتیجہ یہ ہوتا تھا، کہ ضعیف آدمی تہ تیغ بے دریغ کئے جاتے اور بے گناہ لونڈی غلام بنائے جاتے اور قوم فاتح قوم مفتوح کے معبودوں یعنی بُتوں کو لُوٹ لے جاتی تھی.تیرہ سو برس کے عرصے میں رومیںو نے ایک ایسا سلسلۂ قوانین اختراع کیا تھا.جو وسیع بھی تھا اور مضامینِ عالیہ سے غلوّ بھی تھا.مگر اُس اخلاق اور اُس انسانیت و مروّت کو جو ایک قوم کو دوسری قوم سے کرنی جاہیئے.رومی خاک بھی نہیں سمجھتے تھے.وہ فقط اس غرض سے لڑایاں لڑتے تھے.کہ گردو نواح کی قوموں کو مغلوب و مقہور کریں.اُن کے نزدیک عہد و پیمان کا نقص کردینا کچھ بڑی بات نہ تھی بلکہ مصالح وقت پر مبنی تھی.دینِ مسیحی کے جاری ہونے سے بھی اُن خیالات میں کچھ تغیّر و تبدّل نہ ہوا.عیسائیوں کے زمانہ میں بھی لڑائی میں وہی بے رحمیاں اور وہی قتل اور لوٹ مار ہوتی تھی.جو رومیوں کے عہد میں ہوتی تھی.اور فاتحین مفتوحین کو بلاتکلّف لونڈی غلام بنا ڈالتے تھے اور عہد و پیمان کر کے پھر توڑ ڈالنا بے ایمان سردرانِ فوج کی رائے پر موقوف تھا.الغرض دینِ مسیحی نے قومی اخلاق کا کچھ تصفیہ نہ کیا اس زمانہ کے محقیقین مسیحی نے اس قومی اخلاق کے فقدان کو اپنے دین میں ایک نقصِ عظیم نہیں قرار دیا ہے.حالانکہ یہ نقص اس وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ ان کا دین ناقص اور ناتمام چھوڑ دیا گیا تھا.مذہب پروٹسٹنٹ نے جب فروغ پایا تب بھی علمائے مسیحی کی مذہبی تعدّی میں کچھ فرق نہ آیا.ہالمؔ صاحب اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ’’ اس مہذّب دین ( پروٹسٹنٹ) کے مختلف شعبوں اور فرقوں سے اعظم معاصی، یہ معصیت سرزد ہوئی کہ بندگانِ خدا پر دین میں جبرو اکراہ کرتے ہیں.اور یہ گناہ ایسا ہے کہ ہر ایک

Page 79

ایماندار آدمی جتنی زیادہ کتب کی سیر کرتا ہے.اتنی ہی اس کو ان سے کدورت اور نفرت ہوتی جاتی ہے.‘‘ الغرض عیسائیوں کے جدید فرقوں میں ہاہم یا کلیسائے روم سے اعتقادتِ مذہبی میں کیسا ہی اختلافِ غظیم ہو.مگر اس باب خاص میں وہ سب متفق الرائے ہیں کہ جو قومیں دینِ مسیحی کے دائرہ سے باہر ہیں.اُن سے کوئی سلسلہ مواجب و حقوقِ مشترکہ کا قائم رکھنا یا کسی قسم کا فرص اُن کی نسبت بجا لانا حرام مطلق ہے برخلاف دینِ مسیحی کے یہ بات اسلام کی طینت میں داخل نہیں کہ اور اہل مذاہب سے کنارہ کشی اختیار کرے.اس زمانۂ جاہلیت میں جبکہ نصف دنیا پر اخلاقی اور تمدّنی تاریکی چھائی ہوئی تھی.آنحضرتؐ نے وہ اصول تمام بنی آدم کی مساوات کے تعلیم فرمائے.جن کی قدر اور مذہبوں میں بہت کم کی جاتی تھی.چنانچہ وہ لائق مؤرخ ( ہالمؔصاحب )جس کا قول ہم نے پہلے نقل کیا ہے.لکھتا ہے کہ ’’ دین اسلام بندگانِ خدا پر عرض کیا گیا مگر کبھی ان سے جبرًا نہیں قبول کرایا گیا.اور جس شخص نے اس دین کو بطیبِ خاطر قبول کیا.اس کو وہی حقوق بخشے گئے.جو قوم فاتح کے تھے.اور اس دین نے مغلوب قوموں کو ان شرائط سے بری کر دیا.جو ابتدائے خلقتِ عالم سے پیغمبر اسلام کے زمانہ تک ہر ایک فاتح نے مفتوحین پر قائم کئے تھے.‘‘ ہم اس امر کا قطعی انکار کرتے ہیں.کہ اسلام نے کبھی لوگوں کو زبردستی مسلمان کرنا چاہا ہو.بلکہ اسلام نے فقط اپنی ذات کی حفاظت کے لئے تلوار پکڑی اور اسی غرض سے شمشیر بکف رہا.( فصل الخطاب حصّہ اوّل ( ایڈیشن دوم) صفحہ ۸۴.۸۶) ۱۳.   .ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے.کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے

Page 80

اس میں اطاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم صلی ا علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے.…………… اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمدؐ رسول اﷲ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ایک سِرّہے.(بدر ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۱)

Page 81

سُوْرَۃُ الصَّفِّ مَدَنِیَّۃٌ  ۷.   .اور جب کہا عیسٰی مریم کے بیٹے نے.اے بنی اسرائیل میں بھیجا آیا ہوں اﷲ کا تمہاری طرف سچّا کرتا اس کو جو مجھ سے آگے ہے تورات اور خوش خبری سمناتا ایک رسول کی جو آوے گا مجھ سے پیچھے.اس کا نام احمد.اس بشارت کو یوحنا نے اپنی انجیل میں لکھا ہے.دیکھو یوحنا ۱۴ باب ۱۵.۱۷.میرے کلموں پر عمل کرو.میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلّی دینے والا بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے.قرآن نے کہا ہے.مسیحؑ نے احمدؑ کی بسارت دی اور یہ بشارت نبیؐ عرب نے عیسائیوں کے سامنے پڑھکر سنائی اور کسی کو انکار کرنے کا موقعہ نہ ملا.زمانہ دراز کے بعد جب قرآنی محاورات سے بے خبری پھیلی.پادریوں نے کہہ دیا.یہ بشارت انجیل میں نہیں.پیشتر زمانے میں اناجیل کے باب اور درس نہ تھے.وَاِلَّا پرانے اہلِ اسلام نشان دیتے.فارقلیط اور پرکلٹیاس یا پرکلٹیوس پر بڑی بحثیں ہوئی ہیں.مَیں کہتا ہوں یوحنا ۱۴ باب ۱۵ میں ہے.دوسرا تسلّی دینے والا.اور عرب کی کتب لغت میں حمد کے مادے میں دیکھ جاؤ.اَلْعَوْدم اَحْمَدُ.دوسرے آنے والے کو احمد کہتے ہیں.اور یہ بات بطور مثل عرب میں مشہور و معروف تھی.یہ بشارت قرآنیہ یوحنا ۱۴ باب ۱۵ کے بالکل مطابق ہے.کیونکہ یوحنا ۱۶ باب ۱۲.’’ میری اَور بھی بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر اب تم اس کی برداشت نہیں کر سکتے.لاکن جب وہ رُوحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتا دے گی.اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی.لاکن جو

Page 82

کچھ وہ سنے گی سوکہے گی.اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.اور وہ میری بزرگی کرے گی.اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی.اور تمہیں دکھلائے گی.سب چیزیں جو باپ کی ہیں.میری ہیں.اس لئے میں نے کہا کہ وہ میرے چیزوں سے لے گی اور تمہیں دکھاوے گی.یوحنا ۱۶ باب ۱۲.لاکن فارقلیط روہ القدس وہ جسے مَیںباپ کی طرف سے بھیجوں گا.روحِ حق جو باپ سے نکلتی ہے تو وہ میرے لئے گواہی دے گی اور تم بھی گواہی دو گے.کیونکہ تم شروع سے میرے ساتھ ہو.میں نے تمہیں یہ باتیں کہیں کہ تم ٹھوکر نہ کھاؤ(یوحنّا ۱۵ باب ۲۶،۱۶ باب ۱.اس بشارت پر غور کرو.صاف صاف نبیٔ ؐ عرب کے حق میں ہے.روح القدس اور روح الحق ہی قرآن لائے.دیکھو (نحل:۱۰۳) (مومن:۱۶) بلکہ قرآن نے بڑے زور، ہاں نہایت بڑے زور سے کہا ہے.آنحضرت صلی ا علیہ وسلم مظہرِاتم اور حق ہیں.غور کرو.۱.(بنی اسرائیل:۸۲) ۲.(فتح: ۱۱) ۳.(انفال:۱۸) عیسائی خوش اعتقاد جسیے الوہیت مسیحؑ اور کفّارے پر یقین کر بیٹھے ہیں.ایسے ہی یہ بھی خیال و دہم کرتے ہیں کہ یہ بشارت مسیح کے حق میں اور یا روح الحق کے حق میں ہے.جو حواریوں پر اُتری.حالانکہ یہ خیال عیسائیوں کا نہایت غلط ہے.اوّل تو اس لئے.مسیحؑ فرماتے ہیں میرے وصایا کو محفوظ رکھو.پھر اس رُوح کی خبر دیتے ہیں.پس اگر وہ روہ مراد ہوتی جو حواریوں پر اتری تو اس کی نسبت ایسی تاکید ضروری نہ تھی.کیونکہ جس پر نازل ہوتی ہے.اُسے اشتباہ ہی کیا ہوتا ہے.حواری تو نزول رُوح کے عادی تھے.دومؔ یوحنا باب ۷ میں اس رُوح کی تعریف میں لکھا ہے.وہ روحِ پاک میرے نام سے ہر بات تم کو سکھلا دیگی.اور یاد دلائے گی تم کو وہ باتیں جو مَیں نے کہی ہیں.اعمال ہواریوں سے معلوم نہیں ہوتا کہ مسیحؑ کے فرمانے سے حواری کچھ بھول گئے تھے.اور اس روہ القدس نے جو حواریوں پر اتری.حواریوں کو کچھ یاد دلایا.

Page 83

ہاں نبیؐ عرب نے بہت کچھ یاد دلایا.عیسائی مسیحؑ کی خالص ہاں صرف انسانیت بھول گئے تھے.عام بُت پرستوں کی طرح الوہیت کو انسانیت سے ملا دیا تھا.مسیحؑ کو معبود بنا رکھا تھا.اسی کو کفارہ اپنے معاصی کا بنا رہے تھے.نبیؐ عرب نے سب کچھ یاد دلایا اور سیدھا راستہ بتایا.سومؔ.یوحنا ۱۵ باب ۲۶،۱۶ باب ۱میں ہے وہ روح میرے لئے گواہی دیگی.اور تم بھی گواہی دیتے ہو.حواری تو مسیحؑ کو خوب جانتے تھے.انہیں گواہی کی حاجت نہ تھی اور اوروں کو اس روح نے جو حواریوں پر اتری.گواہی دی نہیں.اور روح القدس نے کوئی گواہی دی ہے تو وہی گواہی ہے جو حواریوں نے دی.اس رُوح القدس نے حواریوں سے علیحدہ ہرگز کوئی گواہی نہیں دی.چہارمؔ.مسیحؑ نے فرمایا.میرا جانا بہتر ہے.مَیں جاؤں تو وہ ائے.یوحنا ۱۶ باب ۷.صاف عیاں ہے مسیحؑ کے وقت وہ روح نہ تھی.حالانکہ روح القدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کے وقت سے مسیح کیساتھ تھی.پنجم ؔ.یوحنا ۱۶ باب ۷ میں ہے.وہ سزا دیگی اور بالکل ظاہر ہے.وہ روہ جو حواریوں پر اتری بلکہ خود مسیحؑ اور مسیحؑ والی روہ سزا دینے کے لئے نہ تھی.دیکھو یوحنا ۱۳ باب ۴۷ ششم.یوحنا ۱۶ باب ۱۲ میں ہے.مجھے بہت کچھ کہنا ہے.پر اب تم برداشت نہیں کر سکتے.وہ روح جس کی بشارت ہے.سب کچھ بتائے گی.یہ فقرہ بڑی سخت حجّت عیسائیوں پر ہے.کیونکہ جو روح القدس ہواریوں پر اتری.اُس نے کوئی سخت اور نیا حکم نہیں سنایا.تثلیث اور عموم دعوت غیر قوموں کی بلاہٹ تو بقول عیسائیوں کے خود مسیحؑ فرما چکے تھے.اور پولوس کی کارستانیوں نے تو کچھ گھٹایا ہے بڑھایا نہیں.ہاں اس رُوح القدس، اس روح الحق نے جس کو فارقلیط کہیئے پر کلیٹاس.پارا کلیٹوس کہیئے،محمدؐ کہیئے.احمدؐ بولیئے.عبداﷲ اور آمنہ کے گھر جنم لے.صدہا احکام حِلّت و حُرمت اور عبادات اور معاملات کے قوانین مسیحی تعلیم پر بڑھا دئے.فِدَاہُ اَبِیْ وَ اُمِّیْ! ہفتم ؔض یوحنا ۱۶ باب ۱۳.وہ اپنی نہ کہے گی اور یہی مضمون قرآن میں محمدؐ بن عبداﷲ کی نسبت ہے .(نجم:۴،۵) (انعام:۵۱)  (یونس:۱۶) (فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۷۴.۷۷) ۹،۱۰

Page 84

 . .چاہتے ہیں کہ بجھا دیں کی روشنی اپنے مُنہ سے اور ا ﷲ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اور پڑے بُری مانیں منکر.وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سُوجھ لے کر اور سچّا دین کہ اس کو غالب کرے اوپر تمام دنیوں کے اور پڑے بُرا مانیں مشرک.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۶۶) خ خ خ

Page 85

سُوْرَۃُ الْجُمُعَۃِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲ تا ۶ .  ...   .یہ ایک سورۂ شریفہ ہے اور ایسی مہتم بالشان سورۃ ہے کہ مسلمانوں میں جمعہ کے دن پہلی رکعت میں نبی کریم صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے عہد، صحابہ، تابعین تبع تابعین کے زمانہ تک سنائی جاتی تھی.اور اب تک بھی پڑھی جاتی ہے.اس سے تم اندازہ کر لو کہ کس قدر مسلمان گزرے ہیں اور آج تک کس قدر جمعے پڑھے گئے ہیں.اور پھر اس سورہ شریف کو پڑھ کر نبی کریم علیہ الصلوٰۃ و التسلیم کا اتباع کیا ہے اور اس سورۃ کو جمعہ کے دنب خصوصًا پڑھ کر لوگوں کو آگاہ کیا ہے.پھر جمعہ ہی کو نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم علیہ

Page 86

التحیّۃ والتسلیم جمعرات کو بھی عٍآء کی پہلی رکعت میں اس کو پڑھا کرتے تھے.پس ہر ہفتہ میں دو بار جہری قرأت کے ساتھ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو پہنچایا ہے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ہمارے سیّد و مولیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو کس قدر اہتمام اس سورۃ کی تبلیغ میں تھا.پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ اس سورۃ شریف پر بہت غور فکر کریں اور میں تمہیں پکار کر کہتا ہوں کہ اَفَلاَیَتَدَبَّرُوْنَ ؟ مَیں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس التزام اور اہتمام پر نظر کر کے اس سورہ شریف پر خاص غور کی ہے.یُوں تو قرآن شریف میری غذا اور میری تسلّی اور اطمینان کا سچّا ذریعہ ہے اور میں جب تک ہر روز اس کو کئی مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا.مجھے آرام اور جین نہیں آتا.بچپن ہی سے میری طبعیت خدا نے قرآن شریف پر تدبّر کرنے والی رکھی ہے.اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں.مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو اس قدر اہتمام اس کی تبلیغ میں کیا ہے.اس نے مجھے اس سورۂ شریف میں بہت ہی زیادہ غور اور فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس سورۂ شریف میں قیامت تک عجائبات سے آگاہ کیا گیا ہے.بڑے بڑے عظیم الشان مقاصد جو جمعہ میں رکھے گئے ہیں اُن سے آگاہ کیا ہے.میرا اپنا خیال نہیں …نہیں ایمان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مَیں کہتا ہوں.میرا یقین ہے اور مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ وہ ٹھوکریں جو اس عظیم الشان جمعہ ( منجملہ ان کے مسیح موعود کے نزول کا مسئلہ بھی ہے) میں لوگوں کو لگی ہیں.اسی عدم تدبّر کی وجہ سے لگی ہیں.اگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس التزام پر عمیق نگاہ کی جاتی.اور اس سورۃ پر تدبّر ہوتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم مشکلات ان لوگوں کو پیش آتیں.غرض یہ سورۃ اپنے اندر لا انتہاء حقائق اور عجائبات رکھتی ہے اور قیامت تک کے واقعات کو بیان کرتی ہے.جن پاک الفاظ سے اس کو شروع کیا گیا ہے.اگر کم از کم اُن الفاظ پر ہی غور فکر کی جاتی تو مجھے امید ہوتی ہے کہ اسماء الہٰی میں تو کم از کم ٹھوکر نہ لگتی.وہ پاک الفاظ جن سے اس سورۃ کا شروع ہوتا ہے.یہ ہیں  .جو کچھ زمین و آسمان میں ہے.وہ سب اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں.اس اﷲ کی جو ہےہے اورہے اور ہے.تسبیح کیا ہوتی ہے؟سورۃ بقرۃ کے ابتداء میں اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ کی زبان سے بتایاہے.(بقرہ:۳۱) قران شریف میں جہاں تسبیح کا لفظ آیا ہے.وہاں کچھ ایسے احسان اور انعام مخلوق پر طاہر کئے ہیں.جن سے حمدا لہٰی ظاہر ہوتی ہے.اور اُن احسانات اور

Page 87

انعامات پر غور کرنے کے بعد بے اختیار ہو کر انسان حمدِ الہٰی کرنے کے لئے اپنے دل میں ایک جوش پاتا ہے ہمارے پاک سیّد و مولیٰ رسول اﷲ علیہ وسلم کے لئے فرمایا ہے. (بنی اسرائیل:۲) اور پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ارشاد ہوتا ہے.(الاعلیٰ:۲) غرض جہاں جہاں ذکر آیا ہے خدا تعالیٰ کے محامد.بزرگیاں اور عجیب شان کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سورۃ کو جو سے شروع فرمایا گیا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ محامد اور انعامات اور احسانات اور فصلِ عظیم کا تذکرہ یہاں بھی موجود ہے.ہر چیز جو زمین و آسمان میں ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے.یہ ایک بدیہی اور صاف مسئلہ ہے.نادان دہریہ یا حقائق الاشیاء سے ناواقف سوفسطائی اس راز کو نہ سمجھ سکے تو یہ امر دیگر ہے مگر مشاہدہ بتا رہا ہے کہ کس طرح پر ذرّہ ذرّہ خدا تعالیٰ کی تقدیس اور تسبیہ بیان کر رہا ہے.دیکھو ایک لَوْ جو زمین سے نکلتی ہے.بلکہ مَیں اس کو وسیع کر کے یوں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پتّہ جو بول و براز میں نکلتا ہے.کیسا صاف شفاف ہوتا ہے.کیا کوئی وہم و گمان کر سکتا تھا.کہ اس گندگی میں سے اس قسم کا لہلہاتا ہوا سبزہ جو آنکھوں کو طراوت دیتا ہے.نکل سکتا ہے.اس پتّہ کی صفائی نزاکت اور لطافت خود اس امر کی زبردست دلیل اور شہادت ہے کہ وہ اپنے خالق کی تسبیح کرتا ہے.اس طرح پر ذرا اور بلند نآظری سے کام لو اور دیکھو کہ انسان کے جس قدر عمدہ کام ہیں وہ روشنی میں کرتا ہے.مگر اﷲتعالیٰ کی تسبیح کرنے والے ہوتے ہیں.ایک انار کے دانہ کو دیکھو.کیسے انتظام اور خوبی کے ساتھ بنایا گیا ہے.کیا وہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح نہیں کرتا؟ اسی طرح آسمان اور آسمان کے عجائبات اور اجرام کو دیکھو.نیچر کے عجائبات سے ناواقف تو عجائبات نیچر کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں امر خلافِ نیچر ہے.مگر میرا یقین یہ ہے.کہ جس جس قدر سائنس اور دوسرے علوم ترقی کرتے جائیں گے.اسی قدر اسلام کے عجائبات اور قرآن شریف کے حقائق اور معارف زیادہ روشن اور درخشاں ہوں گے اور خدا کی تسبیح ہو گی.غرص یہ سچی بات ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.ہر ایک ذرّہ گواہی دیتا ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی کی ربوبیت اور حیات اور قیومّیت کے باعث ہر چیز کی حیات اور قائمی ہے.اسی کی حفاظت سے محفوظ ہے.پھر یہ بھی کہ وہ اﷲُ الْمَلِکہے.وہ مالک ہے.اگر سزا دیتا ہے تو مالکانہ رنگ میں.اگر پکڑتا ہے تو جابرانہ نہیں بلکہ مالکانہ رنگ میں تاکہ ماخوذ شخص کی اصلاح ہو.پھر وہ کیسا ہے!اَلْقُدُّوْس ہے

Page 88

اُس کی صفات و حمد میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو نقصان کا موجب ہو.بلکہ وہ صفاتِ کاملہ سے موصوف اور ہر نقص اور بدی سے منزّہ اَلْقُدُّوْسُ ہے.قرآن شریف پر تدبّر نہ کرنے کی وجہ سے کہو.یا اسماء الہٰی کی فلاسفی نہ سمجھنے کی وجہ سے.غرض یہ ایک غلطی پیدا ہو گئی ہے کہ بعض وقت اﷲ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنے کر لئے جاتے ہیں.جو اُس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں.اس کے لئے مَیں تمہیں ایک گُر بتاتا ہوں.کہ قرآن شریف کے معنے کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو.کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفاتِ الہٰی کے خلاف ہوں.اسماء الہٰی کو مدّنظر رکھو.اور ایسے معنے کرو اور دیکھو کہ قدّوسیّت کوبٹّہ تو نہیں لگتا.لُغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اور ایک ناپاک دل انسان کلامِ الہٰی کے گندے معنے بھی تجویز کر سکتا ہے اور کتابِ الہٰی پر اعتراص کر بیٹھتا ہے.مگر تم ہمیشہ یہ لحاظ رکھو کہ جو معنے کرو.اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفتِ قدوسیّت کے خلاف تو نہیں ہے؟ اﷲ تعالیٰ کے سارے کلام حق و حکمت کے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.جس سے اس کی اور اس کے رسول اور عامۃ المومنین کی عزّت و بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.(المنٰفقون:۹) مومنوں کو معزّز کرتا ہے اور پھر ان سے بڑھ کر اپنے رسولوں کو عزّت دیتا ہے.اور سچّی محبت اور بڑائی حقیقی اﷲ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے.غرض ہر قول و فعل میں مومن کو لازم ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی عزّت کا خیال کرے کیونکہ وہ اَلْعَزِیْز ہے.ظالم طبع انسان کی عادت ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک فعل سرّد ہوتا ہے تو وہ اس میں اپنی طرف سے نکتہ چینی کرنے لگتا ہے.آمد کی بعثت پر کہنے والے اپنی کمیٔ علم اور ناواقفی کی وجہ سے (البقرہ:۳۱) پکار اُٹھے.مگر چونکہ یہ گروہ صاف طِینت تھا.آخر اُس نے( البقرہ:۳۳) کہہ کر اﷲ تعالیٰ کے اس فعل خلافتِ آدم کو حکمت سے بھرا ہوا تسلیم کر لیا.مگر وہ لوگ جو خدا سے دور ہوتے ہیں.وہ عجائباتِ قدرت سے ناآشنا محض اور اسمائِ الہٰی کے علم سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.وہ اپنے خیال اور تجویز کے موافق کچھ چاہتے ہیں.جو نہیں ہوتا.جیسا ہمارے سردار سرورب عالم فخرِ بنی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت پر کہہ اُٹھے.(الزخرف:۳۲) یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کو اَلْحَکِیْمُ نہیں مانتے.ورنہ وہ اس قسم کے اعتراض نہ کرتے.اور یقین کر لیتے کہ ( الانعام:۱۲۵) اسی طرح شیعہ نے خلافتِ خلفاء پر بعینہٖ وہی اعتراضات کئے جو کفّار نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت پر کئے.

Page 89

حکیم کے معنی ہی ہیں اپنے محل پر ہر ایک چیز کو رکھنے والا.اور مضبوط و محکم رکھنے والا.پھر اگر الحکیم صفت پر ایمان ہو تو بعثتِ کاتم الانبیاء صلی اﷲعلیہ وسلم کا انکار کر کے کیوں اپنے ایمان کو ضائع کرتے.غرض اﷲ تعالیٰ یہاں بتاتا ہے.کہ اس کے قول و فعل میں سراسر حکمت ہوتی ہے اس لئے اس کے انکار سے بچنے کے لئے یہی اصول ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو الحکیم مانو.پس جو کچھ زمین و آسمان میں ہے.وہ اﷲ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں.اس اﷲکی جو ہے.زمین و آسمان کے تمام ذرّات اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی ان صفات پر گواہ ہیں پس زمینی علوم یا آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے.خدا تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات کی زیادہ وضاحت زیادہ صراحت ہو گی.مَیں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ مَیں ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتا کہ علوم کی ترقی اور سائنس کی ترقی قرآن شریف یا اسلام کے مخالف ہے.سچّے علوم ہوں وہ جس قدر ترقی کریں گے.قرآن شریف کی حمد اور تعریف اُسی قدر زیادہ ہو گی.اس سورۃ شریف کو ان پاک الفاظ سے شروع کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ اپنا ایک انعام پیش کرتا ہے..اُس اﷲ نے ( جس کی تسبیح زمین و آسمان کے زرّات اور اجرام کرتے ہیں.اور ہر شئے جو اُن میں ہے.وہ اﷲجو ہے اُمِّیُوْں … میں ( عربوں میں) ان میں ہی کا ایک رسول اُن میں بھیجا جو ان پر اﷲ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے.اور ان کو پاک صاف کرتا ہے.اور ان کو الکتاب اور الحکمۃسکھاتا ہے.اور اگرچہ وہ اس رسول کی بعثت سے پہلے کُھلی کُھلی اور خدا سے قطع تعلق کر دینے والی گمراہی میں تھے ۱؎.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت مکّہ والوں میں اﷲ تعالیٰ کی عزّت اور حمد کا ایک بیّن ثبوت ہے کیونکہ جس وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مبعوث ہوئے……اہل دنیا اس رشتہ سے جو انسان کو اپنے خالق کے ساتھ رکھنا ضروری ہے.بالکل بے خبر اور ناآشنا تھے.ہزاروں ہزار مشکلات اس رشتہ کے سمجھنے ہی میں پیدا ہو گئی تھیں.اُس کا قائم کرنا اور قائم رکھنا تو اور بھی مشکل تَر ہو گیا تھا.کتبِ الہٰیہاور صُحُفِ انبیاء علیجم السلام میں تاویلاتِ باطلہ نے اصل عقائد کی جگہ لے لی تھی.اور پھر ان کی خلاف ورزی مقدرت سے ۱؎ الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰،۱۱،۱۲

Page 90

باہر تھی.دنیا پرستی بہت غالب ہوئی تھی.ان کے بڑے بڑے سجادہ نشین احبار اور رُھْبان کو اپنی گدّیاں چھوڑنا مہال نطر آتا تھا.خدا تعالیٰ نے بڑے بڑے لوگوں کا ذکر کیا.کیونکہ اُس سے چھوٹوں کا خود اندازہ ہو سکتا تھا …اگر ہم ایک نمبردار کی ہالت بیان کریں کہ لایک قحط میں اُس پر فاقہ کشی کی مصیبت ہے تو اس سے چھوٹے درجے کے زمیندار کا حال خود بخود معلوم ہو جاتا ہے.قرآن شریف نے نہایت جامع الفاظ میں فرما دیا ہے.کہ ( الروم: ۴۲) جنگلوں اور سمندروں میں غرص ہر جگہ پر فساد نمودار ہو چکا ہے.وہ جو اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے اُن کی نسبت قرآن ہی نے خود شہادت دی ہے. (التوبہ:۸) ۱؎ الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۰،۱۱،۱۲ ان میں اکثر لوگ فاسق تھے.اور یہاں تک فسق و فجور نے ترقی کی ہوئی تھی کہ ( المائدۃ: ۶۱) یہ اُس وقت کے لکھے پڑھے علماء سجادہ نشین خدا کی کتابِ مقدّس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل اور خوار ہیں.جیسے بندر.اور ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے کنزیر.اس اندازہ کرو.ان لوگوں کا جو لکھے پڑھے نہ تھے.جو کتابِ مقدّس کے وارث نہ تھے.جو موسٰی کی گدّی پر نہ بیٹھے ہوئے تھے.پھر یہ تو ان کے اخلاق.یہ عاداتِ بَد یا عزّت و ذلّت کی حالت کا نقشہ ہے.اگرچہ ایک دانش مند اخلاقی حالت اور عُرفی حالت کو ہیے دیکھ کر روحانی حالت کا پتہ لگا سکتا ہے.مگر خود خدا تعالیٰ نے بھی بتا دیا کہ روحانی حالت بھی ایسی کراب ہو چکی تھی.کہ وہ عبدۃ الطاغوت بن گئے تھے.یعنی حدود الہٰی کے توڑنے والوں کے عہد بنے ہوئے تھے.اُن کے معبود طاغوت تھے.اب خیال کرو کہ اخلاقی حالت پر وہ اثر،رُوح پر یہ صدمہ ، عزّت کی وہ حالت ، یہ ہے وہ قوم جو  کہنے والی.تھی.اس سے چھوٹے درجہ کی مخلوق کا خود قیاس کر لو.یہ نقشہ کافی ہے عقائد کے سمجھنے کے لئے ، یہ کافی ہے عزّت و آبرو کے سمجھنے کے لئے کہ جو بندر کی عزّت ہوتی ہے.پھر یہ نقشہ کافی ہے اخلاق کے معلوم کرنے کے لئے جو خنزیر کے ہوتے ہیں کہ وہ سارا بے حیائی اور شہوت کا پُتلا ہوتا ہے.جب ان لوگوںکا حال میںنے سنایا جو(المائدۃ:۱۹)کہتے ،جو ابراہیمؑ کے فرزندہ کہلاتے تھے.تو عیسائیوں پر قیاس کر لو، اُن کے پاس تو کوئی کتاب ہی نہ رہی تھی، اور کفّارہ کے اعتقاد نے ان کو پوری ٗآزادی اور اباحت سکھا دی تھی.اور عربوں کا حال تو ان سہ سے بدتر ہو گا،جن کے پاس آج تک کتاب اﷲپہنچی ہی نہ تھی.اور پھر یہ خصوصیت سے عرب ہی کا حال نہ تھا.ایران میں آتش پرستی ہوتی تھی.سچّے خدا کو چھوڑ دیا ہوا تھا، اور اہرمن اور یزدان دو جُدا جُدا خُدا مانے گئے تھے.ہندوستان کی حالت اس سے بھی بدتر تھی جہاں پتھروں، درختوں کی پُوجا اور پرستش سے تسلّی نہ پا کر آخر عورتوں اور مردوں کے شہوانی قوٰی تک پرستش جاری ہو چکی تھی.غرض جس طرف نظر اٹھا کر دیکھو،جدھرنگاہ دوڑاؤ، دنیا کیا بلحاظ

Page 91

اخلاقِ فاضہ اور کیا بلحاظ عبادات اور کیا بلحاظ عبادات اور معاملات ہر طرح ایک خطرناک تاریکی میں مبتلا تھی اور دنیا کی یہ حالت بالطبع جاہتی تھی کہ ع مَردے ازبروں آید و کارے بکند چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک رسول کو عربوں میں مبعوث کیا جیسا کہ فرمایا: ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ الآیہ یہ رسولؐ صرف عربوں ہی کے لئے نہ تھا باوصفیکہ عربوں میں مبعوث ہوا.بلکہ اس کی دعوتِ عام اور کل دنیا کے لئے جیسا کہ اس نے کل دنیا کو مخاطب کر کے سنایا (الاعراف: ۱۵۹) اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اور پھر ایک اور مقام پر ا ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(الانبیاء:۱۰۸) یعنی ہم نے تم کو تمام عالموں پر رحمت کے لئے بھیجا ہے.اسی لئے وہ شہر جہاں سرورِ عالم فخر بنی آدم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ظہور پایا.امّ القرٰی ٹھہرا.اور وہ کتابِ مبین جس کی شان ہے لَا رَیْبَ فِیْہِ.وہ ام الکتاب کہلائی.اور وہ لسان جس میں امّ الکتٰب اتری.امّ الالسنہ ٹھہری.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا.جو آدم زاد پر ہوا.اور بالخصوص عربوں پر! اس رسول نے آ کر کیا: . .پہلا کام یہ کیا کہ ان پر خدا کی آیات پڑھ دی..پھر نرِے پڑھ دینے سے تو کچھ نہیں ہو سکتا.اس لئے دوسرا کام یہ کیاان کو پاک صاف کیا.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کس قدر عظیم شان اور بلند مرتبہ ہے.دوسرے کسی نبی کی بابت یہ نہیں کہا کہ.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذاتی قوّتِ قدسی اور قوّتِ تاثیر کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپؐ صلی اﷲ علیہ وسلم نے آ کر اُس کی کایا پلٹ دی.ان کے اخلاق ، عادات اور ایمان میں ایسی تبدیلی کی جو دنیا کے کسی مصلح اور ریفارمر کی قوم میں نظر نہیں آتی.جو شخص اس ایک ہی امر پر غور کرے گا.تو اُسے بغیر کسی چُون و چرا کے ماننا پڑے گا.کہ ہمارے سیّد و مولٰی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی قوّتِ قُدسی اور تاثیر قوی اور افاضۂ برکات میں سے سب نبیوں سے بڑھ کر اور افضل ہیں اور یہی ایک بات ہے جو قرآن شریف اور آنحضرت

Page 92

صلی اﷲ علیہ وسلم کی ضرورت دوسری تمام کتابوں اور نبیوں کے مقابلہ میں بدیہی ثبوت ہے.عیسائیوں نے حضرت مسیحؑ کی شان میں غلو اس قدر کیا کہ ( باوجودیکہ وہ اپنی عاجزی اور بے کسی کا ہمیشہ اعتراف کرتے رہے اور کبھی خدائی کا دعوٰی نہ کیا،ان کو خدا بنا دیا.لیکن اگر ان سے پوچھا جاوے کہ اس خدا نے دنیا میں آ کر کیا کِیا؟ تو میں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ کوئی قابلِ اطمینان جواب اس قوم کے پاس نہیں ہے یہ ہم مانتے ہیں کہ جب مسیحؑآئے اُس وقت یہودیوں کی ایمانی اور اخلاقی ہالت بہت گری ہوئی تھی.لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اخلاق اور عادات اور ایمان میں کیا تبدیلی کی؟جب کہ وہ اپنے حواریوں کا بھی کامل طور پر تزکیہ نہ کر سکے.تو اَوروں کو تو کیا فیض پہنچتا؟ یہی موجودہ انجیل جو اس قوم کے ہاتھ میں ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے.کہ چند لالچی اور صعیف الایمان آدمیوں کے سوا وہ کوئی جماعت جو اپنے تزکیہ نفس میں نمونہ ٹھہر سکے.دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے!جو ہمیشہ اپنے مُرشد و امام کے ساتھ بے وفائی کرتے رہے!حتٰی کہ بعض ان میں سے اس کی جان کے دشمن ثابت ہوئے.مگر رسول اﷲ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف نے دعوٰی کیا ہے وَ یُزکِّیْھِمْاور اس دعوٰی کا ثبوت بھی دیا.جب کہ ان میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی.وہ قوم کہ جو بُت پرستی میں غرق تھی.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُکہنے والی ہی ثابتنہیں ہوئی بلکہ توحید کو جوش اور صدق سے انہوں نے قبول کیا کہ تلواروں کے سایہ میں بھی اس اقرار کو نہیں چھوڑا.ملک و مال.احباب رشتہ داروں کو چھوڑنا منظور کیا.مگر اس چھوڑی ہوئی بُت پرستی کو پھر منظور نہ کیا.اپنے سیّد و مولیٰ رسولؐ کے ساتو وہ وفاداری اور ثباتِ قدم دکھایا جس کی نظیردنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی.یہاں تک کہ غیر قوموں کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا.یہ واقعات ہیں جن کو ( کوئی) جھٹلا نہیں سکتا.اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ مَیں ان پر کوئی لمبی بحث کروں.میرا مطلب اور مدعا صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ دوسرا کام رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ ان کا تزکیہ کیا کہ ان کی کا تزکیہ کیا کہ ان کی حالت یہاں تک پہنچی کہ (بنی اسرائیل:۱۱۰) وہ روتے ہوئے ٹھوڑی کے بل گر پڑتے ہیں اور ان کو فروتنی میں ترقی ملی ہے اور( الفرقان:۶۵) اپنے خدا کے سامنے راتیں سجدہ اور قیام میں کاٹ دیتے ہیں(السجّدۃ:۱۷) راتوں کو اپنی خواب گاہوں اور بستروں سے اُٹھ اُٹھ کر خوف اور امید سے اپنے ربّ پکارتے ہیں.پھر یہاں تک اُن کا تزکیہ کیا کہ آخر(المائدۃ:۱۲۰) کی

Page 93

سند ان کو مل گئی.کسی ہادی اور مصلح کی ایسی سچّی تاثیر اور تزکیہ کا پتہ دو.میں نے ہزاروں ہزار کتابیں پڑھی ہیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کو ٹٹولا اور تحقیق کیا ہے.میں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی حیرت انگیز تبدیلی، کوئی ہادی، پیغمبر، نبی، رسُول، اپنی قوم میں نہیں کر سکا جو ہماری سرکار نے کی! اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ یہ چھوٹی سی بات نہیں.یہ بہت بڑی عظیم الشان بات ہے.اس وقت بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوّتِ قدسی اور تاثیر افاضۂ برکات کا ایک زندہ نمونہ موجود ہے جس سے آپؐ کی شان اور ہمّت اور علوّ مرتبت اور بھی بڑھ جاتی ہے.کہ وہ تیرہ سو سال کے بعد بھی اپنی تاثیریں ویسی ہی زبردست اور قوی رکھتا ہے جس سے ہم ایک اربعہ متناسبہ کے قاعدہ سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کی تاثیریں ابدی ہیں اور وہ ابدالاٰباد کے لئے دنیا کا ہادی اور رسول ہے.اس وقت ہمارا امام زندہ نمونہ ہے ان برکات اور فیوض کا.جس نے آ کر ان فیوض اور برکات اور قدسی تاثیروں کا ثبوت دیا ہے.جو صحابہ کی کامیاب قوم پر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم کی فیضِصحبت سے ہوئیں.اگر دنیا میں کسی اور نبی کی برکات اور فیوض اس قسم کے ہیں تو پھر ہم ان کے ماننے والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی قوم کا تزکیہ کیا تھا تو اس کے ثبوت کے لئے آج کوئی مزکّی نفس پیش کرو! اوروں کو جانے دو.یسوع مسیح کو خدا بنانے والی قوم اس کی خدائی کا کوئی کرشمہ اب ہی دکھائے.مگر یہ سب مُردہ ہیں.جو ایک مُردہ کی پرستش کرتے ہیں.اس لئے وہ زندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے! غرض دوسرا کام آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ وہ آیات جو آپؐ نے پڑھ کر سنائیں.اپنے عمل سے اور اس کی تاثیروں سے بتا دیا کہ اس کا منشاء کیا ہے؟ منشاء بھی بتا دیا اور عمل کرا کر بھی دکھا دیا.کیونکہ کتاب کا پڑھنا اور اس کے مطالب و منشاء سے آگاہ کر دینا کوئی بڑا کام نہیں.جب تک کوئی ایسی بات نہ ہو کہ عمل کرنے کی رُوح پیدا ہو جاوے.کتاب کا پڑھنا بھی صائع ہو جاتا ہے.جب کہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں.جب تک پڑھنے والا خود نہیں سمجھتا.دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ پہلے تعلیمات صحیحہ آ جاویں.پھر ان کو پہنجایا جاوے اور سمجھایا جاوے کہ کیسے عمل در آمد ہوتا ہے.یا خود کر کے دکھایا جاوے.یہ ضروری مسئلہ ہے.غور کر کے دیکھو.کہ کیا یہود کے سامنے ایک برا بھاری انبار کتابوں کا نہ تھا.کیا مجوس کے پاس کتابیں نہ تھیں.کیا عیسائی اپنی بغل میں کتابِ مقدّس مارے نہ پھرتے تھے.اور کیا ان میں عمدہ باتیں بالکل نہ تھیں؟ تھیں اور صرور تھیں.مگر ان میں اگر کچھ نہ تھا تو صرف یہی نہ تھا کہ ان پر عمل کرا دینے

Page 94

والا کوئی نہیں تھا.جب تک ایک روح اس قسم کی نہ آوے جو انسان کو مزکّی بنا دے اس وقت تک انسان ان تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.۱؎ مَیںبیرونی مذاہب کو چھوڑ کر اندرونی فرقوں کی طرف توجہ کرتا ہوں.کیا یہی قرآن شریف جو ہمارے سرورِ عالم سیّد ولد آدم صلی اﷲ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.اس وقت سُنّیوں.شیعوں ، خوارج اور اور بہت سے فرقوں کے پاس نہیں! کیا واعظ، امام، قاری اور دوسرے لوگ ان میں نہیں ہیں؟ مگر سب دیکھیں اور اپنی اپنی جگہ غور کریں کہ کیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سچّی بات ہے کہ جب تک کوئی مزکّی نہ ہو تو تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہی وجہ تھی کہ رسول اﷲ علیہ وسلم نے فرمایاخَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِی یہ صدی جس میں مَیں ہوں.بڑی خیروبرکت ۱؎ الحکم ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تا ۹ بھری ہوئی ہے.اور حقیقتیں وہ صدی بڑی ہی بابرکت تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس میں موجود تھے اور آپ کی وساطت سے لوگ تزکیہ سے متمتع ہوتے تھے پھر آپؐنے فرمایا کہ دوسری صدی میں بھی اس پہلی کی طرح خیروبرکت والی ہو گی.اور پھر تیسری پر بھی اس پہلی کا اثر پڑے گا.مگر اس کے بعد جُھوٹ پھیل جاوے گا.اب غور طلب یہ امر ہے.کہ کیا قرآن شریف اس چوٹھی صدی میں نہ رہا تھا جس میں جُھوٹ کے پھیلنے کی آپؐ نے پیشگوئی فرمائی، کیا تعامل اور حدیث ان میں نہ تھی.پھر وہ کیا بات ہے جو یَفْشُوا الکَذِبُ کہا؟ بات اصل یہی ہے کہ مزکّی ان میں نہ رہا، مزکّی کو اُٹھے ہوئے تین سو سال گزر گئے.بہت سے نادانوں نے مجھ سے سوال کیا کہ ہم مہدی یا مسیح یا امام کی کیا ضرورت رکھتے ہیں جبکہ دلائل سے نتائج تک پہنچ جاتے ہیں.تو پھر امام کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے ان سے پوچھا ہے کہ اگر تمہیں امام کی کوئی ضرورت نہیں.تو اتنا بتاؤ کہ کتاب کی موجودگی میں معلم کی کیا ضرورت ہے؟ مَیں نے ان سے پوچھا ہے کہ اگر تمہیں امام کی کوئی ضرورت نہیں.تو اتنا بتاؤ کہ کتاب کی موجودگی میں معلم کی کیا ضرورت ہوتی ہے.اگر کہو.بولی کے لئے ضرورت ہے تو میں پھر کہتا ہوں.اچھا بولی سمجھتے ہو.ایک عمدہ پڑھا ہوا آدمی جس نے قرآن کو خوب پڑھا ہے اور فرض کرو.وہ قاری بھی ہو.وہ اپنی جان پر تجربہ کر کے صاف صاف بتا دے کہ گھر میںلمبی قرأت کی نمازیں کس قدر پڑھتا ہے.اور باہر کس قدر.جس قدر جماعت میں التزام کیا جاتا ہے.کیا گھر میں بھی ویسا ہی التزام کیا جاتا ہے؟ لیکن جب دیکھا جاتا ہے کہ باوصفیکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب نماز پڑھائے تو امام کو جاہیئے کہ مقتدیوں کا لحاظ کرے.ان میں کوئی ضعیف ہے.کوئی بیمار ہے وغیرہ.اس لئے ان کے لحاظ پر چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھے لیکن تنہائی میں نمازوں کو لمبا کرے.مگر غور کر کے دیکھ لو کہ معاملہ بالکل اس کے برخلاف اور قضیہ بالعکس ہے.مَیں نے بہت ٹٹولا ہے اور دیکھاہے ۱؎ الحکم ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تا ۹

Page 95

کہ جبکہ یہ حدیث صحابہ تک پہنچتی ہے.اور کذب کا کوئی احتمال نہیں رہتا تو پھر عمل در آمد کا نہ ہونا صریح اس امر کی دلیل ہے کہ ایک قوّت اور کشش کی ضرورت ہے.جو نہیں پائی جاتی.ریل گاڑی کی گاڑیوں کو دیکھو کہ اگر ان میں باہم زنجیروں کے ذریعہ پیوند بھی قائم کیا گیا ہو لیکن سٹیم انجن ان کو کھینچنے والا نہ ہو تو کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ وہ گاڑیاں باہم ملاپ کی وجہ سے ہی چل نکلیں گی؟ ہرگز نہیں!اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ نرِ اتحاد بھی کچھ نہیں کر سکتا.جب تک اس وہدت کے مفاد سے متمتع کرنے والا کوئی نہ ہو.غرص ہر ہال میں ایک امام کی ضرورت ثابت ہوتی ہے.اسی لئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ جو کچھ آپؐ فرماتے اور تلاوت کرے وہی کر کے دکھا دیتے اور اپنے عمل سے اس کو اور بھی مؤثر بنا دیتے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ واعظ اگر خود کہہ کر عمل کرنے والا نہ ہو تو اس کا وغط بالکل بے معنی اور فضول ہو جاتا ہے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اسی لئے مزکّی ٹھہرے.کہ آپؐ جو تعلیم دیتے تھے.پہلے خود کر کے دکھا دیتے تھے.پانچ وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور خود پڑھ کر دکھادی.دیکھو امام کو کس قدر التزام کرنا پڑتا ہے.پھر آپؐ پانچوں نمازوں کے خود امام ہوا کرتے تھے.اس سے قیاس کر لو کہ آپؐ کو کس قدر التزام کرنا پڑتا تھا.پھر ان پانچوں نمازوں کے علاوہ تہجّد اور دوسرے نوافل بھی پڑھتے اور بعص وقت تہجّدمیں اتنی اتنی دیر تک اﷲ تعالیٰ کے حضور کھڑے رہتے کہ آپؐکے پائے مبارک متورّم ہو جاتے.جس سے آپؐ کا یہ التزام بھی پایا جاتا ہے کہ عام اور فرص نمازوں سے زیادہ بوجھ آپؐ نے اپنے اوپر رکھا ہوا تھا.پھر روزہ کی تعلیم دی.آپؐنے ہفتہ میں دوبار مہینہ میں تین بار روزے.اور سال بھر میں معین مہینہ روزے رکھ کر دکھادئے.اور شعبان اور شوّال میں بھی روزے رکھا کرتے.گویا قریب چھ مہینے سال میں روزے رکھ کر بتا دئے.حج کر کے دکھادیا.خُذُوْا عَنِّیْ مَنَا سِکَکُم.پھر زکوٰۃ کی تعلیم دی.زکوٰۃ لے کر اور کرچ کر کے دکھادی.اسی طرح جو تعلیم دی اُسے خود کر کے دکھا دیا.جس سے تزکیہ نفوس ہوا.ایک طرف تلاوت آیات کرتے تھے اور دوسری طرف تزکیہ نفوس کرے تھے.امام ابوحنیفہؒ ابھی امام نہ تھے.مگر نماز.روزہ.حج کہ حضور علیہ الصلوٰث والسلام نے تعامل سے سب کچھ پہلے ہی سکھا دیا ہوا تھا.اگر ایک بھی حدیث دنیا میں قلمبند اور جمع نہ کی جاتی.تب بھی یہ مسائل بالکل صاف تھے.غرض اﷲ تعالیٰ کے فضل کے لئے مزکّی کی ضرورت ہوتی ہے.ورنہ بڑی بڑی کتابوں والے عبدالطاغوت ہو جاتے ہیں اور جب یہ حالت پیدا ہوتی اور قوم کے دماغ اور دل ( علماء اور مشائخ ) کی حالت بگڑ جاتی

Page 96

ہے.اس وقت وہ مزکّی آتا ہے.اور اصلاح کرتا ہے.جب قوم اور ملک ضلال مبین میں پھنس جاتا ہے تو ایک انسان خدا سے تعلیم پا کر آتا ہے.جو قوم کو نجات دیتا ہے.اور تزکیۂ نفس کرتا ہے.خیالی ریفارمروں اور جھوٹے دعویداروں اور خدا تعالیٰ کے مامور و مرسلوں میں بھی امتیاز اور فرق یہی ہوتا ہے.کہ اوّل الذکر کہتے ہیں.پر کر کے نہیں دکھاتے.اور تزکیہ نفس نہیں کر سکتے.مگر خدا کے مامور اور مرسل جو کہتے ہیں.وہ کر کے دکھاتے ہیں.جس سے تزکیہ نفوس ہوتا ہے.ان کے قلوب صافیہ سے جو کچھ نکلتا ہے.وہ دوسروں پر مؤثر ہوتا ہے.ان میں جذب اور اثر کی قوّت ہوتی ہے جو دنیادار ریفارمروں میں نہیں ہو سکتی.اور نہیں ہوتی.اور نہیں ہوئی.پس اس نافہم کے سوال کا جواب اس سے بخوبی حل ہو سکتا ہے.جو کہتا ہے.کہ کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے مامور کے آنے کا وقت صاف بتا دیا ہے جب کہ فرمایا..اس کی آمد اور بعثت سے پہلے ایک کُھلی گمراہی پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور میں نے ابھی تمہیں بتایا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا کی کیا حالت تھی اور پھر کس طرح آپؐ نے آ کر اصلاح کی اور تزکیہ نفوس فرمایا.جو لوگ علم تاریخ سے واقف ہیں.ان پر یہ امر بڑی صفائی کیساتھ منکشف ہو سکتا ہے.اس سے بڑھ کر تزکیہ نفوس کا کیا ثبوت مل سکتا ہے.کہ آپؐ نے کوئی موقع انسان کی زندگی میں ایسا جانے نہیں دیا جس میں خدا پرستی کی تعلیم نہ دی ہو.میں ایک چھوٹی سی اور معمولی سی بات پیش کرتا ہوں.پاخانہ کے لئے جاناایک طبعی تقاضا اور صرورت ہے.میں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ اس وقت کے لئے کسی ہادی اور مصلح نے کوئی تعلیم انسان کو نہیں دی.مگر ہمارے ہادیٔ کامل صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس وقت بھی انسان کو ایک لطیف اور بیش قیمت سبق خدا پرستی کا دیا ہے.جس سے آپ کے اُن تعلقاتِ محبّت کا جو خدا سے آپؐ کے تھے صاف پتہ لگ سکتا ہے.اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کو کس بُلند مرتبہ پر پہنچانا چاہتے تھے.چنانچہ آپؐ نے اس وقت تعلیم دی ہے.اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَ الْخَبَائِثِ.یعنی جس طرح پر ان گندگیوں کو تُو نکالتا ہے.دوسری گندگیوں سے جو انسان کی روح کو خراب کرتی ہیں بچا.جیسے پاخانہ جاتے وقت دعا تعلیم کی ویسے ہی پاخانہ سے نکلتے وقت سکھایا ہے.غُفْرَانَکَغور تو کرو کہ کس قدر تزکیہ نفس کا خیال ہے.حصرت ابوالملّۃ ابوالخفاء ابراہیم علیہ السلام اپنی دعا میں کہتے ہیں (البقرہ:۱۳۰)پھر اگر مزکّی کی ضرورت نہ تھی.تو اس دعا کی کیا ضرورت؟ تلاوت کو اس لئے مقدم رکھا کہ علم تزکیہ کے مراتب سکھاتا ہے اور تزکیہ کو بعد میں اس لئے رکھا ہے کہ بَدُوں تزکیہ علم کام نہیں آتا

Page 97

اسی لئے کتاب کے بعد تزکیہ کا ذکر کر دیا.اور چونکہ رسول ا ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خَیْرُالْقُرُوْنِ قَرْنِیْ اور پھر دوسری اور تیسری صدی کو خیرالقرون کہا.اس کے بعد فرمایا کہ ثَمَّ یَفْشُو الْکَذِبُ.اب ایک نادان اور خدا کی سنّت سے ناواقف کہہ سکتا تھا کہ آپ کی قوّت قدسی معاذ اﷲایسی کمزور تھی.کہ تین صدیوں سے آگے مؤثر نہ رہی.اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ایسے کو رباطن کے جواب کے لئے فرمایا: وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ.آپؐ کی قوّت قدسی ایسی مؤثراور نتیجہ خیز ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی ویسا ہی تزکیہ کر سکتی ہے چنانچہ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کا وعدہ فرمایا یعنی ایک اور قوم آخری زمانہ میں انے والی ہے جو بلاواسطہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے فیص اور برکات حاصل کرے گی.اور ایک بار اور ہم اسی رسول کی بعثت بروزی کریں گے.وہ بعثت بھی اسی کے ہم رنگ ہو گی جو فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًاکے وقت تھی.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ امّت کے اعمال آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہنچائے جاتے ہیں.پس سوچو کیسی تڑپ آپؐ کو پیدا ہوئی ہو گی.جب آپؐ کو بتایا گیا ہو گا کہ اس قسم کے ہاشیے چڑھائے جاتے ہیں.جن سے امرِ حق کو شناخت کرنا قریباً مہال ہو گیا ہے اور وہ باتیں داخلِ اسلام کر لی گئی ہیں.جن کا اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا.اس لئے اﷲتعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ ابس معلّم کو دوبارہ بھیج دیں گے.فِی الْاُمِّیِّیْنَ رَسُوْلًاکی بعثت کریں گے.اس کی توجہ ان پر ڈالیں گے جو لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کے مصداق ہیں یعنی ابھی نہیں آئے.آنے والے ہیں.۱؎ یہ سنّت اﷲ اور استمراری عادت اﷲ ہے.کہ جب دنیا میں بدی پھیلتی ہے.بدی کیسی؟ لکھے پڑھے بھی بند ر اور سؤر اور عبدالطاغوت ہو جاتے ہیں.خدا کا خوف دلوں سے اُٹھ جاتا ہے اور انسانیت مسک ہو کر حیوانیٔت اور بہیمیت سی ہو جاتی ہے تو اﷲ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے تباہ شدہ مخلوق کی دستگیری کے لئے ایک مامور دنیا میں بھیجتا ہے.جو آ کر ان کی گم شدہ متاع پھر ان کو دیتا ہے.اور خبیثوں اور طیّب لوگوں میں امتیاز ہو جاتا ہے.اس قاعدہ کو مدّنظر رکھ کر صاف اشارہ ملتا ہے.کہ خدا تعالیٰ کس وقت معلّم اور مزکّی کو بھیجتا ہے؟ اس کی شناخت کا کیا طریق اور نشان ہونا چاہیئے؟ یہ بڑی بھاری غلطی پھیلی ہوئی ہے.کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو ناواقف اور نادان انسان اپنے کمزور خیال کے پیمانہ اور معیار سے اس کو پرکھنا چاہتے ہیں.حالانکہ اس کو پرکھنے کے لئے وہ معیار اختیار کرنا جاہیئے جو راست بازوں کے لئے ہمیشہ ہوتا ہے.۱؎ الحکم ۱۷ستمبر۱۹۰۲ء صفحہ۹۰۷

Page 98

گو رداسپور میں ایک موقع پر ایک شخص حضرت امام علیہ السلام کے متعلق مجھ سے کچھ سوال کرنے آیا.میں نے جب اس سے یہ کہا کہ تم وہ معیار پیش کرو جس سے تم نے کسی کو راست باز مانا ہے.تو وہ خاموش ہی ہو گیا.اور سلسلہ کلام کو آگے نہ چلا سکا.یہ بڑی پکّی اور سچی بات ہے کہ راست باز ہمیشہ ایک ہی معیار پر پرکھے جاتے ہیں.اور ان میں کوئی نرالی اور نئی بات نہیں ہوتی.چنانچہ ہمارے ہادیٔ کامل فخرِبنی آدم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ارشادب الہٰی یوں ہوا.قُلْ مَاکُنْتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ.کہہ دے میں کوئی نیا رسول دنیا میں نہیں آیا …دنیا میں مجھ سے پہلے رسول آتے رہے ہیں.تم نے اگر کسی کو راست باز اور صادق مانا ہے.تو جس قاعدہ اور معیار سے مانا ہے.تو وہی قاعدہ اور معیار میرے لئے بس ہے.مَیں نے قرآن شریف کے اس استدلال کی بناء پر بارہا.ان لوگوں سے جو حضرت میرزا صاحب کے متعلق سوال اور بحث کرتے ہیں.پوچھا کہ تم نے کبھی کسی کو دنیا میں راستباز اور صادق تسلیم کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے تو وہ ذریعے ار معیار کیا تھے؟ جن ذریعوں سے تم نے صادق تسلیم کیا ہے.پھر میرا ذمہ ہو گا کہ اس معیار پر اپنے صادق امام کی راست بازی اگر صداقت ثابت کر دوں.میں نے بارہا اس گُر اور اصول سے بُہتوں کو لاچواب اور خاموش کرایا ہے.اور یہ میرا مجرّب نسخہ ہے.اس راہ سے اگر چلو تم تمام مباحث کا دو لفظوں میں فیصلہ کر دو.گورداسپور کا جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے.جو لوگ میرے ساتھ تھے.انہوں نے دیکھا ہے کہ باوجودیکہ سوال کرنے والا بڑا چلبلا اور جالاک آدمی تھی.مگر میرے اس سوال پر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا بعض آدمیوں نے اس کو کہا بھی کہ تم کسی کا نام لے دو.اس نے یہی کہا کہ مَیں نام لیتا ہوں تو مرتا ہوں ( یعنی مانا پڑتا ہے اور لاجواب ہوں گا) غرص یہ ایک سنت اﷲ ہے.خدا کا اٹل قانون ہے.کہ جب دنیا پر ضلالت کی آظلمت چھا جاتی ہے اور یہ بے دینی اور فسق و فجور کی رات اپنی انتہاء تک پہنچ جاتی ہے.تو اسی قانون کے موافق جو ہم رات دن دیکھتے ہیں کہ رات کے آخری حصّہ میں آسمان پر صبح صادق کے وقت روشنی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں.کوئی آسمانی نور اترتا ہے اور دنیا کی ہدایت اور روشنی کا موجب ٹھہرتا ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب امساکِ باراں حد سے گزرتا ہے.جس کا نام عام لوگوں نے ہفتہ رکھا ہے کہ سات سال سے زیادہ نہیں گزرتا تو سمجھنے والا سمجھتا ہے کہ اب بارش ضرور ہو گی.اس قسم کے نشانات خدا تعالیٰ کے ایک اٹل اور مستقل قانون کا صاف پتہ دیتے ہیں.اگر آنکھ بالکل بند نہ ہو.اگر دل بالکل سویا ہوا نہ ہو تو اس بات کا سمجھ لینا کہ روحانی نظام بھی اسی طرح واقع ہے کچھ مشکل نہیں مگر یہ آنکھ بصیرت اور دل کی بیداری بھی اﷲ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے.مَیں غور کرتے کرتے اس

Page 99

نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مامور من اﷲ اور راست باز کی شناخت کے لئے ہر قسم کے دلائل مل سکتے ہیں.اَنفُسی اور آفاقی دونوں قسم کے دلائل ہوتے ہیں، یعنی اندرونی اور بیرونی دلائل.اندرونی دلائل میں سے ایک عقل بھی ہے پھر اسی کے ساتھ نقل کا پتہ لگا سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں.اگر اپنی عقل یا نقل کافی نہ تو دوسرے عقیل اور فہیم لوگوں سے سُن کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بارہا میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ عقل مقدّم ہے یا نقل؟ اور کیا ان دونوں میں کوئی تعارض اور تناقض تو نہیں؟ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سماعی چیزوں پر بھی عقل فیصلہ دیتی ہے.جیسے فرمایا گیا ہے لَوْ کُنَّا نَسْمَعُ اَوْ نَعْقِلُ مَاکُنَّا فِیْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ اور پھر عقلِ صریح اور نقلِ صحیح میں ہرگز کوئی تعارص نہیں ہوتا.دونوں کا ایک ہی فیصلہ ہے.اور عقل مقدّم ہے.کیونکہ انسان مکلّف نہیں ہو سکتا.جب تک سوچنے اور سمجھنے نہ لگے.پس اب ہم اس مدّعی کے دعوے کے امتیاز کے لئے عقلی اور نقلی دلائل سے اگر فیصلہ چاہیں تو یقینا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ واقعی یہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.عقل سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ہو گا.کہ کیا اس وقت کسی کے آنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ تو جیسا کہ مَیں پہلے بیان کرچکا ہوں.خدا تعالیٰ کا مستقل اور اٹل قانون ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی طرف سے ایسے وقت پر مامور آتے ہیں اور آنے جاہئیں.اور پھر جب ہم نقل سے اس کا موازنہ کرتے تو نقلب صحیح ہم کو بتاتی ہے کہ یہ وقت خدا کے ایک مامور کے آنے کا ہے.تمام کشوف اور رؤیا اور الہام اس پر شہادت دیتے ہیں کہ مسیہ موعود اور مہدی کا زمانہ چودہویں صدی سے آگے نہیں.ہر صدی پر مجدّد کے انے کا وعدہ بجائے خود ظاہر کرتا ہے.کہ ایک عظیم الشان مجدّد اس وقت ہونا چاہیئے اور چونکہ صلیبی فتنہ کثرت سے پھیلا ہوا ہے.اس لئے اس صدی کے مجدّد کا نام بہرحال کا سرالصلیب ہی ہو گا.خواہ وہ کوئی ہو.اور پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں کا سرالصلیب جس کا نام رکھا گیا ہے.وہ وہی ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسیح موعود کہا گیا ہے.اور اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے پاک کلام پر جب ہم نگاہ کرتے ہیں تو اور بھی صفائی کے ساتھ یہ بات کُھل جاتی ہے کہ اُس نے وعدہ کیا کہ اِسی اُمّت میں سے خلفاء کا ایک سلسلہ اُسی نہج اور اسلوب پر قائم ہو گا.جیسے بنی اسرائیل میں ہوا اور پھریہ بھی کھول کر بیان کیا گیا کہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس دعوٰی اور پیشگوئی کے مطابق جو استثناء کے باب ۱۸ میں کی گئی تھی مثیل موسٰی ہیں.اور قرآن نے خود اس دعوٰی کو لیا. (المزمل:۱۶)اب جب کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مثیلِ موسٰی ٹھہرے اور خلفائِ مُوسویہ کے طریق پر ایک سلسلہ خلفاء محمدیہؐ کا خدا تعالیٰ نے قائم کرنے کا وعدہ کیا جیسا کہ سورۂ نور میں فرمایا:

Page 100

(النور:۵۶) پھر کیا چودہویں صدی موسوی کے خلیفہ کے مقابل پر چودہویں صدی ہجری پر ایک خلیفہ کا آنا ضروری تھا یا نہیں؟ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا جاوے اور اس آیت وعدہ کے لفظ کُمُا پر پورا غور کر لیا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ موسوی خلفاء کے مقابل پر چودہویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفاء ہو گا اور وہ مسیح موعود ہو گا.اب غور کرو کہ عقل اور نقل میں تنا قض کہاں ہوا؟ عقل نے ضرورت بتائی.نقصِ صحیح بھی بتاتی ہے کہ اس وقت ایک مامور کی ضرورت ہے اور وہ کاتم الخلفاء ہو گا.اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہیئے.پھر ایک مدّعی موجود ہے.وہ بھی یہی کہتا ہے کہ مَیں مسیح موعود ہوں.اس کے دعوے کو راست بازوں کے معیار پر پرکھ لو.مَیں اب ایک اور آسان ترین بات پیش کرتا ہوں.جو عقل اور نقل کی رُو سے اس امام کی تصدیق کرتی ہے.قرآن شریف میں چاند اور سورج کی سنّت کے متعلق فرمایا ہے.(یونس:۶) سورج اور چاند کے نظام اور قانون پر نظر کے کے بہت سے حساب سمجھ سکتے ہو.جنتریاں بنا سکتے ہو جیسے دو اور دو چار ایک یقینی بات ہے.اسی نظر پر یہ نظام بھی حق ہے.اب اگر کوئی شخص میرزاصاحب کے دعوے کے متعلق پہلے دعوے کے وقت نقل ِصحیح سے کام لیتا تو یہ عقدہ کیسی آسانی سے حل ہو جاتا تھا.تیرہ سو برس پیشتر کہا گیا تھا کہ اس مہدی کے وقت رمضان میں کسوف و خسوف ہو گا اور اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا بُت پرست قوم بھی سال سے پہلے جنتری لکھ دیتی ہے.مسلمانوں کو غیرت کرنی چاہیئے تھی اور معلوم کرنا چاہیئے تھا کہ کس سال میں اجتماع ممکن ہے؟ ہندو جاہل جب پتری بنا کر کسوف خسوف کے پتے دیتا ہے تو ایک مسلمان کو جس کی کتاب میں لکھا ہے.سوچنا چاہیئے تھا.کہ وہ وقت کب ہو گا.اور جب اسے وقت کا پتہ ملتا تو وہ تلاش کرتا کہ مدّعی ہے یا نہیں؟ اگر وہ مدّعی کو پا لیتا تو سوچ لیتا کہ آسمان کی بات میرے یا کسی کے تعلق میں نہیں ہے.نقل میں موجود ہے.کہ اس کے وقت کسوف خسوف ہو گا اور عقل بتاتی ہے کہ یہ اجتماع کسوف و خسوف فلاں وقت ہو گا.اور وہ وقت آ گیا اور مدّعی موجود ہے.جب ان امور پر غور کرتا تو بات بالکل صاف تھی اور وہ مان سکتا تھا اور بڑی سہل راہ سے سمجھ سکتا تھا.اگر اتنی عقل اور سمجھ نہ تھی تووعدے کے وقت ہی حدیث کو دیکھ لیتا اور سُن لیتا اور سوچتا کہ یہ حدیث کیسی ہے اور پھر کسی ہندو سے دریافت کرتا کہ یہ موقع کب ہو گا اور جب وہ اُسے بتاتا کہ فلاںسنہ میں ہو گا اور پھر جب وقوع میں آتا تو تسلیم کر کے اپنے تزکیہ کے لئے چلا جاتا.غرص یہ کسی صاف اور روشن بات تھی لیکن اگر آسمان کی طرف نہیں

Page 101

دیکھ سکتا تھا.اور اس کی نگاہ اتنی اونچی نہ تھی تو زمین میں ہی دیکھتا کہ اس کے لئے کیا نشان ہیں اور اس امر پر غور کرتا کہ قرآن تو اس لئے آیا ہے لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْ مَا اخْتَلَفُوْافِیْہِ.اب اس دعوٰی کے موافق اس وقت کوئی اختلاف ہے یا نہیں.اور پھر قرآن شریف اس اختلاف کے مٹانے کے لئے بس ہے یا نہیں؟ پہلی بات پر نظر کر کے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اختلاف کثرت سے پھیلا ہوا ہے.سب سے پہلا اختلاف تو ہمیں اپنے ہی اندر نظر آتا.ہم دیکھتے ہیں کہ بعص صداقتیں ہمارے اندر ہیں.جن کو ہم ایمانیات یا عقائد کہتے ہیں اور پھر کجھ اعمال ہیں جو یا نیک ہوتے ہیں یا بد.اب مطالعہ کرتے کہ کیا وہ اعمال ان مسلّمہ نیکیوں اور صداقتوں کے موافق ہیں یا مخالف ہیں.اگر اس کی مانی ہوئی نیکیاں اور ہیں اور نیک اعمال فی نفسہٖ اور ہیں تو اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی کہ یہ پہلا اختلاف مٹنا چاہیئے.۱؎ پھراس اختلاف کے بعد اگر اور بلند نظری سے کام لے تو اس کو بہت بڑا اختلاف ان لوگوں میں نظر آئے گا جو بخیالِ خویش و بزعمِ خود اکابرین ملّت اور علماء اُمّت بنے ہوئے ہیں.ان کے باہمی اختلاف کو چھوڑکر اگر خود ان کی حالت پر نظر کی جاوے.تو ان کے قول اور فعل میں بُعدِ عظیم پایا جائے گا.اسی کو زیرِ نظر رکھ کر ایک پارسی شاعر نے کہا ہے ؎ مشکلے دارم زدانشمند مجلس باز پُرس توبہ فرمایاں چراخود توبہ کمترمی کنند یہ واعظ.یہ معلّم الخیر ہونے کے مدّعی.صوفی اور سجادہ نشین چراخود توبہ کمترمی کنند کے مصداق ہیں.یہاں تک تو وہ شاعر قعل و دانش کی حد کے اندر ہے.اس سے اور آگے چل کر کہتا ہے.؎ واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبرمی کنند چُوں بخلوت می روند آن کارِ دیگرمی کنند یہ گواہی جو اس پارسی بان شاعر نے دی ہے کوئی مخفی شہادت نہیں بلکہ واعظوں.صوفیوں.سجادہ نشینوں تک پہنچی ہوئی ہے.کیونکہ ان کی مجلسِ وعظ یا مجلسِ و جدو ہال وقال کے لئے اس کے شعر ضروری ہیں.اور ہر ایک مسلمان جو کبھی کبھی اپنی مشکلات اور مصائب میں پھنس کر بے قرار ہوتا ہے تو بد قسمتی سے اسی لسان الغیب کا فال لینے کی طرف توجہ کرتا ہے.اور یوں اپنے اوپر اس دورنگی اور اختلاف کا جو واعظوں اور معلم الخیر کے مدّعیوں میں ہے ایک گواہ ٹھیرتا اور اپنے اوپر حجّت ملزمہ قائم کرتا ہے.اب ان ساری باتوں ۱؎ الحکم ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴،۱۵

Page 102

کو یکجائی نظر سے دیکھو اور غور کرو کہ کیا یہ علمیؔ اور عملی یا ایمانی اور عملی اختلاف کسی تال اور سُر کے ذریعہ مٹ سکتا ہے یا خود بخود؟ اور قرآن شریف جو اختلاف مٹانے کا مدّعی ہے اور سچّا مدّعی ہے.اس نے کیا راہ بتائی ہے.مَیں بڑے دردِ دل سے اُن مباحث اور لیکچروں کو پڑھا کرتا ہوں جو اسی زمانہ میں مسلمانوں کے تنزّل کے اسباب پردئے جاتے ہیں.اسباب تنزّل اور اسبابِ ترقی کے بیان کرنے میں ہمارے ریفارمر ( کود ساختہ) اور مصلح قرآن شریف کو مَس نہیں کرتے اور تفرقہ کے دور کرنے کے لئے قرآن شریف میں علاج نہیں دھونڈتے.میں نے ان لیکچروں اور سپیچوں کو پڑھ کر دردِ دل سے یہی لکھا ہے. (الفرقان:۳۱) غرض میں اس عظیم الشان اختلاف کو ابھی پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ یہ کیونکر دور ہو سکتا ہے؟ دیکھو ایک چیز ہے جس کا نام ایمان ہے.اور ایک کا نام عمل ہے.ان دونوں کا باہم مقابلہ کرو اور سوچ کر بتاؤ کہ کیا ان میں موافقت ہے؟ کیا حال اور قال یکساں ہے؟ اگر نہیں!اور یقیناً نہیں!! تو پھر کیوں صاف دل کے ساتھ یہ اقرار نہیں کیا جاتا کہ ایک مزکّی کی ضرورت ہے.جو انسان کو اس نفاق سے جو اس کے اندر ایمان اور عمل کی عدمِ موافقت سے پیدا ہو رہا ہے.دُور کرے.اگر نِرا علم کوئی چیز ہوتا.معرفتب صحیحہ کی کوئی ضرورت نہ ہوتی.اگر اس قوّت اور کشش کی حاجت نہ ہوتی جو انسان پر اپنا عمل کر کے اس کے دل کو صاف کرنے میں معاون اور مددگار تھیرتی ہے.جو مزکّی کی تاثیر صحبت اور پاک انفاس کی برکت سے ملتی ہے.جس کی طرف کُوْنُوْامَعَ الصَّادِقِیْنَکہہ کہ مولیٰ کریم نے توجہ دلائی ہے.تو میں پوچھتا ہوں کہ پھر اسی پارسی لسان الغیب کو کیا حاجت اور ضرورت تھی جو وہ بول اٹھا کہ مشکلے دارم زدانشمندِ مجلس بازپُرس! اس ایمانیے اور عملی اختلاف کے موراء اور اختلاف ہے جس نے قوم کے شیرازہ کو پراگندہ اور منتشر کر دیا ہے اور وہ رُوح قوم میں نہ رہی جو (آل عمران:۱۰۴) میں رکھی گئی تھی.یعنی مختلف فرقے، شیعہ،خوارج،مقلّد، غیر مقلّد، جبریّۂ قدریّہ وغیرہ کے بکھیڑوں اور ؟قضیوں پر نگاہ کرو تو عظیم الشان تفرقہ نظر آئے گا.میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے کہ یہ فرقہ بندیاں کیوں ہیں اکثروں نے کہا ہے کہ سب فرقے قرآن ہی سے استلال کرتے ہیں.میں نے نہایت تعجّب اور افسوس کیساتھ اس قسم کی دلیری اور جرأت کو دیکھا ہے.اور سُنا ہے.قرآن شریف تو اختلاف مٹانے کو آیا ہے.اور یہی اس کا دعوٰی ہے جو بالکل سچّا ہے.پھر یہ اختلاف اس کے ذریعہ کیسے ہو سکتا ہے؟

Page 103

میرے اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا.اور حقیقت بھی یہی ہے.کیا مَعَاذَ اﷲِ قرآن شریف موم کی ناک ہے کہ جدھر چاہے پھیر دی یا وہ اپنے اس دعوٰی میں معاذ اﷲ سجا نہیں جو اس نے اختلاف مٹانے کا کیا ہے؟ پھر یہ ایمان کیوں رکھتے ہو.میری سُنو! قرآن شریف آیاتِ محکمات ہے.وہ لاریب اختلاف مٹانے کے لئے حَکَم ہے مگر اس پر مسلمانوں نے توجّہ نہیں کی اور اس کو چھوڑ دیا.وہ اپنی نزاعوں کو قرآن شریف کے سامنے عرض نہیں کرتے.مجھے ایک بار لاہور کے شیعوں کے محّلہ میں وعظ کرنے کا اتفاق ہوا.میں نے کہا شیعوں سنّیوں کے اختلاف کا قرآن سے فیصلہ ہو سکتا تھا.اگرجہ توجّہ کرتے.ایک شخص نے کہا کہ وہ قرآن سے ہی استدلال کرتے ہیں.میں نے کہا کہ یہ قرآن موجود ہے.آپ ہی بتا دیں کہ کہاں سے استدلال کیا ہے.غرض قرآن کو ہرگز حکم اور فیصلہ کُن نہیں مانتے.اگر اس پر ایمان ہوتا تو بڑی صفائی سے یہ بات سمجھ میں آجاتی کہ سچّی توجّہ کے لئے ایک کامل الایمان مزکّی اور مطہّرکی ضرورت ہے جو اپنی قدسی قوّت کے اثر سے دلوں کے زنگ کو دُور کرے.بدوں مزکّی کے یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی! اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے.بلکہ وسیع نظارۂ قدرت میں اس کے نطائر موجود ہیں! دیکھو! ایک درخت کی ٹہنی جب تک درخت کے ساتھ پیوند رکھتی ہے.وہ سر سبز ہوتی ہے.حالانکہ اس کو جو پانی کی غذائیت ملتی ہے.وہ بہت ہی کم ہوتی ہے.اب اگر اس کو دیکھ کر ایک نادان اس کو کاٹ کر پانی کے ایک گڑھے میں ڈال دے کہ لے تو اب جس قدر پانی چاہے جذب کر اور اپنے دل میں خوش ہو کہ یہ بہت جلد بارآور ہو جائے گی.اور اس کو بتادے گی کہ میں سرسبز نہیں رہ سکتی.اس درکت سے الگ ہو کر! اسی طرح یہ نظارۂ قدرت عام اور وسیع ہے.اس سے صاف سبق ملتا ہے کہ مزکّی کی ضرورت ہے جس کے ساتھ پیوند لگا کر انسان اپنے تزکیہ کا حصّہ لے سکتا ہے.ورنہ مزکّی سے الگ رہ کر کوئی یہ دعوٰی کرے کہ وہ اپنی اصلاہ اور تزکیہ کرے گا.یہ غلط ہے اور محض غلط ہے بلکہ ع ایں خیال است و محال است و جنوں اور وہی مشکلے دارم کا سچّا مسئلہ.اندرونی اختلاف اور تفرقہ اگر کجھ ایسا نہ تھہ کہ اس کے دل پر اثر انداز ہو سکتا.اور اس کو صرف جزئی اکتلاف قرار دیتا تھا تو پھر صرور تھا کہ غیر قوموں کے اعتراضوں ہی کو دیکھتا جو اسلام پر کئے جاتے ہیں اور دیکھتا کہ وہ کون سا ذریعہ ہے جو اسلام کے نابود کرنے اور اس پر اعتراض کر کے اس کو مشکوک بنانے میں غیر قوموں نے

Page 104

چھوڑ رکھا ہے؟ ذرا عیسائیوں ہی کو دیکھو کہ کس کس رنگ میں اسلام پر حملہ ہے.سفاکانوں کے ذریعہ اخباروں اور رسالوں کے ؟زریعہ ہفتہ وار.روزانہ اور ماہواری ٹریکٹوں اور اشتہاروں کے ساتھ، فقیروں اور جوگیوں کے لباس میں.مدرسوں اور کالجوں کے رنگ میں ،تاریخ اور فلسفہ کی شکل میں.غرص کوئی پہلو نہیں جس سے اسلام پر حملہ نہ کیا جاتا ہو.اﷲ تعالیٰ کی ذات پر وہ حملہ کہ بپتسمہ دیتے وقت کہا جاتا ہے.واحد لاشریک باپ.واحد لاشریک بیٹا واحد لاشریک روح القدس.تین واحد لاشریک نہ کہو.بلکہ ایک واحد لاشریک.باپ قادر مطلق.بیٹا قادر مطلق.روح القدس قادر مطلق.تین قادرِ مطلق نہ کہو بلکہ ایک قادرِ مطلق! باپ ازلی.بیٹا ازلی.روح القدس ازلی.تینوں ازلی نہ کہو.بلکہ ایک ازلی.اب غور تو کرو کہ یہ توحید پاک پر کیسا خوفناک اور بیباک حملہ ہے.یہ کیا اندھیر ہے.اسی طرح اس کے اسماء افعال اور صفات پر مختلف پیرایوں اور صورتوں میں حملہ کیا جاتا ہے.اور غرص، اسلام کو نابود کرنا ہے اب اس اختلاف کو کون دور کرے.اور کون اس مرض کا مداوا کرے.وہی جو مزکّی ہو.مجھے نہایت ہی افسوس اور دردب دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے.کہ عیسائیت کے اس پُرآشوب فتنہ کو فرو کرنے کی بجائے مسلمانوں نے مدد دی ہے.اور اس آگ پر پانی کی بجائے تیل ڈال دینے کا کام کیا ہے.جب اپنے عقائد میں ان امور کو داخل کر لیا جو عیسائیت کی تقویت کا موجب اور باعث ہوئے ہیں.۱؎ یہ فیصلہ بالکل آسان اور صاف تھا.اگر ذرا تدبّر اور غور سے کام لیا جاتا.مگر رونا تو اسی بات کا ہے کہ عقل سے کوئی کام نہیں لیا جاتا.خدا تعالیٰ کی مخلوق میں عور نہیں کیا جاتا.یہ کیسی صاف ابت ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق اور انسانی مخلوق کبھی برابر نہیں ہو سکتی.یہ قاعدہ کُلیہ ہے کہ جو کچھ انسان بناتا ہے.خدا وہ کبھی نہیں بناتا! اور جو اﷲ تعالیٰ بناتا ہے انسان وہ ہرگز نہیں بنا سکتا! مثلاً ایک تنکا ہی لو.ساری دنیا کے صنّاع اور فلاسفر مل جاویں اور کوشش کریں.ساری عمر جدّ وجہد کریں کبھی ممکن ہی نہیں کہ ایک تنکا بنا سکیں.گھاس کا تنکا یا دانہ کا ذرّہ نہیں بنتا.پھر یہ خیال کر لینا اور مان لینا کہ مسیح بھی خدا تعالیٰ جیسی مخلوق بنا سکتا تھا.کیسی بے ہُودگی ہے.دیکھو! خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے.غلّہ انسان نہیں بنا سکتا.انسان اپنی صنعت سے روٹی بناتا ہے.خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی پسند نہیں کر سکتی.کہ وہ درختوں سے روٹیاں نکالے.کپڑے خدا تعالیٰ نے نہیں بنائے اسی طرح رُوئی انسان نہیں بنا سکتا.۱؎ الحکم۲۴؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۹ تا ۱۰

Page 105

اس سے کیمیاگروں کی حماقت اور فریب کا ایک ثبوت ملتا ہے اور کس طرح واضح طور پر ان کی تکذیب ہوتی ہے.سونا چاندی اور جاندی سونا نہیں ہو سکتا.خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْیئٌ (الشورٰی:۱۲کیا کوئی ہاتھی کے بچہ کو چُوہا کہہ سکتا ہے؟ اور کیا ہو سکتا ہے کہ مکھّی کے انڈے سے گھوڑا نکل آوے؟ ان امور کا سمجھنا آسان.گویہ بدیہی باتیں ہیں مگر ایک مزکّی جب تک موجود نہ ہو.وہ انسان کو اس قسم کے شرک سے نجات نہیں دے سکتا.ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ کیا وفاتِ مسیحؑ کا مسئلہ بھی کوئی اہم مسئلہ تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کس قدر ہے؟ ایک دنیا کو اس نے تباہ کر دیا ہے.اور ربّ العالمین کے عرش پر ایک عاجز ناتواں انسان کو بٹھایا گیا ہے.غرض اﷲ تعالیٰ کے اسماء ، صفات اور افعال کے متعلق سچا علم بخشنااُس شخص کا کام ہوتا ہے.جو آیات اﷲ کی تلاوت کرے اور اپنی قدسی تاثیر سے تزکیہ کرے اور سجی توحید پر قائم کرے.جب تک مزکّی نہ ہو یہ سمجھ میں نہیں ا سکتا کہ اس جہان کا پیدا کرنے والا ربّ العٰلمین ایک ہے.اور اس کا کوئی بیٹا نہیں جس کے بغیر نجات عالم ہی نہ ہو سکتی ہو جیسا کہ عیسائیوں نے مان رکھا ہے تعجّب ہے کہ وہ خلق عالم تواﷲ تعالیٰ کی صفت مانتے ہیں.پھر اس مخلوقِ عالم کو کیا مشکل تھا کہ نجات بھی دے دیتا؟ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ چونکہ عادل ہے اس لئے مخلوق کے گناہوں کو بحیثیت عادل ہونے کے بغیر سزا کے نہیں چھوڑ سکتا تھا اور رحیم بھی ہے.اس لئے بیٹے کو پھانسی دیا.یہ کیا خوب عدل اور رحم ہے کہ گناہ گاروں کے بدلے ایک بے گناہ کو پکڑ لیا اور بے گناہ پر رحم بھی نہ کیا.پھر اور بھی ایک تعجب ہے کہ یہودیوں کو نجات نہ ملی.حالانکہ پہلے نجات کے وہی مستحق تھے جنہوں نے نجات کے فعل کی تکمیل کی کوشش کی یعنی صلیب دلوانے کی.ان کا فعل تو گویا عیسائیوں کے اعتقاد کے موافق خدا کے ارادہ اور منشا سے توارُد رکھتا تھا.پھر وہ غضب کے نیچے کیوں رہے؟ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو نجات ملی،کیا مجوسیوں کو ملی، کس کو ملی؟ نجات تو پھر بھی محدود ہی رہی.کیا فائدہ اس پھانسی سے پہنجا؟ تو پھر شیطان کا سر جب کچلا گیا تو اب کیوں گناہ ہوتا ہے؟ پھر پوچھا گیا ہے کہ گناہ کا بد اثر جسم پر ہوتا ہے یا روح پر.اگر روح پر ہوتا ہے تو آدم سے کہا گیا کہ محنت سے روٹی کھائے گا.اور عورت دردِزِہ سے بچہ جنے گی.اور اگر جسم پر پڑتا ہے تو عیسائی آتشک اور سوزاک وغیرہ امراض میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور کیا عیسائی

Page 106

عورتیں دردِزِہ سے بچہ جنتی ہیں یا نہیں؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ نجات کے آثار پائے نہیں جاتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ مزکّی کے بغیر اصلاح نہیں ہو سکتی! ان خیالی باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا! اس کفّارہ کا نتیجہ تو یہ ہو کہ دنیا میں فسق و فجور اور اباحت پھیل گئی اور خدا کا خوف اُٹھ گیا.اب جس مزکّی کی صرورت ہے وہ ایسی خاصیّت اور قوّت کا ہونا چاہیے جو اس فتنہ کو دور کرے.اور اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مزکّی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؟ ایک ایک اصل جو اس نے پیش کی ہے.اس کے ذریعہ مذاہبِ باطلہ کو اس نے ہلاک کر دیا ہے!! ایک عیسائی نے مجھ سے پوچھا کہ اس نے آ کر کیا کیا ہے؟ میں نے کہا کہ تم کو لاجواب کر دیا ہے! ۱؎ امرتسرمیں پندرہ روز تک مباحثہ ہوا.اگر رحیم کریم نہ ہوتا تو ایک ہی منٹ میں ختم کر دیتا! ایک ہی اصل اس نے پیش کی تھی جس کا جواب عیسائی اور دوسری قومیں ہرگز ہرگز نہیں دے سکتیں اور قیامت تک نہ دے سکیں گی!! پھر وہ اصل ایسی اصل نہیں ہے کہ اسے یونہی ردّ کر دیا جاوے.بلکہ ہر سلیم الفطرت دانشمند انسان کو ماننا پڑے گا کہ بڑی پکّی اصل ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ ہر مذہب کی الہامی کتاب کا یہ کاصہ ہونا جاہیئے کہ جو دعوٰی وہ کرے.اس کی دلیل بھی اُسی میں ہو.یعنی دعوٰی بھی وہی کرے اور دلیل بھی وہی دے.مثلاً عیسائی کہتے ہیں.کہ یسوع خدا ہے.تو چاہیئے کہ انجیل میں پہلے وہ یہ دعوٰی دکھائیں کہ یسوع خدا ہے.پھر اس کے دلائل دیں.مگر یہ اصل انجیل میں کہاں؟ عیسائی مجبور ہو گئے اور ان کو اس حصّہ کو چھوڑنا پڑا.اس راہ پر وہ ایک منٹ بھی چل نہ سکتے تھے.مباحثہ کی روئیداد موجود ہے جو چاہے دیکھ لے! میں تو اُسی وقت جب اس کے منہ سے یہ لفظ نکلا تھا.سمجھ گیا اور مان چکا تھا کہ یہ کسرِ صلیب میں کامیاب ہو گیا! اس اصل سے اُس نے قرآن شریف کی وہ عزّت اور عظمت ظاہر کی کہ میرا ایمان ہے کہ تیرہ سو برس کے اندر کسی نے نہیں کی! اس نے کل مباحثہ میں اپنے اس طرز اور اصل کو نہیں چھوڑا.جو دعوٰی بیان کرتا.قرآن شریف سے اور جو دلیل بیان کرتا وہ بھی کتاب اﷲسے دیتا.اور پندرہ دن تک برابر اسی کا التزام رکھا! اب بتاؤ کہ یہ طرزِ بیان مزکّی کے سوا حاصل ہو سکتا ہے؟ میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں.اور میں یقینا کہتا ہوں کہ جس قدر تم اس وقت موجود ہو.تم سب سے زیادہ میں کتابیں پڑھ چکا ہوں اور کتاب میری ہر وقت کی رفیق ہے.لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس طرز پر مباحثہ کی بنیاد کوئی نہیں ڈال سکا اور ایسی طرز کہ مخالف پہلا ہی قدم نہیں اٹھا سکتا.جو چاہے آزما کر دیکھ لے! میں نے آج بھی اس اصل سے فائدہ اٹھایا.ایک شخص ؎ الحکم ۳۰ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴.۵

Page 107

نے اعتراص کیا.میں نے اسے بھی کہا کہ اصل کو مدّنظر رکھو! مجھ پر اعتراٖض کیا گیا کہ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے اور پھر رمضان ہی میں کیوں رکھا جاتا ہے؟ میں نے اس کو اوّلاً یہی جواب دیا کہ تم بتاؤ تمہاری کس کتاب نے منع کیا کہ روزہ نہ رکھو؟ اور پھر اس منع کے دلائل کیا دئے ہیں؟ میں تو بتاؤں گا کہ روزہ کیوں رکھنا چاہیئے اور رمضان میں کیوں فرض کیا گیا.اُسے کچھ جواب نہ بن پڑا میں نے اس مضبوط اور محکم اصل کو لے کر کہا کہ دیکھو ہماری کتاب قرآن شریف روزہ کا حکم دیتی ہے تو اس کی وجہ بھی بتاتی ہے.کہ کیوں روزہ رکھنا چاہیئے.لَعَلّٰکُمْ تَتَّقُوْنَ.روزہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ تم دکھوں سے بچ جاؤ گے اور سُکھ پاؤ گے.رمضان ہی میں کیوں رکھیں؟ اس کی وجہ بتائی شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ(البقرۃ:۱۸۶) چونکہ اس میں قرآن نازل ہوا.یہ برکات ِ الہٰیہ کے نزول کا موجب ہے.اس لئے وہ اصل غرض جو لَعَلّٰکُمْ تَتَّقُوْن میں ہے، حاصل ہوتی ہے.اسی طرح پر جس امر کو لو یا جس نہی کو لو.قرآن نے اس کے اسباب اور نتائج کو واضح طور پر بیان کیا ہے.اور نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ان کے نتائج سے بہرہ مند کر کے دنیا کو دکھا دیا ہے.آخرت کے وعدے تو آخرت میں پورے ہوں گے.اور ضرور ہوں گے مگر اس دنیا میں اُن سے حصّہ دیا اور ایسا حصّہ دیا کہ اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کے موافق وہ آخرت پر بطور دلائل اور حجج کے ٹھیرے.جن کو دیکھ کر اب کوئی آخرت کا انکار نہیں کر سکتا.صحابہؓ ہی تک وہ فیص اور فصل محدود اور مخصوص نہ تھا.اب بھی اگر کوئی قرآن شریف پر عمل کرنے والا خلوص سے اﷲ تعالیٰ کی طرف آوے.وہ ان انعامات اور فصلوں سے حصّہ لیتا ہے.اور ضرور لیتا ہے.اس وقت بھی لیتا ہے دیکھو ہمارا امام ان وعدوں اور فصلوں کا کیسا سچّا نمونہ اور گواہ موجود ہے! غرض سب کچھ قرآن میں ہے مگر مزکّی کے بغیر ، معلم کے بغیر وہ تزکیہ اور تعلیم نہیں ہوتی.مزکّی اپنی کشش اور اثر سے تزکیہ کرتا ہے.اور ان انعامات کا مورد بنانے میں، اپنی دعا، عقد ، ہمّت ، توجہ تام سے کام لیتا ہے جو دوسرے میں نہیں ہوتی ہے.ایک بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ وفاتِ مسیح پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے.ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا.اب اس کی کیا ضرورت ہے کہ بار بار اسی کا تذکرہ کیا جاوے؟ مَیںنے اس کو کہا کہ یہی وہ سرّ ہے جس سے یہ مسیح موعود بنایا گیا.اور جو کسرِ صلیب کا تمغہ لیتا ہے.تُم اور مَیں اور مَیں اور اَور اس قابل نہیں ہوئے.یہ ثبوت ہے اس کے خدا کی طرف سے ہوتے اور اس کے کامیاب ہو جانے کا.مَیں سچ کہتا ہوں اور ایمان سے کہتا ہوں کہ میری آنکھ نے وہ دیکھا جو بہت تھوڑوں نے ابھی دیکھا ہو گا.مَیں دیکھ چکا ہوں کہ کسرِ صلیب ہو چکی.میں نے تو اسی روز اس کا مشاہدہ کر لیا تھا جب اس نے امرتسر کے مباحثہ میں وہ اصل پیش کی جس کا ابھی مَیں نے

Page 108

ذکر کیا ہے.اس بھی بہت عرصہ پہلے مجھے اس کی خوشبو آ رہی تھی.اندر باہر جہاں کہیں ہو.کوئی بھی مضمون ہو.جس پر یہ بول رہا ہو.میں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ خواہ وہ وفاتِ مسیح سے کتنا ہی غیر متعلق ہو.مگر وفاتِ مسیح کا ذکر ضرور ہی کرے گا! یہ عزم ، یہ استقلال اور عقد ہمّت مامور کے سوا کسی دوسرے کو نہیں ملتی ہے! اور یاد رکھو.نہیں ملتی ہے!! تم مامور من اﷲ کو اس کے عقد ہمّت مامور کے سوا کسی دوسرے کو نہیں ملتی ہے! اور یاد رکھو.نہیں ملتی ہے!!تم مامور من اﷲ کو اس کے عقد ہمّت اور توجہ تام سے بھی شناخت کر سکتے ہو.بیشک خدا تعالیٰ مضطر کی دُعا سُنتا ہے.جب انسان مضطر ہو تو کیوں نہ سُنے.مَیں دیکھتا ہوں کہ اپنی بیماری یا دوسرے بیماروں کو دیکھتا ہوں تو مَیں مضطر ہوتا ہوں اور میرا مولیٰ میری دعا سُنتا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صورت جاتی رہتی ہے تو پھر وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.اس وقت میں اپنے نفس کو کہتا ہوں کہ تو مزکّی نہیں ہو سکتا.اس وقت مزکّی وہی ہو سکتا ہے.جو ہر حالت میں مسیح کی وفات کو لے آتا ہے.ایک شخص نے عرص کی کہ مَیں قرآن پڑھایا کرتا ہوں.مجھے کوی نصیحت فرمائیے.فرمایا.قرآن شریف پڑھایا کرتے ہو تو بس یہی کافی ہے کہ اِنِّیْ مُتَوَفِیْکَکے معنی اِنِّیْ مُمِیْتُکَ پڑھا دیا کرو.اب غور کرو کہ کس قدر عقدِ ہمّت ہے.کیسی توجہ ہے.ساری نصیحتوں میں اُسے یہی ایک ضروری معلوم ہوئی ہے.مجھ سے اگر وہ شخص پوچھتا تو شاید سینکڑوں نصیحتیں کرتا اور وہ بطاہر ضروری بھی ہوتیں.مگر نہ کرتا تو یہی نہ کرتا اور یہی سب سے اہم ہے یا کسی اَور سے وہ پوچھتا تو وہ اپنی جگہ سوچ لے کہ کیا وہ یہی نصیحت کرتا جو اس مزکّی نے کی؟ مَیں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ ہرگز نہ کرتا.یہ اسی کا کام ہے.دوسرے کا ہو ہی نہیں سکتا اور یہی تو بتاتا ہے کہ یہ کسرب صلیب کے لئے آیا ہے.۱؎ یہ یقین رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ کے فضل کے جذب کرنے کے لئے اضطراب اور سچّا اضطراب نہ ہو.کچھ نہیں بنتا.مسیحؑ کی موت معمولی بات نہیں.یہ وہ موت ہے جو عیسوی دین کی موت کا باعث ہے! اس قوم کو اگر کوئی جیت سکتا ہے تو اس کے لئے یہی ایک گُر ہے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ اس کے لئے اس نے کس قدر دعائیں کی ہوں گی.دل میں کس قدر جوش اُٹھتے ہوں گے.ہم تو ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ ایک آدمی مر گیا.پس مر گیا، بات کیا ہے، مرا ہی کرتے ہیں، مگر نہیں.اس کے ہل سے سب کچھ حل ہے.یہ فہم جو اسے دیا گیا ہے، یہ فہم مامور من اﷲ کے سوا دوسرے کو نہیں ملتا.یہ اضطراب اور جوش دوسرے کا حصّہ نہیں ہو سکتا.اگر کوئی دعوٰی کرے تو خیال باطل اور وہم محال ہے! پھر اختلاف اندرونی اور بیرونی پر نظر کرو کہ کیا حالت ہو رہی ہے.ایک کہتا ہے بائیبل میں یہ ہے دوسرا ۱؎ الحکم ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ

Page 109

کہتا ہے.قرآن میں یہ ہے.حضرت صاحب مثال دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے مداری کے تھیلے کی سی بات کر رکھی ہے.جیسے وہ چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے.ویسے ہی یہ بھی جو روایت اپنے مطلب کی چاہتے ہیں نکال کر پیش کر دیتے ہیں اور یہ اختلاف اس شدّت سے پھیلا ہوا ہے کہ اس کا بیان کرنا بھی آسان نہیں.صداقت اس طرح چھپ جاتی ہے جب تک مامور من اﷲ خدا تعالیٰ سے لطیف فہم لے کر نہیں آتا.صداقت بیج کی طرح رہتی ہے.جیسے بارش آسمان سے گرتی ہے تو خواہ ساری دنیا زور لگائے کہ بیج نشوونما نہ پائے.وہ اُگنے نہ پائے.وہ اُگنے سے نہیں رہتا.اسی طرح پر جب مامور من اﷲ آتا ہے تو خواہ کوئی کچھ ہی کرے وہ صداقت کو ضرور ہی نکال لیتا ہے.اس پہچان یہی ہوتی ہے کہ جو کام وہ کرتا ہے عقل صحیح اور نقل پریہ اور تائیداتِ سماوی اس کی تصدیق کرتے ہیں.اس وقت آزادی کی راہیں کُھلی ہیں.اسلام پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ پہلے کسی نے کبھی سُنے بھی نہ تھے.میں نے بعض لوگوں سے سمجھنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھی اعتراض کرتے تھے.میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط اور جھوٹ بات ہے.پہلے کوئی اعتراص نہیں کرتا تھا.اسلامی سلطنت کی سَطوَت و جبروت کے مقابلہ میں کون اعتراض کر سکتا تھا.یہ سب کچھ اس ضدی کا کرشمہ ہے.اور اسی انڈیا میں اس کو ترقی ہے جو چاہے کوئی کردے.اخبارات و رسالہ جات میں زور و شور سے مخالفت کی جاتی اور اعتراص کئے جاتے ہیں کوئی نہیں روکتا.فسق و فجور نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ شراب جسے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جمّاع الاثم کہا ہے اسی پر قیاس کر لو کہ کیا حالت ہے.لنڈن ایک شہر میں اس کی یہ حالت ہے کہ صرف شراب فروشوں کی دوکانوں کو الگ ایک لائن میں رکھا جاوے تو پچہتر میل سے زیادہ تک جاتی ہیں.اور کل کارخانے اتوار کو بند رہیں، مگر شراب کی دکانیں اتوار کو بھی کھلنی ضروری ہیں.اس سے اندازہ اور قیاس کر لو دوسری حالتوں کا.عورتوں کی بابت آیا ہے کہ وہ حبائل الشیطان ہیں یعنی عورتیں شیطان کی رسّیاں ہیں.حقیقت میں جس قدر ابتلاء ان عورتوں کے ذریعہ سے آتے ہیں اور جس طرح شیطان ان رسّیوں کے ذریعہ سے اپنا کام کرتا ہے.وہ کوئی ایسی بات نہیں کہ کسی سے پوشیدہ ہو.مشتری عورتوں اور مشنریوں سے جو خرابیان اکثر اوقات پیدا ہوتی ہیں.اور آئے دن اس قسم کی خبریں سننے میں آتی ہیں.کہ فلاں گھر میں ایک مشنری عورت آتی تھی اور وہاں سے فلاں عورت کو نکال لے گئی.اس کا پتہ نہیں وغیرہ.پھر اس سے ذرا اور آگے بڑھو.ولایت میں جو لوگ پڑھنے کے واسطے جاتے ہیں.اور کوئی ان کے حال کا بُر سان اور نگران نہیں ہوتا.پھر جو کچھ وہاں وہ کر گزریں تھوڑا ہے.مذہب کی رسمی قیود بھی

Page 110

بمبئی تک ہی سمجھی جاتی ہیں.اس کے بعد پھر کوی مذہب نہیں.الّا ماشاء اﷲ ! ایک معزّز ہندو نے نواب محمد علی کان صاحب کے مکان پر بیان کیا کہ یہ مت پوچھو کہ ولایت میں کیا کیا کھایا؟ بلکہ یہ پوچھئے کہ کیا نہیں کھایا؟ غرض حبائل الشیطان کی وہ حالت جماع الاثم کا وہ زور وشور.سلطنت کا رعب وسطوت وجبروت الگ.یہاں تک کہ بعص دفعہ ایسا بھی ہوا ہے.گو ویسے کچھ انور ہی ظاہر کر دیا گیا ہو کہ مقدمات میں تبدیلی مذہب نجات کا موجب ہو گئی اور مجسٹریت نے لکھ دیا کہ عیسائی مذہب کی وجہ سے خلاف گواہی دی گئی یا مقدمہ بنایا گیا.ایک آدمی بجائے خود ذلیل اور کسمپرس ہوتا ہے لیکن مشنریوں کے ہاں جا کر اسے روزگار مل جاتا ہے.یا کسی کو ممانعت روزگار ہوئی.مشنریوں نے پادری بنا دیا.اس قسم کے واقعات موجود ہیں.یہ خیالی یا فرضی باتیں نہیں ہیں.مشنریوں کی بعص رپورٹوں تک سے واقعات کُھل جاتے ہیں اگر ان پر زیادہ غور کی جاوے.یہ تو ان لوگوں کی آزادی کے اسباب ہیں جنہوں نے مذہب کی پرواہ نہیں کی.اس علاوہ مصنفوں اور ماسٹروں کا اثر پڑھنے والوں پر اندر ہی اندر ایک مخفی رنگ میں ہوتا چلا جاتا ہے.تصنیف کا ایسا خوفناک اثر ہوتا ہے کہ دوسروں کو معلوم بھی نہیں ہوتا.اور شاید پڑھنے والا بھی اسے جلدی محسوس نہ کر سکے.مگر آخر کار وہ ایسا متائثر ہوتا ہے کہ خود اس کو جرأت ہوتی ہے.شاہ عبدالعزیز صاحبؒ نے بھی اس اثر کے متعلق لکھا ہے اور میں چونکہ بہت کتابوں کا پڑھنے والا ہوں.میں نے تجربہ کیا ہے اور علاوہ بریں علمِ طبّ کے ذریعہ مجھے اس راز کے سمجھنے میں بہت بڑی مدد ملی ہے.میر حسنؔ کی مثنوی پڑھ ہزاروں ہزار لڑکے اور لڑکیاں ذانی اور بدکار ہو گئی ہیں.اور یہ ایسی بیّن اور ظاہر بات ہے کہ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.جب کہ تصانیف کا اثر طبائع پر پڑتا ہے.اور ضعیف طبیعتیں بہت جلد اس اثر کو قبول کرتی ہیں تو آجکل تصانیف کے ذریعہ جو زہر مشنری گروہ نے پھیلایا ہے.اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.ہر رنگ میں فلسفہ تاریخ، طبّ وغیرہ ہر شاخِ علم اور ہر کتاب میں مذہب سے مغائرت اور آزادی کا سبق پڑھایا جاتا.اور اسلام کی پاک تعلیم پر کسی نہ کسی رنگ میں حملہ کیا جاتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کا جادو کچھ ایسا کارگر ہوا ہے کہ ہرشخص بلا سوچے سمجھے کہ اس کے بچّے کو کس قسم کی تعلیم مفید اور کارآمد ہو سکتی ہے.اپنے لڑکوں کو سکول اور کالج میں بھیجتا ہے.جہاں حفاظتِ دین کے اسباب بہم نہیں پہنچائے جاتے.وہاں قسم قسم کی فصیح و بلیغ تقریروں والے اور بڑی بڑی لمبی داڑھیوں والے عجیب غریب باتیں سناتے ہیں اور یورپین اقوام کی ترقیوں اور صنّاعیوں پر لیکچر دے دے کر نوجوانوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں.یہاں تک کہ سیدھے سادھے نوجوان جو اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل کورے اور صاف ہوتے ہیں.مذہب کو ایک آزادی کی مانع چیز سمجھنے لگتے ہیں اور انسانی ترقیوں کا مانع اسے قرار

Page 111

یتے ہیں.باتوں ہی باتوں میں سمجھا دیئے جاتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض علماء کے سامنے کئے جاتے ہیں تو ان پر کفر کے فتوے جڑے جاتے ہیں.ان اعتراضوں کا جو بُرا اثر پڑتا ہے اس کے متعلق میں ایک قصّہ بیان کرتا ہوں.مگر یاد رکھو کہ مَیں قصّہ گو نہیں.بلکہ دردِ دل کے ساتھ تمہیں اسلام کی حالت دکھانی چاہتا ہوں.میری غرص کسی پر نکتہ چینی کرنا نہیں ہے اور نہ ہنسانا مقصود ہے.بلکہ اصلیت کا بیان کرنا مدّ نظر ہے.میںایک ریل میں سفر کر رہا تھا.جس کمرہ میں مَیں بیٹھا ہوا تھا.اسی کمرہ میں ایک اور بڈھا شخص بیٹھا ہوا تھا.ایک اور شخص جو مجھے مولوی صاحب کہہ کر مخاطب کرنے لگا.تو اس دوسرے شخص کو بہت بُرا معلوم ہوا اور اس نے کھڑکی سے سر باہر نکال لیا.وہ شخص جو مجھ سے مخاطب تھا اس کے بعض سوالوں کا جواب جب میں نے دیا تو اس بڈھے نے بھی سر اندر کر لیا اور بڑے غور سے میری باتوں کو سُننے لگا اور وہ باتیں مؤثرمعلوم ہوئیں.پھر خود ہی اس نے بیان کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے کیوں سر باہر کر لیا تھا.میں نے کہ.کہ نہیں اس نے بیان کیا کہ مجھے مولویوں کے نام سے بڑی نفرت ہے.اس شخص نے جب آپ کو مولوی کر کے پکارا تو مجھے بہت بُرا معلوم ہوا.لیکن جب آپ کی باتیں سُنیں تو مجھے اُن سے بڑا اثر ہوا.میں نے پوچھا کہ مولویوں سے تمہیں کیوں نفرت ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے لدھیانہ میں ایک مولوی صاحب کا وعط سُنا! اس نے دریائے نیل کے فضائل میں بیان کیا.کہ وہ جَبَلُ الْقَمَرسے نکلتا ہے.اور اس کے متعلق کہا کہ چاند کے پہاڑوں سے آتا ہے.میں نے اس پر اعتراض کیا تو مجھے پٹوایا گیا.اس وقت مجھے اسلام پر کچھ شکوک پیدا ہو گئے.اور میں عیسائی ہو گیا اور بہت عرصہ تک عیسائی رہا.پھر ایک دن پادری صاحب نے مجھے کہا کہ ایک نئی تحقیقات ہوئی ہے.دریائے نیل کا منبع معلوم ہو گیا ہے.اور اس نے بیان کیا.کہ جبل القمر ایک پہاڑ ہے وہاں سے دریائے نیل نکلتا ہے.میں اس کو سُن کر رو پڑا.اور وہ سارا واقعہ مجھے یاد آگیا.ایک عیسائی نے مجھے مسلمان بنا دیا.اور ایک مولوی نے مجھے عیسائی کیا.اس وجہ سے میں ان لوگوں سے نفرت کرتا تھا.مگر آپ اُن میں سے نہیں ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی یہ کہانی سُن کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی کہ اﷲ ! مسلمانوں کی یہ حالت ہے.غرض اس وقت مسلمانوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور اس پر بھی ان کو کسی مزکّی کی ضرورت نہیں ! ۱؎ غرض یہ حالت اس وقت اسلام کی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ مزکّی کی ضرورت نہیں! سخت چوٹ لگی کہ اﷲ ! مسلمانوں کی یہ حالت ہے.غرض اس وقت مسلمانوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور اس پر بھی ان کو کسی مزکّی کی ضرورت نہیں ! ۱؎ قرآن موجود ہے ۱؎ ۱۷؍دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۳.۱۴

Page 112

میں پوچھتا ہوں.اگر قرآن ہی کی ضرورت تھی تو پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن شریف کے آنے کی کیا حاجت تھی؟ کسی درخت کے ساتھ لٹکا لٹکایا مل جاتا.اور قرآن شریف خود کیوں یہ قید لگاتا ہے.وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ یُزَکِّیْھِمْوغیرہ.میں سج کہتا ہوں.کہ معلّم اور مزکّی کے بدون قرآن شریف جیسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے وقت غیر مفید ہوتا.؟آج بھی غیر مفید ہوتا! خدا تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ طریق پسند فرمایا ہے.کہ وہ انبیاء و مرسلین کے ذریعہ ہدایت بھیجتا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہدایت تو آجاوے مگر انبیاء و مرسلین نہ آئے ہوں! پس اس وقت جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں.اور مختلف پہلوؤں سے میں نے دکھایا ہے.ضرورتیں داعی ہو رہی ہیں کہ ایک مزکّی اور مطہّر انسان قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کر کے اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچاوے.جو قرآن شریف میں موجود ہے.یہ کام اس کا ہے کہ وہ ہدایت کی اشاعت کرے! جب یہ ضرورت ثابت ہے تو پھر اس امر کا پتہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزکّی آیا ہے یا نہیں؟ میں کہتا ہوں کہ وہ مزکّی آگیا! اب اس کی صداقت جانچنا باقی رہتا ہے! اس کے لئے قرآن شریف اور منہاجِ نبوّت کامل معیار ہے.اس سے دیکھ لو.اس کی سچائی خود بخود کُھل جاویگی اور عقلی دلائل نصوص قرآنیہ اورقرآنیہ اور حِدیثیہ اور تائیدات سے اسے شناخت کر لو.کسوف و خسوف کا کس قدر عطیم الشان نشان موجود تھا مگر دیکھنے والوں میں سے سب نے فائدہ اٹھایا؟ ہرگز نہیں! اس کے پورا نہ ہونے سے پہلے تو اسے صحیح قرار دیتے تھے مگر جب وہ پورا ہو گیا.تو روایت کی صحت میں شبہ کرنا شروع کر دیا.حقیقت میں جب انسان تعصّب اور ضِد سے کام لیتا ہے اور ایک بات ماننی نہیں چاہتا تو اس کی بہت سی توجیہیں نکالتا ہے اور اپنے خیال کے موافق عُذرات تراش لیتا ہے.چونکہ انسان کی قوتیں دن بدن آگے بڑھتی ہیں.اس لئے وہخیالات ترقی کرتے جاتے ہیں.دیکھو میں کل جس عمر کا انسان کی قوتیں دن بدن آگے بڑھتی ہیں.اس لئے وہ کیالات ترقی کرتے جاتے ہیں.دیکھو میں کل جس عمر کا تھا آج اُ سے ایک دن بڑا ہوں.اسی طرہ دیکھ لو.پچھلے حصۂ زندگانی پر جس قدر غور کرو گے اور جتنا پیچھے جاؤ گے.امسی قدر تمہیں نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کمزوری بڑھتی گئی ہے.دیکھو پہلے بول نہ سکتا تھا.پھر بولنے لگا اور اپنی مادری زبان میں کلام کرنے لگا اور پھر یہاں تک ترقی کی کہ اردو بولنے لگا اور پھر یوماً فیوماً اس میں بھی ترقی کی.یہاں تک کہ اب اپنی زبان میں مسلسل دو چار فقرے بھی ادا نہیں کر سکتا.ایک بار حضرت امام علیہ السلام نے مجھے پنجابی زبان میں وعظ کرنے کا حکم دیا.میں دو چار فقروں کے بعد ہی پھر اردو بولنے لگا.اسی طرح دیکھ لو کہ ہر صورت میں انسان ترقی کرتا ہے.بچپن کے زمانہ میں جو کپڑے کام آتے تھے اور خوبصورت اور ٹھیک موزوں تھے.آج میں ان کو نہیں پہن سکتا.یہی نہیں کہ وہ میرے بدن پر نہیں آ سکیں

Page 113

گے بلکہ بہت ہی بُرے ہوں گے !! جہاں تک غور کرتے جاؤ.انسان ترقی کرتا جاتا ہے! اسی اصول کے موافق وہ نیکیوں اور بدیوں میں بھی ترقی کرتا ہے اور رسم و رواج لباس وغیرہ امور میں ترقی ہوتی رہتی ہے.ایک زمانہ تھا کہ مردوں کے پاجامے گلبدن کے ہوتے تھے اور وہ دوہری پگڑیاں پہنا کرتے تھے.اور بھدّی تلواریں ہوتی تھیں اور کچھ بدنُما ڈھالیں.مگر آج دیکھو کہ وہ طرزِ لباس ہی نہیں رہا.ان تلواروں اور ڈھالوں کی ضرورت ہی نہیں رہی.اس اس قسم کی توپیں اور بندوقیں آئے دن ایجاد ہو رہی ہیں کہ دشمن اپنے ہی مقام پر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اُسے خبر ہوتی ہے! فنونِ حرب میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ کچھ کہا نہیں جاتا.میری غرض اس وقت زمانہ کی ایجادات اور فنون کی ترقیوں پر لیکچر دینا نہیں ہے.بلکہ میں اس اصل کو تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ انسان ترقی کرتا ہے اور وہ جس حالت میں ہو.اُس میں رہ نہیں سکتا.غرض پھر اس حکومت کے دَور دَورہ میں جہاں اور ترقیاں ہوئیں.لباس میں بھی ترقی ہونے لگی.پھر اُلٹی وصع کی پگڑیوں کے بجائے پگڑیوں کا طور بدلا.ٹوپیوں کا رواج شروع ہوا.بال رکھتے تھے.یہ سوچا کہ سر دھونے کی تکلیف ہوتی ہے.بال چھوٹے کئے جاویں.بالوں پر اثر پڑا.پھر ڈاذھیوں کی صفائی شڑوع ہوئی پھر جوتوں کی طرف دیکھا کہ پرانی وضع کے جوتے بھدّے اور بدنما ہیں اس لئے ان میں ترمیم کرنی جاہیئے اور اس قسم کے ہونے چاہیئںجیسا کہ پاؤں کا نمونہ نیچر نے رکھا ہے.پس بوٹ کی طرف توجہ ہوئی اور فرغل چغہ کی بجائے کوٹ نکلے.یہاں تک توخیر تھی.لباس سے آگے اثر شروع ہوا اور ایک تہ بند گزار کو نماز بھی چھوڑنی پڑی.کیونکہ نماز پڑھنے میں ایک قیمتی پوشاک خراب ہوتی ہے.وصو کرنے سے کالر اور نیکٹائی وغیرہ کا ستیاناس ہوتا ہے اور کفیں خراب ہو جاتی ہیں.یہ انسان کی ترقی کی ایک بات ہے.اور یہی معنے ہیں میرے نظر میں.مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَمبنْھُمْ ! موجودہ زمانہ میں بھی اثر ہوا ہے.قوم کی حالت اسی طرہ بگڑی ہے.بعض کو فلسفہ نے تباہ کر دیا ہے وہ بعض اور مشکلات اور حالتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے.میری طبیعت فلسفہ کو پسند کرتی ہے.مگر اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے قرآن جیسا مجھے فلسفہ دیا اور پھر ایک اپنا امام مجھے عطا کیا ہے کہ جس کی قوّتِ قدسی اور تاثیر صحبت سے یہ فلسفہ مجھے بہت ہی عزیز اور کامل تر فلسفہ ملا.میں نے دیکھا ہے کہ آجکل کے نوجوان جو انگریزی فلسفہ کی چند کتابیں پڑھتے ہیں جس پر بجائے خود بیسیوں نہیں سینکڑوں اعتراص ہیں.بڑے فخر سے مِلْ.سپنسَرْ کے نام لیتے ہیں اور ناز کرتے ہیں کہ پلیٹو نے فلسفہ میں یہ لکھا اور فیثا غورث نے یہ کہا ہے.ان باتوں نے ان پر کچھ ایسا اثر کیا ہے کہ اب وہ

Page 114

مذہب پر ہنسی کرتے ہیں اور ا س کو ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں.مذہب کی حالت تو یوں بدتر ہوئی.پھر سوسائٹی کی طرف دیکھو.ادنیٰ سے اعلیٰ تک کو میں نے دیکھا ہے.کہ جب ان سے کوئی بات پوچھو تو ان کے نزدیک گویا حرام ہے کسی مسلمان کا نام لینا.وہ سوسائٹی کے اصولوں کو بیان کرتے ہوئے بڑے خوش ہوتے ہیں اور انگریزوں کے نام لیتے ہیں اور ان کی کتابوں کے حوالے دینے لگتے ہیں.مختصر یہ کہ دنیا الگ معبود ہو رہی ہے.حکومت کی طرف سے جو اثر ہو رہا ہے.وہ ظاہر ہے.بچّے یوں مبتلا ہیں.مدارس میں مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں! اور مسلمان کر نہیں سکتے! گورنمنٹ برداشت نہیں کر سکتی کہ ہر مذہب کے معلّم مدرسوں میں اپنی گرہ سے قائم کرے.کیونکہ مذہبی تعلیم دینا خود دمسلمانوں کا اپنا فرص ہے! اور اصل تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے بظاہر دینی تعلیم کا انتظام کیا بھی ہے، وہاں بھی یہ حالت ہے کہ دینی تعلیم اصل مقصد نہیں بلکہ دنیوی علوم کے ساتھ برائے نام ایسا رکھا گیا ہے! میں اپنے یہاں دیکھتا ہوں.دوسرے مدرسوں کی نسبت یہاں دینیات کی طرف توجّہ ہے.مگر مَیں نے دیکھا ہے کہ لڑکے مسجد میں بھی انگریزی کتابوں کے ہجے یاد کرتے رہتے ہیں! مجھے تعجّب ہی ہوا ہے.عربی اور قرآن شریف کی طرف وہ توجہ نہیں پاتا ہوں جو انگریزی اور اس کے لوازمات کی طرف ہے.غفلت جس قدر مسلمانوں پر سایہ کئے ہوئے ہے.اس کا تو ذکر ہی نہ پوچھو.اعمال میں یہ حالت ہے کہ گھر میں تو اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ ( الکوثر:۲)بھی گراں گزرتی ہے.لیکن اگر امام ہوں تو سورۂ بقرۃ بھی کافی نہیں! حدود اﷲ میں یہ غفلت ہے کہ اپنی ہی سستی اور کمزوری سے تمام حدود اٹھ گئی ہیں.کسی کو جھوٹ یا چوری یا دوسری خلاف ورزیوں کی سزا نہیں ملتی ہے! ان باتوں کا اگر ذکر نہ بھی کریں اور مختصر الفاظ میں کہیں تو یہ ہے کہ مذہب سے ناواقفی ہو گئی ہے.مہذّب جماعت نے مذہب کا ذکر ہی خلافِ تہذیب سمجھ رکھا ہے.مذہبی مباحثوں کو وہ اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کی کچھ حدّ ہی نہیں.ان کی مجلس میں اگر اسلام یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یا قرآن کی نسبت سخت الفاظ میں حملے کئے جاویں تو ان کو سُن کر خاموش ہو رہنا اور کسی قسم کا جواب نہ دینا فراخ حوصلگی اور مرنج و مرنجاں کا ثبوت ہے.وہ یہ کہتے ہیں.کہ مذہب کا تعلق صرف دل سے ہے.زبان سے یا اعمال سے یا مال سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے! جہاں تک نظر دوڑاؤ.مخلوق کو عجیب حالت میں مبتلا پاؤ گے.باوجود اس حالت کے ازادی یہاں تک ہے کہ شاکتِ مذہب کے متعلق تک بھی کتابیں شائع ہو گئی ہیں اور گُپت پرکاش کے نام سے ان کے

Page 115

حالات ظاہر ہو گئے ہیں.کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس وقت دنیا میں موجود ہو اور اس کے عقائد اور متعلقات پبلک کے سامنے نہ آئے ہوں.جب یہ حالت ہے تو پھر مَیں مسلمانوں سے خطاب کر کے پوچھتا ہوں کہ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ ( الصّف: ۱۰)کا وقت کب آئے گا؟ اور علامات اور واقعات سے اگر تم استدلال نہیں کرتے تو مجھے اس کا جواب دو کہ مذاہبِ مختلفہ کا ظہور تو اب ہو چکا ہے وہ رسول اُس وقت کہاں ہے.جس نے اسلام کو جمیع طِل پر غالب کر کے دکھانا ہے؟ الغرض انسان کی اپنی ضرورتیں ، پس و پیش کی ضرورتیں ، اعمال کا مقابلہ، عقل اور فطرت کے ساتھ عقلاء کی گواہیاں، راست بازوں کی گواہیاں، اپنے نفس کی گواہیاں، موجودہ ضروریات کیا کافی نہ تھیں یہ ثابت کرنے کے واسطے کہ یہ زمانہ امام کا زمانہ ہے.بے شک یہ ساری شہادتیں کافی ہیں کہ یہ امام کا زمانہ ہے! اور یہ سچ ہے کہ کوئی درخت جڑھ کے سوا.کوئی کام ایک مخزن کے سوا نہیں چلتا.آخر خدا ہی کا فضل ہوا.ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُوْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ.ون اﷲُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.۱؎ ا ﷲ تعالیٰ بڑے ہی فضلوں کا مالک ہے.یہ اُسی کا فضل ہے کہ وہ کس کے زمانہ میں امام، معلّم، مزکّی، تالی بھیج دیتا ہے.اور کوئی قوم کا درد مند انسان مبعوث فرما دیتا ہے! محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اُسی کے فضل اور رحم کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا.آپؐ کی بعثت اﷲ تعالیٰ کی رحمانی صفت کے انتہائی تقاضے کا نتیجہ تھی.اسی نے فرمایا.وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِلّعْٰلَمِیْنَ ( انبیاء: ۱۰۸)محمّد وہی ہوتا ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے.آپؐ کے نام ہی میں رحمانیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ تعریف اسی کی کی جاتی ہے جو بلا مزدوری کام آئے اور شفقت فرمائے.اگر مزدوری بھی لے تو تعریف کیسی؟ بے وجہ عنایت فرما کی ہی تعریف ہوتی ہے اور بے مانگے دینے والا رحمن ہوتا ہے.پس محمد صلی اﷲ علیہ وسلم رحمن کا مظہر ہوئے.اس قسم کے رحیم و کریم عنایت فرما کے احکام کی خلاف ورزی ایک شریر النفس اور ناپاک فطرت انسان کا کام ہے.کیونکہ فطرتی طور پر بمصداق جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا محسن کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور محبت کا شدید تقاضا اس کی اتباع ہے.اس لئے فرمایاگیا: (آل عمران:۳۲) جو چاہتا ہے کہ وہ مولیٰ کریم کا محبوب ہو.اس کو لازم ہے کہ وہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کرے اور الحکم ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۳.۴

Page 116

سچّی محبّت سے پیدا ہوتی ہے.اور محبت محسن کے احسانوں کی یاد سے بڑھتی ہے.جو شخص اس محسن اور عنایت فرما کی خلاف ورزی کرتا ہے جو بلاوجہ اور بلا مُزد مروّت و احسان کرتا ہے.وہ سب سے زیادہ سزا کا مستحق ہوتا.اسی لئے ابوالحنفاء کے مُنہ سے قرآن سریف میں اَب آذر کو یہ کہلوا دیا.(مریم:۴۶) یعنی جس نے بلاوجہ تم پر احسان کیا.تیرا قلب اچھا ہوتا تو اس کی محبت میں تو ترقی کرتا.برخلاف اس کے تُو نے بُتوں کی پرستش کی.پس اس رحمانی صفت کے انکار کی وجہ سے عذاب بھی شدید آئے گا.پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس پہلو سے بھی رحمانیت کے مظہر تھے.کہ آپؐ قرآن جیسی رحمت شفاء.نور.امام کتاب لے کر آئے.اور قرآن کا نزول رحمانی صفت ہی کا اقتضاء تھا.جیسے فرمایا.اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ.قرآن کا نزول چونکہ اس صفت کے نیچے تھا.آپؐ جب معلّمِ القرآن ہوئے تو اسی صفت کے مظہر بن کر باوجود اس کے کہ اُن سے دُکھ اٹھائے.مگر دُعا، توجہ، عقدِ ہمّت اور تدبیر کو نہ چھوڑا.یہاں تک کہ آخر آپؐ کامیاب ہو گئے.پھر جن لوگوں نے آپؐ کی سچّی اور کامل اتباع کی ان کو اعلیٰ درجہ کی جزا ملی اور ان کی تعریف ہوئی.اس پہلو سے آپؐ کا نام احمد ٹھہرا.کیونکہ دوسرے کی تعریف جب کرتا ہے جب فائدہ دینا ہے.چونکہ آپؐنے عظیم الشان فائدہ دنیا کو پہنچایا، اس لئے آپ کی تعریف بھی اسی قدر ہوئی اس سے بڑھ کر کیا فائدہ ہو گا کہ ابدالآباد کے لئے خلافت کاسلسلہ آپؐ کے کامل متّبعین میں رکھ دیا.(النور: ۵۶) اسی وعدہ حقّہ اور صادقہ کے موافق آج بھی خدائے تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو بھیجا ہے! غرض خدا میں جو رحمن و رحیم کی صفات تھیں ، محمد و احمد میں وہ جلوہ گر ہوئیں.اس لئے وہ اپنے سچے غلاموں میں دونوں باتیں پیدا کر دیتا ہے.اور یہ دیکھا گیا ہے کہ جس قدر مصلحان اسلام میں ہوئے ہیں وہ یا اسمِ محمدؐکے نیچے تھے یا اسمِ احمدؐکے.مَیں نے دیکھا ہے کہ علماء ایک بڑی بھاری غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں.جب کہ وہ تمام مختلف پیشگوئیاں جو مختلف اشخاص کے حق میں ہوئی ہیں.ایک ہی آدمی میں جمع کرنا چاہتے. کی آیت بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ معود خلیفے ایک سے زیادہ ہوں گے.پھر کیوں سعی کی جاتی ہے کہ سب کا مصداق ایک ہی ہو.مختلف مہدی ہوئے اور اپنے اپنے وقت پر ہو گزرے.مسیح بھی ایک مہدی ہے اور وہ اب موجود ہے.مگرذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ جس کو چاہتا ہے فضل دیتا ہے!

Page 117

اگر کہو کہ اس وقت بہت سے سلسلے گدّی نشین اور سجادہ نشین اور کیا کیا ہیں.تو سُنو! مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرٰبِۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا.اسفار ان بڑی کتابوں کو کہتے جن سے کشفِ حقائق ہو جاتا ہے.مگر کوئی بتائے کہ ان انکشافات کے اسباب سے گدھا کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے؟ گدھا جس کی عقدِ ہمت اور توجہ اس سے پرے نہیں کہ دانہ اور گھاس مل جاوے.یا زیزادہ سے زیادہ یہ کہ اچھی اروڑی مل جاوے.اور طویلہ کا آخری حصّہ ہو جو خاکروب نے اچھی طرح صاف نہ کیا ہو.رات کو جھول اور پالان مل جاوے.مقدرت سے زیادہ بوجھ نہ ہو.اصل غرض اس کی تھوڑی سی نفس پرستی ہے! اسی مثال کو اﷲ تعالیٰ یہاں بیان کرتا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس انکشافِ حقائق کے اسباب ہوتے ہیں مگر وہ ان سے اس قدر فائدہ صرف اٹھاتے ہیں.جس قدر گدھا دانے، گھاس ، جُھل، پالان اور تھوڑی سی رسّی یا اروڑی سے! پس جن کی اصل غرض دنیا ہوتی ہے.وہ ان اسباب انکشافِ حقائق سے اسی مقدار دنیا طلبی کے فائدے اٹھاتے ہیں.اس سے زیادہ کچھ نہیں! اس وقت ایک قوم دنیا میں موجود ہے.جس نے ۲۷ سو زبان میں ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے.اور پھر ترجمہ در ترجمہ کر کے بھی کہتے کہ وہ کلام اﷲ ہے!اگر پوچھو کہ اس پر عمل کرنا شرط ہے.یا نہیں؟ تو کہہ دیتے ہیں کہ شرط نہیں.کیونکہ شریعت لعنت ہے! پر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر بوجھ کیونکراٹھایا ہے؟ اس کی غرض ترجمہ کنندہ کی غرض روپیہ ہے.پریچر کی غرض اتنی ہی ہے کہ تنخواہ مل جاوے! یہ قوم اس کی مصداق ہے(البقرۃ:۸۰) یہ صاف ظاہر ہے کہ اس قدر زبانوں میں مسیح نے کلام نہیں کیا.مگر پھر بھی وہ اس کا نام کلام اﷲ کتابِ مقدّس رکھا جاتا ہے.پریچروں کو کلامِ الہٰی کے خادم کہا جاتا ہے.اس سے کس صفائی کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ یَتْلُوْا کی صفت نہیں رہی! یہ تو ہے غیر مذہب کے لوگوں کا حال.۱؎ اپنے گھر میں غور کرو.کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو علماء کہلاتے ہیں.ایسے ملیں گے.جو یہ کہتے ہیں کہ تَبَارَکَ الَّذِیْ یاد ہے.اور کچھ نمازِ جنازہ آ جاوے.گویا سارے قرآن میں ان کو اتنی ہی ضرورت ہے کہ مُردے یا نئے تعلق نکاح وغیرہ سے کچھ مل جاوے.قرآن کی غرض و غایت ان کے نزدیک صرف اتنی ہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں.مصنّفوں کو دیکھو.کتابیں لکھتے ہیں.مطلب صرف اتنا ہے کہ کچھ فائدہ ہو.ان اسفار ۱؎ الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۷

Page 118

کا نتیجہ گدھے کی طرح ہے.جو فوائد قلیلہ کے لئے اس قدر بوجھ اٹھاتا ہے.کیا بُری مثال ہے.وہ جامع اخلاق انسان جو صفاتِ عالیہ کا وارث ہو سکتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل و رحم کا وارث بن سکتا ہے.وہ انسان جس کا خدا اﷲ ہے اور بچھڑا نہیں.وہ اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ اخلاقِ فاصلہ کے حاصل کرنے اور منشاء زندگی کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی معلّم آئے جو مزکّی ہو اور تالی آیات اﷲ کا ہو.مجھے اس آیت نے بارہا متائثر بنایا ہے.(طٰہٰ:۹۰)وہ معبود کیسا ہو سکتا ہے جو کسی کی بات کا جواب ہی نہیں دیتا.اگر وہ کسی ایک سے بھی بولتا تو کم از کم یہ الزام اُٹھ جاتا جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ اب کسی سے کلام نہیں کرتا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے.کہ وہ بچھڑے خدا پر ایمان لائے ہیں نہ کہ متکلّم خدا پر ! وہ ہرگز نہیں مانتے کہ وہ ..(الفاتحہ:۲ تا۴) خدا ہے.ایک نیچری کہتا ہے کہ دعاؤں کا کچھ نتیجہ اور اثر نہیں.اس قسم کا اعتقاد رکھنے والا بھی کدا کو بچھڑا ہی مانتا ہے.اسلام کے خدا پر وہ یقین نہیں لاتا.جس کی بابت یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ وہ اﷲ وہی ہے جس نے یہ سچ فرمایا.اُ(المؤمن:۶۱) غرص انسان اسفار سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.جب تک معلّم.مزکّی موجود نہ ہو.اگر ساری دانش اور قابلیت کتابوں پر منحصر ہوتی تو میں سچ کہتا ہوں کہ مَیں سب سے برھ کر تجربہ کار ہوتا! کیونکہ جس قدر کتابیں مَیںنے پڑھی ہیں.بہت تھوڑے ہوں گے جنہوں نے اس قدر مطالعہ کیا ہو ! اور بہت تھوڑے ہوں گے جن کے پاس اس قدر ذخیرہ کتب کا ہو گا! مگر مَیں یہ بھی سچ کہتا ہوں کہ وہ ساری کتابیں اور سارا مطالعہ بالکل رائیگاں اور بے فائدہ ہوتا.اگر مَیں امام کے پاس اور اس کی خدمت ممیں نہ ہوتا ! مجرّد کتابوں سے آدمی کیا سیکھ سکتا ہے جب تک مزکّی نہ ہو؟ اب میری حالت یہ ہے کہ جب کہ مَیں نے محض خدا کے فضل سے راست باز کو پا لیا ہے تو ایک منٹ بھی اس سے دور رہنا نہیں چاہتا!! ایہاں تک کہ ایک نے ہزار روپیہ دے کر بلوانا چاہا.مگر میں نے گو ارانہ کیا! پھر اس پر مجھے تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی کیونکر قادیان سے باہر جانا چاہتے ہیں.میں یہ باتیں صرف تحدیث بالنعمۃ کے طور کہتا ہوں.شاید کسی کو فائدہ ہو! کہ مَیں نے بہت کتابیں جمع کیں لیکن جو کجھ مجھے ملا محض اس کے فضل سے ملا ! تم نہ تھے.کوئی دعوٰی نہ تزا اس وقت میرے دل نے مان لیا تھا کہ یہ سچاہے! میرے لئے اس کی سچائی کی دلیل اور نشان مَیں آپ ہی تھا! پھر میرا لڑکا عبدالحی ؔ آیۃ اﷲ ہے.محمد ؔ احمد مر گیا تھا.لودھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا.میرے غافل قلب نے اس کی پرواہ نہ کی اور حقیقت میں میری یہ حالت ہے کہ میں محض اولاد کا خواہشمند نہ تھا

Page 119

مَیں اسی مجلس میں ایک شخص کو بطور شہادت پیس کر سکتا ہوں اور وہ ایڈیڑ الحکم ہے کہ ایک طبیب نے جو اشتہاری ہے مجھے اس کی معرفت پیغام دیا کہ تم میرا علاج کرو.تمہارے یہاں اولاد ہو جاوے گی.مَیں نے اس کو یہی جواب دیا کہ مجھے محض اولاد کی ضرورت نہیں بلکہ سعادت مند اولاد کی ضرورت ہے.اگر اس کا کوئی نسخہ تمہارے پاس ہو تو میں کئی ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں.اس کا جواب اس نے کچھ نہ دیا! غرض میں نے اس لدھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اور اس پر کوئی توجہ نہ کی.مگر میرے آقا امام نے اس پر توجہ کی تو اس کو وہ بشارت ملی جو انوار الاسلام کے صفحہ ۲۶ پر درج ہے.اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبدالحی پیدا ہوا.اسی کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے جن کے علاج میں میری طبابت گُرو تھی.عبادالحی کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی.اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا.جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہوتا مگر ہم مجبور تھے.کچھ نہ کر سکتے تھے.ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایماء تھا.اور اس کی لایک جزو ہلدی تھی.اور اس کے ساتھ ایک اور دوائی تھی جو یاد نہ رہی تھی.ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر جاہا.کہ ہلدی لگائیں آپ نے کہا.مَیں جرأت نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا دوسرا جزو یاد نہیں.مگر ہم نے غلطی کھائی اور ہلدی لگا دی جس سے وہ بہت ہی تڑپا اور آکر ہم کو وہ دھونی پڑی.اس ہمارا ایمان تازہ ہو گیا.کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے اور یہ مامور اور مرسلوں کی جماعت ایک مشین اور کَل کی طرح ہوتے ہیں اُس کے چلانے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہوتا ہے.اس کے بلائے بغیر یہ نہیں بولتے.غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے.اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہیں چھوڑا.سینکڑوں نشان دکھادئے.اور خود میرے ہی گھر میں نشان موجود ہے.جس کا میں نے ذکر بھی کیا ہے.یہ بات بھی یاد رکھو کہ جو لوگ اپنا ایمان کسی نشان سے مشروط رکھتے ہیں.وہ ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ کو آزمانا چاہتے ہیں اور اس سُوء ادبی اور اور جُرأت کی سزا ان کو یہ ملتی ہے کہ وہ محروم رہ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اقتراحی معجزات مانگتے ہیں.ان کو کوئی نشان نہیں دیا جاتا.مَیں نے اب بھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اس قسم کے اعتراض اور جرأت کیا کرتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں فلاں قسم کا عذاب ہم پر آ جائے.وہ اﷲ تعالیٰ کو اپنی عقل اور حدکے پیمانہ میں محدود کرنا چاہتے ہیں.اور اس پر حکومت کی خواہش کرتے ہیں حالانکہ اَﷲُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖاس کی شان ہے.مختصر یہ کہ ہم محتاج تھے اور قحط زدہ تھے.فطرتاً ہم چاہتے تھے کہ اس وقت ہماری دستگیری کی جاوے

Page 120

لیکن ہماری صرف صورتِ احوال تھی.اگر ہم میں عقل ہوتی تو زمانہ کی حالت کو دیکھ کر آنے والے کی تلاش کرتے.مگر میں پھر بھی اﷲ تعالیٰ کے بڑے فضل کا شکریہ کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ٹھوکر نہ کھانے دی.بلکہ میری حفاظت فرمائی ۱؎.ھُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا: اُمُّ الْقُرٰی کی طرف نسبت کرنے میں اُمّی بولتے ہیں…پس اُمّی کے معنے ہوئے.اُمّ القرٰی کا رہنے والا.اور امّ القرٰی مکّہ کا نام ہے.پس ان پڑھ کے معنے خواہ مخواہ لے لئے.موقع مناسب آگا پیچھا دیکھ کر معنے کرنا چاہیئے تھا اور سچ یہ ہے کہ جہاں کوئی ہادی بھیجا جاتا ہے.اُسی بستی کو اس ہادی کے زمانے میں اور بستیوں کا اُمّ جس کے معنے اصل کے ہیں کہا جاتا ہے ثبوت.یَبْعَثُ فِیْ اُمِّھَا رَسُوْلًا (القصص:۶۰) قرآن میں ہے پھر اس لحاظ سے بھی مکّہ معظمہ کو اُمّ اور اُمّ القرٰی کہا گیا.اور ہر مامور کی بستی اُمّ ہوا کرتی ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۲۳۰) یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ: یعنی پہلے لوگوں کو احکامِ الہٰی سنائے جاویں.ان کو کتاب و حکمت سکھائی جاوے.پھر ان کا تزکیہ ہو.تین مرتبے ہیں.یَتْلُوْا.یُعَلِّمُھُمْ.َیُزَکِّیْھِمْ.حدیث میں ان کو اسلام.ایمان.احسان سے تعبیر فرمیا گیا ہے.رسول کریم صلی ا ﷲ علیہ وسلم جب اپنا فرماں بردار کسی کو دیکھتے تو پھر اس کے لئے دعائیں کرتے اور اسی طرح پر اﷲ کا فضل خصوصیّت سے اس پر نازل ہوتا اور خدا تعالیٰ خود اس کا متولّی ہو جاتا.صحابہؓ میں سے بعص خواص ایسے تھے کہ ان سے بہت کم احادیث سناتے.جیسے خلفائے راشیدن بالخصوص حضرت ابوبکرؓ.مگر جو حدیھیں انہوں نے سنائیں.وہ ایسی جامع ہیں کہ ان سے بہت سے احکام نکل سکتے ہیں.بعد اس کے جب لوگوں میں کمی آ گئی.تو صحابہ ؓ کے آخری اور تابعین کے ابتدائی زمانہ میں بادشاہ الگ ہو گئے اور معلّم لوگ الگ.جو معلّم اسلام کے تھے وہ فقہاء کہلائے.گویا ایک طرف بادشاہ تھے اور ایک طرف فقہاء جن کے ذمّہ تعلیم کتاب اور تزکیہ یا احسان کا کام تھا.یہی اہل اﷲ تھے.چونکہ ایک وقت میں دو خلفاء بیعت نہیں لے سکتے.اس لئے ان لوگوں نے بجائے بیعت کے کچھ نشان اپنی خدمت گزاری کے مقرر کر لئے.۱؎ الحکم ۱۷؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴

Page 121

مشہور پیر قافلہ جنیدؒ بغدادی ایک دفعہ بچہ ہی تھے کہ مکّہ معظمہ اولیاء کرام کی صحبت میں چلے گئے جہاں محبتِ الہٰی پر مکالمہ ہو رہا تھا.ان لوگوں نے کہا.کہ کیوں میاں لڑکے تم بھی کچھ بولو گے تو انہوں نے بڑی جرأت سے کہا.کیوں نہیں.اس پر انہوں نے کہا لَہٗ عَھْدٌ ذَاھِبٌ عَنْ نَّفْسِہٖ.مُتَّصِلٌ بِذِکْرِ رَبِّہٖ.قَائِمٌ بِاَدَائِ حَقِّہٖ اِنْ تَکَلَّمَ فَبِاﷲِ وَ فِی اﷲِ وَ اِنْ تَحَرَّکَ فَبِاَمْرِ اﷲِ.وَ اِنْ سَکَنَ فَمَعَ اﷲِ.جس کے مختصر معنے یہ ہیں کہ صوفی وہ ہے جو اپنا ارادہ سب چھوڑ دے.کام کرے مگر خدا کے حکم سے.ہر وقت خدا کی یاد سے اس کا تعلق وابستہ رہے.وہ بیوی سے صحبت کرے مگر اس لئے کہ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کا حکم ہے.کھانا کھائے مگر اس لئے کہ کُلُوْا.خدا کا حکم ہے.یہ بڑا سخت مجاہدہ ہے.میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.آٹھ پہر میں انسان اس میں کئی بار فیل ہو جاتا ہے.اِلاّٰ مَنْ عَصَمَہُ اﷲُ غرض وہ شخص اﷲ کے تمام احکام ادا کرتا ہے.جب بولتا ہے تو خدا کی تعلیم کے مطابق.ہلتا ہے تو اﷲ کے حکم سے ٹھہرتا ہے تو اﷲ کے ارشاد سے.یہ سن کر سب چیخ اٹھے کہ یہ عراقی لڑکا تاج العارفین نظر آتا ہے.ان کے اتباع بہت لوگ نظر آتے ہیں.غرض معلّمین میں سے ایک گروہ تو فقہاء کا تھا.چنانچہ امام ابوحنیفہؓ.شافعیؒ.مالکؒ.احمد بن حنبلؒ.داؤدؒ.امام بخاریؒ.اسحاق بن راہویہ.رحمھم اﷲ.یہ سب لوگ حامیٔ اسلام گزرے ہیں.انہوں نے بادشاہوں کا ہاتھ کوب بٹایا.دوسرا گروہ متکلمین کا ہے جن میں امام ابوالمنصور الماتریدی.الامام ابوالحسن الاشعری.ابنِ حزم.امام غزالی.امام رازی.شیخ یتمیہ.شیخ ابن قیّم رحمھم ہیں، تیسرا گروہ جنہوں نے احسان کو بیان کیا ہے.سیّد عبدالقادر جیلانیؒ بڑا عظیم الشان انسان گزرا ہے.ان کی دو کتابیں بہت مفید ہیں.ایک اَلْفَتْح املرَّبَّانیِ.دومؔ فتوہ الغیب.دوسرا مردِ خدا شیخ شہاب الدّین سہروردیؒ ہے.جنہوں نے ’’ عوارف‘‘ لکھ کر مخلوق پر احسان کیا ہے.تیسرا آدمی جس کے بارے میں بعض علماء نے جھگڑا کیا ہے.مگر مَیں تو اچھا سمجھتا ہوں.شیخ محی الدّین ابن عربیؒ ہے.پھر ان سے اتر کر امام شعرانیؒ ہیں پھر محمد انصاریؒ ہیں.ہزار صدی کے بعد شاہ ولی اﷲ صاحب ہیں.مجدّد الف ثانی ہیں.ان لوگوں نے دینی تصنیف پر زور دیا ہے.مگر صرف روحانیت سے.ہندوستان میں جنہوں نے اﷲ تعالیٰ کا نام سکھایا ہے.ان میں حضرت معین الدّین چشتیؒ ہیں.حضرت قطب الدّین بختیار کاکیؒ ہیں.حضرت فریدالدّین شکر گنجؒ ہیں.حضرت نظام الدّین محبوب الہٰی ہیں.حضرت نصیر الدّین چراغ دہلی ہیں.رحمہم اﷲ.یہ سب کے سب خدا کے خاص بندے

Page 122

تھے.ان کی تصانیف سے پتہ لگتا ہے.کہ ان کو قرآن شریف و احادیث سے کیا محبّت تھی.نبی کریم محمد صلّی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ کیا تعلق تھا.یہ بے نظیر مخلوقات تھی.بڑا بدبخت ہے وہ جوان میں سے کسی کے ساتھ نقار رکھتا ہے.یہ باتیں میں نے علی وجہ البصیرت کہی ہیں.ایک نکتہ قابلِ یاد سنائے دیتا ہوں.کہ جس کے اظہار سے مَیں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکا.وہ یہ کہ مَیں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمۃ اﷲ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے اٹھہتر برس تک انہوں نے خلافت کی بائیس برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یاد رکھو کہ مَیں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے.(بدر ۲۷؍ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹) مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَابِۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا.ان لوگوں کی مثال جن پر توریت اٹھوائی گئی.پھر انہوں نے اس کو نہ اٹھایا گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہیں.یاجوج و ماجوج دونوں قوموں کی نسبت بعص مصنفوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ دراز گوش ہیں اور اس فقرہ کے سمجھنے میں بہت لوگوں نے جو مقدس کتابوں کی طرزِ کلام سے بالکل ناآشنا ہیں.کئی غلط نتیجے نکالے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ درازگوش گدھے کو کہتے ہیں اور جو آدمی علم کے مطابق عمل نہ کرے.اسے بھی الہامی زبان میں گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے.دیکھو! قرآن میں آیا ہیمَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَابِۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا.اور ظاہر ہے کہ روسی اور انگریز، جرمن اور ڈنمارک والے الہٰیات کے سچّے علوم اور روحانی برکات سے بالکل محروم ہیں.علمِ الہٰیات ان کا نہایت کمزور ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے علمی مذاق والے آریہ بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں کر سکیں گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۷۲.۷۳) محرومی کے اسباب سے بچو.ان اسباب کا علم قرآن مجید میں موجود ہے.جو قرآن شریف پر تدبّر کرنے سے آتا ہے اور اس کے ساتھ تقوٰی کی بھی شرط ہے.میں سچ کہتا ہوں… یہ علوم جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئے ہیں درس و تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقوٰی اور محض تقوٰی سے ملتے ہیں… اگر محض درس و تدریس سے آ سکتے تو پھر قرآنِ مجید میں مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَابِۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْھَا کَمَثَلِ الْحِمَارِکیوں ہوتا؟ (الحکم ۱۰؍ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۵) ۷.

Page 123

 .کہہ دو.اے یہودیو! اگر تمہیں یہ ناز اور گھمنڈ ہے کہ تم اﷲ کے ولی ہو.تو اگر اس دعوٰی میں سچے ہو تو پھر الموت کی تمنّا کرو.یہودیوں کو اس لئے خصوصًا مخاطب فرمایا.کہ وہ عیسائیوں کے بالمقابل مشکلات میں نہ تھے.اور کتاب اﷲ کے وارث تھے.چونکہ عمل نہ تھا اور دنیوی لذّات اور شہوات پر جو عارضی اور فانی تھیں مَرمٹے تھے.اس لئے گدھے کہلائے.بایں وہ اس امر کے مدّعی تھے.کہ نَحْنُ اَبْنَآئُ اﷲِ وَ اَحِبَّآئُ ہٗ ان کا یہ دعوٰی لوگوں کو حیرات میں ڈالتا تھا.اس لئے اس دعوٰی کی صحت اور عدمِ صحت کے لئے اﷲ تعالیٰ اب اس طرح پر تحدّی کرتا ہے.عیسائیوں کی طرح مشکلات میں نہ تھے اس سے یہ مراد ہے کہ عیسائی قوم اپنی کتاب کے متعلق خطرناک مشکلات میں مبتلا ہے.اوّل حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی کتاب ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور یہ مشکل بہت ہی خطرناک مشکل ہے.پھر دوسری مشکل یہ ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے.اس کے متعلق یہ قطعی اور یقینی فیصلہ نہیں ہے.کہ وہ مسیح کے حواریوں کی ہی ہے.کیونکہ لُوقااور مرقس کی بابت تو صاف فیصلہ ہے کہ وہ حواری نہ تھے.اور یوحنّا کی بابت بھی بہت سے اعتراص ہوتے ہیں اور ان میں الحاقی حصّے پائے جاتے ہیں.پھر یہ دعوٰی نہیں کہ وہ کدا کے الہام اور وحی سے لکھے گئے ہیں.پھر تیسری مشکل اور ہجے کہ ان میں باہم اس قدر اختلاف ہے جو ان کو پایۂ اعتبار سے ساقط کر رہا ہے.علاوہ بریں بہت سی باتیں اُن میں ایسی پائی جاتی ہیں.جن کی کوئی اصل ہی نہیں.چہارم یہ مشکل ہے کہ جس زبان میں مسیح نے وعظ کیا تھا.وہ عبری زبان تھی.ان کی ماں کی بھی یہی بولی تھی.چنانچہ مسیحؑ کے آخری الفاظ جو انجیل میں موجود ہیں.ایلی ایلی لما سبقتانی.یہ بھی عبرانی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں یونانی کو اصل سمجھا گیا.حالانکہ یہ زبان عبری کے مقابل میں ردّی اور کفر سمجھی جاتی تھی.یہاں تک کہ یروشلم میں یونانی کے متعلق کسی نے فتوٰی پوچھا کہ کیا اس کو پڑھ سکتا ہوں تو اس کو یہی جواب دیا گیا کہ رات اور دن کے تمام گھنٹوں میں عبرانی پڑھو.پھر اس سے جو وقت بچے.اس میں یونانی پڑھ لو.اب اس سے اندازہ کر لو کہ یونانی کیسی پھیلی ہوئی تھی اور اس سے کس طرح فائدہ اٹھا سکتے تھے.یوسی فس مؤرخ عبری تھا.وہ یونانی جانتا تھا مگر اسے یہ عُذر کرنا پڑا کہ یونانی حرام ہے.اچھا آدمی اس کو سیکھ نہیں سکتا.یو سی فس مستثنیٰ کیا گیا ہے.اور اس طرح پر گویا قوم کا کفر کیا گیا ہے.عرض اس قسم کی مشکلات میں عیسائی قومیں مبتلا ہیں.سب سے بڑی مشکل جس

Page 124

کا ابھی مَیں نے ذکر کیا.انجیل کی اصلیء زبان کا سوال ہے.جس کے حل نہ ہونے کی وجہ سے اناجیل کی حقیقت بہت ہی کمزور اور بے اصل ثابت ہوتی ہے.جب یہ پتہ ہی نہ رہا.کہ اصل کتاب کس زبان میں تھی؟ تو کتاب کی اصلیت میں کتنا بڑا شک پڑتا ہے؟ اور یہ ایسی زبردست زد ہے عیسائی مذہب پر کہ اس کا جواب کچھ نہیں دے سکتے.چونکہ اصل کتاب ہاتھ میں نہیں ہے.بلکہ ترجمہ در ترجمہ ہے اس لئے اور بھی غلطیاں در غلطیاں اس میں واقع ہو گئی ہیں.اور اس کا اندازہ کرنا ہی اب قریباً ناممکن ہو گیا ہے.کہ یہ قوم کس قدر غلطیوں میں مبتلا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کتاب کے متعلق یہی فیصلہ دیا ہے.   (البقرۃ:۸۰) غرض عیسائی قوم تو ان مشکلات میں مبتلا تھی اور ہے.اس لئے اس قوم کو مخاطب کیا جس کا یہ دعوٰی تھا.(المائدۃ:۱۹) پس ان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تمہار ایہ دعوٰے اور زُعم ہے کہ تم خدا کے محبوب اور انبیاء اور اولیاء ہو تو پھر ……… کی تمنّا کرو.اولیاء اﷲ نہیں فرمایا.اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا کہ ایسی قوم کو جو گدھے سے مشابہ ہو چکی ہے.اپنی طرف مضاف کرے.اَلْمَوْت کی تمنّا کرو.یہ ایک قوم فیصل ہے ان لوگوں کے درمیان اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے بروز علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان.بہادر ہو.خدا کے حضور اپنے تئیں راست باز اور مقرّب سمجھتے ہو تو پھر آؤ.میری موت کے لئے بد دعائیں کرو.اور منصوبے باندھو کہ مَیں مر جاؤں.پھر دیکھ لو گے کہ کون کامیاب ہوتا ہے.چنانچہ غور کرو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے کس قدر کوششیں اور ناپاک منصوبے کئے گئے اور آپ کی جان لینے کے لئے کون سا دقیقہ تھا جو باقی رکھا گیا.لیکن اﷲ تعالیٰ نے کیسے اپنے وعدہ کو پورا کیا.(المائدۃ:۶۸) میں اَلْمَوْت کے معنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی موت کی آرزو اور کوشش کیوں کرتا ہوں.اس کا ایک زندہ ثبوت ہے.احمد کے مظہر نے دنیا کے تمام سجادہ نشینوں اور سیفی پڑھنے والوں کو کہا ہے کہ میرے لئے بد دعا کرو اور پھر دیکھو کہ وہ کس پر اُلٹ پڑتی ہیں.مخالف جو بد دعائیں کرتے ہیں.ان کی بد دعائیں ان پر لوٹیں گی.جو موت کی آرزو کرتے ہیں.خود موت کا نشانہ بنیں گے اور آخر ان کو ماننا پڑے گا اور یا منافقانہ رنگ میں خاموش ہو جائیں گے اور مِلل ہالِکہ چوہڑوں اور چماروں کی طرح زندگی بسر کریں گے ۱؎.۱؎ الحکم ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۵

Page 125

۸ تا ۱۱. . . .یہ کبھی بھی مردِ میدان ہو کر نہ نکلیں گے اور اَلْمَوْت کی تمنّا نہ کریں گے.مباہلہ کے لئے نہ آئیں گے.لوگوں کے سامنے چونکہ انکار نہیں کر سکتے.اس لئے ایسی شرائط اور حجتیں پیش کریں گے.جن کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ مباہلہ نہ کرنا پڑے.کیونکہ اپنی بداعمالیوں اور ایمانی کمزوریوں کو تو خوب جانتے ہیں.صرف پردہ داری کے لئے حیلے بہانے کرتے ہیں اور دنیوی مفاد اور منافقوں کو نقصان سے بجانے کی خاطر یہ بجائے خود کیسی حیرت انگیز اور عظیم الشان تحدّی ہے جس میں مخالفوں کو غیرت بھی دلائی گئی ہے.کہ کبھی بھی مباہلہ میں نہ نکلیں گے.اب اگر وہ اپنی ذاتی شعور اور بصیرت سے اپنے ایمان میں قوّت پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حق پر نہیں سمجھتے تو پھر کون سا امر ہے جو ان کو اس تمنّٰی سے روک سکتا ہے؟ وہ اتنا ہی غور کریں کہ اس میدان میں نہ نکلنے سے لَا یَتَمَنَّوْنَہٗ اَبَدًاکی پیشگوئی پورا کرنے والے تھیریں گے.مگر آخر خدا تعالیٰ ہی کی باتیں سچّی اور لا تبدیل ہوتی ہیں.یہی سچ ہے کہ وہ کبھی اَلْمَوْت کی تمنّٰی نہ کریں گے.کیون کہ.(التغابن:۵).(الجمعۃ:۹)

Page 126

اﷲ تعالیٰ صدور ( مراکز قویٰ) کا عالم ہے.مگر یاد رکھیں کہ یہ بھی مباہلہ ہی ہے.مقابلہ جو کرتے ہیں.اُس مقابلہ میں مباہلہ کا رنگ موجود ہوتا ہے.اس لئے وہ موت جس سے بھاگتے ہیں.اُسی سے مخالف ہلاک ہوتے ہیں.ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلیٰ عٰلِمِ الْغَیْبِ پھر عالم الغیب کے حضور جاؤ گے اور وہاں بھی عذاب ہو گا اور اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کی رُو سے صحیح ثابت ہے کیونکہ جب اس جہان میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے ارشاد کے موافق معذَّب ہوئے تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق وہ اُس جہان میں بھی معذَّب ہوں گے.اب اس قوم کا فیصلہ کر کے اﷲ تعالیٰ صرف مومنوں کو مخاطب کرتا ہے.یا بہ تغیّر الفاظ یوں کہو کہ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کی مصداق قوم کو مخاطب کرتا ہے اور پہلے اس قوم کا ذکر کیا کہ جنہوں نے تشابہ بالیہود کیا.اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے مصداق گروہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ یعنی اے مومنو! جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن پکارے جاؤ.تو اﷲ کے ذکر کی طرف کوشش کر کے چلے آؤ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کے نیچے ہے.اور یہ بالاتفاق مانا گیا ہے.کہ وہ مسیح موعود مہدی مسعود کا زمانہ ہے.کھلے الفاظ میں یوں کہتا ہوں کہ یہ قوم ہماری قوم احمدی قوم ہے اور تم کو اﷲ تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے.مسیح موعود کا زمانہ بھی حقیقت میں ایک جمعہ ہے.جیسا کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تکمیل جمعہ کی آخری ساعت میں ہوئی تھی.اسی طرح پر یہ ضروری تھا.کہ آدمِ ثانی کی بعثت بھی جمعہ ہی کہلائے.اور جس طرح پر جمعہ کے دن باقی ائمہ کو معطّل کر دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کر کے ایک ہی امام کے تابع کر دیتا ہے.مسیح موعود کا نام اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ اسی لئے رکھا گیا ہے.اور حَکَم بھی اسی واسطے رکھا گیا ہے یہ باتیں مَیں محض خوش اعتقادی کی بناء پر نہیں کہتا.بلکہ مَیں یقین رکھتا ہوں اور اﷲ تعالیف نے جہاں تک مجھے سمجھایا ہے.ہاں اس نے آپ سمجھایا ہے.قرآن شریف اسی مطلب کو ادا کرتا ہے اور قرآن شریف نے اس آیت میں (الکہف:۱۰۰) میں اسی کی طرف اشارہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ کو سورۃ جمعہ ہی میں اﷲ تعالیٰ نے رکھا ہے.غرض مسیح موعود کا زمانہ ایک روحانی جمعہ ہے اور َیآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے مراد وہی قوم ہو سکتی

Page 127

ہے.اور ہے.جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے.اگرچہ عام طور پر عام مسلمان بھی اس حکم کے نیچے ہیں لیکن جو باوجود مسلمان اور مومن کہلانے کے مسیح موعود کا انکار کرتے ہیں.وہ در اصل قرآن شریف کی اس آیت کے مصداق ہیں: (البقرۃ:۸۶) پس میں یقینی طور پر سچا مصداق اس آیت کا انہیں لوگوں کو مانتا ہوں جو کُل قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں اور عملی یا اعتقادی طور پر کسی حصّہ کا انکار نہیں کرتے ہیں غرض اﷲ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے.کہ تم ذکر اﷲ کی طرف چلے آؤ.صلوٰۃ کیا ہے؟ اس کا جواب خود اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں دیا ہے.(العنکبوت: ۴۶) نماز تما م بے حیائیوں اور بدکاریوں سے روکتی ہے.پس اگر نماز پڑھ کر بھی بے حیائیاں اور بدیاں نہیں رکتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیئے کہ ابھی تک نماز اپنے اصل مرکز پر نہیں.اور وہ سچا مفہوم جو نماز کا ہے وہ حاصل نہیں ہوا.اس لئے میں تم سب کو جو یہاں موجود ہیں مخاطب کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی نمازوں کا اسی معیار پر امتحان کرو اور دیکھو کہ کیا تمہاری بدیاں دن بدن کم ہو رہی ہیں یا نہیں.اگر نسبتاً ان میں کوئی فرق وقع نہیں ہوا.تو پھر یہ خطرناک بات ہے.مختصر یہ کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے بلایا جاوے تو اﷲ تعالیٰ کے ذکر کی طرف آ جاؤ ۱؎ یہ تمہارے لئے اچھا ہے.اور بیع چھوڑ دو.میں نے اس کے لفظ پر غور کی ہے کہ یہ کیوں کہا.انسان مختلف مشاعل میں مصروف ہوتا ہے ملازمت ، حرفت، زراعت وغیرہ.یہاں خصوصیت کے ساتھ بیع کا کیوں ذکر کیا ہے؟ حقیقت میں جو لوگ قرآن شریف پر غور کرتے ہیں اور اس کے نکات اور معارف سے بَہزَہ حاصل کرنا جاہتے ہیں.ان کو ضروری ہے کہ وہ اس کی ترتیب اور الفاظ پر بڑی گہری نگاہ سے غور کیا کریں.مَیں نے جب اس لفظ پر غور کیا تو میرے ایمان نے یہ شہادت دی کہ چونکہ یہ سلسلہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ کے نیچے ہے اور یہ مہدی اور مسیح کا زمانہ ہے.اس زمانہ میں دجّال کا فتنہ بہت بڑا ہو گا اور دجّال کے معنے کتب لُغت میں جو لکھے ہیں.اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک فرقہ عظیمہ ہو گا جو تجارت کے لئے پھرے گا گویا یہ مشترکہ کمپنیاں تجارت کی طرف بلاتی ہوں گی.اور ذکر اﷲ اور طرح.اس لئے اس بیع کے لفظ میں دجّال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.۱؎ الحکم ۷؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴

Page 128

ایک جمعہ تو ہفتہ کے بعد پڑھتے ہیں.جیسے یہ جمعہ چھوٹا ہے.ویسے ہی اس کے مقابل تجارتیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں.لیکن ایک عظیم الشان جمعہ ہے.چھ ہزار برس کے بعد ساتویں ہزار کا جمعہ ہے.اگر اَور دنوں میں جمعہ کی ضرورت ہے اور اس کے حق میں ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو جمعہ کی پرواہ نہیں کرتا اس کا ۱ ؍ ۴ حصہ دل کا سیاہ ہو جاتا ہے.اور دو جمعہ کے ترک سے نصف اور چار جمعہ کے ترک سے سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر گویا عبادت کی لذّت ہی باقی نہیں رہتی.پھر فرمایا.جو جمعہ سے تخلّف کرتے ہیں میرے جی میں آتا ہے کہ اُن کے گھروں میں آگ لگا دی جاوے.اور پھر فرمایا کہ اس جمعہ میں ایک وقت ہے جو قبولیتِ دُعا کا وقت ہے.پھر اسی جمعہ میں آدم اپنے کمال کو پہنجا اور بہشت میں داخل ہوا.بہست سے باہر مخلوقات کے پھیلانے کا ذریعہ ہوا.اسی جمعہ میں بہت درود شریف پرھنے کا ارشاد ہوا.کم از کم سو بار جمعہ کی رات اور دن کو.اور ایک اَور عظیم الشان بات ہے کہ جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھ لیا کرو.اَور نہیں تو کم از کم پہلی اور آخری دس آیتیں ہی پڑھ کیا کرو.پہلی آیتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان میں لکھا ہے.(الکہف:۵)یعنی ان کو ڈرایا جاوے جنہوں نے اﷲ کا ولد تجویز کیا ہے اور یہ بھی ہے کہ اس کا بیٹا تجویز کرنے میںمَالَھُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ نہ ان کے پاس نہ اُن کے بڑوں کے پاس کوئی علمی دلیل ہے.ہاں یہ بات ہے یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاان کو اپنی صنعتوں پر ہی ناز ہے.اب ان تمام امور پر نظر کرو اور سوچو تو معلوم ہو گا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے معمولی جمعہ میں بھی فتنِ دجّال سے ڈرایا ہے.جمعہ میں فتنِ دجّال سے ڈرانا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے.جس پر اﷲ تعالیٰ نے محچض اپنے فضل سے مجھے مطلع کیا ہے کہ جمعہ کے ساتھ تو عظیم الشان تعلق ہے بلکہ مَیں یقینا کہتا ہوں کہ جمعہ کا وجود بھی مسیح موعود علیہ الصلوٰث والسلام کی بعثت اور آمد کے لئے ایک نشان اور پیسگوئی تھا.مگر افسوس ہے کہ جب مسلمانوں نے معمولی جمعہ سے لاپرواہی کی اور اس کو ترک کر دیا تو اُس برے جمعہ کی طرف آنے کی ان کو توفیق ملنی بہت مشکل ہو گئی.مَیں نے بڑی غور کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کی تاریخ پر فکر کی ہے.اور میں اس صحیح نتیجہ پر پہنچا ہوں.کہ یہ سلسلہ زوال اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسلمانوں نے ترک جمعہ کو کیا فتنِ دجّال سے جو جمعہ کے اداب میں ڈرایا ہے یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ دجّال کا فتنہ عظیم اُس جمعہ میں ہونیوالا ہے.دجّال کے مختلف معنی ہیں.دجّال سونے کے معنے بھی دیتا ہے اور دجّال تجارتی کمپنیوں کو بھی کہتے ہیں یہاں جملہ میں بیعؔ کے لفظ سے بتایا ہے کہ دجّال کی پروا نہ کرو.اب یہ وہ جملہ آ گیا ہے جس کی یاددہانی جمعہ میں رکھی

Page 129

گئی تھی.عجیب بات ہے کہ اس مسیح موعود کو آدم بھی کہا گیا ہے.اور پھر یہ اور بھی مشابہت ہے کہ جیسے آدم کی تکمیل جمعہ کی آخری گھڑی میں ہوئی تھی اسی طرح پر اس مسیح موعود کے ہاتھ پر بھی اسلام کی تکمیلِ اشاعت کا کام رکھا گیا.چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے. (الصّف:۱۰) مفسّروں نے بالاتفاق تسلیم کر لیا ہے.کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ہو گا اور حضرت امام نے(المائدۃ:۴) کے جو معنے کئے ہیں.وہ آپ میں سے اکثروں نے سُنے ہوں گے.وہ فرماتے ہیں کہ تکمیل سے دو قسم کی تکمیل مراد ہے.ایک تکمیلِ ہدایت.دوسری تکمیلِ اشاعت.تکمیلِ ہدایت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت ہو چکی اور تکمیلِ اشاعت ہدایت کا یہ وقت آیا ہے.یعنی یہ مسیح موعود کے وقت مقدّر تھی.چنانچہ اس وقت دیکھتے ہو.اشاعت کے کس قدر سامان اور اسباب پیدا ہو گئے ہیں.اور پھر جیسے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.کہ ایک جمعہ کے ترک سے ۱ ؍ ۴ حصہ دل کا سیاہ ہو جاتا ہے.اسی طرح پر یہ بھی مسلّم بات ہے.کہ خدا کی وحی کے انکار سے سلبِ ایمان ہو جاتا ہے.پھر کدا تعالیٰ کے مامور و مرسل مسیح موعود کے انکار سے سلبِ ایمان ہونا یقینی ٹھہرا اور پھر جمعہ میں ایک وقت ایسا ہے جو قبولیتِ عدا کا ہے.اسی طرح پر جب خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ بندہ اصلاحِ خلق کے لئے آتا ہے تو وہ لیلۃ القدر کا وقت ہوتا ہے.جس کی بابت قرآن شریف میں آ چکا ہے خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہَرٍ ہوتی ہے.ان سارے امور کو اکٹھا کرو اور پھر سوجو اور دیکھو کہ کیا اب یہ وہ وقت نہیں؟ مَیں ایمان سے کہتا ہوں اور پھر اس پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ یہ وہی وقت ہے! دجّال بھی موجود ہے!! اور مسیح موعود بھی ہے!! فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ دو وقت ایسے آئے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اُمّیوں میں اپنے رسول کو بھیجا ہے.ایک وہ وقت تھا.جب کُل دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی خصوصًا عرب میں اس وقت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ضرورت تھی.چنانچہ اﷲ تعالی نے اپنے وعدہ کے موافق اور ابراہیمؑ و اسماعیل ؑ کی دعا کے نتیجہ میں ان میں رسول مبعوث کیا اور اب آپ ؑ آئے.تیرہ سو سال گزرنے کے بعد جب اسلام کی حالت پر اُمّیَت غالب ہو گئی اور اخلاقی اور ایمانی اور عملی قوتیں کمزور اور مُردہ ہو گئیں اور قرآن شریف کی طرف بالکل توجّہ نہ رہی بلکہ وہ وقت آ گیا کہ رَ(الفرقان:۳۱)

Page 130

کا مصداق ہے اور قرآن آسمان پر اُٹھ گیا.اور ہر طرف سے اسلام اور قرآن پر حملے ہونے لگے تو خدا کے اس وعدہ کا وقت آیا (الحجر:۱۰) اس حفاظت کی ضرورت ہے اور چونکہ وہ آسمان پر اُٹھ گیا ہے.گویا اس کے دوسرے نزول کی صرورت ہے.تب ہی تواٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ والی قوم تعلیم اور ہدایت حاصل کرے.اس لئے اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ والی قوم کا معلّم ضرور ہے کہ وہی احمدؐ ہو ( صلی اﷲ علیہ وسلم) جو مکّہ میں مبعوث ہوا تھا.پس اس وقت وہی احمدؐ اپنے بروزی رنگ میں آیا ہے.دیکھنے والے دیکھتے ہیں ! جن کو توفیق نہیں ملی وہ نہیں دیکھ سکتے! قرآن شریف میں یہ بھی پایا جاتا ہے.کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک نام ذکر بھی ہے.اور جیسے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ ا ﷲ تعالیٰ نے کیا ہے.ویسے ہی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت کا بھی وعدہ فرمایا تھا(المائدہ:۶۸) اور عجیب بات ہے کہ یہی وعدہ حضرت مسیح موعود سے بھی ہوا ہے.ان ساری آیتوں پر غور کرنے سے مَیں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ صحیح ہے کہ ذکر سے مراد اس آیت میں جمعہ کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آخری بعثت ہے جو بروزی رنگ میں مسیح موعود کی صورت میں ہوئی.۱؎ یہ وہ ذکر ہے جو آکری خلیفہ کہلاتا ہے.یہ وہ راہ ہے جو صراطِ مستقیم ہے.پس اس طرف آ جاؤ اور اس وقت دجّالی تحریکوں کی طرف نہ جاو.اس صراطِ مستقیم کی طرف آنے یا اُس ذکر کی طرف متوجّہ ہونے کا اتنا ہی مطلب نہیں ہے.کہ مان لیا کہ وہ حق ہے اور خدا کی طرف سے آیا ہے.یہ ایمان زندہ ایمان نہیں کہلاتا جب تک اس میں عمل کی رُوح نہ ہو! یہ بالکل سچ ہے کہ ایمان بدوں عمل کے مُردہ ہے.مَیں نے جس وقت حضرت امام کے منہ سے یہ سنا کہ تم میں سے بہت ہیں جو اس چشمہ پر پہنچ گئے ہیں جو زندگی کا چشمہ ہے مگر ابھی پانی نہیں پیا.ہاں مُنہ رکھ دیا ہے! مَیں سچ کہتا ہوں کہ جس وقت سے مَیں نے یہ سُنا ہے.میں بہت ہی ترساں ہوں اور استغفار پڑھتا رہا ہوں کہ خدا نہ کرے.کہیں وہ مَیں ہی نہ ہوں!! لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُکے کہنے میں ہم سب یہ ااقرار کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہو گا.اور کوئی غرض و مقصد اﷲ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہو گی.اس امام نے اس مطلب کو ۱؎ الحکم ۱۴؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳.۴

Page 131

ایک اور رنگ میں ادا کی اہے.کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے.’’ دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا ‘‘.اب اس اقرار کو مدّ نظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو.کہ کیا اﷲ تعالیٰ کے احکام اوامرونواہی مقدّم ہیں یا دنیا کے اعراض و مطالب؟ اس اقرار کا منشاء یہ ہے کہ ساری جزئیں اﷲ کے خوف کی اور حصولِ مطالب کی امید کی اﷲ تعالیٰ کے سوا نہ رہیں یعنی خوف ہو تو اسی سے.امید ہو تو اسی سے ! وہی معبود ہو.اسی کی عظمت و جبروت کا خوف ہو.جس سے اطاعت کا چوش پیدا ہو.ایسی اطاعت اور عبادت رُوح میں ایک تذلّل اور انکساری پیدا کرے گی.جس سے سرور اور لذّت پیدا ہو گی.اور عملی زندگی کو قوّت ملے لگی.لیکن جب اﷲ تعالیٰ کی صفات پر کامل ایمان نہ ہو تو اس ایمان میں عملی قوّت پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.وہ اس کھائے ہوئے دانہ کی طرح ہوتا ہے جس میں نشوونما پانے کی خاصیّت باقی نہیں رہی.غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن بلائے جاو تو بیع کو چھور کر ذکر اﷲ کی طرف ا جاؤ.عام جمعوں میں چھٹی چھوٹی بیع ہے.لیکن مسیح موعود کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے.اس لئے اس وقت دجّال کا فتنہ بہت بڑی بیع ہے اس لئے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اﷲ کی طرف آ جاؤ.نتیجہ اس کا کیا ہے؟  اگر تم کو کچھ علم ہے تو یاد رکھو کہ یہ تمہارے لئے مفید ہے.اس میں خیروبرکت ہے.تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ جس امر کو خیروبرکت کا موجب قرار دیتا ہے.اس کو ظنّی یا وہمی خیال کرنا کُفر ہے! انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کا علم نہیں رکھتا.اس لئے وہ بعض اوقات اپنی کمزوریٔ علم اور کئی معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہو گا.دوکان بند کرنی پڑے گی.یا کیا کیا عُزرات ترشتا ہے.لیکن کدا تعالیف یقین دلاتا ہے کہ اس کی اواز سنتے ہی ہاضر ہو جانا خیروبرکت کا موجب ہے.اس میں کوئی خسارہ اور نقصان نہیں.مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیئے.پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیئے! ہاں  .جب نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاؤ.اور اﷲ تعالیٰ کے فضل کو لو.اس کا اصل اور گُر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو بہت یاد کرو.نتیجہ یہ ہو گا کہ تم مظفر و منصور ہو جاؤ گے.خدا کی یاد ساری کامیابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے.اسلام انسان کو بے دست و پا بنانا یا دوسروں کے لئے بوجھ بنانا نہیں چاہتا.عبادت کے لئے اوقات رکھے ہیں.جب ان سے فارغ ہو جاوے

Page 132

پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کاروبار میں مصروف ہو کر بھی یادِ الہٰی کو نہ چھوڑے بلکہ دست بہ کار دل بہ بار ہو اور اس کا طریق یہ ہے ہر کام میں اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدّم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلاف مرضیٔ مولیٰ تو نہیں کر رہا.جب یہ بات ہو تو اس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو.یا معاشرت کا.ملازمت کا ہو یا حکومت کا.غرض کوئی بھی حالت ہو.عبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امر الہٰی کے نیچے ہو تو عبادت ہے! یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا.جب تک اس پر عمل درآمد رہا.اس وقت تک وہ ایک قوم فتہ مند قوم کی حالت میں رہی.لیکن جب اس پر سے عمل جاتا رہا.تو نتیجہ یہ ہوا.کہ یہ قوم ہر طرہ پستیوں میں گر گئی.۱؎ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲ:ہر جمعہ میں اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کوئی شخص تم کو وعظ سنائے اور اتنا وقت ہو کہ نماز سے پہلے سُن لو.اس کے بعد نماز پڑھو.نماز کے بعد تم کو اختیار ہے کہ دنیوی کاموں میں لگ جاو.مَیں اس حکم کے مطابق تم کو نصیحت کرتا ہوں.اﷲ نے ہم کو کچھ اعضاء دئے ہیں اور ان اعضاء پر حکومت بخشی ہے اور پھر انسان کو اپنی صفات کا مظہر بنایا.چونکہ کدا مالک ہے.اس لئے انسان کو بھی مالک بنایا اور اس کو بہت بڑا لشکر دیا.جن میں سے دو جار نوکروں کا میں ذکر کرتا ہوں.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَ کُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ.سب کے سب بادشاہ ہو اور تم سے اپنی رعایا کے متعلق سوال ہو گا.۲.اَ لْاِمَامُ رَاعٍ وَ ھُوَ مَسْئُوْلٌ.امام بھی راعی ہوتا ہے اور اس سے رعایا کی نسبت سوال ہو گا.۳.عورت کے بارے میں بھی فرمایا کہ وَ الْمَرْأَۃُ رَاعِیَۃٌ فِیْ بَیْتِ زَوْجِھَا مَیں ان بادشاہوں کا ذکر نہیں کرتا.جو ملکوں پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ اس کا ذکر کرتا ہوں جو تم سب اپنے اپنے اعضاء پر حکمران ہو.ان سب میں سے بڑی چیز دل ہے جس کے کچھ فرائض ہیں کجھ مُحّرمات.کچھ مکروہات.کچھ مباحات.دل کے فرائص بتاتا ہوں.اس کا عظیم الشان فرض ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِپر ایمان لائے.جب تک دل اس فرض کو ادا کرنے والا نہ ہو.ہلاکت میں ہے  ۱؎ الحکم ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۳ تا ۶

Page 133

(البقرۃ:۱۴۷) (النمل:۱۵) سے پتہ لگتا ہے کہ دل یقین کر چکے ہیں.پس اس یقین کے ساتھ عملی رنگ بھی ضروری ہیں.۲.اس کے بعد فرض ہے حضرت محمد رسول اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اﷲ کا رسول یقین کرنا.جب اﷲ معبود ہوا.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم رسول.تو اﷲ کے بالمقابل اب اور کسی کا حکم نہیں اور رسول کی اطاعت کے بالمقابل کوئی اطاعت نہیں.یہ واجبات سے ہے.دل کے مُحرّمات میں سے ہے.۱.اﷲ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا ۲.کبِر ونخوَت ۳.بمغض و حسد ۴.ریاء و سمعت ۵.نفاق کرنا.شرک کی نسبت تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ معاف نہ کروں گا.اور کبِر وہ فعل ہے جس کا نتیجہ شیطان اب تک لعنت اٹھا رہا ہے.اور ریاء کہتے ہیں اس عمل کو جو دکھاوے کے لئے کیا جاوے اور نفاق یہ ہے کہ دل سے نہ مانے اور اوپر سے اقرار کرے.اس کے کچھ اَور شعبے بھی ہیں.جب بات کرے جھوٹ بولے ۲.امانت میں خیانت کرے ۳.معاہدہ میں عدّاری کرے ۴.سخت فحش گالیاں دیں.دل کے فرائض سے نیچے یہ بات ہے کہ دل کو اﷲ کی یاد سے طمانیت بخشے.آدمی پر مصائب کا پہاڑ گر پڑتا ہے.کسی کی صحت خطرہ میں ہے.کسی کی عزّت کسی کی مالی حالت.کسی کو بیوی کے تعلقات میں مشکلات ہیں.کسی کو اولاد کی تعلیم میں.ان تمام مشکلات کے وقت خدا کی فرماں برداری کو نہ بھُولے.ایک شخص دہلی میں ہیں جو ہمارے خیالات کے سخت مخالف ہیں.انہوں نے کتاب الحقوق و الفرائض لکھی ہے.مَیں نے اسے بہت پسند کیا ہے.حق بات کسی کے ممنہ سے نکلے.مجھے بہت پیاری لگتی ہے.دوست کے منہ سے نکلے تو پھر اور کیا چاہیئے؟ حقوق و فرائض کا ہر وقت نگاہ رکھنا مومن کے لئے مستحب کام ہے! مصائب میں اﷲ پر ایسا بھروسہ ہو کہ ان مصائب کی کچھ حقیقت نہ سمجھے اس کی تہہ کے اندر جو حکمتیں ، رحمتیں، فصل ہیں ان تک اِنَّا لِلّٰہِکے ذریعے پہنچے.ایک دفعہ مَیں جوانی میں اَلّحَمْد پڑھنے لگا.ان دنوں مجھ پر سخت ابتلاء تھا اس لئے مجھے جبراً پڑھنے میں تامل ہوا.کیونکہ جب دل پورے طور پر اس کلمہ کے زبان سے نکالنے پر راضی نہیں تھا.تو یہ ایک قسم کا نفاق تھا.اﷲ تعالیٰ نے میری دستگیری کی اور معاً مجھے خیال آیا کہ جو اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اور اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ پڑھتا ہے.ہم اس مصیبت کو راحت سے بدل دیتے ہیں.انسان پر جو مصیبت آتی ہے.کبھی گناہوں کا کفّارہ ہو جاتی ہے اس لئے انسان شُکر کرے کہ قیامت کو مؤاخذہ نہ ہو گا.دومؔ ممکن تھا اس سے بڑھ کر مصیبت میں گرفتار ہوتا.سومؔ مالی نقصان کی بجائے ممکن تھا جانی نقصان ہوتا جو ناقابلب برداشت ہے.چہارم.یہ بھی شُکر کا مقام ہے کہ خود زندہ رہے کیونکہ خود زندہ نہیں تو پھر تمام مال و اسباب وغیرہ کی فکر لغو ہے.

Page 134

یہ سب مضمون جب میرے دل میں آیا تو برے زور سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ پڑھا.قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ مومن کو خوف و حزن ہوتا ہے.وہ تو لَایَخَافُ وَ لَا یَحْزَنُہوتا ہے.زبان کا سب سے بھاری فرض ہے ۱.کلمۂ توحید پڑھنا.نماز میں ……… بھی فرص ہے ۲.تو گویا اتنا قرآن پڑھنا بھی فرض ہوا ۳.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی زبان کا ایک رُکن ہے.اس کے محرمات ہیں.غیبت.تحقیر.جھوٹ.افتراء.اس زبان کے ذریعہ تمام تلاوتب قرآن و تلاوتِ احادیث کرے.اور عام طور پر جو معرفت کے خزانے اﷲ و رسول کی کتابوں میں ہیں.پوچھ کر یا بتا کر ان کی تہہ تک پہنچے.معمولی باتیں کرنا مباح ہیں.پسندیدہ باتیں اپنی عام باتوں میں استحباب کا رنگ رکھتی ہیں.(الملک:۱۱) اگر ہم حق کے سنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے.اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سننا فرص ہے اور غیبت کا سُننا حرام ہے.سماع کے متعلق صوفیاء میں بحث ہے.میرے نزدیک سماع قرآن و حدیث ضروری ہے.مگر ایک شیطانی سماح ہے کہ رانگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو.یہ ناجائز ہے.ہمیں حکجم ہے کہ جس پانی کی بُو خراب ہو.اس سے وضو نہ کری.اس واسطے پانی کا سونگھنا اس وقت فرص ہو گیا.خصوصاً جب نجاست کا احتمال ہو.عید کے دن عطر لگانا مستحبّات میں داخل ہے.ہاں اجنبی عورت کے کپڑوں اور بالوں کی خوشبو سونگھنا حرام ہے.اسی طرح آنکھ اور دوسرے اعضاء کے فرائض ہیں.ٔ ……… زبان کے فرائض میں سے شکر بھی ہے.ناشکری کا مرص مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے.کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ حقارت کرتا ہے.اس سے نعمت بڑھتی نہیں.اگر انسان شکر کرے تو نعمت بڑھتی ہے.(بدر ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۳.۴) ۱۲. .اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں.وہ تجھے چھوڑ کر چل دیتے ہیں.ان کو کہہ دو کہ اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے.اور

Page 135

اﷲ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے.یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پر سچّا اور کامل یقین نہیں رکھتا.اور اس کو رازق نہیں سمجھتا.یوں ماننے سے کیا ہوتا ہے.جب کامل ایمان ہوتا ہے تو اس پر اﷲ تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.بعض لڑکوں سے مَیں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو.کیوں؟ کیا لَھْو کے واسطے.اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے ارشاد کے نیچے ہے.لَھْوًااور تِجَارَۃًکو گویا خدا تعالیٰ پر مقدّم کرتا ہے.اس سے بچنا چاہیئے.اﷲ کو خَیّر الرّازقین یقین کرو.اور مت خیال کرو.کہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہو گا کبسی ایسی جرأت کرنے کی کوشس نہ کرو کہ اپنی ذاتی اغراص کو مقدّم کر لو.خدا کے لئے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پا لیتا ہے.تم جانتے ہو.ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے کیا چھوڑا تھا اور پھر کیا پایا.صحابہؓ نے کیا چھوڑا ہو گا.اس کے بدلہ میں کتنے گُنے زیادہ خدا نے ان کو دیا.خدا تعالیٰ کے نزدیک مکیا ہے جو نہیں ہے؟ لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ! تجارتوں میں خسارہ کا ہو جانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہو جانا قرینِ قیاس ہے.لیکن خدا تعالیف کے لئے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اُٹھا سکتا ۱؎ غرض اﷲ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے.وہ خیرالرّازقین ہے.مَیں نے بہت سے ایسے بے باک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں ؎ اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم ایسے شوخ دیدہ خود ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں.پس خدا کے لئے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بطاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہوں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے.مَیں نے بسا اوقات نصیحت کی ہے لِلّٰہِ خَزَائِنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ پر عمل کرنے کے واسطے صروری ہے.یہاں آ کر رہو.بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یا ملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی لیکن مَیں ان کو آج یہ سناتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اﷲ کی طرف آ جاؤ! وہ اس بات کا کیا جواب دےسکتے ہیں؟ کیا ہم کُنبہ قبیلہ والے نہیں؟ کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟ کیا ہم کو دنیوی عزّت یا وجاہت بُری لگتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے.جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی؟ مَیں شیخی کے لئے نہیں کہتا بلکہ الحکم ۲۸؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۷

Page 136

تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں کہ مَیں اگر شہر میں رہوں تو بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں؟ اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ مَیں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے.جس کو چور اور قزاق نہیں لے جا سکتا! مجھے وہ ملا ہے.جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا! پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں؟ مَیں سچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے.میں نہیں رہ سکتا! ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں ! پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے! پس میری دولت میرا مال ، میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں! اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں! میرے دل میں بارہا یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ صحابہؓ کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی.اور مدینہ والے صحابہ ؓ کو جو انصار تھے اس سے حصّہ نہیں ملا.بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصار کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مدد کی جب آپؐ مکّہ سے تکالیف پبرداشت کرتے ہوئے پہنچے.مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصار نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے چھوڑا نہیں.اسژ کی نصرت کے لئے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا.مگر مہاجر جنہوں نے اﷲ کے لئے ہاں محض اﷲ ہی کے لئے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ داروں تک چھوڑ دیئے تھے.اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھا.وہ خلافت کی مسند پر بیٹھے.میں سقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور مِنْکُمْ اَمِیْْرٌ وَ مِنَّا اَمِیْرٌپر مَیں نے غور کی ہے.مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اوّل جگہ ملنی ضرور تھی.اﷲ تعالیٰ کے لئے جب کوئی کام کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا پس ایسے عذر بے فائدہ اور بیہودہ ہیں.اس وقت دنیا خطرناک ابتلاء میں پھنسی ہوئی ہے.پہلی بلاء جہالت کی ہے.تدبّر سے کتاب اﷲ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے.جب تدبّر ہی نہ ہو.تلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو.کتاب اﷲ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصّوں کہانیوں اور لغویات میں بسر کیا جاتا ہے.دوسرا نقص یہ ہے کہ فسق و فجور بڑھ گیا ہوا ہے.بد معاملگی ہے.جہالت ہے.گندگی اور ناپاکی کو مقدّم کر لیا گیا ہے.پھر اس کے ساتھ کبر ہے.وہ کبر کہ یہ برداشت نہیں رہی کہ کوئی نصیحت کرے تو صبر کے ساتھ اس نصیحت کو سُن لیں! اور اس کے ساتھ اور مصیبت یہ ہے کہ اپنے دُکھ سے ناآشنا ہیں.مرض کے حالات سے ناواقف ہیں.اسے محسوس نہیں کرتے! طبیب کی تشخیص پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور اسے ہی مجنون ٹھہراتے ہیں!

Page 137

غرض یاد رکھو.کہ اب زمانہ بہت نازک آ گیا ہے.ایک راست باز دنیا میں آیا ہے.جس کے لئے آسمان نے گواہی دی.اس وقت کہ جب خدا ایک بچھڑا سمجھا گیا تھا.خداوند نے اپنے کلام سے بتایا کہ وہ زندہ اور متکلّم خدا ہے اور اُس نے اپنے برگزیدہ بندہ کو بھیج کر حجّت پوری کی مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے.کہ اس کی مخالفت کی جاتی اور اس کے خلاف منصوبہ بازیاں ہوتی ہیں.مگر اس کی کچھ پرواہ نہیں.لوگ آخر خائب و خاسر ہنوے والے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں.مخالف منصوبے بناتا ہے.کوشش کرتا ہے.سفر کر کے، خرچ کر کے فتوٰی تیار کرتا ہے.کہ یہ کافر اور زور لگا کر کہتا ہے کہ میں ان کو گراؤں گا مگر اس کے سارے اخراجات،ساری محنتیں اور کوششیں رائیگاں جاتی ہیں.خود گرتا ہے اور جس کو گرانے کا ارادہ کرتا تھا وہ بلند کیا جاتا ہے.جس قدر کوشش اس کے معدوم کرنے کی کی جاتی ہے اسی قدر وہ انور بھی ترقی پاتا اور بڑھتا ہے! یہ خدا تعالیٰ کے ارادے ہیں.ان کو کوئی بدل نہیں سکتا! اس کے مخالف (الانفال:۳۷)اس مصداق ہو جاتے ہیں! پس یاد رکھو.اس وقت ضرورت ہے.ایسے امام کی جو حق کا سنانے والا، سمجھا نیوالا اور پھر تزکیہ کرنے والا ہو.بڑے ہی بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس نور سے حصّ نہیں پاتے.اﷲ تعالیٰ مجھ کو اور تم کو روفیق دے کہ ہم جنہوں نے اس نور سے حصّہ لینے کی سعی کی اور اس چشمہ کے پاس پہنچے ہیں.پوری روشنی حاصل کر سکیں.اور سیراب ہوں اور یہ ساری باتیں حاصل ہوتی ہیں جب تو ساری تجارتوں اور بیع و شراء کو چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جانا چاہیئے.اور (التوبہ: ۱۱۹) پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاوے! بعض لوگ جو یہاں آتے ہیں اور رہتے ہیں ان کو ایسی مشکلات پیش آتی ہیں جو ان کی اپنی پیدا کردہ مشکلات سمجھنی چاہئیں.مثلاً کوئی کہتا ہے کہ مجھے چارپائی نہیں ملی یا روٹی کے ساتھ دال ملی.میں ایسی باتوں کو جب سُنتا ہوں تو اگرچہ مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے.جو ان خدمات کے لئے مقرّر ہیں.مگر ان سے زیادہ افسوس ان پر ہوتا ہے جو ایسی شکایتیں کرتے ہیں! میں ان سے پوچھوں گا کہ کیا وہ اس قدر تکالیف سفر کی برداشت کر کے روٹی یا چارپائی کے لئے آتے ہیں؟ یا ان کا مقصود کچھ اَور ہوتا ہے؟ میرے ایک پیر شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ مدینہ میں رہا کرتے تھے.ایک شخص ہجرت کر کے مدینہ میں آیا.پھر اُس نے اُن سے کہا کہ مَیں یہاں نہیں رہتا.کیونکہ لوگ شرارتی ہیں.شاہ صاحب نے اس کو کہا کہ تم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے یا عربوں کے واسطے.اگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے.تو وہ تو ویسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے یقین کیا تھا اور اگر عربوں کے لئے آئے تھے تو وہ بیشک ایسے ہی ہیں جیسا کہ

Page 138

تم سمجھتے ہو ! پس مَیں بھی اُن احمقوں سے یہی کہوں گا جو اسی قسم کی شکایتیں کرتے ہیں کہ اگر تم ……… کے معلّم کے لئے آئے تھے تو وہ اپنے خُلقِ عظیم کے ساتھ ویسا ہی موجود ہے! اور اگر ہمارے لئے آئے ہو تو ہم ایسے ہی ہیں! کیا کھانا، کپڑا، جارپائی گھر میں نہیں ملتی تھی جو اس قدر تکلیف اٹھا کر اسی روٹی کے واسطے یہاں آئے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ آتے تھے.ان کے لئے جانتے ہو کوئی مہمان خانہ تجویز ہوا تھایا کوئی لنگر خانہ جاری تھا؟ کوئی نہیں! پھر بھی لوگ آتے تھے اور کوئی شکایت نہ کرتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی علیہ وسلم کے لئے آتے تھے اور وہی ان کی غرض ہوتی تھی! غرض یہاں آؤ! نہ اس لئے کہ روٹی یا بستر ملے! بلکہ اس لئے کہ تمہاری بیماریوں کا علاج ہو.تم خدا کے مسیح اور مہدی سے فیض حاصل کرو!! ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو.ہم کیا اور ہماری ہستی کیا؟ ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے ! پاکباز تھے تو پھر امام کی ہی کیا ضرورت تھی! اگر کتابوں سے یہ مقصد حاصل ہو سکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی! ہمارے پاس بہت سی کتابیں تھیں! مگر نہیں.ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا! دیکھو ایک دردِ سرکا بیمار ایک کھانسی والے بیمار کے پاس ہو اور وہ ساری رات کھانستا رہے اور اس کو تکلیف ہو اور اس کی شکایت کرے تو یہ شکایت بے جا ہو گی.وہ خود مریض ہے.اسی طرح پر ہم جس قدر یہاں ہیں.اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں اگر ہم تندرست ہو کر کسی مریض کو دُکھ دیں تو البتہ ہم جواب دہ ٹھہر سکتے تھے لیکن جبکہ خود مبتلائے مرض ہیں اور یہاں علاج ہی کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت سے ناراص ہونا عقلمندی نہیں ہے! پس ہمارے سبب سے ابتلاء میں مت پڑو! جو لوگ ابتلاؤں سے گھبراتے ہیں.مَیں سچّے دل سے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے نہ آیا کریں! اور اگر ہماری کوئی تقریر ان کو پسند نہ آوے، تو وہ یہ سمجھیں کہ ہم مامور نہیں! صادق مامور ایک ہی ہے.جو مسیح اور مہدی ہو کر آیا ہے!! پس خدا سے مدد مانگو! ذکر اﷲ کی طرف آؤ! جو فحشاء اور منکر سے بجانے والا ہے.اسی کو اسوہ بناؤ.اور اسی کے نمونہ پر چلو.ایک ہی مقتداء اور مطاع اور امام ہے! اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اسی سے پیوند کریں! آمین (الحکم ۱۰؍ مارج ۱۹۰۳ء صفحہ۳۰۲) خ خ خ

Page 139

سُوْرَۃُ الْمُنٰفِقُوْنَ مَدَنِیَّۃٌ  ۲. .بہت سے آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں کیکن اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ہم جانتے ہیں کہ اے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تُو ہمارا رسول ہے.لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں تو یہ صریح جھوٹے ہیں اور منافق ہیں.کیونکہ ان کا عمل در آمدان کے دِلی ایمان کے خلاف ہے.اور جو باتیں یہ زبان سے کہتے ہیں.اُن کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے.(الحکم ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱) ۹. .میں نے بارہا سنایا ہے کہ جب مامور من اﷲ آتا ہے تو لوگوم کو اس کی مخالفت کا ایک جوش مارتا اور یہ اس لئے ہوتا ہے.کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی کے اعزاز کے لئے تل جائے.اس کو کوئی ذلیل نہیں کر سکتا.مدینہ طیّبہ میں ایک رأس المنافقین کا ارادہ ہوا.لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِلٰی الْمَدِیْنَۃِ لَیَخْرِجَنَّ الاَعَزُّمِنْھَا الْاَذَلَّاگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے تو ایک ذلیل گروہ کو معزز گروہ نکال دیگا.جنابِ الہٰی نے فرمایا وَلِلّٰہِ الْعِذَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ.معزّز تو اﷲ ہے اور اُس کا رسول اور اس کی جماعت.منافقوں

Page 140

کو یہ کبھی سمجھ نہیں آتی.آخر ایّام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم میں ایک بھی منافق نہ رہا.بلکہ یہ فرمایا. ( احزاب:۶۲) اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تیری مجاورت میں بھی نہ رہیں.(الحکم۱۰؍ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) عزّت اﷲ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے.منافقین ایسی باتوں سے بے علم ہیں.پس مومن اور پھر ذلیل.یہ غیر ممکن ہے.مومن تو اسی دنیا میں بہشت پا لیتا ہے.صحابہؓ کرام نے جب جاہلیت کے عقائدِ فاسدہ سے توبہ کی اور اسلام کے پاک عقائد اختیار کئے تو سب سے پہلی جنّت ان کے لئے یہی تھی.پھر جب مکّہ سے مدینہ ہجرت کی، تو یہ بھی ان کے لئے جنّت ہی تھی.پھر جب ملک پر ملک فتح کئے تو ایک دنیا کے فاتح کہلائے تو یہ بھی ان کے لئے جنّت تھی.پھر جب دنیا سے کوچ کرنے پر پہلی منزل قبر ( قبروہ ہے جہاں انسان اپنے اعمال کے بدلہ میں بعد الموت رہتا ہے) بھی رَوْضَۃٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ ہو گئی! نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی بیبیاں جنگ میں اپنے ساتھ رکھتے.در اصل آپ ان جاہلوں کو یہ سمجھاتے تھے.کہ دیکھو اﷲ تعالیٰ مجھے ذلیل نہیں کرتا.ورنہ جنگ کیسے خطرہ کا موقعہ ہے اور دستور کے لحاظ سے بیبیوں کا قید میں پڑ جانا اور اَور طرح ذلیل ہونا ممکن ہے.مگر اﷲ تعالیٰ میراحامی و ناصر ہے.وہ مومن کے اعداء کو کوئی ایسا موقعہ نہیں دیتا.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۴صفحہ ۱۷۵) خ خ خ

Page 141

سُوْرَۃ التَّغَابُنِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲،۳. . .لوگ یا تو اس واسطے کسی کی فرماں برداری کرتے ہیں کہ وہ پاک اور مقدّس ہے.یا اس لئے کہ وہ بادشاہ ہے اگر نافرمانی کریں گے تو سزادیگا یا اس واسطے کہ وہ ہمارا محسن ہے.ہم پر انعام کرتا ہے.اس لئے اس کی اطاعت ضروری ہے.اﷲ تعالیٰ اپنی اطاعت کی طرف اپنی انہی تین صفتوں کا ذکر فرما کر بلاتا ہے.. .ملک بھی اسی کا، اور سب خوبیوں کا سرچشمہ بھی وہی اور ہر چیز پر قادر بھی وہی، وہی پیدا کرنے والا، وہی نگرانِ حال.پس عبادت کے لائق بھی وہی.اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ حسن رکھتا ہے.تو یاد رکھو تمام کائنات کے حُسن کا سر چسمہ تو وہی ذاتِ بابرکات ہے.کوئی خوبی اگر کسی میں ہے.تو اس کا پیدا کرنیوالا وہی اﷲ ہے.اسی طرح اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ مُحسن ہے.تو سب محسنوں سے بڑا محسن تو اﷲ ہے.جس نے تمہارے محسن کو بھی سب سامان اپنی جناب سے دیا.اور پھر اس سامان سے تمتّع حاصل کرنے کا موقعہ اور قوٰی بھی اسی کے دیئے ہوئے ہیں.اگر کسی کی طاعت اس لئے کرتے ہو کہ وہ بادشاہ حکمران ہے.تو تم خیال کرو.اﷲ وہ احکم الحاکمین ہے.جس کا احاطہ سلطنت اس قدر وسیع ہے.کہ تم اس سے نکل کر کہیں باہر نہیں جا سکتے.چنانچہ فرماتا ہے.

Page 142

.(الرحمن: ۳۴) یہ دنیا کے حاکم تو یہ شان نہیں رکھتے.جب ان کی اطاعت کرتے ہو تو پھر اس احکم الحاکمین کی اطاعت تو ضروری ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ ۲۲۹) خ خ خ

Page 143

سُوْرَۃ الطَّلَاقِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲. .اے نبی.جب تم طلاق دو عورتوں کو تو ان کو طلاق دو اُن کی عدّت پر اور گنتے رہو عدّت اور ڈرو اﷲ سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۰) : ایک وقت میں ایک طلاق دے.حیض میں نہ دے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) :اور مت نکالو اُن کے گھروں سے اُن کو.اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی.( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۹) ۳،۴. 

Page 144

  .  .پھر جب پہنچیں اپنے وعدے کو تو رکھ لو ان کو دستور سے یا چھوڑ دو ان کو دستور سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۰) : جب عدّت گزرنے کو ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۴) تقوٰی عظیم الشان نعمت اور فضل ہے جسے ملے.انسان اپنی ضروریاتِ زندگی میں کیسا مضطرب اور بے قرار رہتا ہے.خصوصًا رزق کے معاملہ میں.لیکن متقی ایسی جگہ سے رزق پاتا ہے کہ کسی کو تو کیا معلوم ہوتا ہے.خود اس کے بھی وہم گمان میں نہیں ہوتا. .پھر انسان بسا اوقات بہت قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اﷲ تعالیٰ متّقی کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے.جیسے فرمایا .انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علومب الہٰیہ پر ہے.کیونکہ جب تک کتاب اﷲ کا علم ہی نہ ہو.وہ نیکی اور بدی اور احکامِ ربّ العالمین سے آگاہی اور اطلاع کیونکر پا سکتا ہے… انسان اپنے دشمنوں سے کس قدر حیران ہوتا ہے.اور ان سے گھبراتا ہے.لیکن متقی کو کیا خوف؟ اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں.( الحکم ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴.۱۵) انسان کو بہت ضرورت ہے اس بات کی کہ کھائے.پئے.پہنے.اﷲ تعالیٰ متّقی کے لئے فرماتا ہے.انسان جب متّقی بن جائے تو اﷲ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا.پس اگر کوئی رزق کا طالب ہے تو اس پر واضح ہو کہ رزق کے حصول کا ذریعہ بھی تقوٰی ہے.۲.انسان جب مصیبت میں حوادثِ زمانہگ سے پھنس جاتا ہے اور اس کی بے علمی اسے آگاہ نہیں ہونے دیتی کہ کس سبب سے تمسّک کر کے نجات حاصل کرے تو وہ خبیر جو ذرّہ ذرّہ کا آگاہ ہے.فرماتا ہے.متّقی

Page 145

کو ہم تنگی سے بچائیں گے.( بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) ہر شخص کو ضرورت ہے کہ اُسے رزق ملے.اور وہ کھائے پیئے.دَوا و علاج اور تیماردار.غرض بہت سیے ضروریات کا محتاج ہے.مگر اﷲ تعالیٰ متّقی کو بشارت دیتا ہے.متّقی کو ایسے طریق پر رزق ملتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا.پھر انسان مشکلات میں پھنستا ہے اور ان سے نجات اور رہائی چاہتا ہے.متّقی کو ایسی مشکلات سے وہ آپ نجات دیتا ہے..ہر قسم کی تنگی سے وہ آپ نجات دیتا ہے.یہ متّقی کی شان ہے.(الحکم ۲۱، ۲۸ مئی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۶) ۵.  .یُسر کو بھی انسان بہت پسند کرتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے. گویا سُکھ بھی متّقی ہی کا حصّہ ہے.تاریخ کے صفحوں کو اُلٹ جاو اور دیکھو کہ متّقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ.باریک در باریک تدبیریں کرنے والے، مال خرچ کرنے والے، جتّھو والے آئے مگر وہ بھی ان متّقیوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے.(بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۸) ہر قسم کے دُکھوں کو سُکھوں سے تقوٰی ہی بدل دیتا ہے. پھر جب متّقی انسان ان ثمرات کو پاتا ہے تو میرے دوستو! سب کو تقوٰی اختیار کرنا جاہیئے.رزق کے لئے تنگی سے نجات کے لئے تقوٰی کرو.سُکھ کی ضرورت ہے.تقوٰی کرو… ( وہ ) دُکھوں سے نکال کر سُکھوں کا وارث بنا دیتا ہے.۷. 

Page 146

  .: گھر دو ان کو رہنے کو جہاں سے آپ رہو.اپنے مقدور سے اور ایذا نہ چاہو اُن کی یا تنگ پکرو ان کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۰) ۹. .اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.پہلی بستیوں کو دیکھو جنہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی تھی.ان پر کیسا عذاب آیا تھا.کُتبُ الہٰیہ کو پڑھنے اور پہلی قوموں کے حالات کے مطالعہ سے انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ کفر و شرک اور انبیاء علیہم السلام کو نہ ماننا ضرور ایک ایسی چیز ہے جس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے لیکن شوخی اور بے باکی اور شرارت بہت ہی بُری شے ہے اور اس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا.اﷲ تعالیٰ کو شوخ آدمی کبھی پسند نہیں.اور ہر ایک شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا نظارہ ضرور ہوتا ہے.اَور نہیں تو کسی بڑے امیر کبیر کے مکانات کے کھنڈرات ہی ہوتے ہیں.لاہور میں شاہی قلعہ دیکھنے والے کو وعظ کر رہا ہے ہر ایک بستی اور گاؤں کے نزدیک کوئی نہ کوئی کھیڑا ضرور ہوتا ہے.دہلی کے حالات پر غور کرو.تغلق آباد کیسے آباد کیا گیا تھا.اس کی جھتوں پر لکڑی نہ ڈالی گئی تھی مگر اب کیسا بے نشان پڑا ہے.یہاں بھی قریب ہی ایک تغل والا گاؤں مونود ہے جہاں کہ تغل لوگ رہتے تھے.لکھنئو کے خرابوں اور ویرانوں پر غور کرو اور ان سے عبرت حاصل کرو.ایک صوفی کا قول ہے کہ انسان کی کیا ہستی ہے.بقطرۂ آبے موجود و بہ خروج بادے معدوم.پھر حیرت و تعجّت کی بات ہے کہ انسان کِس ہستی پر غرور کرتا ہے.موت کے سامنے کوئی طاقت نہیں چلتی.دیکھو سکندر جب تمام فتوحات کر کے بابل میں پہنچا تو موت آ گئی اور کچھ پیش نہ گئی.بغداد میں اس قدر مخلوق تھی کہ شہر

Page 147

کی حفاظت کے واسطے پانج لاکھ فوج یا کستی تھی.مگر جب کدا کا عذاب آیا تو اٹھارہ لاکھ اس معرکہ میں قتل کیا گیا.جن لوگوں سے ملک پر دعوے دار ہونے کا اندیشہ ہو سکتا تھا.کہتے ہیں ان کے ایک ہزار آدمیوں کی قطار کھڑی کر کے دیوار میں چُن دئے گئے.غرض خداوند تعالیٰ کا جب عذاب آتا ہے تو اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اسی عذاب کا اس آیت میں ذکر ہے.پہلے رسولوں کے مخالفین کا یہ حال ہوا تو تم کیونکر بچ سکتے ہو؟ یہی حال تمہارا بھی ہونے والا ہے! (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۱۱،۱۲. .   .اِتَّقُوااﷲَ : تقوٰی اختیار کرو اُولِی الَْاَلْبَابِ: عقل مند : عقل مند وہی جو ایمان لائے.: خدا تعالیٰ نے ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس پر عمل کرنے سے تمہارا ذکر پھیلے.وہ تمہاری عظمت اور جبروت کا باعث ہونے والی ہے.رَسُوْلاً: اگر تم دیکھنا چاہو کہ اس تعلق کا کیا فائدہ ہے تو رسول کا نمونہ دیکھو.جو اﷲ تعالیٰ کی آیات تم پر پڑھتا ہے.کدا تعالیٰ نے اُسے کیا عزّت عطا کی ہے.: اس رسول کی اطاعت اور اس کلام پر عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ تم تاریکی

Page 148

سے نکل کر نور میں داخل ہو جاؤ گے.ظلمت پانچ قسم کی ہے.۱.ظلمتِ فطرت.انسان ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی جاہل ہوتا ہے.۲.ظلمتِ عادت.بدعادات انسان کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں اور انبیاء علیہم السلام اسی واسطے آتے ہیں کہ عاداتِ بد کو دنیا سے مٹا دیں.۳.ظلمتِ رسم.رسم و رواج سے بھی بڑے نقصان مترتّب ہوتے ہیں.بعض رسمیں اس وقت شروع ہوئیں جبکہ مسلمان امیر اور بادشاہ ہوتے تھے.لیکن اب حالتِ فقر میں بھی ان پر چلنا چاہتے ہیں.۴.ظلمتِ جہل.جاہل و نادان.بہ سبب جہالت کے اپنے آپ کو عجیب عجیب تکالیف میں مبتلا کر لیتے ہیں.۵.ظلمتِ عدم استقلام.بعص آدمی بڑے بڑے وعدے اور ارادے کرتے ہیں اور کام شروع کرتے ہیں مگر آخر نباہ نہیں سکتے.جَنّٰتٍ: فرمایا.وہ جنّت جس کے نیچے ندیاں بہتی ہیں.ایمان اور عملِ صالہ سے مل سکتی ہے.اس سورۂ شریف میں طلاق کے نہات ضروری مسئلہ کو حل کیا ہے.یہود طلاق کے معاملہ میں بہت سختی کرتے تھے.زرا ذرا سی بات پر طلاق دیتے تھے.اور عیسائیوں کے درمیان سوائے زنا کے طلاق نہ ہو سکتی تھی.افراط اور تفریط کو دور کیا گیا.اور ایک درمیانی راہ سکھلائی گئی.اور عورتوں کے حقوق قائم کئے گئے.جن سے پہلی قومیں ناآشنا ہیں بلکہ اس وقت یورپ کا قانون لندن تک خاموش ہے.اس سورہ شریفہ میں بار بار تقوٰی پر زور دیا گیا ہے.لوگ عورتوں کے معاملہ میں تقوٰی سے دُور جا پڑے ہیں.بعض لوگ اپنی عورتوں کو نہ آباد کرتے ہیں اور نہ طلاق دیتے ہیں.بعض مارتے ہیں، تنگ کرتے ہیں.بداخلاقی سے پیس آتے ہیں.یہ بہت بڑی ظلم کی باتیں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۳.  .: کوئی چیز اﷲ تعالیٰ کے علم و قدرت کے دائرہ سے خارج نہیں.ایک صوفی کہتا ہے ؎

Page 149

رَمزیست زسر قدرتش کُن فَیَکُوْن بادانشِ اُو یکیت بیرون و دروں در غیب و شہادت ذرّۂ نتواں یافت از دائرہ قدرت و علمش بیروں ایک آریہ کے اعتراض کہ ’’ سات آسمان باطل ہیں‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا:.’’ اس کا جواب نمبرواردیتے ہیں.اوّل ’’ سات آسمان اور سات زمینوں کی ہر کسی عالم بلکہ اہلِ علم.ماہر تواریک و ہیئت و جغرافیہ نے نمبروار تردید کی ہے‘‘ مرد آدمی ! ان کا نام ہی لکھ دیا ہوتا؟ سنئے.آپ کو ہم بتا دیں.آپ نے تو منکرِ اہل علم کا نام نہیں لیا.ہم ماننے والوں کے نام سناتے ہیں.یوگؔ.پاتنجل.کرت سوتر نمبر۲۵، دیاس منی کی بھاس، ادھیا سوم.سورج دھارنا کی نرنی میں لکھا ہے.بُونکی اوپر بُھوَرْ سُوَرْ مَھنجَنْ تپ انترکھ سَتْ.یہ سات آسمانی طبقات ہیں.جو زمین کے اوپر ہیں.اور مہیاتلؔ.رساتلؔ.اتلؔ.ستل.وتلؔ.تلاتلؔ.پاتالؔ.یہ سات طبقات زمین کے نیچے ہیں.اب بتایئے یہ آریہ ورتی اہل علم اور ہیئت دان اور جیاگرنی کے ماہر تھے.یا نہ تھے؟ مگر یہ تو بتاؤ جنبوویپ کے گردلَوَنْ سمندرؔ اور شاکؔویپ کے گرد اکہیورس سمندر ( شہد) کشن ویب کے گرد سورا سمندر ( سراب).کرونج ویپؔ کے گرد سرپی سمندرؔ ( گھی) شامل ملؔدیپ کے گرد دوہی سندر.گیؤ میددیپؔکے گرد.کہیر سمندر پشکردیب کے گرد.جل سمندر.ان دیپوں کا بیان اور تشریح کسی جیاگرنی دان سے پوچھیں؟ پھر مَیں کہتا ہوں کہ زمین اور آسمان کا سات سات حصص پر منقسم ہونا سچی تقسیم ہے جو سراسر حق ہے اس کے ماننے میں بُطلان ہی کیا ہے.کہ قرآن کریم نے اس کا ابطال نہیں کیا.قرآن کریم اور احدیث صحیحہ میں سبع ارضین کا تذکرہ موجود ہے.مگر یاد رہے.موجودات مُرکبَّہَ کی تقسیم کئی طرح ہو سکتی ہے.اگر اﷲ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرما دی تو بُطلان کیا ہوا؟ اب ہم ایک ایسی بات کہتے ہیں.جس کے سننے سے کسی منصف آریہ کو قرآن کریم کے سَبْعَ سَمٰوٰت کہنے میں انکار کی جگہ نہیں.زمین سے لے کر جہاں تک فوق میں اﷲ تعالیٰ کی مخلوق ہے.اس مخلوق کو اﷲ نے ایک تقسیم میں سات حصّوں پر تقسیم کیا ہے.ہر ایک آسمان جس کا بیان اﷲ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے.ان کا بیان آیات ذیل میں موجود ہے.اوّل وہ مقام جس میں ہمارے لئے کھانے کا سامان رکھا ہے.جیسے فرمایا ہے.(الذٰریٰت:۲۳) اور آسمان ہی میں تمہارے لئے رزق یعنی کھانے پینے کا سامان رکھا ہے اور وہ چیز ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا.

Page 150

دومؔ: وہ مقام جس کے اندر جانور اُڑتے ہیں.جیسے فرمایا.(الملک: ۲۰) کیا یہ لوگ پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسی صفیں باندھے آسمانی فضا میں موجود ہیں.سومؔ: وہ مقام جس میں اولے بنتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو ویران کرتے ہیں.جیسے فرمایا.(البقرۃ:۶۰)پھر ہم نے اتارا بدکاروں پر ان کی بدکاری کے بدلہ آسمان سے عذاب چہارمؔ: وہ مقام جس میں سے مینہ آتا ہے جیسے فرمایا.( البقرۃ:۲۳) اور اُس نے آسمانوں یعنی بادلوں سے پانی اتارا اور اس کے درمیانی ہونے سے پھل نکالے جو تمہارے لئے رزق یعنی کھاتے اور پینے کا سامان ہیں.پنجم : وہ مقام جس میں ستارے اور نیازک گرتے ہیں.جیسے فرمایا. (الملک:۶) ششم ؔ: وہ مقام جس میں ستارے ہیں.جیسے فرمایا  ( الحجر:۱۷) ہفتم ؔ: وہ حصّہ ان سب سے اوپر ہے اور جس میں اﷲ تعالیٰ نے بہشتوں کو رکھا ہے کہ ان مشہود ستاروں سے اوپر بھی کوئی مقام ہے جیسے فرمایا. (آل عمران: ۱۳۴) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۳۲۱ تا ۳۲۳)

Page 151

سُوْرَۃ التَّحْرِیْمِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲،۳. . .اس سورۃ کے شروع میں بھی پچھلی سورۃ کے شروع کی طرح نبی کریں صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کو مخاطب کیا ہے.مگر حکم عام سب کے لئے ہے.: تو کیوں حرام کرتا ہے ؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے کسی حلال چیز کو چھوڑ دیا تھا.اس کا پتہ احادیث سے دو جگہ سے ملتا ہے.ان دو میں سے کسی ایک کو یہاں سمجھ لو.۱.ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے شہد پیا تھا.تو ایک بیوی نے کہا.آپؐ کے منہ سے بُو آتی ہے.آپؐ نے خیال فرمایا کہ اگر شہد کا پینا کسی بیوی کو ناپسند ہے تو ہم نہیں پیتے.شہد کے پینے کی ضرورت ہی کیا ہے.۲.دوسری بات حدیثوں میں یہ لکھی ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم نے اپنی بیبیوں سے ان کے کسی معاملہ پر ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تھی اور چند روز تک ایک علیحدہ مکان میں رہے تھے.اس سے اﷲ تعالیٰ نے نہیں فرمایا.جس کے سبب سے یہ آیت نازل ہوئی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ترک میں مشکلات تھے.اگر وہ قائم رہتا تو مسلمان اسے ایک سنّت بنا لیتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍ نومبر ۱۹۱۱ء)

Page 152

ہاں مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے.سورہ تحریم کی پہلی چند آیات کی تفسیر لکھ دوں. .… آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بی بی زینتؓ کے گھر میں شہد پیا عائشہؓ اور حفصہؓ نے زینبؓ پر غیرت کی.اور رسولِؐ خدا سے عرض کیا کہ آپ ؐ کے مُنہ سے مغافیر کی بُو اتی ہے.آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے زینب کے گھر میں شہد پیا ہے.اب پھر شہد نہ پیوں گا.یہ بات اس لئے کہی کہ جب عورتوں کو شہد کی بُو سے نفرت ہے تو اس کا پینا کی ضرور؟ معاشرت میں نقص آتا ہے؟ باری تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا.حلال اشیاء کا ترک کرنا اور اس پر حلف کرنا کیوں.ایسے امور میں عورتوں کی رضامندی ضرور نہیں.قسم سے بچ رہنے کے لئے سورہ مائدہ میں کفارے کا حکم ہے.اس پر عمل کرو.میںفَرَضَ ماضی کا صیغہ ہے.حال یا استقبال نہیں.یہ زینبؓ کا قصّہ اور اس پر آیت کا نازل ہونا بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی اعلیٰ کتابوں میں موجود ہے.اور قرآن کی تفسیر یا خود قرآن سے یا لغتِ عرب سے یا قرآن کی تفسیر صحیح احادیث سے تفسیر کا اعلیٰ درجہ ہے.بعض مفسّر لوگوں نے زینبؓ کے بدلے میں ماریہ قبیطہ کا نام لیا.الاَّ ماریہ بھی رسولِؐ خدا کی بی بی ہیں.اور ایک بیٹے کی ماں.اس بیٹے کی ماں ہیں جس نے لڑکپن میں انتقال کیا.تب بھی کوئی حرج نہیں.اِلاّیہ مفسروں کا قول حدیث کے مقابلہ میں التفات کے قابل نہیں.بلکہ محققین نے ماریہ کے وجود پر بھی انکار کیا ہے.‘‘ (فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۲۷.۱۲۸، ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء) ۴.  

Page 153

.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے کوئی بات اپنی کسی بیوی کو کہی تھی.اُس نے کسی اَور کے آگے ذکر کر دی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو الہامِ الہٰی کے ذریعے معلوم ہو گیا.کہ اس بیوی نے اس راز کی بات کو آگے ذکر کر دیا ہے.شیعوں نے کہا ہے کہ وہ بات یہ تھی کہ میرے بعد حضرت علیؓ خلیفہ ہوں گے اور سنّی کہتے ہیں کہ وہ بات یہ تھی کہ میرے بعد ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما خلیفہ ہوں گے.مگر جب اﷲ تعالیٰ نے اس بات کو مقیّد نہیں کیا اور بیان نہیں فرمایا کہ وہ کیا بات تھی.تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم کہیں کہ وہ یہ بات تھی یا وہ بات تھی.: محبت بڑھانے کے لئے اپنی بیوی سے مخفی بات بھی بعض اوقات کہہ دینی چاہیئے لیکن اگر وہ ظاہر کر دے تو جتلا دینا چاہیئے.(تشحیدالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۴) ۵.  .: جھکے ہوئے ہیں.تمہارے دل تو پہلے ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف جُھکے ہوئے ہیں.کجی کا ترجمہ کرنا یہاں غلط ہے.: اگر تم ایک دوسرے کی پیٹھ بھرو.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء) : توبہ کرو تو یہی تم سے توقع ہے.کیونکہ تمہارے دل پہلے ہی سے ایسے ہیں کہ وہ جنابِ الہٰی میں جھکے ہوئے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۵) ۶. 

Page 154

.تبدیلی کا اختیار دیا گیا.مگر تبدیلی کوئی نہیں ہوئی.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب صفات جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ نبی کو خدا اایسی بیبیاں دے گا.وہ انہی بیبیوں میں موجود تھیں.اور اگر کچھ کمزوریاں تھیں.تو وہ خداوند تعالیٰ نے دور کر دیں.۷.  .اوپر عورتوں کا ذکر ہوا.اب اﷲ تعالیٰ تاکید فرماتا ہے.کہ اپنے اہلِ خانہ کو وعظ و نصیحت کرتے رہو.اور انہیں نیک باتوں کی طرف متوّجہ کرتے رہو.تاکہ وہ بھی عذاب سے بچیں اور اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کریں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(النساء:۳۵)مرد عورتوں کے مؤدِب ہوا کرتے ہیں کہ ان کو ہر قسم کے آداب شرعیہ و اسلامیہ سکھا دیں.۹.    .

Page 155

نَصُوْحًا: خالص توبہ.نصوح کے معنے ہیں.خالص رجوع.اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا مومن کا کام ہے.اس میں فرمایا ہے کہ خالص توبہ کا یہ نتیجہ ہو گا کہ تم پچھلی بدیوں کے بُرے نتائج سے محفوظ رہو گے اور آئندہ بدیوں کے جوش کو دبا سکو گے اور ایک نور تمہیں دیا جائے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور ہر قسم کی ٹھوکر اور لغزش سے محفوظ رہو گے.۱۰. .اس آیت میں منافقوں سے جہاد کا حکم ہوا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ منافق ظاہر ہو چکے تھے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو معلوم تھے.اگر ظاہر نہ ہوتے تو ان کے ساتھ جہاد کیونکر ہو سکتا تھا.اگر شیعوں کے کہنے کے مطابق عمرؓ منافق تھا.تو حضرت علی رضی اﷲ تعالیف عنہ کو لازم تھا بلکہ ان پر فرض تھا کہ اس آیت کے ماتحت ان کے ساتھ جہاد کرتے.مگر انہوں نے نہیں کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء) ۱۱.  .اِمْرَأَۃَ نُوْح:ٍ حضرت نوحؑ کی بیوی کا نام علمۃ تھا.اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے کافروں کی مثال دو عورتوں کے ساتھ بیان کی ہے.جیسے کہ حصرت نوحؑ اور حضرت لُوطؑ کی بیویاں تھیں مگر چونکہ وہ ایمان نہ لائیں.اس واسطے طاہری تعلق اور رشتہ کام نہ آیا بلکہ ان کی بدگوئی اور مخالفت کی وجہ سے عذابِ الہٰی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو گئیں.: یہاں خیانت سے مراد انبیاء کی بدگوئی اور عداوت ہے.فسق و فجور کے واسطے جو لفظ آتا ہے وہ خُبث ہے.یہ خبیثہ نہ تھیں بلکہ کافرہ تھیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء)

Page 156

۱۲،۱۳.  ..مومن دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک امرأۃ فرعون کی مانند اپنے جذباتِ نفس میں مقیّد ہیں.اس حالت سے نکلنے کے واسطے کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسرے مریم بنت عمران کی طرح ہیں جو اپنے نفس کو پاک کئے ہوئے ہیں اﷲتعالیٰ کی رُوحِ صدق ان میں پھونکی جاتی ہے اور وہ مسیحی نفس بن جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء) : اسی امت میں ابن مریم پیدا ہونے کی بشارت حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے آپ کو مریم بھی فرمایا.مطلب یہ کہ گناہوں سے پاک ہوں..(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۵) اس کی تفسیر میں ایک مفّصل بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی کتاب کشتی نوحؑ میں لکھا جس کو ہم درج ذیل کرتے ہیں.خُدا نے سورۃ فاتحہ میں آیت میں بشارت دی کہ اس امّت کے بعض افراد انبیائِ گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نِر سے یہودی ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیںمگر نیکی نہ لے سکیں.اسی کی طرف سورۃ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے.کہ بعض افراد امّت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے جس نے پارسائی اختیار کی.تب اس کے رحم میں عیسٰی کی رُوح پھونکی گئی.اور عیسٰی اس سے پیدا ہوا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس امّت میں ایک شخص ہو گا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اس کو ملے گا پھر اس میں عیسٰی کی رُوح پھونکی جاوے گی.تب مریم میں سے

Page 157

عیسٰی نکل آئے گا.یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسٰی ہونے کا بچہ دیا اور اس طرح پر وہ ابنِ مریم کہلائے گا.جیسا کہ براہینِ احمدیہ میں اوّل میرا نام مریم رکھا گیا.اور اسی کی طرف اشارہ الہام صفحہ ۲۳۹ میں اور وہ یہ ہے کہ اَنّٰی لَک ھٰذَا یعنی اے مریم تو نے یہ نعمت کہاں سے پائی اور اسی کی طرف اشارہ ہے صفحہ ۲۲۶ میں یعنی اس الہام میں کہ ھُزَّ اِلَیْک بِجِذْعِ النَّخْلَۃِ یعنی اے مریم کھجور کے تنا کو ہلا.اور پھر اس کے بعد صفحہ ۴۹۶ براہین احمدیہ میں یہ الہام درج ہے.یَامَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُک الْجَنَّۃَ نَفَحْتُ فِیْک مِنْ لَّدُنِیْ رُوْحَ الصِّدْقِ یعنی اے مریم تُو مع اپنے دوستوں کے جنّت میں داخل ہو.مَیں نے تجھ میں اپنے پاس سے صدق کی رُوح پھونک دی.خدا نے اس آیت میں میرا نام روح الصدق رکھا.یہ اس آیت کے مقابل پر ہے کہ نَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا پس اس جگہ گویا استعارہ کے رنگ میں مریم کے پیٹ میں عیسٰی کی رُوح جا پڑی جس کا نام روح الصدق ہے پھر سب کے آخر میں صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں وہ عیسٰی جو مریم کے پیٹ میں تھا.اس کے پیدا ہونے کے بارہ میں یہ الہام ہوا.یَاعِیْسٰی اِنِّی مُتَوَفِّیْکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ جاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ اس جگہ میرا نام عیسٰی رکھا گیا.اور اس الہام نے ظاہر کیا کہ وہ عیسٰی پیدا ہو گیا جس کی رُوح کا نفخ صفحہ ۴۹۶ میں ظاہر کیا گیا تھا.پس اس لحاظ سے میں عیسٰی بن مریم کہلایا.کیونکہ میری عیسوی حیثیت مریمی حیثیت سے خدا کے نفخ سے پیدا ہوئی.دیکھو صفحہ ۴۹۶ اور صفحہ ۵۵۶ براہین احمدّیہ اور اسی واقعہ کو سورۃ تحریم میں بطور پیشگوئی کمال تصریح سے بیان کیا گیا ہے کہ عیسٰی ابن مریم اس امّت میں اس طرح پیدا ہو گا کہ پہلے کوئی فرد اس اُمّت کا مریم بنایا جائے گا اور پھر بعد اس کے اس مریم میں عیسٰی کی رُوح پھونک دی جائے گی.پس وہ مریمیت کے رحم میں ایک مدّت تک پرورش پا کر عیسٰی کی روحانیت میں تولّد پائے گا.اور اس طرح وہ عیسٰی بن مریم کہلائے گا.یہ وہ خبر محمدی ابنِ مریم کے بارہ میں ہے جو قرآن شریف یعنی سورہ تحریم میں اس زمانہ سے تیرہ سو برس پہلے بیان کی گئی ہے.اور پھر براہین احمدیہ میں سورہ التحریم کی ان آیات کی خدا نے خود تفسیر فرما دی ہے.قرآن شریف موجود ہے.ایک طرف قرآن شریف کو رکھو اور ایک طرف براہین احمدیہ کو اور پھر انصاف اور عقل اور تقوٰی سے سوچو کہ وہ پیشگوئی جو سورہ التحریم میں تھی یعنی یہ کہ اس امت میں بھی کوئی فرد مریم کہلائے گا اور پھر مریم سے عیسٰی بنایا جائے گا.گویا اس میں سے پیدا ہو گا.وہ کسی رنگ میں براہین احمدیہ کے الہامات سے پوری ہوئی.کیا یہ انسان کی قدرت ہے.کیا یہ میرے اختیار میں تھا اور کیا مَیں اس وقت موجود تھا جبکہ قرآن شریف نازل ہو رہا تھا.میں عرض کرتا کہ مجھے ابن مریم بنانے کے لئے کوئی آیت اتا ر دی جائے اور اس اعتراض سے مجھے

Page 158

سبکدوش کیا جائے کہ تمہیں کیوں ابن مریم کہا جائے.اور کیا آج سے بیس بائیس برس پہلے بلکہ اس سے بھی زیادہ میری طرف سے یہ منصوبہ ہو سکتا تھا کہ مَیں اپنی طرف سے الہام تراش کر اوّل اپنا نام مریم رکھتا اور پھر آگے چل کر افتراء کے طور یہ الہام بناتا کہ پہلے زمانہ کی مریم کی طرح مجھ میں بھی عیسٰی کی روح پھونکی گئی.اور پھر آخر کار صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں یہ لکھ دیتا کہ اب مَیں مریم میں سے عیسٰی بن گیا.اے عزیزو! غور کرو اور خدا سے ڈرو.ہرگز یہ انسان کا فعل نہیں.یہ باریک اور دقیق حکمتیں انسان کے فہم اور قیاس سے بالاتر ہیں ۱؎.اگربراہین حمدیہ کی تالیف کے وقت جس پر ایک زمانہ گزر گیا.مجھے اس منصوبہ کا خیال ہوتا تو مَیں اسی براہین احمدیہ میں یہ کیوں لکھتا کہ عیسٰی ابن مریم آسمان سے دوبارہ آئے گا.سوچونکہ خدا جانتا تھا کہ اس نکتہ پر علم ہونے سے یہ دلیل ضعیف ہو جائے گی.اس لئے گو اس نے براہین ِ احمدیہ کے تیسرے حصّہ میں میرا نام مریم رکھا.پھر جیسا کہ براہینِ احمدیہ سے طاہر ہے دو برس تک صفتِ مریمیت میں مَیں نے پرورش پائی اور پردہ میں نسوونما پاتا رہا.پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ برائین احمدیہ کے حصّہ چہارم صفحہ۴۹۶ میں درج ہے.مریم کی طرح عیسٰی کی رُوح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا.اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصّہ چہارم صفحہ۵۵۶ میں درج ہے.مجھے مریم سے عیسٰی بنایا گیا.پس اس طور سے مَیں ابن مریم ٹھہرا اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت میں اس سّر مخفی کی مجھے خبر نہ دی.حالانکہ وہ سب خدا کی وحی جو اس راز پر مشتمل تھی.میرے پر نازل ہوئی اور براہین احمدیہ میں درج ہوئی.مگر مجھے اس کے معنوں اور اس ترتیب پر اطلاع نہ دی گئی.اسی واسطے مَیں نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین احمدیہ میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو.وہ میرا لکھنا جو الہامی نہ تھا.محض رسمی تھا.مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے کود بخود غیب کا دعوٰی نہیں.جب تک کہ خود خدا تعالیٰ مجھے نہ سمجھا دے.سو اس وقت تک حکمتِ الہٰی کا یہی تقاضا تھا کہ براہین احمدیہ کے بعض الہامی اسرار میری سمجھ میں نہ آتے.مگر جب وقت آ گیا.تو وہ اسرار مجھے سمجھائے گئے.تب میں نے معلوم کیا کہ میرے اس سعوٰی مسیح موعود ہونے میں کوئی نئی بات نہیں یہ وہی دعوٰی ہے جو براہین احمدیہ میں بار بار بتصریہ لکھا گیا ہے.اس جگہ ایک اور الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں.لیکن یہ یاد رہے کہ صدہا لوگوں کو مَیں نے سنایا تھا.اور میری یادداشت کے الہامات میں مو جود ہے.اور وہ اس زمانہ کا ہے.جب کہ ۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍نومبر ۱۹۱۱ء

Page 159

خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فَاَجَائَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِدْعِ النَّخْلَۃِ قَالَتْ یَالَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْْْلَ ھٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَنْسِیًّا.یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے.دردِزہ کھجور کی طرف لے آئی.یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا.جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا.تب مریم نے کہا کہ کاش مَیں اس سے پہلے مر جاتی اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا.یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتداء میں مولویوں کی طرف سے بحیثیت مجموعی پڑا اور وہ اس دعوٰی کو برداشت نہ کر سکے.اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا.تب اس وقت جو کرب اور قلق ناسمجھوں کا شور و غوغا دیکھ کر میرے دل پر گزرا.اس کا اس جگہ خدا تعالیٰ نے نّشہ کھینچ دیا ہے.اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے جیسالَقَدْ جِئتِ شَیْئًا فَرِیًّا مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَّ مَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّااور پھر اس کے ساتھ کا الہام براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۱ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے اَلَیْسَ اﷲُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ وَ لِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً لِلّنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًامَّقْضِیًّا.قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ ٓفِیْہِ تَمْتَرُوْنَ.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶ سطر ۱۲،۱۳(ترجمہ) اور لوگوں نے کہا کہ اے مریم تو نے یہ کیا مکروہ اور قابلِ نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دور ہے.تیرا باپ اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے مگر خدا ان تہمتوں سے اپنے بندہ کو بری کرے گا.اور ہم اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنا دیں گے اور یہ بات ابتداء سے مقدّر تھی اور ایسا ہی ہونا تھا.یہ عیسٰی بن مریم ہے جس میں لوگ شک کر رہے ہیں.یہی قولِ حق ہے.یہ سب براہین احمدیہ کی عبارت ہے اور یہ الہام اصل میں آیاتب قرآنی ہیں جو حضرت عیسٰی اور ان کی ماں کے متعلق ہیں.ان آیتوں میں عیسٰی کو لوگوں نے ناجائز پیدائش کا انسان قرار دیا ہے.اسی کی نسبت اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس کو اپنا نشان بنائیں گے اور یہی عیسٰی ہے جس کی انتظار تھی اور الہامی عبارتوں میں مریم اور عیسٰی سے مَیں ہی مراد ہوں.میری نسبت ہی کہا گیا کہ ہم اس کو نشان بنا دیں گے اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسٰی بن مریم ہے جو آنیوالا تھا.جس میں لوگ شک کرتے ہیں.یہی حق ہے اور آنے والا یہی ہے.اور شک محض نافہمی سے ہے جو خدا کے اسرار کو نہیں سمجھتے اور صورت پرست ہیں حقیقت پر ان کی نظر نہیں.(منقول ازضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍نومبر ۱۹۱۱ء) خ خ خ

Page 160

سُوْرَۃَ الْمُلْکِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲..: بہت برکت والا.دائمی خیر والا.پاک ذات ہجے.بابرکت والا ہے.ملک و دولت کا مالک ہے.سب چیزوں پر قادر ہے.کسی پارلیمنٹ کے ماتحت نہیں.کسی مجلس شورٰی کے قوانیں ماننے پر مجبور نہیں.ایسے مالک کی حکومت کا ماننا ہمارے واسطے ضروری ہے اور مفید ہے.انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ طاقت ور اور بڑے کی بات کو مان لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے قدرت کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے بڑے بڑے فلاسفر ایک ایک ذرّے کی تحقیقات میں بھی حیران رہ جاتے ہیں.اس سورۂ شریفہ کو نہایت پُرشوکت الفاظ سے شروع کیا گیا ہے جن سے اﷲ تعالیٰ کی طاقت.سلطنت عزّت و عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا ہے.اس کے قبضۂ قدرت میں سب حکومتیں ہیں.یہ سورۃ مکّی ہے.ایسے وقت میں نازل ہوئی.جب مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے اور مشرکین کا زور تھا اس میں ایک پیسگوئی ہے.کہ سلطنت اصل میں خدا کے ہاتھ میں ہے.اور وہ اب کفّار سے لیکر محمدصلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو سلطنت کا مالک بنائے گا.دنیاداروں کی نگاہ میں یہ بات دُور ازقیاس ہے.مگر خدائے تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.ٔٔٔ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍نومبر ۱۹۱۱ء) ۳. .: خدا تعالیٰ نے موت اور زندگی بنائی.اس دنیا کو چھوڑنا اور پھر ہمیشہ

Page 161

زندہ رہنا.جس چیز کا تقاضا اور خواہش انسان میں ہے.اس کا سامان بھی ضرور موجود ہو جاتا ہے.انسان کی یہ فطری خواہشات سے ہے کہ وہ فنا نہ ہو.تو اس کا سامان بھی اﷲ تعالیٰ نے بنا دیا ہے.مرنے کے بعد روح قائم رہتی ہے.اﷲ تعالیٰ نے موت بھی بنائی ہے.یہ بھی اس کی بڑی غریب نوازی ہے.موت کے ساتھ دنیا کی سب تکالیف کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور موت کے بعد پھر ترقیات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے کہ موت انسان کے واسطے اس طرح ضروری ہے جس طرح ہر اُس لڑکی کے واسطے جو کسی کے گھر میں پیدا ہو.یہ ضروری ہے کہ اس کے ماں باپ بصد محبت اُسے پال پوس کر اور ہر طرح سے اس کی تعلیم و تربیت کر کے بالآخر ایک دن اسے اپنے گھر سے رخصت کر کے دوسرے گھر میں پہنچا آویں.کیونکہ اس میں ایک جوہر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.جس کی شگفتگی سوائے اس کے نہیں ہو سکتی.کہ وہ اس گھر کو چھوڑ کر اُس گھر میں چلی جاوے.خواہ اس کے ماں باپ اور خویش و اقرباء اس کی جدائی کے صدمہ سے روئیں اور غم کھائیں اور آنسو بہائیں.پر ضرور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اُسے رخصت کریں.جس طرح وہ جدائی کی گھڑی سخت ہے اسی طرح موت کی ساعت بھی سخت ہے.مگر اس کے بعد آرام و راحت کا ایک نیا دَور شروع ہوتا ہے.اس موت و حیوٰۃ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے زمانہ میں قوموں کی روحانی موت اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے طفیل دوبارہ زندگی کی طرف بھی اشارہ ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی تمام قوموں پر روحانی مُردگی وارد ہو چکی تھی.اور بّر و بحر ہلاک ہو چکے تھے.اسی کی طرف قرآن مجید میں دوسری جگہ اشارہ فرمایا ہے. (انفال:۲۵) اے مومنو! اﷲ اور رسول کی بات مانو.جبکہ وہ تمہیں بلاوے تاکہ تمہیں زندگی عطا کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) : تاکہ تمہیں انعام دے.انعام امتحان کے بعد ہوتا ہے.امتحان کے معنے ہیں.محنت میں ڈالنا.جس کسی کو ایک محنت اور بلاء میں اور مشقّت میں ڈالا جاتا ہے.اور وہ اس سے کامیاب نکلتا ہے تب وہ انعام پاتا ہے.تاکہ دیکھنے والے دیکھیں کہ محنت کا نتیجہ کیا ہے.اور وفاداری کا پھل کس طرح ملتا ہے.اسی طرہ دوسروں کو نیکی کی تحریک ہوتی ہے.

Page 162

بعض نادانوں نے اس لفظ پر اعتراض کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کیوں کرتا ہے.کیا وہ اپنے علمِ ڈیب سے نہیں جانتا کہ انسان کس حالت میں ہے.قرآن شریف میں تو آزمائش کا لفظ ہی نہیں آیا وہاں تو بلاء کا لفظ آیا ہے.جس کے معنے انعام کے ہیں.ا ﷲ تعالیٰ نے ہماری یہ حالتیں موت اور زندگی کی اس واسطے بنائی ہیں کہ ہمیں انعام عطا کرے.لیکن خدا تعالیٰ کے افعال کو قانونِ قدرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک شئے پر ایک محنت کرنی پڑتی ہے اور یہی امتحان ہے.دانہ زمین میں چھوڑا جاتا ہے.خس و خاشاک میں ملا دیا جاتا ہے.پھر پانی سے اُسے اس مٹی میں تَر کیا جاتا ہے.تب وہ پھٹتا ہے اور اس میں سے نرم پتیں نکلتی ہیں.جو ہوا.آندھی.دھوپ کی شدّت اور قسما قسم کے حالات سے گزر کر آخر پھلتا ہے.یہی امتحان ہے.محنت کے بعد پھل ملتا ہے.اریوں نے بھی جنم لینے کا مسئلہ ایجاد کیا ہے.اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ٹھوکروں کا آنا ضروری ہے.امتحان کے معنے ہیں.کسی سے محنت لینا اور اس پر مزدوری دینا.قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے  (حجرات:۴) اﷲتعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقوٰی کے لئے ایک امتحان میں ڈالا.جس سے وہ کامیاب ہوئے اور مغفرت اور اجر عظیم انہوں نے حاصل کیا.عَزِیْزٌ: پیاری باتوں کو پیار کرنے والا.غالب.بڑی عزّت والا ہے.اور بندوں سے غلطیاں ہوئی ہیں تو وہ استغفار کریں.وہ معاف کرنے والا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۴. .: سات آسمان چھوٹے برے سیّاروں اور ستاروں کے آسمان پر سات طبقات ہیں.: کے دو معنے ہیں ۱.بہت چوڑے چوڑے ۲.ایک دوسرے کے اوپر یا ایک دوسرے کے بعد.آسمان کے ذکر میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انسانی زندگی کے لوازمات کی بہت سی اشیاء

Page 163

آسمان سے وابستہ ہیں.آسمان سے پانی اتا ہے.تو کھیتی بنتی ہے.اور سورج کی دھوپ سے وہ پکتی ہے آسمان سے بارس نہ ہو.تو کنؤیں اور دریا ہی خشک ہو جانے لگتے ہیں.جب ظاہری ضروریات کے واسطے انسان آسمان کا محتاج ہے تو روہانی فیوص کے واسطے تم کیوں آسمانی وحی و الہام کی قدر نہیں کرتے.: رحمانی تقاضا سے جو اشیاء مفت میں مل گئی ہیں.ان کی شکر گزاری کرو.ان میں کوئی فرق نہیں.سورج برابر روشنی دئے جاتا ہے.پھر صرورتِ نبوّت میں کیوں فرق کے قائل بنتے ہو.: اضطراب کو بھی کہتے اور اختلاف کو بھی کہتے ہیں.اضطراب یہ ہے کہ کوئی چیز کہیں کی کہیں ڈال دی جائے.ایسا نہیں ہے.اور نہ ایسا اختلاف اور گڑ بڑ ہے کہ مثلاً آگ کی خاصیت پانی میں جا پڑے اور پانی کی خاصیت آگ میں جا پڑے.تفاوت نقصان کے معنوں میں بھی آتا ہے.اﷲ تعالیٰ کی حق و حکمت میں کوئی نقصان نہیں ہوتا.انسان کی تحقیقات میں نقصان ہو.ورنہ خداکے کاموں میں کوئی نقصان نہیں.: شق : بار بار چیزوں کو دیکھو.تحقیقات کرو.نقص نہ پاؤ گے.پھر.پھر غور کرو.تمہاری آنکھیں دیکھتے دیکھتے تھک جائیں گی.مگر کوئی بھی نقص نہ ملے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍نومبر ۱۹۱۱ء) ۶. .سَمَآئَ الدُّنْیَا: ورلا آسمان اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے اس والے آسمان کو عجیب در عجیب چراغوں سے روشن کیا ہے اور ان میں ایسے بھی ستارے ہیں جو شریروں کو دور کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ کے حضور سے جب احکام صادر ہوتے ہیں.تو بڑے فرشتے چھوٹے فرشتوں کو پہنچاتے ہیں.اسی طرح رفتہ رفتہ بات وہاں تک پہنچتی ہے جہاں بادلوں کا طبقہ ہے اور وہاں تک شیطانوں کا دخل ہے.کیونکہ ارواحِ خبیثہ کے بھی مدارج ہوتے ہیں.بعض وہاں تک پہنچتے ہیں جہاں بادلوں کا آسمان ہے.شَیٰطِیْنِ: منجمّین اور کاہن بھی انہیں میں سے ہیں جو کہ رجمًا بالغیب کرتے ہیں.آئندہ کی باتیں باین

Page 164

کرتے ہیں اور ستاروں کو دیکھ کر تکّہ بازیاں کرتے ہیں.یہ ستارے ان کے واسطے تکّہ بازی کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں.جوتشی اور رمّال لوگ ایسا کرتے ہیں.… مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چند ایسے صاف اور بدیہی امور کو بیان کر دوں.جن کے ملحوظ رکھنے سے آیات نمبر ۲ اور نمبر۳ کے فہم میں بہت سہولت ہو.کیونکہ اس سوال پر آجکل بہت زور دیا جاتا ہے اور عام کالجوں کے لڑکے اور وہاں سے نکل کر بڑے عہدوں پر ممتاز اور ان کے ہم صُحبت ایسی باتوں پر بہت تمسخر کرتے ہیں.پس چند امور ِ بدیہی کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوا.اوّل: مناظرِ قدرت کو دیکھنے والے مختلف الاستعداد لوگ ہوا کرتے ہیں.مثلاً دوسرے کی آنکھوں کو ایک بچہ بھی دیکھتا ہے جو مصنوعی اور اصلی آنکھ میں تمیز نہیں کر سکتا.پھر ایک عقلمند بھی دیکھتا ہے.گو وہ اصلی اور مصنوعی میں فرق کر لیتا ہے.مگر آنکھ کے امراض سے واقف نہیں ہو سکتا.اور نہ اس کی خوبیوں اور نقصانوں سے آگاہ ہوتا ہے.پھر شاعر دیکھتا ہے جو اس کے حسن و قبح پر سینکڑوں شعر لکھ مارتا ہے.پھر طبیب و ڈاکٹر دیکھتا ہے.جو اس کی بناوٹ اور امراض پر صدہا ورق لکھ دیتا ہے.پھر موجدین دیکھتے ہیں.جیسے فوٹوگرافی کے موجد نے دیکھا اور دیکھ کر فوٹوگرافی جیسی مفید ایجادیں کیں.پھر اس کے اور وہ بھائی دیکھتے ہیں جنہوں نے عجیب در عجیب ٹیلی سکوپ وغیرہ ایجاد کئے.پھر ان سے بالاتر صوفی دیکھتا ہے.اور اس سے بھی اوپر انبیاء و رسل دیکھتے ہیں.اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر اﷲ کریم دیکھتا ہے.غرض اسی طرح پر ہزاروں ہزار نظارہ ہائے قدرت ہیں اور ان کے دیکھنے والے الگ الگ نتیجے نکالتے ہیں.اب ہم شہاب ثاقبوں کے متعلق لکھتے ہیں.شہاب وہ چیزیں ہیں جنہیں انگریزی میں میٹئرز ۱؎ کہتے ہیں یہ تو بچہ.عامی.شاعر.حکیم سب یکساں دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ شہب گاہ گاہ نظرآتے ہیں.ا س سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا.اب یہ بات کہ کیوں گرتے ہیں.اس پر خدا داد عقل والے بھی غور کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ کیوں گرتے ہیں اور نیز یہ بھی ظاہر ہے.کہ اﷲ تعالیٰ حکیم ہے.اس کا کوئی کام لغور اور بے حکمت نہیں ہوتا.اس لئے ہم میٹئرز کے متعلق عامیوں کے بے فائدہ نظارہ کو چھوڑ کر پہلے حکماء کا نظارہ بیان کرتے ہیں.وہ لکھتے ہیں کہ میٹرز آسمان میں سے کرّہ ہوائی میں داخل ہو کر روشن ہو جاتے ہیں.ایسے ہر روز بیس ملین ہوا میں داخل ہوتے ہیں.یہ چھوٹے اور عام اور روزانہ ہیں.رات کے پچھلے حصّہ میں پہلے کی نسبت تین گنے زیادہ

Page 165

تے ہیں.میٹإرز کی فوج دورے کے ساتھ آتی ہے.یہ دَورہ صدی میں تین بار ہوتا ہے.عمومًا نومبر کے مہینہ میں اور بڑے بڑے دورے مفصلہ ذیل ہیں.۲۸۶؁، ۵۹۹؁ ، مئی ۶۱۰؁ ء ، ۹۰۲؁ ء ، ۶۹۳۱ ؁ ء ، ۱۰۰۲؁ ء ، ۱۱۰۱؁ ء ، ۱۹؍جنوری ۱۱۳۵؁ء ، ۱۲۰۲؁ ء ، ۱۳۰۶؁ ء ، ۱۰؍ مارچ ۱۵۲۰؁ء ( میں حیرت بخش رمی ہوئی) ۱۵۳۳؁ء ، ۱۶۰۲؁ء ،؁ٔ؁ٔ ۱۶۹۸ء ، ۱۷۹۹؁ء ، ۱۸۳۲؁ء ، ۱۸۶۶؁ء ، ۱۸۷۲؁ء بعض میٹئرز سورج کے گرد شکل کانک سکشن ۱؎ METEORS ( انقطاع خرطومی) میں دَورہ کرتے ہیں.میٹئررز کامٹ ۱؎ کے گرد بہت ہوتے ہیں.وہیں سے آتے ہیں.جن دنوں کامٹ نمودار ہوتا ہے ان دنوں میں یہ بھی کثرت سے گرتے ہیں.خود کامٹ بھی ایک میٹئرز ہے.کیمیکل ( کیمیاوی ) امتحان سے معلوم ہوتا ہے کہ مفصّلہ ذیل اشیاء میتئرز میں پائے جاتے ہیں اور کوئی چیز نہیں پائی جاتی.لوحا.ایکومینیئم.میگنیشیم.پوٹاشیم.سلیکون.سوڈیم.آکسیجن.کیلشیم.نِکل.آرسینک.کوبالٹ فاسفورس.کرومیم.نائیٹروجن.میگینسی.سلفر.کلورائن.کاربن.ٹیٹینیئم.ہائیڈروجن.ٹین.تانبا.تمام مقامات جن میں میٹئرز جمع کئے گئے.ہیں.یورپ میں وی آنا، پیرس لندن.برلن اور امریکہ میں نیوہیوَن.ایمہرسٹ.لوئنرول.یہ پتھر عموماً بڑے نہیں ہوتے.عجائب خانہ میں ایک سو پونڈ سے زیادہ وزن کے پتھر کم ہی پائے جاتے ہیں.ایسی بارش ان پتھروں کی سازونادر ہی ہوئی ہو گی.جس میں کل پتھروں کا وزن ہزار پوند تک پہنچا ہو.مقام پلٹسک کے نوسوپچاس سالم پتھر پیرس کے عجائب خانہ میں موجود ہیں.جن میں سے ہر ایک کا اوسط وزن ۶۷ گرام ہے یعنی ۱ ؍ ۲ ۲ا ونس سے بھی کم ہے.سٹاک ہولم کے عجائب خانہ میں ایک پتھر کا وزن ایک گرین سے بھی کم ہے.مقام ایمٹ کی بارش میں ایک پتھر قریباً ۵۰۰ پونڈ کا گِرا تھا.میٹی ارک آیرن.اس قسم کا ایک ٹکڑا ۱۶۳۵ پونڈ وزنی بیل کالن میوزیم میں موجود ہے.قریباً اتنے ہی حجم کا ایک ٹکڑا پیرس سے میوزیم میں ہے.اس سے کسی قدر چھوٹا ٹکڑا شہر واشنگٹن کے نیشنل میوزیم میں ہے.اور ان سے ایک بہت بڑا ٹکڑا برٹش میوزیم میں ہے.۱؎ comet دوسرا امر یہ ہے کہ ہم اس مذہب کی تحقیق بیان کرتے جس کو پال نے مذہب اسلام سے اوپر یقین کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام سے وہ مذہب اچھا ہے.اس کی آخری تحقیقات کی کتاب مکاشفات کے باب ۱۲ میں ہے.ایک بڑا سُرخ اژدہا جس کے سات سر اور دس سینگ اور اس کے سروں پر سات تاج تھے.ظاہر

Page 166

ہوا اور اس کی دُم نے آسمان کے تہائی ستارے کھینچے اور انہیں زمین پر ڈالا.اور اسی باب میں ہے.پھر آسمان پر لڑائی ہوئی.میکائیل اور اس کے فرشتے اژدہا اور اس کے فرشتے لڑے.پھر متی ۲۴ باب ۲۹ آیت.ستارے گریں گے.اور بروج کے متعلق مسیحی کتبوں میں ہے.دیکھو ایوب ۳۸ باب ۳۲ آیت.’’ کیا تجھ میں قدرت ہے کہ منطق البروج ایک ایک اس کے موسم پر پیش کرے‘‘ اور شہابوں کے بارے ان میں لکھا ہے.دیکھو ایوب ۳۸ باب ۳۶ آیت میں ہے ’’ یا کس نے شہابوں کو فہمید عطا کی‘‘ اس سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ شہابوں کو بھی فہمید ہے.پر آگے بیان نہیں کیا کہ کیا فہمید ہے اور اس فہمید سے کیا کام لیتے ہیں.اور زبور ۱۰۴ میں ہے ’’ وہ اپنے فرشتوں کو روحیں بناتا ہے اور اپنے خدمت گزاروں کو آگ کا شعلہ‘‘ اب تک ہم نے یہ باتیں بیان کی ہیں.کہ میٹئرز.الکایات.شہاب ثاقب اور شعلہ ہائے ناز آشمان سے گرتے نطر آتے ہیں اور کتب یہود اور مسیحیوں نے بھی نہیں بتایا کہ کیوں گرتے ہیں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ فعلِ الہٰی ہے.اس لئے لغو بھی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ عادت اﷲ کے موافقاس میں بڑی حکمتیں ہوں.اب تیسرا امر جو اس مضمون میں مجھے بیان کرنا ہے.یہ ہے کہ الہامی مذاہب قائل ہیں کہ دیوتا.ملک اور فرشتے موجود ہیں اور ان کا ماننا ضروری ہے کیونکہ الہٰی کلام میں ان کا ذکر ہے.اور شیاطین اور جِنّ بھی ہوتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنا ضروری ہے.مَیں بھی الہامی مذہب اسلام کا معتقد ہوں اور اس کی پاک کتاب میں پاتا ہوں. (البقرہ: ۲۸۶) ترجمہ: رسول ایمان لایا اس پر جو اتارا گیا اس کی طرف اس کے ربّ سے اور مومن بھی سب کے سب ایمان لائے اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر.اس لئے میں فلاسفروں.سائنس دانوں.برہم,وں اور آریہ سماجیوں کے لئے ایک دلیل وجود ِ ملائکہ پر اور ان پر ایمان لانے کی ضرورت کی وجہ بیان کرتا ہوں.شاید کوئی رشید اور سعادتمند اس پر توجہ کرے.سب سے پہلے میرے نزدیک ہزاروں ہزار انبیاء و رسول جو راست بازی میں ضرب المثل تھے اور ان کے مخلص اتباع کا اعتقاد اس بارے میں کہ ملائکہ اور شیاطین ہیں بہت بڑی دلیل ہے.مگر ایک دلیل مجھے بہت پسند آئی ہے جسے مَیں پیش کرتا ہوں اور دلیری سے پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے بار بار

Page 167

کے تجارب میںآ چکی ہے اور وہ یہ ہے.تمام عقلاء میں یہ امر مسلّم ہے.کہ اس زمین کا کوئی واقعہ بدوں کسی سبب کے ظہور پذیر نہیں ہوتا.بلکہ صوفیائے کرام اور حکمائے عظام اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی امر حقیقت میں اتفاقی نہیں ہوا کرتا.تمام امور علل اور حکم سے وابستہ ہوتے ہیں.اب مَیں پوچھتا ہوں کہ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے نیکی کا خیال بدوں کسی تحریک کے کیوں اٹھتا ہے.بلکہ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ ارد گرد بدکار بدیوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ بدی کے عین ارتکاب و ابتلاء میں ان کو نیکی کی تحریک اور رغبت پیدا ہو جاتی ہے.کوئی بتائے.کہ اس تحریکِ نیک اور رغبتِ پسندیدہ کا وقوع کیوں ہوا؟ آیا بلاسبب اور اتفاقی طور پر؟ یہ تو باطل ہے.کیونکہ تجارب نے اس کو باطل ٹھہرایا ہے.پس لامحالہ نیکی کا محرّک ضرور ہے.اسی نیکی کے محرّک کو اسلامی کتب اور شریعت میں مَلَک کہتے ہیں.اور ان کے اس تعلق و تحریک کولِمَّۃُ الْمَلَک کہا گیا ہے.وہ ملک لطیف اور پاک روحیں ہیں جنہیں قلوبِ انسانی سے تعلق ہوتا ہے اور ہر وقت قلوب کی تحریک میں لگے رہتے ہیں.اور ان کے مدّ مقابل اور ان کی تحریک کے مخالف شیاطین اور ابلیسوں کی روحیں ہیں.جو بدی اور بدکاری کی محرّک ہیں.ان کے اس تعلق کا نام لِمَّۃُ الشَّیْطَان ہے.ایمان بالملائکہ کے معنے اور اس کا فائدہ : شریعتِ اسلام میں حکم ہے کہ فرشتوں پر ایمان لا, اس کا مطلب یہ ہے کہ جب جب وہ تم کو نیکی کی تحریک کریں تو معًا اسی وقت اس نیکی کو کر لو تاکہ اس نیکی کے محرّک کا تعلق تم سے بڑھے اور وہ زیادہ نیکی کی تحریک دے بلکہ اس کی جماعت کے اور ملائکہ بھی تمہارے اندر نیکی کی تحریکیں کریں اور اگر اس تحریک کو نہ مانو گے.تو اس ملکِ نیکی کے محرّک کو تم سے نفرت ہو جائے گی.اس لئے ضروری ہوا کہ ملائکہ سے تعلق بڑھا تاکہ نیکی کی تحریک بڑھے اور آخر وہ تمہارے دوست بن جاویں.قرآن کریم میں اس نکتہ کو یوں بیان فرمایا ہے. .  .(حٰم ٓ السجدۃ: ۳۱.۳۲) ترجمہ: جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اﷲ ہے ۱؎ پھر اس اقرار پر پختہ ہو گئے.ان پر فرشتے اترتے ہیں ۱؎ ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۶؍ نومبر ۱۹۱۱ء

Page 168

یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو.اور خوشی منا, اس جنّت کی کہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا.ہم دنیا میں اور آخرت میں تمہارے ساتھی ہیں اور فرمایا ہے. (انفال: ۲۵) اور یقین جانو کہ اﷲ انسان اور اس کے دل کے درمیان روک ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے.اور ان ملائکہ کے مدّ مقابل یا ضد ظلمت و ہلاکت.دُوری اور عدم کے فرزند شیاطین اور ارواحِ خبیثہ ہیں.ان کے تعلقات سے ان کی جماعت دوست بنتی ہے.آخر اﷲ تعالیٰ پھر فرشتوں.ملائکہ.دیوتا یا اَہَرمَن ارواحِ خبیثہ.اسر.شیاطین کے تعلقات سے ان مظاہرِ قدرت سے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں.پھر آخر کار اچھے لوگوں کو اور اچھے لوگوں سے پیوستگی ہو جاتی ہے.اور بُروں کو اور بُروں سے.بلکہ یہ تعلقات اس قدر ترقی پذیر ہوتے ہیں کہ ذرّاتِ عالم میں اچھے ذرّات کا اچھوں سے تعلق ہوتا ہے.اور بُرے موزی دُکھ دائک ذرّات کا بُروں سے.کیا کوئی شخص تاریخی مشاہدات اور تجاربِ صحیحہ سے ہمیں بتا سکتا ہے کہ آتشک اور خاص سوزاک جذام اور گھناؤنے اور گندے گندے امراض اور جان گدازناکامیاں ماموروں، مرسلوں اور ان کے پاک جانشینوں کو لاحق ہوتی ہیں یا ان کے مخالفوں کو؟ قرآن کریم کیسے زور سے دعوٰی فرماتا ہے کہ مقبولان و مقربانِ الہٰی کے یہ سچّے نشان ہیں.اسی واسطے کوئی صحابی حضرت خاتم النّبیین بہرہ نہیں ہوا. ( المجادلۃ: ۲۳) ترجمہ: یہی لوگ خدا کی جماعت ہیں اور یاد رکھو.خدا کی جماعت مظفر و منصور ہے اور فرمایا:  (منافقون:۹) ترجمہ: اور غلبہ سدا اﷲ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے.اور فرمایا:  ( مومن: ۵۲) ترجمہ : ہم ضرور کامیاب کرتے ہیں اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیا کی زندگی میں اور پیش ہونے والوں کے پیش ہونے کے دن میں.

Page 169

اس جنگ اور اولیاء اﷲ کی کامیابی کے متعلق جسے دیو.اسر.سنگرام کہتے ہیں.ہم نے اس رسالہ میں بہت جگہ تذکرہ کیا ہے.چوتھا امر: قابلِ بیان یہ ہے کہ وسائل و وسائط کو تمام دنیا کے مذاہب ضروری تسلیم کرتے ہیں.کافر و مومن.جاہل و عالم.بت پرست و خدا پرست.سوفسطائی.دہریّہ.جناب الہٰی کا معتقد.غرض سب کے سب وسائل و وسائط کو عملاً مانتے ہیں.کون ہے جو بھوک کے وقت کھانا.پیاس کے وقت پینا.سردی کے وقت کوئی دوائی یا گرمی حاصل کرنے کا زریعہ اختیار نہیں کرتا.مقامِ مطلوب پر جلدی پہنچنے کے لئے میل ٹرین یاسٹیمر کو پسند نہیں کرتا.اگر مومن صرف حضرت حق سبحانہ، کی مخلصانہ عبادت کرتا اور شرک اور بدعت اور اَھواء سے پرہیز کرتا ہے.تو غرض اس کی اسے ذریعہ قربِ الہٰی بنانا ہوتا ہے.اور بُت پرست اگرچہ حماقت سے بُت پرست ہے مگر کہتا وہ بھی یہی ہے کہ( الزمر:۴) ہم تو ان کو خدا کے قُرب کا ذریعہ سمجھ کر پوجتے ہیں.اگرچہ یہ ان کا کہنا اور اس کا عمل در آمد غلط ہی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب صحیحہ بھی ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہیں جن کا مہیّا کرنا مومن کا کام ہے اور ایسے بھی جن کا مہیّا کرنا عام عقلمندوں اور دانا,ں کا حصّہہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب ماننا باعثِ شرک ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب خیال کرنا جہالت اور وہم اور حماقت ہے.تعجب انگیز بات ہے کہ بہت سے فلاسفر.سائنس دان اور حکماء عللِ مادیہ اور اسبابِ عادیہ پر بحث کرتے کرتے ہزارہانکاتِ عجیبہ اور دنیوی امور میں راحت بخش نتائج پر پہنچ جاتے ہیں.مگر روحانی ثمرات پر ہنسی ٹھٹھے کر جاتے ہیں.جنوب شمال کو قطب اور قطب نما کی تحقیق میں اور اس پر مشرق و مغرب کو چھان مارا ہے اور سورج اور چاند کی کرنوں سے اور روشنیوں سے بے شمار مزے لُوٹے ہیں.لیکن اگر کسی کو انہیں نظاموں سے ہستی باری تعالیٰ پر بحث کرتا دیکھ لیں تو اس کے لئے مذہبی جنون اور اس کو مجنون قرار دیتے ہیں.کیسا بے نظیر نظارہ ہے جس کو ایک اسلام کا حکیم نظم کرتا ہے ؎ اشقیاء درکارِ عقبیٰ جبری اند اولیاء درکار دنیا جبری اند علمِ ہندسہ جس کی بناء پر آج انجینئرنگ اور اسٹرانومی معراج پر پہنچ گئی ہے.سوچ لو.کیسے فرضی امور سطح مستوی اور نقطہ سے جس کو سیاہی سے بناتے ہیں اور قلم کے خط سے شروع ہوتا ہے.خط استوٰی جدّی.سرطان.افق نصف النھار وغیرہ سب فرضی باتیں ہیں.مگر اس فرض سے کیسے حقائقِ مادیہ تک پہنچ گئے ہیں.لیکن اگر ان بدنصیبوں کو کہیں کہ مومن بالغیب ہو کر دعاؤں اور نبیوں کی راہوں پر چل کر دیکھو تو

Page 170

کیا ملتا ہے.تو ہنس کر کہتے ہیں.کیا آپ ہمیں وحشی بنانا چاہتے ہیں.مَیں نے بارہا ان مادیوں کو کہا ہے.تندرست آنکھ بدوں اس خارجی روشنی کے اور تندرست کان بدوں اس روشنی ے اور تندرست کان بدوں خارجی ہوا کے اور ہمارا نطفہ بدوں ہم سے کارج رحم کے.بہت دُور کی اشیاء بدوں ٹیلی سکوپ کے باریک درباریک اشیاء بدوں مائیکرو سکوپ کے.دُور دراز ملکوں کے دوستوں کی اوازیں بدوں فونوگراف کے اور ان کے شکلیں بدوں فوٹوگرافی کے نہیں دکھائی دیتیں.اب جب کہ تم ان وسائط کے قائل ہو اور اضطرارًا قائل ہونا پڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں وسائط کے منکر ہو.خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان کر بھی تم مَلَک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو.افسوس اس کا معقول جو اب آج تک کسی نے نہیں دیا نظرین جس طرح سچے وسائط ہمارے مشاہدات میں ہیں.اسی طرح سچّے وسائط مکشوفات میں بھی ہیں.جس طرح مشاہدات میں الہٰی ذات وراء الورا ہے اور ضرور ہے.اسی طرح الہٰی ذات روحانیات میں بھی وراء الورا ہے.اگر روحانیات میں بھی بعض وسائط غلط اور وہم ہیں تو مشاہدات بھی اس غلطی اور وہم سے کب خالی ہیں.فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کے ارواح کے لئے بطور جان کے ہیں.شیاطین بھی ہلاکت ظلمت اور جنابِ الہٰی سے دُوری اور دُکھوں کے پیدا کرنے کے لئے بمنزلہ اسٹیم کے اسٹیم انجن کے لئے ہیں.خلاصہ امور چہارگانہ مذکور ۱.مظاہرِ قدرت کے دیکھنے والے اعلیٰ بھی ہوتے ہیں.اور ادنیٰ بھی.ادنیٰ کو اعلیٰ کی روئیت کا انکار مناسب نہیں.۲.الکایات.مٹی ارز.شعلے ایک عظیم الشّان کارخانہ ہے اور اس میں اس قدر مواد ہوتے ہیں.کہ اسلحہ کے بنانے والوں نے اور ستیارتھ والے نے جو ہتھیار لکھے ہیں.ان میں اتنے مواد مشتعل نہیں ہوتے.پس کیا وہ صرف اس لئے گرتے ہیں کہ چند عجائب خانوں میں پڑے رہیں.اور خدا کا یہ عظیم الشان فعل لغو ہے؟ نہیں ہرگز نہیں.۳.فرشتے.ملک.اسر.شیاطین.اہرمن اُسر ہیں اور ان کا باہم عداوت کا رشتہ ہے.ان کی جنگ نور و ظلمت بلکہ عدم و وجود کی جنگ ہے.۴.اگر وسائط غلط اور بُرے ہیں تو وسائل صحیحہ اور عمدہ بھی ہیں.اب ہم آیات کا ترجمہ لکھتے ہیں.جن میں اس جنگ کا تذکرہ ہے.اور پوچھتے ہیں.انصاف سے

Page 171

بتاؤکہ آریو.کیا تمہارا کام تھا کہ تم انکار کرتے.۱.. ..(الحجر:۱۷ تا ۱۹) ضرور ہم نے ہی بنائے آسمان میں روشن اجرام.اور خوبصورت بنایا انہیں دیکھنے والوں کے لئے اور محفوظ رکھا ہم نے انہیں ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک شوندہ.تُکّہ باز یا مردُود سے.ہاں اگر کوئی چھپ کر سننا چاہے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں.شہابِ ثاقب.مٹی ارز.الکایات.۲.. . ..(الصّٰفّٰت:۷ تا ۱۰) ترجمہ : ہم ہی نے خوش نما بنایا اس ورلے آسمان کو کواکب کی زینت سے اور محفوظ کر دیا ہم نے اسے ہر ایک خدا سے دُور یا ہلاک ہونے والے متکبّر صدّی سے.ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر جانب سے دھکیلے جاتے ہیں.دھتکارے جاتے اور ان کے لئے دائمی دُکھ دینے والا عذاب ہے.ہاں اگر کوئی جہٹی مارے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہابِ ثاقب.میٹی ارز.الکایات.۳. .(الملک: ۶) ہم ہی نے مزیّن کیا اس والے آسمان کو روشن چراغوں سے اور کر دیا ہم نے انہیں مارشیاطین کے لئے اور تیار کر دیا ہم نے ان کے لئے جلنے کا عذاب.۴. (الجّن: ۱۰) تحقیق ہم بیٹھتے تھے.بیٹھنے کی جگہوں میں سننے کے لئے.پس اب اگر کوئی بات سننا چاہے.پاتا ہے اپنے لئے شہاب انتظار میں.تم ہندیوں اور عام یورپ والوں سے تو طائف کے عرب نمبردارہی اچھے نکلے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریمؐ کے عہد ۶۱۰؁ء سعادت مہد میں میٹی ارز غیر معمولی بکثرت نظر آئے تو عام طور پر لوگوں نے خیال کیا کہ آسمان تباہ ہو چلا.اس لئے لگے اپنے مویشیوں کو ذبح کرتے.تب ان کے نمبردارعبدیالیل

Page 172

نے کہا کہ اگر وہ ستارے نظر آتے ہیں.جن سے تم لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہو تو جہان خراب نہیں ہو گا.یہ ابن ابی کبثہ ( ہمارے نبی کریمؐ کی طرف اشارہ کرتا ہے) کے ظہور کا نشان ہے.ابن کثیر میں ہے اِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآئَ کے نیچے ہی ابن جریر کہتا ہے.اس آیت کے نیچے کہ آسمان کی حفاظت دو باتوں کے وقت ہوتی ہے.یا عذاب کے وقت جب ارادۂ الہٰی ہو کہ زمین پر اچانک عذاب آ جاوے یا کسی مصلح راہ نما نبی کے وقت.اور یہی معنے ہیں اس آیتِ شریفہ کے. .(الجن:۱۱) یعنی ستاروں کے گرنے کو دیکھ کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آیا زمین والوں کے لئے تباہی کا ارادہ کیا گیا ہے.یا ان کے ربّ نے انہیں کوئی فائدہ پہنچانا ہے.خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ مصلح کے تولّد.ظہور اور اس کی فتحمندی پر حزب الرحمان اور حزب الشیطان کی جنگ پہلے اوپر ہوتی ہے.پھر زمین پر.آیت کریمہ(النازعات:۶)اور(الذّٰریات:۵) اور آیت ( الطارق:۵) کے نیچے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے مفصّل لکھا ہے کہ فرشتے بروج پر اثر ڈالتے ہیں اور ان سے ایک اثر ہوا اور دیگر اشیاء پر پڑتا ہے.اور ملائکہ کا اثر شہب میں بھی نفوذ کرتا ہے.۲۸؍ نومبر ۱۸۸۵ء میں ۲۷ اور ۲۸ نومبر کی درمیانی رات میں غیر معمولی کثرت سے شہب گرے تو اس وقت ہمارے امام ہمام علیہ السلام کو اس نظارہ پر یہ وحی بکثرت ہوئی.( دیکھو صفحہ ۲۳۸ براہین احمدیّہ) یَا اَحْمَدُ بَارَکَ اﷲُ فِیْکَ.مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَ لَکِنَّ اﷲَ رَمٰی اور اسی کے بعد دُمدار ذوالسنین نظر آیا اور ۱۸۷۲ء کی رمی شہب غیر معمولی تھی..پس یہ اور کل کواکب زینتِ سماء الدنیا ہیں اور روحانی عجائبات کی علامات ہیں اور نیز ان سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.یہی تین فائدے بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں بیان فرمائے ہیں.اب اس سوال کا جواب ختم کرتے ہیں.مگر قبل اس کے کہ ختم کرتے ہیں.مگر قبل اس کے کہ ختم کریں.آیات ذیل کا بیان بھی مناسب معلوم ہوتا ہے... (الشعراء:۲۱۱ تا ۲۱۳) .(الشعراء:۲۲۳) اﷲ سے دُور ہلاک ہونیوالی خبیث روحوں کے ذریعہ یہ کلامِ الہٰی نازل نہیں ہوا.اور ان کے مناسب

Page 173

حال بھی نہیں اور ایسا کلام لانے کے لئے وہ طاقت ہی نہیں رکھتے.بے ریب ایسا کلام سننے سے وہ الگ کئے گئے ہیں.کیونکہ تمام شیطانی کاموں کا قرآن مجید میں استیصال ہے.بھلا شیطان اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے؟ شیاطین تو ہر ایک کذّاب.مفتری.بہتانی.بدکار پر نازل ہوا کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء، نور ا لدّین طبع ثالث صفحہ ۱۹۴ تا ۲۰۱) ۱۱..رُوح کی بیماریوں کے علاج کا ایک ہی نسخہ ہے.جس کا نام قرآن شریف ہے.اس میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ بدکار لوگ کہیں گےکہ اگر ہم خدا کے فرستادوں کی باتوں کو کان دھر کر سُنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے.یہ حسرت ان کو کیوں ہو گی.صرف اس لئے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب پھر ہاتھ نہیں آسکتا.پس رُوح کی بیماری کا یہی علاج ہے.کہ وقت کو ہاتھ سے نہ گنوادے اور اس نور اور شفا کتاب قرآن شریف پر عملدر آمد کرے.اپنے حال اور قال اور ہرکت اور سکون میں اُسے دستورالعمل بناوے.(الحکم ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳) اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے.اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سُننا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے.سماع کے متعلق صوفیا میں بحث ہے.میرے نزدیک سماع قرآن و حدیث ضروری ہے مگر ایک شیطانی سماع ہے کہ راگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو.یہ ناجائز ہے.( بدر ۳۰؍نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۴) ۱۳..: ڈرتے ہیں اﷲ تعالیٰ سے.ڈرنے والوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے.اسی کے متعلق دوسری جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.(الرّحمن:۴۷).جو

Page 174

ﷲ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہونے کے وقت کے متعلق ڈرتا ہے.اس کے واسطے دو جنّت ہیں.بے خوف اور بے باک آدمی اصل میں خوف میں ہے.خوف سے امن میں وہ ہے.جس کے دل میں خدا کا خوف ہے.ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎ لَاتَخافُوْا مژدہ ترسندہ است ہر کہ می ترسد مبارک بندہ است خوف و خشیت خاصِ دانایاں بود ہر کہ دانا نیست کے ترساں بود ترسگاری رستگاری آورَد ہر کہ درد آرد عوص درمان درد ۱۵..: کس نے پیدا کیا؟ اس میں آریاؤں کے اس عقیدہ کا ردّ ہے جو کہتے ہیں.کہ خدا مادہ اور روہ کا پیدا کرنے والا نہیں ہے دلیل دی ہے. ( الحج:۶۴) کسی شئے کے پیدا کرنے کے واسطے اس شئے کا کامل علم لازم ہے.خدا لطیف.خبیر ہے.رُوح اور مادہ کے متعلق اُسے کامل علم ہے کہ وہ کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اور پھر اسے قدرت بھی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے کوئی ذرّہ اور رُوح پیدا ہی نہیں کیا.تو اس کے متعلق کامل علم کیوں کر رکھ سکتا ہے.۱۶. .: وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے ماتحت کیا ہے.: ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاؤ.یہ صحابہ ؓ کو حکم ہے کہ جہاں یہ سمجھو کہ اس جگہ ہمارا دین قائم نہیں رہتا.اس جگہ کو چھوڑ دو.ذَلُوْلٌ: اس اونٹنی کو بھی کہتے ہیں جس سے لادنے وغیرہ کا ہر قسم کا کام لیا جائے.وہ جانور جو باربرداری کا کام دیں.زمین بھی چلتی ہے اور تمام انسانوں اور مکانوں کو اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہے.اس آیت میں آریاؤں کا ایک ردّ ہے جو کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں ملتا ہے.وہ پہلے جنم اور تناسخ کا نتیجہ ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.خدا نے تمہیں زمین دی اور اسے تمہارے لئے مسخّر کر دیا.بتلاؤ یہ تمہارے

Page 175

کس عمل کے نتیجہ میں تمہیں ملی ہے.۱۷..: تمہیں ذلیل کر دے.اس میں غزوۂ بدر کی طرف اشارہ ہے.: زمین کانپ رہی ہے کیونکر عمائد مر گئے ہیں.: پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ خدا آسمان میں ہی ہے.انہیں سمجھنا چاہیئے کہ قرآن شریف نے اﷲ تعالیٰ کے واسطے کوئی خاص مکان تجویز نہیں کیا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے متعلق (حٰم ٓ السجدۃ:۵۵) فرمایا ہے.ہاں اس آیت میں جو کا لفظ آیا ہے.یہ ایک محاورہ عربی زبان ہے.اور اس سے مراد ہے.ایک اٹل بات.اور چونکہ آسمان بلندی پر ہے.اور سب بلندیوں کا مالک اﷲ تعالیٰ ہے.اس لئے بغرص اظہار عظمتِ خداوندی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے.۱۸. .: اس میں غزوۂ خندق کی طرف اشارہ ہے جس میں مکّہ والے مدینہ والوں کے ساتھ مل گئے تھے.۲۰. .: مُردار خوار جانور.پیشگوئی ہے کہ تم شکست کھاؤ گے.اور یہ جانور تمہاری لاشیں کھائیں گے

Page 176

یہ گدھ جو آسمان میں پھرتے ہیں.یہ اﷲ تعالیٰ کے حکم سے رُکے ہوئے ہیں ورنہ یہ تم کو نوچ نوچ کر کھا جاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۱. .: یہ تمہارے لشکر تمہارے کسی کام نہ آویں گے اور خدا کے عذاب کو ٹال نہ سکیں گے.مِنْ: رحمان کے مقابلہ میں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۲. .: اس میں پیشگوئی ہے کہ جب قحط پڑے گا تو پھر کون تمہاری امداد کرے گا؟ مکّہ میںم ایک دفعہ شدید قحط پڑا تھا.جس میں لوگوں نے ہڈیاں پیس پیس کر کھائی تھیں.: اَڑ رہے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۳. .اس آیت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا نمونہ ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے.کہ دیکھو.شخص تم میں ہے جو بڑی دوراندیشی سے سیدھا ہو کر چلتا ہے.وہ صراطِ مستقیم پر ہے.اس کی راہ کو تم بھی اخیتار کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.ورنہ وہ تم پر فتح یاب ہو گا.کیونکہ اس کے مقابلہ میں تم تو منہ کے بل گرے ہوئے ہو.تم کامیاب نہیں ہو سکتے.

Page 177

۲۴. .اﷲ تعالیٰ اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے.اس نے تمہیں کان.آنکھ اور دل دیا.اگر آدمی کے ناک کی نوک ایک ماشہ بھرکٹ جائے تو وہ مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا.ہمارے سامنے اندھے موجود ہیں، لیکن ہم آنکھوں والے اپنی آنکھوں کی قدر نہیں کرتے.انسان کو چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی ادر کرے کہ اس نے کس قدر احسان ہم پر کئے ہیں.۲۶..: کفار سوال کرتے ہیں، یہ وعدہ کب پورا ہو گا.ہم پر کب عذاب آئے گا.یہ تو اس دنیا کی بات ہے.تم تاریخ مقرر کرو! ۲۸. .فرمایا.عذاب آئے گا.اور تم رُوسیاہ ہو جاؤ گے.: وہ عذاب جس کو تم زور سے مانگتے تھے.۲۹. .بہت لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ الہام ہوا تھا.کیوں پورا نہیں ہوا.فرمایا.تم پر عذاب ضرور آئے گا خواہ میرے سامنے آئے.خواہ میرے بعد آئے.تم نجات نہیں پا سکتے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء) خ خ خ

Page 178

سُوْرَۃَ الْقَلَمِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲ تا ۷..... ..دوات اور قلم اور وہ عظیم الشّان صداقتیں جن کو لوگ لکھتے ہیں اور لکھتے رہیں گے.( ان کے مطالعہ کا نتیجہ تو یہی ہو گا) کہ تو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں کیونکہ تہ تمام تحریریں تیری صداقت کی گواہ رہیں گی اور دوسری دلیل یہ کہ تیری محنت و کوشش کا بدلہ.اجر اس کی مزدوری تیرے لئے غیر منقطع ابدی ہے اور ظاہر ہے کہ مجنون کی محنت و کوشس کا تو کوئی اجر ہی نہیں ہوا کرتا.تیسری دلیل یہ ہے کہ مجنون تو خلیق نہیں ہوتے.اور تُو خُلق پر کیا خُلقِ عظیم پر ہے.آپؐ کی مقناطیسی جذب اور آپؐ کے اخلاق ہی تھے کہ اڑب عرب آپ کے حکم ر اپنے خون کو پانی کی طرح بہاتے تھے اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ مجنون کے افعال و اقوال مثمر ثمراتِ خیر اور منتج کسی نیک نتیجہ کے نہیں ہوا کرتے اور تیرے اقوال اور تیرے افعال کا نتیجہ تُو بھی دیکھ لے گا.اور دوسرے لوگ بھی دیکھ لیں گے.اور یہ کیسی سچی پیشگوئی نکلی.دنیا میں صرف آپ ہی اکیلے ایسے کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے ( المائدۃ:۴) کی آواز اپنی زندگی میں اپنے کانوں سے سُنی اور (نصر:۳) کا نظارہ اپنی آنکھ سے دیکھا.صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ بَارَکَ فَاِنَّہٗ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.اس پر بھی نہ ماننے والوں نے نہ مانا.پر نہ مانا.(نور ا لدّین طبع سوم صفحہ ۴۹.۵۰) دنیا میں انسان ایک معجون ہے.اس نے زمین کو پھاڑا.پہاڑوں کو چیرا.سمندر کی تہہ سے موتی

Page 179

نکالے.ہوا.سمندر.روشنی پر حکومت کرتا ہے.باوجود اس کے کمال کے کسی اور کے نمونہ کو اختیار کرنا چاہتا ہے.تاجر.کسی بڑے تاجر.اور سپاہی کسی بڑے کمان افسر کی طرح بننا چاہتا ہے.راولپنڈی کے ایک دربار میں پر نس آف ویلز ۱؎ کی شان و شوکت دیکھ کر ایک احمق نے مضمون لکھا کہ کاش میں ہی پرنس ہوتا! ایک میرا دوست مرض جذام میں گرفتار یہاں آیا.مجھے کہنے لگا.آپ عقلمند نہیں معلوم ہوتے.آپ مجھے اجازت دیں.میں کوشش کروں.فوراً آپ کو زمین کے بڑے مربعے دلا سکتا ہوں.آپ بادشاہ بن جائیں گے! مَیں نے اسے کہا کہ تم نہیں جانتے.خوشی اَور شَے ہے.تم مجھے زمین دلواتے ہو.خود تو بڑے زمیندار ہو.مگر دیکھو.تم میں ایسی بیماری ہے کہ تمہارے رشتہ دار بھی تم سے نفرت کرتے ہیں.پھر وہ زمین کس کا م؟ غرض ہر شخص کسی نمونہ کو سمجھ نے کا خواہشمند ہے.کوئی حسن و جمال کا شیدا.کوئی ناموری چاہتا ہے.کوئی حکومت کو پسند کرتا ہے.کوئی کسی اور بڑائی کا حریص ہے.اس واسطے اﷲ تعالیٰ ان کے واسطے ایک نمونہ پیش کرتا ہے.د وات اور قلم ہو.اور اس سے جو کچھ لکھا جا سکتا ہے.سیاسی لوگ سیاست پر کتب لکھتے ،ناولسٹ ناول لکھتے اور مختلف لکھنے والے مختلف اشیاء پر لکھتے اور ان کی تحریریں جمع کرو.یہ ثابت ہو گا کہ محمدؐ رسول مجنون نہیں تھا.اس نے جو کچھ خلقت کے سامنے پیش کیا.وہ حق و حکمت سے پُر.اور اس نے جو تحریر پیش کی ہے اس کا مقابلہ کوئی تحریر دنیا بھر کی نہیں کر سکتی.تمام تعلیمات جن پر عمل کر کے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.وہ سب اس کتاب میں جمع ہیں.دلیل یہ ہے کہ مجنون کے نہ رونے کی کسی کو پرواہ ہے نہ اس کے ہنسنے کی کسی کو خواہش ہے.اس کی طاقت کی قدر نہیں ہو سکتی وہ سارا دن سوئے.جاگے.بیٹھے.سردی میں ننگا.گرمی میں لحاف لے.اس کی محنت کا بدلہ نہیں.لیکن اے نبی! تیری محنتوں کا ثمرہ غیر ممنون ہے.اس کا خاتمہ نہیں.ہم نے خود تجربہ کیا ہے.آنحضرتؐ کے ہر کام کا پھل ہمیشہ قائم ہے.پھر مجنون کے اخلاق نہیں ہوتے.وہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا لیتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بڑے اخلاق اعلیٰ رکھتے تھے.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ قرآن لائف آف محمدؐ ہے.خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ.پھر فرمایا.دیکھو اے مخالفو! اس کے مقابلہ میں کسی کا زور نہ چلے گا.یہ بھی دیکھے گا اور تم بھی دیکھو گے کہ کون فتح مند ہوتا ہے.عرب اور عجم کوئی اس کے بالمقابل کامیاب نہ ہو سکے گا.یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے.اگر تم کوئی نمونہ اعلیٰ چاہتے ہو اور وعدۂ خداوندی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو یاد رکھو کہ علم کے لئے قرآن شریف اور عملی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا عملدر آمد بس ہے… ۱؎ بعدہٗ جارج پنجم.مرتب

Page 180

آج تک جس نسخہ کو آزمایا وہ یہی کہ فتح اور نصرت اور کامیابی کے حصول کا ایک ہی نسخہ قرآن شریف ہے.( بدر ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) ن ٓ.دوات : تو مجنون نہیں ہے.ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے کفّار کے اس قول کا ردّ کیا ہے.کہ نعوذ باﷲ آنحضرت ( صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) مجنون ہیں.اور اس پر دلائل دئے ہیں.فرمایا قلم دوات کو لو اور جو علوم دنیا میں پیدا ہوئے ہیں سب کو جمع کرو اور تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کو لو اور ان کو ایک جگہ جمع کرو.اور پھر اس کلام ( قرآن ) کے ساتھ مقابلہ کر کے غور کرو کہ کیا یہ مجنون کا کلام ہے.بلکہ فرمایا.قلم اور دوات کے ساتھ جو کچھ آئندہ بھی کبھی لکھا جاویگا.اس سے ہمیشہ یہی ثابت ہوتا رہے گا.کہ یہ خیال جو اس نبیؐ کے متعلق کیا گیا ہے بالکل باطل ہے.ہر ایک نیا علم جو دنیا میں نکلے گا.جو خداوند تعالیٰ سے محبت اور مخلوق پر شفقت کے متعلق ہو گا.وہ اس کی صداقت اور علم و عقل کے کمال کو ثابت کرتا رہے گا.وہ تمام بحثیں اور تحریریں جو آئندہ ہوں گی وہ کوئی ایسا دینی مسئلہ پیدا نہ کر سکیں گی.جو انسان کی بہبودی کے واسطے ضروری ہو اور اس پاک کلام میں نہ پایا جاتا ہو.پھر ایسی کتاب کالا نے والا کیونکر مجنون ہو سکتا ہے.ان آیات میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب قلم و دوات کا زمانہ آنے والا ہے جبکہ ہر شے لکھی جائے گی اور صحائف بہت کثرت سے ہوں گے.اور بڑے علوم کا زمانہ خیال کیا جاوے گا.اس وقت بھی قرآن شریف کی شریعت صحیح اور غیر متبدّل ثابت ہو گی.اور دنیا کو ماننا پڑے گا.کہ ایسے مستحکم.معقول.مدلّل کا لانے والا بجز ایک کامل نبی کے کوئی ہو نہیں سکتا.چہ جائیکہ وہ دیوانہ ہو.:غیر منقطع.چونکہ یہ کلام ایسا ہے کہ( البینّۃ:۴)اس میں مضبوط کتابیں شامل ہیں جو قائم رہنے والی ہیں.اس واسطے یہ علوم ہمیشہ سچے ثابت ہوتے رہیں گے اور ان سے دنیا میں ہمیشہ نور پھیلتا رہے گا اور اس طرح تیرا ثواب جاری رہے گا کیونکہ یہ ابدی شریعت ہے.یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے مجنون نہ ہونے کی ایک دلیل بیان فرمائی ہے.کیونکہ پاگل جو ہوتا ہے.نہ اس کے کاموں میں کوئی ترتیب اور نظام ہوتا ہے اور نہ اس کے کاموں پر نتائج مترتّب ہوا کرتے ہیں.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کام مُنَظَّم تھے.اور ان سے بڑے بڑے اہم اور مفید نتائج پیدا ہوئے.

Page 181

اس میں اہل عرب کو اور آئندہ تاریخِ زمانہ پر نگاہ کرنے والوں کو سمجھایا ہے.کہ دیکھو ہمارا.رسول بھی ایک کام کر رہا ہے اور اس کے بالمقابل تم بھی ایک کام کر رہے ہو.اب دیکھنا یہ ہے کہ مکّہ کو کون فتح کرتا ہے اور غیر منقطع اجر کس کو ملتا ہے.کون عاقل ثابت ہوتا ہے اور کون دیوانہ.ایک اور دلیل آنحضرت صلی اﷲ علیہ واآلہٖ وسلم کے پاگل نہ ہونے کی اس جگہ بیان فرمائی ہے.فرمایا جو شخص خلقِ عظیم اپنے اندر رکھتا ہے.اس کو پاگل کس طرح کہہ سکتے ہیں.پاگل کے اخلاق اچھے نہیں ہوا کرتے.کیا وہ شخص جو عاقبت اندیشی.شجاعت.مروّت.جودوسخا.استقامت.بلندہمتی.عفّت حیا.زُہد.اتّقا.ریاضت.فصاحت.بلاغت.عفو.کرم.رحم.حلم.توکل.امانت.دیانت.غرض تمام اخلاقِ فاضلہ کا سرچشمہ ہو.کیا وہ مجنون ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.یاد رکھنا چاہیئے کہ خلق نرمی.حلیمی اور انکسار کا نام نہیں.جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے.بلکہ انسان کے اندر بمقابلہ ظاہری قوٰی کے جو باطنی کمالات کی کیفیات ہیں.ان سب کا نام خُلق ہے.اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم میں وہ سب پائی جاتی تھیں.اسی پر قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے.(الاحزاب:۲۲) کہ اخلاق کے واسطے کامل رسول کامل نمونہ ہے.اس کی سنّت کو اختیار کرو.حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے خُلق کے متعلق سوال ہوا تھا تو انہوں نے فرمایا.خُلُقُہُ الْقُراٰنُآپؐ کا خُلق قرآن تھا.قرآن مجید میں جو اعلیٰ تعلیم دی گئی ہے اس سارے کے عمل کا آپؐ نمونہ تھے.جو لوگ رسولِ خدا صلّی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی سوانح عمریاں تلاش کرتے ہیں.انہیں چاہیئے کہ جناب صدیقہ کے اس قول کی طرف توجہ کریں.دنیاداروں کی ہمیشہ عادت چلی آتی ہے کہ خدا کے محبوب مجذوب لوگوں کا نام دیوانہ رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب سلطان روم کو اس کے اراکین کی خراب حالت کی طرف توجہ دلائی تو آپؐ کو بھی کہا گیا کہ تو مجنون ہے.جس پر انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور میں عرض کی ؎ آنکس کہ بتو رسد شہاں راچہ کند بافِرّ توفِرّ خُسرواں چہ کند چوں بندہ شناختت بداں عزّو جلال بعد از جلال دیگراں راچہ کند دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی دیوانۂ تو ہر دوہاں راچہ کند اسی خُلق عظیم کی طرف اشارہ ہے.جہاں گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کو حکم ہوا ہے.( انعام :۹۱) انبیاء سابقین میں جو خاص باتیں منفرد طور پر

Page 182

مخصوص تھیں.ان تمام اَخلاقِ متفرقہ کو اپنی ذات میں جمع کر لے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ نومبر ۱۹۱۱ء) حدیث میں آیا ہے اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ میری بعثت اس غرض کے واسطے ہے کہ تمام اَخلاقِ حسنہ کو اپنے کمال تک پہنچا دوں.اسی پر شاعر نے کہا ہے ؎ حُسنِ یوسف دمِ عیسٰی یدِ بیضاداری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری فَسَتُبْصِرُ وَ یُبْصِرُوْنَ.بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنُ: یہ پیشگوئی ہے کہ لاے نبیؐ وہ زمانہ قریب ہے جبکہ تو بھی دیکھ لے گا.اور یہ تیرے مخالف بھی دیکھ لیں گے کہ کسی کی بات سچی نکلتی ہے.اور کون مجنون ثابت ہوتا ہے.فتح مکّہ نے بہت جلد کفّار پر ثابت کر دیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جو فرمایا تھا وہی سچ اور حق تھا.مجنون اسباب صحیحہ کے مہیاء نہ کر سکنے کے سبب ناکام رہتا ہے.انبیاء ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۸..اﷲ تعالیٰ ناکامیابی اور کامیابی اندھا دھند نہیں دیا کرتا بلکہ مومن کو کامیاب کرتا ہے اور منکر کو ناکامی حاصل ہوتی ہے.۹..مکذّبین کا کہنا نہ مانو.مباحثہ کے وقت مخالف کے مقدّمات کو مان نہیں لینا چاہیئے.بلکہ مخالف جو باتیں پیش کرتا ہے وہ غالب دعاوی ہی ہوتے ہیں چکّر دے کر ان سے دلائل پوچھنے چاہئیں.۱۰..

Page 183

وہ چاہتے ہیں کہ تُو اُن سے چکنی چپڑی باتیں کرے اور وہ بھی تیرے ساتھ ایسی ہی باتیں کریں اور اپنے مذہب پر پکّے رہیں.حق کے منکریں ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ مذہب کے معاملہ میں ان کے ساتھ گفتگو نہ کیا جائے اور جو عیب ان میں ہے وہ کبھی ان کو نہ جتلایا جائے اور باہمی میل جول ہوتا رہے.یہ بات خداوند تعالیٰ کو پسند نہیں.ان آیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ عمائدِ قریش جمع ہو کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپس میں صلح جوئی اختیار کریں اور اس کی راہ یہ ہے کہ اگر آپ کو مال و دولت کی خواہش ہے تو ہم بہت سامال جمع کر دیتے ہیں اور اگر عیش و عشرت مقصود ہے تو عمدہ سے عمدہ کنواری لڑکیاں آپؐ کے لئے بہم پہنچا دیویں.غرض ہر طرح سے لالچ دیا گیا مگر آپؐ نے فرمایا کہ میں ان اشیاء میں سے کسی کا بھی آرزومند نہیں ہوں.میں تو صرف تمہاری بہتری چاہتا ہوں تاکہ تم ہلاک ہونے سے بچ جاؤ.مروی ہے کہ وہ لوگ جو ایسا پیغام لائے تھے ان کے نام یہ ہیں.ولیدؔ بن مغیرہ ابوجہلؔ، اسود ؔ بن عبدیغوث اور اخنسؔ بن شریق.مدارات جائز ہے.مداہنہ جائز نہیں.امام غالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مدارات اور مداہنہ میں باریک سافرق ہے.مدارات اس کو کہتے ہیں کہ اپنے دین کی سلامتی اور حفاظت کے واسطے چشم پوشی کی جائے یا اس چشم پوشی میں اپنے بھائی مسلمان کی اصلاح مدّ نظر رکھی جائے اور مداہنہ وہ ہے کہ اپنے حظِّ.خواہشِ نفسانی اور سلامتی جاہ کے لئے چشم پوشی کی جاوے.۱۱..: جھوٹی قسمیں کھانے والا.جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے.کہ بات بات پر واﷲ.باﷲ.کہتے رہتے ہیں.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کا نام بے فائدہ لیتے ہیں.اور (البقرۃ: ۲۲۵) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں.: قلیل الفہم.پست ہمت.سست رائے.خفیف العقل.۱۲..: طعنہ دینے والا.لوگوں کی برائیاں بیان کرنے والا.

Page 184

: چغل خور.سخن چینی کے واسطے لوگوں کے درمیان آمدورفت کرنے والا.حدیث شریف میں آیا ہے.سب سے بہتر وہ بندگانِ خدا ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے.اور سب سے بدتر وہ ہیں جو لگائی بجھائی کر کے دوستوں میں جدائی ڈلواتے اور پاک لوگوں کے عیب تلاش کرتے پھرتے ہیں.۱۳..: نیکی سے منع کرنے والا.خیر کے معنے مال کے بھی ہیں.ولید بن مغیرہ انے بیٹوں اور اقارب کو کہا کرتا تھا کہ جو کوئی محمد ( صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) کی متابعت کرے گا وہ میرے مال سے محروم رہے گا.اس کی بہت سی مثالیں اس زمانہ میں بھی موجود ہیں.بعض لوگوں نے اپنی اولاد کو مسلمان ہو جانے کے سبب محروم الارث کر دیا ہے.اﷲ تعالیٰ انہیں اس سے بہتر مال عطا دکرے گا.: بدکار ۱۴..: جھگڑے میں سخت.اُجڈ : ولد الزنا.نطفۂ بے تحقیق جو کسی قوم کا نہ ہو اور اپنے آپ کو اس قوم کا بتلائے.ٔ ۱۷..جس امر میں وہ عزّت چاہتا ہے.اسی پر اس کو بے عزّت کیا جاوے گا.خرطوم سے مراد ناک ہے.مطلب یہ کہ اس کی ناک کٹ جاوے گی.بے عزّت ہو گا.ذلیل ہو گا.یہ ایک پیشگوئی تھی.چنانچہ ایسا ہی واقعہ ہوا.۱۸،۱۹...: ہم نے ان کو امتحان میں ڈالا.

Page 185

یہاں ایک قوم کا حال بطور مثال کے بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے انہیں ایک باغ عطا کیا تھا.مگر انہوں نے خداوند تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ کر کے مساکین کو حصّہ نہ دینا چاہا.بخل کیا.نتیجہ یہ ہوا.کہ تمام باغ جل کر سیاہ ہو گیا.اور ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا.اس مثال سے اہلِ مکّہ کو عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو ریاست و دولت دی گئی ہے.اس سے نیک فائدہ اٹھا.یہ ایک ابتلاء ہے کہ مال و جاہ والا ہو کر تم پیغمبرِ وقت کی اطاعت کرتے ہو یا نہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) : استثناء سے مراد شکر نعمت اﷲ کا بجا لانا ہے اور انشاء اﷲ کہنا ہے.اہلِ محاورہ بولتے ہیں.حَلَفَ فُلاَنٌ یَمِیْنًا لَیْسَ فِیْھَا اِسْتِثْنَائٌ انسان کو چاہیئے کہ اپنے ہر ارادے میں اﷲ تعالیٰ پر توکّل کرے اور اس کے علم اور قدرت سے سہارا لے.اور انشاء ا کہے.مگر اس مقدّس کلمہ کو وعدہ پورا نہ کرنے کا بہانہ نہ بنائے جیسا کہ فی زمانہ بعض لوگوں کی عادت ہو گئی ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۰..: پھر جانے والا عذاب.رات کے وقت اس قوم پر عذاب آیا تھا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۶..: لپک کر چلنے والے.مساکین کے نہ دینے کا اندازہ کرنے والے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۳۳..معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سرشت اچھی تھی کیونکہ پھر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا عزم ان میں پیدا

Page 186

ہوا.جو شخص نقصان پر صبر کرتا ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے.اﷲ تعالیٰ پہلے سے بہتر و برتر عنایت کرتا ہے.مولانا روم فرماتے ہیں ؎ اوّلم خم شکست و ہر کہ بریخت من نگفتم کہ ایں زیانم کرد صد خمِ صافی ازپیٔ آں حوضم داد و شاد مانم کرد ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۳۵..مُتَّقِیْنَ: اوپر کی آیات میں منکریں کا بیان ہے.اب متّقین کا ذکر ہے کہ جن لوگوں نے تقوٰی اختیار کیا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی متابعت اختیار کی.وہ کامیاب اور بامراد ہوں گے.ان کے لئے جنّٰت النعیم ہے.یہاں بھی اور وہاں بھی.یہ ایک پیشین گوئی ہے جو کہ اس جہاں میں بھی پوری ہو گی اور اگلے جہاں میں بھی.۳۶..مُجْرِم: قطع تعلق کرنے والا.مَسْلِم: سچّا فرماں بردار.خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا.فرمایا ہے.کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے حکموں کو نہیں مانتے اور رسول کا انکار کرتے ہیں.وہ ان لوگوں کے ساتھ برابر نہیں ہو سکتے جو قطع تعلق کرنے والے ہیں.۳۹..: جو تم پسند کرو.کیا جو تم پسند کرتے ہو وہ شریعت بن سکتی ہے؟خیالات کے ساتھ واقعات وابستہ نہیں ہو سکتے.یہ بہت مشکل بات ہے کہ انسان کی تمام خواہشات پوری ہوتی جائیں.۴۰،۴۱.

Page 187

..: قیامت کے معاملہ میں.: ذمہ دار ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء) ۴۳،۴۴. . .: یہ ایک محاورہ عربی زبان کا ہے.اور اس کے معنے ہیں.جب حقیقت کھل جائے گی یا جب بہت گھبراہٹ ہو گی.بعض تفاسیر کے بیان کردہ معانی کے بناء پر اس آیت پر آریوں اور عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے جو کب بمعہ جواب درج ذیل ہے.’’ مکذب براہین نے تکذیب کے صفحہ ۶۹ میں قرآن شریف کی آیت کو صانعِ عالم کی ہستی کی دلیل سمجھ کر یہ اعتراض کیا ہے ’’ خدائے بے چون و چرا محمدیوں کو کہتا ہے.میں قیامت کے روز تم کو دیدار دوں گا اور تم نہیں مانو گے.اور پھر مَیں تمہارے اصرار کرنے پر پنڈلی سے جامہ اٹھا کر بتلاؤں گا تب تم سجدہ میں گرو گے.جائے تعجّب اور حیرت ہے.خدا تعالیٰ بسبب زودرنجی کے جامہ سے باہر ہوا جاتا ہے.اور نہیں شرماتا‘‘ مُصدِّق: تمام اعتراض از سرتاپا.افترا و بہتان.اور راستی سے بے نام و نشان ہے.اوّل اس لئے کہ اگر معترض ہی کا وہ ترجمہ مان لیا جاوے جو خود معترض نے اس آیت کے نیچے لکھا ہے ’’ جس روز جامہ اٹھایا جاوے گا پنڈلی سے اور بلائے جاویں گے لوگ واسطے سجدہ کرنے کے.پس نہ کر سکیں گے ‘‘ ( تکذیب صفحہ نمبر ۶۸) جب بھی اس ترجمہ سے وہ باتیں نہیں نکلتیں جو مکذّب براہین نے اپنے اعتراض میں بیان کی ہیں.مثلاً نمبر۱ ’’ تم کو دیدار دوں گا‘‘ نمبر۲ ’’ اور تم نہیں مانو گے‘‘ نمبر۳ ’’ پھر میں تمہارے اصرار پر‘‘ نمبر۴ ’’ تب تم سجدہ میں گرِو گے‘‘ نمبر۵ ’’ زُودرنجی‘‘ نمبر۶’’ نہیں شرماتا‘‘.تعجب و حیرت ہے کے معنے مکذّب نے یہ لکھے ہیں

Page 188

’’پس نہ کر سکیں گے‘‘اور اعتراض میں کذّب نے لکھا ہے’’ تب تم سجدہ میں گرو گے‘‘ آریہ صاحبان! انصاف کرو اور سچ کے اختیار کرنے میں دیر نہ کرو.وَالْعُاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ( اب میں آپ کو اس آیت کی بقدرِ ضرورت تشریح سناتا ہوں اور آیت کا مابعد بھی ساتھ ہی بیان کرتا ہوں . .جس وقت سخت اضطراب کا وقت اہو گا.اور سجدہ کی طر ف بلائے جائیں گے.پس ان کو سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو گی.اُن کی آنکھیں ( مارے ضعف و دہشت) کے بے نور ہو گئی ہوں گی.ذلّت نے انہیں ڈھانک رکھا ہو گا.اور ( اس حالت سے پہلے) جب بھلے چنگے تھے.سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے.السّاق: عربی میں شدّت اور تکلیف کو کہتے ہیں اور کشف السَّاق شدّت اور تکلیف کا ظہور ہے.پسکے معنے ہوئے.جب شدّت اور تکلیف کا ظہور ہو گا ان معنوں کا ثبوت علاوہ لغتِ عرب کے قرآنِ کریم سے دیا جاتا ہے.کَلَّا ٓ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ.وَ قِیْلَ مَنْ رَاقٍ.وَّظَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ.وَ الْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقُ.اِلٰی رَبِّّکَ یَوْمَئِذٍ نِ ا لمساق.( الدھر:۲۷تا۳۱) ایسا نہ ہو گا.جس وقت سانس ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے.کون افسوس کرنے والا ہے ( جو اسے اب بچا لے) اور ( مریض ) یقین کرتا ہے کہ اب جدائی کا وقت ہے اور سخت گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے.اس وقت چلنا تیرے رب کی طرف ہے راجز عرب کے نامی شاعر کا قول ہے.عَجِبْتُ مِنْ نَّفْسِیْ وَ مِنْ اِشْفَاقِیْ وَ مِنْ طَرَّادِی الطَّیْرِ عَنْ اَرْزَقِھَا فِیْ سَنَۃٍ قَدْ کَشَفَتْ عَنْ سَاقِھَا! ’’تعجّب ہے کہ قحط کے دنوں میں جب شدّت سے اضطراب واقع ہوا.مَیں بھوکوں مرنے کے خوف سے پرندوں کو ان کی روزی کھانے سے روکتا تھا.‘‘ اور جب جنگ کی شدّت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کَشَفَتْ الْحَرْبُ عَنْ سَاقٍیعنی گھمسان کا رَن واقع ہوا.اب اس تحقیق پر آیت شریف کا یہ مطلب ہوا کہ جب عبادت کے کمزور کو مرضِ موت کی شدّت انتہا درجہ کو پہنچ جاتی ہے اور بڑا بوڑھا یا ناتواں زار و نزار ہو جاتا ہے اور ۱؎ اس وقت اﷲ تعالیٰ ۱؎ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ نومبر ۱۹۱۱ء)

Page 189

کی عبادت کی طرف بلانے والے مؤذن نے حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ.َیَّ عَلَی الْفَلَاح کا کلمہ اونچے منار سے نبلند آواز کے ساتھ پکار سنایا.اور وہ میٹھی آواز سلیم الفطرت ناتواں کے کان میں پہنچی.اب اس کا دل مسجد کو جانے کے لئے تڑپتا ہے.مگر اس وقت وہ مرنے کی حالت میں مبتلا.اچھی طرح ہل جل بھی نہیں سکتا اور دل میں کڑھتا ہے مگر اب اس کڑھنے سے قوی نہیں ہو جاتا.اسی آیتِ شریف میں وَ قَدْ کَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ کے پیچھے وَھُمْ سَالِمُوْن کا کلمہ ان معنے کا قرینہ موجود ہے.جس کے معنی ہیں ’’ اور تجقیق وہ لوگ بلائے جاتے تھے سجدہ کی طرف جبکہ بھلے چنگے تھے‘‘ ان معنی کی تصدیق تفسیر کبیر کے جلد نمبر۸ صفحہ ۲۷۴ سے بخوبی ہو سکتی ہے.دوسری توجیہہ.اس آیت شریف کی اَلسَّاقُ ذَاتُ الشَّیئِ وَ حَقِیْقَۃُ الْاَمْرٍ.کیا معنی ؟ ساق کا لفظ عربی زبان میں کسی چیز کی ذات اور اس کی اصل حقیقت کو کہتے ہیں.کے معنے یہ ہوئے.جس دن اشیاء کی اصل حقیقت ظاہر ہو گی.اور انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی تعلیمات کے منکر اپنی نافرمانیوں کا بدلہ دیکھیں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍دسمبر ۱۹۱۱ء) اس وقت اتماماً للحجۃ پھر سجدہ کی طرف بلائے جائیں گے مگر پہلی نافرمانی کا بد نتیجہ یہ ہو گا کہ اس وقت سجدہ نہ کر سکیں گے.تیسری توجیہہ اس آیت شریف کی یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی پہچان مختلف اسباب سے ہوا کرتی ہے مثلاً کوئی شخص ایک آدمی کو اس کا منہ دیکھ کر پہچان سکتا ہے اور سابقہ جان پہچان والا ادنیٰ نشان جیسے قَدم اور ساق کو دیکھ کر پتہ لگا سکتا ہے.اسی طرح ایک سمجھدار.صحیح الفطرت.صاحبِ دانش ادنیٰ ادنیٰ امور سے باری تعالیٰ کے وجود اور اس کی ہستی کا پتہ حاصل کر سکتا ہے.؎ برگ درختانِ سبز دَر نَظرِ ہوشیار ہر ورقے دفترِ معرفتِ کردگار اور کم فہم مریض الفطرت کو عمدہ عمدہ دلائل سے بھی معرفتِ الہٰی حاصل نہیں ہو سکتی.اسی طرح ہنگامہ محشر کے وقت جو اسی موجود دنیا کا نتیجہ ہے.جب الہٰی صفات کا ظہور ہو گا تو ناسمجھ اپنی کمی معرفت اور نقص عرفان کے باعث بخلاف سمجھ داروں کے سجدہ سے محروم رہ جاویں گے.اور اسلام والے اپنے عرفان اور ایمانی نور کے باعث ادنیٰ ظُہورِ صفات پر جسے کشفِ ساق کہتے ہیں.جو کشفِ وجہ سے کم ہے سجدہ میں گریں گے اور منافقوں نافہموں کی پیٹھ اس وقت طبق واحد ہو جائے لگی.چوتھی توجیہہ جو بالکل میرے مسلک پر ہے یہ ہے.ساقؔ اور اس کا کشف باری تعالیٰ کیء صفت ہے اور صفات کا معاملہ ایسا ہے کہ ان کی حقیقت ہمیشہ بلحاظ اپنے موصوف کے بدل جایا کرتی ہے

Page 190

مثلاً بیٹھنا ہماری صفت ہے جس سے ہم ہر روز مُتَّصف ہوتے ہیں.مگر ایک بڑے ساہوکار یا کسی امیر کا عروج کے بعد بیٹھ جانا ہمارے روزمرّہ کے بیٹھ جانے سے نرالا ہو گا.برسات کے دنوں میں مینہ کے زور سے دیوار کا بیٹھ جانا پہلے بیٹھنوں سے بالکل الگ ہو گا.اور ایک بادشاہ کا تخت پر بیٹھ جانا کوئی اور ہی حقیقت رکھے گا.ان مثالوں میں دیکھ لو.بیٹھنا ایک صفت ہے مگر بلحاظ تبدّل موصوفین کے اس صفت کی ایک قسم دوسری قسم سے بالکل علیحدہ ہے.اب ان سب سے ایک لطیف بیٹھنا سُنو! جس کی حقیقت ان تمام بیٹھنوں سے بالکل الگ ہے وہ بیٹھنا کیا ہے.کسی کی محبّت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا اور کسی کی عداوت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا.کسی کے کلام کا کسی کے دل میں گھر کر لینا یا بیٹھ جانا.جب اہلِ اسلام نے باری تعالیٰ کو ( الشورٰی: ۱۲) انوپیم.بے مانند مانا ہے تو اس بات کا تسلیم کرنا ہر عاقل منصف کا فرض ہے کہ وہ اس کی قدرت.اس کی طاقت.اس کا علم.اس کی حیات.اس کا موجود ہونا.اس کا ازلی ہونا.اس کا ابدی ہونا.اس کا یَد.اس کا وَجّہ اس کی ساق.اس کا کشف.اس کا عرش پر بیٹھنا سب بے مثل ہو گا.چونکہ ہم اس کی ذات سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے.اس لئے ہماری کوئی صفت اس کی کسی صفت سے مشابہ نہ ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍دسمبر ۱۹۱۱ء، تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۰۳ تا صفحہ ۲۰۷) ۴۵. .ذَرْنِیْ: یہ ایک محاورہ ہے.ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں.مجھے چھوڑ دو.مَیں ذرا اس کی خبر لے لوں.زبان انگریزی میں بھی اس قسم کا محاورہ لفظ Letسے استعمال کیا جاتا ہے.۴۷..یہ بھی اس نبی کی صداقت کا ثبوت ہے کہ وہ تمہاری خیر خواہی میں رات دن مصروف ہے اور اس کے عوض میں تم سے کچھ مزدوری نہیں چاہتا.

Page 191

۴۸..غَیْب: دیکھو غیب کی پیشگوئیاں خدا تعالیٰ سے خبر پا کر کون کر رہا ہے؟ کیا ایسی زبردست پیشگوئیاں کوئی مفتری یا مجنون کر سکتا ہے.جو برابر پوری بھی ہو رہی ہیں اور بڑی بڑی فتوحات پر مشتمل ہیں.اگر یہ رسول خدا کی طرف سے نہیں ہے تو یہ غیب اُسے کہاں سے مل گیا.۴۹. .صَاحِبِ الْحُوْت……: تیزی والا.غضب والا.حُوت مچھلی کو بھی کہتے ہیں.اس لئے ترجمہ ہوا.مچھلی والا.تب اشارہ ہوا الْتَقَمَہُ الْحُوْتُکی طرف.فرمایا اے نبیؐ تو منکریں کی تکلیف دہی پر صبر کر.یہ تکالیف اور مصائب تیرے لئے غمزدہ ہونے کا موجب نہ ہوں.وقت قریب ہے کہ تیری کامیابی ظاہر ہو گی.اور تیری صداقت سب پر کھل جائے گی.۵۲. .یُزْلِقُوْنَک.تجھے گھورتے ہیں.۵۳..: شرافت.بڑائی اس کتاب پر عمل کرنے والے تاریخی لوگ ہو جائیں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان۷؍ دسمبر ۱۹۱۱ء)

Page 192

سُوْرَۃَ الْحَآقَّۃِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۱۰.... .. . . ..: سچ مچ ہو جانے والی.ایک عظیم الشان شُدنی امر.جو اَٹَل ہے.اور یقینا واقعہ ہونے والا ہے.اس سے مراد آپؐ کے سخت اَعداء کی تباہی ہے.جس کی خبر رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلٰم نے دی اور وہ پیشگوئیاں ہیں جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صداقت اور منکریں کی ہلاکت کے متعلق کیں.کہ وہ ضرور پوری ہونے والی ہیں.ان آیات میں پہلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمّتوں کی مثال دی ہے اور بطور عبرت کے ان کا واقعہ پیش کیا ہے کہ وہ بھی مجھے سے پہلے انبیاء و رُسُل.نبی و رسول نبی تھے.اگر ان کے نہ ماننے والوں نے سُکھ نہیں پایا تو تم کیوں سُکھ پاؤ گے.عاد اور ثمود کی قوم کا حال دیکھو کہ کیا ہوا اور خداوند تعالیٰ

Page 193

سے ڈرو کہ کہیں تمہارا بھی وہی حال نہ ہو.قارعۃ: ٹھونگ کر سمجھانے والی.بالطاغیۃ: بہ سبب حد سے بڑھی ہوئی نافرمانی کے وہ ہلاک ہوئے.عاتیہ: قابو سے نکلنے والی.حد سے بڑھی ہوئی.مُؤْتَفِکٰت: جن پر پہاڑ گرا تھا.سڈوم و کمارا کے لوگ.: ان کی خطاکاریوں کے سبب.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) سارا جہان یہاں تک کہ درخت بھی قانونِ الہٰی کے سب پابندہیں.گائے.بھینس.بیل.بکری وغیرہ کو دیکھو کہ وہ گھاس کو جھٹ جھٹ اپنیی دانتوں سے کاٹ کر نگل جاتے ہیں.پھر آرام سے بیئٹھ کر اس کو اپنے پیت سے نکال کر چباتے اور پھر نگلتے ہیں.اور اسی طرح سے وہ جگالی کرتے ہیں اور اسی طرح آرام کر کے پیشاب اور گوبر کرتے ہیں.یہ ان کے ساتھ ایک سنّت ہے.اگر اس کے خلاف کوئی جانور کھاتا ہی چلا جائے اور جگالی اور آرام وغیرہ بالکل نہ کرے تو وہ بہت جلد ہلاک ہو جاتے گا.اسی طرح بچوں کی حالت ہے.اگر بچّہ اور بچے کی ماں کوئی بدپرہیزی کریں تو دونوں کو تکلیف ہوتی ہے.اگر کوئی شخص کھانا کھانے کی بجائے روٹی کانوں میں ٹھونسنے لگے تو کیا وہ بچ جائے گا.اسی طرح بہت سے قانون ہیں جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں.وہ ذلیل ہو جاتے ہیں.جھوٹے جھوٹ بولتے ہیں مگر ایک زمانہ کے بعد اگر وہ کبھی سچ بھی بولیں.تب بھی کوئی ان کا اعتبار نہیں کرتا.یہاں تک کہ اگر وہ قسمیں کھا کر بھی کوئی بات کہیں تو تب بھی کوئی یقین نہیں کرتا.اسی طرح سُست آدمی اپنی آبائی جائیداد تک بھی فروخت کر کے کھا جاتا ہے.: تم جانتے ہو کہ ہونے والی باتیں ہو کر رہتی ہیں اور کسی طرح ہو کر رہتی ہیں.مثل کی طرح سُنو..جن لوگوں نے حق کی مخالفت کی.ان کو خدا نے ہلاک کر دیا.ثمود قوم نے تکذیب کی.اس کا انجام کیا ہوا.ہمارے ملک میں سلاطین مغل پٹھان.سکھ وغیرہ تھے.جب انہوں نے نافرمای کی تو خدا نے ان کوٹھونک ٹھونک کر ٹھیک کر دیا.پیارو! اگر تم بدی کرو گے تو تم کو بدی کا ضرور نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا.یاد رکھو.بدی کے بدلہ میں کچھ سُکھ نہیں مل سکتا.عاد قوم بڑی زبردست قوم تھی.اس کو اﷲ تعالیٰ نے ہوا سے تباہ کیا.سات رات اور آٹھ دن متواتر ہوا چلی.سب کا نام و نشان تک اڑا دیا.بڑے بڑے عمائدِ قوم گرے.جس طرح کھو کھلا درخت ہوا سے گر جاتا ہے.بتاؤ تو سہی.اب کہاں ہے.رنجیت سنگھ اور ان کی اولاد؟ ان کی بیٹے پوتے اور پڑپوتے؟

Page 194

اس کا بیٹا ایک ہوٹل میں ایسی کسمُپرسی کی حالت میں مارا کہ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کون تھا! : فرعون اور اس کی بستیوں کو اُلٹ کر پھینک دیا.ایک میرے بڑے دوست شہزادہ تھے.وہ بیچار ے خود کپڑا سی کر گزارہ کیا کرتے تھے.اور ایک اور میرے دوست تھے.وہ ان کو سینے کے لئے کپڑے لا دیا کرتے تھے.اور خود لے آیا کرتے تھے.انہوں نے ہی مجھے کہا کہ تو اس سے کپڑے سلوایا کرو.خوددار بھی وہ ایسے تھے کہ کسی کو اس کی خبر تک ہونا گوارا نہیں کر سکتے تھے.خود کبھی کسی سے کپڑا نہیں لیتے تھے.اور اس عالم میں بھی ان کی مزاج سے وہ شاہانہ بُو دُور نہیں ہوئی تھی خمرے رکھا کرتے تھے! کوئی اپنے حُسن پر مغرور ہے.کوئی اپنے علم پر اتراتا ہے.کوئی اپنی طبّ پر اکڑتا ہے.حالانکہ یہ سب غلط ہے.جب تک خدا کا فضل نہ ہو.کچھ بھی نہیں ہو سکتا.سچ مچ یہ بات ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھروگے.خدا رحم کرے میری ماں پر.وہ کہا کرتی تھی کہ جو آگ کھائے گا وہ انگارے ہگے گا! ثمود نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا.ہم نے بھی ایسا پکڑا کہ کہیں نہ جانے دیا.جانتے ہو کہ نوحؑ کی قوم کو کس طرح غرق کیا.تم کو چاہیئے تھا کہ اس سے عبرت حاصل کرتے.دارالسلام ۱؎ میں سولہ لاکھ آدمی قتل کر دئے وہ جو بادشاہ تھا.اس نے اپنی بیوی کا نام ’’نسیمِ سحر‘‘ رکھا ہوا تھا.جس طرح صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے آدمی کو نیند آتی ہے.اسی طرح اس کو اپنی بیوی کی صحبت خوشگوار معلوم ہوتی تھی.جب اس ’’نسیمِ سحر‘‘کو قتل کیا توا سکی گلی کے کُتّے ہی چاٹتے تھے.کسی نے کفن تک بھی نہ دیا.جب بادشاہ نے قید میں پانی مانگا تو فاتح بادشاہ نے سپاہ کو حکم دیا.کہ اس کے محل میں سے تمام لعل و جواہرات لُوٹ لا.وہ وحشی لوگ فوراً گئے اور تمام محل کی آرائش کو لوٹ کھسوٹ لائے تو اس کے سامنے ایک تھالی میں نہایت قیمتی جواہرات بھر کر بادشاہ بغداد کے سامنے پیش کئے گئے کہ لو ان کو پیٔو اور پھر گالی دے کر کہا کہ بدذات! تو فوج کو تنخواہ نہ دیتا تھا.اور تیرے گھر میں اس قدر مال تھا.یہ کہہ کر اس کا سر اڑا دیا گیا! تم اپنی جان پر رحم کرو.یاد رکھو کہ کسی کا حُسن نہ کام آئے گا اور نہ کسی کا مال کام آئے گا.نہ جاہ و جلال.نہ علم.نہ ہنر.(البدر حصّہ دوم کلام امیر ۷؍نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۵۸.۵۹) ۱۱ تا ۱۳.. .۱؎ بغداد.مرتّب

Page 195

عَصَوْا: انہوں نے رسول کی نافرمانی کی اور یہ تمام عذاب اسی سبب سے ان پر پڑا.رَابِیَۃً: بڑھ چڑھ کر.جَارِیَۃً: چلتی ہوئی کشتی.: تمہیں اسی واسطے سناتے ہیں کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۴ تا ۱۶.. ..اِذَانُفِخَ: ایک وقت آتا ہے جبکہ بگل بجایا جائے گا.عذاب و ہلاکت کا وقت یا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالفین پر جو عذاب آنے والا ہے.اُس کا وقت آ جائے گا.جِبَلُ : ۱.پہاڑ اڑ جائیں گے ۲.مشرکین کے عمائد جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی مانند مضبوط سمجھتے ہیں ہلاک ہو جائیں گے.وَقَعَتْ : خطرناک عذاب آئے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۷ ، ۱۸.. . : آسمان پھٹ پڑے گا.سخت بارش ہو گی یا کوئی عذاب آئے گا.مَلَکُ: فرشتے.ملائکہ کا ایک خاص اژدہام اور ہجوم ہو گا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تائید اور نصرت میں ملائکہ کا نزول ہوتا تھا.

Page 196

: اس دن اﷲ تعالیٰ کے عرش کے حامل آٹھ فرشتے ہوں گے.کیا معنی.اﷲ تعالیٰ کی چار صفات (...) کی خاص تجلّی ہو گی.اس آیت کی تفسیر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی عربی کتاب ’’ کرامات الصادقین میں لکھی ہے جو اصل عبارت یہاں لکھی جاتی ہے اور نیچے اُس کے ترجمہ لکھا جاتا ہے.ثُمَّ اعْلَمْ اَنَّ لِلّٰہِ تَعَالٰی صِفَاتٍ ذَاتِیَۃً نَاشِئَۃً مِّنِ اقْتِضَآئِ ذَاتِہٖ وَ عَلَیْھَا مَدَارُ الْعَالَمِیْنَ کُلِّھَا وَھِیَ اَرْبَعُ رَبُوْبِیَّۃٌ وَّ رَحْمَانِیَّۃٌ وَ رَّحَیْمِیَّۃٌ وَمَالِکِیَّۃٌ کَمَآ اَشَارَ اﷲُ تَعَالٰی اِلَیْھَا فِیْ ھٰذِہِ السَّوْرَۃِ وَ قَالَ رَبّ الْعٰلَمِیْنَ.الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.ماَلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ.فَھٰذِہِ الصِّفَاتُ الذَّاتِیَّۃُ سَابِقَۃٌ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ وَّ مُحِیْطَۃٌ لِکُلِّ شَیْیئٍ وَّ مِنْھَا وُجُودُ الْاَشْیَآئِ وَاِسْتِعْدَا دُھَا وَ قَابِلِیَّتُھَا وَ وَصُوْلُھَا اِلٰی کَمَالَاتِھَا وَ اَمَّا صِفَۃُ الْغَضَبِ فَلَیْسَتْ ذَاتِیَّۃٌ لِلّٰہِ تَعَالٰی بَلْ ھِیَ نَاشِئَۃٌ مِّنْ عَدَمِ قَابِلِیَّۃُ بَعْضِ الْاَعْیَانِ لِلْکَمالِ الْمُطْلَقِ.رَکَذٰلِکَ صِفَۃُ الْاِضْلَالِ لَایَبْدُوْ اِلّابَعْدَ زَیْغِ الضَّآلِّیْنَ وَ اَمَّا حَصْرُ الصِّفَاتِ الْمَذْکُوْرَۃِ فِی اِلْاَرْبَعِ فَنَظَراً عَلَی الْعَاِلَم الَّذِیْ یُوْجَدُ فِیْہِ اٰثَارُھَا.اَلاَتَرٰی اَنَّ الْعَالَمَ کُلَّہٗ یَشْھَدُ عَلَی وُجُوْدِ ھٰذِہِ الصِّفَاتِ بِلِسَانِ الّْحَالِ وَ قَدْ تَجَلَّتْ ھٰذِہِ الصِّفَاتُ بِتَحْوٍلَّایَشُکُّ ترجمہ: واضح ہو کہ اﷲ تعالیٰ کے بعض ذاتی صفات ہیں جو اقتضائے ذات سے پیدا ہوتے ہیں.اور اپنی صفاتِ کاملہ پر جملہ عالمیں کا مدار ہے اور وہ چار ہیں.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے ان صفات کی طرف اس سورہ شریفہ میں ارشارہ فرمایا ہے.رب العالمین.الرحمن.الرحیم مالک یوم الدین.یہ صفات ذاتیہ ہر چیز پر سابق ہیں اور ہر چیز کو محیط ہو رہے ہیں اور انہی سے اشیاء کاوجود اور اشیاء کی استعدادیں اور قابلیتیں تیار ہوتی ہیں اور ان کا وصول اپنے کمالات کو ہوتا ہے.اور صفت غضب اﷲ تعالیٰ کی ذات میں نہیں ہے بلکہ یہ صفت بعض اعیان کی عدم قابلیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اور ایسا ہی صفت اضلال بھی ظاہر نہیں ہوتی مگر گمراہ ہونیوالوں کے کجَرو ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے.

Page 197

ِیْھَا بَصِیْرٌ اِلَّا مَنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَمِیْنَ.وَ ھٰذِہِ الصِّفَاتُ اَرْبَعٌ اِلٰی انْقِرَاض اِلنَّشْأَۃِ الدُّنْیَوِیَّۃِ ثُمَّ تَتَجَلّٰی مِنْ تَحْتِھَا اَرْبَعُ اُخْرَیَ الَّتِیْ مِنْ شَانِھَا اَنَّھَا لَا تَظْھَر اِلَّا فِی الْعَالَمِ الْاٰخِرِ وَ اَوَّلَ مَطَالِعِھَا عَرْشُ الرَّبِّ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ لَمْ یَتَدَنَّسْ بِوُجُوْدِ غَیْرِ اﷲِ تَعَالٰی وَ صَارَ مَطْھَرًا تَآمًّا لِّاَنْوَارِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ قَوَآئِمُہٰ اَرْبَعٌ رَبُوْبِیَّۃٌ وَّ رَحْمَانِیَّۃٌ وَّ رَحِیْمِیَّۃِ وَّ مَالِکِیَّۃُ یَوْمِ الدِّیْنِ وَ لَا جَامِعَ لِھٰذِہِ الْاَرْبَعِ عَلٰی وَجْہِ الظِّلِّیَّۃِ اِلَّاعَرْشُ اﷲِ تَعَالٰی وَ قَلُبُ الْاِنْسَانِ الْکَامِلِ.وَھٰذِہِ الصِّفَاتُ اُمَّھَاتٌ لّصِفَاتِ اﷲِ کُلِّھَا وَ وَقَعَتْ کَقَوَآئِمِ الْعَرْشِ الّذِی اسْتَوَی اﷲُ عَلَیْہِ وَ فِیْ لَفْظِ الْاِسْتِوَآئِ اِشَارَۃٌ اِلٰی ھٰذَا الْاِنْعِکَاسِ عَلَی الْوَجْہِ الْاَتَمْ الْاَکْمَلِ مِنَ اﷲِ الَّذِیْ ھُوَ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ.وَ تَنْتَھِیْ کُلُّ قَآئِمَۃٍ مِنَ الْعَرْشِ اِلٰی مَلَکٍ ھُوَحَا مِلُھَا وَ مُدَبِّرُ اَمْرِھَا وَ مَوْرِدُ تَجَلِّیّٰتِھَا وَ قَاسِمُھَا عَلٰی اَھْلِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِیْنَ.فَھٰذَا اور صفات مذکورہ کا چار میں حصر ہونابنظرِ عالم ہے جس میں ان صفات کے آثار پائے جاتے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ سارا عالم ان صفات کے وجود پر زبانِ حال سے گواہ ہے.اور یہ صفات اس طرح متجلّی ہو رہے ہیں کہ کوئی بینا اس میں شک نہیں کرتا اور یہ چار صفات انقراض ایّام دنیا تک رہیں گی.پھر ان کے نیچے چار اور صفات جلوہ گرہوں گی جن کی سان میں سے ہے کہ وہ صفات ظاہر نہیں ہوتیں مگر دوسرے عالم میں جو عرش الہٰی کا پہلا مطلع ہے اور وجود غیر اﷲ سے آلودہ نہیں ہوا اور انوار ربّ العالمین کا مظہر تام ہے.اور عرشِ الہٰی کے چارپائے اس کی ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت یوم الدین ہیں اور ان چاروں کا جامع بروجہ ظلّیت عرشِ الہٰی اور انسانِ کامل کا دل ہے.یہ چار صفات ساری صفات الہٰی کے اُمَّات و اصول ہیں.اور عرشِ الہٰی کے پایوں کی طرح واقع ہوئے ہیں جس پر اﷲ تعالیٰ کا اِستواء ہے.اور لفظ اِستوٰی میں اس اَتَم و اَکمل عکسِ الہٰی کی طرف اشارہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور ہر پایہ عرش ایک فرشتے کی طرف منتہی ہوتا ہے جو اس کا حامل اس کا مدّبر اور اس کا موردِ تجلیات ہے اور اس صفت کو

Page 198

مَعْنٰی قَوْلِ اﷲِ تَعَالٰی وَ یَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَھُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَۃً.فَاِنَّ الْمَلٰئِکَۃَ یِحْمِلُوْنَ صِفَاتًا فِیْھَا حَقِیَقَۃٌ عَرْشِیَّۃٌ وَ السِّرُّفِیْ ذٰلِکَ اَنَّ الْعَرْشَ لَیْسَ شَیْئًا مِّنْ اَشْیَآئِ الدُّنْیَا.بَلْ ھُوَ بَرْزَخٌ بِیْنَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ مَبْدَئٌ قَدِیْمٌ لِّلتَّجَلِّیَاتِ الرَّبَّانِیَّۃِ وَ الرَّحْمَانِیَّۃِ وَالرَّحِیْمِیَّۃِ وَ الْمَالِکِیَّۃِ لِاِظْھَارِ التَّفَضّلَاتِ وَ تَکْمِیْلِ الْجَزَائِ وَالدِّیْنِ.وَ ھُوَ دَاخِلٌ فِیْ صِفَاتِ اﷲِ تَعَالٰی فَاِنَّہٗ کَانَ ذَا الْعَرْشِ مِنْ قَدِیْمٍ وَّ لَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَیْیئٌ فَکُنْ مِّنْ الْمُتَدَبِّرِیْنَ وَ حَقِیْقَۃُ الْعَرْشِ وَ اسْتِوَآئِ اﷲِ عَلَیْہِ سِرٌّ عَظِیْمٌ مِّنْ اَسْرَارِ اﷲِ تَعَالٰی وَ حِکْمَۃٌ بَالِغَۃ وَّ مَعْنًی رَّوْحَانِّی وَّ سُمِّیَ عَرْشًا لِّتَفْھِیْمِ عُقُوْلِ ھٰذَا الْعَالَمِ وَ لِتَقْرِیْبِ الْاَمْرِ اِلَٰی اسْتِعْدَادَاتِھِمْ وَ ھُوَ وَاسِطَۃٌ فِی وُصُوْلِ الْفَیْضِ الْاِلٰھِّی وَ الْتَّجَلِّی الرَّحْمَانِیِّ مِنْ حَضْرَۃِ الْحَقِّ اِلَی الْمَلٰئِکَۃِ وَ مِنَ الْمَلٰئِکَۃِ اِلَی الرُّسُلِ وَ لَا یَقْدَحُ فِیْ وَحْدَتِہٖ تَعَالٰی تَکَثُّرُ قَوَابِلِ الْفَیْضِ بَلِ التَّکَثَّرُھٰھُنَا یُرْجِبُ الْبَرَکَاتِ لِبَنِیْ ٓ اٰدَمَ وَ یُعِیْنُھُمْ عَلَی الْقُوَّۃِ الرَّوْحَانِیَّۃِ وَ یَنْصُرُھُمْ فِی الْمُجَاھَدَاتِ وَ الرِّیَاضَاتِ الْمُوْْجِبَۃِ لِظُھُوْرِ وہ اہل آسمان و اہلِ زمین پر تقسیم کرتا ہے.پس یہ معنے ہیں کلامِ الہٰی کے.جو اس نے فرمایا ہے.……… کیونکہ ملائکہ ان صفات کے حامل ہیں جن میں حقیقت عرشِ الہٰی ہے.اور سرّاس بات کا یہ ہے کہ وہ عرشِ الہٰی چیز دنیا کی چیزوں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک برزخ ہے.اور وہ مبدء قدیم ہے واسطے تجلیاتِ ربّانیہ و رحمانیہ و رحیمیہ و مالکیئہ کے واسطے ظاہر کرنے تفضّلات اور کامل کرنے جزاء و دین کے.اور یہ بات صفاتِ الہٰی میں داخل ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ قدیم سے صاحبِ عرش ہے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی.خوب سوچ کرو اور حقیقتِ عرش اور استوٰی اﷲ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک عظیم الشان سرّ ہے اور بلیغ حکمت اور روحانی معنے ہیں.اور عرش اس لئے نام رکھا گیا کہ اس عالم کے عقول کو سمجھایا جاوے اور ان کی فہمی استعدادوں کے

Page 199

الْمُنَاسَبَاتِ الَّتِیْ بِیْنَھُمْ وَ بَیْنَ مَایَصِلُوْنَ اِلَیْہِ مِنَ النَّفُوْسِ کَنَفْسِ الْعَرْشِ وَ الْعُقُوْلِ الْمُجَرَّدَۃِ اِلٰی اَنْ یَّصِلُوْنَ اِلَی الْمَبْدَئِ الْاَوَّلِ وَ عِلَّۃِ الْعِلَلِ ثُمَّ اِذَا اعَاَنَ السَّالِکَ الجَذَبَاُت الْاِلٰھِیَّۃُ وَ النَّسِیْمُ الرَّحْمَانِیَّۃُ فَیَقْطَعُ کَثِیْرًا مِّنْ حُجُبِہٖ وَ یُنْجِیْہِ مِنْ بُعْدِالْمَقْصَدِ وَ کَثَرَۃِ عَقَبَاتِہٖ وَ اٰفَاتِہٖ وَیُنَوِّرُہٗ بِالنُّوْرِ الْاِلٰھِتِی وَ یُدْخِلُہٗ فِی الْوَاصِلِیْنَ.فَیَکْمُلُ لَہُ الْوُصُوْلُ وَ الشُّھُوْدُ وَ مَعَ رُؤیَتِہٖ عَجَائِبَاتِ الْمَنَازِلِ وَالْمَقَامَاتِ وَ لَا شُعُوْرَ لِاَھْلِ الْعَقْلِ بِھٰذِہِ الْمَعَارِفِ وَ النِّکَاتِ وَ لَا مُدْخَلَ لِلْعَقْلِ فِیْہِ وَ الْاِطِّلَاعُ بِاَمْثَالِ ھٰذِہِ الْمَعَانِیْ اِنَّمَاھُوَ مِنْ مِشْکوٰۃِ النُّبُوَّۃِ وَ الْوَلَایَۃِ وَمَا شَمَّتِ الْعَقْلَ رَآئِحَتُہٗ َومَا کَانَ لِعَاقِلٍ اَنْ یَّضَعَ الْقَدَمَ فِیْ ھٰذَا الْمَوْضِعِ اِلَّا بِجَذْبَۃٍ مِنْ جَذَبَاتِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.نزدیک اس امر کو قریب کیا جائے.اور یہ واسطہ و ذریعہ ہے.وصولی فیضِ الہٰی اور تجلّی ئِ رحمانی میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کی طرف اور ملائکہ کی طرف سے رُسولوں کی طرف.اور وحدتِ الہٰی میں کثرت قابلاتِ فیض قاوح نہیں بلکہ کثرت قوابل موجب برکات بنی آدم ہیں اور یہ امر ان کو قوت روحانی میں مدد دیتا ہے اور ان کو مجاہدات و ریاضتوں میں نصرت کرتا ہے جو مناسبات کے ظہور کے باعث ہوتے ہیں جو ان کے درمیان اور ان کے نفوس کے درمیان ہوتے ہیں.جو ان تک پہنچتے ہیں اور نفسِ عرش اور عقولِ مجردہ کی طرح ہوتے ہیں حتٰی کہ وہ مبدء اوّل اور علّت العلل تک پہنچ جاتے ہیں.جب سالک جذباتِ الہڈیہ اور نسیم رحمانیہ کو دیکھتا ہے تو بہت سے حجاب قطع کر جاتا ہے.اور بعد مقصود و کثرتِ عقبات و آفات سے نجات پاتا اور نورِ الہٰی سے منوّر ہو جاتا ہے.اور اﷲ تعالیش اس کو واصلین میں داخل کر دیتا ہے.اور اس کا وصول و شہود مع رویت عجائباتِ منازل و مقامات کے کامل ہو جاتا ہے.اور اہلِ عقل کے لئے ان معارف و نکات کا شعور نہیں ہوتا اور نہگ عقل کا ان میں دخل ہو سکتا ہے اور اس قسم کے معانی پر اطلاع پانا مشکوٰۃِنبوّت و ولایت سے میسّر ہو سکتا ہے.عقل کو ان حقائق سے بُو بھی نہیں پہنچتی.اور نہ کسی عاقل کی طاقت ہے کہ وہ بجز جذباتِ الہٰی اس مقام میں قدم رکھے.

Page 200

وَ اِذَا انْفَکَّثِ الْاَرْوَاحُ الطَّیِّبَۃُ الْکَامِلَۃُ مِنَ الْاَبْدَانِ وَ یُتَّطَھَّرُوْنَ عَلٰی وَجْہِ الْکَمَالِ مِنَ الْاَوْسَاخِ وَ الْاَدْرَانِ یُعْرَضُوْن عَلَی اﷲِ تَحْتَ الْعَرْشِ بِوَاسِطَۃِ الْمَلٰئِکَۃِ فَیَاخُذُوْنَ بِطَوْرٍ جَدِیْدٍ حَظًّا مِّنْ رَبُوْبِیَّۃٍ یُّغَائِرُ رُبُوْبِیَّۃٍ سَابِقَۃً وَّ حَظًّا مِّنْ رَحْمَانِیَّۃٍ مُّغَائِرَ رَحْمَانِیَّۃٍ اُوْلٰی وَ حَظَّامِّنْ رَحِیْمِیَّۃٍ وَمَالِکِیَّۃٍ مُّغَائِرَ مَا کَانَ فِی الدُّنْیَا فَھُنَالِکَ تَکُوْنُ ثَمَانِیَ صِفَاٍت تَحْمِلُھَا ثَمَانِیَّۃٌ مِّنْ مَلٰٓئِکَۃِ اﷲِ بِاِذْنِ اَحْسَنِ الْخَالِقِیْنَ.فَاِنَّ لِکُلِّ صِفَۃٍ مَّلَکٌ مُّؤَکَّلٌ قَدْ خُلِقَ لِتَوْزِیْعِ تِلْکَ الصِّفَۃِ عَلٰی وَجْہِ التَّدْبِیْرِ وَ وَضْعِھَا فِیْ مَحَلِّھَا وَ اِلَیْہِ اِشَارَۃٌ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی فَا الْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا.قَتََدَبَّرْ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ.وَ زِیَادَۃُ الْمَلٰٓئِکَۃِ الْحَامِلِیْنَ فِی الْاٰخِرَۃِ لِرِّیَادَۃِ تَجَلِّیَاتٍ رَّبَّانِیَّۃٍ وَّ رَحْمَانِیَّۃٍ وَّ رَحِیْمِیَّۃٍ وَّ مَا لِکِیَّۃٍ عِنْدَ زِیَادَۃِ الْقَوَابِل فَاِنَّ النُّفُوسَ الْمُطْمَئِنَّۃَ بَعْدَ الْقِطَاعِھَا وَ رُجُوْعِھَا اِلَی الْعَالَمِ الثَّانِیْ وَ الرَّبِّ جب ارواحِ پاکیزہ کاملہ بدنوں سے جُدا ہوتے اور بروجہ کمالِ روحانی میلوں کچیلوں سے پاک کئے جاتے ہیں.تو اﷲ تعالیٰ کے حضور میں عرش کے نیچے بذریعہ ملائکہ کرام پیش کئے جاتے ہیں.پس وہ جدید طور پر ربوبیتِ الہٰی سے حظ و حصّہ لیتے ہیں.جو ربوبیتِ سابقہ سے علیحدہ و مغائر ہوتی ہے اور اس کی رحمانیت سے بھی بہرہ اندوز ہوتے ہیں اور حصّہ لیتے ہیں جو پہلی روحانیت سے مغائر ہوتا ہے.اور اس کی رحیمیت سے بھی حصّہ پاتے ہیں جو اس کی پہلی رحیمیت سے الگ ہوتی ہے اور اس کی مالکیت سے بھی حصّہ پاتے ہیں جو دنیا کے حصّہ سے مغائر ہوتی ہے.پس اس وقت آٹھ صفات ہو جاتے ہیں.جن کے آٹھ ملائکۃ اﷲ باذن احسن الخالقین حامل ہیں کیونکہ ہر صفت کے لئے ایک فرشتہ مؤکّل ہے جو اس صفت کے پراگندہ کرنے کے لئے بروجہ تدبیر اور اس کو برمحل خود رکھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسی کی طرف اﷲ تعالیٰ نے اپنی کلام میں اشارہ فرمایا ہے.فَالْمُدَبِّرَاِت اَمْرًا پس تم غور کرو اور غافل نہ ہو.آخرت میں ملائکہ حاملین کا زیادہ ہونا تجلّیاتِ ربّانیہ و رحمانیہ و رحیمیہ و مالکیہ کے زیادہ تجلّیات

Page 201

الْکَرِیْمِ تَتَرَقّٰی فِیْ اسْتِعْدَادَاتِھَا فَتَتَمَوَّجُ الرَّبُوْبِیَّۃُ وَ الرَّحْمَانِیَّۃُ وَ الرَّحِیْمِیَّۃُ وَ الْمَالِکِیَّۃُ بِحَسَبِ قَابِلِیَّاتِھِمْ وَ اسْتِعْدَا دَاتِھِمْ کَمَا تَشْھَدُ عَلَیْہِ کُشَوْفُ الْعَارِفِیْنَ.وَ اِنْ کُنْتَ مِنَ الَّذِیْنَ اُعْطِیَ لَھُمْ حَظٌّ مِّنَ الْقُرْاٰنِ فَتَجِدُ فِیْہِ کَثِیْرًا مِّنْ مِّثْلِ ھٰذَا الْبَیَانِ.فَانْظُرْ بِالنَّظَرِ الدَّقِیْقِ.لِتَجِدَ شَہَادَۃَ ھٰذَا التَّحِقْیِق.مِنْ کِتٰبِ اﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ.(کرامات اصلادقین صفحہ ۸۶ تا ۸۹) ا ﷲ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے اور آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کے متعلق آریوں نے بعض اعتراض کئے ہیں.جن کے جواب حضرت خلیفۃ المسیح نے جو دئے ہیں وہ درج ذیل ہیں.’’ پہلا سوال محض غلط فہمی اور علومِ الہٰیہ حقہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب اسی پر متفق ہیں.ہاں تارکِ اسلام کو علومِ اسلامی سے نابینائی کی وجہ سے کرسی سے ٹھو کر لگی اور مُنہ کے بل جہالت کے گڑھے میں گرا ہے.سنو ہماری مکرم کتاب صحیح بخاری میں جسے ہم کتاب اﷲ کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں.لکھاہے.کُرْسِیُّہٗ:علمہ یعنی کرسی کے معنے علم کے ہیں.معنے وَ سِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ ( البقرۃ :۲۵۶) کے یہ ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ کا علم تمام بلندیوں اور زمین کو وسیع و محیط ہو رہا ہے.اب بتا, اس مسئلہ میں جو مذاہب اﷲ تعالیٰ کے ماننے والے ہیں اور صفاتِ الہٰیہ کے منکر نہیں.ان میں کس کو کلام اور بحث ہے.سوال دوم: میرے الزامی جواب کو اور سوال سوم کے الزامی جواب کے بعد حقیقی جواب کو ملاحظہ کرو.تمہارے یجرویداکتیسویں ادھیائے میں لکھا ہے.دیکھو نمبر۱ ’’اے منشو.سب پرانیوں کی ہزاروں آنکھیں کے لئے ہے.کیونکہ اس جگہ محل قابلات تجلیّات بہت ہوں گے.وجہ یہ ہے کہ نفوس مطمئنہ جب اس عالم سے منقطع ہو کر عام ثانی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اپنی اپنی استعدادوں کے موافق ترقی کرتی ہیں تو ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت ان کی قابلیتوں و ستعدادوں کے حساب پر جوش زن ہوں گے.چنانچہ عارفوں کے کشوف اس امر کے گواہ ہیںـــ---- اگر تم ان لوگوں میں سے ہو جن کو قرآن کریم سے حصّہ ملا ہے تو ایسا بیان قرآن میں بہت پاؤگے.نظرِ دقیق سے دیکھو تاکہ اس شہادت کی تحقیق کو قرآنِ کریم سے پالو.

Page 202

ہزاروں پاؤ جس سروتربیاپک جگ ویشور میں ہیں.وہ پرش ہے.وہ تمام بھوگول میں سب طرف سے بیاپت یہ پانچ استھول ( عناصر خمسہ) پانچ سو کھشم ( حواس ) یہ دس بھوت جس کے انگ ہیں اور وہ سب جگت ( مخلوق ) کو اولنگھ کر ( کود کر) ٹھیرا ہے.اور منتر ۳: اس ایشور کی سب زمین وغیرہ چراچر جگت (کل مخلوق) ایک جزو ہیں اس جگت بنانیوالے کے تین حصّہ ناش رہت مہما اپنے منور سروپ میں ہے.نمبر ۴: اور کہا تین حصّوں والا پرمیشور سب سے اوتم سنسار سے الگ لکت سروپ نکلتا ہے اس پرش کا ایک حصّہ سے ایک جگت میں پھر ہر پیدائش اور پر لے کا چکّر کھاتا ہے.نمبر۵ میں ہے ’’ اس براٹ سنسار کے اوپر سردار پورن برہم رہتا ہے.اس کے بعد یہی وہ پہلے سے ظاہر برش جگت سے علیحدہ رہتا ہے.‘‘ غرض سترہ منتر تک یہی مضمون مکّرر کیا گیا ہے پہلے منتر میں یہ لفظ کہ وہ سب جگت کو اولنگھ کر ٹھیرا ہے.منصف انسان کے لئے قابلِ غور ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.کہ وہ خدا پر میشر سب جگت کو پھاند کر ٹھہرا ہے.اور تیسرے منتر کا مطلب ہے کہ خدا پر میشور کے چار حصّہ ہیں.ایک حصّہ مخلوق میں اور تین حصّہ بالاتر ہیں.اور نمبر ۴ کا مطلب ہے کہ پرمیشور سنسار سے الگ ہے اور اس کے تین حصّہ خلق سے بالا ہیں اور نمبر ۵ میں ہے.اوپر پورن برہم رہتا ہے.اور ( دیوتہ.امرت مانشوناش ترشئے وہام لوگ ندھیر تم) کا مطلب اور عرش پر ہے کا مطلب اگر ایک نہ ہو تو ہم ذمّہ دار ہیں.سوال سوم: اگر قرآن کریم نے آٹھ کا ذکر کیا ہجے تو وہاں فرشتوں کا تذکرہ نہیں مگر آپ کے ہاں صاف مسلّم ہے کہ آٹھ دیوتا اس کے تختِ سلطنت کو اٹھا رہے ہیں.یہ دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۴۴ میں ہے.کہ یاگو لکیہ جی نے شاکلیٔہ کو فرمایا ہے.آٹھ دسویہ ہیں.پھر ان کی تفصیل کرتے کہا ہے کہ ان سب کو دسویہ اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں یہ گنجِ کائنات محفوظ اور قائم ہے یاگو لکیہ کی معتقدہ انسانی بات کو ماننا اور خدائے پاک کی بات کو نہ ماننا کیسی بے انصافی ہے.اور حقیقی بات سناتے ہیں.سنو! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے.عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے.جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اوّل سے آخر تک پڑھو.اس میں ہرگز نہیں پا, گے کہ عرش کوئی چیز محدوداور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا

Page 203

میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.مَیں ہی زمین آسمان اور رُوحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق اہوں.مَیں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرّہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے.مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے.جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش بھی کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو مَیں می جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ مَیں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کردوں گا.ورنہ مَیں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراص نہ رہا.خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی ہے اور کسی چیز پر نہیں.بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اٹھائے ہوئے ہے.اور ہر ایک چیز پر محیط ہے.جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خدا ہے.جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے اَ(البقرۃ:۱۱۶) جس طرف تم مُنہ کرو اُسی طرف تم خدا کا مُنہ پاؤگے.وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے.وہی ہے جو پہلے اور وہی ہے جو آخر ہے اور سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور فرماتا ہے. (البقرۃ: ۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہا ہے.پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں.جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں.ہر ایک چیز کی کَل میرے ہاتھ میں ہے.اور میرا علم سب پر محیط ہے.مَیں ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اُٹھا رہاہوں.مَیں ہی ہوں جو خشکی تری میں اٹھا رہا ہوں.یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں.بچّہ بچّہ مسلمانوں کا ان کو جانتا ہے اور پڑھتا ہے جس کا جی چاہے وہ ہم سے آ کر ابھی پوچھ لے.پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کر اس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے.ایسا دنیا میں کون مسلمان ہے جو خدا کو

Page 204

د جانتا ہے.یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے.اب یاد رکھو کہ قرآن شریف میں یہ تو کہیں نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اٹھا رہا ہے بلکہ جا بجا یہ لکھا ہے کہ خدا ہر ایک کو اُٹھا رہا ہے.ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکور ہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھا رہے ہیں دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ عرش کوئی نجسّم چیز نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں.ضرور کوئی استعارہ ہو گا.مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصّب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے.اب اصل حقیقت سنو! کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے.اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا.اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چر ہیں.جو وید کی رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں.مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے ان کا نام فرشتے بھی ہے.اور وہ یہ ہیں.اکاش جس کا نام اِندر بھی ہے.سورچ دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں.چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں.دھرتی ؔ جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں.یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں.خدا کی چاروں صفتوں کو جو اس کے جبروت اور عظمت کا اَتَم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹٍا رہے ہیں.یعنی عالم پر یہ ظاہر کر رہے ہیں.تصریح کی حاجت نہیں.اس بیان کو ہم مفصّل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں ۱.ذرّات اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں ۲.آکاش سورج چاند زمین کی قوتیں جو کام کر رہی ہیں ۳.ان سب پر اعلیٰ طاقتیں جو جبرائیل ، میکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جَسمْ لکھا ہے.مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں.یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں.یہ وہی چار صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا گیا ہے.اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب ویددان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کر رہے ہیں.اخیر میں سُنو.بہو لوگ.انترکش.برہم لوگ جن کو ذکر منو ۲.۲۳۳ میں ہے.اس کے اُوپر کس کی حکومت ہے.( تصدیق براہین احمدیہ) ۲۰ تا ۳۰.

Page 205

... . .....یَمِیْنِ: جو حق ہو اور جناب الہٰی کی طرف سے ہو.زمانہ حال کی تحقیقات میں یہ مسلّم ہے کہ انسان کے جسم کے اکثر حصّوں کا خون داہنی طرف سے ہی قلب میں داخل ہوتا ہے.ان آیات میں جزائے اعمال کے لحاظ سے آدمیوں کی دو حصّوں میں تقسیم کی گئی ہے.اصحاب الیمین نیکوکار لوگ جو داخل جنّت ہوں گے.اور اصحاب الشمال.بدکار لوگ جو داخلِ دوزخ ہوں گے.ھٰٓاؤُمُ:آؤ.لے لو.بِمَا اَسْلَفْتُمْ: یہ انعام جو تم کو ملا ہے.اس کا ذریعہ نیک اعمال ہیں جو تم پہلے کر چکے ہو.: میرے دلائل.( ضمیمہ اخِار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۳۹ تا۴۴... . ..: اس جگہ اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کے دلائل قسم کے رنگ

Page 206

میں بیان فرمائے ہیں.قرآن شریف میں جہاں کہیں قسموں کا ذکر ہوتا ہے.اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی بڑی بڑی حکمت خدا تعالیٰ نے رکھی ہوتی ہے.وہ حکمت جاہلوں.عالموں.صوفیوں سب کے لئے ہوتی ہے اور سب کے واسطے یہ قسمیں فائدہ بخس ہوتی ہیں.عام لوگوں کی فطرتوں میں اور بالخصوص اہلِ عرب کے دلوں میں یہ بات مرکوز ہے کہ جو شخص جھوٹی قسمیں کھاتا ہے وہ برباد.ذلیل.ناکام اور نامراد ہو جاتا ہے.ایک طرف تو مشرکینِ عرب آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو کافر سمجھتے تھے.دوسری طرف ان کی زبان سے یہ قسمیں سنتے تھے.اس سے ثابت ہوا کہ یہ قسمیں کھانیوالا اگر جھوٹا ہوتا تو ضرور تباہ ہو جاتا.لیکن جبکہ نبی کریم صلی اﷲ و اآلہٖ وسلم کی کامیابیاں دن بدن ترقی پذیر تھیں تو ان سے ثابت ہوا کہ یہ راست باز ہے.فلاسفروں کو ان قسموں سے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں کہیں قرآن کریم میں قسم کھائی جاتی ہے.اس کی تہ میں فلسفیانہ ثبوت ضرور ہوتا ہے.اس جگہ  میں یہ بات ہے کہ نبی کریمؐ ب میں سے کس قسم کے اور کس مزاج کے لوگ شامل ہوتیے تھے اور کس طرح حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لوگ جمع ہوتے رہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا نہیں کہ تم میں سے کام کے شخص اس کے ساتھ ملتے جاتے ہیں.آیا اس کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے یا نہیں.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ.قسم قائمقام شہادت کے ہوتی ہے.اور قرآن شریف کی قسمیں ان امور پر دلائل ہیں جن کے لئے وہ کھائی گئی ہیں.مرئی اور مشہود اشیاء اور غیر مرئی اشیاء غرض بجمیع الاشیاء یہ شہادت پیس کی گئی ہے کہ یہ نبی سچّا رسول ہے.شَاعِرٍ: یہ شخص شاعر نہیں کیونکہ شاعر مُنہ سے کہتا ہے.خود کرتا کچھ نہیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جو تعلیم پیش کی خود اس پر عمل کر کے دکھا دیا.شاعر کوئی ایسا نہیں گزرا کہ جس کے کلمات اور اشعار پیشگوئیوں پر مبنی ہوں جو پوری ہو جائیں.شاعر کے کلام کا اثر آنی ہوتا ہے.لیکن قرآن شریف کا اثر دیرپا ہے.کَاھِنٍ:کہانت کرنے والا.اسپریچیولزم کا ماہریہ لوگ بڑے بڑے مجاہدات اور ریاضات سے ایک علم حاصل کرتے ہیں.مگر ان کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں اور ان کے کلمات میں دروغ

Page 207

بہت شامل ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بر قادیان ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۱ء) کوئی جھگڑے کی بات نہیں.ہم شہادت پیش کرتے ہیں ان امور کو جو تم دیکھتے ہو اور پھر ان کو جو ابھی ظہور میں نہیں آئے اور تم نہیں دیکھتے جس سے ثابت ہو جائے گا.کہ یہ قرآن مجید کسی کے خیالی پلاؤ نہیں.بلکہ ایک معزز کے ذریعہ پہنچا ہے.اور ربّ العالمین کا نازل شدہ کلام ہے.( تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۲۳۰) ۴۵ تا ۴۸.....: جھوٹی بات بنانا.اس میں اس پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے جو توریت میں مثیلِ موسٰی کے لئے کتاب استثناء باب ۱۸ میں مذکور ہے.کہ اس نبی کی صداقت کا یہ نشان ہے کہ اگر وہ افتراء کرے گا تو قتل کیا جاوے گا.یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کی ایک دلیل ہے.کہ نہ وہ قتل ہوئے.نہ ناکام رہے اور اس طرح پر آئندہ کے لئے ہر صادق مامور کے واسطے یہ ایک نشان ہوا کہ کوئی مفتری علی اﷲ افتراء کر کے ۲۳ سال تک زندہ نہیں رہ سکتا.وَتِیْن: وہ رگ ہے جو قلب سے سر کو جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) باری تعالیٰ بڑا ثبوت آنحضرت ؐ کی نبوت کی صداقت کا دیا ہے....یعنی اگر یہ شخص جھوٹا رسول ہوتا.تو بیشک بیشک قتل کیا جاتا.تباہ ہو جاتا.مارا جاتا.کیونکہ خدا وند خدا پہلے سے اپنے برگزیدہ نبی موسٰی کی معرفت اپنے اس اولوالعزم نبی کی بابت ارشاد اور وعدہ فرما چکا تھا.اور اس سچّے نبی کی صداقت نبوت کی پہچان بھی بتا چکا تھا.کہ وہ زندہ رہے گا.ہاں وہ سلامت رہے گا.اور اس کے مخالفین معبود انِ باطلہ کے عابد ہلاک ہو جاویں گے.( فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۹۰.۹۱) میرے سامنے بعض نادانوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مفتری کے لئے مُہلت مل جاتی ہے.قطع نظر اس بات کے اُن کے ایسے بیہودہ دعوٰی سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور آپؐ کی نبوّت پر کس قدر حرف

Page 208

آتا ہے.قطع نظر اس کے ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی پاک تعلیم پر اس قسم کے اعتراف سے کیا حرف آتا ہے.اور کیونکر انبیاء و رسل کے پاک سلسلہ پر سے امان اٹھ جاتا ہے.پوچھتا ہوں کہ کوئی ہمیں بتائے کہ آدم ؑ سے لے کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم تک اور آپؐ سے لے کر اس وقت تک کیا کوئی ایسا مفتری گزرا ہے جس نے یہ دعوٰی کیا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اور وہ کلام جس کی بابت اس نے دعوٰی کیا ہو کہ خدا کا کلام ہے.اس نے شائع کیا ہو اور پھر اسے مہلت ملی ہو.قرآن شریف میں ایسے مفتری کا تذکرہ یا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک اقوال میں پاک لوگوں کے بیان میں اگر ہوا ہے تو دکھاؤ کہ اس نے تَقَوَّلَ عَلی اﷲ کیا ہواور بچ گیا ہو.مَیں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مفتری بھی پیش نہ کر سکیں گے.مہلت کا زمانہ میرے نزدیک وہ ہے جبکہ مکّہ میں اﷲ تعالیٰ کا کلام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر یُوں نازل ہوا.....اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنا لیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے.حالانکہ وہ اس کا اپنا کلام ہوتا.نہ خا کا.تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ ِ جان کاٹ دیتے.اور کوئی تم میں سے اس کو بچا نہ سکتا کیسا صاف اور سچا معیار ہے کہ مفتری کی سزا ہلاکت ہے.اور اسے کوئی مہلت نہیں دی جاتی یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچائی کی کیسی روشن دلیل اور ہر صادق مامور من اﷲکی شناخت کا کیسا خطانہ کرنے والا معیار ہے.مگر اس پر بھی نادان کہتے ہیں کہ نہیں مفتری کو مہلت مل جاتی ہے.یہ آیت مکّہ میں نازل ہوئی.اب کیا مشکل ہے جو ہم اس زمانہ کو جو مفتری کے ہلاک ہونے اور راست باز کے راست باز ٹھہرائے جانے پر بطور معیار ہو سکتا ہے.سمجھ لیں.اس آیت کے نزول کا وقت صاف بتاتا ہے.مگر اندھوں کو کون دکھا سکے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جبکہ جامع جمیع کمالات تھے.آپؐ کی امّت ان تمام برکات اور فیوض کی جامع ہے.جو پہلی امّتوں پر انفرادی طور پر ہوئے اور آپ ؐ کے اعداء تمام اخسرانوں کے جامع جو پہلے نبیوں کے محافظوں کے حصّہ میں آئے.یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب سورۂ شعراء میں ہر نبی کا قصّہ بیان فرماتا ہے تو اس کے بعد فرماتا ہے اِنَّ رَبَّکَ لَھُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُ ۱؎ غرض یہ آیت والی ہر ایک مفتری اور صادق مامور من اﷲ میں امتیاز کرنے والی

Page 209

کی صداقت کا کامل معیار ہے.کیکن اگر کوئی نادان کہے کہ اس سے تاریخ کا پتہ کیونکر لگائیں اور معیار مقررہ کیونکر معلوم ہو؟مَیں کہتا ہوں.ان امور کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ یہ آیت مکّی ہے.اگر اس پر بھی کوئی یہ کہے کہ مکّی اور مدنی آیتوں کا تفرقہ مشکلات میں ڈالتا ہے اور اصطلاحات میں اب تک بھی اختلاف چلا آتا ہے.تو میں کہتا ہوں.اس سے بھی ایک آسان تر راہ ہے.اور وہ یہ ہے کہ اس آیت کو آخری آیت ہی تجویز کر لو پھر بھی تم کو ماننا پڑے گا.کہ تئیس برس تک خیرالرسل صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت عظمت و جبروت.عزّرت وجاھیّت.تائید و نصرت.دشمن کے خسران کے لئے ایک فیصلہ کن امر ہے.اب بتا, کہ کیا حجّت باقی رہی.مکّی مدنی کا فیصلہ نہ کرو.اصطلاحات کے تفرقہ میں نہ پڑو.اس تئیس سال کی عظیم الشان کامیابیوں کا کیا جواب دو گے.پس بہر حال ماننا پڑے گا.کہ اس قدر عرصہ دراز تک جو چوتھائی صدی تک پہنچتا ہے.اﷲ تعالیٰ مفتری کو مہلت نہیں دیتا.ایک راست باز کی صداقت کا پتہ اس کے چہرہ سے.اُس کے چال چلن سے اُس کی تعلیم سے.ان اعتراضوں سے جو اس پر کئے جاتے ہیں.اس کے ملنے والوں سے لگ سکتا ہے.لیکن اگر کوئی نادان ان امور سے پتہ نہ لگا سکے تو آخر تئیس سال کی کافی مہلت اور اُس کی تائیدیں اور نصرتیں.اس کی سچائی پر مہر کر دیتی ہیں.مَیں جب اپنے زمانہ کے راست باز کے مخالفوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے حالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس زمانہ کے مخالفوں کی حالت پر بہت رحم آتا ہے کہ یہ اُن سے بھی جلد بازی اور شتاب کاری میں آگے بڑھے ہوئے ہیں.وہ نوح علیہ السلام کی تبلیغ اور دعوت کو سُن کر اعتراض تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں فَتَرَبَّصُوْا بِہٖ حَتّٰی حِیْنٍ چندے اور انتظار کر لو.مفتری ہلاک ہو جاتا ہے.اس کا جھوٹ خود اس کا فیصلہ کر دے گا.مگر یہ شتاب کار نادان اتنا بھی نہیں کہہ سکتے.العجب.ثم العجب (الحکم ۳۱؍ جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶.۷) ۴۹..تَذْکِرَۃٌ: یاد رکھنے کے لائق.یاد دِہ.یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہے کہ جو کلام آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے پیش کیا ہے.وہ ایک متقی جماعت بناتا ہے اور ایک تاریخی قوم

Page 210

پیدا کرتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۱ء) ۵۰..مُکَذِّبِیْنَ: یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ کے مخالف جھوٹے ہیں.اور جو باتیں آنحضرت ؐ کے متعلق کہتے ہیں.ان میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) خ خ خ

Page 211

: یہ کافرین کی تعریف ہے.: جو بے حقیقت ہو.یہ مرض آجکل بہت زور پر ہے.لوگ دین کو بے حقیقت سمجھتے ہیں.کسی حق کے لینے کیلئے وکیل سے مشورہ لیتے ہیں.پہلے یہ دریافت نہیں کر لیتے کہ شریعت میں جائز ہے یا نہیں.؟ : آج ہم ان کو ترک کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۵۴. : انتظار کرتے ہیں.: بہت سے الفاظ کے قرآن کریم میں اور معنے ہیں.مخلوق میں اور معنے.مثلاً کلمہ کا لفظ ہے.اس کے معنے کرتے ہیں لَفظٌ وُضِعن لِمَعْنٰی مُفْرَدٍ جو متہمّلِ صدق و کذب نہ ہو مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(انعام:۱۱۶) یہاں کلمہ کی صفت عدل فرمائی ہے.’’اَلَا اَصْدَقُ کَلَمِۃٍ قَالَھَا لَبِیْدٌ ‘‘.’’ اَ لَا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اﷲَ بَاطِلٗ ‘

Page 212

: زمین کی تدبیر کے واسطے جو معاملات اوپر پیس ہوتے ہیں.ان کا ذکر ہے.فرشتوں کے چڑھنے اترنے کا ذکر توریت کتاب پیدائش میں بھی ہے.باب ۲۸ میں لکھا ہے ’’ سو یعقوب بیرسبع سے نکل کے حاران کی طرف گیا.اور ایک جگہ میں اترا اور رات بھر وہاں رہا.کیونکہ سورج ڈوب گیا تھا.اور اس نے اس جگہ کے پتھروں میں سے اٹھا کر اپنا تکیہ کیا اور وہاں لیٹ کے سو گیا اور اس نے خواب دیکھا اور کیا دیکھتا ہے.کہ ایک سیڑھی زمین پر دھری ہے.اور اس کا سرا آسمان کو پہنچا ہے.اور دیکھو.خدا کے فرشتے اس پر چڑھتے اترتے ہیں‘‘ آسمانی کتب اور پیشگوئیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے تغیرات کے مختلف دورے ہوتے ہیں.ایک دَورہ پچیس سالہ ہوتا ہے.ایک پچاس سالہ.ایک صد سالہ ( جو مجدّد کا دَورہ ہے) ایسا ہی ہزار سالہ اور پچاس ہزار سالہ دَورے بھی ہوتے ہیں.تاریخ اسلام میں ان تغیرات زمانہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے.ایک دَور تیس سال کا تھا.جبکہ خلافت راشدہ ختم ہوئی.پھر ایک ساٹھ سالہ انقلاب تھا جبکہ امیر معاویہ کا انتقال ۶۰ ؁ھ اعلیٰ صاحبہٖ التحیۃ والسلام ) میں ہوا اور اس کے بعد کوئی صحابی بادشاہ نہ ہوا.ایسا ہی ایک دَور سو سال کے قریب قریب کا ہے.جس میں روایت بلاواسطے ختم ہو گئی اور ایک دَور پانچ سو سال کا ہے.جب کہ سلطنتِ عرب کا خاتمہ ہو گیا اور اسی طرح ایک دَور ہزار سال کا ہے.جس کے بعد اہلِ یورپ کو کمپنیاں بنانے اور تجارت وغیرہ کے لئے باہر نکلنے کا خیال شروع ہو.اور یا جوج ماجوج کے غلبہ کی ابتداء ہوئی.اسی طرح ایک دَور پچاس ہزار سال کا بھی ہے.جس پر ایک انقلاب عظیم واقع ہوتا ہے.یہ کوئی تعجّب کی بات نہیں ہے کہ ایک حکم ـپر پچاس ہزار سال ہو گئے اس کی مثالیں خود دنیا میں موجود ہیں.کوئی مقدمہ ہو تو محکمہ پولیس میں اس کی کاروائی فورًا ہو جاتی ہے.مجسٹریٹ ضلع مہینوں کی تاریخ دیتا ہے اور چیف کورٹ میں سالوں کی تاریک ملتی ہے.پریوی کونسل میں اس سے زیادہ.ایسا ہی قدرت میں اس کا نظارہ موجود ہے.بعض اناج تین ماہ میں پکتے ہیں.بعض چھ ماہ میں.آم سال کے بعد.کھجور کئی سال کے بعد.بعض سینکڑوں یا ہزاروں سالوں کے بعد پکتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۹،۱۰..

Page 213

سَمَاء: بادل.یوم بدر کی طرف اشارہ ہے.جِبَال: کانگڑہ کے پہاڑی باغوں کو دیکھ لو کہ زلزلے میں ان کا کیا حال ہوا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۲. .مُجْرِمُ: خدا سے بے تعلق رہنے والا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۸ تا ۲۲... ...اس جگہ اصل اہلِ نار کی سات صفات بیان کی ہیں.۱.: حق کو پیٹھ دی.۲.: حق سے منہ پھیر لیا.۳.: مال جمع کیا.۴.: پھر اس مال کو چھپا رکھا.۵.: بے صبر.کچّا ۶.: تکایف میں اضطراب کرتا ہے.۷.: آرام کی حالت میں نیکی نہیں کرتا.دولت مند ہو تو اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی سے اُسے خرچ نہیں کرتا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۲۳ تا ۳۵..

Page 214

.... .. . ... .اہل جنّت کے صفات بیان فرمائے ہیں.۱.مُصَلِّیْنَ: خدائے تعالیٰ کی عبادت کرنے والا.ؔ ۲.: نماز کے پابند.یہ نہیں کہ کبھی پڑھی.کبھی نہ پڑھی.بلکہ ہمیشہ پڑھتے ہیں.۳.: اﷲ تعالیٰ کے راہ میں باقاعدہ چندہ مقرر کرتے ہیں.۴.السَّائِلِ وَ الْمَحْرُوْمِ: مانگنے والے کو بھی دیتے ہیں اور نہ مانگنے والے کو بھی دیتے ہیں.محروم سے مراد بے زبان جانور بھی ہیں.۵.یَوْمِ الدِّیْنکی تصدیق کرتے ہیں.۶.مُشْفِقُوْنَ: اﷲ تعالیٰ کا خوف ان کے دلوں میں سے.۷.: اپنی شرم گاہوں کی محافظت کرتے ہیں.۸.امانت میں خیانت نہیں کرتے.۹.عہد کی رعایت رکھتے ہیں.

Page 215

۱۰.شہادت پر قائم رہتے ہیں.۱۱.صَلوٰۃ: اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں.ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ: جو اس کے سوائے اَور چاہے.وہ اس کے لئے جائز نہیں.اس آیت کی رُو سے متعہ.لواطت.جلق.مساحقت ( چپٹی) سب کے سب حرام ثابت ہو گئے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۳۷ تا ۳۹.. ..نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو سمجھانے کے واسطے عرب کے بڑے بڑے لوگ آتے تھی.ان کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے.وہ لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اپنی قومیت اور وجاہت کی طرف توجہ دلاتے تھے.وہ لوگ اس قدر متکبّر تھے کہ عرفات میں عوام عرب کے ساتھ کھڑے بھی نہ ہوتے تھے.بعض لوگ آزادی کو پیش کر کے اپنے آپ کو مذہب سے بے تعلق رکھنا چاہتے اور طرح طرح سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بزعم خود سمجھاتے تھے.اﷲ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا ہے کہ ہم تو مشرق و مغرب کے مالک ہیں.جس طرح یہ لوگ مکّہ میں بڑے بنے ہوئے تھے.اُن جیسے ہم اور بڑے بڑے آدمی بنانے پر قادر ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کہاں اہلِ عرب کے گمان میں تھا کہ ابوبکرؓ بڑا آدمی بن جائے گا اور حصرت عمر رضی اﷲ عنہ اتنے بڑے بادشاہ ہو جائیں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء)

Page 216

 ۲. .:حضرت نوح علیہ السلام کا ملک دجلہ.نینوا اور فرات کے درمیان تھا.عبرانی زبان میں نوح ( ) آرام اور امن کو کہتے ہیں.حضرت نوحؑ کا زمانہ بڑے آرام کا تھا مگر لوگوں نے اس آرام کی قدر نہ کی.اور اس کے حکموں کی نافرمانی کی اور شرارتوں پر کمر باندھی.تب ان پر سخت عذاب آیا.موجود زمانہ بھی حضرت نوحؑ کے زمانہ کی طرح پُر امن زمانہ ہے.لوگ عیش و عشرت میں مصروف ہیں.اس زمانہ میں بھی خداوند تعالیٰ نے ایک نوحؑ بھیجا ہے.اور اس نے ایک کشتی تیار کی ہے مبارک ہیں وہ جو اس میں سوارہوئے.حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہماری موعظت کے واسطے کیا ہے.دنیا میں انسان چاہتا ہے کہ اس کی لمبی عمر ہو.اس واسطے طبّ کا علم ایجاد ہوا اور اسی حفاظت کے واسطے مکان.لباس.خوراک.مضبوط قلعہ.فوجی سامان وغیرہ سب مہیّا کئے جاتے ہیں.بوڑھے بھی چاہتے ہیں کہ اَور مدّت زندہ رہیں.پھر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو.پھر چاہتا ہے.کہ اسے مال ملے.پھر چاہتا ہے کہ اس کے دشمن ہلاک ہوں تاکہ وہ امن سے زندگی بسر کرے.یہ سب انسان کا فطری تقاضا ہے.اور ان کو پورا کرنے کا نسخہ بتلانے کے واسطے اﷲتعالیٰ کے عظیم الشّان رسول دنیا میں آئے.حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم.حضرت موسٰی علیہ السلام.حضرت ابراہیم علیہ البرکات.ایسے ہی شاندار نبی حضرت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں تھے اور انہوں نے کامیابی کا جو نسخہ اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اس کا ذکر اس سورۂ شریف میں ہے.

Page 217

عذاب کے بھیجنے سے قبل اﷲ تعالیٰ نے اپنا رسول دنیا میں بھیجا.تاکہ وہ اس کی بات مان کر عذاب سے بچ جاویں.اِنََّا: ہم نے ہی.حضرت نوحؑ کی رسالت کی صداقت کو لفظ اِنََّا کی تاکید کے ساتھ ظاہر کیا ہے اس میں اشارہ ہے کہ جیسا کہ نوحؑ کے مخالفین بچ نہ سکے.ایسا ہی نبی کریم رسول خاتم النبیین سیّدنا محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالفین بھی نہ بچیں گے.علیہما الصلوٰث والسّلام.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۴..: خدائے تعالیٰ کی عبادت کرو.: اس سے ڈرو.: میری پیروی کرو. کا لفظ ان خیالات کے لوگوں کا ردّ کرتا ہے جن کے نزدیک رسولؐ کی اطاعت ضروری نہیں.اس آیت میں حضرت نوحؑ نے بتلایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور تمہارے تقوٰی اﷲ کی حقیقت تب متحقق ہو گی.جب تم میری اطاعت کرو.یہ اطاعتِ رسولؐ کے لئے ایک زبردست دلیل ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۵. .ان تین باتوں ۱.عبادت الہٰی ۲.تقوٰی اﷲ ۳.اطاعتِ رسولؐ کے کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا.۱.تمہارے گناہ بخشے جائیں گے.بد عملی کی سزا سے نجات پا, گے.۲.تمہاری عمر لمبی ہو گی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجل جب آ جاتی ہے تو نہیں ٹلتی لیکن آ چکنے سے قبل دعا و صدقہ وغیرہ سے ٹل جاتی ہے.حضرت نوحؑ کی لمبی عمر ان کے دعوے کے واسطے کافی دلیل ہے.

Page 218

حضرت نوح علیہ السلام بڑی خیر خواہی اور دردمندی کے ساتھ اپنی قوم کو سمجھاتے تھے.کہ تم ایمان و اطاعت کے قبول کرنے میں سُستی نہ کرو.ورنہ پھر یہ موقعہ ہاتھ نہ لگے گا ؎ روزے کہ اجل در آید از پیش و پشت شک نیست کہ مہلت نہ دہدیک نَفَسَت یاری نہ رسد درآں دم ازہیچ کست برباد شود جملہ ہواؤ ہَوَسَت ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۶..: انبیاء رات دن اپنی اُمّت کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں.کیسا ہمدرد اور خیر خواہ انسانی گروہ ہے.(اَللّٰھُمَّ صل علی جمیع الانبیاء و الرسل و بارک و سلم انک حمید مجید) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۸. .نبیؐ کی بات لوگ سُننا بھی پسند نہ کرتے.جیسا کہ اس زمانہ کے علماء پبلک کو تاکید کرتے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی کتاب نہ پڑھو.اُس کے گاؤں میں نہ جاؤ.اُس کے مریدوں سے ملاقات نہ کرو.یہ بھی ایک تکبّر ہے.: اپنے دلوں کو انہوں نے دٍانک رکھا ہے.ثیاب کے معنے دل کے بھی آتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۰..( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) ۱۱ تا ۱۳.. . .

Page 219

: استغفار کے برکات اور نتائج: ان آیات میں حضرت نوحؑ نے انسانی ضروریات کی جہت سے بیان فرمائے ہیں.عور کر کے دیکھ لو.کیا انسان کو انہیں چیزوں کی ضرورت دنیا میں نہیں ہے.پھر ان کے حصول کا علاج استغفار ہے.( بدر ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵ ، نیز الحکم ۲۶؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ ۳) سَمَآئکے معنے بادل کے ہیں.بارانِ رحمت ہو گی.غلّہ اور ہر شئے ارزاں ہو گی.سَمَآء کے معنے بارش کے بھی آئے ہیں.ایک شاعر کہتا ہے.اذا نزل السماء بارض قومٍ رعیناہُ و ان کانوا غضابًا : بڑھائے گا.مال اور بیٹے بہت ہوں گے.ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں.کہ اگر تم استغفار کرو.تو سب برکتیں حاصل ہوں گی.گناہ بخشے جائیں گے.بارش ہو گی.ہر شے ارزاں ملے گی.مال و دولت بہت ہو گی.اولاد کی کثرت ہو گی.باغ ہوں گے.نہریں جاری ہوں گی.ان آیات سے استغفار کی فضیلت ظاہر ہے.استغفارکیا ہے؟ سچے دل سے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پچھلے گناہوں کی سزا سے بچنے کی توفیق طلب کرنا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ دسمبر ۱۹۱۱ء) روایت ہے کہ ایک دن حسن بصری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص گیا اور قحط کی شکایت کی.آپ نے اسے فرمایا کہ استغفار کرو.پھر ایک اور شخص گیا.اُس نے کہا.یا حضرت.مَیں محتاج ہوں فرمایا استغفار کرو.ایک تیسرے نے کہا کہ میرے اولاد نہیں ہوتی.اُسے بھی استغفار کرنے کا حکم دیا.چوتھے نے پیداوارِ زمین کی کمی کا گلہ کیا.اُسے بھی استغفار کی تاکید فرمائی.ہاضرِ مجلس ربیع بن صحیح نے عرض کی کہ آپ کے پاس مختلف لوگ آئے اور مختلف چیزوں کے سائل ہوئے مگر آپ نے جواب سب کو ایک ہی دیا.اس کے جواب میں حسن بصری نے قرآن شریف کی یہی آیات پڑھیں.جماعت احمدیہ کو بھی استغفار کی تاکید ہر روز بار بار کی جاتی ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء)

Page 220

۱۴،۱۵...: تَخَافُوْن ع اذالسعۃ النحل لم یرج لسعھا (ھذلی) خدا تعالیٰ کی بڑائی سے کیوں نہیں ڈرتے.: انسان کو پیدائش کے واقت مختلف صورتوں میں سے گزارا ہے.نطفہ.علقہ.مضفہ وغیرہ.کیا یہ تفرقہ اور امتیاز کسی علیم و قدیر ہستی کا کام نہیں.یہی خدا تعالیٰ کی ہستی کی ایک دلیل ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۱۶..اس آیت میں آسمان کے سات طبقوں کا ذکر کیا ہے.جس طرح ایک گا,ں سے دوسرے گا,ں تک پہنچنے کے لئے رستے کی ضرورت ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے ہی راستوں کی ضرورت ہے جو بنے ہوئے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۱۷..جس طرح کہ انسان چراغ اور روشنی کا محتاج ہے.اور چاند اور سورج کا محتاج ہے.اسی طرح روحانی ہدایت کے واسطے وحی الہٰی.انبیاء اور کتب الہٰیّہ کا محتاج ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۱۸..

Page 221

: اﷲ تعالیٰ نے نبات کو پیدا کیا ہے.زمین کی روئیدگی انسان کے نشوونما کا موجب ہے اور یہی اغذیہ بالآخر نطفہ کی صورت میں متشکل ہو کر انسان بنتا ہے.اسی طرح انعاماتِ الہٰیّہ بتلا کر حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کو اﷲ تعالیٰ کی طرف متوجّہ کیا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۲۰،۲۱.. .: آرام گاہ.پھیلا ہوا.: ایسا ہی دل کے واسطے بھی راستے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۲۲،۲۳. ..اپنے خیر خواہوں پر جب ہم نظر کرتے ہیں تو سب سے اوّل یہ خیر خواہی ماں یا دودھ پلائی سے سروع ہوتی ہے.دودھ پلانے والی کو بھی فبچہ ماں کہہ کر پکارتا ہے.اسی وجہ سے بچے تکالیف کے وقت ماں کہہ کر پکارتے ہیں.پھر بڑے ہو کر باپ کو خیر خواہ سمجھتے ہیں.پھر جوانی میں دوست پیدا ہو جاتے ہیں اور خیر خواہ ہوتے ہیں.یہ انسان کے خیر خواہ ہوتے ہیں.اور ان کے سوا اور بھی خیر خواہ ہیں.لیکن یہ سب خیر خواہ غلطی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.ان سب سے اعلیٰ مخلوق کا خیر خواہ انبیاء کا گروہ ہے ( علیہم الصلوٰۃ والسلام) جو کبھی غلطی نہیں کرتے.اور ان کو مخلوق کے ساتھ بہت محبت ہوتی ہے.تعجّب ہے کہ لوگ انبیاء کی باتوں کو نہیں مانتے.ان آیات میں حصرت نوح علیہ السلام دردِ دل کے ساتھ اپنے رب کے حصور میں شکوہ کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا پر وہ میری بات نہیں مانتی.اس زمانہ میں لوگ بہ سبب امن عامہ کے عیش و عشرت کی غفلت میں گرے ہوئے تھے.زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے دل کے تصوّر اور خیال روز بروز صرف بدی ہوتے تھے.تب

Page 222

خدا نے چاہا.کہ انسان کو اس زمین میں سے مٹا ڈالے.پر خدا نے ایک دفعہ پھر ان پر رحم کیا.اور اپنے بندے نوحؑ کو جو صادق اور کامل تھا اور خدا کی راہ پر چلتا تھا.اور اس واسطے اس پر خدا کی مہربانی کی نظر تھی.ان لوگوں کی طرف بھیجا کہ انہیں آنیوالے عذاب سے ڈرائے.حصرت نوحؑ نے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی.مگر قوم نے نہ مانا.اور موردِ عذابِ الہٰی ہوئی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۲۴. .یہ ان کے بُتوں کے نام ہیں.۱.: محبّت اور خواہش کا دیوتا.جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے ارادے سے ایجادِ عالم کا باعث ہوا.اس کو مرد کی صورت پر بنایا جاتا ہے.ہندوؤں میں اس کے بالمقابل برہماؔ ہے.۲.سُوَاعَ: بقائے عالم کا بُت جو عورت کی شکل میں ہوتا ہے.اس کے مقابل ہندو میتھالوجی میں بِشن ہے.۳.: حاجت روائی اور فریادرسی کا دیوتا.اس کی شکل گھوڑے کی تھی.شاید اس واسطے کہ فریادرسی کے لئے تیز رفتاری کی ضرورت ہوتی ہے.اس طرح ہندوؤں میں اِندر دیوتا ہے.ٔ ۴.: ( عوق سے مشتق ہے.بمعنے روکنا اور دفع کرنا) یہ مصیبتوں اور دشمنوں کے روکنے کا بُت تھا.بشکل شیر.ہندوؤں میں اس کے بالمقابل شنگھ اوتار دیوتا ہے.۵.: طولِ عمر کا دیوتا بشکل باز بنا ہوا ہوتا ہے.یہی بت اس قوم کی ہلاکت کا موجب ہوئے.۲۷..حضرت نوحؑ نے آخر تنگ آ کر اپنی قوم کے حق میںبددُعا کی.انبیاء کی بددُعا سے ڈرنا چاہیئے

Page 223

یہ بہت خوفناک بات ہے.( حضرت نوحؑ نے اپنی قوم کے حق میں بددُعا کی.مگر) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود سخت تکالیف اٹھانے کے کبھی اپنی قوم کے حق میں بد دعا نہیں کی.بلکہ یہی دعا کرتے رہے.کہ رَبِّ اھْدِ قَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْن--- ( اے میرے ربّ میری قوم کو ہدایت کر کیونکہ وہ نہیں جانتے.حصرت نوحؑ کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا صبر.حوصلہ.رحم اور ہمدردی بہت بڑھی ہوئی ہے.اور اسی کا نتیجہ ہے.کہ آخر ساری قومِ عرب ہدایت یافتہ ہو گئی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) بہت سے وجوہات ہیں جو ہم پر حمدِ الہٰی کو فرص ٹھیراتے ہیں.منجملہ جنابِ الہٰی کی حمدوں کے یہ ہے کہ انسان کا حوصلہ ایسا وسیع نہیں کہ وہ ساری دنیا سے تعلق رکھے اور محبت کر سکے.نبیوں اور رسولوں کو بھی جب تباہ کا سیہ روزگار شریروں نے دُکھ دیا تو آخر اُن میں سے ایک بول اُٹھا.رَبِّ لَ تَذَرْ عَلَی الْاَزِضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا فی الحقیقت اُن پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شریر نفوس کی حیاتی بھی پسند نہیں کرتے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے.کہ انسان کا اتنا حوصلہ کہاں ہو سکتا ہے کہ سارے جہان سے اس کا مخلصانہ تعلق ہو.پس اس سلسلہ کو وسیع کرنے کے باوجود محدود کرنے کے لئے نکاح کا ایک طریق ہے جس سے ایک خاندان اور قوم میں ان تعلقات کی بناء پر رشتۂ اخلاص اور محبت پیدا ہوتا ہے.(الحکم ۲۶؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۲، بدر ۵ ؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴) ۲۸. .اگر تُو چھوڑے تو یقینا بہکادیں گے تیرے بندوں کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۹)

Page 224

سُوْرَۃَ الْجِنِّ مَکِّیَّۃٌ  ۲. .: جنّ اﷲ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے.جیسے ملائک وغیرہ اور اس کی مخلوق ہے.جیسے ملائک وغیرہ اور اس کی مخلوق ہیں.میں ہرگز ہرگز اس بات کا قائل نہیں.کہ جنّ اور ملائکہ کوئی چیز نہیں ہیں.مَیں دونوں کا قائل ہوں.لیکن ہر جگہ جنّ کے لفظ کے وہی ایک معنی نہیں.اور جو خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عورتوں بچوں کو جنّ چمٹ جاتے ہیں.مَیں اس کا قائل نہیں ہوں.لُغت کی رُو سے جنّ ان باریک اور چھوٹے چھوٹے موذی حیوانات کو بھی کہتے ہیں جو غیر مرئی ہجیں اور صرف خوردبینوں سے دکھائی دے سکتے ہیں.طاعون کے باریک باریک کیڑے بھی جنّ کے نام سے موسوم ہیں.اسی طئے حدیث شریف میں طاعون کو وَخْزُ اَعْدِائِکُمْ مِنَ الْجِن فرمایا.اَحْمَدُ عَنْ اَبِی مُوْسٰی اَشْعَرِیْ.طَبْرانِی فِی الْاَوْسَطِ عَنْ اِْنِ عُمَرَؓ کے معنے نیش زنی اور طعن کے ہیں.جنّ لُغت میں بڑے آدمیوں کو بھی کہتے ہیں.جِنُّ النَّاسِ مُعَظّمُھُمْ شاید بڑے پیسے والے ساہوکاروں کو بھی مہاجن اسی واسطے کہا گیا ہے.کبوتر کے پیچھے دوڑنے والے انسان کو بھی جنّ کہا ہے.سورہ احقاف رکوع ۴ میں ایک قوم کا ذکر ہے.(احقاف:۳۰) اس قوم نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے قرآن شریف سُن کر (احقاف:۳۱) کہا.جنّ کے مدّ مقابل انسان ہیں.انس غریہ لوگ.جنّ بڑے لوگ.سورۃ الحجر میں انسان اور ’’ جانّ‘‘ دونوں کی پیدائش کا ذکر ایک ساتھ ایک ہی آیت میں یکے بعد دیگرے آیا ہے..

Page 225

 (الحجر: ۲۷.۲۸) آدم سے پہلے جانّ اور اس کی ذریّت تھی.اس سے کسی طرح انکار نہیں ہو سکتا.اور اب بھی جنّات غیر مرائی طور پر موجود ہیں.( کارخانۂ قدرت کا انتظام اور انحصار محسوسات اور مرئیات تک ہی محدود نہیں ہے.اس لئے غیر محسوس اور غیر مشہود و غیر مرئی عالم کا انکار محض حماقت اور نادانی ہے.اس لئے کہ جُوں جُوں سائند ترقی کرتی جاتی ہیے.بہت سی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جو اس سے پہلے ماننی مشکل تھیں.دُوربین اور خوردبین کی ایجاد نے بتا دیا ہے کہ اس کرّہ ہوا میں کسی قدر جانور پھر رہے ہیں.ایسے ہی پانی کے ایک قطرے میں لا انتہاء جانور پائے جاتے ہیں.حیواناتِ منوّیہ.ایک قطرہ مَنی میں دیکھے جاتے ہیں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے.کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور انواع ِمخلوق کی حدبندی محض ناممکن ہے.اور صرف اپنے محدود علم کی بناء پر انکار محض نادانی ہے.اس طئے اوّلاً جنّات کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم کسی ایسی مخلوق کا جو انسانی نوع سے نرالی ہو.انکار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.اور ہم یہ کہنے کی وجوہات رکھتے ہیں.کہ جنّ خدا تعالیٰ کی ایسی قسم کی مخلوق ہے جن کو انسان کی ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں.اس لئے کہ ان کی مادی ترکیب نہایت ہی لطیف اور ان کی بناوٹ غایت درجہ کی شفاف ہوتی ہے.جس کی وجہ سے انسان ان ظاہری آنکھوں سے انہیں نہیں دیکھ سکتے.ان کے دیکھنے کے لئے ایک دوسری حِس یعنی روحانی آنکھ کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علہیم السلام اور اولیاء اﷲ اور مومنین صادقین ملائکہ وغیرہ غیر مرئی مخلوقکو بھی دیکھ لیتے ہیں.نہ صرف دیکھ لیتے ہیں.بلکہ ان سے باتیں بھی کر لیتے ہیں.خلاصہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ کی کسی ایسی مخلوق کو جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے انکار کرنا دانشمندی نہیں.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کی ایسی مخلوق دنیا میں موجود ہے جو انسانی نظروں سے پوشیدہ ہے.اور اسی وجہ سے اسے جنّ کہتے ہیں.کیونکہ عربی میں جنّ اسے کہتے ہیں.جس میں اخفاء اور نہاں ہونا پایا جاتا ہے.جنّت.انسانی نظر سے پوشیدہ ہے.جُنَّۃٌ ( ڈھال) جو انسان کو چھپا کر تلوار کے حملہ سے محفوظ رکھتی ہے.جنین.وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہے.پوشیدہ ہے جو عام انسانی نظر سے پوشیدہ ہو.خواہ وہ کسی قسم کی مخٖوق ہو.غرض جنّ ایک مخلوق ہے.ایک اَور بات بھی یہاں بیان کر دینے کے قابل ہے.کہ احادیث میں جنّ کا لفظ سانپ.کالے کتّے.مکھی.بھوری چیونٹی.وبائی جرمز.بجلی.کبوتر.باز زقوم.بائیں ہاتھ سے کھانیوالا.گدھا.بال پراگندہ رکھنے والا.غراب.ناک یا کان کٹا.شریر.سردار وغیرہ پر بھی بولا گیا ہے.ان توجیہات پر

Page 226

غور کرنے اس ان مفاسد اور مضارّ کی حقیقت بھی معلوم ہو جاتی ہے.جو جنّوں سے منسوب کی جاتی ہے.اب اس بیان کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں یہاں جو ذکر کیا گیا ہے.اس سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک تاریخی واقہ ہے.نصیبین ایک بڑا آباد شہر تھا.اور وہاں کے یہود جنّ کہلاتے تھے اور سوق عکّاظ (ایک تجارتی منڈی کا نام ہے ) میں آیا کرتے تھے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم مکّہ سے نا امید ہو کر طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے شریروں نے آپ کو دُکھ دیا.آپؐ عکّاظ کو آ رہے تھے.راستہ میں بمقامِ نخلہ یہ لوگ آپؐ سے ملے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم صبح کی نماز پڑھ رہے تھے.قرآن مجید کو سُن کر وہ رقیق القلب ہو گئے.سب کے سب ایمان لے آئے اور جا کر اپنی قوم کو بھی ہدایت کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۳،۴.. .اب جِنّات نے اِس قرآن کو قبول کرنے اور ایمان لانے کے دلائل بیان کئے.جن میں سے پہلی دلیل یہی ہے کہ وہ توحید کا مذہب ہے.: یہ دوسری دلیل ہے.اور عیسائیوں کے اس صاحبہ اور ولد والے ناپاک عقیدہ کی نفی کرتے ہوئے قرآن شریف سے ماقبل تورات ہی کا ذکر کیا.انجیل کا ذکر نہیں کیا.فرمایا.ولد تو صاحبہ کا نتیجہ ہے.جب صاحبہ نہیں تو ولد کہاں سے آیا.چوتھی صدی تک یہود عُزیرؑ کو ابن اﷲ کہتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ جنوری ۱۹۱۲ء) ۵..سَفَاھَۃ: موٹی سمجھ.سفیہؔ موٹی عقل والا.ں سفاھتؔ کے معنے اضطراب.ضعیف الرائے ہونا.: دروغ گوئی.بڑھ بڑھ کر باتیں کرنا.زیادتی کرنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء)

Page 227

۶..وہ کہتے ہیں.ہمارا تو خیال تھا.کہ کوئی امیر یا غریب ایسا نہیں ہو سکتا.کہ خدا پر جھوٹ بولے مگر افسوس ہے کہ قرآن اور اس کے رسولؐ کے متعلق جو خبریں لوگوں نے مشہور کر رکھی ہیں.وہ جھوٹی نکلیں اب خود قرآن کے سننے سے معلوم ہوا کہ وہ سچی کتاب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۷. .عوام.خواص کے رعب میں آئے ہوئے ہوتے ہیں.اس واسطے خواص کا تکبّر اور سرکشی بڑھ جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۹..: مسّ اور التماس ایک ہی مادہ سے ہیں.التماس کے معنے طلب کرنا ڈھونڈنا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ منجّم تھے.آسمانی حالات کو دریافت کیا کرتے تھے.حدیث شریف میں بھی ذکر ہے.کہ انہوں نے کہا کہ دیکھو آسمان سے تو کوئی نئی بات ظہور میں نہیں آئی.مَسْنَا: طلباء نے آسمانی باتوں کے پتہ لگانے کی کوشس کی مگر صرف روشن ستارے ہی نظر آئے.حَرَس: حفاظت (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۰. .

Page 228

: رصدگاہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کے زمانہ میں ستارے بہت گرے تھے.رَصَدًا: تاک لگائے ہوئے انتظار میں لگے ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۱. .یعنی ستاروں کے گرنے کو دیکھ کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آیا زمین والوں کے لئے تباہی کا ارادہ کیا گیا یا ان کے ربّ نے انہیں کوئی فائدہ پہنچانا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۲۰۱) : اَرَادَ بِمَنْ فِی الْاَرْضِ نہیں کہا..کہا. میں ادب کو ملحوظ رکھا اور شر کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا.حدیث میں بھی اَلْخَیْرُ کُلُّہٗ بَیَدَیْکَ وَ الشَّرُّ لَیْسَ اِلَیْکَ.آیا ہے.رَشَدًا: میں رُشد کا ارادہ کرنے والا ربّ کو بتایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۴ تا ۱۶. . .

Page 229

بَخْسٌ: کمی رَھَق: زیادتی تَحَرَّوْا: ڈھونڈا حَطَب: ایندھن اَ: قَاسِطٌ کی جمع ہے.قَاسِطکے معنے ظالم.قَسَطَ اَیْ جَازَ وَ اَقْسَطَ اَیْ عَدَل یعنی لفظ قسط کو اگر ثلاتی مجرّد میں استعمال کریں.تو اس کے معنے جو رو ظلم کے ہو جاتے ہیں اور اگر باب افعال میں لے جاویں تو عدل و انصاف کے معنے ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۷..: عَیْشًا رَغَدًا.دنیا میں وسعت دینا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۸. .: تاکہ ہم ان کو کندن کریں : صعود کا عذاب یعنی چڑھائی کا عذاب.ایسا عذاب جس سے سارے بدن کو تکلیف ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۹ تا ۲۴..

Page 230

. ... .اور یہ کہ سجدے کے ہاتھ پا,ں حق اﷲ کا ہے.سو مت پکار اﷲ کے ساتھ کسی کو اور یہ کہ جب کھڑا ہوا اﷲ کا بندہ اس کو پکارتا.لوگ کرنے لگتے ہیں اس پر ٹھٹھا.تو کہہ مَیں تو یہی پکارتا ہوں اپنے ربّ کو اَور شریک نہیں کرتا اُس کا کسی کو.تو کہہ میرے ہاتھ میں نہیں تمہارا بُرا اور نہ راہ پر لانا تو کہہ مجھ کو نہ بچاوے گا اﷲ کے ہاتھ سے کوئی اور نہ پا,ں گا اُس کے سوا کہیں سرک رہنے کی جگہ.( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۹) مستحقِ عبادت اسلام کے نزدیک صرف وہ ہے.جو خود، کل کے نفع و ضرر کا مالک و مختار ہو اور اس کا نفع و صرر کسی سے ممکن نہ ہو.وہی جس کا کمال جلال و جمال ذاتی ہو.اور تمام اس کے سوا اپنے وجود و بقا میں اسی کے محتاج.سب کے کمالات جمال و جلال اسی کے عطا ہوں.اور ایسی چیز اﷲ تعالیٰ کے ماسوا اہلِ اسلام کے نزدیک کوئی بھی نہیں.سب سے افضل.اکمل.حضرت سیّد ولدِ آدم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجودِ باجود ہے.ان کی پاک جناب کو بھی اسلامی اﷲ کا بندہ.اﷲ کا رسول ہی اعتقاد کرتے ہیں.اسلام کا اعتقاد ہے کہ ایک ذرّہ کے بنانے کا بھی اختیار انہیں نہیں.ایک رتّی برابر کسی کے نقصان دینے کی قدرت نہیں آپؐ خالقِ کائنات نہیں.قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے……… اور مسجدیں اﷲ کے لئے ہیں.پس اﷲ کے ساتھ کسی کو مت پکارو.اور جب اﷲ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے اٹٍا.تو اس پر ٹوٹ بڑنے لگے.کہ مَیں اپنے ربّ کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا.کہہ مَیں تماہرے ضرر اور نفع کا اختیار نہیں رکھتا.کہہ کوئی مجھے کائی عذاب سے پناہ

Page 231

نہیں دے سکتا.اور میرے لئے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ ہے.میرا کام تو صرف خدا کا پیغام پہنچا دینا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۱۰۶)  اور جب اﷲ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے اٹھا.قریب تھا کہ اس پر ٹوٹ پڑتے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۱۰۲) : عبداﷲ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو فرمایا.منازلِ فلکی پر عروج کے وقت آپؐ اسی نام سے پکارے گئے.(بنی اسرائیل:۲) نزولِ قرآنِ پاک کی شان کے وقت بھی آپؐ اسی نام سے پکارے گئے.(الفرقان:۲) : کی ضمیر جنّؔ اور انس ؔ.کفّار اور مومن سب کی طرف راجع ہو سکتی ہے.لِبوَدٌ لَبْدَۃٌ کی جمع ہے.اور لَبَدَہ کے معنے بعض کو بعض پر لپیٹنا.لُبَد بضمَ اللّام و فتح البائِبھی قرأت ہے.معنے یہ ہوئے.کہ کفّار مشرکین قرآن سنانے کے وقت مخالفت پر آمادہ ہو کر نبی پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور مومن مسلمین بھی اطاعت.انقیاد اور حفظ کلام کی نیّت سے مسابقت کرتے ہیں.جنّوں کی طرف بھی اسی اعتبار سے کَادُوْا کا مرجع ہو سکتا ہے.: حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم جب عبادت میں مشغول ہوتے.تو بہت سے لوگ آپؐ کے پاس جمع ہو جاتے.انبیاء کا طریق کہ ہر ایک معاملہ میں نصیحت کا موقعہ نکال لیتے ہیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان لوگوں کو اس موقعہ پر بھی سمجھنا شروع کیا.کہ تنا بڑا علم جو خدا نے مجھے دیااس واسطے ہے کہ مَیں موحّد ہوں.سرک نہیں کرتا اور نمازوں میں دعائیں کرتا ہوں اور ان دعاؤں میں اﷲ تعالیٰ کو معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتا ہوں.مگر تم ساتھ ہی شرک بھی کرتے ہو.: فرمایا.مَیں اتنا بڑا دعوٰی کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کا مجھے مکالمہ حاصل ہوتا ہے.لیکن باوجود اس کے مَیں تمہارے نفع اور ضرر اور راہ نمائی کا مالک نہیں ہوں یہ آیت آنحضرتؐ کی سچائی کی بڑی گواہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۲۵. .

Page 232

: آج تو یہ لوگ دعوٰی کرتے ہیں کہ جتنے ہیں.بڑے ہوئے ہیں لیکن چند روز کے بعد ان کو پتہ لگ جاوے گا کہ کون کامیاب ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۲۷،۲۸.. .غیب کی خبروں پر اطہار علی الغیبکے طریق سے یعنی متحدیانہ طور پر سوائے رسولؐ کے دوسرا کوئی قادر نہیں ہو سکتا.اگرچہ پیش گوئیوں کے مفصّل اجزاء نظری اور تعبیر طلب بھی ہوتے ہیں.مگر نفس پیشگوئی جو ایک غیب کی بات پر مشتمل ہوتی ہے.اس پر رسول اور نبی کو ایسا وثوقِ کامل ہوتا ہے کہ اس اظہار علی الغیب کی بناء پر رسول کی طرف سے متحدیانہ دعوٰی ہوتا ہے.اور درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.؎ قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ مَیں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے غرض کہ تحدّی کرنا اور اس میں پورا اترنا یہ نبی کا خاصہ ہے.غیر نبی کو اظاہر علی الغیب میں دخل نہیں..رصد نگہبان.پہرے دار فرشتوں کی حفاظت.سورۃ الشورٰی میں وحی اور کلام الہٰی کو تین قسموں پر منقسم کیا ہے.  (الشورٰی: ۵۲) عوام النّاس وحی کا نام سُن کر گھبرا اُٹھتے ہیں.حالانکہ تینوں قسم کو وحی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے وحی کے لفظی معنے صرف اشارہ کے ہیں. میں عام خوابوں کو بیان فرمایا ہے.--- یہ بھی ایک قسم کی وحی ہے.جو اولیاء اور اہل اﷲ کی وحی ہے.جن کے اکثر مکاشفات وغیرہ تعبیر طلب ہوتے ہیں.جب تک تعبیر کا وقت نہ آوے.ان پر حجاب ہوتا ہے.تیسری قسم وحی

Page 233

--- یہ وحی وحی متلوّ ہے.اس کی عبارت بھی اگلے دو قسموں کی وحی سے زیادہ ہے.اس میں احکامات اوامر نواہی ہوتے ہیں.اس وحی میں کسی قسم کے مغالطہ کا اندیشہ نہیں ہوتا.اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ اس کلام کی پوری حفاظت کرتا.ملائکہ کا پہرہ ساتھ ہوتا ہے.شیاطین کا دخل.قوّت فکریہ.وہمیّہ.خیالیہ.عادات و طبائع اس میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کر سکتی.رَصَدًاکے لفظ میں کلام اور مہبط کلام دونوں کی حفاظت کا بیان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء)

Page 234

سُوْرَۃَ الْمُزَّمِّلِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۱۱..........ٗٗٗ مُزَمِّلُ’’ز‘‘ کی شدّ کے ساتھ اور بغیر شدّ دونوں طرح آیا ہے.تَزَمُّلْ کے معنے کپڑے میں لپیٹنے کے ہیں.زَمَّلْمُہٗ بِثَوْبِہٖ تَزْمِیْلاً فَتَزَمَّلَ مُزَمّل جب تبخفیف ’’ ز‘‘ پڑھ جاوے گا تو اس وقت معنے حمل اور بوجھ کے ہوں گے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو مُزَمِّلْ کے نام سے خطاب کرنے میں چند معافی ہیں.ایک یہ کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ جو مہربانی اور تلطّف اﷲ تبارک و تعالیٰ کو تھا اس کا اظہار مقصود تھا.جیسا کہ حصرت علیؓ کو ایک روز مسجد میں خاک پر لیٹے ہوئے دیکھ کر آپؐ نے ازراہِ مہربانی و تلطّف ان کویَا اَبَاتُرَاب فرمایا.

Page 235

دوسرے یہ کہ ساری رات کپڑا اوڑھ کر سونے اور ایسی ہی حالت میں رات گزار دینے سے متنبّہ کرنا مقصود ہے.کہ جس حالت میں کہ بارِ نبوّت کو اٹھانا آپؐ کا کام ہے تو لازم ہے کہ ساری رات خواب میں نہ گزارا جاوے بلکہ کچھ حصّہ رات کا دُعا اور نماز کے لئے بھی مخصوص کیا جاوے.غرض کہ مزمّل کے لفظ میں تلطّف اور تنبّہ دونوں ہی مرکوز ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ہماری سرکار حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم وحیٔ الہٰی کی عظمت اور جبروت کو دیکھ کر بہت گھبرائے بدن پر لرزہ تھا.گھر میں تشریف لائے اور اپنی بی بی سے کہا.دَثِّرُوْنِْ دَثِّرُوْنِیْ کہ میرے بدن پر کپڑا ڈھانک دو.انہوں نے اوڑھائے.اس حالت کا نّشہ کھینچ کر جنابِ الہٰی فرماتے ہیں کہ تمہارا کام سونے کا نہیں.اٹھو اور نافرمان لوگوں کو ڈراؤ.اور اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور جبروت کا ذکر ہو.اور قبل اس کے کہ دوسروں کو سمجھاؤ.اپنے آپ کو بھی پاک و صاف بناؤ.اس سورۃ میں یوں فرمایا.کہ رات کو اٹھو.مگر کچھ حصہ رات میں آرام بھی کرو.رات کو قرآن شریف بڑے آرام سے پڑھو.میری فطرت گواہی دیتی ہے.کہ جب کسی عظیم الشان انسان کو کوئی حکم ا جاتا ہے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی نہ ہو.تو چھوٹے لوگ بطریق اولیٰ اس حکم کے محکوم ہو جاتے ہیں.دنیا میں ایک وہ لوگ ہیں.جو خود کپڑا پہننا نہیں جانتے.وہ دوسروں کو لباس تقوٰی کیا پہنائیں گے.پہلے لباس تو پہننا سیکھو.جب شرمگاہوں کو دٍانک لو گے.تو تم پر رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ کا حکم جاری ہو گا.عام طور پر مسلمانوں کو یہ موقع ملا ہو اتو ہے.مگر وہ اس کو ضائع کر دیتے ہیں.مسلمان عشاء کے وقت سوتے ہی نہیں.مگر اس کو بھی ضائع ہی کر دیتے ہیں.اگر توبہ و استغفار کریں تو اچھا موقع ہے.پھر اگر عشاء کے بعد ہی سو جائیں تو چار بجے ان کو تہجّد اور توبہ کا موقع مل جائے.بڑے بڑے حکمِ الہٰی آتے ہیں.مگر مزا ان میں تبھی آتا ہے.جب ان پر عملدر آمد بھی ہو.انگریزی خوان توتین تین بجے تک بھی نہیں سوتے.پھر بھلا صبح کی نماز کے لئے کس طرح اُٹھ سکتے ہیں.اور کپڑے پہننے والو! تم اتنا کام تو ہمارے لئے کرو کہ ہماری کتاب کے لئے کوئی وقت نکالو.میرے بچے ۱؎ نے کہا کہ ہم کو لیمپ لے دو.ہم رات کو پڑھا کریں گے.مَیں نے اس کو بھی کہا کہ رات کو لیمپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں اس کے لئے دن ہی کافی ہوتا ہے.رات کو قرآن شریف پڑھا کرو.رات کو اگر تم جناب الہٰی کو یاد کیا کرو.تو تمہاری رُوح کو جنابِ الہٰی سے بڑا تعلق ہو جائے.مومن ۱ ؎ مراد میاں عبدالحی ہیں.مرتّب

Page 236

اگر ذرا بھی توجّہ کرے.تو سب مشکلات آسانی سے دور ہا جائیں.: اﷲ تعالیٰ کا نام لو.اور رات کو جہان سے منقطع ہو جاؤ.مومن کو حضرت یوسفؑ کے بیان میں پتہ لگ سکتا ہے کہ جس شخص کا کسی چیز سے محبّت و تعلق بڑھ جاتا ہے.تو وہ اپنے محبوب کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر کر ہی دیتا ہے.منیں جن جن شہروں میں رہا ہوں.اپنی مجلس میں مجھے ان کی محبقت سے کبھی کبھی ذکر کرنا پڑتا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مجلس میں دو شکص آئے اور کہا کہ ہم نے ایک خواب دیکھی ہے اس کی تعبیر بتلا دو.آپؑ نے فرمایا.کھانے کے وقت سے پہلے ہم آپ کو تعبیر بتلا دیں گے.پھر آپؑ نے کہا کہ دیکھو.ہم کو علمِ تعبیر کیوں آتا ہے.تم کو کیوں نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے.کہ مَیں نے شرک کو چھوڑا تم بھی چھوڑ دو.دیکھو دو گھروں کا ملازم ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے.کام کے وقت ہر ایک یہ کہتا ہے کہ کیا تُو ہمارا ملازم نہیں.لیکن تنخواہ دینے کے وقت کہتے ہیں.کہ کیا دوسرے کا کام نہیں کیا.اس لطیف طریقہ سے حصرت یوسف علیہ السلام نے شرک کی برائیاں بیان کیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انبیاء پر ایمان لانا اور خدائے واحد کو ماننا ضروری ہے.کے یہی معنے ہیں کہ انسان دل میں ذکرِ الہٰی سے ۱ ؎ مراد میاں عبدالحی ہیں.مرتّب غافل نہ رہے.: رات کو علیحدگی میں اپنے مالک کو یاد کرو.اگر تم کو یہ خیال پیدا ہو علیحدہ رہنے سے کیا فائدہ ہو گا؟ تو یاد رکھو کہ...پس یاد رکھو کہ جس پاک ذات نے تجھ کو علیحدگی اختیار کرنے کو کہا ہے.وہ مشرق اور مغرب کا مالک ہے.اس کو اپنا کارساز سمجھو.وہ تم کو سب کچھ دیگا.پس میرے بھائیو! غور کرو.تم نے دن میں بہت کام کیا ہے.رات ہو گئی.سونا اور مرنا برابر ہے.ایسے وقت میں سوچو کہ تم نے جنابِ الہٰی کی کس قدر یاد کی ہے.(بدر حصّہ دوم ۲۸؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۷،۸۸) نِصْفَہٗ اَوِانْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا: چونکہ راتیں بڑھتی گھٹی رہتی ہیں.اس لئے متوسط راتوں میں نصف شب سے اور چھوٹی راتوں میں نصف سے کم کر کے اور بڑی راتوں میں نصف سے زیادہ بھی قیام کرنے کے لئے ارشاد فرمایا اور چونکہ ایک حکم قطعی نہیں ہے.بلکہ دو جگہ اَوْ.اَوْ فرما کر اختیار دیا ہے.اس لئے طبیعت کے نشاط پر بھی اس قیام کو ہوالے کر دیا گیا ہے.یعنی چھوٹی راتوں

Page 237

میں بحالتِ نشاط اگر قیام زیادہ کر لے اور بڑی راتوں میں بوجہ عدم نشاط طبیعت اگر قیام کم کرے تو یوں بھی اختیار ہے.مگر چونکہ قُمْ بصیغہ امر ہے.اس لئے قیامِ لَیْل آپؐ پر فرض تھا جب کبھی بعض راتوں میں قیامِ لَیْل آپؐ سے رہ گیا ہے تو آپؐ نے اس کو بعد طلوعِ آفتاب ادا فرمایا ہے.ایک حدیث میں پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے قرآن شریف یاد کرنے والوں اور قیامب لَیْل کرنے والوں کواَشْرَافُ اُمَّتِیْ فرمایا ہے.شرف کے لغوی معنے بلندی کے ہیں..اَیْ بَیِّنْہُ تَبْیِیْنًا وَ فَصِّلْہُ تَفْصِیْلًا:کسی نے حضرت اُمِّ سلمہؓ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی قَرأت کی کیفیت دریافت کی.فرمایا کہ آپؐ ہر ایک آیت کو جُدا جُدا کر کے پڑھتے تھے.مثلاً....کے چار ٹکڑے کرتے اور ہر ایک ٹکڑے کو علیحدہ علیحدہ پڑھتے.ابو داؤد میں روایت ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.کہ کچھ لوگ پیدا ہوں گے.جو قرآن کو تیر جیسا سیدھا کریں گے.وہ بہت جلد جلد پڑھیں گے.نہ ٹھہر ٹھہر کر.دوسری روایت میں ہے کہ …… آیا ہے.ایک اور روایت میں فرمایا ہے.کہ جس نے تین دن سے کم میں قرآن شریف کو ختم کیا.وہ نہ پڑھا.نہ چُپ رہا.لَا قَرَئَ وَ لَاسَکَتَ.اب تو بعض تراویہ کے پڑھانے والے قاری ایک ہی شب میں جس کو وہ شبینہ کہتے ہیں.قرآن شریف کو ختم کر دیتے ہیں.میں قولِ ثقیل قرآن کریم کی متواتر پے در پے وحی کو فرمایا ہے حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک روز نہایت شدّت سے سردی تھی.آپؐ پر وحی نازل ہوئی اور آپؐ کی پیشانی مبارک سے وحي کی شدت کی وجہ سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے.اسی طرح اگر آپؐ کسی اونٹ پر سوار ہوتے اور وحی کا نزول سروع ہو جاتا تو اس کے پاؤں بوجہ ثقل وحی ٹیڑھے ہونے لگتے اور اگر کسی صحابیؓ کی ران پر آپؐ کا سر مبارک ہوتا یا تکیہ لگائے ہوتے اور ایسی حالت میں وحی کا انزول ہونہ لگتا.تو اس صحابی ؓ کو اپنی ران کے ٹوٹ جانے کا خوف ہوتا اور ایسی حالت میں آپؐ کا چہرہ مبارک زیادہ منوّر اور روشن ہو جاتا.: بروزن عَاقِبَۃٌمصدر نَشَأَ بمعنی قَامَ للمذکّر نَاشِیٌٔ وَ الْمُؤَنَّثُ.ناشِئَۃٌ اگرچہ عام طور پر امور حادثہ فی اللیل کو ناشئہ کہتے ہیں.مگر چونکہ یہاں ذکر قیامب لَیْل

Page 238

کا ہے.اس لئے سے مراد اوّل شب سو رہنے کے بعد قیامِ نماز کے لئے اٹھنا نشأۃہے مصدر بمعنی موافقت ہے.کقولہ تعالیٰ لِیُوَ اطئُوا عِدَّۃ مَاحَرَّمَ اﷲُ اَیْ لِیُوَافِقُوْا --- حدیث شریف میں ہے کہ اِنَّ فِی اللَّیْلِ سَاعَۃٌ لَا یُوَافِقُھَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ یَسْأَلُ اﷲُ تَعَالیٰ خَیْرًا مِنْ خَیْرِ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ اِلَّا اَعْطَاہُ اِیَّاہُ وَ ذٰلِکَ لَیْلَۃً.یعنی رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اگر مسلمان بندہ اس کے موافق پڑ جاتا ہے.تو خدائے تعالیٰ سے دینی و دنیاوی بھلائی مانگتا ہے.دیا جاتا ہے.اور وہ ساعت کسی رات کے لئے خاص نہیں ہے.بلکہ ہر رات میں ہوا کرتی ہے.ع ہر شب شبِ قدر است اگر قدر بدانی اَقْوَمُ قِیْلًا : قول بمعنے فعل زبانِ عرب میں کثرت سے آتا ہے.معنی یہ ہوئے کہ دینی و دنیوی سب کام تہجد گزار عابد انسان کے درست ہو جاتے ہیں.چونکہ اَقْوَمُ مبالغہ کا صیغہ ہے.اس لئے بڑے بڑے مشکلات اس ذریعہ سے دور ہو جاتے ہیں.بارِ نبوّت کے ثقل اٹھانے کے لئے قیام لَیْل کو اسی لئے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر فرض کیا.اُمّت کو بھی اس میں بہت بڑی تعلیم ہے.حدیث شریف میں آیا ہے اَشَدُّ البَاَاء الْاَنِِْیَآئُ، ھُمَّ الْاَمْثَلُ فَاَالْاَمْثَلُ.عموماً الہامی کتب اور احوال انبیاء و اولیاء سے ایسا ظاہر ہوتا ہے.کہ رات کے وقت کو انتشارِ روحانیت اور جذب برکاتب یزدانی کے ساتھ خاص تعلق ہے.جس کی وجہ غالباً وہ اتنہائی اور سکونِ قلب ہے.جو رات کی خاموشی اور علیحدگی سے حاصل ہو سکتا ہے.سَبْحًا: کے اصل معنے چلنے پھرنے اور گردش کرنے کے ہیں.اسی واسطے پیراک کو سَلبِع کہتے ہیں کہ وہ تیرتے وقت ہاتھ پیر مارا کرا ہے.اور یہاں سبع سے تصرّف فی الحوائج یعنی اِشْغَال.اِدْبَار اِقْبَال اور آمد و رفت مُراد ہے.نمازوں کا پڑھنا.مریضوں کی عیادت کرنا.جنازوں کی متابعت کرنا فقراء و مہاجرین کی اعانت.طالب علموں کی تعلیم.مستفتیوں کو فتوٰی دینا.صلآح کرنا.کافروں کا مقابلہ اپنے ذاتی حوائج پورے کرنے.بیبیوں کی ضروریات کو مدّ نظر رکھنا.یہ سب امور آپؐ کے لئے سَبْحًا طَوِیْلًا تھے.: رات ساری تو قیامِ لَیْل میں گزری اور دن سارا سَبْحًا طَوِیْلًا.نبوّت کے فرائض کی ادائیگی میں ختم ہوا.اب بالطبع خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ روزی رزق کی کیا سبیل ہو.تو اس کے لئے ربوبیت کو

Page 239

یاد دلا کر اسی کو اپنا کارساز سمجھنے کی طرف اس آیت میں توجّہ دلائی.عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے: مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ ھَمًّا وَّ احِدًاھَمَّ اٰخِرَتِہٖ کَفٰی اﷲُ ھَمَّ دُنْیَاہُ.وَمَنْ تَشَعَّبَ بِہِ الْھُمُوْمَ اَحْوَالَ الدُّنْیَا لَمْ یُبَالِ اﷲَ أیّ وَادِیْھَا ھَلَک مشکوٰۃ.کتاب العلم) جس شخص نے اپنے تمام فکروں کو اکٹھا کر کے ایک آخرت ہی کی فکر بنا ڈالا تو کارساز ہو جاتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کے تفکّرات کا.لیکن جس کو پریشان کر رکھا ہے اس کے دنیا کے احوال نے جو اسی میں مستغرق ہے تو خدا کو بھی پروا نہیں کہ دنیا کے کسی خاردار جنگل جھاڑیوں میں وہ ہلاک ہو جاوے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۳،۱۴...: وہ طعام ہے.جو گلو گیرہ حلق میں پھنسنے والا ہو.: یہ عربی لفظ اﷲ تعالیٰ کے غضب پر قرآن شریف میں کہیں نہیں بولا گیا.یہ ہماری زبان کا نقص ہے جو غضبِ الہٰی کے معنے خدا کے غصّہ کے کرتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۶،۱۷....: اس آیت شریفہ میں پیغمبر ( صلی اﷲ و آلہٖ وسلم) کو مثیلِ موسٰیؑ قرار دیا ہے.اور آیت استخلاف سُورہ نُور (نور:۵۶) فرما کر خلفائے اُمّت مرحومہ کو خلفائے موسوی کا مثیل قرار دیا ہے.چونکہ

Page 240

Page 241

ہفتم: وہ نبی توحید کا واعظ.غیر معبودوں کی پرستش کا مانع ہو گا.اگر غیر معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو مارا جائے گا.ہشتم: اس کی پیشین گوئیاں پوری ہوں گی.اور جھوٹے نبی کی کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہو گی.’’کچھ ‘‘ کے لفظ پر غور کرو.جو بشارت کے اس فقرے میں ہے ( جب نبی کچھ خداوند کے نام سے کہے) نہم: سچا اس قابل ہے کہ تُو اس سے ڈرے.اِلَّا جھوٹا نبی چونکہ جلد ہلاک ہو جاوے گا.تُو اس سے مت ڈر.یہی چند باتیں اس پیشینگوئی میں ہیں جن پر ناظرین کو غور کرنا چاہیئے.موسٰیؑ نے اپنی مثلیت کے لئے اپنی کوئی خاص صفت اُن امور کے سوا بیان نہیں کی.گو موسٰیؑ میں ہزاروں اور صفات ہوں.اِلَّا یہ امر کہ وہ نبی مجھ ساکنِ صفات میں ہو گا.سوائے امور مذکورہ پیشین گوئی کے بیان نہیں فرمایا.پس ہم یقین کرتے ہیں اور ہر مصنف تسلیم کرے گا.کہ انہیں امور میں تشبیہ اور مثلیت موسٰی کو مقصود تھی.علاوہ بریں جب کسی چیز کو کسی چیز کا مثل کہا جاتا ہے تو صرف چند امورِ محقّقہ میں تشبیہ مطلوب ہوتی ہے.اب ہم دکھلاتے ہیں.کہ قرآن نے اس پیشین گوئی کو محمّد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت ثابت ہونے کا صرف دعوٰی ہی نہیں کیا.بلکہ کل مدارج طے کر کے سچّا کر دکھایا اور تمام امور مندرجۂ پیشین گوئی کو تسلیم کر کے بڑے دعوٰی سے کہا کہ آنحضرت کے سوا اَور کوئی اس کا مصداق ممکن نہیں.امر اوّل: بنی اسمٰعیل بنی اسرائیل کے بھائی ہیں.دیکھو قرآن میں آنحضرت ؐ کو حکم ہوا.(الشعرا:۲۱۵) اور ڈر سناوے اپنے نزدیک کے ناتے والوں کو.اس پر آنحضرتؐ اپنی قوم کو حکم دیتے ہیں.(حج:۷۹)اور محنت کرو اﷲ کے واسطے جو چاہیئے اُس کی محنت.اُس نے تم کو پسند کیا اور نہیں رکھی دین میں تو پر کوئی مشکل.دین تمہارے باپ ابراہیمؑ کا.اس نے نام رکھا تھا تمہارا مسلمان حکم بردار پہلے سے.۲.(ابراہیم:۳۸)

Page 242

دیکھو.قرآن نے صاف بتایا.قرآن نے صریح کہا.قریش لوگو! تم اپنے باپ ابراہیمؑ کے مذہب کو اختیار کرو.امر دومؔ.وہ نبی موسٰی کا سا ہو گا.اور قرآن میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت لکھا ہے.۱.( المزمل:۱۶) ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا جیسے بھیجا فرعون کے پاس رسول.۲.( الاحقاف:۱۱) تو کہہ.بھلا دیکھو تو.اگر یہ ہو اﷲ کے یہاں سے اور تم نے اس کو نہیں مانا.اور گواہی دے چکا ایک گواہ بنی اسرائیل کا ایک ایسی کتاب کی.پھر وہ یقین لایا.کی تنوین واسطے تفخیم و تعظیم کے ہے.اور لفظ قابلِ غور ہے.۳.(الاحقاف:۳۱) بولے اے قوم.ہم نے سنی ایک کتاب جو اُتری ہے.موسٰی کے پیچھے.سچّا کرتی ہے سب اگلیوں کو.سمجھاتی سچا دین اور راہ سیدھی.نوٹ: حضرت موسٰی کا قصّہ بتکرار وکثرت قرآن میں مذکور ہونا اس امر کا اشارہ اور اظہار کرتا ہے کہ قرآن اپنے رسولِ عربی کو مثیلِ موسٰی ثابت کرتا ہے.امر سومؔ کی نسبت فرماتا ہے: ا...(نجم:۴،۵) اور نہیں بولتا ہے اپنے چا, سے یہ تو حکم ہے جو بھیجتا ہے.۲.....(القیامۃ: ۱۷ تا ۲۰) نہ چلا تو اُس کے پڑھنے پر اپنی زبان شتاب کہ اس کو سیکھ لے.وہ تو ہمارا ذمہ ہے.اس کو سمیٹ رکھنا ار پڑھانا.پھر جب ہم پڑھنے لگیں تو ساتھ رہ.تو اس کے پڑھنے کے.پھر مقرر ہمارا ذمّہ ہے اس کو کھول بتانا.

Page 243

۳.(البقرہ:۲۴) اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو اتارا ہم نے اپنے بندے پر تو لا, ایک سورت اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اﷲ کے سوائے.اگر تم سچّے ہو.نوٹ: کلام منہ میں ڈالنا یا دل میں ڈالنا.اس بات کی طرف اشارہ ہے.کہ وہ کلام اُس نبی کے قلبِ نبوّت پر لفظًا یا معنًا بہ ہمیں ترتیب بلا تقدم و تاخر خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے.آیت دومؔ میں خداوند خدا قرآن کا جامع اور قاری اپنی ذاتِ مقدّس کو ٹھہرایا ہے.اور آنحصرتؐ کو صرف پڑھ سنانے والا مقرّر فرماتا ہے.یہ بڑا بھاری اشارہ پیسینگوئی کے امر سوم کی طر ف ہے کہ مَیں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.امرِ چہارم: حجۃ الوداع یعنی آکری حج میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم نے سب لوگوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا.چنانچہ چند الفاظ اُس طویل خطبے کے آخر سے نقل کئے جاتے ہیں.اَللّٰھُمَّ ھَلْ بَلَّغْتُ فَقَالَ النَّاسُ اَللّٰھُمَّ نَعَمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ.اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ.اے میرے پروردگار کیا مَیں نے سب کچھ پہنچا دیا.لوگوں نے کہا.ہاں.تب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.اﷲ میرے تو گواہ رہ.۱.(المائدہ:۴) آج میںپورادے چکا تم کو دین تمہارا اور پورا کایا مَیں نے تم پر احسان اپنا اور پسند کیا مَیں نے تمہارے واسطے دین مسلمان.نوٹ : یہ آیت اور وہ حدیث باظحارِ حق و باقرار عباد گواہی دیتی ہگے.کہ آنحضرت ؐ نے سب کچھ بتلایا.امرِپنجم: تمام مکّہ اور حجاز کے گھر گھر کو دیکھو تمام مخالفوں اور اس کا کہا نہ ماننے والوں کا نام و نشان ہی نہ رہا.اور دیکھو کہ آیت ( الکوثر:۴) (بے شک جو بَیری ہے تیرا وہی رہا پیچھا کٹا ) کہا.پیشینگوئی کیسی پوری ہوئی.اہلِ حجاز پر ہی کیا منحصر ہے.تمام عرب اور بلادِشام پر غور کرو.جو خدا کی خاص چھاو۱نی اور کل انبیائے بنی اسرائیل کا ہیڈ کوارٹر اور کالج ہے.دیکھو اسی پیشین گوئی کے مطابق قرآن فرماتا ہے.

Page 244

( المزمل:۱۶.۱۷) ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہار جیسے بھیجا فرعون کے پاس.پھر کہا نہ مانا فرعون نے رسول کا.پھر پکڑا ہم نے اس کو پکڑ وبال کی.۲...(الاحقاف:۳۲.۳۳) اے قوم ہماری مانو اﷲ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو تمہارے گناہ اور بچاوے تو کو ایک دُکھ کی مار سے اور جو کوئی نہ مانے گا اﷲ کے بلانے والے کو تو وہ نہ تھکا سکے گا بھاگ کر زمین میں اور کوئی نہیں اُس کو اُس کے سوا مددگار اور وہ لوگ بھٹکے ہیں صریح.امرِ ششم: قرآن فرماتا ہے.....( الحاقۃ:۴۵ تا ۴۸) اور اگر یہ بنا لاتا ہم پر کوئی بات تو ہم پکڑتے اس کا داہنا ہاتھ.پھر کاٹ دالتے اس کی ناڑ.پھر تم میں سے کوئی نہیں اس سے روکنے والا.۲..(الاحقاف:۹) کیا کہتے ہیں.بنا لایا تُو کہہ اگر مَیں بنا لایا ہوں تو تم میرا بھلا نہیں کر سکتے اﷲ کے سامنے کچھ.(المائدۃ:۶۸) اے رسول پہنچا جو اترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر یہ نہ کیا تو تُو نے کچھ نہ پہنچایا.اُس کا پیغام اور اﷲ تم کو بچالے گا.لوگوں سے.امرِ ہفتم کی نسبت تمام قرآن مالا مال ہے.فروگزاشت کے خوف سے چند آیات مرقوم ہیں.آیات منعِ شرک

Page 245

.(آل عمران:۶۵) تو کہہ اے کتاب والو! آؤ.ایک سیدھی بات پر ہمارے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اﷲ کو اور شریک نہ ٹھہراویں اس کا کسی چیز کو اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے اﷲ کے.۲..(الانعام:۱۵۲) تو کہہ آؤ مَیں سُنادوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے رب نے کہ نہ شریک کرو اُس کے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ سے نیکی.۳.(الاعراف:۳۴) تو کہہ میرے رب نے منع کیا ہے حیائی کے کام کو جو کھلے ہیں اُن میں اور جو چُھپے ہیں اور گناہ اور زیادتی ناحق کی اور یہ کہ شریک کرو اﷲ کا جس کی اس نے سند نہیں اتاری اور یہ کہ جھوٹ بولو اﷲ پر جو تم کو معلوم نہیں.۴.(النساء:۳۷) اور بندگی کرو اﷲ کی اور ملاؤ مت اس کے ساتھ کسی کو.۵..(النساء:۴۹) تحقیق اﷲ نہیں بخشتا ہے یہ کہ اس کا شریک پکڑے اور بخشتا ہے اُس سے نیچے جس کو چاہے اور جس نے ٹھہرایا شریک اﷲ کا اُس نے بڑا طوفان باندھا.۶.(الفرقان:۴) اور لوگوں نے پکڑے ہیں اس سے وَرَے کتنے حاکم جو نہیں بناتے کچھ چیز اور آپ بنے ہیں.اور نہیں مالک اپنے حق میں نہیں.بُرے کے نہ بھلے کے اور نہیں مالک مرنے کے نہ جینے کے اور نہ جی اُٹھنے کے.

Page 246

..(الفرقان:۴۲.۴۳) اور جہاں تجھ کو دیکھا کچھ کام نہیں تجھ سے مگر ٹھٹھے کرتے.کیا یہی ہے جس کو بھیجا اﷲ نے پیغام دے کر.یہ تو لگاھی تھا کہ بچلاوے ہم کو ہمارے ٹھاکروں سے.کبھی ہم نہ ثابت رہتے اُن پر.اور آگے جائیں گے جس وقت یہ دیکھیں گے عذاب.کون بچلاہے راہ سے.امر ہشتم.اس پر ہم نے برہانِ نبوّت کے واسطے ایک علیحدہ باب قائم کیا ہے.اور مفصّل مضمون لکھا ہے.دیکھو مضمون قرآن کی پیشگوئیاں.مگر اس جگہ مختصرًا اُس مضمون کی تجدید کی جاتی ہے.اوّل اوّل آنحضرتؐ نے مکّہ میں موسٰی کی مثلیت کا دعوٰی کیا اور اپنے مخالفین کو آنے والے عذاب سے مخالفت کے باعث ڈڑایا.اس پر کفّارِ مکّہ نے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اُس کا نشان ہمیں دکھا کہ ہم پر عذاب آوے.چنانچہ قرآن مجید اس معاملہ کی اس طرح خبر دیتا ہے..(الانعام:۶.۷) جُھٹلا چکے حق بات کو جب ان تک پہنچی.اب آگے آوے گا اُن پر حق اُس بات کا جس پر ہنستے تھے.کیا دیکھتے نہیں کتنی ہلاک کیں ہم نے پہلے اُن سے سنگتیں.ان کو جمایا تھا ہم نے ملک میں جتنا تم کو نہیں.جمایا اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان برستا اور بنا دیں نہریں بہتی ان کے نیچے.پھر ہلاک کیا ان کے گناہوں پر اور کھڑی کی ان کے پیچھے اَور سنگت.اس آیت میں بدوں معیاد معنیہ کے مطلق تکذیب پر ہلاکت کی خبر دی.پھر فرمایا...(الانعام:۶۷.۶۸) اور تیری قوم نے اسے جھٹلایا حالانکہ یہ حق ہے.تو کہہ دے.اے محمدؐ مَیں تم پر وکیل نہیں ہوں.ہر ایک خبر کے لئے ایک وقت مقرّر ہے پس عنقریب تم جان لو گے.

Page 247

..(الانفال: ۳۳.۳۴) اور جب کہنے لگے کہ یا ﷲ اگر یہی دینِ حق ہے تیرے پاس سے تو ہم پر برسا آسمان سے پتھر یا لا ہم پر دُکھ کی مار اور اﷲہرگز عذاب نہ کرتا ان کو جب تک تُو تھا اُن میں.اس آیت میں یہ بات بتائی کہ تیرے یہاں ہوتے ہوئے یعنی مکّے میں وہ عذاب نہیں آئے گا...(النمل:۷۲.۷۳) اور کہتے ہیں کہ کب ہے یہ وعدہ.اگر تم سچے ہو.تو کہہ شاید تمہاری پیٹھ پر پہنچی ہو.بعض چیز جس کی شتابی کرتے ہو.س میں بتایا کہ یہ عذاب کچھ حصّہ اُس عذاب موعود کا ہو گا.اور تمہاری تباہی اور استیصال کا شروع ہو گا...(سبا:۳۰.۳۱) اور کہتے ہیں.کب ہے یہ وعدہ.اگر تم سچّے ہو.تو کہہ.تم کو وعدہ ہے ایک دن کا.نہ دیر کرو گے اُس سے ایک گھڑی.نہ شتابی.اس مقام پر آنحضرتؐ کا خط جو انہوں نے خیبر کے یہود کو لکھا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اس سے غرض یہ ہے کہ آپؐ بڑے استقلام اور قوی یقین سے مثلیت کا دعوٰی کرتے تھے.اور آپ سے مخاطبین تعصّب اور حسد کے سوا انکار کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے تھے.(ابن ہشام) مِنْ مُحَمَّدً رَسُوْلِ اﷲِ ( صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) صَاحِبِ مُوْسٰی وَاخِیْہِ وَ الْمُصَدِّقِ لِمَا جَائَ بِہٖ مُوْسٰی، اَلَا اِنَّ اﷲَ قَدْ قَالَ لَکُمْ یَامَعْشَرَ اَہْلِ التوراۃ! وَ اِنَّکُمْ لَتَجِدُوْنَ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابِکُمْ.مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ.وَ اِنِّی اَنْسُدُکُمْ بِاﷲِ اَلَا اَخْبََرْ تُمُوْنِیْ ھَلْ تَجِدُوْنَ فِیْمَا اَنْزَلَ اﷲُ عَلَیْکُمْ اَنْ تُؤْمِنُوْا بِمُحَمَّدٍ فَاِنْ کُنْتُمْ لَا تَجِدُوْنَ ذٰلِکَ فِیْ کِتَابِکُمْ فَلاَ اَکْدَہُ عَلَیْکُمْ قَدْتَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ.ترجمہ: محمدؐ رسول اﷲ کی طرف سے جو موسٰی کا مثیل اور اس کا بھائی اور اس کی تعلیمات کو سچا کر دکھانے والا ہے.اے گروہ اہلِ تورات! دیکھو اﷲ تعالیٰ نے تمہیں فرمایا.اور تم اس بات کو اپنی کتاب میں پاتے

Page 248

ہو’’ محمد اﷲ کا رسول ہے‘‘ اور میں تمہیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں.بتاؤ تو سہی جو کچھ اﷲ نے تم پر اتارا.کیا تم اس میں یہ نہیں لکھا پاتے کہ تم لوگ مجھ پر ایمان لاؤ؟ اگر تم اپنی کتاب میں نہیں لکھا پاتے ہو تو مَیں تمہیں مجبور نہیں کرتا.ضلالت اور ہدایت ممتاز ہو چکی ہے.(ابن ہشام جلد نمبر۱ صفحہ۱۹۴) نوٹ: نبوّت کا دن ایک برس کا ہوتا ہے جیسے دن جو ساتھ صبح اور شام کے نبوّت میں لکھا ہو یا شام یا صبح سے شروع کرے تو چوبیس گھنٹے کا شمار ہوتا ہے ورنہ ایک سال کا ( دیکھو اندرونہ بائیبل صفحہ ۳۱۳) پادری صاحبان غور کرو.قرآن نے کیسا معجزہ دکھایا کہ ان کے زوال کا وقت بھی بتا دیا.اور یہ وعدہ جنگ بدر میں پورا ہوا.کیونکہ بدر کی لڑائی ٹھیک ایک برس بعد ہجرت کے واع ہوئی یعنی ۱۰؍جولائی ۶۲۲ ؁ء کو آنحضرتؐ مکّہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور ۶۲۳ ؁ء میں قریش سے جنگِ بدر ہوئی اور اس بدر کی لڑذئی کو قرآن نے آیت یعنی بڑا نشان ٹھہرایا جو کامیابی اسلام کو گویا آغاز ہے.چنانچہ فرمایا.(آل عمران:۱۴) (آل عمران:۱۲۴) ابھی ہو چکا ہے تو کو ایک نمونہ دو فوجوں میں جو بھڑی تھیں.ایک فوج ہے کہ لڑتی ہے اﷲ کی راہ میں اور دوسری منکر ہے.یہ اُن کو دیکھتی ہے اپنے دو برابر صریح آنکھوں سے اور اﷲ زور دیتا ہے اپنی مدد کا.جس کو چاہے.اسی میں خبردار ہو جاویں جن کو آنکھ ہے.اور تمہاری مدد کر چکا ہے اﷲ بدر کی لڑائی میں اور تم بے مقدور تھے سو ڈرتے رہو اﷲ سے.شاید تم احسان مانو.یہاں وہ پیشگوئی جو یسعیاہ باب ۲۱ درس ۱۳ سے شروع ہوتی ہے پوری ہوئی.’’عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو.پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرتے.آؤ اے تیما کی سر زمین کے باشندو.روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھنچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدّت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھکو یوں فرمایا ہنوز ایک برس.ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کی جو باقی رہی.قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا‘‘

Page 249

اس لڑائی میں قیدار کے اکثر سردار مارے گئے اور وہ کامیابی جو سچائی کا معیار ہوتی ہے.ظاہر ہو گئی.اور یہ بدر کی فتح اسلام کے حق میں ایسی ہی اکسیرِ اعظم ہوئی.جیسی جنگ ملوین برج کی فتح دینِ عیسوی کے حق میں.نویں امر کی نسبت قرآن فرماتا ہے.وَ قَذَفَ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الدُّعْبَ یُخْرِبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ وَ اَیْدِی الْمَؤْمِنِیْنَ فَاعْتَبِرُوْا یٰاُوْلِی الْاَبْصَارِ(حشر:۳) اور ڈالی اُن کے دلوں میں دھاک.اجاڑنے لگے اپنے گھر اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے.سو دہشت مانو اے آنکھ والو.تورات میں بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ سچّے نبی سے ڈریں لیکن اُن لوگوں نے کفّارِ مکّہ کی طرح نبیٔ برحق کی مخالفت کی.وعیدِ الہٰی سے نڈر ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ بنی نضیر ( بنی اسرائیل) ویران اور تباہ ہو کر مدینہ سے نکل گئے.بعض عیسائی کہتے ہیں کہ یہ بشارت مسیحؑکے حق میں ہے.پر یہ دعوٰی ان کا صحیح نہیں کیونکہ مسیحؑ اور موسٰی کے حالات میں کسی قسم کی ماثلت جو پیشینگوئی میں مندرج ہے.ہرگز نہیں پائی جاتی.وجہ اوّلؔ یہ ہے کہ مسیحؑ صاحبِ شریعت نہ تھے.بلکہ شریعتِ موسوی کے پیرو تھے چنانچہ اَ کے بپتسمہ لینے.ختنہ کرانے.یوروشلم میں آنے سے ظاہر ہے.دومؔ مسیح نے خود بھی تو دعوٰی نہیں کیا کہ بشارتِ مثلیت میرے حق میں ہے.اور نہ ان کے حواریوں نے اس بشارت کو اُن کی طرف منسوب کیا.بلکہ اعمال باب ۳.۱۹سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح اس کا مصداق نہیں.پس توبہ کرو اور متوّجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ خداوند کے حصور سے تازگی بخش ایّام آ,یں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے.جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ آسمان اُسے لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا.اپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسٰی نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھائے گا.جو کچھ وہ تمہیں کہے.اس کی سب سُنو.اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سُنے.وہ قوم سے نیست کیا جاوے گا.بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لیکر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا.اُن دنوں کی خبر دی ہے.تم نبیوں کی اولاد اور اس عہد کے ہو کہ خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراہام سے کہا کہ تیری اولاد

Page 250

سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے.تمہارے خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اُس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے‘‘ اس سے کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں.اوّلؔ: مسیح کی آمد اوّل کے بعد اور آمدِ ثانی سے پہلے اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ضروری ہے.دومؔ: موسٰی کے بعد یوشع اور اس کے بعد کے انبیاء اور سموئیل سے لے کر پچھلوں تک کوئی بھی اس کا مصداق نہیں ہوا.سومؔ: حضرت ابراہیم کی دعا کو سوائے ارسال اُن انبیاء کے جو بنی اسرائیل میں سے مُرسل ہوئے کوئی خاص خصوصیت اُس نبی سے ہے.چہارمؔ: مسیح اُس نبی سے پہلے آیا اب اُس دوسرے کی ضرورت ہوئی.پنجم ؔ: حواری کے قول سے ظاہر ہے کہ اس بشارت کا مصداق نبی مسیح سے پہلے نہیں گزرا اور خود مسیح بھی نہیں.اس لئے اس نبی کے آنے تک ضرور ہے کہ آسمان مسیح کو لئے رہے.سوال: اگر اکوئی شخص کہے کہ بنی عیسو اور بنی قطورا کیوں اس کے مصداق نہیں ہو سکتے.جواب: اول ان میں سے کسی نے اس پیشین گوئیکو اپنے حق میں ثابت نہیں کر دکھایا.دوم: پورس نامۂ رومیاں.۹باب.درس ۱۳ میں فرماتا ہے خداوند نے یعقوبؑ سے محبت کی اور عیسو سے عداوت.سوئم: عیسو نے مسور کی دال پر اپنی نبوت بیچ دی.پیدائش۲۵ باب ۳۲.۳۳ چہارم: یعقوب نے فریب سے نبوّت کا ورثہ اوس سے لے لیا.پیدائش ۲۷ باب ۳۵۰ نبوابنائے قطورا زندگی ہی میں خارج ہو چکے تھے.مرتے وقت صرف اسمٰعیل اور اسحٰق پاس تھے.پیدائش ۲۵ باب لغایت۹.حل الاشکال میں اس پیشینگوئی پر اعتراض کیا کہ بشارت میں’’تجھ میں سے‘‘ کا لفظ وارد ہے.جواب (۱) خدا کے اس کلام میں جو موسٰی نے نقل کیا یہ لفظ نہیں.(۲) یہ’’ لفظ تجھ میں سے‘‘اعمال باب ۳.۲۲ میں نہیں.

Page 251

تخصیص بشارت کا پتہ ہی نہیں دیا.اور یوں ہی گول مول رہنے دیا.(۳) صاحبِ حل الاشکال نے میزان میں.فصل ۳.باب ۲ میں لکھا ہے کہ پیدائش باب ۳.۱۵ میں مسیح کی بشارت ہے.پھر یہی یوحنا باب ۵.۴۶ میں کیوں نہیں.(۴) یوحنا باب ۱.۲۰.۲۵.اور اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا.بلکہ اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں تب انہوں نے اس سے پوچھا کہتو اور کون کیا تو الیاس ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں.پس آیا تُو وہ نبی ہے.اس نے جواب دیا نہیں.یوحنا انجیلی.یوحنا بپٹسما دینے والے کی شہادت میں لکھتا ہے کہ نہ وہ مسیح ہے نہ ایلیا نہ وہ نبی اور ریفرنس میں وہ نبی کا نشان استثناء باب ۱۸.۱۵و ۱۸ دیا ہے یعنی موسٰی کے مثل نبی.اور وہ صرف نبی عربی ہے.پادری عمادالدین نے ’’ تحقیق الایمان ‘‘ میں اور پادری ٹھا کر داس نے ’’ عدم ضرورت قرآن ‘‘ میں مماثلت پر گفتگو کی ہے اور بہت ہاتھ پاؤں مارے ہیں.جسے دیکھ کر ان کی ناکامیاب کوشسوں پر سخت افسوس آتا ہے پادری عمادالدین نے بچوں کا قتل.چالیس دن کا روزہ.معجزات اور شریعتِ روحانی ( معدوم الوجود) بمقابلۂ شریعتِ موسوی کے وجہ مماثلت ٹھہرائی ہے.تعجب کی بات ہے.کیونکہ موسٰیؑ کے وقت بچوں کا قتل ہوا ہی نہیں.بلکہ فرعون نے حضرت موسٰیؑ سے پہلے نبی اسرائیل کی کثرت کے خوف سے یہ کارروائی کی تھی.اور چالیس دن کا روزہ تو ایلیا نے بھی رکھا.دیکھو اوّل سلاطین ۱۹ باب درس ۸.رہے معجزات ایلیا نے بھی مردے زندہ کئے.ں دیکھو اوّل سلاطین۱۷ باب ۲۲،۲۳.ودوم سلاطین باب ۴.۳۵.ایلیا نے دریا کے دو حصّے کر کے زمین خشک نکالی اور دریا پار ہوا.دیکھو دوم سلاطین باب ۲.۸.ایلیا نے دوسروں کو معجزات کے لائق بنایا دوم سلاطین باب ۲.۱۰.ایلیا جسم سے آسمان پر چلا گیا.دوم سلاطین باب۲.۱۱ ایلیا نے تیل کو بڑھایا.دوم سلاطین باب ۴.۳.ایلیا کی روح سے الیشع نے کوڑھ اچھا کیا.دوم سلاطین باب ۵.۱۰،۱۵ (فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۴ تا صفحہ۳۶)..ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے.گواہ تم پر.جیسا ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا.پس فرعون نے اُس رسول کا کہا نہ مانا.پھر ہم نے اس کو ہلاک کرنیوالی پکڑ سے پکڑا.

Page 252

اس جگہ باری تعالیٰ اپنے کلام میں ہاں صادق کلام میں نبیؐ عرب کو موسٰیؑ کا مثیل و نظیر فرما کر اہلِ عرب سے خطاب کرتا ہے کہ جیسے فرعونی بموسٰی کے عصیان کے باعث تباہ ہوئے.ویسے ہی اس نبی کے عاصی اور مخالف بھی تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور پھر فرمایا:.(الانفال:۳۴) جب تک تو اے رسول! ان میں ہے.اﷲ ان پر عذاب نہ لاوے گا.پھر اس پیشین گوئی کا وقت صاف صاف بتا دیا اور اس کی حد باندھ دی کہ حد ہی کر دی.فرمایا (سبا:۳۱) تُو کہدے ( اے محمدؐ ) تمہارے واسطے لایک سال کی میعاد ہے کہ اس سے ایک ساعت ادھر اُدھر نہ کر سکو گے.پھر اور توضیح و تصریح کی.فرمایا..(بنی اسرائیل:۷۷) یقینًا یہ لوگ ( اہلِ مکّہ) تجھے (محمدؐ) اس زمین ( مکّہ) سے نکال ڈالنے والے ہیں.جب تو تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر رہیں گے.اﷲ اﷲ یہ پیشین گوئی کیسی پوری ہوئی.عادت اﷲ قدیم سے اس طرح پر جاری ہے کہ جن قوموں نے ہادیانِ برحق کے نصائح نہ سُنے اور ان کے دِل سوز مشفقانہ کلام پر دھیان نہ کیا.ضرور وہ کسی نہ کسی تباہی میں گرفتار ہوئے اور جھوٹے نبی کا نشان یہ دیا گیا ہے کہ وہ قتل کیا جاوے گا.اور جو کوئی اس نبی کی بات نہ مانے گا.سزا پائے گا.اب کفّارِ عرب اس سچّے رؤف و رحیم ہادی کو جھٹلا چکے ہیں.طرح طرح کی اذیتیں دل کو کپکپا دینے والے آزار دے چکے ہیں.چونکہ وہ نبی صادق و مصدوق ہے اور وہ نبی وہ ہے جس کی نسبت موسٰی و عیسٰی بڑے فخر سے بشارت دیتے چلے آئے ہیں.اب خدائی غضب اُمنڈ آیا.کلمۃ اﷲ بر سرِ انتقام آمادہ ہوا کہ ان کے دشمنانِ دینِ حق کو ہلاک کیا جاوے.مگر باری تعالیٰ باایں ہمہ اپنے رسول سے فرماتا ہے.کہ جب تک تو ان لوگوں میں موجود ہے ( یعنی سرزمینِ مکّہ میں) اُن پر عذاب نہ ہو گا.اور عالم الغیب حق تعالیٰ ایک سال اس کی میعاد مقرّر فرماتا ہے کہ یقینًا اس عرصے میں بلا تقدم و تاخر ایک ساعت کے یہ واقعۂ زوال و قوع میں آئے گا.قدرتِ حق کا کرشمہ مشاہدہ فرمایئے کہ کیونکر یہ وعدہ ایک سال بعد پورا ہوتا ہے.اب کفّارِ عرب نے جن کا سرغنہ ابوجہل تھا

Page 253

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قتل کی مسورت کی.اسی واسطے ۱۰؍ جولائی ۶۲۲ ؁ء جمعہ کے دن آپؐ نے مکّہ سے ہجرت کی اور مدینہ منوّرہ کو چلے گئے.دوسرے سال یعنی ۶۲۳ ؁ء میں بدر کا معرکہ ہوا جس میں وہ سب معاندین اور مخالفین تباہ اور عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوئے.وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.(فصل الخطاب حصقہ دوم صفحہ ۸۸ تا صفحہ ۹۰).بیشک و ریب ہم نے (اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے) تمہاری طرف بھیجا عظمت والا رسول نگران تم پر.اور یہ رسول اس رسول کی مانند ہے جس کو ہم نے فرعون کے پاس بھیجا.: منکرو! بتا, تم تم کیسے بچو گے عذاب سے اگر تم نے اس رسول کا انکار کیا.کیا معنی.اگر فرعون موسٰی علیہ السلام کے انکار سے سزا یاب ہوا.تو تم منکرو کیونکر بچ سکتے ہو.یہ آیت شریف کتاب استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے.غرض اسی طرح کی بہت آیات قرآن کریم میں موجود ہیں اور اُن آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے حضور علیہ السلام کو اپنی رسالت.نبوّت.راستی اور راست بازی پر پورا اور اعلیٰ درجہ کا یقین تھا.اور اولڈٹیسٹمنٹ کو ماننے والا بعد انصاف ہرگز انکار نہیں کر سکتا.کیونکہ استثناء ۱۸ باب ۱۸ میں اور اعمال ۳ باب میں صاف لکھا ہے کہ ایک نبی موسٰی علیہ السلام کی مانند آنیوالا ہے اور تو ریت میں یہ بھی لکھا ہے کہ جھوٹا نبی جو از راہِ کذب و افتراء اپنے آپ کو موسٰی علیہ السلام کی مانند کہے مارا جاوے گا.حضور (فداہ ابی و امی) نبیٔ عرب نے حضرت موسٰی علیہ السلام کی مانند رسول ہونے کا دعوٰی فرمایا.جیسا گزرا.اور آیت شریف (المائدہ:۶۸) جس کے معنی ہیں اﷲ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بجا لیگا پڑھ کر پہرہ اور حفاظت کو بھی دور کر دیا.مدینہ کے یہود اور عیسائی قوم کو صاف صاف سنا دیا کہ مَیں قتل نہ کیا جا,ں گا.اور اﷲ کے فضل سے قتل سے بج رہے صلی اﷲ علیہ وسلم.عیسائی صاحبان.اگر نبیٔ عربؐ اس دعوٰی نبوّت میں فرما کر استثناء ۱۰ باب ۱۸ اور اعمال ۳ باب والا دعوٰی ہے ( اور بالکل ظاہر ہے کہ نبیٔ عربؐ قتل نہیں کئے گئے).کاذب ہیں( معاذ اﷲ ) تو توریت کتاب مقدّس نہیں بلکہ بالکل علط اور کذب ہے

Page 254

کیونکہ کتاب استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ میں لکھا ہے.جھوٹا نبی مارا جائے گا.لاکن تورات شریف اگر الہامِ الہٰی سے ہے اور سچ.تو ہمارے ہادی صلی اﷲ علیہ وسلم سچّے رسول اور فِی نَفْسِ الاَمْر استثناء ۱۸ باب ۱۸ والے رسول ہیں.اسی واسطے قرآن کریم بار بار حصرت احمد مجتبٰے محمد مصطفٰےؐ اور اپنے آپ کو (البقرہ:۴۲) فرماتا ہے.کیا معنے؟ قرآن کریم اور نبیٔ عرب نے اپنے ظہور اور حفاظت اور قتل سے بج کر توریت کو سچا کر دکھایا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات صفحہ ۵۰.۵۱) سورۃ مزمل مکّہ معظمہ میں اتری.جب حضور علیہ السلام بظاہر نہایت کمزوری کی حالت میں تھے اور بظاہر کوئی سامان کامیابی کا نظر نہ آتا تھا.قرآن نے صاف صاف جنابِ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.یہ رسول اس رسول کی مثل ہے جو فرعون کے وقت برگزیدہ اور بنی اسرائیل کا ہادی بنایا گیا.جس طرح اس رسول حضرت موسٰی علیہ السلام کے دشمن بے نام و نشان ہو گئے.ایسے ہی اس رسول کے دشمن معدوم ہوں گے...ہم نے ہی بھیجا تھا تمہاری طرف رسول نگران تم پر جیسے بھیجا تھا فرعون کو رسول.پھر جب نافرمانی کی فرعون نے اس رسول کی تو سخت پکر لیا ہم نے اسے.پھر تم اگر اس رسول کے منکر ہوئے تو کیونکر بچو گے.اور جس طرح جناب موسٰی علیہ السَّلام کی قوم دشمنوں سے نجات پا کر آخر معزز اور ممتاز اور خلافت اور سلطنت سے سرفراز ہوئی اسی طرح.ٹھیک اسی طرح.لاریب اسی طرح.اس رسول کے اتباع بھی موسٰی علیہ السلام کی طرح بلکہ بڑھ کر ابراہیمؑ کے موعود ملک بالخصوص اور اپنے وقت کے زبردست وبادشاہوں پر علی العموم خلافت کریں گے..(نور:۵۶) وعدہ دے چکا اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو تم میں سے جو ایمان لائے اور کام کئے انہوں نے اچھے

Page 255

ضرور خلیفہ کر دے گا ان کو اس خاص زمین میں ( جس کا وعدہ ابراہیم سے ہوا.جیسے خلیفہ بنایا ان کو جو ان اسلامیوں سے پہلے تھے.اور طاقت بخشے گا انہیں اس دین پھیلانے کے لئے جو اﷲ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا ضرور بدل دیگا انہیں خوف کے بعد امن سے.آخر دیکھ لو.اس فطرت کے قاعدہ نے.اس الہٰی سنّت یا عادۃ اﷲ نے.ناظرین کو وہی نتیجہ دکھایا جو ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ان کے لئے ایمان مخالفوں کے بیجا حملوں کے وقت دکھاتی چلی آتی ہے.ہمارے ہادی.بلکہ ہادیٔ انام علیہ الصلوٰۃ و السلام کی قوم میں.نہیں، نہیں.آپؐ کے مَولَد.مَسْکَنْ اور آپؐ کے ملک میں آپؐ کے ملک میں آپ کا کوئی دسمن نہ رہا.دشمن کیسے؟ ان کے آثار بھی نہ رہے.مکّہ معظمہ نہیں بلکہ جزیرہ نما عرب پر نگاہ کر لو.تمام عرب آپ کے خدّام یا خدّام کے معاہدین کی جگہ ہو گیا.اﷲ اﷲ!!! جیسے آپؐ بے نظیر ہیں.ویسے ہی آپؐ کی کامیابی بھی بے نظیر واقع ہوئی.ناظرین ایسی کامیابی کسی ملہم.کسی مدعیٔ الہام.کسی ریفارمر.کسی مصلح.کسی رسول یا کسی بادشاہ کو کبھی ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں.کس مقتدا نے.کس بادشاہ نے.نام تولو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۵.۱۶) ۱۸..شِیْبَ: اَشْیَبْ کی جمع ہے.کثرتِ ہمّو غم بڑھاپے کا باعث ہو جاتا ہے.سورۃ ھود میں جب قوموں کی ہلاکت کا بیان نازل ہوا.اور ساتھ ہی آپ کو بھی حکم ہوا.کہ.(ہود:۱۱۳) تو آپؐ نے فرمایاشَیَّبَتْنِیْ(سورۃ ہود) متّبعین کی استقامت چونکہ اپنے اختیار کی نہیں ہوتی.اس لئے یہ ارشاد آپ کو اﷲ تعالیٰ کے بہت ہی رنج و غم کا باعث ہوا.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۱۲ء) ۲۱..

Page 256

: اَنْ کے معنے اَنَّہٗ کے ہیں.یعنی تحقیق بات یُوں ہے کہ ضرور تم میں بعآض لوگ بیمار ہیں.: اپنے مالوں کو اﷲ تعالیٰ کے لئے الگ کر دو.: پر زبر اس لئے ہے.کہ یہ کا مفعول ہے.: حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ایک مجلس میں ستّر سے لے کر سو تک استغفار کیا کرتے تھے.اورۃ نوح میں استغفار کے کئی فائدے بیان فرمائے ہیں....(نوح:۱۱ تا ۱۳) حدیث شریف میں ہے کہ طُوْبٰی لِمَنْ وَجَدَ فِیْ صَحِیْفَتِہٖ اِسْتِغْفَارًا کَثِیْرًا

Page 257

کَثِیْرًاخشخبری ہو اس کے لئے جس نے اپنے نامۂ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پایا.استغفار لفظ غَفَرَ سے نکال ہے.غَفَرَ کے معنے ڈھانکنا.مِغْفَر ڈھال کو کہتے ہیں.جو انسان کے منہ اور کچھ حصّہ جسم کو ڈھانک لیتی ہے.استغفار کے معنے ہوئے.حفاظت طلب کرنا گناہوں سے اور اس کے بدنتائج سے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے استغٰار کے یہی معنے ہیں کہ اے اﷲ تو مجھ کو آئندہ کی خطاؤں سے مصئون اور محفوظ رکھ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء)

Page 258

سُوْرَۃَ الْمُدَّثِّرِ مَکِّیَّۃٌ  ۲تا۵.....نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی ہوئی وہ یہی آیت ہے. کو جب وحی ہوتی ہے تو اس پر خدا کی کلام اور اس کی ہیبت کا ایک لرزہ مُرسل پر آتا ہے.کیونکہ مومن حقیقت میں خدا تعالیٰ کا ڈر اور خشیت اور خوف رکھتا ہے.جس طرح کوئی بادشاہ ایک بازار یا سڑک پر سے گزرتا ہے.اسی سڑک میں ایک زمیندار جاہل جو بادشاہ سے بالکل ناوقف ہے کھڑا ہے.دوسرا وہ شخص ہے جو زمیندار ہے.پر صرف اس قدر جانتا ہے کہ یہ کوئی بڑا آدمی ہے یا شاید حاکمِ وقت ہوگا.تیسرا وہ شخص کھڑا ہے کہ وہ منجملہ اہالیان ریاست ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ بادشاہ ہے اور ہمارا حاکم ہے اور چوتھا وہ شخص کھڑا ہے جو بادشاہ کا درباری یا وزیر ہے.اس کے آداب نہ قواعد و آئین و انتظام رعب و آداب.رنج اور خوشی کے سب قواعد کا واقف اور جاننے والا ہے.پس تم جان سکتے ہو کہ ان چاروں اشخاص پر بادشاہ کی سواری کا کیا اثر ہوا ہو گا.پہلے شخص نے تو شاید اس کی طرف دیکھا بھی نہ ہو.اور دوسرے نے کچھ توجّہ اس کی طرف کی ہو گی اور تیسرے نے ضرور اس کو سلام کیا ہو گا اور اس کا ادب بھی کیا ہو گا.پر جو چوتھے شخص پر اس کے رُعب و جلال کا اس قدر اثر ہوا ہو گا کہ وہ کانپ گیا ہو گا کہ میرا بادشاہ آیا ہے.کوئی حرکت مجھ سے ایسی نہ ہو جاوے جس سے یہ ناراض ہو جاوے.غرض کہ اس پر ازحد اثر ہوا ہو گا.پس یہی حال ہوتا ہے.انبیاء اور مرسل علیھم السلام کا.کیونکہ خوف اور لرزہ معرفت پر ہوتا ہے.جس قدر معرفت زیادہ ہو گی.اسی قدر اس کو خوف اور ڈر زیادہ ہو گا اور وہ معرفت اس کو خوف میں ڈالتی ہے اور اس لرزہ کے واسطے ان کو ظاہری سامان بھی کرنا پڑتا ہے.یعنی موٹے اور گرام کپڑے پہننے پڑتے ہیں.جو لرزہ میں مدد دیں.جب وہ انعام کی حالت جاتی رہی تو ان کے اعضاء اور اندام

Page 259

بلکہ بال بال پر ایک خاص خوبصورتی آ جاتی ہے.پس اسی حالت میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ مخاطب فرما کر کہتا ہے کہ اے کپڑا اوڑھنے والے اور لرزہ کے واسطے سامان اکٹھا کرنے والے کھڑا ہو جا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سُست مومن اﷲ تعالیٰ کو پیارا نہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پہلا حکم یہی ملا پس یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمان واعظ جب احکامِ الہٰی سنانے کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر سناتے ہیں.یہ اسی قُمْ کی تعمیل ہوتی اور اس میں نبی کریمؐ کی اتباع کی جاتی ہے.بعض لوگ غافل اور سُست نہ تو سامان بہم پہنچاتے اور نہ ان سامان سے کام لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں پر یہ ساری ضرورتیں جو ہم کو ہیں.نبی کریمؐ کو بھی تھیں.بیوی بچّہ.اہل و عیال وغیرہ وغیرہ.پر جب اس قسم کا حکم آیا.فورًا کھڑے ہو گئے.اس لئے کہ بادشاہ رَبُّ الْعَالَمِیْن اَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن کا حکم تھا.پھر کام کیا سپرد ہوا.أَنَٔذِرْ.لوگ دو باتوں میں گرفتار تھے اور ہیں.وہ خدا کی عظمت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور کھانے پینے عیش و آرام اور آسائش میں مصروف ہو گئے تھے.دوسرا باہمی محبت.اخلاص.پیار نام کو نہیں رہی تھی.دوسروں کے اموال دھوکہ بازی سے کھا جاتے.مثلاً ہمارے پیشہ کی طرف ہی توجہ کرو.گندے سے گندے نسخے بڑی بڑی گراں قیمتوں سے فروخت کئے جاتے.اور دھوکہ بازی سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے.دوسروں کی عزّت مال جان پر بڑے بے باک تھے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی نابینا کی لکڑی ہنسی سے اٹھا لینا کہ وہ حیران و سرگردان ہو سخت گناہ ہے.پھر ہنسی ٹھٹھا پر کچھ پرواہ نہیں.بدنظری.بدی.بدکاری سے پرہیز نہیں.کوئی شخص نہیں چاہتا کہ میرا نوکر میرے کام میں سُست ہو.پر جس کا یہ نوکر ہے.کیا اس کے کام میں سستی نہیں کرتا؟ دوکاندار ہے.طبیب ہے وغیرہ وغیرہ.جب پیشہ دینے والے کے دل میں یہ ہے کہ مجھے ایسا مال اس قیمت کے بدلہ میں ملنا چاہیئے.اگر اس کو اس نے نتیجہ تک نہیں پہنچایا تو ضرور حرام خوری کرتا ہے اور یہ سب باتیں اس وقت موجود تھیں.خدا کی پرستش میں ایسے سُست تھے کہ حقیقی خدا کو چھوڑ کر پتھر.حیوانات وغیرہ مخلوقات کی پرستش شروع کی ہوئی تھی.اس قوم کی بُت پرستی کی نظیریں اب موجود ہیں.ابھی ایک بی بی ہمارے گھر میں آئی تھی اور میرے پاس بیان کی کہ بہت نیک بخت اور خدا رسیدہ ہے.مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وظیفہ کرتی ہو؟ کہا مشکل کے وقت اپنے پیروں کو پکارتی ہوں.پس مجھے خیال ہوا.یہ پہلی سیڑھی پر خطا پر ہے یعنی خدا کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہے.

Page 260

پس رسول کریمؐ کے زمانہ میں ایک طرف خدا کی بڑائی دوسری طرف مخلوق سے شفقت چھوٹ گئی تھی.اور خدا کی جگہ مخلوق کو خدا بنایا گیا تھا.اور مخلوق کو سُکھ پہنچانے کے بدلہ لاکھوں تکالیف پہنچائی جاتی تھیں.اس لئے فرمایا.أَنْذِرْ.ڈرانے کی خبر سنا دے.جب مرسل اور مامور آتے ہیں تو پہلے یہی حقوق ان کو سمجھائے جاتے ہیں.پس ایسے وقت میں امراضِ طاعون وغیرہ آتے.جنگ و قتال ہوتے.یہ ضرورت نہیں کہ اس مامور کی اطلاع پہلے دی جاوے یا ان لوگوں کو مامور کا علم ہو.کیونکہ لوگ تو پہلے خدا ہی کو چھوڑ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.پھر کھڑا ہو کر کیا کرو..خدا کی بزرگی بیان کر.یہ حکم کی تعمیل تھی اَکْبَرْ سے آگے بڑائی کا کوئی لفظ نہیں اور اس کے معنے ہی یہی ہیں.ایک وقت اآقا کہتا کہ میرا فلاں کام کرو.دوسری طرف ایک شخص پکارتا کہ اﷲ اکبر.آؤ نماز پڑھو.خدا سے بڑا آقا کوئی نہیں.ایک طرف بی بی عید کا سامان مانگتی ہے.دوسری طرف خدا کہتا کہ فضولی نہ کر؟ اب یہ کدھر جاتا ہے.نیک معاشرت.نیک سلوک.بی بی کی رضاجوئی اور خوش رکھنے کا حکم ہے اور مال جمع کرنے کی ضرورت ہے.دوسری طرف حکم ہے کہ ناجائز مال مت کھاؤ.ایک طرف عفت اور عصمت کا حکم ہے.دوسری طرف بی بی موجود نہیں ناصح کوئی نہیں.اور نفس چاہتا ہے کہ عمدہ گوشت.گھی انڈے.زعفرانی متنجن.کباب کھانے کے واسطے ہوں.پھر رمضان میں اس سے بھی کچھ زیاہ ہوں.اب بی بی تو ہے نہیں.علم اور عمدہ خیالات نہیں پس اگر خدا کے حکم کے خلاف کرتا اور نفس کی خواہش کے مطابق عمدہ اغذیہ کھاتا تو لواطت.جلق.زنا.بدنظری میں مبتلا ہو گا.اسی طئے تو اصفیاء نے لکھا ہے کہ انسان ریاضت میں.سادہ غذا کھاوے.اس لئے ہمارے امام علییہ السلام نے یہاں نجم الدّین کو ایک روز تاکیدی حکم دیا کہ لوگ جو مہمان خانہ میں مجرّد ہیں عام طور پر گوشت ان کو مت دو بلکہ دال بھی پتلی دو.اور بعض نادان اس سرّ کو نہیں سمجھتے اور شور مچاتے ہیں.پس رسول کریمؐ نے وہ اﷲ اکبر مکانوں اور چھتوں اور دیواروں اور منبروں پر چڑھ کر سنایا پس شہوت اور غضب کے وقت بھی اس کو اکَبْرَ ہی سمجھو.ایک شخص کو کسی شخص نے کہا کہ تو جُھوٹا ہے.وہ بہت ناراض ہوا اور اس کی ناراضی امام کے کان میں پہنچی.آپ ہنس پڑے اور فرمایا.کاش کہ اسی قدر غضب کو ترقی دینے کی بجائے اپنے کسی جھوٹ کو یاد کر کے اس کو کم کرتا.حرص آتی ہے اور اس کے واسطے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت کو یاد کر کے اس کو کم کرتا.حرص آتی ہے اور اس کے واسطے روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ضرورت کے وقت حلال حرام کا ایک ہی چُھرا چلا بیٹھتا ہے ایسا یہیں چاہیئے.ایک طرف عمدہ کھانا.عمدہ نہیں چاہتا.دوسری

Page 261

طرف حکم کی خلاف ورزی.سُستی کرنا اور یہ دونوں آپس میں نقیض ہیں.اس سے عجز اور کسل پیدا ہوتا ہے پس ایسی جگہ میں شہوت پر عفت.اور حرص پر قناعت اختیار کرے اور مآ ل اندیشی کر لیا کرے.مال کی تحصیل میرے نزدیک سہل اور آسان امر ہے.ہاں حاصل کر کے عمدہ موقع پر خرچ کرنا مشکل امر ہے.پس ایک طرف خدا شناسی ہو اور دوسری طرف مخلوق پر شفقت ہو.اﷲ اکبر کا حصول.چار دفعہ تم اذان کے پہلے ہر نماز میں سنتے ہو.اور ستّرے دفعہ امام تم کو نماز میں سناتا ہے.پھر حج میں.عید میں.رسول کریمؐ نے کیسی حکمِ الہٰی کی تعمیل کی ہے.کہ ہر وقت اس کا اعادہ کرایا اور یہ اس لئے کہ انسان جب ایک مسئلہ کو عمدہ سمجھ لیتا ہے تو علم بڑھتا ہے اور علم سے خدا کے ساتھ محبت بڑھتی ہے.پھر اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اﷲُ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ کہا جاتا ہے جس کے معنے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اﷲہی معبود ہے.اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے رسول ہیں.پھر جس طرح خدا نے حکم دیا اُس طرح اس کی کبریائی بیان کر.جس طرح اس نے حکم دیا اس طرح نماز پڑھ.ل اسی طرح اس سے دعائیں مانگ.پھر یہ طریق کس طرح سیکھنا چاہیئے.وہ ایک محمدؐ ہے صلی اﷲ علیہ وسلم اور وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے.اس سے جا کر سیکھو پھر جب ان احکام کی تعمیل میں تو مستعد ہو جاوے تو حَیَّی عَلٰی الصَّلوٰۃ آ نماز پڑھ کہ وہ تجھے بدی سے روکے.پھر نماز کے معانی سیکھنا کوئی بڑی بات نہیں.کودَن سے کودَن آدمی ایک ہفتہ میں یاد کر لیتا ہے.ایک امیر میرا مربّی تھا.اس کے دروازہ پر ایک پوربی شخص صبح کے وقت پہرہ دیا کرتا تھا.ایک دن وہ صبح کی نماز کو نکلے تو وہ خوش الحانی سے گا رہا تھا.کہا.تم ئیہاں کیوں کھڑے ہو.جواب دیا کہ پہرادار ہوں.انہوں نے کہا.اچھا تمہارا پہرہ دن میں دو گھنٹہ کا ہوتا ہے.ہم تمہارا پہرہ پانچ وقت میں بدل دیتے.تم تھوڑی تھوڑی دیر کے واسطے آ جایا کرو.اور نماز کے وقت میں پانچوں وقت اس کے وقت کو تقسیم کر دیا اور اس وقت جاتے جاتے اس کو کے معنے سکھا دئے کہ میری واپسی پر یاد رکھنا.چنانچہ جب وہ نماز صبح پڑھ کر واپس آئے تو اس نے یاد کر لئے تھے.آ کر اس کو رخصت دیدی.پھر الحمد شریف کے معنے بتادئے.غرض عِشاء کی نماز تک اَلْحَمد اور قُل کے معنے اُس نے پورے یاد کر لئے.ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد اس کا پہرہ پچھلی رات میرے مکان پر تھا مَیں نے سُنا کہ وہ بارہوں پارہ کو پڑھ رہا تھا.غرض دریافت پر کہا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے بارہ سپارہ بامعنی یاد کر لئے ہیں.

Page 262

پس قرآن کا پڑھنا بہت آسان ہے.نماز گناہ سے روکتی اور گناہ سے رُکنے کا علاج ہے.مگر سنوار کر پڑھنے سے.غافل سوتے ہوئے اٹھ کر نجات کے طالب بنو.اور اذان کی آواز پر دوڑو.ْ.ہاں بلانے والا پہلے اپنا دامن پاک کر لے.پھر کسی کو بلاوے.جب اذان سن لے تو درود پڑھے کہ یا اﷲ ہمارے نبیؐ نے کس جانفشانی اور محبت اور ہوشیاری سے خدا کی تکبیر سکھلائی اور تم تک پہنچائی ہے.اس پر ہماری طرف سے کوئی خاص رحمت بھیج دو اور اس کو مقامِ محمود تک پہنچا.اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے.(الحکم ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۹) : مزمل اور مدّثر دونوں لفظوں کے معنے قریب قریب ایک ہیں.مدّثر و ثار سے مشتق ہے.دِثَار وہ کپڑا ہے جو شعار کے اوپر پہنا جاوے اور شِعَار وہ کپڑا ہے جو جسم سے مِلا رہے.حدیث شریف میں ہے.الا نصار شعار وَ النَّاس دثارٌ.یہ سورۃ شریفہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی ابتدائی دعوت کے وقت کی وحی ہے.اور اس کی قوّت و شوکت آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آطہ وسلم کی رسالت اور قرآنِ پاک کی حقانیت کی ایک زبردست دلیل ہے.کیونکہ اس کا نزول ابتدائی وقت میں ہے جبکہ کوئی جتھا آپؐ کے پاس نہ تھا.: سورۃ مزمل میں اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ اور تقرّب الی اﷲ حاصل کرنے کا حکم ہوا تھا اور اس سورہ شریفہ میں ارشاد ہدایت خلق اﷲ کا حکم فرمایا ہے پہلی شق مرتبہ کمال اور دوسری شِق مرتبہ تکمیل کے متعلق ہے.اسی لئے مرتبہ کمال کو مرتبہ تکمیل پر مقدم رکھا.سورۃ ماقبل میں قُمِ الَّیْلَ ( مزمل:۳)فرمایا تھا اور اس سور ۃ میں فرمایا.قُمِ الَّیْلَ اپنے کمالِ نفس کی تحصیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور تکمیل خلق اﷲ کے حاصل کرنے کی جانب ایماء کر رہا ہے.: ربّ کا لفظ تکمیل کو چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو ارشاد ہے کہ اپنے ربّ کی عظمت بیان کر.جس وقت آپ مبعوث ہوئے اس وقت مشرکینِ عرب ربّ النوع کی پرستش کرتے تھے اور اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ کی عبادت ہوتی تھی.اس میں پیشگوئی ہے کہ اﷲ اکبر کے نعروں کے بلند ہونے کا وقت آ گیا ہے.: اپنا آپ پاک بناؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۲ء) یہ سورۃ المدثر کا ابتداء ہے.یہاں فرمایا ہے.کس نے فرمایا ہے.تمہارے ربّ محسن.مربّی

Page 263

منعم اور بڑے بادشاہ نے فرمایا ہے.اُس مولیٰ نے جس نے تم کو ہاتھ.ناک.کان دئے.ایسا محسن.مربّی.اپنی پاک کتاب میں فرماتا ہے. ہوا اور کھانے پینے کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہوتا.مگر اب بھی ایسی قومیں ہیں کہ وہ کپڑے وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں.بنارس میں ایک ساد ہو تھا.وہ ننگا رہا کرتا تھا.لوگ اس کی بڑی قدر کرتے تھے.افریقہ میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بیویوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں.مگر ان میں وحشت ہے اور ننگے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے رسول کو فرماتا ہے.کہ ہم نے تجھ کو لباس پہنایا. اس لئے کھڑا ہو جا.اور کھڑے ہو کر جو لوگ بدکار ہیں.نافرمان ہیں.اور خدا تعالیٰ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتے.ان کو ڈراؤ.میرا خیال ہے کہ جو حکم کوئی بادشاہ کسی جرنیل یا بڑے حاکم کو دیتا ہے.اس کی تعمیل اس کی سپاہ اور رعایا پر بھی فرض ہو جاتی ہے یہ حکم حضرت نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے لئے ہے.اس لئے یہ ہم پر بھی فرض ہے.بہت سارے لوگ ایماندار بھی بنتے ہیںک اور پھر شرک بھی کرتے ہیں.اکثر لوگوں کا اگر تم حکم مانو گے تو وہ تم کو گمراہ کر دیں گے خدا کا حکم مانو.بادشاہ اور بڑے بڑے حکام لوگوں کی اصلاح کے لئے کیسے کیسے قانون بناتے ہیں.اور دو تین برس اس کی نگرانی کرتے اور پھر اس کو جاری کرتے ہیں.پھر اس پر نظر ثانی کر کے اصلاح کرتے ہیں.پھر اس کو شائع کرتے ہیں.غرض مقنّن اور تجربہ کار کیسی کیسی تکلیفیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی بھی نافرمانی کرتے ہیں.دیکھو پولیس کیسی کوشش لوگوں کے امن و امان کے لئے کرتی ہے اگرچہ پولیس میں بھی بعض بدکار پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن تاہم وہ لوگوں سے چوری، بدکاری چھڑانے میں کوشاں رہتی ہے.لیکن جس قدر نئے نئے قانون وضع ہوتے ہیں.اسی قدر شریر لوگ شرارت کی راہیں نکال لیتے ہیں.اس لئے ہر ایک شخص کو تم میں سے چاہیئے تھا کہ وہ اُٹھ کر ہر روز لوگوں کو سمجھائے.اگر کوئی کسی کی بات نہیں مانتا.تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں.لوگ بادشاہوں.حکاموں اور دیگر اپنے بہی خواہوں کی نافرمانی کرتے ہیں.اس لئے خدا کا حکم ہے.کہ تمہارا کام سمجھانا اور ڈرانا ہے.تم اپنا کام کئے جاؤ.لوگوں کو سمجھاتے جاؤ اور ڈراتے جاؤ اور اس ڈرانے میں یہ کوشش کرو...یعنی خدا تعالیٰ کی عظمت.جبروت کا ذکر ہو اور اپنی غلطیوں کی بھی اصلاح کرو.چوری.بدنظری.بدکرداری اور دیگر تمام بدیوں کو پہلے خود چھوڑ دو اور یہ وعظ اس لئے نہ ہو کہ بس آپ کھڑے ہوئے یہ کہو.کہ میرے لئے کچھ پیسے جمع کرو.بلکہ محض اﷲ کے لئے کرو.میں سَاَلَ سَائِلٌ کے لئے پکا تھا.مگر معلوم ہوتا ہے.مگر معلوم ہوتا ہے.کہ ارادہ الہٰی کچھ اس طرح تھا.یہ بڑا

Page 264

معرفت کا نکتہ ہے.جو میں نے تمہیں سنایا ہے.دوسروں کو ضرور ہر روز نصیحت کرو.اس سے تین فائدے ہوتے ہیں.اوّل خدا کے منکر.نہی عن المنکر کی تعمیل ہوئی ہے.دوسرے ممکن ہے کہ جس کو نصیحت کی جائے.اس کو نیک کاموں کی توفیق ملے.تیسرے جب انسان اپنے نفس کو مخاطب کرتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے اور اس کی بھی اصلاح ہوتی ہے.تمہارے بیان بیان میں خدا کی عظمت اور اس کی قدرت و تصرف کا ذکر ہو.اس کا تین طرح دنیا میں مقابلہ ہوتا ہے بعض لوگ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ نہ ہم مانتے ہیں اور نہ ہم سننا چاہتے ہیں.اور بعض سنتے ہیں مگر عمل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ قسم قسم کی وجوہات نکال کر واعظ میں نکتہ چینی کرتے ہیں.مگر واعظ کو چاہیئے کہ اﷲ کے لئے صبر کرے اور اپنا کام کرتا چلا جائے.(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء، بدر ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۳) اے لحاف میں لپیٹے ہوئے( یہ اشارہ قبل نبوّت کی حالت پر ہے) کھڑا ہو.پھر ڈرسُنا.اور اپنے ربّ کی بڑائی بول.اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور کتھری کو چھوڑ دو اور نہ کر کہ احسان کرے اور بہت چاہے اور اپنے رب کی راہ دیکھ.ثِیَاب کے معنی نفس اور دل کے بھی ہیں.محاورہ ہے.سَلِّی ثِیَابِی مِنْ ثِیَابِکِ اَیْ قَلْبِیْ مِنْ قَلْبِکِ.فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۲۶) ۶..رُجْز میں دو لغت بیان ہوئے ہیں.ایک رُجْزاوررِجْز.دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں.کماقال  (الاعراف:۱۳۵) اس آیت میں رِجْز کے معنے عذاب کے ہیں اور بُتوں کی پرستش اور شیطان کے مکرو فریب کو اس واسطے رجز کہا جاتا ہے.کہ یہ چیزیں عذاب کی باعث ہیں اور اس حکم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی طہارت کی تعلیم فرمایا ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۷..قرآن کریم کی تعلیم احکامِ الہٰی کی تبلیغ یا مالی احسان کے کسی کو بایں غرض منّت و احسان نہ جتا کہ آپ اس سے کثرتِ مال.کثرتِ جاہ یا بہتر بدلہ طلب کرے.اور کوئی چیز کسی شخص کو بہ ایں نیت

Page 265

ہرگز نہ دے کہ وہ اس کا بدلہ زیادہ کر کے آپ کو دیوے کیونکہ یہ فعل تلویث باطن میں نجاست کا حکم رکھتی ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۹..نقر کے معنی کلامِ عرب میں آواز دینے کے ہیں.جب کوئی کسی شخص کو نام لے کر پکارتا ہے تو نَقَرَ بِاِسْمِ الرَّجْلِ کہتے ہیں.اعلان کے ساتھ کسی چیز کو ٹھونک بجا کر اطلاع دیتے ہیں.تو اس کو بھی اسی لئے نقارہ کی چوٹ سے یا ڈھنڈوری سے اطلاع عام دینا کہتے ہیں.جنگوں میں بھی نقارہ بجایا جاتا ہے.جنگوں کو بھی عذاب فرمایا.کُمَا قَال تَعالٰی ’’‘‘ (التوبہ:۱۴) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۲.. کے معنی بے نظیر، اوصاف میں منفرِد.ولید بن مغیرہ کے دو لقب مکّہ میں مشہور تھے.ایک وَحِیْد اور دوسرا رَیْحَانَۃٌ قُرَیْش.وہ اپنے شعر و سخن اور نظر کی خوشنمائی میں شہرت رکھتا تھا.مال و فرزند بھی اس کے زیادہ تھے.مگر بایں ہمہ پر لے درجے کا ناسپاس و ناشکر گزار تھا.اس کی اولادی دس یا تیرہ مع الاختلاف تھی.خداوند تعالیٰ کا نپٹنا اس کے ساتھ اس طرح ہوا.کہ ولید بن ولید خالد بن ولید.ہشام بن ولید مشرف بَاِسلام ہوتے اور اس کے چہتے بیٹے اس سے بیزار ہو کر اس سے علیحدہ ہو گئے.بعضے اس کی آنکھوں کے سامنے کھپ گئے.مال و دولت میں پَے درپَے نقصان ہونے لگا اور آخر الامر خود آپ نہایت ذلّت اور افلاس کے ساتھ ہلاک ہو گیا.نزول آیت کا اگرچہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے.مگر اعتبار اس کا عام ہے.ہمارے اس زمانے میں بھی ایسی نظیریں کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن کا بیان حصرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب حقیقۃ الوحی میں نام بنام نمبروار درج ہے.مَنْ شَائَ فَلْیَرْجِعْ اِلَیْہِ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۱۹ تا ۲۵....... .

Page 266

چونکہ نامی شاعر تھا اس لئے جب قرآن شریف کی نسبت لوگوں نے پوچز تو اس نے اٹکل دوڑائی.خدا کی مار.اٹکلیں دوڑا کر کہا تو یہ کہا.کہ یہ تو جادو بھرا مؤثر کلام ہے اور اس کلمہ کو تیوڑی چڑھا کر اور بُرا سامُنہ بنا کر حقارت آمیز لہجہ میں ادا کیا کما قَالَ… .( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۳۱..بتلا گیا ہے کہ جہنم کے داروغے انیس ہیں.اس عد میں ایک عجیب راز ہے.دانشمند غور کریں تو وہ اس قرآنی فلسفہ سے لطف اٹھائیں.انسان کے وہ اعضاء و قوٰی کہ جن سے خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ظہور ہو سکتا ہے.وہ بھی تعداد میں انیس ہی ہیں.دو ہاتھ.دو پاؤں.زبان.دل.آلۂ تناسل.مقْعد پیٹ.منہ.حواس خمسہ.فکر.عقل.شہوت.غضب.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) ۳۲.     

Page 267

مسیح علیہ السلام کے ماسوا کس قدر انبیاء و رسل اور اﷲ تعالیٰ کے مامور گزرے ہیں.کیا کسی کا نسب نامہ قرآن کریم میں لکھا ہے؟ بلکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے   پس سب کے وجود کا علم بھی ضروری نہیں چہ جائیکہ وہ کس طرح پیدا ہوئے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۱۸۱) : یہ پیشگوئی ایک شخص کو تاریخی انسان بنانے والی ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء) آریہ مکذّب براہین احمدیہ کے اعتراض ’’ آریہ محمدی لوگوں کی طرح پانچ ہزار سال یا چھ ہزار سال سے خالق.رازق.مالک.رحیم.عادل اور قادرِ مطلق نہیں مانتے.‘‘ کے جواب میں فرمایا: تمام قرآن کریم اور حدیث نبی رؤف الرحیم میں سے یہ قول نکال دیجئے.کہاں اسلام نے کہا ہے کہ خدا پانچ چھ ہزار سال سے خالق.رازق.مالک.رحیم.عادل اور قادر مطلق ہے.خدا کے واسطے کچھ تو خوف الہٰی کو دل میں جگہ دو.عدالتِ الہٰی کا دھیان کرو.صرف نیشنلٹی اور صرف دنیوی پالیسی کس کام آوے گی.باری تعالیٰ عالم الغیب اور انتریامی اور عادل ہے.علیم بذات الصدور ہے.راستی پر اپنے فضل سے ارام کا داتا ہے.مسلمان تو اﷲ تعالیف کو ہمیسہ سے رازق.مالک.عادل.رحیم.قادر یقین کرتے ہیں.بلکہ ایک جمِ غفیر مسلمانوں کاعینیَتِ صفات کا قائل نہیں.مگر یہ اعتقادر رکھتا ہے.کہ اﷲ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا.بلکہ کوئی موصوف کسی وقت اپنے لازمہ صفات سے خالی نہیں ہو سکتا.اگر اﷲ تعالیٰ کا خالق رازق ہونا بلحاظ انسانی پیدائش کے آپ لیتے ہیں.تو بتایئے مرنے کے وقت انسان کہاں ہوتے ہیں.جن کا وہ خالق رازق ہوتا ہے.

Page 268

ہم زیادہ بحث نہیں کرتے.پانچ چھ ہزار برس سے کل مخلوق کی پیدائش کا زمانہ بلکہ انسانی پیدائش کا زمانہ قرآن کریم یا حدیث نبی رحیم سے نکال دیکئے.پس اسی پر فیصلہ ہے.تعجّب ہے کہ آپ نے خود صفحہ ۲۳ میں ارقام فرمایا ہے.’’ یہ امر مسلّم فریقین ہے.کہ پرمیسور اور اس کی سب صفات اور علم اور ارادہ قدیم ہیں.اس واسطے اس پر بحث کی ضرورت نہیں.پھر مَیں کہتا ہوں.اگر یہ بات مسلم فریقین ہے.تو آپ نے صفحہ ۲۲ میں کس بناء پر اسلام کو الزام لگایا کہ محمدی پانچ ہزار سال سے اﷲ تعالیٰ کو خالق رازق جانتے ہیں.غرض اسلام تو اﷲ تعالیٰ کی اتنی مخلوق کا قائل ہے جو حدّ و شمار سے باہر ہے.دیکھو قران کریم میں صاف موجود ہے.وَمَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ.وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْیئٍ مِّنْ عِلْمِہٖ تیرے ربّ کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا.اس کے کسی قدر علم کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے.اور اسلامیوں کی مسلّم الثبوت اور اعلیٰ درجہ کی کتاب صحیح بخاری میں کَانَ اﷲ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا کے یہ معنے لکھے ہیں.لَمْ یَزَلْ کَذٰلِکَ فَاِنَّ اﷲَ لَمْ یُرِدْشنیْئًا ابلَّا اَصَاب بِہِ الَّذِیْ اَرَادَ یعنی ’’ اﷲ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی ہے.بیشک اﷲ تعالیٰ جب ارادہ کرتا ہے.وہ کام ہو ہی جاتا ہے‘‘ (بخاری تفسیر سورۃ حٰمٰ السجدہ) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۷۴.۷۵) ۳۸..جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے.یا پیچھے ہٹنا چاہے.اس کے لئے اِنْذار مفید ہو سکتا ہے مگر جس کے دل میں جنبش ہی نہ ہو.نرا ٹھوس ہے.انذار اور عدم انذارکو دونںو ہی کو برابر سمجھتا ہے اور جگہ سے ہلنا ہی نہیں چاہتا ہے.اس کے لئے قرآن شریف کا اُترنا اور نہ اُترنا گویا دونوں برابر ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ مارچ ۱۹۱۲ء)

Page 269

۳۹..ہر شخص کو اس دنیا میں بھی اپنے اپنے اعمال کے موافق جزا سزا مل رہتی ہے.میں نے دیکھا ہے.ایک شخص نے ناجائز کمائی سے ایک مکان تعمیر کرایا.آکر نہ خود اس کو اُس مکان میں رہنا نصیب ہوا اور اُس کی اولاد بھی ایسے مکان میں نہیں رہتی.بخلاف صالح انسان کے کہ خدا اس کی اولاد کا بھی متکفل رہتا ہے.یتیم بچوں کا کوئی نیک عمل نہ تھا.مگر کَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا ( کہف : ۸۳)فرمیا اور باپ کی صلاحیت بیٹوں تک کو مفید ہوئی.یہی حال ہر شخص کا اپنے اعمال میں مرہون رہنا ہے.ایک شخص کے اگر آتشک ہوتی ہے تو کی پست تک یہ موذی مرص اس کی اولاد میں چلا جاتا ہے.۵۱..حُمُرٌ جمع ہے حمار کی.حمار کو حمار اس مناسبت سے کہتے ہیں.کہ اس کی چیخ پکار کے وقت اس کی انکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں.اسی طرح ہر صادق کے مقابلہ میں گدھوں کی طرح مخالفوں کا سخت غیط و غصب ہوتا ہے.جہاں سخت مخالفت ہوتی ہے.اس کے بالمقابل حق ضرور ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: زِ اوّل چُنیں مجوش ببین تا بآخرم ۵۲..: قَسَرَسے مشتق ہے.جس کے معنے قہر اور غلبہ کے ہیں.اہل عرب بولا کرتے ہیں.لُیُوْثٌ قَسَاوِرَۃ.لیوث جمع لَیْث کی ہے.لَیْثَ بمعنی شیر.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں.اَلْقَسْوَرَۃُ ھِیَ الْاُسُدُ.قَسورۃ اُن تیراندازوں کی جماعت کو بھی کہتے ہیں.جو جنگلی گدھوں کا شکار کرتی ہیں.۵۳..

Page 270

شاہ عبدالقادر صاحب موضہؔ القرآن حاشیہ میں فرماتے ہیں.’’ہر کوئی نبی ہوا چاہتا ہے کہ کُھلی کتاب پاوے آسمان سے‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۵۶، ۵۷.. .معدوم کو موجود کرنا خدا کا کام ہے.مخلوق میں.ہاں حیوان اور انسان کے دل میں کسی ارادے اور مشیّت کا پیدا کرنا بیشک باری تعالیٰ کا کام ہے.الّاہر ایک منصف جانتا ہے کہ صرف مشیّت اور ارادے کے وجود سے کسی فعل کا وجود ضروری اور لازمی امر نہیں.یقینا قوٰی فطری کا خلق اور عطا کرنا جن پر ہر گونہ افعال کا وجود و ظہور مترتب اور مُتَفَرّع ہو سکتا ہے.خالق ہی کا نام ہے.اس لطیف نکتہ کے سمجھانے کے لئے اور نیز اس امر کے اظہار کرنے کو قوٰی طبعی اور کائنات سے کوئی وجود اصل امرِ خلق میں شریک نہیں.سب اشیاء کی علت العلل مَیں ہی ہوں.باری تعالیٰ سب افعال کو بلکہ ان افعال کو بھی جو ہم معائنہ اور مشاہدہ کے طور پر انسان اور حیوان سے سرزد ہوتے دیکھتے ہیں.اپنی نسبت کرتا ہے.کہیں قرآن میں فرماتا ہے.ہوا بادلوں کو ہانک لاتی ہے.کہیں فرماتا ہے.ہم بادلوں کو ہانکتے ہیں.ہم ہی گایوں اور بھینسوں کے تھنوں میں دودھ بناتے ہیں.ہم ہی اناج بوتے ہیں.ہم ہی کھیت اُگاتے ہیں.اور تأَمّل کے بعد یہ سب نسبتیں جو ظاہرًا متضاد الطرفین ہیں.بالکل صحیح اور حقیقۃً بالکل صداقت ہے.( فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۲) :  کو مقدّم اس لئے رکھا کہ سوائے اﷲ تبارک و تعالیٰ کے دوسرا کوئی اہل نہیں کہ اس پر جان فدائی کی جاوے جیسے فرمایا (مومن:۶۶) تقوٰی کے ساتھ مغفرت کو اس لئے قرین رکھا.کہ ہر نبی ولی نے تقوٰی کی تیز اور خونخوار راہوں میں اپنی بشری کمزوریوں کا اعتراف کیا ہے.حضرت اقدس مرحوم و مغفور علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: در کوئے تُو گر سرب عشّاق راز نند اوّل کسے کہ لافِ تعشّق زند منم (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 271

سُوْرَۃَ الْقِیٰمَۃِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..لَا کو اکثروں نے زائد بتایا ہے.اور حدیث شریف میں ہر ہر حرف پر دس دس نیکیوں کا ثواب مذکور ہے.جب بات سمجھ میں نہ آئی.تو وہ زائد ہی ہوئی.کفّار کو جس قدر بعث بعد الموت کے مسئلہ پر انکار و اصرار تھا.ایسا کسی دوسرے مسئلہ پر سوائے شرک کے نہیں تھا.چنانچہ نہایت ہی تعجب ہے.کفّار نے کہا. (سبا:۸) ادھر سے انکار پر اس قدر اصرار تھا اور ادھر اثبات بعد اموت پر جگہ جگہ زور دیا گیا ہے.اس ردّ و کد کو مدّنظر رکھ کر مخاطب کے مافی الضمیر پر انکاری طریق کلام کا افتتاح’’ لا‘‘ کے لفظ سے فرمایا ہے.یعنی قَوْلہٗ تعالٰی:(تغابن:۸) میں جو زعم کے منکران بعث بعد الموت کے ضمیر میں رچا ہوا تھا.اس کی نفی ’’ لا‘‘ کے لفظ سے کرتے ہوئے کلام کو شروع کیا.اس قسم کا محاورہ ہر زبان میں ہوا کرتا ہے.جس کو مخاطبِ سخن بلاشک و شبہ پہچان لیتا ہے.کہ یہ’’ لا‘‘ میرے مافی الضمیر کا ردّ ہے.اس کے یوم القیامہ اور نفس لوّامہ کو بعث بعد الموت پر اس طور پر گواہ ٹھہرایا ہے.کہ یوم القیامہ سے جنگ کی مصیبت کا دن اور اپنے نفس پر کفّار کی ملامت کا اعتراف ثبوتِ دعوٰی بن گیا.دنیا میں جنگ کے لئے محشور ہونا آخرت کے حشر کے لئے اور دنیا کی شکستوں پر اپنے نفسوں کو ملامت کرنا آخرت کے جزا و سزا کے لئے ثبوت ٹھہرا.قیامۃ: کھڑا ہونا ۱.مَنْ مَاتَ فَقَدْقَامَتْ قِیَامَتُہٗ.

Page 272

۲.قوم کی قیامت.جیسا کہ بنواُمیّہ پر سو سال کے بعد قیامت آئی.اور وہ زبان عربی کے بولنے والے حکّام پر قیامت تھی.۳..حج:۴۸) حدیث شریف میں آیا ہے.کیا میری اُمّت آدھا دن نہ کاٹے گی.اہلِ اسلام کا عروج قریب پانچ سو سال رہا.۴.ہزار سال کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں بہت رَوْلا پڑ گیا.یہ بھی ایک قیامت ہے.۵.یوم الساعۃ ۶.یَوْمَ الْقیَامَۃِ: مصیبت کے وقت کو بھی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اپریل ۱۹۱۲ء) اس سورۃ شریف میں اﷲ تعالیٰ ایک فطرت کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے.قرآن کریم کو اﷲ تعالیٰ نے ذِکّر فرمایا ہے.مطلب یہ کہ تمہاری فطرت میں سب قسم کی نیکیوں کے بیج بودئے تھے.ں ان کو یاد دلانے اور ان کی نسوونما کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا.وہ جو فطرتوں کا خالق ہے اس نے قرآن کریم کو نززل فرمایا ہے.مسیحی لوگوں کو ایک غلطی لگی ہے.پولوس کے خط میں ہے کہ یہ شریعت اس وجہ سے نزال ہوئی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تم شریعت کی پابندی نہیں بجا لا سکتے.گویا شریعت کو نزال کر کے انسان کی کمزوری کا اس پر اظہار کرتا تھا اس لئے پلید تعلیم دی گئی کہ نجات کی راہ سریعت کو نہ مانو.مَیں نے بعض مشنریوں سے پوچھا ہے.کہ جب شریعت کی پابندی تم سے نہیں ہو سکتی.تو تمہارے جو اور قوانین ہیں.ان کی پابندی تم کیسے کرتے ہو.ہر ایک انسان جب بدی کرتا ہے تو اس بدی کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے اور ہر سلیم الفطرت اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ہر بدی کے ارتکاب کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے یہ کام اچھا نہیں کیا.گو کسی وقت ہو.مَیں نے لوگوں سے اور اپنے نفس سے بھی پوچھا ہے.چنانچہ جواب اثبات میں ملا.چور کو چوری کے بعد ایسی ملامت ہوتی ہے.کہ وہ چوری کے اسباب کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا.اسی طرح ڈاکہ ڈالنے والے اور قاتل دونوں ارتکابِ جُرم کے بعد کہیں بھاگنا چاہتے ہیں.اسی طرح جھوٹا آدمی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کے بعد اس کو ملامت ہوتی ہے کہ یہ بات ہم نے جھوٹ کہی.عرض ہر بدی کے بعد ایک ملامت ہوتی ہے.جس بدی کو انسان کرتا ہے اسی بدی کے متعلق اگر اس سے تفسیش کی جائے

Page 273

تو ایک حصّہ میں چل کر وہ منکر ہو جاتا ہے.مَیں نے بعض چوروں سے پوچھا کہ اعلیٰ درجہ کی چوری میں مال پر ہاتھ تو مشکل سے پہنچتا ہے.پھر کسی کے ہاتھ سے نکلواتے ہو.کسی کے سر پر رکھتے ہو.کسی سنار کو دیتے ہو کہ وہ زیوارات کی شکل وہیئت کو تبدیل کر دے.اس نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم سُنار کو سو روپے کی چیزیں پچہتر روپے میں دیتے ہیں.مَیں نے کہا کہ اگر وہ سو روپے کی چیز ساٹھ روپے میں رکھ لے تو پھر ہم کیا کرو.تو مجھے جواب دیا کہ ایسے حرامزادے بے ایمان کو ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے! میں نے کہا کہ وہ بے ایمان بھلا کیسے ہو؟ کہنے لگا.کہ چوری ہم کریں.مصیبت ہم اٹھائیں اور مال وہ کھا جائے.تو پھر بھی اگر بے ایمان نہ ہو تو اَور کیا ہو گا! مَیں نے کہا.اچھا وہ سُنار تو صرف تمہاری اتنی ہی سی مشقّت برداشت کی ہوئی دولت کو غبن کر کے بے ایمان اور حرام زادہ ہو گیا مگر تم جو اوروں کی برسوں تک مصیبت اٹھا اٹھا کر جمع کی ہوئی دولت کو چُرا لاتے ہو.بے ایمان اور حرام زادے نہیں؟ اس کا جواب مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا! اسی طرح مَیں نے ایک کنچن سے پوچھا کہ تم اس پیشہ کو بُرا نہیں سمجھتے؟کہا.کہ نہیں! مَیں نے کہا کہ اپنی بیوی سے زنا کرا سکتے ہو؟ کہا کہ غیر کی لڑکی کو خراب کرنا اچھا نہیں! مَیں نے کہا کہ تم نے خراب کا لفظ بولا ہے.بھلا تو بتاؤکہ جو لوگ تمہارے یہاں زناکرنے کے لئے آتے ہیں.کیا ان کے نزدیک وہ غیر کی لڑکی نہیں ہوتی؟ قیامت کے ثبوت میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِ.اگر جزا سزا نہ ہوتی تو نفسِ لوّامہ تم کو ملامت ہی کیوں کرتا.نفسِ لوّامہ قیامت کا ثبوت ہے.کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم ہدیوں کو جمع نہیں کر سکتے اور ہڈیاں تو الگ رہیں ہم تو پوروں کی ہڈیوں کو بھی جمع کر دیں گے.بَلیٰ قَادِرِیْنَ عَلیٰ اَنْ نُّسَوِّیَ بَنَانَہٗ ہر ایک آدمی جب بدی کرتا ہے تو وہ اس کو بدی سمجھتا ہے.تب ہی تو اس کو غالبًا چھپ کر کرتا ہے.ایک شہر میں ایک بڑا آدمی تھا.مجھ سے اس کی عداوت تھی.مجھے خیال آیا.مَیں اس کے پاس گیا.وہاں لوگ جمع تھے.جوں جوں لوگ کم ہوتے جاتے.میں آگے بڑھتا جاتا تھا.جب سب لوگ چلے گئے.اور دو آدمی ایک اس کا منشی اور ایک شخص جو میرے دوست تھے رہ گئے تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا آج آپ کیسے آئے ہیں.مَیں نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کو نصیحت کرنیوالا کوئی نہیں.کوئی ناصح تو آپ کو نصیحت نہیں کر سکتا.کیونکہ آپ بڑے آدمی ہیں مگر ہر ایک بڑے آدمی کے لئے اس کے شہر میں کھنڈرات اس کے لئے ناصح ہوتے ہیں.کیا آپ کے پاس کوئی ایسی یادگار

Page 274

ر نہیں؟ اس نے کہا کہ مولوی صاحب میرے آگے آیئے.مَیں بہت آگے بڑھا وہ مجھ کو کھڑکی کے بالکل پاس لے گیا.جس میں بیٹھا کرتا تھا.مجھے کہنے لگا اور آگے ہوجئے.میں اَور آگے بڑھا.اس نے پھر کہا اور آگے ہوجئے.اور آگے تو کیا ہوتا.مَیں نے اس کھڑی میں اپنے سر کو بہت قریب کر دیا.اُس نے کہا کہ یہ جو آپ کے سامنے ایک محراب دار دروازہ نظر آتا ہے.اس کا مالک میری قوم کا آدمی تھا اور وہ اتنا بڑا شخص تھا کہ ایک قسم کی سُرخ چھتری جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر چلا کرتا تھا تو اس کے اوپر لگا کرتی تھی اور میں سیاہ بھی نہیں لگا سکتا.اب اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانچھنے پر ملازمہ ہے.یہ بھی سُن لیجئے کہ مَیں اپنے اس تخت کو چھوڑ کر جو آپ کے سامنے پڑا ہوا ہے، ہمیشہ اس کھڑکی میں بیٹھا کرتا ہوں.مگر اس تخت کو چھوڑنے اور اس کھڑکی میں بیٹھنے کی حقیقت مجھے آج ہی معلوم ہوئی ہے.پھر جب کچہری کا وقت ہو گیا.مَیں اسی جوش میں کچہری گیا.رئیسِ شہر اکیلا تھا.میں نے وہی بات کہی تو رئیس نے مجھے ایک قلعہ دکھلایا اور کہا کہ یہ اس شہر کے اصل مالک کا ہے.جو اَب کسی ذریعہ سے ہمارے قبضہ میں آ گیا ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ پہاڑ جو آپ کے سامنے موجود ہے.اس کا نام دھارانگر ہے.اس پر اتنا بڑا شہر آباد تھا کہ ہمارے شہر کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ تھی یہ مجلس بھی میرے لئے ہر وقت نصیحت ہے.اور جہاں ہم راج تلک لیتے ہیں وہاں تمام ارد گرد کچّے مکانات اصل مالکوں کے ہیں اور یہ تین ناصح ہر وقت نصیحت کے لئے میرے سامنے موجود رہتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ خوب سمجھے.جب خدا پکڑتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا.یاد رکھو جیسے گناہ کرتے ہو.ان کی سزا پانیوالے تمہاری آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں.پھر بھی تم نہیں سمجھتے.ہمارے یہاں تمہارے جھگڑے فیصلہ نہیں پاتے.کچھ لوگوں نے عذر کیا ہے.اور کچھ ابھی باقی ہیں.(بدر حصّہ دوم ۲۸؍نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ۸۵.۸۶) ۷.. کے لفظ میں بھی استعجاب اور استبعاد شدید کفّار کی طرف سے بیان ہوا ہے.یعنی کہاںہو گی قیامت؟ ہوتی ہوا تی کچھ نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۸ تا ۱۱... ..

Page 275

برقِ بصر سے مراد تَحَیُّر و فَزَع ہے.جو انسان کی مصیبت کے وقت آنکھیں پھاڑ دیتا ہے مصیبت کا وقت آئے تو ساری تدبیریں اُلٹ پڑتی ہیں.عقل ہوتے ہوئے عقل کام نہیں دیتی گویا کہ نورِ فراست کو بھی گرہن لگ جاتا ہے.گرہن کی اصل بھی اقترانِ شمس و قمر ہے.یعنی ایک کا اوجود دوسرے کے بالمقابل حائل ہو جاتا ہے جو نور کے ہوتے ہوئے نور نظر نہیں آتا.یومِ بدر ظاہری طور بر بھی بجلی کوندی.مینہ برسا.تدبیریں کفّار کی ان پر اُلٹ پڑیں.: کہنے سے بھی کام نہ چلا.قرآن کریم چونکہ ذوالمعارف ہے.لَا تَنْقَضِی عَجَائِبہٌ اس کی شان حدیث شریف میں بیان ہوئی ہے.اس لئے یہ پیشینگوئی اجتماع شمس و قمر کی گرہن کے ساتھ ہمارے اس زمانہ میں بھی مطابق وارقطنی جس میں لَمّ تَکُوْنَا مُنْذُ خَلَقَ اﷲُ السَّمٰوٰتِ وَالّاَرْضَ ہے.رمضان کے مہینہ میں ۱۸۹۴ء میں بڑی شان و شوکت سے مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صدقِ دعوٰی کی علامت میں پوری ہوئی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر جس طرح بدر کے شکست خوروں کو اَیْنَ الْمَفَرُّ! کہنے نے فائدہ نہ دیا اسی طرح اس وقت کے مخالفوں کو باوجود حدیث سریف کی فعلی شہادت کے ضعف حدیث کو اپنا فرصی منفَرّ قرار دینا پڑا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۱۴..متنبّہ کیا جائے گا انسان اُس دن اُن کاموں سے جو اس نے نہ کرنے تھے اور کئے.اور نیز متنبّہ کیا جائے گا.اُن کاموں سے جو اس نے کرنے تھے اور نہ کئے.: وہ کام جو نہ کرنے کے تھے.کر لئے.: وہ کام جو کرنے کے تھے.نہ کئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) استغفار کیا ہے.پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمدًا ہوں یا سہوًا.غرض مَا .جو نہ کرنے کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے.اپنی تمام کمزوریوں اور اﷲ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو مَا اَعْلَمُ وَ مَا لَا اَعْلَمُ کے نیچے رکھ کر یہ دعا کرے کہ میری غلطیوں کے

Page 276

بدنتائج اور بد اثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان بدیوں سے محفوظ فرما.یہ ہیں استغفار کے مختصر سے معنے.( بدر ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۴، الحکم ۲۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ) ۱۷ تا ۲۰.....نہ چلا تو اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کہ شتاب اس کو سیکھ لے.وہ تو ہمارا ذمّہ ہے.اُس کو سمیت رکھنا اور پڑھانا.پھر جب ہم پرھنے لگیں تو ساتھ رہ تُو اس کے پڑھنے کے پھر ہمارا ذمّہ ہے اس کو کھول بتانا.( فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۲۷) : آیت باب ذوالمعارف ہے اس کے دو ترجمے ہیں.ربط ماقبل کے لحاظ سے ایک معنے یہ ہیں کہ ’’ اے معذرت کنندہ.عذر بیان کرنے میں تیز زبانی نہ کر‘‘ اس صورت میں جَمْعَہٗ میںہٗ کی ضمیر انسان کے اعمال کی طرف سے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ پڑھنے والا جب قرآن شریف پڑھے تو جلدی نہ کرے.لوگ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو جامع القرآن بتاتے ہیں.یہ بات غلط ہے.صرف عثمانؓ کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے.ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے.آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دور دور تک پھیل گیا تھا.اس لئے آپ نے چند نسخہ نقل کرا کر مکّہ.مدینہ.شام.بصرہ.کوفہ اور بلاد میں بھجوا دئے تھے.اور جمع تو اﷲ تعالیٰ کی پسند کی ہوئی.ترتیب کے ساتھ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہی نے فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچایا گیا.ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمّہ ہے.: ہمارے ایک دوست ہافط محمد اسحاق صاحب کی الہامی دلیل ہے جو ان کو بزریعہ الہام کے بتلائی گئی.کہ بدلیل اس آیت کے سورۃ الفاتحہ خلف امام سات آیتوں کے ہر ہر وقفے کے درمیان امام کے سکتہ کے وقت مقتدی بھی اپنے ممنہ میں چُپکے چُپکے پڑھ لیا کرے.حدیث شریف میں سورث فاتحہ کو ھِیَ السَّبْعم الْمَثَانِیْ وَ الْقُرْاٰنُ الْعَظِیْمِ فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 277

۲۱..: جلدی کی بات جس کا نفع دمِ نقد موجود معلوم ہوتا ہے.یعنی دنیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۴..جمہور اہل علم کے نزدیک اس آیت سے دیداِ الہٰی بلاحجاب ثابت ہے.حدیث شریف میں ہے.اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ کَمَاتَرَوْنَ الْقَمَرن لَیْلنۃَ الْبَدْرِ.لَیْسن دُوْنَہٗ حِجَابٌ وَ یَرَوْنَہٗ سُبْحَانَہٗ فِیْ فَوْقِھِمْ نَظَرَالْعَیَانِ کَمَا یُرَی الْقَمَرَانِ ھٰذَا تَوَ اتَرٌ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ لَمْ یُنْکِرْہٗ اِلَّا فَاسِدُ الْاِیْمَانِ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۵...گھبرا سے بھرے ہو.حواس باختہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۶..: کمر توڑ مصیبت.فَقَرَاتُ الظَّھْرِ.ان ہڈیوں کے مَنکوں کو کہتے ہیں.جو پُست کی وسط میں اوپر سے نیچے ہوتے ہیں.فقرؔ اور فقیرؔ بھی اسی سے مستق ہے.اس کا حال مسکین سے بدتر ہوتا ہے.اسی واسطے مصارف صدقات میںفقیر کو مسکین پر مقدّم رکھا. (التوبہ:۶۰) فقیر کی ایک صفت ایک جگہ بَائِسَ الفَقِیر(الحج:۲۹)فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۷ تا ۳۱...

Page 278

...ایسا نہ ہو گا جس وقت سانس ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کون افسوس کرنے والا ہے ( جو اسے اب بجا لے) اور ( مریض ) یقین کرتا ہے.کہ اب جُدائی کا وقت ہے اور سخت گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے.اس وقت چلنا تیرے ربّ کی طرف ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۰۴) : اگلے کی ہنسلی کی جگہ.رَقیٰ، یَرْقِی، رقیًا سے ماخوذ ہے.: اس کے کئی معانی ہیں.ایک تو یہ کہ رقیہ سے مشتق ہے.جیسے بِسْمِ اﷲِ اَرْقِیْکَ اس صورت میں جھاڑ پھونک کے معنے ہوں گے.دوسرے یہ کہ رَقیٰ یَرقی رقیاً سے.اس صورت میںراقٍ کے معنے اوپر لے جانے کے ہوں گے اور اس کے کہنے والے فرشتہ ہوں گے.نہ میّت کے پاس والے.فرشتہ عذاب کے اور رحمت کے آپس میں پوچھیں گے کہ رحمت کے فرشتے روح کو آسمان پر لے چڑھیں گے یا عذاب کے.: حضرت عباسؓ فرماتے ہیں.نزع روح کے وقت دنیا کا آخر اور آخرت کا اول وقت ملتا ہے.یہی لَفِّ سَاقَیْن ہے.حسن کہتے ہیں لَفِّ سَاقَیْنسے مراد کفن کا پندلیوں میں لپٹینا مراد ہے.ایک قول یہ بھی ہے.کہ لَفّ ساق اصطلاح میں شدّت مصیبت سے کنایہ ہے.دنیا کی مفارقت کا غم اور آخرت کے حساب و کتاب کا جھگڑا.یہ دونوں مل کر لفّ ساقین ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۳۲،۳۳...: تصدیقِ رسول کو نماز پر بھی مقدّم رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں.نمازی کنی و قبلہ رانمی دائی ندانمت چہ غرض زیں نماز ہا باشد جماعت میں جن احباب کو غیر احمدیوں کی امامت کے مسئلہ میں تحقیق منظور ہو.وہ اس آیت میں صلوٰۃ پر تصدیق کے مقدّم ہونے پر غور کریں.بعد تصدیقِ رسول یا امامِ زمان کے پہلی بات جس کا یوم القیامۃ حساب ہو گا وہ نماز ہے.حدیث شریف میں ہے.

Page 279

اَوَّلُ مَا یُحَاسَبُ بِہِ الْعَبْدُ مِنْ اَعْمَالِہِ الصَّلوٰۃَ نماز کے محافط کے لئے اﷲ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ دین و دنیا کی مشکلات میں اﷲ تعالیٰ اس کا ساتھی و نصیر ہو گا.کُمَا قَالَ تَعَالٰی’’ .(المائدہ:۱۳) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۳۴..: مَطَّ سے مشتق ہے.مَطَّکے معنے اکربازی کے ہیں.حدیث شریف میں ہے اِذَا مَشَتْ اُمَّتِیْ الْمَطِیْطَا.موٹا ہو جانا اردو زبان میں غالباً مَطَّہی سے بنایا گیا ہے.اکڑ باز انسان کو کہتے بھی ہیں کہ بہت مُٹیا گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۳۵،۳۶...: بمعنے ویل اور واویلا کے ہیں.سورہ محمدؐ رکوع ۲ میں ہے فَاَوْلٰی لَھُمْ (آیت:۹)چار مرتبہ  اس لئے فرمایا کہ ترک تصدیق و ترک صلوٰۃ کے دو عذابِ قبر ہیں اور انہیں دو قسم کے دو عذاب یوم القیمٰۃ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۴۱..: (الاٰیۃ) حدیث شریف میں اس آیت کے ختم پر ایک روایت میں سُبْحٰنَکَ اَللّٰھُمَّ بَلٰی اور دوسری روایت بَلٰی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ جواباً آیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) خ خ خ

Page 280

Page 281

Page 282

از طمع جستیم ہر چیزے کہ آں بیکار بود خود فزوں کردیم ورنہ اند کے ازاربود اس طمع و حرص کی اگ کو قرآنِ شریف میں یُوں فرمایا ہے.نَارُ اﷲِ الْمُوْقَدَۃُ.الَّتِیْ تنطَّلِعُ عَلٰی الْاَفْئِدَۃِ.اِنَّھَا عَلَیْھِمْ مُؤْصَدَۃٌ.فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَۃٍ (ھمزہ:۷تا۱۰) حرص و طمع کیے ایک آگ ہے جو دلوں پر جھپٹے مار رہی ہے.جس نے ان کو حق کی شنوائی سے ڈھانک لیا ہے.عمود ممدد کی طرح لمی لمبی امیدوں میں مخبوط الحواس ہیں.اس قسم کی آگ سے فرمایا کہ ابرار خنک چسم و خنک دل رہتے ہیں.یہی ان کا کا فوری پیالہ ہے جیسی حالت دنیا سے یہ لوگ ساتھ لے جاویں گے جَزَائً وِّ فَاقًا (النبا:۲۷) کے طور پر ویسی ہی نعمت ان کو آخرت میں اخداوند کریم عطا فرما دیگا.: دنیا میں ان ابراریہ سیرت رہی کہ جس رشد و ہدایت کو کافوری ٹھنڈک کی طرح انہوں نے آپ حاصل کیا تھا.اس کی نہریں اور چشمے دور دراز ملکوں میں تبلیغی رنگ میںچیر چیر کر لے گئے.چین میں لے گئے.افریقہ میں لے گئے.روم شام اور ملک ہندوستان تک پہنچایا.اسی طرح آخرت میں جَزَآئً وِّ فَاقًا کے طور پر اﷲ تعالیٰ نے بھی ان کو ہر قسم کی نعمتوں سے سیراب کیا.ہماری جماعت کی انجمنوں کو چاہیئے کہ پر پوری توجہ اور جانفشانی سے مگر ٹھنڈے دل سے کوشش کریں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ اپریل ۱۹۱۲ء) انسانی جسمانی رُوح ایک قسم کی لطیف ہوا ہے جو انسان میں شریانی عروق اور انسانی پھیپھڑوں کے بن جانے اور قابلِ فعل ہونے کے وقت نفخ کی جاتی ہے.اس مطلب کو سمجھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عور کرو.یہ صادق کتاب حقیقت نفس الامری کی خبر دیتی ہے.کہ انسان اسی نطفہ سے جو عناصر کا نتیجہ ہے خلق ہوتا ہے.اور پھر یہیں اُسے سمیع و بصیر یعنی مُدْرِک اور ذی العقل بنایا جاتا ہے.نہ یہ کہ پیچھے سے اپنے ساتھ کچھ لاتا ہے اور پرانے اعمال کا نتیجہ اس کے ساتھ چپٹاہوتا ہے.جس وہم و فرض کا کوئی مشاہدہ کا ثبوت نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۱۶) ہر آدمی غور کرے کہ یہ دنیا میں نہ تھا اور اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.ں ضرور ایک وقت انسان پر ایسا گزرا ہے کہ اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.اﷲ تعالیٰ نے عناصر پیدا کئے.اگر وہ ہم کو پتھر بنا دیتا یا حیوانات میں ہی پیدا کرتا.کتایا سؤر بنا دیتا.پھر اگر انسان ہی بناتا پر چوہرا یا چماروں میں پیدا کر دیتا.پھر اگر وہ ایسے گھر میں پیدا کر دیتا جہاں قرآن دانی کا چرچا نہ ہوتا.پھر اگر کسی اچھے گھر میں پیدا ہوتے.پر جوانی

Page 283

میں مر جاتے تو آج تم کو قرآن سنانے کا کہاں موقع ملتا؟ اس نے کیسے کیسے فضل کئے !.ہم نے اپنے فضل سے اس نطفہ کو جس میں ہزاروں چیزیں ملی ہوئی تھیں.سننے والا اور دیکھنے والا بنا دیا.اب مسلمان کہتے ہیں کہ تجارت ہمارے ہاتھ میں نہیں.کہتے ہیں حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں.صرف سو برس کے اندر ہی اندر انہوں نے سب کچھ اپنا کھو دیا.شرک کا کوئی شعبہ نہیں جس میں مسلمان گرفتار نہیں.نماز.روزے.اعمالِ صالحہ میں قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں نہایت ہی سُست ہیں.کوئی ملّاں ہو اور وہ خوب شعر سنائے تو کہتے ہیں کہ فلاں مولوی صاحب نے خوب وعظ کیا! کسی عورت نے مجھے سے پوچھا کہ فلام عورت ایک عرس میں گئی تھی وہ کہتی تھی کہ سُبحان اﷲ ہر طرف نُور ہی نور برس رہا تھا.مَیں نے کہا.وہ کیا تھا.کہنے لگی کہ وہ کہتی تھی کہ اندر بھی باہر بھی مراسی ڈھولک بجا رہتے تھے اور خوب خوش الحانی سے گا رہے تھے! ریل میں مجھے ایک کنچنی ملی.میں نے اس سے کہا کہ تُو کہاں گئی تھی.کہا کہ سبحان اﷲ فلاں حضرت کے یہاں گئی تھی.انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا کہ ہماری فقیرنی آ گئی ہے اور اپنے خادم سے کہا اس کو تین سو روپے دیدو! مَیں تو ایک دم میں مالا مال ہو گئی! مسلمانوں میں تکبّر بڑھ گیا.سُستی ہے.فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کے ساتھ تکبّر بھی از حد بڑھ گیا ہے.اپنی قیمت بہت بڑھا رکھی ہے.سمجھتے ہیں.کہ ہم تواس قدر تنخواہ کے لائق ہیں! ہم نے انسان پر بڑے فضل کئے. یہاں تک کہ انسان کو دیکھنے والا سننے والا بنایا.پھر قرآن کے ذریعہ سے اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں..پر کسی نے قدر کی.کسی نے نہ کی..کوئی مسلمان کہتا ہے کہ جھوٹ جائز ہے.کوئی مسلمان کہتا ہے کہ تکبّر اور فضولی اور قسم قسم کی بدکاریاں جائز ہیں.برائی سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ قدر نہیں کرتے.دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہیں.مگر خود عمل نہیں کرتے.ایک عورت کا میاں شراب پیتا تھا.اس کو میں نے کہا.وہ تم سے بہت محبّت کرتا ہے.تم اس سے سراب چھڑا دو.اس نے کہا کہ میں نے ایک روز اس کو کہا تھا تو اس نے مجھے جواب دیا تھا کہ یہ تجھے نور الدّین نے کہا ہو گا.جب میں اس کی عمر کا ہو جاؤ ں گا تو چھوڑ دوں گا.پھر اس کو میری عمر تک پہنچنا نصیب

Page 284

نہ ہوا.پہلے ہی مر گیا! تم بُرے اعمال چھوڑ دو.لین دین میں لوگ برے نکمّے ہو گئے ہیں.توبہ کرو.استغفار کرو.اﷲ تعالیٰ بڑے سخت لفظ استعمال فرماتا ہے.کہ کوئی تو ہماری بتائی ہوئی بدایت کا شکر گزار وہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا..ہم نے تو بے ایمانوں کے لئے بڑے بڑے عذاب تیار کر رکھے ہیں.ہم ان کو زنجیروں میں جکڑیں گے  اچھے لوگوں کو خدائے تعالیٰ ایک شربت پلانا چاہتا ہے اور وہ ایسا شربت ہے کہ ان کو اپنی بدیوں کو دبانا پڑتا ہے.ابرار انسان تب بنتا ہے جب وہ اپنے اندر کی بدیوں کو دباتا ہے نفس کے اوپر تم حکومت کرو.بہت سے لوگ ہیں.جو اپنے نفس پر حکومت کرنے سے بے خبر ہیں.: اﷲ کے بندے ایسے شربت پیتے ہیں وہ ان کو بھاتے ہیں دوسروں کو بھی پلانا چاہتے ہیں.مَیں نے تم کو بہت سا پلایا ہے.تم عمل کرو اور خدا تعالیٰ سے ڈرو.(بدر حصّہ دوم ۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۹۳.۹۴) یہ ایک وہ سورہ شریف ہے جو جمعہ کے دن فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اﷲ تعالیٰ اس میں اوّل اپنے ان احسانات کا تذکرہ فرماتا ہے جو مولیٰ کریم نے انسان پر کئے ہیں اس تذکرہ کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی کی فطرۃ اچھی ہو اور وہ سعادت مند ہو.فہیم ہو.عقل کی ماراس پر نہ پڑی ہو تو یہ بات ایسے انسان کی سرشت میں موجود ہے کہ جو کوئی اس پر احسان کرے تو محسن کی محبت طبعًا انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اسی طبعی تقاضائے فطرۃ کی طرف ہمارے سیّد و مولیٰ محمّد مصطفٰے احمد مجتبٰے صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایما کر کے ارشاد فرمایا ہے جُبِلَتِ القُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا یعنی انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے محسن سے محبت کرتا ہے.اسی قاعدہ اور تقاضا، فطرۃ کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ طرز بھی اختیار کیا ہے کہ سعادت مندوں کو اپنے احسان و انعام یاد دلاتا ہے کہ وہ محبت الہٰی سے محبت ترقی کرے پھر یہ بات ابھی انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان کسی سے محبت بڑھا لیتا ہے تو محبوب کی راضامندی کے لئے اپنا وقت، اپنا مال، اپنی عزّت و آبرو غرض ہر عزیز دے عزیز چیز کو خرچ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کے مطالعہ کی عادت پر جاوے

Page 285

تو اسے اﷲ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو گی اور روز بروز محبت برھے گی.اور جب محبت بڑھ گئی تو وہ اپنی تمام خواہشوں کو رضاء الہٰی کے لئے متوجہ کر سکے گا اور اس رضاء الہٰی کو ہر چیز پر مقدّم سمجھ لے گا.دیکھو سب سے بڑا اور عظیم الشّان احسان جو ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ ہم کو پیدا کیا.اگر کوئی دوست مدد دیتا ہے تو ہمارے پیدا ہونے اور موجود ہونے کے بعد اگر کوئی بھلی راہ بتلا سکتا ہے یا علم پڑھا سکتا ہے.مال دے سکتا ہے غرض کہ کسی قسم کی مدد دیتا ہے تو پہلے ہمارا اور اس چیز کا اور دینے والے کا وجود ہوتا ہے.تب جا کر وہ مدد دینے والے مدد دینے کے قابل ہوتا ہے.غرض تمام انعاموں کے حاصل کرنے سے پیستر جو کسی غیر سے ہوں پہلا اور عظیم الشان احسان خدا تعالیف کا یہ ہے کہ اس نے ہم کو اور اس چیز کو جس سے ہمیں راحت پہنچتی اور جس نے ہمیں راحت پہنچتی اس کو وجود عطا کیا پھر صحت و تندرستی عطا کی اگر دن بھی بیماری ہو جاوے تو تمام راحت رساں چیزیں بھی راحت رساں نہیں رہتیں.دانت درد کرے تو اس کا نکالنا پسند ہو جاتا ہے آنکھ دُکھ دینے کا باعث بن جاوے تو گاہے اس کو نکالنا ہی پڑتا ہے.برادران جب بیماری لاحق ہوتی ہے تب پتہ لگتا ہے.کہ صحت کیسا انعام تھا.اس صحت کے حاصل کرنے کو دیکھو کس قدر مال خرچ کرنا پڑتا ہے.طبیبوں کی خوشامد.دعا والوںگ تعویذ توٹکے والوں کی منتیں، غرض قسم قسم کے لوگوں کے پاس جن سے کچھ بھی امید ہو سکتی ہے انسان جاتا ہے.دواؤں کے خرید کرنے میں کتنا ہی روپیہ خرچ کرنا پڑے بلادریغ خرچ کرتا ہے.ایک آدمی مرنے لگتا ہے تو کہتے ہیں دو باتیں کرا دو خواہ کچھ ہی لے لو.حالانکہ اس نے لاکھوں باتیں کیں.چونکہ ان لوگوں کو جو احسانات کا مطالعہ نہیں کرتے خبر بھی نہ تھی غرض یہ سب انعامات جو ہم پر ہوتے ہیں ان میں سے اوّل ار بزرگ ترین انعام وجود کا ہے جو اﷲ تعالیف نے دیا ہے پس اس سورۃ شریفہ میں اوّل اسی کا ذکر فرمایا.: انسان پر کچھ زمانہ ایسا بھی گزرا ہے یا نہیں؟ کہ یہ موجود نہ تھا.میری حالت کو دیکھو اس وقت میں کھڑا بول رہا ہوں مگر کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ سو اسّی برس پیشتر میں کہاں تھا؟ اور میرا کیا مذکور تھا.کوئی نہیں بتلا سکتا یہ جناب الہٰی کا فیضان ہے کہ ایک ذرا سی چیز سے انسان کو پیدا کیا چنانچہ فرماتا ہے   ہم نے انسان کو نُطفہ سے بنایا.نطفہ میں صدہا چیزیں ایسی ہیں جن سے انسان بنتا ہے.

Page 286

عام طور پر ہم لوگ ان کو دیکھ نہیں سکتے.کوئی بڑی اعلیٰ درجہ کی خوردبین ہو تو اس کے ذریعہ سے وہ نظر آتے ہیں.پھر بتلایا کہ پہلا انعام تو عطاء وجود تھا پھر یہ انعام کیا  خدا ہی کا فضل تھا کہ کان دیئے.آنکھیں دیں.اور سُنتا دیکھتا بنا دیا.سارے کمالات اور علوم کا پتہ کان سے لگ سکتا ہے یا نظارہ قدرت کو دیکھکر انسان باخبر ہو سکتا ہے.یہ عظیم الشّان عطیے بھی کس کی جناب سے ملے؟ مولیٰ کریم ہی کی حضور سے ملے.آنکھیں ہیں تو نظارۂ قدرت کو دیکھتی ہیں.خدا کے پاک بندوں اُس کے پاک صحیفوں کو دیکھ کر حَظ اٹھائیں.کان کے عطیہ کے ساتھ زبان کا عطیہ بھی آ گیا کیونکہ کان اگر نہ ہوں تو زبان پہلے چھِن جاتی ہے.اب اگر ان میں سے کوئی نعمت چھن جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ کیسی نعمت جاتی رہی.آنکھ بڑی نعمت ہے یا کان بڑی دولت ہے.ان عطیوں میں کوئی بیماری یا روگ لگ جاوے تو اس ذرا سی نقصان کی اصلاح کے لئے کس قدر روپیہ.وقت خرچ کرنا پڑتا ہے.مگر یہ صحیح سالم، عمدہ، بے عیب، بے روگ عطیہ اُس مولیٰ کریم نے مفت بے مزد عنایت فرمائی ہیں.یوں نظر اٹھاتے ہیں تو وہ عجیب در عجیب تماشاہائے قدرت دیکھتے ہوئے آسمان تک چلی جاتی ہے.ادھر نظر اٹھاتے ہیں تو خوش کن نظارے دیکھتی ہوئی افق سے پار جا نکلتی ہے.کان کہیں دلکش آوازیں سُن رہے ہیں کہیں معارف و حقائقِ قدرت کی داستان سے حظ اٹھاتے ہیں.کہیں روحانی عالم کی باتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں بیشک یہ مولٰی کریم ہی کا فضل اور احسان ہے کہ ایسے انعام کرتا ہے وہ پیدا کرتا ہے اور پھر ایسی بے بہا نعمتیں عطا کرتا ہے.کسی کی ماں.کسی کا دوست.کسی کا باپ وہ نعمتیں نہیں دے سکتا جو خدا تعالیف نے دی ہیں.پھر اسی پر بس نہیں فرمائی.ہم نے انسان کو ایک راہ بتلائی.یہی ایک مسئلہ ہے جو بڑا ضروری تھا.ہم پیدا ہوئے سب کچھ ملا مگر کوئی کتنی کوششیں کرے.ہمیشہ لے لئے نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا.سارے انبیاء و رُسل.تمام اولیاء و کبراء ملّت تمام مدبّر اور برے برے آدمی سب کے سب چل دئے.پس کوئی ایسا انعام ہو جو ابدالآباد راہت اور سُرور کا موجب ہو.اُس کے لئے فرمایا ہم نے ایک راہ بتلائی اگر اس پر چلے تو ابدالآباد کی راحت پا سکتا اس پاک راہ کی تعلیم ہمیسہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی معرفت ہوئی ہے.گو خود فطرتِ انسانی میں اس کے نقوش موجود ہیں.بہت مدّت گزری جبکہ دنیا میں ایک عظیم الشان انسان اس پاک راہ کی ہدایت کے لئے آیا جس کا نام آدم علیہ السلام تھا.پھر نوح.ابراہیم موسٰی.عیسٰی علیہم السلام آئے اور ان کے درمیان ہزاروں ہزار مامور من اﷲ دنیا کی ہدایت کو آئے

Page 287

اور ان سب کے بعد میں ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد ولدِ آدم فخر الاولین والآخرین افضل الرسل و خاتم النبیّین حضرت محمد رسول رب العٰلمین صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف لائے.اور پھر کیسی رونمائی فرمائی کہ ان کے ہی نمونہ پر ہمیشہ خلفاء امّت کو بھیجتا رہا حتٰی کہ ہمارے مبارک زمانہ میں بھی ایک امام اس ہدایت کے بتلانے کے لئے مبعوث فرمایا اور اس کو اور اس کے اقوال کو تائیدات عقلیہ اور نقلیہ و آیات ارضیہ و سماویہ سے مؤید فرماکر روز بروز ترقی عطا کرتا ہے اور بتایا ہے کہ کس طرح الہٰی ہاتھ ایک انسان کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح آئے دن اس کے اعداء نیجا دیکھتے ہیں..ہاں تو پھر خدا کی ایک ممتاز جماعت ہمیشہ اپنے اقوال سے اس راہ کو بتلاتی اور اپنے اعمال سے نمونہ دکھلاتی ہیں.جس سے ابدی آرام عطا ہو.پھر دیکھو کہ انعامِ الہٰی تو ہوتے ہیں مگر ان انعامات کو دیکھنے والے دو گروہ ہوتے ہیں ط ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان ہدایات کی قدر کرتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو قدر نہیں کرتے ہیں.اور ان دستوروں پر عمل درآمد نہیں دکھاتے.ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے.ایک گروہ جو سعادتمندوں کا گروہ ہوت ہے ان پاک راہوں کی قدر کرتا ہے اور اپنے علمدر آمد سے بتلا دیتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اس راہ کے چلنے والے اور اس راہ کے ساتھ پیار کرنے والے ہیں اور دوسرے اپنے انکار سے بتلا دیتے ہیں کہ وہ قدر نہیں کرتے یہ قرآن شریف جب آیا.اور ہمارے سیّد و مولیٰ رسولِ اکرم فخرب بنی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور پھر اپنے کامل اور پاک نمونہ سے ہدایت کی راہ بتلائی.بہت سے نابکار سعادت کے دشمن انکار اور مخالفت پر تل پرے اور جو سعادت مند تھے وہ ان پر عمل کرنے کے لئے نکلے اور دنیا کے سرمایہ فخر و سعادت اور راحت و آرام ہوئے اور ان کے دشمن خائب و خاسر اور ہلاک ہوئے آخر وہ سعادت کا زمانہ گزر گیا.دور کی باتیں کیا سنا,ں.؍ گھر کی اور آج کی بات کہتا ہوں.اب بھی اسی نمونہ پر ایک وقت لایا گیا.اور وہی قرآن شریف پیش کیا گیا ہے.مگر سعادتمنوں نے قدر کی اور ناعاقبت اندیش نابکاروں نے ناشکری اور مخالفت.مگر نادان انسان کیا یہ سمجھتے ہیں کہ انعامِ الہٰی کی ناقدری کرنے سے ہم سے کوئی باز پُرس نہ ہو گی اور ان کا یہ خیال غلط ہے.دنیوی حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی حاکم کا حکم آفاوے اور پھر رعایا اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو سزایاب ہوتی ہے.نہ ماننے والوں کا آرام رنج سے اور ان کی عزّت ذلّت سے متبدّل ہو جاتی ہے.پھر اگر کوئی احکم الحاکمین کی بتائی راہ اپنا دستور العمل

Page 288

نہ بناوے تو کیونکر دُکھوں اور ذلّتوں سے بچ سکتا ہے.یاد رکھو کہ حکمِ حاکم کی نافرمانی حسب حیثیت حاکم ہوا کرتی ہے.یہ ذلّت بھی اسی قدر ہو گی جس قدر کہ حاکم کے اختیارات ہیں.دنیا کے حاکم جو ماحدود حکومت رکھتے ہیں ان کی نافرمانی کی ذلّت بھی محدود ہی ہے مگر خدا تعالیٰ جو غیر محدود اختیارات رکھتا ہجے اس کے حکم کی خلاف ورزی میں ذلّت بھی طوریل ہو گی.تو یہ سچ ہے کہ سَبَقَتْ رَحْمَتِیْ عَلٰی غَضَبِیْ میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے مگر جیسیکہ اس کی طاقتیں وسیع ہیں اسی انداز سے نافرمان کی ذلّت بھی ہونی چاہیئے.اور ہو گی ہاں بہت سی سزائیں ایسی ہیں کہ انسان ان کو دیکھتا ہے اور بہت سی سزائیں ہیں کہ ان کو نہیں دیکھ سکتے تو غرض یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا کے قانون اور حکم کی اگر پرواہ نہ کریں گے تو کیا نقصان ہے؟ نہیں نہیں خبردار ہو جاؤ.مولیٰ فرماتا ہے. .منکر کو تین قسم کی سزادیں گے.ہر ایک انسان کا جی چاہتا ہے کہ میں آزاد رہوں جہاں میری خواہش ہو وہاں پہنچ سکوں پھر چاہتا ہے کہ جہاں چاہوں حسبِ خواہش نظارہ ہائے مطلوبہ دیکھوں اور آخر جی کو خوش کروں کہیں جانا پڑے تو جاؤں اور کہیں سے بھاگنا پڑے تو وہاں سے بھگوں اور کسی چیز کو دیکھنا پڑے تو اسے دیکھوں بہر حال اپنا دل ٹھندا رکھوں.خدا تعالیٰ نے اوّلاً تین ہی نعمتوں کا ذکر کیا ہے.عطائِ وجود.عطائِ سمع.عطائِ بصر.ان نعمتوں سے اگر کوئی جاتی رہے تو کیا سچی خوشی اور حقیقی راحت مل سکتی ہے کبھی نہیں.پھر خاص الخاص نعمت جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ ملی ہے اس کے انکار سے کب راحت پا سکتا ہے؟ قانونِ الہٰی اور شریعت خداوندی کو توڑتا ہے کہ راحت ملے؟ مگر راحت کہاں؟دیکھو ایک نابکار انسان حدود اﷲ کو توڑ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے کہ اسے لذّت و سرور ملے مگر نتیجہ کیا ہے کہ اگر آتشک اور سوزاک میم مثلاً مبتلا ہو گیا.تو بجائے اس کے جسم کو راحت و آرام پہنچاوے.دل کو سوزش اور بدن کو جلن نصیب ہوتی ہے.قانونِ الہٰی کو توڑنے والے کو راحت کہاں؟ پھر اس کے لئے 

Page 289

… یعنی منکر انسان کے لئے کیا ہوتا ہے.پاؤں میں زنجیر ہوتی.گردن میں طوق ہوتا ہے جس کے باعث انواع و اقسام راحت و آرام سے محروم ہو جاتا ہے دل میں ایک جلن ہوتی ہے جو ہر وقت اس کو کباب کرتی رہتی ہے دنیا میں اس کا نظارہ موجود ہے مثلاً وہی نافرمان.زانی.بدکار قسم قسم کے آرام جسمانی میں مبتلا ہو کر اندر ہی اندر کباب ہوتے ہیں اور پھر نہ وہاں جا سکتے ہیں نہ نظر اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں اسی ہم و غم میں مصائب اور مشکلات پر قابو نہ پا کر آخر خود کشی کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہدایت کے منکروں اور ہادیوں کے مخالفوں نے کیا پھل پایا.دیکھو ہمارے سیّد و مولیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے منکر جنہوں نے اس ابدی راحت اور خوشی کی راہ سے انکار کیا کیا حال ہوا؟ وہ عمائد مکّہ جو ابوجہل.عتبہ شیبہ وغیرہ تھے اور مقابلہ کرتے تھے وہ فاتح نہ کہلا سکے کہ وہ اپنے مفتوحہ بلاد کو دیکھتے اور دل خوش کر سکتے؟ ہرگز نہیں.ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی عزّت گئی.آبرونہ رہی.مذہب گیا.اولاد ہاتھ سے گئی.ْغرض کچھ بھی نہ رہا.ان باتوں کو دیکھتے اور اندر ہی اندر کباب ہوتے تھے.اور اسی جلن میں چل دئے.یہ حال ہوتا ہے منکر کا.جب وہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا انکار کرتا ہے تو بُرے نتائج کو پا لیتا ہے اور عمدہ نتائج اور آرام کے اسباب سے محروم ہو جاتا ہے.پھر دوسرے گروہ  کا ذکر فرمایا کہ شکر کرنے والے گورہ کے لئے کیا جزا ہے..بے شک ابرار لوگ کا فوری پیالوں سے پئیں گے.ابرار کون ہوتے ہیں جن کے عقائد.صحیح ہوں.اور ان کے اعمال صوابؔ اور اخلاص کے نیچے ہوں اور جوہر دُکھ اور مصیبت میں اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی نارضامندی سے محفوظ رکھ لیں.خود جناب الہٰی ابرار کی تشریح فرماتے ہیں سورۃ البقرہ میں فرمایالَیْسَ الْبِرَّاَنْ تُوَتُوْا وُجُوْھَکُمْ الی الآیہ ابرار کون ہوتے ہیں؟ اوّل ؔ: جن کے اعتقاد صحیح ہوں کیونکہ اعمالِ صالحہ دلی ارادوں پر موقوف ہیں دیکھو ایک اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ایک بچہ بھی اسے جہاں چاہے جدھر لے جائے لئے جاتا ہے.لیکن اگر کنویں میں گرانا چاہیں تو خواہ دس آدمی بھی مل کر اس کی نکیل کو کھینچیں ممکن نہیں وہ قدم اٹھا جاوے.ایک حیوان مطلق بھی اپنے دِلی ارادے اور اعتقاد کے خلاف کرنا نہیں چاہتا وہ سمجھتا ہے کہ قدم اٹھایا اور ہلاک ہوا.

Page 290

پھر انسان اورسمجھدار انسان کب اعتقادِصحیحہ رکھتا ہوا اعمال بد کی طرف قدم اٹھا سکتا ہے اس لئے ابرار کے لئے پہلے ضروری چیز یہی ہے کہ اعتقاد صحیحہ ہوں اور وہ پکّی طرح پر اْس کے دل میں جاگزیں ہوں اگر منافقانہ طور پر مانتا ہے تو کاہل ہو گا.حالانکہ مومن ہوشیار اور جالاک ہوتا ہے ان اعتقادات صحیحہ میں سے پہلا اور ضروری عقیدہ خدا تعالیٰ کا ماننا ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام خوبیوں کا چشمہ ہے.دنیا میں ایک بچّہ بھی جانتا ہے کہ جب تک دوسرے سے مناسبت پیدا نہ ہو اس کی طاقتوں اور فضلوں سے برخوردار نہیں ہو سکتا.جب انسان قرب الہٰی چاہتا ہے اور اس کی دِلی تمنّا ہوتی ہے کہ اْس کے خاص فضل اور رحمتوں سے بہرہ ور اور برخوردار ہو جائے تو اْسے ضروری ہے کہ اْن باتوں کو چھوڑ دے جو خدا تعالیٰ میں نہیں یا جو اْس کی پسندیدہ نہیںہیں.جس قدر عظمتِ الہٰی دل میں ہو گی اسی قدر فرماں برداری کے خیالات پیدا ہوں گے اور رذائل کو چھوڑ کر فضائل کی طرف دوڑے گا.کیا ایک اعلیٰ علوم کا ماہر جاہں سے تعلق رکھ سکتا ہے.یا ایک ظالم طبع انسان کے ساتھ ایک عادل مل کر رہ سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں.پس خدا تعالیٰ کی برکتوں سے برخوردار ہونے کے لئے سب سے ضروری بات صفات الہٰی کا علم حاصل کرنا اور ان کے موافق اپنا عمل در آمد کرنا ہے.اگر یہ اعتقاد بھی کمزور ہو تو ایک اور دوسرا مسئلہ ہے جس پر اعتقاد کرنے سے انسان خدا تعالیف کی فرماں برداری میں ترقی کر سکتا ہے.وہ جزا و سزا کا اعتقاد ہے.یعنی افعال اور ان کے نتائج کا علم مثلاً یہ کام کروں گا تو نتیجہ یہ ہو گا کہ بْرے نتائج پر غور کر کے انسان.ہاں سعید الفطرت انسان بُرے کاموں سے جو ان نتائج بدکا موجب ہیں پرہیز کریگا اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی کوشش یہ کہ دونوں اعتقاد نیکیوں کا اصل الاصول اور جڑیں یعنی اوّل خدا تعالیٰ کی صفات اور محامد کا اعتقاد اور علم تاکہ قرب الہٰی سے فائدہ اٹھاوے اور رذائل کو چھوڑ کر فصائل حاصل کرے.دوسرا یہ کہ ہر فعل ایک نتیجہ کا موجب ہوتا اگر بد افعال کا مرتکب ہو گا تو نتیجہ بد ہو گا.ہر انسان فطرتاً سُکھ چاہتا ہے اور سُکھ کے وسائل اور اسباب سے بے خبری کی وجہ سے افعالِ بَد کے ارتکاب میں سُکھ تلاش کرتا ہے مگر وہاں سُکھ کہاں؟ اس لئے ضروری ہے کہ افعال اور اُن کے نتائج کا علم پیدا کرے اور یہی وہ اصل ہے جس کو اسلام نے جزا و سزا کے لفظوں سے تعبیر کیا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تجربہ کار اور واقف کار لوگوں کے بتلائے ہوئے مجرّب نسخے آرام و صحت کے لئے چاہتا ہے اگر کوئی ناواقف اور ناتجربہ کار بتلائے تو تأمّل کرتا ہے.پس نبوّتِ حقّہ نے جو راہ

Page 291

دکھالائی ہے وہ تیرہ سو برس سے تجربہ میں آ چکی ہے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے راحت کے جو سامان بتلائے ہیں ان کا امتحان کرنا آسان ہے.غور کرو اور بلند نظری سے کام لو!! عرب کو کوئی فخر حاصل نہ تھا کس سے ہوا؟ اسی نسخہ سے کیا عرب میں تفرقہ نہ تھا پھر کس سے دور ہوا؟ ہاں اسی راہ سے !۱ کیا عرب نابودگی کی حالت میں نہ تھے پھر یہ حالت کس نے دور کی؟ ماننا پریگا کہ اسی نبوّتِ حقہ نے !!! عرب جاہل تھے.وحشی تھے.خدا سے دور تھے.محکوم نہ تھے تو حاکم بھی نہ تھے؟ مگر جب انہوں نے قرآن کریم کا شفا بخش نسخہ استعمال کیا تو وہی جاہل دنیا کے استاد اور معلّم بنے وہی وحشی متمدّن دنیا کے پیش رَو اور تہذیب و شائستگی کے چشمے کہلائے.وہ خدا سے دُور کہلانے والے خدا پرست اور خدا میں ہو کر دنیا پر ظاہر ہوئے.وہ جو حکومت کے نام سے بھی ناواقف تھے دنیا بھر کے مظفرو منصور اور فاتح کہلائے.غرض کچھ نہ تھے سب کچھ ہو گئے.مگر سوال یہی ہے کیونکر؟ اسی قرآن کریم کی بدولت اسی دستور العمل کی رہبری سے.پس تیرہ سو برس کا ایک مجرّب نسخہ موجود ہے جو اس قوم نے استعمال کیا جس میں کوئی خوبی نہ تھی اور خوبیوں کی وار ث اور نیکیوں کی ماں بنی غیرض یہ مجرّب نسخہ ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے قُرب اور سُکھ کی تلاش چاہو اسی قدر محامد الہٰیہ اور صفاتِ باری تعالیٰ پر ایمان لاؤ.کیونکہ اسی قدر انسان رذائل سے بچے گا اور پسندیدہ باتوں کی طرف قدم اٹھائے گا.حاصلِ کلام ابرار بننے کے لئے مندرجہ بالا اصول کو اپنا دستور العمل بنانا چاہیئے.میں نے ذکر یہ شروع کیا تھا کہ شاکر گروہ کا دوسرا نام قرآن کریم نے ابرار رکھا ہے اور ان کی جزایہ بتلائی ہے کہ کافوری پیالوں سے پئیں گے چنانچہ فرمایا  پہلے ان کو اس قسم کا شربت پینا چاہیئے کہ اگر بدی کی خواہش پیدا ہو تو اس کو دبا لینے والا ہو.کافور کہتے ہی دبادینے والی چیز کو ہیں.اور کافور کے طبّی خواص میں لکھا ہے کہ وہ سمی امراض کے مواد رویّہ اور فاسدہ کو دبا لیتا ہے اور اسی لئے وبائی امراض طاعون اور ہیضہ اور تپ وغیرہ میں اس کا استعمال بہت مفید ہے.تو پہلے انسان یعنی سلیم الفطرۃِ انسان کو کافوری شربت مطلوب ہے.قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبِ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ (الی الآیہ) پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو برگزیدہ ہیں.پس بعض ان میں سے ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبرو اکراہ سے نفسِ امّارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفسِ سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.

Page 292

دوسرا گروہ میانہ رَو آدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے بہ جبرو اکراہ لیتے ہیں اور بعض الہٰی کاموں کی بجا آوری میں نفس اُن کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور سوق اور محبّت اور ارادت سے ان کاموں کو بجا لاتا ہے غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلّف کے اپنے ربِّ جلیل کی فرمانبرداری ان سے صادر ہوتی ہے.تیسرا سابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ کے آمدمیوں کا گروہ ہے جو نفسِ امّارہ پر بکلّی فتحیاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانیوالے ہیں.غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں.پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوّت کو دباوے شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتدا میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہو گی.بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گو کسی وقت کچھ خواہش بد پیدا بھی ہو جاوے.ایک لذّت اور سرور بھی ہاصل ہو جایا کریگا مگر تیسرے درجہ میں پہنچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آ جاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الہٰی کا شرف عطا ہو گا.تو سب سے پہلے ابرار کو کافوری شربت دیا جاوے گا تاکہ بدیوں اور رذائل کی قوتوں پر فتح مند ہو جاویں اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ بدیوں کو دباتے دباتے نیکیوں میں ترقی کرتا ہے اور پھر وہ ایک خاص چشمہ پر پہنچ جاتا ہے. وہ ایک چشمہ ہے کہ اﷲ کے بندے اُس سے پیتے ہیں صرف خود ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کو بھی مستفید کرتے ہیں اور ان چشموں کو چلا کر دکھاتے ہیں.فطرۃ انسانی پر عور کرنے سے پتا لگتا ہے کہ تمام قوٰی پہلے کمزوری سے کام کرتے ہیں چلنے میں ، بولنے میں ، پکڑنے میں عرض ہر بات میں ابتدائً لڑکپن میں کمزوری ہوتی ہے.لیکن جس قدر ان قوٰی سے کام لیتا ہے اُسی قدر طاقت آجاتی ہے پہلے دوسرے کے سہارے سے چلتا ہے پھر کود اپنے سہارے چلتا ہے.

Page 293

اسی طرح پہلے تتلا کر بولتا پھر نہایت صفائی اور عمدگی سے بولتا ہے پکڑتا ہے وغیرہ وغیرہ گویا بتدریج نسوونما ہوتا ہے.اگر چند طاقتوں سے کام لینے کو چھوڑ دے تو وہ طاقتیں مردہ یا پثرمُردہ ضرور ہو جاتی ہیں یہی معنی ہیں جب انسان بدی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو طاقت کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کے قوے بالکل ازکار رفتہ ہوتے ہیں یہ کوئی ظالم نہیں اگر کسی حاکم کو حکومت دیجاوے اور وہ فرائض منصبی کو ادا نہ کرے تو نگران گورنمنٹ اس کے وہ اختیارات سلب کر دے گی اور اسے معزول کرے گی اور اگر اس حالت کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی پروانہ کرے تو یہ امر عاقبت اندیشی اور عقل کے خلاف ہے کہ سُست انسان کے پاس رکھی رکھی جاوے ایسے ہی وہ انسان ہے جو ایمانی قوٰی کو خرج نہیں کرتا وہ ابرار کے زمرہ میں رہ نہیں سکتا.جن کے عقائد حقہ ہیں یعنی وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں.جزا و سزا اور خدا کی کتابوں اور انبیاء علیہم اسلام پر ایمان لاتے ہیں پھر ان وسائط کو مانتے ہیں جن کا مقصود اتم فرمانبرداری ہے.پھر عمل کے متعلق کیا چاہیئے.سب سے زیادہ عزیز مال ہے.پانچ روپے کا سپاہی پانچ روپیہ کے بدلے میں عزیز جان دے دینے کو تیار ہے.ماں باپ اس روپیہ کے بدلے اس عزیز چہرہ کو جُدا کر دیتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ مال کی طرف انسان بالطبع جھکتا ہے.لیکن جب خدا سے تعلق ہو تو پھر مال سے بے تعلقی دکھاوے اور واقعی ضرورتوں والے کی مدد کرے.مسکینوں کو دے جوبے دست و پا ہیں، رشتے داروں کی خبر لے.کوئی کسی ابتلا میں پھنس گیا ہو تو اس کے نکالنے کی کوششِ کرے مگر سب سے مقدم ذوی القربیٰ کو فرمایا.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوی القربیٰ کے ساتھ سلوک کرنا زیادتی عمر کا موجب ہے.یتیموں کی خبر لے.پھر جو بے دست و پاہیں ان کی خبر لے.پھر جو علمِ پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھتے ہیں اور مصیبت میں مبتلا شدہ لوگوں کی خبرلے.پس جناب الہٰی کے ساتھ تعلق ہو اور دنیا اور اس کی چیزوں سے بے تعلقی دکھلاوے پھر جناب الہٰی کی راہ میں جان کو خرچ کرے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جان خرچ کرنے کی پہلی راہ کیا ہے؟ نمازوں کا ادا کرنا.نماز مومن کا معراج ہے.نماز میں ہر قسم کی نیازمندیاں دکھائی گئی ہیں.غرض کا فوری شراب پیتے پیتے انسان اس چشمہ پر پہنچ جاتا ہجے جہاں اسے شفقت علیٰ خلق اﷲ کی توفیق دی جاتی ہے.پھر بتلایا کہ جو معاہدہ کسی سے کریں اس کی رعایت کرتے ہیں.مسلمان سب سے بڑا معاہدہ خدا سے کرتا ہے کہ میں نیک نمونہ ہوں گا.میں فرمانبردار ہوں گا.میں اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو دُکھ نہ دوں گا.اور ایسا ہی ہماری جماعت امام کے ہاتھ پر معاہدہ کرتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.رنج میں

Page 294

راحت میں عسر یُسر میں قدم آگے بڑھاؤں گا.بغاوت اور شرارت کی راہوں سے بچنے کا اقرار کرتا ہے.غرض ایک عظیم الشان معاہدہ ہوتا ہے.پھر دیکھا جاوے کہ نفسانی اغراض اور دنیوی مقاصد کی طرف قدم برھاتا ہے یا دین کو مقدم کرتا ہے.عامہ مخلوقات کے ساتھ نیکی اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصًا نیکی کرتا ہے یا نہیں.ہر امر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے.مقدمہ ہو تو جھوٹے گواہوں.جعلی دستاویزوں سے مہترِز رہے.دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے وعظ کہنا بھی مفید امر ہے.اس سے انسان اپنے آپ کو بھی درست بنا سکتا ہے جب دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اپنے دل پر چوٹ لگتی ہے.امر بالمعروف بھی ابرار کی ایک صفت ہے اور پھر قسم قسم کی بدیوں سے رُکتا ہے.المختصر  جب خود بھلائی حاصل کرتے ہیں.ظالم لنفسہٖ ہوتے ہیں تو دوسروں تک بھی پہنجاتے ہیں  جو معاہدہ جنابِ الہٰی سے کیا ہواس کو وفاداری سے پورا کرے اور نیکی یوں حاصل کرے کہ میرے ہی افعال نتائج پیدا کریں گے.ایک فلسفی مسلمان کا قول ہے: گندم از گندم بروید جَو زجَو از مکافاتب عمل غافل مشو  اور کھانا دینے میں دلیر ہوتے ہیں.مسکینوں.یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے.ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھوکے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں تم کو خُدا ہی دے دیتا اگر دنیا منظور ہوتا.قرآن کریم کے دل سورۃ یٰسین میں ایسا لکھا ہے وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ یَشَآئَ اﷲُ اَطْعَمَہٗ…آجکل چونکہ ّحط ہو رہا ہے انسان اس نصیحت کو یاد رکھے اور دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدر وسعت تیار رہے اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کے لئے یتیموں.مسکینوں اور پابند بلا کو کھانا دیتا رہے.مگر صرف اﷲ کے لئے دے.یہ تو جسمانی کھانا ہے.روحانی کھانا ایمان کی باتیں.رضاء الہٰی اور قرب کی باتیں یہاں تک کہ مکالمہ الہٰیہ تک پہنچا دینا اسی رنگ میں رنگین ہوتا ہے.یہ بھی طعام ہے.وہ جسم کی غذا ہے یہ روح کی غذا منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ  کہ ہم اپنے رب سیت ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں (عبوس) تنگی کو کہتے ہیں قمطر پر دراز یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہو گا اور لمبا ہو گا.بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی

Page 295

سے بھی نجات دیدیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے  خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچا لیتا ہے اور یہ بجانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یاد رکھو آج کل کے ایّام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام تنگیوں سے بج جاؤ گے.خدا تعالیٰ مجھہ کو اور تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزّتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں.ابدالآباد کی عزّت اور راحت کی بھی کوشش کریں.آمین ( الحکم جلد نمبر۳ ۲۴/اکتوبر و ۱۷/نومبر ۱۸۹۹ء) : پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی قیدی کو اصحاب میں سے کسی کے سپرد کرتے تو آقا کو حکماً فرماتے ’’اَحْسِنْ اِلَیْہِ‘‘اس کے ساتھ نیک سلوک کرو.یہ بھی روایت میں آیا ہے کہ غَرِیْمُکَ اَسِیْرُک فَاَحْسِنْ اِلٰی اَسِیْرِکَ تیرامقروض تیرا قیدی ہے اس کے ساتھ نیک سلوک کر.ایک اور روایت میں ہے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایااِتَّقُوا اﷲَ جِی النِّسَآئِ فَاِنَّھُنَّ عِنْڈَکُمْ عَوَانٌ یعنی عورتوں کے حق میں خدا سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قیدیوں کی طرح ہیں.یتیم کے حق میںبھی پیغمبرِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہے اور سب گھروں میں بدتر وہ گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے.: عبوس الوجہ اس آدمی کو کہتے ہیں جس کی پیشانی پر ہمیشہ بل پڑے ہوئے ہوں.قمطریر.سخت سلوٹیں اور بل چہرے کے عذاب الہٰی کی شدّت کو دیکھ کر چہروں کی ایسی حالت ہو گی کہ جیسے سخت گریہ وزاری کے وقت رونے والے چہرے کی کیفیت عین حالتِ گریہ کے وقت ہوتی ہے.۱۴. .: زمہر یر ایسی سخت سردی کو کہتے ہیں.جس سے ہاتھ پَیر گلنے لگیں.بخلاف

Page 296

بَرْدٌ کے کہ اس میں معمولی ٹھنڈک ہوتی ہے.۱۶..کسی صوفی نے ایک مقام پر لکھا ہے اور جس نے یہ بات لکھی ہے وہ ایک برا آدمی ہے.وہ کہتا ہے.مَیں نے انبیاء کے مقام کو چاندی کا مقام دیکھا اور اولیاء کے مقام کو سونے کا مقام دیکھا ہمارے مولویوں نے اس وجہ سے اس کو بھی کافر کہا ہے.سائنس والے جانتے ہیں کہ کل رنگوں کا جامع سفید رنگ ہے.ان کا منشاء یہ ہے کہ جو سفید رنگ نظر آیا وہ سارے کمالات کا جامع ہے.۱۸..زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے.زَنَا اور جَبَل.زَنَا لُغت میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل بمعنی پہاڑ.سونٹھ کی گرمی انسان میں بڑی قوّت پیدا کرتی ہے.جب تک کہ عاشقانہ گرمی سالکِ راہِ محبت کے دل می نہ ہو وہ مشکلات کی بلند گھاٗٹیوں کو طے نہیں کر سکتا.جب یہ زنجبیل عشق اور محبت کی شراب پی لیتا ہے تو خدا کی راہ میں عملی قوّت کا ایسا حیرات ناک اثر دکھاتا ہے.کہ دوسرا ہرگز دل سے ایسی جانفشانیاں نہیں دکھلا سکتا.اﷲ تعالیٰ نے بھی ایسے سالک کی جزا کا سۂ وصال رکھا ہے.جس کے مزاج کی طرف زنجبیل کے لفظ سے اشارہ کرتے ہوئے جَزَآئً وِّ فَاقًا کی موافقت کو بتلایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴ا ؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۱۹..: سَلْسَبِیْل میں سل.سبیل کی طرف اشارہ کیا ہے.یعنی پوچھ راستہ.دنیا میں عشق اور محبت کا زنجبیلی کاسہ اپنے مرشد کے ہاتھ سے جب سالک پی لیتا ہے تو اس میں خصوصیت کے ساتھ اپنے محبوبِ حقیقی تک پہنچنے کی ایک تڑپ پیدا ہو جاتی ہے.پھر وہ راہ طریقہ کے پوچھنے اور اس پر قدم مارنے میں عار نہیں کرتا.خواہ کیسی دشوار گھاٹیاں راستے میں حائل ہوں.ہمارے موجودہ امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک فرمودہ جو سلسبیل کے لفظ سے بہت ہی مناسبت

Page 297

رکھتا ہے یہ ہے ؎ ابنِ مریم ہوا کرے کوئی مرے دُکھ کی دوا کرے کوئی ۲۰. .:  کے معنوں میں کئی قول ہیں.مُحَّلَّد بوڑھے کو بھی کہا ہے.مُحّلَّد اس کو بھی کہا ہے جس کے زُلف سفید ہوں.مخلّد کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ کانوں کے بُندے بالے پہنے ہوئے.مگر ان تمام معنوں سے انْسَبْ وہ معنے معلوم ہوتے ہیں.جن کی مناسبت ولد کے لفظ کے ساتھ ہو.یعنی دنیا کے وِلدان کی طرح جنّتیوں کے خادمین وِلدان پر مرورزمانہ کی وجہ سے کبھی معمّر ہونے کا زمانہ نہیں آئے گا.بلکہ باوجود مرورِ زمانہ کے وہ ہمیشہ وِلْدنان ہی وِلْدَان رہیں گے جو کام خدمت گزاری کا پھر تیلی حرکتوں سے چھوٹے بچے کیا کرتے ہیں وہ معمّر نہیں کیا کرتے اور کاربراری میں ان کی خدمات بھی معلوم ہوتی ہیں.اسی لئے ان کو  (یعنی) بکھرے ہوئے موتیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) تارکِ دھرم آریہ کے اعتراض’’ عورتوں کو بہت نوجوان یکدم بطور کاوند و پتی ملیں گے.کیونکہ جب ایک ایک آدمی کو بہت سی حوریں مل گئیں تو ایک ایک عورت کو بہت نوجوان لڑکے ملنے چاہئیں‘‘ کے جواب میں فرمایا:.’’ آپ کا انصاف ایک شریف الطبع انسان پسند نہیں کر سکتا.نادان غور کر.ایک عورت ایک خاوند کے ایک بچہ کو یا اس کے دو تین بچوں کو ایک وقت میں بمشکل پیٹ میں رکھ سکتی ہے.‘‘؟ یک مرد آج کسی عورت کے بچہ دان کو اپنے نطفہ سے مسعول کر دے اور دوسرے دن دوسرے کے.تیسرے دن تیسرے کے.علیٰ ہذا سال بھر تین سو ساٹھ بچہ مختلف رحموں میں پرورش کے لئے دے سکتا ہے.ہاں مرد قوی بہت عورتوں کے رحم میں بیج ڈال سکتا ہے.اس لئے عورتوں کو بہت نوجوانوں کا ملنا بے انصافی ہے اور اسی پر دُکھ ہے.نیز مرد ایک گو نہ عورتوں پر حکمران ہے.پس ایک مرد کے لئے بہت عورتیں ہوں تو عورت کو آرام ہے کہ مرد کی حکومت اس کے سر سے کچھ ہت گئی یا ایک عورت کے لئے بہت خاوند ہوں تو کیا عورت کو آرام مِل

Page 298

سکتا ہے؟ کیا جس کے اوپر بہت سارے حکمران ہوں.وہ آسودہ حال ہو سکتا ہے.علاوہ اس کے خاوند کیا آپس میں جنگ نہ کریں گے کیونکہ اگر بہت سارے مرد ایک عورت کے خاوند ہوئے تو ایک وقت ایک چاہتا ہے کہ یہ عورت میرے پاس اور دوسرا چاہے کہ میرے پاس آوے.اس لئے اوّل تو وہ آپسمیں جُوت پپزار کریں گے.پھر وہ عورت بہر حال مصیبتوں میں مبتلا ہو گی.نافہم انسان سوچ اور غور کر.مگر تم کو غور کا مادہ کیونکر ملے گا.تمہارا مذہب تو ایسے امور کی پرواہ نہیں کرتا کیونکہ نیوگ میں ایسے امور بہت پیش آتے ہیں.سُن ! بہشتی نعمتوں میں اسلام بیان کرتا ہے کہ بڑی نعمت خدا کی رضامندی ہے.دیکھو قرآن کریم.(توبہ :۷۲) (یونس:۱۱) اور اﷲ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے بڑی ہے.وہ اﷲ کی پاکیزگی بیان کریں گے.اور آپس میں سلامتی اور صلہ سے رہیں گے.اور آخری پکار ان کی یہ ہو گی کہ حمد ہے اﷲ پروردگار کے لئے.پس سچّے مسلمان الہٰی رضامندی کے گرویدہ ہو کر اس کی عبادت کرتے ہیں.اس بات کے لئے جس کی نسبت تم نے فضول گوئی کی ہے.ہاں دنیا کی نعمتیں اور دنیوی عیش و آرام اور دولت مندی آریوں کے اعتقاد میں نیکیوں کا پھل ہے اور ظاہر ہے کہ غلمان بعض دولتمند ہندؤوں کے لوازمات میں داخل ہیں پس کیا یقینا یہ الزام آپ لوگوں پر نہیں ہو سکتا؟ بلکہ جب دیانند کے نزدیک یہی دنیا ہی سورگ اور نیکی کے ثمرات لینے کی جگہ ہے.گوچند اعمال کے بدلے ارواح چندے شواغل دنیا سے بھی آزادی اور انند میں رہیں گے تو اس صورت میں دیانندی پنتھ کے مطابق غلمان نیکی کے ثمرات نہیں.تو اور کیا ہیں؟ بات یہ ہے کہ سخت عداوت کے سبب تمہیں غلمان کا قصّہ سمجھ میں نہیں آیا.یا قرآن کو نہ دیکھا ہے اور نہ سمجھا ہے.ساماقبل سے پڑھ لیتے تو بشرطِ انصاف تم ایسے خلاف تہذیب امر کے مرتکب نہ ہوتے.سنئے قرآن کریم میں ہے.  .. .ہم مومنوں کے ساتھ ان کی مومن اولاد کو ملا دیں گے اور ان کے عملوں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے

Page 299

ہر شخص کو اپنی اپنی کمائی کا بدلہ ملے گا.اور ہم انہیں میوے اور ان کی پسند کے گوشت دیں گے.اور اس میں ایسے پیالے پئیں گے کہ ان کا نتیجہ بیہودہ خیالات اور بدکاری نہیں اور ان کے ارد گرد موتیوں کے دانہ جیسے بچے پھریں گے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.بہشتیوں کی اولاد ان کے پاس پھریگی.وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے.اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ تۃیم صریح اس کی صفت میں موجود ہے جس کے معنی ہیں نہ گند میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسا ناشایاں خیال کیوں گزرا.اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورث دھر میں اَور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلمان کے بدلہ ولدان کا لفظ جو ولد یا ولید کی جمع ہے.فرمایا ہے. .اور ان کے ارد گرد عمر دراز بچے پھریں گے تم انہیں دیلھ کر یہی سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں اور سورۃ واقعہ میں ہےؔ .بِاَکْوَابِ وّن اَبَارِیْقن وَکَاْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ(آیت:۱۸،۱۹) اور ان کے ارد گرد عمر دراز بچے کوزوں اور لوٹوں اور خالص نِتھرے صاف پانی کو لئے پھریں گے.اور اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک بشارت ہے جو فتوحاتِ ایران و روم میں اپنے جلال کے ساتھ ظاہر ہوئی.جوان اور ادھیڑ شاہی خاندان کے شہزادے اور شہزادیاں مسلمانوں کے خادم ہوئے.مخلّد ادھیڑ کو بھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں.اور سُن حضرت زکریّا فرمتاے ہیں رَبِّ اَنّٰی یَکُوْنُ لِی غُلامٌ ( مریم:۲۱) اے اﷲ مجھے کب بچّے عطا ہوئے.اور ابراہیم علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے وَبَشَّرْنَاہُ بِغُلَامٍ حَلِیْمٍ ( صافات:۱۰۲)یعنی ہم نے ابراہمؑ کو خوشخبری دی ایک عقلمند بچہ کی اور سیّدنا موسٰی علیہ السلام کے قصّہ میں آتا ہے لَقِیَا غُلَامًا فَقَتَلَہٗ ( کہف: ۷۵) موسٰیؑ اور خضرؑ کے سامے ایک جواب آیا اور خضر نے اس کو قتل کر دیا.ؤغیرہ وغیرہ میں دیکھو.اولاد اور جوانوں کو غلام کہا گیا ہے بلکہ قاموس میں لکھا ہے کہ غلام وہ ہوتا ہے جس کی مونچھیں نکل چکیں.نیز تجھے خبر نہیں کہ عورت اور مرد میں جناب الہٰی نے قدرت میں مساوات رکھی ہی نہیں.بچہ جننے میں جو تکالیف عورتوں کو ہوتی ہیں.اُن میں مَردوں کا کتنا حصّہ ہے.کیا مساوات ہے؟ کیا قوٰی میں مساوات ہے؟

Page 300

ہرگز نہیں.میں ہمیشہ حیران کہ مرد و عورت میں مساوات کا خیال کس احمق نے نکالا.(نورالدین طبع ثالث صفحہ ۱۳۳ تا ۱۳۴) ۲۱..اور جب دیکھے تو وہاں تو دیکھے نعمت اور سلطنت بڑی.( فصل الخطاب حصہ اوّل صفحہ ۱۸۴) : حدیث شریف میں ہے کہ جو دوزخی دوزخ سے سب سے آخر میں نکالا جائے گا.اس کو اﷲ تعالیٰ اس قدر جنّت عطا فرماوے گا.کہ دنیا و مافیہا اور اس سے دو چند کے مقابلہ کی ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۲. .’’ایک آیہ کے اس سوال جواب میں کہ ریشمی کپڑے.اتنا سامان کہاں سے آئے گا.کون بُنے گا.ریشم کیڑوں کا فضلہ اور لعاب ہے‘‘فرمایا سرب شکتیمان کے خزانہ سے جہاں سے تمام جگ کو ملتا ہے.سورج کی تیزی قائم رکھنے کے لئے نباتات کو اُگانے کے لئے اور حیوانات کے لئے کس قدر جیزوں کی صرورت ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ الہٰی کارکانہ میں سب کے لئے پورا سامان موجود ہے.زمین.پانی ہوا اور خلا میں جس قدر ذی حیات ہیں.سب کے لئے کس قدر کثرت سے سامان مطلوب ہے.مگر سرب شکتیمان ہمہ قدرت کے کارخانہ میں سب کچھ موجود ہے.ذرّہ کمی نہیں.سرب سکتیمان اور قادر کسی کا محتاج نہیں ہوتا.اس کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے.اور سنوں یہ ریسمی کپڑے وغیرہ نعمتیں تو عظیم الشان پیسگوئی ہے.عرب خشن یعنی کُھردرے اور سادہ لباس کے عادی تھے.خدا تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کی جزا میں ان کو بشارت دی گئی.کہ عنقریب شام و ایران کے شاہی ریشمی لباس تم کو دیئے جائیں گے.یہ فتحمندی کا وعدہ ہے.آخر ی ریشمی لباس اُسی کو پہنایا جاتا ہے جس کے مناسب حال ہوتا ہے.ہم کو بعض وقت ریشمی لباس.ریشمی تھان اور زیور امراء نے دیئے ہیں.مگر کبھی ہمارے

Page 301

یا ان کے خیال میں نہیں آیا.کہ وہ لباس یا زیور ہم پہنیں گے.وہ جن کے مناسب حال تھا ان کو پہنا دیا گیا.اور سُنو.یہ قبل از وقت ہمارے سرور کا مشاہدہ ہے اور قبل از وقت نظارہ کو عربی میں رؤیا کہتے ہیں اور ریشمی لباس کے متعلق علم رؤیا کا پرمان یہ ہے.اس کو غور کرو.اور دیکھو کہ ہمارے نبی کریمؐ کے مکاشفات آخر کار کس قدر صحیح اور صادق ثابت ہوئے.اور جو باتیں اس جہان میں قبل از وقت بطور دعوٰی کے بتائی جا کر روزِ روشن کی طرح اپنا ثبوت آشکار کر دیں ان سے بڑھ کر اور کون شئے صدق کی مُہر اپنے اوپر رکھ سکتی ہے.اب ان معانی کو رؤیا کی کتابوں میں دکھاتے ہیں.اَلثِّیَابُ الْخُضْرُ قُوَّۃٌ وَّ دِیْنٌ وَ زِیَادَۃُ عِبَادَۃٍ لِلْاَحْیَائِ وَ لِلْانمْوَاتب حُسْنُ حالٍ عِنْدَ اﷲِ تَعَالٰی ( منتخب الکلام : صفحہ ۱۱۰) لباس سبز سے مراد ہے زندوں کے لئے قوت اور دین اور عبادت میں ترقی اور مُردوں کے لئے اﷲ تعالیف کے نزدیک خوشحالی ہے.اَلدِّیْبَاجُ وَ الْحَرِیْرُ وَ جَمِیْعُ ثِیَابِ الْاَبْرنسِیم ھِیَ صَالِحَۃٌ لِغَیْرا لْفُتنھَائِ فَاِنَّھا تَدُلّ عَلٰی اَنَّھُمْ یَعْمَلُوْنَ اَعْمَالًا یَسْتنوْجِبُوْنن بِھنا الْجَنَّۃَ ونیُصِیْیُوْنَ مَعَ ذٰلِکَ ربیَاسَۃً دیباج اور ریشم اور ہر قسم کے ریشمی کپڑے فقہاء کے سوا اوروں کے لئے بہت اچھے ہیں.ان کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگ ایسے عمل کریں گے کہ جن سے جنّت کے حقدار بن جائیں گے اور اس کے علاوہ انہیں ریاست بھی ملے گی.وَالثّیَابُ الْمَنْسُوْجَۃُ بِالذَّھَبِ وَ الْفبضَّۃِ صَلَاحٌ فِی الدِّیْنِ وَ الدُّنْیَا وَ بُلُوْغُ المُنٰی.اور سونے اور چاندی کے ساتھ بُنے ہوئے کپڑوں سے مراد ہے بہتری دین میں اور دنیا میں اور مقصد پر پہنچ جاتا.وَ مَنْ رَایٰ ابنَّہٗ یَمْلِکُ حُلَلًا مِنْ حَرِیْرٍ اَوِ اسْتنبْرَقٍ انوْیَلْبِسْھَا عَلٰی اننَّہٗ تَاجٌ اَوْ اِکْلِیْلٌ مِنْ یَاقُوتٍ فَابنَّہٗ رَجُلٌ ونربعٌ مُتَدَیَّنٌ غَازٍ وَیَنَالُ مَعَ ذٰلِکَ رِیَاسَۃً ( منتخب صفحہ ۱۱۱) جو شخص دیکھے کہ اس کی مِلک میں ریشم اور استبرق کے لباس ہیں یا انہیں پہن رکھا ہے

Page 302

یاقوت کا تاج سر پر دیکھے.ایسا شخص پرہیزگار، دیانت دار، غازی ہوتا ہے اور علاوہ برآں اسے سلطنت بھی نصیب ہوتی ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۲۸ تا صفحہ ۱۳۰ نیز صفحہ ۱۳۳، ۱۳۴) ۲۴..: ہم نے اتارا ہے تم پر قرآن مجید کو وقتًا فوقتًا.اس کی وجہ سورۃ الفرقان میں کفّار کے سوال آیت ۳۲ میں یوں فرمایا ہے .یعنی ضرورت پیش آمدہ کے وقت خداوند تعالیٰ کی ہم کلامی سے آپ کے دل کو تسکین ملتی رہی.اس کے علاوہ اور بھی کوئی وجوہ وقتًا فوقتًا ٹھہر ٹھہر کر نازل فرمانے کے قرآن شریف میں مختلف مقام میں بیان فرمائے ہیں.توریت میں پہلے سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ کتاب آہستہ آہستہ نازل ہو گی ( دیکھو یسعیاہ باب ۲۸) ۲۸..: عاجلہ اس ورلی زندگی دنیا کو فرمایا جس کا آرام دمب نقد موجود نظر آتا ہے.۲۹. .: ہم نے ان کے جوڑ بند مضبوط کئے.

Page 303

۳۱..: حال تمہارا ایسا ہونا چاہیئے کہ نہ چاہو تم وہ بات جو اﷲ تعالیٰ نہ چاہے مگر حال تمہارا یہ ہے کہ وہ چاہتے ہو جو اﷲ تعالیٰ نہیں چاہتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 304

سُوْرَۃَ الْمُرْسَلٰتِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۱۶........... ... ..: وہ معمولی رفتار سے چلنے والی ہوائیں جو ہلکی ہوتی ہیں اور نرمی سے چلتی ہیں اور حیوانات و نباتات کے لئے ممدِ حیات ہیں..: وہ تیز ہوائیں جو بادلوں کو چاروں طرف پھیلاتی ہیں اور جن سے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب پیدا ہوتے ہیں.: وہ ہوائیں جو بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہیں جو اس دنیا میں تفریق و انفصال کا کام کر رہی ہیں.مُلْقِیٰتِ: وہ ہوائیں جو ملہمین اور واعظین کے نصائح کانوں تک اور دلوں تک پہنچاتی ہیں قدرت کا یہ کرشمہ اور نظارہ بتاتا ہے کہ انسان کے خلق کی کوئی علّتِ غائی ہے.اس نظامِ ظاہری کو پیس کر کے بتایا ہے کہ جس طرح نظامِ ظاہری کے لئے مؤثراتِ کارجی ہیں.اِسی طرح نظامِ روحانی کے لئے بھی مؤثرات باطنی

Page 305

ہیں.ہوا کے مختلف ایتھروں کی قسم میں ہوکے مختلف شعبوں کی طرف توجہ دلا کر اس نطارہ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی آئندہ آنیوالی کامیابیوں اور واقعات کے دکھلانے کے علاوہ حشرِ اجساد پر اس کو بطور دلیل پیش کیا ہے.جیسا کہ فرمایا:  یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ذریعہ جو وعدے تم کو دئے گئے ہیں خواہ وہ اس دنیا کے متعلق ہوں یا آخرت کے متعلق وہ پورے ہو کر رہیں گے.یہ یات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ذرّاتِ عالم خود ہی مدبّر و مختار.علیم و قادر نہیں ہیں جو کہ ضروریاتِ عالم کو سمجھ کر موقعہ اور محل شناسی کے بعد انتظام کریں.بلکہ ان تمام واقعاتِ ظاہری کے تحت میں مدبّرات اور مقسمات ہیں جن کو بلفظ دیگر ملائکہ کہتے ہیں.اور انہیں کو ظاہری افعل کے لحاظ سے مرسلٰت.عٰصِفٰت.نشِرٰت.فٰرِقٰت اور مُلْقِیٰت کہا گیا ہے.اور یہ الفاظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں.جو ہزارہا بیرونی و اندرونی.آفاقی و اَنفسی.روحانی اور جسمانی امور پر دلالت کر سکتے ہیں اور اس طرح پر وجودِ قیامت پر ہزاروں دلیلیں پیدا ہو جاتی ہیں.مثال کے پور پر مُرْسَلٰتِ عُرْفًا میں بادلوں کا آنا.برسنا.دن رات کا آنا جانا.سونا.جاگنا.گاڑیوں وغیرہ کا چلنا پھرنا سب داخل ہیں.اسی طرح پر باقی چار کو بھی قیاس کر لو.جس قدر واقعات ظاہری یا باطنی طاہر ہو رہے ہیں.وہ انہی پنج اقسام میں محصور ہیں.اور یہ سب کے سب بِالاجِماع دلالت کرتے ہیں کہ  ہواؤں کو دیکھو.عام حالت میں کہ کیسی صاف و صحت بخش اور جان فزا ہوتی ہیں.مگر دوسرے وقت میں یہی ہوائیں تند اور تیز ہو کر دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیتی ہیں اور ایک عجیب امتیاز کے ساتھ بعض کو حوادث سے بجاتی اور بعص کو تباہ کر دیتی ہیں اور ایسے حوادث اتمامب حُجت کا باعث ہو جاتے ہیں.الغرض یہ نظام ظاہری کی تقسیمِ خمسہ ہزاروں دلائل کا لشکر ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے.کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جو وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے.جس طرح ہوا صحت بخش اور جان فزاء ہے.اسی طرح امرِ رسالت بھی جان فزاء تو ہے مگر اس کی قدر نہ کی گئی تو بالآخر اس میں ہوا کی طرح استداد پیدا ہو گا.یہ رسالت دنیا میں منتشر ہو جاوے گی اور اس کے ذریعے کاذبوں اور صادقوں میں امتیاز ہو گا اور منکروں پر اتمامِ حُجّت اور باعثِ عذاب ہو گا.یہی ہوا جس نے قوم عاد کو ہلاک کیا تھا ؎ لطفِ حق باتو مواسا ہاکند جوں کہ از حد بگذرد رسواکند اَ: جب چھوٹے چھوٹے ستارے ماند پر جاویں گے.یا ان کا نُور

Page 306

مِٹ جاوے گا.نجم عربی میں چھوٹے ستاروں اور چھوٹے چھوٹے بُوٹوں کو کہتے ہیں جیسے فرمایا.وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُیَسْجُدٰن (الرّحمن:۷) اور بڑے ستاروں کو کواکب کہتے ہیں.چونکہ قرآن شریف کے لئے ظہر اور بطن ہے اس لئے علاماتِ قیامت سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ ایسے علماء جو نجوم کی طرح ہیں.ان کی نورب فراست جاتی رہے گی.دوسری جگہ فرمایا: وَاِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ (التکویر: ۳) علماء کا نورانی چشمہ مُکدَّر ہو جائے گا.بیچارے کیا کریں.تفسیروں پر تفسیریں لکھی گئی ہیں اور ہاشیوں پر حاشیے چڑھائے گئے.یہ تو ہال علماء کا ہوا.جو راہ یابی کے لئے بطور نجم کے نشان وہ تھے.باقی رہے حقّانی علماء ان کے لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ یُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَآئِ یعنی حقّانی علماء کے مرنے سے علم دنیا سے جاتا رہے گا.قرآن شریف میں بھی اِذَا لْکَوَاکِبُ انْتَشَرَتْ ( انفطار:۳) یعنی برے ستارے جھڑ پڑیں گے کہہ کر علماء ربّانی کی وفات اور قبْضِ علم کی طرف اشارہ کیا ہے.: جب آسمان شگافتہ ہو جاوے گا.اور دوسری جگہ قرآن شریف میں اِذَا السَّمَآئُ انْشَقَّتْ ( الانشقاق:۲)آسمان کا شگافتہ ہونا یا پھٹ پڑنا آسمانی بلیّات و کثرتِ حوادث سے مرد ہے.جیس کہ شدّتب مصائب کے وقت کہتے ہیں کہ آسمان ٹوٹ پرا.تباہ کن بارشوں کے وقت بھی یوں ہی کہتے ہیں کہ آسمان ٹوٹ پڑا یا پھٹ پڑا.: جس وقت پہار ارا دئے جاویں.یعنی بری بڑی قومیں نیست و نابود کر دی جاویں گی.تاریخوں میں تو بہت کچھ لکھا ہے مگر آنکھوں کے سامنے ہی کا معاملہ ہے کہ وہ شوکت اور قوت سکّھوں کی جو پنجاب میں تھی.کہاں گئی؟ دوسری جگہ قرآن شریف میں یہی لفظ اس ترتیب سے آیا ہے.(طٰہٰ: ۱۰۶) : جب رسول وقتِ مقررّہ پر جمع کئے جائیں گے.قیامت کے روز وقتب مقررّہ پر اپنی اپنی اُمّتوں کا حال بتانے کے لئے رسول تو اکٹھے کئے ہی جائیں گے مگر دنیا میں بھی تحقیق المذاہب کے بڑے بڑے جلسے ، جن میں ہر مذہب کے لیڈروں کو اپنے اپنے بیان کا وقت دیا جاتا ہے.یہ بھی توقیتِ رسل کا ایک نظارہ ہے..: یہ وعدے کب پورے ہوں گے؟ فیصلہ کے دن پورے ہوں گے.آخرت میں یہ وعدے پورے ہوں گے.ہمارا ایمان ہے.مگر علامات کبرٰی اشراط

Page 307

الساعۃ کے طور پر یہ وعدے دنیا میں اس وقت بھی پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں.بہت سارے مباحث جن کا فیصلہ مولوی ملّاؤں کے ہاتھوں سے نہیں ہو سکتا تھا.ان کا فیصلہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر ہو گیا.عیسائیوں کا فیصلہ ڈوئی اور آتھم کے ذریعہ سے ہو گیا.آریوں کا فیصلہ لیکھرام کے ذریعہ سے ہو گیا.سکھوں کا فیصلہ باوانانک علیہ الرحمث کے ذریعہ سے ہو گیا.: جہاں قرآن شریف میں تکرارِ لفظی کے ساتھ کئی باراس جملہ کو دہرایا ہے.وہاں خصوصیت کے ساتھ مسیہ موعود علیہ الصلوٰث والسلام کے متعلق پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے وہ الفاظ مطابقت کے لئے اشارہ کر رہے ہیں جس میں مسیح موعود کے کافر کُس دُم کی نسبت فرمایا ہے کہ لَا یَحِلُّ لِکَافِرٍ اَنْ یَّجِدَرِیْحَ نَفْسِہٖ اِلَّامَاتَ وَ نَفَسُہٗ یَنْتَھِیْ حَیْثُ یَنْتَھِیْ طَرَفُہٗ ۱؎ یہ کذّبِین کے لئے ویل کا دن اور یومِ الفصل ثبوت ہے اس بات کا کہ اس کے بعد یوم القیامۃ جزا سزا کا دن بھی آنیوالا ہے.حدیث شریف میں جو مسیح موعود کے اَنفاس کا ذکر ہے اس سے مراد آپ کے دلائل قاطعہ اور پیشین گوئیاں ہیں.چنانچہ انفاس کو اس شعر میں ملفوظاتِ نبوی کہا ہے.اھلُ الْحَدِیْثِ ھُمٗ اَصْحٰبُ النَّبِیِّ وَ اِنْ لَمْ یَصْحَبُوْا نَفْسَہٗ اَنْفَاسَہٗ صَحِبُوْا اس آیت شریفہ کو اس سورت میں بار بار یاد دلا کر یہ یقین دلایا ہے.کہ منکرین و مکذّبین ہرگز ہرگز فوزو فلاح کے وارث نہ ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) اﷲ اس سورہ شریف میں ایک عجیب نظارہ دکھلاتا ہے.اور فرماتا ہے کہ سوچو.بہار کی لطیف ہوا کیسی فرحت بخش ہوتی ہے.ایک نوجوان اس وقت سڑک پر چلتا ہو تو اس کی زبان سے بھی ایک فقرہ ضرور نکل جاتا ہے. وہ ہوائیں جو دل کو خوش کرنیوالی ہوتی ہیں تم جانتے ہو کہ بعض وقت ہوا کا ایک لطیف جھونکا چلتا ہے کہ اس لطیف جھونکے سے دل خوش ہو جاتا ۱؎ ترجمہ از مرتب: مسیح موعود کے اَنفاس سے کوئی کافر زندہ نہیں بچ سکے گا اور اس کے اَنفاس وہاں تک پہنچیں گے جہاں تک اس کی نظر جائے گی.

Page 308

ہے.پھر وہی ہوا آہستہ آہستہ چلتی اور روح دروں کو خوش کرنیوالی یکدم ایسی بڑھ جاتی ہے کہ ایک تیز اندھی بن جاتی ہے.میں نے ایسی آندھیاں دیکھی ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا.بہت سے جانور دریاؤں میں گر جاتے ہیں بہت سے پرند درختوں سے گر جاتے ہیں اور دریا وغیرہ کے درخت جو سرو کی قسم سے ہیں اس طرح گرتے اور اُڑتے ہیں کہ نیچے بیٹھے ہوئے آدمی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا.’’….ایسی بھی ہوائیں ہوتی ہیں کہ پانی کو اٹھاتی ہیں.بادل لاتی ہیں.پھر ایسی ہوائیں بھی ہوتی ہیں .وہ فرق کر دیتی ہیں.بادلوں کو اس طرح اڑا کر لے جاتی ہیں جیسے روئی کا گالا.خدائے تعالیٰ کا کلام بھی انسان کے کان میں ہوا ہی کے ذریعہ پہنچتا ہے.ہوا کی لہریں بھی دماغ کے پردوں کو متحرک کر دیتی ہیں.وہ ہوائیں اَ ہوتی ہیں اور وہی آوازیں بھی کان میں پہنچاتی ہیں اور وہ آوازیں.کبھی خوشی کی ہوتی ہیں کبھی رنج کی ہوتی ہیں جو عاصفات کا رنگ پیدا کر دیتی ہیں.مومن کی شان میں ایک ایسا لطیف فقرہ ہے.دنیا میں کوئی دُکھ کو پسند نہیں کرتا.قرآن شریف میں ہے (البقرہ: ۳۹) اگر تم مومن ہو اور سُکھ جاہتے ہو تو اس کتاب کی اتباع کرو.اب دوردراز سے خبریں آتی ہیں کہ مسلمانوں کو یوں شکست ہوئی.یوں تباہ ہوئے.ایک شخص کا میرے پاس خط آیا.وہ لکھتا ہے.کہ مجھ کو دہریہ نام کا مسلمان مِلا.وہ کہنے لگا.خدا تعالیٰ تو اب مسلمانوں کا دشمن ہو گیا ہے.لہذا ہم اسلام سے ڈرتے ہیں کہ کہیں خدا ہمارے پیچھے بھی نہ پڑ جائے.اس لئے ہم تو اسلام کو چھوڑتے ہیں.بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ اس نے مسلمانوں جیسے کیسے کام کئے.مسلمان اپنے اعمال کو ٹھیک کرتے اور پھر دیکھتے.: ہوؤں میں وہ ہوائیں بھی ہیں.کہ تم کو یاد دلانے کے لئے چلاتے ہیں یعنی لوگوں کے مونہہ سے تم کو سنواتے ہیں.کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو.ایک بڑا حصّہ مسلمانوں کا ایسا ہے کہ اس کو اسلام کی خبر بھی نہیں.اور اگر خبر ہے تو عامل نہیں.میں تم کو بہت مرتبہ قرآن سُناتا ہوں.بعض کہتے ہیں کہ ہزاروں مرتبہ تو سُن چکے ہیں.کہاں تک سنیں؟ : ہم تو اس واسطے تم کو قرآن سناتے ہیں کہ کوئی عُذر باقی نہ رہے اور تم میں سے کوئی تو ڈرے! : پھر ایسا وقت بھی آ جاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دنیا سے مِٹ

Page 309

جاتے ہیں.پھر تو کوئی قرآن سنانے والا بھی نہیں ملتا.زمینداروں ، دکانداروں کو فرصت کہاں.میں نے صرف ایک شہر ایسا دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن بازاروں کے دروازے بدن کر دئے جاتے ہیں اور سب جمعہ میں حاضر ہو جاتے ہیں.کوئی مسلمان بازار میں نہیں پھر سکتا.اور وہ شہر مدینہ ہے.مکّہ میں بھی ایسا نہیں.یہ بھی چالیس پچاس برس کی بات ہے.اب کی کیا خبر ہے.دکاندار.حرفہ والے.ملازم اپنے کاموں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں.عورتیں اور بچے جاتے ہی نہیں.آجکل لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں کہ جمعہ کوئی ضروری چیز نہیں.عالمگیر نے ایک ایسی کتاب لکھوائی تھی.اس میں عجیب عجیب ڈھکونسلے ادھر اُدھر کے بھر دیئے ہیں اس کے سبب لوگوں میں سُستی ہوئی اور اب تو صاف صاف جمعہ کی مخالفت میں کتابیں چھپنے لگیں.کوئی لکھتا ہے کہ قربانی کی ضرورت نہیں.ایک اخبار نے لکھا تھا کہ حج میں روپے خرچ کرنے کی بجائے کسی انجمن میں چندہ دے دے.ایک شخص نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے.اور روزوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر امیر ہو تو کھانا دے دے.غریب کو تو ویسے بھی معاف ہی ہے.ایک شخص لکھتا ہے کہ وَ ذَرُوا الْبَیْعَ ( الجمعہ: ۱۰) ہر قسم کا بیع چھوڑ دو.پس ہر قسم کی بیع ہونی چاہیئے.جہاں ہر قسم کی بیع نہ ہو وہاں جمعہ ضروری نہیں.مَیں نے کہا کہ ہر قسم کی بیع تو لندن میں بھی نہیں ہوئی.اِذَا النُّجُوْمُ : علماء یوں تباہ ہو رہے ہیں.قرآن کے حقائق یوں کُھل جائیں گے.اور بڑی بڑی سلطنتیں بھی قائم ہو جائیں گی.ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سمجھ لیا ہے.دیکھو خوشی کی خبریں غم سے یوں مبدّل ہو جاتی ہیں جیسے مرسلات.عصفات.نفس کو اس کا مطالعہ کراؤ.شیخ ابنِ عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے.وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے.ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے.اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سُن سکے.ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے.پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان.کان آنکھ.ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کریں.ایک حضرت شاہ فضل الرحمان صاحب گنج مراد آبادی گزرے ہیں.ان سے کسی نے پوچھا.کہ آپ بہشت میں جائیں گے تو کیا کام کریں گے.فرمایا.ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے پاس حوریں آئیں.ہم نے ان سے کہا.جاؤ بیبیو.قرآن پڑھو.قرآن خدا کی کلام اور اس کی کتاب ہے.

Page 310

جس قدر کوئی اﷲ تعالیٰ سے تعلق رکھے گا.اسی قدر جنابِ الہٰی اس کو پکارے گا.تو اس کی بات فورًا سُنی جائے گی.( بدر حصّہ دوم صفحہ ۱۰۱ ۹؍ جنوری ۱۹۱۳ء) ۲۱..: حقیر پانی سے.تھوڑے ناقدرے پانی سے.نبی.ولی.رسول.بادشاہ.امیر.فقیر.سب ہی اس مائِ مہین سے بنے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۲..: ٹھہرنے کی جگہ.محفوظ جگہ.عورت کے رحم میں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۶،۲۷...کیا نہ بنایا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی زندوں کو اور مُردوں کو. کے معے سمیٹنے والی اپنی طرف کھینچنے والی.ایک حدیث میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے.اَکْفِتُوْا صِبْیَانَکُمْ عِنْدَ ابنْتِشَارِ الظّنلَامِ فَاِنَّ فِی ھٰذِہِ السَّاعَۃِ لِلشَّیْطٰنِ خَطْفَۃٌ یعنی سمیٹ لو اپنے بچوں کو شام کے اندھیرے کے وقت.کیونکہ اس وقت شیطان چھپٹا مار لیا کرتا ہے.یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ شام کے اندھیرے کے وقت اکثر مویشی وغیرہ بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ چراگاہوں سے دوڑتے ہوئے مکانوں کی طرف آتے ہیں.ایسے وقت میں بچوں کا درمیان ا پڑنا ضرر اٹھانے کا باعث ہوتا ہے.والدین یا سر پرستوں کو ہدایت فرمائی کہ ایسے وقت میں بچوں کو اپنی طرف کھینچ لو.باہر نہ نکلنے دو.غرض کہ  کے معنے کھینچنے اور سمیٹنے کے ہیں.خواہ مُردہ ہوں یا زندہ.تر ہو یا خشک نباتات.جمادات.حیوانات.سب کو زمین اپنی قوتب جاذبہ اور قوتِ کشس سے اپنی طرف کھینچ رہی ہے.مسیحؑ کی موت حیات کا مسئلہ اس آیت سے بخوبی حل ہوتا ہے.آیت شریفہ بتلا رہی ہے.کہ مسیح ہوں یا کوئی دوسرا جاندار.مُردہ ہو یا زندہ.کسی کو بھی زمین نہیں چھوڑتی کہ اس سے جُدا ہو کر نکل جاویں اگر پرندے اڑتے ہیں.تو تھوڑے عرصہ بعد پھر زمین ہی کی کشش سے اس کی طرف کھنچے چلے جاتے ہیں.

Page 311

عیسٰی علیہ السلام آسمان پر نہیں اُڑے.قرآن کریم اس کی تکذیب کرتا ہے.قرآن ایک کلّی قاعدہ ہر ایک ذی ہیات کے لئے باندھتا ہے.اور اس قاعدہ کلیہ سے کسی کو مستثنٰے نہیں کرتا.اس کے خلاف اعتقاد رکھنے والا قرآن کریم میں بتائی ہوئی خدا کی سنّت کامکذّب اور بے ایمان ہے.وہ آیت یہ ہے:.ہم نے زمین کو مُردوں اور زندوں دونوں کو اپنی طرف جذب کرنیوالی بنایا.اس کی کششِ ثقل کسی کو اپنے اندر اور انے اوپر لینے اور رکھنے کے سوا چھوڑتی ہی نہیں.( نورالدین طبع ثالث صفحہ ۹۸) اگر پتھر اوپر کو پھینکا جاوے.تو زمین ہی کی کشش ہے کہ اس کو نیچے لا گراتی ہے.زمین کی اس قوت کشس کو سائنس کی تحقیقات میں گراویٹیشن پاور کہتے ہیں.جس کو اسی آیت میں  کہا گیا ہے. گَفَتن یَکْفِتُ سے نکلا ہے نہ کہ کفٰے یکفی سے.کفٰی یکفی کے معنے کاوی ہونا.اور کفات کے معنی اپنی قوت کشش سے چیزوں کو اپنی طرف کھینچنا اور سمیٹنا.(ضمیمہ اخبار بر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۳۱..: کسی سایہ کے تین ہی فائدے ہو سکتے ہیں ۱.اوپرکی تپش سے بچائے ۲.گردوپیش کی لپت سے بجائے ۳.شرارے اور جنگاریوں سے امن حاصل ہو.دوزخ کے دھوئیں کا سایہ.اس میں یہ صفتیں کہاں قرآن شریف کی باہمی آیات میں کچھ نہ کچھ ربط مطالب کے لحاظ سے ضرور رہتا ہے.دجّالی فتنوں کا ثبوت قران شریف کی اس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰث والسّلام نے لیا ہے.جو سورۃ الدّخان میں ہے. (الدّخان:۱۱) عیسائیوں کی نجات کا اعتقاد باپ.بیٹا.روح القدس.ان تینوں کے معجونِ مرکب پر ہے.ان تینوں کا جز اعظم بیٹا ہے.جو زمین کی اس کشس پر جس کا ذکر ماقبل آیت میں ہے.غالب آ کر زندہ آسمان پر چڑھ گیا ( خدا کا بیٹا جو ہوا.اس کو گراوی ٹیشن ۱؎ کی کیا پرواہ.) اس آیت میں اسی معجون مرکب کو ثَلٰثِ شُعَبٍ سے تعبیر کیا ہے.ربطِ آیات سے معلوم ہوتا ہے.کہ نجات کے لئے نہ باپ

Page 312

کا سایہ ہو گا.نہ بیٹے کا.نہ رُوح القدس کا.ہوں گے اس وقت سبھی موجود.مگر جس سایہ کی طرف جاویں گے.آرام یا نجات نہ ہو گی.اَﷲُ انعْلَمُ وَ عِلْمُہٗ اَتَمٌّ.جزا سزا اور اعمال میں مناسبت کا ہونا ضروری ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۴۰..کتنا بڑا کید ہے.کہ ایک دو تین کو جمع کرنے سے تین نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی ہوتا ہے.۱+۱+۱=۱ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۴۷..سورۃ کا اکثر حصّہ مذہب عیسوی کے اوپر مشتمل ہے.اس میں شک نہیں کہ گرجا کے خادموں کو کھانے پینے کے لئے بافراغت مل جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۱؎ GRAVITATION POWER ۴۹..نماز میں عیسائیوں کی رکوع نہیں صرف (نی داؤن ۱؎ ) گھٹنے ٹیکنا ہے و بس.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 313

سُوْرَۃَ النَّبَاِ مَکِّیَّۃٌ  ۲،۳...: نباء عظیم قیامت کے وقوع کا دن ہے.جس میں ان کو اختلاف تھا.نبأ عظیم الشان بات.پھر اس کے ساتھ عظیم کے لفظ کو اہمیت کے اظہار کے لئے اور برھا دیا.ہو سکتا ہے کہ نبأ عظیم سے مراد قرآن مجید اور پیغمبر صلی اﷲ و آلہٖ وسلم کی رسالت کا دعوٰی بھی مراد ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اپریل ۱۹۱۲ء) ۵.. زجر اور توبیخ کا کلمہ ہے.بیان ماقبل کے ردّ کے لئے اتا ہے.سَوْفَ نہیں فرمایا.’’س‘‘ جو شتابی اور بے درنگی پر دلالت کرتا ہے.لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا.کہ قیامت کبرٰی کے ثبوت کے لئے اس سے پیستر ایک اور قیامت خیز واقعہ فتح مکّہ وغیرہ کا بھی ہو گا.جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنن الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ ( السجدۃ:۲۲) یہ سورۃ شریفہ مکّی ہے.ایسے وقت کی نازل شدہ جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تنہا تھے.اس وقت یہ عطیم الشان پیٗسگوئیاں دنیا کو سنائی گئیں.جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی نبوّت کی صداقت اور قیامت کے ثبوت کے واسطے بین دلائل ہوئیں.اس زمانہ کے مادہ پرست لوگ ٗغور کریں کہ کیا کوئی انسان اپنی تدبیر اور فکر سے ایسی تحدّی کے ساتھ اتنا بڑا دعوٰی خلقت کے سامنے پیس کر سکتا ہے.کیا ایسی شاندار بات کوئی شخص صرف اٹکل بازی سے کہہ سکتا ہے؟ قیامت کے منکریں کے واسطے یہ دلائل نہایت ہی فائدہ بخش ہو سکتے ہیں.بشرط آں کہ کوئی غور کرے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 314

۷..جَعَلَ.پہلے پہل پیدا کیا.مھاد بمعنی مَمْھُوْد اسم مصدر.اسم مفعول معنے میں ہے.دوسری جگہ فرمایا جَعَلَ لَکُمْ الْاَرْضَ فِرَاشًا ( بقرۃ: ۲۳)معلوم ہوا کہ مھاد ہونا بھی زمین کی ایک صفت ہے اور فِرَاش ہونا بھی ایک صفت ہے.چونکہ قیامت کے وقوع میں استبعاد عقلی ظاہر کیا گیا تھا.اس لئے اپنی قدرت کاملہ سطوت اور جبروت کے چند ایک نظارہ قدرت کو پیش کیا.مثلاً جبال.خلق ازواج.نوم و سبات.سَبْعِ شِدَاد.سِرَاجِ وَھَّاج.وغیرہ کئی ایک عظیم الشان مشہود قدرتوں کو پیش کیا.تاکہ عجز کا وہم دور ہو.مَھْدٌ.گہوارے کو کہتے ہیں.زمین بھی ایک گہوارے کی طرح ہے.سورج کے گرد گردش کرتی ہے.انسان کا یہ گہوارہ ہے.مٹی سے وہ پیدا ہوتا ہے.پھر مٹی میں مِل جاتا ہے.پھر مٹی سے اٹھایا جاوے گا.اس زمین پر جزا و سزا کے اعمال کا ایک نقشہ اپنے سامنے دیکھتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) ۸..: وَتَد کی جمع.وَتد بمعنی کھونٹی جس سے اس جگہ مضبوطی جہاں کا اظہار بھی مقصود ہے.پہاڑ ثقلِ ارض کو ایک اندازہ پر رکھنے والے ہیں.آجکل کے سائنسدانوں نے بھی اس امر کو تسلیم کر لیا ہے.کہ اگر زمین پر پہاڑ نہ ہوتے تو وہ جنبش کرتی رہتی.اس میں زمین کی پیدائش اور بانوٹ کی طرف اشارہ ہے.اور ان فوائد کی طرف توجہ دلائی ہے.جو پہاڑوں سے اہلِ زمین کو حاصل ہیں.چنانچہ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.  (لقمان:۱۱) رکھے ہیں زمین میں پہاڑ تاکہ وہ کھانادیویں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اپریل ۱۹۱۲ء) حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اﷲ عنہ نے اپنی تصنیف ’’ نور الدّین‘‘ میں پہاڑوں کے بارے میں مزید تحریر فرمایا ہے.’’ اعتراض: زمین پر پہار اس لئے رکھے کہ وہ آدمیوں کے بوجھ سے ہل نہ جاوے؟ الجواب: قرآن کریم میں اس مضمون کی کوئی آیت نہیں.البتہ یہ آیت ہے. (نحل:۱۶) اس آیت میں

Page 315

 کا لفظ ہے.جس کے معنے تمہیں بتاتے ہیں.اور دوسری آیت اسی مضمون کی یہ ہے  (انبیاء:۳۲) ان دونوں آیتوں میں  کا لفظ ہے.جو جہالت کے سبب سے دشمنانِ اسلام کی سمجھ میں نہیں آیا.سُنو.لُغت عرب میں ہے.مَادَنِی.یَمِیْدُنِیْ.اَطْعَمَنِیْ ( المفردات القرآن للراغب)اور مَیْد کے معنے ہلنا.دیکھو.مَادن یَمِیْدُ مَیْدًا و مَیْدَانًا مِنَ الْاَرْضَ ( قاموس اللغۃ)ان معنوں کے لحاظ سے جو منادَنِی.یَمِیْدنِیْ کے کئے گئے ہیں.اس آیت کے یہ معنے ہوئے.کہ رکھے زمین میں پہاڑ اس لئے ہیں کہ کھانادیں تمہیں.اور یہ ظاہر بات ہے کہ پہاڑوں کو اﷲ تعالیٰ نے اس لئے بنایا ہے کہ ان میں سے برفیں پگھلیں.چشمے جاری ہوں.ندیاں نکلیں.پھر ان کے سبل پر اس سطہ سے جس میں ریگ ہوتی ہے.پانی مصفا ہو کر کنویں میں آتا ہے.پھر اس سے کھیت سرسبز ہوتے ہیں.یہ بھی ایک علاوہ اس رحمت کے سلسلے کے ہے.جو بارانِ رحمتِ الہٰیہ سے ہے.جس کا ذکر اس کلمہ طیّبہ میں ہے.(بقرہ:۲۳) اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ ہم نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ چکر کھاتے ہیں.ساتھ تمہارے.یہ الہٰی طاقت کا مرکز ہے کہ اس نے ایک بڑے مستحکم مضبوط پہاڑوں کو بھی زمین کے ساتھ چکّر دے رکھا ہے اور نظامِ ارضی میں کوئی خلل نہیں آتا.اب کوئی انصاف کرے کہ کن معانی پر اعتراض کی جگہ ہے.ہم نے تصدیق براہین احمدیہ کی جلد دوم میں اس مضمون پر بسط سے کلام کیا تھا.اس مسوّدے سے بھی یہاں مختصرًا کچھ نقص کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے.مکذب بارہین احمدیہ کے اعتراص کا تیسرا حصّہ یہ ہے.اہلِ اسلام کے نزدیک پہاڑ بمنزلہ میخوں کے زمین میں ٹھونکے گئے ہیں.’’ یہ خام خیالی ہے‘‘ الجواب: خام خیالی کا دعوٰی کرنا اور ثبوت نہ دینا.یہ بھی معترض کی خام خیالی ہے.(لقمان:۱۱) اور آیت کریمہ وَالْجِبَالَ اَوْ تَادًا.ایک نہایت سچی فلسفی ہے اور اس سچی فلسفی پر جدید علوم اور حال کے مشاہدات گواہی دیتے ہیں.اور انہی مشاہدات سے بھی ہم گزشتہ دیرینہ حوادثات کا علم حاصل کر سکتے ہیں.کہ اس زمین کا ثبات و قرار اضطرابات اور زلازل سے خالق السمٰوٰت والارض نے تکوینِ جبال سے تسکین دی ہے.چنانچہ علم طبقات الارض میں تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ زمین ابتداء میں

Page 316

ایک آتشیں گیس تھی.جس کی بالائی سطح پر دھؤاں اور دخان تھا.اور اس امر کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے.جہاں فرمایا ہے.(حٰمٰ ٓالسجدہ:۱۲) پھر وہ آتشیں مادہ اُوپر سے بتدریج سرد ہو کر ایک سیال چیز بن گیا.جس کی طرف قرآن شریف ان لفظوں میں اشارہ فرماتا ہے.وَ کَانَ عَرْشُہٗ عَلَی الْمَآئِ پھر وہ سیال مادہ زیادہ سرد ہو کر اُوپر سے سخت اور منجمد ہوتا گیا.اب بھی جس قدر اس کے عمق سے نیچے اب تک ایک ایسا ذوبانی اور ناری مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصوّر سے بالا ہے.( اسلام نے بھی دوزخ کو نیچے بتایا ہے) جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی نہ تھی.اس وقت زمین کے اس آتشیں سمندر کی موجو ں کا کوئی مانع نہ تھا.اور اس لئے کہ اس وقت حرارت زیادہ قوی تھی اور ہرارت حرکت کا موجب ہوا کرتی ہے.زمین کی اندرونی موجوں سے بڑے بڑے مواد نکلتے.جن سے پہاڑوں کے سلسلے پیدا ہو گئے.آخر جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی ہو گئی.اور اس کے ثبات و ثقل نے اس آتشیں سمندر کی موجوں کو دبا لیا.تب وہ زمین حیوانات کی بود و باش کے قابل ہو گئی.اسی واسطے قرآن کریم نے فرمایا ہے.(لقمان:۱۱) اور اس کے بعد فرمایا.(لقمان:۱۱) اَلْقٰی کا لفظ جو آیت اَلْقٰی فِی الْاَرْضِ میں آیا ہے.جس کے صاف معنے ہیں’’بنایا‘‘ کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں بجائے اَلْقٰی کے فَعَلَ کا لفظ آیا ہے جس کے صاف معنے ہیں.بنایا.اور اُن امور کی کیفیت آیت ذیل سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے.( حٰمٰ السجدہ:۱۱) اورزمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھی ( حٰمٰ السجدہ:۱۱) اور اس پر ہر قسمِ کے کھانے کی چیزیں پیدا کیں.ایک عجیب نکتہ آپ کو سناتے ہیں.آپ سے میری مراد وہ سعادت مند ہیں جو اس نکتہ سے فائدہ اٹھائیں.قرآن کریم میں ایک آیت ہے اس کا مطلب ایسا لطیف ہے کہ جس سے یہ تمہارا سوال بھی حل ہو جاوے اور قرآن کریم کی عظمت بھی ظاہر ہو.غور کرو اس آیت پر.( النمل :۸۹) اور تو پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتا ہے کہ وہ مضبوط جمے ہوئے ہیں اور وہ بادل کی طرح امڑ رہے ہیں.یہ اﷲ تعالیٰ کی کاریگری قابلِ دید ہے جس نے ہر شَے کو خوب مضبوط بنایا ہے.

Page 317

غور کرو.یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جگہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں.اور وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہار زمین کے ساتھ ہرکت کرتے ہیں اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے.( نور الدّین صفحہ ،ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۳) ۱۰..نَوْمَ بھی قیامت کے ثبوت کے لئے ایک عجیب واقعہ روزمرّہ کا ہے.سُبات کے کئی معنے ہیں سُبات.نیند اور راحت.سُبات:قطعًا لِانعْمَالِکُمْ.سُبات تمدّد اور کھولنے کو بھی کہتے ہیں سَبَتَتِ الْمَرْأَۃُ شَعْرَھَا.نیند بھی ایک قسم کی موت ہوتی ہے.اﷲ تعالیٰ اپنی قدرتِ کاملہ سے پھر اس مُردے کو زندہ کرتا ہے.یہ موت ناقص ہے موت کامل کے بعد بھی انسان اسی طرح پھر اٹھایا جائے گا.یہاں اس کا ایک نمونہ دکھایا گیا ہے.۱۱..راتوں کے سُبات اور آرام پانے کی وجہ سے تھکے ہوئے چہروں پر دوسری صبح جو تروتازگی اور رونق آ جاتی ہے.یہ بھی ایک قسم کا لباس ہے.حقیقت میں رات بندوں کے لئے بڑی پردوہ پوس ہے.کوئی شاعر کہتا ہے ؎ اَللَّیْلُ لِلْعناشِقِیْنَ سِتْراً یَالَیْتَ اَوْقَاتُھَا تَدُوْمٗ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۳) ۱۲..انسان کے واسطے دن معاش کا ذریعہ اور رات آرام کا وقت بنایا ہے اور فرمایا .سرورِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی بَارَکَ اﷲُ فِیْ بُکُوْرِھَا.کس قسم کی معاش؟ دنیوی معاش اُخروی معاش کے لئے یہ جگہ اَلدُّنْیَا مَزْرَعَۃُ الْاٰخِرَۃِ.جیسا بیج بوؤ گے.انجامِ کار ویسا پھل پاؤ گے.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ جَو کے بونے والے کو آخر جَو کاٹنے پڑیں گے.(الحکم ۱۶؍اگست ۱۹۰۰ء صفحہ۴)

Page 318

۱۵..مُعْصِرٰتِ ان بادلوں کو کہتے ہیں.جن میں سپنچ کی طرح پانی بھرا ہوا ہو.جو ٹپکنے کے قریب ہو.مُعْصِرَۃ لُغت میں اس لڑکی کو بھی کہتے جو قریب البلوع ہو.تَجَّ.لازم اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے.لازم جیسے ثَجَّ الْمَآئُ.پانی کثرت سے بہا.متعدی جیسے حدیث شریف میں اَحَبُّ الْعَمَلِ اِلَی اﷲِ الْعَجُّ و َ الثَّجُّ عَجَّ کے معنے تلبیہ پکارنا.لبیّک کہنا اور ثَجَّ کے معنی قربانیوں کا خون بہنا.غرضیکہ مُعْصِرٰت سے مَائً ثَجَّاجًا کا ہونا عبارت ہے.بارش موسلادھار سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۳، ۳۰۴) ۱۸..: یوم الفصل مقرّے اور بدر یوم الفصل اور یوم الفرقان واقعات کے رُو سے ثابت ہو کر قیامت و محشرکے واسطے ایک بیّن دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۷) سورۃ مرسلات میں یوم الفصل فرمایا تھا.اب اس کی تفصیل بتاتا ہے.کہ یہاں تو سب کچھ ملا جُلا ہے.اگر یہاں عزاب آئے تو نیک آدمیوں کو بھی دمکھ پہنچتا ہے.اس لئے فیصلہ کے واسطے ایک دن مقرّر ہے اور کفّار کو دنیا میں بھی اس کو نمونہ دکھایا جائے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۷) ۲۱..آسمان سے نشانات کی بارش ہو گی.اور یہ جو بڑے بڑے پہاڑ بنے بیٹھے ہیں ھَبَآئٌ مَّتْثُوْرًا ہو جائیں گے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۷) ۲۲..:کے معنے کمین گاہ.گھات.قیدخانہ.جیل خانہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴)

Page 319

۲۳..سرکشوں کے لئے بازگشت کی جگہ.طاغین کے بالمقابل اگلی آیت میں متّقیناور ان کی جزا کو بیان فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) طَاغِی: سرکشی کر کے حد سے نکل جانے والا.متّقی: خداوند تعالیٰ کی حد بندیوں کے اندر رہنے والا ؎ صادق آں باشد کہ ایّام بلا می گزارد بامحبت باوفا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۲۴..: اس سے ظاہر ہے کہ جہنم غیر منقطع نہیں.جیسا جنّت.وہ ایک تاویب گاہ ہے جہاں انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج ہو کرا سے بہشتی زندگی بسر کرنے کے قابل بنا دیا ہے.بہشت عطائً غیر مجذوذ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۳۲..پاس ہونے والے.کامیاب اور بامراد ہونے والے متّقین ہی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۳۴.. جمع کَعْبَۃٌ کی ہے.کَعْبَیْنِ پَیر کے دونوں ٹخنوں کی ہڈی کو کہتے ہیں  سے مراد نوخیز.نو عمر عورتیں ہیں جن کے پستان ٹخنوں کی طرہ ابسرنے پر ہوں.محاورہ ہے.تَکَعَّبَتِ الْچَارِیَۃُ وَ کَعبتِ الْجَارینۃُ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) اَتْرَاب: اس لفظ کا اصل ترب اور تراب سے ہے جس سے مطلب خاکساری اور انکساری ہے طاغین کی سزا کے بالمقابل اتراب یعنی منکسرالمزاج عورتوں سے جزاء متقین خوب مناسبت رکھتی ہے.اَتْرَاب کے لغت کی حقیقت حصرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عمل الترب کے اس بیان

Page 320

سے بھی خوب واضح ہوتی ہے.جو ازالہ اوہام طبع اوّل صفحہ ۷۵۰ اور صفحہ۳۱۲میں مذکور ہے.جہاں آپ نے تسخیر بالنظر کے عمل کو بیان فرمایا ہے.اس عمل میں معمول ( جس کو انگریزی میں سبجکٹ کہتے ہیں)کا اپنے عامل کے لئے پورا منکسرالمزاج.مطیع و فرمان پذیر بننا ضروری ہے.حضرت صاحب کا ایک الہام بھی ان صفحوں میں درج ہے.وہ یہ ہے.ھَذَا ھُوَ التِّرْبُ الَّذِیْ لَا یَعْلَمُوْنَ.اَتْرَاب کے معنے ہم عمر اور ایک ساتھ مٹی میں کھیلنے والوں کے بھی بیان ہوئے ہیں.لِلنَّاسِ فِی مَا یعشقون مذاھب شتّٰی ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۳۵.. بھرے پیالے کو کہتے ہیں.جو پیالہ پینے کی چیز سے خالی ہو اسے کاْس نہیں کہیں گے پیالہ اتنا بھرا ہو کہ چھلکنے لگے.اس پیالہ کو  کہتے ہیں.ابنِ عباسؓ سے منقول ہے اَسْقِنَا وَ اَدْ ھِقْ لَنَا یعنی پلا ہم کو اور خوب بھر کرپِلا.دِھَاق کے معنے پے در پے کے بھی آئے ہیں اَدْھَقَتُ الْحِجَارَۃَ اِدْھَاقًا میں نے بے در پتھر چلائے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۳۹. . الخ: حسن اور قتادہ فرماتے ہیں.کہ روح سے بنی آدم اور ارواح ان کی مراد ہیں.میں عیسویت کے کفّارہ کی تردید ہے.جن پر روح کے لفظ کا اطلاق ہے.وہ سب دست بستہ کھڑے ہیں کہ کلام کرنے کی مجال نہیں.کیا رُوح سے مراد صرف وہ اقنوم لیا جائے.جس نے مسیح کو کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.تو پھر بیٹے کی ایسی مٹی پلید ہوتی ہے کہ اس بیچارہ کو بولنے تک کی جرأت نہیں.علاوہ اس کے رحمن کے معنے رحم بالمبادلہ کرنیوالا ہے.صفت رحمانیت اور کفّارہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے.رحمانی صفت میں تناسک کا ردّ بھی ہے.جو رحم بلامبادلہ کرتا ہے.اس کو مختلف جونوں میں کتّا بلّا بنا کر اپنا گھر

Page 321

پورا کر لینے کی کیا ضرورت ؟ قرآن کریم میں روح کا لفظ کلام اﷲ کے لئے آیا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) ۴۱. .ابتدائے سورۃ میں سَیَعْلَمُوْنَ دوبارہ کہہ کر قریب ہی آنے والے عذاب کی طرف توجّہ دلائی تھی.خاتمہ سورۃ میں بھی عذاب قریب کا ذکر فرمایا.جو یوم بدر اور فتہ کمّہ کے دن واقع ہوا.اور یہ عذاب کی پیشگوئیاں دنیا میں صادق ہو کر قیامت اور اس کے عذاب کے لئے ثبوت ٹھہریں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴) خ خ خ

Page 322

سُوْرَۃَ النّٰزِعٰتِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..نازعات: زور سے اور تکلّف سے کھینچنے والے.۳..بلا تکلّف نشاطِ خاطر سے کھینچنے والے.۴..اپنے فن کے پیراک اور ماہر.۵..اپنے ہم عصروں سے سبقت لے جانے والے.۶..افسرانِ محکمہ جات اور اپنے اپنے فنون کے مُوجد و مدیر.مَطلَع سورۃ کی یہ پانچ آیتیں ہیں جو اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ دینی امور ہوں یا دنیوی.ان کے انتہائے کمال پر پہنچنے کے لئے یہ پانچ مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں.اوّل: کام سے ہٹانے والی چیزوں سے الگ ہو کر انسان اپنے کام میں محو ہو جائے.دوم: پورے نشاط اور خوشی سے اپنے کام کو کرے.سوم: اپنے کام میں اس طرح مشق کرے جس طرح پیراک پانی میں تیرتا ہے.اور اس کو کوئی روکاوٹ نہیں ہوتی.چہارم: اپنی جماعت اور ہم عمر لوگوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے.پنجم: اپنے کام میں

Page 323

ایسا کمال حاصل کرے کہ خود اس میںموجد ہو جائے.مثلاً طالبعلم ہو یا تاجر.پہلے پہل اس کو ہمہ گوش وہمہ تن ہو کر اپنے کام میں مستغرق ہونا پڑتا ہے.تب کچھ حروف سناسی یا سنبھالا پکرتا ہے.پھر بعد اس کے نساطِ خاطر سے کام چل پڑتا ہے.پھر بعد چندے طالبعلم یا پیشہ ور اپنے اپنے معافی و مطالب کے پیراک ہو جاتے ہیں.پھر اپنے ہم عصروں اور پیشہ وردوں سے بایکدیگر مسابقت و پیش قدمی کرنے لگتے ہیں.آخری درجہ کمال یہ ہوتا ہے.کہ موجدِ فن و مدّبر و افسر اعلیٰ بن جاتے ہیں.ملائکہ اﷲ کی خدمات بھی ان آیتوں سے مراد سمجھی گئی ہیں.مگر آیت اپنے عموم پر دلالت کر کے ملائکۃ اﷲ کے ہم رنگ وہم سبق ہونے کی انسانوں کو بھی تعلیم دے رہی ہیں.اور ساتھ ہی جزاو سزا کے مسئلہ کو جو مقصود بالذّات ہے ثابت کر رہی ہیں.نتائج اعمال حق ہیں.کوششوں کے پھل ضرور ملیں گے.اَلدُّنْیَا مَزَرَعَۃُ الْاٰخِرٰۃِ.دنیا ایک زراعت گاہ ہے.اس زراعت کے کاٹنے کا جو وقت ہے اس کا نام یومِ آخرت و یوم القیامۃ ہے ؎ ازمکافاتِ عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جَوزِ جَو اﷲ تعالیٰ نے قَسم کے ساتھ بیان فرمایا ہے.گویا کہ ان واقعات کو جزا و سزا کے لئے گواہ ٹھہرایا ہے.اور اُس آنے والے دن کے اشراطِ عظام.مبادی و مقدمات یوں بیان فرماتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۴، ۳۰۵) ۷،۸.. زلزلے ہمیشہ آتے رہیں گے.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اشراط عظام قبل قیامِ ساعت جب شروع ہو جاویں گے تو ایسے لگاتار ظہور ہوںگے.جیسے تسبیح کا تاگہ ٹوٹ جانے سے منکے تسبیح کے متتابعِ یکے بعد دیگرے گرنے لگتے ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے.کہ اَوَّلُ الْاٰیَاتِ خُرُوْجًا طُلُوْعم الشَّمْسِ مِنْ مَغْرببِھَا أَ و الڈَّآبَۃُ اَیَّتُھُمَا خَرَجَتْ فَاْلُاْخْرٰی عَلٰی اَثَرِھَا.سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہو گی وہ یا تو طلوعِ شمس من مغر بہا ہو گی.یا خروج دابہ کی ہو گی.جونسی ان میں سے پہلے ظاہر ہو گی دوسری بھی اس کے نقش قدم کے ساتھ ہی شروع ہو گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.کہ تیرہ سو برس گزرنے کے بعد ظہور ان آیات کا جو تعبیر طلب ہو گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دُور کی چیز اپنی کیفیّت و کمیّت میں بسبب بُعد مکانی کے

Page 324

اپنی اصل شکل سے کچھ مغائر معلوم ہوتی ہے.اسی طرح سے پیغمبروں کے مکاشفات کا حال ہے کہ پیشگوئیوں میں جو مکاشفات کے ذریعہ سے بیان کی جاتی ہیں.بہ سبب بُعد مکانی کے کچھ نہ کچھ تعبیر واقع ہو جاتی ہے.احکام و اوامرو نواہی کا ایسا حال نہیں ہوتا.اب تو کئی قسم کے زلزلے آئے اور متتابع آئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۱۱..اَلْحَافِرَۃِ: نشان قدم.جُفر سُم کو کہتے ہیں.حُفْرَۃٌ گڑھے کے معنے ہیں.مَرْدُوْدُوْنَ فِی الْحَافِرَۃِ.کیا ہم اپنے نقشِ قدم پر لوٹ کر پھر اگلی حالت جیسے زندہ انسان ہو جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۱۵..میدانِ حشر.میدانِ جنگ.میدانِ بدر بھی اُس کا مصداق تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۱۹..بڑی ہی نرمای اور ملائمت سے تبلیغ کو سروع کرنے کی تعلیم فرمائی ہے.دوسری جگہ فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًالَّیِْنًا (طٰہٰ: ۴۵) فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۲۱،۲۲...آیَۃَ الْکُبْرٰی: عصا تھا جس کے تابع پہلی اَرَئَیْت کے وقت یدِبیضا بھی تھا.اس لئے ایک ہی چیز کا ذکر فرمایا.ورنہ دوسری جگہ فرمایا ہے.وَ لَقَدْ اَرَیْنٰہُ اٰیٰتِنَا کُلَّھَا فَکَذَّبَ وَ اَبٰی (طٰہٰ:۵۷) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۲۵..: میں تمہارا بڑا رب ہوں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۵۹)

Page 325

۲۷..آیت میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ موسٰیؑ کے بیان میں مثیلِ موسٰی علیہما الصلوٰۃ والسلام کے لئے عبرت ہے.عبرت کہتے ہیں ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف بَے لے جانے کو.مَعْبَر کشتی کو بھی کہتے ہیں.اس لئے کہ وہ ابس طرف سے اُس طرف کو عبور کرنے کا آلہ ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی کامیابیوں کو موسٰی علیہ السلام کی کامیابیوں کے شیشہ میم دکھلا کر آخر میں فرمایا.آیت اپنے عموم کی رُو سے ہر خاشع و متقی کے لئے عبرت ہے ؎ خوش تر آں باشد کہ سِرِّ دلبراں گفتہ آید در حدیثِ دیگراں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۲۸..آسمان کی شدید پیدائش کو اپنی سَطوَت و قدرت کے اظہار کے لئے بعث بعد الموت کو مستبعد سمجھنے والوں کے سامنے پیش کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۲۹..سمک: بلندی (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۳۰..رات اور دن کی اضافت آسمان کی طرف اس وجہ سے کی کہ رات کے حدوث کا سبب عزوبِ شمس اور دن کے پیدا ہونے کا باعث طلوعِ شمس ہے اور اس کو طلوع و غروب حرکتِ فلکی کی وجہ سے حاصل ہے.اسی وجہ سے اُن دونوں کی اضافت آسمان کی طرف ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵) ۳۱..سورۃ فُصِّلَتْ میں زمین کی پیدائش کے بعد ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمآء……

Page 326

فَقَصّٰھُنَّ ( حٰمٓ السجدۃ: ۱۲،۱۳) اختلاف کوئی نہیں ہے.کیونکہ دُحُو سے مطلق بسط اور پھیلانا ہی مراد نہیں ہے.بلکہ نباتات کا نکالنا اور چشموں وغیرہ کا جاری کرنا بھی دُحُو میں شامل ہے اور یہ بے شک بعد پیدائش آسمان کے ہوا ہے.یعنی جو چیزیں خدائے تعالیٰ نے زمین میں مخفی رکھی تھیں وہ آسمان کی پیدائش کے بعد مَکْمَنِ قوۃ سے حَیِّزَِ فعل میں آئیں.یہی زمین کا دَحُو ہے سورۃ فُصِّلَتْ کا سُمَّ تاخیر کے لئے نہیں بلکہ ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآء کے معنے فُصِّلُتْ سورۃ میں یہ ہیں کہ پس آسمانوں کی تسویہ کی طرف متوجّہ ہوا جو پہلے سے تھیں.اس سورۃ نازعات میں بھی بَنٰھَا کہہ کر بناء آسمان یعنی تقدّم بنائے آسمان کو قرار دیا ہے.سورۃ فُصِّلَتْ میں ثُمَّ ترتیب کے لئے نہیں ہے بلکہ وہاں صرف نعمتوں کا شمار مقصود ہے جیسا کہ تورات کی نسبت فرمایا.ثُمَّ اٰتَیْنَا مُوْسٰیَ الْکِفٰبَ ( انعام: ۱۵۵) اور یہاں اوّل بنائِ آسمان اور پھر دَحْوِاَرْض کا ذکر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۵،۳۰۶) ۳۳..: مضبوط بنایا ان کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۶) ۳۵..: طَامَّۃ بڑی گھمسان.گھوڑا چلنے اور دوڑنے میں اپنی ساری قوّت خرچ کر دے.تو اس وقت طَمَّ الَْٰرَسُ طَمِیْمًا بولا کرتے ہیں.۳۸..طغیانی.حد سے باہر ہو جانا.ندی نالوں کا پانی جب حد سے باہر نکل پڑتا ہے.تو طغیانی کہلاتا ہے.جو بہت زیادہ پھیل جائے اور بڑی سرکشی کرے.وہ طاغوت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۶)

Page 327

۳۹..: ایک چیز کو دوسری چیز سے زیادہ پسند کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۶) ۴۱..ھَوٰی: گری ہوئی نکمّی خواہش.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۶) ۴۳..مُرْسٰی: انتہائے سیر اور اس کا ٹھہراؤ.کشتی جب چل کر ٹھہر جاتی ہے تو مرسٰے الفینۃ کہتے ہیں.ایک سوال اور اس کا جواب: آریہ لوگ نادانی سے اعتراض کرتے ہیں ( کیونکہ انہیں حقائقِ معاد سے بالکل ناآشنائی ہے) کہ انسان کے جزاء دینے میں اس قدر دیر لگانا انصاف کے خلاف ہے.چاہیئے کہ فورًا سزا ہو.قیامت تک ہر شخص کو حوالات میں رکھنا اور پھر کسی کو کم کسی کو زیادہ دیر رکھنا سخت بے انصافی ہے.اس اعتراض کے جواب میں اوّل تو یہ کہنا کافی ہے.کہ اسلام کی حقیقت سے اگر وہ واقف ہوتے تو ایسا لغو اعتراض نہ کرتے.یوم کا لفظ ہرآن پر بھی بولا جاتا ہے.اور اعمال کی جزا و سزا اسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے.جب کوئی عمل حیطہ فعل میں آتا ہے.علاوہ بریں یہ بھی فرمایا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ.جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی.پھر ان سب باتوں کے علاوہ خود اسی سُورَت میں اس کا جواب موجود ہے.کہ قبر کا زمانہ ایسا ہو گا کہ گویا پَہَر پھر ٹھہرے ہیں تو پھر توقفِ جزا یا حوالات کا اعتراص نہایت ہی لغو ہو جاتا ہے.یہ اعتراض تو آریوں پر ہوتا ہے.کہ کیوں اعمال کی جزاء کو دوسرے جنم تک ملتوی کیا جاتا ہے اور پھر ایسے دوسرے جنم میں جو بھوگ جو نی کہلاتا ہے.پہلے جنم کے اعمال و افعال کا کچھ بھی شعور نہیں ہوتا

Page 328

اور نہ پہلا تشخص قائم رہتا ہے.جو اُن کے مجوزّہ اور مقررہ انصاف کے صریہ خلاف ہے.پھر مہا پر لے کے وقت جو خلق فنا ہوتی ہے.ان کی جزا و سزا کو اگلی دنیا تک جو آٹھ ارب کا زمانہ ہے ٹکائے رکھنا.کس اصول دیانت و انصاف پر مبنی ہے.کیا مخلوق کا کام ہے کہ خالق کو مشورہ دے؟ غرض یہ سوال یا اعتراض بالکل فضول اور لغو ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۶) ۴۴..اے پیغمبرؐ تم اس کا وقت بتانے کے کہاں بکھیڑے میں پڑے ہو.حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہمیشہ لوگ قیامت کے تعیّنِ وقت کا سوال کیا کرتے تھے.جب یہ آیت اور اِلٰی رَبِّکَ مُنْتَھٰھَا (آیت: ۴۵) نازل ہوئی.تو لوگ سوال سے باز آگئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۶) خ خ خ

Page 329

سُوْرَۃَ عَبَسَ مَکِّیَّۃٌ  اس سورۃ کی ابتدائی آیتوں کے شانِ نزول کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے.جس کا ذکر مَیں ابھی کروں گا.اس سے پہلے اس امر کو یاد رکھنا چاہیئے کہ شانِ نزول سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتا کہ ان آیات کے نزول سے وہی امر مراد ہے جو شانِ نزول کے تحت میں بیان کیا جاتا ہے.بلکہ اصل یہ ہے.کہ وحی الہٰی کے نزول کے کچھ اسباب ہوتے ہیں.ان میں سے اس واقعہ پر بھی وہ آیات چسپاں ہوتی ہیں ورنہ اگر کسی ایک واقعہ کو مخصوص کر لیں تو پھر قرآن مجید کی عظمت جو اس کے عام اور ابدی ہونے میں ہے کم ہو جاتی ہے.غرض اس کی ابتدائی آیات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایک مجمع قریش میں تبلیغ فرما رہے تھے.اور چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس امر پر بَدِل حریص تھے.کہ یہ لوگ ہدایت پا جاویں.جیسا کہ قرآن مجید میں ایک موقع پرفرمایا ہے.لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (الشعراء:۴)یعنی کیا تو اپنے آپ کو معرضِ ہلاکت میں ڈال دے گا.اس خیال اور فکر سے کہ یہ مومن ہو جائیں’’ آپ کے دل میں ازحد تڑپ تھی اس امر کی کہ یہ لوگ ہدایت پائیں.اسی اثناء میں عبداﷲ بن امّ مکتوم جو نابینا تھے دوڑتے ہوئے آئے اور آپ سے امر دین میں کچھ دریافت کرنا چاہا چونکہ وہ نابینا تھے.انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا.کہ یہاں کن لوگوں کو حضرتؐ خطاب کر رہے ہیں.اور آداب الرسول کے موافق انہیں کیا طرز اختیار کرنا چاہیئے.وفورِ شوق اور اخلاص سے انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کو ابن امّ مکتوم کا یہ فعل پسند نہ آیا.اور اس کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے.اور کافروں کی طرف منہ پھیر کر ان سے باتیں کرنے لگے.آپ کے اس فعل پر اﷲ تعالیٰ نے عتاب کیا.صحیح روایت میں ہے کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابن امّ مکتوم کی بڑی دلداری کی اور اپنی چادر بچھا کر اسے بٹھایا.یہ واقعہ آنحضرتؐ کی صداقت اور قرآن کریم کے کلام الہٰی ہونے کا زبردست ثبوت ہے.اگر یہ کلامِ الہٰی نہ ہوتا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فرستادہ اور سچّے نبی نہ ہوتے.تو یہ اس میں درج نہ ہوتا.جو گویا عتاب کا

Page 330

رنگ ہے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اگر خدا تعالیٰ کی کتاب اور وحی پر ایمان نہ رکھتے تو پھر اس کی تلافی نہ فرماتے.یہ ایک باریک بات ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا اپنی رسالت پر خود ایمان لانا بھی ایک زبردست دلیل رسالتِ محمدیہ کے حق ہونے کی ہے.پہر حال یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے.قرآن مجید چونکہ اپنے اندر مستقل صداقتیں رکھتا ہے.اس لئے ان آیات سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے.اوّل.دین میں اخلاص اور عملی رنگ کا پیدا ہونا کسی رنگ و نسب پر موقوف نہیں ہے.اس لئے ایسے معاملات میں ایک مبلّغ اور واعظ کو کبھی یہ خصوصیت اختیار کرنی نہیں جاہیئے.کہ وہ طبقہ امراء کی وجہ سے ضعفاء اور غرباء کو چھوڑ دے.اور ان کی طرف توجہ نہ کرے.بلکہ ضعفاء اور غرباء زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی باتوں کی قدر کی جاوے اور انہیں محبت اور اخلاص سے دیکھا جاوے.ان کی بات کو ہرگز ردّ کرنے کی کوشش نہ کی جاوے.وہ نہایت نازک دل رکھنے والی قوم ہے.اس وجہ سے اُن سے بے پرواہی نہیں کرنی چاہیئے کہ دِل کے حالات کا اﷲ ہی علیم ہے.وہی خوب جانتا ہے.کہ کون ہدایت پانے والا ہے اور کون نہیں.دوسری بات ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے.کہ جو لوگ بے پرواہی کریں.ان پر تبلیغ اور اتمامِ حجّت کافی ہے.ان کے پیچھے پرنا ضروری نہیں ہے.تیسری بات یہ ہے.کہ نبی کا کام کسی کو ہدایت یاب کر دنیا نہیں ہے.لوگ غلطی کرتے ہیں جو کسی مامورِ ربّانی سے ایسی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں کہ آپ میری فطرت بدل دیں اور یہ کر دیں اور وہ کر دیں.یہ خدائی فعل ہے اور اسی کو سزاوار ہے.ایک اور بھی لطیف معنے ہیں اور وہ یہ کہ تیوڑی چڑھانے کا اثر ایک نابینا پر کیا ہو سکتا ہے.پس مطلب یہ ہے کہ انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار ( جو توجہ نہیں کرتے تھے) کی تیوڑی چڑھائی اور نابینا سے ملتفت ہوئے.اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صداقت اور حق کا جویاں خواہ کیسا ہی غریب اور محتاج کیوں نہ ہو.وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جاوے.بمقابلہ ایک ریاکار اور خدا سے دور دولتمند اور سرکش متموّل کے.اس سورۃ میں وَمَا یُدْرِیْکَ کا خطاب عام ہے.یعنی اے مخاطب تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ کیسا پاک دل اور پاکباز انسان ہے.اس لئے اگر تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس فعل کو بہ نظر استعجاب دیکھتا ہے کہ ایک قوم کے عمائد کی طرف سے توجہ پھیر کر ایک اندھے کی طرف مخاطب ہوئے.یہ تیری خیالی تہذیب کے ماتحت قابلِ اعتراض ہے مگر اﷲ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے اور اس کے نزدیک قابلِ قدر وہی ہیں جو خدا سے ڈرتے اور تزکیئہ نفس کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۶، ۳۰۷)

Page 331

۲... سے تَلَھّٰی تک دس آیتوں میں اس بات کو ارشاد فرمایا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نکتہ نواز اور نکتہ گیر ہے.اس کے حضور بہت احتیاط اور حذر چاہیئے.نزدیکاں رابیش بودحیرانی.آنہاراکہ قریب تراَْد خائف تراَنْد کا مضمون ہے..تیوڑی چڑھایا اور منہ پھیر لیا.چونکہ شانِ نزول ایک خاص واقعہ کا پتہ صحیح حدیثیں دے رہی ہیں.اس لئے کفّار کی طرف سے منہ پھیر لینا اور ان کی طر ف سے تیوڑی چرھا کر ایک غریب کی طرف متوجّہ ہونا یہ معنے بالعکس واقعہ کے ہیں.اس لئے جمع بین الضدّین صحیح نہیں معلوم ہوتا.صحیح بات وہی ہے جو حدیثِ صحیح سے ثابت ہے اور نظمِ کلامِ الہٰی اس کا مؤیّد ہے.بعض آدمی نیک بھی ہوتے ہیں.مگر ان کے اندر ایک کبریائی ہوتی ہے جو بعد میں مشکل سے معلوم ہوتی ہے.بہت احتیاط چاہیئے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم امراء مکّہ کو کچھ سمجھا رہے تھے.اوپر سے ایک اندھا آ گیا.اب وہ النازعات والی حالت نہ رہی یعنی توجہ ہت گئی.کچھ اِدھر کچھ اُدھر.ربّ کریم نے اندھے کی سفارش فرما دی کہ اس کی طرف توجّہ تام فرما لیجئے.اس سورۃ میں بڑے بڑے تغیرّات کی خبر دی ہے.پھر جیسا کہ قاعدہ ہے چھوٹی باتیں بیان کر کے بڑی بات بتاتا ہے.قیامت کی خبر دی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۷) ۷..تم اُس کی طرف جُھکے ہوئے ہو.اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۷) ۱۱..تم اس کی طرف سے غافل ہو.خیال کو ہٹائے ہوئے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۷) ۱۴ تا ۱۷.....

Page 332

ان چاروں آیتوں میں قرآن شریف کے کاتبوں.قاریوں.حافظوں کی عظمت خود قرآن شریف کی عظمت اور اسلام کے لئے آئندہ زمانہ میں شان و شوکت کی پیشگوئی بڑی شدّو مدّ سے بیان ہوئی ہے.گو ان سے مراد ملائکۃ اﷲ بھی ہیں.سَفَرَۃٍ مسافر کی جمع ہے.جس طرح کَتَبَۃٌ کاتب کی جمع اور سَفَرَۃٌ سے لکھنے والے مراد ہیں سَفَرَکے معنے کسی چیز کو واضح کر کے بیان کرنے کے ہیں جیسا کہ اسی سورۃ سَفَرَۃٌ کے بیان میں آئے گا.حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے.اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْاٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الکِرَامِ الْبَرَرَۃِ.قرآن شریف کا ماہر سَفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ کے ساتھ ہو گا.قرآن شریف صرف یاد کر لینا اَور بات ہے اور اس کا ماہر ہونا اور بات ہے.لوگ اسلام کے تنزّل کے طرح طرح کے اسباب بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کے ماہرین کے لئے ان آیات میں کیا کیا وعدے دیئے گئے ہیں.وہ غور فرماویں.اور پھر اس کے ساتھ میں آیۃ کریمہ قَالن الرَّسُوْلُ یَارَبِّ اِنَّ قَوْمِیْ اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا ( الفرقان:۳۱)بھی پڑھ لیں.بَرَرَۃٍِ: بَارّٗ کی جمع بمعنے نیک کردار کے ہیں.قرآن شریف کے مضامین.معانی و مطالب کے موضّحین کے لئے سَفَرَۃٌ کے لفظ میں بڑی خوش خبری ہے کہ لوگ اﷲ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان سفیر نیک کردار کے ساتھ دو سلطنتوں کے مقاصد و اغراض کو کیونکر بیان کرتے ہیں.ہر واعظ اپنی اپنی جگہ وعظ کے وقت سوچ لے کہ وہ اس وقت کس کام کے کرنے کے لئے کھڑا ہے.اگرچہ ان تفسیری نوٹوں میں مسلمانوں کے فرقوں میں سے کسی ایک یا دوسرے کو خطاب نہیں کیا گیا.تاہم کہیں کہیں بعض عام غلط فہمیوں کی تردید ضرور کی گئی ہے.ہمارے شیعہ بھائی جو صحابہ کرام رضوان اﷲ علہیم اجمعین کے مطاعن بیان کرنے میں بیباکی سے کام لیتے اور ان پر نادانی سے الزام لگاتے ہیں.ان آیات پر غور کریں کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کی تطہیر اور تکریم کی شہادت دیدی ہے کیونکہ فرمایا فِیّ صُحْفٍ فُّکَرَّمَۃٍ.مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ.کِرَامٍ بَرَرَۃٍ.یعنی ان کا تبوں کے ہاتھ سے ہیں.جو مکرم و مبرور ہیں.اﷲ اکبر.صحابہ کی شانِ بلند کو یہ آیت کیسی صفائی سے ظاہر کرتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ ۳۰۷،۳۰۸) ۱۸..قُتِلَ صرف بددعا یا کو سنا نہیں ہے بلکہ ہر متکبّر کفرانِ نعمت کرنیوالے کے لئے پیشگوئی ہے.

Page 333

حدیث شریف میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تکبّر میری چادر ہے جو مجھ سے میری چادر چھینے گا.میں اسے ذلیل کروں گا.یہی قُتِلَ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸) ۲۲..قَبَرَہٗ: قبر میں رکھا اس کو اور اَقْبَرَہٗ قبر میں رکھوایا اس کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸) ۲۸..ہر قسم کے دانوں اور اناج کو کہتے ہیں.لغت میں اس کے معنے پُر ہونے کے ہیں.جب تک دانہ خام رہتا ہے اور مغز سے پوری طرح بھر نہیں جاتا.حَبّ نہیں کہلاتا.محبت پورے کمال کے ساتھ سوائے ذات محبوبِ حقیقی کے کسی سے جائز نہیں.وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشندُحُبًّالِلّٰہِ (البقرہ: ۱۶۶) اس کے بالمقابل سورۃ یوسف میں فرمایا ہے.قَدْ شَغَفَھَاحُبًّا ( یوسف:۳۱) ہدیث شریف میں ہے حُبُّکَ لِشَیْیئٍ یُعْمِیْکَ وَ یُصِمُّ.محبت کسی چیز کی انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے.حضرت صاحب کی ایک نظم دعوٰی سے پیشتر کی ہے.جس کا مطلع یہ ہے.اے محبّت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہِ یار تو یکساں کر دی اس آیت میں حَبّ یعنی پُر مغز دانوں کا بیان ہے.انسان کو بھی چاہیئے.کہ اپنے آپ کو حبّ اور حَبّ پُرمغز بنائے ؎ پک کے گر جاتا ہے میوہ خاک پر خام ہے جب تک رہے افلاک پر (ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸) ۳۲..فواکہ میووں کو کہتے ہیں.جو بعد طعام کے تبدیل ذائقہ کے لئے کھائے جاتے ہیں.اَبًّا کے

Page 334

معنے مویشی کا چارہ تو صاف ہے.باقی رہی تعیین.اس پر حضرت صدیقؓ نے تعیین فرمائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸) ۳۹..مُسْفِرَۃٍ کے معنے صاف اور روشن کے ہیں.اسفار سے مشتق ہے.صبح جب روشن ہو جاتی ہے.تو اَسْفَرَ الصُّبْحُ کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸) ۴۱،۴۲...جو گرد آسمان سے زمین کی طرف گرتی ہے اُسے غَبَرَۃ کہتے ہیں اور جو غبار سیاہ زمین سے آسمان کی طرف اٹھتا ہے وہ قَتَرَۃ ہے.رَھَقَ.کے معنے عجلت سے چڑھ جانے کے ہیں.رَھَقَ الْجَبَلَ کہا کرتے ہیں.معنے یہ ہوئے کہ آسمانی گردو زمینی غبار دونوں ایک دوسرے پر چڑھ کر سیاہ رُوئی خَسِرَ الدُّنْیَا والْاٰخِرٰۃ ( الحج:۱۲) کے ظہور پر ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان صفحہ۳۰۸)

Page 335

سُوْرَۃَ التَّکْوِیْرِ مَکِّیَّۃٌ  سورۃ تکویر بھی مکّی سورۃ ہے.اس میں اوّلاً قیامت کے نشانات اور آکری زمانہ کی آیات کا ذکر کیا ہے.پھر قرآن مجید کے نزول پر سواہدِ قدرت کو پیش کیا ہے.اور اس کی سچائی کے دلائل دیئے ہیں.۲..شمس کے معنے ضیاء الشمس یعنی سورج کی دھوپ کے بھی ہیں اور تکویر معنے لپٹینے کے ہیں قرآن شریف کی سورۃ الفرقان ( آیت ۴۶) ھممَّ جَعنلْنَا الشَّمْسَ عَلَیْہِ دَلِیْلاً میں کفر کی ظلمات کو مٹانے والی چیز.نبی کا وجود.قرآن شریف اور وحی الہٰی کو قرار دیا ہے.جو بطَور شمس کے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں: می در خشم چوں قمر تابم چو قرص آفتاب کور چشم آناں کہ در انکار ہا افتادہ رند ( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۱۰) ۳..نجوم کی روشنی سُورج ہی سے ہے.جب ضیاء الشمس ہی نہ رہا تو تکدّرِ نجوم لازمی ہے.نبی کے متّبعین بھی نجوم ہی کی طرح ہوتے ہیں.جن سے مسافروں کو راہ کا پتہ ملتا ہے.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) ۴..جبال سے مراد سلاطین وغیرہ بڑی بڑی قومیں بھی ہیں.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء )

Page 336

۵..دس مہینے کی گابھن اونٹنی کا معطّل اور بیکار ہونا اس زمانہ کی موجودہ نَو ایجاد سواریوں کی وجہ سے ظاہر ہے.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) ۶..عاشورہ محرّم کی تاریخوں میں لوگ انسان ہو کر شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ کا سوانگ لیتے ہیں.گویا عملی طور پر انسانیت سے مسخ ہو کر وحشی بن جانے کا ثبوت دیتے ہیں.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) ۷..حضرت قتادہؓ سے سُجِّرَتْ کے معنے منقول ہیں کہ دریاؤں کا پانی خُشک ہو جائے گا.کینال ڈیپارٹمنٹ نے بڑے بڑے دریاؤں سے نہریں نکال کر ان کو تقریباً ایسا ہی کر دیا.گویا کہ ( دریا) سوکھ گئے ہیں.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) ۸..حدیث شریف میں اس آیت کی تفسیر میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.کہ ہر آدمی کا جوڑا اس کی نظیر کے ساتھ ملا دیا جاوے گا.آجکل گرجاؤں میں مرتدین کا جوڑ گانٹھ اسی پیمانہ سے عمدہ طور سے ہو جاتا ہے.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) ۹،۱۰...مُوْئٗ دَۃُ کے معنے مٹی یا کسی وزن دار چیز کے نیچے دبا دینا ہے.اسی قبیل سے ہے.وَلَا یَؤٗدُ ہٗ حِفْظُھُمَا ( بقرہ:۲۵۶)اقاظ حمل بھی زندہ در گور کرنا ہے.آجکل دختر کشی بلکہ اسقاط حمل پر بھی قصاص کی سزائیں ملتی ہیں.( ضمیمہ اخبار قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء ) انسان پیدا ہوا لڑکی ہو لڑکا.تمام بلادی میں علی العموم اور عرب میں بالخصوص رواج تھا.لڑکیوں

Page 337

کو مار ڈالتے تھے.اور لڑکیوں کی نسبت کثرتِ اولاد کو ناپسند کرتے تھے ایک یونانی حکیم کا قول ہے لنگڑے لڑکے قانونًا مارے جاویں.کثرتِ اولاد پر اسقاط جنین اور مانع حمل ادویہ پوچھنے والے بہت سے لوگ میرے پاس آئے.انسانی قربانی کا جسے ہند میں نَر بلی کہتے ہیں.یہود میں عام رواج تھا.عرب کے بُت پرست بھی اس بلائے بَد میں گرفتار تھے.مگر حضور نے ان امراض کا علاج ایسا کیا جس کی نظیر نہیں.اور یہی بات خرقِ عادت ہے.کہ ان امراض کا نام و نشان ملک عرب میں نہ رہا.دیکھو قرآن ان قبیح رسوم پر کیا فرماتا ہے اِذَا الْمَوْئٗدَۃُ سُئِلَتْ.بِاَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ.جب بیٹی جیتی گاڑ دی کوئی پُوچھے کس گناہ پر وہ ماری گئی. .(بنی اسرائیل : ۳۲) اور نہ مار ڈالو اپنی اولاد کو ڈر سے مفلسی کے ، ہم روزی دیتے ہیں ، ان کو اور تم کو، بیشک ان کا مارنا بڑی چوک ہے.  .(انعام: ۱۳۸) اسی طرح بھلی دکھائی ہے بہت مشرکوں کو اولاد مارنے اُن کے شریکوں نے کہ ان کو ہلاک کریں اور ان کا دین غلط کریں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۴) ۱۱..جرائد.رسالجات.کتب وغیرہ کا انتشار فی زمانہ خوب ہو رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۲..سَمَاء کے معنی بلندی کے ہیں.جیسا کہ فرمایا.فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ (الحج:۱۶)اور اِکشاط کے معنے اِلشاف یعنی کھول کر ننگا کر دینے کے ہیں.اَکْشَطَ عَنْ ظَھْرِ الْفَرَسِ گھوڑے کی پیٹھ پر سے زین اتارالی.معنے آیت کے یہ ہیں کہ آسمانی اجرام اور علمِ نجوم کے متعلق باریک در باریک اسرار اور غوامض کھل پڑیں گے.گویا بال کی کھال نکالی جاوے گی.اسٹرانومی کے علوم والے جانتے

Page 338

ہیں.کہ اس قرآنی پیشگوئی کا ظہور اس زمانہ میں کیسا کچھ ہو رہا ہے.اور آئندہ کہاں تک اس علم کی ترقی کی امید ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۱۳،۱۴...تَسْعِیر: آگ روشن کرنا اُزْلِفَتْ: کے معنے اُدْنِیَتْ نزدیک کئے جانے کے ہیں جیسا کہ فرمایا.لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اﷲِ زُلْفٰی (زمر:۴) فی زماہ اسباب تنعّم اور مصائب و شدائد دونوں بہت بڑھ گئے ہیں.ابتداء سورۃ سے بارہ آیتوں میں کلام ذوالمعارف کئی کئی مضامین کو ساتھ لئے ہوئے بڑی بلاغت سے بیان ہوا ہے.قیامت کے احوال اور مبادی قیامت دونوں کو نہایت خوبی سے ادا فرمایا ہے.شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اﷲ سرّہ فرماتے ہیں.کہ بعض اہلِ تاویل کی یہ رائے ہے کہ بارہ حوادث موت کے وقت جسے قیامتِ صغرٰی کہتے ہیں.پیش آتے ہیں.انسان کی روح بمنزلہ آفتاب کے ہے.جس کی شعاع سے اس کا بدن زندہ اور باقی رہتا ہے.رُوح کا نکلنا کیا ہے.گویا تکویرِ شمس ہے.ان کے حواس و قوٰی کا موت کے وقت بیکار ہونا انکدارب نجوم ہے، اعضائے رئیسہ کا باطل ہونا، ان پہاڑوں کی جنبش ہے.ہڈیوں کی چربی اور دودھ کا خشک ہونا، تعلّلِ عِشار ہے.افعال بہیمیہَ و سبعیہَ کے نتائج کا ظہور ہونا حشرب و حوش ہے.رطوباتِ بدن اور خون کا خشک ہونا، دریاؤں کا سوکھ جانا ہے.( کبھی یہ دریا موت کے وقت سوکھ جاتے ہیں.اور کبھی بہادئے جاتے ہیں.سجّرت کا لفظ دونوں معنوں پر مشتمل ہے.اور ملکات مکسوبہ کا باہم اجتماع یعنی ظلماتی کا ظلماتی سے اور نورانی کا نورانی سے تزویجِ نفوس ہے.زندگی کے گراں قدر حصّہ کو جو اس دارالمحِن میںجو طرح طرح کی مشقّتوں کے نیچے دبایا گیا ہے.مَمئُ وْدَۃ فرمایا کہ اس کو ثواب کے مصرفوں میں خرچ کیا یا گناہ کے.نامۂ اعمال کا کُھلنا نشِر صحائف ہے.آخرت کی جزا و سزا کا عیاں ہو جانا روح پر اکشاط سماء یعنی سماوی امور کا اس پر کھل جانا ہے.جیسا کہ فرمایا: (قٓ: ۲۳) بعد الموت شدائد و مصائب کا دیکھنا سلگتے ہوئے جہنم کا دیکھنا ہے اور فرحت و نیک جُز کا دیکھنا جنّت کا نزدیک ہونا ہے.آگے فرمایا.عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّآ اَحْضَرَت حضرات صوفیہ نے بھی ان بارہ حالتوں کو مراتبِ سلوک کے طے کرنے پر حمل کیا ہے.غرض کہ اس قسم کے کلام ذوالمعارف جو پیشگوئیوں پر بھی مشتمل ہو اور واقعاتِ صحیحہ و حقّہ پر بھی مشتمل ہوں.کسی

Page 339

دیوانے کی زبان سے نہیں نکل سکتے.جیسا کہ آگے اس کا ذکر آئے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۱۶،۱۷...یہ کلام بھی کلامِ ذوالمعارف کے طور پر ہے.منجملہ اس کے معارف کے ایک یہ ہے.کہ قسمیہ طور پر فرمایا کہ کفراب تین طرح سے ٹوٹے گا.اوّل: ترقی کفر کی تھم جائے گی.دبک جائے گی.پسپا ہو جائے.دومؔ کچھ لوگ رُوبراہ ہو کر اسلام میں داخل ہو جائیں گے.باقی رہے سہے پرجھاڑو پھیر دی جائے گی، آسمانی بلاؤں سے، زمینی بلاؤں سے، جنگوں سے کفر کا صفایا ہو جاوے گا.یہی اس کے لئے تکَنّس ہے.سورج کی روشنی سے ستاروں کا ماند پر جانا بھی کُنّس ہے اور کُنّس کے معنے ڈوب جانے اور غروب ہو جانے کے ہیں.لانافیہ کی توجہیہ سورۃ قیامۃ میں دیکھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۱۸،۱۹...رات گئی اور صبح نمودار ہو گئی.صہابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں: وَ فِیْنَا رَسُوْلُ اﷲِِ یَتْلُوْا کِتنابِہٗ اِذَا انْشَقَّ مَعْرُوْفن مِنَ الْفَجْرِسَاطِعٗ عَسْعَسَ اضداد سے ہے جس کے معنے آنے اور جانے کے ہیں.یعنی کُفر گیا اور اس کی جگہ اسلام نے لے لی ہے.عَسْعَسَ کے لفظ سے زمین کا گول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے.کہ ایک طرف سے ظلمت روشنی پر چڑھی چلی آتی ہے تو ساتھ ہی دوسری طرف سے پیچھے سے روشنی ظلمت پر سوار ہو رہی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک زمین گول نہ مانی جاوے.تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِ لُھَابَیْنَ النَّاسِ ( آل عمران: ۱۴۱) کے معنے بھی لیل کے تَعَسْعُسْ اور صبح کے تنفّس کے قریب قریب ہیں یا عسعس کے لفظ سے زمین کا گول ہونا یوں سمجھ لیجئے کہ جب رات ہماری طرف سے گئی اور ہم پر دن آیا تو زمین کی دوسری طرف والوں پر رات آئی اور اسی طرح سے اس کے بالعکس.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۲۰ تا۲۳..

Page 340

اس قدر کلام ذوالمعارف بیان فرمانے کے بعد رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے جنون کے الزام کو دفع فرمایا اور استشہاد کیا.اس ذوالمعارف و پُر از حقائق کلام سے کہ کیا مجنون ایسے مدلّل اور پُر معانی عبارات بیان کر سکتا ہے.مجنون تو بے تُکّی باتوں میں پکڑا جاتا ہے.مجنون کے ساتھ صَاحِبُکُمْ کے لفظ لانے سے یہ غرض ہے کہ جنون کی پہچان چند ساعت یا چند روزہ مصاحبت سے خوب اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے.اور سورۃ نٓ وَالْقَلَمِ میں یہ سمجھایا کہ تحریر میں مجنون ذرا بھی باربط عبارت سے نہیں چل سکتا.آیہ کریم مَابِصَحِبِکُمْ مِّنْ جِنَّۃٍ (سبا: ۴۷) میں بھی مصاحبت ہی سے جنون کو پہنچا نوایا ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کا اسی دنیا میم مُکرّم.ذی قوّۃ.مکین اور مطاع ہو جانا بھی بیان فرمایا ہے.یہ صفتیں جبرائیل کی بھی ہیں.اس صورت میں قول کے معنے قرأت جبرائیل کے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزّت والا.طاقتوں والا.رُتبے والا.اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں.اﷲ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے.( بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳) ۲۵..ضَنِیْنٍ کے معنے مُتَّھِّم.اپنے پاس سے بات بنانے والا.آسمانی خبروں کے اور معاد کے احوال بنانے میں بخیل.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۲۷..ایسے کو چھوڑ کر کہاں جاتے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ۳۰..تم نہ چاہا کرو مگر وہی جو رضاء الہٰی ہو.یہ واؤ حالیہ ہے.اس کے معنے ہوئے ’’ حالانکہ نہ چاہو

Page 341

گے تم‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍جون ۱۹۱۲ء) ان آیاتِ کریمہ کا ذکر فرماتے ہوئے جن سے پادری صاحبوں یا اور نافہموں نے انسان کے مجبور ہونے پر استدلال کیا ہے.تحریر فرماتے ہیں.معدوم کو موجود کرنا خدا کا کام ہے مخلوق میں.ہاں حیوان اور انسان کے دل میں کسی ارادے اور مشیّت کا پیدا کر دینا بے شک باری تعالیٰ کا کام ہے.اِلّا ہر ایک مصنّف جانتا ہے.کہ صرف مشیّت اور ارادے کے وجود سے کسی فعل کا وجود ضروری اور لازمی امر نہیں.یقینا قوٰی فطری کا خلق اور عطا کرنا جن پر ہر گو نہ افعال کا وجود و ظہور مترتب و مُتَفرّع ہو سکتا ہے.خالق ہی کا کام ہے.اس لطیف نکتہ کے سمجھانے کے لئے اور نیز اس امر کے اظہار کرنے کو کہ قوٰی طبعی اور کائنات سے کوئی وجود اصل امر خلق میں شریک نہیں.سب اشیاء کی علّت العلل مَیں ہی ہوں.باری تعالیٰ سب افعال کو بلکہ ان افعال کو بھی جو ہم معائنہ اور مشاہدہ کے طور پر انسان اور حیوان سے سرزد ہوتے دیکھتے ہیں.اپنی طرف نسبت کرتا ہے.کہیں قرآن میں فرماتا ہے.ہوا بادلوں کو ہانک لاتی ہے.کہیں فرماتا ہے.ہم بادلوں کو ہانکتے ہیں.ہم ہی گایوں اور بھینسوں کے تھنوں میں دودھ بناتے ہیں.ہم ہی اناج بوتے ہیں.ہم ہی کھیت اُگاتے ہیں.اور تاَمُّل کے بعد یہ سب نسبتیں جو ظاہرًامتصادالطرفین.بالکل صحیح اور حقیقۃً بالکل صداقت ہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۲) خ خ خ

Page 342

سُوْرَۃَ الْاِنْفِطَارِِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..آخری زمانہ کی پیشگوئی ہے.کیونکہ قرآن مجید میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے.اس کا ظہور دنیا میں بھی ہونا چاہیئے.اگر آسمان پھٹ جاوے اور سیّارے گر پڑیں وغیرہ وغیرہ اور دنیا زیر و زبر ہو جاوے.تو وہ وقت انسانی ہدایت اور اصلاح کا نہیں ہو سکتا بلکہ وہ تو ہلاکت کا سماں ہو گا.ان سورتوں میں جو قیامت کے متعلق واقعات ہیں.در اصل یہ آخری زمانے کے نشانات ہیں.اور آسمان کے پھٹ جانے سے یہ مراد نہیں کہ فی الواقعہ آسمان پھٹ جائے گا.بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہو جاتی ہے.اسی طرح آسمان بھی بیکار ہو گا.آسمان سے فیوض نازل نہ ہوں گے.اور دنیا ظلمت و تاریکی سے بھر جائیگی.علاوہ بریں اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیتوں پر آجکل کے زمانے کے حسبِ حال یا مسلّمات کی رُو سے اعتراض ہو سکتا ہے کہ آسمان تو مجرد بول ہے.اس کا پھٹنا کیا معنی رکھتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قران مجید نے آسمان کو مجرد بول قرار نہیں دیا بلکہ اُسے ایک لطیف وجود قرار دیا ہے.اور اگر کہا جاوے کہ پھر اس کے پھٹنے سے کیا مراد ہے؟ تو یہ یاد رہے.کہ سماء سے مراد قرآن کریم میں کُلَّ مَا فِی السَّمَائِ بھی ہے علاوہ بریں کسی لطیف مادہ میں عدم خرق کس نے تسلیم کیا ہے.بہر حال قرآن مجید نے یہ شہادت دی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ ہر چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دیگی.اور تجلیاتِ الہٰیہ اُس کی جگہ لے لیں گی اور عللِ ناقصہ کی فنا اور انعدام کے بعد علّتِ تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.اسی کی طرف اشارہ ہے.اس آیت میں ..(الرحمان:۲۷،۲۸)اور ایسا ہی ایک دوسری آیت میں فرمایا.(مومن: ۱۷) یعنی اﷲ تعالیٰ اپنی قہری تجلّی سے ہر ایک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت کو دکھلائے گا.اس سورۃ شریف میں بھی آخر یہی فرمایا ہے.(انفطار:۲۰) یہ اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جو 

Page 343

میں ادا کیا گیا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی قہری تجلّی نمودار ہو گی.اور فنا کا زبردست ہاتھ اپنا اثر دکھائے گا.اور آسمانی اجرام میں ایک انقلاب واقع ہو گا.ان آیات کو واقعات پر اگر مبنی قرار دیا جاوے تو بھی درست ہے.کہ جب آسمان پھٹ جاوے گا.تو ستاروں کا گر پڑنا یقینی امر ہے.اور ستارں اور سمندروں کے تعلّقات میں جو کشش کام کر رہی ہے جب اس میں فرق آجائے گا.تو سمندر کا اپنی حدّوں سے نکال جانا بھی مسلّم امر ہے.آجکل کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے کہ زمین سکڑتی جاتی ہے اور سمندر اپنے کناروں سے بڑھ چلا آتا ہے.یہ ان آیات کے مضامین کی صداقت کی دلیل ہیں.۲ تا ۵... ..اِنْفَطَرَتْ کو دوسری جگہ اِنْشَقَّتْ فرمایا ہے.جدید تحقیقات میں آسمان کو لطیف چیز قرار دیا ہے.لطیف ہی سہی.لطیف پر بھی شق کا لفظ بولا جاتا ہے.جیسے بادل پھٹ گیا وغیرہ.بڑی بھاری مصیبت کے وقت بھی عرفًا کہتے ہیں کہ آسمان پھٹ پڑا.پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب سے بڑی مصیبت اُمّت کے لئے میری وفات ہے.کواکب کے انتشار سے ظاہری معنے کے علاوہ بڑے بڑے اہل اﷲ کا انتقال فرمانا ہے.بعض کا قول ہے کہ بَحْر صرف کھارے پانی کے سمندر ہی کو کہتے ہیں.مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے.کیونکہ فرمایا ہے.(فاطر:۱۳)دریاؤں سے نہریں چیر کر نکالنا جیسا کہ اس زمانہ میں ہوا ہے.پہلے کبھی نہیں ہوا.قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.کوئی دوسری آسمانی کتاب ایسی اس وقت موجود نہیں جو ایسی صفائی سے پیشگوئی کا پورا ہونا دکھلا وے.بَعْثَرَ اور بَحْثَرَ کے ایک معنے ہیں جو بعث اور بحث سے مرکب ہے.ان کے اصلی معنے پلٹ دینے کے.کرید نے کے ہیں.اور اسفل کو اعلیٰ اور اعلیٰ کو اسفلِ کر دینے کے ہیں.عرب کا خاص محاورہ ہے.کہ جب مٹی کو پلٹ دیتے ہیں تو بَعْثَرَ یُبَعْثِ رُ بَعْثَرَۃً سے تعبیر کرتے ہیں اور اسباب کو اُلٹ پُلٹ کرنے کے وقت بَعْثَرَ الْمَتَاعَ کہتے.آجکل قبریں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ دفن کئے جاتے ہیں.کیا تعجّب ہے کہ مسیح کی قبر بھی محلہ خانیار سری نگر کشمیر سے تحقیق کے لئے اکھیڑی جاوے.اور پھر مع حواریوں کی قبروں کے تبرکاً

Page 344

لے جائے جائی.اِذَا بُعْثِرَ مَا فِی الْقُبُوْرِ.وَ حُصِّلَ مَا فِی الصُّدُوْرِ (عادیات: ۱۰،۱۱) سے بھی کچھ اشارات ملتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء) ۶..جو کام نہ کرنے تھے وہ کئے.اور جو کام کرنے کے تھے وہ نہ کئے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو کیا اور جو کچھ نہ کیا.قطع نظر اس کے کہ اچھا کیا یا بُرا کیا.بات ایک ہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء) ۷..کریم کے کرم سے نا امید بھی نہ ہو اور صرف کرم ہی کی امید پر دھوکا نہ کھا بیٹھو.دوسری جگہ فرمایا ہے..(الحجر:۵۰.۵۱) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء) ۸،۹.. .خلق.تسویہ.تعدیل.ترکیب و تناسب اعضاء.خداوند تعالیٰ کی ان چار نعمتوں پر ہی اگر انسان غور کرے تو جزاء و سزا کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اُس کو بہت کچھ مدد مل جاوے گی.خواہ مومن ہو یا کافر.ان میں سے ایک تیسری نعمت ہی پر انسان غور کر لے کہ کس طرح اس کو حرارت، برودت اور رطوبت، یبوست، ان چار خلطوں سے معتدل المزاج رکھا ہے اگر ذرا بھی ان اخلاط میں افراط یا تفریط ہوتی ہے.تو فورًا جزا و سزا ملنے لگتی ہے.چار چیزے مخالف و سرکش چند روزے بوند باہم خوش گریکے زیں چہار شد غالب جانِ شیریں برآید از قالب انسان پیدا کیا.اَنْعام میں سے نہیں بنایا.تَسْوِیَّہ خلق ایسا عمدہ کیا کہ شیر ہاتھی وغیرہ سب کو قابو کر لیتا ہے.برا ہی معتدل المزاج بنایا ہے.صورتوں اور آوازوں کی ترکیب ایسی کہ لاکھوں کروڑوں

Page 345

انسانوں میں صورت اور آواز ایک دوسرے سے نہیں ملتی.یہ سب اس کی ربوبیت اور کرم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۲،۱۳...نامۂ اعمال کے لکھے جانے اور اس کے محفوظ رہنے پر جن لوگوں کو استبعادِ عقل معلوم ہوتا ہے وہ آجکل کے ایک نَو ایجاد آلہ گراموفون ہی کو دیکھ لیں کہ کس طرح ریکارڈ اس میں محفوظ رہتا ہے.اور دوبارہ چکّر دینے سے کس طرح زرا ذرا سی حرکات یہاں تک کہ کھانسی اور تنفّس کی کمی زیادتی بھی اس سے ظاہر ہونے لگتی ہے.آواز اآرہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۶،۱۷...دوزخیوں کے آکر میں  فرمایا.مگر جنتیوں کے ذکر میں (الحجر:۴۹) فرمایا.ان دونوں آیتوں پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں گو احقاب در احقاب مدّت رہیں گے اور گو وہ اپنی مدّت لبث میں زرا سی دیر کے لئے بھی دوزخ سے غائب نہ ہو سکیں.مگر بالآخر وہ  کے مصداق نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰث والسلام اکثر استدلال کے طور پر فرمایا کرتے تھے یَاْتِیْ علی جھنّم زمان لیس فِیْھا احدونسیم الصباتحرک ابوابھا.غالبًا یہ عبارت تفسیر معالمؔ میں ہے.عَطَآئً غَیْرن مَجْذُوْذٍ (ہود: ۱۰۹) اور فَعَّالٌ لِّمَایُرِیْدُ (البروج:۱۷) سے بھی یہی ثابت ہوتی ہے.اور اس سورہ شریفہ کے ربّ کریم کے لفظ سے بھی یہی پتہ لگتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 346

سُوْرَۃ الْمُطَفِّفِیْنَ مَکِّیَّۃٌ  ۲..مُطَفِّفِیْنَ: کم دینے والے.تطنیف کے معنے وزن اور پیمانہ ہیں.کچھ تھوڑی سی چیز خفیہ طور پر کم لینے کے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۳..: اِکْتَال کو مِنْ کے ساتھ متعدی نہیں کیا.بلکہ عَلیٰ کے ساتھ متعدی کیا اور اس میں دقیق رعایت یہ رکھی کہ اکثر اوقات ماپ تول برضا و رغبت جُھکتی ڈنڈی سے لیا جاتا ہے اور دینے والا بھی جھکتی تول خوشی سے دیتا ہے.ممنوع لینا جھکتی تول وہ ہے.جو ضرر کے لئے ہو.کہ بلا رضا مندی دینے والے کے جھکتی تول لی جاوے.حدیث شریف میں ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں تو خداوند کریم بارشوں کو روک لیتا ہے.قحط شدید پڑتا ہے.حضرت شعیب علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں یہ مرض خصوصیت سے ہو گا.مگر اس وقت تو بات حد سے بڑھ گئی ہے.بلکہ مزید خُصوصیت ایک اور یہ ہو گئی.کہ مباحثات میں وہ اعتراض کئے جاتے ہیں.جو خود معترضین پر بھی وارد ہوتے ہیں.جس پیمانہ سے خَصْم کو جواب دیتے ہیں.اسی پیمانہ سے جواب لینا پسند نہیں کرتے.حدیث شریف میں ہے: لَا یُؤْمِنُ اَحَدَکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لِنَفْسِہٖ مباحثات کے وقت دیکھ لیا کریں کہ کیا یہی اعتراض پلٹ کر ہم پر تو نہیں پڑتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۸..

Page 347

: سجن سے مشتق ہے.خواہ یہ سجن کہیں ہو.اﷲ تعالیٰ نے جو پیشگوئی مکّی سورۃ میں بے کسی اور بے سروسامانی کی حالت میں کی تھی وہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کی فتوحات اور کفّار کے داروگیر سے پوری ہو گئی.اور اس سجن نے آخرت کے عذاب کو بھی ثابت کر دیا.سِجِّیْن سے مراد قیدیوں کا رجسٹر اور علیّین سے مراد ابرار کا رجسٹر.یہ معنے بھی عمدہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۱..جیسا مطفّفین کے ساتھ وَیْلٌ کا لفظ تھا.یہاں مُکَذِّبِیْنَ کے ساتھ بھی وَیْل کا لفظ ہے.معلوم ہوا کہ کذب کسی صادق کا برا مطفِّف ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۵..یہاں لفظ بَلْ کے بعد سکتہ ہے.اس لئے کہ انسان یہ سوچے کہ اﷲ تعالیٰ نے جو مَّاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَ فرما کر صادق راست باز کے نہ پہچاننے کی وجہ پچھلی شامتِ اعمال قرار دی ہے.وہ میرے کون سے عمل کی شامت ہے.دوسری جگہ قرآن شریف میں اسی بات کو یوں ادا فرمایا ہے.وَ اﷲ ُ اَرْکَسَھممْ بِمَاکَسَبُوْا ( النساء:۸۹) رکس کے معنے مت ماری جانا.نیک کو بَد اور بَد کو نیک سمجھنا.(الاعرف:۱۴۷) یہی رکس ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۹..سِجِّیْنَ کے بالمقابل عِلِّیِّیْنَ ہے.خواہ کہیں ہوں.اس سے بحث نہیں.دیکھنا تو یہ ہے کہ(المومن: ۵۲) کی پیشگوئی ہو کر علّو حاصل ہوا یا نہیں؟ یہ علّو کچھ جنگ پر ہی موقوف نہیں.اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَ لَا یُعْلٰی عَلَیْہِ اسلام بغیر جنگ کے بھی محبت و برہان سے اور کداوند کریم کی تائیدات سے سماوی نشانات و دیگر

Page 348

فتوحات سے عالی رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۲۴..: جمع اَریْکَۃٌ کی.ہم اَرِیْکَہْ چھپر کھٹ کو کہتے ہیں.ایسا تخت جو اوپر سے مزّین و مسقّف ہو اور ارد گرد سے بھی مزّین ہو.ایسا درخت جو قبّہ کی طرح اپنی شاخوں اور پتّوں سے خوشنما ہو.وہ بھی اَرِیکہ ہے.پیلو کا درخت قریب قریب ایسا ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۲۵.. اس تازگی کو کہتے ہیں جو انتہائے سرور اور تنعّم کے باعث چہرہ پر ظاہر ہوتی ہے کھائے کے گال اور نہائے کے بال، مشہور ہے.فاتہ قومیں عموماً دنیا میں خوبرو ہوتی ہیں.آخرت کی سب سے بڑی نعمت رویت باری تعالیٰ و دیدارب الہٰی ہے.وہاں کی ننضْرَۃ کا باعث یہی ہو گی.کَمَا قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ: . (القیٰمۃ: ۲۳.۲۴) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍جون ۱۹۱۲ء) ۲۶،۲۷.. .رَحِیْقٍ نام شراب کا ہے جس کی صفت قرآن شریف میں (الصّٰفّٰت:۴۸) مَّخْتُوْمٍ کے کئی معنے ہیں.ایک یہ کہ پینے کے بعد دیر تک اس کی خوشبومِسْکٌ کی آتی رہے گی.دوسرے یہ کہ اس کا تل چھٹ ایسا ہے جیسا مِسْک ( کستوری) تیسرے یہ کہ سر بمہر کہ سوائے ان رواج والوں کے دوسروں کو نہ ملے گی.اور جیسے یہاں مُہر کی لاک (لاکھ) ہوتی ہے وہ مہر مِسک سے لگائی جاوے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 349

۲۸..: کے لغوی معنے ارتفاع اور بلندی کے ہیں.اونٹ کی کوہان کو سَنَامُ الْبَعِیْر کہتے ہیں.جہاد فی سبیل اﷲ کو حدیث میں زِرْوَۃُ سَنَامِ الْاِسْلَامِ فرمایا ہے تسنیم جنّت میں وہ چشمہ ہے.جو جنت کے تمام پانیوں کے چشموں سے اشرف اور اعلیٰ ہے.جنتیوں کو اس چشمے سے بطور گلاب اور کیوڑے کے امتزاج کر کے دیا جاوے گا.مگر مقرّبین کے لئے خالص یہی سراب ہو گی جیسا کہ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ سے واضح ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۳۱..غمز کے معنے پلکوں اور بھؤوں سے اشارہ کرنے کے ہیں اور عیب لگانے کے بھی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۳۲..ثعلبی کا قول ہے کہ  اور فَاکِھِیْنَبطاہر دو مختلف لفظ ہیں.جیسے طامع اور طمع اور فارہ اور فرہ.مگر معنے دونوں کے ایک ہی ہیں.تبدیلِ ذائقہ کے لئے میوہ خوری لذیذ کھانوں سے تلذّذ.غرض قصّہ کہانیوں اور نادلوں سے دل بہلانا.مزے لینا.یہ سب  میں داخل ہے.ایسے وقت میں جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم مکّہ معظّمہ میں کفّار کو یہ سنار ہے ہیں.کون یقین کر سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم اور آپؐ کے اتباع ایسے کامیاب اور بامراد ہو جائیں گے کہ انہیں برے بڑے درجات ملیں گے.چنانچہ جب صحابہؓ نے عجم و شام کی فتوحات حاصل کیں تو یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.بہتے ہوئے چشمے اور دریا اور سبزہ زار اور ہر قسم کے

Page 350

مرّزار ان کے لئے موجود تھے اور تختوں پر بیٹھنے کی پیشگوئی تو صراحتًا بلا تاویل موجود ہے.ان کو اﷲ تعالیٰ نے تخت نشینی عطا کی.یہ تمام انعامات جو اگلی آیات میں بیان کئے ہوئے ہیں.انہیں ملے.اور ان کے متعلق تفسیری نوٹ ہم پہلے لکھ چکے ہیں.عرض منکرین رسالت کی ناکامی اور نامرادی اور آپؐ کے صادق مخلصین اور متبعین کی کامیابیوں نے جن کے متعلق پیشگوئیاں کی گئی تھیں.پورا ہو کر آخرت کے عذاب اور آرام جنّت کے متعلق بھی تصدیق کر دی.بالآخرپھر یہ بتایا کہ اگرچہ آج یہ حالت ہے کہ خُدا سے قطع تعلّق کرنیوالے مومنین پر بہتان اُڑاتے ہیں اور ٹھٹھے مارتے ہیں مگر وقت آتا ہے کہ مؤمنین کامیاب ہو جائیں گے اور یہ ہنسنے والے خود ہنسی کا موجب ہو جاویں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرص اس سورۃ شریفہ میں بھی یَوْم الدِّیْن کا ثبوت اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوقت کا ثبوت ان واقعات سے دیا ہے.جن کو قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں بتایا گیا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 351

سُوْرَۃَ الْاِنْشِقَاقِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..آسمان میں جس قدر اجرامِ فلکی ہیں.وہ سب سماء کے لفظ میں داخل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰث والسلام نے انشقاق و انفطار و سماء پر جو کچھ تحریر فرمایا ہے.وہ مختصراً یہ ہے.کہ سماء سے مراد کُلَّ مَا فِی السَّمَآء ہے.لطیف چیزیں بہ نسبت کثیف کے سریع الخرق ہوتی ہیں.خواہ آسمان لطیف ہو یا کثیف.الہٰی کلام کا مدّعا یہ ہے کہ اس علامِ کَون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے.ہر ایک جو بنایا گیا ہے.توڑا جائے گا.قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفطار کے لفظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہے.اُن سے ایسے معنے مراد نہیں.جو کسی جسم صلیب یا کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں.جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اﷲ جل شانہ،فرماتا ہے:(زمر:۶۸) اگر شق السّمٰوٰت سے درحقیقت پھاڑنا ہی مراد لی جاوے.تو مَطْوِیّات کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا.دوسری جگہ فرمایا ہے:  (الانبیاء:۱۰۵) یعنی ہم آسمانوں اور زمین کو ایسا لپیٹ لیں گے.جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالَم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی.انہیں قدموں پر پھر یہ عالَم عدم کی طرف لوٹا یا جائے گا.اور جیسا کہ اب اسباب طاہر اور مسبّب پوشیدہ ہے.اُس وقت مُسَبِّب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چُھپ جائیں گے اور ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلّیاتِقہریہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر ایک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دیگی اور تجلّیات الہٰیہ اس کی جگہ لے لیگی.یہی سمٰوٰت کا انشقاق انفطار اور مطوّیات ہونا ہے.

Page 352

آسمان بارونشاں اَلْوَقْت میگوئد زمیں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۳..اَذبنَتْ: اذن سے مستق ہے.جس کے معنے کسی بات کے سننے کے لئے کان لگائے رکھنا.حکم کی تعمیل کرنا ہے.حُقَّتْ کے معنے یہ ہیں کہ آسمان کا حق ہے کہ وہ ایسا کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۴،۵...آسمان کا پھٹنا.زمین کا کشادہ ہونا اور اپنے مافیھا کو اپنے اندر سے اُگل دینا.ان واقعات کو قرآن کریم میں بلفظِ دیگر یوں فرمایا ہے. (الانبیاء:۳۱) یعنی زمینی اور آسمانی برکتیں بند تھیں پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ظہور کے ساتھ ہی زمینی ا ور آسمانی برکتوں میں ترقیات ہونے لگیں.آپؐ کے عہدِ مبارک میں ان دونوں کا رتق ٹوٹا اور زمینی و آسمانی ترقیات کا سمندر بہہ تکلا.زمینی علوم و فنون جس قدر ترقی کر گئے اور کر رہے ہیں وہ محتاجِ بیان نہیں ہیں.جس طرح آسمان کا اثر زمینی اشیاء قبول کر رہی ہیں.اسی طرح انسان بھی ذوجہتین ہے.جیسا کہ آگے فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۷..انسان کے معنے خدا سے بھی اُنس رکھنے والا.اور اہل و عیال بیوی بچوں سے بھی اُنس رکھنے والا دو طرف کے تعلقات کا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ انسان کادح ہو.کدح کے معنے کسی چیز میں نہایت مشقّت

Page 353

کے ساتھ کوشش کرنے کے ہیں.حدیث شریف میں ہے کہ لَیْسُوْا عِبَادُ اﷲِ بِمُتَنَعِّمِیْنَ خدا کے بندے تن آسان و تن پرور نہیں ہوتے.اور خاص کر خدا کی رضا کو پا لینا اور اس سے ملاقات کرنا دشوار گزار گھاٹیوںسے گزرے بغیر ممکن نہیں.اِنَّ سِلْعَۃَ اﷲِ لَغَالٍ.خدا کا سودا مہنگا ہے.اس زمانہ کی دشواریوں کا ذکر مختصریا حدیث شریف میں ابن ماجہ باب شدث الزمان میں یوں فرمایا ہے.لَایَزْدَادُ الْاَمْرُ اِلَّا شِدَّۃً وَلَا الدُّنْیَا اِلَّا اِدْبَارًا.وَلَا النَّاسُ اِلَّ شُحّنا وَ لَا الْمَھْدِیُّ اِلَّا عِیْسَی بْنُ مَرْیَمِ.(ابنِ ماجہ کتاب الفتین باب شدّۃ الزمان) ۸..یُمن کے معنے دایاں ہاتھ.طاقت.جناب الہٰی کی پروانگی دعاؤں کے قبول ہونے کے راست بازی.اکلِ حلال.قوتِ بازو کی کمائی.جناب الہٰی کی مرضیات کی روشنی.یہ ضروری امور ہیں.اگر یہ باتیں نہ ہوں.تو حدیث شریف میںاَنّٰی یُسْتَجَابُ لَہٗ آیا ہے.کیونکر اس کی دعا قبول ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۹..حساب یسیر صرف بندہ کے لئے اس کے اعمال کا اس کے سامنے پیش کر دینا ہے.اور اس کی خطاؤں سے چشم پوشی و درگزر کرنا ہے.امام احمد حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے یوں دعا فرمائی اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا.پوچھا کہ حساب یسیر کیا ہے فرمایا صرف نامۂ اعمال کا پیس کرنا اور در گزر فرمانا ہے.اور فرمایا.مَنْ نُوقِشْ فِی الْحِسَابِ عُذِّبَ جس کے حساب میں کُرید کی گئی.وہ مُعَذّبْ ہو گا.ابوھریرہؓ سے مروی ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.تین خصلتیں ہیں.کہ ان سے حسابِ یسیر ہو گا.ایک یہ کہ جو اسے محروم رکھے اور نہ دے.اسے دیا کرے.دوسرے یہ کہ جو ظلم کرے اس کو معاف کرے.تیسرے جو اس سے قطع رحمی کرے وہ اس سے وصل کرے(اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْر) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۴..اس آیت کے بالمقابل دوسری جگہ مومنوں کی صفت یوں بیان فرمائی ہے.

Page 354

(طور:۲۷) مومن کو دنیا میں ہزار قسم تنعّم ہو مگر آخرت کی فکر جاں گداز رہتی ہے.اور دنیا کی راحت ان پر تلخ رہتی ہے ولنعیم ما قیل ؎ مراد منزلِ جاناں چہ امن و عیش چوں ہردم جرس فریاد میدارد کہ بر بندید محملھا اور بھی کسی نے کہا ہے.عشرت امروز بے اندیشہ فرد اخوش است ذکر سنبہ تلخ دارد جمعۂ اطفال را (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۷ تا ۲۰.....لآ اُقْسِمُ کی توجیہہ سورۃ القیامۃ میں بیان ہو چکی ہے.شفق غروب آفتاب سے قبل اور بعد کی سُرخی.وَسَقَ کے معنے جمع کرنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں.راتجَامِعُ الْمُتَفَرِّقِیْن ہے چرند پرند.حیوانات.انسان سب رات کو اکٹھے ہو جاتے ہیں.اِتَّسَقَ چاند کا بھر پور ہونا ہے اور یہ تدریجًا ہوتا ہے.اسی کو میں واضح فرمایا.سورث التکویر میں پیغمبر وسلم کے وجود مبارک سے آپ کے زمانہ میں جو ترقیات ہونے والی تھیں ان کو وَالصُّبْعب اِذَا تَنَفَّسَ ( التکویر:۱۹) فرما کر ذکر فرمایا ہے.اور اس جگہ ان آیات کے باب میں آپ کے خلیفوں کے ذریعہ سے جو ترقیات مقدّر تھیں ان کا ذکر فرمایا ہے.شَفَق کے لفظ میں اور ( النور:۵۶) میں ایک لطیف مناسبت ہے.صدیق اکبرؓ کے ابتداء زمانہ خلافت میں ارتداد عرب سے یہ شفق اور خوف دونوں واقع ہو گئے.بعد اختلاف یسیر کے مہاجرین و انصار کا اتفاق اور ایک خلیفہ کے ہاتھ پر اُن کا جمع ہو جانا اسی ظلمت کے وقت میں وَ اللَّیْلِ وَمَا وَسَقَ کا ایک عجیب نظارہ تھا اور اب تو خداوند کریم کے فضل سے ایّام بیض و لیالی بدر ہیں.جووَ الْقَمَرِ کے اِذَا اتَّسَقَکے مصداق ہیں اور یہ جملہ ترقیات چونکہ تدریجاًہیں اس لئیلَتَرْکَبُنَّ طَبْقًا عَنْ طَبْقٍ فرمایا.زبان انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے.جولَتَرْکَبُنَّ الآیہ… سے موافقت رکھتی ہے

Page 355

فورٹ اِز ناٹبِلٹ ان اے ڈے (FORT IS NOT BUILT IN A DAY) قمر کی تدریجی ترقی بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے.ہمارا بدرؔ پہلے البدرؔ تھا اور اب خدا کے فضل سے بدر ہوا.شَبَّھَہٗ بِالْبَدْرِ قَالَ ظَلَمْتَنِیْ یَا وَ اضِعِیْ وَ اﷲِ ظُلْمًابَیِّنٌ اَلْبَدْرُ یَنْقُصُ وَ الْکَمَلُ فِیْ طَلْعَتِیْ فَلَاجلِ ھٰذَصِرْتم مِنْہُ اَحْسَنُ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۲۴..: وِعَاء سے مستق ہے.جس کے معنے ظرف میں کسی چیز کے بھرنے کے ہیں.فَبَدَأَ بِاَوْ عِیَتِھِمْ (یوسف:۷۷) انہی معنوں میں ہے.اَوْعِیَث وِعَائٌ کی جمع ہے.بات کو سُن کر محفوظ رکھنا بھی وِعَاء ہے.تَعِیَھَآ امذْنٌ وّن اعِیَۃٌ (الحاقّہ:۱۳) یہاں یُوْعُوْنَ سے مطلب کفّار کی اس کی منصوبہ بازی سے ہے جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے قتل کی نسبت دل میں ٹھان رکھی تھی جو آفتاب کی صبح کے تنفس سے لیکر شفق تک اپنی تمامی منزلیں طے کرتا ہو.اس کو درمیان میں کون روکے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) ۲۶..:غیر ممنون.غیر مقطوع.قرآن شریف کے سجداتِ تلاوت میں سے اس سورہ شریفہ میں تیراہواں سجدہ ہے …… (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء) شقّ آسمان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰث والسلام نے جو تحریر فرمایا ہے.اس کا اندراج بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے.اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے کے کیا معنے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مرادکُلّ مَا فِی السَّمَآئکو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل ہیں.ماسوا اس کے ہر ایک جَرم لطیف ہو یا کثیف قابلِ خرق ہے

Page 356

بلکہ لطیف تو بہت زیادہ خرق کو قبول کرتا ہے.پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میم بہحکم ربق قدیر و حکیم ایک قسم کا خرق پیدا ہو جائے وَ اِنَّ ذٰلصِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرًا بالآخر یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے.کہ قرآن کریم کے ہر ایک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی علطی ہے.اور اﷲ جلشانہٗ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارہ لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفطار آسمانوں کا کیونکر ہو گا.در حقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخلِ بے جا ہے.صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فناء کی طرف اشارہ ہے.الہٰی کلام کا مدّعا یہ ہے کہ اس عالمِ کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے.ہر ایک جو بنایا گیا.توڑا جائے گا.اور ہر ایک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر ایک جسم متفرق اور ذرّہ ذرّہ ہو جائے گا.ہر ایک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہو گی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفطار کے لفظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں.اُن سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسمِ صَلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اﷲ جلشانہٗ فرماتا ہے.(الزمر:۶۸) یعنی دنیا کے فنا کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیت لے گا.اب دیکھو کہ اگر شَقّ السَّمٰوٰت سے درحقیقت پھاڑنا مراد لیا جائے تو کا لفظ اس سے مغائر منافی پڑیگا.کیونکہ اس میں بھاڑنے کا کہیں ذکر نہیں.صرف لپیٹنے کا ذکر ہے.پھر ایک دوسری ایت ہے جو سورث الانبیاء جز ۱۷ میں ہے اور وہ یہ ہے. (الانبیاء:۱۰۵) یعنی ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی.انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا.یہ وعدہ ہمارے ذمّہ ہے.جس کو ہم کرنیوالے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے.جس میں جائے عور یہ لفظ ہیں.وَ تَکُوْنُ السَّمٰوٰتُ بِیَمِیْنِہٖ یعنی لپیٹنے کے یہ معنے ہیں کہ خداوند تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپا لے گا اور جیسا کہ اب اسباب طاہر اور مسبّب پوشیدہ ہے.اُس وقت مسبّب طاہر اور اسباب زاویۂ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر ایک چیز اس کی

Page 357

طرف رفوع کر کے تجلّیات قہریہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر ایک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دیگی اور تجلّیات الہٰیہ اس کی جگہ لے لیں گی اور عقل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علّتِ تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.اسی کی طرف اشارہ  (المومن:۱۷) یعنی خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلّی سے ہر ایک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدنیت اور یگانگت دکھلائے گا.اور خدا تعالیٰ کے وعدوں سے مراد یہ بات نہیں کہ اتفاقاً کوئی بات منہ سے نکل گئی اور پھر بہر حال گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا.کیونکہ اس قسم کے وعدے خدائے حکیم و علیم کی شان کے لائق نہیں ہیں.صرف یہ انسان ضعیف البُنیان کا خاصّہ ہے.جس کا کوئی وعدہ تکلّف اور ضعف یا مجبوری اور لاچاری کے مواقع سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا اور بایں ہمہ تقریبات اتفاقیہ پر مبنی ہوتا ہے.نہ علم اور یقین اور حکمت قدیمہ پر.مگر خدا تعالیٰ کے وعدے.اس کی صفات قدیمہ کے تقاضے کے موافق صادر ہوتے ہیں اور اس کے مواعید اُس کی غیر متناہی حکمت کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 358

سُوْرَۃَ الْبُرُوْجِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا۴....بُرُوْج: عربی زبان میں روشن ستاروں کو کہتے ہیں.بُرج کے لغوی معنے ظاہر کرنے کے ہیں. سے مراد معروف بارہ بمرج.حمل.ثور.جوزاء.سرطان وغیرہ لئے ہیں مگر اسی قدر پر ٹھہر جانے سے اگے مطلب نہیں چلتا اور نہ آیات ماسبق کی آیات مالحق سے کوئی مناسبت پیدا ہوتی ہے.اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ بالاتفاق یہ سورۃ مکّی ہے.اور اس وقت نازل ہوئی جبکہ نومسلم صحابہ رضی اﷲ تعالیف عنہم کفّارہ کا شکار ہو رہے تھے.کوئی گرم پتتے ہوئے پتھروں پر لٹایا جا رہا تھا اور کوئی بڑی بڑی بے رحمیوں سے قتل کیا جاتا تھا کہ گویا کہ آسمانی سطوت و جبروت کا مقابلہ زمینی حکومت سے کیا جا رہا تھا.اور یہ جانکاہ چیزیں پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی حضوری میں در پیش تھیں جن سے آپ کو اور نو مسلم کمزور اصحاب کو صدمۂ عظیم تھا.اس لئے ان مظالم کے جواب میں جو زمینی حکومت کے ذریعہ سے کی جاتی تھیں.اﷲ تعالیٰ نے بھی تین ملکوتی سطوت اور جبروت کو پیش کیا ہے جو سماء ذات بُروج.یوم موعود.شاہد و مشہود ہیں.سماء ذات بروج سے سارا ملکوتی اقتدار مراد ہے.نہ صرف روشن ستارے یا سرطان.اسد سنبلہ.میزان.عقرب وغیرہ بروجِ معروفہ یا یوں تصوّر فرماویں کہ ’’ دولتِ برطانیہ‘‘ کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگر اس ایک لفظ کے مفہوم میں انگلیند.آئرلیند.سکاٹ لیند اور ونش اور ان کے تمامی مختلف ڈیپارٹمنٹ اور صوبے اور حکومتیں ہیں.جن پر رات اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کسی ساعت میں بھی آفتاب کا زوال نہیں ہوتا.زمینی حکومت کے ذریعہ سے جو تعذیب کی جا رہی تھی اس کے بالمقابل سماء ذاتب بُروج.یومِ موعود.شاہد و مشہود کو رکھا ہے.

Page 359

یومِ موعود میں دس بارہ قول بیان ہوئے ہیں.اس توجیہہ سے جو اوپر بیان ہوئی.سارے ہی قول صحیح ہو جاتے ہیں.علیٰ ھٰذاالقیاس شاہد و مشہود بھی.یومِ موعود کی نسبت کہا گیا ہے.کہ بدرؔ کا دن.فتح مکّہ کا دن.جمعہ کا دن سارے ہی دن ٹھیک اور درست ہیں.اسی طور پر شاہد و مشہود یعنی عرفہ کا دن لِیَشْھندُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ ( الحہ:۲۹) قیامت کا دن ذٰلِکَ یَوْمٌ مَجْمُوْعٌ لَّہُ النَّاسُ وَ ذٰلِکَ یَوْمٌ مَّشْھُوْدٌ ( ہود:۱۰۴) کِرَامًا کَاتِبِیْنَ(الانفطار: ۱۲) اور مخلوق.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم اور آپؐ کی اُمّت.تمامی انبیاءؐ اور ان کی اُمّتیں.کل فرشتہ اور مخلوق.جَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا شَآئِقٌ وّن شَھِیْدٌ (قٓ: ۲۲) حتٰی کہ کَفٰی بِاﷲِ شَھِیْدًا ( نساء:۸۰) سے ذاتِ باری تعالیٰ اور تمامی مخلوق سالم بن عبداﷲ نے مراد لیا ہے.غرض کہ یہ تین آیتیں پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی اور آپ کے نومسلم اور مظلوم اصحاب کی تسلّی و تشفی کے لئے نازل فرمائیں.جن میں اﷲ تعالیٰ کی سطوت اور جبروت اور ملکوتی اقتدار کا بیان ہے.جو کفّار سے انتقام کے لئے کافی و وافی ہیں.اس کے بعد نظیرًا اصحاب اُخدود کے واقعہ کو تین ہی آیتوں میں بالمقابل فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء) ۶ تا ۸... .زمینی حکومت کے ذریعہ سے آگ کی خندقوں کا تیار کرنا.اور ان پر تماشہ بینی کے لئے کُرسییں بچھا کر بیٹھنا اور بالآخر اس وقت کے مؤمنین کو (جو غالبًا عیسائی موحّد تھے) امن خندقوں میں جھونکنا یہ ایک ایسا نظارہ صحابہ رصی اﷲ عنہم کے سامنے پیش کیا تھا کہ جس سے ان کی اپنی تکلیفوں کا اندازہ مقابلۃً ان کو معلوم ہو گیا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جب ان آیات کو پڑھتے تو فرماتے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَآئِ وَ دَرْکِ الشِّقَآئِ وَسُوْئِ الْقَضَآئِ وَ شَمَاتَثِ الْاَعْدَائِ.

Page 360

اَصْحَابُ الْاُخْدُوْدِ کے قصّہ کو امام مسلم.احمد.ترمذی نے صہیبؓ رومی سے نقل کیا ہے.اَلنَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ کے مقابلہ میں سَمَآء ذَاتِ الْبُرُوْج تھا.اِذْھُمْ عَلَیْھَا قُعُوْدٌ کے مقابلہ میں اَلْیَوْم الْمَوْعُوْد تھا.وَّھُمْ عَلٰی مَا ینفْعَلُوْن بِالْمُؤْمِنِیْنَ شُھُوْدٌ کے مقابلہ میں و شَاھِدٍ وَّمَشْھُوْدٍ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء) ۱۱. .سابق کلام میں چونکہ خاص واقعات کا بیان تھا.اس لئے اس آیت سریفہ میں اسی قسم کے مطالم اور ان کے انتقام کو عام کر دیا.فتنہ کا لفط ہر چھوٹے بڑے ابتلاء اور امتحان کے لئے ہے.آگ میں ڈالنا یہ بھی فتنہ ہے.یَوْمَ ھُمْ عَلَی النَّارِ یُفْتَنُوْنَ ( الذاریات:۱۴) ۱۸،۱۹...فرعون.ثمود اور ان کے علاوہ اَور اَور جنود کفّار کے اپنے وقت کے پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جو مظالم بَرت کر موردِ انتقام ہوئے.اصحاب اخدود کے ساتھ مَیں ان کو بھی بطور ضمیمہ کے یاد کر لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء) ۲۱..وَرَاء: لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جسے کوئی پوشیدہ کرے یا کسی چیز کی اوٹ میں آ جاوے اور اس کا اطلاق پس و پیش دونوں پر آتا ہے.اور اس آیت میں بطورب اشتراک معنوی دونوں معنوں کو سامل ہے.معنے آیت کے یہ ہیں.آگے پیچھے گھیر رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 361

۲۲،۲۳...جو کوشش کہ قرآن شریف اور اسلام کے مٹانے کے لئے کی گئی تھی.اس کا اضراب بَلْ کے لفظ سے کیا.اور قرآن کے لفظ میں فرمایا کہ یہ ہمیشہ پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس میں آتا رہے گا تختیوں.کاغذوں پر لکھا جایا کریگا اور محفوظ و مصؤن رہے گا.فللّٰد الحمد کہ ایسا ہی ظہور میں آ رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ جون ۱۹۱۲ء)

Page 362

سُوْرَۃَ الطَّارِقِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..طرق کے لغوی معنے ٹھونکنے کے ہیں.اس سورہ سریفہ میں نجم ثاقب کو اس لئے طارق فرمایا کہ وہ شیاطین کو ٹھوک پیٹ کر کھدیڑتے ہیں.اور آسمان کے لئے محافظ ہیں.جب کہ ہر نفس کے محافظ ہیں تو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صیانت و حفاظت بالاولیٰ ضروری ہے.راستہ ٹھونکنے پیٹنے سے اور اقدام کی رفتار سے مضبوط ہو جاتا ہے.اس لئے طریق کہلاتا ہے.مسافر لوگوں کے رات کو سو رہنے کے بعد جو دروازہ کو کھٹکھٹائے وہ بھی طارق ہے.ایک شاعر کا قول ہے: طَرَقْتُ الْبَابَ حَتّٰی کَلَّمَتْنِیْ فَلَمَّا کَلَّمَتْنِیْ.کَلَّمَتْنِیْ غرض کہ سورۃ شریفہ کا موضوع پیغمبرصلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم صیانت اور حفاظت اور آپؐ کے اعداء کو آپؐ پر حملہ کرنے سے ٹھوک پیت کر دفع کرنا سمجھا جاتا ہے.اور یہ حفاظت و ذب و دفاع ظاہری اور باطنی دونوں طور سے متصوّر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍جون ۱۹۱۲ء) ۴..ثَاقببُ: دُور کا ستارہ.ثرّیا اور تمامی ستارے بھی مراد ہو سکتے ہیں.کل اصحابؓ آپؐ کی حفاظت کے لئے نجم ثاقب تھے.بعض ستاروں کے طلوع کے وقت بیماریوں کے اجرام ان ستاروںک کی تاثیر سے ہلاک ہو جاتے ہیں.سب سے بڑا شیطانوں کو ٹھوک پیت کرکھدیڑنے والا وجود نبی ہی کا ہوتا ہے.ہمارے ایک دوست نے اس بات کو ایک شعر میں ادا کیا ہے.آسماں سے نجمِ ثاقب اس شبِ تاریک میں سر پہ شیطانوں کے پڑنے کے لئے نازل ہوا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍جون ۱۹۱۲ء)

Page 363

۶ تا ۸... .پس دیکھ لے کس چیز سے آدمی بنایا گیا ہے.اُچھلتے ہوئے پانی سے جو صلب اور ترائب کے درمیان کی جگہ سے نکلتا ہے.اس آیتِ قرآنی پر جس میں انسان کی فطرت کا بیان مشاہدے کے طور پر بتایا گیا ہے.پادری صاحب اعتراض کرتے ہیں… افسوس ہے کہ یہ لوگ کبھی قرآن کے اصلی لٹریچر سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.عوام کی سنی سنائی باتوں کو دل میں رکھ کر اعتراض جمانے لگتے ہیں.کسی کتاب پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کے اصلی ادب سے بلاواسطہ واقف ہونا فرص ہے.اعتراض: ’’ نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر صاف صاف دکھلا سکتے ہیں کہ منی خصیے میں پیدا ہوتی ہے یہ بات غلط ہے.کہ منی باپ کی پیٹھ اور ماں کے سینے میں ہو.جیسے قرآن میں ہے.‘‘ جواب: ہم کو نہایت تعجب آتا ہے جب ہم پادریوں کو نیچرل فلاسفی وغیر سائنٹیفک مصطلحاتبولتے سنتے ہیں.انجیل اور فلاسفی؟ انجیلی تعلیم سخت ہچکچاتی ہے کہ میدان میں نکل کر سائنس سے مقابلہ کرے.پادری دی.ڈبلیو تھامس ( تشریہ التثلیث صفحہ ۲۲ مُعمّائے تثلیث کے حل سے عاجز آ کر کیسے بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں.’’ خلقت ( نیچر.قانونِ الہٰی ) کے احوال سے استدلال اور عقلی دلائل اس میں چل نہیں سکتے.اس کا ثبوت بہم کلام الہٰی پر موقوف ہے.‘‘ نیچرل فلاسفی! بڑا لفظ بولا.دوسرے مذاہب پر تو اعتراض کرنے کے لئے تو بے اختیار لفظ زبان سے نکلے گا.اندرونِ کانہ تو امّید ہے کم ہی استعمال کرنے کا موقع آتا ہو گا.پادری صاحب ! نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر یوشع بن نون کی خاطر سورج کا کھڑا ہونا.مُردوں کا زندہ کرنا.مجسم انسان کا آسمان پر چڑھ جانا.بے باپ کے لڑکا پیدا ہونا کب تسلیم کرتے ہیں.پہلے انہیں ہی نیچرل فلاسفی کی کسوٹی پر کَس لیا ہوتا.اب حقیقی جواب دینے سے پہلے ایک دو باتوں کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ قرآن مجید کی عظمت بخوبی واضح ہو جاوے.شیخ سعدی ملک ایران میں پیدا ہوئے.جس ملک کی نسبت مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یونان او

Page 364

عرب کے علوم مصر سے اور مصر کے علوم ہندیا ایران سے.اور بہتوں کا خیال ہے کہ ہند کے علوم بھی ایران سے لائے گئے.پھر اسلام کے ایسے زمانہ میں پیدا ہوئے جبکہ مسلمانوں کے علوم اپنے اوج پر پہنچے ہوئے تھے.مزیدبآں حضرت شیخ نے اپنے علوم کو سیاحت و تجربہ زمانہ سے اور بھی جِلا دی تھی.بایں ہمہ شیخ کی تحقیقات کا نتیجہ یہ ہے ’’ صلب آور د نطفہ در شکم‘‘ جس پر آجکل کی علمی دنیا ہنسی اڑاتی ہے.ملک عرب میں بھی بالخصوص صلب و اصلاب ہی کا محاورہ دائر و سائر تھا اور یہیں تک ان کے محدود ذہن کی رسائی تھی.مگر قرآن کریم پر قربان جایئے جو ہمیشہ ہر زمانے میں اپنی راستی اور صداقت دکھانے کو تیار ہے.اور ابد تک رہے گا.یہیں سے انسانی کلام اور کلامِ الہٰی کا تفرقہ معلوم ہوتا ہے.اب قرآن کا مطلب سنئے.حقیقی جواب: فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ.خُلِقَ مِنْ مَّآئِ دَافِقٍ یَخْرُجُ مِنْبِیْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَآئِبِ.انسان کو چاہیئے دھیان کرے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے.پیدا کیا گیا ہے.اُچھلتے پانی سے جو پُشت اور سینے کی ہڈیوں کے بیچوں بیچ سے ہو کر نکلتا ہے.کیا معنی کہ نطفہ صُلب اور ترائب کے بیچوں بیچ سے آتا ہے.صُلب پیٹھ کی ہڈی کو کہتے ہیں.ترائب جمع ہے تریبہ کی.سینے کی ہڈی.(تَرِیْبَۃٌ وَ ھِیَ عَظْمُ الصَّدْرِمِنْ رَجُلِ اَوْ امْرَأَۃٍ.صحاح)اب غور کرو نطفہ اور مَنی شریانی خون سے بنتی ہے.اور وہ سریان دِل سے نکلتا ہے.اور دل صُلب و ترائب کے بیچوں بیچ ہے.اَور طرح پر مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ باری تعالیٰ متکبّر انسان کی گردنِ عُجُب توڑنے کو اُسے اس کی خلقتِ جسمانی منبع کی طرف توجہ دلاتا ہے.اور چونکہ قرآن کلامِ الہٰی ہے اور ہر مجلس میں جوانوں بوڑھوں عورتوں میں پڑھا جاتا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ انسانی اصلاح کے ہر قسم کے مطالب و ارشادات اعلیٰ درجہ کی پاکیزگی اور تہذیب سے ادا کرے.یہاں دانا سمجھ گئے ہوں گے اور حق شناس تو سمجھتے ہی ہیں کہ گردن کش انسان کو نصیحت کرنا قرآن کریم کو منظور ہے اور کس جگہ کی طرف اشارہ اُسے مقصود ہے.مگر اﷲ اﷲ کس خوبی اور لطافت سے اس مضمون کو نبھایا ہے.یہی اس کتاب کریم کا اصلی اور سچّا معجزہ ہے.معترضو! خواہ مخواہ کی طعنہ زنی کے عشقو! ترائب سے نیچے نگاہ کرتے جاؤ اور صُلب کی طرف

Page 365

جاؤ.عین بین یعنی بیچوں بیچ میں تم کو وہ پمپ یا فوارہ نطر آویگا.جس میں سے وہ اُچھلتا پانی نکلتا ہے جو انسان کی پیدائش کا منبع یا مبدأ ہے.غور کرو، سوچو، ایمان اور انصاف سے کام لو.کیا مقصود تھا.کیا مطلب تھا.کس طرز پر ادا کیا.اس سے بڑھ کر فصیح اور پاک کلام کوئی دنیا میں ہے.علمِ ادب اور عربی سے آگاہی حاصل کرو.فصحائے عرب عضوِ تناسل کا نام جب بتقاصائے وقت لازم ہو.ایسے ہی نہج سے لیا کرتے ہیں.چنانچہ افصح العرب و العجم ایک حدیث میں فرماتے ہیں مَنْ یَضْمِنُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ فَاَضْمَنُ لَہُ الْجَنَّۃَ یعنی جو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (……) میں اس کے واسطے جنت کا ضامن ہوتا ہوں.یعنی جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کو فواحش اور ممکنات سے روکے.میں اُسے جنت دلاؤں گا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک اِنْ ھُوَ اِلَّا مَآ اَلْھَمْنِیْ بِہٖ رَبِّیْ (فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۳۲.۱۳۵) خُلِقَ مِنْ مَّآئٍ دَافِقٍ: دافق.سیّال پانی.یکے بعد دیگرے متواتر گرنے والے قطرے.دافوق کے معنوں میں ہے.عرب کی بولی میں فاعل مفعول کے معنوں میں کثرت سے بولا جاتا ہے.جیسے سِرٌّ کَاتِمٌ اَیْ مَکْتُوْمٌ.وَ فِیْ قَوْلِہٖ.فِیْ عِیْشَۃٍ رَّاضِیَۃٍ (حاقّہ:۲۲) اَیْ مَرْضِیَّۃٍ حضرت صاحب کی ایک نظم میں دفقؔ کا لفظ اس طرح آیا ہے ع ہر کہ بر دفقِ حکم مشغول است برسرب اُجرت است و مقبول است (براہین احمدیہ) دفق ؔکے معنے اس شعر میں حکم کے ساتھ ہی کودنے، پھاند نے فورًا چلے جانے کے ہیں.قرآن شریف کی ماسبق آیات کا ربط آیات ملحق سے یہ ہے کہ کفّار جنہوں نے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے قتل اور ایذاء اور مقابلہ کی ٹھان رکھی تھی.ان کو توجّہ دلائی اس طرف کہ غرور تکبّر نبی کے مقابلہ میں چھوڑ دیں.اور اپنی پیدائش کو سوچیں کہ کس حقیر اور ناچیز قطرۂ آب سے ہوئی ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍جون ۱۹۱۲ء)

Page 366

: ترائب کے معنے پستان کے صحیح نہیں ہیں.اگر پستان مراد ہوتے تو صیغہ تثنیہ کا ہوتا.ترائب تریبہ کی جمع ہے.ترائب سینہ کے دائیں بائیں دونوں طرف کی پسلیوں کی ہڈیوں کو کہتے ہیں.دل چونکہ صلب اور ترائب کے درمیان واقع ہے.اور دل سے شریانی عروق پیوستہ ہیں اور اِنہیں شریانی خون سے مَنی پیدا ہوتی ہے.( گواوعیہ منی بَیْضَتَیْن ہوں.جو فلٹر کا کام دیتے ہیں مگر یہاں تو ذکر مخرج کا ہے نہ کہ فلٹر کا) اس لئے انسان کی حقیر پیدائش کا ذکر نہایت تہذیب کے ساتھ کیا.کَلَامُ المُلُوْکِ مُلُوْکُ الْکَلَامِ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍جون ۱۹۱۲ء) ۹..ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی مسئلہ مہتم بالشان ہوتا ہے.جیسے ہمارے اس زمانہ میں مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے.اسی طرح سے شرک اور بُت پرستی کے علاوہ بعث بعد الموت کا سخت انکار کیا گیا تھا اس لئے قران شریف میں رجعت یعنی بعث بعد الموت کا ذکر بار بار کیا ہے.اور شریروں کو عقوبتِ اُخروی سے ڈرایا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء)۱۰..تُبْلَی بمعنے تظھُر ہے.سرَآئِر.سرّ کی جمع ہے.امتحان میں بھی مخفی استعداد ظاہر کی جاتی ہے اس لئے بلاء امتحان کے معنے دیتا ہے.معنی آیت کے یہ ہیں کہ اس دن جو کچھ مخفی در مخفی طور پر عمل کئے تھے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۱۲..سَمَآئِ.بادل.رَجْعِ.بارش چونکہ بخارات سمندروں سے اور زمین سے اوپر چڑھ کر بادلوں کی شکل میں مینہ بن کر واپس زمین ہی کی طرف لوٹتے ہیں.اس لئے بادلوں کا نام سماء اور بارش کا نام رجع ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) جس طرح زمین کا پانی آسمان کے پانی پر موقوف ہے اسی طرح عقلی چشمے الہامِ الہٰی کے محتاج ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸.۴۸۹)

Page 367

۱۳..صَدْعِ کے معنے پھٹنے کے ہیں.قَالَ اﷲُ تَعَالٰی (الروم: ۴۴) اَیْ یَتَفَرَّقُوْنَ.صَدْعِ کے لفظ سے صرف اسی قدر توجہ دلانا مقصود ہے کہ زمین کے پھٹنے سے کھیتیں اور درخت پیدا ہوتے ہیں.بلکہ آسمانی بارش سے جس طرح زمین سر سبز ہوتی ہے.اسی طرح پیغمبر کے انے سے اور وحی آسمانی سے اہلِ زمین برگ و بار لاتے ہیں.حضرت صاحب فرماتے ہیں.(براہین احمدیہ) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ء) ۱۴..اِنَّہٗکا مرجع قرآن شریف ہے یا آسمانی بارس کے ذریعہ زمینی سرسبزی.دونوں ہی صحیح ہو سکتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۱۶..کفّارِ مکّہ جس وقت اُس بنی نوع انسانی کے سچّے خیر خواہ رؤوف و رحیم ہادی محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایذارسانی کی تدابیر و فکر میں لگے ہوئے تھی.قرآن کہتا ہے اِنَّھُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًا وہ خفیہ داؤں بچھا رہے ہیں اور مَیں ان کے داؤں کو باطل کرنے کے درپے ہوں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۳۸) ۱۸..امھال کے معنے مہلت دینے.ڈھیل دینے کے ہیں. رَود کی تصغیر ہے.امر کے معنے میں آیا کرتا ہے.جیسے نحوی اسم فاعل بمعنے امر سے تعبیر کرتے ہیں.جیسے رُوَیْدَ زَیْدًا

Page 368

ای اُتْرُکْہم وَ دعْہٗ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ء) جب آنحضرتؐ اور ان کے اصحابؓ قلّت تعداد اور بے سروسامانی کے باعث مکّے سے نکالے گئے تو ان کے ہادی سے قرآن نے پیشینگوئی کے طور پر فرمایا:  ان کافروں کو کچھ مدّت فرصت دے.اور اپنے آپ کو چونکہ موسٰیؑ کے مثیل کہا تھا اس لئے آپؐ نے دل بھر کے موسٰیؑ کے اتباع کا حال سنایا (الاعراف:۱۳۸) اور ہم نے انہی لوگوں کو جنہیں وہ ضعیف سمجھتے تھے زمین ( مکّہ) کے مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنایا.اور صاف صاف تاکیدی الفاظ سے مکّے میں یہ آیت پڑھ پڑھ کر سنائی.(قصص:۸۶) بے شک وہ جس نے تجھے قرآن کا پابند بنایا یقینا تجھے اصلی وطن ۰ مکّہ) میں پھر لے جائے گا.یہ پیشینگوئیاں صاف صاف پوری ہو گئیں کہ تھوڑے عرصے میں کل سر زمینِ مکّہ پر اہلِ اسلام کا تسلّط ہو گیا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۹۶،۹۷)

Page 369

سُوْرَۃَ الْاَعْلٰی مَکِّیَّۃٌ  ۲..: پاکی بیان کر.شرک وغیرہ کے عیوب سے اس کی تنزِیْہ کر.آیۃ شریف میں اﷲ تعالی کی تین صفات کا ذکر ہے.سبّوحیت.ربوبیت.علوّشان.اس کے ماتحت پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے لئے تین پیشگوئیاں تھیں.جو بڑی صفائی سے پوری ہوئیں.آپؐ جنون، افتراء وغیرہ عیوب سے پاک تسلیم کئے گئے.آپ کی ربوبیت مکّی زندگی کی ادنیٰ حالت سے یوماً فیوماً بڑھتی گئی اور اعلیٰ ترین مقام پر یہاں تک پہنچائی گئی کہ (نصر:۳) اور( المائدۃ:۴) کی آواز آپ نے سن لی.روئے سُخن پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف ہے.مگر مفہوم کے اعتبار سے ہر صادق راست باز کے لئے عام مخاطبت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۳،۴...: تسویہ.تقدیر.اور ہدایت ان چار باتوں کو علی الترتیب علّت اور معلول کے سلسلہ میں بیان فرما کر حصولِ ترقی کے لئے راہ سمجھائی ہے.روئے سُخن صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے.اور مفہوم کے اعتبار سے ہر ترقی کے خواہاں کے لئے اس میں ہدایت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) آیت میں آریہ کا ردّ ہے جو خلقِ عالم کا منکر ہے اور سمجھتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا.اس مضمون کو بلفظ دیگر قرآن شریف میں یوں ادا فرمایا ہے.(طٰہٰ:۵۱) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء)

Page 370

۵،۶...مَرْعٰی: زمینی گھاس پات سبز. خشک کورڑا کرکٹ.غثاء جمع ہے.اس کا واحد غُثَاۃ آیا کرتا ہے..ہوث سے مشتق ہے.سبزی کے بعد کسی چیز کا سیاہ ہو جانا حُوۃ ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اور آپؐ کے صحابہؓ کے مقابلہ میں کفّار کا جو انجام ہونیوالا تھا.ان دو آیتوں میںدکھلایا ہے.جو خس کم جہاں پاک کے مصداق ہو گئے.روئے سُخن.ابوجہل.عتبہ.شیبہ ربیعہ وغیرہ اس وقت کے کفّار کی طرف ہے.مگر مفہوم کے اعتبار سے مصداق اس کے ہر صادق، راست باز ے معاند ہیں.انہیں کا وجود ان کے کھیت کے لئے کھاد بن جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۷،۸.. .حدیث شریف میں آیا ہے.کہ قرآن شریف جسے یاد ہے.وہ اس کو پڑھتا پڑھاتا رہے.اگر پڑھنے میںڈھیل دے دی گئی تو وہ کُھلے ہوئے اونٹ سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ سینوں سے نکل جاتا ہے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰث والسلام سے ہر سال ایک بار دَور کیا کرتے تھے سالِ وفات آپؐ نے دو بار دَور کیا’’ س‘‘ کے معنے ضرور بالضرور کے ہیں.کے تحت میں موجود قرآن شریف کے علاوہ جس قدر مختلف قِرَأتیں عرب کے لب و لہجہ کی وجہ سے تھیں سب نَسْیًا مَّنْسِیًّا ہو گئیں.جو زیادہ تر مشہور قرأت تھی.وہی متلّور ہی.قرآن شریف کے جمع کے متعلق صحابہ رصی اﷲ عنہ کا فعل تھا.شیعہ معترضین اس پر غور فرماویں.ان آیات میںآنحصرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی نبوّت کے سلسلہ میںبتایا کہ ہم تجھے پڑھائیں گے اور تُو کبھی نہیں بھولے گا.جیسے پہلی آیتوں میں بتایا تھا کہ ہر شے کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے فطرتی قوٰی دئے ہیں جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں.ایسا ہی اس کو اس کے کمالِ مطلوبہ تک پہنچنے کا طریق بتایا ہے پس جس باجُود ہستی کو نورِ نبوّت دیا جاتا ہے.ضرور ہے کہ اس کے قوٰی میں بھی وہی قوّت اور طاقت ہو اور اس بارِ نبوّت کے اٹھانے کے لئے وہ ہمہ تن تیار ہو.اور ہر قسم کی مشکلات جو اس راہ میں پیش آویں

Page 371

ان کے برداشت کرنے کا حوصلہ اور استقلال اس میں موجود ہے.پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ بشارت دی جاتی ہے.کہ تیرے آنے کی جو غرص دنیا میں ہے.اس کے حسبِ حال آپ کو قوٰی دیئے ہیں اور اس کی تکمیل کی جو راہ ہے.وہ آپ کو بتادی جاتی ہے.اگر یہ سوال ہو کہ یہ علوم جو نبوّت کے متعلق ہیں.وہ کس طرح پر محفوظ رہیں گے اور آپ کس طرح پڑھ لیں گے.تو سُنو.اس کے متعلق ہم پیشگوئی کرتے ہیں..ہم تجھ کو پڑھا دیں گے اور تو کبھی نہیں بھلے گا.اب جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے وعدہ اور بشارت دی تھی کہ تو ہمارے پڑھائے ہوئے علوم کبھی نہیں بھلے گا.اس وعدہ کے موافق اﷲ تعالیٰ نے آنحصرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو قرآن مجید پڑھایا اور تمام اسرار و حقائق و معارف ودقائق آپؐ پر منکشف کئے.علومِ اوّلیں و آخرین عطا فرمائے.اور اس پر بھی (طٰہٰ:۱۱۵) کی دعا سکھائی.اس آیت میں یہ بھی بتایا ہے کہ بھولے گا نہیں.مگر  بھی اس کے ساتھ ہے.اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے کیا مراد ہے.سو یاد رکھنا چاہیئے کہ ضروریاتِ دین اور کلام ربّانی جس کا دنیا کو پہنچانا مقصود ہے.وہ تو کبھی آپ کو بھول ہی نہیں سکتا اور نہ ایسا ہو سکتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر امان ہی اُٹھ جاوے.قرآن مجید خود اس کی تشریح دوسری جگہ کرتا ہے.ایک جگہ فرماتا ہے..(بنی اسرائیل: ۸۷) یعنی اگر ہم چاہتے تو جو کچھ تیری طرف وحی کیا ہے.اُسے لے جاتے.مگر ایسا وقوع میں نہیں آیا.اس لئے یا سے یہ مراد نہیں ہو سکتا کہ ایسا وقوع میں بھی آیا.اور اگر آیا بھی.تو دیکھنا یہ ہے.کہ کیا کوئی قرآن کریم میں اس کا پتہ ہے.اس لئے ایک جگہ فرمایا.( الحج:۵۳) یعنی شیطانی القاء کو اﷲ تعالیٰ مٹا دیتا ہے.اور اپنی آیات کو مضبوط کرتا ہے.اور ایک اَور جگہ فرمایا.(الشوری:۲۵) اﷲ تعالیٰ باطل کو محو کر دیتا ہے اور اپنے کلماتِ حق کو حق ثابت کرتا ہے.پس معلوم ہوا سے اگر کوئی مراد ہے تو وہ باطل اور ارادہ و تدابیر شیطانی ہیں.جو آپؐ کی مخالفت کے لئے کی جاتی تھیں.یہ بھی گویا عظیم الشان پیشگوئی ہے.اس کو واقعات سے ملا کر دیکھو کہ کس طرح پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو پڑھایا گیا وہ قائم رہا.اور دنیا اس کو نہیں بھول سکتی.قرآن کریم کی وحی آج تک بھی اسی قوت و شان کے ساتھ زندہ اور محفوظ ہے.پھر اس کو مؤکّد کرنے کے لئے فرمایا( الاعلیٰ:۸) یعنی یہ اس اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہے جو ظاہر اور مخفی تمام امور کا پورا

Page 372

علیم و خبیر ہے.پس یہ بھی آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے.اس کے بعد ایک اور دلیل برنگ پیشگوئی فرمائی کہ .یعنی تیرے ہر ایک کام میں سہولتیں اور آسانیاں پیدا کی جائیں گی.مکّی زندگی جس عُسر اور تنگی کی زندگی تھی وہ تاریخی اوراق سے عیاں ہے لیکن بعد میں آپؐ کے لئے جس قدر سہولتیں پیدا ہوئی ہیں.وہ بھی ایک ظاہر امر ہے.ہر کام میں سہولت اور آسانی پیدا ہو گئی اور اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اس کے بعد پھر ایک پیشگوئی فرمائی.کہ آپ کا کام تذکیر ہے.آپ اس نصیحت کو لوگوں تک پہنچاتے جائیں.یہ خالی از فائدہ نہ ہو گی.ضرور اپنا مفید نتیجہ پیدا کرے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۹..مکّی زندگی آپؐ کی جس قسم کی عُسرت کی تھی.اس کو پیشِ نظر رکھ کر آپؐ کے عروج اور کمال تک نظر کی جاوے.تو آیت کا مفہوم خوب سمجھ میں آ جاتا ہے.علاوہ اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ پیغمبر اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جو دین لائے ہیں.اس کی تعریف آپ نے یوں فرمائی ہے.… یعنی افراط و تفریط اور رہبانیت سے منزّہ سہل اور آسان دین کے ساتھ آپ مبعوث ہوطے.سفر میں قصر ہے.عذر ہو تو تیمّم ہے مسجد نہ ہو تو سب جگہ مسجد ہی مسجدہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) ۱۰..اِنْ بمعنے قَد ہے.جیسے فرمایا(بنی اسرائیل :۱۰۹)آل عمران:۱۶۵) اِن کے معنے ہر جگہ شرطیہ نہیں ہوتے.ان دو مقام کے علاوہ قرآن شریف میں کثرت سے اِن قَد کے معنوں میں آیا ہے.(زخرف:۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سُنے یا نہ سُنے.وعظ و نصیحت کبھی ترک نہیں کرنا چاہیئے.گوش زدہ اثر سے وارد.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء)۱۵ تا ۱۷....

Page 373

.فلاح کے لئے ظاہری و باطنی طہارت پراگندہ خیالات سے دلجمعی.ذکر و نماز و بالآخر دین کو دنیا پر مقدّم کرنا.یہ باتیں ضروری ہیں.حضرت مسیح موعودؑ کا ایک الہام ہے.’’مصفٰے قطرۂ باید کہ تا گوہر شود پیدا‘‘ ( آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ۵۵) ایک ڈاکٹر صاحب نے جو ایم اے ہیں.اعتراض کیا کہ موتٰی تو کیڑے کے لعاب سے پیدا ہوتا ہے.یہ حال کی تحقیقات کا مشاہدہ ہے مگر جب ان کو توجہ دلائی گئی کہ سیپ میں کیڑا کس چیز سے پیدا ہوتا ہے.تو چونکہ ڈاکٹر تھے.خاموش ہو گئے.ایک اور الہام حضرت صاحب کا ہے.جس کو تزکیۂ نفس اور ذکر سے تعلق ہے وہ یہ ہے.اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عُرِضَ عَلٰی اَقْوَامٍ فَمَادَخَلَ فِیْھِمْ وَمَا دَخَلُوْا فِیْہِ اِلَّا قَوْمٌ مُّنْقَطِعُوْنَ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍جولائی ۱۹۱۲ء) سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی آدمی کو اﷲ تعالیٰ نے بنایا ہے.اور اس کے لئے دو قسم کی چیزیں ضروری ہیں.ایک جسم جو ہمیں نظر آتا ہے.اس کے لئے ہوا کی ضرورت ہے.کھانے ، پینے، پہننے، مکان کی ضرورت ہے.کوئی اس کا یار و غمگسار ہو.اس کی صرورت ہے.دور دراز ملکوں کے دریاؤں کے اس پار جانے کی ضرورت ہے.زمیندار کو کھیت کی ضرورت ہے.کیا زمین انسان بنا سکتا ہے.پھر ہل کے لئے لکڑیاں چاہیئں.مضبوط درخت ہو جب جا کر ہل بنتے ہیں.ہل کے لئے لوہے کی ضرورت ہے.پھر اوزار بھی لوہے کے ہوتے ہیں.لوہے کا بھی عجیب کارخانہ ہے.لوہا کانوں سے آتا ہے.جس کے لئے کتنے ہی مزدوروں کی ضرورت ہے.پھر اور کئی قسم کی محنتوں اور مددوں کے بعد ہل بنتا ہے.مگر یہ ہل بھی بیکار ہے جب تک جانور نہ ہوں.پھر جانوروں کے لئے گھاس چارہ وغیرہ کی ضرورت ہے.پھر اس ہل چلانے میں علم.فہم اور عاقبت اندیشی کی ضرورت ہے.چنانچہ انہی کی مدد سے چھوٹے چھوٹے جتنے پیشے بنتے ہیں.وہ عالی شان بنتے ہیں.مثلاً چکّی پیسنا ایک ذلیل کسب تھا.علم کے ذریعہ ایک اعلیٰ پیشہ ہو گیا.یہ جو بڑے بڑے مِلوں کے کارخانے والے ہیں.دراصل چکّی پیسنے کا ہی کسب ہے اور کیا ہے.ایسا ہی گاڑی چلانا.کیا معمولی کسب تھا.گاڑی چلانے والا ہندوستان میں لنگوٹ باندھے ہوتا تھا.اب گاڑی چلانے والے کیسے عظیم الشان لوگ ہیں یہ بھی علم ہی کی برکت ہے.

Page 374

حجام کا پیشہ کیسا ادانیٰ سمجھا جاتا.یہی لوگ مرہم پٹّی کرتے اور ہڈیاں بھی درست کر دیتے.اسی پیشے کو علم کے ذریعے ترقی دیتے دیتے سرجنی تک نوبت پہنچ گئی ہے.اور سرجن بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے.مَیں نے تاجروں پر وہ وقت بھی دیکھا ہے.کہ سر پر بوجھ اٹھائے وہ در بدر پھر رہے ہیں.رات کسی مسجد میں کاٹتے ہیں.مگر اب تو تجارت والوں کے علیحدہ جہاز چلتے ہی.وہ حکومت بھی دیکھی ہے کہ دس روپے لینے ہیں اور ایک زمیندار سے دھینگا مُشتی ہو رہی ہے یا اب منی آرڈر کے ذریعہ مالیہ ادا کرتے ہیں.سنسان ویران جنگوں کو آباد کر دیا گیا ہے.یہ بھی علم ہی کی برکت ہے کہ اس سے ادنیٰ چیز اعلیٰ ہو جاتی ہے.لیکن اﷲتعالیٰ نے اس جسم کے علاوہ کچھ اور بھی عطا کیا ہے.یہ آنکھیں نہیں دیکھتیں.جب تک اندر آنکھ نہ ہو.زبان نہیں بولتی جب تک اندر زبان نہ ہو کان نہیں سنتے جب تک اندر کان نہ ہوں.مگر یہ تو کافر کو بھی حاصل ہے.اس کے علاوہ ایک اور آنکھ و زبان و کان بھی ہے جو مومن کو دئے جاتے ہیں.یہ وہ آنکھ ہے.جس سے انسان حق و باطل میں تمیز کر سکتا ہے.حق و باطل کا شنوا ہو سکتا ہے.حق و باطل کا اظہار کر سکتا ہے.اگر انسان حق کا گویا وشنوا و بینا نہ ہو تو صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ کا فتوٰی لگتا ہے.اﷲ جلشانہٗ جس کو آنکھ دیتا ہے.وہ ایسی آنکھ ہوتی ہے.کہ اس سے خدا کی رضا کی راہوں کو دیکھ لیتا ہے.پھر ایک آنکھ اس سے بھی تیز ہے.جس سے مومن اﷲ کی راہ پر علی وجہ البصیرت چلتے ہیں پھر اس سے بھی زیادہ تیز انکھ جو اولوالعزم رسولوں کو دی جاتی ہے.ان حواس کے متعلق اﷲ اپنے پاک کلام میں وعظ کرتا ہے.دیکھو آج ۱؎ لوگوں نے کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا ہے.غسل کیا ہے.لباس حتی المقدور عمدہ و نیا پہنا ہے.خوشبو لگائی ہے.پگڑی سنوار کر باندھی ہے.یہ سب کچھ کیوں کیا.صرف اس لئے ہم باہر بے عیب ہو کر نکلیں.بہت سے گھر ایسے ہوں گے جہاں بیوی بچوں میں اسی لئے جھگڑا بھی پڑا ہو گا.اور اس جھگڑے کی اصل بناء یہی ہے کہ بے عیب بن کر باہر نکلیں.جس طرح فطرت کا یہ تقاض اہے.ں اور انسان اسے بہر حال پورا کرتا ہے.اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہارا مربّی، میں تمہارا محسن ہوں جیسے تم نے اپنے جسم کو مطفٰی و مطہّر بے عیب بنا کر نکلنے کی کوشش کی ہے.ویسے ہی تو اپنے ربّ کے نام کی بھی تسبیح کرتے ہوئے انکوا اور دنیا والوں پر اس کا

Page 375

بے عیب ہونا ظاہر کرو.ادنیٰ مرتبہ تو یہ ہے کہ مومن اپنی زبان سے کہے.سَبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ پھر وہ کلمات جن سے میں نے اپنے خطبہ کی ابتداء کی اَﷲُ اَکْبَرُ اَﷲُ اَکْبَرُ.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَ اﷲ اَکْبَرُ وَلِلّٰہَ الْحَمْدُ.اس میں بھی اس کی کبریائی کا بیان ہے.پھر اس سے ایک اعلیٰ مرتبہ ہے.وہ یہ کہ تسبیح دل سے ہو.کیونکہ یہ جناب الہٰی کے قرب کا موجب ہے.کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ عَلَی الِلْسَانِ ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْنَران سُبْحَانَ اﷲِ اَلْحَمْدُ ۱؎ جمعہ کا دن لِلّٰہِ اور فرماتا ہے کہ (الحج:۳۸) پس ضرور ہے کہ یہ تسبیح جو کریں تو دل کو مصفّا کر کے کریں.تیسرا درجہ یہ ہے کہ اﷲ کے فضل پر ناراض نہ ہوں اور یہ یقین کریں کہ جو کچھ خدا کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے.اور جو کچھ کرے گا وہ بھی ہماری بھلائی و بہتری کے لئے کرے گا.ہمارے مربّی و محسن پر اﷲ رحم فرمائے کہ اس نے میرے کانوں میں بھی آواز پہنچائی اور مجھے مشق کے لئے یہ شعر لکھ دیا.ع سر نوشت ماز دست خود نوشت خوشنویس است و نخواہد بد نوشت پس ہمیں چاہیئے کہ اس اﷲ کو جس کی ذات اعلیٰ اور تمام قسم کے نقصوں اور عیبوں سے بالاتر ہے ہے.رنج و راحت.عُسر و یُسر میں بے عیب یقین کریںاَلشَّرُّ اِلَیْکَ وَ الْخَیْرُ کُلُّ ہٗ فِیْ یَدَیْکَ.میں دیکھتا ہوں.کہ ایک جمعہ میں مَیں نے اپنی طرف سے الوداعی خطبہ پڑھا کہ میری حالت ایسی تھی کہ تھوک کے ساتھ بہت خون آتا.اندر ایسا جل گیا تھا کہ خاکستری دست آتے اور میں رات کو جب سوتا تو یہی سمجھتا کہ بس اب رخصت.اَسْلَمْتُ نَفْسِیْ اِلَیْکَ.گھر والے بعض وقت ہمدردی سے مجھے ملامت کرتے کہ تم پرہیز کرتے.بہت وعظ کرتے ہو.سبق بدستور پڑھائے جاتے ہو.تو مَیں کہتا.بیشک جس قدر نقص و عیب ہیں میری طرف منسوب کر لو.میرا مولیٰ تو جو کجھ کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے.بھلا ہی کرتا ہے.سچ ہے وَ الْخَیْرُ کُلَّہٗ فِیْ یَدَیْکَ.غرص تم زبان سے سبحان اﷲ کا ورد کرو.تو اس کے ساتھ دل سے بھی ایسا اعتقاد کرو.اور اپنے دل کو تمام قسم کے گندے خیالات سے پاک کردو.اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ مالک ہماری اصلاح کے لئے ایسا کرتا ہے.پھر اس سے آگے اﷲ توفیق دے تو اﷲ کے اسماء پر اﷲ کے صفات و افعال پر.اﷲ کی کتاب

Page 376

پر.اﷲ کے رسولؐ پر جو لوگ اعتراص کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں.ان کو دُور کرو.اور ان کا پاک ہونا بیان کرو.ہمارے ملک میں اس قسم کے اعتراضوں کی آزادی حضرت جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں سروع ہوئی ہے کیونکہ اس کے دربار میں وسعت خیالات والے لوگ پیدا ہو گئے.اس آزادی سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور مطاعن کا دروازہ کھول دیا.ان اعتراضوں کو دور کرنے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کوشش کی ہے.چنانچہ شیک المشائخ حضرت شیخ احمد سر ہندی ( رحمث اﷲ علیہ) نے بھی بہت کوشش کی ہے.جلال الدین اکبر نے جب صدر جہاں کو لکھا کہ چار عالم بھیجیں جو ہمارے سامنے ان اعتراضوں کے جواب دیا کریں.تو یہ بات حصرت مجدّد صاحب کے کان میں بھی پہنچی.انہوں نے صدر کو خط لکھا کہ آپ مہربانی سے کوشس کریں کہ بادشاہ کے صرف ایک ہی عالم جائے.چار نہ ہوں.خواہ کسی مذہب کا ہو.مگر ہو ایک ہی.کیونکہ اگر چار جائیں گے تو ہر ایک یہی چاہے گا کہ میں بادشاہ کا قرب حاصل کروں اور باقی تین کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا.اگر چاروں گئے تو بجائے اس کے کہ دین کا تذکرہ ہو ایک دوسرے کو ردّ کر کے چاروں ذلیل ہو جائیں گے.اور یہ لوگ اپنی بات کی پچ میں بادشاہ کو مُلحِد کر دیں گے.یہ تو اس وقت کا ذکر ہے.جب اسلام کی سلطنت تھی.اسلام کے متوالے دنیا میں موجود تھے.اس وقت کا بیج بویا ہوا اب تین سو برس کے بعد ایک درخت بن گیا ہے.کیسے دُکھ کا زمانہ ہے.کہ نبی کریمؐ کے سوانگ ڈراموں میں بنائے جاتے ہیں.عجیب عجیب رنگوں میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں.جس سے متائثر ہو کر بعض لڑکوں نے غنیمت کی آیت پر لکھ دیا.محمدؐ لٹیرا تھا.اگرچہ اس کا جواب مجھے دیا گیا.کہ نقل اعتراض تھا مگر یہ داغ مٹتا نہیں.اور مَیں سربان القضاء کا مسئلہ خوب جانتا ہوں.اسی کے ماتحت اس کو لا کر اس کا ذکر کرتا ہوں.پس میری سمجھ میں یہ وقت ہے کہ جہاں تک تم میں کسی سے ہو سکتے.اﷲ کے اسماء صفات افعال اﷲ کی کتاب.اﷲ کے رسولؐ.اﷲ کے رسولؐ کے نواّب و خلفاء کی پاکیزگی بیان کرے.اور ان پر جو اعتراض ہوتے ہیں.انہیں بقدر اپنی طاقت کے سلامت روی وا من پسندی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں.یہ مت گمان کرو کہ ہم ادنیٰ ہیں.وہ طاقت رکھتا ہے.کہ تمہیں ادنیٰ سے اعلیٰ بنا دے.چنانچہ وہ فرماتا ہے.. (الاعلیٰ:۳،۴) جو ان پڑھ ہیں.انہیں کم از کم یہی چاہیئے کہ وہ اپنے چال و چلن سے خدا کی تنزیہہ کریں یعنی اپنے طرزِ عمل سے دکھائیں کہ قدّوس خدا کے بندے.پاک کتاب کے ماننے والے.پاک رسولؐ کے متبع اور اس کے

Page 377

خلفاء اور پھر خصوصًا اس عظیم الشّان مجدّد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں.(بدر ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۸،۹) ہر شخص پر جو قرآن پر ایمان لایا.جس نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مانا.جو اﷲ پر ایمان لایا.اس کی کتابوں پر ایمان لایا.فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ کے کسی نام پر کوئی اعتراض نہ کرنے پائے.اگر کرے تو اس کا ذبّ کرے.اس لئے ارشاد ہوتا ہے.سَبِّحْ.جناب الہٰی کی تنزیہہ کر، اس کی خوبیاں، اس کے محامد بیان کر.میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے.جب جنابِ الہٰی ، اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں.اور وہ سزا اسی کی شامتِ اعمال سے ہی ہوتی ہے.جیسے فرمایا (الشورٰی:۳۱) تو وہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں مثلاً کسی کا کوئی پیارے سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الرّاحمین کو ظالم کہتے ہیں.بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں.اور اگر بارش زیادہ ہو تو تب بھی خدا تعالیف کی ہکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے بُرا بھلا کہتے ہیں.اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اﷲ تعالیف کی تنزیہ و تقدیس و تسبیح کرے.آپ کے کسی اسم پر کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے.اب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں کوئی بُرا کہے یا تمہارے ماں باپ یا بھائی بہن یا محبوب کو سخت سُست کہہ دے تو تمہیں بڑا بڑا جوش پیدا ہوتا ہے.یہاں تک کہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہو.لیکن.جس وقت اﷲ کے کسی فعل پر ( کہ وہ بھی اس کے اسم کا نتیجہ ہے) کوئی نادان یا شریر اعتراض کرتا ہے تو تم کہتے ہو.جانے دو.کافر ہے.بکتا ہے.اس وقت تمہیں جوش نہیں حالانکہ جن کے لئے تم نے اتنا جوش دکھایا ان میں تو کچھ نہ کچھ نقص یا عیب و قصور ضرور ہو گا.مگر اﷲ تو ہر بُرائی سے منزّہ، ہر حمد سے محمود ہے ہر وقت تمہاری ربوبیت کرتا ہے.اب جو اس کے اسماء کے لئے اپنے تیئں سینہ سپر نہیں کرتا وہ نمک حرام ہی ہے اور کیا؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوئی پڑھے ہوئے ہیں.جو لوگوں سے مباحثے کرتے پھریں؟ تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی ان کے ماں باپ یا بھائی بہن کو یا کسی دوست کو یا خود ان کو بُرا کہہ دے تو ناخواندگی یاد نہیں رہتی.اور سنتے ہی آگ ہو جاتے ہیں.اور پھر جس طریق سے ممکن ہو.اس کا دفاع کرتے ہیں.مگر جنابِ الہٰی سے غافل ہیں.اسی طرح خدا کے برگزیدوں پر طعن کرنا دراصل خدا تعالیٰ کی برگزیدگی پر طعن رکھنا ہے.اس کے لئے بھی مومنوں کو غیرت چاہیئے.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے.شیعہ محلہ میں رہتے ہیں.

Page 378

ان کے تبرّے سُنتے سُنتے کچھ ایسے بے غیرت ہو جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں کہ ایسے صحابہ کو بُرا کہنا معمولی بات ہے.حالانکہ ان کی بُرائی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوّت قدسیہ پر حملہ ہے جس نے ان کو تیار کیا.اسی طرح مشنری عیسائی بڑی بد اخلاق قوم ہے.کوئی خلق ان میں ہے ہی نہیں ایک شخص نے کہا.ان کی تعلیم میں تو اخلاق ہے اور ایک نے کہا ان میں بڑا خلق ہے.ایسا کہنے والے نادان ہیں ان کے ہاں ایک عقیدہ ہے.نبی معصوم کا جس کے یہ معنے ہیں.ایک ہی شخص دنیا میں ہر عیب سے پاک ہے.باقی آدم سے لے کر اس وقت کے کل انسان گنہگار اور بدکار ہیں.ان لوگوں نے یہاں تک شوخی سے کام لیا ہے کہ حصرت آدمؑ کے عیوب بیان کئے ہیں.پھر حضرت نوحؑ کے، حضرت ابراہیمؑ کے، حصرت موسٰیؑ کے، الغرض جس قدر انبیاء اور راست باز پاک انسان گزرے ہیں ان کے ذمّہ چند عیوب لگائے ہیں.پھر ہماری سرکار احمد مختار صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تو ان کو خاص نقار ہے اور دھت ہے ان کو گالیاں دینے کی.باوجود اس گندہ دہنی کے پھر بھی ایسے لوگوں کو کوئی بُرے اخلاق والا کہتا ہے تو اس کی غیرتِ دینی پر افسوس.ایک شخص تماہرے پاس آتا ہے اور تم کو آ کر کہتا ہے.میاں تم برے اچھیت بڑے ایمان دار.آیئے تشریف رکھئے، باپ تمہار برا ڈوم، بھڑوا، کنجرگ بڑا حرام زادہ، سؤر، ڈاکو، بدمعاش تھا.تم برے اچھے آدمی ہو اور ساتھ ساتھ خاطرداری کرتا جائے تو کیا تم اس کے اخلاق کی تعریف کرو گے.تمام جہاں کے ہادیوں کو جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے.اور میرا تو اعتقاد ہے کہ ان کو کوئی گن نہیں سکتا.بدکار گنہگار کہنے والا ایک شخص کی مزوّرانہ خاطرداری سے خوش اخلاق کہلا سکتا ہے.اﷲ تعالیٰ کے برگزیدوں کی تو ہتک کرتے ہیں اور تم ان کی نرمی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرو حد درجہ کی بے غیرتی ہے.یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ شریعت کی کتابیں لعنت ہیں.پُرانی چادر ہیں.ان کتابوں کو جو حضرت رب العزّت سے خلقت کی ہدایت کے لئے آئیں لعنت کہنا کسی خوش اخلاق کا کام ہو سکتا ہے.دیکھو گلاتیوں کا خط کہ اس میں شریعت کو لعنت لکھتا ہے.پھر خدا سے بھی نہیں ٹلے.کہتے ہیں، اس کا بیٹا ہے .(مریم:۹۱.۹۲) پھر اس بیٹے پر اس غضب کی توجہ ہے کہ کہ اپنی دعائیں بھی اسی سے مانگتے ہیں.بیٹے پر ایمان لانے کے بُدوں کسی کو نجات نہیں.خدا کسی کو علم نہیں بخش سکتا.یہ تو روہ القدس کا کام ہے نہ اﷲ تعالیٰ کا.غرض اس درجہ بداخلاقی سے کام لینے ولاوں کو خوس خُلق کہنا محض اس بناء پر کہ جب کوئی ان کے

Page 379

پاس گیا تو مشنری نے انجیل دیدی.کسی کو روپیہ دیدیا، کسی کی دعوت کر دی.حد درجہ کی بے غیرتی ہے ان ظالموں نے ہمارے سب ہادیوں کو بُرا بھلا کہا.تمام کتب الہٰیہ کو بُرا بھلا کہا.جنابِ الہٰی کے اسماء و صفات کو بُرا کہا.اسے سَمِیْعُ الدُّعَاء.علم دینے والا نہ سمجھا.پھر اخلاق والے بنے ہیں.توبہ! توبہ! ان کے کفّارہ کا اُلّو ہی سیدھا نہیں ہوتا.جب تک یہ تمام جہان کے راست بازوں کو اور تمام انسانوں کو گنہگار.بدکار اور لعنتی نہ کہہ لیں.ان میں خوش اخلاقی کہاں سے آ گئی.ان حالات میں مومن کا فرض ہے کہ جناب الہٰی میں تسبیح کرے.اس کے اسماء کی تسبیح میں کوشاں رہے.ان کے انتخاب شدہ بندوں کی تسبیح کرے.ان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں.جو عیوب ان کی طرف شریر منسوب کرتے ہیں.ان کا دفاع و ذَبّ کرے اور سمجھائے کہ جنہیں میرا ربّ برگزیدہ کرے ، وہ بدکار اور لعنتی نہیں ہوتے.ان کی تسبیح خدا کی تسبیح ہے.یہ معنے ہیںسَبِّحْ اِسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی کے.تمہارا خدا تو ایسا ہے کہ اس کی مخلوقات سے اس کی تسبیح و تقدیس عیاں ہے.اُس نے خَلق کیا اور پھر تمہارے اندر نسلِ انسانی کو ایسا ٹھیک کیا.کہ سب کچھ اس کے ماتحت کر دیا.آگ، پانی، ہوا سب عناصر کو تمہارے قابو میں کر دیا.پھر چونکہ سارے جہان نے اس سے کام لینا تھا اس لئے ہر مخلوق کو ایک ضابطہ و قانون کے اندر رکھا تاکہ انسان اس سے فائدہ اُٹھ سکے اور خدمت لے سکے.مثلاً یہ عصا ہے میں اس سے ٹیک لگاتا ہوں.یوں اگر بجائے ٹیک کا کام دینے کے یہ یکدم چھوٹا ہو جائے یا مجھے دبائے یا اپنی طرف کھینچ لے تو میرے کام نہیں آسکتا.پس اس نے اپنی حکمتِ بالغہ سے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرّر کیا یعنی جس ترتیب سے وہ چیز مفید و بابرکت ہو سکتی ہے.اُس ترتیب سے اُسے بنا دیا اور پھر انسانوں کو اس سے کام لینا سکھایا وَ الَّذِیْ اَخْرَجَ الْمَرْعٰی فَجَعَلَہٗ غُثَآئً احْرٰی پھر ان چیزوں پر غور کریں تو ان کا ایک حصّہ ردّی اور پھینک دینے کے قابل بھی ہوتا ہے یا ہو جاتا ہے.مثلاً کھیتی ہے پہلے پھل دیتی ہے.لوگ مزے سے کھاتے ہیں.مگر اس کا ایک حصّہ جلا دینے کے قابل ہوتا ہے.اسی طرح انسانوں میں سے جو لوگ اﷲ تعالیف کی نافرمانی کرتے ہیں اور انبیاء اور ان کی پاک تعلیم سے رُو گردانی کرتے ہیں وہ آگ میں جھونک دئے جائیں گے.ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ پڑھاتا ہے اور وہ یاد رکھتا ہے جس قدر اﷲ چاہے اس میں سے بھول بھی جاتا ہے.غرض اس نے اپنی پاک راہوں کو دکھانے کے لئے اپنی تعلیم بھیج دی ہے اور بتا دیا ہے کہ نیکی سیکھنے اور اس پر چلنے کا طریق یہ ہے.

Page 380

اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَا یَخْفٰی کہ اﷲ تعالیٰ کو دانائے آشکار ا غیب جانے.دیکھو مَیں اس مقام پر کھڑا ہوں.یہ مقام چاہتا ہے کہ میں گند نہ بولوں.بدی کی راہ نہ بتاؤں.نیک باتیں جو مجھے آئیں تمہیں سنادوں.ہاں ایک امر مخفی بھی ہے.وہ یہ کہ میںاﷲتعالیٰ کے لئے کھڑا ہوں، یاریاء، سمعت و حرص کے لئے جیسا کہ کٍمیر میں واعظ کرتے ہیں.گھنٹوں منبر پر کھڑے رہتے ہیں.ایک شخص آکر کہتا ہے.حضرت اب بس کرو.جمعہ کا وقت تنگ ہو گیا.وہ کہتے ہیں بس کیا خاک کریں.ابھی تو دو آنے کے پیسے بھی نہیں ہوئے.تب ایک شخص اٹھتا ہے اور چندہ کرتا ہے.اور اس طرح اس سے رہائی حاصل کرتے ہیں.اسی طرح تو کو کیا خبر میرے دل میں کیا درد ہے، اور کتنی تڑپ ہے.دوسری طرف تم یہاں جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دلوںکی کیا خبر کہ ان میں کیا ہے کیونکہ آخر تمہی میں سے میری مخالفتیں کرتے ہیں.میری ہی نہیں.میرے گھر تک کی بھی.گونادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں.سنبھل کر کام کرو ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جائے.ایک جگہ اخٰٰیکو سر ّ کے مقابلہ میں رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.یَعْلَمُ السِّرَّ وَ اَخْفٰی وہاں منشاء باری تعالیٰ یہ ہے کہ مَیں ان خیالات کو بھی جانتا ہوں جو آج سے سال یا دو سال یا اس سے زیادہ مدّت بعد تمہارے اندر پیدا ہوں گے اور اب خود تمہیں بھی معلوم نہیں.ایسے نگران علیم و خبیر.لطیف و بصیر خدا سے ڈر جاؤ اور نافرمانی نہ کرو.فَذَکِّرْ اَنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں اور اﷲ فرماتا ہے.نصیحت کرتے رہو.نصیحت ضرور سودمند ہوتی ہے میرا جی چاہتا ہے کہ تم باہر والوں کے لئے نمونہ بنو.تمہارا لین دین.تمہاری گفتار و رفتار.تمہارا چل چلن ( تمہارا سرّ و علن) تمہارا اٹھنا بیٹھنا.تمہارا کھانا پینا ایسا ہو کہ دوسرے لوگ بطور اسوہ حسنہ اسے قرار دیں میں افسوس کرتا ہوں کہ یہاں بدمعاملگی بھی ہوتی ہے.بدزبانی بھی ہوتی ہے.بد لگامی بھی ہوتی ہے اور اس سے مجھے رنج پہنچتا ہے.تم اﷲ کو علیم و خبیر و بصیر مان کر اپنے آپ کو بدیوں سے روکو.یہ بھی ایک قسم کی تسبیح ہے.تم ایسا کرو گے تو دوسرے لوگوں کا ایمان بھی بڑھے گا.اﷲ توفیق دے.(الفضل ۲۳؍جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۲.۱۳)

Page 381

سُوْرَۃَ الْغَاشِیَۃِ مَکِّیَّۃٌ  . اکثر اہل تفاسیر نے قیامت کے حوادث مراد لئے ہیں.یہ صحیح بات ہے کہ قیامت کے حوادث اپنے ہولناک ہونے کی وجہ سے غاشیات ہی ہوں گے.کہ انسانوں کے ہوش و حواس عقل و فکر سب کچھ مارے جائیں گے.مگر قرآن کریم کے اسلوب اور اس کے لٹریچر پر نظر کرنے سے پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ کَذَا وَ کَذَا آیا ہے وہاں دنیوی عقوبات و اُخروی عقوبات کے ساتھ پیو ستہ بلکہ مقدّم رکھے گئے ہیں جیسا کہ ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْجُنُوْدِ فِرْعَوْنن وَ ثَمُوْدَ ( بروج:۱۸) ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی وغیرہ آیات سے ثابت ہے.اسی طرح سے جیسا کہ انبیاء سابقین اور ان کی اُمم کے ساتھ جو معاملات ہوئے.ان کے ہم رنگ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت میں بھی کوئی عظیم الشان عقوبت آسمانی آنے والی تھی.اس کو  میں ذکر فرمایا.عقوبتیں تو کفّار پر بہت سی آئیں.مگر الفاظ قرآنی کا تبتّع کرنے سے معلوم ہوتا ہے.کہ وہ حدیث الغاشیہ قحط شدید تھا.جو سات سال تک بزمانہ نبویؐ واقع ہوا تھا.ایک روایت میں آیا ہے کہ آپؐ نے اَللّٰھممَّ اَعِنِّیْ عَلَیْھِمْ بِسَبْعٍ کَسَبْعِ یُوْسُفَ کے الفاظ سے دُعا کی تھی.اس دعا کا اثر یہ ہوا.کہ وہ قحط شدید پڑا جس کا ذکر سورۃ دکان میں ان الفاظ سے ہے..(الدخان:۱۱.۱۲) اس سورۃ شریف کی پہلی آیت میں  ہے اور سورۃ الدّخان میں یَغْشَی النَّاسَ ھٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۳،۴...جب قحط شدید ہوتا ہے تو فاقوں کی وجہ سے چہرے بگڑ جاتے ہیں.ذلّت اور مسنکنت چہروں

Page 382

پر جم جاتی ہے..لوگ یوں ہو جاتے ہیں کہ کھیتیوں زراعتوں کے پیچھے محنت کرتے تھک کر چُور ہو جاتے ہیں.مگر پیداوار کچھ نہیں ہوتی.محنت کرنا اور تھکنایہی پلّے پڑتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۵،۶...عَذَاب الجُوع کی آگ سے شکم تنور ہو جاتا ہے.سرد پانی کہاں جو پینے کو ملے.کہیں دور دراز جگہ سے یا عمیق در عمیق چاہ سے لایا جاوے گا.اٰنِیَۃٍ لفظ أَنَی بمعنی تاخیر سے مشتق ہے.دوسری جگہ فرمایا.(الرحمان:۴۵) پہاڑوں میں جہاں سے چشمے نکلتے.بعض چشموں کا پانی نہایت سخت گرم ہوتا ہے.پیاسے کے لئے جس کی جان جاتی ہو.یہی گرم پانی غنیمت سمجھا جاتا ہے.تشنہ را دل نخواہد آبِ زلال (ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۷.. ایک قسم کی گھاس ہے.جب تک پانی کی وجہ سے ہری رہتی ہے شبرقؔ کہلاتی ہے مگر جب سوکھ جاتی ہے تو اسی کو ضریع کہتے ہیں.کانٹے دار اور بدبودار تلخ ہوتی ہے.تصرّع اسی سے مستق ہے.سورث المومنوں رکوع چہارم پارہ نمبر ۱۸ میں فرمایا ہے کہ قحط شدید میں صریع کو کھا کر بھی تصرّع نہیں کیا.کَمَا قَالَ اﷲُ تَعَالیٰ (المومنوں:۷۷) اس آیت شریف کا نزول مفسرّین نے قحطِ شدید کے وقوع کے بارے ہی میں لکھا ہے جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے وقت میں ہوا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۸..قحط کے مارے ہؤوں میں موٹاپا کہاں باقی رہتا ہے.جسم ایک پنجرے کی طرح ڈراؤنی شکل کا ہو جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء)

Page 383

۹..آیت نمبر۸ سے نمبر۱۶ تک مومنوں کے خوش و خرّم اور متنّعم رہنے کا بیان ہے.جن لوگوں کے شامِل حال خداوند کریم کا فضل ہوتا ہے.ان کے لئے ضرر کے سامان بھی ضرررساں نہیں ہوتے.ہمارے ملک میں بڑے بڑے شدید قحط پڑے مگر جو فاتح قومیں تھیں.قحط میں بھی وہ متنّعم ہی رہیں.ع مُنْعِم بکوہ و دست و بیابان غریب نیست ہر جاکہ رفت خیمہ رد و بارگاہ ساخت یہ ظاہر امر ہے کہ مکّہ میں یہ آیات آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر نازل ہو رہی ہیں.اور اسی حالت میں اہلِ مکّہ کو بتایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جن کو آج تم ایک بے کس اور بے بس یقین کرتے ہو اور فی الواقعہ آج بھی وہ ایسا ہی ہے بھی.کیونکہ کوئی جتّھہ اور جمیعت اس کے ساتھ نہیں اور تم سمجھتے ہو کہ بہت جلد اسے نا بود کر دو گے.مگر یاد رکھو کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی قوت اور شوکت کا دائرہ وسیع ہو گا اور تم سب اس کے زیر اقتدار ہو گے.مگر یاد رکھو کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی قوت اور شوکت کا دائرہ وسیع ہو گا اور تم سب اس کے زیرِ اقتدار ہو گے.اس وقت مخالفین عجیب گھبراہٹ کی حالت میں ہوں گے اور وہ ذلیل ہوں گے.ایک آگ میں وہ داخل کئے جائیں گے.آگ سے مراد ناربالحرب بھی ہوتی ہے.اور جہنم بھی.پس دنیا کی جنگ میں ان کی ناکامی اور نامرادی نارِجہنم کے لئے دلیل ہے.وہ اس مقابلہ میں ہا ر جائیں گے.ان کو کھولتا ہوا پانی اور خاردار جھاڑیاں جن کو چھتّر تھوہر کہتے ہیں.کھانے کو ملیں گی.اس کا ثبوت دنیا میں یوں ملتا ہے کہ آتشک کے مریض کے لئے تھوہر کے دودھ میں گولیاں بنا کر دی جاتی ہیں اوپر سے گرم گرام پانی پلایا جاتا ہے.غرض دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے.اسی طرح پر آخرت میں بھی ہو گا.(الفرقان:۶۶).آمین.ان کے بالمقابل ایک گروہ خوش و خرم ہو گا اور اپنی تدابیر کے پورے ہونے اور مساعی میں خدا کے فضل سے کامیاب ہونے پر شاداں و فرحاں ہو گا.ان کے لئے باعات عای مرتبہ ہوں گے.جن میں لغویات کو دخل نہیں.اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے اور تخت ہوں گے.گوزے آبخورے قرینہ سے رکھے ہوں گے قالین اور تکیے لگے اور بچھے ہوئے.غرض یہ تمام انعامات اس دنیا میں صحابہؓ کو ملے اور انہوں نے ایسے باغات حاصل کئے.ان تمام امور پر پہلے مختلف جگہ ہم نے بحث کر دی ہے.اب زیادہ تفصیل اور توضیح کی ضرورت نہیں.المختصر مکّہ معظمہ میں منکرین کو عذاب کی اور موافقین و متبعین کو کامیابی اور جنّاتِ علیہ کی خوشخبری برنگ پیشگوئی دی جاتی ہے.اور بتایا ہے کہ قیامت میں بھی ایسا ہی ہو گا.دنیا میں اس طرح پر ہوا.اور یہ قیامت کا ثبوت ٹھہرا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء)

Page 384

۱۸..اس آیت شریف اور اس کے مابعد کی اور تین آیتوں میں صبر اور استقلال اور مصائب کے وقت یک رنگی کا بیان ہے.سب سے پہلے اونٹ کا ذکر فرمایا کہ کس طرح وہ بارکش اور نافع للناس وجود ہے.مولانا رومی فرماتے ہیں: ؎ برخواں اَفَلَایَنْظرون قدرت مابینی بکرہ بشتر بنگر تاصنع خدا بینی در خار خوری قانع، دربار کشی راضی ایں وصف اگر جوئی در اہل صفا بینی علیٰ ھذا القیاس نزولِ بلا کے وقت اہلِ صفا آسمان کی طرح مرفوع الاحوال پہاڑوں کی طرح مستقل المزاج اور زمین کی کسادگی کی طرح وسیع الحوصلہ ہوتے ہیں.بعض کوتاہ نظر معترضوں نے ابلؔ سماءؔ جبالؔ اور ارضؔ ان چار مناظر کو ایک جگہ مذکور دیکھ کر اعتراض کیا ہے کہ کلام بے ربط ہے.کوئی بات آسمان کی ہے تو کوئی زمین کی.ایک جانور ہے تو دوسرا پہاڑ.یہ اعتراض قلّت تدبّر اور سوء فہم کی وجہ سے ہے.ورنہ مناسبت ایسی تام اور ابلغ ہے کہ نظارۂ قدرت میں اس سے بڑھ کر جامع الصّفات چیزیں دوسری ہیں نہیں جو فہمائش کے لئے پیش کی جائیں.۲۲..میں ایک دفعہ قرآن پڑھ رہا تھا.کسی تذکرے میں بات پر بات چلی.تمام بھلائیوں اور برائیوں پر جب ہمارے فطری قوٰی گواہی دیتے ہیں تو انبیاء و رُسل کی ضرورت کیا تھی.اُس وقت یہ آیت سامنے کھڑی پُکار رہی تھی.تم نہیں سمجھتے.تمہارے نبی کے حق میں الہٰی کلام اور میرا متکلّم کیا کہتا ہے. سو تو سمجھا.تیرا کام یہی سمجھانا ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۹) ۲۳..مُصَیْطِرٍس اور ص دونوں سے لکھا جاتا ہے.اس کے معنے جابر کے ہیں.نبی کا کام صرف تبلیغ کر دینا ہے.جو نہ مانے.ان پر نبی جبر نہیں کیا کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء)

Page 385

۲۵..اس آیت شریفہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط کے عذاب کے علاوہ کوئی اور بھی عذاب ہے جس کا نام عذابِ اکبر رکھا ہے.دوسری جگہ فرمایا.(السجدہ:۲۲)سورۃ الغاشیہ میں ایسے الفاظ لائے گئے ہیں.جیسے ضریع.لایسمن.عاملۃ.ناصبۃ وغیرہ قحط ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں حدیث الغاشیہ سے بطور معارف کوئی اور بھی قسم عذاب کی مراد ہو تو ممکن ہے.کیونکہ کلامِ الہٰی ذوالمعارف ہوتا ہے تاوقتیکہ تصاد نہ ہو.سارے ہی معارف صحیح سمجھے جا سکتے ہیں.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کو اکثر نماز جمعہ اور عیدین میں ان سورتوں کے ذوالمعارف ہونے کی وجہ سے تلاوت فرماتے تھے.نمازِ عشاء میں بھی ان دو سورتوں کا کثرت سے پڑھنا آپؐ کا ثابت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء)

Page 386

سُوْرَۃَ الْفَجْرِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۶......صبح کا وقت.دس راتیں.جفت اور طاق اور رات جبکہ رواں ہو پڑے.ان پانچ اوقات متبرکہ و محضوصہ کو واسطے اظہار ان کی عظمت کے بطور قَسمَ کے یاد فرمایا ہے.ان پانچ اوقات متبرکہ و مخصوصہ کے تعیّن میں بہت سے قول بیان ہوئے ہیں.جفت اور طاق کے تعین میں وقت کے علاوہ کوئی اور دوسری شئے بھی مراد سمجھی گئی ہے.ان سب اقوال میں زیادہ تر اقرب بفہم جو بات معلوم ہوتی ہے.وہ یہ ہے کہ چونکہ ان آیات کے مابعد ساتھ ہی ذکر بعض بڑی بڑی قوموں مثلاً عاد ارم وغیرہ کی ہلاکتوں کا نبیوں کے مقابلہ کی وجہ سے بیان ہوا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ سب سے بڑا ہتھیار پیغمبروں پیغمبروں کے ہاتھ میں دشمنوں کے مقابلہ کے وقت دعا ہی کا ہوتا ہے.دعاؤں کی قبولیت کے لئے بعض اوقات ِ مخصوصہ و مقامات متبرکہ خاص مناسبت رکھتے ہیں.اس لئے ایک شق ان میں سے جو اوقات مخصوصہ و متبرکہ کی ہے.ذکر کی جاتی ہے.سب سے زیادہ متبرک ایم و لیالی عشرہ اواخر رمضان المبارک ہیں.۱.صبح کو بیسویں کی اعتکاف میں داخل ہوتے ہیں اور یہی مسنون ہے.اگر چاند تیسویں کا ہو تو دس راتوں میں اعتکاف ختم ہو جاتا ہے.اور اگر چاند انتیس کا ہو تو دنوں کی تعداد جفت اور راتیں وتر ہو جاتی ہیں.بعد ختم عشرہ آخر رمضان المبارک کے شوّال کی پہلی رات لیلۃ الجائزہ کہلاتی ہے.کہ اس رات میں تمامی ماہِ رمضان المبارک کا اجر و ثواب ا تبارک و تعالیٰ بندوں کو عطا فرماتے ہیں.پہلی شب سوال کی بہ اعتبار اس کے کہ سارے رمضان شریف کا ثواب اس میں مرحمت کیا جاتا ہے.حدیث شریف میں نہایت بابرکت رات بیان ہوئی جو  کی مصداق ہے.

Page 387

صبح کے اوقات کی نسبت خصوصیت سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے دعا فرمائی ہے کہ :.اَللّٰھُمَّ بَارِک لِاُمَّتِیْ فِیْ بُکُوْرِھَا أَوْکَمَا قَالَ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ.اس کے علاوہ ان پانچ باتوں کی توجیہات اور بھی بیان ہوئی ہیں ماحصل ان سب کا یہی ہے کہ کہ ان سے امکنہ مراد ہوں یا ازمنہ.دعا کے لئے یہ بڑے زبردست ہتھیار ہیں.جنہوں نے دشمنوں کی بڑی بڑی قوموں کو ہلاک کر دیا. سے شب قدر بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ بخلاف اور راتوں کے یہ رات ساری کی ساری بابرکت ہوتی ہے.ان دس راتوں کے نظارے کو حشر کے نظارے سے بھی تشبیہ دی اور اس سے یہ بتایا ہے کہ کس طرح پر مختلف حصص عالم سے لوگ اس بیت الحرام کی طرف چلے آتے ہیں.اور جو لوگ مکّہ اور عرفات میں جمع ہوتے ہیں.وہ ہر طرف ان قوموں کے آثار اور نشانات کو مشاہدہ کرتے ہیں.جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا اور آخر عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوئے.جیسا کہ آگے کھول کر بیان کیا ہے. آیت نمبر۷ سے نمبر۱۰تک اس میں اہلِ مکّہ کو یہی سمجھانا مقصود ہے، کہ تم اس مبارک اور محترم شہر میں ایسے عظیم الشان رسولؐ کی مخالفت کر رہے ہو.جو تمام انبیاء علہیم السلام کا سردار اور سر تاج ہے.ا س کا انجام یہ ہو گا کہ تم ہلاک کر دئے جاؤ گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ کیسا عظیم الشان اعجاز ہے.کہ آنحضرتؐ کے دشمنوں کا نام و نشان مٹا دیا گیا اور مکّہ معظمہ میں ابدالاباد کے لئے آنحضرت کا کوئی دشمن نہ رہنے دیا.مکّی زندگی جن مصائب اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے.وہ تاریک اسلام کا زہرہ شگاف باب ہے.پھر انہی ایّام میں یہ پُر شوکت پیسگوئیاں اور جلالی تہدّیاں مخالفینِ رسالت کو سنائی جاتی ہیں.جل جلالہٗ جیسا کہ الفجر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ثمود کی قوم کے عذاب کے وقت کی طرف اس میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جیسے وہ فجر مامورین و مرسلین کی حقانایت پر مہر کرنیوالی تھی اسی طرح  سے ان راتوں کی طرف اشارہ ہے جن میں فرعونیوں کا خاتمہ ہوا اور بنی اسرائیل نے ان کے ہاتھوں سے نجات پائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یک اگست ۱۹۱۲ء) قرآن کریم میں کوئی بہت بڑا عظیم الشان مضمون جیسے اﷲ جلشانہٗ کی ہستی کا ثبوتٗ اﷲ تعالیف کے اسماء حسنٰی.اﷲ تعالیٰ کے افعال، ا ﷲ تعالیٰ کی عبادتیں، یہ چار باتیں جناب الہٰی کے متعلق ہوتی ہیں.ملائکہ.اﷲ تعالیٰ کے اسماء، اﷲ تعالیٰ کے رسول.اﷲ تعالیٰ کے رسولوں پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں، ان کو روکنا، جزاوسزا.کتب الہٰی پر ایمان،یہ بڑے مسائل ہیں.جو اﷲ تعالیٰ کی کتابوں میں آتے

Page 388

ہیں.ان دلائل میں سے سب سے بڑی عظیم الشان بات جو اﷲ تعالیٰ نے اس سورہ کریمہ میں فرمائی ہے.ہر ملک میں کوئی نہ کوئی قوم بڑی سخت ہوتی ہے.جس شہر میں میرا پُرانا گھر تھا.وہاں پر ایک سیّد کی زیارت ہے.اس شہر میں ان کی قبر پرجا کر قسم کھانا بڑی قسم ہے.اسی طرح بعض زمیندار جھوٹی قسم کھا لیتے ہیں.مگر دودھ پوت کی قسم نہیں کھاتے.اسی طرہ ہندوگائے کی دُم پکڑ کر قسم نہیں کھا سکتے.غرض کہ ہر قوم اپنے ثبوت کے لئے کسی نہ کسی عظیم الشان قسم کو جڑھ بنائے بیٹھی ہے.عرب کے لوگ ہر ایک جرم کا ارتکاب کر لیتے تھے.لیکن مکّہ معظمہ کی تعظیم ان کے رگ و ریشہ میں بسی ہوئی تھی.یہاں تک کہ جن ایّام میں مکّہ معظمہ میں آمد و رفت ہوتی تھی.کیا مطلب.ذی قعدہؔ.ذی الحجہؔ اور جبؔ میں وہ اگر اپنے باپ کے قاتل پر بھی موقع پاتے تھے.تو اس کو بھی قتل نہیں کرتے تھے.تم جانتے ہو کہ جب شکاری آدمی کے سامنے شکار ا جاتا ہے.تو اس کے ہوش و حواس اُڑ جاتے ہیں.لیکن عرب میں حدودِ حرم کے اندر شکار ا جاتا تھا تو اس کو نہیں چھیڑتے تھے.پھر دس راتیں حج کے دنوں کی بڑے چین و امن کا زمانہ ہوتا تھا.ان دنوں میں بدمعاش لوگ بھی فساد اور شرارتیں نہیں کرتے تھے.اﷲ تعالیف ان کو یاد دلاتا ہے کہ ان امن کے دنوں میں تم اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی باوجود قابو یافتہ ہونے کے قتل نہیں کرتے تھے.تم اﷲ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اب تم لوگ اﷲ کے رسولؐ کی مخالفت کو ان دنوں میں بھی نہیں چھوڑتے اور تم کو خبر نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اب تم لوگ اﷲ کے رسولؐ کی مخالفت کو ان دنوں میں بھی نہیں چھوڑتے اور تم کو خبر نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے رسول جو عرب سے باہر آئے ہیں مثلاً مصر کے ملک میں فرعون تھا اس کے پاس رسول آیا یعنی فرعون کو سزا دی جو خدا کے رسول موسٰیؑ کے مقابلے میں تھا.پھر ہم نے عاد اور ثمود کی اقوام کو سزائیں دیں جو ہمارے رسول کے مقابل کھڑی ہوئیں اور تم تو مکّہ میں اور پھر حج کے دنوں میں بھی شرارت کرتے ہو اور نہیں رُکتے تو تم ہی انصاف سے کہو.کہ آیا تم سب سے زیادہ سزا کے مستحق ہو کہ نہیں؟ نیکی ہو یا بدی بلحاظ زمان و مکان کے اس میں فرق آجاتا ہے.ایک شخص کا گرمی کے موسم میں کسی کو جنگل ریگستان میں ایک گلاس پانی کا دینا جبکہ وہ شدّت پیاس سے دم بہ لب ہو چکا ہو ایک شان رکھتا ہے مگر بارش کے دنوں میں دریا کے کنارہ پر کسی کو پانی کا ایک گلاس دینا وہ شان نہیں رکھتا.یہ بات میں نے تم کو کیوں کہی.تم میں کوئی رسول کریمؐ کے صحابہ مکہ میں تو بیٹھے ہوئے ہے نہیں.مَیں تم کو سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا.یاد رکھو جو امن اور اصلاح کے زمانہ میں فساد اور سرارت کرتا ہے وہ سزا کا بہت ہی بڑا مستحق ہے.میرا یہ اعتقاد ہے.جہاں کوئی پاک تعلیم لاتا ہے.جہاں لوگ سفر کر کے جاتے ہیں.وہاں مکانوں کی تنگی.کھانا.سادہ ملتا ہے یا نہیں ملتا.ایسی مصیبتیں اٹھا کر جو لوگ یہاں آئے ہیں.اور وہ رات دن قرآن سیکھتے ہیں.یہاں اگر کوئی فساد کرے تو وہ اصلاح کا کیسا خطرناک دشمن ہے.

Page 389

(الفجر:۱۳،۱۴) مجھ کو یقین ہے کہ جہاں بڑے بڑے لوگ ہیں وہاں بڑے بڑے سامان بہت سے مل سکتے ہیں.ان مکانوں کو چھوڑ کر جب کوئی یہاں ۱؎ آتا ہے تو وہ ہم کو بطور نمونہ کے دیکھتا ہے.ابھی ایک شکض بنگالہ سے یہاں آئے تھے.اتفاق سے ان کو مہمان کانہ میں کوئی داڑھی منڈا موچھڑیالہ شخص مل گیا.انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ قادیان میں فرشتے رہتے ہیں.یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بھی آ گیا.جس کی شکل سے مجھ کو شبہ ہوا کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو.میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟کہنے لگا کہ میں بیمار ہوں علاج کرانے کے لئے یہاں آیا ہوں.( باہر سے آنیوالے احباب کو چاہیئے کہ حسنِ ظن سے کام لیا کریں.جلدی سے اعتراص کرنا اچھا نہیں.وہ شخص غیر احمدی تھا.علاج کے واسطے آیا ہوا تھا.اور سب انسان یکساں حالت میں ترقی نہیں کرتے.اور نہ سب فرشتے بن سکتے ہیں.ہر شخص اپنی عقیدت اور اخلاص کے مطابق خدا سے بدلہ پاتا ہے.( ایڈیٹر) الغرض جب لوگ یہاں آتے ہیں تو تم کو بہت دیکھتے ہیں.اب تم کو دیکھنا چاہیئے کہ اگر تم اصلاح کے لئے آئے ہو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں امن اور اصلاح ہو.وہاں فساد اور شرارت بُری بات ہے.جہاں کوئی مصلح آیا ہو.وہاں فساد کیسا؟ اب تم ہی بتاؤ کہ اگر تم یہاں فساد کرو تو فَصَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطَ الْعَذَابِ کے سب سے بڑھ کر مستحق ہو یا نہیں.مَیں تمہارے سامنے بطور اپیل کے پیش کرتا ہوں جنابِ الہٰی مکّہ والوں کو فرماتے ہیں کہ تم ہی انصاف کرو..کیا کوئی عقل مند ہے جو ہماری بات کو سمجھ جائے اور تہہ کو پہنچ جائے.باہر تم گند کرو تو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتے.جس قدر یہاں پہنچا سکتے ہو.جناب الہٰی فرماتے ہیں.(الفجر:۱۶)بعض کو آسودگی سے ابتلاء میں ڈالتے ہیں.وہ جناب الہٰی کے فضل کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں..جب تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں رَبِّی اَھَانَنْ کہ ہماری بڑی اہانت ہوئی.مَیں تم کو اور اپنے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کو یہ تعلیم ناپسند ہے اور یہاں تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو تمہارے یہاں سے چلے جانے میں کوئی حرج نہیں..(الفجر:۱۸،۱۹)یتیموں کا تم لحاظ کرو.وہ میرے س آتے ہیں.میرے میں اتنی گنجائش نہیں.میری اتنی آمدنی نہیں کہ ۱؎ قادیان.مرتّب

Page 390

سب کا خرج برداشت کر سکوں.مسکینوں کے کھانے کی فکر کرو.یہاں مدرسہ میں ایک طالبعلم آیا تھا.ایک دن مجھ سے کہنے لگا.کہ یہاں جھوت برا بولتے ہیں.لنگرخانہ میں تو پچاس ساٹھ روپے ماہوار خرچ کرتے ہوں گے مگر باہر سے ہزاروں روپیہ منگواتے ہیں.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا مدرسہ میں کس قدر خرچ ہوتا ہے.کہا دس روپے ماہوار اکیلے کا خرچ ہے.آخر وہ یہاں سے چلا گیا.تم نیک نمونہ بنو.اگر غلطیاں ہوتی ہیں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتن سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّلِمِیْنَ پڑھو.جناب الہٰی رحم فرمائیں گے.۷..کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ عاد کے ساتھ تمہارے خدا نے کیسا کیا.عاد کا واقعہ ولادتِ آنحضرتؐ سے پیشتر واقع ہو چکا ہے.ایسے موقعوں پر لفظ ’’ دیکھا‘‘ یہ معنی نہیں رکھتا کہ موجود حاضر ہو کر بایں چشم سر دیکھا بلکہ وہ واقعات جو مسلّم اور متداول لا ریب چلے آتے ہیں اور جن کی صداقت کو خلاف واقعہ چشم دید سے کچھ کم اعتقاد نہیں کرے.لفظ’’دیکھا‘‘ سے تعبیر کئے جاتے ہیں.اور یہ محاورہ ہر زبان کی عام بول چال میں پایا جاتا ہے.مثلاً کہتے ہیں.دیکھو مصر میں انگریز کیا کاروائی کر رہے ہیں.دیکھو آئرلیند کے لوگ کیسا فساد مچارہے ہیں وغیرہ وغیرہ.اب یہ فقرات ہندوستان میں بیٹھا ہوا ایک شخص کہہ رہا ہے اس سے یہ مقصود نہیں کہ اس کے کلام کے مخاطبین ان آنکھوں سے مصر اور آئرلیند میں موجود ہو کر وہ کارروائی اور فساد دیکھ رہے ہیں.لُغت میں رویت اور رأی کے معنے جن سے یَرٰی کا لفظ مشتق ہوا ہے.غور کے قابل ہیں.دیکھو قاموس اللغۃ اَلرُّؤْیَۃٌ النَّظَرُ بِالْعَیْنِ وَالْقَلْبِ ونالرَّأيُ الْاِعْتِقَادُ یعنی آنکھ سے دیکھنے اور دل سے دیکھنے اور رایٔ اعتقاد کرنے کو کہتے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۴۳) ۸..ارمؔ یا تو عاد کے دادا عوصؔ کے باپ کا نام ہے.یا ارمؔ ان کے شہر کا نام ہے.دونوں مراد ہو سکتے ہیں یعنی اہلِ ارم.یہ لوگ سام بن نوح کی اولاد سے تھے.ھود علیہ السلام ان کی طرف مبعوث

Page 391

ہوئے تھے.طویل القد، بلند عمارتوں والے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۱۱.کثرتِ لشکر اور ان کے خیموں اور خیموں کے لوازم کی وجہ سے ذِی الْانوْتنادِ فرعون کی صفت بیان ہوئی یا سزا جومیخہ اس کی عادت تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۱۴..ایسی سخت جابک جس سے خون بہنے لگے سوط کہلاتی ہے.شاید ہماری زبان میں سونٹا اسی لفظ سے بگڑ کر بنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۱۵..مِرْصَاد: صید کے لئے گھات کی جگہ.اﷲ تعالیٰ عالم الغیب و الشھادۃ ہے اس کو گھات یا تک اور نشانے کی ضرورت نہیں.(بقرہ:۸۲) اس کی تفصیل ہے.گناہوں کا حلقہ جب چاروں طرف سے پورا ہو جاتا ہے تو یہ نخچیر شکار ہو جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۱۸..یَتِیْمَ:کے لفظ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف اشارہ ہے.عام یتیم بھی اس سے مراد ہیں.حدیث شریف میں ہے کہ بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کی عزّت کی جاوے.اور بدتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کو دکھ دیا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۲۳..دھرم پال کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ’’ خدا کو آنے کی کیا ضرورت ہے‘‘ آپ نے تحریر فرمایا  فعل ہے.افعال اور صفات کا طریق کیا ہے.یہ ہے کہ فاعل اور موصوف کے لحاظ

Page 392

سے افعال اور صفات کا رنگ اور حالت بدلتی رہتی ہے.غور کرو مثلاً بیٹھنا ایک فعل ہے.ایک آپ کا بیٹھنا ہے اور ایک کسی جانور کا بیٹھنا.دیکھو اس بیٹھنے میں ایک جسم خاص کی ضرورت ہے.مکان کی ضرورت ہے.پھر کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا ساہوکار تھا مگر اب بیٹھ گیا ہے.دیکھو یہ بیٹھنا اور طرح کا ہے یا کہا جاتا ہے کہ آجکل ہند و انگلستان کے تخت پر ایدورڈ ہفتم بیٹھا ہے.اس بیٹھنے میں ایڈورڈ سوتا ہو چلتا ہو.کہیں کھڑا ہو.بہر حال بیٹھا ہے.…‘‘ اب اس سے بھی لطیف موصوف اور فاعل کا حال سُنو.تمہارے دل میں اسلام کا بُغض بیٹھ گیا ہے تمہارے دل میں آریہ سماج کی محبت بیٹھ گئی ہے.کیا محبت کوئی جسم ہے؟ نہیں.اسی طرح آنا اور حرکت کرانا ایک صفت اور فعل ہے.فلانا آدمی آیا.یہ آنا ایک طرف.ایک مکان کے چھوڑنے کو چاہتا ہے.اور دوسری طرف ایک مکان کی طرف آنے کو.سرور میرے دل میں آیا.علم میرے قلب میں آیا.مجھے سُکھ ملا.اگر بولا جائے تو یہ لازم نہیں اتا.کہ سرور اور علم اور سُکھ کوئی جسم ہے اور اس نے کوئی مکان ترک کیا اور سنو! تمہارے گُر و نے تو اپنی دُعاؤں میں الہٰی حرکت کو بھی مانا ہے.دیکھو صفحہ ۴ ستیارتھ پرکاش ’’ اے پرمیشور جس جس مقام سے آپ دنیا کے بنانے اور پالنے کے لئے حرکت کریں اس اس مقام سے ہمارا خوف دور ہو‘‘ سنو! پال اگر پرمیشر حرکت کر سکتا ہے تو ملائکہ ( دیو) تو محدود ہوتے ہیں.ان کا حرکت کرنا کیوں حیرت انگیز ہے.اگر حرکت کے کوئی معنے سماج کر سکتی ہے اور رُوپک النکار میں اس کو لے سکتی ہے تو قرآن کریم میں مسلمان کیوں مجاز نہیں کیا جاتا.اﷲ تعالیٰ اپنے مظاہر قدرت میں جلوہ گری کرتا ہے.وہ حلول و اتحاد سے منزّہ وراء الور ء مطاہر قدرت میں اپنی قدرتوں طاقتوں بلکہ ذات سے جیسے اس کی لَیْسَ کَمِثْلِہٖ ذات اور انوپیئم کی شان ہے آتا ہے.اور کہیں سے جاتا ہے.کیا جیسے ودوان دھارمک کے ہردے میں آتا ہے ویسا ہی دُشٹ اناڑی کے ہردے میں بھی ہوتا ہے اور آتا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ تمہارے ہاں تو پھاند کر بھی جاتا ہے.پھر اتنا کی مشکل ہے.یجروید اکتیسواں ادھیائے پہلے اشلوک میں لکھا ہے.وہ سب جگت کو النگھ کر ٹھیرا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۱۱۳.۱۱۴) ۲۴. .

Page 393

اﷲ تعالیٰ کا عذاب رویت عذاب سے پہلے توبہ اور استغفار سے ٹل جاتا ہے.اور یہی سنت اﷲ ہے.مگر جب عذاب کی رویت ہو جاوے تو پھر توبہ استغفار و انابت الی اﷲ بھی کام نہیں پڑتے.جیسا کہ فرمایا (مومن:۸۶) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۲۵..حیات موت کے بعد کی جاودانی زندگی کو کہا گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) ۲۸ تا ۳۱.. ...ہر سورۃ کے ابتداء کو اس کے آخر سے لطیف مناسبت معلوم ہوتی ہے.سورۃ شریفہ کی ابتدائی آیات میں اوقاتِ مخصوصہ منجملہ ان کے عشرہ آخرہ رمضان المبارک اور ان کے شفع اور وتر کا ذکر تھا.جن میں اعتکاف کیا جاتا ہے.تخلیہ ہو اور اطمینانِ قلب نہ ہو تو وہ اوقات باہرکات بھی مفید نہیں پڑتے.چوہر ساعت از نو بجائے رود دل بہ تنہائی اندر صفائی بینی ورت مال وجاہت وزرع و تجارۃ چو دل باخدایست خلوۃ نشینی اطمینانِ قلب نہ حاصل ہونے کی ایک وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے ؎ از طمع جستیم ہر چیزے کہ آں بیکار بود خود فزوں کرویم ورنہ اندکے آزاد بود (ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اگست ۱۹۱۲ء) خ خ خ

Page 394

 ۲..مخاطب کے مافی الضمیر میں جو امور مستبعد معلوم ہوتے ہیں.اس کی نفی کے لئے کلمہ لَا ہے.یہی بَلَد ایک وقت ایک مقام ذی زرع تھا.اور اب جس خدا نے اس کو بلد بنا دیا ہے.اسی خدا کا منشاء ہے کہ ایک یتیم بے سروسامان کو بادشاہ بنا دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۳..اور تُو شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اس شہر میں مُحِلّ ہونیوالا ہے.یعنی نزول کرنیوالا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) تجھ کو اس شہر میں ذبح کر حلال سمجھا گیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸) ۴..مکّہ کے امُّ القرٰی ہونے کی وجہ سے اہلِ مکّہ اپنے آپ کو اَوروں کا والد سمجھتے تھے تو اﷲ تبارک و تعالیٰ گویا یوں فرماتے ہیں کہ ہم تو سب والدوں کے بھی والد ہیں.بہتر نمونہ والد اور ولد کا حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیل ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۵..اس چوتھی آیت میں یہ ظاہر فرمایا کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جو شاہانہ شان و شوکت ملے وہ آپؐ کی محنتوں اور جانفشانیوں کا نتیجہ ہے اور کفّار کو جو جان و مال کی تباہی دیکھنی پڑی وہ ان کی الٹی محنتوں اور کوشوں کا نتیجہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء)

Page 395

۶..لَنَْنفی تاکیدی زمانہ مستقبل کے لئے ہے.اور یَقْدِرَ کے ساتھ عَلٰی کا لفظ ہے جو ضرر کے لئے آتا ہے.مطلب یہ ہو کہ کفار کو شکست ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۷،۸... صیغہ مضارع کا ہے.حال اور استقبال دونوں پر شامل ہے.مگر واقعات کے لحاظ سے مستقبل زمانہ کی طرف زیادہ تر توجہ دلاتا ہے.کچھ تو مال مخالفت پیغمبر صلی اﷲ و آلہٖ وسلم پر خرچ کر چکے ہیں.اور زیادہ تر اور بھی خرچ کر کے ناکام رہیں گے.گزشتہ کے ساتھ لَنْ تھا اس کے ساتھ لَمْ ہے.اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ کس کی کوششیں راہِ صواب پر ہیں اور کس کی کو کوششیں راہ خطا پر ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۹ تا ۱۱... .مکہ غیر ذی زرع مقام تھا.اس کا بلد بن جانا حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام والد اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام وَلَد کی صدق و ثواب کی کوششوں کا نتیجہ تھا.آنکھوں سے دیکھو کہ یہ کعبہ باپ اور بیٹے دونوں کے ہاتھ کا بنایا ہوا ہے.لِسَان اور شَفَتَیْنِ سے زمزم کو پی کر دیکھو کہ یہی ان کو مِحَن کے ایّام میں اکل و شرب کا کام دیتا تھا.صفا اور مروَہ کی دونوں ٹکڑیوں پر جا کر دیکھو کہ کس قدر پریشانی ان کو تھی یہاں والد اور ولد کے ساتھ والدہ بھی شامل ہے.یہ ایک تنگ اور دشوار گزار درّہ تھا جس میں سے وہ تینوں علیہم الصلوٰۃ گزر گئے عَیْنَیْن، شَفَتَیْنِ اور نَجْدَیْنِ سے بچہ کی سمجھ.اُس کا دودھ جوسنا اور ماں کے پستان بھی مراد سمجھے گئے ہیں.اس میں بھی کوئی خلاف نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء)

Page 396

۱۲..افتحام کے معنے کسی خطرناک جگہ میں بغیر پس و پیش کو سوچے دھنس جانے کے ہیں.اس اقتحامِ عقبہ کو چند آیات میں ایثار نفس وغیرہ سے تعبیر کیا ہے.ایثار جبھی ہو سکتا ہے.جبکہ انسان اپنی تنگی کو قبول کرے اور دوسرے کی راحت کو مقدم کر دے.یہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے.دنیا کی مفتوح قومیں جب کبھی فاتح بن گی ہیں تو اسی اقتحام کی وجہ سے بن گئی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۱۵.. مصدر میمی ہے.سَغَبَ یَسْغَبُ سَغْبًا فَھُوَ سَاغِبٌ وَ سَغْبَانُ سَاغِب اور سَغْبَان بھوکے کو بولتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۱۸. . واسطے تاخیر کے نہیں ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے ایثار نفسی کے کام کرنے سے جو مذکور ہوئے.انسان مومن بن جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۱۹..مَیْمَنَۃٌ یُمْن سے مستق ہے.یہ لوگ بابرکت ہو جاتے ہیں بِالْیَمِیْنِ سے یعنی راست باز نامۂ اعمال کو داہنے ہاتھ میں پانے والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) ۲۰..مَشْئَمَۃ: شامت اور بدبختی والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء)

Page 397

۲۱..مُؤْصَدَۃٌ کے معنے مُطْبَقَۃٌ کے ہیں.یعنی دوزخ کے دروازے ان پر بند کر دئے جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍اگست ۱۹۱۲ء) خ خ خ

Page 398

سُوْرَۃَ الشَّمْسِ مَکِّیَّۃٌ  ۲..یعنی قَسَم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی.۳..اور قَسَم ہے چاند کی جب وہ سورج کی پیروی کرے.۴..اور قَسَم ہے دن کی جب اپنی روشنی کو ظاہر کرے.۵..اور قَسَم ہے رات کی جو بالکل تاریک ہو.۶..اور قَسَم ہے رات کی اور اس کی جس نے اُسے بنایا.۷..اور قَسَم ہے زمین اور اس کی جس نے اُسے بچھایا.۸..

Page 399

اور قسم ہے انسان کے نفس کی اور اس کی جس نے اسے اعتدالِ کامل اور وضع استقامت کے جمیع کمالاتِ متفرقہ عنایت کئے اور کسی کمال سے محروم نہ رکھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍اگست۱۹۱۲ء) ۹ تا ۱۲... ..یعنی خدائے تعالیٰ نے نفسِ انسان کو پیدا کر کے ظلمت اور نوارانیت، ویرانی اور سبھی کی دونوں راہیں اس کے لئے کھول دی ہیں.جو شخص ظلمت فجور یعنی بدکاری کی راہیں اختیار کرے تو اس کو ان راہوں میں ترقی کے کمال درجہ تک پہنچایا جاتا ہے.اور اگر پرہیزگاری کا نورانی راستہ اخیتارکرتا ہے تو اس نور کو مدد دینے والے الہام اس کو ہوتے ہیں.جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور بکلّی رزائل اور اخلاقِ ذمیمہ سے دستبردار ہو کر خدائے تعالیٰ کے حکموں کے نیچے اپنے تئیں ڈال دیا.وہ اس مراد کو پہنچ گیا اور اپنا نفس اس کو عالم صغیر کی طرح کمالات متفرقہ کا جامع نظر آئے گا.لیکن جس شخص نے اپنے نفس کو پاک نہیں کیا.بلکہ بے جا خواہشوں کے اندر گاڑ دیا.وہ اس مطلب کے پانے سے نامراد رہے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍اگست۱۹۱۲ء) ۱۴..اس وقت کے رسول نے نصیحت کے طور پر کہا کہ یعنی خدائے تعالیٰ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی جگہ کا تعرض مت کرو.یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے نفس کو  سے مشابہت دینے کے لئے اس جگہ لکھی ہے.مطلب یہ ہے انسان کا نفس بھی درحقیقت اسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے.کہ تا وہ ناقۃ اﷲ کا کام دیوے.اور اس کے فنا فی اﷲ ہونے کی حالت میں خدائے تعالیٰ اپنی پاک تجلّی کے ساتھ اس پر سوار ہو جیسے کوئی اونٹنی پر سوار ہوتا ہے.سو نفس پرست لوگوں کو جو حق سے منہ پھیر رہے ہیں.تہدید اور انذار کے طور پر فرمایا کہ تم لوگ بھی قومب ثمود کی طرح  کا سُقیا یعنی اس کے پانی پینے کی جگہ جو یادِ الہٰی اور معارفب الہٰی کا چشمہ ہے جس پر اس ناقۃ کی زندگی موقوف ہے.اس پر بند کر رہے ہو.اور نہ صرف بند بلکہ اس کے پَیرکاٹنے کے

Page 400

فکر میں ہوتا وہ خدائے تعالیٰ کی راہوں پر چلنے سے بالکل رہ جائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍اگست۱۹۱۲ء) ۱۵،۱۶. ..: یعنی پیغمبر کی نصیحت کی تکذیب کی اور صالحؑ کی اونٹنی کے پَیر کیا کاٹے اپنے ہی نفسوں پر چُھری پھیرلی.سو تم اگر اپنی خیر مانگتے ہو تو اس زندگی کا پانی اس پر بند مت کرو اور اپنی بیجا خواہشوں کے تیع و تبر سے اس کے پَیر مت کاٹو.اگر تم ایسا کرو گے تو وہ ناقہ جو خدا تعالیٰ کی سواری کے لئے تم کو دی گئی ہے مجروح ہو کر مر جائے گی تو تم بالکل نکّمے اور خشک لکڑی کی طرح متصوّر ہو کر کاٹ دئے جاؤ گے اور پھر آگ میں ڈالے جاؤ گے.: مگر انہوں نے اونٹنی کے پاؤں کاٹے ہو سو اس جُرم کی شامت سے ا ﷲتعالیٰ نے ان پر موت کی مار دالی.اور انہیں خاک سے ملا دیا.اور اﷲ تعالیٰ نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچّوںاور بے کس عیال کا کیا حال ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍اگست۱۹۱۲ء) خ خ خ

Page 401

سُوْرَۃَ الَّیْلِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۵... ..ماحصل ان چاروں آیتوں کا ایک ہی ہے.اور وہ یہ ہے کہ نتائج ہر کام کے اسی قدر نکلیں گے جس قدر کہ خیر یا سر کے وہ کام کئے گئے ہیں ع گندم از گندم بروید جَو زِجَو رات دن کا کام نہیں دیتی.دن رات کا کام نہیں دیتا.مرد جن کاموں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں عورتوں سے وہ کام نہیں ہوتے.عورتیں مَردوں کا کام نہیں دے سکتیں.ہر ایک کے مختلف کام اپنے حسبِ حال مختلف نتیجے پیدا کرتے ہیں.یہ تمہید اس سورہ شریفہ کی ہے.تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ سورہ شریفہ کا نزول حضرت ابوبکرؓ اور امّیہ بن خلف کا متضاد مختلف کوششوں کے بارہ میں ہوا.مضمون اور واقعات کے لحاظ سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.مگر اعتبار عموم لفظ کا ہے.نہ خصوصی سبب کا.ہمارے اس وقت کے حسبِ حال صادق کو قبول کرنے والے اور دینی کاموں میں چندہ دینے والے اور ان کے مخالفوں کے لئے بھی خصوصیت سے اس سورہ شریفہ میں عبرت ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اگست ۱۹۱۲ء) ’’ جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قَسَم کو بیان کرتا ہے.وہاں جس چیز کے ساتھ قَسَم کھائی گئی ہے وہ چیز قانونِ قدرت میں قَسَم والے مضمون کے واسطے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے.اور یہ قَسَم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قَسَم کے بعد مذکور ہو گا.مثلاً  الخ ایک مطلب ہے جس کے معنے ہیں’’ لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں‘‘.قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے.

Page 402

. کیا معنی.رات پر نظر کرو.جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن پر نظر ڈالو.جب اس نے اپنے انوار کو ظاہر کیا.پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بانوٹ پر عور کرو اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوجو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ اور اس کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں‘‘ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۰) دھرم پال کے اعتراض کے جواب میں فرمایا: ’’ اگر قَسَم ہنسی کی بات اور بُری ہے.تو جو یجروید بھاش چھٹا باب منتر بائیس میں بانی آریہ سماج نے لکھا ہے وہ تو ضرور ردّ کے مقابل ہے ‘‘ ہے (درن) نیا کر نیوالے سبھا پتی ( منصف راجہ ) کئے ہوئے میں نیا اگھنیا نماز نے یوگ گئو( نہ مارنے کے لائق وغیرہ جانوروں کی) آدمی پسُوں کی شپت ( قَسَم سوگند) ہے.اتی سی پرکار( اسی طرح) جو آپ کہتے ہیں اور ہم لوگ بھی شیام ہی سپت کرتے ہیں آپ بھی اس پرتگیا ( قانون) کو مت چھوڑیئے اور ہم لوگ بھی نہیں چھوڑیں گے‘‘ غور کرو.گئوادی پشؤاں میں کس قدر گائے.بیل.ہرن.بکری.اونٹ.سؤر.کوّے.مرغ.چیل کیڑے مکوڑے داخل ہیں.انصاف کرو اور پھر سوچو.وہ جو منوجی اور بھرگ جی کی جامع سنگھتا میں بُرا بول بولا.جس نے کہا اور ویدک قانون بنایا دیکھو منوجی۸.۸۸ گئو بیج اور سونا کی قسم دیکر دیشیہ سے پوچھے منو ۸.۸۹ میں ہے.سو گند کے وسیلہ سے اصلی بات کو دریافت کرے اور کیا غلط کہا جو منو ۸.۱۱۰ میں ہے.دیوتا اور بڑے بڑے رشی لوگوں نے کام کے واسطے سو گند کھائی ہے اور بسوامتر کے جھگڑے میں بششت رشی نے پیون کے بیٹے سدامان راجہ کے روبروقسم کھائی تھی.ہماری پاک کتاب میں قسموں کا ہونا ایک معجزہ ہے اور عظیم الشان معجزہ ہے.بلکہ اسلامی اصطلاہ کے مطابق ایک آیت اور نشانِ نبوّت ہے اور عظیم الشان نشانِ نبوّت ہے.کیونکہ عرب میں ایک مثل تھی.اِنَّ الْاَیْمَانَ تَدَعُ الْاَرْضَ بَلَاقِعَ قسمیں ملک کو ویران کر دیتی ہیں.اور منو کہتا ہے ۸.۱۱۱ کیونکہ جھوٹی قسم کھانے سے اس لوگ میں اور پر لوگ میں نشت ہوتا ہے.پنجابی میں مثل ہے.’’جھوٹی قسم تالی …مار دی اے‘‘ اب سوچو اور خوب سوچو کہ قرآن اورصاحبِ قرآن اس قدر قسموں کے ساتھ کیسا فاتہ اور کیسا کامیاب ہوا کہ اس کے دشمنوں کا نام و نشان نہ رہا.ذرا اس پر غور و تامّل کرو.ان قسموں کا ثبوت تجارب و ضرب المثلوں اور منو کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے اور تمہارے خیال میں ایک مجنون اور جھوٹے کا فعل ہے.جلسہ مہو تسو کے اسلامی مضمون میں امام مہدی نے اور بھی واضح فرما دیا ہے.اور بانیٔ اسلام تو تمہارے نزدیک جیسے ہیں.تمہارے

Page 403

اقوال و افعال سے ظاہر ہے.مگر دیکھ لو کہ کس طرح روزافزوں ترقی اسلام اور بانیٔ اسلام اور عرب کو ہوئی.پس اگر قسم زہر تھی تو اس نے تریاق کا کام دیا اور اگر حق ہے تو کسی حقیقت حق کی ظاہر ہوئی کہ تمہارے ملک میں بھی آبراجا.’’قسم دو قِسم کے ہوتے ہیں.اوّل بڑے ضروری.دوسرے ان سے کم درجہ کے.بڑے ضروری مطالب کو بہ نسبت دوسرے مطالب کے تاکید اور براہین اور دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میرا دعوٰی بہت صاف اور ظاہر ہے.تاکید کے لئے ہر زبان میںمختلف کلمات ہوا کرتے ہیں.ایسے ہی عربی زبان میںبھی تاکید کے لئے بہت الفاظ ہیں مگر ایشایائی زبانوں میںعلی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں.ایسے ہی عربی کے لٹریچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تاکیدی لفظ نہیں.قران کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اسی لئے اس میں عربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا ہے.رہی یہ بات کہ اہم اور ضروری امور میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے.سویاد رہے جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے وہاں جس چیز کے ساتھ قَسَم کھائی گئی ہے.وہ چیز قانونِ قدرت میں قسم والے مضمون کے لئے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے.اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہو گا.مثلاً  الخ ایک مطلب جس کے معنے ہیں.لوگو ! تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں.قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرہ ثابت کرتا ہے... (الّیل: ۲ تا ۴) کیا معنی؟ اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن کی بناوٹ پر غور کرو جب اور اپنے انوار کو ظاہر کرتا ہے پھر مرد اور عورت کی خلقت پر نظر ڈالو.اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام پر جان و مال کو دینے والے اور نافرمانیوں سے بچنے والے اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مصداق اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والے نافرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مکذّب بھی الگ الگ نتیجہ حاصل کریں گے.حضرت امام حجۃ الانام نے توضیح ( مراد توضیح مرام ) میں فرمایا ہے.’’ تمام قرآن شریف میں ایک عادت و سنّت الہٰی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات و حقائق کے لئے

Page 404

ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے.جو اپنے خواص کا عام طور پر بیّن اور کُھلا کُھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں.جیسا کہ اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہو سکتا کہ سورج موجود ہے اور اس کی دھوپ بھی ہے.اور چاند بھی موجود ہے اور وہ نور آفتاب سے حاصل کرتا ہے.اور روزِ روشن بھی سب کو نظر آتا ہے اور رات بھی سب کو دکھائی دیتی ہے اور آسمان کا یول بھی سب کے سامنے ہے.اور زمین تو خود انسانوں کی سکونت کی جگہ ہے اب چونکہ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا کھلا کھلا وجود اور کُھلے کُھلے خواص رکھتی ہیں.جن میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا.اور نفسِ انسان کا ایسی چھپی ہوئی اور نظری چیز ہے کہ خود اس کے وجود میں ہی صدہا جھگڑے برپا ہو رہے ہیں.بہت سے فرقے ایسے ہیں کہ وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں.کہ نفس یعن رُوح انسانی بھی کوئی مستقل اور قائم بالذّات چی ہے جو بدن کی مفاقت کے بعد ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی ہے.اور جو لوگ نفس کے وجود اور اس کی بقاء اور اثابت کے قائل ہیں.وہ بھی اس کی باطنی استعدادات کی وہ قدر نہیں کرتے.جو کرنا چاہیئے تھے.بلکہ بعض تو اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں.کہ ہم صرف اسی غرض کے لئے دنیا میں آئے ہیں کہ حیوانات کی طرح کھانے پینے اور حظوظِ نفسانی میں عمر بسر کریں.وہ اس بات کو جانتے بھی نہیں.کہ نفسِ انسانی کس قدر اعلیٰ درجہ کی طاقتیں اور توفیق اپنے اندر رکھتا ہے.اگر وہ کسبِ کمالات کی طرف متوجہ ہو تو کیسے تھوڑے عرصہ میں تمام عالم کے متفرق کمالات و فضائل و محاسن پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو سکتا ہے.سو اﷲ جلشانہٗ نے اس سورہ مبارکہ میں نفسِ انسان اور پھر اس کے بے نہایت خواص فاضلہ کا ثبوت دینا چاہا ہے پس اوّل اس نے خیالات کو رجوع دلانے کے لئے شمس وقمر وغیرہ چیزوں کے متفرّق خواص بیان کر کے پھر نفسِ انسانی کی طرف اشارہ فرمایا.کہ وہ جامع ان تمام کمالاتب متفرقہ کا ہے اور جس حالت میں نفسِ انسان میں ایسے اعلیٰ درجہ کے کمالات و خاصیّات بتما مھا موجود ہیں جو اجرامِ سماویہ و ارضیہ میںمتفرق طور پر پائے جاتے تو کمال درجہ کی نادانی ہو گی.کہ ایسے عظیم الشان اور مستجمع کمالاتب متفرقہ کی نسبت یہ وہم کیا جائے کہ وہ کچھ بھی چیز نہیں جو موت کے بعد باقی رہ سکے یعنی جبکہ یہ تمام خواص جو ان مشہود و محسوس چیزوں میں ہیں.جن کا مستقل وجود ماننے میم تمہیں کچھ کلام نہیں یہاں تک کہ ایک اندھا بھی دھوپ کا احساس کر کے آفتاب کے وجود کا یقین رکھتا ہے.نفسِ انسان میں سب کے سب یکجائی طور پر موجود ہیں تو نفس کے مستقل اور قائم بالذّات وجود میم تمہیں کیا کلام بات ہے.کیا ممکن ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں وہ تما موجود بالذّات چیزوں کے خواص جمع رکھتی ہو.اور اس جگہ قسم کھانے کی طرز کو اس وجہ سے اﷲ جلشانہٗ نے پسند کیا ہے کہ قسم قائم مقام شہادت کی ہوتی ہے.اسی وجہ سے حکّام مجازی بھی جب دوسرے گواہ موجود نہ ہوں تو قسم پر انحصار کر دیتے ہیں.اور ایک مرتبہ کی قسم سے وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں.جو کم سے کم

Page 405

دو گواہوں سے لے سکتے ہیں.سو چونکہ عقلاً و عفاً و قانوناً و شرعاً قسم شاہد کے قائم مقام سمجھی جاتی ہے لہذا اسی بناء پر خدا تعالیٰ نے اس جگہ شاہد کے طور پر اس کو قرار دیدیا ہے.پس خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی.درحقیقت اپنے مرادی معنے یہ رکھتا ہے.کہ سورج اور اس کی دھوپ یہ دونوں نفس انسانی کے موجود بالذّات اور قائم بالذّات ہونے کے شاہدِ حال ہیں.کیونکہ سورج میں جو جو خواص گرمی اور روشنی وغیرہ کے پائے جاتے ہیں یہی خواص مع شئے زائد انسان کے نفس میں بھی موجود ہیں.مکاشفات کی روشنی اور توجہ کی گرمی جو نفوسِ کاملہ میں پائی جاتی ہے اس کے عجائبات سورج کی گرمی اور روشنی سے کہیں بڑھ کر ہیں.سو جبکہ سورج موجود بالذّات ہے تو جو خواص میں اس کا ہم مثل اور ہم پلّہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یعنی نفسِ انسان ہے.وہ کیونکر موجود بالذّات نہ ہو گا.اسی طرح خدا کا یہ کہنا کہ قسم ہے چاند کی.جب وہ سورج کی پیروی کرے.اس کے مرادی معنے یہ ہیں.کہ چاند اپنی خاصیّت کے ساتھ کہ وہ سورج سے بطور استفادہ نور حاصل کرتا ہے.نفسِ انسان کے موجود بالذّات اور قائم بالذّات ہونے کے شاہدِ حال ہے.کیونکہ جس طرح چاند سورج سے اکتسابِ نور کرتا ہے.اسی طرح نفس انسان کا جو مستعد اور طالبِ حق ہے ایک دوسرے انسان کامل کی پیروی کر کے اس کے نور میں سے لے لیتا ہے.اور اس کے باطنی فیض سے فیض یاب ہو جاتا ہے.بلکہ چاند سے بڑھ کر استفادہ نور کرتا ہے کیونکہ چاند تو نور حاصل کر کے پھر چھوڑ بھی دیتا ہے.مگر یہ کبھی نہیں چھوڑتا.پس جبکہ استفادہ نور میں یہ چاند کا شریک غالب ہے اور دوسری تمام صفات اور کواص چاند کے اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ چاند کو تو موجود بالذّات اور قائم بالذّات مانا جائے مگر نفسِ انسان کے مستقل طور پر موجود ہونے سے بکلّی انکار کر دیا جائے.غرض اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو جن کا ذکر نفسِ انسان کے پہلے قسم کھا کر کیا گیا ہے اپنے خواص کی رُو سے شؤاہد اور ناطق گواہ قرار دیکر اس بات کی طرف توجّہ دلائی ہے کہ نفسِ انسان واقعی طور پر موجود ہے.اور اسی طرح ہر ایک جگہ جو قرآن شریف میں بعض بعض چیزوں کی قسمیں کھائی ہیں ان قسموں سے ہر جگہ یہی مدّعا اور مقصد ہے کہ تا امر بدیہیہ کو اسرارب مخفیہ کے لئے جو ان کے ہم رنگ ہیں بطور شواہد کے پیش کیا جائے‘‘ ( توضیح مرام صفحہ ۵۶ تا ۶۱) (نور الدّین طبع سوم صفحہ ۸۸تا۹۱)

Page 406

Page 407

Page 408

سُوْرَۃَ الضُّحٰی مَکِّیَّۃٌ ۲،۳...ضُّحٰی کے معنے سخت روشنی کے ہیں اور لَیْل سَجٰی کے معنے سخت اندھیرے کے ہیں.یہ دونوں کلمے ایک دوسرے کے متقابل بیان ہوئے ہیں.اس لئے کہ آئندہ آنیوالی عبارت میں بھی یُتیم ایووا عیل غنٰی.اس قسم کے الفاظ اور ان کے معانی و مطالب ایک دوسرے کے متضاد آ پڑے ہیں.اس لئے تمہیدی طور پر ان دو کلموں کو قسمیہ شہادت کے طور پر ذکر فرمایا.(اخبار بدر قادیان ۸؍اگست ۱۹۱۲ء) ۴..وَدَّعَ کے معنے دوستی کو وداع کرنے اور قطع محبت کر دینے کے ہیں.: بمعنی عداوت دشمنی.بیزاری.کَمَا قَالَ اﷲ تَعَالٰی.اِنِّیْ لِعَمَلِکُمْ مِّنَ الْقَالِیْنَ ( الشعراء:۱۶۹) وجہ اس سورہ شریفہ کے نزول کی یہ بیان ہوئی ہے.کہ چند روزہ فترتب وحی کی وجہ سے ابوسفیان کی بہن نے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باﷲ یوں کہا تھا.کہ مَا اَرٰی شَیْطَنَکَ اِلاَّ قَدْ تَرَ کَکَ اس پر رسول اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو رنج ہوا اور یہ آیتیں تسلی بخش نازل ہوئیں.اس شانِ نزول کو پیشِ نظر رکھ کر آیہ کریمہ مَاوَدَّعَکَ الخ کے ساتھ ضُحٰی اور لَیْلِ سَجٰی سے مراد چہرۂ انور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے سیاہ گیسو مبارک عمدہ تو فیق اور توجیہ رکھتے ہے ع والضحٰی رمزے زِ روئے ہمچو ماہ مصطفٰے است معنی و الیل گیسوئے سیاہ مصطفٰے است مائیں اپنے بچوں کو پیارا اور محبت کے وقت دیکھا گیا ہے کہ اسی قسم کے الفاط سے خطاب کرتی ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸.اگست ۱۹۱۲ء)

Page 409

۵..آیت شریفہ میں پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی یَوْمًا فیومًا سَاعَۃً بَعْدَ سَاعَۃٍ ہر آن لا انتہاء ترقیات کا ذکر ہے.ہر اگلا قدم آپ کا پچھلے قدم سے بڑھ کر رہا.امّت کے جس قدر حسنات ہیں.جس قدر درود شریف دنیا میں آپؐ پر پڑھا جا رہا ہے.کسی دوسرے بانی مذہب کے لئے اس قدر دعائیں نہیں کی جاتیں.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارک وَسَلّم.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اگست ۱۹۱۲ء) ۶..سورۃ الفتح اور سورۃ الکوثر سے بڑھ کر اور کوئی تفصیل اس آیت کی کیا ہو سکتی ہے.آپؐ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تک ایک بھی اُمّتی میرا دوزخ میں رہے گا.میں راضی نہ ہوں گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اگست ۱۹۱۲ء) ۷ تا ۱۲......اس سورہ شریف کے ابتداء سے اخیر تک ایک عجیب طور پر لفّ و نشر بیان ہوا.آیات ۲.۷.۱۰ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور آیات ۵.۸.۱۱ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں.قَلٰی کے مقابلہ میں یَتِیْمًا فَاٰوٰی اور فَاَمَّا الْیَتِیْمن فَلَا تَقْھَرْ ہے.خَیْرٌلَّکَ مِنَ الْاُوْلٰی کی تشریح ضَآلًّا فَھَدٰی سے اور اَلسَّئِلَ فَلَاتَنْھَرْ سے کی.اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ ضَآلّ کے معنے سائل یعنی سالک راہِ طریقت کے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں دوسری جگہ اِنَّکَ لَفِیْ ضَصلَالِکَ الْقَدِیْمِ ( یوسف: ۹۶) فرمایا.یعنی آپ تو یوسف کی محبت میں اپنے آپ کو گُم گشتہ کئے ہوئے ہو.ی

Page 410

.یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی کے مقابلہ میں اَغْنٰی اور بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ ہے.یتیم کے ساتھ لَاتَقْھَرْ کی نہی اور سائل کے ساتھ لَاتَنْھَرْ کی نہی مناسبت رکھتی ہے.کہ سائل کا تعلق صرف ایک وقتی تعلق رکھتا ہے.تھوڑے ہی عرصہ کے لئے اور لَاتَقْھَرْ کے معنے یہ ہیں کہ اس پر ہمیشہ دباؤ نہ ڈالتے رہو.اس کے مال میں اسے مقہور نہ کرو.کَھَر.قھر کے معنے میں یہی آیا.کَھَر خفیف دباؤ.قَھَرَ سخت دباؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء) میں ضلال کا اثبات نبی کریمؐ کے لئے ہے.مگر مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ ( النجم:۳) میں ضلال کی نفی بھی آپ کے حق میں موجود ہے.تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محب طالب سائل کے کرو.جو اَمّٰ السَّآئِلَ فَلَا تَنْھَرْ کی ترتیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے لو جو مَغَوٰی کی مناسبت سے درست ہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ ۱۰)

Page 411

سُوْرَۃَ اَلَمْ نَشْرَحْ مَکِّیَّۃٌ ۲..اس سے ماقبل کی سورۃ سورۃ الضحٰی میں ظاہری و جسمانی انعامات کا ذکر تھا.اور اس سورہ شریفہ میں آپؐپر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو روحانی نعمتیں ہوئیں ان کا ذکر ہے.شرح صدر ایک کشفی کیفیت تھی جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم پر وارد ہوئی تھی.جبکہ آپؐ کی عمر دس سال سے کچھ اوپر تھی اور بعد میں نبوّت کے زمانہ میں بھی دوبارہ وہ کشفی اور روحانی معاملہ شرح صدر کا آپؐ سے کیا گیا.ظاہری اثر اس کا آپؐ پر یہ تھا کہ جو وسیع الحوصلگی آپؐ کی تھی.اس کی نظیر اَوروں میں کیا اولاوالعزم نبیوں میں بھی پائی نہیں جاتی.نوح علیہ السلام نے قوم سے دُکھ اُٹھا کر رِبِّ لَا تَذنرْ عَلَی الّاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا ( نوح:۲۷)کہہ دیا اور موسٰی علیہ الصلوٰۃ والسلام قوم سے دُکھ اُٹھا کر وَاشْدُدْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤْمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْم ( یونس:۸۹) کی دعا کرتے ہیں.مگر پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جب لائف کے شریروں سے اس قدر پتھروں کی مار سے دُکھ اٹھایا کہ سارا بدن آپؐ کا خون آلود ہو گیا.اس وقت آپؐ نے فرمایا تو یہ فرمایا.کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْن( بخاری کتاب الانبیاء باب ۵۴)جبرئیل علیہ السلام نے طائف والوں کی ہلاکت کے لئے عرض کیا تو فرمایا کہ نہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسل سے مسلمان پیدا ہوں گے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی نو بیبیاں تھیں.انسان ایک دو بیبیوں کی نازبرداری سے تنگ آ جاتا ہے.مگر آپؐ سے تمام بیبیاں خوش تھیں.آیۃ تطہیر کے اترنے پر جو سورۃ الاحزاب میں ہے.آپؐ نے سب بیویوں کو اختیار دے دیا تھا.مگر کسی نے بھی آپؐکے حُسنِ اخلاق اور انشراح صدر کو ملعوم کر کے آپؐ سے جدائی کو پسند نہ کیا.یہ کیسا انشراحِ صدر اور عالی حوصلہ تھا کہ فتح مکّہ کے روز جن ظالموں نے آپؐ سے جدائی کو پسند نہ کیا.یہ کیسا انشراحِ صدر اور عالی حوصلہ تھا کہ فتح مکّہ کے روز جن ظالموں نے آپؐ سے جدائی کو پسند نہ کیا.یہ کیسا انشراحِ صدر اور عالی حوصلہ تھا کہ فتح مکّہ کے روز جن ظالموں نے آپؐ کو شہر سے نکالا تھا اور آپؐ کے اصحابؓ کو طرح طرح کی بے رحمیوں سے قتل کیا تھا.ان سب کو آپؐ نے لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ کر یک لخت

Page 412

معانی دے دی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) : غور کرو موسٰیؑ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْٗرِیْ کی دُعا کرتے ہیں اور یہاں.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸) ۳.سینہ کی تنگی.یہ سب سے بڑھ کر وِزْر انسان پر ہوتا ہے.عالی ہمّتی اور فراخ حوصلگی کے برابر سبکدوش رکھنے والی انسان کے لئے کوئی دوسری چیز نہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) اس آیت شریفہ فَتَحْنَا لَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا (الفتح:۲) کی تفسیر کے لئے قرآن ہی عمدہ تفسیر ہے.اور وہ آیت مفسّرہ آیت.ہے فتہ سے مراد ہے.دل پر علومِ باری اور آسمانی بادشاہت کے اسرار کھولنا اور جب وہ کھلتے ہیں تو توبہ اور خشیت اور خوفِ الہٰی پیدا ہوتا ہے.جس کے باعث گناہ نہیں رہتے.انسان نئی زندگی پاتا ہے.نیا جلال حاصل کرتا ہے.( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۶۹.۱۷۰) ۵..اذان میں کلمۂ شہادت سب اﷲ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپؐ کا بھی نام تمامی دنیا میں بلند آوازوں سے پکارا جا رہا ہے.مکّی زندگی آپؐ کی ایسی تھی جیسی کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں کی تھی اس وقت اس قسم کی زبردست پیشگوئی کا کیا جانا اور پھر اس کا پورا ہونا یہ بجائے خود آپؐ کی رفعتِ شان پر دلیل ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) ۶،۷...ایک روایت میں آیا کہ لَنْ یَّغْلِبَ عُسْرٌ یُسْرَیْنِ یعنی ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہیں آئے گی.اگرچہ عُسر کا لفظ بھی دو بار ہے.اور یُسر کا لفظ بھی دوبار ہے.مگر اَلْعُسْرُ

Page 413

Page 414

سُوْرَۃَ التِّیْنِ مَکِّیَّۃٌ ۲..تِین.زیتوں.طُور حضرت عیسٰی و حضرت موسٰی کے لئے تجلّی کی جگہ اور یہ بلدِ امین آپؐ کے لئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸) ’’خدا سینا سے نکلا اور سعیر سے چمکا اور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا.اُس کے داہنے ہاتھ میں شریعت ہے.ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا‘‘ (توریت کتاب استثناء ۵ باب ۳۳ آیت ۲) آئے گا اﷲ جنوب سے اور قدوسؔ فاران کے پہاڑ سے.آسمان کو جمال سے چھپا دیا اس کی ستائش سے زمین بھر گئی.جقوق باب۳.آیت ۳.سینا سے موسٰی جیسا بادشاہ صاحبِ شریعت ظاہر و باطن نکلا شعیر جس کے پاس بیت لحم اور ناصرہ ہے مسیح ظاہر ہوا.قرآن نے اس پیشگوئی کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بیان کیا ہے.دیکھو...قسم انجیر کی اور زیتون کی.اور طور سینین کی اور اس امن والے شہر کی.ان تین مقامات کی خصوصیت نہایت غور کے قابل ہے.عہد عتیق میں اس تکصیص کی وجہ مفصّل مذکور ہوئی ہے.قرآن کا طرز ہے کہ جس بات کی تفصیل عہد عتیق و جدید میں نہ ہو.اس کی تفصیل کرتا ہے.اور جس کا بیان وہاں مفصل ہو اس کی طرف مجمل اشارہ کرتا ہے.اب دیکھو.قرآن نے مسیح کے مبدائے ظہور کو تِین اور زیتون سے تعبیر فرمایا.اس کی وجہ یہ ہے کہ زیتون کے پہاڑ کے پاس مسیح نے ایک گدھے کا بچّہ منگوایا اور اس کے ذریعے سے اپنی نسبت ایک بڑی پیشینگوئی کو ثابت کیا دیکھو لوقا باب ۱۹.۳۰ متی باب ۲۱.امرقس باب ۱۱.۱ تِین کے درخت کے پاس ایک معجزہ ظاہر کیا.دیکھو مرقس باب ۱۱.۱۴.اور انجیر کا نشان دینے پر ایک شخص ایمان لایا.یوحنا باب ۱.۴۸.

Page 415

.وادیٔ فاران اور دشتب فاران کی تفسیر قرآن نے یہ فرمائی ہے کہ فاران سے شہر مکّہ مراد ہے.جہاں مسیح جیسا بشیر اور موسٰی جیسا بشیر و نذیر نکلا.جس کی شریعت کی نسبت کہا گیا.(المائدہ:۴) آج مَیں نے پورا کردیا تمہارے لئے دین کو تمہارے اور پوری کر چکا مَیں اوپر تمہارے نعمت کو اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو.۱.فاران کے پہاڑ سے ایسا ظاہر ہوا کہ تمام دنیا اس کا لوہا مان گئی.اس کے داہنے ہاتھ میں شریعت روشن ہے.اس کا لشکر ملائکہ کا لشکر ہے.اس کے سبب سے خدا جنوب سے آیا.اس کی ستائش سے زمین بھر گئی.موافق اور مخالف نے محمدؐ محمدؐ یا احمد ؐ احمد ؐ پکارا.اس سے زیادہ زمین ستائس سے اور کیا ابھرتی.دشمن بھی محمدؐ کے نام سے پکارتے ہیں.پرانے عربی ترجموں میں ’’ اس کی ستائش سے زمین بھر گئی‘‘ کی بجائے یہ لفظ لکھے ہیں.وَامْتَلَأ اَلْاَرْضُ مِنْ تَحْمِیْدب اَحْمَدَ.۱؎ نوٹ : محمدؐ بمعنے ستائش کیا اور احمدؐ بڑا ستائش کیا گیا.کیونکہ صیغۂ فعل مبالغۂ فاعل اور مفعول دونوں کے لئے آتا ہے.۱؎ : اور بھر گئی زمین ستائش سے احمد صلّی اﷲ علیہ وسلم کی.۲.سینا کی جنوبی حد سے فاران شروع ہوتا ہے.مکّہ مدینہ اور تمام حجاز فاران میں ہے.کون دنیا کی ابتداء سے سوائے نبی عربی صاحب شریعت ستائش کیا گیا.یعنی محمدؐ یا احمدؐ کے فاران میں پیدا ہوا.۳.وادیٔ فاطمہ میں گل جذیمہ یعنی پنجۂ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے ہیں تو لڑکے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ مِنْ بَربیَّۃِ فَارَانَ یعنی دشتِ فاران سے.۴.وہ کون سا فاران ہے جس سے خدا ظاہر ہوا.جہاں سے مسیحؑ کے بعد رسول نکلا اور اس پر روشن شریعت نازل ہوئی.وہ کون سا مذہب سے جو فاران سے نکل کو تمام دنیا کے مشرق و مغرب میں پھیل گیا.۵.اسماعیلؑ کی والاد کو برکت کا وعدہ تھا.وہ اولاداسمٰعیلؑ کی عرب میں آباد ہوئی تھی اور ان میں سے موسٰی کا سا نبی ظاہر ہونا تھا.۶.فاران کے معنے وادی غیر ذی زرع کے ہیں.اور یہی مکّے کی صفت قرآن میں بیان ہوئی.اسی مضمون کے سروع میں دیکھ لو.

Page 416

۷.یسعیاہ ۲۱ باب ۱۶ میں دیکھو.قیداریوں کا عرب میں ہونا ثابت ہے.اور وہ اسمٰعیل کا بیٹا ہے لشکر ملائکہ کے ثبوت کے لئے.دیکھو یہود ا کا عام خط باب ۱.۱۴.دیکھ خداوند اپنے لاکھوں مقدّسوں کے ساتھ آتا ہے.تاکہ سبھوں کی عدالت کرے.عیسائیوں نے اس بشارت پر بری کوششوں سے اعتراص جمائے ہیں.قبل اس کے کہ ان کے اعتراض اور تردیدوں کا بیان کیا جاوے حضرت ہاجرہ والدہ اسمٰعیلؐ اور اسماعیلؑ کا قصّہ مختصرًا بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اعتراضات اور جوابات میں امتیاز رہے.۱.حضرت ابراہیمؑ جب بہت بوڑھے ہُوئے چاہا کہ اپنے غلاموں سے کسی کو وارث بنا دیں.خدائے تعالیٰ نے فرمایا.تیرا بیٹا ہی وارث ہو گا.پیدائش باب ۱۵.۴ ۲.حضرت ابراہیمؑ کی پہلی بیوی حضرت سارہ بہت بوڑھی ہو گئی تھیں.اس لئے انہوں نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم ؑ کے نکاح میم دیدیا.پیدائس باب ۱۶.۳ ۳.حضرت ہاجرہ اور سارہ میں جیسی کہ عادتاً سوتوں میں رنجش پیدا ہو جاتی ہے.کچھ کشیدگی سی ہو گئی.اس لئے حضرت ہاجرہ تنگ آ کر وہاں سے نکلیں.راستے میں فرشتے نے کہا.واپس جا.اﷲ تجھے برکت دیگا.تیری اولاد وسیع اور بے شمار ہو گی.تیرے ایک لڑکا ہو گا.اُس کا نام اسمٰعیل رکھنا.وہ عربی ہو گا.اس کا ہاتھ سب پر ہو گا.پیدائش ۱۶ باب ۶.۱۱ نوٹ: حال کے ترجموں میں ’’ اس کا ہاتھ سب کی ضد میں ‘‘ لکھا ہے.اگرچہ اس ترجمے کو تسلی اور برکت کا لفظ باطل کرتا ہے.الَّا پھر بھی ایک عجیب بات اس کے سج ماننے پر ہمیں مائل کرتی ہے.وہ یہ ہے کہ اہلِ کتاب کو ہمیشہ سے حضرت اسمٰعیل اور بنی اسمٰعیل سے ضد رہتی تھی.یہ ایک قدرتی ثبوت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں حصرت اسمٰعیل کی حقیقت کھٹکتی چلی آتی ہے.اور وہ بمقابلے اپنے بھائیوں کے سکونت کریگا پیدائش ۱۶ باب ۱۳ ۴.حضرت ہاجرہ حاملہ ہوئیں.اور لڑکا جَنِیں اور اس کا نام اسمٰعیل ہوا.پیدائش باب ۱۶.۱۵ ۵.پھر اﷲ تعالیٰ نے حصرت ابراہیم سے کہا کہ اب تیرا نام ابرام نہ پکارا جاوے گا.بلکہ ابراہام.کیونکہ تجھ سے بہت سی قومیں پیدا ہوں گی.اور سب کا باپ کہلائے گا.پیدائس ۱۷ باب۵ ۶.پھر ابراہیمؑ نے اسمٰغیل کے لئے دعا کی.خدا نے کہا.میں نے تیری دعا اسمٰعیل کے حق میں سنی.بیشک میں اسے برکت دوں گا.اور برومند کروں گا.اس کی اولاد بکثرت ہو گی اور اس کی پشت سے بارہ امام یا شہزادے پیدا ہوں گے اور میں ان کو ایک قوم عظیم اور ممتاز کروں گا.پیدائس باب ۱۷.۲۰

Page 417

Page 418

۳.پُرانے جغرافیوں اور قدیم کھنڈرات کی تحقیقات کرنی چاہیئے کہ اسمٰعیل ؑ کہاں آباد ہوئے جہاں وہ مقام مِلے.وہی ان کی سکونت کا مقام ہو گا.اور وہی مقام وادیٔ فاران ہے.حضرت اسمٰعیلؑ کے بارہ بیٹے تھے.پہلا بن یرث عرب کے شمال مغربی حصّے میں آباد ہوا.ریورنڈ کا تری پی کاری ایم اے نے اپنے نّشے میں اس کا نشان ۳۸،۳۰ درجہ عرض شمالی اور ۳۶،۳۸ درجہ طول مشرقی کے درمیان لگایا ہے.ریورند مسٹر فاسٹر کہتے ہیں.کہ بن یرث کی اولاد عریبیا پیٹر اسے مسرق کی طرف عریبیا ڈیزرٹا تک اور جنوب کی طرف سے خلیج الامتک و حجاز تک پھیل گئی تھی.اسٹریبر کے بیان سے پایا جاتا ہے.کہ بنیرث کی اولاد نے اس سے بھی زیادہ ملک گھیر لیا تھا.اور مدینے تک اور بندر حورا اور بندر نیبو تک جو بحرِقلزم کے کنارے پر ہے.اور مدینے سے جنوب مغرب میں واقع ہے.اُن کی عمل داری ہو گی.ریورند مسٹر فاسٹر کہتے ہیں کہ اس مختصر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن یرث کی اولاد صرف پتھریلے میدانوں میں نہیں پڑی رہی بلکہ حجاز اور نجد کے بڑے بڑے ضلعوں میں پھیل گئی.ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ بن یرث کی اولا د عرب کے بہت بڑے حصّے پر پھیل گئی ہو.اِلَّا یہ بات کہ بن یرث کی سکونت اور اس کی اولاد کی سکونت عرب ہی میں تھی.بخوبی ثابت ہے.دوسرا بیٹا قیدار ( معنی لفظ قیدار صاحب الاِبلِ.ابن خلدون جلد دوم صفحہ ۳۳۱) لفظ قیدار کے معنی ہیں اونٹوں والا.معلوم ہوا کہ قیدار ہی حضرت اسماعیل ؑکے ولی عہد اور منتہی بہ شخص تھے.آپ کا نام بھی عرب اور اس کی خصوصیات سے عجیب مناسبت رکھتا ہے) بن یرث کے پاس جنوب کی طرف حجاز میں آباد ہوا.ریورنڈ مسٹر فاسٹر لکھتے ہیں کہ اشعیا نبی کی کتاب سے بھی صاف صاف قیدار کا مسکن حجاز ثابت ہوتا ہے.جس میں مکّہ اور مدینہ شامل ہیں.اور زیادہ ثبوت اس کا حال کے جغرافیے میں شہر الحذرؔ اور بنتؔ سے پایا جاتا ہے.جو اصل میں القیدار اور بن یرث ہیں.یورنیس اور بطلیموس اور پلینیٔ اعظم کے زمانوں میں یہ قومیں حجاز کی باشندہ تھیں.کیڈری یعنی قیدری.دری مخفف قیدری اور گڈرونا نائینی یعنی قیداری کدربتی یعنی قیدری.دیکھو ہسٹری جغرافیہ جلد اوّل صفحہ ۲۴۸.پس بخوبی ثابت ہے کہ قیدار حجاز میں آباد تھا.کاتری پی کاری نے اپنے نّشے میں قیدار کی آبادی کا نشان ۲۶،۲۷ درجہ عرص شمالی اور ۳۷،۳۸ درجہ طول شرقی کے درمیان میں لگایا.تیسرا لڑکا ادبئیل ہے.بموجب سَندَ جو زیفس کے ادبئیل بھی اپنے ان دونوں بھائیوں

Page 419

کے ہمسائے میں آباد ہوا.جوتھا لڑکا مبسام ہے مگر اس کی سکونت کے مقام کا پتہ نہیں ملتا.پانچواں بیٹا مسماع ہے.مسٹر فاسٹر کا یہ قیاس صحیح ہے کہ عبرانی میں جس کو مسماع لکھا ہے.اُسی کو یونانی ترجمہ سبٹوجنٹ میں مِسما اور جو زینس نے مسماس اور بطلیموس نے مسمیز لکھا ہے اور عرب میں اس کی اولاد بنی مسما کہلاتی ہے.پس کچھ شبہ نہیں کہ یہ بیٹا اوّلاًقریب نجد کے آباد ہوا.چھٹا بیٹا وومہ تھا.مشرقی اور مغربی جغرافیہ دان قبول کرتے ہیں کہ یہ بیٹا تہامہ میں آباد ہوا تھا.معجم البلدان میں لکھا ہے کہ دومۃالجندل کا نام واقدی کی حدیث میں دو ماہ الجندل آیا ہے.اور ابنِ ثقیفہ نے اس کو اعمال مدینہ میں گِنا ہے.اس کا نام دنوم ابن اسمٰعیل ابن ابراہیم کے نام پر ہوا.اور زجاجی کہتا ہے.کہ اسمٰعیل کے بیٹے کا نام دو مان ہے.بعص کہتے ہیں کہ اس کا نام دمّہ تھا.ابن کلبی کہتا ہے کہ دومہ اسمٰعیل کا بیٹا تھا.جب تہامہ میں حضرت اسماعیل ؑ کی بہت سی اولاد ہو گئی تو دومہؔ وہاں سے نکلا اور بمقام دومہؔ قیام کیا اور وہاں ایک قلعہ بنایا اور اس کا نام دومہؔ اپنے نام پر رکھا.اور ابوعبیدہ سکونی کا قول ہے کہ دومۃ جندل قلعہ اور گاؤں شام اور مدینے کے درمیان میں ہیں.قریب جبل طَیْ کے اور دومہ وادیٔ قرٰی کے گاؤں میں سے ہے.مسٹر فاسٹر بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں اور اب تک یہ ایک مشہور جگہ عرب میں موجود ہے.ساتواں بیٹا مسّا تھا.یہ بیٹا حجاز سے نکل کریمن میں آباد ہوا.اور یمن کے کھنڈرات میں اب تک مسّا کا نام قائم ہے.کاتری پیکاری نے اپنے نقشے میں اس مقام کا نشان ۱۳ درجے اور ۳۰ دقیفے عرص شمالی اور ۴۳ درجے اور ۳۰ دقیقے طول شرقی میں قائم کیا ہے.اسمٰعیلؑ اور ان کی اولاد حجاز میں تھی.بلاشبہ جب اولاد جوان ہوئی اور کثرت ہو گئی.تب مختلف مقاموں میں جا کر سکونت اختیار کی.مگر عمدہ بات قابلِ عور یہ ہے کہ سب کا پتہ عرب ہی میں یا حجاز میں یا حجاز کے آس پاس پایا جاتا ہے.آٹھواں بیٹا حدد.اس کو عہد عتیق میں حدّاد بھی لکھا ہے.یمن میں شہر ہدیدہ اب تک اسی کا مقام بتلا رہا ہے.اور قومِ حدیدہ جو یمن کی ایک قوم ہے.اسی کے نام کو یاد دلاتی ہے.زہیری مؤرخ کا بھی یہی قول ہے اور مسٹر فاسٹر بھی اسی کو تسلیم کرتا ہے.نواں بیٹا تیما تھا.اس کی سکونت کا مقام نجد ہے اور بعد کو رفتہ رفتہ خلیج فارس تک پہنچ گیا.دسواں بیٹا یطور تھا.مسٹر فاسٹر بیان کرتے ہیں کہ اس کا مسکن جدورؔ میں تھا.جو جبل کسیونی کے جنوب اور جبل الشیخ کے مشرق میں واقع ہے.

Page 420

گیارہواں بیٹا نافیشِ تھا.مسٹر فاسٹر جو زیفس اور تورات کی سند سے لکھتے ہیں کہ عریبیا ڈیزرٹا میں اُن کی نسل کے نام سے آباد تھے.بارہواں بیٹا قدِمہ انہوں نے بھی یمن میں سکونت اخیتار کی.مؤرخ مسعودی نے لکھا ہے کہ اصحاب الرس اسمٰعیل ؑ کی اولاد میں سے تھے اور وہ دو قبیلے تھے.ایک کو قدمان اور دوسرے کو یامین کہتے تھے.اور بعضوں کے نزدیک دعویلؔ اور یہ یمن میں تھے.اب اس تحقیقات سے جو جغرافیے کی رُو سے نہایت اطمینان کے قابل ہیں دو باتیں ثابت ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت اسماعیل ؑ اور ان کی تمام اولاد عرب میں آباد ہوئی اور دوسرے یہ کہ مرکز اس خاندان کی آبادی کا حجاز تھا.جہاں اسمٰعیل ؑ کی مقدم اولاد کا مسکن ہوا تھا اور پھر اُس مرکز سے ار طرف عرب میں پھیلے.پس ثابت ہوا.کہ حصرت اسمٰعیل ؑنے حجاز میں سکونت اختیار کی تھی اور اسی کا قدیم نام فاران ہے جو حصرت موسٰی اور حصرت حبقوق نے اپنی اپنی بشارتوں میں بتایا.عیسائیوں کے اعتراض اگرچہ یہ بات نہایت صفائی سے طاہر ہے کہ وادیٔ حجاز اور وادیٔ فاران دونوں ایک ہیں.اور اسمٰعیلٔ کی اولاد کے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر اس کی گواہی دے رہے ہیں.مگر بایں ہمہ عیسائی اس کو تسلیم نہیں کرتے.اور موقع فاران کی نسبت مفصّلہ ذیل تین رائیں قرار دیتے ہیں.۱.یہ کہ وہ اس وسیع میدان کو جو بیرشبع کی شاملی حد سے کوہ سیناتک پھیلا ہوا ہے.فاران کہتے ہیں.۲.قادیس جہاں ابراہیمؑ نے ( بیرشبع ) کھودا اور فاران ایک ہے.۳.فاران اسی وادی کا نام ہے جو سینا سے غربی نشیب پر ہے.جہاں قبریں عمارتیں اب ملی ہیں.جواب ۱.بتاو یہاں اسمٰعیل ؑ اور اس کی صلبی اولاد کب آباد ہوئی.۲.کتاب ۳.۱۳.۲۰،۲۶ وہ سردار کنعان کو دیکھ کر پھرے تو بیانانِ فاران میں سے قادیش میں پہنچے (قادیش شمالی حد فاران کی ہے) یاد رہے اس آیت کی اصل عبری عبارت یہ ہے.اِلْ مِدْبَرْ فَارَان قَادبشِیَّہ.لفظی ترجمہ طرف وادی فاران کے بہ نیل مرام.قادیش کے معنے حائل کے بھی ہیں دیکھو ترجمہ انقلس.فاران تین ہیں.ایک حجاز میں.دوسرا طور یا سینا کے پاس تیسرا سمرقند میں.سمرقند والا فاران

Page 421

مبحث سے کارج ہے.اور جو فاران طور یا سینا کے قرب میں واقع ہے.وہ فاران نہیں جو ابراہیم ؑ کے وقت تھا.وہ نہیں جس کا تورات میں ذکر ہے.وہ نہیں جہاں ہاجرہ نے اسمٰعیل کے ہمراہ بیر شبع میں راستہ گم کر کے اقامت کی اور وہ نہیں جہاں ابتداًء اسمٰعیل کی اولاد آباد ہوئی.وہ نہیں جہاں سے بعد سعیر خدا نے ظہور کیا.ہاں بلاشبہ زمانے کے دَور میں اسمٰعیل ؑ کی اولاد حجاز سے نکل کر تمام عرب میں خلیجِ فارس تک پھیل گئی.پس اگر حجاز کے سوا اور جگہ سے پُرانے ایسے کھنڈرات ملے ہوں جو بنی اسمٰعیل کے ناموں کے مشابہ ہوں یا مطابق تو وہ اس نفس الامری بات کو اٹھا سکتے ہیں کہ اسمٰعیل ؑ حجاز میں اباد ہوا.جو فاران سینا کے مغرب میں ہے.اور جس کے آثار ملے ہیں.وہ توریت کا فاران نہیں.موسٰی کے زمانے میں اس کا وجود نہ تھا.موسٰی مصر سے نکلے بہرب احمر سے پار ہوئے.تو شور میں پہنچ کر سین کو طے کر کے رفیدیم میں ٹھہرے وہاں خروج باب۱۹ آیت ۲ تا ۲۴ میں ہے عمالق آن کر اُترے.اس سے ثابت ہوتا ہے.عمالیق رفیدیم کی نہ تھی.یہاں یاد رکھو کہ رفیدیم کوہ سینا کے مغرب اور مصر کے شرق میں ہے.پھر رفیڈیم سے موسٰے مشرق کی طرف سینا کو چلے اور سینا میں پہنچے.اس سینا کے غربی فاران کا ذکر موسٰی نے نہیں کیا.پھر سینا سے آگے بڑھے اور شمال مشرق کو چلے.اس راہ میں حضرت موسٰی کہتے ہیں.بنی اسرائیل.بیابان سے نکلے اور بادل بیابان فاران میں ٹھہر گیا.(گنتی باب۱۰آیت ۱۱ تا ۱۳) اس تقریر سے ثابت ہو گیا کہ حصرت موسٰیؑ کے وقت فاران کوہ سینا کے شمال مشرق میں قادیش کے قریب واقع تھا اور وہی حجاز کا بیابان ہے.نہ غربی نشیب سینا کا.البتّہ ایسا معلوم ہوتا ہے.عرب کی ایک قوم جو فاران بن حمیر کی اولاد میں سے تھی اور بنی فاران کہلاتی تھی کسی زمانے میں سینا کے مغرب میں آباد ہوئی اور اس سبب سے وہ مقام فاران مشہور ہو گیا.یہ وہ فاران نہیں جس کا ذکر تورات میں ہے (خطبات الاحمدیہ بتبدیل یسیر) ( فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۳۶ تا صفحہ ۴۴) تِین اور زیتون.ان دو چیزوں کو قسمیہ بطور شہادت کے اس لئے بیان کیا کہ علاوہ غزا کے جسمانی امراض کے لئے بھی بطور دوا کے یہ دونوں چیزیں استعمال کی جاتی ہیں.کبھی طبیب تِین تجویز کرتا ہے تو کبھی تبدیل نسخہ کے لئے زیتون مفید سمجھتا ہے.زیتون کو مؤخر اور تِین کو مقدّم ذکر کرنے کی وجہ انشاء تعالیٰ آگے بیان ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء) ۳،۴...

Page 422

ایک زمانہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے نبوّتوں کے توسط سے اپنے تخت کو بنی اسرائیل کے لئے طورب سینین اور اور ملک شام کی طرف بچھایا.اور اب دوسرے زمانہ میں اپنی حکمت اور مصلحت کی بناء پر بنی اسمٰعیل اور تمام دنیا کے لئے اپنے تخت کو محمد رسول اﷲ علیہ و الہٖ وسلم کے توسط سے بلد اﷲ الامین میں تجویز فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء) ۵..کے لفظ میں یہ بیان فرمایا ہے.کہ ذرا سی بے اعتدالی سے انسان تقویم کے اعتدال سے یکسُو ہو کر جسمانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے.تینؔ یا زیتون کا نسخہ تجویز کرنا پرتا ہے.ایک سے اچھا نہ ہو تو دوسرا بدلنا پڑتا ہے.یہی حال روحانیت کی تقویم کا بھی ہے کہ گناہوں میں مبتلا ہو کر انسان اَسْفَلَ السّنافِلِیْن میں جا گرتا ہے.۶..میں یہ اشارہ فرمایا کہ بادشاہیاں چھن جاتی ہیں.محتاجیوں کے قعر میں جا پڑتے ہیں نبوّتیں منتقل ہو جاتی ہیں.ایک قوم نالائق ہوتی ہے.تو محروم رکھی جاتی ہے اور اس کی جگہ اﷲ تبارک و تعالیٰ دوسری قوم کو منتخب فرماتا ہے.جیسا کہ بنی اسرائیل اور بنی قیدار کا حال ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء) ۷ تا ۹....یہ استثناء بڑا ضروری تھا اور اس بت کی طرف اشارہ کر رہا ہے.کہ نئی نبوّت کے قائم ہونے کے وقت پرانے نبی کے متبّعین اگر موجودہ زمانہ کے مرسل کو بھی قبول کر لیں گے.تو ان کا اجر ممنون یعنی منقطع نہ ہو گا بلکہ دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ (الحدید :۲۹)یعنی دوہرے اجر ملیں گے.اگلے بھی اور پچھلے بھی.

Page 423

معنے دین کے جزا سزا کے ہیں.سورۂ شریفہ بہت چھوٹی ہے.مگر ایک ایک لفظ سے اشارات یہ پائے جاتے ہیں کہ انتقالِ نبوّت بنی اسرائیل سے بنی اسمٰعیل میں جو ہوا.تو حق اور حکمت کے ساتھ ہوا.بے وجہ نہیں ہوا.طبیب نے نسخہ تبدیل کیا تو سوچ سمجھ کر ہی کیا.: اب اے نبی صلی ا علیہ و آلہٖ وسلم تیری تکذیب سے ان کو کیا فائدہ جبکہ جزا سزا، یا یوں کہو کہ مرض کی دوا موافق طبیعت کے ملی ہے.حاکموں پر جو حاکم ہوتا ہے.اس کا یہی کام ہوتا ہے کہ حکمت اور مصلحت کی بناء پر ماتحت حکومتوں کو بدل دے.حضرت مسیحؑ کا پتہ تِیْن اور زیتون سے دیا گیا.وہ پہاڑ جس پر یروشلم آباد ہے اس کے دو ٹکڑے ہیں.ایک کو اب تک زیتون کی پہاڑی کہتے ہیں اور دوسرے کو تِین کہتے ہیں.اور ساعیران دونوں کے مجموعہ کا نام ہے.سو تِیْن اور زیتون کے ذکر سے حضرت مسیحؑ کی جائے ظہور کا پتہ دینا منظور ہے کیونکہ زیتون پہآر کے پاس مسیحؑ نے ایک گدھے کا بچہ منگوایا تھا اور اس کے ذریعہ سے اپنی نسبت ایک بری پیسگوئی کو ظاہر کیا تھا ( لوقا باب ۱۹ آیت ۳۰) متی باب ۲۱ آیت ۱،۲، مرقس باب ۱۱ آیت ۱،۲) اور تِین پہاڑی کے پاس ( جس کو تِین اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہاں انجیر کے درخت تھے) حضرت مسیحؑ نے ایک معجزہ ظاہر کیا تھا ( دیکھو مرقس باب ۱۱ آیت ۱۴) اور انجیر کا نشان دیکھنے پر ایک شخص ایمان لایا ( یوحنا باب ۱ آیت ۴۸) طورِ سینا پر حصرت موسٰیؑ کو خدا کی طرف سے احکام ملے اور ان پر تجلی الہٰی ہوئی.امن والا شہر یعنی مکّہ معظمہ دشتِ فاران میں ہے.کیونکہ حضرت اسمٰعیل ؑاور بی بی ہاجرہ کو حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام اسی سر زمین میں چھوڑ گئے تھے ( دیکھو پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱) اس دشت سے حضرت محمد مصطفٰے صلی اﷲ و آلہٖ وسلم جلوہ گر ہوئے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فتح مکہ کے دن مکہ میں تشریف لائے.اور ان کے ہاتھ میں آتشی شریعت تھی.پس تین و زیتون.طور سینین.بلدالامین ( یعنی شہر مکہ ) تین عظیم الشان انسانوں کی یادگاریں ہیں.جن کی ستائش ہزارہا سال سے تمام عالم میں ہو رہی ہے.یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اَحْسَنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور روحانی اور جسمانی دونوں حیثیتوں سے اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ خلقت عطا ہوئی ہے.جس کے نمونے یہ تینوں برگزیدہ انبیاء علیہم السلام ہیں.اور جن کی تبلیع سے ہر ایک انسان اپنی فطرت پر قائم اور فطری نقشے پر جما رہ سکتا ہے.مگر بدعملی اور بے ایمانی کی وجہ سے بھی انسان ایسا خراب ایسا بد

Page 424

اور ایسا غلیظ ہو جاتا ہے کہ اَرذَل ترین حیوانات سے بھی پرے جا رہتا ہے.ہاں جو لوگ ایمان اور اعمالِ صالح پر قائم ہیں اور اس تنزّل اور فساد سے محفوظ رہتے ہیں.وہ اجر غیر منقطع حاصل کرتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء)

Page 425

سُوْرَۃَ الْعَلَقِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۶......ان آیات میں آپؐ کی ترقی اور کامیابی اور کمالات پر جو کچھ لفظ اور اور اور سے ظاہر ہو سکتا ہے.وہ عقل والے آدمی سے مخفی نہیں.پھر یہ پیشینگوئی جیسی پوری ہوئی وہ بالکل معجزہ ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۲۶) یہ پہلے الفاظ ہیں جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئے.ہر کام بسم اﷲ سے شروع کرنا چاہیئے.خلق کے بعد ربوبیت لازمی اور ضروری ہے.ظاہری جسمانی پرورش سے پرورشِ روحانی مقدّم ہے.ربّ کے لفظ میں یہ بھی سمجھایا کہ آپؐ کی روحانی نشوونما کا یہ پہلا اور ابتدائی قدم ہے جو بتدریج ترقی کر کے آپؐ کو عظیم الشان بنا دے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍اگست ۱۹۱۲ء) پہلا الہام جو ہمارے سیّد و مولیٰ مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوا.وہ بھی ہی تھا اور پھر رَبِّ زدْنِیْ عِلْمًا کی تعلیم ہوتی ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علم کی کس قدر صرورت ہے.سچّے علوم کا مخزن قرآن شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے.اور یہ حاصل ہوتا ہے.تقوٰی اﷲ سے مامور من اﷲ کی پاک صحبت میں رہ کر.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں.جو اپنی سلامتی، صدقِ نیت، شفقت علیٰ خلق اﷲ، عایت البعد عن الاغنیاء، آسانی، جودتِ طبع، سادگی ، دوربینی کی صفات

Page 426

صفات سے فائدہ پہنچاتے ہیں.(الحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۴) : علق بغیر ہڈی کے گوشت کے کیڑے کو کہتے ہیں.انسان کی پیدائش کی ابتداء اس باریک کیڑے سے ہوتی ہے جو نطفہ مَنی میں ہوتا ہے.جس کو ڈاکٹری اصطلاح سپر موٹوزہ کہتے ہیں.ربوبیت کی ابتدائی کیفیت اور علق کی ابتدائی کمیت مساوی الحال ہوتے ہیں.: اکرم کے لفظ میں پیشگوئی فرمائی کہ آپ ؐ مکرم و معظم ہو جائیں گے.: عرب ایک ایسا جزیرہ تھا کہ اسلام سے پہلے کوئی تاریک نہیں بتا سکتی کہ وہاں سے کوئی کتاب تصنیف ہوئی ہو.ایسی عظیم الشان ربوبّیت ہوئی کہ اسلام کی کتابوں کو اب کوئی گن بھی نہیں سکتا.یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست کتب کانۂ چند ملّت بشست ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۳۴) ۷،۸...اب یہاں سے ذکر مخالف کا چل پڑا.معلوم ہوا کہ نبی کے ساتھ مخالف کا ہونا بھی صروری ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مکالفت کرنیوالے بڑے اغنیاء ہی ہوتے ہیں.دوسری جگہ فرمایا ہے.(الانعام:۱۲۴) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء ) ۱۰ تا ۱۵.......فرما کر ایک ہی سیاق سے اپنے نبی اور مخالف کو مخاطب فرمایا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍ اگست ۱۹۱۲ء )

Page 427

۱۶..سَفْعٌ کے معنے زور سے کھینچنے اور گھیسٹنے کے ہیں.نَاصِیَۃ پیشانی اور مقدم ِراس کے بال.غیظ و غضب کے وقت پیشانی پر بل ڈال کر نہایت ڈراؤنی شکل سے انسان اس کو گُھر کتا ہے.جس کو مغلوب کرنا چاہتا ہے.یہ خرکت پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہل وسلم کے ساتھ ابوجہل نے کعبہ میں کی تھی اور پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو نماز پڑھنے سے منع کیا تھا.اس لئے یہ پیشینگوئی اس کے حق میں بدر کے دن پوری ہوئی کہ ناصیہ سے پکڑ کر گھیسٹ کر گڑھے میں اس کی لاش کو ڈالا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء) ۱۸،۱۹...نَادِی سے اہل نادی مراد ہیں.اور نادی کے معنی مجلس کے ہیں.کَمَا قَالَ اﷲُ تَعَالٰی ونتَاْتُوْنَ فِیْ نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ ( العنکبوت:۳۰)مکّہ کے دارالندوہ کو اسی لئے نادی کہا کہ اس میں مشورہ کرنے کے لئے لوگوں کو پکار کر بلایا جاتا تھا.جی چاہتا ہے کہ ہمارے وطن کے علماء جو قوم کے پیشوا کہلاتے ہیں اپنے لئے بجائے ندوۃُالعماء کے قمدوۃُ العماء نام تجویز کر لیں تو بہت ہے.بُلْبُلَا مثردۂ بہار بیار خبر بَد بہ بُومِ شُوم گذار کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَآلَّۃُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَ جَدَھَا زَبْانِیّۃَ: زبن سے مشتق ہے جس کے معنے دفع کے ہیں.جنّ و انس میں سے ہر متمرّد شخص زَبْنِیْۃ کہتے ہیں.اکثر اہل لغت کا قول ہے.کہ زبانیہ ان جمعوں میں سے ہے.جن کا مفرد نہیں.جیسے ابابیل وغیرہ.غرض کہ زبن جس کے معنے دفع کے ہیں.ابتداء ہی سے اسلام میں یہ قاعدہ رکھا گیا ہے کہ جنگ صرف دفاعی طور پر کی جائے.آیت بالا کے الفاظ کی ترتیب بھی یہی تعلیم دے رہی ہے.پہلا مقابلہ نادیہ اور زبانیہ کا اسلام میں بدر کے دن ہوا.لکھا ہے کہ مکّہ معظمہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کو ابوجہل نے ایسا طمانچہ مارا تھا.جس سے ان کا کان پھٹ گیا تھا.بدر کے دن حضرت عبداﷲ بن مسعودؓ کو اﷲ تعالیٰ نے ابوجہل کا سر کاٹنے کے لئے اس پر مسلّط کیا تھا.جب سرکاٹ چکے تو اس کے کان میں رسّہ

Page 428

پرو کر سر کو گھسیٹتے ہوئے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور میں لایا گیا.اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا: اُذُنٌ بِاُذُنٍ وَالرَّأْسُ ھَھُنَا مَعن الْاُذُنِ (درس القرآن) ۲۰..: قرآن کریم کے سجداتِ تلاوت میں سے یہ آخری سجدہ ہے.حدیثِ شریف میں ہے کہ بندہ سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ سے بہت ہی نزدیک تر ہوتا ہے.حدیث شریف کا اور آیت شریف کا مطلب گویا ایک ہی ہے.وضو نہ ہو تو تیمّم ہی کافی ہے.گوبے وضو بھی جائز ہے مگر کم از کم تیمّم کر لیا جاوے تو بہتر ہے.دعا کے لئے سجدہ ایک بے نظیر موقعہ ہے جس کو زبان عربی نہ آتی ہو وہ اپنی مادری زبان ہی میں تسبیح کے ساتھ اپنی مشکلات کے لئے دعا بھی کرے.سجدات کے وقت کی دعائیں خطا نہیں جاتیں.یہ وقت بہت ہی قُرب الہٰی کا وقت اہوتا ہے.جس قدر سجدات کی تعداد زیادہ ہو گی.اسی قدر قرب کے مدارج بھی زیادہ ہوں گے.جن کے لئے یہ نعمت مقدر ہی نہیں وہ اس ادنیٰ سی حرکت کی توفیق پانے سے محروم رہتے ہیں.اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ دعا تمام عبادتوں کا مغز ہے اور سجدہ تمام منازلِ قرب کا انتہائی مقام ہے.یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں.اس کلامِ الہٰی میں پانچ پیشگوئیاں ہیں.اوّل.اس کا مطلب یہ ہے کہ ربوبیتِ الہٰی نے جو تیری خاص پرورش فرمائی ہے اور اپنے اندازہ کاص سے قوٰی مرحمت کئے اور خاص کلام کے لئے تجھے منتخب کیا.اور اپنے ہاتھ سے تیرا پیڑ لگایا ہے اور تیرے مبارک پھلوں کے انتطار میں بیٹھی ہے وہ تجھے صرور کامیاب اور سرسبز کرے گی اور تیرے نونہال کو اعداء کے تبر اور مخالف جھونکوں سے محفوظ رکھے گی.دوسری پیشگوئی یعنی اس منی کے کیڑے یاجونک کی طرف دھیان کرو کہ وہ کیسا حقیر اور ذلیل تھا جس کا ایسا خوبصورت اور باکمال انسان بنا.جب ہماری ربوبیت نے نظرِ عنایت سے ایک کیڑے کو اس صورت و شکل تک پہنچایا ہے اور ایک مقصد اور غایت کے لئے جو ربوبیت کا اصلی تقاضا ہے.یہ خلعت کمال مرحمت فرمایا ہے.تو کیا اب ہماری ربوبیت اس کا ساتھ چوڑ دے گی.ہم اپنی ربوبیت کا سایہ عاطفت اس پر رکھیں گے.جب تک وہ انسان اپنی خلقت کی علّتِ غائی کو پہنچ نہ جائے.قرآن کریم میں تدبّر کرنے والے جانتے ہیں کہ نبوّت کی تربیّت اور اس کے کمال مطلوب تک پہنچانا

Page 429

پہنچانا خدا تعالیٰ کے اسم ربّ کا خاصہ ہے.اور جہاں جہاں خدا تعالیٰ نے ضرورتِ نبوّت کی قرآنِ کریم میں بحث چھیڑی ہے دلیل میں اپنے اسم ربّ کو مذکور فرمایا ہے اس لئے کہ جیسے اس ربوبیت نے انسان کے عالم اجسام کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی اشیاء کو مسخّر کیا اور خدمت میں لگا دیا ہے ویسے ہی اس کی ربوبیت نے تقاضا کیا کہ انسان کی روہ کی تربیت کے لئے جو اصلی مقصود اور ابدی غیر فانی شَے ہے اس کی تربیت کے مناسب حال سامان مہیا کرے.سو اس کے لئے اس نے نبوّت کا سلسلہ اس جہان میں قائم کیا.اور جہاں نبوّت کے اعداء اور مخالفین کو مقابلہ سے ڈرانا چاہا اور ان کے بارے میں خوفناک وعید بیان کرنے چاہے ہیں وہاں نبوّت کی حمایت و دفاع میں اسم اﷲ کو جو جامع جمیع صفاتِ کاملہ ہے پیس کیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے.کہ نبوّت کا اصلی مقصد توحیدِ الوہیت کا قائم کرنا اور الہٰہ باطلہ اور ہر قسم کی طواغیت کا ابطال کر کے خدا تعالیٰ کے لئے معبودیت اور الوہیت کا یگانہ استحقاق اور لاشریک منصب مخصوص کرنا ہوتا ہے تو جب عداوت اور مخالفت اپنے ہتھیار پہن کر اس کا استیصال کرنے پر آمادہ ہوں.تب غیرت اور جوش بھی اسی کو آنا چاہیئے جس کی خدمت کے لئے نبوّت میدان میں نکلی ہے.بہر حال اس علق اور الانسان کے لفظ میں بڑی بھاری پیشگوئی ہے.تیسری پیشگوئی...اس کا مطلب یہ ہے.کہ اس کتابِ عجیب میں جو تجھے دی جاتی ہے.اور جو بظاہر انسانی قلم سے لکھی جاتی ہے.وہ وہ علومِ عالیہ ہوں گے کہ کُل بنی آدم کی معلومات اس کے مقابلہ سے عاجز آ جائیں گے.اَلْاِنْسَان سے ملا کر یہ ارشاد فرمایا ہے.کہ فطرتًا اور اکتسابًا انسان کی بساط میں اور اس کے قوٰی کی رسائی میں وہ علومب عالیہ آہی نہیں سکتے.جن پر قرآن مجید مستمل ہے.لہٰذا یہ علوم لا ریب خداوند علیم خالق انسان کی طرف سے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ذہینوں کے ذہن.عقیلوں کی عقلیں اور عالموں کے علم اور محرّروں کی قلمیں ان سماوی علوم کے مقابلہ میں ٹوٹ جائیں گی.

Page 430

پانچویں پیشگوئی.....(العلق:۱۶ تا ۲۰) دشمن کی عداوت کی پیش رفت نہ جائے گی.اور اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی جھوٹی خطاکار چوٹی کو پکر کر زور سے کھینچیں گے اور یوں ذلّت سے گھسیٹ کر ہاویہ میں گرائیں گے.پھر وہ اپنی مجلس کو جن کے بل بوتے پر اسے ناز تھا بلائے اور امن کی دُہائی دے ہم بھی سیاست کے پیادوں کو بلائیں گے.وہ ہرگز اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہو گا.تو اپنے کام میں لگا رہ اور ان کے خلاف کی ذرّہ بھی پرواہ نہ کر اور کبھی ان کی ہاں میں ہاں نہ ملا.اس طے کہ ان کے ہاتھ تیرا کوئی نفع اور ضرر نہیں اور ہماری فرماں برداری میں لگارہ.اور جس قدر تو ہمارا فرماں بردار ہو گا ہماری جناب میں تیرا قرب اور درجہ اتنا ہی بڑھے گا.

Page 431

سُوْرَۃَ الْقَدْرِ مَکِّیَّۃٌ ۲..لَیْلَ.ظلمت اور قدْر دال کے سکون کے ساتھ بمعنے مرتبہ.یہ دونوں صفتیں ایک جگہ اکٹھی کی گئی ہیں.لیلث القدر.ایک خاص رات رمضان شریف کے آخر دھاکا میں ہے.جس کا زکر سورۃ الفجر میں وَ الَّیْلِ ابذَا یَسْرِ ( فجر:۵)میں بھی کیا گیا ہے.اور ایک جگہ فرمایا شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ (بقرہ:۱۸۶)اور دوسری جگہ بیان فرمایا اِنَّآ اَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ ( القدر:۲)ان دونوں آیتوں کے ملانے سے بھی معلوم ہوا.کہ لیلۃ القدر رمضان شریف میں ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے اور بھی زیادہ تشریح کر کے یہ پتہ دیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کے آخیر دھاکا کی طاق راتوں میں ہوا کرتی ہے.کسی سال اکیسویں شب کو.کسی سال ۲۳ یا ۲۵ یا ۲۷ یا ۲۹ ویں شب کو.اس شب کے فضائل صحیح حدیثوں میں بیحد بیان فرمائے ہیں.کا مرجع جس طرح قرآن شریف سمجھا گیا ہے.اسی طرح اس سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی زاتب مبارک بھی مُراد ہے.اسی لئے فرمایا.کہ قرآن اور منزل علیہ القرآن دونوں ہی مرجع ٹھہریں.ورنہ اَنْزَلْنٰہُ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ فرمانا کوئی بعید بات نہ تھی.لیل وہ ظلمت کا زمانہ ہے.جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت کے وقت سے پہلے کا زمانہ تھا.جس کو عام طور پر ایّام جاہلیت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور قَدْر دال کی سکون کے ساتھ وہ قابلِ قدر زمانہ ہے.جس زمانہ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت شروع ہوئی اور اس کی مدّت پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبّہ میں سے ۲۳ سال کی مدّت تھی.جس میں ابتداء الیٰ آخر سارے قرآن شریف کا نزول ہوا.ایک طرف ظلمت کے ایّام ختم ہوئے اور دوسری طرف قبالِ قدر زمانہ شروع ہوا.اس لئے یہ متصاد صفت لیلؔ اور قدرؔ یہاں آکر اکٹھے ہو گئے.شبِ قدر اور لیلۃ القدر دال کی حرکت کے ساتھ صحیح نہیں ہے.قرآن شریف میں بھی شہر اور فجر کی طرح قدر کی دال متحرک نہیں ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍ اگست ۱۹۱۲ء)

Page 432

میں بھی شہر اور فجر کی طرح قدر کی دال متحرک نہیں ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍ اگست ۱۹۱۲ء) حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو اس وقت ان کی بعثت کی بڑی ضرورت تھی.لوگ نہ اسماء الہٰیہ کو جانتے تھے نہ صفات الہٰیہ کو.نہ افعال سے آگاہ تھے، نہ جزاء و سزا کے مسئلہ کو مانتے تھے.انسان کی بدبختی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے مالک، اپنے خالق کے نہ اسماء کو جانے، نہ صفات کو.غرض لوگ اس کی رصا مندی سے آگاہ تھے ، نہ اس کے غضب سے.ایسا ہی انسانی حقوق سے بے خبر سب سے بڑا مسئلہ جو انسان کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے.وہ جزا و سزا کا مسئلہ ہے.اگر شریف الطبع انسان کو یہ معلوم ہو کہ اس کام کے کرنے سے میری ھتک ہو گی یا مجھے نقصان پہنچے گا تو وہ کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا.بلکہ ہر فعل میں نگرانی کرتا ہے.مختلف طبائع کے لوگ اپنے مالک کے اسماء.صفات کے علم اور جزاء و سزا کے مسئلہ پر یقین کرنے سے نیکیوں کی طرف توجہ کرتے اور بدافعالیوں سے رکتے ہیں.چنانچہ ملک عرب میں شراب کثرت سے پی جاتی اور اَلْخَمْرُجَمَاعُ الْاِثْمِ صحیح بات ہے.پھر فرمایا اَلنِْسَائُ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ.سومؔ.ملک میں کوئی قانون نہیں تھا.ایسا اندھیر پڑا ہوا تھا.جن سعادتمندوں نے نبی کریمؐ کے ارشاد پر عمل کیا.وہ پہلے بے خانماں تھے.پھر بادشاہ ہو گئے.خشن پوس تھے حریر پوش بن گئے.نہ مفتوح تھے نہ فاتح.مگر اس اطاعت کی بدولت دنیا میں فاتہ قوموں کے امام خلفاء راشدین اور اعلیٰ مرتبت سلاطین کہلائے.یہ سب اس کتاب کی برکت تھی جسے اﷲ نے ایسی اندھیری رات میں جسے لَیْلَۃم الْقَدْرِ سے تعبیر کیا گیا ہے.اپنے بندے پر نازل کیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی حالات میں ہم میں ایک مجدّد کو بھیجا.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں شرک کا زور تھا.سو اس کی تدبیر میں آپؐ نے پوری کوشس کی.قرآن مجید کا کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں.اِس زمانہ کے لوگوں میں یہ مرض عام ہے کہ دنیا پرستی غالب ہے.دین کی پرواہ نہیں.اس لئے آپؑ نے بیعت میں یہ عہد لینا شروع کیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا.کیونکہ دنیا پرستی کا یہ حال ہے جیسے کہ چوہڑے کا چُھرا حلال و حرام جانور دونوں پر یکساں چلتا ہے.اسی طرح لوگوں کی فکر اور عقل حرام حلال کمائی کے حصول پر ہر وقت لگی رہتی ہے.فریب سے مِلے.دَغا سے ملے.چوری سے ملے.سینہ زوری سے ملے.کسی طرح روپیہ ملے سہی.ملازم ایک دوسرے سے تنخواہ کا سوال نہیں کرتے.بلکہ پوچھتے ہیں بالائی آمدنی کیا ہے.گویا اصل تنخواہ آمد میں داخل نہیں.مسلمانوں پر ایک تو وہ وقت تھا.کہ اپنی ولادت.موت تک کی تاریخیں یاد اور لکھنے کا رواج تھا اب یہ حال ہے کہ لین دین شراکت تجارت ہے مگر تحریر کوئی نہیں.اگر کوئی تحریر ہے.تو ایسی بے ہنگم

Page 433

ہنگم جس کا کوئی سر پیر نہیں.نہ اختلاف کا فیصلہ ہو سکتا ہے.نہ اصل بات سمجھ میں آسکتی ہے.ہمارے بھائیوں ( احمدیوں ) کو چاہیئے کہ وہ امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں.دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا.پس وہ دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ خدا کو بھول جائیں.پھر فرمایا کہ جھوٹے قصّے اپنے وعظوں میں ہرگز روایت نہ کرو.نہ سنو.مخلوق الہٰی کو قرآن مجید سناؤ.ہدایت کے لئے کافی ہے.سلیمان کی انگشتری اور بھٹیاری کا بھٹ جھونکنے کا قصّہ بالکل لغو اور جھوٹ ہے.اگر ایک پتھر میں جو جمادات سے ہے اتنا کمال ہے تو کیا ایک برگزیدہ انسان میں جو اشرف المخلوقات ہے.یہ کمال نہیں ہو سکتا.انبیاء ذات میں کمال ہوتے ہیں.اِسی واسطے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: (انعام: ۱۲۵) پس تم خوب یاد رکھو کہ انبیاء دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوتے.جیسا کہ سلیمانؑ کی نسبت شیاطین نے دنیا میں مشہور کیا.اگر دنیا میں کوئی کسی کی سکل بن سکتا.تو امان ہی اُٹھ جائے.مثلاً ایک نبی وعط کرنے لگے.اب کسی کو کیا معلوم کہ یہ نبی ہے.یا نعوذ باﷲ کوئی بُرا آدمی ہے.خدا نے ایسی باتوں کا ردّ فرمایا ہے.کہ (بقرہ: ۱۰۳) تم ایسی باتوں سے توبہ کر لو.اگر کوئی ایسا وعظ سنائے تو صاف کہہ دو کہ انبیاء کی ذاتِ جامع کمالات ایسے افتراؤں سے پاک ہے.(بدر ۲۷؍جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ۴..لیلۃ القدر کے اگر صرف اسی قدر معنے ہوتے کہ رمضان شریف کے آخری دھاکہ میںطاق راتوں میں سے ایک رات لیلۃ القدر ہے، ویس.اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں.تو اس صورت میں بارہ مہینے ہی بجائے ہزار مہینے کے کافی تھے.کیونکہ دوسرے رمضان شریف میں تو لیلۃ القدر پھر دوبارہ بالیقین موجود ہے.پھر اس سے آگے اور آئندہ رمضان شریف فَھَلُمَّ جَرًّا.ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ کسی سال تو رمضان شریف میں لیلۃ القدر ہوتی ہے اور کسی سال نہیں ہوتی بلکہ بالیقین رمضان شریف میں ہر سال کسی نہ کسی طاق رات میں لیلۃ القدر ضرور ہوتی ہے.خواہ ستائیسویں کو ہو یا اکیسویں کو مگر پہلی آیت میں اس قرآن شریف کے جیسا کہ بیان ہوا ہے.اَنْزَلْنٰہُ کا مرجع منزّل علیہ القرآن بھی ہے اور ایک انور مقام میں بھی اﷲ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن شریف دونوں کو ایک ساتھ نازل شدہ فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا

Page 434

(الطلاق:۱۱،۱۲) اس جگہ کا بدل رَسُوْلاً واقع ہو ہے.یعنی ذکر بھی نازل ہوا اور رسول بھی نازل ہوا.قرآن شریف رَسُوْلً یَّتْلُوْا نہیں ہے.رَسُوْلًا ہے.غرض پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہل وسلم کے ظہور اور آپؐ کی بعثت کے انوار پوری آب و تاب کے ساتھ قرونِ ثلاثہ مشہود لھا بالخیر تک تھے.ہزار مہینے گزرنے تک دنیا نے ظلماتی حالت پھر اخیتار کر لی اور پھر وعدۂ الہٰی لَیْلَۃُالّقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھَرٍ کا پورا ہوا فَھَلُمَّ جِْرًّا.اسی طرح سے ہزار مہینے کے بعد اﷲ تعالیٰ اپنے اس قرآنی وعدہ کے بموجب رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کی تجدید کے لئے ہر صدی پر جو قریباً ہزار مہینے کے بعد آتی ہے مجدّدین کو نازل فرماتا رہا.اِنَّ اﷲَ یَبْعَثُ لھٰذَالْاُمَّۃِ عَلٰی رأس کلّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَنْ یُّجَدّدُ لَھَادِیْنَھَا.حدیثِ نبویؐ اور آیت قرآنی دونوں متفق ہو گئے.قرآن شریف میں پیغمبروں کی نسبت جبکہ (المومن:۷۹) تو مجدّدین کی تفتیش کہ کون کون تھے.یہ عبث ہے.لوگ جن جن کو مجدّد قرار دیں گے ہم ان کو مان لیں گے.مگر دیکھنا تو یہ صروری ہے کہ ہماری اس صدی چہار دہم میں یہ وعدہ قرآن شریف کا اور حدیث شریف کا وقوع میں آیا بھی یا نہیں.اگر اور صدیوں میں وقوع میں آتا رہا اور اس صدی میں وقوع میں نہیں آیا تو ہمارے جیسا بدبخت اور کوئی نہیں کہ ظلمت میں چھوڑ دیا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء) ۵..کے معنے لِکُلِّ اَمْرٍہیں.ہر کام کی سلامتی سے یہ مراد ہے کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی سے زمانہ نے اپنی دینی و دنیوی دونوں قسم کی ترقیات کا رنگ پکڑ لیا.سائنس کی نت نئی تحقیقات کے ساتھ ہی سے زمانہ نے اپنی دینی و دنیوی دونوں قسم کی ترقیات کا رنگ پکڑ لیا.سائنس کی نت نئی تحقیقات اور ان کی ایجادیں دنیوی اعتبار سے مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمِ کی طرف مصداق ہو رہی ہیں.تو دینِ اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی دوسرے پہلو پر مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلٰمٌ کو دکھلا رہی ہے.کارے وہر مردے.رمضان شریف کی لیلۃ القدر میںجو نزول ملائکہ ہوتا ہے.وہ بھی بجائے خود سلّم و متّقین ہے اور صدی کے رأس پر جو نزول ملائکہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی تاثیرات اور شواہد کی رُو سے مشہود و مرئی ہے.

Page 435

۶..زبان خلق نقارۂ خدا.یہ جملہ ایک حد تک بہت صحیح ہے.عام طور پر ہمارے اس موجودہ زمانہ کو روشنی کا زمانہ، روشنی کا زمانہ کہا جا رہا ہے.مگر غور سے اسے دیکھا جاوے تو یہ روشنی کا زمانہ بانی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت سے ہی شروع ہو گیا ہے اور اب توضحٰی کا وقت ہے.حدیث شریف میں آیا ہے.کہ دابّۃ الارض ضحٰی کے وقت نکلے گا یَخْرُجم الدّنابَّۃُ عَلَی النَّاسِکہ دابَّۃُ الْاَرْض نہیں نکلا تو کہنا پڑیگا.کہ روشنی کا زمانہ اس زمانہ کو کہنا بھی غلط ہے.مگر نہیں زمانہ ضرور روشنی کا ہے.اور دابۃ الارض نے بھی زمینی علوم اور سائنس کی ایجادوں میں بڑی ترقی کی ہے اور مِنْ کُلِّ اَمْرٍ سَلَامٌ اور ھِیَ حتّٰی مَطْلَعِ الْفنجْرِ کا جو دینی ترقیات کا دوسرا پہلو ہے.وہ اس شخص کی ذاتِ بابرکات سے وابستہ ہے.جس نے دنیا میں آکر بڑے زور سے چّلا کر کہا ؎ مُؤیّدے کہ مسیحا دم است و مہدیٔ وقت بشانِ اُو، دِگرے کَے زاَتْقیَا باشد چو غنچہ بود جہانے خموش و سر بستہ من آمدم بقدومی کہ ، از صبا باشد (تریاق القلوب صفحہ ۳) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء)

Page 436

سُوْرَۃَ الْبَیِّنَۃِ مَدَنِیَّۃٌ ۲ تا۴....… کے معنے یہ ہیں کہ اہلِ کتاب کے تمام فرقے اور مشرکین کے تمامی فرقے شرک اور بُت پرستی کے اغلال سے کبھی چا ہونیوالے نہ تھے.اگر بیّنہ نہ آتی.آگے بیّنہ کے معنی خود ہی بیان فرما دئے.آیت شریفہ میں پتہ دیا گیا ہے.اس بات کا کہ رسول کے انے کا زمانہ کب ہوتا ہے.پہلے پارہ کے جودہویں رکوع میں بھی رسول کے آنے کا زمانہ کب ہوتا ہے.پہلے پارہ کے چودہویں رکوع میں بھی رسول کے آنے کے زمانہ کی خبر دی ہے.جہاں فرمایا ہے (بقرہ:۱۱۴) اورمزہ یہ ہے کہ دونوں ہی فرقے آسمانی کتاب سے استدلال لے رہے ہیں.دونوں فرقوں کے پاس آسمانی کتاب ہو اور پھر وہ باہم استدلال میں ایک دوسرے کی مخالفت میں تُل جائیں.تو بالطبع ضروری اور لازمی ہو گا کہ کوئی تیسرا حَکم اور عدل آوے اور خدائی فیصلہ ان کو خدا کی طرف سے سنا دے.یہی حال ہمارے وقت میں اندرونِ اسلام قرآن کریم ہی سے تمسّک کرنے والے مسلمانوں کا ہو گیا تھا.اہلِ حدیث غیر اہلِ حدیث کے اور ائمہ سلف کے متّبعین باہم ایک دوسرے باوجود ای ہی آسانی کتاب کے متمسک ہونے کے سخت مخالف ہو گئے تھے.وقت بتلا رہا تھا کہ اب کوئی اسمانی حکم اور عَدل اوے.سو خداوند تعالیٰ کے فضل و کرم سے بمقتضائے وقت حکم و عدل آیا.چاہیئے تو تھا

Page 437

کہ فیصلہ ہو جاتا مگر نظیر موجود ہے.کہ (البیّنۃ:۵) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶.اگست ۱۹۱۲ء) اہل کتاب اور مشرکوں کا کافر گروہ اپنی شرارت و کفر سے کبھی نہیں ٹلتے.اگر اﷲ کا ایسا رسول جو ایک کھلی دلیل ہے.اور یہ پاک صحیفہ جس میں تمام مضبوط کتابیں موجود ہیں.نہ پڑھ سناتا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۳۰۶) گزشتہ ایّام میں چونکہ رستے صاف نہ تھے.تعّلقات باہمی مضبوط نہ تھے.اس لئے ایک ایک قوم میں نبی اور رسول آتے رہے.جب مشرق اور مغرب اکٹھا ہونے لگا.خدا کے علم میں وہ وقت غلط ملط کا آ گیا.تو اﷲ تعالیٰ نے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھیجا.انبیاء علیہم السلام اور جس قدر رسول آئے.فردًا فردًا قوموں کی اصلاح کے لئے.ان کا جامع اور راستبازوں کی تمام پاک تعلیموں کا مجموعہ قرآن کریم ہے.جو جامع اور مھیمن کتاب ہے.فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ فرمایا.(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۴).کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتابیں سب کی سب قرآن مجید میں موجود ہیں.(الحکم ۱۲؍مئی ۱۸۹۹ء) قرآن کریم تمام انبیاء کی پاک کتابوں اور کتابوں کے مجموعہ کا نام ہے قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے.(بدر ۲۷؍ فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۴ ) ساری مضبوط تعلیمات اور ہدایات کی جامعِ کتاب حضرتِ قرآن ہے جس نے تمام اگلی صداقتوں کو بھی بہتر سے بہتر اور عمدہ سے عمدہ رنگ میں فرمایا ہے.(الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) قرآن کریم نے دعوٰی کیا ہے.جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اٹس میں نصیحتیں ہیں.ان تمام کا جامع قرآن ہے.باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.(الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

Page 438

۵..حَکم و عدَل کی بات کو بھی لوگ بَغْیًایَّیْنَھُمْ (بقرہ:۲۱۴)کی وجہ سے نہیں مان لیا کرتے.آیث شریفہ میںدو اگلی نظیریں موجود ہیں.اہلِ کتاب نے پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے پیشتر بھی بیّنہ آنے پر تفرقہ کیا اور پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے وقت کے تفرقہ کو تو نظیر ہی اگلے تفرقہ کی بتلایا ہے.اِذَاتَثَنّٰی فَتَثَلَّثَ.جو دو نظیریں موجود ہو تو تیسری نظیر کیوں نہ قائم ہو؟ یہ اختلاف نبی کی صداقت کی دلیل ہے.نبی مسلّمات کو ماننے کے لئے نہیں آیا کرتے.بلکہ کچھ اپنی منوانے کے لئے آتے ہیں.قرآن شریف میں ۱۱۴ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء) ۶...حنیف کے معنے خود ہی اس جگہ مخلص موجود ہیں.دوسری جگہ حَنِیْفًا وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ( الانعام:۴۰) فرمایا ہے.یہاں بھی عدم شرک جو اخلاص کے مترادف ہے.حنیف کی صفت بیان ہوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء) خدا کی عبادت ایسے طور سے کی جاوے.کہ کوئی چیز خدا کے سوا دل میں ، زبان میں ، حرکات میں سکنات میں معبود نہ رہے.قرآن مجید فرماتا ہے.یہودی اور عیسائی اس اسلامی اصل کا بظاہر قرار کرتے ہیں اور جب کتبب مقدّسہ خود اسلام کے مخالف نہیں.کیونکہ ان کے یہاں بھی شروع کا بڑا اور پہلا حکم یہی ہے.کہ ’’ خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان.اپنی ساری سمجھ سے پیار کر‘‘ ( متی باب ۲۲آیت ۳۷.استثناء باب ۶ آیت ۵) فاعدہ.خلوص کا لفط.اور لَا تُشْرِکْ کا لفظ اس سارے، سارے، ساری کہنے سے اعلیٰ

Page 439

ٰ درجے پر ہے.انصاف کرو.عیسائیوں کے صرف لسانی اور کتابی اقرار کی کیا قدر کی جاوے.جب وہ اس کے ساتھ مسیحؑ ابن مریم جیسے خاکسار بندے کے سر پر الوہیت کا تاج دھرایقین کرتے ہیں.اگر وہ کہیں گ مسیحؑ کوئی علیحدہ اﷲ نہیں، بلکہ اسی خالقِ زمین و آسمان ، جامع صفاتب کاملہ، تمام نقائص سے منزّہ نے جس جسم کو قبول فرمایا تو مسیح ابن اﷲ کہلایا.ذاتاً وہ ایک ہی ہے.تو یہ بڑی سخت غلط فہمی اور غلطی ہو گی.کیوں؟ عیسائی خدا کو بے حد اور بے انت مانتے ہیں اور اسے ہر جگہ موجود یقین کرتے ہیں.جب اﷲ تعالیٰ بے حد ہر جگہ ہے تو وہ صرف محدود رحم مریم میں کیونکر سمایا.جب وہ محیط کُل ہے تو جسمانی حدود نے اس کا کیسے احاطہ کیا.اگر ابنِ مریم باعتبار مظہرالوہیت ہونے کے ابن اﷲ اور اِلٰہِ مجسّم ہے تو پھر کیوں تمام مخلوق مظہر نہیں ہو سکتی؟ اور کیوں ابن اﷲ اور ابلٰہِ مجسّم مانی نہیں جاتی.مسیح کھاتا پیتا لڑکپن سے تیس بتیس برس کی عمر تک پہنچا.جو کھانے پینے کا محتاج ہوا.وہ تمام مخلوق کا محتاج ہوا.پانی،ہوا ، چاند، سورج، مٹی نباتات، جمادات سب کی ضرورتاُسے لاحق ہوئی.جب محتاج بنا تو خدا اصفاتِ کاملہ کا متّصف نہ رہا.پھر عیسائی کہتے ہیں.یہود کے ہاتھ سے پِٹا اور ان کے ٹھٹھوں میں اڑایا گیا.آخر ایلی ایلی پکارتے جان دی.یہ عذاب اور پھر جامع صفاتِ کاملہ اور الوہیت کا مستحق.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۲۷.۲۸) اور نہیں حکم کئے گئے وہ لوگ مگر اس بات کا کہ عبادت و پرستش کریں اﷲ کی صرف اس لئے کہ خالص کرنیوالے ہوں اپنے دین کو.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۱۴۱)

Page 440

بَرِیَّۃ اور برایا دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی مخلوق بَرَائَ خَلَقَ باری خالق کے خداوند تعالیٰ کا صفاتی نام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍ اگست ۱۹۱۲ء) ۹..جو وعدے صحابہؓ کو دئے گئے تھے.وہ صرف آخرت ہی کے نہیں تھے.بلکہ دنیا اور آخرت دونوں ہی کے تھے.دنیا کی انہار صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کے لئے جیحوں.سیحوں.دجلہ اور فرات تھے اَبَدًا کی شہادت اس وقت تک کے قبضہ سے موجود ہے.آیت نمبر۸ میں اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ اعمالِ صلالحہ کی کمزوری جس قدر ہو گی.اسی قدر ان انہار و جَنّات وغیرہ کے قبضہ میم بھی کمزوری واقع ہو گی.اہلِ شیعہ پر بھی یہ آیت شریف حُجّت ہے.صحابہ رضی اﷲ عنہم کے اعمال اگر اعمالِ صالحہ نہ ہوتے تو یہ انہار و جَنّات ان کو کس طرح ملتے.رَضِيَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ.آگے فرمایا کہ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّہٗ.معلوم ہو کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم غاصب نہیں تھے.خشیۃاﷲ ان میں سب سے بڑھ کر تھی.اس سورۃ کی ابتداء میں تو بتایا کہ مکّہ اور مدینہ کے مشرکین اور اہلِ کتاب میں جو انقلاب مقدّر تھا.وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعدت پر موقوف تھا.چنانچہ یہ بات کسی مزید توضیح کی محتاج نہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعث کے بعد عرب کی کایا ہی پلٹ گئی اور آپؐ سے پہلے ساری قومیں تمام فرقے اور اہل مذاہب اپنے مرکزِ توحید سے دور جا پڑے تھے اور ہر قسم کی بداعتقادیوں بداخلقیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا تھے.اس لئے قرآن کریم نے فرمایا ظَھَرن الْفَسَادن فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ( روم: ۴۲) علاوہ بُت پرست مشرکوں کے، اہل کتاب بھی مختلف قسم کے شرکوں اور عملی نجاستوں میں گرفتار تھے.اور اس طرح پر روحانی نکتۂ خیال سے دنیا مر چکی تھی اور یہ بگڑی ہوئی قومیں اصلاح پذیر نہیں ہو سکتی تھیں.جب تل آلبَیِّنَۃ نہ آؤے.چنانچہ وہ موعودآلبَیِّنَۃ (نبی کریم صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم) آئے اور آپؐ نے دنیا کو اس گند اور ناپاکی سے پاک کیا.جس میں وہ مبتلا تھی.آلبَیِّنَۃ کے معنی

Page 441

خود قرآن کریم نے کر دئے ہیں.رَسُوْلٌ مِّنَ اﷲِ یَتْلُوْا صُحُفًا مُّطَھَّرَۃٌ یعنی وہ اﷲ کا موعود رسول جو ان پر پاک صحیفے پڑھتا ہے.کتبِ مقدّسہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی جو پیسگوئی کی گئی تھی.اس میں یہی لکھا تھا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی.اس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ ایسا رسول مبعوث فرما.جو تیری آیتیں ان پر تلاوت کرے یہی وجہ ہے.کہ قرآنِ مجید میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ذکر میں بار بار آیا ہے.یَتْلُوْا عَلَیْھِمٹ اٰیٰتِہٖ ( جمعہ:۳) غرض وہ کامل اور خاتم رسول آ گیا.اور وہ پاک صحیفے ان پر تلاوت کرنے لگا.مگر باوجود اس کے زمانہ کی حالت طبعی اور قوموں کی عملی اور اعتقادی سخت تقاضا کر رہی تھی کہ ایک زبردست رسول آئے اور خود اہلِ کتاب بھی تورات اور صحائف انبیاء اور عہدِ جدید کی پیشگوئی کے موافق منتظر تھے.کہ مثیلِ موسٰی اور خود اہلِ کتاب بھی رتورات اور صحائف انبیاء اور عہدِ جدید کی پیشگوئی کے موافق منتظر تھے.کہ مثیلب موسٰی اور مبسر عیسٰی ( فارقلیط) انے والا ہے.مگر جب وہ ا گیا تو بغض و حسد سے انکار کر دیا.حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی.ضرورتب نبوّت کے وہ قائل اور مثیلِ موسٰی اور مبشر عیسٰی کے وہ منتظر اور پھر آنیوالے نے کوئی نئی تعلیم نیا مذہب پیش نہیں کیا بلکہ اﷲ تعالیٰ کے پاک صحیفے ان پر تلاوت کرتا ہے.اور تمام دنیا کی صداقتیں اس کی کتاب میں موجود ہیں.فِیْھنا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ یعنی قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ تمام دنیا کی الہامی کتب کی جمیع محکم اور مستقل صداقتیں اس میں موجود ہیں.یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن مجید تمام کتب سابقہ پر شامل اور جامع اور مہیمن کتاب ہے اور ہر قسم کی تحریف و تبدیل ، ترمیم و تنسیخ سے پاک اور کاتم الانبیاء کی طرح خاتم الکتاب ہے.بہر حال اس نبی نے کوئی نئی تعلیم پیس نہیں کی اور کہا کہ مَاکُنْتُ بِدْعًا مِّنن الرُّسُلِ ( الاحقاف:۱۰) اور وہی تعلیم دی جو سب نبی دیتے آئے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو.اخلاص کے ساتھ اپنی عملی اور اعتقادی حالت کی اصلاح کرو.شرک چھوڑ دو.نمازیں پڑھو اور زکوٰۃ دو.کیونکہ یہی دین قیّم ہے اس طرح پر ان پر اتمام حجّت کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء)

Page 442

سُوْرَۃَ الزِّلْزَالِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا۴....زمینی تَزَلْزَل اور اور اِخراجِ اثقال کے معنے دو طرح پر ہیں.ایک تو قیامت کو زمین کا سخت بھونچال ہونا اور تمامی مدفونوں کا باہر نکلنا اور دوسرے معنے یہ کہ الْاَرْضُ سے مراد اہلِ ارض ہیں.جیسا کہ فَلْیَدْعُ نَادِیَہ، ( العلق :۱۸) میں نادی سے اہلِ نادی مراد ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍اگست ۱۹۱۲ء) سے مراد ہے کہ خوب زور شور کی جنبش اہلِ ارض میں پیدا ہو گی.در اصل اس سورۃ شریفہ کے الفاظ سورۃ القدر کے بیان کے مفسّر ہیں.سورۃ القدر میں فرمایا تھا (آیت:۵) یعنی قابلِ قدر نزول ہو گا.اس جگہ آیت نمبر۳میں فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ فرشتوں ہی کی تحریکات سے اہلِ ارص زمین سے ہر قسم کے اثقال باہر نکال دیں گے.یہ اثقال معدنیات کی قسم سے بھی ہیں اور علوم و فنون کے قسم سے بھی ہیں.جس قدر معدنیات اس وقت میں نکلے اور نکل رہے ہیں.اس کی نظیر اگلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.اور جس قدر علوم و فنون اہلِ ارض کے ہاتھوں سے ملائکۃ اﷲ کی تحریکات سے اب ظاہر ہو رہے ہیں.اس کی بھی نظیر سابقہ زمانہ میں پائی نہیں جاتی.چوتھی آیت میں جو ہے.اس سے زیادہ تر رحجان اسی ب

Page 443

اسی بات کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات قبل از قیامِ ساعت دنیا ہی میں ہونیوالے ہیں.کیونکہ انسان کا استعجاب سے کہنا.دنیوی روز افزوں ترقیات و عجائبات کے ظہور کی وجہ سے ہو گا.آخرت میں بعث بعد الموت کے وقت تو تمامی امور سب پر حق الیقین کے طور پر کُھل جاویں گے.اس وقت انسان تعجّب کا کلمہ نہیں کہے گا بلکہ (الفجر:۲۵) کہے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۵،۶...اہلِ ارض جس قدر اپنے اخبار اس وقت شائع کر رہے ہیں.وہ ظاہر ہے.جس قدر باریک در باریک علوم و فنون اہل ارص اس وقت ظاہر کر رہے ہیں.یہ ملائکث اﷲ ہی کی تحریک کے نتائج ہیں یہ ایسی وحی ہے جیسے کہ شہد کی مکھّی (نحل) کی وحی.وحی کے معنے حرفِ لطیف، رموزو اشارات و کنایات کے ہیں.وحی کے تین مراتب سورۃ الشورٰی میں مَاکَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اﷲُ اِلَّا وَحْیًا (الشورٰی:۵۲) میں بیان ہوئے ہیں.جہاں صرف لغوی معنے وحی کے مراد ہیں.اور دوسری اور تیسری قسم وحی کی بھی لی جاوے تو بھی صحیح ہو سکتی ہے.کیونکہ نزول ملائکہ کے ساتھ الرُّوْح کے بھی نزول کا ذکر ہے جو ملائکہ کے سردار ہیں.اور سردار سرداروں سے ملا کرتے ہیں.مشہور قول ہے.کہ ’’ جیسی روح ویسے فرشتے‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) اس آایت پر اعتراض کرتے ہوئے ایک آریہ نے اعتراض کیا کہ: ’’زمین باتیں کرے گی سورج جاند کیوں نہ کریں گے ستارے کیوں خاموش ہیں‘‘ الجواب: اوّلؔ تو سورج اور جاند کی خاموشی کا ذکر نہیں جو آپ کو اس پر تعجب ہوا.دومؔ ستارے بھی تمہارے دیانند کے اعتقاد میں زمین ہی ہیں.پس ان کی خاموشی بھی ثابت نہیں.کیونکہ وہ بھی زمین ہیں یا زمین کی طرح ہیں.پس جیسے یہ باتیں کرتے گی.وہ بھی باتیں کریں گے.سومؔ یہ تاتستھ اوپاد ہی ہے.اگر تم کو اس کی سمجھ نہیں تو پڑھو.ستیارتھ پرکاش صفحہ۲۵۴ اہم برہم اسمی کے ارتھ میں لکھا ہے.اس موقعہ پر تاتستھ اوپاد ہی ( استعارہ ظرف و مظروف ) کا استعمال ہے.جیسے:

Page 444

(مَنْچا کُری سرنتا) منچ پکارتے ہیں.چونکہ منچ جڑہیں.ان میں پکارنے کی طاقت نہیں.اس لطے منْچ کے جاگزیں آدمی پکارتے ہیں.پس اسی طرہ اس موقع پر بھی سمجھنا جاہیئے.چہارمؔ.(الزلزال:۵،۶) بیان کرے گی زمین اپنی خبریں اس لئے کہ تیرے رب نے اسے وحی کے ذریعہ حکم کیا ہے.پس ہمہ سارتھ ( القادر) سرب شکتیمان( الغنی القادر۹ جو دوسرے کا محتاج نہیں.اگر وہ زمین کو فرما دے کہ تُو بیان کر تو کیا وجہ ہے کہ پھر بیان نہ کر سکے؟ تم بھی تو قوٰی خدا داد سے ہی بولتے ہو.زمین بھی قوٰی خدا داد سے بول سکتی یا بیان کر سکتی ہے.’’تحدّث میں یہ ضرور نہیں کہ ہماری تمہاری طرح پنجابی یا اردو بولے.ہر ایک کا بولنا اس کے مناسب حال ہوا کرتا ہے.پھر الفاظ کی ضرورت بھی نہیں.ایک لسان الحال اور ایک لسان الافعال بھی ہوتی ہے.اب تم خود سمجھ لو.کہ زمین کی لسان کس نوع کی ہے.جس سے وہ بولے گی.اور ظرف و مظروف کے استعارہ پر کیوں تم خود سمجھ نہیں سکتے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۱۱۷) وحی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: کُلَّ مَا الْقَیْتَہٗ اِلٰی غَیْرِکَ فَھُوَ وَحْیٌ جو بات کسی کو پہنچائی جاوے وہ وحی ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ عام ہے.حتٰی کہ زمین کی نسبت بھی فرمایا ہے.کہ اُسے وحی ہوتی ہے.چنانچہ فرمایا ہے..اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی.اس لئے کہ تیرے ربّ نے اُسے وحی کی.( نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۶۱) ۷..صُدُوْر ضد ہے وُرُوْد کا.محصل آیت کا بلفظ دیگر یہ ہے کہ کُلُّ اِنَائٍ یَتَرَشَّحُ بِمَافِیْہِ ہربرتن سے وہی چیز ٹپکے گی جو اس ظرف میں ہو گی.خداوند تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ اﷲ کے ذریعہ سے وحی تو ہوئی مگر’’ ہرچہ گیرد عِلّتے علت شود‘‘ کے قاعدہ کے بموجب دابّۃ الارص یعنی زمینی کیڑے سفلی علوم کی ترقی کی طرف جھک پڑے اور خداوند تعالیٰ کے پاک روحوں کو پاک روح کے نزول سے ایسے حقائق معارف کُھلے.کہ جو دین اور دارِ آخرت کے لئے مفید ہے.صدور جس کے معنے لُوٹنے کے ہیں.اس سے مراد ملائکۃ اﷲکے اثر سے متائثر ہو کر مخفی استعدادوں کو مکمن قوّت سے حیّزِ فِعل میں لانے کے ہیں.یہی لوگوں کا صدور اور ان کا لوٹنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر۱۹۱۲ء)

Page 445

۸،۹...پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان دونوں آیتوں کو جَامِعَۃٌ فَاذَّ ۃٌ فرمایا ہے.ہر نیکی بدی کے تولنے کے لئے یہ کانٹے کی میزان ہے.مثقال ترازو کے بٹے کے وزن کا نام ہے اور ذرّہ بہت کم مقدار چیز ہے.جزا و سزا بھی انسان کو ہر وقت ملتی رہتی ہے.اگر غور کرتا رہے تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ لازمی عمل کی یہ جزا ملی اور فلاں کی یہ.نامۂ اعمال کے جزا و سزا کا حال بھی آنکھ کے بند ہونے پر معلوم ہو جائے گا.ع بوقت صبح شود ہمچو روز معلومت کہ باکہ باخۃِٔ نرد و شبِ دیجور (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) موت کی کوئی خبر نہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا.نہیں.خدا تعالیٰ کسی کے فعل کو ضائع نہیں کرتا.(الزلزال:۸) ایک شخص نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مَیں جب کافر تھا تو اﷲ کی راہ میں خیرات کیا کرتا تھا.کیا اس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہو گا.فرمایا.اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ تیری وہی نیکی تو تیرے اس اسلام کا موجب ہوئی.خدا تعالیٰ پر سچّا ایمان لا، اور اس کی سچی فرماں برداری کے نمونے سے ثابت کرو.ٹھیک یاد رکھو.کہ ہر نیک بیج کے پھل نیک ہوتے ہیں.بُرے بیج کا درکت بُرا پھل دے گا.ع گندم از اگندم بروید جَو زِ جَو از مکافاتب عمل غافل مشو (الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۶)

Page 446

سُوْرَۃَ الْعٰدِیٰتِ مَکِّیَّۃٌ اس سورۃ شریفہ کا مضمون شریف الطبع گھوڑے کی وفاداری اور اس کے بالمقابل انسان کی بیوفائی اور اس پثرمُردہ دلوں سے پروردگار کی طرف سے مناقشہ ہے.ترتیبِ آیات میں وفاداری کی تدریجی ترقیات کو دکھایا ہے.۲..عادیہ کی جمع عادیات ہے.عادیہ عدوے مشتق ہے.عدد کے معنے دوڑنے کے ہیں.جمع میں و.ی سے بدل گئی.ضَبْحٌ.گھوڑے کی اس آواز کو کہتے ہیں.جو دوڑنے کے وقت اس کے حلق و سینہ سے نکلتی ہے.یہ وفاداری کا پہلا قدم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۳..اَیْرا کے معنے آگ نکالنے کے ہیں.بیچارہ بے زبان محبت کی آگ کس ذریعہ سے نکالے.پتھریلی زمین میں ٹھوکریں کھا کر نعل در آتش ہو کر اگ جھاڑتا ہے.اور اپنے سوار کو وفاداری دکھلاتا ہے یہ وفاداری کا دوسرا قدم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۴..مالک کے دشمن پر رات بھر کی دوڑ کا تھکا ہوا صبح کے وقت جا پڑتا ہے.یہ وفاداری کا تیسرا قدم ہے.غَارَ چھاپہ مارنے کو کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۵..

Page 447

نَقْعَ کے معنی گردوغبار کے ہیں اور اَثَرَ ان کا اڑانا ہے.یہ وفاداری کا چوتھا قدم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصوٰۃ والسلام کا ایک شعر یاد آ گیا.اگرچہ دردرِ جاناں چو خاک گردیدم دِلَم تپد کہ فدایش غبار خود بکنم (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۶..عَادیات، مُوریات وغیرہ ہر فعل کو جمع کے صیغہ سے بیان فرما کر آخر بھی جَمْعًا فرمایا.اس تاکید میں یہ اشارہ ہے کہ جس جماعت کا شیرازہ کمزور ہے.وہ جماعت فاتح نہیں ہو سکتی.پانچواں قدم وفاداری کا یہ بیان ہوا ہے کہ میدانِ جنگ کے وسط میں تلواروں اور نیزوں کی زد کے نیچے یہ گھوڑے اپنے مالک کو پُشت پر سوار لئے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں.پھر آگے وفاداری و جاں بازی کی جو کچھ حرکات شریف الطبع بے زبان جانور سے صادر ہوتے ہیں.ان کو ان کے سوار ہی جانتے ہیں.۷..یہ ساتویں آیت جَو ابِ قَسَم ہے.کَنُوْد کَنَدَ سے ماخوذ ہے.اور کَنَدَ کے معنے قطع کرنے کے ہیں.رسی کاٹ دینے کو کَنَدَ الْجَبْلَ کہتے ہیں.گھوڑا گھاس.توڑی بھُوسہ کھاتا ہے.اور وفاداری میں بڑا جانباز ہے.انسان ہزاروں قسم کی لذیز سے لذیذ نعمتیں اپنے رب کی دی ہوئی کھاتا ہے اور وفاداری کے وقت اس رشتۂ ربوبیت کاٹ دیتا ہے.بے وفا ناز پروردہ انسان جو بھینسے کی طرح پھولا ہوا ہوتا ہے.اس کی مثال اس شعر میں خوب بیان کی گئی ہے.ع اسپ لاغر میاں بکار آید روزِ میداں نہ گاہ پرداری گھوڑا میدان کے دن بڑا چُست ہوتا ہے مگر بے وفا انسان کُنْد ہوتا ہے.کنُود میں اسی بات کو بیان فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۹..

Page 448

شَدِیْد کے معنے بخیل اور مُمْسِک کے بھیہیں.فَلَانٌ شَدِیْدٌوَ تَسَدَّدَ.خَیْر بمعنی مال.جیسا کہ فرمایا اِنْ تَرَکَ خَیْرَا الْوَصِیَّۃُ ( بقرہ: ا۱۸) حُبّ کے لُغت کے معنے پُر ہونے اور بھر جانے کے ہیں.معنے آیت یہ ہیں.کہ دل کے ہر گوشتہ میں مال کی محبّت جاگزیں ہو گئی اور پُر ہو گئی ہے.کہ رب کی وفاداری کے لئے کوئی گوشہ خالی نہیں رہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۱۰ تا ۱۲....بُعْثِرَ کے معنے وَاِذَا الْقُبُوْرُ بُعْثدِرَتْ ( الانفطار:۵) میں بیان ہو چکے ہیں.بُعْثر اور بحثر کے ایک ہی معنے ہیں.اور یہ دونوں بعث اور بحث سے مرکب ہیں.جن کے معنے کریدنے اور مناقشہ کرنے کے ہیں.حدیث شریف میں آیا ہے مَنْنُقِشَ عُذِّبَ.جس کے حساب میں ذرا بھی کُرید کی گئی.وہ عذاب کیا جائے گا.ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ مُردہ دل بے وفا جو پنجرقالب میں مقیّد ہے.ان کی وفاداری اور بے وفائی کی جب کُرید ہو گی تو ان کا پرورش کنندہ ان سے ان کی باغیانہ حرکتوں کی خوب خبر لے گا.ل تاکید کے لئے ہے.یہ کُرید حساب کی دنیا میں ہوتی ہے.اور آخرت میں بھی.اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ ( الانبیاء: ۲) میں دونوں حساب مراد ہیں.بلکہ نبی کی معرفت دنیوی محاسبہ اقرب ہے.پیغمبر صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے.اَنَا الْحَشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 449

سُوْرَۃَ الْقَارِعَۃِ مَکِّیَّۃٌ ۲،۳...: قَارِعَۃ قرع سے مشتق ہے.قَرَع کے معنے کسی چیز کو سختی اور شدّت سے بجانے اور مارنے کے ہیں.خوفناک حادثہ اور مصیبت کو بھی قارعۃ اسی لئے کہتے ہیں.قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے.(الرعد: ۳۲) معلوم ہو کہ دنیا کا عذاب بھی قارعہؔہے اور آخرت کی مصیبت بھی قارعہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۵..فَرَاش : ٹڈّیاں بلکہ کُل پَردار چھوٹے چھوٹے جانور جو چراغ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں.مَبْثُوْث :منتشر.بکھرے ہوئے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۶..عِھْن: اُون یا صوف مختلف رنگ.نفش کے معنے دُھنکنے کے ہیں.مَنْفُوْش دُھنکے ہوئے.جبال کا اطلاق بڑے بڑے بادشاہوں پر بھی کیا جاتا ہے.آیت میں دونوں قسم کے عذاب اور تباہیوں کا ذکر ہے.جو جنگوں میں ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے.جیسا کہ تُصِیْھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ (الرعد:۳۲) سے واضح ہے.۹ تا ۱۲...

Page 450

: ہاویہ کو اُمّ کہنے میں یہ مطلب ہے.کہ جب تک تربیت یافتہ نہ ہو.ماں سے تعلق رہتا ہے.بعد تربیت پا لینے کے ماں سے علیحدگی ہو جاتی ہے.اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد طول مکث کے دوزخی دوزک سے نکال دئے جائیں گے.ھاویہ.طبقے بھی نکال دئے جائیں گے.جو سب سے نیچے کا طبقہ ہے.اسی لئے وہ طبقہ ہاویہ کہلاتا ہے.اُمّ اور ھوٰی دونوں ایک جا جمع ہونے سے یہ اشارۃً پائی جاتی ہے.: نارِ دوزخ اور نارِ حرب دونوں مراد ہیں.حرب کو بھی نار ہی فرمایا ہے.(مائدہ: ۶۵) ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ’’ تمام وہ لوگ جن کے اچھے اعمال نہیں.یا ان کے اچھے اعمال کم ہیں.وہ دوزخ میں جائیں گے دوزخ کی گود میں رہیں گے وہی ان کی ماں ہے.دیکھو قرآن.....اور جن کے تول ہلکے ہوئے تو اس کا ٹھکانہ گڑھا.اور تجھ کو نہ معلوم ہوا کہ وہ کیا ہے آگ ہے دھکتی ہوئی.بھلا جن کی ماں دوزخ کی گرم آگ ہوئی.وہ لوؤں کی آگ سے نہ بنے ہوں تو پھر کس سے نہیں سنو.سارے شریر شیطان یا شیطان کے فرزند ہیں ( یوحنا باب ۸ آیت ۴۴ٗ متی باب ۱۳ آیت ۳۹.متی باب ۱۶ آیت ۲۳).جس طرح شریر شیطان کا فرزند ہے.اور عیسائی مسیح کے فرزند.اُسی طرح دوزخ کی آگ شریر کی ماں ہے.اور وہ لوؤں سے کیونکر نہ بنا ہو گا.ضرور وہ ہمارا دشمن نارالسّموم سے بنا.وہ تو پہلے ہی سموم نار سے بنا تھا.اور یہی سچی فلسفی ہے.جس کے خلاف پر کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں.‘‘ ( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۹)

Page 451

سُوْرَۃَ التَّکَا ثُرِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا۹.........اﷲ جل شانہٗ نے انسان کو ایسا تو بنایا ہے.کہ یہ کھانے کا بھی محتاج ہے.پینے کا بھی محتاج ہے.کپڑے کا بھی محتاج ہے.مکان اور بیوی کا بھی بہت محتاج ہے.بچوں کی بھی ایک حاجت مخفی در مخفی رکھتا ہے.عزّت کو بھی چاہتا ہے اور ذلّت سے بھی بچنا جاہتا ہے.غرض اﷲ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی خواہشیں لگا رکھی ہیں.جس سے کوئی انکار نہیں ہو سکتا.ہاں اگر کوئی پاگل ہو تو اور بات ہے.پاگل اور عقلمند میں بھی ایک بڑا بھاری فرق ہے.پاگل کی باتیں سن سن کر عقلمند بول اٹھا کرتے ہیں کہ یہ تو بڑا احمق ہے.بہت بولتے رہنا اور زیادہ بکواس کرتے رہنا بھی احمق کا کام ہے.اور جو آٹھوں پہر چُپ رہے.وہ بھی پاگل ہوتا ہے.بہت بولنا اور بہت چُپ رہنا پاگل اور احمق کا نشان ہے.جو شخص ہمیشہ کھانے پینے میں مصروف رہے وہ بھی پاگل اور جو نہ کھائے وہ بھی پاگل.غرض جب بات حد سے بڑھ جائے تو وہ جنون ہوتا ہے.ضرورتیں تو بے شک انسان کو بہت لگی ہوئی ہیں.خواہ کتنے ہی امور کیوں نہ ہوں اور خواہ کیسی ہی حاجتیں کیوں نہ ہوں.ان تمام کاموں میں انسان تکاثر کو چاہتا ہے.اکثر اوقات انسان چاہتا ہے کہ

Page 452

عیش و عشرت کے ایسے ایسے سامان میّسر آجاویں.ایسا مکان ہو.ایسا لباس ہو.اور یہ سب خواہشات انسان کے شاملِ حال ہیں.پھر ان میں غلطی کیا ہے.خدا تعالیٰ نے بھی ایک دعا سکھائی ہے رَبَّنَآ اٰتبنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً ( البقرہ:۲۰۲) اس دعا میں اﷲ کریم سے اسی دنیا میں حسنہ مانگی گئی ہے.مگر یاد رکھو غلطی صرف یہ ہے کہ ناجائز طریقوں سے یہ خواہشات پوری کرنے کی کوشش کی جاوے.اور ان دھندوں میں پھنس کر اپنے مولیٰ سے انسان غافل ہو جاوے.اﷲ جل شانہٗ سے غفلت بہت بُری بلا ہے.اکثر انسان آنکھیں بھی بند کیا کرتے ہیں.اپنے گھٹنوں میں سر بھی رکھا کرتے ہیں.نادان سمجھتا ہے کہ یہ جنابِ الہٰی میں دھیان لگائے بیٹھے ہیں اور روحانی نظارہ دیکھ رہے ہیں.مگر وہ وہی دیکھتا ہے جو ظاہرًا دیکھنے کا عادی ہے.پھر اسی غفلت عن اﷲ میں مر جاتا ہے...اس غفلت کا بد نتیجہ تم سمجھ ہی لو گے.پھر ہم ہشیار کر کے تمہیں کہتے ہیں کہ تم ضرور سمجھ لو گے آج جو فعل انسان کرتا ہے.کل کے لئے یہ ایک سبب ہوتا ہے.اور کل جو فعل انسان کریگا.وہ پرسوں کے لئے ایک سبب ہو گا.انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے.کہ جب کبھی اسے کوئی علم حاصل ہو جاتا ہے.بشرطیکہ وہ علم صحیح ہو اور علم والا عقلمند ہو تو پھر اس ع۴لم کے خلاف عمل نہیں کرتا.انسان کیا.بلکہ حيوان بھی ایسا نہیں کرتا.دیکھو ایک اونٹ کتنا بڑا حیوان ہے.مگر ایک بچہ بھی نکیل ڈال کر کہیں کا کہیں لئے پھرتا ہے مگر ایک گڑھے میں داخل کرنے کے لئے اسے کھینچیں تو وہ نہیں جاتا.کیوں نہیں جاتا.صرف اس لئے کہ اسے صحیح علم گڑھے کا حاصل ہے وہ یہ کہ اس میں ہلاکت ہے.مَیں نے اپنے بچوں کو دیکھا ہے کہ اگر گرام غذا انہیں دیں یا ان کا ہاتھ اٹھا کر اس گرم غذا پر رکھیں تو وہ پیچے ہٹ جاتے ہیں اور کھاتے نہیں کیونکہ انہیں کیونکہ انہیں علم صحیح حاصل ہو جاتا ہے.جو لوگ قرآن مجید کو خدا کی سچی کتاب اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا کا سچّا رسول اور نبی یقین کرتے ہیں.اَئمہ کو سچّا سمجھتے ہیں.کسی واعظ کو سچا سمجھتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا ان لوگوں کے ذڑیعہ سے انہیں صحیح علم حاصل نہیں ہوا کہ اِن اِن کاموں سے خدا راضی ہے.اور اِن اِن باتوں سے ناراض ہے؟ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ باوجود سُننے کے بھی تم علم کے خلاف کرتے ہو.خوب یاد رکھو کہ صحیح علم کے خلاف کرنا بہت بُرا ہوتا ہے.حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النبیّینٗ رُسول ربّ العالمین ہمارا رہبر ہے اور ہمارے

Page 453

ہمارے زمانہ کا امام اس کی اتباع کو نجات کا موجب سمجھتے ہیں.پھر یہ کیسا علم ہے جو ان سب باتوں سے ہمیں غافل کر دیتا ہے.دنیوی کاموں میں مختلف اغراضوں میں کچھ باتوں میں جھوٹی قسمیں.حرفہ.پیشہ.تجارت.ملازمت میں ایسے اعمال کہ گویا اﷲ پر ایمان نہیں.یہاں تک کہ نمازوں میں بھی ریاء.یہ کیا سرّہے.سچ تو یوں ہے کہ یقین کم ہے..(التکاثر۶، ۷) تم لوگ اگر یقین رکھتے تو جزا سزا کا خیال رکھ کر بُرے کاموں سے نفرت اور اچھے کاموں سے محبت رکھتے..(التکاثر:۸) اور یاد رکھو کہ یہ صرف علم ہی نہیں رہے گا بلکہ تمہیں یہ بھی دکھا دیں گے کہ تمہارے اعمال کا کیا نتیجہ ہے..(التکاثر:۹) اور پھر تم سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، زبان.علم و دولت دیا گیا.ہادی تمہاری طرف بھیجے گئے اور پھر ہم مسلمانوں کا تو رسول ہی افضل الرسل خاتم النبیین ہے جو ہماری رہبری کے لئے آیا.وہ تمام نبیوں کی فضیلتوں کا مجموعہ ہے.ہماری کتاب قرآن مجید سچی.محفوظ اور جامع کتاب ہے.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت میں ہمیشہ مجدّد ہوتے رہے.اور پھر موجودہ زمانہ کا امام جس کو ہم اپنی انکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ہمارے پاس موجود ہے.پھر اتنی غفلت! اس سے ضرور پوچھے جاؤ گے.نتیجہ بھوگو گے.اس غفلت کو دور کرنے کے مَیں تین علاج تم لوگوں کو بتاتا ہوں.پہلا علاج تو ایسا ہے جو تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اور وہ ہے استغفار.یاد رکھو.انسان کی بدیاں اَور بدیوں کی طرف اس کو کھینچتی ہیں اور اس کی نیکیاں اور نیکیوں کی طرف اس کو کھینچتی ہیں.استغفار کا مطلب یہ کہ اے میرے خدا میری غفلت ، غلط کاریاں اور ناراض کرنیوالی باتیں اور عندُوّل حُکمئیں جو مجھے یاد ہیں یا میری یاد سے بھول گئی ہوں.ان کے بدنتائج سے مجھے بچالے اور آئندہ غلطیوں سے محفوظ رکھ.دوسرا علاج یہ ہے کہ لَاحَول بہت پڑھے.اپنی عاجزی کا اقرار کرے اور اپنے آپ کو محض کمزور اور ناکارہ سمجھے.اس طرح سے بہت

Page 454

فائدہ ہو گا.اور بڑی مدد ملے گی.تیسرا علاج یہ ہے کہ دعائیں بہت مانگے.اپنے محسنوں کے لئے بھی دُعا کرے.انہیں دعاؤں میں سے ایک دُعا اور بڑی اعلیٰ دعا درود شریف بھی ہے.جو اپنے پیارے محسن اور نہایت ہی عظیم الشان محسن نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے مانگی جاتی ہے.وہ ہمارا بڑا بھاری محسن ہے.ایسے مہسن پر اﷲ جلشانہ، اپنے خاص خاص فضل اور عام رحمتیں کرے تاکہ اس کے بدلہ میں ہم پر بھی خاص رحمتیں اور عام فضل ہو.چاہیئے کہ درود شریف بہت پڑھا جاوے اور اپنے محسن کے لئے بہت دعا مانگی جاوے تاکہ ہم پر بھی رحم ہو.اﷲ کریم ہم سب کو توفیق دے.آمین.(الحکم ۱۷؍ ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱.۱۲).اَلْھَا کے معنے کسی چیز سے غافل کر کے دوسری چیز میں مشغول کرنے کے ہیں.جیسے فرمایا.(النور:۳۸)تَکَاثُر ایک دوسرے پر زیادتِ مال کی حرص کرنا.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ مَنْ شَغَلَکْ عَنِ اﷲِ فَھُوَصَنَمُکَ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹.ستمبر ۱۹۱۲ء).صحیحین میں روایت ہے کہ اِبنِ آدم بوڑھا ہو جاتا ہے.اور دو چیزیں اس کی جوان رہ جاتی ہیں.ایک ان میں سے حرص مال ہے.ابوھریرہؓ سے یہ مروی ہے.کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے سورۃ التکاثر پڑھی اور پھر فرمایا.بندہ کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے.یہ میرا مال ہے.حالانکہ اس کا مال تو صرف اتنا ہی ہے.جو کھا لیا.وہ تو فنا کر دیا.اور جو پہن لیا اس کو پُرانا کر دیا.اور جو کدا کی راہ میں دیدیا.اس کو آگے کے لئے جمع کیا.ان تین قسموں کے سوا جو کچھ اور مال ہے وہ تو لوگوں کا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹.ستمبر ۱۹۱۲ء)...ان ہر سہ آیات میں یقین کے تین مراتب کا ذکر فرمایا ہے.ایک علم الیقین.دوسرا عین الیقین.تیسرا حق الیقین.دنیا میں بعض اوقات جزا سزا کے ملنے پر آخرت کی جزا سزا کا یقین علمی پیرایہ میں ہو جاتا ہے.قبر اور برزخ کی جزا سزا.عین الیقین کے طور پر ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قبر میں جنّت یا دوزک کی طرف سے کھڑکیاں کھول دی جاتی ہیں.یوم الحشر کی جزا سزا حق الیقین ہیں جو عین یقین ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 455

سُوْرَۃَ الْعَصْرِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۴....دو صحابی آپس میں ملتے تھے تو کم از کم اتنا شغل کر لیتے تھے کہ اس سورۃ کو باہم سنا دیں.سو اس نیت سے کہ (التوبہ: ۱۰۰) کے ماتحت رضامندی کا حصّہ مجھے بھی مل جاوے.میں بھی تمہیں یہ سورث سناتا ہوں.عصر کہتے ہیں زمانہ کو جو ہر آن گھٹتا جاتا ہے.دیکھو میں کھڑا ہوں.جو فقرہ بولا.اب اس کے لئے پھر وہ وقت کہاں ہے.قسم ہمیشہ شاہد کے رنگ میں ہوتی ہے.گویا بدیہیّات سے نظریات کے لئے ایک گواہ ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ انسان کی عمر گھٹ رہی ہے.جیسے کہ زمانہ کوج کر رہا ہے.عصر کی شہادت میں ایک یہ نکتہ معرفت بھی ہے.زمانہ کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں.جیسا کہ بعض قوموں کا قاعدہ ہے فارسی لٹریچر میں خصوصیت سے یہ بُرائی پائی جاتی ہے.اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے.لَاتَسُبُّوا الدَّھْرَ خدا جس کو گواہی میں پیش کرے.وہ ضرور عادل ہے.زمانہ بُرا نہیں.ہمارے افعال بُرے ہیں جن کا خمیازہ زمانہ میں ہم کو اٹھانا پڑتا ہے.عصر سے مراد نمازِ عصر بھی ہے.اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جیسے شریعتِ اسلام میں نماز عصر کے بعد کوئی فرص ادا کرنے کا وقت نہیں.اسی طرح ہر زمانہ عصر کے بعد کا وقت ہے.جو پھر نہیں ملے گا.اس کی قدر کرو.عصر کے معنے نچوڑنے کے بھی ہیں.گویا تمام خلاصہ اس صورت میں بطور نچوڑ کے رکھ دیا ہے.غرض عصر کو گواہ کر کے انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ایک برف کا تاجر ہے.جو بات لڑکپن میں ہے

Page 456

ہے وہ جوانی میں نہیں.جو جوانی میں ہے وہ پڑھاپے میں نہیں.پس وقت کو غنیمت سمجھو.ائمہ نے بحث کی ہے کہ جو نماز عمدًا ترک کی جاوے.اس کی تلافی کی کیا صورت ہے.؟ سو سچی بات یہی ہے کہ اس کی کوئی صورت سوائے استغفار کے نہیں.اسی واسطے اﷲ تعالیٰ اس خُسر کی تلافی کے لئے فرماتا ہے کہ ایک تو ایمان ہو جس کا اصل الاصول ہے.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.اسی واسطے میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں کہ وہ اسلام کا خاصہ ہے.ایمان کیا ہے.اﷲ کو ذات میں بے ہمتا.صفات میں یکتا.افعال میں لَیْسَ کَمِثْلِہٖ یقین کیا جائے.چونکہ اس کے ارادوں کے پہلے مظہر ملائکہ ہیں اس لئے ان کی تحریک کو تسلیم کیا جاوے.برہمو جو قوم ہے.یہ بڑی بُری زبان کے لوگ ہیں.اسلام کے سخت دشمن ہیں.میں حیران ہوتا ہوں.جب لوگ کہتے ہیں.کہ یہ بڑے اچھے ہوتے ہیں.یہ توتمام انبیاء کو مفتری قرار دیتے ہیں.اس سے بڑھ کر اَور کوئی گالی کیا ہو سکتی ہے.کہ خدا کے راستبازوں کو مفتری سمجھا جاوے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الانعام:۲۲)ایک برہمو سے مَیں نے انبیاء کے دعوٰی وحی حق کے بارے میں پوچھا.تو اس نے کہا.دروغ مصلحت آمیز جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس قوم کو انبیاء کی نسبت کیسا گندہ خیال ہے.یہ لوگ اﷲ کی صفات میں سے ایک صفت یُرْسِلم رَسُوْلًا اور اس کے متکّلم ہونے کے قائل نہیں اور ملائکہ کو ماننا شرک ٹھہراتے ہیں.حالانکہ خدا نے انہیں عِبَادٌ مُّکَرّنمُوْنَ ( انبیاء: ۲۷) فرمایا ہے.اور جن پر وہ ناقزل ہوتے ہیں.ان کی نسبت فرمایا (النساء:۸۱) پھر جزا و سزا کا ایمان ہے.وہ بہت سی نیکیوں کا سرچشمہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ آپ تو ابدالآبادغیر منقطع عذاب کے قائل نہیں.اس کا مطلب یہ تھا.کہ آخر ہم بھی تمہارے ساتھ آ ملیں گے.بازار میں جا رہے تھے.میں نے کہا کہ روپے لے لو اور دو جُوت کھا لو.نہ مجھے کوئی جانتا ہے نہ تمہیں.اس نے قبول نہ کیا.کہ میری ہتک ہوتی ہے.میں نے کہا.جہاں اوّلین آخرین جمع ہوں گے.وہاں یہ بے عزّتی کیسے گوارا کر سکو گے.پھر ایمان بالقدر تمام انسانی بلند پروازیوں کی جڑ ہے.کیونکہ جب یہ یقین وہکہ ہر کام کوئی نتیجہ رکھتا ہے.تو انسان سوچ سمجھ کر عاقبت اندیشی سے کام لیتا ہے.دیکھو اِمَاطۃ الّاذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے.اور اس سے انگریز قوم نے خصوصیت سے فائدہ اٹھایا ہے پشاور سے کلکتہ تک رستہ صاف کیا تو کیا کچھ پایا.مسلمان اگر مسئلہ قدر پر ایمان مستحکم رکھتے تو ہمیشہ خوشحال رہتے.پھر جیسا ایمان ہو.اسی کے مطابق اس کے اعمالِ صالحہ ہوں گے.نماز.زکوٰۃ.روزہ.

Page 457

حج.اخلاقِ فاضلہ.بدیوں سے بچنا.یہ سب ایمان کے نتائج ہیں.پھر اسی پر مومن سبکدوش نہیں بلکہ اس کا فرص ہے کہ جو حق پایا ہے.اسے دوسروں کو بھی پہنجائے.اور اس حق پہنچانے میں جو تکلیف پہنچے.اس پر صبر کرے.اور صبر کی تعلیم دے.صوفیاء میں ایک ملامتی فرقہ ہے.وہ بظاہر ایسے کام کرتا ہے.جس سے لوگ ملامت کریں.رنڈیوں کے گھروں میں کسی دوست کے سامنے چلے جائیں گے.وہاں جا کر پڑھیں گے قران سریف اور نماز.مگر رات وہیں بسر کریں گے حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.کہ آمر بالمعروف اور ناھی عن المنکر خود ملامتی فرقہ ہوتا ہے.جب مومن کسی کو بُری رسوم و عادات کی ظلمت سے روکے گا تو تاریکی کے فرزندوں سے ملامت سنے گا.میرا حال دیکھ لو کہ ملامتی فرقے والے مجھ سے زیادہ بدنام ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.پس مومن کو کسی فرقے میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں.بلکہ وہ حق کا مبلغ اور اس پر مستقل مزاجی اور استقامت سے قائم رہے.پھر وہ ہر قسم کے دنیا و آخرت کے خُسران سے محفوظ رہے گا.(بدر ۳؍ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۱.۲) میں دیکھتا ہوں کہ کچھ امراء ہیں.کچھ علماء.کچھ سجادہ نشین اور کچھ وہ لوگ ہیں جو قوم کے لئے آئندہ کالجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.یہ لوگ اگر سُست ہوں تو عوام مخلوقات کا کیا حال ہو سکتا ہے.اس واسطے مَیں نے یہ سورۃ عصر پڑھی تھی.میرا مقصد اس کے پڑھنے سے یہ بتانے کا ہے.کہ زمانہ جس طرح کی تیزی سے گزر رہا ہے.اسی طرح ہماری عمریں بھی گزر رہی ہیں.یعنی عصر کا آناً فاناً گزرنا ہماری عمروں پر اثر ڈال رہا ہے.اﷲ نے اس کا یہ علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پرواہ نہ ہو اگر ہمارا حکم مان لو.وہ حکم یہ ہے کہ مومن بنو اور عملِ صالح کرو.دوسروں کو مومن بناؤاور حق کی وصیت کرو.پھر حق پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو.یہ وہ سورۃ ہے کہ صحابہ کرامؓ جب باہم ملتے تو اس سورث کو پڑھ لیا کرتے.تم اور ہم بھی آج مِلے ہیں.اس لئے اسی سنّتب کریمہ کے نطابق میں نے اس کو پڑھا ہے…اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے ایا ہے.جیسا کہ اس سورۂ سریف سے ظاہر ہے.اس لئے جہاں دین کی بہت سی باتیں پہنچانی پڑتی ہیں.وہاں ہم تم کو دنیا کے متعلق بھی ایک مختصر سی بات سناتے ہیں اور وہ بھی در اصل دین ہی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا کام امن پر موقوف ہے.اور اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہو سکتا.جس قدر امن ہو گا.اسی قدر اسلام ترقی کرے گا.اس لئے ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ واﷲ آلہٖ وسلم امن کے

Page 458

ہمیشہ حامی رہے.آپؐ نے طوائف الملوکی میم جو مکّہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی.ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی جاہیئے.اس زندگی کے فرائض سے ’’ امن‘‘ ہے.اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے انہیں کر سکتے.اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو.اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے.وہ گورنمنٹ کے پاس ہے.مَيں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو.اور تم چین سے زندگی بسر کرو.اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو.اﷲ سے اس کا بدلہ مانگو.اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھُول سکتا ہے.میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے.کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کے قائم کرنے کیں کوشش کریں تو اﷲ تعالیف اس کا نتیجہ ہم کو ضرور دے گا اور اگر ہم خلاف ورزی کریں تو اس کے بد نیتجے کا منتظر رہنا پڑے گا.دوسری بات جو سمجھاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ باہم محبت پڑھاؤ.اور بغضوں کو دُور کر دو.اور یہ محبت بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو.اور یاد رکھو.صبر والے کے ساتھ خدا خود آپ ہوتا ہے.اس وسطے صبر کنندہ کو کوئی آلّت و تکلیف نہیں پہنچ سکتی.تیسری بات جو میں کہنی ضروری سمجھتا ہوں.وہ یہ ہے.کہ حضرت صاحب نے ’’ فتح اسلام‘‘ میں پانچ شاخوں کا ذکر کیا ہے.اور ان پانچ شاخوں میں چندہ دینے کی تاکیدکی.مثلاً آپ کی تصانیف کی اشاعت اشتہارات کی اشاعت.آپ کے لنگرخانہ کو بلند کرنے کی تاکید اور مہمان خانہ کی ترقی کی طرف توجّہ اور آمدو رفت پر بعض وقت جو خرچ پڑتے ہیں.ان کے لئے مکان بنانے پڑتے ہیں.ان میں انفاق کرنے کی تاکید آپ نے فرمائی ہے.مَیں اس تاکید پر تاکید کرتا ہوں.کہ ہمارا مہمان خانہ کسی قدر آپ لوگوں کی سُستی کا مظہر ہے.مَیں جس طرح دیکھتا ہوں کہ ایک مدرسہ چلتا ہے.لنگر اور دینی مدرسہ بہت کمزور رنگ میں ہے.ہمارے بھائیوں کو چاہیئے کہ ان دونوں امور کی طرف بہت کوشش کریں اور انفاق سے کام لیں … میں یہ باتیں اس لئے بتاتا ہوں کہ تم کو دین اور دنیا دونوں کا وعظ کروں.یہ نہیں کہ مجھے دنیا کی غرض ہے.کیونکہ میری عمر کا بہت برا حصہ اﷲ کے فضل سے گزرا ہے.یہ تھوڑے دن جو باتی ہیں.میں مخلوق سے سوال کرنے میں اپنی ہمّت کو ضائع نہیں کرتا.( بدر ۳۱.مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴.۵) یہ سورۃ ( وَلْعَصْرِ) میں نے بارہا لوگوں کو سنائی ہے چھوٹی سے چھوٹی سورت جو ہر شخص کے

Page 459

کے لئے بابرکت ہو خدا تعالیٰ کی کتاب میں میرے خیال میں اس کے سوا اور نہیں آئی.قرآن کریم کے ہر فقرہ سے اﷲ تعالیٰ کے فضل اور محض فضل سے سارے جہان کی تعلیم و تربیت اور پاک تعلیم و تربیت حاصل اور صرور حاصل ہو سکتی ہے.مگر صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی عادت تھی کہ جب آپ میں ملتے تو اس سورۃ کو پڑھ لیتے تھے.ممکن ہے کہ میری آواز نہیں پہنچ سکتی ان کے کانوں میں وہ لوگ جو سنتے ہیں وہ اس شکریہ میں دوسروں تک پہنچائیں یہ بڑی مختصر سورۃ ہے.پہلی بات اس سورہ شریفہ میں یہ ہے.کہ وَلْعَصْرِعصرایک زمانہ کو کہتے ہیں.ہرآن میں پہلا زمانہ فنا اور ناپید ہوتا جاتا ہے.ہر وقت زمانہ کو فنا لگی ہوئی ہے.کل کا دن ۲۶.دسمبر ۱۹۱۲ء اب کبھی نہیں آئے گا.۲۷.دسمبر ۱۹۱۲ء آج کے بعد کبھی دنیا میں نہ آئے گا.آج کی صبح اب کبھی نہ آئے گی.یہ زمانہ بڑا بابرکت زمانہ ہے.یہ جو آریہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ زمانہ مخلوق نہیں اور جو قدیم ہے وہ فنا نہیں ہوتا.وَلْعَصْرِکالفظ ان کے لئے خود ردّ ہے.میں جس زمانہ میں بولا.وہ اب چلا بھی گیا.اور جس میں آگے بولوں گا.وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا.زمانہ کوغیر مخلوق ماننے والوں کے لئے کیا عمدہ ردّ ہے.زمانہ کو جہاں تل لے جائیں.ایک حصقہ مرتا جاتا ہے.ایک حصّہ پیدا ہوتا جاتا ہے.اس مرنے اور پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں.ایک فائدہ عصر میں یہ ہے.کہ ہر ایک وقت جو انسان پر گزرتا ہے اس کو فنا لازم ہے.اس طرح انسان کے اجزاء بھی ہر ان میں فنا ہوتے ہیں اور ہرآن نئے اجزاء پید اہوتے ہیں.اسی طرح ایک نئی مخلوق بن کر انسان اﷲ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.جب میں جوان تھا تو میرے سارے بال سیاہ تھے.آج کوئی بال سیاہ نہیں.جب ہم نئی حالت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں.تو ہر وقت اﷲ تعالیٰ کے محتاج ہیں.مجھ میں بینائی کی قوّت ہے.اگر بینائی رُک جائے تو کیا کیا جائے.عرص کہ ہرآن اﷲ تعالیف کے محتاج ہیں.لَآاِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے معنے ہیں کہ ہرآن میں تم ہمارے محتاج ہو.اگر میرا فضل و کرم نہ ہو تو کچھ بھی نہیں.ایک بات عصر میں یہ ہے کہ لوگ زمانہ کو بُرا کہتے ہیں.شاعروں نے تو یہ غضب کیا کہ دنیا کا ہر ایک دُکھ اور مصیبت زمانہ کے سرتھوپ دیا.خدا تعالیٰ کا نام ہی درمیان سے نکال دیا.گردشِ روزگار کی اس قدر شکایت کی ہے.جس کی حد نہیں.گویا ان کا دارومدار.ان کا نافع اور ضآرّ سب کچھ زمانہ ہی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.زمانہ کی شکایت نہ کرو.یہ بھی قابلِ قدر چیز ہے.عصر کے بعد کوئی وقت نہیں ہوتا.جو ہم

Page 460

ہم فرض نماز ادا کریں.میرا یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی آمد کی غرض ہے کہ اب قرآن شریف جیسی کتاب اور محمد (مصطفٰے) صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جیسا رسول جس کے جا نشین ہمیشہ ہوتے رہیں گے اب دنیا میں نہ آئے گا.عصر سے مراد حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کیجانشینوں کا زمانہ ہے.اب اور کے لئے زمانہ نہیں رہا.یہاں تک کہ دنیا کا زمانہ نہ ختم ہو.اِنَّ الّاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ.جس طرح زمانہ گھاٹے میں ہے، اسی طرح انسان.ایک شخص مجھ سے کہنے لگا کہ زمانہ قدیم ہے.میں نے کہا جب تم ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ میں تھے.وہ وقت اب ہے، اور جب تم مرو گے.وہ زمانہ اب موجود ہے؟ کہا نہیں.میں نے کہا.ایک موجود ہے.وہ معدوم ہے.وہ موجود ہو گا.انسان کا جسم ایک برف کی تجارت ہے.اسی طرح زمانہ ہے.اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا.گھاٹے میں تو سب ہیں.مگر ایک شخص مستثنیٰ ہے.وہ کون؟ ایماندار کہ اس کو گھاٹا نہیں.ایمان کیا ہے.عیب الغیب ذات پر ایمان رکھنا.اس کو مقدّس سمجھنا.اس کی نافرمانی سے ڈرنا اور یہ یقین کرنا کہ اگر ہم نافرمان ہوں تو اس پاک زات کا قمرب ہاصل نہیں کر سکتے.نماز پڑھنا اور سنوار کر پڑھنا.لعو سے بجنا.زکوٰۃ دینا.اپنی شرم گاہوں کو محفوظ رکھنا.اپنی امانتوں اور عہود کا لحاظ رکھنا.اﷲ تعالیٰ کی ذات پاکگ صفات، افعال، اسماء.اس کے محامد اور اس کی عبادات میں کسی کو شریک نہ کرنا.ملائک کی نیک تحریک کو ماننا، انبیاء کی باتوں اور کتابوںل کو ماننا.قرآن کریم تمام انبیاء کی باتوں اور کتابوں کے مجموعہ کا خلاصہ ہے.فبیْھَا کُتُبٌ قنیِّمَۃٌ ( البینۃ:۴) قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے.اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے.اس کتاب ( قرآن کریم ) کو اپنا دستوگرالعمل بنانا، اس کو پڑھنا، سمجھنا، اس پر عمل کرنا، خدائے تعالیٰ سے توفیق مانگنا کہ اس پر خاتمہ ہو، جزا و سزا پر یقین کرنا، محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہل وسلم کو خاتم کمالاتِنبوّت و رسالت اور خاتم کمالات انسانیت یقین کرنا، دنیا میں جس قدر ہادی ان کے بعد اَور آئیں گے، سب انہی کے فیض سے آئے.ہمارے مسیحؑ آئے مگر غلام احمدؑ ہو کر آئے.وہ فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخبرّم گر کُفر ایں بود بخدا سخت کافرم یہ حضرت صاحب کا سچّا دعوٰی ہے اور اسی پر عمل در آمد ہے.ایک نقطہ بھی دینِ اسلام سے علیحدہ ہونا ان کو پسند نہ تھا.تم خدا تعالیف کی تعطیم کرو.اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرو.مخلوق کا لفظ میں نے بولا ہے.تم ایسے بنو کہ درختوں، پہاڑوں، جانوروں سب پر تمہارے ذریعہ سے خدا تعالیٰ کا فضل نازل ہو.مخلوقِ الہٰی پر شفقت کرو.انسان پر جب تباہی آتی ہے.تو اس کی وجہ سے سب پر تباہی ہوتی ہے.

Page 461

از زنا رفتہ وباء اندر جہات جنابِ الہٰی نے جس طرح حکم دیا اس پر عمل کرو.گھاٹ پر پاخانہ پھرنے سے.درختوں کے نیچے اور راستوں پر پاخانہ پھرنے سے ہماری سریعت نے منع فرمایا ہے.ایمان کے ساتھ اعمال بھی نیک ہوں.جس میں بگار ہے اور وہ خدا تعالیٰ کا پسندیدہ کام نہیں.پھر ان سچے علوم کو میری زبان سے کچھ سنا ہے اپنے گزشتہ امام سے سنا ہے.اور اس کی پاک تصانیف میں دیکھا ہے.وَتَوَا صَوْا بِالْحَقِّ.پاک تعالیم یعنی حق کو دوسری جگہ پہنچاؤ.بہت سے لوگ ہم سے ملنا چاہتے ہیں.اور ہم سے محبت اور اخلاص چاہتے ہیں مگر ایمان کے حاصل کرنے اور ایمان کے مطابق سنوار کے کام کرنے اور پھر دوسروں تک پہنچانے میم متامّل ہیں.بہت سے لوگ یہاں بھی آئے ہیں اور مجھ سے ملے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ ہم سے بالکل مِل جائیں تو ہم آپ کے ہو جاتے ہیں.میں نے کہا.ہماری تعلیم پر عمل کرو گے؟ تو کہتے ہیں.تعلیم تو ہماری آپ کی ایک ہی ہے.میں نے کہا جبکہ تم ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے جی چُراتے ہو تو پھر ہم تم ایک کیسے ہو سکتے ہیں.یہ سُن کرشرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں.یہ سب کے سب منافق طبع لوگ ہوتے ہیں.ایسے منافق بہت ہیں.یہ سب ہم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں.تم حق کو پہنچاؤ اور حق کے پہنچانے میں علم و حکمت اور عاقبت اندیشی سے کام لو.جو عاقبت اندیشی سے کام نہیںلیتے.وہ بعض اوقات ایسے الفاظ کہہ دیتے ہیں.جن سے برا نقصان ہوتا ہے.کسی شخص نے مجھ کو خط لکھا کہ مَیں نے ایک شخص سے کہا کہ مکّہ معظّمہ اور مدینہ منورّہ میں میرے لئے دُعا کرنا.ایک احمدی نے سُن کر کہا کہ مکّہ مدینہ کا کیا کوئی الگ خدا ہے.اس پر اس شخص کو برا ابتلاء پیش آیا.اگر نرمی سے کہا جاتا تو نتیجہ خطرناک نہ ہوتا.اس طرح کہ مکّہ مدینہ بیشک قبولیتِ دُعا کے مقام ہیں.پھر کہتا ہوں کہ خدا یہاں بھی ہے.وہاں بھی ہے.تم دونوں جکہ دُعا مانگو یعنی یہاں بھی دُعا ضرور مانگو.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر سے کہا تھا کہ میرے لئے عرفات میں دُعا کرنا.میرے خُسر کا بیٹا جو ان کے ہمراہ حج میں موجود تھا.اب موجود ہے.وہ کہتا ہے کہ ہمارے باپ نے عرفات میں دعا مانگی اور مَیں آمین آمین کہتا جاتا تھا.مگر انسان سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں.ان غلطیوں کے دُور کرنے کے لئے مَیں نے کہا تھا کہ میں تین مہینے میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں.بشرطیکہ پانج سات آدمیوں کی ایک جماعت ہو.قرآن کے لئے بھی دعا مانگنی چاہیئے اور متقی بننا چاہیئے.(البقرہ:۲۸۳) جو تقوٰی اختیار کرتا ہے.اس کو خدا سکھاتا ہے.قرآن پڑھ.سیکھو.اس کے علم میں ترقی کرو.اس پر عمل کرو قرآن سے تم کو محبت ہو.وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.حق کے پہنچانے میں کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہے.اس تکلیف

Page 462

کو برداشت کرنے کے لئے دوسرے کو صبر سکھاؤ اور خود بھی صبر کرو.یہ سورۃ اگر تم نے سمجھ لی ہے تو دوسروں کو بھی سمجھاؤ اور برکت حاصل کرو.میں چاہتا ہوں کہ تم اﷲتعالیٰ سے محبت کرو.اس کے ملائکہ سے نبیوں اور رسولوں سے محبت کرو.اور کسی کی بے ادبی نہ کرو.تم کو اﷲ تعالیٰ نے بری نعمت عطا کی ہے.حضرت صاحب کا دنیا میں آنا کوئی معمولی بات نہیں.تم اس طرح یہاں بیٹھے ہو.یہ انہی دعاؤں کا نتیجہ ہے دعائیں بہت کرو اﷲ تعالیٰ تم کو دوسروں تک حق پہنچانے کے لئے توفیق دے.(بدر ۲۷؍فروری ۱۹۱۳ء صفحہ ۳،۴)..عصر کے معنے مطلقًا وقت کے ہیں.قسم کے طور پر وقت کو اس لئے یاد فرمایا کہ اس کی عظمت اس کا مفید ہونا انسان سواجے.انسان کی عمر کا وقت برف کے تاجر کی طرح ہے.کہ ہر لمحہ ہر دقیقہ معرضِ خُسران میں پڑا ہوا ہے جس نے چت پت اس سے فائدہ اٹھا لیا.وہ مزے میں رھا.عپر کے معنے نچوڑنے کے ہیں.اس سورث میں کے یہ معنے ہیں کہ اسلام سارے ادیان کے حقائق و معارف کا نچور ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ مَنِ اسْتَوٰی یَوْمَاہُ فَھُوَ مَغْبُوْنٌ یعنی جس کے دو دن برابر رہے.اور اس نے کوئی ترقی نہ کی یا ان دو دنوں میں کوئی کسبِ خیر نہ کیا وہ گھاٹے میں ہے.ابومزینہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کی عادت تھی کہ جب دو صحابی بھی آپس میں ملاقات کرتے تو تذکیر کے طور پر سورہ شریفہ کاایک دوسرے کو سناتے.نماز عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک کوئی فرص نماز نہیں.سنت الطواف کے سوائے بھی کوئی نفل نماز نہیں.اس میں یہ اشارہ ہے کہ پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور شریعت نہیں.اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَا صَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَا صَوْابِا لصَّبْرِ.ایمان اور اعمالِ صالحہ کے لئے بعض زمانہ بڑا ہی قابلِ قدر ہوتا ہے.قرآنِ شریف میں ایک اور مقام میں فرمایا ہے.(الحدید:۱۱) حدیث شریف میں اسی آیت کی تفسیر یوں ہے.کہ سابقین اوّلین میں سے جو اصحاب پہلے پہل ایمان لائے اور انفاق فی سبیل اﷲ ایک مٹھی بھَر جَو کے ساتھ کیا.بعد میں ایمان لانے والے اور پہار برابر سونا خرچ کرنیوالے ان اگلوں کی برابری نہیں کر سکتے.( الحدید:۱۱) اور یوں تو اﷲ تعالیٰ نے اگلے پچھلے سب کو نیک وعدے دئے ہیں.وَ تَوَا صَوْا بِالْحَقِّ کی نسبت بھی ح

Page 463

بھی حدیث شریف میں ایا ہے.کہ جو حق بات جانتا ہے اور بیان نہیں کرتا وہ گونگا شیطان ہے.دوسری حدیث میں ہے کہ لایسے کو بروزِ قیامت آگ کی لگام چڑھائی جائے گی.ایمان.اعمالِ صالحہ.وصیت بالق اور وصیت بالصبر جو اسلام کا نجور ہے.اس چھوٹی سی سورۃ میں بیان فرما دیا.اسی لئے صحابہ رضی اﷲ عنہم بطور تذکیر ملاقاتوں کے وقت ایک دوسرے کو سنا دیا کرتے.احباب بھی اس سنتِ صحابہ پر عمل کریں.گوش زدہ اثر دارد.وصیت بالحق میں اتنا غلُو نہ کرے کہ ھَمْز اور لَمْز تک نوبت پہنچ جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 464

سُوْرَۃَ الْھُمَزَۃِ مَکِّیِّۃٌ ۲..ھُمَّزَّہ میں ۃ مبالغہ کے واسطے ہے.جیسے علاّم علاّمۃ ھُمذ کے معنے توڑنے کے ہیں اور یُمز کے معنے طعنہ مارنے کے ہیں.ھُمَّذَّہ.لُمَّذَّہ کے معنے لوگوں کی آبرؤوں.عزّتوں میں طعن و تشنیع کے ذریعہ شکستگی پیدا کرنے کے ہیں.ہامز وہ شخص ہے جو روبر و بد گوئی کرے.یا آنکھ اور ابرو وغیرہ کے اشارات سے کسی کی تحقیر کرے.اور لامز جو پسِ پست کسی کی بدگوئی کرے.کُلُّ کا لفظ جامع ہے.ہر قسم کے ھامزین اور لامزین پر.کسے باشد مسلم ہو یا کافر.انبیاء کے اخلاق میں کبھی یہ ضعف پایا نہیں جاتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۳..حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ مال کے جمع کرنے کی حرص کو ہر قسم کے گناہ سے شدید مناسبت ہے.منجملہ ان کے ایک ھمّازی اور لمّازی بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۶..حَطَمَ کے لغوی معنی بھی توڑنے ہی کے ہیں.زراعت کا غلّہ جو چُورنے کے لئے جانوروں کے پیروں سے روندایا جاتا ہے.وہ حُطام کہلاتا ہے.ک (الواقعہ:۶۶)ہمز ار لمز کی جزا میں بھی سزا بالمثل کے طور پر اﷲ تعالیف نے نارِ جہنم کے طبقہ کا نام حُطَمَۃ بیان فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 465

سُوْرَۃَ الْھُمَزَۃِ مَکِّیِّۃٌ ۲..ھُمَّزَّہ میں ۃ مبالغہ کے واسطے ہے.جیسے علاّم علاّمۃ ھُمذ کے معنے توڑنے کے ہیں اور یُمز کے معنے طعنہ مارنے کے ہیں.ھُمَّذَّہ.لُمَّذَّہ کے معنے لوگوں کی آبرؤوں.عزّتوں میں طعن و تشنیع کے ذریعہ شکستگی پیدا کرنے کے ہیں.ہامز وہ شخص ہے جو روبر و بد گوئی کرے.یا آنکھ اور ابرو وغیرہ کے اشارات سے کسی کی تحقیر کرے.اور لامز جو پسِ پست کسی کی بدگوئی کرے.کُلُّ کا لفظ جامع ہے.ہر قسم کے ھامزین اور لامزین پر.کسے باشد مسلم ہو یا کافر.انبیاء کے اخلاق میں کبھی یہ ضعف پایا نہیں جاتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۳..حُبُّ الدُّنْیَا رَأْسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ مال کے جمع کرنے کی حرص کو ہر قسم کے گناہ سے شدید مناسبت ہے.منجملہ ان کے ایک ھمّازی اور لمّازی بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء) ۶..حَطَمَ کے لغوی معنی بھی توڑنے ہی کے ہیں.زراعت کا غلّہ جو چُورنے کے لئے جانوروں کے پیروں سے روندایا جاتا ہے.وہ حُطام کہلاتا ہے.ک (الواقعہ:۶۶)ہمز ار لمز کی جزا میں بھی سزا بالمثل کے طور پر اﷲ تعالیف نے نارِ جہنم کے طبقہ کا نام حُطَمَۃ بیان فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 466

سُوْرَۃَ الْفِیْلِ مَکِّیَّۃٌ ۲..کے معنی اَلَمْ تَعْلَمْ کے ہیں.کیونکہ اصحٰب فیل کا واقعہ متواتر بیان سے ایسا معتبرو مشہود تھا کہ رَوْیَت اور علم کا حکم رکھتا تھا.جس سال اصحاب فیل تباہ ہوئے.اسی سال پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم پیدا ہوئے.آپؐ کی ولادت ۵؍ اپریل ۵۷۱ء کو ہوئی.آپؐ کی ولادت با سعادت کے لئے اصحاب الفیل کا واقعہ بطور توطیہ و تمہید کے تھا.فر ما کر ربوبیتکے لفظ سے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ تسلّی فرمائی کہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی جبکہ آپؐ کے ربّ نے آپ کی خاطر اس قسم کی کی صیانت کی ہے کہ ایک بادشاہ کے زبردست لشکر کو ہلاک کر دیا.تو کیا وہ ربوبیت جبکہ آپ پیدا ہو چکے ہیں تو آپ سے الگ ہو سکتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) عباسیوں کی سلطنت تھی.ایک دفعہ محمود غزنوی سے ان کی کچھ رنجش ہو گئی.محمود غزانوی نے اس خلیفہ کو لکھا کہ میں ہندوستان کا فاتح ہوں اور میرے پاس اتنے ہاتھی ہی.خلیفہ نے اس کے جواب میں اَلَمْ اَلَمْ نہایت خوبصورت لکھوا کر بھیج دیا.محمود کے دربار میں تو سب فارسی دان ہی تھے.چنانچہ اس زمانہ کی یادگار صرف ’’ شاہ نامہ‘‘ ہی باقی ہے.وہ تو کچھ سمجھے نہیں.آخر محمود نے کہا کہ خلیفہ نے یاد دالئی ہے اور اس کا مطلب ہے کہ تمہارے پاس ہاتھی ہیں تو ہمارا وہ رب ہے جو اصحاب الفیل کو ہلاک کر چکا ہے.بہت ڈر گیا اور معذرت کی جس پر تعلقات درست ہو گئے.مگر پھر بغدادِ کا حال ہمیں معلوم ہے.وہ محمود غزنوی جو خلیفہ کے اَلَمْ اَلَم سے ڈر گیا تھا.اسی پایۂ تخت کو ہلاکو اور چنگیز نے تباہ کر دیا.ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعوٰی کا گمان تھا ان سب کو دیوار میں چُن دیا.وہ بی بی جس کا نام نسیم بی بی رکھا تھا ایک گلی میں اس حالت میں دیکھی گئی کہ کُتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے.

Page 467

اور پھر میری آنکھوں کے سامنے بخارا.سمرقند.دہلی.لکھنؤ اور طرابلس کی سلطنتیں مِٹ گئیں دہلی کے شہزادوں میں سے ایک کو میں نے جموّں میں ستار بجاتے میراسیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.(الفضل ۸؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵) ۳..کے معنے تدبیر کے اکارت ہونے کے ہیں.کَمَا قَالَ اﷲُ تَعَالٰی.اَضَلَّ اَعْمَالَھُمْ ( محمدؐ:۲) سورۃ محمدؐ کی اس آیت اور آیت بالا دونوں کا ایک ہی مطلب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) ۴..ابابیل کے معنے جُھنڈ کے جُھنڈ.یہ لفظ جمع ہے.واحد اس کا نہیں ہوتا بعضوں نے اِبُول اِبْیال اور ابالہ اس کا واحد قرار دیا ہے.غرضیکہ ابابیل کے معنے پَر ے باندھ کر قطار در قطار آنے والے جانوروں کے ہیں.عرب کہا کرتے ہیں جَائَتِ الخیلُ اَبَابِیْل مِنْ ھٰھُنا وَ مِنْ ھٰھُنَا یعنی گھوڑوں کا لشکر قطار باندھ کر اس طرف سے اور اُس طرف سے آپہنچا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) ۵..کے معنے سخت کنکری کے ہیں.سنگ اور گِل سے اس لفظ کو مرکب جنہوں نے کہا ہے غلطی کی ہے.عربی جیسے وسیع اور بامعنی زبان کو اس طور پر مرکب کرنے کی کیا ضرورت، جس مقام پر یہ لشکر ہلاک ہوا.وہ مزدلفہ اور منٰی کے درمیان کی جگہ ہے.اب بھی حاجی لوگ رمی جمار کے لئے اسی میدان سے کنکریاں چُن کر ساتھ لے آتے ہیں اور ان سے رمی جمار کرتے ہیں.علاباً علاج فاسد یا فصد اس کا مطلب ہو.سجال اور ارسال ایک معنی ہیں.بعضوں کی تحقیق ہے کہ جن کفّار پر وہ کنکریاں گرتی تھیں.ان کو چیچک نکل آتی تھی.مفصل بیان کتاب نور الدّین صفحہ ۱۲۹ میں دیکھیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) : شکاری جانوروں کی عادت ہے کہ وہ گوشت کو پتھر پر مار کر

Page 468

کر کھاتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸) ۶..عَصْفِ مَاْکُوْلٍ کے معنے خوید پس خوردہ کے ہیں.چڑیاں ان کی لاشوں کو نوچ کر لے جاتیں اور پہاڑوں میں کھاتیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) دھرم پال آریہ کے اعتراض’’ طَیْرًا اَبَابِیْلَ ‘‘ کجا ہا تھی اور کجا کرم خور جانور‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا: ’’ قبل اس کے کہ ہم آپ کو اس سوال کا جواب دیں.ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوال میں جو الفاظ آئے ہیں.ان کے معنے بتلائیں.پہلا لفط کَیْد ہے.کَیْد کے معنی مفصّل ہم نے سوال میں لکھ دئے ہیں.مگر یہاں یاد رہے.کہ کَیْد کے معنے لڑائی کے ہیں.دوسرا لفظ تَضْلِیْل ہے تَضْلِیل کے معنے باطل کرنے اور ہلاک کے ہیں.تیسرا لفظ اَبَابِیْل ہے.اَبَابِیْل جمع ہے ابیّل اور ابوّل کی.ابیّل اور ابوّل کے معنے جماعت کے ہیں.ابابیل کے معنے ہوئے بہت سی جماعتیں.ہماری زبان میں ترجمہ ہوا.ڈاروں کی ڈار.چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے.قَال الذجاج فِیْ تَوْلہٖ تَعَالٰی.طَیْرًا اَبَابِیْل جماعات من ھٰھنا و جماعات مِنْ ھٰھُنَا وَ قِیْلَ یتّبع بَعْضھا بَعْضًا اِیّلا اِّبّیلاایْ قَطِیْعًا خَلْفُ قَطِیْعٍ.دوسرا سوال اس کے بعد یہ پیش آتا ہے کہ دشمن کی فوج کی ہلاکت کو جانوروں سے کیا تعلق ہے؟ اس کے واسطے سام وید فصل نمبر۳ پرپاٹیک نمبر۴ کی عبارت دیکھو اس میں لکھا ہے.ا.کوؤں اور مضبوط بازؤوں والے پرندوں کو ان کے تعاقب میں بھیج.ہاں تو اس فوج کو کر گسوں کی غذا بنا.اے اندر ایسا کر کہ کوئی ان میں سے نہ بچے.کوئی نیک بھی نہ بچے.ان کے پیچھے تو تعاقب کرنیوالے پرندوں کو جمع کر دے‘‘ پھر سام وید فصل دوم پر پاٹیک نمبر۳ میں یوں ہے.’’ اے روشن اشاش جب تیرے وقت رجوع کرتے ہیں تو کل چوپائے اور دریاؤں والے حرکت کرتے ہیں اور تیرے گرد بازو والے پرندے آسمان کی تمام حدود سے اکٹھے ہو جاتے ہیں.‘‘ عربی میں ایسے محاورات بکثرت ہیں اور انہی معنوں اور استعاروں میں پرندوں کے الفاظ وہاں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ النابغۃ الذبیانی کا شعر ہے ع اِذَا مَاغَذَا بِجَیْشِ حَلَّقَ فَوْقَھُمْ عَصَائِبُ طَیْرٍ تَھْتَدِیْ بِعَصَائِبِ

Page 469

جب وہ لشکر لے کر دشمنوں پر چرھتا تو پرندوں کے غولوں کے غول دشمنوں کی لاشوں کے کھانے کو جمع ہو جاتے ہیں.ایک مولوی صاحب نے اس موقعہ پر ایک شعر لطیف لکھا ہے.وہ ہمارے جواب کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے.گو مولوی صاحب نے اس کے معنے کچھ ہی کئے ہوں مگر وہ ہماری وہ ذکر کردہ دلیل کا ہی مثبت ہے اور وہ شعر یہ ہے.اَیْنن الْمَفَرُّ لِمَنْ عنادَاہُ مِنْ یَدِہٖ وَ الْوَحْشُ وَ الطَّیْرُ اَتْبَاعٌ تُسَائِرُہٗ یہاں طیر سے مراد وہی مُردار خور پرندے ہیں اور سباء بھی وہی مُردار خور ہیں.جو فتحمندی کا نشان ہیں.اسی قسم کے اندازِ بیان میں قرآن کریم میں اﷲ تعالیف اسارہ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمن ہلاک کئے جاویں گے.جیسے فرماتا ہے: (النحل:۸۰) کیا وہ ان پرندوں کے حالات پر غور نہیں کرتے.جنہیں ہم نے آسمان کی جوّ میں قابو کر رکھا ہے.ہم ہی نے تو انہیں تھام رکھا ہے ( اور ایک وقت آنے والا ہے کہ انہیں نبی کریمؐ کے دشمنوں کی لاشوں پر چھوڑ دیں گے) مومنوں کے لئے ان باتوں میں نشان ہیں.یہاں بھی پہلے ایک سریر قوم کا بیان کیا ہے.جو بری نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی.اور اسلام کو عیب لگاتی تھی.اور بہت سے اموال جمع کر کے فتح کے گھمنڈ میں مکّہ پر انہوں نے چڑھائی کی.یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا.جس نے اسی سال مکقہ معظّمہ پر چڑھائی کی جبکہ حضرت رحمۃ للعالمین نبی کریمؐ پیدا ہوئے.جب یہ شخص وادیٔ محصّر میں پہنچا.اس نے عمائد مکّہ کو کہلا بھیجا کہ کسی معزّز آدمی کو بھیجو.تب اہلِ مکّہ نے عبدالمطلب نامی ایک شخص کو بھیجا جو ہمارے نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے دادا تھے.جب عبدالمطلب اس ابرھہ نام بادشاہ کے پاس پہنچے.وہ مدارات سے پیش آیا.جب عبدالمطلب چلنے لگے اس نے کہا کہ آپ کچھ مانگ لیں.انہوں نے کہا کہ میری سو اونٹنیاں تمہارے آدمیوں نے پکڑی ہیں.وہ واپس بھیج دو.تب اس بادشاہ نے حقارت کی نظر سے عبدالمطلب کو کہا کہ تمہیں اپنی اونٹنیوں کی فکر لگ رہی ہے.اور ہم تمہارے اس مَعْبَد کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں.عبدالمطلب نے کہا.کیا ہمارا مولیٰ جو ذرّہ ذرّہ کا مالک ہے.جب یہ معبد اسی کے نام کا ہے اور اسی کی طرف منسوب ہے.وہ اس کی حفاظت نہیں کرے گا؟ اگر وہ اپنے معبد کی خود حفاظت نہیں کرنا چاہتا.تو ہم کیا کرسکتے ہیں.آخر اس بادشاہ کے لشکر میں

Page 470

میںخطرناک وبا پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتا ہے ان پر حملہ اور ہوا اور اوپر سے بارش ہوئی.اور اس وادی میں سیلاب آیا.بہت سارے لشکری ہلاک ہو گئے اور جیسے عام قاعدہ ہے.کہ جب کثرت سے مُردے ہو جاتے ہیں.اور ان کو کوئی چلانے والا اور گاڑنے والا نہیں رہتا تو ان کو پرندے کھاتے ہیں.اُن موذیوں کو بھی اسی طرح جانوروں نے کھایا.یہ کوئی پہیلی اور مُعَمَّا نہیں.تاریخی واقعہ ہے.پر افسوس تمہاری عقلوں پر!مکّہ معظمہ کی حفاظت ہمیشہ ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی.کوئی تاریخ دنیا میں ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ اسلام کے مدعیوں یا ابراہیمؑ کے تعظیم کرنیوالوں کے سوا کوئی اور بھی اس کا مالک ہوا ہو.یونانی سکندر بگولہ کی طرح یونان سے اٹھ کر تمہارے ملک میں پہنچا اور اسے پامال کیا.اور رچرڈ سارے یورپ کے ساتھ اسلام کی بربادی کو اٹھا اور نپولین مصر تک پہنچ گیا.مگر عرب کی فتح سے سب ناکام اور نامراد رہے.اس میں خدا ترسوں کے لئے بڑے نشان ہیں.پہلا بابل میں ہلاک ہوا اور دوسرا ملک شام سے نامرادواپس ہوا اور تیسرا سینٹ ہلینا کے قلعہ میں بے انتہاء حسروتوں کو دل میں لے کر مرا! تمہارے آریہ ورت کو ہم دیکھتے ہیں کہ اہلِ اسلام اس کے مالک ہوئے یا اُن کے ساتھی اب اہلِ کتاب ہیں! تمہارے ہریؔدوار اور کاشی وغیرہ کی حکومت دوسروں کے قبصہ میں ہے! تمہارا کوئی معبد غیر مفتوح نہیں رہا.غیر قوموں کے گھوڑوں کے سُموں نے سدا انہیں پامال کیا.یہ عجائبات اور معجزات ہیں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۶۱.۱۶۳)

Page 471

سُوْرَۃِ قُرنیْشٍ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۵.....اس سورۃ شریف میں جو یہ حکم ہوا ہے کہ اس گھر کے ربّ کی عبادت کرو.جس نے تم کو بھوک سے غنی کرنے کے لئے کھانا کھلایا.یہ آیت شریف حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰث والسلام والبرکات کی اس دُعا کے مطابق ہے کہ میرے پروردگا اس شہر کو امن کی جگہ بنا.اس دعائے ابراہیمی ؑ کی قبولیت کے سبب قریش بڑے عیش و آرام میں زندگی بسر کرتے تھے.حالانکہ ان کے گرد و نواح کی مخلوق ہلاکت میں پڑی ہوئی تھی اسی مضمون کی طرف اﷲ تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں سورۃ نحل میں بھی اسارہ فرمایا ہے.اﷲ تعالیٰ نے ایک گاؤں کی مثال بیان فرمائی ہے جس کے باشندے اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے.ہر طرف سے اس کو رزق بافراغت پہنچتا تھا.پھر ان لوگوں نے اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جس پر خدا نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب وارد کیا.جو ان کی اپنی بدعملیوں کا نتیجہ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ستمبر۱۹۱۲ء) : اُلفت دلانے کے لئے اس گھر کے ربّ کے ساتھ الفت دلانے کے لئے اصحاب الفیل کو اس واسطے قتل کیا گیا.اور شکست دی گئی اور خائب و خاسر واپس کیا گیا ہے.کہ قریس اور اہلب عرب کا یقین تازہ ہو کہ اس گھر کی حفاظت اﷲ تعالیٰ خود کرتا ہے.اس طرح وہ خدا تعالیٰ کی خالص عبادت میں مسغول ہوں اور قریس جو موسمِ سرما و گرما میں سفر پر جاتے تھے.اور تمام بلاد کے بادشاہ اور تجاّر ان کی عزّت کرتے تھے.اس تجارت اور سفر میں فرق نہ آوے بلکہ ان کی عزّت اَور بھی زیادہ ہو.

Page 472

: ان کو اُلفت دلانے کے لئے : سردی اور گرمی کے سفر میں.قریش تجارت کے واسطے ہر سال دو سفر کرتے تھے.موسم سرما میں افریقہ.ہند و یمن کی طرف جاتے تھے.اور موسم گرما میں شام، ایران کی طرف جاتے تھے.ہر دو طرف کے لوگ ان کی بہت ہی عزّت اور تکریم کرتے تھے.اور ہدیے اور تحفے دیتے تھے.اگر خدا نخواستہ اصحاب الفیل کو فتح ہو جاتی تو ان کی یہ تمام عزّت جاتی رہتی.اور امن اُٹھ جاتا.لیکن اصحاب الفیل کو تباہ کر کے اﷲ تعالیف نے ان کی عزّت کو اور بھی بڑھایا.اور پہلے سے بھی زیادہ لوگ قریس کی تعظیم کرنے لگے.اور وہ سفر ان کے واسطے اور بھی زیادہ آسان اور بابرکت ہو گئے.: پس چاہیئے کہ عبادت کریں.: اس گھر کے پروردگار کی.: جس نے.: ان کو کھانا کھلایا.مِنْ جُوْعٍ : بھوک سے.: اور ان کو امن دیا.مِنْ خَوْفٍ: خوف سے.بعض جاہل آریہ اور عیسائی اعتراص کرتے ہیں کہ مسلمان چونکہ عبادت کے وقت خانہ کعبہ کی طرف منہ کرتے ہیں اس واسطے یہ بھی ایک شرک ہے.اور اس گھر کی عبادت کی جاتی ہے.اس سورۃ شریف میں اﷲ تعالیٰ نے اس بات کا ردّ کر دیا ہے..عبادات اس گھر کے ربّ کی کی جاتی ہے.نہ کہ اس گھر کی.اور یہ گھر بطور ایک نشان کے ہے.جو خدا تعالیٰ کی برتر اور قادر اور عالم الڈیب ہستی کا ثبوت دیتا ہے.کیونکہ دنیا میں برے بڑے گھر لوگوں نے بنائے.اور بری بڑی قومیں ان کی امداد کے لئے کھڑی ہوئیں لیکن وہ تباہ ہو گئے.اور ان کا نام و نشان مت گیا.اور یہ گھر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق قائم ہے.اور اس کے ارد گرد رہنے والے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ ہیں.عبادت کے وقت آخر کسی نہ کسی طرف تو انسان منہ کرتا ہے.وحدت کے واسطے سب نے ایک طرف منہ کی اور ایک ایسی طرف منہ کیا جس طرف سے خدا تعالیٰ کا پاک کلام اُن تک پہنچا.اور اُن کے واسطے موجبِ ہدایت ہوا علاوہ اس کے اس میں ایک اور حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ زمین کے گول ہونے کے سبب دن رات

Page 473

کے ہر ایک حصّہ میں مسلمان خدا تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوتے ہیں.کیونکہ ایک ہی سیکند میں کہیں عصر ہے کہیں مغرب کہیں عشاء.کہیں فجر اور کہیں ظہر.ان کے علاوہ تہجد اور اشراق اور دوسری نمازیں جدا ہیں.غرض کوئی بھی ایسا وقت نہیں ہوتا جس میں روئے زمین پر کسی نہ کسی جگہ مسلمان خدا کی عبادت نہ کر رہے ہوں.گویا مسلمان ہی ایک قوم ہے جس پر خدا تعالیف کے انوار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.ایسا ہی عبادت کے وقت ایک خاص سمت کا مقرر کرنا ایک عجیب حکمت رکھتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے سبب اہلِ ہند کا منہ عبادت کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے.اہلِ شام کا جنوب کی طرف اور اہلِ یمن کا شمال کی طرف.اہلِ مصر کا مشرق کی طرف ہوتا ہے.اور ان سمتوں کے درمیان جو مقام ہے ان کا منہ کم و بیس درجات کے ساتھ ان سمتوں کے درمیان ہوتا ہے.الغرض کمپاس کا کوئی ایسا طرف نہیں جس طرف منہ کر کے مسلمان خدا کی عبادت نہیں کرتے.گویا تمام روئے زمین پر اسلامی توحید کی شہادت کی لکیریں اس کثرت کے ساتھ ہر سمت سے گزرتی ہیں اور ہر وقت گزرتی ہیں کہ تمام روئے زمین ہر وقت مسلمانوں کی طرف سے خدا تعالیٰ کی توحید اور تحمید اور تسبیح سے پُر رہتی ہے.کوئی اور مذہب دنیا میں ہے.جو اس قدر خدا کی عبادت کرنے والا.خدا کے کام بھی عجیب ہیں.کسی کو اپنا برگزیدہ بندہ بنانا چاہتا ہے.تو ایک غریب کو لیتا ہے.جو غیر مشہور ہو اور ظاہری علوم سے دنیا کی نظر میں ناواقف ہو اور کچھ طاقت نہ رکھتا ہو.نہ کوئی جتھا اس کے ساتھ ہو پھر اسے مامور بنا دیتا ہے.چاردانگ عال میں اس کی قبولیت پھیلا دیتا ہے.تمام عالموں سے برھ کر اُسے عالم بنا دیتا ہے.اسے طاقتور ور ہستی کے ثبوت میں نشان بنانا چاہا.تو کہاں بنایا.عرب کے میدان میں.جہاں نہ پانی ملے.نہ چارہ.نہ خوراک نہ سبزی.نہ کوی بستی نہ کوئی ابادی نہ کوئی حفاظت کی جگہ.پھر اسے آباد کیا تو ایسا کہ ساری دنیا اس کی طرف دوڑی چلی جاتی ہے.تمام جہان کی دولت وہاں پہنچتی ہے.ہر ملک و ملّت کا ادمی وہاں پایا جاتا ہے.ہر زبان وہاں سمجھتی جاتی ہے.طاقت کا یہ حال ہے کہ فوجی لحاظ سے کوئی حفاظت کا سامان نہیں.پھر بھی سکندر رومی یونان سے نکال.ہند تک فتح کیا.واپسی پر عرب کی فتح کا ارادہ تھا.راستہ میں ہی ہلاک ہو گیا.خود اس زمانہ میں دجّال یورپ سے نکال اور ہند تک پہنچ گیا.مگر وہی بیت اﷲ اس سے محفوظ رہا.نبی کریمؐ نے دجّال کو دیکھا کہ خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے.وہ طواف بھی ایک تو یوں ہو گیا کہ بحیرہ قلزم.بحیرہ عرب.عدن سے ہو کر خلیج فارس میں دجّال گھوم رہا ہے.اور اس کے آگے جو ہو گا وہ بھی ظاہر ہو جائے گا.

Page 474

: چونکہ اہلِ عرب کے واسطے مقدّر تھا.کہ جب نورِ محمدیؐ ان کے درمیان سے طلوع کرے.تو وہ اس سے منوّر ہو کر مشرق و معرب میں پھیلیں.قیصر و کسرٰی کی سلطنتوں کے وارث بنیں.ایران و شام کو فتح کریں.مصر، الجیریا ، مراکو کو مسلمان بناتے ہوئے ہسپانیہ میں جا گسیں.دوسری طرف ترکستان، افعانستان، ہند کے فاتہ بنیں.چین کے لوگوں کو جا کر مسلمان بانئیں.اس واسطے پہلے سے اﷲ تعالیٰ نے ان کی طبائع ایسے بانئے تھے.کہ وہ سفر کو اور کیا گرمی اور کیا سردی.ہر دو موسموں میں سفر کیا کرتے تھے.پھر اس میں ایک پیشگوئی بھی مخفی ہے.کہ اے قریش خدا تعالیٰ نے تمہارے واسطے برے بڑے سفر مقدّر کر رکھے ہیں.وہ سفر ایسے نہ ہوں گے کہ تم جس موسم میں جاؤ.اُسی میں تم واپس آ سکو.بلکہ وہ لمبے سفر ہوں گے.جن میں تم کو سردیاں بھی گزارنی پریں گی اور گرمیاں بھی گزارنی ہونگی.خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کیا وسیع ہے.کہ اس نے عرب کی قوم ہاں اس پتھر کو جسے معماروں نے ردّ کر دیا تھا کہ یہ کام کا نہیں اسے ہی کونے پر لگایا.وہی قوم تمام دنیا کی سردار بنتی ہے.وہی قوم تمام یورپ کو مہذّب بنانے والی ہوئی.مشرق و مغرب میں اُس نے علوم کا چراغ روشن کر دیا.آج تک تمام اعلیٰ علوم انہیں کی کتابوں سے اخذکئے جاتے ہیں.ایک ایک مسلمان نے وہ شاندار کتاب لکھی ہے جس کے برابر آج بری بری جماعتیں لگ کر اور لاکھوں کروڑوں روپے خرج کر کے بھی نہیں لکھ سکتیں.کیسا طاقتور.قادر.توانا.آئندہ کی خبروں سے واقف خدا اس گھر کا ہے جو تیرہ سو سال سے اس قدر عزّت پا رہا ہے.وہ جسے ابراہیم علیہ السلام والبرکات نے جنگ میں بنایا.جنگ بھی وہ جس کے گردا گرد سینکڑوں کوسوں تک کوئی ابادی نہ تھی.اس گھر میں خدا کی عبادت کے واسطے اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑ دیا.اﷲ اﷲ کیا ہی وہ ایمان تھا جو حصرت ابراہیمؑ کے سینہ اور دردِ دل میں تھا.کیا ہی توکّل اور ایمان والی وہ بیوی تھی جس نے اپنے خاوند کو کہا کہ جب یہ خدا کا حکم ہے تو اب تُو جا.تیری اور نہ کسی اور کی ہم کو پرواہ ہے.کیا ہی پیارا وہ بچہ تھا.جس کی خاطر جنگل بیابان میں چشمہ جاری ہوا.اور ایسا جاری ہوا کہ آچ تک تمام جہان کے لوگ اس کا پانی پیتے ہیں.خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں ہوں تجھ پر اے خدا کے خلیل.اے نبیوں کے باپ اور ہزاروں ہزار برکتیں اور رحمتیں تجھ پر ہوں.اے عورتوں میں ایک بے نظیر عورت.مصر کی شاہزادی اور ابراہیمؑ کی بیوی اور اسمٰعیل ؑ کی ماں.کیا ہی خدا رسیدہ تیرا دل تھا کہ تُو نے خدا کے حکم کی تابعداری میں اپنے بھاری امتحان کو اپنے سر پر قبول کیا کہ اگر وہ امتحان پہاڑ پر پڑتا تو پہاڑ اس کے بوجھ سے شق ہو جاتا.بے شک تو ہی اس قابل تھی کہ تیری اولاد میں سے نبیوں کا سردار محمدؐ پیدا ہوتا.تیری اس مضطر یا نہ دَور کی یادگار میں آج تک لاکھوں انسان مختلف بلاد سے آ کر تیرے

Page 475

قدم بقدم دوڑتے اور خدا کی حمد کرتے ہیں.ایک ابراہیمؑ کے اس گھرانے کی تاریخ خدا تعالیٰ کے دلدادہ اور مقبول بندوں میں ایسی پُر درد ہے کہ دلوں کی کثافت کو دور کرتی اور انسان کو خدا کے نزدیک لا دیتی ہے.: اس گھر کی عبادت کرو.اس میں اس گھر کے متعلق جو اﷲ تعالیٰ کی خاص ربوبیّت کے نشانات ہیں.ان کی طرف اشارہ ہے.اس قسم کا محاورہ تورات میں بھی ہے.مثلاً جو کہ تمہیں مصر سے نکال لایا.خانہ کعبہ کو بیت اﷲ بھی کہتے ہیں.اور بیت العقیق بھی کہتے ہیں.قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک وقت یہ خطّہ بھی سر سبز و شاداب نہروں اور نباتات کے ساتھ ہو جائے گا.چنانچہ اس پیشگوئی کا پورا ہونا آج ظاہر ہے.خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے اور اس کی عبادت میں مصروف ہونے اور تو کّل سے فائدہ اٹھا کر دنیوی احتیاج سے محفوظ رہنے کی مثالیں فرداً فرداً تو جو ہیں سو ہیں.مگر مجموعی طور پر ملک عرب میں اس علاقہ نے اس کا نمونہ دکھایا ہے.کہ جب ایک زمین خدا کی عبادت کے واسطے کاص ہوئی تو وہ باوجود بنجر بیابان ہونے کے تمام دنیوی نعمتوں سے متمتع ہو گئی.حدیثوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ جو کوئی اپنی آخرت کے اہتمام میں ہو اﷲ تعالیٰ اس کے نفس میں تونگری دے دیتا ہے.اور دنیا کے ہموم سے اسے کفایت کرتا ہے.مگر جس نے غافل ہو کر دنیا کے اہتمام سے شغل کیا.اﷲ تعالیٰ اس کی آنکھوں کے سامنے محتاجی کر دیتا ہے.اور دنیوی ہموم سے اسے کفایت نہیں کرتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا اس گھر کے واسطے کی تھی کہ (بقرہ:۱۲۷) وہ دعا بھی اﷲ تعالیٰ نے قبول فرمائی.اور اس سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا اور انبیاء علہیم السلام کی صداقت کا ایک بیّن ثبوت طاہر ہوتا ہے اﷲ تعالیٰ نے حرم کے متعلق قرآن کریم میں جو پیشگوئی کی ہے.کہ (العنکبوت:۶۸) یہ پیشگوئی اج تک پوری ہو رہی ہے.ایک مفسّر لکھتے ہیں.عرب پہلے جاہل کہے جاتے تھے.اسلام لانے سے وہ دنیا کے عالم کہلائے اَمَنَھُمْ بِالْاِسْلَامِ فَقَدْ کَانُوْا فِی الْکُفْرِ اَطْعَمُھُمْ مِنْ جُوْعِ الْجَھْلِ بِطَعَامِ الْوَحْیِ.کافر تھے خدا نے ان کو مسلمان بنایا.جہالت میں بھوکے تھے.خدا نے طعامِ وحی سے مالا مال کر دیا.حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی مکّہ پر چڑھائی کی تھی اور اس کو فتہ کیا تھا.اور آپؐ کے بعد دیگر خلفاء کو بھی ایسا کرنا پڑا اور سب کو فتہ حاصل ہوئی اور اہلِ مکّہ نے شکست کھائی

Page 476

کیونکہ یہ صاحبان بیت اﷲ کی تکریب کے واسطے حملہ اور نہیں ہوئے تھے.بلکہ اس کی ہرمت کو قائم کرنے کے واسطے اور فساد کو مٹانے کے واسطے انہیں ایسا کرنا پڑا تھا.اس سے ایک نکتہ معرفت حاصل ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو کسی خاص جگہ کسی خاص قوم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں کہ وہ جو چاہیں سو کریں.بہر حال ان کی ہی رعایت ہو گی.بلکہ خدا تعالیٰ کو اپنی توحید پیاری ہے.اور وہ متقی اور صالح لوگوں سے پیار کرتا ہے.خواہ وہ کہیں ہوں.اہلِ مکّہ عرب والے اور گردو نواح کے لوگ بسبب بیت اﷲ کی عزّت کے جِیْران بیت اﷲ کہلاتے تھے.اور اسی سبب سے ان کا نام سکّانِ حرم.خدا تعالیٰ کی حرم میں رہنے والے وُلَاۃُ الکعبہ کعبہ کے والی اور اہل اﷲ بھی تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۶؍ ستمبر ۱۹۱۲ء)

Page 477

سُوْرَۃَ الْمَاعُوْنِ مَکِّیَّۃٌ عربی تفسیر کا ترجمہ: کیا تو نے اس شخص کا حال دیکھا ہے.جو دین کو جھٹلاتا ہے.ایسے ہی ایک مکذّب ابرھہ نام شاہ حبش کا ذکر اس سورہ شریف سے پہلے سورہ فِیل میں ہو چکا ہے.اور کہ کیا تو اس مکذّب کو جانتا ہے.یہ استفہام اس واسطے ہے کہ سننے والہ کو اس مکذّب کے معلوم کرنے کا خیال پیدا ہو.دین سے مراد اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ثواب اور عقاب ہے.جو کہ انسان کو اس کے اعمال پر ملتا ہے.مکذّب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت نہ کرے اور اس کی مناہی سے پرہیز نہ کرے اور ابن عباس نے لکھا ہے کہ مکذّب وہ ہے.جو خدا کے حکم کی تکذیب کرے اور ابن جریح اور مجاہد نے کہا ہے کہ مکذّب وہ ہے.جو وقتِ حساب کا انکار کرے.آیت شریفہ میں فؔ سبب کے لئے ہے.کسی یتیم کو دھکے دینے کا فعل اس کے لئے مکذّبِ دین ہونے کا سبب ہو جاتا ہے.اور اس میں ذٰلِکَ کا اشارہ تحقیر کے واسطے ہے.اور علّتِ حکم کے بتانے کے لئے اور موصول صلہ کی تحقیق کے لئے.یَدُعُّ کے معنے ہیں.دفع کرتا ہے.جیسا کہ ابوطالب کے شعر میں ہے.یَقْسِمُ حَقَّا لِلْیَتِیْمِ وَ لَمْ یَکُنْ یَدُعُ الَّذِیْ یسارِ عَنِّ الْاصاغِر جس کے معنے ہیں: یتیم کو اس کا حق تقسیم کرتا ہے.اور امراء کی خاطر غرباء کو دھکّے نہیں دیتا.اور یتیم کا حق مارتا ہے.یہ ابن عباس کا قول ہے.اور قتادہ کا قول ہے کہ یتیم پر قہر کرتا اور ظلم کرتا ہے یہ اس شریر کی بداعمالی کیسی عجیب ہے کہ کھانا کھلانے اور امن دینے کے بدلے دھکے دیتا ہے.یَحُضُّ کے معنے ہیں کہ دوسرے کو اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ محتاج کو کھلائے اور دراصل سب کو خدا تعالیٰ کھانا کھلاتا ہے.

Page 478

وَیْلٌ: اس وادی کا نام ہے جو دوزخیوں کی پیپ سے بہ کر نکلے لگی.سَاھُوْنَ کے لفظ میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے.جو نمازوں کے اوقات میںتاخیر کرتے ہیں اور ابن عباس اور مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ سَاھُوْنَ سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز کے تارک ہیں اور وہ منافق ہیں.اسی سبب سے کہا گیا کہ یہ سورۃ مکّی ہے.اور نصف مدنی ہے.اور سَاہَ کے معنے ہیں سہو کیا.ریا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے اچھے عمل لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں.مَاعُوْن منفعت کو کہتے ہیں.پس اس پانی سے منع کرنا جو بادلوں سے آتا ہے.ماعون ہے عبدالراعی نے ایک شعر میں کہا ہے.قَوْمٌ عَلَی الْاِسْلَامِ لَمَّا یُمْنَعُوْا مَاعُوْنَھُمْ وَّ یُضَیَّعُوا التَّھْلِیْلَا وہ قوم جو اسلام پر ہے.انہوں نے کبھی ماعون سے منع نہیں کیا اور نہ کبھی کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ کو ضائع کیا ہے.یہاں مَاعُوْن سے مراد اطاعت اور زکوٰۃ ہے.اور حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ ماعون سے مراد زکوٰۃ ہے اور صدقہ مفروضہ ہے.یہ ابن مسعود اور ابن عمر کی روایت ہے.اور ماعون ایسی متاع کو بھی کہتے ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مانگنے پر دیتے ہیں.جیسا کہ دیگچی اور ڈول اور کلہاڑی اور ایسی اشیاء.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰.اکتوبر ۱۹۱۲ء) اس سورۃ کو اس کے پہلے لفط کے لحاظ سے سورۃ اَرَأَیْتَ بھی کہتے ہیں جیسا کہ اَور بھی بعض سورتوں کا نام ان کے پہلے الفاظ کے لحاظ سے ہیں.مثلاً.والصّٰفٰتِ.الرَّحْمٰن.النَّجم الطُّور وغیرہ.دوسرا نام اس سورہ شریف کا اَلدِّیْن ہے کیونکہ اس میں جزا و سزا کے ضروری اور اہم مسئلہ کی تکذیب کرنے والے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے.تیسرا نام اس سورۃ شریف کا سورۃالمَاعُوْن ہے اور زیادہ تر مشہور یہی نام ہے.مَاعُوْن کے معنے مفصّل آگے بیان ہوتے ہیں.انشاء اﷲ تعالیٰ چوتھا نام اس سورۃ کا سورۃ الیتیم ہے.کیونکہ اس میں یتیم کے ساتھ محبت کرنے اور اس پر دستب سفقت رکھنے کی طرف خاص طور پر ترغیب دی گئی ہے.

Page 479

بعض روایات کے مطابق یہ سورہ شریفہ مکّہ میں نازل ہوئی تھی.اور بعض کے نزدیک نصف اوّل مکّہ میں نازل ہوا تھا.اور نصف دوم مدینہ میں نازل ہوا تھا.اور چونکہ نصف آخر میں منافقین کی طرف اشارہ ہے.اور مکّہ معظمہ میں بہ سبب تکالیف اور مصائب کے ہنوز صرف مخلص لوگ شامل تھے.اور ایسے وقت میںممکن نہ تھا.کہ کوئی منافق کمزور شامل ہو سکے.اس واسطے قیاس بھی کیا جا سکتا ہے کہ نصف آخر مدنی ہو.لیکن چونکہ اکثر آیات میں جو مکّہ معظمہ میں نازل ہوئی تھیں آئندہ حالات کی بھی صلی اﷲ علیہ وسلم پر نہ ایک بار بلکہ کئی بار نازل ہوئی ہوں.جیسا کہ حضرت مسیح موعودؑ کے تازہ حالات میں دیکھتے ہیں کہ ایک پیشگوئی وحی الہٰی میں ایک دفعہ نازل ہو کر مثلاً کتاب براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے.لیکن جب اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا تو نزول اوّل کے بیس پچیس سال بعد پھر وہی الہام الہٰی کلام میں دوبارہ نازل ہوئے.ایسا ہی شانِ نزول کے متعلق بھی اختلاف ہے.عطاء و جابر کا قول حضرت ابن عباسؓ سے ہے کہ یہ سورۃ مکّی ہے اور دوسرے قول میں ہے کہ یہ سورت نصف اوّل عاص بن وائل کے حق میں ہے اور نصف ثانی عبداﷲ بن ابی بن سلول کے حق میں ہے.سدی نے کہا ہے کہ ولید بن مغیرہ کے حق میں ہے.ضحاک نے کہا ہے کہ عمر بن عاید کے حق میں ہے.ابن جریح نے کہا ہے کہ وابوسفیان کے حق میں ہے یتیم کے جھڑکنے کے متعلق ابوجہل کا ایک قصّہ بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ اس کی عادت تھی کہ جب کوئی دولتمند مکّہ میں قریب المرگ ہوتا تو اس کے پاس جا کر کہتا کہ تیرے بال بچے تیرے بعد اور وارثوں کے سبب خراب حال ہو جائیں گے بہتر ہے کہ تو اپنا مال متاع میرے سپرد کر دے.اس طرح یتیموں کا مال لے لیتا اور پھر جب وہ مر جاتا تو ان یتیم بچوں کو صاف جواب دے دیتا اور جھڑک کر نکال دیتا.ذکر ہے کہ ایک یتیم جس کے ساتھ اس نے ایسا ہی سلوک کیا تھا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا تمام قصّہ عرض کیا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم چونکہ یتیموں پر بہت رحم کرتے تھے اس کی خاطر ابوجہل کے پاس چل کر گئے اور اسے سمجھایا اور یتیم کی سفارش کی مگر وہ نابکارِ اور بھی افروختہ ہوا.اور یتیم کو مارنے اٹھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی توہین کی.جس پر یہ سورت نازل ہوئی.ایسا ہی بعض مفسّرین نے ایک روایت یہ بھی لکھی کہ ایک دن ابوسفیان یا ولید بن م؍عیرہ نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ہنوز اس کے حصّے ہی کر رھا تھا کہ ایک ییم نے آ کر سوال کیا.اس نے لاٹھی سے اس یتیم کو مارا.تب ہق تعالیٰ نے اس کی مذمّت میں یہ آیتیں نازل فرمائیں.

Page 480

یہ بھی حکمتِ الہٰی ہے کہ انجیل اور توریت کی طرح قران شریف میں ہر آیت کے ساتھ اس کا شانِ نزول درج نہیں.ابتداء سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن شریف کے درمیان کبھی شانِ نزول یا مقامِ نزول ساتھ ساتھ نہیں لکھائے.جیسا کہ توریت انجیل میں اور دیگر صحفِ انبیاء میں آتا ہے کہ حضرت موسٰی یا عیسٰی یا کوئی اور نبی پھر اس مقام پر گیا اور اس آدمی کو ملا اور اس وقت پر اس پر یہ وحی نازل ہوئی یا خود اس نے یہ کلام کیا.برخلاف اس کے قرآن شریف اوّل سے خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک سمندر کی طرح اس کی روانی ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں.بشر کے کلام کا اس میں کوئی حصّہ نہیں اور چونکہ یہ کلام کسی خاص مکان کے واسطے تھا اور نہ کسی خاص قوم کے واسطے جیسا کہ توریت انجیل وغیرہ دیگر کتب سماوی ہیں.اس واسطے اس میں شانِ نزول ساتھ ساتھ نہ لکھے گئے.بلکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا.کہ اس بات کی حفاظت بھی پورے طور سے نہ ہوئی کہ یہ آیتیں کب اور کس کے حق میں اوّل نازل ہوئی تھیں یہاں تک کہ ترتیبِ نزولی بھی خدا تعالیٰ نے قائم نہ رہنے دی قرآن شریف کی ترتیب اور اس کے درمیان شانِ نزول اور مقامِ نزول کا نہ لکھا جانا خود اس بات کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے کہ یہ کتاب برخلاف دیگر کتبِ سماوی کے تمام زمین کے واسطے اور قیامت تک سب زمانوں کے واسطے اور سب قوموں کے واسطے خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.سورۃ ایلاف میں اﷲ تعالیٰ نے قریش کو اپنے انعام یاد دلائے ہیں.اس کے بعد ان کو یہ سمجھایا گیا کہ جب خدا تعالیٰ کے اس قدر فضل تم پر ہوئے ہیں تو اب تمہیں چاہیئے کہ ان رزائل اور بدیوں سے بچو.جن سے خدا ناراض ہوتا ہے.اور جن کا ذکر اس سورۃ ماعون میں کیا گیا ہے.۱؎ ۲..: آیا دِیدِی؟ کیا دیکھا تُو نے؟ اس میں بطاہر استفہام ہے اور دراصل ۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍اکتوبر ۱۹۱۲ء مطلب تعجب سے ہے کہ کیا ایسے شخص کو بھی تم نے دیکھا ہے.اس قسم کے طرزِ کلام میں ایک زور اور کوبصورتی ہے.: جو کہ.وہ جو.جو شخص کہ : جھٹلاتا ہے.تکذیب کرتا ہے.: جزا و سزا کو کہتا ہے کہ نیکی پر انعام یا بدی پر سزا فرضی باتیں ہیں.اس دنیا میں

Page 481

انسان زندگی گزار کر مر جاتا ہے.اور بس.پھر کچھ نہیں.ایسے لوگ اس زمانہ میں بھی پائے جاتے ہیں.وہ مادی لوگ میٹریَلسٹ کہلاتے ہیں.انبیاء علہیم السلام کے برے اور عظیم الشان کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان بالآخرت پر قائم کریں.اخلاقی اور تمدّنی حیثیت سے بھی یوم الدین پر ایمان کا قائم کرنا امن و امان کے قیام کے واسطے نہایت صروری ہے.جو شخص اعمال کی جزا و سزا کا قائل نہیں.وہ بے دھڑک ہو کر جس کا مال چاہے گا ناجائز طور پر کھائے گا.ظاہری سلطنتیں دلوں کو درست کرنے سے قاصر ہیں.دلوں کو راہِ راست پر لانا صرف روحانی سلطنتوں کا کام ہے جو انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ سے دنیا میں ہمیشہ قائم ہوتی ہیں.اسی پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے.کہ مَیں گورنمنٹ برطانیہ کی سلطنت کی حفاظت کے واسطے ایک تعویز ہوں.کیونہ آپ مخلوق کے دلوں میں تقوٰی اور راستی کی بنیاد ڈال رہے ہیں.گورنمنٹ کے برخلاف جہادی خیالات جو اس ملک میں مشنری.عیسائی پادری.مسلمان ملّاں اور آریہ لوگ پھیلا رہے ہیں اس کو اعتقادی رنگ میں لوگوں کے دلوں سے نکال رہے ہیں اور علاوہ اس کے اپنے مریدوں سے یہ اقرار لیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نیکی کو اختیار کریں.راست بازی پر چلیں بدی کو چھوڑ دیں.کسی قسم کی بغاوت میں ہرگز شامل نہ ہوں.جو لوگ جزا و سزا کے قائل نہیں وہ دنیوی مصائب سے گھبرا کر خود کشی کر لیتے ہیں.تاکہ اس عذاب سے چھُوت جاویں.اگر ان کو معلوم ہوتا اور یقین ہوتا کہ آگے ایک اَور عذاب اس کے واسطے موجود ہے تو وہ ایسا نہ کرتے.یہ یوم الدّین کے انکار کا سبب ہے کہ یورپ امریکہ میں اس کثرت کے ساتھ خودکشیہر سال ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت اقدس مرزا صاحب کی خدمت میں کط لکھا کہ میں دنیوی مصائب سے تنگ ہوں اور چاہتا ہوں کہ خود کشی کر لوں.حضرت نے اس کو جواب لکھا کہ خودکشی سے کیا فائدہ؟ مرنے سے انسان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا.بلکہ ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے.خود کشی کرنا گناہ ہے اور اس کے واسطے عذاب ہے اس سے بچنا چاہیئے.دین کے معنے مذہب کے بھی ہیں.اس صورت میں کے یہ معنے ہیں کہ کیا تُو نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے اور آگے تشریح ہے کہ دین کے جھٹلانے سے اس جگہ کیا مراد ہے.یتیم کو جھڑکنا.مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہ دینا.نماز سے لاپرواہی کرنا ریاکاری کرنا.ماعون سے روکنا.ایسا آدمی خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے.اور وہ دین کو جھٹلانے والا ہے.کیونکہ ایسا کرنیوالا درستگیٔ اعتقاد یعنی ایمان متعلق جزاء سزاء سے بے بہرہ ہے.اور تہذیب اخلاق سے بھی عاری ہے.کیونکہ نہ وہ دفعِ شر کرتا ہے اور نہ طلبِ منفعت کرتا ہے اور نہ وہ تزکیہ نفس کی طرف

Page 482

طرف توجہ رکھتا ہے.کیونکہ نماز سے تساہل کرنیوالا ہے اور ادنیٰ چیزوں سے جو گھر کے اندر عام استعمال میں آتی ہیں.ایک دوسرے کو برتنے سے منع کرتا ہے.اور اخلاق کے ادنیٰ مراتب سے بھی گرا ہوا ہے.۱.نماز پڑھتا ہی نہیں ۲.یتیم کو دھکّے دیتا ہے ۳.مسکین کو کھانا نہیں دیتا ۴.ادنیٰ چیزوں کے باہمی استعمال سے مضائقہ کرتا ہے.شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں.؎ بخیل از بود زاہد و بہرہ ور بہشتی نباشد بحکم خبر ۳..: پس یہی ہے : وہ جو : دھکے دیتا ہے : یتیم کو یتیم کی اہانت کرنیوالے اور اس پر سختی کرنیوالے کو اﷲ تعالیف نے ان لوگوں کے درمیان سمار فرمایا ہے جو کہ دین کے مکذّب ہیں.یتیم سب ضعیفوں سے زیادہ ضعیف ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم یتیم کا بہت خیال رکھتے تھے.اور یتامٰی کی بہت خبرگیری کرتے تھے.ہماری انجمن اشاعتِ اسلام نے بھی اپنے اخراجات میں ایک مدّ یتامٰی کی رکھی ہے.اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں بہت سے یتیم پرورش پا رہے ہیں.جن کے ہر قسم کے اخراجات تعلیمی اور پوشاک و خوراک وغیرہ کے انجمن برداشت کر رہی ہے.۴..: اور نہیں رغبت دلاتا اور نہیں تاکید کرتا.: مسکین کے کھانا کھلانے پر.یہ دوسری مذمت مکذّب کی ہے کہ اوّل تو یتیم کو دھکّے دیتا ہے.اور دوم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا.اور نہ کسی دوسرے کو اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلایا کرے.اس جگہ مکذّب کی دو بڑی نشانیاں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ کہ یتیم کو دھکے دیتا ہے.اور دوم یہ کہ مسکین کو کھانا نہیں دیتا.مسکین اور یتیم ہر دو عام لفظ ہیں.اور ہر ایک شخص جو مساکین اور یتامٰی کے ساتھ بدسلوکی کریگا.وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر وارد کریگا.لیکن اس میں ایک باریک اشارہ ایک خاص یتیم اور مسکین کی طرف ہے.جس نے اﷲ تعالیٰ کی خاطر دنیوی تعلقات کو قطع کر دیا ہے

Page 483

ہے اور دنیوی اموال اور جاہ و حشم کو بالکل ترک کر دیا ہے.اور وہ خدا کی خاطر ایک یتیم اور مسکین بن گیا ہے تب خدا تعالیٰ نے اس کو اپنی ہستی کے ثبوت کے واسطے ایک حُجّت اور نشان مقرر کر کے دوبارہ دنیا میں داخل کر دیا ہے.خداوند تعالیٰ کے تمام انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے.اور وہ لوگ جو دنیا میں عام طور پر اپنی بے دینی کے باعث یتامٰی اور مساکین پر ظلم روا رکھتے ہیں.وہ اپنی عادت کے مطابق آیات اﷲ کے ساتھ ٹکّر کھا کر اپنی بے دینی کے باعث یتامٰی اور مساکین پر ظلم روا رکھتے ہیں.وہ اپنی عادت کے مطابق آیات اﷲ کے ساتھ ٹکّر کھا کر اپنی بداعمالیوں کا آخری نتیجہ پا لیتے ہیں.جن لوگوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایک یتیم اور مسکین، بے کس اور بے بس ایک اکیلا انسان سمجھا.اور آپؐ کے ساتھیوں کو چند غرباء ضعفاء کے سوائے نہ پایا اور آپؐ کے قتل کے درپے ہوئے.خدا تعالیٰ نے ان کے منصوبوں کو ایسا خاک میں ملایا.اور ان کو ایسی ناکامی کا مُنہ آنحضرت ؐ کے سامنے ہی دکھایا کہ اس کی نظیر تاریخ کے معرکہ ہائے جنگ و جدال میں نظر نہیں اتی.ایسا ہی اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کا ایک مُرسل ہمارے درمیان موجود ہے.جس نے آبائی عزّت و جاہ اور اموال و جاگیر کو اپنے خدا کی محبّت کے آگے ہیچ جان کر سب کچھ ترک کیا اور گوشہ میں بیٹھ کر گمنامی کے درمیان اپنے خدا کی یاد کو سب باتوں پر ترجیح دی.دنیا نے اس کو یتیم اور مسکین دیکھا.اور دنیا کے فرزندوں نے چاہا کہ ااس مسکین کو کھانا نہ دے اور نہ اس کو ملے.اور نہ اس کے ساتھ کوئی بات کرے اور اس کے حق میں سخت سے سخت کُفر کے فتوے لگائے لیکن خدا تعالیٰ کا غضب ایسے کفربازوں پر نازل ہوا اور ان کے نوجوانوں کو کھا گیا اور ان کے بچوں کو یتیم کر گیا اور ان کے گھروں کو ویران کر گیا.پر وہ جس کے لئے کہا گیا کہ کوئی اس کو کھانا نہ دے.اس کا گھر خدا نے ہر قسم کی نعمتوں کے ساتھ بھر دیا.پس بڑا بد نصیب وہ ہے جو خدا کے فرستادہ کو یتیم اور مسکین دیکھ کر دھکے دے اور دوسروں کو بھی اُس کے پاس جانے سے روکے.۵،۶...: پس وائے ہے.پس افسوس ہے.پس ہلاکت ہے.: واسطے نمازیوں کے : وہ جو : وہ

Page 484

: اپنی نماز سے : سہو کرنیوالے ہیں.غفلت کرنے والے ہیں.تساہل کرنیوالے ہیں.اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے.جو نمزا کے معاملہ میں سُستی اور غفلت کرتے ہی.مُصَلِّیْنَ وہ لوگ جو نماز کے واسطے مکلّف ہیں.نماز میں غفلت کئی طرح سے ہوتی ہے.۱.بعض لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں.رسمی طور پر مسلمان کہلاتے ہیں.مگر کبھی ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ نماز کا پڑھنا مسلمان کے واسطے فرض ہے اور جب تک کہ وہ اپنے عین کاروبار کے درمیان وقتِ نماز کے آنے پر تمام دنیوی خیالات کو بالائے طاق رکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا.تب تک اس میں اسلامی نشان نہیں پایا جاتا.ہر ایک قوم والوں کے درمیان کوئی مذہبی نشان ہوتا ہے.عیسائی لوگوں نے وہ نشان صلیب کا رکھا ہے.جس کو وہ لکڑی یا لوہے یا چاندی سونے کی بنوا کر اپنی چھاتی یا سر پر اور معبد خانوں کے اوپر لگا دیتے ہیں.اس واسطے عیسوی مذہب کو صلیبی مذہب کہتے ہیں.اور عیسائیوں نے جو لڑائیاں اپنے مذہب کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ کیں ان کو صلیبی جنگ کہتے ہیں.ایسا ہی ہندو لوگ اپنے ہندو ہونے کی نشانی میں بدن پر ایک تاگہ رکھتے ہیں جسے زُنّار یا جینیو کہتے ہیں.مسلمانوں کے درمیان ان کے اسلام کی نشانی یہی ہے کہ مسلمان ہر حالت رنج و راحت.صحت و بیماری.امن و جنگ میں اپنے وقت پر اپنے خدا تعالیٰ کے حصور میں حاضری بھرنے کے واسطے چُست ہو جاتا ہے.عین جنگ کے موقعہ پر جہاں دشمنوں کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہوتی ہے.حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ صف بندی کر کے نماز پڑھتے اور پڑھاتے تھے.اس سے بڑھ کر نماز کے واسطے اور کیا تاکید ہو سکتی ہے.۲.وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں مگر کبھی کبھی جس دن کپڑے بدلے یا صبح کے وقت جب ہاتھ مُنہ دھویا اور نماز بھی اتفاق سے پڑھ لی یا جند ایسے دوستوں میں قابو آ گئے جو نماز پڑھتے ہیں.تو وہاں ان کے درمیان مجبورًا پڑھ لی.یہ لوگ بھی غفلت کرنیوالوں میں شامل ہیں.۳.پھر کچھ ایسے لوگ ہیں.جو پڑھتے تو ہیں مگر بہ سبب تکبّر کے یا بہ سبب سُستی کے اپنے گھروں میں پڑھ لیتے ہیں ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں.جب نماز کا وقت آیا تو اسی جگہ جلدی جلدی نماز پڑھ لی.گویا ایک رسم ہے جس کو ادا کرتے ہیں یا ایک عادت ہے جس کو پورا کرتے ہیں.مسجد میں نانا اور جماعت کو پانا ان کے نزدیک ایک بے فائدہ امر ہے.یہ لوگ بھی غافلین میں شاملہ ہیں.اکثر آجکل کے دنیوی رنگ میں برے لوگوں میں اگر کسی کو نماز کی عادت ہے.( تو ایسی ہے).۴.بعض لوگ مسجد میں بھی جا کر پڑھتے ہیں.مگر بے دلی کے ساتھ.ان میں تعدیلِ ارکان کا خیال

Page 485

نہیں.اور خدا تعالیف کی طرف پوری توجّہ سے نہیں جھکتے اور جلدی جلدی نماز کو ختم کرتے ہیں.اور نماز کے اندر و ساوس کو اور غیر خیالات کو بُلاتے ہیں.۵.پھر وہ لوگ جو نماز پڑھتے ہیں.مگر ویسی نماز نہیں پڑھتے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کو سکھلائی اور اس کے رسولؐ نے اپنی اُمّت کو سکھلائی بلکہ وہ اپنے لئے ایک نئی نماز ایجاد کرتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ جس وقت یہ سورہ ٗشریف نازل ہوئی تھی.اس وقت بھی تو نماز پڑھی جاتی تھی.اور ظن کرتے ہیں کہ تاریخی شہادتیں تما جھوٹی ہیں.خواہ کسی قدر جانفشانی کے ساتھ وہ واقعات سینہ بسینہ جمع کئے گئے ہوں.گویا ان کے نزدیک تمام جہان کی تاریخ جھوٹ ہے.اور اس میں کچھ راستی نہی.اور کہتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنے لئے ٗآپ قرآن شریف کو سمجھے گا اور وہ دنیا میں ہزارہا اشیاء کے محتاج ہیں لیکن جب انہیں کہا جائے کہ تم قرآن شریف کو سمجھنے کے لئے بھی کسی کے محتاج ہو تو اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن شریف کسی کا محتاج نہیں وہ کلامِ الہٰی ہے.اور سج ہے کہ وہ محتاج نہیں.کیکن کیا انسان بھی محتاج نہیں.کیا ماں کے پیٹ سے کوئی شخص قرآن شریف پرھ کر نکلا تھا؟ اور وہ کہتے ہیں کہ وہ نماز جو دوسرے مسلمان پڑھتے ہیں.وہ درست نہیں.خواہ اس کے متعلق سچی اور حقیقی شہادت دکھائی جائے کہ آنحضرت نہی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نماز اسی طرح پڑھی تھی اور کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے آنحضرتؐ سے روایت کی وہ قابلِ اعتبار نہ تھے.اور نہیں سوچتے کہ اگر وہ سب کے سب ایسے ہی تھے تو پھر قرآن شریف بھی ہم تک انہیں بزرگوں کے ذریعہ سے پہنچا ہے پس کیونکر یقین ہو کہ قرآن بھی اصلی ہے کیونکہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمّہ لیا ہے.مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حفاظت کی آیت بھی ان لوگوں نے اپنے پاس سے ڈال دی ہو.جنہوں نے ہم تک قرآن پہنچایا؟ پس یہ راہ بہت ہی خطرناک ہے جو چکڑالوی اور اس کے ہم خیالوں نے اختیار کی ہے! ۷..: وہ لوگ جو : دکھاوا کرتے ہیں.ریاکاری کرتے ہیں.وہ لوگ جو لوگوں کی خاطر یا لوگوں کے سامنے لمبی نماز پڑھتے ہیں اور جب علیحدہ ہوتے ہیں تو پھر نہیں پڑھتے یا کسل کے ساتھ نماز کو ادا کرتے ہیں.لیکن اصل بات نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص سچے اخلاص کے ساتھ اور صدق ک

Page 486

کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کی طرف جُھکتا ہے تو خواہ اس کو کوئی دیکھا کرے اس امر کا اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.حضرت ابوہریرۃؓ فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دن نماز پڑھ رہا تھا.ایک آدمی آیا اور مجھے نماز پڑھتے دیکھا.اس کا یہ دیکھنا مجھے بھلا معلوم ہوا.میں نے حصرت رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ذکر کیا.آپؐ نے فرمایا.تیرے لئے دُہر ا اجر ہے.ایک سرّ کا اجر اور ایک علانیہ کا.غرض یہ باتیں زیادہ تر نیّت پر موقوف ہیں.بعض لوگ اس نیت سے ظاہری طور پر صدقہ و خیرات کرتے ہیں کہ دوسروں کو بھی نیک کام کے واسطے ترغیب پیدا ہوتی ہے.وہ لوگ جو اندر سے ایک نیکی کا کام کرتے ہیں.اور ظاہر میں اس کو بدی کا رنگ دیتے ہیں تاکہ خلقت کی نظروں میں وہ بد دکھائی دیں.میرے نزدیک یہ بھی ریاکاری ہے.کیونکہ انہوں نے اپنے عمل میں خلقت کی نظرِ بد یا نیک کی پرواہ کی ہے.انسان کو چاہیئے کہ اپنے خدا تعالیٰ کے واسطے خالصۃً عبادت کرے پھر خواہ خلقت اس کو بُرا سمجھے یا بھلا.اس امر کی پرواہ نہیں چاہیئے.اور اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر بُرا بنا آنحضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی اس دُعا سے ناجائز ثابت ہوتا ہے.وہ دعا آنحضرت ؐ نے حضرت عمرؓ کو سکھلائی تھی اور اس طرح ہے.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ سَرِیْرَتِیْ خَیْرًا مَِّْ عَلَانِیَّتِیْ وَ اجْعَلْ عَلَانِیَّتِیْ صَالِحَۃً اے اﷲ میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کرو.۸..اور منع کرتے ہیں برتنے کی چیز سے.ماعونؔ بروزن فاعولؔ تھوڑی چھوٹی اور ادنیٰ شئے کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کو مانگنے سے استعمال کے واسطے دی جاوے تو دینے والے کا حرج نہ ہو اور لینے والے کو فائدہ ہو جاوے.جیسا اس ملک میں پینے کے لئے پانی گ چولہے کی آگ، تھوڑا نمک، کلہاڑی، ہاون دستہ وغیرہ.گھر میں ایسی اشیاء کا رکھنا جو ہمسایہ کے کام کبھی کبھی آویں.موجبِ ثواب ہے.بعض کے نزدیک ماعونؔ زکوٰۃ کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریف میں جو نشانیاں مکذّبَانِ دین کے واسطے بیان کی گئی ہیں وہ سب یورپ کے عیسائیوں پر ایسی چسپاں ہوتی ہیں کہ گویا یہ سورہ شریف ان کے ہی حق میں نازل ہوئی تھی.سب سے اوّل دین کی تکذیب ہے.سو یورپ کے علماء ہی جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے یہ بات ظاہر کی ہے کہ دین کایک لغو امر ہے.مذہب کی طرف توجہ ہی کرنا بے فائدہ سمجھتے ہیں.یتیم اور مساکین کو جھڑکنے کا یہ حال ہے.کہ اگر کوئی مسکین اور یتیم راہ میں کسی سے سوال کر بیٹھے تو وہ مجرم گردانا جا کر جیل خانہ م

Page 487

میں بھیجا جاتا ہے.کسی غریب کو اپنے گھر بلا کر روٹی کھلانا یا مسافر کی خاطرداری کرنا زمانہ جہالت کا طریق خیال کیا جاتا ہے.نماز سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہفتہ میں ایک دن اور اس دن میں بھی ایک گھنٹہ نماز کے واسطے مقرّر ہے.اس میں کوئی دس فیصدی عیسائی گرجا جاتے ہوں گے.ہاں دکھاوے کے کام بہت ہیں.چندوں کی لمبی فہرستیں شائع کی جاتی ہیں.ایک دوسرے کو برتنے کے واسطے کوئی شئے لینا دینا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے.اس سے خیال پڑتا ہے کہ شاید یہ سورۃ بھی دجّال کے حق میں ہی نازل ہوئی ہو.جس کے مقابلہ کے واسطے خدا نے اس زمانہ میں اپنا مسیحؑ بھیجا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء)

Page 488

سُوْرَۃَ الْکَوْثَرِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۴....عربی تفسیر سے ترجمہ: جیسا کہ کتاب الدرّالمنشور میں لکھا ہے.یہ سورہ شریف حضرت ابن عباسؓ اور حضرت عائشہؓ اور حضرت ابن زبیرؓ کے قول کے مطابق مکّی ہے.اور تفسیر عینی اور روح المعانی میں لکھا ہے کہ بحر میں بھی یہ قول جمہور کی طرف منسوب کیا گیا ہے.حضرت انسؓ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج ہوا.تو آپؐ نے سنایا کہ شبِ معراج میں مَیں نے ایک نہردیکھی جس کے ارد گرد موتیوں کے خیمے لگے ہوئے تھے.مگر خالی تھے.پس میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ یہ کوثر ہے.مجاہد اور حسن اور قتادہ اور عکرمہ کے قول کے مطابق یہ سورہ شریف مدنی ہے اور کتاب اتقان میں اسی قول کو درست قرار دیا گیا ہے.اور نووی نے مسلم کی شرح میں بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے.احمد اور مسلم اور ابوداؤد اور نسائی اور بیہقی نے اپنی کتابوں میں اور ایسا ہی ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن مردویہ اور ابن ابی شیبہ نے ابن مالک سے روایت کی ہے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر تک سر نیچے رکھا اور پھر سر اٹھا کر تبسّم فرمایا اور کہا کہ ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے.پھر سورۃ کوثر پڑھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۲ء) لفظ کوثرؔ.بکاری اور حاکم اور ابن جریر نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک دفعہ اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا.کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا شئے ہے.انہوں نے جواب دیا کہ اﷲ اور اس کا رسولؐ بہتر جانتا ہے.تب آپؐ نے فرمایا.کہ کوثر ایک نہر کا نام ہے.جو میرے

Page 489

میرے رب نے مجھے عطا کی ہے.وہ نہر جنت میں ہے.اس میں خیر کثیر ہے.قیامت کے روز میری امّت اس پروارد ہو گی.اس کا برتن ستاروں جتنا وسیع ہے.ان میں سے ایک آدمی اس پر سے ہٹایا جاوے گا تو میں کہوں گا کہ میرے ربّ.یہ تو میری اُمت کا آدمی ہے.اسے کیوں ہٹایا جاتا ہے.تو جواب ملے گا کہ تو نہیں جانتا کہ اس نے تیرے بعد کیسی نئی باتیں نکالی تھیں.حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ کوثر اس خیر کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو عطا کی ہے.ابوبشر لکھتا ہے کہ میں نے سعید ابن جبیر کو کہا کہ لوگ تو خیال کرتے ہیں کہ کوثر جنّت میں نہر کا نام ہے.اور آپ کہتے ہیں وہ خیر ہے تو سعید نے کہا کہ جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اسی خیر میں سے ہے.جو اﷲ تعالیٰ نے رسول ؐ کو عطا کی ہے.حدیث شریف کی کتاب نسائی میں فِی الْجَنَّۃِ کی بجائے فی بَطْنَانِ الْجَنَّۃِ آیا ہے اور بَطْنَانِ الْجَنَّۃِ کے معنے ہیں بہشت کے وسط میں.ابن ابی شیبہ اور احمد اور ترمذی نے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور بان ماجہ اور بان جریر اور ابن المنذر اور ابن مردویہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے.کہ وہ نہر موتیوں پر اور یاقوت پر جاری ہے.اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے.اور شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے.اور نافع بن ارزق نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے پوچھا کہ کوثر کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کوثر ایک نہر کا نام ہے جو کہ بہشت کے وسط میں ہے اور اس کے ارد گرد موتیوں کے اور یا قوت کے خیمے ہیں.اس میں بیویاں اورخدّام ہیں.نافع نے کہا کہ اہلِ عرب ان معنوں سے واقف ہیں؟ حضرت ابنِ عباسؓ نے فرمایا کہ ہاں واقف ہیں.کیا آپ نے حسانؓ ابن ثابت کا یہ شعر نہیں سنا.وَحَیّاہم الْاِلٰہُ بِالْکَوْثَرِ الْاَکْبَرِ فِیْہِ النَّعِیْمُ وَالْخَیْرَاتُ ترجمہ شعر: اور خدا نے اسے کوثر عطا کیا ہے.برا کوثر جسمیں نعمتیں اور بھلائیاں ہیں.لفظ کوثرؔ کثرت سے نکلا ہے اور اس کے معنے ہیں.بہت ساری چیز.بہت زیادہ.کمیت شاعر کہتا ہے.وَ اَنْثَ کَثبیْرٌ یَا ابْنَ مَرْوَانَ طَیِّبٌ وَ کَان اَبُوْکَ ابْنَ الْفَضَائِلِ کَوْثَراَ اے ابن مروان تو کثیر ہے اور لیّب ہے.اور تیرا باپ بہت بڑھی ہوئی فضیلتوں والا تھا.بزاز نے اور دوسروں نے سندِ صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی ہے کہ کعب بن اشرف ایک دفعہ مکّہ میں ایا تو قریش نے اُسے کہا کہ تو ہمارا سردار ہے.کیا تو نہیں دیکھتا المنصبتر المنبتّر کی طرف

Page 490

وہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے.حالانکہ ہم وہ ہیں جو لوگوں کو حج کراتے ہیں اور لوگوں کو پانی پلاتے ہیں اور لوگوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں.کعب بن اشرف نے کہا نہیں تو اس سے اچھے ہو اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی.اصحابِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم اور تابعین رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے آثار سے باقی تفسیر اس طرح سے ہے.کہ ابن ابی حاتم نے حسن سے روایت کی ہے.کہ کوثر کے معنے ہیں.قرآن شریف.اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابن عسا کرنے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ کوثر اس کا نام ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نبوت اور خیر اور قرآن شریف عطا کیا تھا اور ابن ابی حاتم اور حاکم اور ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی کتاب میں حصرت علی رضی اﷲ عنہ سے یہ روایت کی ہے کہ جب سورۂ کوثر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرئیل سے کہا کہ اس وحی الہٰی میں نَحَر سے کیا مراد ہے جس کا حکم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد کوئی قربانی نہیں ہے.بلکہ خدا تعالیٰ نے اس میں آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ جب آپ نماز پڑھیں اور اﷲ اکبر کہیں تو اس وقت اپنے ہاتھ اٹھایا کریں اور جب رکوع کریں اور جب رکوع سے سر اٹھائیں تو اس وقت بھی ہاتھ اٹھایا کریں.یہ ہماری نماز ہے اور یہی ان سب فرشتوں کی نماز ہے جو کہ سات آسمانوں میں ہیں.اور ہر ایک چیز کے واسطے ایک زینت ہوتی ہے.پس نماز کی زینت یہ ہے کہ ہر ایک تکبیر کے وقت رفع یَدَیْن کی جاوے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رفع یَدَیْن کرنا وہ استکانت ہے.جس کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں ہے کہ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتنضَرَّعُوْنَ ( المومنوں :۷۷)اور ابن ابی شیبہ سے روایت ہے اور بکاری اور ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم اور دارقطنی اور ابولشیخ اور حاکم اور ابن مردوَیہ اور بیہقی نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اﷲ عنہ سے کے متعلق روایت کی ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں کلائی کے وسط پر رکھا اور پھر دونوں ہاتھوں کو نماز میں اپنے سینہ پر رکھا اور ابوالشیک اور بیہقی نے اپنی کتاب میں حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے.کہ آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا.اور ابن ابی حاتم اور ابن مردوَیہ اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے کہ سے یہ مراد ہے کہ اپنی قربانی لے کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو.اور ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباسؓ سے روایت کی

Page 491

ہے کہ میں صلوٰۃسے مراد فرض نماز ہے اور قربانی سے مراد عیدالاضحٰی کی قربانی ہے.اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نماز سے مراد عیدالاضحٰے کی نماز ہے.اور قربانی سے مراد بھی اس عید کی قربانی ہے.اس کے بعد عربی تفسیر میں صرف و نحو کا وہ حصّہ ہے جو عام فہم نہیں ہے.اس واسطے اس کو چھوڑا جاتق ہے.لیکن اس میں سے چند باتیں بطور اختصار کے درج کی جاتی ہیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے واسطے عطائے کوثر کے بیان میں اﷲ تعالیٰ نے اوّل حرف تاکید کا فرمایا ہے.پھر صیغہ ماضی میں بیان کیا ہے.یہ بھی ایک تاکید ہے.اور دیگر صرفی نحوی تاکیدیں بھی ان الفاظ میں ہیں جس سے اﷲ تعالیٰ کے کاص فضل کا اظہار آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہوتا ہے.آپؐکے واسطے کوثر کا ملنا ایک امر مقدّر ہے.جو اﷲ تعالیٰ کی صفت رحیمیّت سے آپ کو عطا ہوا ہے.ایسا لفظ اَعْطٰی کا استعمال بھی اسی فضلِ عظیم کی طرف اشارہ کرتا ہے.ورنہ صرف دینے کے مفہوم کے واسطے عربی میں لفظ اَتٰی بھی آ سکتا تھا.ایسا ہی اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے کَ کے ساتھ خطاب فرمایا ہے.کہ ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے اور ایسا نہیں فرمایا کہ ہم نے اپنے رسولؐ یا نبی یا عبد کو کوثر عطا کیا ہے.اس میں بھی رحمانیت کے خاص فصل اور عطاء کا تذکرہ ظاہر کیا ہے.ایسا ہی میں بھی دشمن کے بے نسل ہونے کو بہت سی تاکیدوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے یہ بات ضرور ہو جانے والی ہے.اس سورۃ کا پہلی سورۃ ( الماعون)سے یہ تعلق ہے.کہ سورہ ماعون میں ایسے شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ مکذّب بالدّین.بخیل.تارکِ صلوٰۃ.ریاکار.مانِع زکوٰۃ.اور مانعب ماعون ہے اور اس سورۃ شریف میں ایسے آدمی کا ذکر ہے.جو اُن بُری عادات کے بالمقابل تمام نیک صفات سے متصف ہے.وہ مکذّب تھا تو یہ اوّل المومنین اور مصدق ہے.خدا کی طرف سے اسے کوثر عطا کیا گیا.وہ بخیل اور مانعِ زکوٰۃ اور مانعِ ماعون تھا تو یہ وَانْحَرُ کے حکم پر چلنے والا ہے.وہ تارکِ صلوٰۃ اور ریاکار تھا تو یہ فَصَلِّ کی پیروی کرنیوالا ہے.اور وہ بھی لِرَبِّکَ خدا کے واسطے.کسی انسان کے واسطے نہیں.کسی کو دکھانے کے واسطے نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍اکتوبر ۱۹۱۲ء) کوثر جنّت کی ایک نہر کا نام ہے.اور کوثر خیرِ کثیر کو کہتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نہر بھی خیر کثیر سے ہے.اور خیرِ کثیر میں وہ بہت سی باتیں شامل ہیں جو ہمارے نبی کریم خاتم النبیین رب العٰلمین کے رسول اور گنہ گاروں کے شفیع کو اﷲ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے.

Page 492

اس خیرِ کثیر میں سے ایک یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سبحانہ، کے اسمائے حسنٰی جس قدر قرآن شریف میں ہیں اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الہٰی بتلائے گئے ہیں.ان کی مثال کسی آسمانی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور اسی خیرِکثیر میں سے وہ محامدِ الہی ہیں جو دینِ اسلام کے ذریعہ سے دنیا پر پھیلائے جا رہے ہیں.کیا آپ دیکھتے نہیں کہ کس طرح سے مسلمان آوازِ بلند کے ساتھ بلند میناروں اور اونچی جگہوں پر چڑھ کر اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کرتے ہیں اور اﷲ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں.کیا اﷲ اکبر سے بڑھ کر کوئی برا لفظ خدا تعالیٰ کی کبریائی کے واسطے تمہیں معلوم ہے.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام میں اﷲ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح سے بھری ہوئی کس قدر دُعائیں ہر ایک موقعہ پر کی جاتی ہیں.کھانے کے وقت کی دُعائیں اور پینے کے وقت کی دُعائیں اور سو کر اٹھنے کے وقت کی دُعائیں اور مسجد میں داخل ہونے کی دُعا اور مسجد سے نکلتے وقت کی دُعا اور کھڑا ہونے کے وقت کی دعا اور بیٹھنے کے وقت کی دُعا اور بازار کو جانے کی دُعا اور بازار سے لَوٹنے کی دُعا اور ایسا ہی سفر کی دعائیں اور حضر کی دعائیں اور دُکھ درد کے وقت کی دعائیں اور جنگ کے وقت کی دعائیں اور چارپائی پر لیٹنے کے وقت کی دُعائیں اور حاجت کے وقت کی دُعا اور تکلیف اور غم اور حزن اور فتنوں کے وقت کی دعائیں.غرض اسلام میں ہر وقت انسان اپنے ربّ کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے.اور کسی وقت بھی اس کی تعریف سے غافل نہیں.یہ ایک خیرِکثیر ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہی عطا ہوئی ہے.پھر دیکھو کہ اسلامی لٹریچر میں ہر ایک کتاب کا ابتداء اور انتہاء اور اﷲ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے.اور ہر ایک خطبہ اور ہر ایک رسالہ خدا کے نام کی تعریف سے شروع کیا جاتا ہے اور خدا کی تعریف کے ساتھ ہی ختم کیا جاتا ہے اور یہ بھی کوثر کا نتیجہ ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اﷲ تعالیٰ کے لئے ہے.جو ربّ العٰلمین ہے اور یہ خیرِ کثیر میں سے ہے کہ اسلام میں اس کثرت کے ساتھ توحید کا وعظ کیا جاتا ہے.اور شرک کی نفی پر تقریریں کی جاتی ہیں.کیا تُو نے ایسا کوئی بیان کسی کتاب یا کسی دیوان میں دیکھا ہے.پھر کلمۂ توحید کو دیکھو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کوئی معبود قابلِ پرستش اﷲ کے سوائے نہیں.کیا اس کلمہ کے بعد کسی مومن کے دل میں کوئی شرک باقی رہ جاتا ہے.کیا اس کی نیت اور قصد کے درمیان کوئی ایسی بات رہ جاتی ہے.کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے سوائے کسی دوسرے کو پکارے اور اس کے حکم کے سوائے کسی دوسرے کی اطاعت پر قدم مارے.اور اس کے سوائے کسی دوسرے کو اپنا رب بنائے.خواہ کوئی اور کیسا ہی عالم فاضل ہو اور راہب ہو.کیا وہ اپنے ربّ کو چھوڑ کر اور ان کے پیچھے پر کر معصیت میں گر سکتا ہے.کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص اس کل

Page 493

کلمہؑ توحید پر ایمان رکھتا ہو اور پھر خلقت کے ساتھ ایسی محبت کرے جیسی کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کرنی چاہیئے.پس مومن اس کلمہ کو اپنے پاس رکھ کر اور اس پر ایمان لا کر نہ غیر اﷲ سے کوئی امید رکھتا ہے اور نہ غیراﷲ سے اس کو کچھ خوف باقی رہ جاتا ہے.پس مومن کبھی یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ اﷲ تعالیٰ کے سوائے کسی دوسرے کو علم تام ہے یا کسی اور کے ہاتھ میں تنصَرُّفِ تام ہے.یا اﷲ تعالیٰ کے سوائے کوئی کسی قِسم کی بھی عبادت کے لائق ہے.چہ جائیکہ کسی غیر کے آگے سجدہ کیا جاوے یا اس کے واسطے حج کیا جاوے یا اس کے لئے قربانی کی جائے.پس مومن اﷲ کے سوائے کسی سے استغفار نہیں کرتا اور اس کے سوائے کسی کے آگے اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتا.اور مومن کبھی ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ کوئی اﷲ کی خلق کی طرح کسی چیز کا خلق کر سکتا ہے یا اﷲ کے مارنے اور جلانے کی طرح کوئی کسی کو مار یا جلا سکتا ہے.غرض مومن خالق اور مخلوق کو کبھی برابر نہیں ٹھہراتا.اور خیرِ کثیر میں یہ بات بھی شامل ہے جو آنحضرت ؐ کو عطا کی ہے کہ آپ نے ( صلی اﷲ علیہ وسلم) تمام مقربانِ الہٰی کا دامن ان تہمتوں اور افتراؤں سے پاک کیا جو کہ ان پر ان کے مخالف یا موافق لگاتے تھے.یہود کی طرف دیکھو کہ مریم صدیقہ کی نسبت کیا الفاظ بولتے ہیں.خود قرآن شریف سے ظاہر ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے مریم پر برا بہتان باندھنے کا کفر کیا اور ایسا ہی یہود نے حضرت عیسٰی ؑ پر بھی اتہام باندھے تھے.لیکن اﷲ تعالیٰ نے فرمایا.کہ میں کفّار کی باتوں سے تیری تطہیر کرنیوالا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت تک غلبہ دوں گا.اور ایسا ہی ان کا اور عیسائیوں کا قول حصرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام کے حق میں تہمت اور افتراء کا تھا اور خدا تعالیٰ نے ہر دو کا دامن اپنی پاک کتاب میں پاک کیا اور داؤد کو اپنا بندہ فرمایا اور سلیمان کے حق میں فرمایا کہ اس نے کوئی کفر نہیں کیا تھا.(اخبار بدر قادیان ۲۱؍فروری ۱۹۰۷ء صفحہ ۷.۸)ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍اکتوبر ۱۹۱۲ء) اور خیرِ کثیر میں سے وہ وعدہ ہے جو اﷲ جلشانہ، نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی نصرت کا وعدہ عطا کیا تھا.جیسا کہ کدا تعالیٰ کے قولِ پاک میں ہے.اے نبی تجھے اور تیری پیروی کرنیوالے کے مومنوں کو اﷲ تعالیف کافی ہے.اور اﷲ تعالیٰ نے اپنے اس رسول کو حفاظت کا وعدہ فرمایا.جیسا کہ قرآن شریف میں ہے.اور اﷲ تعالیٰ تجھے لوگوں کے سر سے بچائے گا.اور خیر کثیر میں وہ عزّت کا وعدہ جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولؐ اور اس کی امّت کے مومنوں کو عطا کیا ہے.اور فرمایا ہے کہ عزّت اﷲ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لئے ہے اور خیرِ کثیر میں وہ عطا الہٰی ہے.جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ہوئی کہ خدا نے آنحضرت ؐ کو یتیم پایا اور آپؐ کی پرورش کی اور آپؐ کو سائل پایا تو آپ ؐ کو ہدایتدی اور آپ کو فقیر پایا

Page 494

پایااور غنی کر دیا.کفّار نے آپ کو کہا تھا کہ آہم تجھے مال دیں گے.اور تو سب لوگوں سے غنی ہو جائے گا.اور تجھے سب سے زیادہ شریف عورت نکاح میں دیں گے اور تجھے اپنا رئیس بنائیں گے.آپ نے کفار کی بات کا انکار کیا تو خدا نے کیا کچھ دیا.کیا کفارب عرب کے اختیار و قدرت میں تھا کہ تمام عرب آپ کے ماتحت کر دیتے اور عجم آپ کے خدام کے زیر حکومت ہو جاتا.ہرگز نہیں.قسم بخداہرگز نہیں.پھر خیر کثیر میں وہ عطا الہٰی ہے ئکہ اﷲ تعالیٰ سبہانہ، نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے قلب شریف کو اپنے ذکر کے ساتھ جاری کیا اور اپنی محبت کے ساتھ پُر کر دیا.یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے.کہ اس کی قدر اور عطمت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا.سوائے اس کے جس کو خدا تعالیف توفیق عطا کرے.یہ وہ نعمت ہے کہ اس کے مشابہ کوئی نعمت دنیا اور آخرت میں نہیں ہے.پھر اَور خیر کثیر میں یہ بات ہے.کہ اﷲ سبحانہ، و تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی خاص نصرت اور ہدایت عطا فرمائی اور نماز میں آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی.اور اس سے آپ کے سینے کو انشراح عطا فرمایا.پھر خیر کثیر میں یہ بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو وسیلہ عطا فرمایا اور مقام محمود عطا کیا.اور آپ کو پہلا آدمی بنایا جو جنّت کا دروازہ کھولے گا اور حمد کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا.اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حوض عطا فرمایا اور نہر عطا کی.اور خیر کثیر میں یہ بات شامل ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اُمّت کے مومنوں کو آپ کی اولاد بنایا اور پھر کیرِ کثیر میں آپ پر وہ عطا الہٰی ہے کہ آپ کی اُمّت کے اعمالِ خیر پر بھی آپ کے واسطے اجر ہے.کیونکہ اُمّت مرحومہ کے افراد نے اعمالِ نیک کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حکم اور آپؐ کے اتباع سے ہاصل کیا.اور نیکی کی راہ دکھانے والا بھی نیکی کرنے والے کی مانند ہے.پس ہر ایک عملِ خیر میں انحضرتؐ کے واسطے اجر ہے.ہر ایک جو ایمان لایا اور نماز پڑھی اور جس نے روزہ رکھا اور جس نے فرائضِ حج کو ادا کیا اور جس نے توبہ کی اور صبر و توکل سے کام لیا.اور جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور جس نے کلامِ پاک کو پڑھا اور جو خدا کی طرف جُھکا.اور تصدیق کی اور جس نے مجاہدہ کیا یا جہاد کیا اور جس نیے تقوٰی اختیار کیا اور اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی اور جس کسی نے نیکی کی اور اپنے ربّ کو راضی کیا اور ربّ کی راہ میں کوشس کی اور جہاد اور رباط فی سبیل اﷲ کیا اور ان باتوں میں ان کی پَیروی کی اور کفر و شرک سے بچا اور زناء اور قتلِ نفس سے پرہیزکیا.اور

Page 495

والدین کی نافرمانی نہ کی اور جھوٹ کے بولنے اور یتیم کا مال کھانے سے اجتناب کیا اور بے خبر نیک بخت مومن عورتں پر عیب نہ لگایا.اور جھوٹ اور عجز اور سستی اور بزدلی اور بخل اور اس قسم کے رذائل سے بچتا رہا.جن سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو ان سب کے اعمالِ خیر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے واسطے اجر ہے اور عمل کرنیوالوں کے اجر میں کجھ فرق نہیں.پس یہ ضروری بات ہے کہ ہمارے رسولؐ اور ہمارے حبیب اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر آن کس قدر درجہ برھتا ہے کہ آپؐ کی اُمّت میں سے کوئی آپؐکے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا.اﷲ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو آپ کی تمام اُمّت کے افراد کے اعمالِ خیر کے برابر درجہ دیا ہے.اور اُمّت کے درجات اور اعمالِ خیر کے اجر میں کچھ کمی نہیں واقع ہوتی.اور یہ اس واسطے ہے کہ ان کی ہدایت اور نجات کا سبب آنحضرت ؐ ہی ہوئے.پس اے مومنو! اگر تم اﷲ سے پیار کرتے ہو.تو اس نبی کی پیروی کرو.خدا تم سے پیار کرے گا.اور اس کی اتباع میں اور اس کی پیروی میں کوشس کرو.اس کے حکموں پر عمل کرو.اور جن باتوں سے وہ منع کرے.ان سے اجتناب کرو.اور اعمالِ صالحہ کثرت سے بجا لاو تاکہ تمہارے اجر کے برابر انحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا بھی اجر ہو.اور تم اس بات کے قریب ہو جاؤ کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تمہاری شفاعت کریں.بہ سبب اس کے کہ آپ کو تمہارے اعمال کے سبب سے اجر ملتا ہے اور خیرِکثیر میں سے یہ عطا الہٰی ہے.جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو وعدہ دیا گیا ہے.کہ آپؐ کی امّت کی اصلاح کے واسطے ہمیشہ آپؐ کے خلفاء اور نائب آتے رہیں گے جو انہیں ان کے دین میں قوّت عطا کرے.وہ دین جو خدا نے ان کے واسطے پسند کیا ہے.اور خوف کے بعد ان کے واسطے پھر امن پیدا کر دے.جیسا کہ اﷲ تعالیف نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.کہ اﷲ تعالیٰ نے تم میں سے مومنوں کو جو عملِ صالح کریں.یہ وعدہ دیا ہے کہ انہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا.اور ان کے واسطے وہ دین قوی کرے گا جو ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو امن کے ساتھ بدل دے گا.اور اس کی اُمّت میں ہمیشہ ایسے آدمی ہوتے رہیں گے جو حق کو ظاہر کرتے رہیں گے.ان کا مخالف انہیں کچھ ضرر نہ دے سکے گا.پھر دیکھو کہ اس زمانہ میں دجّال کا فتنہ کتنا بڑھا ہوا ہے.کس کثرت سے شراب پی جاتی ہے.وہ شراب جو بدیوں کی جامع ہے.اور دیکھو.کس طرح عورتیں زینت کرتی ہیں اور پھر اپنی زینت کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرتی ہیں.حالانکہ عورتیں شیطانوں کی رسیاں ہیں.پھر دیکھو کہ مسیحی لوگ کس طرح ڈاکوؤںاور چوروں کی اور ایسے لوگوں کی جو مقدمات میں پھنس جاتے ہیں.اس

Page 496

اس واسطے مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر عیسائی ہو جاویں اور حکام کی توجہ بھی ان کی طرف ہوتی ہے اور دیکھو کس طرح وہ طمع کرنے والے سُست اور مفلس کو جو کہیں نوکر رکھا جانے کے قابل نہ ہو.اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور مدرسے بناتے ہیں اور دارالعلوم دنیوی قائم کرتے ہیں اور شفاخانے بناتے ہیں اور ان میں اس بہانے سے بیماروں کو تثلیث اور کفارے کی تعلیم دیتے ہیں.اور نوجوان مِسوں کو شریفوں کے گھروں میں بھیجتے ہیں جہاں کہ پردہ کے خلاف باتیں کہتی ہیں اور کثرتِ ازواج پر عیب لگاتی ہوئی اس کے معائب بیان کرتی ہیں.پھر دیکھو کہ عیسائی کس طرح اپنے واعظ سفر میں اور حضر میں اور گاؤں اور جنگلوں میں اور ابزاروں میں ہر جگہ بھیجتے ہیں اور اپنے لیکچراروں اور منّادوں کے واسطے بڑے بڑے بلند مکان بناتے ہیں.پھر دیکھو کہ وہ ہزاروں ہزار کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں جن میں وہ خدا کے اس برگزیدہ نبی پر معائب گھڑتے ہیں.جیسے کامل علم عطا کیا گیا تھا( صلی اﷲ علیہ واآلہٖ وسلم ) پھر دیکھو کہ گاؤں کی مساجد کے اماموں کو یہ لوگ تنخواہیں دیتے ہیں تاکہ وہ انجیل کی تعلیم لوگوں کو دیں.(اخبار بدر قادیان ۲۱؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ۷،۸ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اکتوبر ۱۹۱۲ء) فَصَلِّّ: اس میں ف تعقیب کے واسطے ہے.کیا معنے جب ہم نے تجھے کوثر جیسی نعمت عطا فرمائی ہے تو اب بعد اس کے تجھے چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے شکر میں نماز پڑھے اور قربانی دے.یا ف ترتیب اور سبب کے لئے ہے جیسا کہ ایک جگہ قران شریف میں آیا ہے فَوَکَذَہٗ مُوْسَی فَقَضٰیعَلَیْہِ.(قصص:۱۶) فائدہ: اس سورۃ شریف میں انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو نماز اور قربانی کا حکم ہوا ہے مگر زکوٰۃ کا حکم نہیں ہوا.اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کبھی اپنے پاس مال جمع نہیں کرتے تھے.: تحقیق دشمن تیرا وہی ابتر ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی بڑی دشمنی یہ تھی جو آپ کی وعظ توحید کی تردید کی گئی اور آپ کی رسالت ہو تعظیم الہٰی اور شفقت علیٰ خلق اﷲ کے لئے تھی اس کا انکار کیا گیا.اور آپ پر جو کتاب ہدایت کے لئے نازل ہوئی اس کو ردّ کیا گیا بلکہ آپ کو کہا گیا کہ یہ صرف کہانیاں ہیں جو تم پیش کرتے ہو حالانکہ وہ تمام بیانات اس کے لئے بشارت اور انزار تھے.اور بعض نے کہا کہ یہ الہامِ الہٰی نہیں بلکہ صرف ایک انسان کا قول ہے.کسی نے کہا کہ یہ ایک شاعرہے جو شعرگوئی کرتا ہے اور کسی نے کہا کہ یہ ایک کاہن ہے جو کہانَت کا کام کرتا ہے.اور کوی بولا کسی انسان نے اس کو تعلیم کی ہے.پس یہ ایک سیلاب تھا جو بہت بڑھ گیا تھا اور اس سے وادیٔ مکّہ بھر گئی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ آنحصرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے دشمنوں میں سے جو کوئی تکبّر کے ساتھ

Page 497

ساتھ بڑھا.اس نے اپنی بدبختی کا حصّہ لیا.اور اس کا بدلہ پایا.خواہ وہ مکّی تھا یا مدنی تھا.خواہ ان پڑھ تھا اور خواہ اہلِ کتاب میں تھا.گواہ عوام میں سے ہوا.خواہ شرفاء میں سے ہوا.سب نے اپنا بدلہ کافی پایا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اور آپ کے ساتھ عداوت کرنے والوں میں سے ہر ایک نے اپنی قدر کے مطابق اور اپنی عداوت کے درجہ کے موافق اپنا کیا اور بویا اٹھایا اور ابتر ہوا.سردارانِ قریس کی طرف دیکھو اور عمائدِ مکقہ کی طرف نطر کرو.اور اس وادی کے سرداروں کی طرف نگاہ کرو اور شہر کے ارکان کا حال دیکھو.جن کو لوگ اپنی سرداری کا تاج دیتے تھے.اور انہوں نے تدابیر کیں اور کہا کہ اس شہر کے سرفاء ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے.پس اﷲ تعالیٰ نے تمام خیر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کے لئے کر دی اور دشمن محروم رہے.اور اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم چاہتے ہو تو اب فتح تمہارے لئے آ گئی ہے.اور ان کے اموال کے متعلق فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ اپنے مال خرج کریں گے.پھر وہ کرچ بھی ان کے لئے موجبِ حسرت ہو گا اور وہ مغلوب ہو جائیں گے.پس کیا تو دیکھتا ہے کہ ان دسمنوں میں سے کوئی باقی ہے.سو دیکھو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے دشمن بلکہ آپؐ کے خلفاء راشدین اور آپؐ کے نائبوں کے دشمن بھی ہر ایک نیکی سے ابتر ہوئے اور یہ امر ظاہر ہے.کوئی مخفی بات نہیں.دیکھو.ابوجہل کا کیا انجام ہوا.اور ابن ابی بن سلول نے کیا نتیجہ پایا.اور پادریوں کے لارڈ بشپ ابو عامر کو دیکھو جس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میں سارا زور خرچ کیا اور آگ کے گڑھے کے کنارے پر بڑی بنیاد کھڑی کی اور پھر اسی آگ میں گرایا گیا اور اکیلا آوارہ بیکس اور بے بس ویرانوں کے اندر ہلاک ہو گیا.پھر دیکھو کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوا.جنہوں نے اہلِ عرب میں سے خلیفہ اوّل حصرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی مکالفت کی اور پھران کا کیا حال ہوا.جنہوں نے حصرت فاروق رضی اﷲ عنہ کا مقابلہ کیا.اگرچہ وہ بڑی سلطنتوں کے قیصر و کسرٰی تھے اور مصر کے ملک کے بادشاہ تھے.اور پھر ان اہل افریقہ اور اہلِ کراسان کو کیا حاصل ہوا جنہوں نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی مخالفت کی تھی.اور اپھر انہوں نے کیا پایا جنہوں نے حصرت علی رضی اﷲ عنہ کی مخالفت کی اور ان کا کیا حال ہوا جنہوں نے معاویہ اور بنوامیّہ کی تحقیر کی.پھر اس کی مثال زمانہ حال میں موجود ہے.دیکھو کہ ان لوگوں کا حال کیا ہو رہا ہے جنہوں نے ہمارے اس مبارک زمانہ میں چودہویں صدی کے مجدّد اور مُتکفِّل مہدی معہود اور مسیح موعود کی مخالفت کی مثال میں آریہ لیکھرام کو دیکھو اور نصارٰی کے شیطان آتھم کو دیکھو اور لدھیانہ کے سعد اﷲ ابتر کو دیکھو.ہر ایک اپنے گناہ کے بدلے میں پکڑا گیا.اور اپنے بدلے کو پانے والا ہوا.اور ان کے سوا اور بھی سب دشمن آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور آپ کے خلفاء کے ہر ایک چیز

Page 498

چیز سے ابتر اور بے نصیب ہیں اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہونا بند ہو جاتا ہے اور ان کا اہل اور مال ابتر ہو جاتا ہے.اور دین و دنیا میں نقصان پزیر ہوتا ہے.ان کی حیاتی اور ان کی صحت اور ان کی فرصت سب ابتر ہوتی ہیں.وہ ان چیزوں سے نہ دنیا میں فائدہ اٹٍا سکتا ہے اور نہ دین میں.ان کے کان ایسے نہیں رہتے کہ وہ خیر کی بات سن سکیں.اور نہ ان کو ایسی بصیرت نصیب ہوتی ہے کہ اﷲ کو دیکھ کر اﷲ تعالیٰ کی محبت.معرفت اور ایمان میں ترقی کر سکیں اور وہ اس بات سے مہروم رکھے جاتے ہیں کہ ان کا کوئی ناصر اور مددگار ان کے اعمالِ صالح میں سے ہو اور اس بات محروم ہوتے ہیں کہ ایمان کی شیرینی کو چکھ سکیں.اور اگرچہ وہ لوگوں میں ائیں باہم ان کا دل جنگل میں بھاگے ہوئے آوارہ کی طرح اکیلا ہوتا ہے.یہی جزا ان لوگوں کو ملی جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نزال سدہ وحی کے ساتھ عداوت کی اور اپنی حرص و ہوا کی پیروی کی.سب کا حال یہی ہوا.خواہ وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا.امیر تھا یا غریب تھا.اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے.کہ ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اﷲ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو.خدا تمہارے ساتھ محبت کرے گا.پس ہم نے تجھے کوثر عطا کی ہے پہلے سے اور تسلّی کے لئے اس سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو اور آپ کے خلفاء کے دل کو قوت ملی.اور ان کے نفسوں سے کمزوری کو دور کیا گیا تاکہ ان کو اس امر پر قوّت عطا کی جائے کہ اپنے مکالفوں کی تکفیر کریں.خواہ وہ دنیا جہان میں کوئی ہو اور کہیں ہو اور ان کے قصبوں سے بیزاری کا اظہار کریں.پس دیکھو کہ یہ کتنی بری بخشش ہے جو برے صاحب بخشش کی طرف سے ان کے حصّہ میں آئی.اور اس میں شک نہیں کہ اس محبت کی عظمت اس کی ذات کی قدر کے مطابق ہے جو مہدی عظیم ہے.(اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء صفحہ ۵.۶ وضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ اکتوبر ۱۹۱۲ء) پس اﷲ کی کتاب کے بعد تم کس کتاب کو چاہتے ہو اور اﷲ تعالیٰ کی سنّت کے بعد کس سنّت کی پیروی کرتے ہو.ہم نے تمہارے دلائل اور تمہارے وظائف دیکھے ہیں.اور ہم نے اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں اور اس کے رسولؐ کی سنّت میں تدبّر کیا ہے.پس ہم نے کوئی شئے اس سے بہتر نہیں پائی.جو تمہارے پاس ہے.وہ ختم ہو جانے والا ہے.اور جو اﷲ کے پاس ہے.وہ باقی رہنے والا ہے.وہ بڑی سے بڑی دعا نکالو.جس کے معنے تم جانتے ہو.مگر کوئی دعا تم فاتحہ کی مانند نہ پاؤ گے.اور نہ کوئی تعوّذ تم معوذ تین کے برابر پا سکو گے.ہرگز نہیں.بلکہ میں قسم کھاتا ہوں کہ ہرگز نہ پاؤ گے.

Page 499

دلائل الخیرات تو اﷲ جل شانہٗ کی کتاب ہی ہے.اور قطع کرنیوالی تلوار اﷲ تعالیٰ سبحانہٗ کی تلوار ہے اور غنی کرنے والی تو اﷲ تعالیٰ ہی کی کلام مغنی ہے.بلکہ تمہارے پاس تو اس کے قریب بھی نہیں جو کذّاب نے ایک قول گھڑا تھا اور کہا تھا.ہم نے تجھے ہی عطا کئے ہیں.پس اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھ اور ہجرت کر.تیرا بُغض کرنے والا رجل کافر ہے.اس میں الفاظ اور ترتیب اسی سورت سے نقل کی گئی ہے اور بے موقع و محل الفاظ لگا کر ایک سورت بنا لی گئی.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا ان کے واسطے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر ایک کتاب نازل کی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے.اس میں مومنوں کے واسطے رحمت اور نصیحت ہے.(اخبار بدر قادیان ۲۸؍مارچ ۱۹۰۷ء، ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍نومبر ۱۹۱۲ء) یہ (کوثر) ایک مختصر سی سورۃ ہے.اور اس مختصر سی سورۂ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے.جو جامع ہے.پھر اس کے پورا ہونے پر شکریہ میں مخلوق الہٰی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیئے.اس کا ارشاد کیا.وہ پیشگوئی کیا ہے.: تجھے ہم نے جو کچھ دیا ہے.بہت ہی بڑا دیا ہے.عظیم الشان خیر عطا کی.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دامنِ نبوّت دیکھو تو قیامت تک وسیع، کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ ابلَیْکُمْ جَمِیْعً ( الاعراف:۱۵۹) میں ظاہر فرمایا کہ مَیں سارے جہاں کا رسول ہوں.یہ کوثر مکان کے لحاظ سے عطا فرامئی.کوئی آدمی نہیں ہے.جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکامِ الہٰی میں اتباعِ رسالت پنا ہی کی ضرورت نہیں.کوئی صوفی، کوئی مست قلندر، بالغ مرد، بالع عورت کوئی ہو.اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے.اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا.جو لَنْ تَسْتَطبیْعَ مَعِیٰ صَبْرًا بول اُٹھے.یہ وہ موسٰی ہے.جس سے الگ نہیں ہو سکتا کوئی آدمی مقرّب نہیں ہو سکتا.جب تل محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کی سچّی اتباع نہ کرے.کتاب میں وہ سچی کوثر عنایت کی کہ فِیْھاَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ( البیّنۃ:۴) کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتابیں سب کی سب قرآن مجید میں موجود ہیں.ترقی مدارج میں وہ کوثر! کہ جبکہ یہ سچی بات ہے اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جبکہ ان کے دَالّ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تو ان کے جزائے نیک آپؐ کے اعمال میں شامل ہو کر سکی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے.اعمال میں دیکھو، اِتِّباع، فتوحات، عادات، علوم، اخلاق میں کِس کِس قسم کی کوثر عطا فرمائی ہیں.

Page 500

استحاکام و حفاظتِ مذہب کے لئے دیکھو.کس قدر مذاہب دنیا میں اﷲ تعالیف کی طرف سے آئے.اس کی حفاظت کا ذمّہ دار خود ان لوگوں کو بنایا.مگر قرآن کریم کی پاک تعلیم کے لئے فرمایا.اِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ ( الحجر:۱۰) یہ کیا کوثر ہے.اﷲ تعالیٰ اس دین کی حمایت و حفاظت اور نصرت کے لئے تائید فرماتا اور مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقاتب الہٰیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر پتہ لگ سکتا ہے کہ کیونکر بندہ خدا کو اپنا لیتا ہے.اس ہستی کو دیکھو.انسان اور اس کی ہرکات کو دیکھو جب خدا بنانے پر آتا ہے.تو اسی عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا تھا.ایک اُجڑی بستی کو اس سے آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نظارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکڑ باز مدبّڑوں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع ہوتے ہیں.مثلاً دیکھو کسی بستی کو برگزیدہ کیا.جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل.نہ علمی چرچے نہ مذہبی تذکرے.نہ کوئی دارالعلوم.نہ کتب خانہ.صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے تربیت کی اور اپنی تربیت کا عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو.کس طرح یہ بتلاتا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو خدا نے کیا کوثر عطا فرمایا.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اَور لوگوں نے غفلت اور سُستی کی.ویسے ہی غفلت کا شکار مسلمان بھی ہوئے.آہ.اگر وہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی اُن میں حصّہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اﷲ تعالیٰ اُن کو بھی کوثر دیتا مَیں نے جو کچھ اب تل بیان کیا.یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی دنیاوی کوثر کا ذکر تھا.پھر مرنے کے بعد ایک اور کوثر برزخ میں حِشر میںگ صراط پر، بہشت میں، عرض کوثر ہی کوثر دیکھے گا.اسی کوثر میں ہر ایک شخص شریک ہو سکتا ہے مگر شرط یہ ہے.: اﷲ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.دیکھو.اُس آدمِ کامل کا پاک نام ابراہیم ھی تھا.جس کی تعریف اﷲ تعالیف خود فرماتا ہے.وَ اِبْرَاھِیْمَ الَّذِی وَفيّٰ ( النجم: ۳۸) اور وہی ابراہیم جو جَائَ رَبَّہٗ بِقَلْبً سَلِیْمٍ (الصّٰفّٰت:۸۵) کا مصداق تھا.سچی تعظیم الہٰی کر کے دکھائی.جیسے مولیٰ کریم فرماتا ہے.(البقرہ:۱۲۵) پھر کیانتیجہ پایا.الہٰی تعظیم جس قدر کوئی انسان کر کے دکھاتا ہے.اسی قدر ثمراتِ عظیمہ حاصل کرتا ہے.مثلاً حضرت ابوالملّث ابراہیم کو دیکھو، اس کی دعاؤں کا نمونہ ، دیکھو ہمارے سیّد و مولیٰ اصفی الاصیفاء

Page 501

الاصیفاء خاتم الانبیاء ان دعاؤں کا ثمرہ ہیں.اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَ سَلِّمْ وَ بَارِکْ عَلَیْہِ وَعَلٰی اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ.ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور صعیف تھے.کدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولادِ صالح عنایت کی.اسمٰعیل جیسی اولاد دی.جب جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو.ابراہیم کی قربانی دیکھو بڑھاپے کا زمانہ دیکھو مگر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ، ساری امیدیں ، تمام ارادے ، یوں قربان کر دئے کہ ایک طرف حکم ہوا اور معاً بیٹے کی قربانی کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا.بیٹا اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ ( الصّٰفّٰت : ۱۰۳)تو وہ خدا کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو گیا.غرض باپ بیٹے نے ایسی فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزّت، کوئی آرام کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہیں رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اُسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.پھر اﷲ تعالیٰ نے بھی کیسی جزا دی.اولاد میں ہزاروں ہزار بادشاہ.انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء بھی اسی کی اولاد میں پیدا کیا.وہ زمانہ ملا جس کی انتہاء نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملّتِ ابراہیمی میں.سارے نواب اور خلفاء الہٰی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہوئے ہیں اور ہونے والے ہیں.پھر جب شکریہ میں نماز میں خدا کی عظمت اور کبریائی بیان کی تو مخلوقِ الہٰی کے لئے بھی کیونکہ ایمان کے اجزاء تو دو ہی ہیں.تعظیم لامر اﷲ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ.ان مخلوق کے لئے یہ کہ : جیسے نماز میں لگے ہو.قربانیاں بھی دو تاکہ مخلوق سے سلوک ہو.قربانیاں وہ دو جو بیمار نہہوں، دُبلی نہ ہوں، بے آنکھ نہ ہوں، کان چِرے ہوئے نہ ہوں، عیب دار نہ ہوں، لنگڑی نہ ہوں اس میں اشآرہ یہ ہے کہ جب تک کامل قوٰی کو خدا کے لئے قربان نہ کرو گے.ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی.پس جہاں ایک طرف عظمتِ الہٰی میں لگو.دوسری طرف قربانیاں کر کے مخلوقِ الہٰی سے شفقت کرو اور قربانیاں کرتے ہوئے اپنے کل قوٰی کو قربان کر ڈالو اور رضاالہٰی میں لگا دو.پھر نتیجہ کیا ہو گا.: تیرے دشمن ابتر ہوں گے.انسان کی خوشحالی اس سے بڑھکر اور کیا ہو گی کہ اس کو اب تو راحتیں ملیں.اور اس کے دشمن ہلاک ہوں.یہ باتیں بڑی آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں.خدا کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت.نمازوں میں خصوصیت دکھاؤ.کانوں پر ہاتھ لے جا کر اﷲ اکبر زبان سے کہتے ہو مگر تمہارے کام دکھاویں کہ واقعی دنیا سے سروکار نہیں.تمہاری نماز وہ نماز ہو جو تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ (العنکبوت: ۴۶) ہو تمہارے اخلاق تمہارے معاملات

Page 502

معاملات عامیوں کی طرح نہ ہوں بلکہ ایک پاک نمونہ ہوں.پھر دیکھو.کوثر کا نمونہ ملتا ہے یا نہیں.لیکن ایک طرف سے تمہارا فعل.دوسری طرف سے خدا کا انعام.درود پڑھو.آج ۱؎ کل کے دن عبادت کے لئے مخصوص ہیں.وَاذْکُرُوا اﷲَ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ ( البقرۃ: ۲۰۴) کل وہ دن تھا کہ کل حاجی ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ ہوں گے.دنیا سے نرالا لباس پہنے ہوئے عرفات کے میدان میں حاضر تھے.اور لَبَّیْکَ لَبَّیْکَپکارتے تھے.آج منٰی کا دن ہے.آج ہی وہ دن ہے جس میں ابراہیم نے اپنا پاک نمونہ قربانی کا دکھلایا.۱؎ عیدالاضحٰی ۲۱؍اپریل ۱۸۹۹ء.(مرتّب) کوئی اس کی طاقت نہ رہی تھی جسے خدا پر قربان نہ کیا ہو.نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی بھی.یہ جمعہ کا دن ابراہیم کی قربانی اور مفاخر قومی کا روز ہے جس میں عرب کے لوگ قبل اسلام بزرگوں کے تذکرے یاد کر کے فخر کیا کرتے تھے.اس میں خدا کا ذکر کرو جیسے فرمایا.فَاذْکُرُوا اﷲَ کَذِکْدِکُمْ اَبَآئَکُمْ ( البقرہ:۲۰۱) خد ا کی یاد میں فریاد کرنے میں خدا کے حصور ساری قوتوں کو قربان کرنے کے لئے خرچ کرو پھر دیکھو کہ تمہارے کام کیا پھل لاتے ہیں.انسان خوشحالی چاہتا ہے.اور دشمنوں کی ہلاکت.خدا تیار ہے، مگر قربانی چاہتا ہے.اولاد پر نمونے دکھاؤ جیسے اسمٰعیل نے دکھایا.پس نئے انسان بنو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے طفیل تم کو کس طرح کی کوثر دیتا ہے.اور تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے.(الحکم ۱۲؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ صفحہ ۱ تا ۳) یہ ایک سورۂ شریفہ ہے بہت ہی مختصر.لفظ اتنے کم کہ سننے والے کو کوئی ملال طوالت کا نہیں یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ایک دن میں اسے یاد کر لے.اگر ان کے مطالب اور معافی کو دیکھو تو حیرت انگیز ان کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک ضروری بات سنانی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے.کہ جہاں تک میں غور کرتا ہوں واعظوں اور سننے والوں کی دو قسم پاتا ہوں.ایک وہ واعظ ہیں جو دنیا کے لئے وعظ کرتے ہیں.دنیا کا وعظ کرنے والے بھی پھر دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو اپنے وعظ سے اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں یعنی کچھ روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ خود کوئی روپیہ حاصل کریں.مگر یہ مطلب ضرور ہوتا ہے کہ سننے والے کو ایسے طریقے اور اسباب بتائیں جس سے وہ روپیہ کما سکیں.مادی ترقی کرنیوالے نہیں.دنیا کے لئے وعظ کرنے والوں میں اس قِسم کے واعظوں کے اغراض

Page 503

اغراض ہمیشہ مختلف ہوتے ہیں.کوئی فوجوں کو جوش دلاتا.ان میں مستعدی اور ہوشیاری پیدا کرنے کے لئے تحریک کرتا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ کے لئے چُست و چالاک ہو جائیں.کوئی امورِ خانہ داری کے متعلق.کوئی تجارت اور ہرفہ کے لئے.مختصر یہ کہ ان کی غرض انتظامی امور یا عامہ اصلاح ہوتی ہے جو دوسرے الفاظ میں سیاسی یا پولٹیکل تمدّنی یا سوشل اصلاح ہے.اور وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں.ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو محض اس لئے کھرے ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرص اُن کو ملا ہے.اس کو ادا کریں.بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں.اور اپنے آپ کو اس خیرامّت میں داخل ہونے کی فکر ہوتی ہے جس کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّتٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( اٰلِ عمران:۱۱۱) تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو.امر بالمعروف کرتے رہو.اور نہی عن المنکر.اور ایک وہ ہوتے ہیں جن کی غرض دنیا کمانا بھی نہیں ہوتی مگر یہ غرض بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف حاضرین کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اُن کی واہ واہ کے خواہشمند کہ کیا خوش تقریر یا مؤثر واعظ ہے.دینی واعظوں میں سے پہلی قسم کے واعظ بھی فتوحات ہی کا ارادہ کرتے ہیں مگر ملکی فتوحات سے ان کی فتوحات نرالی ہوتی ہیں.ان کی فتوحات یہ ہوتی ہیں کہ برائیوں پر فتح حاصل کریں.نیکی کی حکومت کو وسیع کریں.جیسے واعظوں کی دو قسم ہیں.ایسے ہی سننے والوں کی بھی دو حالتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو محض اﷲ کے لئے سنتے ہیں کہ اس کو سُن کر اپنی اصلاح کریں اور دوسرے جو اس لحاظ سنتے ہیں کہ واعظ ان کا دوست ہے یا کوئی ایسے ہی تعلق رکھتا ہے.یعنی واعظ کی خاطرداری سے.اب تم دیکھ لو کہ تمہارا واعظ کیسا ہے اور تم سننے والے کیسے! تمہارا دل تمہارے ساتھ ہے.اس کا فیصلہ تم کر لو.مَیں جس نیت اور غرض سے کھڑا ہوا ہوں.وہ مَیں خوب جانتا ہوں.اور اﷲ تعالیٰ جانتا ہے کہ دردِ دل کے ساتھ خدا ہی کے لئے کھڑا ہوا ہوں.رسول اﷲ صلی ا ﷲ علیہ وسلم نے بھی ایک تقسیم فرمائی ہے کہ واعظ یا مامور ہوتا ہے یا امیر یا متکبّر امیر وہ ہوتا ہے.جس کو براہِ راست اس کام کے لئے مقرر کیا جاوے اور مامور وہ ہوتا ہے جس کو امیر کہے کہ تم لوگوں کو وعظ سنا دو.اور متکبّر وہ ہے جو محض ذاتی بڑائی اور نمود کے لئے کھڑا ہوتا ہے.پس یہ اقسام واعظوں کی ہیں.اب میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کرو کہ تمہیں وعظ کہنے والا کیسا ہے.اور تم کیسا دل لے کر بیٹھے ہو.میرا دل اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ناظر ہے جو بات میری سمجھ میں مضبوط آئی ہے اُسے

Page 504

اُسے سُنانا چاہتا ہوں اور خدا کے لئے.پھر مجھے حکم ہوا ہے کہ تم مسجد میں جا کر نماز پڑھا دو اس حکم کی تعمیل کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور سناتا ہوں.میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں، کیونکہ ان کی اعراض محدود، ان کے حوصلے چھوٹے.خیالات پست ہوتے ہیں.جس واعظ کی اغراض دینی ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیوی واعظ سب اس کے اندر ا جاتے ہیں.کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے.ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بُری بات سے روکنے والا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کو اﷲ تعالیٰ نے مھیمن فرمایا.یہ جامع کتاب ہے جس میں جیسے ایک ملٹری (فوجی) واعظ کو فتوحات کے طریقوں اور قواعد جنگ کی ہدایت ہے.ویسے ہی نظامِ مملکت اور سیاستِ مُدن کے اصول اعلیٰ درجہ کے بتائے گئے ہیں.غرض ہر رنگ اور ہر طرز کی اصلاح اور بہتری کے اصول یہ بتلاتا ہے.پس قرآن کریم جیسی کتاب کا واعظ ہوں جو تمام خوبیوں کی جامع کتاب ہے اور جو سُکھ اور تمام کامیابی کی راہوں کی بیان کرنیوالی ہے.اور اسی کتاب میں یہ چھوٹی سی سورت میں نے پڑھی ہے.میں اس سورت کے مطالب بیان کرنے سے پہلے یہ بات بھی تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کا طرزِ بیان دو طرح پر واقع ہوا ہے.بعض جگہ تو اﷲ تعالیٰ ایک فعل کو واحد متکلم یعنی مَیں کے لفظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے اور بعض جگہ جمع متکلم یعنی ہم کے ساتھ.ان دونوں الفاط کے بیان کا یہ سرّہے.کہ جہاں مَیں کا لفظ ہے وہاں کسی دوسرے کا تعلق ضروری نہیں ہوتا.لیکن جہاں ہم ہوتا ہے.وہاں اﷲتعالیٰ کی زات.اس کے فرشتے اور مخلوق بھی اس کام میں لگی ہوئی ہوتی ہے.پس اس بات کو یاد رکھو.یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.بے زیب ہم نے تجھ کو دیا ہے ہر ایک چیز میں بہت کچھ.یہاں اﷲ تعالیٰ نے ’ہم‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا کام ہے جیسے اس میں آپ فضل کیا ہے.فرشتوں اور مخلوق کو بھی لگایا ہے.’’ بہت کچھ ‘‘ کے معنی مختلف حالتوں میں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ عطا فرمایا ہے.اب عور طلب امر یہ ہے کہ اس بہت کچھ کی کیا مقدار ہے.تم میں سے بہت سے لوگ شہروں کے لرہنے والے ہیں جنہوں نے امیروں کو دیکھا.بہت سے دیہات کے رہنے والے ہیں.جنہوں نے عریبوں کو دیکھا ہے.خدا تعالیف نے مجھے محض اپنے فضل سے ایسا موقع دیا ہے کہ مَیں نے غریبوں، امیروں کے علاوہ بادشاہوں کو بھی دیکھا ہے.ان تینوں میں بہت برا فرق ہوتا ہے، ان کی ہر چیز میں ، ہر بات میں علیٰ قدر مراتب امتیاز

Page 505

ہوتا ہے.مثلاً ایک کسی غریب کے گھر جا کر سوال کرے تو وہ اُس کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیدیتا ہے.اس کی طاقت اتنی ہی ہے.کیکن جب ایک امیر کے گھر جاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس کو کچھ دیدو تو اس کے کچھ سے مراد تین چار روٹیاں ہوتی ہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بادشاہ کہتا ہے کہ کچھ دے دوتو اس کے کچھ سے مراد دس بیس ہزار روپیہ ہوتا ہے.اس سے عجیب بات پیدا ہوتی ہے.جس قدر کسی کا حوصلہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کی عطا ہوتی ہے.اب اس پر قیاس کر لو.یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے بہت کچھ دیا ہے.اﷲ تعالیف کی ذات کی کبریائی ، اس کی عظمت و جبروت پر نگاہ کرو، اور پھر اس کے عطیہ کا تصوّر ! دیکھو ایک چھوٹی سی شمع سورج اس نے بنایا ہے، اس کی روشنی کسی عالمگیر ہے، ایک چھوٹی سی لالٹین چاند ہے اس کی روشنی کو دیکھو، کس قدر ہے ، کنوؤں سے پانی نکالنے میں کس قدر جد و جہد کرنی پڑتی ہے.مگر اﷲ تعالیٰ کی عطا پر دیکھو کہ جب وہ بارش برساتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے.غرض یہ سیدھی سادھی بات ہے اور ایک مضبوط اصل ہے جس قدر کسی کا حوصلہ ہو.اسی قدر وہ دیتا ہے.پس اﷲ تعالیٰ کی عظمت کے لحاظ سے اب اس لفظ پر غور کرو کہ ہم نے بہت کچھ دیا ہے.خدا کا بہت کچھ وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا.اور پھر اس کا اندازہ میری کھوپری کرے؟ یہ احمقانہ حرکت ہو گی! اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اس وقت کوئی کوشش کرے کہ وہ پانی کے ان قطرات کو شمار کرنے لگے جو آسمان سے برس رہے ہیں.ہاں یہ بے شک انسانی طاقت کے اندر ہرگز نہیں کہ جو کچھ رسول اﷲ علیہ وسلم سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے.اس لئے میں اندازہ تو ان عطیات کا نہیں کر سکتا لیکن ان کو یوں سمجھ سکتا ہوں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ باپ انتقال کر گیا.اور چلنے ہی لگے تھے کہ ماں کا انتقال ہوا.کوئی حقیقی بھائی آپ کا تھا نہیں.چنانچہ اسی کے متعلق فرمایا: اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا ( الضحٰے: ۷) ہم نے تجھے یتیم پایا اس یتیم کو جسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے بہت کچھ دے دیا.خاتم الانبیاء خاتم الرسلؐ.سارے علوم کا مالک، ساری سلطنتوں کا بادشاہ بنا دیا.آپؐ کی عادت شریف تھی کہ کبھی جو بے انتہا روپیہ مالیہ کا آیا ہے تو مسجد میں ہی خرچ کر دیا.غرض غور کرو کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دیدیا.کس قدر خیرِ کثیر آپ کو دی گئی ہے.آپ کا دامنِ نبوّت دیکھو تو وہ قیامت تک وسیع ہے کہ اب کوئی نبی نیا ہو یا پرانا.آہی نہیں سکتا.کسی دوسرے

Page 506

نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان کے ہوئی.اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ: اِنِّیْ رَسُوْلُ اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا( الاعراف: ۱۵۹) میں فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں یہ کوثر بلحاظ مکان کے عطا ہوئی.کوئی آدمی نہیں جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکامِ الہٰی میں اتباعِ رسالت پناہی کی ضرورت نہیں کوئی صوفی.کوئی بالع مرد، بالغہ عورت کوئی ہو.اس سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتے.اب کوئی وہ خضر نہیں جو لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا ( الکہف: ۷۶) بول اٹھے.یہ وہ موسٰیؑ ہے.جس سے کوئی الگ نہیں ہوسکتا.جب تک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.تعلیم اور کتاب میں وہ کاملیت اور جامعیت اور کثرت عطا فرمائی کہ فِیْھَََاَ کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ ( البینّۃ:۴ )کل دنیا کی مضبوط کتابیں اور صداقتیں اور سچائیاں اس میں موجود ہیں.ترقی مدارج میں وہ کوثر جبکہ یہ سچی بات ہے اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ.پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جبکہ ان کے دَالّ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں.تو ان کے جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر سکی تری مدارج کا موجب ہو رہی ہے.اعمال میں دیکھو.اتباع.فتوہات.عادات.علوم، اخلاق میں کس کس قسم کی کوثر یں عطا فرمائی ہیں آدمی وہ بخشے جن کے نام لے کر عقل حیران ہوتی ہے.ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضوان اﷲ علیہم اجمعین جیسے لاوگ عباسیوں اور مروانیوں جیسے کیا انتخاب سے ایسے امدی مل سکتے ہیں.کہ جہاں رسول اﷲ صلی علیہ وسلم پانی گرانے کا حکم دیں خون گرانے کے لئے یتار ہو جائیں.جگہ وہ بخشی کہ ایران گ توران، مصر، شام، ہند، تمہارا ہی ہے.وہ بیبت اور جبروت آپ کو عطا فرمائی کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کسی طرف کا ارادہ کرتے تو ایک مہینہ کی دور راہ کے بادشاہوں کے دل کانپ جاتے.اﷲ جب دیتا ہے تو اس طرح دیتا ہے.یہ بڑا لمبا مضمون ہے جو اس تھوڑے وقت میں بیان نہیں ہو سکتا.مختلف شاخوں اور شعبوں میں جو کوثر آپ کو عطا ہوئی.ایک مستقلسد کتاب اس پر لکھی جا سکتی ہے.باطنی دولت کا یہ حال ہے کہ تیرہ سو برس کی تو مَیں مانتا نہیں.اپنی بات بتاتا ہوں.جس قدر مذاہب ہیں.مَیں نے ان کو ٹٹولا ہے.ان کو پرکھ پرکھ دیکھا ہے.قرآن کریم جکے تین تین لفظوں سے مَیں ان کو ردّ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں! کوئی باطل مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا!! مَیں نے تجربہ کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی کتاب اور طرز انسان کے پاس ہو تو باطل مذاہب خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی.وہ ٹھہر نہیں سکتا.

Page 507

پھر استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو.جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں.یعنی جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں.اس کی حفاظت کا ذمہ دار اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ٹھہرایا ہے.مگر قرآن کریم کی تعلیم کے لئے فرمایا.اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ( الحجر:۱۰) یہ کیا کوثر ہے !!! اﷲ تعالیٰ خود اس دین کی نصرت اور تائید اور حفاظت فرماتا اور اپنے مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے.جو اپنے کمالات اور تعلقاتِ الہٰیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے.کہ ایک انسان کیونکر خدا تعالیٰ کو اپنا بنا لیتا ہے.ہر صدی کے سر پر ایک مجدّد آتا ہے.جو ایک خاص جماعت قائم کرتا ہے.میرا اعتقاد تو یہ ہے.کہ ہر ۲۵.۵۰ اور سو برس پر آتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا کوثر ہو گا؟ پھر سارے مذآہب میں دعا کو مانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنے مولیٰ سے کچھ مانگتا ہے.تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے مگر مانگنے کے مختلف طریق ہیں مگر مشترک طور پر یہ سب مانتے ہیں کہ جو مانگتا ہے وہ پاتا ہے.اس اصل کو لیکر مَیں نے غور کیا ہے.کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس پہلو سے بھی کیا کچھ ملا ہے.تیرہ سو برس سے برابر امّت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آپؐ کے لئے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکہہ کر دعائیں کر رہی ہے.اور پھر اﷲ اور اﷲ کے فرشتے بھی اس درود شریف کے پڑھنے میں شریک ہیں اور ہر وقت یہ دعا ہو رہی ہے.کیونکر دنیا پر کسی نہ کسی نماز کا وقت موجود رہتا ہے.اور علاوہ نمزا کے پڑھنے والے بھی بے انتہاء ہیں.اب سوچو کہ اس تیرہ سو برس کے اندر کس قدر روہوں نے کس سوز اور تڑپ کے ساتھ اپنے محبوب و آقا کی کامیابیوں اور آپؐ کے مدارجب عالیہ کی ترقی کے لئے اَللّٰھممَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍکہہ کر دعائیں مانگی ہوں گی.پھر ان دعاؤں کے ثمرہ میں جو کچھ آپ کو ملا.کیا اس کی کوئی حدہو سکتی ہے؟ اور دعا کوئی چیز ہے اور ضرور ہے تو پھر اس پہلو سے آپ کے مدارج اور مراتب کی نظیر پیس کرو کیا دنیا میں کوئی قوم اور امّت ایسی ہے جس نے اپنے نبی اور رسول کے لئے یہ التزام دعا کا کیا ہو؟ کوئی بھی نہیں.کوئی عیسائی مسیحؑ کے لئے.یہودی موسٰیؑ کے لئے.سناتنی شنکر اچارج کے لئے دعائیں مانگنے والا نہیں ہے.اس دنیا کے مدارج کو تو ان امور پر قیاس کرو اور آگے جو کچھ آپؐ کو ملا ہے.وہ وہاں چل کر معلوم ہو جاوے گا.مگر اس کا اندازہ اسی’’ بہت کچھ‘‘ سے ہو سکتا ہے.کہ برزخؔ میں.حشرؔمیں.صراط: میں بہشت.میں.غرض کوثر ہی کوثر ہو گا.اس عاجز انسان اور اس کی ہستی کو دیکھو کہ کیسی ضعیف اور ناتوان ہے.لیکن جب اﷲ تعالیٰ

Page 508

ٰ اس کے بنانے پر آتا ہے تو اس عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے.اور ایک اُجڑی بستی کو آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نطارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکڑباز مدبّڑوں کو محروم کر دیتا ہے.حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں.اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع.مثلاً اس وقت دیکھو کہ کیسی بستی کو اس نے برگزیدہ کیا؟ جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل، نہ علمی چرچے ، نہ مذہبی تذکرے، نہ کوئی دارالعوم، نہ کتب خانہ.صرف خدائی ہاتھ ہے.جس نے اپنے بندہ کی خود تربیت کی اور عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو کہ کس طرح اﷲ تعالیٰ ثابت کرتا ہے.کہ اُس نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوثر عطا فرمایا ہے.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے.کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت کی.ویسی ہی غفلت کا شکار مسلمان ہوئے.آہ.اگر وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے.اور کود بھی ان سے حصّہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اﷲ تعالیٰ ان کو بھی کوثر عطا فرماتا میں دیکھتا ہوں کہ جھوٹ بولنے میں دلیر.فریب و دغا میں بیباک ہو رہے ہیں.نمازوں میں سُستی.قرآن کے سمجھنے میں سُستی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے.اور سب سے بدتر سُستی یہ ہے.کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے چال چلن کی خبر نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی اور آریہ آپ کے چال چلن کو تلاش کرتے ہیں.اگرچہ اعتراض کرنے کے لئے مگر کرتے تو ہیں.مسلمانوں میں اس قدر سُستی ہے کہ وہ کبھی دیکھتے ہی نہیں.اس وقت جتنے یہاں موجود ہیں.ان کو اگر پوچھا جاوے تو شاید ایک بھی ایسا نہ ملے.جو یہ بتا سکے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی معاشرت کسی تھی، آپ کا سونا کیسا تھا، جاگنا کیسا، مصائب اور مشکلات میلں کیسی استقلال اور علو ہمّتی سے کام لیا اور رزم میں کیسی شجاعت اور ہمّت دکھائی.میں یقیناً کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جو تفصیل کے ساتھ آپ کے واقعاتِ زندگی پر اطلاع رکھتا ہو.حالانکہ یہ ضروری بات تھی کہ آپ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے حالاتِ زندگی پر پوری اطلاع حاصل کرنے کی کوشس کی جاتی.کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آپؐ دن رات میں کیا کیا عمل کرتے تھے؟ اس وقت ان اعمال کی طرف تحریک اور ترغیب نہیں ہو سکتی ۱؎.خدا تعالیٰ کی محبت ی اس کے محبوب بننے کا ذریعہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچّی اتباع ہے.پھر یہ اتباع کیسے کامل طور پر ہو سکتی ہے.جب معلوم ہی نہ ہو کہ آپؐ کیا کیا کرتے تھے.اس پہلو میں بھی مسلمانوں نے جس قدر اس وقت سُستی اور غفلت سے کام لیا ہے وہ بہت کچھ ان کی ذلّت اور ضُعف کا باعث ٹھہرا.

Page 509

اس ضروری کام کو تو چھوڑا.پھر مصروفیت کس کام میں اختیار کی.نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں.چائے پی لی.حقّہ بی لیا، پان کھا لیا.غرض ہر پہلو اور ہر حالت سے دنیوی امور میں ہی مستغرق ہو گئے.مگر پھر بھی ارام اور سُکھ نہیں ملتا.ساری کوششیں اور ساری تگ و دَو دنیا کے لئے ہی ہوتی ہے.اور اس میں بھی راحت نہیں.لیکن جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں.ان کو وہ دیتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے.اور ساری راحتوں کا مالک اور وارث بنا دیتا ہے.مَیں نے پہلے بتا دیا ہے.کہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے.اس کا اتنا ہی دنیا ہوتا ہے.اور جس قدر بڑا اسی قدر اس کی خواہش ۱؎ الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴ تا ۱۶ ہوتی ہے.جس قدر کبریائی اﷲ تعالیٰ رکھتا ہے.اسی کے موافق اس کی عطا ہے اور اس کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا.مَیں نے ایک دنیاودار کو دیکھا ہے.وہ میرا دوست بھی ہے.میں کلکتہ میں اس کے مکان پَر تھا.اُس نے مجھے دکھایا کہ وہ ایک ایک مکان میں چار چار پانچ پانچ سو روپیہ کیسے کما لیتا ہے.مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ مَیں نے اس کو ایک مرتبہ گجرات میں دیکھا.بہت ہی بُری حالت میں مبتلا.میں نے اس کو اور تو کچھ نہ کہا.صرف یہ پوچھا کہ بتاؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حالت ہو گئی ہے.کہ رہنے کو جگہ نہیں، کھانے کو روٹی نہیں.اس وقت یہاں آیا ہوں کہ فلاں شخص کو پندرہ ہزار روپیہ دیا تھا مگر اب وہ بھی جواب دیتا ہے.مَیں نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر یہ سبق حاصل کیا کہ چالاکی سے انسان کیا کما سکتا ہے؟ ادھر بالمقابل دیکھئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کے اتباع نے کیا کمایا.میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وعظ کرتے ہیں، چالاکیاں کرتے ہیں لیکن ذرا پیٹ میں درد ہو تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم گئے.پس تم وہ چیز بنو جس کا نسخہ اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر اور آپؐ کے اتباع پر تجربہ کر کے دکھایا ہے.کہ جب وہ دیتا ہے تو اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ لمبی کہانی ہے.کہ کس کس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی نصرت کی ہے.اسی شہر میں دیکھو ( مرزا غلام احمد ایدّہ اﷲ الاحد) ایک شخص ہے.کیا قد میں امام الدین ۱؎ اس سے چھوٹا ہے یا اس کی ڈاذھی چوٹی ہے.اس کا مکان دیکھو تو حضرت اقدس کے مکانوں سے مکان بھی بڑا ہے.ڈاڑھی دیکھو تو وہ بھی بڑی لمبی ہے.کوشش بھی ہے کہ مجھے کچھ ملے.مگر دیکھتے ہو.خدا کے دینے میں کیا فرق ہے؟ مَیں یہ باتیں کسی کی اہانت کے لئے نہیں کہتا.میں ایسے نمونوں کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہر جگہ یہ نمونے موجود ہیں.مَیں خود ایک نمونہ ہوں، جتنا میں بولتا، کہتا اور لوگوں کو سناتا ہوں.اس کا بیسواں حصّہ بھی ۱؎ مرزا امام الدّین

Page 510

مرزا صاحب نہیں بولتے اور سناتے.کیونکہ تم دیکھتے ہو.وہ خاص وقتوں میں باہر تشریف لاتے ہیں اور میں سارا دن باہر رہتا ہوں.لیکن ہم پر تو بدظنی بھی ہو جاتی ہے.لیکن اس کی باتوں پر کیسا عمل ہے.بات یہی ہے کہ اﷲ کی دین الگ ہے! اور وہ موقوف ہے ایمان پر!! منصوبہ باز چالاکیوں سے کام لینے والے بامراد نہیں ہو سکتے.وہ اپنی تدابیر اور مکائد پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یوں کر لیں گے.مگر اﷲ تعالیٰ ان کو دکھاتا ہے کہ کوئی تدبیر کار گر نہیں ہو سکتی.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.غرض یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی دین کے منتظر بنو.اور یہ عطا منحصر ہی ایمان پر ہے.اس لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو مصا.وہ سب سے بڑھ کر مِلا.شرط یہ ہے فَصَلِّ لِرَبِّکَ.اﷲ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.نماز سنوار کر پڑھو.نماز مومن کی الگ اور دنیادار کی الگ اور منافق کی الگ ہوتی ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پاک نام ابراہیمؑ بھی تھا.جس کی تعریف اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی ( النجم: ۳۸)اور وہی ابراہیمؑ جو جَآئَ رَبَّہٗ بِقنلْبٍ سَلِیْمٍ ( الصّٰفّٰت:۸۵) کاک مصداق تھا.اس نے سچی تعظیم امر الہٰی کی کر کے دکھائی اس کا نتیجہ کیا دیکھا، دنیا کا امام ٹھہرا.اسی طرح پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو حکم ہوتا ہے کہ تعظیم لامر اﷲ کے لئے تو فَصَلِّ لِرَبِّکَ کا حکم ہے مگر شفقت علیٰ خلق اﷲ اور تکمیل تعظیم امرِ الہٰی کے لئے وَانْحَرْ ( قربانی بھی کرو).قربانی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے.جب یہ شروع ہوئی.اس وقت دیکھو.کیسے مشکلات تھے اور اب بھی دیکھو.ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.۹۹ برس کی عمر تھی.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولاد صالح عنایت کی.اسمٰعیل جیسی اولاد عطا کی.جب اسمٰعیل جوان ہوئے تو حکم ہوا.کہ ان کو قربانی میں دیدو.اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو.زمانہ اور عمر وہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی.اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیمؑ نے اپنی ساری طاقتیں ساری امیدیں اور تمام ارادے قربانب کر دئے.ایک طرف حکم ہوا اور معاً بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا.بیٹا اِنِّیْ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اِنِّیْ اَذْبَحُکَ( الصّٰفّٰت: ۱۰۳) تو ہو بلا چون و جرا یونہیء بولا کہ اِفْعَلْ مَاتُؤْمَرُ سَتنجِدُنِیْ ابنْ شَآئن اﷲُمِنَ الصَّابِرِیْنَ ( الصّٰفّٰت:۱۰۴) ابا جلدی کرو.ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے.اس کی تعبیر ہو سکتی ہے.مگر نہیں.کہا.پھر کر ہی لیجئے.غرض باپ بیٹے نے فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزّت، کوئی آرام ، کوئی دولت اور کوئی امید باقی

Page 511

نہ رکھی.یہ آج ۱؎ ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے.اﷲ تعالیٰ ابراہیمؑ اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی.اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء پیدا کئے.وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہاء نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملّت ابراہیمی میں.سارے نوّاب اور خلفاء الہٰی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونیوالے ہیں.پس اگر قربانی کرے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو.زبان سے اِنِّیْ وَ جَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَر السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ (الانعام: ۸۰) کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو.اِنَّ صَلوٰتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رِبِّ الْعٰلَمِیْن ( الانعام: ۱۶۴) کہتے ہو تو کر کے بھی دکھلاؤ.غرض اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کی فرماں برداری اور تعمیلِ حکم کے لئے جو اسلام کا سچّا مفہوم اور منشاء ہے.کوشش کرو.مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں وسوسے اور دنیا کی ایچاپیچی ہوتی ہے.۱؎ عیدالاضحٰی.مرتّب خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے کل قوٰی اور خواہشوں کو قربان کر ڈالو اور رضاالہٰی میں لگا دو تو پھر نتیجہ یہ ہو گا.اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَالْاَبْتَرْ ( تیرے دشمن ابتر ہوں گے) انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی کہ خود اس کو راحتیں اور نصرتیں ملیں اور اس کے دشمن تباہ اور ہلاک ہوں.محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی نماز اور اپنی قربانیوں میں دکھا دیا.کہ وہ ہمارا ہے.ہم نے اپنی نصرتوں اور تائیدوں سے بتا دیا کہ ہم اس کے ہیں.اور اس کے دشمنوں کا نام و نشان تک مٹا دیا.آج ابوجہل کو کون جانتا ہے.ماں باپ نے تو اس کو نام اَبُوالْحِکَم رکھا مگر آخر اَبُوجَہلْ ٹھہراوہ سَیِّدُالْوَادِیْ کہلاتا، مگر بدتر مخلوق ٹھہرا.وہ بلال جس کو ذلیل کرتے ناک میں نکیل ڈالتے، اس نے اﷲ کو مانا، اسی کے سامنے ان کو ہلاک کر کے دکھا دیا.غرض خدا کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہو جائے گا مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اﷲُلَہٗ.میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں ہزار اعتر۴اص مرزقا صاحب پر کرتے ہیں مگر وہ وہی اعتراض ہیں جوپہلے برگزیدوں پر ہوئے.انجام بتا دیگا.کہ راست باز کامیاب ہوتا ہے.اور اس کے دشمن تباہ ہوتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کا بنتا ہے.وہی کامیاب ہوتا ہے.ورنہ نامراد مرتا ہے.پس ایسے بنو کہ موت آوے خواہ وہ کسی وقت آوے.مگر تم کو اﷲتعالیٰ کا فرماں بردار پاوے.یاد رکھو کہ مر کر اور مرتے ہوئے بھی اﷲ کے ہونے والے نہیں مرتے.اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اعمالب صالحہ کی توفیق دے

Page 512

و اپنی اصلاح نہیں کرتا اور اپنا مطالعہ نہیں کرتا.وہ پتھر ہے.دنیا کے ایچ پیچ کام نہیں آتے.کام آنیوالی چیز نیکی اور اعمالِ صالحہ ہیں.خدا سب کو توفیق عطا کرے.( الحکم ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۳.۵) کوثر کے معنے خیرِ کثیر کے ہیں.پیغمبر صلی اﷲ علیہ واآلہٖ وسلم دنیا میں تنہا تھے.بعد میں اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو کیا کچھ خیرب کثیر دیا اور دیتا جا رہا ہے.سکھوں کا مذہب صرف اتنا ہی ہے.کہ اﷲ کو ایک مان لو اور دعا کر لو.کوئی زیادہ قیدیں اس مذہب میں نہیں مگر باوجود اس آسانی کے پھر بھی اس مذہب میں کوئی ترقی نہیں.بخلاف اس کے کہ اس میں بہت ساری پابندئیں ہیں.نماز کی، روزہ کیگ حج کی، زکوٰۃ اور دیگر عبادات کی.مگر باوجود ان تمام پابندیوں کے اسلام میں روز بروز ترقی ہے.یہ کیسا خیر کثیر ہے.جو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو عطا ہو رہا ہے.ایک مُلّا تو کہے گا کہ اَعْطَیْنَا صیغہ ماضی کا بمعنی مضارع ہے.آخرت میں آپؐ کو حوضِ کوثر عطا ہو گا.سَلَّمْنَا.اس میں کلام نہیں کہ آخرت میں حوضِ کوثر آپ کو عطا ہو گا مگر اس میں کیا شک کہ دنیا میں جس کثرت سے آپؐ پر عطایات الہٰی ہوئے.وہ بے حد و بے مثل ہیں.کوثر کا لفظ کثیر سے مستق ہے.پیغمبر صلی اﷲ علیہ وو آلہٖ وسلم کا ایک صحابی بیس ہزار، چالیس ہزار، بلکہ ساٹھ ہزار پر فاتح ہوا.خود پیغمبر صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا کام مقابلہ نہ ایسا تھا کہ جس کی نظیر نہیں.پنجوقت نماز آپ ؐ خود پڑھاتے.سارے قضایا آپ خود ہی فیصلہ کرتے تھے.بیویاں جس قدر آپؐ کی تھیں ان کی خاطرداری اس قدر تھی.کہ سب آپ سے خوش تھیں.لوگ کہتے ہیں کہ امس زمانہ کی عورت کی پوزیشن ہی کچھ ایسی تھی کہ تکلفّات نہ تھے.مگر عورتوں کی جبلّت کا بیان یوں فرمایا ہے کہ مرد کی عقل کو چرخ دینے والی عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی مخلوق میں نے نہیں دیکھی.کہ عقلمند مرد کی عقل کو کھو دیتی ہے.عورتوں پر ہر ہر بات پر تسدّد مت کرو.لڑکوں کو بھی مارنے اور سزا دینے کا میں سخت مکالف ہوں.حصرت صاحب بھی لڑکوں کو مارنے سے بہت منع کیا کرتے ہیں.میں تو انگریزی پڑھا نہیں.سنا ہے کہ یونیورسٹی کی بھی یہی ہدایت ہے.کہ استاد طلبہ کو نہ مارا کریں.باوجود ان تاکیدوں کے لوگ بچوں کو مارنے سے باز نہیں آئے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارا فرص منصبی ہے وہ جھوٹ کہتے ہیںک.بہت لوگ ہیں کہ وعظ کرنا تو سیکھ لیتے ہیں مگر خود عملدر آمد نہیں سکھیتے.تمہارے ہاتھوں میں اب سلطنت نہیں رہی.اگر تم اچھے ہوتے تو سلطنتیں تم سے نہ چھینی جاتیں.(بدر ۲۱؍دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) اَلْکَوْثَر: نبی کریمؐ کو جو چیز ملی.کثرت سے ملی.کتاب ملی تو جامع.اُمّت ملی تو خیرالامُم.حکومت ملی تو ابدی.سپاہ ملی تو بے نظیر.دونوں مذہبوں کے مرکز بھی آپؐ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئے پھر حوضِ کوثر.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸)

Page 513

سُوْرَۃَ الْکَافِرُوْنَ مَکِّیَّۃٌ  سورۃ کافرون مکّی ہے.طبرانی اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کی ہے.کہ قریش نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو کہا کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ مکّہ میں سب سے بڑے دولتمند ہو جائیں.اور جس عورت کو آپ پسند کریں.اس کے ساتھ آپ کا نکاح کر دیتے ہیں.یہ سب کچھ آپ لے لیں اور ہمارے معبودوں کی بُرائی بیان کرنے سے رُک جائیں.اور ان کو بدی کے ساتھ یاد نہ کریں اور اگر آپکو یہ بات منظور نہیں تو ہم ایک اَور بات پیش کرتے ہیں.اور اس میں آپ کی بہتری ہے.آنحضورؐ نے فرمایا.بتاؤ وہ کیا ہے ؟ تو کہنے لگے.ایسا کرو.کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی پُوجا کرو.اور پھر ایک سال ہم آپ کے معبود کی پرستش کریں گے.ں حضرتؐ نے فرمایا.ٹھہر جاؤ.اس کا جواب مَیں خدا سے پا کر تم کو بتلاؤں گا.پس یہ وحی الہٰی نازل ہوئی.کہ اے میرے منکرو! الخ اور یہ آیت نازل ہوئی قُلْ اَفَغَیْرَ اﷲ ( الزّمر : ۶۵) جس کا ترجمہ یہ ہے.کہ ان کو کہہ دو کہ اے جاہلو.کیا تم مجھے یہ کہتے ہو کہ اﷲ کے سوائے کسی اَور کی عبادت کروں.اور تجھ پر اور تجھ سے پہلوں پر یہ وحی نازل ہو چکی ہے.کہ اگر تو خدا کے ساتھ شرک کرے گا تو تیری تمام محنت بیکار ہو جائے گی.اور تو نقصان پانے والوں میں سے ہو گا.بلکہ ایک اﷲ ہی معبود ہے.اسی کی عبادت کر اور قدر دانوں میں سے بن.مسلم اور بیہقی نے اپنی کتاب میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کی ہے کہ آنحضرتؓ نے فجر کی دو رکعتوں ( ستّتوں ) میں قُلْ یَآ اَیَّھَا الْکٰفِرُوْنَ اور سورۃ اخلاص پڑھی تھی.عام سنّت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ سبحانہٗ اپنی کتاب قرآن کریم میں جہاں کہیں کفّار کا ذکر کرتا ہے تو اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا کر کے فرماتا ہے لیکن اس کی بجائے اس سورۃ شریف میں اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا نہیں فرمایابلکہ یوں فرمایا.کہیَآ اَیَّھَا الْکٰفِرُوْن.اے کافرو! اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ کَفَرُوْا صیغہ ماضی میں ہے.اور انقطاع پر دلالت کرتا ہے.پس اﷲ تعالیٰ نے یَآ اَیَّھَا الْکٰفِرُوْن.اے کافرو! فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے.بلکہ صاف تصریح کر دی ہے کہ یہ مخاطب ایسے کافر ہیں کہ صفت کفر ان کے لازم حال ہو گئی ہے.

Page 514

ایسی حالت سے خدا تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے.لَآ اَعْبُدُ.میں تمہارے بُتوں کی نہ اب پوجا کرتا ہوںاور نہ آئندہ کروں گا.اس جگہ بُتوں کی عبادت کی نفی حرف لَا کے ساتھ کی گئی ہے.کیونکہ حرف لَا کی نفی حال اور استقبال ہر دو پر مشتمل ہے.نہ اب اور نہ آئندہ.مَا تَعْبُدُوْنَ.جو کچھ تم عبادت کرتے ہو.مَا اسم مبہم ہے.اور مشرکوں کے معبودوں کے ابہام کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ مشرک اپنی خواہش بے جا کے سبب خود اپنے اندر ایک شک و شبہ میں پڑا ہوا ہے.اور ہر روز نیابُت اپنے لئے تراشتا ہے.اور اُس کا عقیدہ مکڑی کے جالے کی طرح بود اور کمزور ہے.رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی ذاتِ طیّب اور مبارک کے متعلق غیر اﷲ کی عبادت سے بیزاری اس جگہ حال اور مستقبل میں دو بار کر کے جو بیان کی گئی ہے.اس میں اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس بات سے معصوم ہیں کہ ان کی حالت میں کجی اور انحراف اور بدی کی طرف تبدیلی واقع ہو.پس آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا معبود زمانہ گزشتہ میں بھی ایک خدا ہی تھا اور اب بھی وہی ہے اور آئندہ بھی وہی ایک ہو گا.برخلاف مشرکین کی یہ حالت ہے.لَکُمْ دِیْنُکُمْ.تمہارے لئے پھل اور نتیجہ ہے اس کا جو کچھ کہ تم عبادت کرتے ہو.شرک ایک قبیح رجس ہے.پس پہلے کفّار کے حصّے کا ذکر کیا گیا کہ کفّار کو غیر اﷲ کی پرستش کا حصّہ مل کر رہے گا.توحید سے انحراف اور بُتوں کی پرستش کا انجام تم پر ظاہر ہو گا.اور جگہ بھی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وہ لوگ جن کے دِلوں میں بیماری ہے.ان کیرِجس پر اَور رِجس بڑھتا ہے.اور وہ حالتِ کفر میں ہی مر جاتے ہیں.اور میرے لئے میرا دین.اس سورۃشریف کا اوّل اس کے آخر کے مطابق ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہا میں واحد خدا کی پرستش کرتا ہوں اور تمہارے معبودوں کی پرستش نہ کی ہے.نہ کرتا ہوں اور نہ کروں گا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ توحید اور اخلاص کا دین مجھے ہی عطا ہوا.اور ایسا ہی تمہیں تمہارا حساب بھُگتنا پڑے گا.اور مجھے اپنا.پس میری نصرت کی جائے گی اور میری عزّت کی جائے گی اور میں تمہارے شہروں کو فتح کروں گا اور اس کے ساتھ دوسرے شہروں کو بھی فتح کروں گا.اور لوت اﷲ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے اور تم میری مخالفت میں اپنے مال بھی خرچ کرو گے اور پھر بھی مغلوب رہو گے پس یہ دونوں دین بلحاظ اصول اور فروع اور نتیجہ کے یکساں نہیں رہیں گے.پس اس سورۃ شریف میں

Page 515

کفر سے پوری بیزاری ظاہر کی گئی ہے.قُلْ.کہہ دے.بول.یہ خطاب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہے.اور آپؐ کی طفیل تمام مسلمانوں کو ہے.کہ ایسے کفّار کو جو کفر پر ایسے سچّے ہیں کہ نہ پہلے کبھی انہوں نے خالص اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی.اور نہ آئندہ ان سے ایسی امید ہو سکتی ہے.ان کو کہہ دو.کہ تم جو اپنے کفر پر ایسے پکّے ہو اور مسلمانوں کو بُرا سمجھتے ہو.اس سے حق اور باطل میں تمیز ہو جائے گی.کہ تم اپنے دین پر پکّے رہو.اور ہم اپنے دین پر پکّے ہیں.نتیجہ خود طاہر کر دیگا.کہ کون سچّا اور منجانب اﷲ ہے.اور کون جھوٹا اور شیطانی راہ پر ہے.چونکہ اس سورۃ شریف میں کفّار کو مخاطب کیا گیا ہے.اور ان کے مذہب کیف بُطلان کے واسطے ایک زبردست دلیل پیس کی گئی ہے.اسی واسطے یہ کلام بطور ایک چیلنج کے خدا تعالیف نے اپنے رھول کو القاء کیا اور اسی واسطے اس کے شروع میں لفظ قُطْ آیا ہے.تفاسیر میں قُلْ پر بہت بحث کی گئی ہے.خلاصہ اس تمام تحریر کا یہ ہے.کہ یہ سورۃ صریح الفاظ میں کفار کے ساتھ بے زاری کا اظہار کرتی ہے.اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے ساتھ اس نیت سے کہ وہ سمجھ جاویں.بہت نرمی کا سلوک کرتے تھے.اور انکی سخت سے سخت ایذاء رسانی پر صبر کرتے تھے.اور کسی کے ساتھ ذرا سی سخت کلامی بھی پسند نہ کرتے تھے.اس واسطے یہ کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا.جس کا پہنچانا آپ پر فرض ہوا.اور اس طرح آپؐ نے صاف الفاظ میں صراحت کے ساتھ ان پر ظاہر کر دیا.کہ ایسے کفّار کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہ ہوا.نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے.یَآ اَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ.سنو.اے منکرو!اس میں تین حروف ایک جگہ جمع کئے گئے ہیں.یَآ(حرف نِدا) اَیُّ ( تخصیص کے لئے ہے)اور ھنا ( تنبیہ کا حرف ہے خبردار کرنے کے لئے) جس سے ظاہر ہوتا ہے.کہ نہایت تاکید کے ساتھ اچھی طرح منکروں کے کان کھول کھول کر ان کو یہ پیشگوئی سنائی گئی تھی.کہ تم کو تمہارے اس طریقہ کا بدلہ ملنے والا ہے.اور تم دیکھ لو گے کہ خداوند تعالیٰ توحید کے پرستاروں کو تمہارے مقابلہ میں کس طرح کامیابی عطا کرے گا.حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ یَا نداء النفس ہے اور انیُّ نداء القلب ہے اور ھَانداء الرُّووح ہے.گویا نفس رُوح اور قلب ہرسہ کو مخاطب کیا گیا ہے.بعض نے لکھا ہے.کہ یَآ حرف نداء غائب کے واسطے ہے.اور اَیُّ حرف نداء حاضر کے واسطے اور ھَاتنبیہ کے واسطے.کیا حاضر کیا غائب، سب کو نہایت تاکید کے ساتھ سمخاطب کیا گیا ہے.انبیاء کی دعوت ہمیشہ اسی طرح نہایت تاکید کے ساتھ بار بار لوگوں کو بُلا کر اور مخاطب کر کے پہنچائی

Page 516

جاتی ہے چنانچہ اس کی نظیر خود اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے واسطے پیدا کر دی ہے.خدا کا مسیح کس قوّت اور زور کے ساتھ دنیاکی تمام قوموں کے درمیان توحید کا وعظ کر رہا ہے.نہ ایک دفعہ کہہ کر وہ خاموش ہو جاتا ہے.بلکہ بار بار ہر ایک ذریعہسے خدا کا پیغام دنیا کو پہنچاتا ہے.نہ صرف ایک زبان میں بلکہ اردو، عربی،فارسی اور انگریزی، پشتو وغیرہ زبانوں میں اس کی تبلیع کا آوازہ دنیا کے چار کونوں تک پہنچ رہا ہے.رسالوں میں.اخباروں میں.اشتہاروں میں.زبانی تقریروں.قلمی تحریروں میں غرض کوئی ذریعہ تبلیع کا اٹھا نہیں رکھا گیا.اور آج دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں.جہاں کے لوگ اس مسیح کے نام سے اور اس کے دعوے سے ناواقف ہوں.خدا کے برگزیدوں کی ہمیشہ سے یہ ہی سنت ہے کہ وہ کھول کھو ل کر اور پھاڑ پھاڑ کر خدا کا حکم دنیا جہان کو پہنچادیتے ہیں اور اس کے حکم کے پہنچانے میں نہ وہ کسی دشمن کی دشمنی کی پرواہ کرے اور نہ کسی مخالف کی مخالفت سے کبھی ڈرتے ہیں.نادان ان کے مقابلہ میں اُٹٍتے اور جوش دکھاتے ہیں.پھر تھدک کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر ناامید ہو کر ناکام مر جاتے ہیں.پر وہ خدا کے بندے ہر روز اپنا قدم آگے بڑھاتے ہیں اور خدا کی تائید سے کامیاب ہو کر رہتے ہیں.شانِ نزول: یہ سورہ شریف بقول ابن مسعود و حس و عکرمہ مکّی ہے.اس زمانہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہنوز مکّہ معظمہ میں قیام رکھتے تھے اس سورہ کی پیشین گوئی سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ایسے وقت میں نازل ہوئی تھی.جب کے کفّار اپنے زور پر تھے.اور اپنے بُتوں کی حمایت اور ان کی پرستش میں بڑے یقین کے ساتھ مصروف تھے اور گمان کرتے تھے کہ اسلامی سلسلہ ایک چند روزہ بات ہے جو جدلی ہم لوگ اپنی قوت و زور کے ساتھ نیست و نابود کر دیں گے.اور آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوٰی نبوّت کی اصل کیفیت نہ سمجھ کر ان میں سے چند ادمی جیسا کہ ابوجہل.عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ.اَسْوَد بن عبدیغوث وغیرہ نے آپؐ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمارے بُتوں کی مذمت کرنا اور ان کو بُرائی سے یاد کرنا چھوڑ دو.اور اس کے عوص میں ہم آپ کو اس قدر مال دیں گے کہ مکّہ میں آپ سے زیادہ بڑا کوئی مالدار نہ ہو وے.یا اگر آپ چاہیں تو ہمارے قبائل میں سے سب سے زیادہ خوبصورت عورت جو آپ کو پسندہو آپ لے لیں اور اگر آپ کو ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات پسند نہ ہو تو پھر تیسری بات یہ ہے.کہ آپ ہمارے ساتھ اس طرح سے صلح کر لیں کہ ایک سال ہمارے بُتوں کی پرستش کریں تو پھر دوسرے سال ہم آپ کے اﷲ کی عبادت کریں گے.اس طرح برابر تقسیم ہوتی رہے گی اور کسی کو شکایت کا موقعہ نہ رہے گا.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ لوگ کیسے جاہل ہیں کہ نہیں سمجھتے کہ میں کس خوبیوں سے بھرے

Page 517

ہوئے اسلام کی طرف ان کو بلاتا ہوں اور کس قادر توانا حیّ و قیوّم معبود حقیقی کے قُرب کے حصول کا ذریعہ ان کے آگے پیش کرتا ہوں اور کیسی دائمی خوشی اور ابدی راحت کا تحفہ ان کے واسطے تیار کرتا ہوں جس کے عوض یہ مجھے ناپائیدار مال اور عورت کے چند روزہ حُسن کا لالچ دیتے ہیں.اور پتھر کے آگے سرجھکانے کو کہتے ہیں.جو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑے اور بنائے ہیں.چونکہ آپ کو ان لوگوں کی خیر خواہی کے واسطے بڑا درد تھا.جس کو خدائے علیم نے ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے کہ فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ.(الشعراء:۴) کیا تو اس غم میں کہ یہ ایمان نہیں لاتے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا.آپؐ نے کفّار کے ایسے جاہلانہ سوال پر درد مند ہو کر یہی بہتر سمجھا کہ اس کے جواب کے واسطے اپنے معبودِ حقیقی کی طرف توجہ کریں اور یہی طریقہ ہمیشہ سے انبیاء کے حصّہ میں آیا ہے.چنانچہ آپؐ کی توجہ کے بعد خدا تعالیٰ سے کفّار کے جواب میں یہ سورۃ شریف نازل ہوئی جس سے کفّار کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں.اس قسم کے صلح کے شرائط عمومًا کفّار انبیاء کے سامنے بہ سبب اپنی جہالت کے پیش کیا کرتے ہیں.چنانچہ اس زمانہ میں بھی خدا کے مُرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مخالفوں نے یہ بات کہی کہ ان کے اِتّقاء اور علم اور عمل میں ہم کو کوئی شک نہیں.بے شک یہ ولی اﷲ ہیں اور ہم ان کو ماننے کے واسطے تیار ہیں.صرف مسیح ہونے کا دعوٰی نہ کریں اور بس.تعجب ہے کہ ان لوگوں کی عقل پر کیسے پتھر پڑ گئے.کیا وہ شخص جو متّقی اور عالم اور ولی اﷲ مانا جا سکتا ہے.اس کی نسبت یہ کلمہ بھی کسی عقل کی رُو سے کہنا جائز ہو سکتا ہے کہ اس نے دعوٰی نبوّت اور مسیحیت کا از خود کر دیا ہے.اور خدا پر افتراء باندھا ہے.کیا مفتری علی اﷲ متّقی اور ولی اﷲ ہو سکتا ہے.ہاں کفّار کے ساتھ ایک اور صورت صلح کی ہو سکتی ہے.اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی کفّار کے ساتھ کی تھی.جس کی شرط یہ تھی.ں کہ کفّار مسلمانوں پر حملہ نہ کریں اور نہ اُن لوگوں کی امداد کریں.جو مسلمانوں پر ناجائز حملہ کرتے رہتے ہیں.اور ایسے ہی مسلمان نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف دیں گے.اور نہ ان کے تکلیف دہندوں کی کوئی حمایت کرے گا بلکہ ہر طرح سے ان کے بچاؤ کی کوشش کریں گے.اسی رنگ میں صلح حضرت مسیح موعودؑنے بھی مخالف عیسائیوں، آریوں، ہندؤوں اور دیگر اقواک کے سامنے پیس کی تھی.کہ چند سالوں تک جو معین کئے جاویں.یہ قومیں مسلمانوں کے خلاف کوئی کتاب نئی یا پرانی شائع نہ کریں اور ایسا ہی مسلمان اس عرصہ میں کوئی کتاب اون مذاہب کی تردید میں نہ لکھیں گے ہاں ہر ایک مذہب کے عالم کو یہ اختیار ہو گا کہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرتے رہیں.کوئی کتاب لکھے جس میں یہ

Page 518

دکھائے کہ اس مذہب پر چلنے سے کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے مذہب کا کچھ ذکر نہ کریں.مذہبی جنگوں کے خاتمہ کے واسطے اور آئے دن کے جھگڑوں اور تنازعوں کے مٹانے کے لئے یہ نہایت ہی احسن طریقہ تھا مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس طرف توجہ نہ کی.غرض اس قسم کی صلح تو انبیاء کی سنّت کے مطابق ہے.لیکن یہ بات کہ مداہنہ کے ط۹ور پر اور منافقت سے کچھ تم ہمارے عقائد کو مان لو اور کچھ ہم تمہارے عقائد کو مان لیں.ایسا طریقہ خد اکے سچے رسول کبھی اختیار نہیں کر سکتے.نسخ: بعض لوگ اس سورۃ شریف کے یہ معنے سمجھ کر اس کو منسوخ سمجھتے ہیں کہ کفّار کوان کے دین پر رہنے کی اس میں اجازت دی گئی ہے.کہ وہ بیشک اپنے دین پر رہیں اور مسلمان ان کے ساتھ کوئی تعرض نہیں رکھیں گے.لیکن جب جہاد کے متعلق آیات نازل ہوئیں.تو پھر یہ سورۃ منسوخ ہو گئی.یہ بات بالکل غلط ہے.قرآن شریف کی کوئی سروت اور سورت کا کوئی حصّہ منسوخ نہیں ہے سب کا سب ہمیشہ کے واسطے بنی نوع کے عمل کے لئے عمل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے واسطے ہے.قیامت تک قرآن شریف کا ایک نقطہ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا.اصل بات یہ ہے.کہ مذہب اسلام میں دینی اختلاف کی وجہ سے نہ کوئی لڑائی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کی اور نہ آپ کے بعد کبھی کسی کو اجازت ہے.کہ دینی اختلاف کی وجہ سے کسی کو قتل کرے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و الہٖ وسلم کے زمانہ میں کفار نے جب مسلمانوں کو سخت دُکھ دیا اور طرح طرح کے ایزاء کے ساتھ پہلے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اور بڑی بڑی فوجیں لے کر ان پر چڑھائیاں کیں تو بہت سے صبر اور تحمّل کے بعد جب وہ کسی طرح بھی باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ایسے شریروں سے اپنا بچاؤ کریں اور ان کو شرارت کی سزا دیں.جہاد کے واسطے جو کچھ حکم تھا.یہی تھا.اور اس زمانہ میں بہ سبب اس کے کہ مذہب کی خاطر مسلمان کسی ملک میں دُکھ نہیں دئے جاتے.خود ان کی بھی ضرورت نہیں رہی.سورۃ کافرون میں تو خود جہاد کے کرنے یا نہ کرنے کاکوئی تذکرہ بھی نہیں.لیکن اگر بہر حال یہ سمجھا ہی جاوے کہ اس سورۃ شریف میں جہاد کے متعلق کوئی حکم ہے تو وہ جہاد کے جواز کا ہو سکتا ہے.نہ کہ اس کے نسخ کا.کیونکہ اس سورۃ میں مخالفوں کو ایک چیلنج دیا گیا ہے ۱؎ کہ تم اپنے دین کے ساتھ زور آزمائی کرو.اور ہم اپنے دین کی قوّت کے ساتھ تمہارا مقابلہ کرتے ہیں.پھر دیکھو کہ خدا کس کو کامیاب کرتا ہے.اور یاد رکھو کہ یہ کامیابی بہر حال اسلام کے واسطے ہے.پس یہ سورت کسی حالت میں منسوخ نہیں اور نہ کوئی اَور حصہ قرآن شریف کا منسوخ ہوا یا ہو سکتا ہے.۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍نومبر ۱۹۱۲ء

Page 519

مقامِ نزول: جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ یہ سورۃ شریف مکّی ہے.مگر ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ مدنی ہے ایسا ہی بعض دوسری سورتوں کے متعلق بھی بظاہر اس قسم کا اختلاف روایات میں معلوم ہوتا ہے.مگر ممکن ہے کہ بعض سورتیں اور آیتیں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نہ ایک بار بلکہ کئی بار نازل ہوئی ہوں.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعودؑ کے حالات میں دیکھتے ہیں کہ ایک پیشین کوئی وحی الہٰی میں ایک دفعہ نازل ہو کر مثلاً کتاب براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے لیکن جب اس کے پورا ہونے کا وقت آیا تو نزولِ اوّل کے بیس پچیس سال بعد پھر وہی الفاظ الہامِ الہٰی میں وارد ہوئے.دِیْن: جزا و سزا کے معنے میں بھی آتا ہے.اور اس کا یہ مطلب ہے کہ تم لوگوں نے جس طریقہ کو اختیار کیا ہے اس کا بدلہ تم کو بہر حال مل کر رہے گا جو طریقہ ہم نے اختیار کر لیا ہے اس کا بدلہ خدا ہم کو ضرور دے گا.اَلْکَفِرُوْن: اس جگہ اگرچہ اوّل مخاطب وہی کفّار اور ان کے ساتھی تھے.جنہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام تھا.اور اس وجہ سے اس سورۃ شریف کے نزول کے اصل محرّک وہی تھے.لیکن ان کے بعد تمام دنیا کے کفّار جو مسلمانوں کے ساتھ اس قسم کا سلوک کریں.اس سورۃ میں مخاطب ہیں.قاعدہ ہے.کہ زمانہ نزولِ انبیاء میں بعض منکریں ایسے سخت دلد ہو جاتے ہیں.کہ کوئی نصیحت ان کے واسطے کارگر نہیں ہو سکتی.اور ہر ایک نشانِ الہٰی جو دوسروں کے واسطے موجب ازدیادِ ایمان ہوتا ہے.ان کے لئے بجزازدیادِ کفر اور کچھ نہیں ہو سکتا.ایسے کفار کے حق میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے.(البقرہ:۷)وہ حالتِ کفر میں ایسے غرق ہیں کہ آنیوالے عذابوں سے تُو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے.سب برابر ہے.وہ کبھی ایمان نہیں لاویں گے.اور فرمایا ہے.(المائدہ:۶۵) تیرے ربّ کی طرف سے جو تجھ پر نازل ہوا ہے.یہ ان میں سے بہتوں کی سر کشی اور کفر کو اور بھی بڑھا دے گا.ایسے کافروں کو کہا گیا ہے کہ (البقرہ:۱۴۰) ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے.اور ایسے ہی مکذّبوں کے متعلق فرمایا. (یونس: ۴۲) ان کو کہہ دو کہ میرے عمل میرے لئے ہیں اور تمہارے عمل تمہارے لئے ہیں.تم میری کارکردگی کا ثواب نہیں پا سکتے اور مَیں تمہاری کاروائیوں سے بَری ہوں.حفاظتِ قرآن: اس سورۃ شریف کے الفاظ کو اپنے قرآن شریف پر بعور دیکھتے ہوئے اس کی طرزِ تحریر میں ایک خاص بات مجھے نظر آئی اور وہ یہ ہے کہ اس میں

Page 520

عٰبِدُوْنَ کا لفظ دو جگہ اس طرح آیا ہے کہ ع کے اوپر کھڑا الف لکھا گیا ہے مگر تیسری جگہ عابد کا لفظ ع کے بعد الف کے ساتھ آیا ہے.حالانکہ دونوں الفاظ تمام تحریر میں ایک ہی طرح آسکتے ہیں.لیکن میں نے بہت سے مختلف چھاپوں کے قرآن شریف کھول کر دیکھے اور سب میں مذکورہ بالا طرزِ تحریر پایا.……قرآن شریف کی حفاظت کے واسطے یہ بھی ایک دلیل ہے کہ جب سے حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن شریف لکھا گیا اور جیسا کہ لکھا گیا.اس میں کوئی تغیر و تبدّل نہ ہوا اور نہ ہونے کی کوئی گنجائش تھی.برخلاف اس کے ہم انجیل اور تورات کو دیکھتے ہیں.کہ اوّل تو ان کی اصلیت کا کوئی پتہ ہی نہیں ملتا.کہ اصل نسخے کیسے تھے.اور کہاں غائب ہوئے.اور جو کچھ نقلی یا فرضی کتابیں موجود ہیں.ان کے متعلق بھی آج تک کمی؍تیاں ہو رہی ہیں.جو ان امور کی تحقیقات کرتی ہیں.کہ ان کتابوں میں سے کونسی عبارتیں ہنوز نکال دینے کے قابل ہیں.جس قدر کتابیں اس وقت دنیا میں الہامی مانی گئی ہیں.ان میں سے ایک بھی اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہں ہے.سوائے قرآن شریف کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے سوا اور کسی کتاب کی حفاظت کا ذمّہ باری تعالیٰ نے نہیں لیا اور اس واسطے دوسری کتابیں عوام کے دستبردسے محفوظ نہیں رہ سکیں.خواصِ سُورت: زید بن ارقم رفعاً کہتے ہیں کہ جس شخص نے اﷲ تعالیٰ کی ملاقات دو سورتیں ساتھ لے کر کی.اس سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا.وہ دو سورتیں کافرون اور قُلْ ھُوَاﷲُ اَحَدٌ ہیں.اس حدیث شریف کا مطلب ظاہر ہے کہ سورۃ کافرون میں کفّار اور ان کے کفر سے پوری بیزاری اور بے تعلّقی ظاہر کی گئی ہے.اور سورۃ اخلاص میں خدا تعالیٰ کی توحید کا پورے طور پر اقرار کیا گیا ہے بدی کا ترک اور نیکی کا حصول.؍سیطان سے دوری اور خدا کا قُرب.یہی دو باتیں ہیں جو کسی مذہب کا آکری نتیجہ ہو سکتی ہیں.جب یہ دونوں باتیں اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کسی کو حاصل ہو جاویں.تو وہ اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ گیا.اور اس کے واسطے کوئی حساب باقی نہیں رہا.ایک روایت میں ابنِ عمر سے منقول ہے.کہ یہ سورۃربع قرآن کے برابر ہے.کیا معنے یہ قرآن شریف کا چوتھا حصّہ ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ پاک کے مضامین کا چہارم حصّہ کفّار اور ان کے کام سے بیزاری اور خداوند کی خالص عبادت کے بیان پر مشتمل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍نومبر ۱۹۱۲ء)

Page 521

دیکھو.حصرت نبی کریمؐ کی ابتدائی تیرہ سالہ مکّہ کی زندگی کیسی مشکلات اور مصائب کی زندگی ہے مگر باایں کہ آپؐ بالکل تنہا اور کمزور ہیں.خدا تعالیٰ آپؐ کی زبان سے اجل مکّہ کے بڑے بڑے اکابر قریس اور سردارانِ قوم کو جو اپنے برابر کسی کو دنیا میں سمجھتے ہی نہ تھے.یوں خطاب کراتا ہے.قُلْ یَآ اَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ اس سے معلوم ہوتا ہے.کہ اس کمزوری کی حالت میں بھی خدائی تائید اور نصرت کی وجہ سے جو آپؐ کے شامل حال تھی اور اس کامل اور سچّے علم کی وجہ سے جو آپؐ کو خدا کے وعدوں پر تھا.آپ میں ایسی قوت اور غیرت و حمیّت موجود تھی کہ آپ تبلیغِ احکامِ الہٰی میں ان کے سامنے ہرگز ہرگز ذلیل نہ تھے.بلکہ آپ کے ساتھ خدا کی خاص نصرت اور حق کا رُعب اور جلال ہوا کرتا تھا.پس اس سے مسلمانوں کو یہ سبق لینا چاہیئے کہ حق کے پُہنچانے میں ہرگز ہرگز کمزوری نہ دکھائیں اور دینی معاملات میں ایک خاص غیرت اور جوش اور صداقت کے پُہنچانے میں سچی حمیّت رکھیں.کافر کا لفظ عرب کے محاورے میں ایسا نہیں تھا جیسا کہ ہمارے ملک میں کسی کو کافر کہنا گویا آگ لگا دینا ہے.وہ لوگ چونکہ اہلِ زبان تھے.کوب جانتے تھے.کہ کسی کی بات کو نہ ماننے والا اس کا کافر ہوتا ہے.اور ہم چونکہ آپ کی بات نہیں مانتے اس واسطے ٗآپ ہمیں اس رنگ میں خطاب کرتے ہیں.قرآن شریف میں خود مسلمانوں کی صفت بھی کفر بیان ہوئی ہے جہاں فرمایا ہے.یَکْفُرُ بِالطَّاغُوْتِ (البقرہ: ۲۴۷)معلوم ہوا کہ کفر مسلمان کی بھی ایک صفت ہے.مگر آجکل ہمارے ملک میں غلط سے غلط بلکہ خطرناک سے خطرناک استعمال میں آیا ہے.کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ دست و گریبان ہوا.اصل میں کافر کا لفظ دل دکھانے کے واسطے نہیں تھا.بلکہ یہ تو ایک واقعہ کا اظہار و بیان تھا.وہ لوگ تو اس لفظ اور خطاب کو خوشی سے قبول کرتے تھے.۲..کے معنے ہوئے کہ وَے اے کافر و ہوشیار ہو کر اور توجہ سے میری بات کو سُن لو.۳..میں اُن بتوں کی، ان خیالات کیگ اُن رسوم و رواج کی اور ان ظنّوں کی فرماں برداری نہیں کرتا.جن کی تم کرتے ہو.ان لوگوں میں اکثر لوگ تو ایسے ہی تھے جو رسوم و رواج.عادات اور بُتوں کی اور ظنّوں اور وہموں کی پُوجا میں غرق تھے.ہاں بعض ایسے بھی تھے جو دہریہ تھے.مگرزیادہ حصّہ ان میں سے اوّل الذکر لوگوں میں سے تھا.خدا کو بُرا خداجانتے تھے.اورخدا سے انکار نہ کرتے تھے.پس ایسے بھی کافر تھے.جو کدا کو بھی مانتے تھے اور بُتوں سے بھی الگ تھے.رسم و رواج میں بھی نہ پڑے تھے.آنحضرت کے پاس آنے

Page 522

کو اور آپ کی فرماں برداری کرنے میں اپنی سرداری کی ہتک جانتے تھے.اور ان کے واسطے ان کا کبر اور بڑائی ہی حجاب اور باعث کفر ہو رہی تھی.۴..اور نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کرتے نظر آتے ہو.۵..اور نہ ہی مَیں کبھی تمہاری طرزِ عبادت میں آؤں گا.۶..اور نہ ہی تم اپنے رسوم و رواج.جتھے اور خیالات ،اپنے بُتوں اور مہنتوں کو چھوڑتے نظر آتے ہو تو اچھا.پھر ہمارا تمہارا یوں فیصلہ ہو گا کہ ۷..میرے اعمال اور عقائد کا نتیجہ مَیں پاؤں گا اور تمہارے بدکردار اور عقائدب فاسدہ کی سزا تم کو ملے گی.پھر اُس وقت پتہ لگ جاوے گا.کہ کون صادق اور کون کاذب ہے.اس کا جو نتیجہ نکلا.وہ دنیا جانتی ہے.ہر ایک نے سُن لیا ہو گا کہ آنحضرت ؐ دنیا سے کس حالت میں اٹھائے گئے اور آپؐ کے اتباع کو دنیا میں کیا کچھ اعزاز اور کامیابی نصیب ہوئی اور آپؐ کے وہ دشمن کہاں گئے اور ان کا کیا حشر ہوا.کسی کو ان کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں.بس یہی نمونہ اور مابہ الامتیاز ہمیشہ کے واسطے صادق اور کاذب میں خد کی طرف سے مقرر ہے.( الحکم ۱۸؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ ۱۵) : یہ آیت منسوخ نہیں نہ اس میں مدافعت ہے بلکہ فرمایا کہ تمہارے اعمال کی جزا تمہیں اور میرے کا نیک نتیجہ مجھے ملے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۸)

Page 523

سُوْرَۃَ النَّصْرِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲تا ۴.. ..جب اﷲ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور مکّہ فتح ہو گیا.اور تُو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دینِ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.تو خدا تعالیٰ کی تسبیح کر اور اس کی تعریف کر اور اس سے مغفرت طلب کر.وہ بہت ہی رجوع برحمت کرنے والا ہے.یہ سورۃ مدنی ہے.یعنی مدینہ منوّرہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں بسم اﷲ شریف کے بعد تین آیتیں ہیں اور اُنیس کلمے اور اُناسی حروف ہیں. کے معنے ہیں.جب کہ.جب یہ لفظ ماضی پر آوے تو معنے استقبال کے دیتا ہے.اس واسطے  کے معنے یہ بھی کئے گئے ہیں’’ کہ جب آوے گی‘‘ کیونکہ یہ سورۃ بطور ایک پیشگوئی کے نازل ہوئی تھی کہ اس وقت تو اسلام تنگی اور تکالیف کی حالت میں ہے اور سب صحابہ مہاجرین کے دل میں یہ خیال ہے کہ وہ اپنے وطنوں میں سے نکالے گئے اور ان کی تعداد قلیل ہے اور ان کے دشمن شہر مکّہ میں آرام سے ہیں.اور اُن پر ہنسی کرتے ہیں.اور طعن کرتے ہیں.کہ تم لوگوں نے اسلام میں داخل ہو کر کیا فائدہ حاصل کر لیا.دیکھو ہم نے تم کو شہر مکّہ سے بھی نکال دیا ہے.لیکن عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ ان کی ساری شیخی کرکری ہو جاوے گی اور ان کے متکبر سب ہلاک ہو جائیں گے.اور مکّہ کا باعظمت گھر بُتوں سے پاک کیا جاوے گا اور اس کے مناروں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا نعرہ بلند کیا جاوے گا اور کمزور اور ناواقف لوگ جو اس وقت بہ سبب حجاب کے دینِ الہٰی میں داخل نہیں ہیں.ان کے واسطے وقت ا جائے گا کہ تمام روکیں دور ہو کر وہ ایک سیلاب کی طرح اسلام کی طرف دور پریں گے اور فوج در فوج لوگ اسلام میں

Page 524

داخل ہونے لگ جائیں گے.اگر  کے معنے استقبال کے نہ لئے جاویں اور اس کے یہ معنے کئے جاویں کہ’’ جب فتح و نصرت الہٰی ا گئی‘‘ تب بھی یہ درست ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی کے جو پیسگوئیاں نازل ہوتی ہیں اور ان میں خدا اپنے بندے کی نصرت اور فتح کی خوشخبری دیتا ہے.چونکہ وہ بات یقینی ہوتی ہے اور ضرور ہو جانے والی ہے.کویئی اس کو ٹال نہیں سکتا ہے اور آسمان پر مقدّر ہو چکا ہے.کہ یہ کام اس طرح سے ہو گا.اس واسطے اس کو ایسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے.کہ گویا یہ کام ہو گیا ہے.کیونکہ کوئی کام زمین پر نہیں ہو سکتاجب تک کہ پہلے آسمان پر نہ ہو لے.اس کی مثال دنیوی محاورات میں بسی موجود ہے.جب کسی کو یقین ہو جاوے کہ اس مقدمہ میں تمام امور میری مرضی کے مطابق طے ہو جائیں گے اور مَیں ضرور فتح پالوں گا تو وہ کہتا ہے کہ بس مَیں نے مقدمہ فتح کر لیا.حالانکہ ہنوز مقدمہ زیر بحث ہوتا ہے اور عدالت نے فیصلہ نہیں سنایا ہوتا.لیکن بہ سبب یقین کے وہ ایسا ہی کہتا ہے.کہ مقدمہ فتح ہو گیا.اس قسم کے الہامات اور پیشگوئیوں کی تازہ مثالیں خود اس زمانہ میں موجود ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بسا اوقات ایسے الہامات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جو کہ اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتے ہیں.مثلاً ۱۴؍اپریل ۱۹۰۶ء کو حضرت مسیح موعودؑ پر خدا تعالیٰ کی وحی بدیں الفاظ نازل ہوئی کہ ’’زلزلہ آیا زلزلہ آیا زلزلہ آیا‘‘ اور یہ خبر اس زلزلہ کے متعلق تھی جو ۱۸.مئی ۱۹۰۶ء کو واقع ہو ا.لیکن اس کا آنا مقدّر ہو چکا تھا.اس واسطے ایک ماہ پہلے ہی کہا گیا کہ زلزلہ آیا.زلزلہ آیا. کے معنے ہیں.آیا.آمد.اس لفظ میں قابلِ توجہ یہ بات ہے کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ فتح اور نصرت تیرے پاس آئی جسے خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کی تائید کے واسطے عین ضرورت کے وقت میں بھیجا.: اﷲ تعالیٰ کی نصرت.اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مدد.: وہ خاص فتح جس کے تم منتظر تھے.اور جس کے متعلق پہلے سے پیشگوئی کی جا چکی تھی.اور تورات اور انجیل میں جس کا ذکر کیا گیا تھا.یعنی فتح مکّہ.وہی مکّہ جس میں سے جان بجا کر بھاگنا پرا تھا.اور خفیہ طور پر رات کے وقت ہجرت کرنی پڑی تھی.اسی کے فتح کے دن آتے ہیں.اور مظفر و منصور ہو کر اس میں داخل ہونے کے ایام قریب ہیں.: اور تُو نے دیکھ لیا.تو نے جان لیا.تُو نے معلوم کر لیا.: لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی رسول دنیا کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کا ساتھ دینے والے لوگ تین قسم کے ہوتے

Page 525

ہیں.اوّل اور سب سے اعلیٰ طبقہ کے لوگ وہ ہوتے ہیں.جو کسی معجزہ.نشانگ کرامت یا خارقب عاست کے دیکھنے کے محتاج نہیں ہوتے.وہ اس نبی کی شکل دیکھتے ہی اور اس کا دعوٰی سنتے ہی اٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہہ اٹھتے ہیں.ان کو نبی کے ساتھ ایک ازلی مناسبت حاصل ہوتی ہے اورو ہ فورًا اس پر ایمان لاتے ہیں جیسا کہ حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اﷲ عنہ تھے.آپ سفر میں تجارت کے واسطے باہر گئے ہوئے تھے.اور عرب کو واپس آتے ہوئے ہنوز شہر سے دُور تھے.راستہ میں ان کو ایک آدمی ملا.اس سے بوچھا کہ ؟شہر کی کوئی تازہ خبر پہنچاؤ.اس نے کہا.کہ تازہ خبر یہ ہے کہ محمدؐ نے نبوّت کا دعوٰی کیا ہے تو بے شک سچّا دعوٰی کیا ہے.اسی جگہ ایمان لائے اور صدیق اکبر کہلائے رضی اﷲ عنہ.یہ اعلیٰ طبقہ کے آدمیوں کا نمونہ ہے.اس سے کم درجہ کے لوگ وہ ہیں کہ جو کچھ تھوڑ ابہت دلائل سننے اور نشان دیکھنے کے بعد ایمان لے آتے ہیں.اور مخالفت کی طرف نہیں دوڑتے.اور رفتہ رفتہ محبت اور اخلاص میں بہت ترقی کر جاتے ہیں.اس کے بعد تیسرے درجہ کے لوگ وہ ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نازل ہوتے ہیں.اور ہر طرف سے فتوحات اور نصرت کے نشانات نمودار ہوتے ہیں، تو ان کے واسطے سوائے اس کے چارہ نہیں ہوتا کہ وہ بھی مومنوں کے درمیان شامل ہو جائیں.اوّل اور دوم درجہ کے لوگوں کی خدا تعالیٰ نے بہت تعریف کی ہے.اور ان کو رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ (المائدہ:۱۲۰) کا خطاب دیا ہے.مگر تیسرے طبقہ کے لوگوں کا ذکر قرآن شریف میں صرف اتنا ہے کہ تو نے لوگوں کو دیکھا ہے.کیونکہ وہ عوام ہیں.کواص میں ان کا ذکر نہیں.پھر بھی خوس قسمت ہیں.کہ قرآن شریف میں ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا گیا.کہ وہ دین اﷲ میں داخل ہونے والے لوگ ہیں.اس زمانہ میں خدا کے فرستادہ رسول حضرت مہدی معہود کے پیرو انہیں تین قسم کے لوگوں میں مشتمل ہیں.بعض تو وہ اوّلین سابقین میں سے ہیں جو حصرت کے دعوٰی مسحائی سے بھی پہلے آپ کے ساتھ خلوص محبت رکھتے تھے.اور دنیا میں کوئی بات ایسی نہ ہوئی جو ان کے خلوص اور محبت کو ایک قدم پیچھے ہٹانے والی ہو.حصرت کا دعوٰی ان کے واسطے کوئی نئی بات نہ تھی.ہر ابتلاء کے وقت انہوں نے قدم آگے بڑھایا… ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ازل سے ایک فطرتی مناسبت اپنے رسول کے ساتھ عطا کی ہے کہ وہ اس سے علیحدہ رہ ہی نہیں سکتے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو کچھ کتابیں پڑھ کر اور کجھ نشانات دیکھ کر اور کجھ دیکھ بھال کر اس مقدّس سلسلہ میں داخل ہوئے اور دن رات انہوں نے اس میں ترقی کی اور

Page 526

خدا تعالیٰ کی اس نعمت کے شکر گزار ہوئے اور اپنے مال اس راہ میں خرچ کئے.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو طاعون یا زلزلے نے خوفزدہ کر کے اس طرف کھینچا.پھر بہر حال وہ بھی خوش قسمت ہیں.کیونکہ پاس شدوں کی فہرست میں ان کا نام درج ہو گیا.اور فیل شدوں کا نام تو کسی فہرست میں لکھا ہی نہیں جاتا سوائے ان فیل شدوں کے جو اپنے پرچوں میں شرارت کے ساتھ ناجائز باتیں لکھ دیتے ہیں تو کواہ مخواہ ممتحن کو ان کی رپورٹ کرنی پڑتی ہے کہ فلام امیدوار نے اپنے پرچہ میں ایسی شرارت کی ہے.پس وہ فقط فیل ہی نہیں ہوتے بلکہ آئندہ کے واسطے مدارس سے خارج کئے جاتے ہیں.اور سخت نامرادی کے گڑھے میں پھینکے جاتے ہیں.جہاں سوائے رونے اور دانت پیسنے کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا.: داخل ہوتے ہیں : اﷲ تعالیٰ کے دین میں : فوج در فوج.پہلے تو کوئی ایک آدھ مسلمان ہوتا تھا.جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں تشریف فرما تھاے.بعد میں جب ہجرت کر کے مدینہ منورّہ میں سکونت اختیار کی تو زیادہ تعداد ہونے لگی.لیکن پھر بھی ترقی زور کے ساتھ نہ تھی.یہاں تک کہ جب مکّہ فتح ہو گیا تو گروہوں کے گروہ اور جماعتوں کی جماعتیں دین الہٰی میں داخل ہونے لگیں.کیونکہ تمام مشکلات درمیان میں سے اٹھ گئی تھیں اور حجاب دور ہو چکے تھے.اور اکابر مجرم ہلاک ہو چکے تھے.: پس تسبیح کر.پس پاکی بیان کر.اَلتَسْبِیْحُ ھُوَ التَّطْھِیْرُ : تسبیح پاکیزگی اور طہارت کو کہتے ہیں.بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد خانہ کعبہ کی تطہیر ہے.کیونکہ کفّار نے اس میں بُت رکھے ہوئے تھے.اور فتح مکّہ کا یہ نتیجہ تھا کہ تمام بُت وہاں سے نکال دئے گئے اور اس کے گھر کو خدا تعالیٰ کی اس عبادت کے واسطے خاص کیا گیا.جس کے لئے حصرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیلؑ نے اپنے کاندھوں پر انیٹیں اٹھا کر اس کی بناء کی تھی.خدا تعالیٰ کے برگزید ے جب اپنے رب کے حضور میں کوئی اخلاص کا کام کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ اس کو ہرگز ضائع نہیں کرتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات نے جنگل بیابان کے درمیان جہاں ادمی چھوڑ چرند پرند بھی نہ ملتا تھا.جب خدا کے حکم کے مطابق اپنی بیوی اور بجہ کو چھوڑا اور بعد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے واسطے اس جگہ گھر بنایا تو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک شہر اباد کر دیا.اور بالآ خر جب کفّار نے اس گھر میں بُتوں کا ٹھکانہ بنا دیا تو محمدؐ جیسے پاک دل کو اس گھر کے مظہر کرنے کا جوش عطا کیا اور خدا تعالیف کے اس برگزیدہ نے وہ گھر ایسا پاک کیا کہ اس کے بعد کوئی مشرک نزدیک بھی نہیں جس سکتا.یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی

Page 527

نبوّت کی صداقت پر ایک بیّن اور زندہ دلیل ہے کہ آپؐ نے اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے میں ایسی کامیابی دیکھی کہ اس کی نظیر پہلے کسی نبی کے حالات میں پائی نہیں جاتی.بِحَمْدِ رَبِّکَ : ساتھ تعریف پروردگار اپنے کے.بہ ستائشِ پروردگارِ تُو.یعنی اپنے رب کی تعریف کر.کہ اس نے اپنی خاص ربوبیت کے ذریعہ سے تجھے ہر معاملہ میں کامیاب کیا اور فتہ و نصرت عطا کی ہے.یہ اسی قادر و توانا کا کام ہے.کہ ایک یتیم کو دنیا کا بادشاہ بنا وے اور ایسی فتہ عطا کرے جس کی نظیر دنیا بھر کی تاریک میں موجود نہ ہو.وَاسْتَْْفِرْہُ : اور اس سے مغفرت طلب کر.غَفَر کے معنے ہیں ڈھانکنا.دبانا.تمام انبیاء خدا تعالیٰ سے مغفرت مانگا کرتے تھے.اور مغفرت مانگنے کے یہ معنی ہیں.کہ انسان چونکہ کمزور ہے.اس کو معلوم نہیں کہ کونسا کام اس کے واسطے بہتری کا ہے.اور کون سا نقصان کا کام ہے.اور تکلیف کا راستہ ہے.پس مغفرت مانگا کرتے تھے.اور مغفرت مانگنے کے یہ معنی ہیں.کہ انسان چونکہ کمزور ہے.اس کو معلوم نہیں کہ کونسا کام اس کے واسطے بہتری کا ہے.اور کون سا نقصان کا کام ہے.اور تکلیف کا راستہ ہے.پس مغفرت ایک دعا ہے کہ انسان اپنے خدا سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ اس کے واسطے نیکی کے راہ پر چلنے کے اسباب مہیا کرے.جن سے وہ بدی سے بچا رہے.اور کسی طرح کے حرج اور تکلیف میں پڑنے سے محفوظ رہے.خدا تعالیٰ کے انعام کے حاصل کرنے کے واسطے مغفرت کا طلب کرنا نہایت ضروری ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍نومبر ۱۹۱۲ء) اِنَّہٗ کَانَا تَوّنابًا: تحقیق وہ توبہ قبول کرنے والا ہے.’’ہر آئینہ خدا ہست برحمت رجوعَ لنندہ‘‘ تو آب کے معنے ہیں.بہت توبہ کرنے والا.بہت رجوع کرنے والا.جبکہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع لاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے زیادہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے.اسی پر حدیث شریف میں آیا ہے.کہ اگر انسان چل کر خدا تعالیٰ کی طرف جاوے تو خدا اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہے.اس سورۃ شریف کا ایک نام تو النصرؔ ہے کیونکہ اس میں ایک نصرت کی بشارت ہے اور اس کا نام فتح ؔبھی ہے.کیونکہ ایک عظیم الشان فتح کی اس میں پیشگوئی درج ہے جس سے اسلامی سلطنت اور فتوحات کی بنیاد رکھی گئی تھی.یعنی فتح مکّہ.ان کے علاوہ ایک نام اس سورۃ سورۂ تودیعؔبھی ہے.کیونکہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ نُعِیْتُ اِلیَّ اور آپ نے سمجھ لیا ہمارا کام تکمیل کو پہنچ چکا ہے.اور اب وقت ا گیا ہے کہ ہم اپنے خدا کے پاس چلے جاویں.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ جو آپ کا کام تھا.وہ پورا ہو گیا ہے.اور اب آپ کو اس دارِفانی کو چھوڑنے کا وقت قریب آ گیا ہے تو آپ نے ظاہر فرمایا کہ اب میں عالمِ باقی میں انتقال کروں گا.اس بات کو سُن کر جناب فاطمہ رضی اﷲ

Page 528

عنہا رونے لگیں.آپ نے فرمایا.تم کیوں روتی ہو؟ اہلِبیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے تم ہی ملو گی! یہ سن کر وہ مسکرانے لگیں.اس میںک بھی ایک پیشگوئی تھی.چنانچہ اس کے بعد جلد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے.اور آپ کے بعد اہلِ بیت میں سب سے اوّل جس نے وفات پائی.وہ حضرت فاطمہ ہی تھیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا یہ عجیب نمونہ ہے کہ حضرت فاطمہؓ کو آنحضرتؐ کی وفات کی خبر نے رُلا دیا.لیکن پھر اپنی وفات کی خبر نے اس واسطے ہنسا دی کہ اس میں آنحضرت کے ساتھ دوسرے عالم میں ملاقات کی جلد صورت پیدا ہو گئی تھی.اپنے مرنے کا خوف نہیں.اور آنحضرتؐ لی ساتھ ملاقات کی خوشی غالب ہے.(اخبار بدر قادیان ۲۱؍نومبر ۱۹۱۲ء) فتح مکّہ:اس سورۃ شریف میں  میں لفظ فتح سے مراد فتح مکّہ ہے.فتہ مکّہ کو فتح الفتوح بھی کہتے ہیں.کیونکہ مکّہ کی تمام اسلامی فتوحات کی ابتداء تھی.فتہ مکّہ کا واقعہ اس طرح سے ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال انحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ منوّرہ میں ایک رؤیا دیکھا کہ آپؐ اور آپؐ کے صحابہؓ رصی اﷲ عنہم مکّہ کو گئے ہیں اور وہاں مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور سر منڈاتے ہیں اور بال کترواتے ہیں جیسا کہ مکّہ معظمہ سے احرام کھولنے کے بعد کیا جاتا ہے.چونکہ اس وقت مسلمان کفار کے ہاتھوں بہت تکلیف اٹھا رہے تھے اور مکّہ میں کفّار کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کو زیارت کعبۃ اﷲ کے حصول میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا.اس واسطے اس مبشر مکاشفۂ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کی سنّت ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا ایمان لا کر اور خدا تعالیٰ کی فرمودہ باتوں کے پورا ہو جانے پر یقین کر کے ان کے واسطے ہر طرح کے سامان مہیا کرتے ہیں.اسی طرح حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس رویا کی سچائی پر یقین کر کے سفرِ مکّہ کی تیار کی اور چودہ سو اصحاب کے ساتھ شہرِ مکّہ کی طرف آئے.بعض نادان لوگ ایسے موقعہ پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے کوشش کیوں کی جاتی ہے.وہ تو خدا کا وعدہ ہے بہر حال پورا ہو گا.ایسے اعتراضات تمام انبیاء پر کفّار نے کئے اور اس زمانہ کے بدقسمت لوگوں نے بھی یہ اعتراص خدا کے مُرسل حضرت مسیح موعودؑ پر کئے کہ مثلاً مقدّمہ کے وقت آپ نے پلیڈر کیوں کھڑا کیا.اور شادی کے موقعہ پر آپ نے خط و کتابت وغیرہ کوششوں میں کیوں حصّہ لیا.تعجب ہے کہ یہ اعتراض خود مسلمان اور دوسرے اہلِ کتاب عیسائی بھی کرتے ہیں.جن کی کتاب میں انبیاء کی اسی سنّت کی بہت سی نظیریں موجود ہیں.مسلمانوں کے واسطے تو خود یہی ایک قصّہ کافی ہے جو اس سورۃ شریف کے متعلق بیان ہوتا ہے اور عیسائیوں کے واسطے خود یسوع کی لائف میں بہت سے

Page 529

ایسے واقعات موجود ہیں.یسوع بچّہ ہی تھا کہ اس کی جان بچانے کے واسطے اسے خفیہ طور پر ملک مصر میں لے گئے اور پھر عین نبوّت کے زمانہ میں جب دشمنوں سے خوف بڑھا تو اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسی سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.پھر بزعم متی کی توریت کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے کود گدھی کا بچہ منگوایا تاکہ اس پر سوار ہو.غرض ایسے طریق پر اعتراض کرنا ایک جاہل متعصّب کا کام ہے.خود دنیا کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ جب مثلاً ایک بادشاہ ایک محل تیار کرنے کے واسطے حکم کرتا ہے تو خدّام اور ملازمین اس حکم کی تعمیل میں دل و جان سے مصروف ہو جاتے ہیں.اور وہ محل تیار ہو جاتا ہے.گو ظاہری نظر سے دیکھنے والا نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ محل فلاں معمار یا فلاں مزدور کا حکم ہے.ورنہ کسی کی کیا طاقت تھی کہ کوئی ایسا محل تیار کر دیتا.گو یہ مثال ادنیٰ درجہ کی ہے تاہم اس سے ایک فہیم سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح انجینئربادشاہ کا حکم پا کر یقین کر لیتا ہے کہ اب مجھے اس محل کے تیار کرنے کے لئے تمام سامان مہیا ہو جائیں گے.اور کوئی روکاوٹ باقی نہ رہے گی اور مَیں کامیاب ہو جاؤں گا.اور اس یقین کو ساتھ لے کر وہ کام شروع کر دیتا ہے.اور اس کے واسطے تمام اسباب بامراد ہونے کے بنتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح ایک مامور من اﷲ خدا کے حکم پر پورا یقین اور ایمان رکھ کر اس کو پورا کرنے کے درپے ہو جاتا ہے.اس کا خود پیشگوئی کے پورا کرنے میں مصروف ہو جانا اس کے اعلیٰ ایمان اور یقین اور صداقت کی ایک بیّن دلیل ہوتی ہے.اگرتواسے اس الہام کی سچائی پر یقین نہ ہوتا اور اُس میں کچھ وہم اور وسوسہ ہوتا تو وہ ہرگز اُس کی طرف متوجہ نہ ہوتا.کسی کو اﷲ تعالیٰ فرما دے کہ تجھے بچہ دیویں گے اور تیری نسل سے یہ ہو گا تو وہ شکر نہ کرے.الغرض آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم عازم بیت اﷲ شریف ہوئے لیکن جب آپ مقام حدیبیہ پر پہنچے جو مکّہ سے نوکوس کے فاصلہ پر ہے.تو آپ کو معلوم ہوا کہ کفّار مکّہ جنگ کے لئے آمادہ ہیں اور آپ کو زیارتِ کعبہ سے روکتے ہیں.آپ کی عادت تھی کہ باوجود مشرکین کی سختی کے ہمیشہ ان پر نرمی کرتے تھے.اور کبھی کسی معاملہ میں جس میں کسی کو ضرر ہو پیش دستی نہ فرماتے تھے.آپ نے حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو بمعہ دو اور اصحاب کے اہلِ مکّہ کی طرف بھیجا.کہ مَیں جنگ کے واسطے نہیں آیا.صرف زیارتِ کعبہ کے لئے آیا ہوں اور بعد زیارتِ کعبہ واپس مدینہ منورّہ کو چلا جاؤں گا.حضرت عثمان جب کفّار کے پاس پہنچے تو انہوں نے حضرت عثمانؓ کو کہا کہ تم کعبہ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو کر لو اور واپس چلے جاو.انہوں نے جواب دیا.میں اکیلا طواف نہیں کروں گا.حضرت رسول کریمؐ کریں گے تو میں بھی کروں گا.اس قسم کی گفتگو میں قریش

Page 530

نے روک رکھا اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو کفّار مکّہ نے قتل کر دیا.اور ممکن ہے کہ ان کی نیت قتل کر دینے کی ہو.کیونکہ اسی وقت اسی کفّار مسلمانوں پر آ کر سب خون کرنے لگے مگر گرفتار ہو گئے جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کو کفّار کی اس شرارت اور فساد کی خبر ملی تو آپؓ نے اپنے اصحابؓ کو جمع کیا اور ایک کیکر کے درخت کے نیچے اس سے بیعت لی.سب نے اﷲ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کے قربان کرنے کا صدق دل سے اقرار کیا.اتنے میں حصرت عثمانؓ چند کفّار کے ساتھ جو صلح کی شرائط کا فیصلہ کرنے آئے تھے پہنچ گئے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے باوجود کفّار کی شرارتوں کے اور فساد کی نیتوں اور سخت شرائط پیش کرنے کے انہیں کی پیش کردہ سب باتیں مان کر صلح کر لی.جو اسّی آدمی کفّار کے حملہ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے.وہ بھی چھوڑ دئے.اور ایسی شرطیں ان سے لیں جس سے کفّار کا بڑا غلبہ اور رعب بظاہر معلوم ہوتا تھا.اور مسلمان بہت کمزور اور نیچے دکھائی دیتے تھے.چنانچہ ایک شرط یہ تھی کہ اس سال بغیر زیارتِ کعبہ واپس چلے جائیں.پھر یہ کہ دوسرے سال آویں.دو تین دن سے زیادہ نہ ؟ٹھہریں.اور مسلمانوں کے ہتھیار بند ہوں پھر ایک شرط یہ بھی تھی.کہ اگر کوئی مسلمان مکّہ سے بھاگ کر مدینہ میں چلا آئے تو اہلِ مکّہ کو واپس کیا جائے.لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے بھاگ کر مکّہ میں ا جاوے تو اہلِ مکّہ واپس نہ دیں گے.ایک شرط یہ بھی تھی کہ اہلِ مکّہ میں سے جس قوم کی مرضی ہو.اس وقت مسلمانوں کی طرف ہو جائے اور جس کی مرضی ہو اہلِ مکّہ کے ساتھ رہے اور آئندہ اس کے مطابق قوموں کی باہمی تقسیم رہے.چنانچہ ایک قبیلہ جس کا نام وائل تھا.قریش کے عقدہ عہد میں ہو ا.اور خزاعۃ اسلامیوں کے طرفدار بن گے.ان شرائط کے بعد پیغمبرِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم بُدوں ادائے رسم حج مدینہ کو واپس چلے آئے اور اسی مقام حدیبیہ پر قربانی ذبہ کر دی.اس صلح کا نام صلح حدیبیہ ہوا.حدیبیہ سے واپس ہوتے وقت سورۃ فتح نازل ہوئی.جب حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد واپس مدینہ کو تشریف فرما ہوئے تو کچھ عرصہ کے بعد کفّارِ مکّہ نے عہد و پیمان کو توڑ دیا.مکّہ کے قبائل میں سے بنو بکر اس صلہ کے شرائط کے مطابق قریش کے عق و عہد میں ہوا تھا اور خزاعۃ اسلامیوں کے طرفدار بن گئے تھے.بنو بکر اور خزاعۃ میں باہم مدت سے جنگ و جدال چلا آتا تھا.اس وقت اسلام کے پھیلنے اور اسلامیوں کے مقابلہ کے نئے شغل نے ان دونوں قوموں کو باہمی جنگ کرنے سے روک رکھا ہی تھا.اب جبکہ اہلِ مکّہ اور اہلِ اسلام کے درمیان صلہ ہو گئی.تو اس جنگ جُو

Page 531

قوم کو نچلّا بیٹھنا محال ہو گیا.لگے کوئی بہانہ لڑائی کا تلاش کرنے.نوفل بن معاویہ بن نفاثہ الدیلی بنو بکر میں سے ایک نامور سپاہی تھے.انہوں نے خزاعۃ قوم پرشبخون مارا.خزاعۃ کے لوگ اس وقت بے خوف و خطر و تیرؔنام چشمہ پر غافل پڑے تھے.نوفل کے حملہ سے وہ چونک اُٹھے اور لڑائی شروع ہو گئی.وہاں کفّارِ مکّہ نے پہلے تو ان کی امداد ہتھیاروں سے کی اور جب اندھیرا ہو گیا تو بنو بکر کے ساتھ شامل ہو گئے.جب بنو بکر کو اہلِ مکّہ کی مدد ہو گی.تو خزاعۃقوم کمزور ہو گئی اور وہ بدیل بن ورقہ کاخزاعی اور رافع کے گھر میں پناہ گزین ہوئے.مگر خزاعہ بیچارے صبح تک بہت مارے گئے.صبح کے ہوتے ہی اپنی تباہ حالت کو دیکھ کر وہ بھاگ گئے اور انہوں نے اپنے مامن کو پہنچ کر عمرو بن سالم خزاعی کو چالیس آدمی کے ساتھ مدینہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں روانہ کیا.عمرو بن سالم نے عرب کے طریق و رواج کے مطابق اشعار میں اپنا حال رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.خزاعہ صلح نامہ کے مطابق اسلامیوں کی طرفدار قوم تھی اور تمام کفارب مکہ کا ان کے برخلاف سازش کرنا اور ان کو اس طرح قتل کرنا دراصل اسی سبب سے تھا.ان واقعات اور سچے اقوال کو سُن کر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.نُصِرْتَ یَا عَمْرَو بْنَ سَالَمِ.ادھر کفّار ِ مکّہ کو اپنی کرتوت کا( جیسے ہر ایک گناہ کا نتیجہ افسوس ہوتا ہے) افسوس ہوا اور پشیمان ہوئے اور ابوسفیان اپنے رئیس کو اس بدافعالی کے ثمرات سے بچ رہنے کی تدابیر کے واسطے مدینہ روانہ کیا.ابوسفیان کو یقین تھا کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہماری اس عہد شکنی کی اب تک خبر نہیں.اس خیال پر اس نے اپنے دل میں ایک چالاکی کی بات سوچی اور آنحضرتؐ سے کہا.کہ صلہ حدیبیہ،کے وقت مَیں موجود نہ تھا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ عہدِ سابق کی تجدید کریں.اس عہد نامہ کی تاریخ آج سے شروع ہو اور صلہ کی مدّت بڑھا دی جاوے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم امن کی بد عہدیوں کو بار بار دیکھ چکے تھے اور خزاعہ کے مقابلہ میں بنوبکر کی امداد خلاف عہد حدیبیہ کی خبر عمرو بن سالم کے ذریعہ پہنج چکی تھی.آپؐ نے ابوسفیان کو جواب دیا کہ کیا تم نے کوئی عہد شکنی کی ہے.جو تم عہد کی تجدید چاہتے ہو؟ ابوسفیان نے کہا.مَعناذَ اﷲِ ایسا نہ وہ.کیا ہم ایسے ہیں کہ عہد توڑ ڈالیں گے؟ تب آپ آپؐ نے فرمایا اَلْحَال سابق عہد و پیمان کو رہنے دو.آخر ابوسفیان واپس مکہ کو چلا گیا.ابوسفیان کے جانے کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک سفیر مکّہ کو بھیجا اور حسبِ دستور ملک بلکہ حسب قانون اخلاق کہلا بھیجا کہ یا تو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیدو.یا بنو بکر کی حمایت اور جانبداری سے الگ ہو جاؤ یا حدیبیہ کی صلح کا عہد جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے.اسے پھیر دو…اہلِ مکّہ

Page 532

نے خیال کیا.کہ اہلِ اسلام ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں.اور اس نُصرت الہٰی اور امدادِ خداوندی کو بھول گئے جو اسلام ہاں سچے اسلام کی ہمیشہ حامی و مددگار ہے.انہوں نے صلح کا عہد پھیر دیا.قطع عہد اور ان کی بے ایمانی اور خزاعہ کا بدلہ لینے کے لئے آپ ؐ نے مکّہ پر چڑھائی کی چنانچہ مکّہ فتح ہوا اور اس حملہ میں وہ نرمی اور اخلاقی شریعت کی آپؐ نے پابندی کی جس کی نظیر دنیا میں مفقود ہے.فرمایا جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان.جو کوئی مسجد میں چلا جائے اسے امان.غرض مطابق پیشگوئی مکّہ فتح ہوا اور کچھ بڑی خون ریزی نہ ہوئی.اور کوئی کافر بہ جبر مسلمان نہ کیا گیا.اس جگہ سارہ والے واعہ کا بیان کر دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.اور وہ اس طرح سے ہے کہ سارہ نام ایک عورت جو کہ مکّہ میں رہتی تھی اور خاندان بنی ہاشم کے زیرِ سایہ پر پرورش پایا کرتی تھی.ان ایّام میں جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فتح مکّہ کے واسطے کوچ کی تیاری کی.آپؐ کے پاس مدینہ میں آئی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو مسلمان ہو کر مکّہ سے بھاگ آئی ہے.اس نے جواب دیا کہ نہیں.میں مسلمان ہو کر نہیں آئی.بلکہ بات یہ ہے کہ میں اس وقت محتاج ہوں اور آپؐ کا خاندان ہمیشہ میری پرورش کیا کرتا ہے.اس واسطے مَیں آپ کے پاس آئی ہوں تاکہ مجھے کچھ مالی امداد مِل جائے.اس پر آنحضرتؐ نے بعض لوگوں کو فرمایا.اور انہوں نے اس کو کچھ کپڑا اور روپیہ وغیرہ دیا.جس کے بعد وہ واپس اپنے وطن کو روانہ ہو گئی.جب روانہ ہونے لگی تو حَاطِب نے جو کہ اصحاب میں سے تھا اس کو دس درہم دئے اور کہا کہ میں تجھے ایک خط دیتا ہوں.یہ خط اہلِ مکّہ کو دے دینا.اس بات کو اس نے قبول کیا اور وہ یہ خط بھی لے گئی.اس خط میں حاطبؔ نے اہلِ مکّہ کو خبر کی تھی.کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکّہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا ہے.تم ہوشیار ہو جاؤ.وہ عورت ہنوز مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الہٰی خبر مل گئی.کہ وہ ایک خط لے کر گئی ہے..چنانچہ آپؐ نے اسی وقت حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو بمعہ عمّار اور ایک جماعت کے روانہ کر دیا کہ اس کو پکڑکر اس سے خط لے لیں.اور اگر نہ دے تو اسے ماریں.چنانچہ اس جماعت نے اس کو راہ میں جا پکڑا.اس نے انکار کیا اور قسم کھائی کہ میرے پاس کوئی خط نہیں.جس پر حصرت علیؓ نے تلوار کھینچ لی اور کہا کہ ہم کو جھوٹ نہیں کہا گیا.بذریعہ وحِیٔ الہٰی کے خبر ملی ہے.خط ضرور تیرے پاس ہے.تلوار کے ڈر سے اس نے خط اپنے سر کے بالوں میں سے نکال دیا.جب خط آ گیا اور معلوم ہوا کہ وہ حَاطِب کی طرف سے ہے تو حاطب بلایا گیا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ یہ تو نے کیا کیا.اس نے کہا مجھے خدا کی قسم ہے کہ جب سے میں ایمان لایا ہوں.کبھی کافر نہیں ہوا.بات صرف اتنی ہے کہ مکّہ میں میرے قبائل کا کوئی حامی اور خبر گیر نہیں.میں نے اس خط

Page 533

سے صرف یہ فائدہ حاصل کرنا چاہا تھا.کہ کفّار میرے قبائل کو دُکھ نہ دیں.حضرت عمرؓ نے چاہا کہ حَاطِب کو قتل کر دیں.مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا اور فرمایا.اﷲ تعالیٰ نے اصحابِ بدر پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے.کہ کرو جو بھی ہو.مَیں نے تمہیں بخش دیا.اس سورۃ شریف کی تفسیر میں کئی ایک روایات اس قسم کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور آپؐ کے بعض صحابہ کرامؓ نے اس سورۃکے نزول کو سن کر یقین کیا کہ اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا کام اس دنیا پر جو موجود تھا وہ ختم ہو چکا ہے.اور وقت آ گیا ہے.کہ وہ اپنے محبوبِ حقیقی کے ساتھ وصالِ دائمی حاصل فرماویں.چنانچہ ایک حدیث جس میں حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے رونے اور پھر ھنسنے کا ذکر ہے گزشتہ پرچوں میں بیان کی جا چکی ہے…… ایک راویت سے جو حضرت امّ جیبہ سے ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ اس سورۃ شریف کے نازل ہوئے پر حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی تھی کہ آپؐ کی عمر حضرت عیسٰیؑ کی عمر سے نصف ہے اور حضرت عیسٰیؑ کی عمر ایک سو بیس سال تھی.حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بھی اس سورۃ شریف کے وقت اس امر کے اشارہ کو سمجھ لیا تھا کہ آنحضرت صی اﷲ علیہ وسلم کا وقت قریب آ گیا ہے.حضرت ابن عباسؐ سے روایت ہے کہ میں امیرالمومنین حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ابھی بچہ ہی تھا.مگر جب کوئی مجلس شورٰی قائم ہوتی اور بڑے بڑے اصحاب جو اہلِ بدر تھے جمع کئے جاتے تو حضرت عمرؓ مجھے بھی اس مجلس میں بلاتے.میری عمر کے لڑگے کا ایسی اہم مجلس میں بلایا جانا شائد کسی کو ناپسند ہوا ہو گا کہ کسی نے کہا کہ یہ لڑکا ہمارے بیٹوں کے عمر کے برابر ہے اور ہمارے ساتھ مجلسِ شورٰی میں بیٹھتا ہے.مگر حضرت عمرؐ نے جواب دیا کہ تم کیا جانتے ہو کہ یہ کون ہے.اس کے بعد جب پھر ایسا ہی کسی مجلس کا موقعہ ہوا اور سب بلائے گئے تو حضرت عمرؐ نے اوّل دوسروں کو مخاطب کر کے فرمایا.کہ سورۂ  کے متعلق تم کیا کہتے ہو.بعض نے کہا کہ اس میں ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ حمد و استغفار کریں.بعض نے کہا کہ اس میں فتح ونصرت ہم کو دی گئی ہے.اور بعض خاموش رہے.تب حصرت عمرؐ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو.کیا یہی صحیح ہے.مَیں نے کہا نہیں.بلکہ مَیں یہ جانتا ہوں کہ اس میں آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جتلایا گیا ہے کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.اب حمدو استغفار کرو.حضرت عمر نے فرمایا مجھے بھی یہی معلوم ہے.

Page 534

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ اس سورۃ شریف کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم رکوع و سجود میں یہ دعا بہت پڑھتے تھے.سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ.اَسْتَغْفبرُ اﷲَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَ اتُوْبُ اِلَیْہِ.اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے.کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اُٹھتے بیٹھتے، آتے جاتے، ہر وقت سُبْحَانَ اﷲِ وَ بِحَمْدِہٖ کہتے اور فرماتے کہ مجھے ایسا کہنے کے واسطے حکم دیا گیا ہے.اور اس سورۃ کو پڑھتے.غرض بہت سی روایات سے یہ امر ظاہر ہے کہ اس سورہ شریف کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اور آپؐ کے بعض احباب نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تھا کہ چونکہ تبلیغ کا کام اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے.اور فتح و نصرت کا وقت آ گیا ہے.اور اب قومیں فوج در فوج داخل ہونے والی ہیں.تو اب وہ وقت آ گیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اس جہان فانی کو چھوڑ کر واصل باﷲ ہو جاویں.اَفْوَاجَ : جس سال یہ سورۃ نازل ہوئی.اس سال بہت سی قومیں فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئی.کیونکہ مکّہ فتح ہو گیا تھا اور کفّار کے سر غنہ سب ہلاک ہو چکے تھے.اور کوئی روکاوٹ اب باقی نہ رہی تھی اور اسلام کی سچی اور راحت بخش تعلیم نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہوا تھا.صرف چند شریر لوگوں کی شرارت کا خوف درمیان میں تھا.کیونکہ وہ زمانہ امن کا نہ تھا.اور ہر ایک کو اپنی جان اور مال کا خطرہ رہتا تھا.بالخصوص غرباء امراء کے بہت ہی زیرِ اثر تھے.اور ان سے خوف کھاتے تھے.جب بڑے برے کفّار ہلاک ہو گئے اور ان کے زور اور طاقت کی چاردیواری خاک میں مِل گئی.تو لوگوں کے دل سیلاب کی طرح اسلام کی طرف جُھکے اور قبائل کے قبائل یک دفعہ اسلام میں داخل ہو گئے.چنانچہ بنی اسد اور بنی حرّہ اور بنی الکنانہ اور بنی ہلا اور بلخاء اور نجب اور دارم اور دوسرے قبائل تمیم اور قبائل عبدالقیس اور بنی طي.اور و شام و عراق وغیرہ کے اطراف و اکناف سے لوگ آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے اور بہت جلد تمام جزیرہ نمائے عرب اسلام میں داخل ہو گیا.اور جملہ قبائل عرب میں کوئی شخص ایس باقی نہ رہا.جس نے اظہار اسلام نہ کیا ہو.اہل یمن.ایک روایت میں ہے کہ اس سورہ شریف میں النّاس سے مراد اہلِ یمن ہیں.حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.اَﷲُ اَکْبَرُ جَآئَ نَصْرُ اﷲِ وَ الْفَتْحُ وَجَآئَ اَھْلُ الْیَمَنِ قَوْمٌ رَقِیْقَۃٌ قُلُوْبُھُمْ.اَلْاِیْمَانُ ۱؎ یَمَانٍ ۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۸؍ نومبر ۱۹۱۲ء

Page 535

وَ الفِقْہُ یَمَانٍ و الْحِکْمَۃُ یَمَانِیَّۃٌ وَ قَالَ اَجِدُ نَفَسَ رَبِّکُمْ مِنْ قَبْلِ الْیَمَنِ اَﷲُ اَکْبَرُ.اﷲ تعالیٰ کی نصرت اور فتح آئی.اور اہلِ یمن آئے.اہلِ یمن ایک قوم ہے جن کے دل نرم ہیں اور اہلِ یمن اہلِایمان اور اہلِ فقہ اور اہلِ حکمت ہیں.اور فرمایا کہ مجھے یمن کی طرف سے تمہارے رب کی خوشبو آتی ہے.یعنی اہلِ یمن اہل اﷲ ہیں.اہلِ یمن اس سورث شریف کے نزول کے بعد ایمان لائے تھے.تسبیح.تحمید و استغفار:اس میں اوّل تسبیح کا حکم ہے پھر تحمید کا اور پھر استغفار اس ترتیب میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفات دو قسم پر ہیں.ایک صفات سلبیہ اور دوم صفات ثبوتیّہ.صفات سلبیہ ہو ہیں.جو اﷲ تعالیٰ کے تمام نقائص سے پاک اور منزّہ ہونا اور اعلیٰ و برتر ہونا ظاہر کرتی ہیں.سلبیہ کے معنے سلب کرنیوالی.کھینچنے والی.اور صفات ثبوتیہ وہ ہیں.جو اﷲ تعالیٰ کے اکرام اور عزّت اور بلندی کا اظہار کرتی ہیں.اس ترتیب میں صفات سلبیہ کا پہلے ذکر کیا گیا ہے.اور صفات ثبوتیہ کو ان کے بعد لیا گیا ہے.تسبیح اﷲ تعالیٰ کی جلالی صفات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ تمام بدیوں سے منزّہ اور بے عیب اور پاک ذات ہے.تم بھی اس کی تسبیح کرو.ں یعنی اس کا مقدّس اور پاک ہونا بیان کرو.اور اس کی تحمید کرو.کہ وہ تمام حمد کا مالک ہے اور سچی تعریف اسی کے لائق ہے.اس کے بعد استغفار ہے جو کہ انسان کو اپنے قصور نفس اور کمزوری کی طرف توجّہ دلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بخشش کی طرف انسان کو کھینچتا ہے.کہ اس کے سوائے انسان کا گزارہ نہیں اور انسان کے نفس کو کامل کرنے والی وہی ذاتِ پاک ہے.جس کے ساتھ سچے اور خالص تعلق کے ذریعہ انسان بدیوں سے نجات پا سکتا ہے اور نیکیوں کے حصول کی اس کو توفیق ملتی ہے.دِیْنِ اﷲ:  اور تُو نے لوگوں کو دیکھا.کہ دین اﷲ میں فوج در فوج داخل ہُوئے.اس جگہ سے دین اﷲ مراد دینِ اسلام ہے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں لائے اور ؟آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تبلیغ کا منشاء یہی تھا کہ مخلوق الہٰی دین اﷲ میں داخل ہو اور آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور قرآن شریف کے کلامِ الہٰی ہونے پر ایمان لاوے اور شعارب اسلامی نماز روزہ حج زکوٰۃ کی پابند ہو.چنانچہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لیا لوگوں کا دین اﷲ میں داخل ہونا تسلیم نہ کیا گیا.قرآن شریف میں ایک اور جگہ دین کے معنوں کی وضاحت کی گئی ہے.فرمایا ہے.اِنَّ الدّیْنَ عِنْدَ اﷲِالْاِسْلَامُ(آل عمران:۲۰) اﷲ تعالیٰ کے حضور میں مقبول دین تو صرف اسلام ہی ہے.اور فرمایاوَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ (آل عمران:۸۶)

Page 536

اور جو شخص اسلام کے سوائے اور کوئی دین چاہے گا.وہ ہرگز قبول نہ ہو گا.تعجب ہے کہ باوجود ایسی صریح آیات کے ہوتے اس زمانہ میں ڈاکٹر عبدالحکیم خان جیسوں کی عقل ایسی ماری گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور قرآن شریف پر عمل کرنا کچھ ضروری نہیں.اور نماز روزہ.حج.زکوٰۃ وغیرہ کی پابندی کی کوئی حاجت نہیں.اور اسلام میں داخل ہونا ایک بے فائدہ امر ہے.صرف اﷲ کو مان لو کہ وہ ہے اور اچھے اچھے کام کرو جو تمہاری نگاہ میں اچھے ہوں… تو بس نجات پا جاؤ گے.لفظ دین کے واسطے انور الفاظ بھی قرآن شریف میں آئے ہیں.جیسا کہ ایمان اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَاَخْرَجْنَا مننْ کَانَ فِیْھَا مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فَمَا وَ جَدْنَا فِیْھَا غَیْرَبَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ( الذاریات:۳۶.۳۷)ہم نے وقتِ عذاب مومنوں کو وہاں سے نکال دیا اور اس میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر ملا.اور صراطؔ جیسا کہ فرمایا ہے.صِرَاطِ اﷲِ الَّذِیْ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ( الشورٰیؔ۵۴)اور ایسا ہی دینؔ کے واسطے اور بھی نام ہیں.جیسا کہ کلمۃُ اﷲ اور نُور اور ھمدٰی اور غُرْونہْ اور حَبْل اور صِبْغَۃَ اﷲاور فِطْرَۃَ اﷲ.فضائل سورۃ النصر:حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سب سے آکر جو سورۃ بہ تمام و اکمال اور پوری اتری وہ یہی سورۃ النصر ہے.اس کے بعد کوئی پوری سورۃ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی.ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ سورۃ رُبع قرآن ہے.یعنی قرآن شریف کی چوتھائی کے برابر ہے.یہ فضیلت بلحاظ اس شاندار پیشگوئی کے معلوم ہوتی ہے جس پر وہ مشتمل ہے.اور بلحاظ ان احکامِ تسبیح اور تحمید اور استغفار کے ہے جو کہ انسان کو اپنے کمال تک پہنچانے کے واسطے کمال درجہ کے ہتھیار ہیں.اسی سورۂ شریف نے کفارِ مکہ کو باوجود ایسی سخت بغاوتوں اور سرکشیوں کے اور اذیّت رسانیوں کے فتح مکّہ کے وقت ہر طرح کے عذاب سے بجا لیا.اور آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے خلقِ عظیم کے ساتھ سب کو معاف کر دیا اور فرمایالاتَثْریْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ.بلکہ ان کے گناہوں کے واسطے خدا تعالیٰ کے حضور میں معافی چاہی.کیونکہ اَسْتَغْفِرُاﷲ کا لفظ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپؐ خدا تعالیٰ کے حضور میں گناہ گاروں کے واسطے شفاعت کریں اور ان کو عذاب میں گرنے سے بچا ویں.نئی فوجیں: یہ اﷲ تعالیٰ کی فتہ و نصرت کا وعدہ اور قوموں کے فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے کی پیشگوئی جو اس سورۂ شریف میں کی گئی ہے.اگرچہ اس کے پورا ہونے کا ابتداء آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.تاہم چونکہ مذہب اسلام ہمیشہ کے

Page 537

واسطے ہے.اس واسطے ظِلّی طور پر جب کبھی ضرورت ہو یہ وعدہ پورا ہوتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جبکہ اسلام بہت ضعیف ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے ایک فرستادہ کے ذریعہ سے یہ خوشخبری دوبارہ سنائی ہے.کہ اس کی طرف سے اسلام کے واسطے فتح و نصرت کا وقت پھر آ گیا ہے.اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور پھر اسلامیوں میں وہی روحانیت پھونکی جائے گی.مبارک ہیں وہ جو تکبّر نہ کریں اور خدا کے کام کی عزّت کریں.تاکہ ان کے واسطے بھی عزّت ہو.اے خدا ہمارے گناہوں کو بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر.کہ تو سچّے وعدوں والا ہے.اسلام کی عزّت کو دنیا میں قائم کر دے اور اسلام کے دشمنوں کی ذلیل اور پست اور ہلاک کر دے خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی.کیونکہ اب تیری قدرت نمائی کا وقت ہے اور تُو بڑی طاقتوں والا خدا ہے.آمین ثمّ آمین.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) یہ ایک مختصر اور چھوٹی سی سورۃ ( النصر۹ قرآن شریف کے آخری حصّہ میں ہے.مسلمانوں کے بچے علی العموم نمازوں میں اسے پڑھتے ہیں.اس پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیف کو راضی کرنے اور اسی کی جناب میں قدمِ صدق پیدا کرنے کے لئے اور اپنی عزّت و آبرو کو دنیا و آکرت میں بڑٍانے کے واسطے انسان کو مختلف موقعے ملتے ہیں.ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں اندھیر ہوتا ہے.اور ہر قسم کی غلطیاں اور غلط کاریاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں.خدا کی ذات پر شکوک.اسماء الہٰیہ میں شبہات.اور افعال اﷲ سے بے اعتنائی اور مسابقت فی الخیرات میں غفلت پھیل جاتی ہے اور ساری دنیا پر غفلت کی تاریکی چھا جاتی ہے.اس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی برگزیدہ بندہ اہلِ دنیا کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے مولیٰ کی عظمت و جبروت دکھانے.اسماء الہٰیہ و افعال اﷲ سے آگاہی بخشنے کے واسطے آتا ہے تو ایک کمزور انسان تو ساری دنیا کو دیکھتا ہے کہ کس رنگ میں رنگین اور کس دُھن میں لگی ہوئی ہے اور اس مامور کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ سب سے الگ اور سب کے خلاف کہتا ہے گُل دنیا کے چال چلن پر اعتراض کرتا ہے.نہ کسی کے عقائد کی پرواہ کرتا ہے.نہ اعمال کا لحاظ.صاف کہتا ہے کہ تم بے ایمان ہو اور نہ صرف تم بلکہ ظَھرَ الْفَسَاہُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ( الروم:۴۲)سارے دریاؤں جنگلوں،بیابانوں، پہاڑوں اور سمندروں اور جزائر، غرض ہر حصّۂ دنیا پر فساد مچاہوا ہے.تمہارے عقائد صحیح نہیں، اعمال درست نہیں، علم بودے ہیں، اعمال ناپسند ہیں.قوٰی اﷲ تعالیٰ سے دمور ہو کر کمزور ہو چکے ہیں.کیوں؟ بِمَاکَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الرّوم:۴۲)تمہاری اپنی ہی کرتُوتوں سے.پھر کہتا ہے.دیکھو مَیں ایک ہی شخص ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ لِیُذِیْقَھُمْ

Page 538

بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ( الروم:۴۲) لوگوں کو ان کی بد کرتُوتوں کا مزہ چکھا دیا جاوے.بہت سی مخلوق اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتی ہے.اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل غفلت ہی میں ہوتے ہیں.انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا.کہ کیا ہو رہا ہے اور کچھ مقابلہ و انکار پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں.جنہیں اﷲ تعالیٰ اپنی عظمت و جبروت دکھانا چاہتا ہے.وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو مال و دولت ، کنبہ اور دوستوں کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں.بڑے بڑے رؤوسا اور اہل تدبیر لوگوں کے مقابلہ میںں ان کی کچھ ہستی ہی نہیں ہوتی.یہ اس مامور کے ساتھ ہو لیتے ہیں.ایس کیوں ہوتا ہے.یعنی ضعفاء سب سے پہلے ماننے والے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لئے کہ اگر وہ اہلِ دُول مان لیں.تو ممکن ہے خود ہی کہہ دیں کہ ہمارے ایمان لانے کا نتیجہ کیا ہوا.دولت کو دیکھتے ہیں.املاک پر نگاہ کرتے ہیں.اپنے اعوان و انصار کو دیکھتے ہیں تو ہر بات میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں.اس لئے خدا کی عظمت و جبروت اور ربوبیت کا ان کو علم نہیں آ سکتا.لیکن جب ان ضعفاء کو جو دنیوی اور مادی اسباب کے لحاظ سے تباہ ہونے کے قابل ہوں.عظیم الشان انسان بنا دے اور اُ رؤوسا اور اہلِ دُول کو ان کے سامنے تباہ اور ہلاک کر دے تو اس کی عظمت و جلال کی چمکار صاف نظر آتی ہے.غرض یہ سرّ ہوتا ہے کہ اوّل ضعفاء ہی ایمان لاتے ہیں.اس دُبْدَھَا کے وقت جبکہ ہر طرف سے شور ِ مکالفت بلند ہوتا ہے خصوصًا بڑے لوگ سخت مکالفت پر اٹھیسد ہوئے ہوتے ہیں.کچھ ادمی ہوتے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے چُن لیتا ہے اور وہ اس راست باز کی اطاعت کو نجات کے لئے غنیمت اور مرنے کے بعد قربِ الہٰی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بہت سے مخالفت کے لئے اُٹھتے ہیں.جو اپنی مکلفات کو انتہاء تک پہنجاتے ہیں.یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت اور مدد ا جاتی ہے.اور زمین سے آسمان سے ، دائیں سے بائیں سے، غرض ہر طرف سے نصرت آتی ہے اور ایک جماعت تیار ہونے لگتی ہے.اس وقت وہ لوگ جو بالکل غفلت میں ہوتے ہیں.اور وہ بھی جو پہلے عدم وجود مساوی سمجھتے ہیں آ کر شامل ہونے لگتی ہیں.وہ لوگ جو سب سے پہلے ضعف و ناتوانی اور مخالفتِ شدیدہ کی حالت میں آخرشریک ہوتے ہیں.ان کیف نام سابقین، اوّلین، مہاجرین اور انصار رکھا گیا.مگر ایسے فتوہات اور نصرتوں کے وقت جو ا خرشریک ہوئے.ان کا نام ناسؔ رکھا ہے.یاد رکھو جو پودا اﷲتعالیٰ لگاتا ہے اس کی حفاظت بھی فرماتا ہے.یہاں تک کہ وہ دنیا کو اپنا پھل دینے لگتا ہے.لیکن جو پودا احکم الحاکمین کے خلاف اس کے منشاء کے موافق نہ ہو.اس کی خواہ کتنی ہی حفاظت کی جاوے.وہ آخر خشک ہو کر تباہ ہو جاتا ہے اور ایندھن کی جگہ چلایا جاتا ہے.پس وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو عاقبت اندیشی کا فضل عطا

Page 539

کیا جاتا ہے.اس سورہ شریف میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے انجام کو ظاہر کر کے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ.اﷲ کی تسبیح کرو، اس کی ستائش اور حمد کرو، اور اس سے حفاظت طلب کرو.استغفار یا حفاظتِ الہٰی طلب کرنا ایک عظیم الشان سرّہے.انسان کی عقل تمام ذاتِ عالم کی محیط نہیں ہو سکتی.اگر وہ موجود ضروریات کو سمجھ بھی لے تو آئندہ کے لئے کوئی فتوٰی نہیں دے سکتی.اس وقت ہم کپڑے پہنے کھڑے ہیں.لیکن اگر اﷲ تعالیٰ ہی کی حفاظت اور فضل کے نیچے نہ ہوں اور محرقہ ہو جاوے تو یہ کپڑے جو اس وقت آرام دہ اور خوش آئندہ معلوم ہوتے ہیں ناگوار خاطر ہو کر موذی اور مخالف طبع ہو جاویں اور وبالِ جان سمجھ کر ان کو اتار دیا جاوے.پس انسان کے علم کی تو یہ حد اور غایت ہے.ایک وقت ایک چیز کو ضروری سمجھتا ہے اور دوسرے وقت اُسے غیر ضروری قرار دیتا ہے.اگر اے یہ علم ہو کہ سال کے بعد اسے کیا ضرورت ہو گی؟ مرنے کے بعد کیا ضرورتیں پیش آئیں گی تو البتہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ انتطام کرے.لیکن جب قدم قدم پر لا علمی کے باعث ٹھوکریں کھاتا ہے.پھر حفاظتِ الہٰی کی ضرورت نہ سمجھنا کیسی نادانی اور حماقت ہے.یہ صرف علم ہی تک بات محدود نہیں رہتی.دوسرا مرحلہ تصرفات عالم کا ہے.وہ اس کو مطلق نہیں.ایک ذرّہ پر اُسے تصرف و اختیار نہیں.غرض ایک بے علمی اور بے بسی تو ساتھ ہے.پھر بدعملیاں ظلمت کا موجب ہو جاتی ہیں.انسان جب اوّلاًگناہ کرتا ہے تو ابتداء میں دلیر نہیں ہوتا ہے پھر وہ امر بڑھ جاتا ہے.اور رَیْنَ کہلاتا ہے اس کے بعد مہر لگ جاتی ہے.یہ چھاپا مضبوط ہو جاتا ہے.قفل لگ جاتا ہے.پھر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ بدی سے پیار اور نیکی سے نفرت کرتا ہے خیر کی تحریک ہی قلب سے اُٹھ جاتی ہے اس کا ظہور ایسا ہوتا ہے کہ خیروبرکت والی جانوں سے نفرت ہو جاتی ہے.یا تو ان کے حضور آنے ہی کا موقعہ نہیں ملتا.یا موقعہ تو ملتا ہے لیکن انتفاع کی توفیق نہیں پاتا.رفتہ رفتہ اﷲ سے بُعد، ملائکہ سے دوری اور پھر وہ لوگ جن کا تعلق ملائکہ سے ہوتا ہے اُن سے بُعد ہو کر کٹ جاتا ہے.اس لئے ہر ایک عقلمند کا فرص ہے کہ وہ توبہ کرے اور غور کرے.ہم نے بہت سے مریض ایسے دیکھے ہیں جن کو میٹھا تلخ معلوم دیتا ہے اور تلخ چیزیں لذیذ معلوم ہوتی ہیں.کسی نے مجھ سے مُلَذَّذْ نسخہ مانگا.مَیں نے اسے مصبّر، کچلہ، شہد ملا کر دیا.اس نے کہا کہ بڑا مُلَذَّدْ ہے.یہ نتیجہ ہوتا ہے انسان کے معاصی کا.ان کی بصر اور بصیرت جاتی رہتی ہے.اور ان کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے چہروں پر نگاہ کر کے اہلِ بصر انہیں اسی طرہ دیکھتے ہیں جیسے سانپ ،بندر خنزیر کو دیکھتے ہیں.

Page 540

اس لئے مومن کو چاہیئے کہ خدا کی حمد اور تسبیح کرتا رہے اور اس کی حفاظت طلب کرتا رہے جیسے ایمان ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے.اسی طرہ پر بُرائی کا مجموعہ کفر کہلاتا ہے.ان کے ادنیٰ اور وسط اور اعلیٰ تین درجے ہیں.پس امید، بیم، رنج وراحت، عسر و یسر میں قدم آگے بڑھاؤ اور اس سے حفاظت طلب کرو.عور کرو.حفاظت طلب کرنے کا حکم اس عظیم الشان کو ہوتا ہے جو خاتم الانبیاء ، اصفی الاصفیاء سیّد ولدِ ادم ہے صلی اﷲ علیہ وسلم.تو پھر اور کون ہے جو طلبِ حفاظت سے غنی ہو سکتا ہے مایوس اور ناامّید مَت ہو.ہر کمزوری ، غلطی ، بغاوت کے لئے دعا سے کام لو.دعا سے مت تھکو.یہ دھوکا مت کھاؤ.جو بعض ناعاقبت اندیش کہتے ہیں.کہ انسان ایک کمزور ہستی ہے.خدا اس کو سزا دیکر کیا کریگا؟ انہوں نے رحمت کے بیان میں غُلو کیا ہے.کیا وہ اس نطارہ کو نہیں دیکھتے کہ یہاں بعض کو رنج اور تکلیف پہنچتی ہے.پس بعد الموت عزاب نہ پہنچنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہو سکتی ہے.یہ غلط راہ ہے جو انسان کو کمزور اورسُست بنا دیتی ہے.بعض نے یاس کو حد درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ بدیاں حد سے بڑھ گئی ہیں.اب بچنے کی کوئی راہ نہیں ہے.استغٰار اس سے زیادہ نہیں کہ زہر کھا کر کلّی کر لی.یہ بھی سخت علطی ہے.استغفار انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اس میں گناہ کے زہر کا تریاق ہے.پس استغفار کو کسی حال میں مت چھوڑ و.پھر آخر مَیں کہات اہوں کہ نبی کریم سے بڑھ کر کون ہے.اَخْشٰی لِلّٰہ.اَتْقٰی لِلّٰہِ اَعْلَمُ بِاللّٰہِ انسان تھا.صلی اﷲ علیہ وسلم.پس جب اس کو استغفار کا حکم ہوتا ہے تو دوسرے لا اُبالی کہنے والے کیونکر ہو سکتے ہیں.پس جنہوں نے اب تک اس وقت کے امام راست باز کے ماننے کے لئے قدم نہیں اٹھایا.اور دُبْدَھَا میں ہیں.وہ استغفار سے کام لیں کہ ان پر سچائی کی راہ کُھلے اور جنہوں نے خدا کے فضل سے اسے مان لیا ہے وہ استغٰار کریں تاکہ آئندہ کے لئے معاصی اور کسی لغزش کے ارتکاب سے بچیں اور حفاظتِ الہٰی کے نیچے رہیں.(الحکم ۷؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶.۷) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تین قسم کے لوگ ہوئے تھے.ایک وہ جو سابق اوّل من المہاجرین تھے.اور دوسرے وہ جو فتہ کے بعد ملے.اور تیسرے اس وقت ہو  کے مصداق تھے.اسی طرح جو لوگ عظمت و جبروت الہٰی کو پہلے نہیں دیکھ سکتے.آخر ان کو داخل ہونا پڑتا ہے.اور اپنی بَودِی طبیعت سے اپنے سے زبردست کے سامنے مامور من اﷲ کو ماننا پڑتا ہے.اور بلکہ آخر یُعْطُوا الْجِزْیَۃَ عَنْ یَّدٍوَّ ھممْ صَاغِرُونَ ( التوبہ : ۲۹) کا مصداق ہو کر رہنا پڑتا ہے.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۵)

Page 541

قرآن شریف کے ابتداء کو آخر سے ایک نسبت ہے.پہلے مُفْلِحُوْنَ فرمایا ہے تو  میں اس کی تفسیر کر دی اور مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ میں اور ضَآلِّیْنَ کا ردّ قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ میں کر دیا ہے.غرص عجب ترتیب سے ان تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے.(بدر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۱۰)

Page 542

سُوْرَۃُ اللَّھَبِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۵......عربی تفسیر سے با محاورہ ترجمہ :اﷲ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس سورۃ کو شروع کیا جاتا ہے.وہ اﷲ جو سب کی پرورش کرتا ہے اور محنت کرنیوالے کو اس کی محنت کا پھل دیتا ہے.ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوں جن کے ساتھ وہ بدی کے کام کرتا ہے اور وہ تو بلاک شدہ انسان ہے کیونکہ ایسے بد عمل اسے کب تک مہلت دیں گے.وہ سب مال جو اس کے پاس ہے اور سب کچھ جو اس نے کمایا ہے.ان میں سے کوئی شَے وقتِ عذاب کام نہ آئے گی.وقت قریب آتا ہے کہ وہ آگ میں ڈالا جائے گا اور یہی حال اس کی عورت کا ہو گا.جو لکڑیوں کے گٹھے اٹھایا کرتی ہے.اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسّی ہے.اس سورۂ شریف کا نام سورۂ تبَّتْ ہے.اور اس کو سورۂ لہب بھی کہتے ہیں.یہ سورت مکّہ معظّمہ میں اتری ہے.اس سورت میں بسم اﷲ کے بعد پانچ آیتیں اور بیس کلمات اور اکیاسی حروف ہیں.تشریح و معانیٔ الفاظ: تَبَّتْ.ہلاک باد.بابود بود.نابود ہو جائیں.یہ لفظ تباب سے مشتق ہے.تباب کے معنے ہلاکت.عرب میں ایک محاورہ شابہ اَمْ تابہ اسی معنی میں یہ لفظ قرآن شریف میں اَور جگہ بھی آیا ہے.وَمَا کَیْدُ فِرْعَوْنَ اِلَّا فِیْ تَبَابٍ( المومن: ۳۸) فرعون کی تدابیر کا نتیجہ اُن کے حق میں

Page 543

سوائے ہلاکت کے اَور کچھ نہیں.کافر کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اس کی تمام تدابیر ضائع جاتی ہیں.تَبَّتْکے دوسرے معنے نقصان اور گھاٹے کے ہیں فتح البیان میں تَبَّتْ کے معنے خَسِرَتْ وَ خابَتْ وَ ضَلَّتْ لکھا ہے یعنی گھاٹے میں پڑا اور نامراد ہوا اور گمراہ ہوا.قرآن شریف میں کفّار کے حق میں ہے.وَ مَا زادُوْھُمْ غَیْرَ تَتُبِیْبٍ ( ہود: ۱۰۲) ان کو کچھ زیادہ نہ ملا.یعنی کچھ فائدہ نہیں.صرف نقصان ہی ہوا.غرض تَبَّتْ کے دو معنے ہیں.ہلاکت اور نقصان اور گھاٹا.مآل ہر دو معنوں کا ایک ہی ہے.تباہی.ناکامی اور نامرادی.یَدَا: ہر دو دست.دونوں ہاتھ یَدٌ کا تثنیہ ہے.یَدٌ کا تثنیہ ہے.یَدٌ کے معنے ایک ہاتھ.یَدَا کے معنے دو ہاتھ.اَیْدِی کے معنے بہت ہاتھ.تَبَّتْ یَدَا کے معنے دونوں ہلاک ہوں.اَبِیْ لَھْب.کفّاررِ مکّہ کے اکابر میں سے ایک شخص تھا.رشتہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا چچا تھا.ابولہب اس کی کُنْیت تھی اور اس کا اصل نام عبدالعزّٰی تھا.عرب میں ہر شخص کو بہ سبب عزّت کے کُنْیت سے بلاتے تھے.اور اصل نام کی بجائے اکثر لوگ کُنْیت کے ساتھ زیادہ معروف ہوتے تھے.لَھَبْ کے معنے ہیں شعلہ.اور اَب کے معنے باپ.اَبِیْ لَھَب کے معنے ہوئے شعلہ کا باپ.بعض کا قول ہے کہ اس نے تکبّر کے طور پر اپنے لئے.یہ کنیت پسند کی تھی.ابولہب اس واسطے بھی اسے کہتے تھے.کہ اس کا چہرہ بہت سرخ تھا.یہ شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ نہایت عداوت رکھتا تھا.اور عداوت کی وجہ سوائے اس کے نہ تھی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم توحید کا وعظ فرماتے تھے.اور یہ بُت پرست تھا.رات دن حضرت کو تکلیف دینے کے درپے رہتا تھا.جو لوگ باہر سے آتے اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو مِلنا چاہتے.ان کو آگے جا کر راستہ ہی میں ملتا.اور بڑے تکلّف اور تکبّر کے ساتھ باتیں کرتا ہوا اُن کو سمجھاتا کہ دیکھو محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم۹ مجنون ہے.ہم اس کے چچا ہیں.وہ ہمارا بیٹا ہی ہے.ہم اس کا علاج کر رہے ہیں.تم اس کے پاس مت جاؤ.بعض کو کہتا کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) پر کسی جادو کیا ہوا ہے.ایسے جادو زدہ شخص کے پاس جا کر تم کیا لو گے.بہتر ہے کہ بہیںں سے واپس چلے جاؤ.چنانچہ اس طرح کی باتیں بنا بنا کر لوگوں کو واپس کرنے کی کوشش کرتا رہتا.بعض بدقسمت اس کا کہنا مان لیتے اور واپس چلے جاتے.اور جو لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے.وہ کہتے کہ ہم تو اس کو ملنے کے واسطے آئے ہیں.کچھ ہی ہو.اب تو ملاقات کر کے ہی جائیں گے.ایسے لوگوں پر خفا ہوتا اور پھر جھنجھلا کر آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا.اور بعض کے کانوں میں روئی ڈال دیتا کہ اچھا

Page 544

میں تم ضرور جانا چاہتے ہو تو جاؤ مگر اس کی باتیں نہ سننا کیونکہ اس کی باتوں میں ایک جادو ہے وہ تم پر اثر کر جائے گا تو تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ گے.چنانچہ ایک صحابی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اس کے ساتھ ایک آدمی بھی لگایا کہ جلد اس کو واپس لے آنا.زیادہ دیر تک وہاں بیٹھنے نہ دینا.ورنہ ( نعوذ باﷲ) خراب ہو جائے گا.مگر وہ خدا کا بندہ ہوشیار آدمی تھا.اُس نے تھوڑی دُور جا کر اس آدمی کو واپس کر دیا.کہ تم جاؤ.میں خود اپنا راستہ تلاش کر لوں گا.اور روئی کو کانوں میں سے نکال کر پھینک دیا.ربیعہ بن عباد سے روایت ہے وہ کہتا ہے.مَیں نے ایک دفعہ حصرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ابتدائے زمانۂ رسالت میں دیکھا کہ آپؐ سوق المجاز میں کہہ رہے تھے.اے لوگو! لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کہو تو تم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے.بہت سے لوگ آپؐ کے پاس جمع تھے.اور آپ کا وعظ سُن رہے تھے.آپؐ کے پیچھے ایک شخص سُرخ چہرے والا اور احول لوگوں کو بہکاتا تھا کہ یہ شخص صابی ہے اور جھوٹ بولتا ہے.جدھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جاتے وہ بھی آپؐ کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو بہکاتا کہ یہ شخص تم کو لات اور عُزّی کی عبادت سے منع کرتا ہے.اس کے پیچھے مت جاؤ اور اس کی پیروی نہ کرو.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے.تو انہوں نے کہا کہ یہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا چچا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے سختی سے انکار کیا.تب آپ نے خیال کیا کہ یہ متکبّر آدمی ہے.لوگوں کے سامنے اس کو سمجھانا مفید نہیں پڑتا.شاید اس کو علیحدگی میں سمجھایا جاوے تو ہدایت کی راہ پر آ جاوے اور جہنم میں گرنے سے بچ رہے.اس واسطے آپ رات کے وقت اس کے مکان پر گئے اور ایسا کرنے میں آپؐ نے حضرت نوح علیہ السلام کی سنّت کو ادا کیا.کیونکہ حضرت نوحؑ نے کہا تھا اِنِّیْ دَعَوْتَ قَوْمِیْ لَیْلًا وَ نَھَارًا ( نوح: ۶) میں نے رات کے وقت بھی انہیں تبلیغ کی اور حق کی طرف بلایا اور دن کو بھی بلایا جب آنحضرتؐ اس کے مکان پر پہنچا کہنے لگا کہ شآید آپ نے دن کے وقت جو کچھ کہا تھا اس کے متعلق عذر کرنے کے لئے اس وقت آئے ہیں.پس رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس کے سامنے ادب سے بیٹھے رہے اور اسے اسلام کی طرف بہت تبلیغ کی.پر اس پر کچھ اثر نہ ہو.حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ابتدائے زمانہ بعثت میں تبلیغ عام طور پر نہ کرتے تھے.یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ( الشعراء: ۲۱۵) اپنے قریبی قبائل کو آنے والے عذاب سے ڈراؤ.تب آپؐ کوہِ صفا پر چڑھ گئے اور پُکارا.اے آلِ غالب.تب قبیلہ غآلب کے لوگ جمع ہو گئے.اور ابولہب نے کہا.لے آل غالب آ گئے.اب بتا تیرے پاس کیا ہے

Page 545

تب آپؐ نے پکارا یا آل لُوَيّ.اس وقت قبیلہ لُوَيّ جمع ہوا.پھر ابولہب نے وہی کلمات کہے.تب آپؐ نے آلِ مُرّہ کو پکارا.اسی طرح پھر آل کلاب اور آلِ قُصَیّ کو پکارا.ہر دفعہ ابولہب ایسا ہی کہتا رہا.جب سب جمع ہو گئے.تب آپؐ نے فرمایااِنَّ اﷲَ اَمَرَجِیْ اَنْ اُنْذِرَ عَثِیْرَتِیَ الْاَقْرَبِیْنَ.وَ اَنْتُمُ الْاَقْرَبُوْنَ اِعْلَمُوْا اَنِّیْ لَا اُمْلِکُ لَکُمْ مِنَ الدُّنْیَا حَظًّا وّن لَا مِنَ الْاٰخِرَۃ نَصِیْبًا اِلَّا اَنْ تَقُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ فَاَشْھَدُ بِھَالَکُمْ عِنْدَ رَبِّکُمْ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قبائل کوڈراؤں.سوتم میرے قریبی ہو.تم یاد رکھو کہ مَیں نہ دنیا میں تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہوں.نہ آخرت سے تمہیں کچھ حصّہ دلا سکتا ہوں جب تک کہ تم اس بات پر ایمان نہ لاؤ کہ معبود سوائے اﷲ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں.اگر تم میرا یہ کہنا مان لو تو اﷲ تعالیٰ کے حضور اس معاملہ میں مَیں تمہارے حق میں شہادت دوں گا.ابولہب نے یہ ملمہ سن کو کہا.تَبًّالَکَ أَلِھٰذَا دَعَوْتَنَا تجھ پر ہلاکت ہو.کیا اس واسطے تو نے ہم کو پکارا تھا.اس کے بعد آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر یہ سورۃ نازل ہوئی اور وہی ہلاکت کی بد دعا جو ابولہب نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ اس کافر نے کیا تھا اور اس قسم کے مباہلوں کی مثالیں خود اِس زمانہ میں بھی قائم ہو چکی ہیں.جن میں سے ایک مولوی غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ مباہلہ کیا تھا اور ایک کتاب میں لکھا تھا کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو وہ ہلاک ہو جائیں اور اگر ان کو جھوٹا کہنے میں مَیں جھوٹا ہوں تو مَیں ہلاک ہو جاؤں.چنانچہ اس کے بعد وہ بہت جلد ہلاک ہو گیا.ایسا ہی علی گڑھ کا مولوی اسمٰعیل مسیح موعودؑکے مقابلہ میں مباہلہ کر کے ہلاک ہوا اور ایسا ہی جمّوں والا چراغ دین عیسائیوں کا دوست اور خود مسیح ہونے کا مدعی وہ بھی مباہلہ کے بعد واصلِ جہنم ہوا.پھر آجکل ڈاکٹر عبدالحکیم نے اس مباہلہ میں پیش دستی کر کے حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں تین سال کے اندر مر جانے کی پیشگوئی کی ہے.دنیا عنقریب دیکھ لے گی کہ اس کا یہ کلمہ کس کو جھوٹا اور کس کو سچّا ثابت کر کے دکھا دیتا ہے.مگر جن بد قسمتوں نے پہلے اس قدر واقعات سے فائدہ نہیں اٹھایا وہ اب کیا نفع حاصل کر سکتے ہیں؟ وَتَبَّ: اور ہلاک ہو گیا وہ.تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھَبٍ وَّ تَبَّ (اللّہب:۲) ہلاک ہوں ہر دو ہاتھ ابی لہب کے اور ہلاک ہوا.وہ.ہر دو ہاتھ سے مراد اس کا سارا وجود ہے یا اس کا دین اور دنیا.یا اس کی اولاد ہے کیونکہ

Page 546

کیونکہ اس کو نہ دنیا میں کوئی آرام پہنچا اور نہ دین کے معاملہ میں اس کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی.ہر طرف سے وہ خائب و خاسر ہی رہا.ابن و قاب نے لکھا ہے کہ تَبَّتْ کے معنے صَفِرَتْ ہیں.یعنی خالی رہے.ہاتھوں کی طرف اشارہ اس واسطے بھی ہے کہ اس کا خیال تھا کہ میرا ہاتھ غالب رہے گا.اور مَیں رسول کے مقابلہ میں فتہمند رہوں گا.مگر خدا تعالیٰ نے اس کو عذاب کے ساتھ جلد موت دی.بعض نے لکھا ہے کہ تَبَّتْ سے اشارہ اس کے بیٹے عُتْبَہ کی طرف ہے.اگر بیٹے کی طرف اشآرہ ہو تو بیٹے کی ہلاکت بھی باپ کی ہلاکت ہے.اور واقعات یہ ہیں کہ دونوں ہلاک ہوئے تھے.اس کے بیٹے عتبہ کا ذکر ہے کہ وہ تجارت کے واسطے شام کو گیا ہوا تھا.وہاں سے اہلِ قافلہ کے ذریعہ سے آنحضرتؐ کو کہلا بھیجا کہ تم محمدؐ کو جا کر کہہ دینا کہ مَیںاُسی وحی کا کافر ہوں جو تم پر اُتری ہے.اور شرارت میں ہمیشہ مبالغہ کیا کرتا تھا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کے حق میں بد دُعا کی تھی کہ اَللّٰھُمَّ سَلِّطْ عَلَیْہِ کَلْباً مِنْ کِلَابِکَ چنانچہ ایک جنگل میں شیر نے اسے پھاڑ کھایا.الغرض ابولہب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک سخت دشمن تھا ہمیشہ ایذادہی کے درپے رہتا تھا.اور آپ کے حق میں ہلاکت کی بد دُعا کیا کرتا تھا.وہی بد دعا بالآخر اُلٹ کر اس کے اپنے سر پر جا پڑی اور وہ دین و دنیا میں خائب و خاسر ہو کر ہلاک ہو گیا.مَا اَغْنٰی عَنْہ: نہ کفایت کیا اس سے.اس کے کسی کام نہ آیا.ہیچ دفع نہ کردازاُوْ.مَالُہٗ وَ مَا کَسَبْ: اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا.مَاکَسَبْ.جو کچھ اس کی کمائی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد اس کی اولاد ہے.مَا اَغْنٰی مَا لُہٗ وَ مَا کَسَبْ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی مخالفت میں کوئی چیز اس کے کام نہ آئی.خداکے عذاب سے نہ اس کو اپنا مال چھڑا سکا اور نہ اس کی اولاد اس کے کسی کام آئی.اس میں ایک پیشگوئی بھی ہے کہ باوجود مالدار ہونے کے اور صاحبِ اولاد ہونے کے اور قوم کے درمیان معزّز ہونے کے اس کی تمام کوششیں جو کہ وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میں کر رہا ہے.سب کی سب اکارت جائیں گی.وہ اپنی کسی کوشش میں کامیاب نہ ہو گا.بلکہ ایک نامرادی کی موت مرے گا.اس میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بڑا بھاری نشان ہے.کیونکہ یہ آیات ایسے وقت نازل ہوئی تھیں.جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہنوز مکّہ شریف میں رہتے تھے.اور صرف چند آدمی آپؐ کے ساتھ تھے.اور بظاہر کوئی رُعب آپؐ کا لوگوں پر نہ تھا.بلکہ سب لوگ ہنسی ٹھٹھا کرتے اور ایذاء دیتے اور تمام قوم آپ کی دشمن تھی اور اپنے کیا بیگانے سب بگڑے ہوئے تھے.کوئی شخص مسلمانوں میں داخل ہونے کی جرأت بمشکل تمام

Page 547

تمام کر سکتا تھا.جو مسلمان ہو جاتا.وہ بھی اپنے آپ کو خفیہ رکھتا.غرض ایسے وقت میں جبکہ دنیادار نظربہ ظاہر حالات کر کے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ سلسلہ ایسا کمزور ہے کہ آج ٹوٹا یا کل.ایسے وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی کہ خدا تعالیٰ ہم کو کامیاب کرے گا اور یہ اشد دشمن ابولہب جیسا قوم کا سردار نامرادی کے گذھے میں گر جائے گا.یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات کے نمونے ہیں.جن کے ذریعہ سے وہ اپنے بندوں کی سچائی دنیا پر روشن کر دیتا ہے.اور وہ دکھا دیتا ہے کہ بے شک یہ اس کی طرف سے مبعوث ہے ورنہ ایک انسان عاجز کا یہ حوصلہ نہیں کہ ایسی بے کسی اور بے بسی کے وقت میں اتنا بڑا دعوٰی کرے خدا تعالیٰ ظاہر میں لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا.پر وہ اپنے عجائب در عجائب کاموں سے پہچانا جاتا ہے جس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب قادیان کے گاؤں میں ایک گوشہ نشین شخص تھے.اور ایک مہمان بھی کبھی آپ کے پاس نہ آتا تھا اور رات دن تنہائی میں خدا کی عبادت کرتے ہوئے گزرتی تھی.اس وقت خدا نے یہ الہام کیا کہ تیرے پاس دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور دُور دُور سے تحائف اور ہدایا بھی تیرے لئے لائیں گے.اُس وقت ممکن ہے کہ خود مُلہم کو بھی اس پر تعجّب ہوا ہو.کہ مجھے تو نہ کوئی جانتا ہے اور نہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی جانے اور مَیں تو اس کو کو دوست رکھتا ہوں کہ خلوت میں بیٹھا رہوں اور اپنے خدا کی عبادت میں مصروف رہوں.یہ کیا بات اہے.کہ دُور دُور سے لوگ آئیں گے اور تحفے تحائف بھی لائیں گے مگر قدرتِ خداوندی اسی طرح سے ہے.کہ جو دنیا کو خدا کے واسطے لات مارتا ہے دنیا اسی کی خادم بنائی جاتی ہے.اور جو اس کے پیچھے دوڑتا ہے.وہ اس کے آگے بھاگتی ہے اور اس کو ہمیشہ حسرت اور ناکامی کی حالت میں رکھتی ہے.سَیَصْلٰی نَارًا: جلد داخل ہو گا آگ میں.زُود باشد کہ در آید بآتش.عنقریب آگ میں ڈالا جائے گا.نار سے مراد دو طرح کی آگ ہے.اوّل اسی دنیا میں نامرادی اور ناکامی کے ساتھ ہلاکت کی آگ کہ باوجود رات دن کی جان توڑ کوششوں کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا سلسلہ دن بدن ترقی پکڑتا گیا اور وہ ترقی ہر وقت اس کے دل کو ایک سوزش اور جلن میں ڈالتی تھی اور آکر اس کی موت بھی طاعون سے ہوئی جو ایک عذاب کی موت ہے اور اس دنیا کے عذاب کی موت ہے اور اس دنیا کے عذاب کے ساتھ آخرت کے عذاب کی جو پیشگوئی کی گئی ہے اس کا سچّا ہونا امر اوّل کے پورا ہو جانے سے ثابت ہوتا ہے.ذَاتَ لَھَبٍ: شعلوں والی.وہ آگ جس سے شعلے نکلتے ہوں.اس جگہ لہب کے لفظ میں وہ خوبی ہے کہ خود اس کا نام بھی ابولہب تھا جو کہ اس نے تکبّر اور غرور کے سبب اپنے لئے پسند کیا ہوا تھا.

Page 548

اس آیت شریف میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری آیت تو صیغہ ماضی میں بیان کی گئی ہیں.کہ وہ ہلاک ہو گیا اور اس آیت شریف میں صیغہ استقبال استعمال کیا گیا ہے.کہ وہ آگ میں داخل ہو گا.اس میں کیا حکمت ہے.سو واضح ہو کہ دراصل یہ ایک پیشگوئی ہے.اور جس وقت سنائی گئی.اس وقت ابولہب چنگا بھلا تھا.اور بڑے زور میں تھا.اور قوم میں معزّز تھا اور آنحضرت ایک بے کسی اور بے بسی کی حالت میں تھے.لیکن اﷲ کے رسول کی تکالیف کو دیکھ کر آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان تکالیف کا اب خاتمہ ہو جاوے اور ابولہب ہلاک ہو جاوے.چونکہ کوئی کام زمین پر نہیں ہوتا جب تک کہ آسمان پر نہ ہو لے.اس واسطے جس امر کا فیصلہ آسمان پر ہو جاوے.اُس کو ہو گیا ہوا بتایا جاتا ہے.کیونکہ وہ خدا کا حکم ہے اور یقینی پیشگوئی ہے.اور حتمی وعدہ ہے.اس واسطے پہلے سے منا دی کی گئی کہ ابولہب ہلاک ہو گیا.حضرت ابو رافع فرماتے ہیں کہ میں عباس بن عبدالمطلب کا غلام تھا اور ہمارے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا کیونکہ حصرت عباسؓ مسلمان ہو چکے تھے.اور اُم فضل بھی اسلام میں داخل ہو گئی تھی.اور مَیں بھی مسلمان ہو گیا تھا لیکن ہم لوگ قوم سے ڈرتے تھے.اور عام طور پر اپنے اسلام کو ظاہر نہ کرتے تھے کہ زمانہ ابتدائی تھا اور لوگ سخت دُکھ دیتے تھے.جنگِ بدر کے موقعہ پر ابولہب خود نہ گیا تھا.بلکہ ۱؎ اپنی جگہ دو آدمیوں کو بھیج دیا تھا.جب خبر آئی کہ جنگِ بدر میں مسلمانوں کی فتح ہوئی تو ہمیں قوت پیدا ہوئی اور ہم بہت خوش ہوئے.میں اور امّ فضل ایک جگہ بیٹھے تھے.اوپر سے ابولہب آیا اور وہ بھی بیٹھ گیا.اتنے میں ابوسفیان جنگ سے واپس آیا.ابولہب نے اس سے جنگ کی کیفیت پوچھی.ابوسفیان نے منجملہ اور باتوں کے بیان کی کہ عجیب بات ہے کہ ہمارے مقابلہ میں کچھ گورے رنگ کے سوار بھی تھے.جو آسمان اور زمین کے درمیان میں تھے.مَیں نے کہا وہ خدا کے فرشتے تھے.میرا یہ کہنا تھا کہ ابولہب اٹھا اور مجھے مارنے لگا لیکن امّ فضل نے مجھے چھڑایا اور ابولہب کو مارا اور لعنت ملامت کی اس کے سات دن بعد اس کے ہاتھ پر ایک پھوڑا نکلا اور اسی سے مر گیا.: اور اس کی جو رُو اٹھانیوالی لکڑیوں کی.ابولہب کی جوڑو کا نام امّ جمیل تھا.حرب کی بیٹی تھی اور ابوسفیاں کی بہن.آنحضرتؐ کے ساتھ عداوت اور بُغص میں اپنے خاوند کی طرح تھی.ہمیشہ آپؐ کو دُکھ دینے کے درپے رہتی تھی.اس آیت شریف میں ۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۵؍ دسمبر ۱۹۱۲ء

Page 549

کے خاوند کا نام ابولہب اور اس کا نام حَمَّالَۃ الْحَطَبْ ایک عجیب صفت ہے.جو اپنے اندر حقیقی اور لطیف معانی رکھتے ہیں.اس کے خاوند کی عادت تھی کہ لوگوں کو آنحضرتؐ کے خلاف جنگ و جدال پر آمادہ کرتا رہتا تھا.لہب سے مراد شعلۂ آتشِ جنگ ہے.ابولہب وہ شخص ہے جو جنگ پر لوگوں کو برانگیختہ کرتا ہے.حَمَّالَۃ الْحَطَبْ لکڑیوں کے اٹھانے والی وہ ہے جو اس شعلہ کو بھڑکانے کے واسطے اس میں ایندھن ڈالتی رہتی ہے.اس عورت کی عادت تھی کہ ہر جگہ جھوٹی باتیں بنا کر آنحضرت کے برخلاف مخالفت کی آگ کو بھڑکاتی رہتی تھی.سخن چینی کے ذریعہ سے مخالفت کی آگ کا بھڑکانا اس کا پیشہ تھا.اور اسی آگ میں وہ خود بھی بمعہ اپنے خاوند کے ہلاک ہوئی.شیخ سعدی علیہ الرحمۃ نے کیا خوب فرمایا ہے.میاں دوکس جنگ چوں آتش است سخن چین بدبخت ہَیْزُم کش است کنند ایں و آں خوش و گربا رہ دل ولے اندر میاں کور بخت و خجل میاں دوکس آتش افروختن نہ عقل است خود درمیاں میاں سوختن بخاری شریف میں آیا ہے.قَال مجاھد حَمَّالَۃَ الحَطَبِ تَمْشِیْ بِالنَّمِیْمَۃِ.حَمَّالَۃَ الْحَطَبْوہ ہے جو چغل خوری کرتی پھرتی ہے.کہتے ہیں.اس کی عادت تھی کہ گھر میں جلانے کے واسطے لکڑیاں خود جنگل میں جا کر چُنتی تھی اور اکٹھی کر کے خود اٹھا کر لاتی تھی.اس واسطے بھی اس کا نام حَمَّالَۃ الْحَطَبْ تھااور آنحضرتؐ کے ساتھ ایسی دشمنی رکھتی تھی کہ جنگل سے کانٹے اور خس و خاشاک اکٹھے کر کے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دروازے پر آپؐکے راستہ میں بچھا دیتی تھی.تاکہ آپؐ کو تکلیف پہنچے اور رات کو جب آپؐ نماز کے واسطے باہر جائیں تو آپؐ کو کانٹوں کے سبب تکلیف ہو.لکھا ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس کو خبر لگی کہ میرے اور میرے خاوند کے حق میں اس قسم کے الفاظ آنحضرتؐ نے سانئے ہیں.تو بڑی شوخی اور بے باکی کے ساتھ ایک رسّی ہاتھ میں لئے آنحضرت کے پاس آئی اور اس طرح کہتی آتی تھی مُذَمَّمًا اَبَیْنَا دِیْنَہٗ قَلَیْنَا وَ اَمْرَہٗ عَصَیْنَا.ہم نے ایک مذمّت کئے گئے کا انکار کیا اور اس کے دین کو ہم نے ناپسند کیا اور اس کے حکم کی ہم نے نافرمانی کی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو دشمن نابکار بجائے محمدؐ کے مذقّم کہا کرتے تھے.محمدؐ کے معنے ہیں تعریف کیا گیا.اور مذمّم کے معنے ہیں مذمّت کیا گیا.نابکار دشمن ہمیشہ اس قسم کی شرارتیں کیا کرتے تھے.جیسا کہ آجکل کے بیوقوف مخالف لفظ قادیانی کو کادیانی لکھ کر ایک احمقانہ خوشی اپنے واسطے پیدا کر لیتے ہیں مگر ایسی باتوں سے کیا ہو سکتا تھا.جس کو خدا تعالیٰ عزّت دینا چاہتا ہے.اس کو ذلیل کرنے کے واسطے

Page 550

کوئی ہزار ناک رگذے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.غرض اس قسم کے الفاظ بولتی ہوئی وہ آنحضرت ؐ کی طرف آئی.آگے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابوبکرؓ بیٹھے ہوئے تھے.صدیق کو خوف ہوا کہ یہ شریر عورت ہے اور بے ڈھب طور پر غصّہ میں ہے.کچھ اذیت نہ دے.مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تشفی رکھو وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس کی نظر حضرت ابوبکرؓ پر پڑی اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس نے نہ دیکھا اور حضرت ابوبکرؓ سے پوچھنے لگی.کہ مجھے خبر لگی ہے کہ تیرے دوست نے میری ہجو کی ہے.صدیق اکبرؓ نے فرمایا.نہیں.اس نے تیری ہجو نہیں کی ( ہجو سے مراد شاعرانہ ہجو ہے جو شاعر لوگ کسی دشمن کی کیا کرتے ہیں) اور حضرت صدیقؓ نے سچ کہا.سورۃ تَبَّتْ تو کلامِ خدائے علیم و حکیم ہے.نہ کہ کلام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم.یہ سُن کر وہ واپس چلی گئی.اور کہتی تھی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں تو ان کے سردار کی بیٹی ہوں.بھلا میری ہجو کس طرح کوئی کر سکتا ہے.: اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسّی ہے.: اس کی گردن میں جِیْد بمعنے گردن جَبْلٌ: رسّی مَسَد: بٹی ہوئی.کسی قسم کی بٹی ہوئی رسی.پوست کھجور کی ہو یا چمڑے کی ہو یا لوہے کی ہو غرض بٹی ہوئی ہو.ہر قسم کی بٹی ہوئی رسی کومَسَدٌکہتے ہیں.یہ اُس عورت کی صورت ظاہری کا نقشہ ہے جبکہ وہ جنگل سے کانٹے وغیرہ اکٹھے کر کے لاتی.تاکہ حضرت کی راہ میں بچھا دے تو اُن کا گٹھا رسّی سے باندھ کر پشت پر رکھتی.اور رسّی اس کی گردن میں سے ہو کر اس کو پکڑے ہوئے ہوتی.وہی کانٹے اور وہی رسیاں بالآخر اس کے واسطے ہلاکت کا موجب ہوئیں اور جہنم کی زنجیر اس کے گلے میں پڑی.جیسا کہ لیکھرام اس بد زبانی کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں طَعن کی چُھری چلاتا تھا.وہ جُھری ظاہری شکل اخیتار کر کے اس کے پیٹ میں بھونکی گئی.اور جس طعن کے ساتھ شریر لوگ مسیح موعودؐ کے حق میں بد زبانی کرتے تھے.وہی طعن طاعون کی شکل اخیتار کر کے ان کے گلے کا ہار ہوا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ یہ عورت اسی طرح لکڑیوں کا بڑا گٹھا اٹھا کر جنگل سے لاتی تھی.راستہ میں ایک پتھر پر گٹھاٹکا کر اور پُشت لگا کر آرام لینے کے واسطے ٹھیر گئی تو وہی گٹھا پتھر سے نیچے کھسک کر لٹکنے لگا.اس کے بوجھ سے گردن کی رسّی سخت ہو کر اسے جہنم واصل کر گئی.ایسی بدکاروں کا یہی انجام ہوتا ہے.خواہ وہ اپنے ملک اور قوم میں معزز ہی ہوں مگر اﷲ تعالیٰ کے رسول کی عداوت

Page 551

عداوت انسان کو سخت نقصان میں ڈال دیتی ہے.اور اگلے پچھلے تمام عمل ضائع ہوتے ہیں.اس سورہ شریف میں ابولہب اور اس کے تمام کنبے کے متعلق پیشگوئی ہے اس کے متعلق.اس کے بیٹے کے متعلق ، قدرتب خدا یہ سب پیشگوئیاں، اپنے اپنے وقت پر ایسی پوری ہوئیں کہ آج تک ایک زبردست نشان کے رنگ میں دنیا کے سامنے ایک نقشۂ عبرت کھینچ رہی ہیں.آج اس زمانہ میں ہی خدا تعالیٰ نے اس قِسم کے قہری نشانات کی بہت سی مثلایں قائم کر دی ہیں.جن یں سے ایک لیکھرام کا نشن ہے.وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں بہت ہی نالائق اور ناپاک کلمات بلا کرتا تھا اور حصرت مرزا صاحب کے حق میں پیشگوئی کی تھی کہ یہ تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائیں گے اور بدگوئی میں اور گالیاں دینے میں حد سے بڑھا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے ان تمام گالیوں اور بدگوئیوں کو ایک خنجر کی شکل میں واپس اُس کے پیٹ میں بھونک دیا جہاں سے کہ وہ نکلی تھیں.اس آیت شریف کے شانِ نزول میں یہ اتفاق ہے کہ وہ ابولہب کی گالیوں اور ایذاء ئے مقابلہ میں نازل ہوئی تھی.وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں ہلاکت کی بد دعا کیا کرتا تھا.گو اس امر میں کسی قدر اختلاف ہے کہ آیا یہ آیت اس بات پر نازل ہوئی.جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر تمام قبائل کو جمع کیا اور انہیں خدا کے عذاب سے ڈرایا تو اس وقت ابولہب نے جھنجلا کر کہا کہ تجھ پر ہلاکت ہو، کیا اسی واسطے تو نے ہمارا سارا دن خراب کیا ہے.بعض کا قول ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے تمام اعمال کو جمع کیا اور ان کی ضیافت کی.اور ان کے سامنے کھانا رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے تو ہر ایک، ایک پوری بکری کا گوشت کھانے والا ہے.یہ تو نے کیا ہمارے سامنے رکھا ہے.عرب میں قاعدہ تھا کہ دعوت کے وقت ہر شخص کے سامنے بہت سا کھانا رکھا جاتا تھا.اور اس میں ایک عزّت سمجھی جاتی تھی.اس کے مطابق انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی دعوت پر اعتراض کیا.کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہر امر میں سادگی پسند تھے.اس واسطے ان کو کہا گیا کہ تم کھانا تو شروع کرو.جب انہوں نے کھانا شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے اس تھوڑے سے کھانے میں ایسی برکت ڈالی.کہ وہ سب سیر ہو گئے اور کھانا بہت سا بچ بھی رہا.جبکہ وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی طرف دعوت کی.تب ان میں سے ابولہب بولا کہ اچھا.اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لئے کیا ہو گا.آنحضرتؐ نے فرمایا.جو کچھ دوسرے مسلمانوں کے لئے ہو گا وہی تیرے لئے ہو گا.تب اُس نے کہا، کیا مجھے دوسروں پر فضیلت نہیں، آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فضیلت کس بات کی؟ تب اُس نے جواب دیا، تَبًّا لِھٰذَا الدِّیْنِ یَسْتَوِیْ فِیْہِ اَنَا وَغَیْرِیْ، خراب ہو

Page 552

وہ دین جس میں دوسرے میرے برابر ہو جاویں.ایسا ہی ایک دفعہ چند لوگ باہر سے حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خبر سُن کر آپؐ کی زیارت کے واسطے مکّہ معظمہ میں آئے تو ابولہب ان کو راستہ میں مل پڑا اور کہنے لگا کہ تم اس کے پاس کیا جاتے ہو وہ تو ساحر ہے.ان لوگوں نے جواب دیا کہ کچھ ہی ہو.ہم تو اب ضرور ان سے مل کر جاویں گے.جب وہ لوگ باوجود اُس کی بڑی کوشش کے آنحضرت ؐ کے پاس چلے گئے.اور اس کی بات نہ مانی تو وہ کہنے لگا.اِنَّا لَمْ نَزَلْ نُعَالِجُہٗ مِنَ الْجُنُوْنِ فَتَبَّالَّہٗ وَ تَعْسًا ہم تو ہمیشہ اس کا علاج کرتے ہیں کہ اس کا جنون دور ہو جاوے،اُس پر ہلاکت اور افسوس ہو.اُن لوگوں نے یہ بات آنحصرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو جا کر سنا دی، جس کے سبب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو حُزن پہنچا الغرض کوئی ہی واقعہ ابولہب کی شرارت اور شوخی کا ہوا ہو.بہر حال یہ سورۃ شریف اسی کے متعلق نازل ہوئی تھی.حصرت مسیح موعود علیہ السلام بارہا فرمایا کرتے تھے کہ کفّار کا وجود بھی بہت فائدہ دیتا ہے.کیونکہ کفّار جب خدا تعالیٰ کے نبی کو دُکھ دیتے ہیں اور اُس کو ہر طرح ستانے پر کمر باندھتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی نشان دکھا دیتا ہے اور قرآن شریف کے اکثر حصّے کے نزول کے وقت بھی کفّار ہی تھے.ورنہ سارے لوگ حصرت ابوبکرؓ ہی کی طرح اٰمَنَّا وَ صَدَّقنا کہنے والے ہوتے تو اس قدر آیات اور نشانات کہاں نازل ہوتے.اس سورۃ شریف میں کفّار کے سرداروں میں سے ایک کو لیا گیا اور نام ذکر کیا گیا ہے.مگر در اصل اس میں تمام کفار کے سرداروں کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے.جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے بالمقابل کھڑے ہوئے تھے.اور آپؐ کی مکالفت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہاتھ بڑھاتے تھے.خدا تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کیا اور دین و دنیا میں خائب و خاسر کر دیا.فالحمد ﷲ علیٰ ذآلک (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ دسمبر ۱۹۱۲ء)

Page 553

سُوْرَۃَ الْاِخْلَاصِ مَکِّیَّۃٌ ۲ تا ۵.....اور مخاطب تو کہہ دے.اصل بات تو یہ ہے کہ خود بخود موجود جس کا نام ہے اَﷲ پوجنے کے لائق.فرماں برداری کا مستحق ، وہ ایک ہے، اپنی ذات میں یکتا.صفات میں بے ہمتا، ترکیب و مقدار سے پاک.اﷲ جس کا نام ہے، وہ اصل مطلب مقصود بالذات ہر کمال میں بڑھا ہوا، جس کے اندر نہ کچھ جاوے کہ کھانے پینے وغیرہ کا محتاج ہو.نہ اس کے اندر سے کچھ نکلے کہ کسی کا باپ بنے، پس نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا.اس کے وجود میں ، اس کے بقا میں.اس کی ذات میں.اس کی صفات میں کوئی بھی اس کے جوڑ کا نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۷ں۲۴۸) اے رسول اس طرح کہو اور اقرار کرو اور یقین کرو اور لوگوں کو وعظ کرو کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے واحد اور یگانہ ہے.اﷲ بے احتیاج ہے.کسی کا محتاج نہیں.بے نیاز ہے.کسی کی اُسے کوئی پرواہ نہیں.اس نے کوئی بیٹا بیٹی نہیں جَنا.اور نہ خود اُس کو کسی نے جنا تھا.اور نہ اُس کا کوئی کنبہ قبیلہ شریک برداری والا اور برابری کرنے والا ہے.یہ سورۃ مکّی ہے یعنی مکّہ معظّمہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں بسم اﷲ شریف کے بعد چار آیتیں ہیں.اس کے الفاظ پندرہ ہیں اور حرف سینتالیس ہیں.: بھی اﷲ تعالیٰ کا نام ہے.توریت میں زیادہ تر یہی نام خدا تعالیٰ کا آتا ہے.عبرانی میں اس کا ترجمہ یہوواہ سے کیا جاتا ہے.مگر عبرانی زبان کے ایک مُردہ زبان ہونے کے سبب ٹھیک تلفّظ اور اصلیت کے متعلق بہت اختلاف پیدا ہو گیا ہے.عبرانی حروف میں اس کو اس طرح سے لکھا جاتا ہے.n 7 n 7 ی ہ و ہ

Page 554

چونکہ ابتدائی طرزِ تحریر زبان عبرانی میں حروف پر حرکات دینے کا رواج نہ تھا.اس واسطے ٹھیک طور پر معلوم نہیں رہا.کہ توریت میں یہ لفظ کس طرح سے پڑھا جاتا تھا.بعض کہتے ہیں کہ یہ لفظ یَاھُوَ تھا.بعض کہتے ہیں یاھوی ہے.بعص کے نزدیک یھوواہ ہے.آجکل کے یہودی اس لفظ کو خدا تعالیٰ کا ایک خاص مقدّس نام مانتے ہیں.اور بغیر خاص اوقات نماز اور روزہ کے اس لفظ کا منہ پر لانا گناہ جانتے یں.اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ عبرانی زبان عربی زبان سے بگڑ کر بنی ہے.اس واسطے یہ لفظ دراصل یَاھُوَ تھا.ھو اﷲ تعالیٰ کا نام ہے اور یا حرفِ مناوٰی ہے.جیسا کہ دُعا میں کہا جاتا ہے.اے خُدا.یا اﷲ.اسی سے بدل کر انگریزی میں جہواہ JEHOAHََِِبن گیا ہے.الغرض ھوؔ اﷲ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے.اَحَدٌ: احد کے معنے ہیں.ایک اکیلا.ایک ہی.عربی زبان میں واحد کے معنے بھی ایک ہیں.اور احد کے معنے بھی ایک ہیں.لیکن یہ اس پاک زبان کے عجائبات میں سے ہے کہ لفظ احد صرف اﷲ تعالیٰ کے صفات میں بیان ہوتا ہے اور خدا کے سوائے دوسرے کی صفت میں کبھی بولا نہیں جاتا.پھر ایک فرق واحد اور احد میں یہ ہے کہ جہاں واحد کا لفظ بولا جاوے.وہاں سمجھا جاتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا اور تیسرا بھی ہے.لیکن احد کے بعد دوسرا کوئی نہیں سمجھا جا سکتا.اس کی مثال یہ ہے کہ جب کہیں لَا یُقَاوِمُہٗ وَاحِدٌیک آدمی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو خیال میں آسکتا ہے کہ دو آدمی مقابلہ کر سکتے ہیں.لیکن جب کہا جاوے لَا یُقَاوِمُہٗ وَاحِدٌ تو اس کے معنے ہیں کہ اس کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکتا.اَﷲ: یہ نام خدا کے واسطے عربی زبان میں اسم ذات ہے.کا تعالیٰ کا خاص نام ہے.جو صرف اس کی ذات پر بولا جاتا ہے.دوسری کسی زبان میں خدا تعالیٰ کے واسطے کوئی ایسا نام نہیں.جو صرف اﷲ تعالیٰ کے واسطے بولا جاتا ہو اور ایک مفرد لفظ ہو اور کسی دوسرے کے واسطے کبھی استعمال نہ ہوتا ہو مثلاً انگریزی زبان میں اﷲ تعالیٰ کے واسطے دو لفظ بولے جاتے ہیں.ایک گاڈ GODدوسرا لارڈ LORD.سو ظاہر ہے کہ گاڈ GODکا لفظ انگریزی زبان میں تمام رومی اور یونانی اور ہندی بُتوں پر بولا جاتا ہے.اور دیوتاؤں کے واسطے بھی استعمال ہوتا ہے.اور لارڈ کا لفظ تو ایسا عام ہے کہ ایک معمولی فوج کا افسر بھی لارڈ ہوتا ہے.اور ایک صوبہ کا حاکم بھی لارڈ ہوتا ہے.بلکہ ولایت میں پارلیمنٹ کے اعلیٰ حصّے کے تمام ممبر لارڈ ہی ہوتے ہیں.ایسا ہی فارسی زبان میں اﷲ تعالیٰ کے واسطے کوئی خاص لفظ نہیں.جو لفظ زیادہ تر اﷲ تعالیٰ کے واسطے بولا جاتا ہے وہ خدایا خداوند ہے.خدا ایک مرکب لفظ ہے

Page 555

اور اس کے معنے ہیں.خودآ.جو خود بخود ہے.اور کسی نے اس کو جنا نہیں.اور فارسی لٹریچر میں یہ الفاظ اَوروں کے واسطے بھی استعمال میں آتے ہیں.ایسا ہی سنسکرت زبان میں جس قدر اﷲ تعالیٰ کے نام ہیں.وہ سب صفاتی ہیں.کوئی اسم ذات نہیں.یہاں تک اس سورۃ شریف کی پہلی آیت کے الفاظ کے معانی کی ہم نے تشریح کر دی ہے.: کہہ دے اے محمدؐ اور تمام جہان میں منا دی کر دے کہ وہ اﷲ ایک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ اس کی صفات میں کوئی اس کی مانند ہے.نہ یسوع اﷲ تعالیٰ ، نہ رام ، نہ کرشن، نہ بُدھ اور نہ کوئی اور.ہمیشہ سے ایک ہی اﷲ ہے.اور ہمیشہ تک ایک ہی اﷲ ہو گا.ایک ازلی ابدی خدا.: صمد وہ ہے جس کے سامنے لوگ اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں.اس سورۃ میں صمد بمعنی مصمود ہے.جیسا کہ قبض بمعنے مقبوض آتا ہے.اس کے معنے ہیں وہ سردار جس کے لوگ محتاج ہیں.یہ لفظ ان معنوں میں عربی زبان کے لٹریچر میں مستعمل ہے.چنانچہ وہ شعر بطور مثال کے اس جگہ نقل کئے جاتے ہیں.اَلَا بَکر نَاعَی بِخَیْرِ بَنِی اَسَد! بِعَمْرِو بْنِ مَسْعُوْدِ بِالسَیِّدِ الصَّمَد خبردار! صبح کو موت کی خبر دینے والے نے.بنو اسد کے اچھے آدمیوں سے جس کا نام عمرو بن مسعود خلقت اس کی محتاج ہے.عَلَوْتُہٗ بِحُسَامِیْ ثُمَّ قُلْتُ لَہٗ خُذْھَا حُذَیْفَ فَاَنْتَ السَیِّدُ الصَّمَد مَیںاپنی تلوار لے کر اس پر چڑھ گیا.پھر اس کو کہا.لے اس کو اے حذیفہ! کیونکہ تو بڑا سردار اور حاجت روا ہے.پس صمدؔ اس سردار کو کہتے ہیں.جس کی طرف وقتِ حاجت قصد کیا جاوے.چونکہ اﷲ تعالیٰ تمام انسانوں کو سب ہاجتوں کے پورا کرنے کے لئے قدرتِ تام رکھتا ہے.اس واسطے اس کی صفت میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے.اسی لحاظ سے سیّد سردار کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ تمام قوم اپنے سردار کی محتاج ہوتی ہے.حصرت ابن عباسؓ کی حدیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے.جس میں لکھا ہے کہ جب یہ سورۃ شریف نازل ہوئی تو اصحاب نے سوال کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم صمدؔ کیا ہے تو آپؐ نے فرمایا.ھُوَ السَّیِّدُ الصَّمَدُ الَّذِیْ یُصْمَدُ اِلَیْہِ فِی الْحَوَائِجِوہ سردار ہے جس کی طرف لوگ احتیاج کے وقت قصد کرتے ہیں.

Page 556

پھر لُغت عربی میں صمدؔ اس کو کہتے ہیں جس کا جوف نہ ہو.یعنی اس کے اندر کوئی چیز نہ جا سکے.نہ اس میں سے کوئی چیز نکلے.ایسا ہی صمدؔ اُس شفاف پتھر کو بھی کہتے ہیں.جس پر گرد و غبار نہ پر سکے مفیسرین نے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے لفظ صمدؔ کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے جن میں سے بعض کو اس جگہ نقل کیا جاتا ہے.۱.صمدؔ وہ عالِم ہے جس کو تمام اشیاء کا علم ہو اور وہ بجز ذاتِ الہٰی کے د وسرا نہیں.ٔ ۲.صمدؔ حلیم کو کہتے ہیں کیونکہ سیّد وہی ہو سکتا ہے جو حکم اور کرم کی صفات اپنے اندر رکھتا ہے.۳.صمدؔ وہ سردار ہے جس کی سرداری اور سیادت انتہائی اعلیٰ درجہ تک ہو.( ابن مسعود و ضحاک) ۴.صمد خالق الاشیاء ہے.(اَصَمّ) ۵.صمد وہ ذات ہے.جو چاہے سو کرے اور حکم کرتا ہے جو چاہتا ہے.اس کے حکم کو کوئی پیچھے نہیں کر سکتا اور اس کی قضاء کو کوئی ٹال نہیں سکتا.( حسین بن فضل) ۶.صمد وہ شخص ہے جس کی طرف لوگ حاجت کے وقت رغبت کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت اس کے پاس اپنی فریاد لے جاتے ہیں(سدی) ۷.سیّد المعظم کو صمد کہتے ہیں.۸.صمد غنی کو کہتے ہیں.۹.صمد وہ ہے جس کے اوپر اَور کوئی نہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے.وَھُوَ الْقَھِرُ فَوْقن عِبَادہٖ ( الانعام:۱۹) ۱۰.صمد وہ ہے جو نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے پر دوسروں کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے.( قتادہ) ۱۱.حسن بصری کا قول ہے کہ صمد وہ ہے جو لَمْ یَزَلْ ہے اور لَاینزَالُ ہے.اور اس کے لئے زوال نہیں.۱۲.صمد وہ ہے جس پر موت نہیں اور نہ اس کا کوئی وارث ہو گا اور آسمان و زمین کی میراث اسی کی ہے.( ابن ابی کعب) ۱۳.صمد وہ ہے جس پر نیند کا غلبہ نہیں اور نہ اس سے سہو صادر ہوتا ہے.(یمان و ابو مالک) ۱۴.صمد وہ ہے کہ جن صفات سے وہ متّصف ہوتا ہے.دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا ( ابن کیسان) ۱۵.صمد وہ ہے جس میں کوئی عیب نہ ہو ( مقابل ابنِ خبان) ۱۶.صمد وہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں پڑ سکتی ( ربیع بن انس)

Page 557

۱۷.صمد وہ ہے جو تمام صفات میں اور تمام افعال میںکامل ہو ( سعید بن جبیر) ۱۸.صمد وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو ( جعفر صادق) ۱؎ ۱۹.صمد وہ ہے جو سب سے مستغنی ہو ( ابوھریرہ) ۲۰.صمد وہ ہے کہ خلقت اس کی کیفیت پر مطلع ہونے سے ناامید ہو.۱؎ ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ دسمبر ۱۹۱۲ء ۲۱.صمد وہ ہے جو نہ جنتا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا.کیونکہ جو جنتا ہے.لامحالہ اس کا وارث ہوتا ہے.اور جو کود جنا گیا ہے.وہ ضرور مرتا ہے گویا صمد کے بعد کلمہ لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ.اس کا بیان، معنی اور تشریہ ہے.( البوالعالیہ) ۲۲.حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں.اِنَّہُ الْکَبِیْرُ الَّذِیْ لَیْسَ فَوْقَہٗ اَحَدٌ صمد وہ کبیر ہے جس کے اوپر اور کوئی نہیں.تفاسیر میں صمد کے معنے اور تشریح اور بھی بیان ہوئی ہے.بخوفِ طوالت اتنے پر اکتفا کیا گیا.: اﷲ تعالیٰ بے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں.سب اس کے محتاج ہیں.وہ کسی کا مخلوق نہیں.سب اس کی مخلوق ہیں.سب کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے.وہ سب کی کیفیت جانتا ہے.کوئی اس کی کیفیت کا عالم نہیں.وہ سب پر احاطہ کئے ہوئے ہے کسی کا احاطہ اس پر نہیں.سب کا مالک ہے اور سب اس کے مملوک ہیں.: نہ وہ جنتا ہے اور نہ جنا گیا ہے.نہ اس کو کوئی ولد ہے اور نہ کو کسی کا ولد ہے.اس آیہ شریفہ میں ان تمام مذاہبِ باطلہ کا بالخصوص ردّ ہے جن میں اﷲ تعالیٰ کے بیٹے اور اولاد مانی جاتی ہے.جیسا کہ اس زمانہ کے عیسائی یسوع مسیح کو ولد اﷲ اور یعنی اﷲ کہتے ہیں.اس پر ایک سوال ہوا ہے کہ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے پہلے کیوں رکھا ہے اور پیچھے کیوں رکھا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مشرکین کا یہ مذہب ہوتا ہے کہ فلاں شخص خدا کا بیٹا تھا یا فلاں عورت خدا کی بیٹی تھی.مگر یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا کا باپ تھا یا فلاں عورت خدا کی ماں تھی.گو عیسائیوں کے جاہل فرقہ نے اس شرک میں کمال پیدا کیا ہے.کیونکہ ان کے درمیان مریم کو خدا کی ماں کہا جاتا ہے اور ایک بڑا فرقہ عیسائیوں کا اب تک مریم کی پرستش کرتا ہے.: اور نہ اس کے واسطے کوئی کفو ہے.کفو کے لغوی معنے ہیں

Page 558

ہیںنظیر اور مثیل.عرب میں بولا کرتے ہیں ھٰذَا کَفْوُکن اَی نَظِیْرُکَ یہ تیرا کفوؔ ہے.حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں لَیْسَ لَہٗ کُفُوٌ وَلَا مِثْلٌ.مجاہد کا قول ہے کہ کفو سے مراد صاحبہ یعنی جورُو ہے جیسا کہ ایک اور جگہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.(الانعام:۱۰۲) وہ آسمانوں کا اور زمین کا بنانے والا ہے.اس کا ولد کہاں سے آ گیا.جبکہ کوئی اس کی کوئی جورُو نہیں اور اس نے ہر شئے پید اکی ہے اور ہر شئے اس کی مخلوق ہے نہ کہ اولاد.یہاں تک ہم نے اس سورۂ شریفہ کے الفاظ کے معانی اور امن کی تشریح مفصل بیان کر دی ہے.اب اس سورۃ کے مضمون پر اور اس کے فوائد اور عجائبات پر کچھ بیان کیا جاتا ہے.یہ سورہ شریفہ باوجود مختصر ہونے کے بڑے عظیم الشان مطالب اور مضامین پر مشٹمل ہے.لکھا ہے کہ سورہ الحمد سارے قرآن شریف کا خلاصہ ہے اور دو سورتیں معوذ تین آخری دعائیں.اور قرآن شریف کا متن سورۃ بقرہ سے شروع ہوتا ہے اور سورۂ اخلاص پر ختم ہوتا ہے.اس صورت میں یہ سورۃ قرآن شریف کی سب سے آخری سورۃ ہے اور لُطف یہ ہے کہ یہ سورہ آخری زمانہ کے عظیم الشان فتنۂ عیسائیت سے بچنے کے واسطے ایک بڑا ہتھیار ہے.اس سورۃ میں اﷲ تعالیٰ کی توحید پر بالخصوص زور دیا گیا ہے.کہوہ ایک خدا ہے.اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کا کنبہ قبیلہ ہے.اس میں عیسوی مذہب کی تردید کی گئی ہے.کیونکہ دینِ عیسوی کا تمام دارو مدار تثلیث پر ہے کہ ایک خدا باپ ہے اور ایک خدا بیٹا اور ایک خدا روح القدس ہے.عیسائیوں نے ایک کنبہ خدا کا یہاں مقرر کیا ہے.کوئی باپ ہے.کوئی بیٹا ہے.کوئی روح القدس ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے ان سب کی تردید کی ہے کہ خدا وہ ہے جو ہے.کسی کا باپ نہیں اور ہے.کسی کا بیٹا نہیں.اور ہے.نہ اس کے برابر کوئی روح القدس وغیرہ ہے...ان ہرسہ کلمات کیساتھ تثلیث کو ردّ کر دیا گیا ہے.اور اس ردّ کی دلیل الفاظ احد اور صمد میں بیان کی گئی ہے.کیونکہ جو ایک ہے وہ تین کس طرح ہو سکتا ہے.اور جو یگانہ ہے اس کے ساتھ دوسرا تیسرا اس کی مانند کیونکر بن سکتا ہے.اور وہ صمد ہے کسی کا محتاج نہیں.یسوع تو کھانے پینے کا محتاج تھا.بھوک سے ایسا لاچار ہو جاتا تھا.کہ جیسا کہ انجیلوں میں لکھا ہے کہ جس درخت پر سے پھل نہ ملے اس درخت کو بھی دیوانوں کی طرح گالیاں

Page 559

Page 560

اس سورۂ شریفہ میں ذکر نہیں ہے.جو کوئی اس کے بیان پر پورا ایمان رکھے.وہ اﷲ کے دین میں مخلص ہے.۵.سورۃ النجاۃ: کیونکہ اس پر پورا ایمان لانے سے اور اسی یقین پر مرنے سے کہ خدا ایک ہے انسان نجات پاتا ہے اور دوزخ سے بچتا ہے.برخلاف اس کے عیسائیوں نے نجات اس میں سمجھی ہے.کہ خدا تین بنائے جائیں لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کا ردّ کیا ہے.کہ نجات اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ کو ایک مانا جاوے.۶.سورۃ الولایۃ: کیونکہ یہ سورۃ پورے علم اور عمل اور معرفت کا ذریعہ ہو کر انسان کو درجہ ولایت تک پہنجا دیتی ہے.۷.سورۃ النسبۃ: کیونکہ اس سورث کے شانِ نزول میں ذکر ہے کہ کفّار نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ آپ کے معبود کا نسب نامہ کیا ہے.تب یہ سورۃ نازلد ہوئی.۸.سورۃ المعرفہ: کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی معرفت اسی کلام کی معرفت کے ساتھ کامل ہوتی ہے.جابر کی روایت ہے کہ ایک شخص نے نماز پڑھی اور نماز میں کی سورث پڑھی تو آنحصرت صلی اﷲ عٹلیہ وسلم نے فرمایا.اِنَّ ھٰذَا عنرَفَ رَبَّہٗ بیشک اس شخص نے اپنے رب کو پہچان لیا.اس سے سورث کا نام سورۃ المعرفہ ہو گیا.۹.سورۃ الجمال: حدیث شریف میں آیا ہے.اِنَّ ﷲَ جَمِیْلٌ وَ یُحِوبُّ الْجَمَالَ اﷲ تعالیٰ کے جمال کے متعلق جب سوال کیا گیا تو جواب ملا.کہ وہ احد.صمد.لَمْ یلد ولَمْیُولَدْ ہے.۱۰.سورۃ المقشقشۃ: مقشقشہ کے معنے ہیں.بری کرنے والا.جب کوئی بیمار شفا پاتا ہے تو اہلِ عرب کہتے ہیں تَقَشْقَشَ الْمَرِیْضُ عَمَّابِہٖ.بیمار نے اس سے نجات پائی.جس میں وہ گرفتار تھا چونکہ یہ سورۃ شرک اور نفاق سے انسان کو بری کر کے خدا تعالیٰ کا خالص بندہ بنا دیتی ہے.اس واسطے اس کا نام مقشقشہ رکھا گیا ہے.۱۱.سورۃ المعوّذہ: کیونکہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم عثمان بن مظعون کے پاس تشریف لے گئے تو آپؐ نے اس سورۃ کو اور سورتوں سے ملا کر تعوّذ فرمایا.۱۲.سورۃ الصمد: کیونکہ اس میں صمد کا ذکر کصوصیت کے ساتھ ہے.۱۳.سورۃ الاساس: حصرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.سات آسمانوں اور سات زمینوں کی بنیاد پر بنائی گئی ہے.اس بات کی سمجھ قرآن شریف کے اس مقام سے بخوبی آ سکتی ہے.جہاں اﷲ تعالیٰ نے تثلیث اور ایک انسان کو خدا بنانے اور خدا بنانے اور خدا کا بیٹا بنانے کی بھاری خرابی اور نہایت شرارت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عقیدہ ایسا ناپاک ہے.کہ

Page 561

(مریم: ۹۱) قریب ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑیں اور زمین پھٹ جاوے اور پہاڑ گر جاویں.پس جب تثلیث کا باطل عقیدہ دنیا و مافیہا کی خرابی اور بربادی کا موجب ہے.تو اس کے بالمقابل توحید اُس کی عمدگی اور آبادی کا باعث ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں ایک اور جگہ آیا ہے.کہ (الانبیاء:۲۳) اگر زمین و آسمان کے اندر اﷲ کے سوائے کوئی اور معبود ہوتا.تو ان میں فساد مچ جاتا.فساد کی دُوری اس سے ہے کہ ان میں توحید قائم کی جاوے.۱۴.سورۃ المانِعہ: حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ شبِ معراج میں اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے تجھے سورۂ اخلاص عطا کی ہے.جو عرش کے خزانوں کے ذخیروں میں سے ہے.اور عذابِ قبر سے روکتی ہے.۱۵.سورۃ المحضرہ: کیونکہ اس کے پڑھنے کے وقت فرشتے اس کے سننے کے لئے حاضر ہوتے ہیں.۱۶.سورۃ المنفرۃ: کیونکہ شیطان اسے سُن کر بھاگ جاتا ہے.۱۷.سورۃ البراء ۃ: کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جو یہ سورث پڑھتا تھا فرمایا کہ تو آگ سے بری ہو گیا.۱۸.سورۃ المذکرۃ: کیونکہ یہ سورۃ انسان کو خدا تعالیٰ کی توحید یاد دلاتی ہے اور غفلت سے نکالتی ہے.۱۹.سورۃ النورؔ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر ایک شے کے لئے ایک نور ہوتا ہے اور قرآن شریف کا نور ہے.۲۰.سورۃ الامان: حدیث شریف میں آیا ہے، جس کسی نے کہا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وہ اﷲ کے قلعہ میں داخل ہوا، جو قلعہ میں داخل ہوا، اُس نے امان پائی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اِنِّیْ اُحِبُّ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ.مَیں اس سورہ ( اخلاص ) سے محبت رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.حُبُّکَ اِیَّاھَا اَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ اس کی محبوت تجھے بہشت میں داخل کر دیگی.ایسا ہی اور بہت حدیثوں میں اس سورۂ شریفہ کی تعریف آتی ہے کہ یہ قرآن کریم کے تیسرے حصّہ کے برابر ہے.اور اس کے پڑھنے کے بڑے بڑے فوائد ہیں.اس کی وجہ یہ ہے.کہ اس سورۂ شریفہ میں خالصۃً اﷲ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ہے اور تمام انبیاء اور رسول جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں.ان کی بعثت کا اصل منشاء یہی ہوتا ہے.کہ توحید الہٰی کو دنیا میں قائم کریں.کہ ایک خدا کی عبادت میں مخلوق کو لگادیں.اور

Page 562

اورغیر اﷲ کی محبت اور خوف کو دلوں سے نکال کر انسان کو کدا کا بندہ بنا دیں کیونکہ در اصل تمام بدیاں اور گناہ اسی سے شروع ہوتے ہیں.کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے سوائے کسی دوسری چیز کی محبت یا اس کا خوف غالب آ جاتا ہے.حصرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بار ہا فرمایا کرتے تھے.کہ کیا سبب ہے کہ ایک انسان جب جانتا ہو کہ سوراخ کے اندر ایک زہریلا سانپ ہے.تو وہ ہرگز اس سوراخ میں اپنی انگلی انہیں ڈالتا.اور جب جانتا ہے کہ اس زہر کے کھانے سے مَیں مر جاؤں گا.تو خواہ کتنا ہی کوئی زور لگائے اس زہر کو ہرگز منہ پر نہیں لا سکتا.تو پھر کیا سبب ہے کہ انسان باوجود اس اقرار کے کہ خدا ہے اور ایک واحد خدا سب کا مالک اور خالق ہے.پھر گناہ کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ معرفت الہٰی اس کو پورے طور سے حاصل نہیں جب معرفت پورے طور سے حاصل ہو جائے تو پھر ممکن ہی نہیں کہ انسان گناہ کے نزدیک جا سکے.بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے.حضرت انسؓ سے روایت ہے.کہ ایک مرد انصاری مسجد قبا میں امامت نماز کی کرتا تھا.نماز پڑھانے کے وقت جب کوئی حصّہ قرآن شریف کا پڑھتا تو اس کو سورۃ اخلاص کے ساتھ یعنی پہلے سورۃ اخلاص پڑھتا اور بعد اس کے کوئی اور سورث یا کوئی حصّہ قرآن شریف کا پڑھتا اور ہر رکعت میں وہ ایسا ہی کرتا.دوسرے اصحاب اس معاملہ میں اس پر اعتراض کرتے اور کہتے کہ کیا تو دوسری سورتوں کو کافی نہیں سمجھتا کہ اس سورث کو بہر حال ساتھ ملا ہی دیتا ہے اور بسا اوقات اُسے کہتے کہ تو اس سورۃ کا بار بار ہر رکعت میں پڑھنا چھوڑ دے.وہ ہمیسہ یہی جواب دیتا کہ تمہارا اختیار ہے کہ مجھے امام بناؤ یا نہ بناؤ.میں تمہاری امامت چھوڑ دیتا ہوں لیکن اس سورۃ شریف کا پڑھنا ترک نہیں کر سکتا.لوگ اس کو دوسروں سے افضل جانتے تھے اور بہر حال اس کو ہی امام بنانا پسند کرتے تھے.اس واسطے یہ جھگڑا اسی طرح.سے رہا.یہاں تک کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تک بات پہنچائی گئی.آنحضرت نے اس کو بلایا اور فرمایا.کہ اے فلا نے تجھے کون سی بات اس سے مانع ہے کہ تُو اپنے ساتھیوں کا کہنا مانے اور ہر رکعت نماز کے اندر تو نے سورۂ اخلاص کا پڑھنا کس واسطے اکتیار کیا ہے.اس نے عرض کی.یا رسول اﷲ اِنِّیْ اُحِبُّھَا مجھے یہ سورۃ پیاری لگتی ہے.تب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.حُبُّکَ ابیَّاھنا اَدْخَلَکَ الْجَنَّۃَ اس کا پیار کرنا تجھے جنت میں داخل کر دیگا.فقط اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سورۃ شریفہ کے ساتھ محبت کرنا خدا تعالیٰ کی توحید کے ساتھ محبت کرنا ہے ار اپنے آپ کو محتاج جان کر ایک خدا کی طرف اپنی احتیاج کو لے جانا.جو شخص تمام دنیا کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھکتا ہے.خدا تعالیٰ اس کو دنیا و مافیہا سے بے احتیاج کر دیتا ہے اور اپنے فضل سے اس کے سارے کام پورے کر دیتا ہے.اﷲ تعالیٰ کی توحید کے عقیدہ میں کمال پیدا کرنا انسان کو تمام مشکلات سے باآسانی نکال کر لے جاتا ہے.لیکن اس میں بعض ناواقف

Page 563

لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے.اور وہدتِ وجود کی طرف جھک گئے ہیں.ان کا خیال ہے کہ ہر ایک چیز جو ہم کو نظر آتی ہے، خدا ہے.ہر ایک آدمی خدا ہے اور صرف خدا ہی ہے، باقی اَور کچھ نہیں.حضرت اقدس مرزا صاحب مسیح موعودؑ فرمایا کرتے تھے کہ یہ عقیدہ بالکل غلط ہے.یہ لوگ خود خدا تعالیٰ کے خالق بنتے ہیں، اور اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی کیفیت پر ایک احاطہ کرنے کا دعوٰی کرتے ہیں.گویا انہوں نے مانند ایک جرّاح کے خدا کو نعوز باﷲ چیر پھاڑ کر دیکھ لیا ہے.اور اس کی تمام ہالت پر آگاہ ہو گئے ہیں.یہ بہت بُرا عقیدہ ہے.ہاں وحدتِ شہود کا عقیدہ درست ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کے دل میں اﷲ تعالیٰ کی محبت اور عظمت ایسی بیٹھ جائے کہ دوسرے کی اس کو پرواہ ہی نہ رہے.اور خدا تالیٰ کے ساتھ عشق اور محبت کا ایسا درجہ حاصل ہو جائے کہ بغیر خدا تعالیٰ کے ہر شے اس کو ہیچ نظر آئے اور خدا تعالیٰ کی وحدت پر اس کو پورا یقین ہو کہ وہی ایک اس قابل ہے جس کی عبادت کی جاوے.در اصل تمام بدیوں کی جڑھ شرک ہی ہے.جلی ہو یا خفی.جب انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا حاجت روا یقین کرتا ہے اور اس کی طرف اس طرہ جھکتا ہے کہ گویا اس کے بغیر اس کا کام کرنیوالا نہیں تو وہ توحید کے برخلاف اپنا قدم رکھتا ہے اور ایک شرک میں گرتا ہے.صاف وہ ہے جو ہر حال میں اپنے خدا پر اپنے یقین کو قائم رکھتا ہے اور اسی پر اس کا بھروسہ ہوتا ہے.چیْست ایماں؟ وحدہٗ پند اشتن! کار حق را ، باخدا بگذاشتن (بدر ۳۰؍اگست و ۶ ؍ستمبر ۱۹۰۶، ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍دسمبر۱۹۱۲) اس سورۃکے فضائل میں سے ایک یہ بھی حدیثب صحیح سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورث ثواب میں قرآن شریف کے تیسرے حصّہ کے برابر ہے.یہ بات بالکل سچی اور بہت ہی سچی ہے.اس واسطے کہ قرآن شریف مشتمل ہے اﷲ تعالیٰ کی ذات صفات کے مضامین، دنیوی امور یعنی اخلاقی، معاشرتی، تمدّنی اور پھر بعد الموت یعنی قیامت کے متعلقہ مضامین پر.اس سورۃ میں چونکہ اﷲ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کے متعلق ہی ذکر ہے.اسی طرح سے بلحاظ تقسیم مضامین یہ سورۃ قرآن شریف کے ۱ ؍ ۳ کے برابر ہے یعنی قرآن کریم کے تین اہم اور ضروری مضامین میں سے ایک مضمون کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے.دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب سورث فاتحہ سے جو کہ قرآن شریف کی کلید اور امّ الکتاب ہے اور یہ امّ الکتاب ضالیّن پر ختم ہوئی ہے.ضآل کہتے ہیں کسی سے محبت بے جا کرنے کو.یا جہالت سے کام لینے اور سچّے علوم سے نفرت اور لاپرواہی کرنے کو.صرف دو شخص ہی ضآّل کہلاتے ہیں.ایک تو وہ جو کسی سے بے جا محبت کرے.دوسرا وہ جو سچّے علوم کے حصول سے مضائقہ کرے.

Page 564

انسان ہر روز علم کا محتاج ہے.سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے.پس جو علم نہیں سیکھتا، اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے.جس سے انسان اچھے اور بُرے ، مفید اور مُضر، نیک اور بد، حق و باطل میںتمیز نہیں کر سکتا.حدیث میں آیا ہے کہ ضآل نصارٰی ہیں.دیکھ لو انہوں نے اپنی آسمانی کتاب کو کس طرح اپنے تصرّف میں لا کر ترجمہ در ترجمہ، ترجمہ در ترجمہ کیا ہے.کہ اب اصل زبان کا پتہ ہی نہیں لگتا.صاف بات ہے کہ ترجمہ تو خیال ہے مترجم کا.غرض الہٰی اور کتبِ سماوی میں انہوں نے ایسا تصرّف کیا اور جہالت کا کام کیا ہے.کہ وہ اصل الفاظ اب ملنے ہی محال ہیں.دوسری طرف حضرت مسیحؑ کی محبت میں اتنا غلّو کیا ہے کہ ان کو خدا ہی بنا لیا اور اس سورۃ میں اس قوم نصارٰی کا ذکر ہے.اور یہ سورث قرآن شریف کے آخر میں ہے اور یہ ضاّل کی تفسیر ہے.اور ضاّل کا لفظ امّ الکتاب کے آکر میں ہے.پس اس طرح سے امّ الکتاب کے آکر کو قرآن کے آکر سے بھی ایک طرح کی مناسبت ہے.ایک صحابیؓ جو کہ میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً وہ عیسائیوں کے پڑوس میں رہتا ہو گا.وہ اس سورۃ کا ہر نماز میں التزام کیا کرتا تھا بلکہ خود آنحضرتؐ نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ آپ صبح کی سنتوں میں غالباً زیادہ تر اور (الاخلاص) ہی پڑھا کرتے تھے.معرب کی نماز ( جو کہ جہری نماز ہے) میں اوّل رکعت میں اور دوسری رکعت میں (الاخلاص) اکثر پڑھا کرتے تھے.وتروں میں بھی آنحضرتؐ کا یہی طریق تھا.چنانچہ پہلی رکعت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی ( سورۃ الَاعْلٰی) دوسری میں (سورۃ الکافرون) اور تیسری (الاخلاص) بہت پڑھا کرتے تھے.غرض نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ اَو رَاد میں اس سورہ شریفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے.تو کہہ دے ( اور جو اس کا کہنے والا ہے) اﷲ ہے اور وہ واحد ہے ساری ہی صفاتِ کاملہ سے موصوف اور ساری بدیوں سے منزّہ ذات بابرکات ہے.یہ پاک نام اور اس کے رکھنے کا فخر ضرف صرف عربوں ہی کو ہے.اﷲ کا لفظ انہوں نے خاصل کر کے صرف صرف خدا کے واسطے خاص رکھا ہے اور ان کے کسی معبود ، بُت، دیویگ دیوتا پر انہوں نے کبھی بھی استعمال نہیں کیا.مشرک عربوں نے بھی اور شاعر دعربوں نے بھی بجُز خدا کی ذات کے اس لفظ کا استعمال کسی دوسرے کے حق میں نہیں کیا.کواہ وہ کتان ہی بڑا اور واجب التعظیم اُن کو کیوں نہ ہو.یہ فخر بجُز عرب کے اور کسی ملک اور قوم کو میسّر نہیں.

Page 565

زبان انگریزی سے مَیں خود تو واقف ہوں نہیں.مگر لوگوں سے سُنا ہے کہ اس زبان میں بھی کوئی لفظ خاص کر کے خالصتاً لِلّٰد نہیں ہے.ہر لفظ جو وہ خدا کے واسطے بولتے ہیں وہ ان کی زبان کے محاورے میں اَوروں پر بھی بولا جاتاہے.سنسکرت میں تو مَیں علیٰ وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ اوّل جو ان کی کتابوں میں خدا کا نام رکھا گیا ہے وہ اگنی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگنی آگ پر بھی بولا جہاتا ہے علیٰ ھٰذا القیاس اَور اَور جو نام بھی ویدوں میں پرمیشر پر بولے ہیں.وہ سرے کے سارے ایسے ہی ہیں کہ جن کی خصوصیت خد ا کے واسطے نہیں بلکہ وہ سب کے سب اَور دیوی دیوتاؤں وغیرہ پر بھی بولے جاتے ہیں.یہ فخر صرف اسلام ہی کو ہے کہ خدا کا ایسا نام رکھا گیا ہے کہ جو کسی معبود وغیرہ کے واسطے نہیں بولا جاتا.اَحَدٌ وہ اﷲ ایک ہے نہ کوئی اس کے سوا معبود اور نہ اس کے سوا کوئی تمہارے نفع و ضرر کا حقیقی مالک ہے.کاملہ صفت سے موصوف اور ہر بدی سے منزّہ اور ممتاز اور پاک ذات ہے.: اﷲ صمدؔ ہے.صَمَد کہتے ہیں.جس کی طرف ان کی احتیاج ہو اور خود نہ محتاج ہو.صنمَد سردار کو کہتے ہیں.اور صَمَدٌ اس کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر سے نہ کچھ نکلے اور نہ اُس میں کچھ گُھسے.یہ ایسا پاک نام ہے کہ انسان کو اگر اﷲ تعالیٰ کے اس نام پر کامل ایمان ہو.تو اس کی ساری حاجتوں کے لئے کام کافی اور سارے دُکھوں سے نجات کے سامان ہو جاتے ہیں.مَیں خود اپنے تجربہ سے کہتا ہوں اور اس امر کی عملی شہادت دیتا ہوں کہ جب صرف اﷲہی کو محتاج الیہ بنا لیا جاتا ہے تو بہت سے ناجائز ذرائع اور اعمال مثلاً کھانے پینے، مکان ، مہمانداری، بیوی بچوں کی تمام ضروری حاجات سے انسان بج جاتا ہے اور انسان ایسی تنگی سے بج جاتا ہے.جو اس کو ناجائز وسائل سے ان مشکلات کا علاج کرنے کی ترغیب دیتی ہے جوں جوں دنیا خد سے دور ہو کر آمدنی کے وسائل سوچتی ہے اور دنیوی آمد میں ترقی کرتی جاتی ہے.تُوں تُوں قدرت اور منشاء الہٰی ان آمدنیوں کو ایک خرچ کا کیڑا بھی لگا دیتا ہے.گھر کی مستورات سے ہی لو.اور پھر غور کرو کہ اس قوم نے کس طرح محنت کرنا اور کاروبارِ خانگی سے دست برداری اختیار کی ہے.چرخہ کا تنا یا چکّی پیس کر گھر کی ضرورت کو پورا کرنا تو گویا اس زمانہ میں گناہ بلکہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے.کام کاف ( جو کہ در اصل ایک مفید ورزش تھی.جس سے متوارات کی صحت قائم رہتی اور دودھ صاف ہو کر اولاد کی پرورش اور عمدہ صحت کا باعث ہوتا تھا) تو یوں چُھوٹا.اخراجات میں ایسی ایسی ترقی ہو گئی کہ آجکل کے لباس کو دیکھ کر مجھے تو بار بار تعجب آتا ہے.ایسا نکمّا لباس ہے کہ دس پندرہ دن کے بعد وہ نکمّا محض ہو کر خادمہ یا چُوہڑی کے کام کا ہو جاتا ہے.اور خدا کی قدرت کہ پھر وہ چُوہڑی بھی اس سے بہت عرصہ تک

Page 566

Page 567

Page 568

Page 569

Page 570

سُوْرَۃَ الْفَلَقِ مَدَ نِیَّۃُ  ۲ تا ۶... ...چار قُل جو نماز میں اور نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں اُن میں سے یہ تیسرا قُل ہے.قرآن شریف میں فَلَق ؔکا لفظ تین طرح پر استعمال ہوا ہے.فَالِقُ الْاِصْبَاحِ.فَالِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی.پس خدا فَالِقُ الْاِصْبَاحِ.فَالِقُ الْحَبِّ اور فَالِقُ النَّوٰی ہے.دیکھو رات کے وقت خلقت کیسی ظلمت اور غفلت میں ہوتی ہے.بجز موذی جانوروں کے عام طور سے چرند.پرند بھی اس وقت آرام اور ایک طرح کی غفلت میں ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تاکیدی حکم دیا ہے کہ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کر لیا کرو.کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک رکھا کرو.خصوصًا جب اندھیرے کی ابتداء ہو اور بچوں کو ایسے اوقات میں باہر نہ جانے دو.کیونکہ وہ وقت شیاطین کے زور کا ہوتا ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق جو کہ آج سے تیرہ سو برس پیشتر ایک اُمّی بیابانِ عرب کے ریگستانوں کے رہنے والے کے منہ سے نکلا تھا آج اس روشنی اور علمی ترقی کے زمانہ میں بھی نہایت باریک در باریک محنتوں اور کوششوں کی تحقیقات کے بعد بھی ہو رہی ہے.جو کچھ آپ نے آج سے تیرہ سور برس پیشتر فرمایا تھا.آج بڑی سر زنی اور ہزار کوشش کے بعد کوئی سچا علم یا سائنس اسے جُھوٹا نہیں کر سکا.اس نئی تحقیقات سے جو کچھ ثابت ہو ا ہے وہ بھی یہی ہے کہ کل موذی اجرام اندھیرے میں اور خصوصًا ابتداء اندھیرے میں جوش مارتے ہیں.مگر لوگ بباعث غفلت ان امور کی قدر نہیں کرتے.رات کی ظلمت میں عاشق اور معشوق.قیدی اور قید کنندہ.بادشاہ اور فقیر.ظالم اور مظلوم سب ایک رنگ میں ہوتے ہیں اور سب پر غفلت طاری ہوتی ہے.ادھر صبح ہوئی اور جانور بھی پھڑپھڑانے لگے.مُرغے

Page 571

بھی آوازیں دینے لگے.بعض خوش الحان آنیوالی صبح کی کوشی میں اپنی پیاری راگنیاں گانے لگے.غرض انسان حیوان، چرند، پرند، سب پر خود بخود ایک قسم کا اثر ہو جاتا ہے اور جوں جوں روشنی زور پکڑتی جاتی ہے.تُوں تُوں سب ہوش میں آجاتے ہیں.گلی ، کوچے، بازار ، دکانیں، جنگل، ویرانے سب جو کہ رات کو بھیانک اور سُنسان پڑے تھے.ان میں چہل پہل اور رونق شروع ہو جاتی ہے.گویا یہ بھی ایک قسم کی قیامت اور حشر کا نظارہ ہوتا ہے.خد تعالیٰ فرماتا ہے کہ فالق الاصباح مَیں ہوں.حَبّ، گیہوں، جَو، چاول وغیرہ اناج کے دانوں کو کہتے ہیں.دیکھو کسان لوگ بھی کس طرح سے اپنے گھروں میں سے نکال کر باہر جنگوں اور زمین میں پھینک اتے ہیں.وہاں ان کو اندھیرے اور گرمی میں ایک کیڑا لگ جاتا ہے اور دانے کو مٹی کر دیتا ہے اور پھر وہ نشوونما پاتا.پھیلتا پھولتا ہے اور کس طرح ایک ایک دانہ کا ہزار در ہزار بن جاتا ہے.اسی طرح ایک گِٹک(گُٹھلی) کیسی ردّی اور ناکارہ چیز جانی گئی ہے.لوگ آم کارس چُوس لیتے ہیں.گٹھلی پھینک دیتے ہیں، عام طور سے غور کر کے دیکھ لو کہ گٹھلی کو ایک ردّی اور بے فائدہ چیز جانا گیا ہے.مختلف پھلوں میں جو چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے وہ کھائی جاتی ہے اور گٹھلی پھینک دی جاتی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے میں فالق الحبّ والنّوٰی ( الانعام: ۹۶) اس چیز کو جسے تم لوگ ایک ردّی چیز سمجھ کر پھینک دیتے ہو اس سے کیسے کیسے درخت پیدا کرتا ہوں کہ انسان حیوان چرند پرند سب اس سے مستفید ہوتے ہیں.ان کے سائے میں آرام پاتے ہیں.ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.میوے.شربت.غذائیں.دوائیں اور مقوّی اشیاء خوردنی ان سے مہیا ہوتی ہیں.ان کے پتّوں اور ان کی لکڑی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہیں.گٹھلی کیسی ایک حقیر اور ذلیل چیز ہوتی ہے مگر جب وہ خدائی تصرّف میں آ کر خدا کی ربوبیت کے نیچے آ جاتی ہے تو اس سے کیا کا کیا بن جاتا ہے.غرض اس چھوٹی سی سورۃمیں اﷲ تعالیٰ نے لفظ فَلَق کے نیچے باریک در باریک حکمتیں رکھی ہیں اور انسان کو ترقی کی راہ بتائی ہے کہ دیکھو جب کوئی چیز میرے قبضۂ قدرت اور ربوبیت کے ماتحت آ جاتی ہے تو پھر وہ کس طرح ادنیٰ اور ارذل حالت سے اعلیٰ اور اعلیٰ بن جاتی ہے.پس انسان کو لازم ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ان صفات کو مدّ نظر رکھ کر اور اس کی کامل قدرت کا یقین کر کے اور اس کے اسماء اور صفات کاملہ کو پیش نظر رکھ کر اس سے دعا کرے تو اﷲتعالیٰ ضرور اسے بڑھاتا اور ترقی دیتا ہے.مجھے ایک دفعہ ایک نہایت مشکل امر کے واسطے اس دعا سے کام لینے سے کامیابی نصیب ہوئی تھی.ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ مَیں لاہور گیا.میرے آشنا نے مجھے ایک جگہ لے جانے کے واسطے کہا اور مَیں اس کے

Page 572

ساتھ ہو لیا مگر نہیں معلوم کہ کہا لئے جاتا ہے اور کیا کام ہے.اس طرح بے علمی میں وہ مجھے ایک مسجد میں لے گیا.جہاں بہت سے لوگ جمع تھے.قرائن سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کسی مباحثہ کی تیاری ہے.میری چونکہ نمازِ عشاء باقی تھی.مَیں نے اُن سے کہا کہ مجھے نماز پڑھ لینے دو.یہ مجھے ایک موقعہ مل گیا کہ مَیں دعا کر لوں.خدا کی قدرت اس وقت مَیں نے اس سورۃ کو بطور دعا پڑھا اور باریک در باریک رنگ میں اس دُعا کو وسیع کر دیا اور دعا کی کہ اے خدائے قادر و تونا تیرا نام ہے.میں ظلمات میں ہوں.میری تمام ظلمتیں دور کر دے اور مجھے ایک نور عطا کر کہ جس سے مَیں ہر ایک ظلمت کے شر سے تیری پناہ میں آجاؤں.تو مجھے ہر امر میں ایک حجت نیّرہ اور برہان قاطع اور فرقان عطا فرما.میں اگر اندھیروں میں ہوں اور کوئی علم مجھ میں نہیں ہے تو تُو ان ظلمات کو مجھ سے دور کر کے وہ علوم مجھے عطا فرما اور اگر مَیں ایک دانے یا گٹھلی کی طرح کمزور اور ردّی چیز ہوں تو تُو مجھے اپنے قبضۂ قدرت اور ربوبیت میں لے کر اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا.غرض اس وقت مَیں نے اس رنگ میں دعا کی اور اس کو وسیع کیا جنتا کہ کر سکتا تھا.بعدہٗ میں نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کی طرف مخاطب ہوا.خدا کی قدرت کہ اس وقت جو مولوی میرے ساتھ مباحثہ کرنے کے واسطے تیار کیا گیا تھا.وہ بکاری لیکر میرے سامنے بڑے ادب سے شاگردوں کی طرح بیٹھ گیا اور کہا.یہ مجھے آپ پڑھ دیں.وہ صلح حدیبیہ کی ایک حدیث تھی.حضرت مرزا صاحب کے متعلق اس میں کوئی ذکر نہ تھا.لوگ حیران تھے اور مَیں خدا تعالیٰ کے تصرّف اور کاملہ قدرت پر خدا کے جلال کا خیال کرتا تھا.آخر لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں تو مباحثہ کے واسطے ہم لائے تھے.تم ان سے پڑھنے بیٹھ گئے ہو.اگر پڑھنا ہی مقصود ہے تو ہم مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کر دیتے.ان کے ساتھ جمّوں چلے جاو اور روٹی بھی مل جایا کریگی.وہی شخص ایک بار پھر مجھے ملا اور کہا کہ مَیں اپنی خطا معاف کرانے آیا ہوں کہ مَیں نے کیوں آپ کی بے ادبی کی.مَیں حیران تھا کہ اس نے میری کیا بے ادبی کی.حالانکہ اس وقت بھی اس نے میری کوئی بے ادبی نہ کی تھی.غرض یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا قادر خدا ہے اور اس کے تصرّفات بہت یقینی ہیں.اس وقت تم لوگوں کے سامنے کایک زندہ نمونہ ربّ الفلق کے ثبوت میں کھڑا ہے.اپنے ایمان کو تازہ کرو اور یقین جانو کہ اﷲ تعالیٰ سچی تڑپ اور دردِ دل کی دُعا کو ہرگز ہرگز ضائع نہیں کرتا. مخلوق الہٰی میں بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انسان کے واسطے مضر ہو جاتی ہیں

Page 573

اُن سے بھی اﷲ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا ہی کے قبضۂ قدرت میں ہیں. اور اندھیرے کے شر سے جب وہ بہت اندھیرا کر دیوے.ہر اندھیرا ایک تمیز کو اٹھاتا ہے.جتنے بھی موذی جانور ہیں.مثلاً مچھر، پسو، کھٹمل ،جُوں، ادنیٰ سے اعلیٰ اقسام تک کل موذی جانوروں کا قاعدہ ہے کہ وہ اندھیرے میں جوش مارتے ہیں اور اندھیرے کے وقت ان کا ایک خاص زور ہوتا ہے.ظلمت بھی بہت قسم کی ہے.ایک ظلمتب فطرت ہوتی ہے.جب انسان میں ظلمت فطرت ہوتی ہے تو اس کو ہزر دلائل سے سمجھاؤ اور لاکھ نشان اس کے سامنے پیس کرو.وہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکتے.ایک ظلمتِ جہالت ہوتی ہے.ایک ظلمتِ عادت، ظلمتِ رسم، ظلمتِ صحبت، ظلمتِ معاصی غرض یہ سب اندھیرے ہیں.دعا کرتی چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب سے محفوظ رکھے.: اس قسم کے شریر لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں.مَیں نے اس قسم کے لوگوں کی بہت تحقیقات کی ہے اور اس میں مشغول رہا ہوں اور طب کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی میرے پاس آنے کی ضرورت پڑی ہے اور میں نے ان لوگوں سے دریافت کیا ہے.ان لوگوں کو خطرناک قسما قسم کے زہر یاد ہوتے ہیں.جن کے ذریعہ سے بعض امراض انسان کے لاحقِ حال ہو جاتی ہیں.وہ زہر یہ لوگ باریک در باریک تدابیر سے خادماؤں یا چوہڑیوں کے ذریعہ سے لوگوں کے گھروں میں دفن کرا دیتے ہیں.آخر کار ان کے اثر سے لوگ بیمار ہو جاتے ہیں.پھر ان کے چھوڑے ہوئے لوگ مرد اور عورتیں ان بیماروں کو کہتے ہیں کہ کسی نے تم پر جادو کیا ہے.کسی نے تم پر سحر کیا ہے.لہذا اس کا علاج فلاں شخص کے پاس ہے.آخر مرتا کیا نہ کرتا.لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنی مستورات کے ذریعہ سے چونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ زہر کہاں مدفون ہے اور ان کے پاس ایک باقاعدہ فہرست ہوتی ہے.وہ زہر مدفون نکال کر اُن کو بتاتے ہیں اور اس طرح سے ان بیماریوں کا اعتقاد اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے.پھر ان لوگوں کو چونکہ ان زہروں کے تریاق بھی یاد ہوتے ہیں.ان کے استعمال سے بعض اوقات تعویذ کے رنگ میں لکھ کر پِلوانے سے یا کسی اور ترکیب سے ان کا استعمال کراتے ہیں اور اُن سے ہزاروں روپے حاصل کرتے ہیں.اس طرح سے بعض کو کامیاب اور بعض کو ہلاک کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جو لوگوں کو اپنے فائدے کی غرض سے قسما قسم کی ایذائیں پہنچاتے ہیں.دوسری قسم کے وہ شریر لوگ ہیں جو مومنوں کے کاروبار میں اپنی بد تدابیر سے روک اور حرج پیدا کرتے ہیں اور اس طرح سے پھر مومنوں کی کامیابی میں مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.مگر آخر کار وہ ناکام رہ جاتے ہیں.اور مومنین کا گروہ مظفر و منصور اور بامراد ہو جاتا ہے.

Page 574

: کسی کی عزّت ، بھلائی، برائی، بہتری، اِکرام اور جاہ و جلال کو دیکھ کر جلنے والے لوگ بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسانی ارادوں میں بوجہ اپنے حسد کے روک پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.غرض یہ سورۃ مشتمل ہے ایک جامع دُعا پر.رسول اکرمؐ نے اس سورۃ کے نزول کے بعد بہت سے تعوّذ کی دعائیں ترک کر دی تھیں اور اسی کا ورد کیا کرتے تھے.حتّی کہ بیماری کی حالت میں بھی حضرت عائشہؐ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا اس سورۃ کو آپؐ کے دست مبارک پر پڑھکر آپؐ کے مُنہ اور بدن پر مَلتی تھیں.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے عام طور سے اب ان عجیب پُر تاثیر اَورَاد کو قریباً ترک ہی کر دیا ہے.انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو اُسے دوسرے کے واسطے بھی تیار رہنا چاہیئے کیونکہ ایک گناہ دوسرے کو بلاتا ہے اور اسی طرح سے ایک نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے.دیکھو بدنظری ایک گناہ ہے.جب انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے تو دوسرے گناہ کا بھی اسے ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور زبان کو بھی اس طرح شامل کرتا ہے کہ کسی سے دریافت کرتا ہے کہ یہ عورت کون ہے.کس جگہ رہتی ہے وغیرہ وغیرہ.اب زبان بھی ملوّث ہوئی اور ایک دوسرا شخص بھی اور جواب سننے کی وجہ سے کان بھی شریک گناہ ہو گئے اس کے بعد اس کے مال اور روپیہ پر اثر پڑتا ہے اور اس گناہ کے حصول کے واسطے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے.غرض ایک گناہ دوسرے کا باعث ہوتا ہے.پس مسلمان انسان کو چاہیئے کہ ایسے ارادوں کے ارتکاب سے بھی بچتا رہے.اور خیالاتِ فاسدہ کو دل میں جگہ نہ پکڑنے دے اور ہمیشہ دعاؤں میں لگا رہے ہے.انسان اپنی حالت کا خود اندازہ لگا سکتا ہے.اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو دیکھتا رہے کہ کیسے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہے.اور کیسے لوگوں کی صحبت اخیتار کی ہے.اگر اس کے یار آشنا اچھے ہیں اور جن کو اس نے چھوڑا ہے ان سے بہتر اسے مل گئے ہیں.جب تو خوشی کا مقام ہے ورنہ بصورتِ دیگر خسارہ دیکھنا چاہیئے کہ جو کام چھوڑا ہے اور جو اختیار کیا ہے.اُن میں سے اچھا کون سا ہے.اگر بُرا چھوڑ کر اچھا کام اختیار کیا ہے.تو مبارک.ورنہ خوف کا مقام ہے.کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کو اور ہر بدی دوسری بدی کو بُلاتی ہے.اﷲ تعالیٰ تم کو توفیق دے کر تم اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکو.اور نیکی کے قبول کرنے اور بدی کے چھوڑنے کی توفیق عطا ہو.(الحکم ۶؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۳.۴) اس طرح سے دعا مانگ.میں اپنے اُس پروردگار کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں.جو اندھیرے کو دور کر کے صبح کی روشنی پیدا کرتا ہے.اُس کے حضور مَیں پناہ گیر ہوتا ہوں.ان تمام چیزوں کی بدی سے جو

Page 575

پیدا ہوئی ہیں.اور اندھیرا کرنے والے کی شرارت سے جبکہ وہ چھپ جاوے اور ان کی شرارت سے جو گرہوں میں پھونکیں دے کر مخلوقِ الہٰی کو دُکھ دینے کے درپے رہتے ہیں اور حاسد کے شر سے جبکہ وہ حسد پر کمر باندھے.یہ سورہ شریفہ مدنی ہے یعنی مدینہ منوّرہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں  کے بعد پانچ آیتیں ہیں.اور تئیس کلمے ہیں اور تہتر حروف ہیں.اس سورہ شریفہ کی تفسیر سے پہلے اس امر کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.کہ اس سورۃ کے شانِ نزول میں بعض مفسرّوں نے یہ بیان کیا ہے کہ کسی یہودی نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور اس قسم کے جادوگروں کے شر سے محفوظ رکھنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی.اس واقعہ کو اگر احادیث میں دیکھا جائے.اوّلؔ تو اس حدیث کا راوی صرف ایک شخص ہے یعنی ھشام.حالانکہ اتنے بڑے واقعہ کے واسطے ضروری تھا کہ کوئی اور صاحب بھی اس کا ذکر کرتے.دومؔ اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ پر اس جادو کا کچھ اثر ہو گیا تھا یا آنحضرت نے ان جادو کرنے والے لوگوں کا کچھ پیچھا کیا تھا یا ان کو گرفتار کیا تھا.ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں اسی قسم کے آدمی ہوا کرتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہوا کرتا ہے کہ وہ لوگ ں پر جادو کیا کریں.اور یہ لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو خفیہ سازشوں اور شرارتوں کے ذریعہ سے لوگوں کو سزا دیتے ہیں.مثلاً ایک شخص ان کے پاس آیا ہے.اور وہ ایک دوسرے شخص کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے.اس واسطے ان کے پاس اپنی یہ خواہش لاتا ہے کہ میرا دشمن مر جائے یا کسی سخت بیماری میں مبتلا ہو جائے یا مجنون ہو جائے تو وہ اس شخص کو ویسے ہی کوئی تعویذ بنا دیں گے یا کوئی تاگہ گریں ڈال کر دیدیں گے اور کہہ دیں گے کہ یہ کسی طرح اپنے دشمنوں کو کھلاؤ یا اس کے گھر میں ڈال دو.یا اور کوئی بات اس قسم کی بتلادیں گے لیکن دراصل یہ صرف ایک ظاہری بات اس شخص کو دھوکا دینے والی ہو گی اور خفیہ طور پر وہ اس کے دشمن کو کسی دوائی کے ذریعہ سے بیمار کرنے یا مجنون کرنے یا ہلاک کرنے پر کمر باندھیں گے.اور کسی نہ کسی حیلہ سے اس کام کو پورا کر کے اپنے جادو گر ہونے کا لوگوں کو یقین دلائیں گے.دوسری قسم کے وہ لوگ ہونے ہیں.جو توجّہ کے ذریعہ سے اس معاملہ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو دُکھ دینے کے درپے رہتے ہیں.اس قسم کے لوگ بھی ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہے ہیں.اور آجکل اس گروہ کی ایک بڑی جماعت امریکہ میں موجود ہے.ان کا مطلب بھی سوائے شرارت کے اور کچھ نہیں ہوتا.اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیشہ کو مخفی رکھتے ہیں.ورنہ گورنمنٹ ایسے لوگوں کو ہر جگہ گرفتار کر کے

Page 576

سزا دیتی ہے.ایسے لوگوں کی شرارتوں سے بچنے کے واسطے انسان کو چاہیئے کہ ہمیشہ ہوشیار رہے اور ہوشیاری کا سب عمدہ اور اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حصور میں ان کی شرارت سے پناہ مانگی جائے.اس سورۂ شریفہ سے پہلے سورۂ اخلاص ہے.جس میں اﷲ تعالیٰ کی توحید کا تذکرہ ہے.اور اس کے ساتھ ان دو سورتوں میں اس فیضان کا تذکرہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر وارد ہوتا ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم پر جادو کا اثر نہ ہونے کی ایک ظاہر دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ؐ کو مسحور کہنا تو قرآن شریف میں کفّار کا قول ہے جو کہ جھوٹا قول ہے.اور نیز خدا تعالیٰ کا کلام ہے (مائدہ:۶۸) پھر کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ کسی یہودی کا جادو آنحضرت ؐ پر چل جاتا.اس جگہ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے.کہ بیماری کے وقت بیمار کے حق میں دعا کرتے ہوطے خدا تعالیٰ سے استعاذ کرنا طریقِ سنّت ہے.دوا کرنا بھی ضروری ہے مگر اُس کے ساتھ دعا بھی چاہیئے.چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیہِ وَ سَلَّمَ یُعَلِّعُنَا مِنَ الْاَوْجَاعِ کُلِّھَا وَ الْحُمّٰی ھٰذَا الدُّعَائَ بِسْمِ اﷲِ الْکَریْمِ انعُوْذُ بِاﷲِ الْعَظِیْمِ مِنْ شَرِّکُلِّ عَرْقٍ نَعَّارٍ وَ شَرِّ حَرِّالنَّارِ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا.کہ تمام دردوں اور بخار کے وقت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہم کو یہ دُعا سکھایا کرتے تھے.اﷲ کے نام کے ساتھ جو کریم ہے.خدا عظیم کی پناہ مانگتا ہوں.کبر کے شر سے اور آگ کی گرمی کے شر سے.اس طرح خدا تعالیٰ کے حصور میں پناہ مانگنے کی دعائیں بہت سی احادیث میں وارد ہیں.جن میں سے بعض بمعہ ترجمہ اس جگہ نقل کی جاتی ہیں ۱؎.فَلَقٌ: اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ پھٹ کر پیدا ہو.جیسا کہ دانہ جو زمین میں بویا جاتا ہے اور جب اس کو نمی پہنچتی ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی فلق صبح کو بھی کہتے ہیں.کہ رات کی تاریکی پھٹ جاتی ہے اور اس میں سے صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے.زجاج کا قول ہے اَلْفَلَقُ اَلصُّبْحُ لِاَنَّ اللَّیْلَ یَفْلِقُ عَنْہُ الصُّبْحم وَیَفْرِقُ فعل بمعنی مفعول.فَلَق صبح کو کہتے ہیں کیونکہ رات سے صبح نکلتی ہے اور جدا رہتی ہے.اس جگہ فعل مفعول کے معنوں میں آیا ہے.اس کی مثال ہیھُوَاَبْیَنُ مِنْ فَلَقِ الصُّبْحِ.ایسا ہی قرآنس شریف میں اﷲ تعالیٰ کی صفات میں بیان ہوا ہے کہ وہ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ ( الانعام:۹۷) ہے.رات کے وقت جب تمام دنیا پر اندھیرا چھا جاتا ہے.تو بادشاہ اور سپاہی، امیر اور غریب سب برابر ہو جاتے ہیں تاریکی جیں شناخت نہیں ہو سکتی کہ دشمن کون ہیں اور دوست کون ہیں.کونسی چیز مفید ہے اور کون سی چیز ضرر دینے والی ہے.لیکن جب صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ میرا دوست ہے اور یہ :.احادیث صفحہ ۵۷۸ پر ملاحظہ کریں

Page 577

دشمن ہے.اور اس چیز سے مجھے فائدہ ہاصل ہو سکتا ہے اور اس سے نقصان کا احتمال ہو سکتا ہے گویا اس میں انسان اﷲ تعالیف کے حصور دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار اگرچہ ہم اپنی نادانی اور بے علمی اور گناہ گاری کے سبب ایک ظلمت اور تاریکی در تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.لیکن تیری وہ ذات ہے کہ تمام تاریکیوں کو دور کر دیتی ہے اور روشنی اور نور پیدا کر کے دُکھ دینے والی چیاوں سے انسان کو بجانے والا تُو ہی ہے.پس تُو ہی ہم پر رحم فرما.کیونکہ تیرے حضور میں اپنی تمام تاریکیوں سے پناہ گزین ہوتے ہیںقَالَ الْعَرَ بُ فِیْ لُغَاتِ الْقُرْاٰنِ.اَلْفَلَقُ شَقُّ الشَیْیِٔ اَوْ اِبَانَۃُ بَعْضِہٖ عَ نْ بَعْضٍ یُقَالُ فَلَقَتْہٗ فَانْفَلَقَ.قَالَ اﷲُ ( تَعَالٰی) فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَقَالَ فَلِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی ( الانعام:۹۶) وَ قَالَ فَاَوْحَیْنَا اِلٰی مُوْسٰی اَنِ اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ.قِیْلَ ھُوَضَوْعُ الصُّبْحِ وَ اِنَارَتُہٗ وَ الْمَعْنٰی قُلْ یَامُخَاطِبُ اعْتَصِمْ وَ امْتَنِعْ بِرَبِّ الصُّبْحِ وَ خَالِقِہٖ وَ مُدَبِّرِہٖ وَ مُطَّلِعِہٖ مَتٰی شآئَ عَلٰی مَایُرٰی مِنَ الصَّلَاحِ فِیْہِ وَ یُقَالُ ھُوَا لْخَلْقُ کُلُّہٗ لِاَنَّھُمْ یَنْفَلِقُوْنَ بِالْخُرُوْجِ مِنْ اَصْلَابِ الْاٰبَائِ وَاَرْحَامِ یَعُمُّ جَمِیْعَ الْمَسْکَنَاتِ لِاَنَّہٗ جَلَّ شَانُہٗ فَلَقَ ظُلْمَۃَ عَدْ مِھَا بِنُوْرِ ایْجَادِھَا.فَلَق کسی شے کے پھٹنے کو یا بعض سے بعض کو جدا کرنے کو کہتے ہیں.جیسا کہ عربی میں کہتے ہیں.فَلَقْتُہٗ فَانْفَلَقَ میں نے اُسے پھاڑا پس وہ پھٹ گیا.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَالِقُ الْاِصْبَحِ صبح کا پھاڑنے والا، ظاہر کرنے والا، نمودار کرنے والا اور ایسا ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے فَلِقُ الْحَبِّ وَ النَّوٰی دانے اور گٹھلی کا پھاڑنے والا اور اُن سے درخت بنانے والا اور ایسا ہی قرآن شریف میں آیا ہے. (الشعراء: ۶۴) پس ہم نے موسٰی کو وحی کی کہ اپنی جماعت کو دریا میں لے چل.پس وہ دریا پھٹ گیا.اور جماعت کے واسطے راستہ ہو گیا اور لشکر صاف نکل گیا اور ایسا ہی اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ مَیں پناہ پکڑتا ہوں.ساتھ پروردگار فلق کے اس جگہ فلق حرف ل کی زبر کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں.صبح کی روشنی اور اس کا چمکنا اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اے مخاطب حفاظت طلب کرگ اور پناہ مانگ، اس رب کے حضور میں جو صبح کا رب اور خالق اور مدبقر ہے.اور اس کے چڑھانے والا ہے.جب چاہے اور جس کے لئے اس میں صلاصیت دیکھے اور بعض کا قول ہے کہ اس جگہ

Page 578

فلق سے مراد تمام مخلوقات ہے کیونکہ وہ سب کے سب مذکر کے اصلاب سے اور مؤنث کے ارحام سے نکلے ہیں.ایسا ہی دانہ پھٹتا ہے تو اس سے سبزی نکلتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فلق وہ ہے جو کسی شَے سے پھٹ کر جدا ہوتی ہے اور یہ عام ہے تمام مخلوقات پر.کیونکہ اﷲ تعالیٰ اس کے عدم کی ظلمت کو پھاڑ کر اس کو وجود کی روشنی میں لاتا ہے.اور فلقؔ کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو ذات صفحۂ عالم سے ان ظلمات اور تاریکیوں کو محو کرنے اور مٹا دینے پر تام قدرت رکھتی ہے اسے یہ بھی طاقت اور قدرت ہے کہ جو شخص عاجزی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے پناہ جُو ہوتا ہے وہ اس کے تمام خور اور دہشت کو دُور کر دیتا ہے.علاوہ ازیں صبح کا طلوع ہونا آغازِ فرحت و سرور کی مثال ہے کہ جس طرح آدمی تمام رات طلوعِ فجر کا انتظار کرتا ہے.اسی طرح خائف و عائذ ، نجاح و فلاح کے طلوعِ صبح کا انتظار کرتے ہیں.بہرِ تقدیر خدا تعالیٰ کے حضور پناہ مانتنی چاہیئے.تمام مخلوق کی برائی سے.موذی آدمی.جنّ درندے.وحشی جانور، سانپ بچّھو وغیرہ سے… کعب بن احبار فرماتے ہیں.کہ دوزخ میں ایک لق و دق جنگل ہے اس کا نام فلق ہے.جب وہ کھولا جاتا ہے تو سارے دوزخی اس کی شدّت گرمی کی وجہ سے چیخنے لگتے ہیں.بعض کہتے ہیں.کہ دوزخ کی تہہ میں ایک کنواں ہے.جسے فلق کہتے ہیں.اس پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے.جب وہ اٹھا دیا جاتا ہے.تو اس میں سے ایک ایسی سخت آگ نکلتی ہے جس سے خود جہنم چیختی ہے.علاوہ اس کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں.مگر سب سے صحیح تر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فلق صبح کو کہتے ہیں یا دانہ یا گٹھلی کے پھوٹنے اور اُگنے کا نام ہے.بعض نے کہا ہے کہ یوسف علیہ السلام جب کنوئیں میں ڈالے گئے تھے تو آپ کے گھٹنے میں سخت درد ہوا( شاید گرنے کے سبب چوٹ لگی ہو) ایسا سخت درد ہوا کہ تمام رات جاگتے ہوئے گزری.یہاں تک کہ طلوعِ صبح کا وقت ہو گیا.تب ایک فرشتہ نازل ہوا جس نے آپ کو تسلّی دی اور کہا کہ خدا تعالیٰ سے دُعا مانگو.وہ اس درد کو دُور کر دیگا.حضرت یوسفؑ نے اس فرشتے کو کہا کہ تُو دُعا کر.مَیں آمین کہوں گا چنانچہ اس فرشتے نے دعا کی اور حضرت یوسفؑ نے آمین کہی.تب خدا تعالیٰ نے اس دُعا کو قبول فرمایا اور وہ درد تھم گیا اور ان کو آرام دیا جائے.فرشتے نے اس دُعا پر بھی آمین کہی اور کہتے ہیں.یہی سبب ہے کہ صبح کے وقت ہر بیمار کو تھوڑا بہت افاقہ ہو جاتا ہے.وہ دعا حضرت یوسفؑ کی مفصّلہ ذیل الفاظ میں تھی.

Page 579

یَاعُدَّتِیْ فِیْ شِدَّتِیْ وَ یَا مُوْنِسِیْ فِیْ وَحْشَتِیْ وَ رَاحِمِ غُرْبَتِیْ وَ کَا شِفِ کُرْبَتِیْ وَیَا مُجِیْبُ دَعْوَتِی ْ وَیَا اِلٰھِیْ وَاِلٰہَ اٰبنائِیْ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ.اِرْحَمْ صِغْرَسِنِیٌ وَ ضُعْفَ رُکْنِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ یَا حَیِّیُ یَا قَیُّوْمُ یَاذَا الْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ.اے میرے ہتھیار میرے مصائب میں اور میرے مونس میری وحشت کے وقت اور اے رحم کرنے والے میری غریب پر اور اے میری گھبراہٹ کے دور کرنیوالے اور اے میری دُعا کے قبول کرنے والے اور اے میری دُعا کے قبول کرنے والے اور اے میرے معبود اور میرے باپ دادوں کے معبود ابراہیم و اسحٰق اور یعقوب کے معبود میری چھوٹی عمر پر رحم کر اور میرے ضعفِ رکن پر رحم فرما اور میرے حیلہ کے کم ہونے پر رحم کر.اے حيّ اے قیّوم.اے صاحبِ جلال اور اکرام.: جو کچھ خدا نے پیدا کیا.اس کے شرّ سے.یعنی تمام پیدائش الہٰی میں جو اشیاء انسان کے واسطے مضر اور خراب اور تکلیف دہ ہیں ان سب سے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پناہ چاہتا ہے.بعض کا قول ہے.کہ  سے مراد شیطان ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی شَئے انسان کے واسطے موجبِ شر اور دُکھ اور تکلیف نہیں.ایک قول یہ ہے کہ  سے مراد جہنم ہے گویا کہ انسان خدا تعالیٰ کے حضور جہنم سے پناہ چاہتا ہے.بہر حال اس میں تمام موذی اور دُکھ دینے والے اور خد اسے دور رکھنے والی اشیاء سے خدا کے حضور پناہ مانگی گئی ہے.خواہ وہ شیطان ہو یا جِنّ یا موذی حیوان مثل بچّھو.سانپ.شیر وغیرہ.غَاسِق: اندھیرا کرنے والا.ہر ایک چیز جو تاریکی اور ظلمت پیدا کرے.غاسق رات کو کہتے ہیں اور غسق تاریکی کو کہتے ہیں کیونکہ رات تاریکی پیدا کرتی ہے.اس واسطے وہ غاسق ہے.اور غسق برو کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ رات بہ نسبت دن کے ٹھنڈی ہوتی ہے.غاسق ثریّا کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ اس کا گرنا عمومًا وباء اور بیماریوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے.اور غاسق سورج کو بھی کہتے ہیں جبکہ غروب ہو جاوے اور چاند کو بھی کہتے ہیں جبکہ اس کو گہن لگے.غاسق سانپ کو بھی کہتے ہیں جبکہ وہ کاٹ کھائے اور ہر ایک ناگہاں آنے والی چیز جو ضرر پہنچائے یا بھیک مانگنے والا جبکہ وہ تنگ کرے تو اس کو بھی غاسق کہتے ہیں غرض ہر ایک چیز جو انسان کو ظلمتِ روحانی یا جسمانی میں ڈالے اس کو غاسق کہتے ہیں.جب رات بہت تاریک ہو تو عرب کے محاورہ میں کہتے عَسَقَاللَّیْلُ.اور جب آنکھیں آنسووں سے بھر جائیں تو کہتے ہیں.غَسَقَتِالْعَیْنُ اور جب زخم پیپ سے بھر جائے تو کہتے ہیں غَسَقَتِ الْجَرَاحَۃُ.وَقَبَ: کے معنے ہیں چُھپ گیا.وقبؔ کے اصلی معنے ہیں کسی شَئے میں داخل ہونا.ایسا کہ وہ

Page 580

نظر سے غائب ہو جاوے.حدیث شریف میں آیا ہے رَوَی اَبُوْسَلْمَۃَ عَنْ عَألِشَۃَؓ اُنَّہٗ اَخَذَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ بِیَدِھَا وَ اَشَارَ اِلَی الْقَمَرِ وَقَالَ اسْتَعِیْذِیْ بِاﷲِ مِنْ شَرِّ ھٰذَا فَاِنَّہُ الْغَاسِقُ اِذَا وَ قَبَ.ابوسلمہ نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ کا ہاتھ پکڑا اور چاند کی طرف جبکہ وہ کسوف میں تھا اشارہ کر کے فرمایا کہ اس کے شر سے اﷲ تعالیٰ کے حضورمیں پناہ مانگ کہ یہ اندھیرا کرنے والا ہے جبکہ چھپ جائے.: گرِہوں میں پھونکنے والیاں.اَلنَّفّٰثٰتِ النَّفْخُ وَ مَعَ رِیْقٍ.نفث کے معنے ہیں پھونکنا جن میں تھوک بھی ہو.گرہ میں پھونکنا جیسا کہ جادو گر لوگ تاگوں میں گرہیں ڈال کر پھونکتے ہیں.اور لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس کا اثر ہوتا ہے.گرہ میں پھونکنا اور گرہ دینا یہ ایک محاورہ ہے.جس کے معنی ہیں کسی کام میں روکاوٹ ڈالنے کے واسطے کوشش کرنا جیسا کہ وہ لوگ جو جادوگری کا پیشہ رکھتے ہیں اپنی جھوٹی جادوگری میں کامیابی حاصل کرنے کے واسطے خفیہ تدابیر کرتے ہیں.ظاہر تو کرتے ہیں کہ فلاں آدمی کو ہم نے جادو کے ذریعہ سے بیمار کر دیا ہے.اور دراصل کسی خفیہ ذریعہ سے اس قسم کی دوائیاں اس شخص کو کھلا دیتے ہیں جن سے وہ بیمار ہو جائے.پس ایسے خفیہ شریر لوگوں کی شرارت سے بچا رہنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیئے.حَاسِدٍ: وہ ہے جو خواہش کرے کہ دوسرے کے پاس جو عمدہ شَئے ہے وہ اس کو مل جاوے بسا اوقات اس حسد میں اس شخص کو نقصان پہنجانے کی بھی خواہش اور کوشش کرتا ہے جس کو اس نعمت کا مالک دیکھتا ہے.لفظ حاسدؔ کو اس جگہ نکرہ رکھا ہے.معرفہ نہیں رکھا.اس میں یہ حکمت ہے کہ حسد ہمیشہ بُرا نہیں ہوتا.بلکہ اگر نیکیوں کے حصول کے واسطے حسد کیا جائے تو وہ حسد محمود ہے.اس سورۃ میں انسان کے جسمانی فوائد کے واسطے دعا ہے اور اگلی سورۃ میں روحانی فوائد کی باتیں مندرج ہیں.یہ سورۃ بھی بجائے خود ایک جامع دعا ہے جن میں چار چیزوں سے اﷲ تعالیٰ کے حضور میں پناہ مانگی گئی ہے.ا.تمام مخلوقات کے شرّ سے.۲.تاریکی کرنے والی اشیاء کے شرّسے.

Page 581

۳.مخالفانہ مخفی تدابیر کرنیوالوں کے سرّ سے.۴.حاسد کے شرّ سے.فقرہ اوّل میں دراصل سب شامل ہیں اور فقرہ دوم و سوم و چہارم اُس کی تشریح ہیں.یعنی وہ تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.ان میں جو امر اس قسم کا ہے کہ کسی انسان کے واسطے موجبِ تکلیف اور دُکھ اور صرر ہو سکتا ہے.ان سب سے خدا تعالیٰ ہم کو بچائے اور محفوظ رکھے.دنیا میں جس قدر مفاسد پیدا ہوتے ہیں.وہ یا تو بہ سبب تاریکی اور ظلمت کے پھیل جانے کے پیدا ہوتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا میں ایک تاریکی پھیلی ہوئی تھی.لوگ روحانیت کی باتوں سے بے خبر تھے.نصارٰی مریم اور یسوع اور حواریوں کے بُتوں کی پُوجا کرتے تھے.ایرانی آتش پرستی میں مصروف تھے.ہندوکئی کروڑ دیوی دیوتاؤں کے آگے پیشانی رگڑنے میں مصروف ہو رہے تھے.تب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور دنیا میں چمکا اور مخلوقب الہٰی کے واسطے موجب ہدایت کا ہوا.سو یا تو مفاسد خود تاریکی کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں.اور یا مخالف دشمن لوگ شرارت کے ساتھ تاریکی پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور فاسد لوگ از روئے حسد کے فساد مچا کر اصلیت کو چھپانا چاہتے ہیں.یہی حال ہر زمانہ میں اور ہر نبی اور مامور کے وقت میں ہوتا ہے.آجکل بھی زمانہ میں ایک بڑی تاریکی پھیلی ہوئی ہے.اور تمام قومیں اصلیت کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف جاری ہیں.اس واسطے ضرورت کے موافق خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں بھی ایک نور پیدا کیا ہے جو تمام ظلمات کو دور کر دیتا ہے.اور مخلوق کو ہدایت کے راہ پر لا تا ہے.اس کے مخالف چاہتے ہیں کہ حق پر پردہ ڈال دیں اور لوگوں کو ہدایت کے حصول سے محروم رکھیں لیکن خدا تعالیٰ اپنی باتوں کو پورا کریگا اور اپنے بندے کی صداقت کو روزِ روشن کی طرح نمایاں کرنا اُسی خدئے قادر کا کام ہے.جس کو کوئی روک نہیں سکتا.اس سورۃ شریفہ میں جو قرآن شریف کی آخری سورتوں میں سے ہے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک برا فتنہ ہو گا.ایک بہت بڑا شرق اٹھے گا اور ایسے وقت میں ہو گا جبکہ اﷲ تعالیٰ زمانہ میں تاریکی کو دور کرنے کے واسطے ایک صبح کو نمودار کریگا.کیونکہ وہ رب الفلق ہے اور رات کے بعد دن کو لاتا ہے اور تاریکی کے بعد نور پیدا کرتا ہے.اس شرّ سے بچنے کے واسطے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیئے.کیونکہ وہ بڑا بھاری شرّ ہے.اُس سرکا پیدا کرنیوالا خفیہ کاروائیاں بہت کریگا.اور چھپ چھپ کر اپنی سازشیں دینِ حق کے برخلاف نہایت جد و جہد کے ساتھ کریگا.چنانچہ ظاہر ہے کہ جس قدر خفیہ کاروائیاں مشن کا دجّال اسلام کے برخلاف کرتا ہے.ایسی

Page 582

کاروائیاں پہلے کبھی کسی نے نہیں کیں.ایسے ایسے راہوں سے اسلام پر حملہ کرنے کے واسطے کوشش کی جاتی ہے کہ عوام تو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ اس معاملہ میں کیا درپردہ شرارت ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایک ایسا نُور پیدا کیا ہے جس نے نمودار ہو کر ان تمام پردوں کو پھاڑ دیا ہے اور دجّال کا دجل کھول کر لوگوں کو دکھا دیا ہے تاکہ مخلوقِ الہٰی اس کے شر سے بچی رہے.اور اس کے پھندے میں نہ آئے.افسوس ہے اُن لوگوں پر جو خدا تعالیٰ کے اس نور کو اپنے مُنہ کی پھونکوں سے بُجھانا چاہتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ یہ نورِ الہٰی ضرور غالب آئے گا اور اس کے مخالف سب نامراد اور ناکام مریں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۲ء) احادیث متعلقہ صفحہ ۵۷۲ اَعُوْذُ بِعِزَّۃِ اﷲِ وَ قُدْرَتِہٖ مِنْ شَرِّمَا اَجبدُوَ اُحَاذبرُ ( سَبْعًا) اﷲِ اَرْقِیْکَ مِنْ کُلِّ شَیْئِپناہ چاہتا ہُوں مَیں اﷲ کی عزّت اور قدرت کی اس چیز کی بدی سے جو پاتا ہوں مَیں ( سات بار کہے )اﷲ کے نام کے منتر پڑھتا ہوں کہ تجھ پر ہر چیز یَؤْذِیْکَ مِنْ شَرِّ کَلِّ ننفْسٍ اَوْ عَیْنٍ حَاسِدٍ.اﷲُ یَشْفِیْکَ بِسْمِ اﷲِ اَرْفِیْکَ اَعِیْذُ کُمَا بِکَاِمَاتِ اﷲِ النَّامَّۃِ مِنْ سے جو ایذاء سے تجھ کو بدی سے ہر جان کے اور آنکھ سے حسد کرنیوالے کے اور شفا دے تجھ کو اﷲ کے نام سے منتر پڑھتا ہوں تجھ پر پناہ میں دیتا ہوں مَیں تم دونوں شَرِّ کُلِّ شَیْطَانٍ وَ ھَامَّۃٍ وَّ مِنْ کُلِّ عَیْنٍ اَسْأَلُ اﷲَ الْعَظِیْمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ اَنْ یَشْفِیْکَ.بِسْمِ اﷲِ کو اﷲ کے کلموں کی جو پوری ہیں بدی سے ہر شیطان اور جانور ایذاء دینے والے اور ہر آنکھ نظر لگانیوالی کی سے مانگتا ہوں اﷲ عظمت والے سے جو صاحب ہے عرش بڑے کا الْکَبِیْرِ اَعُوْذُ بِاﷲِ الْظبیْمِ مِنْ شَرِّکُلِ عِرْقٍ نَعَارٍ ون مِنْ شَرِّ حَرِّ النَّارِ.رَبُّنَا اﷲُ الَّذِیْ فِی السَّمَآئِ تَقَدَّسَ اِسْمُکَ کہ شفا دے تجھ کو.ساتھ نام اﷲ بڑائی والے کے پناہ چاہتا ہوں اﷲ کی جو عظمت والا ہے بدی سے ہر رگ جوش مارنیوالی کے اور بدی سے دور شاکی گرمی کے.ربّ ہمارا اﷲ ہے جو اَمْرَکَ فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ کَمَارَ حْمَتُکَ فِی السَّمَآئِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ فِی الْاَرْضِ اغْفِرْ لَنَا حَوْبُنَا وَ خَطَایَانُا.آسمان میں ہے پاک ہے نام تیرا حکم ہے تیرا آسمان اور زمین میں جس طرح ہے رحمت تیری آسمان میں.پس کر رحمت اپنی زمین میں بخس واسطے ہمارے گُناہ ہمارے اور چؤک ہماری:.اَنْتَ رَبَّ الطَّیِّبِیْنَ اَنَزِلْ رَحْمَہٌ مِّنْ رَحْمَتِکَ وَشَفَائٌ مِّنْ شَفَائِکَ عَلٰی ھٰذَا لْوَجْعِ اَللّٰھُمَّ اِشْفِ عَبْدَکَ تُوہے صاحب پاکوں کا اتار رحمت اپنی میں سے رحمت اور شفا اپنی شفا میں سے اس بیماری پر اسے اﷲ شفا دے اپنے بندے کو کہ زخمی کرے تیری یَنْکَألَکَ عَدُوَّا وَ یَمْشِیٹ لَکَ اِلٰی جَنَازَۃٍ.اللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مَکَانَتِ الحَیٰوۃُ خَیْرُابیْ وَتَوفَنِیْ اِذَاکَانَتِ الْوَفَاۃُ خَیْرُالِی.راہ میں دشمن کو اور چلے تیرے وقسطے ساتسھ کسی جنازہ کے.اے اﷲ جلا تُو مجھ کو جب تک کہ ہو زندگی بہتر میرے واسطے اور مار مجھ کو جس وقت ہو موت بہتر اَعّٰھممَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَھْدِالْبَلَآئِ وَ دَرْکِ الشَّفَا ئِ ونسُوعِ القُضْآئِ وَشَمَانَۃب الْاَغبدآئِ.اللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ واسطے میرے.اے ﷲ تیرے پناہ مانگتا ہوں بلاء کی مشقت سے اوربدبختی کے ملنے سے اور ہر بُرے فیصلہ سے اور دشمنوں کے خوش ہنوے سے.اے مِنَ الْھنمِّ وَالْحُزْنِ ون الْعِجْزِ وَ الْکُسْلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْبُخْلِ وَ ضَلْعب الدَّیْنِ وَ غْلَبَۃِ الرِّحَالِ.اﷲ تحقیق مَیں پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور ناتوانی اور سُستی سے اور نامردی اور بخل سے اور فرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے؟ ... شروع ساتھ نام اﷲ کے بخسنے والا مہربان.کہہ پناہ پکڑتا ہوں ساتھ رب صبح کے.اُس چیز کے شر سے جو پیدا کیا ہے.اور شر اندھیرا کرنیوالے ...کے سے جبکہ چُھپ جاوے اور شر پھونکنے والیوں کے ہے گِرہوں میں.اور شرحسد کرنے والے کے سے جبکہ خسد کرے: بامحاورہ تفسیری ترجمہ:.اس طرح سے دُعا مانگ مَیں اپنے اُس پروردگار کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں جو اندھیرے کو دُور کر کے صبح کی روشنی پیدا کرتا ہے.امس کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں ان تمام چیزوں کی بدی سے جو پیدا ہوئی ہیں اور اندھیرا کرنیوالے کی شرارت سے جبکہ وہ چھپ جاوے اوران کی شرارت سے جو گرہوں میں پھونکیں دیکر مخلوق الہٰی کو دُکھ دینے کے درپے رہتے ہیں اور حسد کے شر سے جبکہ وہ حسد پر کمر باندھے.

Page 583

سُوْرَۃُ النَّاسِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۷.... .. .اس طرح دعا کر.جنّ ہو یا آدمی ہو، جو کوئی انسانوں کے سینے میں وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کی ترقی کو روک کر اُسے پیچھے ڈال دیتا ہے، اس کے وسوسہ کی بدی سے اس خدا کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں.جو انسانوں کا پرورش کندہ اور ان کا بادشاہ اور ان کا معبود ہے.اس سورہ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ کی تین صفتوں کا بیان کیا گیا ہے.ربّ، مالک، الٰہ.اور پھر ان ہر سہ صفات کے اُس پر تو کی طرف بالخصوص اسارہ کیا گیا ہے جو کہ انسان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیا معنے.وہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو تمام قوٰی ظاہری و باطنی عطا فرمائے اور ان قوٰی کی تربیت کے واسطے ہر قسم کے سامان مہیا کئے.یہ جنین تھا تو ماں کے پیٹ کے اندر ہی اُسے غذا پہنچائی، پیدا ہوا تو ساتھ ہی ماں کی چھاتیوں میں اپنی غذا کا ذخیرہ موجود پایا، اسے چھوڑا تو ماں باپ اور اقرباء کو اپنے سامانِ خوردنی، پوشیدنی کے مہیا کرنے میں مصروف پایا، برا ہوا تو محنت مزدوری کی اور خدا نے اس میں برکت ڈالی.اس لفظ میں اپنے اصل مربّی کے بے انتہا احسانات کو یاد کرنے کے بعد اس دعا میں انسان اپنے خدا کو یاد کرتا ہے جو اس کا حقیقی بادشاہ ہے.اُسی کے قبضۂ قدرت میں تمام زمین اور آسمان کی کَل ہے.چاہے تو ایک آن میں زلزلہ یا بجلی سے یا اور جس طرح چاہے.سب کو فنا کر دے، یا فنا شدوں خیالات اس کی نگاہ میں ہیں.بغیر اس کے اذن کے نہ کوئی کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے.وہ مَلِکِ النَّاس ہے.پس وہ جو ہمارا ربّ ہے اور جو ہمارا مُلِک ہے اور سلطان ہے.وہی

Page 584

اس لائق ہے کہ ہمارا الٰہ ہو اور معبود ہو، اسی کی عبادت کی جاوے، اسی سے اپنی حاجتیں مانگنی چاہئیں.اور اسی کی تعریف کرتے ہوئے سر اس کے آگے جھکایا جاوے.پتھر کے بُت تو ہماری اپنی مخلوق ہیں اور ہم خود ان کی تربیت کرتے ہیں.اور ان پر حکومت کرتے ہیں.جس طرح چاہیں ان کو گھڑ کر بناتے ہیں اور جہاں جاہیں ان کو رکھتے ہیں.برہمن کے قابو میں آیا تو اس نے زری کے کپڑے پہنا دیئے اور سونے کے زیوروں سے مرصّع کر دیا اور مہمودؔ کے ہاتھ لگا تو اس نے کات کر جوتیاں رکھنے کے واسطے دہلیز کے باہر گاڑ دیا.رومن پادری نے اس پر سونے کا گِلْٹ کیا اور گرجے میں سجایا اور اس کے پروٹسٹنٹ بھائی نے اپنے باپ دادوں کی بے وقوفی پر مضحکہ اڑانے کے واسطے اسے عجائب گھر میں رکھ دیا، سو بُتوں کا تو ذکر ہی کیا.جبکہ خود بُت پرست بھی بُتوں کو چھوڑنے جاتے ہیں، باقی رہے عناصر اور حیوان اور انسان جن کی بعض بے وقوف لوگ پُوجا کرتے تھے جو سب کے سب خود محتاج تھے اور اپنی عمر گزار کر مر گئے.نہ ان میں سے کسی نے ہماری ربوبیت کی اور نہ کوئی ہمارا مالک اور مَلِک تھا اور نہ کوئی ہمارا معبود ہو سکتا ہے.ظاہری بادشاہوں کی حکومت ظاہر حالات پر ہے.چور چوری پر سے پکرا گیا تو اس کو سزا مل گئی.لیکن چور جب چوری کی نیت کرتا ہے اور کسی کی عمدہ شَے دیکھ کر دل میں ارادہ کرتا ہے کہ موقعہ پر اسے اٹھا لے.اس وقت اس کی نیت اور ارادے کو بجز خدا کے کون دیکھ رہا ہے.پس حقیقی بادشاہ وہی ہے.اس دعا میں انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر اپنے خدا کے ساتھ اس تعلق کو یاد کرتا ہے کہ اے خدا تُو ہی میرا پرورش کنندہ ہے اور تو ہی میرا بادشاہ ہے اور تُو ہی میرا معبود ہے.پس مَیں تیرے ہی حضور میں اپنی یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ نیکی کے حصول کے بعد جو انسان کے دل میں ایسے بُرے خیالات آتے ہیں کہ اس کو نیکی سے پیچھے ہٹانا جاہتے ہیں.ان خیالات کے شرّ سے مجھے بچا.اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وسوسوں کا پیدا ہونا ضروری ہے.پر جب تک انسان ان کے شرّ سے بجا رہے یعنی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے اور ان پر قائم نہ ہو.تب تک کوئی حرج نہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی کہ میرے دل میں بُرے بُرے خیالات پیدا ہوتے ہیں.کیا مَیں ان کے سبب سے گنہگار ہوں.فرمایا.فقط بمرے خیال کا اٹھنا اور گزر جانا تم کو گنہگار نہیں کرتا.یہ شیطان کا ایک وسوسہ ہے جیسا کہ بعض انسان جو شیطان کی طرح ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں بُرے خیالات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس فقط اُن کی بات سننے سے اور ردّ کر دینے کسے کوئی گنہگار نہیں ہوسکتا.ہاں وہ گنہگار ہوتا ہے جو ان کی بات کو مان لیتا اور اور اس پر عمل کر لیتا ہے.سورۃ النّاس قران شریف کی سب سے آخری سورۃ ہے اور اس کا مضمون آخری زمانہ میں ایک

Page 585

بڑے فتنہ سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم دیتا ہے.وہ فتنہ خنّاس کا ہے.جو کہ لوگوں کے دلوں میں قسما قسم کے وساوس ڈال کر ان کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کریگا.کیونکہ یسوع کو خدا بنانے اور اس کی پُوجا کرنے کا فتنہ زمانہ نبویؐ سے پہلے دنیا میں پھیلا ہوا تھا اور آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ظہور نے اس کی خرابیوں کو دنیا پر ظاہر کر کے اس کا زور مٹا دیا تھا.یہاں تک کہ خود نورِاسلام کی چمک سے جھلک پا کر عیسائی قوم میں اس قسم کے ریفارمر پیدا ہو گئے تھے.جنہوں نے اپنی قوم میں سے یسوع اور مریم کے بُت بنانے اور بُتوں کی پُوجا کرنے کی رسم کو مٹانے کی کوشش کی.اور اس کوشش میں بہت کچھ کامیابی بھی حاصل کی.دوسری طرف لاکھوں عیسائی اپنے مذہب کی خرابیوں سے آگاہ ہو کر اور اس سے بیزار ہو کر اسلام میں داخل ہو گئے تھے.غرص اسلام وہ مذہب تھا جس نے دیگر باطل ادیان کے ساتھ دینِ عیسوی کو بھی پست کر دیا تھا.لیکن کہ مسلمانوں کو قرآن شریف اور اسلام سے پیچھے ہٹاکر پھر اُسی پُرانی گمراہی میں ڈال دے.یہ خنّاس تعلیم دیتا ہے کہ ہمارا ربّ یسوع مسیح ہے.چنانچہ عیسائیوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے رَبُّنَا الْمَسِیْحُ اور یسوع کا نام عیسائی کتب میں بادشاہ یعنی مَلِک ہے.اور اس کی عبادت بھی کی جاتی ہے گویا کہ وہ اِلٰہ یعنی معبود ہے.ان عقائد کی بیخ کنی کے واسطے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ رَبّ  اوراور .وہی ایک خدا ہے جس کی صفات حمیدہ کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے.اور جس کی وحدانیت کے بارے میں اس سورۃسے اوپر ایک سورۃ چھوڑ کر اس طرح بیان کیا گیا ہے....(الاخلاص:۲ تا ۵) کہ وہ اﷲ ایک ہے، وہ بے احتیاج ہے، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی کنبہ قبیلہ ہے.اس سورۃ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ آخری زمانہ جنگ کا زمانہ ہو گا.اور اسلام سے لوگوں کی رُو گردانی کرناے کے واسطے کوئی لڑائی اور ظاہری جنگ کی کاروائی نہ ہو گی.جیسا کہ پہلا کیا جاتا تھا.بلکہ صدرور النّاس پر بذریعہ وساوس ہو گا.اور وہ وسوسہ دالنے والے خنّاس دو قسم کے ہوں گے.ایک تو پادری لوگ جن کے وساوس موٹے رنگ کے ہر طرح کے کذب اور بہتان کے ساتھ ہیں.یہ خنّاس تو ناس میں سے ہے.لیکن ایک بڑا خنّاس جو شرّ میں اس سے زیادہ سخت ہے.لیکن اپنی شرارت میں کسی قدر مخفی ہے اس واسطے اس کو جنّ کہا گیا ہے اوہ اس زمانہ کے جھوٹے فلسفی اور جُزوی سائنس دان ہیں جو حقیقی فلسفہ اور سائنس سے بے خبر ہیں.اور تعلیم یافتہ گروہ کو خفیہ رنگ میں دہریّت کی طرف کھینچ کر لے جا رہے ہیں.حالانکہ بظاہر مذہب سے اپنے آپ کو بے تعلق ظاہر کرتے ہیں.مگر باطن میں مذہب کے

Page 586

سچے اصول کو اکھاڑنے کے درپے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں یہ بھی ظاہر ہوتا ہے.کہ آخری زمانہ کا فتنہ محض دعا کے ذریعہ سے دور ہو گا.چنانچہ اس کی تائید میں حدیث شریف میں ایا ہے.کہ کفّار مسیح موعود کے دم سے مریں گے.اور حصرت مرزا صاحب سے میں نے بارہا سُنا ہے.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ اس قدر فتنہ کا مٹانا ظاہری اسباب کے ذریعہ سے نہیں ہو سکتا.ہمارا بھروسہ صرف ان دعاؤں پر ہے جو کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے حضور میں کرتے ہیں.خداوند تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سُنے گا اور وہ خود ہی ایسے سامان مہیا کریگا کہ کفر ذلیل ہو جائے گا اور اسلام کے واسطے غلبہ اور عزّت کے دن آجائیں گے.لطیفہ: کسی نے کہا ہے کہ قرآن شریف کا ابتداء حرف ب سے ہوا ہے.اور آخر س کے ساتھ ہوا ہے.یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن شریف انسان کے واسطے بسؔ ہے.جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے.(الانعام: ۳۹) اس کتاب میں کسی سئے کی کمی نہیں رہی.اس مضمون کو کسی نے فارسی میں اس طرح ادا کیا ہے.اوّل و آخر قرآن زچہ باؔ آمد وسؔ یعنی اندر دو جہاں رہبر ، قران بس لطیف فلسفی کہتا ہے کہ اس سورۃ شریف میں سب سے پہلے جو لفظ ناسؔ آیا ہے.اس سے مراد اطفال ہیں اور ناسؔ ثانی سے مراد نوجوان لوگ ہیں.اور ثالث سے مراد بوڑھے ہیں.اور چہارم سے مراد صالحین ہیں اور پنجم سے مراد مفسدین ہیں.کیا معنی؟ کہہ مَیں اس خدا کے حضور پناہ گزین ہوتا ہوں جو ربّ لالنّاس ہے، چھوٹے ناتواں بچوں کے واسطے بھی تمام سامانِ پرورش کرتا ہے.اور ملک الناس ہے.نوجوان جوشیلے لوگ سب اس کے قابو میں ہیں، الہٰ النّاس ہے.جب آدمی بڑا ہوتا ہے.اور چالیس سال سے زیادہ عمر پاتا ہے، تب اس کے عقائد اور معرفت کمال کو پہنچتے ہیں اور عادتیں نیکی پر پختہ ہو جاتی ہیں.اور اپنے خدا کی عبادت میں پکّا ہو جاتا ہے، ایسے لوگوں کا معبود وہی خدا ہے، اس خدا کے حصور میں مَیں خنّاس کے وساوس کے سر سے پناہ چاہتا ہوں.جو (الناس:۶) نیک لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے..وہ خنّاس کچھ جن ہیں اور کچھ مفسد انسان ہیں.یہ ایک عجیب دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے خود ہم کو سکھائی ہے.اس کے کسی قدر ہم معنے وہ دعا ہے جو دوسری جگہ قرآن شریف میں آتی ہے اور وہ اس طرح ہے.

Page 587

(آل عمران:۹) اے ہمارے رب بعد اس کے کہ تُو نے ہمیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائی.ہمارے دلوں کو کج نہ کر یعنی ایک دفعہ جس نیکی کو ہم حاصل کریں.وہ استقامت کے ساتھ ہمارے اندر قائم رہے.یہ سورۃ شریفہ قرآن شریف میں سب سے آخری دعا ہے کہ اے اﷲ تعالیٰ یہ قرآن جس کے پڑھنے کی تُو نے ہم کو توفیق دی ہے.اب ایسا کہ کہ ہمارے دل اس پر ایمان کے واسطے ایسے پختہ رہیں کہ اس کلام کے متعلق کوئی وسوسہ اور بدخیال کبھی ہمارے دل میں نہ آنے پاوے.اور ہم اس پر عمل کریں اور تیرے نیک بندوں میں شامل ہو جاویں.قرآن شریف کے ذریعہ سے رحمان خدا نے کس قدر رہمت دنیا پر نازل فرمائی.تمام احکامِ شرعیہ، گذشتہ بزرگوں کی نیک مثالیں، طریقِ دعا، غرض ہر شئے ضروری کی تعلیم دی گئی ہے.اس سورہ شریفہ کے سروع میں انسان کا نام تین بار لیا گیا ہے.اور ہر بار اﷲ تعالیٰ کا ایک جُدا نام اس پر رکھا گیا ہے.یعنی پہلی دفعہ ربّ النّاس کہا گیا ہے.دوسری بار ملک النّاس فرمایا ہے اور تیسری بار الٰہ النّاس مذکور ہوا ہے.یہ ہرسہ صفات الہٰیہ انسان کی تین مختلف حالتوں کی طرف اور اﷲ تعالیٰ کے تین فیصانوں کی طرف جو انسان کی ان حالتوں پر وارد ہوتے ہیں اشارہ کرتی ہیں.انسان بلحاظ اپنی روحانی ترقی یا تنزّل کے تین درجے رکھتا ہے.سب سے ادنیٰ درجہ کا انسان وہ ہے جسے کچھ خبر نہیں کہ حصولِ نیکی اور حصولِ معرفت الہٰی کیا شئے ہے اور وہ کتنی بڑی نعمت ہے.ایسے شخص کے واسطے نیکی بدی سب برابر ہیں.اگر وہ بدی کرتا ہے تو اسے کبھی کچھ فکر نہیں ہوتا کہ مَیں بدی کرتا ہوں.اس کا نفس اس پر نہ صرف غالب ہے.بلکہ پوری طرح اس پر حکمران ہے، وہ نہیں جانتا کہ دین اور دین داری کیا لطف اپنے اندر رکھتی ہے اور نہ دینداروں کی محبت اختیار کرتا ہے اور نہ اس کو کبھی یہ خواہش ہی پیدا ہوتی ہیگ کہ دیندار بنے، وہ اپنی حالت میں مِثل ایک بے خبر کے پڑا ہے.جس نے معرفت کا کبھی نام بھی نہیں سُنا.یہ شخص نفسِ امّارہ کے ماتحت ہے، پر خدا تعالیٰ ان سب کے واسطے ربق النّاس ہے.یعنی وہ سب کی پرورش کرتا ہے، جو لوگ خد تعالیٰ کو نہیں مانتے اور دہریہ ہیں ان سب کی پرورش کرتا ہے، گو ایسے لوگوں کے واسطے ایک وقت عذاب کا بھی بالآخر آ جاتا ہے.مگر سردست وہ سب اﷲ تعالیٰ کی صفاتِ ربوبیت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں، اس لحاظ سے وہ اﷲ تعالیٰ ربّ النّاس ہے.جو لوگ نیکی کرتے ہیں، ان کی پرورش ہوتی ہے.جو بدی کرتے ہیں ان کی پرورش ہوتی ہے، بارش آتی ہے تو نیک و بد سب کے کھیت کو سیراب کر جاتی ہے.اور سورج نکلتا ہے تو کافر اور مومن سب کو روشنی

Page 588

دے دیتا ہے.ہوا چلتی ہے.تو مسلم اور غیر مسلم سب کو اپنا فائدہ پہنجا دیتی ہے، اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کی ربوبیت عام ہے.وہ عمام جہان کے لوگوں کا رب ہے، کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ہو، امیر ہو یا غریب ہو.دانا ہو یا بیوقوف ہو.عالم ہو یا جاہل ہو، بادشاہ ہو یا رعایا ہو، ہر ایک کو اس کی ربوبیتِ عامہ سے حصّہ دیا جاتا ہیگ اس لحاظ سے وہ ربّ النّاس ہے.درمیانہ درجہ کے لوگ جو درجہ ادنیٰ سے اوپر کے درجہ کے لوگ ہیں، وہ ہیں ،جن کو معرفتِ الہٰی کا شوق پیدا ہو گیا ہے، انہوں نے جان لیا ہے کہ نیکی عمدہ شئے ہے اور خواہس رکھتے ہیں کہ اپنی موجودہ حالت سے نکلیں اور ترقی کریں اور آگے قدم رکھیں.بدیوں کو چھوڑیں، اور نیکیوں کو اختیار کریں.لیکن ان کا نفس ہنوز ان پر غالب ہے، وہ بدی سے پرہیز کرتے ہیں، مگر بسبب کمزوری پھر بھی کسی نہ کسی وقت بدی میں گر جاتے ہیں.اٹھتے ہیں، اور پھر گر جاتے ہیںگ پھر اُٹھتے ہیں اور پھر گر جاتے ہیں، یہی حالت ان کی ہوتی رہتی ہے.وہ دل سے سچی توبہ کرتا ہے کہ اب آئندہ یہ کام نہ کروں گا، لیکن نفس کے جذبہ کے وقت پھر کر بیٹھتا ہے، اور خدا تعالیف کی غفّاری اور ستّاری کی طرف پھر جُھکتا ہے اور اس کی رحمت کے حضور میں فریادی ہوتا ہے، اور اپنی کمزوری کے سبب نالاں رہتا ہے اور شب و روز اس فکر میں سرگرداں پھرتا ہے، کہ کب وہ وقت آئے گا کہ پھر بدی اس کے قریب کبھی نہ آئے گی.وہ اقرار کرتا ہے کہ مَیں ایک بادشاہِ حقیقی ( ملک النّاس) کی حکومت کے ماتحت ہوں اور اس کے قوانین کی فرماں برداری مجھ پر واجب ہے، اس واسطے وہ قواعدِ شرعیہ کی پابندی کے واسطے ہر وقت سعی کرتا رہتا ہے لیکن اپنی کمزوری اور اپنے ضعف کے سبب غلطی کر بیٹھتا ہے، اور اپنے بادشاہ سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے، ایسے شخص کا نفس لوّامہ ہے، وہ غلطی کر بیٹھتا ہے لیکن اس علطی پر راضی نہیں رہتا بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور غمگین ہوتا ہے، اور افسوس کرتا ہے کہ مَیں نے کیوں ایسا کام کیا اور پھر توبہ کرتا ہے.اور ہر دفعہ اس کی توبہ سچے دل کے ساتھ ہوتی ہے اور توبہ کے وقت وہ کبھی وہم نہیں رکھتا کہ دوبارہ یہ کام کریگا، اسی واسطے خدا تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے.اور اس کی توبہ قبول کرتا ہے، اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے.اس سے بڑھ کر درجہ والے وہ لوگ ہیں،جو ہر طرح سے تمام گناہوں کو چھوڑ چکے ہیں.اور ان کے نفسانی جذبات ٹھنڈے ہو جکے ہیں.اور اب کوئی بدی ان کو دُکھ نہیں دیتی.بلکہ وہ آرام اور اطمینان کے ساتھ اپنے خدا کی بندگی میں مصروف ہیں.وہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرا چکے ہیں اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک ان کے دل میں باقی نہیں رہا.اور انہوں نے اس واحد خدا کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور

Page 589

حدود اور آسمانی قضاء قدر کے امور کو بدل و جان قبول کر لیا ہے.اور نہایت نیک نیتی اور تذلّل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانون اور تقدیروں کو بارادت تمام سر پر اٹھا لیا.اور نیز وہ تمام صداقتیںاور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علّو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء پہچاننے کے ایک قوی رہبر ہیں.بخوبی معلوم کر لیا ہے عبادات وغیرہ میں ان کا مقصودٗ محبوب اور معبود صرف اﷲ ہی ہیٗ جو کہ الٰہ النَّاس ہے.انسان کے ان ہر سہ درجات اور حالات کی طرف اس آیت جمیں اشارہ کیا گیا ہے.ان ہر سہ حالات کو صوفیاء نے اپنی تجربہ کردہ باتوں کے ذکر کے ساتھ عجیب عجیب پیرایوں میں بیان کیا ہے.چنانچہ حافظ شیراز نے نفسِ لوّامہ کی مشکلات پر نگاہ کر کے اس مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے.؎ شبِ تاریک و بیم موج و گردابے چُنیں حائل کجا دانند حال ماسبکسارانِ ساحل ہا حافظ شیراز نے اس شعر میں انسان کی ان تین حالتوں کو ظاہر کیا ہے، اور اس کی تمثیل کے واسطے دریا اور اس کے دو کناروں کے نظارہ کو لیا ہیٗ کچھ لوگ دریا کے اس کنارے پر ہیں،کچھ اس کنارہ پر پہنچ گئے، کچھ کشتی میں بیٹھے ہوئے ہنوز اس فکر میں ہیں کہ اس کنارہ تک پہنچ جائیںگ ایک کنارہ ویران سا ہے، اس میں نہ کوئی شاندار مکان ہے اور نہ پھل پھول ہیں اور اس میں رہنے والے جاہل لوگ ہیں، جو دوسرے کنارے کی نعموتوں اور عمدہ اشیاء سے بے خبر ہیں، اور وہ نہیں جانتے کہ دوسرے کنارہ پر کیا کیا آرام کے ذرائع ہیں ، پس وہ اپنی حالت میں غافل ہیں.اور ان کو یہ خواہش بھی نہیں کہ دوسری طرف جاویں، اور ان لوگوں میں جا کر شامل ہوویں جو دوسرے کنارے پر رہتے ہیں، بلکہ وہ اپنے موجودہ حال میں ویسے ہی چُپ جاپ بیٹھے ہیں، دوسرے کنارے پر وہ لوگ ہیں جو دریا اور اس کی تمام تکالیف اور مصائب کو جھِیل کر اپنے منزلِ مقصود تک پہنچ چکے ہیں اور اب آرام کے ساتھ بیٹھے ہیں ان کو کوئی دُکھ اور مصیبت نہیں ہے.اور نہ ان کے واسطے وہ خطرات اور ہر وقت کا خوف ہے جو کشتی والوں کے لاحقِ حال ہوتا ہے بلکہ وہ ان تمام مشکلات میں سے گزر چکے ہیں، اور تمام مصائب کو عبور کر چکے ہیںگ اور ان کا نفس نفسِ مطمئنّہ ہے، اور پہلے لوگ وہ تھے جن کا نفس نفسِ امّارہ تھا، پس دریا کے دو کناروں پر دو قسم کے لوگ آباد ہیں، ایک کنارہ پر وہ ہیں جو نفسِ امّارہ رکھتے ہیں، اور دوسرے کنارہ پر وہ ہیں جو نفسِ مطمئنہ رکھتے ہیں.حافظ شیراز نے ان ہر دو کو اپنے شعر میں سبک سار کہا ہے، کیونکہ

Page 590

ایک کو معرفت کی خبر ہی نہیں، اور دوسرے کو معرفت حاصل ہو چکی ہے، پس وہ دونوں سبکسار ہیں کیونکہ یہ اپنے بوجھ اتار چکا ہے اور اس نے ہنوز بوجھ اٹھایا ہی نہیں.لیکن مشکلات میں وہ شخص ہے جو درمیان میں ہے کیونکہ اس نے رذیل حالت میں رہنا پسند نہ کیا، اور اعلیٰ حالت کی طرف جانا چاہا ، لیکن راستہ میں مشکلات کا دریا ایسا آ گیا ہے، جس میں ہر طرف سے موجیں ہیں اور رات اندھیری ہے اور گرداب گھیرے ہوئے ہے.اور ہر وقت خطرہ ہے کہ اب ڈوبے، اب ڈوبے، یہ درمیانی حالت نفسِ لوّامہ کی ہے.اس کو معلوم ہو گیا ہے.کہ نفسِ مطمئنہ ایک عظیم الشّان نعمت ہے.ان لوگوں کی صحبت نے جو نفسِ مطمئنّہ حاصل کر چکے ہیں یا ان کے حالاتب عجیبہ کے سُننے سے اس کو رغبت پیدا ہوئی ہے کہ مَیں بھی نیک بن جاؤں اور ان لوگوں کے درمیان شامل ہو جاؤں اور بظاہر پہلی نظر اس کو بہت ہی آسان سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں منزل کو آسانی کے سات طے کر لوں گا اور ایسا ہی ہو جاوں گا جیسے کہ وہ لوگ ہیں، لیکن تھوڑے ہی دنوں میں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس راہ میں بہت مشکلات ہیں اور بدیوں کا ترک کرنا اور نیک بن جانا آسان بات نہیں ہے، ایسے وقت میں جلّا اٹھتا ہے کہ عشق آساں نمود اوّل دِلے افتاد مشکلہا اور جب چاروں طرف سے اپنے آپکو تکالیف میں دیکھتا ہے.تب معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلیٰ حالت کا حصول کوئی آسان امر نہیں ہے.ظاہر کہہ دینے کو تو ایک فقرہ ہے اور وہ بھی ایک چا سا کہ ’’ مَیں دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا ‘‘ لیکن جب اس پر عمل شروع ہوتا ہے.تب اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.جیسا کہ ایک ملازم کسی دفتر کا اس اقرار کے بعد اپنے دفتر میں جاتا ہے.اور ایک طرف افسر زور دیتے ہیں کہ یہ کام فورًا کرو اور دوسری طرف نماز کا وقت آ جاتا ہے.اس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کے کیا معنی ہیں؟ یا ایک عہدہ دار سرکاری جس کے خرچ بہت ہیں اور تنخواہ تھوڑی ہے وہ جب اس اقرار کے بعد اپنے کام پر جاتا ہے اور آمدنی کو کم پاتا ہے اور خرچ زیادہ ہے اور رشوت کے وسائل کُھلے ہیں اور کوئی منع کرنے والا نہیں.اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدّم کرنے کی کیا کیفیت ہوتی ہے.رات کے وقت جب سردی کا موسم ہو اور گرم بستر کے اندر آدمی لیٹا ہو اہو اور ہر ایک سامان مہیاء ہو اور تہجد کا وقت اور خدا کے یاد کرنے کا وقت آ جا وے اور دل نہ چاہے کہ بستر سے اُٹھے، اس وقت انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا دین مقدّم ہے یا دنیا مقدّم ہے! غرض سلوک کی راہ میں سب سے مشکل مرحلہ وہی ہے جو نفسِ لوّامہ کو طے کرنا پڑتا ہے.کیونکہ اس کو شیطان کے ساتھ اور اس کے لشکر کے ساتھ ایک جنگ درپیس ہے.شیطان چاہتا ہے کہ وہ اس کو واپس

Page 591

اپنی حالت ردّی پر لے جائے.کیونکہ وہ جیسا کہ اس سورۃ میں بیان کیا ہے.خنّاس ہے یعنی انسان کو نیچے ہٹا نا چاہتا ہے، اور اس کو حالتِ رذیل میں ڈالنا چاہتا ہے.یہ شیطان بعض انسانوں کی صورت میں ہیں اور بعص بد روحیں ہیں جو کہ انسان کو خراب حالت میں ڈالنے کے واسطے اس کے دل میں طرح طرح کے وساوس ڈالتی ہیں، جس کا ذکر اس سورہ شریفہ میں اس طرح سے ہے، یعنی لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں.ان سے پناہ مانگنے کے واسطے خدا نے یہ حالت میں پڑنے سے بچ جاوے.اے خدا! تو اپنے فضل و کرم سے ہماری دستگیری فرما اور اس جماعت کے ممبروں کو نفسِ مطمئنّہ عطا فرما اور جو لوگ ہنوز اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے ان کی بھی آنکھیں کھول! تاکہ وہ اس پاک راہ کو پہنچان کر اس کی صداقت کا فائدہ حاصل کریں اور خدا کی برگزیدہ جماعت میں داخل ہو کر رحمتِ الہٰی سے حصّہ وافر حاصل کریں! آمین ثم آمین!! امراضِ سینہ کا علاج: میں خیال کرتا ہوں کہ امراضِ سینہ مثلاً سِل.کھانسی وغیرہ کے واسطے اس سورۂ شریفہ میں ایک دعا ہے.کیونکہ آجکل ڈاکٹروں نے یہ تحقیقات کی ہے کہ پھیپھڑے میں ایک باریک کیڑے ہوتے ہیں جن کو جِرْمز کہتے ہیں.جب وہ پیدا ہو جاتے ہیں تب پھیپھڑا زخمی ہو کر سِل کی بیماری اور کھانسی پیدا ہو جاتی ہے.جنّ بھی ایک باریک اور مخفی شئے کو کہتے ہیں.اس سورۃ میں ان اشیاء کے شر سے پناہ چاہی گئی ہے.جو سینہ کے اندر ایک خرابی پیدا کرتے ہیں.ناظرین اس کا تجربہ کریں.لیکن صرف جنتر منتر کی طرح ایک دُعا کا پڑھنا اور پھونک دینا بے فائدہ ہے، سچّے دل کے ساتھ اور معنی کو یہ سورۃ بطور دُعا کے مریض اور اس کے معالج اور تیماردار پڑھیں اور مریض کے حق میں دُعا کریں تو اﷲ تعالیٰ غفور رحیم ہے اور بخشنے والا ہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ ایسے بیماروں کو اس کلامِ پاک کے ذریعہ شفا حاصل ہو.واﷲ اعلم بالصواب.اس سورۂ شریفہ کے شانِ نزول کے بارہ میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کی رات مجھ پر اس قسم کی آیات نازل ہوئیں کہ ان جیسی مَیں نے کبھی نہیں دیکھیں وہ معوذ تین ہیں.ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم جنّ وانس کی نظرِ بَد سے پناہ مانگا کرتے تھے، مگر جب معوذ تَیْنِ نازل ہوئیں تو آپؐ نے اور طرہ اس امر کے متعلق دعا کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ ان الفاط میں دعا مانگتے تھے.حصرت عائشہؐ فرماتی ہیں کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بیمار ہوا کرتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ پڑھ کر دَم کیا کرتے تھے.(ضمیمہ اخبار۵ بدر قادیان ۹؍جنوری ۱۹۱۲ء)

Page 592

اس سورہ شریفہ میں کسی خاص مذہب پر کوئی خصوصیت سے حملہ نہیں.جیسے اس پاک کتاب کی ابتدائی سورت سورۃ فاتحہ میں ایسی تعلیم اور دُعا ہے جو سماوی اور اخلاقی مذہب میں کسی مذہب پر ردّ نہیں....(النّاس:۲تا۴) اس سورۂ شریفہ کی ابتداء میں باری تعالیٰ نے تین نام ظاہر فرمائے ہیں.اور اس جلسہ ( جلسہ مذاہبِ عالم) کے پہلے سوال میں ہی ایسے تین امور کا ذکر ہے کہ جس کا فردًا فردًا تعلق ان تین ناموں سے ہے.وہ تین انسان کی جسمانی.اخلاقی اور روحانی حالت کا بیان ہے....میں غور فرمائیے.ابتداء میں انسان ایک جسم ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(النحل:۷۹) اور بے ریب انسان کا بچہ جب ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو بجُز اس کے کہ اس کو جسمانی ضرورتیں سب سے پہلے پیس اتی ہیں.اور کن علوم کی اس کو ضرورت ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ اگر مولیٰ کریم ربق العالمین انسان کی ربوبیت نہ فرماوے، اور چُوسنے پھر گلے سے اتارنے کا علم نہ بخشے، پھر ہضم کی نالیاں اس غذا پر تصرف نہ کریںگ پھر شریانوں میں اور پھیپھڑوں میں خون مصفّٰی ہو کر جُز وِ بدن نہ ہو تو انسانی نسو و نما کا کیا ٹھکانا ہے.اسی طرح جسمانی غذا میں ماں کی چھاتیوں اور حیوانات کے عمدہ دودھ میسر نہ آویں تو نوزائیدہ انسان کی کی نسبت کسی کامیابی کی کیا امّید ہو سکتی ہے.اسی طرح روشنی اور ہوائیں عمدہ طور پر اسے نہ پہنچیں تو انسان کی جاں بری کیونکر ممکن ہے.صاحبان انسان کی اس حالت پر نظر کرو جو اُس کی نطفگی کی حالت میں لا حق ہے.اور ہر انسان کے اس کمال استواری پر نظر کر جاو جس میں وہ اپنے دائرہ کمال کی تکمیل کرتا ہے اور پھر انصاف سے دیکھو کہ یہ تمام سامان کمالاتِ جسمانیہ اپنے اصول و فروغ سے کس نے عطا فرمائے.تو آپ یقین فرمائیں گے کہ ایک رب النّاس جس نے اس کو ایک طرف جذب موادِ طیبّہ کی طاقتیں عطا فرمائیں.دوسری طرف موادب طیبّہ کا بے انت خزانہ مہیّا فرما دیا.چونکہ وہ ذات پاک طیّب اور ہر ایک خبث و نجاست سے منزّہ ہے.انسان کے جسمانی حالات کی ترقی کے لئے بھی اس نے کیسے کیسے اسبابِ طیبّہ مہیا کر دئے ہیں.جب انسان اپنی جسمانی حالت کی ایک حد تک تکمیل کر لیتا ہے تو اس کی عمدہ پرورش کے بعد انسان کے اخلاق کا نشو ونما ہوتا ہے.کبھی اس کو انواع و اقسام کی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں.اس لئے رنگارنگ

Page 593

خوراک کے لئے قسم قسم کے غلّہ، پھل ، پانی ، عرق ، شیرینیاں، تُرشیاں جمع کرتا ہے.پہننے کے واسطے اور ایسا ہی گرمی.سردی.ہوا.روشنی، بارش اور گرد و غبار سے بچنے کے لئے ایسا ہی محنت و مزدوری عیس و عشرت.جنگ وغیرہ حالاتِ مختلفہ کے لئے اسے مختلف اسباب مہیا کرنے پڑتے ہیں.اپنے آرام کی خاطر اس کو مکانات بنانے پڑتے ہیں، جن میں انسان کو گرمی، سردی ، غبار، بارش کا لحاظ کرنا پڑتا ہے.اپنی ضروریات کے واسطے مختلف قسم کی چیزیں رکھنا چاہتا ہے.قوائے شہوانیہ اور بقائے نسل کے خیال سے اس کو اپنے جوڑے کی ضرورت پیش آتی ہے.قوائے غضبیہ کو بھی اسے جوش میں لانا پڑتا ہے.جب دیکھتا ہے کہ اس کی اغراض اور مطالب ضروریہ اور صحیحہ میں کوئی روک ڈالتا ہے، انسان اپنے مطالب جسمانیہ اور اخلاقیہ میں گاہے قوّتِ استقلال و ہمّت بلند کے ساتھ ، شجاعت و بہادری سے بھی کام لینا پڑتا ہے.اور جب اس کے بنی نوع سے کوئی اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے اغراض و مطالب اور شہوات و بلند ہوصلگی و کامیابی سے حملہ کرتا ہے تو اس کو بادشاہوں اور حکّام کی احتیاج پڑتی ہے اور کبھی حکام میں سے اس کا محتاج الیہ حاکمگ قوت عدل انصاف، رحمگ شفقت، عور و فکر سے کام نہیں لیتا، تو اس کی فطرت کو ایک ایسی عظیم الشان طاقت کی طرف جھکنا پڑتا ہے جو سب حکّام کا حاکم اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس کے حضور گڑگڑاتا ہے کہ میرے دشمنوں اور میرے ظالم حاکموں کا تو انصاف کر اور میرے مطالب و مقاصد میں تو میرا انصاف فرما.اس بادشاہِ عظیم الشان کا نام مَلِکِ النَّاسِ ہے.نیز خود انسان کے لئے اگرچہ اکثر اوقات ایسے بادشاہ ہوتے ہیں جو اس کو جرائم کے ارتکاب اور اس کی خلاف ورزی پر سزا دیتے ہیں.مگر بعض جگہ اور بعض موقعوں پر یا تو حکام و بادشاہ موجود ہی نہیں ہوتے جیسے بعض مہذب بلاد میں بھی بعض اوقات ایسا معاملہ پیش آ جاتا ہے اور بعض مکانات اور میدانوں پہاڑوں میں ایسا اتفاق ہوتا ہے اور غیر مہذب بلاد میں تو اکثر ہی ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں.نیز ارتکابِ جُرم کے وقت اگر دنیوی حکام اور ناظم اگرچہ اپنے قوانین کی رُو سے انسان کی اخلاقی حالت کی اصلاح کے لئے ضروری ہے جس کی نگہبانی پر یقین انسان یہاں تک بڑھا ہوا ہو کہ وہ انسان کے موجودہ یا آئندہ ارادوں کا علم رکھتا ہے اور یہ بھی بد اخلاق کو سزا دیتا ہے.اس کا نام اس سورۂ شریف میں ملک النّاس ہے.کیا معنے؟ وہ بادشاہ جو انسان کے قویٰ علمیہ اور عملیہ اور انسانی

Page 594

علم و عمل اور انسانی کرم اندریوں بلکہ گیان اندریوں پر حکمران ہے.پھر جسمانی حالت دونوں حالتوں کی تکمیل کے بعد انسان کی روحانی حالت زور پکڑتی ہے، اور ظاہر ہے کہ جب انسان کا جسم کمال پر پہنچا اور ہر قسم کی تکالیف سے صحیح و تندرست ہوا تو انسان کو اخلاقِ فاضلہ کی ضرورت ہے، مگر جب جسم و اخلاق دونوں کمال کو پہنچ جاویں تو اب اس کو ابدی اور لازوال آرام کی خواہش پیدا ہوتی ہے.اگر بقاء کی خواہش انسان کی فطرت و جبلت میں نہ ہوتی تو علمِ طب کی یہ ترقی نہ دیکھتے جو آج نظر آتی ہے اور مذہب کی تحقیق پر کوئی جلسہ نہ ہوتا.نیکی اور نیک جلسہ کے اصول منضبط نہ ہوتے.روح کی کامل محبت اور پورا پیار اور پوری چیز جس میں رُوح کو کامل طمانیّت ہے اس کا نام اسلام میں اﷲ.تمام تعلقات سے خواہ جسمانی ہوں خواہ اخلاقی ، اندرونی ہوں یا بیرونی گ جب انسان کو ارام نہیں ملتا تو جو نام انسان کے لئے راحت بخش ہے اس کا نام ہے .انسان کا اصل مطلب اور غایت درجہ کا محبوب اور معبود.غرض انسان نے تینوں حالتوں جسمانی.اخلاقی.روحانی میں جو جسم کا مربّی.قویٰ کا مربّی.روح کا مربّی ہے، اس کو اس سورہ میں ربّ النّاس کہا ہے اور وہ ذات جسمانی، اخلاقی، روحانی افعال، اقوال، اعتقادات پر جزا دیتا ہے تب اس کا نام ہے.ملک النّاس.اور جب وہ انسان کا اصل غرص ذاتی محبوب، غایت مقصود بنتا ہے تو اس کو  کہا ہے.اب غور فرمائیں کہ جب ہر صورت میں انسان کی حالتوں کی طرف اشارہ کر کے اﷲ کریم نے فرمایا کہ ربّ بھی مَیں ہوں اور بادشاہ بھی میں ہوں اور محبوب و مطلوب اور غایتِ مقصود بھی مَیں ہی ہوں تو میرے بندو! مجھ کامل پاک زات سے پناہ مانگ لو اور کہہ دو، ہاں ہر ایک انسان تم سے کہہ دے کہ میں ربوبیت اور ضرورتِ حکومت میں اور صرورتب محبت میں ربّ النّاس، مِلک النّاس، اِلٰہ النّاس کی پناہ مانگتا ہوں اور پناہ بھی کس امر ہیں.(الناس:۵ تا ۷)یہ قرآن کی آکری سورۃ کیسی بے نظیر اور لطیف ہے جس میں یہ بیان ہے کہ تم اﷲ کریم، المولیٰ، الرؤوف الرحیم، رب النّاس، ملک النّاسگ الہٰ الناس سے پناہ مانگ لو تمام ان غلیوں اور وسوسوں سے جو کسی مُوَسْوِسْ کے نطارہ یا کلام سے بندہ کو ہوں کیونکہ ان وسوسوں کی مثال ہوبہو اس تکلیف رساں کُتّے کی سی ہے جو آٹھوں پہر کاٹنے کے لئے تیار ہے جس طرہ اس کُتّے سے بجنے کے لئے ہم کو اس کے مالک کی پناہ مانگنی ہے اور اگر اس کا مالک ہمیں بچانا

Page 595

چاہے اور اس کُتّے کو دھتکار دے تو کیا مجال کہ وہ کتا کسی کو کاٹ کھائے اسی طرح انسانی یا شیطانی وسوسوں سے بچنا بھی اس وجود کی پناہ سے ہو گا جو کل مخلوقات کا ربق اور مالک اور محبوب ہے.وسواس نام ہے ہر ایک ایسی چیز کا جس کا بُرا ہونا ہم سے مخفی رہ گیا اور جس کی بدی سے ہم بے خبر رہے اور اس کی شرارت ہمارے جسم پر یا اخلاق پر یا روہانی معملات پر اثر ڈالتی ہو یا ڈالا ہو اور ہمیں اس کی اطلاع نہ ملی ہو.چاہے وہ مخفی چیز ہو چاہے اوہ انسان ، ہاں شیطان بصورت انسان سے.میں اپنے لئے آپ یہ دعا مانگتا ہوں اور آپ کو یہ دعا مانگنے کی سفارش کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں جو کچھ ہم نے سنا.اس میں سے جو کچھ ہمارے جسم، اخلاق اور رُوح کے لئے مفید نہ ہو بلکہ کسی نہ کسی مخفی طریق سے وہ نقصان رساں ہو اس سے آپ پناہ مانگیں جو ربق النّاس، ملک النّاس اور الہِٰ النّاس ہے کیونکہ انہیں تین صفات کے ماتحت انسانی جسم، اخلاق اور روح کی تکمیل ہوتی ہے.(رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۲۵۸ تا ۲۶۱) اس سورۃ کو اخیر میں لانے میں یہ حکمت ہے کہ قرآن کو ختم کرے کے اور شروع کرتے ہوئے اَعُوْذُ پڑھنا چاہیئے.چونکہ یہ طریق مسنون ہے کہ قرآن کریم ختم کرتے ہی شروع کر دینا چاہیئے، اس لئے نہایت عمدہ موقعہ پر یہ سورث ہے.بخاری ؒصاحب نے اپنی کتاب کو ابنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ سے شروع کیا ہے ، تاکہ سامعین لوگ اور معلّم اور متعلّم اپنی اپنی نیّتوں پر غور کر لیں.یاد رکھو جہاں خزانہ ہوتا ہے وہیں چور کا ڈر ہے.قرآن مجید ایک بے بہا خزانہ ہے.اس لئے خطرۂ شیطانی عظیم الشان ہے.قرآن کے ابتداء میں یُضِلُّ بِہٖ کثِیْرًا پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے اپنی رسومات کے ادا کرنے کے لئے تو مکان بلکہ زمین تک بیچنے سے بھی نہیں ڈرتے، مگر خدا کے لئے ایک پیسہ نکالنا بھی دُو بھر ہے.ایک قرآن پر عمل کرنے سے پہلو تہی ہے اور خود و ضعداری و تکلّف و رسوم کے ماتحت جو کچھ کرتے ہیں اس کی کتاب بنائی جاوے تو قرآن سے دس گنا حجم میں ضخیم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ عفور رحیم ہے،اس کو ہماری عبادت کی صرورت کیا ہے.ہالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی بدپرہیزیوں سے اور حکّام کی خلاف ورزی سے دُکھ صرور پہنچتا ہے.پس گناہ سے اور احکم الحاکمین کی خلاف ورزی سے کیوں سزا نہ ملے گی.ان تمام اقسام کے وسوسوں اور غلط فہمیوں سے ( جو اضلال کا موجب ہیں).بچنے کے لئے یہ سورۃ سکھائی گئی ہے.اَعُوْذ اُن چھوٹے پودوں کو کہتے ہیں جو برے درختوں کی جر کے قریب پیدا ہوتے ہیں.ہر آدمی کو ایک ربّ کی ضرورت ہے دیکھو انسان غذا کو گڑبڑ کر کے پیٹ میں پہنچالیتا ہے.اب اسے دماغ میں ، دل میں، اعضائے رئیسہ

Page 596

میں بحصّہ رسدی پہنچانا یہ ربّ کا کام ہے.اسی طرح بادشاہ کی ضرورت ہے، گاؤں میں نمبردار نہ ہو، تو اس گاؤں کا انتظام ٹھیک نہیں.اسی طرح تحصیلدار نہ ہو تو اُس تحصیل کا،ڈپٹی کمشنر نہ ہو تو ضلع کا کمشنر نہ ہو تو کمشنری کا، اسی طرح بادشاہ نہ ہو تو اس ملک کا انتظام درست نہیں رہ سکتا اور اس کی مملکت کے انتظام کے لئے بھی ایک مَلِک کی حاجت ہے.پھر انسان اپنی ہاجتوں کے لئے کسی حاجت روا کا مہتاج ہے.ان تینوں صفتوں کا حقیقی مستحق اﷲ ہے.اس کی پناہ میں مومن کو آنا چاہیئے.تا چھپے چھپے پیچھے لے جانیوالے مانع ترقی، وسوسوں سے امن میں رہے.اسلام کی حالت اس وقت بہت ردّی ہے ہر مسلمان میں ایک قسم کی خود پسندی اور خودرائی ہے.وہ اپنے اوقات کو، اپنے مال کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ نہیں کرتا.اﷲ تعالیٰ نے انسان کو آزاد بنایا، پر کچھ پابندیاں بھی فرمائیں، بالخصوص مال کے معاملہ میں ، پس مالوں کے خرچ میں بہت احتیاط کرو.اس زمانہ میں بعض لوگ سود لینا دینا جائز سمجھتے ہیں، یہ بالکل غلط ہے،حدیث میں آیا ہے، سود کا لینے والا، دینے والا بلکہ لکھنے والا اور گواہ سب خدا کی لعنت کے نیچے ہیں.میں انی طرف سے حقِ تبلیع ادا کر کے تم سے سبکدوش ہوتا ہوں مَیں تمہاری ایک ذرّہ بھی پرواہ نہیں رکھتا.مَیں تو چاہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ، تم اپنی ہالتوں کو سنوارو خدا تمہیں عمل کی توفیق دے.آمین.(بدر مورخہ ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء صفحہ ۲) متی کی انجیل کا پہلا صفحہ اٹھا کر دیکھو، وہاں کیا لکھا ہے، نسب نامہ یسوع مسیح داؤد اور ابراہیم کے بیٹے کا.ابراہام سے اسحاق پیدا ہوا اور اسہق سے یعقوب پیدا ہؤا… متّان سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا.جو مریم کا شوہر تھا جس کے پیٹ سے یسوع جو مسیح کہلاتا ہے پیدا ہوا.حالانکہ یہ وہ کام ہے جو ہمارے ملک میں تو میراسی کرتے ہیں.اس کے مقابل میں قرآن مجید سروع ہوتا ہے  سے.یہ وہ آیت ہے جس سے تمام مذاہب کا ردّ ہوتا ہے نہ یسوعیوں کا خداوند اقنوم ثالث رہ سکتا ہیگ نہ رحم بلامبادلہ کے بہانے کسی بے گناہ کو پھانسی چڑھانا پرتا ہے، اور نہ آریوں کا مادہ روہ ازلی و ابدی بن سکتا ہے اور نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے، اور نہ آریوں کا مادہ روہ ازلی و ابدی بن سکتا ہے اور نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے، جس کا ردّ اس سے نہ ہو سکے، نہ سو فسطائیوں کے لئے تاب ہے، اور نہ برہمؤوں کو مسئلہ الہام میں تردّد رہ سکتا ہے، اور نہ شیعہ صحابہ کرام پر اعتراص کر سکتے ہیں، نہ دہریہ کسی حجّتِ نیرّہ کی بناء پر خدا کی ہستی کے کنکر رہ سکتے ہیں، یہ تو ایک آیت کے متعلق ہے.اگر سات آیتیں پڑھی جاویں، تو پھر تمام مذاہب کی صداقتوں کا عطر مجموعہ اس میں ملتا ہے.اور دنیا کے آخر تک پیش آنیوالے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں موجود ہے.چنانچہ نصارٰی کے اس غلبہ اور مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی بھی

Page 597

موجود ہے.ان تمام مفاسد و عقائد فاسدہ کا ابطال ہے.جو دنیا میں پیدا ہوئے یا ہو سکتے ہیں.اور ان اعمالب صالحہ و عقائد صحیحہ کا تذکرہ ہے جو انسان کی روحانی و جسمانی ترقیات کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح انجیل کا اخیر دیکھو.اس میں لکھا ہے کہ یسوع جو خداوند کہلاتا تھا، اپنے دشمنوں کے قبضے میں آگیا،اور اس نے ایلی ایلی لما سبقتانی ( یعنی اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا) کہتے ہوئے اپنی جان دی.برخلاف اس کے قرآن مجید ختم ہوتا ہے.......قرآن مجید پڑھنے والا، قرآن شریف کا متّبع برے زور سے علی الاعلان دعویٰ کرتا ہے، مَیں خدا کی پناہ میں ہوںگا جو تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور پھر انہیں کمال تک پہنچانے والا ہے.وہ سب سے حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے.اﷲ اکبر.ایک معمولی تھانیدار یا صاحبِ ضلع بلکہ نمبردار اور پٹواری کی پناہ میں آ کر کئی لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں.پس کیا مرتبہ ہے اس شخص کا جو تمام جہان کے ربّ اور بادشاہ اور سچّے معبود کی پناہ میں آ جائے.صرف اس کتاب کا اوّ ل و آخر ہی اسلام اور عیسائیت میں فیصلہ کن ہے.اگر کوئی خدا ترس دل لے کر غور کرے.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۳.۳۵۴) وَ اٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَلمِلَیْنَ

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 604

Page 605

Page 606

Page 607

Page 608

Page 609

Page 610

Page 611

Page 612

Page 613

Page 614

Page 615

Page 616

Page 617

Page 618

Page 619

Page 620

Page 621

Page 622

Page 623

Page 624

Page 625

Page 626

Page 627

Page 628

Page 629

Page 630

Page 631

Page 632

Page 633

Page 634

Page 635

Page 636

Page 637

Page 638

Page 639

Page 640

Page 641

Page 642

Page 643

Page 644

Page 645

Page 646

Page 647

Page 648

Page 649

Page 650

Page 651

Page 652

Page 653

Page 653

← Previous Book