Haqaiqul-Furqan Volume 3

Haqaiqul-Furqan Volume 3

حقائق الفرقان (جلد ۳)

Chapters: 18-48
Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

Page 4

سُوْرَۃُ الْکَھْفِ مَکِّیَّۃٌ  ۲. سورۂ بنی اسرائیل میں زیادہ تر یہود سے خطاب ہے،اور ان کی دو شدید تباہیوں کا ذکر کر کے مسلمانوں کو بھی متنبّہ کیا ہے.اب اس سورۂ شریف میں زیادہ بحث پہلے عیسائیوں سے کی ہے.پھر مجوس سے اور درمیان میں کچھ یہود کو بھی خطاب کیا ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ فتنۂ دجال سے بچنے کے واسطے ہر جمعہ کو سورۃ کہف کی پہلی دس آیتیں اور پچھلی دس آیتیں پڑھو.ان آیات کے مطالعہ سے واضح ہو سکتا ہے کہ دجّال کون ہے اور اس کے کیا صفات ہیں اور اس سے بچنے کی کیا راہ ہے.: کامل جامع کتاب.لکھی ہوئی.ایک لشکر جو شبہات کو دور کرے.اس سے ظاہر ہے کہ قرآن شریف آنحضرت صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلّم کے وقت میں بصورت کتاب موجودتھا.: دو معنے ہیں.۱.ٹیڑھاپن.اس کتاب میں کوئی غلط تعلیم نہیں.۲.جو ٹیڑھا رہے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) ۳ تا ۵.  

Page 5

: ۱.مُسْتَقِیْمًا.بالکل سیدھے راہ پر اور سیدھی راہ بتانے والی ۲.مصدق اور صداقتوں کی اور اپنی صداقتوں کی ۳.حافظ اس پر عمل کرنے والوں کیلئے شدید کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ سخت مخالفت کے واسطے تیار ہے.: عملِ صالح کا نتیجہ ہے.اجرِ حسن : بہت لمبا زمانہ : یہ آیت بتلاتی ہے کہ قوم دجّال کون ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) ۶.  : یہ قوم بڑی سائنسدان بن گئی.ہر بات پر دلیل پیش کرتی ہے.مگر اپنے مذہب کے متعلق صاف اقرار کرتے ہیں کہ مسیحؑ کے ابنِ خدا ہونے اور تثلیث.کفّارہ وغیرہ کے واسطے دلیل کوئی نہیں.قرآن شریف نے پہلے سے پیشگوئی کی ہے کہ یہ ایسا کہیں گے.اٰ: ان کے باپ دادوں کو بھی علم نہ تھا.یورپ ایک بُت پرست قوم تھی.جاہل لوگ تھے.پرانے بُتوں کے عوض رفتہ رفتہ سلطنتوں کے اور حکاّم کے رُعب میں آ کر یسوع کا بُت پوجنے لگ گئے.وہ تو خود جاہل تھے ہی.اور اب ان کی اولاد گلے پڑا ڈھول بجا رہی ہے.: تمیز واقع ہوئی ہے اس واسطے منصوب ہے.: منہ سے نکلتی ہے.دل سے نہیں نکلتی.دل جانتے ہیں کہ یہ بے دلیل بات ہے صحیح َُ نہیں.۷.

Page 6

 : نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو کشف میں اس قوم کا جاہ و حشم دکھایا گیا جس سے آپؐ کو غم ہوا.کہ اتنی بڑی بظاہر معزّز قوم اسلام کی نعمت سے بے نصیب رہے گی.تو ان کی وجاہت کتنوں کو اسلام سے مرتد کر دے گی.اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ یہ سب اشیاء عارضی اور زمینی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) ۸،۹.  : دنیوی زیب و زینت کے معاملہ میں کون بڑا کاریگر ہے.یہ بات ظاہر کر دی جائے گی.: لَیْسَ فِیْھَا شَیْیئٌ.خالی میدان.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) ۱۰.  عَجَبَ: کیا تم خیال کرتے ہو کہ یہ بہت عجیب بات ہے.ایسے ایسے لاکھوں نشانات خدا تعالیٰ کے ہیں.الرَّقِیْمِ:رقم کرنا.لکھنا.کھودنا.یہ ان کی نشانی ہے تحریر کا کام بہت ہو گا.ہر امر ان کے ہاں لکھا جائے گا.کَھْف: وہی ہے جس کو انگریزی میں کیپ ( CAPE ) اب تک وہ جگہ اسی نام سے مشہور ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵)

Page 7

اَلْکَھْفِ: ملک کی ایک سرحد پر.کنارہ پر (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۶۴) اصحابِ کہف جس قوم کا نام ہے.ایک تو ان کا نشان ہے.کہ ہر چیز پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوتا ہے.دوم وہ پہلے ایسے ملک میں ہجرت کر کے گئے.جو ایک کنارہ پر ہے اور سورج اس سے ہمیشہ دکّن کی طرف رہتا ہے.میرا دل چاہتا ہے.تمہارے معاملات دنیوی بالکل صاف ہوں اور تم خدا کے حکم کی تعمیل میں چھوٹے سے چھوٹا معاملہ بھی ہو تو اسے لکھ لو.فَاکتُبُوْہُ صَغِیْرًا اَوکَبِیْرًا.ایک سفر میں چند بھائی میرے ساتھ تھے.وہ خرچ کرتے تھے.میں نے کہا لکھ لو تو انہوں نے میری تحقیر کی اور کہا ہم بھائی بھائی ہیں.تم ہم میں تفرقہ ڈالنا چاہتے ہو.آخر ایک موقع پر جا کر وہ سخت لڑے.تب میری بات کی قدر معلوم ہوئی.جو تم لوگ یہاںرہتے ہو.وہ دوسرے کیلئے نمونہ ہو.پس تمہارا یہاں رہنا بڑا خطرناک ہے سنبھل کر رہو.اور اپنے تئیں قرآن مجید کے سچے متّبع بناؤ.اﷲتم کو قرآن پر عمل کی توفیق دے.(بدر ۱۷؍ اگست۱۹۱۱ء صفحہ ۳) ۱۱.  اَلفتیۃُ: نوجوان.حضرت مسیح ؑکو صلیبی موت سے بچانے کے معاملہ میں جو مؤیّد جماعت تھی اس پر بڑا ابتلاء آیا.حاکم پلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس مقدمہ میں قید ہوئے.مگر کچھ لوگ ایسے تھے جو وہاں سے بھاگ نکلے.کچھ مغرب کو گئے.کچھ مشرق کو.یہاں ان لوگوں کا ذکر ہے.جنہوں نے بلاد غربی میں جا کر کہف میں جاپناہ لی.جو کہ انگلستان کے جنوب مغربی گوشہ میں واقع ہے.انہیں نوجوانوں میں یوسف اور میتابھی تھا جس نے حضرت مسیح ؑ کے بچانے میں بڑا حصّہ لیا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) : اے ہمارے رب ہم کو اپنے پاس سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملہ میں ہمیں راہ کھول دے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۶۹)

Page 8

۱۲،۱۳.  : کچھ مدّت تک باہر کی کوئی خبر اس گروہ کو نہ پہنچی.بَعَثْنَا:آخری ترقی دنیوی کی طرف اشارہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵) : دوسرے لوگوں سے بے خبر رہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۴۶۴) ۱۴.  … میری طبیعت توضعیف ہے.مگر دل میں آیا کہ زندگی کا بھروسہ نہیں.معلوم نہیں کہ کس وقت موت آ جاوے.کچھ قرآن سنا دیا جاوے تو اچھا.فرمایا.آج مجھے بہت جوش ہوا کہ درس قرآن سننے والوںکے واسطے خصوصیت سے دُعا کروں.پس جو اس وقت حاضر ہیں ان کے واسطے میں نے بہت بہت دعائیں درس شروع کرنے سے پہلے کی ہیں.ُُّّ: اصل قصّہ کا بیان اب شروع ہوا ہے.: عظیم الشّان بات.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۵.۱۵۶) ۱۵.  شَطَطًا: پراگندہ بات.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۶)

Page 9

۱۶.  : رومی قوم کی طرف اشارہ ہے جو بُت پرست تھی اور یہودی بھی غیر ممالک میں جا کر ان قوموں کی صحبت کے اثر سے کچھ غلطیوں میں مبتلا ہو چکے تھے.یاد رکھو.شرک کبھی فی الذّات ہوتا ہے جیسا کہ مجوس نے خالق الظلمت و خالق النور دو (خدا) بنائے ہیں.اور جیسے آریہ لوگ پانچ چیزوں کو خدا کے ساتھ غیر مخلوق مانتے ہیں.اور جیسے عیسائی تین خدا قرار دیتے ہیں.یا صفات میں ہوتا ہے جیسا کہ بعض مسلمانوں میں اس کے آثار پائے جاتے ہیں.یہ سب افتراء ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) ۱۷.  جب تم نے ان غیر معبودوں کی پرستش کرنے والوں کو چھوڑ دیا تو اب کہف کو چلے جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) ۱۸.   

Page 10

تَزٰوَرُ: تَمِیْلُ.جھُک جاتا ہے.چونکہ وہ مقام خطِ سرطان سے اوپر ہے اور سورج خطِ سرطان کے اوپر نہیں جاتا بلکہ نیچے رہتا ہے.اس واسطے طلوعِ آفتاب کے وقت مشرق کی طرف وہاں سے دیکھا جاوے تو سورج دائیں ہاتھ نظر آئے گا اور وقت غروب مغرب کی طرف دیکھا جاوے تو بائیں ہاتھ نظر آئے گا.سورج کبھی ان کے سر پر نہیں آتا.: وسعت کی جگہ.فراخی کی جگہ میں ہیں.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ مقام کہف کے تین پتے ہیں.۱.شام و روما سے بہت دُور ہے.۲.خطِ سرطان سے شمال کی طرف ہے.۳.وہ امن کی جگہ ہے جہاں دشمن کا قابو نہ تھا. : سورج کا سرطان تک پہنچنا اور آگے نہ جانا.پھر جدّی تک جانا اور آگے نہ پہنچنا یہ سب اس کی قدرت کی نشانیاں ہیں. : اور جس کو اس کی بدی کے سبب گمراہ کرتا ہے.دوسری جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.(البقرۃ: ۲۷) فاسقوں کے سوائے وہ دوسرے کو گمراہ نہیں کرتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) : ایسے ملک میں گئے کہ مشرق کی طرف مُنہ کر کے دیکھو تو آفتاب دائیں رہ جائے.مغرب کی طرف تو بائیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۶۴ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۹.   آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اصحابِ کہف کا حال منکشف ہوا اور آپؐ نے انہیں دیکھا  : راقد.سونے والے.سخت ہی ٹھہرے ہوئے.دراصل وہ تو ٹھہرے ہوئے تھے

Page 11

کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کے زمانہ میں وہ قوم سُست پڑی تھی.مگر آپؐ نے ان کی حالت آئندہ کی دیکھی. : عنقریب تجارت کے واسطے سب طرف نکلیں گے.دائیں بائیں جاویں گے.کیا معنی.مشرق اور مغرب میں پھیلیں گے. : یہ ان کی شناخت بتلائی گئی کہ ان کے دروازے پر کتّا ضرور ہو گا.ممکن ہے کہ ابتدائی اصحابِ کہف کے ساتھ بھی کوئی کتّا ہو.آج کل کتّے کی تعریفِ وفاداری میں بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں حالانکہ اس جانور کے اخلاق نہایت قبیح اور مذموم ہیں.شہوت.حرص.طمع میں بہت رذیل جانور ہے اور ان امور میں گرا ہوا ہے.َ: یہ بھی ایک شناخت ہے.ان کی کوٹھیاں وسیع اور رعب دار ہوں گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) : ایک وقت آئے گا کہ یہ دور دراز پھیل جائیں گے ان کے نشان یہ ہیں کہ ان کی کوٹھیوں میں کتاّرہتا ہے.اور ان کا رعب ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۶۴ ماہ ستمبر ۱۹۱۳) ۲۰.    : اس حالت میں حالتِ سُستی میں کتنی مدّت تم رہے.: ہزار.نو سو سال.اوسط ساڑھے نو سو سال.اتنے ہی عرصہ کے بعد یہ قوم باہر نکلی اور انہوں نے کمپنیاں بنائیں اور تجارتیں شروع کیں اور غیر ملکوں کی طرف گئے.

Page 12

قرآن کریم میں یوم ہزار سال کا نام بھی آیا ہے.اور تاریخ شہادت دیتی ہے.: ایک مجمع بناؤ.کمپنی قائم کرو.روپیہ روانہ کرو اور ایک کو افسر بناؤ.: ہمارے ملک میں غلّہ کی کمی ہے.یہا ںسے روپے لے جاؤ اور وہاں سے غلّہ لے آؤ.: نرمی سے کام کرو. َّ: اپنا بھید کسی کو نہ دو.اور دوسرے کا بھید لو.مدارات سے کام کرو اور دوسروں کے حالات سے مفصّل اطلاع حاصل کرتے رہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) ۲۲.    اَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ: دوسرے لوگوں کو ان کے حالات سے آگاہ کیا اور غیر قومیں ان کے ہاں بھی جانے لگیں.ابتدائی اصحاب سے بھی ارد گرد کے لوگ آگاہ ہوئے اور ان کے مطیع ہوئے.یَتَنَازَعُوْنَ: ابتدائی لوگوں نے ان کے متعلق جھگڑا کیا اور آخر ان کی یادگار بنائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۶) اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَھُمْ: یہ پیشگوئی ہے.اپنے وقت پر ظاہر ہو گی.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۴ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۲۳.  

Page 13

  : اختلاف مؤرخین کا ہے کہ کتنے تھے کتنے نہ تھے.: حضرت ابنِ عباسؓ کا قول ہے کہ سات والی بات صحیح ہے.کیونکہ پہلے اعداد کے ساتھ خدا تعالیٰ نے  فرمایا.اس کے ساتھ نہیں فرمایا.بلکہ یہ امر کہ عیسائیوں کے ہاں سات بڑے کلیسیا مشہور ہیں.اس سے صاف صاف پتہ لگتا ہے کہ سا ت ہی تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) ۲۴،۲۵.   : کبھی بھی نہ کہو.: جہاں کہیں خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا خیال نہ ہو.نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.سب سے پہلی مثال حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی ہے.جنہوں نے (یوسف:۱۳)(یوسف:۱۲) (یوسف:۶۲) وغیرہ الفاظ کے ساتھ دعویٰ کیا مگر کہیں وفا نہ ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۰؍ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۶) اس سے بڑھ کر دُکھ کی کہانی ایک ہے.حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھما الصلوٰۃ و السلام کے نام سے عام مسلمان واقف ہیں.مگر سلیمان علیہ السلام کے بیٹے کے نام کی وہ شہرت نہیںجو باپ دادا کی ہے.اور پوتے کا نام تو قریباً معدوم ہے.حدیث میں اس راز کا ذکر ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک دفعہ کہا تھا کہ میری بیویاں بہت ہیں.ان سے بڑی اولاد اور عظیم الشان لوگ پیدا ہوں گے.اس دعویٰ کے ساتھ انشاء اﷲ نہ کہا.نتیجہ خراب ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت

Page 14

صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی اپنی ہجرت کے ارادے کو ظاہر کرنا چاہا تھا؟ تب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ انشاء اﷲ تعالیٰ کہہ لو.اََ: آئندہ حالت موجودہ سے پُر امن ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۷) ایک عیسائی کا اعتراض: ’’ اگر پیغمبر علیہ السلام سچّے ہوتے تو اصحابِ کہف کی بابت ان کی تعداد میں غلط بیانی نہ کرتے‘‘ کے جواب میں فرمایا.نہ قرآن کریم نے اصحابِ کہف کی تعداد بیان فرمائی اور نہ رسولِ کریمؐ نے.معلوم نہیں ہو سکتا کہ سائل نے غلط بیانی کا اتہام کیونکر لگایا.حضرت رسالت مآب ؐ نے تعداد کو بتایا ہی نہیں اور اس کا بیان ہی نہیں کیا.تو غلط بیانی کہاں سے آ گئی؟ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے.سائل کسی کے دھوکہ میں آ کر یہ سوال کر بیٹھا ہے.کیونکہ قرآنِ مجید میں جہاں اصحابِ کہف کا قصّہ لکھا ہے.وہاں تعداد کے متعلق یہ آیت ہے.  .ترجمہ: لوگ کہیں گے تین ہیں چوتھا ان کا کتّا.اور کہتے ہیں پانچ ہیں چھٹا ان کا کتّا ہے.بے نشانہ تیر چلاتے ہیں اور کہتے ہیں سات ہیں اور آٹھواں کتّا ہے.تُو کہہ دے ( اے محمدؐ ) میرا رب ہی اُن کی تعداد جانتا ہے.اور ان کو تھوڑے ہی جانتے ہیں.اس آیت شریف سے صاف صاف واضح ہے کہ لوگ ایسا ایسا کہیں گے اور لوگ فلاں فلاں تعداد اصحاب کہف کی بیان کریں گے.لاکن ان لوگوں کا کہنا ’’ بن نشانہ تیر چلانا ہے ‘‘ اعتبار کے قابل نہیں.غرض حضرت نبی عربؐ نے کوئی تعداد اصحابِ کہف کی نہیں بتائی.(ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جوابات صفحہ ۵۸) ۲۶،۲۷. 

Page 15

   : یہ لوگوں کا قول ہے.سَیَقُوْلُوْنَ پر عطف ہے.مثال کے واسطے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع دیکھو..(لقمان:۱۴) سے وعظ شروع ہوا.درمیان میں (لقمان:۱۵) اور دیگر ذکر آ گیا.پھر (لقمان:۱۷) سے وہی وعظ شروع ہوا.: تین سو یا نو سو والی باتیں صحیح نہیں.اﷲ بہتر جانتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۷) ۲۸،۲۹.     : یہ پیشگوئیاں ضرور پوری ہوں گی.اس آیت پر عیسائی لوگ کہا کرتے ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کے کلمات میں تبدیلی نہیں ہو سکتی اور قرآن شریف خود اس امر کو تسلیم کرتا ہے تو پھرانجیل اور توریت بھی محرّف مبدّل نہیں ہوئیں.یہ ایک دھوکہ ہے جو عیسائیوں کو لگا ہے یا وہ دوسروں کو دیتے ہیں.اس آیت کے معنے تو صرف یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو پیشگوئی کی ہے وہ ضرور پوری ہو گی

Page 16

اس کے ٹالنے والا کوئی اس کے سوا نہیں.اور خدا تعالیٰ نے جو سنّت قائم کر دی ہے اس کے خلاف ہرگز نہیں ہو سکتا.مثلاً یہ قانونِ الہٰی ہے کہ صادق کامیاب اور بامراد ہوتا ہے.پس اس میں تبدیلی نہیں.اور ایسا کبھی نہ ہو گاکہ کاذب کے مقابلہ میں صادق نامراد اور ناکام رہے.باقی رہا حروف میں تغیّر و تبدّل.یہ تو ظاہر ہے کہ قاری کو بھی سہو ہو جاتا ہے.کاتب بھی غلطیاں کرتا ہے.بعض بائیبلوںاور قرآن شریفوں میں لفظی غلطیاں چھاپے کی نکالنے والوں کو انعام دیا جاتا ہے.فی زمانہ خود عیسائیوں کے درمیان رومن کیتھولک فرقہ کی بائیبل میں اور پروٹسٹنٹ فرقہ کی بائیبل میں بہت جگہ اختلاف لفظی ہے.جس سے ظاہر ہے کہ دونوں میں سے ایک غلط ہے.پس اس آیت سے عیسائیوں کا استدلال ہرگز صحیح نہیں ہے.بلکہ اس اعتراض کی سزا ہے کہ اصل کلام ہی دنیا سے مفقود ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۷) : یہاں سے ہجرت کے متعلق احکام ہیں کہ اس وقت آپ کو کیا کرنا چاہیئے.اس آیت شریفہ سے صدیقِ اکبرؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آنحضرتؐنے ان کو اپنے ساتھ رکھا.معلوم ہوا کہ وہ غافل قلب والے نہ تھے.وَ اِلَّا ان کو ساتھ نہ رکھتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۷) دُکھوں اور مصیبتوں کے وقت تین علاج حضرت حق سبحانہٗ نے فرمائے ہیں.۱.اﷲ کا ذکر کرتے رہنا.۲.قرآن شریف اکثر پڑھتے رہنا.۳.پاک لوگوں کی صحبت میں رہنا جو مستفاد ہے.سے.اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ غافلوں کی صحبت و تعلق سے کنارہ کشی رہے.غافل وہ ہے جو یادِ الہٰی نہ کرے اور گری ہوئی خواہشوں کے پیچھے پڑا رہے.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۳) ۳۲.   

Page 17

: یہ سونے کے کڑے حضرت عمرؓ کے زمانہ میں دئے گئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۴ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 18

وے میرے بیٹے سے دبیں گے.لیکن جب باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا آپس میں کہنے لگے ( بنی اسرائیل کی نبوّت کا آخری ) وارث یہی ہے.آؤ اسے مار ڈالیں کہ میراث ہماری ہو جاوے اور اسے پکڑ کر اور انگورستان کے باہر لے جا کر ( اپنی طرف سے تو) قتل (ہی ) کیا.جب انگورستان کا مالک آوے گا.ان باغبانوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گا.وے اسے بولے.ان بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا.جو اسے موسم پر میوہ پہنچاویں.یسوع نے انہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کو نے کا سرا ہوا(عرب کی طرف اشارہ ہے) یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت ( نبوّت و نصرتِ الہٰی ) تم ( بنی اسرائیل) سے لے لی جائے گی اور ایک قوم ( بنی اسمٰعیل اہل عرب) کو جو اس کیلئے میوے موسم پر ( اب بھی ایّامِ حج کو موسم کہتے ہیں) لاوے گی دی جاوے گی.جو اس پتھر پر گرے گا چُور ہو جائے گا.پر جس پر وہ گرے اُسے پیس ڈالے گا.‘‘ مذکرہ بالا عبارت انجیل میں خطوطِ و حدانی کے اندر جو الفاظ ہیں وہ تشریحاً و تفسیراًہم نے لکھے ہیں اناجیل کے مفسّرین نے بھی اقرار کیا ہے کہ ان آیات میں بیٹے سے مراد حضرت مسیح علیہ السلام اور پہلے باغبانوں سے مراد بنی اسرائیل ہیں.دیکھو تفسیر عمادالدین اور تفسیر پادری ہَو صاحب وغیرہ.: مراد بنی اسرائیل و بنی اسماعیل. : حضرت اسحٰق کی اولاد کی طرف اشارہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷،۲۴ مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۷.۱۵۸ نیز دیکھیں تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۴،۴۶۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) یہ پیشگوئی اور بشارت بہ نسبت آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہے.انجیل میں یہ بشارت نہایت تفصیل سے موجود ہے.وہ بڑا باغ اور بنی اسرائیل کا تاکستان یروشلم ہے.بنی اسرائیل اپنے ناپاک گھمنڈ میں اپنے بھائی بنی اسمٰعیل کو ہمیشہ حقیر و ذلیل جانتے رہے اور اپنی باغبانی کے ( بقول مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَھٰذِہٖٓ اَبَدًا) لازوال ہونے کا یقین کرتے رہے.حضرت مسیحؑ نے ان کو آگاہ کیا اور بتایا تمہاری باغبانی جاتی رہے گی.اب نیا افسر اور نئے باغبان آنے والے ہیں.اگر تم نے ان نئے باغبانوں پر حملہ کیا تو چُور ہو جاؤ گے.اگر وہ تم پر گرے پِس جاؤ گے.اس بشارت میں حضرت مسیحؑ کی تفصیل سنو متی ۲۱ باب آیت ۳۳.مرقس ۱۲ باب آیت ۱.لوقا ۲۰ باب آیت ۹.پھر لوگوں سے یہ تمثیل کہنے لگا.کسی نے انگور کا باغ لگا کے اسے باغبانوں کے سپرد کیا اور مدّت تک پردیس جا رہا.

Page 19

تفسیر: باغ لگانے والا وہی خداوندِ بنی اسرائیل ہے.یسعیاہ ۵ باب ۲.۳.انگور بنی اسرائیل کی قوم ہے.زبور باب ۸۰ آیت ۹.تاکستان یروشلم ہے.غزل الغزلات ۸ باب ۱۳.یسعیاہ ۵ باب آیت ۳،۵،۷ قرآن بھی کہتا ہے. (الکہف:۳۳) یاد رکھو.مالک کے آنے تک دیر ہے.اور موسم پر ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تاکہ وے اس انگور کے باغ کا پھل اس کو دیں لاکن باغبانوں نے اس کو پیٹ کے خالی ہاتھ پھیرا.تفسیر دیکھو یرمیاہ ۲۷ باب ۱۵.۳۸ پھر اس نے دوسرے نوکر کو بھیجا.انہوں نے اس کو پیٹ کے اور بے عزّت کر کے خالی پھیرا تفسیر.یہ شخص اور یا تھا.یرمیاہ ۲۶ باب ۲۳.یہ اس لئے کہ متی ۲۱ باب ۳۵ میں مار ڈالنا لکھا ہے.پھر اسی لئے تیسرے کو بھیجا.انہوں نے گھائل کر کے اس کو بھی نکال دیا.تفسیر.۲ تاریخ ۲۴ باب ۲۱ تب باغ کے مالک نے کہا.کیا کروں.میں اپنے پیارے بیٹے ( یہ مسیحؑ ہیں) کو بھیجوں گا.شاید اسے دیکھ کر دَب جاویں.جب باغبانوں نے اسے دیکھا.آپس میں صلاح کی اور کہا.یہ وارث ہے.آؤ اس کو مار ڈالیں.میراث ہماری ہو جاوے.تب اس کو باغ کے باہر نکال کر مار ڈالا.اب باغ کا مالک ان کے ساتھ کیا کریگا.وہ آوے گا اور ان باغبانوں کو قتل کرے گا.اور باغ اوروں کو سونپے گا.تفسیر.مرقس ۱۲ باب ۶.اب اس کا ایک ہی بیٹا تھا.جو اس کا پیارا تھا.بیٹے کا لفظ یہاں بمعنی صلح کار کے لیا ہے.بیٹے کا لفظ کتب مقدّسہ میں وسیع معانی کے ساتھ مستعمل ہے.بیٹے کے حقیقی معنے باپ کے نطفے اور اس کی جو رو کے رحم سے پیدا ہونے والے کے ہیں.عیسائیوں کے نزدیک بھی یہ معنی صحیح نہیں.رہے مجازی معنے بیٹے کے.وہ وسیع ہیں.ہم نے حسبِ حال صلح کار کے لئے ہیں.متی ۵ باب ۹.مبارک وے جو صلح کار ہیں کیونکہ خدا کے فرزند کہلائیں گے اور مسیحؑ صلح کا شہزادہ ہے.یسعیاہ ۹ باب ۶.حسبِ بیان مرقس ایک ہی بیٹے رہ گئے.بنی اسرائیل میں کامل صلح مسیحؑ میں تھی.اور اسی سے بنی اسرائیل کے گھرانے کی نبوّت و رسالت کا خاتمہ ہو گیا.خدا کے فرزند کا محاورہ دیکھنا ہو تو دیکھو ’’مبحث الوھیتِ مسیحؑ‘‘ وہاں ثابت کیا ہے.حسبِ محاورہ کتب مقدّسہ فرشتے خدا کے بیٹے ہیں.ایوب ۱ باب ۶ اور انبیاء اس کے بیٹے.ایوب ۳۸ باب ۷.اور بدکار خدا کے بیٹے یسعیاہ ۳۰ باب ۱.سب فرزند یوحنا ۱۱ باب ۲۵.

Page 20

انبیاء اس کے بیٹے.ایوب ۳۸ باب ۷.اور بدکار خدا کے بیٹے یسعیاہ ۳۰ باب ۱.سب فرزند یوحنا ۱۱ باب ۲۵.اب مار ڈالا کی تحقیق سن لو.یہاں سخت ایذا کو مار ڈالنا کہا ہے کیونکہ مکاشفات ۵ باب ۹ میں ہے.گویا ذبح کیا.یہودی کہتے ہیں ہم نے مسیح کو قتل کر ڈالا.قتل کے تو عیسائی بھی منکر ہیں.پر قرآن کا مسیحؑ کے قصّے میں یہ کہنا  ( نساء:۱۵۸) بالکل سچ ہوا اور بعض یہود کہتے ہیں کہ ہم نے صلیب دی اور یہ بھی غلط ہے.اس زمانے کی سُولی یہ نہ تھی.جیسے اس وقت ہوتی ہے.بلکہ آدمی کو کسی لکڑی پر ٹانگ دیتے تھے اور مصلوب بھوکا پیاسا ایذائیں پاتا مدّت کے بعد مر جاتا تھا.اگر جلد اُتارتے تو ہڈیاں توڑ ڈالتے.حضرت مسیح جلد اُتارے گئے.مسیحؑ کی ہڈیاں توڑی نہیں گئیں.پس قرآن کا یہ کہنا ُ بالکل سچ ہو گیا.عربی میں مصلوب اُسی کو کہتے ہیں جس کی پیٹھ کی ہڈی توڑی جاوے.دیکھو قاموس لُغت صلب اور مسیح ہڈی توڑنے سے محفوظ رہے.دیکھو یوحنا ۱۹ باب ۳۳.بات یہ ہے حاکم مسیحؑ کا حامی تھا دیکھو اس نے ہاتھ دھوئے اور کہا.میں اس راست باز کے خون سے پاک ہوں.متی ۲۷ باب ۲۴.حاکم کی عورت حامی اور مددگار تھی.خصم کو کہتی ہے مجھے اس راستباز سے کام نہ ہو.متی ۲۷ باب ۱۹ صوبے دار اور یسوع کے نگہبان بھی حامی اور وہمی تھے.اور پھر عیسائی.متی ۲۷ باب ۵۳.یوسف نام آرمیتیہ کا دولتمند.سائنڈرم( مجلس شاہی ) کا ممبر بھی حامی.متی ۲۷ باب ۵۷.اور شاگرد منتظر بادشاہت تھا.مرقس ۱۵ باب ۴۳.لوقا ۲۳ باب ۵۰.یہود کے خوف سے خفیہ رہتا یوحنا ۱۹ باب ۳۸ اس شخص نے لٹکانے کے چند گھنٹے بعد جب اندھیرا ہوا.بادشاہ سے کہا یسوع مر گیا ہے.لاش مجھے مرحمت ہو.پلاطس حاکم نے تعجّب کیا کہ ایسا جلد کیونکر مرا مرقس ۱۵ باب ۴۴ مسیح کے مرنے میں پلاطس حاکم کو تعجب ہے کیسے مرا.اور یوسف اور صوبہ دار معتقد گواہ ہیں اور یہود بے چارے سبت کے بکھیڑے میں موجود ہی نہیں.قبر میں رکھا اور مٹی کی مُہر کی اور کوئی محافظ اس وقت نہ تھا.خیر خواہ اپنے خاکسار کو نکال لے گئے.بیشک مسیحؑ مُردہ یہودیوں سے جی اُٹھے.ابدی زندگی میں جلال پا گئے.ایت وار کو حفاظت شروع ہوئی.پس صاف آشکار ہے وہ بے گناہ بچ گئے اسی واسطے قرآن کا کہنا (نساء:۱۵۸)بالکل درست ہے.یا انجیلی محقّقوں کے طور پر کہتے ہیں.آپ کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں.ویسے ہی مر گئے.بے ایمان یہودی اسی بات پر یقین رکھتے اور کہے گئے.ہم نے مسیحؑ کو مار ڈالا. 

Page 21

  ..(نساء:۱۵۸،۱۵۹)  (نساء:۱۶۰) بات دُور چلی گئی.ان باغبانوں نے اپنے آخری نبی راست باز.صلح کار کو اپنے زعم میں قتل کیا.مار ڈالا.بنی اسرائیل کے سارے نبی خدا کے پلوٹھے تھے.اور مسیحؑ آخری پلوٹھے.اب باغ اوروں کے سپرد ہوا.باغ یروشلم تھا.پہلے اس کے باغبان بنی اسرائیل میں سے رہے.ان کی بے ایمانی سے اب وہ باغ بنی اسمٰعیل کے سپرد ہوا.ماجوج در از گوش کہتے ہیں.وہ آخری آ چکے.اب محمدؐکون ہے.عقل والو! سوچو انجیل میں لکھا ہے.مالک باغ باغ اوروں کو سپرد کریگا.آخر کہاں آ چکے.معاملہ ختم نہیں.کبھی پہلے بنی اسماعیل اس کے مالک ہوئے.اب تیرہ سو برس سے مالک ہیں.یہود اور عیسائیوں کے لئے عہدۂ باغبانی نہیں رہا.باغ کا نام بھی بدل گیا.یروشلم سے بیت المقدس بنا.متی اس نئی قوم کے حق میں کہتا ہے.وہ موسم پر پھل دیں گے.متی ۲۱ باب ۴۸.اور عرب میں حج کے ایّام کو موسم کہتے ہیں.پھر لوقا ۲۰ باب ۱۶.انہوں ( بنی اسرائیل ) نے یہ سُن کے کہا.ایسا نہ ہو.تب اُس نے ان کی طرف دیکھ کے کہا.پھر وہ کیا ہے.جو لکھا ہے کہ وہ پتھر جسے راجگیروں نے ردّ کیا.وہی کونے کا سِرا ہوا.ہر ایک جو اس پتھر پر گرے چُور ہو گا.اور جس پر وہ گرے اسے پیس ڈالے گا اورمتی ۲۱ باب ۴۳.اس لئے میں تمہیں کہتا ہوں.خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جاوے گی اور ایک قوم جو اس کے پھل لاوے دی جاوے گی.یاد رہے.بنی اسرائیل صرف روحانی بادشاہ نہ تھے بلکہ روحانی اور جسمانی.عیسائی منصفو! یہ پتھر وہی ہے جس کو دانیال نے دیکھا اور وہ پھر پہاڑ بن گیا.دانیال ۲ باب ۳۴.جو اس پر گرا چُور ہوا.اور جس پر وہ گرا.اُسے پیس ڈالاجہاد پر اعتراض نہ کرنا.قدیم زمانہ میں تصویری زبان کا بڑا رواج تھا.اسی خیال پر عیسائیوں نے موسوی رسومات کو صرف نشان قرار دیا ہے.مثلاً کہتے ہیں.قربانی توریت مسیحؑ کی قربانی کا نمونہ تھی.گو جانور خاموش جان دیتا ہے اور مسیحؑ نے ایلی ایلی پکارتے جان دی.ظاہری طہارتیں اصلی طہارت کا نمونہ تھیں.پوہلاہلانا۱؎.مسیحؑ کا جی اٹھنا تھا ۲؎.یو شع نے بارہ۱۲ پتھر اٹھوائے اور بقول عیسائیوں کے وہ بارہ حواریوں کا گویا نشان تھا

Page 22

یوشع ۴ باب ۶ وغیرہ وغیرہ.اب سوچو.حجرِ ا سود مکّے میں کونے کا پتھّرتھا.اور اسلام سے پہلے سالہا سال کا موجود.لوگ اسے چومتے اور اس کے ساتھ ہاتھ ملاتے تھے.گویا یہ پتھّر کونے کا سرا مکّے میں تصویری زبان میں کتب مقدسہ کا یہ فقرہ تھا.وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا.وہی کونے کے سرے کا پتھر ہوا عرب اُمّی محض تھے.اور صاحبِ کتاب نہ تھے.ان کیلئے بجائے کتاب یہی پتھر گویا کلام الہٰی تھا.اس پتھر کو عرب یمین الرحمن کہتے تھے.اب جو اصل آ گیا اور اس کی منزلہ کتاب میں (الفتح:۱۱) کافرمان اترا.عرب چونک اٹھے اور کہنے لگے (الفرقان:۶۱) اس کے تشریف لاتے باغبانی بنی اسرائیل سے چھن گئی.جو اس پر گرا.چُور ہوا.جس پر وہ گر ا پِس گیا.یہ پتھر کونے کا سرا نہ تو مسیحؑ ہیں.کیونکہ مسیحؑ نے اس کے ظہور کیلئے اپنے بعد کا زمانہ بتایا.دیکھو لوقا ۲۰ باب ۱۶.متی ۲۱ باب ۴۳.دانیال ۲ باب ۳۴(فصل الخطاب صفحہ ۲۳۴ تا ۲۳۸ ایڈیشن سوم) : میں بنی اسرائیل و بنی اسمٰعیل کا ذکر ہے.بنی اسرائیل نبوّت، سلطنت دونوں باغوں کے مالک تھے ( بائبل میں بھی اس کی تمثیل ہے) بنی اسمٰعیل کو حقارت سے دیکھتے.خدا نے نبوّت بھی چھین لی اور سلطنت بھی.عبرت کا مقام ہے.یہود دنیا میں بالشت بھر زمین کے مالک نہیں اور نہ کوئی ان کا ناصر ۱؎.احبار ۳۳ باب ۱۰ ۲.قرنتی ۱۵ باب ۲۰ ،۲۱ .(الکہف:۴۴) (بدر ۱۷؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۳) ۳۴ تا ۳۶.    دونوں باغوں نے دیا میوہ اپنا اور نہ کم کیا اس میں سے کچھ.اور بہادی ہم نے درمیان ان

Page 23

دونوں کے نہر اور تھا واسطے اس کے میوہ.پس کہا اس نے واسطے ہم نشین اپنے کے اور وہ سوال جواب کرتا تھا.اُس سے.میں زیادہ تر ہوں تجھ سے مال میں اور زیادہ عزّت والا ہوں آدمیوں کو اور داخل ہوا باغ اپنے میں اور وہ ظلم کرنے والا تھا جان اپنی پر کہ میں نہیں گمان کرتا یہ کہ ہلاک ہووے یہ باغ کبھی.(فصل الخطاب حصہ دوم صفحہ۶۹ ایڈیشن دوم) .ظَالِمٌ: اپنے آپ مصیبت ڈال رہاتھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸) ۴۱.  : چنانچہ محمدیوں کو عراق عرب.عراق عجم.مصر.یوروپ.ایران ملا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳) اس رکوع شریف سے یہ سبق ملتا ہے کہ انسان کو نہ چاہیئے کہ کسی کو حقارت کی نظر سے دیکھے.ورنہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) ۴۶.    اس رکوع میں مخاطب یہود نہیں ہیں کیونکہ نہ تو وہ کوئی اتنے بڑے دولتمند ہیں.اور نہ ملکوں کے مالک ہیں.اﷲ تعالیٰ یہاں رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اور آپؐ کی امّت کو مخاطب کرتا ہے.بلکہ

Page 24

خصوصیت سے مسلمان مثلاً بنو اُمیّہ و بنو عباس مخاطب ہیں کہ اب تم اس باغ ( ملک کنعان) کے مالک بننے والے ہو.دیکھو کوئی ایسا کام نہ کرنا جو اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہو جائے.ھَشِیْمًا: چُورا چُورا.دنیاداروں کے پاس جب دنیا بہت جمع ہو جاتی ہے تو وہ غالباً متکبّر اور آخر کار غافل ہو جاتے ہیں.اس لئے اﷲ تعالیٰ انہیں ذلیل اور آخر مفلس کر دیتا ہے.امراء کا یہ حال ہے کہ جس کے پاس کچھ روپیہ جمع ہو جائے وہ مسجد میں جانا ہتک عزّت سمجھتا ہے.اور علماء اس کے نزدیک ارذل ترین مخلوق ہوتے ہیں.اس میں گو ان علماء دنیا طلب کا بھی قصور ہے.مگر امراء چاہیں تو علماء کے گروہ میں بہت اصلاح ہو سکتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸) : یہ عیسائی مخاطب ہیں.متی ۴ باب ۹ آیت متی ۷ باب ۱۳ آیت.متی ۱۹ باب ۲۴ آیت.ان میں لکھا ہے کہ دولت مل سکتی ہے شیطان کے سجدہ سے.چنانچہ ان لوگوں نے کیا اور دولت مند ہوئے اور لکھا ہے کہ دولت مند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہوتا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۷.  : اعمالِ صالحہ.نماز میںسُبْحَانَ اﷲ.لَآ اِلٰہَ اِ لَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ اور کل اعمال جو رضائے الہٰی کے موجب ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) ۴۸.  جبال سے مراد بادشاہ اور بڑے بڑے سردار ہیں.جو عذاب الہٰی کے باعث ان کا نام و نشان مِٹے.اور ظاہری پہاڑ بھی ہوں تو کیا عجب ہے.آخر تمام مخلوق میں تغیّر آ

Page 25

رہاہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) : سلطنتیں بڑی بڑی ہوں گی مگر آخر اُڑیں گی.( تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۰.   : اعمال نامہ.: جنابِ الہٰی سے قطع تعلق کرنے والے لوگ.: ڈرنے والے.اس ملک میں چونکہ عربی زبان کا مذاق نہیں رہا.اس واسطے عموماً خطوں میں شفیق کی بجائے مشفق کا غلط لفظ استعمال کرتے ہیں.: ہر ایک گناہ کا ایک ابتداء ہوتا ہے.پھر اس کے مراتب تدریجی ترقّی کے ہوتے ہیں.وہ صغیرہ ہیں اور ایک بدی کا انتہا ہے.وہ کبیرہ ہے.مثلاً نظر بد صغیرہ ہے اور اس کاآخر نتیجہ زنا کبیرہ ہے.صوفیائے کرام نے مشاہدہ سے لکھا ہے کہ ارتکابِ بدی کے بعد دل کے اوپر ایک سیاہ دائرہ نظر آتا ہے.جس سے ملائکہ نفرت کرتے ہیں اور شیطان محبّت پھر ایسے شخص کا تعلق آہستہ آہستہ شیاطین کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے.اور وہ فاسق و فاجر ہو جاتا ہے.اسی طرح نیکی کے بعد ایک نورانی دائرہ دل کے گرد پیدا ہو جاتا ہے.اور اس کو دیکھ کر ملائکہ اس دل والے سے محبّت کرتے ہیں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷، ۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) ۵۱. 

Page 26

 اس سے پہلے رکوعوں میں دنیا کی زیب و زینت.صنعت اور ترقی کا ذکر ہے کہ لوگ اس میں پھنس کر دین سے اکثر غافل ہو جاتے ہیں.اگر دنیا کو بالکل ترک کیا جائے تو بھی دین میں حرج ہوتا ہے.اور (البقرۃ:۲۰۲)کے خلاف ہے اس واسطے میانہ راہ اختیار کرنی چاہیئے ایک روایت میں ابلیس کے متعلق آیا ہے کہ کَانَ مِنْ خُزَّانِ الْجَنَّۃِ.اس ملک میں بڑے خزانوں والا تھا.اسی کبریائی نے اسے ہلاک کر دیا.ان آیات میں جو ذکر ہے.اس سے عبرت حاصل کرنی چاہیئے.اسْجُدُوْا: فرماں برداری کرو.بہت سے فرشتوں کو یہ حکم ہوا تھا.ابلیس کو الگ حکم ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) ۵۴.  : پس انہوں نے یقین کر لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ) ۵۵. عام رواج دنیا میں دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ پڑھے لکھے ہیں اور اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں.ان کی یہ حالت ہے کہ جب وعظ میں ان کو کوئی نظیر دو.تو اس نظیر کو اپنے پر صادق نہیں آنے دیتے.مثلاً اگر کہا جاوے.فلاں نے بدی کی اور سزا پائی.تو کہتے ہیں کیا ہم وہ ہیں.اگر نبی.ولی صحابی کا حوالہ دیں کہ انہوں نے ایسا کیا تم بھی ایسا کرو.تو کہتے ہیں ہم نبی ہیں یا ولی یا صحابی پھر یا تو واعظ کو نادان قرار دیتے ہیں یا آپ اپنی تحقیق پر خوش و خرم.مگر انبیاء سے بڑھ کر کون قولِ مُوَجَّہ کے ساتھ سمجھانے والا ہے.آخر وہ بھی ارشاد فرماتے جاتے ہیں کوئی مانے یا نہ مانے.

Page 27

: ہم نے پھیر پھیر کر بیان کی ہیں.: ہر ایک عمدہ بات.: جھگڑنے میں.ایسے ہی لوگوں نے انبیاء علیھم السلام کو اس قسم کے کلمات بولے ہیں کہ (مومنون:۲۵)یہ تو ہمارے ہی جیسا ایک انسان ہے اور بس.(مومنون:۲۵)چاہتا ہے کہ تم پر بڑا آدمی بن جائے.شاعر ہے، ساحر ہے، کاہن ہے، مجنون وغیرہ.بعض لوگ ہدایت سے ایسے بے نصیب ہوتے ہیں کہ جب انہیں کوئی نیکی کی راہ بتلائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم نبی ہیں یا ولی کہ ایسے کام کریں.اور اگر بدی سے روکا جاوے تو کہتے ہیں کہ کیا ہم فرعون ہیں جو ہم کو ایسی نصیحت کی جاتی ہے اور بہر حال اپنی ہی رائے کو بڑا سمجھتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۸ ، ۱۵۹) ۵۶.  : کس چیز نے روکا.کیا مطلب.کسی چیز نے نہیں روکا.اگر روکا ہے تو ان کے شامتِ اعمال نے ہی روکا ہے.عذاب جو اُن پر آنا تھا تو اب استغفار کیسے کریں.: اس کے تین معنے ہیں ۱.فَجَائَۃً اچانک ۲.عَیَانًا.ظاہر ۳.سامنے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۹ ) ۵۷.  

Page 28

: فرماں برداروں کو بشارت دیتے ہیں اور نافرمانوں کو عذاب سے ڈراتے ہیں.: گرادے.باطل کر دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۹ ) ۵۸:    : یاد دلائی جاتی ہے.: ہر شخص اپنے اعمال کا محاسبہ کرے اور انصاف سے سوچے تو وہ اپنی قیمت آپ لگا سکتا ہے.: روک (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۹ ) ۵۹.  :.وعدہ کا موقع ہے.: جہاں آخر جانا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۹ ) ۶۱.  کسی کتاب الہٰی.کلام یا عظیم الشان شخص کی کسی بات کے معنے کرنے کے واسطے ضروری ہے

Page 29

کہ جس موقع کی کلام ہو وہاں کی آب و ہوا اور اس قوم کی عادات اور حالات اور وہاں کے جغرافیے کا مفسّر کوصحیح علم ہو.ورنہ آئندہ آنے والی نسلوں کے واسطے ایک ابتلاء انگیز غلطی کا اندیشہ اس مفسر کے بیان سے لگ جانے کا احتمال ہے.مثلاً ایک کتاب صدائق العشاق میں لکھا ہے کہ ایک شخص جہاز پر سوار تھا.کارِ قضاء جہاز ڈوب گیا.وہ شخص ایک تختہ پر چمٹا رہا.اور تختہ رفتہ رفتہ کشمیر میں جا لگا.آج جغرافیہ دان اس بات کو سمجھ سکتے ہیںکہ سمندر میں جہاز کہاں اور کشمیر کہاں.ایسا ہی اس رکوع میں مجمع البحرین کے متعلق بھی بعض نے لکھا ہے کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں روم اور فارس کے دریا ملتے ہیں.حالانکہ ایسی کوئی جگہ ان ممالک میں نہیں.جہاں تک میں نے اس معاملہ میں غور کیا ہے.مجمع البحرین یا تو وہ مقام ہے جہاں نیل ازرق اورنیل ابیض باہم ملتے ہیں.مصر میں ایک شہر خرطوم نام مشہور ہے.اس کے قریب ایک جگہ سنار نام ہے.یہاں دریائے نیل کی دوشاخیں ملتی ہیں.اسی مقام کا نام مجمع البحرین ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قیام فرعون کے ساتھ جنگ کرنے سے پہلے مصر میں ہی تھا.حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کسی نے پوچھا تھا کہ ھَلْ اَعْظَمُ مِنْکَ ؟کیا تجھ سے بڑا بھی کوئی آدمی ہے.انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں.اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ ایک ہے.اس پر حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کی کہ کَیْفَ لِیَ الْسَبِیْلِ اِلٰی لقیّہ ؟اس سے ملاقات کی کیا راہ ہے.حکم ہوا کہ ایک مچھلی لے لو.اپنے جوان مخلص یوشع کو ساتھ لیا اور حکم تھا.جہاں مچھلی گم ہو گی وہاں وہ ملے گا.یہ ایک نشانی تھی.: نہیں ٹلوں گا.نہ رکوں گا.: اس لفظ حقبہ کے تین معنے آئے ہیں.اس ایک۱ برس.ستّر۷۰برس.اسّی۸۰برس.مدّت دراز پر بھی بولتے ہیں.صوفیاء نے اس سے ایک نکتہ نکالا ہے.کہ ایک ہی مدرسہ میں پڑھنے سے انسان کے خیالات میں وسعت نہیں ہوتی.میں بھی پسند کرتا ہوں.کہ آدمی چل پھر کر دیکھے کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے.علمِ حدیث کے پڑھنے سے بھی بہت سے دینی معلومات بڑھتے ہیں اور مختلف مشائخ کی صحبت سے اس کے فہم میں مد دملتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۹ ) : مجوسی مخاطب ہیں سلطنتیں دو بڑی ہیں.حضرت موسیٰ کے وقت کیانی.حضرت نبی کریمؐ کے وقت ساسانی تھے.دانیال نبی کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے.دو۲ سینگوں والا مینڈھا.: نیل ابیض ، نیل ازرق مراد ہو سکتے ہیں.خرطوم پر.میرے نزدیک وہ اصل

Page 30

مراد ہے.جہاں دین و دنیا کی بہتری تھی.یہ معراج ہے حضرت موسیٰ کا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر۱۹۱۳ء) ۶۲.  : دونوں سے نسبت کی ہے.حالانکہ مچھلی صرف یوشع کے پاس تھی.عربی میں ایسا آ جاتا ہے.جیسا کہ (تحریم:۵) قَلْبَاکُمَا نہیں فرمایا.: چلا جانا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۵۹ ) بھُونی مچھلی کا پتہ قرآن میں نہیں.اور نہ احادیثِ صحیحہ میں اور نہ ہمارا عقیدہ ہے کہ بھُونی مچھلی زندہ ہو جاوے.اس قصّہ میں تین واقعات کا ذکر ہے.جو خود موسٰی علیہ السلام کے کاموں کے قریب قریب تھے قرآن کریم میں ہے. …جب وہ ملنے کے موقع پر پہنچے.مچھلی کو بھول گئے.بتاؤ اس میں بھُونی ہوئی مچھلی اور اس کی زندگی کا ذکر کہاں ہے … اس میں تو اتنا ہی ذکر ہے کہ مچھلی ان کی یادسے اُتر گئی اور ندی میں چلی گئی.اور یہ ان کیلئے مقرّر نشان تھا کہ جہاں اُن میں مچھلی کے بھُول جانے کا واقعہ پیش آئے گا وہاںوہ مردِ خدا انہیں ملے گا.سو ایسا ہی ہوا خدا تعالیٰ نے جو غیب سے انہیں ایک نشان دیا تھا.وہ پورا ہوا.یہ ایسے واقعات ہیں جو مردانِ خدا کی سوانح زندگی میں ملتے ہیں اور یہ ایسے واقعات ہیں کہ اُن سے سالکانِ منازلِ الہٰیہ کے قلوب و ایمان تازہ ہوتے ہیں.(نورالدّین طبع سومصفحہ۱۷۵) ۶۳.  : ایک بات سے دوسری بات یاد آتی ہے.کھانے سے مچھلی کا خیال آیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر۱۹۱۳ء)

Page 31

: حدیثوں میں آیا ہے کہ مَاوَجد ا نصبًا اِلَّا اِذَا جَاوَزَا تھکان اس وقت معلوم ہوا جبکہ اصل مقصد کی جگہ سے آگے چل پڑے.یہ انبیاء علیھم السلام کے نورِ فراست پر دلیل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۰) ۶۴.   َ : آپ کو خبر بھی ہے.: عجیب بات ہے.( جُدا کلمہ ہے) یا یہ کہ مچھلی کا گُم ہو جانا ایک عجیب بات ہے.: صَرفی نکتہ ہے کہ ضمیر غائب کے ماقبل.زیرؔ یا یؔ ہو تو ہ پر زبر ہوتی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر پیش! اس جگہ اعتراض کیا گیا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ جہاں توّجہ دلانی مقصود ہو یا کسی کی تقبیح وہاں غیر فصیح الفاظ لاتے ہیں.چنانچہ یہاں شیطان کی تقبیح مطلوب ہے.…‘‘ فائدہ: آج کل لوگ نسیان کی بہت شکایت کرتے ہیں.امام شافعی صاحب فرماتے ہیں.؎ شکوتُ اِلٰی وکیعٍ سوئَ حفظی فاوصانی اِلٰی ترک المعاصی فان الحفظ فَضْلٍ مِنْ اِلٰہٍ وَ فضل اﷲ لَا یُعطٰی لعاصی ترجمہ: میں نے وکیع کے آگے حافظہ کی خرابی کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایا.کہ گناہوں کو ترک کرو کیونکہ حافظہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے اور فضل گناہ گار کو نہیں ملتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۹) ۶۶.  : حضرت خضر جو مَلک ہیں بشر نہیں.اور اب بھی بعض ولیوں کو ملتے

Page 32

ہیں.نبی کریمؐ کے معراج میں اِنْطَلِقْ اِنْطَلِقْ آتا ہے.یہ مناسبت ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳) : لدنّی علم جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کے خاص بندوں کو ہے.جیسا کہ اس گاؤں میں رہنے والے ایک شخص کو بغیر اس کے کہ اس نے سفر کیا ہویا کسی استاد کی شاگردی کی ہو یا کسی پیر کی مریدی کی ہو.اﷲ تعالیٰ نے خود ہی روحانی علوم پڑھا دئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۵۹،۱۶۰) ۶۷.  : یہ حصولِ عِلم کے واسطے طریق ادب کے ساتھ سوال کیا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۶۸. : حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرمایا کہ آپ نے بادشاہ کے گھر میں پرورش پائی ہے اور مزاج شاہانہ ہے.صبر کے رنگ میں میرے ساتھ رہنا مشکل ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۷۱.  لَا: اس میں ایک ادب سکھایا ہے.میں نے اس فقرہ سے بہت بڑا فیض پایا ہے.حضرت مرزا صاحب کے سامنے کبھی سوال کرنے میں مَیںتقدیم نہ کرتا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۷۲.

Page 33

  : اُسے توڑ دیا.: بہت بڑی بات خطرناک (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۷۴.  : اس لئے کہ میں بھول گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۷۵.  : جوان.طَرَّشَارِبُہٗ.جس کی مونچھیں بڑی بڑی ہو اسے ہلتی ہوں.زکِیَّۃً : بے قصور.قَتَلَہٗ : مار ڈالا اس کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۰) ۷۸.  : ایک دفعہ مجھے بھی ایسا موقع پیش آیا.کسی نے مجھے کہا.مانگ لو.قرآن مجید میں آیا ہے! میں نے کہا انہیں کب مل گیا تھا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 34

۷۹.  تَاْوِیْلِِ: حقیقت (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۷،۲۴مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۱) ۸۰.  : فقراء و مساکین میں فرق ہے.فقیر کا ترجمہ محتاج.محتاجی کی کئی قسم ہیں.مثلاً روٹی نہیں.سرما میں لحاف نہیں.خرچ کم ہو گیا.وہ چاہے خواہ گھر میں امیر ہی ہو.باقی رہا مسکین : قابل ترقی آدمی ہے.ترقی کا سامان نہیں.مثلاً جلد سازی جانتا ہے.سامان نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۸۱.  : ان دونوں کے ذمّے مَڑھ دے.اس بیان میں تین باتوں پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعتراض کیا ہے.۱.کشتی کے توڑنے پر ۲.لڑکے کے قتل پر.۳.بے مزدوری لینے کے دیوار بنانے پر.حالانکہ یہ ہرسِہ واقعات خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے گھر میں ہو چکے ہیں.َ(کہف:۷۲)کا اگر کوئی خوف تھا تو کیا موسیٰ کی ماں نے خود موسیٰ ؑکو دریا میں نہیں بہا دیا تھا.کیا دریا میں بہا دینے سے حضرت موسیٰ ؑ غرق ہو گئے تھے.اس کے بعد فرعون کے وقت خود حضرت موسیٰ ؑ نے ساری قوم کو دریا میں ڈال دیا تھا.جہاں بظاہر غرقِ آب ہو جانے کا خوف تھا.ایسا ہی حضرت موسیٰ ؑ نے مدیَن میں کنویں پر عورتوں کے ( مویشیوں ) کو پانی پلایا اور بغیر کسی مزدوری لینے کے خود ہی ان کا کام کر دیا پھر

Page 35

قبطی کے قتل کے وقت اور ( بعد ازاں قارون کے قتل کے وقت) ایک جان کو بلاوجہ مار دیا تھا.دراصل یہ بیان گونہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معراج کا ہے.اس معراج میں وہ عبد بطور ایک فرشتے کے ساتھ تھے.اور راہ کے خضر تھے.اور یہ سب باتیں آئندہ واقعات کا بیان کرتی ہیں.ان میں سمجھایا گیا کہ تمہیں ایک ظالم بادشاہ کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا اور اس سے اور اس کے لشکر سے بچنے کے واسطے تمہیں دریا عبور کرنا پڑے گا اور پھر جنگ کرنی پڑے گی جس میںبہتوں کو قتل کرنا ہو گا.دیوار کا معاملہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ البرکات و السلام ایک صالح نبی تھے.ان کے دو بیٹے تھے.ایک بنی اسحاق.ایک بنی اسمٰعیل.حضرت ابراہیمؑ کے دین کو لوگوںنے جب خراب کر دیا تو وہ دیوار ان کی گرنے کو تھی.اس کی حفاظت کے واسطے اﷲ تعالیٰ نے دو نبی بھیج دئے.حضرت موسیٰ ؑ اور ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم.یہ اس دیوار کو اٹھانے والے تھے اور اس طرح وہ پاک تعلیمات کا خزانہ محفوظ رہا.اس واقعہ کے معراج ہونے کی اس بات سے بھی تائید ہوتی ہے کہ یہودیوں میں اب تک ایک پرانی کتاب چلی آتی ہے جسکا نام ہے معراجِ موسیٰ.اس میں جس فرشتے کو حضرت موسیٰ کا رہبر بتلایا جاتا ہے اسی کا نام خضر لکھا ہے (دیکھو انسائیکلو پیڈیا ببلیکا.حروف موسیٰ.دایا کے پس) فائدہ: حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بھی معراج میںآئندہ کے واقعات بتلائے گئے تھے.مگر حضرت موسیٰ ؑ تو درمیان میں بول پڑے.اس واسطے سلسلہ لمبا نہ چلا.اور آنحضرت صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم نے صبر سے کام لیا.اس واسطے بہت سے نظارہائے قدرت دیکھے.نکتۂ معرفت: ان آیات میں جہاں کسی عیب کا ذکر ہے.وہاں صیغہ واحد متکلّم کا استعمال کیا گیا ہے مثلاً اَرَدْتُ: میں نے ارادہ کیا اور جہاں عیب و صواب ملا ہے.وہاں فرمایااَرَدْنَا.اور جہاں بالکلخوبی ہی خوبی ہے.وہاں کہا ہے.اَرَادَرَبُّکَ.تیرے رب نے ایسا ارادہ کیا ہے.اس میں ایک طریقِ ادب سکھایا ہے.حضرت ابراہیم ؑ کا بھی یہی طریقِ عمل ہے.چنانچہ فرمایاِ(شعراء:۸۱) جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ اﷲ تعالیٰ مجھے شفاء دیتا ہے.مرض کو اپنی طرف نسبت کی اور شفاء کو اﷲ تعالیٰ کی طرف.یہ طریقِ ادب طریقِ انبیاء ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل، ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۱) ۸۴. 

Page 36

تجھ سے ذوالقرنین (دوسینگ والے) کی بابت پوچھتے ہیں.تو کہہ میں ابھی اس کا قصّہ تمہیں سناتا ہوں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۵) (یہ) قصّہ کتاب دانیال کے ایک مشکل مقام کی تفسیر ہے.سنئے.دانیال کی کتاب میں جو بائبل کے مجموعہ میں ستائیسویںکتاب ہے.اس کے آٹھ باب ۴ آیت میں حضرت دانیال نبی کا مکاشفہ ہے.دانیال کی نبوّت اور اس کا مکاشفہ آپ کے نزدیک کیسا ہی ہو اور کچھ ہی وقعت کیوں نہ رکھے.’’ الا یہود اور عیسائیوں میں جو قصّہ ذوالقرنین کے سائل اور مجیب کے مخاطب تھے.‘‘ یہ مکاشفہ صحیح اور دانیال کی کتاب صحیح اور مسلّم ہے.اور اس مکاشفہ میں یہ بات مندرج ہے.’’ تب میں نے اپنی آنکھ اُٹھا کر نظر کی.تو کیا دیکھتا ہوں کہ ندی کے آگے ایک مینڈھا کھڑاہے جس کے دو سینگ تھے.اور وہ دو سینگ اونچے تھے.اور ایک دوسرے سے بڑا تھا‘‘ پھر دانیال کو جبریل نے اُس مکاشفہ اور خواب کی تعبیر بتائی کہ ’’ مینڈھا جسے تُو نے دیکھا کہ اس کے دو سینگ ہیں سو وہ ماد اور فارس کی بادشاہت ہے‘‘ (دانیال ۸.۲۰) قرآن نے اسی بادشاہ کا تذکرہ کیا اور نہایت راست اور صاف فرمایا ہے.اس میں کوئی دور از قیاس بات مندرج نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۵) جیسامیں نے کامل یقین سے بِلا کسی تردّد کے اصحابِ کہف کا ذکر کیا تھا کہ وہ کون ہیں.اس سے بھی بڑھ چڑھ کر یقین کے ساتھ میں تمہیں ذوالقرنین کا حال سناتا ہوں.ان آ یات میں یہود اور مجوسی دونوں کو ملزم ٹھہرایا گیا ہے.حضرت نبی کریمؐکی نبوّت کی مفصّل پیشگوئی بائیبل.دانیال نبی کی کتاب میں ہے.اس کے باب ۸ آیت ۴ کو ملاحظہ کرو.اس میں دوسینگ والے ایک مینڈھے کا ذکر ہے جو پورب پچھّم میں اپنا سر مارتا تھا.پھر ایک سینگ والا بکرا آیا ہے.جس نے دوسینگ والے کو ٹکّر مار کر پاش پاش کر دیا.اس کے بعد گیارہ سینگ والے کا ذکر ہے.جس میں نبی کریمؐکی آمد آمد ہے.یہ سب حضرت دانیال کا کشف تھا.یہود نے اس کے متعلق سوال کیا تھا کہ دو سینگ والے بکرے کا جو ذکر توریت میں ہے اس کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل، ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۱) : تجھ سے پوچھتے ہیں ذوالقرنین کو یہ وہی دو سینگ کا مینڈھا ہے جسے دانیال نے خواب میں دیکھا.دیکھو دانیال ۸ باب ۴.نبی عرب نے بتایا دو سینگ والا مینڈھا جسے دانیال نے خواب میں دیکھا.وہ ایک بڑا بادشاہ ہے جس کا تسلط ایک خاص زمین کے مشرق اور مغرب میں ہوا.

Page 37

…اس کا نام کیقباد بھی مشہور ہے جو مشرق اور مغرب میدیہ اور ایلام یعنی ایران و فارس کا مسیحؑ سے پانچ سو پینتیس سال پہلے میں مادی قوم کا بادشاہ تھا.(فصل الخطاب (طبع دوم) حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۳) قرن کے معنے شجاعت و قوت کے ہیں.جانوروں کے سینگ کو بھی قرن اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سینگ ان کی قوّت میں مدد دیتے ہیں.مید و فارس کے بادشاہ چونکہ دو مملکتیں اپنے ماتحت رکھتے تھے اور بلاد کی ماتحتی سے بادشاہوں کو قوّت ہوتی ہے.اس لئے ان کے بادشاہوں کو خصوصًا اُن کے پہلے بادشاہ کو ذوالقرنین کہا ہے.دیکھو دانیال باب ۸ آیت۴.اور اس کے ساتھ آٹھ باب کی آیت ۲۰.جس میں تفصیل بیان کی ہے اور سکندر رومی کو دانیال کی کتاب میں ایک سینگ کا بکرا کہا ہے.دیکھو دانیال باب ۸.۶ اور آیت ۲۱ جس کا ترجمہ یہ ہے وہ بال والا بکرا یونان کا بادشاہ اور وہ بڑا سینگ جو اس کی آنکھوں کے درمیان ہے.سو اس کا پہلا بادشاہ ہے.یہ وہی میخوار سکندر ہے.جس نے تمہارے ملک کو بھی زیر و زبر کر دیا تھا اور مکّہ معظمہ اس کی دست برد سے محفوظ رہا.گو بد قسمت مسلمانوں کیلئے اس کے مشیرِ سلطنت ارسطو کی غلط منطق اور اس کا وہی فلسفہ اب تک نوجوانانِ اسلام کا برباد کن اور موجبِ جہالت ہو رہا ہے.کاش وہ ردّالمنطقیین شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور تحریم المنطق امام سیوطی کو پڑھیں یا کم سے کم غور کریں کہ ان کو ایسی منطق سے دین و دنیا میں کیا مل رہا ہے جس کو پڑھتے ہیں.غرض اس میدوفارس کے بادشاہوں سے پہلے اس بادشاہ نے اپنی حفاظت کے لئے بہت سی تدبیریں کیں…اس نے دُور دراز ملکوں کا سفر کیا اور ملک کی دیکھ بھال کی.اس کے مغرب کی طرف اس وقت دلدلی کنارہ ہائے بحیرہ خضرہ تھیں.اس وقت جہازرانی کا پورا سامان کہاں تھا اور کناروں پر ایسے عمدہ گھاٹ کہاں تھے.جیسے اب روز بروز ہوتے چلے جاتے ہیں.ہاں تم لوگوں کا احمقانہ خیال ہے کہ پُرانے زمانہ میں ہی سٹیمرتار و ریل وغیرہ فنون تھے.اور ان کے مُوجد آریہ ورتی تھے.جس لفظ کا ترجمہ تم نے ’’ جا کر دیکھا‘‘ کیا ہے.وہ لفظ وَجَدَھَا تَغْرُبُ ہے.اس کے معنے ہیں اس نے سورج کو ایسا معلوم کیا اور اس کی آنکھ سے ایسا معلوم ہوا کہ وہ دلدل میں ڈوبتا ہے.اب سوچو یہ لفظ ایسا صاف ہے کہ اس میں ذرا اعتراض کا موقع نہیں.اس نظارہ کو ہر شخص ہر روز اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ سورج اُسے اگر جنگل میں ہو تو درختوں میں ڈوبتا نظر آتا ہے.اور اگر سمندر میں ہو تو پانی سے نکلتا اور آخر پانی میں ہی ڈوبتا نظر آتا ہے.ایسے بدیہی نظاروں پر اعتراض کرنا سوائے اندھے کے اور کس کا کام ہے.ایک قابلِ قدر لطیفہ اور باریک نکتہ: اَلْقَرْنُ مِنَ الْقَوْمِ سَیَّدُھُمْ.قرن

Page 38

سردار کے معنی میں بھی آتا ہے اور قَرْن سو برس کو بھی کہتے ہیں.یہ امر صاحبِ قاموس اللغۃ نے بھی لکھا ہے.یہ معنی بہ نسبت اورمعنوں کے جو زمانہ کے متعلق اہلِ لُغت نے کئے ہیں.بہت صحیح ہیں.کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریمؐنے ایک غلام ( جوان یا لڑکے ) کو کہا تھاعِشْ قَرْنًاتُوایک قرن زندہ رہ تو وہ ایک سو سال زندہ رہا.اور علی رضی اﷲ عنہ کو بھی ذوالقرنین کہتے ہیں.کیونکہ نبی کریمؐ نے فرمایا ہے اِنَّ لَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَ اِنَّکَ لَذُوْقَرْنَیْھَا کہ تو دونوں طرف جنّت کا بڑا بادشاہ ہو گا.ظاہر میں تو یہ بات اس طرح صادق ہو گئی کہ آپ اپنے عہدِ مبارک میں عراق کے مالک تھے اور دجلہ و فرات و جیحون و سیحون آپ کے تحتِ حکومت تھے.اور اب بھی مدعیان اتباع مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام ہی اس ملک کے اکثر حصّہ کے مالک و حاکم ہیں.اور صحیح مسلم میں اس ملک کو جنّت عدن کہا ہے پس ان روایات سے جن کو لُغت والوں نے بیان کیا ہے ذوالقرنین کے معنے وسیع ہو گئے یہاں تک کہ اس امت میں بھی ایک ذوالقرنین گزرا.اب ہم اپنے عہدِ مبارک میں جو دیکھتے ہیں.تو اس میں ایک امامِ ہمام اور مہدی آخر الزّمان عیسیٰ دوران کو پاتے ہیں کہ وہ بلحاظ اس معنے قرن کے جس میں سو برس قرن کے معنی لئے گئے ہیں ذوالقرنین ہے.جیسے ہمارے نقشہ سے ظاہر ہے اور اس قدر دونوں صدیوں کو اس ذوالقرنین نے لیا ہے کہ ایک سعادت مند کو اعتراض کا موقع نہیں رہتا بلکہ حیرت اور یقین ہوتا ہے.کہ یہ کیسی آیۃ بیّنہ ا ور دلیلِ نیّر اس امام کیلئے ہے.اور اس ذوالقرنین نے بھی نہایت مستحکم دیوار دعاؤں اور حجج و دلائلِ نیرّہ کی بلکہ یوں کہیں کہ مسئلہ وفاتِ مسیح اور ابطالِ الوہیت مسیحؑ کی بنا دی ہے کہ اب ممکن ہی نہیں.یا جوج ماجوج ہماری جنّت اسلام پر حملہ کر سکے.اور کبھی اس میں داخل ہو سکے.فجزاہ اﷲ احسن الجزاء عن الاسلام والمسلمین.سعدی نے مال و زر کو بھی سدّ بنایا تھا مگر وہ سدّ کیا سدّ تھی.جیسے سعدی علیہ الرحمۃ نے کہا ہے ؎ ترا سدّ یا جوج کفر از زراست سنہ پیدائش حضرت صاحب مسیح موعود و مہدی ۱۸۳۹ء

Page 39

۹ (نورالدّین طبع ثالث صفحہ ۱۸۷.۱۹۰) (نوٹ: کتاب نورالدّین کے صفحہ ۱۸۹.۱۹۰ سے مندرجہ بالانقشہ نقل بمطابق اصل ہے.بعد کی تحقیق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا سنِ ولادت ۱۸۳۵ء ثابت ہو چکا ہے اس لئے سنِ ولادت ۱۸۳۹ء کی بجائے ۱۸۳۵ء اور اسی کے مطابق دی ہوئی عمر میں ہر جگہ ۴ سال کا اضافہ سمجھا جائے.سیّد عبدالحئی) آگ کو لڑائی سے عجیب تعلق ہے.پہلے جب لڑائی کے مشورہ کیلئے دعوت ہوتی تھی تو یہی آگ ہی جلائی جاتی تھی.پھر پہاڑ پر الاؤ.یہ بھی آگ ہی ہے.تیر و تلوار کو درست کرنے کیلئے بھی آگ ہی چاہیئے

Page 40

پھر بندوق توپ یہ سب آگ ہی ہیں.خودرائی.خودپسندی مسلمانوں میں بہت بڑھ گئی ہے.وہ کسی سے مشورہ ہی نہیں کرتے اور اپنے مخالف رائے سننے کی تاب ہی نہیں رکھتے.سُستی.کاہلی.باہمی رنجشیں اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ.جیسا مجھے ایک اور ایک دو پر یقین ہے اسی طرح مجھے اس بات پر یقین ہے کہ یا جوج ماجوج وہ قومیں ہیں جو کشمیر ایران بخارا کے شمال میں ہیں.چین کی دیوار.یورال کی آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان کی دیوار ان قوموں کے حملوں کو روکنے کیلئے بنائی گئی.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ۸۵. :طاقت دی تھی.قرن کے معنے طاقت کے ہیں.سورج کے متعلق حدیث میں آیا ہے فَاِنَّہٗ یَطَّلِعُ بَیْنَ قَرْنِ الشَّیْطٰنِ.اس کا مطلب یہ ہے کہ سورج کے طلوع کے وقت عبادت اس واسطے منع ہے کہ اس وقت سورج کی پرستش کی شیطنت کا زور آتا ہے.مید و فارس کی طاقتوں کے مجموعہ کا نام قرنین ہے مجھے بہت افسوس ہے کہ بہت سے لوگوں نے سینگوں کے متعلق بیہودہ بحث کی ہے.کہ وہ سونے کے تھے یا چاندی کے بعض نے ذوالقرنین سکندررومی کو قرار دیا ہے.یہ غلط ہے اس کے ہاتھ سے مید و فارس کی سلطنتیں تباہ ہوئیں.اسے ایک سینگ کا مینڈھا کہا گیا ہے.:ہر ایک علم جو اس وقت اس کی سلطنت کے مناسبِ حال تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل، ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۱.۱۶۲) :سبب کے تین معنے ہیں.ا.علم ۲.پہاڑ کے رستے ۳.مناظرہ.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ صفحہ۲) کا ترجمہ میں نے خا ص زمین کیا ہے.جاننے والے تو اس کا سرّ جانتے ہیں.مگر ہم کھولے دیتے ہیں کہ الف اور لام عربی لڑیچر میں خصوصیت کے معنے بھی دیتا ہے.بلکہ عزرا نبی کی کتاب باب ۱ آیت ۲ سے جس کا ذکر آگے آتا ہے، اور بھی قرآن کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۵.۶۶)

Page 41

: ہم نے زور دیا اس کو خاص زمین میں اور دیا ہم نے اس کو ہر طرح کا سامان اور وہ تابع ہوا ایک سامان کا.…اسکندر کا نام تمام قرآن میں نہیں…سورۃ کہف میں جس بادشاہ کا ذکر ہے اس کی قرآن نے تعریف کی ہے.اور رومی سکندر ایک بُت پرست کافر تھا جو شراب خوری میں ہلاک ہوا.قرآن کہیں شُہْدوں کی تعریف کرتا ہے؟…ذوؔ کے معنے صاحبؔ یا والاؔ کے ہیں.اور قرنین تثنیہ ہے قرن کا.قرن کے معنے سینگ.قرنین کے معنے دو سینگ.ذوالقرنین کے معنے دو سینگ والا.ذوالقرنین کے معنی سکندر ہرگز نہیں ادنیٰ عربی دان سے یہ معنے پوچھ لو.(فصل الخطاب طبع دوم حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۱) ۸۶.۸۷..  .: منازل الارض.پڑاؤ.میلوں کے نشان کے مطابق چلا.: بحیرہ کیسپین میں مشہور دلد لیں ہیں.: اس ملک کے لحاظ سے سورج کے ڈوبنے کی وہ جگہ تھی.جیسے لکھنٔووغیرہ کے علاقہ کو ممالک مغربی و شمالی اس واسطے کہتے ہیں کہ جب یہ نام رکھا گیا.اس وقت یہ صوبہ علاقہ انگریزی کے مغرب و شمال میں تھا.اس کے یہ معنے نہیں کہ سارے جہان کا مغرب و شمال وہی ہے.: اس نے ایسا پایا.بشری آنکھ سے اُسے ایسا نظر آیا نہ کہ فی الحقیقت ایسا تھا.: وہی جو مید و فارس کی سلطنتوں کا مورث اعلیٰ تھا.اس جگہ مخاطب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل، ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) ۹۱..

Page 42

یہاں تک کہ جب وہ پچھّم میںپہنچا.اُسے ایسا معلوم ہوا کہ سورج دلدل کے چشمہ میں ڈوبتا ہے.تفسیر: یہ بادشاہ جو دانیال کے خواب میں دو سینگ کا مینڈھا دکھائی دیا اور فارس اور ماد کا حکمران ہوا.اس کا نام خورس ہے.جب وہ بلادِشام اور شمالی مغرب کو فتح کر چکا تو بلیک سِی یا بحر اسود کا دوسرا سمندر اور اسکا کالا دلدل آگے آ گیا.اتنے بڑے سمندر کا کنارہ کیقباد کو کہاں نظر آ سکتا تھا.وہاں اسے سورج سمندر میں ڈوبتا دکھائی دیا.قرآن یہ نہیں فرماتا کہ فی الواقع سورج کالے پانی میں ڈوبتا تھا.بلکہ کہتا ہے کہ ’’ اس نے یعنی ذوالقرنین نے سورج کو کالے ـپانی میں ڈوبتا پایا‘‘لفظ ُ پر غور کیجئے جس کے معنے ہیں’’پایا اس نے اس کو کہ ڈوبتا ہے اور یہ نہیں کہا وَکَانَ ھُنَاکَ تَغْرُبُ الشَّمْسُ کہ وہاں واقعی سورج ڈوبتا تھا.یہ ایسا نظارہ ہے جسے ہر ایک بحری سفر کرنے والے کی آنکھ نے دیکھا ہے کہ وسیع اور اتھاہ سمندر میں سورج اسی میں سے نکلتااور اُسی میں پھر ڈوبتا دکھائی دیتا ہے.اس قدرتی منظر کو جو ذوالقرنین کے پیشِ نظر واقع ہوا قدرت کی صحیح نقل یعنی قرآن نے بیان کیا.کورس یا خورس کا تسلّط پچھّم زمین پر ہوا.اوّل تو دانیال ۸ باب ۴ میں ہے ’’ میں نے اس مینڈھے کو دیکھا کہ پچھّم اتر دکن کو سینگ مارتا ہے ‘‘ دومؔ تواریخِ ایران پر نظر ڈالو.اس واقعہ کے مفصّل حالات اس میں ملیں گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۶) ایک عیسائی کا سوال:.اگر محمدؐ پیغمبر ہوتے تو’’ یہ نہ کہتے کہ سورج چشمہ دلدل میں چھپتا ہے.یا غر ق ہوتا ہے حالانکہ سورج زمین سے نو کروڑ حصّے بڑا ہے.وہ کس طرح دلدل میں چھپ سکتا ہے.‘‘ جواب میں تحریر فرمایا:.تمام قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ سورج چشمۂ دلدل میں چھُپتا ہے یا غرق ہوتا ہے.پادریوں کو مدّت سے یہ دھوکا لگا ہے کہ قرآن میں ایسا لکھا ہے حالانکہ قرآن میں نہیں لکھا.بات یہ ہے کہ اس ذوالقرنین کا قصّہ جس کا ذکر دانیال نبی کی کتاب ۸ باب ۴ میں ہے.قرآن کریم نے ایک جگہ بیان فرمایا ہے اور اس میں کہا ہے جب وہ ماداور فارس کا بادشاہ اپنی فتوحات کرتا ہوا بلادِ شام کے مغرب کو پہنچا تو اس خاص زمین کے مغرب میںایک جگہ ’’سورج دلدل میں ڈوبتا‘‘ ذوالقرنین کو معلوم ہوا غالباً جب ذوالقرنین بلیک سِی (بحیرہ اسود)یا ڈینیوب کے کنارے پہنچا تو اس وقت ذوالقرنین کو اس نظارہ کا موقع ملا.ہم نے مانا کہ سورج زمین سے بہت بڑا ہے.لاکن چونکہ ہم سے بہت ہی دور ہے.اس واسطے ہم کو چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے اور زمین چونکہ کُروی الشکل ہے اس واسطے غروب کے وقت ہم کو

Page 43

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کے فلاں حصّہ یا پہاڑ کی فلانی چوٹی کے پیچھے یا ناظر کے افق کے فلاں درخت کے پیچھے.یا ہمارے مغرب میں پانی اور دلدل ہو جیسے ذوالقرنین کو موقع ملا تو ہم کو مغرب کے وقت سورج اس پانی اور دلدل میں غروب ہوتا ہوا معلوم دے گا.( ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات صفحہ ۵۸.۵۹) کسی خاص ملک کی مشرق اور مغرب پر سورج کا نکلنا اور ڈوبنا بتا دینا مقدّس کتبِ عتیق و جدید کا خاص محاورہ ہے جسے دانیال کی کتاب ۴ باب ۲۲ میں اور ذکریا ۸ باب ۷ میں لکھا ہے.نبوکد تیری سلطنت زمین کی انتہاء تک پہنچے اور میں اپنے لوگوں کو سورج کے نکلنے کے ملک اور اس کے غروب ہونے کے ملک سے چھُڑا لاؤں گا… دیکھو زکریا کی الہامی کتاب میں صاف لکھا ہے.سورج کے نکلنے اور غروب ہونے کے ملک سے اور قرآن میں اعلیٰ درجے کی راستی سے کہا ہے ذوالقرنین کو ایسا معلوم ہوا کہ سورج دلدل میں ڈوبتا ہے.جہاںں فرمایا ہے  (فصل الخطاب طبع ثانی حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴)  ہم نے کہا اے ذوالقرنین تُو دو طرح کا برتاؤ کر یا سزا دے اور خسرانہ رحم کر یعنی سزا کے لائقوں کو سزا اور رحم کے لائقوں پر رحم کر.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۷) ۸۸،۸۹.  اس نے کہا ظالموں کو ہم سزا دیںگے پھر اپنے رب کے ہاںجا کر ان پر سخت عذاب ہو گا پر مومن اور نیکوکار کیلئے نیک بدلہ ہے اور ہم بھی اس سے حسنِ سلوک سے پیش آویں گے.تفسیر: غرض ماد اور فارس کی سلطنت جب بلاد شام پر فتح یاب ہوئی تو اس کے بادشاہ نے حسبِ وحی الہٰی اور الہامِ خداوندی بُروں کو سزا اور نیکوں کو انعام دئے.اگر کسی کو یہود اور عیسائیوں

Page 44

جو قصّے کے مخاطب ہیں.اس کی نیکی اور بزرگی بلکہ ملہم ہونے میں کلام ہو تو وہ عزرا کی کتاب دیکھے ’’ شاہ فارس خورس یُوں فرماتا ہے کہ خداوند آسماںخدا نے زمین کی سب مملکتیں مجھے بخشیں اور مجھے حکم کیا ہے ‘‘ عزرا کی کتاب باب ۱.۲ اس سے یہ ظاہر ہے کہ حسبِ کتبِ مقدّسہ وہ حکمِ الہٰی کا پابند اور مملکتوں کا بادشاہ تھا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۷) ۹۰ تا ۹۲.   ٓ: مشرقی حدود.سلطنت بلوچستان (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل، ۵؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) پھر وہ ساز و سامان کر کے روانہ ہوا.جب پُورب میں پہنچا وہاں سورج کے تلے ایسے لوگ پائے جن پر سورج کے سوا کسی چھت کا سایہ نہ تھا.ایسا ہی تھا اور ذوالقرنین کے لاؤ لشکر کا حال ہم کو خوب معلوم ہے.جب خورس بلوچستان میں پہنچا تو وہاں کے لوگ بے خانماں پائے.جن کی چھت آسمان اور بستر زمین پر تھا.یہ لوگ جب بالکل خانہ بدوش جنگلی تھے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۷) ْ: مکان نہیں بناتے تھے کہ دھوپ سے بچ سکیں.پکھّی و اس لوگ تھے کیقباد ایک شخص گزرا ہے.اس کی سرحد میں بلوچستان تھا.یہاں اس نے غالباً عمارتوں کا خیال کیا ہے ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ سابئیر یا تک پہنچ گیا تھا.جہاں لوگ غاروں میں رہتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء) ۹۳،۹۴.

Page 45

پھر سامان کیا اور وہ دو ۲ خاص پہاڑوں کے درمیان پہنچا اور ان پہاڑوں کے ورے ایک ایسی قوم کو پایا جو بات سمجھنے میں کمزور تھی.تفسیر: یہ وہ مقام ہے جو ایران کے شمال میں در بند کر کے مشہور ہے اور اس کے قریب اب تک قبّہ نام ایک بستی اسی کیقباد خورس کے نام سے قرآن کی تصدیق کیلئے موجود ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۷،۶۸) : پہلے لوگ اپنے شہروں کی حفاظتیں دیواروں سے کرتے تھے.جس کو فصیلِ شہر کہتے ہیں.لاہور میں بھی فصیل تھی.امرتسر کے گرد بھی فصیل و خندق تھی.غرض یہ عام دستور تھا.اس کے وسیلے سے دشمن سے بچے رہتے.کیونکہ آجکل کے یہ خوفناک ہتھیار ان دنوں میں نہ تھے.لَا: ان کی بولی مید و فارس کے لوگ اچھی طرح نہ سمجھ سکتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) ۹۵.  انہوں نے عرض کیا.اے ذوالقرنین! یا جوج و ماجوج ہمارے ملک میں آ کر فساد کرتے ہیں ہم تجھ کو روپیہ دیتے جو تُو ان کے اور ہمارے درمیان ایک دیوار کھینچ دے.تفسیر: یا جوج ما جوج کون ہیں؟ غور کرو.روضۃ الصفّا کے خاتمہ پر لکھا ہے.’’ اقلیم چہارم مشرق سے شمال چین سے گزر کر تبّت اور جبال کشمیر اور بدخشاں کے شمال سے اور بلادِیا جوج ما جوج کے جنوب سے مغرب کو چلی جاتی ہے.‘‘ یہ تو اقلیم چہارم کا قصّہ مختصراً ختم ہوا.اب لیجئے اقلیم ششم.اس کی بابت لکھا ہے ’’ بلاد یا جوج و ما جوج سے یہ اقلیم ششم شمال میں ہے.‘‘ پس ہر عاقل اب اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ بلاد یا جوج اور ما جوج اقلیم پنجم میں ہے.پس جیسے شاہنامہ

Page 46

میں لکھا ہے کہ باختر کے شمال میں یعنی بخارا کی جانب یا جوج ما جوج کا مسکن ہے.بالکل ٹھیک ہے غیاث اللغات میں…یہ مضمون صاف لکھا ہے اور تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے ’’ مابین آذر بائیجان اور آرمینہ کے ذوالقرنین نے تیس میل کی دیوار بنائی تھی.اور تفسیر معالمؔ میں سُدّی اور قتادہ سے روایت ہے کہ ترک کو ترک اسی واسطے کہتے کہ ذوالقرنین نے یا جوج اور ماجوج کے بائیس قبیلوں میں سے ان کو چھوڑ کر باقی قوموں کے حملوں کی روک کے واسطے دیوار بنائی تھی اور ضحاکؔ سے روایت کیا ہے ’’ یا جوج ماجوج ترکوں کی قوم سے ہیں‘‘.یہ کچھ کچھ تذکرہ ایشیائی عام اور مشہور کتابوں کا تھا.جن میں کسی الہامی کتاب سے استدلال نہیں کیا.اب سنئے.حزقیل کے ۳۸ باب میں لکھا ہے (یہ کتاب بائیبل کے مجموعہ میں دانیال سے پہلے ہے) ’’ اے جوج! روس اور مشک (ماسکو) اور طوبال کے سردار میں تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھرا دوں گا.اور تیرے منہ میں بنسیاں ماروں گا‘‘۳.۴ اور اسی باب کی آیت اوّل و دوم میں ہے’’ اے آدم زاد! تو جوج کے مقابلے میں جو ماج کی سر زمین میں بستا ہے اور روس اور مسک اور طوبال کا سردار ہے منہ کر کے اوراس کے برخلاف نبوّت کر‘‘ اس سے ناظرین یقین کریں گے کہ روس بے ریب یا جوج ہے.گویا جوج کی اور قومیں بھی ہوں.یاجوج کی تحقیق ختم ہوئی.اب ماجوج کا حال سنئے.حزقیل کے ۳۹ باب ۵.۶ آیت میں ہے ’’ اور میں ما جوج پر اور ان پر جو جزیروں میں بے پروائی سے سکونت کرتے ہیں ایک آگ بھیجوں گا.‘‘ اُس زمانے میں ایسی دیواروں سے حملوں کی روک ہو جاتی تھی.دیکھو چین کی دیوار ایسے حملوں اور یاجوجی قوموںکی روک کے واسطے اہل چین نے بنائی تھی.اور ان کیلئے اس وقت کی حالت کے مناسب مفید اور کارگر ہوئی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۸.۶۹) ماجوج حسب باب دہم پیدائش اور پہلی تاریخ کے باب ۵ کے یا فث کا بیٹا ہے اور حسب ۳۸ باب حز قیل نہر یورال کی شرق میں بسا تھا اور یا جوج حسب تاریخ ایام اوّل ۵ باب اور سلاطین اوّل کے ۱۵ باب و ۱۶ یوئیل بن روئن کا بیٹا ہے اور اس کی اولاد حسب فصول مذکورہ ممالک ماجوج بن یافث میں بسائی گئی، یعنی وہی یورال ندی کے شرقی حصّے میں اور حسب حزقیل باب ۳۸و۵۵ یاجوج رَشیہ اور سَبِیْریَّہ پر مسلّط ہوئے.ان کی نسبت یہ بھی لکھا ہے کہ فارس اور جرمن ان کے ساتھ ہوں گے اور اور کوش کی اولاد پر جو جیحون کے متصل بستی ہے اور باب ۳۸ حزقیل میں ہے.گومر کی اولاد یعنی مرو اور ہرات والوں پر ان کا تسلّط ہو گا.اور اسی فصل سے معلوم ہوتا ہے.کابل والے یعنی قبط اس

Page 47

کے ساتھ ہوں گے اور مکاشفات باب ۲۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج کا زور اطراف ممالک معتقدین خداوند چاریا ر نبی ٔ عرب پر ہزار سال ہجری کے بعد ہو گا.اور صاف ظاہر ہے کہ یا جوج والی رشیہ ہرات کے قریب پہنچ گیا اور ماجوج جن کے قبائل جرمن اور شمال فرانس نارمنڈے اور انگلینڈ وغیرہ میں ہیں.۱۶۹۱ء؁ میں مطابق ہزار سال ہجری بلادِ اسلام پر مسلّط ہونے لگے.غرض حسبِ مکاشفات ۲۰ باب ممتاز یا جوج ماجوج وہ ہیں جو بلادِاسلام پر مسلّط ہوں.اور کیقباد اور ذوالقرنین کی دیوار وہ ہے جو مابین آرمینیا اور آذربائیجان بنام بارہ در بند اور یورال کی چوٹیوں پر قریب پانسو پینتیس سال قبل مسیح ؑ کے بنا لی گئی اور پلونا کے شمال میں جو قلعہ بنا ہے وہ بھی اسی میں ہے.(فصل الخطاب طبع دوم حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۴) : پہلی یہ فصیل آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان بنائی گئی.۳۰ میل کے قریب جگہ ہے جس سے ملک کو بہت امن پہنچا.پھر یورال کی چوٹیوں پر ایسی دیوار کھینچی گئی.پھر سمرقند کے قریب بھی ایسی دیوار بنی پھر چین کے لوگوں نے وہ بڑی دیوار بنائی.جو مشہور ہے.سب یاجوج ماجوج کے حملہ سے بچنے کیلئے بنائی گئی تھیں.: خدا نے انشراح صدر سے مجھے یقین دلا دیا ہے.کہ یہ وہ قوم ہے جو بخارا سے لے کر شمال تک رہتی تھی.گاتھ نارمنڈے.وزی گاتھ سیکشن.یہ لوگ جرمن.فرانس.انگلینڈ وغیرہ ممالک میں جاکر آباد ہوئے.ترکوں کی نسبت لکھا ہے.اُ تْرُکَ التُّرْکَ.ان کو تُرک اس لئے کہتے ہیں.کہتُرِکُوْا مِنْ.انہوں نے شاہانِ فارس سے معاہدہ کر لیا تھا کہ تمہارے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں گے ہمیں یہیں رہنے دو.بائیبل کی کتاب حزقیل باب ۳۸ میں یاجوج ماجوج کا ذکر ہے.ماجوج جزائر میں رہنے والے لوگ ہیں.ماجوج ماسکو اور ٹوبالسک کا سردار ہے.ایک دفعہ میرا ایک دوست لنڈن گیا.جسے میں نے فرمائش کی کہ وہاں کی سب سے پرانی یادگار کا پتہ لگائے چنانچہ اس نے تحقیقات کی تو اسے دو بُت دکھائے گئے.جو یا جوج ما جوج کے تھے اور اسے بتلایا گیا کہ اس ملک کی سب سے پرانی یادگار تاریخی یہی ہے.حضرت حزقیل کی کتاب میں تصریح سے لکھا ہے کہ جزائر میں بے پرواہی سے رہنے والے ماجوج ہیں اس لئے بھی ان کو یہ نام دیا گیا کہ وہ آگ کی پرستش کرتے یا آگ سے بہت کام لیتے.آرمینیا اور آذربائیجان کی دیوار کا ذکر تفسیر بیضاوی میں بھی ہے.یورال کی دیوار کا ذکر ابنِ خلدون میں لکھاہے.چین کی دیوار کا ذکر مفسرّین نے کیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲)

Page 48

۹۶تا۹۸.     کہا جو قدرت میرے ربّ نے مجھے دی ہے بہتر ہے.تو تم مجھے صرف اپنے زور سے مد ددو.مَیں تم میں اور اُن میں ایک موٹی دیوار بنا دوں گا.تم میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لے آؤ.آخر جب اُس نے دونوں پہاڑوں میں برابر کر دیا.کہا دھونکو.آخر جب اس کو گرم آگ سا کر دیا.بولا میرے پاس لے آؤ میں اس پرپگھلا ہوا تانبا ڈالوں.پھر اُن سے نہ ہو سکا.کہ اس سے پھاند جا سکیں اور نہ بن ہی پڑا کہ اس میں چھید کر سکیں.پس آخر یہ جنگ جُو قومیں نچلی نہ بیٹھ سکیں.جرمن.ڈنمارک اور سویڈن ناروے وغیرہ بلاد میں آہستہ آہستہ پھیل گئیں.گاتھ قوم نے جزائر برطانیہ آباد کر لئے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۶۹.۷۰) رَدْمًا: بڑی روک کی تجویز کرتے ہوئے کیقباد نے جو دیوار بنائی اس گاؤں کا نام موباس تھا.قبّے بنائے تھے.: یہ لوہا دروازوں کیلئے تھا اور تانبا اس لئے لگایا کہ مٹی نہ کھائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) ۹۹.  کہا یہ میرے ربّ کا احسان ہے.پھر جب میرے ربّ کا وعدہ آیا.اسے چُور چُور کر دے گا.اور میرے ربّ کا وعدہ سچّا ہے.

Page 49

تفسیر: جن حملہ آوروں کیلئے وہ دیوار روک تھی.کچھ اور بلاد میں چلے گئے.اور جگہوں میں ریاستیں اور سلطنتیں قائم کر لیں.آخر عجیب عجیب راستوں سے بعد ہزار سال ہجری وہ قومیں پھر اس ملک پر چڑھنے کے لئے آہستہ آہستہ متوجہ ہوئیں.جس کی طرف اُن کے پہلے مُورث متوجّہ تھے اور اسی طرح کتبِ مقدسہ کی سچائی ظاہر ہوئی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۷۰) : ریزہ ریزہ.چنانچہ اس زمانہ میں وہ دیواریں کسی کام کی نہ رہیں.جنگی حملوں اور ان سے حفاظت کا طرز و طریق بھی بدل گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) (ذوالقرنین نے یا جوج ماجوج کو) آہنی دیوار سے سمندر کے بیچ میں قید کر دیا.یہ ایسا سیاہ جھوٹ ہے… جس میں حق و حقیقت اور روحانی تعلیم کا نام و نشان نہیں.ذوالقرنین کی حقیقت تو ہم نے… لکھ دی ہے… ہاں یاجوج ماجوج اور دیوار کا تذکرہ ضروری ہے.سو سنو.مقدمہ تاریخ ابنِ خلدون میں جہاں اقلیم چہارم کا حال لکھا ہے.وہاں لکھا ہے کہ اس اقلیم کا دسواں حصّہ جبل قوقایاتک ہے اور اسی پہاڑ کو جبل یا جوج ماجوج کہتے ہیں.آخر کہا ہے کہ یہ تمام ترکوں کی شاخیں ہیں.صفحہ نمبر ۶۰ ابن خلدون پھر اقلیم خامس میں لکھا ہے کہ اس کانواں جزو ابن ارض یاجوج ماجوج ہے اور اسی اقلیم کے جزو عاشرمیں کہا ہے اور اس کے جزو عاشرمیں ارض یا جوج ہے.صفحہ ۶۵.پھر اقلیم ششم کا بیان کرتے ہوئے صفحہ ۶۷ میں لکھا ہے اور اسی اقلیم کی دسویں جزو میںبلادِ ماجوج ہے.پھر اقلیم ہفتم کے بیان میں کہا ہے کہ جبل قوقایا یہاں بھی ہے اور اس کے مشرق میں تمام ارضِ یاجوج ہے.اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج بڑی بڑی شمالی بلاد میں پھیلی ہوئی قوم ہے.بائیبل کی کتاب حزقیل کے باب ۳۸ میں ہے.اور میں ماجوج اور ان پر جو جزیروں میں بے پرواہی سے سکونت کرتے ہیں.ایک آگ بھیجوں گا اور وَے جانیں گے کہ میں خداوند ہوں‘‘ اور اسی باب میں ہے ’’ تو جوج کے مقابل جو ماجوج کی سر زمین کا ہے اور روس.مسک.توبال کا سردار ہے ‘‘ تمام ہمارے جغرافیوں میں جو عربی میں ہیں.اور جرمن فرانس وغیرہ میں طبع ہوئے.اورہیئت کی کتابوں میں جیسے چغمینیؔ اور اس کی شروح ہیں اور تمام بڑی لغت اور طبّ کے علمی حصّہ کی کتابوں میں اس قوم کا ذکر ملتا ہے اور یہاں ہمیں کتابوں کے دکھانے کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ یہ یاجوج ماجوج کا لفظ اجؔ سے نکلا ہے اور اسی سے اَگ پنجابی میں اور آگ اردو میں بولا جاتا ہے.اور یہ تمام قومیں جوشیلی آگ کی طرح اور رنگت میں آگ سے تیز ہیں.اگنی ہوتر اور آگ میں اعلیٰ اعلیٰ چیزیں مشک.دودھ.شہد ڈالتے ہیں اور اس وقت تمام یوروپ

Page 50

کو آگ سے خاص تعلق ہے.آگ سے ایسے ایسے کام لے رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے.سورج کو بڑا عظیم الشان مرکز آگ کا یقین کر کے اس کی پرستش ہوتی ہے.بلکہ عیسائی مذہب نے تو توریت کا عظیم الشان حکم سبت کا توڑ کر ’’ سن ڈے‘‘ بزرگ دن ما ناہے.نیز اگر دیانند نے راست بازی اور تحقیق سے کہا ہے کہ آریہ ورتی شمال سے آئے تو کوئی تعجّب نہیں کہ یہ لوگ بھی انہیں یاجوج ماجوج کی شاخ ہوں.لاکن اگر یہ ایران سے آئے ہوں تو پھر ذوالقرنین کے ملک سے ہیں جو یاجوج ماجوج کا مخالف تھا.پھر میں کہتا ہوں.اس قوم یاجوج ماجوج کے ثابت کرنے کے لئے ہمیں کہیں دور دراز جانے کی ضرور ت نہیں.حقیقۃً ضرورت نہیں.اس لئے کہ لنڈن میں ان دونوں قوموں کے مورثانِ اعظم کے اسٹیچو ( بُت)موجود ہیں.غور کرو! اور سنو!اس تحقیق میں بحمد اﷲ نور الدّین اول انسان ہے جس نے اردو میں اس کو شائع کیا ہے.افسوس ہمارے یہاں آجکل فوٹوگرافر نہیں.و اِلاَّ ہم ان کی تصویر بڑی خوشی سے شائع کرتے.اصل رسالہ میں یاجوج ماجوج کی تصویر بھی دی ہے.اس تصویر سے ظاہر ہے کہ دو بڑے بڑے کندہ کئے ہوئے بُت گلڈہال کی دیوار کے دو زاویوں پر دھرے ہوئے ہیں.یہ دنیا بھر کے مشہور و معروف دیو یاجوج ماجوج ہیں.ان کا گلڈہال سے ایک ایسا خاص تعلق ہے کہ اس پر کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے.اگلے زمانہ میں لارڈ میئر کی نمائش کے دن ان کو باہر لایا جاتا تھا.کہتے ہیں کہ یہ بُت اس لئے بنائے گئے تھے کہ زمانہ قدیم کے یاجوج ماجوج اور کارینیس (CORENIOS)کی یادگار قائم رہیں.جو اس جزیرہ (انگلستان) پر قدیم باشندوں سے جنگ کیا کرتے تھے.ایک عرصہ بعد ان دو لڑنے والوں میں سے ایک کا نام بھول گیا تو دوسرے کے نام کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا( تاکہ دونوں کی یادگار قائم رہے) پھر یہ بھی روایتاً یقین کیا گیا ہے کہ ہمارے شہر لنڈن کی بنیاد اسی حملہ آور یاجوج ماجوج نے ڈالی تھی.اور اوّل ہی اوّل اس کا نام(TROYVACIAT) یعنی نیاٹرائے رکھا.یہ شہر سن عیسوی سے ایک ہزار سال پیشتر انگلستان (کا) بڑا مشہور شہر ہوتا تھا.دونوں بُت جو گلِڈہال کے ورانڈے میں رکھے ہیں.ہر ایک ۱ ؍ ۲ ۱۴فٹ بلند ہے.یاجوج جو بائیں پہلو کو ہے.اس کے ہاتھ (میں) ایک لمبا عصا ہے.جس کے ساتھ زنجیر سے ایک گولہ (کرّہ) بندھا ہوا ہے.وہ گولہ میخوں سے پُر ہے.یہ ایک اوزار تھا جس کو تاریخ وسطی میں صبح کا تارا بولتے تھے.علاوہ ازیں یاجوج کی پشت پر ایک کمان اور ترکش ہے.جو تیروں سے پُر ہے.دائیں طرف دوسرا بُت ماجوج کا ہے جو ڈھال اور برچھی سے مسلح ہے.اُس نے ایسا لباس پہنا ہوا ہے جو روسیوں کی مذہبی سوسائٹی کے لوگ پہنا کرتے تھے.جن کے زمانہ میں یہ بُت بنائے گئے ( دیکھو صفحہ ۶۵.۶۶.۶۷.۶۸) رسالہ گائیڈ ٹو دی گلڈہال لنڈن.ایک کتاب مصنفہ ٹامس بارہم مطبوعہ ۱۷۵۰ئً؁ میں

Page 51

لکھا ہے کہ موجودہ بتوں سے پہلے ان کی جگہ دو اور دیو تھے جو وصلی اور ٹہنیوں اور چھڑیوں سے بنے ہوئے تھے.اور وہ لارڈ میئر کے دن نمائش کیلئے باہر لائے جاتے تھے.لیکن جب بسبب مدید زمانہ کے بوسیدہ ہو گئے.تو ان کے قائمقام موجودہ عظیم الشان ٹھوس بُت تراش کر بنائے گئے.وہ شخص جس نے ان کو بنایا تھا اس کا نام کپتان رچرڈ سانڈرس تھا.جس کو اس کاریگری کے عوض میں ستّر پونڈ دئے گئے.ہمارے مفسرّوں نے تو فرمایا ہے کہ وہ پہاڑ چاٹتے ہیں اور ان کو پیاز کے برابر کر دیتے ہیں.مگر میں بحمد اﷲ دیکھتا ہوں کہ انہوں نے پہاڑ.دریا.لوگوں کا مال.عزّت جاہ و سلطنت.بلند پروازی.ہمّت و استقلال سب کچھ کھا کر موسٰیؑ کے سانپ کی طرح، تم دیکھ لو، ڈکار بھی نہیں لیا.بلکہ جیسے ہمارے ملک میں پاد عیب ہے ان کے یہاں تو ڈکار عیب ہو گیا ہے.اور ان کے کان تو اتنے لمبے ہیں کہ مشرق و مغرب تک کی آواز ہر روز سن کر سوتے اور اُٹھتے ہی سنتے ہیں.زمانہ سابق میں جبکہ تارپیڈو اور توپ کا عام موقع نہ تھا.لوگ دیواروں سے حفاظت کا کام لیتے تھے.جنہیں فصیل کہتے تھے.چنانچہ لاہور کی فصیل ہمارے سامنے گرائی گئی.امرت سر کی خندق و فصیل ہمارے سامنے ضائع کی گئی وغیرہ وغیرہ.بلکہ دیانند اور منوجیؔ نے فصیلوں کا اپنے شاستروں میں ذکر فرمایا ہے.جن کا آگے حوالہ آتا ہے.غرض اپنے اپنے وقتوں میں حملہ آوروں کی حفاظت کیلئے لوگوں نے ایسی دیواریں بنائی ہیں.اسی طرح چین کی دیوار مشہورِ عالم ہے.فضلؔ بن یحییٰ برمکی نے اسلام میں ایک ایسی دیوار بنوائی.دیکھو مقدمہ ابنِ خلدون اقلیم ثالث کا بیان صفحہ ۵۴ میں ہے کہ ترک اور بلاد ختل میں ایک ہی مسلک مشرق میں ہے وہاں فضل نے ایک سدّ بنوائی.سدِّسبا ۸۱.۹۷ سدِّیاجوج ماجوج ۲۰۶ سدِّ مَآرب ۹۶.۹۷ اور بنام دربند صفحہ۳۵ اور بنام حصن ذوالقرنین.۹۳ (تقویم البلدان) کتاب البلدانؔ صفحہ ۷۱، ۲۹۸، ۳۰۱ اور مراصدالاطلاع کے صفحہ۱۱۱ میں ہے.دیکھو مراصدالاطلاع باب الباء والالف طبع فرانس جلد اوّل اور اسی کی تائید آثارِ باقیہ سے بھی ہوتی ہے صفحہ ۴۱ کہ باب الابواب ایک شہر ہے.بحرِ طبرستان پر جس کو لوگ بحر خرز کہتے ہیں اور وہ جبلِ قبق کے بہت درّوں میں سے ایک درّہ ہے.اس درّہ میں ایک دیوار کو انوشیروان ( یہ نیا انوشیروان نہیں پرانا ہے) نے قومِ خرز کے حملوں سے بچنے کیلئے بنوایا تھا کیونکہ خرز قوم فارس پر ( یہ وہی میدیا کی جزو ہے) ایسے حملے کرتے تھے کہ ہمدان اور موصل تک پہنچ جاتے تھے.اور مراصدالاطلاع کی جلدنمبر۲

Page 52

باب السین والدال کے صفحہ نمبر۱۷ میں ہے کہ سدِّ یاجوج، ماجوج جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے.وہ ترکوں کی آخری حد پر مشرق وغیرہ میں ہے اور اسکی خبر عام شہرت رکھتی ہے.سلام ترجمان کی خبر میں اسکا مفصّل بیان ہے.پھر صاحب مراصدؔنے اس کی تفصیل کی ہے.غرض ایسی دیواریں ہوئی ہیں.چین کی دیوار بہت مشہور ہے.حاجتِ ذکر نہیں.اور اس کو ہم کسی صورت میں سدّ ذوالقرنین تسلیم نہیں کر سکتے.اس لئے کہ قرآن کا طرز ہے کہ اہلِ کتاب کے جھگڑوں میں ایسے امور کو بیان کرتا ہے جو غالباً اہلِ کتاب کی کتابوں میں ہوں.اور اہلِ کتاب کی کتاب دانیال میں ہمیں ذوالقرنین کا حال صاف صاف ملتا ہے.کسی چینی بادشاہ کا نام ذوالقرنین کتب سابقہ میں اور اسلامی روایات و لغت سے ثابت نہیں.یورال کی گھاٹیوں میں بھی ایسی دیواروں کا پتہ عرب کے بڑے بڑے جغرافیوں سے ملتا ہے.۱.مراصدیاقوت حموی مطبوعہ فرانس ۲.مسالک الممالک ابواسحٰق ابراہیم الاصَطخری الکرخی مطبوعہ برازیل ۳.تقویم البلدان سلطان عمادالدّین اسمٰعیل.پیرس ۴.نزہۃ المشتاق الادریسی.۵.آثار الباقیہ.احمد بیرونی مطبوعہ جرمن ۶.مقدمہ ابن خلدون طبع مصر ۷.المسالک والممالک ابن حوقل( طبع لنڈن) میرے پاس بحمد اﷲ ہیں.ان میں یہی یاجوج ماجوج کا ذکر ہے.کتاب البلدان کے صفحہ ۳.۵.۹۵.۱۰۴.۱۹۳.۱۹۸.۳۰۱ اور مسالک الممالک ۶، ۷ بلکہ ستیارتھ صفحہ ۱۹۲ سملاس نمبر۶ فقرہ ۲۳۵ میں شہر پناہ کے بارہ میں بھی حکم ہے.کہ شہرکے چاروں طرف شہر پناہ رکھنا چاہیئے.اسی قاعدہ کے موافق اس بادشاہ نے آرمینیہ اور آذربائیجان کے درمیان جیسا بیضاوی وغیرہ مفسروں نے لکھا ہے.دیوار بنائی بلکہ اَور اور دیواریں بھی ان بادشاہانِ میدوفارس نے بنائیں اور ایسی دیوار کیونکر تعجّب اور انکار کا موجب ہو سکتی ہے.جبکہ تمہارا منہ سیاہ کرنے کو سینکڑوں کوس کی لمبی دیوار چین میں اب بھی موجود ہے.بلکہ ہم نے ایک دیوار کانٹے دار جھاڑیوں کی سینکڑوں کوس تک ہندوستان میں صرف سانبھر کی حفاظت کیلئے دیکھی ہے.اب بتاؤ.ایسی صاف اور واقعی بات کیااعتراض کا محل ہو سکتی ہے؟ (نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۱۹۰تا۱۹۳) ۱۰۰.  اور اس دن ہم چھوڑ دیں گے کہ وہ آپس میں لڑکٹ مریں.اور نرسنگا پھونکا جاوے گا پھر ہم

Page 53

ان سب کو اکٹھا کریں گے.تفسیر: مکاشفات یوحنا کے بیسویں باب کی ساتویں آیت سے پڑھو اور جب ہزار سال ہو چکیں گے (یہ ہزار سال حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت سے ہیں اور شمسی قمری مہینوں کا حساب ناظرین یہاں سوچ کر کر لیں)اپنی قوم سے چھوٹے گا اور نکلے گا تاکہ ان قوموں کو جو زمین کی (وہی خاص زمین یروشلم اور مکّہ کی زمین ہے ) چاروں کونوں میں ہیں.یعنی یاجوج اور ماجوج کو فریب دے اور انہیں لڑائی کیلئے جمع کرے.ان قدیمی نوشتوں اور روس اور انگریز.جرمن اور فرانس کے تسلّط پر جو ہزار سال ہجری کے بعد سے عرب اور شام کے چاروں کو نوں پر شروع ہوا.غور کی نگاہ سے دیکھو! اور دیکھو! ۱۶۹۱ء سے کس طرح یہ قومیں اسلامی بلاد پر مسلّط ہو رہی ہیں.اگر انگریزی تواریخ ہند کچھ صحت رکھتی ہیں اور آریہ قوم بھی انگریزوں سے اعلیٰ نسل میں متحد ہے.جو بتحقیق لتہہ برج وغیرہ محققان یوروپ مسلّم ہے.تو یہ بھی ماجوج میں داخل ہیں.تو ہم آریہ کی اس تیز ترقی کو اپنی مقدس کتابوں کی صداقت ہی یقین کریں گے مگر ہم یقینی رائے قائم نہیں کر سکتے کہ ہندوستانی اور انگریز ایک ہی ہیں.ہمارا علم اس تحقیق تک پہنچنے سے ابھی تک قاصر ہے.قرآن کو نازل ہوئے تیرہ سو برس ۱۳۰۰ گزرے اور مکاشفات اور حزقیل نبی کی کتاب کو اور بھی بہت زمانہ گزرا.مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو عالم بالجزئیات والکلیات ہے ان کا ہونا کیسے واضح دلیلوں سے ثابت ہوا.اب یہ دونوں قومیں یاجوج روس اور ماجوج انگریز کیسے نزدیک نزدیک آ پہنچے ہیں.اور بہت ہی قریب ہے کہ دونوں آپس میں اُلجھ پڑیں اور قرآن کریم کا یہ فرمانا’’ ‘‘جو ہمیشہ سے صادق ہے تمام آنکھوں کو اپنی سچائی دکھادے.دیکھو مکاشفات ۲۰ باب ۹’’ اور انہوں مقدّس چھاؤنی اور عزیز شہر کو گھیر لیا.تب آسمان پر سے خدا کے پاس سے آگ اتری اور ان کو کھا گئی اور تو بڑا اندیشہ کرے گا.اور تو کہے گا کہ میں دیہات کی سرزمین ( وادی القریٰ مکّہ معظمہ) پر چڑھوں گا.مَیں ان پر جو چَین میں ہیں اور آرام سے بستے ہیں.جو شہر پناہیںنہیں رکھتے اور بغیر اڑبنگوں اور پھاٹکوں کے رہتے ہیں حملہ کروں گا تاکہ تو لُوٹے اور مال کو چھین لے.اور تو اپنا ہاتھ ان ویرانوں پر جواب بسے ہیں اور ان لوگوں پر جو ساری قوموں سے فراہم ہوئے (دیکھو اہل مکّہ و مدینہ) جنہوں نے مال اور مویشی حاصل کئے اور جو زمین کی ناف پر بستے ہیں اپنا ہاتھ چلاوے اور سبا.دوان اور ترسیس کے سوداگر اور ان کے سارے شیرببر تجھے کہیں گے.کیا تو غارت کرنے آیا‘‘(حزقیل ۳۸ باب ۱۰.۱۳) ہم نے یہ واقعات اس لئے لکھے ہیں اور یہ تذکرہ صرف اسی واسطے کیا ہے کہ الہام کی قدر نہ کرنے

Page 54

والے کچھ کچھ تو ان زبردست پیشین گوئیوں کی صداقت کا لحاظ کر کے الہامی کتابوں کی بے ادبیوں سے باز آویں اور غور کریں کہ یاجوج کے باہمی فساد کا کب اور کس حالت اور کس زمانے میں ذکر کیا گیا.جس کا ظہور آج آنکھ سے مشاہدہ کر رہے ہیں اور یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کی نسبت بعض مصنفوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ درازگوش ہیں.اس فقرہ کے سمجھنے میں بہت لوگوں نے جو مقدّس کتابوں کے طرزِ کلام سے بالکل ناآشنا ہیں.کئی غلط نتیجے نکالے ہیں مگر وہ یاد رکھیں کہ درازگوش گدھے کو کہتے اور جو آدمی علم کے مطابق عمل نہ کرے.اسے بھی الہامی زبان میں گدھے سے تشبیہہ دی گئی.دیکھو قرآن میں آیا ہے.(الجمعہ:۶)اور ظاہر ہے کہ روس اور انگریز.جرمن اور ڈنمارک والے الہٰیات کے سچے علوم اور روحانی برکات سے بالکل محروم ہیں.علم الہٰیات ان کا نہایت کمزور ہے.اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے علمی مذاق والے آریہ بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں کر سکیں گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۷۰ تا ۷۳) رِ: ایک بگل بجایا جائے اور قومیں آپس میں لڑیں گی.جَمَعْنَاھُمْ : ہم ان کے درمیان ایک بڑی لڑائی کرا دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) ۱۰۱،۱۰۲.  : دوزخ سامنے ہو گی.یہ پیشگوئی ہے کہ اس وقت جنگ اسلحۂ آتشباز سے ہو گی.: دانیال کی کتاب میں پیشگوئی صاف ہے مگر ان کی نظروں سے پوشیدہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) ۱۰۳.

Page 55

  کیا کافروں نے سمجھا کہ سوا میرے بندوں کو میرے مددگار بنا دیں.ہم نے کافروں کیلئے جہنم کو مہمان خانہ بنایا ہے.(فصل الحظاب حصّہ اوّل صفحہ۱۷۴) جس طرح حدیثوں میں یہ ثابت ہے کہ سورہ کہف کی ابتدائی آیتوں کا پڑھنا فتنِ دجّال سے نجات کا موجب ہے.اسی طرح آخری آیات کا پڑھنا بھی فتنِ دجّال سے نجات کا موجب ہے.اس لئے پھر غور کرو کہ جن کا سورہ کے ابتداء میں ذکر ہے انہی کا انتہاء میں بھی ہے یا نہیں ؟ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ دجّال کون ہے اور اس کے صفات کیا ہیں.: مجھے چھوڑ کر.: چنانچہ بعض لوگوں نے مسیحؑ کو اپنا والی قرار دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲) چونکہ یہ یاجوج ماجوج عیسائی شاخ یازدہم ہرقل کے مذہب پر ہیں.جس کو حسب دانیال۷ باب۷،۱۰ حیوان فرمایا ہے اور وہ مسیحؑ کو اپنا مولیٰ خیال کرتے ہیں اور اکثر مریم کو معبود بناتے ہیں اس واسطے قرآن کہتا ہے. .(فصل الخطاب طبع ثانی حصّہ اوّل صفحہ۱۷۴) اور ان لوگوں کے دنیوی کمالات پر اور ان کی ظاہری صنعت پر جیسے ریل.تار فوٹوگراف وغیرہ وغیرہ بنائے گئے.فرماتا ہے.۱۰۴ تا ۱۰۶.  

Page 56

  ہم بتا دیں تم کو کن کے کئے اکارت ہیں وہ لوگ جن کی دوڑ دنیا کی زندگانی میں.بھٹک رہے ہیں اور وہ لوگ جانتے ہیں کہ خوب بناتے ہیں کام.وہ ہی ہیں جو منکر ہوئے اپنے ربّ کی نشانیوں سے اور اس کے ملنے سے مٹ گئے.اُن کے کئے.پھر نہ کھڑی کریں گے ہم ان کے واسطے قیامت کے دن تول.( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۵) اور اسی واسطے ہماری قصص کی کتابوں میں ان کود رازگوش لکھا ہے.کیونکہ درازگوش احمق کو کہتے ہیں اور الہٰیات میں جو ضروری چیز ہے.ان کی عقل اُس پر ہرگز رسا اور پوری نہیں.گویا الہٰیات سے ان کی کھوپڑیوں کو مناسبت ہی نہیں.اور جو اسلامی کتب میں کثرتِ اولاد یاجوج کی نسبت لکھا ہے وہ بالکل سچ ہے دیکھو باایں کہ لندن سے ہزاروں باہر نکل جاتے ہیں.تب بھی چھتیس ۳۶ لاکھ کے قریب ایک شہر میں ہیں.( فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۵) : مستہلک ہو گئیں.دیکھو کس قدر ایجادیں ہو رہی ہیں.مگر وہ تمام جسمانی راحتوں کے متعلق ہیں.روحانیات سے بہرہ نہیں.ان کی ساری کوششیں اس دنیا کی زندگی میں خرچ ہو گئی ہیں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ تم روپیہ جمع کرنے کا خیال چھوڑ دو.کہ اس کا انجام سوائے دُکھ و مشکلات کے نہیں.: اس قوم نے کاریگروں کو وہ حُسن دیا ہے کہ بائد و شاید.پسنہاری کا پیشہ کیسا ذلیل ہے.مگر دانے پیسنے کی کلوں نے اسے کیسا معزز بنا دیا کہ آج مِلر لوگ بڑے معزز امراء اور رائے بہادر کہلاتے ہیں.لوہار بھی کمین ہی سمجھے جاتے تھے مگر اب تو جواعزازواکرام آئرن ورکس والے رکھتے ہیں.وہ ظاہر ہے.جرّاحی حجاموں کے سپرد تھی.مگر اب تو سرجن کہلاتے ہیں.جولاہے بھی ذلیل تھے.مگر اب تو یہ پیشہ ایسا معزّز ہوا کہ ملکوں کو خرید سکتے ہیں… یہ سب آیات اشارہ کرتی ہیں کہ دجّال ایک کاریگروں کی قوم کا نام ہے.: ان کے اعمال کو ترازو میں تولنے کی ضرورت نہ ہو گی.سب کچھ اس دنیا میں لے چکے…‘‘ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۲،۱۶۳)

Page 57

۱۱۱.   اس کے سوا نہیں کہ میں تم سا ایک بشر ہوں.مجھے حکم ہوتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پس جو کوئی اپنے ربّ کی ملاقات کا امیدوار ہے وہ عمل نیک کرے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ملا وے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۳۵) جب دو یا کئی چیزیں باہم کسی امر میں شریک ہوتی ہیں اور کسی امر میں مختلف ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ امرِ مشترک کے احکام میں ان مشترکہ اشیاء کو اتحاد ہو گا.اور جن جن باتوں میں ان چیزوں کو باہمی اختلاف ہوتا ہے ان باتوں میں جو جو احکام ہوں گے ان میں بھی اختلاف ہو گا.مثلاً حیوانات و نباتات جسمیّت اور نموّمیں باہم شریک ہیں.مگر حیوانات تحرک بالارادہ.خور د.نوش وغیرہ اوصاف میں نباتات سے ممتاز ہیں.پس حیوانات و نباتات کو جسمیت اور نموّ کے احکام میں بھی شرکت ہو گی.مگرخور د.نوش.جماع وغیرہ احکام میں حیوانات اور نباتات میں اشتراک ہو گا.بلکہ حیوانات کو ان باتوں اور ان کے احکامات میں امتیاز و خصوصیت ہو گی.اسی طرح انسان و حیوان کے درمیان کھانے.پینے جماع کی خواہش میں جس قدر اشتراک ہے اسی قدر کھانے.پینے.جماع کے احکام میں بھی اشتراک ہو گا مگر انسان ترقی.سطوت.جبروت.نئے علوم و فنون کی تحصیل اور نئے علوم کو اپنے ابنائے جنس کے سکھلا دینے میں حیوان سے ممتاز ہے.ان اشیاء کے احکام میں بھی حیوان سے ممتاز ہو گا.ایسے ہی ہادی.رسولوں اور عامّہ آدمیوں میںگو عام احکام بشریت کے لحاظ سے اشتراک ہوتا ہے.رسولوں کا گروہ بخلاف اور عام آدمیوں کے الہٰی ملہم.مصلح قوم.مؤید من اﷲ ہوتا ہے.اس لئے عام احکام بشریت میں اگرچہ عامہ بشر سے اشتراک رکھتے ہیں لیکن اپنی خصوصیتِ رسالت.نبوّت.اصلاح قوم کے احکام میں عامہ خلائق سے ضرور جُدا ہوتے ہیں.بلاتشبیہہ ایک مفتوح ملک کی رعایا کے ساتھ ایک فاتح اور حکمران گورنمنٹ کا سپہ سالار.مجاز حاکم اپنی گورنمنٹ کے حکم سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کو اپنی گورنمنٹ کے احکام سنا دے.تو اگر اس مفتوح رعایا کے لوگ ان معاہدات اور احکام کی تعمیل نہ

Page 58

کریں تو ضرور وہ رعایا اس گورنمنٹ کی مجرم.باغی.غدار.نافرمان ٹھہرے گی.مگر وہی سپہ سالار اور گورنمنٹ کا ماتحت حکمران اس رعایا کو.کوئی اپنا ذاتی کام بتاوے اور اپنے طور پر ان رعایا میں سے کسی سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کا آدمی اس سپہ سالار اور اس حاکم کی بات نہ مانے یا معاہدہ کا خلاف کرے تو یہ شخص جو اس سپہ سالار اور گورنمنٹ کے ماتحت حکمران کے معاہدہ اور حکم کا مخالف ٹھہرا ہے گورنمنٹ کی بغاوت کا مجرم نہ ہو گا.کیونکہ پہلی قسم میں اس سپہ سالار اور حاکم کے احکام فاتح گورنمنٹ کے احکام ہوا کرتے ہیں.اور اس سپہ سالار کی زبان فاتح گورنمنٹ کی زبان.اس کی تحریر فاتح گورنمنٹ کی تحریر ہوا کرتی ہے.غور کرو.ایک قاتل کو مجاز حاکم کے حکم سے قتل کرنے والے یا پھانسی دینے والے کے ہاتھ اسی گورنمنٹ کے ہاتھ ہوتے ہیں.جس کے حکم سے قاتل کو قتل کرنے والے اور پھانسی دینے والے نے قتل کیا اور پھانسی دیا.در صورتِ دیگر وہی پھانسی دینے والا کسی اور ایسے آدمی کو جس پراس گورنمنٹ نے موت کا فتویٰ نہیںد یا.قتل کر کے دیکھ لے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے.پس اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے رسول ان کی بھی دو حالتیں اور دو جہتیں ہیں.ایک حالت و جہت میں وہ آدمی ہیں بشر ہیں.اور دوسری حالت ان کی رسالت و نبوّت کی ہے جس کے باعث وہ رسول ہیں.نبی ہیں.الہٰی احکام کے مظہر اور احکام رساں ہیں.جس کے باعث ان کو پیغامبر کہتے ہیں.پہلی حالت و جہت سے اگر وہ حکم فرماویں تو اس حکم کا منکر باغی.منکرِ رسول نہ ہو گا.جس کو شرعی اصطلاح میں کافر.فاسق.فاجر کہتے ہیں.دوسری حالت و جہت سے اگر کوئی ان کے حکم کو نہ مانے تو ضرور ان کے نزدیک اس پر بغاوت.انکار کا جرم قائم ہو گا.اور ضرور وہ کافر.فاسق.فاجر کہلاوے گا.اس جہت سے چونکہ وہ خداوندی احکام کے مظہر ہیں.اور جس سے معاہدہ کرتے ہیں.اس سے خدا کے حکم سے معاہدہ کرتے ہیں اور معاہدہ کنندہ جو معاہدہ ان سے کرتا ہے وہ اصل میں باری تعالیٰ سے معاہدہ کرتا ہے.پس اگر معاہدہ کنندہ معاہدہ کے خلاف کرے تو باغی و منکر بلکہ کافر ہو گا.نبی ٔ عرب محمد بن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے رسالت و نبوّت کا دعوٰی کیا اور اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کا رسول بتایا.اب ان کو جن لوگوں نے نبی و رسول مانا اور ان کے احکام کو الہٰی احکام یقین کیا.لامحالہ آپؐ سے ان کا معاہدہ حقیقتاً اﷲ تعالیٰ سے معاہدہ ہو گا.ہاں جو احکام اور مشورے اس عہدہ رسالت کے علاوہ فرماویں.ان احکام کی خلاف ورزی میں کفروفسق نہ ہو گا.صحابہ کرامؓ آپؐ کے عہدِ سعادت مہد میں یہ تفرقہ عملاً دکھاتے تھے.بریرہؔنام ایک غلام عورت تھی جب وہ آزاد ہو گئی.اور اپنے خاوند سے جو ایک غلام تھا بیزار ہو گئی.مگر اس کا شوہر اس پر فدا تھا.وہ اس کی علیحدگی کو گوارا نہ کرتا تھا وہ اس پر سخت کبیدہ خاطر ہوا اور آنجنابؐ کی خدمت

Page 59

قدس میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی.آپؐ نے بریرہ سے اس کے ساتھ مصالحت کر لینے کو ارشاد فرمایا.بریرہ نے جواب دیا.آپؐ یہ وحی سے فرماتے ہیں یا عہدہ نبوّت سے علاوہ بطور مشورہ کے فرماتے ہیں.آپؐ نے فرمایا.میں رسالت کے لحاظ سے یہ حکم نہیں دیتا.اپنی ذاتی رائے سے تجھے کہتا ہوں اس نے نہ مانا.اور کہا مجھے اختیار حاصل ہے.اسی طرح .اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس امر کا بیان ہے کہ میں ایک بشر ہوں.بشریت میں تمہاری مثل ہوں.خبردار کبھی شرک نہ کرنا.مجھے خدا نہ کہہ بیٹھنا.نہ میری عبادت کرنااللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھرانا.(تصدیق براہینٍ احمدیہ ص ۲۳۲ تا ۲۳۵)

Page 60

سُوْرَۃُ مَرْیَمَ مَکِّیَّۃٌ  ۲. : میں اسماء الہٰی کی طرف اشارہ ہے.کَبِیْر.المتعال.کافی.ھادی.یُجِیْرُ وَ لَا یُجَارُ عَلَیْہِ.عالم.عزیز.صادق.اگر صحابہ ؓ و تابعین ان کے معنے نہ کرتے تو میں کبھی نہ کرتا.(بدر۲۴؍ اگست۱۹۱۱ء صفحہ۳) :.اسمائے الہٰی کریم.ہادی.(المؤمنون:۸۹) (عالم.عزیز.عادل) کی طرف ان حروف میں اشارہ ہے.صادق الوعدہے ( مریم.۵۵) نیز ان آیات میں ان انبیاء کا ذکر ہے.زکریا.ہود.ادریس.اسمٰعیل اورصؔ سے مراد صداقتِ انبیاء ہے.عراق عجم.عراق عرب.عرب اور شام کے انبیاء کا تذکرہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶) ۳،۴. : کتنے لوگ ہیں جن کے ہاں اولاد ہے.مگر ان کا خیال اس طرف نہیں جاتا کہ یہ ان کے رب کی رحمت ہے.: چلّا کر.دعا کرتے چلّا اٹھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) ۵.

Page 61

  : دُعا کا طریقہ بتلایا ہے..لکھا ہے کہ ستّر سے کچھ زیادہ عمر ہو گئی تھی.بس میری عمر کے برابر ہوں گے. کے معنے ضعیف ہو گئیں.پتلیاں ہو گئیں.: ناکام (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) اولاد کی خواہش بھی کئی وجوہ سے ہوتی ہے (۱) بعض عورتیں بانجھ کہلانا پسند نہیں کرتیں (۲) شریکوں کا مال قبضے میں آ جائے (۳) ہمارے مال و اسباب کا کوئی وارث ہو (۴) ہمارا نام رکھنے والا کوئی ہو.انبیاء کو بھی اس بارہ میں خواہش ہوتی ہے.مگر اس لئے کہ کوئی سچے علوم اور نیکیوں کا وارث ہو… مجھ کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسی عمر میں اولاد دی ہے.کہ جبکہ کا زمانہ ہے.اور میں خدا کے فضل پر امید رکھتا ہوں کہ میری اولاد اچھی ہو گی.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ۶،۷.   : قوم میں کوئی نیک نظر نہیں آتا.: وہ علم.وہ نبوّت جو تُو نے مجھے اور ہمارے آباء و اجداد کو بخشی ہے.ان کا وارث بنے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) : وراثت مال کے علاوہ بھی ثابت ہو گئی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۸.  بِغُُلٰمٍ: لڑکا جو تیرے سامنے ہی جوان بھی ہو گا.

Page 62

: اس میں اشارہ کہ اَحْیَاہُ اﷲُ بِالْاِیْمَانِ ایمان کے ساتھ لمبی زندگی پائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) ۹.  : یہ کلمۂ یأ سْ نہیں.کہ خدا تعالیٰ فرما چکا ہے (یوسف:۸۸)بلکہ یہ دعا کو عاجزانہ بنانے کا رنگ ہے.: یعنی نکاح ثانی بھی اب نہیں ہو سکتا.: اس حد سے آگے جو صحبت کے لائق ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) : لکھا ہے ۷۵.۸۰ سال عمر تھی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۱.  : باتیں چھوڑ دو.اﷲ تعالیٰ کے ذکر و تسبیح سے خاص قسم کی قوّت بڑھ جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) : بہت بولنے والے کے قوٰی مضمحل ہو جاتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶ ستمبر ۱۹۱۳ء) : یہ نسخہ بہت مجرّب ہے اور اب بھی نشان ہے.کلام نہ کرے اور ذکرِ الہٰی میں شاغل رہنے سے قوّت بڑھ جاتی ہے.شیعوں میں تسبیح فاطمہ مشہور ہے.اور سنّی بھی اسے مسنون سمجھتے ہیں.خاتونِ جنّت نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور عرض کیا کہ مجھے دو تکلیفیں ہیں.ایکؔ چکّی پیسنی پڑتی ہے.دومؔ پانی کا مشکیزہ بھی خود ہی لانا پڑتا ہے.اور اپنے ہاتھ دکھائے اور لونڈی کی التجاء کی.آپؐ نے فرمایا کہ میں تجھے اس سے بہتر شے بتلاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد سبحان اﷲ ۳۳ بار، الحمدﷲ ۳۳ بار، اﷲ اکبر ۳۳ بار

Page 63

اور اس کے بعد لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ پڑھ لیا جاوے اور سونے کے وقت بھی.جن لوگوں کا میں معتقد ہوں ان میں سے ایک نے لکھا ہے کہ اس میں سِرّ یہ تھا کہ ذکر اﷲ سے ضُعف گھٹ جائے گا اور پھر یہ شکایت پیدا نہ ہو گی.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ۱۲.  مومن کی خلوت گاہ شیطان سے لڑائی کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے اسے محراب کہتے ہیں.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ِ: لڑائی کا ہتھیار.عبادت گاہ.: جلدی جلدی یہ بات کہی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) ۱۳ تا ۱۶.   : درمیانی بات چھوڑ گئے.کہ قرآنِ مجید قصّے نہیں کہتا.حُکْمَ : حکمت کی بات.: چھوٹا ہی تھا کہ دانائی کی باتیں کرتا.: بگاڑ کرنے والا.: دیکھئے یہ مقام مضارع ہے اور قابلِ یادداشت ! یحيٰ اموات میں داخل ہے اور اسے یَمُوْتُ فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳)

Page 64

۱۷. ناامیدوں کو امیدیں دلانے والا ہے.حضرت زکریا کی طرح مریم کا حال تھا.اسی طرح مکّہ میں مدت سے بُت پرستی کا زور تھا.کہاں امید ہو سکتی تھی کہ وہاں ایک نبی پیدا ہو گا.یسعیاہ نبی کی کتاب میں فرمایا ہے کہ جس طرح ایک مطلقہ تباہ روزگار عورت ہو.اسی طرح مکّہ کا حال ہے.مگر میں خا وند والی سے زیادہ بھاگ لگاؤں گا.اعلیٰ درجہ کے شہر عروس البلاد کہلاتے ہیں.اسی طرح یسعیاہ کی ۴۲.۵۴کی بابوں میں فرمایا ہے اور ایک نبی کے ذریعہ سے عرب کی روحانی ترقیکی پیشگوئی کی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء) پہلے حضرت زکریاؑ کی دعاؤں کا ذکر کیا پھر مریم کا.کہ کس طرح مشکلات کے بعد اﷲ تعالیٰ نے انہیں آسانیاں دیں.اسی طرح رسول کریمؐ کو تسلّی دیتا ہے کہ دین اسلام ان مشکلات سے نکل جائے گا.مومنین کو چاہیئے کہ اﷲ پر بڑی بڑی امیدیں رکھیں.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) : انفردت.خرجت.تنہا ہوئیں.نکلیں.جن میں تھیں ان سے الگ ہوئیں.: شرقی کے معنے واسعًا.فصیحًابہت لُغتوں میں پائے جاتے ہیں.کیونکہ تنگ مکانوں میں دھوپ کُھل کر نہیں پڑتی.پس شرقی وہ مکان ہے جس پر سورج اشراق کرتاہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء) : کے معنے ہیں.فراخ مکان جس میں دھوپ ہوا خوب لگے.کوئی نام تجویز کرنا غلط بات ہے.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) ۱۸.  : ان لوگوں سے کوئی تعلّق نہ رکھا یعنی یہ الگ رہنے لگیں.: ہمارا کلام.چنانچہ بہت فرشتوں کے ذریعے یہ کلام پہنچا.اس لئے نا ؔفرمایا (اٰل عمران:۴۶)

Page 65

: جبرئیل ؑ کا تمثّل نبی کریمؐ کے سامنے بھی آیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۳) : اپنا کلام.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۶) ۲۲.  : یہ بات بھی سچ ہے.اور خدا کا کلام بھی سچ.: حکم جاری ہوا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) ۲۳ تا ۲۵.   : تفسیروں میں لکھا ہے.کہ وہ مصر تھا.ابنِ جریر میں بھی اس کا ذکر ہے.: میں ترک کر دی جاتی.حالتِ اضطرار میں کلمہ منہ سے نکلا.: چشمہ.چھوٹی نہر.سَريٌّ سردار کو بھی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۳) : کیا معنی؟ بچہ جننے سے پہلے میری قوت حسیّہ نہ رہتی کہ درد تکلیف دِہ ہوتا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۶۵)

Page 66

۲۸. قرآن مجید کوئی تاریخ کی کتاب نہیں کہ مسلسل واقعات کا ذکر کرے.جیسے پیچھے  کے بعدٍ فرما دیا.اور درمیانی واقعات کا ذکر نہیں فرمایا.ایسا ہی یہاں فرما دیا.اور یہاں مصر سے واپس آنے کا ذکر ہے.: کے یہ معنے نہیں کہ گود میں اُٹھائے لائی بلکہ سوار کر کے لائی.دوسرے مقام پر یہ محاورہ قرآنِ مجید میں موجود ہے  (التوبۃ:۹۲)اب اسکے یہ معنے تو نہیں کہ ان لوگوں نے درخواست کی کہ نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہمیںاپنی گود میں اٹھا لیں.بلکہ سواری مہیّا کرنے کے معنے ہیں.: سے مراد عجیب امر لائی ہو.اور کیوں ایسا نہ ہو ( وہ کہتے ہیں) تیری ماں بھی نیک پار ساتھی.تیرا باپ بھی اچھا آدمی تھا.اچھوں کے اچھے ہوتے ہیں.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) ۲۹. : قوم کے بزرگ کے نام پر لوگوں کے نام ہوتے ہیں.جیسے گیلانی سیّد.خواہ دس پُشتوں سے پنجابی ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) : اس لئے فرمایا.کہ وہ ہارون کی قوم میں سے تھیں جیسے قریش.راجپوت.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۲) قرآن نے مریم مسیح علیہ السلام کی ماں کو اُختِ ہارون.ہارون کی بہن کہا.یہ بات صحیح نہیں.جواب سنئے.۱.معترض عیسائی لوگو! کوئی الہامی اور روح القدس کی لکھائی ہوئی تاریخ ایسی نہیں جس میں مریم

Page 67

کا مفصّل حال مرقوم ہو اور ایسی بھی کوئی کتاب عیسائیوں کے گھر میں نہیں.جس سے مریم کے بھائیوں اور ماں باپ وغیرہ رشتے داروں کے نام کا یقینی پتہ لگے.پھر قرآن کے کلمۂ اختِ ہارون پر آپ کا اعتراض کیا؟ ٔ ۲.پادری لوگو! تم نسب ناموں اور قصّوں پر اعتراض نہ کیا کرو.کیونکہ پولوس.طمطاؤس کے پہلے خط میں لکھتا ہے ’’ کہانیوں اور بے حد نسب ناموں پر لحاظ نہ کریں.یہ سب تکرار کا باعث ہوتا ہے نہ تربیتِ الہٰی کا جو ایمان سے ہے‘‘ ۱.طمطاؤس باب۴.۳.سنو! انجیل متی کی ابتداء میں مسیحؑ کو ابن داؤد اور داؤد کو ابن ابراہیم لکھا ہے.متی باب۱.حالانکہ مسیحؑ اور داؤد کے درمیان اور داؤد و ابراہیم کے مابین پشت ہا پُشت کا فرق ہے.بلکہ بقول تمہارے مسیح ابن داؤد ہی نہیں.۴.سنو! الیصبات کو ہارون کی بیٹی کہا گیا (لوقا ا باب ۵) حالانکہ الیصبات اور زکریا کے زمانہ سے جن کا ذکر لوقا نے کیا ہے بہت ہی مدّت پہلے ہارون مر چکے تھے.اور الیصبات اور ہارون میں پُشت ہاپُشت کا فرق ہے… بات یہ ہے.ناموں میں اشتراک بھی ہوتا ہے.دیکھو یوسف اور یعقوب مسیحؑ کے بھائی بھی ہیں.اور اُن سے سینکڑوں برس پہلے یوسفؑ اور یعقوبؑ اسحاق نبی کے پوتے اور بیٹے بھی گزرے ! پس کیا ممکن نہیں کہ ایک ہارونؑ موسٰیؑ کے بھائی ہوں اور دوسرے مریم کے.۵.سنو! عرب میں اخؔ اور اختؔ کالفظ وسیع معنوں میں مستعمل ہوتا ہے.حقیقی بھائی اور ایک ہی پُشت کے بھائی پر محدود نہیں.دیکھو قرآن:..(سیپارہ ۱۲ سورہ ہود رکوع ۶ آیت: ۶۲) .(سیپارہ ۱۲ سورہ ہود رکوع ۵ آیت: ۵۱) حالانکہ صالح اور ہود اپنی اپنی قوم کے حقیقی بھائی نہ تھے.اور زرقانی شرح مواہب اللدنیہ میں ازواج کی تاریخ میں صفیہ کے قصّے میں لکھا ہے کہ صفیہ بی بی پر جو خیبر کے یہود سے تھیں.رسولؐ اﷲ کی اور بیبیوں نے کچھ طعن کیا اور صفیہ نے اُن کے طعن و تشنیع کا تذکرہ اپنے خاوند محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا.تو آپؐ نے فرمایا.تو نے کیوں نہ کہا.اَبِیْ ھَارُوْنَ وَ عَمِّیْ مُوْسٰی.وَزَوْجِیْ مُحَمَّدٌ ؐ.دیکھویہاں ہارونؑ موسٰیؑ نبی کے بھائی کو اَبْؔ یعنی باپ کہا ہے حالانکہ بہت مدّت پہلے گزر چکے.عرب کے لوگ عمدہ تلوارکو اخوثقۃ اور بڑے بہادر کو اَخُوْغَمَرَاتِ الْمَوْتِ کہتے ہیں.غرض تھوڑے بہت تعلق پر اخوت کا اطلاق ہوتا ہے.مریم صدّیقہ

Page 68

کاہنوں میں پَلی.اور زکریا کاہن اس کے قریب رشتہ دار تھے.اور کاہن بے ریب و تردّد ہارون کے بھائی تھے.الیصبات ہارون کی بیٹی مریم کی قریبی رشتہ دار تھی.دیکھو لوقا ۱ باب.پس کیا تعجب ہے اگر قرآن نے کہہ دیا مریم ہارون کی بہن تھی.! (فصل الخطاب حصّہ اول طبع دوم صفحہ ۱۶۶.۱۶۷) ۳۰ تا ۳۲.    : یہود علماء بڑے بڑے آدمی تھے.حقارت سے کہا.یہ کل کا لونڈا ہے اس سے کیا باتیں کریں.: اس سے ثابت ہوا کہ آپ (عیسیٰ) کو نبوّت مل چکی تھی.کتاب سے مراد توریت ہے.توریت کا علم عطا ہوا.: یہ اشارہ ہے اس طرف کہ آپ کو بہت سے ملکوں میں سیر کرنا تھا.مصر کنعان.کشمیر وغیرہ.قصّہ لکھا ہے کہ یحٰي کو آپ نے فرمایا کہ میرے لئے دُعا کرو.آپ نے فرمایا کہ تم مجھ سے اچھے ہو.مسیح نے کہا کہ میں نے سلامتی کا دعویٰ تو آپ کیا ہے وَالسَّلَامُ عَلَیَّ مگر تیرے لئے خدا نے (مریم:۱۶)فرمایااس لئے میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.یہ صوفیاء کا ذوقی لطیفہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) ۳۶.  : یہ ایک دلیل ہے کہ بے جرم کو پکڑنا اور مجرم کو چھوڑنا سبحانیت کے

Page 69

کے خلاف ہے اس میں ابطالِ کفارہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) ۳۸.  : تم میں اگر اس قسم کی بحثیں ہوں کہ خلیفہ اور فلاں کے کیا تعلقات ہیں؟ اور پھر اس پر فیصلہ کرنے لگ جاؤ تو مجھے سخت رنج پہنچتا ہے ! تم مجھے خلیفۃ المسیح کہتے ہو.میں تو اس خطاب پر کبھی پھُولا نہیں.بلکہ اپنی قلم سے کبھی لکھا بھی نہیں.میں اﷲ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اس بیہودہ بحثیں کرنے والے لوگوں کو اپنی جماعت میں نہیں سمجھتا.میں تمام جماعت کیلئے دُعا کرتا ہوں مگر ایسے لوگوں کیلئے دعا بھی پسند نہیں کرتا.ان کو کیا حق ہے کہ تفرقہ اندازی کی باتیں کریں؟آگ پہلے دیاسلائی سے پیدا ہوتی ہے.مگر آخرکار گھر پھر محلہ پھر شہر کے شہر جلا دیتی ہے.ایسے لوگ اگر میری مدد کے خیال سے ایسا کرتے ہیں.تو سن رکھیں کہ میں ان کی مدد پر تھوکتا بھی نہیں.اگر مخالفت میں کرتے ہیں تو وہ خدا سے جا کر کہیں جس نے مجھے خلیفہ بنایا.سنو! میرا صدیقِ اکبرؓ کی نسبت یہی عقیدہ ہے کہ سقیفہ بنی ساعدۃ نے خلیفہ نہیں بنایا.نہ اس وقت جب منبر پر لوگوں نے بیعت کی.نہ اجماع نے ان کو خلیفہ بنایا.بلکہ خدا نے بنایا.خدا نے چار جگہ قرآن میں خلافت کا ذکر کیا ہے.اور چار بار اپنی طرف اس کی نسبت کی ہے.حضرت آدم کے بارہ میں فرمایا (البقرۃ:۳۱)پھر حضرت داؤد کی نسبت ارشاد کیا (ص ٓ:۲۷) پھر صحابہ کرامؓ کے لئے فرمایا(النور:۵۶)اور پھر سب کیلئے فرمایا.(یونس:۱۵) پس میں بھی خلیفہ ہوا تو مجھے خدا نے بنایا.اور اﷲ کے فضل ہی سے ہوا.جو کچھ ہوا اور اس کی طاقت بغیر انسان کچھ نہیں کر سکتا … تمہیں چاہیئے.دنیا کماتے.؟آپ کھاتے.بیوی بچوں کو کھلاتے.اس سے بچتا تو دوسرے کے نفع اور مخلوق کی شفقت پر خرچ کرتے.پھر اس سے وقت بچے تو اَلْحَمْد پڑھو.لَاحَوْل پڑھو.استغفار کرو ،درود پڑھو.لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲ کا ذکر کرو.تمہارے پاس ان لغو کاموں اور باتوں کیلئے وقت کہاں سے آ گیا؟ اپنے اخلاق کی کمزوریوں کی اصلاح کرو.گندی گالیاں تمہارے منہ سے نہ نکلیں.تم میں طمع و حرص نہ

Page 70

ہو.تجارت میں حساب و کتاب رکھو.ملازمت میں فرضِ منصبی کو ایمانداری سے ادا کرو.ایک اور بحث بھی ہے کہ مسیح بے باپ تھا یا نہیں.میں کہتا ہوں.ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر کا باپ تھا یا نہیں.شریعت نے ہمیں اس بات پر مامور نہیں کیا کہ ہم پیغمبروں کے ماں باپوں اور بہن بھائیوں کی تحقیق کرتے پھریں.یہ باتیں تمہاری روحانیت میں داخل نہیں.ہم نے آج جو کچھ سمجھایا.وہ دردِ دل سے سمجھایا ہے.اﷲ تعالیٰ ہی سمجھ دے.اسی کے قبضہ میں سب کے دل ہیں.تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے.اتفاق بڑی نعمت ہے.اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دے دیا.جو شیرازہ وحدت قائم رکھے جاتا ہے.وہ نہ توجوان ہے.اور نہ اس کے علوم میں اتنی وسعت جتنی اس زمانہ میں چاہیئے لیکن خدا نے تو موسٰیؑ کے عصا سے جو بے جان لکڑی تھی اتنا بڑا کام لے لیا تھا.کہ فرعونیت کا قلع قمع ہو گیا.اور میں تو اﷲ کے فضل سے انسان ہوں.پس کیا عجیب ہے کہ خدا مجھ سے یہ کام لے لے! تم اختلافات اور تفرقہ اندازی سے بچو!! نکتہ چینی میں حد سے بڑھ جانا بڑا خطرناک ہے !!! اﷲ سے ڈرو!!!! اﷲکی توفیق سے سب کچھ ہو گا.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۲.۳) ۴۱. : تمام مملکتوں اور جائیدادوں کی مِلک پر غرور کرنے والے اس آیت پر غور کریں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴) ۴۲. اور بیان کر دے اس کتاب میں ابراہیم کا قصّہ.بے ریب وہ راست باز نبی تھا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۸۸) : اس کتاب میں حضرت ابراہیمؑ کا ذکر کر دو.حضرت ابراہیمؑ کوسہ میں رہتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴) : آپ بھی اولاد کی طرف سے ناامید تھے.۹۹ برس کی عمر میں

Page 71

اسحٰق پیدا ہوئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) حضرت ابراہیمؑ کی زندگی مومنوں کیلئے نہایت عمدہ اسوۂ حسنہ ہے.بلحاظ خوراک ، پوشاک، قطع و ضع، خصائل فطری، عزّت، مقبولیتِ عامہ، ذکرِ خیر، اپنی نظیر آپ ہی تھے.اس تمام کامیابی کا گُر بتایا ہے کہ ابراہیمؑ صدیق تھا.جس کے ادنیٰ معنے راست گفتار کئے ہیں.ہر مضبوط کام جس کا نتیجہ عمدہ ہو اسے عرب صدق کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴) …حضرت ابراہیمؑ خدا کے بڑے پیارے بندوں میں تھے اور اپنی ذات میں کمالات کے جامع تھے.ہمیںتو ان کے والد کا نام بھی کسی صحیح روایت سے معلوم نہیں.پھر بھی ان کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ تمام یوروپ.تما م امریکہ.تمام مسلمان.تمام عرب.یہود.مجوسی ان کی عظمت کے قائل ہیں.کوئی بڑا ہی بد بخت ہو جو منکر ہو.بعض اولیاء و انبیاء کو عجیب مقبولیت ہے.یہ بھی خدا کی ایک شان ہے.سیّد عبدالقادر جیلانی ؒکو بُرا کہنے والے بہت کم ہیں.ہاں رافضی ہوں تو ہوں.سچ بولنا بڑا وصف ہے.یہ بڑا ہی کٹھن رستہ ہے.آٹھ پہر میں اس بات کی طرف بھی غور کرو.کہ تم نے کہاں تک سچ بولا ہے.میں ایمان رکھتا ہوں کہ جس نے زبان پر قابو پایا.اس نے بہت سے عیوب پر قابو پا لیا.نبی کے معنے خدا سے خبر پا کر اطلاع دینے والا اور بہت ہی بڑائی والا.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) ۴۳،۴۴.  اب: چچّا : شمس کی.چندر ماہ کی.مرکری کی پرستش کی جاتی ہے.پھر ان سے اتر کر ان ہیکلوں میں.: مسلمانوں میں بھی لوگ’’ یا شیخ عبدالقادرلِلّٰہ‘‘ پڑھتے ہیں

Page 72

یہ باتیں کچھ نفع نہیں پہنچاتیں.: ہر ایک طرح کی افراط و تفریط سے بچی ہوئی راہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴) ابراہیمؑ نے اپنے باپ کو کہا.اے پیارے باپ کیوں بُتوں کی پرستش کرتا ہے.وہ تو تمہاری دعاؤں کو سُنتے نہیں اور تمہاری حالت کو دیکھتے نہیں اور اگر سنتے اور دیکھتے بھی تو تمہاری کچھ بھی حاجت براری نہیں کر سکتے.اے میرے پیارے باپ! مجھے تو خدا پرستی کے فوائد کی سمجھ ہے.مجھے معلوم ہے کہ بُت پرستی ہمارے تمدنی.اخلاقی وغیرہ وغیرہ میں مضر ہے.مگر افسوس تجھے ان باتوں کی خبر نہیں پس تجھے چاہیئے.میرا کہا مان میں تجھے سیدھی راہ بتا دوں گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۸.۲۸۹) ۴۵،۴۶.   اے پیارے باپ نافرمان اور رحمت سے دور شیطان کی فرماں برداری مت کر.شیطان تو رحمن جیسے محسن کانافرمان ہے.میرے پیارے باپ بے ریب مجھے تو ڈر ہے کہ تجھے رحمان بھی عذاب دے اور تو شیطان کا ساتھی ہو جاوے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۹) : پہلے آدمی خود بدی کرتا ہے.تب خبیث روحیں ( شیطان) اس کے یارو آشنا بن جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴) ۴۷.  : سنگسار کرنا ترجمہ نہیں.بلکہ لَاَشْتُمَنَّکَ میں تجھے گالی دوں گا.یہاں جو ترجمہ لکھا ہے ٹھیک نہیں.کیونکہ یہ معنے صحابہ.تابعین.تبع تابعین نے نہیں کئے… (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۴)

Page 73

۴۸،۴۹.   ابراہیم نے کہا.تجھے بُرے اعتقاد سے سلامتی رہے.میری طرف سے تجھے دُکھ نہ پہنچے.میں تو بہرحال اپنے ربّ سے تیرے لئے معافی مانگوں گا.وہ مجھ پر مہربان ہے اور تم سے اور تمہارے بُتوں سے جنہیں تم خدا کے سوا پکارتے ہو.سب سے الگ ہوں اور صرف اپنے ربّ کو ہی پکارتا ہوں اور امید ہے کہ جس طرح تم بُتوں کو پکار کر پورے کامیاب نہیں ہوتے.یقینا میرا حال ایسا نہ ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۹.۲۹۰) : دیکھو کیا شستہ زبانی اور خوش بیانی ہے.باوجود مباحثہ کے ایک دوسرے کا ادب ملحوظ رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) ۵۰،۵۱.   : ملک شام میں چلے گئے.ان سے الگ ہو گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) پس جب ابراہیمؑ ان لوگوں سے اپنے بُت پرست باپ اور اپنی بُت پرست قوم اور ان کے بُتوں سے الگ ہوا تو اسے اﷲ تعالیٰ نے نبی بیٹا اسحٰقؑ جیسا اور نبی پوتا یعقوبؑ جیسا عطا فرمایا.اور ان لوگوں کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اتنے انعامات بخشے جن کے بیان کی حاجت نہیں.کیونکہ ابراہیمی خاندان کے برکات ظاہر ہیں.تمام دنیا کے لوگ ان کی مدح اور ثناء کرتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۰)

Page 74

چونکہ آپ نے خدا کیلئے ایسا کیا اس لئے اﷲ نے اس کے عوض میں فرمایایعنی حضرت اسحٰقؑ و حضرت یعقوبؑ ایسے برگزیدہ دئے اور سخت زبانی کے مقابل پر فرمایا.یعنی ان کا ذکرِ جمیل دنیا میں کر دیا.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) ۵۲. حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اولاد ابراہیم میں حضرت موسٰیؑ سے خصوصیت کے ساتھ مشابہت ہے.اس لئے ان کا ذکر خاص غور کے قابل ہے.قرآن مجید میں کئی جگہ اس مشابہت کا ذکر فرمایا.مثلاً (المزمل:۱۶) (الاحقاف : ۱۱)(اٰل عمران:۷۴) : اس کتاب( قرآن شریف) میں حضرت موسٰیؑ کا ذکر لوگوں کو سناؤ.اس مشابہت کا ذکر اس لئے فرمایا تا عیسائی و یہودی اپنے مانے ہوئے رسول حضرت موسٰیؑ کے معیارِ صداقت پر اس نبی کو پَرکھ لیں.: حضرت نبی کریمؐ کے اخلاص کا ذکر بھی ایک جگہ فرمایا ہے (النجم:۹،۱۰) عرب میں ایک رسم ہے.جو دو دوست بننا چاہتے ہیں تو عمائد کو جمع کر کے اپنی اپنی کمانیں ملاتے اور اس میں ایک تیر رکھتے.یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا.جو تمہارا دوست.ہمارا دوست.جو تمہارا دشمن وہ ہمارا دشمن.جنابِ الہٰی سے بھی تعلّقاتِ اخلاص ہوتے ہیں.چنانچہ ایسے مخلصین کیلئے خدا تعالیٰ حدیثِ قُدسی میں فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم.اگر تُو میری طرف چل کر آئے.تو میں دَوڑ کر آؤں.میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی مخلص دنیا میں بھی ایسی مشکلات میں پڑا ہو جن کا انجام اس کے حق میں بُرا ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴)

Page 75

۵۳. : بایُمن.برکت والی.: بلند مقام پر پہنچنے والا.محبت و پیار کی مخفی باتیں کیں.(اس قرآن مترجم ۱؎ پر ایک حاشیہ ہے اس کو میں نے کاٹ دیا ہے.کیونکہ اس مترجم کو یہ وہم ہوا ہے کہ کلام بغیر وساطت فرشتہ ہوئی.حالانکہ سب سے اعلیٰ وحی وہی ہے جو فرشتوں کے ساتھ ہو)نَا کا لفظ جب ہوتا ہے کہ فرشتے بھی ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴) ۵۴. : اخوّت خاص برکات کا موجب ہوتی ہے.جن کے بھائی نہیں ہوتے خواب میں ان کے بازو کٹے ہوئے ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے بعض فیضان جماعت و اخوّت ۲ؔ؎ کے ساتھ خاص ہیں کہ بغیر اس اخوّت کے وہ نازل ہی نہیں ہو سکتے.ہمارے حضرت صاحب بھی کئی مخلصین کو اخیؔکر کے لکھتے ہیں(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی۱۹۱۰ء) ۵۵،۵۶.   : جو وَادٍ غَیْرَذِیْ زَرْعٍ.بچنے کی امّید بھی نہ رکھتے تھے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱؎ جس سے آپ درس دے رہے تھے.(مرتّب) ۲؎ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍اپریل،۵؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۴)

Page 76

رکھتے تھے.(تشحہیذالاذہان جلد 8 ص۹ ،۴۶۶ ) : یہاں ایک روایت لکھی ہے.کہ ایک شخص نے ان سے کہا کہ میں آتا ہوں آپ یہاں ٹھہرو.آپ نے کہا.اچھا.ایک سال تک کھڑے رہے.یہ جھوٹی روایت ہے.کیا وہ نمازیں نہیں پڑھتے تھے.: ایک اور جگہ فرمایا ہے (طٰہٰ:۱۳۳) مطلب یہ ہے کہ قسم قسم کے پیرایوں میں کہتا ہی چلا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) ۵۷،۵۸.  : آپ کا دوسرا نام اخنوک ہے.حضرت نوحؑ سے پہلے ہوئے تھے.یہوداہ کے پہلے خط کے ۱۴ باب میں ان کا ذکر ہے.: ہم نے عظیم الشان رفعت (مرتبہ) دی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) ۵۹.    : فرماں برداری کیلئے گرپڑتے ہیں.ایک عجیب کہانی حضرت الیاسؑ کے متعلق لکھی ہے.کہ ملک الموت سے کہا کہ جان نکال کر دکھاؤ چنانچہ اس نے ایسا کیا.خود آپ بہشت میں گئے.پھر واپسی سے انکار کر دیا.ایسی کہانیاں یہودیوںکی شرارت سے غالباً اسلامی تفاسیر میں داخل ہوئی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) ۶۰.  پھر ان کے بعد ایسے جانشین پیدا ہوئے جنہوں نے عبادتِ الہٰی کو ترک کیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے.جلدی وہ سزا کو پہنچیں گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۹) خَلْفٌ: (ل کے سکون کے ساتھ) گندے پیچھے آنیوالے.خلف (ل کی فتح کیساتھ) نیک لوگ پیچھے آنے والے.غَيٌّ : جہنم کا نام ہے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) ۶۲.  : آنے والا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) ۶۴. : اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ ارضِ مقدّس کے مالک مسلمان ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) ۶۵،۶۶. 

Page 77

Page 78

  : اس کا فاعل ۱.مومن ہیں بہشت میں داخل ہونے کے وقت یا.۲.جبرائیل یا مرادمسلمانوں کا نزول ہے اس ملک میں.: عبادت پر استقلال کرو.ؔ : ہم نام.ولد.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۹؍مئی۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۵) حضرت جبرائیل سے ایک دفعہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا.تم ہر روز کیوں نہیں آتے.تو انہوں نے حسبِ حال یہ آیت پڑھ دی..اب بعض مفسرین نے اس سے یہ سمجھ کرکہ یہ خاص جبرائیل کیلئے ہی ہے.مشکلات میں پڑے ہیں.یہ طریق تفسیر ٹھیک نہیں.اس رکوع میں تو جنتیوں کا ذکر ہے.وہی کہتے ہیں کہ ہم جنت میں اﷲ کے حکم سے ہی پہنچے ہیں.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) ۶۷. : وہ انسان جو قیامت کا منکر ہے ایسا کہتا ہے.بعض انسان اپنے افعال سے ظاہر کرتے ہیں کہ مَر کر جِی اٹھنے کا خیال ان میں بہت کمزور ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) اگر کامل یقین ہو کہ فلاں بات کا یہ نتیجہ ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ انسان فکر مند نہ ہو.برسات آنے والی ہو تو سب کو لپائیوں کا فکر پیدا ہو جاتا ہے.پھر لوگ بیج بونے کی تیاریاں ( باوجود ان خوفوں کے کہ کھیتی شاید ہو یا نہ ہو پھر اسکے بعد اٹھانی یا کھانی نصیب ہو یا نہ ہو) کر لیتے ہیں.امتحان قریب ہو تو لائق سے لائق لڑکا کچھ نہ کچھ تیاری کر لیتا ہے.یہ اس لئے کہ اسے یقین ہوتا ہے.کل امتحان ضرور ہو گا.تو پھر اگر قیامت کا یقین پیدا ہو تو انسان کیوں گناہ اور لوگوں کی حق تلفیاں اور اکلِ مال بالباطل کرے.

Page 79

ایسے ایسے بُرے کام کر کے وہ زبانِ حال سے جتاتا ہے کہ اسے یوم الحساب کا یقین نہیں.اگر یقین ہو تو اس کے متعلق تیاری بھی کرے.اس کے بعد ایک دلیل بیان کرتا ہے کہ انسان کچھ نہ تھا.ہم نے اسے اپنی صفتِ ربوبیت کے ماتحت بتدریج اس حالت میں پہنچایا جو پورا ثبوت ہے اس بات کا کہ ہم اسے پھر اٹھائیں گے اور حسبِ اعمال جنت یا دوزخ میں پہنچائیں گے.اس کی تفصیل فرماتا ہے کہ متقیوں کو بچائیں گے اورظالموں کو دوزخ میں بھجوائیں گے.اس وقت معلوم ہو گا کہ یہ ظاہری دکھلاوے کا سازوسامان کہاں تک کسی کے کام آنے والا ہے یہاں تک کہ اس دنیا میں بھی یہ چیزیں ان کو حقیقی عزّت نہیں دے سکیں.ایک شخص نے مجھ پر اعتراص کیا کہ آپ کے قرآن میں نمرود.حضرت ابراہیم کے مقابل کا ذکر ہے.حالانکہ وہ کوئی شخص نہیں ہوا.میں نے کہا یہی تو اعجاز قرآنی ہے کہ اس مدِّ مقابل کا نام نہیں لیا.گویا بتلا دیا کہ یہ ایسا بے نشان کیاجاوے گا.کہ ایک زمانہ میں اس کی ہستی سے بھی انکار کیا جائے گا.اس کے خلاف حضرت ابراہیمؑ کو دیکھو کہ مجوس.عیسائی.یہودی.مسلمان.سب ہی اس کا نام عزّت سے لیتے ہیں.اور اس کی اولاد تمام رُوئے زمین پر موجود ہے.حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا نامِ نامی پانچ بار تو چھتوں پر بآوازِ بلند پکارا جاتا ہے اور پھر کس عزّت کے ساتھ.مگر کیا کوئی عتبہ، ربیعہ، شیبہ، ابوجہل اور پھر امام حسینؓ کے مقابل یزید کی اولاد ہونے کی طرف بھی اپنے تئیں منسوب کرتا ہے؟ یاد رکھو! آرام کی زندگی کیلئے یہ چالاکیاں،یہ سازو سامان کی حِرص مفید نہیں.بلکہ قرآن مجید کی سچی فرمانبرداری کرو.میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے.جس باغ میں مَیں رہتا ہوں اگر لوگوں کو خبر ہو جاوے تو مجھے بعض دفعہ خیال گزرتا ہے کہ میرے گھر سے قرآن نکال کر لے جاویں.مسلمانوں کے پاس ایسی مقدّس کتاب ہو اور پھر وہ تکالیف میں مشکلات میں پھنسے ہوں.ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا.(بدر ۷؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ۱) ۶۸،۶۹.  : وہ رب جس نے تم کو عدم سے وجود دیا.پھر نیست کر کے وجود میں لا سکتا ہے.ربوبیتِ الہٰی کا تقاضا ہے کہ جو ناقص رہ گیا ہے.وہ کامل

Page 80

اور جو کامل ہو گیا.وہ ترقی کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) : اس سے بھی ثابت ہے کہ الانسان سے مراد وہی انسان ہیں جو منکرانِ قیامت و خدا ہیں.دنیا میں بھی کوئی بدکار سُکھی نہیں دیکھا گیا گویا یہاں بھی یہ گروہ ہیہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) ۷۰. : متمرد : سرکش، احکام نہ ماننے والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء) ۷۲،۷۳.  : مِنْکُمْکے مخاطب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں اذَ امَامِتُّ… الخ یہ غلط ہے کہ متّقی بھی دوزخ میں جائیں گے بلکہ صرف کفّار جائیں گے.جیسا کہ ایک اور جگہ فرمایا ہے(مریم:۸۶،۸۷) یہاں تمیز کر دی.پھر فرمایا. (الانبیاء:۱۰۲،۱۰۳) یعنی متقی تو دوزخ کی بھنبھناہٹ تک نہ سنیں گے.سے یہ مراد ہے.کہ اے منکرانِ قیامت! تم سب دوزخ میں جاؤ گے.سے یہ مطلب ہے.کہ پھر ہم تمہیں ایک اور بات بتائیں.وہ یہ کہ متّقی نجات پائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) ۷۵.

Page 81

: گھر کا اسباب.۸۰. : ہم محفوظ رہیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵) ۸۴. کچھ علم انسان آنکھ کے ذریعے سے حاصل کرتا ہے.کچھ کان کے ذریعے کچھ ناک کے ذریعے ، کچھ لمس کے ذریعے لیکن ایک علم ان حواسِ خمسہ کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حاصل ہوتا ہے جو بہت ضروری ہے.اور جس کی تڑپ انسان کی فطرت میں ہے.مگر حواس ظاہری اس کے حصول کی راہ میں رہ جاتے ہیں.انبیاء نے ایسے حواس پائے ہیں جو دوسری دنیا کے حالات سے ہمیں آگاہ کریں.شیاطین ان باتوں کو نہیں مانتے اور دوسروں کو بھی اس پاک گروہ کے خلاف بھڑکاتے ہیں.: کیا تم یہ بھی جانتے ہو.: اُکساتے.اُبھارتے.اغراء.: پہلے انسان اپنے اندر کفر کی حالت پیدا کرتا ہے.پھر شیطان اس پر آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۵.۱۶۶) ۸۶،۸۷.  : جیسا کہ بادشاہ کے پاس ایلچی آتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۸۸.

Page 82

: دوسرے مقام پر فرماتا ہے.کہ ۲۵ پارہ سورہ زخرف اخیر رکوع میں (الزخرف:۸۷) یعنی وہ شفیع ہو گا.جو آج کل حق کی گواہی دے رہا ہے.اور اسے سب جانتے ہیں یعنی سیّدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۸۹،۹۰. : پنجابی لفظ ’’ایڈا‘‘ غالباً اسی سے نکلا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۹۱.  قریب ہے کہ آسمان چُور چُور ہو جائیں اور زمین شَق ہو جائے اور پہاڑ ذرّہ ذرّہ ہو کر گر پڑیں کہ وہ رحمان کا بیٹا پکارتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱) : یہ پیشگوئی ہے اور ایسے زلازل اس زمانہ میں یسوع پرستوں کے جزائر پر بالخصوص آئے.: سخت.آسمان سے وہ عذاب ہے جو اٹل ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) اسی طرح مشنری عیسائی بڑی بداخلاق قوم ہے.کوئی خُلق ان میں ہے ہی نہیں.ایک شخص نے کہا.ان کی تعلیم میں تو اخلاق ہے.اور ایک نے کہا.ان میں بڑا خُلق ہے.اب کہنے والے نادان ہیں.ان کے ہاں ایک عقیدہ ہے.نبی معصوم کا جس کے یہ معنے ہیں ایک ہی شخص دنیا میں ہر عیب سے پاک ہے.باقی آدم سے لے کراس وقت کے کُل انسان گنہگار اور بدکارہیں.ان لوگوں نے یہاں تک شوخی سے کام لیا ہے کہ حضرت آدمؑ کے عیوب بیان کیے.پھر حضرت نوحؑ کے.حضرت ابراہیمؑ کے.حضرت موسٰیؑ

Page 83

الغرض جس قدر انبیاء اور راست بازپاک انسان گزرے ہیں.ان کے ذمّہ چند عیوب لگائے ہیں.پھر ہماری سرکار ہے.احمد مختار صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تو ان کو خاص نقار ہے اور دھت ہے ان کو گالیاں دینے کی.باوجود اس گندہ د ہنی کے پھر بھی ایسے لوگوں کو کوئی بڑے اخلاق والا کہتا ہے تو اس کی غیرتِ دینی پر افسوس!ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے.اور تم کو آ کر کہتا ہے.میاں تم بڑے اچھّے بڑے ایمان دار.آئیے تشریف رکھئے.باپ تمہارا بڑا ڈوم، بھڑوا، کنجر، بڑاحرام زادہ، سؤر، ڈاکو بدمعاش تھا.تم بڑے اچھے آدمی ہو.اور ساتھ ساتھ خاطرداری کرتا جائے.تو کیا تم اس کے اخلاق کی تعریف کرو گے؟ تم جہان کے ہادیوں کو جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے.اور میرا تو اعتقاد ہے کہ ان کو کوئی نہیں گِن سکتا.بدکار، گنہگار کہنے والا، ایک شخص کی مزوّرانہ خاطرداری سے خوش اخلاق کہلا سکتا ہے؟ اﷲ تعالیٰ کے برگزیدوں کی توہتک کرتے ہیں اور تم ان کی نرمی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرو.حد درجے کی بے غیرتی ہے؟ یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ شریعت کی کتابیں لعنت ہیں.پرانی چادر ہیں.ان کتابوں کو جو حضرت ربّ العزّت سے خلقت کی ہدایت کیلئے آئیں.لعنت کہنا کسی خوش اخلاقی کا کام ہوسکتا ہے؟ دیکھو گلتیوں کا خط کہ اسی میں شریعت کو لعنت لکھا ہے.پھر خدا سے بھی نہیں ٹلے.کہتے ہیں.اس کا بیٹا ہے.( ) پھر اس بیٹے پر اس غضب کی توجہ کی ہے کہ اپنی دعائیں بھی اسی سے مانگتے ہیں.بیٹے میں ایمان لانے کے بدوں کسی کو نجات نہیں.خدا کِسی کو علم نہیں بخش سکتا.یہ تو رُوح القدس کا کام ہے.نہ اﷲ تعالیٰ کا.غرض اس درجہ بداخلاقی سے کام لینے والوں کو خوش خُلق کہنا محض اس بناء پر کہ جب کوئی ان کے پاس گیا تو مشنری نے انجیل دے دی.کسی کو روپیہ دے دیا.کسی کی دعوت کر دی.حد درجے کی بے غیرتی ہے.ان ظالموں نے ہمارے سب ہادیوں کو بُرا کہا.تمام کتبِ الہٰیہ کو بُرا کہا.جناب الہٰی کے اسماء صفات کو بُرا کہا.اسے سمیع الدعاء.علم دینے والا نہ سمجھا.پھر اخلاق والے بنے ہیں توبہ! توبہ! ان کے کفّارہ کا اُلّو ہی سیدھا نہیں ہوتا جب تک یہ تمام جہان کے راست بازوںکو اور تمام انسانوں کو گنہگاربدکار اور لعنتی نہ کہہ لیں.ان میں خوش اخلاقی کہاں سے آ گئی.(الفضل جلد نمبر۱ نمبر۶ ۲۳؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۳ کالم نمبر۱)

Page 84

۹۲ تا ۹۴.  اور رحمن کو سزاوار نہیں کہ بیٹا اختیار کرے کیونکہ سب جو آسمان و زمین میں ہیں رحمان کے حضور میںبندہ بن کر آنے والے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱) : یہ بات صفتِ رحیمیّت کے مخالف ہے کہ اس کا کوئی ولد ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۹۷.  : ہم نے دیکھا ہے.کہ خدا کے لئے جب ہم کسی کو چھوڑتے ہیں تو اﷲ بہتر سے بہتر دوست دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۹۹.  : پاؤں کی آواز.صَوْتُ الرِّجْلِ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء)

Page 85

سُوْرَۃُ طٰہٰ مَکِّیَّۃٌ  ۲. : عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جس کو کسی بات کی دَھت لگ رہی ہو… عربی لٹریچر میں محبوبوں کے حسن و جمال.اپنے اظہارِ کمال.جتھّے کی طاقت.دشمن کی ہلاکت کی نسبت بہت کچھ پایا جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں اﷲ کی عظمت.اﷲ کی جبروت.اﷲ کے عجائباتِ قدرت کا بیان ہوتا ہے.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) مومن کیلئے تسلّی کی بڑی ضرورت ہے اور تسلّی میں نمونہ سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں.صحابہ کرامؓ اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ہر طرف سے دشمن میں گھِرے ہوئے تھے.اس حالت میں ان کو حضرت موسٰیؑ کا بیان سنایا جاتا ہے کہ کیونکر وہ دشمنوں سے محفوظ رہے اور آخر کار مظفر و منصور ہوئے.اس رکوع میں واعظ کے سہارے کا ذکر ہے.ٰ جس کو کسی کام کی دھت لگی ہوئی ہو کہ ضرور ہو جائے اور اس میں وہ کامیاب ہو توکہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) اس سورۃ میں قبولیتِ دعا کی تائید ہے.ٰ : او بڑے آدمی.او حریص (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۶) ۳ تا ۶.  

Page 86

: تُو اور تیرے ساتھی ناکام رہیں.ایسا نہ ہو گا.: یاد دلانے والا.نصیحت.جو کچھ فطرت میں ہے اسے یاد دلاتا.: وہ اپنے تختِ سلطنت پر بے عیب ہو کر قائم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) اِ: اعتدل.حکومت میں نقص نہیں.بَلَغَ اَشُدَّہٗ :کمال کو پہنچ گیا.عَلٰی ( سب پر عالی ہے) ظَھَرَ: ( غالب ہے) اِسْتَقَرَّ(بادشاہت میں تزلزل نہیں) اِنْتَھٰی(صفات میں یکتا) (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۶.۴۶۷) ۸،۹.  سِرّ وہ ہے جو اس وقت ہمارے اندر ہے اور وہ ہے جو آئندہ حالات میں انسان کے ارادے ہو سکتے ہیں.اور جو خود اس شخص کو بھی معلوم نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) اﷲ تعالیٰ دِلوں کے بھید جانتا ہے اور پھر مثلاً ایک سال بعد میرے دل میں جو خیال آنے والا ہے اسے بھی جانتا ہے  (بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) : قرآن میں اﷲ کیلئے صفات کا لفظ کہیں نہیں آیا.اسماء ہی فرمایا.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۱۰،۱۱. 

Page 87

کیا موسٰیؑ کی بات تجھے پہنچی.جب اس نے آگ دیکھی.پس اپنے اہل کو کہا.ٹھہر جاؤ.میں نے آگ دیکھی ہے تاکہ میں وہاں سے انگارے لے آؤں یا آگ پر کوئی راہ بتانے والا مجھے مل جاوے.پس جب اس کے پاس آیا.پکارا گیا.اے موسٰی یقینا مَیں تیرا رب ہوں… اس آیت سے صاف واضح ہے کہ آگ خدا نہیں اور نہ آگ سے ندا آئی.بلکہ نِدا کرنے والے نے تو یہ کہا کہ ـــ…(النمل:۹)یعنی آگ میں اور اس کے ارد گرد والے کو برکت دی گئی.اور اﷲ تعالیٰ تو جہانوں کا اور ان سب اشیاء کا جن سے اسکا علم آتا ہے.جن میں آگ بھی ایک ہے.پالنے والا ہے… جناب موسیٰ علیہ السلام نے آگ سے باتیں نہیں کیں.بلکہ اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا.موسٰی علیہ السلام نے صرف اﷲ تعالیٰ کی آواز سُنی.محیط الکل اﷲ تعالیٰ نے ہرگز آگ میں حلول نہیں فرمایا… اسی قصّہ میں دوسری جگہ فرمایا ہے.  (القصص: ۳۰) میں نے آگ دیکھی ہے تاکہ میں تمہارے پاس اُس کی کوئی خبر لاؤں یا آگ کی کوئی چنگاری لاؤں تاکہ تم تاپو.آیات کا منشاء صاف ظاہر ہے.اصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مصر جاتے راستہ میں رات کے وقت آگ دکھائی دی.اور آگ کے دیکھنے کے بعد ان کو وہ خواہش پیدا ہوئی جو ہمیشہ سمجھدار اور عقل مند مسافروں کو پیدا ہوا کرتی ہے.راستہ میں آگ جلانا پہاڑی ملکوں کا عام دستور ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس سفر میں رات کے وقت سردی کا موسم پیش آیا.اس پر راستہ بھول گئے.دُور سے آگ کو دیکھا.اسے دیکھ کر ساتھ والوں کو فرمایا.تم لوگ ٹھہرو.میں تمہارے لئے آگ سُلگا لاتا ہوں.تاکہ تم اسے سردی میں تاپو.اور وہاں جا کر کسی سے راستہ کا پتہ بھی لوں گا… قرآن کریم میں صاف لکھا ہے آگ اﷲ تعالیٰ کی فرماں بردار اور اس کے حکم کے ماتحت ہے اور یہ بھی قرآن میں لکھا ہے کہ مخلوق کی عبادت جائز نہیں غور کرو.(الانبیاء:۷۰).. (الواقعہ: ۷۲ تا۷۴)

Page 88

اور مخلوق کی نسبت حکم ہے.   (حٰم ٓ السجدۃ:۳۸) …سورۃ قصص کی اس آیت سے جس میں یہ قصّہ مندرج ہے.صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آواز جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سنا تھا.آگ سے نہیں آئی.بلکہ ایک درخت کی طرف سے وہ آوا ز سنائی دی.چنانچہ اس میں فرمایا ہے.  (القصص:۳۱) …اگر ہم مان لیں حضرت موسیٰ علیہ السَّلام نے آگ سے آواز سُنی مگر یہ تو پھر بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم مکذّب کی طرح کہیں آواز دینے والی خود آگ ہی تھی… آگ کا غیر ناطق.غیرمتکلّم جُز ہونا صاف گواہی دیتا ہے کہ وہ کلام آگ کا نہ تھا بلکہ کسی اَور کا کلام تھا… سنو.ملہم کو جب الہٰی آواز کان میں پڑے گی تو ضرور ہے کہ اگر وہ ملہم کسی موجود مخلوق کے سامنے کھڑا ہے.تو اُسی چیز سے یا ملہم کے قلب سے اس کو وہ آواز سنائی دے گی.اس میں شبہ ہی کیا ہے ؟ مشاہدہ فطرت سے عیاں ہے.پر دیکھنے والی آنکھیں بھی ہوں.اگر ہم مان لیں کہ آگ سے وہ آواز سنائی دی.پھر بھی وہ آواز آگ کی کیسے ہو سکتی ہے.مثلاً ہم دیوار یا کسی جڑھ پدارتھ کے پاس ایسے جنگل میں جہاں کوئی بولنے والا نہ ہو.کوئی کلام سُنیں.تو کیا ہم یہ کہہ دیں گے کہ دیوار بول رہی ہے.یہ یقینی امر ہے.کہ جو آگ جناب موسیٰ علیہ السلام نے دیکھی تھی وہ عنصری آگ نہ تھی.بلکہ عالم مثال کی ایک کیفیت تھی اور جناب موسٰی علیہ السلام کی کشفی آنکھ نے اُسی نور الانوار کی زبردست تجلّی کو دیکھا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۵۱ تا۱۵۵)  : شریعت : اس آگ پر جو لوگ ہیں.شاید وہ میری راہنمائی کریں.جب ہم پُرانی تاریخ دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب کبھی کسی کو مقابلہ کرنا منظور ہوتا.تو وہ مہمانی کرتا اور اپنے دوستوں کو مدعو کر کے اپنے خطرے سے آگاہ کرتا.دوسرا طریق یہ ہے کہ پہاڑیوں پر بہت سی آگ جلا دیتے ع میانِ دوکس جنگ چوں آتش است

Page 89

پھر بات بڑھی تو بارود وغیرہ میںبھی آگ ہی ہے.پھر رسولوں کے اعداء کیلئے جہنم آگ ہی ہے.حضرت موسیٰ کو ایک تجلّی ہوئی.جس کا یہ معنٰی تھا کہ تم کو اور تمہاری قوم کو کچھ لڑائیاں پیش آئیں گی اور یہ قصّہ نبی کریمؐ کو سنایا کہ آپ کو بھی آگ (جنگ) سے واسطہ پڑے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) موسیٰ کے معنے جس سے ہمدردی کی جائے.اسی واسطے اس کے ساتھ ہمدردی کرنے والے کو آسیہ کہا گیا ہے.… امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو مخالفت و مقابلہ کا پیش آنا ضروری ہے اور تمام دنیا میں ایک جنگ ہے.مچھلیوں کے حالات پڑھو.پرندوں پر نظر کرو.کس طرح ایک دوسرے کو شکار کرتے ہیں.انسان کے پیٹ میں روٹی نہیں پہنچتی.جب تک کئی جنگیں نہ ہو لیں.حضرت موسیٰ کو آگ دکھائی گئی جس میں یہ اشارہ تھا کہ جنگوں کے بغیر کامیابی نہ ہو گی.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جو رحمۃٌ للّعالمین تھے.جنہوں نے تیرہ برس تک بڑے ضبط و استقلال کے ساتھ صبر کیا.ان کو بھی سنایا گیا کہ آپ کو جنگ کرنے پڑیں گے.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۱۳. : بعض لوگوں نے یہ مراد لی ہے کہ فرمایا کہ جوتی اتار دو.اگر جوتی پاک بھی ہوتی ہے.اس کا جواب دیاہے کہ گدھے کے چمڑے کی تھی.یہ بات صحیح معلوم نہیں ہوتی.صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ حالت کشفی تھی.نعلین سے بیوی اور بچّے مراد ہیں.کہ اس وقت ہم سے ہم کلامی ہوتی ہے گویا فرمایا بیوی بچّے کا خیال چھوڑ کر بالکل ہماری طرف آ جاؤ.چنانچہ اسی محاورے کے مطابق روحانی نفسانی تعلقات کے بارے میں ایک کتاب خلع النعلین لکھی گئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۱۶.

Page 90

تحقیق وہ گھڑی آنے والی ہے.قریب ہے.میں اسے ظاہر کردوں.تو کہہ ہر جی اپنے کئے کا بدلہ پائے.یہ معنے بالکل صاف اور صحیح ہیں.ان میں کسی قسم کا اخفا نہیں ہے.اور نہ ان معنوں پر کچھ اعتراض ہو سکتا ہے.اگر کوئی کہے  کا مادہ ہے.خفی ؔ اس کے معنے ظاہر کروں کیسے ہوئے تو اُسے زبانِ عرب میں غور کرنا چاہیئے.حقیقت یہ ہے کہ خفی ؔکالفظ متضاد معانی رکھتا ہے.اب خفی بمعنی ظاہر ہوا کا محاورہ سنو.خَفِیَ الْبَرْقُ خَفْوًا و خُفْوًا اَیْ لَمَعَ یعنی خَفِیَ الْبَرْقُ کے معنے ہیں بجلی چمکی.خَفِیَ الشَّیْئُ اَیْ ظَھَرَ یعنی چیز ظاہر ہوئی.خَفِیَ الْمَطَرُ النَّافِقًا یعنی مینہ نے چوہے کے چھُپے بِل کو ظاہر کر دیا.اگر خفی بمعنی چھُپاکے لیں.تو بھی وہی ترجمہ جو میں نے کیا ہے صحیح ہے کیونکہ اُخفِیَ مزید علیہ مجرّد مادۂ خفی ؔکاہے.اور اخفی ؔ افعال کا باب ہے جو کبھی سلب کے معنی دیتا ہے.یعنی مادۂ مجرّد کے معنی کو دور کر دینا.دیکھو اَشْکَیْتُ میں نے شکوہ دُور کیا.اَشْکَلْتُ میں نے مشکل کو دور کیا.طَاقَ یَطِیْقُ مُجَرْدًا بمعنی برداشت کرتا ہے.اوراَطَاقَ یُطِیْقُ مَزِیْدًا بمعنی برداشت نہیں کرتا.اسی طرح خَفَیِکے معنے ہیں.چھپا.اَخْفٰی ماضی کے معنی ہیں ظاہر کیا.اوراُخْفِیَ مضارع کے معنی ہیں ظاہر کروں گا.ایک اور دلیل جو نہایت صفائی سے اس ترجمے کے صحت پر دلالت کرتی ہے یہ ہے کے معنے ہیں ’’ میں ارادہ کرتا ہوں‘‘ قرآن میں دوسری جگہ بھی یہ محاورہ موجود ہے (سیپارہ ۱۳.سورہ یوسف:۷۷)یعنی ایسا ہی ہم نے یوسف کیلئے ارادہ کیا.اور عرب کا محاورہ ہے لَا اَفْعَلُ وَ لَا اَکَادُ.نہ میں کرتا ہوں اور نہ میرا ارادہ ہے پس  کا ترجمہ ہوا.میں ارادہ کرتا ہوں اُسے ظاہر کروں.( فصل الخطاب (طبع ثانی) حصّہ اوّل صفحہ۱۴۲ نیز بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء) : ایک پادری نے اخفٰی کے معنے چھپانے کے لے کر ایک مولوی پراعتراض کیا ہوا تھا.میں بھی وہاں پہنچا.میں نے یہ ترجمہ کیا.قریب وہ زمانہ ہے کہ اس کے خفاء کو ہم دور کر دیں.خفی ؔکے معنی چھپنے کے ہیں اخفٰی کے معنے خفا دور کر نے کے ہیں.(باب افعال سے جو بمعنے سلب آتا ہے) جیسا اَخْفَی الْبَرْقُ لَمْعًا.حضرت موسیٰ کو جب علم حاصل ہوا کہ لڑائی ہو گی.تو اس کی فکر پڑی.خدا تعالیٰ اس میں کامیابی کی راہ بتاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۱۹.

Page 91

  : محبوب سے بات کرنے میں لذّت حاصل ہوتی ہے.اس لئے تطویل کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ کے حق میں فرمایا.ہم تجھے کُندن بناتے رہے… انبیاء کو بہت مجاہدات کرنے پڑتے ہیں.پہلے شہزادگی کی حالت میں پرورش پائی.پھر بیابان میں ایک بزرگ کی بکریاں چرانے لگے.میرے ایک استاد تھے عبدالقیوم.وہ فرمایا کرتے کہ پہاڑوں میں بکریاں چرانا بڑا مشکل کام ہے مضبوط لٹھ رکھنا پڑتا ہے جو شیر اور ریچھ کا مقابلہ بھی کرے.پھر بکریوں کو بھی ہانکنا پڑتا ہے.گویا ایسا آدمی چاہیئے جو گرم بھی ہو اور نرم بھی.(بدر ۲۴؍ اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۲۰. : یہ سب کشفی واقعہ ہے.گویا یہ دکھایا کہ خدا تعالیٰ تمہیں ایک جماعت دے گا.جو تیرے دشمن کی ہلاکت کا موجب ہو گی.وہ ایسی مطیع ہو گی جیسے تیری لاٹھی اور وہ ایسی خونخوار ہو گی جیسے یہ سانپ.اسلام کو بھی سانپ سے تشبیہ دی اور آپ کے قریہ کو َتاکُلُ الْقُرٰی فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۲۳.  : حضرت موسیٰ کو فرماتا اور نبی کریم ؐ کو سمجھاتا ہے کہ تیری بغل میں بھی ایک کتاب ہو گی جو بالکل بے عیب اور نورِ مبین ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶) ۲۵.

Page 92

۲۶ تا ۳۵.  اے میرے ربّ میرے سینے کو کھول دے اور میرا امر میرے لئے آسان کر دے اور میری زبان کی گرہ کھول کہ میری بات ( تبلیغ احکامِ الہٰی ) کو سمجھ لیں.اور میرے خاندان سے میرے بھائی ہارون کو میرا بوجھ اٹھانے والا بنا.اس سے میری پیٹھ کو تقویت دے اور میرے معاملہ میں اسے ساجھی بنا تو کہ ہم مل کر تیرے نام کی تقدیس کریں اور تجھے بہت یاد کریں.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۶۹) : شرح صدریہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے احکام کی فرماں برداری کیلئے دل تیار ہو جاوے.جس کو انشراح صدر ہوتا ہے.۱.اﷲ پر ایمان ہوتا ہے.۲.ذکرِ الہٰی کرتا ہے ۳.بہادر ہوتا ہے ۴.آنکھ،زبان،اعضاء کسی امرِ لغو کا مرتکب نہیں ہوتا ۵.اﷲ کی طرف جھکا رہتا ہے ۶.مخلوق سے احسان کرتا ہے ۷.دانا ہوتا ہے ۸.عجز اور کسل کا اس میں نام نہیں ہوتا ۹.متوکّل علی اﷲ ہوتا ہے ۱۰.سعی والا ہوتا ہے.مومن کو چاہیئے کہ: ا.ہدایت کا علم سیکھے اور سکھائے ب.شبہات کو دلائل.دعا اور تدبیر سے دور کرے.ج.خواہشوں اور شہوتوں میں شیطان کا مقابلہ کرے.د.زبان ، جان، مال سے اﷲ کے دشمنوں کا مقابلہ کرے.: عُقْدَۃ اللّسَان کلام میں روانگی نہ ہونے کا نام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۶.۱۶۷)

Page 93

: قبولیتِ دعا کا ذکر جو اس سورۃ کا منشاء ہے.موسٰیؑ مانگتے ہیں نبی کریمؐ کو فرمایا اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَک.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) ۴۱.    : تجھے ہمیشہ مصفّا بناتے رہیں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) اور ہم نے تیرا خوب امتحان لیا (نورالدّین طبع سوم صفحہ۸۰) ۴۵. : کیونکہ اس کو بادشاہ بھی میں نے ہی بنایا ہے.پس اس کے شاہی مزاج اور درباری قوانین کا لحاظ رکھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) : حفظِ مراتب ضروری ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) اﷲ تعالیٰ نے ارشاد کر کے حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو ہدایت فرمائی کہ ’’ فرعون کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرنا‘‘ یہ امر قابلِ غور ہے.جن لوگوں کو خدا کی باریک در باریک مصلحتوں نے امیر بنایا ہوتا ہے ان کے مراتب کا لحاظ کرناچاہیئے.بعض نادان کہتے ہیں.ہم کیوں کسی کی خوشامد کریں مگر جب خدا نے کسی کو خوشامد کیلئے بنایا تو بندے کی کیا ہستی کہ اس کی مخالفت کرے.ہمارے ضلع میں ایک صوفی چشتی تھے.حضرت شمس الدّین.کسی نےان کی نسبت کہا کہ فقیر نہیں.میں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ وہاں ڈپٹی یا تحصیلدار آتے ہیں تو مرغ پکتا ہے اور ہمارے لئے دال.میں نے اسے کہا کہ خدا تعالیٰ آپ کو گھر میں کیا دیتا ہے.کہا.روکھی سوکھی روٹی.اور ان تحصیلداروں اور ڈپٹیوں کو کیا دیتا

Page 94

ہے.کہا.گوشت و پلاؤ.تب میں نے اسے کہا کہ پھر حضرت خواجہ صاحب پر اعتراض کرنے سے پہلے خدا پر اعتراض کرو گے کہ اس جناب میں لحاظ داری ہے.ایک دفعہ ایک بڑا معزّز قوم و عہدے کے اعتبار سے یہاں آیا اور اس نے مجھے کہا کہ یہاں بڑی لحاظ داریاں چلتی ہیں.میں نے کہا.کیونکر.کہا.دیکھئے کل مولوی عبدالکریم صاحب کیلئے حضرت صاحب نے کھانے کے متعلق کسی قدر تاکید فرمائی ہے.میں نے کہا.پھر لحاظ داری کیا ہوئی؟ لحاظ داری ہوتی تو آپ جو اُن سے باعتبار قوم و عہدہ معزز ہیں.آپ کیلئے کوئی خاص اہتمام ہوتا.اس طرح اسے سمجھا کر میں نے پھر دکھایا کہ دیکھو.گھاس پر ہم دونوں کا پاؤں پڑ رہا ہے مگر اس بڑ کی چوٹی پر نہیں.خدا نے ایک کو بڑا بنایا.ایک کو چھوٹا… خدا تمہیں نیک مجلس عطا کرے اور عاقبت اندیشی سے گفتگو کرنے کا طرز آوے.لوگوں سے ان کے قدر کے مطابق بات کرو.حضرت عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ اَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْ نُنَرِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ.جب کوئی بات کرنے والا بیہودگی کی راہ اختیار کرے تو تم ایسی تدبیر کرو کہ وہ بیہودگی چھوڑ دے.(بدر ۲۴ ؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۴۷. معیت متشابہ ہے محکم نہیں.کیونکہ باعتبار ذات کے تو اﷲ تعالیٰ فرعونؔ ہامان کے ساتھ بھی ہے پھر ایک اور مقام ہے.جب حضرت موسیٰ کے ساتھیوں نے کہا.ہم پکڑے گئے تو حضرت بولے.(الشّعرآء:۶۳)دیکھئے یہاں بنی اسرائیل کے ساتھ بھی معیّت نہ رکھی.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۴۸. سو جاؤ تم دونوں اس کے پاس اور تم دونوں کہو کہ ہم دونوں تیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے

Page 95

ہیں اور تو بھیج ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو اور ان کو دُکھ نہ دے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۵۷) : اس آیت کا ذکر ساتھ ہی کر دیا ہے.کہ  سلامتی کا نزول اسی پر ہے جو ہدایت کے تابع ہوا.اور عذاب اس پر جس نے حق کو جھٹلایا اور نہ پھرا.آخر فرعون عذاب میں گرفتار ہو کر غرق ہوا.اور حضرت موسٰیؑ سلامت رہے.جس سے دنیا پر ثابت ہو گیا کہ ہدایت پر کون ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۵۲. بات کو ٹال کر دوسری طرف لے جانے کیلئے کہا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) ۵۴.  : پھر نکالا ہم نے اس سے بھانت بھانت سبزہ.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۳۵) ۵۶. : اس میں حشر اجساد کا اشارہ فرمایا کیونکہ اس سے پہلے  بھی فرمایا.ایک اور جگہ فرمایا  (البقرۃ:۳۷) یہ ایک بحث ہے کہ انسان جب مر جاتا ہے تو وہ چیز جو اس کے اندر رہتی ہے وہ کہاں جاتی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اعمال کے مطابق جسم و مکان ہو گا.بعض کی نسبت عرش کی قندیلوں میں ہونا لکھا ہے.

Page 96

قبر اس مکان کا نام ہے جہاں پر نفس بعدالحیات اپنے اعمال کے مطابق رہتا ہے. (عبس:۲۲)آیت سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ وہ کون سی قبر ہے جس میں میّت کو حسبِ اعمال آرام یا دُکھ پہنچتا ہے.پس اس قسم کے اعتراض کہ ہمیں قبر میں بچھو.سانپ کاٹنے والے اور آگ نظر نہیں آتی وغیرھا حل ہو جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) انیس سو سال سے حضرت عیسٰیؑ ان لوگوں کے زعم میں آسمان پر رہتے ہیں اور چند سالوں کے لئے یہاں آئے تو ان کا مستقرتو آسمان ہی ٹھہرا حالانکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے(البقرۃ:۳۷) (بدر ۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۵۷ تا ۵۹.   : تکذیبِ رسل بڑا بھاری جرم ہے فرماتا ہے.(العنکبوت:۶۹) : انکار بہت سے خطرناک جرموں کی اصل ہے.ابلیس کی نسبت فرمایا.(البقرۃ:۳۵) انسان جب تکذیب کے بعد بدظنی میں مبتلا ہو تا ہے تو انکار پر کمر باندھتا ہے.: یہ فرعون کی چالاکی تھی.الزامِ بغاوت لگا کر اپنی تمام قوم کو حضرت موسٰیؑ کے خلاف بھڑکا دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) بدظنی انسان کو ہلاک کر دیتی ہے.اس بات کی تمیز کہ جو ظن میں نے کیا ہے بَد ہے یا نیک یہ بھی خدا کے فضل پر موقوف ہے.اﷲ تعالیٰ مومن کو ایک فراست بخشتا ہے.فرعون کو بدظنی نے ہلاک کیا.اس نے بدظنی کی کہ حضرت موسیٰ حکومت کے خواہشمند ہیں.حالانکہ مجھے جیسا ایک اور ایک دو پر یقین ہے.ایسا ہی اس بات پر کہ انبیاء اولیاء خلفاء اَئمہ کے دل میں قطعًا ریاست، دولت، حکومت

Page 97

کا خیال نہیں ہوتا.اور یہ بات چونکہ مجھ پر گزری ہے.اس لئے اسے خوب سمجھتا ہوں.حضرت موسیٰ کو جنابِ الہٰی میں سے ارشاد ہوتا ہے کہ تم کو رسالت دی گئی.فرعون کی طرف جاؤ.مگر آپ ہیں عرض کیے جاتے ہیںکہ میرا بھائی ہارون (القصص:۳۵) اگر قلب کے کسی گوشہ میں ذرا بھی نبی بننے کی خواہش ہوتی تو ایسا کبھی نہ فرماتے.(بدر۲۴؍اگست ۱۹۱۱ء صفحہ۴) : وہ مکان میرے اور آپ کیلئے مساوات کا رنگ رکھتا ہو.یعنی میری وجاہت اور آپ کی غربت کا فرق نہ رہے.یہ بات فرعون کی فراخ حوصلگی پر دال ہے.ایک طرف اپنی قوم کو بھڑکاتا ہے اور دوسری طرف یہ منصفانہ بات! مسلمانوں کو مباحثات میں ایسی باتوں کا خیال چاہیئے مگر افسوس کہ وہ بہت تنگ دل ہیں حالانکہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم نے نجران کے عیسائیوں کو بھی مسجد میں گرجا کر لینے کی اجازت دی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۶۰،۶۱.  : حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی مکّہ کو ماہِ رمضان میں عید کے قریب ضحٰی کے وقت فتح کیا.اور مکّہ کی نسبت (الحج:۲۶) آ چکا ہے.یہ قصّہ گویا پیشگوئی کے رنگ میں ہے.: ہر قسم کی تدابیر جو اپنی فتح مندی کیلئے کر سکتا تھا.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایک غزوہ میں پوچھا ہے کہ مََاتَکِیْدُوْنَ تو اس کا جواب دیا گیا کہ ہم خندق کھو دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۶۴. 

Page 98

: یعنی ملک کے علاوہ تمہارے مذہب کو بھی برباد کرنے پر تُلا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۶۶،۶۷.   : صوفیاء نے لکھا ہے.یہ ادب ان کے کام آیا اور وہ مسلمان ہو گئے.: حِبال وعَصیّ کے رنگ میں جو کچھ تدابیر جمع کر رکھی تھیں.وہ لوگوں کو ایسا خیال پڑتی ہیں کہ وہ مظفر و منصور ہونے میں سعی کر رہی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ان کی رسّیاں اور سونٹے قوّتِ متخیّلہ کو چلتے معلوم ہوتے تھے… (یعنی) انکے رسّے اور ڈنڈے ان کے واہموں اور تخیّلوں کو چلتے نظر آئے اور ساحروں نے عام لوگوں کو دھوکے میں ڈالا اور ڈرانا چاہا اور بڑا دھوکہ کیا.یہ نظارہ قانونِ قدرت اور سائنس کے نزدیک ایسا واقعی اور صاف ہے کہ بڑی تشریح کی بھی ضرورت نہیں… ساحروں کے سحر یعنی دھوکے بازوں کے ڈھکو سلے جہاں غیر واقعی طور پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں وہاں بڑے مرتاض.یوگی.جنّ.اور ان سب سے برتر جنابِ الہٰی سے مؤید و منصور قوم انبیاء و رسل اور ان کے مخلص اتباع کی حقیقت بھرے آیات و معجزات دھوکے باز وںکے جھوٹ اور افتراء کو تباہ کر کے واقعات کا اظہار دنیا پر کر دیتے ہیں.(نور الدّین صفحہ ۱۵۴.۱۵۵) ۶۸،۶۹.  : یہ ڈر نہیں تھا کہ ہم پر غالب ہو جائیں گے یا خدا کا دین باطل ہو جائے گا.بلکہ انبیاء کو اس بات کا ڈر ہوتا ہے.کہ لوگ کم فہمی سے ابتلاء میں پڑ کر دینِ حق سے محروم ہو جاویں گے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کیلئے بھی  

Page 99

 (الاحزاب:۳۸)آیا ہے وہاں بھی یہی معنے ہیں کیونکہ آگے   (الاحزاب:۴۰)فرمایا قرآن کریم میں ایسی کئی نظیریں ہیں  (الضحیٰ:۸)بھی فرمایا اور (النجم:۳)بھی آیا ہے اور  (القصص:۵۷)بھی فرمایااور  بھی(الشورٰی:۵۳) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۷۰.  : یعنی ہم نے تجھ کو جو کچھ راست بازی کی قوّت کے اندر انعام دیا ہے.اس سے کام لے کر ان تمام حیلے حوالوں کو باطل کر دو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۷۱،۷۲.    : یہ چالاک لوگوں کا شیوہ ہے کہ وہ ناکام رہ کر وقت پر ندامت مٹانے کیلئے جھٹ کوئی بات گھڑ لیتے ہیں.مباحثات میں بھی اب ایسے لوگوں کے وارث دیکھے جاتے ہیں.کوئی نہ کوئی احتمال نکال کر دلیل کو باطل قرار دے لیتے ہیں میرے نزدیک تو اِذَا جَائَ الْاِحْتَمَاُل بَطَلَ الْاِسْتِدْلَالُ کے یہ معنے ہیں کہ جو شخص بات بات میں احتمال نکالنے کا عادی ہے.اس کے لئے کوئی دلیل

Page 100

مفید نہیں ہو سکتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۷۳.  : مومن اور کافر کا فرق اس آیت سے ظاہر ہے کہ وہ حالتِ کفر میں تو کہتے ہیں  (الشعراء:۴۲) گویا وہ اپنی تمام کرشمہ نمائی و سحر سازی کا مُول چند پیسے سمجھتے ہیں.اور فرعون کے تقرّب کو بڑا اعلیٰ درجہ کا انعام سمجھتے ہیں یا اب حالتِ ایمان میں یہ حال ہے کہ کس جرأت سے کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۷) ۷۵.  پلید رُوحوں میں بھی عذاب دینے کیلئے ایک حِس پیدا کی جاتی ہے.مگر نہ وہ مُردوں میں داخل ہوتے ہیں نہ زندوں میں جیسا کہ ایک شخص جب سخت درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بدحواسی کی زندگی اس کے لئے موت کے برابر ہوتی ہے اور زمین و آسمان اس کی نظر میں تاریک دکھائی دیتے ہیں انہیں کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.یعنی جو شخص اپنے ربّ کے پاس مجرم ہو کر آئے گا.اس کیلئے جہنم ہے.وہ اس جہنم میں نہ مرے گا.اور نہ زندہ رہے گا اور خود انسان جب اپنے نفس میں غور کرے کہ کیونکر اس کی روح پر بیداری اور خواب میں تغیّرات آتے رہتے ہیں تو بالضرور اس کو ماننا پڑتا ہے کہ جسم کی طرح روح بھی تغیرّ پذیر ہے.اور موت صرف تغیّر اور سلبِ صفات کا نام ہے.ورنہ جسم کے تغیّرکے بعد بھی جسم کی مٹی تو بدستور رہتی ہے لیکن اس تغیّر کی وجہ سے جسم پر موت کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۶ صفحہ ۲۷۴.۲۷۵)

Page 101

۷۸.  یہ کہ رات کو لے چل میرے بندوں کو.پھر چل ان کیلئے ایک خشک راہ جو دریا میں ہے.مت ڈریو.کسی کے احاطہ سے.اور نہ کسی قسم کا خوف کرنا.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۱۵۷) اس رکوع میں قصّہ تو موسیٰ کا ہے مگر خدا تعالیٰ نے اس میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرامؓ اور آپ کے پیچھے آنے والوں کا نقشہ کھینچ دیا ہے.اس لئے فرمایا (یوسف:۱۱۲) : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بھی یہ حکم ہونا تھا چنانچہ گویا یہیں اشارہ فرما دیا اور یہ سورۃ مکّی ہے.چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ابوبکرؓ جیسے پاک بندے کے ساتھ راتوں رات گئے.: بَحْرٌ عربی زبان میں کُھلے میدان کو بھی کہتے ہیںکَلَّمْتُہٗ بَحْرًا وَ سِحْرًا.فلاں آدمی سے میں نے بات کُھل کے کی.سمندر کو بحر بھی اس لئے کہتے ہیں.دو محاورے حدیثوں کے اس وقت یاد آ گئے ہیں.عبداﷲ بن ابی بن سلول نے جب رسول کریمؐ کی کچھ مخالفت کی تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ اس بحر کے لوگ اتفاق کر چکے تھے کہ اس کو بادشاہ بنادیں.آپ کے آنے سے یہ منصوبہ پورا نہیں ہوا.اس لئے یہ حسد کرتا ہے.مکّہ و مدینہ میں جو وسیع میدان تھا.اس کو بحر کہتے ہیں.: موسٰیؑ جس رستہ سے گئے تھے وہ خشک تھا.چنانچہ فرمایا کہ تم اس رستے جاؤ جو سمندر میں خشک پڑا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۸) ۷۹.۸۰. 

Page 102

: نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے پیچھے بھی لوگ پکڑنے کے لئے دوڑے اور پکڑ کر لانے والے کیلئے ۳۳ ۱؎ اونٹ انعام مقرّر کئے.: جیسے فرعونیوں پر بَلا آئی.ویسے ہی مشرکانِ مکّہ پر بھی آئی.:.وہال فرعون تھت اور یہاں ابوجہل (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۸) ۱؎ بعض روایات کے مطابق ایک سو ۱۰۰ اونٹ انعام مقرر کیا گیا تھا.دیکھیں سیرۃ ابن ہشام باب ہجرۃ النبی صلی اﷲ علیہ وسلم الی المدنیۃ (مرتب) : فرعون نے اپنی قوم کو ہلاک کیا.(نورا لدّین طبع سوم صفحہ۷۷) جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو خدا تعالیٰ پکڑ لیتا ہے.اس میں کسی فرعون کی خصوصیت نہیں بلکہ اگر مرزائی بھی ایسا ہو گا تو وہ بھی پکڑا جائے گا.ابن ابی لیلیٰ کے پاس ایک مجرم پکڑا آیا.آپ نے اُسے سزا دی.مگر نرم.اس نے عرض کیا کہ پہلی دفعہ کا جرم ہے.تخفیف فرمائیے.آپ نے دُگنی سزا دی اور فرمایا.کہ تم نے جھوٹ بول کر عدالت کی توہین کی.ایک شخص نے پوچھا کہ حضرت وہ تو رحم کے قابل تھا.آپ نے سزا بڑھادی.فرمایا.خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے  (المائدہ:۱۶)جس سے معلوم ہوا کہ وہ پہلی دفعہ نہیں پکڑتا.پس اس کی گرفتاری اس کو ثابت کرتی ہے کہ یہ جرم کئی دفعہ اس سے ہو چکا ہے اور اﷲ تعالیٰ ستّاری فرماتا رہا ہے.(بدر ۵؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) ۸۱.  : بے محنت رزق.: تسلّی کی چیزیں.شہد.بعض بٹیر کو کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) ۸۲.

Page 103

  لوگ کہتے ہیں.فلاں زبان محدود ہے.محدود کیا ہوتی ہے.عقلاء و فصحائِ قوم خود ہی زبان کو وسعت دے لیتے ہیں.طغیان کہتے ہیں مذہبی حد سے باہر نکل جانے کو.انبیاء بھی جب آتے ہیں تو حدود اﷲ مقرر کرتے ہیں.جو قوم ان سے گزرے اسے طاغیہ کہتے ہیں.(بدر ۵؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) ۸۳. چار باتیں ہوں تو اﷲ معاف کر دیتا ہے.۱.آدمی اپنی اصلاح کرلے ۲.ایمان لائے ۳.عملِ صالح کرے ۴.جو بُری بات چھوڑ دی ہے اس کے بالمقابل اچھی بات اختیار کرے.(بدر ۵؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲) ۸۴،۸۵.  : اس موقعہ کا ذکر ہے.جب موسیٰ طور پر گئے تھے.ہمارے نبی کریمؐ بھی دنیا سے جلدی چل دئے.ہم بھی ان کے پیچھے آخر وہیں حاضر ہونے والے ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی وفات کے بعد مسلمان بھی فتنہ میں پڑے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) : سے استنباط ہوا کہ نماز میں اوّل وقت جانا چاہیئے.(بدر ۵؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) ۸۶.

Page 104

۸۲.  لوگ کہتے ہیں.فلاں زبان محدود ہے.محدود کیا ہوتی ہے.عقلاء و فصحائِ قوم خود ہی زبان کو وسعت دے لیتے ہیں.طغیان کہتے ہیں مذہبی حد سے باہر نکل جانے کو.انبیاء بھی جب آتے ہیں تو حدود اﷲ مقرر کرتے ہیں.جو قوم ان سے گزرے اسے طاغیہ کہتے ہیں.(بدر ۵؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) ۸۳. چار باتیں ہوں تو اﷲ معاف کر دیتا ہے.۱.آدمی اپنی اصلاح کرلے ۲.ایمان لائے ۳.عملِ صالح کرے ۴.جو بُری بات چھوڑ دی ہے اس کے بالمقابل اچھی بات اختیار کرے.(بدر ۵؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲) ۸۴،۸۵.  : اس موقعہ کا ذکر ہے.جب موسیٰ طور پر گئے تھے.ہمارے نبی کریمؐ بھی دنیا سے جلدی چل دئے.ہم بھی ان کے پیچھے آخر وہیں حاضر ہونے والے ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی وفات کے بعد مسلمان بھی فتنہ میں پڑے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) : سے استنباط ہوا کہ نماز میں اوّل وقت جانا چاہیئے.(بدر ۵؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۲) ۸۶. 

Page 105

سامری نے انہیں ہلاک کیا.(نورا لدّین طبع سوم صفحہ۷۷) ۸۹.  اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ: حاکم قوم کا اثر محکوم پر ضرور ہوتا ہے.مثال کے طور پر بالؔ ہی لو سکھوں کے عہد میں لوگ بڑے بڑے بال رکھتے تھے.مگر اب قینچی سے ایسے کتراتے ہیں کہ گویا ہیں ہی نہیں.پھر بھی بعض برداشت نہیں کر سکتے.اس طرح فرعون اور اس کی قوم گائے پرست تھے.اسی لئے اس کا تاج گئو مُکھی تھا.بنی اسرائیل پر بھی اس کا اثر ہوا.اور اس عظمت کو نکالنے کیلئے حضرت موسٰیؑ کی معرفت حکمِ الہٰی ہوا.کہ وہ درشنی گائے ذبح کر دو.(البقرۃ:۶۸) اور اﷲ حکم دیتا ہے کہ گائے ذبح کر دو.لوگ رسوم کے بہت تابع ہیں.جتنی دولت مند قوم ہے ان کے نزدیک گئوہتیا حرام ہے.ہزاروں لاکھوں بکرے ذبح ہوتے ہیں اور شور نہیں مچاتے برخلاف اس کے گائے پر شور پڑتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ گائے ذبح کرنے کا رواج عام نہیں کیا گیا.(بدر ۵؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۲) ۹۰.  اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محض بے جان چیز تھی.اس میں نفع رسانی یا ایذاء دینے کی کوئی طاقت نہ تھی.(نورا لدّین (طبع سوم) صفحہ۱۶۹) :.یہ اس کے معبود ہونے کا ثبوت دیا ہے کہ اﷲ تو وہ ہے جس کے آگے تم تضرّع کرو تو وہ جواب دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) : الہام کے منکر بھی اپنے خدا کو بچھڑا ہی تجویز کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷)

Page 106

۹۱،۹۲.   : بُرے بھلے کی تمیز کرنے کیلئے یہ ایک ابتلاء آیا ہے.: ہارون بھی رسول نبی تھے اور حضرت موسٰیؑ بھی.مگر ہارون کے سامنے انہوں نے بُت پرستی کی.رُعب ایک الہٰی فضل ہوتا ہے.حضرت موسٰیؑ کا خوف تو ظاہر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان کے آنے تک ہم اسی بات پر جمے رہیں گے مگر ہارون کو تو اس فعل میں شریک گردانتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہارون نے نرمی اختیار کی.اﷲ تعالیٰ حضرت ہارون کی بَریّت ظاہر فرماتا ہے.حضرت علیؓ کی نسبت بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَۃِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی.چنانچہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا جیسے ہارون کے ساتھ یریحوؔ کا معاملہ تھا.ایسا ہی حضرت عثمانؓ کے قتل میں حضرت علیؓ کو شریک گردانا گیا.مگر آپ کا دامن بالکل پاک تھا.ان آیات سے مجھے حضرت علیؓ کی بریّت اور حضرت عثمانؓ کے قتل سے بالکل الگ ہونے کا یقین ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) ۹۵.  : بہ نسبت باپ کے ماں میں زیادہ محبت و راحت جوش مارتی ہے.اس لئے اس سے منسوب کیا تا رحمت کی طرف جھکیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰

Page 107

سوم صفحہ ۱۶۹) ۹۸.   : یہ سزا دی ہے.کہ جب تو رستے میں چلے تو پوش پوش کہتا جائے.یہ جھوٹی کہانی ہے کہ جو اسے چھُوتا اسے محرقہ بخار ہو جاتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) ۱۰۰.  : پیشگوئی فرماتا ہے.کہ اسلام میں بھی ایک ہارون ہو گا.اس وقت قوم فتنہ میں پڑے گی.ایک سامری ہو گا.عبداﷲ بن سبا یمن کا رہنے والا یہودی.جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا.اس نے از راہِ شرارت اظہارِ اسلام کیا.بصرہ، کوفہ میں گیا.اور عثمان کے مطاعن یاد کر لئے.شامؔ تک گیا.حضرت معاویہ نے اسے مدینہ میں قید کر دیا.حیلے حوالے کر کے چھُوٹا تو مصر میں گیا.وہاں قوم کو بھڑکایا اور عثمانؓ کے عزل پر لوگوں کو بہکایا.مگر وہ سامری آخر میں ذلیل ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) ۱۰۳ تا ۱۰۵.  

Page 108

: نیلی پیلی آنکھوں والے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) : ہم دنیا میں دس صدیاں رہیں.یہ ایک خاص قوم کی نسبت پیشگوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۸) : ہزار برس شان و شوکت تھی (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) ۱۰۶، ۱۰۷.  جِبَالَ: بڑے آدمی.عرب میں ایسے نام بھی رکھے جاتے ہیں.نیک آدمی کا ذکر ہے جسے امر بالمعروف کا شوق تھا.کہ اس نے ایک امیر کے ملازم ( جو اس کے منہ چڑھا تھا) کے ہاتھ میں ایک غیر مشروع چیز دیکھی تو اُسے پکڑ کر توڑ دیا.امیر نے اس قسم کی چیز اپنے ہاتھ میں لی اور واعظ کو بلایا اور پوچھا کہ آپ نے ہمارے آدمی کی چیز توڑ دی ہے.کہا.ہاں.پوچھا کیوں؟ کہا رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.مَنْ رایٰ مِنْکُمْ مُنْکرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ، وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ، وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ، وَ ذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ.جو کوئی تم میں سے کوئی غیر مشروع امر دیکھے تو اپنے ہاتھ سے اُسے بدلے اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے سمجھائے.یہ بھی نہ ہو تو دل سے بُرا منائے اور یہ سب سے بڑھ کر ضعیف ایمان ہے.اس پر اس امیر نے کہا.میرے ہاتھ میں بھی وہی چیز ہے.وہی سلوک اس سے کیوں نہیں کرتے؟ اُس نے کہا آپ کو سمجھانے والے کا ذکر قرآن شریف میں لکھا ہے.اس نے پوچھا.کہاں؟ تو اس نے یہ آیت پڑھی.اور اس زور سے پڑھی کہ مارے دہشت کے وہ چیز اس کے ہاتھ سے گر پڑی.اور ٹوٹ گئی. : ان کو اﷲ تعالیٰ اُڑا دے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۹) : ان سلطنتوں کو مٹا دے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۰۹،۱۱۰.

Page 109

  : خوف سے جھُک جائیں گی.ان آیات میں اُن سلطنتوں کے متعلق پیشگوئی ہے جو اپنی تدابیر کے گھمنڈ میں آ کر کہتے ہیں کہ ہمیں توڑنے والا کون ہے.:اس کی باتیں پسندیدہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۹) ۱۱۲، ۱۱۳.   : فرماں بردار ہوں گے.: کوئی اس پر ظلم نہ کر سکے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۹) ۱۱۴.  : کھول کر سنانے والی.ایک شخص نے مجھے کہا.کھول کر کوئی اور زبان سنانے والی نہیں؟ میں نے کہا.کہ تم اﷲ کا نام کسی اور زبان میں ایسا بتا دو.جو خاص اﷲ تعالیٰ کے واسطے ہو.تو اس نے اقرار کیا کہ کوئی نام

Page 110

ایسا نہیں جو محض اس ذاتِ جامع صفات سے مختص ہو.ؔ :.نئی نصیحت بھی کریں گے.میں جب قرآن شریف پڑھتا ہوں.تو اسے نئی شان میں پاتا ہوں.قرآن کے بعد کوئی نئی کتاب آنے والی نہیں.بس وہی نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۹؍مئی ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۹) ۱۱۵،۱۱۶.   : قرآن میں نبی کے لئے تین باتوں کا حکم آیا ہے(الجمعۃ:۳) پہلے وہ آیات پڑھیں.پھر تعلیم کریں پھر فکر کریں کہ کس تدبیر سے لوگ سمجھیں.اس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو فرمایا کہ آپ پہلے قرآن سنیں (القیٰمۃ:۲۰) پھر ہمارے ذمّہ اس کا سمجھانا ہے.پھر ایسے دل تیار کرنا جو اس کی تعمیل کریں… اس آیت کے متعلق ایک یہ نکتہ بھی ہے.کہ واعظ کیلئے وعظ میں سب سے مقدّم قرآن مجید ہے.اور اس کے بعد اس کی اپنی تقریر.قرآن مجید کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھنے کی جلدی نہ کر.: جب اس بادشاہ کیلئے یہ حکم ہے.تو ہماری کیا بساط ہے اس لئے میں قرآن شریف پڑھتے ہوئے یہ دعا بالالتزام پڑھتا ہوںاور اس کے ساتھ یہ دعائیں ملاتا ہوں.۱.(البقرۃ:۳۳) ۲.اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ.اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشَآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ۳.(طٰہٰ:۲۶،۲۷) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۶۹) صاحب شرع اسلام تک کو رغبت دلاتا ہے کہ وہ دائمی اور ابدی ترقیات کیلئے ہمیشہ دُعا مانگتا رہے.اور ترقی علم چاہتا رہے.جیسے فرمایا.… کہہ اے

Page 111

میرے رب میرے علم میں ترقی بخش.(نورا لدّین طبع سوم صفحہ ۱۳ دیباچہ) پہلا الہام جو ہمارے سیّد و مولیٰ محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوا وہ بھی   (العلق:۲) ہی تھا اور پھررَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا کی دعا تعلیم ہوتی ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ علم کی کس قدر ضرورت ہے.سچّے علوم کا مخزن قرآن شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے.اور یہ حاصل ہوتا ہے تقوی اﷲ سے.مامور من اﷲ کی پاک صحبت میں رہ کر.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں.جو اپنی سلامتی صدقِ نیت.شفقت علی خلق اﷲ.غَایَۃُ البُعْدِ عِنِ الْاَغْنِیَآئِ.آسانی.جودت طبع.سادگی دوربینی کی صفات سے فائدہ پہنچاتے ہیں.(الحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۴) قرآن مجیدپر غور کرنے سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ( جو اعلم باﷲ اور جامع کمالاتِ نبوّت و انسانیت ہیں) کو اﷲ تعالیٰ نے ایک دعا تعلیم فرمائی..اے میرے رب میرا علم زیادہ کر دے.میں بھی کہتا ہوں رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(آمین) تو پھر اورکون شخص ہے جس کو علم کی ضرورت نہیں.یہ آیت جہاں فضیلتِ علم کو ظاہر کرتی ہے وہاں دوسری طرف ضرورتِ علم پر بھی دلیل ہے.(الحکم ۲۸؍ جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۴) : بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ آدم باوجود حکمِ تاکیدی کے کس طرح بھول گیا.میں انہیں پوچھتا ہوں.گھر سے اہتمام کے ساتھ مسجد میں دو رکعت نماز پڑھنے آتے ہیں.اور پھر اس میں سہو ہو جاتا ہے.یہ کیوں؟ : حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کا ارادہ نہ کیا تھا.ارادہ سے اس شجرہ کو نہیں کھایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۹) اگرچہ آدم علیہ السلام شیطان کے کہنے پر نہ چلے.مگر مدّت کے بعد وہ درخت کے پاس جانے کی الہٰی ممانعت کو بھُول گئے.ایسی بھُولوں سے بچنے کے واسطے باری تعالیٰ نے ہمارے ہادی اور سردار عالمِ رحمت عالمیاں کو قرآن کریم کے یاد رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے آدم علیہ السلام کا قصّہ فرمایا ہے...اوراسی نسیان پر آدم علیہ السَّلام کو (طٰہٰ: ۱۲۲) فرمایا.اور جلدی مت کر قرآن سے.قبل

Page 112

اس کے کہ اُس کی وحی تجھ پر پوری ہو.اور کہو اے رب مجھے علم زیادہ دو.اور ہم نے آدم سے عہد کیا.وہ بھول گیا اور اس میں اس کا کوئی قصد نہ تھا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۳۴.۱۳۵) ۱۱۷،۱۱۸.   آدم سے مراد عظیم الشان انسان ہے.جیسا حضرت نوح.حضرت ابراہیم علیہما السلام.اُ: فرماں برداری کرو.جَنَّۃِ: ملک آرمینیا.: تو تھک جائے.تجھ پر بڑی مصیبت پڑے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۹) ۱۱۹،۱۲۰.  : قحط کا خوف نہیں.: ایسی عمدہ آب و ہوا ہے کہ کپڑے نہیں اتارنے پڑے.: شدید دھوپ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۹) ۱۲۱.  شَیْطَانُ: ابلیس کا مظہر ہے.: ہمیشہ کی سلطنت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۶۹)

Page 113

۱۲۲.  : ان پر اپنی کمزوریاں ظاہر ہو گئیں.بعض باتوں میںعقل و قیاس سے کام لینا ایک قسم کی جرأت ہے.جو میں ناپسند کرتا ہوں.اس لئے اس کی حقیقت حوالہ بخدا ہے.اتنا ثابت ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو چند اَوامر.چند نواہی دیتا ہے.خبیث روح ان کے خلاف منصوبے کرتی ہے.ان کو تکلیف پہنچاتی ہے.اس کے ساتھیوں کے عیش کو مکدّر کرتی ہے.گو آخر منہ کی کھاتی ہے.خود نبی کریمؐ کی زندگی کے واقعات سے یہ قصّہ کُھل سکتا ہے.آپ اپنی بی بی خدیجہؓ کے ساتھ آرام سے بسر کر رہے تھے.دعوٰیٔ نبوّت کے بعد ان کے خلاف جوش اٹھا.جس سے اپنی کمزوریوں کا علم حاصل ہوتا ہے.اور پھر اس کمزوری کے دور کرنے کی کوئی نہ کوئی سچائی کا پتّہ اپنے اوپر لیتے ہیں.پتّہ جلد خشک ہو جاتا ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ پہلے اپنی طرف سے دلائل دیتے ہیں جو کمزوری ہوتی ہے.آخر خدا سے مدد پا کر مظفر و منصور ہوتے ہیں.: مسلمانوں میںدو مذہب ہیں.ایک شیعہ ان کا عقیدہ ہے کہ امام جو ہوتا ہے.وہ تمام قسم کے گناہوں سے.صغیرہ.کبیرہ.عمد.خطاء.سہو سے معصوم ہوتا ہے.مگر اس کے ساتھ ہی عجیب اعتقاد ہے کہ تقیۃً خواہ بُت کے آگے سجدہ کرے یا کلمۃ الکفر کہہ لے.یہ جائز ہے.خوارج کے نزدیک ایک طرف اتقاء کا یہ اہتمام ہے کہ عورت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے.گناہ کفر ہے.مگر دوسری طرف خلفاء راشدین میں سے دو کو انہوں نے ہی قتل کیا.سُنّی مذہب والوں کو عجیب عجیب مشکلات پیش آتے ہیں.اس لئے ان میںسے کچھ لوگوں نے یہ کہا ہے کہ انبیاء سے ارتکابِ گناہ بعد نبوّت نہیں ہوتا.قبل از نبوّت ممکن ہے ان کے متکلّمین نے کہا ہے کہ عصیؔ خلاف ورزی کا نام ہے.اَشَرْتُ اِلَیْہِ فِی اَمَروَلَدِہٖ فَعَصَانِی.فلاں آدمی کو میں نے مشورہ دیا تھا مگر اس نے مانا نہیں.الفُلَانُ اَشَرْتُ اِلَیْہِ بِشَرَبِ الدَّوَائِ وَلٰکِنَّ الْمَرِیْضَ عَصَانِیْ.یہ نہیں بولتے کہ فَصَارَ عاصیًالِیْ.اسی طرح آدم کے حق میں عصٰی فرمایا صَارَ عَا صِیًالِیْ نہیں کہا.میرا اپنا اعتقاد

Page 114

یہ ہے کہ مومن کی نسبت.اولیاء کی نسبت.انبیاء کی نسبت.محسنون مقرّبون کی نسبت جرم کا لفظ کبھی نہیں آتا.اسی طرح جناحؔ کا لفظ بھی نہیں آتا.ِ: لینے لگے.غَوٰی: فَسَدَ عَلَیْہِ عَیْشُہٗ: زندگی میں آپ کو تکلیف پہنچی ( دیکھو لسان العرب) بڑے بڑے مشکلات میں پھنسے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۲۴. : پھر جو چلا میری بتائی راہ پر.نہ بہکے گا اور نہ تکلیف میں پڑے گا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۶) ۱۲۵.  : مخالفینِ رسول رفتہ رفتہ تنگ دست ہو جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ایک عیسائی کا اعتراض: ’’ جو قرآن سے مُنہ پھیرے.اس کی معیشت تنگ ہو گی.یہ باطل ہے.کروڑوں قرآن کو نہیں مانتے اور ان کی معیشت تنگ نہیں اور متبعانِ قرآن تنگ ہیں اور لڑائیوں میں دُکھی ہوئے کے جواب میں فرمایا:.بھلا کتبِ مقدّسہ میں نہیں لکھا.ہاں شریر کا چراغ بجھایا جائے گا ایوب ۱۸ باب ۵.تنگ حالی اس کے پاس مستعدرہے گی.۱۸ باب ۱۲.ایوب وہ ویران شہروں میں بسے گا ۱۵ باب ۲۸.ایوب پر جانتے ہو.بہت شریر خوش ہیں.نہیں بات یہ ہے.شریروں کی خوشی کرنی تھوڑے دن کی ہے

Page 115

اور ریاکاروں کی شادمانی لمحے کی ۲۰ باب ۵.ایوب پس جو لوگ قرآن کو نہیں مانتے ان پر معیشت بے شک تنگ ہے.انکا چراغ گُل ہو گا.معیشت.ضنک.تنگ حالی ان کے پاس مستعد رہے گی.وہ ویران شہروں میں بسیں گے.ان کی شادمانی لمحے کی ہے.قرآن بھی کہتا ہے.(النساء:۷۸) پونجی دنیا کی تھوڑی ہے.دوسرے جملۂ اعتراض کا جواب: وہ دُکھ جو خدا کیلئے ہے ایک بخشش ہے.فلپی ۱ باب ۲۹.وہ دُکھ جو خدا کیلئے ہے خوشی کا باعث ہے.اعمال ۵باب ۴۱.کیونکہ باپ کے ہاتھ سے ملتا ہے.یوحنا ۱۸ باب ۱۱.یہ پیالہ ہے.نہ سمندر.زبور ۷۵ باب ۸.اس میں غوطہ لگا کر مرتے نہیںاور آرام سے نا امید نہیں.یسعیاہ ۴۳ باب۲.قرنتی ۴ باب۸.… یہ ایسی بات ہے جیسی لوقا کہتے ہیں.تمہارے سر کے بال بھی نہ ہلیں اور یہ بھی کہ وے قتل کریں گے.لوقا ۲۱ باب ۱۶.۱۸ اور متی ۲۴ باب۹.ایک اور حقیقی جواب بخاری میں لکھا ہے.ضَنکؔ کے معنی شقاوت اور بدبختی کے ہیں.اور یہی معنی ابن عباسؓ نے لئے ہیں.پس سوال کا موقع ہی نہ رہا.( فصل الخطاب طبع اوّل صفحہ ۱۷۰.۱۷۱) ۱۲۷. : ترک کیا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۳۰. : عذاب کیلئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے.چنانچہ مشرکانِ عرب کے بارے میں فرمایا.(انفال:۳۴) پھر فرمایا

Page 116

النمل:۷۳)اور فرمایا لَکُمْ (سبا:۳۱)جس سے ظاہر ہے کہ عذاب نبی کریمؐ کی ہجرت کے بعد ایک سال آئے گا.یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۲۱ میں اس کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی.چنانچہ لکھا ہے کہ قیداریوں کی سال کے بعد کمر ٹوٹ جائے گی.اس آیت میں ان باتوں کو یاد دلایا گیا ہے.: لازمی آنے والے عذاب.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۳۱.  : نماز پڑھو.: مغرب.عشاء.تہجد.: دن کے ڈھلنے سے پہلے اشراق و ضحٰی اور بعدہٗ ظہر.: دشمنوں کی ہلاکت کیلئے اس سے بڑھ کر کوئی نسخہ نہیں.ایک صبر کرنا.د وم نمازیں سنوار کر پڑھنا.ہم نے بہت تجربہ کیا ہے.: ان نمازوں سے کچھ ایسی بات ملے گی کہ تم خوش ہو جاؤ گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) اس سوال کے جواب میں کہ قرآنِ مجید میں تو فَسَبِّحْ ہے اس سے نماز کس طرح ثابت ہوئی فرمایا کہ جب مولیٰ علیؓ یا امام حسینؓ بولا جاتا ہے.تو اس کا مفہوم جو قائلین شیعہ کے دلوں میں ہے وہ کس طرح کھلا.یہ تاریخی روایات و تواتر پر مبنی ہے.ورنہ موجودہ لوگوں نے نہ علیؓ کو دیکھا.نہ حسینؓ کو.مگر یقین سب کرتے ہیں.اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس آیت کے اور صلوٰۃ کے جو معنے سمجھے اور جیسا کچھ اس حکم کی تعمیل کی.اس کے لاکھوں بلکہ کروڑہا مسلمان گواہ ہیں.اور قرآن مجید سے بھی زیادہ تواتر کے ساتھ یہ بات ہم کو پہنچی.کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے صلوٰۃ کے معنے کیا بیان فرمائے.پس اس کا انکار کیونکر ہو سکتا ہے.اور کیوں ایک شخصِ واحد کی جو تیرہ سو برس بعد پیدا ہوا.مان لیں.کوئی ضرورت نہ تھی کہ قرآنِ مجید میں اس کا تفصیلی بیان

Page 117

کیونکہ ممکن تھا کہ بعض اسے منسوخ ٹھہراتے.مگر ہمارے لئے تعامل سے صلوٰۃ کی ہیئت مخصوصہ مع اذکار قرآنِ مجید سے بھی زیادہ تواتر کے ساتھ محکم ہو گئی.اسلام کے جس قدر فرقے ہیں.جن میں سے بعض ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں اور ایک دوسرے کی مسجدوں تک نہیں جاتے سب کے سب صلوٰۃ کے ان معنوں پر متفق ہیں جو تعامل سے بقدر مشترک ثابت ہوتے ہیں.تعجّب ہے کہ یہ لوگ واقعہ کربلا ۱.نادِعلی۲.یزید۳.معاویہ ۴.تو مانتے ہیں.اور جس ذریعے سے مانتے ہیں.جب اس ذریعہ سے صلوٰۃ کی ہیئت ثابت کی جائے تو اس سے انکار کریں.ایک اور لطیفہ بھی قابلِ یاداشت ہے کہ بادشاہوں نے یہاں تک زور پایا کہ بڑے بڑے ائمہ کو قیدکر دیا یا مار دیا.جیسے امام ابوحنیفہؒ کو امام احمد بن حنبلؒ کو.پھر بھی ان سب کی نماز یہی رہی.چشتیاء.نقشبندی.سہروردی.ان سب کے مشائخ کی نمازیں بھی یہی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۳۲.  : قسما قسم کے بے ایمانوں کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۳۳.  : حکم کرتے ہو.: استقلال سے حکم کرتے رہو اور آپ نماز پر پکّے رہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰)

Page 118

۱۳۴.  : سب سے بڑا بیّنہ تو یہ ہے کہ دنیا میں جس قدر کتابیں الہٰی کہلاتی ہیں ان سب میںجس قدر صداقتیں ہیں وہ اس قرآنِ مجید میں موجود ہیں.حالانکہ نبی اُمّی ہے اور عرب میں کوئی بیت العلوم کوئی کتب خانہ تک نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) ۱۳۵.  : اﷲ تعالیٰ نے اس اتمامِ حجّت کیلئے اب مجددّین کا سلسلہ رکھا ہے.۸۳ سال ۴ ماہ کے بعد مجدّد آتا ہے.خارجیوں کے نزدیک ۵۰ سال بعد بقول بعض ۲۵ سال بعد.شیعہ بھی ایک أَعْلَمْ اَھْلِ الْاَرْضِ کی موجودگی کے قائل ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰)

Page 119

ُسوْرَۃُ الْاَنْبِیَآئِ مَکِّیَّۃٌ  ۲. نزدیک آیا واسطے لوگوں کے حساب اُن کا اور وہ بیچ غفلت کے منہ پھیر رہے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۶۹) انبیاء پر کیا اعتراض ہوتے ہیں ان کے ساتھ لوگ کیا سلوک کرتے ہیں.انبیاء کی موافقت و مخالفت کا کیا نتیجہ ہوتا ہے.انبیاء کے آنے کی کس وقت اور کیا ضرورت ہوتی ہے ان باتوں کا ذکر اس سورۃ میں ہے.: پس انبیاء اس وقت آتے ہیں جب لوگ ایک عام غفلت میں پڑے ہوتے ہیں.ایک بھائی خدا کو مانتا ہے اور دوسرا نہیں.بایں ہمہ آپس میںمحبت سے رہتے سہتے ہیں غیرتِ دینی باہم نہیں رہتی.جیسا کہ آجکل یورپ و امریکہ کی حالت ہے.اس کا کچھ نہ کچھ رنگ ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے.ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی توجہ بعثت کی طرف ہوتی ہے.ہزار برس کے بعد ایسا وقت ضرور آتا ہے.سو برس کے بعد بھی بلکہ بعض کے نزدیک اس سے کم.طِب کے معاملہ میں بھی اس کا نظارہ دیکھا ہے.تورات میں طاعون کا ذکر ہے کہ ستّر ہزار آدمی مارے گئے مگر اب تو ہفتہ وار اتنی تعداد کے قریب پہنچ جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۰) : ادھر انسان کام کرتا ہے ادھر اس کا نتیجہ بھگتتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) : جس شخص یا قوم یا جماعت کا حساب ہونا ہوتا ہے وہ چوکس رہتی ہے.پس آدمیوں کو اس حساب کیلئے کس قدر سنبھل کر رہنا چاہیئے.

Page 120

… تفسیروں میں جہاں طاعون کا ذکر ہے.ستّر ہزار موتیں بڑی سمجھی جاتی ہیں.لیکن اب تو ہر سال لاکھوں آدمی اس سے مرتے ہیں.مگر جب ذرا افاقہ ہوتا ہے.لوگ اپنے میں کوئی تبدیلی نہیں کرتے.جو مشرک ہیںوہ شرک پرجمے ہیں.جو چور ہیں وہ چوری سے نہیں ڈرتے.جو دغاباز ہیں وہ دغابازی پر قائم.جو تجارت جھوٹ پر چلاتے ہیں وہ اسی اصل پر مستحکم ہیں.جو ملازم ہیں وہ بدستور ملازمتوں میں سُست.( بدر ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۳) ۳.   کے معنے ہیں.نئے نئے پیرایوں میں کلام بھیجتے رہے.یہی معنے صحیح ہیں کیونکہ کلام کو میں اﷲ تعالیٰ کی صفت مانتا ہوں اور متکلم خدا کی ذات ہے اور میں قرآن مجید کو مخلوق نہیں مانتا.میں نے کوئی منصوبہ باز ایسا نہیں دیکھا کہ اسے خدا کا خوف ہو اور موت یاد ہو.(بدر ۲؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۳) : پیرایہ جدید ہوتا ہے. زیادہ تر ذکر وہی ہوتا ہے جو پہلے نبیوں کی زبان پر ظاہر ہو چکا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۴.  : آجکل کے لوگ ایسے بہت ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے خوف و خشیت سے ان کے دل غافل ہیں.: جو کچھ انبیاء کو کہتے ہیں.اس کا ذکر ہے کہ ایسی باتوں سے ٹالتے ہیں.یہ نرم فقرہ ہے (ھود:۲۸) کہنے والے بھی گزر چکے ہیں.

Page 121

: دِل رُبا باتیں کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۵،۶.   : یہ اس بات کا جواب دیا ہے.کہ تم پر فردِ جرم لگ چکا.سزا ملے گی.: جب انبیاء کے اخلاق کو اعلیٰ درجہ پر دیکھتے ہیں تو پھر ان میں سے بعض  نہیں کہتے.وہ کہہ دیتے ہیں.پریشان خوابیں آتی ہیں.یہ اس لئے کہ انبیاء اسی قدر بتاتے ہیں.جس قدر ان پر کھُلے.اس پر پیشگوئی کی مشکلات کو نہ سمجھتے ہوئے معترض ہوتے ہیں.: یہ کہنے والے ان پہلوں سے ایک قدم بڑھے ہوتے ہیں.: کلام مؤثّر لاتا ہے.شاعر ہے.یہ ان سے بڑھے ہوئے ہیں.: یعنی بالکل ہلاک ہو جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) سید احمد خان وغیرہ نے دھوکہ کھا کر معجزات سے انکار کر دیا.میں نے ایسے مقامات سے جہاں سے استدلال کیا جاتا ہے کہ آپ نے نشان نہیں دکھایا.نشان بتائے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۲) ۸،۹. :  کامفصّل جواب دیتا ہے.

Page 122

: یہ سورۃ مکّی ہے.یہودی وہاںتو اتنے تھے نہیں.اس لئے اس سے مراد اہلِ کتاب نہیں.: انبیاء کے کھانوں پر اعتراض کرنے والے غور کریں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۱۱. : شَرَفُکُمْ یہی معنے صحیح و پختہ ہیں.: اپنے آـ پ کو بدیوں سے کیوں نہیں روکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) : شَرَفُکُم تمہیں تاریخی آدمی بنانے کیلئے.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) ۱۲.  : یہ کی وجہ بتلائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۱۴.  : بڑے امیر ہو.شاید تم سے پوچھا جاوے کہ کیا گزری.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱)

Page 123

۱۶،۱۷.  : ایرانی.یونانی.عرب.پٹھان.مغول.سکھ.یہ سب اسی ملک میں بڑے کرّوفر سے آئے اور پھر کچھ بھی نہ رہے.: آسمان و زمین اور ان کے اندر جس قدر چیزیں ہیں.ہر ایک نتیجہ کے ساتھ وابستہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۲۱. : ایک فقیر سے میں نے پوچھا.کبھی آپ عبادت کرتے تھکتے بھی ہیں.اس نے کیا عمدہ جواب دیا.کیا تم سانس لیتے.آنکھیں جھپکتے تھک جاتے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۲۴،۲۵.  : انسان خدا کے مقابل پر کچھ نہیں کر سکتا.جو کچھ اس نے کرنا ہے.اُسے کون ٹال سکتا ہے.

Page 124

: تمام انبیاء جو پہلے ہو چکے ہیں.: ضمائر کا مسئلہ خوب سمجھ لو کہ اس سے پہلے ان کا ذکر نہیں جو کا مرجع ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۲۷. لیکن وہ بندے ہیں جن کو عزّت دی ہے.اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے اوروہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۳۷) : یہ وَلَدْ کی حقیقت سمجھائی ہے.کہ اولیاء اﷲ کو تقرّب کے ایک مقام پر وَلَدْ کا خطاب دیا جاتا ہے.مگر وہ وَلَدْ حقیقی نہیں ہوتے مومن وہ ہوتا ہے جو دنیا اور دین دونوں کے کام سمجھے.جیسے دنیا کے کارخانے ہیں.ویسے ہی دین کے کارخانے بھی ہیں.دنیا کی بھی کھیتی ہے.دین کی بھی تجارت ہے.جب زمین میں بہت خشکی آتی ہے تو خدا تعالیٰ بارش بھیجتا ہے اسی طرح بعض زمانہ الہامات کا نہیں ہوتا پھر ایک وقت الہامات کی بارش کا ہوتاہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۱) ۲۹.  : اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے وہ راضی ہو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۳۸) ۳۱. 

Page 125

 سَمٰوٰت جمع ہے سَمَا کی اور اس کے معنی ہیں.اوپر کی چیز.اور بادل کو بھی کہتے ہیں.رَتَقْ کے معنے ہیں جوڑنا.بند کرنا.قحط.خشک سالی.فَتَقْ ؔضدہے رَتَقْ کی.اُس کے معنی ہیں.پھاڑنا.کھولنا.سمان جسے ارزانی کہتے ہیں، دیکھو قاموس.السَّمَآئُ: کُلُّ مَا ارْتَفَعَ اِلٰی اَنْ قَالَ وَ السَّحابُ: اَلْفَتْقُ.اَلشَّقُّ.فَتَقَہٗ: شَقَّہٗ، وَ الْخَصْبُ وَالرَّتْقُ ضِدُّہٗ.پس ٹھیک ترجمہ آیت کا یہ ہوا.کیا وہ نہیں دیکھتے ( نہیں سوچتے) کہ اوپر کی سطح ( بادل) اور زمین بند ہوتے ہیں ( یعنی خشک سالی واقع ہوتی ہے) پھر ہم انہیں کھول دیتے ہیں ( یعنی مینہ برستا ہے) اور ہر جاندار چیز کو پانی سے بناتے ہیں یعنی آسمان سے مینہ برستا ہے.زمین سے نباتات نکلتے ہیں سمان ہوتا ہے ارزانی ہوتی ہے.اگر کوئی شخص سماوات پر جو سماء کی جمع ہے اعتراض کرے تو اُسے ایوب ۳۸ باب ۳۷ پڑھنا چاہئیے.جہاں لکھا ہے.کون اپنی دانش سے بادلوںکو گِن سکتا ہے ‘‘ عربی اور عبری زبانیں دونوں قریب قریب ہیں.یہی محاورہ کتبِ مقدّسہ میں موجود ہے.دیکھو پیدائش ۷ باب ۱۱، ۱۲.آسمان کی کھڑکیاں کُھل گئیں.چالیس دن اور رات پانی کی جھڑی لگی رہی.پیدائش ۸ باب۲.آسمان کی کھڑکیاں بند ہوئیں اور آسمان سے مینہ تھم گیا.اوّل.سلاطین۸باب ۳۵.پھر جب آسمان بند ہو جائیں اور بارش نہ ہو.حجّی ۱ باب۱۰.آسمان بند ہے.اوس نہیں گرتی.۲تاریخ ۶ باب ۲۶.اگر آسمان بند ہو جاویں اور نہ برسیں.۲تاریخ ۷ باب۱۳.جو میں آسمان کو بند کروں کہ بارش نہ ہو.لوقا ۴ باب ۲۵.ساڑھے تین برس آسمان بند رہا.زمین حاصل دینے سے باز آئی.اور میں نے خشک سالی کو طلب کیا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۴۴) : کافر اس بات کا یقین نہیں کرتے یا یہ معنے.کیا بار بار نظارہ نہیں کیا.: بند.

Page 126

: (الطارق:۱۲،۱۳) میں اس کی تشریح ہے.پانی بخار بن کر بادل بنتااور پھر برستا ہے.(النّٰزِعٰت:۳۲) : اس وقت ایک بارش ہوئی ہے.طبائع حسبِ فطرت پھل لائیں گی.؎ درباغ لالہ روید و در شورہ بوم خس پوچھتا ہے تم کس جماعت میں بننا چاہتے ہو.کیا مومن نہیں بنیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) : جب بارش نہیں ہوتی تو آسمان بند اور زمین بھی روئیدگی نہیں دیتی.اسی طرح وحی کی بارش شروع ہو گئی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷) ۳۲.  : کہ وہ پہاڑ بھی ان کے ساتھ چکّر کھاتے ہیں.حضرت ابنِ عباسؓ نے یہ معنے کئے ہیں.لَعَلَّھُمْ: جس طرح پہاڑوں میں رستے بنائے.اسی طرح دینی مشکلات حل کرنے کے رستے بھی بنائے.دین کے رستے میں بھی پہاڑ ہیں.چنانچہ فرمایا.... ..(البلد:۱۲تا۱۷) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۳۳،۳۴. 

Page 127

: دین میں بھی چھت ہے.جو روحانی حیات کی حفاظت کا موجب ہے.آسمان میں سورج و چاند و ستارے بنائے.ایسے ہی دین میں بھی (النحل:۱۷)بھی فرمایا.: چکّی ( قطب شمالی یا جنوبی میں ) یاچرخے ( جیسے خط استواء) کی طرح پھرتے ہیں.بخاری میں ہے.قال المجَاھد بحسبان کحسبان الرَّحیٰ.و قال الحسن فی فلک مثل فلکۃ المغزل یسبحون.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۳۵،۳۶. : اس مقام پر مفسّرین لکھ جاتے ہیں.سب مر گئے.پھر دوسرے موقع پر عیسٰیؑ کے بارے میں یہ قول بھول جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) : اور ہم امتحان کے طور پر تمہیں بدی اور نیکی میں مبتلا کرتے ہیں.(نور ا لدّین طبع سوم صفحہ۸۰) ۴۳،۴۴.

Page 128

 : یَحْفَظُکُمْ نگہبانی کرتا ہے.: دنیا میں جس قدر معبود بنائے گئے ہیں وہ خود مصیبتوں میں گرفتار ہوئے.دُکھوں میں مبتلا ہوئے تا یہ ثابت ہو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوائے کوئی کسی کے دُکھ دُور کرنے والا نہیں.: یہ پیشگوئی ہے کہ تمہیں بُتوں کی مدد کا بھروسہ ہے.وہ تمہاری مدد کیا کریں گے.انکی تو اپنی خیر نظر نہیں آتی.: صاحِب دئیے جائیں گے.یُنْصَرُوْنَ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۴۵.  : امراء و غرباء.شرفاء و ضُعفاء.سب طبقے کے لوگوں سے آدمی نکل کر اس دین میں شامل ہو رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۴۶.  : انبیاء قِیاس سے پیشگوئیاں نہیں کرتے.بلکہ وہ جو کچھ اس بارے میں کہتے ہیں.اِعلامِ الہٰی سے کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۴۷،۴۸.

Page 129

   اور ہم قیامت کے دن انصاف کی میزانیں رکھیں گے.تم کیسے نادان ہو کہ میزان کو مادیات میں منحصر سمجھتے ہو.میزان کو تم کیوں وسیع نہیں خیال کرتے.دیکھو جب تم نے حساب پڑھا تھا اس وقت تم کو جمع کی میزان.تفریق کی میزان.ضرب کی میزان.تقسیم کی میزان، علمِ حساب میں نہیں بتائی گئی.اس سے تم اندھے کیوں ہوئے اور کیوں میزان کی حقیقت میں غور نہیں کرتے.کہ وہ بہت ہی وسیع ہو سکتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۲) ۴۹.  : ایک امتیاز.دشمن کے مقابلہ میں کامیابی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۵۲. : رُشد فہمِ سلیم کو کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۵۹

Page 130

: اپنے بڑے بُت کی طرف توجہ کریں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۶۴.  : کسی کرنے والے نے کچھ کیا ہے.آپ کا مطلب یہ تھا کہ یہ کام کس نے کیا.مجھ سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے.تمہارا بڑا معبود موجود ہے.اس سے پوچھ لو.گویا ان کی غلطی کی طرف اس پیرائے میں توجّہ دلائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۶۹ تا۷۲.  : حضرت ابراہیمؑ جس شہر میں پکڑے گئے تھے.اس کا نام اُورؔ تھا.پشتو میں اب تک اُور کو آگ کہتے ہیں.اس شہر میں آتشکدہ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) اس سوال کے جواب میں کہ ابراہیمؑ کیلئے آگ سرد ہوئی.پھول کھِل پڑے.چشمے جاری ہو گئے.لَیْٹَیْمَرْ کَرَینْمَرکے لئے کیوں سرد نہ ہوئی.فرمایا.پھول کھلے.چشمے جاری ہوئے.قرآن کریم میں تو نہیں مگر یہ تو بتاؤ کہ تمہارے یہاں کی متواتر کہانی پہلاد کی کیا بتاتی ہے.متواتر کا منکر احمق اور ضدی ہوتا ہے اور اگر اسی کے منکر ہو تو منوجی اور بھرگ سنگتا میں کیا لکھا ہے.اسے پڑھو.دیکھو اس کا ادھیائے۸ شلوک ۱۱۶.’’ اگلے زمانہ میں تبش رِشی کے چھوٹے بھائی نے ان کو عیب لگایا اور تبش رِشی نے اپنی صفائی کے واسطے آگ کو اٹھایا لیکن تمام دنیا کے عمل نیک و بد جاننے والے اگن نے رِشی کا ایک بال

Page 131

بھی نہ جلایا‘‘ کیا تم اب اپنی کسی نیکی پراگنی کو اٹھا سکتے ہو یا اس شلوک کو غلط قرار دیتے ہو.یا اس کی کوئی تاویل کرتے ہو یا یہ قول منو کا وید کے کسی شلوک کے خلاف سمجھ کر ردّ کرتے ہو.اصل بات قرآن کریم میں اس قدر ہے.. . . (الانبیاء:۶۹ تا۷۲)  (العنکبوت:۲۵) . ( الصّٰفٰت:۹۸،۹۹) انہوں نے کہا اسے جلا دو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو اگر کچھ کرنا ہے.ہم نے کہا اے آگ تُو ابراہیمؑ پر سرد اور سلامتی ہو جا.انہوں نے ابراہیمؑ سے جنگ کرنی اور خفیہ تدابیر سے انہیں ایذا دینی چاہی.مگر ہم نے انہیں زیاں کار کیا اور ہم نے ابراہیمؑ اور لُوطؑ کو مبارک زمین میں پہنچایا ( اور دوسری جگہ ہے )اس کی قوم کا جواب یہی تھا کہ اسے مار ڈالو.یا جلا دو.سو خدا نے اُسے آگ سے بچا لیا.( اور تیسری جگہ ہے) انہوں نے مشورہ کیا کہ اس کیلئے ایک مکان بناؤ اور اسے آگ میں ڈالو.انہوں نے ابراہیمؑ کی نسبت ایذارسانی کا منصوبہ کیا.سو ہم نے انہیں اس منصوبہ میں پست اور ذلیل کیا.ان آیتوں سے کس قدر صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو تم نے سمجھاہے.بالکل لغو اور غلط ہے اس قصّہ میں یہ چند کلمات طیبّات ہیں.جو مقامِ غور اور توجّہ کے قابل ہیں.پہلا کلمہ ہے. دوسرا..تیسرا. .چوتھا. قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ ہر ایک گزشتہ نبی کا قصّہ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے پیرؤوں کی صداقت اور حَقِیَّت کے ثبوت کیلئے ہوتا ہے.اس لئے ہمیں اور ہر ایک مسلمان کو ضرور ہوا کہ حضرت نبی کریمؐ اور مولانا رؤوف رحیم کے ماجرے اس بارہ میں دیکھیں.اس لحاظ سے

Page 132

جب قرآن کریم کو پڑھتے ہیں تو اپنے نبی رحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم الٰی یوم الدّین کے بارہ میں یہ کلمات ہمیں ملتے ہیں.۱. (الانفال:۳۱)(الطارق:۱۶) ۲.اور آپ کے دشمنوں کا ذکر کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (المجادلہ:۲۰) ۳.کلمہ طیّبہ ہے جو بخوبی آگ کے مسئلہ کو حل کرتا ہے.(المائدہ:۶۵) کلمہ ہے (المومن:۵۲) ان مقامات کا مقابلہ دونوں قصّوں قصّہ حضرت نبی کریمؐ اور قصّہ حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ کرو وہاں اگرجناب ابراہیم کے مخالفوں نے آگ جلائی اور حرّقوہُ کا فتویٰ دیا تو یہاں تمام بلاد عرب نے نارالحرب کو جلایا اور صدہا مُسَعّرُ الحرب اٹھ کھڑے ہوئے اور جس طرح وہاں ابراہیم علیہ السلام کیلئے آگ کو بَرْد اور سلام بنایا اسی طرح ہمارے ہادی و مقتداء کیلئے خاص اﷲ تعالیٰ نے اس آگ کو بجھا دیا اور فرما دیا.اَطْفَاَھَا اﷲُ یعنی جب کبھی ہمارے نبی کریمؐ کے دشمنوں نے آتشِ جنگ جلائی.اﷲ نے اسے بُجھا دیا.… ابراہیمؑ کے زمانہ پر ہزاروں برس اور ہماے شفیع ( صلی اﷲ علیہ وسلم) پر چودہ سو برس گزرتے ہیں اور تُو نے اور ایک تیرے اس معاملہ میں مؤید و ہم زبان،تیز زبان نوجوان امرتسری مولوی نے ہمیں اس طرح خطاب کیا ہے.’’ چاہیئے کہ آجکل کسی اہلِ اسلام کو جو ملہم اور پیغمبر ہو کر خدا کے ساتھ عیسٰیؑ یا موسٰیؑ کی طرح باتیں کرنے کا دَم بھرتا ہے.ایک لمبی چوڑی بھٹی کو آگ سے بھر کر بیچ میں پھینک دیا جاوے.اگر آگ گلزار ہو جاوے تو سمجھیں کہ قرآنی معجزے سب ہیچ ہیں‘‘ امرتسری مولوی پھر اپنی کتاب میں فرماتے ہیں’’ یہ مرزا قادیانی کی طرف اشارہ ہے.مرزا جی کے دوستو کیا کہتے ہو ‘‘ ( ترکِ اسلام) … ہم خدائے تعالیٰ کے فضل سے کامل یقین اور پورے اعتقاد سے دعویٰ کرتے ہیں اور تمہیں اور تمام جہان کو سناتے ہیں کہ ہمارا مہدی اور عیسٰی بن مریم اس وقت موجود ہے اور اس کو وحی ہو چکی ہے.پھر سُنو.اور غور سے سُنووہ وحی الہٰی جو امامِ زمان کو ہوئی ہے یہ ہے.نَظَرْنَآ اِلَیْکَ مُعَطَّرًا وَ

Page 133

اس وحی الہٰی میں ہمارے امام ہمام مہدی موعودعلیہ السلام حضرت مرزا غلام احمد کو ابرہیمؑ کہا گیا ہے.اس کے علاوہ عالم الغیب قادر خدا نے آپ کو یہ بھی وحی کی ہے.’’ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ.آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘ اور پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا.کَمِثْلِکَ دُرَّ لَایُضَاعُیعنی تیرے جیسا موتی ہرگز ضائع نہیں کیا جاتا… سُنو.تبش رِشی نے تو خود آگ میں ہاتھ ڈالا تھا مگر ابرہیم علیہ السلام خود آگ میں نہیں کو دے تھے.اور نہ مومنوں مخلصوں راست بازوں اور اﷲ کے رسولوں کا یہ فعل ہوتا ہے کہ اﷲ کو آزمائیں بلکہ ان کو حکم ہے (البقرۃ:۱۹۶)یعنی اپنے تئیں خود ہلاکت میں نہ ڈالو.اس سنّتِ الہٰی کی اتباع میں حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں خود کود کر نہیں گرے تھے بلکہ لوگوں نے کہا.حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْآ اٰلِھَتَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ… اب خدا تعالیٰ کی اسی سنّت کے موافق تم اور سارا جہان اور اس سفلی جہان کی ساری طاقتیں اور شوکتیں اور عداوتیں ہمارے امام مہدی اور مسیح کو آگ میں ڈال کر دیکھ لیں.یقینا خدا تعالیٰ اپنے زندہ اور تازہ وعدہ کے موافق اس مہدی کو اسی طرح محفوظ رکھے گا جیسے پہلے زمانہ میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کو اور ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو محفوظ رکھا.یہ ہمارا آقا غلامِ احمد ہے.اس لئے ضرور ہے کہ احمد، محمد صلی اﷲ علیہ وسلّم کی غلامی اور اتباع کی برکات اور ثمرات اسے حاصل ہوں.جیسے خدا تعالیٰ نے اس کے متبوع کو (المائدہ:۶۸) کا وعدہ دیا.اسی طرح اسے بھی برسوں پیشتر وَلَوْلَمْکا وعدہ دیا.یہ خدا کا مسیح اور مہدی یقینا تمہاری آگ سے بچے گا اور ضرور بچے گا.اس نے طاعون جیسی آگ کی خبر دی کہ آنے والی ہے.اور کہا.کہ میرے لئے آسمان پر ٹیکالگ چکا ہے آخر وہی ٹیکا سچا نکلا اور زمینی ٹیکا بیکار ہو گیا.عیسائی لوگوں.برہموؤں.سکھوں اور آریہ سماج نے پھر خصوصیت سے لیکھرام کے واقعہ پر کیا آگ نہیں لگائی اور شیعہ.سنّی.مقلّد.غیر مقلّد متصوّفوں اور ان کے شرکاء نے کیا کوشش میں کمی کی ہے اور کیسی آگیںنہیں جلائیں.مگر سب خائب و خاسر ہوئے.اب ظاہری آگ یا اس سے بھی زیادہ آگ کو لگا کر دیکھو.پھر تم دیکھو گے.یہ تمہاری آگیں بھسم ہوتی ہیں.کہ نہیں.یہ بھی رسولوں کے رنگ میں ہے تم اعداء الرسل کی طرح اس کا مقابلہ کرو اور دیکھو اس موعود انبیاء اور جانشین خاتم الرسل و خاتم النبییّن کے لئے بھی اسی طرح تمہاری آگ بَرد و

Page 134

سَلام ہوتی ہے کہ نہیں.یاد رکھو.وہ برد و سلام ہو گی اور ضرور ہو گی.مگر تم نادانی سے کہتے ہو کہ وہ خود آگ میں جاویں.کیا یہ اتباعِ انبیاء و رسل ہے.دیکھو قرآن میں ہے حَرِّقُوْہُ سوتم بھی حَرِّقُوْہ کاحکم اپنے ذُرِّیاتْ اور سواروں اور پیادوں کو کرو اور بس پھر دیکھو.ابراہیم کی طرح آگ برد و سلام ہوتی ہے کہ نہیں.ہاں بے ریب لیٹی مر بشپ بادشاہ انگلینڈ ایڈورڈ ششم کا درباری تھا.۱۵؍اکتوبر ۱۵۵۵ء کو ملکہ مَیری کے عہدِ سلطنت میں پراٹسٹنٹ مذہب پر قائم رہنے اور وعظ کرنے کے سبب آگ میں جلایا گیا.رڈلے بشپ پراٹسٹنٹ مذہب پر قائم رہنے اور وعظ کرنے کے سبب لیٹی مر کے ساتھ آگ میں جلایا گیا.کرینمرآرچ بشپ پراٹسٹنٹ ہونے کی وجہ سے قید کیا گیا تھا.اس نے توبہ کی مگر وہ خفیہ تھی.باہر آ کر پھر پراٹسٹنٹ ہونے کا اقرار کیا اور یہ بھی اقرار کیا کہ موت کے ڈر سے میں نے اپنا مذہب چھوڑنے کا وعدہ کیا تھا.۱۵۵۶ء میں آگ میں جلایا گیا.مگر یہ تو بتاؤ یہ ثالوثی.مثلث خدا کو ماننے والے تین میں ایک.ایک میں تین کے معتقد تمام الہٰی شریعت کو جو توریت میں تھیں لعنت کہہ کر اس پر پانی پھیرنے والے کفارہ مسیح پر اعتقاد کر کے بدوں اعمال بہشت کے وارث بننے والے ابرہیمؑ کی طرح کیوں بچائے جاتے؟ کیا خدا تعالیٰ ایسے ناپاک مشرکوں کو پاک موحّدوں کی جگہ پر اتارا کرتا ہے!… یہ سب لوگ ابراہیمؑ کے ایمان کے بالکل مخالف اور ضد ہیں.جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے.اﷲ تعالیٰ کے مرسل و مامور اپنے اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مرے اور نہ ہلاک ہوتے اور نہ مارے جاتے ہیں.مامورین کے ساتھ جدال و قتال ہوتا ہے جس کا ذکر (اٰل عمران:۱۸۴) اور(البقرۃ:۹۲)میں ہے.مگر یہ مقاتلہ و مقابلہ کرنے والے ناکام و نامراد مرتے ہیں.اور مامور لوگ اﷲ کے فضل سے مظفر و منصور اور کامیاب ہو کر دنیا سے جاتے ہیں.کیا تم نے نہیں سُنا(المائدہ:۴)کی آواز کس نے سُنی.کیا اس بد انجام نے جو ویدوں کا ترجمہ بھی کامل نہ کر سکا.اور جو کیا.اس میں بھی پنڈت لوگوں کا تصرف و دخل شامل ہو گیا.جس کے باعث وہ ترجمہ بے اعتبار ہے اور تم کو آگاہی نہیں..(النصر:۲،۳)کی وحی کس کو ہوئی.حزب اﷲ ہمیشہ غالب ہوتا ہے اور حزب الشیطان ہمیشہ خائب و خاسر مرتا ہے.یہی بات تو ہے جس پر ہمارا امام اور ہم خوشیاں مناتے ہیں.لیکھرام کو آگ لگی.اور جل کر کباب ہو گیا.اور اسکا مخالف اب تک عیش و آرام میں ہے.اس کے لئے اس کے گھر میں باغ ہے اور چشمے جاری ہیں ؎

Page 135

خدا خود سوزَدآں کرمِ دَنی را کہ باشد از عَدُوَّانِ محمّدؐ (نور ا لدین طبع سوم صفحہ ۱۷۱ تا ۱۷۵) ۷۳. : پوتا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۷۹. : وہ فیصلہ نہ قرآن میں مذکور ہے نہ حدیث میں.ہمیں ضرورتِ تفتیش نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۷) ۸۰.  : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ بڑوں کو بعض وقت بات نہیں سمجھاتا جو چھوٹوں کو سمجھا دیتا ہے.: پہاڑی قومیں : جانور تابع کئے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) داؤد و سلیمان کے بیان میں بتایا کہ بعض وقت چھوٹے وہ حق بات کہہ جاتے ہیں.جس کی طرف بڑوں کا ذہن منتقل نہیں ہوتا.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۷)

Page 136

۸۱. : ہمارے نبی کریمؐ نے زرہ بنائی.وہ اسلام ہے اور پھر میرے ہاتھ میں ہے.وہ قرآن ہے.کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.کوئی شخص اس کتاب کے فہم والے کا مقابلہ نہیں کر سکتا.مجھ سے خدا نے وعدہ کیا ہے کہ میں تمہیں دشمن کے مقابل پر اس کے معنے سمجھاؤں گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۸۲. : ہوا کے جہاز ان کے ماتحت چلتے.: آپ کے حکم سے گویا چلتے.: خلیج فارس کے جہاز ہندوستان کی چیزیں شام تک لے جاتے.یورپ اور افریقہ کے اسباب بحیرہ روم کے ذریعے پہنچتے.حبش.شمالی لینڈ.یمن اور جزائر کی چیزیں بحیرہ قلزم کے ذریعہ پہنچتی تھیں غرض تین طرف سے بحری سفر ہوتا ۱.خلیج فارس ۲.بحیرہ روم ۳.بحیرہ قلزم.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۸۳. : شَطَنُ البِئْر.یہ کنواں بڑا گہرا ہے.گہرے کنوئیں کو شَطَنْ کہتے ہیں.شاید تم نے نظارے نہیں دیکھے.جو غوطے لگاتے ہیں.سیپیاں لاتے ہیں.دو رسّے ہوتے ہیں.دیر تک اس کے نیچے رہتے ہیں.صبح سے لے کر نصف النھار تک غوطہ لگا سکتے ہیں.انہی کو شیاطین

Page 137

کہا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) : دور دور کے لوگ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۶۷ستمبر ۱۹۱۳ء) : سلیمان کے قبضے میں خلیج فارس تھی.تم نے سنا ہو گا کہ وہاں موتی نکلتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۲) ۸۸.  : جو کسی غضب میں آکر چل دئے.لَنْ: ہم اس پر کسی قسم کی تنگی نہیں کریں گے.یہ معنے نہیں.کہ قادر نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) حضرت یونسؑ کی دُعا بھی اپنے اندر بہت سے اسرار رکھتی ہے.وہ یہ ہے لَآ .پہلے لَآ سے مسئول کی تعریف کی ہے.اور اسے مبداء تمام فیوضات کا اور اپنی ذات میں کامل اور صمد قبول کیا اور  سے اس پر بہت زور دیا (الانعام:۱۸) ’’ اگر تجھے اﷲ کسی تکلیف میں ڈالے تو اس کا دور کرنے والا بھی اس کے سوا کوئی نہیں‘‘ کے ماتحت دُکھ درد دور کرنے والا اﷲ ہی کو مانا اور اسے تمام نقصوں سے منزّہ اور تمام عیبوں سے مبرّا جانا.دوسری طرف (الشورٰی:۳۱)( جو تمہیں مصیبت پہنچے تو وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں سے ہے) کے موافق اس مصیبت کو اپنی کسی کمزوری کا نتیجہ قرار دیا.پھر سُبْحَانَکَ سے تمسّک کر کے اپنی مصیبت میں پڑنے اور اپنی کمزوری کا اقرار کیا. گویا استغفار کیا.لَآتوحید ہے.اور توحید فاتحِ ابوابِ خیر ہے اور استغفار مُغْلِقُ اَبْوَابِ الشَّرِّ ہے.اور اس دعا میں سب کچھ ہے اور اس پر صادق آتا ہے.(الانبیاء:۹۱)(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۱ صفحہ۳۷)

Page 138

۹۲.  : اپنا پاک کلام (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) : اپنا کلام اس کو پہنچایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۷.۴۶۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) حضرت مریم میں الہٰی کلام کو پہنچا دیا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۹۳) ۹۵،۹۶.  یہ رکوع بڑا مشکل ہے.میرے لئے نہیں.کیونکہ مجھ پر اﷲ نے اس کے معنے کھول دیئے ہیں.زیادہ تر تو لوگوں نے خود ہی اسے مُغْلَق کر دیا.: ناقدری نہ ہو گی.: ۱.ضروری ۲.عزم (پکّی بات) : وہ اپنی شرارتوں سے کبھی رکنے والے نہ تھے.اور انکی مثل بھی پیدا نہ ہوں گے.مگر اس زمانہ میں کہ یا جوج ماجوج فتح ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۹۷.  : یہ لوگ کسی بڑی سے بڑی سلطنت کو زیر نظر

Page 139

رکھ لیتے ہیں.جب اس کو فتح کر لیا تو اس سے کم درجے کی ریاستیں خود ہی قابو میں آ جاتی ہیں.نہروں میں بھی یہی طریق ہے کہ حدب (کمر) کی تلاش رکھتے ہیں.پھر اس پر قبضہ کر کے اور اسے سیدھا کر کے سیدھی نہر لے جاتے ہیں.: یہ ان قوموں کے مُورثِ اعلیٰ کا نام ہے.میرے ایک دوست نے مجھے بتا دیا تھا کہ سب سے پُرانا بُت لنڈن میں یاجوج ماجوج کا ہے.تورات میں جُوج.مسک.ٹابولسک کے سردار کو کہا اور جزائر کے رہنے والے کو (حز قیل باب ۳۸،۳۹) کسی زمانے میں وسط ایشیا میں ان کا زور تھا.میدوفارس کو بہت دُکھ دیتے تھے.ان کے روکنے کیلئے ذوالقرنین نے دیوار بنائی.پھر آہستہ آہستہ تمام ممالک میں پھیل گئے.چونکہ ان ناموں کا مادہ اجؔ(آگ سے) ہے.یہ قومیں بلحاظ اپنے رنگ اور اپنے کاموں کے آگ سے کام لینے والے ہیں.غرض تمام قسم کی بدکاریوں.آزادیوں.خدا کے انکار.انبیاء کی ہتک کے ظہور کا زمانہ.ان کے پھیل جانے کا وقت بتاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) : زمانہ خروج یاجوج ماجوج ہر نیک و بد کا نمونہ موجود ہو گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸) ۹۸.  : ہم بڑے مشرک تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۱۰۵.  : جس طرح مضمون کے اندر اس کی تحریر

Page 140

مضمون محفوظ رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) جس دن لپیٹیں گے آسمان کو مانند لپیٹنے کاغذ کتاب کے جیسے ہم نے پہلے پیدائش کو شروع کیا ہم دُہرا دیں گے اُس کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۴۵) : جس طرح ایک تحریر اپنی مکتوب چیز و مضمون کو لپیٹ لیتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۰۶.  : زبور کے معنے ابنیاء کی کتب.: ذکر سے مراد.اُمّ الکتب.لوحِ محفوظ.بعضوں نے کہا.ذکر سے مراد قرآن یا تورات ہے.: بہشت کی سرزمین.اسی دنیا سے ملنی شروع ہوتی ہے.اور پھر آگے بڑھتی جاتی ہے.اور اس کے وارث صالح بندے ہوتے ہیں.اسی طرح جہنم کی زندگی بھی بدرُوح کیلئے یہیں سے شروع ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۱۱۳.  : یہ محمدؐ رسول اﷲ کی دُعا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۹ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 141

سُوْرَۃُ الْحَجِّ مَکِّیَّۃٌ  ۲. انسان کو جب راحت.آرام.کامیابی ہو تو خوش ہوتا ہے.اگر اس خوشی میں اس کی تدبیر کو دخل ہو تو بہت ہی فخور ہو جاتا ہے.اور دوسرے ناکاموں پر آوازے کستا ہے.جب ناکامی ہو جائے.نامرادی یہ دیکھ لے تو اس وقت خدا یاد آتا ہے ( اگر خدا کا قائل ہو) ورنہ کلماتِ کفر زبان سے نکالتا ہے.کامیابی میں تکبّر.ناکامی میں تنزّل انسانی فطرت کا خاصہ ہے.مثنوی میں ایک حکایت ہے کہ ایک متکبّرا میر کے کانٹا چُبھ گیا.اس کو نکالنے کیلئے سر نیچا کرنا پڑا تو اُسے کہا گیا یہ ہے تکبّر کی حقیقت کہ ایک کانٹے نے سر جھکا دیا.: کامیابی میں بھی متّقی ہو.ناکامی میں بھی.خوشی میں بھی تقویٰ کی حد بندی کو نگاہ رکھو.: ایک نہ ایک وقت مصیبت کا آتا ہے.اس وقت ماں بچّے کو بھُول جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) اس سورۃ میں تمام قوموں کو آگاہ کرتا ہے.کہ زلزلۃ الساعۃ آتا ہے.(جنگ) (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳. 

Page 142

  : عشق اور سُکر کا لفظ اچھے معنوں میں ہمارے ہاں نہیں آیا.نہ قرآن میں عشق کا لفظ ہے.صحیح حدیث میں متوالا اس کے معنے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۴.  : افسوس کہ آجکل کے کالجیئیٹ اور نئے تعلیم یافتہ مولوی اﷲکی ذات صفات.احکام.افعال.تعلیمات میں بحث کرنے کو تو ہر وقت تُلے رہتے ہیں.مگر مطلقاً علمِ قرآن و حدیث سے بے خبر ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۵.  : اس گروہ سے جو خدا تعالیٰ سے دُور ہیں اس سے جو دوستی رکھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۶.  

Page 143

   : تھوڑی سی چیز.منی کے جس حصّے سے انسان بنتا ہے.وہ بدوں خوردبین نظر ہی نہیں آتا.لِنُبَیِّن لَکُمْ: تابیان کریں ہم کہ تم اپنے محافظ خود نہیں.بعض بغیر کامل ہوئے گرِ بھی جاتے ہیں.بعض صورت پذیر ہوتے ہیں.: اس حالت میں انسان طفیلی ہی ہوتا ہے.نہ خود کھا سکتا ہے.نہ پہن سکتا ہے بلکہ کھڑا تک نہیں ہو سکتا.یہ تغیرّات قیامت کے قیام اور ایک خاص وقت پر نبوّت کے ظہور پر دال ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۸. : اس میں یہ اشارہ بھی ہے کہ جو کافر ہیں ان میں سے کئی مومن ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ٔ۹.

Page 144

  : اکثر لوگ جو علم پڑھتے ہیں.ان میں خشیۃ اﷲ ہرگز نہیں ہوتا. : واعظ بجائے اس کے کہ قرآن و حدیث کا وعظ کریں مُضْحِکَاتْ و مُبْکِیَاتْ کو وعظ کی روح و رواں سمجھتے ہیں اور اس قسم کی حکایتیں یاد کئے ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۳) ۱۰.  : اس کے معنے ہیں.مُتَکَبِّرًا.متکبّر شخص اپنی گردن کو مروڑ کر بات کرتا ہے.(لقمان:۸)اس کی تفسیر میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۱۲.   مکّہ میں صریح دشمن موجود تھا اور مدینہ طیّبہ میںبھی کئی قسم کے دشمن موجود تھے.تین ۳ یہودیوںکے دو ۲ مشرکوں کے.ایک عیسائیوں کا.ساتواں گروہ منافقوں کا.یہ سورۃ میرے نزدیک مدنی ہے.اور اس میں مخاطب مکّہ والے بھی ہیں.اسی میں فتح مکّہ کا اشارہ ہے اور انذار ہے سب مخالفین کو.پہلے رکوع میں صریح دشمن مخاطب تھے.دوسرے رکوع میں منافقوں سے خطاب ہے.

Page 145

: مومن وہ ہے جو خوشحالی و تنگ حالی میں خدا کی قضاء پر راضی رہے.…الخ:یہ طریق منافقوں کا ہے.: آرام.بھلائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۱۴.  : رامپور میں … ایک شخص ا پنے آقا کی خدمت کرتا اور کہتا.خدا اور نمازیں بھی دیکھ لیں.جو کچھ ہے یہی ہے.ایک ماہ خدمت کر چکا.ابھی تنخواہ نہ پائی تھی کہ وہ یکدم قتل کیا گیا.اس وقت اسے معلوم ہوا کہ (یونس:۶۷) کاکیا ضرر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۱۶.  لَنْ: ہ کا مرجع نبی کریمؐ ہے.ضمائر کا مسئلہ قابلِ غور ہے.نبی کریمؐ کا ذکر نہیں ہو چکا اور ضمیر آ گئی.فرماتا ہے جو یہ باور کر رہا ہے کہ دنیا میں اس نبی کو مدد نہیں ملے گی.: اس آیت کے دو معنے کئے گئے ہیں.۱.وہ کوئی ترکیب بنا کر آسمان میں جائے اور محمدؐ رسول اﷲ کو جہاں سے نصرت آتی ہے وہاں سے کاٹ دے ( بغیر اس کے کوئی طریق نہ ہو سکے گا) گویا اس نادان کو سمجھایا ہے کہ آسمانی نصرت کو کون روک سکتا ہے.۲.سَمَاء کے معنے چھت کے ہیں.جو شخص کہتا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو نصرت نہیں ہو گی اسے چاہیئے کہ چھت میں رسّہ لٹکا کر پھانسی لے لے ( اور خود کشی کر لے).یہ نصرت تو ضرور آنی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴)

Page 146

۱۸.   : ان سب قوموں کا نام لیا ہے.جن کا متنبّہ کرنا مقصود ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) : صابیوں کو صبہ کہتے ہیں.ثابت بن قرّہ ایک مشہور طبیب ہے.انہی میں سے ہے.صابیوں کے تین مذہب ہیں.تینوں کا اثر مسلمانوں میں دیکھتا ہوں.(۱) ایک تو تعویذ.گنڈے.ٹوٹکے اور ستاروں کے سعد و نحس کا خیال یا بد رُوح کا لفظ انہی سے لیا گیا ہے.(۲) صوفیانہ طبیعت رکھتے ہیں معتزلہ و نیاچرہ ۱؎ میں ان کے دلائل پائے جاتے ہیں.(۳) ایک ان میں سے اپنے طور پر نماز پڑھتے.وضو کرتے ہیں.رو بقبلہ بھی ہوتے ہیں.بغداد میں بھی ہیں.مسلمان نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۱۹.  

Page 147

 : یہاں کہتے ہیں کہ سجدہ فرض ہے.میرے نزدیک بھی ایسا ہی ہے.کیونکہ پیشگوئی کو بڑے زور سے بیان کیا اور وہ پوری ہوئی.آخر طوعاً وکرھًا خدا کے حکم کو ۱؎ جمع نیچری.مرتب ماننا پڑا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۰.  : کافر.مومن آگے ان دونوں کا انجام بیان ہوتا ہے.: دنیا میں یہ نار جنگ کے رنگ میں ظاہر ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۳.  : ظاہری رنگ میں ان کے باغات جلائے گئے.حضرت علیؓ.حضرت حمزہؓ.حضرت معاویہؓ یہ تین تھے جن کے مقابلہ میں عتبہ.شیبہ.ولید کھڑے تھے.ان کا بیان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۴. 

Page 148

یہ سورۃ فتوحات کیلئے بیان فرمائی.اس میں فتح مکّہ، مدینہ.فتح عراق کی طرف اشارہ ہے.عرب ایک خشن ۱؎ پوش قوم تھی.اونٹوں.بکریوں.گوسپندوں کے بالوںکے کپڑے پہنتے.نہ ریشم نہ پشمینہ.: اﷲ تعالیٰ رسول کے ذریعہ بشارت ۱؎ خَشِن:.کُھردرا.سخت (مرتب) دیتا ہے کہ تم عراق.عرب ایسے ممالک کے فاتح ہو گے.اور بجائے خشن پوشی کے ریشم دیا جاوے گا.: زیور دئے جائیں گے.جنگ میں عورتیں بھی شامل ہوتی تھیں.یہ سب چیزیں جن کے پہننے کی تھیں.انہیں کو پہنائی جائیں.مگر انعام میں اکثر چیزیں اب بھی مردوں کو ملتی ہیں.یہ مطلب نہیں ہوتا کہ مرد پہن لیں.سراقہ بن جعشم ایک شخص تھا.اس کو رسول اکرمؐ نے فرمایا کہ تجھے کسریٰ کے کڑے دئے جاویں گے.اس نے ہاتھ ننگا کر کے کہا کہ ان ہاتھوں میں کڑے؟ فرمایا.میں تو دیکھ رہا ہوں چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں اسے پہنائے گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۵.  : زبان کی شائستگی عرب کو بالخصوص بخشی گئی تھی.عرب اپنے مرکز کے لحاظ سے کبھی مفتوح نہیں ہوئے.یونانی باؤگولہ بھی پنجاب تک پہنچا مگر عرب پر وہ بھی تسلّط نہ کر سکا.روما کی سلطنت بھی عظیم تھی اور فراعنہ مصر کی بھی.لیکن سب کی دست بُرد سے محفوظ رہے اور خود بھی فاتح نہ ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۷.

Page 149

 : پاک رکھو کہ کسی قسم کی بُت پرستی نہ ہونے پاوے.حضرت ابراہیمؑ نے سات دعائیں کی ہیں.ا.جب عمارت بنائی.باپ بیٹا مل کر دعا کرتے تھے. (البقرۃ:۱۲۹)الہٰی ہمیں اپنا فرماں بردار بنا لے.۲.(البقرۃ:۱۲۹) ۳. ۴.(البقرۃ:۱۲۹) پھر دعا کی ۵..۶..۷.(البقرۃ:۱۳۰) کل بناء کعبہ میں سات دعائیں کی ہیں.اس واسطے مومن سات دفعہ وہاں طواف کرتا ہے اور یہ دعائیں کرتا ہے.اس مقام کو ڈھونڈتا ہے جہاں یہ دعائیں قبول ہوئیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) ۲۸.  اور پکار دے لوگوں میں حج کے واسطے کہ آویں تیرے پاس پیدل اور سوار دُبلے دُبلے اُونٹوں پر چلتے آتے راہوں دُور سے.کہ پہنچیں اپنے بھلے کی جگہوں پر.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۳) ۲۹.   : حج کے منافع عجیب در عجیب ہیں.انسان جب اپنے وطن میں رہتا ہے

Page 150

تو بوجہ محبت ، وطن چھوڑ نہیں سکتا.مگر جو قومیں گھروں کے چھوڑنے کی عادی ہیں وہ بہت ہی نفع میں رہیں.ہمارے امراء بہت سُست ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۴) وضعداری ہمارے ملک میں بہت ہی رائج ہے.اس کے توڑنے کیلئے حج ہے.جس میں ایسی وضع داریاں خاک میں مِل جاتی ہیں.پھر بڑا نفع تو یہ ہے کہ لاکھوں آدمی جب مل کر دُعا کرتے ہیں تو ضرور مقبول ہوتی ہے اور اس وقت خصوصیت سے ایک جوش اُٹھتا ہے.کوئی مدبّر.کوئی حکیم.کوئی فلسفی.کوئی موجد کوئی عالم دنیا کے کسی حصّے میں پیدا ہو.وہاں ضرور خبر ہو جاتی ہے.کیونکہ تمام ممالک کی مخلوق کا کوئی نہ کوئی نمونہ وہاں موجود ہوتا ہے.میں نے مکّہ میں ایک بزرگ دیکھے کہ وہ جلد جلد عربی میں بات کرتے.مگر ان کی کوئی بات علمِ حدیث سے باہر کی نہ ہوتی.ایک سوال کے جواب میں فرمایا.کہ یہ مطلب نہیں کہ مکہ میں منافع ہی منافع ہیں.نقصان بھی ہو جاتے ہیں.مگر زیادہ منافع ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) ۳۱.   : جس کو خدا نے بڑا بنایا ہے اس کی تعظیم کرو.اس سے یہ مسئلہ بھی نکل آتا ہے کہ حاکمِ وقت کی اطاعت چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) .: بُتوں کی ناپاکی سے بچو.اور جھوٹی باتوں سے بچو.اور اﷲ کی طرف جھکنے والے اور شرک سے بیزار ہو جاؤ.( نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۹ دیباچہ)

Page 151

۳۲.  بُتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹی باتوں سے بچواور اﷲ کی طرف جھکنے والے اور شرک سے بیزار ہو جاؤ.( نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۹ دیباچہ) ۳۳. : جس سے اﷲ کا شعور پیدا ہو.قرآن کریم کی بہت تعظیم ہے کہ یہ شعائر اﷲ میں سے اعظم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) پاؤں قبلہ کی طرف کر کے سونا تعظیم قبلہ کے خلاف ہے.اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے  اور تعامل اسلام میں ہم کسی کو نہیں پاتے کہ قبلہ کی طرف مُنہ کرے.(بدر ۲۷؍فروری ۱۹۰۸صفحہ۳) ۳۵.   قربانی ایک اصل الاصول ہے تمام ترقیات کا.کوئی مذہب.کوئی سلطنت.کوئی تمدّن قربانیوں سے خالی نہیں.گند میں جو اجرام پیدا ہوتے ہیں وہ شیر.چیتے.بھیڑیے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں.ان کے زہر کے تریاقوں میں سے دھوپ.روشنی.ہوا ہے.بڑے اہتمام سے پاخانوں اور ایسے گندے مقامات کی صفائی کروائی جاتی ہے.مگر یہی گند کھاد بن کر ایسی

Page 152

قربانی ایک اصل الاصول ہے تمام ترقیات کا.کوئی مذہب.کوئی سلطنت.کوئی تمدّن قربانیوں سے خالی نہیں.گند میں جو اجرام پیدا ہوتے ہیں وہ شیر.چیتے.بھیڑیے سے بھی زیادہ خطرناک ہیں.ان کے زہر کے تریاقوں میں سے دھوپ.روشنی.ہوا ہے.بڑے اہتمام سے پاخانوں اور ایسے گندے مقامات کی صفائی کروائی جاتی ہے.مگر یہی گند کھاد بن کر ایسی خوشنما عمدہ نباتات پیدا کرتا ہے کہ جس کے اکثر حصّہ پر انسان کی حیات کا دار و مدار ہے.گویا یہ اجرام قربان کئے جاتے ہیں انسان کیلئے.پھر دیکھا جاوے تو انسان کی زندگی کیلئے کس قدر نباتات قربان کئے جاتے ہیں.وہیل مچھلی کیلئے کس قدر مچھلیاں قربان کی جاتی ہیں ادنیٰ آدمی بڑے آدمیوں کیلئے اپنا آرام.اپنی صحت اپنا وقت اور جسم خرچ کرتے ہیں.بلکہ اس سے بڑھ کر فوجوں کا نظارہ ہے کہ سپاہی سے لے کر افسر.کمانڈر انچیف تک درجہ بدرجہ بادشاہ کیلئے جان تک قربان کرتے ہیں.غرض یہ سلسلہ بڑا لمبا ہے.اور ہر قوم میں قربانی موجود ہے.اسی لئے فرمایا .مسلمانوں کے لئے مابہ الامتیاز فرمایا.کہ وہ قربانی کے موقع پر اﷲ کو یاد کر لیا کریںاور اس بات پر غور کریں کہ ادنیٰ اعلیٰ کیلئے کس طرح پر قربان کیا جاتا ہے.اور کیونکر ایک جانور اپنا آپ اپنے سے اعلیٰ انسان کے آگے چپ چاپ رکھ دیتاہے.پس اسی طرح ہم کو اپنی جانیں آستانۂ الوہیت پر قربان کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) ۳۶.  : نماز سے بڑھ کر کوئی وظیفہ نہیں.تسبیح.تکبیر.تہلیل.تمام لوگوں کیلئے دُعا اور تبتل الی اﷲ.اﷲ کی جانب سے پناہ.درُود سب کچھ اس میں موجود ہے بلکہ اس کی ہیئت بھی جامع ہے.تمام تعظیمات کی اور ذکر جامع ہے تمام اذکار کا.اور اس میں تعظیم لامراﷲ ہے.: یہ اسلام کا دوسرا رُکن ہے.شفقت علیٰ خلق اﷲ پس جو اﷲ نے تمہیں دیا ہے اس میں سے کچھ دو.مال.طاقت.علم.ہنر  میں شامل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵)

Page 153

۳۸.   : اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے.جیسے وہ (جانور) تمہارا فرماں بردار ہے.ایسے ہی تم میرے مطیع ہو جاؤ.راضی بقضاء.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) ٔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کو غور سے دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو تقوٰی بہت پسند ہے.اگر انسان اﷲ کے ساتھ سچا معاملہ نہ کرے تو اس کے ظاہری اعمال کوئی حقیقت نہیں رکھتے.انسان فطرۃً چاہتا ہے کہ کوئی اس کا پیارا ہو جو ہر صفت سے موصوف ہو.سو اﷲ سے بڑھ کر ایسا کوئی نہیں ہو سکتا.یہ پیارے تو آخر جُدا ہوں گے.ان کا تعلق ایک دن قطع ہونے والا ہے.مگر اﷲ کا تعلق ابدالآباد تک رہنے والا ہے.دنیا کی فانی چیزیں محبت کے قابل نہیں کیونکہ یہ سب فنا پذیر ہیں.کیا دنیا میں کوئی ایسی چیز ہے جو بقاء رکھتی ہے.ہرگز نہیں پس اس کی رحمت اور اس کے فضل کا سہارا پکڑو.اور اسی کو اپنا پیارا بناؤ کہ وہ باقی ہے… جو اﷲ کیلئے انشراحِ صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں.اﷲ بھی ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.اس کے بدلے ابراہیمؑ کو اتنی اولاد دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں.مگر پھر بھی ابراہیم ؑکی اولاد صحیح تعداد کی دریافت سے مستثنیٰ ہے.کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہوئیں.کیا کیا انعامِ الہٰی اس پر ہوئے کہ گننے میں نہیں آ سکتے.ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرورِ کائنات حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اسی ابراہیمؑ کی اولاد سے ہوئے.پھر اس کے دین کی حفاظت کیلئے خلفاء کا وعدہ کیا.کہ انہیں طاقتیں بخشے گا اور ان کو مشکلات اور خوفوں میں امن عطا کرے گا.یہ کہانی کے طور پر نہیں.یہ زمانہ موجود.یہ مکان موجود تم موجود.قادیان کی بستی موجود.ملک کی حالت موجود ہے کس چیز نے ایسی سردی میں تمہیں دُور دُور سے یہاں اس مسجد میں جمع کر دیا.

Page 154

سنو! اسی دستِ قدرت نے جو متّقیوں کو اعزاز دینے والا ہاتھ ہے.اس سے پہلے پچیس برس پر نگاہ کرو.تم سمجھ سکتے ہو کہ کون ایسی سخت سردیوں میں اس گاؤںکی طرف سفر کرنے کیلئے تیار تھا.پس تم میں سے ہر فردِ بشر اس کی قدرت نمائی کا ایک نمونہ ہے.ایک ثبوت ہے کہ وہ متّقی کے لئے وہ کچھ کرتا ہے جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں ہوتا.یہ باتیں ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں یہ قربانیوں پر موقوف ہیں.انسان عجیب عجیب خوابیں اور کشوف دیکھ لیتا ہے.الہام بھی ہو جاتے ہیں.مگر یہ نصرت حاصل نہیں کر سکتا.جس آدمی کی یہ حالت ہو.وہ خوب غورکر کے دیکھے کہ اس کی عملی زندگی کس قسم کی تھی.آیا وہ ان انعامات کے قابل ہے یا نہیں.یہ مبارک وجود نمونہ موجود ہے.اسے جو کچھ ملا.ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس نے خداوند کے حضور گزاریں.جو شخص قربانی نہیں کرتا جیسی ابراہیمؑ نے کی اور جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کیلئے نہیں چھوڑتا تو خدا بھی اس کیلئے پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جیسے دشمن موجود تھے.مگر وہ خدا جس نے (المؤمن:۵۲) فرمایا.اس نے سب پر فتح دی.صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا تم اپنے بھائیوں کا جتھا نہ چھوڑو ایک ہی حملہ میں یہ تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہؓ سے ایک خطرناک آواز سُنی.اور وہ ہکّا بکّا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریمؐ کے اﷲ کے حضور بار بارجان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں نثار مرید ملے اور وہ جو باپ بنتے تھے.جو تجربہ کار تھے.ہر طرح کی تدبیریں جانتے تھے.ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے.اور وہ خدا کے حضور قربانی کرنے والا متّقی نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ اپنے خلفاء راشدین کیلئے بھی وعدہ لے لیا… متّقیوں کی جماعت میں شامل ہونا پھر ہر سال میں دیکھنا کہ جیسے ہم ایک جانور پر جو ہمارے مِلک اور قبضہ میں ہے جُزوی مالکیّت کے دعوٰی سے چھُری چلاتے ہیں.اسی طرح ہمیں بھی اپنے مولیٰ کے حضور جو ہمارا سچا خالق ہے اور ہم پر پوری اور حقیقی مالکیّت رکھتا ہے.اپنی تمام نفسانی خواہشوں کو اس کے فرمانوں کے نیچے ذبح کر دینا چاہیئے.قربانی کرنے سے یہ مراد نہیں کہ اس کا گوشت اﷲ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس سے ابراہیم و اسماعیل علیھما السلام کی فرماں برداری کا نظارہ مقصود ہے تا تم بھی قربانی کے وقت اس بات کو مدّ نظر رکھو کہ تمہیں بھی اپنی تمام ضرورتوں اعزازوں.ناموریوں اور خواہشوں کو خدا کی فرماں برداری کے نیچے قربان کرنے کیلئے تیار رہنا چاہیئے.جس طرح ان جانوروں کا خون گراتے ہو.ایسا ہی تم

Page 155

بھی خدا کی فرماں برداری میں اپنے خون تک سے دریغ نہ کرو.انسان جب ایسا کرے تو وہ کوئی نقصان نہیں اٹھاتا.دیکھو ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا نام دنیا سے نہیں اُٹھا.ان کی عزّت و اکرام میں فرق نہیں آیا.پس تمہاری سچی قربانی کا نتیجہ بھی بَد نہیں نکلے گا..تقویٰ خدا کو لے لیتا ہے.جب خدا مل گیا تو پھر سب کچھ اسی کا ہو گیا.معجزوں کی حقیقت بھی یہی ہے.جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو اس کو تمام ذرّاتِ عالم پر ایک تصرّف ملتا ہے.اس کی صحبت میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ایک انسان کے اخلاق کا اثر دوسرے کے اخلاق پر پڑتا ہے.بعض طبائع ایسی بھی ہیں.جو نیکوں کی صُحبت میں نیک اور بدوں کی صحبت میں بد ہو جاتی ہیں.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۸،۹) : قربانی کے سلسلہ میں خدا گوشت کا بھُوکا نہیں.بلکہ خدا کو پانے کیلئے تقویٰ ہے.وہ ہمیں اپنے تک پہنچنے کا ایک طریق سکھاتا کہ ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کر دو.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۸) قربانی جو عیدالاضحٰی کے دن کی جاتی ہے.اس میں بھی ایک پاک تعلیم ہے.اگر اس میں مدّنظر وہی امر رہے جو جنابِ الہٰی نے قرآن شریف میں فرمایا..قربانی کیا ہے؟ ایک تصویری زبان میں تعلیم ہے جسے جاہل عالم پڑھ سکتے ہیں ! خدا کسی کے خون اور گوشت کا بھُوکا نہیں.وہ ھُوَ(الانعام:۱۵)ہے ایسا پاک اور عظیم الشان بادشاہ نہ تو کھانوں کا محتاج ہے نہ گوشت کے چڑھاوے اور لہُو کا! بلکہ وہ تمہیں سکھانا چاہتا ہے کہ تم بھی خدا کے حضور اسی طرح قربان ہوجاؤاور ادنیٰ اعلیٰ کیلئے قربان ہوتا ہے.کل دنیا میں قربانی کا رواج ہے.اور قوموں کی تاریخ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ادنیٰ چیز اعلیٰ کے بدلے میں قربان کی جاتی ہے.یہ سلسلہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی چیزوں میں پایا جاتا ہے.ہم بچے تھے تو یہ بات سُنی تھی کہ کسی کو سانپ زہریلا کاٹے تو وہ انگلی کاٹ دی جاوے تاکہ کل جسم زہریلے اثر سے محفوظ رہے.گویا انگلی کی قربانی تمام جسم کے بچاؤ کیلئے کی گئی.۲.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا کوئی دوست آ جاوے تو جو کچھ ہمارے پاس ہو اس کی

Page 156

خوشی کیلئے قربان کرنا پڑتا ہے.گھی آٹا گوشت وغیرہ قیمتی اشیاء اس پیارے کے سامنے کوئی ہستی نہیں رکھتیں.۳.اس سے زیادہ عزیز ہو تو مرغے مرغیاں حتّٰی کہ بھیڑیں اور بکرے قربان کئے جاتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر گائے اور اونٹ تک بھی عزیز مہمان کیلئے قربان کر دئے جاتے ہیں.۴.میں نے اپنی طبّ میں دیکھا ہے کہ وہ قومیں جو جائز نہیں سمجھتیں کہ کوئی جاندار قتل ہو وہ بھی اپنے زخموں کے کئی سینکڑوں کیڑوں کو مار کر اپنی جان پر قربان کر دیتی ہیں.۵.اس سے اوپر چلیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ادنیٰ لوگوں کو اعلیٰ کیلئے قربان کیا جاتا ہے.مثلاً چوہڑے ہیں آج عید کا دن ہے مگر ان کے سپرد پھر بھی وہی کام ہے بلکہ صفائی کی زیادہ تاکید ہے گویا ادنیٰ کی خوشی اعلیٰ کی خوشی پر قربان ہوئی.۶.ہندو گئورِکھشا بڑے جوش سے کرتے ہیں ( لداخ کے ملک میں تو دودھ تک نہیں پیتے کیونکہ یہ بچھڑوں کا حق ہے اور یہاں کے ہندو تو دھوکہ دے کر دودھ لیتے ہیں) مگر پھر بھی اس سے اور اس کی اولاد سے سخت کام لیتے ہیں.یہاں تک کہ اپنے کاموں کیلئے انہیں مار مار کر درست کرتے ہیں.یہ بھی ایک قسم کی قربانی ہے.۷.ادنیٰ سپاہی اپنے افسر کیلئے اور وہ افسر اعلیٰ افسر کیلئے اور اعلیٰ افسر بادشاہ کے بدلے میں قربان ہوتا ہے پس خدا تعالیٰ نے اس فطرتی مسئلہ کو برقرار رکھا اور اس قربانی میں تعلیم دی کہ ادنیٰ اعلیٰ کیلئے قربان کیا جاوے.۸.محبت میں انسان بے اختیار ہوتا ہے.مگر اس میں بھی قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے چنانچہ مُحِبّ بھی بتدریج محبوبوں کے مراتب رکھ کر ایک کو دوسرے پر قربان کرتا رہتا ہے.اپنا پیسہ یا جان محبوب ہے مگر دوسرے محبوب پر اسے قربان کر دیتے ہیں عُذر نہیں.انسان کو مال کی محبّت ہے.بی بی کی محبّت ہے.بچوں کی محبّت ہے.یارو آشنا کی.امن و چین کی محبّت ہے.اﷲ کی کتابوں.اﷲ کے رسولوں سے محبّت ہے.سچّے علوم سے بھی محبّت ہے ان تمام محبّتوں کے مراتب ہیں اور ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کیا جاتا ہے.(بدر ۳۰؍دسمبر۱۹۰۹ء صفحہ۱.۲) : جیسے یہ تمہارے فرماں بردار.ویسے ہی تم اﷲ کے فرماں بردار بنو.قربانی میں یہی سمجھایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳)

Page 157

۳۹.  : اﷲتعالیٰ نے ہر چیز کی حد بندی مقرّر کر دی ہے.جب اس حد سے کوئی چیز بڑھنے لگتی ہے تو اس کو دفع کرنے والی چیز پیدا کر دیتا ہے.کفر بڑھ گیا ہے اس لئے حضرت محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کو پیدا کر دیا.کیونکہ وہ کفر کیشوں کو پسند نہیں کرتا.یہ خیال کہ کوئی مہدی ایسا آئے گا جو تمام جہان کو مسلمان بنا لے گا.ایک لغو خیال ہے.کیا وہ حضرت محمد رسول اﷲسے بڑھ کر قوّتِ قدسیہ رکھنے والا کوئی ہو گا؟ کیا وہ قرآن شریف سے بڑھ کر کتاب لائے گا؟ اﷲ تعالیٰ ہر چیز کو ایک حد کے اندر رکھنا چاہتا ہے! (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵) ۴۰.  اجازت دی گئی اُن لوگوں کو جن سے لڑائی کی گئی اس لئے کہ وہ مظلوم ہیں اور اﷲ انہیں دشمن پر غالب کر دینے پر قادر ہے… اسلام کا خدا تعالیٰ نے دونوں طرح کا غلبہ دکھانا چاہا ہے ایک وقت تھا جب دشمن نے اسلام کے استیئصال کیلئے تلوار اٹھائی.مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا تو اسلام نے مسلمانوں کو بغاوت سے روک دیا کہ غدر نہ کرنا.اس ملک سے نکل جاؤ.جہاں تکلیف ہے! اس لئے مکّہ معظّمہ کا ملک چھوڑ دیا گیا.جب دشمن کو اس پر صبر نہ آیا اور اس نے تعاقب کیا تو آخر اسلام نے تلوار اٹھائی اور کامیاب ہو گیا! پھر اس وقت چودھویں صدی میں صرف حُجج کے اسلحہ سے اسلام سے جنگ شروع ہو گئی اسلام کے باعث کوئی قوم کسی مسلمان پر ہتھیاروں سے اب کام نہیں لیتی.تو اسلام نے بھی براہینِ نیرّہ اور حُجج ساطعہ اور دلائلِ واضحہ (ترک رشی) سے مقابلہ شروع کیا! بُت پرست قومیں اسلام کے مقابلہ سے ہار کر بُت پرستی کے دعوے سے باز آ رہی ہیں اور بالکل اس مسئلہ میں صلح جُو ہو رہی ہیں.کیونکہ انڈیا میں کچھ برہموں ہو گئے ہیں اور کچھ آریہ سماج.

Page 158

ادھر یورپ و امریکہ میں یونی ٹیرین.فری ۱؎ تھِنکروں کا سمندر موج مار رہا ہے.اور کیا خوب ہوا.حضرت مسیحؑ کی خدائی نیست و نابود ہو رہی ہے… مخلوق اسلام کے مقدّس مذہب میں آ رہی ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۴۴.۱۴۵) جو دنیا میں نیکی ہے.اس کے ساتھ کچھ مشکلات بھی ہیں اور سُکھ کے ساتھ دُکھ اور دُکھ کے ساتھ سُکھ ہے.آخرالذّکر کی مثال دردِ زِہ اور پھر فرزند نرینہ کی پیدائش ہے.صحابہ کرامؓ مکّہ معظمہ میں سخت تکالیف میں مبتلا تھے.۱.بعض آدمیوں کے ایک پاؤں کو ایک اونٹ سے اور دوسرا پاؤں دوسرے اونٹ سے باندھ کر مخالف سمتوں میں چلا کر چیرا جاتا.۲.بعض عورتوں کی شرمگاہوں میں برچھی ماری ہے اور گلے سے نکالی ہے.۳.تین برس بنوہاشم کو غلّہ پہنچانے میں روکیں ڈال دی گئیں.۴.بعض صحابہ کو شدّت سے گرم کئے ہوئے پتھروں میں لٹایا جاتا تھا.مگر وہ لوگ ۱؎ FRE THINKERS بڑے صبر.استقلال.اور ہمّت سے ان تمام تکالیف کو برداشت کرتے.محرّم میں جب امام حسینؓ کی تکالیف کا ذکر کرتے ہیں.مگر صحابہؓ نے جو جو تکالیف اٹھائی ہیں وہ ان سے بعض اوقات بڑھ کر ہیں.سو اس صبر کے عوض جہاد کی اجازت دی گئی.یہ غلط ہے آپؐ کو جتھے کا انتظار تھا.(النساء:۸۵) کاحکم اور غزوہ حنینؔ میں سب کے بھاگنے پر کھڑا رہنا اس کا شاہد ہے.پس یہ جھوٹ ہے کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلایا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۵.۱۷۶) ۴۱.  

Page 159

  : سوا کسی وجہ وجِیّہ کے.اگر خدا ہر چیز کی حدبندی نہ کرتا.: صابی قوم کے گرجے.: یہودیوں کے گرجے.: عیسائیوں کے گرجے یا ہندؤوں کے ٹھاکردوارے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۱۷۶) حکم ہوا ان کو جن سے لوگ لڑتے ہیں اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا.اور اﷲ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے وہ جن کو نکالا ان کے گھروں سے اور کچھ دعویٰ نہیں سوائے اس کے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اﷲ ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۹۹ و صفحہ۱۰۲) اور اگر نہ ہٹایا کرتااﷲ لوگوں کو ایک کو ایک سے تو ڈھائے جاتے تکیے اور مدرسے اور عبادت خانے اور مسجدیں جن میں نام پڑھا جاتا ہے اﷲ کا بہت.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۰۲) ایک اور احسان اسلام نے کیا جو میرے خیال میں دنیا کے کسی ریفارمر اور مصلح کو نہیں سُوجھا وہ یہ ہے:  … .ہم بعض اوقات خود حفاظتی کا حکم دیتے ہیں اور اس سے غرض یہ ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو گرجے تباہ ہو جاویں.دھرم شالے اور یہودیوں کے معبد تباہ ہو جاویں.اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ تباہ ہوں.کیا یہ سنہری اصول دنیا کی کسی مذہبی کتاب میں پایا جاتا ہے؟اگر یہ فقرہ انجیل میں ہوتا تو مسیحی لوگوں نے جو سلوک اپنے مخالف لوگوں کے معبدوںسے کیا ہے وہ نہ ہوتا.متھالوجی کو پڑھو تو تمہیں معلوم ہو گا کہ مسیحی لوگوں سے پہلے کس قدر معبد تھے جن کا آج نام و نشان بھی نہیں.مثلاً پٹراموں کا بڑاعظیم الشان مندر تھا.جہاں سکندرِ اعظم پیادہ حج کرنے آیا تھا.مگر آج کوئی

Page 160

بتا نہیں سکتا کہ وہ مندر کہاں تھا.اس قدر تنگ دلی.ضِد اور تعصّب اور ہَٹ اسلام پسند نہیں کرتا.کہ معبد گرائے جاویں.مسلمانوں نے جہاں آٹھ سو برس.ہزار اور بارہ سو برس بھی راج کیا ہے اس ملک کے معابد اب تک موجود ہیں اور ان کو تباہ نہیں کیا.مگر بڑی روشنی والی قوم سے پوچھیں کہ پڑاموں کا مندر کہاں تھا؟ تو نہیں بتا سکتے.نشان تک مٹا دیئے بلکہ یروشلم جیسی جگہ جو بائیبل میں بھی مقدّس سمجھی گئی تھی.پاش پاش کر دی گئی.اور وہاں سؤر کی قربانی کی گئی.شاید کوئی کہہ دے کہ سؤر ناپاک نہیں.مگر بائبل پڑھیں گے تو اس کے خلاف پائیں گے.اس کے بالمقابل دیکھو کہ سپین اور فلسطین میں کیسی پُرشوکت اسلامی سلطنت تھی.مگر دیکھ لو پرانے سے پرانے معبدوں کو چھیڑا نہیں.بلکہ فاروقِ اعظم کے زمانہ میں جب وہ یروشلم تشریف لے گئے تو وہاں کے بشپ نے کہا کہ یہاں نماز پڑھ لو.انہوں نے فرمایا کہ تم بڑے ناعاقبت اندیش ہو.اگر میں یہاں نماز پڑھ لوں تو مسلمان اس گرجے کو مسجد بنا لیں گے.ہماری سرکار صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کے حضور نجرانؔ کے عیسائی آئے.اور اتوار کا دن تھا.آپؐ نے فرمایا.میری ہی مسجد میں گرجا کر لو.وہ لوگ رومن کیتھولک ہوں گے.مگر کس حوصلہ کے ساتھ ان کو اجازت دی.اس سے پایا جاتاہے کہ جہاں وہ احسانِ عام کرتے تھے.وہاں ابقائے مذہب بھی ان کا مذہب تھا.خواہ ہندوستان میں پہلی صدی ہجری میں عرب آئے.اور کم از کم ساڑھے گیارہ سو سال تک اسلامی حکومت یہاں رہی… اس عرصہ دراز میں ہندوستان کے معابد پر اسلامی سلطنت نے کیا اثر کیا؟ ان کی موجودگی خود ظاہر کرتی ہے! (بدر ۱۸؍جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ۴.۵) ۴۲.   (آیت) پر تدبّر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نصرتِ الہٰی ان لوگوں کیلئے ہے جو اﷲ کے کاموں میں نصرت کریں.اس کے دین کی حمایت کریں.۱.نمازیں سنوار کر پڑھیں چنانچہ صحابہؓ میں کسی عمداً تارک الصلوٰۃ کی نظیر نہیں ملتی.

Page 161

Page 162

پھر ان کو پکڑاتو کیسا ہوا میا انکار  : اس کے بہت بہت نظارے اس وقت بھی موجود ہیں.: شَیْد اور شِیْد کے معنے اونچے کے ہیں… (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۴۸.  : سَنَۃُ الْفَرَاقِ سَنَۃٌ وَ سَنَۃُ الوِصَال سِنَۃٌ وصال کا ایک برس اونگھ کے برابر ہوتا ہے مگر جدائی کی گھڑی سال کے برابر.منکروں کو کہا تم پر ایک دن آتا ہے.جو تمہارے لئے بوجہ مصائب ہزار برس کا ہو جاوے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۵۰،۵۱.  مکّہ والوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو عُمرہ سے روکا تھا اور کہا کہ اگر ہم اس سال اجازت دیں.تو ہماری عزّت میں فرق آتا ہے.اگلے سال آنا اور یہ شرائط مقرر کیں.

Page 163

.جس قدر آپ کے ساتھ لوگ ہوں انکی تلواریں نیام میں ہوں.تیر ترکش میں.بھالے چمڑوں میں.۲.تین دن سے زیادہ نہ رہیں.کوئی مسلمان مکّہ میں ہو تو آپ کے ساتھ نہ جا سکے گا.اور اگر کوئی آپ سے آنا چاہے تو اسے روکو گے نہیں.پھر میں نے یہ کہا تھا کہ اس سورۃ میں انذار کیا ہے.سب قوموں کو جو عرب، مصر، عراق، شام میں تھیں.اس رکوع میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جو عزت وجاہت لئے پھرتے ہو یہ سب خاک ہو جاوے گی.: جو میرا ساتھ دیں گے وہ معزّز ہوں گے اور جو میرے برخلاف کوششیں کرتے ہیں.وہ شکست یاب ہوں گے.رسول اﷲ تو ایمان عملِ صالح.اطاعتِ رسول اور امر بالمعروف چاہتے ہیں.اور کفّار نبی کا انکار.بدیوں میں انہماک فسق و فجور.کفر و شرک چاہتے ہیں اور ہماری آیات کو عاجز کرنا.پس یہ سب مخالف جہنم کے کندے بنیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۵۳.   : مخالفانِ اسلام اس آیت کے غلط معنے کر کے طرح طرح کے اعتراضات پیش کرتے ہیں.حالانکہ قصور خود ان کے فہم کا ہے.اس سورۃ کے گزشتہ رکوع پر نظر ثانی کرو.اُس میں کیا مضمون ہے.صاف معلوم ہوتا ہے کہ کس زور سے اﷲ تعالیٰ اپنی توحید و عظمت کو قائم کرتا ہے اور تحدّی سے پیشگوئی کرتا ہے کہ د شمن اس کے تباہ ہوں گے.کیا ان چھ رکوعوں کے مضامین کے سامنے اس بیہودہ روایت کی کچھ ہستی ہے کہ نبی کریمؐ کی زبان پر اثنائِ وعظ یہ کلمہ بھی جاری ہوا.تِلْکَ الْغَرَانِیْقُ الْعُلٰی وَ اِنَّ شَفَاعَتَھُنَّ لَتُرْتَجٰی جھوٹ بکتے ہیں جو ایسا کہتے ہیں.اس طرح تو نبی کریمؐ کے کلام سے امان اُٹھ جاوے گا.

Page 164

: نبی کی خواہش یہی ہے کہ توحید پھیلے اور کلمۃ اﷲ علیا ہو.کوئی شریر اٹھتا ہے تو اس کی خواہشوں میں روک ڈالتا اور چاہتا ہے کہ یہ نبی کامیاب نہ ہو.: اﷲ تعالیٰ اس شریر کی تمام شرارتوں کو مٹاتا ہے یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کوئی نیک اپنی نیکی پھیلانا چاہتا ہے.تو کوئی نہ کوئی شریر اس کی مخالفت کرتا اور آخر مُنہ کی کھاتا ہے.اسی گاؤں میں ایک راست باز آیا.اس نے حق پھیلانا چاہا.مخالفوں نے روک ڈالی.مگر وہ سب روکیں اُٹھ گئیں.چنانچہ اس کے ثبوت میںتم تین سو سے زیادہ احمدی بیٹھے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۵۴.  لِیَجْعَلَ: شیطان کی شرارتیں فتنہ ہوتی ہیں.مگر انہی کیلئے جن کے دلوں میں مرض ہے گویا اس ذریعہ سے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے وہ ظاہر ہو جاتا ہے.سورۃ جنّ میں فرمایا.(الجنّ:۲۸) جب اﷲ اپنے غیبِ خاص کو رسولوں پر نازل فرماتا ہے تو اس کے رسول کے آگے پیچھے چوکی پہرہ جما دیتا ہے.جب تک وہ ساری بات اﷲ کی مخلوق میں پہنچالے.پس یہ ممکن نہیں کہ کوئی شیطان ایسے موقع پر در اندازی کر سکے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۵۶،۵۷.

Page 165

 : مجاہد کی تفسیر میں لکھا ہے کہ وہ بدرؔ کا دن تھا جس میں تمام عمائدِ مکّہ ہلاک یا کمزور ہو گئے.: اس دن ثابت ہو جاوے گا کہ یہ ملک صرف اﷲ کے دین کیلئے ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶) ۵۹.  سورۃ حج کا منشاء یہ ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اور آپؐ کے جانشین خلفاء کے مقابلہ پر کھڑے ہونے والوں کا انجام کیا ہو گا.یہ تو انذار ہوا.(ب) اس کے بالمقابل تبشیر ہے کہ مومنین.مہاجرین و انصار ان کے ممالک کے فاتح ہوں گے.: ملک کو چھوڑ گئے.خویش و اقارب کو چھوڑ کر.ملک کے رسم و عقائد اور اپنے محبوب امور کو چھوڑنے والے لِلّٰد نہ کہ کسی غرضِ نفسانی کیلئے.الْمُھَاجِرُمَنْ ھَاجَرَمَا نَھَی اﷲُ: مَا نَھَی اﷲبہت سی چیزیں ہیں.ازاں جملہ یہ کہ جس مقام یا جس صحبت سے غفلت پیدا ہو اس کو فورًا چھوڑ دینا چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۶.۱۷۷) ۶۰. : جب مُردوں کو یہ آسائش و آرام کے اسباب و مقامات دے گا تو زندوں کو تو ضرور ہی دے گا.خدا کی راہ میں مال و جان کو قربان کرنا کوئی اتنا مشکل نہیں.اکثر لوگ دیکھے جاتے

Page 166

ہیں کہ معمولی سی بات پر خُود کُشی کر لیتے ہیں.رسم و رسوم کی پابندی میں مال کا بہت سا حصّہ ضائع کر دیتے ہیں.کئی گیارہویں دینے والے بڑے استقلال سے قرض لے کر بھی ناغہ نہیں کرتے.مگر زکوٰۃ کہو تو کہتے ہیں کہ غریب آدمی ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی متابعت واقع میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے.اور یہی حقیقت ہے پُل صراط کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۶۱.  : ہر شخص خود بدلہ لینے کا مجاز نہیں یہ حکّام کے سپرد ہے. اس کو ظاہر کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۶۴.  : جس طرح ظاہری بارش بے فائدہ نہیں جاتی اسی طرح وحی اپنا پھل لاوے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۶۶.   کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے تمہارے بس میں کیا زمین والی چیز کو اور کشتیاں دریا میں اُسی

Page 167

کے حکم سے چلتی ہیں.تسخیر مفت میں بلا مزدوری کام میں لگا دینے کو کہتے ہیں.بے شک کشتیاں، جہاز، دریا، سمندر، سورج، چاند، ستارے، رات دن، چارپائے، مویشی باری تعالیٰ جلّ شانہٗ نے محض اپنے لطف و کرم سے مفت ہمارے کام میں لگا رکھے ہیں.بایںمعنی کہ ان کی خِلقت اور فِطْرَتْ ایسی بنائی ہے کہ بلا اُجرت ہمارے منافع اور مصالحِ دنیوی کے اہتمام و انصرام میں لگے ہوئے ہیں.بلکہ حقیقۃً ہماری زندگی و معاش انہیں اشیاء اور قوائے طبعی کے وجود پر موقوف ہے.چونکہ ان بڑے بڑے قوائے طبعی مثلاً سمندر.ہوا.سورج چاند ستارگان رات دن وغیرہ پر مِنْ حَیْثُ الْخَلَقہم قدرت نہیں رکھتے اور نہ جبراً و قہراً ان سے کام لے سکتے ہیں.اس لئے اﷲ تعالیٰ اپنا فضل و امتنان و احسان جتا کر ہم سے اس مہربانی کی شکرگزاری لینے کے لئے ان اشیاء کا اور اُن سے ہمیں منافع پہنچنے کا ذکر فرماتا ہے.کہ دیکھو ایسی ایسی بڑی زبردست چیزیں جن پر تمہارے دستِ قدرت کو رسائی ممکن نہ تھی.مفت میں مَیں نے تمہارے کام میں لگا دی ہیں.اُس کے یعنی خدا کے ہمارے کام میں ان اشیاء کو لگا دینے یا ہمارے ان کو کام میں لانے کے یہ معنی ہیں کہ ہمارے تمام منافع اور مصالح کا مدار ان ہی اشیاء کے وجود پر ہے اور یہ سب تار و پودِ ہستی اور ہنگامۂ با آب و تاب انہیں اشیاء کی مدد اور ذریعے سے نبھتا اور چل رہا ہے.جو لوگ قانونِ قدرت میں غور و فکر کرتے ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں کہ کس طرح پر ہم بعض قوائے قدرت سے قدرتی طور پر اور بعض اشیاء کے خود استعمال صحیح سے متمتّع ہو سکتے ہیں.اور ہو رہے ہیں.اہلِ یورپ نے انہیں قوائے قدرت کی طرف توجہ کرنے اور ان کے استعمالِ صحیح (تسخیر) سے مثلاً ایک سٹیم (بخار) ہی کی تسخیر اور کام میں لانے سے کیسے کیسے منافع اٹھائے ہیں.کیسے بیش بہا انجن ایجاد کئے ہیں.کہ تجارت اور تموّل میں اہلِ عالم پر سبقت لے گئے.یہی عملِ تسخیر ہے جسے قادرِ مطلق رحیم خدا نے فطرتاًبتفاوت ہر انسان میں و دیعت رکھا ہے.مالا مال اور خوشحال وہ لوگ ہوئے.جنہوں نے اس قدرتی عطیّے اور فیض وَھْبِیْ سے کام لیا.یہ وہ عملِ تسخیر نہیں ہے جسے عوام کالا نعام ڈھونڈتے پھرتے ہیں.اور شب و روز فضول جہدو مجاہدے میں سرگردان اور منہمک رہتے ہیں.کیا کوئی شخص کسی قسم کا کلمہ و کلام پڑھ کر سورج اور چاند کو مسخّر کر سکتا ہے یا ان کی معمولی قدرتی رفتار اور حرکات میں فرق ڈال سکتا ہے.نہیں نہیں یہ وہی قدرتی تسخیر ہے جو پہلے بیان ہو چکی ہے.اور اُسی ہی کو باری تعالیٰ امتناناًاور احساناً یاد دلاتا ہے.سعدیؒ نے اس موقع پر کیا خوب کہاہے اور کیا خوب اس تسخیر و تسخّر کا مطلب

Page 168

حل کیا ہے.گویا سات ۷ سو برس قبل عقلمندپادری صاحب کے مجہول اعتراض کا جواب دے دیا ہے ابر و باد و مہ و خورشید و فلک درکارند تا تو نانے بکف آری و بغفلت نخواری ہمہ از بہرِ تو سرگشتۂ و فرماں بردار شرط انصاف نباشد کہ تو فرماں نبری (فصل الخطاب طبع دوم صفحہ۱۶۳.۱۶۴) : اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے مسخّر کر دیں.بلکہ دوسرے مقام پر فرمایا.کہ آسمان کی چیزیں اور شمس و قمر بھی تمہارے لئے مسخّر کر دیا مگر افسوس کہ مسلمانوں نے بہت کم ان آیات سے نفع اٹھایا ہے اور عملیات کے ذریعے تسخیر کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں جو بالکل لغو اور بے ہودہ بات ہے.افسوس کہ جن کی کتاب میں لکھا ہے کہ ’’ کل کی فکر آج نہ کرو ‘‘ دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.وہ تو سارے جہان کی دولت سمیٹ رہے ہیں.اور جن کیلئے سب کچھ مسخّر کر دیا گیا ہے.وہ بھوکوں مرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا اور سُست و کاہل الوجود ہو گئے.اِنَّمَا اَشْکُوْ ا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلیَ اﷲِ! (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۶۸.  : مَنْسَکْعربی بولی میں جگہ کو کہتے ہیں.کیسی جگہ؟ جہاں جانے کی انسان کو عادت و اُلفت ہو.اس واسطے مسجد و ہر دکان کو جو بازار میں ہو.وہ تکیوں.حرفہ و پیشہ کی دوکانوں بلکہ کنجروں کے بازار کو بھی مَنْسَکْ کہتے ہیں.جنابِ الہٰی فرماتے ہیں.مسلمانوں کی عبادت گاہیں ہیں.اس طرح کے مقامات ہر قوم نے اﷲ کے نام کیلئے بنائے ہوئے ہیں.۱.گنگاجی کے کنارے پر ایک مقام ہے.ہردوارہ یعنی ہری کا گھر.اﷲ کا گھر.۲.بیتِ اِیل (بیت اﷲ ) یوروشلم میں ہے.۳.تبّت میں لاسہؔ.جو آلہ سا کے معنوںمیں ہے.پس ہمارے مکّہ کے بیت اﷲ پر اعتراض

Page 169

کرنا غلطی ہے.انہیں چاہیئے کہ جھگڑا نہ کریں..(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۷۱.  : اﷲ کی حفاظت میں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۷۲.  : جن کی عبادت کی جاتی ہے.وہ ضروردکھیارے ہیں.تا ثابت ہو کہ وہ اپنے آرام کے مالک بھی نہ تھے.امام حسینؓ.مسیحؑ.رام چندرجی.سب کے واقعاتِ زندگی دیکھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۷۳.   

Page 170

: یَبْطِشُوْنَ ۱؎ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۷۴.   : یہاں عام لوگوں کو مخاطب کیا ہے اورآگے چل کر خصوصیّت سے مومنوں کو.: لطیفہ یہ ہے کہ مکھی بنانا تو درکنار.یہ جو معبود بنائے گئے ہیں وہ تو اس کی آنکھوں کی صحیح تعداد بھی نہیں جانتے.اس آیت سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے کوئی چمگادڑ وغیرہ بھی نہیں بنائی.: بُت ہی مراد نہیں.بلکہ انسان بھی خصوصیّت سے شامل ہیں، اب خواہ کتنا ہی بڑا بادشاہ ہو اور قوّت والا مکھی اپنا حصّہ لے ہی جائے گی.اس سے چھُڑانا محال.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷) ۱؎ بڑے زور اور شدّت سے پکڑتے ہیں.مرتّب ۷۸.  اِرْکَعُوْا: خدا کی جناب میں جھکے رہو.اور اپنے تئیں متکبر و لاپرواہ نہ بناؤ.: ہر قسم کی نیکیاں و بھلائیاں جمع کر لو.

Page 171

: کامیابی کی راہ بتا دی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۷.۱۷۸) ۷۹.     اور محنت کرو اﷲ کے واسطے جو چاہیئے اس کی محنت.اُس نے تم کو پسند کیا اور نہیں رکھی دِین میں تم پر کچھ مشکل.دین تمہارے باپ ابراہیمؑ کا.اُس نے نام رکھا تمہارا مسلمان حکم بردار پہلے سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۲۶) : نہیں رکھی تم پر دِین میں کچھ مشکل.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۱) : کوشش کرو اﷲ کی راہ میں.جس قدر حق کوشش کا ہو.: حرج کے معنے تنگی کے ہیں.شریعت کے جس قدر کام میں نے مطالعہ کئے ہیں سب وسیع ہیں.مثلاً نماز، وقت وسیع.پھر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کر یا لیٹ کر اور پھر کچھ بھی مشکل نہیں.غرض شریعت کے ہر حکم کی تعمیل اپنے اندر ایک سُکھ رکھتی ہے.پھر یہ بھی مطلب ہے کہ ہرغلطی کا ازالہ موجود ہے.گناہ کیا توبہ کر لو.وغیرذٰلِکَ : اچھّوں کا باپ.اسی واسطے  فرمایا.کیونکہ وہ تمام اچھّوں کا روحانی باپ ہے.

Page 172

: اس کے متعلق یہ نکتہ قابل یاد رکھنے کے ہے کہ کسی مذہب کا نام اس کی الہامی کتاب نے نہیں رکھا سوائے اسلام کے.: اس ضمیر میں جھگڑا ہے بعض خدا کی طرف کہتے ہیں.بعض ابراہیمؑ کی جانب.بدلیل (البقرۃ:۱۲۹) : اﷲ کی فرماں برداری کے ذریعے اپنے تئیں ہر دُکھ سے بچاؤ.: اگلی سورۃ میں نصرت ہی کا ذکر آوے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۸)

Page 173

سُوْرَۃُ الْمُؤْمِنُوْنَِ مَکِّیَّۃٌ  سورۃ حج میں مَیں نے یہ سنایا تھا کہ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کے مخالفوں اور موذیوں کو اطلاع دی گئی تھی کہ تم پر وہ مصیبت کی گھڑی آنیوالی ہے.جسسے حاملہ حمل گرا دے.دودھ پلانے والی اپنے بچے کو بھول جائے.اسی سورۃ کے اخیر میں فرمایا ہے کہ نبی و مہاجرین کو مشکلات پیش آتے ہیں.مگر وہ آخر میں فتح مند ہوتے ہیں.اور فتح مندی کا طریق بتلایا کہ نمازیں قائم کرو.زکوٰۃ دو.کتاب اﷲ پر عمل کرو.اب اس منذر سورۃ کے بعد مومنوں کو نصرت کی بشارت دیتے ہوئے فتح مندی کے کچھ شرائط مقرّر کئے اور کچھ طریقے بتائے ہیں.ہر چیز اپنے کمال کو چھ مرتبہ طے کر کے پہنچتی ہے.یہاں مومن کے روحانی کمالات کا ذکر فرمایا ہے.حضرت مسیحِ موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے براہین احمدیہ حصّہ پنجم میں ان آیات کی خوب تفسیر فرمائی ہے! ۲ تا ۴.  : ایک مقام پر فرمایا ہے.ً ( حٰمٓ السجّدہ:۴۰) خَاشع کے معنی ہیں.اپنے آپ کو کمال محتاج یقین کرنا اور یہ باور کرنا کہ میرے اپنے پاس کچھ بھی نہیں.اسی لئے صوفیاء نے فرمایا ؎ہم دعا از تو اجابت ہم زِتو نماز میں پورا تذلّل اختیار کرے اور اس کے ظاہری نشان یہ ہیں کہ ادھر اُدھر نہ دیکھے

Page 174

لغو حرکات نہ کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) : ۱.تذلّل ۲.اَلْقِیَامُ فِیْ مَا اَمَرَرَبُّہٗ ۳.لَا یُجَاوِزْ بَصَرَہٗ عَنْ مُصَلَّاہُ ۴.ہاتھ پاؤں کو روک رکھنا ۵.ادھر ادھر نہ دیکھنا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) : کُل باطل.کُل معاصی لغو میں داخل ہیں.تاش، گنجفہ.چوسر سب ممنوع ہیں.گپیں ہانکنا.نکتہ چینیاں وغیرھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) میں ایک بات کی طرف متوجّہ کرتا ہوں.خوب سُنو.چھوٹے ہو یا بڑے.جوان یا بڈھے.خواہ سبق لمبا ہی ہو جاوے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.،.مظفّر و منصور وہی مسلمان ہوتا ہے جو لغو سے بچتا ہے.یہ ایک معرفت کا نکتہ ہے.جب تک یہ عادت ان میں نہ ہو گی کامیاب نہ ہوں گے.مگر اب اسلام میں کیا کیا فضول بحثیں چلی ہیں.اوّل حضرت آدم بہشت میں پیدا ہوئے یا زمین پر (۲)حوّا آدمؑ سے نکلی یا آدمؑ حوّا سے (۳) آدمؑ کا بدن کس شکل کا تھا (۴)کپڑے کیسے تھے (۵) وہ درخت کیسا تھا (۶) شیطان کیا چیز ہے (۷) آدم کو جب دھکّا دیا گیا تو وہ کہاں اُترا (۸) حضرت نوحؑ کی کشتی کس لکڑی کی تھی (۹) وہ جانور جو پتہ لگانے کے واسطے گیا تھا.وہ کون تھا (۱۰) اس کشتی میں ہاتھی گھوڑے سب کچھ ڈالے گئے گویا سارا جہان ہی ہوا (۱۱) حضرت موسٰیؑ کی لاٹھی کس درخت کی تھی (۱۲) حصرت موسٰیؑ کا قد کتنا لمبا تھا.کہتے ہیں کہ ستّر ہاتھ لاٹھی تھی ، اور ستّر ہاتھ حضرت موسٰیؑ کا قد تھا اور ستّر ہاتھ اُچھل کر عوج بن عنق کو مارا مگر اس کے گِٹّے ( ٹخنے) پر لگی.گویا اس کاٹخنہ ۲۱۰ ہاتھ زمین سے اونچا تھا.اور اب دریائے نیل پر اس کی ٹانگ کی نلی کا پُل بنا ہوا ہے اور جب نوحؑ نبی کی لہر آئی تو عوج مذکور کو گِٹّے گِٹّے آئی.غرضیکہ بڑے لمبے لمبے قصّے بیان کئے گئے ہیں.میں تو ایسے مسئلوں سے دنیا میں آگے ہی گھبرایا ہوا ہوں.اب میں بڈھا ہوں.میں نصیحت کرتا ہوں کہ اﷲ کی کتاب میں لغو سے کام نہ لو ! تفسیریں پڑھو.جب ایسے قصّے آویں.انہیں چھوڑ دو.معلوم ہوتا ہے کہ یہود اور نصارٰی اور مجوسیوں نے وہ قصّے ڈال دیئے ہیں.قصّوں کی وہ بھر مار ہے کہ ہم اصل قرآن تو پڑھ ہی نہیں سکتے ہزار در ہزار ورق لکھ دئے ہیں.نعوذ باﷲ.ایک کہانی ایک آیت پر یہ لکھ دی گئی ہے کہ ایک چارپائی پر

Page 175

یک بادشاہ بیٹھ گیا.چارپائی کے ساتھ لمبے لمے بانس باندھ دئے اور گرجیں (گدھیں) بھی باندھ دیں.وہ اس کا کھٹولا ہی اڑا کر آسمان کی طرف لے گئیں.اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر یہ خاص فضل کیا ہے.میں تو ان لغو باتوں کے نزدیک بھی نہیں آ سکتا.اب لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا خدا بھی جھوٹ بول سکتا ہے پہلے خدا کے بولنے کا تو فیصلہ کرو.کہ آیا بولتا بھی ہے یا نہیں.اب پوچھتے ہیںکہ اگر خدا بُروں کو دوزخ میں ڈالنے کا وعدہ کرتا ہے تو کیا نیکوں کو نہیں ڈال سکتا.میں خدا کے فضل سے اس پر بحث کر سکتا ہوں.میں نے قرآن کی غرض سمجھی ہوئی ہے.مگرلوگوں نے قرآن کی اور ہی غرض سمجھی ہے.بعض سمجھتے ہیں کہ قرآن میں صیغے عجیب عجیب ہیں.وہ حل ہو جاویں.ِ (النّور:۵۳) کا صیغہ کیا ہے.کوئی کہتا ہے اس میں ترکیبیں مشکل ہیں وہ حل کی جاویں.اگر اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو دوزخ میں ٹھونسناہے اور بدکاروں کو جنّت میں بھیجنا ہے تو اس قرآن کا آنا تو خاک میں مل گیا.اﷲ تعالیٰ کی شناخت میں بھی لغو سے بہت کام لیا گیا ہے بعض ؎ خود کوزہ و خود کوزہ گر وخود گِل کوزہ وغیرہ کہتے ہیں پھر عیسائی اس قاعدے پر چلے ہیں کہ خدا مجسّم ہو سکتا ہے جیسا کہ وہ ہؤا.پھر ہندو کہتے ہیں.کہ خدا ایک سَنْسَار بنا.پھر کچھّو کُمّاں.پھر ایک دفعہ سؤر بن گیا.چنانچہ کہتے ہیں.کچھ مچھ ورادتوں ۱؎ ژاسِنْگھ تُوں.یعنی شیر بھی تُو ہی ہے.میں اﷲ کو گواہ کرتا ہوں اور اپنے بڑھاپے کو حاضر کرتا ہوں.میں ہر رات کو یہ خیال کرتا ہوں کہ شاید میں صبر کو ہوں گا یا نہیں.میں تم کو کہتا ہوں کہ یہ باتیں بالکل بیہودہ ہیں.نہ ہمارے دین کے کام کی ہیں.نہ دنیا کے کام کی.نہ صحت کے کام کی ! صحابہؓ.ائمہؒ حدیث.ائمہؒ فقہ.ائمہؒ تصوّف چاروں قسم کے لوگوں نے قطعًایہ بحثیں نہیں کی ہیں.جب مسلمان لوگ فاتح ہو گئے اور ہزاروں کتابیں دیکھیں تو وہ باتیں کتابوں میں لکھ ماریں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی سوال میں اﷲ.رسول.فرشتوں.جزا و سزا کے بارے میں.اخلاق کے بارہ میں نفع پہنچے تو ان مسئلوں پر بحث کرو.اگر نہ پہنچے تو ان پر تھُوک دو.ہم نہیں جانتے کہ موسٰیؑ کا عصا کتنا لمبا تھا اور کس لکڑی کا تھا.آدمؑ کے گرنے کی جگہ کہاں ہے.اور نوحؑ کی کشتی کس لکڑی کی تھی.وغیرہ.میرا ایک استاد منشی قاسم علی رافضی تھا.میں اس سے فارسی پڑھا کرتا تھا.وہ مجھے کہتا.آج بزم کا رقعہ لکھو.آج رزم کا رقعہ لکھو.آج بہاریہ رقعہ لکھو.آج خزاں کا رقعہ لکھو.مجھے حکم ہوا کہ آج یہ سب رقعے یاد کر کے ہمیں سنا دو.میں اس کو فر فر کر کے سُنا

Page 176

بھی دیا کرتا تھا.شاباش لے کر اُدھر جلا دیا کرتا تھا.آٹھ آٹھ ورق کا سرنامہ میں نے پڑھا ہے اس سے مجھے یہ فائدہ پہنچا.کہ مَیں نے اب سرناموں کو جڑھ سے ہی کاٹ دیا ہے.۱؎ یعنی میرے سرنامے یہ ہیں.عزیز.عزیز مکرم.مکرم جناب.السلام علیکم.جن سے مجھے محبت نہیں ہے.اُ ن کو میں صرف جناب لکھ دیتا ہوں.یعنی تم اُس طرف.میں اِس طرف.غرض ہم کو فضول باتوں کی ضرورت نہیں.ہم کو پنج بنائِ اسلام کی ضرورت ہے.اخلاق کی ضرورت ہے.(کلام امیر صفحہ۲.۳) ۵. زکوٰۃ کا لفظ بہت وسیع ہے.ایکؔ نصاب پر.دومؔ جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے خرچ کرے.کسی دُکھیارے کی تکلیف اٹھا لینا.خندہ پیشانی سے ملاقات کرنا.حتّٰی کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ پر ایمان بھی زکوٰۃ ہے.کہ یہ بھی موجبِ تزکیہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۹. : امانت اپنے ماتحت و رعایا کو بھی کہتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۰. : نمازوں کی محافظت وقت کے لحاظ سے.ارکان بتعدیل ادا کرنے کے لحاظ سے.خشوع و خضوع و پابندی سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۱۳. : خلاصہ در خلاصہ.نباتات.حیوانات.خون.پھر نطفہ پھر جا کر انسان بنتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹)

Page 177

۱۵.  : بہت ہی بابرکت ( بتدریج ترقی دینے والا ) ہے.: خلق کے معنے اندازہ ؎ وَلَاَنْتَ تَفْعَلُ مَا خَلَقْتَ وَ بَعْضُ الْقَوْمَ یَخْلُقُ ثُمَّ لَا یَفْعَلْ.تو جو اندازہ کرتا ہے اس کے مطابق عمل در آمد کرتا ہے.بعض لوگ اندازہ کرتے ہیں.مگر پھر اس کے مطابق کم ہی کام کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۱۶،۱۷. :  سے یہ وہم ہوتا تھا کہ یہاں خاتمہ ہو گیا.اس کا ازالہ فرمایا.قیامت کے پانچ معنے آئے ہیں.۱.قرن (صدی) کا گزر جانا چنانچہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.میری امّت کیا پانچ سو برس بھی نہ رہے گی.اس میں پیشگوئی ہے.۲.مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ شیخ ابن عربی فتوحاتِ مکیّہ میں لکھتے ہیں.قیامت قیام سے نکلی ہے.گویا انسان جب دنیا سے اٹھ کھڑا ہو تو قیامت ہو گی.جس طرح دینی تکمیل چھ باتوں میں فرمائی ۱.خشوع فی الصلوٰۃ ۲.اعراض عن اللّغو.۳.فعل للّزکوٰۃ ۴.حفاظتِ فُروج ۵.رعایت عہد و امانت ۶.حفاظت صلوٰۃ.ویسے ہی انسان کی ظاہری جسم کی بناوٹ ہے.اس کے بعد بتایا.نطفہ.علقہ.مُضْغَہ.ہڈی.ہڈیوں پر گوشت چڑھانا.رُوح کا نفخ.آسمان میں بھی سات درجے ہیں.ایک امر کی عرش سے تحریک ہوتی ہے اور پھر آہستہ آہستہ

Page 178

سمائِ دنیا کے ذریعے اس کا اثر عناصر پر پڑتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۱۹.  : یہ عام نظارۂ قدرت ہے کہ بادل برستا ہے پانی ٹھہرتا ہے.وہی پانی پھر آسمان پر چڑھ جاتا ہے.اسی طرح وحی و علوم کا حال ہے.ایک وقت دنیا پر رائج ہوتے ہیں.دوسرے وقت اٹھائے جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۲۱.  : دونوں قرا ء تیں.سِیْنَائَ بھی اور سَیْنَائَ بھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۲۲.  : اسی طرح روحانی تعلیم دنیا کے مختلف مذاہب میں ہے.مگر قرآن کی وحی کے ذریعے وہ دودھ کی مانند الگ نکل آئی اور یہ کام دنیا کی کوئی طاقت نہیں کر سکتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۲۴ تا ۲۶. 

Page 179

    اس رکوع میں فتح کا بیان ہے.جب تک انسان کی مساعی میں اﷲ کا فضل شاملِ حال نہ ہو فتح کا حاصل ہونا ممکن نہیں.: کسی سے فیض حاصل کرنے میںپہلی یہی بات سدِّ راہ ہو جاتی ہے.اِلَّا: آجکل کے فیلسوف بھی راستبازوں کو یہی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) یہ آیتیں جو میں نے تم کو سنائی ہیں.یہ اس شخص کا قصّہ ہے جو دنیا میں اصلاح النَّاس کیلئے بھیجا گیا تھا.اس کا نام نُوح ہے علیہ الصلوٰۃ و السلام.وہ ایک پہلا انسان ہے جو لوگوں کو آگاہ اور بیدار کرنے کے واسطے غفلت کے زمانہ میں آیا تھا.وہ ایک خطرناک ظلمت اور تاریکی کے دنوں میں نور اور ہدایت لے کر آیا تھا.یہ اسٹوریاں.کہانیاں.اور دل خوش کُن قصّے نہیں بلکہ عِبْرۃً لِّاُ ولِی الْاَبْصَارِصداقتیں ہیں.ان اہلِ نظر کیلئے جن میں تذکرہ کا مادہ ہوتا ہے جو فہم و فراست سے حصّہ رکھتے ہیں ان قصص میں بڑے بڑے مفید اور سُود مند نصائح ہوتے ہیں.میں نے بجائے خود ان قصص سے بہت بڑا فائدہ اٹھایا ہے.ان میں یہ عظیم الشان قصّہ قابلِ غور ہے.اس کے کتنے وجوہ ہیں.اوّل: کسی مامور من اﷲ کی کیونکر شناخت کر سکتے ہیں.دوم: مامور من اﷲ کیا پیش کرتے ہیں یا یوں کہو کہ وہ کیا تعلیم لے کر آتے ہیں.یا یہ کہو کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سے کس غرض کیلئے مامور ہو کر آتے ہیں.

Page 180

سوم: لوگ ان پر کس کس قسم کے اعتراض کرتے ہیں.یہ امور اس لئے پیش کئے ہیں تا کسی راستباز مامور من اﷲ کی شناخت میں تمہیں کوئی دِقّت نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ ہمارے سیّد و مولیٰ ہادیٔ کامل محمد مصطفٰے صلّی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی رسالت اور نبوّت کو پیش کرتے ہوئے یہی فرمایا.اور یہی آپ کو ارشاد ہوا(الاحقاف:۱۰)میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا ہوں جو رسول پہلے آتے رہے ہیں.اُن کے حالات اور تذکرے تمہارے پاس ہیں.ان پر غور کرو اور سبق سیکھو کہ وہ کیا لائے اور لوگوں نے ان پر کیا اعتراض کئے.کیا باتیں تھیں جن پر عمل درآمد کرنے کی وہ تاکید فرماتے تھے اور کیا امور تھے جن سے نفرت دلاتے تھے.پھر اگر مجھ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اعتراض کیوں ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں.ان معترضوں کا انجام کیا ہوا تھا؟ الغرض پہلے نبیوں کے جو قصص اﷲ تعالیٰ نے بیان کئے ہیں ان میں ایک عظیم الشان غرض یہ بھی ہے کہ آئندہ زمانہ میں آنے والے ماموروں اور راستبازوں کی شناخت میں دِقّت نہ ہُوا کرے.اس وقت میں نے نوح علیہ السلام کا قصّہ آپ کو پڑھ کر سنایا ہے.سب سے پہلی بات جو اس میں بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام کا اصل وعظ اور ان کی تعلیم کا اصل مغز اور خلاصہ کیا ہوتا ہے.وہ خدا کے ہاں سے کیا لے کر آتے ہیں.اور سنوانا چاہتے ہیں.اور وہ یہ ہے.اَنِ اﷲ جلّ شانہٗ کی سچّی فرماںبرداری اختیار کرو.اس کی اطاعت کرو.اس کی محبت کرو.اس کے آگے تذلّل کرو.اُسی کی عبادت کرو.اور اﷲ کے مقابل میں کوئی غیر تمہارا مطاع محبوب معبود مطلوب امیدو بیم کا مرجع نہ ہو.اﷲ کے مقابل تمہارے لئے کوئی دوسرا نِدْ نہ ہو.ایسا نہ ہو کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم تمہیں ایک طرف بلاتا ہو اور کوئی اور چیز خواہ وہ تمہارے نفسانی ارادے اور جذبات ہوں یا قوم اور برادری ( سوسائٹی) کے اصول اور دستور ہوں.سلاطین ہوں.امراء ہوں.ضرورتیں ہوں.غرض کچھ ہی کیوں نہ ہو.اﷲ تعالیٰ کے مقابل پر میں تم پر اثر انداز نہ ہو سکے.پس خدا تعالیٰ کی اطاعت عبادت.فرماںبرداری.تذلّل اور اس کی حُبّ کے سامنے کوئی اور محبوب.معبود.مطلوب اور مطاع نہ ہو.یہ ایک صورت خدا تعالیٰ کے ساتھ نِدّ نہ بنانے کی اعتقادی طور پر ہے.دوسری صورت یہ ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کا کوئی نِدّ اور مقابل نہ ہو.اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی جس طرح پر عبادت کی جاتی ہے.جس طرح اس کے احکام کی تعمیل اور اوامر کی تعظیم کی جاتی

Page 181

ہے دوسرے کے احکام و اوامر کی ویسی ہی اطاعت.وہی تعمیل.وہی تعظیم.اسی طرز و نہج پر امیدوڈر ہرگز نہ ہو.اور کسی کو اس کا شریک نہ بنایا جاوے.جب انسان ان دونوں مرحلوں کو طے کر لیتا ہے.یا یُوں کہو کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی چھوڑتا اور اس کی اطاعت اور صرف اسی کی اطاعت کرتا ہے تو پھر اُس کا آخری مرتبہ یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان متقّی ہو جاتا ہے.تمام دُکھوں سے محفوظ ہو کر سچی راحتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے.پس نوحؑ نے آ کر اپنی قوم کے سامنے وہی تعلیم پیش کی جو تمام راست بازوں کی تعلیم کا خلاصہ اور انبیاء اور رُسل کی بعثت کی اصل غرض ہوتی ہے اور پھر انہیں کہا  تم کیوں متقی نہیں بنتے.یاد رکھو انسان کو جس قدر ضرورتیں پیش آ سکتی ہیں.جس قدر خواہشیں اور امنگیں اسے کسی کی طرف کھینچ کر لے جا سکتی ہیں وہ سب تقویٰ سے حاصل ہوتی ہیں.متقی اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے اور اﷲ سے بڑھ کر انسان کس دوست اور حبیب کی خواہش کر سکتا ہے؟ تقویٰ سے انسان خدا تعالیٰ کے تولّی کے نیچے آتا ہے.متقّی کے ساتھ اﷲ ہوتا ہے.متقّی کے دشمن ہلاک ہوتے ہیں.متقّی کو اﷲ تعالیٰ اپنی جناب سے تعلیم دیتا ہے.متقّی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے.اﷲ تعالیٰ متقّی کو ایسی راہوں اور جگہوں سے رزق پہنچاتا ہے کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ جیسا کہ اس کی حمید و مجید کتاب میں موجود ہے.اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ ۱؎.وَاﷲُ وَلِیُّ الْمُتَّقِیْنَ ۲؎.اِنَّ اﷲَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ ۳؎.اِنْ تَتَّقُوا اﷲَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا ۴؎.وَ اتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ ۵؎.وَ َمْن یَّتَّقِ اﷲَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ ۶؎.اب مجھے کوئی بتا دے کہ انسان اس کے سوا اور چاہتا کیا ہے؟ اس کی تمام خواہشیں.تمام ضرورتیں.تمام امنگیں اور ارادے ان سات ہی باتوں میں آ جاتی ہیں.اور یہ سب متقّی کو ملتی ہیں.پھر نوحؑ ہی کے الفاظ بلکہ خدا تعالیٰ ہی کے ارشاد کے موافق میں آج تمہیں کہتا ہوں  تم کیوں متقّی نہیں بنتے؟ اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ نام ہے اعتقادتِ صحیحہ.اقوالِ صادقہ.اعمالِ صالحہ علومِ حقّہ اخلاقِ فاضلہ

Page 182

ہمّت بلند.شجاعت استقلال.عفّت.حِلم.قناعت.صبر کا.اور یہ شروع ہوتا ہے حُسنِ ظن باﷲ.تواضع اور صادقوں کی محبت سے.اور ان کے پاس بیٹھنے.ان کی اطاعت سے.جبکہ تقویٰ کی ضرورت ہے.اور یہ حاصل ہوتا ہے صادقوں کی صحبت اور محبت سے اور حُسن ظن باﷲ سے.تو راستبازوں اور ماموروں کا دنیا میں آنا ضرور ہوا.اور ان کی تعلیم اور بعثت کا منشاء اور مدّعا یہی ہوا.اور یہی تعلیم لے کر نوحؑ آئے تھے.اور انہوں نے قوم کو یہی فرمایا مگر ناعاقبت اندیش جلد باز.حیلہ ساز مخالفوں نے اس کے جواب میں کیا کہا.ٖ.نابکار اعدائے ملّت ائمۃ الکفر نے کہا تو یہ کہا ٖکہ یہ شخص جو خدا کی طرف سے مامور ہونے کا مدّعی ہے جو کہتا ہے کہ تمہیں ظلمت سے نکالنے کیلئے میں بھیجا گیا ہوں.اس میں کوئی انوکھی اور نرالی بات تو ہے نہیں.ہمارے تمہارے جیسا آدمی ہی تو ہے.پس یاد رکھو سب سے پہلا اعتراض جو کسی مامور من اﷲ.راست باز.صادق انبیاء و رسل اور ان کے سچّے جا نشین خلفاء پر کیا جاتا ہے.وہ یہی ہوتا ہے کہ اس کو حقیر سمجھا جاتا ہے.اور اپنی ہی ذات پر اس کو قیاس کر لیا جاتا ہے.ایک طرف وہ بلند اور عظیم الشان دعاوی کو سُنتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے.اس کے ملائکہ مجھ پر اترتے ہیں.دوسری طرف وہ دیکھتے ہیں کہ وہی ہاتھ.پاؤں.ناک.کان.آنکھ اعضاء رکھتا ہے.بشری حوائج اور ضرورتوں کا اسی طرح محتاج ہے.جس طرح ہم ہیں.اس لئے وہ اپنے ابنائے جنس میں بیٹھ کر یہی کہتے ہیں، (المؤمنون : ۳۴)پس اپنے جیسے انسان کی اطاعت و فرماں برداری کر کے خسارہ اٹھاؤ گے.غرض اس قسم کے الفاظ اور قیاسات سے وہ مامور من اﷲ کی تحقیر کرتے ہیں اور جو کچھ اپنے اندر رکھتے ہیں.وہی کہتے ہیں.مگر انبیاء.مرسل.مامور اور اصحابِ شریعت کے سچے خلفاء اور جانشین انہیں کیا جواب دیتے ہیں.اِنْ نَّحْنُ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُکُمّ اور کہتے ہیں.(ابراہیم:۱۲) بے شک ہم تمہاری طرح بشر ہیں.تمہاری طرح کھاتے پیتے اور حوائجِ بشری کے محتاج ہیں.مگر یہ خدا کا احسان ہوا ہے کہ اُس نے ہمیں اپنے مکالمات کا شرف بخشاہے، اس نے ہمیں منتخب کیا ہے اور ہم میں ایک جذبِ مقناطیس رکھا ہے.جس سے دوسرے کھچے چلے آتے ہیں.خدا کی توحید کا پانی جو مایۂ حیاتِ ابدی ہے وہ ہمارے ہاں سے ملتا ہے

Page 183

اور لوگ خوش ہوتے ہیں.مگر بدکار انسان جس طرح اپنی بدیوں.جہالتوں.شہوات و جذبات کا اسیر و پابند ہوتا ہے.دوسروں کو بھی اسی پر قیاس کرتا ہے.اور ایک نامرادی پر دوسری نامرادی لاتا ہے.اور کہتے ہیں کہ ( المؤمنون:۲۵) یہ چاہتے ہیں کہ تم پر فضیلت حاصل کر لیں.دکان چل جاوے.اپنے اور اپنی اولاد کیلئے کچھ جمع کر لیں.یہ ان کی اپنی ہی ہوائے نفس ہوتی ہے.جس میں دوسروں کو اسی طرح ملوّث اور ناپاک خیال کرتے ہیں جیسے خود ہوتے ہیں.یہ خطرناک مرض ہے جس کو شریعت میں سُوئِ ظن کہتے ہیں.بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں اور ہزاروں قسم کی نکتہ چینیوں سے دوسروں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں.اور اسے حقیر بنانے کی فکر میں ہیں.مگر یاد رکھو.( النحل :۱۲۷)عقاب کے معنے جو پیچھے آتا ہے.انسان جو بلاوجہ دوسرے کو بدنام کرتا ہے اور سُوئِ ظن سے کام لے کر اس کی تحقیر کرتا ہے.اگر وہ شخص اس بدی میں مبتلا نہیں جس بدی کا سُوئِ ظن والے نے اسے مُتّہم ٹھہرایا ہے تو یہ یقینی بات ہے کہ سُوئِ ظن کرنے والا ہرگز نہیں مرے گاجب تک خود اس بدی میں گرفتار نہ ہولے.پھر بتاؤ کہ سُوئِ ظن سے کوئی کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے مت سمجھو کہ نمازیں پڑھتے ہو.عجیب عجیب خوابیں تم کو آتی ہیں یا تمہیں الہام ہوتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر یہ سُوئِ ظن کا مرض تمہارے ساتھ ہے تو یہ آیات تم پر حجت ہو کر تمہارے ابتلاء کا موجب ہیں اس لئے ہر وقت ڈرتے رہو اور اپنے اندر کا محاسبہ کر کے استغفار اور حفاظتِ الہٰی طلب کرو.میں پھر کہتا ہوں کہ آیات اﷲ جن کے باعث کسی کو رفعت شان کا مرتبہ عطا ہوتا ہے ان پر تمہیں اطلاع نہیں وہ الگ مرتبہ رکھتی ہیں مگر وہ چیزیں جن سے خودرائی.خودپسندی.خود غرضی.تحقیر.بدظنی اور خطرناک بدظنی پیدا ہوتی ہے وہ انسان کو ہلاک کرنے والی ہے.ایک ایسے انسان کا قصّہ قرآن میں ہے.جس نے آیات اﷲ دیکھے مگر اس کی نسبت ارشاد ہوتا ہے (الاعراف:۱۷۷) اور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اِیَّا کُمْ وَ الظَّنَّ وَ اِنَّ الظَّنَّ اَکْذَبُ الْحَدِیْث بدگمانیوں سے اپنے آپ کو بچاؤ ورنہ نہات ہی خطرناک جھوٹ میں مبتلا ہو کر قربِ الہٰی سے محروم ہو جاؤ گے.یاد رکھو حُسنِ ظن والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا.مگر بدظنی کرنے والا ہمیشہ خسارہ میں رہتا ہے غرض پہلا مرحلہ جو انبیاء علیہم السلام کے مخالفوں اور ان کی ذرّیت اور نوابوں کو پیش آیا.وہ یہ تھا کہ اپنے آپ پر قیاس کیا.پھر یہ بدظنی کی کہ  ( المؤمنون:۲۵) تم پر فضیلت چاہتا ہے.پس اس پہلی اینٹ پر جوٹیڑھی رکھی جاتی ہے.جو دیوار اس پر بنائی جاوے خواہ وہ کتنی ہی لمبی

Page 184

اور اونچی ہو مگر کبھی مستقیم نہیں ہو سکتی.اور وہ آخر گرے گی اور نیچے کے نقطہ پر پہنچے گی.سوء ظن کرنے والا نہ صرف اپنی جان پر ظلم کرتا ہے.بلکہ اس کا اثر اس کی اولاد پر، اعقاب پر ہوتا ہے اور وہ ان پر مصیبت کے پہاڑ گراتا ہے.جن کے نیچے ہمیشہ راست بازوں کے مخالفوں کا سر کچلا گیا ہے.میں بار بار کہتا ہوں کہ یہ سوء ظن خطرناک بَلا ہے.جو اپنے غلط قیاس سے شروع ہوتا ہے.پھر غلط نتائج نکال کر قوانینِ کُلّیَہ تجویز کرتا ہے.اور اس پر غلط ثمرات مترتب ہوتے ہیں اور آخر قومِ نوح علیہ السلام کی طرح ہلاک ہو جاتا ہے.پھر اس سوء ظن سے تیسرا خیال اور غلط نتیجہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ  ( المؤمنون:۲۵) اگر اس کو قرب الہٰی حاصل تھا اگر یہ واقعی خدا کی طرف سے آیا تھا تو پھر کیوں خدا نے ملائکہ کو نہ بھیج دیا.جو مخلوق کے دلوں کو کھینچ کر اس کی طرف متوجّہ کر دیتے اور انکو بھی مکالمات الہٰیہ سے مشرف کر کے یقین دلادیتے.اس وقت بھی بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں.میں اس نتیجہ پر اُن خطوط کو پڑھ کو پہنچا ہوں جو کثرت سے میرے پاس آتے ہیں.جن میں لکھا ہوا ہوتا ہے.کہ کیا وجہ ہے.ہم نے بہت دعائیں کیں.توجہ کی اور کوئی ایسا رؤیا یا مکالمہ نہیں ہؤا.پس ہم کیونکر جانیں کہ فلاں شخص اپنے اس دعویٔ الہام میں سچّا ہے؟ یہ ایک خطرناک غلطی ہے جس میں دنیا کا ایک بڑا حصّہ ہمیشہ مبتلا رہا ہے.حالانکہ انہوں نے کبھی بھی اپنے اعمال اور افعال پر نگاہ نہیں کی اور کبھی موازنہ نہیںکیا کہ قرب الہٰی کے کیا وسائل ہیںاور ان کے اختیار کرنے میں کہاں تک سچی محنت اور کوشش سے کام لیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اگر مشیّتِ حق میں یہ بات ہوتی تو وہ ملائکہ بھیجتا.یہ مثال ان لوگوں کی طرح ہے جیسے کوئی چھوٹا سا زمیندار جس کے پاس دو چار گھماؤں اراضی ہو.اُس کو نمبردار کہے کہ محاصل ادا کرو اور وہ کہہ دے کہ تُو میرے جیسا ہی ایک زمیندار ہے.تجھ کو مجھ پر کیا فضیلت ہے.صرف اپنی عظمت اور شیخی جتانے کو محاصل مانگتا ہے.اور ہمارا روپیہ مارنا چاہتا ہے.اگر کوئی بادشاہ ہوتا تو وہ خود آ کر لیتا.وہ آپ کیوں نہیں آیا.مگر ۱؎ (الفرقان:۲۲) کیا بڑا بول بولا.نادان زمیندار بادشاہ کو طلب کرتا ہے.اسے معلوم نہیں کہ بادشاہ تو رہا ایک طرف اگر ایک معمولی سا چپڑاسی بھی آ گیا تو وہ مار مار کر سر گنجا کردے گااور محاصل لے لے گا! اسی طرح ماموروں کے مخالف ایسے ہی اعتراص کرتے ہیں لیکن جب ملائکہ کا نزول ہو جاتا ہے.تو پھر ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑتے ہیں جو انہیں یا تو چکنا چُور کر دیتے ہیں.اور یا وہ ذلیل و خوار حالت میں رہ جاتے ہیں اور ۱؎ الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۸ تا ۱۰

Page 185

یا منافقانہ رنگ میں شریک ہو جاتے ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ تین قسم کے لوگ ہوتے تھے.ایک وہ جو سابق اوّل المہاجرین تھے اور دوسرے وہ جو فتح کے بعد ملے اور تیسرے اس وقت جو (النّصر:۳) کے مصداق تھے.اس طرح جو لوگ عظمت و جبروتِ الہٰی کو پہلے نہیں دیکھ سکتے آخر ان کو داخل ہونا پڑتا ہے اور اپنی بودی طبیعت سے اپنے سے زبردست کے سامنے مامور من اﷲ کو ماننا پڑتا ہے بلکہ آخر(التوبۃ:۲۹) کے مصداق ہو کر رہنا پڑتا ہے.پھر اس سے ایک اور گندہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب ملائکہ بھی نہیں آتے.ہمیں بھی الہام نہیں ہوتا.کشف نہیں ہوتا.اور یہ دوکاندار بھی نہ سہی.مگر یہ بھی تو دیکھیں کہ کیا ہمارے پیشوایانِ مذہب نے اُس کو مان لیا ہے؟ وہ لوگ چونکہ اپنے نفس کے غلام اور اپنے جذبات کے تابع فرمان ہوتے تھے.اس لئے پھر کہہ دیتے ہیں کہ مَا سَمِعْنَابِھٰذا فِیْ اَبَآئِ نَا الْاَوَّلِیْنَ ہم نے یہ باتیں جو یہ بیان کرتا ہے اپنے آباء و اجداد سے تو کبھی نہیں سنی ہیں.جب کوئی مامور من اﷲ آتا ہے تو نادان بدقسمتی سے یہ اعتراض بھی ضرور کرتے ہیں.کہ یہ تو نئی نئی بدعتیں نکالتا ہے اور ایسی تعلیم دیتا ہے جس کا ذکر بھی ہم نے اپنے بزرگوں سے نہیں سنا.اس وقت بھی جب خدا کی طرف سے ایک مامور ہو کر آیا اور اُس نے سنّتِ انبیاء کے موافق ان بدعتوں اور مشرکانہ تعلیموں کو دُور کرنا چاہا جو قوم میں بُعدِ زمانہ کے باعث پھیل گئی تھیں تو ناعاقبت اندیش ناقدر شناس قوم نے بجائے اس کے کہ اس کی آواز پر آگے بڑھ کر لبّیک کہتی اس کی مخالفت شروع کی اور نوحؑ کی قوم کی طرح اس کی باتوں کو سُن کر یہی کہامَا سَمِعْنَاِ بِھٰذا فِیْ اَبَآئِ نَا الْاَوَّلِیْن.یہ سلف کے خلاف ہے.یہ اجماعِ اُمّت کے خلاف ہے.فلاں بزرگ کے اقوال میں کہاں لکھا ہے؟ یا فلاں مفسّر کے مخالف ہے وغیرہ وغیرہ یہی صدائیں ہمارے کان میں آ رہی ہیں.ورنہ اگر غور کیا جاتا اور ذرا ٹھنڈے دل سے ان باتوں پر توجہ کی جاتی جو خدا کا مامور لے کر آیا تھا اور سنن انبیاء کے موافق اس کی تعلیم کو دیکھا جاتا تو آسانی کے ساتھ یہ عقدہ حل ہو سکتا تھا.مگر افسوس ان نادانوں نے جلد بازی سے وہی کہا جو پہلے معترضوں اور مخالفوں نے کہا.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف میں انبیاء و رسل کے مخالفوں کے اعتراضوں کو پڑھ کر مجھے بڑی عبرت ہوئی ہے.اور خدا کے فضل سے میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں کہ میرے سامنے اب کسی نشان یا اعجاز کی ضرورت میرے ماننے کیلئے نہیں رہی.اس لئے میں تمہیں یہ اصول سمجھاتا ہوں کہ مامور من اﷲ جب آتے ہیں تو کیا لے کر آتے ہیں.اور ان پر کس قسم کے اعتراض

Page 186

کئے جاتے ہیں.میں نے بارہا معترضوں اور مخالفوں سے بھی پوچھا ہے کہ کوئی ایسا اعتراض کریں جو کسی نبی پرنہ کیا گیا ہو.مگر میں سچ کہتا ہوں کہ کوئی نیا اعتراض پیش نہیں کرتے.میں تعجب کرتا ہوں کہ آج جو لوگ حضرت اقدس ۱؎ کی مخالفت میں اُٹھے ہیں.ان کے معتقدات کا تو یہ حال ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت کی اصل غرض اور قرآن شریف کی تعلیم کا خاص منشاء دنیا میں سچّی توحید کا قائم کرنا تھا.مگر لوگوں کو پوچھو تو وہ مسیحؑ کو خالق مانتے ہیں کَخَلْقِ اﷲِ.شافی مانتے ہیں.عالم الغیب یقین کرتے ہیں.مُحْیِیْ اُسے مانتے ہیں.حلال اور حرام ٹھہرانے والا اُسے سمجھتے ہیں.قدّوس وہ ہے.ساری دنیا کے راستبازوں حتّٰی کہ اصفی الاصفیاء سرورِ انبیاء محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم تک کو مسِّ شیطان سے بَری نہیں سمجھتے.مگر مسیحؑ کو بَری کرتے ہیں.مسیح خلاء میں ہے.زندہ ہے مگر باقی سارے نبی فوت ہو چکے.اس کے آئندہ مرنے کے دلائل بھی بودے.کمزور اور ایسے الفاظ پر مشتمل ہیں کہ ان پر بہت سے اعتراض ہو سکتے ہیں.غرض وہ کونسی ۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.مرتّب صفت خدا میں ہے جو مسیح میں نہیں مانتے.اس پر بھی جو ایک خدا کے ماننے کی تعلیم دیتا ہے اور خدا کی عظمت و جلال کو اسی طرح قائم کرنا چاہتا ہے جیسے انبیاء کی فطرت میں ہوتا ہے.اس پر اعتراض کیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کو کہا جاتا ہے کہ سلف کے اقوال میں اس کے آثار نہیں پائے جاتے.افسوس ! یہ لوگ اگر انبیاء علیھم السلام کی مشترکہ تعلیم کو پڑھتے اور قرآن شریف میں ماموروں کے قصص اور ان کے مخالفوں کے اعتراضوں اور حالات پر غور کرتے تو انہیں صاف سمجھ میں آ جاتا کہ یہ وہی پرانی تعلیم ہے جو نوح.ابراہیم.عیسیٰ علیھم السلام اور سب سے آخر خاتم الانبیاء محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم لے کر آیا تھا.اگر تعلیم پر غور نہ کر سکتے تھے تو ان اپنے اعتراضوں ہی کو دیکھتے کہ کیا یہ وہی تو نہیں جو اس سے پہلے ہر زمانہ میں ہر مامور پر کئے گئے ہیں مگر افسوس تو یہ ہے کہ یہ قرآن شریف کو پڑھتے ہی نہیں.غرض یہ بھی ایک مرحلہ ہوتا ہے جو مامور من اﷲ اور اس کے مخالفوں کو پیش آتا ہے اور اس زمانہ میں بھی پیش آیا پھر جب یہ لوگ گھبرا اُٹھتے ہیں اور لوگوں کو دینِ الہٰی کی طرف رجوع کرتا ہوا پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ انکی مخالفتیں اور عداوتیں مامور کے حوصلہ اور ہمّت کو پست نہیں کر سکتی ہیں اور وہ ہر آئے دن بڑھ بڑھ کر اپنی تبلیغ کرتا ہے اور نہیں تھکتا اور درماندہ نہیں ہوتا اور اپنی کامیابی اور مخالفوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کرتا ہے جیسے نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم غرق ہو جاؤ گے اور خدا کے

Page 187

حکم سے کشتی بنانے لگے تو وہ اس پر ہنسی کرتے تھے.نوحؑ نے کیا کہا(ھود:۳۹) اگر تم ہنسی کرتے ہو تو ہم بھی ہنسی کرتے ہیں اور تمہیں انجام کا پتہ لگ جاوے گا کہ گندے مقابلہ کا کیا نتیجہ ہوا.اسی طرح پر فرعون نے موسٰی علیہ السلام کی تبلیغ سُن کر کہا.(المؤمنون:۴۸) اسکی قوم تو ہماری غلام رہی ہے (الزخرف:۵۳)یہ کمینہ ہے اور بولنے کی اس کو مقدرت نہیں اور ایسا کہا کہ اگر خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں ملا.غرض یہ لوگ اسی قسم کے اعتراض کرتے جاتے ہیں.اور جب اس کی انتھک کوششوں اور مساعی کو دیکھتے ہیں.اور اپنے اعتراضوں کا اس کی ہمّت اور عزم پر کوئی اثر نہیں پاتے.بلکہ قوم کا رجوع دیکھتے ہیں تو پھر کہتے ہیں(المؤمنون:۲۶)میاں یہ وہی آدمی ہے.انسان جس قسم کی دھت لگاتا ہے.اسی قسم کی رؤیا بھی ان کو ہو جاتی ہے.اس قسم کے خیالات کے اظہار سے وہ یہ کرنا چاہتے ہیںکہ تا خدا کی پاک اور سچی وحی کو مُلْتَبس کریں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ جیسے رَمَّال.احمق جفَّار.گنڈے والے.فال والے ایک سچّائی کے ساتھ جھوٹ ملاتے ہیں اسی طرح اس سچائی کا بھی خون کریں.اس لئے کہہ دیتے ہیں کہ یہ دھت کی باتیں ہیں.یہ وعدے اور یہ پیشگوئیاں اپنے ہی خیالات کا عکس ہیں.دوستوں کیلئے بشارتیں اور اعداء کیلئے انذار.یہ جنون کا رنگ رکھتے ہیں.عیسائی اور آریہ اب تک اعترا ض کرتے ہیں کہ قرآن شریف میں اپنے مطلب کی وحی بنا لیتے ہیں.اور دور کیوں جائیں اس وقت کے کم عقل مخالف بھی یہی کہتے ہیں.مگر ایک عجیب بات میرے دل میں کھٹکتی ہے کہ وہ کافر جو نوح علیہ السلام کے مقابل میں تھے انہوں نے یہ کہا (المؤمنون:۲۶) چند روز اور انتظار کر لو.اگر یہ جھوٹا اور کاذب مفتری ہے تو خود ہلاک ہو جاوے گا.مگر ہمارے وقت کے ناعاقبت اندیش اندھوں اور نادانوں کو اتنی بھی خبر نہیں اور ان میں اتنی بھی صلاحیت اور صبر نہیں جو نوحؑ کے مخالفوں میں تھا.وہ کہتے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ کاذب کا انجام اچھا نہیں ہوتا.اس کی گردن پر جھوٹ سوار ہوتا ہے.خود اس کا جھوٹ ہی اس کی ہلاکت کیلئے کافی ہوتا ہے مگر وہ لوگ کیسے کم عقل اور نادان ہیں جو اس سچائی سے دُور جا پڑے ہیں.اور اس معیارپر صادق اور کاذب کی شناخت نہیں کر سکتے.میرے سامنے بعض نادانوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مفتری کیلئے مہلت مل جاتی ہے قطع نظر اس بات کے کہ اُن کے ایسے بیہودہ دعویٰ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوّت پر

Page 188

کس قدر حرف آتا ہے.قطع نظر اس کے ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں ہوتا کہ قرآنِ کریم کی پاک تعلیم پر اس قسم کے اعتراض سے کیا حرف آتا ہے.اور کیونکر انبیاء ورسل کے پاک سلسلہ پر سے ایمان اُٹھ جاتا ہے.میں پوچھتا ہوں کہ کوئی ہمیں بتائے کہ آدمؑ سے لے کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم تک اور آپؐ سے لے کر اس وقت تک کیا کوئی ایسا مفتری گزرا ہے.جس نے یہ دعویٰ کیا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے اور وہ کلام جس کی بابت اس نے دعویٰ کیا ہوکہ خدا کا کلام ہے.اس نے شائع کیا ہو اور پھر اسے مہلت ملی ہو! قرآن شریف میں ایسے مفتری کا تذکرہ یا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاک اقوال میں پاک لوگوں کے بیان میں اگر ہوا ہے تو دکھاؤ کہ اس نے تَقَوّل علیاﷲ کیا ہو اور بچ گیا ہو! میں دعوے سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مفتری بھی پیش نہ کر سکیں گے ۱؎ …میں جب اپنے زمانہ کے راست باز کے مخالفوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے حالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے اِس زمانہ کے مخالفوں پر بہت رحم آتا ہے.کہ یہ اُن سے بھی جلد بازی اور شتاب کاری میں آگے بڑھے ہوئے ہیں.وہ نوح علیہ السلام کی تبلیغ اور دعوت کو سُن کر اعتراض تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیتے ہیں  چندے اور انتظار کر لو.مفتری ہلاک ہو جاتا ہے.اس کا جھوٹ خود اس کا فیصلہ کر دے گا.مگر یہ شتاب کار نادان اتنا بھی نہیں کہہ سکے.العجب!ثم العجب!! ۲۷،۲۸. (الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۶.۷) ۱؎ (الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۵.۶)   

Page 189

: ۱.وہ مکان جس میں روٹیاں پکاتے ہیں ۲.زمین کے اوپر کا حصّہ ۳.اونچی جگہ ۴.جہاں سے چشمہ نکلے ۵.پچھلی رات کے بعد صبح صادق کے وقت کو بھی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) : سحر کا وقت آ گیا.زمین کے اوپر پانی آ گیا.عذاب زور سے آ گیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) شریروں کی شرارت اور تکذیب حد سے گزر گئی تو چونکہ مامور من اﷲ بھی انسان ہی ہوتا ہے.اعداء کی تکذیب اور نہ صرف تکذیب بلکہ مختلف قسم کی تکالیف خود اسے اور اس کے احباب کودی جاتی ہیں.تو وہ بے اختیار ہو کر لَوْکَانَ الْوَبَائُ الْمُتَبَّر، کہہ اٹھتا ہے ایسی حالت میں حضرت نوح علیہ السلام نے بھی کہا.اے میرے مولیٰ میری مدد کر.میری ایسی تکذیب کی گئی ہے جس کو تُو عالم ہے.جب معاملہ اس حد تک پہنچا تو خدا کی وحی یُوں ہوتی ہے ہماری وحی کے موافق ہماری نظر کے نیچے ایک کشتی تیار کرو.اور اپنے ساتھ والوں کو بھی ساتھ لے لو.تو ہم تم کواور تمہارے ساتھ والوں کو بچا لیں گے.اور شریر مخالفوں کو غرق کر دیں گے.چنانچہ حضرت نوحؑ نے ایک کشتی تیار کی اور اپنی جماعت کو لے کر اس میں سوار ہوئے.خدا کا غضب پانی کی صورت میں نمودار ہوا.وہی پانی حضرت نوحؑ کی کشتی کو اُٹھانے والا ٹھہرا.اور اسی نے طوفان کی صورت اختیار کر کے مخالفوں کو تباہ کر دیا.اور نتیجہ نے حضرت نوح علیہ السلام کی سچائی پر مہر کر دی.غر ض یہ آسان پہچان ہے راست باز کی… جس طرح اﷲ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اپنی خاص حفاظتوں میں لاتا ہے.ارضی بیماریوں اور دُکھوں سے بچاتا ہے.آسمانی مشکلات سے بھی محفوظ رکھتا ہے اور اسکی نصرت فرماتا ہے.اسی طرح وہ لوگ جو سچے طور سے پر اس کا ساتھ دیتے ہیں یا یوں کہو کہ ان کے رنگ میں رنگین ہو کر وہی بن جاتے ہیں.سچّا تقویٰ اور حقیقی ایمان حاصل کرتے ہیں.اور مامور کا ادھورا نمونہ بھی بن جاتے ہیں تو مقتداکی عظمت و ترقی اور نصرت کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ان کو بھی شریک کر لیتا ہے.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۷) ۳۰. : تعلیم سکھائی.دُکھ سے نجات پا کر بھی انسان دُعا سے غافل نہ ہو

Page 190

آجکل کل قوموں نے دعا کو چھوڑ دیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۷۹) ۳۳.  : تم کیوں بدیوں سے نہیں بچتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰) ۳۴.   ’’…اَلْمَلَاُ : جن کی بات کی طرف لوگ جھُکتے ہیں.درباری.اشراف.حاکم.بڑے دُنیادار.: انہوں نے مساوات کیلئے کھانے پینے کی حالتوں پر غور کیا کہ ہماری مانند ہے.اس قسم کے خیالات انسان کو اتباعِ حق سے محروم رکھتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ۱۸۰) ۴۰. : انبیاء کے ہاتھ میں بھی ایک ہتھیار ہوتا ہے.جسے دُعا کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ۱۸۰) ۴۲.  : … یہ قصّہ ثمود کا نہیں.حضرت نوحؑ کا ہے

Page 191

صیحہؔ کے معنے عذاب کے ہیں.اور مطلق آواز کے بھی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ۱۸۰) ۵۱.  : آیت کے معنے نیک نمونہ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ۱۸۰) : کشمیر (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸ صفحہ ۱۹۱۳ء) ۵۲.  : یہ عملِ صالح کے نصیب ہونے کی کلید بتا دی ہے کہ طیّب کھایا کرو.کیونکہ بغیر رزقِ طیب عملِ صالح کی توفیق حاصل نہیں ہوتی.: اﷲ تعالیٰ کی نگرانی کا فکر جس کو ہے وہ ضرور عملِ صالح کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰) ۵۴.  : … ایک معنے تو ہیں.کہ ہر گروہ یہی سمجھ بیٹھا کہ بس یہی کتابِ الہٰی ہے جو ہمارے پاس ہے.۲.یا یہ معنے کہ اور اور نئی نئی کتابیں تصنیف کر یں.جو اصل الاصول کتاب کے خلاف تھیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء ) ۵۸ تا ۶۲.

Page 192

   : ڈر رہے ہیں بایں خیال کہ ہمارے اعمال قابلِ قبول ہوئے ہیں یا نہیں.عائشہ صدیقہؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ اگر آدمی زنا کرے.چوری کرے.پھر بھی خوف کرے.تو نجات پائے گا؟ فرمایا نہیں! اے بنتِ صدیق ! بلکہ وہ نیک کام کرے اور ساتھ ہی ڈرے کہ قبول بھی ہوا ہے یا نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰) : نیکی کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) مولیٰ کریم.رحمان و رحیم مولیٰ.ان آیات میں انسان کو ان راہوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو اس کو ہر ایک قسم کے سُکھوں کی طرف لے جاتے ہیں اور اپنے ہم چشموں اور ہم عصروں میں معزّز و موقّر بنا دیتے ہیں.انسان فطرتی طور پر چاہتا ہے کہ ہر ایک قسم کے سُکھوں اور آراموں اور بھلی باتوں کو حاصل کرے اور پھر اُن میںسب سے بڑھ کر رہنا چاہتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کے متعلقین خوش و خور سند ہیں اور لوگوں کو بھلائی کی طرف متوجہ پاتا ہے.اس کے دل میں یہ بات پیدا ہوتی ہے کہ فلاں بھلائی میں سعادت مند قدم رکھا ہے اور فلاں شخص نے بھی رکھا ہے.پس میں سب سے بڑھ کر سبقت لے جاؤں.غرض عام طور پر انسان فطرۃً کمپی ٹیشن ۱؎ میں لگا رہتا ہے اور ساتھ والوں سے سربرآوردہ ہونے کا آرزو مند ہوتا ہے.بچّے چاہتے ہیں کہ کھیل میں دوسری پارٹی سے بڑھ کر رہیں اور جیت جاویں.عورتیں کھانے.پہننے.لباس و زیوارات میں چاہتی ہیں کہ اپنی ہم نشینوں سے بڑھ کر رہیں.پس یہ خواہش اور آرزو جو فطرتی طور پر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے.اُس کے پورا کرنے کے اسباب اور وسائل قرآن کریم میں

Page 193

Page 194

ہیں اور : اور پھر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اعمال اور ترکِ اعمال میں کسی کو شریک نہیں کرتے.نیکی کو اس لئے کرے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کا باعث ہے اور اُسی کے لئے اس کو کرے اور بدیوں سے اس لئے اجتناب کرے کہ خدا نے اُن کو بُرا فرمایا.اور ان سے روکا ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی اتباع مدّ نظر رکھ کر نیکی کرے.نیکی کرتا ہوا بھی خوفِ الہٰی کو دل میںجگہ دے کیونکہ وہ نکتہ نواز اور نکتہ گیر ہے.حدیث شریف میں آیا ہے.جنابہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا عرض کرتی ہیں کہ بدیاں کرتے ہوئے خوف کریں فرمایا نہیں نہیں.نیکیاں کرتے ہوئے خوف کرو.جو نیکیاں کرنے کی ہیں کرو.اور پھر حضورِ الہٰی میں ڈرتے رہو کہ ایسا نہ ہو کہ عظیم و قدوس خدا کے حضورکے لائق ہیں یا نہیں.ایسے لوگ ہیں جو کے مصداق ہوتے ہیں یعنی اوّل اور آخر میں خشیت ہو.فعل اور ترکِ فعل اخلاص اور ثواب کے طور پر ہوں اور وہ بھلائیوں کے لینے والے اور دوسرے سے بڑھنے والے ہیں.(الحکم ۱۹؍ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ۴) ۶۳.  وسوسۂ شیطانی یہ بھی آ جاتا ہے کہ یہ راہ کٹھن ہے کیونکرچلیں گے خدائے تعالیٰ خود ہی اس وسوسہ کا جواب دیتا ہے  کہ ہم نے جو اعمال کے کرنے کا حکم دیا ہے اور نواہی سے روکا ہے وہ مشکل نہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ عدم استطاعت پر حج کا حکم ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اوامر و نواہی ایسے ہیں کہ عمل کر سکتا ہے اور اُن سے باز رہ سکتا ہے.اور یہ امر بھی بحضورِ دل یاد رکھو کہ بعض اعمال بھول جاتے ہیں.جنابِ الہٰی کے ہاں بھول نہیں بلکہ فرمایا.یاد رکھو جنابِ الہٰی میں اعمال محفوظ رکھے جاتے ہیں.خدا کے ہاں ظلم نہیں ہوتا.(الحکم ۱۹؍ اپریل ۱۸۹۹ء صفحہ۴) ۶۴،۶۵. 

Page 195

  : اس حق کے خلاف : بیل کے اڑانے کو جُؤَار کہتے ہیں.نصیحت: جو دنیا میں کسی کو تحقیر کے رنگ میں بُرا کہتے ہیں.وہ مرتے نہیں جب تک اس میں خود مبتلا نہ ہو لیں (۲) ہر سُنی ہوئی بات کو قبول نہ کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰) ۷۹.  بہت دفعہ میں نے سنایا ہے کہ محبت احسان سے پیدا ہوتی ہے.اﷲ تعالیٰ اپنی اس کتاب میں بہت سے احسانوں کا ذکر فرماتا ہے.اس ذاتِ با برکات کے احسانات کی کوئی حد نہیں.آدمی کو چاہیئے کہ قدر کرے اور کسی تکلیف سے گھبرا کرنا شکری کے کلمات نہ نکالے.: کان کیا مفید چیز ہے کہ اس سے ہم نبیوں کی آوازیں سُنتے ہیں پھر اور قسم قسم کی آوازیں سن کر فائدہ اٹھاتے ہیں بلکہ اس کے ذریعے کئی ہزار میل کی خبریں تار برقی میں سُنتے ہیں.: آنکھ کیا ہے.ایک چھوٹا سا نقطہ ہے جس کے ذریعے حُسن و جمال کی دلرُبا تصویر دیکھتے ہیں.: کان بھی ہوں ،آنکھیں بھی ہوں مگر دل نہ ہو تو یہ سب بیکار.پاگل خانہ میں جا کر دل کی صحت کا تماشہ دیکھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰) ۸۱. 

Page 196

: لیل و نہار کا یہ اختلاف بھی ہے کہ ایک ملک میں رات ہے تو د وسرے میں دن.: عقل ایک صفت ہے.اس صفت سے انسان اپنے آپ کو بدیوں سے روک سکتا ہے.جو اپنے آپ کو بدیوں سے نہیں روک سکتا.وہی لا یعقل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء) ۸۴.  :  سطروں میں لکھا ہوا یا جمع اسطور.اسٹوری ۱؎.۹۲.  : ذاتی کمال کسی میں نہیں.کوئی بھی کامل تر زمانہ میں نہیں کیونکہ آئندہ زمانہ میں اس کی ترقی حاصل ہو سکتی ہے.پس آئندہ ترقی کے مقابلہ میں موجودہ حالت ضرور ناقص ہے.: وہ ہے جو ہر قسم کا ذاتی کمال رکھتا ہے اور اس کیلئے کوئی حالت منتظرہ باقی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء) ۱؎ STORY ۹۴ تا ۹۶.

Page 197

  : انبیاء علیھم السلام کس طرح فتح مند ہوتے ہیں ان کاسِر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دعا کرتے ہیں.: اس دعا پر خوب غور کرو.کہ کس قدر خوف کا مقام ہے.نبی کہتا ہے کہ ان پر جو عذاب آئے میں بھی ان ہی میں شامل نہ ہو جاؤں.اﷲ تعالیٰ بے باکی سے ناراض ہو جاتا ہے.بعض لوگ بڑے بڑے دعوے کر بیٹھتے ہیں اور آخر خطاکھاتے ہیں.اس میں یہ پیشگوئی بھی ہے.کہ اہلِ مکّہ پر عذاب کے وقت نبی کریمؐ ان میں موجود نہ ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۰.۱۸۱) جب ہم یہ آیات پڑھتے ہیں … تو یہ دو باتیں کھُلتی ہیں.ایک تو یہ کہ اﷲ کی ذات کس قدر غناء میں پڑی ہوئی ہے کہ وہ انبیاء جن کے مبارک وجود کی خاطر بعض اوقات تمام ملک کو بھی غرق کر دیتا ہے.اس کے حضور میں عاجزی سے گڑ گڑانے کے محتاج ہیں اور دُعا کی احتیاج سے خالی نہیں.اب دیکھئے حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خاطر عذاب آتا ہے.مگر دوسری جانب آپؐ ہی کے منہ سے کہلواتا ہے. یعنی اے میرے ربّ مجھے ظالموں کی قوم میں سے نہ گردانیو.اس آفت میں مبتلا نہ ہو جاؤں.دومؔ یہ کہ وعدہ ہو یا وعید وہ ضرور ٹل سکتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے..یعنی ہم جو ان کو وعدہ دیتے ہیں.اس کے دکھانے پر قادر ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ ضرور وہ وعدہ اسی رنگ میں پورا کریں گے.بلکہ یہ فرمایا کہ قادر ہیں.چاہیں تو اسے بدل کر کسی اور رنگ میں پورا کر دیں.یہ نکتہ معرفت اگر خوب سمجھ لیا جائے تو پھر بُروزِ محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر کوئی اعتراض نہیں رہتا.( تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۰ صفحہ۳۹۷ ماہ اکتوبر ۱۹۱۱ء) ۹۷. : اگر کوئی بدی ہو تو اس کیلئے عمدہ تدبیر

Page 198

سوچتے رہو.کہ یہ بدی کس طرح دور ہو.بدیوں کے دور کرنے کیلئے باریک در باریک تدابیر ہیں.منجملہ ان کے ایک دُعا ہے پھر قول مُوَجَّہ.سمجھانا.اعلانیہ نصیحت کرنا بھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۹۹. : کوئی بدکار میرے پاس بھی نہ آنے پائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۰۰. : چاہیئے اِرْجِعْ اور یہاں جمع آیا.یہ در اصل اِرْجِعْ اِرْجِعْ اِرْجِعْ تین مرتبہ کہنے کی جا بجا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۰۱.  : عیسائی مسیح کو کلمہ کہنے سے درجہ الوہیت دیتے ہیں.دیکھو یہ بھی ایک کلمہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۰۵. : یعنی سُکڑ جانے والے.چمڑے کو جب آگ کے سامنے رکھیں اور وہ جَلے تو سکڑ جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۱۰.

Page 199

  : دنیا میں فائزالمرام بننے کے واسطے یہ دعا ہے.وہ فریق خلفاء راشدین ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۱۱.  : جو شخص کسی پاک بندے کی ہنسی کرتا ہے.اﷲ تعالیٰ اس کو سزا دیتا ہے کہ وہ خدا کی یاد کو بھول جاتا ہے.اِنْسَاء کی نسبت ان لوگوں کی طرف سبب کی وجہ سے ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۱۱۶. : کیا تمہیں یہ خیال ہے کہ ہم نے تم کو عبث پیدا کیا ہے.ایسا خیال تمہارا غلط ہو گا.ہمارے حضور تم کو آنا ہو گا.جب تم عبث نہیں بنائے گئے.تو پھر سوچو کہ تم کیوں بنائے گئے ہو.(الحکم ۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۳) ۱۱۸.  :.ابتداء سورۃ میں فرمایا تھا.اب اس کے مقابل میں کفّار کا انجام بتایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱)

Page 200

: فلاح نہ پاتے کافر.ابتداء میں فرمایا  (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۱۹. : کفر اور اس کے بدنتائج سے بچنے کی دعا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) -----------------------

Page 201

سُوْرَۃُ النُّوْرِ مَدَنِیَّۃٌ  سورۂ نور میں تمیز کا بیان ہے اور یہ کہ مطاعن سے بچنا چاہیئے اور ان کے اسباب سے بھی.اور رسول کے ساتھیوں کا مقابلہ نہیں کرنا چاہیئے.خلافت پر بڑا زور دیا گیا ہے.کوئی سورۃ ایسی نہیں جس کے پہلے یہ لکھا ہوکہ ہم نے تم پر یہ حکم واجب یا فرض کیا ہے.یہ تاکید اس سورۃ کے ساتھ مخصوص ہے.خوب غور سے سنو اور عمل کرو.میرے ایک پیر شاہ عبدالغنی صاحب مہاجرفرماتے تھے کہ سورۃ نورؔ قرآن شریف میں ہے.مگر ہند وستان کے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے.اور اس کے ایک ٹکڑے کی طرف بھی توجہ نہیں.سورۃ مومنونؔ کے اخیر میں یہ اشارہ فرما دیا ہے کہ اس آنے والی سورۃ کے احکام پر جو عمل نہیں کریں گے.ان کو ہم مظفر و منصور کبھی نہ کریں گے.چنانچہ دیکھ لو ہندوستان کے مسلمانوں کا کیا حال ہے.( ضمیمہ اخبار بدرقادیان ۷؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) میرے ایک شیخ تھے.حضرت شاہ عبدالغنی صاحب نام مجدّدی.اور میں نے ان کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.اور اب تک ان کا معتقد ہوں.وہ فرماتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس سورۃ میں سے ایک آیت پر بھی عمل نہیں کیا اور میرا بھی اتنی عمر کا تجربہ ہے کہ یہ بات درست ہے.اس واسطے اس سورۃ کو بہت غور اور توجہ سے سننا چاہیئے اور اس پر عمل کرنے کی سعی کرنی چاہیئے.(بدر ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۳) اس سورۃ میں بتایا ہے کہ نبی کریمؐ تک یہ سلسلہ نہیں.بلکہ خلافت کا سلسلہ بھی تا یومِ قیامت ہے.خلافت کے منکر اور عیب چین ہوں گے.مگر آخر ذلیل.فرماتا ہے کہ مجرموں کو تو ہم سزا دینے کا حکم دیتے ہیں.انہیں خلفاء کیوں بنانے لگے.پس تم الزام دہی سے باز آؤ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) میں شاہ عبدالغنی صاحب کا مرید تھا.انہوں نے فرمایا تھا کہ اہلِ ہند نے سورۂ نورؔ پر عمل ترک کر دیا ہے بلکہ اپنے لئے اس کو منسوخ ہی سمجھ لیا ہے.پس تم اس پر ضرور غور کرو.اس میں سب سے پہلے زنا کی مذمت ہے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا

Page 202

ہے کہ ہر ایک عضو زنا کرتا ہے پس انسان ہر ایک عضو کا نگہبان بنے.( الحکم ۳۱؍جولائی؍۱۰اگست۱۹۰۴ء صفحہ۹) ۲.  یہ ایک سورۃ ہے.ہم نے اس کو نازل کیا اور ہم نے اس کو فرض کر دیا اور ہم نے اس میں احکام اُتارے جو کھُلے کھُلے ہیں تاکہ تم عمل در آمد کرو.اور قابلِ ذکر بن جاؤ.اس سورۃ پر عمل کرنے کے واسطے کس قدر تاکید اﷲ تعالیٰ نے کی ہے.اوّل فرمایا.ہم نے اتارا.پھر فرمایا.ہم نے فرض کیا.فرض تو سارا قرآن شریف ہے کہ اس پر عمل کیا جائے مگر اس سورۃ کو پھر بالخصوص فرص فرمایا کہ مسلمان اس کی طرف توجہ کریں.: کھلے کھلے احکام.موٹی باتیں جن کو سب لوگ سمجھ سکتے ہیں.کوئی پیچیدہ اور ناقابلِ فہم یا خلافِ عقل باتیں نہیںہیںبلکہ ایسی عمدہ اور درست باتیں ہیں جو ہر شخص کی سمجھ میں آ سکتی ہیں.لَعَلَّکُمْ: اس پر عمل کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم قابلِ ذکر آدمی بن جاؤ گے.مشاہیرِ زمانہ میں سے بن جاؤ گے.لوگ تم کو نمونہ پکڑیں گے اور امام بنائیں گے.(بدر ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۳.   زانی مرد اور عورت ہر ایک کو اُن دونوں میں سے ایک سو کوڑہ مارو.یہ پہلا حکم ہے جو اس

Page 203

سورہ شریف میں نازل ہوا کہ جب کسی مرد اور عورت پر زنا کا الزام ثابت ہو جائے تو ان کی سزا یہ ہے کہ مرد کو بھی سو کوڑے مارے جائیں اور عورت کو بھی سو کوڑے مارے جائیں.اورنہ پکڑے تم کو ان دونوں کے ساتھ نرمی اور ترس کھانا.اﷲ تعالیٰ کے دین کے معاملہ میں.اگر ہو تم ایمان لانے والے ساتھ اﷲ کے اور دن پچھلے کے.کیا معنے.مومنوں کو نہیں چاہیئے کہ ایسے لوگوں پر ترس کھا کر ان سے در گزر کر دیں.اور ان کو سزا نہ دیں کیونکہ اس میں فتنہ و فساد ہے.اور بالآخر مفید امر اُن کے واسطے اور قوم اور تمدّن کے واسطے یہی ہے.کہ ایسے جُرم کا مرتکب کھلے طور پر اپنی سزا کو پہنچے.: اور چاہیئے کہ مشاہدہ کرے ان کے عذاب کو ایک گروہ مومنوں کا.سزا پبلک میں دینی چاہیئے.اور مومنوں کو وہاں جمع ہونا چاہیئے آجکل نیک کہلانے والے ایک جھوٹی نرم دلی کا بہانہ کر کے ایسے موقع پر جانے سے پرہیز کرتے ہیں.ایسا خیال گناہ ہے کیونکہ حکم الہٰی کے برخلاف ہے.(بدر ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۴.  بدکار تو بدکاروں یا بُت پرست عورتوں کو ہی نکاح کرتے ہیں اور بدکار عورتیں بھی ایسی ہیں کہ انہیں بدکار یا مشرک ہی بیاہیں.اور ایمان والوں پر تو یہ باتیں حرام ہی ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۸۶) : زانی نکاح نہیں کرتا مگر زانیہ سے.:  کے مرجع پر علماء میں بحث ہے.بعض کہتے ہیںکہ زانیہ سے نکاح کرنا حرام ہے.اور بعض یہ کہ زنا حرام ہے.پھر علماء میں اختلاف ہے کہ تہمتِ زنا لگانے والے کی گواہی جائز ہے یا نہیں؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) زنا کرنے والا مرد نہیں نکاح کیا کرتا مگر ایسی عورت سے جو زنا کار ہو چکی ہے.یا کسی مشرکہ عورت سے اور زناکرنے والی عورت نہیں نکاح کیاکرتی مگر کسی ایسے مرد سے جو زنا کار ہو چکا ہے.یا کسی مشرک

Page 204

سے اور حرام ہے یہ بات مومنوں پر.کیا معنے؟ کوئی مومن زنا کار سے نکاح نہ کرے.تعلقاتِ شادی سے پہلے جہاں دوسرے امور کی تحقیق و تفتیش کی جاتی ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ اچھی طرح سے دریافت کر لیا جائے کہ مرد یا عورت ایسے نہ ہوں جو زنا میں گرفتار ہیں.یہ تجربہ کی بات ہے.کہ نیک بدکار کے مناسب حال نہیں ہوتا.اور بدکار نیک کے مناسب حال نہیں ہوتا.سوال:اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗجب گناہ سے توبہ کرنے کے بعد تائبہ ایسی ہو جاتی ہے کہ گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں تو پھر دوسری عورتوں کی طرح اس کا نکاح مومن کے ساتھ کیوں جائز نہیں.جواب: ایک کنچنی اپنے پیشہ کو چھوڑنے کے بعد بھی سب کے درمیان کنچنی ہی کہلاتی ہے کوئی اس کو تائبہ نہیں کہتا.ہندو مسلمان ہو جاتا ہے تو پھر اس کو کوئی ہندو نہیں کہتا.لیکن کنچنی باوجود نکاح کر لینے کے بھی لوگوں کے درمیان کنچنی ہی مشہور رہتی ہے.علاوہ ازیں گزشتہ عادتِ بد کا کچھ ایسا اثر اندر ہی اندر رہتا ہے کہ اس کا جانا مشکل ہوتا ہے… ایک دفعہ ایک کنچنی تائبہ ہو کر ہمارے پاس آئی اور کہا کہ میں آپ سے نکاح کرنا چاہتی ہوں.ہم نے اس کو اسی آیت شریف کے حکم کے مطابق جواب دیا لیکن وہ اس خیال سے باز نہ آئی.اور ہمارے پیچھے پڑی رہی تو ہم نے جواب دیا کہ ایک علیحدہ مکان لے لے.اور گندے کام کو بالکل ترک کردے.یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ تیرا یہ نام ہٹا دے.انہیں دنوں میں ایک نوجوان امیر زادہ جو ہمارا بھی واقف تھا.اس کے پاس پہنچا اور اس کو اس طرح سے پھسلایا کہ میں ذمّہ لیتا ہوں کہ تمہارا نکاح مولوی صاحب سے کرا دُوں گا.مگر چونکہ پھر تم ہمیشہ کے واسطے پردہ نشین ہو جاؤ گی اس واسطے اب تم ایک رات کیلئے میرے مکان پر آ جاؤ.اپنی گزشتہ عادتِ بد کے مطابق اس کے واسطے یہ امر قبول کرنا مشکل نہ ہوا.چنانچہ وہ اس کے مکان پر چلی گئی.رات کو اس بدکار نے شراب نوشی سے اپنا درد شکم ظاہر کیا.اور مجھے بلانے کو آدمی بھیجا کہ میں اس کا علاج کروں اگرچہ میں خود نہ گیا.تاہم میرے شاگردوں کے جانے کا یہ نتیجہ ہواکہ وہ عورت پھر کبھی میرے پاس نہ آئی.اور اس جوان نے صبح کو ہم کو کہا کہ دیکھو کس آسانی سے ہم نے اس عورت کو آپ کے پاس سے دفع کیا.(بدر ۶؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۵.

Page 205

 اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں پاک دامن عورتوں پر.پھر نہیں پیش کرتے چار گواہ.ان کو اسی ۸۰ کوڑے مارو اور ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو.یہ لوگ فاسق ہیں.اس آیت شریف میں دو حکم ہیں.اوّلؔ تو یہ کہ جب تک چار گواہ نہ ہوں.کسی کا ایک عورت پر تہمت لگانا قبول نہیں کیا جا سکتا.جب کبھی کوئی شخص کسی عورت کے متعلق زنا کار کا لفظ بولے تو ضرورہے کہ اس سے چار گواہ طلب کئے جاویں.دوسراؔ حکم یہ ہے کہ جو شخص چار گواہ نہیں لا سکتا اور یونہی کسی کو بدنام کرتا ہے.اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو اسی ۸۰ کوڑے مارے جائیں اور پھر کسی معاملہ میں اس کی گواہی قبول نہ کی جائے.یہ ہر دو حکم نہایت ہی غور اور توجہ کے لائق ہیں.عموماً لوگوں کی عادت ہے کہ صرف خیالی طور پر بدظنی کر کے چہ جائیکہ رؤیت ہو اور پھرچار گواہ بھی ہوں.عوام میں کہنے لگ جاتے ہیں کہ فلاں مرد یا عورت نے زنا کیا.پھر ایسی باتوں کو لوگ اپنی مجلسوں کا شغل بناتے ہیں.خدا کے غضب سے ڈرنا چاہیئے اور ایسی بات منہ پر نہیں لانی چاہیئے.کیونکہ خدا نے ایسے آدمی کا نام فاسق رکھا ہے.جو بغیر چار گواہوں کے کسی پر اتہام لگاتا ہے.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۶. مگر جن لوگوں نے اس کے بعد توبہ کی اور اپنی اصلاح.تو بیشک اﷲ تعالیٰ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے.جب لوگ ایسی شرارت کے بعد اپنی اصلاح کریں یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان ظاہر ہو جاوے کہ یہ اب اس طرز اور طریقہ کا آدمی نہیں رہا.اور نیک بن گیا ہے تو پھر دوسرے لوگوں کی طرح اس کی شہادت بھی قبول کی جاوے.اﷲ تعالیٰ رحیم و کریم نادان جہّال کی طرح کینہ ور نہیں.اس کے احکام ہماری درستی اور اصلاح کے واسطے ہیں.(النساء:۱۴۸) مندرجہ بالاحکم ان اشخاص کے واسطے ہے جو کسی غیر مرد یا غیر عورت کے

Page 206

متعلق زنا کی بابت بولے.لیکن اپنی بیویوں کے متعلق ایسے فعل کے دیکھنے اور ظاہر کرنے کے بارے میں مفصلہ ذیل احکام ہیں.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۷،۸.  اور جو لوگ اپنی بیویوں کو زنا کا عیب لگاتے ہیں.اور سوائے اپنے اور کوئی گواہ ان کا نہیں ہے.پس وہ ایک ہی آدمی چار دفعہ اﷲ کی قسم کھائے کہ میں سچ کہتا ہوں اور پانچویں دفعہ یُوں کہے کہ اگر میں جھوٹ کہتا ہوں تو مجھ پر خدا کی لعنت ہو.چونکہ ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ اس قسم کے تعلّقات رکھتا ہے کہ باوجود کسی شہادت کے نہ ہونے کے جس سے وہ کھُلے طور پر صفائی کے جُرم ثابت کر سکے.اسکی اپنی دِید اس امر کے واسطے کافی ہے.کہ وہ اس عورت سے دِلی تنفّر رکھے.اس واسطے ایسے موقع پر صرف اسی کی پُر زور شہادت پر اکتفا کیا.لیکن چونکہ بعض مرد ایسے ہوتے ہیں کہ کسی اور ناراضگی کے باعث بھی ایسی قسم کھانے کو تیار ہو جاتے ہیں.اس واسطے بالمقابل اس کے وہ حکم ہے جو اگلی آیت میں آتا ہے.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۹،۱۰.  اور اُس عورت سے عذاب کو دور کر دیتی ہے یہ بات کہ وہ چار دفعہ خدا کی قسم کھائے کہ یہ شخص جھوٹ بولتا ہے.اور پانچویں دفعہ اس طرح قسم کھائے کہ اگر وہ مرد سچّا ہے تو مجھ پر خدا کا غضب

Page 207

نازل ہو.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱۱. اور اگر اﷲ تعالیٰ کا فضل اور رحمت تم پر نہ ہوتا ( تو ایسے پُر حکمت مسائل نازل نہ ہوتے) اﷲ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا اور حکمتوں والا ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت سے بڑی حکمت سے بھرے احکام اس جگہ نازل فرمائے ہیں.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱۲.   : جس نے اس بات میں بڑا حصّہ لیا اس کیلئے عذابِ عظیم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) تحقیق وہ لوگ جنہوں نے تُہمت لگائی ہے.ایک گروہ ہے تم میں سے تم اس کو بُرا نہ سمجھو.اپنے لئے.بلکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.ہر مرد کیلئے ہے جو اس نے کمایا گناہ سے اور جو ان میں سے بڑی بات کے پیچھے پڑا اس کیلئے ہے بڑا عذاب.اس آیت میں اشارہ ہے اُس فتنہ کی طرف جبکہ بعض لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا پر بدظنی کی تھی اور پھر اﷲ تعالیٰ نے اپنی وحی سے حضرت عائشہؓ کا پاک ہونا ظاہر فرمایا.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ واقعہ مومنوں کے واسطے کسی تکلیف کا موجب نہیں.بلکہ سراسر فوائد کا باعث ہے.اوّل تو خود یہی واقعہ ایک بڑے بھاری مسئلہ کے حل ہو جانے کا موجب ہوا کہ جب کسی عورت پر اتہام لگایا جائے تو کیا کرنا چاہیئے.اور خود اتہام لگانے والوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیئے.دومؔ.حضرت عائشہؓ

Page 208

کی بریّت خدا کی پاک کتاب سے ثابت ہو گئی.اور اس طرح حضرت امّ المومنینؓ کو یہ فخر حاصل ہوا کہ قرآن شریف میں ان کا ذکرِ خیر خصوصیت کے ساتھ کیا گیا.اور جو لوگ منافق تھے اور ان کے دلوں میں کجی تھی اور کمزوری تھی وہ بھی ظاہر ہو گئے.اور مومنوں کو آئندہ کے واسطے احتیاط مدّ نظر ہو گئی کہ ایسے معاملات میں جلدی سے مُنہ نہیں کھولنا چاہیئے بلکہ بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) ۱۳.  کیوں ایسا نہ کیا گیا.کہ جب تم نے سُنا اس بات کو تو مومن مردوں اور عورتوں کو لازم تھا کہ اپنے جی میں نیک ظن رکھتے اور کہتے کہ یہ تو ظاہر جھوٹی تہمت ہے.اس آیت میں مومن مردوں اور عورتوں کو تمدّن اور اخوّت کا ایک بڑا ضروری اور امن قائم کرنے والا اصول سکھایا گیا ہے.کہ کسی پر بدظنی کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اپنے بھائیوں پر نیک ظن قائم رکھیں.اور جب تک پوری تحقیقات نہ ہو لے کسی کے حق میں کوئی کلمۂ بد استعمال کرنے کی جرأت نہ کریں.(بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) خدا تعالیٰ نے اس سورت شریف میں فرمایا ہے کہ زانیہ کی سزا کے وقت نیک لوگ موجود ہوں اور اس پر رحم قریب بھی نہ آوے ( آیت:۳) وہاں حضرت عائشہ صدیقہ کا ذکر فرمایا ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بھی یہی کنواری بی بی ہیں.ان کا درجہ میرے نزدیک حضرت خدیجہؓ سے کچھ بھی کم نہیں.میں تم کو ایک نمونہ سناتا ہوں.یہ ایک ایسی ذہین.ذکی.اور نبی کریمؐ کے چال چلن پر گہری نظر کرنے والی بی بی ہے.کہ عقل حیران ہو جاتی ہے.اس کا ایک ایک لفظ معرفت کا بھرا ہوا اور جامع ہے.کسی صحابی نے اس بی بی سے پوچھا کہ آنحضرتؐ تہجّد کس طرح پڑھتے تھے.فرمایا کیا تُو نے قرآن نہیں پڑھا.ایک شخص نے اس بی بی سے آنحضرتؐ کی سوانح عمری دریافت کی.فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ یعنی قرآن اگر کوئی قول ہے.تو نبی کریمؐ اس کا عامل ہے.دیکھو ایک لفظ میں نقشہ کھینچ دیا ہے.اس بی بی نے اُمّت پر بڑا احسان کیا ہے.حضرت عمرؓ جیسے جلال والے انسان کا مقابلہ قرآن کریم سے ہی کرتی تھیں.اس بی بی پر لوگوں نے اتہام لگایا تھا.ان کے گلے میں ایک ہار تھا.کس چیز کا.سلیمانی منکے.اور

Page 209

کچھ لونگ اس میں پروئے ہوئے تھے.وہ لشکر سے باہر پاخانہ پھرنے کو گئیں تو وہاں ہار ٹوٹ پڑا اس کو چُننے لگیں.یہ نو برس کی بیاہی گئیں.اور ۱۸ برس کی بیوہ بھی ہو گئی تھیں.اور ۶۳ برس کی عمر میں فوت ہو گئی تھیں.اس عرصہ میں مسلمانوں کے بہت انقلاب دیکھے.چونکہ بہت ہلکی پھلکی تھیں.ساربانوں نے ان کا ڈولا اونٹ پر کَس دیا اور چل دیئے.کسی کو معلوم نہ ہو ا کہ آپؓ اس میں ہیں کہ نہیں.جب یہ جنگل سے واپس اُس مقام پر آئیں تو دیکھا کہ قافلہ چلا گیا ہے.جوانی کے ایّام تھے نیند نے غلبہ کیا اور سو گئیں.ایک شخص ہمیشہ لشکر میں پیچھے رہتا کہ گری پڑی چیز اٹھا لاوے.چنانچہ صفوانؔ صحابی اس کام پر مامور تھا.جب انہوں نے دُور سے بی بی کو پڑا ہوا دیکھا تو سمجھا کہ کوئی عورت فوت ہو گئی ہو.اور یہیں چھوڑ کر قافلہ چلا گیا ہے اور زور سے اِنَّالِلّٰہپڑھا.آواز سُن کر آپؓ جاگ اُٹھیں.پھر صفوان نے ان کو اُونٹ پر سوار کیا اور خود آگے آگے ہوا.اور دوپہر کو لشکر میں لے کر پہنچا.لیکن بہت سارے شریر اور بدگمان لوگوں نے کہا کہ شاید کسی بدی کی وجہ سے بی بی پیچھے رہ گئی ہیں.جب یہ خبر آنحضرتؐ کو پہنچی تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ان دنوں میں بیمار تھیں.ان دنوں گھروں میں پاخانہ نہیں ہوتا تھا.ایک روز آپؓ باہر پاخانہ کو گئیں تو ایک بڑھیا ساتھ تھی.ساتھ والی بڑھیا راستہ میں گر پڑی ( عورتیں بات دل میں نہیں رکھ سکتیں) گِر کر اپنے بیٹے کو سخت گالی نکالی.بی بی نے منع کیا غرض تین دفعہ اسی طرح کیا اور تین دفعہ بی بی نے منع کیا.تو کہنے لگی کہ تجھے خبر نہیں.تجھ پر لوگوں نے تُہمت لگائی ہے اور اس میں میرا بچّہ بھی شریک ہے.اسی لئے اس کو گالی دیتی ہوں.پس صدیقہ اسی دن اپنے میکے میں چلی آئی.ایک مہینہ کے بعد آنحضرت ؐ اس کے پاس آئے.اور کہا.عائشہ اگر تُجھ سے غلطی ہوئی ہے تو تُو استغفار کر.اگر نہیں ہوئی تو خدا تعالیٰ مجھے وحی سے آگاہ کر دے گا.اس سے معلوم ہوا.کہ یہ لوگ غیب کی کنجیاں اپنے ہاتھ میں نہیں رکھتے.بہت لوگ ان کو خدا کا ایجنٹ سمجھتے ہیں.یاد رکھو کہ خدا بڑا بادشاہ ہے!کُل انبیاء.اولیاء.مُرسل ان کی قوّت کے نیچے رہتے ہیں اور جس کو وہ چاہتا ہے اس کو اطلاع دیتا ہے.پھر اﷲ تعالیٰ نے قرآن کی آیات نازل کیں اور اس بی بی کا پاک اور مطہّر ہونا بتلایا.فرمایا(.الآیۃ) جب عائشہ ؓ کے حق میں تم لوگوں نے بُرا فقرہ سُنا تھا تو نیک گمان سے کیوں کام نہ لیا.پس میں تمہیں یہی فقرہ سنانا چاہتا ہوں.کہ نیک گمانی سے کام لیا کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کیوں تم نے

Page 210

ایسی باتیں سن کر نہ کہہ دیا کہ نہیں کہ ہمیں ایسی بات کہنا مناسب نہیں.پس یہ عیب مردوں میں بھی ہے.پھر عورتیں اس پر بڑے بڑے منصوبے باندھتی ہیں.اور اس پر بڑی بڑی حکایات چلاتی ہیں.پس خدا نے اس سے منع کیا ہے.(الحکم ۳۱؍جولائی؍۱۰اگست۱۹۰۴ صفحہ۹) ۱۴،۱۵.   کیوں نہیں لائے اس پر چار گواہ.پس جب نہیں لا سکے گواہ تو یہ لوگ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک جھُوٹے ہیں.جو شخص کسی کے متعلق ایسا کلمہ بولے.اس سے چار گواہ طلب کرنے چاہئیں لیکن اگر وہ اپنی بات کے واسطے چار گواہ پیش نہیں کر سکتا تو وہ جھوٹا اور خود مجرم ہے اور سزا کے لائق ہے.اس سورہ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ نے اختلاف کو مٹایا ہے.سب سے پہلے زناکی جڑ کو کاٹا ہے جو سب سے زیادہ دنیا میں اختلاف کا موجب ہوا کرتا ہے.پھر لوگوں کو بدظنی سے بچنے کے واسطے ہدایت کی ہے اور بے جا تُہمت لگانے سے منع فرمایا ہے کیونکہ جو کوئی کسی پر بے جا تُہمت لگاتا ہے وہ خود اس میں گرفتار ہوتا ہے.امام شعرانیؔ نے لطَائِفُ المِنَن میں لکھا ہے کہ مصر میں ایک بزرگ ایک محلہ میں رہتے تھے.چند نوجوان ان کی خدمت میں تھے جن کے متعلق محلہ والے اُس بزرگ پر اتہام باندھتے تھے.وہ بزرگ ان کو ہمیشہ نصیحت کرتے مگر وہ باز نہ آتے.آخر تنگ آ کر اس بزرگ نے بد دُعا کی کہ جو جھوٹا ہے وہ وبال پائے.اس بد دُعا کا یہ نتیجہ ہوا کہ وہ سارا محلہ کنجروں اور لُوطیوں کا ہو گیا.مَعَاذَ اﷲِ (بدر۱۳؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۴) حضرت عائشہ ؓ کی عمر ۶ سال کی تھی جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے نکاح ہوا اور ۹ برس کی عمر تھی جب نبی کریمؐاپنے گھر میں لے آئے تھے.حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ ہم بہت ہی معمولی غذا تنگی سے کھاتے تھے.بھلا ۹ برس کی لڑکی کہاں موٹی تازہ ہو گی.حضرت عائشہ ؓ نبی کریم صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم

Page 211

صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ ایک جنگ میں گئی تھیں.اُونٹوں کو چلانے والے لوگ بڑے کج خُلق اور تُند خُو ہوتے ہیں.حضرت عائشہؓ ایک مقام پر ذرا قافلہ سے باہر پاخانہ کی حاجت رفع کرنے کے لئے گئیں.وہاں گلے کا ہار ٹوٹ گیا.اس کے دانے چننے لگیں.ذرا دیر ہو گئی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ کوئی گھنٹہ جرس نہ ہوتا.اُونٹ والوں نے اونٹ کَس لئے اور قافلہ روانہ ہو گیا.حضرت عائشہؓ واپس آئیں تو دیکھا کہ لوگ چلے گئے تھے.آپؓ نے سوچا جس وقت نبی کریمؐ مقام پر پہنچیں گے اور مجھ کو نہ پائیں گے تو کسی کو لینے بھیجیں گے.قافلوں میں ایک شخص قافلہ سے پیچھے رہتا ہے.وہ آیا.تو آپؓ اس کے اونٹ پر سوار ہو کر آئیں اور بعض منافقین نے بے ہودہ بکواس شروع کی.اﷲ تعالیٰ بریّت کر کے ارشاد فرماتا ہے کہ اگر فضلِ الہٰی سے معافی نہ ہوتی.تو حضرت عائشہؓ پر اتہام ان سب کو تباہ کر دیتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱.۱۸۲) ۱۷.  : حضرت عائشہ صدیقہؓ پر اِفْک باندھا گیاتھا.اس پر یہ آیات نازل ہوئیں.: خوب یاد رکھو کہ اس قسم کی باتوں کا ذکر بھی جائز نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھاکے متعلق بعض نے سوء ظنی کی.اس پر اﷲ تعالیٰ نے حضرت عائشہ صدیقہؓکی تطہیر فرمائی.اور ان بدظنی کرنے والوں کیلئے حکم آیا یعنی جب عائشہ صدیقہؓ کی نسبت کوئی بات تم نے سُنی تھی.تو کیوں تم نے سنتے ہی نہ کہا.کہ یہ بات تو منہ سے نکالنے ہی کے قابل نہیں بلکہ تم یہ کہتے سُبْحَانَکَ پاک ذات تو اﷲ تعالیٰ ہی کی ہےیہ تو بہت ہی بڑا بہتان ہے.(الحکم۱۰؍مئی۱۹۰۵ء صفحہ۵) ۱۸.

Page 212

: بُہتان ہو یا ایسی کوئی بات.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱ ۲۰.  جو لوگ پسند کرتے ہیں کہ مومنوں میں بے حیائی کی باتیں پھیلیں ان کیلئے عذابِ الیم ہے دنیا اور آخرت میں.اور اﷲ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۱۶ دیباچہ) ۲۲.    : ایمان والو اﷲ سے دورخبیث رُوح یعنی شیطان کی راہ اختیار نہ کرو.: یوروپ اور شیعہ میں فسق و فجور بڑھنے کا باعث بزرگوں کو متہّم کرنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۱) ۲۳.  

Page 213

 : دُکھ اور تکلیف دینے والوں پر عفو کرو اور ان سے درگزر.کیا تم کو پسند نہیں کہ اﷲ تعالیٰ تم سے درگزر کرے.اگر اﷲ تعالیٰ کا تم سے درگزر کرنا تمہیں پسند ہے تو اس کی یہی تدبیر ہے کہ تم لوگوں سے درگزر کرو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۷) اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو اولوالفضل ( صاحبِ فضیلت ) فرمایا ہے پڑھو یہ آیت  .(نور:۲۳) (تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۰ صفحہ۳۹۸) ۲۴،۲۵.   جو لوگ شوہر دار.سادہ بے خبر مومن عورتوں کو تُہمت لگاتے ہیں وہ دربدر ہوئے.دُنیا اور آخرت میں.اور ان کیلئے بڑا عذاب ہو گا.جس دن گواہی دیں گی ان کی زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں ان کے تمام کرتوتوں کی.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۱۶ دیباچہ) ۲۷. 

Page 214

  : بُری باتیں بُروں سے منسوب ہوتی ہیں تشییدالمطاعن ایک کتاب شیعوں نے بنائی ہے اس کے جواب میں ایک آیت کافی ہے..(اٰل عمران:۱۹۶) (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) وہ جن کی فطرتیں بہت ہی پاکیزہ ہیں مگر قومی رواجوں اور بے پردگیوں میں عورتوں کو خطرناک آزادیوں میں دیکھتے ہیں تو گھبرا کر بہشتی بیبیوں سے بھی نفرت کا اظہار کرتے ہیں.مگر جن کو یقین ہے کہ …اور اعتقاد رکھتے ہیں اور ان کا اعتقاد واقعی ہے کہ جنّت پاکیزگی اور پاکبازوں کی جگہ ہے.وہاں کے پڑوسی بھی طیّب.بیبیاں بھی طیّبہ.آپ بھی طیّب اور ضُعْف و پیری کا نام نہیں.نہ ان خطرات کو کوئی موقع ہے جو صدمات اور امرا ء سے پیدا ہوتے ہیں.اور افکار اور افلاس.کاہلی اور سُستی ترقیات کے مشکلات اور حرجوں اور کسی قسم کے انفعالات نفسانیہ کا موقع وہاں نہ ہو گا.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۱۲۳ ) ۲۸.    ….اپنے گھروں کے سوا دوسرے کے گھروں میں داخل مت ہو.جب تک ان سے اجازت نہ لو اور داخل ہوتے ہی گھر والوں پر سلام کہو.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۱۵ دیباچہ ) اے ایمان والو! اپنے گھر کے سوا کسی کے گھر میں اطلاع و اجازت کے بِنا کبھی نہ جائیو.بے اجازت و اطلاع جانا وحشیوں کا کام ہے بلکہ سلام کہہ کر اجازت لو.(اگر اتفاقاً وہ نہ سُنے تو تین بارتک پوچھو.حدیث

Page 215

میں ہے ) یہ عمدہ باتیں ہیں اور اس لئے بتائی جاتی ہیں کہ ان پر عمل کرو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۰،۲۷۱) : جب ظاہر میں مداخلت کی اجازت نہیں.تو ان خلفاء کی اور ان کے متّبعین کی عیب چینی کیونکر جائز ہے.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۹) ۲۹.   اگر وہاں کوئی نہ ہو تو وہاں بدوں اجازت مت جاؤ.اگر تم کو کہا جائے کہ اس وقت تم کو اندر آنے کی اجازت نہیں.واپس چلے جاؤ.یہی پسندیدہ طرز ہے.اور اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال پر واقف ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۱) :لوٹ جاؤ.مگر آجکل کے مسلمان تو ناراض ہوتے ہیں اور طرح طرح کے شُبہے کرتے ہیں.ایسی تعلیم بہت ہی نفع کی ہے.جب تم کسی گھر میں بغیر اجازت جا نہ سکو گے تو کسی کے عیب پر اطلاع بھی نہ پاؤ گے اور اس طرح مطاعن.عیب چینی سے بچو گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) ۳۰. ہاں ایسے غیر آباد گھروں میں جہاں کسی کی سکونت نہیں اور تمہارا وہاں اسباب رکھا ہے.بدوں اطلاع و اجازت بھی جانا روا ہے.اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تم کسی گھر میں بھلائی کو جاتے ہو یا شرارت کو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۱) ۳۱.

Page 216

  تو کہہ دے ایمان والوں کو کہ آنکھوں کو نیچارکھا کریں اور شرمگاہوں کی حفاظت کریں.یہ نہایت پسندیدہ بات ہے.اور جو کچھ اپنی زبانوں سے کہتے اور دل سے مانتے اور اعضاء سے لیتے ہو سب کو اﷲ تعالیٰ جانتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۱) : جب ظاہری آنکھ لے جانا جائز نہیں تو باطنی آنکھ سے ان کے حالات کی تفتیش کیونکر جائز ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) : پولیس بھی شرارتوں کے روکنے کیلئے کسی حد تک مفید ہے.اور ضرور چاہیئے.لیکن بعض ایسے گناہ ہیں کہ پولیس ان میں کچھ نہیں کر سکتی.وہاں شریعت کام دیتی ہے.ہم نے بہت سے ایسے انسان دیکھے ہیں کہ ایک ہی نگاہ میں ہلاک ہوتے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ مومنوں سے کہہ دو.نگاہیں نیچی رکھیں.میں تو اسی لئے برقع کا دشمن ہوں.کیونکہ برقع والی آنکھ نیچی نہیں ہوتی مولوی محمد اسمٰعیل صاحب شہید رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں.اگر کسی حسین پر پہلی نظر پڑ جائے.تو تم دوبارہ اس پر ہرگز نظر نہ ڈالو.اس سے تمہارے قلب میں ایک نور پیدا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) ۳۲.   

Page 217

    ایسے ہی ایمان والی عورتوں سے بھی کہہ دے کہ آنکھوں کو بُرائی سے بچا رکھیں اور شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں اور اپنے بناؤ سنگار کو مت دکھلاویں مگر وہ حصّہ لابُدی ہے جو ظاہر ہے.اور اوڑھنی کو ایسا اوڑھیں کہ جیب تک چھپ جاوے اور عورتیں اپنے بناؤ سنگار کو کسی پر ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں اور باپوں اور خسر اور اپنے بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی نیک بخت بیبیوں ( عیسائی مشن کی عورتوں کو جو لوگ اپنے گھروں میں آنے دیتے ہیں اور اسلام کے مدعی ہیں وہ غور کریں) اور غلاموں اور ان نوکروں پر جنہیں عورتوں کی رغبت ہی نہیں ( جیسے پاگل) اور بچوں پر جو عورتوں کے معاملات سے واقف ہی نہیں.اور عورتوں کو واجب ہے کہ ایسی طرح پاؤں زمین پر نہ ماریں کہ ان کے کسی سنگار کی کسی کو خبر ہو جاوے.اﷲ کی طرف رجوع رکھو.ایمان والو! تو کہ نجات پاؤ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۱،۲۷۲) : (الآیہ).کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں.شرمگاہوں کو محفوظ رکھیں اور اپنی زینت کو نہ دکھاویں سوائے خاوندوں اور باپوں وغیرہ کے اور سوائے اپنی خاص عورتوں کے.اس پر بھی مجھے حیرت ہے کہ بہت کم عمل ہے.بہت سی عورتوں سے بھی پردہ لازم ہے.ہر ایک عورت سے بے پردگی نہ ہو.(الحکم ۳۱جولائی ؍۱۰ اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۹) : قد.آواز (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) : عرب میں ناک کیلئے کوئی زیور نہیں.اسی واسطے ہماری شریعت میں ناک کے زیور کا ذکر نہیں.: اوڑھنیوں کے گریبان پر ڈالنے کے یہ معنے

Page 218

ہیں کہ سر پر سے منہ کے سامنے گھونگٹ لٹکا کر گردن تک اس گھونگٹ کو لٹکا لو.پھر نظر بھی ضرور نیچے رہے گی.: اس ھِنَّ سے ظاہر ہے کہ ہر مذہب کی عام عورتوں کو اجازت اندر آنے کی نہیں میں نے اس کے بڑے بڑے فساد دیکھے ہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) ۳۳.  اور نکاح کردو اپنی بیوہ عورتوں کو اور اپنے نیک غلاموں اور لونڈیوں کو اگر غریب و مفلس ہیں تو اﷲ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کرے گا.اور اﷲ تعالیٰ بڑی وسعت والا.بڑے علم والا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۷۲) لَا تُکْرِھُوْا: رنڈیاں نہ بناؤ.رسمِ متعہ کا استیصال ہے.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) یعنی اپنے میں سے بیوہ عورتوں اور قابل اور لائق لونڈوں اور لونڈیوں کا نکاح کر دو.اگر وہ مفلس ہوں اور اس خوف سے نکاح نہ کریں تو اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا.اس آیت کریمہ کے پہلے بدکاریوں سے بچنے کا وعظ ہے اور تاکید ہے کہ بدوں اجازت صاحبِ خانہ کسی کے گھر مت جاؤ.اپنی نگاہیں نیچی رکھو.پھر یہ حکم دیا ہے کہ بے بیا ہے مردوں اور عورتوں اور اپنے اچھے غلاموں.داسوں اور لونڈوں کا باذن ان کے والیوں کے بیاہ کر دو.دیکھ کیساپاک اصل ہے اور پاک حکم ہے کہ اپنے لڑکوں لڑکیوں کا بیاہ تو کرتے ہو.داسوں اور داسیوں کے بیاہ بھی کر دو نیز شرع اسلام میں غلاموں اور لونڈے کیلئے گھر میں آنے جانے کی اجازت ہے.اور ان سے پردہ نہیں.اب اگر ان کی شادی نہ کی جاوے تو آخر گھروں میں بدکاریوں کے مرتکب ہوں گے.پس ضرور ہوا کہ ان کی شادیاں کر دی جاویں کیونکہ آخر وہ بھی ہمارے ہی بچّے بچّیاں ہیں.اور بتایا ہے کہ وہ قابلِ شادی ہوں.اور شادی کی صلاحیت ان میں ہو تو ان کی شادی کرو.علی العموم شادی شدہ انسان کاہل و سُست نہیں رہ سکتا.نیز تعلقات کے باعث اس کے اخلاق میں بہت اصلاح ہو جاتی ہے.اور بی بی.بچوں.بیبیوں کے کُنبہ

Page 219

اور تمام وسیع متعلقوں سے اسے بہت کچھ اخلاق سے کام لینا پڑے گا…… غلام اور لونڈیاں اور بے بیا ہے مرد و عورت جن کو شہوت کے اسباب و ہتھیار دئے گئے ہیں.غریبی کے باعث اگر بیاہ نہ کریں تو اﷲ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اور اس کے پیدا کردہ اعضاء شہوت کے متعلق کیا یقین کریں کہ ہم غریبوں کو یہ سامان حکیم خدا نے نعوذ باﷲ نادانی اور ناعاقبت اندیشی سے دیا ہے.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۲۴) لونڈیوںکی تعلیم و تربیت چونکہ بڑی ضروری ہے اس واسطے شریعتِ اسلام نے یہ تجویز کیا کہ گھر میں بچوں کی طرح ان کی تربیت کرو.اگر مسلمان اس کے خلاف کرتے ہیں تو شرع کے خلاف کرتے ہیں حکم تو یہی ہے.مَنْ اَدَّبَھَا وَأَحْسنَ تَادِیْبَھَا.اور عَبِیْدُکم.اِخْوَانُکُمْ وغیرہ وغیرہ بلکہ لونڈیوں کے نکاح میں تو ایسی رعائتیں رکھی ہیں. ہاں جس شخص کو لونڈی سے بیاہ کرنا ہو اس کیلئے قرآن مجیدنے کچھ شرطیں لگائی ہیں.جیسے( النساء:۲۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لونڈیوں کے بیاہ خود کرنا علی العموم شریعت کو پسند نہیں.اور تجربہ سے ثابت ہوا کہ شاہانِ اسلام کے گھر میں لونڈیوں کی اولاد سے ہی سلطنت تباہ ہوئی.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۴) بعض عورتیں قسم قسم کے دُکھوں میں مبتلا ہو جاتیں اور عورتیں ان کو طعنہ یا ملامت کرتی ہیں ایسی عورتیں بڑی بدطینت ہوتی ہیں.مثلاً اگر بیوہ کو نکاح کرنا موجبِ ملامت ہے تو جناب خدیجہؓ کے نبی کریمؐ تیسرے خاوند تھے.پس ایسی طاعن کس کو طعنہ دیتی ہے.بلکہ نبی کریمؐ کی ساری بیبیوں میں سے صرف حضرت عائشہ صدیقہؓ کنواری تھیں.(الحکم۱۰؍اِگست ۱۹۰۴ء صفحہ۹) ۳۶.    

Page 220

   ابتداء سورۃ میں فرمایا.کہ ہم نے بڑے ضروری احکام اس سورۃ میں دئے پھر فرمایا.کہ زنا بُری چیز ہے(ب) کسی گھر میں بلا اجازت جانا منع ہے(ج) کسی پر عیب لگانا بہت بُرا ہے.لیکن ساتھ بدی کو دور کر دینے کا حکم ہے.نور سے تمیز پیدا ہوتی ہے اور تمام علوم خدا ہی کی طرف سے آتے ہیں.ظلمت میں جو چیز پڑی ہوتی ہے.اس کی خوبی یا نقص کا کچھ پتہ نہیں چلتا.اندھیرے میں کیسے ہی گُل و گلزار ہوں.کیسے ہی لطیف ریشم کے کپڑے ہوں.مگر جب تک روشنی نہ آوے کچھ تمیز نہیں ہو سکتی.: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ یہ جہان میں جو کچھ عجائبات دیکھتے ہو.اﷲ تعالیٰ اس کا نور ہے.یعنی حضرت حق سبحانہٗ کے نور کا ظہور ہے.اﷲ تعالیٰ کا نور جن پر پڑتا ہے.ان میں بعض کو آفتاب بعض کو چاند بنا دیا.: اﷲ تعالیٰ کے انوار میں سے ایک نور کی مثال یہ ہے.: ایک طاق ہو.اس میں چراغ رکھ دیں.: اس کے اوپر ایک چمنی رکھ دیں.چمنی کے رکھنے سے کاربن جلنے کے سبب دھواں جاتا رہتا ہے.: پھر اس چمنی کے اوپر ایک اور گلوب (globe) رکھ دیا.اس گلوب کے رکھنے سے اس کے خراب اجزاء جل کر بھڑک اُٹھتے ہیں.پھر وہ چراغ ستارے کی طرح ہو جاتا ہے. جو ظلمت کو دور کرے.دھواں نہ رہے.یُوْقَدُ: اس چراغ میں کوئی تیل ہو.پر وہ تیل برکت والا ہو.جو نہ شرق میں ملے.نہ غرب میں.(دنیا کا نہ ہو) یعنی فضلِ الہٰی کا تیل اس میں ڈالیں.: پھر اس تیلکو آگ لگانے کی ضرورت نہیں.کیونکہ وہ تو الہٰی فضل ہے.وہ کوکب درّی بنے گا الہٰی فضل سے.

Page 221

: نور تو وہ پہلے ہی ہے.پھر طاق.چمنی.گلوب سے نور علیٰ نور ہو گیا.: اس نور میں یہ راہیں کیا نظر آنی ہیں.ہدایت کی نظر آئے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) : نور کے معنی ہادی کے ہیں.: اس کے ایک نور کی مثال دیتا ہے.جو خلفاء کے گھر میں ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) ۳۷.  : یہ نور چند گھروں میں ہو گا.اب اعلان کرتا ہے.کہ وہ گھر چھوٹے نظر آتے ہیں مگر وہ دن آتا ہے کہ بڑے ہو جائیں گے.: ان گھروں میں اﷲ کا بہت ذکر رہتا ہے.یعنی خدا کی باتیں ہی صبح شام کرتے رہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) : اﷲ تعالیٰ خبر دیتا ہے کہ ان گھروں کو بڑا بنا وے گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۹) ۳۸.  مومن کو چاہیئے کہ اس طرح پر اﷲ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاوے یہاں تک کہ اس کے بغیر اسے کوئی خیال نہ رہے.اس درجہ احسان کو دوسرے لفظوں میں تصوّف کہتے ہیں.اور ان کا نام صُوفی ہے.لِصَفَآئِ اَسْرَارِھِمْ وَ نَقَآئِ اَحْقَادِھِمْ ان کے دِلی خیالات صاف ہوتے ہیں.ان کے اعمال میں کوئی کدورت نہیں ہوتی.ان کا معاملہ اﷲ کے ساتھ صاف ہوتا ہے.وہ خدا کے حضور احکام کی تعمیل

Page 222

اوّل صف میں کھڑے ہونے والے ہوتے ہیں.وہ اس دارالغرور میں دل نہیں لگاتے.چنانچہ تصوّف کی تعریف میں فرمایااَلتَّجَا فِیْ عَنْ دَارِالْغُرُوْرِ وَ الْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے کہ موت نازل ہو.ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ تجارت وبیع اس کو اﷲ تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی () اصحابِ صفّہ انہی لوگوں میں سے تھے.یہ لوگ دن بھر محنت و مشقّت کرتے.اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کوبھی کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن شریف کا مشغلہ.صحابہؓ میں تین گروہ تھے.بعض ایسے کہ حضورِ نبویؐ میں آئے.کچھ کلمات سُنے.کچھ مسائل پوچھے پھر چلے گئے اور بس.نماز پڑھ لی.زکوٰۃ دی.روزہ رکھا.بشرطِ استطاعت حج کیا اور معروف امور کے کرنے اور نواہی سے رُکنے میں حسبِ مقدور کوشاں رہیں.اور بعض ایسے جو اکثر صحبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم میں بیٹھے رہتے.اس مخلوق کے اندر ایمان رچا ہوا تھا.سخت سے سخت تکلیف.مصیبت اور دُکھ اور اعلیٰ درجہ کی راحت.آرام اور سُکھ میں ان کا قدم یکساں خدا کی طرف بڑھتا تھا.انہی لوگوں میں سے خواص ایسے تیار ہو گئے کہ خدا ان کا متولّی ہو گیا.مجھے اس موقع پر ایک شعر یاد آگیا ؎ قَوْمٌ ھُمُوْ مُھُمْ بِاﷲِ قَدْ عَلِقَتْ وہ ایسے لوگ ہیں کہ سارا خیال ان کو اﷲ کا رہ جاتا ہے.اور اس کے بغیر کسی کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں رکھتے.نبی کی اتباع وہ کرتے ہیں مگر اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا.بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں تو اسی لئے کہ اﷲ نے حکم دیا.بیوی بچوں سے نیک سلوک بھی اسی لئے کرتے ہیں.وہ دنیا کے کاروبار کرتے ہیں.چھوڑ نہیں بیٹھتے مگر یہ سب باتیں یہ سب کام ان کے لِلّٰد ہوتے ہیں چنانچہ فرمایا ؎ فَمَطْلَبُ الْقَومِ مَوْلَاھُمْ وَسَیِّدُھُم.یاَحُسْنَ مَطْلَبِھِمْ لِلْوَاحِدِ الصَّمَدٖ! (اخبار بدر قادیان ۲۷ جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۸،۹) ۳۹.  : پہلےسے بتایا

Page 223

کہ وہ آجکل تجارت کرتے ہیں.عنقریب خلفاء راشدین میں سے ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) ۴۱.   : ایسے لوگوں کا ذکر ہے جو جماعت میں داخل ہیں.مگر دراصل نہیں ہوئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) ۴۲.  : اس کی فرماں برداری میں لگے ہوئے ہیں.: اس میں پیشگوئی ہے کہ دنیا دیکھ لے گی.پرند ان کفّار کی لاشیں نوچ نوچ کر کھائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۲) ۴۳. : خدا کی طرف انسان نے پہنچنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ

Page 224

۴۴.    : دریا.سمندر.آدمی کے اندر سے سب جگہ سے پانی بھاپ بن کر اوپر کو جا رہے ہیں.اور مختلف جگہوں کے قطرے ایک دوسرے کے ساتھ مل رہے ہیں.اسی طرح مسلمانوں کی افواج میں دور دراز سے لوگ شامل ہوں گے.اَلْوَدْقَ: نالیاں : بادلوں سے ُ: بعض اشیاء کو نقصان پہنچتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۵. : رات کے وقت دن ہو جانا.تھوڑا عرصہ گزرا.اس وقت ۶ بجے رات ہو جاتی تھی آج کل روزِ روشن ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۶. 

Page 225

 مَآئٍ: نُطفہ کا پانی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۷.  : اس سورۃ میں پیشگوئیاں صاف صاف کر دی ہیں.: ان باتوں سے جو چاہے سیدھی راہ نکال سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۸.  : مُنہ سے کہتے ہیں.عمل نہیں.اس میں اشارہ ہے کہ تقیّہ کرنے والے مخالفین خلفاء مومن کہلائیں گے.۴۹،۵۰.  : ان کے مطلب کے برخلاف اﷲ رسول کا حکم ہو تو اعراض کرتے ہیں.یَکُنْ لَّھُمْ: ان کے مطلب کے مطابق ( حق) شریعت کا مسئلہ ہو تو ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳)

Page 226

 مَآئٍ: نُطفہ کا پانی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۷.  : اس سورۃ میں پیشگوئیاں صاف صاف کر دی ہیں.: ان باتوں سے جو چاہے سیدھی راہ نکال سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۴۸.  : مُنہ سے کہتے ہیں.عمل نہیں.اس میں اشارہ ہے کہ تقیّہ کرنے والے مخالفین خلفاء مومن کہلائیں گے.۴۹،۵۰.  : ان کے مطلب کے برخلاف اﷲ رسول کا حکم ہو تو اعراض کرتے ہیں.یَکُنْ لَّھُمْ: ان کے مطلب کے مطابق ( حق) شریعت کا مسئلہ ہو تو ماننے کو تیار ہو جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳)

Page 227

۵۶.    : خلیفہ کا بنانا خدا کے اختیار میں ہے.اور میں اس امر میں خود گواہ ہوں کہ خلافت خدا کے فضل سے ملتی ہے.: یہ سچّے خلیفہ کی صداقت کے نشان بتائے کہ ان میں تمکین دے گا.اُن پر خوف بھی آئے گا.مگر وہ خوف امن سے بدلا جاوے گا.برخلاف اس کے جو ان کے منکر ہوئے.وہ فاسق ہوںگے.چنانچہ دیکھ لو.کنجروں سے.رنڈیوں سے پوچھو تو اپنے تئیں اسی گروہ کی خادم بتاتی ہیں.جو کافرِ ابوبکرؓ و عمرؓ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) اﷲ نے تم میں سے مومنوں اور نیکوکاروں سے وعدہ کیا.کہ انہیں سر زمینِ ( مکّہ) میں ضرور خلیفہ بنائے گا.جیسا ان سے پہلوں کو بنایا.اور وہ دین جو ان کیلئے پسند کیا ہے.اُسے ان کی خاطر مضبوط کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا.کہ وہ میری عبادت کریں گے اور کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائیں گے.یہ پیشین گوئی صحابہؓ کے حق میں ایسی پوری ہوئی کہ تاریخِ عالم میں اس کی نظیر نہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۷) اور جس طرح جناب موسٰیؑ علیہ السلام کی قوم دشمنوں سے نجات پر کر آخر معزّز اور ممتاز اور خلافت اور سلطنت سے سرفراز ہوئی.اسی طرح ٹھیک اسی طرح.لاریب اسی طرح اس رسول کے اتباع بھی موسٰیؑ علیہ السلام کے اتباع کی طرح بلکہ بڑھ کر ابراہیمؑ کے موعود ملک بالخصوص اور اپنے وقت کے زبردست بادشاہوں پر علی العموم خلافت کریں گے (فرمایا) وعدہ دے چکا اﷲ تعالیٰ ان لوگوں کو تم میں سے جو ایمان لائے اور کام کئے انہوں نے اچھے ضرور خلیفہ کر دے گا ان کو اس خاص زمین میں ( جس کا

Page 228

وعدہ ابراہیمؑ سے ہوا ) جیسے خلیفہ بنایا ان کو جو ان اسلامیوں سے پہلے تھے اور طاقت بخشے گا انہیں اس دین پھیلانے کیلئے جو اﷲ تعالیٰ نے ان کیلئے پسند فرمایا.اور ضرور ہی بدل دے گا انہیں خوف کے بعد امن سے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۵.۱۶) اﷲ کی نعمت کی قدر کرو.اس نے خاتم الانبیاء بھیجا.کتاب بھی کامل بھیجی.کتاب کے سمجھانے کا خود وعدہ کیا اور ایسے لوگوں کے بھیجنے کا وعدہ فرمایا جو آآکر خوابِ غفلت سے بیدار کرتے ہیں.اس زمانہ ہی کو دیکھو کہ  کا وعدہ کیسا سچّا اور صحیح ثابت ہوا.اس کا رحم.اس کا فضل اور انعام کس کس طرح دستگیری کرتا ہے.مگر انسان کو بھی لازم ہے کہ خود بھی قدم اٹھاوے.یہ بھی ایک سنّت اﷲ چلی آتی ہے.کہ خلفاء پر مطاعن ہوتے ہیں.آدم پر مطاعن کرنے والی خبیث روح کی ذرّیت بھی اب تک موجود ہے.صحابہ کرامؓ پر مطاعن کرنے والے روافض اب بھی ہیں.مگر اﷲ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان کو تَمْکِنَتْ دیتا ہے اور خوف کو امن سے بدل دیتا ہے.(الحکم ۵؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۵) چونکہ خلافت کا انتخاب عقلِ انسانی کا کام نہیں.عقل نہیں تجویز کر سکتی کہ کس کے قوٰی قوی ہیں.کس میں قوّتِ انتظامیہ کامل طور پر رکھی گئی ہے.اس لئے جنابِ الہٰی نے خود فیصلہ کر دیا ہے. خلیفہ بنانا اﷲ تعالیٰ ہی کا کام ہے.اب واقعاتِ صحیحہ سے دیکھ لو کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہوئے کہ نہیں.یہ تو صحیح بات ہے کہ وہ خلیفہ ہوئے اور ضرور ہوئے.شیعہ بھی مانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے بھی ان کی بیعت آخر کر لی تھی.پھر میری سمجھ میں تو یہ بات آ نہیں سکتی.اور نہ اﷲ تعالیٰ کو قوی.عزیز.حکیم خدا ماننے والا کبھی وہم بھی کر سکتا ہے.کہ اﷲ تعالیٰ کے ارادہ پر بندوں کا انتخاب غالب آ گیا تھا.منشاء الہٰی نہ تھا.اور حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ خلیفہ ہو گئے.غرض یہ بالکل سچی بات ہے کہ خلفائے ربّانی کا انتخاب انسانی دانشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا.اگر انسانی دانش ہی کا کام ہوتا ہے تو کوئی بتائے کہ وادیٔ غیر ذی زرع میں وہ کیونکر تجویز کر سکتی ہے؟ چاہیئے تویہ تھا کہ ایسی جگہ ہوتا جہاں جہاز پہنچ سکے.دوسرے ملکوں اور قوموں کے ساتھ تعلّقات قائم کرنے کے اسباب میسّر ہوتے.مگر نہیں وادیٔ غیر ذی زرع ہی میں انتخاب فرمایا.اس لئے کہ انسانی عقل اُن اسباب و وجوہات کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی.جو اس انتخاب میں تھی.اور ان نتائج کا اس کو علم ہی نہ تھا.جو

Page 229

پیدا ہونے والے تھے.عملی رنگ میں اس کے سوا دوسرا منتخب نہیں ہوا.اور پھر جیسا کہ عام انسانوں اور دنیاداروں کا حال ہیکہ وہہر روز غلطیاں کرتے اور نقصان اٹھاتے ہیں اور آخر خائب اور خاسر ہو کر بہت سی حسرتیں اور آرزوئیں لے کر مر جاتے ہیں.لیکن جنابِ الہٰی کا انتخاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی.وہ جدھر مُنہ اٹھاتا ہے.ادھر ہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں.اور وہ فضل.شفاء.نور اور رحمت دکھلاتا ہے.(الحکم ۱۷؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۵) ہمارا انتخاب آخر غلط ہوتا ہے.اس کو معزول کرنا پڑتا ہے.زندگی اور موت ہی ہمارے اختیار میں نہیں ہے.ممکن ہے کہ ایک کو منتخب کریں اور رات کو اس کی جان نکل جاوے.میرے استاد کہتے تھے.سعادت علی خان نے کئی کروڑ روپیہ ہند کے واسطے انگریزوں کو دیا کہ اُسے دیدیں.کہتے ہیں جب عمل درآمد کیلئے کاغذات پہنچے تو رات کو جان نکل گئی.یہ مشکلات ہیں جو ہمارے انتخاب درست نہیں ہو سکتے.اس لئے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے..یہ خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے کہ کسی کو خلیفہ بنا دے.پس کسی دلیل کی حاجت نہیں.تم سمجھتے ہو کہ بنی ہاشم نے بڑی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئے.خدا نے جس کو بنانا تھا اُس کو بنا دیا.۱؎ اسی امّت سے خلیفہ ہونا اور خلیفہ کاتقرّر خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہونا ہی قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے.اور اگر خلیفہ بننا بہت کتابوں کے پڑھ لینے پر ہوتا تو چاہیئے تھا کہ میں ہوتا.میں نے بہت کتابیں پڑھی ہیں.اور کثیرالتعداد میرے کتب خانہ میں ہیں.مگر میں تو ایک آدمی پر بھی اپنا اثر نہیں ڈال سکتا.غرض خدا تعالیٰ کا وعدہ آپ ہی منتخب کرنے کا ہے.کون منتخب ہوتا ہے.(الانعام:۱۲۵)جو شخص خلافت کیلئے منتخب ہوتا ہے.اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزا وار اس وقت ہرگز نہیں ہوتا.کیسی آسان بات تھی کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے مصلح مقرر کر دے.پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوں سے تعلق پیدا کیا.انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کی پاک صحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہو جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلّقات کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے.(الحکم۱۷؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۳) کس قسم کا خلیفہ ہو.اس کا بنانا جنابِ الہٰی کا کام ہے.آدم کو بنایا تو اس نے.داؤد کو بنایا ۱؎ الحکم ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۸

Page 230

تو اس نے.ہم سب کو بنایا تو اس نے.پھر حضرت نبی کریمؐ کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے.  .جو مومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کو بھی اﷲ ہی بناتا ہے.ان کو خوف پیش آتا ہے.مگر خدا تعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے.جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تو اﷲ ان کیلئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے.جو اُن کا منکر ہو.اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.جنابِ الہٰی نے ملائکہ کو فرمایا کہ میں خلیفہ بناؤں گا کیونکہ وہ اپنے مقرّبین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے ان کو اعترا ض سوجھا.جو ادب سے پیش کیا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے کہا.حضرت صاحب نے دعویٰ تو کیا ہے.مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا.وہ خواہ کتنے بڑے ہیں.مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں.اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا.اور کہا (البقرۃ:۳۱)کیا تُو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خونریزی کرے.یہ اعتراض ہے مگر مولیٰ.ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں.تیری حمد کرتے ہیں.تیری تقدیس کرتے ہیں خدا کا انتخاب صحیح تھا.مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پا سکتی تھیں.(الفضل ۱۷؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵) خدا کے حضور قربانی کرنے والا متّقی ( صلی اﷲ علیہ وسلم ) نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ خلفائے راشدین کیلئے بھی یہی وعدہ لے لیا.چنانچہ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے  .دنیا میں کئی نبی جن میں بعض کا ذکر قرآن مجید میں ہے اور بعض کا نہیں.اپنے ساتھ خارقِ عادت نشان لے کر دنیا میں آئے.مگر ان مُحسنوں.ان ہادیوں کیلئے کوئی دعا نہیں کرتا.بلکہ انہیں معبود سمجھ کر دُعا کا محتاج ہی نہیں سمجھتے.یہ شرف صرف ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کیلئے ہے کہ رات دن کا کوئی وقت نہیں گزرتا جس میں مومنوں کی ایک جماعت دردِ دل سے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ نہ پڑھ رہی ہو.( بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۹)

Page 231

آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی امّت میں ہمیشہ کچھ ایسے پاک لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصلی اور حقیقی مذہب اور تعلیمِ توحید کو قائم کرتے اور شرک و بدعات کا جو کبھی اِمتدادِ زمانہ کی وجہ سے اسلام میں راہ پا جاویں ان کا قلع قمع کرتے رہیں گے اور یہ ضروری ہے کہ آپؐ کی سچی تعلیم و تربیت کا نمونہ ہمیشہ بعض ایسے لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا رہے جو امّتِ مرحومہ میں ہر زمانہ میں موجود ہوا کریں.چنانچہ قرآن شریف میں بھی بڑی صراحت سے اس بات کو الفاظ ذیل میں بیان کیا گیا ہے. .(الحکم۶؍اپریل۱۹۰۸ء صفحہ۴) فرمان کے وقت نافرمانی کی جاوے تو پھر اسلام کا مفہوم نہیں رہتا.قرآن بھی یہی کہتا ہے. …… .یہاں بھی ان خلفاء کے منکروں پر لفظ کفر کا ہی آیا ہے.کیونکہ وہ تو حکمِ الہٰی ہے.جس رنگ میں ہو جو اس سے نافرمانی کرے گا وہ نافرمان ہو گا.میں اس چھت کے نیچے بیٹھا ہوں اگر مجھے اﷲ تعالیٰ ابھی حکم دے کہ اُٹھ جاؤ اور میں نہ اُٹھوں تو میں نافرمان ہوں گا.اگر یہ چھت گرے اور میں مر جاؤں تو اس نافرمانی کی سزا ہوئی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم تو کیا میں تو کہتا ہوں کہ خدا کے کسی ایک حکم اور آپ کے جانشینوں کی کسی ایک نافرمانی سے انسان کافر ہو جاتا ہے.دنیا کے مذاہب کی حفاظت کیلئے مؤید من اﷲ، نصرت یافتہ پیدا نہیں ہوتے.اسلام کے اندر کیسا فضل اور احسان ہے کہ وہ مامور بھیجتا ہے جو پیدا ہونے والی بیماریوں میں دعاؤں کے مانگنے والا.خدا کی درگاہ میں ہوشیار انسان.شرارتوں اور عداوتوں کے بدنتائج سے آگاہ.بھلائی سے واقف انسان ہوتا ہے.جب غفلت ہوتی ہے اور قرآن کریم سے بے خبری ہوتی ہے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی راہوں میں بے سمجھی پیدا ہو جاتی ہے.تو خدا کا وعدہ ہے کہ ہمیشہ خلفاء پیدا کرے گا.جس کے سبب سے کل دنیا میں اسلام فضیلت رکھتا ہے یہ امر مشکل نہیں ہوتا کہ ہم اس انسان کو کیونکر پہچانیں.جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اس کی شناخت کے لئے ایک نشاں منجملہ اور نشانوں کے خدا تعالیٰ نے

Page 232

مقرر فرمایا ہے.خدا فرماتا ہے.کہ ہمارے مامور کی شناخت کیا ہے.اُس کیلئے ایک تو یہ نشان ہے کہ وہ بھولی بسری متاع جس کو خدائے تعالیٰ پسند کرتا ہے اس سے لوگ آگاہ ہوں اور غلطی سے چونک اٹھیں اور اسے چھوڑ دیں.اس کو پورا کرنے کیلئے اس کو ایک طاقت دی جاتی ہے.ایک قسم کی بہادری اور نصرت عطا ہوتی ہے.اس بات کے قائم کرنے کیلئے جس کیلئے اس کو بھیجا ہے قسم قسم کی نصرتیں ہوتی ہیں.کوئی ارادہ اور سچّا جوش پیدا نہیں ہوتا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی مدد کا ہاتھ ساتھ نہ ہو.بڑی بڑی مشکلات آتی ہیں اور ڈرانے والی چیزیں آتی ہیں مگر اﷲ تعالیٰ ان سب خوفوں اور خطرات کو امن سے بدل دیتا ہے اور دُور کر دیتا ہے.ایک معیار تو اس کی راست بازی اور شناخت کا یہ ہے.اب ذرا ہادیٔ کامل صلی اﷲ علیہ وسلم کی حالت پر غور کرو.جب آپؐ نے دعوتِ حق شروع کی.تنہا تھے.جیب میں روپیہ نہ تھا.بازو بڑے مضبوط نہ تھے.حقیقی بھائی کوئی نہ تھا.ماں باپ کا سایہ بھی سر سے اٹھ چکا تھا اور ادھر قوم کی دلچسپی نہ تھی.مخالفت حد سے بڑھی ہوئی تھی.مگر خدا کے لئے کھڑے ہوئے.مخالفوں نے جس قدر ممکن تھے.دُکھ پہنچائے.جلاوطن کرنے کے منصوبے باندھے.قتل کے منصوبے کئے.کیا تھا جو انہوں نے نہ کیا.مگر کس کو نیچا دیکھنا پڑا.آپؐ کے دشمن ایسے خاک میں ملے کہ نام و نشان تک مِٹ گیا.وہ ملک جو کبھی کسی کے ماتحت نہ ہوا تھا آخر کس کے ماتحت ہوا؟اُس قوم میں جو توحید سے ہزاروں کوس دور تھی.توحید پہنچادی.اور نہ صرف پہنچادی بلکہ منوا دی.خوف کے بعد امن عطا کیا.اُن کے بعد اُن کے جانشین حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہ ہوئے.آپؓ کی قوم جاہلیت میں بھی چھوٹی تھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوم میں سے بھی نہ تھے.پھر کیونکر ثابت ہواکہ خلیفہ حق ہیں.اُسامہؓ کے پاس بیس ہزار لشکر تھا.اُس کو بھی حکم دے دیا کہ شام کو چلے جاؤ.اگر اُسامہؓ کا لشکر موجود ہوتا تو لوگ کہتے کہ بیس ہزار لشکر کی بدولت کامیابیاں ہوئیں.نواحِ عرب میں ارتداد کا شور اُٹھا.تین مسجدوں کے سوا نماز کا نام و نشان نہ رہا تھا.سب کچھ ہوا.پرخدا نے کیسا ہاتھ پکڑا کہ رافضی بھی گواہی دے اٹھا کہ اسد اﷲ الغالب کو خوف کی وجہ سے ساتھ ہونا پڑا.کیسا خوف پیدا ہوا کہ عرب مرتد ہو گئے بلکہ سب خوف جاتا رہا.کیوں؟ اس لئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ نے خلیفہ بنائے تھے.اسی طرح ہمیشہ جب لوگ مامور ہو کر آتے ہیں تو خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی سے.اُس کے ہاتھ کا تھامنا یہ دکھلا دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی حفاظت میں محفوط ہوتا ہے.یاد رکھو.جس قدر کمزوریاں ہوں وہ سب معجزات اور الہٰی تائیدمیں ہیں کیونکہ ان کمزوریوں ہی میں تائیدِ الہٰی کا مزہ آتا ہے.اور معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کی دستگیری کیسا کام

Page 233

کرتی ہے.امیر دولت کے گھمنڈ سے.مولوی علم کے گھمنڈسے.کوئی منصوبہ بازیوں اور احکام کے پاس آنے جانے کے گھمنڈ سے اگر کامیاب ہوتا ہے تو خدا کے بندے خدا کی مدد سے کامیاب ہوتے ہیں.اُن کے پاس سرمایۂ علوم اور سفر کے وسائل نہیں ہوتے.مگر عالم ہونے کی لاف و گذاف مارنے والے ان کے سامنے شرمندہ ہو جاتے ہیں.اُس کے پاس کتب خانے اور لائبریریاں نہیں ہوتیں.وہ حکام سے جا کر ملتے نہیں.مگر وہ ان سب کو نیچا دکھا دیتے ہیں.جو اپنے رسوخ.اپنے معلومات کی وسعت کے دعوے کرتے ہیں.برادری اور قوم اس کی مخالفت کرتی ہے.مگر آخر یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کی طرح ان کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.یہی ہمیشہ اُن کی پہچان ہوتی ہے.غرضٖ راستباز اور مامور کی شناخت کے یہ نشان خدا تعالیٰ نے خود ہی بیان فرما دیئے ہیں.… انسان خوب مطالعہ کرے کہ اسلام سے بڑھ کر نعمت اور عزّت و شرافت کا موجب اور کوئی چیز نہیں ہے.میں نے پہلے بتلایا ہے کہ زمانہ کی ضرورتوں کے لحاظ سے خلیفہ بنانے کا خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے.اور وہ خلیفہ دلائل سے نہیں آدمیوں کے انتخاب سے نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ ہی کی تائید اور نصرت اور طاقت سے بنیں گے.اب اس زمانہ کے منعم علیہ ۱؎ پر غور کرو.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ منصوبہ باز اور مشرک ہے.عبادت میں سُست ہے.ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک عابد اور موحّد خدا کا پرستار کہلانے والا ممکن ہے ریاکار ہو.مگر اﷲتعالیٰ اس کے خلوص نیّت اور صِدق کو اپنی تائیدات اور نصرتوں سے ثابت کر رہا ہے.پھر یہ خیال ہو سکتا ہے کہ خوف کے وقت ہی وہ پرستار الہٰی ہو.نہیں نہیں.وہ جبکہ خوف امن سے بدل جاتا ہے وہ اس وقت بھی سچّا پرستارہوتا ہے.(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۵.۶) ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس وعدہ اور پیشگوئی کے موافق جو استثناء کے ۱۸ باب میں کی گئی تھی.مثیلِ موسٰی ہیں.اور قرآن نے خود اس دعوٰی کو لیا.(المزمل:۱۶).اب جبکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مثیلِ موسٰی ٹھہرے اور خلفائِ موسویہ کے طریق پر ایک سلسلہ خلفائے محمدؐیہ کا خدا تعالیٰ نے قائم کرنے کا وعدہ کیا جیسا کہ سورۃ نور میں فرمایا: … (الآیۃ) پھر کیا چودہویں صدی موسوی ؎ حضرت میرزا غلام احمد قادیانی.مسیح موعود علیہ السلام.مرتّب

Page 234

کے خلیفہ کے مقابل پر چودہویں صدی ہجری پر ایک خلیفہ کا آنا ضروری تھا.یا نہیں؟ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا جاوے اور اس آیتِ وعدہ کے لفظ کَمَا پر پورا غور کر لیا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ موسوی خلفاء کے مقابل پر چودہویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفاء ہو گا اور وہ مسیح موعود ہو گا.اب غور کرو کہ عقل اور نقل میں تناقص کہاں ہوا؟ عقل نے ضرورت بتائی.نقل صحیح بھی بتاتی ہے کہ اس وقت ایک مامور کی ضرورت ہے.اور وہ خاتم الخلفاء ہو گا.اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہیئے پھر ایک مدّعی موجود ہے.وہ بھی یہی کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس کے دعویٰ کو راست بازوں کے معیار پر پرکھ لو.(الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۵) ۵۷.  : جاذبِ رحم کیا ہے.صلوٰۃ.زکوٰۃ.اطاعتِ رسول.حضرت ابوبکرؓ کے وقت زکوٰۃ کیلئے جنگ بھی ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۵۹.     قرآن نے حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو تمہارے گھر میں تین وقتوں میں غیر مرد اور نابالغ لڑکے

Page 235

نہ آویں.قبل از نماز فجر.دوپہر.اور بعد عشاء کے.کیونکہ یہ خاص احتیاط کا وقت ہے.(الحکم۳۱؍جولائی۱۰؍اگست۱۹۰۴ء صفحہ۹) ۶۱.  اگر بوڑھی عورت بھی ہو تو اپنے کپڑے احتیاط سے رکھے اور اپنی زینت دوسرے پر ظاہر نہ کرے پھر کچھ مال خدا نے مردوں کا اور عورتوں کا بنایا ہے.…بہت سے لباس پہننے والیاں ہیں اور خدا کے نزدیک ننگیاں ہیں بہت لباس خدا اور رسول کو پیار انہیں ہوتا.(الحکم۳۱؍جولائی۱۰؍اِگست۱۹۰۴ء ) ۶۲.     

Page 236

   : اندھوں سے لوگ قسم قسم کی پرہیزیں کرتے ہیں.بعض احمق آدمی نابینا کے پیچھے نماز پڑھنے کو مکرُوہ سمجھتے ہیں.جو بے بنیاد بات ہے حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم نے مدینہ منوّرہ میں حضرت ابن امّ مکتوم کو اپنا جانشین بنایا.جس میں نماز پڑھانا شامل ہے.…:ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھر میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں.قرآنِ مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو.دیکھو اس میں ارشاد ہے.کہ گھر الگ الگ ہوں.ماں کا گھر الگ.اولاد شادی شدہ کا گھر الگ.: جب اپنے گھروں میں جاؤ تو سلام علیک کہو.حدیث میں آیا ہے کہ اگر گھر میں کوئی نہ ہو.تو الَسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ کہہ لیا کرو.اکثر گھروں میں اس کا عملدر آمد نہیں.یہی وجہ ہے کہ ان گھروں میں سلامتی بھی کامل نہیں.سِفْرُ السَّعَادَۃ جنہوں نے لکھی ہے.وہ ہندوستان میں آئے.آٹھویں صدی کو آئے.بڑی خوبی کے آدمی تھے.انہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں بادشاہوں کو سلام علیک کہنے کارواج نہیں.اس کا یہ نتیجہ دیکھ لیں گے.چنانچہ سلطنت ہی نہ رہی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳) ۶۴.  

Page 237

 : اس بات کا خیال رکھو کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی پکار ایسی نہ ہو جیسی اوروں کی پکار ہوتی ہے.مومن کو نہ چاہیئے کہ نبی کریمؐ کے بلانے کو بھی ایسا ہی سمجھے جیسا اَوروں کے بلانے کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۳)

Page 238

سُوْرَۃُ الْفُرْقَانِ مَکِّیَّۃٌ  یہ سورۃ صحابہؓ کی تاریخ ہے.ان کے سچّے حالات اس میں درج ہیں.سورۃ مومنون میں عام مومنوں کو بشارت دی ہے.النُّور میں خلفاء کی خصوصیت بیان فرمائی ہے.اس میں صحابہؓ کی تاریخ اور حالات درج ہیں.۲.  بہت برکت والا ہے وہ خدا جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل فرمایا.تاکہ لوگوں کے واسطے ڈرانے والا ہو.فرقان اس شئے کو کہتے ہیں جو جُدا کرنے والی اور تمیز پیدا کرنے والی ہو.جس سے وہ باہمی مخالفت جو دو گروہوں کے درمیان ہو.اس کا فیصلہ ہو جائے کہ ان میں سے سچّا کون ہے اور جھوٹا کون ہے.ہر ایک نبی کو ہمیشہ فرقان عطا کیا جاتا ہے.حضرت موسٰی علیہ السلام کا فرقان وہ واقعہ تھا جس میں فرعون اور اس کا لشکر دریا میں غرق ہوئے.اور حضرت موسٰیؑ بمع اپنی جماعت کے صاف بچ نکلے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرقان جنگ بدر کا دن تھا جس دن کہ مخالفوں کی زبردست طاقت والے اس سرگروہ کے ہلاک ہوئے اور مسلمانوں کو فتح اور غلبہ حاصل ہوا.اس کے علاوہ دلائل اور حججِ نیرّہ کا فرقان ہے جو انبیاء اور ان کے متّبعین کو عطا فرمایا جاتا ہے.فرقان یک دفعہ سارے جہان کو غارت نہیں کر دیتا.بلکہ بعضوں کو اس وقت ہلاک کیا جاتا ہے تاکہ دوسروں کے واسطے خوف اور عبرت کا موقع ملے.اس آیت میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے..کیا معنے؟ فرقان اس واسطے نازل ہوتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے واسطے ہدایت کا باعث ہوجائے.جنگ بدر میں بڑے آدمی جو ہلاک ہوئے ان کی تعداد قربیاً آٹھ ہی تھی.مگر

Page 239

ایسا بڑا فرقان ہمارے دیکھتے ہوئے ہمارے ملک میں ہوا.الاتعجّب اور حیرت کا مقام ہے.کہ دوسرے مشاہدہ کنندہ کو کوئی عبرت نہیں ہوئی.یا ہوئی تو بہت کم! غور کرو.وادی کانگڑہ میں جو بیس ہزار آدمی ہلاک ہوا ہے وہ دوسروں کو ایک عبرت دلانے والا واقعہ ہے.نہ صرف ان لوگوں کو جو اس سلسلہ کے مخالف ہیں بلکہ احمدیوں کو بھی اپنی حالت کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتا ہے.یہود کی ذلّت اوران کاسؤر اور بندر بننا بھی ایسا واقعہ تھا کہ لوگ اس سے عبرت پکڑتے مگر غفلت کے باعث وہ عبرت نہیں.غور کرو! .(البقرۃ:۶۷) پس کر دیا ہم نے اس قصّۂ یہود کو دہشت ان لوگوں کیلئے جو ان کے سامنے تھے اور پیچھے آنے والوں کے لئے اور نصیحت و وعظ متّقیوں کے لئے.یہ فرقان کی دلیل دہریہ لوگوں کو بھی ہدایت کی طرف بلاتی ہے کیونکہ اگر خدا کوئی نہیں تو کیا سبب ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو خدا کے مرسلین ہوتے ہیں.اور عبادتِ الہٰی کا وعظ کرتے ہیں.اور ان کے مخالف ناکام ہوتے ہیں.اس سورۂ شریفہ میں تمام مذاہبِ باطلہ کی تردید کی گئی ہے.چنانچہ اگلی آیت میں ان لوگوں کی طرف اشارہ کیا ہے.جو کسی اور شَئے کو مظہرِ خدا بناتے ہیں.یا بُت پرستی کرتے ہیں.(بدر ۲۹؍جون ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۳.  : جب ولد نہیں.تو کسی کا کیا لحاظ.جب قوم بگڑی.نذیر آ گیا.اس میں پیشگوئی ہے کہ ابن اﷲ کہنے والے بھی مفتوح ہوں گے.اور مُشرک بھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) اﷲ تعالیٰ لاشریک ہے.سب کا خالق ہے.دلیل یہ ہے کہ ہر ایک چیز ایک اندازہ پر ہے.اور محدود ہے.اور یہ بات اگرچہ آریہ سماج اسے مانتے ہیں.مشاہدات اور تجارب سے ہی ظاہر ہے.اور ہر ایک محدود کیلئے حدبندی کرنے والا ضروری ہے.اور مادہ و جیو کی حد بندی کرنے والا پھر خدا کے

Page 240

سوا کون ہے.پس وہ ہر ایک چیز کا خالق اﷲ ہی ہے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۲۸ دیباچہ) تقدیر.تدبیر اور امتحان تو سب سچّے مسئلے ہیں اور مطابقِ واقعہ ہیں اور تمام نظامِ عالم اور انسانی افعال و اعمال میں نظر آ رہے ہیں.انہیں ڈھکوسلا کہنا اپنی عقلمندی کا ثبوت دینا ہے.سنو!تقدیر کے معنی ہیں اندازہ بتا دینا اس کا ثبوت قرآنِ کریم میں یہ ہے…کیا معنے؟ ہر ایک چیز کو اﷲ تعالیٰ نے بنایا پھر اس ہر چیز کے لئے ایک اندازہ اور حد مقرر کر دی کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے ماسوا سب محدود اور اس کے احاطہ کے ماتحت ہے.اب غور کر لو کہ یہ مسئلہ ڈھکوسلا ہے یا تمام ترقیاتِ دینی اور دنیوی اسی تقدیر اور اندازہ سے ہو رہی ہیں مگر اس کو نہ مانا جاوے تو نہ دین رہے اور نہ دنیا.مثلاً ہم اﷲ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرماں برداری اس لئے کرتے ہیں کہ اس کا اندازہ یہی ہے کہ ان باتوں کا نتیجہ ہمارے حق میں نیک اور عمدہ ہو گا.اگر اس اندازہ پر ایمان نہ ہو تو پھر نیکی کیوں کی جاوے.غرض اس آیت نے بتایا ہے کہ ہر ایک عمل نتیجہ خیز ہے.اور بڑے علیم و حکیم نے تمام کارخانہ مضبوط علمی رنگ کا بنایا ہے.اس میں کوئی حرکت اور سکون عبث اور بے نتیجہ نہیں.یہ آیت ہر شخص کو چُست اور کارکن بننے کی حد سے زیادہ ترغیب دیتی ہے.کس قدر نابینائی یا اعتراض کرنے کی ٹھیکہ داری ہے کہ ایسے حقائق کو ہنسی اور نکتہ چینی کا نشانہ بنایا جاتا ہے.کاش لوگ سمجھیں کہ اس نئے گروہ کو راست بازی سے کس قدر تعلق ہے؟ اور ان کی عملی حالت کیا؟ اور تدبیر کا مسئلہ تو ایسا صحیح ہے کہ دیندار اور بے دین اﷲ تعالیٰ کو ماننے والے اور نہ ماننے والے سب اس مسئلہ کو ضروری اور واجب العمل یقین کرتے ہیں.اور تدبیر کے معنے ہی یہی ہیں.کہ تقدیر کے مطابق تہیّۂ ۱؎ اسباب کیا جاوے… اور امتحان کے اصل معنے ہیں.محنت کا لینا.ایک دنیادار امتحان کیلئے اخذِ امتحان کے جواب مثلاً دیکھتا ہے تواس لئے کہ طالبعلم کی محنت کا اس کو پتہ لگ جاوے اور محنت کا نتیجہ اس کو دے.اور اﷲ تعالیٰ یہی امتحان لیتا ہے.یعنی محنت کرانا چاہتا ہے.سُستی کو ناپسند کرتا ہے.ہاں علیم و خبیر ہے جب کوئی محنت کرتا ہے جیسے کوئی محنت کر ے ویسی ہی جنابِ الہٰی سے محنت کرنے کا بدلہ ملتا ہے

Page 241

؎ گندم از گندم بروید جَوزِ جَو از مکافاتِ عمل غافلِ مشو ۱؎ تیار کرنا اسی امتحان کے معنوں کو ایک حکیم مسلمان نے نظم کیا ہے.اور اسی سچّے علم کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے...(النجم:۴۰ تا ۴۲) اور انسان کو اس کی سعی کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ملے گا اور یہ پختہ بات ہے کہ اس کی سعی دیکھی جائے گی.پھر اسی کے مطابق واقعی اسے پورا بدلہ دیا جائے گا.اور فرمایا (الانبیاء:۹۵) اور جو شخص نیک کام کرے گا اور وہ مومن بھی ہو گا تو اس کی سعی کی ناقدری نہیں کی جائے گی اور ہم اس کی سعی اور اعمال کو محفوظ رکھنے والے ہیں.پھر تقدیر کے معنے علمِ الہٰی کے بھی ہیں.اس کا مطلب یہ ہے.کہ تمام اشیاء کا علم جنابِ الہٰی کو قبل از ایجاد اور وجود ان کے اشیاء کے حاصل ہے.اس مسئلہ میں بھی آریہ اسلام کے مخالف نہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۷۳.۷۴) تقدیر کے معنے حسبِ لُغتِ عرب اور محاورۂ قرآن کے کسی چیز کا اندازہ اور مقدار ٹھہرانا ہیں دیکھو آیات مرقومۃ الذّیل.(الفرقان:۳) اور بنائی ہر چیز اور پھر ٹھیک کیا اس کو ماپ کر.(القمر:۵۰) ہم نے ہر چیز بنائی پہلے ٹھہرا کر.(الرعد:۹) اور ہر چیز کی ہے اس کے پاس گنتی.خدا تعالیٰ نے ہر ایک چیز کو موجودات سے ایک خلقت ( نیچر) اور اندازے پر بنایا ہے.اور جیسا اس کی ترکیب اور ہیئتِ کذائی کا مقتضاء ہو.لابُدَّ ویسے افعال اور آثار اُس سے سرزد ہوتے ہیں.گویا جیسے اُس کے مقدّمات ہوں گے.لا محالہ ویسا نتیجہ اُس سے ظہور پذیر ہو گا.ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ان خدائی حدوں کو توڑ سکے اور ان اصلی خواص کو جو قدرت نے کسی چیز میں خَلق کئے ہیں.بَدُوْں ان اسباب کے جن کو خالق نے بمقتضائے فطرت اُن کا سبب معطّل قرار دیا ہو.کوئی شخص کسی اور طرح پر باطل کر دے سلسلۂ کائنات کے خالق کا کلام اس مطلب و مقام میں فرماتا ہے.(الاحزاب:۶۳) سو تو نہ پاوے گا اﷲکا دستور بدلنا (فاطر:۴۴)

Page 242

مثلاً توحید اور عبادت اور طاعت اور اتفاق اور صحیح کوشش اور چُستی کو جن ثمرات اور پھلوں کا درخت بنایا ہے.ممکن نہیں کہ وہی پھل اور وہی ثمرات شرک اور ترکِ عبادت اور بغاوت اور باہمی نفاق اور تفرق اور غلط کوشش اور سُستی سے حاصل ہو سکیں.جن باتوں کیلئے تریاق کا استعمال ہوتا ہے اُن باتوں کیلئے زہر مار سے کام نکلنا دشوار کیا محال ہے ع گندم از گندم بروید جَوزِ جَو گناہ اور جرائم کے ارتکاب سے نیکی اور فرماں برداری کے انعامات کو طلب کرنا بے ریب تقدیر اور خدائی اندازے کے خلاف ہے.اور نیکی اور فرماں برداری پر دوزخ میں جانے کا یقین بے شبہ رحیم اور کریم.عادل ذات پاک پر ظلم کا الزام قائم کرتا ہے.قرآن کہتا ہے.(السجدہ:۱۹) بھلا ایک جو ہے ایمان پر برابر ہے اس کے جو بے حکم.نہیں برابر ہوتے.(ص ٓ:۲۹) کیا ہم کریں گے ڈروالوں کو برابر ڈھیٹھ لوگوں کے.اسلام تقدیر کے مسئلے پر یقین دلا کر اہلِ اسلام کو اس بات پر اُبھارتا ہے کہ بُرے کاموں کے نزدیک مت جاؤ.بُرے بیج بُرا پھل لاتے ہیں.آرام و آسودگی کے سامان مہیّا کرو.بے دل مت ہو.کیونکہ ہر ایک چیز کا اندازہ خدا کی درگاہ سے معیّن ہو چکا ہے.نقصان کے اندازے والی چیزیں نافع نہ ہوں گی.اور منافع کی مثمر اشیاء دُکھوں کی موجب نہ ہوں گی.ہر ایک چیز اپنی فطرت پر ضرور قائم ہے اور تمہارا ہر فعل وجوباً وہی نتیجہ دے گاجو اس کی ترکیب کا مقتضاء ہے… آدمی کے اعمالِ بد اور افعالِ مکروہ سے آدمی پر وبال آتا ہے.جب ہر ایک تکلیف کا سر چشمہ گناہ ٹھہرا.جب ہر ایک گناہ کا نتیجہ تکلیف ٹھہری تو منصفو! بے جا تعجّب میں ہلاک نہ ہونے والو.قیامت میں نجات کے امیدوارو.راستی پسندو.سوچو اور اندازہ کرو کہ حسبِ تعلیمِ قرآن حضرت انسان کو گناہ سے کیسی نفرت ضرور ہے.اور آدمی کو خدا کی نافرمانی سے بچنا کیسا لابد ہوا.بھلائی کے لینے میں اور برائی سے بچنے کیلئے مسلمانوں.قرآن کے ماننے والوں کو کیسی تاکید ہوئی.جب ہر ایک تنزّل اور مصیبت گناہ کا نتیجہ ہوا.تو اہلِ اسلام کو کہاں تک ترقی کرنے اور عصیان الہٰی سے بچنے کی سعی کرنی چاہیئے.جن نافہم لوگوں نے کہا ہے کہ گناہ کو مسلمان ایک خفیف حرکت اور وہ بھی خدا کی طرف سے مان کر گناہ میں بے باک ہیں.وہ سوچیں کہ ان کی بات کچھ بھی راست ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۳ تا ۱۵۸) وہ جس کیلئے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمینوں کی اور جس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور

Page 243

وہ جس کیلئے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمینوں کی اور جس نے کوئی بیٹا نہیں بنایا اور جس کی بادشاہی میں کوئی شریک نہیں ہے.اور جس نے ہر شئے کو پیدا کیا اور پھر ہر شئے کا ٹھیک ٹھیک اندازہ مقرر کیا.آسمان و زمین سب جگہ خدا کی سلطنت ہے.کوئی اس کا شریک نہیں.اس واسطے وہی ایک عبادت کے لائق ہے.کسی اَور کو معبود بنایا جاوے تو باطل ہے.(بنی اسرائیل:۱۱۲) اس نے اپنا کوئی بیٹا نہیں بنایا.اس میں عیسائیوں کی تردید ہے.جو مسیح کو ابن اﷲ کہتے ہیں. ہر شئے کا وہی خالق ہے.اس میں آریوں کی تردید ہے.جن کا مذہب ہے کہ خُدا مادہ اور رُوح وغیرہ کا خالق نہیں. خدا نے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کر دیا ہے کیا معنے؟ جیسا عمل کیا جاتا ہے.ویسا ہی پھل ملتا ہے.نیکی کرنے والا بد نتیجہ نہیں پا سکتا.اور بدی کرنے والا نیک نتیجہ حاصل نہیں کر سکتا.سُست آدمی چُستی کا فائدہ نہیں پا سکتا.یہ مسئلہ تقدیر کا بڑی ہمّت بڑھانے والا ہے اور انسان کو اعلیٰ مراتب پر پہنچانے والا ہے.افسوس ہے کہ جن لوگوں نے اس کے صحیح معنے نہیں سمجھے وہ اس کو اپنی تمام کمزوریوں اور غفلتوں کی ڈھال بناتے ہیں.مسئلہ تقدیر کو مولوی رومیؒ صاحب نے ایک رباعی میں خوب ادا کیا ہے ؎ از مذاہب مذہبِ دہقان قوی اے مولوی مذہب دہقان چہ باشد ہرچہ کِشتی بدروی گندم از گندم بروید جَو زِ جَو ہرچہ کِشتی بدروی اے مولوی سوال: جب خدا تعالیٰ انسان کے اعمال نیک و بد کو پہلے سے لکھ چکا ہے.تو پھر انسان مجبور ہے.کیونکہ ان میں کچھ کمی بیشی نہیں ہو سکتی.جواب: علم تابع معلوم ہوتا ہے.خدا کے علم نے ہم کو مجبور نہیں کیا کہ ہم یہ کام کریں یا نہ کریں بلکہ ہمارے اس کام کے کرنے یا نہ کرنے کے سبب خدا کو علم حاصل ہے.مثلاً استاد ایک لڑکے کی کم توجہی کے سبب امتحان سے پہلے کہہ دیتا ہے.یا لکھ دیتا ہے کہ یہ لڑکا ضرور فیل ہو جائے گا.اور بعد میں وہ فیل ہو جاتا ہے.تو استاد کے کہنے یا لکھنے نے اس کو فیل نہیں کر دیا.بلکہ اس کی اس حالت نے ایک دانا استاد کو پہلے سے یہ علم دے دیا.چونکہ خدا عالم الغیب ہے.وہ جانتا ہے کہ ہم کیا کریں گے لیکن اس کے جاننے نے ہم کو مجبور نہیں کیا.بلکہ ہمارا ایسا کرنا اس امر کا موجب ہوا تھا کہ خدا کو پہلے سے یہ علم حاصل ہو.(بدر ۲۹؍جون۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۴. 

Page 244

  اور اس کے سوائے اور معبود اختیار کئے، جو کچھ پیدا نہیں کرتے.اور خود مخلوق ہیں.اس آیت ِ شریف میں ان تمام ادیانِ باطلہ کی طرف اشارہ ہے جن میں خدا کے سوائے کسی اور کو معبود بنایا گیا ہے.اور یہ ایک بیّن دلیل اس امر کی ہے کہ خدا کے سوائے کوئی معبود نہیں.کیونکہ جس کو خَلق کی طاقت نہیں وہ اپنی غیر مخلوق سے عبادت کرانے کا حق نہیں رکھتاہے.عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع خدا تھا.ان کا یہ مسئلہ بڑی آسانی سے طے ہو جاتا ہے.جبکہ سوال کیا جاوے کہ یسوع نے کیا پیدا کیا.پیدا کرنا تو جدا وہاں تو یہ حال ہے کہ اپنے ہی شاگرد نے یہودیوں کے ہاتھ پکڑواکر پھانسی دلوادیا.اور اتنا نہ ہوسکا کہ ان پھانسی دینے والوں کو مار ہی دیتا.کیونکہ خدا میں دونوں طاقتیں ہیں پیدا کرنا اور مارنا.خود عیسائی لوگ بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ مسیحؑ نے کچھ پیدا کیا تھا.موجودہ انجیلوں نے تو عیسویت کا اور بھی بیڑہ غرق کیا ہے.کیونکہ ان میں لکھا ہے کہ یسوع نے بہت رو رو کر دعا کی کہ صلیب سے بچ نکلے پر پھر بھی نہ بچ سکا.(بدر ۲۹؍جون۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۶،۷.   ، کا جواب ہے.کہ یہ کہانیاں نہیں ہیں پیشگوئیاں ہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۸.  : یہ تو انسان ہے حالانکہ لکھا تھا.خدا فاران

Page 245

پہاڑسے آیا.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۹.  : یہ مطالبہ بعض پیشگوئیوں کی بناء پر تھا.کہ اس کے ہاتھ تو قیصر و کسریٰ کے خزائن اور جنّتِ شام آنے چاہئیں یہ سب کچھ ہوا.مگر وہ جلد باز تھے.وہ کچھ فائدہ نہ اٹھا سکے.: جو روٹی کھائے پانی پئے ۲.بڑا ساحر ۳.جس پر کسی کا جادو چل جاوے.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۱۱.  : دنیا میں یہ باتیں پیشگوئی کے رنگ میں پوری ہوئیں، مسلمان ایسے باغات کے وارث ہوئے جن کے نیچے جیحون.سیحون.گنگا.جمنا بہتے ہیں.اور ایسے ملکوں کے وارث ہوئے جن میں قیصر و کسریٰ کے محل تھے.(ضمیمہ اخبار قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۱۴. : عمائدِ مکّہ کی مُشکیں اس دنیا میں بھی کَسی گئیں.: ۱.صرف(نجات) ۲.ہلاکت (ضمیمہ اخباربدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴)

Page 246

۱۶.  : وہ جنّت جس میں آدم علیہ السلام رہے.وہ زمین پر تھا… ’’وَالْقَوْلُ بِاَنَّھَاجَنَّۃٌ فِی الْاَرْضِ لَیْسَتْ بِجَنَّۃِ الْخُلْدِ‘‘قول ابی حنیفہ و اصحابہ رضی اﷲ عنہ… ۱. جس میں نیک لوگ موت کے بعد داخل ہوں گے.اس کی صفت میں قرآن کریم فرماتا ہے.وہ دارالمقام ہے.وہ ایسی جگہ ہے جہاں داخل ہو کر پھر لوگ نہ نکلیں گے.اور آدم علیہ السلام جس جنّت میں رہے.وہاں سے نکالے گئے.۲. دارِ تکلیف نہیں اور جہاں آدم علیہ السلام رہتے تھے وہاں درخت کے نزدیک جانے سے ممانعت اور شرعی تکلیف ان پر قائم تھی.۳. کو اﷲ تعالیٰ دارالسلام فرماتا ہے.اور آدم اور حوّا علیھما السلام جہاں رہے وہاں سے سلامت نہ نکلے.وہ جگہ ان کیلئے دارالسلام نہ ہوئی.۴. کا نام دارالقرار ہے اور جہاں آدم علیہ السلام اقامت پذیر تھے.وہ مقام اُن کے واسطے دارالزوال ہو گیا.۵.کی تعریف میں آیا ہے.(حجر:۴۹) اور جہاں آدم علیہ السلام رکھے گئے.وہاں سے نکلے یا نکالے گئے.۶.کی نسبت آیا ہے(حجر:۴۹) (اس میں ان کو کوفت نہ ہو گی) اور جہاں آدم علیہ السلام رکھے گئے یا مقیم ہوئے وہاں ان کو تکلیف پہنچی.۷. کی نسبت جس کو بہشت کہتے ہیں وارد ہے (طور:۲۴) (جنّت میں بدکاری اور بہکنا نہیں) اور جہاں آدم علیہ السلام رہتے تھے.وہاں شیطان نے لغو اور گناہ کیا.۸. کی نسبت آیا ہے.(النبّا:۳۶) (اس میں لغو اور جھوٹ نہ سنیں گے) اور جہاں آدم علیہ السلام رہے وہاں جھوٹ سُنا.۹.: آسمان میں ہے اور جس جنّت میں آدم رہے وہ زمین میں ہے جیسے کہا ہے (البقرۃ:۳۱) اور نہیں فرمایافِی السَّمَآئِ اَوْجَنَّۃَ الْمَاوٰی

Page 247

۱۰.: میں شیاطین کو دخل نہیں اور ان کی خبیث باتیں وہاں نہیں پہنچ سکتیں (فاطر:۱۱)اس کی طرف پاک باتیں صعود کرتی ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۳۰ـتا۱۳۲) ۱۹.   : اﷲ کی یاد چھوڑ دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۲۱.   : ایک تندرست ہوتے ہیں.ایک مریض.ایک بادشاہ.ایک اولوالعزم رسول.ایک غنی.ایک فقیر.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.صبر کرنے والوں کے ساتھ ہم ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۷؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۴) ۲۲.  : ڈرتے ہیں.

Page 248

: ہمیں کیوں رؤیا نہیں ہوتے؟ ہمیں کیوں الہام نہیں ہوتا؟ وہ زمیندار احمق ہے جو کہے.بادشاہ خود آ کر میرے گھر میںمعاملہ کیوں نہیں لیتا کیونکہ اس کی تو اتنی ہی قدر ہے.کہ ایک نمبردار جوتے مار کر اس سے معاملہ وصول کر لے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۲۳.  : فرشتے کہیں گے.: حرام محرّم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۲۴. : کوٹھڑی میںجو دھوپ پڑتی ہے.اس میں جو ذرّے نظر آتے ہیں ان کو ھبآء کہتے ہیں.۲.غبار.۳.ہوا میں جو دھول اُڑتی ہے.۴.پانی جوبہہ کے چلا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۲۶. :دوسرے مقام پر فرمایا ہے. (البقرۃ:۲۱۱) یہ ایک پیشگوئی ہے.جنگ میں بادل بھی برسا.فرشتے بھی اترے اور مسلمان مظفر و منصور ہوئے اور کفار شکست یاب.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵)

Page 249

۲۸.  اور جس دن کاٹ کاٹ کھاوے گا گنہگار اپنے ہاتھ.کہے گا.کسی طرح میں نے پکڑی ہوتی رسول کے ساتھ راہ.اے خرابی میری کہیں نہ پکڑی ہوتی میںنے فلانے کی دوستی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۰) ۲۹. : کئی دوست بُری ترغیبیں دے کر جہنم کی راہ دکھاتے ہیں.ان سے بچو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۳۱. : ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اسلام کے تنزّل کی یہی وجہ خدا کے حضور بیان فرما ویں گے کہ اسلامیوں نے عملی طور پر قرآن شریف کو چھوڑ دیا.مثلاً قرآن نے ایک قاعدہ بتایا ہے.(ابراہیم:۸) بہت لوگ ہیں جو اس کے خلاف عمل کرتے ہیں.مجھے ایک دفعہ ایک عورت نے ایک دھیلا دیا.میں نے شکر کیا کہ یہی پیسہ خدا کے نام دے دوں تو خدا تعالیٰ ایک دانہ کی کئی بالیاں اور سات سات سو دانے بنانے والا ہے.اور اگر اپنے علم کے مطابق دوائی بنا لوں تو دس ہزار غریب کے کام آئے.اور اس شُکر سے بہت نفع اٹھایا.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم میں شکر کی رُوح تھی.جو کپڑا مل گیا.پہن لیا.مگر بعض لوگ ہیں کہ وہ خدا کی نعمت پر شُکر نہیں کرتے.اور پھر ساری عمر دُکھ میں رہتے ہیں.ایک شخص کو میں نے تین ہزار روپیہ دیا.اس نے کہا کہ اس سے میرا کیا بنتا ہے؟ میں نہ کہا.کہ یہ کُفرِ نعمت ہے! واقعہ میں کچھ نہ بنے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کہ وہ سب روپیہ برباد ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵)

Page 250

کسی کے نام اس کے دوست کی چٹّھی آ جائے یا کسی حاکم کا پروانہ تو وہ شخص خواہ خواندہ ہو یا ناخواندہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر پہلے اسے پڑھا کر سُنتا ہے اور پھر اس پر عمل کرتا ہے.تجارتی معاملات میں بعض اوقات ایک چٹّھی کی اتنی قدر ہوتی ہے کہ اس کے سب سے پہلے حاصل کرنے کیلئے کئی سو روپے خرچ کر دیتے ہیں.پھر باوجود کئی خطرات کے.مثلاً ممکن ہے جس جگہ سے مال کی زیادہ بِکری کی خبر آئی وہاں کوئی اور سودا گر پہنچ گیا ہو یا رستہ میں اس کا مال ہی ضائع ہو جائے.وہ اس مقام پر خود یا اپنا مال پہنچانے کی کوشش کرتا ہے.مگر کس قدر تعجّب کی بات ہے کہ حُسن و احسان کے سر چشمے احکم الحاکمین ارحم الرّاحمین کی چٹھی ہو اور چٹھی رساں حضرت سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا جلیل القدر خاتم کمالاتِ نبوّت.خاتم کمالاتِ انسانیت انسان ہو اور پھر ایک مسلمان اس کی پرواہ نہ کرے.قرآنِ مجید ان میں ہو مگر محض اس لئے کہ گھر کے طاقچہ میں پڑا رہے.اور نیچے سے وباء کے دنوں میں مال مویشی گزار دیں.یا اسکی کوئی آیت لکھ کر گھول کر کسی بیمار کو پلا دیں.عدالت میں جھوٹا حلف اٹھانا ہو تو اسے ہاتھ میں لے لیں اور اسے یاد کریں تو محض اس لئے کہ رمضان شریف میں تراویح میں سنائیں گے تو چند روپے مِل جائیں گے.یا حافظ کہلائیں گے تو کابل میں محصول سے بچ جائیں گے.افسوس ہے ان خیالات کے لوگوں پر کہ ملازمت کے حصول کے لئے کس قدر تکالیف اپنے اوپر اٹھاتے ہیں.چودہ برس تک بی.اے.ایم.اے بننے کے واسطے پڑھتے ہیں.مدرسہ کی فیسوں اور دیگر اخراجات میں گھر کا اثاثہ تک بِک جاتا ہے پھر یہ بھی یقین نہیں کہ پاس ہوں گے یا فیل.اور پاس ہو کر ملازمت ملے لگی یا نہیں.لیکن نہیں پڑھتے تو قرآن مجید.نہیں سمجھتے تو قرآنِ مجید.نہیں عمل کرتے تو قرآنِ مجید پر جس کے پڑھنے اور جس پر عمل کرنے سے یقیناً دنیا و آخرت میں سُکھ اور آرام کی زندگی ملتی ہے.اور بیشمار نمونے موجود ہیں جنہوں نے قرآن پر عمل کر کے دنیا کی سلطنتیں بھی پائیں اور آخرت میں اپنا گھر جنت الفردوس بنایا.مبارک وہ جو اس دردمند دِل کی تقریر کو پڑھ کر قرآنِ مجید کی طرف توجّہ کرے.( تشحیذالاذھان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ ۴۳۸،۴۳۹) میں اپنے تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ قرآن شریف سے بڑھ کر راحت بخش کوئی کتاب اور اس کا مطالعہ نہیں ہے.مگر آہ! دردِ دل سے کہتا ہوں.اسی راحت بخش کتاب کو آج چھوڑ دیا گیا ہے. اے میرے رب بے شک میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا ہے.مجھے قرآن اس قدر محبوب ہے کہ میں بار بار اس کا تذکرہ کرنا.اس کا پیارا نام لینا اپنی غذا سمجھتا ہوں اور اسی دُھن اور لَوْ میں ابھی

Page 251

تک میں نے اس مضمون پر جو میں نے شروع کیا تھا کچھ بھی نہیں کہہ سکا.یہی وجہ ہے کہ بعض آدمی میرے اس قسم کے طرزِ بیان کو پسند نہ کرتے ہوں.مگر میں کیا کروں.میں مجبور ہوں.اپنے عشق کی وجہ سے بار بار اپنے محبوب کے تذکرہ سے ایک لذّت ملتی ہے.کہے جاتا ہوں.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۱۷) ۳۶. : بوجھ اٹھانے والا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۳۹. : میں نے اس کے متعلق بہت تحقیقات کی ہے.کوئی کتاب ان کے حالات کی نہیں ملی.ہاں قرآنِ مجید میں تدبّر کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ اس سے مراد یوسفؑ کو کنوئیںمیں ڈالنے والے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۴۲.۴۳.   اور جہاں تجھ کو دیکھا.کچھ کام نہیں تجھ سے مگر ٹھٹھے کرتے.کیا یہی ہے جس کو بھیجا اﷲ نے پیغام دے کر.یہ تو لگا ہی تھا کہ بچلاوے ہم کو ہمارے ٹھاکروں سے.کبھی ہم نہ ثابت

Page 252

رہتے اُن پر.اور آگے جائیں گے جس وقت دیکھیں گے عذاب کون بچلا ہے راہ سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۰) :.بڑا حقیر قرار دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۴۶.  : کیا تم نے نہیں دیکھا اپنے رب کا ایک عجیب نظارہ.اس نے وہ سایہ بنایا ہے جو صبح صادق سے لے کرغروب تک ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ کا اختیار تھا کہ وہ سایہ اپنے رنگ ہی میں ٹھہر جاتا.سورج کو دلیل بنایا کہ وہ سایہ سورج کے سامنے آگے آگے ہی سمٹتا چلا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۴۹.  : نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بعض موحد لوگ امیّہ بن الصلت، زید بن عَمْرو پیدا ہوئے.مگر جماعت صرف نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنائی.اسی طرح مسیح موعودؑ سے پہلے سید احمد خان وفاتِ مسیح کا قائل تھا.مگر یہ خدا پرست جماعت یہ پابندِ کتاب و سنّت مرزا کیلئے تھی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) ۵۴.  : سمندر سے بخار اٹھتے ہیں.مون سونیں چلتی ہیں.سمندر میں کھاری

Page 253

نی.بارش کا میٹھا پانی.جس سے کنؤوں اور چشموں میں پانی آتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۹) ۶۰.  : چھ وقتوں.چھ مختلف مراتب طے کرا کے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۶۱.  : ان کا مطلب یہ تھا کہ ایسے خاص موقع پر رحمان نہیں بولا کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۶۲.  : روشن ستارے.: سورج.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے سراجِ منیر فرمایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۶۳.

Page 254

۶۳.  : ایک وقت میں ایک چیز رہ جاوے.دوسرے وقت میں پوری کرے.اس میں سمجھایا ہے کہ تم زمین کے روشن ستارے بنو.اگر کوئی وقت غفلت کا گزرا ہے تو اب اس کی تلافی کر لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) : جو رات کو نہ کر سکو.دن کو کر لو.جو دن کو نہ کر سکو وہ رات کو کر لو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۸) ۶۴.  رحمن کے فرماں بردار بندے تو وہی ہیں جو زمین میں سکینت.وقار اور تواضع کی چال چلتے ہیں.نہ تکبّر اور سُستی کی.اور جب جاہل ان سے اُلجھیں تو ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جس میں نہ بدی و ایذاء ہو اور نہ جہل و نادانی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۲) : بڑی سکینت و آرام کے ساتھ.وقار سے زندگی بسر کرو.عبادالرّحمن متکبّر.متجبّر.فساد میں کوشش کرنے والے عصیان میں منہمک نہیں ہوتے.: جب جاہل مخاطب کریں تو سلامتی کی راہ اختیار کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) ۶۵. : مومن رات عبادت کے کام کرتا ہے.انگریزی پڑھنے والوں کی عادت چھوڑ دو.کہ دو بجے سوئے اور آٹھ بجے اُٹھے! (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۵) وہی جو اپنے رب کے آگے سجدوں اور قیام میں راتیں گزار دیتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ )

Page 255

۶۶،۶۷.  وہی جن کی دُعا ہے کہ اے ہمارے رب ہٹا دے ہم سے دوزخ کا عذاب.اس کا عزاب تو دائمی ہلاکت ہے اور دوزخ تو بڑی تکلیف کی جگہ اور بُرا مقام ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۲) : سخت لازم ؎ اِنْ یُعَاقِبْ یَکُنْ غَرَامًا کسی کو اگر سزا دیتا ہے تو عذاب لازم و سخت ہوتا ہے.غرام عشق و محبت کو بھی بولتے ہیں جو چیز مضبوطی سے کسی کے پیچھے پڑ جاوے وہ غرام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۶۸.  وہی فرماں بردار بندے کہ جب اموال کو خرچ کر تے ہیں تو مالوںکو نہ بے جا ضائع کریں اور نہ موقع میں دینے سے کمی دکھلاویں بلکہ خرچ میں پسندیدہ راہ اختیار کریں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۲) : خطا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے.: معتدل (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۶۹.  جو اﷲتعالیٰ کی یاد کے ساتھ دوسرے معبود کو نہیں پکارتے.اور ایسی جانوں کے ناحق قتل

Page 256

۷۰. دُونا ہو اس کو عذاب دن قیامت کے اور پڑا رہے اس میں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۶۱) : بڑھ چڑھ کر.: مدّت ہائے دراز رہے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۷۱.  مگر بچاتو وہی بچاجس نے بدی کو چھوڑ دیا اور تمام بھلائیوں کی اصل ایمان کو اختیار کر لیا.اور اچھے اعمال کئے آخر ایسے لوگوں کی برائیاں جاتی رہتی ہیں.اور ان کے بدلہ میں نیکیاں آ جاتی ہیں.(دیکھو عربوں کے حالات اسلام سے پہلے اور پیچھے) اور ہر تائب کی توبہ اﷲ تعالیٰ قبول کرنے والا اور اس کی توبہ پر رحم کرنے والا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۳) ۷۲. جو کوئی بدی کو چھوڑ کر بھلے کاموں کی طرف متوجّہ ہوا وہی اﷲ تعالیٰ کی طرف پسندیدہ طور سے جُھکا (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۳)

Page 257

۷۳،۷۴.  : کبھی موجود نہیں ہوتے دھوکے کی بات میں.نہ خود کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) وہی رحمان کے فرماں بردار بندے ہیں جو دھوکے کے پاس بھی نہیں جاتے اور جب کبھی کسی بیہودہ کام کے پاس سے بھی گزرتے ہیں تو اس طرح گزرتے ہیں کہ بھلائیوں کا حکم کرتے اور برائی سے روکتے ہیں.وہی جن کو جب کبھی الہٰی نشان دکھلائے گئے تو اس نشان پر اندھے اور بہرے کی طرح ٹھوکر نہیں کھاتے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۳) ۷۵.  وہی جو دعا مانگتے ہیں.کہ اے ہمارے رب ہمارے ساتھیوں سے ( بیبیاں ہوں یا اور دوست) اور ہماری اولاد سے ہمیں آرام دے.وہ ہماری آنکھوں کا نور ہوں جو دل کے سرُور کا نشان ہے.اور دُعا مانگتے ہیں کہ ہم سچّے فرماںبرداروں کے واسطے آئندہ کیلئے نمونے ہوں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۳.۲۶۴) ۷۶.۷۷  وہی اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اپنے نیک اعمال کا بدلہ بڑے بلند مقامات کو پا کر وہاں نئی زندگی اور پوری سلامتی پاویں گے.اور پھر اتنا ہی نہیں بلکہ تناسخ سے بچ کر وہاں ہی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رہیں گے

Page 258

واہ وہ کیسے آرام کی جگہ اور رہنے کا مقام ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۴) ۷۸.  او مخاطب کہہ دے.میرے رب کو تمہارے ہلاک و تباہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اگر تمہاری بُت پرستی نہ ہوتی مگر تم تو راستی کو جھٹلا چکے.پس نافرمانی کا لازمی وبال تم پر ضرور آنے والا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۴) اس میں بتایا ہے کہ رحمان کے پیارے.رحمان کے پرستار کون ہیں؟ دیکھو.اس وقت تم بیٹھے ہو.سب کی آوازوں میں اختلاف.لباسوں میں اختلاف.مکانوں میں اختلاف.صحبتوں میں اختلاف.مذاقوں میں اختلاف.غرض اختلاف ایک فطری امر ہے.اب خدا ہی کا فضل ہے.کہ تم ایک وحدت کے نیچے آ گئے.میں کبھی گھبرایا نہیں کرتا کہ فلاں شخص کو کیوں ہمارا خیال نہیں.کیونکہ میرے مولیٰ کا ارشاد ہے.(ھود:۱۱۹.۱۲۰)پس جس پر فضل ہواوہ اختلاف سے نکل کر وحدتِ ارادی کے نیچے آ جائے گا.اس رکوع میں اﷲ تعالیٰ ان باتوں کی طرف متوجہ کیا ہے جن پر چل کر انسان اختلاف سے بچ سکتا ہے.گالی کا جواب گالی.یہ جواں مردی کی بات نہیں.جو ایک گالی پر صبر نہیں کرتا.اسے آخر پھر سو گالیوں پر صبر کرنا پڑتا ہے.اختلاف تو بے شک ہوتے ہیں.کیونکہ ہماری فطرتوں میں اختلاف ہے.مگر عبادالرحمان کا طریق یہ ہے کہ وہ دنیا میں اپنی روش سکینت و وقار کی رکھتے ہیں.تکبّرتجبّر و عصیان سے کام نہیں لیتے.بھاری بھر کم رہتے ہیں.وہ ہر معاملہ میں صبر.عاقبت اندیشی سے کام لیتے ہیں.کیونکہ اختلافوں سے بچنے کی راہ ھَوْن ہے.میرا ایک استاد تھا.اس نے مجھے نصیحت کی کہ دنیا میں سُکھی رہنا چاہتے ہو تو اپنے تئیں ایسا نہ بناؤ کہ اپنے خلاف ہونے سے گھبرا جاؤ اور دوسروں سے لڑنے لگو.رحمان کے پرستار رحما ن کے پیارے وہ ہیں جو سخت بات سُننے پر سلامتی کی راہ اختیار کر لیتے ہیں.دوئمؔ وہ رات عبادت میں گزار دیتے ہیں.کبھی کھڑے ہو کر جنابِ الہٰی کو راضی کرتے ہیں.کبھی سجدہ میں پڑ کر.سوئمؔ راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں مانگتے ہیں.اپنے مولیٰ کے آگے گڑ گڑاتے ہیں.چہارمؔ.وہ ان لوگوم کی طرح نہیں جو روپیہ ہاتھ لگنے پر جھٹ ناجائز جگہ پر خرچ کر دیتے ہیں.بلکہ سوچ سمجھ کر

Page 259

ضرورت حقّہ پر درمیانی راہ اختیار کرتے ہیں.پنجم ؔ.وہ اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں جانتے اور اپنے تئیں ہلاکت میں نہیں ڈالتے.اور نہ قتل کرتے ہیں.نہ زنا کرتے ہیں.کیونکہ جو ایسا کرتاہے وہ سزا پاتا ہے.رحمان کے پیارے تو ایسے افعالِ شنیعہ سے بچتے رہتے ہیں اور سنوار والے کاموں میں اپنا وقت خرچ کرتے ہیں.(الفضل ۹؍ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

Page 260

سُوْرَۃُ الشُّعَرَآئِ مَکِّیَّۃٌ  سورۃ شُعراء وغیرہ میں انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام کے ان قصص کا بیان ہے.جن میں انبیاء علیھم السلام کے ساتھ ان کے دشمنوں کے مقابلوں کا تذکرہ ہوتا ہے اور مخالفوں کی بے وجہ تکذیب کا آخری نتیجہ اور دائمی ثمر ہ بتایا جاتا ہے اور پھر آخر میں ہر قصّہ کے یوں کہا جاتا ہے. (الشُّعَرَآئِ :۹) اسی سورۃ میں حضرت نوح علیہ السلام کے اعداء نے جب نوح علیہ السلام کو یہ کہہ کر وعظ سے روکا.(الشُّعَرَآئِ :۱۱۷) اگرتو اس منادی سے اے نوح نہ رکا تو تجھ پر پتھراؤ کیا جاوے گا.اس وقت حضرت علیہ السلام نے یہی فرمایا اور اس طرح دعا کی.. (الشُّعَرَآئِ :۱۱۸،۱۱۹)اے میرے رب میری قوم نے مجھے جھٹلایا.تو میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کر دے اور مجھے اور میرے ساتھ والے ایمان والوں کو بچا لے.پھر جو نتیجہ نکلا اس کا بیان ہے...(الشُّعَرَآئِ :۱۲۰تا ۱۲۲) پھر بچا لیا ہم نے اسے اور اس کے ساتھ والوں کو بھری کشتی میں اور غرق کر دیا اس کے پیچھے سب کو.لاریب اس قصّہ میں ایک نشان معجزہ ہے.اسی طرح اس سورۃ شعراء میں قومِ عاد کا جنابِ ہود علیہ السلام سے مقابلہ اور قومِ ثمود کا حضرت صالح علیہ السلام سے جھگڑا اور قومِ لوط کا جنابِ لوط علیہ السلام کے مواعظِ حسنہ پرکان نہ دھرنا ایسی ہی طرز سے بیان ہوتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۴.۱۵)

Page 261

۲ تا ۴.  : کھول کے سنانے والی.: کیا تو ہلکان کر دے گا اپنی جان.کہ یہ نو دس شریر ایمان نہیں لاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۰ء ۱۸۶) ۵.  : جماعت کی جماعت (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۶. : نئے پیرائے والا.بات تو وہی ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء ۱۸۶) ۷. سو جھٹلا چکے.اب پہنچے گی ان پر حقیقت اس بات کی جس پر ٹھٹھے کرتے تھے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۲) : جسے خفیف گردانتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۸،۹.

Page 262

 کیا نہیں دیکھتے زمین کو کتنی اُگائیں اس میںہم نے اس میں ہر بھانت بھانت چیزیں.اس میں البتہ نشان ہیں اور وہ بہت لوگ نہیں مانتے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۲) ۱۱. : آواز دی : ’’قومِ فرعون‘‘اس کا بیان کیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) : الہام بلند آواز سے بھی ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۱۳. : اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسٰیؑ کو خود اپنے طور پر کوئی خواہش نہ تھی کہ میں نبی بنوں.جس قدر لوگ خواہشوں کے گرویدہ ہیں.وہ اکثر ناکام رہتے ہیں.فضل انہی پر ہوتا ہے جو خود خواہش نہیں کرتے.خدا کے فضل پر بھروسہ کرتے ہیں.ایک اور نکتہ قابلِ یادداشت ہے.کہ دعا قرآن میں یاتورَبِّ سے شروع ہوتی ہے یا اَللّٰھُمَّ سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۱۵. : یعنی اے مولیٰ.تیرا تو مجرم نہیں.مگر ان کے زعم میں ان کا ایک گناہ میرے ذمّے ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۱۶.

Page 263

: اس کے معنے ہیں جاؤ.جاؤ.کیونکہ معلوم ہوتا ہے.صرف موسٰیؑ ہی نے جا کر کلام کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۱۷. پس جاؤ فرعون کے پاس اور کہو ہم پیغام لائے ہیں.جہان کے صاحب کا کہ بھیج دے ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۵۶) : اِنَّا جمع ہے رَسُوْل واحد.صرفیؔ نحویؔ تو اعتراض ہی کریں.خدا کا کلام ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۲۰،۲۱.  : ایک شاہی خاندان کے آدمی کی موت کی طرف اشارہ ہے.: فرمایا.بیشک میں نے ایسا کیا اور میں محبت کرنے والا ہوں.یعنی جیسے تم کو حُبِّ قومی ہے مجھے بھی ہے.مجھے بھی اپنی قوم کو تکلیف میں دیکھا نہیں جاتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۲۳. : حضرت موسیٰ علیہ السلام شرم دلاتے ہیں کہ واقعی بڑا تم نے احسان کیا ہے.کہ ساری قوم کو غلام بنا رکھا ہے.اور ایک آدمی کو پرورش کیا.تو بادشاہ ہو کر اس کا احسان جتاتے ہو.یہ معنے مجھے پسند نہیں.کہ حضرت موسیٰ ؑنے اس احسان کا اقرار اکر لیا.فرعون اس کا جواب نہ دے سکا

Page 264

اس لئے اور بات شروع کر دی اور پھر کبھی یہ احسان نہیں جتایا.کیونکہ حضرت موسیٰ ؑنے شرم دلائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۲۶. : ایک گروہ ہے.جو خدا کو صرف علّت العلل سمجھتا ہے.اور اسے موصوف قرار نہیں دیتا.یہی وجہ ہے.کہ فرعون حضرت موسیٰ ؑکے (آیت ۲۵) پر ہنسی اڑاتا ہے.مگر حضرت موسیٰ ؑ اپنی بات پر قائم رہے.اور (آیت :۲۷)پھر(آیت :۲۹) فرما کر اس کے افعالِ قدرت کا ذکر کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۸۶) ۳۰. : مشرک قومیں بادشاہ کو بھی معبود قرار دیتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۳۳،۳۴.  : حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بتایا کہ خدا نے میرے عصا میں طاقت رکھی ہے کہ وہ تیرے ہاتھ میں سانپ ہو جاوے گا.: اور میرے ہاتھ میں ایسی روشن تعلیم ہے کہ وہ ظلمات کو دور کردے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۳۵،۳۶.

Page 265

  : باریک در باریک علوم کا ماہر.چالاک شخص : اپنے ماتحتوں سے اس طرز کا کلام شرافت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۴۳. لَمِنَ: یعنی اپنا مصاحب بنا لوں گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۵۰،۵۱.   : خلاف ورزی کے سبب : صلیب پر چڑھاؤں گا تاکہ عام طور پر تشہیر ہو جاوے.: دیکھو ایمانی قوّت.یا تو وہی ساحر ًاور(الشعراء:۴۵)کہہ رہے تھے.یا اب فرعون کی دھمکی کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶) ۵۳.

Page 266

انبیاء کا بھروسہ اپنے جتّھے پر نہیں ہوتا.حضرت موسٰی علیہ السلام کا واقعہ اس بات کا شاہد ہے کہ آپؑ فرعون ایسے عظیم الشان بادشاہ کے مقابلہ میں اکیلے کھڑے ہوئے.: یہ نبی کریمؐ کو سنایا ہے.کہ آپؐ بھی اور آپؐ کے ساتھ والے مکّہ سے چل دو.تمہارا بھی پیچھا کیا جاوے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.دشمنوں نے پیچھا کیا مگر ان کا حشر فرعون کی مانند ہوا.راستبازوں کی عداوت کبھی نیک نتیجہ نہیں لاتی یہاں تک کہ ان کی اولاد میں بھی نیک نتیجہ نہیں نکلتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(الشمس:۱۶) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۶.۱۸۷) ۵۵. : جماعت :خدا تعالیٰ فرماتا ہے.(البقرۃ:۲۴۴) کئی ہزار تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۵۶ تا۶۰. : چوکس.باسازوسامان : دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑنے اپنی جماعت کو جب ایک علاقہ میں فتح کیلئے جانے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا :(المائدہ:۲۵)حضرت موسٰی علیہ السلام کو بہت رنج ہوا.تو دُعا کی.(المائدہ:۲۶) جس کی وجہ سے چالیس سال جنگل میں سرگردان رہے پھر تاریخ شہادت نہیں دیتی کہ بنی اسرائیل مصر کے مالک ہوئے.پس مراد یہ ہے.کہ ملکِ مصر کی مثل دئے گئے گویا ضمیر مثل کی طرف پھیری گئی.جیسے اَخَذْتُ دِرْھَمًا وَ نِصْفَہٗ میں نے ڈیڑھ درہم

Page 267

لیا حالانکہ وہ نصف اسی درہم کا نہیں بلکہ دوسرے درہم کا نصف ہے جو اس پہلے کی مثل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۶۲،۶۳.  : یہاں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ رُوْیَت اور چیز ہے اور ادراک اور () : میرا رب مجھے کوئی راہ مخلصی کی بتا دے گا.یہاں ایک صوفیانہ نکتہ ہے کہ ابوبکرؓ صدیق نے بھی جب غار میں  کہا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا(توبہ:۴۰)اور حضرت موسٰیؑ کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۶۴. :ایک مقام پر(البقرۃ:۶۱) کی وحی ہوئی.اس کا ترجمہ یوں کرتے ہیں.اپنے عصا کو بحر یا حجر پر مارو.اور ایک ترجمہ یوں کرتے ہیں.اپنی جماعت کو سمندر میں سے لے چل.چنانچہ دوسرے مقام پر فرمایا (طٰہٰ:۷۸)ان کیلئے ایک خشک راستہ پڑا ہے.وہاں سے نکال لے جاؤ.: یعنی وہاں دریا پھٹا پڑا ہے.خشک ہو چکا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) یہ کہ رات کو لے چل.میرے بندوں کو.پھر چل ان کیلئے ایک خشک راہ پر جو دریا میں ہے.مت ڈریو کسی کے احاطہ سے اور نہ کسی قسم کا خوف کرنا.چل اپنی فرماں بردار جماعت کیساتھ اس بحر میں.پس وہ کُھلا تھا

Page 268

ور ہر ایک ٹکڑا تھا.جیسے بڑے ریتے کا ٹیلہ. کے بدلہ سورہ طٰہٰ میں اور پس معنے ہوئے.لے جا جماعت فرماں بردار کو یا جا ساتھ جماعت اسلام کے بحر میں جو خشک پڑا ہے.پھر بچایا تم کو اور غرق کر دیا فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۵۷) ۶۶ تا۶۸.  اور بچا دیا ہم نے موسیٰ کو اور جو لوگ تھے اُس کے ساتھ سارے.پھر ڈوبایا ان دوسروں کو البتہ اس میں ایک نشانی ہے اور نہیں وہ بہت لوگ ماننے والے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۲) ۷۰ تا ۷۲.  ابراہیم کی وہ خبر ان پر پڑھ سنا.جب اس نے اپنے باپ کو اور اپنی قوم کو کہا.کہ تم لوگ کس کی پرستش کرتے ہو.ابراہیمؑ کے باپ اور قوم نے جواب دیا کہ ہم تو بتوں کی پرستش کرتے ہیں اور انہیں کے پاس بیٹھ رہتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۰) ابراہیم علیہ السلام کی اولاد دو بیویوں سے تھی.ایک بیوی مع اولاد عرب میں مقیم ہوئی.چونکہ وہ مورثِ اعلیٰ تھے.اس لئے ان کا واقعہ اہل عرب کو خصوصیت سے سنایا جاتا ہے.: اپنے ایک بزرگ کو.معلوم ہوتا ہے کہ والد اور تھا.جبھی اَبْ کے ساتھ آذر آیا ہے.دومؔ بڑھاپے میں والد کے لئے دعا کی اور اَبْ کے لئے دعا سے منع کئے گئے.چنانچہ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس

Page 269

کا نام تارا ۱؎ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۷۳تا۷۵.  ابراہیمؑ نے کہا.کیا یہ بُت تمہاری پکار کو سُنتے ہیں؟ یا کیا تم کو نفع دیتے ہیں؟ یا تم کو کوئی دُکھ دیتے ہیں؟ بت پرست لوگوں نے جواب دیا.ہم بُت پرستی کی دلیل تو نہیں رکھتے.مگر ہم نے اپنے بزرگوں کو پایا ہے.کہ وہ ایسا ہی کرتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۰) : تعجب ہے کہ لوگ دنیا کے معاملات میں تو جدّت پسند ہیں مگر دین کے بارے میں  کہہ دیتے ہیں.کیا لوگ ریلوں اور سٹیمروں پر سوار نہیں ہوتے.حالانکہ ان کے باپ دادا نہیں ہوئے.یہ محض حیلہ سازیاں ہیں جو مشرکین اﷲ کی عبادت نہ کرنے کے لئے کیا کرتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍ جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۷۶ تا ۷۸.  تب ابراہیمؑ نے جواب میں کہا.سُنو.تم بُت پرستی کے معتقد تو کہا کرتے ہو کہ جن کی اﷲ تعالیٰ ربّ العٰلمین کے سوا کوئی بھی مجھے پیارا نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۱) : حضرت ابراہیم علیھم السّلام نے اعلان کر دیا کہ یہ بُت میرے دشمن ۱؎ تارح بھی آیا ہے.

Page 270

اگر ضرر پہنچا سکتے ہیں تو سب سے پہلے پہنچائیں گے.مگر ایسا ہرگز نہ ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۷۹ تا ۸۲.  وہی رب جس نے مجھے پیدا کیا اور وہی میرا رہنما.اور مجھے منزلِ مقصود تک پہنچانے والا.وہی جو مجھے کھانا دیتا ہے اور پانی پلاتا ہے.اور جب کبھی اپنی غلطی سے بیمار ہوتا ہوں تو فضل سے شفاء بخشتا ہے.وہی جو مجھے مارے اور پھر جِلا دے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۱) : جب ہم ایک انسان کی رضامندی کی راہ دریافت نہیں کر سکتے.تو اس وراء الوراء ذات کی راہ سوا کسی کے بتانے کے کس طرح معلوم کر سکتے ہیں.: ایک عجیب نکتہ یہ ہے.کہ مرض کو اپنی طرف منسوب کیا ہے یُمَرِّضَُنِیْ نہیں فرمایا.کیونکہ دُکھ خدا کی طرف سے کبھی نہیں آتا.جب تک انسان کوئی کمزوری نہ کما لے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۸۳ تا ۸۷.   وہی جس پر مجھے امید ہے.کہ بُرے اعمال کی سزا اور نیک اعمال کی جزا کے وقت مجھے معافی دے گا.اے میرے رب مجھے سمجھ عطا کر اور بھلے لوگوں کے ساتھ رکھ.اور مجھے اپنی

Page 271

انعام والی جنّت کا وارث کر اور میرے باپ پر عفو کر.وہ تو بھُولا اور بہک گیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۱) : وہ مضبوط راہ جس کی خلاف ورزی پھر نہ ہو سکے.برہموازم والے اپنے لئے ایک بات اختیار کرتے ہیں.تجربہ سے مفید ثابت نہیں ہوتی.تو وہ چھوڑ دیتے ہیں.خدا کی باتیں ایسی نہیں ہوتیں.: بڑے بڑے علوم پھیلیں گے.ترقیاں ہوں گی.الہٰی میری زبان ایسی پختہ ہو کہ اس کے خلاف کبھی کچھ ثابت نہ ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۸۸ تا ۹۱.  اور مجھے قیامت میں ذلیل نہ کر.قیامت کا وہ دن ہے جس میں مال اور اولاد کام نہ آوے مگر وہی نجات پاوے جو اﷲ تعالیٰ کے پاس سلامت والے دل کے ساتھ آیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۱.۲۹۲) ۱۰۰. اور ہم کو راہ سے بھُلایا ان گنہ گاروں نے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۹) : خدا سے قطع تعلق کرنے والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۱۱۲.۱۱۳.  حضرت نوح علیہ السلام کا ملک دجلہ فرات ( علاقہ ) میں تھا.وہاں کے رہنے والے بڑے عیش میں تھے

Page 272

جیسے کہ آجکل یوروپ و امریکہ کا حال ہے.ان کی دولتمندی کا یہ حال ہے.کہ سنکھ در سنکھ تک کوئی چیز نہیں.اور عرب میں تو بس۱.۱۰.۱۰۰.۱۰۰۰ تک ہے.حضرت مسیحؑ نے کہا کہ اونٹ کا سوئی کے ناکے سے گزرنا آسان ہے.پر دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.اسی واسطے انبیاء کے متّبعین غریب لوگ ہوتے ہیں اور نادان اس پر اعتراض کرتے ہیں.چنانچہ حضرت نوحؑ کو بھی کہا.: حضرت نوحؑ سمجھاتے ہیں.کہ ان غریبوں نے کوئی ایسا عمل کیا جس سے ان کو نبی کی متابعت کی سعادت حاصل ہوئی اور تم نے کوئی ایسا عمل کیا جس کی وجہ سے خدا نے تمہیں یہ توفیق نہ بخشی اور تم منکرانِ رسالت سے ہوئے.انسان کا سلسلۂ اعمال چلتا ہے اور اس سلسلہ کے مطابق اعمال کا پھل انسان کو ملتا ہے.خشتِ اوّل چوں نہد معمارِ کج تا ثریّا می رَوَدْ دیوارِ کج اسی واسطے یہ دعا ہر خطبہ جمعہ میں پڑھی جاتی ہے.نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئٰاتِ اَعْمَالِنَا کہ ہمیں اعمال کے بد نتائج سے محفوظ رکھ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۷) ۱۱۸. : یہ (الشّعرآء:۱۱۷)کے مقابلہ میں انبیاء کا ہتھیار ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۲۷. : جو لوگ نبیوں کی اطاعت کے منکر ہیں.وہ غور کریں یہاں تو رسول بمعنے کتاب اﷲ نہیں ہو سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۲۹،۱۳۰. 

Page 273

: وہ قوم اسٹیچو اور عالی شان مکان بناتی تھی.: شرف ( اونچی جگہ) طریق (رستے) منظر (عمدہ نظارے کی جگہ) : جَمْعُ مَصْنَعٍ جس کے معنے کلیں اعلیٰ کوٹھیاں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۳۸ تا ۱۴۰.  : اولڈ فیشن باتیں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) : پھر اس کو جھٹلانے لگے تو ہم نے ان کو کھپا دیا.اس بات میں البتہ نشانی ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۲) ۱۴۹ تا ۱۵۴.    : خوب پکا ہوا.: کھاؤ.پیو (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) : پہاڑوں پر کوٹھیاں بناتے ہو.: یعنی تُو بھی کھانے پینے کا محتاج ہے.۲.تم پر کوئی جادو

Page 274

کر گیا.۳.تو جادو دیا گیا ہے.تقریر لطیف کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۵۹.  پس لے لیا ان کو عذاب نے.اس بات میں البتّہ نشانی ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۲) ۱۶۱. چار چیزیں بڑی نقصان دہ ہیں.۱.غضب جس سے بولتے وقت ہوش و حواس باطل ہو جاتے ہیں.اس کے پانچ علاج ہیں.۱.چلتا ہوا ٹھہر جائے ۲.ٹھہرا ہوا بیٹھ جاوے ۳.بیٹھا ہوا لیٹ جاوے ۴.لاحول پڑھے ۵.بائیںطرف تھوک دیوے.ٹھنڈا پانی پی لے.۲.شہوت.اَلنِّسَائُ حَبَائِلُ الشَّیْطَانِ.شہوت نے بہت سی مخلوق کو ہاویہ میں ڈالا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا مَنْ یَضْمَنُ لِیْ مَابَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ اَضْمَنْ لَہٗ الْجَنَّۃَ وہ چیز جو دو جبڑوں کے درمیان ہے اور جو دو رانوں کے درمیان ہے.اگرتم ان پر قابو پا لو.تو میں تمہارے جنّت کا ذمّہ دار ہوتا ہوں.جو لوگ شہوت کا خیال رکھتے ہیں.وہ جریان میں مبتلا ہو جاتے ہیں.نظر.حافظہ.دل کا حوصلہ تمام طاقتیں کمزور ہو جاتی ہیں.یہ شہوانی نظر کا نقصان ہے.جو اس سے آگے بڑھے.وہ سوزاک.آتشک میں گرفتار ہوتے ہیں.۳.حرص و طمع دنیوی.اس میں نہ حلال کو دیکھتے ہیں نہ حرام کو.نہ دیانت.نہ امانت.اپنے لئے سب کچھ حلال.دوسروں کو اس کا حق دینا بھی بارِ خاطر.۴.کسل و کاہلی.مسلمانوں میں یہ مرض آج کل بہت ہی بڑھا ہوا ہے.نماز میں ابن حزم کا مذہب یہ ہے کہ وہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِوَ الْکَسْلِ کو فرص سمجھتے تھے.عجز کے معنے ہیں اسباب کا جمع نہ ہونا.کسل اسباب مہیا شدہ سے کام نہ لینا.۵.(مومن:۸۴) دوسرے کی تحقیر اور اپنے تئیں بہت کچھ سمجھنا اور اپنے علم پر نازاں ہونا.

Page 275

ان رکوعوں (۹،۱۰) میں انہی باتوں کا ذکر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۶۸. : جب ناصح نے بیجا شہوت سے روکا.تو غضب میں آئے یہ دوسرا جرم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۷۷. : اَیْک ندی کو کہتے ہیں.جو بہتی ہو.بَنْ بھی ترجمہ کیا ہے.۱۸۲. ۱۸۳. :.یہ حرص و طمع دنیوی کے چھوڑنے کا وعظ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۱۹۴،۱۹۵. لے اترا ہے.اس کو فرشتہ معتبر تیرے دل پر کہ تُو ہو ڈر سنانے والا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۳) ۱۹۶،۱۹۷. : کھول کھول کر سنانے والی.

Page 276

: دیکھو یسعیاہ کے باب ۴،۵ کو.۲۱۱ تا ۲۱۳.  قرآن ایسی کتاب ہے.کہ شریر اس کے سننے کی بھی برداشت نہیں کر سکتا.چہ جائیکہ دوسروں کو اس کی تعلیم دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) اﷲ تعالیٰ سے دور ہلاک ہونے والی خبیث روحوں کے ذریعہ یہ کلامِ الہٰی نازل نہیں ہوا.اور ان کے مناسب حال بھی نہیں.اور ایسا کلام لانے کیلئے وہ طاقت ہی نہیں رکھتے.بے ریب ایسا کلام سننے سے وہ الگ کئے گئے ہیں کیونکہ تمام شیطانی کاموں کا قرآن مجید میں استیصال ہے.بھلا شیطان اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے.شیاطین تو ہر ایک کذّاب.مفتری.بہتانی.بدکار پر نازل ہو اکرتے ہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۰۱) ۲۱۵. مومن پر لازم ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کرے پھر اقرباء کو سمجھائے اور ان کو سمجھانا تلوار کی دھار پر چلنا ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے اپنے اقرباء کو خوب سمجھایا.پہلے دعوت کی.موقعہ نہ مِلا تو پھر دعوت کی اور انہیں وعظ کیا.پھر جو کسر رہی تو پہاڑ پر چڑھ کر سب کو نام بہ نام پکارا.یہاں تک کہ صبح سے لے کر عصر کی نماز کا وقت آ گیا.عصر کے بعد کہا.اگر ہم کہہ دیں کہ مکّہ پر دشمن کا لشکر چڑھائی کرنے والا ہے تو تم میری بات کا یقین کرو گے.یا نہیں.انہوں نے کہا.کیوں نہیں.کہ آپ صادق ہیں.اس پر آپ نے کہا اَنَا النَّذِیْرُ الْعُرْیَانُ.میں ڈرانے والا ہوں.دیکھو تم پر عذابِ الہٰی آنیوالا ہے اپنی عاقبت کی فکر کرو.اپنے تئیں شیطانی اعمال سے بچا لو.میں بھی عصر کے بعد تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تئیں بے جا غضب.شہوت.کسل و کاہلی.حرص و طمع سے بچالو.اس وقت صحابہؓ کی طرح تمہیں موت کا سامنا نہیں.بلکہ دین کی خدمت آسان ہے.تم قلم چلاؤ.تقریر کرو.مگر خدا کی رضامندی کیلئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸)

Page 277

۲۲۰. : مسلمانوں کے گھروں میں جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۲۲۵. :.وہ تُک بند جو بہادری.مروّت.تواضع.رحم کی تعریفیں کرتے ہیں.مگر خود اپنے اندر وہ باتیں پیدا نہیں کرتے.اور جس کی مذمّت کرتے ہیں.اس سے خود بچتے نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) ۲۲۸.   : اس وقت ہم پر یہ ظلم ہو رہا ہے.کہ اﷲ پر اس کے رسولِ پاک پر.اس کی مطہّر بیبیوں پر خطرناک حملے ہوتے ہیں.اوّل عیسائیوں کی طرف سے.پھر برہموں کی طرف سے.پھر آریوں کی طرف سے.ان کی تردید کی جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۴؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۸) :.ان ظالموں کو پتہ لگ جائے گا کہ کیسی گردش ان پر آنے والی ہے.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ۲۷)

Page 278

سُوْرَۃُالنَّمْلِ مَکِّیَّۃٌ  ۲. : ط ؔکے معنی صحابہ ؓ نے لطیفؔ کئے ہیں.اور سؔ کے معنے سمیعؔ.ابن جریر نے اسے سورۂ نمل میں بیان کیا ہے.مُبِیْنٍ: کھول کر سنانے والی (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء) : لطیف وسمیع (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) جس قدر دنیا میں مفید اور نفع رساں باتیں ہیں.قرآن مجید میں بھی ضرور ان کا شمّہ موجود ہوتا ہے.منجملہ اُن کے حروفِ مقطعات کے ساتھ اختصارِ کلام بھی ہے.ہر زمانہ میں جب کسی نے کوئی اعتراض رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم پر یا قرآن کریم پر کیا ہے.وہی بات خود اُس کے اندر بھی پائی گئی ہے.بلکہ وہ نمونہ اس سے بھی بڑھ کر یا بدتر معترض کے اندر بھی پایا گیا ہے.آجکل طٰس ٓ.یٰس ٓ.طٰہٰ.الٓر وغیرہ حروف مقطعاتِ قرآنی پر بھی اعتراض کیا گیا ہے.کہ یہ حروف مُعَمَّہ کی طرح ہیں.مگر یہ اعتراض ایسے وقت میں کیا گیا ہے.کہ جب ساری مہذب دنیا استعمالِ مفردات میں مجبور کی گئی ہے.انگریز تو یہ اعتراض کر ہی نہیں سکتے.ان کے کارخانے.سامان.خطابات.امتحانات.اپنے ناموں وغیرہ میں استعمال حروفِ مفردات کا بکثرت موجود ہے.ایف اے.بی اے.ایم اے وغیرہ.آریہ کے خطوط و مکانات.پر الف ؔ و ؔ م ؔ اوم لکھا جاتا ہے.قرآنی حروف کی تفسیر صحابہؓ نے جیسے حضرت علیؓ.ابن مسعودؓ.ابن عباسؓ رضی اﷲ تعالیٰ عنھم نے کی ہے.بعض تفاسیر میں بھی بہت لمبی تفسیر ان حروف کی بیان کی گئی ہے.غرض کہ جو مضمون کسی سورۃ کا یا کوئی قصّہ سمجھ میں نہ آئے.اور اس کا سمجھنا دشوار ہو تو کچھ اسماء الہٰیہ اُن کے ساتھ ہوتے ہیں.پس وہ اسماء الہٰیہ اس سورہ اور قصّہ کے مضمون کے سمجھنے کیلئے کلید ہوتے ہیں.جس کی وہ آیات مظہر ہوتی ہیں.ان مفردات سے بڑا کام قرآن حدیث.طبّ وغیرہ علوم میں لیا گیا ہے.جیسے قرآن میں صلی

Page 279

ؔالوصل اولیٰ.صِل.قد یوصل.ج جائز.ص وقفِ مرخّص حدیث میں ثنا حدّثنا.نا ؔ اخبرنا.طِبّ میں مَکَدْ من کل واحدٍ وغیرہ.غرض تمام علوم عربی میں مقطعات سے کام لیا گیا ہے.طٰس ٓ.ط ؔسے اسمِ الہٰی لطیف اور س سیسمیعؔ مراد ہے.یعنی یہ آیات قرآن اور کتاب کھول کر سنانے والے کی ہیں.جو اﷲ لطیفؔ سمیعؔ کے حضور سے نازل ہوئی ہیں.جیسے فرامین کے سر پر لکھا جاتا ہے اجلاس فلاں حاکم سے یہ حکم جاری ہوا ہے.اسی طرح اس سورۃ کے سرے پر فرمایا گیا.۳. ہدایت اور بُشریٰ مومنوں کیلئے ہے.لطافتؔ سے ہدایت اور سمیعؔ سے مہتدی کو بُشریٰ ملتا ہے ہر ایک آسمانی مذہب والا اپنی کتاب کی نسبت ہادی اور بُشریٰ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مگر صرف دعوٰی قابلِ پذیرائی نہیں ہوتا.جب تک ثبوت ساتھ نہ رکھتا ہو.ثبوت کے لئے بعض مذاہب بعد الموت کا وعدہ کرتے ہیں اور سچا مذہب وہ ہے.جس کے پاس وعدہ ہی وعدہ نہ ہو بلکہ نقد ثبوت بھی موجود ہو.چنانچہ مذہبِ اسلام اسی دنیا میں ہدایت والے کو بُشریٰ کا وعدہ دیتا ہے.قرآنِ مجید میں ہدایت بھی ہے اور جو ہدایت پر ایمان لاوے اور عمل کرے.اس کو بُشریٰ بھی ہے ہدایت تو ہے.۴.  جو مضبوط رکھیں نماز کو.ایک طریقِ ہدایت تو یہ ہے کہ عظیم الشان ذات کے سامنے خشوع خضوع سے قسم قسم کی نیازمندی کا اظہار کرے عظمت و جبروت الہٰی کو یاد کر کرکے ہاتھ باندھ کر غلاموں کی طرح.حضور میں کھڑے ہونا.جھُکنا.زمین پر گر پڑنا اور پھر اپنے محسن صلی اﷲ علیہ وسلم پر درود بھیجنا.دعائیں کرنا.یہ تو نماز ہے.ہاتھ پاؤں زبان ناک آنکھ کان سے اکثر کام ہوتے رہتے ہیں.جو بعض ان میں غلطی پربھی مبنی ہوتے ہیں.خصوصًا ناک تو ایسی چیز ہے کہ اس کے پیچھے انسان سب کچھ برباد کر دیتا ہے پس بقدر طاقت ان کو ظاہری طور پر صاف کرو.اور باطنی پاکی اور صفائی کیلئے اﷲ تعالیٰ سے دعا کرو اسی واسطے جناب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں بعد وضو کے پڑھواَشْھَدُ اَنْ لا

Page 280

َا ٓ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدً اعَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَ اجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ.یہ وضو ہوا.: اور دیا کریں زکوٰۃ.بدنی خدمات تو کسی قدر سہل ہیں.مگر مال کا خرچ زیادہ مشکل ہوتا ہے ؎ گر جاں طلبی مضائقہ نیست زرمی طلبی سخن دریں است مگر مومن صادق کو مال کا خرچ کرنا مشکل نہیں ہوتا.اسی واسطے اس کا نام صَدقہ ہے یعنی مومن کے صِدق کی علامت ہے وہ اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کیلئے اور مخلوق کی بہتری کیلئے مال خرچ کرتا ہے.: اسی پر بس نہیں بلکہ وہ جزاء و سزا پر یقین رکھتے ہیں.یہ تو ہدایت ہے.۵. جو لوگ جزا و سزا کو نہیں مانتے.ان کیلئے ہم نے انکے وہ نیک اعمال جو اُن کو کرنے چاہئیں عمدہ عمدہ پیرایوں میں خوبصورت کر کے دکھائے ( یہ ہدایت نامہ ہے) مگر شریر غور سے نہیں دیکھتے اندھوں کا سا کام کرتے ہیں.مگر بُرے کام کو خوبصورت کر کے دکھانا شیطان کا کام ہے.جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(النحل:۶۴) شیطان نے انکو انکے بداعمال خوبصورت کر کے دکھا دئے.نیک کام کا خوبصورت کر کے دکھانااﷲ تعالیٰ کا کام ہے. (حجرات:۸) اﷲ تعالیٰ نے ہی تمہارے دلوں میں ایمان محبوب بنایا اور خوبصورت کر کے دکھایا اُس کو تمہارے دلوں میں اور ناپسند کر کے دکھایا کفر.بدعہدی.بے فرمانی کو.ایسی آیات قرآن مجید میں اور بہت ہیں.جن میں صریح لفظوں میں فرمایا کہ بداعمال شیطان خوبصورت کر کے دکھلاتا ہے.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۲) : ترجمہ جو عام طور پر کیا جاتا ہے.وہ غلط ہے.صحیح معنے یہ ہیں جو کام بندوں کو کرنے چاہئیں.ہم نے ان کو نہایت خوبصورت کر کے پیش کیا ہے.مگر جیسا کہ اندھا

Page 281

کسی خوبصورتی کو دیکھ نہیں سکتا.اسی طرح یہ بھی نیک اعمال کے جمال کو دیکھ نہیں سکتے.اس واسطے بداعمالی میں پڑے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) :ہم نے تو اُن کیلئے جو اعمال کرنے کے ہیں.بہت خوبصورت دکھائے ہیں.تاکہ ان کی طرف مشغول ہوں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۶.  ان کو بڑا عذاب اور انجام کار اُن کو بڑا ٹوْٹا ہو گا.انکے لئے بُشرٰی کا کوئی حصّہ نہیں.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۷،۸.   :یہ بیان یہ بات سمجھانے کیلئے ہے.کہ اے نبی تمہیں یہ قرآن.تیری کسی قسم کی خواہش کے سوا دیا ہے جیسا کہ موسٰی کو پیغمبری دی.: اپنے ساتھ والے کو.اس بات میں بحث ہے کہ بیوی ساتھ تھی یا نہیں.: معلوم ہوتا ہے کہ کسی اور نے اسے نہیں دیکھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) : موسٰی سے کلام ہُوا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۷۰) حضرت موسٰیؑ کے بیان میں جو یہ لکھا ہے کہ (القصص:۳۰).تُو تو دیا گیا ہے قرآن اﷲ لطیف سمیع سے جو حکیم

Page 282

علیم بھی ہے مومنوں کی دعائیں سنتا اور اُن کے ہدایت پر چلنے کو دیکھتا اور بُشریٰ دیتا.اس کی ایک مثال جس کا ثبوت اسی دنیا میں نقد موجود ہے.یہ ہے کہ .جب کہا موسیٰ نے اپنے ساتھیوں کو کہ میں نے آگ دیکھی ہے اور یہ نظارہ مجھے بھلا معلوم ہوتا ہے  لاؤں گا تمہارے لئے کوئی خبر یا لاؤں گا تمہارے لئے جلتا ہوا انگارہ.تاکہ تم تاپو.آرام پاؤ.سینکو.آجکل بڑے آدمی اپنے ماتحتوں یا کم درجہ والے لوگوں یا ساتھیوں کو کام کیلئے بھیجتے ہیں.مگر انبیاء خود مفید اور ضروری اور مشکل کام کرتے اور دوسروں کو آرام دیتے ہیں.یہ قابلِ غور اور قابلِ تقلید امر ہے.اب ہر ایک انسان اپنے اندر غور کرے کیا وہ ایسا کرتا ہے کہ مشکل کام خود کرے اور دوسروں کو آرام دے.ایک دفعہ جناب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم چند صحابہؓ کے ساتھ جنگل میں تھے.کھانے پکانے کے وقت تمام صحابہؓ پر کام تقسیم کر دیا.آخر فرمایا کہ اب سب کام تقسیم ہو گئے تو لکڑیاں میں لاؤں گا.وہ حیران ہو گئے.مشکل کام اپنے لئے رکھ لیا.کیسا پاک نمونہ ہے.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ء صفحہ۲) ۹.  : برکت دیا گیا ہے وہ شخص جو آگ کی طلب و جستجو میں ہے یہی معنے صحیح ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) جب وہاں پہنچے آواز دی گئی کہ جو شخص آگ کی طلب میں آیا ہے.اس کو برکت دی گئی اور جو اس کے ارد گرد موجود ہیں اور پاک ہے اﷲ تعالیٰ پالنے والا جہانوں کا یعنی حضرت موسٰیؑ ظاہری طور پر خیر خواہ بنا.اﷲ تعالیٰ نے اس کو روحانی طور پر خیر خواہ بنا دیا.وہ تھوڑوں کا بنا.ہم نے بہتوں کا بنا دیا.وہ ظاہری روشنی کیلئے گیا.ہم نے اندر کی روشنی بھی عطا کر دی.ظاہری منزلِ مقصود کے طلب کیلئے گیا.ہم نے باطنی منزلِ مقصود بھی دکھا دیا.سبحان اﷲ.یعنی پاک ہے.مہتدی کو مہمل نہیں چھوڑتا.اب ہر بشارتیں دیتا ہے.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۲،۶) اصل بات یہ ہے کہ یہ موقعہ حضرت موسٰیؑ کیلئے تجلّی الہٰی اور نزولِ وحی رحمانی کا تھا.جس کے ساتھ ملائکہ

Page 283

بھی نزول تھا اور یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ جب کسی رسول اور نبی پر وحی اترتی ہے.تو فرشتوں کا بھی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس وحی کی حفاظت کیلئے نزول ہوتا ہے تاکہ رحمانی وحی کے ساتھ کسی قسم کا شیطانی دخل نہ ہو جائے.چنانچہ اﷲ تعالیٰ سورۃ جنّ میں فرماتا ہے..(الجن:۲۷،۲۸)پس اس آیت سے مطلب صاف ہو گیا کہ مَنْ حَوْلَھَا سے مراد اس جگہ ملائکہ کا نزول تھا جو اس وقت وحی الہٰی کے ساتھ جو حضرت موسٰیؑ پر ہوئی تھی موجود تھے.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۲) ۱۰.۱۱.   : اپنا عصا رکھ دو.: سٹک : آگ کے نظارہ سے مراد جنگ ہے.گویا سمجھایا گیا کہ بڑی جنگوں سے تجھے واسطہ پڑے گا.قرآن کریم نے اس مسئلہ کو خوب کھولا ہے. (المائدہ:۶۵)اور سانپ کے نظارہ سے یہ بتایا کہ تُو اکیلا نہیں رہے گا.بلکہ تیری جماعت سانپ کی طرح ان دشمنوں کو کھا جاوے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) اے موسیٰ بات یہی ہے کہ میں ہی اﷲ غالب حکمت والا ہوں.لاٹھی رکھ دے یعنی تجھے عزّت اور غلبہ دوں گا.یہ بشریٰ ہے.: سو جب دیکھا تو گویا وہ ایک سِٹک (چھوٹا سانپ) کی طرح جنبش کرتا ہے بھاگا اور مڑ کے بھی نہ دیکھا.

Page 284

 اے موسٰی نہ ڈر کہ میرے حضور بھیجے ہوؤں کو خوف نہیں رہتا.پھر میرے سامنے؟ (بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶) ۱۲. : عاطِفہ ہے اس کے معنے ہیں’’اور‘‘ یعنی ان لوگوں کو بہت خوف نہیں ہوتا.جن سے کوئی بدی ہو جاوے پھر وہ بدی چھوڑ کر نیکیاں کرے تو میں ان کیلئے غفور اور رحیم ہو جاتا ہوں.معافی دیتا اور رحم کرتس ہوں.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶) ۱۳.  اور ڈال اپنا ہاتھ اپنی جیب میں.نکالے گا سفید.نہ بُرا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۰) : یہ تیسرا نظارہ ہے.اس میں سمجھایا گیا کہ ہم تجھے روشن تعلیم کی کتاب دیں گے.جس میں کوئی بدی نہ ہو گی.: عصا.یدِبیضا.جراد.ضَفَادِع.دَمْ مَرِی جس میں اکلوتے بیٹے مارے گئے طمس اموال.طوفان.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) ہاتھ جیب میں ڈال نکلے گا چمکتا ہوا.کوئی اس میں عیب نہیں اور یہ دو نشان اور نشانوں کو ملا کر نو نشان میں داخل ہیں.: جافرعون اور اس کی قوم کی طرف.وہ بے شک فاسق ہو گئے.اﷲ تعالیٰ صرف کفر پر اس جہان میں نہیں پکڑتا.بلکہ شوخی کی سزا اس دنیا میں ملا کرتی ہے.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶) ۱۴. جب ان کے پاس نشان آ گئے اور نشان بینائی کا موجب تھے.ان کو بینائی حاصل نہ ہوئی کیونکہ انہوں نے ان سے اندھوں کا سا کام لیا.بلکہ کہا کہ یہ دھوکہ بازیاں ہیں.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶)

Page 285

۱۴. جب ان کے پاس نشان آ گئے اور نشان بینائی کا موجب تھے.ان کو بینائی حاصل نہ ہوئی کیونکہ انہوں نے ان سے اندھوں کا سا کام لیا.بلکہ کہا کہ یہ دھوکہ بازیاں ہیں.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶) ۱۵.  : انکار کر دیا مگر دل ان کے مان گئے.موجبِ انکار دو امر ہوئے کچھ ظلم کیا اور کچھ تکبّر کیا. دیکھا انجامِ شریر کیسا ہوا.موسیٰ کو ہدایت اور ہدایت پر بشریٰ اور مخالف محروم تباہ و ہلاک.(بدر ۲۰؍جولائی ۱۹۰۵ صفحہ۶) ۱۶.  : علم.حصولِ خرچ.صحت.دماغ.استاد.فرصت اور سب سے بڑھ کر فضلِ الہٰی پر موقوف ہے.بغیر فضلِ الہٰی کچھ بھی نہیں ہوتا.جس کی جاذب دعائیں ہیں. اسی واسطے فرمایا.: دوسرا ذریعہ حصولِ علم کا حمد و شکر ہے. (ابراہیم:۸)(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) : مسلمانوں کو زیادہ حمد چاہیئے.داؤدؑ و سلیمانؑ کو جو دیا گیا تھا

Page 286

وہ قرآن کے ایک حصّہ میں آ گیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) اﷲ کا نام ربّ ہے.ربّ کے معنے ادنیٰ درجہ اور ادنیٰ حالت سے اعلیٰ درجہ تک پہنچانے والا نباتات.حیوانات.جمادات سب میں یہی حالت ہے.بَڑ کا تخم دیکھو.کھجور کی گٹھلی کی پُشت پر جو باریک نشیب ہوتا ہے.اس کو دیکھو.پھر دیکھو کھجور کا اور بَڑ کا کتنا بڑا درخت بن جاتا ہے.ابراہیمؑ بڑا آدمی ہے مگر اسکے باپ کے نام کی نسبت بحث ہے.کہ اس کا کیا نام تھا.بعض آذر کو ان کا باپ مانتے ہیں.بعض اس کے خلاف کہتے ہیں.مگر ابراہیمؑ کو اﷲ تعالیٰ نے کس قدر بڑھایا کہ امریکہ اور یورپ نے جس کوخدا کہا وہ بھی اسی کی نسل کا ایک انسان تھا.آج مسلمان باوجود اختلاف مذہب سارے کے سارے کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ پڑھتے ہیں.یہود اور عیسائیوں کو اس کی نسل سے ہونے کا فخر ہے.غرض خدا تعالیٰ جس بیج کو بڑھاتا ہے.وہ کتنا بڑا ہو سکتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے دیا تھا داؤدؑ اور سلیمانؑ کو علم.علم ایک بے نظیر.عزّت بڑھانے والی نعمتِ الہٰی ہے.کتّا جو ذلیل ترین حیوانات ہے جب اس کو شکار کرنے کا علم ہو جائے.اس کی کتنی عزّت ہو جاتی ہے.اسی طرح باز ایک وحشی پرندہ ہے مگر سیکھا ہوا کیسا معزّز ہو جاتا ہے.غرض جس قدر علم زیادہ ہوتا جاتا ہے.اسی قدر عزّت زیادہ ہوتی جاتی ہے.بلکہ انسان عالم انسان جاہل سے کتنا زیادہ معظّم ہوتا ہے اور ملائکہ میں بھی علم کے مدارج سے ہی ترقی ہے.اﷲ تعالیٰ نے جناب رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ترقی ٔ علم کی دعا سکھائی اور فرمایا (طٰہٰ:۱۱۵) اسی واسطے اس جگہ اﷲ تعالیٰ نے علم کا ہی احسان جتلایا.چونکہ شُکرسے نعمت میں ترقی ہوتی ہے. اس لئے انہوں نے بطور شکرِ نعمت عرض کیا.کہ انہوں نے کہا.تمام تعریف اﷲ تعالیٰ کو ہے.جس نے ہم کو فضیلت دی اپنے بہت سے مومن بندوں پر.شریروں بدمعاشوں پر نہیں کہا.بلکہ اکثر مومنین سے بھی فضیلت کا ملنا بیان فرمایا.حضرت داؤدؑ کے انیس لڑکے تھے.مگر یہ فضیلت صرف سلیمانؑ کوہی ملی.۱۷. 

Page 287

حضرت سلیمانؑ حضرت داؤدؑ کا وارث ہوا ( علم و کمالات روحانی میں) اور کہا.اے لوگو! ہم کو علم منطق الطیر سکھلایا گیا.علم منطق الطیر کو یونانی میں ارنیؔ سولوجیا.سنسکرت میں بسنتؔراج.عبری میں و برہاؔ عَرف کہتے ہیں.یہ بڑا بھاری علم ہے.اس علم کے ایک شعبہ آوازوں سے شکاری لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں طبیب علاج میں اور سیاّح پانی.آبادی راستوں کا پتہ ان کے ذریعہ لگاتے ہیں.روحانی لوگ کشف والے ان کے حالات سے اعلیٰ سے اعلیٰ عجائبات حاصل کرتے ہیں.حضرت سلیمانؑ کو دونوں قسم کے فوائد ظاہری و باطنی منطق الطیر سے حاصل تھے.علاوہ اس علم کے سب خبر ہم کو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مل گئی ہے.بعض جاہل کے لفظ سے دھوکہ کھاتے ہیں.اور جاہل قرآن سے دُور جاتے ہیں (انعام:۱۵۵)قرآن کریم کی مدح میں آیا ہے پس اس سے وہ یہ امر نکالتے ہیں کہ ہر ایک عمل قرآن میں ہے.حالانکہ یہ بات غلط ہے.اس جگہ اگر وہی معنے کئے جائیں تو پھر ریل.تار.ڈاک.مطابع اور نئی نئی آج کل ایجادیں بھی ان کے پاس ہونی چاہئیں اور کم سے کم ہم لوگ بھی ان کی رعایا اور نوکر موجود ہوں.پس ایسے معانی کُلّؔ کیلئے غلط ہیں.کُلّؔ کا لفظ ہاں کُلّؔ کا لفظ موقع اور حیثیت کے لحاظ سے بولا جاتا ہے.: بے شک یہ کُھلا فضل اﷲ تعالیٰ کا ہے.(بدر ۱۰؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) : یوں تو حضرت داؤدؑ کے انیس لڑ کے تھے.مگر علمی وارث سلیمانؑ ہوئے.: ایک منطق الطیّر اس علم کا نام ہے جو انبیاء کو عطا ہوتا ہے.دوسرا وہ جو حکماء کو.تیسرا تجربہ کاروں کو.سلیمان علیہ السلام کو تینوں علم بخشے گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء) ۱۸.  اور جمع کیا گیا.سلیمانؑ کا لشکر جنّ و انس اور طیر سے اور وہ الگ الگ بنائے گئے.عیسوی انیسویں صدی یا تیرہویں صدی ہجری نے ہر قوم و مذہب پر اعتراض تو پیدا کئے.مگر بجائے جواب دینے کے شبہات پر شبہات اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ بعض لوگ یا علی العموم عملاً مذہب سے دست بردار ہو گئے.بعض

Page 288

مذہب کو ہنسی میں بھی اڑانے لگے.دوسرے اعتراضوں کے ساتھ لفظ جنّ پر بھی اعتراض ہیں.بعض نے لفظ جنّ کی ایسی توجیہ کی.جس کا ثبوت عربی زبان یا حضرات صحابہ ؓ سے نہیں دیا گیا.بعض نے کہا کہ مخاطب لوگ چونکہ جنّ کو ایک مخلوق مانتے تھے.اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کیمسلّمات کے لحاظ سے اس لفظ کو استعمال کیا.یہ دونوں باتیں غلط ہیں.قرآن مجید میں جو کچھ بیان ہوتا ہے.بلحاظ واقعات حقّہ کے ہوتا ہے.جنّ کے معنے جو چیز عام نظروں میں نہ آوے مثلاً آجکل طاعون کا کیڑا جو عام نظروں میں تو نہیں آ سکتا.مگر اﷲ تعالیٰ نے منکروں کے لئے حجّت قائم کرنے کو اس کیڑے کو پیدا کر دیا.اور وہ دیکھے گئے.غرض شریر.گندہ.مشرک.بڑے کافر کو بھی جنّ کہا ہے.اس سے بدتر وہ ارواحِ خبیثہ ہیں.جن سے بدی کے تحریک ہوتے ہیں.حضرت سلیمانؑ کے وقت شریر بڑے سردار اور کچھ پہاڑی لوگ بھی تھے.ان کو جنّ کہا گیا ہے.طَیْرؔ بہادر سوار.عرب میں بہادروں اور عمدہ فوجوں کی تعریف یہ بھی کی جاتی ہے.کہ ان کے ساتھ پرندے رہتے ہیں.یعنی یہ دشمن کو ہلاک کرتے ہیں.اور پھر پرندے ان کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے ہیں.اور ان کے دفن کا مجاز نہیں ہوتا.(بدر ۱۰؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) : امیر لوگ.غریب لوگ فاتح قوموں کی تعریف میں کہا جاتا ہے کہ پرندے ان کے ساتھ اڑتے ہیں تاکہ دشمن کی لاشیں کھائیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۰) ۱۹.  : طائف کے پاس سونے کے ذرّات نکلنے کا ایک نالہ ہے.ان کو چننے والوں کا نام نملہؔ ہے.ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگوں کو کیرے کہتے ہیں.اور اس قسم کی کئی قومیں ہیں.مثلاً.مورکٹانے چوہے.ایک کتاب میں لکھا ہے ہارون الرشید کے آگے ایک عورت نے تھیلی پیش کی اور کہا.ہمارے ملک میں ایک دفعہ سلیمانؑ بھی آئے تھے.قاموس میں برق کے آگے لکھا ہے.کہ اَلْبَرقَۃُ مِنْ مِّیَاہِ نَمْلَۃ َ ( برق نملہ کے پانیوںمیں سے گے

Page 289

  : یہاں ایک لطیف نکتہ ہے کہ پہلے  کہہ کر صریحاً ایک الزام لگایا.مگر ساتھ ہی  سے ازالہ کر دیا.شیعہ پر افسوس کہ وہ نملہ جیسا حسنِ ظن بھی صحابہ نبیؐ پر نہیں رکھتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸ جولائی ۱۹۱۰ء) جب حضرت سلیمانؑ مع لشکر وادی نمل پر پہنچے تو نملہ نے کہا.اے نملو.اپنے اپنے مکانوں میں چلے جاؤ.ایسا نہ ہو کہ سلیمانؑ اور اس کا لشکر تم کو کچل ڈالے اور ان کو تمہارے اس کچلنے کی خبر بھی نہ ہو.قاموس میں جو لغت کی کتاب ہے.لفظ برقؔ کی تفصیل میں لکھا ہے جہاں پانیوں کا ذکر کیا ہے.کہ برقہؔ نملہ کے پانیوں میں سے ہے.اس وادی میں سونے کے ذرّات ریگ میں ہیں.وہ لوگ ان باریک ذرّات کو چُن کر گزارہ کرتے ہیں.اس لئے ان کا نام نملہ ہوا.جیسے اب بھی پنجابی کِیرا سائل کو کہتے ہیں.جو ایک ایک لقمہ ہر گھر سے لے کر جمع کرتا ہے.ضلع شاہ پور میں ڈڈوْ ( مینڈک).چوہا.لومڑ ( ثعلب) وغیرہ اقوام اب بھی موجود ہیں.پنڈدادنخان میں کیڑیانوالی گلی ( کوچہ) ہے.اس میں قوم کیڑے رہتے ہیں.ہارون رشید بھی دورہ کرتے کرتے اس وادی میں گیا تو اتفاقاً اس وقت بھی ان کی نمبردارنملہ ( عورت) ہی تھی.اس نے ایک کیسہ ۱؎ سونے کے ذرّات کا ہدیہ ہارون رشید کے پاس پیش کیا.ہارون رشید نے تعجّب کیا اور کہاکہ تم غریب آدمی ہو.تمہارے کام آوے گا.نملہ نے کہا.جب حضرت سلیمان علیہ السلام اس وادی میں آئے تھے.تو ہمارے بڑوں نے اس کو بھی یہی ہدیہ پیش کیا تھا.اب تُو اس اُمّت کا سلیمان ہے تم کو اﷲ تعالیٰ کا شکر کرنا چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ نے تجھے بھی وہ موقع دیا ہے.تفسیرِ کبیر ۲؎ میںاس موقعہ پر ایک لطیفہ لکھا ہے کہ نملہ نے کہا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ۱؎ تھیلی.۲؎ مفاتیح الغیب امام رازی.مرتّب زیر اثر اور تعلیم والے فوج پر یہ ظن تو نہیں ہو سکتا کہ وہ دیدہ ودانستہ کسی کو کچل ڈالے یا ظلم کرے.اس لئے بلحاظادب کے کہا کہ شاید ان کی بے خبری میں کسی کو نقصان پہنچے مگررافضی لوگ کیسے بے ادب ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ۲۳ سالہ تربیت یافتہ صحابہ ؓ کو ظالم ، غاصب قرار دیتے ہیں.(بدر ۱۰؍اگست۱۹۰۵ء صفحہ۳ نیز تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ۴۳۵) ’’ اگر سلیمانؑ نملہ سے بات نہیں کر سکے اور نہ اس کی بات سُن سکے ہیں تو یقین پڑتا ہے کہ اگنی.وایو.ادت.انگرہ کے ذریعہ وید کا پہنچنا بھی غلط ہے.سنو! نملہ کیڑی تو آخرحیوان ہے.آگ.ہوا.ادت.سورج.انگرہ تو بسائط و عناصر ہیں.جب ایک حیوان بات نہیں کر سکتا تو عناصر کیونکر بات

Page 290

کر سکتے تھے.پھر مادریؔ اور کنتی ؔکے متعلق یہ کہنا کہ انہوں نے سورج.وایو.چندر ماں سے بیٹے لئے کیونکر صحیح ہو گا.عناصر کیونکر جماع کر سکتے تھے اور ان کا نطفہ کیونکر رہ سکتا تھا.پھر ارجن نے ناگنی ( سانپنی) سے شادی کس طرح کی.سملاس ۱؎ نمبر۸صفحہ ۲۹۸ دیانند نے ستیارتھ میں پاربتی ناگی.تلسی.گلابی.گیندا.گنگا.کوکلا سے شادی کرنے کی کیوں ممانعت کر دی.بتاؤ تو سہی.کیا کوئی ان نباتات و حیوان سے شادی کر سکتا ہے؟ اور سُنو! تمہارے آریہ ورتی اعتقاد رکھتے تھے کہ زمین.بیل کے سہارے قائم ہے.مگر آجکل کی نکتہ چینی سے بچنے کیلئے تمہارے مہارِشی نے اکھشاؔ کے معنی میں جس کے سنسکرت میں بیلؔ کے معنے بھی ہیں.کہہ دیا کہ یہاں یہ معنے مناسب نہیں کیونکہ یہاں سورج کو زمین کے سیراب کرنے کی وجہ سے اکھشاؔ کہا گیا ہے.اب ہم اصل حقیقت کا اظہار کرتے ہیں.قاموس اللغہ میں برقہؔ لغت کے نیچے لکھا ہے البرقۃ مِنْ مَّیَاہِ نَمْلَۃٍ یعنی برقہؔ نملہ قوم کے پانیوں ( چشموں ) سے ایک چشمہ ہے.طائف عرب کا ایک مشہور شہر ہے اس کے اوریمن کے درمیان یہ وادی نملہ واقع ہے.اس وادی میں سے سونا نکلتا ہے.سونے کے باریک ذرّوں کو جو قوم چُنتی اور اکٹھا کرتی ہے اس کو نمل کہتے ہیں کیونکہ چھوٹے چھوٹے ذرّات کا جمع کرنا کیڑوں کا کام ہے.ہمارے ملک میں بھی تھوڑا تھوڑا طعام جمع کرنے والوں کیراؔ کہتے ہیں.اور ایسی عورتیں اپنے آپ کو اور لوگ ان کو کیریؔ کہتے ہیں.اورکیریؔ ؔ کا ٹھیک ترجمہ نملہؔہے.گوندل بار میں ڈَڈ.چُوہے اور مالیر کوٹلہ میں مورکٹانے قومیں اب بھی موجود ہیں.اکھشاؔ کا ترجمہ بیلؔ کی جگہ سورجؔ بنانے والو! تمہیں سمجھ پیدا ہو.بیل کے بدلہ سورج تو بنا لیتے ہو اور دوسری قوموں پر اعتراض کرنے کو تیار ہو جاتے ہو.اگرچہ ان کے ہاں قرائن قَوِیّہ مرجحّہ موجود ہوں.اس بیدادگری اور ناحق کی دل آزاری سے تم کس برومندی اور بہبود کی توقع رکھتے ہو! (نورالدّین طبع ثالث صفحہ۱۵۹) ۲۱،۲۲.   ۱؎ ستیارتھ پرکاش کا.مرتّب

Page 291

حضرت سلیمانؑ نے سواروں کا یا چڑیاخانہ کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ ہُد ہُد غائب ہے.آدمیوں کے نام بھی جانوروں کے نام سے ہوتے ہیں.جیسے قوموں کے چیتے.شیر.باز.سمندر.سورداس وغیرہ.کہا.میں اُس کو عذاب سخت کروں گا.یا ذبح کروں گا.ہاں اگر کوئی وجہ معقول اپنی غیر حاضری کی بیان کرے.کسی شخص نے اعتراض کیا.کہ ذبح سے معلوم ہوتا ہے کہ ہُد ہُد انسان نہیں تھا بلکہ پرندہ ہی تھا.کیونکہ ذبح کا لفظ ؔ جانوروں پر ہی بولا جاتا ہے.انسان کیلئے تو قتل کا لفظ مستعمل ہے.یہ اعتراض کسی مولوی صاحب کا تھا تو ان کو ہمارے ایک دوست امیر الدّین صاحب کمبل باف گجرات نے جو ہماری جماعت کا ہے جواب دیا کہ پہلے پارہ میں ہے (البقرہ:۵۰) آیا ہے.تو مولوی صاحب نے کہا.بنی اسرائیل کی اولاد انسان نہ تھی.سارے جانور ہی تھے.(بدر ۱۷؍ اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ایک آریہ کے اس اعتراض پر کہ حضرت سلیمانؑ پرندوں کی بولی کیونکر سمجھتے تھے جواب میں فرمایا.کیا تم مانتے ہو کہ نہیں کہ اﷲ تعالیٰ جانوروں کی باتیں سنتا اور سمجھتا ہے اگر سنتا ہے اور سمجھتا ہے کیونکہ وہ گیانمے(علیم) چت سروپ ہے تو پھر اس کے مقرّب اور اس میں لَے ہونے والے پاک بندے ان جانوروں کی باتیں کیوں نہیں سن سکتے.ہم نے پرتیکش (محسوس) تجربہ کیا ہے کہ ایک دنیا کے جاہ و حشم والے کے ساتھ جس قدر کسی کا تعلق بڑھتا جاتا ہے اسی قدرجاہ و حشم والے کی طاقتیں اس مقرّب پر اپنا عکس ( پرتے بمب) ڈالتی اور وہ مقرّب بھی صاحب گو نہ جاہ و چشم ہو جاتا ہے.تو سرب شکتیمان ( القادر) عالَم کُل.ہمہ طاقت جناب الہٰی کے قرب سے مقرّب کو ان طاقتوں سے ذرا اثر نہ ہو.یہ کیونکر خیال میں آ سکتا ہے.ہم نے تو جانوروں سے بدتر کلام کرنے والے پال کی بات کو سمجھ لیا.سلیمانؑ جانوروں کی باتیں کیوں نہ سمجھے ہوں.اور سنو! اگر ہُد ہُد سے بات نہیں ہو سکتی.تو اگنی سے رگ وید کو تمہارے بڑوں نے کس طرح اور کیونکر سُنا؟ کیا آگ بات کر سکتی ہے؟ کہ وید جیسی بَانِیْ تم کو سُنا گئی اور آئندہ بھی سُنائے گی.سُنو اور غور کرو.تمہیں کچھ معلوم ہے کہ انڈیا میں مشہور نیک بخت والدین کے فرماں بردارفرزند راجہ رامؔ چندرجی گزرے ہیں.جب ان کو بن باس کے وقت لنکا کے شریر راجے نے دُکھ دیا تو ہنومانؔجی ان کے بِیْر اور داس نے ان کی کیسی خدمت کی.ہنومان کو تم خوب جانتے ہو کہ وہ بانر(بندر) تھے.اور رات دن رامچندر جی سے باتیں کرتے اور رام جی اس بندر سے باتیں کرتے.اسی بندر کی وجہ سے آریہ ورت کے بندر آج تک مکرّم و معظم ہیں.اگر یہ سچ ہے کہ ہنومان جی بندر تھے اور رام چندر سے ان کا مکالمہ ہوتا تھا تو ہُد ہُد اور سلیمانؔ کے مکالمہ پر تمہیں تعجّب کیوں ہے.سنو! جو حقیقت ہنومان کے لفظ کے نیچے

Page 292

وہی ہُد ہُد کے نیچے ہے.کاش تم سمجھو.(نورالدّین طبع سومصفحہ ۶۰) ۲۳.  تھوڑی ہی دیر گزری کہ وہ ہُد ہُد آ گیا.اور کہا کہ میں تم کو ایک پختہ خبر ملکہ سبا کی دیتا ہوں.جو پہلے تم کو اس کی پوری خبر نہیں.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۴.  شاہ یمن کی خبر دیتا ہے.کہ ایک عورت بھی ان کی مالک ہے.اور ہر خیر اس کو ملی ہوئی ہے اور اس کا ایک بڑا تخت بھی ہے.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۵.  وہ مع اپنی قوم کے سوائے اﷲ تعالیٰ کے آفتاب کی پرستش کرتے ہیں.اور شیطان نے ان کو ان کے شرک اور بداعمالیاں خوبصورت کر کے دکھلائی ہیں.اور ان کو راہِ ہدایت سے روک دیا.اس لئے وہ ہدایت نہیں پاتے.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۶،۲۷. 

Page 293

  کیوں نہ کریں سجدہ اﷲ تعالیٰ کیلئے جو نکالتا ہے چھُپی چیزوں کو آسمانوں اور زمین ( سے) اور جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو کچھ ظاہر کرتے ہو.اﷲ کوئی معبود سوائے اس کے ہو.وہ بڑے عرش کا رب ہے.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۸. کہا اب ہم دیکھتے ہیں کہ تو نے سچ کہا ہے یا جھوٹ.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۹.  میرا یہ خط لے جا.اور ان کے آگے رکھ دے.پھر الگ ہوجاؤ.انبیاء علیھم السلام ہمیشہ حفظِ مراتب کا لحاظ کیا کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نے بھی حضرت موسٰیؑ کو حکم دیا.(طٰہٰ:۴۵) فرعون کے ساتھ نرم نرم بات کرو.اَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ اَنْ نُنَزِّلَ النَّاسَ مَنَازِلَھُمْ ہر ایک آدمی کے مرتبہ کا لحاظ رکھنا چاہیئے.چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بھی اس کو ادب کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا.یہ نکتہ بھی قابلِ غور ہے ؎ گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی (بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۰ تا ۳۲. 

Page 294

  : یہ قرآن شریف میں خطوط کا نمونہ ہے.بڑے بڑے القاب و آداب لکھنے والے عبرت پکڑیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹) زمانے نے بہت ترقی کی ہے.اور آجکل کی تہذیب کو انسانی ترقیات کا انتہائی زینہ قرار دیا جاتا ہے اور جن باتوں پر ناز ہے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خطوط میں بے سروپا طول طویل القاب نہیں.مشکل ترکیبیں نہیں.جن کے مبتدا کی خبر دوسرے چوتھے ورق پر جا نکلتی ہو.مگر دیکھو.قرآن مجید نے تیرہ سو برس پہلے ایک خط کا نمونہ دیا.جو کئی سو برس پہلے کا ہے.اور حقیقی مہذّب گروہ کے ایک ممبر کا لکھا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ  .اس سے زیادہ مختصر نویسی پھر جامع مانع کلمات اور عمدہ طرزِ تحریر کیا ہو سکتی ہے اس نمونہ پر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے خطوط ہیں.جو معتبر روایات سے ثابت ہیں.بلکہ بعض کے اصل بھی مل گئے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ۴۳۵ ماہ نومبر ۱۹۱۱ء) ۳۳.  حضرت سلیمانؑ کی نسبت یہ غلط طعنہ ہے کہ آپ (نعوذ باﷲ ) ایک عورت کے عشق میں مبتلا ہو کر بُت پرست بھی ہو گئے.قرآن کریم ایسے تمام مطاعن کی تردید کرتا ہے.کیونکہ ایسے بیہودہ و مضر قصص سے تمام راست بازوں کی ذات سُتُوْدَہْ صفات پر حملہ ہوتا ہے.اس رکوع میں بتایا گیا ہے کہ وہ عورت خود بھی مُشرک نہ تھی چہ جائیکہ حضرت سلیمان ایسے ہوتے.: یہ ہر ایک سعادت مند دانشور انسان کا قاعدہ ہے کہ اہم امور میں مشورہ کر لیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۸۹.۱۹۰) ۳۶،۳۷. 

Page 295

  :.سے ہدیہ لے جانے والے کا بھی پتہ چلتا ہے.جَآئَ کا فاعل وہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۳۹.  : ان دنوںمیں حضرت سلیمانؑ طائف میں تھے.درمیانی بیان ہے کہ صُلح ہوئی اور یہ کہ وہ حضرت سلیمانؑ کے نکاح میں آوے.: یہ اس لئے کہ جب اس ملکہ نے آنا تھا.تو اس کیلئے تخت بھی چاہیئے تاکہ وہ اپنے تخت جیسا تخت نہ پا کرکچھ دل میں محسوس نہ کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۰.  : میں ایسا بنا لاتا ہوں.: اس کے جواہرات کے متعلق امانت کا یقین دلایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۱. 

Page 296

   : سرکاری معاملہ جو ہر سہ ماہی یا ششماہی کے بعد آتا اسے طرفؔکہتے ہیں.۲.بادشاہوں کو کسی بات کا خیال لگا ہو.اس خیال کے متعلق جواب آوے.تو اسے طرفؔ کہتے ہیں.۳.عربی زبان میں یمن سے جو قاصد آوے اسے طرفؔ کہتے ہیں کیونکہ وہ عرب سے ایک طرف پر ہے.پس معنے ہوئے کہ قبل اس کے کہ یمن کے لوگ آئیں.یا آپ کو جن کے آنے کا خیال ہے وہ آئیں یا قبل اس کے کہ آپ کا مالیہ وصول ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۲.  : اس تخت کو ایسا بناؤ کہ اسے اپنا تخت ناپسند ہو جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۳.  : یہ اس کی دانشمندی کی دلیل ہے کہ دھوکہ نہیں ہوا.کہہ دیا.گویا کہ ایسا ہی ہے حالانکہ انہوں نے تک نوبت پہنچا دی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۵. 

Page 297

  : محل دیا.اور ساتھ ہی اس طرح ایک وعظ کیا.: اس کے معنے ہیں ’’ گھبرا گئی‘‘ خوب یاد رکھو آپ کا مطلب یہ تھا کہ سورج کی تیری قوم جو پرستش کرتی ہے وہ ایسی ہی غلطی میں گرفتار ہے.جس طرح یہ شیشہ ہے اور اس کے نیچے پانی ہے.ایسا ہی سورج کو روشنی دینے والا ایک اور نور ہے.اصل وہی ذات ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) آپ کے متعلق شریر لوگوں نے یہ قصّے مشہور کر رکھے ہیں کہ ان کی بیوی مُشرکہ تھی.اور ایک انگوٹھی کے زور سے سب حکومت کرتے تھے.جب وہ گم ہو گئی.تو سلطنت بھی چھن گئی.اور ایک دیو ؔ ان کی شکل پر ہو کر اس ملک پر متصرف و قابض ہوا.وغیر ذٰلک مِن المذخرفاتِ.جن کی نقل بھی ایک مومن کی غیرت گوارا نہیں کر سکتی.اﷲ تعالیٰ نے ان سب مطاعن کی تردید کیلئے یہ بیان مفصّل کیا اور بتایا کہ ان کی بیوی تو مسلمان تھی.چنانچہ وہ خود کہتی ہے. اور پھر کہا  (تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ۴۳۴) ۴۶.  اُ: کامل محبت.کامل فرماںبرداری.کامل تضّرع ایک ہی ذات پاک کیلئے ہو جس کا نام اﷲ ہے.: ایک ماننے والے.ایک مُنکر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۸.

Page 298

 طَیَّرْنَابِکَ: برابر حصّہ اٹھایا ہے.ہم نے تجھ سے اور تیرے ساتھ والوں سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۴۹.  : یہ مکّہ والوں کو سنایا جاتا ہے.مکّہ میں بھی نوہی تھے ان کے نام ۱.ابوجہل ۲.ولید ۳.نضر ۴.عتبہ ۵.شیبہ ۶.اُمیّہ ۷.اُبیّ ۸.عقبہ ۹.حارث بن عامر (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰ نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۱) جب اﷲ تعالیٰ ایک جماعت بنانے کا ارادہ کرتا ہے.اور کوئی مصلح دنیا میں بھیجتا ہے.تو انہیں لوگوں میں سے جن کی وہ اصلاح کرنا چاہتا ہے.ایک مفسد گروہ پیدا ہو جاتا ہے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وبارک وسلّم جیسے شاندار نبی کے زمانہ میں بھی ایسے مفسد کھڑے ہوئے اور وہ نو طرز کے آدمی تھے.اور مفسد عموماً نو قسم کے ہی ہوتے ہیں.سورۂ شعراء میں ان کی تفصیل ہے.یہ لوگ آپؐ کے کاموں میں بڑے حارج اور مفسد ہوئے.وہ کوئی معمولی آدمی نہ تھے.بلکہ بڑے درجہ کے لوگ تھے.اس واسطے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو ان کی شرارتوں کے سبب اور ان کے ہدایت کی طرف رجوع نہ کرنے کے سبب بہت غم اور حُزن تھا.کہ یہ لوگ ہمارے کام میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں.ایسے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کو تشفّی دیتا ہے.اور اگر خدا کی طرف سے تشفّی نہ ہوتی تو وہ غم ناقابلِ برداشت ہو جاتا.(بدر ۵؍اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۱۰.۱۱) ۵۱. مَکَرْنَا مَکْرًا: بڑی باریک تدبیریں کیں.وہ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ ( انفال:۳۱) ہے

Page 299

ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۵۳.  : مکّے والوں کو سمجھایا کہ تم بھی ایسی ہی تدبیروں کے درپے ہو.مگر وہی انجام ہو گا جو صالحؑ کے مخالفوں کا ہوا.سب تباہ ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۵۷.  یَتَطَھَّرُوْنَ: جو شہوتِ رجال سے بچے.اسے عربی زبان میں مُتَطَھَّر کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۱؍۲۸؍جولائی ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۰) ۶۰.  کہ حمد اﷲ کیلئے اور سلام اس کے برگزیدہ بندوں پر.بتاؤ اﷲ خیر و برکت ہے.یا وہ جنہیں شریک ٹھہراتے ہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۱۰۲) ۶۱. 

Page 300

  کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیئیبادل سے پانی اُتارا.پھر ہم نے اس سے خوشنما باغ اُگائے.تمہاری قدرت میں نہ تھا کہ تم درختوں کو اُگاتے.بتاؤ کیا اﷲ کے ساتھ کوئی معبود ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ مشرک ہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۱۰۲) خدا نے فرمایاکہ.تو کفّارِ مکّہ جو بڑے مشرک تھے.انہوں نے بھی کہا.اَﷲُ.اسی طرح ان کے جاہلیت کے شعروں میں اَﷲ کا لفظ کسی اور پر نہیں بولا گیا.(بدر ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲) ۶۲.   کس نے زمین کو تمام چیزوں کیلئے قرارگاہ بنایا.اور اس میں دریا رواں کئے اور اس کیلئے پہاڑبنائے اور دو دریاؤں کے درمیان روک بنائی.بتاؤ.کوئی اور معبود اﷲ کے ساتھ ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ نادان ہیں.ہر انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ اپنے سے بڑے اور زبردست کی بات کا پاس کرتا ہے.اﷲ اس رکوع میں اپنے علم.اپنی قدرت و طاقت کا ذکر کرتا ہے.: زمین گردش کھاتی ہے.مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں.اس ذاتِ پاک نے زمین کو قرار بنایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۹۱) ۶۳.

Page 301

  : یہاں علماء عالی فہم کو سمجھاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۹۱) کون ہے جو بیچارہ کی آواز سنتا ہے.جب وہ اسے پکارتا ہے.اور اس کے دُکھوں کو دُور کرتا ہے.اور تمہیں زمین پر دوسروں کے جا نشین بناتا ہے.بتاؤ.کوئی اور معبود اﷲ کے ساتھ ہے.تم نصیحت کو بہت ہی کم قبول کرتے ہو.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۱۰۲) امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں. سے پتہ لگتا ہے کہ اگر یہ لوگ اضطراب سے.تڑپ سے.حق طلبی کی نیت سے تقویٰ کے ساتھ دعائیں کرتے کہ الہٰی اس زمانہ میں کون شخص تیرا مامور ہے.تو میں یقین نہیں کر سکتا کہ انہیں خدا تعالیٰ ضائع کرتا.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) ۶۴.  کون ہے جو برّ و بحر کی تاریکیوں میں تمہیں راہ دکھاتا ہے.اور کون ہے جو اپنی رحمت ( باراں) کے آگے آگے خوشخبری دینے والی ہواؤں کو بھیجتا ہے.بتاؤ کوئی اور معبود اﷲ کے ساتھ ہے.بلند اور پاک ہے اﷲ ان کی تمام شرک کی باتوں اور شریکوں سے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۱۰۲،۱۰۳) ۶۵. 

Page 302

  کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے.بتاؤ کوئی معبود اﷲ کے ساتھ ہے.کہہ کوئی دلیل تو لاؤ اگر سچّے ہو.کہہ آسمانوں اور زمین میں جو ہیں.وہ غیب کو نہیں جانتے.سوا اﷲ کے انہیں کوئی پتا نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۱۰۳) : اس کی مثل بار بار بناتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۹۱) ۶۷.  : ختم ہو چکا ہے.ان کا علم دربارہ آخرت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۷۰. ۷۲. بڑی غفلت کا موجب ہے.جزا و سزا کا انکار.یہی تمام غفلتوں کی جڑھ ہے.بعض لوگوں نے یہاں تک کہنے کی جرأت کی ہے.؎ گرچہ معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے یہ (النمل:۶۹) کا جواب ہے کہ تم جا بجا دیکھو کہ دنیا میں منکرانِ قیامت کا کیا انجام ہوا.جس سے آخرت کا حال ظاہر ہے.حضرت

Page 303

نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے کفّار کے کُستوں پر فرمایا.(الاعراف:۴۵)(النمل:۷۲) دوسرے مقام پر (سجدہ:۲۹) ہے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۷۳. : یعنی میرے نکلنے کے پیچھے ہی تم پر عذاب ہو گا.چنانچہ دوسرے مقام پر لَکُمْ(سبا : ۳۱)اور(انفال: ۳۴) فرمایا.یَوْم سے مراد ایک سال ہے.یسعیاہ نبی نے باب ۲۱ آیت ۱۷ میں فرمایا ہے.عرب کی بابت الہامی کلام.وہاں لکھا ہے کہ ایک سال میں قیدار کے بہادر گھٹ جاویں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) تو کہ تم کو وعدہ ہے.ایک دن کا نہ دیر کرو گے اُس سے ایک گھڑی.نہ شتابی.اس میں بتایا کہ یہ عذاب کا کچھ حصّہ اوس عذابِ موعود کا ہو گا.اور تمہاری تباہی اور استیصال کا شروع ہو گا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۱ ایڈیشن دوم) ۷۶. :خدا کی حفاظت میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۷۷.  

Page 304

: سب سے بھاری اختلاف مسیحؑ کی آمد کے متعلق تھا.اس زمانہ میں بھی یہی اختلاف ہے.قرآن شریف نے اسے صاف کر دیا ہے.دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ نبوّت و الہام بنی اسرائیل میں محدود ہے.اس زمانہ میں بھی کہتے ہیں.کہ سوائے بنی فاطمہ کے کسی میں مہدی نہیں آ سکتا.لیکن جیسے بنی اسحاق کی بجائے بنی اسمٰعیل میں نبی آیا ایسے ہی اس زمانہ میں بھی امام آیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) محمد رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی نبوّت میں یہود اور نصاریٰ کو کہا تھا کہ مجھے اﷲ تعالیٰ نے الہامی کتابوں کا مفسّر بنایا اور جو کچھ اگلی اُمّتوں نے الہامی کتابوں کے فہم میں غلطی کی اور غلطی سے ضروری مسائل میں باہم اختلاف کیا یا حق کے مخالف ہو گئے.اس اختلاف کے مٹانے کو اﷲ تعالیٰ نے مجھے رسول کیا ہے.ضرورتِ نبوّت کے اور وجوہ بھی ہیں جو ہم نے اسی کتاب ۱؎ میں کچھ ان میں سے لکھے.مگر یہ بھی ضرورت تھی.قرآن میں میرے اس قول کی تصدیق یہ ہے..(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۷۱.۱۷۲نیز ۱۰۳،۱۷۴) ۸۱. : یہاں سے بعض لوگوں نے استدلال کیا ہے.کہ مُردے نہیں سُنتے.یہ صحیح نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۹۰.۱۹۱) ۱؎ فصل الخطاب.مرتّب ۸۳. 

Page 305

: صحابہؓ نے اس کے متعلق فرمایا.اِذَا تُرِک الْاَمْرُبِا لْمَعْرُوْفِ وَ اِذَا لَمْ یَعْرِفُوْا مَعْرُوْفًا وَ لَمْ یُنْکِرُوْا مُنْکَرًاجب خود نیکی نہ کریں اور نہ دوسرے کو نیکی کی ترغیب دیں.اور جب ایسا وقت آ جاوے کہ نہ خود بدی چھوڑیں.نہ دوسرے کو روکیں تو اس وقت عذاب آ جاتا ہے.: پس ایسی قوم کے لئے زمین سے کیڑا پیدا کرتے ہیں ( یہ کیڑا میرے یقین میں طاعون کا ہے) اس کی نسبت لکھا ہے.وہ جنّ ہے وہ چَوبھ لگاتا ہے.وہ عورت کی شکل ہے وہ ہاتھی شیر کی طرز کا ہے.اس پر لوگ ہنسی اڑاتے ہیں.حالانکہ یہ سیدھی بات ہے.آفات کا نظارہ جب قبل از وقت لوگوں کو دکھاتا ہے تو بعضوں کو وہ نظارہ ہاتھی کی شکل میں.بعض کو بد شکل عورت کی شکل میں دکھاتا ہے.پس یہ تمام اس بلاء کے روحانی نظارے ہیں.میں نے خود خواب میں طاعون کو ایک وقت میں ہاتھی اور آدمی کی شکل میں دیکھا.: زخمی کرتا ہے ان کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۸۴.  : خود جرم کا احساس ایک سزا ہے پھر حاکم کو پتہ لگ جانا اس سے بڑھ کر پھر مجرموں کی ٹولی میں بٹھایا جانا اس سے بڑھ کر سزا ہے.: بند کئے گئے.سارے کے سارے.اوّل سے آخر تک یہی معنے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۸۵.  : اکثر صداقت کا انکار اسی وجہ سے ہوتا ہے.اَلْاِنْسَانُ عَدُ وٌّ لِمَاجَھِلَ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱)

Page 306

۸۶. : ان پر فرد جرم لگ جائے گا.: شرک کیا ۲.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑ دیا.اور معروف و منکر کو نہ سمجھا.: دوسرے مقام پر یہ بھی فرمایا ہے.کہ مجرم کچھ عذر کریں گے.چونکہ حالات مختلف ہیں.اس لئے مختلف حالتوں کا ذکر کیا.بعض مجرم سزا دیکھ کر بولنے کی طاقت نہیںپاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱) ۸۷.  : جس طرح ایک وقت رات ہوتی ہے اور دوسرے وقت دن.اسی طرح ایک وقت قوموں پر آتا ہے.کہ سب چُپ چاپ ہو تے ہیں.مگر دوسرے وقت مذہبی چھیڑ چھاڑ شروع ہو جاتی ہے.اور آفتابِ صداقت ( نبی) کے طلوع سے نیک و بد نشیب و فراز کی تمیز ہو جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۱.۱۹۲) ۸۹.  : اس میں پیشگوئی ہے کہ یہ قیصر و کسرٰی کی سلطنتیں ایسی اڑیں گی جیسے بادل کو ہوا اڑا دیتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲)

Page 307

ایک عجیب نکتہ آپ کو سناتے ہیں.آپ سے میری مراد وہ سعادت مند ہیں.جو اس نکتہ سے فائدہ اٹھاویں.قرآن کریم میں ایک آیت ہے اس کا مطلب ایسا لطیف ہے کہ جس سے… قرآن کی عظمت بھی ظاہر ہو.غور کرو اس آیت پر. .اور تُو پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتا ہے.کہ وہ مضبوط جمے ہوئے ہیں اور وہ بادل کی طرح اُڑ رہے ہیں.یہ اﷲ کی کاریگری قابلِ دید ہے.جس نے ہر شے کو خوب مضبوط بنایا ہے.غور کرو.یہاں ارشاد فرمایا ہے.کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جگہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں اور وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے ساتھ حرکت کرتے ہیں.اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ ۲۰۵.۲۰۶) ۹۰،۹۱.   : نبی کریمؐ نے فرمایا ہے.اَفْضَلُھَا لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ ( کلمہ توحید) وَ اَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِیْقِ.: بدی میں کفر و شر سب سے بڑھ کر ہیں.اور رستوں میں روک ادنیٰ درجے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۱۹۲) ۹۳. 

Page 308

 : اب مسلمانوں نے قرآن شریف پڑھناپڑھاناچھوڑ دیا ہے.یہی تنزّل کی جڑ ہے.کئی مدرسے قرآن کے میرے دیکھتے دیکھتے بند ہو گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲)

Page 309

۱۹۱۰الْقَصَصِ مَکِّیَّۃ  ۲،۳. : لطیف.سمیع.مجید خدا.: یہ وہ کتاب ہے جو حق کو باطل سے جدا کرتی ہے.حلال کو حرام سے الگ کر کے دکھاتی ہے.پہلی کتاب کی سچائی کو اس میں شامل شدہ باطل اور تحریف سے الگ کر دیتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۴. :بات کہنے کو تو موسٰیؑ و فرعون کی کہی ہے مگر دراصل () مومنوں کو سمجھایا ہے کہ تم باہمی جنگ و جدل نہ کرنا.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم بہت ہی امن دوست تھے.اس لئے فرمایا.لَا تَرْجِعُوْا بَعْدِی کُفَّارًا یَضْرِبُ بَعْضُکُمْ اَعْنَاقَ بَعْضٍ.اور فرمایا.اَلْقَاتِلُ وَ الْمَقْتُوْلُ کِلَاھُمَا فِی النَّارِ.مگر افسوس ہے کہ بعض مسلمانوں میں پھر بھی باہم جنگ ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) چونکہ نبی کریمؐ کو مثیلِ موسٰیؑ فرمایا.اس لئے حضرت موسٰیؑ کا ذکر قرآن مجید میں بہت آیا ہے دومؔ اس لئے کہ وہ صاحبِ شریعت تھے.سومؔ اس لئے کہ ؎ نفس ہر یک کمتر از فرعون نیست لیک اُوراعون مارا عون نیست

Page 310

پس لِکُلِّ فِرْعَوْنَ مُوْسٰی کے مطابق موسٰیؑ کا ذکر مومنوں کیلئے بہت مفید ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵.   تکبّر خدا تعالیٰ کو بہت ناپسند ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے. فرعون نے علوّ کیا.تکبّر کیا.بنی اسرائیل کو ذلیل سمجھا.مسلمانوں میں بھی جب سلطنت آئی.تو ان میں علوّپیدا ہو گیا.اور یہی موجب ان کے زوال کا ہوا.دیکھو مسلمانوں کے سب گھروں میں چوہڑوں کی آمد و رفت ہے.وہ ان کے گھر کی صفائی کرتے ہیں.مگر ان کو کبھی ان پر رحم نہیں آتا.ان کی اصلاح کا کوئی خیال ان کے دلوں میں نہیں آتا.ان کو حقیر جانتے ہیں اور اسی حالت میں ان کو چھوڑ رکھا ہے میں دیکھتا ہوں کہ ملک کے بعض حصّوں میں یہ قوم اب ترقی کر رہی ہے.بعض ان میں سے بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں.کسی کی حقارت نہیں کرنی چاہیئے.ایک سیّد صاحب کا حال معلوم ہے.کہ وہ اپنی ذات کو اتنا بڑا جانتے تھے.کہ اپنے شہر کے کسی سیّد کو اپنی لڑکی دینا پسند نہ کرتے تھے.اور چونکہ وہ کسی کو لڑکی نہ دیتے تھے.ان کے لڑکے کو بھی کوئی لڑکی دینا پسند نہ کرتا تھا.نتیجہ یہ ہوا.کہ ان کا بیٹا اور بیٹی ہر دو عیسائی ہو گئے.اور ان کی لڑکی نے ایک چمار نَو عیسائی کے ساتھ شادی کر لی.یہ بیان عبرت کیلئے ہے.غرض اور کی حقارت کرنا بہت بُری بات ہے.(بدر ۱۹؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحہ۴) ۶.  : اس میں سمجھایا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے تئیں ضعیف بنا لیں.غضب سے کام نہ لیں.ہم خود ان کے ناصر و معاون بن جاتے ہیں.

Page 311

: قرآن مجید میں دوسرے مقام پر فرمایا کہ امام انسان اس وقت بنتا ہے جبکہ لوگوں کو ہدایت دے.اور صبر سے کام لے.اور ہماری آیات پر یقین پیدا کرے.فرمایا (سجدہ:۲۵) : وہ شام وغیرہ کے وارث ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) : ہمارا یہ ارادہ رہتا ہے.مسلمان اس نکتہ کو سمجھیں وہ تکبّر و فضولی چھوڑ دیں تو خدا انہیں ائمہ بنادے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) خدا جو کہ قادر مقتدر ہستی اور ربّ العٰلمین ہے.اس نے یہ قاعدہ بنا دیا ہے کہ مامورین اور مُرسلوں کے ساتھ ابتداء میں معمولی اور غریب لوگ ہی شامل ہوا کرتے ہیں اور جتنے اکابر اور بڑے بڑے مدبّر کہلانے والے ہوتے ہیں وہ ان کے مقابل میں کھڑے کر دئے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنی سفلی کوششیں اُن کے نابود کر دینے میں صرف کر لیں.اور اپنے سارے زوروں سے ان مُرسلوں کی بیخ کنی کے منصوبے کر لیں.پھر ان کو ذلیل اور پست کر دیا جاتا ہے.اور خدا کے بند وں کی فتح اور نصرت ہوتی ہے اور وہی آخر کار کامیاب اور مظفر و منصور ہوتے ہیں.اور یہ سب کچھ اس لئے ہوتا ہے.کہ تا کوئی خدائی سلسلہ پر احسان نہ رکھے.بلکہ خدا کی قدرت نمائی اور ذرّہ نوازی کا ایک بیّن ثبوت ہو کر ان مومن ضعفاء کے دلوں میں ایمانی ترقّی ہو اور ان کے دلوں میں خدا کے عطایا اس کی قدرتوں اور کَرموں کے گُن گانے کے جوش پیدا ہوں.پس تم اس خیال کو کبھی بھی دل میں جگہ نہ دو.کہ اکابر اور بڑے بڑے مال دار اور رؤسائِ عِظَام تمہارے ساتھ نہیں ہیں.اگر تم ذلیل ہو تو تم سے پہلے بھی کئی گروہ تمہاری طرح کے ذلیل گزرے ہیں.مگر آخر کار کامیابی کاتمغہ ایسے پاک اور مومن ذلیلوں ہی کو عطا کیا جایا کرتا ہے.دیکھو موسٰیؑ کے مقابلہ میں فرعون کیسا زبردست اور جبروت والا بادشاہ تھا.مگر خدا نے اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا.فرمایا کہ .کس طرح سے ان ضعیف اور کمزور لوگوں کو اپنے احسان سے امام اور بادشاہ بنا دیا.دیکھو یہ باتیں صرف کہنے ہی کی نہیں.بلکہ عمل کرنے کی ہیں.عمل کے اصول کے واسطے کہنے والوں پر حُسنِ ظن ہونا ضروری اور لازمی امر ہے.اگر دل میں ہو کہ کہنے والا مرتد فاسق و

Page 312

فاجر ہے.منافق ہے.تو پھر نصیحت سے فائدہ اٹھانا معلوم اور عمل کرنا ظاہر بعض اوقات شیطان اس طرح سے بھی حملہ کرتا ہے.اور نصیحت سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے.کہ دل میں نصیحت کرنے والے کے متعلق بدظنی پیدا کر دیتا ہے.پس اس سے بچنے کے واسطے بھی وہی ہتھیارہے جس کا نام دُعا.درد مند دل کی اور سچّی تڑپ سے نکلی ہوئی دُعا ہے.(الحکم ۲۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۷) ۸.   : الہامی عبارت کو سمجھنے کیلئے ایک فہمِ سلیم دیا جاتا ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ جھٹ پھینک دے چنانچہ اسی واسطے اُمِّ موسٰی نے صندوق بنایا.سوراخیں بند کیں.ساتھ ہی اس کی بہن کو روانہ کیا.گویا ظاہری اسباب کی پوری رعایت رکھی اور الہام وحی الہی کی تعمیل بھی کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۹.  : فرعون کی لڑکی نے لیا.: اس نے کس غرض کیلئے لیا.یہ تو اسے معلوم ہو گا.خدا کا منشاء اس آیت سے ظاہر ہو گیا.لؔ نتیجہ کا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۱۰. 

Page 313

 : فرعون کی بیوی نے سفارش کی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۱. : لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْکی وحی ہو اور پھر ایک مُلْہمَہْ گھبراہٹ کا اظہار کرے.یہ بالکل غلط بات ہے.اس کے صحیح معنے یہ ہیں کہ موسٰیؑ کی طرف سے فارغ ہو گئی یعنی مطمئن.کیونکہ خدا نے اس کا ذمّہ لیا تھا.: اس خوشی کا اظہار کر دے کہ خدا اس کا متکفّل ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۱۵.  حضرت موسٰیؑ کی پرورش فرعون کے گھر میں کرا دی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو حکومت دینا چاہتا تھا.اس لئے بادشاہی گھر میں تربیت کا موقعہ دیا.: پکی باتیں : اس میں سمجھایا کہ یہ حُکم و عِلم کا دینا حضرت موسٰیؑ ہی سے خاص نہیں بلکہ جو محسن ہو.خدا اسے اس انعام سے بہرہ ور کرے گا.چنانچہ حضرت یوسفؑ کے بیان میں بھی فرمایا.(یوسف:۲۳) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲)

Page 314

۱۶.    : قبطی تھا.: حضرت موسٰیؑ نے کہا کہ یہ تجھے شیطانی عمل کی سزا دی گئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء) : بے شک وہ دشمن ہے ہلاک کرنے والا.کھُلا کھُلا.(نور الدّین طبع ثالث صفحہ۷۷) ۱۷.  : اپنی جان کو مشکلات میں ڈال لیا.: ستّاری فرما.یہ قتل فی الحال واضح نہ ہو.: چنانچہ خدا نے ستّاری کر لی.اور انہیں نکل جانے کا موقع مل گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۱۸.

Page 315

: حضرت موسٰیؑ کہتے ہیں.یہ تیرا فضل ہے.پس میں ہمیشہ ظالم کا مقابلہ کروں گا اورمیں مجرموں کا مددگار نہ ہوں گا.کیونکہ اس وقت مجرم کو سزا اور مظلوم کی ہمدردی کرنے سے یہ فضل ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۱۹.  یَتَرَقَّبُ: یہ آپ کے چوکس ہونے کی دلیل ہے.: جسے کل مدد دی تھی اسے کہا کہ تو بھی روز ہر ایک سے لڑتا رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۲۰.   : اس مظلوم نے کہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۲۱. 

Page 316

:نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بھی نکلنا پڑا.حضرت داؤد اور ابراہیمؑ سے بھی یہی معاملہ ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۲۳.  : نزدیک ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲) ۲۵.  : اس دعا میں اس خیر کی نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے تصریح کر دی ہے آپؐ نے فرمایا.جب کسی گاؤں میں داخل ہونا ہو تو یہ دعا پڑھو.اَللّٰھُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَ مَا اَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعِ وَ مَا اَقْلَلْنَ وَ رَبَّ الشَّیْـٰطِنِ وَ مَا اَظْلَلْنَ وَ رَبَّ الرِّیَاحِ وَ مَا ذَرَیْنَ فَاِنَّانَسْئَالُکَ خَیْرَھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ وَخَیْرَ اَھْلِھَا وَ نَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَ شَرِّاَھْلِھَا وَ شَرِّمَا فِیْھَا.اَللّٰھُمَّ بارِکْ لَنَا فِیْھَا (ثلٰـثًا) اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنَا جَنَاھَا وَ حُبِّبْنَا اِلٰیٓ اَھْلِھَا وَ حَبِّبْ صَالِحِیْ اَھْلِھَا اِلَیْنَا.اس دعا کو میں نے خوب آزمایا.میں ہمیشہ اس کے ذریعے لوگوں کی نظروں میں محبوب بنا ہوں اور خود شریر النفسوں کے شرسے محفوظ رہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۲، ۱۹۳) ۲۷.  : باوجود اجنبی ہونے کے ان چرواہوں کی پرواہ نہ کر کے پانی پلا دیا.: ہم جوان لڑکیاں تھیں.مگر بہت ہی پاک رہا.اور پھر

Page 317

کوئی طمع نہیں کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۲۸.   :نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم بھی مدینہ سے آٹھ برس بعد وطن میں آئے اور دو برس بعد یعنی دس برس پر فتح کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ہندوستان میں بالخصوص عورتوں کی ایسی بے قدری ہے کہ جسے گالی دینی ہو.اسے کہتے ہیں سُسْرایا سالا گویا لڑکی تو درکنار.لڑکی کا باپ.لڑکی کی ماں.لڑکی کا بھائی بھی مجرم ہیں.اور دنیا میں بدترین انسان ہیں.کئی خبیث باطن ہیں.جب اپنی بی بی پر ناراض ہوتے ہیں تو اسے کہتے ہیں اپنے باپ کے گھر سے کیا لائی تھی؟ گویا باپ کا جہاں یہ فرض ہے کہ اپنی لڑکی دے تو ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ بہت سا مال و اسباب اپنے داماد کو دے! یہ طریق انبیاء کا نہیں.حضرت موسٰیؑ ایک بزرگ کے ہاں جاتے ہیں جو انہیں ارشاد فرماتے ہیں..میں چاہتا ہوں کہ تجھے اپنی ایک لڑکی ان دونوںمیں سے نکاح کردوں.اس شرط پر کہ تُو آٹھ سال میری نوکری کرے اور اگر تو دس سال پورے کرے تو یہ تیری برخورداری ہے.اسی طرح حضرت یعقوبؐ کو بھی اپنے سسرال کی خدمت کرنی پڑی اور جب اس لڑکی کی بجائے دوسری لڑکی کی خواہش کی تو انہیں سنایا گیا.کہ اتنے سال اور خدمت کرنی ہو گی.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ ۴۳۹ماہ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۹.

Page 318

 : ہندو تو جہاں لڑکی دیں وہاں سے پانی بھی حرام سمجھتے ہیں ان کی دیکھا دیکھی بعض مسلمان بھی ایسا ہی کرتے ہیں.میرے نزدیک داماد سے کچھ لینا جائز ہے.صوفیوں نے لکھا ہے.نبوّت کی تیاری کیلئے آپ اتنے برس رکھے گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۳۰.   جو لوگ منصوبے باندھنے کے عادی ہیں کہ یوں کریں گے اور پھر یُوں کریں گے پھر یوں ہو جائے گا یہ سب نامراد رہتے ہیں.شیخ چلّی کی کہانی ہمارے ملک میں کسی پاک نے سنائی ہے.یہ ایسے لوگوں کے لئے عبرت دِہ ہے.اﷲ تعالیٰ کا فضل ایسے لوگوں کے شامل حال رہتا ہے.جو حضرت موسٰیؑ سی طبیعت رکھتے ہیں.آپ کے اندر کوئی خواہش نہ تھی کہ میں نبی بن جاؤں.اﷲ تعالیٰ نے نبوت عطا فرمائی.: اپنے ساتھ والوں کو کہا.یُوں ترجمہ میں نے اس لئے کیا کہ تورات کے بیان میں جو اُلجھن ہے وہ دور ہو جائے.: ان امراء کیلئے یہ نمونہ شرم دلانے والا ہے.دیکھو امیرِ قافلہ خود کام کرتا ہے اور اپنے کسی خدمتگار کو نہیں کہتا.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم بھی ایسا کرتے تھے.ایک دفعہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سفرمیں تھے سب نے اپنے اپنے ذمّے ایک ایک کام لیا آپؐ نے فرمایا میں تم سب کے لئے لکڑیاںلے آتا ہوں.چنانچہ آپ لائے.یہ سنّت ہے نبیوں کی.اب تو ذرا کسی کی تنخواہ بڑھ جائے تو وہ معمولی کام کرنا اپنی ہتک سمجھتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳)

Page 319

میں نے آگ دیکھی ہے تو کہ میں تمہارے پاس اسکی کوئی خبر لاؤں یا آگ کی کوئی چنگاری لاؤں تو کہ تم تاپو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۵۳) ۳۱.  پس جب اس کے پاس آیا برکت والے میدان کے کنارے سے مبارک زمین میں درخت کی طرف سے پکارا گیا کہ اے موسٰی یقینا میں ہوں اﷲ عالموں کا پروردگار.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۵۴) : درخت کی طرف سے.نہ یہ کہ نعوذ باﷲ درخت بولتا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۳۲.  : یہ کشف کا وقت ہے.اﷲ نے نظارہ دکھایا کہ میں تیرے ساتھ ایک جماعت کروں گا جو تیرے دشمنوں کو سانپ کی طرح کھا جائے گی.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے بھی فرمایا کہ مجھے ایک بستی دکھائی گئی ہے جو دوسری بستیوں کو کھا جائے گی.یعنی مدینہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۳۳. 

Page 320

  : اَیْ جَیْبَ قَمِیْصِکَ تَخْرُجُ بَیْضَآئَ اس کے معنے یہ ہیں کہ اﷲ تمہیں ایک کتاب دے گا جو بے عیب ہو گی اور روشن.اﷲ نے فرمایا(نساء:۱۷۵) قرآن مجید بھی ایک یدِ بیضا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۳۵،۳۶.    : دیکھو.انبیاء میں ہرگز عُجب نہیں ہوتا کہ اپنے برابر یا اپنے سے بڑھ کر کسی کو نہ گردانیں.: یہ عربی کا محاورہ ہے.مطلب یہ ہے کہ ہم تیری مدد کریں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۳۸.  : پیشگوئی فرمائی کہ دیکھو ظالم مظفر و منصور نہیں ہوں گے.گویا خدا فیصلہ کرے گا کہ مَنْ جَآئَ بِالْھُدٰی کون ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳)

Page 321

۳۹.   : ہند میں مُشرک بہت ہیں.میں نے تحقیقات سے معلوم کیا ہے کہ یہ مشرکین بادشاہ کو سب سے بڑا دیوتا سمجھتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ بادشاہ سولہ کلان سپورن ہوتا ہے.اسی بناء پر وہ فرعون کو اِلہٰ سمجھتے ہیں.: ہامان کوئی بڑا آفیسر ہے.انجنیئر : یہ شرارت سے تمسخر کرتا ہے.رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ پر.ہامان کو کہتا ہے.کوئی رصدگاہ بناؤ کہ دیکھیں موسٰی کا اس اِلٰہ سے کیا تعلق ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۴۵.  : خدا نے مجھے یہ سمجھایا ہے کہ موسٰیؑ نے تین دفعہ رسولؐ اﷲ کی پیشگوئی کی ہے.ان حالات کا ذکر ہے.مَاکُنْتَ بِجَانِبِ الْغَرْبِيّ.مَاکُنْتَ ثَاوِیًا وَ مَاکُنْتَ بِجَانِبِ الطُّوْرِ.ایک یہ جہاں یہ حکم تھا کہ اوپر کوئی نہ آئے.زلزلہ آیا.آتش فشانی.اس وقت حضرت موسٰیؑ نے حسب الحکم قوم کو اوپر بلایا.مگر انہوں نے کہا.ہم کیا.ہماری اولاد بھی سننا نہیں چاہتی.خدا نے کہا.بہت اچھا.اب یہ نبوّت تمہارے بھائیوں کو ملے گی.غارِ حرا سے بھی مکّہ نیچے ہے.یہ پیشگوئی باب۱۸ استثناء میں ہے.پھر ۳۳ باب میں پیشگوئی ہے ’’۱۰۰۰۰ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ‘‘ پھر مدین میں کتاب پیدائش ۱۲ باب سے ۱۷ تک رسولؐ اﷲ کا ذکر ہے.فرماتا ہے.تیرے متعلق یہ تین پیشگوئیاں ہیں

Page 322

کیا تُو نے خود لکھوالیں.ہرگز نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۷.  : یہ رحمت ہے تیرے رب کی کہ تجھ کو غارِ حرا میں نِدا دی تاکہ تو اپنی قوم کو ڈرائے آنیوالے عذاب سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۴۹.   : یعنی موسٰیؑ والے اعجاز کیوں نہیں دکھاتا.اکثر لوگوں نے اس طرح ٹھوکر کھائی ہے.مسیح موعودؑ کو کہتے ہیں کہ مسیح ہے تو مسیح والے معجز ے کیوں نہیں دکھاتا.اس کا جواب فرماتا ہے کیا موسٰیؑ کے وہ نشانات دیکھ کر انکار کرنے والوں نے انکار نہیں کیا؟ پس منکروں کیلئے تو پھر بھی جائے انکار ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳) ۵۰.  : یعنی تورات کی پیشگوئی نہیں مانتے تو پھر اور کتاب لے آؤ.اس

Page 323

میں اپنی پیشگوئی دکھادوں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۱.   : ہَوَا کے تابع ہونے سے اختلاف اٹھے ہیں.ورنہ اگر صِدق ۱ نیازمندی ۲ پاک صحبت ۳ اور اﷲ کی رضامندی ۴ ہو تو پھر اختلاف کیوں ہو.اور کیوں اﷲ کے مرسلوں کا انکار کیا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳)  : تو جان لے کہ وے چلتے ہیں پرے اپنی خواہش کے اور اُس سے بہکا کون جو چلے اپنی خواہش پر بن راہ بتائے اﷲ کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۹) ۵۲. : اپنی سچائی اور سچائی کی باتوں کو لگاتار ہم نے پہنچایا.: تاکہ رسم کی.عادت کی.جہالت کی.محبت کی.صحبت کی.ایک شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ میں تہجد تک پڑھتا اور خدا اور رسول کیلئے غیرت مند تھا.اب ایم.اے میں پڑھتا ہوں.خدا کی ہستی میں شبہ پڑ گئے.آپ نے فرمایا.جس سیٹ پر تم بیٹھتے ہو اس کے ساتھ ضرور کوئی دہریہ ہو گا.جس کی صحبت کی ظلمت نے یہ حالت کر دی.وہ قائل ہو گیا.کہ بالکل صحیح ہے.کچھ مدّت ہوئی.میں نے اسے خط لکھا.وہ لکھتا ہے.اس دن سے سب ظلمت جاتی رہی.کبریائی کی ظلمتیں دور ہو جاتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۵۵. 

Page 324

 : صبر کے معنے بدی سے رکنا.امیری.غریبی دونوں حالتوں میں مشکلات پیش آتے ہیں.ایسے موقعہ پر افراط و تفریط سے بچ کر حق پر ثابت قدم رہنا.: مومن ضرور دوسرے کو اپنے وقت.علم.پیسہ.روٹی.غرض ہر ایک خدا کی دی ہوئی چیز سے خرچ کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) پہلی کتابوں کے ماننے والے اگر قرآن کریم پر بھی ایمان لائے تو انہیں دوہرا بدلہ ملے گا اس لئے کہ انہوں نے بڑی ہی بُردباری کی.اور اُن کی چال ہی ایسی ہے.کہ بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کر دیتے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۶) ۵۷.  : انبیاء خصوصیت سے ایک شخص کو مخاطب کر کے وعظ کرنے کی بجائے عام طور پر نصیحت دیتے ہیں.یہ کلمات خدا کی جناب میں ناپسند ہیں کہ فلاں اگر مسلمان ہو جاوے تو یوں ہو جائے گا.یُوں سب روکیں ہٹ جائیں گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۶۰.  : اُمّی کے معنے ہوئے ام القُریٰ کا رہنے والا.اور امّ القُریٰ مکّہ کا نام ہے.پس ان پڑھ کے معنے خواہ مخواہ لے لئے.موقع مناسب آگا پیچھا دیکھ کر معنے کرنا چاہیئے تھا اور سچ یہ تھا کہ جہاں کوئی ہادی بھیجا جاتا ہے.اس بستی کو اس ہادی کے زمانے میں اور بستیوں

Page 325

اُمّ جس کے معنی اصل کے ہیں کہا جاتا ہے.ثبوت…قرآن میں ہے پھر اس لحاظ سے بھی مکّہ معظّمہ کو اُمّ اور امّ القرٰی کہا گیا اور ہر مامور کی بستی امّ ہوا کرتی ہے.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۳۰) ۶۲.  : انسان کی فطرت میں وعدہ پر بھروسہ کرنا اور پھر اس سے خاص خوشی حاصل کرنا ہے دنیا کے تمام کام اسی وعدہ پر چلتے ہیں.پس جو وعدہ اس ذاتِ پاک سے ہو جو پورے طور پر قادر ہو اور صادق القول ہو وہ کیسی مسرّت کا موجب ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۶۴.  : جن پر فردِ جرم لگ گئے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۶۹. (قصص:۴۹)

Page 326

: قائلینِ تناسخ کہتے ہیں.کہ یہ برتری گزشتہ عملوںکا نتیجہ ہے.اس کا ردّ ہے.خود انسان کے وجود میں ایک عضو آنکھ ہے.ایک ایڑی ہے.اور دونوں برابر نہیں.اگر ایسا ہوتا تو بہت نقصان تھا.: بعض صفات میں شریک گردانتے ہیں.بعض تصرّف میں.بعض غیر اﷲ کو سجدہ کر لیتے ہیں.یہ سب شرک ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۷۴.  : نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم جب نیند سے اٹھتے تو دعا مانگتے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانِیْ بَعْدَمَا اَمَاتَنِیْ بلکہ کروٹ بدلنے میں بھی شکریہ ادا کرتے اور لَآ اِلٰہَ اِلّٰا اللّٰہُ وَحْدَہٗ پڑھتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۷۷.   دولتمندی پر ناز و تکبّر کرنے والے خدا کے راستبازوں کا ساتھ نہیں دیتے.اس رکوع میں ایک ایسے دولتمند کا ذکر ہے.: جمع مفتح.یعنی اس کے خزانے اور اسباب.: اکڑ باز نہ ہو جا.: بعض آدمی ذرا تدبیر میں کامیاب ہو جاویں یا ایک دو خواب سچّے

Page 327

آ جاویں تو وہ راست بازوں کے مقابلہ پر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں.مگر آخر ناکام مرتے ہیں کیونکہ اﷲ اترانے کو ناپسند کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) : جمع مفتح.خزانے (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۷۸.   : یعنی دارِ آخرت کے حصول کے حکم کے یہ معنے نہیں کہ دنیا بالکل چھوڑ دو.بلکہ اسلام دین میں، دنیا میں ایک حدبندی چاہتا ہے.چنانچہ بعض اوقات نماز پڑھنا بھی منع ہے.اسی واسطے صوم متواتر اور ساری رات جاگنے کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے منع فرمایا.اٰتِ کُلَّ ذِیْ حَقِّ حَقَّہٗ : کیونکہ اﷲ نے تم پر احسان کیا.: سب سے بڑا فساد تو حضرت موسٰیؑ کا انکار تھا کیونکہ اس سے وحدت میں فرق آتا ہے.جو تمام ترقیوں و کامیابیوں کی جڑہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۸۰.  : آخر حضرت موسٰیؑ نے کہا آؤ خدا کے حضور نذر گزاریں اور دعا کریں کہ جو شریر ہے وہ ہلاک ہو جائے.حضرت موسٰیؑ نے حکم دیا کہ سب لوگ قارون سے اپنے خیمے

Page 328

الگ کریں.اڑھائی سو آدمی نے کہا.ہم تو قارون کے ساتھ رہیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۸۲.  : ایک زلزلہ آیا.زمین پھٹی اور قارون ہلاک ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۸۴.  قران کریم کے عجائبات میں سے ایک بات یہ ہے کہ ابتداء خلق کا کوئی وقت نہیں بتایا.کیونکہ خالقِ کون و مکاں کی ذات کی ابدیّت و ازلیّت کے سامنے سنکھ در سنکھ کوآپس میں ضرب دیتے چلے جائیں تو بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتی.پھر جب سے تاریخ قوموں کا ذکر کرتی ہے.یہ بات کہیں سے نہ ملے گی کہ راست بازوں کی جماعت ہلاک ہوئی.بلکہ یہی دیکھتے ہیںکہ ان کے مخالف تباہ و برباد ہوتے رہے آج نمرود.فرعون وغیرہ کی اولادکا پتہ لگانا مشکل ہے.مگر حضرت ابراہیمؑ کی اولاد دنیا کے تمام حصّوں میں پائی جاتی ہے.اور حکمران ہے.امام حسینؓ کے دشمن یزید کی اولاد کا پتہ اسلامی ممالک میں نہیں ملتا مگر امام حسینؓ سے تعلق رکھنے والے.انکی تعظیم کرنے والے موجود ہیں.: یہ پچھلا گھر ہزارہا برس کے بعد.یا مر کر.: جب حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم فوت ہوئے تو کسی نے حضرت ابوبکرؓ کے والد کو خبر پہنچائی کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم فوت ہو گئے.اس نے

Page 329

کہا کہ اسلام کی کیا حالت ہے.اس نے بتایا ایک شخص اس کے قائم مقام ہوا.کہا.کہ مقامِ محمدؐ پربیٹھنے والا کون شخص ہو سکتا ہے.اس نے کہا کہ ابوبکرؓ.پوچھا کون ابوبکرؓ.کہا.ابن ابی قحافہ.کہا کون.ابی قحافہ؟ اس نے کہا تم، اس نے بڑے تعجّب سے پوچھا کہ بنو ہاشم کہاں گئے.اس نے کہا سب نے اس کی بیعت کر لی.پوچھا بنو اُمیّہ ؟ کہا وہ بھی تابع ہو گئے.تب ابو قحافہ نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور کہا کہ اسلام حق ہے اور یہ سب اسی اﷲ کے سامان ہیں.حضرت عمرؓ حج سے آتے ہوئے ایک درخت کے پاس کھڑے ہو گئے.حذیفہ جو بے تکلّف تھا اس نے جرأت کی اور وجہ پوچھی.آپؓ نے فرمایا کہ ایک وقت تھا کہ جب میں اپنے ایک اونٹ کو چراتا تھا اور اس درخت کے نیچے میرے والد نے مجھے بہت زجر و تو بیخ کی تھی اﷲ اب یہ وقت ہے.کہ اونٹ تو کیا.کئی آدمی میرے آنکھ کے اشارے پر جان دینے کو تیار ہیں.یہ اسی لئے کہ ہم نے خدا کے مرسل کو مان لیا.عبداﷲ بن عمرؓ گھر کی لپائی کر رہے تھے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم آ گئے.پوچھا یہ کیا کرتے ہو.عرض کیا.اَکُنُّ مِنَ الْمَطَرِ حضور!بارش سے محفوظ رہنے کے واسطے.فرمایا.بات قریب ہے! ملّاں تو اس کے یہ معنے کرتا ہے.قیامت نزدیک ہے.مگر میں تو اس کے یہی معنے کروں گا.کہ وہ وقت نزدیک ہے جب تم بادشاہ ہو جاؤ گے اور خود لپائی کرنے کی ضرورت نہ رہے گی.چنانچہ آپ عراق بھیجے گئے.پھر قیصر وکسریٰ کی حویلیوں کے مالک ہوئے.ایک اور صحابی کا ذکر ہے.کہ چھپّر بنا رہے تھے.تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے انہیں بھی فرمایا کہ بات قریب ہے.یعنی عنقریب تم حکمران ہونے والے ہو.اور ان چھپّروں کی بجائے محلّوں میں رہو گے.قادیان میں کیا ہے؟ لباس.زبان.منظر وغیرہ کے اعتبار سے کچھ بھی نہیں! مگر خدا کا نام لینے والا ایک شخص پیدا ہوا.تو اس کے نفوسِ قدسیہ کے فیض سے تم ( تین سو بندہے بیٹھے ہو) بو علیؒ سینا کے ایک شاگرد نے کہا.استاد آپ نبوّت کا دعویٰ کرو.اس وقت تو خاموش رہے.بعد ازاں ایک موقعہ پر جبکہ ہوا تیز و سرد تھی اور پانی یخ بستہ.اس نے شاگرد کو حکم دیا کہ کپڑے اتار کر اس میں کود پڑو.اس نے استعجاب کی نظر سے دیکھا.بو علیؒسینا نے پوچھا.کیوں؟ کہا.آپ کو جنون تو نہیں ہو گیا؟ اس پر حکیم بولا نادان تیرے جیسے فرماں برداروں کی امید پر نبوّت کروں؟ دیکھ ایک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے پیرو تھے.کہ خون بہا دئے.اور گھمسان کی جنگوں میں جہاں موت سامنے دکھائی دیتی.سر کٹوانے کا حکم دیا اور انہوں نے چُوں تک نہ کی.اور ایک تُو ہے کہ جانتا ہے

Page 330

کہ میں طبیب ہوں.پھر سردی سے ڈرتا ہے ! صحابہ ؓ کی مرہم پٹّی کا بھی تسلّی بخش انتظام نہ تھا.بو علی سینا نے دلیلِ نبوّت دی کہ خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ایک فرماں بردار جماعت کر دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۳ تا ۱۹۵) ۸۶.  بے شک وہ جس نے تجھے قرآن کا پابند بنایا.یقینا تجھے اصلی وطن ( مکّہ) میں پھرلے جائے گا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۷) : قرآن جب کوئی بڑا دعویٰ کرتا ہے تو ساتھ ہی اس کی دلیل دیتا ہے جو بہت قوی ہوتی ہے.پہلے فرمایا.کہ میرے اتباع بادشاہ ہو جاویں گے.اس کی دلیل میں فرمایا کہ یہ قرآن جس میں لکھا ہے کہ تیرے ساتھی حکمران بن جائیں گے.اسی میں یہ پیشگوئی کی جاتی ہے کہ وہ مکّہ جہاں سے تمہیں نکالا گیا.جہاں کے لوگوں کے سامنے کوئی تدبیر نہ چل سکی ایک وقت آتا ہے کہ اسی مکّہ میں تم فاتح بن کر داخل ہو گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۴) ۸۷. 

Page 331

 : ہماری سرکار نہ کسی یونیورسٹی میں پڑھے.نہ تعلیم یافتوں میں رہے پھر ایسا قرآن شریف بخشا جس کو ساری دنیا کا فلسفہ باطل نہیں کر سکتا.پس وہی خدا اپنی رحمت سے تمہیں دشمنوں پر مظفر و منصور کرے گا اگرچہ دشمنوں پر غلبہ اور تمام عرب کا مسلمان ہونا محال نظر آتا ہے تو ایسی کتاب کی تجھ ایسے اُمّی سے کب اُمّید کی جا سکتی تھی.جس پر خدا نے اپنی رحمت سے یہ کام کیا وہ بھی کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۵) : یہ موسٰیؑ سے مماثلت ہے.آپؐ کے ہاتھ سے بھی صرف ایک آدمی مارا گیا.اُحد میں ایک شخص بڑے جوش سے بڑھا کہ میں نبی کو ماروں گا.آپؐ نے کہا آنے دو.صحابہ ؓ نے عرص کیا.بہت تیز ہے.فرمایا.اﷲ حافظ ہے.کسی کا خنجر لے کر چرکا لگا دیا وہ پیچھے لوٹا اور پھر مر گیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۸۹.  : ہر شے اسکی ذات کے سوا فنا ہونے والی ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۴۶)

Page 332

سُوْرَۃُالْعَنْکَبُوْتِ مَکِّیَّۃٌ  ۳. اﷲ جلّ شانہٗ فرماتا ہے.کوئی انسان کہہ دے کہ میں مومن ہوں.تو یہ تو مختلف وجوہات سے مثلاً کسی شرم و لحاظ سے کہہ سکتا ہے.کہ میں مومن ہوں چنانچہ قرآن کریم کے دوسرے رکوع میں لکھا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مومن کہتے ہیں لیکن درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے.آجکل نئی روشنی میں یہ وباء پھیلی ہوئی ہے کہ جس قسم کی سو سائٹی ہے ویسے ہی ہو جاؤ.وہ سمجھتے ہیں کہ مذہب صرف سو سائٹی میں آرام سے رہنے کا ذریعہ ہے.یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ میں مومن ہوں.کافی نہیں.جتنی قومیں ان سے پہلے آئی ہیں.سب کو کٹھالی میں ڈالا گیا تا معلوم ہو کہ کون جھوٹے ہیں اور کون سچے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۵.۱۹۶) یاد رکھو کہ ہماری اور ہمارے امام کی کامیابی ایک تبدیلی چاہتی ہے.کہ قرآن شریف کو اپنا دستورالعمل بناؤ.نِرے دعوے سے کچھ نہیں ہو سکتا.اس دعوے کا امتحان ضروری ہے.جب تک امتحان نہ ہولے کوئی سر ٹیفکیٹ کامیابی کامِل نہیں سکتا.خیر القرون کے لوگوں کو بھی یہی آواز آئی. کیا لوگ گمان کر بیٹھے ہیں کہ وہ صرف اتنا ہی کہنے پر چھوڑ دئے جاویں گے کہ وہ ایمان لائے اور وہ آزمائے نہ جاویں.ابتلاؤں اور آزمائشوں کا آنا ضروری ہے.بڑے بڑے زلزلے اور مصائب کے بادل آتے ہیں.مگر یاد رکھو ان کی غرض تباہ کرنا نہیں ہوتا بلکہ اﷲ تعالیٰ کا منشاء اس سے استقامت اور سکینت کا عطا کرنا ہوتا ہے اور بڑے بڑے فضل اور انعام ہوتے ہیں.ہاں یہ سچ ہے اور بالکل

Page 333

سچ ہے کہ جو لوگ کچّے غیر مستقل مزاج.کم ہمّت اور منافق طبع ہوتے ہیں وہ الگ ہو جاتے ہیں صرف مخلص.وفادار.بلند خیال اور سچّے مومن رہ جاتے ہیں.جو ان ابتلاؤں کے جنگلوں میں بھی امتحان اور بلاء کی خاردار جھاڑیوں پر دوڑتے چلے جاتے ہیں.وہ تکالیف اور مصائب ان کے ارادوں اور ہمّتوں پر کوئی بُرا اثر نہیں ڈالتے.ان کو پست نہیں کرتیں بلکہ اور بھی تیزکر دیتی ہیں.وہ پہلے سے زیادہ تیز چلتے اور اس راہ میں شوق سے دوڑتے ہیں.نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ وہ بلائیں وہ تکالیف و ہ مصائب.وہ شدائد خدا تعالیٰ کے عظیم الشان فضل اور کرم اور رحمت کی صورت میں تبدیل ہو جاتی ہیں.اور وہ کامیابی کے اعلیٰ معراج پر پہنچ جاتے ہیں.اگر ابتلاؤں کا تختۂ مشق نہ ہو.تو پھر کسی کامیابی کی کیا امید ہو.دنیا میں بھی دیکھ لو.ایک ڈگری حاصل کرنے کے واسطے اے.بی.سی شروع کے زمانہ سے لے کر ایم.اے کے امتحان تک کس قدر امتحانوں کے نیچے آنا پڑتا ہے.کس قدر روپیہ اُس کے واسطے خرچ کرتا ہے.اور کیا مشکلات اور مشقتیں برداشت کرتا ہے.باوجود اس کے بھی یہ یقینی امر نہیں ہے کہ ایم.اے پاس کر لینے کے بعد کوئی کامیاب زندگی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا.بسا اوقات دیکھا جاتا ہے کہ اس لمبے سلسلہ تعلیم میں طالب علم کی صحت خطرناک حالت میں پہنچ جاتی ہے اور ڈپلومہ اور پیامِ موت ایک ہی وقت آ پہنچا ہے.اس محنت اور مشقّت اور ان امتحانوں کی تیاری، روپیہ کے صرف سے اس نے کیا فائدہ اٹھایا یا والدین نے کیا؟مگر اس کے بالمقابل اﷲ تعالیٰ کیلئے ابتلاؤں اور امتحانوں میں پڑنے والا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ کامیاب نہ اترا ہو.اور نامراد رہا ہو.ان لوگوں کی لائف پر نظر کرو اور ان کے حالات پڑھو جن پر خدا تعالیٰ کے مخلص بندے ہونے کی وجہ سے کوئی ابتلاء آیا اور انہوں نے ثباتِ قدم استقلال اور صبر کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا اور پھر بامُراد نہ ہوئے ہوں.ایسی ایک بھی نظیر نہ ملے گی.(الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) دنیاوی علوم و فنون کی تحصیل کے لئے غور کرو.کہ ابجد شروع کر کے ایم اے کی ڈگری تک پھر امتحان مقابلہ.ڈالیاں دینے اور دوسرے اخراجات ضروریہ، خرید کتب وغیرہ میں کس قدر محنت.وقت اور روپیہ صرف ہوتا ہے.اور ہم کرتے ہیں.مگر اس کے بالمقابل قرآن کریم کو اپنا دستورالعمل بنانے کے واسطے ہم اس کے پڑھنے اور سمجھنے کے واسطے کس قدر محنت اور کوشش اور روپیہ ہم نے خرچ کیا ہے ؟ اس کا جواب یہی ہو گا کہ کچھ بھی نہیں.اگر اس کے واسطے ہم عُشرِ عَشِیْر بھی خرچ کرتے تو خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت کے دروازے ہم پر کھُل جاتے.مسلمانوں کے اِفْلَاس ان کی تنگ دستی اور قَلَّاشی کے اسبابوں پر آئے دن انجمنوں اور کانفرسوں میں بحث ہوتی ، اوربڑے بڑے لیکچرار

Page 334

اپنی طلاقت لسانی سے اس اِفْلَاس کے اسباب بیان کرتے ہیں.میں نے بھی ان لیکچروں کو پڑھا ہے اور مسلمانوں کے اِفْلَاس کے اسباب پر بھی غور کیا ہے.(الحکم۱۷؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۶.  :  کے معنے یَخَافُوْا کے بھی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۷.  : کوئی خدا اور رسول کیلئے محنت کرے.وہ درحقیقت اپنے لئے ہی محنت کرتا ہے.بھلا خدا تعالیٰ کا وہ کیا گھٹا بڑھا سکتا ہے.اﷲ تعالیٰ کی ذات کسی طرح بھی محتاج نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۹.   ماں باپ جن کی اطاعت اور فرماں برداری کی خدا نے سخت تاکید فرمائی ہے.خدا کے مقابلہ میں اگر وہ کچھ کہیں تو ہرگز نہ مانو.فرماں برداری کا پتہ مقابلے کے وقت لگتا ہے.کہ آیا فرماں بردار اﷲ کا ہے یا کہ مخلوق کا.ماں باپ کی فرماں برداری کا خدا نے اعلیٰ مقام رکھا ہے اور بڑے بڑے تاکیدی الفاظ

Page 335

یہ حکم دیا ہے.ان کے کفرو اسلام اور فِسق و فجور یا دشمنِ اسلام وغیرہ ہونے کی کوئی قید نہیں لگائی اور ہر حالت میں ان کی فرمانبرداری کا تاکیدی حکم دیا ہے.مگر پھرمقابلہ کے وقت ان کے متعلق بھی فرما دیا کہ .اگر خدا کے مقابلہ میں آجاویں تو خدا کو مقدّم کرو.ان کی ہرگز نہ مانو… غرض نفس ہو یا دوست ہوں.رسم ہو یا رواج ہوں.قوم ہو یا ملک ہو.ماں باپ ہوں یا حاکم ہوں.جب وہ خدا کے مقابلہ میں آجاویں یعنی خدا ایک طرف بلاتا ہے اور یہ سب ایک طرف تو خدا کو مقدّم رکھو.(الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۲) ۱۲. : علم دو قسم ہے.ایک ازلی قبل از وجود اشیاء.دومؔ ساتھ ساتھ جب چیز جو حادث ہو.یہ دوسرا علم ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۲۷۲ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۳.   : کئی پِیرایسے پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے پیرؤوں کو ایسے فقرے کہہ کہہ کر گناہ پر دلیر کر دیاہے.ان کا انجام بد ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۱۴.

Page 336

  : کچھ اور بوجھ اضلال کا نہ کہ کفّارہ کا.جیسا کہ(العنکبوت:۱۳) میں بتایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۲۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۵.  : یہ ایک لمبی بحث ہے کہ ۹۵۰ برس عمر کسی انسان کی ہو سکتی ہے یا نہیں.ایسے معترضوں کے ذوق پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ حضرت نوحؑ کی شریعت ۹۵۰ برس تک رہی میرے نزدیک تو اس میں کوئی استبعاد نہیں.جب قرآن مجید میں آ گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۱۸.   : جھوٹ بنا لیتے ہو.: یہ ایمان پیدا ہو تو انسان بہت سے گناہوں سے بچ جائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶)

Page 337

۲۴.  : اس رحمت سے جس سے انبیاء.صالحین.اولیاء.مومنین متمتع ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۲۶.   : یعنی تمہاری بُت پرستی کی جڑھ یہ ہے کہ باہم دوستانہ کے لحاظ سے خدا کے احکام کی پرواہ نہیں کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۲۷.  : اﷲ تعالیٰ کیلئے مومن کو بہت کچھ چھوڑنا پڑتا ہے.بعض اوقات عقائد و رسومات کو.بعض اوقات مکان کو.خوراک کو.بعض اوقات احباب کو.اقرباء کو.بعض اوقات وطن کو.غرض تمام ایسی چیزیں جو ظلمات سے نور کی طرف جانے یا آئندہ ترقیات میں مانع ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶)

Page 338

۲۸.  : مجوسی.یہودی.عیسائی.مسلمان سب ابراہیمؑ کو مقدّس و راست باز سمجھتے ہیں.ابراہیم کے معنے ایمانداروں.مقدّسوں کا باپ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۳۴.   انسان کو جب اپنے کسی پیارے کا پیام آتا ہے یا اس کی طرف سے کوئی آدمی.تو بہت خوش ہوتا ہے.بو علیؒ سینا کا ذکر ہے کہ ایک مریض کے مرض کا حال معلوم نہ ہو سکا.اس لئے اس نے کہا کہ مختلف شہروں کا نام لو.جب ایک شہر کا نام لیا تو اس کے چہرہ کی حالت تبدیل ہوئی.پھر اس شہر کے محلّوں کا نام لینے کیلئے کہا.جب ایک محلہ کا نام آیا تو اس کے چہرہ پر غیر معمولی اثر نظر آیا.پھر ایک گھر کے آدمیوں کا نام لینا شروع کیا تو اس کی نبض کی حالت متغیّر ہو گئی.اور وہ سمجھ گیا کہ فلاں عورت اس کی محبوبہ ہے.اس کے ساتھ شادی کیلئے ہدایت کی.تو وہ اچھا ہو گیا.انبیاء کا معاملہ ہی جُدا ہے.ان کا جنابِ احدّیت سے خاص تعلق ہوتا ہے.: بعض معنے کرتے ہیں کہ ان کو بُرا کہا.یہ غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان کو مہمان جان کر گھر آنے کیلئے اصرار کیا.انہوں نے انکار کیا تو ان کو بُرا لگا.کہ کیوں مہمانی قبول نہیں کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶)

Page 339

۳۵،۳۶.  مِنَ : قرآن میں جہاںآئے اس کے معنے اٹل کے ہوتے ہیں.تَرکْنَا: کئی قوموں پر عذاب آئے اور انکا نشان ہی نہیں رہا.مگر خدا نے اس بد ذات قوم کے عذاب کا نشان اب تک موجود رکھا.جہاں یہ قوم ہلاک ہوئی اسے ڈیڈ سی ۱؎ (بحیرہ مُردار) کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۳۸. : اب بھی ایسے زلزلے آئے مگر لوگ باز نہ آئے.سینٹ پیری.سان فرانسِسکو.کانگڑہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۴۱.  ۱؎ DEAD SEA 

Page 340

مَنْ: جیسے قارون کو ذلیل کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶) ۴۲. : حمایتی.مددگار : گھر اس لئے ہوتا ہے کہ پردہ ہو.گرمی.سردی.بارش.جھکّڑ سے بچاؤ ہو.آرام کیلئے مکڑی کا جالا.ان ضرورتوں میں سے ایک کو بھی پورا نہیں کرتا.بد مذہب لوگوں کا بھی یہی حال ہے.ایک بات پر ٹھہرتے نہیں.ایک دہریہ نے مجھے کہا.کہ انسان گُن.کرم.سبھاؤ دریافت کرلے تو پھر وہ کھُلا دہریّہ ہو سکتا ہے میں نے اسے پوچھا کہ فلاں چیز کا گُن کرم سبھاؤ کیا ہے.اُس نے جھٹ گن دئے.میں نے تھوڑی دیر بعد پوچھا.ہاں جی.آپ نے کیا فرمایا تھا.پھر جو بتایا تو کچھ اور ہی بَک دیا.تھوڑی دیر بعد پھر ایک رنگ میں پوچھا تو کچھ اَور ہی کہہ دیا.مَیں ساتھ ساتھ لکھتا گیا.جب اس نے معلوم کیا کہ یہ میری کمزوری کو تاڑ گیا.تو بہت ہی نادم ہوا.ایک اور شخص آیا.اس نے بڑے دعوے سے کہا.میں بحث کرنا چاہتا ہوں.تین گھنٹے وقت لوں گا.میں نے کہا کہ بہت اچھا.اس نے کہا کہ مسئلہ تناسخ پر بحث ہو گی.میں نے جیب سے دو روپے ملکہ کے بُت کے نکالے اور کہا کہ ایک کو اٹھالو.تو وہ خاموش رہ گیا.اور پھر نہ بولا.اسکی وجہ یہ تھی.کہ اگر وہ کہتا کہ میں نہیں اٹھا سکتا تو یہ جھوٹ تھا.اور اگر ایک اٹھاتا تو پھر اس پر سوال ہوتا کہ دوسرے کو کیوں نہ اٹھایا.جواب دینا پڑتا.میرا اختیار! پس کسی کو امیر.کسی کو غریب یا کسی کو بینا کسی کو نابینا بنانے کا بھی یہی جواب تھا کہ خدا کا اختیار تناسخ والے تو اس کو تناسخ کا ثبوت قرار دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۶)

Page 341

: مباحثہ میں ایک رنگ پر نہ رہنے والا آدمی جھوٹے مذہب کا پَیْرو ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۲ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۴. اور ہم یہ مثالیں لوگوں کیلئے بیان کرتے ہیں اور انہیں عَالِم ہی سمجھتے ہیں.(نورالدین طبع ثالث صفحہ۱۳ دیباچہ) ۴۶.   : پڑھا کر : سمجھاتا ہے.کہ صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ عملی رنگ بھی ہو.: میرے ذوق میں اس کے یہ معنے ہیں کہ اس نماز کے اجر میں اﷲ جو تمہیں یاد کرے گا.وہ اس (صلوٰۃ) سے بہت بڑا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) : آجکل کے مسلمان زندوں کوتو سناتے نہیں البتّہ قبروں پر مردوں کو سناتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) تُو پڑھ جو اتری ہے تیری طرف کتاب اور کھڑی رکھ نماز بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور بُری بات سے اور اﷲ کی یاد ہے سب سے بڑی اور اﷲ کو خبر ہے جو کرتے ہو.(اس آیت) سے نماز کی علّتِ غائی خوب ظاہر ہوتی ہے کہ نماز منکرات اور فواحش سے محفوظ رہنے کیلئے فرض کی گئی ہے اگر نماز کی اقامت اور مداومت سے نمازی کے اقوال و افعال میں کچھ روحانی ترقی نہیں ہوتی.تو شریعت اسلامی ایسی نماز کو مستحق درجات ہرگز نہیں ٹھہراتی.اب مجاز و ظاہر کہاں رہا.نبیٔ عرب علیہ الصلوٰۃ کیلئے کچھ کم فخر کی بات نہیں اور اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی قوی دلیل

Page 342

ہے کہ اس نے خدا کی عبادت کو طبلوں.مزماروں.سارنگیوں اور بربطوں سے پاک کر دیا! اﷲ کے ذکر کی مسجدوں کو رقص و سرود کی محفلیں نہیں بنایا! اور یہاں تک احتیاط کی کہ تصاویر اور مجسمّہ بنانے کی اور مسجدوں میں مُوہم بِالشرک نقش و نگار کرنے کی قطعی ممانعت کر دی! کہ ایسا نہ ہو یہی مجاز رفتہ رفتہ مبدّل بحقیقت ہو کر اور یہی مجسمی معبودی تماثیل بن کر توحید کے پاک چشمے کو مکدر کر ڈالیں.جب ہم ایک خوش قطع گرجا میں عیسائی جھنڈ کو بزعم عبادت جمع ہوئے دیکھتے ہیں.سجے سجائے بنے ٹھنے.نیٹورنیاں اور گوری گوری یورپانیاں قرینے سے کرسیوں پر ڈٹی ہوئیں.اس وقت ہمیں عیسائیوں کا یہ فقرہ’’ کہ مسلمانوں میں صرف رسمی اور مجازی عبادتہے بڑا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے.یقینا اہلِ اسلام کی غیُّور طبیعت نصاریٰ کی اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کبھی کوشش نہیں کرے گی.(فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۱۲۳) نماز ظاہری پاکیزگی ،ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرمگاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے.کہ جیسے میں ان ظاہری پاکیزگی کو ملحوظ رکھتا ہوں.اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچّی طہارت عطا کر اور پھر اﷲ تعالیٰ کے حضور سُبحانیّت.قدو سیّت.مجدّدیت پھر ربوبیّت.رحمانیّت رحیمیّت اور اس کے ملک و ملک میں تصرّفات اور اپنی ذمّہ داریوں کو یاد کرکے کہ اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں سینہ پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں.اس قسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس میں وہ خاصیت اور اثر پیدا ہوتا ہے.جو میں بیان ہوا ہے پھر پاک کتاب کا کچھ حصّہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اور نیازمندی کی انتہاء بجُز سجدہ کے اور کوئی نہیں.جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیازمندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح پراپنا اثر کر چکی تو اور جوش مار کر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵) ۴۷. 

Page 343

  : پسندیدہ طور پر.: لوگوں پر اپنے افعال سے بھی یہ ظاہر کر دو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) : مباحثہ میں ابتدا نہ کرو.وقت مقرّر ہو.اور نیزیہ کہ حملے کتنے ہوں دشمن کی جو بات حق ہو.اسے مان لو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۸.  ایسے ہی ہم نے اتاری تجھ پر کتاب.سمجھ والے اہلِ کتاب تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور مکّہ والوں سے بھی کچھ اس پر ایمان لانے والے ہیں اور ہماری نشانیوں ( معجزوں) کا کافروں کے سوا کوئی منکر نہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جوابات صفحہ۵۹) : بائبل و دیگر کتب الہٰیہ مختلف مذاہب کو پڑھ کر قرآن مجید پر ایمان لانے کی تحریک ہوتی ہے اور وہ اس پر ایمان لاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۴۹،۵۰.   تُو اس وقت سے پہلے لکھا پڑھا نہیں تھا.ایسی بات ہوتی تو یہ جھُوٹے دھوکا کھاتے.کیا

Page 344

معنے؟ اب دھوکہ کے باعث منکر نہیں.صرف ضِد اور ہٹ اور عداوت کے سبب سے مُنکر ہو رہے ہیں.بے ریب وہ ( قرآن) کھلی نشانیاں ہیں.علم والوں کے لئے اور ہماری نشانیوں سے وہی منکر ہیں جو بڑے ظالم ہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جوابات صفحہ۵۹.۶۰) ۵۱.  : نشان مانگتے ہیں.پہلا نشان تو یہی ہے کہ میں نذیر ہوں.میرے مخالفوں پر عذاب آنے والا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) : قہری نشانات.معجزاتِ قرآنی کے منکر تین گزرے ہیں.سرسید.لیکھرام.حافظ نذیر احمد.حالانکہ ایسی آیتوں میں انکار نہیں.وہ تو فرماتا ہے.اﷲ کے پاس نشانات ہیں اور میں انہی سے ڈرانے والا ہوں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۲.  : یہ رحمت کا نشان فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) اگر انسان میں ضد نہ ہو اور غور و فکر کرے تو قرآن کافی کتاب ہے.قرآن نور ہے.ہدایت ہے، رحمت ہے، شفا ہے.اور ہر ایک قسم کے اختلاف مٹانے کے واسطے آیا ہے..اور یہی راہ ایمان کی ہے.…(الحکم ۱۰؍جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ۴) یہ کتاب ( قرآن مجید) ہزارہا شبہات کے مقابلہ کیلئے کافی ہے.کیا ہی پاک رُوح تھی وہ جس کے مُنہ سے نکلا حَسْبُنَا کِتَابُ اﷲِ اس فقرے پر ایک قوم رنجیدہ ہے.اس کے ایک فرد نے مجھ پر بھی اعتراض کیا.تو میں نے اس سے پوچھا آپ حَسْبُنَاکے کیا معنے کرتے ہیں اس نے کہا کَافَیْکَ

Page 345

میں نے کہا یہ تو قرآن مجید ہی کا قول ہے.وہ فرماتا ہےکیا ان کیلئے یہ کتاب کافی نہیں جو ہم نے ان پر اتاری.یہی حضرت عمرؓ نے کہا.(الفضل ۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں.اور خوب سمجھ کر پڑھی ہیں.مجھے قرآن کے برابر پیاری کوئی کتاب نہیں ملی.اس سے بڑھ کر کوئی کتاب پسند نہیں ہے.قرآن کافی کتاب ہے. ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مامور آتے ہیں اور آتے رہیں گے.میں نے اپنے زمانہ میں میرزا غلام احمدؑ صاحب کو دیکھاہے.سچّا پایا اور بہت ہی راست باز تھا.جو بات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منواتا تھا.اس نے ہی ہم کو بھی حکم دیا کہ قرآن پڑھو اور اس پر عمل کرو.(الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) ۵۳،۵۴.    اَلْبَاطِلُ: جس کی کچھ حقیقت نہ ہو.: کتبِ سابقہ (یسعیاہ نبی باب ۳۰) میں یہ بات مقرر نہ ہوتی کہ عذاب اس وقت آئے گا جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ سے چلے جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) : لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ کا جواب ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر

Page 346

۵۶.  : باہر سے لوگ آئیں گے یا آسمان سے مراد ہے.: ۱.نوکروں چاکروں کے ذریعے ۲.زلزلہ وغیرہ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۵۷. : مومن اگر ایمان بچانے کیلئے کسی زمین کو چھوڑ دے تو اﷲ اس کو بہتر سے بہتر بدلہ دے گا.صحابہ کرامؓ کی مثال موجود ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۵۹،۶۰.  : اونچے مقام : غضب.شہوت.طمع.سُستی.کاہلی.کمزوری سے رُکے رہیں.اور نیکیوں پر قائم.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۶۱.

Page 347

  : ہجرت کرتے ہوئے یہ فکر کہ خرچ کا کیا حال ہو گا.اس کے جواب میں فرماتا ہے.مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ رہو.دیکھو وہی جانور جو گھونسلے میں کچھ نہیں رکھتے.وہ بھی آخر سفر کی مشقّت اٹھاتے ہیں.تلاش کرتے ہیں.محنت سے.ابتغائِ فضل کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) : مہاجرین کے رزق کا بھی اﷲ متکفل ہے.جانور گھر سے کچھ ساتھ لے کر نہیں چلتے.مگر محنت ضرور کرتے ہیں پس مہاجر کو ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا جائز نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶۲.  : یہ مان کر کہ سب کچھ اﷲ نے پیدا کیا.محبت.عبادت.تذلّل غیر کیلئے کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۶۴.  : بادلوں سے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۶۵. 

Page 348

 اَ: یہ ورلی زندگی : جس چیز میں شغل رکھنے سے انسان اﷲ سے راست بازوں سے غافل ہو جاوے.: بے حقیقت بات.جس کی تہہ میں کوئی سچائی اور پاک نتیجہ نفع رساں بات نہ ہو.صوفیاء نے لکھا ہے.آدمی کو چاہیئے کہ ہر شام کو سونے کے وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرے کہ میں نے جو کام کئے وہ لہو و لعب تو نہ تھے.اَ: حقیقی زندگی.حیات طیّبہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۶۶،۶۷.   : جب انسان اپنے منصوبوں سے عاجز آ جاتا ہے.تو پھر ہار کر اﷲ سے دعا مانگتا ہے.عرب میں جَلْ دیوتا کوئی نہیں.البتہ ہندوستان مَچھ کَچھ اوتارہیں.اس لئے عرب کشتیوں پر سوار ہو کر صرف اﷲ ہی کو یاد کرتے ہیں.مسلمان بھی ان ہندؤوں کے اثر سے متأثر ہو گئے.یہ ملاح جب کشتی چلاتے ہیں تو خضر کا نام لیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) ۷۰.  : سچّا اضطراب.سچّی خواہش.سچّی کوشش.دعا.حق سمجھنے کے

Page 349

لئے پاک راہ ہے.میں جب پہلے یہاں آیا.یہی نکتہ حضرت صاحب سے سُنا کہ صرف محبت کام نہیں آتی.بلکہ ہم میں ہو کر جہاد کریں اور اس کوشش کے مطابق اپنا عمل در آمد بھی رکھیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۷) قرآن شریف کے حقائق ، قرآن شریف کی صداقتیں اس کی اعلیٰ تعلیم اور معرفت کی باتیں کوئی گورکھ دھندا نہیں ہیں.جو کسی کو معلوم نہ ہوں.نہیں.بلکہ ہر شخص اپنے ظرف اپنے عزم و استقلال اور محنت و مساعی کے موافق اس سے فائدہ اٹھاتا ہے.خود اﷲ تعالیٰ نے اسکا فیصلہ کر دیا ہے. جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں یقینا یقینا کھول دیتے ہیں.یہ بالکل سچّی بات ہے.مولیٰ کریم تو اس وقت ہر متنفّس کو یہ حقائق اور صداقتیں دکھا دیتا ہے.جب وہ خدا تعالیٰ میں ہو کر کسی صداقت کے پانے کیلئے اضطراب ظاہر کرتا اور اس کیلئے سچّی تلاش کرتا ہے.بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مجاہدہ تو کرتے ہیں.لیکن وہ مجاہدہ خدا میں ہو کر نہیں کرتے.بلکہ اپنی تجویز اور عقل سے کوئی بات تراش لیتے ہیں اور جب اس میں ناکام رہتے ہیں تو پھر کہہ دیتے ہیں کہ ہم کو کوئی فائدہ نہیں ہوا.یہ ان کی اپنی غلطی اور کمزوری ہے اور وہ الزام خدا تعالیٰ اور اس کی پاک کتاب پر رکھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ قرآن شریف کا علم صرف و نحو کی کتابوں کے رٹنے پر موقوف نہیں ہے.بدیعؔ و معانیؔ قرآنی علوم و حقائق کیلئے لازمی طور پرپڑھنے ضرور نہیں ہیں.یا دوسرے علوم کے بغیر قرآن شریف کا سمجھ میں آنا ناممکن نہیں ہے.یہ خیالی باتیں ہیں.اس قدر تو میں بے شک مانتا ہوں کہ جس قدر علومِ حقّہ سے انسان واقف ہو گا.اور ان علوم میں جو قرآن کریم کے خادم ہیں.دسترس رکھتا ہو گا.وہ اس کے فہمِ قرآن میں ایک ممدومعاون ہوں گے.لیکن اسی صورت میں کہ اس کا مجاہدہ مجاہدہ صحیح ہو گا.مجاہدہ صحیحہ کی تشریح بہت بڑی ہو سکتی ہے.مگر مختصر طور پر یاد رکھو.کہ قرآن شریف پڑھو اس لئے کہ اس پر عمل ہو.ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کرا س کاعام ترجمہ پڑھتے جاؤ اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم کس گروہ میں ہو کیا مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ ہو؟یا مغضوب ہو یا ضالیّن ہو؟ اور کیا بننا چاہیئے.منعم علیھم بننے کیلئے سچّی خواہش اپنے اندر پیدا کرو.پھر اس کیلئے دعائیں کرو.جو طریق اﷲ تعالیٰ نے انعام الہٰی کے حصول کے رکھے ہیں.ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو.اس طریق پر اگر صرف سورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو میں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف

Page 350

کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا.یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی.(الحکم۲۴؍اپریل۱۹۰۴ء صفحہ۱۲) : جب اﷲ تعالیٰ میں ہو کر انسان مجاہدہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اپنی راہیں اس پر کھول دیتا ہے.پھر سچے علوم سے معرفت نیکی اور بدی کی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی عظمت و جبروت کا علم ہوتا ہے.اور اس سے سچی خشیت پیدا ہوتی ہے.(الحکم۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۷) کتاب اﷲ پر ایمان بھی اﷲ کے فضل اور ملائکہ ہی کی تحریک سے ہوتا ہے.اﷲ کی کتاب پر عمل درآمد جو سچّے ایمان کا مفہوم اصلی ہے چاہتا ہے محنت اور جہاد.چنانچہ فرمایا..یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ اور سعی کرتے ہیں.ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.یہ کیسی سچّی اور صاف بات ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا.کہ کیوں اختلاف کے وقت انسان مجاہدات سے کام نہیں لیتا.کیوں ایسے وقت انسان دُبدھا اور تردّد میں پڑتا ہے.اور جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک کچھ فتویٰ دیتا ہے اور دوسرا کچھ تو وہ گھبرا جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.کاش وہ جَاھَدُوْا فِیْنَا کا پابند ہوتا تو اس پر سچائی کی اصل حقیقت کُھل جاتی.مجاہدہ کے ساتھ ایک اور شرط بھی ہے وہ تقوٰی کی شرط ہے.تقوٰی کلام اﷲ کیلئے معلّم کا کام دیتا ہے.(الحکم۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵)

Page 351

سُوْرَۃُ الرُّوْمِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا۶.  :  نو سال تک بولا جاتا ہے ۱؎.: ملک شام یَفْرَحُ: یعنی اُس دن مومنوں کو بھی کفّار کے مقابلہ میں فتح ہو گی.وہ فتح بدر میں ہوئی.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۷. : یعنی اس وعدہ کا خلاف نہیں ہو گا.اس لئے معلوم ہوا کہ بعض مواعید کسی اور رنگ میں پورے ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸)

Page 352

۱۰.    : ان لوگوں نے بڑے بڑے کام کئے.پہاڑوں کی چوٹیوں پر ۱؎ ۳ سے لیکر ۹ سال تک.دیکھیں تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳.مرتّب عالی شان مکان بنائے.اور پھر وہاں کنوئیں لگوائے.محی الدّین ابن عربی فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں کہ ایک عمارت کے کتبہ سے معلوم ہوا کہ تیس لاکھ سال سے بنائی گئی ہے.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۱۲. : نَابُوْد کو بُوْد کرتا ہے.(مریم:۶۸)سے ثابت ہوتا ہے کہ مادہ بھی خدا نے پیدا کیا.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) : ہر وقت آدمی خلق ہوتا رہتا ہے.ہر روز ہمارا گوشت پوست خون نیا ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۶. : (۱)خوشی دئے جاتے ہیں(۲) عزّت دئے جاتے ہیں(۳) نئی نعمت دئے جاتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 353

نعمت دئے جاتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۸ تا ۲۴.         : بڑے بڑ ے مدبّر اپنے عندیہ میں تدابیرکے ہر پہلو پر لحاظ کر کے مناسب وقت اور عین موافق لوازم کو مہیّا کرتے ہیں.پھر نتائج سے محروم ہو کر اپنی کم علمی پر افسوس.مگر قانونِ قدرت کے مستحکم نظام کو دیکھ کر ہمہ قدرت ذاتِ پاک

Page 354

کا لابّد اقرار کرتے ہیں.سلیم الفطرت.دانا جب تمام اپنے اردگرد کی مخلوق کو بے نقص.کمال ترتیب.اعلیٰ درجہ کی عمدگی پر پاتے ہیں.ضرور بے تابی سے ایک علیم و خبیر قادر کے وجود پر گواہی دیتے ہیں.فطرت کی اسی زبردست دلیل پر غور کرو.قرآن مجید کیسے الفاظ میں بیان فرماتا ہے. اور اس کے نشانوں سے کہ تم کو مٹی سے پیدا کیا.پھر تم اچانک چلتے پھرتے آدمی ہو گئے ان کلمات میں قرآن اُن آیات صانع حکیم کی طرف توجّہ دلاتا ہے جو انسان کی ذات میں موجود ہیں.ان کلمات طیبّات سے پہلے اور اس دلیل سے اوّل اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدو سیت ہر ایک نقص سے پاک ہر ایک صفتِ کاملہ کے ساتھ متصف ہونے کا اظہار اور عبادت کی تاکید کی ہے اور کہا ہے..  اﷲ کی قدّوسیّت بیان کرو.جب تم شام کرتے اور جب تم صبح کرتے ہو اور اُسی کیلئے حمد ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور تیسرے پہر اور جب تم ظہر کرتے ہو.اس دعوٰی کا مدار وجودِ صانع پر تھا.اس لئے وجود صانع کی دلیل بیان فرمائی اور دلیل بھی ایسی دی جس سے یہ مطلب بھی ثابت ہو گیا.بیان دلیل یہ ہے کہ آدمی کو دو باتیں حاصل ہو رہی ہیں.اوّلؔ شخص انسانی کا وجود اور اسکی بقا.دومؔ بقائے نوع جو مرد عورت کے ملنے سے حاصل ہوتا ہے.پہلے انعام کی نسبت فرمایا کہ کہ انسان اپنی اصل بناوٹ پر نظر کر کے دیکھیں کہ وہ مٹی سرد اور خشک ہے.اسی سرد و خشک سے تیری گرم اور تر جسمانی روح کو پیدا کیا اور عیاں ہے.کہ مٹی میں تو کوئی ادراک نہیں.حرکت ارادیّہ نہیں.کوئی حیات نہیں.رنگت میں سیکھیں تو مَیلی گَدْرِیْ، وزن میں ثقیل.کثافت میں یکتا..اسی مٹّی کے ذرّات سے مدرک متحرّک بالارادہ.زندہ.نئی زندگی کے قابل انسان کی ایسی جسمانی رُوح بنا دی.جو کدورتوں سے پاک.ہلکا.پھلکا.اعلیٰ درجہ کا شفاف صاف نیّر جوہر ہے کس تحتانی حالت سے کس بلند درجے پر پہنچایا.پھر بے ریب وہ زبردست طاقت موجودہ اور بے تردّد وہ قدّوسیّت اور حمد کے لائق ہے.یہ اُس یدِ قدرت کا نفش ہے جسے اﷲ.یہوواہؔ.یزدانؔ اُوم کنجک کہتے ہیں.بناء علیٰ ھٰذا اس مبارک آیت کو پڑھو اور مانو

Page 355

پھر اس مٹی غیر مدرک.غیر متحرک سے انسان کی بقائے نوع اور اس کے آرام کیلئے اُسی کی جنس کی بی بی بنائی.اور اپنے اس ارادہ کو جو دونوں کے باہمی تعلّق کی نسبت تھا.غور کرو.کن پیارے پیارے الفاظ میں بیان فرمایا. ..اور اس کے نشانوں سے ہے کہ تم ہی میں سے تمہارے واسطے جوڑا بنایا تاکہ تم اس سے آرام پکڑو اور تمہارے درمیان دوستی اور رحمت ڈال دی.یقینا اس میں سوچنے والوں کے واسطے نشانیاں ہیں پھر انسانی صفات کی طرف انسانی فطرت کو توجّہ دلاتا اور فرماتا ہے. .اور اس کے نشانوں سے ہے پیدا کرنا آسمانوں اور زمین کا اور اختلاف تمہاری بولیوں اور تمہارے رنگوں کا.یقینا اس میں عالموں کیلئے نشانیاں ہیں.مگر یاد رہے.انسانی صفات ایک تقسیم میں دو قسم ہوا کرتے ہیں.ایک قسم انسان کے اعراضِ لازمہ اور دوسری قسم انسان کے اعراضِ مفارقہ.انسان کے اعراض لازمہ میں اسکی رنگت.بول چال.اشکال و خطوط ہیں.ان ترابی ذرّات سے مختلف انسان اگر ایک ہی رنگت ایک ہی آواز.ایک ہی بول چال.ایک قسم کی اشاکل اور خطوط رکھتے.تو کیا ہم دوست کو دشمن سے ممتاز کر لیتے؟ کیا رات میں بلکہ دن میں کچھ اپنے اور پرائے کا تفرقہ کر سکتے؟ ہرگز ہرگز نہیں ! پس جس غالب طاقت نے یہ تفرقہ کر دیا وہ معدوم نہیں.بلکہ وہ موجود اور اس قابل ہے کہ اس کی نسبت کہیں ..اور انسانی شخص کے اعراضِ مفارقہ میں سونا اور جاگنا.حرکت.سکون.کمانا.وغیرہ وغیرہ ہیں جن کی طرف اشارہ فرماتا ہے. .اور اس کے نشانوں سے تمہارا رات کو سونا اور دن کو اس کے فضل کو تلاش کرنا.یقینا اس میں نشانیاں ہیں سننے والوں کیلئے.

Page 356

:جیسے سے سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ پڑھنے کا ارشاد معلوم ہوتا ہے.ایسا ہی نماز میں پڑھنے کا حکم ہے.: اَچھُّوں سے بُرے اور بُروں سے اچھے پیدا ہوتے رہتے ہیں.: مٹی میں بیج بوتے ہیں.کھیتیاں پکتی ہیں.وہ کھاتے ہیں.خون پیدا ہوتا ہے پھر نطفہ.پھر انسان.: تمہاری جنس سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) لِتَسْکُنُؤٓا : یاد رکھو بیبیاں اس لئے ہیں کہ ان سے آرام پاؤ.بہت بدبخت ہیں وہ جو بی بی کو دُکھ سمجھیں.مَوَدَّۃً: ان کے ذریعے دو مختلف خاندانوں میں باہمی محبت بڑھتی ہے.: بی بی پر رحم کرو.وہ تمہارے مقابل میں بہت کمزور ہے.لطیف پیرائے میں ادب سکھاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) لِتَسْکُنُؤٓا : بیاہ کے بعد اگر خدا چاہے تو انسان کو آرام ملتا ہے.انسان کی آنکھ، کان ،ناک وغیرہ بدی کی طرف راغب نہیں ہوتے.سکونِ قلب حاصل ہو جاتا ہے.نکاح آرام کیلئے ہوتا ہے بے آرامی کیلئے نہیں ہوتا.میں نے خود کئی بیاہ کئے.ہر بیاہ میں مجھے بڑا آرام ملا.(بدر حصّہ دوم ۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء صفحہ۸۹ کلامِ امیر) ہندوستان میں لوگ عورتوں کو فرائض شادی و نکاح کے علم نہیں سکھاتے.یہاں تک کہ حیض و نفاس تک کے امراض کی عورتوں کو خبر نہیں ہوتی کہ یہ کیا بلاء ہے.اور کس بلاء کا نام ہے.تعلیم و تربیت عورتوں کی بہت کم رہ گئی ہے.مرد چاہتا ہے کہ جیسا کہ میں نے ہومر و شیکسپئیر اور اَور لوگوں کے ناول پڑھے ہوئے ہیں.میری بیوی بھی ایسی ہی ہو.اور ایسے ہی ناز و نخر ے میری عورت کو بھی آتے ہوں جیسے کہ اکثر ناولوں میں پڑھ چکا ہوں.ہمارے مولیٰ کو چونکہ یہ سب باتیں معلوم تھیں.اس لئے اس نے  فرمایا ہے یعنی شادی سے تم کو بڑا آرام ہو گا اور چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں اس لئے اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ان سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جاوے اور ان سے خوش خلقی اور حلیمی برتی جاوے مجھے پنجاب و ہند کی عورتوں پر خاص کر ترس آتا ہے کہ یہ بیچاری ہر ایک کام سے ناواقفیت رکھتی ہیں

Page 357

عرب کی عورتیں بڑی آزاد ہوتی ہیں اور وہ اپنے حقوق کے طلب کرنے میں بڑی ہوشیار ہوتی ہیں.(البدر یکم مئی ۱۹۱۳ء کلام امیر صفحہ ۱) : کسی نے ایک بزرگ سے کہا کہ شطر نج بھی ایک عجیب کھیل ہے کہ ہر آدمی نئی کھیل کھیلتا ہے.آپ نے فرمایا.اس سے بڑھ کر عجیب انسان کا چہرہ ہے.اتنی سی جگہ ہے اور آدم سے لے کر ایندم تک مختلف.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) : ہزاروں قسم کے موذی جَرم اس بجلی کی چمک سے مرتے ہیں اور کئی قسم کے فاسد مواد تباہ ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۲۵،۲۶.    اور اس کے نشانوں سے ہے کہ بیم و امید کی خاطر تمہیں بجلی دکھاتا ہے اور بادل سے پانی اتارتا ہے.پھر اس سے زمین کو مر جانے کے پیچھے زندہ کرتا ہے.یقینا اس میں عقلمندوں کیلئے نشانیاں ہیں.اور اس کے نشانوں سے ہے کہ آسمان اور زمین اس کے امر سے قائم ہیں.پھر جب تم کو ایک ہی پکار سے پکارے گا.اچانک تم زمین سے نکل پڑو گے.(تصدیق براہین احمدیہ ۱۵۰.۱۵۱)

Page 358

۲۸.  : جب کچھ نہ تھے تو بنایا.تو اب جب کچھ ہو چکے.پھر بنانا اس ذات پر آسان ہے.جس نے ’’ جب کچھ نہ تھے‘‘ تو تمہیں بنا لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۲۹.   : تم اپنے غلاموں کو اپنے ساتھ برابر کا شریک نہیں قرار دیتے اور نہ تم ان سے اب ڈرتے ہو جیسے اپنے غیروں سے.تو اﷲ کے کاموں میں مخلوق برابر کیونکر ہو سکتی ہے.: اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو کئی طرح پر توحید سکھاتا ہے.بعض وقت اسکی تدابیر کو مفید و بابرکت نہیں ہونے دیتا.اور جس راستہ سے اس کو رزق ملتا ہے.اسے بند کر دیتا ہے تا وہ سمجھ لے.کہ یہ تمام آمد خدا کے فضل سے ہے.کسی کی لیاقت قابلیت یا کسی کی امداد کا نتیجہ نہیں یہ نکتہ حضرت صاحب نے مجھے بتایا تھا’’ مومن کو چاہیئے کہ ایسے موقعوں میں اﷲ کی حکمتوں پر ایمان لائے اور گھبرائے نہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۳۱. 

Page 359

  پس درست رکھ مخاطب ! اپنے آپ کو سچّے دین پر اور وہ یہ ہے.کہ انسان سب سے قطع تعلق کر کے اﷲ تعالیٰ کی طرف جھُک جاوے اور تمام اقوال و افعال.حرکات و سکنات اس کی محبت سے صادر ہوں.یہی الہٰی فطرت کے مطابق بات ہے.جس پر اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا.الہٰی اندازہ کو بدلانا نہ چاہیئے.یہی پکّا اور ٹھیک دین ہے.(تصدیق براہین احمدیہ ۲۵۲.۲۵۳) : اسلام کے تمام احکام فطرت کے مطابق ہیں.مصنوع سے صانع کی طرف اعمال کی جزاء کا اعتقاد.ہر چیز کا ایک اندازہ میں ماننا.اندرونی تحریکوں کا متّبع ہونا سب مانتے ہیں.اور یہی اصولِ اسلام ہیں.چور و ڈاکو زانی اپنے لئے وہ فعل پسند نہیں کرتا.جو دوسروں سے کرتا ہے.یہ فطرت کی گواہی ہے اسلام کے احکام پر.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۳.  : خوب یاد رکھوکہ اسلام ایک ہی راہ ہے.دو ہرگز نہیں.یہ راہِ حق کی تڑپ دلی دعاؤں.صدقہ و خیرات.تقوٰی سے ملتی ہے.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸) ۴۲.  : غالب ہو گیا ہے.: پہاڑوں.ملکوں.پانی کے کناروں.جزیروں میں لوگوں کی بدعملیاں بڑھ گئی ہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۸؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۱۹۸نیز الحکم ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ۷)

Page 360

ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں اندھیرا ہوتا ہے اور ہر قسم کی غلطیاں اور غلط کاریاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں.خدا کی ذات پر شکوک.اسماء الہٰیہ میں شبہات.افعال اﷲ سے بے اعتنائی اور مسابقت فی الخیرات میں غفلت پھیل جاتی ہے.اور ساری دنیا پر غفلت کی تاریکی چھا جاتی ہے.اس وقت اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی برگزیدہ بندہ اہل دنیا کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے مولیٰ کی عظمت و جبروت دکھانے.اسماء الہٰیہ و افعال اﷲ سے آگاہی بخشنے کے واسطے آتا ہے.تو ایک کمزور انسان تو ساری دنیا کو دیکھتا ہے کہ کس رنگ میں رنگین اور کس دُھن میں لگی ہوئی ہے.اور اس مامور کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ سب سے الگ اور سب کے خلاف کہتا ہے.کل دُنیا کے چال چلن پر اعتراض کرتا ہے.نہ کسی کے عقائد کی پرواہ کرتا ہے نہ اعمال کا لحاظ.صاف کہتا ہے.کہ تم بے ایمان ہو اور نہ صرف تم بلکہ  سارے دریاؤں جنگلوں.بیابانوں.پہاڑوں اور سمندروں اور جزائر.غرض ہر حصّہ دنیا پر فساد مچا ہوا ہے.تمہارے عقائد صحیح نہیں.اعمال درست نہیں.علم بُودے ہیں.اعمال ناپسند ہیں.قویٰ اﷲ تعالیٰ سے دور ہو کر کمزور ہو چکے ہیں.کیوں! تمہاری اپنی ہی کرتوتوں سے.پھر کہتا ہے.دیکھو میں ایک ہی شخص ہوں.اور اس لئے آیا ہوں کہ .لوگوں کو ان کے بدکرتوتوں کا مزہ چکھا دیا جاوے.بہت سی مخلوق اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتی ہے اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل غفلت ہی میں ہوتے ہیں.انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے.اور کچھ مقابلہ و انکار پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ اپنی عظمت و جبروت دکھانا چاہتا ہے.وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو مال و دولت کنبہ اور دوستوں کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں.بڑے بڑے رؤسا اور اہل تدبیر لوگوں کے مقابلہ میں ان کی کچھ ہستی ہی نہیں ہوتی.یہ اس مامور کے ساتھ ہو لیتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یعنی ضعفاء سب سے پہلے ماننے والے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لئے کہ اگر وہ اہل دُوَل مان لیں تو ممکن ہے خود ہی کہہ دیں.کہ ہمارے ایمان لانے کا نتیجہ کیا ہوا.دولت کو دیکھتے ہیں.املاک پر نگاہ کرتے ہیں.اپنے اعوان و انصار کو دیکھتے ہیں.تو ہر بات میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں اس لئے خدا کی عظمت و جبروت اور ربوبیت کا ان کو علم نہیں آ سکتا.لیکن جب ان ضعفاء کو جو دنیوی اور مادی اسباب کے لحاظ سے تباہ ہونے کے قابل ہوں.عظیم الشان انسان بنا دے اور اُن رؤسا اور اہل دُوَل کو ان کے سامنے تباہ اور ہلاک کر دے تو اس کی عظمت و جلال کی چمکار صاف نظر آتی ہے.غرض یہ سِّر ہوتا ہے کہ اوّل ضعفاء ہی ایمان لاتے ہیں.اس دُبْدھَا کے وقت جبکہ ہر طرف سے

Page 361

شورِ مخالفت بلند ہوتا ہے.خصوصًا بڑے لوگ سخت مخالفت پر اُٹھے ہوئے ہوتے ہیں.کچھ آدمی ہوتے ہیں جن کو اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے چُن لیتا ہے اور وہ اس راستباز کی اطاعت کو نجات کیلئے غنیمت اور مرنے کے بعد قُرب الہٰی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اور بہت سے مخالفت کیلئے اٹھتے ہیں جو اپنی مخالفت کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں.یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت اور مدد آ جاتی ہے.اور زمین سے آسمان سے دائیں سے بائیں سے غرض ہر طرف سے نصرت آتی ہے اور ایک جماعت تیار ہونے لگتی ہے.اس وقت وہ لوگ جو بالکل غفلت میں ہوتے ہیں اور وہ بھی جو پہلے عدم وجود مساوی سمجھتے ہیں آ آ کر شامل ہونے لگتے ہیں.وہ لوگ جو سب سے پہلے ضعف و ناتوانی اور مخالفت شدیدہ کی حالت میں آ کر شریک ہوتے ہیں ان کا نام سابقین اوّلین ،مہاجرین اور انصار رکھا گیا.مگر ایسے فتوحات اور نصرتوں کے وقت جو آ کر شریک ہوئے ان کا نام ناسؔ رکھا ہے.یاد رکھو جو پودا اﷲ تعالیٰ لگاتا ہے اس کی حفاظت بھی فرماتا ہے.یہاں تک کہ وہ دنیا کو اپنا پھل دینے لگتا ہے لیکن جو پودا احکم الحاکمین کے خلاف اس کے منشاء کے موافق نہ ہو اس کی خواہ کتنی ہی حفاظت کی جاوے وہ آخر خشک ہو کر تباہ ہو جاتاہے.اور ایندھن کی جگہ جلایا جاتا ہے.پس وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو عاقبت اندیشی کا فضل عطا کیا جاتا ہے.(الحکم ۷؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ۶)

Page 362

سُوْرَۃُ لُقْمٰنَ مَکِّیَّۃٌ  یہ سورۃ قرآن شریف کی پہلی سورۃ بقرہ کے ساتھ مضامین میں بہت ملتی ہے.ترتیب عبارت اور الفاظ اکثر دونوں سورتوں کے ایک ہی ہیں.ناظرین مقابلہ کر کے دیکھیں اور لطف اٹھائیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۲ تا۴.  : اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ اَلْحَکِیْمِ: حق و حکمت سے بھری ہوئی.بڑی مضبوط باتوں والی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۰) لِلْمُحْسِنِیْنَ: جن میں احسان کا مادہ ہے.ان کیلئے ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے احسان کے معنے کئے ہیں.اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ وَ اِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ (الحدیث) ۲.دوسرے سے سلوک و نیکی.ایک یہودی کسی مسلمان کے پڑوس رہتا اور کوٹھے پر جانوروں کو دانے ڈالتا.اس مسلمان نے کہا کہ تیرا عمل بے فائدہ ہے.مگر آخر اُسی نے اُسے مکّہ کا حج کرتے دیکھا اور یہودی نے جتایا کہ اس خیرات کا اجر ہے.۳.ایک صحابی نے اپنی اونٹوں کی قربانی کا ذکر کر کے حضور نبویؐ میں عرض کیا کہ وہ شاید قبول نہ ہوئی فرمایا.اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ.۴.ایک بدکار نے کتّے کو دیکھا.کیچڑ چاٹ رہا ہے.اس نے رحم کر کے موزہ اتارا اور کنویں سے بھر کر اسے پانی پلایا.خدا نے نیکی کی راہ پر ایسا ڈالا کہ وہ جنّتی ہو گیا ( الحدیث ) پس احسان کرنے والوں کو قرآن مجید خوب موجبِ ہدایت و رحمت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۰)

Page 363

۵،۶.  سورۂ بقر کے ابتداء میں بھی قریباً یہی آیات ہیں.میں نے دیکھا ہے.۱.جو لوگ دعاؤں کے قائل نہیں.۲.غیب الغیب رنگ میں کسی مالک خالق کے قائل نہیں.۳.داد ود ہش کی عادت نہیں رکھتے وہ کبھی کتبِ الہٰیہ سے مُتَمِتْعْ نہیں ہوتے.اسی واسطے فرمایا.(بقرہ:۲،۳) سورۃ یوسف میں ہے.(یوسف:۲۳) جس سے ظاہر ہے.کہ ہر محسن کو حکم و علم بخشا جائے گا.: جزا و سزا ’’ غیب‘‘ میں ہے.: ہدایت پر سوار ہو جاتے ہیں.اور منزلِ مقصود پر مظفر و منصور پہنچیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۰) ۷.  : ایسی باتیں جن سے جناب الہٰی سے غفلت ہو جائے.راگ.سرود بالخصوص اس کے معنے لینے اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ہیں.: ناسمجھی سے.: ہلکا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۰) : ایسی بات جو انسان کو خدا سے غافل کر دے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک کافر نضر بن حارث نام تھا.جو لوگوں کو کہتا کہ تم قرآن سننے کیا جاتے ہو آؤ میں تم کو

Page 364

رُستم و اسفند یار کے قصّے سناؤں.جو بڑے لمبے اور بہت عجائب ہیں.اس زمانہ کے اکثر ناول نویس اور قصّہ خواں اس نضر بن حارث کے روحانی شاگرد ہیں جو بیہودہ قصّوں میں لوگوں کو مصروف کر کے حکمت کی سنجیدہ باتوں سے دور ڈال دیتے ہیں.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۸.  : کھول کر خبر دو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۰) ۱۱.   : مَید چکّر کو کہتے ہیں.پس اس کے معنے ہوئے کہ زمین پر پہاڑ بھی گردشِ روزانہ اور سالیانہ میں تمہارے ساتھ چکّر کھاتے ہیں.۲.مید.غذا کو کہتے ہیں.جس صورت میں یہ معنے ہوئے ہیں کہ زمین پر پہاڑی علاقے اس واسطے بنائے کہ تم کو غذا پہنچائیں.چنانچہ دریا بھی پہاڑوں سے ہی نکلتے ہیں اور پہاڑوں پر اکثر درخت اور میوے ہوتے ہیں.اور کنوؤں کا پانی بھی انہیں کی فروعات ہیں.۳.مَیْد پیس ڈالنے کو کہتے ہیں جس سے ہندی لفظ میدہؔنکلا ہے اس صورت میں یہ معنے ہوئے کہ زمین پر پہاڑ اس واسطے رکھے گئے ہیں کہ جب زمین نافرمانوں سے بھر جائے اور مرسلین الہیٰ کا انکار کیا جائے تو پہاڑ اپنی آتش فشانی اور زلازل کے ساتھ بعض باغیوں کو پیس ڈالیں.جیسا کہ ہمیشہ ہوتا رہا ہے.تاکہ دوسروں کو عبرت ہو.اسی واسطے یہود کی مغضوبیّت کو فرمایا.

Page 365

(بقرہ:۶۷) (بدر ۲۴؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) : ایسا ستون نہیں جو تم دیکھ سکو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۳.  اَلْحِکْمَۃَ: نہایت مضبوط بات جس کا انجام بخیر ہو.جمّوں میں ایک شخص تھا جس نے علموں کی تعریفیں یاد کر رکھی تھیں.اکثر اہل علم کا اس ذریعہ سے امتحان کر کے ان کو برسرِ محفل نادم کیا کرتا ایک دن مجھ سے بھی سوال کیا.کہ حکمت کی جامع مانع تعریف کیا ہے.میں نے سورہ بنی اسرائیل کا رکوع ۴ کا ترجمہ سنا دیا.اس کے اخیر میں ہے. (بنی اسرائیل :۴۰) سُن کر دم بخود رہ گیا.: شکر کرنے سے نعمت بڑھتی ہے.فرمایا(ابراہیم:۸) تم شکر کرو گے تو قسم ہے ہمیں اپنی ذات کی کہ ہم ضرور بڑھ چڑھ کر دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ صفحہ ۲۰۱) : یہ لفظ ان الفاظ میں سے ہے جن کے معانی عام استعمال میں ٹھیک نہیں لئے گئے.آجکل کے محاورہ میں حکمت طبابت کو کہتے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے لقمان کو حکمت دی اور اس حِکمت کی ابتداء یہ ہے کہ .اﷲ کا شکر گزار ہو.(بدر ۲۴؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ان آیاتِ کریمہ پر غور فرمایئے اور داد دیجئے.نہ صرف داد بلکہ قبول فرمایئے.میں آپ کو حق کی طرف بلاتا ہوں اور بے انصافی کے سخت وبال سے آگاہ کرتا ہوں.دیکھو.مرنا ہے.اور بھلائی اور برائی کا نتیجہ پانا ہے.کیا یہ دور ازقیاس ہے.انصاف سے کہیئے.بلکہ یہ قصّہ تمام بھلائیوں کا مجموعی عطر ہے.ہاں بُت پرست ناشائستہ کج خُلق آدمی اس کو دور ازقیاس کہے تو ممکن ہے.(تصدیق براہین احمدیہ۶۴)

Page 366

۱۴.  ہم نے لقمان کو حکمت ( اپنی پہچان) دی کہ تو اﷲ کا شکر گزار ہو اس لئے کہ جو شکر گزار ہوا اس میں اسکا اپنا فائدہ ہے.اور جس نے کفرانِ نعمت کیا وہ جان لے کہ اﷲ غنی ہے تعریف کیا گیا.اور جب لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا.اے پیارے بیٹے اﷲ سے شرک مت کر کیونکہ شرک بڑا بھاری ظلم ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۳) حضرت لقمان کی نصیحت بیٹے کیلئے جس کو اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں درج فرمایا ہے.تاکہ لوگ اس پر عمل کریں.اس میں دس احکام ہیں.۱.شرک سے مجتنب رہو.۲.والدین سے حسنِ سلوک کرو.سوائے حُکمِ شرک کے ان کے سب حکم مانو.۳.علمِ الہٰی پر ایمان رکھو کہ وہ تمہاری ہر حرکت سے واقف ہے.۴.نماز قائم رکھو.۵.بھلی بات کا حکم دو.۶.بُری باتوں سے منع کر تے رہو.۷.لوگوں کے ساتھ تکبّر سے پیش نہ آؤ.۸.زمین پراکڑ کر نہ چلو.۹.ہر ایک معاملہ میں میانہ روی اختیار کرو.۱۰.اپنی آواز کو دھیما رکھو.اس میں دوسرا حکم والدین کے ساتھ سلوک کرنے کا اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بہت ہی تاکیدی ہے اور شرک سے اجتناب کے بعد سب سے زیادہ ضروری حکم یہی ہے.اس واسطے اﷲ تعالیٰ نے اس وصیت نامہ میں اس حکم کو خاص اپنی طرف منسوب کیا ہے اور اس کے دلائل بیان کئے اور دوسرے احکام کی نسبت اس کی زیادہ تفصیل کی ہے.چونکہ یہ وصیت نامہ حضرت لقمان کا صرف اپنے بیٹے کیلئے تھا اور بیٹا ہی اس وقت مخاطب تھا اس واسطے ممکن ہے کہ حضرت لقمان نے ان حقوق کا ذکر چھوڑ دیا ہو جو خود انہیں کے متعلق تھے.اور پسند نہ کیا ہو کہ اپنے بیٹے کو یہ کہیں کہ تُو میری ایسی اطاعت کر اور ایسی خدمت کر لیکن اﷲ تعالیٰ نے جب یہ وصیت تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے اپنی پاک کتاب میں درج فرمائی تو یہ ضروری حکم بھی اس کے اندر درج فرمایا.: تحقیق شرک بڑا ظلم ہے! کسی ادنیٰ کو اعلیٰ خطاب دینا اعلیٰ کو ادنیٰ خطاب دینا.پیادے کو بادشاہ کہنا اور بادشاہ کو پیادہ کہنا ایک ظلم ہے باوجودیکہ پیادہ اور بادشاہ ہر دو انسان ہیں اور ایک جیسا جسم رکھتے ہیں اور ممکن ہے کہ کبھی بادشاہ پیادہ بن جائے

Page 367

یا پیادہ بادشاہ بن جائے.پھر کس قدر ظلم ہو گا.کہ پتھر.مورت.عناصر.اشجار.حیوان یا انسان کو معبود بنا یا جاوے.حالانکہ ان میں اتنا بڑا فرق ہے کہ کوئی مناسبت ان کے درمیان ممکن نہیں ہے.ایک ہندو نے ایک دفعہ شرک کی تردید میں ایک حکمت کا کلمہ بولا.اس نے کہا کہ چوہڑا اور میرا باپ دونوں انسان ہیں، اور ہر دو یکساں آنکھیں.ناک.مُنہ وغیرہ اعضاء رکھتے ہیں.اور بہت سی باتوں میں ایک دوسرے کی مانند ہیں.لیکن پھر بھی اگر کوئی مجھے کہے کہ تیرا باپ چوہڑا ہے تو مجھے اس قدر رنج اور دُکھ ہوتا جس کا بیان نہیں ہو سکتا.جب ہمارا یہ حال ہے تو کسی پتھر کی مورت یا عاجز انسان کو معبود کہنا یا معبود بنانا کیسا سخت جُرم اور بھاری ظلم ہے.(بدر۲۴؍اگست۱۹۰۵ء صفحہ۳،۴) تین بار مجھ سے یہ سوال پوچھا گیا کہ شرک کیا چیز ہے.اس سوال سے مجھے رنج بھی ہوا.تعجّب بھی افسوس بھی.قرآن کریم سارا اسی کے ردّ سے بھرا ہوا ہے.پھر شرک کے سب سے بڑے دشمن رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنّت سے شرک کا پتہ لگ سکتا ہے.شرک وہ بُری چیز ہے کہ اس کی نسبت خدا نے فرمایا.(النساء:۴۹)! پھر بھی مسلمان اس کے معنے نہ سمجھیں تو افسوس ہے.سب سے پہلا کلام جو انسان کے کان میں بوقت پیدائش و بلوغ ڈالا جاتا ہے وہ شرک کی تردید میں لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ ہے.یہ ایک بحث ہے کہ کان بہتر ہیں یا آنکھیں.مولود کے کان میں اذان کہنے کی سنّت سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.اگر یہ لغو فعل ہوتا تو کبھی رسولؐ کی سنّتِ مؤکدّہ نہ بنتا.یقظۂ نومی جو بیماری ہے.اس کے عجائبات سے بھی اس کی حکمتیں معلوم ہو سکتی ہیں.غرض پہلا حکم کانوں کیلئے نازل ہوا اور انبیاء بھی اسی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اﷲُ کیااشاعت کیلئے آئے اور خدا کی آخری کتاب نے بھی اسی کلمہ کی اشاعت کی اور جس کتاب سے میں نے دینی امور کی طرف خصوصیت سے توجہ کی.اس میں بھی اسی پر زیادہ تربحث ہے.چونکہ بعض لوگ حکیموں کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں.اور ان کے کلمہ کا ان کی طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے.اس لئے یہاں ایک حکیم کی نصیحت کو بیان کیا ہے.اور یہ بھی مسلّم ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو وہی بات بتاتا ہے جو بہت مفید ہو اور مُضر نہ ہو.شِرک عربی زبان میں کہتے ہیں.سانجھ کرنے کو.کسی سے کسی کے ساتھ ملانے کو.تو مطلب یہ ہوا.کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو جوڑی نہ بناؤ.ایک مقام پر فرمایا ہے.

Page 368

(الانعام:۲) کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے برابر اس کی ذات میں کسی دوسرے کو بھی مانتا ہو.یہ شرک مَیں نے کسی سے نہیں سُنا.ثنوی ایک فرقہ ہے جو کہتے ہیں.دنیا کے دو خالق ہیں.ایک ظلمت کا، ایک نُور کا مگر برابر وہ بھی نہیں کہتے.خدا نے فرمایا کہ (النمل:۶۱) تو کفّار مکّہ جوبڑے مشرک تھے.انہوں نے بھی کہا.اﷲ.اسی طرح ان کے جاہلیت کے شعروں میں اﷲ کا لفظ کسی اور پر نہیں بولا گیا.پھر شرک کیا ہے.جس کے واسطے قرآن شریف نازل ہوا؟ سنو! دوسرا مرتبہ صفات کا ہے اﷲ تعالیٰ ازلی ابدی ہے.سب چیزوں کا خالق ہے.وہ غیر مخلوق ہے.پس یہ صفات کسی غیر کے لئے بنانا شرک ہے.آریہ قوم نے پانچ ازلی مانے ہیں.۱.اﷲ قدیم ازلی ہے ۲.روح ازلی ہے ۳.مادہ ازلی ہے ۴.زمانہ ازلی ہے ۵.قضاء ازلی ہے.جس میں یہ سب چیزیں رکھی ہیں.اس واسطے یہ قوم مشرک ہے.عیسائی قوم نے کہا ہے کہ بیٹا ازلی ہے باپ ازلی ہے.روح القدس ازلی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے(المائدہ:۷۴) ایک قوم ہے جو اﷲ تعالیٰ کے علم میں اور تصرّف میں کسی مخلوق کو بھی شریک بناتی ہے.بدبختی سے مسلمانوں میں بھی ایسا فرقہ ہے.جو کہ پیر پرست ہے حالانکہ رسول کریمؐ سے بڑھ کر کوئی نہیں اور وہ فرماتا ہے (الانعام:۵۱) اور (الاعراف:۱۸۹) پس کسی اَور وَلی کو کبھی یہ قدرت حاصل ہو سکتی ہے.کہ اسے جانی جان کہا جاوے اور یہ سمجھا جاوے کہ وہ حاضر و غیب ہماری پکار سنتے ہیں.یہ جواب جو دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو علمِ غیب یا تصرّف دے دیا ہے.صحیح نہیں کیونکہ شرک کے معنے ہیں.سانجھی بنانا.خود بن جاوے یاد ینے سے بنے.یاد رکھو.اﷲ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا.جو نشان اﷲ تعالیٰ نے اپنی الوہیّت کیلئے بطور نشان رکھے ہیں.وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہئیں.بڑا نشان تذلّل کا ہے.سجدہ اس سے بڑھ کر اور کوئی عاجزی نہیں.زمین پر گر پڑے.اب آگے اور کہاں کدھر جاویں.فرماتا ہے (حٰم السجدہ:۳۸) پس جو غیر کو سجدہ کرے وہ مشرک ہے… قرآن شریف نے ایک اور شرک کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے.وہ یہ ہے کہ

Page 369

(البقرہ:۶۶) ِیعنی جیسا پیار اﷲ سے کرتے ہو.یہ کسی اَور سے کرنا خدا کا شریک بنانا ہے..نِدْ بنانا یوں ہے کہ مثلاً ایک طرف آواز آ رہی ہے حَیَّ عَلَی الْفَلاَح اور دوسری طرف کوئی اپنا مشغلہ.جس کو نہ چھوڑا تو یہ بھی شرک ہے.اس سلسلہ میں آخری شرک کا نام لیتا ہوں اور وہ ریاءؔ ہے.اس سے بچنا چاہیئے.حضرت صاحب سے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے پوچھا تو آپؑ نے فرمایا.جیسا تم لوگوں کو کسی گھوڑی وغیرہ کے سامنے ریاء نہیں آ سکتا.اسی طرح مامورانِ الہٰی کو لوگوں کے سامنے ریاء نہیں آتا.ان تما م شرکوں کا ردّ اسی کلمہ طیبہ میں ہے.جو بہت چھوٹا ہے.مگر بہت عظیم.اور میرا یمان ہے کہ اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے ساتھ توحید کامل نہ ہوتی اگر اس کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ نہ ہوتا کیونکہ دنیا نے ہادیوں کو خدا کہنا بھی شروع کر دیا.چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے عاجز اور خاکسار انسان کو خدا بنایا گیا.کرشن جیسے خدا کے محبّ کو بھی ایسا ہی سمجھا گیا.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے جہاں ہم پر اور احسان کئے ہیں وہاں یہ بھی کیاکہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے ساتھ عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ رکھ دیا.تاکہ آپ کی اُمّت کبھی اس ابتلاء میں نہ پڑے اور جب آپؐ بندے تھے تو آپؐ کے خلفاء و نوّاب پر کب خدائی کا گمان ہو سکتا ہے.(بدر ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲) ۱۵.  ہم نے انسان کو والدین سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے.اس کی ماں نے دُکھ پر دُکھ سہہ کر اسے پیٹ میں رکھا اور دو سال میں اس کا الگ ہونا ہوا.تُو اب میرا اور اپنے والدین کا شکر گزار ہو اور پھر آنا میری طرف ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۳) : پہلے ماں باپ ہر دو کی طرف توجّہ دلا کر پھر ساتھ ہی ماں کا خصوصیت کے ساتھ ذکر شروع کر دیاہیکیونکہ عموماً لوگ باپ کی عزّت تو کرتے ہیں مگر ماں کی خدمت کا حق ادا نہیں کرتے.(بدر۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶)

Page 370

۱۶.   اور اگر تیرے ماں باپ مجھ سے شرک کرنے پرتجھے مجبور کریں جس سے تو بالکل نادان ہے تو ان کا کہا مت مان اور دنیا میں ان کے ساتھ نیک سلوک سے سنگت رکھ اور میری جانب رجوع کرنے والوں کی راہ کے پیچھے چل.پھر تم سب کا لَوٹنا میری طرف ہے.میں تم کو تمہارے عملوں کی خبر دوں گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۳.۶۴) ۱۷.   اے پیارے بیٹے اگر رائی کے ایک دانے کے برابر کوئی چیز کسی چٹان کے تلے ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں.اﷲ اسے لے آوے گا.یقینا اﷲ لطیف و خبیر ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۴) : اﷲ تعالیٰ ادنیٰ و اعلیٰ سب باتوں سے باخبر ہے.علمِ الہٰی پر ایمان لانے سے نیکی پیدا ہوتی ہے.جب انسان کو یہ یقین ہو کہ کوئی بڑا شخص مجھے دیکھ رہا ہے.تو پھر وہ بدی کرنے سے رُکتا ہے.پھر اپنے بزرگوں، افسروں حاکموں کے سامنے بدی کرنے سے اور بھی رُکتا ہے ایسا ہی جس کو یہ ایمان ہو کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام افعال.حرکات.سکنات کو دیکھتا ہے.اور ہمارے دل کے خیالات اور ارادات سے بھی باخبر ہے.وہ شخص کبھی بدی کے نزدیک نہیں جا سکتا.(بدر۳۱؍اگست۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۱۸.

Page 371

 اے بیٹے نماز کی پابندی کر.نیک باتوں کا امر کر اور بدی سے روک اور مصیبتوں پر صبر کر یقینا یہ بڑے حوصلہ کی بات ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۴) : پہلے عقائد کے بارے میں فرمایا.اب عملی حصّہ کے متعلق وعظ سناتا ہے.۱.جب عقائد صحیحہ ہو گئے ۲.اعمالِ صالح ہو گئے.پھر تم نے امر بالمعروف شروع کیا تو لوگوں کی مخالفت پر صبر و استقلال سے کام لو.اس کے بعد جب تمہیں کامیابی حاصل ہو تو دیکھنا متکبّر نہ ہو جانا.اسی لئے فرمایا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) : جو مصائب تجھ پر آئیں.اُن میں صبر کر.حضرت لقمانؑ نے جب اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ لوگوں کو نیکی کا حکم کر اور بدی سے منع کر تو چونکہ اس حکم کی تعمیل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ نیک نصیحت کرنے والوں اور بدی سے منع کرنے والوں کے لوگ مخالف ہو جایا کرتے ہیں.اور ان کو دُکھ دیا کرتے ہیں اس واسطے ساتھ ہی ایسے مصائب پر صبر کرنے کی وصیت کی.آجکل کے صوفیوں میں ایک ملامتی فرقہ کہلاتا ہے جو جان بوجھ کر ایسے کام کرتے ہیں.جن سے وہ مخلوق کے درمیان قابلِ ملامت ہو جائیں.مثلاً رمضان شریف میں بغیر عذر کے لوگوں کے سامنے روزہ توڑ دیا.اور کچھ کھانے پینے لگ گئے اور بعد میں خفیہ طور پر اس کا کفارہ ساٹھ روزے رکھ لیا.یہ اس واسطے کرتے ہیں کہ خلقت کے درمیان قابلِ تعریف نہ بنیں بلکہ ملامت کئے جائیں.لیکن یہ ملامتی بننے کا طریق انبیاء و رسل کے خلاف ہے.جو لوگ احکام الہٰی پر عمل کر کے خلقت کے درمیان آمر بالمعروف و ناہی عن المنکربنتے ہیں.وہ تو خود بخود ملامتی ہو جاتے ہیں.(بدر۳۱؍اگست۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۱۹.  اور لوگوں پر اپنی گالیں مت چمکا ( گھمنڈ مت کر) اور زمین پر اِترا کر مت چل.یقینا اﷲ مغرور ،بَڑائی جتانے والے کو پیار نہیں کرتا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۴)

Page 372

: اپنی گالیں مت پھُلا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) ۲۰.  اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز دھیمی کر ( کڑک کر مت بول) کیونکہ بُری سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶۴) : اپنے تمام اقوال.افعال.خیالات میں میانہ روی اختیار کر لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) ۲۱.   کیا تم نہیں دیکھتے اﷲ تعالیٰ نے مفت تمہاری خدمت میں لگا دیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۰) : مفت میں تمہارے کام میں لگا دیا ہے.سورج روشنی دیتا ہے.پھل پکاتا ہے بادل پانی لاتا ہے.زمین کھانے کی چیزیں اگاتی ہے.سب چیزیں انسان کے فائدہ کے کاموں میں مصروف ہیں.(بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) انسان اس شخص کی فرماں برداری کرتا ہے جو محسن ہو.حاکم مسلّط ہو.اﷲ جلّشانہٗ اس فطرت کے لحاظ سے انسان کو سمجھاتا ہے.: حسن و تناسب و صحت اعضاء اس میں شامل ہے.: اس میں عقل و تمیز.قابلیت.لیاقت.علم.ولایت.نبوّت شامل ہے.

Page 373

: وہ علم جو خدا تعالیٰ اپنی جناب سے بخشتا ہے.اور نور فراست اور پاک کتاب کو نہیں سمجھتے.مگر جھگڑنے اور ہر دین کی بات میںرائے دینے کو تیار.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱)  اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے ظاہر فرمایا ہے کہ بحث کرنے کے واسطے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے.بحث صرف وہ شخص کر سکتا ہے جس کو تین باتیں حاصل ہوں.علم.ہدایت اور روشن کتاب.ہر شخص کا کام نہیں کہ بحث کے کام میں مصروف ہو جاوے.(بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) حضور علیہ السلام نے ایسے وقت جب تمام دنیا پر روحانی ،تمدّنی اور اخلاقی حالت کی نسبت ظلمت اور تاریکی چھائی ہوئی تھی اور دنیا کے لوگ گم کر دہ راہ بھُول بھلیّاں میں مبتلا تھے آفتاب کی مانند طلوع فر ماکر راہ نمائی کا بیڑا اٹھایا اور لگے نکالنے لوگوں کو ظلمات سے نور کی طرف.خدا کے واسطے ذرا غور تو کر و.اس سراجِ منیر کی نور افشانی کے وقت تمام آباد دنیا کا کیسا حال تھا دنیا کے اشیاء جنہیں انسان کے خادم کہنا چاہیئے اور حسب الحکم  انسان کے ماتحت ہیں.بالعکس انسان کے معبود بنائے گئے.غور کرو.ہندوستان کا ملک ایسا تھا کہ اس میں پتھر اور درخت پوجے جاتے تھے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ آریہ ورت بقول آریوں کے بھی ہندوستان ہو چکا تھا.حیرانی ہوتی ہے کہ لِنگ کی مَہْما اور اس کی پُوجا کا دور دَورہ یہاں تھا.بھگ اور شکتی کی پرستش یہاں تھی.دام مارگ.اگھور.کپال مت کے بانی اور گروہ یہاں ہی تھے.جین اور ناستکوں کا مبداء اور مَوْلَدْ یہی آریہ ورت تھا.آریوں کے یا ہندؤں کے ہمسایہ یا پہلے استاد بلکہ بھائی بند قدیم ایرانی اگنی ہو تری ہے.جنہوں نے آسمانی بروج.سیّاروں.ستاروں اور خاص کر سورج کو معبود بنا رکھا تھا.بلکہ ان کے نہایت ناپاک اثر سے فارسی لٹریچر میں تمام سُکھوں اور دُکھوں کو آسمانی گردش کی طرف منسوب کیا گیا تھا.اسلام کے مدعی لائق منشیوں نے سورج کوحضرت نیّرِ اعظم وغیرہ مقدّس الفاظ سے یاد کیا.یہ لوگ یزدان اور اہرمن دو خداؤں خالقِ خیر اور خالقِ شَر کے معتقد تھے.مغرب اور شمال بلکہ اندرونی حصّہ عرب میں یہود اور عیسائی تھے.

Page 374

عیسائیوں کا یہ حال کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اﷲ تعالیٰ کا ازلی بیٹا بلکہ خدا یقین کرتے اور اس کو ایمان جانتے تھے.اور ان کا اعتقاد تھا.اور ہے.کہ اﷲ تعالیٰ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ ایک ہے اور تین ہے.پناہم بخدا !!! عیسائی کہتے ہیں.خدا باپ ازلی.خدا بیٹا ازلی.خدا روح القدس ازلی تینوں خدا ہیں.پھر خدا ایک ہے… اُس وقت کیتھولک فرقہ کا عروج تھا اور عیسائیوں میں بعض ایسے بھی تھے جو صدیقہ مریم علیھا السلام کو متمّم تثلیث جان کر ان کی تصویر پر گوٹے کناری کے کپڑے ڈالتے تھے.ہند میں بھی بعض لوگ بتوں کو گرمی اور سردی کا لباس علیحدہ علیحدہ چڑھاتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۹ تا صفحہ۱۱) ۲۳.  : اپنی ساری توجہ اﷲ کی طرف سونپ دیتے ہیں.دنیا بے شک کماؤ مگر اﷲ کیلئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍ اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) ۲۸.  : اﷲ کی باتیں ختم نہیں ہوتیں صرف اسی بات کو لو.ایک قطرے میں کتنے کیڑے ہوتے ہیں.اب ان کے اعضاء کی تشریح اور خداوندِ عالم کی قدرت کا ذکر شروع ہو تو کب ختم ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) : کیونکہ ہر ہر قطرے میں کئی حکمتیں ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۳ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۲۹.

Page 375

  : اﷲ تعالیٰ دعاؤں کا سُننے والا اور تمہارے حالات کو دیکھنے والا ہے.(بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۲.  اﷲ تعالیٰ نے مختلف ممالک میں مختلف نعمتیں دی ہیں مثلاً عرب میں کھجور، ہندوستان میں آم، کابل میں انگور.ایسا ہی کسی کو کوئی علم بخشا ہے کسی کو کوئی ہُنر.ان تمام ممالک میں تبادلۂ انعام و خیالات کے لئے جہاز ہیں.: اﷲ کے فضل سے مختلف قسم کی نعمتیں لے کر.: دور کی نعمتیں دیکھ کر انسان شکر بجا لائے.اور اپنے تئیںاعتداء عصیان سے بچائے.یہ آیت بائیکاٹ کرنے کی تردید کرتی ہے.تبادلہ اشیاء غیر ممالک سے منع نہیں.بلکہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا ادائے شکر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱)  کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ کشتی سمندر میں چلتی ہے.یہ اﷲ کی نعمت ہے.تاکہ تم کو اس کے نشانات دکھائے.اس میں پیشگوئی ہے.کہ مسلمانوں کے فتوحات وہاں تک پہنچیں گے.کہ تم کشتیوں اور جہازوں میں سوار ہو کر دوسرے ممالک اور جزائر میں جاو گے اور ان کو فتح کرو گے.چنانچہ حضرت عثمانؓ کے زمانے میں جزائر قبرص و روڈس فتح ہوئے.اور مسلمان جہازوں پر چڑھ کر اُن جزائر کو گئے.جن میں ایک بیوی امّ ایمنؓ نام بھی شامل تھیں.جن کے گھر میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم سوئے ہوئے ہنس کر جاگے.تو اس بی بی نے سبب اس خوشی کا دریافت کیا تو اس پر فرمایا.میں نے دیکھا ہے.کہ مسلمان جہازوں پر اس طرح سوار ہیں جس طرح بادشاہ تختوں پر.تب اس نے عرض کیا کہ دعا کرو.میں ان لوگوں میں ہو جاوں.فرمایا.تُو

Page 376

ان میں سے ہے پھر آپؐ سو رہے اور ہنس کر اُٹھے تو اس بی بی کے سبب دریافت کرنے پر وہی بات فرمائی اور اس عورت نے وہی پہلی دعا چاہی.تو آپؐ نے فرمایا کہ تو پہلے لوگوں سے ہے.آنحضرت نے اسی وقت فرمایا تھا کہ تو ان میں سے ہو گی.جو پہلے جہاز پر سوار ہو کر جائیں گے.(بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۳.   : بدعہد (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) : منکر (بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۴.   : سمجھاتا ہے.کہ یہ تمام نعمتیں تقوٰی سے مِل سکتی ہیں.: ایک غُرور مصدر ہے.اس کے معنے ہیں.تکبّر.یہ غَرور ہے اس کے معنے دھوکہ دینے والا.یہ شیطان کا نام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱) ۳۵.  

Page 377

  : واقعی یہ نہیں معلوم ہو سکتا کہ بارش اس کیلئے مفید ہو گی یا مضر اس سے جو پھل نکلے گا وہ خدا جانے اس کے نصیب ہو گا یا نہیں.: شقی ہو گا یا سعید.: سعیدوں والے کام کرے گا یا شقیّوں والے.بعض لوگ ایسے ہیں کہ یُمْسِیْ مُؤْمِنًا وَ یُصْبِحُ کَافِرًا ہمیشہ ایمان پر ثابت رہنے کی دُعا کرتے رہنا چاہیئے.ایک بزرگ اپنے حالات میں لکھتے ہیں کہ مجھے مباحثات میں یہ زبردست دلیل سُوجھی.کہ محسوسات سے غیر محسوس اشیاء پر دلیل پکڑنی چاہیئے.اور اس طرح کئی مباحثے جیتے.ایک دن چھت پر لیٹے تھے ستاروں پر نظر جا پڑی.خیال میں آیا یہ ستارے جس قدر مجھے چھوٹے محسوس ہوتے ہیں کیا واقعہ میں بھی اتنے ہی ہیں.عقل نے جواب دیا نہیں.جب یہ امر حسّی خلافِ واقعہ نکلا تو میں بہت گھبرایا یہاں تک کہ بارہ سال اسی مخمصے میں رہا.آخر اﷲ کی طرف رجوع کیا تو اس نے انشراحِ صدر بخشا.میں تم سب کو نصیحت کرتا ہوں کہ حق پہچاننے کا یہی ایک معیار ہے کہ خدا تعالیٰ سے تڑپ تڑپ کر دُعا مانگے اور مُتَشَابِہَات ( جن کے معنے اس پر نہیں کُھلے) مُحْکَمات ( جو اس کیلئے صاف ہیں) کی تابع کرے.اگر پھر بھی سمجھ میں نہ آئے تو حوالہ بخدا کرے اور دعا کرے(آل عمران:۹) اﷲ تعالیٰ ضرور تسلّی کی راہ نکال دے گا.: یہ کسی کو معلوم نہیں کہ یہ زمین اس کیلئے رَوْضَۃٌ مِّنْ رِّیَاضِ الْجَنَّۃِ ہوگی یا حُفْرَۃٌ مِّنَ النَّار.یُوں تو ایک بادشاہ کہہ سکتا ہے.میں یہیں مَروں گا.اور بعض لوگوں نے اپنی قبریں زندگی میں کھدوائیں اور وہیں مرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۱،۲۰۲) : اس گھڑی کا علم اﷲ ہی کو ہے اور وہی بادل اتارتا ہے.آجکل کے علم آب و ہوا والے اس کے متعلق تو کچھ نہ کچھ خبریں اڑا ہی لیتے ہیں ( گو وہ بھی اکثر بے اعتبار ثابت ہوتی ہیں) کہ مِینہ کب برسے گا.مگر کون دعویٰ کر سکتا ہے.کہ یہ بارش مفید ہو گی یا اُلٹی ضرررساں.جیسا کہ آجکل اکثر مقامات پر ہو رہا ہے.اور بابرکت ہو گی یا خائب و خاسر کرے گی.

Page 378

: وہی جانتا ہے کہ رِحموں میں کیا ہے.ممکن ہے کہ کوئی دعویٰ کرے کہ بعض علامات سے رِحم کے اندر لڑکا یا لڑکی کی شناخت ہو سکتی ہے.لیکن یہ دعویٰ کون کر سکتا ہے کہ وہ بچّہ نیک ہو گا یا بد ہو گا زندہ رہے گا یا مر جائے گا.: اور کیا جانتا ہے کوئی شخص کہ کل کیا کمائے گا.انسان کے دل کی مخفی حالت کو اور اس کے گزشتہ گناہوں یا نیکیوں کی تیاری کو خود انسان بھی نہیں جانتا.کہ وہ آئندہ اس کے واسطے کیا نتائج پیدا کرنے والے ہیں.: اور کیا جانتا ہے کوئی شخص کہ کس زمین میں مرے گا.اس میں ایک پیشگوئی ہے کہ عرب کے مسلمان دور دور کے ملکوں کے فاتح ہو کر وہاں حکومت کریں گے اور آخر انہیں ممالک میں فوت ہو کر دفن ہوں گے.چنانچہ حضرت عباسؓ کا ایک بیٹا تاتارمیں دفن ہوا.ایک یورپ میں.ایک افریقہ میں اور ایک عرب میں.(بدر ۳۱؍اگست ۱۹۰۵ء صفحہ۶)

Page 379

سُوْرَۃُالسَّجْدَۃِ مَکِّیَّۃٌ  ’’حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جمعہ کے دن نمازِ فجر کی پہلی رکعت میں یہ سورۃ شریفہ ہمیشہ نہیں تو اکثر ضرور پڑھا کرتے تھے.اس سورۃ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ کی عظمت.نبوت کی صداقت اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک عادات اور دنیا کے تغیّرت کا بیان ہے‘‘ ( بدر۷ ستمبر ۵ـ۱۹۰ صفحہ ۳) ۲،۳. : انا اﷲ اعلم میں اﷲ جاننے والا ہوں.جن سورتوں کے شروع میں یہ الفاظ آئے ہیں.وہاں ساتھ ہی اﷲ تعالیٰ کی کتاب کا خصوصیّت کے ساتھ ذکر آیا ہے.مثلاً.(بقرہ:۲،۳)(لقمان:۲،۳) .(السّجدہ:۲،۳) حروفِ مقطعات.قرآنِ شریف میں کئی سورتوں کے شروع میں اس قسم کے حروف ہیں جیسے کہ اس سورۃ کے ابتدء میں حروفہیں.ان کو حروفِ مقطعات کہتے ہیں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حروفِ مقطعات کے معانی تلاش کرنا گناہ ہے اور یہ کسی کو معلوم نہیں.مگر ایسا کہنا قرآن شریف کی بے ادبی کرنا ہے.قرآن شریف میں تدبّر کرنا فرض ہے.صحابہ کرامؓ میں سے حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ نے ان حروف کو اجزاء اسمائے الہٰی مانا ہے.میں نے بہت محنت کے ساتھ ایسی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے جس میں ان کا ذکر ہے.اور صحابہ کرامؓ کے مقدّس گروہ کا اجماع مجھے اسی پر دکھائی دیا ہے.کہ حروف اجزائے اسماء الہٰی ہیں اور اسی واسطے سورتوں کے نام ہیں.آجکل کے جنٹلمین تو اس طریق پر اعتراض کر ہی نہیں سکتے.کیونکہ ان میں عمومًا قابلِ عزّت وہی ہے

Page 380

جس کے نام کے ساتھ کوئی بی.اے یا ایم.اے یا ایم.بی یا ایل.ایل.بی غرض دو یا تین حروف لگے ہوئے ہیں اور بعض بڑے معززین کے ناموں کے ساتھ اس قدر حروف ہوتے ہیں کہ ساری حروف تہجّی وہاں ختم ہوتی نظر آتی ہے.ویدوں میں بھی سب سے پہلے اَومؔ ہی آتا ہے.مگر افسوس ہے کہ باوجود اس کو حروفِ مقطعات ماننے کے وہ لوگ اس کے معنے کے واسطے کوئی سند نہیں رکھتے.( بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) : مقطعاتِ قرآنی کے معنے اس زمانہ میں خوب کُھلے ہیں.انگریزی میں تو آجکل ایسے حروف بہت آتے ہیں.بعض لوگوں کے ساتھ تو تقریباً تمام حروفِ تہجی ہوتے ہیں.: ریب کے معنے ہلاکت کے بھی ہیں.جیسے(طور:۳۱) میں اور شک کے بھی.قرآن شریف میں جوراہیں بتائی گئی ہیں.وہ نہ تو ہلاکت کی ہیں.نہ ان میں کسی قسم کا شک ہے.پس شک مت کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲) ۴.  : نہیں آیا ان کے پاس کوئی ڈرانے والا.عرب کے لوگ مامور من اﷲ اور مکالمہ الہٰی سے بالکل ناواقف تھے.جیسا کہ ہمارے زمانہ کے لوگ ناواقف ہیں جو قوم اس وقت عرب میں موجود تھی ان میں یا ان میں سے پہلے قریب دنوں میں ان کے درمیان کوئی ایسا نبی نہ گزرا تھا.جس سے ان کو معلوم ہوتا کہ نذیر کس طرح ہوا کرتے ہیں.یہ پہلا موقعہ تھا کہ ان کو ایک نذیر نظر آیا.(بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ ۳) : تمام دواوین.کتبِ ادبیہ.حدیث فقہاء کے کلام سے قرآن کی شان الگ ہے جس سے ظاہر ہے کہ وہ انسان کا کلام نہیں ہو سکتا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵.

Page 381

   : چھ وقتوں میں ہر چیز کا کمال چھ مرتبے طے کر کے ہوتا ہے.ایک شخص نے مجھے کہا خدا آناً فاناً نہیں بنا سکتا.پاس ایک مکّی کا کھیت تھا میں نے کہا اس کا ایک بھُٹّہ لاؤ.اس نے کہا وہ تو کئی ماہ بعد ہو گا.تب میں نے کہا.ایک بھٹّے کیلئے اتنے مہینے بھی خدا ہی لگاتا ہے.: پھر ہم تم کو اور بات سنائیں. سے یہی مراد ہے نہ یہ کہ آسمان زمین بنا کے پھر عرش پرجا چڑھا.اس کی مثالیں قرآن شریف میں کئی ہیں.چنانچہ انعام ع ۶پ۸میں ہے کہ (انعام:۱۵۴)پھر آگے چل کر فرماتا ہے (انعام:۱۵۵)قرآن شریف کے بعد موسٰیؑ کو کتاب دینے کا ذکر ’’‘‘ سے فرمایا.حالانکہ تورات کا نزول قرآن شریف سے پہلے ہوا.: وہ اپنے تختِ حکومت پر بے عیب ہے.ٹھیک ٹھاک.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۲) : چھ دَوروں میں.یوم ایک وقت اور ایک دَورہ کو کہتے ہیں.یومؔ کا لفظ ایک دن پر.ایک برس پر.ایک ہزار برس پر.پچّاس ہزار برس پر یا کسی کام کے پورا ہونے کی ایک منزل کی میعاد کو کہتے ہیں.آجکل کے جیا لوجسٹ یعنی علم الارض کے ماہروں نے یہ ثابت کیا ہے کہ زمین کو اس موجودہ صورت تک پہنچنے تک چھ خاص حالتوں میں سے گزرنا پڑا ہے.جن پر چھ زمانے گزرے تھے… انسان کا بچّہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے تو اس پر بھی چھ ایّام آتے ہیں ۱.سُلَالَۃٌ مِّنْ طِیْنِ ۲.نُطْفَہ ۳.عَلَقَہ ۴.مُضْغَہ ۵.عِظَام ۶.کَسَوْنَا العِظَامَ لَحْمًا.اس کے بعد پھر انسانی بچّہ پر چھ ایّام آتے ہیں.۱.جنین ۲.رضیع ۳.غلام ۴.شابّ ۵.کَھْل ۶.شیخ.ایسا ہی زمیندار ۱.ہل چلا کر ۲.ڈھیلے توڑتا ۳.پانی دیتا ۴.بیج ڈالتا ۵.لَو نکلتی ۶.فصل پکتا.ایسا ہی آجکل تعلیم چھ درجوں پر کامل ہوتی ہے ۱.پرائمری ۲.مڈل ۳.انٹرنس ۴.ایف اے

Page 382

۵.بی اے ۶.ایم اے.ایک دفعہ ایک شخص نے اعتراض کیا کہ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کو ایک دن میں نہیں بنا سکتاتھا چھ یوم کیوں لگا دیئے.مکّی کا ایک کھیت سامنے تھا.میں نے اس کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ یہ کتنے عرصہ میں پکے گا.وہ شرمندہ ہو گیا.اﷲ تعالیٰ کی صفات کا مقتضا ہے کہ ہر ایک شئے بتدریج نشو و نما اور ترقی پائے.: اﷲ تعالیٰ اپنے تخت پر ٹھیک ٹھاک حکمران ہے.(بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۶.  : کل احکام اوپر سے آتے ہیں.ہم آنکھیں رکھتے ہیں.مگر آسمانی روشنی کے سوائے کچھ دیکھ نہیں سکتے اگر اوپر سے بارش نہ آئے تو کنویں بھی خشک ہو جاتے ہیں.(بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۷. : گزشتہ اور آئندہ لوگ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۰. 

Page 383

 : اپنا پاک کلام اس میں پہنچاتا ہے.ہزاربر س کے بعد ایسا انسان ضرور ہوتا ہے جسے اﷲ اپنے کلام سے ممتاز فرماتا ہے.: سمع کو اس لئے مقدّم فرمایا.کہ خدائی معاملات میں سب سے پہلے کان ہی کام کرتے ہیں.کیونکہ ۱۸ برس تک تو عمومًا غفلت میں گزرتے ہیں.پھر کانوں میں خدائی آواز پڑتی ہے اور وہ متنبّہ ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲) رُوْح: قرآن شریف میں روحؔ کا لفظ جانؔ کے واسطے کہیں استعمال نہیںہوا بلکہ روحؔ کے معنے کلامِ الہٰی میں ہر جگہ وحی الہٰی لئے گئے ہیں.مثال (الشورٰی:۵۳) (بدر ۷؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۱.  اضلال کے معنے ابطال اور اہلاک کے ہیں.جیسے قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے ظاہر ہے.…اور وہ کہتے ہیں کیا جب ہم زمین میں نابود ہو جاویں گے.کیا ہمیں نئی پیدائش ملے گی.(نورالدین طبع ثالث صفحہ۷۷) ۱۲.  : تمہاری روح کو قبض کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲) ۱۳. 

Page 384

 : سر نیچے کئے ہوں گے.اس لئے کہ اپنی بداعمالیاں یاد آ آ کر شرمسار ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲) : اوراگر تو دیکھے وہ لوگ جنہوں نے قطع تعلق کیا ہے.جنابِ الہٰی سے اس وقت وہ سر جھکائے ہوئے ہوں گے.عذاب الہٰی سے ڈر کے مارے اور کہیں گے اے ربّ ہمارے.اب تو ہم نے دیکھ لیا اور خوب سمجھ لیا.ہمیں دنیا میں لوٹا دے.اب ہم دنیا میں چل کے اچھے عمل کریں گے.یہ ان کا جھُوٹا عذر ہو گا.یاد رکھنا چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک چیز کے بالمقابل ایک دوسری چیز بنائی ہے اگر انسان میں بدی کرنے کی طاقت ہے تو اس کے بالمقابل اس بدی کے روکنے کی طاقت بھی موجود ہے.اس واسطے بدی کرنے والی کسی طاقت کو جو کسی انسان میں ہے عذر کرنا قابلِ قبول نہیں.کیونکہ اس کے بالمقابل فطرتًا دوسری طاقت اس بدی کے روکنے والی بھی تو انسان میں موجود ہے.ایک دفعہ کسی افسر نے ایک اپنے ملازم کو گالی دی.اس نے بھی جوش میں آ کر اپنے افسر کو گالی دے دی.تب اس افسر نے اپنے افسرِ بالا کو رپورٹ کر دی.اس نے اس ملازم کو بلوا بھیجا.سامنے آتے ہی اس نے ایک سخت گالی دے کر اس سے پوچھا کہ تُو نے کیوں اپنے افسر کو گالی دی.اس نے عرض کی.کہ جب مجھے میرے افسر نے گالی دی تو میں بے ہوش سا ہو گیا.بالاافسر نے کہا کہ تُو جھوٹ بولتا ہے.اسی لئے تو میں نے تجھے پہلے گالی دی اب غصّہ اور جوش اور بیہوشی کیوں نہیں آئی؟ (بدر۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۴.  : اس آیت پر احمق لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ جب خدا نے خود ہی آدمیوں اور جِنّوں سے دوزخ بھرنا ہے تو کسی کا کیا قصور.قرآن کریم نے اس آیت کا حل ایک دوسری آیت سے کر دیا ہے.

Page 385

Page 386

: الگ ہو جاتی ہیں ان کی پسلیاں اپنے بسترے سے رب، رب کہتے ہیں.خوف بھی لگا ہوا ہے اور امیدوار بھی رہتے ہیں اور ہمارے دئے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں.نکتہ: کنجوس.متکبّر.بدعہد.حاسد.تنہائی میں خدا سے نہ مانگنے والے کبھی ہدایت نہیں پاتے.(بدر ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۸.  انسان کو کیا معلوم ہے کہ ظاہری تکالیف میں اس کے واسطے کیا کچھ آرام و راحت مقدّر ہے.خدا تعالیٰ کے علم پر قیاس نہیں چل سکتا.اﷲ تعالیٰ کے کسی فعل پر ناراض ہونے کے کیا معنی؟ ایک ڈاکٹر کے چیر کاٹ پر کوئی ناراض نہیں ہوتا تو اﷲ تعالیٰ جو علیم و حکیم ہے اس کے فعل پر ناراضگی کیوں؟ ممکن ہے کہ اس کے بدلہ میں اس کیلئے بھلائی ہو! …الخ (البقرہ:۱۵۹) حضرت ہاجرہ ایک شاہزادی تھی.شاہانہ طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مال بھی دیا تھا.اﷲ تعالیٰ نے ان کو ایک بچّہ بھی دیا.وہ وَادٍ  میں رکھی گئی.اس جگہ اس نے کہا کہ کیا تو مجھے اﷲ تعالیٰ کے حکم سے یہاں چھوڑتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا.ہاں.تب ہاجرہ نے کہا.کہ جا.اب ہم ضائع نہیں کئے جاویں گے.اب جا کر صفا مروہ کا نظارہ دیکھو ریت کے دانوں کی مانند ان کی اولاد بھی گنی نہیں جا سکتی.ہاجرہ کو کیا خبر تھی کہ ایسا ہو گا! (بدر ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۹. ہمیشہ حق کے مخالف اور متکبّر.انبیاء اور ان کے غریب جاںنثاروں کو ستاتے اور ان کے مقابلہ میں ظالمانہ صف آراء ہوتے ہیں.پر ماٰل کاروہی کمزور اور مومن غالب ہوتے ہیں.سچ ہے..کیا جو مومن ہے وہ فاسق کا سا ہو سکتا ہے.نہیں وہ برابر نہیں.

Page 387

یاد رکھو.یہی ایک راحت بخش قانون ہے.جو سچائی کا معیار رہا اور رہے گا.اور یہی تسلّی دِہ معجزہ ہے جس کی بھلائی اور بُرائی کو عام نظر کا آدمی بھی امتیاز کر سکتا ہے.ہاں فتح مندی اور کامیابی کا تاج لینے کے واسطے.استقامت.حسن ظن.وفاداری.راستی اور کوشش شرط ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۷) ۲۰.  : یہ جنت الماوٰی تو ان کے واسطے مہمانی ہے.ورنہ انعامات تو اس کے علاوہ ہوں گے.جیسے رضوان اﷲ تعالیٰ.(بدر ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۲۲.  : دنیا میں اس لئے عذاب آتے ہیں تا لوگ ان بداعمالیوں سے باز آویں جن میں وہ گرفتار ہیں دوسرے مقام پر (انعام:۴۳) فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲) ۲۳.  : انبیاء اور ان کے نشانوں کے منکر اور ان سے اعراض کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں اور خدا تعالیٰ ایسے قطع تعلق کرنے والوں کو ضرور سزادے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍اگست ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۲)

Page 388

۲۴،۲۵.   : حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو یقینا موسٰی علیہ السّلام کا مثیل بنایا گیا ہے.چنانچہ ان آیات سے بھی تصدیق ہوتی ہے. .(مزمل:۱۶) ۲. (احقاف:۱۱) شاہد انبیاء کی ذات ہوتی ہے.۳..(آل عمران:۷۴) تورات کے استثناء باب۵ ا.آیت.اعمال کے تین باب میں اسی مِثْلِیَّتْ کا ذکر ہے.: اس کے معنے کئے گئے ہیں کہ موسٰی تجھے ملیں گے چنانچہ معراج میں ملاقات ہوئی.مگر میرے نزدیک یہ معنے نہیں نکلتے.مطلب یہی ہے کہ تم موسٰیؑ کے مثیل ہو.تمام پیشگوئی کے واقعات اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.: امام بننے کیلئے تین شرائط فرمائی ہیں.۱.یَھْدُوْنَ: ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کریں ۲. اپنے آپ کو بدیوں سے بچانے کیلئے باہمّت طعن و تشنیع سننے پر دلیر اور خدا کی بتائی ہوئی بات پر مستقل رہتے ہیں.۳.: اﷲ تعالیٰ کی آیات پر کامل یقین رکھتے ہیں.۴.چوتھی بات اس سے نکلتی ہے وہ یہ کہ وہ امام بننے کی خواہش نہیں رکھتے.نہ اس کے منصوبوں میں رہتے ہیں.: سے ظاہر ہے کہ امّتِ محمدیؐ میں بھی ایسے لوگ ہوں گے جو خدا سے الہام پا کر ہادی و امام بنیں گے.ایسے لوگوں کی شناخت کیلئے ہمارے واسطے کوئی اتنی مشکل نہیں کیونکہ پہلے اولیاء و انبیاء کے

Page 389

نمونے موجود ہیں.ان کے حالات ہم تک پہنچے ہیں.اسی منہاج پر ان کو پَرکھ لیا جائے کہ کس طرح غریب آدمی ان کے سلسلے میں شامل ہوتے ہیں.اور آخر وہ ائمۃ الکفر پر غالب آتے ہیں.اور ان کی تعلیم اصولی طور پر تمام اولیاء سابقین سے ملتی ہے.جس طریق پر ایک راست باز کو مانا.اسی طریق پر دوسرے کو مان لیں.آخر انسان اپنی ماں کو بھی ولادت کے معاملہ میں صرف اسی کی شہادت پر راست باز یقین کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۳) : توریت کے دیکھنے.قرآن کریم کے پڑھنے اور خدا تعالیٰ کے بار بار احسانات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے.کہ انبیاء علیھم السلام کی تعلیم کیا پاک تعلیم تھی.یرمیاہ نبی اپنی قوم کو ملامت کرتا ہے.عرب کے لوگ ایسے ہیں کہ وہ اپنے جھُوٹے خداؤں کو نہیں چھوڑتے تم سچّے خداؤں کو چھوڑ بیٹھے ہو.اس سے سبق ملتا ہے کہ عربوں کی یہ حالت تھی.پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت سے کس طرح سچے خدا کو ماننا آپ کی ختمِ نبوّت کی صداقت پر دلیل ہے.آپ ؐ کی کیا پاک زبان تھی.عرب فتح کیا.ایران بھی فتح کیا.عرب بھی ایسا جو کبھی نہ فاتح نہ مفتوح تھا.مِنْ لِّقِآئِہٖٖ: اس کتاب کلامِ مجید کے ملنے سے شک میں نہ ہو.امام کس طرح بن سکتا ہے.…الخ امام: بادشاہ کو! ہادی کو.قوم کے بڑے آدمی کو.مسجد کے ملّانوں کو بھی امام کہتے ہی.امام بننے کے لئے تین طریق فرمائے.اوّل: یَھْدُوْنَ: ہمارے حکم سناتے ہیں.دوم: : لوگوں کے ایذاء پر صبر کرتے ہیں.سوم: : یعنی اپنی کامیابی پر اور مخالف کی ہلاکت پر کامل یقین رکھتے ہیں.دنیا کے لوگ تین اقسام کے ہیں.بڑے عظیم الشان لوگ جن کو تبلیغ کرنا ہر ایک کا کام نہیں.ادنیٰ درجہ کے لوگ.ان کو وعظ کی ضرورت نہیں.وہ تابع حکمِ ملّاں ہوتے ہیں.اوسط درجہ کے لوگ جن کو گاہے گاہے وعظ سننے کا موقع مل جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ نے ہر ایک آدمی کے اندر اور اس کے ساتھ ایک واعظ رکھا ہوا ہے.عظیم الشان لوگوں کے واسطے اﷲ تعالیٰ نے خاص قسم کا واعظ رکھا ہے جو خطرناک واعظ ہوتا ہے.کیونکہ ان کے واسطے ہمسایہ کی تباہی کا نظارہ عبرتناک واعظ ہے.؎ مجلس وعظ رفتنت ہوس است مرگِ ہمسایہ واعظِ تُو بس است

Page 390

.(ابراہیم:۴۶) (بدر ۱۴؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۲۷.  : ہدایت کا ذریعہ ایک یہ بھی ہے کہ پچھلی قوموں کی حالت پر غور کیا جاوے.راست باز اپنے مخالفوں کے مقابل میں کامیاب ہوتا ہے اور شریر و مفسد تباہ و ہلاک ہو تے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۳) ۲۸.  : چٹیل میدان جس میں بُوٹے لگائے جاتے ہیں.ویران میدان.(بدر ۱۴؍ستمبر۱۹۰۵ء صفحہ۳) : جس طرح پانی برسنے کے بعد روئیدگی کو اُگنے سے روک نہیں سکتا.اسی طرح اب جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر فضل الہٰی کی بارش ہوئی ہے.اس کا نتیجہ ضرور نکلے گا.یعنی ان کی جماعت بڑھے گی اور پھُولے پھلے گی.یہاں تک کہ دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۳) ۲۹. :کفّار اپنی زبان خوب سمجھتے تھے وہ کی پیشگوئی کو خوب سمجھ گئے.اسی لئے سوال کیا کہ یہ فتح جس کی پیشگوئی کرتے ہو.کب ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۳)

Page 391

سُوْرَۃُ الْاَحْزَابِ مَدَنِیَّۃٌ  ۲.  : منافق کے نشان حدیث میں آئے ہیں.اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ.وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اؤ تُمِنَ خَانَ.وَ اِذَا خَاصَمَ فَجَرَ.: کفر و نفاق سے بچنے اور تقویٰ کے حصول کیلئے علاج بتاتا ہے کہ اﷲ کو علیم یقین کرے.ایک کہانی ہے کہ زلیخا نے یوسف سے ناجائز درخواست کرتے ہوئے اپنے بُت پر کپڑا ڈال دیا اور پوچھنے پر بتایا کہ اس سے شرم آتی ہے.جب ایک پتھر سے شرم آنی ممکن ہے تو کیا اس یقین سے کہ خدا علیم ہے کسی بدی کا ارتکاب کرتے ہوئے خدا سے شرم نہ آوے گی.حکیم کا کام ہے کہ خلافِ پرہیز کام کرنے سے روکتا ہے.پس جب اﷲ کو حکیم مانے گا تو ایسے کام نہیں کرے گا جو حصولِ تقویٰ میں مانع ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء) : اے نبی.اس میں مخاطب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور اس خطاب کے ذریعہ تمام جہان کو آگاہی دی گئی.: دُمْ عَلَی التَّقْوٰی.تقویٰ پر ہمیشہ قائم رہو.: کافروں اور منافقوں کی فرماں برداری مت کرنا.کافر وہ ہے جو حق بات پر کچھ غور نہ کرے اور اس کا انکار کر دے اور پھر ایسا بن جاوے کہ اس کے واسطے انذار اور عدم انذار برابر ہو.منافق کے جو علامات نبی کریمؐ نے بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں.۱.جب بات کرے جھوٹ بولے ۲.وعدہ کرے تو اس کے برخلاف کرے ۳.امانت میں خیانت کرے

Page 392

۴.جھگڑے میں فحش گالیاں دے ۵.خود بُخل کرتا ہے ۶.دوسرے صدقہ دینے والے کو بُخل کی ترغیب دیتا ہے ۷.صبح اور شام کی نماز میں سُست ہوتا ہے ۸.اس میں قوّتِ فیصلہ نہیں ہوتی نہ تابِ مقابلہ.(بدر ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۳.  : لَا تُطِعْمیں ترکِ شرک کا وعظ تھا.اب نیکیوں کے اختیار کرنے کیلئے فرماتا ہے کہ  کیونکہ انسان اپنے علم سے نہیں جانتا کہ کون کون سی چیز میرے لئے بلحاظ انجام کے مضر یا مفید ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) : جو خدا کی طرف سے تجھ پر وحی کیا گیا ہے.اس میں اوّل قرآن شریف ہے اور پھر حدیث صحیح.(بدر ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۴. : ہیکیوں کہا.ائمہ نے لکھا ہے کہ یہ دو جملے ہیں.اصل یوں ہے. ۱ .اِکْتَفِ۲ بِاﷲِ.ایک جملہ کا (اﷲ) اور دوسرے کا ( اِکْتَفِ) حذف کیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) ۵.  

Page 393

نہیں بنائے اﷲ نے دو دل کسی شخص کے اندر اور نہ بنایا ہے تمہاری ان بیویوں کو جن کو تم نے مائیں کہا.تمہاری مائیں.اور نہ بنایاہے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے.یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں.اور اﷲ تعالیٰ حق فرماتا ہے.اور وہی راہ دکھاتا ہے.یہ ایک مثال ہے کہ جیسا یہ ناممکن ہے کہ کسی کے اندر دو دل ہوں.ایسا ہی یہ بھی ناممکن ہے کہ اس ماں کے سوائے جس کے پیٹ سے آدمی نکلتا ہے کوئی اور عورت اس کی حقیقی ماں بن جاوے اور ایسا ہی یہ بھی ناممکن ہے کہ اس باپ کے سوائے جس کا نطفہ انسان ہو کوئی دوسرا اس کا باپ بن جاوے.یہ سب منہ کے کہنے کی بات ہے کہ کوئی کسی عورت کو ماں کہہ دے یا کسی مرد کو اپنا باپ کہہ دے ورنہ حقیقت میں ماں صرف وہی ہے جو ایک ماں ہے.اور باپ صرف وہی ہے جو ایک باپ ہے.نہ کسی کے اندر دو دل ہو سکتے ہیں اور نہ ایک بچّہ دو پیٹوں سے نکلتا ہے.اور نہ ایک بیٹا دو مختلف مردوں کے نطفوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے.کسی شاعر نے اس مثال کو شعر میں خوب بیان کیا ہے.ہم معتقد دعوٰی باطل نہیں ہوتے سینہ میں کسی شخص کے دو دل نہیں ہوتے (بدر ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۷.    : ابھی فرما چکا ہے کہ حقیقی ماں نہیں بنتی.پس یہ اعزاز و اکرام کے رنگ میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) : اَقْرَب ۱؎

Page 394

۸.  : سب نبیوں سے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کی خبر دینے اور ان کے ظہور کی پیشگوئی کرنے کا عہد لیا حتّٰی کہ خود نبی کریمؐ سے بھی کہ اپنی نبوت کا اندازہ کریں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۴) ۹. لِیَسْئَلَ : تاکہ اظہار کئے جاویں.(بدر ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۰.   : جنگ احزاب میں فتح ۱؎ زیادہ قرب.مرتّب قصہ جنگِ احزاب مدینہ میں جو یہود رہتے تھے اور حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ امن کا اور بیرونی مخالف کا مقابلہ کرنے کا وعدہ کر چکے ہوئے تھے.ان کی خفیہ سازش کے ساتھ دس ہزار عرب مسلمانوں کے برخلاف لڑائی کرنے کے واسطے مدینہ منورہ پر چڑھ آئے.اندر سے یہود دشمن ہو گئے.باہر سے اس قدر لشکر آیا.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تھوڑے سے مسلمانوں کے ساتھ جن کی تعداد اس وقت چھ سو تھی.اس لشکر کے مقابلہ کے واسطے نکلے.ایک پہاڑی کے پہلو میں رات گزارنے کے واسطے ڈیرہ لگایا

Page 395

ایک طرف پہاڑ تھا.اور ایک طرف بہ نظر اسباب ظاہری ایک خندق کھو دی گئی.اتنے بڑے لشکر کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کیا تعداد تھی.آپؐ دعاؤں میں لگے رہے.ایک رات کو آدھی رات کے قریب آپؐ نے آواز دی کہ کوئی ہے جو جا کر دیکھے کہ کافروں کا لشکر کہاں ہے.تیز ہوا سردی اور دشمنوں کا ڈر.جس نے آپؐ کا آواز سنا وہ بھی مارے خوف کے خاموش ہو رہا.لیکن ایک صحابی اٹھا.اور باہر گیا.اور واپس آ کر خبر دی.کہ کفّار کا نام و نشان نہیں.معلوم نہیں دس کا دس ہزار کہاں چلا گیا.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ سب کے سب وہاں سے اس طرح بھاگ گئے تھے جس طرح ایک چھوٹا سا لشکر کسی بڑے عظیم الشّان لشکر کے ڈرسے ہراساں و تر ساں بھاگ جاتا ہے.اور اس کی وجہ اس طرح سے خداوند تعالیٰ نے قائم کی کہ رات کو جب تیز ہوا چلنی شروع ہوئی تو ایک کافر سردار کے ڈیرے کی آگ بُجھ گئی.آگ سے وہ لوگ جنگ کی تعبیر لیا کرتے تھے.اور میدانِ جنگ میں آگ کا بجھنا ایک بڑی بدشگونی سمجھی جاتی تھی.کافر نے سوچا کہ یہاں خَیر نہیں.آگ بُجھ گئی ہے انجام بُرا معلوم ہوتا ہے.بہتر ہے کہ چپکے چپکے نکل جاؤں.چنانچہ اس نے اپنا خیمہ ڈنڈا اکھیڑا اور وہاں سے چل کھڑا ہوا.پاس والوں نے جو دیکھا کہ وہ اس طرح سے نکل گیا ہے تو انہوں نے سمجھا کوئی بہت ہی خرابی کی بات واقع ہوئی ہے جو وہ راتوں رات بھاگا ہے.انہوں نے بھی اپنا بسترا بوریا لپیٹا اور بھاگ نکلے.ان کو دیکھ کر پھر اور بھاگے غرض اس طرح خدا کے فرشتوں نے ان سب کو سراسیمہ اور ہراساں کر کے بھگا دیا.یہاں تک کہ کفّار کے لشکر کا کمانڈر اپنے اونٹ کی پچھاڑی کاٹنا بھی بھول گیا اور جلدی سے اونٹ پر سوار ہو کر اس کو ایڑی لگائی کہ چل.پر وہ چلے کہاں.اس وقت جو نعمتِ الہٰی مسلمانوں پر ہوئی.اس کا ذکراس جگہ ان آیات میں ہے.(بدر ۲۲؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۳) ۱۱ تا ۱۳.   

Page 396

 جُنُوْدٌ: لشکرِ کفّار.دس ہزار آدمی باہر سے حملہ آور ہوئے اور اندر سے یہود دشمن ہو گئے.: باہر سے آئے.: مدینہ کے دشمن یہود جو برخلاف معاہدہ بیرونی دشمنوں کے ساتھ مِل گئے تھے.: دل دھڑکتے ہوئے حنجرے پر معلوم ہوئے.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) غزوۂ خندق جسے غزوۂ احزاب بھی کہتے ہیں (وجہ تسمیہ اسکی یہ ہے.کہ آپؐ نے سلمانؓ کے کہنے پر اپنی فوج کے گردا گرد خندق کھدوالی تھی جیسا اس زمانے میں اہلِ فارس کا دستور تھا) اس موقعہ پر عرب کے بہت سے قبائل اہلِ اسلام کے استیصال کو اکٹھے ہوئے.یہود کی ایک جماعت سلام بن ہقیق نضری اور حُیَیْ بن اخطب نضری و کنانہ بن ربیع بن ابی حقیق نضری و ہوذہ بن قیس وائلی و ابو عمار وائلی بنی نضیر اور بنی وائل قبیلے بہت سے لوگوں کو سات لے کر خیبر سے چل کر قریش مکّہ کے پاس آئے اور انہیں اپنی کمک و رفاقت کے قوی وعدے دے کر آنحضرتؐ سے لڑنے کو کہا اور سخت ترغیب دی.کہ ایک دفعہ مل کر مسلمانوں کا استیصال کر ہی ڈالیں.قریش نے انہیں کہا.اے گروہ یہود تم لوگ پہلے اہل کتاب ہو اور تم ہمارے اور محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے درمیان اختلاف کی وجہ کو جانتے ہو یہ تو بتاؤ کہ ہمارا دین اچھا ہے یا دینِ محمدؐ.انہوں نے ( یہود بنی اسرائیل.اہلِ کتاب.موحدّ.بُت پرستی کے دشمن) کہا.تمہارا دین اس سے کہیں بہتر ہے.اور اس سے زیادہ حق پر ہو.انہیں کے حق میں یہ آیت اُتری.   (نساء:۵۲)  (نساء:۵۵) قریش اس بات سے نہایت خوش ہوئے اور اجتماع عظیم کیا.پھر وہ یہود غطفان قیس کے پاس

Page 397

آئے.اور وہی مضمون پیش کیا اور کہا کہ قریش سب اس امر میں ہم سے متفق ہیں.وہ بھی جمع ہوئے قریش اور غطفان نکل کھڑے ہوئے.قریش کا سپہ سالار ابوسفیان تھا اور غطفان کا عُیَیْنَہْ بن حصین فزاری.غرض دس ہزار فوج جرّار بڑے بڑے منصوبے باندھ کر خدائی لشکر کے مقابلے کو روانہ ہوئے قریش تو مدینے کے اس طرف اترے جہاں بارشی ندیاں بہتی تھیں.بنی کنانہ.اہل تہامہ.بنو قریظہ.بنو نضر غطفان.اہل نجد وغیرہ اُحد کی طرف اترے.اور مسلمان وہاں اترے جہاں سلعؔ نام پہاڑ ان کے عقب میں تھا.اور تعداد میں فقط تین ہزار تھے.حُیَيّ بن اخطب خیبر کا ایک یہودی کعب بن اسد قرظی رئیس بنی قریظہ کے پاس آیا اور کعب قبل اس کے اپنی قوم کی جانب سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مسالمت کا معاہدہ کر چکا تھا.کعب قرظی نے یہ کہہ کر دروازہ بند کر لیا کہ مَیں نے آنحضرتؐ سے معاہدہ کر لیا ہے اور میں نے اس شخص میں سوائے وفا و صدق کے نہیں دیکھا.اس لئے میں نقضِ عہد نہیں کرنے کا.ابنِ اخطب نے بڑے زور سے اس سے کہا.کہ اوکمبخت میں تو لشکرِ کرّار اور فوج جرّار تیرے پاس لایا ہوں.دیکھ وہ مجتمع الاسیال ( ندیاں بہنے کی جگہ) میں اترے پڑے ہیں.اور غطفان ان کے مقدمۃ الجیش ہیں.وہ اُحد کے پاس ٹھہرے ہیں اور مجھ سے ان سب جماعتوں نے مضبوط عہد باندھا ہے کہ محمد ( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے استیصال کئے بغیر یہاں سے ٹلیں گے نہیں.غرض بڑے الحاح اور اصرار سے کعب راضی ہو گیا.اور نقضِ عہد کی شامت سے نہ ڈرا.جب یہ خبر آنحضرتؐ کو ہوئی.آپؐ نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ اور ابن رواحہ اور خوات کو اس لئے بھیجا کہ یہود کی خبر لاویں.کہیں کفّار مکہ سے مل تو نہیں گئے.جب یہ لوگ وہاں پہنچے.دیکھا یہود سخت بگڑے ہوئے ہیں اور مخالف ہو گئے.یہ لوگ واپس چلے آئے.اور اس واقعہ کو نبی ٔ عربؐ پر ظاہر کیا.عضلؔاور قارہؔ نے جیسے اصحاب الرجیع کے ساتھ غدر اور مکّاری کی ہے ایسی ہی اس تکلیف کے وقت یہود نے عہد شکنی کی.اسی واسطے اس غزوۂ احزاب اور خندق کے واقعہ میں قرآن فرماتا ہے.  فِیْ (الاحزاب:۱۱تا۱۳) اس لڑائی میں نوفل بن عبداﷲ کفّار کی طرف سے حملہ آور ہوا.اور خندق میں گر کر مر گیا.دشمنوں

Page 398

خون بہا دے کر اس کی لاش لینی چاہی.مگر نبی اﷲ نے مفت دے دی.اس شدّت کی حالت میں مختلف اقوامِ عرب اور نواحی مدینہ کے یہود کی حملہ آوری اور اسلام کی کمزوری کو منافق اور کمزور لوگ دیکھ کر چل نکلے اور کل تین سو آدمی آپؐ کے پاس رہ گیا.اس قلیل جمعیت میں خدائی لشکر اسلام کی امداد کو آیا.ہوا کی تیزی اور سردی نے دشمن کے ڈیرے خیمے اکھیڑکر دشمن کو راتوں رات بھگا دیا. (الاحزاب:۲۶)کی تصدیق ظاہر ہوئی.اس لڑائی میں غطفانؔ اور بنوقریظہؔ اور بنو نضیرؔ اور اہل خیبرؔ کا سلوک ہرگز ہرگز ہرگز فراموش کرنے کے قابل نہیں.ان بدعہد.عہد شکن قوموں کی لڑائی کی جڑھ یہی واقعات ہیں.اس لڑائی میں پانچ نمازیں ایک وقت میں پڑھی گئیں اور اس مکّی آیت کی (ص ٓ:۱۲) اسی لڑائی میں تصدیق ہوئی.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۱۰۷تا۱۰۹) غزوۂ قریظہ خندق اور احزاب کی لڑائی میں … مشرکوں کے مختلف گروہ اور یہودی اور غطفانی خاص مدینے میں اسلامیوں پر چڑھ آئے.حُیَيّ بن اخطب یہودی بنو نضیرؔ کی جلاوطنی کے بعد قریش کو تحریص دیتا.اور کنانہ ابولحقیق کا پوتا غطفانیوں کو اُکسا لایا.اور اُن سے وعدہ کیا.خیبر کی آمدنی سے نصف آمدنی میں دوں گا.اگر مسلمانوں پر حملہ آوری کرو.سلام بن مشکم اور ابن ابو الحقیق اور حُیَيّاور کنانہؔ یہ سب بنو نضیر مکّے میں پہنچے اور کہا ہم تمہارے ساتھ ہیں اگر تم اسلام پر حملہ آوری کرو.ان یہودیوں کی کارستانی اور جادو بیانی قریش کے غیظ و غضب سے مل کر تمام عرب کو مدینہ پر چڑھا لائی.جب یہ مختلفہ اقوام بغرض استیصال اسلام مدینے میں پہنچے حُیَيّبن اخطب یہودی.خیبری.نضری کعب بن اسد قرظی ( یہ شخص بنو قریظہ کا ہم عہد تھا) کے پاس پہنچا.پہلے تو کعب نے حُیَيّ کو گھر میں گھسنے نہ دیا.اور کہا.ہمارا اور اسلامیوں کا باہم معاہدہ اور اتحاد ہے.اور بنو قینقاع اور بنو نضیر پر جو کچھ بدعہدی کا وبال آیا.اسے یاد کیا.مگر حُیَيّنے کہا.مَیں تمام قریش اور عرب کے مختلف قبائل کو مدینہ پر چڑھا لایا ہوں.اور ان تمام اقوامِ عرب نے عہد کر لیا ہے کہ جب تک اسلام کا استیصال نہ کر لیں گے مدینے سے واپس نہ جائیں گے.کعب نے پہلے پہل بہت ٹالم ٹالا کیا اور کہا.محمدؐ بڑا راستگو.راستی پسند انسان ہے اور عہد کا بڑا پکّا ہے.ہم کو مناسب نہیں اس کے ساتھ بدعہد بنیں.مگر آخر دشمنوں کی کثرت اور ان کے استقلال کو دیکھ کر اور حُیَيّ کے پھسلانے اور عداوتِ اسلام کی قدیم بدعہدی میں آ کر باغی بن گیا اور تمام عہدوں کو بالائے طاق رکھ کر اس عبرت بخش عاقبت اندیش عقل کو کھو بیٹھا.جو معاملات بنو قینقاع اور بنو نضیر میں تجربہ کار ہو چکی تھی.اور عین جنگ کے وقت آنحضرت ؐ کو ان یہودیوں کی بدعہدی کی خبر

Page 399

پہنچی.آپؐ نے بہت سے آدمی تحقیقِ خبر کے لئے روانہ فرمائے اور کہا.ان لوگوں کو فہمائش کرو.عہد پر قائم رہیں مگر یہود نے درشت جواب دیا اور کہا.رسولؐ اﷲکیا ہیں.جو ہم ان کی اطاعت کریں؟ ہمارا ان کا کوئی عہد نہیں! ان تمام آدمیوں نے جو یہود کے مقابلے کی خبر لینے گئے تھے آ کر عرض کیا.یہود دشمن کے ساتھ ہو گئے.قرآن بھی اس کی خبر دیتا ہے.اور احزاب کے قصّہ میں کہتا ہے.  …(الاحزاب:۱۱،۱۲) جہاں یہود کی سزا کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے وہاں صاف وجہ سزا کو بیان فرمایا ہے اور اسی سورۃ میں کہا ہے:   (الاحزاب:۲۷) آپؐ کے ساتھی گھبرا گئے.ادھر تھوڑے سے معدود گروہ پر سارے عرب کی چڑھائی.اُدھر گھر میں یہود کی بدعہدی.پھر یہود مدینہ کے طرق اور راستوں کی کیفیت سے واقف محاصرین کفّار کو غیر محفوظ مقام بتا سکتے تھے.اس لئے بڑا خوف ہوا.علاوہ برآں منافقوں کا نکل بھاگنا اور کمزور دلوں کا عذر بلاؤں پر بلائیں لایا.قربان جائیے.الہٰی عاجز نوازی کے! اُسی کے جنود نے ان سب اعداء کو بھگوڑا بنایا اور تخمیناً ایک مہینے کے محاصرے پر کفّار عرب الہٰی اسبابوں سے بھاگ گئے.کیونکہ دس ہزار کی بھیڑ کے ساتھ تین ہزار اسلامیوں میں سے صرف تین سو باقی رہ گئے تھے(وہی جو سچے مسلمان تھے) جب دشمن خود بخود بھاگ گئے اور آپؐ کو ان کی طرف سے امن ہوا.اور یہ اندیشہ مٹ گیا تو اہلِ اسلام کو ایک نیا کھٹکا ہوا.کہ بنو قریظہ عہد شکنی کر چکے ہیں.اگر انہوں نے مدینہ پر شب خون مارا تو ہر ایک اسلام والا قتل ہو جائے گا.لہذا مقتضٰی عاقبت اندیشی نے بتایا تو آپ مقام جنگ سے جہاں خود حفاظتی کیلئے آپ نے کھائی کھود لی تھی.مدینہ میں تشریف لائے اور قلعہ جات بنو قریظہ کا محاصرہ کیا.دس پندرہ روز محاصرے میں لگ گئے.اب قلعہ بند لوگ گھبرائے.اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رُعب ڈالا (َ) تب یہودان بنو قریظہ کا رئیس کعب بن اسد قوم میں کھڑا ہوا.اور وہ اسپیچ دی جس میں کہا.اے قوم تم کو مناسب ہے.تین باتوں میں سے ایک بات مان لو.یا تو اس شخص ( محمدؐ) پر ایمان

Page 400

لاؤ.تم کو صاف عیاں ہو چکا ہے یہ شخص بے شک نبی ہے.اور یہ وہی ہے جس کی بابت توریت میں پیشگوئی اور بشارت ہو چکی ہے.تم اور تمہارا مال و اسباب اور تمہاری جانیں بچ رہیں گی! قوم نے اس پر انکار کیا تب اس نے کہا.آؤ عورتوں اور بچوں کو قتل کر ڈالیں (اس کی سزا پائی) اور تلواریں لے کر مسلمانوں پر گر پڑیں یہاں تک کہ شہید ہو جاویں.قوم نے کہا اگر ہم جیت گئے تو بال بچوں اور عورتوں کے بغیر ہماری زندگی کیونکر ہو گی؟ تب کعب نے کہا.آج سبت کی رات ہے.محمدیؐ جانتے ہیں آج ہم غافل ہیں اور سُست ہیں.آؤ غفلت میں مسلمانوں پر حملہ آوری کریں.تب قوم نے کہا.تجھ کو خبر نہیں سبت کی بے حرمتی سے ہمارے بڑوں پر کیسے وبال آئے.وہ سور اور بندر بن گئے.آخر قوم کے اتفاقات سے یہود نے ایک سفیر جناب رسالت مآب کے حضور روانہ کیا.اور کہا.کہ ابولبابہ بن منذر کو ہمارے پاس بھیجے.ہم اُس سے صلاح لیں گے.جب ابولبابہ انکی درخواست سے وہاں آئے.عورتیں اور بچے چلاّئے.اور یہود نے کہا.کیا تیری صلاح ہے.ہم لوگ محمدؐ کے فیصلہ پر دروازہ کھول دیں؟ اس نے کہا.بیشک.مگر اشارہ کیا.وہ تم کو ذبح کا فتویٰ دیں گے.پھر ابولبابہ پچھتایا اور اپنے آپ کو مسجد میں جا باندھا.جب محاصرے پر مدّت گزری اور وہ یہود تنگ ہوئے تو ان کم بخت لوگوں نے کہلا بھیجاہماری نسبت جو سعد بن معاذ فیصلہ کرے.وہ فیصلہ ہم کو منظور ہے.بد قسمتوں نے رحمۃ للعالمین کو حاکم نہ بنایا.بلکہ سعد کے فتوے پر راضی ہو گئے.اور قلعہ سے نکل آئے.رسولؐ خدا نے سعد بن معاذکو بلایا اور کہا.یہ لوگ تیرے فیصلے پر ہمارے پاس آئے ہیں اس سپاہی کو اس قوم کی بدچلنی اور بدعہدی اور ناعاقبت اندیشی اور بنوقینقاع اور بنو نضیرسے عبرت نہ پکڑنے پر یہی سوجھی کہ اس بدذات قوم کا قصہ تمام کرو.اس نے کہا ان کے قابلِ جنگ لوگ مارے جاویں اور باقی قید کئے جاویں.غرض کئی سو آدمی قریظی مدینہ میں لا کر قتل کیا گیا.مانا انسانی فطرت کا خاصّہ ہے.چاہے کوئی کیسے جرائم اور معاصی کا مرتکب ہو جب اس سے کوئی ایسا سلوک کیا جاوے جو ہمارے نزدیک سختی اور بے رحمی ہے تو اس وقت ہمیں خواہ مخواہ ایک نفرت اور کراہت معلوم ہوتی ہے اور ہمارے دل میں رحم.عدل کی جگہ کو چھین لیتا ہے.مگر رحم کے باعث عدل چھوڑنا اور جرائم کی سزا سے در گزر نہ چاہیئے.یہود نے دغادی.بدعہدی کی.عین شہر کا امن کھو دیا.مسلمانوں کی توحید اور موسٰیؑ و توریت کی تعظیم کو بُت پرست قوم کے مقابلہ میں بھُلادیا.بہر حال مسلمانوں کا حکم قریظہ کی نسبت گرامویل کے حکم سے بہت کم تھا.جس کے بموجب آئرلینڈ میں شہر ورڈھیڈا کے سب باشندے بلافرق تِہ تیغ بے دریغ کئے گئے.کار لائلؔ لکھتا ہے.سچ ہے شریر کا سو مرتبہ قتل ہونا بہتر ہے کہ وہ بے گناہوں

Page 401

کو اغوا کرے.یہ اسلام کا فعل اس وقت کے مارشل لاء سے بہت نرم تھا.اور حضرت داؤدؑ کی سزا سے جس میں انہوں نے جیتے آدمی جلتے پَزَاْؤوںْ میں جلائے اور پھر ہمیشہ خدا کے مطیع کہلائے.نہایت نرم ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۱۱۹تا۱۲۲) غزوۂ احزاب میں تمام عرب کے مختلف فرقے مدینے پر چڑھ آئے اور مدینہ کے یہود اور کل منافق لوگ ان حملہ آوروں کے ساتھ شریک ہوئے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہوئی کہ لوگوں نے کہہ دیا.اور اس واقعہ کی خبر رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے پہلے ہی سے مکّے میں دے دی تھی.کہ عرب کے احزاب اور ان کی سنگتیں ہم پر چڑھ آئیں گی.( جیسا عنقریب آتا ہے) اِلَّا وہ سب بھاگ کرنا کامیاب چلے جائیں گے اور ایسا ہوا کہ جب مسلمانوں نے اُس فوجِ کثیر کو دیکھا با ایں ہمہ قلّت تعداد بول اٹھی. …(احزاب:۲۳) اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم نے اس حملے کی بابت پہلے ہی خبر دے دی تھی اور یہ خبر علی العموم موافق و مخالف میں پھیلی ہوئی تھی.چنانچہ  …(احزاب:۱۳) اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق وغیرہ مخالفین بھی پہلے ہی سے اس وعدے کو خوب جانتے تھے گو اب بے ایمانی اور بزدلی نے انہیں قائم نہ رہنے دیا.نکتہ.لفظ جو مسلمانوں کے منہ سے نکلا صاف بتلاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے اپنی کامیابی پر وثوق کُلّی رکھتیتھے کیونکہکے معنی ہیں.کسی کو اُس کے مفید مطلب وعدہ دینا بخلاف ایْعَادْ کے کہ اس کے معنے دھمکی دینا اور ڈرانا ہے.اب ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اس وعدے کا ذکر خود قرآن کی ایسی سورۃ میں موجود ہے جو مکے میں

Page 402

اتری وہ آیت یہ ہے: (ص:۱۲) . (القمر:۴۵.۴۶) (فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۹۵.۹۶) ۱۴.   : اے مسلمان مدینہ والو.تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں.: اپنے اپنے مذہبوں میں لوٹ جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) اور ایک فریق اُن میں سے نبی سے اجازت مانگتا کہ ہمارے گھر خالی ہیں حالانکہ وہ خالی نہ تھے منشا ان کا فقط بھاگ جانا تھا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۵) مجھے ان لوگوں پر تعجّب آتا ہے جو سلسلۂ بیعت میں داخل ہیں.مگر یہاں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو اس قدر جلدی کرتے ہیں کہ ایک دن رہنا بھی اُن کیلئے ہزاروں موتوں کا سامنا ہو جاتا ہے.ان کے جتنے کام بگڑتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر بگڑتے ہیں.جتنے مریض ہوتے ہیں وہ یہاں ہی رہ کر ہوتے ہیں ہزاروں ہزار عذر کرتے ہیں.یہ بات مجھے بہت ہی ناپسند ہے.مجھے ایسے عذر سُن کر ڈر لگتا ہے کہ ایسے لوگکے الزام کے نیچے نہ آ جائیں.پس جب یہاں آؤ تو امام کی صحبت میں رہ کر ایک اچھے وقت تک فائدہ اٹھاؤ.کَسَل اور بُعد اچھا نہیں ہے.! خدا کرے.ہمارے احباب میں وہ مزہ دارطبیعت پیدا ہو جو وہ اُس ذوق اور لُطف کو محسوس کر سکیں جو ہم کر رہے ہیں.اﷲ تعالیٰ ستّار ہے اور جب تک کسی کی بدیاں انتہاء تک نہ پہنچ جاویں اور(البقرہ:۸۲)نہ ہو جاوے اور حد سے تجاوز نہ کر جاوے.خدا تعالیٰ کی ستّاری کام کرتی ہے.بعد اس کے

Page 403

پھر سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اس لئے اس سے پہلے کہ تمہاری بدیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کر چکیں اور یہ زہر تمہیں ہلاک کر دے.اس کی تریاق توبہ کا فکر کرو.(الحکم ۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸) ۱۵.  اَلْفِتْنَۃ ُ : کفر، شرک، خانہ جنگی، مسلمانوں کا قتل.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) ۲۰.    : تم پر جان قربان کرنے میں بخیل ہیں.: مال دینے میں بخیل ہیں.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۲. 

Page 404

 : کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ جب انہیں بتایا جائے.یہ کام یوں کرنا چاہیئے.تو وہ کہتے ہیں.کیا ہم بھی کوئی نبی ہیں.یہ بالکل غلط راہ ہے.نبی کا نمونہ نہ اختیار کیا جاوے تو کسی فرعون یا ہامان کی پیروی کرنی چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) تمہارے لئے اﷲ کے رسول کا عمدہ نمونہ ہے.اُس نمونہ کی بموجب اپنے اعمال بناؤ.اس لئے مسلمانوں کو رسول کریمؐ کے افعال.اعمال اور ہر قسم کے نمونہ کے علم کی ضرورت ہے.اسی لئے صحابہ ؓ نے حضرت رسول کریمؐ کے پوشیدہ سے پوشیدہ امور کو دریافت کیا اور بعد والوں نے جہاں تک انکی طاقت تھی حضرت رسولِ کریمؐ کے دیکھنے والے یا دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں سے اسی طرح سلسلہ سے حضرت رسولِ کریمؐ کے قول اور فعل کو اکٹھا کیا.تاکہ حضرت رسول کریمؐ کا نمونہ ہاتھ آئے.ہمیشہ سے قاعدہ ہے کہ کوئی کاریگر جب کوئی چیز نمونہ کے بموجب بناتا ہے.تو نمونہ آگے رکھ لیتا ہے.اس لئے صحابہ کے لئے حضرت رسول کریمؐ نمونہ تھے.اور وہ حضرت رسول کریمؐ کو دیکھ کر ان کے قدم بقدم چل کر کامیاب ہوئے.(الحکم ۱۰؍اگست ۱۹۰۳ء صفحہ۱۰) ۲۴.  : اپنی بات کو پورا کر چکے ہیں.خدا کی راہ میں اپنی جانیں بھی دے چکے.مَنْ: جو اس انتظار میں ہیں.کہ اگر ضرورت ہو تو وہ بھی اپنی جانیں قربان کریں.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۲۵. 

Page 405

  : کتاب کے معنے.حفاظت (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) ۷.  : پس وہ راستہ موجبِ ذلّت و مذمّت نہیں کیونکہ وہ عزیر و حمید کا رستہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) ۱۰.   : اگر ہم چاہیں گے تو اسی زمین میں ذلیل کر دیں گے.: ایک وقت آسمان کے بادلوں کے ذریعے نشان ظاہر ہو گا.چنانچہ ایک جنگ میں مینْہ کے ذریعہ مومنوں کے قدم ثابت ہوئے اور کفّار بھاگے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) ۱۱. 

Page 406

نہیں پہنچے.پہلے رکوع میں خدا نے ذکر فرمایا ہے کہ بنو قریظہ نے قریشِ مکّہ و دیگر فرقوں کو اُکسایا.اور نبی کریمؐپر چڑھا لائے.یہ بنو نضیر کی تحریک تھی جو جلا وطن کئے گئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے مالوں اور گھروں کے وارث نبی کریمؐاور صحابہ کرامؓ قرار پائے اور اس قسم کی کئی اَور فتوحات ہوئیں.ان تمام اموال کے قبضہ میں آنے کا نتیجہ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ازواج النبیؐ کے دل میں خیال آ جاوے.کہ اب ہماری حیثیت شاہی بیبیوں سی ہونی چاہیئے.اور اتنی مدّت ہم نے فقر وفاقہ سے گزاری.اب تو فراخی ہونی ضروری ہے.اس لئے ان کو اس رکوع میں سمجھایا گیا ہے.کہ اسی طرح فقر و فاقہ میں گزارہ کرنا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم ستمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۴) : جس زمین پر تم نہیں چلے.ارضِ شام.اس میں پیشگوئی ہے.کہ شام کا ملک بھی تم فتح کرو گے.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵صفحہ۶) ۲۹.  : اوپر جنگ اور اُن میں فتوحات کا ذکر ہے.اس کے ساتھ ہی دفعتہ یہ ذکر بھی شروع ہو گیا کہ اے نبی اپنی بیویوں کو کہہ دے.کہ اگر تم دنیوی زیب و زینت اور مال اسباب کی خواہشمند ہو تو آؤ.میں تمہیں رخصت کردوں.ان دونوں آیات کا باہم ربط یہ ہے کہ جب فتوحات سے متعلق پیشگوئیوں کی آیات نازل ہوئیں.تو طبعاًآنحضرتؐ کے اہلِ بیت کے دل میں یہ خیال آ سکتا تھا کہ جب اس قدر فتوحات ہوں گے اور بے شمار مالِ غنیمت آئے گا.اور قیصر و کسریٰ کے خزانے یہاں مدینہ میں آ جاویں گے تو ہم کو بڑا مال و دولت ہاتھ آئے گا.اور بڑے عیش و آرام سے زندگی بسر ہو گی.برخلاف اس کے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم کبھی اپنے واسطے کچھ جمع کرنا اور مال و دولت سے دل لگانا گناہ سمجھتے تھے.اس واسطے ازواج کا دل بھی پہلے سے ہی اس قسم کے خیالات سے پاک کر دیا گیا اور صرف اﷲ اور اس کے رسولؐ کی خاطر وہاں رہنا انہوں نے منظور کیا.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵صفحہ۶)

Page 407

کے طور پر باری تعالیٰ اس آیت میں کرتا ہے.وہ بات یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے جہازوں کے دو بیڑے بنائے تھے.ایک خلیج فارس اور بحرِ ہند میں.دوسرا بحرِ روم میں چلتا تھا.اس امر کا ثبوت معتبر یہودی تاریخ سے سن لیجئے سلاطین اول ۹ باب ۲۶ پھر سلیمان بادشاہ نے عصیون جبر میں جو ایلوت کے نزدیک ہے دریائے قلزم کے کنارے پر جو ادوم کی سر زمین میں ہے.جہازوں کے بجر بنائے اور حیرام نے اُس بجر میں اپنے چاکر ملاح جو سمندر کے حال سے آگاہ تھے سلیمان کے چاکروں کے ساتھ کر کے بھجوائے اور وے اوفیر کو گئے (اور دیکھو اخبار الایام ۲.باب ۲.۱۶) اخبار الایام دوم ۲ باب ۱۶.بادشاہ کے جہاز حیرام کے نوکروں کے ساتھ ترسیس کو جاتے اور وہاں سے ان پر تین برس میں ایک بار سونا اور روپا اور ہاتھی دانت اور بندر اور مور اسکے لئے بھیجتے تھے.چونکہ زمانہ سابق میں جہاز کا چلنا صرف ہوا کے موافق اور سازگاری ہی پر موقوف تھا اور حضرت سلیمانؑ کے جہاز بتوفیقِ الہٰی ہوا کی سازگاری سے حسب المرام چلتے اور کام دیتے تھے.بنا براں باری تعالیٰ اس جگہ امتناناً ریح یعنی ہوا کا ذکر کرتا ہے کہ ہم نے ہوا اس کے کام میں لگا دی اور اس لئے کہ ہوا ہی محرّک اور منشائے جہازرانی کی متممِ اعظم تھی.ہوا ہی کے ذکر پر اکتفا کیا اور کفایۃًجہازرانی مراد رکھی.اس آیت کے آگے فرمایا ہے. (سبا:۱۳) اس میں اُن جہاز وں کے سفر اور طے مسافت کا بیان ہے کہ صبح و شام میں اتنی مسافت طے کر جاتے تھے جو اس زمانے میں بلحاظ سفر برّی کے ایک مہینے کی راہ ہوتی تھی بیشک اس ابتدائی زمانے میں سفر برّی کی دشواریوں اور صعوبتوں اور راہوں کے محفوظ و مامون نہ ہونے پر اگر نظر کی جاوے تو جہازرانی جس کے ذریعے سے خشکی کی کوسوں کی راہ چند گھنٹوں میں طے ہو جاتی تھی خدا کے فضل اور قدرت کی ایک عظیم الشان آیت (نشانی) تھی اور بنی اسرائیل کے لئے خصوصاً جنہیں اوّل اوّل خدا نے یہ فن عطا کیا.خدا کے احسانات کے تَذَکَّرکی بڑی بھاری نشانی تھی.قرآن مجید کا یہ عجیب اور مخصوص طرز ہے کہ اس میں باری تعالیٰ انسان کو وہ منافع اور فوائد جو انسان قویٰ قدرت کے استعمال سے یا اﷲ تعالیٰ کے محض فیض سے ان اشیاء سے حاصل کرتا ہے یاد دلا کر اور اپنا علّت العِلل ہونا ان کے ذہن نشین کرا کر اُس کو اپنی طرف بُلاتا ہے.اور یہ عجیب طریقہ انسانی قویٰ پر تاثیر کرنے کا ہے.جو حقیقۃً قرآن کریم ہی سے مخصوص ہے اور اس بیان قوانینِ قدرت سے تمام قرآن لبریز ہے.ایسا ہی اس آیت میں بھی اُس عادتِ جاریہ کے موافق حضرت سلیمانؑ پر انعام و فضل کا ذکر کیا ہے اس سے آگے والی آیت یہ ہے.تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖٓ اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَافِیْھَا.چلتے تھے وہ

Page 408

عمال.احکام اور چال چلن بیان کرتے ہیں.تو اس وقت بہت لوگ شیطانی اغوا سے کہہ دیتے ہیں کہ یہ کام ہم سے نہیں ہو سکتا.نہ ہم رسول نہ رسول کی بی بی.میرے نزدیک یہ کہنا کفر ہے اور خدا پر بھی الزام آتا ہے.اس لئے کہ اگر ہم سے ان احکام کا نباہ نہیں ہو سکتا.تو کیا خدا نے کوئی لغو حکم دیا ہے.پھر جب خدا نے نبی کی اتباع کا حکم دیا ہے.جبکہ ہم وہ کام کر ہی نہیں سکتے.تو ہمیں ان کی اتباع کا حکم کیوں ملا؟ میرا ایمان ہے کہ جن احکام کا متبع خدا نے ہم کو بنایا ہے.ہم ضرور کر سکتے ہیں اور جن سے روکا ہے ان سے ہم رُک سکتے ہیں.پس میں یقین کرتا ہوں کہ خدا نے جو حکم دئے ہیں ان کو ہم کرسکتے اور اس کے مَوَانِعَات سے ہم رُک سکتے ہیں.رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم اور آپؐ کی بیبیاں جب مدینہ میں تشریف لائے تو مدینہ میں کوئی مکان، باغ.زراعت یا تجارت کا سامان نہ تھا اور سب کو ایک گو نہ تکلیف تھی اور وہ اس قسم کی تکلیف نہ تھی جیسے آج کل لوگوں کو لنگر سے کھانا ملتا اور مہمان خانہ میں چارپائی ملتی بلکہ اس وقت ان چیزوں میں سے کچھ بھی نہ ملتا تھا.پھر ایک شریر قوم یہود نے آنحضرتؐ سے سخت چھیڑ کی یعنی دس ہزار آدمی کو باہر سے چڑھا کر لائے اور اندر سے خود تباہ کرنا چاہا.مگر خدا نے ان باہر والوں کو بھگا دیا.اور یہود کو اس پاداش میں ہلاک کیا.اور ان کے کل اموال آنحضرتؐ کے سپرد کئے.اس پر کمزور طبائع کی عورتوں کو خیال آیا کہ اب ہمیں آسائش ہو جاوے گی.اس پر یہ حکم آیا کہ اے نبی! اپنے گھر والوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارا اصل منشاء دنیا والی زندگی اور اس کی زیب و زینت کا خیال ہے تو آؤ ہم تمہیں کچھ دے کر علیحدہ کر دیتے ہیں.اور اگر یہ منشاء ہے کہ خدا راضی ہو.اس کا رسولؐ راضی ہو.آئندہ سُکھ پاؤ تو یاد رکھو.کہ خدا کسی کا اجر ضائع نہیں کرتا.اے نبی کی بیبیو! اگر تم میں سے کوئی بدی کا ارتکاب کرے گی تو اس کو دوہرا عذاب ملے گا اور یہ بات خدا پر آسان ہے اور جو کوئی تم میں سے خدا اور رسول کی اطاعت کرے گی اور عملِ صالح کرے گی.دوگنا اجر دیں گے.اے نبی کی بیبیو! کیا تم عام عورتوں کی طرح تو ہو نہیں.جبکہ تم نے متّقی بننے کا ارادہ کیا ہے تو کوئی ایسی بات نہ کرنا کہ جس میں کسی شریر کا لحاظ پایا جاوے.اور ایسی بات کہو جو بھلی اور پسندیدہ ہو.اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہو.اور جاہلوں کی طرح باہر نہ نکلا کرو.اور درست رکھو نماز کو اور ادا کرو زکوٰۃ کو اور اطاعت کرو خدا اور رسول کی.تحقیق ارادہ کر لیا ہے.خدا نے یہ کہ دور کر دے تم سے ہر قسم کی ناپاکی.اے گھر والو.اور تمہیں پاک کر ے.اب غور کرو.یہ نبی کی بیبیوں کو حکم ہے.تم میں اگر ہماری امّ المومنین ہیں تو حکم پہلے ان کے لئے

Page 409

    ٍ: سبا ایک شخص کا نام تھا.اسکے دس بیٹے تھے.اسی کے نام پر ایک شہر تھا.یمن میں.: طغیانی جو بڑی تیز ہو.: (پنجابی) پھُرواں.عرب میں ایک مثل ہے تَفَرَّقَتْ بِاَیْدِیْ سَبَاٍ یعنی فلاں ایسا تباہ ہوا.جیسے سبا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) : جو پانی بند کو توڑ دے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۸. یہ بدلہ دیا ہم نے ان کو اس پر کہ ناشکری کی اور ہم بدلہ اسی کو دیتے ہیں جو ناشکر ہو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۰۷) : کافر سے مراد کافر باﷲ نہیں بلکہ کافرِنعمت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۱۹. 

Page 410

ہے کہ میری رُوح اُس پر قربان ہوتی ہے.فرمایاکَلَّا وَ اﷲِ.نہیں حضور.ہرگز نہیں ہو سکتا.خدا کی قسم خدا آپ کو کبھی ذلیل نہیں کرے گا.آپؐ تو رِحم کا بڑا بھاری لحاظ کرتے ہیں پس رِحم کے لحاظ سے بیوی کے رشتہ داروں سے محبت کی جاتی ہے.جو شخص ایسا لحاظ کرتا ہے.پیارے خاوند وہ ذلیل نہیں ہوتا.پس تم بھی رشتہ داروں سے خاص پیار اور محبت کرو کہ خدا ذلّت سے بچاوے.آپؐ تو دُکھیاروں کے دُکھ بٹاتے ہو اور دُکھیوں اور تھکے ماندوں کی مدد کرنے والا خدا کے حضور ذلیل نہیں ہوتا.پھر آپؐ کے حضور جو لوگ آتے ہیں وہ وہ چیز پاتے ہیں جو جہان میں ان کو میسّر نہیں آ سکتی یعنی خدا کے قرب کی راہیں آپؐسے ملتی ہیں.اور آپؐسچ بولتے ہیں اور ضرورتوں کے وقت آپؐ ہمیشہ لوگوں کے شریک ہوتے ہیں.اسی طرح کے لوگ ذلیل نہیں ہوتے.پس یہ ایسی باتیں ہیں کہ جو سچ طور پر رسول کی رسالت کو ثابت کرتی ہیں.یہ کلمہ اس بی بی کے مُنہ سے نکلا ہوا ہزاروں ہزار لوگوں کے واسطے راہِ ہدایت ہوا.جب لوگ دیکھتے کہ پندرہ برس کی تجربہ کار بی بی ایسے الفاظ کہتی ہے تو سوائے ماننے کے اور کیا کہہ سکتے.اسی قسم کا پاک نمونہ ہونے کے لئے خدا نے ان آیات میں آگاہ کیا ہے.کہ جو عورتیں رسولؐ کے گھر میں رہتی ہیں.خدمتگار ہوں یا اصیل ہوں.خدا تمہارے لئے چاہتا ہے کہ تمہارا اصل ارادہ زینتِ دنیا نہ ہو.بلکہ خدا اور رسولؐ کی اتباع اور آخرت کی بھلائی ہو.تمہاری غلطی دہری غلطی نہ ہو کیونکہ غلط کار اپنی غلطی کا آپ ہی پھل اٹھاتا ہے.پس جس کی غلطی دیکھ کر دوسروں نے اثر پذپر ہونا ہے.اس کو دو غلطیوں کا پھل ملے گا.اسی طرح تمہارے لئے نیکی کے عوض میںاجر بھی دوہرا ہے.مثلاً اگر ہماراچال چلن بُرا ہے تو ہم اوّل تو خدا کا گناہ کرتے ہیں.دوسرا اپنے امام پر الزام لگاتے ہیں.کہ اس کے ہم نشینوں کے اعمال کیسے ہیں.تو خود اس کے کیسے ہوں گے.پس تم بھی دوہری جواب دہ ہو گی.اوّل اپنی ذات میں دوسرے وہ نقص بھی تمہارے ذمّہ ہیں جو تم کو دیکھ کر دوسری عورتوں نے تمہاری اتباع کا نمونہ گھڑا.خدا کی اتباع کرو تاکہ خدا تمہارے کُل دَلِدّر دُور کرے اور تم پر اپنی مہربانی کرے.(الحکم ۳۱؍جولائی ، ۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ۸) ۳۱.

Page 411

: وہ مٹھبھیڑ کھُلا کھُلا فیصلہ کرنے والی ہو گی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۳۰. اور کہتے ہیں کب ہے یہ وعدہ اگر تم سچّے ہو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۱) : اس سے ثابت ہوا کہ مکّہ والےکی پیشگوئی کو سمجھ گئے جبھی پوچھا کہ ایسا کب ہو گا؟ ایک اور مقام پر بھی اس کا ذکر ہے.(یٰس:۴۹) کے جواب میں فرمایا.(النمل:۷۳) یعنی مَیں جب یہاں سے چلا جاؤں گا تو وہ واقعہ میرا ردیف ہو گا یعنی میرے بعد آئے گا.(السجدہ:۲۹) یہاں وعدے کی بجائے فتح کا لفظ صریح ہے.اسکے جواب میں فرمایا(السجدہ:۳۰)( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۷) ۳۱. مِیْعَادُ: میرے بعد ہو گا اور ایک سال بعد.یوم سے مراد الہامی زباب میں سال بھی ہوتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۷) لَکُمْ: ایک سال پھر. کی بات پوری ہوئی.جنگ بدر.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) تُو کہہ تمہارے واسطے ایک سال کی میعاد ہے اس سے ایک ساعت ادھر اُدھر نہ کر سکو گے.’’یوم‘‘ کا لفظ اگر بدوںصبح ؔاور مساؔ کے ہو تو نبوّت میں ایک برس کا بھی ہوتا ہے(اندرونہ بیبل صفحہ ۵۹،۱۳۳.)

Page 412

 : حضرت عائشہؓ کو ایک جنگ بھی پیش آ گیا مگر اس میں جاہلیت الاولیٰ کی صورت نہیں.: نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کی بی بی ماریہؓ پہلے عیسائی تھیں اور صفیہؓ یہودی.اس قسم کے تمام عقیدوں سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں پاک ہوئیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) : جاہلوں کی طرح اکھاڑوں میں نہ نکلو.: عورتوں کو لازم ہے کہ اپنے مال میں سے علیحدہ خود زکوٰۃ دیں.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) : تین دفعہ قرآن میں یہ لفظ آیا ہے.تینوں جگہ بیبیاں ہیں.شیعہ پر حجّت ہے جو بیبیوں کو اس میں گنتے نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۶.     : ایک دفعہ ایک نواب نے مجھے اپنے مکان پر وعظ کے واسطے کہا.جب وعظ کے واسطے میں وہاں گیا.تو اس نے بتلایا کہ ایک طرف بیگمات پردہ کر کے بیٹھی ہیں اور

Page 413

ایک طرف مرد بیٹھے تھے.اس وقت میں نے یہ آیت پڑھی جس میں متواتر ایک لفظ مردوں کے واسطے اور ایک لفظ عورتوں کے واسطے آتا ہے.سب لوگ حیران ہوئے کہ قرآن شریف کیسی جامع کتاب ہے.گویا خاص اس وقت اور موقع کے واسطے ایک خاص آیت پہلے سے قرآن شریف میں رکھ دی ہوئی تھی.(بدر ۲۹؍ستمبر ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۸.     اور جب تُو کہنے لگا اس شخص کو جس پر اﷲ نے احسان کیا اور تُو نے احسان کیا.رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو.اور ڈر اﷲ سے اور تُو چھپاتا تھااپنے دل میں ایک چیز کو جو اﷲ اس کو کھولنا چاہتا ہے اور تُو ڈرتا تھا لوگوں سے اور اﷲ سے زیادہ چاہئے ڈرنا تُجھ کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۳۰) : رہنے دے اپنے پاس اپنی جورو اور ڈر اﷲ سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۴۹) : زید.یہ شخص ایک لڑائی میں قید ہو کر خدیجہؓ کی بہن کے حصّہ میں آیا.پھر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے حضور پیش کیا گیا.آپؐنے اسے آزاد کر دیا.اور اپنے پاس رکھا.آپؐ نے اس کی شادی پھوپھی زاد بہن سے کر دی.چونکہ وہ تیز تھی.اس لئے وہ ان (زید) کو حقارت سے دیکھتی جس کا انجام یہ ہوا کہ زید نے طلاق دیدی.: دلداری کا ایک پہلو یہ سُوجھتا کہ میں نکاح کر لوں.

Page 414

: نبی پر بے جا اعتراض کر کے قابلِ عذاب نہ ہوں.یہ ڈر تھا.حضرت موسٰیؑ کی نسبت بھی ارشاد ہوا کہ لَا تَخَفْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعْلٰی(طٰہٰ:۶۹) یہ شکست کا ڈر نہ تھا بلکہ اس کا کہ لوگ مُرتد ہو کر ہلاک نہ ہو جاویں.: یہ مراد نہیں کہ اﷲ ہی نے نکاح پڑھا دیا.ظاہر میں کوئی بات نہیں ہوئی بایں وجوہات کہ نَا سے حسب محاورہ قرآنی وسائط کا پتہ ملتا ہے.(ب) آپ نے ولیمہ کیا.(ج) جب یہ ایک رسم مٹانے کیلئے تزویج ہوئی تو پھر نکاح ظاہر میں عَلٰی رؤوس الاشھاد کیوں نہ ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء) : لوگوں کے مبتلائے معاصی ہونے کا ڈر تھا کہ نافہمی سے ابتلاء میں نہ آجاویں وہ کہیں گے.نبی نے ان کی شادی کی.اب ان کی بن نہیں آتی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ایک عیسائی کے اعتراض’’ محمد صاحب نے اپنے لے پالک کی جَورُوْ سے عشق کیا پھر لوگوں سے ڈرے تو ایک آیت اتارلی‘‘ جواب میں تحریر فرمایا معترض نے عشق کا ثبوت تو کوئی نہ دیا.لوگوں سے ڈرنا مقتضائے بشریّت ہے.حضرت مسیح بقول آپ کے باوجود الوہیت کے لوگوں(یہود) سے ڈرتے رہے.اور حاکم کے سامنے حضرت سے کچھ بن نہ پڑا.صُمٌّ وَ بُکْمٌ سے رہ گئے.بھلا صاحبان جس صبح کو پکڑے گئے اس رات مسیح کی کیا حالت تھی.(متی ۲۶ باب ۳۸ آیت) اگر لے پالک کی جورو سے شادی منع ہے.تو اسکا ثبوت توریت یا انجیل یا شرعِ محمدیؐ (قرآن) سے یا دلائل عقلیہ سے دیا ہوتا.بلکہ میں کہتا ہوں سارے عیسائی لے پالک بیٹے ہیں(نامۂ رومیاں ۸ باب ۵) تو اب کیا وہ باہمی عقد میں بہنوں سے نکاح کرتے ہیں، توریت میں بھی بہن سے نکاح حرام ہے.اگر کہو.وہاں حقیقی بہن مراد ہے تو کیا دینی بہن سے نکاح جائز ہے.پولوس صاحب فرماتے ہیں’’ کیا ہمیں اختیار ہے کہ دینی بہن سے نکاح کر لیں‘‘(قرنتی ۹ باب ۵) ہم کہتے ہیں.اسی طرح حقیقی بیٹے کی جو رو سے نکاح منع ہے نہ لے پالک کی جو رو سے.مجھے اسوقت مولوی لطف اﷲ لکھنوی یاد آ گئے ان سے بھی ایک پادری صاحب نے مجمع عام میں یہی سوال کیا تھا.آپ نے کیا خوب جواب دیا.’’ سارے راستباز خدا کے فرزند ہیں.تو یوسف نجّار بھی فرزند تھا.پھر اس کی جورو سے خدا نے فرزند لیا.پس اگراس کے رسول نے لے پالک کی بی بی مطلّقہ سے نکاح کیا.تو کیا عیب ہے.اگر جماع عیب ہے.تو ا

Page 415

ایک عضو کی نسبت سارے سموچے خدا کے رحم میں ازراہ… چلا جانا اور پھر مجسّم بن کر نکل کر کھڑا ہونا تو شاید اور بھی معیوب ہو گا.زید نے تو طلاق بھی دے ڈالی تھی.یوسف سے تو کسی نے براء ت نامہ بھی نہ لیا ہاں شاید الوہیت اور رسالت میں یہی فرق ہو گا.کہ اس میں طلاق کی ضرورت نہیں رہتی‘‘ کتبِ مقدسہ کے محاورات تمہیں تعجب انگیز معلوم نہیں ہوتے.اے میری زوجہ.اے میری بہن.تیرا عشق کیا خوب ہے.تیری محبت مَے سے کتنی زیادہ لذیذ ہے.( غزل الغزلات ۴ باب ۱۰و ۵ باب ۱) حقیقی جواب: اصل قصّہ یوں ہے کہ زینب ایک بڑے خاندان کی عورت تھی.آنحضرتؐ نے اپنے خادم زید کے لئے اس کے وارثوں کو ناطے کا پیغام دیا.وہ اپنی عظمت او رشرافت شان کے خیال سے اوّل تو ناراض ہوئے پھر آخر کار راضی ہو گئے.کچھ مدّت تو جوں تُوں کر کے بسر ہوئی.آخر زید نے اس کی تعلّی اور طنزو تعریض سے تنگ آکر اس کے چھوڑ دینے کا ارادہ ظاہر کیا.چونکہ آپ بذاتِ مبارک اس شادی کے انصرام کے متکفّل ہوئے تھے.اس لئے اس طلاق کے انجام اور اس کے مفاسد پر قومی د ستوروں اور حالات معاشرت ملکی کے لحاظ سے آپ کے دل میں کھٹکا پیداہوا.اس میں شک نہیں کہ رخنہ جُو کفّار اور حیلہ طلب معاندین کو رسماً و عرفاًایسے موقع پر بہت ملامت وطنز کا قابو مل سکتا تھا.اور آپ گوارا نہیں کر سکتے تھے کہ اس مفارقت اور معاشرتی ناچاقی کا حال مخالفین منکرین پر کھلنے پائے جو اُن کی زبان درازی اور تعریض کا باعث ہو.اور نیز زینب کے وارثوں کا خیال ایک رسمی اور قومی خیال تھا.جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل کو اور بھی مضطرب کرنے کا موجب ہو سکتا تھا.بنا برآں آپؐ نے زید کو بہت روکا.اور تلخی ٔمعاشرت پر صبر کرنے کی بہت نصیحت و ہدایت کی اور سخت الحاح و اصرار کیا کہ وہ اس ارادے سے باز آ جاوے.مگر خدا کو ایک عظیم الشان کام پورا کرنا اور ایک خلافِ قدرت مضر معاشرت رسم کا توڑنا منظور تھا.اس موقع پر قرآن کے الفاظ جن میں آنحضرتؐ کی دلی حالت کی تصویر کھینچی گئی ہے.الہامی حقیقت پہچاننے والے منصف کے نزدیک قابلِ غور ہیں.    .(الاحزاب:۳۸) خصوصًا آیت اَمْسِلٹْ: الخ ’’اپنی بی بی کو نگاہ رکھ اور اﷲ سے ڈر ‘‘ بہت غور کے قابل ہے ’’ خدا سے ڈر ‘‘یہ ایسے الفاظ ہیں کہ بازداشت اور زجرکیلئے اس سے زیادہ اور نہیں کہا جا سکتا.عیسائیوں کی شوخی اور جرأت سخت قابلِ افسوس ہے کہ ’’ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اوپر ے دل سے زید کو منع کیا،( لائف آف محمدؐ از سرولیم میور صفحہ۲۲۸) معلوم نہیں صادق کے دل کے اظہار مافی الضمیر کا اور کیا طریق ہو سکتا ہے.کسی سوسائٹی کے رسوم و آئین کی اصلاح میں اگر کسی مصلح کو تکالیف و زحمات اٹھانی پڑتی ہیں، تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو چند در چند صعوبات اٹھانی پڑتیں اور پڑنے والی تھیں جن کے در پیش عرب جیسی غیر مہذب اکھّڑ سوسائٹی کے خلافِ قدرت اور مضرِ معاشرت رسوم کا اصلاح کرنا تھا.عرب میں ( ہندؤوں

Page 416

کی طرح) مُتَبَنّٰی( منہ بولا بیٹا) صُلْبِی بیٹے کی مانند سمجھا جاتا تھا.اس رسمِ قبیح سے جو نتائج فاسدہ دنیا میں ہوئے اور ہوتے ہیں عیاں ہیں،اور حقیقۃً قدرت کہاں اجازت دیتی ہے کہ پسرِ حقیقی اور متبنّٰی دونوں مساوات کا درجہ رکھیں.قرآن نے اس مضر اصل کی بیخ کنی کر دی کہ ’’ منہ بولے بیٹے تمہارے بیٹے نہیں ہیں.تمہارے بیٹے وہی ہیں جو تمہارے نطفے سے ہیں‘‘ اب یہاں قوم و ملک کے رسوم کے مخالف دو عظیم مشکلوں کا سامنا آپؐ کو کرنا پڑا.ایک تو خدا کے قول و فعل کے مطابق رسمِ تبنیّت کا (کہ وہ حقیقی بیٹے کے مانند ہے) توڑنااور دوسرا ایک مطلّقہ عورت سے ( جس سے شادی کرنا عرب جاہلیت میں سخت قابلِ ملامت و نفرت اور ذلّت تصورّ کرتے تھے) نکاح کرنا.مگر چونکہ عقلاً و رسماً و شرعاً یہ افعال معیوب نہ تھے.اور ضرور تھا کہ مصلح و ہادی خود نظیر بنے تاکہ تابعین کو تحریک و ترغیب ہو.آپ پہلے بے شک بمقتضائے بشریت گھبرائے اور بالآخر ان مشکلات پر غالب آ کر ایک عجیب نظیر قائم کر دکھلائی.پادری صاحب کی عقل پرتعجب آتا ہے جو کہتے ہیں’’ محمد نے لوگوں سے ڈر کر آیت اتارلی‘‘ کون سی آیت اتارلی.اور ڈر ہی کیا تھا.آنحضرتؐ کو اس بات کا ڈر تھا اور لوگوں کی طرف سے خوف تھا کہ دشمن اس بات کا طعنہ دیں گے کہ ان کا اپنے ہاتھ سے کیا ہوا کام انجام کو نہ پہنچا.کیونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم خود اس مزاوجت کے متکفل اور منصرم ہوئے تھے.اور بڑے اصرار سے زینب کے وارثوں سے اس کو زید کیلئے مانگا تھا.اور اب اس مفارقت پر دشمن طعنہ دے سکتے تھے.بیشک اس بات کا آپؐ کو خوف تھا.اور ان کی ناچاکی کو وہ اخفا کرنا چاہتے تھے.جو بالآخر پھُوٹ نکلی.اسی خوف و اخفا کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے کہ تُو لوگوں سے ڈرتا تھا حالانکہ ڈرنا تو مجھ سے چاہیئے.یہ ایک عجیب محاورۂ قرآنی ہے.مطلب ایسے جملے کا یہ ہوتا ہے کہ جو امر حسبِ مقتضائے قانونِ الہٰی ہو اس کے اجرا و تعمیل میں انسان سے ڈرنا یعنی اس کا عمل میںنہ لانا عبث ہے.ناقص العقل پادری اتنا بھی خیال نہیں کر سکتے کہ اگر اس عقد میں کوئی امر معیوب اور قَادِحْ نبوّت ہوتا تو یقینا اوّل منکر زید ہوتا.حال آنکہ بعد ازاں بہت دنوں تک اسلام اور سچّے ہادی کی خاطر بڑے بڑے معرکوں اور مہلکوں میں جاں نثاری کرتا رہا.اور بڑے بڑے غیوّر جرّی صحابہ ( جو یقینا مچھوؤں اور باج گیروں سے بہت بڑھ کر وقعت وغیرت میں تھے) جو اسلام کے رکن رکین تھے.بہت جلد ہاں اسی دم آپ کے پاس سے ٹوٹ پھوٹ جاتے اور یہ تانا بانادرہم برہم ہو جاتا.میں سچّے دل سے کہتا ہوں کہ اس قصّے کا ہونا قرآن کے کلام اﷲ ہونے کا بڑا بھاری ثبوت ہے اور یہ نبی عرب کی ترکیب و آوردکا ( جیسے منکرین سمجھتے ہیں) کلام نہیں.کیا امانت کا حق ادا کیا ہے.کیا صادق امین ہے.کہ تمام الہٰی واردات اور رباّنی الہامات و واقعات بلاکم و کاست دنیا کے آگے رکھ دیئے.بِاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّیْ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلّم.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۲۸ تا ۱۳۲)

Page 417

لے پالک بنا ناشرع اسلام میں جائز نہیں.تو آپ کا اعتراض کیونکر چسپاں ہو گا.لے پالک بیٹا حقیقۃً بیٹا ہی نہیں اور اس کو بیٹا کہنا سچ نہیں اسی واسطے قرآن نے جو حقیقت کا کاشف ہے اسکو بیٹا کہنا جائز قرار نہیں دیا.کیونکہ بیٹا باپ کی جزو ہوتا ہے.اور لَے پالک غیر اور غیر کی نسل سے ہے.مجھے ہمیشہ خیال آتا ہے کہ حقیقی علوم کا معلم نیوگ کو کیونکر جائز کر سکتا ہے.کیونکہ نیوگی بیٹا نیوگ کنندہ کا نطفہ اور اسکا جزو ہوتا ہے.نیوگ کنندہ اولاد کا لالچ دے کر لذّت و مزہ بھی اٹھا لے اور پھر اپنے بیرج کی اولاد کو دوسرے کے مال و دولت کا مالک بھی بنا لے اور آہستہ آہستہ جوڑ توڑ کر کے آخر عورت بھی اڑالے.اور اپنا ہی بیٹا جائیداد کا مالک کر دے اور پھر عذر کر دے کہ یہ وید کا ارشاد ہے.آہ.کوئی سمجھنے والا ہو.پھر اسلام میں لے پالک کی بیوی کیونکر ناجائز ہو گی.جبکہ لے پالک بنانا ہی جائز نہیں.پھر کسی دوسرے کی بی بی بدوںطلاق کے اور اس کی عدّت گزرنے سے پہلے جائز نہیں پھر بدون نکاح اور گواہوں بلکہ بلا رضامندی.ان والیوں کی جو عورت کے مہتمم ہوں.ہمارے مذہب میں کسی عورت کا بیاہنا جائز نہیں ہاں نیوگ میں یہ سب کچھ ہو سکتا ہے.سو وہ ہمارے یہاں ممنوع اور آپ کے یہاں ضروری ہے.سوچو اور غور کرو کہ اس خبیث الزام کا نشانہ وید کا مذہب ہے یا کوئی اور.خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے کہ اسکا کلام قرآن کریم ہر قسم کے ناپاک

Page 418

: نبیوں کی مُہر.آپؐ کی مُہر بغیر اب کوئی حکم شرعی نافِذ نہیں سمجھنا چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۵) : تمام کمالاتِ نبوّت کی آپؐ پر حد ہو گئی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) دنیا میں انبیاء کی پاک تعلیم نے خدائے تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور اس کے عدل اور قدّوسیت اور رحم اور قدرتِ کاملہ اور ربوبیّت عامہ کا وعظ پھیلایا.اور بعض مصلحانِ قوم نے بھیجن کی فطرتِ سلیم اور قوتِ ایمانیہ مستقیم تھی.توحید کو عمدگی سے بیان فرمایا.مگر ان کے اتباع نے آخر اپنے ہادی ہی کو معبود بنا لیا.حضرت مسیحؑ نے خداوند کریم کی بزرگی اور عظمت کو بیان تو کیا.مگر آخر عیسائیوں نے مسیحؑ کو خدائے مجسم کہہ دیا.بلکہ خوش اعتقادوں نے انکی والدہ مریم صدیقہ کو بھی مُتَمِّمِْ ماہیت تثلیث تجویز کیا.آریہ وَرت حُکماء اور عوام سری کرشن جی اور سری رام چندرجی کو خدا کا اوتار کہہ اُٹھے.گرونانک صاحب کے تارک الدنیا اخلاق مجسم چیلے گرو صاحب کو اوتار بنا گئے.پس ایسے واعظوں کے تعلیم یافتہ پیرؤوں کی یہ حالت کیوں ہوئی.صرف اس لئے کہ مریدوں کی اپنے ہادی سے دلی محبت سابقہ بُت پرستی کی عادت سے مل کر نورِ ایمان اور عقلِ صحیح پر غالب آ گئی.اور کوئی ایسی قومی روک ان کے ہادیوں نے نہیں رکھی تھی جس کے ذریعے توحیدِ خالص ان کے مشرکانہ طبائع کو فتح کر لیتی.میں جب عیسائیوں اور ہندؤوں اور سکھوں کے مقدّس لوگوں کو شرک کرتے دیکھتا اور ان کی زبان سے سنتا ہوں کہ وہ کہتے ہیں.ہمارے ہادی خدائے مجسّم اور اوتار تھے تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ بے شک یہ سچا سچے خدا کا کلام ہے. …(الاحزب ۴۱) تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے عملاً اور ان کی امّت نے حسبِ تعلیم اپنے ہادی کے اصولاً اقرارِ توحید کے ساتھ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗکے اقرار کو لازمی کیا ہے.اس کلمہ کے ایزاد نے جو کچھ اثر دنیا پر دکھلایا.وہ بالکل ظاہر ہے اور یہی اس کے منجانب اﷲ ہونے کی بڑی زبردست شہادت ہے.ہندوستان کے ہادیوں نے ملک سے سکتے کی خطرناک پُوجا اور گنگ کی خلاف تہذیب پرستش کو کم نہ کیا.اور یہود نے طرافیم کی پُوجا اس وقت تک نہ چھوڑی جب تک  (النساء:۵۲)کی صدا عرب سے نہ سُنی.نبی ناصری کی بڑی کوششوں اور محنتوں اور تکالیف بلکہ جافشانیوں کو میں کس کامیابی کا عنوان بناؤں.جبکہ وہ آپ اور اس کی ماں دونوں معبود قرار دیئے گئے.مسیحؑ تو عموماً تمام عیسائیوں کے معبود ہیں اور ان کی والدہ خصوصًا رومن کیتھولک کے یہاں پوجی جاتی ہیں.

Page 419

بیشک انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اس تکمیل کی محتاج تھی کہ وہ اپنی خالص عبودیت کو دینی تعلیم کا ضروری جزو قرار دیتے.اس ضرورت کو صرف قرآن اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کی تعلیم نے پورا کیا.اسی فقرہ کے اثر نے عرب جیسے خالص بُت پرست ملک سے بُت پرستی کا استیصال ہی نہیں کیا.بلکہ یہود بھی چونک اٹھے باایں کہ ہمیشہ مُرتد ہو جاتے اور بُت پرستی کرتے تھے جیسے قاضیوں کی کتاب اور ان کے بچھڑوں کی پرستش کرنے وغیرہ امور سے ظاہر ہے.اور آریہ کے معزّز باشندے دعویٰ کرنے لگے کہ ہمارے مقدس وید بُت پرستی کے دشمن اور توحید خالص کے حامی ہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۱۰۶،۱۰۷) ۴۲،۴۳.  : کھڑے،بیٹھے،لیٹے.برّوبحر میں.لیل و نہار.ظاہر و باطن.دُکھسُکھ.لڑائی سفر.حضر.صحت وسقم میں اﷲ ہی یاد ہو.ان سب مقامات وحالات و اوقات کا ذکر قرآن مجید کی آیات میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) ۴۴.  : اﷲ کے ذکر سے ملائکہ کے تعلقات بڑھتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) ۴۶،۴۷. 

Page 420

: گواہی دینے والا کہ یہ احکام اﷲ تعالیٰ کے ہیں.: نافرمانوں کیلئے.: روشنی دینے والا سورج.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) ۵۱.      : حلال کی ہوئی تھیں.تیرے لئے بیبیاں.ماضی کا صیغہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۴.۴۷۵ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) : جیسے بیبیوں کو پیچھے اجازت دی ہے.کہ چاہو الگ ہو جاؤ.چاہو بیبیاں بنی رہو.ایسے ہی نبی کو بھی اجازت دی کہ جسے چاہو رکھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) ۵۲. 

Page 421

   : یہ اس وقت کا ذکر ہے کہ جب طرفین کو علیحدگی کا اختیار ہو تو اب رضا مندی سے جو چاہے رہے اور جسے چاہورکھو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا.کہ کیونکہ وہ اپنی مرضی سے دین کیلئے رہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۵) ۵۳.   : جواوپر کا معاملہ ہو چکا.تو پھر یہ حکم نازل ہوا.عام مومنوں کو تو آزادی ہے کہ چار چھوڑ کر اور کر لیں مگر نبی کو یہ بھی اجازت نہیں.: ان کی خوبیاں : جو تیرے نکاح میں آ چکیںوہ آ چکیں اب اور نہیں.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۴.  

Page 422

     : ایسے وقت میں جانا کہ کھانا ابھی پک رہا ہو.منع ہے.اس میں کئی خرابیاں ہیں ۱.شدّتِ حرص ۲.میزبان کھانا پکوائے یا تمہاری خاطر داری میں مشغول ہو.: جب نبی ایسے وسیع دل باحوصلہ کو تکلیف ہوتی ہے.تو دوسرے کا کیا ٹھکانہ.امیر خسرو نے اپنے مُرشد کے ارشاد پر بہت خوب شعر پڑھا تھا ؎ نان کہ خوردی خانہ برو نہ کہ کردم بدستِ تو دخانہ گرِو ایک اور بزرگ نے مکان کا قبالا پیش کر دیا تھا کہ یہ تم لے لو.ہم کوئی اور مکان ڈھونڈ لیں گے.یہ سب قرآن مجید کی اطاعت تھی.کہ یہ بزرگ لطیف طرز میں سمجھاتے جس سے بُرا بھی نہ لگے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) : جب نبی کی بیبیاں جو مائیں ہیں.ان کے گھر میں بلا اجازت جانا جائز نہیں تو دوسرے گھروں میں زیادہ احتیاط چاہیئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۵ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۷.  : صلوٰۃ کے معنے حمد و ثناء.۲.دعا.۳.اعلیٰ مرتبہ کی وہ دُعا مانگنا جس سے گناہ کا تصرّف انسان پر باقی نہ رہے ۴.رحمتِ خاصّہ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶)

Page 423

۵۹.  یعنی مومن مردوں اور عورتوں کو بیجا اور ناحق دُکھ دینے والے بہتان اور بھاری گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۱۴) ۶۰،۶۱.     : لٹکا دیں اپنے اوپر اپنی چادروں کو یعنی گھونگٹ کو چہرہ پر بڑھا کر رکھیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) : قریب تیرے نہ پھٹکنے پائیں گے.یہ آیت کریمہ شیعوں کیلئے قَوِیْ حربہ ہے.حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ مدینہ سے نہیں نکالے گئے.بلکہ بعد الموت بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے حجرے میں دفن کئے گئے.گویا حیات و ممات میں آپؐ کی معیت کا شرف حاصل رہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) : کسی کے متعلقین کی نسبت کوئی بَد خبر اُڑا دینے والے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۵ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 424

ایک آریہ کا اعتراض’’ عورتیں پردہ کریں مرد کیوں نہ کریں‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا: اوّل: تو مرد عورت میں مساوات کہاں کہ مساوی حقوق دیئے جاویں.دوم: عورت کیلئے جو حمل، بچہ جننے، دودھ پلانے کی تکلیف ہوتی ہے اس میں مرد کو کس طرح عورت کے ساتھ مساوات کا حصّہ ہے؟ سوم: عورت کیلئے یہ تکالیف باسباب پَتَرجنم خیال کی جاویں تو بقیہ عدم مساوات کا عُذر وسیع کیوں نہ کیا جاوے.چہارم: یہ آیت جس کا حوالہ سوال میں دیا گیا یہ ہے.  .… اور اسکے ماقبل یوں ہے(آیت:۵۸،۵۹)ترجمہ : اے نبی! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ کہ بڑی چادریں اوڑھ لیا کریں.اس سے یہ فائدہ ہو گا.کہ وہ پہچانی جائیں گی.اور ستائی نہ جائیں گی.اور اﷲ غفور رحیم ہے.اور جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو خواہ نخواہ بغیر ان کے اکتساب کے ایذا دیتے ہیں وہ بہتان اور بڑی بدکاری کا ارتکاب کرتے ہیں.اور اس کے بعد یہ آیت ہے.…(آیت:۶۰) یعنی اگر یہ منافق اور دل کے بیمار اور مدینہ میں بُری خبریں اُڑانے والے باز نہیں آئیں گے تو ہم تجھے ان کی سزا دہی پر آمادہ کریں گے.پھر یہ مدینہ میں تیرے قرب و جوار میں رہنے نہیں پائیں گے.ان آیات کا مطلب اور قصّہ یہ ہے کہ مدینہ کے بعض بدمعاش مسلمان عورتوں کو چھیڑتے تھے اور عورتوں کو دُکھ دے کر ان کے متعلق لوگوں کو تکلیف پہنچاتے تھے.چونکہ بظاہر مومن ہونے کے مدّعی تھے اس لئے جب پکڑے جاتے تو عذر کر دیتے کہ اس کو ہم نے پہچانا نہیں.اسی واسطے یہ نشان لگایا گیا.غور کرو.یہ کلمہ قرآن کریم کاَ اورماقبل کی آیت کس قدر صفائی سے بتاتی ہے کہ بڑی چادر ایک نشان تھا اور ان سے واضح ہوتا ہے کہ ایک شرارت کی بندش اسلام نے کی ہے.اس لئے اس نشان کے بعد فرمایا کہ اب بھی اگر شریر شرارت سے باز نہ آئے تو ہم ان کو خوفناک سزا دیں گے.افسوس ایسے نشانوں اور سچی باتوں پر اعتراض کیا جاتا ہے.سنو! اس قسم کے نشان کیسے ہر جگہ موجود ہیں.غور کرو.منو.اودھیائے ۲کے شلوک ۲۱۵.ماں بہن لڑکی ان سب کے ساتھ اکیلے مکان میں نہ رہے.کیونکہ اندر ی بہت بلوان ہیں.پنڈتوں کو بھی بُری راہ پہ کھینچ لاتی

Page 425

ہیں اور ۲۱۴ میں ہے کام کرودھ.سہت پنڈت ہو یا مُورکھ ہو.اس کو بُری راہ میں لے جانے کے واسطے استری لوگ سامرتھ رکھتی ہے.ستیارتھ کے تیسرے سملاس فقرہ ۴ صفحہ۴۲: لڑکوں اور لڑکیوں کی پاٹھ شالا ایک دوسرے سے دو کوس دور ہونی چاہیئے.جو معلّمہ یا معلّم یا نوکر چاکر ہوں.لڑکیوں کے مدرسوں میں سب عورتیں اور مردانہ مدرسہ میں مرد ہوں.زنانہ مدرسہ میں پانچ برس کا لڑکا اور مردانہ پاٹھ شالا میں پانچ برس کی لڑکی بھی نہ جانے پاوے.مطلب یہ کہ جب تک وہ برہم چاری یا برہم چارنی رہیں.تب تک عورت و مرد کے باہمی دیدار.مَس.اکیلا رہنے.بات چیت کرنے.شہوتی کھانے.باہم کھیلنے.شہوت کا خیال اور شہوتی صُحبت.ان آٹھ قسم کی زناکاری سے الگ رہیں.سوچو اگر پردہ کی رسم جو اسلام نے قائم کی ہے.نہ رہے.تو ان آٹھ قسم کے زنا میں دیدار اور شہوت کے خیال کا کیا حال ہو گا.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۲۱ تا ۲۲۳) …اِلیٰ…: یعنی اگر یہ منافق اور دل کے بیمار اور مدینہ میں بُری خبریں اڑانے والے اب بھی باز نہ آئیں تو ہم تجھے اے پیغمبر انکی سزا دہی پر متوجہ کریں گے.پھر یہ لوگ تیرے پڑوس میں نہیں رہنے پائیں گے.ہر طرف سے دھکّے دیئے جائیں گے جہاں کہیں پائے جائیں گے.پکڑے جائیں گے اور قتل کئے جائیں گے.… یہ قتل کے احکام ان بدمعاشوںکے متعلق ہیں.جنہوں نے مومن ایماندار مردوں کو اور مومنہ ایماندار عورتوں کو بے وجہ دُکھ دینا اپنا پیشہ بنا رکھا تھا اور پھر با اینکہ ان کو سمجھایا گیا.جب بھی فساد اور بغاوت پر تُلے رہے.(نورالدّین طبع ثالث صفحہ۲۱۴) ۶۲. جب مامور من اﷲ آتا ہے تو لوگوں کو اس کی مخالفت کا ایک جوش ہوتا ہے اوریہ اس لئے ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی کے اعزاز کیلئے تل جائے اس کو کوئی ذلیل نہیں کر سکتا.مدینہ طیّبہ میں ایک رأس المنافقین کا ارادہ ہو(المنافقون:۹) ہم اگر لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے تو ایک ذلیل گروہ کو معزّرگروہ نکال دے گا.جناب الہٰی نے فرمایا کہ (المنافقون:۹)معزّز تو اﷲ ہے اور اس کا رسول

Page 426

اور اس کی جماعت.منافقوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آتی.آخر ایّام نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم میں ایک بھی منافق نہ رہا بلکہ یہ فرمایامَلْعُوْنِیْنَ اﷲ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تیری مجاورت میں بھی نہ رہیں گے.(الحکم۱۰؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) ۶۴.  : وہ گھڑی جس میں منافق نکال دیئے جائیں گے.: ایک دن نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے اس وقت وحی ہوئی اور آپؐ نے نام بہ نام منافقین کو نکال دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶) ۶۸. : کسی جگہ ان سرداروں کو جنّ کہا ہے.اس محکم آیت سے جنّ کے معنے حل ہو گئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۵ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۷۰.  : فرعون نے دُکھ دیا.وہ ہلاک ہوا.قارون نے دُکھ دیا.وہ ہلاک ہوا.تورات میں لکھا ہے کہ آپ کو عورتوں کے متعلق تہمت دی گئی.حقیقی بہن بھی اس الزام دینے میں شامل تھی.اس کو جذام ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶)

Page 427

۷۱،۷۲.   (یہ آیت) حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اکثر اوقات نکاحوں کے وقت پڑھا کرتے تھے… نکاحوں کے معاملات میں بعض لوگ پہلے بڑے لمبے چوڑے وعدے دیا کرتے ہیں کہ ہم ایسا کریں گے اور تم کو اس طور پر خوش کرنے کی کوشش کریں گے اور یہ کریں گے وہ کریں گے مگر جب یہ نیا معاملہ پیش آ جاتا ہے تو پھر بہت مشکلات پیش آ جاتی ہیں.اور بدعہدی کرنی پڑتی ہے.اسی واسطے اﷲ کریم نے فرمایا ہے.کہ پہلے ہر ایک بات کو اچھی طرح سوچ لو اور بڑا سوچ سمجھ کر نکاح کا معاملہ کیا کرو.اور اس کے بدلہ میں اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال میں تبدیلی اور اصلاح کرے گا.اور جو شخص اﷲ کی اطاعت کر کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا کہا مانتا ہے اصل میں وہی اچھی طرح سے بامراد اور کامیاب ہوتا ہے.( الحکم ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۶) اﷲ تعالیٰ تقویٰ کی ہدایت فرماتا ہے اور ساتھ ہی حکم دیتا ہے کہ پکّی باتیں کہو.انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گاہے مومن گاہے کافر بنا دیتی ہے.معتبر بھی بنا دیتی ہے اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے اس لئے حکم ہوتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو.خصوصًا نکاحوں کے معاملہ میں.اس معاملہ میں پوری سوچ بچار اور استخاروں سے کام لو اور پھر مضبوطی سے اسے عمل میں لاؤ.جب تم پوری کوشش کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا.یُصْلِعْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جائیں گے.تمہاری غلطی کو جنابِ الہٰی معاف کر دیں گے کیونکہ جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمہ دار اﷲ تعالیٰ ہو جاتا ہے.اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے.ان معاملاتِ نکاح میں عجیب در عجیب کہانیاںسنائی جاتی ہیں.اور دھوکہ دیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ ہی کا فضل ہو تو کچھ آرام ملتا ہے.ورنہ چالاکی سے کام کیا ہو اور دنیا میں بہشت نہ ہو.پھر فرمایا ہے.بہت لوگ پاس ہونے کیلئے تڑپتے ہیں.وہ یاد رکھیں کہ اصل بات تو یہ ہے کہ جو اﷲ اور رسولؐ کا مطیع ہوتا ہے وہ ہی حقیقی بامراد ہوتا (ہے) اور یہی حقیقی پاس ہے.(بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۶، الحکم ۲۶؍ فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۴) یہ ایک دوسری آیت ہے جس میں اﷲ تعالیٰ ایسے تعلقات اور عقد (نکاح) کے وقت یہ نصیحت فرماتا

Page 428

ہے.تقویٰ اﷲ اختیار کرو اور پکّی باتیں کہو.پکّی باتیں حاصل ہوتی ہیں کتاب اﷲ کو غور کے ساتھ پڑھنے سے، سنن اور تعامل کے مطالعہ سے.احادیثِ صحیحہ کے یاد رکھنے سے.یہ باتیں ہیں علومِ حقّہ کے حاصل کرنے کی.مجھے اس موقعہ پر یہ بھی کہنا ہے کہ بعض لوگ تم میں سے اپنی غلط فہمی سے احادیث کو طالمود کہتے ہیں یہ ان کی سخت غلطی ہے.انہوں نے ہرگز ہرگز امام کے مطلب کو نہیں سمجھا.کہ ان کو معلوم نہیں کہ حصرت امام اپنی عظیم الشان پیشگوئیاں احادیث سے لیتے ہیں اور اپنے دعاوی پر احادیث سے تمسّک کرتے ہیں؟ آپ کا مطلب یہ ہے کہ جو حدیث قرآن شریف کے معارض ہو وہ قابلِ اعتبار نہیں.کیونکہ یہ قاعدہ مسلّم ہے کہ راجح کا مقابلہ مرجوح سے نہیں کر سکتے.اس کو آگے بڑھانا اور یہاں تک پہنچانا جہالت ہے اگر میری بات پر توجہ نہ ہو تو تم خود دریافت کر سکتے ہو.احادیث سے انکار کرنا بڑی بد قسمتی ہے.حضرت امام علیہ السلام نے بارہا فرمایا ہے کہ ہمارے لئے تین چیزیں ہیں.قرآن.سنّت اور حدیث.قرآن اگر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم نے پڑھ کر سنایا.سنّت کے ذریعہ اس پر عمل کر کے دکھا دیا اور پھر حدیث نے اس تعامل کو محفوظ رکھا ہے.غرض حدیث کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہیئے جب تک وہ صریح قرآن شریف کے معارض اور مخالف واقع نہ ہوئی ہو بھلا دیکھو تو اسی نکاح کے متعلق غور کرو کہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی نکاح کرتا ہے تو کیا کیا امور مدّ نظر رکھتا ہے.اور گاہے عورت بیاہی جاتی ہے کہ وہ مالدار ہے اور گاہے یہ کہ حَسِیْن ہے یا کسی عالی خاندان کی ہے.اور بعض اوقات مقابلہ مدّ نظر ہوتا ہے.مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں.وَعَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ تاکہ تقویٰ بڑھے.ایک سے زیادہ نکاح بھی اگر کرو تو اس لئے کہ تقویٰ بڑھے.جب تقویٰ مدّ نظر نہ ہو تو وہ نکاح مفید اور مبارک نہیں ہوتا.غرص خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور مومنوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے .انسان کی زبان بھی ایک عجیب چیز ہے جو گاہے مومن اور گاہے کافر بنا دیتی ہے معتبر بھی بنا دیتی ہے.اور بے اعتبار بھی کر دیتی ہے.اس لئے مولیٰ کریم فرماتا ہے کہ اپنے قول کو مضبوطی سے نکالو.خصوصًا نکاحوں کے معاملہ میں اس کا فائدہ ہوتا ہے. تاکہ تمہارے سارے کام اصلاح پذیر ہو جاویں.صدہا لوگ ان معاملاتِ نکاح میں تقویٰ اور خدا ترسی سے کام نہیں لیتے اور الہٰی حکم کی قدروعظمت ان کو مدّ نظر نہیں ہوتی.بلکہ وہ اس تراش خراش میں رہتے ہیں کہ یہ مقابلہ ہو یا شَہوات کو مقدّم کرتے ہیں.لیکن جب تقویٰ ہو تو اعمال کی اصلاح کا ذمّہ دار اﷲ تعالیٰ ہو جاتا ہے.اور اگر نافرمانی ہو تو وہ معاف کر دیتا ہے.بات یہ ہے جو اﷲ و رسولؐ کا مطیع ہوتا ہے وہ بڑا کامیاب.اسی لئے یہ بات ہر ایک کو

Page 429

کو مدّنظر رکھنی چاہیئے.(الحکم ۱۷؍ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ۱۳) ایک بار وزیر آباد کے ریلوے سٹیشن پر ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن کیونکر پڑھیں.صرفؔ و نحوؔ تو آتی نہیں.میں نے کہا صرفؔ و نحوؔ کی ضرورت نہیں ہے.قرآن شریف میں قَالَ پہلے سے موجود ہے بنانا نہیں پڑتا پھر صرفؔ کی کیا ضرورت ہے رہی نحوؔ.قرآن شریف میں زیریں زبریں پہلے سے موجود ہیں.پھر اس نے گھبرا کر کہا.کہ اچھا معانیؔ بدیعؔ کی ضرورت ہے.میں نے کہا کہ وہ امر زائد ہے.جب وہ اس سے بھی رُکا تو کہنے لگا.کہ کم از کم لُغت کی تو ضرورت ہے.میں نے کہا کہ اگر تم اپنی ہی بولی پر ذرا غور کر کے قرآن شریف پڑھو تو لُغت کی بھی بڑی ضرورت نہیں تم کوئی آیت قرآن شریف کی پڑھو.میں تمہیں ترجمہ کر کے دکھا دیتا ہوں.خدا کی قدرت ہے اس نے یہ آیت پڑھی .مَیں نے کہا.کیسی صاف بات ہے گلأو گَلْ سِدّھی.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۷) ۷۳.   اَلْاَمَانَۃَ: احکام : انکار کیا اس سے کہ خیانت کریں.حَمَلَ الْاَمَانَۃ َ: عربی زبان میں خیانت کو کہتے ہیں.: انسان نے ان میں بہت خیانت کی کیونکہ وہ اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہے.اور بہت جاہل.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۶)

Page 430

Page 431

Page 432

Page 433

Page 434

Page 435

Page 436

Page 437

: وہ مٹھبھیڑ کھُلا کھُلا فیصلہ کرنے والی ہو گی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۳۰. اور کہتے ہیں کب ہے یہ وعدہ اگر تم سچّے ہو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۱) : اس سے ثابت ہوا کہ مکّہ والےکی پیشگوئی کو سمجھ گئے جبھی پوچھا کہ ایسا کب ہو گا؟ ایک اور مقام پر بھی اس کا ذکر ہے.(یٰس:۴۹) کے جواب میں فرمایا.(النمل:۷۳) یعنی مَیں جب یہاں سے چلا جاؤں گا تو وہ واقعہ میرا ردیف ہو گا یعنی میرے بعد آئے گا.(السجدہ:۲۹) یہاں وعدے کی بجائے فتح کا لفظ صریح ہے.اسکے جواب میں فرمایا(السجدہ:۳۰)( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۷) ۳۱. مِیْعَادُ: میرے بعد ہو گا اور ایک سال بعد.یوم سے مراد الہامی زباب میں سال بھی ہوتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۰۷) لَکُمْ: ایک سال پھر. کی بات پوری ہوئی.جنگ بدر.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) تُو کہہ تمہارے واسطے ایک سال کی میعاد ہے اس سے ایک ساعت ادھر اُدھر نہ کر سکو گے.’’یوم‘‘ کا لفظ اگر بدوںصبح ؔاور مساؔ کے ہو تو نبوّت میں ایک برس کا بھی ہوتا ہے(اندرونہ بیبل صفحہ ۵۹،۱۳۳.)

Page 438

کتبِ سابقہ میں اس کا ذکر یسعیا نبی.رسالت مآبؐ کی ہجرت اور دشمنوں کے تعاقب کا ذکر کر کے عرب کی بابت الہامی کلام میں کہتا ہے.’’ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی.اور تیراندازوں کے جو باقی رہے.قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے‘‘ (یسعیا ۲۱ باب ۱۶،۱۷) میں نے زیادہ تفصیل پیشین گوئیوںمیں کی ہے.غور کرو.جنگ ِ بدر کیسی آیت اور کیسا معجزہ ہے.قیدار عرب میں کون ہیں؟ کیا قریش ہی نہیں؟ کیا بدر میں ان کے بہادر لوگ گھٹ نہ گئے؟ (فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۷۰) تو کہہ.تم کو وعدہ ہے ایک دن کا.نہ دیر کرو گے اس سے ایک گھڑی.نہ شتابی.نبوّت کا دن ایک برس کا ہوتا ہے.جیسے دن جو ساتھ صبح اور شام کے نبوّت میں لکھا ہو یا شام یا صبح سے شروع کرے تو چوبیس گھنٹے کا شمار ہوتا ہے ورنہ ایک سال کا.(دیکھو اندرونہ بائبل صفحہ۳۱۳) پادری صاحبان غور کرو.قرآن نے کیسا معجزہ دکھلایا کہ ان کے زوال کا وقت بھی بتا دیا اور یہ وعدہ جنگِ بدر میں پورا ہوا.کیونکہ بدر کی لڑائی ٹھیک ایک برس بعد ہجرت کے واقع ہوئی یعنی ۱۵؍جولائی ۶۲۲ء کو آنحضرتؐ مکّے سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور ۶۲۳ء میں قریش سے جنگِ بدر ہوئی اور اس بدر کی لڑائی کو قرآن نے آیت یعنی بڑا نشان ٹھہرایا جو کامیابیٔ اسلام کا گویا آغاز ہے.چنانچہ فرمایا.  (آل عمران :۱۴)  (آل عمران:۱۲۴) یہاں وہ پیشگوئی جو یسعیا باب ۲۱ درس ۱۳ سے شروع ہوتی ہے.پوری ہوئی.عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرتے آ ؤ.اے تیما کی سر زمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھنچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدّت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کویوں فرمایا.ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی.اور تیراندازوں کی جو باقی رہی.قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہخداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا.

Page 439

اس لڑائی میں قیدار کے اکثر سردار مارے گئے اور وہ کامیابی جو سچائی کا معیار ہوتی ہے ظاہر ہو گئی اور یہ بدر کی فتح اسلام کے حق میں ایسی ہی اکسیر اعظم ہوئی جیسی جنگ ملوین ۱؎ برج کی فتح دین عیسوی کے حق میں.(فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۳۱ تا ۳۳) ۳۲.    :کافر شوخی کی راہ سے یہ کہتے ہیں.برہمو انہی میں سے ہیں کیونکہ تمام کتب الہٰیہ کا اجماعی مسئلہ یہ ہے کہ خدا کی طرف سے وحی ہوتی ہے.مگر یہ لوگ کہتے ہیں دروغ مصلحت آمیز ہے.یہ مذہب نیا نہیں.تفسیر کبیر میں ہے کہ براہمہ اَنْکَرُ لِلنَّبُوَّۃ ہیں.اَ: سب سے بڑھ کر ظالم دو شخص ہیں.ایک مفتری علی اﷲ.دومؔ جو نبیوں کا انکار کرے (زمر:۳۳) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۳؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء) ۱؎ :.یہ لڑائی ۳۱۲ء؁ میں قسطنطین اعظم اور میگریشن قیصر میں ہوئی تھی اور قیصر مذکور کو جو اس میں شکست ہوئی اس کو عیسائی فتح مبین اپنے دین کی سمجھتے ہیں.

Page 440

: جو تدبیریں تم نے دن رات ہمارے لئے کیں اور اپنی باتوں سے ہمیں راہِ حق سے روکا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) : وہ تدبیریں جو رات دن تم کرتے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۷.  : یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ عنقریب اس کُھلے رزق کے وارث مسلمان ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۳۸.   ہر چیز کے قُرب کا کچھ نہ کچھ سامان ہوتا ہے.مثلاً ریل کے جس درجے میں بیٹھنا ہو.اسی درجہ کا ٹکٹ خریدنا پڑے گا.اسی طرح خدا کے تقرّب کے جو سامان ہیں وہ یہاں بیان فرماتا ہے. سچے علوم پر کامل یقین ۲.پھر انکے مطابق عمل ہو پس یہ تقرّب الی اﷲ کے سامان ہیں.: جزاء بڑھ بڑھ کر ملے گی.

Page 441

ابوجہل کا بیٹا مسلمان ہو ا.حضرت ابوبکرؓ نے اُسے ایک سپاہ کا جرنیل بنا کر بھیج دیا اور فرمایا فلاں قوم پر تا صدور حکم حملہ نہ کرنا.اس نے مخفی اسباب سے حملہ کر دیا اور شکست کھائی.جو کچھ ہوتا ہے خدا کے فضل سے ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۴۱.  : ملائکہ سے یہاں مقدّس لوگ مراد ہیں.(یوسف:۳۲) سے ثابت ہے کہ پاک لوگوں کو بھی عربی زبان میں ملائکہ کہہ لیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۴۲.  : یہاں جن کو جنّ فرمایا انکو اس سے پہلے رکوع میںاَ (سبا:۳۴) فرمایا.اس سے پہلے (احزاب:۶۹)فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) : ان ہیجنّوں کو پہلے کہہ چکا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) جِنّ اﷲ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے اور اس کی پیدائش نارالسمّوم سے ہے.چنانچہ قرآن مجید میں

Page 442

ہے.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْانْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ وَالْجّآنَّ خَلَقْنَاہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السُّمُوْمِ.پس اﷲ تعالیٰ کی کسی ایسی مخلوق کا جسے ہم دیکھ نہ سکتے ہوں.محض اس بنا پر انکار کرنا کہ وہ اگر ہے تو ہمیں نظر کیوں نہیں آتی.دانشمندی سے بعید ہے.خود جنّ کے لفظ میں یہ اشارہ موجود ہے کہ وہ ایک انسانی نظروں سے پوشیدہ مخلوق ہے اس مادہ سے جس قدر الفاظ نکلے ہیں ان میں یہی معنے پائے جاتے ہیں.مثلاً جنّت.حنۃ جو انسان کو چھپا کر تلوار کے حملے سے محفوظ رکھتی ہے.جنین وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں پوشیدہ ہو.جنون.عقل کو چھپانے والا مرض.جنّ کا اطلاق حدیث میں سانپ، کالے کتے،مکھی، چیونٹی، وبائی جرمز، بجلی، کبوتر باز، زقوم، بائیں ہاتھ سے کھانیوالا بال پراگندہ رکھنے والا ،غراب.ناک یا کان کٹا.شیر برسردار وغیرہ پر بولا گیا ہے.جنّ لغت میں بڑے آدمیوں پر بھی بولا گیا ہے.چنانچہ لکھا ہے جنّ الناس معظمھم.شاید بڑے پیسے والے ساہوکاروں کو بھی اسی لئے مہاجن کہتے ہیں.قرآن مجید میں بھی یہ لفظ غریب لوگوں کے مقابل ایک گروہ پر بولا گیا ہے.پہلے فرمایا: .(سبا:۳۴) اس سے آگے فرمایا: .(سبا:۴۲) سورۃ احقاف رکوع۴ میں ایک گروہ کا ذکر ہے جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے قرآن سننے آئے.اور پھر اپنی قوم کی طرف واپس پھرے اور کہا..اسی طرح سورۃ جنّ میں جس گروہ کا ذکر ہے مفسرّین نے لکھا ہے کہ وہ نصیبین کے یہودی تھے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۵ صفحہ۲۳۰ مئی ۱۹۱۲ء) ۴۴.   : دلر ُبا باتیں کرتا ہے.جو ہمیں اپنی قوم سے کٹوانے

Page 443

والی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷) ۴۷.   منصف آدمی کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی صفات اور عادات پر غور کرنے سے اچھی طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ آپؐ کا دلی ارادہ کیا تھا.مقصود بالذّات کیا امر تھا.آپؐ کے افعال اور اقوال سے بقدر مشترک اتنا تو ثابت ہے.کہ آپؐ دیوانے اور کم عقل نہ تھے.بھلا اتنا بڑا کام ( عرب جیسے ملک سے بُت پرستی کا استیصال) کیا ایک کم عقل کا کام ہے.خدا کیلئے ذرا یرمیاہ ۲ باب ۱۰ کو پڑھ لو.کیا کہتا ہے.قیدار میں جا کر خوب سوچو اور دیکھو.ایسی بات کہیں ہوئی ؟ جیسی یہ بات ہے.کیا کسی قوم نے اپنے الہٰوں کو جو حقیقت میں خدا نہیں بدل ڈالا؟ معلوم ہوتا ہے کہ یرمیاہ کے زمانے تک یہودی تعلیم کا اثر عرب پر نہیں پڑا اور کچھ نہیں پڑا.پادریو! نبی کی ضرورت تھی یا نہ تھی؟ جانتے ہو قیدار کون ہیں.قیدار اسماعیل بن ابراہیم کا بیٹا ہے.یہاں اسی کی قوم کی نسبت فرماتا ہے بتاؤ عرب کی ایسی بُت پرست قوم کو کس نے خدا پرست بنایا؟ کیا کسی مرگی زدہ مجنون نے ؟ سبحان اﷲ! کس طرح فطرت کا خالق فطرت کی طرف متوجّہ کرتا ہے اور کہتا ہے. (سبا:۴۷) تو کہہ میں تو ایک ہی نصیحت کرتا ہوں تم کو.کہ اُٹھ کھڑے ہو جو اﷲ کے کام پر دو دو اور ایک ایک، پھر دھیان کرو اس تمہارے صاحب ( رفیق) کو کچھ سودا نہیں ہے.جنگل اور بیابان سے نکل کر بدوں سامان و اسباب اپنے دیکھتے دیکھتے ایک شخص ، صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا کو اپنا ہم خیال بنا گیا.ہزاروں ہزار مخلوق کو اپنے اوپر جان و مال سے فدا کر گیا.نہ کسی نے تیس روپے پر پکڑوایا.نہ کسی نے اسے ملعون کہہ کر انکار کیا.سوچو.متی ۲۶ باب ۱۶ و ۷۴

Page 444

پادری صاحبان ! اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم مرگی کے مبتلا اور دیوانے تھے اور پھر اتنی دنیا پر ایسا قابو پا گئے تو سچ سمجھو بڑا معجزہ کر دکھایا.معجزے کے کیا معنی؟ دوسرے کو عاجز کر دینے والا.اتنی دنیا کے رسوم و عادات کو بدل دینا اور عرب کی متفرق جماعت کو ایک اسلام کے رشتے میں منسلک کر دینا اور سب کو اس کا مصدّق بنا دینا ایک بہت بڑا معجزہ ہے.(فصل الخطاب حصہ اوّل ایڈیشن اوّل صفحہ۱۰.۱۱) بَیْنَ یَدَیْ عَذَابٍ شَدِیْدٍ:یہودی مسیحؑ کے وقت اتنا زور رکھتے تھے کہ پیلا طوس کو ان کے ماتحت کام کرنا پڑتا.مگر ایک وقت آیا کہ یہودی انہیں عیسائیوں کے ہاتھ سے مذموم و مدحور ہو گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۴۸.  جو میں نے تجھ سے مانگا کچھ نیگ.سو تمہیں کو پہنچے.میرا نیگ ہے اسی اﷲ پر.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۳۷) ۴۹،۵۰.  : حق کا ذریعے اس باطل کا سر توڑدے گا.یہ پیشگوئی ہے.اسی لئے  صفت کا ذکر ساتھ کر دیا.مذہبوں میں اختلاف ہے مگر حق کا پانا کوئی ایسا مشکل امر نہیں.مثلاً بُت پرست ہیں.صرف اتنا غور کافی ہے کہ اﷲ کو چھوڑ کر جس کی پرستش کرتے ہیں.وہ خود اپنے ہاتھ سے گھڑتے ہیں.پھر نبیوں کے منکر ہیں.وہ دیکھیں کہ نبی پہلے اکیلا ہوتا ہے.اس کے ساتھ بھی غریب لوگ شامل ہوتے ہیں.مگر ہر نبی ضرور اپنے بڑے بڑے مخالفوں کے مقابل میں کامیاب ہوتا ہے.صاف ظاہر ہے کہ یہ راست بازوں کی جماعت حق پر ہے.نبی پر جنون کا شبہ بہت ہی کمزور بات ہے.کیا مجنون ایسی اعلیٰ تعلیم لا سکتا ہے اور ایسے قوانین

Page 445

وضع کر سکتا ہے.اور اپنے کاموں کے نتیجے اپنی آنکھوں کے سامنے بار آور دیکھ سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۷.۲۰۸) نجات کے طالبو! دینِ حق کے خواستگارو! خیالات ایں وآں سے تھوڑی دیر سر کو خالی کر کے ادھر متوجّہ ہو جاؤ.سوچو.کیا یہ زبردست پیشینگوئی پوری نہیں ہوئی.کیا ایک دنیا پر اس کی صداقت ظاہر نہیں ہو گئی.تیرہ سو برس ہوئے.دین کامل.توحید.صداقت کے آفتاب نے سر زمینِ عرب میں طلوع کیا.جس کی روشنی نہ صرف عرب میں بلکہ کل اقطارِ عالم میں پھیلی اور پھیل رہی ہے.اور جب سے کبھی شرک.کفر.بدعت.بت پرستی.بطلان کی کالی بدلی اس کے پُر جلال نورانی چہرے کو محجوب نہ کر سکی.اسی پر کیا بس ہے.آپ نے بڑے اطمینان.الہٰی الہام سے.پُر جلال آواز سے.بڑے جلسوں اور محفلوں میں تاکیدی الفاظ میں زور میں کہہ دیا.(بنی اسرائیل:۸۲) پڑھنے والے دیکھ! کیا یہ کلام قادرمطلق علاّم الغیوب کا نہیں؟ کیا انسان کی کمزور زبان اپنے ناقص اور محدود علم سے ایسی پوری ہونے والی سچ اور بالکل سچ خبر دے سکتی ہے؟ نہیں نہیں ! ہرگز نہیں.یقیناً یقیناً یہ اسی ہمہ قدرت کا کلام ہے جس کا علم کامل غیر محدود ہے س کے دستِ قدرت میں قلبِ انسان کے انقلاب و تقلیب کی باگ ہے.اور زمانوں اور قوموں کی تبدیل و تغییراسی کے بس میں ہے.اسی پاک عالم الغیب خدا نے اپنے برگزیدہ عبد مگر رسول کے منہ میں اپنا کلام دیا.جو اُسی کے بلائے سے بولا اور اُسی کے بتائے سے بتایا.کیا ہی سچ بولا.اور کیا ہی ٹھیک بتایا.فداہ امی و ابی صلی اﷲ علیہ وسلم.(فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۸۷.۸۸) : یہ ایک پیشگوئی ہے کہ مکّہ میں پھر کبھی ایسی بُت پرستی نہ ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۵۱.  : اور اگر میں سُوجھا ہوں تو اس سبب سے کہ وحی بھیجتا ہے مجھ کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۶)

Page 446

۵۲. : پکڑے جاؤ گے ایک مکان میں جو قریب ہے.چنانچہ بدر میں ایسا ہوا.پھر مکّہ میں.چنانچہ وہاں انہی منکروں نے اٰمَنَّا کہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۵۴.  : یہ بکواس کرتے ہیں کہ یہ نبی کبھی کامیاب نہ ہو گا.اس کی اولاد کوئی نہیں.تم غیب کی باتوں سے بہت دور کے مکان میں ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۵۵.  : ہلاک کرنیوالا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸)

Page 447

سُوْرَۃُ فَاطِرٍمَکِّیَّۃٌ  ۲.   اﷲ تعالیٰ جو فرماتا ہے وہ حق ہے.اﷲ تعالیٰ کی ذات.صفات.اسماء کی نسبت ہمیں اتنا ہی علم ہو سکتا ہے.جتنا وہ خود اپنے انبیاء.اولیاء کی معرفت بتائے.پس اﷲ کی ذات و صفات.ملائکہ.قبر.حشر.دوزخ.جنّت.پُل صراط کے متعلق ہمارا علم وہی صحیح ہو سکتا ہے.جو خود اس نے فرما دیا.اور اسی حد تک ہمیں ان میں گفتگوکرنے کی اجازت ہے.: یہ اﷲ نے فرمایا کہ فرشتوں کے پَر ہیں.ان سے کیا مراد ہے.یہ اﷲ ہی خوب جانتا ہے.پھر وہ جنہوں نے فرشتوں کو بجشمِ خود دیکھا.جس نے کچھ نہیں دیکھا.اس کا اعتراض بیوقوفی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) : صوفیوں نے لکھا ہے.میں اسکا ذمّہ دار نہیں کہ عروج کے اسباب کا نام اَجْنِحَۃ ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴. 

Page 448

 : وہی کامل قدرتوں والا غیر محتاج ہے.جو کچھ کسی کو دیا ہے.وہ اس کی عطاء ہے اور پھر محدود آئندہ کیلئے پھر محتاج کا محتاج.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۷.  تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے.سو تم سمجھ رکھو اس کو دشمن.وہ تو بلاتا ہے اپنے گروہ کو اسی واسطے کہ ہوویں دوزخ والوں میں.(فصل الخطاب حصہ دوم صفحہ۱۶۰) ۹.   : جس کو بُرے اعمال خوبصورت نظر آتے ہیں.: پھر اس بدعملی کو اچھا جانتا ہے.: خدا کی طرف سے گمراہی کا فردِ جرم اُنہی پر لگتا ہے جو ضلالت کی راہ عمدًا اختیار کریں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۱۱. 

Page 449

  : سمجھایا کہ نیک باتوں کے ساتھ نیک اعمال بھی ضروری ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸) ۱۲.   : اس ہ کا مرجع کیا ہے.اس سے ایک مسئلہ ’’مسیح سے مراد مثیل مسیح‘‘ حل ہوتا ہے.یہ ضمیر اس معمّر کے مثل کی طرف جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء) ۱۳.   : یعنی جس طرح  سے بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح ان گندے لوگوں سے نیک بن کر اسلام میں آ جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء)

Page 450

۱۶. : امیر سے امیر انسان اﷲ تعالیٰ کا محتاج ہے.ایک دم کا ایسا احتیاج ہے کہ یہ زندگی و موت کا سوال ہے.اور پھر احتیاج بھی عجیب طور پر ہے کہ ایک طرف سے ہوا کے داخل ہونے کا احتیاج ہے تو دوسری طرف ہوا کے خارج ہونے کا.ایک طرف پانی پینے کا احتیاج ہے.تو دوسری طرف اس کے اخراج کی حاجت ہے.انسان حق کا بھی محتاج ہے.اور حق کے علم پر عمل کرنے کیلئے توفیق کے حصول کا بھی ایسا ہی محتاج ہے.اگر خدا کا فضل نہ ہو تو بڑے بڑے عالم فسق و فجور میں مبتلا ہو جاویں.بے ریب انسان اپنا خالق آپ نہیں.نہ اس کے ماں باپ اور اس کے خویش و اقارب نے جو اسی کی استعداد کے قریب قریب ہیں اس کو گھڑ کر درست کیا.اپنی بدصورتی کو حسن سے بدلا نہیں سکتا.اپنی طول و عرض پر متصرّفانہ دخل نہیں رکھتا.معلوم نہیں کتنی مدّت سے چھُری لے کر اپنا پوسٹ مارٹم کر رہا ہے.پر اس غریب کو اپنے بدن کے عجائبات کا بھی آج تک پتہ نہ لگا.مائیکرو سکوپ ایجاد کر کے کہتے ہیں پچھلوں نے پہلوں سے سبقت لی.مگر عجائبات انسانی پر اور بھی حیرانی حاصل کی.افعال الاعضاء کے محقّق اور کیمیاگر اب تک کتابِ قدرت کے طفل ابجدخواں ہیں.صوفی.یوگی.الہٰیات.اخلاق.طبعی والے قویٰ انسانیہ کا بیان کرتے کرتے تھک گئے.مگر احاطۂ علمِ الہٰی سے قطعاً محروم چل دئے.اچھے فلاسفروں اور نیکوکار عقلاء کے گھروں میں ایسے جاہل کندہ ناتراش پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے مربیّوں کی عمدہ عقل کو چرخ دے دیا.اور وہ بیچارے کفِ افسوس ملتے رہ گئے.اور ان سے کچھ بھی نہ ہو سکا کہ اپنے اخلاقی اِرث سے انہیں تھوڑا سابہرہ مند کر جاتے.بڑے بڑے مدبّر اپنے عندیہ میں تدابیر کے ہر پہلو پر لحاظ کر کے مناسب وقت اور عین موافق لوازم کو مہیّا کرتے ہیں.پھر نتائج سے محروم ہو کر اپنی کم علمی پر افسوس مگر قانونِ قدرت کے مستحکم انتظام کو دیکھ کر ہمہ قدرت ذات پاک کا لابدّاقرار کرتے ہیں.سلیم الفطرت دانا جب تمام اپنے ارد گرد کی مخلوق کو بے نقص کمال ترتیب.اعلیٰ درجہ کی عمدگی پرپاتے ہیں.ضرور بے تابی سے ایک علیم و خبیر قادر کے وجود پر گواہی دیتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۴۷،۱۴۸) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اکتوبر ۱۹۱۰ء)

Page 451

۲۵.  یہودی اﷲ تعالیٰ کو جامع صفاتِ کاملہ یقین کرتے ہیں.پر اس کی روحانی تربیت کیلئے ایک ہی یونیورسٹی یروشلم جیسے آریہ ورت ہی کو آریہ لوگ یقین کرتے ہیں اور ایک ہی قوم کیلئے خدا کی فرزندی کو محدود کرتے ہیں اور کہتے ہیں.انبیاء اور خدا کی طرف سے منذر ایک ہی قوم بنی اسرائیل سے پیدا ہوئے.گویا عموم رحمتِ الہٰیہ کے قائل نہیں.قربان جایئے قرآن شریف کے جو فرماتا ہے.: اور کوئی فرقہ نہیں جس میں نہیں ہو چکا کوئی ڈرانے والا.فائدہ: اسلامی عقائد میں یہ امر ضروری التسلیم ہے کہ سب انبیاء و رسل پر ایمان لایا جاوے جو قوموں کے نذیر گزرے اور اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آئے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۲۹.۳۰) کل دنیا میں منذرین کا آنا تسلیم فرمایا.اور انصاف سے مذاہب پر کلّی انکار نہیں کیا بلکہ تمام انبیاء و رسل پر یقین کرنا اور ان پر ایمان لانا سکھایا اور فرمایا.: تمام اُمّتوں میں نافرمانوں کو ڈر سنانے والے گزر چکے ہیں.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ۲۸۴) یہ ایک ضروری بات ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے.قرآن کریم میں جس قدر قصص مذکور ہوئے ہیں اُن نبیوں کے ہیں جہاں جہاں نبی کریمؐ نے اور آپؐ کے صحابہ کرامؓ نے پہنچنا تھا.اور یہ بات ایسی خصوصیات کیلئے ہے ورنہ قرآن کریم تو صاف فرماتا ہے کہ یعنی کوئی امّت ایسی نہیں جس میں خدا کی طرف سے ایک ڈرانے والا نہ آیا ہو.ایک طرف تو یہ حال ہے کہ کوئی قوم اور کوئی بستی نہیں جس میں اﷲ تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو.دوسری طرف بہت سے ایسے رسول بھی ہو گزرے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں فرمایا.تو ایک غور طلب بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے ذکر کو بیس اور تیس کے اندر محدود کرتا ہے.مجھے یہ بات بتلائی گئی ہے کہ ان ہی نبیوں کا ذکر قرآن نے فرمایا ہے جن کے بلاد میں نافرمانوں اور فرماں برداروں کے نشانات صحابہ کرام کیلئے موجود ہیں اور جہاں پیغمبرِ خدا نے کامیابی حاصل کرنی تھی.اور صحابہ کرامؓ نے دیکھ لینا تھا.لِیَھْلِکَ 

Page 452

(انفال:۴۳) صحابہ ؓ وہاں پر پہنچے.ان کا نمونہ یہ تھا کہ نبی کی مخالفت اور متابعت کا کیا انجام ہوتا ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۱۴) ۲۸.   باپ کے تقریباً ایک برس کے خیالات کا اثر نطفہ میں پڑتا ہے.پھر وہ ماں کے پیٹ میں جاتا ہے تو ماں کے اور اس کے گھر میں آنے جانے والوں کا اثر پڑتا ہے.پھر ہم صحبتوں، ہم نشینوں، دعائیں کرنے والوں و غیر ھم کا اثر ساتھ ساتھ ہوتا ہے.۱۸ برس تک.: یہی حال وحی الہٰی کا ہے.: کھجور.انگور ۱۲۰ قسم کے ہوتے ہیں.جس طرح پانی ایک ہی ہے مگر بیجوں اور زمینوں کے لحاظ سے مختلف ثمرات پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح خدا کی پاک وحی ( قرآن) کا اثر بھی مختلف طبائع پر مختلف ہوتا ہے.:پہاڑ میں مختلف قسم کی پیداوار ہے.کہیں ہیرا.کہیں کنکر.اسی طرح قرآن سننے والوں کے کئی رنگ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍و ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۸.۲۰۹) ۲۹.  : اب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں ہی مجدّد.آدمیوں میں ہی ولی.آدمیوں میں سے نبی.پھر آدمیوں ہی سے فاسق فاجر تک ہوتے ہیں

Page 453

اَلْعُلَمَآء: ان لوگوں میں سے عالموں کا نشان بتاتا ہے.کہ ان کی گفتار کردار میں خشیۃ اﷲ پائی جاتی ہے.کوئی جیالجی جاننے والا ہو یا اسڑنمر ہو.یا منطقی ہو یا نجومی یا طبیب.خدا کے نزدیک عالم وہ ہے جو خشیۃ اﷲ رکھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) پھر اندرونی مشکلات قوم کو سمجھنے کے واسطے اہل دل گروہ قوم کا دل اور علماء دماغ تھے.اور حکومت کرنے والے تھے.امراء حکومت کرنے والے تھے.لیکن اگر اہل دل.علماء اور امراء کے حالات کو غور سے دیکھیں تو ایک عجیب حیرت ہوتی ہے.عظمتِ الہٰی اور خشیتِ الہٰی علومِ قرآنی کے جاننے کا ذریعہ تھا یا یوں کہو کہ اہلِ دل گروہ علماء سے بنتا ہے.یا بلا دل ہی عالم ہونے چاہیئے تھے مگر یہاں یہ عالم ہی دوسرا ہے.فقر اور علم میں باہم تباعد ضروری سمجھا ہے کہ عالم اور فقر کیا.وہ علم جو چشیت اﷲ کا موجب ہوتا اور دل میں ایک رقّت پیدا کرتا وہ علم جو خشیت اﷲ کا موجب ہوتا.ہرگز نہیں رہا.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ ۷) سچّے علوم سے معرفتِ نیکی اور بدی کی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی عظمت و جبروت کا علم ہوتا ہے اور اس سے سچّی خشیت پیدا ہوتی ہے  یہ خشیت بدیوں سے محفوظ رہنے کا ایک باعث ہوتی ہے اور انسان کو متقّی بناتی ہے اور تقویٰ سے محبتِ الہٰی میں ترقی ہوتی ہے.پس خشیت سے گناہ سے بچے اور محبت سے نیکیوں میں ترقی کرے.تب بیٹرا پار ہوتا ہے اور مامور من اﷲ کے ساتھ ہو کر اﷲ تعالیٰ کے غضبوں سے جو زمین سے یا آسمان سے یا جوّ سے نکلتے ہیں محفوظ ہو جاتا ہے.( الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۷) ادنیٰ محبوبوں کو اعلیٰ محبوبوں پر قربان کرنے کا نظارہ ہر سال دیکھتا ہوں.اس لئے ادنیٰ محبت کو اعلیٰ محبت پر قربان کرتا ہوں.مثلاً سڑک ہے جہاں درخت بڑھانے کا منشاء ہوتا ہے.وہاں نیچے کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں.پھر درخت پر پھول آتا ہے اور وہ درخت متحّمل نہیں ہو سکتا تو وہ عمدہ حصے کے لئے ادنیٰ کو کاٹ دیتے ہیں.میرے پاس ایک شخص سردہ لایا اور ساتھ ہی شکایت کی کہ اس کا پھل خراب نکلا.میں نے کہا کہ قربانی نہیں ہوئی.چنانچہ دوسرے سال جب اس نے زیادہ پھولوں اور خراب پودوں کو کاٹ دیا تو اچھا پھل آیا.لوگ جسمانی چیزوں کے لئے تو اس قانون پر چلتے ہیں مگر روحانی عالم میں اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اصل غرض کو نہیں دیکھتے علم کی اصل غرض کیا ہے.خشیۃاﷲعلم پڑھو اس غرض کیلئے کہ لوگوں کو خشیۃ اﷲ سکھاؤ.مگر علم کی اصل غرض خشیۃ تہذیب النفس تو ختم ہو گئی.ادھر کتابوں کے حواشی پڑھنے میں سارا وقت خرچ کیا جا رہا ہے مگر ان کتابوں کے مضمون کا نفس پر اثر ہو.اسکی ضرورت نہیں.میں رام پور میں پڑھتا

Page 454

تھا.وہاں دیکھتا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں صبح کی نماز پڑھ لیتے اور مسجد کے ملاّں کو نہ جگاتے کہ رات بھر مطالعہ کرتے رہے ہیں.انہیں جگانے سے تکلیف ہو گی.علم تہذیب النفس کیلئے تھا.مگر لوگوں نے اسے تخریب نفس کاہلی اور سُستی میں لگا دیا.دوسروں کی اصلاح کے دعویدار ہیں.مگر خود اپنی اصلاح سے بے خبر.(بدر ۲۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۸) ۳۰.  یَرْجُوْنَ: مومن وہی ہے جو ایسی تجارت کرے جس میں ٹوٹا نہیں.عارضی و نمائشی چیزوں پر اتنا روپیہ نہیں صرف کرتا.ایک بزرگ ایک دعوت میں گئے.معمولی کپڑے تھے.کسی نے نہ پوچھا.پھر آپ خوب لباس پہن کر گئے تو سب نے تعظیم دی.آپ بھی شوربہ وغیرہ کی رکابی اپنے چوغہ پر ڈالنے لگے.حاضرین نے تعجّب کیا تو جواب دیا.مجھے تو کسی نے پوچھا نہیں.یہ دعوت تو میرے کپڑوں کی ہے.انہی کو کھلاتا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) ۳۳.   پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو برگزیدہ ہیں.پس بعض ان میں سے ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبرواکراہ سے نفسِ امّارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہداتِ شاقہ میں مشغول ہیں.دوسرا گروہ میانہ رو آدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفسِ سرکش سے بہ جبرواکراہ لیتے ہیں اور بعض الہٰی کاموں کی بجاآوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوق اور

Page 455

رمحبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجا لاتا ہے.غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلّف کے اپنے ربّ جلیل کی فرماں برداری اُن سے صادر ہوتی ہے.تیسرے سابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے جو نفسِ امّارہ پر بکلّی فتح یاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں.غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں.پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوّت کو دبا وے.شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتداء میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہو گی.شہوت کے وقت عفّت سے کام لے اور قوائے شہوانیہ کو دبا وے.اسی طرح جھوٹ بولنے والاسُست منافق.راست بازوں کے دشمنوں کو بدیاں چھوڑنے کیلئے جان پر ظلم کرنا پڑے گا.تاکہ یہ اس طاقت پر فاتح ہو جاویں.بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گو کسی وقت کچھ خواہش بد پیدا بھی ہو جاوے.ایک لذّت اور سرور بھی حاصل ہو جایا کرے گا.مگر تیسرے درجہ میں پہنچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آ جاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الہٰی کا شرفعطا ہو گا.(الحکم ۱۷؍ نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ۲.۳) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) ۳۴.  : دنیا میں بھی اس جنّت کا نمونہ صحابہ ؓ نے دیکھا.ان کو قیصر و کسریٰ کے گھرانوں کے زیور دیئے گئے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) مِنْ: یہ ایران کو فتح کرنے کی پیشگوئی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۸. 

Page 456

: بدیوں کا ارتکاب کر کے جب اس کا خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے تو بدکار چیختا ہے کہ مثلاً اس سوزاک و آتشک سے رہائی ہو.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) مَا: میرے نزدیک ادنیٰ حقدار اٹھارہ سال ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۹.  : غیب.رضائے الہٰی کی راہیں ۲.جو موجود ہو کر معدوم ہو گئی ہیں یا ہنوز عدم میں ہیں اور وجود میںنہیں آئیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) ۴۰.   : انکار کا بُرا نتیجہ پاتا ہے.: اﷲ تعالیٰ کی ناراضی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) ۴۲. 

Page 457

 : بعض دُم دار ستارے ایسے ہیں کہ ان کی دُم کی ٹکّر سے زمین ٹکڑے ہو جاوے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹) ۴۴.   اَلْمَکْرُ: مکر کے ساتھ سَیِّیٔ ُ لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مکر کے معنے بُرے نہیں جبھی تو اس کے ساتھ سَیِّیٔ ُ لگایا.ِ: سنت اﷲ اور سنت ﷲ میں فرق ہے.غُلَامُ زیْدٍ.زید کا خاص غلام.غُلُامٌ لِزَّیْدٍ خاص غلام نہیں.کوئی ایک.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۰۹)

Page 458

Page 459

Page 460

مَآ: قریب زمانہ یعنی ان کے باپ دادا میں نبی نہیں آیا.چونکہ یہ لوگ غافل ہو گئے.اور خدا تعالیٰ کو بھُول کر بُت پرستی میں محو ہو گئے.اس لئے ضروری تھا کہ ان میں کوئی نبی آوے اس زمانہ میں بھی امراء.علماء.فقراء.تینوں مصلحانِ قوم کی حالت ایسی تھی تو خدا کافر ستادہ آیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء) ۸. ثابت ہو چکی ہے بات ان بہتوں پر سو وَے نہ مانیں گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۱) ۹.  : نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی قید میں جب کفّار آئے تو یہی حالت تھی اور اس طرح ظاہری طور پر بھی یہ بات پوری ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) ۱۰.  : آگے بڑھ نہیں سکتے کہ اسلام لائیں.پیچھے ہٹ نہیں سکتے کہ عذاب سے بچ جاویں اور یہ اس لئے کہ ان کے نزدیک ڈرانا نہ ڈرانا برابر یکساں ہے اور وہ ایمان نہیں لاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) ۱۴.

Page 461

 ہزارہا لوگوں نے چائنا.جاپان.انگلینڈ کو نہیں دیکھا مگر وہ ان کی ہستی پر محض شنید سے یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے وجود پر قسم کھا سکتے ہیں.پھر بعض واقعات کو صرف ایک گواہی پر تسلیم کیا جاتا ہے مثلاً کسی کا اپنے باپ کا بیٹا ہونا جس کیلئے صرف اسکی ماں کی گواہی ہے.پھر فلاسفروں کے اقوال میں اتنا اختلاف ہے کہ کسی صورت میں نہیں ملتا.مگر انبیاء کی جماعت ایسی جماعت ہے کہ باوجودیکہ وہ آپس میں نہیں ملے اور مختلف زمانوں میں ہوئے ہیں.پھر بھی وہ ’’اﷲ ایک ہے ‘‘ پر اجماع رکھتے ہیں.اس شہادت کو نہ ماننا کیسی بے ایمانی ہے.ایک عورت کی گواہی مان لینے والے اتنی بڑی راست باز جماعت کی مجموعی گواہی کو نہ مانیں تو بہت بے انصافی ہے.پھر وہ لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے خدا سے خود باتیں کی ہیں.ان کی باتیں نہ مانیں مگر فلاسفروں کی باتیں باوجود اس قدر اختلاف کے مان لیں.تعجّب ہے.مَثَلاً: عجیب بات.: مصر جس میں حضرت موسیٰ و ہارون گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) ۱۵.  : تیسرا عظیم الشان رسول بھجوایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) : تیسرا ( محمد مصطفیٰؐ) ایسا زبردست آیا کہ اس کی قوم سے کوئی لات و عزّٰی کا پرستار نہ رہا.بلکہ تمام عرب مسلمان ہو گیا.بلکہ تمام دنیا کے مذاہب کے معابد اسی کے نام پر فتح ہوئے ۱.یوروشلم ۲.آتش کدہ آذر ۳.خانہ کعبہ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۶. 

Page 462

: برہمؤوں کا بھی یہی عقیدہ ہے.یہ لوگ تمام راستبازوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں.ان کی گندی تعلیم سب سے زیادہ خطرناک ہے.جن لوگوں نے سچائیوں کے پہچاننے کیلئے اپنے آرام.اپنی اولاد.اپنا جاہ و جلال.اپنے وطن کو چھوڑ دیااور اپنی جانیں قربان کر دیں.ان کو جھوٹ اور دروغ مصلحت آمیز سمجھنا حد درجہ کی بے باکی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) (کہف:۶) نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صحبت میں چند گھنٹے ٹھہرنے والے کی نسبت بھی یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اس نے روایت میں جھوٹ بولا.اور نہ دنیا کی مجموعی طاقت ایسے اتّہام کو ثابت کر سکتی ہے.پس جس نبی میں یہ نور و ہدایت ہو کہ اس کی صحبت آدمی کو اعلیٰ درجہ کا راست باز بنا دے.کیا وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بھی خدا پر.خدا نے کچھ وحی نہیں کی.اور وہ کہے مجھ پر وحی ہوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) ۱۸،۱۹.  اَلْبَلٰغُ: کھول کر بات پہنچا دینا.: بڑے بڑے دُکھ دیکھے ہیں.تمہارے سبب سے.واقعی جب نبی آتا ہے.طاعون.قحط.ہیضہ اور ہر قسم کی بلائیں آتی ہیں.اس میں ایک منشاء ایزدی ہوتا ہے.وہ یہ کہ (انعام:۴۳) یعنی شوخی، بے باکی سے باز آ کر خدا کے حضور گریہ وزاری کریں.(اعراف:۹۵) اس سے طائر کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہے.جہاں انسان جاوے اس کے ساتھ چیل کوّے جاتے نظر آویں تو یہ فتح مندی کا نشان ہے.۲.اسی طرح ہوا کا رُخ ادھر ہو جدھر سے یہ جاوے تو یہ بھی کامیابی کا تفاول ہے.۳.جانور بیٹھ جاوے جس پر سوار ہوں ( جیسا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی اونٹنی حدیبیہ میں بیٹھ گئی) تو یہ بھی اچھا نشان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰)

Page 463

۲۷،۲۸.  : حضرت حق سبحانہٗ نے بذریعہ الہام جنّت کی بشارت دی.لوگ کہتے ہیں اسے قتل کر دیا.قرآنِ مجید سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۰) مومن اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانے والابعد الموت معاً جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اور شریر نار میں.جیسے فرمایا...(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۳۴) ۳۱.  : تحقیر کرتے ہیں.یہی معنے ٹھیک ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳، ۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۳۴.  بندوں کو اﷲ تعالیٰ سمجھانے کیلئے بہت سی مثالیں بیان فرماتا ہے.تمثیلوں سے بات خوب واضح ہو جاتی ہے.دنیا کی تمام مہذب قوموں کے لڑیچر میں یہ طرز پایا جاتا ہے.مسلمانوں میں مثنوی مولانا روم اس کی بہترین مثال ہے.

Page 464

اَلْاَرْضُ : یہ سمجھایا کہ اس ملک میں اخلاقی حالت.یک جہتی.امنِ عامہ سب کچھ مر چکا تھا.امن عامہ کا یہ حال تھا.کہ ایک کُتّی کے بچے کے مرنے پر ہزاروں ہی کٹ کے مر گئے.بُت پرستی جس کا لازمہ جھوٹے قصّے ہیں کیونکہ پجاری اپنے اپنے بتوں کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے عجیب عجیب فسانے تراش لیتے ہیں.جن ملکوں میں شرک ہوتا ہے.وہاں الہٰیات کا علم بالکل نہیں ہوتا.پہاڑوں پر ایسی حالت بہت پائی جاتی ہے.یورپ میں قطعاً بُت پرستی ہی رہ گئی ہے.حضرت صاحب نے ایک موقع پر نہایت عمدہ نکتہ لکھا ہے کہ ان لوگوں نے نئی نئی ایجادیں کی ہیں یہاں تک کہ خدا بھی نیا ہی گھڑ لیا ہے.لوتھرؔ نے لکھا ہے کہ بدکاری کر اور پیٹ بھر کر کر.کیا مسیح تیرے لئے کفّارہ نہیں ہوا.ایک پڑھے لکھے شخص سے میں نے پوچھا.ایک شخص ننگے سر دو لکڑیاں ہاتھ میں لئے بھاگتا ہوا تمہاری کوٹھی کی طرف آئے اور کہے.آئی ایم گاڈ.آئی ایم گاڈ.تو تم اسے کیا کہو گے.اس نے کہا.کہ آپ گستاخی کرتے ہیں.میں نے کہا.پاگل ہی کہتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب زمین مردہ ہوتی ہے تو آسمان سے جو پانی برستا ہے اس سے وہ بقاعدہ (طارق:۱۲،۱۳) زندہ ہو ہی جاتی ہے.اور جو جو بیج بڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں.وہ اس سے اُگ پڑتے ہیں.اسی طرح آسمانی وحی کا پانی مُردہ دلوں پر پڑ کر ( جن میں استعداد ہو) ان کو زندہ کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳، ۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۳۷.  : روئیدگی کے ساتھ اسکا ذکر کیا ہے.کہ اس کو کھا کر نسل بڑھتی ہے.اس تمثیل میں سمجھا دیا ہے.جیسے بارش ہو تو کوئی روئیدگی کو روک نہیں سکتا.اسی طرح یہ الہامی بارش جو ہوئی.تو اب اس کے نتیجہ سے ایک قوم پیدا ہونے والی ہے.تم اسے روک نہیں سکتے.دور کیوں جاؤ.اس گاؤں میں بھی ایک شخص پر خدا کے فضل کی بارش ہوئی.اور پھر باوجود سخت مخالفت کے ایک قوم خدا کے دین پر چلنے والی پیدا ہو گئی.اور تم جو یہاں دو تین سو بیٹھے ہو.یہ اسی کا

Page 465

ثبوت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳، ۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۱) : تمام نر و مادہ کا علم دنیا کو نہیں.پتھروں کے.درختوں کے.دونوں کے جوڑے ہوتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۶.۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۹. : گردش کی مقرر کردہ جگہ.ایک طرف خط جدی.ایک طرف خط سرطان.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳، ۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۴۰. اور چاند کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں.یہاں تک کہ آخرکار وہ چاند پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۱۵) ۴۱.  سورج کو تو طاقت نہیں کہ چاند کو دبوچ لے یا اس سے جا ملے.اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے.بلکہ یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک میں تیرتے ہیں.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۱۵) ۴۲. : اب بھی جس کی اولادبحری سفر کے ذریعے ولایت پہنچتی

Page 466

ہے وہ بڑا فخر کرتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۴،۴۵.  : پیشگوئی فرماتا ہے کہ تم بھی اسی زمین پر بصورت گستاخی و مقابلہ نبی غرق کر دئے جاؤ گے اور تمہارا کوئی فریادرس نہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۴۶.  : جو عذاب تمہارے سامنے ہے.: جو عذاب پیچھے آنے والا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۴۸.   قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی.جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے.ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھوکے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں تم کو خدا ہی نہ دے دیتا.اگر دینا منظور ہوتا قرآن کریم کے دل سورۃ یٰس ٓ میں ایسا لکھا ہے آجکل چونکہ قحط ہو رہا ہے.انسان اس نصیحت کو یاد رکھے اور دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدرِ وسعت تیار رہے.اور اﷲ تعالیٰ کی محبت کیلئے یتیموں مسکینوں اور پابندِ بلا کو کھانا دیتا رہے مگر صرف اﷲ کیلئے دے.یہ تو جسمانی کھانا ہے.روحانی کھانا ایمان کی باتیں.رضاء الہٰی.اور قرب کی باتیں.یہاں تک کہ مکالمہ الہٰیہ تک پہنچا دینا.اسی رنگ میں رنگین

Page 467

ہوتاہے یہ بھی طعام ہے.وہ جسم کی غذا ہے.یہ رُوح کی غذا.(الحکم ۱۷؍نومبر ۱۸۹۹ء صفحہ۴) ۵۱. : نہ خود کچھ کر سکو گے.نہ کسی کو کہہ سکو گے کہ ہمارے بعد یوں انتظام کرنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) بدر میں مارے گئے.نہ وصیت کر سکے.نہ لوٹ کر گھر جا سکے.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹صفحہ ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۲.  : جب ہمارا بگل بجے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۵۳.  : ہماری آرام کی جگہ.اعتراض کیا جاتا ہے.کیا کفّار کیلئے قبر آرام گاہ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نسبتی امر ہے.آنے والے عذاب کے مقابل میں یہ عذابِ قبر موجبِ آرام ہی تھا.؎ بموتش بگیر ت بمرض راضی شود سے بھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۶۰. : قطع تعلق کرنے والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ

Page 468

۶۱.  : خدا سے دور.ہلاک شدہ روحیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۶۳. : ہلاک کر دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۱) ۶۶.  : طبّ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بیماریاں صرف ہاتھ دیکھنے سے معلوم ہو جاتی ہیں.بعض بیماریاں پیچھے مڑ کر چلانے سے پتہ لگ سکتا ہے.یہ تو دنیا کا حال ہے.آخرت میں تو سب کچھ ظاہر ہو جائے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) ۶۹. مَنْ نُعَمِّرْہُ: خواہ بحیثیت قومی یا بحیثیت سلطنت یا بحیثیت عظمت.: یہ قانون تمام اشیاء عالم میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) انسان بہت بڑے بڑ ے ارادے کرتا ہے.بچپنے سے نکل کر جب جوانی کے دن آتے ہیں اور جوں جوں اس کے اعضاء نشو و نما پا کر پھیلتے ہیں اور قویٰ مضبوط ہوتے ہیں.اس کے ارادے بھی وسیعہوتے جاتے ہیں

Page 469

ایک بچہ رونے اور ضد کرنے کے وقت ماں کی گود میں چلے جانے یا دودھ پی لینے سے یا تھوڑی سی شیرینی یا کسی تماشے کھیل سے خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بہلانے کے واسطے بہت تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے یا یوں کہو کہ ایک بچے کی خوشی اور خواہشات کا منزلِ مقصود بہت محدود ہوتا ہے.مگر جوں جوں وہ ترقی کرتا اور اس کے قویٰ مضبوط ہوتے جاتے ہیں تُوں توں اس کے ارادوں اور خواہشات کا میدان بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے.حتّٰی کہ قرآن شریف کی اس آیت (فاطر:۳۸) کا مصداق بن جاتا ہے.اس دور کا پہلا درجہ اٹھارہ سال کی عمر ہوتی ہے.اسوقت انسان میں عجیب عجیب قسم کی اُمنگیں پیدا ہوتی ہیں.ایسے وقت میں جبکہ انسان کے قوٰی بھی مضبوطی اور استویٰ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے ارادے بھی بہت وسیع ہو جاتے ہیں.رسول اکرم ؐ نے ہر نمازی کو جن میں یہ لڑکا بھی داخل ہے طولِ امل اور ہموم و غموم سے پناہ مانگنے کے واسطے حکم دیا ہے.ایک دوسری حدیث میں آیا ہے.کہ رسولِ اکرمؐ نے ایک چار کونہ شکل بنائی اور اس کے وسط میں ایک نقطہ بنا کر فرمایا کہ یہ نقطہ انسان ہے اور دائرہ سے مراد اجل ہے.یعنی انسان کو اجل احاطہ کئے ہوئے ہے پھر انسانی امانی اور آرزوئیں اس سے بھی باہر ہیں.یہ سچّی بات ہے کہ انسان بڑے بڑے لمبے ارادے کرتا ہے جو سینکڑوں برسوں میں بھی پورے نہیں ہو سکتے مگر اس کی اجل اسے ان ارادوں تک پہنچنے سے پہلے دبا لیتی ہے.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ۵،۶) ۷۱. : فردِ جرم لگے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) ۷۶. : وہ بُت مشرکانِ مکّہ کو کچھ مدد نہ دے سکے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲)

Page 470

۷۹.  : کھوکھلی ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۹۲) ۸۳. اس کی بات ہے.کہ جب ارادہ کرتا ہے کسی شئے کا تو فرماتا ہے کہ ہو.پس ہو پڑتی ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۹۲)

Page 471

سُوْرَۃُ  مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۵.  : اگر بڑے لائق لوگوں کی صفیں عمدہ صف باندھ کرکسی عظیم الشّان مذہب کی تحقیق میں بیٹھیں.: وہ مجلس اتنی بڑی ہو کہ پولیس کا انتظام کرنا پڑے.: پھر اس میں بڑے بڑے لیکچرار اپنے اپنے مضمون پڑھیں.: توخلاصہ یہی نکلے گا.کہ اﷲ ایک ہے.واقعہ میں مخلوق پرست کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی! ایک بُت پرست رئیس سے میری گفتگو ہوئی.اس نے کہا.قدیم مذہب اچھا ہوتا ہے.میں نے کہا فرمایئے.رام چندرکس کی پرستش کرتے تھے.آخر چلتے چلتے وہ اس بات پر پہنچ گیا.کہ ایک خدا کی! عیسائیوں سے بھی یہی سوال کیا ہے.کہ کنواری کا بیٹا جب دنیا میں نہیں آیا تھا تو کس کی پرستش لوگ کرتے تھے.تو ان کو ماننا پڑا ہے.اس واحد معبود حقیقی کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) : صفیں باندھ لی جائیں.لیکچرار لیکچر دیں.پولیس کا انتظام بھی ہو تو یہ ثابت ہو گا کہ اﷲ ایک ہے.اس کا نمونہ جلسہ اعظم مذاہب میں ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶.

Page 472

: شروقِ نور کے حصول کا نام ہے.تمام نوروں کا سر چشمہ وہی رب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) ۷ تا ۱۱.    ہم ہی نے خوشنما بنایا اس والے آسمان کو کو اکب کی زینت سے اور محفوظ کر دیا ہم نے اُسے ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک ہونے والے متکبّر ضدّی سے.مَلَأ اَعْلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر جانب سے دھکیلے جاتے ہیں.دھتکارے جاتے اور ان کیلئے دائمی دُکھ دینے والا عذاب ہے.ہاں اگر کوئی جھٹی مارے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہابِ ثاقب.میٹی ارز.الکایات.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۲۰۰) : ایک مخلوق ہے جو ناپاک اور مخلوق سے دور رہتی ہے.عرب اسے کاہن کہتے ہیں.شانہ بین بھی انہی میں داخل ہیں.وہ انبیاء کی اتباع نہیں کرتے اور غیب کی باتوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں.: جبرائیل اور اس کے قرب والے ملائکہ تک ان کی رسائی نہیں.مگر وہ زمین کے ملائکہ یا ادھر اُدھر سے کچھ اڑا لیتے ہیں.کچھ جھوٹ ملا دیتے ہیں.:چمکتا ہوا شعلہ پڑتا ہے اور وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۲) : جنابِ الہٰی کا الہام اولاً جن کو پہنچتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 473

ازواج جمع زوج کی اور زوج کے معنی ہیں.ساتھی (اَلْازْوَاجُ: اَلْقُرَنَاء ُ) یعنی ازواج بمعنی ساتھی کے ہیں … ہر جگہ ازواج کے معنے ساتھ والے کے ہیں.مطلب آیت کا نہایت صاف ہے.کہ بڑے بڑے ظالم بدکار اور ان کی جنس کے سنگی ساتھی سب کو دوزخ میں لے جاؤ.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۳۵.۱۳۶) ۳۸. : قرآن شریف نے تمام رسولوں کی تصدیق کی.جو صداقتیں انہوں نے مختلف زمانوں میں پیش کیں.وہ سب قرآنِ مجید میں موجود ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۲) ۶۶. : سانپوں کے سر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۲) ۸۴،۸۵.  انبیاء پہلے تمام اسباب کو اپنی طاقت و وسعت کے مطابق جمع کرتے ہیں پھر خدا کو پکارتے ہیں کیونکہ اسباب کا جمع کرنا بھی خدا ہی کے قانون کی فرماں برداری ہے.تدبیر کے معنے ہیں.آخر کو دیکھنا.توکّل کے معنے ہیں.جو چیز بہم نہیں پہنچ سکی.اس کے لئے جنابِ الہٰی میں التجاء اور اس کی ذات پر بھروسہ.: نوح کے اتباع میں سے.: دل ہو جو طمع.حسد.شہوت کے خیال اور اس کے لوازمات جہالت.سُستی فضولی.غضب.اس قسم کی بدیوں سے پاک اور اپنے مولیٰ کافرماں بردار ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۲) خدا تعالیٰ مخفی در مخفی ارادوں اور نیتوں کو جانتا ہے.اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا.بلکہ مَنْ

Page 474

.کام آتا ہے.سلامتی ہو.انکار نہ ہو.خدا سے سچّی محبت ہو.اﷲ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور خیر خواہی ہو.امر بالمعرو ف کرنے والا اور ناہی عن المنکر ہو.بدی کا دشمن.راست بازوں کا محبّ ہو.خدا تعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو.یہ منشائے اسلام ہے.(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۴.۵) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا پاک نام ابراہیم بھی تھا.جس کی تعریف اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَ فَّی اور وہی ابراہیم جو  کا مصداق تھا.اس نے سچّی تعظیم امرِالہٰی کی کر کے دکھائی.اس کا نتیجہ کیا دیکھا.دنیا کا امام ٹھہرا.(الحکم ۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۴) ۸۸. :چور چوری جبھی کرتا ہے کہ اس کو خدا کی صفت رزاقیت پر ایمان نہیں ہوتا.زانی نہیں سمجھتا کہ اﷲ پاک بیبیاں دے سکتا ہے.اسی لئے فرمایا( حٰم السجدہ:۲۴) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۲) ۸۹،۹۰. : انہوں نے وقت کی طرف توجّہ فرمائی.اب بھی مہذّب ملک میں دستور ہے کہ کسی کو رخصت کرنا ہو یا خود جانا ہو تو اپنی گھڑی دیکھ لیتے ہیں.: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کَانَ صِدِّیْقًانَّبِیًّاوہ بڑا راست باز تھا.ادھر حضرت ابراہیمؑ فرماتے ہیں.میں بیمار ہوں میری طبیعت ناساز ہے.پس وہ اپنے قول میں سچّے تھے.اپنی کمزوری اور کسی اندرونی سقم کو انسان خود ہی سمجھتا ہے.اﷲ کے بندے باوجود ناسازیٔ طبع بھی تبلیغ کے جوش میں نکل آتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۲.۲۱۳) ۹۹. : صرف ارادہ کیا ہے (یہ بات یاد رکھو) مگر خدا نے یہ ارادہ چلنے نہ دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۰۳.

Page 475

: کوئی شخص دیکھے کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتا ہوں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ دُنبہ ذبح کر دے.عالمِ رؤیا میں بیٹا کَبَشٌ ۱؎ ہوتا ہے اورکَبَشٌ بیٹا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.۹۹ برس کی عمر تھی.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولادِ صالح عنایت کی.اسمٰعیل ؑ جیسی اولاد عطا کی.جب اسمٰعیلؑ جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دے دو.اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو.زمانہ اور عمر وہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی.اس بڑھاپے میں آئندہ اولاد ہونے کی کیا توقع.اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیمؑ نے اپنی ساری طاقتیں.ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دیئے.ایک طرف حکم ہوا.اور معًابیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا.کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا. تو وہ بلا چون و چرا یونہی بولا.کہ  ابّا جلدی کرو.ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے.اس کی تعبیر ہو سکتی ہے.مگر نہیں.کہا.پھر کر ہی لیجئے.غرض باپ بیٹا نے ایسی فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزّت.کوئی آرام.کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج کی ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.مگر دیکھوکہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے.۱؎ کَبَشٌ : دُنبہ.مرتّب ٔ اﷲ تعالیٰ نے ابراہیمؑ اور اس کے بیٹے کو کیا جزاء دی.اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء پیدا کئے.وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہاء نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملّتِ ابراہیمی میں سارے نواب اور خلفاء الہٰی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں.(الحکم۲۴؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۴) یہ دن (عیدالاضحی) بھی ایک عظیم الشان متّقی کی یا دگار ہے.اس کا نام ابراہیمؑ تھا.اس کے پاس بہت سے مویشی تھے.بہت سے غلام تھے اور بڑھاپے کا ایک ہی بیٹا تھا.

Page 476

.سو برس کے قریب کا بڈھا.ایک ہی بیٹا.اپنی ساری عزّت.ناموری.مال.جاہ و جلال اور امیدیں اسی کے ساتھ وابستہ.دیکھو متّقی کا کیا کام ہے.اس اچھے چلتے پھرتے جوان لڑکے سے کہا.میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کروں بیٹا بھی کیسا فرماں بردار بیٹا ہے..اباجی.وہ کام ضرور کرو جس کا حکم جناب الہٰی سے ہوا.میں بفضلہ صبر کے ساتھ اسے برداشت کروں گا.یہ ہے تقویٰ کی حقیقت.یہ ہے قربانی.قربانی بھی کیسی قربانی کہ اس ایک ہی قربانی میں سب ناموں.امیدوں ناموریوں کی قربانی آ گئی.جو اﷲ کیلئے انشراحِ صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں.اﷲ بھی ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.اس کے بدلے ابراہیمؑ کو اتنی اولاد دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ابراہیمؑ کی اولاد صحیح تعداد کی دریافت سے مستثنٰی ہے.کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہوئیں.کیا کیا انعامِ الہٰی اس پر ہوئے کہ گننے میں نہیں آ سکتے.ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم بھی اسی ابراہیمؑ کی اولاد سے ہوئے.پھر اس دین کے حفاظت کیلئے خلفاء کا وعدہ کیا.کہ انہیں طاقتیں بخشے گا اور ان کو مشکلات اور خوفوں میں امن عطا کرے گا.یہ کہانی کے طور پر نہیں.یہ زمانہ موجود.یہ مکان موجود.تم موجود.قادیان کی بستی موجود.ملک کی حالت موجود ہے.کس چیز نے ایسی سردی میں تمہیں دور دور سے یہاں اس مسجد میں جمع کر دیا.سنو! اسی دستِ قدرت نے جو متّقیوں کو اعزاز دینے والا ہاتھ ہے.اس سے پہلے پچیس برس پر نگاہ کرو.تم سمجھ سکتے ہو کہ کون ایسی سخت سردیوں میں اس گاؤں کی طرف سفر کرنے کے لیئے تیار تھا؟ پس تم میں سے ہر فرد بشر اس کی قدرت نمائی کا ایک نمونہ ہے.ایک ثبوت ہے.کہ وہ متّقی کیلئے وہ کچھ کرتا ہے جو کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں ہوتا یہ باتیں ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں.یہ قربانیوں پر موقوف ہیں.انسان عجیب عجیب خوابیں اور کشوف دیکھ لیتا ہے.الہام بھی ہو جاتے ہیں.مگر یہ نصرت حاصل نہیں کر سکتا.جس آدمی کی یہ حالت ہو وہ خوب غور کر کے دیکھے.کہ اس کی عملی زندگی کس قسم تھی.آیا وہ ان انعامات کے قابل ہے یا نہیں.یہ (مبارک وجود) نمونہ وجودہے.اسے جو کچھ ملا.ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس نے خداوند کے حضور گزاریں.جو شخص قربانی نہیں کرتا.جیسی کہ ابراہیمؑ نے کی اور جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضاء کیلئے نہیں چھوڑتا.تو خدا بھی اس کیلئے پسند نہیں کرتا.جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے.مگر وہ خدا جس نے (المؤمن:۵۲)فرمایا.اس نے سب پر فتح دی.صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا کہ تم اپنے بھائیوں کا جتھّا نہ

Page 477

چھوڑو.ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہؓ سے ایک خطرناک آواز سنی اور وہ ہکّا بکّا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریمؐ کے اﷲ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں نثار مرید ملے.آخر وہ جو باپ بنتے تھے.جو تجربہ کار تھے.ہر طرح کی تدبیریں جانتے ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے.اور وہ خدا کے حضور قربانی کرنے والا متّقی نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ اپنے خلفاء راشدین کیلئے بھی یہی وعدہ لے لیا.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۸.۹) بخاری شریف جو قرآن مجید کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح اور زیادہ واجب التعظیم ہے.اس میں ایک حدیث آئی ہے.اس کو نقل کرتا ہوں.حدیث: قَالَ اَبُوْ مُوْسٰی عَنْ نَّبِیَّ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ قَالَ رَئَیْتُ ٰفِی الْمَنَامِ اِنِّیْ اُھَاجِرُ مِنْ مکَّۃ اِلَی الْاَرْضٍ بِھَا نَخْلٌ فَذَھَبَ وَھْلِیْ اِلٰی اَنَّھا الْیَمَامَۃُ اَوْ ھَجَر فَاِذَا ھِیَ الْمَدِیْنَۃُ یَثْرِبَ.(ترجمہ) ابو موسٰیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ہجرت کر وں مکّہ سے ایک زمین کی طرف جس میں کھجوروں کے باغ ہوں.پس گیا میرا اجتہاد اس بات کی طرف کہ وہ جگہ یمامہ نام مقام ہے یا ہجر نام گاؤں ہے.مگر آخر معلوم ہوا کہ وہ مدینہ تھا.اب دیکھئے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے خواب دیکھی اور جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کا فقرہ ہے ویسا ہی آپؐ کا ہے.چنانچہ حضرت ابرہیمؑ فرماتے ہیں.کہ اور ایسا ہی فقرہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہے.رَئَیْتُ فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اُھَاجِرُ یعنی مجھے خواب میں ارشاد ہوا کہ میں ہجرت کروں اور جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب وحی الہٰی اور امرِ الہٰی تھی.اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خواب بھی وحی الہٰی تھی.اور اس میں ہجرت کا حکم تھا جیسا کہ دوسرے مقام پر بخاری شریف ہی میں آتا ہے اُمِرَ بِالْھِجْرَۃِ یعنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا تھا.سو صاف ظاہر ہو گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی کی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی اس وحی میں ہجرت کا حکم تھا.مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اجتہادی غلطی لگی اور آپؐ نے مدینہ طیبّہ کی جگہ یمامہ اور ہجر نام مقام سمجھ لیا.اب ناظرین ہی انصاف سے دیکھیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو وہ جگہ دکھلائی گئی لیکن آپؐ نے اجتہاد میں غلطی سے بجائے مدینہ طیبّہ کے یمامہ اور ہجر خیال کیا.مگر جب ہجرت

Page 478

ہوئی تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پہلا اجتہاد واقعہ کے لحاظ سے غلط ثابت ہوا.(بدر ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۶) ۱۰۴ تا ۱۰۶.  جب وہ دونوں خدا تعالیٰ کے حکم پر راضی ہو گئے اور ابراہیمؑ نے اسے منہ کے بل زمین پر لٹایا.ہم نے آواز دی.اے ابراہیم.تو نے اپنی رؤیا کو سچّا کر دکھایا.ہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۷۰) : سیر یا (شام) جانب شمالی عرب ( جس میں بیت المقّدس فلسطین ہے) کے ملک میں انسانی قربانی کا رواج تھا چنانچہ مسیحی تعلیم کی جڑھ بھی یہی ہے.اسی بناء پر وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں.ہند میں بلیدان کا رواج تھا.جے پور میں اب بھی اس جگہ روز بکرا ذبح ہوتا ہے.حضرت حق سبحانہٗ نے حضرت ابراہیمؑکو ایک رؤیا دکھلائی.کہ وہ اپنا بیٹا ذبح کرتے ہیں.اس کااعلان کیا.اس پر تیار ہو گئے.پھر بیٹے کی جگہ حسبِ تفہیمِ الہٰی بکرا ذبح کیا.اور یہ سمجھایا کہ اس کی اصل یہ ہے کہ خدا کا مکالمہ پہلے ایسے رنگ میں ہوا کہ لوگ سمجھ نہیں سکے کہ بیٹے کی قربانی سے کیا مراد ہے.اور اس طرح پر اس بد رسم کا ایک راستباز کے عمل سے قلع قمع ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۰۷ تا ۱۱۲.  

Page 479

یہ بڑا بھاری امتحان اور انعام ہے اور ہم نے اس کے عوض میں ایک بڑی قربانی کو فدیہ دیا.اور آئندہ آنے والی نسلوں میں اس کا ذکرِ خیر باقی رکھا.ابراہیم پر سلامتی.ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے.وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا… قرآن… سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کرتے ہیں.نہ یہ کہ ذبح کر دیا.جیسے قرآنی لفظ  گواہی دیتا ہے.اس قابلِ قدر عرفان سے بھرے ہوئے واقعہ پر اعتراض بجز سیاہ دل.کو رباطن.حقیقت ناآشنا کے اور کون کر سکتا ہے.سنو! ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت ننانوے برس کی تھی.اور اسمٰعیل ؑ اس کے اکلوتے بیٹے کی ۱۳ برس کی.اتنے عمر کے باپ کو آئندہ اور اولاد کی امید کہاں.اور بیٹے کی امیدیں اور اُمنگیں مرنے کے بعد کہاں.باپ کا اپنے خواب کے خیال کو اظہار کرنا اور بیٹے کا یہ کہہ دینا اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُسچّی الہٰی محبت کا نشان ہے.جس کی قدر بدوں زندہ دل کے کون کر سکتا ہے.اس بات کو ہم قربانی کے مسئلہ میں کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں.انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا جلد ۱ صفحہ نمبر ۵۵ میں ہے.کنعانیوں میں جو قدیم باشندے فلسطین کے تھے.انسانی قربانی کا رواج تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جوان میں مانے ہوئے بزرگ اور ذی رعب تھے.باہمہ جاہ وحشمت بیٹے کی قربانی پر باایں کہ بیٹا بھی راضی ہو چکا تھا.مینڈھا ذبح کر دیا اور اس طریق سے انسانی قربانی کی بجائے حیوانی قربانی قائم کر دی.اور اب تک گویا کروڑوں جانوں کو بچا لیا.بَارَکَ اﷲُ عَلَیْکَ یا اِبْرَاھِیْم.(نورالدین ایڈیشن اوّل صفحہ۱۷۰.۱۷۱) ۱۱۳،۱۱۴.  : یہ غلام حلیم کے علاوہ دوسرے بیٹے کی بشارت ہے.: اس اولاد ابراہیم پر جس کا نام اسمٰعیل تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۲۱. : اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَ عَلٰی عِبَادِاﷲِ

Page 480

الصّٰلِحِیْنَ.التحیات میں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۲۶. : سورج کو بھی ایک دیوتا مانا گیا ہے.سورج کی ہیکل کو بعل کہتے ہیں.چاند کو وہ لوگ مؤنث سمجھتے تھے اور سورج کو مذکر.بعل مرد کو کہتے ہیں.: تمام اندازہ کرنے والوں سے خوبیوں میں بڑھ کر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۴۰ تا ۱۴۴.   صوفیوں نے لکھا ہے کہ یہ یونسؑ کا معراج ہے.نینوا ایک شہر تھا.ایک لاکھ بیس ہزار اس کی آبادی تھی.وہ دارالسلطنت تھا.حضرت یونسؑ وہاں بھیجے گئے.آپ نے وعظ کیا.لوگوں نے ممانعت کی تو حضرت یونسؑ نے کہا کہ تم پر عذاب آوے گا.جب وہ دن آئے تو ایسی کچھ بات نکلی کہ ان کے دل میں خدا کی صفت رحمانیت کا جوش آگیا تو وہ سمجھے.ممکن ہے.اﷲ تعالیٰ عذاب ٹال دے.اس لئے وہ علیحدہ ہو گئے.ادھر لوگوں نے عذاب کے نشان دیکھتے ہی تضرّع و زاری شروع کر دی اور وہ عذاب ٹال دیا گیا.جب حضرت یونسؑ نے سنا کہ عذاب نہیں آیا تو وہ لوگوں سے بھاگے.کہ خواہ مخواہ خدائے کریم کی مصالح و غریب نوازیوں سے ناواقف لوگ اعتراض کریں گے.: جو غلام بغیر رضا مندی اپنے آقا کے نکل جاوے.اسے اٰبِق کہتے ہیں.: قرعہ کس طرح ڈالا.یہ میں نے قرآن و حدیث میں نہیں پڑھا.: حدیثوں سے تو نہیں مگر تفاسیر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ایڑی کو منہ میں لیا.

Page 481

یعنی لَآ (انبیاء:۸۸) کہنے والے.’’تیرنے والوں سے بھی‘‘ معنے کئے گئے ہیںمگر میں ان معنوں کی جرأت نہیں کر سکتا.کیونکہ دوسرے موقع پر اس کی تصریح میں فرما دیاکہ لَآ پڑھتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۴۷. یَقْطِیْنٍ: ایسے درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل بڑا ہو اور بیل سُست.پیٹھا.کدّو.تربوز سب کو یقطین کہتے ہیں.دریا کے کناروں پر ایسی بیلیں لوگ لگا دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۴۸. : بلکہ زیادہ.بہر حال لاکھ سے کم نہ تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۵۱. : بہت سے کم عقل لوگ ابتداء خلق پر اٹکل بازی سے بحث کرتے رہتے ہیں.اﷲ نے فرما دیا کہ اس قسم کے مباحث ٹھیک نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳) ۱۵۵. : اس پر قف ہے.کہ آدمی خوب تَامُّل کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳)

Page 482

سُوْرَۃُمَکِّیَّۃٌ  ۲،۳.  : اﷲ تعالیٰ کا نام ہے.: یہ فطرت ہے کہ انسان بلندپروازی چاہتا ہے.شرافت والے تاریخی آدمی تم بن جاؤ گے.: رسول سے ہٹ جانے کی راہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۳)  : صادق : ففطرت کو جگانے.بھولی ہوئی باتیں یاد دلانے کیلئے قرآن آیا.مسئلہ تثلیث و کفّارہ.بُت پرستی انسان کی فطرت میں ہرگز نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ صفحہ ۲۱۳ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴. : پس چلاّ اُٹھے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴)

Page 483

مُنْذِرٌ : حالانکہ ان کے حکماء.علماء و مقنِّن و پولیس مین و بادشاہ انہی سے ہوتے ہیں.پس رسول کا انہی میں سے آنا فطرت کے خلاف نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶. دیکھو اس نے متعدد معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا.یہ تو اچنبھے کی بات ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۲۴) بعض لوگوں نے قرآن مجید کی زبان پر اعتراض کیا کہ  اورکُبَّارًا اور ھُزُوًایہ خلافِ محاورہ و غیر فصیح الفاظ ہیں.آپ نے فرمایا کہ اپنے کسی زبان دان بوڑھے کو بلاؤچنانچہ ایک کو مجلسِ نبویؐ میں لائے.آپؐ نے اسے فرمایا.بیٹھ جاؤ.جب بیٹھا تو فرمایا.ذرا اٹھنا.پھر بیٹھا تو پھر فرمایا.ذرا آپ اٹھ کر اس طرف تشریف رکھ لیں.جب وہ اس طرف بیٹھا تو پھر آپؐ نے فرمایا.آپ ذرا یہاں سے اٹھئے اور ادھر آجایئے تو وہ جھنجھلا کر بول اٹھا.یَا محمدؐ أَتَتِّخُذُنِیْ ھُزُوًا وَ اَنَا شَیْخٌ کُبَّارٌ.اِنَّ ھٰذَالَشَیْیئٌ عُجَابٌ.اے محمدؐ کیا تو مجھے خفیف بنانا چاہتا ہے حالانکہ میں ایک بڈھا.بڑی عمر کا آدمی ہوں.یہ بڑی عجیب بات ہے.اس طرح پر وہ تینوں الفاظ اس زبان دان تجربہ کار.فصیح و بلیغ بڈھے کے منہ سے نکلوائے.اور معترضین نادم ہو کر دم بخود رہ گئے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۵ ماہ فروری ۱۹۱۲ء) ۷.  : بول اٹھے.: کچھ اعتراض ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) اور ان کے سرداریہ کہتے ہوئے (انہیں) چلے کہ چلو اپنے معبودوں پر پکّے رہوکیونکہ یہ ایک بات

Page 484

جس کا منشاء کچھ اور ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۲۴) .بول اٹھے سردار.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷) ۸. : کسی دوسرے مذہب میں مجوس عیسائی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ہم نے پچھلے دین میں یہ بات نہیں سُنی.یہ تو کچھ گھڑت سی معلوم ہوتی ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۲۴) ۹.  ُ:یہ قابلِ ذکر ہو جائے گا.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۱۱.  : کوئی شَئے بنا کر آسمان پر چڑھیں اور نصرت کو روکیں.اپنے آپ کو پھانسی دے دیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۱۲. : جھُنڈ.دشمن ایک بڑا گروہ ہوں گے.یہ ایک پیشگوئی ہے.: مدینہ منوّرہ کی طرف اشارہ ہے.

Page 485

احزاب (جماعتیں) احزاب کے بڑے بڑے لشکر اس جگہ شکست کھا جائیں گے.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقرب یہ سب لوگ شکست دیئے جائیں گے اور بھاگ نکلیں گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۶) : سورۂ احزاب میں(احزاب:۲۳) یہ مکّی آیت ہے سے اشارہ فرمایا.مکّہ میں یہ پیشگوئی پوری ہو گی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۶. : میں نے لوگوں کو بہت سمجھایا ہے کہ جب قوم محدود دائرہ میں ہوتی ہے.اور اُس کے سامان محدود ہوتے ہیں تو ان کی زبان بھی محدود ہوتی ہے.جب ان کے تعلقات بڑھ جاتے ہیں اور دوسری قوموں سے تعلقات بڑھتے ہیں تو وہ لفظ بھی وسیع ہو جاتے ہیں.: ایک اونٹنی کو دُوْہ کر جب دوسری کو دوہتے ہیں اور تیسری کو.اور پھر اسی طرح کئی کو دُوْہ کر جب پھر پہلی کو دوہنے لگے تو اس فاصلہ کو فواقؔ کہتے ہیں.اسی طرح جب لڑائی میں ایک شخص مہلت مانگتا ہے تواس کو فواقؔ کہتے ہیں.یہاں بھی عذاب کی مہلت کا ذکر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۱۸.  : نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے دشمن کبھی ننگ و ناموس پر کبھی جان و مال پر.کبھی مال و اسباب پر.کبھی دین پر حملہ کرتے ہیں.اور ان حملات کیلئے بعض اوقات مامور کڑھتے ہیں کہ یہ کیوں ایسی شرارتیں کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نبی کریم ( صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) کو تسکین فرماتا ہے کہ تیرے پاس کلیں نہیں اور داؤد کے پاس تھیں.تیرے پاس فوج نہیں اور داؤد کے پاس تھی.داؤد کی

Page 486

کی قوم اس سے ملی ہوئی تھی.تیری قوم تیرے ساتھ نہیں.داؤد کے پاس مال و اسباب اور بادشاہت تھی اور تیرے پاس نہیں.شریر لوگ جب کہ داؤد کا مقابلہ کر لیتے تھے تو تیرے جیسے انسان پر اگر حملہ کر لیں تو کیا بات ہے.جس طرح داؤد عفو سے کام لیتے تھے.اسی طرح تم بھی عفو سے کام لو.داؤد کے زمانہ میں جس قدر ہولی لینڈ ۱؎.اور شام کے پہاڑ تھے سب ان کے ماتحت تھے.یہاں تک کہ جو لوگ متنفّر تھے وہ بھی ان کے حضور میں حاضر تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے … یعنی یاد کرو ہمارے بندے داؤد کو بہت ہاتھوں والا (بڑا طاقت ور) وہ جناب الہٰی کی طرف توجّہ کرنے والا ہے.اور یدؔ کے معنے نصرت وغیرہ کے بھی ہیں.راغب میں ہے.(فتح:۱۱)اَی نُصْرَتُہٗ وَ نِعْمَتُہٗ وَقُوَّتُہ‘.یدؔ کے معنے ملک و تصرّف کے بھی ہیں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(بقرہ:۲۳۸) ان معنوں میں سے ہر ایک یہاں چسپاں ہو سکتا ہے اور عام انسانی بول چال میں بھی ہاتھ کا لفظ ان سب معنوں پر بولا جاتا ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۲۰۳،۲۰۴) ۲۰. : متنفّر لوگ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۲۱. : فیصلہ کر دینے والی بات.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۱؎ THE HOLY LAND ارض مقدّسہ (فلسطین)

Page 487

: ان کے دشمن کی خبر بھی ہے ؟ کہ دشمن اس قلعہ اور فصیل پر بھی کود پڑے.تمہارے پاس تو کوئی قلعہ اور فصیل بھی نہیں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) : فرماتا ہے بایں ہمہ ساز و سامان حضرت داؤد پر دشمن نے حملہ کر دیا تھا.اور آپ کے پاس ( اے نبی) کوئی قلعہ وغیرہ نہیں.اﷲ حافظ ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۷.۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) حضرت داؤد خلیفۃ اﷲ کا مقابلہ بعض ناعاقبت اندیشوں نے کرنا چاہا.یہاں تک کہ وہ دیواریں پھاند کر ان کے قلعہ میں گھس آئے.مگر چونکہ اﷲ تعالیٰ جن کو خلعتِ خلافت سے سر فراز فرماتا ہے.اُن کو ایک خاص رعب و داب بھی دیتا ہے.اس لئے وہ داخل ہوتے ہی ایسے گھبرائے کہ سوائے ایک جھوٹا قصّہ تراشنے کے کچھ بن نہ آیا.چنانچہ قرآن کریم میں ذکر آیا..( :۲۲،۲۳)(اور کیا ان دشمنوں کی خبر پہنچی.جب وہ محراب میں دیوار کود کر آئے.جب داؤد پر داخل ہوئے تو وہ ان سے ڈرا.انہوں نے کہا.نہ ڈر.دو دشمن ہیں.زیادتی کی ہے ایک نے دوسرے پر) آخر یہ دشمن بھی لعنتی ہی بنے چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے. (المائدہ:۷۹)لعنتی ہوئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل سے داؤداور عیسٰی بن مریم کی زبان پر.یہ اس لئے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد سے بڑھتے تھے.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۱ صفحہ۴۳۲.۴۳۳.ماہ نومبر ۱۹۱۱ء) ۲۳.   : ایک دفعہ دشمن حضرت داؤد پر اچانک کود پڑے.یہ بھی مستعد بیٹھے تھے.جب ان دشمنوں نے دیکھا کہ یہ مستعد بیٹھے ہیں.تو کہنے لگے کہ حضور ہم ایک مقدمہ فیصل کرانے آئے ہیں.گھبرا کے کہتے ہیں کہ آج ہی فیصل کر دیجئے.تاریخ کو بڑھایئے نہیں.جھگڑا یہ ہے کہ اسکی سو دنْبیاں ہیں.دیکھو

Page 488

کیسا جھوٹا مقدمہ بنا لیا.لیکن انبیاء کیسے رحیم و کریم ہوتے ہیں.فرماتے ہیں کہ اس نے ظلم کیا ہے کہ تمہاری ایک دُنبی کو مانگتا ہے.باوجودیکہ اس کے پاس ہیں.اب حضرت داؤدؑ کو فکر ہوا.کہ ہمارے ملک میں بڑا فتنہ ہے.یہاں تک کہ لوگ ہم پر بھی حملہ آور ہونے لگے.تب انہوں نے جنابِ الہٰی میں دعا کی.ہم نے حکم دیا.کہ داؤد تُو کوئی اپنی کوششوں سے خلیفہ ہوا؟ ہم نے تجھ کو خلیفہ بنایا.اس سے بڑی نصیحت یہ نکلتی ہے کہ حوصلہ کرو اور دشمن کو حوالۂ بخدا کرو.دعائیں مانگو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۲۵.    سورۃ جنّ میں چند آیات کے معانی نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت داؤدؑ پر تہمت لگا دی ہے کہ انہوں نے ایک بی بی کے خاوند کو جنگ میں بھجوا کر مروا دیا اور اسکی بی بی سے نکاح کر لیا.اور فرشتے انہیں سمجھانے آئے حالانکہ یہ بات ہے کہ وہ ملائکہ نہیں تھے بلکہ دشمن تھے.کہ دیواریں پھاند کر آپ کے مکان میں گھس آئے آپ بہت گھبرائے کہ ملک میں انارکسٹوں کا غلبہ ہے اور وہ یہاں تک دلیر ہو گئے ہیں کہ شاہی خیموں میں کود کر آنے میں تامّل نہیں کرتے.مگر معاً شاہی رعب ان پر غالب آ گیا اور انہوں نے ایک جھوٹی بات بنائی.آپ نے نہایت متانت سے انہیں جواب دیا اور کے یہ معنی ہیں کہ جب داؤد نے یقین کیا کہ رعایا میں بغاوت اور بدامنی کا زور ہے تو سمجھا کہ آخر کوئی کمزوری اور نقص ہے جس کی وجہ سے حکومت کے رعب و جلال میں فرق آ رہا ہے.اس لئے خدا سے حفاظت طلب کی.اور خدا کے حضور گر پڑے تو خدا نے آپکی حفاظت کی اور اپنے تسلّی بخش کلام سے ممتاز فرمایا.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے.کہ خلیفہ تو ہم نے تجھے بنایا.ان لوگوں کی شرارتوں کا کیا خوف اور کیوں پریشان ہوتے ہو؟ تم حق حق فیصلہ کرتے جاؤ اور عدل

Page 489

وانصاف پر قائم رہو.تمہاری ہی فتح ہو گی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) اِلَّا: افسوس مفسرّین پر جنہوں نے حضرت داؤدؑ کے بارے میں قصّے لکھے.حالانکہ اﷲ فرماتا ہے.انبیاء تو کجا مومن بھی دوسرے کے حق پر حملہ نہیں کرتے.: یعنی ضرور مملکت میں کچھ نقص ہے جو دشمن کو جرأت ہوئی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۲۷.  : جو خلیفہ بناتا ہے.اﷲ ہی بناتا ہے.حتّٰی کہ باپ دادا کا خلیفہ جو اس کی اولاد ہے وہ بھی اﷲ چاہے تو بنائے ورنہ موت وغیرہ سے نہ بن سکے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۲۸،۲۹.   ’’… کہ حضرت داؤدؑ کے دشمن ان کے قلعہ پر کود پڑے تھے.اور ان کے سامنے جھوٹا عذر یہ کر دیا تھا.

Page 490

تھا.کہ ہمارا مقدمہ فیصل کر دیجئے.اس موقعہ پر لوگوں نے بڑی دور از کار باتیں بیان کی ہیں.حضرت داؤد کی زبانی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی کی دُنبی ناجائز طور پر لے لینا جائز نہیں.پھر بھلا وہ قصّے جو ان کی نسبت مشہور ہیں.تو حضرت داؤدؑ نبی کہاں ہو سکتے تھے.حضرت سلیمانؑ کے بعد ان کے جانشین کے پاس امراء آئے.بعضوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے باپ اور دادا کے زمانہ میں خدمات کی ہیں.آپ ہماری رعایات رکھیں.اس جانشین کے مصاحب بڑے کمینے تھے.انہوں نے کہا کہ اتفاق سے یہ اس وقت جمع ہو گئے ہیں.ان سب کو یہیں ختم کر دو.اس جانشین کا نام رحبعامؔتھا.اس نے کہا کہ نہیں.ان سبھوں نے مل کر یعنی بنی اسرائیلی قوموں نے مل کر اسی رات بغاوت کی.پاک دوست سچّی دعاؤں سے میسّر آتے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ پاک دوست سچّی دعاؤں سے میسّر آتے ہیں.: یہ خیال کہ بہت سی چیزیں بیکار ہیں.یہ کافروں کا گمان ہے نہ مومن کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۳۰.  لِیَدَّ: لوگ اپنے دماغ سے بڑے بڑے کام لیتے ہیں لیکن قرآن کریم میں تدبّر نہیں کر سکتے.حضرت داؤد بُرے نہ تھے.اگر بُرے ہوتے تو ان کو سلیمانؑ جیسا بیٹا عطا نہ ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) ۳۳،۳۴.  حضرت سلیمانؑ کی نسبت بعض لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپکی عصر کی نماز قضاء ہو گئی تو گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں کو تلوار سے اڑا دیا.یہ مجنونانہ فعل ایک نبی کی شان سے بعید ہے.بات یہ ہے کہ آپ گھوڑوں کا معائنہ فرما رہے تھے.آپ نے فرمایا کہ حُبّ بھی دو قسم ہے.بعض حُبّیں دُکھ کا موجب ہوتی ہیں

Page 491

جیسے عشق.مگر میری یہ حُبّ جوان گھوڑوں سے ہے یہ پسندیدہ حُبّ ہے کیوں کہ ان سے میں اپنے مولیٰ کو یاد کرتا ہوں حدیث شریف میں آیا ہے اَلْخَیْلُ مَعْقُوْدٌ فِی نَوَاصِیْھَا الْخَیْرُ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ آپ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان بیان کرنے میں مشغول رہے اتنے میں گھوڑے سامنے سے گزر گئے () آپ نے فرمایا انہیں پھر واپس لاؤ.جب پھر گزرنے لگے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے.گھوڑوںکو پیار کرنے کا یہی طریق ہے.اگر مسح کے معنے تلوار مارنے ہی کے ہوں.تو پھر سب سے پہلے وضو کرنے والے ہی اپنی گردن کاٹ لیا کریں.( تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۷ماہ فروری ۱۹۱۲ء) جب ان کے سامنے پچھلے پہر گھوڑے پیش کے گئے تو انہوں نے وعظ فرمایا کہ مجھ کو گھوڑوں کی محبت خدا کیلئے ہے.یہاں تک کہ سوار ان کو جو پھیر رہے تھے وہ اتنی دور لے گئے کہ نظروں سے غائب ہو گئے.آپ نے حکم دیا کہ لوٹاؤ.ان گھوڑوں کو تھپکی دیتے تھے کے یہ معنے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) : اﷲ کیلئے جہاد کا سامان ہونے کی وجہ سے گھوڑوں سے پیار کرتے ہیں.: معائنہ ہو رہا تھا سوار آگے نکل گئے.فرمایا.واپس لاؤ.: جو لوگ اس کے معنے تلوار کرتے ہیں وہ وضو میں  کی آیت کی تعمیل بھی اسی طرح کریں کہ اپنے سر پر تلوار چلا لیا کریں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۵،۳۶.   انکی کرسی پر وہ شخص قائم ہوا جس میں دینداری کی روح نہ تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳،۱۰؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۴) : مراد یہ ہے کہ آپ کا بیٹا نالائق تھا.سے مراد رضا و قربِ الہٰی کا مقام ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۷ماہ فروری ۱۹۱۲ء) لَا: اپنے تقرب کا ملک دو.جو دوسرے کی وراثت میں نہیں آتا انسان اپنے آپ میں ترقی کرے تو بڑی بات ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 492

دُور کا غوطہ لگانے والوں کو کہتے ہیں.شریر آدمی بھی قید ہو سکتے ہیں اور ہنرور بھی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) پس مفت کام میں لگا دی سلیمان کے ہوا.نرم چلتی اس کے (اﷲکے)حکم سے جہاں پہنچنا چاہتا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۶۲) قرآن کریم میں حضرت سلیمانؑ کے قصّہ میں یہ الفاظ کس قدر وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کا سفر بادی جہازوں کے ذریعہ ہوتا تھا چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے ہوا کو اس کے کام میں لگایا.وہ اس کے حالات اور مقاصد کے موافق چلتی تھی.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جہازوں کے سفر میں بادِ موافق چلا کرتی تھی.اور اس کے سفر میں کامیابی اور شاد کامی کو ہمراہ لئے ہوتی تھی.اور جیسا کہ آجکل یورپ کے سٹیمر باوجود قسم قسم کے بچاؤ کی تدابیر کے آئے دن سمندر کی خونخوار موجوں کے لقمۂ تر بنتے ہیں.حضرت سلیمانؑ کو اس کے خلاف کبھی تباہی پیش نہیں آئی.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۶۰.۱۶۱) ۴۲.  تین علم عبرت کیلئے لوگوں نے تصنیف کئے ہیں ان میں سے ایک علم تاریخ ہے.اس علمِ تاریخ کے لکھنے میں بھی مسلمانوں نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے.مسلمانوں اور عیسائیوں کی علمِ تاریخ میں یہ فرق ہے کہ عیسائی کسی واقعہ کو دیکھ کر اس کا سبب بھی خود تلاش کرتے ہیں حالانکہ ضرور نہیں کہ وہ اصل سبب اس واقعہ کا ہو.دوسرا نقص یہ ہے کہ وہ اپنے ملک پر سب کا قیاس کر لیتے ہیںحالانکہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ مبالغہ ہوتا ہے.ہمارے ملک میں یہ زیادہ ہے.اب وہاں بھی یہ نقص عام پیدا ہوا ہے کہ ناول کو بھی اصل واقعہ سمجھتے ہیں.ہمارے مؤرخین زیادہ تر شیعہ ہیں.شیعوں میں تقیّہ جائز ہے.پھر اس تقیّہ کی ان کو خوب مشق

Page 493

ہے اور تبرّے کے یہ اب تک شروع سے عادی ہیں.تبرّے بازی کی اٹکل سیکھنی ہو تو ان سے سیکھے.وقائع نعمت خان کو دیکھو جس کا نمک کھایا ہے اسی کے حق میں کہیں گالیاں ہیں.خافی خان تو ہنساتا بھی جاتا ہے.اور تبرّا بھی.مؤرخ جب شیعہ ہوتا ہے.تو وہ سنیّوں کی خوب خبر لیتا ہے.تاریخوں میں بڑے عبرت کے مقام ہوتے ہیں.سینکڑوں جلدیں مطالعہ کر جاؤ.بعض اوقات سمجھنے میں بڑی مشکل ہوتی ہے.دوسرا حصّہ جو بہت نیک حصّہ تھا.میں نے علمِ حدیث میں حَدَّثَنَا مَالِکٌ.حَدَّثَنَا فُلَانٌ وغیرہ پڑھا.ہمارے یہاں بہت سے شخصوں نے اس کو چھوڑ کر عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ پڑھانا شروع کر دیا.اس سے مدعا یہ تھا کہ ان راویوں کی پرہیزگاری اور تقویٰ اور پاک نمونوں کی اتباع ہو جو اس سلسلہ اسناد میں بیان کئے جائیں لیکن ہمارے ملک میں اس قدر نہ استادوں کو فرصت ہے اور نہ شاگردوں کو.میں نے بعض اوقات بڑے بڑے استادوں سے دریافت کیا ہے کہ اسناد کے سلسلہ کی کتابوں میں سے پانچ مستند کتابوں کا صرف نام تو لے دو.تو نہ لے سکے.تیسری بات قرآن کریم.قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کا ذکر موجود ہے.لوگ جھگڑے کرتے ہیں کہ خضرؔ.آدم.لقمان بھی تھے یا نہ تھے.حالانکہ اس بحث کی ضرورت ہی کیا ہے.اس شخص کی باتیں جو قرآن کریم نے خوبی کے طور پر بیان کی ہیں.ہم کو چاہیئے کہ ان باتوں پر عمل کریں.ایک شخص نے سورۂ یوسف میں بیان کیا ہے.کہ عشق و حسن تو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے.اَحْسَنَ القَصَصِ میں قصص.ق کی زیر سے قصّہ کی جمع نہیں ہے.جمع در اصل ق کی زبرسے ہے.سورۂ یوسف میں دراصل بیان ہے.کہ ایک نوجوان آدمی گھر کی سردار عورت سے کس طرح برتاؤ کرے.کس طرح صبر کرے.کس طرح سلوک کرے.قرآن کریم ہر موقع پر اس قسم کی نصائح بیان فرماتا ہے.مسلمانوں نے قرآن کریم کے بیانات کی تاریخ نہیں رکھی.حضرت ایوّب کے قصّہ میں خداوند تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو ایک خطرناک سفر سے اطلاع دی ہے. یاد کرو ہمارے ایک بندے کو جس کا نام ایوب تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۵) حضرت ایوّبؑ کسی سفر میں گئے تھے.مَسَّنِیَ الشَیْطٰنُ.کسی تکلیف کی شکایت کی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 494

: اپنے سواری کے جانور کو ایڑی مارو.جلدی چلاؤ اور پانی کے چشمہ پر پہنچ جاؤ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) حضرت ایوّب کے صبر کا بیان کیا ہے.انبیاء علیہم السلام خدا کے حضور بڑے ادب سے کام لیتے ہیں وہ کسی دُکھ کو اس کی طرف منسوب نہیں کرتے.جب وہ خدا کے حضور اپنی تکالیف کے متعلق گڑ گڑائے تو ارشاد ہوا..اپنی سواری کو اس سر زمین کی طرف لے چل جہاں آپ کیلئے آرام کے سامان مہیّا ہیں اور وہاں اہل و عیال اور احباب اس کی مثل دئے جائیں گے.اور اپنی سواری کو درخت کی ایسی شاخوں سے جس کے ساتھ پتّے بھی ہوں چلائے جا.مگر اسے ضرر نہ پہنچا.یہ دراصل ایک پیشگوئی تھی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی معاملہ پیش آنے والا تھا.چنانچہ آپؐ نے بھی مکّہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورّہ تشریف لے گئے.جہاں آپؐ نے بہت سے اہل اور وفادار احباب پائے.اب بھی جو خدا کی راہ میں ہجرت کرے.اس کیلئے امن و آسائش بموجب وعدۂ الہٰی(النّساء:۱۰۱) موجود ہے اور ہرگز خیال نہ کرے کہ اگر میں اپنا گھر یا اپنے رشتہ دار چھوڑ کر جاؤں گا تو نقصان اٹھاؤں گا.خدا تعالیٰ ایسے شخص کو بہتر سے بہتر احباب اصحاب اور رشتہ دار دے گا.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۸ماہ فروری ۱۹۱۲ء) ۴۴،۴۵.   : دو چار دس پانچ پتلی پتلی قمچیاں.جس میں پتّے بھی آخر پر ہوں.ان کو ایک جگہ کرنا.مثلاً جھاڑو.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۱۷؍نومبر۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵ ) یہ سورۃ مکّی ہے.اشارہ بہ ہجرت.چنانچہ آپؐ کو مدینہ میں مکّہ کی بی بی کے علاوہ مدینہ میں اور بیبیاں بھی دلادیں.: مٹھا ٹہنیوں کا.: مار جانور کو ( اور جلدی پہنچو)

Page 495

: مگر اسے زیادہ تکلیف نہ دو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) دوسری کتابوں کے قصّے اور خدا کی کتاب میں جو واقعہ گذشتہ بیان ہو.اس میں فرق یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں صرف قصّہ نہیں ہوتا بلکہ بتایا جاتا ہے کہ جو ایسا کرے گا وہ بھی انہی انعامات سے سرفراز ہو گا.چنانچہ  اورَ ایسے پاک کلمات سے ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۷.۸۸ ماہ فروری ۱۹۱۳ء) ۴۶.  اَلْاَبْصَار:.بڑی بصیرت والے.فلاسفر اور نبی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فلاسفر تو اپنی تحقیقات میں غلطیاں پاتا ہے اور دوسرے لوگوں کو منع کرتا ہے.کہ تم اس غلطی میں نہ پڑنا.یا ہلاک ہو جاتا ہے تو دوسرے لوگ اس سے بچتے ہیں لیکن ایک نبی کو کبھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵) ۵۱. : کے متعلق توریت میں لکھا ہے.جہاں سیحون.جیحون دجلہ فرات بہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵) ۵۳. : کسی تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا کہ کسی صحابی کی عورت بدکار بنی ہو.کسی لڑائی میں کسی دشمن کے قبضہ میں گئی ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵) ۵۸. : بہت سرد پانی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵) : آتشک والے کے حلق میں زخم اور پیپ.ناچار ان کو کھانا پڑتا ہے.یہ دنیا

Page 496

میں نظارہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۹. اور کچھ اور اسی شکل کا.طرح طرح کی چیزیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۳۵) ۷۰. کسی نبی.کسی مامور کے دل میں یہ خواہش پنہاں نہیں ہوتی کہ میں لوگوں کا حاکم بنوں اور بڑا آدمی کہلاؤں.وہ مخلوق سے کنارہ کش اور گوشہ نشین ہوتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ انہیں اپنے حکم سے نکالتا ہے تو وہ مجبور ہو کر پبلک میں آتے ہیں.حضرت موسٰیؑ کو دیکھو کہ آپ کے دل میں ہرگز یہ بات نہ تھی کہ میں قوم کا امام بن جاؤں.چنانچہ ارشاد ہونے پر عذرو معذرت کرتے اور اپنے بھائی کو(القصص:۳۵) سے پیش کرتے ہیں.اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں..مجھے کیا علم تھا کہ ملائِ اَعلیٰ میں میری نبوّت کی نسبت کیا مباحثات ہو رہے ہیں جیسا کہ ہر مامور کی بعثت پر آسمانوں میں بڑی بحث ہوتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۸ ماہ فروری ۱۹۱۲ء) : انبیاء کے دل میں ذرا بھربھی خواہش نہیں ہوتی کہ ہم نبی بنیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰) ۷۲. : ہر ایک روحانی آدمی کے متعلق یہ ذکر ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) : کیچڑ پانی اور مٹی ملی ہوتی ہے.طین میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اس کو جس سانچہ میں ڈھالنا چاہیںڈھل جاتی ہے.اور ہر شکل کو قبول کر لیتی ہے.جو آدم کا بچہ ہے وہ توطین سے بنا ہوا ہوتا ہے.

Page 497

یک جگہ فرمایا ہے.مِنْ تُرَابٍ.(آل عمران:۶۰)یعنی مٹی سے بنایا.اور ایک جگہ فرمایا ہے.مِنْ مآئٍ(فرقان:۵۵) تم کو پانی سے بنایا.اس لئے مٹی اور پانی مل کر کیچڑ ہی ہوئے.حضرت مسیحؑ بھی فرماتے ہیں کہ میں طین سے تجویز کرتا ہوں.اگر تم میں کوئی طائر کی صفت ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۵) ۷۳. : جب اپنے کمال کو پہنچ جاؤ.جس قدر پاک روحیں ہوتی ہیں.سب فرماں بردار ہوتی ہیں.جس طرح وہ طین سے بنا.اسی طرح شیطان آگ سے بنا.سانپ اور طاعون کے کیڑے کو شیطان ؔ اور جنؔ.اسی وجہ سے کہا گیا.ایک وقت آتا ہے کہ انسان نیکی کرتا کرتا ایسے مقام تک پہنچ جاتا ہے.کہ خدا تعالیٰ خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.پھر انسان بدی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ خدا اس کی ہدایت سے ہاتھ کھینچتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۸۲. قیامت تک نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۸۷. نبی کے ہر ایک قول و فعل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بناوٹ اس میں بالکل نہیں.اس کی کوئی بات بناوٹ سے نہیں ہوتی.اور نہ اس کا کوئی فعل تکلّف سے ہوتا ہے اور نہ وہ خلقت کو نصیحت دنیوی فائدہ اٹھانے کی امید یا نیت پر کرتے ہیں.بلکہ وہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اجر اﷲ پر ہے.چنانچہ سیّد نا ومولانا حضرت خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وسلم کو قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو سنادے..اسی معیارپر حضرت مسیح موعود

Page 498

علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے.آپ اپنے بارے میں لکھتے ہیں.ابتداء سے گوشۂ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوںسے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اور آپ میں تکلّف اور بناوٹ نام کو نہ تھی.اس کی شہادت ہزاروں آدمی دے سکتے ہیں.نہ تقریر میں کوئی بناوٹ تھی نہ تحریر میں.نہ لباس میں.اور(ھود:۳۰) پر جو عمل فرمایا وہ تو اب بھی ظاہر ہے کیونکہ خاص اپنے لئے باوجود اس قدر روپے کے آنے کے کوئی جائیداد نہیں خریدی اور نہ کوئی نفع اپنی ذات کے لئے مخصوص کیا.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی عَبْدِکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ (تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۹ ماہ فروری ۱۹۱۲ء)

Page 499

سُوْرَۃُ الزُّمَرِمَکِّیَّۃ  ۲. لوگ معزّزوں اور حکیموں کی بڑی قدر کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عزیز و حکیم کی کتاب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۳. عبادت.اعلیٰ سے اعلیٰ محبت معبود کی جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی عظمت معبود کی جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تذلّل معبود کی خدمت میں جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ آپ مکّہ معظّمہ کی پرستش کرتے ہیں.میں نے کہا کہ پرستش کے کیا معنے ہیں بتاؤ.اس نے کہا پُوجا.میں نے کہا.پُوجا کس کو کہتے ہیں.تب اس نے پرستش کے معنے بتائے کہ اس کو کہتے ہیں جس میں دھیان ہو.عظمت ہو.میں نے ایک شخص سے کہا کہ ذرا نماز پڑھ کر دکھاؤ.اس نے نماز پڑھی.میں نے اس برہمو سے دریافت کیاکہ بتاؤ.اس میں مکّہ معظمہ کا کوئی دھیان یا عظمت ہے یا دُعا ہے.اختلاف کو دور کرنے کیلئے سب سے بڑی چیز دعا ہے.یہ دُعا کا ہتھیار تمہارے ہاتھ میں ہے.اعلیٰ درجہ کے ہتھیار کیلئے زبردست ہاتھ کی بھی ضرورت ہے.ورنہ جھوٹے آدمی کی دُعا قبول نہیں ہوتی.ناشکر کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی.تم میں سے ہر ایک کو بڑی نعمتوں کے حصّے ملے ہیں.شکر گزار بنو.اﷲ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیںہوتا.اﷲ تعالیٰ کے بیٹے کے یہ معنے ہیں کہ وہ کسی کو معزّر بنالے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶)

Page 500

۴.   وسائل و وسائط کو تمام دنیا کے مذاہب ضروری تسلیم کرتے ہیں.کافر و مومن.جاہل و عالم.بت پرست و خدا پرست.سو فسطائی.دہریہ.جناب الہٰی کا معتقد.غرض سب کے سب وسائل و وسائط تو عملاً مانتے ہیں.کون ہے جو بھوک کے وقت کھانا.پیاس کے وقت پینا.سردی کے وقت کوئی دوائی یا گرمی حاصل کرنے کا ذریعہ اختیار نہیں کرتا.مقام مطلوب پر جلدی پہنچنے کیلئے میل ٹرین یاسٹیمر کو پسند نہیں کرتا؟ اگر مومن صرف حضرت حق سبحانہٗ کی مخلصانہ عبادت کرتا اور شرک اور بدعت اور اہواسے پرہیز کرتا ہے.تو غرض اس کی اُسے ذریعۂ قربِ الہٰی بنانا ہوتا ہے.اور بُت پرست اگرچہ حماقت سے بُت پرست ہے مگر کہتا وہ بھی یہی ہے کہ … ہم تو ان کو خدا کے قرب کا ذریعہ سمجھ کر پوجتے ہیں.اگرچہ یہ ان کا کہنا اور اس کا عمل درآمد غلط ہی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسبابِ صحیحہ بھی ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہیں جن کا مہیّا کرنا مومن کا کام ہے.اور ایسے بھی جن کا مہیّا کرنا عام عقلمندوں اور داناؤں کا حصّہ ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب ماننا باعثِ شرک ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب خیال کرنا جہالت اور وہم اور حماقت ہے.تعجب انگیز بات ہے کہ بہت سے فلاسفر.سائنس دان اور حکماء علل مادیہ اور اسباب عادیہ پر بحث کرتے کرتے ہزارہانکات عجیبہ اور دنیوی امور میں راحت بخش نتائج پر پہنچ جاتے ہیں.مگر روحانی ثمرات پر ہنسی ٹھٹھے کر جاتے ہیں.وجنوب و شمال کو قطب اور قطب نما کی تحقیق میں اوراس پر مشرق و مغرب چھان مارا ہے اور سورج اور چاند کی کرنوں سے اور روشنیوں سے بیشمار مزے لُوٹے ہیں لیکن اگر کسی کو انہی نظاموں سے ہستی باری تعالیٰ پر بحث کرتا دیکھ لیں تو اسکے لئے مذہبی جنون اور اس کو مجنوں قرار دیتے ہیں.کیسا بے نظیر نظارہ ہے جس کو ایک اسلام کا حکیم نظم کرتا ہے.

Page 501

اشقیاء درکارِ عقبیٰ جبری اند اولیاء درکارِ دنیا جبری اند علمِ ہندسہ جس کی بناء پر آج انجینئرنگ اور اسٹرانومی معراج پر پہنچ گئی ہے.سوچ لو.کیسے فرضی امور سطح مستوی اور نقطہ سے جس کو سیاہی سے بناتے ہیں اور قلم کے خط سے شروع ہوتا ہے.خطِ استوا جدی.سرطان.افق نصف النّہار وغیرہ سب فرضی باتیں ہیں.مگر اس فرص سے کیسے حقائقِ مادیہ تک پہنچ گئے ہیں.لیکن اگر ان بد نصیبوں کو کہیں کہ مومن بالغیب ہو کر دعاؤں اور نبیوں کی راہوں پر چل کر دیکھو تو کیا ملتا ہے.تو ہنس کر کہتے ہیں.کیا آپ ہمیں وحشی بنانا چاہیتے ہیں؟میں نے بارہا ان (مادیوں) کو کہا ہے.تندرست آنکھ بدوں اس خارجی روشنی اور تندرست کان بدوں اس خارجی ہوا کے اور ہمارا نطفہ بدوں ہم سے خارج رِحم کے بہت دور کی اشیاء بدوں ٹیلیسکوپ کے باریک در باریک اشیاء بدوں مائیکرو سکوپ کے.دور دراز ملکوں کے دوستوں کی آوازیں بدوں فونوگراف کے اور ان کی شکلیں بدوں فوٹوگرافی کے نہیں دکھائی دیتیں.اب جبکہ تم ان وسائط کے قائل ہو اور اضطراراً قائل ہونا پڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں و سائط کے منکر ہو؟ خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان کر بھی تم ملک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو؟ افسوس اس کا معقول جواب آج تک کسی نے نہیں دیا! ناظرین جس طرح سچے وسائط ہمارے مشاہدات میں ہیں.اسی طرح سچے وسائط مکشوفات میں بھی ہیں.جس طرح مشاہدات میں الہٰی ذات وراء الورا ہے اور ضرور ہے.اسی طرح الہٰی ذات روحانیت میں بھی وراء الورا ہے.اگر روحانیات میں بھی بعض و سائط غلط اور وہم ہیں.تو مشاہدات ہی اس غلطی اور وہم سے کب خالی ہیں.فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کے ارواح کیلئے بطور جان کے ہیں.شیاطین بھی ہلاکت.ظلمت اور جناب الہٰی سے دُوری اور دُکھوں کے پیدا کرنے کیلئے بمنزلہ اسٹیم کے اسٹیم انجن کیلئے ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۹۸،۱۹۹)

Page 502

: بیٹا بنانے کے بھی معنے ہیں کہ منتخب کرے.(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹ صفحہ۴۷۸ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۷.    : اسی کی قسم سے (انبیاء:۳۸) کے یہ معنے نہیں کہ انسان عجل کا بیٹا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۰.   : مخاطب! تو کہہ بھلا کہیں علم والے اور جاہل بھی برابر ہوتے ہیں.ہرگز نہیں! (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۸) : تو کہہ علم والے اور بے علم کیا برابر ہوں گے.نہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۷) کہہ کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہیں.ہرگز نہیں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۳)

Page 503

۱۱.   خداوند تعالیٰ کے اوامر کا پابند بننا اور نواہی سے اپنے آپ کو بچانا یہ بھی تقویٰ کے ایک معنے ہیں.یہ نہایت لغو خیال ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا میں ذلیل ہی رکھتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہےٖ (منافقون:۹)سُکھ دنیا میں سات قسم کے ہوتے ہیں.ایک سُکھ انسان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے.مثلاً اگر انسان میں حرص نہ ہو تو یہ ایک سُکھ ہے.ایسے ہی اگر غضب کا مادہ ہم میں نہ ہو تو سُکھ ہے.اسی طرح شہوت نہ ہو تو بد نظری اور خیالات سے آزاد.میں نے جریان کے مریضوں میں۹۵ فیصدی ایسے دیکھے ہیں.جو بد نظری اور خیالی جماعوں کے باعث مبتلا ہوئے.جھوٹ نہ بولے تو بے اعتباری کا داغ اس سے اُٹھ جاتا ہے.کاہلی اور سُستی کو چھوڑے.دوسرا سُکھ یہ ہے.کہ بیوی نیک ہو غمگسار ہو.تیسرا سُکھ ماں باپ بہن بھائی وغیرہ رشتہ داروں کی طرف سے.چوتھاسُکھ برادری کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں.پانچواں سُکھ غیر قوم اور اپنی قوم سے.چھٹا بادشاہ سے تعلق اچھا ہو یعنی گورنمنٹ کی اعلیٰ خدمات انجام دیں.ساتواں مرتبہ سُکھ کا یہ ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ سے تعلقات اچھے ہوں.جہاں انسان کا دین مذہب اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات بگڑتے ہوں تو انسان کو چاہیئے کہ اس مکان کو یا اس شہر یا اس ملک کو چھوڑ دے.پس اگر تم اپنی ذات.اپنی بیوی.ماں باپ.اپنی قوم.اپنے خدا کے نزدیک بڑا بننا چاہتے ہو تو اپنے تعلقات کو سدھارو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۱۹.  : اﷲ کی بات، لوگوں کی بات، مگر پیروی احسن

Page 504

کی کرتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۸.۴۷۹ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۲۴.   تمہید: دل تین طرح کے ہوتے ہیں.۱.سچّی بات معاً قبول کرنے والے.۲.مفید و بابرکت بات کا فوراً انکار کرنے والے.۳.اندر سے منکر بظاہر موافقت دکھا کر غیبت میں ہنسی اڑانے والے.اس رکوع شریف میں (تیسرا رکوع) اوّل قسم کا ذکر ہے جن کو انشراحِ صدر حاصل ہوا.: تین قسم ہے.۱.کتابِ الہٰیہ جس میں معروف و منکر کا ذکر ہوتا ہے.۲.ارشاداتِ نبویؐ.جس سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.۳.نورِ ایمان جس سے قوتِ ممیزہ حاصل ہوتی ہے.مُتَشَابِھًا: ایک جیسی آیت ایک دوسرے کی مصدّق ہیں.مخالف نہیں.مَثَانِیَ: ایک ہی امر کو بار بار مختلف رنگوں میں بیان کرنے والی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) کِتٰبًا مُتَشَابِھًا یُصَدِّقُ بَعْضُہ‘ بَعْضًا: ایک جگہ حل نہ ہو تو دوسری جگہ کر دیتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۹) ۲۸.  : لوگوں کی بھلائی کے واسطے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) : ہر عمدہ بات(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۹ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 505

۲۹. : دُکھوں سے بچیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۳۰.   : جو صرف اﷲ کو اپنا معبود بناتا ہے.وہی سُکھی رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۳۱. : موت تو بے شک تجھ پر آنے والی ہے لٰکِنَّ اِنَّالَہٗ لَحَافِظُوْنَ خدا تعالیٰ اس کتاب اور دینِ اسلام کا محافظ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶) ۳۳.  تمہید:.قرآن کریم کی تعلیم سے واضح ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ سب سے بڑھ کر بدکار ہیں.خدا تعالیٰ ان کا بیان ذکر کرتا ہے.ا.وہ جو اﷲ پر افتراء کرے.الہام.وحی و خواب نہ ہو.اور کہے کہ مجھے ہوا ہے یا جھوٹی حدیث آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرے.قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے سچائی کیلئے نہیں بلکہ اپنے مطلب کیلئے شرارت سے کچھ اور کرلے.

Page 506

۲.وہ جو صادق کی تکذیب کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرقادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) : خواب.کشف.الہام.وحی.قرآن کی آیت یا حدیث جھوٹی پڑھ دے یا جان بوجھ کر معنی غلط کر دے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۹ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۵. : انکی دعائیں قبول ہوتی ہیں.: یہ بات پیچھے نہیں رہ گئی بلکہ آئندہ بھی ہر محسن کے ساتھ ایسا ہی نیک سلوک ہو گا.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۳۹،۴۰.     : ان کی فطرت بھی جواب دے گی.: تم سب کھڑے ہو کر میرا مقابلہ کرو.منصوبے کر لو.مددگاربنا لو.سارا زور لگا لو.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷)

Page 507

۴۳.   خدا جانوں کو جب ان کی موت کا وقت آتا ہے.اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے.یعنی وہ جانیں بے خود ہو کر الہٰی تصرّف اور قبضہ میں اپنی موت کے وقت آ جاتی ہیں.اور زندگی کی خود اختیاری اور خود شناسی ان سے جاتی رہتی ہے.اور موت ان پر وارد ہو جاتی ہے.یعنی بکلّی وہ روحیں نیست کی طرح ہو جاتی ہیں اور صفاتِ حیات زائل ہو جاتی ہیں اور ایسی روح جو دراصل مرتی نہیں.مگر مرنے کے مشابہ ہوتی ہے.وہ روح کی وہ حالت ہے.کہ جب انسان سوتا ہے.تب وہ حالت پیدا ہوتی ہے.اور ایسی حالت میں بھی روح خدا تعالیٰ کے قبضے اور تصرّف میں آ جاتی ہے.اور ایسا تغیّر اس پر وارد ہو جاتا ہے.کہ کچھ بھی اس کی دنیوی شعور اور ادراک کی حالت اس کے اندر باقی نہیں رہتی.غرض موت اور خواب دونوں حالتوں میں خدا کا قبضہ اور تصرّف روح پر ایسا ہو جاتا ہے کہ زندگی کی علامت جو خود اختیاری اور خودشناسی ہے.بکلّی جاتی رہتی ہے.پھر خدا ایسی روح کو جس پر درحقیقت موت وارد کر دی ہے.واپس جانے سے روک رکھتا ہے.اور وہ روح جس پر اس نے درحقیقت موت وارد نہیں کی اس کو پھر مقرر وقت تک دنیا کی طرف واپس کر دیتا ہے.اس ہمارے کاروبار میں ان لوگوں کیلئے نشان ہیں.جو فکر اور سوچ کرنے والے ہیں یہ ہے ترجمہ مع شرح آیت ممدوحہ بالا کا.اور یہ آیت موصوفہ بالا دلالت کر رہی ہے.کہ جیسی جسم پر موت ہے.روحوں پر بھی موت ہے.لیکن قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ابرار اور اخیار اور برگزیدوں کی روحیں چند روز کے بعد پھر زندہ کی جاتی ہیں.کوئی تین دن کے بعد.کوئی ہفتہ کے بعد.کوئی چالیس دن کے بعد.اور پلید روحوں میں بھی عذاب دینے کیلئے ایک حِس پیدا کی جاتی ہے مگر نہ وہ مُردوں میں داخل ہوتے ہیں نہ زندوں میں.جیسا کہ ایک شخص جب سخت درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بدحواسی اس کیلئے موت کے برابر ہوتی ہے.اور زمین و آسمان اس کی نظر میں تاریک دکھائی دیتے ہیں.انہی کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم ہو کر آئے گا اس کیلئے جہنم ہے وہ اس جہنم میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا ( طٰہٰ:۷۷) اور خود انسان جب اپنے نفس میں غور کرے کہ کیونکر اس کی رُوح پر بیداری

Page 508

اور خواب میں تغیّرات آتے رہتے ہیں تو بالضرور اس کو ماننا پڑتا ہے کہ جسم کی طرح روح بھی تغیّر پذیر ہے.اور موت صرف تغیرّ اور سلبِ صفات کا نام ہے.ورنہ جسم کے تغیّر کے بعد بھی جسم کی مٹی تو بدستور رہتی ہے لیکن اس تغیر کی وجہ سے جسم پر موت کالفظ اطلاق کیا جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۶ صفحہ۲۷۴.۲۷۵ ماہ جون ۱۹۱۲ء) : قبض کرتا ہے جان کو.روح کے معنے عربی میں کلام کے ہیں.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۴۵.  لِلّٰہِ : شفاعت پانچ قسم ہے.۱.شفاعت بالمحبّ.مثلاً کسی پیارے نے بات کہہ دی وہ مانی جاتی ہے.۲.شفاعت بالوجاہت.اﷲ کے ہاںبھی بہت سے وجیہہ ہیں.مگر انکی و جاہت کا دباؤ نہیں ہوتا.۳.شفاعت بالعلم خدا کے ہاں بے علمی نہیں.۴.شفاعت بلحاظ اکرام و اعزاز مثلاً حاکم جانتا ہے کہ مجرم کو چھوڑنا ہے.مگر اس چھوڑنے کے ساتھ کسی کا اکرام رکھ لیتا ہے.۵.شفاعت بالحمق کہ یونہی بات کہہ دی.سب قسم کی شفاعتیں اﷲ کے اختیار میں ہیں.جس کی شفاعت چاہے.ان سے لے جسے چاہے اعزاز و علم و وجاہت و محبوبیت دیدے.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۹ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۴۶.  : نفرت کرتے ہیں.بُرا مناتے ہیں.انکار کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷)

Page 509

: جب ایسے لوگوں کی کثرت ہو کہ ذکرِ توحید کو بُرا سمجھیں تو دعا کرنی چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) جو لوگ دعا کے ہتھیار سے کام نہیں لیتے.وہ بد قسمت ہیں.امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں.(النمل:۶۳)سے پتہ ملتا ہے کہ اگر یہ لوگ اضطراب سے.تڑپ سے.حق طلبی کی نیت سے.تقویٰ کے ساتھ دعائیں کرتے کہ الہٰی اس زمانہ میں کون شخص تیرا مامور ہے تو میں یقین نہیں کر سکتا کہ انہیں خدا تعالیٰ ضائع کرتا.میں کبھی کسی مسئلہ و اختلاف سے نہیں گھبرایا کہ میرے پاس دعا کا ہتھیار موجود ہے اور وہ دعا یہ ہے. (زمر:۴۷) اور حدیث اِھْدِنِیْ لِمَا اخْتُلِفَ فِیْہِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِکَ.اِنَّکَ تَھْدِیْ مَنْ تَشآئُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ.سچّا تقویٰ حاصل کرنے کیلئے بھی دعاہی ایک عمدہ راہ ہے.پھر قرآن کریم کا مطالعہ اس میں متقیوں کے صفات اور راست بازوں کے صفات موجود ہیں.اﷲ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے.فہم و فراست بخشے.( بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) ۴۹. : ھزوسے نکلا ہے.کسی کو خفیف بنانا اور سمجھنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۵۰.

Page 510

ہم عطا کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۵۲.  : اور نہ وہ عاجز ہیں.مطلق عاجز کر دینا چونکہ نشانِ نبوت نہ تھا جیسے بارہا ذکر کیا.رسالت مآب کے اثباتِ نبوّت میں قرآن نے یہ ناقص لفظ ترک کر کے آیت اور آیات اور برہان کا لفظ استعمال فرمایا اور خرقِ عادت کا لفظ چونکہ بالکل غیر صحیح تھا اس لئے اسے صاف ترک کر دیا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۷۱) ۵۴.  کہہ دو اے بندو میرے جنہوں نے زیادتی کی اپنی جان پر.نہ آس توڑو اﷲ کی مہر سے بے شک اﷲ بخشتا ہے سب گناہ.وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے والا.مہربان.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۴۳) خدا تعالیٰ کے حضور پہنچنے کیلئے دو بازو ضروری ہیں.۱.ایمان ۲.عملِ صالح : خطاکاری (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷)

Page 511

۵۵.  : یہ اس(زمر:۵۴) کیلئے بطور شرط ہے.اﷲ کی طرف جُھکو.: اس جھکنے کا نشان یہ ہے کہ اس کی فرماں برداری کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۵۶.  : مثال کے لئے سنو!دو حکم ہیں کہ کسی ایذارسانی کا بدلہ لے لو.دوسرا یہ کہ چشم پوشی کرو.اب یہ عفو ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ صفتِ کاشفہ ہے یعنی جو کچھ رب نے اتارا ہے وہ احسن ہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) : مثلاً بدلہ لینا بھی جائز ہے.اور صبر اور غفر بھی.اب یہ صبر اور معافی دے دینا بہتر ہے.اور یہ طریق صلحاء ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۹ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۷،۵۸.   : تفریط کے معنے کمی کرنے کے ہیں.: آجکل ایسے لوگ بہت ہیں جو مذہبی امور کو تمسخر میں اڑاتے رہتے ہیں.: دُکھوں سے بچنے والے ہوتے.دراصل تمام دُکھوں کا اصل بد صحبت ہے

Page 512

اس سے بچو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۶۵. تمہید:.قرآن شریف ایک بے نظیر کتاب ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے اس کے سوا کسی کو کتاب ماناہی نہیں.افسوس کہ اب مسلمانوں میں قرآن شریف کی عظمت بہت کم رہ گئی ہے.قرآن شریف زندوں کو سنانے کیلئے تھا.اب مُردوں کو سنایا جاتا ہے.قرآن مجید نے اگلی قوم کو تمام جہان سے غنی کر دیا.مگر اب قرآن شریف سے ٹکے کمائے جاتے ہیں.قرآن مجید راستی قائم کرنے کیلئے آیا مگر اب قرآن شریف ہاتھ میں لے کر جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں.گویا یہ جھوٹ پھیلانے کا آلہ ہے.قرآن مجید اﷲ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کیلئے تھا.لوگ اس کی آیتوں سے مخلوق کی محبت حاصل کرتے ہیں چنانچہ(بقرہ:۱۶۶) کا عمل کیا جاتا ہے.حالانکہ یہی آیت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ مخلوق میں سے کسی کی محبت میں فنا ہو جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۶۹.   : بگل بجایا جائے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷) ۷۰.  : نامۂ اعمال.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۷)

Page 513

۷۲.    : دوزخ ایک مقام ہے.اسکی صورت ایسی ہے.جیسے بعض بیماروں کو حمام میںعلاج کے واسطے بھیجا جاتا ہے.سر سام کا علاج سانپ کے ڈسوانے سے کیا جاتا ہے.ایسے ہی وہاں بھی روحانی بیماریوں کے معالجہ کے واسطے ایک زہریلی مخلوق ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ۲۱۸) ۷۴.   جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں.جنّت کو گروہ گروہ میں انہیں لے چلیں گے.جب اُس کے پاس آویں گے اور اس کے دروازے کھولے جائیں گے.جنّت کے نگہبان انہیں کہیں گے تم پر سلامتی ہو.تم نے پاک زندگی بسر کی تو اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے در آؤ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹) : جن کے عقائدِ صحیحہ اور اعمالِ صالحہ ہیں.رنج و راحت.عُسر و یُسر میں اﷲ تعالیٰ کے فرماں بردار رہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸)

Page 514

۷۵.  اور وہ (بہشتی) کہیں گے.اﷲ کی حمد ہے.جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچّا کیا.اور اس زمین کا وارث ہمیں بنایا.اس جنت میں جہاں ہم چاہیں.ٹھکانہ بنا لیں.عاملوں کا اجر کیا ہی خوب ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹) ۷۶.  : اﷲ تعالیٰ کی تجلّی گاہ میں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸)

Page 515

سُوْرَۃ الْمُؤْمِنِ مَکِّیَّۃٌ  ۲تا۴.   : حمید.مجید.بادشاہ.حیّ کی طرف سے یہ کتاب آئی ہے.: غلطیوں کو معاف کرتا ہے.اگر تم باز آؤ.: توبہ قبول کرنے والا ہے.اگر تم توبہ کرو.: کوئی شخص اپنا ذاتی کمال نہیں رکھتا.اﷲ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی ہے اور اس کا کوئی مثل نہیں.: پھر اسکی طرف لوٹنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) : حمید، مجید، حیّ و مالک.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۹ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶،۷. 

Page 516

: تاکہ پکڑیں اور انبیاء کے مقابلہ میں نامراد ہونا ثابت کریں.: اﷲ تعالیٰ انسان کو جو دُکھ دیتا ہے.یونہی نہیں دیتا.بلکہ نافرمانی کے بعد بطور اس کے نتیجہ کے اس پر سزا مرتّب ہوتی ہے.اسی واسطے اس کا نام عقاب فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۸.    …الخ: اور گناہ بخشواتے ہیں ایمان والوں کے.اے ربّ ہمارے ہر چیز سمائی ہے تیری مِہْر اور خبر میں سو معاف کر ان کو جو توبہ کریں اور چلیں تیری راہ اور بچا ان کو آگ کی مار سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۸) ۱۰.  : فوز بمعنے پاس ہونا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۱۱.

Page 517

اگر کوئی شخص اپنی چھوٹی سی غرض کیلئے کسی اپنے بڑے محسن و مربی کو ناراض کرتا ہے تو وہ فطرت کے تقاضا کے خلاف کرتا ہے.پس اﷲ سے بڑھ کر کون محسن و مربی ّہے کیونکہ دنیا کے عارضی محسنوں کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے.ایسے علیم و حکیم کی بات کو اگر نہ مانا جاوے تو دنیا و آخرت میں دُکھ کا موجب ہے.: اﷲ کی ناراضی یا اﷲ کی لعنت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۱۲.  : ایک ہم کچھ نہ تھے.خدا نے بتایا.پھر موت کی تیاری ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۱۳.  : جن لوگوں میں کچھ نہ کچھ شرک ہے.جب محض اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا ذکر کیا جاوے تو انہیں بُرا معلوم ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۱۵.

Page 518

اﷲ تعالیٰ کو پکارو.اس کی عبادت میں اخلاص سے کام لو اور دین کے قبول کرنے میں ظاہر و باطن میں دکھ سکھ میں.غرض کسی حالت میں ہو.اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے ساتھ تمہارا تعلق نہ ہو.اگر مُنکر بُرا منا ویں تو پڑے مناویں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۶) : تمہارا دین خدا کیلئے ہو جاوے.: غیر اﷲ کے پرستار.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۱۶.  روح کلامِ الہٰی ہی کا نام ہے جس پر عمل کرنے سے موتیٰ اور مُردہ بے ایمان زندہ ہوتے ہیں بلکہ قرآن نے انبیاء اور ملائکہ کو بھی روح فرمایا ہے.کیونکہ وہ بھی اسی زندگی کے باعث ہیں.جسے ایمان کہتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۴) : روح سے مراد کلامِ الہٰی ہے جان.سَول (SOUL) کو عربی بولی میں نفس کہتے ہیں.قرآن شریف میں روح کے معنے کلام ہی کے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) بلند درجوں والا صاحب تخت کا اپنے امر سے جس بندے پر چاہتا ہے.روح ڈالتا ہے تو کہ وہ ملاقات ( قیامت ) کے دن سے ڈراوے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۳) صاحب اونچے درجوں کا مالک تخت کا.اتارتا ہے بھید کی بات اپنے حکم سے جس پر چاہے.اپنے بندوں میں کہ وہ ڈراوے ملاقات کے دن سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۷۵) ۲۶.  …الخ: بولے مارو بیٹے ان کے جو

Page 519

یقین لائے ہیں اُس کے ساتھ اور جیتی رکھو ان کی عورتیں اور جوداؤں ہے منکروں کا سو غلطی میں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۳۷) ایک عیسائی کے اعتراض ٔ ’’ یہ غلط ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو اس لئے مار ڈالا کہ وہ موسٰیؑ پر ایمان لائے.بلکہ فرعون نے موسیٰ سے پہلے یہودی لڑکے اس لئے مارے کہ وہ بڑھ نہ جاویں.خروج ۱ باب ۷‘‘ کے جواب میں فرمایا:.’’ میں انصافاً اور حقاً کہتا ہوں کہ یہ اعتراض محض نادانی اور قرآن کیطرز اور زبان کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ صیغہ امر ہمیشہ کسی فعل کے وقوع کو مستلزم نہیں ہوا کرتا.قرآن کی اس آیت سے یہ کہاں پایا جاتا ہے کہ فرعون نے انہیں قتل کر ڈالا.نصاریٰ کی عادت میں داخل ہے کہ دھوکہ دہی کے طور پر ایک ترجمہ فرضی اور ذہنی لکھ دیتے ہیں جو اصل کلام منقول عنہ سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتا.اس سے بجائے اس کے کہ ان کا مقصود اغوا و اضلال برآوے.اہلِ انصاف کے نزدیک ان کی اصلیت باطن اور غرض ظاہر ہو جاتی ہے.اگر زبانِ عرب سے ذرا بھی مَسّ ہو اور قرآنی طرز سے کچھ بھی واقفیت ہو توبادنیٰ تُامُّل آشکار ہو سکتا ہے کہ آیت کا پچھلا حصّہ معترض کے اعتراض کو باطل کئے دیتا ہے کہ ’’ کافروں کاکیدؔ یعنی دھوکے اور فریب کی تدبیریں اکارت ہو جانے والی ہیں‘‘ قرآن مجید کا یہ طرز ہے کہ جب منکروں اور کافروں نے خدا کے کسی برگزیدہ شخص کی نسبت ایذاء رسانی یا قتل وغیرہ کا منصوبہ باندھا اور خفیہ تدبیریں کیں.مگر بوجہ من الوجوہ ان کی تدبیریں کارگر نہ ہوئیں.اور وہ برگزیدہ شخص ان کے ابتلاکے دام سے محفوظ رہا.اُس وقت قرآن اس شخص یا اشخاص کے سلامت رہنے اور دشمنوں کی تدابیر کے کارگر نہ ہونے کو اسی طرح پر لفظ کیدؔ کے اطلاق سے ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے تدبیر تو کی اور منصوبہ تو باندھا مگر اُن کا کیدؔ یعنی داؤں نہ چلایا ہم نے چلنے نہ دیا.نظیراً دیکھو.حضرت ابراہیمؑ کے واقعہ میں جب دشمنوں نے اُن کو آگ میں ڈالا اور پھونک کر جلا دینا چاہا اور نصرت الہٰیہ سے جو ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کے خاص بندوں کے شامل حال رہتی ہے حضرت ابراہیمؑ ان کے مکائد اور شر سے محفوظ رہے.قرآن اس کو اس طرح پر بیان فرماتا ہے. (انبیاء:۷۱) انہوں نے اس سے داؤں کرنے کا ارادہ کیا.پس ہم نے انہیں کو ٹوٹا پانے والا کیا.اور کفّار مکّہ جس وقت اس بنی نوع انسان کے سچّے خیر خواہ رؤف و رحیم ہادی محمد مصطفٰی صلی اﷲ علیہ وسلم

Page 520

کی ایذاء رسانی کی تدابیر و فکر میں لگے ہوئے تھے قرآن کہتا ہے. (طارق:۱۶،۱۷) وہ خفیہ داؤں بچھا رہے ہیں اور میں ان کے داؤں کو باطل کرنے کے درپے ہوں.غرض اسی طرح کسی واقعے کو بیان کرنا زبانِ عرب کا عموماً اور قرآن کا خصوصًا طرز ہے.ٹھیک ایسا ہی اس آیت میں ہے جس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ فرعون نے کہا یا اپنے ہالی موالی سے مشورہ کیا کہ مومنین کے بیٹوں کو مار ڈالو مگر کسی وجہ سے اس کا ارادہ یا قول یا مشورہ صورت پذیر نہ ہوا جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ کفّار کی تدابیر یا داؤں اکارت جانے والا ہے.یعنی وہ امر وقوع میں نہیں آیا.بھلا پادری صاحبان اگر قتل والی بات غلط ہے تو کیوں بنی اسرائیل موسٰی اور ہارون کو کہتے ہیں تم نے کیوں فرعون کے ہاتھ میں تلوار دی ہے کہ وَے ہم کو قتل کریں خروج ۵ باب ۲۲ ؟ (فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۳۷ تا۱۳۹) ۲۷.  دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں ہو گزری ہیں مگر اب ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں ہے.: قوم کے دینداروں کو اس طریق سے اُکسایا ہے.یُظْھِرَ: یہ قوم کے امیروں کو برانگیختہ کیا ہے.کہ دیکھو تمہاری امارت چھن جائے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۲۸.  : بڑے سے بڑے زبردست دشمن کے مقابلہ میں خدا کی پناہ میں آ جانا بڑی بات ہے.ہر مشکل کے وقت دعا سے کام لو.دعا کے یہ معنے نہیں کہ اسباب مہیا نہ کریں.بلکہ جس قدر اسباب

Page 521

اپنی طاقت سے مہیا کر سکتے ہیں.وہ تو کر لیں.مگر چونکہ کئی باریک در باریک امور ہوتے ہیں اور کئی عجیب موانع جو کامیابی میں سدّ راہ ہو جاتے ہیں.اس لئے دعا کی جاتی ہے.نیز صحیح اسباب مراد مندی کا علم بھی خدا کے فضل ہی پر موقوف ہے.میں نے بڑے بڑے گھمسان کے مباحثوں میں جہاں میں تن تنہا تھا اور ہزاروں مخالف ہی مخالف.اس  کے جلولے دیکھے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۲۹.    ایک اور بات ہے.جو انسان کو سچائی کے قبول کرنے سے روک دیتی ہے.اور وہ تکبّر ہے.خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے.کہ متکبّروں کو خدا تعالیٰ کی آیتیں نہیں مل سکتیں.کیونکہ تکبّر کی وجہ سے انسان تکذیب کرتا ہے.اور جھٹلانے کے بعد صداقت کی راہ نہیں ملتی ہے.پہلے تکذیب کر چکتا ہے.پھر انکار کرتا ہے یاد رکھومفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا.پس اپنے اندر دیکھو کہ کہیں ایسا مادہ نہ ہو! کبھی کبھی انسان کی ایک بدعملی دوسری بدعملی کیلئے تیار کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ سے بہت وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے.امام کے ہاتھ پر بڑا زبردست اور عظیم الشان وعدہ کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا.(الحکم۱۷؍اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۳.۴) : اس وقت تک اس نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا تھا.: کیا عمدہ پیرایہ نصیحت ہے.کیسے دل آویز طریقے سے شرم دلائی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸)

Page 522

۳۰.   : طاقت و غلبہ والے ہو زمینمیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۳۳. : ایک دوسرے کو پکارنے کا دن جیسا کہ مصیبت کے وقت کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۳۵.   : اﷲ تباہ، ہلاک کر دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۸) ۳۶. 

Page 523

  کفر اور تکبّر اور بد اعمالی کے کسب سے مُہر لگتی ہے.ان بُری باتوں کو چھوڑ دو.مہر ہٹی ہوئی دیکھ لو.خدائے تعالیٰ نے اپنے قانونِ قدرت میں یہ بات رکھ دی ہے.کہ جن قویٰ سے کام نہ لیا جاوے وہ قوٰی بتدریج اور آہستہ آہستہ کمزور ہوتے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ قوٰی جن سے کام نہیں لیاگیا.اسی طرح سے بیکار اور معطّل رہتے رہتے بالکل نکّمے ہو جاتے ہیں اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قویٰ پر اور ان قویٰ کے رکھنے والوں پر مُہر لگ گئی ہے.ہر ایک گناہ کا مرتکب دیکھ لے.جب وہ پہلے پہل کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے مَلکی قویٰ کیسے مضطرب ہوتے ہیں پھر جیسے وہ ہر روز برائی کرتا جاتا ہے.ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامّل جو پہلے دن اس بدکار کو لاحق ہوا تھا وہ اڑ جاتا ہے.تمہیں تعجّب اور انکار کیوں ہے؟ انسانی نیچر اور فطرت اور اس کے محاورے کی بولی پر غور کرو.شریر اور بد ذات آدمی کو ایک ناصحِ فصیح نہیں کہتا کہ ان کی عقل پر پتھر پڑ گئے.ان کے کان بہرے ہو گئے.ان کی سمجھ پر تالے لگ گئے.کیا ان مجازوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۱) اسی طرح بہکاتا ہے اﷲ اس کو جو ہو زیادتی والا شک کرتا.وے جھگڑتے ہیں اﷲ کی باتوں میں بغیر سند کے جو پہنچی ان کو.بڑی بیزاری ہے اﷲ کے یہاں اور ایمانداروں کے یہاں.اسی طرح مُہر کرتا ہے اﷲہر دل پر غرور والے سرکش کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۵) ۳۷.  : اے ہامان ! میرے لئے ایک محل تیار کر.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۵۶) : تاکہ آسمانی اسباب پر پہنچ جائیں.یہ اس نے بطورِ تمسخر کہا ہے.کیونکہ حضرت موسٰیؑ اسے کہتے تھے کہ اس کی فوق الفوق حکومت ہے.فرعون نے شرارت سے ان تصرّفات کو جسمانی بنا لیا.اور کہا کہ ایک محل بناؤ تا موسٰی کا خدا اوپر پہنچ کر دیکھیں…

Page 524

ایک دہریہ نے مجھ سے کہا کہ اگر زمین و آسمان کے درمیان پتھر بھر دیئے جاویں تو تمہارا خدا کُجلا جائے.میں نے کہا احمق کہ ان پر زمانہ گزرتا ہے یا نہیں؟ کہا.ہاں.میں نے کہا زمانہ نہ تو مخلوق ہے جب وہ نہیں کُچلا جاتا تو زمانہ سی لطیف چیز پیدا کرنے والا تو بہت ہی لطیف ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ایک عیسائی کے اس اعتراض ’’ ہامان تو موسٰیؑ کی موت کے ڈیڑھ سو برس بعد اخویرس کا وزیر تھا‘‘ ( دیکھوا ستیر ۳ باب) کے جواب میں تحریر فرمایا.یہ اعتراض ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے کوئی عیسائیوں کو کہے.ساؤل داؤد سے پہلے سموئیل کے وقت بادشاہ ہوا.مسیح کا رسول کیسے ہو گیا.یعقوب تو بنی اسرائیل کا باپ اسحٰق کا بیٹا تھا.مسیحؑ کا بھائی کیونکر بن گیا.مریم تو موسٰی اور ہارون کی بہن تھی.مسیحؑ کی ماں کس طرح ہو گئی.افسوس صد افسوس.ضد اور ہٹ انسان کو کس طرح موت کے اتھاہ کنویں میں جھکاتی ہے.مینس اور یمرس نے موسٰی کا مقابلہ کیا ( ۲ تمطاؤس ۳ باب ۸) بتاؤ توریت میں کہاں لکھا ہے کہ موسٰی کا مقابلہ انہی دو آدمیوں نے کیا.ساؤل یعقوب اور مریم کئی آدمیوں کے نام ہو سکتے ہیں تو کیا ناممکن ہے کہ ہامان فرعون کے افسر کا نام بھی ہو اور خویرس کے وزیرکا بھی.اگرکہو مینس اور یمرس کا نام گو توریت میں نہیں.تو تمطاؤس چونکہ الہامی کلام ہے.اس لئے اس میں ہونا بھی ان کی صداقت کی کافی دلیل ہے.تو ہم بھی قرآن کو الہامی اور الہٰی کلام مانتے ہیں اور بہت صفائی سے وہی جواب دے سکتے ہیں.حقیقی جواب: ہامان کے معنے عربی میں محافظ کے ہیں اور یہ وہ شخص ہے جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل پر متعیّن تھا.کہ ان سے اینٹیں پکانے کا کام لے.دیکھو خروج ۵ باب۱۰ حضرت موسٰیؑ اُس شخص کو بھی نصیحت فرماتے تھے اور بنی اسرائیل کے ساتھ حسنِ سلوک کو کہتے تھے قرآن مجید سے بھی یہی پایا جاتا ہے کہ یہ شخص افسر عمارت تھا جہاں فرمایا ہے اور فرعون کا قول جو اس نے ہامان کو کہا.نقل کیا ہے. (فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۵۵،۱۵۶)

Page 525

: فرعون کی تدبیروں سے موسٰی ہلاک نہیں ہوئے بلکہ خود فرعون ہی ہلاک ہوا.خوب یاد رکھو.کبھی کسی راست باز کے مقابلہ میں نہ آؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۳۹. : فرعون نے وَمَآ کہا تھا.اس کی تردید میں فرماتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۴۱.   جس قدر مومن کا ایمان بڑھتا ہے.اسی قدر وہ بڑے فضل کو جذب کرتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے.جیسے جس قدر روشندان اور فتیلہ بڑا ہو گا اسی قدر زیادہ روشنی کھینچے گا.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب ایمان فضل کو بلاتا ہے اور فضل سے نجات ہے تو اعمال کیا ہوئے.کیا اعمال لغو اور بیکار ہوں گے تو معلوم ہوا کہ سائل نے ایمان اور اعمال نیک کا تعلق نہیں سوچا.کیونکہ نیک اعمال اور سچا ایمان ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہے.سچا ایمان نیک اعمال کا بیج ہے اور اچھے بیج کا ضرور ہاں اچھے بیج کا ضرور اچھا ہی پھل ہوتا ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۱۳۶) اور جس نے کی ہے بھلائی وہ مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہو.سووہ لوگ جائیں گے

Page 526

بہشت میں.روزی پائیں گے وہاں بے شمار.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۷) ۴۲. : اونچے پر آ جاؤ.جہاں ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ رہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۴۷.  : اس میں عذابِ قبر کا ثبوت ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۷۹ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۲.  ہم اپنے مرسلوں اور کامل مومنوں کو جو ہمارے کہے پر چلتے اور ہمیں مانتے ہیں.نصرت و امداد و تائید دیتے رہے اور دیتے رہیں گے.اس دنیا میں اور قیامت کے دن.اب تمام ماموروں.مُرسلوں اور ان کے سچے ساتھ والوں کی تاریخ دیکھ ڈالو.کس طرح بے کس وے بس بے یار و غمگسار دنیا میں آتے ہیں.مثلاً یوسف علیہ السلام کو دیکھو زبردست طاقت اور جماعت نے ان کے ساتھ کیا کیا.مگر آخر یوسف علیہ السلام کامیاب اور وہ سب کے سب باہمہ عصبیت ناکام و نادم ہوئے.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمن کیسے زبردست تھے.پھر کیسے نامراد ہلاک ہوئے.تائید و نصرت رسل کے بارے میں دو خبریں ہیں.ایک دنیا میں تائید و نصرت کی.دوسری بعد الموت کی.ان

Page 527

دو میں سے ایک واقعہ نے دنیا میں اپنی خبر کے مطابق ظہور کیا.پس اسی مناسبت سے دُوسری خبر جو اسی کے ساتھ ہے.اپنے واقعہ کے ساتھ ضرور ظہور پذیر ہو گی.فرعون و موسٰی علیہ السلام کے مابین جنگ ہو رہی ہے.ایک طرف ایک طاقت ور بادشاہ ہے جو مدّ مقابل کو کہتا ہے.تو ہمارا نمک پروردہ اور تیری تمام قوم ہماری غلام ہے.ان دونوں کے درمیان الہٰی نصرت کا وعدہ ہوتا ہے.کہ موسٰیؑ ان کی تمام شرارتوں سے محفوظ رہیں گے اور فرعونی بالکل غرق ہو کر عذاب آخرت کے مستحق ہوں گے.…(المومن:۴۶،۴۷)پھر دیکھ لو ان تینوں علوم نے کیسی زبردست قوّت سے قیامت کو ثابت و محکم کر دیاہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ ۳۳.۳۴) ساری خلقت جو میری نگاہ سے بذریعہ علم.کتاب.سماع.مشاہدہ گزری ہے وہ یہی چاہتی ہے کہ میں جیت جاؤں اور مجھے نصرت ملے.لوگ اپنے ننگ و ناموس کے قیام کیلئے جانوں تک بے دریغ نثار کر دیتے ہیں.اﷲ تعالیٰ اس فطرت کے تقاضا پر فرماتا ہے..اس ورلی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی نصرت کریں گے.تاریخ اس وعدہ کے ایفا اور اس نشان کی صداقت کی شہادت دیتی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کا ہی معاملہ دیکھو کہ آخرکار آپ ہی سلامت و مامون رہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں مجوس تھے.مگر اس سب سے بڑے مخالف نمرود کا کچھ نشان نہیں.مؤرخین اس کے بارہ میں بحث کرتے ہیں کہ آیا وہ تھا بھی یا نہیں.تھا تو کون؟ اسی طرح حضرت موسٰیؑ حضرت مسیحؑ کے دشمنوں کا حال ہوا.پھر جناب نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا نام رہ گیا اور کس عزّت سے لیا جاتا ہے.امام حسین رضی اﷲ عنہ کی اولاد تو ہر جگہ پائی جاتی ہے.مگر یزید کی نسل میں سے ہونا تو درکنار اس کا ہم نام بھی کوئی کہلانا نہیں چاہتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) کس قدر خوشی اور امید کا مقام ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی نصرت اور تائید اسی دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس دنیا میں نصرت اور تائید الہٰی کا ملنا آخرت کی نصرت پر ایک قوی دلیل ہے.اور پھر یہ بھی کہ یہ نصرت اور تائید ہر مومن مخلص کو ملتی ہے.اگر صرف انبیاء علیھم السلام کے ساتھ یہ مخصوص ہوتی تو البتّہ عام مومنوں کیلئے کس قدر دل شکن بات ہو سکتی تھی.مگر خدا کا کس قدر احسان ہے کہ فرما دیا ہے

Page 528

 اﷲ تعالیٰ کے مامور اور مرسل اور مومن اسی دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی تائیدات سے حصّہ لیتے ہیں اور یہ نصرت عجیب عجیب طور پر اپنا ظہور کرتی ہے کیونکہ اس نصرت سے اﷲ کی ہستی کا ثبوت مامور من اﷲ کی صداقت اور اﷲ کے دوسرے وعدوں کی تصدیق کی ایک دلیل ہوتی ہے اور ایک عظیم الشان حجّت ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے قائم کی جاتی ہے.کیا خوب فرمایا ہے.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھرعالم کو اک عالم دکھاتی ہے کبھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہوتی ہے آگ اور ہر مخالف کو جلاتی ہے غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے پھر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم اﷲ کی نصرت چاہتے ہو.اُسے سپر بنانا چاہتے ہو تو جس نے سپر بنانے کا نمونہ اپنی عملی زندگی سے دکھایا ہے اس کے نیچے آؤ اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) ہم ضرور کامیاب کرتے ہیں اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیا کی زندگی میں اور پیش ہونے والوں کے پیش ہونے کے دن میں.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۹۸) حضرت امام حسین کربلا میں شہید ہوئے.یہ کے خلاف نہیں.موت تو سبھی کو آتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں معزّز و مکرّم کون ہے وہ جس کی نسل کا بچہ پیدا ہوتے ہی سیّد سردار کا لقب پاتا ہے.یا وہ جس کے نام پر کوئی اپنا نام بھی نہیں رکھتا.اور نہ کوئی مانتا ہے.کہ میں اس کی نسل سے ہوں.جس کے نام کا تصوّر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کے پڑھتے ہوئے بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے.(محمدؐ:۲۳) (بقرہ:۲۰۶) (تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۷۵.۱۷۶ ماہ اپریل ۱۹۱۲ء) جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کیلئے نہیں چھوڑتا تو خدا بھی اس کیلئے پسند نہیں کرتا.جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حصرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے مگر وہ خدا جس نے فرمایا.اس نے سب پر فتح دی صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا.تم اپنے بھائیوں کا جتھا نہ چھوڑو.ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہؓ سے ایک خطرناک آواز سنی.اور وہ ہکّا بکّا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریمؐ کے اﷲ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا.کہ ایسے جاں نثار مرید تھے.آخر وہ

Page 529

جو باپ بنتے تھے.جو تجربہ کار تھے.ہر طرح کی تدبیریں جانتے.ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے.(بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۹) ۵۶.  : پچھلے پہر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۵۷.   : دلیل مَاھُمْ : متکبّر اپنی کبریائی کی حد کو کبھی نہیں پہنچتا اور کبھی کامیاب نہیں ہوتا میں نے ایسے نظارے خود دیکھے ہیں.جوشِ تکبّر میں جن پر ظلم کیا.جنہیں ذلیل سمجھا.آخر انہی کے ہاتھوں بلکہ میخ والے جوتوں سے پٹوایا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۵۸.  : خوب یاد رکھو.میجارٹی مذہب میں نہیں چلتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹)

Page 530

۶۲.  : تمہاری ہی بھلائی کیلئے.: تاکہ تم اس میں آرام کرو.آرام بڑی دولت ہے.آرام سے صحت اچھی رہتی ہے.علمِ بڑھتا ہے.دنیا کی تمام چیزوں کیلئے قدرتی طور پر ایک وقفہ مقرّر ہے.انسان کیلئے بھی ضروری ہے کہ آرام کرے.مگر آرام خدا ہی کے فضل پر موقوف ہے.ہم نے بیس روپے سے لے کر کروڑہا روپیہ آمد تک کے لوگوں سے پوچھا ہے تو انہوں نے اپنے تئیں دُکھی بتایا ہے.جس سے معلوم ہوا.کہ سُکھ کی زندگی دولت پر موقوف نہیں بلکہ تمام جسم کے سُکھ اﷲ کی فرماں برداری میں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۶۵.   : آرام گاہ : یہ انسان کی تصویر کے عجائبات ہیں کہ ہاتھی.چیتے.شیر اس کے اشارہ پر چلتے ہیں.پھرپہاڑ.بجلی.ہوا پر قابو ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۹) ۶۸. 

Page 531

  مِنْ: یہی مٹی ہے.جو اگر کپڑے کو لگے تو کپڑا مَیلا ہو جائے اور اسی مٹی سے انسان پیدا ہوتا ہے.: بدیوں سے رُکو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰) ۶۹.  وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے.پس جب جاری کرتا ہے حکم تو کہتا ہے.ہو جا.پس ہو جاتا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۹۲) ۷۰. کسی کی عظمت.خوبی.جلال.طاقت.حلم.احسان دیکھنے کیلئے اس کے افعال ہی گوارا معلوم ہوتے ہیں.پچھلے رکوع میں اسی بات کا ذکر تھا.اب اﷲ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے والوں کا ذکر سنو! : بُت پرستوں کا معاملہ خصوصیت سے موجبِ تعجب ہے.خود ہی اپنے ہاتھ سے تراشتے ہیں.پھر خود ہی اسے معبود قرار دیتے ہیں.اور اس کے آگے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰)

Page 532

: اِمَّا سے ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کی صورت کا علم اﷲ ہی کو ہے اور اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے.جس رنگ میں چاہے.پوری کر دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰) ۸۱.  اﷲ کی کتاب.اﷲ کی عظمت سمجھانے.قرب کی راہیں بتانے اور اس ذات سے حبِّ کامل پیدا کرانے کیلئے نازل ہوئی ہے.اور یہ باتیں اس کے عجیب در عجیب احسانوں کے مطالعہ کرنے سے پیدا ہوتی ہیںجُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا.کامل علم والے.کامل قدرت والے.کامل احسانوں والے کی محبت خود بخود آجاتی ہے.اور پھر اس محبت کرنے والے میں فرماں برداری پیدا ہوتی ہے جو تمام سُکھوں کی موجب ہے.پہلے اپنے احسان بیان فرماتا ہے.: پہلے برّی سفر کا ذکر کیا.اب بحری سفر کے ذرائع بتائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰) ۸۲. : ایک مقناطیسی سوئی کے طفیل اندھیری راتوں میں بڑے بڑے سمندروں میں سفر ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰)

Page 533

: کتابوں کے ذریعے بھی سیر فی الارض ہو سکتا ہے.: تاتاریوں، پٹھانوں نے کتنے ممالک فتح کئے.پھر ایرانیوں نے اپنی ملکداری کا کہاں تک سکّہ بٹھایا.کہ اب تک اس کے آثار باقی ہیں.فارسی زبان اب بھی گاؤں میں پڑھائی جاتی ہے.مگر آخر تنزّل آیا.اب وہ طمطراق.وہ شوکت.وہ شان کہاں گئی.خدا جب مٹانے پر آیا تو وہ سازوسامان کچھ بھی کام نہ آیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۸؍دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۲۰) ۸۴.  اﷲ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقویٰ اﷲ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہیفَرِحُوا بِمَا عِنْدَ ھُمْ مِّنٰ الْعِلْمِ.کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے.اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے.خواہ کسی قسم کا علم ہو.وجدان کا.سائنس کا.صرف و نحو یا کلام یا اور علوم غرض کچھ ہی ہو.انسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مِٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے.راست باز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بُجھ سکتی.بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے.اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان.اَعْلَمُ بِاﷲ.اَتْقٰی لِلّٰہِ.اَخْشٰی لِلّٰہ جس کا نام محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے.وہ اﷲ تعالیٰ کے سچّے علوم.معرفتیں.سچّے بیان اور عمل در آمد میں کامل تھا.اس سے بڑھ کر.اعلم.اتقیٰ اور اخشیٰ کوئی نہیں.پھر بھی اس امام المتقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قُلْ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا.

Page 534

اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کیلئے اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقّہ کیلئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی.جس قدروہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرے گا.جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بُجھا ہوا محسوس کرے.اور فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ کے آثار پائے اس کو استغفار اور دعا کرنی چاہیئے.کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلاء ہے جو اس کیلئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے.چونکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے انت اور اس کے مراتب و درجات بے انتہاء ہیں.پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے؟ اس لئے اسے واجب ہے کہ اﷲ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا متبع ہو کر کتاب اﷲ کے سمجھنے میں چست و چالاک ہو.اور سعی اور مجاہدہ کرے.تقویٰ اختیار کرے تا سچے علوم کے دروازے اس پر کُھلیں! غرض کتاب اﷲ پر ایمان تب پیدا ہو گا.جب اس کا علم ہو گا اور علم منحصر ہے مجاہدہ اور تقوٰی پر اور فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الْعِلْم سے الگ ہونے پر.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵) یہودیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور وحی پر ایمان لانے سے جو چیز مانع ہوئی وہ یہی تکبّرِ علم تھافَرِحُوا بِمَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الْعِلْم.انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے پاس ہدایت کا کافی ذریعہ ہے.صحفِ انبیاء اور صحفِ ابراہیمؑ و موسٰیؑ ہمارے پاس ہیں ہم خدا تعالیٰ کی قوم کہلاتے ہیں نَحْنُ اَبْنَآئُ اﷲِ وَ اَحِبَّائُہٗکہہ کر انکار کر دیا کہ ہم عربی آدمی کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں.اس تکبّر اور خودپسندی نے انہیں محروم کر دیا اور وہ اس رحمۃ للّعٰلمین کے ماننے سے انکار کر بیٹھے جس سے حقیقی توحید کا مصفّٰی اور شیریں چشمہ جاری ہوا.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۶) کتابوں کو جمع کرنے اور ان کے پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا ہے.میرے مخلص احباب نے بسا اوقات میری حالتِ صحت کو دیکھ کر مجھے مطالعہ سے باز رہنے کے مشورے دیئے.مگر میں اس شوق کی وجہ سے ان کے دردمند مشوروں کو عملی طور پر اس بارہ میں مان نہیں سکا.میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہو جاوے.اس کے فضل اور مامور کی اطاعت کے بغیر نہیں ملتی.ان کتابوں کے پڑھ لینے اور ان پر ناز کر لینے کاآخری ڈپلومہ کیا ہو سکتا ہے.یہی کہ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ ھُمْ مِّنَ الْعِلْم.الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۶)

Page 535

سُوْرَۃ ُحٰم ٓ السَّجْدَۃِ مَکِّیَّۃٌ  ۲ تا ۹.       رحمٰن و رحیم کی جانب سے اترا ہوا.یہ کتاب ہے جس کی آیتیں کُھلی کُھلی ہیں.قرآن عربی جاننے والے

Page 536

لوگوں کے واسطے بشیر و نذیر ہے.پس اکثر لوگوں نے منہ پھیرا اور وہ سنتے ہی نہیں اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں.تیری اسی بات کی طرف سے جدھر تو ہمیں بُلاتا ہے.اور ہمارے کان بوجھل ہو رہے ہیں اور تیرے اور ہمارے درمیان اوٹ ہے.تُو اپنے کام میں لگارہ.ہم اپنے کام میں.تو کہہ دے ( اے محمد) میں ایک تمہیں سابشر ہوں.میری طرف خدا کا پیغام آتا ہے کہ تمہارا معبود واحد ہے.اسی کی راہ پر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اُسی سے بخشش مانگو.ہلاکت اُن مُشرکین کے واسطے جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں.بے شک ایمانداروں اور نیکوکاروں کیلئے غیر منقطع اجر ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۵۸) …الخ: تو کہہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم.حکم آتا ہے مجھ کو کہ تم پر بندگی ایک حاکم کی ہے.سو سیدھے رہو اُسکی طرف اور اُس سے گناہ بخشواؤ اور خرابی ہے شرک والوں کی.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۷) ۱۰ تا ۱۳.    

Page 537

تو کہہ.کیا تم ایسے خدا کا کفر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور اسکے شریک مقرر کرتے ہو.یہی تو عالموں کا پروردگار ہے.پھر اس پر پہاڑ بنائے اور زمین کو برکت دی اور اشیائے خوردنی کے اس میں اندازے باندھے.یہ سب کچھ چار دن میں ہوا.حاجت مندوں کیلئے سب سامان درست ہو گیا.پھر سماء کی جانب متوجّہ ہوا اور وہ دخان تھا ( یعنی اسے ٹھیک کیا) پھر اسے اور زمین ( دونوں) کو کہا کہ خواستہ یا نخواستہ تم دونوں حاضر ہو جاؤ.انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں ( یہ ایک اندازِ محاورہ ہے جس کا مدعایہ ہے کہ یہ اشیاء ہمارے مطیع فرمان ہیں اور کبھی کس طرح ہمارے حکم سے انحراف کر نہیں سکتیں ) پھر ان کو سات سماء مقرر کیا دو دن میں اور ہر سماء کو اس کا متعلق کام سپرد کیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۱۸) مسلمانوں کا اعتقادیہ ہے.اَﷲُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ اس اعتقاد سے مٹی کا خالق بھی اﷲ تعالیٰ ہے.اور مٹی کے مادہ کا خالق بھی وہی ہے.مادہ اور روح کی تشریح جس قدر روحانی تربیت میں مفید ہے اس قدر قرآن کریم نے تشریح کر دی ہے.اور جس تفصیل کی ضرورت روحانی تعلیم میں نہیں.اس سے قرآن کریم نے سکوت فرمایا.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اگر روح کے معنے کلام الہٰی کے ہیں.تو روح غیر مخلوق اور غیر مادی ہے.یہ روح الہٰی صفت ہے.اور مختلف اوقات میں اﷲ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر نازل ہوتی رہی اور نازل ہوتی ہے.اور نازل ہو گی اور اُن کے وساطت سے عام مخلوق الہٰی کے پاس پہنچی اور پہنچے گی.اور رُوح کے معنی اگر ملائکہ اور انبیاء علیہم السلام کے لیں تو وہ مخلوق ہیں.ایک وقت میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ مختلف اوقات اور انواع و اقسام کے مختلف اشیاء سے پیدا ہوا کئے.انسانی جسمانی رُوح ایک قسم کی لطیف ہوا ہے جو انسان میں شریانی عروق اور انسانی پھیپھڑوں کے بن جانے اور قابلِ فعل ہونے کے وقت نفخ کے جاتی ہے اس مطلب کو سمجھنے کیلئے اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر غور کرو.یہ صادق کتاب حقیقت نفس الامری کی خبر دیتی ہے کہ انسان اسی نطفہ سے جو عناصر کا نتیجہ ہے.خلق ہوتا ہے اور پھر یہیں اسے سمیع و بصیر یعنی مدرک اور ذی العقل بنایا جاتا ہے.نہ یہ کہ پیچھے سے اپنے ساتھ کچھ لاتا ہے.اور پرانے اعمال کا نتیجہ.اس کے ساتھ چپٹا ہوتا ہے جس وہم و فرض کا کوئی مشاہدہ کا ثبوت نہیں.… ایک مدّت تک مجھے تعجّب اور افسوس ہوا کہ تکذیب براہین کے مصنّف صاحب نے اس قدر طول.طویل اعتراض آیت شریفہخَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ پر کیوں کیے اور میرے تعجّب اور افسوس کی کئی وجہیںہیں.اوّلؔ.اس لئے.چھ دن میں زمین.آسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے.اس کے پیدا ہونے کی خبر ایسے سچے لوگوں نے دی ہے جن کا صدق مختلف دلائل اور نشانات سے ثابت ہے اور اس خبر کو مشاہدہ

Page 538

، ضروریہ علوم اور قانونِ قدرت کے مستحکم انتظام نے نہیں جھٹلایا.دومؔ.اس لئے کہ جن لوگوں نے یہ خبر دی ہے ان میں سے ایک کا نام سیّدنا موسٰی علیہ السلام ہے اور دوسرے کا نام سیّد نا محمد بن عبداﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے اور ان لوگوںنے یوں کہا ہے کہ ہم کو اﷲ تعالیٰ نے یہ خبر دی.اور اسی کے مکالمہ سے یہ بات ہمیں معلوم ہوئی.ان خبردہندوں کی امداد اﷲ تعالیٰ نے جیسے کی ہے اس کی خبر دنیا سے مخفی نہیں.اور جو تعجّب انگیز کامیابی ان لوگوں کو ہوئی.اس کی نظیر مدعیانِ الہام میں کوئی نہیں دکھا سکتا.انصاف کرو کیا جنابِ الہٰی کی پاک اور مقدّس بارگاہ سے جھوٹوں کو ایسی امداد مل سکتی ہے.سومؔ.اس لئے کہ جس کتاب میں یہ خبر دی گئی ان کا من جانب اﷲ ہونا بہت وجوہ سے ثابت کیا گیا.چاہے اسکا نام توریت لو.چاہو قرآن کریم کہو.چہارمؔ.اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کے اکثر بلکہ تمام کام جن کو ہم دیکھتے ہیں.آہستگی اور تدریج سے ہوا کرتے ہیں.بقدر امکان اپنے ارد گرد کا کارخانۂ قدرت دیکھ لو.پھل دار درخت کتنے دنوں میں پھل دار کہلا تا ہے.گھوڑے اور ہاتھی کا آج پیدا ہوا بچہ کتنے دنوں میں اﷲ تعالیٰ اس کو ہماری سواری کے قابل بنائے گا.آدمی کا وہ بچّہ جو آجکل ماں کے رحم میں یا باپ کے جسم میں آرام گزیں ہے.اﷲ تعالیٰ اس کو کتنے دنوں میں عالم فاضل اور ریفارمر کرے گا.پس جب ایسے کام جو بتدریج ہو رہے ہیں اسی قادرِ مطلق.سرب شکتیمان.کُنْ کے کلمہ کے ساتھ پیدا کر سکنے والے کی پیدائش ہے تو زمین و آسمان اور اس کے درمیانی اشیاء کا چھ روز میں پیدا ہونا کیوں محلِّ انکار ہے؟ ٌٌٌََپنجم ؔ: اس لئے کہ زمین.آسمان اور ان دونوں کی درمیانی تین چیزیں ہیں اور ان کی بناوٹ دو طرح پر ہے.اوّل.ان اشیاء کی اصل بناوٹ.دومؔ.ان کی ترتیب.پس یہ چھ چیزیں ہوئیں.جو چھ یوم میں پیدا ہوئیں یہاں یہ امر بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آریہ نے بھی تمام مخلوق کے اصول اشیاء چھ چیزوں کو مانا ہے.ارضی اشیاء چہار.جن کو اربعہ عناصر یا چارتت کہتے ہیں.اور سماوی چیزیں دو.زمین کی چار چیزیں.مٹی ۱.پانی ۲.آگ ۳.ہوا ۴.سماوی دو چیزیں.اکاش جسے سماء یا السّماء کہئے.اور دوسری رُوح جسے جیو کہتے ہیں قرآن کریم میں ایک جگہ کچھ تفصیل کی گئی ہے اسے بھی سُنو. ….(حٰمٓ السجدۃ:۱۰ـ.۱۳) ششم ؔ.اس لئے کہ ان چیزوں کے بنانے میں یہ نہیں فرمایا کہ تمام تمام دن اور رات میں ان اشیاء کو پیدا کیا.بلکہ یہ فرمایا ہے.کہ چھ روز میں یہ چھ چیزیں پیدا کیں.یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک ایک چیز ایک ایک روز میں.ایک آن کے اندر کلمہ کُنْ سے پیداہوئی.

Page 539

ہفتم.اس لئے کہ اﷲ تعالیٰخَالِقُ الْاَرْضِ وَ السَّمٰوٰتِ.معطّل بیکار نہیں.وہ ہمیشہ اپنی کاملہ صفات سے موصوف ہے.ایسا کیوں مانا جاوے کہ تمام اشیاء کو ایک آن میں پیدا کر کے پھر معطّل ہو گیا.بلکہ وہ ہمیشہ خالق ہے.اور مخلوق کا حافظ ہے اور رہے گا.ہشتم.اس لئے کہ یومؔ عربی زبان میں مطلق وقت کو کہتے ہیں پس سِتَّۃِ اَیَّامٍکے یہ معنے ہوں گے.چھ وقت میں.چاہو وہ وقت ایک آن کَلَمْحِ الْبَصَر.لو.چاہو تو وہ ایک ایک یوم لاکھوں کروڑوں برس کا یومؔ جیسے راقم کا اعتقاد ہے.سمجھو.نہم.اس لئے کہ یومؔ عربی زبان میں اس زمانہ اور وقت کو بھی کہتے ہیں جس میں کوئی واقعہ گزرا.گو وہ واقعہ کتنے بڑے وقت میں گزرا ہو.یوم بُعاثؔ.یوم حنین.یوم بنو بکر.یوم بسوس.یوم عاد وغیرہ وغیرہ.اس زمین و آسمان وغیرہ کی پیدائش کے زمانہ کو اس محاورہ پر یوم کہا گیا.دہم.اس لئے کہ.پدارتھ وِدّیا یعنی علم طبعیات.خصوصًا علم طبقات الارض سے ثابت ہو چکا ہے یہ زمین کسی زمانہ میں آتشیں گیاس تھا بلکہ یوں کہیے کہ ایک ستارہ روشن تھا.جب قدرتی اسباب سے اﷲ تعالیٰ نے اس میں کسی قدر کثافت پیدا کر دی تو یہ زمین اس وقت ایک سیال مادہ ہو گیا.جسے عربی زبان میں اَلْمَآء کہتے ہیں.اور اس پر اس وقت ہوا چلا کرتی تھی.جسے توریت شریف کی کتاب پیدائش کی پہلی آیتوں میں لکھا ہے.پھر جب وہ اَلْمَآء زیادہ کثیف ہو گیا تو اس پر وہ حالت آ گئی.جس کے باعث اس پر زمین کا لفظ بولا گیا.پس ایک دن اس پر وہ تھا کہ یہ زمین سیال ہوئی.اور دوسرا دن وہ آیا کہ کثیف ہو گئی.طبقات الارض سے یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جس قدر زمین کے نیچے مرکز کی طرف کھودا جاوے.زمین کی گرمی بہ نسبت بالائی سطح کے نیچے کو بڑھتی جاتی ہے حتّٰی کہ اب بھی چھتیس میل کی دُوری پر ایسا گرم مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصوّر سے باہر ہے.اس زمانہ سے بہت عرصہ پہلے جب اسکا بالائی حصّہ کثیف ہونا شروع ہوا تھا.ایک دن اس ہماری آرام گاہ وہ پر گزرا تھا کہ اس زمین کی بالائی نہایت پتلی سطح کے نیچے اس مادہ کا آتشیں سمندر موجیں مارتا تھا اور اسکی بالائی باریک سطح کو توڑ توڑ کے بڑے راکس ۱؎ اور بڑے بڑے حجری قطعات باہر نکلتے تھے اور پہاڑوں کا سلسلہ پیدا ہوتا جاتا تھا اور ظاہر ہے کہ اس وقت بڑے بڑے زلزلے اور بھونچال ہوتے تھے.جب بڑے بڑے پہاڑ پیدا ہو گئے اور زمین کا بالائی حصّہ زیادہ موٹا ہو گیا.پھر تیسرا اور چوتھا دن یا تیسرا اور چوتھا وقت اس کرّہ ارضی پر وہ آیا کہ نباتات.جمادات.پھل.پھول وغیرہ اشیاء

Page 540

انسانی آرام اور آسائش کے سامان مہیا ہوئے.ایک دن ان اشیاء کی پیدائش کا اور دوسرا دن ان اشیاء کی ترتیب کا.غرض دو دن پہلے اور دو دن یہ کل چار روز زمین کی درستی کی ہوئی.اسی طرح زمین کی ۱؎ چٹانیں ROCKS بالائی فضا اور زمین کی سقف اور زمین کی بناء.آسمان کو اﷲ تعالیٰ نے دو روز میں بنایا اور ان میں امرِ الہٰی کی وحی ہوئی اور وہ وقت آ گیا کہ انسان زمین پر آباد ہوں.کیونکہ جیسے قرآن کریم نے فرمایا ہے.انسان کی تمام ضرورتیں اور اس کیلئے سب مَایُحْتَاجُ پورا ہو گیا.اس تکذیب بر اہین سے غالباً پہلے کا ذکر ہے.میرے ایک پیارے عزیز نے مجھ سے اسی آیت پر سوال کیا کہ اﷲ تعالیٰ کو قرآن میں القادر یعنی قادرِ مطلق کہا ہے اور وہ تمام زمین اور آسمان کو ایک آن میں پیدا کر سکتا ہے.کیونکر مان لیا جاوے.آسمان و زمین کو اس نے چھ دن میں بنایا ہو.اس وقت ایک جوار کا کھیت سامنے لہلہا رہا تھا.میں نے تھوڑی دیر سکوت کر کے پوچھا.اس کھیت کا دانہ کب تک تیار ہو کر کھانے کے قابل ہو گا؟ اس عزیز نے جواب دیا.کئی مہینے کے بعد پک کر کھانے کے قابل ہو گا.تب میں نے کہا اس کے دانہ کو کون بناوے گا.اس نے جواب دیا.وہی.جسے القادر.قادرِ مطلق.سرب شکتیمان.جگدیشر کہتے ہیں.میں نے کہا ایک کُنْ میں سب کچھ پیدا کر سکتا ہے.کیونکر مانا جاوے کہ وہی ایسی قدرت والا دانوں کے بنانے میں اتنی دیر کرے.تب اس عزیز نے کہا.صاحب یہ اس کی خواہش.اچھا.اس کی مرضی ہے.اور ساتھ ہی ہنس دیا اور کہا کہ جواب ہو گیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۱۵ تا ۲۲۲) ۱۸.  جو ثمودتھے سو ہم نے ان کو راہ بتائی اور پھر ان کو خوش لگا اندھے رہنا.سوجھنے سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۹،۱۶۷) ۲۴. 

Page 541

اور اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب سے کیا تمہیں ہلاک کیا.پھر تم زیاں کار ہو گئے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۸) ۲۶.   اور لگا دی ہم نے ان پـر تعیناتی.پھر انہوں نے بھلا دکھایا ان کو جو اُن کے آگے اور اُن کے پیچھے اور ٹھیک پڑی اُن پر بات مل کر سب فرقوں میں جو ہو چکے ہیں ان سے آگے جنّوں کے اور آدمیوں کے وَے تھے ٹوٹے والے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۳) ۳۱ تا ۳۳.    جو لوگ ایمان کو مشروط کرتے ہیں.وہ محروم رہ جاتے ہیں.اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پرواہ نہیں کرتا.ہاں خدا تعالیٰ کسی کو خالی نہیں چھوڑتا.جو اس کی راہ میں صدق و ثبات سے قدم رکھتا ہے.وہ بھی اس قسم انعامات سے بہرہ وافر لے لیتا ہے.جیسے فرمایا 

Page 542

.جن لوگوں نے اپنے قول و فعل سے بتایا کہ ہمارا رب اﷲ تعالیٰ ہے.پھر انہوں نے اس پر استقامت دکھائی.ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے.کہ نزولِ ملائکہ سے پہلے دو باتیں ضروری ہیں.کا اقرار اور اس پر صدق و ثبات اور اظہارِ استقامت.ایک نادان سُنت اﷲ سے ناواقف ان مراحل کو تو طے نہیں کرتا اور امید رکھتا ہے اس مقام پر پہنچنے کی جو ان کے بعد واقع ہے.یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے.اس قسم کے شیطانی وسوسوں سے بھی الگ رہنا چاہیئے.خدا تعالیٰ کی راہ میں استقامت اور عجز کے ساتھ قدم اٹھاؤ.قویٰ سے کام لو.اس کی مدد طلب کرو.پھر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے.کہ تم بھی اﷲ تعالیٰ کے فضل کے وارث ہو جاؤ اور حقیقی رؤیا اور الہام سے حصّہ پاؤ.(الحکم۱۰؍اپریل۱۹۰۵ء صفحہ۶) خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے.جذباتِ نفس پر قابو رکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے.مساکین اور یتامیٰ کو مال دیوے.قسم قسم کے طریقوں سے رضا جوئی اﷲ تعالیٰ کی کرے.ایک وقت کا عمل دوسرے وقت کے عمل سے بعض دفعہ اتنا فرق رکھتا ہے کہ اوّل مہاجرین نے جہاں ایک مُٹھی جَو کی دی تھی.بعد میں آنے والا کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا دیتا تھا تو اس کی برابری نہ کر سکتا تھا.سائل کو دو.دُکھی کو دو.ذوی القربیٰ کو دو.نماز سنوار کر پڑھو.مسنون تسبیح اور کلام شریف اور دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں بھی عرض معروض کرو تاکہ دلوں پر رقّت طاری ہو.غریبی میں.امیری میں.مشکلات میں.مقدمات میں.ہر حالت میں مستقل رہو اور صبر کو ہاتھ سے نہ دو.تقویٰ کا ابتداء دعا.خیرات اور صدقہ سے ہے اور آخر ان لوگوں میں شامل ہونے سے ہے.جن کی نسبت فرمایا ہے..جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اﷲ ہے اور پھر استقامت دکھلائی.(بدر ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) نیکی کی تحریک کیلئے ملائکہ بڑی نعمت ہیں وہ انسان کے دل میں نیکی کی تحریک کرتے ہیں.اگر کوئی ان کے کہنے کو مان لے تو اس طبقہ کے جو ملائکہ ہیں وہ سب اس کے دوست ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں فرمایا.(آیت:۳۲) ایسی پاک مخلوق کسی کی دوست ہو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے.(الحکم۷،۱۴؍جون ۱۹۱۱ء صفحہ۶) انسان کو بیٹھے بیٹھے کبھی نیک اور کبھی بد ارادے پیدا ہو جاتے ہیں.یہ کیوں ہوتے ہیں.جبکہ

Page 543

کوئی کام بدوں اسباب اور عِلَل کے نہیں ہوتا.تو نیک اور بد ارادے کی تحریک کیوں ہوئی؟ اس مُحرِّک کو ہماری شریعت میں فرشتہ کہتے ہیں.ہم اسی پر قناعت کرتے اور نیکی کے محرّک کا نام فرشتہ رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ملائکہ و شیاطین کو ہر وقت انسان کے دل سے تعلق رہتا ہے.اور موقعہ پر تحریکیں کرتے ہیں.اگر وہ تحریک نیکی کی ہے تو فرشتہ کی طرف سے ہے اور بتدریج پھر وہ تحریک ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے.اور وہ انسان اس میں لگ پڑتا ہے.یہاں تک کہ اس کے ملائکہ اور شیاطین میں جنگ ہو پڑتی اور ملائکہ جیت جاتے اور پھر وہ شخص فرشتوں سے مصافحہ کر لیتا ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا.…الآیہ پس ایسے لوگوں پر پھر ملائکہ نازل ہوتے اور خدا کہتا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.مت غم کھاؤ.پس اس طرح ملائکہ کا ماننا بھی نیکی سکھلاتا اور بدی سے روکتا ہے.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۱) ۳۴.  اس شخص سے بھلی بات کس کی.جس نے لوگوں کو اﷲ کی طرف بلایا اور اچھے کام کئے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۹) ۳۵،۳۶.  

Page 544

نیکی و بدی.دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم پلّہ اور خوبی میں مساوی نہیں.بدی کا دفعیہ نیکی کے ساتھ کر دکھاؤ.اگر ایسا ہی حُسنِ سلوک اپنے دشمنوں سے کر دکھاؤ گے تو تمہارے دشمن بھی تمہارے سچّے دوستوں اور گرم جوش والے خیر خواہوں کی طرح ہو جاویں گے.اس نصیحت کو وہی لوگ مانیں جو بڑی بردباری اور بلند حوصلگی کا حصّہ رکھتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۴،۲۷۵) ۳۷. 

Page 545

۳۸.   اور اس کے نشانوں سے ہے رات.دن.سورج اور چاند.مت سجدہ کرو سورج اور چاند کو بلکہ اﷲ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۵۴) اﷲ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا.جو نشان اﷲ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کیلئے بطور نشان رکھے ہیں وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہئیں.بڑا نشان تذلّل کا ہے.سجدہ.اس سے بڑھ کر اور کوئی عاجزی نہیں.زمین پر گر پڑے.اب آگے اور کہاں کدھر جاویں.فرماتا ہے..پس جو غیر کو سجدہ کرے وہ مشرک ہے.حنفی مذہب میں یہ معرفت کا نکتہ ہے کہ رکوع کو بھی سجدہ میں داخل کر لیا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آیت سجدہ پڑھ کر رکوع چلے جانا بھی مِنْ وَجْہٍ سجدہ ہے.اسی واسطے وَ کے ساتھ نہیں آتا.الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ آیا ہے.اردو میں ایک مصرعہ سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ہاتھ باندھ کر بہیئت صلوٰۃ کسی کے سامنے کھڑے ہونا اور امید و بیم کے لحاظ سے اس کی وہ تعریفیں (جو خدا تعالیٰ کی کی جاتی ہیں) کرنا بھی شرک ہے.اور کسی سے سوائے اﷲ کے دعا مانگنا بھی.ہاں دعا کروانا شرک نہیں ہے.(بدر ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲) ۴۱.   : کسی اسمِ الہٰی کی تکذیب کرتے.استہزاء کرتے.تحریف کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۷۹ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 546

۴۳.  اس کتاب کا محافظ حضرت حق سبحانہٗ ہے.جس کیلئے آئندہ پیشگوئی ہے کہ اس کتاب کی باطل کرنے والی آئندہ بھی کوئی چیز نہیں بھیجیں گے.تو پھر ہم کو سائنس یا بیرونی خطرناک دشمنسے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.جب ہم کو ایسی کتاب دی گئی ہے کہ جس کا خدا حافظ ہے اور جس کی باطل کرنے والی کوئی چیز فطرت کے خالق نے پیدا ہی نہیں کی.پس جیسا ہمارا رسول کامل ہے.ویسے ہی ہماری کتاب کامل ہے.یہ کتاب تو قیامت تک رہے گی مگر ایسی کامل کتاب ہمارے گھروں سے نکل کر دوسروں کے گھروں میں چلی گئی.تو ہمارے بزرگوں کی رُوح کو کیا خوشی ہو گی؟ پس خوف ہے تو یہ کہ ہمارے گھروں سے یہ کتاب نہ نکلے اور ہم اس کی اِتِّباع سے محروم نہ رہیں.(بدر ۳۱؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۴) ۴۷.  اور تیرا رب ایسا نہیں کہ ظلم کرے بندوں پر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۴۴) ۴۸.   : ہر گھڑی کا علم کیا معلوم کہ اب سے کچھ منٹ بعد کیا ہو گا.: یہ تفصیل اس لئے ہے تا لوگ جانیں کہ اﷲ کو علم جزئیات کا بھی ہے.فلاسفر کہتے ہیں.صرف کلّیات کا علم ہے.وہ غلطی پر ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء)

Page 547

سُوْرَۃُ الشُّوْریٰ مَکِّیَّۃٌ  ۲،۳. حمید.مجید.علی و عظیم.سمیع و قادر و قوی ہوں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶.   : اور گناہ بخشواتے ہیں زمین والوں کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۸) ۹.  : اﷲ نے چاہا ایک ہو جاؤ گے.چنانچہ ہو گئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۲.

Page 548

ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفاتِ کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزّہ ہے وہ اپنی ذات میں.اپنے صفات میں.اسماء اور محامد اور افعال میں واحد لا شریک ہے.وہ اپنی ذات میں یکتا.صفات میں ہمتا اور افعال میں اور بے نظیر ہے.(الحکم ۲۶؍فروری ۱۹۰۸ء صفحہ۳) : اس کے مانند کوئی نہیں اور وہ ہے سُنتا دیکھتا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۲۶) میں جس ایمان پر قائم ہوں وہ و ہی ہے جس کا ذکر میں نے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُمیں کیا ہے.میں اﷲ کو اپنی ذات میں واحد.صفات میں یکتا اورافعال میں  اور حقیقی معبود سمجھتا ہوں.(بدر ۳۱؍مارچ۱۹۱۰ء صفحہ۴) ۲۴.   :آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے بارہا اعلان فرمایا لَآٍ کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا.ہاں مَوَدَّۃ چاہتا ہوں.لوگوں نے اس کے معنے کئے ہیں.حضرت امام حسینؓ اور سیّدۃ النساءؓ سے محبت کرو.یہ بات تو بہت اچھی ہے.مگر یہ سورۃ مکّی ہے اور اس وقت امام حسینؓ پیدا نہیں ہوئے تھے.حضرت ابن عباسؓ نے اس کے خوب معنے کئے ہیں کہ تمام عرب آپس میں خانہ جنگیاں چھوڑ کر اتّحاد و مودّت پیدا کر لو.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہر قوم میں رشتہ تھا پس آپ نے فرمایا.ان خانہ جنگیوں کو چھوڑ کر مودّت اختیار کر لو.کہ اس میں بھی تمہارا ہی بھلا ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو چیزیں تمہیں اﷲ کے نزدیک کرتی ہیں ان کی محبت پیدا کرو اور ان کے حصول کی کوشش و آزرو میں لگ جاؤ.اور تیسرے معنے یہ ہیں کہ اﷲ قربت حاصل کرنے کی محبت رکھو.تینوں معنے صحیح اور

Page 549

پاکیزہ ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۷۸.۱۷۹ماہ اپریل ۱۹۱۲ء) : تم پیار کرو ان کاموں میں جو قربِ الہٰی کا موجب ہیں یا یہ کہ اپنے رشتہ داروں میں محبت بڑھاؤ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰) ۳۱.  جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ سے مدینہ طیّبہ میں رونق افروز ہوئے.تو چند وشٹ.منافق.دل کے کمزور جن میں نہ قوّتِ فیصلہ تھی.اور نہ تاب مقابلہ.آپ کے حضور ہوئے اور بظاہر مسلمان ہو گئے اور آخر بڑے بڑے فسادوں کی جڑ بن گئے.وہ مسلمانوں میں آ کر مسلمان بن جاتے اور مخالفانِ اسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی بدیاں کرتے.… سردست جماعت اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائل اسلام بھی جو پیش ہوئے ہیں.بہت کم ہیں.یہ بدبخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تابِ مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دل کی مرض سے بزدل ہو کر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یاد رکھیں.ان کا یہ کمزوری کا مرض اور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعت اسلام روز افزوں ترقی کرے گی اور یہ موذی بدمعاش اور بھی کمزور ہوں گے اور ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقی کریں گے.جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو ان مسائل کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یوماً فیوماً روز افزوں ہیں.بہر حال ان کا مرض اﷲ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقی دے گا.ہاں رہی یہ بات کہ یہ سزا ان کو کیوں ملی تو اس کا جواب یہی سچ ہے کہ ان کے اپنے اعمال کا بد نتیجہ تھا.اس میں قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے.… یعنی تمہیں ہر ایک مصیبت اپنے ہاتھوں کی کرتوت کے سبب سے پہنچتی ہے.عمدہ غذا.ہوا اور بہار کا مزہ تندرست کو ملتا ہے.نہ بیمار کو.یہ قانونِ قدرت ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۶۷.۶۸) میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے.جناب الہٰی اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں اور وہ سزا اس کی شامتِ اعمال سے ہی ہوتی ہے.جیسے فرمایا. تو وہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں.مثلاً کسی کا

Page 550

کوئی پیارے سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الرّاحمین کو ظالم کہتے ہیں.بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں اور اگر بارش زیادہ ہو.تب بھی خدا تعالیٰ کی حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے بُرا بھلا کہتے ہیں.اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی تنزیہ و تقدّس و تسبیح کرے.آپ کے کسی اسم پر کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے.(الفضل ۲۳؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۲) ہر شریف الطبع آدمی دوسرے کو کسی مصیبت میں مبتلا پا کر عبرت پکڑتا ہے.شریف مزاج لڑکوں کو جب نصیحت کرتے ہیں تو کسی اور کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کام کیا تو یہ سزا پائی.اس سے یہ نتیجہ نکلا.کہ ہر ایک شریف انسان دوسرے سے عبرت پکڑتا ہے.ہم کس قدر دُکھیاروں کو دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کے مطابق.ہر ایک کو اپنے کئے ہوئے کی سزا ملتی ہے.جو کچھ تم کو مصیبت آئی.تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تم کو ملی.میں نے کبھی کسی مومن کو نمبر دس کا بدمعاش نہیں دیکھا.نہ ہی نیک اعمال والے کو آتشک کا شکار ہوتے دیکھا.اس طرح ہر قسم کی بیماریوں اور مصیبتوں کا یہی حال ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایک استاد صاحب سے ایک جذامی علاج کرایا کرتا تھا.اس کی تنخواہ تیس ہزار روپے تھی.گویا ایک ہزار روپیہ یومیہ وہ پاتا تھا.ایک دن وہ استاد صاحب کے پاس آیااور کہنے لگا کہ حضور نے بیسن کی روٹی کھانے کیلئے فرمایا ہے.وہ نگلنی مشکل ہے.اگر حکم ہو تو کچھ لقموں کے بعد ایک ڈلی مصری کی بھی کھا لیا کروں.میرے استاد صاحب نے بڑے زور سے فرمایا کہ نہیں.ہرگز نہیں ہو سکتا.وہ آدمی بڑا مہمان نواز تھا.مگر اس وقت وہ روپیہ اس کے کام نہ آ سکا.اسی طرح دیکھتے ہیںکہ مسلول و مدقوق کی حالت جب ترقی کر جاتی ہے تو دوسرے آدمی پاس بیٹھنے.کھانے پینے وغیرہ سے مضائقہ کرتے ہیں.یہ جسمانی بیماری کا حال ہے.اسی طرح روحانی بیماری کا حال ہے.سننے والو! ظاہر کو باطن سے تعلق ہوتا ہے.اور باطن کو ظاہر سے رشتہ ہے.غور کرو.(میں دیکھتا ہوں) ایک دوست کو دیکھ کر میرے دل کو سرُور ملتا ہے.اور دیکھتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے.اس کا دیکھنا جو ظاہری ہے.اس نے باطن میں جا کر دخل پایا.اسی طرح ایک دشمن کو دیکھ کر میں خوش نہیں ہوتا.بلکہ اس وقت میرے دل کی حالت کچھ اور ہوتی ہے.یہ اس باطن کی رنجیدگی سے ظاہر پر اثر ہوتا ہے.اور اس کے آثار میرے چہرے پر اورہر میرے اعضاء پر بھی نمودار ہوتے ہیں.پھر غصّہ میں آ کراسے کچھ نہ کچھ ناگوار لفظ بول دیتے ہیں.اس سے یہ قاعدہ نکلا کہ باطن کو ظاہر کے ساتھ اور ظاہر کو باطن کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا ہیتو یہ معاملہ صاف ہے کہ انسان کا اندرونہ اور بیرونہ کچھ عجائبات سے باہم پیوست ہوتا ہے.(الفضل ۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

Page 551

۳۴.  : ان کے اسٹیم روک دے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۷،۳۸.   : ہر ایک بدی کی ابتداء صغیرہ ہے.یعنی مبادی معاصی اور انتہاء کبیرہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) …: وہ نعمتیں جو اﷲ تعالیٰ کے پاس ہیں بہت ہی اچھی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں اور انہیں کو ملیں گی کہ جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر ان کا بھروسہ ہے اور وہ جوبڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچے رہتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۵) ۳۹.  اور ایمان والے وہ جنہوں نے حکم مانا اپنے رب کا اور درست رکھی نماز اور ان کی حکومت ہے مشورے سے آپس میں.(فصل الخطاب حصّہاوّل صفحہ۵۷) : اور ان کی حکومت باہمی مشورہ سے ہوتی اور کچھ ہمارا دیا خرچ کرتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۵)

Page 552

ہندوستان میں بارہ ریاستیں ہمارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہو گئی ہیں.کئی معزز گھرانے مرتد اور بے دین ہو گئے ہیں.اسلام پر اعتراضات کا آرہ چلتا ہے.مگر کسی کو گھبرا نہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ لوگ اپنے اپنے نفسانی ہمّ و حزن میں مبتلا ہیں اور سچّے اسباب اور ذرائع ترقی کی تلاش سے محروم و بے نصیب ہیں.پس دعا کرنی چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ عجز سے بچاوے اور بقدرِفہم و فراست تہیأ اسباب کرنا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیئے.قرآن شریف کا حکم ہے کہ .مشورہ کرنا ایسا پاک اصول ہے.کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور برکت عطا ہوتی ہے اور انسان کو ندامت نہیں ہوتی مگر خودپسندی اور کبِر ایسی امراض ہیں کہ انہوں نے شیطان اور انسان دونوں کو ہلاک کر دیا ہے.دیکھو ہر انسان ایسی پختہ عقل اور فہم رسا کہاں رکھتا ہے کہ خود بخود اپنی عقل سے ہی ساری تدابیر کر لے.اور کامیاب ہو جاوے.یہ ہر ایک انسان کا کام نہیں.اسی واسطے مشورہ کرنا ضروری رکھا گیا ناتجربہ کار تو ناتجربہ کار ہی ہے.مگر اکثر اوقات بڑے بڑے تجربہ کار بھی مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے سخت سے سخت ناکامیوں میں مبتلا ہو کر بڑی بڑی ندامتیں برداشت کرتے ہیں.پس خود کو موجودہ ناکامیوں کے بہت فکروں میں ہلاک نہ ہونے دو.اور نہ گزشتہ کاہلیوں اور فروگزاشتوں کے خیال سے اپنے آپ کو عذاب میں ڈالو.بلکہ سچے اسباب کی تلاش کرو اور مشوروں سے کام لو.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۸ء صفحہ۶) ۴۱.  اور برائی کا بدلہ برائی ویسی ہے.پھر جو کوئی معاف کرے اور سنوارے سو اس کا ثواب ہے اﷲ کے ذمّے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۴) : جس نے درگزر کی اور سنور گیا تو اس کا اجر اﷲ پر ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۳۶) ۵۲. 

Page 553

 : مثلاً کوئی نقشہ دکھایا جاوے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) : برہمو لوگوں کو دیکھو تو خدا تعالیٰ کی بڑی تعریفیں کریں گے مگر خدا تعالیٰ کی اس صفت سے ان کو قطعاً انکار ہے.جس سے وہ ہدایت نامے دنیا میں بھیجتا اور انسان کو غلطیوں سے بچانے کیلئے راہنمائی کرتا ہے.اور نہیں مانتے کہ یُرْسِلَ الرَّسُوْل بھی خدا تعالیٰ کی کوئی صفت ہے.(الحکم ۵؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۴) ۵۳.   اور ایسا ہی ہم نے تیری طرف اپنے امر سے رُوح بھیجی ہے.تو نہ تو کتاب ہی سمجھتا تھا اور نہ ایمان پر ہم نے اسے نور بنایا ہے.اس سے جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے ہدایت دیتے ہیں اور یقینا تُو سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۳)

Page 554

سُوْرَۃُ الزُّخْرُفِ مَکِّیَّۃٌ  ۲.: حمید و مجید وحیّ (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵. : اس ضمیر کی طرف خیال رکھو.سب قرآن مجید کی طرف پھرتی ہیں.سوائے ایک کے کہ شیطان کی طرف ہے.: محکمات کا علم ہو تو سب قرآن کا حل ہو جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۱.  لَعَلَّکُمْ: جب ظاہری رستے بنائے تو باطنی رستے بھی ضرور ہیں.کتاب اﷲ پر عمل سے خدا تک پہنچو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۶.  یہ قرآن کریم میں نہیں لکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات

Page 555

Page 556

.میاں یہ قرآن شریف تو مکّہ یا طائف کے کسی بڑے نمبردار پر نازل ہونا چاہیئے تھا.اپنی نگاہ و نظر میں وہ یہی سمجھتے تھے کہ قرآن شریف اگر نازل ہو تو کسی نمبردار پر نازل ہو.کیونکہ ان کی نگاہوں کی منتہا تو وہ نمبرداری ہو سکتی تھی.پس یہی حال ہے کہ انسان اپنی اٹکلوں سے کام لینا چاہتا ہے حالانکہ ایسا اس کو نہیںکرنا چاہیئے.بلکہ جس معاملہ میں اس کو کوئی علم اور معرفت نہیں ہے.اس پر اسکو رائے زنی کرنے سے شرم کرنی چاہیئے.اس لئے پاک کتاب کا حکم ہے کہ لَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ناواقف دنیا اپنی تدبیروں سے جو انتخاب کرنا چاہتی ہے وہ منظور نہیں ہو سکتا.سچا انتخاب وہی ہے جس کو اﷲ تعالیٰ کرتا ہے.چونکہ انسانی عقل پورے طور پر کام نہیں کرتی.اور وہ فتوٰی نہیں دے سکتی کہ ہمارا کیا ہوا؟ انتخاب صحیح اور مفید ثابت ہو گا یا ناقص.اس لئے انتخاب ماموریت کیلئے اﷲ تعالیٰ ہی کا کام ہے.(الحکم۱۷؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۵) مشکلات پیش آنے کا یہ باعث ہوا کرتا ہے کہ انسانی طبائع کسی کا محکوم ہونے میں مضائقہ کیا کرتے ہیں.چنانچہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ لوگ طوعاً اور کرھاً مانتے ہیں.پس جب خدا کی حکومت کا یہ حال ہے تو پھر جب انبیاء علیہم السلام کی حکومت ہوتی ہے اس وقت لوگوں کو اور بھی اعتراضات سُوجھتے اور کہتے ہیں کہ وحی کا مستحق فلاں رئیس یا عالم تھا.اس سے ظاہر ہے کہ لوگ رسول کی بعثت کیلئے خود بھی کچھ صفات اور اسباب تجویز کرتے ہیں.جس سے ارادہ الہٰی بالکل لگاؤ نہیں کھاتا.علیٰ ھٰذاالقیاس.جب رسول کے خلیفہ کی حکومت ہو تب تو ان کو مضائقہ پر مضائقہ اور کراہت پر کراہت ہوتی ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری۱۹۰۵ء صفحہ۱۱) ۳۳.   کیا یہ لوگ الہٰی فضل کی خود تقسیم کرتے ہیں حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وجہ معاش میں ہم نے ان کو خود مختار

Page 557

ر نہیں رکھا اور خود ہم نے اس کی تقسیم کی ہے.پس جب ان کو علم ہے کہ خدا کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے تو پھر انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب بھی اس کے ارادہ سے ہونا چاہیئے.(الحکم ۱۰؍جنوری۱۹۰۵ء صفحہ۱۱) ہمارے سید ابن ابراہیم علیہما الصلوٰۃ والسلام کی نسبت جب آپ کے پہلے مخاطبوں میں سے چند نا سمجھ اور ناعاقبت اندیشوں نے اسی قسم کا اعتراض کیا تھا تو وہ دو گروہ تھے.عرب کے قدیم باشندے اور یہود… عربوں کے سوال کو اس طرح نقل کیا ہے. اور عربوں نے کہا یہ قرآن مکّہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اترا اور جواب میں فرمایا ہے..(زخرف:۳۳) قرآن کا نازل ہونا.قرآن کالا نے والا ہونا تو اﷲتعالیٰ کا فضل ہے.وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کے گزارے میں یہی تو ہم نے ہی تقسیم کر رکھی ہے اور بعض کو بعض پر مختلف درجوں کے فضائل دے کر عزت بخشی ہے تو کہ ایک دوسرے کے کام آویں.بادشاہ رعایا کا خادم اور رعایا بادشاہ کی خدمت گزار.جب ظاہری دنیا و دولت کی تقسیم ان لوگوں کی تجویزوں پر نہیں تو نبوّت و رسالت والا تو ان تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے.جس کو یہ لوگ جمع کرتے ہیں کیا اس رحمت و فضل کو یہ لوگ اپنے ناقص عقل پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں.اس سوال و جواب میں ایک لطیفہ غور کے قابل ہے.اُمّی.ان پڑھ.عربوں نے یہ تو نہ کہا کہ رسول کیوں ہوا؟ اور اﷲ تعالیٰ نے کیوں رسول کر کے بھیجا؟ کیونکہ آخر اتنی تو سمجھ رکھتے تھے.کہ رسولوں کا آنا.ملہموں کا پیدا ہونا بے وجہ نہیں.ضرور ان کا بابرکت وجود برکات کا مُثمِر ہے مگر یہ کہا کہ رسولوں کا آنا بیشک ضروری اور فضل ہے.پر جن پر دنیوی فضل ہو رہا ہے وہی اس روحانی فضل کے مورَد کیوں نہ ہوئے.اگر امیر ہی رسول ہوتے تو بڑی کامیابی ہو جاتی.پادریو.آریو.کاش تم اتنی عقل رکھتے اور جواب سے یہ ظاہر کیا جب دنیوی ترقیات کو دیکھتے ہو کہ بعض ترقی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے ہیں اور بعض سخت تنزّل میں گرفتار.پس روحانی معاملات کو دنیا کے حال پر کیوں نہیں قیاس کرتے؟ جیسے دنیاوی عزتوں کی تقسیم الہٰی ارادوں اور اس کے قدرتی اسبابوں سے ہو رہی ہے.اور تمہاری عقلیں وہاں پوری حاوی نہیں.ایسے ہی روحانی عزت بھی جس کا اعلیٰ حصّہ نبوّت و رسالت ہے.تمہاری غلط منطق سے کسی کو نہیں مل سکتی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۹۳.۲۹۵)

Page 558

۳۴.  لَجَعَلْنَا: آخر کافر بھی جو محنت کرتے ہیں.ان کا معاوضہ دنیا میں اجر پاتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۶.  عاقبت اندیش.اﷲ تعالیٰ کی صفت عدل اور رحم اور صفت فوقیت علی الکّل پر ایمان رکھنے والا فتح و نصرت کا مالک صرف اﷲ تعالیٰ کو یقین کرنے والا.تمام نظامِ عالم کا قابض اور متصرف صرف ایک اِلٰہُ الحق.قدُّوْس رب کو سمجھنے والااﷲ تعالیٰ ہی کو حق اور راستی کا حامی ا ور مددگار جاننے والا جانتا ہے کہ الہٰی امداد انجام کار راست بازی کے ساتھ ہے.حق ہی کی عمارت مستحکم چٹان پر قائم ہے.سچائی کامیابی سے مآل کار علیحدہ نہیں ہوتی.اور وہ الہامِ الہٰی بالکل سچ ہے جس میں ہے..آخر کار کامیابی خدا کے پاس پرہیزگاروں ہی کا حصّہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۳.۴) ۳۷.  اور جو کوئی آنکھیں چُراوے رحمان کی یاد سے ہم اس پر تعین کریں ایک شیطان پھر وہ ہے اس کا ساتھی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۳)

Page 559

۴۳. یہ الہام کا طرز ہے.اب تو مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں کہ یقینی بات نہیں بتائی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۲.  اے میری قوم.کیا تم نہیں دیکھتے.ملک مصر کا میں مالک ہوں اور یہ ندیاں میرے نیچے بہتی ہی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۷) ۵۳،۵۴.  : بولنا بھی نہیں جانتا.بات بھی نہیں کر سکتا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ستمبر ۱۹۱۳ء) متقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ باریک در باریک تدبیریں کرنے والے.مال خرچ کرنے والے.جتھوں والے آئے.مگر وہ بھی ان متقیوں کے سامنے ذلیل و خوار ہوئے.فرعون کی نسبت قرآن مجید میں مفصّل ذکر ہے.حضرت موسٰیؑ کے بارہ میں کہا.ایک ذلیل (اورہینا) آدمی ہے.میرے سامنے بات بھی نہیں کر سکتا.اور اس کی قوم کو غلام بنا رکھا مگر دیکھو آخر اس طاقتوں والے.شان و شوکت والے.جاہ و جلال والے فرعون کا کیا حال ہوا.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۸)

Page 560

یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اس وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا… حضرت موسٰیؑ کیسی حالت میں تھے.فرعون نے کہا..انکی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروا لیا. (یونس:۸۹) نبیوں کو.خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پرواہ ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.(بدر ۴؍نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱) فرعون نے موسٰی کی تبلیغ سن کر کہا(المؤمنون:۴۸)اس کی قوم تو ہماری غلام رہی ہے..یہ کمینہ ہے.اور بولنے کی اس کو مقدرت نہیں.اور ایسا کہا کہ اگر خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں ملا.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۶) …الخ: کنگن اس کے زمانہ میں عزّت کا نشان تھا جیسے ہندوستان کی ہندو ریاستوں میں اب بھی ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۸) ۵۷. مثلاً نیک نمونہ.اچھی صفتوں والا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶۱،۶۲.  : یہ قرآن کہ اس میں قیامت کا خوب بیان ہے.اگر مسیحؑ کی طرف ضمیر پھرتی ہے تو آگے فرمایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ستمبر ۱۹۱۳ء) : سورۃ زخرف کو اگر غور سے مطالعہ کیا جاوے تو صاف کُھل جاتا ہے.کہ  کی ضمیر قرآن مجید کی طرف راجع ہے چنانچہ شروع سورۃ میں ہے.. .یہ قرآن مجید ہے.پھر اس سے آگے اسی سورۃ میں دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے.

Page 561

 یہاں بھیقرآن مجید ہے.آگے چل کر تیسرے مقام پر فرمایا..یہاں کیوں قرآنِ مجید مراد نہ ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں انسان کے تنزّل و ترقی کی گھڑیوں کا علم ہے.اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قومیں کیونکر بنتی اور بگڑتیہیں.پس تو اے قرآن پڑھنے والے ان میں شک نہ کرو کیونکہ یہ بہت ہی قطعی اور صحیح اور سچی باتیں ہیں.اگر یہ ضمیر عیسیٰ کی طرف پھیری جائے تو یہ خرابی پڑتی ہے کہ علمٌ صفت ہے اور مبتدا کی خبر صفت نہیں ہو سکتی اور پھر اس کا بھی  سے فیصلہ ہو گیا.کہ عیسیٰ علیہ السلام  اور وہ  خد اکے پاس ہے.اور تم بھی اے مخاطبو! اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے. اور اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ سے ظاہر ہے کہ اﷲ کے پاس زندہ بجسدہ العنصری موجود نہیں بلکہ جس طرح اور ابرارمر کر جاتے ہیں.اُسی طرح وہ بھی چلا گیا.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۳ صفحہ۱۳۴ماہ مارچ ۱۹۱۲ء) اس سوال کے جواب میں کہ ’’ ابنِ مریم قیامت کی نشانی ہیں یا علامت اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور قریبِ قیامت آ ویں گے‘‘ فرمایا.اوّل یہاں علم کا بہِ عین مکسور ہے.جس کے معنے یہ لوگ علامت یا نشانی کہتے ہیں حالانکہ وہ لفظ جس کے معنے علامت یا نشانی ہے.عَلم بہ عین مفتوح ہے سو اوّل تو ان کی خاطر لُغت کو محرّف مبدّل کیا جاوے تو ان کے معنے تسلیم کئے جاویں.دومؔ یہاں لفظ ساعت کا ہے جس کے معنے قیامت کے کئے جاتے ہیں حالانکہ یہ لفظ عذاب اور گھڑی یعنی وقت کے معنوں پر آتا ہے اور قیامت صغرٰی یعنی ایک قوم کی موت یا تباہی پر بھی استعمال ہوتا ہے.کوئی خصوصیت اسے قیامتِ کبٰری سے نہیں اور اگر فرض کر لیا جاوے کہ اِنَّہٗ کی ضمیر ابن مریم کی طرف ہے.تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ ابنِ مریم کے ذریعہ اُس عذاب کی گھڑی کا علم حاصل ہوتا ہے.جو کہ یہودیوں پر آنا ہے.چنانچہ ابنِ مریم کے بعد یہودی طیطوس رومی کے ہاتھوں سخت تباہ و برباد ہوئے.سومؔ یہاں ابنِ مریم کو ساعت کا علم کہا گیا ہے اور اسی سورت کے اگلے رکوع ۱۳ میں لکھا ہے..یعنی ساعت کا علم خدا کے پاس ہے اور تم نے اسی کے پاس جانا ہے.تو جب ساعت کا علم خدا کے پاس ہوا تو جو شئے ساعت کا علم ہو گی وہ خدا کے پاس ہو گی.پس اگر ابن مریم ساعت کا علم ہے تو اسے خدا کے پاس ہونا چاہیئے مگر کس طرح جیسے کہ ہم نے بھی خدا کے پاس ہونا ہے

Page 562

ہماری نسبت بھی ہے اِنَّالِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن.تو گویا جیسے ہم نے خدا کے پاس جانا ہے ویسے ہی مسیحؑ بھی خدا کے پاس ہیں اور اس سے وفات ثابت ہوئی.چہارمؔ.اس سورۃ میں جیسے اِنَّہٗ یہاں آیا ہے ویسے ہی اور جگہ بھی آیا ہے.اور وہاں اکثر جگہ قرآن شریف مراد ہے.تو یہ معنے ہوئے کہ قرآن شریف قیامت کی بات کا خوب علم بتاتا ہے اور یہ بالکل سچ ہے.پنجم ؔ.کیا وجہ ہے کہ اِنَّہٗ کی ضمیر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف نہ پھیری جاوے حالانکہ آپ نے دو انگلیوں کو ملا کر کہا بُعِثْتُ اَنَا وَ السَّا عَۃُ کٰھَاتَیْنِ اب کیا ضرورت ہے کہ ابنِ مریم جو کہ آپ کے پیشتر ہوا.اُسے ساعت کا علم کہا جاوے اور آنحضرتؐ جو بعد ازاں.گویا عیسٰیؑ کی نسبت قیامت سے بہت قریب ہوئے ان کو نہ کہا جاوے.(بدر ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۳۰) ۷۰. : ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰.۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۷۱. داخل ہو جاؤ جنّت میں اور تمہاری بیبیاں بڑی خوشی اور امن میں.(نور الدین طبع سوم صفحہ۴۷) ۷۲.  : اور تمہارے لئے اس میں وہ چیزیں ہیں جو نفس چاہتا ہے اور آنکھیں مزہ لیتی ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۸۳) ۸۶. 

Page 563

 : گویا مسیحؑ مر کر خدا کے پاس ہے جہاں ہم بھی مرکر پہنچیں گے.: یہ بھی ثابت ہوا کہ عیسٰی تمہارے پاس نہیں آئے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۰ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۸۷.  بعض لوگ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے شافع ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے طلب کرتے ہیں.ان کیلئے یہ آیت حجّتِ قویّہ ہے. .اور جن کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کے مالک نہیں.ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ایک شافع ہے.جس نے حق کی گواہی دی اور وہ لوگ اسے خوب جانتے ہیں.یعنی ( سیّدنا محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم ).اسی طرح ایک اور آیت ہے.پارہ ۵ رکو ع ۹ ؍ ۶ (النساء:۶۵).اوراگر ان لوگوں نے اپنی جان پر کوئی ظلم کیا تو وہ تیرے پاس آتے اور اﷲ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کیلئے مغفرت مانگتا.تو اﷲ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے.شفاعت کی حقیقت سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے.کہ یہ لفظ شفع سے نکلا ہے.اور مندرجہ ذیل آیت (آلِ عمران:۳۲)آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع انسان کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے.حضورِ انور کی ذات ستودہ صفات ایک نور ہے.جو اس نور سے تعلق پیدا کرتا ہے.اس سے ظلمات دور ہوتی ہیں.یہ شفاعت ہے.مجرموں کی جنبہ بازی کا نام شفاعت نہیں جیسا کہ بعض نادانوں نے غلطی سے سمجھا ہے اور اس پر اعتراض کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۳ صفحہ۱۳۶.۱۳۷ ماہ مارچ۱۹۱۲ء) ’’ میں اپنے فن طبابت میں دیکھتا ہوں کہ میری کوشش کی سپارش.میری دی ہوئی دواؤں کی سپارش

Page 564

کہیں منظور ہے اور کہیں نامنظور ہے.اسی طرح سائنس دانوں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظور بادشاہوں کے وزراء ،امراء سپہ سالاروں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظوردعائیں کہیں کامیاب کر کے شکر کے انعامات کا موجب ہوتی ہیں اور کہیں ناکامی سے صبر کے انعامات دلاتی ہیں.پس اس قاعدہ کے مطابق بعضوں کے حق میں لکھا ہے.کسی کیلئے سپارش نامنظور ہے اور بعض کے لئے سپارش منظور ہے.اسی طرح بعض کی سپارش منظور اور بعض کی نامنظور.سپارش اور گناہ کا یہ تعلق ہے کہ گناہ اخذ کا موجب ہے.اور سپارش کنندہ کی سپارش اس کے نیک اعمال کے باعث الہٰی عفو (کہما) کو حاصل کر کے ایک قسم کے گنہ گار کیلئے تو کہما کا موجب ہوتی ہے اور سپارش کنندہ کے واسطے باعثِ اعزاز و امتیاز.شفاعت ایک دعا بلکہ دعا سے بڑھ کر ایک درجہ کی پرارتھنا ہے.پس اس پر انکار کیا.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۱۰) ایک عیسائی کے اعتراض کہ ’’ انسان کی نجات قیامت کے روز کیونکر ہو گی.حسنِ عمل سے یا شفاعت شفیع سے یا دونوں سے‘‘ کے جواب میں تحریر فرمایا:.مخلوق کی نجات کا مدار ایسا تنگ اور محدود نہیں جو پادریوں نے بیان کیا.کیا خدائی ارادے محدود ہیں؟ کیا اس بے حد ہستی کے کام کسی مخلوق کے خیال اور وہم پر موقوف ہیں؟ بندگانِ خدا کی نجات قیامت کے روز محض باری تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہو گی! اور صرف اس کے رحم اور غریب نوازی سے ہم نجات پائیں گے! اگر اعمال وغیرہ سے نجات ہے تو فضل کچھ بھی نہیں ناظرین یقین کرو کہ فضل و کرم خداوندی سے نجات ہے !اور یہی فضل و کرم اسلام میں نجات کا باعث ہے ! دیکھو سورۂ دخان.اس میں اہل جنّت کے انعامات کا ذکر ہوتے ہوتے بتایا ہے.کہ جنّت میں جانے والے دوزخ سے اﷲ کے فضل سے بچے..(دخان:۵۷،۵۸) اور سورۂ حدید میں ہے.   (الحدید:۲۲)   (النساء:۷۰،۷۱) قرآن بیان کرتا ہے.گناہ تین قسم کے ہوتے ہیں.اوّلؔ شرک.دومؔ کبائر.سومؔ صغائر.شرک کی نسبت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے.کہ وہ ہرگز بدوں توبہ معاف نہ ہو گا.اس کی سزا بھگتنی ضرور ہے ( نساء:۱۱۷)انجیل بھی باایں کہ بڑی بشارت اور بشیر ہے.فرماتی ہے.متی ۱۲ باب ۳۱.روح کے خلاف کا کفر معاف نہ ہو گا.

Page 565

دوسری قسم گناہوں کی وہ کبائر اور بڑے بڑے گناہ جو شرک کے نیچے ہیں اور صغائر یا مبادی کبائر سے اوپر اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ ہر ایک کبیرہ اور بڑے گناہ کی ابتداء میں چھوٹے چھوٹے گناہ جو اس کبیرہ سے کم ہیںہوتے ہیں مثلاً جو شخص زنا کا مرتکب ہوا.ضرور ہے کہ ارتکابِ زنا سے پہلے وہ اس نظر بازی کا مرتکب ہو جس سے زناکے ارتکاب تک نوبت پہنچی.یا ابتدائً وہ باتیں سنیں جن کے باعث اس بدکاری کے ارتکاب تک اس زناکنندہ کی نوبت پہنچی.ایسے ہی ان باتوں کا ارتکاب جن کے وسیلے سے اس کو وہ شخص ملا.جس سے زانی نے زنا کیا اور بالکل ظاہر ہے کہ ان ابتدائی کارراوئیوں کی برائی زنا کی برائی سے ضرور کمی پر ہے.ایسے کبائر اور بڑے گناہوں کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے.(نساء:۳۲) کیا معنی ؟ جن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے تم لوگ منع کئے گئے.اگر ان بڑے گناہوں سے بچ رہو تو ان کے مبادی اور ان کے حصول کی ابتدائی کارروائی صرف ان بڑے گناہوں سے بچ رہنے کے باعث معاف ہو سکتی ہے.مثلاً کسی شخص نے کسی ایسی عورت سے جماع کرنا چاہا جو اس کے نکاح میںنہیں اور اس عورت کے بلانے پر کسی کو ترغیب دی یا کچھ مال خرچ کیا.اور اُسے خالی مکان میں لایا اور اُسے دیکھا.بلکہ اس کا بوسہ بھی لے لیا.لیکن جب وہ دونوں برضا و رغبت برائی کے مرتکب ہونے لگے اور کوئی چیز روک اور بدکاری کی مانع وہاں نہ رہی اور اس بدکارروائی کا آخری بد نتیجہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا کہ اس زانی کے ایمان نے آ کر اسے زنا سے روک دیا.اب یہ شخص باایں کہ مال خرچ کر چکا ہے یا ثانی کی رضا مندی پا چکا.صرف ایمان کے باعث ہاں صرف ایمان ہی کے باعث اور خدا سے باہمہ وسعت و طاقت اس بڑی بُرائی کے ارتکاب سے ہٹ گیا اور اسکا مرتکب نہ ہوا.تو صرف اسی اجتناب سے اس کی ابتدائی کارروائیاں جو حقیقت میں مبادی گناہ اور گناہ کی محرّک تھیں معاف ہو جائیں گی.کیونکہ اس کا ایمان بڑا تھا.جس نے آخری حالت میں خدا کے فضل سے دستگیری کی.اور تیسری قسم گناہ کی صغائر ہیں.جن کا ذکر کبائر میں ضمناً آ گیا.ناظرین ! نجات صرف رحم اور فضل سے ہے اور رحم اور فضل کا مستحق ایماندار ہے.(الاعراف:۵۷) اور ایمان کے پھل نیک اعمال ہیں.پس کل اعمال یا اکثر اعمال اگر عمدہ ہیں تو معلوم ہوا.کہ اُن عمدہ اعمال کے عامل کا ایمان بڑا اور قوی تھا.جب ایمان بڑا اور قوی ہوا.تو بہت بڑے فضل کا جاذب ہو گا اور اگر نیک اعمال کے ساتھ تیسری قسم کے چھوٹے بداعمال یا چھوٹے بڑے دونوں قسم کے بُرے اعمال مل گئے تو ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے ایمان میں بمّد مقابل کچھ کفر بھی ہے.جس کے بدثمرات یہ معاصی چھوٹے اور بڑے ہیں.کیونکہ ایمان

Page 566

کا پھل تو یہ بداعمال ہو نہیں سکتے.پھر لامحالہ کفر سے یہ ثمرات ہوں گے.گو وہ چھوٹا ہی کفر کیوں نہ ہو.اور کفر فضل کا جاذب نہیں.بلکہ فضل کو روکتا ہے.جیسے اندھیری کوٹھڑی کی دیواریں اور چھت سورج کی روشنی کو روکتی ہیں.پس ایسے شخص میں ضرور جنّت اور نجات کے اسباب اور فضل کے کھینچنے اور لینے کے ذریعے دوزخ میں جانے کے اسباب اور بہشت و نجات میں جانے کی روکیں مل جائیں گی.اس لئے ایک میزان کی ضرورت پڑی.مگر یہ میزان دکانداروں کی ترازو سے یا ریلوے والوں کی ماپ تول سے نرالی ہے.دیکھو ۱.سموئیل ۲ باب ۳.یہ ترازو خدا کے عدل اور قدوسیّت کی ترازو ہے.نیک اعمال کی زیادتی میں ایمان کی قوت ظاہر ہے اس لئے وہ ایمان بڑے فضل کا لینے والا ہوا.اور مساوات اور کمی کی صورت میں قرآن کی اس امید بھری آیت سے اس لئے وہ ایمان بڑے فضل کا لینے والا ہوا.اور مساوات اور کمی کی صورت میں قرآن کی اس امید بھری آیت سے  (توبہ:۱۰۲) امید ہے کہ خداوندی رحم اس کے غضب پر سبقت لے جاوے اور اس کا فضل بچالے.اِلَّا یہی فضل کبھی کسی شفیع کو اپنے پہنچنے کیلئے ذریعہ بنا لیتا ہے.اہلِ اسلام میں بے اذن شفاعت ثابت نہیں.اور جب اذن سے شفاعت ہوئی.تو وہ شفاعت حقیقت میں فضل ہو گیا.یہی فضل نجات کا باعث ہے اور اس بِالاِذن شفاعت کا ثبوت جسے خدا کے رحم اور فضل نے گنہگار کے بچانے کیلئے تحریک دی.قرآن میں یہ ہے.  (نساء:۶۵) یاد رکھو جب نیک اعمال کثرت سے نہیں ہوتے.اور ایمانی قوّت کا قوی ہونا ثابت نہیں ہوتا.اس وقت بڑے فضل کو یہ چھوٹا سا ایمان نہیں کھینچ سکتا اور فضل لینے کے سبب میں کمزوری ہوتی ہے اس لئے باری تعالیٰ کا رحم اور کرم چھوٹے سے ایمان کے ساتھ کسی شفیع کی شفاعت اور داعیوں کی دعا کو ملا دیتا ہے اور اسی کمزور ایمان کو اس ذریعہ سے قوّت دیکر فضل کے لائق بنا دیتا ہے.بلکہ صرف ایمان ہی ابدی سزا سے بچانے کیلئے اس فضل کو لے لیتا ہے.جس کے ساتھ انسان درزخ کی ابدی سزا سے بچ جاوے! پادری صاحب! پولوس بھی کیا کہتا ہے.پھر اگر فضل سے ہے تو اعمال سے نہیں.نہیں تو فضل فضل نہ رہے گااور اگر اعمال سے ہے تو پھر فضل کچھ نہیں.نہیں تو عمل عمل نہ رہے گا.نامۂ رومیاں ۱۱ باب ۶.پادری صاحبان! آپ کو عہدِ جدید میں دکھلا دیا کہ آپ کا یہ سوال کہ نجات اعمال سے ہے یا شفاعت سے کیسا کمزور ہے.نجات نہ اعمال سے ہے نہ شفاعت سے.نجات صرف خدا کے فضل سے ہے.

Page 567

ہاں اتنی بات رہی کہ خداوندی فضل کو کون چیز جذب کرتی ہے.اور کس کے ذریعہ ہم محض فضل سے نجات پا سکتے ہیں.تو اس کا جواب یہی ہے کہ ایمان فضلربّانی کو جذب کرتا ہے.قرآن فرماتا ہے. .(نساء:۱۷۶) اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ان کو خداوند کریم فضل و رحمت میں داخل کرے گا.عہد جدید بھی یہی کہتا ہے.دیکھو نامۂ رومیاں ۳ باب ۲۸.کیونکہ ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے.کہ آدمی ایمان ہی سے بے اعمال شریعت کے راست باز ٹھہرتا ہے اور نامۂ رومیاں ۴ باب ۳.فرشتہ کیا کہتا ہے.یہی کہ ابراہام خدا پر ایمان لایا اور یہ اس کیلئے راست باز ی گِنا گیا.نجات اور فضل اور ایمان کی مثال بعینہٖ ایسی ہے کہ ایک شخص جس کی آنکھیں تندرست ہیں.ایک ایسے مکان میں جو بالکل بند ہے بیٹھا ہے اور کہیں اُس مکان میں روشنی آنے کا راستہ نہیں.اب اس شخص کو ایک نہایت عزیز اور پیارے دوست کا دیدار مطلوب ہے اور وہ دوست بھی اس مکان میں موجود ہے.اور ظاہر ہے کہ روشنی کے بدوں اپنے دوست کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا اور اس دوست کے دیدار سے اس طالبِ دیدار کے دل اور روح کو کوئی راحت نہیں مل سکتی.جب تک روشنی نہ آوے.اور دوست کا چہرہ نہ دکھلاوے.روشنی لینے کے مختلف ذریعے ہیں.یا تو اس مکان میں روشندان نکالے یا چراغ وغیرہ سے کام لے.غرض کوئی چیز روشنی کی جاذب ہی نہیں تو روشنی دیدار لینے میں امداد نہ کرے گی.گو روشنی فی الحقیقت دیکھنے کا آلہ ہے.جب روشندان یاچراغ وغیرہ سے روشنی لے.تو دوست کے دیدار سے وہ دیدار کا طالب آرام پا سکتا ہے.ایسا ہی دیدار اور دیدار سے آرام تو نجات ہے.اور وہ روشنی فضل اور کرمِ خداوندی ہے.ایمان ایک روشندان یا چراغ ہے جو فضل کی روشنی کو کھینچتا ہے اور ایمان کو اس روشنی کا جاذب قرآن نے بھی کہا ہے. (بقرہ:۲۵۸) پس جس قدر مومن کا ایمان بڑھتا ہے.اسی قدر وہ بڑے فضل کو جذب کرتا ہے.اور اسے حاصل کرتا ہے جیسے جس قدر روشندان اور فتیلہ بڑا ہو گا.اُسی قدر زیادہ روشنی کھینچے گا.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب ایمان فضل کو بلاتا ہے اور فضل سے نجات ہے تو اعمال کیا ہوئے؟ کیا اعمال لغو اور بیکار ہوں گے؟ تو معلوم ہوا کہ سائل نے ایمان اور اعمالِ نیک کا تعلق نہیں سوچا.کیونکہ نیک اعمال اور سچا ایمان ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہے.سچّا ایمان نیک اعمال کا بیج ہے.اور اچھے بیج کا ضرورہاں

Page 568

اچھے بیج کا ضرور اچھا ہی پھل ہوتا ہے.پولوس نامۂ رمیاں ۶ باب ۱۵ میں صاف فرماتے ہیں.کہ تم فضل کے اختیار میں ہو.پس تو کیا ہم گناہ کیا کریں.اس لئے کہ ہم شریعت کے اختیار میں نہیں.بلکہ فضل کے اختیار میں ہیں.ایسا نہ ہو.کیا تم نہیں جانتے.کہ جس کی تابعداری میں تم اپنے آپ کو غلام کے مانند سونپتے ہو.اسی کے غلام ہو.جس کی تابعداری کرتے ہو.خواہ گناہ کی.جس کا انجام موت ہے.خواہ فرماں برداری کی جس کا پھل راست بازی ہے.بھلا کچھ شک ہے.کہ درخت اپنے پھلوں سے ہی پہچانا جاتا ہے.بالکل سچ ہے کہ سچّا ایمان اچھے اور نیک اعمال کا باعث ہے اور کفر اقسام بدکاریوں کا مثمر.انسان کی کمزوریاں کبھی اسے کفر کے باعث فضل کے لینے میں بدنصیب کر کے گناہ کا مرتکب بناتی ہیں.اور غفلت کی حالت میں شیطان کڑوے بیج بوتا ہے.متی ۱۳ باب ۲۵.اس واسطے عادل خدا کی ذاتِ بابرکات نے اس کی تدبیر فرمائی..(الاعراف:۹)   (مومن:۴۱) کیا معنی؟ کہ جب ایک انسان بد اور نیک اعمال دونوں قسم کے عملوں کا مرتکب ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اُس میں ایمان اور اس کے مدّ مقابل کے بیج بوئے گئے ہیں.اس لئے میزان کی ضرورت ہوئی.تاکہ عدل کی صفت پوری ہو.پس جس کے نیک اعمال بڑھ گے.عدل اور رحم اس کا شفیع ہوا.اور فضل و کرم سے ایسے شخص کا بیڑا پار ہو گیا.سچ ہے بھلے اور چنگے کو طبیب کی ضرورت نہیں.متی ۹ باب ۱۲.اور جس کے اعمال نیک اور بد ملے جلے ہیں تو اس کیلئے بھی رحم اور کرم کا پلّہ امید ہے کہ فضل سے بھاری ہو جاوے.فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ ۱۳۱.۱۳۷) اس سوال کے جواب میں کہ ’’اگر شفیع کی ضرورت ہے تو اس کے شرائط اور وجہ خصوصیت کیا ہے‘‘ تحریر فرمایا:.’’ شفیع کے شرائط وہی جانے جسے شفیع بنانا ہو.یعنی خدا جس کے رحم اور کرم اور فضل نے شفیع بنایا ہو.اِلَّا جہاں جہاں شفاعت کا ثبوت ہے.وہاں وہاں قرآن نے وہ شرائط بتلا دیئے ہیں.غور کرو.انبیاء اور ملائکہ کی شفاعت اُسی کے رحم اور فضل سے ہے.اور اسی کے اذن اور اجازت سے دیکھو.. .(انبیاء:۲۷،۲۸)

Page 569

.(انبیاء:۲۹)  .(زخرف:۸۷)   .(مومن:۸) .(شورٰی:۶) (فصل الخطاب حصہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۱۳۷،۱۳۸) اس سوال کے جواب میں کہ ’’ شفاعت کبریٰ اور صغریٰ کی تعریف اور ثبوت کیا ہے‘‘ فرمایا:.یہ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو ہر زمانہ کے فلسفہ میں اپنے آپ کو راست باز ثابت کرتی رہی اور ثابت کرے گی جس قدر علوم دنیا میں ترقی پاویں گے.یہ کتاب ان کے سچے اصولوں سے کبھی مخالفت نہ کرے گی اور اپنا صدق ظاہر کرنے کو بے تعصّب محقّقوں کو اپنی راستی پر کھینچ لائے گی.اگر حق طلبی مدّ نظر ہے.اسی سوال کے جواب پر اکتفا کیجئے اور لیجئے ہم آپ کے تمام پہلوؤں کو دیکھ کے جواب دیتے ہیں اور لفظی معنے لکھ کر آیتیں دکھلاتے ہیں.اور دونوں قسم کی شفاعتوں کا قرآن سے ثبوت دیتے ہیں.شفاعت کے معنے سفارش.صغریٰ کے معنے چھوٹی اور کبریٰ کے معنی بڑی.شفاعتِ صغریٰ چھوٹی سپارش.شفاعت کبریٰ بڑی سپارش.ہاں نہیں سپارش بڑی.چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبتی امر ہے.جیسے ایک اور تین.ایک تین سے چھوٹا اور تین ایک سے بڑا.اب قرآن سے ثبوت لیجئے اور ثبوت بھی کیسا جس میں یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ دونوں قسم کی سفارش آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حق میں ثابت ہے.پہلے چھوٹی سفارش. .(نساء:۶۵)   (توبہ:۱۰۳) دیکھو یہاں صرف منافقوں کے گروہ کی شفاعت کا تذکرہ ہے.اس لئے یہ شفاعت صغریٰ شفاعت ہوئی اور کبریٰ شفاعت کا ذکر ان آیات شریفہ میں ہے جن کے ذریعے آپ بڑے جوش و خروش سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے گنہگار ہونے کا استدلال کرتے ہیں.وہ آیات اس قسم کی ہیں.(محمد:۲۰) (فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۱۳۹،۱۴۰)

Page 570

شفاعت ایک قسم کی دعا ہے اور دعا کا مؤثر ہونا کل مذاہب تاریخیہ میں مسلّم اور دعا کیلئے یا دعا کی قبولیت کیلئے گناہوں سے پاک ہونا ہرگز ہرگز شرط نہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۱۴۱) ۸۹. : یہ عطف ساعۃ پر ہے.۲.و بمعنے ربّ یعنی بار بار اس کا کہنا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۹۰. : تو ان سے درگزر کر اور سلام کہہ دے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۷۶) پھر عفو کر ان سے اور کہہ سلام.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۴)

Page 571

سُوْرَۃ الدَُّخَانِ مَکِّیَّۃٌ  ۱۱. : قحط کے دن آئیں گے جن کی وجہ سے آسمان دھواں دھار نظر آئے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) جب ابن صیّاد کی بعض مشآبہ بہ دجّال شعبدہ بازیوں کا حال نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور پہنچا توآپؐ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے پوچھااَتَشْھَدُ اَنِّی رَسُوْلُ اﷲِکیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اﷲ کا رسول ہوں.اس نے جواب دیا.آپ اُمّیوں کے رسول ہیں.پھر اس نے اپنی نسبت سوال کیا تو آپؐ نے جواب دیا کہ میں اﷲ کے سب رسولوں کو مانتا ہوں.اس سے اس احتیاط کا پتہ چلتا ہے جو انبیاء کرتے ہیں.یہ اور ان کے پَیرو لوگ کبھی تکذیب کی راہ اختیار نہیں کرتے.پھر آپؐ نے پوچھا کہ میرے دل میں اس وقت کیا ہے.تو اُس نے دُخّ کہا.روایات میں آیا ہے.کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس وقت  کا خیال فرمایا تھا.ابن ؔ عربی نے اپنا ایک ذوقی لطیفہ اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے.وہ کہتے ہیں.ابنِ صیاد کو دُخّ بھی معلوم نہ ہوتا.مگر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے طور پر بغیر صریح امِر ربّی تشریف لے گئے تھے.مَیں نے اس حکایت سے یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ مباحثہ کبھی اپنی خواہش سے نہیں کرنا چاہیئے اور کبھی پہل نہ کرو.چنانچہ میرا معمول ہے.کہ جب بات گلے پڑ جائے.تو پھر میں اﷲ سے دعا مانگتاہوں.اور خدا کے فضل سے ہمیشہ کامیاب ہوتا ہوں.اور مجھے کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ میں نے کسی مباحثہ میں زَک اٹھائی ہو.مامورین کی جُدابات ہے.انہیں تو اﷲ کے حکم سے بعض وقت چیلنج کرنا پڑتا ہے.مگر غور سے دیکھا جائے تو ابتداء ان کی طرف سے بھی نہیں ہوتی.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۲ صفحہ۸۵ماہ فروری ۱۹۱۲ء)  : اس آیت کے شانِ نزول میں لکھا ہے.مکّے میں جب قحط نہایت سخت پڑا.ابوسفیان آپؐ کے پاس آئے اور کہا تو صلہ رحمی کا حکم کرتا ہے.اور دیکھ تیرے باعث ہم

Page 572

کیسے وبال میں ہیں.تو دعاکر.آپؐ نے دعا کی.جناب یوسفؑ نے تو فرعونی خزانہ سے غلّہ دلایا تھا.آپؐ نے الہٰی خزانہ سے دلایا.(بخاری.سورۃ دخان) (فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۷۳) ۱۷. :جنگ بدر.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۸،۱۹.  اور ہر آئینہ آزمایا ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اور آیا اُن لوگوں کو رسول بزرگ کہ حوالے کرو طرف میرے اﷲ کے بندوں کو ہر آئینہ میں تم لوگوں کا امانت دار اور رسول.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۵۶) ۲۱. : یہ دعا میری مجرّبہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹صفحہ ۴۸۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۰. : ۱.اہل ملک و اہل زمین ۲.اس وقت خاص بارش کے چند قطرے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹صفحہ ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۵۰. عزّت بمعنی حمیّت ضِدّ جاہلیت ہے.دیکھو قرآن میں ایک جگہ اس کا استعمال ہوا ہے. (البقرہ:۲۰۷) یعنی جب اسے خدا سے ڈرنے کو کہا جاتا ہے تو اُسے عزّت (ضد و حمیت جاہلانہ ) گناہ پر آمادہ کرتی ہے.پس ایسے کیلئے جہنم بس ہے.

Page 573

اور عزیز کا لفظ جو اس سے مشتق ہوا ہے.قرآن میں ( سورۃ دخان) شریر جہنمی پر جب جہنم میں ڈالا جائے گا بولا گیا ہے..چکھ کیونکہ تو بڑی حمیّت والا اور بزرگ بنا بیٹھا تھا.اور عزیز اور ربّ العزّت کے معنی ایک ہی ہیں.پس ربّ العزّت اُس شخص سے مراد ہے جو دنیا میں متکبّر اور جبّار اور بڑا ضدی کہلاتا ہے.( فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۵۹،۱۶۰) ۵۷،۵۸.  .: اور بچایا ان کو دوزخ کی مار سے فضل سے تیرے ربّ کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۱)

Page 574

سُوْرَۃُ الْجَاثِیَۃِ مَکِّیَّۃٌ  ۷.  : یعنی قرآن مجید کے بعد.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۳.  سچ فرمایا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہ ایمان ثریّا پر چلا جائے گا.دو مولویوں کا ذکر سناتا ہوں.ایک مولوی میرے پاس بڑے اخلاص و محبت سے بہت دن رہا آخر ایک دن مجھے کہا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی تسخیر کا عمل ہے جو آسائش کی تمام راہیں آپ کیلئے کُھلی ہیں اور اتنی مخلوقِ خدا آپ کے پاس آتی ہے.میں نے کہا.عملِ تسخیر کیا ہوتا ہے.خدا نے تو فرما دیا کہ .سارا جہان تمہارے لئے مسخّر.اس سے بڑھ کر اور کیا تسخیر ہو سکتی ہے.انسان کو چاہیئے کہ دعا کرے.دعا کی عادت ڈالے.اس سے کامیابیوں کی تمام راہیں کُھل جائیں گی.میری یہ بات سن کر وہ ہنس دیا اور کہا.یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں.کوئی عملِ تسخیر بتلاؤ.ایک اور مولوی تھا.اس نے مجھ سے مباحثہ چاہا.میں نے اُسے سمجھایا.تم لوگوں کی تعلیم ابتداء ہی سے ایسی ہوتی ہے کہ ایک عبارت پڑھی اور پھر اس پر اعتراض.پھر اس اعتراض پر اعتراض.اسی طرح ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے.اس سے کچھ اس قسم کی عادت ہو جاتی ہے.کہ کسی کے سمجھائے سے کچھ نہیں سمجھتے.میں تمہیں ایک راہ بتاتا ہوں.بڑے اضطراب سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.اس نے بھی یہی کہا کہ یہ تو جانتے ہیں.

Page 575

غرض دعا سے لوگ غافل ہیں حالانکہ دعا ہی تمام کامیابیوں کی جڑھ ہے.دیکھو قرآن شریف کی ابتداء بھی دعا ہی سے ہوتی ہے.انسان بہت دعائیں کرنے سے منعَم علیہ بن جاتا ہے.دُکھی ہے تو شفاء ہو جاتی ہے غریب ہے تو دولتمند.مقدمات میں گرفتار ہے تو فتحیاب.بے اولاد ہے تو اولاد والا ہو جاتا ہے.نماز روزہ سے غافل ہے تو اسے ایسا دل دیا جاتا ہے کہ خدا کی محبت میں مستغرق رہے.اگر کسل ہے تو اسے وہ ہمّت دی جاتی ہے جس سے بلند پروازی کر سکے.کاہلی.سُستی ہے تو اس سے یہ بھی دور ہو جاتی ہے.غرض ہر مرض کی دواہر مشکل کی مشکل کشا یہی دُعا ہے.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) ۲۰.  تقویٰ کے باعث اﷲ تعالیٰ متّقی کیلئے مکتفی ہو جاتا ہے.اور اس سے ولایت ملتی ہے..(الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۵) ۲۴.   : تم دیکھتے ہو بعض آدمی اپنی خواہش کو معبود بنا لیتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ ۱۶۳) ۲۵. 

Page 576

اور وہ کہتے ہیں.ہماری دنیا کی زندگی ہے ( یہیں) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے.انہیں اس بات کا کچھ بھی علم نہیں.وہ تو بس اٹکلیں دوڑاتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۲۴)

Page 577

سُوْرَۃ الْاَحْقَافِ مَکِّیَّۃٌ  ۵.   : ارضی اشیاء میں سے کوئی ایک بنائی؟ ثابت ہوا.مسیحؑ نے چمگادڑ نہیں بنائی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۶.  : اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جو اﷲ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتا ہے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۱۰۱) ۹.  

Page 578

کیا کہتے ہیں.یہ بنا لایا؟ تو کہہ کہ اگر میں بنا لایا ہوں تو تم میرا بھلا نہیں کر سکتے.اﷲ کے سامنے کچھ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۹) ۱۰،۱۱.     ہمارینبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا لطیف ارشاد فرمایاکہہ دو کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.مجھ سے پیشتر ایک دراز سلسلہ انبیاء ورسل کا گزرا ہے.ان کے حالات دیکھو.وہ کھاتے پیتے بھی تھے.بیویاں بھی رکھتے تھے.پھر مجھ میں تم کون سی انوکھی اور نرالی بات پاتے ہو غرض یہ مامور ایک ہی قسم کے حالات اور واقعات رکھتے ہیں.ان پر اگر خدا ترسی اور عاقبت اندیشی سے غور کرے تو وہ ایک صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے.(الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) ہمارے سیّد و مولیٰ فرماتے ہیں.کہ  میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.آدم سے لے کراب تک جو رسول آئے ہیں.اُن کو پہچانو.ان کی معاشرت.تمدّن اور سیاست کیسی تھی اور ان کا انجام کیا ہوا؟ اُن کی صداقت کے کیا اسباب تھے.اُن کی تعلیم کیا تھی.ان کے اصحاب نے اُن کو پہلے پہل کس طرح مانا.ان کے مخالفوں اور منکروں کا چال چلن کیسا تھا اور ان کا انجام کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا اصل تھا کہ اگر اِس وقت کے لوگ اس معیار پر غور کرتے تو ان کو ذرا سی دقّت پیش نہ آتی.اور ایک مجدّد.مہدی.مسیح

Page 579

مرسل من اﷲ کے ماننے میں ذرا بھی اشکال نہ ہوتا.مگر اپنے خیالات ملکی اور قومی رسوم.بزرگوں کے عادات کے ماننے میں تو بہت بڑی وسعت سے کام لیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اس کے احکام کیلئے خدا کے علم اور حکمت کے پیمانہ کو اپنی ہی چھوٹی سی کھو پڑی سے ناپنا چاہتے ہیں.ہر ایک امام کی شناخت کیلئے یہ عام قاعدہ کافی ہے.کہ کیا یہ کوئی نئی بات لے کر آیا ؟ اگر اس پر غور کرے تو تعجّب کی بات نہیں ہے جو اﷲ تعالیٰ اصل حقیقت کو اس پر کھول دے.ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو ہیچ سمجھے اور تکبّر نہ کرے.ورنہ تکبر کا انجام یہی ہے کہ محروم رہے.(الحکم ۲۴؍مئی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۰.۱۱) ہمارے سیّد و مولیٰ ہادیٔ کامل محمد مصطفٰے صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی رسالت اور نبوّت کو پیش کرتے ہوئے یہی فرمایا اور یہی آپ کو ارشاد ہوا.میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا ہوں.جو رسول پہلے آتے رہے ہیں.ان کے حالات اور تذکرے تمہارے پاس ہیں.ان پر غور کرو اور سبق سیکھو کہ وہ کیا لائے.اور لوگوں نے ان پر کیا اعتراض کئے.کیا باتیں تھیں جن پر عمل درآمد کرنے کی وہ تاکید فرماتے تھے اور کیا امور تھے جن سے نفرت دلاتے تھے.پھر اگر مجھ میں کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اعتراض کیوں ہے.کیا تمہیں معلوم نہیں.ان کے معترضوں کا انجام کیا ہوا تھا.(الحکم۱۷؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۸) : ان کو کہہ دو کہ میں نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا.نئے رسول کیلئے مشکلات ہوتی ہیں لیکن جس سے پہلے اور رسول اور نواب اور ملوک اور راست باز گزر چکے ہیں اس کو کوئی مشکلات نہیں ہوتیں.جن ذرائع سے پہلے راست بازوں کو شناخت کیا ہے.وہی ذریعے اس کی شناخت کیلئے کافی اور حجّت ہیں.تعلیم میں مقابلہ کرلے.اس کا چال چلن دیکھ لے.کہ پہلے راست بازوں جیسا ہے یا نہیں.دشمن کو دیکھ لے کہ اسی رنگ کے ہیں یا نہیں.آدمی کو ایک آسان راستہ نظر آتا ہے مگر خدا کے فضل سے مجھے محض اﷲ ہی کے فضل سے اس آیت کے کے بعد راست باز کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں پڑی.(الحکم۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲) شَاھِدٌ کی تنوین واسطے تفخیم و تعظیم کے ہے.اور لفظ مِثْلِہٖ قابلِ غور ہے… حضرت موسٰیؑ کا قصّہ بتکراروکثرت قرآن میں مذکور ہونا.اس امر کا اشارہ اور اظہار کرتا ہے کہ قرآن اپنے رسولِ عربیؐ کو مثیلِ موسٰی ثابت کرتا ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم طبع دوم صفحہ۲۷) جو لوگ پیچھے آتے ہیں.وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں.کیونکہ پہلے لوگوں کے حالات ان تک پہنچ جاتے ہیں.پس عقلمند ان سے فائدہ اٹھا کر خود ان غلطیوں میں نہیں پڑتے جن میں وہ پڑ کر ہلاک ہوئے بلکہ ان راہوں پر چلتے ہیں.جن پر اگلے چل کر فائز المرام ہوئے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی صداقت

Page 580

کی دلیل پیش کی اور لوگوں کو متوجّہ کیا کہ مجھ سے پہلے کئی رسول ہو چکے ہیں.خصوصًا بنی اسرائیل میں سے ایک عظیم الشان اپنے مثیل ہونے کی گواہی دے چکا ہے. ان کے منہاج پر غور کرو تو میرا صدق کُھل جائے گا.پھر صحابہ کرامؓ سے بڑھ کر ہم خوش قسمت ہیں.کہ ہم میں جو ولی اﷲ آیا اس سے پہلے ہزاروں اولیاء اﷲ گزر چکے ہیں.ان کی کتابیں ہمارے پاس محفوظ ہیں.تمام دنیا کی رسالتیں کُھل کر ہم تک پہنچ چکی ہیں.مجوسیوں.یہودیوں.نصرانیوں.ہندؤوں کے پیغمبروں اور ان کے مذہب کی کتابیں مل سکتی ہیں.پس ایسے وقت میں اگر کوئی تقویٰ سے لبریز دل لے کر غور کرتا تو اس فرستادۂ الہٰی کی شناخت میں اسے کیا مشکل تھی.آسمان سے نزول کے معنے بھی ایلیاء کی پیشگوئی یوحنا میں پوری ہونے سے حل ہو چکے ہیں.ملا کی نبی باب ۴ آیت ۵ میں ارشاد ہوتا ہے.دیکھو.خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا اور وہ باپ دادا کے دلوں کو بیٹوں کی طرف اور بیٹیوں کے دلوں کوان کے باپ دادوں کی طرف مائل کرے گا.یہ پیشگوئی ہے.اس کے پورا ہونے کا حال متی باب ۱۱ آیت ۷ میں پڑھو.الیاس جو آنے والا تھا.یہی ہے.چاہو تو قبول کرو.انجیل مرقس باب ۹ درس ۱۱.۱۳ میں یہی مضمون ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۷۹.۱۸۰ماہ جولائی ۱۹۱۲ء) :.یعنی حضرت موسٰی پیشگوئی فرما چکے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۱۶.    

Page 581

بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضامندی کی میں نے دیکھا ہے اﷲ کی رضامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطون نے غلطی کھائی ہے وہ کہتا ہے کہ ’’ ہماری روح جو اوپر اور منزّہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے‘‘ وہ جھوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے روح کیا ہے.نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفہ کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.۹ مہینے پیٹ میں رکھتی ہے بڑی مشقّت سے  اسے مشقّت سے اٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بستر کی گیلی طرف اپنے نیچے کر لیتی ہے اور خشک طرف بچّے کو کر دیتی ہے.انسان کو چاہیئے کہ اپنے ماں باپ ( یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا.ورنہ باپ کا حق اوّل ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہیئے) سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں.وہ ان کی خدمت کرے.اور جس کے ایک یا دونوں وفات پا گئے ہیں.وہ ان کیلئے دعا کرے.صدقہ دے اور خیرات کرے.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھوٹے ہیں.ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا.استغفار.صدقہ.خیرات بلکہ حج.زکوٰۃ.روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے.اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی.اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا.میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی.تو اس وقت میں بخاری پڑھ رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.میں نے اس وقت کہا.اے اﷲ.میرا باغ تو یہی ہے.تو میں نے پھروہ بخاری وقف کر دی.فیروزپور میں فرزند ؔ علی کے پاس ہے.(الفضل ۳؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) ۳۰. 

Page 582

: کچھ پہاڑی لوگ تھے.یہودی معلوم ہوتے تھے.نصیبین کے رہنے والے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۱.  بولے اے قوم ہماری ہم نے سُنی ایک کتاب جو اتری ہے موسٰی کے پیچھے.سچا کرتی سب اگلیوں کو سمجھاتی سچّا دین اور راہ سیدھی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۷) ۳۲،۳۳.   اے قوم ہماری مانو اﷲ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو تمہارے گناہ اور بچاوے تم کو ایک دُکھ کی مار سے اور جو کوئی نہ مانے گا اﷲ کے بلانے والے کو تو وہ نہ تھکا سکے گا بھاگ کر زمین میں اور کوئی نہیں اُس کو اُس کے سوا مددگار اور وہ لوگ بھٹکے ہیں صریح.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۸)

Page 583

سُوْرَۃ مُحَمَّدٍ مَّدَنِیَّۃٌ  ۲. خدا تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اسے گمراہ کرنے والا کہا جائے.اس لئے کہ خود قرآن مجید نے مختلف مقامات میں بڑے بڑے لوگوں اور شریروں کی نسبت کہا ہے کہ وہ گمراہ اور ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں.چنانچہ (فرمایا).جو لوگ منکر ہوئے.اور اﷲ کی راہ سے روکتے ہیں.اﷲ نے ان کے عمل باطل کر دیئے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۷۷) ۵.    : اس جہاد کا منشاء یہ ہے کہ جنگیں

Page 584

موقوف ہو جائیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) غلامی کی نسبت فرمایا … پس یا احسان کیجیئو.پیچھے اس کے اور یا بدلہ لیجیئو یہاں تک کہ رکھ دیوے لڑائی بوجھ اپنے اسلام میں مخالف قیدی جب جنگ سے آتے اور اس وقت ان کا واپس کرنا مصلحت نہ ہوتا.تو پرورش اور تربیت کے واسطے مجاہدین کے سپرد کرتے اور حکم ہوتا جو کھانا تم کھاؤ.ان کو دو.جو تم پہنو.ان کو پہناؤ.طاقت سے زیادہ کام مت بتاؤ.ہاں جیل خانوں اور دریائے شور کے دُکھ نہ دیئے جاتے تھے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۵۵) قیدیانِ جنگ چار قسم کے ہوتے ہیں اور اب بھی چار قسم ہیں اوّل وہ جو شرارت کے سبب سے اس قابل ہی نہیں رہتے کہ امنِ عام کے سخت دشمن نہ ہوں.ایسے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے.چنانچہ اب بھی کورٹ مارشل میں ایسا ہی ہوتا ہے.ایسے موذیوں کا زندہ رکھنا ایک ایسے دانت کی مثال ہے جس کے ضرر سے دوسرے دانتوں کو تکلیف پہنچتی ہے.اگر نکالانہ جاوے تو سارے دانتوں پر اس کا بُرا اثر پڑ کر سب کو تباہ کر دیتا ہے.دوسرے وہ قیدی جن کے بدلے روپیہ دے کریا دوسرے قیدیوں کو چُھڑانے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے.ان دونوں کا ذکر قرآن میں یوں آیا ہے. (بقرہ:۱۹۲) ۲.میں ہے.سومؔ.وہ جن کا مفت چھڑانا ہی قرینِ مصلحت ہوتا ہے.جن کا ذکرمیں آ گیاہے.چہارمؔ.وہ جن کا واپس کرنا یا ان کا بدلہ لینا یا قتل کرنا مناسب نہیں ہوتا.ایسے قیدی اب بھی مہذب گورنمنٹوں میں موجود ہیں اور پورٹ بلیئر وغیرہ انہیں سے آباد ہیں.ایسے قیدیوں کی اگر شادیاں بیاہ روک دئے جاویں تو ان کے فطری قویٰ پر کیسا بُرا اثر پڑتا ہے.میرے ایک انگریزی خواں دوست نے ایسا اعتراض کیا تو میں نے اس کو قیدیوں کی چاروں مثالوں سے سمجھایا تھا.اوّل بیمار دانت کو باندھا جاتا ہے.اس کی منجنوں سے مالش کی جاتی.پھر کاٹا جاتا.پھر اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جاتا ہے.یہی حال ہے قیدیانِ جنگ کا پس جو قیدی دائم الحبس ہوں ان کو بیاہ سے روکنا تو جائز نہیں.پس مرد ہوں یا عورتیں سب کو نکاح کی اجازت ہے.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱۴. 

Page 585

اور کتنی تھیں بستیاں جو زیادہ تھیں زور میں اس تیری بستی سے.جس نے تجھ کو نکالا.ہم نے ان کو کھپا دیا پھر کوئی نہیں اُن کا مددگار.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۹) ۱۶.   .حالت اس بہشت کی جو تقویٰ والوں سے وعدہ کیاگیا ہے.اس میں نہریں ہیں.اُس پانی کی جو نہیں سڑتا اور بہتی ہیں اور نہریںہیں اس دودھ کی جس کا مزہ نہیں بدلتا اور نہریں ہیں شراب کی جس میں مزہ ہے پینے والوں کو اور نہریں ہیں صاف کئے ہوئے شہد کی اور اس میں ہر قسم کا پھل ہے اور معافی ہے ان کے خدا کی.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۸۳) ۲۰.  ایک عیسائی کے اعتراض’’…اور اس کے امثال سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا گنہ گار ہونا ثابت ہوتا ہے ‘‘ کے جواب میں فرمایا: پھر کیا ہوا.سوچو تو سہی.مسیحؑ ملعون بنیں اور ان کی الوہیت اور خدائی میں بٹّہ نہ لگے بایں ہمہ گنہگاری کہ تمام عیسائیوں کے معاصی سے گنہگار ہوئے اور بقول ایوب عورت کے شکم سے نکل کر صادق نہیں ٹھہر

Page 586

سکتے تھے.دیکھو ایّوب وہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ٹھہرے.۱۵ باب ۱۴ ایّوب پھر مریم جب بگناہ موروثی آدم گنہگار تھی تو مسیحؑ کو کوئی پاک نہیں ٹھہرا سکتا.کون ہے جو ناپاک سے پاک نکالے.کوئی نہیں.ایوب ۱۴ باب ۴.اور پھر عیسائیوں میں تمام آدمی آدم کے گناہ سے گنہگار ہیں اور آدم کا گناہ عورت سے شروع ہوا.تو مریم اور اس کا بیٹا کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ پس گنہگار اگر الوہیت سے معزول نہیں تو گنہگار نبوّت اور رسالت سے کیسے معزول ہو سکتا ہے.اور سنو! کتب مقدّسہ کا محاورہ ہے.مورثِ اعلیٰ کا نام لے کر قوم کو مخاطب کیا جاتا ہے.دیکھو یثرون ( یعقوب) موٹا ہوا.اور اُس نے لات ماری.تو تُو موٹا ہو گیا.چربی میں چھپ گیا.خالق کو چھوڑ دیا.استثناء ۳۲ باب ۹.۱۰ یعقوب کو جیسی اُس کی روشیں ہیں.سزا دیگا.۱۲ باب ۲ ہو شیع.یعقوب کو اس کا گناہ اور اسرائیل کو اُس کی خطاجتاؤں.میکہ ۳ باب ۸.یہ تو عہد عتیق کا محاورہ سنایا.اب عہدِ جدید کو سنئے.اس نے تو حد کر دی ہے سنو! سنو! سنو! مسیحؑ نے ہمیں مول لے کر شریعت سے چھڑایا کہ وہ ہمارے بدلے میں سے لعنت ہوا.نامہ گلتّیاں ۳ باب ۱۳.۲.قرنتی ۵ باب ۲۱.پس میں کہتا ہوں جب صاحبِ قوم قوم کے گناہ سے گنہگار کہا جاتا ہے.اور جب قوم کو صاحب قوم کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے.تو آپ ان آیات میں جن سے محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا گنہگار ہونا ثابت کرتے ہیں اس امر کو کیوں فروگزاشت کئے دیتے ہیں بایں ہمہ جن آیات سے آپ لوگ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت الزام قائم کرتے ہیں.ان میں یقینی طور پر بلحاظ عربی بول چال کے اعتراض ہو ہی نہیں سکتا.مثلاً سوچو.آیتمیں ہم کہتے ہیں.والا واؤ عطف تفسیری کا واؤ ہے.اور واؤ تفسیری خود قرآن میں موجود ہے.دیکھو سورۂ رعد.(رعد:۲) (حجر:۲) (فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۶۷.۱۶۸) ۲۳.  : میں جب یہ آیت پڑھتا ہوں.یزید یاد

Page 587

آ جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۳.  : ان کی کوششیں بار آور نہ ہوں گی اولاً مگر دنیا میں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۶.  جس نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اِتِّباع کا ان کو دعویٰ ہے.ان کا تو یہ حال تھا.کہ جب ایک جنگ میں بعض صحابہ کی غلطی سے مومنوں کے پاؤں اُکھڑ گئے تو آپ تنِ تنہا جس طرف سے تیروں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی.بڑھے اور اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِب اَنَا ابنُ عَبْدالمُطَّلِبْ کا نعرہ لگانا شروع کیا.دیکھو صاحب.لڑائی ہے تو مجھ سے ہے.میں موجود ہوں.اگر کوئی جاتا ہے تو جائے میں میدانِ جنگ میں موجود ہوں.یہ تھا آپؐ کا استقلال.اور یہ تھی آپ کی ہمّت.یہ تو نبوّت کے وقت کا ذکر ہے.اس سے پہلے بھی آپ نے نوجوانی کے عالم میں اپنی بے عدیل بیدار مغزی کا ثبوت دیا.آپؐنے نوجوانوں کی ایک انجمن بنائی.جس کا کام تھا مظلوموں کی حمایت.ایک مظلوم آپ کے پاس آیا.جس کی شکایت اس نے کی.وہ بڑا آدمی تھا.کوئی اسے کہنے کی جرأت نہیں کرتا تھا.آپ خود گئے اور کچھ ایسے دل آویز طریق سے تقریر کی کہ اس کا حق اسے دلا دیا.اسی طرح قیصرِروم کی طرف سے ایک شخص مقرر ہوا کہ وہ جوڑ توڑ کر کے عرب پر قیصرِ روم کا اثر بڑھا دے اور یہ ملک اس کے قبضہ میں آ جائے.آپؐ نے فوراً اسے بھانپ لیا اور اس قومی نمک حرام کو پیش کر دیا.پس اے دوستو! تم اس نبی کی اُمّت ہو.تو ایسا ہی حزم و احتیاط.ہمت.استقلال اور محنت اختیارکرو..(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۷۸ ماہ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 588

سُوْرَۃ الْفَتْحِ مَکِّیَّۃٌ  ۲،۳.  ہجرت سے چھٹے سال حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کو ایک رؤیا ہوا کہ ہم مع صحابہ مکّہ میں گئے ہیں اور عمرہ کے بعد حَلْق کروا رہے ہیں.اس بناء پر آپؐ نے پندرہ سو کے ہمراہ مکّہ کی طرف کوچ کیا.حدیبیہ کے پاس مقام فرمایا.ادھر سے مکّہ کے لوگ مقابلہ کو نکل آئے.آپؐ نے فرمایا آپ سے لڑنے کیلئے نہیں آئے.آپ ہم کو اجازت دیں کہ بیت اﷲ کا طواف کر کے چلے جائیں.اس پر بڑا لمبا مباحثہ ہوا.آخر یہ قرار پایا کہ ایک عہد نامہ لکھا جاوے دو فہرستیں تیار ہوں.ایک میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان قبیلوں کے نام ہوں جو ان کے ساتھ ہیں اور ایک طرف مشرکین اور ان کے ہمراہی قبیلوں کے نام ہوں.دومؔ یہ کہ اس سال آپ واپس تشریف لے جائیں اور آئندہ سال حج کیلئے آویں.آپؐ نے اسے منظور فرمالیا.حالانکہ صحابہ ؓ سے بہت اس پر راضی نہ تھے.سومؔیہ کہ اگر کوئی ہم ( مشرکین) میں سے مسلمان ہو جائے.تو وہ آپ ہمراہ نہ لے جائیں.نہ مدینہ میں رہنے دیں اور اگر آپ ( نبی کریمؐ) میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو ہمیں واپس دیا جائے.اسے بھی آپؐ نے مان لیا.حضرت عمرؓ خصوصیت سے اس پر گھبرا رہے تھے.چہارمؔ یہ کہ جباور محمد رسول اﷲ لکھنے لگے تو مشرکین مانع ہوئے اور کہا کہ ہم اگر آپ کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں کرتے.یہ لفظ چونکہ لکھے جا چکے تھے.حضرت علیؓ کو ان کا مٹانا گوارا نہ تھا.اس لئے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں خود مٹا دیا.یہ چار شرطیں ایسی تھیں کہ صحابہؓ کو ان پر بڑا قلق تھا.ایسی حالت میں یہ سورۃ نازل ہوئی..اب بتاؤ.اس وقت اس پیشگوئی کا سمجھ میں آنا آسان تھا ہرگز نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۸۰ماہ اپریل ۱۹۱۲ء)

Page 589

Page 590

ایسی بشارات حسب ِکتب مقدّسہ ضرور ہوا کرتی ہیں.دیکھو متی.پطرس نے جب کہا.ہم نے تیرے لئے سب کچھ چھوڑ دیا.تو مسیحؑ نے فرمایا.تم بادشاہت کے وقت بارہ تختوں پر بیٹھو گے.۱۹باب ۲۹ متی.اگر کہو مسیحی بشارات اور پطرس کی خوشخبری مشروط تھی.بدوں شرط نہیں.تو ہم کہتے ہیں.مسیحی اور پطرسی کی شرط کا تو ذکر انجیل میں نہیں.قرآنی بشارات کا خود قرآن میں ذکر ہے.دیکھو آیت.(زمر:۶۶) مطلب یہ ہے کہ اگر خاتمہ ایمان پر ہوا تو تیرے گناہ معاف ہیں.اور سنو!  کے معنے آپ لوگوں کو معلوم نہیں.اس آیت شریف کی تفسیر کیلئے قرآن ہی عمدہ تفسیر ہے اور وہ آیت مفسرہ آیت .(الم نشرح: ۲،۳) ہے.فتح سے مراد ہے.دل پر علوم باری اور آسمانی بادشاہت کے اَسرار کا کھولنا اور جب وہ کھلتے ہیں تو توبہ اور خشیت اور خوف الہٰی پیدا ہوتا ہے.جس کے باعث گناہ نہیں رہتے.انسان نئی زندگی پاتا ہے.نیا جلال حاصل کرتا ہے.ایک اور جواب سنئے.مسیح حواریوں کو فرماتے ہیں.جن کو تم بخشو.ان کے گناہ بخشے جاتے ہیں.اور جنہیں تم نہ بخشو گے.نہ بخشے جائیں گے.یوحنا ۲۰ باب ۲۳.بھلا جہاں مچھوں اور ٹوریوں کو گناہ بخشنے کا اختیار ہے.وہاں باری تعالیٰ کو ایک خاتم الانبیاء کے گناہ بخشنے کا اختیار کچھ تعجّب انگیز اور محلِّ انکار ہے؟ ہرگز نہیں! بیشک اﷲ تعالیٰ نے نبیٔ عرب حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو فتوحات دیں.ظاہری فتوح فتح مکّہ وغیرہ جس کے ظہور سے بُت پرستی کا استیصال اس شہر سے کیا.عرب جیسے بُت پرست ملک سے ابد کیلئے ہو گیا.اور تمام دنیا میں توحیدِ ربوبیت کے علاوہ توحیدِ الوہیت کا شور مچ گیا اور مختلف قبائلِ عرب لُوٹ مار کرتے.شراب خوری اور جوئے بازی پر فخر بگھارتے.سراسر اخلاق مجسّم پورے موحّد ہو کر نیک چال پر آ گئے.اتنی ہدایت پھیلانے سے ہادی کے گناہ معاف نہ ہوئے ہوں؟ بالکل عقل کے خلافہے اور فتوحات باطنی کا حال آگے لکھ چکا ہوں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۱۶۹.۱۷۰) ٔ ۷ تا ۱۰.    

Page 591

اور اﷲ سزا دے گامنافق مرد و عورت اور مُشرک مرد و عورت کو جو اﷲ کی نسبت بدظنی رکھتے ہیں.انہیں کے اوپر برائی کا پھیر ہے اور اﷲ ان پر ناراض ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کیلئے جہنم تیار کیا.اور وہ بُرا ٹھکانہ ہے ( یہ لوگ اپنی دولت.کثرت اور قوّت پر فریفتہ نہ ہوں اور اپنے موجودہ وقت کو جس سے سزا ابھی غائب ہے.سردست آرام کا زمانہ تصوّر فرما کر مغرور نہ ہو جاویں.ان کو سزا دینا.ان کا استیصال کرنا اور عقل و فکر انسان سے باہر نااندیشیدیدہ سامانوں کا ہلاکت کے بہم پہنچانا ہم پر کچھ دشوار نہیں ہے.اسباب ہمارے ہیں اور اسباب کے خالق ہم ہیں)اور آسمان و زمین کے لشکر اﷲ کے قبضے میں ہیں اور اﷲ غالب حکمت والا ہے.ہم نے تجھ کو (اے نبی) شاہد.مبشر.نذیر بھیجا ہے ( اب ضرور ہے کہ تم لوگ) اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اسے ( رسول کو) قوّت دو اور اس کی تعظیم کرو.اور صبح و شام اﷲ کے نام کی تقدیس کرو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۳۶) ۱۱.   یقینا جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ سے بیعت کرتے ہیں.اﷲ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.اب جس نے عہد کو توڑ دیا وہ جان لے کہ وہ عہد شکنی کی سزا پاوے گا.اور جس نے پورا کیا اسے جس پر اس نے اﷲ سے معاہدہ کیا ہے تو عنقریب اﷲ اسے اجر عظیم دے گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۳۶)

Page 592

اپنے اس بڑے عظیم الشان معاہدہ کو اپنے پیشِ نظر رکھو.یہ معاہدہ تم نے معمولی انسان کے ہاتھ پر نہیں کیا خدا تعالیٰ کے مُرسل مسیح و مہدی کے ہاتھ پر کیا ہے.اور میںتو یقین سے کہتا ہوں کہ خدا کے مُرسل ہی نہیں.خدا کے ہاتھ پر کیا ہے.کیونکہ  آیا ہے.(الحکم۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۱۹ تا ۲۱.     صحابہؓ بہت سعید تھے.وہ خدا کے وعدوں پر ایمان لائے.تو مندرجہ ذیل انعامات سے سر فراز ہوئے.ایمان بالغیب کے انعامات.۱.اﷲ تعالیٰ راضی ہوا () مومنین کہلائے.شیعہ اس مقام پر غور کریں جو صحابہ کو منافق قرار دیتے ہیں. سے ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں بھی خلوص ہی بھرا ہوا تھا.۲.خیبر کی فتح () ۳.بہت سی غنیمتیں ملیں () ۴.سکینۃ کا نزول ().وَھُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَسے اَنْ یَّاتِیّکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَۃٌ کے معنے حل ہوتے ہیں.کہ تابوت سے مراد وہ دل ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اس خلافت سے اطمینان

Page 593

پیدا ہو جائے گا.۵..لوگوں کی دست اندازی کو روکا.لڑائی نہ ہونے دی.۶.صراطِ مستقیم کی ہدایت فرمائی.() ۷.پھر اسی صبر و اطاعت کی وجہ سے ((الفتح:۲۲) اور انعامات کئے جن کا ان حالات میں وہ اندازہ نہ لگا سکتے تھے.وہی شرائط جو اس وقت نقصان دہ اور موجبِ ہتک معلوم ہوتی تھیں.اس عظیم الشان فتح کا موجب ہو گئیں.جو مسلمان مرتد ہوتا وہ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کے کام کا نہ تھا.اس کے جانے سے انہیں کیا نقصان اور جو مشرکین میں سے مسلمان ہوتا وہ مکّہ میں رہتا.تو دوسروں کی ہدایت کا موجب بنتا.پھر یہ فائدہ ہوا.کہ ابوبصیرؔ مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ آیا.دو آدمی مکّہ سے اس کو پکڑنے کیلئے روانہ ہوئے.جب حضور رسالتِ مآب میں پہنچے توآپؐ نے حکم دیا کہ ابوالبصیر واپس چلا جائے اس نے بہتیرے عذر کئے مگر آپؐ نے فرمایا.ہم معاہدہ کے خلاف نہیں کریں گے.راستے میں اس نے اپنے محافظ مشرکوں میں سے ایک کی تلوار لے کر ایک کو مار دیا.دوسرا پھر فریاد کرتا ہوا آیا.ابوبصیر بھی پہنچ گیا.آپؐ نے اسے کہا.تو لڑائی کرانا چاہتا ہے میں تجھے واپس بھجوا دوں گا.یہ سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا اور ایک جگہ پر ڈیرہ بنا لیا.اب جو مسلمان ہوتا مکّہ سے بھاگ کر ان کے پاس آ جاتا اور رفتہ رفتہ ان کی ایک جماعت بن گئی.چونکہ وہ مکّہ والوں کے نکالے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اخراجات خوراک وغیرہ کیلئے مکّہ ہی کے قافلوں سے اپنا حصّہ لینا شروع کیا.اس طرح پر یہ شرط ان مشرکین کیلئے موجبِ ضرر ہوئی.اور وہ نبی کریمؐ کی خدمت میں آئے کہ آپؐ اپنے آدمیوں کو بلوا لیجئے.ہم اس شرط کو توڑتے ہیں.دومؔ.ان فہرستوں کے لکھوانے کا فائدہ یہ ہوا.کہ خزاعہؔ پر جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حمایت میں تھے.بنوؔبکر وائل نے حملہ کیا اور مشرکین نے ان کا خفیہ خفیہ ساتھ دیا.خزاعہ میں سے دو آدمی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور فریاد لے کر حاضر ہوئے.ادھر مکّہ والوں نے بھی اپنا ایک سردار بھیج دیا.کہ معاہدہ نئے سرے سے ہو.کیونکہ میں اس وقت موجود نہ تھا.اس طرح پر وہ معاہدہ آپ ہی انہوں نے اپنے عمل اور اپنے قول سے توڑ دیا.اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دس ہزار قدّوسیوں کے ساتھ مکّہ پر چڑھائی کی اور اس طرح پر خدا کا کلام اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا پورا ہوا.اور اسی فتح کے ذریعے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی ہر قسم کے عیبوں اور ان الزاموں سے پاک ہے.جو آپ کی ذات سے منسوب کئے جاتے تھے لِیَغْفِرَﷲُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَ مَا تُاَخَّرَکے یہی معنے ہیں کہ تیری ذات پر جو الزام یہ مکہ کی ہجرت سے پہلے یا پیچھے لگاتے تھے.وہ سب دور ہو جائیں.دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان مشرکین نے جو تیرے گناہ اس

Page 594

وقت کئے تھے جبکہ تو ( اے نبیؐ) پہلے مکّہ میں رہتا تھا اور پھر وہ قصور جو اس وقت کئے جبکہ تو مکّہ سے چلا آیا اس فتح کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کر دے چنانچہ جب وہ مشرکین پکڑے حضور رسالت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا.لَا تَثْرِیْبِ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ! یَغْفِرَاﷲُ لَکُمْ وَ ھُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ تم پر آج کے دن کوئی الزام نہیں.اﷲ تمہیں بخشے اور بڑا رحم کرنے والا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۸۰.۱۸۲ ماہ اپریل ۱۹۱۲ء) ۲۵.   : یہ حدیبیہ کا ذکر ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۸۱ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) ۳۰.      …: وہ بڑے

Page 595

مضبوط ہیں.کفّار کا اثر قبول نہیں کرتے.ہاں آپس میں ایک دوسرے سے نیک متأثر ہوتے ہیں.تو ان کو عبادت گزار.اﷲ کے فضل و رضوان کا امیدوار پائے گا.فرماں برداری کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہیں.دیکھو ۳۳ باب استثناء آیت ۲.خداوند کریم سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدّوسیوں کے ساتھ آیا.اور ان کے دہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کیلئے تھی.ہاں.وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے.اس کے سارے مقدّس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے.اور… اس کیلئے دیکھومتی باب ۱۳ آیت ۳۱،۳۲.وہ ان کے واسطے ایک اور تمثیل لایا.کہ آسمان کی بادشاہت خر ۱؎ دل کے دانہ کی مانند ہے.جسے ایک شخص نے لے کر اپنے کھیت میں بویا.وہ سب بیجوں میں چھوٹا ہے.پر جب اُگتا.تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا.اور ایسا پیڑ ہوتا ہے کہ ہوا کی چڑیائیں آ کے اس کی ڈالیوں پر بسیرا کریں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۴ صفحہ۱۸۲.۱۸۳ماہ مارچ ۱۹۱۲ء)

Page 596

Page 597

Page 598

Page 599

Page 600

Page 601

Page 602

Page 603

Page 604

Page 605

Page 606

Page 607

Page 608

Page 609

Page 610

Page 611

Page 612

Page 613

Page 614

Page 615

Page 616

Page 617

Page 618

Page 619

Page 620

Page 621

Page 622

Page 623

Page 624

Page 625

Page 626

Page 627

Page 628

Page 629

Page 630

Page 631

Page 632

Page 632

← Previous BookNext Book →