Language: UR
حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات
حقائق الفرقان حضرت حاجی الحرمین مولانانور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات جلد ششم سورة المعارج تا سورة النّاس
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD حقائق الفرقان (جلد ششم) Haqaa'iqul-Furqaan (Urdu) A collection of the Commentary of the Holy Quran compiled from the Durusul-Quran, sermons, speeches, and writings of Hazrat Khalifatul-Masih I, Maulana Hakeem Noor-ud-Deen, may Allah be pleased with him.Volume - 6 (Complete Set - Volumes 1-6) First Edition Published in 1991-1995 (4 Volumes Set) Reprinted in Qadian, India, 2005 Present Digitally Typeset Edition (Vol.1-6 Set) Published in the UK, 2024 © Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: Pelikan Basim, Turkey For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-275-9 (Set Vol.1-6)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نہیں لفظ پیش حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نور الدین خلیفۃالمسیح الا قول کو خدا تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سے جو غیر معمولی عشق اور اس کے علوم کے ساتھ جو فطری مناسبت تھی اس کا ذکر امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں.مَا انَسْتُ فِي قَلْبِ اَحَدٍ مَحَبَّةَ الْقُرْآنِ كَمَا أَرَى قَلْبَهُ مَمْلُوا بِمَوَدَّةِ الْفُرْقَانِ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۶) میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقان حمید کی محبت سے لبریز ہے.وَلِفِطْرَتِهِ مُنَاسِبَةٌ تَامَّةٌ بِكَلَامِ الرَّبِ الجَلِيْلِ وَ كَمْ مِنْ خَزَائِنٍ فِيْهِ أُوْدِعَتْ لِهَذَا الْفَتَى النَّبِيْلِ - ( صفحہ ۵۸۷) آپ کی فطرت کو رب جلیل کے کلام سے کمال مناسبت ہے.قرآن کریم کے بے شمار خزائن اِس شریف نوجوان کو ودیعت کئے گئے ہیں.وَلَهُ مَلِكَةٌ عَجِيْبَةٌ فِي اسْتِخْرَاجِ دَقَائِقِ الْقُرْآنِ وَبَيَّ كُنُوزِ حَقَائِقِ الْفُرْقَانِ - (صفحه ۵۸۴) آپ کو قرآن کریم کے دقائق معرفت اور باریک نکات کے استخراج اور فرقان حمید کے حقائق کے خزائن پھیلانے کا عجیب ملکہ حاصل ہے.
اسی طرح آپ کی تصانیف کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مَنْ أَرَادَ حَلَّ غَوَا مِضِ التَّنْزِيْلِ وَاسْتِعْلَامَ أَسْرَارِ كِتَابِ الرَّبِّ الْجَلِيْلِ فَعَلَيْهِ بِاشْتِغَالِ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۴) هذه الكتب جو شخص قرآن کریم کے عمیق مطالب کو حل کرنے اور رپ جلیل کی کتاب کے اسرار جاننے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے.آپ کو قرآن کریم سے جو محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ خود فرماتے ہیں:.مجھے قرآنِ مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا کی ہی کتاب پسند آئی.“ بدر ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ ء صفحہ ۷ ) قرآن میری غذا، میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.“ اور فرمایا کرتے تھے.( ترجمۃ القرآن شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه ۴۶) ” خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور کشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا کہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، پڑھاؤں اور سنوں.“ (تذکرۃ المہدی جلد اول صفحه (۲۴۶) آپ نے ساری عمر قرآن کریم کے علوم کے اکتساب میں گذاری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر جب آپ ہجرت کر کے قادیان دارلامان تشریف لائے تو اُس دن سے وفات تک نہایت یکسوئی اور نہایت با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں اپنی زندگی کے اوقات صرف فرمائے.قادیان میں رمضان المبارک کے خصوصی درس کے علاوہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی سارا سال قرآن کریم کا باقاعدگی سے درس دیتے تھے.
ہزاروں صلحاء نے آپ کے درسوں سے اکتساب فیض کیا.آپ کے درس القرآن کے سلسلہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں:.”حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے.صاحبزادہ صاحب ! ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو.اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا.یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی.(تذکرۃ المہدی جلد اول صفحه ۲۳۴۴) یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے ان درسوں کا خلاصہ سلسلہ کے اخبارات بدر اور الحکم میں ساتھ کے ساتھ آئندہ کے لئے محفوظ ہوتا چلا گیا.علوم و معارف کا یہ قیمتی خزانہ اخبارات کی فائلوں میں منتشر اور نایاب کتب کے صفحات میں بندتھا اور ٹی نسل کے لئے اس سے استفادہ کرنامشک تھا.چنانچہ خلیفہ مسیح الرابح حضرت مرزا طاہر احمد طاہراحمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں ان گراں بہا دفینوں کو باہر نکال کر از سر نو مرتب کیا گیا اور الحکم اور بدر میں وعیدین.خطبات نکاح اور تقاریر سے اس نادر تفسیری مواد کو الگ کر کے جمع کیا گیا اور پھر اسے ترتیب دے کر احباب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ فرقان حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام احباب کو جنہوں نے اس کارخیر میں تعاون فرما یا اپنے فضلوں سے نوازے.آمین سید عبدالهی ناظر اشاعت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال سیدنا حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفتہ امسح الا ول رضی اللہ عنہ کو کلام اللہ سے والہانہ محبت اور بے پنہ عشق تھا.اس عاشقانہ محبت کی وجہ سے آپ قرآن کریم پر غور و فکر میں عمر بھر مشغول و مصروف رہے.چنانچہ قرآن مجید کے حقائق و معارف آپ پر کھولے گئے اور معانی ومطالب قرآن سے آپ کو آگہی بخشی گئی.آپ نے زندگی کا ہر دقیقہ خدمت قرآن میں گذارا.اس برکت سے آپ کو نور اور فیض عطا ہوا.آپ نے اس کو پھیلانے کی ہردم کوشش جاری رکھی اور قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کے لئے درس دیئے.الحکم اور بدر کے ایڈیٹرز نے اس علم لدنیہ کے خزانے کو شائع کر کے انہیں محفوظ کرنے کی سعادت پائی.جزاھم اللہ احسن الجزا.ایڈیٹر صاحب البدرفرماتے ہیں.اس جگہ اس بات کا ذکر کر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ اگر چہ میں نے بہت دفعہ حضرت خلیفہ اسیح کا درس سنا ہے.تاہم ان نوٹوں کی طیاری میں یادداشتوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ بعض دیگر دوستوں کی نوٹ بکیں بھی دیکھی ہیں.جن میں سے قابلِ ذکر میرے مکرم دوست جناب اکبرشاہ خاں صاحب ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور انہیں دینی دنیوی حسنات سے مالا مال کرے اور اس کے علاوہ دو تین تفسیروں کو بھی مد نظر رکھا ہے.جن میں سے اس جگہ قابل ذکر شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈیٹرالحکم کی تالیف کردہ تفسیر بنام ترجمتہ القرآن ہے جسے میں نے بہت مفید اور کارآمد نکات اور لطائف کا مجموعہ پایا ہے.ضمیمه اخبار بدر ۹ /نومبر ۱۹۱۱ء نمبر ۲، ۱۱،۳)
یه روحانی مائدہ متفرق اور منتشر مقامات پر موجود تھا.افادہ عام کے لئے اس کو یکجا کیا گیا تھا جو حقائق الفرقان کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ تھا.اب جبکہ حقائق الفرقان کو دوبارہ شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کتب و رسائل کو ایک دفعہ پھر اس نکتہ نظر سے دیکھ لیا جاوے تا اگر کہیں کمی بیشی ہو تو وہ مکمل ہو جائے.چنانچہ نئے سرے سے تمام کتب ورسائل و اخبارات کو پڑھا گیا جس کے نتیجہ میں.کئی مزید حوالہ جات اس نئی اشاعت میں شامل ہیں.پہلے حوالہ جات میں بعض جگہوں پر جو کمی بیشی تھی اسے مکمل کر دیا گیا ہے.جس سے مضمون زیادہ واضح اور قابل فہم ہو جاتا ہے.-۱ بعض جگہ حوالہ جات درست نہ تھے انہیں بھی درست کر دیا گیا ہے.-۴- عربی عبارات اور فارسی اشعار کا ترجمہ جو پہلے شامل نہ تھا اُسے بھی دے دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرقانِ حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام کارکنان کو جنہوں نے اس کار خیر میں تعاون فرما یا اپنے فضلوں سے نوازے.ناشر
۱۸۵ ۱۹۳ ۲۰۲ ۲۱۸ ۲۲۴ ۲۳۵ ۲۴۲ ۲۵۰ ۲۵۹ ۲۶۳ ۲۶۹ ۲۸۵ ۲۹۲ ۲۹۸ ۳۰۵ سورة المعارج سورة نوح الفهرس سورة البروج سورة الطارق سورة الجن ۱۷ سورة الاعلى سورة المزمل ۲۸ سورة الغاشية سورة المدثر سورة الفجر سورة القيمة اے سورة البلد سورة الدهر سورة المرسلت سورة النباء سورة التزعت ۸۵ ١١٦ ۱۲۷ ۱۳۸ سورة الشمس سورة اليل سورة الضحى سورة الم نشرح سورة عبس ۱۴۶ سورة التين سورة التكوير سورة الانفطار ۱۵۳ ۱۶۶ سورة العلق سورة القدر سورة المطففين سورة البينة سورة الانشقاق 122 سورة الزلزال
۳۹۲ ۴۳۳ ۴۴۸ ۴۷۴ ۴۸۸ ۵۲۶ سورة الكوثر سورة الكافرون سورة النصر سورة اللهب سورة الاخلاص سورة الفلق سورة الناس ۳۱۰ ۳۱۴ ۳۱۷ ۳۲۵ ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۶۱ ۳۷۸ سورة الغديت سورة القارعة سورة التكاثر سورة العصر سورة الهمزة سورة الفيل سورة قريش سورة الماعون
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ مَكَيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ ہم سورہ معارج کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے.- سَالَ سَابِلُ بِعَذَابِ وَاقِع - ترجمہ - طلب کیا ایک طالب نے ایسا عذاب جو ہونے والا ہے.تفسیر.جو لوگ اللہ تعالیٰ کے صفات کو نہیں جانتے.وہ اپنے چھوٹے دماغ پر اتر کر اس سے اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان کاموں کو ناپنا چاہتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اپنی نادانی سے شاندار صداقتوں کی پھر تحقیر کرنے لگتے ہیں.طبعیات کے جاننے والے کے دماغ میں جب خداوند تعالیٰ کی بعض باتیں نہیں آتیں تو وہ حقارت سے کہہ دیتا ہے کہ یہ بات علم طبعیات کے خلاف ہے.کفار اور مشرکین عرب عذاب کی پیشگوئیاں سنتے تو تعجب کرتے کہ یہ کیونکر ہوگا اور کس طرح ممکن ہے کہ یہ جماعت ہم پر غالب آئے گی اور سوال کرتے کہ وہ عذاب کب واقع ہونے والا اور کس (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۸۶) طرح ہے؟ لِلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِع - ترجمہ.کافروں کو جسے کوئی دفع کرنے والا نہیں.تفسیر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ عذاب اٹل ہے.اس کو تم دفع نہیں کر سکتے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۸۶) ۴- مِنَ اللهِ ذِي الْمَعَارِج - ترجمہ.اللہ کی طرف سے جو عروج کا مالک ہے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ ذِي المَعارِج.وہ عذاب اس خدا کی طرف سے آنے والا ہے جو کہ صاحب مرتبت ، بہت بڑائیوں والا ، بہت بلندیوں والا ہے.سنة - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ قادیان مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶) تَعُرُجُ الْمَلِبِكَةُ وَالرُّوحُ اِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَسِينَ أَلْفَ ترجمہ.فرشتے اور کلام اس کی طرف چڑھیں گے اس دن جس کی مقدار پچاس ہزار برس کی ہے.وو تفسیر.تخرج.زمین کی تدبیر کے واسطے جو معاملات او پر پیش ہوتے ہیں.ان کا ذکر ہے.فرشتوں کے چڑھنے اترنے کا ذکر توریت کتاب پیدائش میں بھی ہے.باب ۲۸ میں لکھا ہے سو یعقوب بیر سبع سے نکل کے حاران کی طرف گیا.اور ایک جگہ میں اترا اور رات بھر وہاں رہا.کیونکہ سورج ڈوب گیا تھا.اور اس نے اس جگہ کے پتھروں میں سے اٹھا کر اپنا تکیہ کیا اور وہاں لیٹ کے سو گیا اور اس نے خواب دیکھا اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک سیڑھی زمین پر دھری ہے.اور اس کا سرا آسمان کو پہنچا ہے.اور دیکھو.خدا کے فرشتے اس پر چڑھتے اترتے ہیں“ آسمانی کتب اور پیشگوئیوں کے ساتھ تعلق رکھنے والے تغیرات کے مختلف دورے ہوتے ہیں.ایک دورہ پچیس سالہ ہوتا ہے ، ایک پچاس سالہ ، ایک صد سالہ ( جو مجدد کا دورہ ہے ) ایسا ہی ہزار سالہ اور پچاس ہزار سالہ دورے بھی ہوتے ہیں.تاریخ اسلام میں ان تغییرات زمانہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے.ایک دور تین سال کا تھا.جبکہ خلافت را شدہ ختم ہوئی.پھر ایک ساٹھ سالہ انقلاب تھا جبکہ امیر معاویہ کا انتقال سنہ ( علی صاحبہا التحیۃ والسلام ) میں ہوا اور اس کے بعد کوئی صحابی بادشاہ نہ ہوا.ایسا ہی ایک دور سو سال کے قریب قریب کا ہے.جس میں روایت بلا واسطہ ختم ہو گئی اور ایک دور پانچ سوسال کا ہے.جب کہ سلطنت عرب کا خاتمہ ہو گیا اور اسی طرح ایک دور ہزار سال کا ہے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ جس کے بعد اہل یورپ کو کمپنیاں بنانے اور تجارت وغیرہ کے لئے باہر نکلنے کا خیال شروع ہوا.اور یا جوج ماجوج کے غلبہ کی ابتدا ہوئی.اسی طرح ایک دور پچاس ہزار سال کا بھی ہے.جس پر ایک انقلاب عظیم واقعہ ہوتا ہے.یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ایک حکم پر پچاس ہزار سال گئے اس کی مثالیں خود دنیا میں موجود ہیں.کوئی مقدمہ ہو تو محکمہ پولیس میں اس کی کارروائی فوراً ہو جاتی ہے.مجسٹریٹ ضلع مہینوں کی تاریخ دیتا ہے اور چیف کورٹ میں سالوں کی تاریخ ملتی ہے.پر یوی کونسل میں اس سے زیادہ.ایسا ہی قدرت میں اس کا نظارہ موجود ہے.بعض اناج تین ماہ میں پکتے ہیں ، بعض چھ ماہ میں ، آم سال کے بعد ، کھجور کئی سال کے بعد ، بعض سینکڑوں یا ہزاروں سالوں کے بعد پکتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۸۷٬۲۸۶) ١٠٠٩ - يَوْمَ تَكُونُ السَّمَاءِ كَالْمُهْلِ وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ - ترجمہ.جس دن ہو جائے گا آسمان پچھلے ہوئے تانبے کی طرح.اور پہاڑ رنگین دھنگی ہوئی اون کی طرح.تفسیر.سماء.بادل.یوم بدر کی طرف اشارہ ہے.جِبال.کانگڑے کے پہاڑی باغوں کو دیکھ لو کہ زلزلے میں ان کا کیا حال ہوا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۸۷) -١٢ - يُبَطَّرُونَهُمْ يَوَدُّ الْمُجْرِمُ لَوْ يَفْتَدِى مِنْ عَذَابِ يَوْمِيذٍ بِبَنِيهِ - ترجمہ.حالانکہ ایک دوسرے کو دیکھیں گے.مجرم آرزو کرے گا کہ کاش دے دے اس عذاب سے چھڑوانے کے لئے اپنے بیٹوں کو.تفسیر.مُجْرِمُ.خدا سے بے تعلق رہنے والا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۷)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ ۱۸ تا ۲۲ - تَدْعُوا مَنْ اَدْبَرَ وَ تَوَلَّى وَ جَمَعَ فَأَوْلَى إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَدُوْعًا - إِذَا مَسَّهُ الشَّرُ جَزُوعًا - وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا - ترجمہ.اس کو پکارتی ہے جس نے منہ پھیر لیا ( ذکر الہی سے ) اور پیٹھ پھیر لی (حق سے ).اور مال جمع کیا اور پھر اس کو جمع رکھ چھوڑا.بے شک آدمی پیدا کیا گیا ہے گھبرانے والا کچے دل کا.جب اس کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے.اور جب اس کو بھلائی پہنچتی ہے تو بخل کرتا ہے.تفسیر - اوعی.چھپا کر رکھا.الانسان.نکے انسان.هَلُوعًا.کچا.بے صبر.بلکہ اس کی تفسیر آگے آتی ہے.اس جگہ اہلِ نار کی سات صفات بیان کی ہیں.ا.ادبر - حق کو پیٹھ دی..توٹی.حق سے منہ پھیر لیا..جَمَعَ.مال جمع کیا.فاوی.پھر اس مال کو چھپا رکھا.- ۵- هَدُوعا - بے صبر.- جَزُوعًا.تکلیف میں اضطراب کرتا ہے.- منوعا.آرام کی حالت میں نیکی نہیں کرتا.دولت مند ہو تو اللہ تعالیٰ کی رضامندی سے اُسے خرچ نہیں کرتا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحہ ۲۸۷) ۲۳ تا ۳۵ - إِلَّا الْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِمُونَ وَالَّذِينَ في اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ - لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ - وَالَّذِينَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ w الدِّینِ وَالَّذِينَ هُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ إِنَّ عَذَابَ رَبِّهِمْ غَيْرُ مَأْمُونِ وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أوْ مَا مَلَكَتْ ايْمَانَهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْعُدُونَ وَ الَّذِينَ هُمْ لِاَمُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ وَ الَّذِينَ هُمُ بِشَهدُ تِهِمْ قَابِمُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ - - ترجمہ.مگر نمازی لوگ (ایسے نہیں ہوتے ).جو اپنی نماز پر ہمیشہ قائم ہیں.اور جن کے مال میں حصہ معین ہے.سائل کا (مانگنے والوں کا ) اور محروم کا ( اور جو مانگتے نہیں چپ رہتے ہیں اور اس میں
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ کتے بلی وغیرہ بھی داخل ہیں).اور جو یقین رکھتے ہیں قیامت کا.اور جو اپنے رب سے خائف اور ترساں اور لرزاں ہیں.بے شک ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں.اور وہ لوگ جو اپنے شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں.مگر اپنی بیبیوں اور باندیوں سے تو ان کو کچھ ملامت نہیں کہ جو کوئی چاہے اس کے سوا کچھ اور تو یہی لوگ حد سے باہر نکلنے والے ہیں.اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اورا اپنی بات کو نباہتے ہیں.اور جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں.اور وہ جوا اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں.تفسیر.اس کے بعد اہل جنت کے صفات بیان فرمائے ہیں.ا مُصَلِّينَ - خدائے تعالیٰ کی عبادت کرنے والا.۲ - داستون.نماز کے پابند.یہ نہیں کہ کبھی پڑھی ، کبھی نہ پڑھی.بلکہ ہمیشہ پڑھتے ہیں.۳.حَقٌّ مَعلُوم - اللہ تعالیٰ کے راہ میں باقاعدہ چندہ مقرر کرتے ہیں.- السَّائِلِ وَ الْمَحْرُومِ - مانگنے والے کو بھی دیتے ہیں اور نہ مانگنے والے کو بھی دیتے ہیں.محروم سے مراد بے زبان جانور بھی ہے.۵ - يَوْمِ الدّین کی تصدیق کرتے ہیں.- مُشْفِقُونَ.اللہ تعالیٰ کا خوف ان کے دلوں میں ہے.لِفُرُوجِهِمْ حَفِظُونَ.اپنی شرم گاہوں کی محافظت کرتے ہیں.امانت میں خیانت نہیں کرتے ہیں.۹.عہد کی رعایت رکھتے ہیں.۱۰.شہادت پر قائم رہتے ہیں.ا.صلوۃ.اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں.ابتغى وراء ذلك.جو اس کے سوائے اور چاہے.وہ اس کے لئے جائز نہیں.اس آیت کے رو سے متعہ ، لواطت ، جلق ، مساحقت ( چپٹی ) سب کے سب حرام ثابت ہو گئے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۸۷)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمَعَارِجِ ۳۷ تا ۳۹.فَمَالِ الَّذِينَ كَفَرُوا قِبَلَكَ مُهْطِعِينَ عَنِ الْيَمِينِ وَ عَن الشِّمَالِ عِزِينَ - أَيَطْمَعُ كُلُّ امْرِى مِنْهُمْ أَنْ يُدْخَلَ جَنَّةَ نَعِيمٍ ترجمہ.کیا ہو گیا ہے کافروں کو کہ تیری طرف دوڑے چلے آتے ہیں.دائیں طرف سے اور بائیں طرف سے ٹکڑیاں کی ٹکڑیاں.کیا اس میں سے ہر ایک شخص اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ نعمت کے پانچوں میں داخل کیا جائے.تفسیر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سمجھانے کے واسطے عرب کے بڑے بڑے لوگ آتے تھے.ان کی طرف ان آیات میں اشارہ ہے.وہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی قومیت اور وجاہت کی طرف توجہ دلاتے تھے.وہ لوگ اس قدر متکبر تھے کہ عرفات میں عوام عرب کے ساتھ کھڑے بھی نہ ہوتے تھے.بعض لوگ آزادی کو پیش کر کے اپنے آپ کو مذہب سے بے تعلق رکھنا چاہتے اور طرح طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بزعم خود سمجھاتے تھے.اللہ تعالیٰ نے انہیں سمجھایا ہے کہ ہم تو مشرق و مغرب کے مالک ہیں.جس طرح یہ لوگ مکہ میں بڑے بنے ہوئے ہیں.اُن جیسے ہم اور بڑے بڑے آدمی بنانے پر قادر ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.کہاں اہلِ عرب کے گمان میں تھا کہ ابوبکر بڑا آدمی بن جائے گا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اتنے بڑے بادشاہ ہو جائیں گے.(ضمیمه اخبار البدرقادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۸۷)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ نُوح مَكَّيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ نُوح ہم سورہ نوح کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.إِنَّا اَرْسَلْنَا نُوحًا إِلى قَوْمِةٍ أَنْ انْذِرُ قَوْمَكَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَهُم دو عَذَابٌ اَلِيم - ترجمہ.ہم نے بھیجا نوح کو اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر کہ ڈرا اپنی قوم کو اس سے کہ آ جاوے ان پر ٹمیں دینے والا عذاب.تفسیر.ہوگا.حضرت نوح علیہ السلام کا ملک دجلہ، نینوا اور فرات کے درمیان تھا.عبرانی زبان میں نوح ( 45 ) آرام اور امن کو کہتے ہیں.حضرت نوح کا زمانہ بڑے آرام کا تھا مگر لوگوں نے اس آرام کی قدر نہ کی.اور اس کے حکموں کی نافرمانی کی اور شرارتوں پر کمر باندھی.تب ان پر سخت عذاب آیا.موجودہ زمانہ بھی حضرت نوح کے زمانہ کی طرح پرامن زمانہ ہے.لوگ عیش وعشرت میں مصروف ہیں.اس زمانہ میں بھی خداوند تعالیٰ نے ایک نوح بھیجا ہے.اور اس نے ایک کشتی تیار کی ہے مبارک ہیں وہ جو اس میں سوار ہوئے.حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہماری موعظت کے واسطے کیا ہے.دنیا میں انسان چاہتا ہے کہ اس کی لمبی عمر ہو.اس واسطے طب کا علم ایجاد ہوا اور اسی حفاظت کے واسطے مکان ، لباس ، خوراک، مضبوط قلعه، فوجی سامان وغیرہ سب مہیا کئے جاتے ہیں.بوڑھے بھی عبرانی
حقائق الفرقان Δ سُورَةُ نُوح چاہتے ہیں کہ اور مدت زندہ رہیں.پھر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو.پھر چاہتا ہے کہ اسے مال ملے.پھر چاہتا ہے کہ اس کے دشمن ہلاک ہوں تا کہ وہ امن سے زندگی بسر کرے.یہ سب انسان کا فطری تقاضا ہے.اور ان کو پورا کرنے کا نسخہ بتلانے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان رسول دنیا میں آئے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت ابراہیم علیہ البرکات ، ایسے ہی شاندار نبی حضرت نوح علیہ السلام اپنے زمانہ میں تھے اور انہوں نے کامیابی کا جو نسخہ اپنی قوم کے سامنے پیش کیا اس کا ذکر اس سورہ شریف میں ہے.عذاب کے بھیجنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول دنیا میں بھیجا تا کہ وہ اس کی بات مان کر عذاب سے بچ جاویں.انا.ہم نے ہی حضرت نوح کی رسالت کی صداقت کو لفظ انا کی تاکید کے ساتھ ظاہر کیا ہے اس میں اشارہ ہے کہ جیسا کہ نوح کے مخالفین بچ نہ سکے.ایسا ہی.......نبی کریم رسول خاتم النبین سید نا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین بھی نہ بچیں گے.علیہما الصلواۃ والسلام.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۸) انِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ - ترجمہ.عبادت کرو اللہ کی اور اسی کو سپر بناؤ اور میرا کہا مانو.تفسیر.عذاب الہی سے بچنے کے واسطے تین گر حضرت نوح نے پیش کئے جو ہمیشہ سے نیچے ہوتے چلے آتے ہیں.اعْبُدُوا الله - خدائے تعالیٰ کی عبادت کرو.اتَّقُوہ.اس سے ڈرو.اطیعُونِ.میری پیروی کرو.اطِيعُونِ کا لفظ ان خیالات کے لوگوں کا رد کرتا ہے جن کے نزدیک رسول کی اطاعت ضروری نہیں.اس آیت میں حضرت نوح نے بتلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تمہارے تقوی اللہ کی حقیقت تب متحقق ہو گی.جب تم میری اطاعت کرو.یہ اطاعت رسول کے لئے ایک زبر دست (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۸۸) دلیل ہے.
حقائق الفرقان w سُوْرَةُ نُوح يَغْفِرُ لَكُم مِّنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرُكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ أَجَلَ اللهِ اِذَا جَاءَ لَا يُؤَخَرُ لَوْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ - ترجمہ.وہ تم کو بخش دے گا.تمہاری کمزوریاں ڈھانپ دے گا اور تم کو ایک وقت مقرر تک مہلت دے گا.اللہ کا وقت جب آجاتا ہے تو اس میں کچھ دیر نہیں لگتی.کیا اچھا ہوتا اگر تم جانتے.تفسیر.ان تین باتوں کے کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا.ا.تمہارے گناہ بخشے جائیں گے.بد عملی کی سزا سے نجات پاؤ گے.۲.تمہاری عمر لمبی ہوگی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجل جب آ جاتی ہے تو نہیں ٹلتی لیکن آچکنے سے قبل دعا وصدقہ وغیرہ سے مل جاتی ہے.حضرت نوح کی لمبی عمران کے دعوے کے واسطے کافی دلیل ہے.حضرت نوح علیہ السلام بڑی خیر خواہی اور دردمندی کے ساتھ اپنی قوم کو سمجھاتے تھے کہ تم ایمان واطاعت کے قبول کرنے میں سستی نہ کرو.ورنہ پھر یہ موقع ہاتھ نہ لگے گا.رباعی روزے کہ اجل در آید از پیش و پشت شک نیست که مهلت نه دهد یک نفست یاری نه رسد در آن دم از هیچ کست برباد شود جملہ ہواؤ ہوست (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۸۸) - قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا - ترجمہ.نوح نے کہا اے میرے رب ! میں نے اپنی قوم کو دن رات دعوت دی.تفسیر - ليلا ونهارا.انبیاء رات دن اپنی امت کی اصلاح کی فکر میں رہتے ہیں.کیسا ہمدرداور خیرخواہ انسانی گروہ ہے.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى جَمِيعِ الْأَنْبِيَاءِ وَالرُّسَلِ وَبَارِكَ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۸۸).ل ۱.عبادت الہی ۲ - تقوی اللہ ۳.اطاعت رسول ( ناشر ) ۲ جس دن تیری موت ہر جگہ سے تجھ پر وارد ہو جائے گی تو اس وقت تجھے ایک سانس لینے کی بھی مہلت نہیں ملے گی.اس وقت تیری کوئی مدد نہیں کر پائے گا اور تیری سب ہوا و ہوس ختم ہو جائے گی.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ نُوح - وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَ اسْتَغْشَواثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا - ترجمہ.اور میں نے جب جب ان کو دعوت دی کہ تو ان کو بخش دے تو انہوں نے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونس لیں اور اپنے کپڑوں میں چھپ گئے اور ضد کی اور بڑا ہی غرور کیا.تفسیر.نبی کی بات لوگ سننا بھی پسند نہ کرتے.جیسا کہ اس زمانہ کے علماء پبلک کو تاکید کرتے رہتے ہیں کہ مرزا کی کتاب نہ پڑھو.اُس کے گاؤں میں نہ جاؤ.اُس کے مریدوں سے ملاقات نہ کرو.یہ بھی ایک تکبر ہے.اسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمُ.اپنے دلوں کو انہوں نے ڈھانک رکھا ہے.ثیاب کے معنے دل کے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۸) بھی آئے ہیں.١٠ - ثُمَّ اِنّى اَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا - ترجمہ.پھر میں نے ان کو ظاہری طور پر بھی سمجھایا اور پوشیدہ طور پر بھی سمجھایا چپکے سے.تفسیر.اَسْرَرْتُ.چپکے چپکے سنایا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۸) ط ۱۱ تا ۱۳ - فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا - يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَرا - ترجمہ.پھر میں نے کہا معافی مانگو تمہارے رب سے بے شک وہ تو بڑا غفار ہے.تم پر وہ بھیج دے گا آسمان سے موسلا دھار بارش.اور تمہاری مدد فرمائے گا مالوں سے اور بیٹوں سے اور تمہارے لئے باغ بنادے گا اور تمہارے لئے نہریں بہا دے گا.تفسیر - اسْتَغْفِرُوا.استغفار کے برکات اور نتائج ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام نے انسانی ضروریات کی جہت سے بیان فرمائے ہیں.غور کر کے دیکھ لو.کیا انسان کو انہیں چیزوں کی ضرورت دنیا میں نہیں ہے؟ پھر ان کے حصول کا علاج استغفار ہے.( اخبار بدرجلد ۷ نمبر ۹ مورخه ۵/ مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۵)
حقائق الفرقان 11 سُوْرَةُ نُوح سَمَاء کے معنے بادل کے ہیں.بارانِ رحمت ہوگی.غلہ اور ہر شئے ارزاں ہوگی.سماء کے معنے بارش کے بھی آئے ہیں.ایک شاعر کہتا ہے.إِذَا نَزَلَ السَّمَاءُ بِأَرْضِ قَوْمٍ رعَيْنَاهُ وَ إِنْ كَانُوا غَضَابًا يمددكم - بڑھائے گا.مال اور بیٹے بہت ہوں گے.ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر تم استغفار کرو تو سب برکتیں حاصل ہوں گی.گناہ بخشے جائیں گے.بارش ہوگی.ہر شے ارزاں ملے گی.مال و دولت بہت ہو گی اولا د کی کثرت ہوگی ، باغ ہوں گے، نہریں جاری ہوں گی.ان آیات سے استغفار کی فضیلت ظاہر ہے.استغفار کیا ہے؟ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پچھلے گناہوں کی سزا سے بچنے کی توفیق طلب کرنا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۸۸) روایت ہے کہ ایک دن حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک شخص گیا اور قحط کی شکایت کی.آپ نے اسے فرمایا کہ استغفار کرو.پھر ایک اور شخص گیا.اُس نے کہا.یا حضرت! میں محتاج ہوں فرمایا استغفار کرو.ایک تیسرے نے کہا کہ میرے اولاد نہیں ہوتی.اُسے بھی استغفار کرنے کا حکم دیا.چوتھے نے پیداوار زمین کی کمی کا گلہ کیا.اُسے بھی استغفار کی تاکید فرمائی.حاضر مجلس ربیع بن صحیح نے عرض کی کہ آپ کے پاس مختلف لوگ آئے اور مختلف چیزوں کے سائل ہوئے مگر آپ نے جواب سب کو ایک ہی دیا.اس کے جواب میں حسن بصری نے قرآن شریف کی یہی آیات پڑھیں.جماعت احمدیہ کو بھی استغفار کی تاکید ہر روز بار بار کی جاتی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۸۹) فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا - يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا - و يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ آنهرًا (نوح: ۱۱ تا ۱۳) یعنی استغفار 1 جب کسی قوم کی زمین پر بادل برستا ہے (اور اس سے گھاس اور روئیدگی پیدا ہوتی ہے ) تو ہم اسے چراتے ہیں خواہ وہ قوم اس پر ناراض اور غصہ ہو.
حقائق الفرقان ۱۲ سُوْرَةُ نُوح کرنے سے اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا اور تمہیں مال اولاد دے گا.باغ اگائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا.جماعت کو چاہیے کہ درود شریف، استغفار اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ رکھیں.الحکم جلد ۱۶ نمبر ۱۹ مورخه ۲۸ مئی ۱۹۱۰ء صفحه ۹) ۱۴، ۱۵ - مَا لَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا - وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا - ترجمہ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کے وقار کا لحاظ نہیں رکھتے ( یعنی بڑی امیدیں اللہ سے نہیں رکھتے ).حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا طرح طرح سے ( یا طرح طرح کا).تفسیر.تَرْجُونَ تَخَافُون ع إذَا سَعَةُ النَّحْلِ لَمْ يَرْجُلَسْعَهَا (هلى ) خدا تعالیٰ کی بڑائی سے کیوں نہیں ڈرتے.اطوارا.انسان کو پیدائش کے وقت مختلف صورتوں میں سے گزارا ہے.نطفہ ، علقہ ، مضغہ وغیرہ.کیا یہ تفرقہ اور امتیاز کسی علیم و قدیر ہستی کا کام نہیں؟ یہی خدا تعالیٰ کی ہستی کی ایک (ضمیمه اخبار البدر قادیان جلد ۱۱ا نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) دلیل ہے.١٦ - اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللهُ سَبْعَ سَمُوتِ طِبَاقًا - ترجمہ.کیا تم دیکھتے نہیں کہ کیسے بنائے اللہ نے سات آسمان چوڑے چوڑے.تفسیر.اس آیت میں آسمان کے سات طبقوں کا ذکر کیا ہے.جس طرح ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پہنچنے کے لئے رستے کی ضرورت ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے بھی راستوں کی ضرورت ہے جو بنے ہوئے ہیں.ضمیمه اخبار البدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) ١٧ - وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا وَ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا - ترجمہ.اور ان میں چاند کا اُجالا بنایا اور آفتاب کو جلتا ہوا چراغ بنا یا.تفسیر.جس طرح کہ انسان چراغ اور روشنی کا محتاج ہے.اور چاند اور سورج کا محتاج ہے.اسی جب شہد کی مکھیاں اسے ڈنک ماریں وہ ان کے ڈنک مارنے سے خوف زدہ نہیں ہوتا.
حقائق الفرقان ۱۳ سُوْرَةُ نُوح طرح روحانی ہدایت کے واسطے وحی الہی ، انبیاء اور کتب الہیہ کا محتاج ہے.(ضمیمه اخبار بدر جلد قادیان ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) ۱۸- وَاللهُ أَنْبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتَا - ترجمہ.اور اللہ نے تم کو اُ گا یاز مین سے جما کر.تفسیر.نباتا.اللہ تعالیٰ نے نباتات کو پیدا کیا ہے.زمین کی روئیدگی انسان کے نشوونما کا موجب ہے اور یہی اغذیہ بالآخر نطفہ کی صورت میں متشکل ہو کر انسان بنتا ہے.اسی طرح انعامات الہیہ بتلا کر حضرت نوح نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کیا.(ضمیمه اخبار بدر جلد ۱۱ نمبر ۱۶ قادیان مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) ۲۱،۲۰ - وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًا - ترجمہ.اور اللہ ہی نے بنا دیا تمہارے لئے زمین کا بچھونا.تا کہ اس کے چوڑے چوڑے راستوں میں چلو.تفسیر.بسا گا.آرام گاہ.پھیلا ہوا.پساگا سُبُلا.ایسا ہی دل کے واسطے بھی راستے ہیں.- (ضمیمه اخبار بدر جلد قادیان ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) ۲۲، ۲۳ - قَالَ نُوحٌ رَبِّ إِنَّهُمُ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَّمْ يَزِدُهُ مَالُهُ وَ ولدة الا خَسَارًا - وَمَكَرُوا مَكَرًا كُبَّارًا - ترجمہ.نوح نے عرض کی اے میرے رب! انہوں نے میرا کہا نہ مانا اور ایسوں کی پیروی کی جوان کے مال اور اولاد میں نقصان کے سوا کچھ نہ بڑھا سکے.اور انہوں نے ایک منصوبہ کیا بہت ہی بڑا منصور تفسیر.اپنے خیر خواہوں پر جب ہم نظر کرتے ہیں تو سب سے اول یہ خیر خواہی ماں یا دودھ پلائی خیر سے شروع ہوتی ہے.دودھ پلانے والی کو بھی بچہ ماں کہہ کر پکارتا ہے.اسی وجہ سے بچے تکالیف کے
حقائق الفرقان ۱۴ سُوْرَةُ نُوح وقت ماں کہہ کر پکارتے ہیں.پھر بڑے ہو کر باپ کو خیر خواہ سمجھتے ہیں.پھر جوانی میں دوست پیدا ہو جاتے ہیں اور خیر خواہ ہوتے ہیں.یہ انسان کے خیر خواہ ہوتے ہیں.اور ان کے سوا اور بھی خیر خواہ ہیں.لیکن یہ سب خیر خواہ غلطی کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں.ان سب سے اعلیٰ مخلوق کا خیر خواہ انبیاء کا گروہ ہے ( علیہم الصلوۃ والسلام ) جو کبھی غلطی نہیں کرتے.اور ان کو مخلوق کے ساتھ بہت محبت ہوتی ہے.تعجب ہے کہ لوگ انبیاء کی باتوں کو نہیں مانتے.ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام در ددل کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں شکوہ کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا پر وہ میری بات نہیں مانتی.اس زمانہ میں لوگ بہ سبب امن عامہ کے عیش و عشرت کی غفلت میں گرے ہوئے تھے.زمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے دل کے تصور اور خیال روز بروز صرف بدی ہوتے تھے.تب خدا نے چاہا کہ انسان کو اس زمین میں سے مٹاڈالے.پر خدا نے ایک دفعہ پھر ان پر رحم کیا.اور اپنے بندے نوح کو جو صادق اور کامل تھا اور خدا کی راہ پر چلتا تھا.اور اس واسطے اس پر خدا کی مہربانی کی نظر تھی.ان لوگوں کی طرف بھیجا کہ انہیں آنے والے عذاب سے ڈرائے.حضرت نوح نے خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کی مگر قوم نے نہ مانا.اور مور دعذاب الہی ہوئی.(ضمیمه اخبار بدر جلد قادیان ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۸۹) ۲۴- وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ الهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَذَا وَ لَا سُوَاعًا ۚ وَ لَا يَغُونَ وَ يَعُوقَ وَنَسُرًا - ترجمہ.اور بولے ہرگز نہ چھوڑنا اپنے معبودں کو اور کبھی نہ چھوڑنا ؤ اور نہ سُواع کو اور نہ يَغُوث کو اور نہ یعوق کو اور نہ نسر کو.تفسیر.بیان کے بتوں کے نام ہیں.ا.وڈا.محبت اور خواہش کا دیوتا.جس کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ اپنے ارادے سے ایجاد عالم کا باعث ہوا.اس کو مرد کی صورت پر بنایا جاتا ہے.ہندوؤں میں اس کے بالمقابل بر ہما ہے.
حقائق الفرقان ۱۵ سُوْرَةُ نُوح ۲.سُواع.بقائے عالم کا بت جو عورت کی شکل میں ہوتا ہے.اس کے مقابل ہند و میتھالوجی میں پشن ہے.يَغُونَ.حاجت روائی اور فریادرسی کا دیوتا.اس کی شکل گھوڑے کی تھی.شاید اس واسطے کہ فریادرسی کے لئے تیز رفتاری کی ضرورت ہوتی ہے.اس طرح ہندوؤں میں اندر دیوتا ہے.يَعُوق.عوق سے مشتق ہے.بمعنے روکنا اور دفع کرنا یہ مصیبتوں اور دشمنوں کے روکنے کا رودة بت تھا.بشکل شیر.ہندوؤں میں اس کے بالمقابل شنگھ اوتار دیوتا ہے.-۵- نَسْرًا.طول عمر کا دیوتا بشکل باز بنا ہوا ہوتا ہے.یہی بت اس قوم کی ہلاکت کا موجب ہوئے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۰٬۲۸۹) ۲۷ - وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَارًا - ترجمہ.اور نوح نے عرض کی اے میرے رب ! نہ چھوڑ خاص زمین پر کافروں کا کوئی گھر بسنے والا.تفسیر.حضرت نوح نے آخر تنگ آ کر اپنی قوم کے حق میں بددعا کی.انبیاء کی بددعا سے ڈرنا چاہیے یہ بہت خوفناک بات ہے.حضرت نوح نے اپنی قوم کے حق میں بددعا کی.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجو دسخت تکالیف اٹھانے کے کبھی اپنی قوم کے حق میں بد دعا نہیں کی.بلکہ یہی دعا کرتے رہے کہ رَبّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُون.اے میرے رب میری قوم کو ہدایت کر کیونکہ وہ نہیں جانتے.حضرت نوح کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صبر، حوصلہ، رحم اور ہمدردی بہت بڑھی ہوئی ہے.اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آخر ساری قوم عرب ہدایت یافتہ ہوگئی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۰) بہت سے وجوہات ہیں جو ہم پر حمد الہی کو فرض ٹھیراتے ہیں.منجملہ جناب الہی کی حمدوں کے یہ ہے کہ انسان کا حوصلہ ایسا وسیع نہیں کہ وہ ساری دنیا سے تعلق رکھے اور محبت کر سکے.نبیوں اور رسولوں
حقائق الفرقان ۱۶ سُوْرَةُ نُوح کو بھی جب تباہ کا رسیہ روز گار شریروں نے دُکھ دیا تو آخر اُن میں سے ایک بول اُٹھا.رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَّارًا.في الحقيقت اُن پر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ وہ شریر نفوس کی حیاتی بھی پسند نہیں کرتے.اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کا اتنا حوصلہ کہاں ہوسکتا ہے کہ سارے جہان سے اس کا مخلصانہ تعلق ہو.پس اس سلسلہ کو وسیع کرنے کے باوجود محدود کرنے کے لئے نکاح کا ایک طریق ہے جس سے ایک خاندان اور قوم میں ان تعلقات کی بناء پر رشتہ اخلاص اور محبت پیدا ہوتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۵ مورخه ۲۶ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۲) ۲۸ - إِنَّكَ إِنْ تَذَرُهُم يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا - ترجمہ.بے شک اگر کہیں تو ان کو چھوڑ دے گا تو وہ تیرے بندوں کو بہکائیں گے اور جو جنیں گے وہ تو بد کارگتا کافر ہی ہوگا.تفسیر.اگر تو چھوڑے تو یقیناً بہکا دیں تیرے بندوں کو.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۱۶ حاشیه )
حقائق الفرقان ۱۷ سُوْرَةُ الْجِنِ سُوْرَةُ الْجِن مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ جن کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے.٢- قُلْ أَوْحَى إِلَى أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرَ مِنَ الْجِنِ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا - ترجمہ.تو سنا دے میری طرف وحی کی گئی ہے کہ مجھے ( قرآن ) پڑھتے سن گئے ہیں چند جن پھر انہوں نے کہا ہم نے عجیب ہی قرآن سنا ہے.تفسیر - اسْتَمَعَ نَفَرَ مِنَ الْجِن - جن اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے.جیسے ملائک وغیرہ اور اس کی مخلوق ہیں.میں ہرگز ہرگز اس بات کا قائل نہیں کہ جن اور ملائکہ کوئی چیز نہیں ہیں.میں دونوں کا قائل ہوں.لیکن ہر جگہ جن کے لفظ کے وہی ایک ہی معنی نہیں.اور جو خیال کیا جاتا ہے کہ بعض عورتوں بچوں کو جن چمٹ جاتے ہیں.میں اس کا قائل نہیں ہوں.لغت کے رو سے جن ان باریک اور چھوٹے چھوٹے موذی حیوانات کو بھی کہتے ہیں جو غیر مرئی ہیں اور صرف خوردبینوں سے ہی دکھائی دے سکتے ہیں.طاعون کے باریک باریک کپڑے بھی جن کے نام سے موسوم ہیں.اسی لئے حدیث شریف میں طاعون کو وَخُذُ أَعْدَائِكُمْ مِنَ الْجِنِ فرمایا ہے.( أَحْمَدُ عَنْ أَبِي مُوْسٰى أَشْعَرِى طَبَرَانِي فِي الْأَسَطِ عَنِ ابْنِ عُمَر ).وَخُز کے معنے نیش زنی اور طعن کے ہیں.جن لغت میں بڑے آدمیوں کو بھی کہتے ہیں.جنُ النَّاسِ مُعَظمُهُمْ شاید بڑے پیسے والے ساہوکاروں کو بھی مہا جن اسی واسطے کہا گیا ہے.کبوتر کے پیچھے دوڑنے والے انسان کو بھی ” جن “ کہا ہے.سورہ احقاف رکوع ۴ میں ایک قوم کا ذکر ہے.وَ إِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنْ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ - (الاحقاف:۳۰) اس قوم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قرآن شریف سن کر انا ا اور جب ہم نے پھیرا تیری طرف جنوں میں سے چند آدمیوں کو کہ وہ سننے لگے قرآن کو.
حقائق الفرقان ۱۸ سُوْرَةُ الْجِنِ سَمِعْنَا كِتبًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسى (الاحقاف : ۳۱) کہا.جن کے مد مقابل انسان ہیں.انس غریب لوگ.جن بڑے لوگ.سورة الحجر بیچ میں انسان اور جان دونوں کی پیدائش کا ذکر ایک ساتھ ایک ہی آیت میں یکے بعد دیگرے آیا ہے.وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ وَالْجَانَ خَلَقْتُهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَارِ السَّمُومِ - (الحجر: ۲۷.۲۸) آدم سے پہلے جان اور اس کی ذریت تھی.اس سے کسی طرح انکار نہیں ہوسکتا.اور اب بھی جنات غیر مرئی طور پر موجود ہیں.کارخانہ قدرت کا انتظام اور انحصار محسوسات اور مرئیات تک ہی محدود نہیں ہے.اس لئے غیر محسوس اور غیر مشہود و غیر مرئی عالم کا انکار محض حماقت اور نادانی ہے.اس لئے کہ جوں جوں سائنس ترقی کرتا جاتا ہے.بہت سی باتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جو اس سے پہلے مانی مشکل تھیں.دور بین اور خوردبین کی ایجاد نے بتا دیا ہے کہ اس کرہ ہوا میں کس قدر جانور پھر رہے ہیں.ایسے ہی پانی کے ایک قطرے میں لا انتہا جانور پائے جاتے ہیں.حیوانات منویہ.ایک قطرہ منی میں دیکھے جاتے ہیں.اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی مخلوق اور انواع مخلوق کی حد بندی محض ناممکن ہے.اور صرف اپنے محدود علم کی بناء پر انکار محض نادانی ہے.اس لئے اولاً جنات کے متعلق یاد رکھنا چاہیے کہ ہم کسی ایسی مخلوق کا جو انسانی نوع سے نرالی ہو انکار کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے.اور ہم یہ کہنے کی وجوہات رکھتے ہیں کہ جن اللہ تعالیٰ کی ایسی قسم کی مخلوق ہے جن کو انسان کی ظاہری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں.اس لئے کہ ان کی مادی ترکیب نہایت ہی لطیف اور ان کی بناوٹ غایت درجہ کی شفاف ہوتی ہے.جس کی وجہ سے انسان ان ظاہری آنکھوں سے انہیں نہیں دیکھ سکتے.ان کے دیکھنے کے لئے ایک دوسری جس یعنی روحانی آنکھ کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علہیم السلام اور اولیاء اللہ اور مومنین صادقین ملائکہ وغیرہ غیر مرئی مخلوق کو بھی دیکھ لیتے ہیں.نہ صرف دیکھ لیتے ہیں بلکہ ان سے باتیں بھی ا ہم نے ایک کتاب سنی جو نازل ہوئی ہے موسیٰ کے بعد ۲ بے شک ہم نے آدمی کو بنا یا کھنکھناتی ہوئی مٹی سے جس پر کئی برس گزرے ہوں سیاہ کیچڑ بُودار سے.اور جن کو انسان سے پہلے ہم نے پیدا کیائو کی آگ سے.
حقائق الفرقان ۱۹ σ سُوْرَةُ الْجِنِ لیتے ہیں.خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کسی ایسی مخلوق کو جس کو ہم دیکھ نہیں سکتے.انکار کرنا دانشمندی نہیں.ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ خدا کی ایسی مخلوق دنیا میں موجود ہے جو انسانی نظروں سے پوشیدہ ہے.اور اسی وجہ سے اسے جن کہتے ہیں.کیونکہ عربی میں جن اسے کہتے ہیں.جس میں خفا اور نہاں ہونا پایا جاتا ہے.جنت.انسانی نظر سے پوشیدہ ہے.جنّةٌ ( ڈھال ) جو انسان کو چھپا کر تلوار کے حملہ سے محفوظ رکھتی ہے.جنین.وہ بچہ جو ماں کے پیٹ میں ہے پوشیدہ ہے.جنون.عقل کو چھپانے والا مرض.جن.انسانی نظر سے چھپی ہوئی مخلوق.پس جن و ہی مخلوق ہے جو عام انسانی نظر سے پوشیدہ ہو.خواہ وہ کسی قسم کی مخلوق ہو.غرض جن ایک مخلوق ہے.ایک اور بات بھی یہاں بیان کر دینے کے قابل ہے کہ احادیث میں جن کا لفظ سانپ، کالے کتے ، مکھی، بھوری چیونٹی، وبائی ،جرمز، بجلی، کبوتر باز ، زقوم، بائیں ہاتھ سے کھانے والا، گدھا، بال پراگندہ رکھنے والا، غراب، ناک یا کان کٹا ، شریر، سردار وغیرہ پر بھی بولا گیا ہے.ان تو جیہات پر غور کرنے سے ان مفاسد اور مضاد کی حقیقت بھی معلوم ہو جاتی ہے.جو جنون سے منسوب کی جاتی ہے.اب اس بیان کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کریم میں یہاں جو ذ کر کیا گیا ہے.اس سے کیا مراد ہے؟ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے.نصیبین ایک بڑا آبادشہر تھا.اور وہاں کے یہود جن کہلاتے تھے اور سوق عکاظ ( ایک تجارتی منڈی کا نام ہے ) میں آیا کرتے تھے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے نا امید ہو کر طائف تشریف لے گئے اور وہاں کے شریروں نے آپ کو دُ کھ دیا.آپ عکاظ کو آ رہے تھے.راستہ میں بمقام نخلہ یہ لوگ آپ سے ملے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز پڑھا رہے تھے.قرآن مجید کو سن کر وہ رقیق القلب ہو گئے.سب کے سب ایمان لے آئے اور جا کر اپنی قوم کو بھی ہدایت کی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۰)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجِنِ ۴،۳ - يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَأَمَنَا بِهِ وَ لَنْ تُشْرِكَ بِرَتِنَا أَحَدًا وَ أَنَّه تعلى جَدُّ رَبَّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَهُ وَلَا وَلَدًا - ترجمہ.جو نیک راہ سکھاتا ہے تو ہم نے تو اسے مان لیا اور ہم تو کبھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اپنے رب کا کیسی کو.اور یہ کہ بہت اونچی شان ہے ہمارے رب کی نہ تو کوئی اس کی جورو ہے نہ بیٹا.تفسیر.اب جنات نے اس قرآن کو قبول کرنے اور ایمان لانے کے دلائل بیان کئے.جن میں سے پہلی دلیل یہی ہے کہ وہ توحید کا مذہب ہے.مَا اتَّخَذَ صَاحِبَةً وَلَا وَلَدًا.یہ دوسری دلیل ہے.اور عیسائیوں کے اس صاحبہ اور ولد والے نا پاک عقیدہ کی نفی کرتے ہوئے قرآن شریف سے ماقبل تو رات ہی کا ذکر کیا.انجیل کا ذکر نہیں کیا.فرمایا.ولد تو صاحبہ کا نتیجہ ہے.جب صاحبہ نہیں تو ولد کہاں سے آیا.چوتھی صدی تک یہود عزیز کو ابن اللہ کہتے تھے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵،۱۶ مورخه ۱۸ جنوری ۱۹۱۲ ء و ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۱٬۲۹۰) ۵- وَأَنَّهُ كَانَ يَقُولُ سَفِيهُنَا عَلَى اللهِ شَطَطًا - ترجمہ.اور یہ بھی کہا کہ ہم میں کے بے وقوف لوگ اللہ پر جھوٹ افترا کیا کرتے تھے.تفسیر.سفاہت موٹی سمجھ سفیہ ، موٹی عقل والا.سفاھت کے معنے اضطراب ضعیف الرائے ہونا.شَطَطًا.دروغ گوئی ، بڑھ بڑھ کر باتیں کرنا ، زیادتی کرنا.(ضمیمه اخبار بدرقادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ مارچ ۱۹۱۲، صفحه ۲۹۱) -٦- وَاَنَا ظَنَنَّا أَنْ لَنْ تَقُولَ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى اللهِ كَذِبًا - ترجمہ.اور یہ ہمارا خیال تھا کہ ہرگز نہ بولیں گے انسان اور جن اللہ پر کوئی جھوٹی بات.تفسیر.وہ کہتے ہیں.ہمارا تو خیال تھا کہ کوئی امیر یا غریب ایسا نہیں کر سکتا کہ خدا پر جھوٹ بولے مگر افسوس ہے کہ قرآن اور اس کے رسول کے متعلق جو خبر میں لوگوں نے مشہور کر رکھی ہیں.وہ جھوٹی نکلیں اب خود قرآن کے سننے سے معلوم ہوا کہ وہ سچی کتاب ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ مارچ ۱۹۱۲، صفحه ۲۹۱)
حقائق الفرقان 2 ۲۱ سُوْرَةُ الْجِنِ وَ أَنَّهُ كَانَ رِجَالُ مِنَ الْإِنْسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا - ترجمہ.اور یہ بھی کہا کہ بہت سے بنی آدم مردوں میں سے جنات مردوں کی پناہ لیا چاہتے تھے تو ان آدمیوں نے جنات کا غرور زیادہ کیا.تفسیر.عوام.خواص کے رعب میں آئے ہوئے ہوتے ہیں.اس واسطے خواص کا تکبر اور سرکشی ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) بڑھ جاتی ہے.- وَأَنَا لَمَسْنَا السَّمَاءَ فَوَجَدُ نَهَا مُلِئَتْ حَرَسًا شَدِيدًا وَ شُهُبًا - ترجمہ.اور ہم آسمانی باتوں کی طرف غور کرتے رہے ہیں.تو اس کو پایا بھر اسخت چوکیداروں اور انگاروں سے.تفسیر - آنا لمسنا النساء - مس اور التماس ایک ہی مادہ سے ہیں.التماس کے معنے طلب کرنا، لَمَسْنَا - ڈھونڈنا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ منجم تھے.آسمانی حالات کو دریافت کیا کرتے تھے.حدیث شریف میں بھی ذکر ہے کہ انہوں نے کہا کہ دیکھو آسمان سے تو کوئی نئی بات ظہور میں نہیں آئی.مَسْنَا.طلباء نے آسمانی باتوں کے پتہ لگانے کی کوشش کی مگر صرف روشن ستارے ہی نظر آئے.حرس.حفاظت (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) ١٠ وَاَنَّا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّبْع فَمَنْ يَسْتَمِعِ الْآنَ يَجِدُ لَهُ شهَابًا تَصَدًا - ترجمہ.اور ہم جا بیٹھا کرتے تھے خاص خاص موقعوں پر سنا کرتے تھے.تو جو کوئی اب سنے کا قصد کرے تو اپنے لئے انگاروں کو تاک لگائے ہوئے پاتا ہے.مقاعد - رصد گا ہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ستارے بہت گرے تھے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجِنِ رَصَدًا.تاک لگائے ہوئے انتظار میں لگے ہوئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲، صفحه ۲۹۱) تحقیق ہم بیٹھتے تھے بیٹھنے کی جگہوں میں سننے کے لئے.پس اب اگر کوئی بات سننا چاہے پاتا ہے اپنے لئے شہاب انتظار میں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۸) ا.وَأَنَا لَا نَدْرِى اَشَدُّ يُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا - ترجمہ.اور ہم نہیں جانتے کہ کچھ برائی پہنچانی منظور ہے زمین کے رہنے والوں پر یا ان کے حق میں بھلائی پہنچانے کا ارادہ فرمایا ہے (اللہ نے).تفسیر.یعنی ستاروں کے گرنے کو دیکھ کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آیا زمین والوں کے لئے تباہی کا ارادہ کیا گیا ہے یا ان کے رب نے انہیں کوئی فائدہ پہنچانا ہے.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۸) اشر أريد بِمَنْ فِي الْأَرْضِ - أَرَادَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ نہیں کہا.ارید کہا.ارید میں ادب کو ملحوظ رکھا اور شر کو خدا کی طرف منسوب نہیں کیا.حدیث میں بھی الْخَيْرُ كُلُّهُ بِيَدَيْكَ وَ الشَّرُّ لَيْسَ اليك - آیا ہے.رشَدًا - میں رشد کا ارادہ کرنے والا رب کو بتایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) -۱۴ تا ۱۶ - وَاَنَا لَمَّا سَمِعْنَا الْهُدَى أَمَنَّا بِهِ فَمَنْ يُؤْمِنُ بِرَبِّهِ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَلَا رَهَقًا - وَ أَنَا مِنَا الْمُسْلِمُونَ وَمِنَا الْقَسِطُونَ - فَمَنْ أَسْلَمَ فَأُولَبِكَ تَحَرُوا رَشَدًا - وَأَمَّا الْقَسِطُونَ فَكَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا - ترجمہ.اور ہم نے جب کامیابی کی بات سنی تو اسے مان لیا.تو جو شخص اپنے رب پر ایمان لائے گا وہ نہ کسی نقصان کا خوف کرے گا اور نہ ظلم کا.اور ہم میں سے بعض تو فرمانبردار ہیں اور بعض نافرمان ہیں پس جو فرمانبردار بنا تو انہوں نے راہِ راست کا ارادہ کر لیا.اور جو نا فرمان ہیں وہ ا تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں اور شر تیری طرف سے نہیں ہے.
حقائق الفرقان جہنم کی لکڑیئیں ہیں.۲۳ سُوْرَةُ الْجِنِ تفسیر.بخش یکمی.رھی.زیادتی.تحروا.ڈھونڈا - حطب - ایندھن الْقُسِطُونَ.قاسط کی جمع ہے.قاسط کے معنے ظالم - قَسَطُ أَي جَارَ وَ أَقْسَطُ أَتَى عَدَلَ یعنی لفظ قسط کو اگر ثلاثی مجرد میں استعمال کریں تو اس کے معنے جو روظلم کے ہو جاتے ہیں اور اگر باب افعال میں لے جاویں تو عدل وانصاف کے معنے ہوتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) ١٧ - وَ اَنْ لَوِ اسْتَقَامُوا عَلَى الطَّرِيقَةِ لَاسْقَيْنَهُم مَّاءَ غَدَقًا - ترجمہ.(اور تم کہہ دوائے محمدؐ کہ میری طرف بھی وحی آئی ہے ) کہ اگر یہ لوگ سیدھے راستہ پر قائم رہتے تو ہم ان کو ضرور سیراب کر دیتے وسعت دے کر.تفسیر - ماءٌ غَدَقًا - عَيْشارَ غَدًا.دنیا میں وسعت دینا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) لِنَفْتِنَهُمْ فِيْهِ وَمَنْ يُعِرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكُهُ عَذَابًا صَعَدًا - ترجمہ.تاکہ اس میں ان کا امتحان اور تمیز کریں تو جو شخص منہ موڑے اللہ کے ذکر سے تو وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرے گا.تفسیر.سیر لِنَفْتِنَهُم فِیهِ.تا کہ ہم ان کو کندن کریں.تکلیف ہو.عَذَابًا صَعَدًا - صعود کا عذاب یعنی چڑھائی کا عذاب.ایسا عذاب جس سے سارے بدن کو (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) ۱۹ تا ۲۴ - وَ اَنَّ الْمَسْجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَنَّا - قُلْ إِنَّمَا ادْعُوا رَبِّي وَلَا يُشْرِكُ بِهَ اَحَدًا قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَ لَا رَشَدًا - قُلْ إِنِّي لَنْ يُجِيرَنِي مِنَ اللهِ اَحَدٌ وَ لَنْ أَجِدَ مِنْ دُونِهِ مُلْتَحَدًا إِلَّا بَلَغَا مِنَ اللَّهِ وَرِسْلَتِهِ وَمَنْ
حقائق الفرقان ۲۴ سُوْرَةُ الْجِنِ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَإِنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا - ترجمہ.اور مسجدیں تو اللہ ہی کے ذکر کے لئے ہیں تو اس کے ساتھ کسی کو بھی نہ پکارو.اور یہ کہ جب کھڑا ہوا اللہ کا بندہ اللہ کی عبادت کرنے کو تو وہ جمع ہو جاتے ہیں اس پر ڈٹ کے ڈٹ ( جمگھٹا کرنے کو ).کہہ دے کہ میں تو اپنے ہی رب کی طرف بلاتا ہوں اور اس کا کسی کو بھی شریک نہیں ٹھہراتا.کہہ دے نہ تو میرے ہی اختیار میں ہے تم کو کچھ ضرر پہنچانا اور نہ راہِ راست پر لے آنا.تو کہہ دے مجھ کو ہرگز پناہ نہ دے گا اللہ کے عذاب سے کوئی بھی اور میں اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ بھی نہ پاؤں گا.مگر (ہاں میں اپنا فرض منصبی ادا کرتا ہوں ) یعنی خبر پہنچانا اللہ کی طرف سے اور اس کے پیام اور جو شخص نافرمانی کرے گا اللہ کی اور رسول کی تو بے شک اس کے لئے جہنم کی آگ ہے وہ مدتوں اس میں رہیں تفسیر.اور یہ کہ سجدے کے ہاتھ پاؤں حق اللہ کا ہے.سومت پکار واللہ کے ساتھ کسی کو اور یہ کہ جب کھڑا ہوا اللہ کا بندہ اس کو پکارتا.لوگ کرنے لگتے ہیں اس پر ٹھٹھا.تو کہہ میں تو یہی پکارتا ہوں اپنے رب کو اور شریک نہیں کرتا اُس کا کسی کو.تو کہہ میرے ہاتھ میں نہیں تمہارا برا اور نہ راہ پر لا نا تو کہ مجھ کو نہ بچاوے گا اللہ کے ہاتھ سے کوئی اور نہ پاؤں گا اس کے سوا کہیں سرک رہنے کو جگہ.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۸ حاشیه ) مستحق عبادت اسلام کے نزدیک صرف وہ ہے.جو خود موجود، کل کے نفع وضر رکا مالک و مختار ہو اور اس کا نفع وضرر کسی سے ممکن نہ ہو.وہی جس کا کمال جلال و جمال ذاتی ہو.اور تمام اس کے سوا اپنے وجود و بقا میں اسی کے محتاج.سب کے کمالات جمال و جلال اسی کے عطا ہوں.اور ایسی چیز اللہ تعالیٰ کے ماسوا اہل اسلام کے نزدیک کوئی بھی نہیں.سب سے افضل، اکمل، اتم ، حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود دباجود ہے.ان کی پاک جناب کو بھی اسلامی اللہ کا بندہ، اللہ کا رسول ہی اعتقاد کرتے ہیں.اسلام کا اعتقاد ہے کہ ایک ذرہ کے بنانے کا بھی اختیار انہیں نہیں.ایک رتی برابر کسی کے نقصان دینے کی قدرت نہیں.آپ
حقائق الفرقان خالقِ کائنات نہیں.۲۵ سُوْرَةُ الْجِنِ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اَنَّ الْمَسجِدَ لِلهِ...إِلَّا بَلَغاً مِّنَ اللهِ وَ رسلته (الجن : ۱۹ تا ۲۴) اور مسجدیں اللہ کے لئے ہیں.پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو.اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے اُٹھا.تو اس پر ٹوٹ پڑنے لگے.کہہ میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہوں اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کرتا.کہہ میں تمہارے ضرر اور نفع کا اختیار نہیں رکھتا.کہہ کوئی مجھے خدائی عذاب سے پناہ نہیں دے سکتا.اور نہ میرے لئے اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ ہے.میرا کام تو صرف خدا کے پیغام پہنچا دینا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۳۷۱۳۶) وَ أَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُودُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا - اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے اٹھا.قریب تھا کہ اس پر ٹوٹ پڑتے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۳۱) قام عبد الله -عبد اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا.منازل فلکی پر عروج کے وقت آپ اسی نام سے پکارے گئے.سُبُحْنَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ - (بنی اسرائیل:۲) نزولِ قرآن پاک کی شان کے وقت بھی آپ اسی نام سے پکارے گئے.تَبْرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ الناهي.عَلَى عَبْدِه - (الفرقان : ۲) كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا كَادُوا کی ضمیر جن اور انس، کفار اور مومن سب کی طرف راجع ہو سکتی ہے.لبد لبدة کی جمع ہے.اور لبدہ کے معنے بعض کو بعض پر لپیٹنا.لُبَدَ بِضَةِ اللَّامِ وَفَتح قرآت ہے.معنے یہ ہوئے کہ کفار مشرکین قرآن سنانے کے وقت مخالفت پر آمادہ ہو کر نبی پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور مومن مسلمین بھی اطاعت، انقیاد اور حفظ کلام کی نیت سے مسابقت کرتے ہیں.لے وہ پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے پیارے محمد کو راتوں رات.۲ بڑی بابرکت ہے وہ ذات پاک جس نے اپنے بندے پر فرقان نازل کیا.س سہو کا تب معلوم ہوتا ہے.عبارت یوں ہونی چاہیے.لُبَدَ بضَةِ اللَّامِ وَفَتْحِ الْبَاء بھی قرآت ہے.
حقائق الفرقان ۲۶ سُوْرَةُ الْجِنِ جنوں کی طرف بھی اسی اعتبار سے گادُوا کا مرجع ہو سکتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب عبادت میں مشغول ہوتے تو بہت سے لوگ آپ کے پاس جمع ہو جاتے.انبیاء کا طریق کہ ہر ایک معاملہ میں نصیحت کا موقع نکال لیتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کو اس موقع پر بھی سمجھانا شروع کیا کہ اتنا بڑا علم جو خدا نے مجھے دیا اس واسطے ہے کہ میں موحد ہوں.شرک نہیں کرتا اور نمازوں میں دعائیں کرتا ہوں اور ان دعاؤں میں اللہ تعالیٰ کو معبود سمجھ کر اس کی عبادت کرتا ہوں.مگر تم ساتھ ہی شرک بھی کرتے ہو.پھر فرمایا.میں اتنا بڑا دعویٰ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا مجھے مکالمہ حاصل ہوتا ہے.لیکن باوجوداس کے میں تمہارے نفع اور ضر راور راہ نمائی کا مالک نہیں ہوں یہ آیت آنحضرت کی سچائی کی بڑی گواہ ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) مجھے تو اپنی ذات کے ضر و نفع کا کوئی بھی اختیار نہیں ہاں جو چاہے اللہ.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۱) -۲۵ - حَتَّى إِذَا رَأَوْا مَا يُوعَدُونَ فَسَيَعْلَمُونَ مَنْ أَضْعَفُ نَاصِرًا وَ أَقَلُّ عَدَدًا - أَضْعَفُ.آج تو یہ لوگ دعوے کرتے ہیں کہ ہم جتنے ہیں.بڑے ہوئے ہیں لیکن چند روز کے بعد ان کو پتہ لگ جاوے گا کہ کون کامیاب ہوتا ہے.(ضمیمه اخبار البدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۱) ۲۸،۲۷ - عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا - ترجمہ.وہ بڑا غیوں کا جانے والا ہے پس وہ خبر نہیں دیتا اپنے غیب کے بھید کی کسی کو.مگر جس کو اپنے رسولوں میں سے چاہے تو وہ اس کے آگے اور پیچھے لگا دیتا ہے محافظ.تفسیر.غیب کی خبروں پر اظہار علی الغیب کے طریق سے یعنی متحد یا نہ طور پر سوائے رسول کے دوسرا کوئی قادر نہیں ہو سکتا.اگر چہ پیش گوئیوں کے مفصل اجز انظری اور تعبیر طلب بھی ہوتے ہیں.مگر نفس پیشگوئی جو ایک غیب کی بات پر مشتمل ہوتی ہے.اس پر رسول اور نبی کو ایسا وثوق کامل ہوتا ہے کہ
حقائق الفرقان ۲۷ سُوْرَةُ الْجِنِ اس اظہار علی الغیب کی بناء پر رسول کی طرف سے متحد یا نہ دعوی ہوتا ہے.اور درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور ملتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے غرض کہ تحدی کرنا اور اس میں پورا اتر نا یہ نبی کا خاصہ ہے.غیر نبی کو اظہار علی الغیب میں دخل نہیں.فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا - رصد ، نگہبان ، پہرے دار، فرشتوں کی حفاظت.سورۃ الشورای میں وحی اور کلام الہی کو تین قسموں پر منقسم کیا ہے.وَمَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ تُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوحَى بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ - (الشوری: ۵۲).عوام الناس وحی کا نام سن کر گھبرا اُٹھتے ہیں.حالانکہ تینوں قسم کو وحی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے وحی کے لفظی معنے صرف اشارہ کے ہیں.الا وحیا میں عام خوابوں کو بیان فرمایا ہے.مِنْ وَرَاءِ حِجَاب.یہ بھی ایک قسم کی وحی ہے.جو اولیاء اور اہل اللہ کی وحی ہے.جن کے اکثر مکاشفات وغیرہ تعبیر طلبہ ہوتے ہیں.جب تک تعبیر کا وقت نہ آوے.ان پر حجاب ہوتا ہے.تیسری قسم وحى يُرسلَ رَسُولًا فَيُوحَى بِإِذْنِهِ مَا يَشَاءُ.یہ وحی وحی متلو ہے.اس کی عبارت بھی اگلے دو قسموں کی وحی سے زیادہ ہیں.اس میں احکامات اوا مر نواہی ہوتے ہیں.اس وحی میں کسی قسم کے مغالطے کا اندیشہ نہیں ہوتا.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کلام کی پوری حفاظت کرتا.ملائکہ کا پہرہ ساتھ ہوتا ہے.شیاطین کا دخل، قوت فکر یہ وہمیہ، خیالیہ، عادات وطبائع اس میں کسی قسم کی دست اندازی نہیں کرسکتی.رصدا کے لفظ میں کلام اور مہبط کلام دونوں کی حفاظت کا بیان ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۲٬۲۹۱) ا اور کسی بشر کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ( یعنی روبرو ) مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے ( رؤیا و کشف کے ذریعہ سے ) یا کسی رسول و فرشتے کو بھیج دے.پھر وہ پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے.
حقائق الفرقان ۲۸ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ مزمل کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے عابدوں کو پہلے ہی سے سمجھ دے رکھی ہے اور ان کی سچی کوشش کا بدلہ بھی دینے والا ہے.۲ تا ۱۱ - يَاَيُّهَا الْمُزَقِلُ - قُمِ الَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا - نِصْفَةً أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيلا - اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا - إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلاً - إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وَطْاً وَ أَقْوَمُ قِيلًا - إِنَّ لَكَ فِي النَّهَارِ سَبْعًا طَوِيلًا - وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبَّكَ وَ تَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا - رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ المَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذُهُ وَكِيلًا - وَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاهْجُرُهُمْ هَجْرًا جَمِيلًا - ترجمہ.اے قرآن کے اٹھانے والے نبوت کی خلعت پہننے والے.کھڑا رہا کر رات کو مگر تھوڑی ہی رات.نصف یا اس میں سے کچھ کم کر.یا آدھی سے کچھ بڑھا دے اور قرآن کو آہستہ آہستہ پڑھا کر سوچ سمجھ کر.قریب ہی ڈال دیں گے تجھ پر بھاری بوجھ.رات کا جا گنا نفس کے کچلنے کے لئے سخت تر ہے اور اس میں بات کی نکلتی ہے.تجھ کو دن میں بڑے بڑے کام رہتے ہیں.اور اپنے رب کا نام لے اور اسی کی طرف سب سے ہٹ کر جھک جا.وہ مشرق اور مغرب کا رب ہے کوئی بھی سچا معبود محبوب نہیں اس کے سوا تو تو اسی کو اپنا ضامن اور کارساز بنالے.اور وہ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کر اور عمدگی کے ساتھ ان سے الگ ہو جا.فسیر - مزيل ” کے شر کے ساتھ اور بغیر شد دونوں طرح آیا ہے.تزعمل کے معنے کپڑے میں لپیٹنے کے ہیں.زَمَّلْتُهُ بِقَوْبِهِ تَزْمِيْلاً فَتَزَمَّلَ.
حقائق الفرقان ۲۹ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ 66.99 مزمل.جب تخفیف ” پڑھا جاوے گا تو اس وقت معنے حمل اور بوجھ کے ہوں گے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مُوقِل کے نام سے خطاب کرنے میں چند معانی ہیں.ایک یہ کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جو مہربانی اور تلطف اللہ تبارک و تعالیٰ کو تھا اس کا اظہار مقصود تھا.جیسا کہ حضرت علی کو ایک روز مسجد میں خاک پر لیٹے ہوئے دیکھ کر آپ نے از راہ مہربانی و تلطف ان کو یا آبا تراب فرمایا.دوسرے یہ کہ ساری رات کپڑا اوڑھ کر سونے اور ایسی ہی حالت میں رات گزار دینے سے متنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس حالت میں کہ بار نبوت کو اٹھانا آپ کا کام ہے تو لازم ہے کہ ساری رات خواب میں نہ گزارا جاوے بلکہ کچھ حصہ رات کا دعا اور نماز کے لئے بھی مخصوص کیا جاوے.غرض کہ مزمل کے لفظ میں تلطف اور تنبہ دونوں ہی مرکوز ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۲) ہماری سرکار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم وحی الہی کی عظمت اور جبروت کو دیکھ کر بہت گھبرائے بدن پر لرزہ تھا.گھر میں تشریف لائے اور اپنی بی بی سے کہا.درونی دیرونی میرے بدن پر کپڑا ڈھانپ دو.انہوں نے اڑھائے.اس حالت کا نقشہ کھینچ کر جناب الہی فرماتے ہیں کہ تمہارا کام سونے کا نہیں.اٹھو اور نافرمان لوگوں کو ڈراؤ.اور اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارے بیان میں خدا کی عظمت اور جبروت کا ذکر ہو.اور قبل اس کے کہ دوسروں کو سمجھاؤ.اپنے آپ کو بھی پاک وصاف بناؤ.اس سورۃ میں یوں فرمایا کہ رات کو اٹھو.مگر کچھ حصہ رات میں آرام بھی کرو.رات کو قرآن شریف بڑے آرام سے پڑھو.میری (اپنی) فطرت گواہی دیتی ہے کہ جب کسی عظیم الشان انسان کو کوئی حکم آجاتا ہے اور اس میں کوئی خصوصیت بھی نہ ہو.تو چھوٹے لوگ بطریق اولی اس حکم کے محکوم ہو جاتے ہیں.دنیا میں ایک وہ لوگ ہیں.جو خود کپڑا پہنا نہیں جانتے.وہ دوسروں کو لباس تقوی کیا پہنائیں گے.پہلے لباس تو پہنا سیکھو.جب شرمگاہوں کو ڈھانک لو گے.تو تم پر رتِّلِ الْقُرْآن ترتیلا کا حکم
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل جاری ہو گا.عام طور پر مسلمانوں کو یہ موقع ملا ہوا تو ہے.مگر وہ اس کو ضائع کر دیتے ہیں.مسلمان عشاء کے وقت تو سوتے ہی نہیں.مگر اس کو بھی ضائع ہی کر دیتے ہیں.اگر توبہ واستغفار کریں تو اچھا موقع ہے.پھر اگر عشاء کے بعد ہی سو جائیں تو چار بجے ان کو تہجد اور تو بہ کا موقع مل جائے.بڑے بڑے حکم الہی آتے ہیں.مگر مزہ ان میں تبھی آتا ہے.جب ان پر عملدرآمد بھی ہو.انگریزی خوان تو تین تین بجے تک بھی نہیں سوتے.پھر بھلا صبح کی نماز کے لئے کس طرح اُٹھ سکتے ہیں.او کپڑے پہنے والو! تم اتنا کام تو ہمارے لئے کرو کہ ہماری کتاب کے لئے کوئی وقت نکالو.میرے بچے نے کہا کہ ہم کو لیمپ لے دو.ہم رات کو پڑھا کریں گے.میں نے اس کو بھی کہا کہ رات کو لیمپ کے سامنے پڑھنے کی ضرورت نہیں اس کے لئے دن ہی کافی ہوتا ہے.رات کو قرآن شریف پڑھا کرو.رات کو اگر تم جناب الہی کو یاد کیا کرو.تو تمہاری روح کو جناب الہی سے بڑا تعلق ہو جائے.مومن اگر ذرا بھی توجہ کرے.تو سب مشکلات آسانی سے دور ہو جاویں.و اذكرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً - اللہ تعالیٰ کا نام لو.اور رات کو جہان سے منقطع ہو جاؤ.مومن کو حضرت یوسف کے بیان میں پتہ لگ سکتا ہے کہ جس شخص کا کسی چیز سے محبت و تعلق بڑھ جاتا ہے.تو وہ اپنے محبوب کا کسی نہ کسی رنگ میں ذکر کر ہی دیتا ہے.میں جن جن شہروں میں رہا ہوں.اپنی مجلس میں مجھے ان کی محبت سے کبھی نہ کبھی ذکر کر نا پڑتا ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مجلس میں دوشخص آئے اور کہا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر بتلا دو.آپ نے فرمایا.کھانے کے وقت سے پہلے ہم آپ کو تعبیر بتلا دیں گے.پھر آپ نے کہا کہ دیکھو.ہم کوعلم تعبیر کیوں آتا ہے.تم کو کیوں نہیں آتا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے شرک کو چھوڑا تم بھی چھوڑ دو.دیکھو دو گھروں کا ملازم ہمیشہ مصیبت میں رہتا ہے.کام کے وقت ہر ایک اء مراد میاں عبدالحی ہیں.مرتب
حقائق الفرقان ۳۱ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل یہ کہتا ہے کہ کیا تو ہمارا ملازم نہیں؟ لیکن تنخواہ دینے کے وقت کہتے ہیں کہ کیا دوسرے کا کام نہیں کیا.اس لطیف طریقہ سے حضرت یوسف علیہ السلام نے شرک کی برائیاں بیان کیں اور پھر یہ بھی کہا کہ انبیاء پر ایمان لانا اور خدائے واحد کو ماننا ضروری ہے.إِنَّ لَكَ في النَّهَارِ سَبْحًا طويلا کے یہی معنے ہیں کہ انسان دل میں بھی ذکر الہی سے غافل نہ رہے.واذكر اسم - رات کو علیحدگی میں اپنے مالک کو یاد کرو.اگر تم کو یہ خیال پیدا ہو کہ ہم کو اس علیحدہ رہنے سے کیا فائدہ ہوگا ؟ تو یا درکھو کہ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيلًا.پس یاد رکھو کہ جس پاک ذات نے تجھ کو علیحدگی اختیار کرنے کو کہا ہے.وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے.اس کو اپنا کارساز سمجھو.وہ تم کو سب کچھ دیگا.پس میرے بھائیو! غور کرو.تم نے دن میں بہت کام کیا ہے.رات ہوگی.سونا اور مرنا برابر ہے.ایسے وقت میں سوچو کہ تم نے جناب الہی کی کس قدر یاد کی ہے.( بدر حصّہ دوم ۲۸ نومبر ۱۹۱۲ء کلام امیر صفحه ۸۸٬۸۷) نِصْفَهُ أَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا اَوْزِدْ عَلَيْهِ.چونکہ راتیں بڑھتی گھٹتی رہتی ہیں.اس لئے متوسط راتوں میں نصف شب سے اور چھوٹی راتوں میں نصف سے کم کر کے اور بڑی راتوں میں نصف سے زیادہ بھی قیام کرنے کے لئے ارشاد فرمایا اور چونکہ ایک حکم قطعی نہیں ہے.بلکہ دو جگہ آؤ ، اؤ فرما کر اختیار دیا ہے.اس طبیعت کے نشاط پر بھی اس قیام کو حوالے کر دیا گیا ہے.یعنی چھوٹی راتوں میں بحالت نشاط اگر قیام زیادہ کرلے اور بڑی راتوں میں بوجہ عدم نشاط طبیعت اگر قیام کم کر لے تو یوں بھی اختیار ہے.مگر چونکہ تم بصیغہ امر ہے.اس لئے قیام کئیل آپ پر فرض تھا جب کبھی بعض راتوں میں قیام کنیل آپ سے رہ گیا ہے تو آپ نے اس کو بعد طلوع آفتاب ادا فرمایا ہے.ایک حدیث میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن شریف یاد کرنے والوں اور قیام کٹیل کرنے والوں کو اشراف امتی فرمایا ہے.شرف کے لغوی معنے بلندی کے ہیں.رَيْلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا - أَى بَيْنَهُ تَبْيِيْنًا وَفَضِلُهُ تَفْصِيلًا.کسی نے حضرت اُم سلمہ
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآت کی کیفیت دریافت کی.فرمایا کہ آپ ہر ایک آیت کو جدا جدا کر کے پڑھتے تھے.مثلاً بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ کے چار ٹکڑے کرتے اور ہر ایک ٹکڑے کو علیحدہ علیحدہ پڑھتے.ابوداؤد میں روایت ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ لوگ پیدا ہوں گے.جو قرآن کو تیر جیسا سیدھا کریں گے.وہ بہت جلد پڑھیں گے نہ ٹھہر ٹھہر کر.دوسری روایت میں ہے کہ قرآن شریف ایسے لوگوں کے گلے سے نہیں اُترے گا.ایک اور روایت میں لا یبقی مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسُمہ آیا ہے.ایک اور روایت میں فرمایا ہے کہ جس نے تین دن سے کم میں قرآن شریف کو ختم کیا ، وہ نہ پڑھا ، نہ چپ رہا.لَا قَرَاءَ وَلَا سَكَتَ.اب تو بعض تراویح کے پڑھانے والے قاری ایک ہی شب میں جس کو وہ شبینہ کہتے ہیں.قرآن شریف کو ختم کر دیتے ہیں.إنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلاً میں قول ثقیل قرآن کریم کی متواتر پے در پے وحی کو فرمایا ہے حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک روز نہایت شدت سے سردی تھی.آپ پر وحی نازل ہوئی اور آپ کی پیشانی مبارک سے وحی کی شدت کی وجہ سے پسینے کے قطرے ٹپکنے لگے.اسی طرح اگر آپ کسی اونٹ پر سوار ہوتے اور وحی کا نزول شروع ہو جاتا تو اس کے پاؤں بوجہ نقل وحی ٹیڑھے ہونے لگتے اور اگر کسی صحابی کی ران پر آپ کا سر مبارک ہوتا یا تکیہ لگائے ہوتے اور ایسی حالت میں وحی کا نزول ہونے لگتا.تو اس صحابی کو اپنی ران کے ٹوٹ جانے کا خوف ہوتا اور ایسی حالت میں آپ کا چہرہ مبارک زیادہ منور اور روشن ہو جاتا.إِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْاً وَ أَقْوَمُ قِيلًا - نَاشِئَة بروزن عَاقِبَةُ مصدر نَشَأَ بمعنى قَامَ لِلْمُذَكَرِ نَاشِيُّ وَالْمُؤَنَّتُ نَاشِئَةٌ - اگر چہ عام طور پر امور حادثہ فی الیل کو ناشتہ کہتے ہیں.مگر چونکہ یہاں ذکر قیام لیل کا ہے.اس لئے ناشئة اليْلِ سے مراد اول شب سو رہنے کے بعد قیام نماز کے لئے اٹھنا نتشأة اور نشأة ہے وظنا مصدر بمعنی موافقت ہے.كقوله تعالى لِيُوَا طِوَا عِدَّةَ مَا حَرَّمَ اللهُ.أَى لِيُوَافِقُوا لے سہو کا تب معلوم ہوتا ہے.بمطابق لغت نشأة اور نَشَاءَةً مراد ہے.
حقائق الفرقان ۳۳ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ حدیث شریف میں ہے کہ اِنَّ فِي اللَّيْلِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْلٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهُ تَعَالَى خَيْرًا مِنْ خَيْرِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ وَذَلِكَ كُلُّ لَيْلَةٍ - يعنی رات میں ایک ایسی ساعت ہے کہ اگر مسلمان بندہ اس کے موافق پڑ جاتا ہے.تو خدائے تعالیٰ سے دینی و دنیاوی بھلائی مانگتا ہے.دیا جاتا ہے.اور وہ ساعت کسی رات کے لئے خاص نہیں ہے.بلکہ ہر رات میں ہوا کرتی ہے.ع ہر شب شب قدر است اگر قدر بدانی اقومُ قِيلًا - قول بمعنے فعل زبانِ عرب میں کثرت سے آتا ہے.معنی یہ ہوئے کہ دینی و دنیوی سب کام تہجد گزار عابد انسان کے درست ہو جاتے ہیں.چونکہ اقوم مبالغہ کا صیغہ ہے.اس لئے بڑے بڑے مشکلات اس ذریعہ سے دور ہو جاتے ہیں.بارِ نبوت کے تقل اٹھانے کے لئے قیام کیل کو اسی لئے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر فرض کیا.امت کو بھی اس میں بہت بڑی تعلیم ہے.حدیث شریف میں آیا ہے اَشَدُّ الْبَلَاءِ انْبِيَاءَ ثُمَّ الْأَمْثَلُ فَالْأَمْثَلُ عموماً الہامی کتب اور احوال انبیاء و اولیاء سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ رات کے وقت کو انتشار روحانیت اور جذب برکات یزدانی کے ساتھ خاص تعلق ہے.جس کی وجہ غالباً وہ تنہائی اور سکونِ قلب ہے.جو رات کی خاموشی اور علیحدگی سے حاصل ہوسکتا ہے.لے سبح.کے اصلی معنے چلنے پھرنے اور گردش کرنے کے ہیں.اسی واسطے پیراک کو سابح کہتے ہیں کہ وہ پیرتے وقت ہاتھ پیر مارا کرتا ہے.اور یہاں سبع سے تصرف في الحوائج یعنی اشغال ادبار اقبال اور آمدورفت مراد ہے.نمازوں کا پڑھنا ، مریضوں کی عیادت کرنا ، جنازوں کی متابعت کرنا ، فقراء ومہاجرین کی اعانت، طالب علموں کی تعلیم، مستفتیوں کو فتوی دینا ، صلح کرانا ، کافروں کا مقابلہ، اپنے ذاتی حوائج پورے کرنے، بیبیوں کی ضروریات کو مد نظر رکھنا.یہ سب امور آپ کے لئے سَبْعًا طويلًا تھے.رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وکیلا.رات ساری تو قیام کنیل میں گزری اور دن سارا سَبْحًا طَوِیلا.نبوت کے فرائض کی ادائیگی میں ختم ہو.اب بالطبع خیال پیدا ہوسکتا ہے ا سب سے زیادہ انبیاء آزمائش میں مبتلاء کیے جاتے ہیں پھر ان کے مثل اور پھر ان کے مثل درجہ بدرجہ.وہ مشرق اور مغرب کا رب ہے کوئی عبادت کے لائق نہیں مگر وہی.پس اسے ہی بطور کارساز پکڑ.
حقائق الفرقان ۳۴ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل کہ روزی رزق کی کیا سبیل ہو.تو اس کے لئے ربوبیت کو یاد دلا کر اسی کو اپنا کارساز سمجھنے کی طرف اس آیت میں توجہ دلائی.عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.مَنْ جَعَلَ الْهُمُومَ هَنَّا وَاحِدًا هَمَّ آخِرَتِهِ كَفَى اللهُ هَمَّ دُنْيَاهُ وَمَنْ تَشَعَبَ بِهِ الْهُمُومُ اَحوَالَ الدُّنْيَا لَمْ يُبَالِ اللهَ أَى وَادِيَتِهَا هَلَكَ - جس شخص نے اپنے تمام فکروں کو اکٹھا کر کے ایک آخرت ہی کی فکر بناڈالا تو کارساز ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے تفکرات کا.لیکن جس کو پریشان کر رکھا ہے اس کے دنیا کے احوال نے جو اسی میں مستغرق ہے تو خدا کو بھی پروا نہیں کہ دنیا کے کسی خاردار جنگل جھاڑیوں میں وہ ہلاک ہو جاوے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۳٬۲۹۲) ۱۳ ، ۱۴ - إِنَّ لَدَيْنَا انْكَالًا وَجَحِيمًا - وَطَعَامًا ذَا غَضَةٍ وَعَذَابًا أَلِيمًا - ترجمہ.ہمارے پاس تکمیل ہے بیٹریاں اور دوزخ ہے.اور گلا گھونٹنے والا کھانا ہے اور ٹمیں دینے والا عذاب ہے.تفسیر.طَعَامًا ذَا غَضَة.وہ طعام ہے.جو گلو گیر حلق میں پھنے والا ہو.غصة.یہ عربی لفظ اللہ تعالیٰ کے غضب پر قرآن شریف میں کہیں نہیں بولا گیا.یہ ہماری زبان کا نقص ہے جو غضب الہی کے معنے خدا کے غصہ کے کرتے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۳) ١٦، ١٧ - إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - فَعَطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْ نَهُ أَخَذَ ا وَبِيلًا - ترجمہ.ہم نے تمہاری طرف ویسا ہی رسول بھیجا ہے.جو تم پر نگران ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا.تو فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اس کو بڑی سختی سے پکڑ لیا.كما اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَوْنَ.اس آیت شریفہ میں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو
حقائق الفرقان ۳۵ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ مثیل موسی قرار دیا ہے.اور آیت استخلاف سوره نور لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِم - (النور : ۵۲) فرما کر خلفائے امت مرحومہ کو خلفائے موسوی کا مثیل قرار دیا ہے.چونکہ خاتم الخلفاء موسوی مسیح ناصری علیہ الصلوۃ والسلام تھے اور ان کی بعثت موسیٰ علیہ السلام سے تیرہ سو برس بعد چودہویں صدی موسوی پر ہوئی تھی.اس لئے مماثلت کی مطابقت کے لئے ضروری تھا کہ مثیل موسی کا خلیفہ چودہویں صدی پر محمدی خلفاء کا خاتم مسیح کے نام پر آوے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۳) مثلیت موسی.موسی کی پانچویں کتاب استثناء باب ۱۸ آیت ۱۷ تا ۲۲ ملا حظہ کرو.اور خداوند نے مجھے کہا کہ انہوں نے جو کچھ کہا.سواچھا کہا.میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے کہوں گا.وہ سب ان سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا.نہ سنے گا.تو میں اس کا حساب اس سے لوں گا.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے.جس کے کہنے کا میں نے اسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جاوے گا.اور اگر تو اپنے دل میں کہے.میں کیونکر جانوں کہ یہ بات خداوند کی کہی ہوئی نہیں تو جان رکھ کہ جب نبی کچھ خداوند کے نام سے کہے اور وہ جو اس نے کہا ہے.پورا نہ ہو یا واقع نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے.تو اس سے مت ڈر.اس بشارت کا بیان دو حصوں میں منقسم کیا جاتا ہے.اول حصے میں اس امر کا ثبوت ہے کہ یہ بشارت خاص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہے.اور دوسرے حصے میں یہ بیان کریں گے کہ جن لوگوں نے اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نہیں مانا.ان کے اعتراض صرف دھوکا ہیں.لے ان کو ضرور خلیفہ بنائے گا زمین میں جیسے کہ خلیفہ بنایا ان سے پہلے والوں کو.
حقائق الفرقان ۳۶ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ حصہ اول.اس پیشین گوئی میں موسی نے بڑا بسط کیا ہے.اور جہاں تک ممکن تھا.اس نبی کا نشان ظاہر کیا.اول.اُس نبی کی قوم کو بتایا کہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے ہوگا.دوم.وہ نبی مجھ سا ہوگا ( تشبیہ محل تأمل کہ کس امر میں موسیٰ سا ہو گا ) سوم.خدا کا کلام اس کے منہ میں ہوگا.چہارم.جو کچھ باری تعالیٰ اُس سے فرمائے گا.وہ سب کچھ کہہ دے گا.پنجم.جو کوئی اس کی مخالفت کرے گا.اور کہا نہ سنے گا.وہ سزا یاب ہوگا.ششم.اگر وہ نبی بدوں حکم باری تعالیٰ کے کچھ کہے تو وہ مارا جائے گا.ہفتم.وہ نبی توحید کا واعظ.غیر معبودوں کی پرستش کا مانع ہوگا.اگر غیر معبودوں کے نام سے کچھ کہے گا تو مارا جائے گا.ہشتم.اس کی پیشین گوئیاں پوری ہوں گی.اور جھوٹے نبی کی کوئی پیشین گوئی پوری نہ ہوگی."کچھ" کے لفظ پر غور کرو.جو بشارت کے اس فقرے میں ہے (جب نبی کچھ خداوند کے نام سے کہے).نہم.سچا اس قابل ہے کہ تو اس سے ڈرے.الا جھوٹا نبی چونکہ جلد ہلاک ہو جاوے گا.تواس سے مت ڈر.یہی چند باتیں اس پیشینگوئی میں ہیں جن پر ناظرین کو غور کرنا چاہیے.موسی نے اپنی مثلیت کے لئے اپنی کوئی خاص صفت ان امور کے سوا بیان نہیں کی.گوموسی میں ہزاروں اور صفات ہوں.الا یہ امر کہ وہ نبی مجھ سا رکن صفات میں ہو گا.سوائے امور مذکورہ پیشین گوئی کے بیان نہیں فرمایا.پس ہم یقین کرتے ہیں اور ہر منصف تسلیم کرے گا کہ انہیں امور میں تشبیہ اور مثلیت موسی کو مقصود تھی.علاوہ بریں جب کسی چیز کو کسی چیز کا مثل کہا جاتا ہے تو صرف چند امور محققہ میں تشبیہ مطلوب ہوتی ہے.اب ہم دکھلاتے ہیں کہ قرآن نے اس پیشین گوئی کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ثابت ہونے کا صرف دعوای ہی نہیں کیا.بلکہ کل مدارج طے کر کے سچا کر
حقائق الفرقان ۳۷ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ دکھایا اور تمام امور مندرجہ پیشین گوئی کو تسلیم کر کے بڑے دعوئی سے کہا کہ آنحضرت کے سوا اور کوئی اس کا مصداق ممکن نہیں.امر اول.بنی اسمعیل بنی اسرائیل کے بھائی ہیں.دیکھو قرآن میں آنحضرت کو حکم ہوا.b وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء : ۲۱۵) اس پر آنحضرت اپنی قوم کو حکم دیتے ہیں.وَ جَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَج مِلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِنْ قَبْلُ (الحج : ٧٩) - رَبَّنَا إِلَّ أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ ( ابراهيم : ۳۸) دیکھو.قرآن نے صاف بتایا.قرآن نے صریح کہا.قریش لوگو! تم اپنے باپ ابراہیم کے مذہب کو اختیار کرو.امردوم.وہ نبی موسی کا سا ہوگا.اور قرآن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت لکھا ہے.ا - إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا ( المزمل: ١٢) ۲ - قُلْ اَرَعَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَ كَفَرْتُمْ بِهِ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ه عَلَى مِثْلِهِ (الاحقاف:11) شاھد کی تنوین واسط تفخیم تعظیم کے ہے.اور لفظ مثلیہ قابل غور ہے.لے اور ڈر سنادے اپنے نزدیک کے ناتے والوں کو.اور محنت کر واللہ کے واسطے جو چاہیے اُس کی محنت.اُس نے تم کو پسند کیا اور نہیں رکھی دین میں تم پر کوئی مشکل.دین تمہارے باپ ابراہیم کا.اس نے نام رکھا تمہارا حکم بردار پہلے سے.اے رب میں نے بسائی ہے ایک اولاد اپنی میدان میں جہاں کھیتی نہیں ہے تیرے ادب والے گھر کے پاس..ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا جیسے بھیجا فرعون کے پاس رسول.۵، تو کہہ.بھلا دیکھو تو.اگر یہ ہو اللہ کے یہاں سے اور تم نے اس کو نہیں مانا.اور گواہی دے چکا ایک گواہ بنی اسرائیل کا ایک ایسی کتاب کی.پھر وہ یقین لایا.
حقائق الفرقان ۳۸ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ ٣- قَالُوا يُقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتبًا اُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِى إلَى الْحَقِّ وَ إِلى طَرِيقٍ مُسْتَقِيمٍ (الاحقاف: ۳۱) ل نوٹ : حضرت موسیٰ کا قصہ بتکرارو کثرت قرآن میں مذکور ہونا اس امر کا اشارہ اور اظہار کرتا ہے کہ قرآن اپنے رسول نبی عربی کو مثیل موسی ثابت کرتا ہے.امرسوم کی نسبت فرماتا ہے: -١- وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى - (النجم: ۵،۴) ٢ - لَا تُحَرِّكُ بِه لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ - إِنَّ عَلَيْنَا جَمُعَةَ وَ قُرْآنَهُ - فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبِعُ قُرانَهُ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَة - (القيامة : ۱۷ تا ۲۰) وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ منْ دُونِ اللهِ اِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ (البقرة: ۲۴) نوٹ.کلام منہ میں ڈالنا یا دل میں ڈالنا.اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ وہ کلام اُس نبی کے قلب نبوت پر لفظاً یا معنا بہ ہمیں ترتیب بلا تقدم و تاخر خدا کی طرف سے ڈالا گیا ہے.آیت دوم میں خداوند خدا قرآن کا جامع اور قاری اپنی ذاتِ مقدس کو ٹھہراتا ہے.اور آنحضرت کو صرف پڑھ سنانے والا مقرر فرماتا ہے.یہ بڑا بھاری اشارہ پیشینگوئی کے امرسوم کی طرف ہے کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں دوں گا.ے بولے اے قوم ہماری.ہم نے سنی ایک کتاب جو اُتری ہے موسی کے پیچھے.سچا کرتی ہے سب اگلیوں کو.سمجھاتی سچا دین اور راہ سیدھی.ہے اور نہیں بولتا ہے اپنے چاؤ سے یہ توحکم ہے جو بھیجتا ہے.سے نہ چلا تو اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کہ شتاب اس کو سیکھ لے.وہ تو ہمارا ذمہ ہے.اس کو سمیٹ رکھنا اور پڑھانا.پھر جب ہم پڑھنے لگیں تو ساتھ رہ.تو اس کے پڑھنے کے.پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اس کوکھول بتانا.ہے اور اگر تم شک میں ہو اس کلام سے جو ا تارا ہم نے اپنے بندے پر تو لاؤ ایک سورت اس قسم کی اور بلاؤ جن کو حاضر کرتے ہو اللہ کے سوائے.اگر تم سچے ہو.
حقائق الفرقان ۳۹ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل امر چہارم.حجتہ الوداع یعنی آخری حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کی طرف خطاب کر کے فرمایا.چنانچہ چند الفاظ اس طویل خطبے کے آخر سے نقل کئے جاتے ہیں.اللَّهُمَّ هَلْ بَلَّغْتُ فَقَالَ النَّاسُ اللَّهُمَّ نَعَمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللهُمَّ اشْهَدُ -١ اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ اَتْبَتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَام دينا (المائدة : ) نوٹ.یہ آیت اور وہ حدیث باظہار حق و باقرار عباد گواہی دیتی ہے کہ آنحضرت نے سب کچھ بتلایا.امرپنجم.تمام مک اور حجاز کے گھر گھر کو دیکھوتمام مخالفوں اور اس کا کہا نہ ماننے والوں کا نام ونشان ہی نہ رہا.اور دیکھو کہ آیت إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر (الكوثر : ۴) سے کی پشین گوئی کیسی پوری ہوئی.اہل حجاز پر ہی کیا منحصر ہے.تمام عرب اور بلا دشام پر غور کرو.جو خدا کی خاص چھاؤنی اور کل انبیائے بنی اسرائیل کا ہیڈ کوارٹر اور کالج ہے.دیکھو اسی پیشین گوئی کے مطابق قرآن فرماتا ہے.ا - إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - فَعَطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَأَخَذْ نَهُ أَخْذَا وَبِيلًا - (المزمل : ۱۲ - ۱۷) ٢ - يُقَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللهِ وَ آمِنُوا بِهِ يَغْفِرُ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرُكُم مِّنْ عَذَابٍ اليم - وَ مَنْ لا يُجِبُ دَاعِيَ اللهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزِ فِي الْأَرْضِ وَ لَيْسَ لَهُ مِنْ دُونِةٍ أَوْلِيَاءُ لے اے میرے پروردگار کیا میں نے سب کچھ پہنچا دیا.لوگوں نے کہا.ہاں.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے اللہ میرے تو گواہ رہ - سے آج میں پورا دے چکا تم کو دین تمہارا اور پورا کیا میں نے تم پر احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے دین مسلمانی سے بے شک جو بیری ہے تیرا وہی رہا پیچھا کٹا.کہ ہم نے بھیجا تمہاری طرف رسول بتانے والا تمہارا جیسے بھیجا فرعون کے پاس.پھر کہا نہ مانا فرعون نے رسول کا.پھر پکڑا ہم نے اس کو پکڑ و بال کی.
حقائق الفرقان أوليكَ فِي ضَللٍ مُّبِين ـ (الاحقاف: ۳۳۳۲) امر ششم.قرآن فرماتا ہے.سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل وَ لَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ فَمَا مِنْكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حجزِینَ.(الحاقة: ۴۸۳۴۵) ۲ - آم يَقُولُونَ افْتَرَهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللهِ شَيْئًا - (الاحقاف : ٩ ) - - يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغُ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبَّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ ۖ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ۶۸) مر ہفتم کی نسبت تمام قرآن مالا مال ہے.فروگزاشت کے خوف سے چند آیات مرقوم ہیں.آیات منع شرک ا - قُلْ يَاهْلَ الْكِتب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ الَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَ لَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ - (آل عمران : ۶۵) ۲- قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبِّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا - (الانعام: ۱۵۲) لے اے قوم ہماری مانو اللہ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو کچھ تمہارے گناہ اور بچاوے تم کو ایک دُکھ کی مار سے اور جو کوئی نہ مانے گا اللہ کے بلانے والے کو تو وہ نہ تھکا سکے گا بھاگ کر زمین میں اور کوئی نہیں اُس کو اُس کے سوائے مددگار وہ لوگ بھٹکے ہیں صریح ہے اور اگر یہ بنا لا تا ہم پر کوئی بات تو ہم پکڑتے اس کا داہنا ہاتھ.پھر کاٹ ڈالتے اس کی ناڑ.پھر تم میں کوئی نہیں اس سے روکنے والا.سے کیا یہ لوگ کہتے ہیں.یہ بنالا یا تو کہ اگر میں بنالا یا ہوں تو تم میرا بھلا نہیں کر سکتے اللہ کے سامنے کچھ.۴ اے رسول پہنچا جوا ترا تیرے رب کی طرف سے اور اگر یہ نہ کیا تو تُو نے کچھ نہ پہنچایا اس کا پیغام اور اللہ تجھ کو بچالے گا لوگوں سے.۵.تو کہ اے کتاب والو! آؤ.ایک سیدھی بات پر ہمارے تمہارے درمیان کی کہ بندگی نہ کریں ہم مگر اللہ کو اور شریک نہ ٹھہرا دیں اس کا کسی چیز کو اور نہ پکڑیں آپس میں ایک ایک کو رب سوائے اللہ کے.1 تو کہہ آؤ میں بنادوں جو حرام کیا ہے تم پر تمہارے ربّ نے کہ نہ شریک کرواُس کے ساتھ کسی چیز کو اور ماں باپ سے نیکی.
حقائق الفرقان ۴۱ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ - قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ ان تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَّا وَ اَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ (الاعراف: ۳۴) - وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا (النساء: ۳۷) - إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرَى إِثْمًا عَظِيمًا - (النساء:۴۹) - وَاتَّخَذُوا مِن دُونِةٍ الِهَةً لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ وَلَا يَمْلِكُونَ لِاَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا يَهْلِكُونَ مَوْتَا وَ لَا حَيُوةً وَ لَا نُشُورًا ( الفرقان : ٤ ) - - وَ اِذَا رَاَوكَ إِنْ يَتَّخِذُونَكَ إِلَّا هُزُوًا اَهَذَا الَّذِى بَعَثَ اللَّهُ رَسُولًا - إِنْ كَادَ لَيُضِتُنَا عَنْ الهَتِنَا لَوْ لَا أَنْ صَبَرْنَا عَلَيْهَا وَسَوْفَ يَعْلَمُونَ حِيْنَ يَرَوْنَ الْعَذَابَ مَنْ أَضَلُّ سبيلا - (الفرقان: ۴۲ - ۴۳) فرقان:۴۲-۴۳)۵ امر ہشتم.اس پر ہم نے برہانِ نبوت کے واسطے ایک علیحدہ باب قائم کیا ہے.اور مفصل مضمون مگر اس جگہ مختصراً اُس مضمون کی تجدید کی جاتی ہے.لکھا ہے.اول اول آنحضرت نے مکے میں موسی کی مثلیت کا دعوی کیا اور اپنے مخالفین کو آنے والے ا تو کہہ میرے رب نے منع کیا بے حیائی کے کام کو جو کھلے ہیں اُن میں اور جو چھپے ہیں اور گناہ اور زیادتی ناحق کی اور یہ کہ شریک کرو اللہ کا جس کی اس نے سند نہیں اتاری اور یہ کہ جھوٹ بولو اللہ پر جو تم کو معلوم نہیں ، اور بندگی کرواللہ کی اور ملاؤ مت اس کے ساتھ کسی کو.۳ تحقیق اللہ نہیں بخشتا ہے یہ کہ اس کا شریک پکڑیے اور بخشتا ہے اُس سے نیچے جس کو چاہے اور جس نے ٹھہرا یا شریک اللہ کا اُس نے بڑا طوفان باندھا.ہے اور لوگوں نے پکڑے ہیں اس سے ورے کتنے حاکم جو نہیں بناتے کچھ چیز اور آپ بنے ہیں.اور نہیں مالک اپنے حق میں ہیں.بڑے کے نہ بھلے کے اور نہیں ما لک مرنے کے نہ جینے کے اور نہ جی اُٹھنے کے.اور جہاں تجھ کو دیکھا کچھ کام نہیں تجھ سے مگر ٹھٹھے کرتے.کیا یہی ہے جس کو بھیجا اللہ نے پیغام دے کر.یہ تو لگا ہی تھا کہ بچلاوے ہم کو ہمارے بٹھا کروں سے.کبھی ہم نہ ثابت رہتے اُن پر.اور آگے جائیں گے جس وقت دیکھیں گے عذاب.کون بچلا ہے راہ سے..اس مقام پر آنحضرت کا خط جو انہوں نے خیبر کے یہود کو لکھا نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے اس سے غرض یہ
حقائق الفرقان ۴۲ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ عذاب سے مخالفت کے باعث ڈرایا.اس پر کفار مکہ نے کہا کہ اگر تو سچا ہے تو اُس کا نشان ہمیں دکھا کہ ہم پر عذاب آوے.چنانچہ قرآن مجید اس معاملہ کی اس طرح خبر دیتا ہے.فَقَد كَذَّبُوا بِالْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُمُ ، فَسَوْفَ يَأْتِيهِمْ أَنبُوا مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ.اَلَمُ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنْ قَرْنٍ مَّكَنْهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ تُمَكِنُ تَكُمْ وَ اَرْسَلْنَا السَّمَاءِ لَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَرَ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قرنًا أَخَرِينَ (الانعام: ۷۲) اس آیت میں بدوں میعاد معینہ کے مطلق تکذیب پر ہلاکت کی خبر دی.پھر فرمایا.وَ كَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُلْ لَسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ لِكُلِّ نَبَا مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ بقیہ حاشیہ ہے کہ آپ بڑے استقلال اور قوی یقین سے مثلیت کا دعویٰ کرتے تھے.اور آپ کے مخاطبین تعصب اور حسد کے سوا انکار کی کوئی وجہ نہیں دیکھتے تھے.(ابن ہشام) مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِبِ مُوسَى وَآخِيْهِ وَالْمُصَدِّقِ لِمَا جَاءَ بِهِ مُوسَى، أَلَا إِنَّ اللهَ قَدْ قَالَ لَكُمْ يَأْمَعْشَرَ أَهْلِ التَّوْرَاةِ وَ إِنَّكُمْ لَتَجِدُونَ ذلِكَ فِي كِتَابِكُمْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ.وَإِنِّي انْشُدُ كُمْ بِاللهِ أَلَا أَخْبَرُ تُمُونِي هَلْ تَجِدُونَ فِيمَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُؤْمِنُوا بِمُحَمَّدٍ فَإِنْ كُنْتُمْ لَا تَجِدُونَ ذُلِكَ في كِتَابِكُمْ فَلا كُرة عَلَيْكُمْ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ - ترجمہ: محمد رسول اللہ کی طرف سے جو موسیٰ کا مثیل اور اس کا بھائی اور اس کی تعلیمات کو سچا کرنے والا ہے.اے گروہ اہل تو رات ! دیکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں فرمایا.اور تم اس بات کو اپنی کتاب میں پاتے ہو محمد اللہ کا رسول ہے اور میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں.بتاؤ تو سہی جو کچھ اللہ نے تم پر اتارا.تم اس میں یہ نہیں لکھا پاتے کہ تم لوگ محمد پر ایمان لاؤ ؟ اگر تم اپنی کتاب میں نہیں پاتے ہو تو میں تمہیں مجبور نہیں کرتا.ضلالت اور ہدایت ممتاز ہو چکی ہے.(ابن ہشام جلد نمبر صفحہ ۱۹۶) لے جھٹلا چکے حق بات کو جب ان تک پہنچی.اب آگے آوے گا اُن پر حق اُس بات کا جس پر ہنستے تھے.کیا دیکھتے نہیں کتنی ہلاک کیں ہم نے پہلے اُن سے سنگتیں.ان کو جمایا تھا ہم نے ملک میں جتنا تم کو نہیں جمایا اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان برستا اور بنا دیں نہریں بہتی ان کے نیچے.پھر ہلاک کیا ان کو ان کے گناہوں پر اور کھڑی کی ان کے پیچھے اور سنگت.
حقائق الفرقان ۴۳ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل تَعْلَمُونَ.(الانعام: ۶۸۶۷ وَإِذْ قَالُوا اللَّهُمَّ إِنْ كَانَ هَذَا هُوَ الْحَقِّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرُ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاءِ أَوِ ط اثْتِنَا بِعَذَابِ اَلِيْم - وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِيهِمُ - - (الانفال: ۳۳ - ۳۴) اس آیت میں یہ بات بتائی کہ تیرے یہاں ہوتے ہوئے یعنی گلے میں وہ عذاب نہیں آئے گا.وَ يَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ - قُلْ عَسَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِي تَسْتَعْجِلُونَ.(النمل: ۷۲-۷۳) اس میں بتایا کہ یہ عذاب کچھ حصہ اس عذاب موعود کا ہو گا.اور تمہاری تباہی اور استیصال کا شروع ہوگا.وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ - قُلْ لَكُمْ مِنْعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ.(سبا: ۳۰ ۳۱ ) - نوٹ.نبوت کا دن ایک برس کا ہوتا ہے جیسے دن جو ساتھ صبح اور شام کے نبوت میں لکھا ہو یا شام یا صبح سے شروع کرے تو چوبیس گھنٹے کا شمار ہوتا ہے ورنہ ایک سال کا ( دیکھو اندرونہ بائبیل صفحہ ۳۱۳) پادری صاحبان غور کرو.قرآن نے کیسا معجزہ دکھلایا کہ ان کے زوال کا وقت بھی بتا دیا.اور یہ وعدہ جنگ بدر میں پورا ہوا.کیونکہ بدر کی لڑائی ٹھیک ایک برس بعد ہجرت کے واقع ہوئی یعنی ۱۵ جولائی ۶۲۲ ہ ء کو آنحضرت کے سے ہجرت کر کے مدینے تشریف لے گئے اور ۲۳ ء میں لے اور تیری قوم نے اسے جھٹلایا حالانکہ یہ حق ہے.تو کہہ دے.اے محمد میں تم پر وکیل نہیں ہوں.ہر ایک خبر کے لئے ایک وقت مقرر ہے پس عنقریب تم جان لو گے.اور جب کہنے لگے کہ یا اللہ اگر یہی دینِ حق ہے تیرے پاس سے تو ہم پر برسا آسمان سے پتھر یالا ہم پر دکھ کی ماراور اللہ ہر گز عذاب نہ کرتا ان کو جب تک تو تھا اُن میں.اور کہتے ہیں کہ کب ہے یہ وعدہ.اگر تم سچے ہو.تو کہ شاید تمہاری پیٹھ پر پہنچی ہو.بعض چیز جس کی شتابی کرتے ہو.اور کہتے ہیں.کب ہے یہ وعدہ.اگر تم سچے ہو.تو کہہ تم کو وعدہ ہے ایک دن کا.نہ دیر کرو گے اُس سے ایک گھڑی.نہ شتابی.
حقائق الفرقان ۴۴ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل قریش سے جنگ بدر ہوئی اور اس بدر کی لڑائی کو قرآن نے آیت یعنی بڑا نشان ٹھہرایا جو کامیابی اسلام کا گویا آغاز ہے.چنانچہ فرمایا.قَدْ كَانَ لَكُمْ آيَةٌ فِي فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَأُخْرَى كَافِرَةٌ يَرَوْنَهُمْ مِثْلَيْهِمْ رَأْيَ الْعَيْنِ وَ اللهُ يُؤَيّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِأُولِي الْأَبْصَارِ - (آل عمران: ۱۴) وَ لَقَد نَصَرَكُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَ انْتُمْ أَذِلَةٌ فَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (آل عمران: ۱۲۴) وو یہاں وہ پیشنگوئی جو یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ سے شروع ہوتی ہے پوری ہوئی.عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کو کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرتے آؤ.اے تیا کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے نگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں.کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا ہنوز ایک برس.ہاں مزدور کے سے ٹھیک ایک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کی جو باقی رہی.قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا“ اس لڑائی میں قیدار کے اکثر سردار مارے گئے اور وہ کامیابی جو سچائی کا معیار ہوتی ہے.ظاہر ہو گئی.اور یہ بدر کی فتح اسلام کے حق میں ایسی ہی اکسیر اعظم ہوئی.جیسی جنگ ملوین برج کی فتح دیکھو سنین اسلام جلد اول مصنفہ ڈاکٹرلیٹر صفحہ ۲۷ مطبوعہ انجمن پنجاب لاہور.ے ابھی ہو چکا ہے تم کو ایک نمونہ دو فوجوں میں جو بھڑی تھیں.ایک فوج ہے کہ لڑتی ہے اللہ کی راہ میں اور دوسری منکر ہے.یہ اُن کو دیکھتی ہے اپنے دو برابر صریح آنکھوں سے.۲ اور اللہ زور دیتا ہے اپنی مدد کا.جس کو چاہے.اسی میں خبر دار ہو جاویں جن کو آنکھ ہے.اور تمہاری مدد کر چکا ہے اللہ بدر کی لڑائی میں اور تم بے مقدور تھے سو ڈرتے رہو اللہ سے.شاید تم احسان مانو.حملہ یہ لڑائی ۳۱۲ء میں قسطنطین اعظم اور میگزیشن قیصر میں ہوئی تھی اور قیصر مذکور کو جو اس میں شکست ہوئی اس کو عیسائی فتح مبین اپنے دین کی سمجھتے ہیں.
حقائق الفرقان ۴۵ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل دین عیسوی کے حق میں.نویں امر کی نسبت قرآن فرماتا ہے.وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَ أَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ ۚ فَاعْتَبِرُوا يأولِي الْأَبْصَارِ (الحشر : ٣) تورات میں بنی اسرائیل کوحکم تھا کہ سچے نبی سے ڈریں لیکن اُن لوگوں نے کفار مکہ کی طرح مبئی برحق کی مخالفت کی.وعید الہی سے نڈر ہو گئے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی نضیر ( بنی اسرائیل ) ویران اور تباہ ہو کر مدینہ سے نکل گئے.بعض عیسائی کہتے ہیں کہ یہ بشارت مسیح کے حق میں ہے.پر یہ دعوئی ان کا صحیح نہیں کیونکہ مسیح اور موسی کے حالات میں کسی قسم کی مماثلت جو پشین گوئی میں مندرج ہے.ہرگز نہیں پائی جاتی.وجہ اول یہ ہے کہ مسیح صاحب شریعت نہ تھے.بلکہ شریعت موسوی کے پیرو تھے چنانچہ اُن کے بپتسمہ لینے ، ختنہ کرانے، یروشلم میں آنے سے ظاہر ہے.دوم.مسیح نے خود بھی تو دعوی نہیں کیا کہ بشارت مثلیت میرے حق میں ہے.اور نہ ان کے حواریوں نے اس بشارت کو اُن کی طرف منسوب کیا.بلکہ اعمال باب ۳.۱۹ سے صاف ظاہر ہے کہ مسیح اس کا مصداق نہیں.پس تو بہ کرو اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تا کہ خداوند کے حضور سے تازگی بخش ایام آویں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے.جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ آسمان اُسے لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا.اپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میرے مانند اٹھائے گا.جو کچھ وہ تمہیں کہے.اس کی سب سنو.اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے.وہ قوم سے نیست کیا لے اور ڈالی اُن کے دلوں دھاک.اجاڑ نے لگے اپنے گھر اپنے ہاتھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں سے.سو دہشت مانواے آنکھ والو.
حقائق الفرقان جاوے گا.۴۶ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لیکر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا.اُن دنوں کی خبر دی ہے.تم نبیوں کی اولا د اور اس عہد کے ہو کہ خدا نے باپ دادوں سے باندھا ہے جب ابراہام سے کہا کہ تیری اولا د سے دنیا کے سارے گھرانے برکت پاویں گے.تمہارے خدا نے اپنے بیٹے یسوع کو اٹھا کے پہلے بھیجا کہ تم میں سے ہر ایک کو اُس کی بدیوں سے پھیر کے برکت دے اس سے کئی باتیں ظاہر ہوتی ہیں.اول: مسیح کی آمد اول کے بعد اور آمید ثانی سے پہلے اس پیشین گوئی کا پورا ہونا ضروری ہے.دوم موسی کے بعد یوشع اور اس کے بعد کے انبیاء اور سموئیل سے لے کر پچھلوں تک کوئی بھی اس کا مصداق نہیں ہوا.سوم: حضرت ابراہیم کی دعا کو سوائے ارسال ان انبیاء کے جو بنی اسرائیل میں سے مرسل ہوئے کوئی خاص خصوصیت اُس نبی سے ہے.چہارم: مسیح اُس نبی سے پہلے آیا اب اُس دوسرے کی ضرورت ہوئی.: حواری کے قول سے ظاہر ہے کہ اس بشارت کا مصداق نبی مسیح سے پہلے نہیں گزرا اور خود مسیح بھی نہیں.اس لئے اس نبی کے آنے تک ضرور ہے کہ آسمان مسیح کو لئے رہے.سوال: اگر کوئی شخص کہے کہ بنی عیسواور بنی قطورا کیوں اس کے مصداق نہیں ہو سکتے.جواب : اول ان میں سے کسی نے اس پیشین گوئی کو اپنے حق میں ثابت نہیں کر دکھایا.دوم پولوس نامہ رومیاں.۹ باب.آیت ۱۳ میں فرماتا ہے خداوند نے یعقوب سے محبت کی اور عیسو سے عداوت.سوم: عیسو نے مسور کی دال پر اپنی نبوت بیچ دی.پیدائش ۲۵ باب ۳۲.۳۳ چهارم: یعقوب نے فریب سے نبوت کا ورثہ اس سے لے لیا.پیدائش ۲۷ باب ۳۵ بنوا بنائے قطورا زندگی ہی میں خارج ہو چکے تھے.مرتے وقت صرف اسمعیل اور الحق پاس
حقائق الفرقان ۴۷ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ تھے.پیدائش ۲۵ باب لغایت ۹.حل الا شکال میں اس پیشین گوئی پر اعتراض کیا کہ بشارت میں تجھ میں سے“ کا لفظ وارد ہے.جواب: (۱) خدا کے اس کلام میں جو موسیٰ نے نقل کیا یہ لفظ نہیں.(۲) یہ لفظ " تجھ میں سے اعمال باب ۳.۲۲ میں نہیں.(۳) یونانی ترجمے میں نہیں.دوسرا اعتراض: مسیح نے اس بشارت کو اپنی طرف نسبت کیا.جواب: (۱) چونکہ مسیح بقول آپ کے مصلوب و مقتول ہوئے تو اس کے مصداق نہ رہے.(۲) اس بشارت کو مسیح نے بالتخصیص اپنی طرف نسبت نہیں کیا.دیکھو.یوحنا باب ۵.۴۶ تخصیص بشارت کا پتہ ہی نہیں دیا.اور یوں ہی گول مول رہنے دیا.(۳) صاحب حل الاشکال نے میزان میں فصل ۳.باب ۲ میں لکھا ہے کہ پیدائش باب ۳.۱۵ میں مسیح کی بشارت ہے.پھر یہی یوحنا باب ۵.۴۶ میں کیوں نہیں.(۴) یوحنا باب ۱.۲۰.۲۵.اور اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا.بلکہ اقرار کیا کہ میں مسیح نہیں تب انہوں نے اس سے پوچھا کہ تو اور کون؟ کیا تو الیاس ہے اس نے کہا میں نہیں ہوں.پس آیا تو وہ نبی ہے.اس نے جواب دیا نہیں.یوحنا انجیلی.یوحنا بپتسمہ دینے والے کی شہادت میں لکھتا ہے کہ نہ وہ مسیح ہے نہ ایلیا نہ وہ نبی اور ریفرنس میں وہ نبی کا نشان استثناء باب ۱۸ - ۱۵ و ۱۸ دیا ہے یعنی موسی کے مثل نبی.اور وہ صرف نبی عربی ہے.پادری عمادالدین نے تحقیق الایمان میں اور پادری ٹھا کر داس نے ” عدم ضرورت قرآن“ میں مماثلت پر گفتگو کی ہے اور بہت ہاتھ پاؤں مارے ہیں.جسے دیکھ کر ان کی نا کامیاب کوششوں پر سخت افسوس آتا ہے پادری عمادالدین نے بچوں کا قتل ، چالیس دن کا روزہ ، معجزات اور شریعت روحانی (معدوم الوجود ) بمقابلہ شریعتِ موسوی کے وجہ مماثلت ٹھہرائی ہے.
حقائق الفرقان ۴۸ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل تعجب کی بات ہے.کیونکہ موسیٰ کے وقت بچوں کا قتل ہوا ہی نہیں.بلکہ فرعون نے حضرت موسیٰ سے پہلے بنی اسرائیل کی کثرت کے خوف سے یہ کاروائی کی تھی.اور چالیس دن کا روزہ تو ایلیا نے بھی رکھا.دیکھو اول سلاطین ۱۹ باب آیت ۸.رہے معجزات ایلیا نے بھی مردے زندہ کئے.دیکھو اول سلاطین ۱۷ باب ۲۲، ۲۳ و دوم سلاطین باب ۴- ۳۵.ایلیا نے دریا کے دو حصے کر کے زمین خشک نکالی اور دریا پار ہوا.دیکھو دوم سلاطین باب ۲.۸.ایلیا نے دوسروں کو معجزات کے لائق بنایا.دوم سلاطین باب ۲.۱۰.ایلیا جسم سے آسمان پر چلا گیا.دوم سلاطین باب ۲.۱۱.ایلیا نے تیل کو بڑھایا.دوم سلاطین باب ۴.۳.ایلیا کی روح سے الیشع نے کوڑھ اچھا کیا.دوم سلاطین فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۱۹۵ تا ۲۰۶) باب ۵ - ۱۰ و ۱۴.إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - فَعَطى لے فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَاَخَذْ نَهُ أَخْذَا وَبِيلاً - اس جگہ باری تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ہاں صادق کلام میں نبی معرب کو موسیٰ کا مثیل و نظیر فرما کر اہل عرب سے خطاب کرتا ہے کہ جیسے فرعونی موسی کے عصیان کے باعث تباہ ہوئے.ویسے ہی اس نبی کے عاصی اور مخالف بھی تباہ اور ہلاک ہو جائیں گے اور پھر فرمایا: وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَةِ بَهُمْ وَاَنْتَ فِيهِمْ - (الانفال: ۳۴) پھر اس پیشین گوئی کا وقت صاف صاف بتا دیا اور اس کی حد باندھ دی کہ حد ہی کر دی.فرمایا قُلْ لَكُمْ قِيعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ (سبا: ۳۱) اے ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے.گواہ تم پر جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا.پس فرعون نے اُس رسول کا کہا نہ مانا.پھر ہم نے اس کو ہلاک کر نیوالی پکڑ سے پکڑا.جب تک تو اے رسول ان میں ہے.اللہ ان پر عذاب نہ لاوے گا.حملہ یوم.دن.الہامی کتابوں میں نبوت کا ایک دن بمعنی سال بھی مستعمل ہوتا ہے.لغات عرب اس کے شاہد ہیں اور عیسائی علماء اس کے مقر ہیں.دیکھواند رونہ پیبل عبداللہ انتم.صفحہ ۶۹ و ۱۳۳.۱۲.سے تو کہہ دے (اے محمد) تمہارے واسطے ایک سال کی میعاد ہے کہ اس سے ایک ساعت ادھر اُدھر نہ کر سکو گے.
حقائق الفرقان ۴۹ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل پھر اور توضیح وتصریح کی.فرمایا.وَ إِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِرُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَ إِذَا لَا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قليلا.(بنی اسرائیل :۷۷) اللہ اللہ یہ پیشین گوئی کیسی پوری ہوئی.عادت اللہ قدیم سے اس طرح پر جاری ہے کہ جن قوموں نے بادیان برحق کے نصائح نہ سنے اور ان کے دل سوز مشفقانہ کلام پر دھیان نہ کیا.ضرور وہ کسی نہ کسی تباہی میں گرفتار ہوئے اور جھوٹے نبی کا نشان یہ دیا گیا ہے کہ وہ قتل کیا جاوے گا.اور جو کوئی اس نبی کی بات نہ مانے گا سزا پائے گا.اب کفارِ عرب اس سچے رؤف و رحیم ہادی کو جھٹلا چکے ہیں.طرح طرح کی اذیتیں دل کو کپکپا دینے والے آزار دے چکے ہیں.چونکہ وہ نبی صادق و مصدوق ہے اور وہ نبی وہ ہے جس کی نسبت موسی و عیسی بڑے فخر سے بشارت دیتے چلے آئے ہیں.اب خدائی غضب امنڈ آیا.کلمتہ اللہ برسر انتقام آمادہ ہوا کہ ان کے دشمنان دین حق کو ہلاک کیا جاوے.مگر باری تعالیٰ بایں ہمہ اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ جب تک تو ان لوگوں میں موجود ہے ( یعنی سرزمین مکے میں ) اُن پر عذاب نہ ہو گا.اور عالم الغیب حق تعالیٰ ایک سال اس کی میعاد مقرر فرماتا ہے کہ یقینا اس عرصے میں بلا تقدم و تاخر ایک ساعت کے یہ واقعہ زوال وقوع میں آئے گا.قدرت حق کا کرشمہ مشاہدہ فرمائیے کہ کیونکر یہ وعدہ ایک سال بعد پورا ہوتا ہے.اب کفار عرب نے جن کا سرغنہ ابو جہل تھا آنحضرت کے قتل کی مشورت کی.اسی واسطے ۱۵ / جولائی ۶۲۲ ہ ء جمعہ کے دن آپ نے مکہ سے ہجرت کی اور مدینہ منورہ کو چلے گئے.دوسرے سال یعنی ۶۲۳ نہ ء میں بدر کا معرکہ ہوا جس میں وہ سب معاندین اور مخالفین تباہ اور عذاب الہی میں گرفتار ہوئے.وَ الْحَمدُ للهِ عَلى ذلِكَ.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۱٬۲۵۰) اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - لے یقینا یہ لوگ (اہل مکہ ) تجھے ( محمد ) اس زمین (مکہ) سے نکال ڈالنے والے ہیں.جب تو تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر رہیں گے.حلا استثناء باب ۱۸.۲۰
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل بیشک وریب ہم نے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) تمہاری طرف بھیجا بڑا عظمت والا رسول نگران تم پر.اور یہ رسول اس رسول کی مانند ہے جس کو ہم نے فرعون کے پاس بھیجا.فَكَيْفَ تَتَّقُونَ اِنْ كَفَرْتُمْ.منکرو! بتاؤ تو تم کیسے بچو گے عذاب سے اگر تم نے اس رسول کا انکار کیا.کیا معنی.اگر فرعون موسیٰ علیہ السلام کے انکار سے سزا یاب ہوا.تو تم منکر و! کیونکر بچ سکتے ہو.یہ آیت شریف کتاب استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے.غرض اسی طرح کی بہت آیات قرآن کریم میں موجود ہیں اور اُن آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے حضور علیہ السلام کو اپنی رسالت، نبوت، راستی اور راست بازی پر پورا اور اعلیٰ درجہ کا یقین تھا.اور اولڈ ٹیسٹمنٹ اور نیو ٹیسٹمنٹ کے ماننے والا بعد انصاف ہرگز انکار نہیں کرسکتا.کیونکہ استثناء ۱۸ باب ۱۸ میں اور اعمال ۳ باب میں صاف لکھا ہے کہ ایک نبی موسیٰ علیہ السلام کی مانند آنیوالا ہے اور توریت میں یہ بھی لکھا ہے کہ جھوٹا نبی جو از راہ کذب و افتراء اپنے آپ کو موسیٰ علیہ السلام کی مانند کہے مارا جاوے گا.حضور (فداه آبی و امی ) نبی عرب نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مانند رسول ہونے کا دعویٰ فرمایا.جیسا گزرا.اور آیت شریف وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدہ: ۶۸) جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں سے بچالے گا پڑھ کر پہرہ اور حفاظت کو بھی دور کر دیا.مدینہ کے یہود اور عیسائی قوم کو صاف صاف سنا دیا کہ میں قتل نہ کیا جاؤں گا.اور اللہ کے فضل سے قتل سے بیچ رہے صلی اللہ علیہ وسلم.عیسائی صاحبان ! اگر نبی عرب اس دعوی نبوت میں (اور نبوت کا بھی وہ دعوی میں گیا اَرْسَلْنَا إلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً فرما کر استثناء ۱۵ باب ۱۸ اور اعمال ۳ باب والا دعویٰ ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ نبی عربہ قتل نہیں کئے گئے ).کا ذب ہیں (معاذ اللہ ) تو توریت کتاب مقدس نہیں بلکہ بالکل غلط اور کذب ہے کیونکہ کتاب استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ میں لکھا ہے.جھوٹا نبی مارا جاوے گا.لاکن توریت شریف اگر الہام الہی سے ہے اور سچ تو ہمارے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم سچے رسول اور فی نفس الأمر استثناء ۱۸ باب والے رسول ہیں.
حقائق الفرقان ۵۱ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ اسی واسطے قرآن کریم بار بار حضرت احمد مجتبی محمد مصطفی اور اپنے آپ کو مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ.(البقرۃ:۴۲) فرماتا ہے.کیا معنے ؟ قرآن کریم اور نبی عرب نے اپنے ظہور اور حفاظت اور قتل سے بیچ کر توریت کو سچا کر دکھایا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۸ تا ۱۰) سوره مزمل مکہ معظمہ میں اتری.جب حضور علیہ السلام بظاہر نہایت کمزوری کی حالت میں تھے اور بظاہر کوئی سامان کامیابی کا نظر نہ آتا تھا.قرآن نے صاف صاف جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا.یہ رسول اس رسول کی مثل ہے جو فرعون کے وقت برگزیدہ اور بنی اسرائیل کا ہادی بنایا گیا.جس طرح اس رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دشمن بے نام و نشان ہو گئے.ایسے ہی اس رسول کے دشمن معدوم ہوں گے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا - فَعَطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَاخَذْ نَهُ أَخْذَا وَبِيلًا - فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ اور جس طرح جناب موسیٰ علیہ السلام کی قوم دشمنوں سے نجات پاکر آخر معزز اور ممتاز اور خلافت اور سلطنت سے سرفراز ہوئی اسی طرح ٹھیک اسی طرح لاریب اسی طرح اس رسول کے اتباع بھی موسیٰ علیہ السلام کے اتباع کی طرح بلکہ بڑھ کر ابراہیم کے موعود ملک بالخصوص اور اپنے وقت کے زبر دست بادشاہوں پر علی العموم خلافت کریں گے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم آمنا - (النور: ۵۶) ا ہم نے ہی بھیجا تمہاری طرف رسول نگران تم پر جیسے بھیجا تھا فرعون کو رسول.پھر جب نافرمانی کی فرعون نے اس رسول کی تو سخت پکڑ لیا ہم نے اسے.پھر تم اگر اس رسول کے منکر ہوئے تو کیونکر بچو گے.سے وعدہ دے چکا اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تم میں سے جو ایمان لائے اور کام کئے انہوں نے اچھے ضرور خلیفہ کر دے گا ان کو اس خاص زمین میں ( جس کا وعدہ ابراہیم سے ہوا ).جیسے خلیفہ بنایا ان کو جوان اسلامیوں سے پہلے تھے.اور طاقت بخشے گا انہیں اس دین پھیلانے کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے پسند فرمایا اور ضرور ہی بدل دیگا انہیں خوف کے بعد امن سے.
حقائق الفرقان ۵۲ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ آخر دیکھ لو.اس فطرت کے قاعدہ نے اس الہی سنت یا عادۃ اللہ نے ناظرین کو وہی نتیجہ دکھا یا جو ہمیشہ اہلِ ایمان کے ساتھ ان کے بے ایمان مخالفوں کے بے جا حملوں کے وقت دکھاتی چلی آتی ہے.ہمارے بادی، بلکہ ہادی ا نام علیہ الصلوۃ والسلام کی قوم میں نہیں نہیں.آپ کے مولد، مسکن اور آپ کے ملک میں آپ کا کوئی دشمن نہ رہا.دشمن کیسے؟ ان کے آثار بھی نہ رہے! مکہ معظمہ نہیں بلکہ جزیرہ نمائے عرب پر نگاہ کر لو.تمام عرب آپ کے خدام یا خدام کے معاہدین کی جگہ ہو گیا.الله الله !! جیسے آپ بے نظیر ہیں.ویسے ہی آپ کی کامیابی بھی بے نظیر واقع ہوئی.ناظرین! ایسی کامیابی کسی مہم ، کسی مدعی الہام، کسی ریفارمر، کسی مصلح ، کسی رسول یا کسی بادشاہ کو کبھی ہوئی ہے؟ ہرگز نہیں کس مقتدا نے، کس بادشاہ نے.نام تو لو.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۴۴۱۳) ۱ - فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُهُ يَوْمًا يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيْبَا - ترجمہ.پس اگر تم نے بھی کفر کیا تو تم بھی کیسے بچو گے اس دن جو چھوکروں کو (بسبب فکر کے) بوڑھے بنا دے گا.تفسیر.شیب - آشیب کی جمع ہے.کثرت ہم وغم بڑھاپے کا باعث ہو جاتا ہے.سورۃ ھود میں جب قوموں کی ہلاکت کا بیان نازل ہوا.اور ساتھ میں آپ کو بھی حکم ہوا کہ فَاسْتَقِم كما أُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ - (هود: ۱۱۳) تو آپ نے فرمایا کہ شیبَتنى (سورة هود) - متبعین کی استقامت چونکہ اپنے اختیار کی نہیں ہوتی.اس لئے یہ ارشاد آپ کو اللہ تعالیٰ کے بہت ہی رنج و غم کا باعث ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۲۵ مورخه ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۳) ا تو مضبوط جمارہ کی استقامت پر جیسا تجھ کو حکم ہو چکا ہے اور وہ لوگ بھی جنہوں نے تیرے ساتھ رجوع بحق کیا.شَيْبَتنِي هُودٌ (ترمذی کتاب القرآن سورۃ واقعہ ) مجھے (سورۃ ) ھود نے بوڑھا کر دیا ہے.
حقائق الفرقان ۵۳ سُوْرَةُ الْمُؤْمِلِ b ۲۱ - إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ اَدْنى مِنْ ثُلُثَيِ الَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَ طَائِفَةٌ مِنَ الَّذِينَ مَعَكَ وَاللهُ يُقَدِرُ الَّيْلَ وَالنَّهَارِ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُودُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَاقْرَءُ مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَّرْضَى وَاخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَأَخَرُونَ يُقَاتِلُونَ ط لا في سَبِيلِ اللهِ فَاقْرَءُ مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَ اَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ اَقْرِضُوا للهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ.ترجمہ.تیرا رب جانتا ہے کہ تو قریباً رات کی دو تہائی اور کبھی نصف اور کبھی ایک تہائی کھڑا رہتا ہے اور تیرے ساتھیوں میں سے بھی ایک جماعت.اور اللہ تعالیٰ تو رات اور دن کا اندازہ لگاتا ہے.اس کو معلوم ہے کہ تم اس کو نبھا نہ سکو گے تو اس نے تمہاری طرف رجوع فرما یا تو قرآن جتنا میسر ہو سکے پڑھ لیا کرو.ان کو (یہ بھی) معلوم ہے کہ تم میں بیمار بھی ہوں گے اور فکر تلاش معاش میں بعضے پھریں گے اور بعض اللہ کی راہ میں جنگ کریں گے تو جتنا ہو سکے قرآن میں سے پڑھ لیا کرو اور نماز کو ٹھیک درست رکھا کرو اور زکوۃ دیا کرو اور اللہ کے لئے اچھا مال الگ کر لیا کرو اور تم جو کچھ بھی اپنے نفسوں کے لئے آگے بھیجو گے اس کو اللہ کے پاس پاؤ گے.یہ بہت بہتر ہے اور اجر کے لحاظ سے بہت بڑا ہے اور اللہ سے کمزوریوں کے دور ہونے کی دعا مانگو اور اللہ بڑا بخشنے والا اور عیبوں کا بڑا ڈھانپنے والا ، کچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.عَلِمَ أَنْ سَيَكُونُ مِنْكُمْ مَرْضَى.ان کے معنے الہ کے ہیں.یعنی تحقیق بات یوں ہے کہ ضرور تم میں بعض لوگ بیمار ہیں.اقْرِضُوا.اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے الگ کر دو.هُوَ خَيْرًا وَ أَعْظَمَ اَجْرًا خَيْرًا پر زبر اس لئے ہے کہ یہ تجِدُ وُہ کا مفعول ہے.وَاسْتَغْفِرُوا الله - حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مجلس میں ستر سے لے کر سوتک
حقائق الفرقان ۵۴ سُوْرَةُ الْمُزَّمِّل استغفار کیا کرتے تھے.سورہ نوح میں استغفار کے کئی فائدے بیان فرمائے ہیں.اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَ يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَ بَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلُ لَكُمْ أَنْهَرا - (نوح: ۱۱ تا ۱۳) حدیث شریف میں ہے کہ طوبی لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا خوشخبری ہو اس کے لئے جس نے اپنے نامہ اعمال میں استغفار کو کثرت سے پایا.استغفار لفظ غَفَر سے نکلا ہے.غَفَر کے معنے ڈھانکنا.مغفر ڈھال کو کہتے ہیں.جو انسان کے منہ اور کچھ حصہ جسم کو ڈھانک لیتی ہے.استغفار کے معنے ہوئے حفاظت طلب کرنا گناہوں سے اور اس کے بدنتائج سے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استغفار کے یہی معنے ہیں کہ اے اللہ تو مجھ کو آئندہ کی خطاؤں سے مصئون اور محفوظ رکھ.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۳) ے معافی مانگو تمہارے رب سے بے شک وہ تو بڑا غفار ہے تم پر وہ بھیج دے گا آسمان سے موسلا دھار بارش.اور تمہاری مدد فرمائے گامالوں سے اور بیٹیوں سے اور تمہارے لئے باغ بنا دے گا اور تمہارے لئے نہریں بہا دے گا.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ مَكِيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ مدثر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے عاشقوں کو پہلے ہی سے سمجھ دے رکھی ہے اور ان کو سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.۲ تا ۵ - يَاَيُّهَا الْمُدَّتِرُ - قُم فَاَنْذِرُ - وَرَبَّكَ فَكَبِّرُ - وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ - ترجمہ.اے خلعت نبوت پہنے والے (چادر پوش).اٹھ اور لوگوں کو ڈرا.اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر.اور اپنا لباس صاف وستھرا رکھ.تفسیر.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلی وحی کے بعد جو دوسری وحی ہوئی وہ یہی آیت ہے.یایھا المدقر - قم - مرسل کو جب وحی ہوتی ہے تو خدا کی کلام اور اس کی ہیبت کا ایک لرزہ مرسل پر آتا ہے.کیونکہ مومن حقیقت میں خدا تعالیٰ کا ڈر اور خشیت اور خوف رکھتا ہے.جس طرح کوئی بادشاہ ایک بازار یا سڑک پر سے گزرتا ہے.اس سڑک میں ایک زمیندار جاہل جو بادشاہ سے بالکل ناوقف ہے کھڑا ہے.دوسرا وہ شخص ہے جو نہ زمیندار ہے.پر صرف اس قدر جانتا ہے کہ یہ کوئی بڑا آدمی ہے یا شاید حاکم وقت ہوگا.تیسرا وہ شخص کھڑا ہے کہ وہ منجملہ اہالیان ریاست ہے اور خوب جانتا ہے کہ یہ بادشاہ ہے اور ہمارا حاکم ہے اور چوتھا وہ شخص کھڑا ہے جو بادشاہ کا درباری یا وزیر ہے.اس کے آداب وقواعد و آئین و انتظام رعب و آداب، رنج اور خوشی کے سب قواعد کا واقف اور جاننے والا ہے.پس تم جان سکتے ہو کہ ان چاروں اشخاص پر بادشاہ کی سواری کا کیا اثر ہوا ہو گا.پہلے شخص نے تو شاید اس کی طرف دیکھا بھی نہ ہو.اور دوسرے نے کچھ تو جہ اس کی طرف کی ہوگی اور تیسرے نے ضرور اس کو سلام بھی کیا ہوگا اور اس کا ادب بھی کیا ہوگا.پر چوتھے شخص پر اس کے رعب و جلال کا اس قدر
حقائق الفرقان ۵۶ سُوْرَةُ المُدرِ اثر ہوا ہوگا کہ وہ کانپ گیا ہوگا کہ میرا بادشاہ آیا ہے.کوئی حرکت مجھ سے ایسی نہ ہو جاوے جس سے یہ ناراض نہ ہو جاوے.غرض کہ اس پر از حد اثر ہوا ہو گا.پس یہی حال ہوتا ہے.انبیاء و مرسل علیہم السلام کا.کیونکہ خوف اور لرزہ معرفت پر ہوتا ہے.جس قدر معرفت زیادہ ہوگی اسی قدر اس کو خوف اور ڈر زیادہ ہو گا اور وہ معرفت اس کو خوف میں ڈالتی ہے اور اس لرزہ کے واسطے ان کو ظاہری سامان بھی کرنا پڑتا ہے.یعنی موٹے اور گرم کپڑے پہنے پڑتے ہیں.جو لرزہ میں مدددیں.جب وہ انعام کی حالت جاتی رہی تو ان کے اعضاء اور اندام بلکہ بال بال پر ایک خاص خوبصورتی آجاتی ہے.پس اسی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ مخاطب فرما کر کہتا ہے کہ اے کپڑا اوڑھنے والے اور لرزہ کے واسطے سامان اکٹھا کرنے والے کھڑا ہو جا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ست مومن اللہ تعالیٰ کو پیارا نہیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلا حکم یہی ملا پس یہی وجہ ہے کہ آج تک مسلمان واعظ جب احکام الہی سنانے کے واسطے کھڑے ہوتے ہیں تو کھڑے ہو کر سناتے ہیں.یہ اسی قسم کی تعمیل ہوتی اور اس میں نبی کریم کی اتباع کی جاتی ہے.بعض لوگ غافل اور سست نہ تو سامان بہم پہنچاتے اور نہ ان سامان سے کام لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ہمیں فرصت نہیں پر یہ ساری ضرورتیں جو ہم کو ہیں.نبی کریم کو بھی تھیں.بیوی بچہ ، اہل و عیال وغیرہ وغیرہ.پر جب اس قسم کا حکم آیا.فوراً کھڑے ہو گئے.اس لئے که بادشاه رَبُّ الْعَالَمِيْنِ أَحْكَمُ الْحَاکمین کا حکم تھا.پھر کام کیا سپر دہوا.انذڈ.لوگ دو باتوں میں گرفتار تھے اور ہیں.اول خدا کی عظمت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور کھانے پینے عیش و آرام اور آسائش میں مصروف ہو گئے تھے.دوسرا باہمی محبت ، اخلاص ، پیار نام کو نہیں رہی تھی.دوسروں کے اموال دھوکہ بازی سے کھا جاتے.جیسے مثلاً ہمارے پیشہ کی طرف ہی توجہ کرو.گندے سے گندے نسخے بڑی بڑی گراں قیمتوں سے فروخت کئے جاتے اور دھوکہ بازی سے لوگوں کا مال کھایا جاتا ہے.دوسروں کی عزت ، مال ، جان پر بڑے بے باک تھے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ کسی نابینا کی لکڑی ہنسی سے اٹھا لینا کہ وہ حیران وسرگردان ہو سخت گناہ ہے.پھر ہنسی ٹھٹھا پر کچھ پرواہ نہیں.بد نظری ، بدی ، بدکاری سے پر ہیز نہیں.کوئی شخص نہیں
حقائق الفرقان ۵۷ سُوْرَةُ الْمُدرِ چاہتا کہ میرا نوکر میرے کام میں سست ہو.پر جس کا یہ نوکر ہے.کیا اس کے کام میں سستی نہیں کرتا ؟ دوکاندار ہے، طبیب ہے وغیرہ وغیرہ.جب پیسہ دینے والے کے دل میں یہ ہے کہ مجھے ایسا مال اس قیمت کے بدلہ میں ملنا چاہیے.اگر اس کو اس نے نتیجہ تک نہیں پہنچایا تو ضرور حرام خوری کرتا ہے اور یہ سب باتیں اس وقت موجود تھیں.خدا کی پرستش میں ایسے ست تھے کہ حقیقی خدا کو چھوڑ کر پتھر ، حیوانات وغیرہ مخلوقات کی پرستش شروع کی ہوئی تھی.اس قوم کی بت پرستی کی نظیریں اب موجود ہیں.ابھی ایک بی بی ہمارے گھر میں آئی تھی اور میرے پاس بیان کیا گیا کہ بہت نیک بخت اور خدا رسیدہ ہے.میں نے اُس سے پوچھا کہ کیا وظیفہ کرتی ہو؟ کہا مشکل کے وقت اپنے پیروں کو پکارتی ہوں.پس مجھے خیال ہوا کہ یہ پہلی سیڑھی پر خطا پر ہے یعنی خدا کو چھوڑ کر شرک میں مبتلا ہے.پس رسول کریم کے زمانہ میں ایک طرف خدا کی بڑائی دوسری طرف مخلوق سے شفقت چھوٹ گئی تھی.اور خدا کی جگہ مخلوق کو خدا بنایا گیا تھا.اور مخلوق کو سکھ پہنچانے کے بدلے لاکھوں تکالیف پہنچائی جاتی تھیں.اس لئے فرمایا.انذِرُ.ڈرانے کی خبر سنا دے.جب مرسل اور مامور آتے ہیں تو پہلے یہی حقوق ان کو سمجھائے جاتے ہیں.پس ایسے وقت میں امراض طاعون وغیرہ آتے ، جنگ و قتال ہوتے.یہ ضرورت نہیں کہ اس مامور کی اطلاع پہلے دی جاوے یا ان لوگوں کو مامور کا علم ہو.کیونکہ لوگ تو پہلے خدا ہی کو چھوڑ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں.پھر کھڑا ہو کر کیا کرو.وَ رَبَّكَ فَكَيْرُ.خدا کی بزرگی بیان کر.یہ حکم کی تعمیل تھی اسنبر سے آگے بڑائی کا کوئی لفظ نہیں اور اس کے معنے ہی یہی ہیں.ایک وقت آقا کہتا کہ میرا فلاں کام کرو.دوسری طرف ایک شخص پکارتا کہ اللہ اکبر.آؤ نماز پڑھو.خدا سے بڑا آقا کوئی نہیں.ایک طرف بی بی عید کا سامان مانگتی ہے.دوسری طرف خدا کہتا کہ فضولی نہ کر.اب یہ کدھر جاتا ہے.نیک معاشرت، نیک سلوک ، بی بی کی رضا جوئی اور خوش رکھنے کا حکم ہے اور مال جمع کرنے کی ضرورت ہے.دوسری
حقائق الفرقان ۵۸ سُوْرَةُ الْمُدرِ طرف حکم ہے کہ ناجائز مال مت کھاؤ.ایک طرف عفت اور عصمت کا حکم ہے.دوسری طرف بی بی موجود نہیں ناصح کوئی نہیں.اور نفس چاہتا ہے کہ عمدہ گوشت ، گھی ،انڈے ، زعفرانی متنجن ، کباب کھانے کے واسطے ہوں.پھر رمضان میں اس سے بھی کچھ زیادہ ہوں.اب بی بی تو ہے نہیں.علم اور عمدہ خیالات نہیں پس اگر خدا کے حکم کے خلاف کرتا اور نفس کی خواہش کے مطابق عمدہ اغذیہ کھاتا تو لواطت ، حلق ، زنا ، بدنظری میں مبتلا ہوگا.اسی لئے تو اصفیاء نے لکھا ہے کہ انسان ریاضت میں سادہ غذا کھاوے.اس لئے ہمارے امام علیہ السلام نے میاں نجم الدین کو ایک روز تاکیدی حکم دیا کہ لوگ جو مہمان خانہ میں مجرہ د ہیں عام طور پر گوشت ان کو مت دو بلکہ دال بھی پہلی دو.اور بعض نادان اس ستر کو نہیں سمجھتے اور شور مچاتے ہیں.پس رسول کریم نے وہ اللہ اکبر مکانوں اور چھتوں اور دیواروں اور منبروں پر چڑھ کر سنا یا پس شہوت اور غضب کے وقت بھی اس کو اکبر ہی سمجھو.ایک شخص کو کسی شخص نے کہا کہ تو جھوٹا ہے.وہ بہت سخت ناراض ہوا اور اس کی ناراضی امام کے کان تک پہنچی.آپ ہنس پڑے اور فرمایا.کاش کہ اس قدر غضب کو ترقی دینے کی بجائے اپنے کسی جھوٹ کو یاد کر کے اس کو کم کرتا.حرص آتی اور اس کے واسطے روپیہ کی ضرورت ہوتی اور ضرورت کے وقت حلال حرام کا ایک ہی چھرا چلا بیٹھتا ہے ایسا نہیں چاہیے.ایک طرف عمدہ کھانا.عمدہ نہیں چاہتا.دوسری طرف حکم کے خلاف ورزی، سستی کرتا اور یہ دونوں آپس میں نقیض ہیں.اس سے عجز اور کسل پیدا ہوتا ہے پس ایسی جگہ میں شہوت پر عفت اور حرص پر قناعت اختیار کرے اور مال اندیشی کر لیا کرے.مال کی تحصیل میرے نزدیک سہل اور آسان امر ہے.ہاں حاصل کر کے عمدہ موقع پر خرچ کرنا مشکل امر ہے.پس ایک طرف خدا شناسی ہو اور دوسری طرف مخلوق پر شفقت ہو.اللہ اکبر کا حصول.چار دفعہ تم اذان کے پہلے ہر نماز میں سنتے ہو.اور سترہ دفعہ امام تم کو نماز میں سناتا ہے.پھر حج میں ، عید میں ، رسول کریم نے کیسی حکم الہی کی تعمیل کی ہے کہ ہر وقت اس کا اعادہ
حقائق الفرقان ۵۹ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ کرایا اور یہ اس لئے کہ انسان جب ایک مسئلہ کو عمدہ سمجھ لیتا ہے تو علم بڑھتا ہے اور علم سے خدا کے ساتھ محبت بڑھتی ہے.پھر اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ کہا جاتا ہے جس کے معنے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ہی معبود ہے.اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں.پھر جس طرح خدا نے حکم دیا اُس طرح اس کی کبریائی بیان کر.جس طرح اس نے حکم دیا اسی طرح نماز پڑھ.اور اسی طرح اس سے دعائیں مانگ.پھر یہ طریق کس طرح سیکھنے چاہیے.وہ ایک محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ خدا کا بھیجا ہوا ہے.اس سے جا کر سیکھو پھر جب ان احکام کی تعمیل میں تو مستعد ہو جاوے تو حیی علی الصلوۃ آنماز پڑھ کہ وہ تجھے بدی سے روکے.پھر نماز کی معانی سیکھنا کوئی بڑی بات نہیں.کو دن سے کو دن آدمی ایک ہفتہ میں یاد کر لیتا ہے.ایک امیر میرا مربی تھا.اس کے دروازہ پر ایک پوربی شخص صبح کے وقت پہرہ دیا کرتا تھا.ایک دن جو وہ صبح کی نماز کو نکلے تو وہ خوش الحانی سے گا رہا تھا.کہا.تم یہاں کیوں کھڑے ہو.جواب دیا کہ پہرہ دار ہوں.انہوں نے کہا.اچھا تمہارا پہرہ دن میں دو گھنٹہ کا ہوتا ہے.ہم تمہارا پہرہ پانچ وقت میں بدل دیتے ہیں.تم تھوڑی تھوڑی دیر کے واسطے آ جایا کرو.اور نماز کے وقت میں پانچوں وقت اس کے وقت کو تقسیم کر دیا اور اس وقت جاتے جاتے اس کو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ کے معنے سکھا دئے کہ میری واپسی پر یاد رکھنا.چنانچہ جب وہ نماز صبح پڑھ کر واپس آئے تو اس نے یاد کر لئے تھے.آ کر اس کو رخصت دیدی.پھر الحمد شریف کے معنے بتا دئے.غرض عشاء کی نماز تک آنحمد اور قل کے معنے اُس نے پورے یاد کر لئے.ایک دفعہ کچھ عرصہ کے بعد اس کا پہرہ پچھلی رات میرے مکان پر تھا.میں نے سنا کہ وہ بارہویں پارہ کو پڑھ رہا تھا.غرض دریافت پر کہا کہ تھوڑا تھوڑا کر کے بارہ سپارہ بامعنی یاد کر لئے ہیں.پس قرآن کا پڑھنا بہت آسان ہے.نماز گناہ سے روکتی اور گناہ سے رکنے کا علاج ہے.مگر سنوار کر پڑھنے سے.غافل سوتے ہوئے اٹھ کر نجات کے طالب بنو.اور اذان کی آواز پر دوڑو.وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.ہاں بلانے والا پہلے اپنا دامن پاک کرے.پھر کسی کو بلا وے.جب اذان سن لے تو درود پڑھے کہ یا اللہ ہمارے نبی نے کس جانفشانی اور محنت اور ہوشیاری سے خدا کی تکبیر سکھلائی
حقائق الفرقان ۶۰ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ اور ہم تک پہنچائی ہے.اس پر ہماری طرف سے بھی کوئی خاص رحمت بھیج اور اس کو مقام محمود تک پہنچا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو تو فیق دیوے.والسلام الحکم جلد ۸ نمبر ۴۴۴۴۳ مورخه ۱۷ و ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۹) ياتها المدقر - مزمل اور مدثر دونوں لفظوں کے معنے قریب قریب ایک ہیں.مدثر دثار سے مشتق ہے.دثار وہ کپڑا ہے جو شعار کے اوپر پہنا جاوے اور شعار وہ کپڑا ہے جو جسم سے ملا رہے.حدیث شریف میں ہے.الْاَنْصَارُ شِعَارُ وَالنَّاسُ دِثَارُ یہ سورہ شریف بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ابتدائی دعوت کے وقت کی وحی ہے.اور اس کی قوت و شوکت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت اور قرآنِ پاک کی حقانیت کی ایک زبر دست دلیل ہے.کیونکہ اس کا نزول ابتدائی وقت میں ہے جبکہ کوئی جتھا آپ کے ساتھ نہ تھا.قم فَانْذِرُ.سورۃ مزمل میں اپنے نفس کے ساتھ مجاہدہ اور تقرب الی اللہ حاصل کرنے کا حکم ہوا تھا اور اس سورہ شریفہ میں ارشاد و ہدایت خلق اللہ کا حکم فرمایا ہے پہلی شق مرتبہ کمال اور دوسری شق مرتبہ تکمیل کے متعلق ہے.اسی لئے مرتبہ کمال کو مرتبہ تکمیل پر مقدم رکھا.سورہ ماقبل میں قیم النيل (مزمل : ۳) فرمایا تھا اور اس سورۃ میں قُم فَانْذر فرمایا.قیم الیل اپنے کمال نفس کی تحصیل کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور قم فَانْذِر تکمیل خلق اللہ کے حاصل کرنے کی جانب ایماء کر رہا.رب کا لفظ تکمیل کو چاہتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد ہے کہ اپنے رب کی عظمت بیان کر.جس وقت آپ مبعوث ہوئے اس وقت مشرکین عرب رب النوع کی پرستش کرتے تھے اور آربابا من دُونِ اللہ کی عبادت ہوتی تھی.اس میں پیشگوئی ہے کہ اللہ اکبر کے نعروں کے بلند ہونے کا وقت آگیا ہے.وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُ - اپنا آپ پاک بناؤ.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴٬۲۹۳) لے انصار شعار ( بدن سے لگا ہوا وہ کپڑا جو کپڑوں کے نیچے پہنتے ہیں ) اور دوسرے لوگ دتار ( اوپر کا کپڑا جو کپڑوں پر لیا جاتا ہے ) ہیں.
حقائق الفرقان ۶۱ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ یہ سورۃ المدثر کا ابتدا ہے.یہاں فرمایا ہے.کس نے فرمایا ہے؟ تمہارے رب محسن ، مربی ، منعم اور بڑے بادشاہ نے فرمایا ہے.اُس مولیٰ نے جس نے تم کو ہاتھ ، ناک ، کان دیئے.ایسا حسن ، مربی اپنی پاک کتاب میں فرماتا ہے.یا یهَا الْمُدَّ ثِرُ.ہوا اور کھانے پینے کے بغیر کسی کا گزارہ نہیں ہوتا.مگر اب بھی ایسی قومیں ہیں کہ وہ کپڑے وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں.بنارس میں ایک ساد ہو تھا.وہ ننگا رہا کرتا تھا.لوگ اس کی بڑی قدر کرتے تھے.افریقہ میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بیویوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں.مگر ان میں وحشت ہے اور ننگے رہتے ہیں.خدا تعالیٰ اپنے رسول کو فرماتا ہے کہ ہم نے تجھ کو لباس پہنایا.قُم فَانْذِرُ اس لئے کھڑا ہو جا اور کھڑے ہو کر جولوگ بدکار ہیں نافرمان ہیں.اور خدا تعالیٰ کے حکموں کی پرواہ نہیں کرتے.ان کو ڈراؤ.میرا خیال ہے کہ جو حکم کوئی بادشاہ کسی جرنیل یا بڑے حاکم کو دیتا ہے.اس کی تعمیل اس کی سپاہ اور رعایا پر بھی فرض ہو جاتی ہے یہ حکم حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے.اس لئے یہ ہم پر بھی فرض ہے.بہت سارے لوگ ایماندار بھی بنتے ہیں اور پھر شرک بھی کرتے ہیں.اکثر لوگوں کا اگر تم حکم مانو گے تو وہ تم کو گمراہ کر دیں گے خدا کا حکم مانو.بادشاہ اور بڑے بڑے حکام لوگوں کی اصلاح کے لئے کیسے کیسے قانون بناتے ہیں.اور دو تین برس اس کی نگرانی کرتے اور پھر اس کو جاری کرتے ہیں.پھر اس پر نظر ثانی کر کے اصلاح کرتے ہیں.پھر اس کو شائع کرتے ہیں.غرض مقنن اور تجربہ کارلوگ کیسی کیسی تکلیفیں لوگوں کی بھلائی کے لئے برداشت کرتے ہیں لیکن لوگ اس کی بھی نافرمانی کرتے ہیں.دیکھو! پولیس کیسی کوشش لوگوں کے امن وامان کے لئے کرتی ہے اگر چہ پولیس میں بھی بعض بدکار پیدا ہو جاتے ہیں.لیکن تاہم وہ لوگوں سے چوری ، بدکاری چھڑانے میں کوشاں رہتی ہے.لیکن جس قدر نئے نئے قانون وضع ہوتے ہیں.اسی قدر شریر لوگ شرارت کی راہیں نکال لیتے ہیں.اس لئے ہر ایک شخص کو تم میں سے چاہیے کہ وہ اٹھ کر ہر روز لوگوں کو سمجھائے.اگر کوئی کسی کی بات نہیں مانتا.تو اس کا کوئی مضائقہ نہیں.لوگ بادشاہوں ، حکاموں اور دیگر اپنے بہی خواہوں کی
حقائق الفرقان ۶۲ سُوْرَةُ الْمُدرِ نافرمانی کرتے ہیں.اس لئے خدا کا حکم ہے کہ تمہارا کام سمجھانا اور ڈرانا ہے.تم اپنا کام کئے جاؤ.لوگوں کو سمجھاتے جاؤ اور ڈراتے جاؤ اور اس ڈرانے میں یہ کوشش کرو کہ وربَّكَ فَكَبِّرُ - - وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ - یعنی خدا تعالیٰ کی عظمت، جبروت کا ذکر ہو اور اپنی غلطیوں کی بھی اصلاح کرو.چوری ، بدنظری ، بدکرداری اور دیگر تمام بدیوں کو پہلے خود چھوڑ دو اور یہ وعظ اس لئے نہ ہو کہ بس آپ کھڑے ہوئے یہ کہو.کہ میرے لئے کچھ پیسے جمع کرو.بلکہ محض اللہ کے لئے کرو.میں سال سائل کے لئے پکا تھا.مگر معلوم ہوتا ہے کہ ارادہ الہبی کچھ اسی طرح تھا.یہ بڑا معرفت کا نکتہ ہے.جو میں نے تمہیں سنایا ہے.دوسروں کوضرور ہر روز نصیحت کرو.اس سے تین فائدے ہوتے ہیں.اول خدا کے منکر ، نہی عن المنکر کی تعمیل ہوئی ہے.دوسرے ممکن ہے کہ جس کو نصیحت کی جائے.اس کو نیک کاموں کی توفیق ملے.تیسرے جب انسان اپنے نفس کو مخاطب کرتا ہے تو اس کو شرم آتی ہے اور اس کی بھی اصلاح ہوتی ہے.تمہارے بیان بیان میں خدا کی عظمت اور اس کی قدرت و تصرف کا ذکر ہو.اس کا تین طرح دنیا میں مقابلہ ہوتا ہے بعض لوگ تو منہ پر کہہ دیتے ہیں کہ نہ ہم مانتے ہیں اور نہ ہم سننا چاہتے ہیں.اور بعض سنتے ہیں مگر عمل کرنے کی پرواہ نہیں کرتے.اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ قسم قسم کے وجوہات نکال کر واعظ میں نکتہ چینی کرتے ہیں.مگر واعظ کو چاہیے کہ اللہ کے لئے صبر کرے اور اپنا کام کرتا چلا جائے.( بدر جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱٫۳۱ کتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳) اے لحاف میں لیٹے ہوئے ( یہ اشارہ قبل نبوت کی حالت پر ہے ) کھڑا ہو.پھر ڈرسنا.اور اپنے رب کی بڑائی بول.اور اپنے کپڑے پاک رکھ اور کشتھری کو چھوڑ دو اور نہ کر کہ احسان کرے اور بہت چاہے اور اپنے رب کی راہ دیکھ.ٹیاب کے معنی نفس اور دل کے بھی ہیں.محاورہ ہے.سَلِّي ثِيَابِي عَنْ ثِيَابِكِ أَن قَلْبِي عَنْ ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۲۴ حاشیه ) قلبك -
حقائق الفرقان ۶۳ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ ٦ - وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ - ترجمہ.اور ہر قسم کی ظاہری اور باطنی برائی اور نجاست کو (اے مخاطب) چھوڑ دے.تفسیر.رنجز میں دو لغت بیان ہوئے ہیں.ایک رجز اور دوسرا جز.معنے دونوں صورتوں میں قریب قریب ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں.کما قال لَبِنْ كَشَفْتَ عَنَّا الرَّجْزَ لَنُؤْمِنَنَّ لك - (الاعراف: ۱۳۵) اس آیت میں رجز کے معنے عذاب کے ہیں اور بتوں کی پرستش اور شیطان کے مکروفریب کو اس واسطے رجز کہا جاتا ہے کہ یہ چیزیں عذاب کی باعث ہیں اور اس حکم ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی طہارت کی تعلیم فرمایا.- وَلَا تَمُثْنُ تَسْتَكْثِرُ - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴) ترجمہ.اور اس خیال سے احسان نہ کر کہ زیادہ حاصل کرے.تفسیر.قرآن کریم کی تعلیم احکام الہی کی تبلیغ یا مالی احسان کر کے کسی کو بایں غرض منت و احسان نہ جتا کہ آپ اس سے کثرتِ مال، کثرت جاہ یا بہتر بدلہ طلب کرے.اور کوئی چیز کسی شخص کو بہ ایں نیت ہرگز نہ دے کہ وہ اس کا بدلہ زیادہ کر کے آپ کو دیوے کیونکہ یہ فعل تلویث باطن میں نجاست کا حکم رکھتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ مارچ ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۴) ۹ - فَإِذَا نُقِرَ فِي النَّاقُورِ - ترجمہ.پھر جب نرسنگا پھونکا جائے گا.تفسیر.نظر کے معنی کلام عرب میں آواز دینے کے ہیں.جب کوئی کسی شخص کو نام لے کر پکارتا ہے تو نَقَرَ بِاسْمِ الرّجُلِ کہتے ہیں.اعلان کے ساتھ کسی چیز کو ٹھونک بجا کر اطلاع دیتے ہیں.تو اس کو بھی اسی لئے نقارہ کی چوٹ سے یا ڈھنڈوری سے اطلاع عام دینا کہتے ہیں.جنگوں میں بھی اے اگر تو نے ہٹا دیا ہم سے یہ عذاب تو ہم ضرور مانیں گے تجھ کو.
حقائق الفرقان ۶۴ سُوْرَةُ الْمُدرِ نقارہ بجایا جاتا ہے.جنگوں کو بھی عذاب فرمایا.گما قَالَ تَعَالَى " قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبُهُمُ اللَّهُ روو ،، لے بايد يكم (التوبه : ۱۴) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸/ مارچ ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۴) ۱ - ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا - ترجمہ.مجھے چھوڑ دے اور جس کو میں نے وحید و یکتا پیدا کیا.تفسیر - وحيدا کے معنی بے نظیر ، اوصاف میں منفر د.ولید بن مغیرہ کے دو لقب مکہ میں مشہور تھے.ایک وحید اور دوسرا ريْحَانَةُ قُريش.یہ اپنے شعر و سخن اور منظر کی خوشنمائی میں شہرت رکھتا تھا.مال و فرزند بھی اس کے زیادہ تھے.مگر بایں ہمہ پرلے درجے کا ناسپاس و ناشکر گزار تھا.اس کی اولا دوس یا تیره مع الاختلاف تھی.خداوند تعالیٰ کا نپٹنا اس کے ساتھ اس طرح ہوا کہ ولید بن ولید ، خالد بن ولید ، ہشام بن ولید مشرف بہ اسلام ہوئے اور اس کے چاہتے بیٹے اس سے بیزار ہو کر اس سے علیحدہ ہو گئے.بعضے اس کی آنکھوں کے آگے کھپ گئے.مال و دولت میں پے در پے نقصان ہونے لگا اور آخرالا مرخود آپ نہایت ذلت اور افلاس کے ساتھ ہلاک ہو گیا.نزول آیت کا اگر چہ کسی خاص شخص کی طرف اشارہ کرتا ہے.مگر اعتبار اس کا عام ہے.ہمارے اس زمانے میں بھی ایسی نظیریں کثرت کے ساتھ پائی جاتی ہیں جن کا بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب حقیقۃ الوحی میں نام بنام نمبر وار درج ہے.مَنْ شَاءَ فَلْيَرْجِعُ إِلَيْهِ.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴) ۱۹ تا ۲۵ - اِنَّهُ فَكَرَ وَقَدَّرَ - فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ - ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ - ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَ بَسَرَ - ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ - فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحُرُ يُؤْثر ترجمہ.اس نے فکر کی اور اندازہ کیا.پھر وہ ہلاک ہوا.کیسا اندازہ کیا.پھر ہلاکت پر ہلاکت آئے.لے تم ان سے لڑو تا کہ اللہ ان کو سزا دے تمہارے ہاتھوں سے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُدرِ کیسا اس نے اندازہ کیا.جانچا.پھر نظر کی.پھر تیوری چڑھائی اور منہ بگاڑ لیا.پھر پیٹھ پھیر لی اور تکبر سے اکڑا.اور کہا یہ تو وہی جادو ہے جو پسند کیا جاتا ہے.چونکہ نامی شاعر تھا اس لئے جب اس سے قرآن شریف کی نسبت لوگوں نے پوچھا تو اس نے انکل دوڑائی.خدا کی مار.انکلیں دوڑا کر کہا تو یہ کہا کہ یہ تو جادو بھرا مؤثر کلام ہے اور اس کلمہ کو تیوڑی چڑھا کر اور برا سا منہ بنا کر حقارت آمیز لہجہ میں ادا کیا کما قَالَ تَعَالَى عَبَسَ وَ بسر.فَقَالَ إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرُ يُؤْثَرُ - ٣٠ لَوَاحَةُ لِلْبَشَرِ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۴) ترجمہ.چھڑے کو جھلس ڈالنے والی ہے.چونکہ کلام کے وقت منہ بنا کر بشرے سے حقارت آمیز ادا کو ظاہر کیا تھا اس لئے جزاء وفاقا (النبا : ۲۷) کے طور پر بشرے کو جھلس دینے والی آگ کا ذکر فرمایا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴) ۳۱- عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ - ترجمہ.اس پر انیس ہیں (فرشتے موکل).۱۹ تفسیر.بتلایا گیا ہے کہ جہنم کے داروغے انہیں ہیں.اس عدد میں ایک عجیب راز ہے.دانشمند غور کریں تو وہ اس قرآنی فلسفہ سے لطف اٹھا ئیں.انسان کے وہ اعضاء وقوی کہ جن سے خدا تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ظہور ہوسکتا ہے.وہ بھی تعداد میں انہیں ہی ہیں.دو ہاتھ ، دو پاؤں، زبان، دل ، آلہ تناسل ، مقعد ، پیٹ ، منہ، حواس خمسہ، فکر ، عقل، شہوت ، غضب.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴)
حقائق الفرقان ۶۶ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ لبا ص -۳۲- وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَبَ النّارِ إِلَّا مَلَبِكَةً وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا وَ لا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ وَالْمُؤْمِنُونَ وَ لِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْكَفِرُونَ مَا ذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا كَذلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِى.مَنْ يَشَاءُ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلا هُوَ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَى لِلْبَشَرِ - ترجمہ.فرشتے ہی ہیں اور ان کی گنتی کو کافروں کے لئے سزا دینے کا موجب بنایا ہے تا کہ جن کو کتاب دی گئی ہے وہ تو یقین کر لیں اور ایمانداروں کا ایمان اور بھی زیادہ ہو جائے اور جو اہل کتاب اور مومن ہیں ان کو کچھ شبہ نہ رہے اور جن کے دلوں میں کمزوری ہے اور کٹے کا فر کہنے لگیں کہ اللہ نے (بھلا ) اس مثال سے کیا ارادہ کیا ہے.اسی طرح اللہ اس کو گمراہ کر دیتا ہے جو (گمراہی) چاہتا ہے اور اس کو ہدایت کرتا ہے جو ( ہدایت ) چاہتا ہے.اور تیرے رب کے لشکروں کو سوائے رب کے کون جانے.اور یہ تو بشر کے لئے محض ایک یادگارا اور نصیحت ہے.مسیح علیہ السلام کے ماسوا کس قدر انبیاء ورسل اور اللہ تعالیٰ کے مامور گزرے ہیں.کسی کا نسب نامہ قرآن کریم میں لکھا ہے؟ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ پس سب کے وجود کا علم بھی ضروری نہیں چہ جائیکہ وہ کس طرح پیدا ہوئے.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۴۱) ذکری.یہ پیشگوئی ایک شخص کو تاریخی انسان بنانے والی ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۴) مکذب براہین احمدیہ نے لکھا آریہ محمدی لوگوں کی طرح پانچ ہزار یا چھ ہزار سال سے خالق ، رازق ، مالک ، رحیم ، عادل اور قادر مطلق نہیں مانتے.“ اس کے جواب میں فرمایا:
حقائق الفرقان ۶۷ سُوْرَةُ الْمُدرِ تمام قرآن کریم اور حدیث نبی رؤف الرحیم میں سے یہ بات نکال دیجئے.کہاں اسلام نے کہا ہے کہ خدا پانچ چھ ہزار سال سے خالق ، رازق ، مالک ، رحیم ، عادل اور قادر مطلق ہے.خدا کے واسطے کچھ تو خوف الہی کو دل میں جگہ دو! عدالت الہی کا دھیان کرو! صرف نیشنیلٹی اور صرف دنیوی پالیسی کس کام آوے گی.باری تعالیٰ عالم الغیب اور انتر یامی اور عادل ہے.علیم بذات الصدور ہے.راستی پر اپنے فضل سے آرام کا داتا ہے.مسلمان تو اللہ تعالیٰ کو ہمیشہ سے خالق ، رازق ، مالک، عادل ، رحیم ، قادر یقین کرتے ہیں.بلکہ ایک جم غفیر مسلمانوں کا عینیت صفات کا قائل ہے جس سے صاف عیاں ہے کہ صفات اپنے موصوف سے علیحدہ نہیں ہوسکتیں گورا تم عینیت صفات کا قائل نہیں.مگر یہ اعتقا در رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی خالی نہیں ہوسکتا.بلکہ کوئی موصوف کسی وقت اپنے لازمہ صفات سے خالی نہیں ہو سکتا.اگر اللہ تعالیٰ کا خالق رازق ہونا بلحاظ انسانی پیدائش کے آپ لیتے ہیں.تو بتائیے مہا پر لے کے وقت انسان کہاں ہوتے ہیں.جن کا وہ خالق رازق ہوتا ہے.ہم زیادہ بحث نہیں کرتے.پانچ چھ ہزار برس سے کل مخلوق کی پیدائش کا زمانہ بلکہ انسانی پیدائش کا زمانہ قرآن کریم یا حدیث نبی رحیم سے نکال دیجئے.پس اسی پر فیصلہ ہے تعجب ہے کہ آپ نے خود صفحہ ۲۳ میں ارقام فرمایا ہے.یہ امر مسلم فریقین ہے کہ پر میشور اور اس کی سب صفات اور علم اور ارادہ قدیم ہیں.اس واسطے اس پر بحث کی ضرورت نہیں.پھر میں کہتا ہوں.اگر یہ بات مسلم فریقین ہے.تو آپ نے صفحہ ۲۲ میں کس بناء پر اسلام کو الزام لگایا کہ محمدی پانچ ہزار سال سے اللہ تعالیٰ کو خالق رازق جانتے ہیں.غرض اسلام تو اللہ تعالیٰ کی اتنی مخلوق کا قائل ہے جو حد و شمار سے باہر ہے.دیکھو قرآن کریم میں صاف موجود ہے.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَرَبَّكَ إِلَّا هُوَ المدثر: ٣٢ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ(البقرة:۴۵۶) اور اسلامیوں کی مسلم الثبوت اور اعلیٰ درجہ کی کتاب صحیح بخاری میں كَانَ اللهُ غَفُورًا رَّحِيمًا کے لے تیرے رب کے لشکروں کو سوائے اس کے کوئی نہیں جانتا.ہے اس کے کسی قدر علم کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے.
حقائق الفرقان یہ معنے لکھے ہیں.۶۸ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ لَمْ يَزَلْ كَذلِكَ فَإِنَّ اللهَ لَمْ يُرِدْ شَيْئًا إِلَّا أَصَابَ بِهِ الَّذِي آزاد ( صحیح بخاری کتاب التفسیر زیر تفسير سورة حم السجده) تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۶۵-۶۶) ۳۸ - لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَتَقَدَّمَ أَوْ يَتَأَخَّرَ - ترجمہ.اس شخص کو جو تم میں سے چاہے کہ آگے بڑھے یا پیچھے رہے.تفسیر.جو تم میں سے آگے بڑھنا چاہے یا پیچھے ہٹنا چاہے اس کے لئے انذار مفید ہوسکتا ہے مگر جس کے دل میں جنبش ہی نہ ہو.نر اٹھوس ہے.انذار اور عدم انذار کو دونوں ہی کو برابر سمجھتا ہے اور جگہ سے ملنا ہی نہیں چاہتا ہے.اس کے لئے قرآن شریف کا اترنا اور نہ اتر نا گویا دونوں برابر ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۵ مورخه ۲۸ / مارچ ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۴) ۳۹ - كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ - ترجمہ.ہر شخص اپنے کئے ہوئے میں پھنسا ہوا ہے.تفسیر.ہر شخص کو اس دنیا میں بھی اپنے اپنے اعمال کے موافق جزا سزامل رہتی ہے.میں نے دیکھا ہے.ایک شخص نے ناجائز کمائی سے ایک مکان تعمیر کرایا.آخر نہ خود اس کو اُس مکان میں رہنا نصیب ہوا اور اُس کی اولا د بھی ایسے مکان میں نہیں رہتی.بخلاف صالح انسان کے کہ خدا اس کی اولاد کا بھی متکفل رہتا ہے.یتیم بچوں کا کوئی نیک عمل نہ تھا.مگر كَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا (الكهف : ۸۳) فرمایا اور باپ کی صلاحیت بیٹوں تک کو مفید ہوئی.یہی ہر شخص کا اپنے اعمال میں مرہون رہنا ہے.ایک شخص کے اگر آتشک ہوتی ہے تو کئی پشت تک یہ موذی مرض اس کی اولا د میں چلا جاتا (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ ، صفحه ۲۹۵) ہے.ے یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ایسا ہی ہے.بیشک اللہ تعالیٰ جب ارادہ کرتا ہے.وہ کام ہو ہی جاتا ہے.ے اوران دونوں کا باپ ایک نیک مرد تھا.
حقائق الفرقان ۶۹ سُوْرَةُ الْمُدَّثِرِ ۵۱ - كَانَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَةٌ - - رجمہ.گویاوہ گدھے ہیں بد کے ہوئے.تفسیر.محمد جمع ہے عمار کی.حمارکو حماراس مناسبت سے کہتے ہیں کہ اس کی چیخ پکار کے وقت اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.اسی طرح ہر صادق کے مقابلہ میں گدھوں کی طرح مخالفوں کا سخت غیظ وغضب ہوتا ہے.جہاں سخت مخالفت ہوتی ہے.اس کے بالمقابل حق ضرور ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.ز اول چنیں مجوش بین تاب آخرم کے ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱٫۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۵) ۵۲ - فَرَّتْ مِنْ قَسُورَةٍ - ترجمہ.(چونکے ہوئے ) بھاگے ہیں شیر سے.تفسیر - قسورة - فسر سے مشتق ہے.جس کے معنے قہر اور غلبہ کے ہیں.اہل عرب بولا کرتے ہیں.ليُون قَسَاوِرَة - لیوٹ جمع کیٹ کی ہے.لیٹ بمعنی شیر.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں.الْقَسْوَرَةُ هِيَ الْأُسُد- قسورة اُن تیراندازوں کی جماعت کو بھی کہتے ہیں.جو جنگلی گدھوں کا شکار (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱٫۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۵) کرتی ہیں.۵۳ - بَلْ يُرِيدُ كُلُّ امْرِى مِنْهُمْ أَنْ يُؤْتَى صُحُفًا مُنَشَرَةٌ - ترجمہ.بلکہ چاہتا ہے ان میں سے ہر شخص کہ اس کو دیئے جائیں صحیفے کھلے ہوئے.تفسیر.شاہ عبدالقادر صاحب موضح القرآن حاشیہ میں فرماتے ہیں.ہر کوئی نبی ہوا چاہتا ہے کہ کھلی کتاب پاوے آسمان سے“ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۵) ۵۶ ، ۵۷ - فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَهُ - وَ مَا يَذْكُرُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ هُوَ أَهْلُ التَّقْوَى وَاهْلُ الْمَغْفِرَةِ - ترجمہ.پس جو کوئی چاہے اس کو یاد کرے.اور وہ یاد ہی نہیں کر سکتے بے مشیت الہی.اس کی ا میرا انجام دیکھے بغیر آغاز میں ہی میری مخالفت میں جوش نہ دکھلاؤ.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُدرِ یشان ہے کہ اس سے ڈرنا چاہئے اور وہی بخشش فرمانے کے لائق ہے.تفسیر.معدوم کو موجود کرنا خدا کا کام ہے مخلوق میں.ہاں حیوان اور انسان کے دل میں کسی ارادے اور مشیت کا پیدا کر دینا بیشک باری تعالیٰ کا کام ہے.الا ہر ایک منصف جانتا ہے کہ صرف مشیت اور ارادے کے وجود سے کسی فعل کا وجود ضروری اور لازمی امر نہیں.یقیناً قوائے فطری کا خلق اور عطا کرنا جن پر ہر گونہ افعال کا وجود و ظہور مترتب اور متفرع ہو سکتا ہے.خالق ہی کا کام ہے.اس لطیف نکتے کے سمجھانے کے لئے اور نیز اس امر کے اظہار کرنے کو کہ قوائے طبعی اور کائنات سے کوئی وجود اصل امر خلق میں شریک نہیں.سب اشیاء کی علة العلل میں ہی ہوں.باری تعالیٰ سب افعال کو بلکہ ان افعال کو بھی جو ہم معائنے اور مشاہدے کے طور پر انسان اور حیوان سے سرزد ہوتے دیکھتے ہیں.اپنی طرف نسبت کرتا ہے.کہیں قرآن میں فرماتا ہے.ہوا بادلوں کو ہانک لاتی ہے.کہیں فرماتا ہے.ہم بادلوں کو ہانکتے ہیں.ہم ہی گالیوں اور بھینسوں کے تھنوں میں دودھ بناتے ہیں.ہم ہی اناج بوتے ہیں.ہم ہی کھیت اگاتے ہیں.اور تامل کے بعد یہ سب نسبتیں جو ظاہراً متضاد الطرفین ہیں.بالکل صحیح اور حقیقت بالکل صداقت ہیں.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۲۰) هُوَ اهْلُ التَّقْوَى وَاهْلُ الْمَغْفِرَةِ - ھو کو مقدم اس لئے رکھا کہ سوائے ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کے دوسرا کوئی اہل نہیں کہ اس پر جان فدائی کی جاوے جیسے فرمایا.هُوَ الْحَقُّ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ (المومن:۶۶) تقوی کے ساتھ مغفرت کو اس لئے قرین رکھا کہ ہر نبی ولی نے تقوی کی تیز اور خونخوار راہوں میں اپنی بشری کمزوریوں کا اعتراف کیا ہے.حضرت اقدس مرحوم و مغفور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.در کوئے تو گر سر عشاق راز نند اول کسے کہ لاف تعشق زند منمل (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۵) ا اگر کبھی تیرے کوچہ میں عاشقوں کی گردن کاٹی جائے گی تو سب سے پہلے جو عشق کا دعویٰ کرے گا وہ میں ہوں گا.
حقائق الفرقان اے سُوْرَةُ الْقِيمَةِ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ مَكِيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۂ قیامہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے اسم مبارک سے جو رحمن اور رحیم ہے.اس سورۃ شریف میں قیامت کے حق ہونے پر دلائل ہیں مکی سورتوں میں جو عظیم الشان پیشگوئیاں کی ہیں.وہ دراصل قیامت کے دلائل ہیں.کیونکہ وہ وعدے جو عالم آخرت سے متعلق ہیں.اس دنیا میں بھی ایک رنگ اور صورت میں پورے ہوئے تا کہ عالم آخرت کے وعدوں پر بطور دلیل ٹھہریں قرآن کریم کا یہ مضبوط قاعدہ ہے اور اس کی در حقیقت یہ یگانہ صنعت ہے کہ اپنے ہر ایک دعوے کے ساتھ دلائل بھی رکھتا ہے مگر ثبوت تو حید اور اثبات الوہیت کے بعد بڑا بھاری مسئلہ جوسب مسائل کی روح رواں ہے.معاد اور وعد و وعید معاد کا مسئلہ ہے دراصل آخرت کا یقین ہی تمام نیکیوں کا سچا محرک اور انکار آخرت تمام مفاسد کا باعث ہے دنیا کی تمام مذہبی کتا ہیں اس حقیقت کو بیان کرنے سے عاری ہیں یہ موقع نہیں کہ ان میں موازنہ کر کے دکھایا جاوے قرآن کریم نے مسئلہ لا الہ الا اللہ کے بعد سب سے زیادہ اسی مسئلہ کو مدنظر رکھا ہے اور اس سورۃ میں خصوصیت سے اس کا ذکر کیا ہے.قرآن مجید کی قسموں کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے میں نے بتایا تھا کہ بدیہی امور کو نظریات کے ثبوت کے لئے پیش کیا ہے.یہاں یوم القیامتہ ہی کو قیامت کے ثبوت میں پیش کیا.گویا قیامت اور جزاوسزا کا مسئلہ ایسا مسئلہ ہے کہ انسان اس کا انکار ہی نہیں کر سکتا.اس پر پہلی دلیل انسان کے نفس لوامہ کی ہے جب کسی شریف الطبع انسان سے کسی بدی کا صدور یا ارتکاب ہوتا ہے تو نفس لوامہ فوراً سے متنبہ اور آگاہ کرتا ہے اور صدور سے پہلے بھی دل میں ایک کھٹک اور خوف پیدا ہوتا ہے یہ ایک فطرتی امر ہے اس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.انسانی فطرت میں یہ خوف کیوں ہے؟ اس کی جڑ یہی ہے کہ وہ جزائے اعمال کا یقین کرتی ہے اور انسان پکار اُٹھتا ہے کہ جزائے اعمال کا مسئلہ حق ہے.پس یہ فطرت
حقائق الفرقان ۷۲ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ جو نفس لوامہ کی صورت میں انسان کو دی گئی ہے جزا وسزا کی یہ بھی مثبت اور شاہد ہے.اس فطرتی دلیل کے بعد منکرین قیامت کا اعتراض پیش کیا جاتا ہے کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جب انسان مر گیا اور گل سڑ گیا تو اس کے ذرات الگ ہو گئے اب وہ کہاں جمع ہوں گے اور قیامت کیونکر ہوگی؟ اس اعتراض کا جواب اس طرح پر دیا بکلی قادِرِینَ الآیہ.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ایسا کرے گا ایک دعوی ہے اس کے دلائل آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں پہلے یہ بتایا کہ انسان انکار قیامت کرتا کیوں ہے؟ اس کی جڑ یہ ہے کہ وہ بدیوں اور بدکاریوں میں منہمک رہنا چاہتا ہے اور اسی بے باکانہ حالت میں پھر پوچھتا ہے اَيَّانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ یعنی وہ قیامت کا دن کب آئے گا؟ اس کے آثار اور علامات بتائے کہ آنکھیں چندھیا جائیں گی.اس سے مطلب یہ ہے کہ وہ دن ایسا روشن اور صاف ہو گا جیسے آفتاب کی تیز روشنی ہو اس میں کسی قسم کا خفا اور تاریکی نہیں رہ سکتی وَخَسَفَ الْقَمَرُ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ یہ آیات اپنے ظاہر پر دلالت کرتی ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ ایسا ہی ہوگا.بلکہ ایک رنگ میں ہو بھی چکا تاہم میرے فہم میں اس آیت میں ایک پیشگوئی اور بھی ہے اور وہ عرب اور ایرانی قوموں کے فتح ہونے کے متعلق ہے اہلِ عرب اور شامی قو میں اپنا تعلق چاند سے بتاتی ہیں اور دوسری سورج سے گویا یہ ایک واقعہ ہے کہ اسلام ان مذاہب پر غالب آجائے گا اور یہ مذا ہب گہنا جائیں گے اور اس سے حجت نیرہ اور واضح قائم ہو جائے گی کہ پھر بھاگنے کی جگہ نہ ہوگی.اور بالآخر اللہ تعالی ہی طرف پناہ لینی پڑے گی یہ واقعات دنیا جانتی ہے ہوئے اور دوسرے ادیان مغلوب ہوئے اور اسلام کا میاب ہوا.باوجود اس کے ہم یقین رکھتے ہیں کہ قیامت کو اللہ تعالیٰ کی قہری بجلی دوسرے رنگ میں بھی جلوہ گری کرے گی اور اس دنیا کے واقعات اس قیامت کے لئے بطور دلیل اور ثبوت ٹھہریں گے.پھر اللہ تعالیٰ انسان کو اسی فطرتی دلیل کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ انسان اپنے اعمال کی پاداش کے لئے خود اپنی ذات میں دلائل رکھتا ہے اور وہ آگاہ ہے اس کا نفس جانتا ہے کہ پاداش اعمال حق ہے اور یوں بے جا عذر و حیلے الگ امر ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی حقانیت پر ایک دلیل پیش کرتا جو بجائے خود قیامت کی بھی دلیل ہے اس لئے کہ وجود قیامت کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اب بتایا کہ
حقائق الفرقان ۷۳ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ قرآن کریم کو محفوظ رکھنا اور اس کا جمع کرنا اور اس کو کھول کھول کر بیان کرنا یہ سب کام ہمارے ذمہ ہیں.قرآن مجید کی ترتیب میں کوئی تحریف نہ ہو سکے گی.کوئی امر اس کی اشاعت و حفاظت میں سدراہ نہ ہو گا اب دیکھ لو یہ عظیم الشان پیشگوئی کس طرح پر پوری ہوئی.۲۳ سال کا متفرق کلام کس طرح با ترتیب جمع ہوا.اور اب تک کہ اس پر ۱۳ سو سے زیادہ سال گزر چکے کوئی کسی قسم کا اختلاف نہیں ہوا.اور پھر اس کے بیان کے متعلق جو پیشگوئی تھی وہ بھی کس شان سے پوری ہوئی.اس خصوصیت میں دنیا کی کوئی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اس کے بعد پھر انسانی فطرت کا نقشہ کھینچ کر بتایا کہ جلد باز انسان دنیا سے پیار کرتا اور آخرت کو چھوڑتا ہے.اپنے اعمال کے نتائج سے غفلت کرتا ہے.مکہ والو! یا درکھو ایک دن آتا ہے کہ بہت سے چہرہ خوش ہوں گے اور اس وقت بھی ان کا مقصود اور قبلہ حاجات وجہ اللہ ہوگا اس خوشی کی حالت میں بھی خدا کو بھول نہ جائیں گے.اور بعض اداس اور غمگین ہوں گے پوری پوری تجلی اور ظہور اس کا قیامت میں ہو گا مگر دنیا میں بھی ہوا.کس طرح بدر میں ہوا اور بالآخر فتح مکہ کا نظارہ کیا دل خوش کن تھا اس کے بعد بتایا کہ انسان جب مرض الموت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کی اور اس کے ساتھ والوں کی کیا حالت ہوتی ہے اس وقت کا اضطراب اور موت سے بچنے کی آرزو اور خواہش بھی دراصل قیامت ہی کی دلیل ہے اندر ہی اندر قلب اپنے افعال پر نادم کرتا ہے اور جزا کا خیال ایک ہول اور غم دل پر ڈال دیتا ہے پھر بتایا کہ جلد باز اور مخمور انسان کس طرح خدا سے دور جا پڑتا ہے آخر میں قیامت کے حق ہونے پر ایک اور زبردست دلیل پیش کی میں نے پہلے بتایا ہے کہ قرآن کریم نے بعد لا الہ الا اللہ کے سب سے زیادہ اسی مسئلہ قیامت یا حشر اجساد کو نصب العین رکھا ہے اور اس کے دلائل میں اس نے انفسی اور آفاقی شہادتوں کو مقدم کیا یعنی انسان کی خلقت اور اس کے اعمال کے میلان اور غایت قانون الہی ( فطرۃ اللہ (قانونِ قدرت) سے اقامت قیامت اور ثبوت حشر اجساد اور ضرورت یوم الدین پر جابجا بحث کی ہے چنانچہ اس جگہ فرمایا أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ أَنْ يُتْرَكَ سُدى الآیة.اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ انسان کی بناوٹ اور اس کی خلقت اور اس کا تسویہ اور اس کا دو مختلف نتیجوں اور کارروائیوں کی مخلوق یعنی نرومادہ ہونا چاہتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ
حقائق الفرقان ۷۴ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ جواب دہ ہستی ہے وہ اپنے اعمال اور افعال کی ذمہ وار ہستی ہے ایسا ہی آسمان سے پانی برسنے اور زمین پر نباتات اُگنے سے جابجا استدلال کیا ہے اب ان واقعات کو پیش کر کے کس طرح خدا تعالیٰ نے اسے پیدا کیا پھر آخر میں سوال فرماتا ہے اور اس بلی قادِرِین کے دعوئی جواب میں یہ تمام دلائل پیش کر کے پوچھتا ہے آلیس ذَالِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْلى اس مقام پر بے اختیار ہو کر انسانی فطرت اس امر کا اقرار کر اٹھتی ہے.بلی اِنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.( ترجمتہ القرآن مولفه شیخ یعقوب علی صاحب) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۶،۲۹۵) ۲.لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيمَةِ - ترجمہ.قسم کھا تا ہوں روز قیامت کی.تفسیر.لا کو اکثروں نے زائد بتایا ہے.اور حدیث شریف میں ہر ہر حرف پر دس دس نیکیوں کا ثواب مذکور ہے.جب بات سمجھ میں نہ آئی.تو وہ زائد ہی ہوئی.کفار کو جس قدر بعث بعد الموت کے مسئلہ پر انکار واصرار تھا.ایسا کسی دوسرے مسئلہ پر سوائے شرک کے نہیں تھا.چنانچہ نہایت ہی تعجب ہے.کفار نے کہا.هَلْ نَد لكُم عَلَى رَجُلٍ يُنَبِّئُكُمْ إِذَا مُرْقْتُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّكُمْ لَفِي خَلْقٍ لے جديد - (سبا: ۸) (سبا: ٨) ادھر سے انکار پر اس قدر اصرار تھا اور ادھر اثبات بعث بعد الموت پر جگہ جگہ زور دیا گیا ہے.اس رد و کد کو مد نظر رکھ کر مخاطب کے مافی الضمیر پر انکاری طریق سے کلام کا افتتاح ”لا“ کے لفظ سے روڈ کد کو کر مافی فرمایا ہے.یعنی قوله تعالى زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا.(التغابن :۸) میں جو زعم کہ منکران بعث بعد الموت کے ضمیر میں رچا ہوا تھا.اس کی نفی ”لا“ کے لفظ سے کرتے ہوئے کلام کو ہم تم کو بتا ئیں ایسا ایک شخص جو تم کو اطلاع دیتا ہے کہ جب سرگل کر بالکل ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے پھر تم کو ضرور نئے سرے سے پیدا ہونا پڑے گا.۲ منکر لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ان کو ہرگز نہ اٹھایا جائے گا.
حقائق الفرقان ۷۵ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ شروع کیا.اس قسم کا محاورہ ہر زبان میں ہوا کرتا ہے.جس کو مخاطب سخن بلا شک و شبہ پہچان لیتا ہے کہ یہ ”لا“ میرے مافی الضمیر کا رد ہے.اس کے یوم القیامہ اور نفس لوامہ کو بعث بعد الموت پر اس طور سے گواہ ٹھہرایا ہے کہ یوم القیام سے جنگ کی مصیبت کا دن اور اپنے نفس پر کفار کی ملامت کا اعتراف ثبوت دعوی بن گیا.دنیا میں جنگ کے لئے محشور ہونا آخرت کے حشر کے لئے اور دنیا کی شکستوں پر اپنے نفسوں کو ملامت کرنا آخرت کے جزاوسزا کے لئے ثبوت ٹھہرا.قيامة.کھڑا ہونا.ا - مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَ قِيَامَتُهُ.قوم کی قیامت.جیسا کہ بنوامیہ پر سوسال کے بعد قیامت آئی.اور وہ زبان عربی کے بولنے والے حکام پر قیامت تھی.إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ - (الحج: ۴۸) - حدیث شریف میں آیا ہے.کیا میری امت آدھا دن نہ کاٹے گی.اہلِ اسلام کا عروج قریب پانچ سوسال رہا.-۴ ہزار سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بہت رؤ لا پڑ گیا.یہ بھی ایک قیامت ہے.۵- يَوْمُ السَّاعَةِ - يَوْمُ الْقِيَامَةِ - مصیبت کے وقت کو بھی کہتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۶) اس سورۃ شریف میں اللہ تعالیٰ ایک فطرت کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے.مطلب یہ کہ تمہاری فطرتوں میں سب قسم کی نیکیوں کے بیچ بودیئے تھے.ان کو یاد دلانے اور ان کی نشوونما کے لئے قرآن کریم کو نازل کیا.وہ جو فطرتوں کا خالق ہے اس لے جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہو گئی.۲ بے شک ایک دن تیرے رب کے نزدیک ایک ہزار برس کے برابر ہے.
حقائق الفرقان ۷۶ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ نے قرآن کریم کو نازل فرمایا ہے.مسیحی لوگوں کو ایک غلطی لگی ہے.پولوس کے خط میں ہے کہ یہ شریعت اس وجہ سے نازل ہوئی ہے کہ وہ ثابت کرے کہ تم شریعت کی پابندی نہیں بجالا سکتے.گویا شریعت کو نازل کر کے انسان کی کمزوری کا اس پر اظہار کرتا تھا اس لئے پلید تعلیم دی گئی کہ نجات کی راہ شریعت کو نہ مانو.بلکہ کسی اور شے کو مانو.میں نے بعض مشنریوں سے پوچھا ہے کہ جب شریعت کی پابندی تم سے نہیں ہو سکتی.تو تمہارے جو اور قوانین ہیں.ان کی پابندی تم کیسے کرتے ہو.ہر ایک انسان جب بدی کرتا ہے تو اس بدی کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے ہر سلیم الفطرت اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ہر بدی کے ارتکاب کے بعد اس کا دل اس کو ملامت کرتا ہے کہ تو نے یہ کام اچھا نہیں کیا.گوکسی وقت ہو.میں نے لوگوں سے اور اپنے نفس سے بھی پوچھا ہے.چنانچہ جواب اثبات میں ملا.چور کو چوری کے بعد ایسی ملامت ہوتی ہے کہ وہ چوری کے اسباب کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتا.اسی طرح ڈا کہ ڈالنے والے اور قاتل دونوں ارتکاب جرم کے بعد کہیں بھاگنا چاہتے ہیں.اسی طرح جھوٹا آدمی جھوٹ بولتا ہے تو جھوٹ کے بعد اس کو ملامت ہوتی ہے کہ یہ بات ہم نے جھوٹ کہی.غرض ہر بدی کے بعد ایک ملامت ہوتی ہے.جس بدی کو انسان کرتا ہے اسی بدی کے متعلق اگر اس سے تفتیش کی جائے تو ایک حصہ میں چل کر وہ منکر ہو جاتا ہے.میں نے بعض چوروں سے پوچھا ہے کہ اعلیٰ درجہ کی چوری میں مال پر ہاتھ تو مشکل سے پہنچتا ہے.پھر کسی کے ہاتھ سے نکلواتے ہو.کسی کے سر پر رکھتے ہو.کسی سنار کو دیتے ہو کہ وہ زیورات وغیرہ کی شکل و ہیئت کو تبدیل کر دے.اس نے کہا کہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم سنار کو سو روپے کی چیزیں پچھتر روپے میں دیتے ہیں.میں نے کہا کہ اگر وہ سوروپے کی چیز ساٹھ روپے میں رکھ لے تو پھر تم کیا کرو.تو مجھے جواب دیا کہ ایسے حرام زادے بے ایمان کو ہم اپنی جماعت سے نکال دیں گے.میں نے کہا کہ وہ بے ایمان بھلا کیسے ہوا ؟ کہنے لگا کہ چوری ہم کریں.مصیبت ہم اٹھا ئیں اور مال وہ کھا جائے.تو پھر بھی اگر بے ایمان نہ ہوا تو اور کیا ہو گا! میں نے کہا.اچھا وہ سنار تو صرف تمہاری اتنی ہی سی مشقت برداشت کی ہوئی دولت کو غبن کر کے بے ایمان اور.
حقائق الفرقان LL سُوْرَةُ الْقِيمَةِ حرام زادہ ہو گیا مگر تم جو اوروں کی برسوں تک مصیبت اٹھا اٹھا کر جمع کی ہوئی دولت کو چرا لاتے ہو.بے ایمان اور حرام زادے نہیں ؟ اس کا جواب مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ! اسی طرح میں نے ایک کنچن سے پوچھا کہ تم اس پیشے کو برا نہیں سمجھتے ؟ کہا.کہ نہیں ! میں نے کہا کہ اپنی بیوی سے زنا کراسکتے ہو؟ کہا کہ غیر کی لڑکی کو خراب کرنا اچھا نہیں ! میں نے کہا کہ تم نے خراب کا لفظ بولا ہے.بھلا یہ تو بتاؤ جولوگ تمہارے یہاں زنا کرنے کے لئے آتے ہیں.کیا ان کے نزدیک وہ غیر کی لڑکی نہیں ہوتی ؟ قیامت کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللُّوامَةِ.اگر جزا سزا نہ ہوتی تو نفس لوامہ تم کو ملامت ہی کیوں کرتا نفس لوامہ قیامت کا ثبوت ہے.کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکتے اور ہڈیاں تو الگ رہیں ہم تو پوروں کی ہڈیوں کو بھی جمع کر دیں گے.بلی قادِرِينَ عَلی آن نُسَوِی بَنَانَہ ہر ایک آدمی جب بدی کرتا ہے تو وہ اس کو بدی سمجھتا ہے.تب ہی تو اس کو غالبا چھپ کر کرتا ہے.ایک شہر میں ایک بڑا آدمی تھا.مجھ سے اس کی عداوت تھی.مجھے خیال آیا.میں اس کے پاس گیا.وہاں لوگ جمع تھے.جوں جوں لوگ کم ہوتے جاتے تھے.میں آگے بڑھتا جاتا تھا.جب سب لوگ چلے گئے.اور دو آدمی ایک اس کا منشی اور ایک اور شخص جو کہ میرے دوست تھے رہ گئے تو اس نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ آج آپ کیسے آئے ہیں.میں نے کہا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ آپ لوگوں کو نصیحت کر نیوالا کوئی نہیں.کوئی ناصح تو آپ کو نصیحت نہیں کر سکتا.کیونکہ آپ بڑے آدمی ہیں مگر ہر ایک بڑے آدمی کے لئے اس کے شہر میں کچھ کھنڈرات اس کے لئے ناصح ہوتے ہیں.کیا آپ کے پاس کوئی ایسی یاد گار نہیں؟ اس نے کہا کہ مولوی صاحب میرے آگے آئیے.میں بہت آگے بڑھا وہ مجھ کو اس کھڑکی کے بالکل پاس لے گیا.جس میں بیٹھا کرتا تھا.مجھے کہنے لگا کہ اور آگے ہو جیئے.میں اور آگے بڑھا.اس نے پھر کہا اور آگے ہو جیئے.اور آگے تو کیا ہوتا.میں نے اس کھڑکی میں اپنے سر کو بہت قریب کر دیا.اس نے کہا کہ یہ جو آپ کے سامنے ایک محراب دار دروازہ
حقائق الفرقان ZA سُوْرَةُ الْقِيمَةِ نظر آ تا ہے.اس کا مالک میری قوم کا آدمی تھا اور وہ اتنا بڑا شخص تھا کہ ایک قسم کی سرخ چھتری جب وہ گھوڑے پر سوار ہو کر چلا کرتا تھا تو اس کے اوپر لگا کرتی تھی اور میں سیاہ بھی نہیں لگا سکتا.اب اس کی بیوی میرے گھر میں برتن مانجھنے پر ملازمہ ہے.یہ بھی سن لیجئے کہ میں اپنے اس تخت کو چھوڑ کر جو آپ کے سامنے پڑا ہوا ہے ہمیشہ اس کھڑکی میں بیٹھا کرتا ہوں.مگر اس تخت کو چھوڑنے اور اس کھڑکی میں بیٹھنے کی حقیقت مجھے آج ہی معلوم ہوئی ہے.پھر جب کچہری کا وقت ہو گیا.میں اسی جوش میں کچہری گیا.رئیس شہرا کیلا تھا.میں نے وہی بات اسے کہی تو رئیس نے مجھے ایک قلعہ دکھلایا اور کہا کہ یہ اس شہر کے اصل مالک کا ہے.جو اب کسی ذریعہ سے ہمارے قبضہ میں آ گیا ہے.پھر اس نے کہا کہ یہ پہاڑ جو آپ کے سامنے موجود ہے.اس کا نام دھارا نگر ہے.اس پر اتنا بڑا شہر آباد تھا کہ ہمارے شہر کی اس کے سامنے کوئی حقیقت نہ تھی یہ مجلس بھی میرے لئے ہر وقت نصیحت ہے.اور جہاں ہم راج تلک لیتے ہیں وہاں تمام اردگرد کچے مکانات اصل مالکوں کے ہیں اور یہ تین ناصح ہر وقت نصیحت کے لئے میرے سامنے موجود رہتے ہیں.میں نے کہا کہ آپ خوب سمجھے.جب خدا پکڑتا ہے تو پھر کوئی نہیں بچا سکتا.یاد رکھو جیسے گناہ کرتے ہو.ان کی سزا پانیوالے تمہاری آنکھ کے سامنے ہوتے ہیں.پھر بھی تم نہیں سمجھتے.ہمارے یہاں تمہارے جھگڑے فیصلہ نہیں پاتے.کچھ لوگوں نے عذر کیا ہے.اور کچھ ابھی باقی ہیں.( بدر حصہ دوم کلام امیر ۲۸ /نومبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۸۵ تا۸۷) يَسْتَلُ أَيَّانَ يَوْمُ الْقِيمَةِ - ترجمہ.پوچھتا ہے کہ کب ہو گا روز قیامت.تفسیر.آیان کے لفظ میں بھی استعجاب اور استبعاد شدید کفار کی طرف سے بیان ہوا ہے.یعنی کہاں ہوگی قیامت؟ ہوتی ہواتی کچھ نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۷٬۲۹۶)
حقائق الفرقان ۷۹ و سُوْرَةُ الْقِيمَةِ تا اا فَإِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ - وَخَسَفَ الْقَمَرُ - وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ.يَقُولُ الْإِنْسَانُ يَوْمَبِذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ - ترجمہ.تو جب آنکھیں پتھرا جائیں ( تمہاری آنکھیں متحیر ہوں گی).اور چاند گہن جائے.ور ایک جگہ جمع کر دیئے جائیں سورج اور چاند.آدمی بول اٹھے گا اس دن کہ اب کہاں بھاگ جاؤں.تفسیر.برقی بصر سے مراد تحیر و فزع ہے.جو انسان مصیبت کے وقت آنکھیں پھاڑ دیتا ہے مصیبت کا وقت آئے تو ساری تدبیریں الٹ پڑتی ہیں.عقل ہوتے ہوئے عقل کام نہیں دیتی گویا کہ نور فراست کو بھی گرہن لگ جاتا ہے.گرہن کی اصل بھی اقتران شمس و قمر ہے.یعنی ایک کا وجود دوسرے کے بالمقابل حائل ہو جاتا ہے جونور کے ہوتے ہوئے نور نظر نہیں آتا.یوم بدرظاہری طور پر بھی بجلی کوندی ، مینہ برسا ، تدبیریں کفار کی ان پر الٹ پڑیں.ايْنَ الْمَفَر.کہنے سے بھی کام نہ چلا.قرآن کریم چونکہ ذوالمعارف ہے.لَا تَنْقَضِيَ عَجَائِبُهُ اس کی شان حدیث شریف میں بیان ہوئی ہے.اس لئے یہ پیشینگوئی اجتماع شمس و قمر کی گرہن کے ساتھ ہمارے اس زمانہ میں بھی مطابق حدیث دار قطنی جس میں لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ ہے.رمضان کے مہینہ میں ۱۸۹۴ء میں بڑی شان و شوکت سے مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صدق دعوی کی علامت میں پوری ہوئی.اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر جس طرح بدر کے شکست خوردوں کو آتين المفر کہنا فائدہ نہ دیا اسی طرح اس وقت کے مخالفوں کو باوجود حدیث شریف کی فعلی شہادت کے ضعف حدیث کو اپنا فرضی مفر قرار دینا پڑا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) ١٤ يُنَبّوا الْإِنْسَانُ يَوْمَينِ بِمَا قَدَّمَ وَآخَرَ - ترجمہ.انسان کو جتایا جائے گا اس دن جو کچھ اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا.تفسیر.متنبہ کیا جائے گا انسان اُس دن اُن کا موں سے جو اس نے نہ کرنے تھے اور کئے.اور نیز متنبہ کیا جائے گا.اُن کاموں سے جو اس نے کرنے تھے اور نہ کئے.لے اس کے عجائبات کی انتہا نہیں.سے اللہ تعالیٰ نے جب سے آسمان اور زمین پیدا کیے یہ دونشان ظاہر نہیں ہوئے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْقِيمَةِ قدم - وہ کام جو نہ کرنے کے تھے.کر لئے.آخر وہ کام جو کرنے کے تھے.نہ کئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمد اہوں یا سہوا.غرض مَا قَدَّمَ وَآخَرَ.جو نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے.اپنی تمام کمزوریوں اور اللہ تعالیٰ کی ساری نارضامندیوں کو مَا اَعْلَمُ وَمَا لَا أَعْلَمُ کے نیچے رکھ کر یہ دعا کرے کہ میری غلطیوں اور آئندہ کے لئے غلط کاریوں کے بدنتائج اور بداثر سے مجھے محفوظ رکھ اور آئندہ کے لئے ان بدیوں کے جوش سے محفوظ فرما.یہ ہیں مختصر معنے استغفار کے.( الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۵ مورخه ۲۶ رفروری ۱۹۰۸ء صفحه ۳) -۱۵ بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةُ - ترجمہ.بلکہ انسان خود اپنے اوپر حجت ہے.تفسیر.دوسرے کی ملامت پر انسان عذر بتاتا ہے مگر خودا پنی حالت کو بہتر جانتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) ۱۷ تا ۲۰ - لَا تُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ - إِنَّ عَلَيْنَا جَمُعَةَ وَ قُرْآنَه - فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبِعُ قُرانَهُ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ - ترجمہ.نہ ہلا قرآن پڑھنے پر اپنی زبان تا کہ تو جلدی اس کو یاد کرے.بے شک ہمارے ذمہ ہے قرآن کا جمع کرنا اور پڑھنا.پھر جب کہ ہم پڑھا چکیں تو اس کے بعد تو بھی پڑھا کر.پھر اس کا سمجھانا ہم پر فرض ہے.تفسیر.نہ چلا تو اس کے پڑھنے پر اپنی زبان کہ شتاب اس کو سیکھ لے.وہ تو ہمارا ذ مہ ہے.اُس کو سمیٹ رکھنا اور پڑھانا.پھر جب ہم پڑھنے لگیں تو ساتھ رہ تو اس کے پڑھنے کے پھر مقرر ہمارا ذمہ ہے اس کو کھول بتانا.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۱۹۸ حاشیه ) لَا تُحَرِّكُ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ به آیت باب ذو المعارف ہے اس کے دو ترجمے ہیں.
حقائق الفرقان ΔΙ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ ربط ماقبل کے لحاظ سے ایک معنے یہ ہیں کہ ” اے معذرت کنندہ.عذر بیان کرنے میں تیز زبانی نہ کر اس صورت میں جمعہ میں کی ضمیر انسان کے اعمال کی طرف ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ پڑھنے والا جب قرآن شریف پڑھے تو جلدی نہ کرے.لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو جامع القرآن بتاتے ہیں.یہ بات غلط ہے.صرف عثمان کے لفظ کے ساتھ قافیہ ملایا ہے.ہاں شائع کنندہ قرآن اگر کہیں تو کسی حد تک بجا ہے.آپ کی خلافت کے زمانہ میں اسلام دور دور تک پھیل گیا تھا.اس لئے آپ نے چند نخ نقل کرا کر مکہ، مدینہ ، شام ، بصرہ، کوفہ اور بلا دمیں بھجوا دیے تھے.اور جمع تواللہ تعالی کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا تھا اور اسی پسندیدہ ترتیب کے ساتھ ہم تک پہنچایا گیا.ہاں اس کا پڑھنا اور جمع کرنا ہم سب کے ذمہ ہے.فَإِذَا قَرَانَهُ فَاتَّبع قرانَہ.ہمارے ایک دوست حافظ محمد اسحاق صاحب کی الہامی دلیل ہے جو ان کو بذریعہ الہام کے بتلائی گئی کہ بدلیل اس آیت کے سورۃ الفاتحہ خلف امام سات آیتوں کے ہر ہر وقفے کے درمیان امام کے سکتے کے وقت مقتدی بھی اپنے منہ میں چپکے چپکے پڑھ لیا کرے.حدیث شریف میں سورہ فاتحہ کو هِيَ السّبُعُ الْمَقَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمِ فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۷) ۲۱- كَلَّا بَلْ تُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ - ترجمہ.ایسی بات نہیں بلکہ تم تو دوست رکھتے ہو د نیا ہی کو ( جو جلد گزرنے والی ہے ).العاجلة - جلدی کی بات جس کا نفع دمِ نقد موجود معلوم ہوتا ہے.یعنی دنیا.۲۴ - إلى رَبّهَا نَاظِرَةٌ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۷) ترجمہ.اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے.تفسیر.جمہور اہل علم کے نزدیک اس آیت سے دیدار الہی بلا حجاب ثابت ہے.حدیث شریف میں ہے.إِنَّكُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّكُمْ كَمَا تَرَوْنَ الْقَمَرَ لَيْلَةَ الْبَدْرِ لَيْسَ دُونَهُ حِجَابٌ یہ بار بار دوہرائی جانے والی سات آیات ہیں اور قرآن عظیم.۲.جس طرح تم چودھویں کی رات کے چاند کو دیکھتے ہو اسی طرح تم اپنے رب کو بلا حجاب دیکھو گے.
۸۲ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ حقائق الفرقان و يَرَوْنَهُ سُبْحَانَهُ مِنْ فَوْقِهِمْ نَظَرَ الْعِيَانِ كَمَا يُرَى الْقَمَرَانِ هذَا تَوَاتُرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ لَمْ يُنكره إِلَّا فَاسِدُ الْإِيمَانِ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۷) ۲۵ - وَوُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ بَاسِرَةٌ - ترجمہ.اور بہت سے منہ اس روز بہت ہی بگڑے ہوئے ہوں گے.تفسیر - باسرة گھبرا سے بھرے ہوئے.حواس باختہ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) ۲۶ - تَظُنُّ أَنْ يُفْعَلَ بِهَا فَاقِرَةٌ - ترجمہ.یقین کریں گے کہ ان پر کمر توڑ دینے والی مصیبت ڈالی جائے گی.تفسیر.فَاقِرَنا.کمرتوڑ مصیبت.فَقَرَاتُ الظھر.ان ہڈیوں کے منکوں کو کہتے ہیں.جو پشت کی وسط میں اوپر سے نیچے تک ہوتے ہیں.فقر اور فقیر بھی اسی سے مشتق ہے.اس کا حال مسکین سے بدتر ہوتا ہے.اسی واسطے مصارف صدقات میں فقیر کو مسکین پر مقدم رکھا.إِنَّمَا الصَّدَقُتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسْكِين - (التوبه : ۶۰) فقیر کی ایک صفت ایک جگہ باپسَ الْفَقِير (الحج: ۲۹) فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) سكتة ۲۷ تا ۳۱ - كَلاَ إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِي - وَقِيلَ مَنْ رَاقِ وَ ظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ إِلَى رَبَّكَ يَوْمَينِ الْمَسَاقُ - ترجمہ.سن رکھو اصل یہ ہے کہ جب ( جان گلے اور ہنسلی تک آپہنچے گی.اور تلاش کرے گی کہ کوئی جھاڑ پھوکنے والا ہو یا کون اس کو لے جانے والے ہیں رحمت کے یا عذاب کے فرشتے.اور اس نے یقین کر لیا کہ یہ جدائی ہے.اور پنڈلی سے پنڈلی لپٹنے لگے گی (یعنی سخت گھبراہٹ ہو گی ).آج تیرے رب کی طرف جانا ہے.ایسا نہ ہو گا جس وقت سانس ہنسلی تک پہنچ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کون افسوس کرنے تفسیر.لے اور وہ اللہ سبحانہ کو اپنے روبرو دیکھیں گے جیسے سورج اور چاند دیکھے جاتے ہیں.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر سے روایت کی گئی ہے.فاسد ایمان والے کے سوا کسی نے اس کا انکار نہیں کیا.سے صدقات تو فقیروں اور بے سامانوں کا حق ہے.سے مصیبت زدہ محتاجوں کو.
حقائق الفرقان ۸۳ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ والا ہے ( جو اسے اب بچالے ) اور ( مریض ) یقین کرتا ہے.کہ اب جدائی کا وقت ہے اور سخت گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے.اس وقت چلنا تیرے رب کی طرف ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۴ حاشیہ) التراقی - گلے کی ہنسلی کی جگہ.رقی، یرقی، رقیا سے ماخوذ ہے.سكتة وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ.اس کے کئی معانی ہیں.ایک تو یہ کہ رقیہ سے مشتق ہے.جیسے بسمہ اللہ أرقيك اس صورت میں جھاڑ پھونک کے معنے ہوں گے.دوسرے یہ کہ رقی ترقی رفیا سے.اس صورت میں راق کے معنے اوپر لے جانے کے ہوں گے اور اس کے کہنے والے فرشتہ ہوں گے.نہ میت کے پاس والے.فرشتہ عذاب کے اور رحمت کے آپس میں پوچھیں گے کہ رحمت کے فرشتے روح کو آسمان پر لے چڑھیں گے یا عذاب کے.وَالْتَفَّتِ السَّاق بالساق - حضرت عباس فرماتے ہیں.نزع روح کے وقت دنیا کا آخر اور آخرت کا اول وقت ملتا ہے.یہی لف ساقين ہے.حسن کہتے ہیں لفّ ساقین سے مراد کفن کا پنڈلیوں میں لپیٹنا مراد ہے.ایک قول یہ بھی ہے کہ لف ساق اصطلاح میں شدت مصیبت سے کنایہ ہے.دنیا کی مفارقت کا غم اور آخرت کے حساب و کتاب کا جھگڑا.یہ دونوں مل کر لی ساقین ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۴ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۷) ۳۲، ۳۳- فَلَا صَدَّقَ وَلَا صَلَّى وَلَكِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى - جمہ.نہ تو تصدیق کی، نہ نماز پڑھی.بلکہ جھٹلاتا اور منہ پھیرتا رہا ہے.تفسیر.فَلَا صَدَقَ وَلَا صَلى - تصدیقِ رسول کو نماز پر بھی مقدم رکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں.نماز می کنی و قبله را نمی دانی ندانمت چه غرض زیں نماز با باشد جماعت میں جن احباب کو غیر احمدیوں کی امامت کے مسئلہ میں تحقیق منظور ہو.وہ اس آیت میں صلوۃ پر تصدیق کے مقدم ہونے پر غور کریں.بعد تصدیق رسول یا امام زمان کے پہلی بات جس کا یوم القیامۃ حساب ہوگا وہ نماز ہے.حدیث شریف میں ہے.اولُ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ مِنْ أَعْمَالِهِ الصَّلوةَ لے تو نماز پڑھتا ہے لیکن قبلہ کا تجھے معلوم نہیں.تو نہیں جانتا کہ ان نمازوں کی کیا غرض ہے.
حقائق الفرقان ۸۴ سُوْرَةُ الْقِيمَةِ روز محشر کہ جاں گداز بود اولیس پرسش نماز بود b نماز کے محافظ کے لئے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ دین و دنیا کے مشکلات میں اللہ تعالیٰ اس کے کا ساتھی ونصیر ہو گا.كَمَا قَالَ تَعَالَى " وَقَالَ اللهُ اِنّى مَعَكُمْ لَبِنْ اَقَبْتُمُ الصَّلوةَ.(المائده: ۱۳) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۸٬۲۹۷) ۳۴.ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ يَتَمَكَّى - ترجمہ.پھر اپنے گھر والوں کی طرف اکڑتا ہوا چلا.تفسیر.يَتمطى - مط سے مشتق ہے.مط کے معنے اکثر بازی کے ہیں.حدیث شریف میں ہے إِذَا مَشَتْ أُتي المطيطات موٹا ہو جانا اردو زبان میں غالباً مطے ہی سے بنایا گیا ہے.اکثر باز انسان کو کہتے بھی ہیں کہ بہت مٹیا گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۸) ۳۵ ۳۶ - اولى لَكَ فَأَوْلَى ثُمَّ أَولَى لَكَ فَاوْلى - ترجمہ.تجھ پر افسوس پھر افسوس.پھر افسوس پر افسوس ( یعنی لگا تار خرابی ہو ).تفسیر.اولئی.بمعنے ویل اور واویلا کے ہیں.سورہ محمد رکوع ۳ میں ہے فَأَوْلى لَهُمْ (آیت: ۲۱) چار مرتبہ اولی اس لئے فرمایا کہ ترک تصدیق و ترک صلوۃ کے دو عذاب قبر ہیں اور انہیں دو قسم کے دو عذاب يوم القيمية - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۴ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۸) ۴۱- اليسَ ذَلِكَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِ الْمَوْتَى - ترجمہ.کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں کو زندہ کر سکے.تفسیر - النيس ذلك بقيار - (الأية ) حدیث شریف میں اس آیت کے ختم پر ایک روایت میں بِقَدِرٍ - سُبْحَنَكَ اللَّهُمَّ بَلی اور دوسری روایت بلی انَّهُ عَلَى كُلِ یمنی ءٍ قَدِير جوا ب فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱٫۴ پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۸) لے قیامت کے دن جو کہ بہت ہولناک ہو گا اس دن سب سے پہلا سوال نماز کے متعلق ہوگا.ہے اور اللہ نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں جب تم نماز کو قائم کرو.۳ اِذَا مَشَتْ أُمَّتِي الْمُطِيْطَا (الجامع الصحيح للسنن باب من علامات الساعة) جب میری امت کے لوگ اکٹر اکٹر کر چلیں گے.ہے تو پاک ہے اے اللہ کیوں نہیں.۵.کیوں نہیں یقیناً وہ ہر اس بات پر جس کا وہ ارادہ کرے پوری طرح قادر ہے.
حقائق الفرقان ۸۵ سُوْرَةُ الدَّهْرِ مَكِّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الدَّهْرِ سورہ دہر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے اسم پاک سے جس نے انسان کو سمیع و بصیر بنایا اور اس کے نیک اعمال کا نیک نتیجہ دینے والا ہے.۲ تا ۱۲ - هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمَشَاجِ ، نَبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ اِمَا شَاكِرَاوَ إِمَّا كَفُورًا - إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْلَلاو سَعِيرًا - اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللهِ يُفَجَّرُونَهَا تَفْجِيرًا - يُوفُونَ بِالنَّذْرِ وَ يَخَافُونَ يَوْمَا كَانَ شَرُّهُ مُسْتَطِيرًا - وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ آسِيرًا - إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا - إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَبْطَرِيرًا فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقْهُمْ نَضْرَةً وَ سُرُورًا - ترجمہ.کیا انسان پر زمانہ کا ایک وقت نہیں آیا جب کہ اس کا کچھ ذکر نہ تھا.ہم نے پیدا کیا آدمی کو نطفہ سے جو ( چند چیز ) سے ملا تھا ہم اس کو آزمانا چاہتے ہیں، بڑھاتے ہیں ( ہم اس پر انعام کرنا چاہتے ہیں ) پس ہم نے اس کو سنتا دیکھتا بنایا.ہم نے اس کو رستہ دکھا دیا.کیا شکر گزار بنتا ہے یا ناشکرا.ہم نے تیار کر رکھیں ہیں کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور دہکتی ہوئی آگ.بے شک نیک بندے (ایسے) جام پئیں گے جس میں آمیزش کا فور کی ہوگی ( زہروں کا دبانے والا شربت ).یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے اللہ کے ( خاص ) بندے پئیں گے.وہ بہالے جائیں گے اس کی نالیاں.وہ منت پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی مصیبت پھیلی
حقائق الفرقان ۸۶ سُوْرَةُ الدَّهْرِ ہوئی ہوگی.اور کھانا کھلاتے ہیں خود حاجت رکھ کر محتاج کو اور یتیم کو اور قیدی کو.(اور کہتے ہیں ) کہ ہم تم کو خاص اللہ کے لئے کھانا کھلاتے نہ ہم تم سے بدلا چاہتے ہیں اور نہ شکر گزاری.ہم کو ڈرلگ رہا ہے اپنے رب کی طرف سے ایک اداس اور خطر ناک اور لمبے دن کا تو اللہ نے ان کو بچا لیا اس روز کی سختی سے اور ان کو ملا یا تازگی اور خوش حالی سے.تفسیر - هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا.(الدھر :٢) انسان کی ہستی ہی کیا تھی کچھ بھی نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے ایک قطرہ سے ہاں ایک تھوڑی سی چیز سے بنا کر سمیع و بصیر بنا دیا ہے میں نے جب اس پر غور کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تیرہ علوم پہلے ہی بتادیئے ہیں.ابھی کہتے کہتے معلوم ہوا کہ تیرہ نہیں بلکہ ۱۴ علوم نہ ماں سکھاتی ہے نہ باپ نہ کوئی اور.ان میں سے بعض علوم یہ ہیں :.اول دودھ کو چوسنے اور نگلنے کا علم ہے غور کرو کہ اگر کوئی بچے کو یہ علم سکھا تا تو کس طرح اور کس بولی میں سکھاتا.(۲) پھر ایک اور علم ہے جو بد یہات کہلاتی ہیں.(۳) بچہ کل اور جزو کو سمجھتا ہے.ماں ایک چھاتی سے دودھ پلا رہی ہو اور ابھی اس میں باقی ہو جب وہ دوسری چھاتی پر لے جانا چاہے تو روتا ہے گویا کل اور جز و کو سمجھتا ہے.ایسا ہی بچوں کو مٹھائی دے کر دیکھا ہے اگر سارے ٹکڑے میں سے آدھی کاٹ لی جاوے تو رو پڑتا ہے.(۴) طول اور عرض کو بھی سمجھتا ہے.(۵) اس بات کو سمجھتا ہے کہ دو مکان میں ایک جسم نہیں ہوسکتا.ایک لڑکا اگر آ جاوے تو اسے دھکا دیتا ہے اور ایک پستان جو آپ پی رہا ہے دوسرے کو نہیں لینے دیتا.(1) دوضدوں کو خوب سمجھتا ہے کھڑا ہونے کو جی نہ چاہے تو نہیں اٹھتا، بیٹھنے کو نہ چاہے تو کھڑا ہو جائے گا.(۷) صدق و کذب کو خوب سمجھتا ہے مٹھائی نہ دو اور یونہی کہہ دو کہ تمہارے ہاتھ میں ہے کبھی
حقائق الفرقان نہ مانے گا.(۹۸) مکان اور زمان کو بھی سمجھتا ہے.۸۷ سُوْرَةُ الدَّهْرِ (۱۰) سمعیات کی سچائی کو جانتا ہے جو تمہیں کہتے سنتا ہے اسی کو یقین کر کے ان چیزوں کو اسی نام سے پکارتا ہے جس سے تم پکارتے ہو.(۱۱) یہ بھی جانتا ہے کہ علم غیب نہیں.(۱۲) یہ بھی مانتے ہیں کہ فعل بدوں فاعل کے نہیں ہوتا.غرض اس قسم کے بہت سے علوم فطرتاً دیئے جاتے ہیں.پس تم اگر ان فطرتی علوم سے کام لو تو اللہ تعالیٰ پھر نفس مطہر دے کر خود قرآن مجید سکھا دیتا ہے.غرض تم اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم باہم اعداء تھے اس نے تمہیں بھائی بنا دیا اس اخوت کی قدر کرو اور سچے دل سے قدر کرو.(احکم جلد ۱۶ نمبر ۳ مورخه ۲۱ جنوری ۱۹۱۲ صفحه ۷) هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنسَانِ.ہر ایک انسان کا اپنی عمر کے پہلے قطعا مذکور نہیں ہوا.انسان کا ذکر تو اس وقت ہوا.جب وہ ہمارے سامنے آیا.اس میں کسی سائنس کے ثبوت کی ضرورت نہیں.مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ - مِنْ نُّطْفَةٍ تھوڑی سی چیز سے.نبیلیہ بڑھاتے ہیں.اس کو نطفہ سے علقہ پھر مضغہ ، پھر خلق آخر ، پھر طرح طرح کے انعامات کرتے ہیں مشج کے لغوی معنی خلط کے ہیں غذاؤں کا خلط.مرد اور عورت کی منی کا خلط.إما شاكرا و اما كَفُوراً کسی شخص کے انعامات کو یاد کرتے رہیں تو اس کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک مرتبہ بڑی گھبراہٹ کے موقع پر ایک دعا اس طرح سے پڑھی ہے.دعا ”اے میرے محسن اور میرے خدا میں ایک تیرا ناکارہ بندہ پر معصیت اور پر غفلت ہوں.تو نے مجھ سے ظلم پر ظلم دیکھا اور انعام پر انعام کیا اور گناہ پر گناہ دیکھا اور احسان پر احسان کیا.تو نے ہمیشہ میری پردہ پوشی کی اور اپنی بیشمار نعمتوں سے مجھے متمتع کیا.سواب بھی مجھے نالائق اور پر گناہ پر رحم کر
حقائق الفرقان ۸۸ سُوْرَةُ الدَّهْرِ اور میری بے باکی اور ناسپاسی کو معاف فرما اور مجھ کو میرے اس غم سے نجات بخش کہ بجز تیرے کوئی چارہ نہیں.آمین ثم آمین سلسلا.جو لوگ سچے دل سے خدا کی طرف توجہ ہو کر اس کی تلاش نہیں کرتے ان پر خدا کی طرف سے ایک ایسی بلا پڑتی ہے کہ وہ دنیا کے دھندوں میں گرفتار ہو کر پابہ زنجیر ہو جاتے ہیں اور سفلی کاموں میں ایسے سرنگوں ہو جاتے ہیں کہ گویا ان کی گردن میں ایک طوق ہے جو ان کو علوی زندگی کی طرف سر اٹھانے ہی نہیں دیتا.اور ان کے دلوں پر حرص و ہوا کی ایک سوزش لگی ہوئی ہوتی ہے کہ مال مل جائے.جائیداد حاصل ہو جائے.دنیوی عزت و رتبہ مل جائے.قیامت کے دن یہی امور ان کے لئے طوق وز نجیر کی شکل میں متمثل ہو جائیں گے.اِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا - ابرار کی دو حالتیں دنیا اور آخرت کی اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے بتلائی ہیں.دنیا کی یہ کہ ابرار کے دلوں پر حرص و ہوا کی سوزش سر د ہو جاتی ہے.دنیا کی طرف سے خنک چشم و خنک دل رہتے ہیں.یہ سوزش ان کے دلوں پر نہیں رہتی کہ ہائے فلاں چیز ہمیں میسر نہیں.ہائے فلاں چیز ہمارے پاس نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں از طمع جستیم ہر چیزے کہ آں بیکار بود خود فزوں کردیم ورنہ اند کے آزار بودے اس طمع و حرص کی آگ کو قرآن شریف میں یوں فرمایا ہے.نَارُ اللهِ الْمُوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْئِدَةِ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ فِي عَمَلٍ مُمَيَّدَةٍ - الهمزه: ۷ تا ۱۰) حرص وطمع کی ایک آگ ہے جو دلوں پر جھپٹے مار رہی ہے.جس نے ان کو حق کی شنوائی سے ڈھانک لیا ہے.عمود مد کی طرح لمبی لمبی امیدوں میں مخبوط الحواس ہیں.اس قسم کی آگ سے فرمایا کہ لے اللہ کی دہکائی ہوئی آگ ہے.جو دلوں پر بھڑکتی ہے.بے شک وہ ان پر بند کی جائے گی.لمبے لمبے ستون کے گھروں میں ( یاستونوں کی شکل میں).۲.ہم نے لالچ سے ہر چیز تلاش و اختیار کی جو بے کار تھی ہم نے خود ہی تکلیف بڑھالی وہ کم ہی تھی.
حقائق الفرقان ۸۹ سُوْرَةُ الدَّهْرِ ابرار خنک چشم و خنک دل رہتے ہیں.یہی ان کا کا فوری پیالہ ہے جیسی حالت دنیا سے یہ لوگ ساتھ لے جاویں گے جَزَاء وَفَاقًا.(النبا : ۲۷) کے طور پر ویسی ہی نعمت ان کو آخرت میں خداوند کریم عطافرمادے گا.عَيْنا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللهِ يُفَجِرُونَهَا تَفْجِيرًا.دنیا میں ان ابرار کی یہ سیرت رہی کہ جس رشد و ہدایت کو کا فوری ٹھنڈک کی طرح انہوں نے آپ حاصل کیا تھا.اس کی نہریں اور چشمے دور دراز ملکوں میں تبلیغی رنگ میں چیر چیر کر لے گئے.چین میں لے گئے.افریقہ میں لے گئے.روم، شام اور ملک ہندوستان تک پہنچایا.اسی طرح آخرت میں جزا و فَاقًا کے طور پر اللہ تعالیٰ نے بھی ان کو ہر قسم کی نعمتوں سے سیراب کیا.ہماری جماعت کی انجمنوں کو چاہیے کہ يُفَجِرُونَهَا تَفْجِيرًا پر پوری توجہ اور جانفشانی سے مگر ٹھنڈے دل سے کوشش کریں.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱٫۴ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۸) انسانی جسمانی روح ایک قسم کی لطیف ہوا ہے جو انسان میں شریانی عروق اور انسانی پھیپھڑوں کے بن جانے اور قابل فعل ہونے کے وقت نفخ کی جاتی ہے.اس مطلب کو سمجھنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر غور کرو.یہ صادق کتاب حقیقت نفس الامری کی خبر دیتی ہے کہ انسان اسی نطفہ سے جو عناصر کا نتیجہ ہے خلق ہوتا ہے.اور پھر یہیں اسے سمیع و بصیر یعنی مدرک اور ذی العقل بنایا جاتا ہے.نہ یہ کہ پیچھے سے اپنے ساتھ کچھ لاتا ہے اور پرانے اعمال کا نتیجہ اس کے ساتھ چیٹا ہوتا ہے.جس وہم و فرض کا کوئی مشاہدہ کا ثبوت نہیں.ھی آتى عَلَى الْإِنْسَانِ......سَمِيعًا بَصِيرًا " هَلْ تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۸۴) ہر آدمی غور کرے کہ یہ دنیا میں نہ تھا اور اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.ضرور ایک وقت انسان پر ایسا لے یہ بھر پور بدلا ہے.۲ زمانہ میں سے ایک وقت بے شک انسان پر ایسا گزرا ہے کہ اس کا نام ونشان کچھ بھی نہ تھا.ہم نے انسان کو ملے ہوئے نطفہ سے پیدا کیا.ہم اس کا امتحان لیا چاہتے ہیں (اور اس امتحان کے لئے ) ہم نے اس کو سمیع و بصیر بنایا.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الدَّهْرِ گزرا ہے کہ اس کو کوئی نہیں جانتا تھا.اللہ تعالیٰ نے عناصر پیدا کئے.اگر وہ ہم کو پتھر بنا دیتا یا حیوانات میں ہی پیدا کرتا.مگر کتا یا سور بنادیتا.پھر اگر انسان ہی بنا تا پر چوہڑا یا چماروں میں پیدا کر دیتا.پھر اگر وہ کسی ایسے گھر میں پیدا کر دیتا جہاں قرآن دانی کا چر چانہ ہوتا.پھر اگر کسی اچھے گھر میں پیدا ہوتے.پر جوانی میں مرجاتے تو آج تم کو قرآن سنانے کا کہاں موقع ملتا.اس نے کیسے کیسے فضل کے فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا.ہم نے اپنے فضل سے اس نطفہ کو جس میں ہزاروں چیزیں ملی ہوئی تھیں.سننے والا اور دیکھنے والا بنادیا.اب مسلمان کہتے ہیں کہ تجارت ہمارے ہاتھ میں نہیں.کبھی کہتے ہیں حکومت ہمارے ہاتھ میں نہیں.صرف سو برس کے اندر ہی اندر انہوں نے سب کچھ اپنا کھودیا.شرک کا کوئی شعبہ نہیں جس میں مسلمان گرفتار نہیں.نماز ، روزے ، اعمال صالحہ میں قرآن کے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں نہایت ہی سست ہیں.کوئی ملاں ہو اور وہ خوب شعر سنائے تو کہتے ہیں کہ فلاں مولوی نے خوب وعظ کیا.کسی عورت نے مجھ سے پوچھا کہ فلاں عورت ایک عرس میں گئی تھی وہ کہتی تھی کہ سبحان اللہ ہر طرف نور ہی نور برس رہا تھا.میں نے کہا کہ وہ کیا تھا.کہنے لگی کہ وہ کہتی تھی کہ اندر بھی باہر بھی مراسی ڈھولک بجارہے تھے اور خوب خوش الحانی سے گار ہے تھے.ریل میں مجھ کو ایک کنچنی ملی.میں نے اس سے کہا کہ تو کہاں گئی تھی.کہا کہ سبحان اللہ فلاں حضرت کے یہاں گئی تھی.انہوں نے مجھ کو دیکھتے ہی کہا کہ ہماری فقیر نی آگئی ہے اور اپنے خادم سے کہا کہ اس کو تین سو روپے دیدو میں تو ایک دم میں مالا مال ہوگئی.مسلمانوں میں تکبر بڑھ گیا.ستی ہے.فضول خرچی ہے اور فضول کے ساتھ تکبر بھی از حد بڑھ گیا ہے.اپنی قیمت بہت بڑھا رکھی ہے.سمجھتے ہیں کہ ہم تو اس قدر تنخواہ کے لائق ہیں.ہم نے تو انسان پر بڑے فضل کئے.نَبْتَلِيْهِ فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا یہاں تک کہ انسان کو دیکھنے والا اور سننے والا بنایا.پھر قرآن کے ذریعہ سے اس پر ہدایت کی راہیں کھول دیں.اِنَّا هَدَيْنَهُ
حقائق الفرقان ۹۱ سُوْرَةُ الدَّهْرِ السَّبِيلَ.پر کسی نے قدر کی اور کسی نے نہ کی.المَا شَاكِرًا وَ إِمَا كَفُورًا.کوئی مسلمان کہتا ہے کہ جھوٹ جائز ہے.کون مسلمان کہتا ہے تکبر اور فضولی اور قسم قسم کی بدکاریاں جائز ہیں.برائی سب جانتے ہیں مگر افسوس کہ قدر نہیں کرتے.دوسروں کو نصیحتیں کرتے ہیں.مگر خود عمل نہیں کرتے.ایک عورت کا میاں شراب پیتا تھا.اس کو میں نے کہا کہ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے.تم اس سے شراب چھڑا دو.اس نے کہا کہ میں نے ایک روز اس کو کہا تھا تو اس نے مجھے جواب دیا تھا کہ یہ تجھے نورالدین نے کہا ہوگا.جب میں اس کی عمر کا ہو جاؤں گا تو چھوڑ دوں گا.پھر اس کو میری عمر تک پہنچنا نصیب نہ ہوا.پہلے ہی مر گیا! تم برے اعمال چھوڑ دو.لین دین میں لوگ بڑے نکمے ہو گئے ہیں.تو بہ کرو ، استغفار کرو.اللہ تعالیٰ بڑے سخت لفظ استعمال فرماتا ہے کہ کوئی تو ہماری بتائی ہوئی ہدایت کا شکر گزار ہوتا ہے اور کوئی نہیں ہوتا.اِمَا شَاكِرَا وَ إِمَّا كَفُورًا إِنَّا أَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْللًا وَسَعِيرًا.ہم نے تو بے ایمانوں کے لئے بڑے عذاب تیار کر رکھے ہیں.ہم ان کو زنجیروں میں جکڑ دیں گے اِن الابرار ا چھے لوگوں کو خدائے تعالیٰ ایک شربت پلانا چاہتا ہے اور وہ ایسا شربت ہے کہ ان کو اپنی بدیوں کو بہانا پڑتا ہے.ابرار انسان تب بنتا ہے جب وہ اپنے اندر کی بدیوں کو دباتا ہے نفس کے اوپر تم حکومت کرو.بہت سے لوگ ہیں.جو اپنے نفس پر حکومت کرنے سے بے خبر ہیں.عَيْنا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ الله - اللہ کے بندے ایسے شربت پیتے ہیں وہ ان کو بھاتے ہیں دوسروں کو بھی پلانا چاہتے ہیں.میں نے تم کو بہت سا پلایا ہے.تم عمل کرو اور خدائے تعالیٰ سے ڈرو.( البدر.کلام امیر حصہ دوم ۵/ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۹۳-۹۴) یہ ایک وہ سورہ شریف ہے جو جمعہ کے دن فجر کی نماز کی دوسری رکعت میں پڑھی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ اس میں اول اپنے ان احسانات کا تذکرہ فرماتا ہے جو مولیٰ کریم نے انسان پر کئے ہیں اس تذکرہ کی وجہ یہ ہے کہ اگر آدمی کی فطرۃ اچھی ہو اور وہ سعادت مند ہو ، فہیم ہو ، عقل کی مار اس پر نہ
حقائق الفرقان ۹۲ سُوْرَةُ الدَّهْرِ پڑی ہو تو یہ بات ایسے انسان کی سرشت میں موجود ہے کہ جو کوئی اس پر احسان کرے تو محسن کی محبت طبعا انسان کے دل میں پیدا ہوتی ہے.اسی طبعی تقاضائے فطرۃ کی طرف ہمارے سید و مولیٰ محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم نے ایما کر کے ارشاد فرمایا ہے جبلَتِ القُلُوْبُ عَلَى حُبِّ مَنْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا یعنی انسانی سرشت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ اپنے حسن سے محبت کرتا ہے.اسی قاعدہ اور تقاضاء فطرۃ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ طرز بھی اختیار کیا ہے کہ سعادت مندوں کو اپنے احسان و انعام یاد دلاتا ہے کہ وہ محبت الہی میں ترقی کر کے سعادت حاصل کریں اندرونی اور بیرونی انعامات پر غور کریں اور سوچیں تا ان کی جناب الہی سے سے محبت ترقی کرے پھر یہ بات بھی انسان کی فطرت میں ہے کہ جب انسان کسی سے محبت بڑھالیتا ہے تو محبوب کی رضامندی کے لئے اپنا وقت، اپنا مال اپنی عزت و آبرو و غرض ہر عزیز سے عزیز چیز کو خرچ کرنے پر تیار ہو جاتا ہے.پس جب خدا تعالیٰ کے احسانات اور انعامات کے مطالعہ کی عادت پڑ جاوے تو اسے اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوگی اور روز بروز محبت بڑھے گی.اور جب محبت بڑھ گئی تو وہ اپنی تمام خواہشوں کو رضاء الہبی کے لئے متوجہ کر سکے گا اور اس رضاء الہی کو ہر چیز پر مقدم سمجھ لے گا.دیکھو سب سے بڑا اور عظیم الشان احسان جو ہم پر کیا وہ یہ ہے کہ ہم کو پیدا کیا.اگر کوئی دوست مدد دیتا ہے تو ہمارے پیدا ہونے اور موجود ہونے کے بعد اگر کوئی بھلی راہ بتلا سکتا ہے یا علم پڑھا سکتا ہے.مال دے سکتا ہے غرض کہ کسی قسم کی مدددیتا ہے تو پہلے ہمارا اور اس چیز کا اور دینے والے کا وجود ہوتا ہے.تب جا کر وہ مدد دینے والے مدد دینے کے قابل ہوتا ہے.غرض تمام انعاموں کے حاصل کرنے سے پیشتر جو کسی غیر سے ہوں پہلا اور عظیم الشان احسان خدا تعالیٰ کا یہ ہے کہ اس نے ہم کو اور اس چیز کو جس سے ہمیں راحت پہنچی اور جس نے ہمیں راحت پہنچائی اس کو وجود عطا کیا پھر صحت و تندرستی عطا کی اگر دن بھی بیماری ہو جاوے تو تمام راحت رساں چیزیں بھی راحت رساں نہیں رہتیں.دانت درد کرے تو اس کا نکالنا پسند ہو جاتا ہے آنکھ دُکھ دینے کا باعث بن جاوے تو گا ہے اس کا نکالنا ہی پڑتا ہے.
حقائق الفرقان ۹۳ سُوْرَةُ الدَّهْرِ برادران جب بیماری لاحق ہوتی ہے تب پتہ لگتا ہے کہ صحت کیسا انعام تھا.اس صحت کے حاصل کرنے کو دیکھو کس قدر مال خرچ کرنا پڑتا ہے.طبیبوں کی خوشامد ، دعا والوں ، تعویذ ٹوٹکے والوں کی منتیں ، غرض قسم قسم کے لوگوں کے پاس جن سے کچھ بھی امید ہو سکتی ہے انسان جاتا ہے.دواؤں کے خرید کر نے میں کتنا ہی روپیہ خرچ کرنا پڑے بلا دریغ خرچ کرتا ہے.ایک آدمی مرنے لگتا ہے تو کہتے ہیں دوباتیں کر ادو خواہ کچھ ہی لے لو.حالانکہ اس نے لاکھوں باتیں کیں.چونکہ ان لوگوں کو جو احسانات کا مطالعہ نہیں کرتے خبر بھی نہ تھی غرض یہ سب انعامات جو ہم پر ہوتے ہیں ان میں سے اول اور بزرگ ترین انعام وجود کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے پس اس سورہ شریفہ میں اول اسی کا ذکر فرمایا.هَلْ الَّى عَلَى الْإِنْسَانِ حِينٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا.انسان پر کچھ زمانہ ایسا بھی گزرا ہے یا نہیں؟ کہ یہ موجود نہ تھا.میری حالت کو دیکھو اس وقت میں کھڑا بول رہا ہوں مگر کیا کوئی بتلا سکتا ہے کہ سوائی برس پیشتر میں کہاں تھا؟ اور میرا کیا مذ کو ر تھا.کوئی نہیں بتلا سکتا.یہ جناب الہی کا فیضان ہے کہ ایک ذراسی چیز سے انسان کو پیدا کیا چنانچہ فرماتا ہے اِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ أَمْشَاجِ نَبْتَلِيْهِ ہم نے انسان کو نطفہ سے بنا یا.نطفہ میں صدہا چیز میں ایسی ہیں جن سے انسان بنتا ہے.عام طور پر ہم لوگ ان کو دیکھ نہیں سکتے.کوئی بڑی اعلیٰ درجہ کی خوردبین ہو تو اس کے ذریعہ سے وہ نظر آتے ہیں.پھر بتلایا کہ پہلا انعام تو عطاء وجود تھا پھر یہ انعام کیا فَجَعَلْنَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا خدا ہی کا فضل تھا کہ کان دیئے ، آنکھیں دیں اور سنت دیکھتا بنادیا.سارے کمالات اور علوم کا پتہ کان سے لگ سکتا ہے یا نظارہ قدرت کو دیکھ کر انسان باخبر ہوسکتا ہے.یہ عظیم الشان عطیے بھی کس کی جناب سے ملے ؟ مولیٰ کریم ہی کی حضور سے ملے.آنکھیں ہیں تو نظارہ قدرت کو دیکھتی ہیں.خدا کے پاک بندوں اس کے پاک صحیفوں کو دیکھ کر حظ اٹھا ئیں.کان کے عطیہ کے ساتھ زبان کا عطیہ بھی آگیا کیونکہ کان اگر نہ ہوں تو زبان پہلے چھن جاتی ہے.اب اگران
حقائق الفرقان ۹۴ سُوْرَةُ الدَّهْرِ میں سے کوئی نعمت چھن جاوے تو پتہ لگتا ہے کہ کیسی نعمت جاتی رہی.آنکھ بڑی نعمت ہے یا کان بڑی دولت ہے.ان عطیوں میں کوئی بیماری یا روگ لگ جاوے تو اس ذراسی نقصان کی اصلاح کے لئے کس قدر رو پیر وقت خرچ کرنا پڑتا ہے.مگر یہ صحیح سالم، عدہ، بے عیب، بے روگ عطیہ اس مولیٰ کریم نے مفت بے مزدعنایت فرمائی ہیں.یوں نظر اٹھاتے ہیں تو وہ عجیب در عجیب تماشا ہائے قدرت دیکھتے ہوئے آسمان تک چلی جاتی ہے.ادھر نظر اٹھاتے ہیں تو خوش کن نظارے دیکھتی ہوئی افق سے پارجا نکلتی ہے.کان کہیں کہیں دلکش آوازیں سن رہے ہیں کہیں معارف و حقائق قدرت کی داستان سے حظ اٹھاتے ہیں.کہیں روحانی عالم کی باتوں سے لطف اٹھا رہے ہیں بیشک یہ مولیٰ کریم ہی کا فضل اور احسان ہے کہ ایسے انعام کرتا ہے ، وہ پیدا کرتا ہے اور پھر ایسی بے بہا نعمتیں عطا کرتا ہے.کسی کی ماں ، کسی کا دوست کسی کا باپ وہ نعمتیں نہیں دے سکتا جو خدا تعالیٰ نے دی ہیں.پھر اسی پر بس نہیں فرمائی إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ.ہم نے انسان کو ایک راہ بتلائی.یہی ایک مسئلہ ہے جو بڑا ضروری تھا.ہم ا ہوئے سب کچھ ملا مگر کوئی کتنی کوششیں کرے.ہمیشہ کے لئے نہ کوئی رہا ہے نہ رہے گا.سارے انبیاء ورسل ، تمام اولیاء و کبراء ملت تمام مدبر اور بڑے بڑے آدمی سب کے سب چل دیئے.پس کوئی ایسا انعام ہو جوابدالآباد دراحت اور سرور کا موجب ہو.اس کے لئے فرما یا إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ ہم نے ایک راہ بتلائی اگر اس پر چلے تو ابد الآباد کی راحت پاسکتا اس پاک راہ کی تعلیم ہمیشہ ہمیشہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی معرفت ہوئی ہے.پیدا ہو.گوخود فطرت انسانی میں اس کے نقوش موجود ہیں.بہت مدت گزری جبکہ دنیا میں ایک عظیم الشان انسان اس پاک راہ کی ہدایت کے لئے آیا جس کا نام آدم علیہ السلام تھا.پھر نوح ، ابراہیم ، موسیٰ ، عیسی علیہم السلام آئے اور ان کے درمیان ہزاروں ہزار مامورمن اللہ دنیا کی ہدایت کو آئے اور ان سب کے بعد میں ہمارے سید و مولیٰ سید ولد آدم فخر الاولین والآخرین افضل الرسل و خاتم النبین حضرت محمد رسول رب العلمین صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.اور پھر کیسی رہ نمائی فرمائی کہ ان کے ہی نمونہ پر ہمیشہ خلفاء امت کو بھیجتا ر ہا حتی کہ ہمارے مبارک زمانہ میں بھی
حقائق الفرقان ۹۵ سُوْرَةُ الدَّهْرِ ایک امام اس ہدایت کے بتلانے کے لئے مبعوث فرمایا اور اس کو اور اس کے اقوال کو تائیدات عقلیہ اور نقلیہ وآیات ارضیہ وسماویہ سے مؤید فرما کر روز بروز ترقی عطا کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس طرح الہی ہاتھ ایک انسان کی حفاظت کرتا ہے اور کس طرح آئے دن اس کے اعداء نیچا دیکھتے ہیں.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.ہاں تو پھر خدا کی ایک ممتاز جماعت ہمیشہ اپنے اقوال سے اس راہ کو بتلاتی اور اپنے اعمال سے نمونہ دکھلاتی ہیں.جس سے ابدی آرام عطا ہو.پھر دیکھو کہ انعام الہی تو ہوتے ہیں مگر ان انعامات کو دیکھنے والے دو گروہ ہوتے ہیں اِمَا شَاكِراً وَ اِمَا كَفُورًا ایک تو وہ لوگ ہوتے ہیں جو ان ہدایات کی قدر کرتے ہیں اور ایک وہ ہوتے ہیں جو قدر نہیں کرتے ہیں.اور ان دستوروں پر عمل درآمد نہیں دکھاتے.ہمیشہ سے یہی طریق رہا ہے.ایک گروہ جو سعادتمندوں کا گروہ ہوتا ہے ان پاک راہوں کی قدر کرتا ہے اور اپنے عملدرآمد سے بتلا دیتا ہے کہ وہ فی الحقیقت اس راہ کے چلنے والے اور اس راہ کے ساتھ پیار کرنے والے ہیں اور دوسرے اپنے انکار سے بتلا دیتے ہیں کہ وہ قدر نہیں کرتے یہ قرآن شریف جب آیا.اور ہمارے سید و مولی رسول اکرم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم اور پھر اپنے کامل اور پاک نمونہ سے ہدایت کی راہ بتلائی.بہت سے نابکارسعادت کے دشمن انکار اور مخالفت پر تل پڑے اور جو سعادت مند تھے وہ ان پر عمل کرنے کے لئے نکلے اور دنیا کے سرمایہ فخر وسعادت اور راحت و آرام ہوئے اور ان کے دشمن خائب و خاسر اور ہلاک ہوئے آخر وہ سعادت کا زمانہ گزر گیا.دور کی باتیں کیا سناؤں.گھر کی اور آج کی بات کہتا ہوں.اب بھی اسی نمونہ پر ایک وقت لا یا گیا.اور وہی قرآن شریف پیش کیا گیا ہے.مگر سعادتمنوں نے قدر کی اور ناعاقبت اندیش نابکاروں نے ناشکری اور مخالفت.مگر نادان انسان کیا یہ مجھتے ہیں کہ انعام الہی کی ناقدری کرنے سے ہم سے کوئی باز پرس نہ ہوگی اور ان کا یہ خیال غلط ہے.دنیوی حکومت میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی حاکم کا حکم آ جاوے اور پھر رعا یا اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو سزایاب ہوتی ہے.نہ ماننے والوں کا آرام رنج سے اور ان کی عزت ذلت
حقائق الفرقان ۹۶ سُوْرَةُ الدَّهْرِ سے متبدل ہو جاتی ہے.پھر اگر کوئی احکم الحاکمین کی بتائی راہ اپنا دستورالعمل نہ بناوے تو کیونکر دکھوں اور ذلتوں سے بچ سکتا ہے.یاد رکھو کہ حکم حاکم کی نافرمانی حسب حیثیت حاکم ہوا کرتی ہے.یہ ذلت بھی اسی قدر ہوگی جس قدر کہ حاکم کے اختیارات ہیں.دنیا کے حاکم جو محدو دحکومت رکھتے ہیں ان کی نافرمانی کی ذلت بھی محدود ہی ہے مگر خدا تعالیٰ جو غیر محدود اختیارات رکھتا ہے اس کے حکم کی خلاف ورزی میں ذلت بھی طویل ہوگی.گو یہ سچ ہے کہ سَبَقَتْ رَحميی علی غضبنی میری رحمت میرے غضب سے بڑھی ہوئی ہے مگر جیسی کہ اس کی طاقتیں وسیع ہیں اسی انداز سے نافرمان کی ذلت بھی ہونی چاہیے.اور ہوگی ہاں بہت سی سزا ئیں ایسی ہیں کہ انسان ان کو دیکھتا ہے اور بہت سی سزائیں ہیں کہ ان کو نہیں دیکھ سکتے تو غرض یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ خدا کے قانون اور حکم کی اگر پرواہ نہ کریں گے تو کیا نقصان ہے؟ نہیں نہیں خبر دار ہو جاؤ.مولیٰ فرماتا ہے.اِنَّا اَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ سَلْسِلَا وَأَغْلَلاً وَسَعِيرًا.منکر کو تین قسم کی سزا دیں گے.ہر ایک انسان کا جی چاہتا ہے کہ میں آزادر ہوں جہاں میری خواہش ہو وہاں پہنچ سکوں پھر چاہتا ہے کہ جہاں چاہوں حسبِ خواہش نظارہ ہائے مطلوبہ دیکھوں اور آخر جی کو خوش کروں کہیں جانا پڑے تو جاؤں اور کہیں سے بھاگنا پڑے تو وہاں سے بھاگوں اور کسی چیز کو دیکھنا پڑے تو اسے دیکھوں بہر حال اپنا دل ٹھنڈا رکھوں.پس یہ تین عظیم الشان امور ہیں اگر کہیں جاتا ہے تو منشا ہے کہ دل خوش ہو کسی کو دیکھتا ہے تو اس لئے کہ جان کو راحت ملے.نتیجہ بہر حال دل کی خوشی ہے مگر جب انسان خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کرتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان نعمتوں سے محروم ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اولاً تین ہی نعمتوں کا ذکر کیا ہے.عطاء وجود، عطاء سمع ، عطاء بصر.ان نعمتوں سے اگر کوئی جاتی رہے تو کیا سچی خوشی اور حقیقی راحت مل سکتی ہے کبھی نہیں.پھر خاص الخاص نعمت جو انبیاء علیہم السلام کے ذریعہ لی ہے اس کے انکار سے کب راحت پاسکتا ہے؟ قانونِ الہبی اور شریعت
حقائق الفرقان ۹۷ سُوْرَةُ الدَّهْرِ خداوندی کو توڑتا ہے کہ راحت ملے؟ مگر راحت کہاں؟ دیکھو ایک نابکارانسان حدود اللہ کو توڑ کر زنا کا ارتکاب کرتا ہے کہ اسے لذت وسرور ملے مگر نتیجہ کیا ہے کہ اگر آتشک اور سوزاک میں مثلاً مبتلا ہوگیا.تو بجائے اس کے جسم کو راحت و آرام پہنچاوے.دل کو سوزش اور بدن کو جلن نصیب ہوتی ہے.قانونِ الہی کو توڑنے والے کو راحت کہاں؟ پھر اس کے لئے اِنا أَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ یعنی منکر انسان کے لئے کیا ہوتا ہے.پاؤں میں زنجیر ہوتی ، گردن میں طوق ہوتا ہے جن کے باعث انواع و اقسام راحت و آرام سے محروم ہو جاتا ہے دل میں ایک جلن ہوتی ہے جو ہر وقت اس کو کباب کرتی رہتی ہے دنیا میں اس کا نظارہ موجود ہے مثلاً وہی نا فرمان ، زانی، بدکار قسم قسم کے آرام جسمانی میں مبتلا ہو کر اندر ہی اندر کباب ہوتے ہیں اور پھر نہ وہاں جاسکتے ہیں نہ نظر اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں اسی ہم و غم میں مصائب اور مشکلات پر قابو نہ پا کر آخر خود کشی کر کے ہلاک ہو جاتے ہیں.دنیا میں ہدایت کے منکروں اور ہادیوں کے مخالفوں نے کیا پھل پایا.دیکھو ہمارے سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر جنہوں نے اس ابدی راحت اور خوشی کی راہ سے انکار کیا کیا حال ہوا؟ وہ عمائد مکہ جو ابو جہل ، عتبہ، شیبہ وغیرہ تھے اور مقابلہ کرتے تھے وہ فاتح نہ کہلا سکے کہ وہ اپنے مفتوحہ بلا د کو دیکھتے اور دل خوش کر سکتے ؟ ہر گز نہیں.ان کے دیکھتے ہی دیکھتے ان کی عزت گئی ، آبرونہ رہی ، مذہب گیا ، اولا د ہا تھ سے گئی.غرض کچھ بھی نہ رہا.ان باتوں کو دیکھتے اور اندر ہی اندر کباب ہوتے تھے.اور اسی جلن میں چل دیئے.یہ حال ہوتا ہے منکر کا.جب وہ خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کا انکار کرتا ہے تو برے نتائج کو پالیتا ہے اور عمدہ نتائج اور آرام کے اسباب سے محروم ہو جاتا ہے.(الحکم جلد ۳ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۸۹۹ء صفحه ۳ تا۶) پھر دوسرے گروہ اما شاكرا کا ذکر فرمایا کہ شکر کرنے والے گروہ کے لئے کیا جزا ہے.اِنَّ الْابرار يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا.بے شک ابرار لوگ کا فوری پیالوں سے پئیں گے.ابرار کون ہوتے ہیں جن کے عقائد صحیح ہوں.اور ان کے اعمال صواب اور اخلاص کے نیچے ہوں اور جو ہر دکھ اور مصیبت میں اپنے تئیں خدا تعالیٰ کی نارضامندی سے محفوظ رکھ لیں.
حقائق الفرقان ۹۸ سُوْرَةُ الدَّهْرِ خود جناب الہی ابرار کی تشریح فرماتے ہیں سورۃ البقرہ میں فرما یاليْسَ الْبِرِّآن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ الى الآیه ابرار کون ہوتے ہیں؟ اول : جن کے اعتقاد صیح ہوں کیونکہ اعمال صالحہ دلی ارادوں پر موقوف ہیں دیکھو ایک اونٹ کی ناک میں نکیل ڈالے ہوئے ایک بچہ بھی اسے جہاں چاہے جدھر لے جائے لئے جاتا ہے.لیکن اگر کنویں میں گرانا چاہیں تو خواہ دس آدمی بھی مل کر اس کی تشکیل کو کھینچیں ممکن نہیں وہ قدم اٹھا جاوے.ایک حیوان مطلق بھی اپنے دلی ارادے اور اعتقاد کے خلاف کرنا نہیں چاہتا وہ سمجھتا ہے کہ قدم اٹھایا اور ہلاک ہوا.پھر انسان اور سمجھدار انسان کب اعتقاد صحیحہ رکھتا ہوا اعمال بد کی طرف قدم اٹھا سکتا ہے اس لئے ابرار کے لئے پہلے ضروری چیز یہی ہے کہ اعتقاد صحیحہ ہوں اور وہ پکی طرح پر اس کے دل میں جاگزیں ہوں.اگر منافقانہ طور پر مانتا ہے تو کاہل ہوگا.حالانکہ مومن ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے ان اعتقادات صحیحہ میں سے پہلا اور ضروری عقیدہ خدا تعالیٰ کا ماننا ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ اور تمام خوبیوں کا چشمہ ہے.دنیا میں ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ جب تک دوسرے سے مناسبت پیدا نہ ہو اس کی طاقتوں اور فضلوں سے برخوردار نہیں ہوسکتا.جب انسان قرب الہی چاہتا ہے اور اس کی دلی تمنا ہوتی ہے کہ اس کے خاص فضل اور رحمتوں سے بہرہ ور اور برخوردار ہو جائے تو اُسے ضروری ہے کہ ان باتوں کو چھوڑ دے جو خدا تعالیٰ میں نہیں یا جو اس کی پسندیدہ نہیں ہیں.جس قدر عظمت الہی دل میں ہوگی اسی قدر فرماں برداری کے خیالات پیدا ہوں گے اور ذائل کو چھوڑ کر فضائل کی طرف دوڑے گا.کیا ایک اعلیٰ علوم کا ماہر جاہل سے تعلق رکھ سکتا ہے.یا ایک ظالم طبع انسان کے ساتھ ایک عادل مل کر رہ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.پس خدا تعالیٰ کی برکتوں سے برخوردار ہونے
حقائق الفرقان ۹۹ سُوْرَةُ الدَّهْرِ کے لئے سب سے ضروری بات صفات الہی کا علم حاصل کرنا اور ان کے موافق اپنا عمل درآمد کرنا ہے.اگر یہ اعتقاد بھی کمزور ہو تو ایک اور دوسرا مسئلہ ہے جس پر اعتقاد کرنے سے انسان خدا تعالیٰ کی فرماں برداری میں ترقی کر سکتا ہے.وہ جزا و سزا کا اعتقاد ہے.یعنی افعال اور ان کے نتائج کا علم مثلاً یہ کام کروں گا تو نتیجہ یہ ہوگا کہ برے نتائج پر غور کر کے انسان ، ہاں سعید الفطرت انسان برے کاموں سے جو ان نتائج بد کا موجب ہیں پر ہیز کریگا اور اعمال صالحہ بجالانے کی کوشش یہ کہ دونوں اعتقاد نیکیوں کا اصل الاصول اور جڑیں یعنی اول خدا تعالیٰ کی صفات اور محامد کا اعتقاد اور علم تا کہ قرب الہی سے فائدہ اٹھاوے اور ر ذائل کو چھوڑ کر فضائل حاصل کرے.دوسرا یہ کہ ہر فعل ایک نتیجہ کا موجب ہوتا ہے اگر بد افعال کا مرتکب ہوگا تو نتیجہ بد ہوگا.ہر انسان فطرتا سکھ چاہتا ہے اور سکھ کے وسائل اور اسباب سے بے خبری کی وجہ سے افعالِ بد کے ارتکاب میں سکھ تلاش کرتا ہے مگر وہاں سکھ کہاں؟ اس لئے ضروری ہے کہ افعال اور ان کے نتائج کا علم پیدا کرے اور یہی وہ اصل ہے جس کو اسلام نے جزاوسزا کے لفظوں سے تعبیر کیا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان تجربہ کار اور واقف کار لوگوں کے بتلائے ہوئے مجرب نسخے آرام و صحت کے لئے چاہتا ہے اگر کوئی ناواقف اور ناتجربہ کار بتلائے تو تأمل کرتا ہے.پس نبوت حقہ نے جو راہ دکھلائی ہے وہ تیرہ سو برس سے تجربہ میں آچکی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راحت کے جو سامان بتلائے ہیں ان کا امتحان کرنا آسان ہے.غور کرو اور بلند نظری سے کام لو!! عرب کو کوئی فخر حاصل نہ تھا کس سے ہوا؟ اسی نسخہ سے !! کیا عرب میں تفرقہ نہ تھا پھر کس سے دور ہوا ؟ ہاں اسی راہ سے!! کیا عرب نابودگی کی حالت میں نہ تھے پھر یہ حالت کس نے دور کی؟ ماننا پڑے گا کہ اسی نبوّت حقہ نے !!! عرب جاہل تھے.وحشی تھے.خدا سے دور تھے.محکوم نہ تھے تو حاکم بھی نہ تھے.مگر جب انہوں نے قرآن کریم کا شفا بخش نسخہ استعمال کیا تو وہی جاہل دنیا کے استاد اور معلم بنے وہی وحشی متمدن دنیا کے پیش رو اور تہذیب و شائستگی کے چشمے کہلائے.وہ خدا سے دور کہلانے والے
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الدَّهْرِ خدا پرست اور خدا میں ہو کر دنیا پر ظاہر ہوئے.وہ جو حکومت کے نام سے بھی ناواقف تھے دنیا بھر کے مظفر و منصور اور فاتح کہلائے.غرض کچھ نہ تھے سب کچھ ہو گئے.مگر سوال یہی ہے کیونکر؟ اسی قرآن کریم کی بدولت اسی دستور العمل کی رہبری سے.پس تیرہ سو برس کا ایک مجرب نسخہ موجود ہے جو اس قوم نے استعمال کیا جس میں کوئی خوبی نہ تھی اور خوبیوں کی وارث اور نیکیوں کی ماں بنی.غرض یہ مجرب نسخہ ہے کہ جس قدر خدا تعالیٰ کے قرب اور سکھ کی تلاش چاہو اسی قدر محامد الہیہ اور صفات باری تعالیٰ پر ایمان لاؤ.کیونکہ اسی قدر انسان رذائل سے بچے گا اور پسندیدہ باتوں کی طرف قدم اٹھائے گا.حاصل کلام ابرار بننے کے لئے مندرجہ بالا اصول کو اپنا دستورالعمل بنانا چاہیے.میں نے ذکر یہ شروع کیا تھا کہ شاکر گروہ کا دوسرا نام قرآن کریم نے ابرار رکھا ہے اور ان کی جزا یہ بتلائی ہے کہ کا فوری پیالوں سے پیئیں گے چنانچہ فرمایا اِنَّ الْاَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا - پہلے ان کو اس قسم کا شربت پینا چاہیے کہ اگر بدی کی خواہش پیدا ہو تو اس کو دبالینے والا ہو.کافور کہتے ہی دبا دینے والی چیز کو ہیں.اور کافور کے طبی خواص میں لکھا ہے کہ وہ سمی امراض کے مواد رد یہ اور فاسدہ کو دبا لیتا ہے اور اسی لئے وبائی امراض طاعون اور ہیضہ اور تپ وغیرہ میں اس کا استعمال بہت مفید ہے.تو پہلے انسان یعنی سلیم الفطرۃ انسان کو کا فوری شربت مطلوب ہے.قرآن کریم کے ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لنفسه ( الى الآیہ ) پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو برگزیدہ ہیں.پس بعض ان میں سے ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبر واکراہ سے نفس اتارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.دوسرا گروہ میانہ رو آدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے بہ جبر وا کراہ لیتے ہیں اور بعض الہی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجالاتا ہے غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی
حقائق الفرقان 1+1 سُوْرَةُ الدَّهْرِ فرمانبرداری ان سے صادر ہوتی ہے.تیسر اسابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے جونفس امارہ پر بکی فتحیاب ہو کرنیکیوں میں آگے نکل جانیوالے ہیں.غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں.پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوت کو دباوے شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتدا میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہوگی.شہرت کے وقت عفت سے کام لے اور قوائے شہوانیہ کو دبا دے.اسی طرح جھوٹ بولنے والا ست، منافق راستبازوں کے دشمنوں کو بدیاں چھوڑنے کے لئے جان پر ظلم کرنا پڑے گا تا کہ یہ اس طاقت پر فاتح ہو جاویں.بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گوکسی وقت کچھ خواہش بد پیدا بھی ہو جاوے.ایک لذت اور سرور بھی حاصل ہو جایا کر یگا مگر تیسرے درجہ میں پہنچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آجاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الہی کا شرف عطا ہوگا.تو سب سے پہلے ابرار کو کا فوری شربت دیا جاوے گا تا کہ بدیوں اور رذائل کی قوتوں پر فتح مند ہو جاویں.اور اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ بدیوں کو دباتے دباتے نیکیوں میں ترقی کرتا ہے اور پھر وہ ایک خاص چشمہ پر پہنچ جاتا ہے.عَيْنًا يَشْرَبُ بِهَا عِبَادُ اللَّهِ يُفَجِرُونَهَا تفجيرا وہ ایک چشمہ ہے کہ اللہ کے بندے اُس سے پیتے ہیں صرف خود ہی فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ دوسروں کو بھی مستفید کرتے ہیں اور ان چشموں کو چلا کر دکھاتے ہیں.فطرۃ انسانی پر غور کرنے سے پتا لگتا ہے کہ تمام قومی پہلے کمزوری سے کام کرتے ہیں چلنے میں، بولنے میں ، پکڑنے میں غرض ہر بات میں ابتداء لڑکپن میں کمزوری ہوتی ہے.لیکن جس قدر ان قومی سے کام لیتا ہے اسی قدر طاقت آجاتی ہے.پہلے دوسرے کے سہارے سے چلتا ہے پھر خود اپنے سہارے چلتا ہے.اسی طرح پہلے تلا کر بولتا پھر نہایت صفائی اور عمدگی سے بولتا ہے پکڑتا ہے وغیرہ وغیرہ گویا بتدریج
حقائق الفرقان ۱۰۲ سُوْرَةُ الدَّهْرِ نشوونما ہوتا ہے.اگر چند طاقتوں سے کام لینے کو چھوڑ دے تو وہ طاقتیں مردہ یا پھر مردہ ضرور ہو جاتی ہیں.یہی معنی ہیں جب انسان بدی کی طرف قدم اٹھاتا ہے تو طاقت کمزور ہو جاتی ہے اور نیکی کے قومی بالکل از کار رفتہ ہوتے ہیں یہ کوئی ظلم نہیں.اگر کسی حاکم کو حکومت دی جاوے اور وہ فرائض منصبی کو ادانہ کرے تو نگران گورنمنٹ اس کے وہ اختیارات سلب کر دے گی اور اسے معزول کرے گی اور اگر اس حالت کو دیکھتے ہوئے بھی کوئی پروانہ کرے تو یہ امر عاقبت اندیشی اور عقل کے خلاف ہے کہ ست انسان کے پاس رکھی جاوے ایسے ہی وہ انسان ہے جو ایمانی قوی کو خرچ نہیں کرتا وہ ابرار کے زمرہ میں رہ نہیں سکتا.جن کے عقائد حقہ ہیں یعنی وہ خدا پر ایمان لاتے ہیں.جزا وسزا اور خدا کی کتابوں اور انبیاء علیہم السلام پر ایمان لاتے ہیں پھر ان وسائط کو مانتے ہیں جن کا مقصود اتم فرمانبرداری ہے.پھر عمل کے متعلق کیا چاہیے.سب سے زیادہ عزیز مال ہے.پانچ روپے کا سپاہی پانچ روپیہ کے بدلے میں عزیز جان دے دینے کو تیار ہے.ماں باپ اس روپیہ کے بدلے اس عزیز چہرہ کو جدا کر دیتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ مال کی طرف انسان بالطبع جھکتا ہے.لیکن جب خدا سے تعلق ہو تو پھر مال سے بے تعلقی دکھاوے اور واقعی ضرورتوں والے کی مدد کرے.مسکینوں کو دے جو بے دست و پا ہیں، رشتے داروں کی خبر لے.کوئی کسی ابتلا میں پھنس گیا ہو تو اس کے نکالنے کی کوشش کرے مگر سب سے مقدم ذوی القربی کو فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوی القربی کے ساتھ سلوک کرنا زیادتی عمر کا موجب ہے.یتیموں کی خبر لے.پھر جو بے دست و پاہیں ان کی خبر لے.پھر جو علم پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے پڑھتے ہیں اور مصیبت میں مبتلا شدہ لوگوں کی خبر لے.پس جناب الہی کے ساتھ تعلق ہو اور دنیا اور اس کی چیزوں سے بے تعلقی دکھلاوے پھر جناب الہی کی راہ میں جان کو خرچ کرے.خدا تعالیٰ کی راہ میں جان خرچ کرنے کی پہلی راہ کیا ہے؟ نمازوں کا ادا کرنا ، نماز مومن کا معراج ہے.نماز میں ہر قسم کی نیازمندیاں دکھائی گئی ہیں.غرض کا فوری شراب پیتے پیتے انسان اس چشمہ پر پہنچ جاتا ہے جہاں اسے شفقت علی خلق اللہ کی توفیق دی جاتی ہے.
حقائق الفرقان ۱۰۳ سُوْرَةُ الدَّهْرِ پھر بتلایا کہ جو معاہدہ کسی سے کریں اس کی رعایت کرتے ہیں.مسلمان سب سے بڑا معاہدہ خدا سے کرتا ہے کہ میں نیک نمونہ ہوں گا.میں فرمانبردار ہوں گا.میں اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو دُ کھ نہ دوں گا.اور ایسا ہی ہماری جماعت امام کے ہاتھ پر معاہدہ کرتی ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.رنج میں راحت میں عسر یسر میں قدم آگے بڑھاؤں گا.بغاوت اور شرارت کی راہوں سے بچنے کا اقرار کرتا ہے.غرض ایک عظیم الشان معاہدہ ہوتا ہے.پھر دیکھا جاوے کہ نفسانی اغراض اور دنیوی مقاصد کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا دین کو مقدم کرتا ہے.عامہ مخلوقات کے ساتھ نیکی اور مسلمانوں کے ساتھ خصوصا نیکی کرتا ہے یا نہیں.ہر امر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے.مقدمہ ہو تو جھوٹے گواہوں، جعلی دستاویزوں سے محتر ز ر ہے.دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے وعظ کہنا بھی مفید امر ہے.اس سے انسان اپنے آپ کو بھی درست بنا سکتا ہے جب دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اپنے دل پر چوٹ لگتی ہے.امر بالمعروف بھی ابرار کی ایک صفت ہے اور پھر قسم قسم کی بدیوں سے رکتا ہے.المخفق يُفَجَّرُونَهَا تَفْجِيرًا جب خود بھلائی حاصل کرتے ہیں.ظالم لنفسہ ہوتے ہیں تو دوسروں تک بھی پہنچاتے ہیں يُوفُونَ بِالنَّذْرِ جو معاہدہ جناب الہی سے کیا ہو اس کو وفاداری سے پورا کرے اور نیکی یوں حاصل کرے کہ میرے ہی افعال نتائج پیدا کریں گے.ایک فلسفی مسلمان کا قول ہے.گندم از گندم بروید جو زجو از مکافات عمل غافل مشوب وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبّهِ مِسْكِينَا وَ يَتِيمَا وَ آسِیرا اور کھانا دینے میں دلیر ہوتے ہیں.مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے.ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھو کے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں تم ل گندم سے گندم ہی اگتی ہے اور جو سے جو تو اپنے عمل کی پاداش سے غافل نہ ہو.
حقائق الفرقان ۱۰۴ سُوْرَةُ الدَّهْرِ کو خدا ہی دے دیتا اگر دینا منظور ہوتا.قرآن کریم کے دل سورہ یسین میں ایسا لکھا ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءَ اللهِ أَطْعَمَه...آج کل چونکہ قحط ہو رہا ہے انسان اس نصیحت کو یادر کھے اور دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدر وسعت تیار رہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے یتیموں ، مسکینوں اور پابند بلا کوکھا نادیتار ہے.مگر صرف اللہ کے لئے دے.یہ تو جسمانی کھانا ہے.روحانی کھانا ، ایمان کی باتیں ، رضاء الہی اور قرب کی باتیں یہاں تک کہ مکالمہ الہیہ تک پہنچا دینا اسی رنگ میں رنگین ہوتا ہے.یہ بھی طعام ہے.وہ جسم کی غذا ہے یہ روح کی غذا منشاء یہ ہو کہ اس لئے کھانا پہنچاتے ہیں کہ اِنَّا نَخَافُ مِنْ زَبْنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَبْطَرِيرًا کہ ہم اپنے رب سے ایک دن سے جو عبوس اور قمطریر ہے ڈرتے ہیں عبوس تنگی کو کہتے ہیں قمطر پر دراز یعنی قیامت کا دن تنگی کا ہوگا اور لمبا ہو گا.بھوکوں کی مدد کرنے سے خدا تعالیٰ قحط کی تنگی اور درازی سے بھی نجات دیدیتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے فَوَقَهُمُ اللهُ شَرَّ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَلَقَهُمُ نَضْرَةٌ وَ سُرُورا خدا تعالیٰ اس دن کے شر سے بچالیتا ہے اور یہ بچانا بھی سرور اور تازگی سے ہوتا ہے.میں پھر کہتا ہوں کہ یا درکھو آج کل کے ایام میں مسکینوں اور بھوکوں کی مدد کرنے سے قحط سالی کے ایام تنگیوں سے بچ جاؤ گے.خدا تعالیٰ مجھ کو او تم کو توفیق دے کہ جس طرح ظاہری عزتوں کے لئے کوشش کرتے ہیں.ابدالآباد کی عزت اور راحت کی بھی کوشش کریں.آمین الحکم جلد ۳ نمبر ۴۱ مورخه ۱۷/ نومبر ۱۸۹۹ صفحه ۱تا۴) مِسْكِيناً وَ يَتِيما و اسیرا.پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قیدی کو اصحاب میں سے کسی کے سپرد کرتے تو آقا کو حکماً فرماتے آحسن الیہ اس کے ساتھ نیک سلوک کر یو.یہ بھی ایک روایت میں آیا ہے کہ غَرِيمُكَ آسِيرُكَ فَأَحْسِنُ إلى اسيرك تيرا مقروض تیرا قیدی ہے اس کے ساتھ نیک لے حق چھپانے والے منکر ایمانداروں سے کہتے ہیں کیا ہم ایسے کو کھلائیں جس کو اللہ چاہتا تو خودکھلا دیتا کچھ شک نہیں کہ تم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو.
حقائق الفرقان ۱۰۵ سُوْرَةُ الدَّهْرِ سلوک کر.ایک اور روایت میں ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اِتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّهُنَّ عِنْدَكُمْ عَوَان یعنی عورتوں کے حق میں خدا سے ڈرتے رہو کہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قیدیوں کی طرح ہیں.یتیم کے حق میں بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ سب گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ نیک سلوک کیا جاتا ہے اور سب گھروں میں بدتر وہ گھر ہے جس میں یتیم کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے.يَوْمًا عَبُوسًا قَبْطَرِيرًا.عبوس الوجہ اس آدمی کو کہتے ہیں جس کی پیشانی پر ہمیشہ بل پڑے ہوئے ہوں.قمطریر.سخت سلوٹیں اور بل.چہرے کے عذاب الہبی کی شدت کو دیکھ کر چہروں کی ایسی حالت ہوگی کہ جیسے سخت گریہ وزاری کے وقت رونے والے چہرے کی کیفیت عین حالت گریہ کے وقت ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۲۶ مورخه ۴ دا اراپریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۹٬۲۹۸) -۱۴ تُمَتَكِينَ فِيهَا عَلَى الْأَرْآبِكِ لَا يَرَوْنَ فِيهَا شَمْسًا وَ لَا زَمْهَرِيرًا - ترجمہ.وہاں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے تختوں پر نہ وہاں سخت گرمی دیکھیں گے اور نہ سخت سردی.تفسیر.زَمْهَرِيرًا - زمہریر ایسی سخت سردی کو کہتے ہیں.جس سے ہاتھ پیر گلنے لگیں.بخلاف برد کے کہ اس میں معمولی ٹھنڈک ہوتی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۹) ١٦ - وَيُطَافُ عَلَيْهِمْ بِأَنِيَةٍ مِنْ فِضَّةٍ وَ الْوَابِ كَانَتْ قَوَارِيرًا - ترجمہ.اور ان پر دور چل رہا ہو گا چاندی کے برتنوں اور آب خوروں کا جوشیشوں کی طرح شفاف ہوں گے.تفسیر.کسی صوفی نے ایک مقام پر لکھا ہے اور جس نے یہ بات لکھی ہے وہ ایک بڑا آدمی ہے.وہ کہتا ہے.میں نے انبیاء کے مقام کو چاندی کا مقام دیکھا اور اولیاء کے مقام کو سونے کا مقام دیکھا ہمارے مولویوں نے اس وجہ سے اس کو بھی کا فر کہا ہے.سائنس والے جانتے ہیں کہ کل رنگوں کا جامع
حقائق الفرقان 1+4 سُوْرَةُ الدَّهْرِ سفید رنگ ہے.ان کا منشاء یہ ہے کہ جو سفید رنگ نظر آیا وہ سارے کمالات کا جامع ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۹) ۱۸ - وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا - ترجمہ.اور ان کو وہاں ایسے جام پلائے جائیں گے جس میں ملونی سونٹھ کی ہوگی.زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے.زَنَا اور جَبَل سے.زَنَا لغت میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل بمعنی پہاڑ.سونٹھ کی گرمی انسان میں بڑی قوت پیدا کرتی ہے.جب تک کہ عاشقانہ گرمی سالک راہ محبت کے دل میں نہ ہو وہ مشکلات کی بلند گھاٹیوں کو طے نہیں کر سکتا.جب یہ زنجبیل عشق اور محبت کی شراب پی لیتا ہے تو خدا کی راہ میں عملی قوت کا ایسا حیرت ناک اثر دکھاتا ہے کہ دوسرا ہرگز دل سے ایسی جانفشانیاں نہیں دکھلا سکتا.اللہ تعالیٰ نے بھی ایسے سالک کی جزا کاسئہ وصال رکھا ہے.جس کے مزاج کی طرف زنجبیل کے لفظ سے اشارہ کرتے ہوئے جزاء و فَاقًا کی موافقت کو ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۹) بتلایا ہے.۱۹.عَيْنَا فِيهَا تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا - ترجمہ.ایک چشمہ ہے بہشت میں جس کا نام سلسبیل ہے.تفسیر تُسَى سَلْسَبِيلا - سَلْسَبِیل میں سل.سبیل کی طرف اشارہ کیا ہے.یعنی پوچھ راستہ.دنیا میں عشق اور محبت کا زنجبیلی کا سہ اپنے مرشد کے ہاتھ سے جب سالک پی لیتا ہے تو اس میں خصوصیت کے ساتھ اپنے محبوب حقیقی تک پہنچنے کی ایک تڑپ پیدا ہو جاتی ہے.پھر وہ راہ طریقہ کے پوچھنے اور اس پر قدم مارنے میں عار نہیں کرتا.خواہ کیسی ہی دشوار گھاٹیاں راستے میں حائل ہوں.ہمارے موجودہ امام علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک فرمودہ جو سلسبیل کے لفظ سے بہت ہی مناسبت رکھتا ہے یہ ہے.ابنِ مریم ہوا کرے کوئی مرے دُکھ کی دوا کرے کوئی لے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۹) لے یہ شعر غالب کا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.
حقائق الفرقان 1.2 سُوْرَةُ الدَّهْرِ ۲۰ - وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْتُوْرًا - ترجمہ.اور ان کے پاس آتے جاتے ہوں گے پرانے خانہ زاد.جب تو ان کو دیکھے تو ایسا خیال کرے کہ وہ موتی ہیں بکھرے ہوئے.تفسیر - ولدَانٌ مُخَلَّدُونَ: مُخَلَّدُونَ کے معنوں میں کئی قول ہیں.مختلد بوڑھے کو بھی کہا ہے.مخلد اس کو بھی کہا ہے جس کے زلف سفید ہوں.مخلد کے ایک معنے یہ بھی کئے ہیں کہ کانوں میں بندے بالے پہنے ہوئے.مگر ان تمام معنوں سے انسب وہ معنے معلوم ہوتے ہیں.جن کی مناسبت ولد کے لفظ کے ساتھ ہو.یعنی دنیا کے والد ان کی طرح جنتیوں کے خادمین ولدان پر مرورزمانہ کی وجہ سے کبھی معتمر ہونے کا زمانہ نہیں آئے گا.بلکہ باوجود مرور زمانہ کے وہ ہمیشہ ولد ان ہی ولدان رہیں گے جو کام خدمت گزاری کا پھر تیلی حرکتوں سے چھوٹے بچے کیا کرتے ہیں وہ معمر نہیں کیا کرتے اور کار برآری میں ان کی خدمات بھی معلوم ہوتی ہیں.اسی لئے ان کو لُؤْلُؤًا منثورا (یعنی) بکھرے ہوئے موتیوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۹) تارک دھرم آریہ کے اعتراض عورتوں کو بہت نوجوان یکدم بطور خاوند و پتی کے ملیں.کیونکہ جب ایک ایک آدمی کو بہت سی حوریں ملیں گی تو ایک ایک عورت کو بہت نو جوان لڑکے ملنے چاہئیں کے جواب میں فرمایا:.آپ کا انصاف ایک شریف الطبع انسان پسند نہیں کر سکتا.نادان غور کر ! ایک عورت ایک خاوند کے ایک بچہ کو یا اس کے دو تین بچوں کو ایک وقت میں بمشکل پیٹ میں رکھ سکتی ہے.ایک مرد آج کسی عورت کے بچہ دان کو اپنے نطفے سے مشغول کر دے اور دوسرے دن دوسرے کے تیسرے دن تیسرے کے.علی ہذا سال بھر تین سو ساٹھ بچہ مختلف رحموں میں پرورش کے لئے دے سکتا ہے.ہاں مرد قوی بہت عورتوں کے رحم میں بیج ڈال سکتا ہے.اس لئے عورتوں کو بہت نوجوانوں کا ملنا بے انصافی ہے اور اس پر دُکھ ہے.نیز مرد ایک گونہ عورتوں پر حکمران ہے.پس ایک مرد کے لئے بہت عورتیں ہوں تو عورت کو آرام
حقائق الفرقان ۱۰۸ سُوْرَةُ الدَّهْرِ ہے کہ مرد کی حکومت اس کے سر سے کچھ ہٹ گئی یا ایک عورت کے لئے بہت خاوند ہوں تو کیا عورت کو آرام مل سکتا ہے.کیا جس کے اوپر بہت سارے حکمران ہوں.وہ آسودہ حال ہوسکتا ہے.علاوہ اس کے خاوند کیا آپس میں جنگ نہ کریں گے کیونکہ اگر بہت سارے مرد ایک عورت کے خاوند ہوئے تو ایک وقت ایک چاہتا ہے کہ یہ عورت میرے پاس اور دوسرا چاہے کہ میرے پاس آوے.اس لئے اول تو وہ آپس میں جوت پیزار کریں گے.پھر وہ عورت بہر حال مصیبتوں میں مبتلا ہوگی.نافہم انسان ! سوچ اور غور کر! مگر تم کو غور کا مادہ کیونکر ملے گا.تمہارا مذہب تو ایسے امور کی پروا نہیں کرتا کیونکہ نیوگ میں ایسے امور بہت پیش آتے ہیں.سن ! بہشتی نعمتوں میں اسلام بیان کرتا ہے کہ بڑی نعمت خدا کی رضامندی ہے.دیکھو قرآن کریم وَرِضْوَانَ مِنَ اللَّهِ أَكْبَرُ (التوبه : ۲) دَعْوَهُمْ فِيهَا سُبُحْنَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُم فِيهَا سَلَمُ وَأَخِرُ دَعْوبُهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (یونس : ۱۱) اور اللہ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے بڑی ہے.وہ اللہ کی پاکیزگی بیان کریں گے.اور آپس میں سلامتی اور صلح سے رہیں گے اور آخری پکاران کی یہ ہوگی کہ حمد ہے اللہ پروردگار کے لئے.ج پس سچے مسلمان الہی رضامندی کے گرویدہ ہو کر اس کی عبادت کرتے ہیں نہ اس بات کے لئے جس کی نسبت تم نے فضول گوئی کی ہے.ہاں دنیا کی نعمتیں اور دنیوی عیش و آرام اور دولت مندی آریوں کے اعتقاد میں نیکیوں کا پھل ہے اور ظاہر ہے کہ غلمان بعض دولتمند ہندؤوں کے لوازمات میں داخل ہیں.پس کیا یقیناً یہ الزام آپ لوگوں پر نہیں ہو سکتا؟ بلکہ جب دیانند کے نزدیک بھی دنیا ہی سورگ اور نیکی کے ثمرات لینے کی جگہ ہے.گو چند اعمال کے بدلے ارواح چندے شواغل دنیا سے بھی آزادی اور انند میں رہیں گے تو اس صورت میں دیا نندی پنتھ کے مطابق غلمان نیکی کے ثمرات نہیں تو اور کیا ہیں ! بات یہ ہے کہ سخت عداوت کے سبب تمہیں غلمان کا قصہ سمجھ میں نہیں آیا.یا قرآن کو نہ دیکھا ہے اور نہ سمجھا ہے.افسوس کہ اس ادعائی تہذیب کے زمانہ میں یہ درشت زبانی ! تمام قرآن کریم کا اردو تر جمہ بھی تم دیکھ لیتے اور تھوڑا سا ما قبل سے پڑھ لیتے تو بشرط انصاف تم ایسے خلاف تہذیب امر
حقائق الفرقان 1+9 سُوْرَةُ الدَّهْرِ کے مرتکب نہ ہوتے.سنئے ! قرآن کریم میں ہے.دود وَالَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتُهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإِيمَانِ الْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَا اَلَتُنْهُم مِّن.مِّنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِى بِمَا كَسَبَ رَهِينَ - وَ آمَدَدُنْهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَ لَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ.يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لَا لَغُو فِيهَا وَلَا تَأْثِيمُ - وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُو مكنون - (الطور : ۲۲ تا ۲۵) ہم مومنوں کے ساتھ ان کی مومن اولاد کو ملا دیں گے اور ان کے عملوں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے ہر شخص کو اپنی اپنی کمائی کا بدلہ ملے گا.اور ہم انہیں میوے اور ان کے پسند کے گوشت دیں گے.اور اس میں ایسے پیالے پئیں گے کہ ان کا نتیجہ بیہودہ خیالات اور بدکاری نہیں اور ان کے اردگرد موتیوں کے دانہ جیسے بچے پھریں گے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.بہشتیوں کی اولا دان کے پاس پھرے گی.وہاں مومن اولا د کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ تأثیم صریح اس کی صفت میں موجود ہے جس کے معنی ہیں نہ گناہ میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسا ناشان خیال کیوں گذرا ؟ اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورہ دھر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلمان کے بدلہ ولد ان کا لفظ جو ولد یا ولید کی جمع ہے.فرمایا ہے.وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا مَّنثُورًا ( الدهر :٢٠) ج اور ان کے ارد گر د عمر در از بچے پھریں گے تم انہیں دیکھ کر یہی سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں.يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِأَكْوَابٍ وَ آبَارِيْقَ وَكَأْسٍ مِنْ مَّعِينٍ - (الواقعۃ:۱۹،۱۸) اور ان کے ارد گر دعمر در از بچے کوزوں اور لوٹوں اور خالص ينتصر ے صاف پانی کو لئے پھریں گے.اور اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک بشارت ہے جو فتوحاتِ ایران و روم میں اپنے جلال کے ساتھ ظاہر ہوئی.جوان اور ادھیٹر شاہی خاندان کے شاہزادے اور شہزادیاں مسلمانوں کے خادم ہوئے.
حقائق الفرقان 11 + سُوْرَةُ الدَّهْرِ مخلد ادھیٹر کوبھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں.اور سن ! حضرت زکریا فرماتے ہیں.رَبِّ الى يَكُونُ لِي غُلَامٌ (مریم: ۹) اے اللہ مجھے کب بچہ عطا ہووے.اور ابراہیم علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے فَبَشِّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ (الصافات: ۱۰۲) ہم نے ابراہیم کو خوشخبری دی ایک عقلمند بچہ کی اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قصہ میں آیا ہے.لَقِيَا غُلَامًا فَقَتَلَه (الكهف : ۷۵) موسی اور خضر کے سامنے ایک جوان آیا اور خضر نے اس کو قتل کر دیا.وغیرہ وغیرہ میں دیکھو.اولا د اور جوانوں کو غلام کہا گیا ہے بلکہ قاموس میں لکھا ہے کہ غلام وہ ہوتا ہے جس کی موچھیں نکل چکیں.نیز تجھے خبر نہیں کہ عورت اور مرد میں جناب الہی نے قدرت میں مساوات رکھی ہی نہیں.بچہ جننے میں جو تکالیف عورتوں کو ہوتی ہیں.اُن میں مردوں کا کتنا حصہ ہے.کیا مساوات ہے؟ کیا قوی میں مساوات ہے؟ ہر گز نہیں.میں ہمیشہ حیران کہ مرد و عورت میں مساوات کا خیال کس احمق ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۷۱ تا ۱۷۴) نے نکالا ؟ ۲۱ - وَإِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيْمًا وَ مُلكًا كَبِيرًا - ترجمہ.اور جب تو دیکھے اس جگہ بے شمار نعمت اور ایک بڑی سلطنت.تفسیر.اور جب دیکھے تو وہاں تو دیکھے نعمت اور سلطنت بڑی.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۷۶ حا ملكًا كبيرًا.حدیث شریف میں ہے کہ جو دوزخی دوزخ سے سب سے آخر میں نکالا جائے گا.اس کو اللہ تعالیٰ اس قدر جنت عطا فرما دے گا کہ دنیا وما فیہا اور اس سے دو چند کے مقابلہ کی ہوگی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹۹) و ۲۲ - عليَهُمْ ثِيَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَ اسْتَبْرَقُ وَحُلُوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ سقهُم رَبَّهُمْ شَرَابًا طَهُورًا - ترجمہ.جنتی کپڑے پہنے ہوئے ہوں گے باریک ریشمی سبز اور دبیز ریشمی اور ان کو پہنائے اور دیئے جائیں گے چاندی کے کنگن اور ان کو پلائے گا ان کا پروردگار نہایت پاک کرنے والا شربت
حقائق الفرقان ( جو بدیوں سے بچائے ).سُوْرَةُ الدَّهْرِ تفسیر.اوپر ان کے کپڑا باریک ریشمی سبز اور گاڑھے اور پہنائے گئے کنگنیں چاندی کے اور پلا دے ان کو خدا ان کا شراب پاک.(فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۷۶ حاشیہ) ایک آریہ کے اس سوال کے جواب میں کہ ریشمی کپڑے.اتنا سامان کہاں سے آئے گا.کون بنے گا.ریشم کیڑوں کا فضلہ اور لعاب ہے فرمایا.سرب شکتی مان کے خزانہ سے جہان سے تمام جگ کو ملتا ہے.سورج کی تیزی قائم رکھنے کے لئے زمین کے لئے نباتات کو اگانے کے لئے اور حیوانات کے لئے کس قدر چیزوں کی ضرورت ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ الہی کا رخانہ میں سب کے لئے پورا سامان موجود ہے.زمین ، پانی ، ہوا اور خلا میں جس قدر ذی حیات ہیں.سب کے لئے کس قدر کثرت سے سامان مطلوب ہے.مگر سرب شکتی مان ہمہ قدرت کے کارخانہ میں سب کچھ موجود ہے.ذرہ کمی نہیں.سرب شکتی مان اور قادر کسی کا محتاج نہیں ہوتا.اس کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے.اور سنو! یہ ریشمی کپڑے وغیرہ نعمتیں تو عظیم الشان پیشگوئی ہے.عرب خشن یعنی کھردرے اور سادہ لباس کے عادی تھے.خدا تعالیٰ اور رسول کی اطاعت کی جزا میں ان کو بشارت دی گئی کہ عنقریب شام و ایران کے شاہی ریشمی لباس تم کو دیئے جائیں گے.یہ فتح مندی کا وعدہ ہے.آخر ریشمی لباس اُسی کو پہنایا جاتا ہے جس کے مناسب حال ہوتا ہے.ہم کو بعض وقت ریشمی لباس ، ریشمی تھان اور زیور امرا ء نے دیئے ہیں.مگر کبھی ہمارے یا ان کے خیال میں نہیں آیا کہ وہ لباس یا زیور ہم پہنیں گے.وہ جن کے مناسب حال تھا ان کو پہنا دیا گیا.اور سنو! یہ قبل از وقت ہمارے سرور کا مشاہدہ ہے اور قبل از وقت نظارہ کو عربی میں رؤیا کہتے ہیں اور ریشمی لباس کے متعلق علم رویا کا پر مان یہ ہے.اس کو غور کرو اور دیکھو کہ ہمارے نبی کریم کے مکاشفات آخر کار کس قدر صحیح اور صادق ثابت ہوئے.اور جو باتیں اس جہان میں قبل از وقت بطور دعوے کے بتائی جا کر روز روشن کی طرح اپنا ثبوت آشکار کر دیں ان سے بڑھ کر اور کون شئے صدق
حقائق الفرقان ۱۱۲ سُوْرَةُ الدَّهْرِ کی مہر اپنے اوپر رکھ سکتی ہے.اب ان معانی کو رڈیا کی کتابوں میں دکھاتے ہیں.القِيَابُ الْخُضْرُ قُوَّةٌ ودِينٌ وَزِيَادَةُ عِبَادَةٍ لِلْأَحْيَاء وَلِلْاَمْوَاتِ حُسْنُ حَالٍ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى منتخب الكلام: صفحہ ۱۱۰) لباس سبز سے مراد ہے زندوں کے لئے قوت اور دین اور عبادت میں ترقی اور مردوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک خوشحالی ہے.الديباج وَالْحَرِيرُ وَجَمِيعُ ثِيَابِ الْأَبْرَسِيمِ هِيَ صَالِحَةٌ لِغَيْرِ الْفُقَهَاءِ فَإِنَّهَا تَدُلُّ عَلَى أَنَّهُمْ يَعْمَلُونَ أَعْمَالًا يَسْتَوْجِبُونَ بِهَا الْجَنَّةَ وَيُصِييُونَ مَعَ ذَلِكَ رِيَاسَةً - والقيَابُ الْمَنْسُوْجَةُ بِالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ صَلَاحٌ فِي الدِّيْنِ وَالدُّنْيَا وَبُلُوغُ المُنى - وَ مَنْ رَالَ إِنَّهُ يَمْلِكُ حُلَلًا مِنْ حَرِيْرٍ أَوِ اسْتَبْرَقٍ اَوْ يَلْبِسُهَا عَلَى أَنَّهُ تَاجُ أَوْ اكْلِيْلٌ مِنْ يَاقُوتٍ فَإِنَّهُ رَجُلٌ وَرِحْ مُتَدَيَّنْ غَازِ وَيَنَالُ مَعَ ذَلِكَ رِيَاسَةً.(منتخب صفحه ۱۱۱) دیباج اور ریشم اور ہر قسم کے ریشمی کپڑے فقہاء کے سوا اوروں کے لئے بہت اچھے ہیں.ان کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگ ایسے عمل کریں گے کہ جن سے جنت کے حقدار بن جائیں گے اور اس کے علاوہ انہیں ریاست بھی ملے گی.اورسونے اور چاندی کے ساتھ بنے ہوئے کپڑوں سے مراد ہے بہتری دین میں اور دنیا میں اور مقصد پر پہنچ جانا.جو شخص دیکھے کہ اس کی ملک میں ریشم اور استبرق کے لباس ہیں یا انہیں پہن رکھا ہے یا یاقوت کا تاج سر پر دیکھے.ایسا شخص پر ہیز گار، دیانت دار، غازی ہوتا ہے اور علاوہ برآں اسے سلطنت بھی نصیب ہوتی ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶۳ تا ۱۶۵) سوال - حُلُوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ ( الدهر : ٢٢) يُحَلَّوْنَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ ( الكهف : ٣٢) بھلا کوئی شائستگی ہے کہ عورتوں کا گہنا آدمی پہنے لگ جاویں.کیا بی اے مولوی ہیجڑوں کی طرح کنگن پہن کر پھریں گے.پھر ہنسی کی ہے.
حقائق الفرقان ۱۱۳ سُوْرَةُ الدَّهْرِ الجواب.خلوا کا ترجمہ زیور دیئے گئے.يُحَلَّون کا ترجمہ ہے زیور دیئے جائیں گے.یہ بھی غریب عرب کو ایک وعدہ تھا اور ز بر دست پیشگوئی ہے.چنانچہ ایک شخص سراقہ بن مالک بن جعشم المد بھی نامی کو حضرت نبی کریم نے اس کے خالی ہاتھ دیکھ کر ان پر بال بہت تھے اور ہاتھ نہایت پتلے تھے ) فرمایا.كاني بك قد لبست سواری کشری.میں دیکھ رہا ہوں کہ تجھے کسری کے کنگن پہنائے گئے.مدتوں کے بعد جب خدا تعالیٰ کے وعدہ کے دن آئے اور خدا کے برگزیدہ بندوں نے آریوں کے بھائی ایرانیوں کے ملک کو فتح کیا اور فتوحات ایران کا مال سونا، یاقوت ، زبرجد اور لؤلؤ بکثرت آیا اور اس میں خاندان شاہی کے زیورات آئے تو حضرت عمرؓ نے خاص کسری شہنشاہ کے کنگن اس عربی مدلجی کو پہنا دیئے اس لئے کہ وہ پیشگوئی پوری ہو جو نبی کریم صلی اینم نے کی تھی اور جو قرآن کریم میں مفصل مذکور ہے.دیکھو امام شافعی کی روایت ازالۃ الخفا صفحہ ۱۳۰ جلد ۲ اب ہم اسے رؤیا کی کتابوں سے حل کرتے ہیں.سَوَارٌ - اِنْ كَانَ اَسْوُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَهُوَ رَجُلٌ صَالِحُ لِلسَّعْيِ فِي الْخَيْرَاتِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى وَحُلُوا أَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ فَإِنْ سُوَرَتْ يَدُ السُّلْطَانِ فَهُوَ فَتْحٌ يُفْتَحُ عَلَى يَدَيْهِ مَعَ ذِكْرٍ وَصَوْتٍ وَإِنْ كَانَ لَهُ أَعْدَاء فَإِنَّ اللَّهَ يُعِيْنُهُ- (منتخب الكلام جلدا ) اگر کسی کو رویا میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں تو وہ شخص صالح آدمی اور اس قابل ہوتا ہے کہ بڑے بڑے نیک کام اس کے ہاتھ سے نکلیں اور یہ معنی مستنبط کئے گئے ہیں خدا تعالیٰ کے قول حلوا اساور من فضہ سے.اگر سلطان کے ہاتھ پر کنگن پہنائے جائیں تو اس کے معنی ہوں گے کہ اسے فتوحات نصیب ہوں گی اور اس کا آوازہ و شہرت دنیا میں مشتہر اور شائع ہوگی اور اگر اس کے دشمن ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر اسے فتح مند کرے گا.واقعات عالم اور ہمارے نبی کریم صلای ایتم کی لائف پر نگاہ کر کے دیکھ لو کہ یہ ساری باتیں کس طرح احسن طریق سے پوری ہو ئیں اور بعد الموت اس سے اتم اکمل طور پر پوری ہوں گی.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶۹،۱۶۸)
حقائق الفرقان ۱۱۴ سُوْرَةُ الدَّهْرِ ۲۴ - إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا - ترجمہ.ہم نے نازل فرمایا تجھ پر قرآن آہستہ آہستہ (یعنی مندرجہ بالا امور کے حصول کے لئے ).تفسیر.نَزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَنْزِيلًا.ہم نے اتارا ہے تم پر قرآن مجید کو وقتا فوقتا.اس کی وجہ سورہ الفرقان میں کفار کے سوال لَو لَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً آیت ۳۳ میں یوں فرمایا ہے كَذلِكَ لِنُثَيْتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنَهُ تَرْتِيلاً - یعنی ضرورت پیش آمدہ کے وقت خداوند تعالیٰ کی ہم کلامی سے آپ کے دل کو تسکین ملتی رہی.اس کے علاوہ اور بھی کوئی وجوہ وقتا فوقتا ٹھہر ٹھہر کر نازل فرمانے کے قرآن شریف میں مختلف مقام میں بیان فرمائے ہیں.توریت میں پہلے سے یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ کتاب آہستہ آہستہ نازل ہوگی.(دیکھو یسعیاہ باب ۲۸) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ ۱۷اپریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۹) ۲۸ - إِنَّ هَؤُلَاءِ يُحِبُّونَ الْعَاجِلَةَ وَيَذَرُونَ وَرَاءَهُمْ يَوْمًا ثَقِيلًا - ترجمہ.یہ کا فر تو دنیا ہی چاہتے ہیں اور چھوڑ رکھا ہے اپنی پیٹھ پیچھے ایک بھاری دن کو.تفسیر - يُحبون العاجلة - عاجلہ اس ورلی زندگی دنیا کو فر ما یا جس کا آرام دم نقد موجود نظر آتا (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۹۹) ہے.ج ٢٩ - نَحْنُ خَلَقْتُهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ وَإِذَا شِتَنَا بَدَّلْنَا أَمْثَالَهُمْ تَبْدِيلًا - ترجمہ.ہم نے ان کو پیدا کیا اور ہمیں نے ان کے بندھن مضبوط کئے اور ہم جب چاہیں بدل لا ئیں انہیں جیسے اور لوگ.تفسیر - شَدَدْنَا أَسْرَهُمْ.ہم نے ان کے جوڑ بند مضبوط کئے..(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱٫۱۱ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۲۹۹) ط ۳۱.وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا - ترجمہ.کچھ نہیں مگر وہی چاہو جو اللہ نے چاہا.بے شک اللہ بڑا جاننے والا، بڑا حکمت والا ہے.
حقائق الفرقان ۱۱۵ سُوْرَةُ الدَّهْرِ تفسیر.وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ - حال تمہارا ایسا ہونا چاہیے کہ نہ چاہو تم وہ بات جو اللہ تعالیٰ نہ چاہے مگر حال تمہارا یہ ہے کہ وہ چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۰٬۲۹۹)
حقائق الفرقان ١١٦ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت سُوْرَةُ الْمُرْسَلَت مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - سورہ مرسلات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو تمام اسبابوں کو مہیا کرنے والا اور نیکوکاری اور بدکاری کا بدلہ دینے والا ہے.۲ تا ۱۶ - وَالْمُرْسَلَتِ عُرُفًا - فَالْعَصِفْتِ عَصْفًا - وَالنُّشِرَاتِ نَشْرًا - فَالفَرِقْتِ فَرْقًا - فَالْمُلْقِيتِ ذِكْرًا - عُدْرًا اَوْ نُزُرًا - إِنَّمَا تُوعَدُونَ لواقع - فَإِذَا النُّجُومُ طمِسَتْ وَ اِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ وَ إِذَا الْجِبَالُ سفَتْ وَ اِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ لِاَيَ يَوْمٍ أَجِلَتْ لِيَوْمِ الْفَصْلِ وَ مَا ادريكَ مَا يَوْمُ الْفَصْلِ وَيْلٌ يَوْمَبِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ - ترجمہ.ان ہواؤں کی قسم جو نرم چلائی جاتی ہیں.پھر جھونکے دینے والیوں کی زور سے.اور منتشر کرنے والیوں کی اٹھا کر.پھر جداٹکڑے ٹکڑے کر کر.پھر نصیحت ڈالنے والیوں کی.الزام دور کرنے یا ڈرانے کو.کچھ شک نہیں جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور ہو کے رہے گا.جب ستارے ماند کر دیے جائیں گے.اور آسمان پھٹ جائیں گے.اور پہاڑ اڑائے جائیں گے.اور رسول وقت مقرر پر حاضر کئے جائیں گے ( تو تم آپ ہی سمجھ لو گے ).کہ کون سے روز کے واسطے دیر کی گئی ہے.فیصلہ کے دن کے لئے.اور تجھے کیا معلوم ہے کہ فیصلہ کا دن کیا ہے.اس دن جھٹلانے والوں کی خرابی ہے.مُرْسَلتِ عُرُفًا.وہ معمولی رفتار سے چلنے والی ہوائیں جو ہلکی ہوتی ہیں اور نرمی سے چلتی ہیں اور حیوانات و نباتات کے لئے ممد حیات ہیں.
حقائق الفرقان 112 سُوْرَةُ الْمُرْسَلت فَالْعُصِفَتِ والنشرات.وہ تیز ہوائیں جو بادلوں کو چاروں طرف پھیلاتی ہیں اور جن سے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب پیدا ہوتے ہیں.فرقت.وہ ہوائیں جو بادلوں کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہیں جو اس دنیا میں تفریق و انفصال کا کام کر رہی ہیں.مُلقیت.وہ ہوائیں جو ملہمین اور واعظین کے نصائح کانوں تک اور دلوں تک پہنچاتی ہیں قدرت کا یہ کرشمہ اور نظارہ بتاتا ہے کہ انسان کے خلق کی کوئی علت غائی ہے.اس نظامِ ظاہری کو پیش کر کے بتایا ہے کہ جس طرح پر نظام ظاہری کے لئے مؤثرات خارجی ہیں.اسی طرح نظام روحانی کے لئے بھی مؤثرات باطنی ہیں.ہوا کے مختلف ایتھروں کی قسم میں ہوا کے مختلف شعبوں کی طرف توجہ دلا کر اس نظارہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آئندہ آنیوالی کامیابیوں اور واقعات کے دکھلانے کے علاوہ حشر اجساد پر اس کو بطور دلیل پیش کیا ہے.جیسا کہ فرمایا: إنَّمَا تُوعَدُونَ لَواقع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعہ جو وعدے تم کو دیئے گئے ہیں خواہ وہ اس دنیا کے متعلق ہوں یا آخرت کے متعلق وہ پورے ہو کر رہیں گے.یہ بات یادر کھنے کے قابل ہے کہ ہوائیں اور ذرات عالم خود ہی مد بر و مختار، علیم و قادر نہیں ہیں جو کہ ضروریات عالم کو سمجھ کر موقع اور محل شناسی کے بعد انتظام کریں.بلکہ ان تمام واقعات ظاہری کے تحت میں مدبرات اور مقسمات ہیں جن کو بلفظ دیگر ملائکہ کہتے ہیں.اور انہیں کو ظاہری افعال کے لحاظ سے مُرسَلت عصفت، نشرت فرقت اور مُلقِیت کہا گیا ہے.اور یہ الفاظ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہیں.جو ہزار ہا بیرونی و اندرونی ، آفاقی و انفسی ، روحانی اور جسمانی امور پر دلالت کر سکتے ہیں اور اس طرح پر وجو د قیامت پر ہزاروں دلیلیں پیدا ہو جاتی ہیں.مثال کے طور پر مُرسَلت عُرفا میں بادلوں کا آنا ، برسنا ، دن رات کا آنا جانا ، سونا ، جا گنا ، گاڑیوں وغیرہ کا چلنا پھرنا سب داخل ہیں.اسی طرح پر باقی چار کو بھی قیاس کر لو.جس قدر واقعات ظاہری یا باطنی ظاہر ہو رہے ہیں.وہ انہیں پنج اقسام میں محصور ہیں.اور یہ سب کے سب بالاجماع دلالت کرتے ہیں کہ انَّمَا تُوعَدُونَ
حقائق الفرقان ۱۱۸ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت ہواؤں کو دیکھو.عام حالت میں کہ کیسی صاف و صحت بخش اور جان فزا ہوتی ہیں.مگر دوسرے وقت میں بھی ہوا ئیں تند اور تیز ہو کر دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیتی ہیں اور ایک عجیب امتیاز کے ساتھ بعض کو حوادث سے بچاتی اور بعض کو تباہ کرتی ہیں اور ایسے حوادث اتمام حجت کا باعث ہو جاتے ہیں.الغرض یہ نظام ظاہری کی تقسیم خمسہ ہزاروں دلائل کا لشکر ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو وعدے دیئے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے.جس طرح ہوا صحت بخش اور جان افزاء ہے.اسی طرح امر رسالت بھی جان فزاء تو ہے مگر اس کی قدر نہ کی گئی تو بالآخر اس میں ہوا کی طرح اشتداد پیدا ہوگا.یہ رسالت دنیا میں منتشر ہو جاوے گی اور اس کے ذریعے کا ذبوں اور صادقوں میں امتیاز ہوگا اور منکروں پر اتمام حجت اور باعث عذاب ہوگا.یہی ہوا جس نے قوم عاد کو ہلاک کیا تھا لطف حق با تو مواسا با کند چوں که از حد بگذرد رسوا کند إذَا النُّجُومُ طمست.جب چھوٹے چھوٹے ستارے ماند پڑ جاویں گے یا ان کا نورمٹ جاوے گا.نجم عربی میں چھوٹے ستاروں اور چھوٹے چھوٹے بوٹوں کو کہتے ہیں جیسے فرمایا.وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ يَسْجُلان (الرحمن: ۷) اور بڑے ستاروں کو کو کب کہتے ہیں.چونکہ قرآن شریف کے لئے ظہر اور بطن ہے اس لئے علامات قیامت سے یہ بھی ایک علامت ہے کہ ایسے علماء جو نجوم کی طرح ہیں.ان کی نور فراست جاتی رہے گی.دوسری جگہ فرمایا: وَ إِذَا النُّجُومُ الكَدَرَتْ - (التكوير : ۳) علماء کا نورانی چشمہ مکدر ہو جائے گا.بیچارے کیا کریں.تفسیروں پر تفسیریں لکھی گئی ہیں اور حاشیوں پر حاشیے چڑھائے گئے.یہ تو حال علماء کا ہوا.جو راہ یابی کے لئے بطور نجم کے نشان دہ تھے.باقی رہے حقانی علماء ان کے لئے حدیث شریف میں آیا ہے کہ يُقْبَضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاء یعنی حقانی علماء کے مرنے سے علم دنیا سے جاتا رہے گا.ل خدا تعالیٰ کارحم تجھے آسائشیں عطا کرتا ہے لیکن جب انسان ان آسائشوں میں زیادہ مبتلا ہو جاتا ہے تو رسوا ہو جاتا ہے.ہے اور بیلیں اور درخت اور تارے سجدہ کر رہے ہیں.سے اور ستارے مدھم پڑ جائیں.
حقائق الفرقان ۱۱۹ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت قرآن شریف میں بھی اِذَا الكَواكِبُ انْتَثَرَتْ (الانفطار: ۳) یعنی بڑے ستارے جھڑ پڑیں گے کہہ کر علماء ربانی کی وفات اور قبض علم کی طرف اشارہ کیا ہے.وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْ - جب آسمان شگافتہ ہو جاوے گا.اور دوسری جگہ قرآن شریف میں اِذا السماء انشقت ( الانشقاق: ۲) فرمایا ہے.آسمان کا شگافتہ ہونا یا پھٹ پڑنا سماوی بلیات و کثرتِ حوادث سے مراد ہے.جیسا کہ شدتِ مصائب کے وقت کہتے ہیں کہ آسمان ٹوٹ پڑا.تباہ کن بارشوں کے وقت بھی یوں ہی کہتے ہیں کہ آسمان ٹوٹ پڑا یا پھٹ پڑا.وَإِذَا الْجِبَالُ نُسِفَت.جس وقت پہاڑ اڑا دیئے جاویں.یعنی بڑی بڑی قو میں نیست و نابود کر دی جاویں گی.تاریخوں میں تو بہت کچھ لکھا ہے مگر آنکھوں کے سامنے ہی کا معاملہ ہے کہ وہ شوکت اور قوت سکھوں کی جو پنجاب میں تھی.کہاں گئی ؟ دوسری جگہ قرآن شریف میں یہی لفظ اس ترتیب سے آیا ہے.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ يَنْسِفُهَا رَبِّي نَسُفًا - (طه: ١٠٦) لے وَإِذَا الرُّسُلُ أَقتَت.جب رسول وقت مقررہ پر جمع کئے جائیں گے.قیامت کے روز وقت مقررہ پر اپنی اپنی امتوں کا حال بتانے کے لئے رسول تو اکٹھے کئے ہی جائیں گے مگر دنیا میں بھی تحقیق المذاہب کے بڑے بڑے جلسے، جن میں ہر مذہب کے لیڈروں کو اپنے اپنے بیان کے لئے وقت دیا جاتا ہے.یہ بھی تو قیت رسل کا ایک نظارہ ہے.لاي يَوْمٍ أَجِلَتْ لِيَوْمِ الْفَصْلِ.یہ وعدے کب پورے ہوں گے؟ فیصلہ کے دن پورے ہوں گے.آخرت میں یہ وعدے پورے ہوں گے.ہمارا ایمان ہے.مگر علامات کبرای اشراط الساعة کے طور پر یہ وعدے دنیا میں اس وقت بھی پورے ہوئے اور ہور ہے ہیں.بہت سارے مباحث جن کا فیصلہ مولوی ملاؤں کے ہاتھوں سے نہیں ہو سکتا تھا.ان کا فیصلہ مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ پر ہو گیا.عیسائیوں کا فیصلہ ڈوئی اور آتھم کے ذریعہ سے ہو گیا.آریوں کا فیصلہ لیکھرام کے ذریعہ سے ا اور تجھ سے پوچھتے ہیں پہاڑوں کی طرح جو سلطنتیں ہیں اُن کا حال.تو جواب دے اڑا دے گا میرا رب ان کو بالکل خاک دھول بنا کر.
حقائق الفرقان ۱۲۰ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت ہو گیا.سکھوں کا فیصلہ باوانا نک علیہ الرحمتہ کے ذریعہ سے ہو گیا.وَيْلٌ يَوْمَيذٍ لِلمُكَذِّبِينَ.جہاں قرآن شریف میں تکرار لفظی کے ساتھ کئی بار اس جملہ کو دہرایا ہے.وہاں خصوصیت کے ساتھ مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے متعلق پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ الفاظ مطابقت کے لئے اشارہ کر رہے ہیں جس میں مسیح موعود کے کا فرگش دم کی نسبت فرمایا ہے کہ لَا يَحِلُّ لِكَافِرٍ أَنْ تَجِدَرِيحٌ نَفْسِهِ إِلَّا مَاتَ وَ نَفْسُهُ يَنْتَهِيَ حَيْثُ يَنْتَهِيَ طَرَفَةً یہ مکذبین کے لئے ویل کا دن اور یوم الفصل ثبوت ہے اس بات کا کہ اس کے بعد یوم القیامۃ جزا سزا کا بڑا دن بھی آنیوالا ہے.حدیث شریف میں جو مسیح موعود کے انفاس کا ذکر ہے اس سے مراد آپ کے دلائل قاطعہ اور پیشین گوئیاں ہیں.چنانچہ انفاس کو اس شعر میں ملفوظات نبوی کہا ہے.اهل الْحَدِيثِ هُمْ أَصْحَبُ النَّبِي وَإِنْ لَّمْ يَصْحَبُوا نَفْسَهُ أَنْفَاسَهُ صَحِبُوا اس آیت شریفہ کو اس سورۃ میں بار بار لا کر یہ یقین دلایا ہے کہ منکرین و مکذبین رسالت ہرگز ہرگز فوز وفلاح کے وارث نہ ہوں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۱٬۳۰۰) اللہ اس سورۃ شریف میں ایک عجیب نظارہ دکھلاتا ہے.اور فرماتا ہے کہ سوچو.بہار کی لطیف ہوا کیسی فرحت بخش ہوتی ہے.ایک نوجوان اس وقت سڑک پر چلتا ہو تو اس کی زبان سے بھی ایک فقرہ ضرور نکل جاتا ہے.وَالْمُرْسَلتِ عُرفا وہ ہوا میں جو دل کو خوش کر نیوالی ہوتی ہیں تم جانتے ہو کہ بعض وقت ہوا کا ایک لطیف جھونکا چلتا ہے کہ اس لطیف جھونکے سے دل خوش ہو جاتا ہے.پھر وہی ہوا آہستہ آہستہ چلتی اور روح دروں کو خوش کر نیوالی یکدم ایسی بڑھ جاتی ہے کہ ایک تیز آندھی بن جاتی ا ترجمہ از مرتب: مسیح موعود کے انفاس سے کوئی کافر زندہ نہیں بچ سکے گا اور اس کے انفاس وہاں تک پہنچیں گے جہاں تک اس کی نظر جائے گی.۲ اہل حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں اگر چہ انہیں آپ کی ذات کی صحبت میسر نہیں آئی مگر وہ آپ کے انفاس یعنی ملفوظات کے اصحاب ہیں.
حقائق الفرقان ۱۲۱ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت ہے.میں نے ایسی آندھیاں دیکھی ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا.بہت سے جانور دریاؤں میں گر جاتے ہیں بہت سے پرند درختوں سے گر جاتے ہیں اور دریا وغیرہ کے درخت جو سرو کی قسم سے وو ہیں اس طرح گرتے اور اُڑتے ہیں کہ نیچے بیٹھے ہوئے آدمی کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہتا.” و النشرات نَشْرًا.ایسی بھی ہوائیں ہوتی ہیں کہ پانی کو اٹھاتی ہیں.بادل لاتی ہیں.پھر ایسی ہوائیں بھی ہوتی ہیں فالفرقتِ فَرْقًا.وہ فرق کر دیتی ہیں.بادلوں کو اس طرح اڑا کر لے جاتی ہیں جیسے روئی کا گالا.خدائے تعالیٰ کا کلام بھی انسان کے کان میں ہوا ہی کے ذریعہ پہنچتا ہے.ہوا کی لہریں بھی دماغ کے پردوں کو متحرک کر دیتی ہیں.وہ ہوائیں المُرسلت ہوتی ہیں اور وہی آوازیں بھی کان میں پہنچاتی ہیں اور وہ آوازیں.کبھی خوشی کی ہوتی ہیں کبھی رنج کی ہوتی ہیں جو عاصفات کا رنگ پیدا کر دیتی ہیں.مؤمن کی شان میں ایک ایسا لطیف فقرہ ہے.دنیا میں کوئی دکھ کو پسند نہیں کرتا.قرآن شریف میں ہے فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرہ:۳۹) اگر تم مومن ہو اور سکھ چاہتے ہو تو اس کتاب کی اتباع کرو.اب دور دراز سے خبریں آتی ہیں کہ مسلمانوں کو یوں شکست ہوئی.یوں تباہ ہوئے.ایک شخص کا میرے پاس خط آیا.وہ لکھتا ہے کہ مجھ کو دہریہ نام کا مسلمان ملا.وہ کہنے لگا.خدا تعالیٰ تو اب مسلمانوں کا دشمن ہو گیا ہے.لہذا ہم اسلام سے ڈرتے ہیں کہ کہیں خدا ہمارے پیچھے بھی نہ پڑ جائے.اس لئے ہم تو اسلام کو چھوڑتے ہیں.بھلا اس سے کوئی پوچھے کہ اس نے مسلمانوں جیسے کیسے کام کئے.مسلمان اپنے اعمال کو ٹھیک کرتے اور پھر دیکھتے.فَالْمُلْقِيتِ ذِکرا.ہواؤں میں وہ ہوائیں بھی ہیں کہ تم کو یاد دلانے کے لئے چلاتے ہیں یعنی لوگوں کے مونہہ سے تم کو سنواتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی نہ کرو.ایک بڑا حصہ مسلمانوں کا ایسا ہے ا پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے اس اُس وقت جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ نمگین ہوگا.
حقائق الفرقان ۱۲۲ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت کہ اس کو اسلام کی خبر بھی نہیں.اور اگر خبر ہے تو عامل نہیں.میں تم کو بہت مرتبہ قرآن سناتا ہوں.بعض کہتے ہیں کہ ہزاروں مرتبہ توسن چکے ہیں.کہاں تک سنیں ؟ عذرا أو تن را.ہم تو اس واسطے تم کو قرآن سناتے ہیں کہ کوئی عذر باقی نہ رہے اور تم میں سے کوئی تو ڈرے! فَإِذَا النُّجُومُ.پھر ایسا وقت بھی آجاتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر دنیا سے مٹ جاتے ہیں.پھر تو کوئی قرآن سنانے والا بھی نہیں ملتا.زمینداروں، دکانداروں کو فرصت کہاں.میں نے صرف ایک شہر ایسا دیکھا ہے کہ جمعہ کے دن بازاروں کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور سب جمعہ میں حاضر ہو جاتے ہیں.کوئی مسلمان بازار میں نہیں پھر سکتا.اور وہ شہر مدینہ ہے.مکہ میں بھی ایسا نہیں.یہ بھی چالیس پچاس برس کی بات ہے.اب کی کیا خبر ہے.دکاندار ، حرفہ والے ملازم اپنے کاموں کی وجہ سے رہ جاتے ہیں.عورتیں اور بچے جاتے ہی نہیں.آجکل لوگوں نے کتا ہیں لکھی ہیں کہ جمعہ کوئی ضروری چیز نہیں.عالمگیر نے ایک ایسی کتاب لکھوائی تھی.اس میں عجیب عجیب ڈھکو نسلے ادھر اُدھر کے بھر دیئے ہیں اس کے سب لوگوں میں سستی ہوئی اور اب تو صاف صاف جمعہ کی مخالفت میں کتا ہیں چھپنے لگیں.کوئی لکھتا ہے کہ قربانی کی ضرورت نہیں.ایک اخبار نے لکھا تھا کہ حج میں روپے خرچ کرنے کی بجائے کسی انجمن میں چندہ دے دے.ایک شخص نے قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے.اور روزوں کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر امیر ہو تو کھانا دے دے.غریب کو تو ویسے بھی معاف ہی ہے.ایک شخص لکھتا ہے کہ وَذَرُوا الْبَيْعَ (الجمعہ :۱۰) ہرقسم کا بیچ چھوڑ دو.پس ہر قسم کی بیع ہونی چاہیے.جہاں ہر قسم کی بیج نہ ہو وہاں جمعہ ضروری نہیں.میں نے کہا کہ ہر قسم کی بیع تو لندن میں بھی نہیں ہوئی.إِذَا النُّجُومُ.علماء یوں تباہ ہو رہے ہیں.قرآن کے حقائق یوں کھل جائیں گے.اور بڑی بڑی سلطنتیں بھی قائم ہو جائیں گی.ہمارے بعض دوست کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سمجھ لیا ہے.دیکھو خوشی کی خبر میں غم سے یوں
حقائق الفرقان ۱۲۳ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت مبدل ہو جاتی ہیں جیسے مرسلات ، عصفات نفس کو اس کا مطالعہ کراؤ.شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے.وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے.ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے.اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سن سکے.ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے.پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں؟ فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان ، کان ، آنکھ ، ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کریں.ایک حضرت شاہ فضل الرحمان صاحب گنج مراد آبادی گزرے ہیں.ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ بہشت میں جائیں گے تو کیا کام کریں گے.فرمایا.ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے پاس حوریں آئیں.ہم نے ان سے کہا.جاؤ بیبیو.قرآن پڑھو.قرآن خدا کی کلام اور اس کی کتاب ہے.جس قدر کوئی اللہ تعالیٰ سے تعلق رکھے گا.اسی قدر جناب الہی اس کو پکارے گا.تو اس کی بات فورا سنی جائے گی.۲۱.اَلَمْ نَخْلُقُكُمْ مِنْ مَاءٍ مَّهِينٍ - ترجمہ.کیا ہم نے تم کو ذلیل پانی سے پیدا نہیں کیا.(حیات نور صفحه ۵۵۳) تفسیر.مِنْ مَاءٍ مھین.حقیر پانی سے.تھوڑے ناقدرے پانی سے.نبی ، ولی ، رسول، بادشاہ ، امیر، فقیر.سب ہی اس ماء مہین سے بنے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۱) ۲۲.فَجَعَلْنَهُ فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ - ترجمہ.پھر ہم نے اس کو محفوظ جگہ میں.تفسیر قرار نمکین.ٹھہرنے کی جگہ محفوظ جگہ.عورت کے رحم میں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۱) ۲ ، ۲ - اَلَم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَاتًا - أَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا - ترجمہ.کیا ہم نے زمین کو زندوں اور مردوں کے واسطے ساتھ ملانے والی نہیں بنایا ( کافی نہیں بنایا).
حقائق الفرقان ۱۲۴ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت تفسیر.کیا نہ بنایا ہم نے زمین کو سمیٹنے والی زندوں کی اور مردوں کی.کفاٹا کے معنے سمیٹنے والی اپنی طرف کھینچنے والی.ایک حدیث میں یہ لفظ اس طرح آیا ہے.اَكْفِتُوا صِبْيَانَكُمْ عِنْدَ انْتِشَارِ الظُّلَامِ فَإِنَّ فِي هَذِهِ السَّاعَةِ لِلشَّيْطَنِ خَطْفَةً یعنی سمیٹ لو اپنے بچوں کو شام کے اندھیرے کے وقت.کیونکہ اس وقت شیطان جھپٹا مارلیا کرتا ہے.یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ شام کے اندھیرے کے قریب اکثر مویشی وغیرہ بڑی سرعت اور تیزی کے ساتھ چرا گاہوں سے دوڑتے ہوئے مکانوں کی طرف آتے ہیں.ایسے وقت میں بچوں کا درمیان آپڑنا ضر ر اٹھانے کا باعث ہوتا ہے.والدین یا سر پرستوں کو ہدایت فرمائی کہ ایسے وقت میں بچوں کو اپنی طرف کھینچ لو.باہر نہ نکلنے دو.اجرام موذیہ کا انتشار بھی اسی وقت ہوتا ہے.غرض کہ کفاتا کے معنے کھینچنے اور سمیٹنے کے ہیں.خواہ مُردہ ہوں یا زندہ ، تر ہو یا خشک.نباتات ، جمادات ، حیوانات ، سب کو زمین اپنی قوت جاذبہ اور قوت کشش سے اپنی طرف کھینچ رہی ہے.مسیح کی موت حیات کا مسئلہ اس آیت سے بخوبی حل ہوتا ہے.آیت شریفہ بتلا رہی ہے کہ مسیح ہوں یا اور کوئی دوسرا جاندار ، مُردہ ہو یا زندہ، کسی کو بھی زمین نہیں چھوڑتی کہ اس سے جدا ہو کر نکل جاویں اگر پرندے اڑتے ہیں.تو تھوڑے عرصہ بعد پھر زمین ہی کی کشش سے اس کی طرف کھینچے چلے جاتے ہیں.اگر پتھر اوپر کو پھینکا جاوے.تو زمین ہی کی کشش ہے کہ اس کو نیچے لا گراتی ہے.زمین کی اس قوت کشش کو سائنس کی تحقیقات میں گراوٹیشن پاور کہتے ہیں.جس کو اس آیت میں کفا تا کہا ہے.كفانا گفت لغت سے نکلا ہے نہ کہ کفن یکفی سے کفی یکفی کے معنے کا فی ہونا.اور اکفات کے معنی اپنی قوت کشش سے چیزوں کو اپنی طرف کھینچنا اور سمیٹنا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۱) عیسٰی علیہ السلام آسمان پر نہیں اُڑے.قرآن کریم اس کی تکذیب کرتا ہے.قرآن ایک کلی قاعدہ ہر ایک ذی حیات کے لئے باندھتا ہے.اور اس قاعدہ کلیہ سے کسی کو مستے نہیں کرتا.اس کے خلاف اعتقاد رکھنے والا قرآن کریم میں بتائی ہوئی خدا کی سنت کا مکذب اور بے ایمان ہے.وہ آیت
حقائق الفرقان ۱۲۵ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت یہ ہے.اَلَم نَجْعَلِ الْأَرْضَ كِفَانَا - اَحْيَاء وَ اَمْوَاتًا المرسلت : ۲۷۲۶).ہم نے زمین کو مردوں اور زندوں دونوں کو اپنی طرف جذب کر نیوالی بنایا.اس کی کشش ثقل کسی کو اپنے اندر اور اپنے اوپر لینے اور رکھنے کے سوا چھوڑتی ہی نہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۲۶) ۱- انْطَلِقُوا إِلى ظِلَّ ذِي ثَلَثِ شُعَب - ترجمہ.تین شاخوں والے سایہ کی طرف چلو.تفسیر - ظلَّ ذِي خَلتِ شعب کسی سایہ کے تین ہی فائدے ہو سکتے ہیں ا.اوپر کی تپش سے بچائے ۲.گردو پیش کی لپٹ سے بچائے ۳.شرارے اور چنگاریوں سے امن حاصل ہو.دوزخ کے دھوئیں کا سایہ.اس میں یہ صفتیں کہاں؟ قرآن شریف کی باہمی آیات میں کچھ نہ کچھ ربط مطالب کے لحاظ سے ضرور رہتا ہے.دجالی فتنوں کا ثبوت قرآن شریف کی اس آیت سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیا ہے.جو سورۃ الدخان میں ہے.لے يوم تأتي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ - (الدخان: ۱) عیسائیوں کی نجات کا اعتقاد باپ بیٹا.روح القدس.ان تینوں کے معجون مرکب پر ہے.ان تینوں کا جزو اعظم بیٹا ہے.جو زمین کی اس کشش پر جس کا ذکر ماقبل آیت میں ہے ، غالب آ کر زندہ آسمان پر چڑھ گیا ( خدا کا بیٹا جو ہوا.اس کو گراوی ٹیشن کی کیا پر واہ.) آیت باب میں اسی معجون مرکب کو ثَلث شُعَبِ سے تعبیر کیا ہے.ربط آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ نجات کے لئے نہ باپ کا سایہ ہوگا.نہ بیٹے کا.نہ روح القدس کا.ہوں گے اس وقت سبھی موجود.مگر جس سایہ کی طرف جاویں گے آرام یا نجات نہ ہوگی.اللہ اَعْلَمُ وَ عِلمه اتمی جزا سزا اور اعمال میں مناسبت کا ہونا ضروری ہے جو ان دو آیتوں سے ثابت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۱) -۴۰ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ كَيْدُ فَكِيدُونِ - ترجمہ.پس اگر تمہارے پاس کوئی تدبیر ہے تو تم مجھ سے کر گز رو ( مجھ پر چلا کر دیکھو ).اے جس دن آسمان لے آوے ایک ظاہر دھواں.3 GRAVITATION POWER سے اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس کا علم سب سے زیادہ کامل ہے.
حقائق الفرقان ۱۲۶ سُوْرَةُ الْمُرْسَلت تفسیر.کتنا بڑا کید ہے کہ ایک دو تین کو جمع کرنے سے تین نہیں ہوتے بلکہ ایک ہی ہوتا دو 1=1+1+1-4 ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۱) ۴۷- كُلُوا وَ تَمَتَّعُوا قَلِيلًا إِنَّكُمْ مُجْرِمُونَ - ترجمہ.تم کچھ کھا لو اور تھوڑے دن گزران کر لو کیونکہ تم مجرم ہو.تفسیر.سورۃ کا اکثر حصہ مذہب عیسوی کے اوپر مشتمل ہے.اس میں شک نہیں کہ گرجا کے خادموں کو کھانے پینے کے لئے با فراغت مل جاتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۱) ٤٩ وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ ارْكَعُوا لَا يَرْكَعُونَ - ترجمہ.اور جب ان سے رکوع کو کہا جائے تو وہ رکوع نہیں کرتے.تفسیر.نماز میں عیسائیوں کی رکوع نہیں صرف ( نیل ڈاؤن )لے گھٹنے ٹیکنا ہے وبس.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد۱۱ نمبر ۲۶ مورخہ ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۲٬۳۰۱) ۵۰- فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ ترجمہ.پس اس کے بعد کونسی حدیث پر تم ایمان لاؤ گے.تفسیر.اس کے یہ معنے نہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحیح حدیثوں کو بھی نہ مانو.وَ إِذْ أَسَر النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا (التحریم: ۴) میں بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہی کا ذکر ہے.وہاں بھی اِنْ تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا (التحریم: ۵) آیا ہے.ایسے اعتقاد سے تو بہ کرنالازم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۲۶ مورخه ۱۷۱۱ پریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۲) ل KNEEL DOWN ہے اور جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے کوئی بات چپکے سے کہی تھی.س اگر تم اللہ کی طرف جھک جاؤ (اے بیبیو! تو بہتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل اللہ کی طرف جھکے ہوئے ہیں.
حقائق الفرقان ۱۲۷ سُورَةُ النَّبَا سُورَةُ النَّبَامَكِيّة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ نبا کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۳۲- عَمَّ يَتَسَاءَلُونَ - عَنِ النَّبَا الْعَظِيمِ - ترجمہ.کس چیز کا حال یہ کا فرآ پس میں پوچھ رہے ہیں.( کیا ) اس بڑی خبر کا.تفسیر - النبا العظیم - نباء عظیم قیامت کے وقوع کا دن ہے.جس میں ان کو اختلاف تھا.نباء عظیم الشان بات.پھر اس کے ساتھ تعظیم کے لفظ کو اہمیت کے اظہار کے لئے اور بھی بڑھا دیا.ہو سکتا ہے کہ نباء عظیم سے مراد قرآن مجید اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا دعویٰ بھی مراد ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۲) ترجمه كلا سَيَعْلَمُونَ - نہیں نہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ قریب ہی جان لیں گے.تفسیر.گلا زجر اور تو یخ کا کلمہ ہے.بیان ماقبل کے رڈ کے لئے آتا ہے.سوق نہیں فرمایا.س جو شتابی اور بے درنگی پر دلالت کرتا ہے لا کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ قیامت کبرای کے ثبوت کے لئے اس سے پیشتر ایک اور قیامت خیز واقعہ فتح مکہ وغیرہ کا بھی ہوگا.جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا.وَلَنُذِييُقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ - (السجدة : ۲۲) یہ سورہ شریف کی ہے.ایسے وقت کی نازل شدہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تنہا تھے.اس وقت یہ عظیم الشان پیشگوئیاں دنیا کو سنائی گئیں.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی صداقت اور قیامت کے ثبوت کے واسطے بین دلائل ہوئیں.اس زمانہ کے مادہ پرست لوگ غور کریں لے اور ضرور ہم ان کو چکھائیں گے بڑے عذاب کے سوا دنیا کے عذاب سے (ہی).
حقائق الفرقان ۱۲۸ سُورَةُ النَّبَا کہ کیا کوئی انسان اپنی تدبیر اور فکر سے ایسی تحدی کے ساتھ اتنا بڑا دعوئی خلقت کے سامنے پیش کر سکتا ہے.کیا ایسی شاندار بات کوئی شخص صرف انکل بازی سے کہہ سکتا ہے؟ قیامت کے منکرین کے واسطے یہ دلائل نہایت ہی فائدہ بخش ہو سکتے ہیں.بشرط آں کہ کوئی (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۲) غور کرے.ے.اَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهْدًا - ترجمہ.کیا ہم نے زمین کو گہوارہ نہیں بنایا.تفسیر.جَعَل.پہلے پہل پیدا کیا.مہاد بمعنی ممهود اسم مصدر.اسم مفعول کے معنے میں ہے.دوسری جگہ فرما یا جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا (البقرة:۲۳) معلوم ہوا کہ مھا دہونا بھی زمین کی ایک صفت ہے اور فراش ہونا بھی ایک صفت ہے.چونکہ قیامت کے وقوع میں استبعاد عقلی ظاہر کیا گیا تھا.اس لئے اپنی قدرت کاملہ سطوت اور جبروت کے چند ایک نظارہ قدرت کو پیش کیا.مثلاً جبال ، خلق از واج، نوم وسبات، سبع شهداد ، سراج وتاج وغیرہ کئی ایک عظیم الشان مشہو دقدرتوں کو پیش کیا تا کہ عجز کا وہم دور ہو.مهد.گہوارے کو کہتے ہیں.زمین بھی ایک گہوارے کی طرح ہے.سورج کے گرد گردش کرتی ہے.انسان کا یہ گہوارہ ہے.مٹی سے وہ پیدا ہوتا ہے.پھر مٹی میں مل جاتا ہے.پھر مٹی سے اٹھایا جاوے گا.اس زمین پر جزا و سزا کے اعمال کا ایک نقشہ اپنے سامنے دیکھتا ہے.- وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا - ترجمہ.اور پہاڑوں کو میخیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۲) تفسیر - آفتادًا - وئد کی جمع - وتد بمعنی کھونٹی جس سے اس جگہ مضبوطی جبال کا اظہار بھی مقصود.ہے.پہاڑ ثقل ارض کو ایک اندازہ پر رکھنے والے ہیں.آجکل کے سائنسدانوں نے بھی اس امر کو تسلیم لے وہ رب جس نے ( چکر کھانے والی ) زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا
حقائق الفرقان ۱۲۹ سُورَةُ النَّبَا کر لیا ہے کہ اگر زمین پر پہاڑ نہ ہوتے تو وہ جنبش کرتی رہتی.اس میں زمین کی پیدائش اور بناوٹ کی طرف اشارہ ہے.اور ان فوائد کی طرف توجہ دلائی ہے.جو پہاڑوں سے اہلِ زمین کو حاصل ہیں.چنانچہ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.وَ اَلْقَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ (لقمان: ۱۱) رکھے ہیں زمین میں پہاڑتا کہ وہ تمہیں کھانا دیویں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱ را پریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۲) حضرت خلیفتہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے اپنی تصنیف ”نورالدین میں پہاڑوں کے بارے ص میں مزید تحریر فرمایا ہے.اعتراض.زمین پر پہاڑ اس لئے رکھے کہ وہ آدمیوں کے بوجھ سے ہل نہ جاوے؟ الجواب.قرآن کریم میں اس مضمون کی آیت تو کوئی نہیں.البتہ یہ آیت ہے.و الفى في الْأَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيدَ بِكُمْ وَأَنْهَرا وَسُبُلًا لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.(النحل: ۱۲) اس آیت میں ان تمید یکم کا لفظ ہے.جس کے معنے تمہیں بتاتے ہیں.اور دوسری آیت اسی مضمون کی یہ ہے.وَ جَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيدَ بِهِمْ وَ جَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَّعَلَهُمْ يَهْتَدُونَ (الانبیاء:۳۲) دونوں میں تمید کا لفظ ہے.جو جہالت کے سبب سے دشمن اسلام کی سمجھ میں نہیں آیا.سنو! لغت عرب میں ہے.مَادَنِي يَميدُني.أطعمني (مفردات القرآن للراغب) اور مید کے معنے ہلنا.دیکھو.مَادَ يَميدُ مَيْدًا و مَيْدَانًا تَحَرَّكَ (قاموس اللغة مَادَهُمْ أَصَابَهُمْ دَوَارُ (قاموس) وَالْمَائِدَةُ الدَّائِرَةُ مِنَ الْأَرْضِ ( قاموس ) ان معنوں کے لحاظ سے جو مادَنِي يَمیدانی کے کئے گئے ہیں.اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ رکھے زمین میں پہاڑ اس لئے کہ کھانا دیں تمہیں.اور یہ ظاہر بات ہے کہ پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے کہ ان میں ے اور رکھ دیئے زمین میں پہاڑتا کہ زمین زلزلہ کھائے تمہارے ساتھ اور ندیاں اور راستے بنائے تا کہ تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ.ہے اور ہم نے پیدا کئے زمین میں پہاڑ ایسا نہ ہو کہ زمین لوگوں کو لے کر جھک پڑے اور اس میں کھلے کھلے رستے تاکہ لوگ راہ پا جائیں.
حقائق الفرقان ۱۳۰ سُوْرَةُ النَّبَا سے برفیں پگھلیں ، چشمیں جاری ہوں، ندیاں نکلیں.پھر ان کے سیل پر اس سطح سے جس میں ریگ ہوتی ہے.پانی مصفی ہو کر کنوؤں میں آتا ہے.پھر اس سے کھیت سرسبز ہوتے ہیں.یہ بھی ایک سلسلہ علاوہ رحمت کے سلسلے کے ہے.جو بارانِ رحمت الہیہ سے ہے.جس کا ذکر اس کلمہ طیبہ میں ہے.ذکراس وَ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ - (البقره: ۲۳) اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ ہم نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ چکر کھاتے ہیں ساتھ تمہارے.یہ الہی طاقت کا ذکر ہے کہ اس نے اتنے بڑے مستحکم مضبوط پہاڑوں کو بھی زمین کے ساتھ چکر دے رکھا ہے اور نظام ارضی میں کوئی خلل نہیں آتا.اب کوئی انصاف کرے کہ کن معنی پر اعتراض کی جگہ ہے.ہم نے تصدیق براہین احمدیہ کی جلد دوئم میں اس مضمون پر بسط سے کلام کیا تھا.اس مسودے سے بھی یہاں مختصراً کچھ نقل کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے.مکذب براہین احمدیہ کے اعتراض کا تیسرا حصہ یہ تھا.اہلِ اسلام کے نزدیک پہاڑ بمنزلہ میخوں کے زمین پر ٹھونکے گئے.یہ خام خیالی ہے.الجواب : خام خیالی کا دعوی کرنا اور ثبوت نہ دینا.یہ بھی معترض کی خام خیالی ہے.و انفی في الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِكُمْ وَ بَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِ دَابَّةٍ - (لقمان:۱۱) اور آیت کریمہ وَالْجِبَالَ أَوْتَادًا.ایک نہایت سچی فلسفی ہے اور اس سچی فلسفی پر جدیدہ علوم اور حال کے مشاہدات گواہی دیتے ہیں.اور انہی مشاہدات سے بھی ہم گزشتہ دیرینہ حوادثات کا علم حاصل کر سکتے ہیں.طبقات الارض کی تحقیقات اور مشاہدات سے اچھی طرح ثابت ہوسکتا ہے کہ اس زمین کا ثبات وقرار اضطرابات اور زلازل سے خالق السموات والارض نے تکوین جبال اور خلق کو ہسار سے ہی فرمایا ہے اور زمین کے تپ لرزہ کو اس علیم وقدیر نے تکوین جبال سے تسکین دی ہے.چنانچہ علم طبقات الارض میں تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ زمین ابتدا میں ایک آتشین گیس تھا.جس کی بالائی سطح پر دھواں اور دخان تھا.ا اور برسایا بادل سے پانی پھر اُگا ئیں اس کے ذریعہ سے کھانے کی چیزیں تمہارے لئے.۲.اور رکھ دیئے زمین میں بھاری بوجھ کہ وہ تم کو لے کر نہ جھک پڑے اور پھیلا دیئے زمین میں سب طرح کے جاندار.۳.اور پہاڑوں کو میخیں.
حقائق الفرقان ۱۳۱ سُورَةُ النَّبَا اور اس امر کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے.جہاں فرمایا ہے.ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دخان - حم السجدہ : ۱۲ ) پھر وہ آتشین مادہ اوپر سے بتدریج سرد ہو کر ایک سیال چیز بن گیا.جس کی طرف قرآن شریف نے ان لفظوں میں اشارہ فرمایا ہے.وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ (هود: ۸) پھر وہ مادہ زیادہ سرد ہو کر اوپر سے سخت اور منجمد ہوتا گیا.اب بھی جس قدر اس کی عمق کو غور سے دیکھتے جاویں.اس کا بالائی حصہ سرد اور نیچے کا حصہ گرم ہے.کوئلوں اور کانوں کے کھودنے والوں نے اپنی مختلف تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا ہے.گو اس نتیجہ میں فلاسفروں کو اختلاف ہے کہ ۳۶ مائل عمق سے نیچے اب تک ایک ایسا ذوبانی اور ناری مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصور سے بالا ہے.(اسلام نے بھی دوزخ کو نیچے بتایا ہے) جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی نہ تھی.اس وقت زمین کے اس آتشین سمندر کی موجوں کا کوئی مانع نہ تھا.اور اس لئے کہ اس وقت حرارت زیادہ قوی تھی اور حرارت حرکت کا موجب ہوا کرتی ہے.زمین کی اندرونی موجوں سے بڑے بڑے مواد نکلے.جن سے پہاڑوں کے سلسلے پیدا ہو گئے.آخر جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی ہو گئی.اور اس کے ثبات و ثقل نے اس آتشی سمندر کی موجوں کو دبا لیا.تب وہ زمین حیوانات کی بود و باش کے قابل ہو گئی.اسی واسطے قرآن کریم نے فرمایا ہے.وَ القَى فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَنْ تَمِيدَ بِكُمْ.(لقمان:۱۱) اور اس کے بعد - فرما يا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ - (لقمان: ۱۱ ) الفى كا لفظ جو آیت القَى فِي الْأَرْضِ میں آیا ہے.اس کے معنے ہیں بنایا کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں بجائے الٹی کے جَعَل کا لفظ آیا ہے جس کے صاف معنے ہیں.بنایا.اور ان امور کی کیفیت آیت ذیل سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے.وَ جَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بَرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا ( حم السجده: ١١) اور زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھی اور اس پر ہر قسم کی کھانے کی چیزیں پیدا کیں.ایک عجیب نکتہ آپ کو سناتے ہیں.آپ سے میری مراد وہ سعادت مند ہیں جو اس نکتہ سے فائدہ پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف اور وہ دھواں تھا.۲؎ اور رکھ دیئے زمین میں بھاری بوجھ کہ وہ تم کو لے کر نہ جھک پڑے.سے اور پھیلا دیئے زمین میں سب طرح کے جاندار.
حقائق الفرقان ۱۳۲ سُورَةُ النَّبَا اٹھاویں.قرآن کریم میں ایک آیت ہے اس کا مطلب ایسا لطیف ہے کہ جس سے یہ تمہارا سوال بھی حل ہو جاوے اور قرآن کریم کی عظمت بھی ظاہر ہو.غور کرو اس آیت پر.وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ صُنْعَ اللهِ الَّذِى اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ (النمل:٨٩) اور تو پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتا ہے کہ وہ مضبوط جمے ہوئے اور وہ بادل کی طرح اُڑ رہے ہیں.یہ اللہ کی کاریگری قابل دید ہے جس نے ہر شے کو خوب مضبوط بنایا ہے.غور کرو.یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جگہ جمے ہوئے نظر آتے ہیں.اور وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۷۳ تا ۲۷۵) -- وَجَعَلْنَا نَوْمَكُمْ سُبَاتًا - ترجمہ.اور تمہاری نیند کو آرام کا موجب بنایا.تفسیر.نَوْم بھی قیامت کے ثبوت کے لئے ایک عجیب واقعہ روز مرہ کا ہے.سبات کے کئی معنے ہیں.سبات.نیند اور راحت - سبات - قطعا لأعمالِكُمْ - سبات تمدد اور کھولنے کو بھی کہتے ہیں.سَبَتَتِ الْمَرْأَةُ شَعْرَهَا.نیند بھی ایک قسم کی موت ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے پھر اس مردے کو زندہ کرتا ہے.یہ موت ناقص ہے.موت کامل کے بعد بھی انسان اسی طرح پھر اٹھایا جائے گا.یہاں اس کا ایک نمونہ دکھایا گیا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ار اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۳) -11- وَجَعَلْنَا اليلَ لِبَاسًا - ترجمہ.اور بنایا رات کو ایک پردہ.راتوں کے سبات اور آرام پانے کی وجہ سے تھکے ہوئے چہروں پر دوسری صبح جوتر و تازگی اور ر وفق آجاتی ہے.یہ بھی ایک قسم کا لباس ہے.حقیقت میں رات بندوں کے لئے بڑی پردہ پوش چیز ہے.کوئی شاعر کہتا ہے
حقائق الفرقان ۱۳۳ سُورَةُ النَّبَا لے اللَّيْلُ لِلْعَاشِقِيْنَ سِتْراً ياليتَ أَوْقَاتُهَا تَدُومُ ۱۲ - وَجَعَلْنَا النَّهَارِ مَعَاشَا - ترجمہ.اور دن کو روزی کمانے کا وقت.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ار ا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۳) تفسیر.انسان کے واسطے دن معاش کا ذریعہ اور رات آرام کا وقت بنایا ہے اور فرما یاؤ جعلنا جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا سرور عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بَاركَ اللهُ في كُورِهَا فرمایا.کس قسم کی معاش؟ دنیوی معاش اُخروی معاش کے لئے یہ جگہ ہے الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ- جیسا بیچ بوو گے.انجام کا رویسا پھل پاؤ گے.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ جو کے بونے والے کو آخر جو کاٹنے پڑیں گے.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ ء صفحه ۴) ۱۵ - وَاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرتِ مَاءً تَجَاجًا - ترجمہ.اور ٹپکنے والے بادلوں سے زور کا پانی برسایا.مُعْصِرتِ ان بادلوں کو کہتے ہیں.جن میں سپینچ کی طرح پانی بھرا ہوا ہو.جو ٹپکنے کے قریب ہو.(مُعْصِرة لغت میں اس لڑکی کو بھی کہتے ہیں جو قریب البلوغ ہو.) تیج.لازمی اور متعدی دونوں معنوں میں مستعمل ہوتا ہے.لازمی جیسے نَجَّ الْمَاءُ.پانی کثرت سے بہا.متعدی جیسے حدیث شریف میں اَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى اللهِ الْعَج والفج - عج کے معنے تلبیہ پکارنا.لبیک کہنا اور حج کے معنی قربانیوں کا خون بہانا.غرضکہ مُعْصِرت سے مَآءَ جا جا کا ہونا عبارت ہے.بارش موسلا دھار سے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ارا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴،۳۰۳) ١٨ اِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كَانَ مِيقَاتًا - ترجمہ.بے شک فیصلہ کا دن مقرر ہو چکا ہے.تفسیر.يَوْمَ الفصل.فرمایا.یوم الفصل مقرر ہے وہ یقینا آنے والا ہے.مکہ معظمہ میں یہ نبوت لے رات عاشقوں کے لئے پردہ ہے.اے کاش اس کے اوقات ہمیشگی اختیار کریں.
حقائق الفرقان ۱۳۴ سُورَةُ النَّبَا سنائی گئی اور بدر یوم الفصل اور یوم الفرقان واقعات کے رو سے ثابت ہو کر قیامت ومحشر کے واسطے (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۴) ایک بین دلیل ہے.سورۃ مرسلات میں یوم الفصل فرمایا تھا.اب اس کی تفصیل بتاتا ہے کہ یہاں تو سب کچھ ملا جلا ہے.اگر یہاں عذاب آئے تو نیک آدمیوں کو بھی دکھ پہنچتا ہے.اس لئے فیصلہ کے واسطے ایک دن مقرر ہے اور کفار کو دنیا میں بھی اس کو نمونہ دکھا یا جائے گا.( تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۷) -٢١ وَسُيِّرَتِ الْجِبَالُ فَكَانَتْ سَرَابًا - ۲۱.ترجمہ.اور پہاڑاڑیں گے، چلائے جائیں گے تو وہ ریت کی طرح ہو جائیں گے.تفسیر.آسمان سے نشانات کی بارش ہو گی.اور یہ جو بڑے بڑے پہاڑ بنے بیٹھے ہیں هَبَاء منْفُورًا (الواقعة:۷) ہو جائیں گے.( تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۷) ۲۲.اِنَّ جَهَنَّمَ كَانَتْ مِرْصَادًا - ترجمہ.بے شک دوزخ گھات میں لگی ہوئی ہے.تفسیر - مرصاداً.کے معنے کمین گاہ ، گھات ، قید خانہ ، جیل خانہ.۲۳ - لِلطَّاغِينَ مَابًا - ترجمہ.جو سرکشوں کا ٹھکانا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) تفسیر.سرکشوں کے لئے بازگشت کی جگہ.طاغین کے بالمقابل اگلی آیت میں متقین اور ان کی جزا کو بیان فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۲۶ مورخه ۱۱/اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) طاغی.سرکشی کر کے حد سے نکل جانے والا.متقی.خداوند تعالیٰ کی حد بندیوں کے اندر رہنے والا صادق آن باشد که ایام بلا می گزارد با محبت باوفا (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) 1 ( خدا کی نظر میں ) صادق وہ شخص ہوتا ہے کہ جو بلا کے دنوں کو محبت اور وفا کے ساتھ گزارتا ہے.
حقائق الفرقان -۲۴ - لبِدِينَ فِيهَا احْقَابًا - ترجمہ.اس میں صدیوں ٹھہریں گے.۱۳۵ سُورَةُ النَّبَا تفسیر.احقابا.اس سے ظاہر ہے کہ جہنم غیر منقطع نہیں جیسا جنت.وہ ایک تادیب گاہ ہے جہاں انسان کی روحانی بیماریوں کا علاج ہو کر اسے بہشتی زندگی بسر کرنے کے قابل بنادیا ہے.بہشت ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/اپریل ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۰۴) عطاء غیر مجذوذ ہے.۳۲ - إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ مَفَازًا - ترجمہ.بے شک دوزخ گھات میں لگی ہوئی ہے.تفسیر.پاس ہونے والے.کامیاب اور بامراد ہونے والے متقین ہی ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ ار ا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) ۳۴- وَكَوَاعِبَ أَتْرَابًا - ترجمہ.اس میں صدیوں ٹھہریں گے.تفسیر.كَوَاعِبَ جمع كَعْبَةٌ کی ہے.كَعْبَین پیر کے دونوں ٹخنوں کی بڑی کو کہتے ہیں گواعِبُ سے مراد وہ نو خیز، نو عمر عورتیں ہیں جن کے پستان ٹخنوں کی طرح اُبھر نے پر ہوں.( محاورہ ہے.تكَعْبَتِ الْجَارِيَةُ وَكَعَبَتِ الْجَارِيَةُ ) - ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) اتراب.اس لفظ کا اصل ترب اور تراب سے ہے جس سے مطلب خاکساری اور انکساری ہے.طاغین کی سزا کے بالمقابل اتراب یعنی منکسر المزاج عورتوں سے جزاء متقین خوب مناسبت رکھتی ہے.اثراب کے لغت کی حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل القرب کے اس بیان سے بھی خوب واضح ہوتی ہے.جو ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۷۵۰ اورصفحہ ۳۱۲ میں مذکور ہے.جہاں آپ نے تسخیر بالنظر کے عمل کو بیان فرمایا ہے.اس عمل میں معمول ( جس کو انگریزی میں سجبکٹ کہتے
حقائق الفرقان ۱۳۶ سُورَةُ النَّبَا ہیں) کا اپنے عامل کے لئے پورا منکسر المزاج، مطیع و فرمان پذیر بننا ضروری ہے.حضرت صاحب کا ایک الہام بھی ان صفحوں میں درج ہے.وہ یہ ہے.هَذَا هُوَ التَّرْبُ الَّذِي لَا يَعْلَمُوْنَ.اثر اب کے معنے ہم عمر اور ایک ساتھ مٹی میں کھیلنے والوں کے بھی بیان ہوئے ہیں.لِلنَّاسِ فِي مَا يَعْشِقُوْنَ مَذَاهِبُ شَى - ( ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) ۳۵- وَكَاسًا دِهَاقًا - ترجمہ.اور چھلکتے ہوئے پیالے اور بہت سامان کاس بھرے پیالے کو کہتے ہیں.جو پیالہ پینے کی چیز سے خالی ہو اسے کاٹس نہیں کہیں گے.پیالہ اتنا بھرا ہو کہ چھلکنے لگے.اس پیالہ کو گا سا دھاگا کہتے ہیں.ابنِ عباس سے منقول ہے.أَسْقِنَا وَاَدْهِقُ لنا یعنی پلا ہم کو اور خوب بھر کر پلا.چھاق کے معنے پے در پے کے بھی آئے ہیں ادُهَقْتُ الْحِجَارَةَ إِدْهَاقًا میں نے پے در پے پتھر چلائے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ ار ا پریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۴) ۳۹ - يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَبِكَةُ صَفًّا لَّا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَنُ وَقَالَ صَوَابًا - ترجمہ.جس دن کلام الہی اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے.کسی کے منہ سے بات ہی نہ نکلے گی مگر جسے رحمن نے بات کرنے کی اجازت دے دی اور وہ بات بھی معقول کہیں گے.تفسیر.يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلَيكَةُ الخ.حسن اور قتادہ فرماتے ہیں کہ روح سے بنی آدم اور اور ارواح ان کی مراد ہیں.لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰن میں عیسویت کے کفارہ کی تردید ہے.جن پر روح کے لفظ کا اطلاق ہے.وہ سب دست بستہ کھڑے ہیں کہ کلام کرنے کی مجال نہیں.کیا روح سے مراد صرف وہ اقنوم لیا جائے.جس نے مسیح کو کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.تو پھر بیٹے کی ایسی مٹی پلید لے یہ (علم) ترب وہ ہے جسے (دوسرے) لوگ نہیں جانتے.سے لوگ جن سے عشق رکھتے ہیں (ان کے بارہ میں ) مختلف الخیال ہوتے ہیں.
حقائق الفرقان ۱۳۷ سُورَةُ النَّبَا ہوتی ہے کہ اس بیچارہ کو بولنے تک کی جرأت نہیں.علاوہ اس کے رحمن کے معنے رحم بلا مبادلہ کر نیوالا ہے.صفت رحمانیت اور کفارہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے..........رحمانی صفت میں تناسخ کا بھی رد ہے.جو رحم بلا مبادلہ کرتا ہے.اس کو مختلف جونوں میں کتا بلا بنا کر اپنا گھر پورا کر لینے کی کیا ضرورت؟ قرآن کریم میں روح کا لفظ کلام اللہ کے لئے آیا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴) ا انَّا اَنْذَرُنَكُمْ عَذَابًا قَرِيبًا يَوْمَ يَنْظُرُ الْمَرْءُ مَا قَدَّمَتْ يَدَهُ وَ يَقُولُ الْكَفِرُ يُلَيتَنِي كُنْتُ تُربَّا - ترجمہ.بے شک ہم نے تم کو ڈرا دیا ہے قریب ہی آنے والے عذاب سے.جس دن آدمی دیکھ لے گا جو اس آنے والے کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہے اور کافر کہے گا کاش میں مٹی ہو جاتا.تفسیر ابتداء سورہ میں سَيَعْلَمُونَ دوبار کہہ کر قریب ہی آنے والے عذاب کی طرف توجہ دلایا تھا.خاتمہ سورہ بھی عذاب قریب کا ذکر فرمایا.جو یوم بدر اور فتح مکہ کے دن واقع ہوا.اور یہ عذاب کی پیشگوئیاں دنیا میں صادق ہو کر قیامت اور اس کے عذاب کے لئے ثبوت ٹھہریں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه اا ا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۴)
حقائق الفرقان ۱۳۸ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ سُوْرَةُ النزعت مكيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۃ النازعات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲- وَالتَّرْعَتِ غَرْقًا - ترجمہ.قسم ہے ان کام کرنے والوں کی جو دوسرے کاموں سے الگ ہو جا ئیں ڈوب کر.نازعات.زور سے اور تکلف سے کھینچنے والے.والنشطتِ نَشْطًا - ترجمہ.اور قسم ہے ان کی جب وہ بخوشی تمام کام کریں.تفسیر.بلاتکلف نشاط خاطر سے کھینچنے والے.-۴- والشيحتِ سَبْعًا - ترجمہ.اور قسم ہے بے روک تیرنے والوں کی.تفسیر.اپنے فن کے پیراک اور ماہر.فَالسبقتِ سَبقًا - ترجمہ.پھر حوصلہ سے آگے بڑھنے والوں کی لپک کر.تفسیر.اپنے ہم عصروں سے سبقت لے جانے والے.// // // فَالْمُدَ تِرَاتِ أَمْرًا - جمعہ.پھر قسم ہے تدبیر کرنے والوں کی حکم سے.افسران محکمہ جات اور اپنے اپنے فنون کے موجد ومد بر.
حقائق الفرقان ۱۳۹ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ مطلع سورۃ کی یہ پانچ آیتیں ہیں جو اس بات کا اظہار کر رہی ہیں کہ دینی امور ہوں یا دنیوی.ان کے انتہائے کمال پر پہنچنے کے لئے یہ پانچ مرحلے طے کرنے پڑتے ہیں.اول.کام سے ہٹانے والی چیزوں سے الگ ہو کر انسان اپنے کام میں محو ہو جائے.دوم.پورے نشاط اور خوشی سے اپنے کام کو کرے.سوم.اپنے کام میں اس طرح مشق کرے جس طرح پیراک پانی میں تیرتا ہے.اور اس کو کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی.چہارم.اپنی جماعت اور ہم عمر لوگوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے.پنجم.اپنے کام میں ایسا کمال حاصل کرے کہ خود اس میں موجد ہو جائے.مثلاً طالبعلم ہو یا تاجر.پہلے پہل اس کو ہمہ گوش و ہمہ تن ہو کر اپنے کام میں مستغرق ہونا پڑتا ہے.تب کچھ حروف شناسی یا سنبھالا پکڑتا ہے.پھر بعد اس کے نشاط خاطر سے کام چل پڑتا ہے.پھر بعد چندے طالبعلم یا پیشہ ور اپنے اپنے معانی و مطالب کے پیراک ہو جاتے ہیں.پھر اپنے ہم عصروں اور پیشہ وروں سے با یکدیگر مسابقت و پیش قدمی کرنے لگتے ہیں.آخری درجہ کمال یہ ہوتا ہے کہ موجد فن ومد بروافسر اعلیٰ بن جاتے ہیں.ملائکتہ اللہ کی خدمات بھی ان آیتوں سے مراد بھی گئی ہیں.مگر آیت اپنے عموم پر دلالت کر کے ملائکتہ اللہ کے ہم رنگ و ہم سبق ہونے کی انسانوں کو بھی تعلیم دے رہی ہیں.اور ساتھ ہی جزاوسزا کے مسئلہ کو جو مقصود بالذات ہے ثابت کر رہی ہیں.نتائج اعمال حق ہیں.کوششوں کے پھل ضرور ملیں گے.الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الْآخِرَةِ - دنیا ایک زراعت گاہ ہے.اس زراعت کے کاٹنے کا جو وقت ہے اس کا نام یوم آخرت و یوم القیامت ہے از مکافات عمل غافل مشو گندم از گندم بروید جو ز جو اللہ تعالیٰ نے قسم کے ساتھ بیان فرمایا ہے.گویا کہ ان واقعات کو جزا وسزا کے لئے گواہ ٹھہرایا ہے.اور اس آنے والے دن کے اشراط عظام ، مبادی و مقدمات یوں بیان فرمائے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخہ ۱۱ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۵٬۳۰۴) ا مکافات عمل سے غافل مت ہو کیونکہ گندم سے گندم اور جو سے جو ہی اگتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۴۰ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ ۸۷ - يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ - تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ - ترجمہ.جس دن لرزنے والی لرزے گی.ایک زلزلہ کے پیچھے دوسرازلزلہ ہے.تفسیر.زلزلے ہمیشہ آتے رہیں گے.ابتلاؤں کا آنا ضروری ہے.حدیث شریف میں آیا ہے که اشراط عظام قبل قیام ساعت جب شروع ہو جاویں گے تو ایسے لگا تا رظہور ہوں گے.جیسے تسبیح کا تا گہ ٹوٹ جانے سے منکے تسبیح کے متتابع یکے بعد دیگرے گرنے لگتے ہیں اور یہ بھی فرمایا ہے کہ اَوَّلُ الْآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا أَ وَ الدَّابَةُ أَيَّتُهُمَا خَرَجَتْ فَالْأُخْرَى عَلَى اثر تھا.سب سے پہلی نشانی جو ظاہر ہوگی وہ یا توطلوع شمس من مغر بہا ہوگی یا خروج دابہ کی ہوگی.جونسی ان میں سے پہلے ظاہر ہو گی دوسری بھی اس کے نقش قدم کے ساتھ ہی شروع ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ تیرہ سو برس گزرنے کے بعد ظہور ان آیات کا جو تعبیر طلب ہو گیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دُور کی چیز اپنی کیفیت و کمیت میں بسبب بعد مکانی کے اپنی اصلی شکل سے کچھ مغائر معلوم ہوتی ہے.اسی طرح سے پیغمبروں کے مکاشفات کا حال ہے کہ پیشگوئیوں میں جو مکاشفات کے ذریعہ سے بیان کی جاتی ہیں.بہ سبب بعد مکانی کے کچھ نہ کچھ تعبیر واقع ہو جاتی ہے.احکام و اوامر و نواہی کا ایسا حال نہیں ہوتا.اب تو کئی قسم کے زلزلے آئے اور ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱/۱۱اپریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۵) متتابع آئے.ا يَقُولُونَ وَ اِنَّا لَمَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ - ترجمہ.وہ کہیں گے کیا ہم الٹے پاؤں واپس کئے جائیں گے پہلی حالت پر.الْحَافِرَة - نشان قدم.حُفر تم کو کہتے ہیں.حُفرة گڑھے کے معنے ہیں.مَرْدُودُونَ فِي الْحَافِرَةِ.کیا ہم اپنے نقشِ قدم پر لوٹ کر پھر اگلی حالت جیسے زندہ انسان ہو جائیں گے؟ (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱ارا پریل ۱۹۱۲، صفحه ۳۰۵) ۱۵ - فَإِذَاهُمْ بِالسَّاهِرَةِ - ترجمہ.پھر ایک دم سے وہ سب میدان میں آ موجود ہوں گے.
حقائق الفرقان ۱۴۱ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ تفسیر.اَلسَّاهِرَةُ- میدانِ حشر - میدانِ جنگ.میدانِ بدر بھی اس کا مصداق تھا.۱۹.فَقُلْ هَلْ لَّكَ إِلَى أَنْ تَزَى - ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ ار ا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۵) ترجمہ.اور اس سے کہہ دے کیا تو چاہتا ہے کہ پاک ہو جاوے.تفسیر.بڑی ہی نرمی اور ملائمت سے تبلیغ کو شروع کرنے کی تعلیم فرمائی ہے.دوسری جگہ فَقُولا له قَوْلًا لينا (له : ۴۵) فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۵) ۲۱، ۲۲ - فاريه الآيَةَ الكُبرى - فَكَذَّبَ وَعَطى - ترجمہ.پھر موسیٰ نے فرعون کو بڑا نشان دکھلایا.تو اس نے جھٹلایا اور نافرمانی کی.آيَةُ اس تفسیر.آیة الکبری.عصا تھا جس کے تابع پہلی آرئیت کے وقت ید بیضا بھی تھا.اس لئے ایک ہی چیز کا ذکر فرمایا.ورنہ دوسری جگہ فرمایا ہے.وَلَقَدْ آرَيْنَهُ ايْتِنَا كُلَّهَا فَكَذَّبَ وَ آئی کے (طه: ۵۷) (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۵) ۲۵ - فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى - ترجمہ.اور کہا کہ میں تمہارا بہت بڑا رب ہوں.تفسیر - انا ربکم الاعلی.میں تمہارا بڑا رب ہوں.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۵۲) ۲۷ - إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى - جمہ.بے شک اس واقعہ میں عبرت ہے جن کو ڈر ہے.تفسیر آیہ میں اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ موسیٰ کے بیان میں مثیل موسی علیہما الصلواۃ والسلام کے لئے عبرت ہے.عبرت کہتے ہیں ایک واقعہ سے دوسرے واقعہ کی طرف پے لے جانے کو.مغبر کشتی کو کہتے ہیں.اس لئے کہ وہ اس طرف سے اُس طرف کو عبور کرنے کا آلہ ہے.لے تو تم دونوں اس سے نرم بات کہنا.ہے اور ہم نے فرعون کو دکھا دیں اپنی سب نشانیاں پھر اس نے جھٹلایا اور انکار کیا.
حقائق الفرقان ۱۴۲ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابیوں کو موسیٰ علیہ السلام کی کامیابیوں کے شیشہ میں دکھلا کر آخر میں ان فی ذلِكَ لَعِبْرَةٌ لِمَنْ يَخْشَى فرما یا.آیت اپنے عموم کے رُو سے ہر خاشع ومتقی کے لئے عبرت ہے.خوش تر آن باشد که سر دلبراں گفته آید در حدیث دیگراں کے لے (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ ار ا پریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۵) ۲۸ - وَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاءِ بَنْهَا - ترجمہ.کیا تمہاری پیدائش زیادہ سخت ہے یا آسمانوں کی جس کو اللہ نے بنایا.تفسیر.آسمان کی شدید پیدائش کو اپنی سطوت وقدرت کے اظہار کے لئے بعث بعد الموت کو متبعد سمجھنے والوں کے سامنے پیش کیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ ا پریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۵) ۲۹ - رَفَعَ سَكَهَا فَسَويها - ترجمہ.اس کی بلندی اونچی کی پھر اس کو ٹھیک ٹھاک بنادیا.تفسیر - رفع سنگها - سمك بلندی (ضمیمه اخبار بد قادیان مورخه ۱۱۱ اپریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۵) ا وَأَغْطَشَ لَيْلَهَا وَ اَخْرَجَ ضُحْهَا - ترجمہ.اور سیاہ بنائی اس کی رات اور اس کی روشنی کو دن بنا کر نکالا ( یعنی دھوپ ).تفسیر.رات اور دن کی اضافت آسمان کی طرف اس وجہ سے کی کہ رات کے حدوث کا سبب غروب شمس اور دن کے پیدا ہونے کا باعث طلوع شمس ہے اور اس کو طلوع و غروب حرکت فلکی کی وجہ سے حاصل ہے.اسی وجہ سے اُن دونوں کی اضافت آسمان کی طرف ہے.۳۱.وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذلِكَ دَحَهَا - جمہ.اور زمین کو اس کے بعد کشادہ کیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱ ار ا پریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۵) تفسیر.سورہ فضلت میں زمین کی پیدائش کے بعد ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء لے یہ تو بہت ہی اچھا ہے کہ محبوبین کے راز و نیاز دوسروں کی باتوں کے درمیان ہی بیان ہو جایا کریں.
حقائق الفرقان ۱۴۳ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ فَقَضُهُنَّ (حم السجدۃ: ۱۳،۱۲) اختلاف کوئی نہیں ہے.کیونکہ دخو سے مطلق بسط اور پھیلا نا ہی مراد نہیں ہے.بلکہ نباتات کا نکالنا اور چشموں وغیرہ کا جاری کرنا بھی ذخو میں شامل ہے اور یہ بے شک بعد پیدائش آسمان کے ہوا ہے.یعنی جو چیزیں خدائے تعالیٰ نے زمین میں مخفی رکھی تھیں وہ آسمان کی پیدائش کے بعد مکمن قوة سے حير فعل میں آئیں.یہی زمین کا دخو ہے سورۃ فصلت کانم تاخیر کے لئے نہیں بلکہ ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء کے معنے فضیلت سورۃ میں یہ ہیں کہ پس آسمانوں کے تسویہ کی طرف متوجہ ہوا جو پہلے سے تھیں.اس سورۃ نازعات میں بھی بٹھا کہہ کر بناء آسمان یعنی تعدم بنائے آسمان کو قرار دیا ہے.سورہ فضیلت میں ثُم ترتیب کے لئے نہیں ہے بلکہ وہاں صرف نعمتوں کا شمار مقصود ہے جیسا کہ تورات کی نسبت فرمایا.ثُمَّ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ (الانعام :۱۵۵) اور یہاں اول بناء آسمان اور پھر دخوِ ارض کا ذکر ہے.۳۳ - وَالْجِبَالَ اَرسها - ترجمہ.اور پہاڑوں کو قائم کیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۶) ارستها - مضبوط بنایا ان کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخه ۱/۱۱اپریل ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۶) ۳۵.فَإِذَا جَاءَتِ العَامَّةُ الكُبرى.ترجمہ.تو جب وہ بڑا ہنگامہ آجائے گا.تفسیر - الطامة الكبرى - طاقة بڑی گھمسان.گھوڑا چلنے اور دوڑنے میں اپنی ساری قوت خرچ کر دے.تو اس وقت کم الْفَرْسُ طَمعا بولا کرتے ہیں.۳۸- فَأَمَّا مَنْ طَغَى - ترجمہ.تو جس شخص نے سرکشی کی.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۶) تفسیر.طغیانی.حد سے باہر ہو جانا.ندی نالوں کا پانی جب حد سے باہرنکل پڑتا ہے.تو طغیانی لے پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف اور وہ دھواں تھا پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا کہ خوشی سے یا ز بر دستی حاضر ہو جاؤ.دونوں نے عرض کی ہم تو بخوشی حاضر ہیں.پھر سات آسمان بنا دیئے.سے پھر ہم نے موسیٰ کو کتاب دی.
حقائق الفرقان ۱۴۴ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ کہلاتا ہے.جو بہت زیادہ پھیل جائے اور بڑی سرکشی کرے.وہ طاغوت ہے.۳۹.وَاثَرَ الْحَيَوةَ الدُّنْيَا - ترجمہ.اور دنیا ہی کا جینا بہتر سمجھا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۶) تفسیر.اثر.ایک چیز کو دوسری چیز سے زیادہ پسند کیا.(ضمیمه اخبار بدر نمبر ۲۶ جلد ۱۱ا قادیان مورخه ۱/۱۴اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۶) ۴۱ - وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى - جمعہ اور لیکن جو ڈرا اپنے رب کے حضور کھڑے رہنے اور اپنے نفس کو خواہشوں سے روکتا رہا.تفسیر.انھڑی.گری ہوئی کمی خواہش.(ضمیمه اخبار بد نمبر ۲۶ جلد ۱۱ قادیان مورخه ۱۱۴ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۶) ۴۳ - يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا - ترجمہ.تجھ سے قیامت کی نسبت پوچھتے ہیں کہ اس کے ظہور کا وقت کب ہوگا.تفسیر.موسی.انتہائے سیر اور اس کا ٹھہراؤ کشتی جب چل کر ٹھہر جاتی ہے تو مُرسی السَّفِينَةُ کہتے ہیں.ایک سوال اور اس کا جواب.آریہ لوگ نادانی سے اعتراض کرتے ہیں ( کیونکہ انہیں حقائق معاد سے بالکل نا آشنائی ہے ) کہ انسان کے جزا دینے میں اس قدر دیر لگانا انصاف کے خلاف ہے.چاہیے کہ فورا سزا ہو.قیامت تک ہر شخص کو حوالات میں رکھنا اور پھر کسی کو کم کسی کو زیادہ دیر رکھنا سخت بے انصافی ہے.اس اعتراض کے جواب میں اول تو یہ کہنا کافی ہے کہ اسلام کی حقیقت سے اگر وہ واقف ہوتے تو ایسا لغو اعتراض نہ کرتے.یوم کا لفظ ہر آن پر بھی بولا جاتا ہے.اور اعمال کی جزا وسزا اسی وقت سے شروع ہو جاتی ہے.جب کوئی عمل حیطه فعل میں آتا ہے.علاوہ بریں یہ بھی فرمایا.آنحضرت صلی اللہ
حقائق الفرقان ۱۴۵ سُوْرَةُ التَّزِعَتِ علیہ وسلم نے مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِيَامَتُہ.جو مر گیا اس کی قیامت قائم ہوگئی.پھر ان سب باتوں کے علاوہ خود اسی سورت میں اس کا جواب موجود ہے کہ قبر کا زمانہ ایسا معلوم ہوگا گویا پہر بھر ٹھہرے ہیں تو پھر توقف جزا یا حوالات کا اعتراض نہایت ہی لغو ہو جاتا ہے.یہ اعتراض تو آریوں پر ہوتا ہے کہ کیوں اعمال کی جزا کو دوسرے جنم تک ملتوی کیا جاتا ہے اور پھر ایسے دوسرے جنم میں جو بھوگ جونی کہلاتا ہے.پہلے جنم کے اعمال وافعال کا کچھ بھی شعور نہیں ہوتا اور نہ پہلا شخص قائم رہتا ہے.جو اُن کے مجوزہ اور مقررہ انصاف کے صریح خلاف ہے.پھر مہا پر لے کے وقت جو خلق فنا ہوتی ہے.ان کی سزا و جزا کو انگلی دنیا تک جو آ ٹھ ارب کا زمانہ ہے ٹکائے رکھنا.کس اصول دیانت و انصاف پر مبنی ہے؟ کیا مخلوق کا کام ہے کہ خالق کو مشورہ دے؟ غرض یہ سوال یا اعتراض بالکل فضول اور لغو ہے.۴۴ - فِيمَ أَنْتَ مِنْ ذُكرتها - (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۶) ترجمہ.تو تجھ کو اس کے ذکر سے کیا تعلق.تفسیر.اے پیغمبر! تم اس کا وقت بتانے کے کہاں بکھیڑے میں پڑے ہو! حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہمیشہ لوگ قیامت کے تعین وقت کا سوال کیا کرتے تھے.جب یہ آیت اور الی ربك مُنْتَهَا (النزعت: ۴۵) نازل ہوئی تو لوگ سوال سے باز آ گئے.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۱/ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۶)
حقائق الفرقان ۱۴۶ سُوْرَةُ عَبَسَ سُوْرَةُ عَبَسَ مَكِيَةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ہم سورۃ عبس کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.اس سورۃ کی ابتدائی آیتوں کے شان نزول کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے.جس کا ذکر میں ابھی کروں گا.اس سے پہلے اس امر کو یا درکھنا چاہیے کہ شانِ نزول سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتا کہ ان آیات کے نزول سے وہی امر مراد ہے جو شانِ نزول کے تحت میں بیان کیا جاتا ہے.بلکہ اصل یہ ہے کہ وحی الہی کے نزول کے کچھ اسباب ہوتے ہیں.ان میں سے اس واقعہ پر بھی وہ آیات چسپاں ہوتی ہیں ورنہ اگر کسی ایک واقعہ کو مخصوص کر لیں تو پھر قرآن مجید کی عظمت جو اس کے عام اور ابدی ہونے میں ہے کم ہو جاتی ہے.غرض اس کی ابتدائی آیات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجمع قریش میں تبلیغ فرمارہے تھے.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس امر پر بدل حریص تھے کہ یہ لوگ ہدایت پا جاویں.جیسا کہ قرآن مجید میں ایک موقع پر فرمایا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ٢) یعنی کیا تو اپنے آپ کو معرض ہلاکت میں ڈال دے گا.اس خیال اور فکر سے کہ یہ مومن ہو جائیں آپ کے دل میں از حد تڑپ تھی اس امر کی کہ یہ لوگ ہدایت پائیں.اسی اثناء میں عبد اللہ بن ام مکتوم جو نا بینا تھے دوڑتے ہوئے آئے اور آپ سے امر دین میں کچھ دریافت کرنا چاہا چونکہ وہ نابینا تھے.انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہاں کن لوگوں کو حضرت خطاب کر رہے ہیں.اور آداب الرسول کے موافق انہیں کیا طرز اختیار کرنا چاہیے.وفور شوق اور اخلاص سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ام مکتوم کا یہ فعل پسند نہ آیا.اور اس کے آثار آپ کے چہرہ پر ظاہر ہوئے.اور کافروں کی طرف منہ پھیر کر ان سے باتیں کرنے لگے.آپ کے اس فعل پر اللہ تعالیٰ نے
حقائق الفرقان ۱۴۷ سُوْرَةُ عَبَسَ عتاب کیا.صحیح روایت میں ہے کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم کی بڑی دلداری کی اور اپنی چادر بچھا کر اسے بٹھایا.یہ واقعہ آنحضرت کی صداقت اور قرآن کریم کے کلام الہی ہونے کا زبر دست ثبوت ہے.اگر چہ یہ کلام نہ ہوتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے فرستادہ اور سچے نبی نہ ہوتے.تو یہ اس میں درج نہ ہوتا.جو گویا عتاب کا رنگ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر خدا تعالیٰ کی کتاب اور وحی پر ایمان نہ رکھتے تو پھر اس کی تلافی نہ فرماتے.یہ ایک بار یک بات ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی رسالت پر خود ایمان لانا بھی ایک زبردست دلیل رسالت محمدیہ کے حق ہونے کی ہے.بہر حال یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے.قرآن مجید چونکہ اپنے اندر مستقل صداقتیں رکھتا ہے.اس لئے ان آیات سے جو سبق ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے.اول.دین میں اخلاص اور عملی رنگ کا پیدا ہونا کسی رنگ و نسب پر موقوف نہیں ہے.اس لئے ایسے معاملات میں ایک مبلغ اور واعظ کو کبھی یہ خصوصیت اختیار کرنی نہیں چاہیے کہ وہ طبقہ امراء کی وجہ سے ضعفاء اور غرباء کو چھوڑ دے.اور ان کی طرف توجہ نہ کرے.بلکہ ضعفاء اور غرباء زیادہ حق رکھتے ہیں کہ اُن کی باتوں کی قدر کی جاوے اور انہیں محبت اور اخلاص سے دیکھا جاوے.ان کی بات کو ہر گز رد کرنے کی کوشش نہ کی جاوے.وہ نہایت نازک دل رکھنے والی قوم ہے.اس وجہ سے اُن سے بے پروائی نہیں کرنی چاہیے کہ دل کے حالات کا اللہ ہی علیم ہے.وہی خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت پانے والا ہے اور کون نہیں.دوسری بات ان آیات سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جولوگ بے پروائی کریں.ان پر تبلیغ اور اتمام حجت کافی ہے.ان کے پیچھے پڑنا ضروری نہیں ہے.تیسری بات یہ ہے کہ نبی کا کام کسی کو ہدایت یاب کر دینا نہیں ہے.وہ لوگ غلطی کرتے ہیں جو کسی مامور ربانی سے ایسی مضحکہ خیز باتیں کرتے ہیں کہ آپ میری فطرت بدل دیں اور یہ کر دیں اور وہ کر دیں.یہ خدائی فعل ہے اور اسی کو سزاوار ہے.ایک اور بھی لطیف معنے ہیں اور وہ یہ کہ تیوری چڑھانے کا اثر ایک نابینا پر کیا ہوسکتا تھا.پس
حقائق الفرقان ۱۴۸ سُوْرَةُ عَبَسَ طلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار ( جو تو جہ نہیں کرتے تھے ) کی تیوری چڑھائی اور نابینا سے ملتفت ہوئے.اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ صداقت اور حق کا جو یاں خواہ کیسا ہی غریب اور محتاج کیوں نہ ہو.وہ زیادہ حقدار ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جاوے.بمقابلہ ایک ریا کار اور خدا سے دور ، دولتمند اور سرکش متمول کے.اس سورہ میں وَمَا يُدْرِيكَ کا خطاب عام ہے.یعنی اے مخاطب تمہیں کیا معلوم ہے کہ وہ کیسا پاک دل اور پاکباز انسان ہے.اس لئے اگر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو بہ نظر استعجاب دیکھتا ہے کہ ایک قوم کے عمائد کی طرف سے توجہ پھیر کر ایک اندھے کی طرف مخاطب ہوئے.یہ تیری خیالی تہذیب کے ماتحت قابل اعتراض ہے مگر اللہ تعالیٰ دلوں کو جانتا ہے اور اس کے نزدیک قابل قدر وہی ہیں جو خدا سے ڈرتے اور تزکیہ نفس کرتے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۷٬۳۰۶) ۲.عَبَسَ وَتَوَتی.ترجمہ.تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا.تفسیر.عَبَسَ وَتَوَتی.عَبَسَ سے تلھی تک دس آیتوں میں اس بات کو ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نکتہ نواز اور نکتہ گیر ہے.اس کے حضور بہت احتیاط اور حذر چاہیے.نزدیکاں را بیش بود حیرانی.آنهارا کہ قریب تر آند خائف تر اندے کا مضمون ہے.عَبَسَ وَتَوَٹی.تیوری چڑھایا اور منہ پھیر لیا.چونکہ شانِ نزول ایک خاص واقعہ کا پتہ مسیح حدیثیں دے رہی ہیں.اس لئے کفار کی طرف سے منہ پھیر لینا اور ان کی طرف سے تیوڑی چڑھا کر ایک غریب کی طرف متوجہ ہونا یہ معنے بالعکس واقعہ کے ہیں.اس لئے جمع بین الضدین صحیح نہیں معلوم ہوتا.صحیح بات وہی ہے جو حدیث صحیح سے ثابت ہے اور نظیم کلام الہی اس کا مؤید ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۷) بعض آدمی نیک بھی ہوتے ہیں.مگر ان کے اندر ایک کبریائی ہوتی ہے جو بعد میں مشکل سے معلوم ہوتی ہے.بہت احتیاط چاہیے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم امراء مکہ کو کچھ سمجھارہے تھے.او پر سے ایک اندھا آ گیا.اب وہ النازعات والی حالت نہ رہی یعنی توجہ ہٹ گئی.کچھ ادھر کچھ اُدھر.ا مقربین کو حیرانی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ قریب تر ہوتے ہیں اور زیادہ خوف رکھتے ہیں.
حقائق الفرقان ۱۴۹ سُوْرَةُ عَبَسَ رب کریم نے اندھے کی سفارش فرما دی کہ اس کی طرف توجہ تام فرما لیجئے.اس سورہ میں بڑے بڑے تغیرات کی خبر دی ہے.پھر جیسا کہ قاعدہ ہے چھوٹی باتیں بیان کر کے بڑی بات بتاتا ہے.قیامت کی خبر دی.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ تمبر ۱۹۱۳ صفحہ ۴۸۷).فَانتَ لَهُ تَصَدُّی.ترجمہ.تو کیا تو اس کے پیچھے پڑتا ہے ( یعنی کا فر دولت مند کے ).تفسیر.تم اُس کی طرف جھکے ہوئے ہو.اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہو.اا.فَأَنْتَ عَنْهُ تَلَھی.ترجمہ.تو کیا تو اس سے ہٹ سکتا تھا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۷) تفسیر.تم اس کی طرف سے غافل ہو.خیال کو ہٹائے ہوئے ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۷) ۱۴ تا ۱۷ - فِي صُحُفِ مُكَرَّمَةِ - مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍ - بِأَيْدِى سَفَرَةٍ - كرَامِ بَرَرَة - ترجمہ.یہ قرآن شریف بزرگ صحیفوں میں ، معزز اوراق میں ہے.جو اونچی جگہ رکھے ہوئے پاک ہیں.ایسے لکھنے والوںکے ہاتھوں سے لکھا گیا ہے.جو عالی حوصلہ نیکو کار ہیں.تفسیر.ان چار آیتوں میں قرآن شریف کے کاتبوں ، قاریوں، حافظوں کی عظمت خود ، قرآن شریف کی عظمت اور اسلام کے لئے آئندہ زمانہ میں شان و شوکت کی پیشگوئی بڑی شد و مد سے بیان ہوئی ہے.گوان سے مراد ملائکتہ اللہ بھی ہیں.سَفَرَةٍ سَافِر کی جمع ہے.جس طرح كتبَة كاتب کی جمع اور سفرہ سے لکھنے والے مراد ہیں سفر کے معنے کسی چیز کو واضح کر کے بیان کرنے کے ہیں جیسا کہ اسی سورۃ مُسْفِرَةٌ کے بیان میں آئے گا.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے.الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَةِ الكِرَامِ الْبَرَرَةِ - قرآن شریف کا ماہر سَفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ کے لے سہو کا تب ہے.سورہ میں مُسفِرَةٌ “ ہونا چاہیے.
حقائق الفرقان ۱۵۰ سُوْرَةُ عَبَسَ ساتھ ہوگا.قرآن شریف صرف یاد کر لینا اور بات ہے اور اس کا ماہر ہونا اور بات ہے.لوگ اسلام کے تنزل کے طرح طرح کے اسباب بیان کرتے ہیں.قرآن شریف کے ماہرین کے لئے ان آیات میں کیا کیا وعدے دیئے گئے ہیں.وہ غور فرما دیں.اور پھر اس کے ساتھ میں آیت کریمہ قَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا.(الفرقان : ۳۱) کو بھی پڑھ لیں.بررة - بار کی جمع بمعنے نیک کردار کے ہیں.قرآن شریف کے مضامین ، معانی و مطالب کے موضحیں کے لئے سَفَرَة اور بررہ کے لفظ میں بڑی خوش خبری ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور بندوں کے درمیان سفیر نیک کردار ہوتے ہیں.سلطنتوں کے درمیان سفیر کا یہی کام ہوتا ہے کہ وہ نیک کرداری کے ساتھ دوسلطنتوں کے مقاصد و اغراض کو کیونکر بیان کرتے ہیں.ہر واعظ اپنی اپنی جگہ وعظ کے وقت سوچ لے کہ وہ اس وقت کس کام کے کرنے کے لئے کھڑا ہے.شیعہ غور کریں اگر چہ ان تفسیری نوٹوں میں مسلمانوں کے فرقوں میں سے کسی ایک یا دوسرے کو خطاب نہیں کیا گیا.تاہم کہیں کہیں بعض عام غلط فہمیوں کی تردید ضرور کی گئی ہے.ہمارے شیعہ بھائی جو صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کے مطاعن بیان کرنے میں بیبا کی سے کام لیتے اور ان پر نادانی سے الزام لگاتے ہیں.ان آیات پر غور کریں کہ خود خدا تعالیٰ نے ان کی تطہیر اور تکریم کی شہادت دیدی ہے کیونکہ فرما یافِي صُحُفٍ مُكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ - یعنی ان کا تبوں کے ہاتھ سے ہیں.جو مکرم و مبرور ہیں.اللہ اکبر.صحابہ کی شان بلند کو یہ آیت کیسی صفائی سے ظاہر کرتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۸،۳۰۷) -- قُتِلَ الْإِنْسَانُ مَا أَكْفَرَة - ترجمہ.انسان مارا جائے.ملعون کس بلا کا ناشکرا ہے.تفسیر.قتل صرف بددعایا کو نا نہیں ہے بلکہ ہر متکبر کفران نعمت کر نیوالے کے لئے پیشگوئی ہے.حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تکبر میری چادر ہے جو مجھ سے میری چادر چھینے لے اے میرے رب ! بے شک میری قوم نے اس قرآن شریف کو چھوڑ دیا تھا.
حقائق الفرقان ۱۵۱ سُوْرَةُ عَبَسَ گا.میں اسے ذلیل کروں گا.یہی قتل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۸) ۲۲ - ثُمَّ اَمَانَهُ فَاقْبَرَة - ترجمہ.پھر اُس کو اللہ نے مارا اور اُسی نے اس کو گاڑا.تفسیر.قبرہ.قبر میں رکھا اس کو اور اقبرہ قبر میں رکھوا یا اس کو.۲۸ - فَانبَتْنَا فِيهَا حَبَّا - ترجمہ.پھر ہمیں نے اس میں اناج اگا یا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۸) تفسیر.ہر قسم کے دانوں اور اناج کو کہتے ہیں.لغت میں اس کے معنے پر ہونے کے ہیں.جب تک دانہ خام رہتا ہے اور مغز سے پوری طرح بھر نہیں جاتا.جب نہیں کہلا تا.محبت پورے کمال کے ساتھ سوائے ذات محبوب حقیقی کے کسی سے جائز نہیں.وَالَّذِينَ آمَنُوا اشَدُّ حُبَّالِلهِ - (البقره: ۱۲۲) اس کے بالمقابل سورۃ یوسف میں فرمایا ہے.قَدْ شَغَفَهَا حُيًّا - (يوسف:۳۱) حدیث شریف میں ہے حُبكَ لِشَيْءٍ يُعْمِيكَ وَيُصِم - محبت کسی چیز کی انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے.حضرت صاحب کی ایک نظم دعوی سے پیشتر کی ہے.جس کا مطلع شعر یہ ہے.اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کر دی اس آیت میں حب یعنی پر مغز دانوں کا بیان ہے.انسان کو بھی چاہیے کہ اپنے آپ کو جب اور حَبّ پُر مغز بنائے پک کے گر جاتا ہے میوہ خاک پر خام ہے جب تک رہے افلاک پر ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳۰۸) لے اور ایمان داروں کو تو ( سب سے بڑھ کر اللہ ہی کی محبت ہوتی ہے.ہے دل چیر کر یوسف کی محبت اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے.۳.اے محبت تو نے عجیب آثار دکھلا دیئے ہیں کہ یار کی رہ میں پہنچنے والے زخم اور مرہم دونوں کو برابر کر دیا ہے.
حقائق الفرقان ۱۵۲ سُوْرَةُ عَبَسَ ۳۲- وَفَاكِهَةً وَ ايَّا - ترجمہ.اور میوے اور گھاس.تفسیر.فواكة میووں کو کہتے ہیں.جو بعد طعام کے تبدیل ذائقہ کے لئے کھائے جاتے ہیں.آگیا کے معنے خودرو گھانس کے بیان کئے ہیں.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اب کے معنے پوچھے گئے.آپ کے معنے مویشی کا چارہ تو صاف ہے.باقی رہی تعیین.اس پر حضرت صدیق نے تعیین فرمائی.۳۹.وُجُودُ يَوْمَةٍ مُّسْفِرَةٌ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۸) ترجمہ.کتنے منہ اس دن چمکدار گورے گورے ہوں گے.تفسیر.مُشفرة کے معنے صاف اور روشن کے ہیں.انفاز سے مشتق ہے.صبح جب روشن ہو جاتی ہے.تو آسفَرَ الصُّبحُ کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۸) و ۴۱، ۴۲.وَوُجُودُ يَوْمَبِدٍ عَلَيْهَا غَبَرَةٌ تَرْهَقُهَا قَتَرَةٌ - ترجمہ.اور کتنے چہرے غبار آلود ہوں گے.جن پر کا لک چڑھی آتی ہوگی.تفسیر.جو گرد آسمان سے زمین کی طرف گرتی ہے اُسے غبَرَۃ کہتے ہیں اور جو غبار سیاہ زمین سے آسمان کی طرف اٹھتا ہے وہ فترة ہے.رھی.کے معنے عجلت سے چڑھ جانے کے ہیں.رَهَق الجبل کہا کرتے ہیں.معنے یہ ہوئے کہ آسمانی گردوز مینی غبار دونوں ایک دوسرے پر چڑھ کر سیاہ رُوئی خَسِرَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (الحج: ١٢) (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۳۰ / مئی ۱۹۱۲ صفحه ۳۰۸) کے ظہور پر ہوگی.
حقائق الفرقان ۱۵۳ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ مَكِيَةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ تکویر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.سورۃ تکویر بھی مکی سورہ ہے.اس میں اولاً قیامت کے نشانات اور آخری زمانہ کی آیات کا ذکر کیا ہے.پھر قرآن مجید کے نزول پر شواہد قدرت کو پیش کیا ہے.اور اس کی سچائی کے دلائل دیئے ہیں.قیامت کے ہولناک واقعات کا پورا نقشہ کھینچا گیا ہے.اس میں جو بات بطریق قدر مشترک بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نظام عالم درہم برہم ہو جائے گا.قیامت میں ایسا ہی ہوگا.ہم ظاہری الفاظ کے موافق اس پر ایمان لاتے ہیں مگر ذو المعارف قرآن مجید میں ان اُمور کے کچھ اور بھی حقائق ہیں جن کو ہم ذیل میں بیان کرتے ہیں وباللہ التوفیق.سورہ تکویر کی ابتدائی آیات پیش گوئیاں ہیں.اس سورۃ کی ابتدائی آیات میں آخری زمانہ کے متعلق جو مسیح موعود کا زمانہ کہلاتا ہے.عظیم الشان پیش گوئیاں ہیں.(۱) اِذَا الشَّمسُ كُورَت.یعنی جس وقت سورج کی نوری صف لپیٹی جائے گی.آفتاب نظام عالم میں ایک عظیم الشان طاقت ہے اور اگر وہ تاریک و تار ہو جاوے تو نظام عالم میں فساد عظیم برپا ہو جاوے.اسی طرح جب حقیقی شریعت کے لانے والا دنیا میں نہیں ہوتا تو سخت تاریکی پھیل جاتی ہے پس اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں سخت ظلمت معصیت اور فسق و فجور کی تاریکی دنیا میں پھیل جائے گی.(۲) وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَت اور علمائے ربانی کا نورا خلاص جاتا رہے گا یا یوں کہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک دور کا زمانہ آئے گا.جب کہ اصحاب کا وجود بھی نہ ہوگا.حدیث میں صحابہ کو نجوم کہا گیا ہے ان کے زمانہ سے بھی بہت دور جا کر ایک ایسا وقت
حقائق الفرقان ۱۵۴ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ آنے والا ہے کہ پہاڑ اڑا دیئے جاویں گے.یعنی فی الواقعہ پہاڑوں کو کھود کر ہموار راستے بنادیئے جاویں گے.اور یا یہ کہ سلطنت ہائے عظمہ میں جنگ شروع ہو کر بعض سلطنتیں کمزور اور تباہ ہو جائیں گی اور اونٹنیاں بیکار ہو جائیں گی اور ان کا کچھ قدر و منزلت نہ رہے.یادر ہے کہ عشار دس مہینے کی گا بن اونٹنی کو کہتے ہیں.جو عربوں کی نگاہ میں بہت عزیز ہے.یہ لفظ ظاہر کرتا ہے کہ ان آیات کا تعلق قرب قیامت کے زمانہ سے ہے اور اسی دنیا میں یہ واقعات ہونے والے ہیں کیونکہ قیامت میں حمل کہاں ہو گا ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس زمانہ میں ایسی سواریاں اور بار برداری کے سامان پیدا ہو جائیں گے کہ اونٹنیوں کی ضرورت نہیں رہے گی چنانچہ ریل کی ایجاد نے اس پیش گوئی کو پورا کر دیا.اس کے موافق حدیث صحیح میں آیات ہے.وَيُتْرَكُ الْقَلَاصُ لے فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا - غرض انٹنیاں بے کار ہو جائیں گی اور ریل اور نئی نئی قسم کی سواریاں پیدا ہوں گی اور اب ظاہر ہے کہ یہ پیش گوئی کیسی صفائی سے پوری ہوگئی.یہاں تک کہ حجاز ریلوے نے اور بھی خوبی سے اس کو پورا کر دیا.اور ایک یہ بھی معنے ہیں کہ ایک زمانہ آنے والا ہے کہ اونٹوں کی زکوۃ لینے والا کوئی نہ ہوگا اور یہ بھی اس زمانہ میں پورا ہو گیا کیونکہ آجکل اونٹوں کی زکوۃ کسی ملک میں نہیں حالانکہ زیادہ آمدنی اسی سے تھی اور پھر ایک یہ بھی معنے ہیں کہ وہ زمین عرب کی جن پر عشر کیا جاتا تھا معطل پڑی رہے گی.غرض یہ پیش گوئی ہر رنگ میں پوری ہوگئی ہے.اور پھر فرمایا.وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَت.اور جس وقت وحشی آدمیوں کے ساتھ اکٹھے کئے جاویں گے اور یا جس وقت وحشی اکٹھے کئے جاویں گے دونوں صورتوں میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی ہے.اول الذکر صورت میں یہ مطلب ہے کہ وحشی قومیں تہذیب کی طرف رجوع کریں گی اور ان میں انسانیت اور تہذیب آجائے گی اور ارازل دنیوی مراتب اور عزت سے ممتاز ہو جاویں گے اور بباعث دنیوی علوم وفنون پھیلنے کے شریفوں اور رذیلوں میں کوئی فرق نہ رہے گا بلکہ کلید دولت اور عنان حکومت ان کے ہاتھ میں ہوگی یا یہ کہو کہ جو آج وحشی سمجھے جاتے ہیں اس وقت جمعیت کا موجب سمجھے جائیں لے اور جوان اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی اور ان پر سواری نہیں کی جائے گی.
حقائق الفرقان ۱۵۵ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فتح قسطنطنیہ کے سات سال بعد دجال کا خروج ہو گا اس آیت کے وعدہ کے موافق ایسا ہی ہو گیا اور یہ مطلب بھی ایک واقعہ کے رنگ میں ہے کہ اس وقت چڑیا خانے وغیرہ قائم کئے جائیں گے ہر قسم کے جانوروں کو جمع کیا جائے گا.چنانچہ یہ واقعات بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں پھر فرمایا.وَإِذَا الْبحَارُ سُجَّرَت.یعنی جس وقت دریا چیرے جائیں گے یہ پیش گوئی بھی پوری ہو گئی.دریاؤں کو چیر کر اُن سے نہریں نکالی جا چکی ہیں اور نکالی جا رہی ہیں.پھر فرما یا ذَا النُّفُوسُ زُوجَتْ.یعنی با ہم نفوس ملا دیئے جائیں گے یہ تعلقات اقوام اور بلاد کی طرف اشارہ ہے.مطلب یہ ہے کہ اس زمانہ میں آمدورفت کے وسائل اور اسباب تعلقات ایسے پیدا ہو جائیں گے کہ گویا کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھے گی.اب دیکھ لو.ریلوں ، جہازوں اور ہوائی جہازوں کے علاوہ سواریوں کی مختلف صورتیں کیسی آسانیاں پیدا کر رہی ہیں اور ڈاکخانوں اور تار کے ذریعہ تعلقات میں کیسی سہولت پیدا ہوگئی ہے.ہزاروں میل کے فاصلہ پر بیٹھ کر گفتگو ہوسکتی ہے.اور پھر ایک اور نشان اس زمانہ کا ہے کہ ناکردہ گناہ لڑکیوں کو مار دینے والوں سے مواخذہ ہوگا اور یہ جرم قابل سزا ہو گا اور پھر وہ زمانہ ایسا ہوگا کہ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشرت.ہر قسم کی کتابوں اور اخباروں کی اشاعت کا زمانہ ہو گا اس کے لئے پریس اور کا غذ اور مختلف قسم کی تحریروں کی ایجاد حیرت انگیز ہو گی.آج اخبارات اور رسالجات اور دوسری کتب کی اشاعت کا اندازہ لگا ئیں تو حیرت ہوگی یہ قرآن مجید کا کتنا بڑا معجزہ ہے کہ ہر قسم کی ترقیاں جو آج اشاعت کتب و اخبارات کے متعلق ہیں اُن سب کی پیش گوئی کی اور وہ پوری ہو رہی ہے اور پھر ایک اور نشان بتایا کہ وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتُد وه زمانہ کشف اسرار کا زمانہ ہوگا.آسمانی علوم حقہ کا بھی نزول ہو گا اور علوم نجوم اور سائنس کے متعلق بھی بال کی کھال اُتاری جاوے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ آسمانی اجرام اور علوم النجوم کے متعلق بار یک دربار یک اسرار اور غوامض معلوم کرنے کی کوشش کی جاوے گی.اور اس فن میں عجیب عجیب ترقیاں ہوں گی.آج جو لوگ سائنس کے کرشموں سے واقفیت رکھتے ہیں اور اسٹرالوچی کے متعلق تازہ....تحقیقاتوں سے باخبر ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ قرآن مجید کی یہ پیشگوئی نہایت عظمت وشان سے پوری
سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ حقائق الفرقان ہوئی ہے.المختصر جب یہ نشانات پورے ہو جائیں گے اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا ابتلاء آئے گا کہ بہشت اور دوزخ قریب کئے جائیں گے اور ہر شخص کو اپنے اعمال پر نظر کرنے کا موقع ملے گا.اللہ تعالیٰ نے ان تمام آیات اور نشانات کو آخری زمانہ سے جو ہمارا زمانہ ہے وابستہ کر کے پھر کلام الہی کے نزول پر بحث کی اور ان کی ضرورت کو اجرام سماوی کے مشاہدہ کو برنگ قسم پیش کر کے بتایا ہے.چنانچہ فرمایا.فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّس.یادر ہے کہ پانچ سیارہ یعنی زحل ، مشترکی ، مریح ، زہرہ اور عطارد ایسے ہیں جن کی عجیب حیرتناک چال ہے.یہ بھی سیدھے چلتے ہیں اور اس لحاظ سے انہیں جوار کہتے ہیں.جوار جمع ہے جاریہ کی.یعنی ایک انداز پر چلنے والے اور کبھی اُلٹے چلنے لگتے ہیں یعنی جدہر سے آئے تھے پھر لوٹ کر اُدھر ہی آجاتے ہیں.اس لحاظ سے انہیں خنس کہتے ہیں.خنس جمع ہے خانس اور خانسہ کی.معنی پیچھے ہٹ آنے والی چیزیں.انہیں سیاروں کی تین یہ چالیں ہیں.اُن کی چال ہمیشہ ایک طرح کی نہیں رہتی بلکہ پیٹتی رہتی ہے.جیسے کوئی متحیر آدمی سیدھا جاتا ہے پھر لوٹ آتا ہے اسی لئے اُن کو خمسہ متحیرہ کہتے ہیں یا تو مشرق سے مغرب بترتیب بروج چل رہے تھے کہ حمل سے ثور اور ثور سے جوزا برج کو طے کر رہے تھے یا یکا یک حرکت بند ہوگئی اور پھر الٹے مشرق سے مغرب کو چلنے لگے.پہلی حالت کو استقامت ، دوسری کو وقوف اور تیسری کو رجعت کہتے ہیں.غرض ان سیاروں کی اس طرح کی چالیں ان کے تغیرات صریحاً اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اُن کا نظام ایک قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے.جو علیم و حکیم ہے اور ایسے تصرفات پر قادر ہے پھر قیامت کے تغیرات اس کے آگے کیوں ناممکن ہیں اور یہ نظیر کلام الہی کے نزول پر اس لئے گواہ ہے کہ ان سیاروں کا وجود انسان کی جسمانی ضروریات کے تہیہ اور تکفل کے لئے ایک بڑا ذریعہ ہے چنانچہ جو لوگ اسٹرالوجی کے ماہر ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ سیاروں کا اثر زمین پر اور اہل زمین پر کس طرح پڑتا ہے اور وہ زمین کی پیداوار اور دوسری اشیاء پر خاص اثر ڈالتے ہیں تو جس خدا نے انسان کی فانی اور آنی ضرورتوں کے لئے اتنا بڑا سامان کیا ہے کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ابدی اور غیر فانی زندگی کے لئے کلام الہی کا
حقائق الفرقان ۱۵۷ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ سامان نہ ہو؟ پھر سفلی نظائر پیش کئے ہیں کہ رات کو دیکھو جب وہ جانے لگتی ہے تو صبح صادق ضرور نمودار ہوتی ہے.یہی رنگ دنیا میں کلام الہی کے آنے کا ہے جب دنیا ظلمت فسق و فجور سے سیاہ ہوتی ہے اور بالکل تاریکی چھا جاتی ہے اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی صبح نمودار ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیده نور حق کی شمع لے کر آجاتا ہے.اسی طرح پر قرآن کریم آیا دنیا کی حالت بگڑ گئی تھی اور کوئی صداقت کی روشنی نہ تھی اب قرآن کریم کے ظہور سے آفتاب صداقت طلوع ہوا ہے پھر بتایا ہے کہ قرآن مجید کیا ہے وہ ایک مکرم فرشتہ کے ذریعہ پہنچایا گیا.اس میں بشارت اور پیشگوئی ہے کہ اس کو ماننے والے بھی مکرم ہوں گے اور پھر وہی لانے والا اللہ تعالیٰ کے نزدیک عالی پائے گاہ ہے اتنے بڑے محترم وجود کو اس کی پیام رسانی کے لئے مامور کیا تو اس سے اس کی عظمت کا اندازہ کرو وہ مسکین ہے.قرآن مجید کو بھی دنیا میں تمکین عطا ہو گی اور جس پر نازل ہواوہ بزرگ عالی شان ہو گا.مطاع ہوگا.امین ہوگا.اب غور کرو کیا یہ پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں یا نہیں؟ اور قرآن مجید کے ماننے والوں کو عزت ، وقار، تکریم ، تمکین ، مطاع اور امین ہونا نصیب ہوا یا نہیں ؟ ان واقعات کو دنیا کی تاریخ اپنی گود میں رکھتی ہے اور کوئی اس کا انکار نہیں کر سکتا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صاحب خلق عظیم ہیں.ان کو جو اجر دیا گیا وہ غیر منقطع ہے.اب دیکھ لو کہ یہ کیسی عظمت اور عزت ہے کہ ہر وقت دنیا کے ہر حصہ میں آپ پر اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ پڑھا جاتا ہے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّم پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابیوں کی پیش گوئی اُفق مبین کے لفظ میں فرمائی اور بتایا کہ قرآن مجید میں بہت سی پیشگوئیاں ہیں.بالآخر فر مایا کہ اے اہل مکہ ! قرآن مجید کو چھوڑ کر تم کونسا راہ اختیار کرتے ہو.یہ تمہارے لئے اچھا نہیں دیکھو یہ قرآن مجید کل دنیا کا ہدایت نامہ ہے اور اپنے ماننے والوں کو دنیا میں تاریخی قوم بنادینے والا ہے.اسے مت چھوڑو.تم میں سے کون ہیں جو اس سے
حقائق الفرقان ۱۵۸ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ فائدہ اُٹھا ئیں گے.لِمَن شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ.اور آخر میں بتایا کہ استقامت اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے ایک ہی گر اور اصل ہے کہ انسان اپنی مرضی کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے ماتحت کر دے.(ترجمتہ القرآن) ۲ - إِذَا الشَّمْسُ كورت - ترجمہ.جس وقت آفتاب لپیٹ لیا جائے.تفسیر.شمس کے معنے ضیاء الشمس یعنی سورج کی دھوپ کے بھی ہیں اور تکویر معنے لپیٹنے کے ہیں قرآن شریف سورة الفرقان رکوع ۵ میں ثُمَّ جَعَلْنَا الشَّمْسَ عَلَيْهِ دَلِيلاً میں کفر کی ظلمت کو مٹانے والی چیز، نبی کا وجود ، قرآن شریف اور وحی الہی کو قرار دیا ہے.جو بطور شمس کے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: می در خشم چوں قمر تابم چو قرص آفتاب کور چشم آنان که در انکارها افتاده اند وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَت - نیز جمعہ.اور ستارے مدھم پڑ جائیں.لے ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۰۸ تا ۳۱۰) تفسیر.نجوم کی روشنی سورج ہی سے ہے.جب ضیاء الشمس ہی نہ رہا تو تکدر نجوم لازمی ہے.نبی کے متبعین بھی نجوم ہی کی طرح ہوتے ہیں.جن سے مسافروں کو راہ کا پتہ ملتا ہے.۴- وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَت.ترجمہ.اور جب پہاڑ چلائے جائیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۰) تفسیر.جبال سے مراد سلاطین وغیرہ بڑی بڑی قومیں بھی ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۰) ا میں چاند کی مانند چمک رہا ہوں نیز سورج کی مانند روشن ہوں وہ لوگ اندھے ہیں جو ابھی تک انکار کر رہے ہیں.
حقائق الفرقان ۵- وَاِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتْ - ترجمہ.اور حاملہ اونٹنیاں بے کار ہو جائیں.۱۵۹ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ تفسیر.دین مہینے کی گابن اونٹنی کا معطل اور بیکار ہونا اس زمانہ کی موجودہ کو ایجا دسواریوں کی وجہ سے ظاہر ہے.- وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ - ترجمہ.اور جس وقت وحشی اٹھائے جائیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۰) تفسیر.عاشورہ محرم کی تاریخوں میں لوگ انسان ہوکر شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ کا سوانگ لیتے ہیں.گویا عملی طور پر انسانیت سے مسخ ہو کر وحشی بن جانے کا ثبوت دیتے ہیں.- وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَت.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۰) ترجمہ.اور جب دریا پھیر دیئے جائیں ( یا جھونک دیئے جائیں).تفسیر.حضرت قتادہ سے شہرت کے معنے منقول ہیں کہ دریاؤں کا پانی خشک ہو جائے گا.کیانل ڈیپارٹمنٹ نے بڑے بڑے دریاؤں سے نہریں نکال کر ان کو تقریباً ایسا ہی کر دیا.گویا کہ سوک گئی ہیں._^ ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۰) - وَإِذَا النُّفُوسُ زُوجَتُ - ترجمہ.اور قسم قسم کے لوگ بلائے جائیں.تفسیر.حدیث شریف میں اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہر آدمی کا جوڑا اس کی نظیر کے ساتھ ملا دیا جاوے گا.آجکل گر جاؤں میں مرتدین کا جوڑ گانٹھ اسی پیمانہ سے عمدہ طور سے ہو جاتا ہے.١٠،٩ - وَإِذَا الْمَوْدَةُ سُبِلَتْ.بِاتِي ذَنْبٍ قُتِلَتْ - اور زندہ درگور کی نسبت سوال کیا جائے؟ کس گناہ سے ماری گئی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۰) تفسیر - مؤادَۃ کے معنے مٹی یا کسی وزن دار چیز کے نیچے دبادیا ہے.اسی قبیل سے ہے.وَلا يَؤُدُهُ
حقائق الفرقان ۱۶۰ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ حِفْظُهُمَا (البقرہ:۲۵۲) اسقاط حمل بھی زندہ در گور کرنا ہے.آجکل دختر کشی بلکہ اسقاط حمل پر بھی قصاص کی سزائیں ملتی ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۰) انسان پیدا ہوالڑ کی یا لڑکا.تمام بلاد میں علی العموم اور عرب میں بالخصوص رواج تھا.لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے.اور لڑکیوں کی نسبت کثرت اولاد کو نا پسند کرتے تھے ایک یونانی حکیم کا قول ہے لنگڑے لڑکے قانونا مارے جاویں.کثرت اولاد پر اسقاط جنین اور مانع حمل ادویہ پوچھنے والے بہت سے لوگ میرے پاس آئے.انسانی قربانی کا جسے ہند میں ٹر بلی کہتے ہیں.یہود میں عام رواج تھا.عرب کے بت پرست بھی اس بلائے بد میں گرفتار تھے.مگر حضور نے ان امراض کا علاج ایسا کیا جس کی نظیر نہیں.اور یہی بات خرق عادت ہے کہ ان امراض کا نام و نشان ملک عرب میں نہ رہا.دیکھو قرآن ان فتیح رسوم پر کیا فرماتا ہے إِذَا الْمَوْ دَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ - (التكوير : ١٠٩) ل b وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِيَّاكُمْ ۖ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطا گپیرا.(بنی اسرائیل: ۳۲) وَ كَذلِكَ زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ اَوْلَادِهِمْ شُرَكَاؤُهُمْ لِيُرُدُوهُمْ وَ لِيَلْبِسُوا - عَلَيْهِمْ دِينَهُمْ - (الانعام: ۱۳۸ ) ( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۴۲٬۴۱) ال - وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَت - ترجمہ.اور جب کتابیں پھیلائی جائیں.تفسیر.جرائد ، رسالجات ، کتب وغیرہ کا انتشار فی زمانہ خوب ہورہا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۰) لے جب بیٹی جیتی گاڑ دی کو پوچھے کس گناہ پر وہ ماری گئی.ہے اور نہ مار ڈالو اپنی اولا دکو ڈر سے مفلسی کے ، ہم روزی دیتے ہیں، ان کو اور تم کو، بیشک ان کا مارنا بڑی چوک ہے.۳.اسی طرح بھلی دکھائی ہے بہت مشرکوں کو اولا د مارنی اُن کے شریکوں نے کہ ان کو ہلاک کریں اور ان کا دین خلط کریں.
حقائق الفرقان ۱۶۱ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ ۱۲ - وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتُ - ترجمہ.اور جب آسمان کی کھال کھینچی جائے.تفسیر.سماء کے معنی بلندی کے ہیں.جیسا کہ فرمایا.فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبِ إِلَى السَّمَاء (الحج:۱۲) اور اکشاط کے معنے اکشاف یعنی کھول کر نگا کر دینے کے ہیں.اَكْشَطَ عَنْ ظَهْرِ الْفَرَسِ کے معنے ہیں گھوڑے کی پیٹھ پر سے زین اتار لو.معنے آیت کے یہ ہیں کہ آسمانی اجرام اور علم نجوم کے متعلق بار یک در باریک اسرار اور غوامض کھل پڑیں گے.گویا بال کی کھال نکالی جاوے گی.اسٹرانومی کے علم والے جانتے ہیں کہ اس قرآنی پیشگوئی کا ظہور اس زمانہ میں کیسا کچھ ہو رہا ہے.اور آئندہ کہاں تک اس علم کی ترقی کی امید ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان ۶ / جون ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۱۱٬۳۱۰) ۱۳ ، ۱۴ - وَإِذَا الْجَحِيمُ سُقِرَتْ وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْلِفَتْ - ترجمہ.اور جب سخت آگ بھڑکائی جائے.اور جب بہشت قریب لائی جائے.تفسیر.تشعيراً: آگ روشن کرنا.از لفت: کے معنے اذیت نزدیک کئے جانے کے ہیں جیسا کہ فرمایا.لِيُقَرِ بُونَا إِلَى اللهِ زُلفى - (الزمر:۴) فی زمانہ اسباب تنعم اور مصائب و شدائد دونوں بہت بڑھ گئے ہیں.ابتدا سورۃ سے بارہ آیتوں میں کلام ذوالمعارف کئی کئی مضامین کو ساتھ لئے ہوئے بڑی بلاغت سے بیان ہوا ہے.قیامت کے احوال اور مبادی قیامت دونوں کو نہایت خوبی سے ادا فرمایا ہے.شاہ عبدالعزیز صاحب قدس اللہ سترہ فرماتے ہیں کہ بعض اہل تاویل کی یہ رائے ہے کہ بارہ حوادث موت کے وقت جسے قیامت صغری کہتے ہیں.پیش آتے ہیں.انسان کی روح بمنزلہ آفتاب کے ہے.جس کی شعاع سے اس کا بدن زندہ اور باقی رہتا ہے.روح کا نکلنا کیا ہے.گویا تکویر شمس ہے.ان کے حواس وقویٰ کا موت کے وقت بیکار ہونا انکدار نجوم ہے، اعضائے رئیسہ کا باطل ہونا، ان ا چاہئے آسمان تک ایک رسی تانے.۲ تا کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کردیں قرب اور مرتبہ میں.
حقائق الفرقان ۱۶۲ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ پہاڑوں کی جنبش ہے.ہڈیوں کی چربی اور دودھ کا خشک ہونا تعطل عشار ہے.افعال بہیمیہ وسبعیہ کے نتائج کا ظہور ہونا حشر وحوش ہے.رطوبات بدن اور خون کا خشک ہونا، دریاؤں کا سوک جانا ہے.کبھی یہ دریا موت کے وقت سوک جاتے ہیں.اور کبھی بہادیئے جاتے ہیں.سٹجرت کا لفظ دونوں معنوں پر مشتمل ہے).اور ملکات مکسو بہ کا باہم اجتماع یعنی ظلمانی کا ظلمانی سے اور نورانی کا نورانی سے تزویج نفوس ہے.زندگی کے گراں قدر حصہ کو جو اس دارالحین میں جو طرح طرح کی مشقتوں کے نیچے دبایا گیا ہے.مونُ ودَة فرمایا کہ اس کو ثواب کے مصرفوں میں خرچ کیا یا گناہ کے.نامہ اعمال کا کھلنا نشر صحائف ہے.آخرت کی جزا و سزا کا عیاں ہو جانا روح پر اکشاط سماء یعنی سماوی امور کا اس پر کھل جانا ہے.جیسا کہ فرمایا.فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ - (قَ : ٢٣) بعد الموت شدائد و مصائب کا دیکھنا سلگتے ہوئے جہنم کا دیکھنا ہے اور فرحت و نیک جز کا دیکھنا جنت کا نزدیک ہونا ہے.آگے فرمایا.عَلِمَتْ نَفْسٌ مَّا أَحْضَرَتْ حضرات صوفیہ نے بھی ان بارہ حالتوں کو مراتب سلوک کے طے کرنے پر حمل کیا ہے.غرض کہ اس قسم کے کلام ذوالمعارف جو پیشگوئیوں پر بھی مشتمل ہوں اور واقعات صحیحہ وحقہ پر بھی مشتمل ہوں.کسی دیوانے کی زبان سے نہیں نکل سکتے.جیسا کہ آگے اس کا ذکر آئے گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۱) ١٧،١٦ - فَلا أُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ الْجَوَارِ الْكُس - ترجمہ.تو میں قسم کھاتا ہوں دن میں چھپنے والے پیچھے ہٹنے والے تاروں کی.اور اپنی جگہ نظر آنے والے، سیدھے چلنے والے، آگے چلنے والوں ، ڈوب جانے والے تاروں کی.تفسیر.یہ کلام بھی کلام ذوالمعارف کے طور پر ہے.منجملہ اس کے معارف کے ایک یہ ہے کہ قسمیہ طور پر فرمایا کہ کفر اب تین طرح سے ٹوٹے گا.اول : ترقی کفر کی تھم جائے گی ، دبک جائے گی ، لے تو ہم نے اٹھا لیا تجھ سے تیرا پردہ تو آج تیری نظر بڑی تیز ہے.
حقائق الفرقان ۱۶۳ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ پسپا ہو جائے گی.دوم کچھ لوگ رو براہ ہو کر اسلام میں داخل ہوجا ئیں گے.باقی رہے سہے پر جھاڑو پھیر دی جائے گی ، آسمانی بلاؤں سے، زمینی بلاؤں سے، جنگوں سے کفر کا صفایا ہو جاوے گا.یہی اس کے لئے تکنس ہے.سورج کی روشنی سے ستاروں کا ماند پڑ جانا بھی خفنس ہے الجوار کے معنے سیدھے ہو کر چلتا ہے اور کس کے معنے ڈوب جانے اور غروب ہو جانے کے ہیں.لا نافیہ کی توجہیہ سورۃ قیامتہ میں دیکھو.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ رجون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۱) ۱۹،۱۸ - وَالَّيْلِ اِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ إِذَا تَنَفَسَ - ترجمہ.اور اس رات کی جب وہ جاتی ہے.اور صبح کی جب وہ سانس لے.تفسیر.رات گئی اور صبح نمودار ہوئی.صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں : وَ فِيْنَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُوا كِتَابَهُ إذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ الْفَجْرِ سَاطِعْ عشعش اضداد سے ہے جس کے معنے آنے اور جانے کے ہیں.یعنی کفر گیا اور اس کی جگہ اسلام نے لے لی ہے.عشعَس کے لفظ سے زمین کا گول ہونا بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایک طرف سے ظلمت روشنی پر چڑھی چلی آتی ہے تو ساتھ ہی دوسری طرف سے پیچھے سے روشنی ظلمت پر سوار ہو رہی ہے اور یہ ہو نہیں سکتا جب تک کہ زمین گول نہ مانا جاوے.تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ.(آل عمران : ۱۴۱) کے معنے بھی لیل کے تعشعش اور صبح کے تنفس کے قریب قریب ہیں یا عسعس کے لفظ سے زمین کا گول ہونا یوں سمجھ لیجئے کہ جب رات ہماری طرف سے گئی اور ہم پر دن آیا تو زمین کے دوسری طرف والوں پر رات آئی اور اسی طرح سے اس کے بالعکس.(ضمیمه اخبار بد قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۱) لے اور ہمارے درمیان اللہ کے رسول ہیں جو اس کی کتاب کی تلاوت کرتے ہیں اس وقت جب فجر طلوع ہوتی ہے.یہ دن ہیں ہم ان کو لوگوں میں نوبت بنوبت لاتے رہتے ہیں.
حقائق الفرقان ۱۶۴ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ ۲ تا ۲۳ - إِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ - ذِى قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينِ.مطَاعِ ثُمَّ آمِيْنِ وَمَا صَاحِبُكُم بِمَجْنُونٍ - ترجمہ.بے شک یہ صاحب عزت رسول کا کلام ہے.جو قوت دار ہے.عرش عظیم کے مالک کے نزدیک بڑا درجہ پایا ہوا ہے.اطاعت کیا گیا اللہ کے پاس بڑا امانت دار ہے.اور تمہارا صاحب کچھ بھی دیوانہ نہیں ہے.تفسیر.اس قدر کلام ذوالمعارف بیان فرمانے کے بعد رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے جنون کے الزام کو دفع کیا اور استشہاد کیا.اس ذو المعارف و پر از حقائق کلام سے کہ کیا مجنون ایسے مدلل اور پر معانی عبارات بیان کر سکتا ہے.مجنون تو بے تکی باتوں میں پکڑا جاتا ہے.مجنون کے ساتھ صَاحِبُكُمْ کے لفظ کے لانے سے یہ غرض ہے کہ جنون کی پہچان چند ساعت یا چند روزہ مصاحبت سے خوب اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے.اور سورۃ ن وَالْقَلَمِ میں یہ سمجھایا کہ تحریر میں مجنون ذرا بھی بار بط عبارت سے نہیں چل سکتا.آیہ کریمہ مَا بِصَاحِبِكُمْ مِنْ جِنَّةٍ - (سبا: ۴۷) میں بھی مصاحبت ہی سے جنون کو پہنچنوایا ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی دنیا میں مکرم ، ذی قوۃ ، مکین اور مطاع ہو جانا بھی بیان فرمایا ہے.یہ صفتیں جبرائیل کی بھی ہیں.اس صورت میں قول کے معنے قرآت جبرائیل کے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر نمبر ۲۶ جلد ۱۱ا قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۱) یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزت والا ، طاقتوں والا ، رتبے والا اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں.اللہ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے.(اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ رفروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۳) -۲۵- وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينِ - ترجمہ.وہ تو غیب کی بات بتانے پر بخل کرنے والا نہیں ہے.ا تمہارے صاحب کو کچھ بھی جنون نہیں.
حقائق الفرقان ܬܪܙ سُوْرَةُ التَّكْوِيرِ تفسیر.ضین کے معنے مقیم.اپنے پاس سے بات بنانے والا.آسمانی خبروں کے اور معاد کے احوال بنانے میں بخیل.19 ۲۷- فَايْنَ تَذْهَبُونَ - ترجمہ.پھر تم کہاں چلے جارہے ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۱) ایسے کو چھوڑ کر کہاں جاتے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۱) ٣٠ - وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ - ترجمہ.اور اس حال میں کہ نہ چاہنے والے ہو تم مگر وہی جو خدا چاہتا ہے.چاہو گے تم تم نہ چاہا کرومگر وہی جو رضاء الہی ہو.یہ واؤ حالیہ ہے.اس کے معنے ہوئے حالانکہ نہ ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۱) معدوم کو موجود کر نا خدا کا کام ہے مخلوق میں.ہاں حیوان اور انسان کے دل میں کسی ارادے اور مشیت کا پیدا کر دینا بے شک باری تعالیٰ کا کام ہے.الا ہر ایک منصف جانتا ہے کہ صرف مشیت اور ارادے کے وجود سے کسی فعل کا وجود ضروری اور لازمی امر نہیں.یقیناً قوائے فطری کا خلق اور عطا کرنا جن پر ہر گونہ افعال کا وجود وظہور مترتب ومتفرع ہو سکتا ہے.خالق ہی کا کام ہے.اس لطیف نکتے کے سمجھانے کے لئے اور نیز اس امر کے اظہار کرنے کو کہ قوائے طبعی اور کائنات سے کوئی وجود اصل امر خلق میں شریک نہیں.سب اشیاء کی علت العلل میں ہی ہوں.باری تعالیٰ سب افعال کو بلکہ ان افعال کو بھی جو ہم معائنے اور مشاہدے کے طور پر انسان اور حیوان سے سرزد ہوتے دیکھتے ہیں اپنی طرف نسبت کرتا ہے.کہیں قرآن میں فرماتا ہے.ہوا بادلوں کو ہانک لاتی ہے.کہیں فرماتا ہے.ہم بادلوں کو ہانکتے ہیں.ہم ہی گالیوں اور بھینسوں کے تھنوں میں دودھ بناتے ہیں.ہم ہی اناج بوتے ہیں.ہم ہی کھیت اگاتے ہیں.اور سائل کے بعد یہ سب نسبتیں جو ظاہر امتضاد الطرفین ہیں.بالکل صحیح اور حقیقہ بالکل صداقت ہیں.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۰)
حقائق الفرقان ۱۶۶ سُورَةُ الْإِنْقِطَارِ سُوْرَةُ الْإِنْفِطَارِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ انفطار کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲- إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ - ترجمہ.جب آسمان پھٹ جائے.تفسیر إِذا السَّمَاء انْفَطَرَت.میں بھی آخری زمانہ کی پیشگوئی ہے.کیونکہ قرآن مجید میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے.اس کا ظہور دنیا میں بھی ہونا چاہیے.اگر آسمان پھٹ جاوے اور سیارے گر پڑیں وغیرہ وغیرہ اور دنیا زیر وزبر ہو جاوے.تو وہ وقت انسانی ہدایت اور اصلاح کا نہیں ہوسکتا بلکہ وہ تو ہلاکت کا سماں ہو گا.ان سورتوں میں جو قیامت کے متعلق واقعات آئے ہیں.دراصل یہ آخری زمانے کے نشانات ہیں.اور آسمان کے پھٹ جانے سے یہ مراد نہیں کہ فی الواقعہ آسمان پھٹ جائے گا.بلکہ مدعا یہ ہے کہ جیسے پھٹی ہوئی چیز بیکار ہوتی ہے.اسی طرح آسمان بھی بریکار ہو گا.آسمان سے فیوض نازل نہ ہوں گے.اور دنیا ظلمت و تاریکی سے بھر جائے گی.علاوہ بریں اس آیت اور اس قسم کی دوسری آیتوں پر آجکل کے زمانے کے حسب حال یا مسلمات کے رُو سے اعتراض ہو سکتا ہے کہ آسمان تو مجرد پول ہے.اس کا پھٹنا کیا معنی رکھتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید نے آسمان کو مجرد پول قرار نہیں دیا بلکہ اُسے ایک لطیف وجود قرار دیا ہے.اور اگر کہا جاوے کہ پھر اس کے پھٹنے سے کیا مراد ہے؟ تو یہ یادر ہے کہ سماء سے مراد قرآن کریم میں كُلُّ مَا فِي السَّمَاء بھی ہے علاوہ بریں کسی لطیف مادہ میں عدم خرق کس نے تسلیم کیا ہے.بہر حال قرآن مجید نے یہ شہادت دی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ ہر چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی.اور تجلیات الہیہ اُس کی جگہ لے لیں گے اور علل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.اسی کی طرف اشارہ ہے.
۱۶۷ حقائق الفرقان سُورَةُ الْإِنْقِطَارِ اس آیت میں كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجُهُ رَبِّكَ ذُو الْجَالِ وَالْإِكْرَامِ له (الرحمن : ۲۸،۲۷) اور ایسا ہی ایک دوسری آیت میں فرمایا.لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المومن : ۱۷) یعنی اللہ تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہر ایک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت کو دکھلائے گا.اس سورۃ شریفہ میں بھی آخر یہی فرمایا ہے.وَالْأَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلهِ (الانفطار : ۲۰) یہ اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے جو لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (المومن: ۱۷) میں ادا کیا گیا ہے.غرض خدا تعالیٰ کی قہری تجلی نمودار ہو گی.اور فنا کا زبردست ہاتھ اپنا اثر دکھائے گا.اور آسمانی اجرام میں ایک انقلاب واقع ہو گا.ان آیات کو واقعات پر اگر مبنی قرار دیا جاوے تو بھی درست ہے کہ جب آسمان پھٹ جاوے گا.تو ستاروں کا گر پڑنا یقینی امر ہے.اور ستارں اور سمندروں کے تعلقات میں جو کشش کام کر رہی ہے جب اس میں فرق آ جائے گا.تو سمندروں کا اپنی حدوں سے نکل جانا بھی مسلم امر ہے.آجکل کے سائنس دانوں نے تسلیم کیا ہے کہ زمین سکڑتی جاتی ہے اور سمندر اپنے کناروں سے بڑھا چلا آتا ہے.یہ آثار ان آیات کے مضامین کی صداقت کی دلیل ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۱۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۲) ۲ تا ۵ - اِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ وَإِذَا الْكَوَاكِبُ انْتَثَرَتْ وَإِذَا الْبِحَارُ فُجْرَتُ - وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَت - ترجمہ.جب آسمان پھٹ جائے.اور ستارے جھڑ جائیں.۴.اور جب دریا بہادیئے جائیں.اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں.تفسیر فطرت کو دوسری جگہ انشقت فرمایا ہے.جدید تحقیقات میں آسمان کو لطیف چیز قرار دیا ہے.لطیف ہی سہی.لطیف پر بھی شق کا لفظ بولا جاتا ہے.جیسے بادل پھٹ گیا وغیرہ.بڑی بھاری مصیبت کے وقت بھی عرفا کہتے ہیں کہ آسمان پھٹ پڑا.پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے لے ہر ایک جو اس پر ہے فنا ہونے والا ہے.اور باقی رہے گی ذات تیرے رب کی جو جلال اور بزرگی والی ہے.اور اس دن اللہ ہی اللہ کا حکم ہے.سے آج کس کی بادشاہی ہے؟ ( ندا ہو گی ) اکیلے اللہ کی جو بڑا زبردست ہے.
حقائق الفرقان ۱۶۸ سُوْرَةُ الْإِنْفِطَارِ فرمایا ہے کہ سب سے بڑی مصیبت امت کے لئے میری وفات ہے.کواکب کے انتشار سے ظاہری معنے کے علاوہ بڑے بڑے اہل اللہ کا انتقال فرمانا ہے.بعض کا قول ہے کہ بحار صرف کھارے سمندر ہی کو کہتے ہیں.مگر یہ صحیح نہیں معلوم ہوتا ہے.کیونکہ فرمایا ہے.وَ مَا يَسْتَوى الْبَحْرُنِ هَذَا عَذَبٌ فُرَاتٌ.(فاطر: ۱۳) دریاؤں سے نہریں چیر کر نکالنا جیسا کہ اس زمانہ میں ہوا ہے.پہلے کبھی نہیں ہوا.قرآن شریف کی پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.کوئی دوسری آسمانی کتاب ایسی اس وقت موجود نہیں جو ایسی صفائی سے پیشگوئی کا پورا ہونا دکھلاوے.بغثر اور بخثر کے ایک معنے ہیں بعث اور بحث سے مرکب ہیں.ان کے اصلی معنے پلٹ دینے کے، کریدنے کے ہیں.اور اسفل کو اعلیٰ اور اعلیٰ کو اسفل کر دینے کے ہیں.عرب کا خاص محاورہ ہے کہ جب مٹی کو پلٹ دیتے ہیں تو بَعثرَ يُبعثرُ بعثرة سے تعبیر کرتے ہیں اور اسباب کو الٹ پلٹ کرنے کے وقت بَعْثَرَ الْمَتَاع کہتے ہیں.آجکل قبریں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ دفن کئے جاتے ہیں.کیا تعجب ہے کہ مسیح کی قبر بھی محلہ خانیار سری نگر کشمیر سے تحقیق کے لئے اکھیڑی جاوے.اور پھر مع حواریوں کی قبروں کے تبرکاً لے جائے جائیں.اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ.وَحُصِلَ مَا فِي الصُّدُورِ (العادیات: ۱۱،۱۰) سے بھی کچھ اشارات ضمیمه اخبار بد قادیان مورخه ۶ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۲) ملتے ہیں.عَلِمَتْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ وَآخَرَتْ - ترجمہ.تو ہر ایک جان لے گا کیا کچھ اس نے آگے بھیجا اور پیچھے چھوڑا ہے.تفسیر.جو کام نہ کرنے تھے وہ کئے.اور جو کام کرنے کے تھے وہ نہ کئے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو کیا اور جو کچھ نہ کیا.قطع نظر اس کے کہ اچھا کیا یا برا کیا.بات ایک ہی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۲) - يَايُّهَا الإِنْسَانُ مَا غَرَكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ - ترجمہ.اے انسان کس چیز نے تجھ کو مغرور کر دیا تیرے رب کریم پر.تفسیر.کریم کے کرم سے نا امید بھی نہ ہو اور صرف کرم ہی کی امید پر دھوکا نہ کھا بیٹھو.دوسری جگہ فرمایا لے اور دو دریا برابر نہیں ہو سکتے ایک تو میٹھا پیاس بجھاتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۶۹ سُوْرَةُ الْإِنْقِطَارِ ہے.نبی عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - وَ أَنَّ عَذَابِى هُوَ الْعَذَابُ الْأَلِيمُ ( الحجر : ۵۱،۵۰) (ضمیمه اخبار بدر قادیان مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۲) ۹ - الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوكَ فَعَدَ لَكَ فِي أَي صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَبَكَ - ترجمہ.جس نے تجھے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک بنایا پھر معتدل بنایا.جس صورت میں چاہا تجھے تجویز کیا.تفسیر خلق، تسویه، تعدیل، ترکیب و تناسب اعضاء.خداوند تعالیٰ کی ان چار نعمتوں پر ہی اگر انسان غور کرے تو جزاوسزا کے مسئلہ کو سمجھنے کے لئے اُس کو بہت کچھ مددمل جاوے گی.خواہ مومن ہو یا کافر.ان میں سے ایک تیسری نعمت ہی پر انسان غور کر لے کہ کس طرح اس کو حرارت برودت اور رطوبت ، یبوست، ان چار خلطوں سے معتدل المزاج رکھا ہے اگر ذرا بھی ان اخلاط میں افراط یا تفریط ہوتی ہے.تو فوراً جزاوسزا ملنےلگتی ہے.چار چیزے مخالف و سرکش چند روزے بوند باہم خوش گریکے زیں چہار شد غالب جان شیریں برآید از قالب انسان پیدا کیا.انعام میں سے نہیں بنایا.تسویہ خلق ایسا عمدہ کیا کہ شیر ہاتھی وغیرہ سب کو قابو کر لیتا ہے.بڑا ہی معتدل المزاج بنایا ہے.صورتوں اور آوازوں کی ترکیب ایسی کہ لاکھوں کروڑوں انسانوں میں صورت اور آواز ایک دوسرے سے نہیں ملتی.یہ سب اس کی ربوبیت اور کرم ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳۴۶ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۳٬۳۱۲) اے میرے بندوں کو خبر دار کر دے کہ میں ہی ہوں بڑا عیبوں کا ڈھانپنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا.اور یہ بھی خبر دے دے کہ میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے.چار چیز میں جو باہم مخالف اور سرکش ہیں چند دن یہ آپس میں خوش رہتی ہیں.اگر ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی غالب آجائے تو جان جسم سے نکل جاتی ہے.
حقائق الفرقان سُورَةُ الْإِنْقِطَارِ ۱۲ ، ۱۳ - كرا ما كَاتِبِينَ - يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ - ترجمہ.بزرگ لکھنے والے.وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو.تفسیر.نامہ اعمال کے لکھے جانے اور اس کے محفوظ رہنے پر جن لوگوں کو استبعاد عقلی معلوم ہوتا ہے وہ آجکل کے ایک نو ایجاد آلہ گراموفون ہی کو دیکھ لیں کہ کس طرح ریکارڈ اس میں محفوظ رہتا ہے.اور دوبارہ چکر دینے سے کس طرح ذراذراسی حرکات یہاں تک کہ کھانسی اور تنفس کی کمی زیادتی بھی اس سے ظاہر ہونے لگتی ہے.آواز آ رہی ہے یہ فونوگراف سے ڈھونڈ وخدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ /جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۳) لے وَمَاهُمْ ١٦ ١٧ - يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ وَمَاهُمْ عَنْهَا بِغَابِبِينَ.ترجمہ.اس میں داخل ہوں گے جزا کے دن.وہ اس سے کبھی غائب نہ ہوں گے.تفسیر دوزخیوں کے ذکر میں وَمَاهُمْ عَنْهَا بِغَابِبِین فرمایا.مگر جنتیوں کے ذکر میں وَمَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِينَ.(الحجر: ۴۹) فرمایا.ان دونوں آیتوں پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخی دوزخ میں گوا حقاب در احقاب مدت تک رہیں اور گو وہ اپنی مدت لبث میں ذراسی دیر کے لئے بھی دوزخ سے غائب نہ ہو سکیں.مگر بالآخر وه مَا هُمْ مِنْهَا بِمُخْرَجِيْنَ کے مصداق نہیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر استدلال کے طور پر فرمایا کرتے تھے يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيهَا أَحَدٌ وَنَسِيمُ الصَّبَا تحرك أبوابها.غالبا یہ عبارت تفسیر معالم میں ہے.عطا غَيْرَ منذُوذ " (هود: ۱۰۹) اور فَقَالُ لما يريد البروج: ۱۷) سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے.اور اس سورہ شریفہ کے رب کریم کے لفظ سے بھی یہی پتہ لگتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد۱۱ مورخه ۱۳ جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۳) ا اور وہاں سے کبھی نکالے بھی نہیں جائیں گے.۲ جہنم پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ اس میں کوئی نہ ہوگا اور نسیم الصبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی.سے یہ بخشش ہے غیر منقطع بے انتہا.ہے جو چاہتا ہے اس کو بخوبی کر لیتا ہے.
حقائق الفرقان 121 سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ مَكِيّة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ ہم سورۃ تطفیف کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ہے.٢ - وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ - ترجمہ.کم دینے والوں کی خرابی ہے.تفسیر مُطفِّفِینَ.کم دینے والے تکفیف کے معنے وزن اور پیمانہ ہیں.کچھ تھوڑی سی چیز خفیہ طور پر کم کر لینے کے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۳) الَّذِينَ إِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُونَ - ترجمہ.جو لیتے وقت لوگوں سے بھر پور لیتے ہیں.تفسیر اإِذَا اكْتَالُوا عَلَى النَّاسِ يُسْتَوْفُونَ اكْتَال کو مین کے ساتھ متعدی نہیں کیا.بلکہ علیٰ کے ساتھ متعدی کیا اور اس میں دقیق رعایت یہ رکھی کہ اکثر اوقات ماپ تول برضا و رغبت جھکتی ڈنڈی سے لیا جا تا ہے اور دینے والا بھی جھکتی تو خوشی سے دیتا ہے.ممنوع لینا جھکتی تول وہ ہے.جو ضرر کے لئے ہو کہ بلا رضا مندی دینے والے کے جھکتی تول لی جاوے.حدیث شریف میں ہے کہ جب لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں تو خداوند کریم بارشوں کو روک لیتا ہے.قحط شدید پڑتا ہے.حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں یہ مرض خصوصیت سے ہو گا.مگر اس وقت تو بات حد سے بڑھ گئی ہے.بلکہ مزید خصوصیت ایک اور یہ ہو گئی کہ مباحثات میں وہ اعتراض کئے جاتے ہیں.جو خود معترضین پر بھی وارد ہوتے ہیں.جس پیمانہ سے حصم کو جواب دیتے ہیں.اسی پیمانہ سے جواب لینا پسند نہیں کرتے.حدیث شریف میں ہے.لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ لے ا تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہے جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۷۲ سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ مباحثات کے وقت دیکھ لیا کریں کہ کیا یہی اعتراض پلٹ کر ہم پر تو نہیں پڑتا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۶ جون ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۱۳) - لا إِنَّ كِتَبَ الْفُجَارِ لَفِي سِجَيْنِ - ترجمہ.ضرور ایسا ہی ہوگا کہ بدکاروں کی کتاب قیدیوں کے رجسٹر میں ہے.تفسیر.سجین.سجن سے مشتق ہے.خواہ یہ بجن کہیں ہو.اللہ تعالیٰ نے جو پیشگوئی مکی سورۃ میں بے کسی اور بے سروسامانی کی حالت میں کی تھی وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی فتوحات اور کفار کے دارو گیر سے پوری ہو گئی.اور اس سجن نے آخرت کے عذاب کو بھی ثابت کر دیا.سیچین سے مراد قیدیوں کا رجسٹر اور علیین سے مراد ابرار کا رجسٹر.یہ معنے بھی عمدہ ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ /جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۳) ا.وَيْلٌ يَوْمَةٍ لِلْمُكَذِّبِينَ - ترجمہ.افسوس ہے اس روز جھٹلانے والوں پر.تفسیر.جیسا مُطفِّفِین کے ساتھ ویل کا لفظ تھا.یہاں مُکذِبِین کے ساتھ بھی ویل کا لفظ مُكَذِّبِينَ ہے.معلوم ہوا کہ کذب کسی صادق کا بڑا مطفّف ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۳) ۱۵ - كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ - ترجمہ.نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے کرتوتوں نے ) زنگ جما دیا ہے جو وہ کیا کرتے تھے.تفسیر.یہاں لفظ بل کے بعد سکتہ ہے.اس لئے کہ انسان یہ سوچے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ فرما کر صادق راست باز کے نہ پہچاننے کی وجہ پچھلی شامت اعمال قرار دی ہے.وہ میرے کون سے عمل کی شامت ہے.دوسری جگہ قرآن شریف میں اسی بات کو یوں ادا فرمایا ہے.وَاللهُ اَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا.(النساء:۸۹) رکس کے معنے مت ماری جانا.نیک کو بد اور بدکونیک اء اللہ نے اُن کو ہدایت نہیں دی الٹ دیا نگوں سار کر دیا اُن کو اس کی سزا میں کہ انہوں نے اعمال نفاقیہ کئے.
حقائق الفرقان ۱۷۳ سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ سمجھنا.اِنْ يَرَوْا سَبِيلَ الرُّشْدِ لَا يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا ۚ وَ إِنْ يَرُوا سَبِيلَ الْغَى يَتَّخِذُوهُ سَبِيلًا - (الاعراف: ۱۴۷) یہی رکس ہے.(ضمیمہ اخبار بد نمبر ۲۶ جلد ا ا قادیان ۱۳ رجون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۳) ۱۹ - كَلَّا إِنَّ كِتَبَ الْأَبْرَارِ لَفِي عِلِدِينَ - ترجمہ.خبر دار نیکوں کی کتاب اعلیٰ مقام والوں کے رجسٹر میں ہے.تفسیر.سیچین کے بالمقابل علی دین ہے.خواہ کہیں ہو.اس سے بحث نہیں.دیکھنا تو یہ ہے کہ إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا -.(المومن:۵۲) کی پیشگوئی ہوکر علو حاصل ہوا یا نہیں؟ یہ علو کچھ جنگ پر ہی موقوف نہیں.الْإِسْلَامُ يَعْلُو وَلَا يُعْلَى عَلَيْهِ اسلام بغیر جنگ کے بھی حجت و برہان سے اور خداوند کریم کی تائیدات سے سماوی نشانات و دیگر فتوحات سے عالی رہتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۳) ۲۴ - عَلَى الْأَرَابِكِ يَنْظُرُونَ - ترجمہ.اپنے تختوں پر بیٹھے سیر کر رہے ہوں گے.تفسیر.آر آيك - جمع آریکة کی.ہم آریگہ چھپر کھٹ کو کہتے ہیں.ایسا تخت جو اوپر سے مزین و مستقف ہو اور اردگرد سے بھی مزین ہو.ایسا درخت جو قبہ کی طرح اپنی شاخوں اور پتوں سے خوشنما ہو.وہ بھی آریگہ ہے.پیلو کا درخت قریب قریب ایسا ہی ہوتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ /جون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۳) -۲۵ تَعرِفُ فِي وُجُوهِهِمْ نَضْرَةَ النَّعِيمِ - ترجمہ.تو ان کے چہروں میں خوش حالی کی تازگی دیکھے گا.تفسیر نضرة اس تازگی کو کہتے ہیں جو انتہائے سرور اور تنعم کے باعث چہرہ پر ظاہر ہوتی ہے کھائے کے گال اور نہائے کے بال مشہور ہے.فاتح قو میں عموماً دنیا میں خوبرو ہوتی ہیں.آخرت کی لے اور اگر دیکھ لیں ہدایت کا راستہ جب بھی وہ اس کو اپنی راہ نہ بتا دیں اور اگر وہ دیکھیں گمراہی کا راستہ تو اسے اپنی راہ ٹھہرائیں.سے بے شک ہم مدد کرتے ہیں اپنے بھیجے ہوؤں کی اور ایمانداروں کی دنیا ہی کی زندگی میں.اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا.
حقائق الفرقان ۱۷۴ سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ سب سے بڑی نعمت رویت باری تعالی و دیدار الہی ہے.وہاں کی نظر کا باعث یہی ہوگی.گھا قَالَ اللهُ تعالى - وُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ نَاضِرَةٌ إلى رَبَّهَا نَاظِرَةٌ - القيمة : ۲۳ - ۲۴) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۴) b ۲۷،۲۶- يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّحْتُومٍ - خِتُمُهُ مِسْكَ ۖ وَ فِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ - ترجمہ.ان کو سچی خوشی کا سرور دینے والا شربت جو اوروں کو نصیب نہیں پلایا جائے گا.اس کی مہر ( بجائے موم کے ) مشک کی ہوگی اور ہوس کرنے والوں کو چاہئے کہ اس میں پوری ہوس کریں.تفسیر.رحیق نام شراب کا ہے جس کی صفت قرآن شریف میں لَا فِيهَا غَوْلُ وَلَا هُمْ عَنْهَا يُنْزَفُونَ - الصفت: ۴۸) ہے.مختوم کے کئی معنے ہیں.ایک یہ کہ پینے کے بعد دیر تک اس کی خوشبو مسلک کی آتی رہے گی.دوسرے یہ کہ اس کا تل چھٹ ایسا ہے جیسا مسک.تیسرے یہ کہ سر بمہر کہ سوائے ان مدارج والوں کے دوسروں کو نہ ملے گی.اور جیسے یہاں مہر کے لاک ہوتی ہے وہ مہر مسک سے لگائی جاوے گی.ختمهُ مِسْك.تنافس کے معنے نفسا نفسی کرنے کے ہیں.جھگڑے کے بھی ہیں.یہ مبارک لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے الہام میں بھی ہے جو کتاب البریہ میں درج ہے.مخالفوں میں پھوٹ اور متنافس سگ دیوانہ پر پھٹکار.اس تنافس کو جس کا جی چاہے کتاب البریہ میں دیکھے.اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ میں فرمایا کہ تسابق و تنافس یعنی ایک دوسرے پر نعمت کے حاصل کرنے میں پیش دستی کرنا.دنیا کی جاہ و حشم و صدرنشیں یا نعمتوں پر کوئی پائیدار چیز نہیں.اگر کرنا ہے تو في ذلك یعنی ان رحيقٍ مختوم وغیرہ پر کرو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۴) لے بہت سے چہرے اس دن تازہ.اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے.وہ شراب ایسی ہے کہ اس سے عقل نہیں ماری جاتی.ہلاک نہیں ہوتا.چکر نہیں آتا اور نہ اس سے نشہ ہوتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۷۵ سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ ۲۸ - وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيهِ - ترجمہ.اور اس کی ملونی ایک اعلیٰ چیز کی ہوگی.تفسیر تسنیم کے لغوی معنے ارتفاع اور بلندی کے ہیں.اونٹ کی کو ہان کو سَنَامُ الْبَعِید کہتے ہیں.جہاد فی سبیل اللہ کو حدیث میں ذُروَةُ سَنَامِ الْإِسْلَامِ فرمایا ہے.تسنیم جنت میں وہ چشمہ ہے.جو جنت کے تمام پانیوں کے چشموں سے اشرف اور اعلیٰ ہے.جنتیوں کو اس چشمے سے بطور گلاب اور کیوڑے کے امتزاج کر کے دیا جاوے گا.مگر مقربین کے لئے خالص یہی شراب ہو گی جیسا کہ عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ سے واضح ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ /جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۴) ۳۱.وَإِذَا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغَامَرُونَ.ترجمہ.اور جب ان کے سامنے گزرتے تو آنکھیں مارا کرتے تھے ، تحقیر کرتے تھے.تفسیر: غمز کے معنے پلکوں اور بھوؤں سے اشارہ کرنے کے ہیں اور عیب لگانے کے بھی ہیں.(ضمیمه اخبار بدر نمبر ۲۶ جلد ۱۱ا قادیان ۱۳ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۴) ٣٢ وَإِذَا انْقَلَبُوا إِلَى أَهْلِهِمُ انْقَلَبُوا فَكِهِينَ - ترجمہ.اور جب وہ اپنے گھر کی طرف واپس جاتے تو باتیں بناتے خوش خوش.ا تفسیر ثعلبی کا قول ہے کہ فیھین اور فاکھین بظاہر دو مختلف لفظ ہیں.جیسے طامع اور طمع اور فارہ اور فرہ.مگر معنے دونوں کے ایک ہی ہیں.تبدیل ذائقہ کے لئے میوہ خوری، لذیذ کھانوں سے تلذذ ، فرضی قصہ کہانیوں اور ناولوں سے دل بہلانا ، مزے لینا.یہ سب فکھین میں داخل ہے.ایسے وقت میں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ میں کفار کو یہ سنا ر ہے ہیں.کون یقین کر سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور آپ کے اتباع ایسے کامیاب اور بامراد ہو جائیں گے کہ انہیں بڑے بڑے درجات ملیں گے.چنانچہ جب صحابہ نے عجم وشام کی فتوحات حاصل کیں تو یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.بہتے ہوئے چشمے اور دریا اور سبزہ زار اور ہر قسم کے مرغ زار
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُطَفِّفِينَ ان کے لئے موجود تھے اور تختوں پر بیٹھنے کی پیشگوئی تو صراحتنا بلا تاویل موجود ہے.ان کو اللہ تعالیٰ نے تخت نشینی عطا کی.یہ تمام انعامات جو اگلی آیات میں بیان کئے ہوئے ہیں.انہیں ملے.اور ان کے متعلق تفسیری نوٹ ہم پہلے لکھ چکے ہیں.عرض منکرین رسالت کی ناکامی اور نامرادی اور آپ کے صادق مخلصین اور متبعین کی کامیابیوں نے جن کے متعلق پیشگوئیاں کی گئی تھیں پورا ہو کر آخرت کے عذاب اور آرام جنت کے متعلق بھی تصدیق کر دی.بالآخر پھر یہ بتایا کہ اگر چہ آج یہ حالت ہے کہ خدا سے قطع تعلق کر نیوالے مومنین پر بہتان اڑاتے ہیں اور ٹھٹھے مارتے ہیں مگر وقت آتا ہے کہ مؤمنین کامیاب ہو جائیں گے اور یہ بننے والے خود ہنسی کا موجب ہو جاویں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.غرض اس سورۃ شریف میں بھی یوم الدین کا ثبوت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ثبوت ان واقعات سے دیا ہے.جن کو قبل از وقت پیشگوئی کے رنگ میں بتایا گیا تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۴)
حقائق الفرقان 122 سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ انشقاق کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن اور رحیم ہے.۲ - إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ - ترجمہ.جب آسمان پھٹ جائے.تفسیر.آسمان میں جس قدر اجرام فلکی ہیں.وہ سب سماء کے لفظ میں داخل ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انشقاق وسماء و انفطار پر جو کچھ تحریر فرمایا ہے.وہ مختصراً یہ ہے کہ سماء سے مراد كُلُّ مَا فِي السَّمَاء ہے.لطیف چیزیں بہ نسبت کثیف کے سریع الخرق ہوتی ہیں.خواہ آسمان لطیف ہو یا کثیف.الہی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم گون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے.ہر ایک جو بنایا گیا ہے تو ڑا جائے گا.قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفطار کے لفظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں.اُن سے ایسے معنے مراد نہیں جو کسی جسم صلیب یا کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں.جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر اللہ جل شانہ فرماتا ہے وَالسَّموتُ مَطوِيتَ بِيَمِينِهِ - (الزمر: ۲۸) اگر شق السموت سے در حقیقت پھاڑنا ہی مراد لی جاوے.تو مظویات کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا.دوسری جگہ فرمایا ہے.يَوْمَ نَطْوِي السَّمَاءَ كَطَيّ السّجِلِ لِلْكتب كَمَا بَدَ أَنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ (الانبياء : ۱۰۵) یعنی ہم آسمانوں اور زمین کو ایسا لپیٹ لیں گے.جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لے اور آسمان اس کے دہنے ہاتھ میں لیٹے ہوئے ہوں گے.
حقائق الفرقان ۱۷۸ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی.انہیں قدموں پر پھر یہ عائم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا.اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے.اس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویہ عدم میں چُھپ جائیں گے اور ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہر یہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر ایک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لے لے گی.یہی سموات کا انشقاق انفطار اور مطویات ہونا ہے.ع آسمان بار دنشاں آنوقت میگوئد ز میں لے یہ جملہ بھی حضرت صاحب کا ان آیات کی مختصر سی تفسیر ہے.٣- وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۴) ترجمہ.اور اپنے رب کا حکم سنے اور یہی اس کو چاہئے.تفسیر- آذنت.اذن سے مشتق ہے.جس کے معنے کسی بات کے سننے کے لئے کان لگائے رکھنا ، حکم کی تعمیل کرنا ہے.محقت کے معنے یہ ہیں کہ آسمان کا حق ہے کہ وہ ایسا کرے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۵٬۳۱۴) ۵،۴ - وَإِذَا الْاَرْضُ مُدَّت - وَالْقَتْ مَا فِيهَا وَتَخَلَّتْ - ترجمہ.اور جب زمین پھیلائی جائے.اور جو کچھ اس میں ہے وہ باہر ڈال دے اور خالی ہو جائے.تفسیر.آسمان کا پھٹنا ، زمین کا کشادہ ہونا اور اپنے مافیھا کو اپنے اندر سے اُگل دینا.ان واقعات کو قرآن کریم میں بلفظ دیگر یوں فرمایا ہے.أَو لَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا (الانبياء : ۳۱) یعنی زمینی اور آسمانی برکتیں بند تھیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے ساتھ ہی زمینی اور آسمانی برکتوں میں ترقیات ہونے لگیں.آپ کے عہد مبارک میں ان دونوں کا رتق ٹوٹا اور زمینی و آسمانی ترقیات کا سمندر بہہ نکلا.زمینی علوم و فنون جس قدر ترقی کر گئے اور کر رہے ہیں وہ ا آسمان نشان برسا رہا ہے اور زمین یہ کہہ رہی ہے کہ یہی وقت ہے.
حقائق الفرقان ۱۷۹ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ محتاج بیان نہیں ہیں.جس طرح آسمان کا اثر زمینی اشیاء قبول کر رہی ہیں.اسی طرح انسان بھی ذو جہتین ہے.جیسا کہ آگے فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ / جون ۱۹۱۲، صفحه ۳۱۵) - يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ - ترجمہ.اے انسان ضرور تجھ کو بڑی کوشش کرنی ہے اپنے رب تک پہنچنے میں.تو تو اس تک ضرور پہنچ جائے گا.تفسیر.انسان کے معنے خدا سے بھی اُنس رکھنے والا اور اہل وعیال بیوی بچوں سے بھی انس رکھنے والا.دوطرف کے تعلقات کا لازمی نتیجہ یہ ہو کہ انسان کا دح ہو.کدح کے معنے کسی چیز میں نہایت مشقت کے ساتھ کوشش کرنے کے ہیں.حدیث شریف میں ہے کہ لَيْسُوا عِبَادُ اللهِ مُتَنَعِميْن خدا کے بندے تن آسائش و تن پرور نہیں ہوتے.اور خاص کر خدا کی رضا کو پالینا اور اس سے ملاقات کرنا دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرے بغیر ممکن نہیں.اِنَّ سلعة الله لغالٍ.خدا کا سودا مہنگا ہے.اس زمانہ کی دشواریوں کا ذکر مختصر أحدیث شریف میں ابن ماجہ باب شدة الزمان میں یوں فرمایا ہے.لا يَزْدَادُ الْأَمْرُ إِلَّا شِدَّةً وَلَا الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا.وَلَا النَّاسُ إِلَّا شُمَّا وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا ابن ماجہ کتاب الفتن باب شدة الزمان ) عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ - لے فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبَه بِيَمِينِهِ.ترجمہ.تو جس کے سیدھے ہاتھ میں کتاب اعمال دی گئی.تفسیر.یمن کے معنے دایاں ہاتھ ، طاقت.جناب الہی کی پروانگی دعاؤں کے قبول ہونے کے راست بازی، اکل حلال ، قوت بازو کی کمائی، جناب الہی کی مرضیات کی روشنی.یہ ضروری امور ہیں.اگر یہ باتیں نہ ہوں.تو حدیث شریف میں آٹی يُسْتَجَابُ لَہ آیا ہے.کیونکر اس کی دعا قبول ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ /جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۵) فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا - ترجمہ.تو اس سے آسان حساب لیا جائے گا.ا معاملہ سختی میں دنیا اد بار یعنی تنزل میں بڑھتی چلی جائے گی اور لوگ بخل اور حرص میں بڑھتے چلے جائیں گے اور مہدی نہیں مگر عیسی بن مریم ہیں.
حقائق الفرقان ۱۸۰ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ حساب یسیر صرف بندہ کے لئے اس کے اعمال کا اس کے سامنے پیش کر دینا ہے.اور اس کی خطاؤں سے چشم پوشی و در گزر کرنا ہے.امام احمد، حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں دعا فرمائی اللهُم حَاسِبْنِی حِسَابًا يسيرًا.پوچھا کہ حساب بیسیر کیا ہے فرما یا صرف نامہ اعمال کا پیش کرنا اور درگز رفرمانا ہے.اور فرمایا.مَن نُوقِشَ فِي الْحِسَابِ عُذِّبَ جس کے حساب میں کرید کی گئی.وہ مُعَذَب ہو گا.ابوھریرہ سے مروی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.تین خصلتیں ہیں کہ ان سے حساب یسیر ہو گا.ایک یہ کہ جو اسے محروم رکھے اور نہ دے.اس کو دیا کرے.دوسرے یہ کہ جو ظلم کرے اس کو معاف کرے.تیسرے جو اس سے قطع رحمی کرے وہ اس سے وصل کرے.(انَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ ) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۵) ۱۴- إِنَّهُ كَانَ فِي أَهْلِهِ مَسْرُورًا - ترجمہ.کیونکہ وہ اپنے گھر والوں میں خوشحال رہا کرتا تھا.تفسیر.اس آیت کے بالمقابل دوسری جگہ مومنوں کی صفت یوں فرمائی ہے.لے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ - (الطور : ۲۷) مومن کو دنیا میں ہزار قسم تنعم ہو مگر آخرت کی فکر جاں گداز رہتی ہے.اور دنیا کی راحت ان پر تلخ رہتی ہے ولنعیم ما قيل.مرا در منزل جاناں چہ امن و عیش چوں ہر دم جرس فریاد میدارد که بر بندید محملها " اور بھی کسی نے کہا ہے.عشرت امروز بے اندیشه فردا خوش است ذکر شنبه تلخ دارد جمعه اطفال را کے (ضمیمه اخبار بد ر نمبر ۲۶ جلد ۱۱ قادیان مورخه ۱۳ / جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۵) ا ہم تو پہلے اپنے گھر والوں میں ڈرا کرتے تھے.۲ جانان کے گھر جا کر بھی کیا امن و عیش حاصل ہو گا کیونکہ ہر وقت گھنٹی یہی صدا دیتی ہے کہ سامان سفر تیار کرو.سے آج کی آسودگی کل کا سوچے بغیر ہی اچھی لگتی ہے کیونکہ ہفتہ کا ذکر کرنے سے بچوں کی جمعہ ( کی چھٹی) کا مزا کر کرا ہو جاتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۸۱ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ ۱۷ تا ۲۰ - فَلَا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ وَالَّيْلِ وَ مَا وَسَقَ وَالْقَمَرِ إِذَا اتَّسَقَ لَتَرْكَبُنَ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ - ترجمہ.میں شفق کی قسم کھاتا ہوں.اور رات کی اور جس کو رات ڈھانپ لے اس کی.اور چاند کی جب وہ پورا ہو جائے.کہ تم درجہ بدرجہ چڑھتے چلے جاؤ گے.تفسير لا أقسم کی توجیہہ سورۃ القیامۃ میں بیان ہو چکی ہے.شفق غروب آفتاب سے قبل اور بعد کی سرخی.وسق کے معنے جمع کرنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں.رات جَامِعُ الْمُتَفَرِّقِين ہے چرند پرند، حیوانات، انسان سب رات کو اکٹھے ہو جاتے ہیں.اتَّسَقَ چاند کا بھر پور ہونا ہے اور یہ تدریجا ہوتا ہے.اسی کو لتركبونَ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ میں واضح فرمایا.سورۃ التکویر میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مبارک سے آپ کے زمانہ میں جو ترقیات ہونے والی تھیں ان کو وَ الصبح اذا ہے تنفّس - التكوير : ١٩) فرما کر ذکر فرمایا.اور اس جگہ ان آیات باب میں آپ کے خلیفوں کے ذریعہ سے جو ترقیات مقدر تھیں ان کا ذکر فرمایا ہے.شفق نور نبوت کا دنیا سے رحلت فرمانا ہے اور یہ زمانہ کسی قدر خوف آمیز بھی ہوتا ہے.شفق کے لفظ میں اور لَيُبَتِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمنا.( النور : ۵۶) میں ایک لطیف مناسبت ہے.صدیق اکبر کے ابتدا زمانہ خلافت میں ارتداد عرب سے یہ شفق اور خوف دونوں واقع ہو گئے.بعد اختلاف یسیر کے مہاجرین وانصار کا اتفاق اور ایک خلیفہ کے ہاتھ پر ان کا جمع ہو جانا اسی ظلمت کے وقت میں وَ اللَّيْلِ وَمَا وَسَقَ کا ایک عجیب نظارہ تھا اور اب تو خداوند کریم کے فضل سے ایام بیض ولیالی بدر ہیں.جووَ الْقَمَرِ کے اِذَا اتَّسَقَ کے مصداق ہیں اور یہ جملہ ترقیات چونکہ تدریجا ہیں اس لئے لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ فرمایا.زبان انگریزی میں ایک ضرب المثل ہے.جو لَتَز گئِنَّ الآیہ سے موافقت رکھتی ہے فورٹ از ناٹ پیلٹ ان اے ڈے قمر کی تدریجی ترقی بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہے.ہمارا بدر پہلے البدر تھا اور اب خدا کے ے اور صبح کی جب وہ سانس لے.۲ے اور ان کو خوف کے بدلے میں امن عنایت فرمائے گا.(FORT IS NOT BUILT IN A DAY) یعنی قلعہ ایک ہی دن میں نہیں بن جاتا.
حقائق الفرقان فضل سے بدر ہو گیا.۱۸۲ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ لے شَبَّهَهُ بِالْبَدِ قَالَ ظَلَمُتَنِي يَا وَاضِعِي وَ اللَّهِ ظُلْمًا بَيِّنًا الْبَدرُ يَنْقُصُ وَ الْكَمَالُ فِي طَلْعَتِى فَلِأَجْلِ هَذَا صِرْتُ مِنْهُ أَحْسَنَ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا امورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۱۵) -۲۴- وَاللهُ اَعْلَمُ بِمَا يُوعُونَ - ترجمے.اور اللہ تو خوب جانتا ہے جو کچھ دلوں میں رکھتے ہیں.تفسیر.يُوعُونَ.وعاء سے مشتق ہے.جس کے معنے ظرف میں کسی چیز کے بھرنے کے ہیں.فَبَدَأَ بِأَوْ عِيَتِهِمُ.(یوسف:۷۷) انہی معنوں میں ہے.اوُعِیتْ وِعاء کی جمع ہے.بات کوسن کر محفوظ رکھنا بھی وِعاء ہے.تَعِيْهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ " (الحاقہ:۱۳) یہاں يُوعُونَ سے مطلب کفار کی اس منصوبہ بازی سے ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کی نسبت دل میں ٹھان رکھی تھی جو آفتاب کی صبح کے تنفس سے لیکر شفق تک اپنی تمامی منزلیں طے کرتا ہو.اس کو درمیان میں کون ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۱۳ رجون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۶) رو گے.۲۶ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ - ترجمہ.مگر ہاں جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے ان کے لئے بے انتہا اجر ہے.تفسیر.لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَسْنُونٍ - غیر ممنون، غیر مقطوع.قرآن شریف کے سجدات تلاوت میں سے اس سورہ شریفہ میں تیرواں سجدہ ہے.شق آسمان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو تحریر فرمایا ہے.اس کا اندراج بھی ضروری معلوم ہوتا ہے اور اگر یہ اعتراض پیش ہو کہ قرآن کریم میں یہ بھی لکھا ہے کہ کسی وقت آسمان پھٹ جائیں گے اور ان میں شگاف ہو جائیں گے.اگر وہ لطیف مادہ ہے تو اس کے پھٹنے لے اس نے اسے بدر ( چودھویں کے چاند ) کے ساتھ تشبیہ دی تو اس نے جواباً کہا اے میرا مقام گرانے والے بخدا تو نے میرے ساتھ بہت ظلم کیا ہے.چوہدھویں کا چاند ناقص ہے جبکہ میرا چہرہ کمال والا ہے.پس اسی وجہ سے میں اس ( چودھویں کے چاند ) سے زیادہ حسین ہوں.۲ پھر تلاشی لینی شروع کی ان کی خرجیوں میں سے تو اس کو یاد رکھے کوئی یا در کھنے والا کان.
حقائق الفرقان ۱۸۳ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ کے کیا معنے ہیں تو اس کا یہ جواب ہے کہ اکثر قرآن کریم میں سماء سے مراد محلّ ما في السَّمَا ءکو لیا ہے جس میں آفتاب اور ماہتاب اور تمام ستارے داخل ہیں.ماسوا اس کے ہر ایک جرم لطیف ہو یا کثیف قابل خرق ہے بلکہ لطیف تو بہت زیادہ خرق کو قبول کرتا ہے.پھر کیا تعجب ہے کہ آسمانوں کے مادہ میں بحکم رب قدیر و حکیم ایک قسم کا فرق پیدا ہو جائے وَذَلِكَ عَلَى الله يسير بالآخر یہ بات بھی یادر کھنے کے لائق ہے کہ قرآن کریم کے ہر ایک لفظ کو حقیقت پر حمل کرنا بھی بڑی غلطی ہے.اور اللہ جلشانہ کا یہ پاک کلام بوجہ اعلیٰ درجہ کی بلاغت کے استعارات لطیفہ سے بھرا ہوا ہے.سو ہمیں اس فکر میں پڑنا کہ انشقاق اور انفطار آسمانوں کا کیونکر ہوگا.درحقیقت ان الفاظ کے وسیع مفہوم میں ایک دخلِ بے جا ہے.صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ اور اس قسم کے اور بھی عالم مادی کے فنا کی طرف اشارہ ہے.البی کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس عالم کون کے بعد فساد بھی لازم پڑا ہوا ہے.ہر ایک جو بنایا گیا تو ڑا جائے گا.اور ہر ایک ترکیب پاش پاش ہو جائے گی اور ہر ایک جسم متفرق اور ذرہ ذرہ ہو جائے گا.ہر ایک جسم اور جسمانی پر عام فنا طاری ہوگی.اور قرآن کریم کے بہت سے مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ انشقاق اور انفطار کے لفظ جو آسمانوں کی نسبت وارد ہیں.اُن سے ایسے معنے مراد نہیں ہیں جو کسی جسم صلب اور کثیف کے حق میں مراد لئے جاتے ہیں جیسا کہ ایک دوسرے مقام میں اللہ جلشانہ فرماتا ہے.وَالسَّموتُ مَطوِينَ بِيَمِينِهِ (الزمر: ٦٨) یعنی دنیا کے فنا کرنے کے وقت خدا تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ سے لپیٹ لے گا.اب دیکھو کہ اگر شق السموت سے در حقیقت پھاڑ نا مراد لیا جائے تو مطویت کا لفظ اس سے مغائر اور منافی پڑے گا.کیونکہ اس میں پھاڑنے کا کہیں ذکر نہیں.صرف لیٹے کا ذکر ہے.پھر ایک دوسری آیت ہے جو سورۃ الانبیاء جزے میں ہے اور وہ یہ ہے.يَوْمَ نَطوى السَّمَاء كَطَى السّجِ لِلْكُتُبِ كَمَا بَدَ أَنَا اَوَلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا كُنَّا فَعِلِينَ (الانبياء: ۱۰۵)
۱۸۴ سُوْرَةُ الْإِنْشِقَاقِ حقائق الفرقان یعنی ہم اس دن آسمانوں کو ایسا لپیٹ لیں گے جیسے ایک خط متفرق مضامین کو اپنے اندر لپیٹ لیتا ہے.اور جس طرز سے ہم نے اس عالم کو وجود کی طرف حرکت دی تھی.انہیں قدموں پر پھر یہ عالم عدم کی طرف لوٹایا جائے گا.یہ وعدہ ہمارے ذمہ ہے.جس کو ہم کر نیوالے ہیں.بخاری نے بھی اس جگہ ایک حدیث لکھی ہے.جس میں جائے غور یہ لفظ ہیں.وَتَكُونُ السَّمَوتُ بِيَمِينِهِ یعنی لینے کے یہ معنے ہیں کہ خداوند تعالیٰ آسمانوں کو اپنے داہنے ہاتھ میں چھپالے گا اور جیسا کہ اب اسباب ظاہر اور مسبب پوشیدہ ہے.اُس وقت مسبب ظاہر اور اسباب زاویۂ عدم میں چھپ جائیں گے اور ہر ایک چیز اس کی طرف رجوع کر کے تجلیات قہریہ میں مخفی ہو جائے گی اور ہر ایک چیز اپنے مکان اور مرکز کو چھوڑ دے گی اور تجلیات الہیہ اس کی جگہ لیں گی اور علل ناقصہ کے فنا اور انعدام کے بعد علت تامہ کاملہ کا چہرہ نمودار ہو جائے گا.اسی کی طرف اشارہ ہے.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن: ۲۸۲۷) يمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ - (المومن : ۱۷) یعنی خدا تعالیٰ اپنی قہری تجلی سے ہر ایک چیز کو معدوم کر کے اپنی وحدانیت اور یگانگت دکھلائے گا.اور خدا تعالیٰ کے وعدوں سے مراد یہ بات نہیں کہ اتفاقاً کوئی بات منہ سے نکل گئی اور پھر بہر حال گلے پڑا ڈھول بجانا پڑا.کیونکہ اس قسم کے وعدے خدائے حکیم وعلیم کی شان کے لائق نہیں ہیں.صرف یہ انسان ضعیف البنیان کا خاصہ ہے.جس کا کوئی وعدہ تکلف اور ضعف یا مجبوری اور لاچاری کے مواقع سے ہمیشہ محفوظ نہیں رہ سکتا اور بایں ہمہ تقریبات اتفاقیہ پر مبنی ہوتا ہے.نہ علم اور یقین اور حکمت قدیمہ پر.مگر خدا تعالیٰ کے وعدے، اس کی صفات قدیمہ کے تقاضے کے موافق صادر ہوتے ہیں اور اس کے مواعید اُس کی غیر متناہی حکمت کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ مورخه ۱۳ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۶) ا ہر ایک جو اس پر ہے فنا ہونے والا ہے.اور باقی رہے گی ذات تیرے رب کی جو جلال اور بزرگی والی ہے.جس دن کہ وہ نکل کھڑے ہوں گے.چھپی نہ رہے گی اللہ پر ان کی کوئی چیز (اللہ فرمائے گا) آج کس کی بادشاہی ہے؟ ( ندا ہوگی ) اکیلے اللہ کی جو بڑاز بردست ہے.
حقائق الفرقان ۱۸۵ سُوْرَةُ الْبُرُوج سُوْرَةُ الْبُرُوج مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم - ہم سورہ بروج کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.یہ مکی سورۃ ہے اس میں بڑی بڑی پیش گوئیاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نبی کامل اور خاتم النبین ہونے اور مخالفین و منکرین کے ہلاک ہونے اور مومنین کے بالآخر کامیاب اور بامراد ہونے پر دلائل بیان کئے گئے ہیں اور پھر ان پیشگوئیوں کے لئے فرعون اور قوم ثمود کی ہلاکت کے واقعات کو اور اصحاب الاخدود کے واقعہ کو برنگ تائید پیش کیا ہے کہ مامورین اور مرسلین کے مخالف ہمیشہ ہلاک ہوئے اور اسی طرح آئمہ الکفر کا حال ہوگا.آخر میں قرآن مجید کی حفاظت کی زبر دست پیش گوئی کی ہے.بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظ.لوح محفوظ کے متعلق مسلمانوں نے جو کچھ مان رکھا ہے.اس کو بجائے خود رکھ کر اس سے یہ بھی مراد ہے کہ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ تختیوں میں رکھا ہوا ہے یعنی کبھی زمان کا امتدادا سے انسانی دستبرد کے نیچے نہیں آنے دے گا اور اس میں کسی قسم کی تحریف و تبدیل نہ ہو سکے گی چنانچہ دوسری جگہ اس کی تائید میں فرمایا.إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ قرآن مجید کی حفاظت کے اسباب کی توضیح اور تشریح یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں کہ کس کس طرح پر اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا انتظام فرمایا ہے بلکہ صرف اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی کے طور پر فرما دیا ہے کہ قران مجید فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظ ہے اور واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ فی الواقع وہ محفوظ ہے.یہاں تک کہ اس کا رسم خط تک ابتک برابر محفوظ چلا آتا ہے.غرض یہ سورۃ بھی پیشگوئیوں پر مشتمل ہے اور مختصر طور پر اسے درج کیا جاتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۸۶ سُوْرَةُ الْبُرُوج یوم الموعود سے مراد بدر کا دن ہے.جس دن بڑے بڑے اشرار اور معاندان حق ابو جہل وغیرہ ہلاک ہوئے اس دن کا نام یوم الفرقان بھی ہے.(فیصلہ کا دن ) اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس دن کی آمد کو قسموں کے پیرایہ میں بیان فرمایا ہے.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ - وَشَاهِدٍ وَ مَشْهُودٍ - یہ سورۃ اس وقت اتری.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سب مسلمان جو آپ پر ایمان لائے تھے.مصائب اور تکالیف کا نشانہ بن رہے تھے.کفار مسلمانوں کو سخت ایذا ئیں پہونچاتے.انہیں طرح طرح کی دھمکیاں دی جاتیں.مسلمان ہونے کی وجہ سے جلتی ریت پر لٹایا جاتا اور بت پرستی کے لئے مجبور کیا جاتا.کسی کو سولی پر لٹکا دیا جاتا.کسی کو جان سے ہی مار دیا جاتا.مسلمانوں کے لئے یہ سخت مصیبت اور ابتلاء کا وقت تھا.دنیا ان پر تنگ ہو رہی تھی.اسلام اور توحید کی خاطر جان دینا گوارا کرتے مگر ایمان دینا گوارا نہ کرتے.ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمائی اور نظیر ا اصحاب خندق کا واقعہ فرما کر مسلمانوں کو تسلی دی.اور کفار کوتنبیہ کی.اور اس بات کی پیشین گوئی کی کہ جس طرح کھائی والے کا فرا اپنی کرتوتوں کی وجہ سے آخر کا رخود ہی طمعہ نار ہوئے اُسی طرح کفار مکہ بھی آخر کار یقیناً اور لاریب طمعہ نار حرب ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی وقوع میں آیا.اور قیامت کے دن یہ بڑا خوفناک اور پر عبرت موقع ہو گا.جبکہ یہی خدا کے مامور و مرسل جو دنیا میں ذلیل سمجھے جاتے ہیں.عزت کے تخت پر جلوہ افروز ہوں گے اور ان کی امت کے سرکش اور شریر لوگ جو دنیا میں بڑے بڑے معزز اور رئیس خیال کئے جاتے ہیں اور تضحیک و استہزاء سے پیش آتے ہیں وہاں ذلت کے گڑھے میں گرائے جائیں گے.اور سخت نادم اور رسوا ہوں گے.پس ان کفار مکہ کو اس دن کے مصائب اور تکالیف سے ڈرنا چاہیے.جب کہ دنیا میں وہ انقلاب عظیم واقع ہو.یوم الجزاء قائم ہو.سب کے سامنے مالک عرش بریں کے حضور کھڑے ہوں اور اپنے اعمال کی جو ابد ہی کریں.پیغمبروں کو جھٹلانے والے ذلت اور رسوائی کے گڑھے میں گرائے جائیں گے.اور ان کے ماننے والے تخت عزت پر جلوہ افروز ہوں گے.اس سورۃ کے شروع میں اللہ تعالیٰ نے
حقائق الفرقان ۱۸۷ سُوْرَةُ الْبُرُوج قیامت کا ثبوت دیا ہے.اور قسم کے پیرا یہ میں قدرت الہی کا ایک زبر دست نشان ( تغیر وانقلاب موسم کو ) پیش کر کے اس بڑے انقلاب (قیام قیامت) کے وقوع پر استدلال فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے آسمان کی اس جہت سے کہ اس میں بارہ برج کے تصور کئے گئے ہیں جن کے اندر آفتاب سال بھر میں دورہ کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور ہر ایک برج میں آفتاب کے داخل ہونے سے عالم اور اہل عالم پر ایک انقلاب جدید واقعہ ہو جاتا ہے کبھی سردی ہے کبھی گرمی کبھی برسات کبھی خزاں.قسم کھا کر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ جس طرح ان برجوں کے اندر آفتاب کے داخل ہونے سے ایک نیا انقلاب زمانہ پر وارد ہوتا رہتا ہے اور ان انقلابات کا نظارہ اور مختلف موسموں کی تبدیلی ہر سال آنکھوں سے دیکھتے ہو.اسی طرح قریب ہے کہ وہ انقلاب عظیم بھی دنیا میں واقع ہو.آفتاب یکا یک حکم الہی سے ٹھہر جاوے.نظام عالم کی کل درہم برہم ہو جاوے اور اس یوم موعود کا نظارہ آنکھوں کے سامنے جلوہ گر ہو.جو ذات انقلاب موجودہ پر قدرت رکھتی ہے اور ہر روز نیا انقلاب کرتی ہے.اس کے آگے وہ انقلاب عظیم بھی کوئی بڑی بات نہیں.قریب ہے کہ وہ یوم موعود یعنی قیامت کا دن بھی نمایاں ہو.اور تمام دنیا جی اٹھے.محاسبہ اعمال کے لئے سب خدا کے حضور میں حاضر ہو جائیں گے اور ہر ایک گواہی دینے والا.یعنی نبی اپنی امت کی حالت پر گواہی دے کہ انہوں نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا.پیغامات الہی کو کہاں تک مانا اور کیسے کیسے دکھ دے.برجوں والے آسمان کی قسم قریب ہے کہ آفتاب دورہ کرتے لے برج سے مراد کوئی گنبد یا عمارت نہیں ہے.بلکہ سیاروں کے اجتماع سے کوئی بیل کی شکل ہوگئی ہے.اس کا نام برج ثور رکھ دیا گیا.کوئی شیر کی اسے برج اسد کہہ دیا گیا.غرضیکہ ستاروں کے اجتماع سے اہل بیت نے ایسی شکلیں فرض کر لی ہیں.انہیں میں آفتاب کا ظاہری دورہ تصور کیا گیا ہے اور آفتاب ہر برج میں داخل ہو کر ایک انقلاب جدید پیدا کرتا ہے.کتاب ایوب ۲۸ باب ۳۲ میں ہے.کیا تجھ میں قدرت ہے کہ منطقہ و بروج کو ایک ایک اس کے موسم میں پیش کرے گا کیا تو افلاک کے قانونوں کو جانتا یا ان کا اقتدار زمین پر جاری کر سکتا ہے.نہیں ہرگز نہیں وہی دلیل قسم کی صورت میں اسجگہ ذکر کی گئی ہے.یعنی خداوند تعالیٰ اپنے وقت اور اپنے موسم پر ان کفار کو ہلاک کرے گا ہر ایک امر کا ایک وقت اور پیمانہ ہے.جب پیمانہ بھر جاوے پھر ایک منٹ آگے پیچھے ہو سکتا.اِنَّ أَجَلُ اللهِ إِذَا جَاءَ لا يُؤَخَّر
حقائق الفرقان ۱۸۸ سُوْرَةُ الْبُرُوج ہوئے وہ دن بھی آجاوے.جب کہ کفار مکہ (اصحاب خندق کی طرح) ذلت اور ہلاکت کے گڑھے میں گرے ہوئے ہوں اور پھر اس یوم موعود کی قسم ہے.جس دن جلال الہی کا نظارہ لوگوں کی نظر میں جلوہ گر ہو.اور پھر اس شخص کی قسم ہے.جو اس روز شاہد (حاضر) ہو اور یہ نظارہ جلالت الہی کا اپنی نظروں سے دیکھے.اور مشہور ( یعنی حاضر کئے گئے ) کی قسم جن لوگوں کا نظارہ اہل بصیرت اسی دن مشاہدہ کریں گے.یہ وہ دن ہو گا کہ لوگ خدا تعالیٰ کی قدرت کو سمجھیں گے اور اس کے وعدوں کو سچا پائیں گے.کفار ناہنجار اسی طرح ہلاک ہو جائیں گے.جس طرح پر اصحاب اخدود یعنی کھائی والے ہلاک کئے گئے.اور خدا کی عجیب قدرت نمایاں ہوگئی.مختصر حال اصحاب خندق کا یہ ہے کہ ایک عیسائی لڑکا بڑا خدا پرست اور صاحب کرامت تھا.چنانچہ کئی آدمی اس کی کرامتیں دیکھ کر اور وعظ سن کر ایمان لے آئے.اس وقت کا بادشاہ جو بہت بڑا بت پرست تھا لوگوں کو جبراً بت پرستی کرا یا کرتا تھا.چنانچہ اس نے جب ان لوگوں کا حال سنا.تو سخت برافروختہ ہوا اور ان لوگوں کو زجر و توبیخ کے بعد بت پرستی کے لئے مجبور کیا.جب انہوں نے نہ مانا تو زمین میں ایک لمبا چوڑا گڑھا کھدوایا.اور اسے آگ سے بھروا کر ان آدمیوں کو وہاں ڈلوا دیا.وہ یہ ظلم کر ہی رہا تھا کہ دفعتہ وہ آگ اس شدت سے مشتعل ہوئی کہ اس کی لپٹ بادشاہ اور امراء تک جا پہونچی.سب کے سب قہر الہی کی آگ میں بھسم ہو گئے یہ قصہ ایک عبرتناک واقعہ اور زبردست پیشگوئی تھی.کفار مکہ کے لئے جو مسلمانوں کو سخت دکھ دے رہے تھے.انہیں ایمان لانے سے روکتے اور طرح طرح کی ایذائیں دیتے.کئی کو صلیب پر چڑھا دیا.زندوں کو تپتی ہوئی ریت میں ڈال دیتے تھے.کئی صحابہ کو جان سے مار ڈالا.خدا تعالیٰ نے ان کو اس مصیبت سے نجات دے دی اور ڈرایا کہ اِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لَشَدِيدُ (اے نبی ) بے شک تیرے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے.چنانچہ آخر کار اللہ تعالیٰ ان کفار کو ایسا پکڑا کہ سب کے سب فناو نیست و نابود ہو گئے.اور جس طرح اصحاب خندق اسی نار میں جل مرے.جل سے مومنوں کو جلا رہے تھے.اسی طرح کفار مکہ بھی اسی تلوار سے مارے گئے.جو مسلمانوں کی ایذا اور قتل کے لئے انہوں نے نکالی.خیال کرنا چاہیے کہ جس وقت یہ سورۃ نازل ہوئی ہے.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کوئی سامان تھا؟ جس کے بھروسے پر آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی، ہرگز نہیں.آپ بالکل
حقائق الفرقان ۱۸۹ سُوْرَةُ الْبُرُوج بے زر، بے زور، بے سامان تھے اور خود آفات و بلیات کا نشانہ بن رہے تھے اور سلامت بچنے کی امید نہیں تھی.لیکن آپ نے قطعیت اور وثوق کے ساتھ وعدہ فرما یا کہ ضرور ضرور کفار ہلاک ہوں گے اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نصرت اور فیروزی عطاء فرمائے گا.پس ایسا کلام بجز ملک العلام کے اور کسی کا نہیں ہو سکتا اور یہ بات دنیا کے تمام کفار، آریہ برہمو اور عیسائی وغیرہ کے لئے حجت ہے.(ترجمته القرآن) ۲ تا ۴.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج - وَالْيَوْمِ الْمَوْعُودِ - وَشَاهِدٍ وَ مَشْهُودٍ - ترجمہ.ستاروں والے آسمان کی قسم.اور وعدہ کے دن کی قسم.اور نبی کریم کی قسم اور اس کی امت کی.تفسیر.بُرُوج.عربی زبان میں روشن ستاروں کو کہتے ہیں.برج کے لغوی معنے ظاہر کرنے کے ہیں.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج سے مراد معروف بارہ برج حمل، ثور، جوزاء، سرطان وغیرہ لئے ہیں مگر اسی قدر پر ٹھہر جانے سے آگے مطلب نہیں چلتا اور نہ آیات ماسبق کی آیات مالحق سے کوئی مناسبت پیدا ہوتی ہے.اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ بالا تفاق یہ سورۃ مکی ہے.اور اس وقت نازل ہوئی جبکہ نو مسلم صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کفار کا شکار ہورہے تھے.کوئی گرم تپتے ہوئے پتھروں پر لٹایا جاتا تھا اور کوئی بڑی بڑی بے رحمیوں سے قتل کیا جاتا تھا کہ گویا کہ آسمانی سطوت و جبروت کا مقابلہ زمینی حکومت سے کیا جارہا تھا.اور یہ جانکاہ چیزیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری میں درپیش تھیں جن سے آپ کو اور نومسلم کمزور اصحاب کو صدمہ عظیم تھا.اس لئے ان مظالم کے جواب میں جو زمینی حکومت کے ذریعہ سے کی جاتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے بھی تین ملکوتی سطوت اور جبروت کو پیش کیا ہے جو سماء ذات بروج ، یوم موعود ، شاہد و مشہور ہیں.سماء ذات بروج سے سارا ملکوتی اقتدار مراد ہے.نہ صرف روشن ستارے یا سرطان، اسد، سنبله میزان، عقرب و غیره بروج معروفہ یا یوں تصور فرما دیں کہ ” دولت برطانیہ" کہنے کو تو ایک لفظ ہے مگر
حقائق الفرقان 190 سُوْرَةُ الْبُرُوج اس ایک لفظ کے مفہوم میں انگلینڈ، آئرلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ولش اور ان کے تمامی مختلف ڈیپارٹمنٹ اور صوبے اور حکومتیں ہیں.جن پر سے رات اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں سے کسی ساعت میں بھی آفتاب کا زوال نہیں ہوتا.زمینی حکومت کے ذریعہ سے جو تعذیب کی جا رہی تھی اس کے بالمقابل سماء ذات بروج ، یوم موعود، شاہد و مشہود کو رکھا ہے.یوم موعود میں دس بارہ قول بیان ہوئے ہیں.اس تو جیہہ سے جو اوپر بیان ہوئی.سارے ہی قول صحیح ہو جاتے ہیں.علی لھذا القیاس.شاہد و مشہور بھی.یوم موعود کی نسبت کہا گیا ہے کہ بدر کادن فتح مکہ کا دن، جمعہ کا دن، قیامت کادن، عاشورہ کا دن، فرعون کے غرق ہونے کا دن.غرض کہ ہر جزا سزا کے ملنے کا دن.یہ سارے ہی دن ٹھیک اور درست ہیں.اسی طور پر شاہد ومشہود یعنی عرفہ کا دن لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ - (الحج:۲۹) قیامت کا دن ذُلِكَ يَوْمٌ مَجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَ ذُلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ - (هود: ۱۰۴) كِرَامًا كاتبين - (الانفطار : (۱۲) اور مخلوق.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت.تمامی انبیاء اور ان کی امتیں.کل فرشتہ اور مخلوق.وَ جَاءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَابِقٌ وَ شهید.(ق: ۲۲) حتی کہ کفی با الله شهیدا.(النساء:۸۰) سے ذات باری تعالیٰ اور تمامی مخلوق سالم بن عبد اللہ نے مراد لیا ہے.غرض کہ یہ تین آیتیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ کے نومسلم اور مظلوم اصحاب کی تسلی تشفی کے لئے نازل فرما ئیں.جن میں اللہ تعالیٰ کی سطوت اور جبروت اور ملکوتی اقتدار کا بیان ہے.جو کفار سے انتقام کے لئے کافی و وافی ہیں.اس کے بعد نظیراً اصحاب اخدود کے واقعہ کو تین ہی آیتوں میں بالمقابل بیان فرمایا ہے.- (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۲۷ جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۹٬۳۱۸) ا تاکہ حاضر ہو جاویں اپنے فائدوں کے لئے.انجام کار کا وہ دن ہے جس میں سب جمع ہوں گے اور وہ ایک دکھتا ہوا دن ہے.سے بزرگ لکھنے والے.، ہر ایک نفس آئے گا اس کے ساتھ ایک ہانکنے والا ہو گا ایک گواہی دینے والا.ھے اور اس بات پر اللہ ہی کی گواہی بس ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۱ سُوْرَةُ الْبُرُوج ۶ تا ۸ - النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ - إِذْ هُمُ عَلَيْهَا قُعُودُ وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودُ.ترجمہ.وہ خندق جس میں لکڑیٹئیں بہت بھر کر سلگائی گئی.جب وہ اس پر کھڑے یا بیٹھے دیکھ رہے تھے.جو مومنوں کے ساتھ کرتے تھے وہ دیکھ رہے تھے.تفسیر.زمینی حکومت کے ذریعہ سے آگ کی خندقوں کا تیار کرنا اور ان پر تماشہ بینی کے لئے کرسیں بچھا کر بیٹھنا اور بالآخر اس وقت کے مؤمنین کو ( جو غالبا عیسائی موحد تھے ) ان خندقوں میں جھونکنا یہ ایک ایسا نظارہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا تھا کہ جس سے ان کی اپنی تکلیفوں کا اندازہ مقابلہ ان کو معلوم ہو گیا.حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ان آیات کو پڑھتے تو فرماتے.اللهُمَّ إنِّي أَعُوذُبِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرَكِ الشَّقَاءِ وَسُوْءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَتِ الْأَعْدَاءِ أَصْحَابُ الْأُخْدُود کے قصہ کو امام مسلم، احمد، ترمذی نے حضرت صہیب رومی سے نقل کیا ہے.النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ کے مقابلہ میں سَمَاء ذَاتِ الْبُرُوج تھا.اِذْهُمْ عَلَيْهَا قُعُودُ کے مقابلہ میں اَلْيَوْم الْمَوْعُود تھا.وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُوْنَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ شُهُودٌ کے مقابلہ میں وَ شَاهِدٍ وَمَشْهُودٍ تھا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ا ا مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) ١١ - إِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جهنم فَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ - ترجمہ.بے شک جن لوگوں نے ستایا ایماندار مردوں کو اور ایماندار عورتوں کو پھر تو بہ نہ کی تو ان کے لئے جہنم ہی کا عذاب ہے اور سخت جلنے کا.تفسیر.سابق کلام میں چونکہ خاص واقعات کا بیان تھا.اس لئے اس آیت شریفہ میں اسی قسم لے اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں بلا کی سختی اور مشقت سے اور بدبختی میں پڑنے سے اور بُری قضاء سے اور دشمنوں کی ہنسی مذاق کا نشانہ بننے ) سے.
حقائق الفرقان ۱۹۲ سُوْرَةُ الْبُرُوج کے مظالم اور ان کے انتقام کو عام کر دیا.فتنہ کا لفظ ہر چھوٹے بڑے ابتلاء اور امتحان کے ہیں.آگ میں ڈالنا یہ بھی فتنہ ہے.يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (الذاريات: ۱۴) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) 1991 1917.۱۸ ۱۹ - هَلْ أَنكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ - فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ - ترجمہ.کیا تجھے لشکروں کی خبر ملی.فرعون اور ثمود کے.تفسیر.فرعون، خمود اور ان کے علاوہ اور اور جنود کفار کے اپنے وقت کے پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ جو مظالم برت کر مورد انتقام ہوئے.اصحاب اخدود کے ساتھ میں ان کو بھی بطور ضمیمہ کے یادکرلو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ا ا مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) ۲۱ - وَاللَّهُ مِنْ وَرَابِهِمْ مُحِيطٌ - ترجمہ اور اللہ ان کو آگے چل کو گھیر لے گا.تفسیر.وَرَآء.لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں جسے کوئی پوشیدہ کر لے یا کسی چیز کی اوٹ میں آ جاوے اور اس کا اطلاق پس و پیش دونوں پر آتا ہے.اور اس آیت میں بطور اشتراک معنوی دونوں معنوں کو شامل ہے.معنے آیت کے یہ ہیں.آگے پیچھے گھیر رہا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) ۲۲ ، ۲۳ - بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ - فِي لَوْحٍ مَحْفُوظٍ - ترجمہ.( کچھ نہیں) بلکہ یہ قرآن ہے بڑے رتبے کا تختیوں میں محفوظ رہے گا.تفسیر.جو کوشش کہ قرآن شریف اور اسلام کے مٹانے کے لئے کی گئی تھی.اس کا اضراب بل کے لفظ سے کیا.اور قرآن کے لفظ میں فرمایا کہ یہ ہمیشہ پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس میں آتارہے گا.تختیوں، کاغذوں پر لکھا جایا کرے گا اور محفوظ و مصون رہے گا.فَلِلَّهِ الْحَمْدُ کہ ایسا ہی ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ صفحه ۳۱۹) ظہور میں آ رہا ہے.لے ایک دن وہ آگ پر درست کئے جائیں گے.
حقائق الفرقان ۱۹۳ سُوْرَةُ القَارِقِ ۲.سُوْرَةُ الطَارِقِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ طارق کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ عظیم کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ - ترجمہ.قسم ہے آسمان کی اور رات کو آنے والے کی.تفسیر.طرق کے لغوی معنے ٹھونکنے کے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں نجم ثاقب کو اس لئے طارق فرمایا کہ وہ شیاطین کو ٹھوک پیٹ کر کھدیڑتے ہیں.اور آسمان کے لئے محافظ ہیں.جب کہ ہر نفس کے محافظ ہیں تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ضیانت و حفاظت بالا ولی ضروری ہے.راستہ ٹھونکنے پیٹنے سے اور اقدام کی رفتار سے مضبوط ہو جاتا ہے.اس لئے طریق کہلاتا ہے.مسافر لوگوں کے رات کو سور ہنے کے بعد جو دروازہ کو کھٹکھٹائے وہ بھی طارق ہے.ایک شاعر کا قول ہے.لے طَرَقْتُ الْبَابَ حَتَّى كَلَّمَتْنِي فَلَمَّا كَلَّمَتَنِي كَلَّمَتَنِي غرض کہ سورۃ شریف کا موضوع پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضیانت اور حفاظت اور آپ کے اعداء کو آپ پر حملہ کرنے سے ٹھوک پیٹ کر دفع کرنا سمجھا جاتا ہے.اور یہ حفاظت و ذب ودفاع ظاہری اور باطنی دونوں طور سے متصور ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) ۴.- النجم الثاقب - ترجمہ.وہ چمکدار ستارہ ہے.تفسیر.ثاقب: دور کا ستارہ شریا اور تمامی ستارے بھی مراد ہو سکتے ہیں.کل اصحاب آپ کی ا میں نے دروازہ کھٹکھٹایا یہاں تک کہ وہ مجھ سے ہمکلام ہوئی.جب اس نے مجھ سے گفتگو کی اس نے مجھے زخمی کر دیا.
حقائق الفرقان ۱۹۴ سُوْرَةُ الطَارِقِ حفاظت کے لئے نجم ثاقب تھے.بعض ستاروں کے طلوع کے وقت بیماریوں کے اجرام ان ستاروں کی تاثیر سے ہلاک ہو جاتے ہیں.سب سے بڑا شیطانوں کو ٹھوک پیٹ کر کھدیڑنے والا وجود نبی ہی کا ہوتا ہے.ہمارے ایک دوست نے اس بات کو ایک شعر میں ادا کیا ہے.آسماں سے نجم ثاقب اس شب تاریک میں سر پہ شیطانوں کے پڑنے کے لئے نازل ہوا ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ ۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱۹) ۶ تا ۸ - فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ - خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصلب والترايب - ترجمہ.تو انسان کو چاہئے کہ وہ دیکھ لے کہ وہ کس چیز سے پیدا ہوا ہے.وہ پیدا کیا گیا ہے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے.جو نکلتا ہے پیٹھ اور چھاتیوں کے بیچوں بیچ ( یعنی دھڑو پشت و شکم کے بیچ میں سے ).تفسیر فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ - خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَ التر آب.اس آیت قرآنی پر جس میں انسان کی فطرت کا بیان مشاہدے کے طور پر بتایا گیا ہے.پادری صاحب اعتراض کرتے ہیں.افسوس ہے کہ یہ لوگ کبھی قرآن کے اصلی لٹریچر سے واقفیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے.عوام کی سنی سنائی باتوں کو دل میں رکھ کر اعتراض جمانے لگتے ہیں.کسی کتاب پر اعتراض کرنے سے پہلے اس کے اصلی ادب سے بلا واسطہ واقف ہونا فرض ہے.اعتراض نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر صاف صاف دکھلا سکتے ہیں کہ منی خصیے میں پیدا ہوتی ہے یہ ا پس دیکھ لے کس چیز سے آدمی بنایا گیا ہے.بنایا گیا ہے اُچھلتے پانی سے جو نکلتا ہے صلب اور ترا کے درمیان کی جگہ سے.الرائب جَمْعُ تَرِيْبَةٍ وَهِيَ عَظْمُ الصَّدْرِ مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ.(صحاح) ترائب جمع ہے تریبہ کی اور تریبہ سینے کی ہڈی کو کہتے ہیں.مرد کی ہو یا عورت کی.
حقائق الفرقان ۱۹۵ سُوْرَةُ الطَّارِقِ بات غلط ہے کہ منی باپ کی پیٹھ اور ماں کے سینے میں ہو.جیسے قرآن ہے.“ جواب: ہم کو نہایت تعجب آتا ہے جب ہم پادریوں کو نیچرل فلاسفی وغیرہ سائنٹیفک مصطلحات بولتے سنتے ہیں.انجیل اور فلاسفی انجیلی تعلیم سخت ہچکچاتی ہے کہ میدان میں نکل کر سائنس سے مقابلہ کرے.پادری ڈی ڈبلیو تھا مس ( تشریح التثلیت صفحہ ۲۲) معمائے تثلیث کے حل سے عاجز آ کر کیسے بے اختیار کہہ اٹھے ہیں." خلقت ( نیچر.قانونِ الہی ) کے احوال سے استدلال اور عقلی دلائل اس میں چل نہیں سکتے.اس کا ثبوت ہمہ کلام الہی پر موقوف ہے.“ نیچرل فلاسفی ! بڑا لفظ بولا.دوسرے مذاہب پر اعتراض کرنے کے لئے تو بے اختیار یہ لفظ زبان سے نکلے گا.اندرونِ خانہ تو امید ہے کم ہی استعمال کرنے کا موقع آتا ہو گا.پادری صاحب! نیچرل فلاسفی کے ڈاکٹر یوشع بن نون کی خاطر سورج کا کھڑا ہونا ، مُردوں کا زندہ کرنا ، مجسم شخص کا آسمان پر چڑھ جانا ، بے باپ کے لڑکا پیدا ہونا کب تسلیم کرتے ہیں.پہلے انہیں ہی نیچرل فلاسفی کی کسوٹی پر کس لیا ہوتا.اب حقیقی جواب دینے سے پہلے ایک دو باتوں کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تا کہ قرآن مجید کی عظمت بخوبی واضح ہو جاوے.شیخ سعدی ملک ایران میں پیدا ہوئے.جس ملک کی نسبت مؤرخوں نے لکھا ہے کہ یونان اور عرب کے علوم مصر سے اور مصر کے علوم ہند یا ایران سے.اور بہتوں کا خیال ہے کہ ہند کے علوم بھی ایران سے لائے گئے.پھر اسلام کے ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جبکہ مسلمانوں کے علوم اپنے اوج پر پہنچے ہوئے تھے.مزید برآں حضرت شیخ نے اپنے علوم کو سیاحت اور تجر بہ زمانہ سے اور بھی چلا دی تھی.بایں ہمہ شیخ کی تحقیقات کا نتیجہ یہ ہے " ز صلب آوردنطفه در شکم، لے جس پر آجکل کی علمی دنیا ہنسی اڑاتی ہے.ا صلب سے نطفہ پیٹ میں آتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۶ سُوْرَةُ الطَّارِقِ ملک عرب میں بھی بالخصوص صلب و اصلاب ہی کا محاورہ دائر وسائر تھا اور یہیں تک ان کے محدود ذہن کی رسائی تھی.مگر قرآن کریم پر قربان جائیے جو ہمیشہ ہر زمانے میں اپنی راستی اور صداقت دکھانے کو تیار ہے.اور ابد تک رہے گا.یہیں سے انسانی کلام اور الہبی کلام کا تفرقہ معلوم ہوتا ہے.لیجئے اب قرآن کا مطلب سنئے.حقیقی جواب : فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّا دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ والترائب ( الطارق: ۶ تا ۸) کیا معنی کہ نطفہ صلب اور ترائب کے بیچوں بیچ سے آتا ہے.صلب پیٹھ کی ہڈی کو کہتے ہیں.ترائب جمع ہے تریبہ کی.سینے کی ہڈی.اب غور کر و نطفہ اور منی شریانی خون سے بنتی ہے.اور وہ شریان دل سے نکلتا ہے.اور دل صلب و ترائب کے بیچوں بیچ ہے.اور طرح پر مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ باری تعالیٰ متکبر انسان کی گردن عجب توڑنے کو اُسے اس کی خلقت جسمانی منبع کی طرف توجہ دلاتا ہے.اور چونکہ قرآن کلام الہی ہے اور ہر مجلس میں جوانوں، بوڑھوں، عورتوں میں پڑھا جاتا ہے.اس لئے ضرور ہے کہ انسانی اصلاح کے ہر قسم کے مطالب و اشارات اعلیٰ درجے کی پاکیزگی اور تہذیب سے ادا کرے.یہاں دانا سمجھ گئے ہوں گے اور حق شناس تو سمجھتے ہی ہیں کہ گردن کش انسان کو نصیحت کرنا قرآن کریم کو منظور ہے اور کس جگہ کی طرف اشارہ اُسے مقصود ہے.مگر اللہ اللہ کس خوبی اور لطافت سے اس مضمون کو نبھایا ہے.یہی اس کتاب کریم کا اصلی اور سچا معجزہ ہے.معترضوا خواہ مخواہ کی طعنہ زنی کے عاشقو! ترائب سے نیچے نگاہ کرتے جاؤ اور صلب کی طرف لے انسان کو چاہیے.دھیان کرے کہ کس چیز سے پیدا کیا گیا ہے.پیدا کیا گیا ہے اچھلتے پانی سے جو پشت اور سینے کی ہڈیوں کے بیچوں بیچ سے ہو کر نکلتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۷ سُوْرَةُ الطَارِقِ چلے جاؤ.عین بین یعنی بیچوں بیچ میں تم کو وہ پمپ یا فوارہ نظر آویگا.جس میں سے وہ اچھلتا پانی نکلتا ہے جو انسان کی پیدائش کا منبع یا مبداً ہے.غور کرو،سوچو، ایمان اور انصاف سے کام لو.کیا مقصود تھا.کیا مطلب تھا.کس طرز پر ادا کیا.اس سے بڑھ کر فصیح اور پاک کلام کوئی دنیا میں ہے.علم ادب اور عربی سے آگاہی حاصل کرو.فصحائے عرب عضو تناسل کا نام جب بتقاضائے وقت لازم ہو.ایسی ہی نہج سے لیا کرتے ہیں.چنانچہ افصح العرب والنجم ایک حدیث میں فرماتے ہیں.مَنْ يُضْمَنُ لِى مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنُ لَهُ الْجَنَّةَ یعنی جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کو فواحش اور منکرات سے روکے.میں اُسے جنت دلواؤں گا الْحَمْدُ لِلهِ عَلى ذلِكَ إِنْ هُوَ إِلَّا مَا الْهَمْنِي بِهِ رَبِّي - فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۲۸ تا ۱۳۱) خُلِقَ مِنْ مَاءٍ دَافِقٍ - وافق.سیال پانی.یکے بعد دیگرے متواتر گرنے والے قطرے.دافق، مدفوق کے معنوں میں ہے.عرب کی بولی میں فاعل مفعول کے معنوں میں کثرت سے بولا جاتا ہے.جیسے سر كَاتِمُ أَلَى مَكْتُومٌ وَفِي قَوْلِهِ فِي عِيْشَةٍ رَاضِيَةٍ - (الحاقه:۲۲) أَن مَرْضِيَّةٍ - حضرت صاحب کی ایک نظم میں دفق کا لفظ اس طرح آیا ہے ہر که بر دفق حکم مشغول است برسير أجرت است و مقبول است (براہین احمدیہ) دفق کے معنے اس شعر میں حکم کے ساتھ ہی کو دنے ، پھاند نے فوراً چلے جانے کے ہیں.قرآن شریف کی ما سبق آیات کا ربط آیات ملحق سے یہ ہے کہ کفار جنہوں نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل اور ایذاء اور مقابلہ کی ٹھان رکھی تھی.ان کو توجہ دلائی اس طرف کہ غرور تکبر نبی کے مقابلہ میں لے یعنی جو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دو جبڑوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے ( یعنی عضو تناسل ) میں اس کے واسطے جنت کا ضامن ہوتا ہوں.۲.پس وہ شخص تو بڑے عیش اور پسندیدہ زندگی میں ہوگا.سے وہ جو حکم کو فورا ہی بجالانے میں مصروف ہے اس کو اجر مل رہا ہے اور وہ مقبول ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۸ چھوڑ دیں.اور اپنی پیدائش کو سوچیں کہ کس حقیر اور نا چیز قطره آب سے ہوئی ہے.سُوْرَةُ الطَّارِقِ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا امورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۰٬۳۱۹) تَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَابِب - ترائب کے معنے پستان کے صحیح نہیں ہیں.اگر پستان مراد ہوتے تو صیغہ تثنیہ کا ہوتا.ترائب تریبہ کی جمع ہے.ترائب سینہ کے دائیں بائیں دونوں طرف کی پسلیوں کی ہڈیوں کو کہتے ہیں.دل چونکہ صلب اور ترائب کے درمیان واقع ہے.اور دل سے شریانی عروق پیوستہ ہیں اور انہیں شریانی خون سے منی پیدا ہوتی ہے.( گو اوعیہ منی بيضتين ہوں.جو فلٹر کا کام دیتے ہیں مگر یہاں تو ذکر مخرج کا ہے نہ کہ فلٹر کا ) اس لئے انسان کی حقیر پیدائش کا ذکر نہایت تہذیب کے ساتھ کیا.كَلَامُ المُلُوكِ مُلُوكُ الْكَلَامِ ۹ - إِنَّهُ عَلَى رَجُعِهِ لَقَادِرُ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۲۷ جون ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۰) ترجمہ.بے شک اللہ اُس کے پلٹانے (یعنی مرے بعد پھر پیدا کرنے ) پر بڑی قدرت رکھتا ہے.تفسیر.ہر زمانہ میں کوئی نہ کوئی مسئلہ مہتم بالشان ہوتا ہے.جیسے ہمارے اس زمانہ میں مسیح کی وفات کے مسئلہ پر زیادہ زور دیا گیا ہے.اسی طرح سے شرک اور بت پرستی کے علاوہ بعث بعد الموت کا سخت انکار کیا گیا تھا اس لئے قرآن شریف میں رجعت یعنی بعث بعد الموت کا ذکر بار بار کیا ہے.اور شریروں کو عقوبت اُخروی سے ڈرایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه/ جولائی ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۱) ١٠ - يَوْمَ تُبلَى السَّرابِرُ - ترجمہ.ایک دن تمام بھید جانچے جائیں گے.تفسیر: تُبلَ بمعنے تظهر ہے.سر آئر.سر کی جمع ہے.امتحان میں بھی مخفی استعداد ظاہر کی جاتی ے بادشاہوں کا کلام ، کلام کا بادشاہ ہوتا ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۹ سُوْرَةُ الطَارِقِ ہے اس لئے بلاء امتحان کے معنے دیتا ہے.معنی آیت کے یہ ہیں کہ اس دن جو کچھ خفی در مخفی طور پر کئے تھے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۱) ۱۲ - وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُع - ترجمہ.اور قسم ہے برسات والے آسمان کی ( کیونکہ زمین سے پانی جا کر واپس آتا ہے ).تفسیر.سماء.بادل.رجع.بارش.چونکہ بخارات سمندروں سے اور زمین سے اوپر چڑھ کر بادلوں کی شکل میں مینہ بن کر واپس زمین ہی کی طرف لوٹتے ہیں.اس لئے بادلوں کا نام سماء اور (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ / جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۱) بارش کا نام رجع ہے.جس طرح زمین کا پانی آسمان کے پانی پر موقوف ہے اسی طرح عقلی چشمے الہام الہی کے تشھید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۷-۴۸۸) محتاج ہیں.١٣ - وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدع - ترجمہ.اور زمین کی قسم جو بہت پھٹ جاتی ہے ( بسبب جھاڑ اور روئید گیوں اور دوسرے صدمات کے ).تفسیر صدیع کے معنے پھٹنے کے ہیں.قالَ اللهُ تَعَالَى يَوْمَبِنٍ يَصَّدَّعُونَ (الروم: ۴۴) أَى يَتَفَرَّقُونَ - صدیع کے لفظ سے صرف اس قدر توجہ دلانا مقصود نہیں ہے کہ زمین کے پھٹنے سے کھیتیں اور درخت پیدا ہوتے ہیں.بلکہ آسمانی بارش سے جس طرح زمین سرسبز ہوتی ہے.اسی طرح پیغمبر کے آنے سے اور وحی آسمانی سے اہلِ زمین برگ و بارلاتے ہیں.حضرت صاحب فرماتے ہیں.ایں چنیں کس ، چوڑو ، نہد بہ جہاں بر جہاں عظمتش گند عیاں بچوں بیاید ، بهار باز آید اس دن لوگ الگ الگ ہو جائیں گے.6 موسم لاله زار باز آید ے اس طرح کے لوگ اگر دنیا کی طرف توجہ بھی کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہی ہوتا کہ دنیا پر اس (خدا) کی عظمت ظاہر کریں.جب وہ آتا ہے تو بہار دوبارہ آ جاتی ہے اور لالہ زار کا موسم دوبارہ قرار پکڑ جاتا ہے.
حقائق الفرقان باز خندد بناز ، لاله و گل باز خیزد ، ز بلبلاں سُوْرَةُ الطَارِقِ (براہین احمدیہ) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ مورخہ ۴ / جولائی ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۲۱) ۱۴ - إِنَّهُ لَقَولُ فَصِّلُ - ترجمہ.بے شک یہ قرآن شریف فیصلہ کرنے والی بات ہے.تفسیر.انہ کا مرجع قرآن شریف ہے یا آسمانی بارش کے ذریعہ زمینی سرسبزی.دونوں ہی صحیح ہو سکتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۱) ١٧١٦ - إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَ أَكِيدُ كَيْدًا - ترجمہ.وہ تو ایک جنگ کی تدبیریں کر رہے ہیں.تفسیر.کفار مکہ جس وقت اُس بنی نوع انسانی کے بچے خیر خواہ رؤف و رحیم بادی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذارسانی کی تدابیر وفکر میں لگے ہوئے تھے.قرآن کہتا ہے إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا - ( فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۳۴) (۳) گید کے معنے جیسے سیرۃ ابن ہشام بخاری محمد بن اسحاق میں موجود ہے.جنگ کرنے کے ہیں.بار بار مغازی میں آتا ہے خَرَجَ رَسُولُ اللهِ وَلَمْ يَلْقَ كَيْدًا أَى حَرْبًا- پس إِنَّهُمُ يَكِيدُونَ كَيْدا و اكيدُ كَيْدًا.(الطارق : ۱۶، ۱۷) کے معنے ہوئے.وہ خطرناک جنگ کی تیاریاں کرتے ہیں یا خطرناک جنگ کرنے کو ہیں اور میں بھی ان سے خطر ناک جنگ کروں گا.الحکم جلد ۲ نمبر ۵ ۶ مورخه ۲۷ / مارچ و ۶ / اپریل ۱۸۹۸ صفحه ۸) ۱۸- فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا - ترجمہ.پھر تو کافروں کو تھوڑی سی مہلت دے دے ذرا اُن کو چھوڑ دے.تفسیر.انکال کے معنے مہلت دینے، ڈھیل دینے کے ہیں.رويدا رود کی تصغیر ہے.امر کے لے گلاب اور باقی پھول ناز و ادا کرتے ہوئے ہنس رہے ہیں اور بلبلوں نے چہچہاہٹ سے شور برپا کیا ہے.ے وہ خفیہ داؤں بچارہے ہیں اور میں ان کے داؤں کو باطل کرنے کے درپے ہوں.
حقائق الفرقان ۲۰۱ سُوْرَةُ الطَارِقِ معنے میں آیا کرتا ہے.جیسے نحوی اسم فاعل بمعنے امر سے تعبیر کرتے ہیں.جیسے رُوَيْد زَيْدًا ای (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ / جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۱) جب آنحضرت اور ان کے اصحاب قلت تعداد اور بے سروسامانی کے باعث مکے سے نکالے أتْرُكُهُ وَدَعُه.گئے تو اُن سے اور ان کے بادی سے قرآن نے پیشین گوئی کے طور پر فرمایا: فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلُهُم رُوَيْدا.(الطارق : ۱۸) اور اپنے آپ کو چونکہ موسیٰ کے مثیل کہا تھا اس لئے آپ نے دل بھر کے موسی کے اتباع کا حال سنایا وَ اَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا (الاعراف: ۱۳۸) اور صاف صاف تاکیدی الفاظ سے مکے میں یہ آیت پڑھ پڑھ کر سنائی.إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ تَرَادُكَ إِلى مَعَادٍ ( القصص : ٨٦) یہ پیشین گوئیاں صاف صاف پوری ہو گئیں کہ تھوڑے عرصے میں کل سرزمین مکہ پر اہلِ اسلام کا فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۸،۲۵۷) تسلط ہو گیا.لے ان کا فروں کو کچھ مدت فرصت دے.ہے اور ہم نے انہیں لوگوں کو جنہیں وہ ضعیف سمجھتے تھے زمین ( مکہ ) کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنایا.سے بے شک وہ جس نے تجھے قرآن کا پابند بنایا یقینا تجھے اصلی وطن (مکہ) میں پھیر لے جائے گا.
حقائق الفرقان ۲۰۲ سُورَةُ الأعلى سُوْرَةُ الْأَعْلَى مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ اعلیٰ کو اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے پڑھنا شروع کرتے ہیں.٢ - سَبِّحِ اسْمَ رَبَّكَ الْأَعْلَى - تفسیر.اپنے عالی شان رب کا پاکی سے نام لیا کر.سیح.پاکی بیان کر.شرک وغیرہ کے عیوب سے اس کی تنزیہ کر.آیت شریف میں اللہ تعالیٰ کی تین صفات کا ذکر ہے.سبوحیت ، ربوبیت اور علو شان.اس کے تحت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تین پیشگوئیاں تھیں.جو بڑی صفائی سے پوری ہوئیں.آپ جنون، افتراء وغیرہ عیوب سے پاک تسلیم کئے گئے.آپ کی ربوبیت مکی زندگی کی ادنیٰ حالت سے تدریجا یوما فیوم بڑھتی گئی اور اعلیٰ ترین مقام پر یہاں تک پہنچائی گئی کہ و رأيت النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا - (النصر :٣) : اور اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - (المائدة : ۴) کی آواز آپ نے سن لی.روئے سخن پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف ہے.مگر مفہوم کے اعتبار سے ہر صادق راست باز کے لئے عام مخاطبت ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۳۲۱) سيح اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (الاعلی:۲) سے معلوم ہوتا ہے کہ مومن کا کام ہے کہ وہ اپنے رب کے اسماء کی تنزیہ کرتا رہے اور وہ تین طرح سے ہوتی ہے.اول.اللہ تعالیٰ پر بعض لوگ بدظنی کرتے ہیں اور اپنے اوپر نیک ظن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ے اور تو دیکھے لوگوں کو کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں.سے اپنی نعمت تم پر پوری کر دی.
حقائق الفرقان کوشش تو بہت کی مگر ہماری محنت کا ثمرہ نہ ملا یہ بدظنی چھوڑ دو.دوم.اپنے چال چلن سے خدا تعالیٰ کی صفات کی عزت اور حرمت کرو.سوم.اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی پر کوئی اعتراض کرے تو اس کا جواب دو.سُوْرَةُ الأعلى الحکم جلدے نمبر ۳۶ مورخہ ۳۰ ستمبر ۱۹۰۳ صفحه ۴) ۳ ۴ - الَّذِي خَلَقَ فَسَوَى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى - ترجمہ.جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کر دیا.اور جس نے اندازہ کیا پھر راستہ دکھا دیا.تفسیر خکلی تسویه، تقدیر اور ہدایت ان چار باتوں کو علی الترتیب علت اور معلول کے سلسلہ.میں بیان فرما کر حصول ترقی کے لئے راہ سمجھائی ہے.روئے سخن صحابہ رضی اللہ تعالیٰ کی طرف ہے.اور مفہوم کے اعتبار سے ہر ترقی کے خواہاں کے لئے اس میں ہدایت ہے.آیت الَّذِي خَلَقَ فَسَوی میں آریہ کا رد ہے جو خلقِ عالم کا منکر ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا.اس مضمون کو بلفظ دیگر قر آن شریف میں یوں ادا فر مایا ہے.الَّذِي أَعْطَى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى - (طه: ۵۱) ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ / جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۳۲۱) ۶،۵ - وَالَّذِى اَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ غُتَاءَ أحوى - ترجمہ.اور جس نے تازہ گھاس نکالا.پھر اس کو کوڑا کرکٹ بنادیا.تفسیر.مرغی.زمینی گھانس پات سبز - مختا خشک کوڑا کرکٹ.نقاء جمع ہے.اس کا واحد.آپ ہے.اس حفاة آیا کرتا ہے.اخوی.حُون سے مشتق ہے.سبزی کے بعد کسی چیز کا سیاہ ہو جانا حوۃ ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے مقابلہ میں کفار کا جو انجام ہو نیوالا تھا.ان دو آیتوں میں دکھلایا ہے.جو خس کم جہاں پاک کے مصداق ہو گئے.روئے سخن.ابوجہل ، عتبہ ، شیبہ ، ربیعہ وغیرہ اس وقت کے کفار کی طرف ہے.مگر مفہوم کے اعتبار سے مصداق اس کے ہر صادق ، راست باز کے معاند ا جس نے ہر ایک شے کو عطا فرمائی اس کی اصلی صورت، پھر اس کی ضرورت کے رستے بنادیئے.
حقائق الفرقان ۲۰۴ سُوْرَةُ الأعلى ہیں.انہیں کا وجود ان کے کھیت کے لئے کھاد بن جاتا ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۱) ، - سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسَى - إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى - ترجمہ.ہم ضرور ہی تجھ کو قریب ہی ایسا پڑھائیں گے کہ تو پھر بھولے گا ہی نہیں.مگر جو اللہ چاہے پ بےشک وہ ظاہر بھی جانتا ہے اور چھپا ہوا بھی.تفسیر.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قرآن شریف جسے یاد ہے.وہ اس کو پڑھتا پڑھا تار ہے.اگر پڑھنے میں ڈھیل دے دی گئی تو وہ کھلے ہوئے اونٹ سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ سینوں سے نکل جاتا ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام سے ہر سال ایک بار دور کیا کرتے تھے سال وفات آپ نے دو بار دور کیا ”س“ کے معنے ضرور بالضرور کے ہیں.الا مَا شَاءَ اللہ کے تحت میں موجود قرآن شریف کے علاوہ جس قدر مختلف قر آتیں عرب کے لب ولہجہ کی وجہ سے تھیں سب نَشيَّا مَنْسِيًّا ہو گئیں.جو زیادہ تر مشہور قرآت تھی وہی متلور ہی.قرآن شریف کے جمع کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہ کا فعل اللہ تعالیٰ ہی کا فعل تھا.شیعہ معترضین اس پر غور فرما دیں.ان آیات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے سلسلہ میں بتایا کہ ہم تجھے پڑھائیں گے اور تو کبھی نہیں بھولے گا.جیسے پہلی آیتوں میں بتایا تھا کہ ہر شے کو اللہ تعالیٰ نے ایسے فطرتی قوی دیئے ہیں جو اس کی تکمیل کے لئے ضروری ہیں.ایسا ہی اس کو اس کے کمالِ مطلوبہ تک پہنچنے کا طریق بتایا ہے پس جس باجود ہستی کو نور نبوت دیا جاتا ہے.ضرور ہے کہ اس کے قوای میں بھی وہی قوت اور طاقت ہو اور اس بار نبوت کے اٹھانے کے لئے وہ ہمہ تن تیار ہو.اور ہر قسم کی مشکلات جو اس راہ میں پیش آویں ان کے برداشت کرنے کا حوصلہ اور استقلال اس میں موجود ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بشارت دی جاتی ہے کہ تیرے آنے کی جو غرض دنیا میں ہے.اس کے حسب حال آپ کو قوی دیئے ہیں اور اس کی تکمیل کی جو راہ ہے.وہ آپ کو بتادی جاتی ہے.اگر یہ سوال ہو کہ یہ علوم جو نبوت کے متعلق ہیں.وہ کس طرح پر محفوظ رہیں گے اور آپ کس طرح پڑھ لیں
حقائق الفرقان ۲۰۵ سُورَةُ الأعلى گے.تو سنو ! اس کے متعلق ہم پیشگوئی کرتے ہیں.سَنُقْرِئُكَ فَلا تنسی.ہم تجھ کو پڑھا دیں گے اور تو کبھی نہیں بھولے گا.اب جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ اور بشارت دی تھی کہ تو ہمارے پڑھائے ہوئے علوم کبھی نہیں بھولے گا.اس وعدہ کے موافق اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن مجید پڑھایا اور تمام اسرار وحقائق و معارف و دقائق آپ پر منکشف کئے.علوم اولین و آخرین عطا فرمائے.اور اس پر بھی رَبّ زِدْنِي عِلْمًا.(طه: ۱۱۵) کی دعا سکھائی.اس آیت میں یہ بھی بتایا ہے کہ بھولے گا نہیں.مگر الا مَا شَاء اللہ بھی اس کے ساتھ ہے.اب غور طلب بات یہ ہے کہ اس سے کیا مراد ہے.سو یا د رکھنا چاہیے کہ ضروریات دین اور کلام ربانی جس کا دنیا کو پہنچانا مقصود ہے.وہ تو کبھی آپ کو بھول ہی نہیں سکتا اور نہ ایسا ہوسکتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر امان ہی اٹھ جاوے.قرآن مجید خود اس کی تشریح دوسری جگہ کرتا ہے.ایک جگہ فرماتا ہے.لبِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا اليك - (بنی اسرائیل: ۸۷) یعنی اگر ہم چاہتے تو جو کچھ تیری طرف وحی کیا ہے.اسے لے جاتے.مگر ایسا وقوع میں نہیں آیا.اس لئے الا مَا شَاءَ اللهُ یا لَبِن شئنا سے یہ مراد نہیں ہوسکتا کہ ایسا وقوع میں بھی آیا.اور اگر آیا بھی تو دیکھنا یہ ہے کہ کیا کوئی قرآن کریم میں اس کا پتہ ہے.اس لئے ایک جگہ فرمایا.فَيَنْسَخُ اللهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ التِهِ (الحج: ۵۳) یعنی شیطانی القاء کواللہ تعالیٰ مٹادیتا ہے.اور اپنی آیات کو مضبوط کرتا ہے.اور ایک اور جگہ فرمایا.يَمْحُ اللهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقِّ بكلمته (الشوری: ۲۵) اللہ تعالیٰ باطل کو محو کر دیتا ہے اور اپنے کلماتِ حق کو حق ثابت کرتا ہے.پس معلوم ہوا الا مَا شَاءَ اللہ سے اگر کوئی مراد ہے تو وہ باطل اور ارادہ و تدابیر شیطانی ہیں.جو آپ کی مخالفت کے لئے کی جاتی تھیں.یہ بھی گو یا عظیم الشان پیشگوئی ہے.اس کو واقعات سے ملا کر دیکھو کہ کس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پڑھایا گیا وہ قائم رہا.اور دنیا اس کو نہیں بھول سکتی.قرآن کریم کی وحی آج تک بھی اسی قوت و شوکت کے ساتھ زندہ اور محفوظ ہے.پھر اس کو مؤ کد کرنے کے لئے فرمایا انه يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفى (الاعلى: ۸) یعنی یہ اس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد لے اے میرے رب ! مجھے علم اور زیادہ دے.
حقائق الفرقان ۲۰۶ سُوْرَةُ الأعلى ہے جو ظاہر اور مخفی تمام امور کا پورا علیم وخبیر ہے.پس یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے.اس کے بعد ایک اور دلیل برنگ پیشگوئی فرمائی کہ وَنُيَشِرُكَ لِلْيُسْری یعنی تیرے ہر ایک کام میں سہولتیں اور آسانیاں پیدا کی جائیں گی.مکی زندگی جس عسر اور تنگی کی زندگی تھی وہ تاریخی اوراق سے عیاں ہے لیکن بعد میں آپ کے لئے جس قدر سہولتیں پیدا ہوئی ہیں.وہ بھی ایک ظاہر امر ہے.ہر کام میں سہولت اور آسانی پیدا ہوگئی اور اس طرح پر یہ پیشگوئی پوری ہوئی.اس کے بعد پھر ایک پیشگوئی فرمائی کہ آپ کا کام تذکیر ہے.آپ اس نصیحت کولوگوں تک پہنچاتے جائیں.یہ خالی از فائدہ نہ ہوگی.ضرور اپنا مفید نتیجہ پیدا کرے گی.۹ - وَنُيَسِرُكَ لِليسرى - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخه ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۲٬۳۲۱) ترجمہ اور تجھ پر آرام کا راستہ آسان کر دیں گے.تفسیر کی زندگی آپ کی جس قسم کی عسرت کی تھی.اس کو پیش نظر رکھ کر آپ کے عروج اور کمال تک نظر کی جاوے.تو آیت کا مفہوم خوب سمجھ میں آجاتا ہے.علاوہ اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جو دین لائے ہیں.اس کی تعریف آپ نے یوں فرمائی ہے.مَا بُعِثْتُ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ وَلكِن بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْعِيَّةِ یعنی افراط و تفریط اور رہبانیت سے منز ہ سہل اور آسان دین کے ساتھ آپ مبعوث ہوئے.سفر میں قصر ہے.عذر ہو تو تیم ہے مسجد نہ ہو تو سب جگہ مسجد ہی مسجد ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ / جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۲) 1 - فَذَكِرْ اِن نَفَعَتِ الذِّكرى - ترجمہ.تو تو سمجھاوے، بے شک سمجھانا یقینا فائدہ ہی دیتا ہے.تفسیر.ان بجھے فذ ہے.جسے فرمایا.سُبحن رہنا إِن كَانَ وَيْد رَبَّنَا لَمَفْعُولا (بنی اسر حیل ۱۹) وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِينٍ ( آل عمران : ۱۲۵) ان کے معنے ہر جگہ شرطیہ نہیں ہوتے.ا پاک ہے ہمارا رب بے شک ہمارے رب کا وعدہ تو ہوا ہوا یا ہے.سے یقیناوہ اس سے پہلے صریح جہالت میں تھے.
حقائق الفرقان ۲۰۷ سُوْرَةُ الأعلى ان دو مقام کے علاوہ قرآن شریف میں کثرت سے ان، قد کے معنوں میں آیا ہے.افَتَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِكرَ صَفْعًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُسْرِفِينَ (الزخرف:۶) سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی سنے یا نہ سنے.وعظ ونصیحت کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے.گوش زدہ اثر لے دارد.کے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۲۲) ۱۵ تا ۱۷ - قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَى - وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى بَلْ تُؤْثِرُونَ الحيوة الدُّنْيَا - ترجمہ.تحقیق کہ وہی مراد کو پہنچ گیا جس نے سنوارا اور پاک بنا.اور اپنے رب کا پاک نام لیتارہا اور نمازیں ادا کرتا رہا.کچھ نہیں تم تو دنیوی زندگی کو مقدم کرتے ہو.تفسیر.فلاح کے لئے ظاہری و باطنی طہارت پراگندہ خیالات سے دلجمعی ، ذکر ونماز و بالآخر دین کود نیا پر مقدم کرنا.یہ باتیں ضروری ہیں.حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے.مصفح قطره باید که تا گوہر شود پیدا آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۵) ایک ڈاکٹر صاحب نے جو ایم.اے ہیں.اعتراض کیا کہ موتی تو کیڑے کے لعاب سے پیدا ہوتا ہے.یہ حال کی تحقیقات کا مشاہدہ ہے مگر جب ان کو توجہ دلائی گئی کہ سیپ میں کیڑا کس چیز سے پیدا ہوتا ہے.تو چونکہ ڈاکٹر تھے.خاموش ہو گئے.ایک اور الہام حضرت صاحب کا ہے.جس کو تزکیۂ نفس اور ذکر سے تعلق ہے وہ یہ ہے.کو إنَّ هَذَا الْقُرْآنَ عُرِضَ عَلَى أَقْوَامٍ فَمَا دَخَلَ فِيهِمْ وَمَا دَخَلُوْا فِيْهِ إِلَّا قَوْمٌ مُّنْقَطِعُونَ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ مورخہ ۴ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۳۲۲) سَبْحِ اسْمَ رَبَّكَ الْأَعْلَى آدمی کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے.اور اس کے لئے دو قسم کی چیزیں ضروری ہیں.ایک جسم جو ہمیں ا کیا ہم تم سے روک لیں گے قرآن کو منہ پھیر کر اس وجہ سے کہ تم لوگ حد سے باہر نکلنے والے ہو.۲؎ کان پڑی بات اثر رکھتی ہے.۳ پاکیزہ قطرہ ہونا ضروری ہے تا کہ وہ گوہر بن سکے.ہے یقینا یہ قرآن قوموں پر پیش کیا گیا مگر ان پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا اور انہوں نے اسے قبول نہ کیا.ہاں اس قوم نے اسے قبول کر لیا جو دنیا سے منقطع تھے.
حقائق الفرقان ۲۰۸ سُوْرَةُ الأعلى نظر آتا ہے.اس کے لئے ہوا کی ضرورت ہے.کھانے پینے ، پہننے ، مکان کی ضرورت ہے.کوئی اس کا یار و غمگسار ہو.اس کی ضرورت ہے.دور دراز ملکوں کے دریاؤں کے اس پار جانے کی ضرورت ہے.زمیندار کو کھیت کی ضرورت ہے.کیا زمین انسان بنا سکتا ہے.پھر ہل کے لئے لکڑیاں چاہیں.مضبوط درخت ہو جب جا کر ہل بنتے ہیں.ہل کے لئے لوہے کی بھی ضرورت ہے.پھر اوزار بھی لو ہے کے ہوتے ہیں.لوہے کا بھی عجیب کارخانہ ہے.لوہا کانوں سے آتا ہے.جس کے لئے کتنے ہی مزدوروں کی ضرورت ہے.پھر اور کئی قسم کی محنتوں اور مردوں کے بعد ہل بنتا ہے.مگر یہ بل بھی بیکار ہے جب تک جانور نہ ہوں.پھر جانوروں کے لئے گھاس چارہ وغیرہ کی ضرورت ہے.پھر اس ہل چلانے میں علم ، فہم اور عاقبت اندیشی کی ضرورت ہے.چنانچہ انہی کی مدد سے چھوٹے چھوٹے جتنے پیشے بنتے ہیں.وہ عالی شان بنتے ہیں.مثلاً چکی پینا ایک ذلیل کسب تھا.علم کے ذریعہ ایک اعلیٰ پیشہ ہو گیا.یہ جو بڑے بڑے ملوں کے کارخانے والے ہیں.دراصل چکی پینے کا ہی کسب ہے اور کیا ہے.ایسا ہی گاڑی چلانا.کیا معمولی کسب تھا.گاڑی چلانے والا ہندوستان میں لنگوٹ باندھے ہوتا تھا.اب گاڑی چلانے والے کیسے عظیم الشان لوگ ہیں یہ بھی علم ہی کی برکت ہے.حجام کا پیشہ کیسا ادائی سمجھا جاتا.یہی لوگ مرہم پٹی کرتے اور ہڈیاں بھی درست کر دیتے.اسی پیشے کو علم کے ذریعے ترقی دیتے دیتے سر جنی تک نوبت پہنچ گئی ہے.اور سرجن بڑی عزت سے دیکھا جاتا ہے.میں نے تاجروں پر وہ وقت بھی دیکھا ہے کہ سر پر بوجھ اٹھائے وہ در بدر پھر رہے ہیں.رات کسی مسجد میں کاٹتے ہیں.مگر اب تو تجارت والوں کے علیحدہ جہاز چلتے ہیں.وہ حکومت بھی دیکھی ہے کہ دس روپے لینے ہیں اور ایک زمیندار سے دھینگا مشتی ہو رہی ہے یا اب منی آرڈر کے ذریعہ مالیہ ادا کر دیتے ہیں.سنسان ویران جنگلوں کو آباد کر دیا گیا ہے.یہ بھی علم ہی کی برکت ہے کہ اس سے ادنی چیز اعلیٰ ہو جاتی ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جسم کے علاوہ کچھ اور بھی
حقائق الفرقان ۲۰۹ سُوْرَةُ الأعلى عطا کیا ہے.یہ آنکھیں نہیں دیکھتیں.جب تک اندر آنکھ نہ ہو.زبان نہیں بولتی جب تک اندر زبان نہ ہو کان نہیں سنتے جب تک اندر کان نہ ہوں.مگر یہ تو کا فرکو بھی حاصل ہے.اس کے علاوہ ایک اور آنکھ وزبان و کان بھی ہے جو مومن کو دیئے جاتے ہیں.یہ وہ آنکھ ہے جس سے انسان حق و باطل میں تمیز کرسکتا ہے.حق و باطل کا شنوا ہو سکتا ہے.حق و باطل کا اظہار کر سکتا ہے.اگر انسان حق کا گویا وشنوا و بینا نہ ہو تو صم بكم عمری کا فتوی لگتا ہے.اللہ جلشانہ جس کو آنکھ دیتا ہے.وہ ایسی آنکھ ہوتی ہے کہ اس سے خدا کی رضا کی راہوں کو دیکھ لیتا ہے.پھر ایک آنکھ اس سے بھی تیز ہے.جس سے مومن اللہ کی راہ پرعلی البصیرت چلتے ہیں پھر اس سے بھی زیادہ تیز آنکھ ہے جو اولوالعزم رسولوں کو دی جاتی ہے.ان حواس کے متعلق اللہ اپنے پاک کلام میں وعظ کرتا ہے.دیکھو آج لوگوں نے کچھ نہ کچھ اہتمام ضرور کیا ہے.غسل کیا ہے.لباس حتی المقدور عمدہ و نیا پہنا ہے.خوشبو لگائی ہے.پگڑی سنوار کر باندھی ہے.یہ سب کچھ کیوں کیا.صرف اس لئے ہم باہر بے عیب ہو کر نکلیں.بہت سے گھر ایسے ہوں گے جہاں بیوی بچوں میں اسی لئے جھگڑا بھی پڑا ہوگا.اور اس جھگڑے کی اصل بناء یہی ہے کہ بے عیب بن کر باہر نکلیں.جس طرح فطرت کا یہ تقاضا ہے اور انسان اسے بہر حال پورا کرتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارا مربی، میں تمہارا حسن ہوں جیسے تم نے اپنے جسم کو مصفی و مطہر بے عیب بنا کر نکلنے کی کوشش کی ہے.ویسے ہی تم اپنے رب کے نام کی بھی تسبیح کرتے ہوئے نکلو اور دنیا والوں پر اس کا بے عیب ہونا ظاہر کرو.ادنی مرتبہ تو یہ ہے کہ مومن اپنی زبان سے کہے.سبحان اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پھر وہ کلمات جن سے میں نے اپنے خطبہ کی ابتداء کی اللہ اکبر اللهُ أَكْبَرُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ اللهُ أَكْبَرُ ولله الحمد.اس میں بھی اس کی کبریائی کا بیان ہے.پھر اس سے ایک اعلیٰ مرتبہ ہے.وہ یہ کہ یہ تسبیح دل سے ہو.کیونکہ یہ جناب الہی کے قرب کا موجب ہے.لے جمعہ کا دن
حقائق الفرقان ۲۱۰ سُوْرَةُ الأعلى كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيْلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ سُبْحَانَ اللهِ الْحَمْدُ للهِ اور فرماتا ہے کہ وَلكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُم - (الحج: ۳۸) پس ضرور ہے کہ یہ تسبیح جو کریں تو دل کو مصفا کر کے کریں.تیسرا درجہ یہ ہے کہ اللہ کے فعل پر ناراض نہ ہوں اور یہ یقین کریں کہ جو کچھ خدا کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے.اور جو کچھ کرے گا وہ بھی ہماری بھلائی و بہتری کے لئے کرے گا.ہمارے مربی وحسن پر اللہ رحم فرمائے کہ اس نے میرے کانوں میں اچھی آواز پہنچائی اور مجھے مشق کے لئے یہ شعر لکھ دیا.سر نوشت ماز دست خود نوشت خوشنویس است و نخواهد بد نوشت پس ہمیں چاہیے کہ اس اللہ کو جس کی ذات اعلیٰ اور تمام قسم کے نقصوں و عیبوں سے بالا تر ہے.رنج و راحت ، عسرویسر میں بے عیب یقین کریں اور یہ یقین رکھیں الشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ وَ الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يديك " میں دیکھتا ہوں کہ ایک جمعہ میں میں نے اپنی طرف سے الوداعی خطبہ پڑھا کیونکہ میری حالت ایسی تھی کہ تھوک کے ساتھ بہت خون آتا.اندر ایسا جل گیا تھا کہ خاکستری دست آتے اور میں رات کو جب سوتا تو یہی سمجھتا کہ بس اب رخصت.اَسْلَمْتُ نَفْسِي اِلَيْكَ - گھر والے بعض وقت ہمدردی سے مجھے ملامت کرتے کہ تم پر ہیز کرتے.بہت وعظ کرتے ہو.سبق بدستور پڑھائے جاتے ہو.تو میں کہتا.بیشک جس قدر نقص و عیب ہیں میری طرف منسوب کر لو.میرا مولیٰ تو جو کچھ کرتا ہے بھلا ہی کرتا ہے.بھلا ہی کرتا ہے.سچ ہے وَالْخَيْرُ كُلَّهُ فِي يَدَيْكَ غرص تم زبان سے سبحان اللہ کا ورد کرو.تو اس کے ساتھ دل سے بھی ایسا اعتقاد کرو.اور اپنے دل کو تمام قسم کے گندے خیالات سے پاک کر دو.اگر کوئی تکلیف پہنچے تو سمجھو کہ مالک ہماری اصلاح کے لئے ایسا کرتا ہے.لے دو کلے ہیں جو زبان پر بڑے ہلکے ہیں میزان میں بہت وزنی ہیں.(سبحان الله ) - اللہ پاک ہے.(الْحَمْدُ الله ) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.۲ لیکن تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے.سے اس نے ہماری تقدیر خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہے وہ بہت خوشنویس ہے اور برانہیں لکھے گا.کے شر تیری طرف سے ہے اور تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں.۵.میں نے اپنا آپ تیرے سپرد کر دیا.
حقائق الفرقان ۲۱۱ سُوْرَةُ الأعلى پھر اس سے آگے اللہ توفیق دے تو اللہ کے اسماء پر اللہ کے صفات و افعال پر ، اللہ کی کتاب پر ، اللہ کے رسول پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں ، ان کو دُور کرو اور ان کا پاک ہونا بیان کرو.ہمارے ملک میں اس قسم کے اعتراضوں کی آزادی حضرت جلال الدین اکبر بادشاہ کے عہد میں شروع ہوئی ہے کیونکہ اس کے دربار میں وسعت خیالات والے لوگ پیدا ہو گئے.اس آزادی سے لوگوں نے ناجائز فائدہ اٹھایا اور مطاعن کا دروازہ کھول دیا.ان اعتراضوں کو دور کر نے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت کوشش کی ہے.چنانچہ شیخ المشائخ حضرت شیخ احمد سر ہندی (رحمت اللہ علیہ ) نے بھی بہت کوشش کی ہے.جلال الدین اکبر نے جب صدر جہاں کو لکھا کہ چار عالم بھیجیں جو ہمارے سامنے ان اعتراضوں کے جواب دیا کریں.تو یہ بات حضرت مجدد صاحب کے کان میں بھی پہنچی.انہوں نے صدر کو خط لکھا کہ آپ مہربانی سے کوشش کریں کہ بادشاہ کے صرف ایک ہی عالم جائے.چار نہ ہوں.خواہ کسی مذہب کا ہو.مگر ہو ایک ہی.کیونکہ اگر چار جائیں گے تو ہر ایک چاہے گا کہ میں بادشاہ کا قرب حاصل کروں اور باقی تین کو ذلیل کرنے کی کوشش کرے گا.اگر چاروں گئے تو بجائے اس کے کہ دین کا تذکرہ ہو ایک دوسرے کو رد کر کے چاروں ذلیل ہو جاویں گے.اور یہ لوگ اپنی بات کی بیچ میں بادشاہ کو ملحد کر دیں گے.یہ تو اس وقت کا ذکر ہے.جب اسلام کی سلطنت تھی.اسلام کے متوالے دنیا میں موجود تھے.اس وقت کا بیج بو یا ہوا اب تین سو برس کے بعد ایک درخت بن گیا ہے.کیسے دکھ کا زمانہ ہے کہ نبی کریم کے سوانگ ڈراموں میں بنائے جاتے ہیں.عجیب عجیب رنگوں میں لوگ دھوکہ دیتے ہیں.جس سے متاثر ہو کر بعض لڑکوں نے غنیمت کی آیت پر لکھ دیا.محمد لٹیرا تھا.اگر چہ اس کا جواب مجھے دیا گیا کہ نقل اعتراض تھا مگر یہ داغ مٹتا نہیں.اور میں سربان القضاء کا مسئلہ خوب جانتا ہوں.اسی کے ماتحت اس کو لا کر اس کا ذکر کرتا ہوں.پس میری سمجھ میں یہ وقت ہے کہ جہاں تک تم میں کسی سے ہو سکے.اللہ کے اسماء ، صفات ،
حقائق الفرقان ۲۱۲ سُوْرَةُ الأعلى افعال ، اللہ کی کتاب اللہ کے رسول ، اللہ کے رسول کے نواب و خلفاء کی پاکیزگی بیان کرے.اور ان پر جو اعتراض ہوتے ہیں.انہیں بقدرا اپنی طاقت کے سلامت روی وامن پسندی کے ساتھ دور کرنے کی کوشش کریں.یہ مت گمان کرو کہ ہم ادنیٰ ہیں.وہ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں ادنیٰ سے اعلیٰ بنا دے.چنانچہ وہ فرماتا ہے.خَلَقَ فَسَوَى وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى - الا على : ۴،۳) جوان پڑھ ہیں.انہیں کم از کم یہی چاہیے کہ وہ اپنے چال و چلن سے خدا کی تنزیہ کریں یعنی اپنے طرز عمل زندگی سے دکھائیں کہ قدوس خدا کے بندے، پاک کتاب کے ماننے والے، پاک رسول کے متبع اور اس کے خلفاء اور پھر خصوصا اس عظیم الشان مجدد کے پیرو ایسے پاک ہوتے ہیں.( بدر جلد ۹ نمبر ۴۹٬۴۸ مورخه ۱۳ را کتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۹،۸) ہر اس شخص پر جو قرآن پر ایمان لایا.جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا.جو اللہ پر ایمان لا یا.اس کی کتابوں پر ایمان لایا.فرض ہے کہ وہ کوشش کرے کہ خدا تعالیٰ کے کسی نام پر کوئی آدمی اعتراض نہ کرنے پائے.اگر کرے تو اس کا ذب کرے.اس لئے ارشاد ہوتا ہے.سیخ.جناب البہی کی تنزیہہ کر ، اس کی خوبیاں،اس کے محامد بیان کر.میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے.جب جناب الہی ، اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں.اور وہ سزا اسی کی شامت اعمال سے ہی ہوتی ہے.جیسے فرمایا وَ مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ - (الشوری: ۳۱) تو وہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں مثلاً کسی کا کوئی پیارے سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الراحمین کو ظالم کہتے ہیں.بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں.اور اگر بارش زیادہ ہو تو تب بھی خدا تعالیٰ کی حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اللہ تعالی کی تنزیہ و تقدیس و تسبیح کرے.آپ کے کسی اسم پر لے جس نے پیدا کیا پھر ٹھیک ٹھاک کر دیا.اور جس نے اندازہ کیا پھر راستہ دکھا دیا.سے اور تم پر جو کچھ مصیبت پڑتی ہے وہ تمہاری ہی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہے.
حقائق الفرقان ۲۱۳ سُوْرَةُ الأعلى کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے.اب میں دیکھتا ہوں کہ تمہیں کوئی برا کہے یا تمہارے ماں باپ یا بھائی بہن یامحبوب کو سخت ست کہہ دے تو تمہیں بڑا بڑا جوش پیدا ہوتا ہے.یہاں تک کہ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہو.لیکن جس وقت اللہ کے کسی فعل پر ( کہ وہ بھی اس کے کسی اثم کا نتیجہ ہے ) کوئی نادان یا شریر اعتراض کرتا ہے تو تم کہتے ہو.جانے دو.کافر ہے.بکتا ہے.اس وقت تمہیں یہ جوش نہیں آتا حالا نکہ جن کے لئے تم نے اتنا جوش دکھایا ان میں تو کچھ نہ کچھ نقص یا عیب و قصور ضرور ہوگا.مگر اللہ تو ہر برائی سے منزہ، ہر حمد سے محمود ہے ہر وقت تمہاری ربوبیت کرتا ہے.اب جو اس کے اسماء کے لئے اپنے تئیں سینہ سپر نہیں کرتا وہ نمک حرام ہی ہے اور کیا ؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کوئی پڑھے ہوئے ہیں.جولوگوں سے مباحثے کرتے پھریں؟ تعجب کی بات ہے کہ اگر کوئی ان کے ماں باپ یا بھائی بہن کو یا کسی دوست کو یا خودان کو برا کہہ دے تو وہ نا خواندگی یاد نہیں رہتی.اور سنتے ہی آگ ہو جاتے ہیں.اور پھر جس طریق سے ممکن ہو.اس کا دفاع کرتے ہیں.مگر جناب الہی سے غافل ہیں.اسی طرح خدا کے برگزیدوں پر طعن کرنا دراصل خدا تعالی کی برگزیدگی پر طعن رکھنا ہے.اس کے لئے بھی مومنوں کو غیرت چاہیے.بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے.شیعہ محلہ میں رہتے ہیں.ان کے تبرے سنتے سنتے کچھ ایسے بے غیرت ہو جاتے ہیں کہ کہنے لگتے ہیں صحابہ کو برا کہنا معمولی بات ہے.حالانکہ ان کی برائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہے جس نے ان کو تیار کیا.اسی طرح مشنری عیسائی بڑی بد اخلاق قوم ہے.کوئی خلق ان میں ہے ہی نہیں ایک شخص نے کہا.ان کی تعلیم میں تو اخلاق ہے اور ایک نے کہا ان میں بڑا خلق ہے.ایسا کہنے والے نادان ہیں ان کے ہاں ایک عقیدہ ہے.نبی معصوم کا جس کے یہ معنے ہیں.ایک ہی شخص دنیا میں ہر عیب سے پاک ہے.باقی آدم سے لے کر اس وقت کے کل انسان گنہ گار اور بدکار ہیں.ان لوگوں نے یہاں تک شوخی سے کام لیا ہے کہ حضرت آدم کے عیوب بیان کئے.پھر حضرت نوح کے، حضرت ابراہیمؑ
حقائق الفرقان ۲۱۴ سُوْرَةُ الأعلى کے، حضرت موسی کے الغرض جس قدر انبیاء اور راست باز پاک انسان گزرے ہیں ان کے ذمہ چند عیوب لگائے ہیں.پھر ہماری سرکا ر ہے احمد مختار صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو ان کو خاص نقار ہے اور دھت ہے ان کو گالیاں دینے کی.باوجود اس گندہ دہنی کے پھر بھی ایسے لوگوں کو کوئی بڑے اخلاق والا کہتا ہے تو اس کی غیرت دینی پر افسوس.ایک شخص تمہارے پاس آتا ہے اور تم کو آکر کہتا ہے.میاں تم بڑے اچھے بڑے ایمان دار.آئیے تشریف رکھئے ، باپ تمہارا بڑا ڈوم، بھڑوا، کنجر بڑا حرام زادہ، سؤر، ڈاکو، بدمعاش تھا.تم بڑے اچھے آدمی ہو اور ساتھ ساتھ خاطر داری کرتا جائے تو کیا تم اس کے اخلاق کی تعریف کرو گے.تمام جہاں کے ہادیوں کو جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے.اور میرا تو اعتقاد ہے کہ ان کو کوئی نہیں گن سکتا.بد کار گنہ گار کہنے والا ایک شخص کی مزوّرانہ خاطر داری سے خوش اخلاق کہلا سکتا ہے.اللہ تعالیٰ کے برگزیدوں کی تو ہتک کرتے ہیں اور تم ان کی نرمی اور خوش اخلاقی کی تعریف کرو حد درجہ کی بے غیرتی ہے.یہاں تک تو انہوں نے کہہ دیا کہ شریعت کی کتابیں لعنت ہیں.پرانی چادر ہیں.ان کتابوں کو جو حضرت رب العزت سے خلقت کی ہدایت کے لئے آئیں لعنت کہنا کسی خوش اخلاق کا کام ہو سکتا ہے.دیکھو گلیتیوں کا خط کہ اس میں شریعت کو لعنت لکھتا ہے.پھر خدا سے بھی نہیں ملے.کہتے ہیں، اس کا بیٹا ہے تَكَادُ السَّموتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْهُ وَ تَنْشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ هَنَّا اَنْ دَعَوا لِلرَّحينِ وَلَدًا- (مریم: ۹۱ - ۹۲) پھر اس بیٹے پر اس غضب کی توجہ کی ہے کہ اپنی دعائیں بھی اسی سے مانگتے ہیں.بیٹے پر ایمان لانے کے بڑوں کسی کو نجات نہیں.خدا کسی کو علم نہیں بخش سکتا.یہ تو روح القدس کا کام ہے نہ اللہ تعالیٰ کا.غرض اس درجہ بداخلاقی سے کام لینے والوں کو خوش خلق کہنا محض اس بناء پر کہ جب کوئی ان کے ل قریب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑیں اور زمین شق ہو جائے اور پہاڑ کانپ کے گر پڑیں.اس وجہ سے کہ انہوں نے رحمن کا بیٹا ٹھہرایا.
حقائق الفرقان ۲۱۵ سُوْرَةُ الأعلى پاس گیا تو مشنری نے انجیل دیدی.کسی کو روپیہ دید یا کسی کی دعوت کر دی.حد درجہ کی بے غیرتی ہے ان ظالموں نے ہمارے سب ہادیوں کو برا کہا.تمام کتب الہیہ کو برا کہا.جناب الہی کے اسماء وصفات کو برا کہا.اسے سمیع الدُّعَاء علم دینے والا نہ سمجھا.پھر اخلاق والے بنے ہیں.تو بہ ! تو بہ ! ان کے کفارہ کا اُلّو ہی سیدھا نہیں ہوتا.جب تک یہ تمام جہان کے راست بازوں کو اور تمام انسانوں کو گنہ گاڑ بد کارا اور لعنتی نہ کہہ لیں.ان میں خوش اخلاقی کہاں سے آگئی.ان حالات میں مومن کا فرض ہے کہ جناب الہی کی تسبیح کرے.اس کے اسماء کی تسبیح میں کوشاں رہے.اس کے انتخاب شدہ بندوں کی تسبیح کرے.ان پر جو الزام لگائے جاتے ہیں.جو عیوب ان کی طرف شریر منسوب کرتے ہیں.ان کا دفاع و ذب کرے اور سمجھائے کہ جنہیں میرا رب برگزیدہ کرے ، وہ بدکار اور لعنت نہیں ہوتے.ان کی تسبیح خدا کی تسبیح ہے.یہ معنے ہیں سبح اشتم رَبَّكَ الأغلى کے.الَّذِی خَلَقَ فَسَوی تمہارا خدا تو ایسا ہے کہ اس کی مخلوقات سے اس کی تسبیح و تقدیس عیاں ہے.اس نے خلق کیا اور پھر تمہارے اندر نسلِ انسانی کو ایسا ٹھیک کیا کہ سب کچھ اس کے ماتحت کر دیا.آگ ، پانی ، ہوا سب عنا صر کو تمہارے قابو میں کر دیا.وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدی.پھر چونکہ سارے جہان نے اس سے کام لینا تھا اس لئے ہر مخلوق کو ایک ضابطہ و قانون کے اندر رکھا تا کہ انسان اس سے فائدہ اُٹھا سکے اور خدمت لے سکے.مثلاً یہ عصا ہے میں اس سے ٹیک لگا تا ہوں.اگر بجائے ٹیک کا کام دینے کے یہ یکدم چھوٹا ہو جائے یا مجھے دبائے یا اپنی طرف کھینچ لے تو میرے کام نہیں آ سکتا.پس اس نے اپنی حکمت بالغہ سے ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر کیا یعنی جس ترتیب سے وہ چیز مفید و با برکت ہو سکتی ہے.اُس ترتیب سے اُسے بنا دیا اور پھر انسانوں کو اس سے کام لینا سکھایا.وَالَّذِي أَخْرَجَ الْمَرْعَى فَجَعَلَهُ عُنَا أَحْوَی.پھر ان چیزوں پر غور کریں تو ان کا ایک حصہ ردی اور پھینک دینے کے قابل بھی ہوتا ہے یا ہو جاتا ہے.مثلاً کھیتی ہے پہلے پھل دیتی ہے.لوگ مزے
حقائق الفرقان ۲۱۶ سُوْرَةُ الأعلى سے کھاتے ہیں.مگر اس کا ایک حصہ جلا دینے کے قابل ہوتا ہے.اسی طرح انسانوں میں سے جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور انبیاء اور ان کی پاک تعلیم سے روگردانی کرتے ہیں وہ آگ میں جھونک دیئے جائیں گے.ہر ایک انسان کو خدا تعالیٰ پڑھاتا ہے اور وہ یا درکھتا ہے جس قدر اللہ چاہے اس میں سے بھول بھی جاتا ہے.غرض اس نے اپنی پاک راہوں کو دکھانے کے لئے اپنی تعلیم بھیج دی ہے اور بتا دیا ہے کہ نیکی سیکھنے اور اس پر چلنے کا طریق یہ ہے.إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفی کہ اللہ کو دانائے آشکار اغیب جانے.دیکھو میں اس مقام پر کھڑا ہوں.یہ مقام چاہتا ہے کہ میں گند نہ بولوں.بدی کی راہ نہ بتاؤں.نیک باتیں جو مجھے آئیں تمہیں سنادوں.ہاں ایک امر خفی بھی ہے.وہ یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑا ہوں، یار یاء، سمعت وحرص کے لئے جیسا کہ کشمیر میں واعظ کرتے ہیں.گھنٹوں منبر پر کھڑے رہتے ہیں.ایک شخص آ کر کہتا ہے.حضرت اب بس کرو.جمعہ کا وقت تنگ ہو گیا.وہ کہتے ہیں بس کیا خاک کریں.ابھی تو دو آنے کے پیسے بھی نہیں ہوئے.تب ایک شخص اٹھتا ہے اور چندہ کرتا ہے.اور اسی طرح اس سے رہائی حاصل کرتے ہیں.اسی طرح تم کو کیا خبر میرے دل میں کیا درد ہے، اور کتنی تڑپ ہے.دوسری طرف تم یہاں جمعہ کا خطبہ سننے اور نماز جمعہ پڑھنے کے لئے آئے ہو مگر تمہارے دلوں کی کیا خبر کہ ان میں کیا ہے کیونکہ آخر تم ہی میں سے ہیں جو میری مخالفتیں کرتے ہیں.میری ہی نہیں.میرے گھر تک کی بھی.گونادان ہیں جو ایسا کہتے ہیں.سنبھل کر کام کرو ایسا نہ ہو کہ خدا ناراض ہو جائے.ایک جگہ آخفی کو سر کے مقابلہ میں رکھا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.يَعْلَمُ السر وأخفى وہاں منشاء باری تعالیٰ یہ ہے کہ میں ان خیالات کو بھی جانتا ہوں جو آج سے سال یا دو سال یا اس سے زیادہ مدت بعد تمہارے اندر پیدا ہوں گے اور اب خود تمہیں بھی معلوم نہیں.ایسے نگران علیم وخبیر ، لطیف و بصیر خدا سے ڈر جاؤ اور نافرمانی نہ کرو.فَذَكَّرُ أَنْ نَفَعَتِ الذكری.ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں اور اللہ فرماتا ہے کہ نصیحت کرتے رہو.نصیحت ضرور سودمند ہوتی ہے میرا جی چاہتا ہے کہ تم باہر والوں کے لئے نمونہ بنو.تمہارا لین دین ، تمہاری گفتار و رفتار ، تمہارا چال چلن ( تمہارا سر وعلن ) تمہارا اٹھنا بیٹھنا ، تمہارا کھانا پینا ایسا ہو کہ
حقائق الفرقان ۲۱۷ سُوْرَةُ الأعلى دوسرے لوگ بطور اسوہ حسنہ اسے قرار دیں میں افسوس کرتا ہوں کہ یہاں بد معاملگی بھی ہوتی ہے، بدزبانی بھی ہوتی ہے ، بدلگامی بھی ہوتی ہے اور اس سے مجھے رنج پہنچتا ہے تم اللہ کو علیم وخبیر و بصیر مان کر اپنے آپ کو بدیوں سے روکو.یہ بھی ایک قسم کی تسبیح ہے.جب تم ایسا کرو گے تو دوسرے لوگوں کا ایمان بھی بڑھے گا.اللہ توفیق دے.(الفضل جلد نمبر ۶ مورخہ ۲۳ / جولائی ۱۹۱۳ صفحه ۱۲ - ۱۳)
حقائق الفرقان ۲۱۸ سُوْرَةُ الْغَاشِيَةِ سُوْرَةُ الْغَاشِيَةِ مَكَيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ غاشیہ کو اللہ کے نام سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو رحمن اور رحیم ہے.۲.هَلْ أَتَكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ - ترجمہ.کیا تجھے ڈھانپنے والی کی خبر پہنچی.تفسیر.حَدِیثُ الْغَاشِيَة سے اکثر اہل تفاسیر نے قیامت کے حوادث مراد لئے ہیں.سلمنا یہ سَلَّمْنَا صحیح بات ہے کہ قیامت کے حوادث اپنے ہولناک ہونے کی وجہ سے غاشیات ہی ہوں گے کہ انسانوں کے ہوش و حواس عقل و فکر سب کچھ مارے جائیں گے.مگر قرآن کریم کے اسلوب اور اس کے لٹریچر پر نظر کرنے سے یہ پتہ لگتا ہے کہ جہاں کہیں قرآن شریف میں هَلْ أَنكَ حَدِيثُ كَذَا وَكَذَا آیا ہے وہاں دنیوی عقوبات اُخروی عقوبات کے ساتھ پیوستہ بلکہ مقدم رکھے گئے ہیں جیسا کہ هَلْ أَنكَ حَدِيثُ الْجُنُودِ فِرْعَوْنَ وَثَمُودَ - البروج: ۱۸) اور هَلْ اَنْكَ حَدِيثُ مُوسى وغيره آيات سے ثابت ہے.اسی طرح سے جیسا کہ انبیاء سابقین اور ان کی اُمم کے ساتھ جو معاملات ہوئے.ان کے ہم رنگ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں بھی کوئی عظیم الشان عقوبت آسمانی آنے والی تھی.اس کو هَلُ اكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ میں ذکر فرمایا.عقوبتیں تو کفار پر بہت سی آئیں.مگر الفاظ قرآنی کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حدیث الغاشیہ قحط شدید تھا.جو سات سال تک بزمانہ نبوی واقع ہوا تھا.ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اللَّهُمَّ أَعِلِى عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْح يُوسُفَ ان الفاظ سے دعا کی تھی.اس دعا کا اثر یہ ہوا کہ وہ قحط شدید پڑا جس کا ذکر سورہ دخان میں ان الفاظ سے ہے.يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ يَغْشَى النَّاسَ هَذَا لے کیا تجھے لشکروں کی خبر ملی فرعون اور ثمود کے.۲ اے اللہ تو ان (کفار مکہ ) کے خلاف یوسف علیہ السلام (کے زمانہ ) کے سات ( قحط والے سالوں) کی طرح کے ( قحط والے) سات (سالوں) سے میری مددفرما.
حقائق الفرقان ۲۱۹ سُوْرَةُ الْغَاشِيَة عَذَابٌ اَلِيم - (الدخان : ۱۱ - ۱۲) اس سورہ شریف کی پہلی آیت میں حَدِیثُ الْغَاشِيَةِ ہے اور سورۃ الدخان میں يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ ہے.(ضمیمه اخبار بد نمبر ۲۶ جلد ۱۲ قادیان مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۳) ٤٣ وُجُوهٌ يَوْمَبِذٍ خَاشِعَةٌ - عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ - ترجمہ.بہت سے چہرے اُس روز ذلیل اور خوار ہوں گے.تھک رہے ہوں گے.تفسیر.جب قحط شدید ہوتا ہے تو فاقوں کی وجہ سے چہرے بگڑ جاتے ہیں.ذلت اور مسکنت چہروں پر چھا جاتی ہے.عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ.لوگ یوں ہو جاتے ہیں کہ کھیتیوں زراعتوں کے پیچھے محنت کرتے تھک کر چور ہو جاتے ہیں.مگر پیداوار کچھ نہیں ہوتی.محنت کرنا اور تھکنا یہی پہلے پڑتا ہے.(ضمیمه اخبار بد نمبر ۲۶ جلد ۱۲ قادیان مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۳) ۶۰۵ - تصلى نَارًا حَامِيَةً - تُسْقَى مِنْ عَيْنِ انِيَةٍ - ترجمہ.دہکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے.ان کو پانی پلایا جائے گا ایک کھولتے ہوئے چشمہ کا.عَذَابُ الجوع کی آگ سے شکم تنور ہو جاتا ہے.سرد پانی کہاں جو پینے کو ملے کہیں دور دراز جگہ سے یا عمیق در عمیق چاہ سے لایا جاوے گا.انيّة لفظ آنيا بمعنی تاخیر سے مشتق ہے.دوسری جگہ فرمایا.يَطوفُونَ بَيْنَهَا وَ بَيْنَ حَمِيمٍ أن - (الرحمن : ۴۵) پہاڑوں میں جہاں سے چشمے نکلتے.بعض چشموں کا پانی نہایت سخت گرم ہوتا ہے.پیاسے کے لئے جس کی جان جاتی ہو.یہی گرم پانی غنیمت سمجھا جاتا ہے.ع تشنه را دل نخواهد آب زلال کے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۳) ا جس دن آسمان لے آوے ایک ظاہر دھواں.۲ جولوگوں کو ڈھانپ لے گا.یہ ٹمیں دینے والا عذاب ہوگا.پھیریں گے اس میں اور کھولتے ہوئے پانی میں.کے پیاسے شخص کو مصفی شیر میں ٹھنڈے پانی کی آرزو نہیں ہوتی ( یعنی اس کو صرف پانی چاہیے ہوتا ہے خواہ وہ کیسا بھی ہو )
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْغَاشِيَةِ لَيْسَ لَهُمْ طَعَامُ الَّا مِنْ ضَرِيع - ترجمہ.کوئی کھانا اُن کو نصیب نہ ہو گا مگر ناگ پھنی.تفسیر.ضریع ایک قسم کی گھانس ہے.جب تک پانی کی وجہ سے ہری رہتی ہے شہرق کہلاتی ہے مگر جب سوکھ جاتی ہے تو اس کو ضریع کہتے ہیں.کانٹے دار اور بد بودار تلخ ہوتی ہے.تضرع اسی سے مشتق ہے.سورۃ المومنون رکوع چہارم (پارہ نمبر ۱۸) میں فرمایا ہے کہ قحط شدید میں ضریع کو کھا کر بھی تضرع نہیں کیا.كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالٰی وَ لَقَدْ أَخَذْ لَهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ (المومنون: ۷۷) اس آیت شریف کا نزول مفسرین نے قحط شدید کے وقوع کے بارے ہی میں لکھا ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت میں ہوا تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۳) - لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِى مِنْ جُوع - ترجمہ.جو نہ موٹا کرے بدن کو اور نہ بھوک دفع کرے.لو تفسیر.قحط کے مارے ہؤوں میں موٹا پا کہاں باقی رہتا ہے.جسم ایک پنجرے کی طرح ڈراؤنی (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۳) شکل کا ہو جاتا ہے.۹ - وُجُوهٌ يَوْمَنِ نَاعِمَةٌ - و.ترجمہ.کتنے چہرے اُس روز تر و تازہ ہوں گے.تفسیر - آیت نمبر ۸ سے ۱۶ تک مومنوں کے خوش و خرم اور متنعم رہنے کا بیان ہے.جن لوگوں کے شامل حال خداوند کریم کا فضل ہوتا ہے.ان کے لئے ضرر کے سامان بھی ضرر رساں نہیں ہوتے.ہمارے ملک میں بڑے بڑے شدید قحط پڑے مگر جو فاتح قو میں تھیں.قحط میں بھی وہ متنعم ہی رہیں.ے منهم بکوه و دشت و بیابان غریب نیست هر جا که رفت خیمه زد و بارگاه ساخت لے اور بے شک ہم نے ان کو پکڑ لیا عذاب میں تو وہ جھکتے نہیں اپنے رب کے سامنے اور نہ عاجزی ہی کرتے ہیں.جس شخص پر خدا کا انعام ہوتا ہے وہ پہاڑوں جنگلوں اور صحراؤں میں بھی مسافر نہیں ہوتا وہ جہاں بھی جاتا ہے خیمہ لگاتا ہے اور بارگاہ بنالیتا ہے.
حقائق الفرقان ۲۲۱ سُوْرَةُ الْغَاشِيَة یہ ظاہر امر ہے کہ مکہ میں یہ آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہو رہی ہیں.اور اسی حالت میں اہلِ مکہ کو بتایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کو آج تم ایک بے کس اور بے بس انسان یقین کرتے ہو اور فی الواقع آج وہ ایسا ہی ہے بھی.کیونکہ کوئی جتھا اور جمیعت اس کے ساتھ نہیں اور تم سمجھتے ہو کہ بہت جلد اسے نابود کر دو گے.مگر یا درکھو کہ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی قوت اور شوکت کا دائرہ وسیع ہوگا اور تم سب اس کے زیر اقتدار ہو گے.اس وقت مخالفین عجیب گھبراہٹ کی حالت میں ہوں گے اور وہ ذلیل ہوں گے.ایک آگ میں وہ داخل کئے جائیں گے.آگ سے مراد نار الحرب بھی ہوتی ہے.اور جہنم بھی.پس دنیا کی جنگ میں ان کی ناکامی اور نامرادی نارِ جہنم کے لئے دلیل ہے.وہ اس مقابلہ میں ہار جائیں گے.ان کو کھولتا ہوا پانی اور خاردار جھاڑیاں جن کو چھتر تھوہر کہتے ہیں.کھانے کو ملیں گی.اس کا ثبوت دنیا میں یوں ملتا ہے کہ آتشک کے مریض کے لئے تھوہر کے دودھ میں گولیاں بنا کر دی جاتی ہیں اور اوپر سے گرم گرم پانی پلایا جاتا ہے.غرض دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے.اسی طرح پر آخرت میں بھی ہوگا.رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ - (الفرقان: ۲۲).آمین.ان کے بالمقابل ایک گروہ خوش و خرم ہو گا اور اپنی تدابیر کے پورے ہونے اور مساعی میں خدا کے فضل سے کامیاب ہونے پر شاداں و فرحاں ہو گا.ان کے لئے باغات عالی مرتبہ ہوں گے.جن میں لغویات کو دخل نہیں.اس میں بہتے ہوئے چشمے ہوں گے اور تخت ہوں گے.کوزے آبخورے قرینہ سے رکھے ہوں گے قالین اور تکیے لگے اور بچھے ہوئے.غرض یہ تمام انعامات اس دنیا میں صحابہؓ کو ملے اور انہوں نے ایسے باغات حاصل کئے.ان تمام امور پر پہلے مختلف جگہ ہم نے بحث کر دی ہے.اب زیادہ تفصیل اور توضیح کی حاجت نہیں.المختصر مکہ معظمہ میں منکرین کو عذاب کی اور موافقین و متبعین کو کامیابی اور جنات عالیہ کی خوشخبری برنگ پیشگوئی دی جاتی ہے.اور بتایا ہے کہ.قیامت میں بھی ایسا ہی ہوگا.دنیا میں اس طرح پر ہوا.اور یہ قیامت کا ثبوت ٹھہرا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۴٬۳۲۳) ل اے ہمارے رب ! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دینا.
حقائق الفرقان ۲۲۲ سُوْرَةُ الْغَاشِيَة ١٨ اَفَلَا يَنْظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ - ترجمہ.تو کیا نظر نہیں کرتے اونٹوں کی طرف یا بادلوں کی طرف کہ وہ کیسا پیدا کیا گیا.فسیر.اس آیت شریف اور اس کے مابعد کی اور تین آیتوں میں صبر اور استقلال اور مصائب کے وقت یک رنگی کا بیان ہے.سب سے پہلے اونٹ کا ذکر فر ما یا کہ کس طرح وہ بارکش اور نافع للناس وجود ہے.مولانا رومی فرماتے ہیں: برخوان أَفَلَا ينظر تا قدرت ما بینی بكره بشتر بنگر تاصنع خدا بینی در خار خوری قانع، در بارکشی راضی ایں وصف اگر جوئی در اہل صفا بینی على هذا القياس نزولِ بلا کے وقت اہلِ صفا آسمان کی طرح مرفوع الاحوال پہاڑوں کی طرح مستقل المزاج اور زمین کی کشادگی کی طرح وسیع الحوصلہ ہوتے ہیں.بعض کوتاہ نظر معترضوں نے ابل ، سماء ، جِبال اور ارض ان چار مناظر کو ایک جگہ مذکور دیکھ کر اعتراض کیا کہ کلام بے ربط ہے.کوئی بات آسمان کی ہے تو کوئی زمین کی.ایک جانور ہے تو دوسرا پہاڑ.یہ اعتراض قلت تدبر اور سو فہم کی وجہ سے ہے.ورنہ مناسبت ایسی تام اور ابلغ ہے کہ نظارہ قدرت میں اس سے بڑھ کر جامع الصفات چیزیں دوسری ہیں نہیں جو فہمائش کے لئے پیش کی جاتیں.۲۲.فَذَكِّرُ إِنَّمَا اَنْتَ مُذَاكِر - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۴) ترجمہ.پھر تو نصیحت کرتارہ کیونکہ اس کے سوا نہیں کہ تو نصیحت کرنے والا ہی ہے.تفسیر.میں ایک دفعہ قرآن پڑھ رہا تھا.کسی تذکرے میں بات پر بات چلی.تمام بھلائیوں اور برائیوں پر جب ہمارے فطری قومی گواہی دیتے ہیں تو انبیاء اور رسل کی ضرورت کیا تھی.اس وقت یہ آیت سامنے کھڑی پکار رہی تھی.تم نہیں سمجھتے.تمہارے نبی کے حق میں الہی کلام اور میر امتکلم کیا کہتا ہے.ا اس آیت أَفَلَا يَنظُرُون کو پڑھو تو ہماری قدرت تمہیں نظر آئے گی.اونٹ کے کو ہان کو دیکھو گے تو خدا کی صناعی نظر آئے گی.کانٹوں کو کھا کر بھی قناعت کرتا ہے اور وزن اٹھا کر بھی راضی رہتا ہے اگر تم تلاش کرو گے تو یہ خوبی تمہیں اہل صفا میں نظر آئے گی.
حقائق الفرقان لے فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكر.وس ۲۲۳ ۲۳ - لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ - ترجمہ.تو ان پر کوئی کو توال اور سز اول تو نہیں.سُوْرَةُ الْغَاشِيَة فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۷) تفسیر.مُصنطرس اورص دونوں سے لکھا جاتا ہے.اس کے معنے جابر کے ہیں.نبی کا کام صرف تبلیغ کر دینا ہے.جو نہ مانے.ان پر نبی جبر نہیں کیا کرتے.ور (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۳) -۲۵ فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ - ترجمہ.تو اللہ اسے بہت بڑے عذاب میں گرفتار کرے گا.تفسیر.اس آیت شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ قحط کے عذاب کے علاوہ کوئی اور بھی عذاب ہے جس کا نام عذاب اکبر رکھا ہے.دوسری جگہ فرمایا.وَ نُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الاكبر - (السجده: ۲۲) سوره دخان و سورۃ المومنون میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کے قحط کی آیتوں سے سورۃ الغاشیہ کے الفاظ ملتے جلتے ہیں.اس لیے حدیث الغاشیہ سے مراد قحط شدید کی پیشگوئی ہم نے مراد لی ہے.اور بھی سورۃ الغاشیہ میں ایسے الفاظ لائے گئے ہیں.جیسے ضريع، لايسين ، عاملة ، نَاصِبَة وغیرہ قحط ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں حدیث الغاشیہ سے بطور معارف کوئی اور بھی قسم عذاب کی مراد ہو تو ممکن ہے.کیونکہ کلام الہی ذوالمعارف ہوتا ہے تاوقتیکہ تضاد نہ ہو.سارے ہی معارف صحیح سمجھے جاسکتے ہیں.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ کو اکثر نماز جمعہ اور عیدین میں ان سورتوں کے ذوالمعارف ہونے کی وجہ سے تلاوت فرماتے تھے.نماز عشاء میں بھی ان دو سورتوں کا کثرت سے پڑھنا آپ کا ثابت ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۳) لے سو تو سمجھا.تیرا کام ہی ہے سمجھانا.۲ اور ضرور ہم ان کو چکھائیں گے بڑے عذاب کے سوا دنیا کے عذاب سے (ہی).
حقائق الفرقان ۲۲۴ سُوْرَةُ الْفَجْرِ سُوْرَةُ الْفَجْرِ مَكِيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ فجر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے ۲ تا ۶ - وَالْفَجْرِ وَ لَيَالٍ عَشْرِ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّيْلِ إِذَا يَسْرِ هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمْ لِذِي حِجْرٍ - ترجمہ.قسم ہے فجر کی.اور قسم ہے حج کی دس راتوں کی.اور اگنے دگنے کی قسم.اور رات کی جب وہ گزرتی ہے.کیا ان چیزوں میں قسم صاحب خرد کے لئے کوئی دلیل نہیں.الفجر رسول کریم صلی ہیم کا زمانہ ہے.خیر القرون تک تین سو برس ہوئے اور دس راتوں سے مراد دس صدیاں لیں تو کل ۱۳۰۰ ہوئے.اس کے بعد خدا تعالیٰ وَ الشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (الفجر : ۴) میں تیرھویں اور چودھویں صدی کی طرف اشارہ فرماتا ہوا و الیلِ إِذَا يَسْرِ (الفجر : ۵) کی خبر دیتا ہے یعنی پھر چودھویں میں آفتاب نبوت طلوع کرے گا اگر اس نبی کی اطاعت نہ کریں گے تو وہی ہوگا جو عادیوں اور فرعونیوں کے ساتھ ہوا.(البدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۱۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۵) صبح کا وقت ، دس راتیں ، جفت اور طاق اور رات جبکہ رواں ہو پڑے.ان پانچ اوقات متبرکہ مخصوصہ کو واسطے اظہار ان کی عظمت کے بطور قسم کے یاد فرمایا ہے.ان پانچ اوقات متبر کہ مخصوصہ کی تعین میں بہت سے قول بیان ہوئے ہیں.جفت اور طاق کی تعین میں وقت کے علاوہ کوئی اور دوسری شئے بھی مراد سمجھی گئی ہے.ان سب اقوال میں زیادہ تر اقرب بلہم جو بات معلوم ہوتی ہے.وہ یہ ہے کہ چونکہ ان آیات کے مابعد ساتھ ہی ذکر بعض بڑی بڑی قوموں مثلاً عا دارم وغیرہ کی ہلاکتوں کا نبیوں کے مقابلہ کی وجہ سے بیان ہوا ہے اور یہ بات ظاہر ہے کہ سب سے بڑا ہتھیار پیغمبروں کے ہاتھ میں
حقائق الفرقان ۲۲۵ سُوْرَةُ الْفَجْرِ دشمنوں کے مقابلہ کے وقت دعا ہی کا ہوتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے بعض اوقات مخصوصہ و مقامات متبرکه خاص مناسبت رکھتے ہیں.اس لئے ایک شق ان میں سے جو اوقات مخصوصہ ومتبرکہ کی ہے.ذکر کی جاتی ہے.سب سے زیادہ متبرک ایام ولیالی عشرہ اواخر رمضان المبارک ہیں.ا.صبح کو بیسویں کی اعتکاف میں داخل ہوتے ہیں اور یہی مسنون ہے.اگر چاند تیسویں کا ہو تو دس راتوں میں اعتکاف ختم ہو جاتا ہے.اور اگر چاند انتیس کا ہو تو دنوں کی تعداد جفت اور راتیں وتر ہو جاتی ہیں.بعد ختم عشرہ آخرہ رمضان المبارک کے شوال کی پہلی رات لیلتہ الجائزہ کہلاتی ہے کہ اس رات میں تمامی ماہِ رمضان المبارک کا اجر و ثواب اللہ تبارک و تعالیٰ بندوں کو عطا فرماتے ہیں.پہلی شب شوال کی بہ اعتبار اس کے کہ سارے رمضان شریف کا ثواب اس میں مرحمت کیا جاتا ہے.حدیث شریف میں نہایت بابرکت رات بیان ہوئی جو وَاليْلِ إِذَا یسر کی مصداق ہے.صبح کے اوقات کی نسبت خصوصیت سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے کہ اللَّهُمَّ بَارِكَ لِأُمَّتِي فِي بُكُوْرِهَا أَوْ كَمَا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ اس کے علاوہ ان پانچ باتوں کی توجیہات اور بھی بیان ہوئی ہیں ماحصل ان سب کا یہی ہے کہ ان سے امکنہ مراد ہوں یا از منہ.دعا کے لئے یہ بڑے زبردست ہتھیار ہیں.جنہوں نے دشمنوں کی بڑی بڑی قوموں کو ہلاک کر دیا.وَالَّيْلِ إِذَا یسر سے شب قدر بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ بخلاف اور راتوں کے یہ رات ساری کی ساری با برکت ہوتی ہے.ان دس راتوں کے نظارے کو حشر کے نظارے سے بھی تشبیہ دی اور اس سے یہ بتایا ہے کہ کس طرح پر مختلف حصص عالم سے لوگ اس بیت الحرام کی طرف چلے آتے ہیں.اور جولوگ مکہ اور عرفات میں جمع ہوتے ہیں.وہ ہر طرف ان قوموں کے آثار اور نشانات کو مشاہدہ کرتے ہیں.جنہوں نے انبیاء علیہم السلام کا انکار کیا اور آخر عذاب الہی میں گرفتار ہوئے.جیسا کہ آگے کھول کر بیان کیا ہے.الم ترَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادِ آیت نمبرے سے نمبر ۱۵ تک اس میں اہلِ مکہ کو یہی سمجھانا مقصود ہے لے اے اللہ تو میری امت کے لئے اس کے صبح کے اوقات میں برکت رکھ دے.
حقائق الفرقان ۲۲۶ سُوْرَةُ الْفَجْرِ کہ تم اس مبارک اور محترم شہر میں ایسے عظیم الشان رسول کی مخالفت کر رہے ہو.جو تمام انبیاء علہیم السلام کا سردار اور سرتاج ہے.اس کا انجام یہ ہوگا کہ تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور یہ کیسا عظیم الشان اعجاز ہے کہ آنحضرت کے دشمنوں کا نام ونشان مٹا دیا گیا اور مکہ معظمہ میں ابدالآباد کے لئے آنحضرت کا کوئی دشمن نہ رہنے دیا.مکی زندگی جن مصائب اور مشکلات سے بھری ہوئی ہے.وہ تاریخ اسلام کا ایک زہرہ شگاف باب ہے.پھر انہی ایام میں یہ پر شوکت پیشگوئیاں اور جلالی تہذ یاں مخالفین رسالت کو سنائی جاتی ہیں.جل جلالہ جیسا کہ الفجر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ثمود کی قوم کے عذاب کے وقت کی طرف اس میں اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ جیسے وہ فجر مامورین و مرسلین کی حقانیت پر مہر کر نیوالی تھی اسی طرح و کیالٍ عَشْیر سے ان راتوں کی طرف اشارہ ہے جن میں فرعونیوں کا خاتمہ ہوا اور بنی اسرائیل نے ان کے ہاتھوں سے نجات پائی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۵٬۳۲۴) قرآن کریم میں کوئی بہت بڑا عظیم الشان مضمون جیسے اللہ جل شانہ کی ہستی کا ثبوت ، اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی ، اللہ تعالیٰ کے افعال، اللہ تعالیٰ کی عبادتیں، یہ چار باتیں جناب الہی کے متعلق ہوتی ہیں.ملائکہ ، اللہ تعالیٰ کے اسماء اللہ تعالیٰ کے رسول اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر جو لوگ اعتراض کرتے ہیں ، ان کو روکنا ، جزا وسزا، کتب الہی پر ایمان، یہ بڑے مسائل ہیں.جو اللہ تعالیٰ کی کتابوں میں آتے ہیں.ان دلائل میں سے سب سے عظیم الشان بات جو اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کریمہ میں فرمائی ہے.ہر ملک میں کوئی نہ کوئی قوم بڑی سخت ہوتی ہے.جس شہر میں میرا پرانا گھر تھا.وہاں پر ایک سید کی زیارت ہے.اس شہر میں ان کی قبر پر جا کر قسم کھانا بڑی قسم ہے.اسی طرح بعض زمیندار جھوٹی قسم کھا لیتے ہیں.مگر دودھ پوت کی قسم نہیں کھاتے.اسی طرح ہندو گائے کی دُم پکڑ کر قسم نہیں کھا سکتے.غرضیکہ ہر قوم اپنے ثبوت کے لئے کسی نہ کسی عظیم الشان قسم کو جڑھ بنائے بیٹھی ہے.عرب کے لوگ ہر ایک جرم کا ارتکاب کر لیتے تھے.لیکن مکہ معظمہ کی تعظیم ان کے رگ وریشہ میں بسی ہوئی تھی.
حقائق الفرقان ۲۲۷ سُوْرَةُ الْفَجْرِ یہاں تک کہ جن ایام میں مکہ معظمہ میں آمد و رفت ہوتی تھی.کیا مطلب ذی قعدہ ، ذی الحجہ اور رجب میں وہ اگر اپنے باپ کے قاتل پر بھی موقع پاتے تھے.تو اس کو بھی قتل نہیں کرتے تھے.تم جانتے ہو کہ جب شکاری آدمی کے سامنے شکار آجاتا ہے.تو اس کے ہوش وحواس اڑ جاتے ہیں.لیکن عرب میں جب حدود حرم کے اندر شکار آجاتا تھا تو اس کو نہیں چھیڑتے تھے.پھر دس راتیں حج کے دنوں کی بڑے چین و امن کا زمانہ ہوتا تھا.ان دنوں میں بد معاش لوگ بھی فساد اور شرارتیں نہیں کرتے تھے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو یاد دلاتا ہے کہ ان امن کے دنوں میں تم اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی باوجود قابو یافتہ ہونے کے قتل نہیں کرتے تھے.تم اللہ تعالیٰ کو یاد کرو کہ اب تم لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کو ان دنوں میں بھی نہیں چھوڑتے اور کیا تم کو خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول جو عرب سے باہر آئے ہیں مثلاً مصر کے ملک میں فرعون تھا اس کے پاس رسول آیا یعنی فرعون کو سزادی جو خدا کے رسول موسی کے مقابلہ میں تھا.پھر ہم نے عاد اور ثمود کی اقوام کو سزائیں دیں جو ہمارے رسولوں کے مقابل کھڑی ہو ئیں اور تم تو مکہ میں اور پھر حج کے دنوں میں بھی شرارت کرتے ہو اور نہیں رکھتے تو تم ہی انصاف سے کہو کہ آیا سب سے زیادہ سزا کے مستحق ہو کہ نہیں؟ نیکی ہو یا بدی بلحاظ زمان و مکان کے اس میں فرق آجاتا ہے.ایک شخص کا گرمی کے موسم میں کسی کو جنگل ریگستان میں ایک گلاس پانی کا دینا جبکہ وہ شدت پیاس سے دم بہ لب ہو چکا ہو ایک شان رکھتا ہے مگر بارش کے دنوں میں دریا کے کنارے پر کسی کو پانی کا ایک گلاس دینا وہ شان نہیں رکھتا.یہ بات میں نے تم کو کیوں کہی ؟ تم میں کوئی رسول کریم کے صحابہ مکہ میں تو بیٹھے ہوئے ہیں ہی نہیں.میں تم کو سمجھانے کے لئے کھڑا ہو گیا.یادرکھو جو امن اور اصلاح کے زمانہ میں فساد اور شرارت کرتا ہے وہ سزا کا بہت ہی بڑا حق ہے.ٹامستحق میرا یہ اعتقاد ہے.جہاں کوئی پاک تعلیم لاتا ہے.جہاں لوگ سفر کر کے جاتے ہیں.وہاں مکانوں کی تنگی ، کھانا سادہ ملتا ہے یا نہیں ملتا.ایسی مصیبتیں جولوگ اٹھا کر یہاں آئے ہیں.اور وہ دن رات قرآن سیکھتے ہیں.یہاں اگر کوئی فساد کرے تو وہ اصلاح کا کیسا خطرناک دشمن ہے.
حقائق الفرقان ۲۲۸ سُوْرَةُ الْفَجْرِ لے فَاكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ - فَصَبَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوطَ عَذَاب - (الفجر : ۱۳ ، ۱۴) ۱۳، مجھ کو یقین ہے کہ جہاں بڑے بڑے لوگ ہیں وہاں بڑے بڑے سامان بہت سے مل سکتے ہیں.ان مکانوں کو چھوڑ کر جب کوئی یہاں آتا ہے تو وہ ہم کو بطور نمونہ کے دیکھتا ہے.ابھی ایک شخص بنگالہ سے یہاں آئے تھے.اتفاق سے ان کو مہمان خانہ میں کوئی داڑھی منڈا موچھڑیالہ شخص مل گیا.انہوں نے مجھ سے شکایت کی کہ ہم تو خیال کرتے تھے کہ قادیان میں فرشتے ہی رہتے ہیں.یہاں تو ایسے لوگ بھی ہیں.تھوڑی دیر کے بعد وہ شخص بھی آ گیا.جس کی شکل سے مجھ کو بھی شبہ ہوا کہ یہ مسلمان ہے یا ہندو.میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کیسے آئے؟ کہنے لگا کہ میں بیمار ہوں علاج کرانے کے لئے یہاں آیا ہوں.الغرض جب لوگ یہاں آتے ہیں تو تم کو بہت دیکھتے ہیں.اب تم کو سوچنا چاہیے کہ اگر تم اصلاح کے لئے آئے ہو تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں امن اور اصلاح ہو.وہاں فساد اور شرارت بڑی بات ہے.جہاں کوئی مصلح آیا ہو.وہاں فساد کیسا ؟ اب تم ہی بتاؤ کہ اگر تم یہاں فساد کرو تو فَصَبٌ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابِ کے سب سے بڑھ کر مستحق ہو یا نہیں.میں تمہارے سامنے یہ بطور اپیل کے پیش کرتا ہوں جناب الہبی مکہ والوں کو فرماتے ہیں کہ تم ہی انصاف کرو.هَلْ فِي ذلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ - کیا کوئی عقل مند ہے جو ہماری بات کو سمجھ جائے اور تہ کو پہنچ جائے.باہر تم گند کرو تو اس قدر نقصان نہیں پہنچا سکتے.جس قدر یہاں پہنچا سکتے ہو.جناب الہی فرماتے ہیں.فَاقَا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَليهُ رَبُّهُ فَاكْرَمَهُ وَنَعْمَةُ فَيَقُولُ رَبّى أَكْرَمَن - - (الفجر : ۱۶) بعض کو آسودگی سے ابتلا میں ڈالتے ہیں.وہ جناب النبی کے فضل کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں.ربی اگر مَن.جب تکلیف پہنچتی ہے تو کہتے ہیں رَبِّي آھانی کہ ہماری بڑی اہانت ہوئی.میں تم کو اور اپنے آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر کسی کو یہ تعلیم نا پسند ہے اور یہاں تم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا تو لے اور کثرت سے شہروں میں فساد پھیلایا تھا.پھر لگا یا اللہ نے ان پر عذاب کا کوڑا.سے قادیان.مرتب پس جب انسان کو اس کا رب آزماتا ہے اور اس کو عزت اور نعمت دیتا ہے تو کہتا ہے میرے رب نے مجھے خوب عزت دی.
حقائق الفرقان ۲۲۹ سُوْرَةُ الْفَجْرِ تمہارے یہاں سے چلے جانے میں کوئی حرج نہیں.كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ - وَلَا تَخْضُونَ عَلى طَعَامِ الْمِسْكِينِ (الفجر : ۱۹،۱۸) یتیموں کا تم لحاظ کرو.وہ میرے پاس آتے ہیں.میرے میں اتنی گنجائش نہیں.میری اتنی آمدنی نہیں کہ سب کا خرچ برداشت کر سکوں.مسکینوں کے کھانے کی فکر کرو.یہاں مدرسہ میں ایک طالبعلم آیا تھا.ایک دن مجھ سے کہنے لگا کہ یہاں جھوٹ بڑا بولتے ہیں.لنگر خانہ میں تو پچاس ساٹھ روپے ماہوار خرچ کرتے ہوں گے مگر باہر سے ہزاروں روپیہ منگواتے ہیں.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارا مدرسہ میں کس قدر خرچ ہوتا ہے.کہا دس روپیہ ما ہوا را کیلے کا خرچ ہے.آخر وہ یہاں سے چلا گیا.تم نیک نمونہ بنو.اگر غلطیاں ہوتی ہیں لا إلهَ إِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینَ پڑھو.جناب الہی رحم فرمائیں گے.(البدر جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۲۶ ۱ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۵٬۴) --- أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ - ترجمہ.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے عاد سے کیا معاملہ کیا.تفسیر.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد کے ساتھ تمہارے خدا نے کیسا کیا.عاد کا واقعہ ولادت آنحضرت سے پیشتر واقع ہو چکا ہے.ایسے موقعوں میں لفظ ” دیکھا یہ معنی نہیں رکھتا کہ موجود و حاضر ہو کر بایں چشم سر دیکھا بلکہ وہ واقعات جو مسلم اور متداول لا ریب چلے آتے ہیں اور جن کی صداقت کو اخلاف واقعہ چشم دید سے کچھ کم اعتقاد نہیں کرتے.لفظ دیکھا“ سے تعبیر کئے جاتے ہیں.اور یہ محاورہ ہر زبان کی عام بول چال میں پایا جاتا ہے.مثلاً کہتے ہیں.دیکھومصر میں انگریز کیا کارروائی کر رہے ہیں.دیکھو آئرلینڈ کے لوگ کیسا فساد مچارہے ہیں وغیرہ وغیرہ.اب یہ فقرات ہندوستان میں بیٹھا ہوا ایک شخص کہہ رہا ہے اس سے یہ مقصود نہیں کہ اس کے اس کلام کے مخاطبین ان آنکھوں سے مصر اور آئرلینڈ میں موجود ہو کر وہ کارروائی اور فساد دیکھ رہے ہیں.ا کچھ نہیں بلکہ تم عزت نہیں کرتے تھے یتیم کی.اور نہ ایک دوسرے کو ترغیب دلاتے تھے محتاج کو کھانا کھلانے کی.
حقائق الفرقان ۲۳۰ سُوْرَةُ الْفَجْرِ لغت میں رویت اور رأی کے معنے جن سے یری کا لفظ مشتق ہوتا ہے.غور کے قابل ہیں.دیکھو قاموس اللغة الرُّؤْيَةُ النَّظَرُ بِالْعَيْنِ وَالْقَلْبِ وَالرَّأْسُ ، الْإِعْتِقَادُ یعنی رؤیت آنکھ سے دیکھنے اور دل سے دیکھنے اور رأی اعتقاد کرنے کو کہتے ہیں.- إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ - فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۳۸، ۱۳۹ ) ترجمہ.جوارم کے رہنے والے بڑے بڑے ستون والے تھے.تفسیر.ارم یا تو عاد کے دادا عوض کے باپ کا نام ہے.یا ارم ان کے شہر کا نام.دونوں مراد ہو سکتے ہیں یعنی اہلِ ارم.یہ لوگ سام بن نوح کی اولاد سے تھے.ھود علیہ السلام ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے.طویل القد، بلند عمارتوں والے تھے.ال - وَفِرْعَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۵) ترجمہ.اور فرعون کے ساتھ جو میخوں والا تھا.کثرت لشکر اور ان کے خیموں اور خیموں کے لوازم کی وجہ سے ذی الأوتاد فرعون کی صفت بیان ہوئی یا سزا چو میخچہ اس کی عادت تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۵) -۱۴- فَصَبَ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ - ترجمہ.پھر لگا یا اللہ نے ان پر عذاب کا کوڑا.تفسیر.ایسی سخت چابک جس سے خون بہنے لگے سوط کہلاتی.شاید ہماری زبان میں سونٹا اسی لفظ سے بگڑ کر بنا ہے.۱۵ - إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۵) ترجمہ.بے شک تیرا رب تاک میں لگا ہوا ہے.تفسیر.مرصاد - صید کے لئے گھات کی جگہ.اللہ تعالیٰ عالم الغیب والشھادۃ ہے اس کو گھات یا تاک اور نشانے کی ضرورت نہیں.بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتْهُ فَأُولَبِكَ
حقائق الفرقان ۲۳۱ سُوْرَةُ الْفَجْرِ - اَصْحَبُ النَّارِ.(البقرہ: ۸۲) اس کی تفصیل ہے.گناہوں کا حلقہ جب چاروں طرف سے پورا ہو جاتا ہے اور کسی مربوب خدا کا تیر بھی کسی خاص وقت یا خاص جگہ سے نکل پڑتا ہے تو یہ نخچیر شکار ہو جاتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲، صفحه ۳۲۵) - كَلَّا بَلْ لَا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ - کچھ نہیں بلکہ تم عزت نہیں کرتے تھے یتیم کی.تفسیر.یتیم کے لفظ سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ ہے.عام یتیم بھی اس سے مراد ہیں.حدیث شریف میں ہے کہ بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کی عزت کی جاوے.اور بدتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کو دکھ دیا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۵) ۲۳ - وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا - جمعہ.اور تیرا رب تشریف فرما ہو گا اور فرشتے صف بہ صف کھڑے ہوں گے.تفسیر.دھرم پال کے اس اعتراض کے جواب میں کہ ” خدا کو آنے کی کیا ضرورت ہے آپ نے تحریر فرمایا.وو جاء فعل ہے.افعال اور صفات کا طریق کیا ہے؟ یہ ہے کہ فاعل اور موصوف کے لحاظ سے افعال اور صفات کا رنگ اور حالت بدلتی رہتی ہے.غور کرو مثلاً بیٹھنا ایک فعل ہے.ایک آپ کا بیٹھنا ہے اور ایک کسی جانور کا بیٹھنا.دیکھو اس بیٹھنے میں ایک جسم خاص کی ضرورت ہے.مکان کی ضرورت ہے.پھر کہا جاتا ہے کہ یہ بڑا سا ہو کا ر تھا مگر اب بیٹھ گیا ہے.دیکھو یہ بیٹھنا اور طرح کا ہے یا کہا جاتا ہے کہ آجکل ہندو انگلستان کے تخت پر ایڈورڈ ہفتم بیٹھا ہے.اس بیٹھنے میں ایڈورڈ سوتا ہو ، چلتا ہو ، کہیں کھڑا ہو ، بہر حال بیٹھا ہے.اب اس سے بھی لطیف موصوف اور فاعل کا حال سنو.تمہارے دل میں اسلام کا بغض بیٹھ گیا اے ہاں جس نے گناہ کو اپنا کسب بنالیا اور اُس کی بدیوں نے اُس کو ہر طرف سے گھیر لیا تو ایسے ہی لوگ آگ میں جلتے بُھنتے رہیں گے ہمیشہ.
حقائق الفرقان ۲۳۲ سُوْرَةُ الْفَجْرِ ہے تمہارے دل میں آریہ سماج کی محبت بیٹھ گئی ہے.کیا محبت کوئی جسم ہے؟ نہیں.اسی طرح آنا اور حرکت کرنا ایک صفت اور فعل ہے.فلانا آدمی آیا.یہ آنا ایک طرف ایک مکان کے چھوڑنے کو چاہتا ہے.اور دوسری طرف ایک مکان کی طرف آنے کو.سرور میرے دل میں آیا.علم میرے قلب میں آیا.مجھے سکھ ملا.اگر بولا جائے تو یہ لازم نہیں آتا کہ سرور اور علم اور سکھ کوئی جسم ہے اور اس نے کوئی مکان ترک کیا اور سنو! تمہارے گرو نے تو اپنی دعاؤں میں الہی حرکت کو بھی مانا ہے.دیکھو صفحہ نمبر ۴ ستیارتھ پرکاش اے پر میشور جس جس مقام سے آپ دنیا کے بنانے اور پالنے کے لئے حرکت کریں اس اس 66 مقام سے ہمارا خوف دور ہو سنو! پال اگر پر میشر حرکت کر سکتا ہے تو ملائکہ (دیو) تو محمد ود ہوتے ہیں.ان کا حرکت کرنا کیوں حیرت انگیز ہے؟ اگر حرکت کے کوئی معنی سماج کر سکتی ہے اور روپک النکار میں اس کو لے سکتی ہے تو قرآن کریم میں مسلمان کیوں مجاز نہیں کیا جاتا.اللہ تعالیٰ اپنے مظاہر قدرت میں جلوہ گری کرتا ہے.وہ حلول و اتحاد سے منزہ وراء الورا مظاہر قدرت میں اپنی قدرتوں طاقتوں بلکہ ذات سے جیسے اس کی ليْسَ كَمِثْلِه ذات اور انو پیم کی شان ہے آتا ہے.اور کہیں سے جاتا ہے.کیا جیسے ودوان دھارمک کے ہردے میں آتا ہے ویسا ہی ڈشٹ اناڑی کے ہردے میں بھی ہوتا ہے اور آتا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ تمہارے ہاں تو پھاند کر بھی جاتا ہے.پھر اتنا کیا مشکل ہے.بیجر وید اکتیسواں ادھیا کے پہلے اشلوک میں لکھا ہے.وہ سب جگت کو النگھ کر ٹھہرا ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام صفحه ۱۴۴ تا ۱۴۶) ۲۴- وَ جاءَ يَوْمَبِدٍ بِجَهَنَّمَ يَوْمَن يَتَذَكَّرُ الْإِنْسَانُ وَ أَنَّى لَهُ الذكرى - اور اس دن دوزخ لایا جائے گا.جب کہیں انسان سمجھے اور سوچے گا اُس وقت سوچنے سے اسے کیا فائدہ ہوگا.تفسیر.اللہ تعالیٰ کا عذاب رویت عذاب سے پہلے تو بہ اور استغفار سے مل جاتا ہے.اور
حقائق الفرقان ۲۳۳ سُوْرَةُ الْفَجْرِ یہی سنت اللہ ہے.مگر جب عذاب کی رویت ہو جاوے تو پھر تو بہ استغفار وا نابت الی اللہ بھی کام نہیں پڑتے.جیسا کہ فرما یا فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ اِيْمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا سُنَّتَ اللَّهِ الَّتِي قَد خَلَتْ فِي عِبَادِة - (المومن : ٨٦) : (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲، صفحه ۳۲۵) -۲۵ - يَقُولُ يَدَيْتَنِي قَدَّمُتُ لِحَيَاتِي - ترجمہ.وہ کہے گا اے کاش میں کچھ تو بھیجتا آگے اپنی اس زندگی کے لئے.تفسیر.حیات موت کے بعد کی جاودانی زندگی کو کہا گیا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۵) ۲۸ تا ۳۱ - يَايَتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَبِنَةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً - فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - ترجمہ.اے اللہ کے ساتھ تسکین پائے ہوئے نفس.تو اپنے رب کی طرف واپس آ.تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی.تو میرے خاص بندوں میں داخل ہو.اور آمیری بہشت میں رہ جا.تفسیر.ہر سورۃ کے ابتدا کو اس کے آخر سے لطیف مناسبت ہوتی ہے.سورہ شریفہ کی ابتدائی آیات میں اوقات مخصوصہ منجملہ ان کے عشرہ آخرہ رمضان المبارک اور ان کے شفع اور وتر کا ذکر تھا.جن میں اعتکاف کیا جاتا ہے.تخلیہ ہو اور اطمینانِ قلب نہ ہو تو وہ اوقات بابرکات بھی مفید نہیں پڑتے.چوہر ساعت از نو بجائے رود دل بہ تنہائی اندر صفائی نه بینی ورت مال وجاہت وزرع وتجارة چو دل با خدایست خلوة نشینی ۲ لے تو اُن کو مفید نہ ہوا ان کا ایمان لانا جب کہ دیکھ چکے ہمارا عذاب.اللہ کی عادت ہے جو اُس کے بندوں میں ہوتی رہی اور یہیں نقصان اٹھانا ہے کافروں کے لئے.سے جب ہر وقت دل کسی نئی طرف متوجہ ہونے کے بجائے تنہائی میں ایک ہی طرف متوجہ ہوگا تو ہی تو باطن کی صفائی دیکھ پائے گا اور اگر مال و جاہ اور کھیتی باڑی اور تجارت کے دوران بھی تیرا دل خدا کی طرف متوجہ ہے تو تو خلوت نشین ہی ہے.
حقائق الفرقان ۲۳۴ سُوْرَةُ الْفَجْرِ اطمینانِ قلب نہ حاصل ہونے کی ایک وجہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے از طمع جستیم ہر چیزے کہ آں بیکار بود خود فزوں کردیم ورنہ اند کے آزاد بود ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۲۵) لے ا ہم نے طمع کے مارے ہر وہ چیز ڈھونڈی جو بیکار تھی ہم نے آپ ہی تکلیف کو بڑھالیاور نہ در اصل وہ کم تھی.
حقائق الفرقان ۲۳۵ سُورَةُ البلد سُوْرَةُ الْبَلَدِمَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ بلد کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس بابرکت اللہ کے نام سے جس نے نیک بننے کے لئے سب ضروری سامان مہیا کئے اور ان سے کام لینے والوں کو اب بھی نیک بدلہ دینے کے لئے تیار ہے.پچھلی سورۃ میں بتایا تھا کہ اہل مکہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کر رہے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سنت اللہ کے موافق یہ بھی عذاب الہی میں گرفتار ہوں گے کیونکہ مامورین و مرسلین کے مخالفین اور منکرین کا انجام یہی ہوا کہ وہ بالآخر تباہ اور ہلاک ہو گئے.اس سور ۃا میں اس شہر پر عذاب آنے اور اس میں تاخیر کی وجہ بتائی ہے اور یہ بتایا ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں.جو انسان کو بدی اور سرکشی پر دلیر اور بے باک کر دیتے ہیں اور ایسا ہی یہ بھی بتا یا کہ وہ ایک جوابدہ ہستی ہے اور اشرف المخلوقات ہے اس لئے ضرور ہے کہ ایسی اعلیٰ اور اشرف ہستی پر کچھ فرائض اور حدود ہوں.انسان کو اللہ تعالیٰ نے قومی دیئے ہیں اور نیکی بدی کا راستہ بنا کر اس کی تمیز فطرت میں رکھ دی ہے.اس پر بھی اگر وہ اعمال صالحہ نہ کرے تو سخت افسوس ہے.اعمال صالحہ کی تصریح اور بالآخر بتایا کہ جو آیات اللہ کا انکار کرتے ہیں وہ طعمہ نارہوں گے یہ خلاصہ ہے اس سورپکا.و ۲ - لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ - ترجمہ.اس شہر کی کیا قسم کھائیں.تفسیر.مخاطب کے مافی الضمیر میں جو امور مستعد معلوم ہوتے ہیں.اس کی نفی کے لئے کلمہ لا ہے.بعض تفسیروں میں اس کی نسبت لکھا ہے.الْمُرَادُ وَ الْأَمْرُ كَمَا وَهَبُوا یعنی جیسا انہوں نے خیال کیا ہے ویسا نہیں بلکہ ایسا قسم کے ساتھ مکہ معظمہ کو جلد کے نام سے اس لیے ذکر فرمایا کہ توجہ دلائے کہ یہی بلد ا یک وقت ایک مقام غیر آباد غیر ذی زرع تھا.اور اب جس خدا نے اس کو بلد بنا دیا ہے.
حقائق الفرقان ۲۳۶ سُوْرَةُ الْبَلد اسی خدا کا منشاء ہے کہ ایک یتیم بے سروسامان کو بادشاہ بنادے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم را گست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۶٬۳۲۵).وَاَنْتَ حِلٌ بِهَذَا الْبَلَدِ - ترجمہ.حالانکہ تیرا فقتل تو یہاں ( بزعم کفار ) حلال ہو گیا ہے.تفسیر.اور تو شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ اس شہر میں محل ہو نیوالا ہے.یعنی نزول کرنے والا شہر ہے.آیت کریمہ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَآدُكَ إِلى مَعَادٍ (القصص: ۸۶ ) کا بھی یہی ہے.صحیحین کی روایت سے ثابت ہے کہ آسمان و زمین کی پیدائش کے وقت سے اس شہر کو اللہ تعالیٰ نے محرم بنایا ہے اور قیامت تک اس کا محرم ہونا باقی رہے گا صرف آپ کو فتح مکہ کے دن ایک ساعت کے لئے اجازت قال کی دی گئی تھی اور وہ بھی اسی لیے کہ وَاَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ یعنی قتل کے لئے اسی بلد محرم میں کفار نے آپ کی نسبت ارادہ کر لیا تھا گویا والحرمات قصاص کا منشاء پورا ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۶) تجھ کو اس شہر میں ذبح کرنا حلال سمجھا گیا.( تشھید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۸) وَ وَالِدِ وَ مَا وَلَدَ - ترجمہ اور قسم ہے باپ اور اس کی اولاد کی.تفسیر.مکہ کے ام القری ہونے کی وجہ سے اہلِ مکہ اپنے آپ کو اوروں کا والد سمجھتے تھے تو اللہ تبارک و تعالیٰ گویا یوں فرماتے ہیں کہ ہم تو سب والدوں کے بھی والد ہیں.بہتر نمونہ والد اور ولد کا حضرت ابراہیم اور اسمعیل ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه کیم راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۶) لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ - ہمیں نے پیدا کیا آدمی کو محنت کشی میں.انسان اپنے دشمن کو دکھ پہنچانے میں سنگدلی اور بے رحمی تو کرتا ہے اور یہ بے رحمی اور سنگدلی جب اُس پر الٹ پڑتی ہے تو طرح طرح کی سختیوں میں مبتلا ہوتا ہے.سورۃ کی ابتداء سے سات
حقائق الفرقان ۲۳۷ سُوْرَةُ الْبَلد آیتوں تک غور کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ کی سات آیتوں کی طرح ان ابتدائی سات آیتوں میں مضمون نصفا نصف مشترک ہے اور اس پانچویں آیت لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي كَبَدٍ میں یہ ظاہر فرمایا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو شاہانہ شان وشوکت ملے گی وہ آپ کی محنتوں اور جانفشانیوں کا نتیجہ ہے اور کفار کو جو جان و مال کی تباہی دیکھنی پڑے گی وہ ان کی الٹی محنتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہو گا.مکہ کی فتح اور کفار کی شکست پر آیت کریمہ آن ليْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى (النجم :۴۱۴۴۰).خوب اچھی طرح سے روشنی ڈالتی ہے.اب بعد ان چار یا ساڑھے تین آیتوں کے روئے سخن کفار کی طرف ہے.یہ ثابت کر کے کہ انسان ایک مکلف اور جوابدہ ہستی ہے پھر ان اعمال صالح کی ہدایت کی جو انسان کو سعادت کی گھاٹیوں پر لے جاتے ہیں اور وہ شفقت علی خلق اللہ سے شروع ہوتے ہیں.ان آیات میں بھی مکہ والوں کو ڈرایا ہے کہ تمہارا انسانی اور اخلاقی فرض یہ تھا کہ یتیموں اور مسکینوں سے سلوک کرتے مگر تم نے در یتیم کی قدر نہ کی.ہاں جنہوں نے قدر کی وہ مومن ہیں اور انہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی.باوجود یکہ کی زندگی میں ان کو طرح طرح کے مصائب اور مشکلات پیش آئے لیکن پھر بھی وہ حوصلہ اور برداشت سے کام لے رہے ہیں اور نیکیوں پر دوام اور استقلال سے کام لیتے ہیں اور خلق اللہ پر شفقت کا اظہار کرتے ہیں.یہی لوگ ہیں جو اصحاب المیمنہ ہیں اور جنہوں نے آیات اللہ کا انکار کیا ہے وہ آتشی جیل خانہ میں جائیں گے یعنی منکرین رسالت و نبوت محمدیہ کے لئے ایک خطر ناک عذاب میں ہے.چنانچہ یہ سب باتیں پوری ہو گئیں اور جیسا کہ شروع میں کہا گیا ہے کہ وہ نبوت محمدیہ کی صداقت کے دلائل ٹھہر ہیں.ویلہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه تیم راگست ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۲۶) الْحَمد - - اَيَحْسَبُ أَنْ لَنْ يَقْدِرَ عَلَيْهِ اَحَدٌ - کیا اس کا یہ خیال ہے کہ اس پر کسی کا بس نہ چلے گا.تفسیر کن نفی تاکیدی زمانہ مستقبل کے لئے ہے.اور يَقْدِر کے ساتھ علی کا لفظ ہے جو ضرر لے اور یہ کہ آدمی کو وہی ملے گا جو اس نے عمل کیا.اور وہ اپنی کوشش کا ضرور نتیجہ دیکھ لے گا.
حقائق الفرقان ۲۳۸ سُوْرَةُ الْبَلَدِ کے لئے آتا ہے.مطلب یہ ہوا کہ کفار کو شکست ہوگی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۶) ۸،۷ - يَقُولُ أَهْلَكْتُ مَا لَا تُبَدًا - أَيَحْسَبُ أَنْ لَّمْ يَرَة أَحَدٌ - ترجمہ.وہ کہتا ہے میں نے خرچ کر دیا مال ڈھیروں.کیا اس کا یہ خیال ہے کہ اس کو کسی نے ننگا نہیں دیکھا.تفسیر.يَقُولُ صیغہ مضارع کا ہے.حال اور استقبال دونوں پر شامل ہے.مگر واقعات کے لحاظ سے مستقبل زمانہ کی طرف زیادہ تر توجہ دلاتا ہے.کچھ تو مال مخالفت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خرچ کر چکے ہیں.اور زیادہ تر اور بھی خرچ کر کے ناکام رہیں گے.دوسری جگہ اسی مضمون کو یوں ادا فرمایا ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ لِيَصُدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ فَسَيُنْفِقُونَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ (الانفال: ٣٤) 1211 611 ايَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَا اَحَدٌ - گزشتہ اَيَحْسَبُ کے ساتھ لَن تھا اور اس أَيَحْسَبُ کے ساتھ لخ ہے.اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے کہ کس کی کوششیں راہ صواب پر ہیں اور کس کی کوششیں راہ خطا پر ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه کیم راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۶) ۹ تا ۱۱ - اَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَ شَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ - ترجمہ.کیا ہم نے اس کو دو آنکھیں نہیں دیں.اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیئے.اور اس کو دوراستے نہیں بتلا دیئے ( نیکی اور بدی کے ).تفسیر.مکہ غیر ذی زرع مقام تھا.اس کا بلد بن جانا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام والد ، حضرت اسمعیل علیہ السلام ولد کی صدق وصواب کی کوششوں کا نتیجہ تھا.آنکھوں سے دیکھو کہ یہ کعبہ ا بے شک جو کا فر ہیں یہ خرچ کرتے ہیں اپنے مال تا کہ روکیں اللہ کی راہ سے پھر وہ قریب ہی خرچ کرتے رہیں گے اور وہ ہو گا اُن پر حسرت اور افسوس پھر وہ مغلوب ہی ہوں گے.
حقائق الفرقان ۲۳۹ سُورَةُ البلد باپ اور بیٹے دونوں کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے.لیسان اور شفتین سے زمزم کو پی کر دیکھو کہ یہی ان کو محن کے ایام میں اکل و شرب کا کام دیتا تھا.صفا اور مروہ کی دونوں ٹکڑیوں پر جا کر دیکھو کہ کس قدر پریشانی ان کو تھی یہاں والد اور ولد کے ساتھ والدہ بھی شامل ہے.یہ ایک تنگ اور دشوار گزار درہ تھا جس میں سے وہ تینوں علیہم الصلوۃ گزر گئے عَيْنَيْن شفتین اور تجدین سے بچہ کی سمجھ ، اُس کا دودھ چوسنا اور ماں کے پستان بھی مراد سمجھے گئے ہیں.اس میں بھی کوئی خلاف نہیں.برگ درختان سرو در نظر هوشیار ہر ورقے دفتر لیست معرفت کردگار کے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه یکم راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۶) ۱۲ - فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ - ترجمہ.تو وہ اچھل کر گھائی پر کیوں نہیں چڑھ گیا.سیر - اقتحام کے معنے کسی خطرناک جگہ میں بغیر پس و پیش کوسو چے دھنس جانے کے ہیں.کما قال الله تعالى هَذَا فَوْجٌ مُّقْتَحِمٌ مَّعَكُمْ (ص:۲۰) یہ آیت شریفہ دوزخیوں کے دھسان کے بارے میں ہے.عرب بولا کرتے ہیں.فَحَمَ فِي الْأَمْرِ فَحُومًا آتَ رَى بِنَفْسِهِ فِي الْأَمْرِ بِغَيْرِ رُؤْيَتِهِ - عقبہ.پہاڑ کے دڑے اور گھائی کو کہتے ہیں کہ بسبب تنگ اور دشوار گزار ہونے کے پھیل کر اس میں سے نہیں گزر سکتے.بلکہ ایک کے عقب میں دوسرے کو راستہ کی تنگی کی وجہ سے چلنا پڑتا ہے.اس اقتحام عقبہ کو ذیل کی چند آیات میں ایثار لنفس وغیرہ سے تعبیر کیا ہے.ایثار جبھی ہوسکتا ہے.جبکہ انسان اپنی تنگی کو قبول کر لے اور دوسرے کی راحت کو مقدم کر دے.یہ ایک دشوار گزار گھائی ہے.دنیا کی مفتوح قو میں جب کبھی فاتح بن گئی ہیں تو اسی اقتحام کی وجہ سے بن گئی ہیں.غیر آباد مقامات بلدان ہو گئے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ یکم و ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷٬۳۲۶) ا سرو کے درختوں کے پتے بھی ایک سعید فطرت انسان کی نظر میں ان میں سے ہر ایک پستہ خدا تعالیٰ کی معرفت کا ایک رجسٹر ہوتا ہے.۲ یہ ایک جماعت ہے کہ خوب مضبوطی سے گھسنے والی ہے تمہارے ساتھ.وہ کام میں بلا پس و پیس اور سوچ لگ گیا یعنی اس نے اپنے آپ کو کام میں بغیر دیکھے لگا دیا.
حقائق الفرقان ۲۴۰ سُورَةُ البلد ۱۵ او اطْعَمُ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ - ترجمہ یا فاقہ کے دن میں.تفسیر.مَسْغَبَةٍ مصدر میمی ہے.سَغَبَ يَسْعَبُ سَغْبًا فَهُوَ سَاغِبٌ وَسَغْبَانٌ سَاغِب اور سغبان بھوکے کو بولتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷) - - ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ - ترجمہ.پھر ہو جاتا ان لوگوں میں جنہوں نے اللہ کو مانا اور آپس میں ایک دوسرے کو صبر اور رحم کی نصیحت کرتے رہے.تفسیر.ثُھ واسطے تاخیر کے نہیں ہے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے اینا نفسی کے کام کرنے سے جو مذکور ہوئے.انسان مومن بن جاتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷) ۱۹ - أُولَبِكَ أَصْحَبُ الْمَيْمَنَةِ - ترجمہ.یہی لوگ بڑے صاحب نصیب داہنے ہاتھ والے ہیں.تفسیر.مَيْمَنَةٌ ، يُئن سے مشتق ہے.یہ لوگ بابرکت ہو جاتے ہیں یا یمین سے یعنی راست باز.نامہ اعمال کو داہنے ہاتھ میں پانے والے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷) ۲۰ - وَالَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِنَاهُمْ أَصْحَبُ الْمَشْمَةِ - ترجمہ.اور جن لوگوں نے انکار کیا ہماری آیتوں کا وہی شامت کے مارے بائیں ہاتھ والے ہیں.تفسیر.مَشئَمَة - شامت اور بدبختی والے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷)
حقائق الفرقان ۲۴۱ سُورَةُ البلد ۲۱ - عَلَيْهِمْ نَارُ مُؤْصَدَةٌ ترجمہ.انہیں پر آگ بند کی ہوئی ہوگی ( جو گھیرے رہے گی ).تفسیر - مُقصَدَةٌ کے معنے مُطبَقَةٌ کے ہیں.یعنی دوزخ کے دروازے ان پر بند کر دیئے جائیں گے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۷)
حقائق الفرقان ۲۴۲ سُوْرَةُ الشَّمْسِ سُوْرَةُ الشَّمْسِ مَكّيّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - پڑھنا شروع کرتے ہیں ہم اللہ کے نام سے جو بڑا رحمن ورحیم ہے.سورة الشمس کی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ تحریر فرمائی ہے اس کو بالاختصار آپ ہی کے الفاظ میں ہم یہاں درج کرتے ہیں.از کتاب توضیح مرام روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۷ سے صفحہ ۸۴ تک.خدائے تعالیٰ نے سورۃ الشمس میں نہایت لطیف اشارات و استعارات میں انسان کامل کے مرتبہ کوزمین و آسمان کے تمام باشندوں سے اعلی و برتر بیان فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے.۲- وَالشَّمْسِ وَضُحَهَا - ترجمہ.قسم ہے سورج کی اور اُس کی دھوپ کی.تفسیر.یعنی قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی.وَالْقَمَرِ إِذَا تَليها - - ترجمہ.اور قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کی پیروی کرے.تفسیر.اور قسم ہے چاند کی جب وہ سورج کی پیروی کرے.وَالنَّهَارِ إِذَا جَلْهَا - ترجمہ.اور قسم ہے دن کی جب وہ سورج کو ظاہر کرے.تفسیر.اور قسم ہے دن کی جب اپنی روشنی کوظاہر کرے.
حقائق الفرقان ۵- وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَهَا - ۲۴۳ اور قسم ہے رات کی جب وہ اسے ڈھانپ لے.تفسیر.اور قسم ہے رات کی جو بالکل تاریک ہو.- وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنْها - اور قسم ہے آسمان اور اس ذات پاک کی جس نے اسے مضبوط بنایا.اور قسم ہے آسمان کی اور اس کی جس نے اُسے بنایا..وَالْأَرْضِ وَمَا طَحها - ترجمہ.اور قسم ہے زمین کی اور اس کی جس نے اسے ہموار بنا کر بچھایا.تفسیر.اور قسم ہے زمین کی اور اس کی جس نے اُسے بچھایا.سُوْرَةُ الشَّمْسِ - - وَنَفْسٍ وَمَا سَويها - ترجمہ.اور قسم ہے انسان کے نفس کی اور اس کی جس نے اسے اعتدال کامل اور وضع استقامت کے جمیع کمالات متفرقہ عنایت کئے (اور کسی کمال سے محروم نہ رکھا بلکہ پہلے قسموں کے نیچے جتنے کمالات تھے وہ اس میں جمع کر دیئے ).تفسیر.اور قسم ہے انسان کے نفس کی اور اس کی جس نے اسے اعتدال کامل اور وضع استقامت کے جمیع کمالات متفرقہ عنایت کئے اور کسی کمال سے محروم نہ رکھا بلکہ سب کمالات متفرقہ جو پہلی قسموں کے نیچے ذکر کئے گئے ہیں اس میں جمع کر دیئے.اس طرح پر کہ انسان کامل کا نفس آفتاب اور اس کی دھوپ کا بھی کمال اپنے اندر رکھتا ہے اور چاند کے خواص بھی اس میں پائے جاتے ہیں کہ وہ اکتساب فیض دوسرے سے کر سکتا ہے اور ایک نور سے بطور استفادہ اپنے اندر بھی نور لے سکتا ہے اور اس میں روز روشن کے بھی خواص موجود ہیں کہ جیسے محنت اور مزدوری کرنے والے لوگ دن کی روشنی میں کماحقہ اپنے کاروبار کو انجام دے سکتے ہیں.ایسا ہی حق کے طالب اور سلوک کی راہوں کو اختیار کرنے والے انسان کامل کے نمونہ پر چل کر بہت آسانی اور صفائی سے اپنی مہمات دینیہ کو انجام دیتے ہیں.سو وہ
حقائق الفرقان ۲۴۴ سُوْرَةُ الشَّمْسِ دن کی طرح اپنے تئیں بکمال صفائی ظاہر کر سکتا ہے اور ساری خاصیتیں دن کی اپنے اندر رکھتا ہے.اندھیری رات سے بھی انسان کامل کو ایک مشابہت ہے کہ وہ باوجود غایت درجہ کے انقطاع اور تبتل کے جو اس کو منجانب اللہ حاصل ہے.بحکمت و مصلحت الہی اپنے نفس کی ظلمانی خواہشوں کی طرف بھی کبھی کبھی متوجہ ہو جاتا ہے یعنی جو جو نفس کے حقوق انسان پر رکھے گئے ہیں.جو بظاہر نورانیت کے مخالف اور مزاحم معلوم ہوتے ہیں جیسے کھانا، پینا، سونا اور بیوی کے حقوق ادا کرنا یا بچوں کی طرف التفات کرنا یہ سب حقوق بجالاتا ہے اور کچھ تھوڑی دیر کے لئے اس تاریکی کو اپنے لئے پسند کر لیتا ہے.نہ اس وجہ سے کہ اس کو حقیقی طور پر تاریکی کی طرف میلان ہے بلکہ اس وجہ سے کہ خداوند علیم و حکیم اس کو اس طرف توجہ بخشتا ہے تا روحانی تعب و مشقت سے کسی قدر آرام پا کر پھر اُن مجاہدات شاقہ کے اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے جیسا کہ کسی کا شعر ہے.چشم شہباز کار دانان شکار از بهر کشادن ست گردوخته اند سواسی طرح یہ کامل لوگ جب غایت درجہ کی کوفت خاطر اور گدازش اور ہمت و غم کے غلبہ کے وقت کسی قدر حظوظ نفسانیہ سے تمتع حاصل کر لیتے ہیں.تو پھر جسم ناتواں ان کا روح کی رفاقت کے لئے لے سورج محکمت کا ملہ البہی سات سو تیس تعینات میں اپنے تئیں متشکل کر کے دنیا پر مختلف قسموں کی تاثیرات ڈالتا ہے اور ہر یک متشکل کی وجہ سے ایک خاص نام اس کو حاصل ہے اور یکشنبہ، دوشنبه سه شنبه و غیره در حقیقت باعتبار خاص خاص تعینات ولوازم و تا خیرات کے سورج کے ہی نام ہیں.جب یہ لوازم خاصہ بولنے کے وقت ذہن میں ملحوظ نہ رکھے جائیں اور صرف مجرد اور اطلاقی حالت میں نام لیا جائے تو اس وقت سورج کہیں گے.لیکن جب اسی سورج کے خاص خاص لوازم اور تاثیرات اور مقامات ذہن میں ملحوظ رکھ کر بولیں گے تو اس کو کبھی دن کہیں گے اور کبھی رات ، کبھی اس کا نام اتوار رکھیں گے اور کبھی پیر اور کبھی سانوں اور کبھی بھادوں ، کبھی اسوج کبھی کا تک.غرض یہ سب سورج کے ہی نام ہیں اور نفس انسان بھی باعتبار مختلف تعینات اور مختلف اوقات و مقامات و حالات مختلف ناموں سے موسوم ہو جاتا ہے.کبھی نفس زکیہ کہلاتاہے اور کبھی امارہ کبھی لوامہ اور کبھی مطمعنہ.غرض اس کے بھی اتنے ہی نام ہیں.جس قد ر سورج کے.مگر بخوف طول اسی قدر بیان کرنا کافی سمجھا گیا.منہ شاہین کی آنکھ جو شکار کی ماہر آنکھ ہے اگر کبھی وہ بند بھی ہوتی ہے تو کھلنے کے لئے ہی بند ہوتی ہے.
حقائق الفرقان ۲۴۵ سُورَةُ الشَّمْسِ از سر نو قوی اور توانا ہو جاتا ہے اور اس تھوڑی سی محجوبیت کی وجہ سے بڑے بڑے مراحل نورانی طے کر جاتا ہے اور ماسوا اس کے نفس انسان میں رات کے اور دوسرے خواص دقیقہ بھی پائے جاتے ہیں جن کو علم ہیئت اور نجوم اور طبعی کی باریک نظر نے دریافت کیا ہے.ایسا ہی انسانِ کامل کے نفس کو آسمان سے بھی مشابہت ہے.مثلاً جیسے آسمان کا پول اس قدر وسیع اور کشادہ ہے کہ کسی چیز سے پڑ نہیں ہوسکتا.ایسا ہی ان بزرگوں کا نفس ناطقہ غایت درجہ کی وسعتیں اپنے اندر رکھتا ہے اور باوجود ہزار ہا معارف و حقائق کے حاصل کرنے کے پھر بھی مَا عَرَفنَاكَ کا نعرہ مارتا ہی رہتا ہے اور جیسے آسمان کا پول روشن ستاروں سے پُر ہے ایسا ہی نہایت روشن قو می اس میں بھی رکھے گئے ہیں کہ جو آسمان کے ستاروں کی طرح چمکتے ہوئے نظر آتے ہیں ایسا ہی انسان کامل کے نفس کو زمین سے بھی کامل مشابہت ہے.یعنی جیسا کہ عمدہ اور اول درجہ کی زمین یہ خاصیت رکھتی ہے کہ جب اس میں تخم ریزی کی جائے اور پھر خوب قلبہ رانی اور آب پاشی ہو اور تمام مراتب محنت کشاورزی کے اس پر پورے کر دیئے جائیں تو وہ دوسری زمینوں کی نسبت ہزار گونہ زیادہ پھل لاتی ہے اور نیز اس کا پھل بہ نسبت اور پھلوں کے نہایت لطیف اور شیر میں ولذیذ اور اپنی کمیت اور کیفیت میں انتہائی درجہ تک بڑھا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح انسانِ کامل کے نفس کا حال ہے کہ احکام الہی کی تخم ریزی سے عجیب سرسبزی لے کر اس کے اعمال صالحہ کے پودے نکلتے ہیں اور ایسے عمدہ اور غایت درجہ کے لذیذ اس کے پھل ہوتے ہیں کہ ہر یک دیکھنے والے کو خدائے تعالیٰ کی پاک قدرت یاد آکر سبحان اللہ سبحان اللہ کہنا پڑتا ہے.سو یہ آیت وَ نَفْسٍ وَمَا سونها صاف طور پر بتلا رہی ہے کہ انسانِ کامل اپنے معنے اور کیفیت کے رو سے ایک عالم ہے اور عالم کبیر کے تمام شیون وصفات و خواص اجمالی طور پر اپنے اندر جمع رکھتا ہے جیسا کہ اللہ جل شانہ نے شمس کی صفات سے شروع کر کے زمین تک جو ہماری سکونت کی جگہ ہے سب چیزوں کے خواص اشارہ کے طور پر بیان فرمائے یعنی بطور قسموں کے ان کا ذکر کیا.بعد اس کے انسان کامل کے نفس کا ذکر فرمایا تا معلوم ہو کہ انسان کامل کا نفس ان تمام کمالات متفرقہ کا جامع ہے جو پہلی چیزوں میں جن کی قسمیں کھائی گئیں الگ الگ طور پر پائی جاتی ہیں...
حقائق الفرقان ۲۴۶ سُوْرَةُ الشَّمْسِ اس جگہ یہ سوال ہوگا کہ جو نفس انسان کے موجود بالذات ہونے کے لئے قسموں کے پیرایہ میں شواہد پیش کئے گئے ہیں.ان شواہد کے خواص بدیہی طور پر نفس انسان میں کہاں پائے جاتے ہیں اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ پائے جاتے ہیں.اس وہم کے رفع کرنے کے لئے اللہ جل شانہ اس کے بعد ( بحوالہ توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ ۷۷ تا ۸۲۹۸۰) فرماتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۸٬۳۲۷) ۹ تا ۱۲ - فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبِهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكُتهَا - وَقَدْ خَابَ مَنْ دشتها - كَذَبَتْ ثَمُودُ بِطَغُونَهَا - ترجمہ.اور پھر نفس انسان کے لئے ظلمت اور نورانیت اور ویرانی اور سرسبزی کی دونوں راہیں کھول دیں.بے شک جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور کلی اخلاق ذمیمہ سے دست بردار ہو گیا وہ مراد کو پہنچا.اور جس نے اسے (بے جا خواہشوں کی ) خاک میں گاڑ دیا وہ نامرادرہا.محمود نے اپنی سرکشی سے تکذیب کی.تفسیر.یعنی خدائے تعالیٰ نے نفس انسان کو پیدا کر کے ظلمت اور نورانیت اور ویرانی اور سرسبزی کی دونوں راہیں اس کے لئے کھول دی ہیں.جو شخص ظلمت اور فجور یعنی بدکاری کی راہیں اختیار کرے تو اس کو ان راہوں میں ترقی کے کمال درجہ تک پہنچایا جاتا ہے.یہاں تک کہ اندھیری رات سے اس کی سخت مشابہت ہو جاتی ہے اور بجر معصیت اور بدکاری اور پر ظلمت خیالات کے اور کسی چیز میں اس کو مزہ نہیں آتا ایسے ہی ہم صحبت اس کو اچھے معلوم ہوتے ہیں اور ایسے ہی شغل اس کے جی کو خوش کرتے ہیں اور اس کی بدطبیعت کے مناسب حال بد کاری کے الہامات اس کو ہوتے رہتے ہیں یعنی ہر وقت بدچلنی اور بدمعاشی کے ہی خیالات اس کو سوجھتے ہیں.کبھی اچھے خیالات اس کے دل میں پیدا ہی نہیں ہوتے.اور اگر پرہیز گاری کا نورانی راستہ اختیار کرتا ہے تو اس نور کو مدد دینے والے الہام اس کو ہوتے رہتے ہیں.یعنی خدائے تعالیٰ اس کے دلی نور کو جو تنم کی طرح اس کے دل میں موجود ہے.
حقائق الفرقان ۲۴۷ سُوْرَةُ الشَّمْسِ اپنے الہامات خاصہ سے کمال تک پہنچا دیتا ہے اور اس کے روشن مکاشفات کی آگ کو افروختہ کر دیتا ہے تب وہ اپنے چمکتے ہوئے نور کو دیکھ کر اور اس کے افاضہ اور استفاضہ کی خاصیت کو آزما کر پورے یقین سے سمجھ لیتا ہے کہ آفتاب اور ماہتاب کی نورانیت مجھ میں بھی موجود ہے اور آسمان کے وسیع اور بلند اور پُر کواکب ہونے کے موافق میرے سینہ میں بھی انشراح صدر اور عالی ہمتی اور دل اور دماغ میں ذخیرہ روشن قوی کا موجود ہے جو ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں.تب اسے اس بات کے سمجھنے کے لئے اور کسی خارجی ثبوت کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے اندر سے ہی ایک کامل ثبوت کا چشمہ ہر وقت جوش مارتا ہے اور اس کے پیاسے دل کو سیراب کرتا رہتا ہے اور اگر یہ سوال پیش ہو کہ سلوک کے طور پر کیونکر ان نفسانی خواص کا مشاہدہ ہو سکے تو اس کے جواب میں اللہ جل شانہ فرماتا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَشْهَا - یعنی جس شخص نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور بکلی رذائل اور اخلاق ذمیمہ سے دستبردار ہو کر خدائے تعالیٰ کے حکموں کے نیچے اپنے تئیں ڈال دیا.وہ اس مراد کو پہنچے گا اور اپنا نفس اس کو عالم صغیر کی طرح کمالات متفرقہ کا مجمع نظر آئے گا.لیکن جس شخص نے اپنے نفس کو پاک نہیں کیا.بلکہ بے جا خواہشوں کے اندر گاڑ دیا.وہ اس مطلب کے پانے سے نامرادر ہے گا.ماحصل اس تقریر کا یہ ہے کہ بلاشبہ نفس انسان میں وہ متفرق کمالات موجود ہیں جو تمام عالم میں پائے جاتے ہیں اور ان پر یقین لانے کے لئے یہ ایک سیدھی راہ ہے کہ انسان حسب منشائے قانونِ الہی تزکیہ نفس کی طرف متوجہ ہو.کیونکہ تزکیہ نفس کی حالت میں نہ صرف علم الیقین بلکہ حق الیقین کے طور پر ان کمالات مخفیہ کی سچائی کھل جائے گی.پھر بعد اس کے اللہ جل شانہ ایک مثال کے طور پر خمود کی قوم کا ذکر کر کے فرماتا ہے کہ انہوں نے باعث اپنی جبلی سرکشی کے اپنے وقت کے نبی کو جھٹلایا اور اس کی تکذیب کے لئے ایک بڑا بد بخت ان میں سے پیش ( بحوالہ توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۲ تا ۸۴) قدم ہوا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۲۹٬۳۲۸)
حقائق الفرقان ۱۳ ١٣ - إذا تبَعَثَ اَشْقُهَا - ۲۴۸ جب ان میں سے ایک بڑا بد بخت اٹھا.تفسیر تکذیب کے لئے ایک بڑا بد بخت پیش قدم ہوا.سُورَةُ الشَّمْسِ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۲۹) ۱۴ - فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقيها - ترجمہ.تو اُن کو اللہ کے رسول نے سنادیا کہ اللہ کی اونٹنی کو ہاتھ نہ لگانا اور اس کا پانی نہ بند کرنا.تفسیر.اس وقت کے رسول نے انہیں نصیحت کے طور پر کہا کہ ناقتہ اللہ یعنی خدائے تعالیٰ کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی جگہ کا تعرض مت کرو....یہ ایک نہایت لطیف مثال ہے جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے نفس کو ناقةُ اللہ سے مشابہت دینے کے لئے اس جگہ لکھی ہے.مطلب یہ ہے کہ انسان کا نفس بھی در حقیقت اسی غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تاوہ ناقتہ اللہ کا کام دیوے.اس کے فنافی اللہ ہونے کی حالت میں خدائے تعالیٰ اپنی پاک تجلی کے ساتھ اس پر سوار ہو جیسے کوئی اونٹنی پر سوار ہوتا ہے.سونفس پرست لوگوں کو جو حق سے منہ پھیر رہے ہیں.تہدید اور انذار کے طور پر فرمایا کہ تم لوگ بھی قوم ثمود کی طرح ناقَةُ الله کا سُقیا یعنی اس کے پانی پینے کی جگہ جو یاد الہی اور معارف الہی کا چشمہ ہے جس پر اس ناقتہ کی زندگی موقوف ہے.اس پر بند کر رہے ہو.اور نہ صرف بند بلکہ اس کے پیر کاٹنے کی فکر میں ہوتا وہ خدائے تعالیٰ کی راہوں پر چلنے سے بالکل رہ جائے.بحوالہ توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۴) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۲۸، ۳۲۹) ۱۵ ۱۶ - فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمُدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْبِهِمْ فَسَوهَا - وَلَا يَخَافُ عُقبها - ترجمہ.تو انہوں نے رسول کو جھٹلایا اور انٹی کی کونچیں کاٹ ڈالیں.تو ان کے رب نے ان پر
حقائق الفرقان ۲۴۹ سُوْرَةُ الشَّمْسِ ہلاکت بھیج دی ان کے گناہ کے سبب پھر برابر کر دیا وہ ملیا میٹ ہو گئے.اور ان کے انجام اور بال بچوں کی بھی کچھ پروانہ کی.تفسیر.فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا.یعنی پیغمبر کی نصیحت کی تکذیب کی اور صالح کی اونٹنی کے پیر کیا کاٹے اپنے ہی نفسوں پر چھری پھیر لی.سواگر تم اپنی خیر مانگتے ہو تو وہ زندگی کا پانی اس پر بند مت کرو اور اپنی بے جا خواہشوں کی تیرو تبر سے اس کے پیر مت کا ٹو.اگر تم ایسا کرو گے تو وہ ناقہ جو خدائے تعالیٰ کی سواری کے لئے تم کو دی گئی ہے مجروح ہوکر مر جائے گی.تو تم بالکل نگھے اور خشک لکڑی کی طرح متصور ہو کر کاٹ دیئے جاؤ گے اور پھر آگ میں ڈالے جاؤ گے.( بحوالہ توضیح مرام.روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۴، ۸۵) مگر انہوں نے نہ مانا اور اونٹنی کے پاؤں کاٹے.سو اس جرم کی شامت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر موت کی مارڈالی.اور انہیں خاک سے ملا دیا.اور خدائے تعالیٰ نے اس بات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں اور بے کس عیال کا کیا حال ہوگا.( بحوالہ توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۴) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۹)
حقائق الفرقان ۲۵۰ سُوْرَةُ الَّيْل سُوْرَةُ الَّيْلِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم پڑھنا شروع کرتے ہیں سورۃ اللیل کو اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲ تا ۵- وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى - وَ النَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَ الْأُنثَى إِنَّ سَعَيكُم تشفى - ترجمہ.رات کی قسم ہے جب کہ وہ چھا جائے.اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو.اور اُس ذات کی قسم ہے جس نے پیدا کیا مرد و عورت نر و مادہ کو.بے شک تمہارے کام الگ الگ ہیں.تفسیر.ماحصل ان چاروں آیتوں کا ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ نتائج ہر کام کے اس قدر نکلیں گے جس قدر کہ خیر یا شر کے وہ کام کئے گئے ہیں ع گندم از گندم بروید جو زجول رات دن کا کام نہیں دیتی.دن رات کا کام نہیں دیتا.مرد جن کاموں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں عورتوں سے وہ کام نہیں ہوتے.عورتیں مردوں کا کام نہیں دے سکتیں.ہر ایک کے مختلف کام اپنے حسب حال مختلف نتیجے پیدا کرتے ہیں.یہ تمہید اس سورہ شریفہ کی ہے.تفسیروں میں بیان ہوا ہے کہ سورہ شریفہ کا نزول حضرت ابوبکر اور امیہ بن خلف کافر کے متضاد مختلف کوششوں کے بارہ میں ہوا ہے.مضمون سے اور واقعات کے لحاظ سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے.مگر اعتبار عموم لفظ کا ہے.نہ خصوص سبب کا.ہمارے اس وقت کے حسب حال صادق کو قبول کرنے والے اور دینی کاموں میں چندہ دینے والے اور ان کے مخالفوں کے لئے بھی خصوصیت سے اس سورہ شریف میں عبرت ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۹) گندم سے گندم اور جو سے جو ہی پیدا ہوتے ہیں.
حقائق الفرقان ۲۵۱ سُوْرَةُ الَّيْلِ جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے.وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے وہ چیز قانونِ قدرت میں قسم والے مضمون کے واسطے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے.اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہوگا.مثلاً إِنَّ سَعْيَكُم لشقی الخ ایک مطلب ہے جس کے معنے ہیں ”لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں“.قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے.وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى.وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ والانتی.کیا معنی؟ رات پر نظر کرو.جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن پر نظر ڈالو.جب اس نے اپنے انوار کو ظاہر کیا.پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر غور کرو اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحه ۱۶۳ ۱۶۴) دھرم پال کے قسموں پر اعتراض کے جواب میں فرمایا: اگر قسم ہنسی کی بات اور بری ہے.تو جو یجروید بھاش چھٹا باب منتر بائیس میں بانی آریہ سماج نے لکھا ہے وہ تو ضرور رڈ کے قابل ہے.” ہے (ورن) نیا کرنیوالے سبھا پتی (منصف راجہ ) کئے ہوئے میں نیا اھنیا نمار نے لوگ گئول آدی پشوں کی شپت (قسم.سوگند ) ہے.اتی اسی پر کار (اسی طرح) جو آپ کہتے ہیں اور ہم لوگ بھی شیام ہی شہپت کرتے ہیں آپ بھی اس پرتگیا ( قانون ) کو مت چھوڑیئے اور ہم لوگ بھی نہیں چھوڑیں گے غور کرو! گنوادی پیشنوں میں کس قدر گائے، بیل ، ہرن ، بکری ،اونٹ ،سور ، کوے ، مرغ، چیل ، کیڑے مکوڑے داخل ہیں.انصاف کرو اور پھر سوچو! وہ جو منوجی اور بھرگ جی کی جامع سنگھتا میں بُرا بول بولا.جس نے کہا اور ویدک قانون بتایا دیکھو منوجی ۸-۸۸ گئو بیج اور سونا کی قسم دیگر ویشیہ سے پوچھے منو ۸.۱۰۹ میں ہے.سوگند کے وسیلہ سے اصلی بات کو دریافت کرے اور کیا غلط کہا جو منو ۸.۱۱۰ میں ہے.دیوتا اور بڑے بڑے رشی لوگوں نے کام کے واسطے سو گند کھائی ہے اور بسوا متر کے جھگڑے میں بششٹ رشی نے پیون کے بیٹے سدامان راجہ کے رو برو قسم کھائی تھی.ا نہ مارنے کے لائق گائے وغیرہ جانوروں کی.
حقائق الفرقان ۲۵۲ سُوْرَةُ الَّيْلِ ہماری پاک کتاب میں قسموں کا ہونا ایک معجزہ ہے اور عظیم الشان معجزہ ہے.بلکہ اسلامی اصطلاح کے مطابق ایک آیت اور نشانِ نبوت ہے اور عظیم الشان نشانِ نبوت ہے.کیونکہ عرب میں ایک مثل تھی.ان الْأَيْمَانَ تَدَعُ الْأَرْضَ بَلاقِع قسمیں ملک کو ویران کر دیتی ہیں.اور منو کہتا ہے.۱۱۱ کیونکہ جھوٹی قسم کھانے سے اس لوگ میں اور پر لوگ میں نشٹ ہوتا ہے.پنجابی میں مثل ہے.جھوٹی قسم تاں پٹ مار دی اے‘ اب سوچو اور خوب سوچو کہ قرآن اور صاحب قرآن اس قدر قسموں کے ساتھ کیسا فاتح اور کیسا کامیاب ہوا کہ اس کے دشمنوں کا نام ونشان نہ رہا.ذرا اس پر غور و تامل کرو! ان قسموں کا ثبوت تجارب وضرب المثلوں اور منو کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے اور تمہارے خیال میں ایک مجنون اور جھوٹے کا فعل ہے.جلسہ مہوتسو کے اسلامی مضمون میں امام مہدی نے اور بھی واضح فرما دیا ہے.اور بانی اسلام تو تمہارے نزدیک جیسے ہیں.تمہارے اقوال و افعال سے ظاہر ہے.مگر دیکھ لو کہ کس طرح روز افزوں ترقی اسلام اور بانی اسلام اور عرب کو ہوئی.پس اگر قسم زہر تھی تو اس نے تریاق کا کام دیا اور اگر حق ہے تو کیسی حقیقت حق کی ظاہر ہوئی کہ تمہارے ملک میں بھی آبرا جا.سنو! مطالب دو قسم کے ہوتے ہیں.اوّل بڑے ضروری.دوسرے ان سے کم درجہ کے.بڑے ضروری مطالب کو بہ نسبت دوسرے مطالب کے تاکید اور براہین اور دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میرا د عمومی بہت صاف اور ظاہر ہے.تاکید کے لئے ہر زبان میں مختلف کلمات ہوا کرتے ہیں.ایسے ہی عربی زبان میں بھی تاکید کے لئے بہت الفاظ ہیں مگر ایشیائی زبانوں میں...علی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں........ایسے ہی عربی کے لٹریچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تاکیدی لفظ نہیں.قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اس لئے اس میں عربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا ہے.رہی یہ بات کہ اہم اور ضروری امور میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے.سو یا در ہے جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم
حقائق الفرقان ۲۵۳ سُوْرَةُ الَّيْلِ کو بیان کرتا ہے وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے.وہ چیز قانونِ قدرت میں قسم والے مضمون کے لئے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے.اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہوگا.مثلاً إِنَّ سَعيكم لشتی الخ.ایک مطلب ہے جس کے معنے ہیں.لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں.قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے.وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى - وَ النَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى - وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (الليل: ۲ تا ۴) کیا معنی؟ رات پر نظر کرو جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن کی بناوٹ پر غور کرو جب وہ اپنے انوار کو ظاہر کرتا ہے پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر نظر ڈالو.اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو.تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہو گا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام پر جان و مال کو دینے والے اور نافرمانیوں سے بچنے والے اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مصداق اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والے نافرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کے مکذب بھی الگ الگ نتیجہ حاصل کریں گے.حضرت امام حجتہ الا نام نے توضیح میں فرمایا ہے.تمام قرآن شریف میں یہ ایک عام عادت وسنت الہی ہے کہ وہ بعض نظری امور کے اثبات واحقاق کے لئے ایسے امور کا حوالہ دیتا ہے.جو اپنے خواص کا عام طور پر بین اور کھلا کھلا اور بدیہی ثبوت رکھتے ہیں.جیسا کہ اس میں کسی کو بھی شک نہیں ہوسکتا کہ سورج موجود ہے اور اس کی دھوپ بھی ہے.اور چاند بھی موجود ہے اور وہ نور آفتاب سے حاصل کرتا ہے.اور روز روشن بھی سب کو نظر آتا ہے اور رات بھی سب کو دکھائی دیتی ہے اور آسمان کا پول بھی سب کی نظر کے سامنے ہے اور زمین تو خود انسانوں کی سکونت کی جگہ ہے.اب چونکہ یہ تمام چیزیں اپنا اپنا کھلا کھلا وجود اور کھلے کھلے خواص رکھتی ہیں.جن میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا.اور نفس انسان کا ایسی چھپی ہوئی اور نظری چیز ہے کہ خود اس کے وجود میں ہی
حقائق الفرقان ۲۵۴ سُوْرَةُ الَّيْلِ صدہا جھگڑے برپا ہو رہے ہیں.بہت سے فرقے ایسے ہیں کہ وہ اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ نفس یعنے روح انسان بھی کوئی مستقل اور قائم بالذات چیز ہے جو بدن کی مفارقت کے بعد ہمیشہ کے لئے قائم رہ سکتی ہے اور جو بعض لوگ نفس کے وجود اور اس کی بقا اور ثبات کے قائل ہیں.وہ بھی اس کی باطنی استعدادات کا وہ قدر نہیں کرتے.جو کرنا چاہیے تھا.بلکہ بعض تو اتنا ہی سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم صرف اسی غرض کے لئے دنیا میں آئے ہیں کہ حیوانات کی طرح کھانے پینے اور حظوظ نفسانی میں عمر بسر کریں.وہ اس بات کو جانتے بھی نہیں کہ نفسِ انسانی کس قدر اعلیٰ درجہ کی طاقتیں اور قو تیں اپنے اندر رکھتا ہے اور اگر وہ کسب کمالات کی طرف متوجہ ہو تو کیسے تھوڑے ہی عرصہ میں تمام عالم کے متفرق کمالات و فضائل و انواع پر ایک دائرہ کی طرح محیط ہو سکتا ہے.سواللہ جلّ شانہ نے اس سورہ مبارکہ میں نفس انسان اور پھر اس کے بے نہایت خواص فاضلہ کا ثبوت دینا چاہا ہے پس اول اس نے خیالات کو رجوع دلانے کے لئے شمس اور قمر وغیرہ چیزوں کے متفرق خواص بیان کر کے پھر نفس انسان کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ جامع ان تمام کمالاتِ متفرقہ کا ہے اور جس حالت میں نفس انسان میں ایسے اعلیٰ درجہ کے کمالات و خاصیات به تما مہا موجود ہیں جو اجرام سماویہ اور ارضیہ میں متفرق طور پر پائے جاتے ہیں تو کمال درجہ کی نادانی ہوگی کہ ایسے عظیم الشان اور ستجمع کمالات متفرقہ کی نسبت یہ وہم کیا جائے کہ وہ کچھ بھی چیز نہیں جو موت کے بعد باقی رہ سکے یعنی جبکہ یہ تمام خواص جو ان مشہود ومحسوس چیزوں میں ہیں.جن کا مستقل وجود مانے میں تمہیں کچھ کلام نہیں یہاں تک کہ ایک اندھا بھی دھوپ کا احساس کر کے آفتاب کے وجود کا یقین رکھتا ہے.نفس انسان میں سب کے سب یکجائی طور پر موجود ہیں.تو نفس کے مستقل اور قائم بالذات وجود میں تمہیں کیا کلام باقی ہے.کیا ممکن ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں وہ تمام موجود بالذات چیزوں کے خواص جمع رکھتی ہو اور اس جگہ قسم کھانے کی طرز کو اس وجہ سے اللہ جل شانہ نے پسند کیا ہے کہ قسم قائم مقام شہادت کے ہوتی ہے.اسی وجہ سے حکام مجازی بھی جب دوسرے گواہ موجود نہ ہوں تو قسم پر انحصار کر دیتے ہیں اور ایک مرتبہ کی قسم سے وہ فائدہ اٹھا لیتے ہیں جو کم سے کم دو گواہوں سے اٹھاسکتے ہیں.سوچونکہ عقلاً وعرفأوقانو ناوشرعاً
حقائق الفرقان ۲۵۵ سُوْرَةُ الَّيْل قسم شاہد کے قائم مقام سبھی جاتی ہے لہذا اسی بناء پر خدائے تعالیٰ نے اس جگہ شاہد کے طور پر اس کو قرار دیدیا ہے.پس خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ قسم ہے سورج کی اور اس کی دھوپ کی درحقیقت اپنے مرادی معنے یہ رکھتا ہے کہ سورج اور اس کی دھوپ یہ دونوں نفس انسان کے موجود بالذات اور قائم بالذات ہونے کے شاہد حال ہیں.کیونکہ سورج میں جو جو خواص گرمی اور روشنی وغیرہ پائے جاتے ہیں یہی خواص مع شئے زائد انسان کے نفس میں بھی موجود ہیں.مکاشفات کی روشنی اور توجہ کی گرمی جو نفوس کا ملہ میں پائی جاتی ہے اس کے عجائبات سورج کی گرمی اور روشنی سے کہیں بڑھ کر ہیں.سو جبکہ سورج موجود بالذات ہے تو جو خواص میں اس کا ہم مثل اور ہم پلہ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر یعنی نفس انسان.وہ کیونکر موجود بالذات نہ ہو گا.اسی طرح خدائے تعالیٰ کا یہ کہنا کہ قسم ہے چاند کی.جب وہ سورج کی پیروی کرے.اس کے مرادی معنے یہ ہیں کہ چاند اپنی اس خاصیت کے ساتھ کہ وہ سورج سے بطور استفادہ نور حاصل کرتا ہے.نفس انسان کے موجود بالذات اور قائم بالذات ہونے پر شاہد حال ہے.کیونکہ جس طرح چاند سورج سے اکتساب نور کرتا ہے.اسی طرح نفس انسان کا جو مستعد اور طالب حق ہے ایک دوسرے انسان کامل کی پیروی کر کے اس کے نور میں سے لے لیتا ہے.اور اس کے باطنی فیض سے فیض یاب ہو جاتا ہے.بلکہ چاند سے بڑھ کر استفادہ نور کرتا ہے کیونکہ چاند تو نور حاصل کر کے پھر چھوڑ بھی دیتا ہے مگر یہ کبھی نہیں چھوڑتا.پس جبکہ استفادہ نور میں یہ چاند کا شریک غالب ہے اور دوسری تمام صفات اور خواص چاند کے اپنے اندر رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ کہ چاند کو تو موجود بالذات اور قائم بالذات مانا جائے مگر نفس انسان کے مستقل طور پر موجود ہونے سے بکلی انکار کر دیا جائے.غرض اسی طرح خدا تعالیٰ نے ان تمام چیزوں کو جن کا ذکر نفس انسان کے پہلے قسم کھا کر کیا گیا ہے اپنے خواص کے رُو سے شواہد اور ناطق گواہ قرار دیکر اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ نفس انسان واقعی طور پر موجود ہے اور اسی طرح ہر یک جگہ جو قرآن شریف میں بعض بعض چیزوں کی
حقائق الفرقان ۲۵۶ سُوْرَةُ الَّيْلِ قسمیں کھائی ہیں.ان قسموں سے ہر جگہ یہی مدعا اور مقصد ہے کہ تا امر بدیہہ کو اسرار مخفیہ کے لئے جو ان کے ہم رنگ ہیں بطور شواہد کے پیش کیا جائے ( بحوالہ توضیح مرام - روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۸۰ تا ۸۲) ( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۳ تا ۱۱۸) ۶ تا ۸ - فَأَمَّا مَنْ اَعْطَى وَاتَّقَى - وَصَدَقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِرُهُ لِلْيُسْرى ترجمہ.تو جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور اللہ کوسپر بنایا.اور دین اسلام کو عمدہ سمجھا.تو قریب ہی ہم اس کے لئے آسان کر دیں گے آسانی کا گھر.تفسیر.چندہ دینے والے متقی اور صادق کو قبول کرنے والے اس دنیا میں بھی مشکلات سے امن میں رہے اور آخرت میں بھی امن سے رہیں گے.حضرت ابوبکر نے اسلام میں سب سے پہلے یہ کام کیا تھا.خلافت کے ابتدا میں جو مشکلات پیش آئے.اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے مطابق ان سب سے بہ آسانی خلیفہ اول کو عبور کرا دیا اور ہر ایک کے لئے یہی وعدہ ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۹) ٩ تا ١١- وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِرُهُ لِلْعُسْرى - ترجمہ.اور جس نے بخل کیا اور بے پرواہ بنارہا.اور دین اسلام کو جھٹلایا.تو ہم اس کو آہستہ آہستہ پہنچا ئیں گے سختی کے گھر میں.تفسیر.جنہوں نے نہ مال خرچ کیا نہ تصدیق کی.ان پر ایسی عسرت پڑی کہ جو خوشحالی پہلے تھی وہ بھی جاتی رہی.جو رسائل اشاعت دین کے نام سے نکلتے تھے.وہ بھی بند ہو گئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲۹) ۱۳ تا ۱۴ - إِنَّ عَلَيْنَا لَلْهُدَى وَإِنَّ لَنَا لَلْآخِرَةَ وَالْأُولى - ترجمہ.ہمارے ذمہ ہے راہ دکھانا.اور بے شک اوّل و آخر ہمارے ہی ہاتھ میں ہے.تفسیر.مشکلات کے وقت آسانی کی راہیں متقیوں کے لئے سمجھاد دینا یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے.اُولی یعنی دنیوی فتوحات اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو خوب دیں.ان لنا سے اسی بات کی طرف اشارہ ہے اور
حقائق الفرقان یه فتوحات دنیوی آخرت کے لئے گواہ ٹھہریں.۱۸ - وَسَيْجَنّبها الاتقَى - ۲۵۷ سُوْرَةُ الَّيْل ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ را گست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۰) ترجمہ.اور اس سے ہٹایا جائے گا بڑے متقی کو.تفسیر - الاتقی سے مراد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں.جن کی مالی خدمات کا ذکر اس طور پر ہے کہ قرآن شریف اور حدیث نبوی علیہ الصلوۃ والسلام دونوں آپ کی اس صفت کے بیان کرنے میں متفق اللفظ واللسان ہیں.اور اعتبار عموم لفظ کا ہے نہ کسی خاص سبب کا.١٩ - الَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَلي (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۰) ترجمہ.جو اپنا مال دیتا ہے تا کہ اپنے نفس کو پاک بنائے.تفسیر.یوں تو صحابہ میں سے ہر ایک نے بقدرا اپنی طاقت اور وسعت کے عشرت کے ایام میں خدمات کیں.مگر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مالی خدمات کی نسبت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے مَا نَفَعَنِى مَالُ اَحَدٍ قَط مَا نَفَعَنِى مَالُ أبي بکر یعنی جس قدر ابی بکر کے مال نے مجھے نفع پہنچا یا اس قدر کسی اور کے مال نے مجھے نفع نہیں پہنچایا اور یہ انفاق فی سبیل اللہ آپ کا محض لوجہ اللہ تھا.کسی کے احسان کا بدلہ اتارنے کے طور پر نہیں تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۳۰) ۲۰ تا ۲۲ - وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجْزَى إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الأعلى وَلَسَوفَ يَرْضى ترجمعہ.اور اس آدمی پر کسی کا کوئی احسان نہیں جس کا بدلہ اتارا جائے.لیکن وہ اپنے رب عالی شان کی خوشنودی کے لئے دے رہا ہے.وہ ضرور خوش ہوگا.تفسیر.ان ہر سہ آیات کے ترجمہ میں صرف اسی قدر کہہ دینا کافی ہے کہ فَمَا أَشْبَهَ اللَّيْلُ بِالْبَارِحَة یعنی کل کی رات کو جو گزرگئی.آج کی رات سے بہت شدید مشابہت ہے.ربّه الأغلی کا
حقائق الفرقان ۲۵۸ سُوْرَةُ الَّيْل جملہ بھی پوری موافقت و مناسبت رکھتا ہے.یڑ ھی کا مرجع رب اور اتفقی دونوں کی طرف صحیح ہوسکتا ہے.فَلِلهِ الْحَمْدُ.آیت نمبر ۲۰ وَ مَالاً حَد الخ بطور جملہ معترضہ کے درمیان میں آپڑی ہے.اس لئے ترجمہ کسی قدر پیچیدہ ہو گیا ہے.اس درمیانی آیت کو تھوڑی دیر کے لئے الگ کر کے آیت ۱۹ سے پڑھی جاوے تو عبارت سہل اور سریع الفہم ہو جاتی ہے یعنی تقدیر عبارت کی یوں ہے.يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَى لِابْتِغَاءِ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَغلی یعنی وہ آنفی دیتا ہے مال کو تزکیۂ نفس کے لئے صرف اپنے رب کی رضا کی خاطر وَمَا لِأَحَدٍ عِنْدَهُ مِنْ نِعْمَةٍ تُجزی اور نہ کسی کا اس پر احسان تھا.جس احسان کا بدلہ اتارنے کے لئے وہ آتقی اپنا مال دے رہا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۰)
حقائق الفرقان ۲۵۹ سُوْرَةُ الضُّحى سُوْرَةُ الضُّحَى مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۳،۲.وَالضُّحى وَالَّيْلِ إِذَا سَجى - تیر جمعے.قسم ہے چاشت کے وقت کی.اور قسم ہے رات کی جب سب کو ڈھانک لے.تفسیر.خطی کے معنے سخت روشنی کے ہیں اور کیل سنجی کے معنے سخت اندھیرے کے ہیں.یہ دونوں کلمے ایک دوسرے کے متقابل بیان ہوئے ہیں.اس لئے کہ آئندہ آنیوالی عبارت میں بھی یتیم ابواے.عمیل غنی.اس قسم کے الفاظ اور ان کے معانی و مطالب ایک دوسرے کے متضاد آ پڑے ہیں.اس لئے تمہیدی طور پر ان دو کلموں کو قسمیہ شہادت کے طور پر ذکر فرمایا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۰) -۴- مَا وَدَعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلى - ترجمہ.نہ تو تجھے چھوڑا تیرے رب نے اور نہ تجھ سے اکتا یا.تفسیر ودع کے معنے دوستی کو وداع کرن اور قطع محبت کر دینے کے ہیں.قلی.معنی عداوت.دشمنی - بیزاری.كَمَا قَالَ تَعَالَى إِنِّي لِعَمَلِكُم مِّنَ الْقَالِينَ (الشعراء: ١٦٩) وجہ اس سورہ شریفہ کے نزول کی یہ بیان ہوئی ہے کہ چند روزہ فترت وحی کی وجہ سے ابوسفیان کی بہن نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت نعوذ باللہ یوں کہا تھا کہ مَا أَرَى شَيْطَنَكَ إِلَّا قَدْ تَرَكَكَ " اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رنج ہوا اور یہ آیتیں تسلی بخش نازل ہوئیں.اس شان نزول کو پیش نظر رکھ کر آیت کریمہ مَا وَذَعَكَ الخ کے ساتھ ضحی اور لَيْلِ سجی سے مراد چہرہ انور آ نحضرت صلی اللہ لے میں تو تمہارے کاموں سے بیزار ہوں.۲ میرا خیال ہے کہ تیرے شیطان نے تجھے چھوڑ دیا ہے.
حقائق الفرقان ۲۶۰ سُوْرَةُ الضُّحى علیہ وسلم اور آپ کے سیاہ گیس مبارک عمدہ تو فیق اور تو جید رکھتے ہیں.والضحى رمزے ز روئے ہمیچو ماہ مصطفے است معنی والیل گیسوئے سیاہ مصطفی است لے مائیں اپنے بچوں کو پیار اور محبت کے وقت دیکھا گیا ہے کہ اسی قسم کے الفاظ سے خطاب کرتی ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ راگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۰) وَ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى - ترجمہ.حالانکہ پچھلا زمانہ تیرے لئے پہلے سے بہتر ہے.تفسیر.آیت شریف میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی يَوْمًا فَيَوْمًا سَاعَةً بَعْدَ سَاعَةٍ ہر آن کی لا انتہا ترقیات کا ذکر ہے.ہرا گلا قدم آپ کا پچھلے قدم سے بڑھ کر رہا.امت کے جس قدر حسنات ہیں.جس قدر درود شریف دنیا میں آپ پر پڑھا جارہا ہے.کسی دوسرے بانی مذہب کے لئے اس قدر دعائیں نہیں کی جاتیں.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِكَ وَسَلِّمْ - - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۳۰) وَلَسَوفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضُى - ترجمے.اور البتہ تیرا رب تجھ پر بہت کچھ انعامات کرتارہے گا کہ تو راضی ہو جائے.تفسیر سورۃ الفتح اور سورۃ الکوثر سے بڑھ کر اور کوئی تفصیل اس آیت کی کیا ہوسکتی ہے.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جب تک ایک بھی امتی میرا دوزخ میں رہے گا.میں راضی نہ ہوں گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۰) ۷ تا ۱۲ - اَلَمْ يَجِدُكَ يَتِيمًا فَأَوَى وَ وَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى ـ وَ وَجَدَكَ عَابِلا فَاغْنى فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ - وَأَمَّا السَّابِلَ فَلَا تَنْهَرُ - وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبَّكَ فَحَدّت - ترجمہ.کیا اس نے تجھے یتیم نہیں پایا پھر اس نے تکلیف کے بعد جگہ نہیں دی آرام کی.اور تجھے ل والضُّحیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چاند چہرہ کی طرف اشارہ ہے اور واللیل سے مراد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے سیاہ گیسوئے مبارک ہیں.
حقائق الفرقان ۲۶۱ سُوْرَةُ الضُّحى طالب اور عاشق خود پایا تو اس نے اپنے ملنے کی راہ بتادی.اور تجھے بہت جور و نیچے والا پایا پھر اس نے تجھے غنی کر دیا.تو تو یتیم پر خفانہ ہونا.اور سائل کو نہ جھڑکنا اور اپنے رب کی نعمت کا بیان کرتے رہنا.تفسیر.اس سورہ شریف کے ابتدا سے اخیر تک ایک عجیب طور پر لف ونشر بیان ہوا.آیات نمبر ۴ و نمبر ۷ دنمبر ۱۰ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور آیات نمبر ۵ ونمبر ۸ و نمبر ۱۱ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اور آیات نمبر ۶ و نمبر ۹ نمبر ۱۲ ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں.قلی کے مقابلہ میں يَتِيماً فَأَوَى اور الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرُ ہے.خَيْرٌلَّكَ مِنَ الْأولی کی تشریح ضَالَّا فَهَدی سے اور السائل فَلا تنهر سے کی.اور ساتھ ہی یہ بھی بتادیا کہ ضال کے معنے سائل یعنی سالک راہِ طریقت کے ہیں.جیسا کہ قرآن شریف میں دوسری جگہ اِنَّكَ لَفِي ضَلَالِكَ الْقَدِيمِ (یوسف: ۹۶) فرمایا.یعنی آپ تو یوسف کی محبت میں اپنے آپ کو گم گشتہ کئے ہوئے ہو.يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَی کے مقابلہ میں آغلی اور بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَيثُ ہے.یتیم کے ساتھ لا تفھر کی نہی اور سائل کے ساتھ لا تنهر کی نہی یوں مناسبت رکھتی ہے کہ سائل کا تعلق صرف ایک وقتی تعلق رکھتا ہے.تھوڑے ہی عرصہ کے لئے اور لا تفهَرُ کے معنے یہ ہیں کہ اس پر ہمیشہ دباؤ نہ ڈالتے رہو.اس کے مال میں اسے مقہور نہ کرو.گھر.گھر کے معنے میں یہی آیا.گھر خفیف دباؤ.قَهَر سخت دباؤ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۱) وَوَجَدَكَ ضَالَّا میں ضلال کا اثبات نبی کریم کے لئے ہے.مگر مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ (النجم : ۳) میں ضلال کی نفی بھی آپ کے حق میں موجود ہے.تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محب طالب سائل کے کرو.جو وَ أَمَّا السَّائِلَ فَلا تنہر کی ترتیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے لو جو ماغوی کے مناسبت سے درست ہیں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۳) نکتہ معرفت.رات اور ضعفی کی قسم میں ایک عجیب ستر ہے یا درکھنا چاہیے کہ یہ ایک مقام ہے جو ان لوگوں کے لئے جو سلسلہ وحی سے افاضہ حاصل کرتے ہیں آتا ہے.وحی کے سلسلہ سے شوق اور محبت
حقائق الفرقان ۲۶۲ سُوْرَةُ الضُّحى بڑھتی ہے.لیکن مفارقت میں بھی ایک کشش ہوتی ہے جو محبت کے مدارج عالیہ پر پہنچاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک ذریعہ قرار دیا ہے کیونکہ اس سے قلق اور کرب میں ترقی ہوتی ہے اور روح میں ایک بے قراری اور اضطراب پیدا ہوتا ہے جس سے وہ دعاؤں کی روح اس میں نفخ کی جاتی ہے کہ وہ آستانہ الوہیت پر یارب یارب کہہ کر اور بڑے جوش اور شوق اور جذبہ کے ساتھ دوڑتی ہے جیسا کہ ایک بچہ جو تھوڑی دیر کے لئے ماں کی چھاتیوں سے الگ رکھا گیا ہو بے اختیار ہو ہو کر ماں کی طرف دوڑتا اور چلاتا ہے.اسی طرح پر بلکہ اس سے بھی بے حد اضطراب کے ساتھ روح اللہ کی طرف دوڑتی ہے.اور اس دوڑ دھوپ اور قلق و کرب میں وہ لذت اور سرور ہوتا ہے جس کو ہم بیان نہیں کر سکتے.یادرکھو روح میں جسقد را ضطراب اور بے قراری خداوند تعالیٰ کے لئے ہوگی اسی قدر دعاؤں کی توفیق ملے گی اور ان میں قبولیت کا نفخ ہو گا.غرض یہ ایک زمانہ ماموروں اور مرسلوں اور ان لوگوں پر جن کے ساتھ مکالمات الہیہ کا ایک تعلق ہوتا ہے آتا ہے اور اس سے غرض اللہ تعالیٰ کی یہ ہوتی ہے کہ تا اون کو محبت کی چاشنی اور قبولیت دعا کے ذوق سے حصہ دے اور ان کو اعلیٰ مدارج پر پہنچا دے.تو یہاں جو ھٹی اور تیل کی قسم کھائی ہے.اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدارج عالیہ اور مراتب محبت کا اظہار ہے اور آگے پیغمبر خدا کا ابراء کیا کہ دیکھو دن اور رات جو خدا نے بنائے ہیں ان میں کس قدر وقفہ ایک دوسرے میں ڈال دیا ہے.ضحی کا وقت بھی دیکھو اور تاریکی کا وقت بھی خیال کرو.مَا وَذَعَكَ رَبُّكَ - خدا تعالیٰ نے تجھے رخصت نہیں کر دیا اس نے تجھ سے کینہ نہیں کیا بلکہ ہمارا یہ ایک قانون ہے جیسے رات اور دن کو بنایا ہے اسی طرح انبیاء علیہم السلام کے ساتھ بھی ایک قانون ہے کہ بعض وقت وحی کو بند کر دیا جاتا ہے تا کہ ان میں دعاؤں کے لئے زیادہ جوش پیدا ہو اور نٹی اور لیل کو اس لئے بطور شاہد بیان فرمایا ہے تا آپ کی امید وسیع ہو اور تسلی اور اطمینان پیدا ہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۱)
حقائق الفرقان ۲۶۳ سُوْرَةُ أَلَمْ نَشْرَحْ سُوْرَةُ أَلَمْ نَشْرَحْ مَكِيَةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۃ انشراح کو اس بابرکت اللہ کے اسم مبارک سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو رحمن ورحیم ہے.۲.اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ - ترجمہ.کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا.تفسیر.اس سے ماقبل کی سورۃ سورۃ الضحی میں ظاہری و جسمانی انعامات کا ذکر تھا.اور اس سورہ شریفہ میں آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو روحانی نعمتیں ہوئیں ان کا ذکر ہے.شرح صدر ایک کشفی کیفیت تھی جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہوئی تھی.جبکہ آپ کی عمر دس سال سے کچھ اوپر تھی اور بعد میں نبوت کے زمانہ میں بھی دوبارہ وہ کشفی اور روحانی معاملہ شرح صدر کا آپ سے کیا گیا.ظاہری اثر اس کا آپ پر یہ تھا کہ جو وسیع الحوصلگی آپ کی تھی.اس کی نظیر اوروں میں تو کیا اولوالعزم نبیوں میں بھی پائی نہیں جاتی.نوح علیہ السلام نے قوم سے دکھ اٹھا کر رَبِّ لَا تَذَرُ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ ديارا - ( نوح:۲۷) کہ دیا اور موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام قوم سے دکھ اٹھا کر وَاشْدُ دُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيم - (يونس: ۸۹) کی دعا کرتے ہیں.مگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب طائف کے شریروں سے اس قدر پتھروں کی مار سے دُکھ اٹھا یا کہ سارا بدن آپ کا خون آلود ہو گیا.اس وقت آپ نے فرمایا تو یہ فرمایا کہ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ ( بخاری کتاب الانبیاء باب ۵۴) جبرئیل علیہ السلام نے طائف والوں کی ہلاکت کے لئے عرض کیا تو فرمایا لے اے میرے رب ! نہ چھوڑ خاص زمین پر کافروں کا کوئی گھر بسنے والا ہے اور سخت کر دے اُن کے دل کہ وہ تجھ پر ایمان ہی نہ لائیں جب تک نہ دیکھ لیں ٹمیں دینے والا عذاب.۳.اے اللہ میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ ( مجھے ) نہیں جانتے.
حقائق الفرقان ۲۶۴ سُوْرَةُ أَلَمْ نَشْرَحْ کر نہیں میں امید رکھتا ہوں کہ ان کی نسل سے مسلمان پیدا ہوں گے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو بیبیاں تھیں.انسان ایک دو بیبیوں کی ناز برداری سے تنگ آجاتا ہے.مگر آپ سے تمام بیبیاں خوش تھیں.آیہ تطہیر کے اترنے پر جو سورۃ الاحزاب میں ہے.آپ نے سب بیویوں کو اختیار دے دیا تھا.مگر کسی نے بھی آپ کے حسنِ اخلاق اور انشراح صدر کو معلوم کر کے آپ سے جدائی کو پسند نہ کیا.یہ کیسا انشراح صدر اور عالی حوصلہ تھا کہ فتح مکہ کے روز جن ظالموں نے آپ کو شہر سے نکالا تھا اور آپ کے اصحاب کو طرح طرح کی بے رحمیوں سے قتل کیا تھا.ان سب کو آپ نے لَا تَثْرِیبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ کر یک لخت معافی دے دی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲٬۳۳۱) الم نَشْرَحْ غور کرو موسى رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدرِ ی کی دُعا کرتے ہیں اور یہاں الم نشرخ.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۸) 66 اس میں شک نہیں کہ آپ کا شق صدر ہوا.قرآن کریم اس پر صریح ” اَلَم نَشْرَحْ لَكَ “ (الم نشرح : ۲) میں ارشاد فرماتا ہے.بھلا آپ غور کریں اگر شرح صدر نہ ہو تو وہ کام جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روز مرہ کرتے تھے کسی غیر مشرح الصدر کا کام ہے آپ کی نو یا گیارہ بیویاں تھیں اور سب کی سب آپ پر فدا تھیں ان کے ساتھ اگر آپ کامل معاشرت نہ فرماتے تو کیا وہ رہ سکتی تھیں.پھر پانچ وقت آپ ہی جماعت کرانا اور بڑی بڑی سورتیں پڑھنا پھر تہجد کو بطور فرض اتنی لمبی قرآت سے پڑھنا که سوره بقر ، سوره ال عمران ، سوره نساء ، سوره مائدہ کبھی کبھی ایک ایک رکعت میں پڑھ جاتے تھے.پھر عرب کے وحشیوں سے مناظرہ، یہود سے مناظرہ ، عیسائیوں سے مناظرہ ،غرض علماء جہلاء دونوں سے مقابلہ اور پھر اپنا ایک ہی طرز واحد رکھنا.پھر یہی نہیں کہ صرف زبانی جمع خرچ ہو بلکہ اپنی تاثیر سے ہزاروں کو عملی طور پر اپنے ساتھ ملا لیتے تھے.سائل نے کوئی ایسا لیڈر دیکھا ہو تو ذرہ اس کا نام ہی بتائیں کہ اس کی تقریر سے لوگ اپنے جان و مال اور ہر ایک چیز کو استقلال و دوام کے ساتھ
حقائق الفرقان ۲۶۵ سُوْرَةُ أَلَمْ نَشْرَحْ قربان کر دیں.پھر تمام بادشاہان وقت سے خط و کتابت کرنا اور پھر باوجود اس کے سورہ حجرات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی صحابی کو بولنے کی اجازت نہ تھی.پھر رات دن کی مہمان نوازی کے لیے نہ کوئی خزانہ ہے نہ اور کوئی مہمان خانہ تھا نہ کوئی باورچی خانہ ہے نہ کوئی لنگر کا مہتم ہے نہ کوئی چار پائی ہے اور پھر کوئی مہمان ناراض نہیں جاتا.پھر قوانین جن میں عبادات و معاملات و روحانی اخلاق کی اصلاح ہو سکے ان کا وقتاً فوقتاً ایجاد کرنا اور ان کو کر کے دکھا دینا اور عمل کروا دینا پھر سارے معاملات کا فیصلہ بھی آپ ہی کرنا.پھر فوجی افسروں کو مقرر کرنا اور کمان اپنے ہاتھ میں رکھنا اور ساری سکرٹری شپ (یعنی منشی کا کام ) آپ کی زبان ہی تھی پھر عرب جیسے جنگجو طبائع کو مسخر کرنا اور ان کے عمائدکوان کے غربا کے ساتھ کھڑا کر دینا اور سب کے سرزمین پر جھکا دینا اور پچھلے خواہ کتنے ہی بڑے شریف ہوں اور اگلے خواہ کتنے ہی وقیع ہوں ان کے پاؤں کے ساتھ ان کے سروں کو لگا دینا.تمام ملک کی خبر رکھنا اور فوجوں کی روانگی کے لیے ایسا سخت انتظام رکھنا کہ کسی کے مال کو راستہ میں چور نہ لوٹیں اور فتح کے وقت ایک سوئی یا ایک سوئی کا دھا گا کسی سپاہی کو کسی سے لینے کی اجازت نہ دینا.پھر قرآن شریف کو ایسا یا درکھنا کہ ایک نقطہ اور زیروزبر کی غلطی نہ ہونے دینا بعض دنوں آپ نے صبح کی نماز سے لے کر عشاء کی نماز تک لیکچر خطبہ پڑھا ہے.نہ زبان کو وقفہ نہ بیان میں اختلاف ہوا اور پھر تئیس برس کے سارے بیانات میں یہ کہنا کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں اور پھر تئیس برس اس عہدہ کی خدمت کرنا کیا کوئی ایسا گورنر جنرل آپ نے دیکھا ہے جو تئیس برس کی ملازمت میں یہ لفظ بول سکے.پھر کھانا، پینا، مکان میں رہنا، بیوی سے تعلق رکھنا، سفر کرنا، صلح کرنا ، جنگ کرنا، معاملات بیع وشرا ، تجارت، نکاح ، طلاق، عتاق، قضاء، شہود، شہادات، معاہدات، مرنے کے بعد کے قوانین، یتامی اور کم عقلوں کی خبر گیریاں اور ان کے اموال وغیرہ کی حفاظتیں اس کے سوا قرب الہی کے ہزاروں ہزار شغل و اذکار اور قسم قسم کے مراقبات اور قسم قسم کی خلوتیں اٹھتے بیٹھتے سوتے، چلتے
حقائق الفرقان ۲۶۶ سُوْرَةُ المُ نَشْرَحْ پھرتے ، جماع ، ولادت.موت اور قسم قسم کی آیات اللہ جیسے خسوف کسوف اور ان کے متعلق الہی یادگاریں اور دعائیں اور قوانین تجویز کرنا پھر ایسے آرام سے بیٹھنا کہ بیویوں کو کہنا کہ آؤ میں تمہیں جاہلیت کے زمانہ کی کہانیاں سناؤں.اگر آپ کو شرح صدر کے متعلق کوئی وقت ہے تو اس آیت پر توجہ کرو جس میں لکھا ہے فَمَنْ يُرِدِ اللهُ اَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ (الانعام: ۱۲۶) وہی صدر کا لفظ اس میں موجود ہے.اس شرح صدر کے لیے ضرور ہے کہ صاحب شرح صدر کو ایک نظارہ دکھا یا جاوے جس میں اس کا سینہ چیر کر اس میں حکمت و نور و ایمان بھر دیا جاوے.طوائف الملوکی کے زمانہ میں کس طرح آنحضرت نے گزارہ کیا.نصرانیوں کی سلطنت جبش اور یہودیوں کے ماتحت کس طرح گزارہ کیا.پھر جب آپ نے جمہوری سلطنت وہاں قائم کی ہے تو کس طرح گزارہ کیا ہے.پھر عرب جیسے بے قانون ملک کو کس طرح قانون کے نیچے جکڑ دیا ہے یہ وہی جانتا ہے جو سر حدی مشکلات سے واقف ہو.٣.وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ - ترجمہ.اور ا تا رد یا تیرے اوپر سے تیرا بوجھ.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخه ۲۴ مارچ ۱۹۰۷ء صفحه ۷،۶) تفسیر.سینہ کی تنگی.یہ سب سے بڑھ کر وڈ ر انسان پر ہوتا ہے.عالی ہمتی اور فراخ حوصلگی کے برابر سبکدوش رکھنے والی انسان کے لئے کوئی دوسری چیز نہیں.(ضمیمه اخبار بدرقادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲، صفحه ۳۳۲) اور سنو.فَتَحْنَا لَكَ فَتْحاً مبينا - (الفتح : ٢) کے معنے آپ لوگوں کو معلوم نہیں.اس آیت شریف کی تفسیر کے لئے قرآن ہی عمدہ تفسیر ہے.اور وہ آیت مفسرہ آیت اَلَم نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ " ہے فتح سے مراد ہے.دل پر علوم باری اور آسمانی بادشاہت کے اسرار کا کھولنا اور جب وہ کھلتے ہیں تو تو بہ اور خشیت اور خوف الہی پیدا ہوتا ہے.جس کے باعث گناہ نہیں رہتے.انسان نئی زندگی پاتا ہے.نیا جلال حاصل کرتا ہے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۶۲) ا ہم نے تجھ کو کھلم کھلا فتح دی.ہے کیا ہم نے تیرا سینہ نہیں کھول دیا.اورا تارد یا تیرے اوپر سے تیرا بوجھ.
حقائق الفرقان ۲۶۷ سُوْرَةُ أَلَمْ نَشْرَحْ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ - ترجمہ.اور تیرے ذکر کو بلند کیا.تفسیر.اذان میں کلمہ شہادت میں اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ آپ کا بھی نام تمامی دنیا میں بلند آوازوں سے پکارا جا رہا ہے.مکی زندگی آپ کی ایسی تھی جیسی کہ سکھوں کے عہد میں مسلمانوں کی تھی اس وقت اس قسم کی زبر دست پیشگوئی کا کیا جانا اور پھر اس کا پورا ہونا یہ بجائے خود آپ کی رفعت شان پر (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۲) دلیل ہے.، - فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا - ترجمہ.بے شک ہر دکھ کے بعد سکھ بھی ہے.اور بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے.تفسیر.ایک روایت میں آیا ہے کہ لَن يُغلب عُسر يسرين یعنی ایک سختی دو آسانیوں پر کبھی غالب نہیں آئے گی.اگر چہ عسر کا لفظ بھی دو بار ہے.اور میسر کا لفظ بھی دو بار ہے.مگر الْعُسر مُعَرَّف بِاللام مکرر ہے.اور وہ معرف ہونے کی وجہ سے ایک ہی ہے اور میسر نکرہ دوبار ہے.اس لئے دو یسر الگ الگ مراد ہوں گے.اسی مضمون پر کسی کا ایک شعر ہے.ع إذَاشْتَدَّتْ بِكَ الْبَلْوى فَفَكِّرُ فِي آلَمُ نَشْرَحْ فَعُسُر بين يُسْرَينِ إِذَا فَكَّرْتَهُ فَافُرحُ لے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲) ۹۸ - فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبُ - وَ إِلَى رَبَّكَ فَارغَبُ - ترجمہ.پھر جب تو ایک کام سے اللہ کے فارغ ہو تو دوسرے کام میں لگ جایا کر.اور تیرے ہی رب کی طرف تو دل لگائے رکھ.تفسیر.یہ سنت انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ہے کہ ظاہری کوشش اور محنت کے ساتھ باطنی لے جب تجھ پر بہت سخت مصیبت آپڑے تو الم نشرح یعنی سورہ انشراح میں غور کر.پس دو آسانیوں کے درمیان ایک مصیبت ہے.جب تو اس پر غور کرے گا تو خوش ہو جا.( یعنی یہ مصیبت چھٹ جائے گی اور اس کے بعد آسانی ظاہر ہوگی ) پس جب تو فارغ ہو جائے تو کمر ہمت کس لے اور اپنے رب ہی کی طرف رغبت کر.
۲۶۸ سُوْرَةُ المُ نَشْرَحْ حقائق الفرقان عقد ہمت دعا اور توجہ الی اللہ ان کا کام ہوتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ظاہری محنتوں سے کعبے کو بنایا مگر ساتھ ہی عقدِ ہمت سے دعا ئیں بھی کیں.رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرة: ۱۲۸) محنت ہو.کوشش ہو مگر دعا نہ ہو کام نا تمام ہے.اسی طرح صرف دعا ہی دعا ہومگر کچھ محنت نہ ہو پھر بھی کام نا تمام ہے.( ضمیمه اخبار بد ر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲) لے اے ہمارے رب ! تو ہمارے بنائے ہوئے مکان کو پسند فرمالے تو تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے.
حقائق الفرقان ۲۶۹ سُورَةُ التّينِ سُوْرَةُ التّيْنِ مَكّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اس با برکت اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں جو رحمن و رحیم ہے.۲ - وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ - ترجمہ.قسم ہے انجیر اور زیتون کی.تفسیر.تین.زیتون.طور حضرت عیسی و حضرت موسی کے لئے بجلی الہی کی جگہ اور یہ بلدا مین آپ کے لئے.تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۸۸) ”خدا سینا سے نکلا اور سعیر سے چمکا اور فاران کے پہاڑ سے ظاہر ہوا.اس کے داہنے ہاتھ میں شریعت ہے.ساتھ لشکر ملائکہ کے آیا (توریت کتاب ۵ باب ۲۳۳) آئے گا اللہ جنوب سے اور قدوس فاران کے پہاڑ سے.آسمان کو جمال سے چھپا دیا اس کی ستائش سے زمین بھر گئی.حبقوق باب ۳.۳.سینا سے موسی جیسا بادشاہ صاحب شریعت ظاہر و باطن نکلا.سعیر سے جس کے پاس بیت لحم اور ناصرہ ہے مسیح ظاہر ہوا.قرآن نے اس پشین گوئی کو رول الی اللہ علی ولی کی بہت بیان کی ہے.دیکھوں لے وَالتَّيْنِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ - وَهُذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ - ان تین مقامات کی خصوصیت نہایت غور کے قابل ہے.عہد عتیق میں اس تخصیص کی وجہ مفصل مذکور ہوئی تھی.قرآن کا طرز ہے کہ جس بات کی تفصیل عہد عتیق وجدید میں نہ ہو.اس کی تفصیل کرتا ہے اور جس کا بیان وہاں مفصل ہو اس کی طرف مجمل اشارہ کرتا ہے.اب دیکھو.قرآن نے مسیح کے مبدائے ظہور کو تین اور زیتون سے تعبیر فرمایا.اس کی وجہ یہ ہے کہ زیتون کے پہاڑ کے پاس مسیح نے ل قسم انجیر کی اور زیتون کی.اور طور سینین کی اور اس شہر امن والے کی.
حقائق الفرقان ۲۷۰ سُورَةُ التَّيْنِ ایک گدھے کا بچہ منگوایا اور اس کے ذریعے سے اپنی نسبت ایک بڑی پشین گوئی کو ثابت کیا دیکھولو قا باب ۱۹.۳۰ متی باب ۲۱-۱- مرقس باب ۱۱-۱ تین کے درخت کے پاس ایک معجزہ ظاہر کیا.دیکھو مرقس باب ۱۱.۱۴.اور انجیر کا نشان دینے پر ایک شخص ایمان لایا.یوحنا باب ۱.۴۸.وادی فاران اور دشت فاران کی تفسیر قرآن نے یہ فرمائی ہے کہ فاران سے شہر مکہ مراد ہے.جہاں مسیح جیسا بشیر اور موسی جیسا بشیر و نذیر نکلا.جس کی شریعت کی نسبت کہا گیا.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمْ الْإِسْلَامَ دِينًا (المائده: ۴) ا.فاران کے پہاڑ سے ایسا ظاہر ہوا کہ تمام دنیا اس کا لوہا مان گئی.اس کے داہنے ہاتھ میں شریعت روشن ہے.اس کا لشکر ملائکہ کا لشکر ہے.اس کے سبب سے خدا جنوب سے آیا.اس کی ستائش سے زمین بھر گئی.موافق اور مخالف نے محمد محمد یا احمد احمد پکارا.اس سے زیادہ زمین ستائش سے اور کیا بھرتی.دشمن بھی محمد کے نام سے پکارتے ہیں.پرانے عربی ترجموں میں ”اس کی ستائش سے زمین بھر گئی کے بجائے یہ لفظ لکھے ہیں.وَامْتَلأَ الْأَرْضُ مِنْ تَحْمِيدِ أَحْمَدَ - نوٹ.محمد بمعنے ستائش کیا گیا اور احمد بڑا ستائش کیا گیا.کیونکہ صیغۂ افعل مبالغہ فاعل اور مفعول دونوں کے لئے آتا ہے.۲.سینا کی جنوبی حد سے فاران شروع ہوتا ہے.مکہ ، مدینہ اور تمام حجاز فاران میں ہے.کون دنیا کی ابتداء سے سوائے نبی عربی صاحب شریعت ستائش کیا گیا.یعنی محمد یا احمد کے فاران میں پیدا ہوا..وادی فاطمہ سے میں گل جذیمہ یعنی پنجہ مریم بیچنے والوں سے پوچھو کہ وہ پھول کہاں سے لاتے لے آج میں نے پورا کر دیا تمہارے لئے دین کو تمہارے اور پوری کر چکا میں اوپر تمہارے نعمت کو اپنی اور پسند کیا میں نے تمہارے لئے اسلام کو دین.۲؎ اور بھر گئی زمین ستائش سے احمد صلی اللہ علیہ وسلم کی.وادی فاطمہ کے اور مدینے کے درمیان ایک پڑاؤ ہے.ملکی زبانی روایتوں کے رو سے جو تواریخ قدیمہ کی جز و اعظم خیال کی جاتی ہیں یہ ثبوت بھی عجیب ثبوت ہے.
حقائق الفرقان ۲۷۱ سُورَةُ التّينِ ہیں تو لڑ کے اور بچے بھی یہی کہیں گے کہ مِنْ بَرِيَّةِ فَارَان یعنی دشت فاران سے.۴.وہ کون سا فاران ہے جس میں سے خدا ظاہر ہوا.جہاں سے مسیح کے بعد رسول نکلا اور اس پر روشن شریعت نازل ہوئی.وہ کون سا مذہب ہے جو فاران سے نکل کر تمام دنیا کے مشرق ومغرب میں پھیل گیا.۵.اسماعیل کی اولا دکو برکت کا وعدہ تھا.وہ اولا د اسمعیل کی عرب میں آباد ہوئی تھی اور ان میں سے موسیٰ کا سانبی ظاہر ہونا تھا.۶.فاران کے معنے وادی غیر ذی زرع کے ہیں اور یہی کتے کی صفت قرآن میں بیان ہوئی.اس مضمون کے شروع میں دیکھ لو.۷.یسعیاہ ۲۱۰ باب ۱۶ میں دیکھ.قیداریوں کا عرب میں ہونا ثابت ہے.اور وہ اسمعیل کا بیٹا ہے.دیکھو توریت لشکر ملائکہ کے ثبوت کے لئے.دیکھو یہودا کا عام خط باب ۱.۱۴.دیکھ خداوند اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آتا ہے.تاکہ سبھوں کی عدالت کرے.عیسائیوں نے اس بشارت پر بڑی کوششوں سے اعتراض جمائے ہیں.قبل اس کے کہ ان کے اعتراض اور تر دیدوں کا بیان کیا جائے حضرت ہاجرہ والدہ اسمعیل اور اسماعیل کا قصہ مختصراً بیان کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ اعتراضات اور جوابات میں امتیاز رہے.ا.حضرت ابراہیم جب بہت بوڑھے ہوئے چاہا کہ اپنے غلاموں سے کسی کو وارث بناویں.خدائے تعالیٰ نے فرمایا.تیرا بیٹا ہی تیرا وارث ہوگا.پیدائش باب ۱۵.۴ ۲.حضرت ابراہیم کی پہلی بی بی حضرت سارہ بہت بوڑھی ہو گئی تھیں.اس لئے انہوں نے حضرت ہاجرہ کو حضرت ابراہیم کے نکاح میں دے دیا.پیدائش باب ۱۶.۳.حضرت ہاجرہ سے سارہ کو جیسی کہ عادتا سوتوں میں ایک رنجش پیدا ہو جاتی ہے.کچھ کشیدگی سی ہو گئی.اس لئے حضرت ہاجرہ تنگ آ کر وہاں سے نکلیں.راستے میں فرشتے نے کہا.واپس جا.اللہ تجھے برکت دیگا.تیری اولا دوسیع اور بے شمار ہو گی.تیرے ایک لڑکا ہوگا.اُس کا نام اسمعیل رکھنا.وہ
حقائق الفرقان ۲۷۲ سُورَةُ التّينِ عربی ہوگا.اس کا ہاتھ سب پر ہوگا.پیدائش ۱۶ باب ۶ -۱۱ نوٹ : حال کے ترجموں میں اس کا ہاتھ سب کی ضد میں لکھا ہے.اگر چہ اس ترجمے کو تسلی اور برکت کا لفظ باطل کرتا ہے.الا پھر بھی ایک عجیب بات اس کے بیچ ماننے پر ہمیں مائل کرتی ہے.وہ یہ ہے کہ اہل کتاب کو ہمیشہ سے حضرت اسمعیل اور بنی اسمعیل سے ضد رہتی تھی.یہ ایک قدرتی ثبوت ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے دل میں حضرت اسمعیل کی حقیقت کھٹکتی چلی آتی ہے.اور وہ بمقابلے اپنے بھائیوں کے سکونت کریگا پیدائش ۱۶ باب ۱۳ ۴.حضرت ہاجرہ حاملہ ہوئیں.اور لڑکا جنیں اور اس کا نام اسمعیل ہوا.پیدائش باب ۱۶.۱۵.۵.پھر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم سے کہا کہ اب تیرا نام ابرام نہ پکارا جاوے گا.بلکہ ابراہام.کیونکہ تجھ سے بہت سی قومیں پیدا ہوں گی.اور تو سب کا باپ کہلائے گا.پیدائش ۱۷ باب ۵..پھر ابراہیم نے اسمعیل کے لئے دعا کی.خدا نے کہا.میں نے تیری دعا اسمعیل کے حق میں سنی.بے شک میں اسے برکت دوں گا.اور برومند کروں گا.اس کی اولا دبکثرت ہو گی اور اس کی پشت سے بارہ امام یا شاہزادے پیدا ہوں گے اور میں ان کو ایک قوم عظیم اور ممتاز کروں گا.پیدائش باب ۱۷ - ۲۰.ے.اسمعیل کے لئے برکت اور عہد دونوں ہیں.پیدائش باب ۱۷.۷..حضرت اسمعیل جب تیرہ برس کے ہوئے.ان کا ختنہ ہوا اور کہیں اسحق“ پر ہنسے.سارہ اس پر ناراض ہوئیں اور کہا ہاجرہ کو مع اس کے فرزند کے نکال دے اس لئے کہ یہ بشمول اسحق وارث نہ خدائے تعالیٰ نے ابراہیمؑ سے فرمایا.رنجیدہ مت ہو.جیسے سارہ کہتی ہے.ویسے ہی کر.اسحاق ہو.لے سارہ کا یہ کلام رنجش اور کمزوری کے سبب سے ہے.خدا کی طرف سے الہام نہیں کہ اس سے استدلال کیا جائے.معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کے دل سارہ کی طرف سے بھرے ہوئے ہیں.جو اسمعیل کی نسبت اُن کے دِل صاف نہیں ہوتے.
حقائق الفرقان ۲۷۳ سُورَةُ التَّيْنِ تیری اولا د ہے.مگر مجھے ہاجرہ کے فرزند سے ایک قوم بنانا ہے.کیونکہ وہ تیرا نطفہ ہے.علی الصباح ابراہیم نے ہاجرہ اور اسمعیل کو روٹی اور پانی دیگر نکال دیا.اور انہوں نے بیر شبع پر راستہ گم کیا.قصہ مختصر خشک بیابان میں تکلیف اٹھاتے اٹھاتے ایک دفعہ پانی سے ناچار ہو گئیں اور درخت کے نیچے بچے کو ڈال دیا.اور آپ دور جا بیٹھیں تا کہ اس کی پیاس کی موت کو نہ دیکھیں اور آسمان کی طرف منہ کر کے روئیں.تب فرشتے نے آواز دی.کیا تو بیمار ہے.خوف مت کر خداوند نے تیرے بچے کی آواز سن لی.اے ہاجرہ اٹھ اور بچے کو اٹھا.اس واسطے کہ میں اسے قوم کا بزرگ بناؤں گا.اور خدا نے اس کی آنکھیں کھولیں.تب انہوں نے ایک چشمہ پایا (وہی جسے مسلمان چاہ زمزم کہتے ہیں ) اسمعیل بڑھے اور تیرانداز ہوئے.حضرت اسمعیل کی والدہ ہاجرہ نے پھرتے پھرتے آخر کہاں مقام فرمایا.اور کس جگہ سکونت اختیار کی تحقیق طلب بات ہے.لیکن ہم دعوی کرتے ہیں کہ فاران میدان میں بمقام بیت اللہ مکہ معظمہ میں وہ ٹھہریں اور اس امر کے ثبوت کے لئے وجو ہات ذیل ہیں.ا.تو اثر.اور یہ وہ دلیل ہے کہ اگر اس پر وثوق نہ رہے.تو پھر تواریخ قدیمیہ کے اثبات کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا.تو رات کو موسی کی کتاب ما نا تو تواتر سے.مسیح کو ناصری یا ابن داؤ د مانا تو تواتر سے.ملکی اور قومی روایات اور مشہورہ حکایات سے جن کا ذکر تواریخ میں اور لوگوں کی زبانوں پر غیر متبدل اور مستحکم چلا آتا ہے.اس لحاظ سے بھی اس قصے کی تصدیق ضروری اور لا بدی امر ہے.کیونکہ کسی تاریخی واقعے کی تکذیب کر دینا با ایں کہ وہ عقل کے مخالف نہ ہو اور کسی معلومہ قانون قدرت کو باطل نہ کرے اور ضروری علوم اس کے مخالف نہ ہوں ، سخت غلطی ہے.پس جبکہ ملکی روایات اور مشہورہ حکایات اور تواریخ قدیمیہ متفقا ثابت کرتے ہیں کہ حضرت ہاجرہ نے وادی مکہ میں سکونت کی اور ملک حجاز.وہی دشت فاران ہے.تو کونسی بات ان امور کے قبول کرنے سے ہمیں مانع ہے.کیا کوئی قانونِ قدرت اسے محال بتلاتا ہے.یا عقل اس کو باور کرنے سے
حقائق الفرقان کتراتی ہے.۲۷۴ سُورَةُ التّينِ.پرانے جغرافیوں اور قدیم کھنڈرات کی تحقیقات کرنی چاہیے کہ اسمعیل کہاں آباد ہوئے جہاں وہ مقام ملے.وہی ان کی سکونت کا مقام ہوگا.اور وہی مقام وادی فاران ہے.حضرت اسمعیل کے بارہ بیٹے تھے.پہلا نبایوت عرب کے شمال مغربی حصے میں آباد ہوا.ریورنڈ کا تری پی کاری ایم اے نے اپنے نقشے میں اس کا نشان ۳۸ ده ۳ درجه عرض شمالی اور ۳۶ و ۳۸ درجہ طول مشرقی کے درمیان میں لگایا ہے.ریورنڈ مسٹر فاسٹر کہتے ہیں.کہ نبایوت کی اولا دعر بیا پیٹرا سے مشرق کی طرف عربیپی ڈیز رٹا تک اور جنوب کی طرف خلیج الا متک و حجاز تک پھیل گئی تھی.اسٹر بیبر کے بیان سے پایا جاتا ہے کہ نبایوت کی اولا د نے اس سے بھی زیادہ ملک گھیر لیا تھا.اور مدینے تک اور بندرحور اور بندر نیو تک جو بحر قلزم کے کنارے پر ہے.اور مدینے سے جنوب مغرب میں واقع ہے.ان کی عمل داری ہو گئی.ریورنڈ مسٹر فاسٹر کہتے ہیں کہ اس مختصر بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبایوت کی اولا دصرف پتھر یلے میدانوں میں نہیں پڑی رہی بلکہ حجاز اور مسجد کے بڑے بڑے ضلعوں میں پھیل گئی.ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ نبایوت کی اولا د عرب کے بہت بڑے حصے میں پھیل گئی ہو.الا یہ بات کہ نبایوت کی سکونت اور اس کی اولاد کی سکونت عرب ہی میں تھی.بخوبی ثابت ہے.دوسرا بیٹا قیدار نبایوت کے پاس جنوب کی طرف حجاز میں آباد ہوا.ریورنڈ مسٹر فاسٹر لکھتے ہیں کہ اشعیا نبی کی کتاب سے بھی صاف صاف قیدار کا مسکن حجاز ثابت ہوتا ہے.جس میں مکہ اور مدینہ بھی شامل ہے.اور زیادہ ثبوت اس کا حال کے جغرافیے میں شہر الحذر اور بنت سے پایا جاتا ہے.جو اصل میں القیدار اور بنا یرث ہیں.یور نفیس اور بطلمیوس اور پلینے اعظم ا معنی لفظ قیدار صاحب الا بل.ابن خلدون جلد دوم صفحہ ۳۳۱.لفظ قیدار کے معنی ہیں اونٹوں والا.معلوم ہوا کہ قیداری حضرت اسماعیل کے ولی عہد اور معتنی به شخص تھے.آپ کا نام بھی عرب اور اس کی خصوصیات سے عجیب مناسبت رکھتا ہے.
حقائق الفرقان ۲۷۵ سُورَةُ التَّيْنِ کے زمانوں میں یہ قومیں حجاز کی باشندہ تھیں.کیڈری یعنی قیڈری.دری مخفف قیدری اور گڈرو نا ئینی یعنی قیداری کد ریتی یعنی قیڈ ری.دیکھو ہسٹری جغرافیہ جلد اول صفحہ ۲۴۸.پس بخوبی ثابت ہے کہ قید ارحجاز میں آباد تھا.کا تری پی کاری نے اپنے نقشے میں قیدار کی آبادی کا نشان ۲۶ و ۲۷ درجه عرض شمالی اور ۳۷ و ۳۸ درجہ طول شرقی کے درمیان میں لگایا.تیرا بیٹا اردبیل ہے.بموجب سند جو زیکسن کے ادبیل بھی اپنے ان دونوں بھائیوں کے ہمسائے میں آباد ہوا.چوتھا بیٹا مبسام ہے مگر اس کی سکونت کے مقام کا پتہ نہیں ملتا.پانچواں بیٹا مشماع ہے.مسٹر فاسٹ کا یہ قیاس صحیح ہے کہ عبرانی میں جس کو مشماع لکھا ہے.اس کو یونانی ترجمہ سبٹو الحینٹ میں مسما اور جوزیفس نے مسماس اور بطلمیوس نے مسمیز لکھا ہے اور عرب میں اسی کی اولا دینی مسما کہلاتی ہے.پس کچھ شبہ نہیں کہ یہ بیٹا اولاً قریب نجد کے آباد ہوا.چھٹا بیٹا دو ماہ تھا.مشرقی اور مغربی جغرافیہ دان قبول کرتے ہیں کہ یہ بیٹا تہامہ میں آباد ہوا تھا.معجم البلدان میں لکھا ہے کہ دومتہ الجندل کا نام واقدی کی حدیث میں دو ماہ الجندل آیا ہے.اور ابنِ ثقیفہ نے اس کو اعمال مدینہ میں گنا ہے.اس کا نام دوم ابن اسمعیل ابن ابراہیم کے نام پر ہوا.اور زجاجی کہتا ہے کہ اسمعیل کے بیٹے کا نام دومان ہے.بعض کہتے ہیں کہ اس کا نام دمہ تھا.ابن کلبی کہتا ہے کہ دو ماہ اسمعیل کا بیٹا تھا.جب تہامہ میں حضرت اسماعیل کی بہت سی اولاد ہوگئی تو دو ماہ وہاں سے نکلا اور بمقام دومہ قیام کیا اور وہاں ایک قلعہ بنایا اور اس کا نام دوماہ اپنے نام پر رکھا.اور ابوعبید سکونی کا قول ہے کہ دومۃ جندل قلعہ اور گاؤں شام اور مدینے کے درمیان میں ہیں.قریب جبل طی کے اور دومہ وادی قری کے گاؤں میں سے ہے.مسٹر فاسٹر بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں اور اب تک یہ ایک مشہور جگہ عرب میں موجود ہے.ساتواں بیٹا مستا تھا.یہ بیٹا حجاز سے نکل کریمن میں آباد ہوا.اور یمن کے کھنڈرات میں اب تک مستا کا نام قائم ہے.کا تری پی کاری نے اپنے نقشے میں اس مقام کا نشان ۱۳ در جے اور ۳۰ دقیقے
حقائق الفرقان سُورَةُ التَّيْنِ عرض شمالی اور ۴۳ درجے اور ۳۰ دقیقے طول شرقی میں قائم کیا ہے.اسمعیل اور ان کی تمام اولا دحجاز میں تھی.بلاشبہ جب اولاد جوان ہوئی اور کثرت ہو گئی.تب مختلف مقاموں میں جا کر سکونت اختیار کی.مگر عمدہ بات قابل غور یہ ہے کہ سب کا پتہ عرب ہی میں یا حجاز میں یا حجاز کے آس پاس پایا جاتا ہے.آٹھواں بیٹا حدر.اس کو عہد عتیق میں حداد بھی لکھا ہے.یمن میں شہر حدیدہ اب تک اسی کا مقام بتلا رہا ہے.اور قوم حدیدہ جو یمن کی ایک قوم ہے.اسی کے نام کو یاد دلاتی ہے.زہیری مؤرخ کا بھی یہی قول ہے اور مسٹر فاسٹر بھی اس کو تسلیم کرتا ہے.نواں بیٹا تیا تھا.اس کی سکونت کا مقام مجد ہے اور بعد کو رفتہ رفتہ خلیج فارس تک پہنچ گیا.دسواں بیٹا بطور تھا.مسٹر فاسٹر بیان کرتے ہیں کہ اس کا مسکن جدور میں تھا.جو جبل کسیونی کے جنوب اور جبل الشیخ کے مشرق میں واقع ہے.گیارہواں بیٹا نا فلیش تھا.مسٹر فاسٹر جوزیفس اور تورات کی سند سے لکھتے ہیں کہ عریبیا ڈیزرٹا میں اُن کی نسل کے نام سے آباد تھے.بارہواں بیٹا قید ماہ.انہوں نے بھی یمن میں سکونت اختیار کی.مؤرخ مسعودی نے لکھا ہے کہ اصحاب الرس اسمعیل کی اولاد میں سے تھے اور وہ دو قبیلے تھے.ایک کو قدمان اور دوسرے کو یامین کہتے تھے.اور بعضوں کے نزدیک رعویل اور یہ یمن میں تھے.اب اس تحقیقات سے جو جغرافیے کے رُو سے نہایت اطمینان کے قابل ہے دو باتیں ثابت ہو گئیں ایک یہ کہ حضرت اسماعیل اور ان کی تمام اولا د عرب میں آباد ہوئی اور دوسرے یہ کہ مرکز اس خاندان کی آبادی کا حجاز تھا.جہاں اسمعیل کی مقدم اولاد کا مسکن ہوا تھا اور پھر اُس مرکز سے اور طرف عرب میں پھیلے.پس ثابت ہوا کہ حضرت اسمعیل نے حجاز میں سکونت اختیار کی تھی اور اسی کا قدیم نام فاران ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت حبقوق نے اپنی اپنی بشارتوں میں بتایا.
حقائق الفرقان ۲۷۷ عیسائیوں کے اعتراض سُورَةُ التّينِ اگر چہ یہ بات نہایت صفائی سے ظاہر ہے کہ وادی حجاز اور وادی فاران دونوں ایک ہیں.اور سمعیل کی اولاد کے ٹوٹے پھوٹے کھنڈر اس کی گواہی دے رہے ہیں.مگر با ایں ہمہ عیسائی اس کو تسلیم نہیں کرتے.اور موقع فاران کی نسبت مفصلہ ذیل تین را ئمیں قرار دیتے ہیں.ا یہ کہ وہ اس وسیع میدان کو جو بیر شبع کی شمالی حد سے کوہ سینا تک پھیلا ہوا ہے.فاران کہتے ہیں.۲.قادیش جہاں ابراہیم نے ( بیر شبع ) کھودا اور فاران ایک ہیں.ملی ہیں..فاران اسی وادی کا نام ہے جو سینا سے غربی نشیب پر ہے.جہاں قبر میں عمارتیں اب جواب ا.بتاؤ یہاں اسمعیل“ اور اس کی صلبی اولا د کب آباد ہوئی ؟ ۲- کتاب ۳.۱۳ - ۲۵ و ۲۶ وہ سردار کنعان کو دیکھ کر پھرے تو بیابانِ فاران میں سے قادیش میں پہنچے ( قادیش شمالی حد فاران کی ہے ) یا در ہے اس آیت کی اصل عبری عبارت یہ ہے.الی منبر فاران فَادَشِيه لفظی ترجمہ طرف وادی فاران کے بہ نیل مرام.قادیش کے معنے ہائل کے بھی ہیں دیکھو تر جمہ انفلس.فاران تین ہیں.ایک حجاز میں.دوسرا طور یا سینا کے پاس تیسر اسمرقند میں.سمرقند والا فاران مبحث سے خارج ہے.اور جو فاران طور یا سینا کے قرب میں واقع ہے.وہ فاران نہیں جو ابراہیم کے وقت تھا.وہ نہیں جس کا تورات میں ذکر ہے.وہ نہیں جہاں ہاجرہ نے اسمعیل کے ہمراہ بیر شبع میں راستہ گم کر کے اقامت کی اور وہ نہیں جہاں ابتداء اسمعیل کی اولاد آباد ہوئی.وہ نہیں جہاں سے بعد سعیر خدا نے ظہور کیا.
حقائق الفرقان ۲۷۸ سُورَةُ التَّيْنِ ہاں بلاشبہ زمانے کے دور میں اسمعیل کی اولا دحجاز سے نکل کر تمام عرب میں خلیج فارس تک پھیل گئی.پس اگر حجاز کے سوا اور جگہ سے پرانے ایسے کھنڈرات ملے ہوں جو بنی اسمعیل کے ناموں کے مشابہ ہوں یا مطابق تو وہ اس نفس الامری بات کو اٹھا سکتے ہیں کہ اسمعیل حجاز میں آباد ہوا.جو فاران سینا کے مغرب میں ہے.اور جس کے آثار ملے ہیں.وہ توریت کا فاران نہیں.موسیٰ کے زمانے میں اس کا وجود نہ تھا.موسی مصر سے نکلے اور بحر احمر سے پار ہوئے.تو شور میں پہنچ کرسن کو طے کر کے افیدیم میں ٹھہرے وہاں کتاب ۲.۷ لغایت ۸ میں ہے عمالیق آن کر اترے.اس سے ثابت ہوتا ہے.عمالیق افیدیم کی نہ تھی.یہاں یا درکھو کہ افیدیم کوہ سینا کے مغرب اور مصر کے شرق میں ہے.پھر افیدیم سے موسے مشرق کی طرف سینا کو چلے اور سینا میں پہنچے.اس سینا کے غربی فاران کا ذکر موسی نے نہیں کیا.پھر سینا سے آگے بڑھے اور شمال مشرق کو چلے.اس راہ میں حضرت موسی کہتے ہیں.بنی اسرائیل بیابان سے نکلے اور بادل بیابان فاران میں ٹھہر گیا.(گنتی باب ۱۰ آیت ۱۲ ) اس تقریر سے ثابت ہو گیا کہ حضرت موسیٰ کے وقت فاران کوہ سینا کے شمال مشرق میں قادیش کے قریب واقع تھا اور وہی حجاز کا بیابان ہے.نہ غربی نشیب سینا کا.البتہ ایسا معلوم ہوتا ہے.عرب کی ایک قوم جو فاران بن حمیر کی اولاد میں سے تھی اور بنی فاران کہلاتی تھی کسی زمانے میں سینا کے مغرب میں آباد ہوئی اور اس سبب سے وہ مقام فاران مشہور ہو گیا.یہ وہ فاران نہیں جس کا ذکر تورات میں ہے.(خطبات الاحمدیہ بتبدیل یسیر) فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۰۷ تا صفحه ۲۱۴) تین اور زیتون.ان دو چیزوں کو قسمیہ بطور شہادت کے اس لئے بیان کیا کہ علاوہ غذا کے جسمانی امراض کے لئے بھی بطور دوا کے یہ دونوں چیزیں استعمال کی جاتی ہیں.کبھی طبیب تین تجویز کرتا ہے تو کبھی تبدیل نسخہ کے لئے زیتون مفید سمجھتا ہے.زیتون کو مؤخر اور تین کو مقدم ذکر کرنے کی وجہ انشاء اللہ تعالیٰ آگے بیان ہوگی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ قادیان مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲)
حقائق الفرقان ۲۷۹ سُورَةُ التّينِ ، وَطُورِ سِينِينَ - وَهُذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ - ترجمہ.اور طور سینین کی.اور اس امن والے شہر کی.تفسیر.ایک زمانہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نبوتوں کے توسط سے اپنے تخت کو بنی اسرائیل کے لئے طور سینین اور ملک شام کی طرف بچھایا.اور اب دوسرے زمانہ میں اپنی حکمت اور مصلحت کی بناء پر بنی اسمعیل اور تمام دنیا کے لئے اپنے تخت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے بلد اللہ الامین میں تجویز فرمایا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ صفحه ۳۳۲) لَقَد خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ - ترجمہ.بے شک ہم نے پیدا کیا آدمی کو عمدہ سے عمدہ ترکیب پر.تفسیر.اَحْسَن تقویم کے لفظ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ذراسی بے اعتدالی سے انسان تقویم کے اعتدال سے یکسو ہو کر جسمانی طور پر بیمار ہو جاتا ہے.تین یا زیتون کا نسخہ تجویز کرنا پڑتا ہے.ایک سے اچھا نہ ہو تو دوسرا بدلنا پڑتا ہے.یہی حال روحانیت کی تقویم کا بھی ہے کہ گناہوں میں مبتلا ہو کر انسان اسفل السافلین میں جا گرتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲) بعض لوگ آحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين : ۵) کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاہ رنگ اور بدصورت بھی ہوتے ہیں.بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابو میں کر دیا.سرکس میں کسی نے تماشہ دیکھا ہوگا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں.یہ سب اللہ کے احسان ہیں.ثُمَّ رَدَدْنَهُ أَسْفَلَ سَفِلِينَ - الفضل جلد نمبر ۱۸ مورخه ۱۵ را کتوبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) ترجمہ.پھر اس کو پھینک دیا نیچے سے نیچے (اس کی بد اعمالی کے سبب سے ).91911 رددنه میں یہ اشارہ فرمایا کہ بادشاہیاں چھن جاتی ہیں.محتاجیوں کے قعر میں جا پڑتے ہیں نبوتیں منتقل ہو جاتی ہیں.ایک قوم نالائق ہوتی ہے.تو محروم رکھی جاتی ہے اور اس کی جگہ
حقائق الفرقان ۲۸۰ سُورَةُ التَّيْنِ اللہ تبارک و تعالیٰ دوسری قوم کو منتخب فرماتا ہے.جیسا کہ بنی اسرائیل اور بنی قیدار کا حال ہوا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲) ۷ تا ۹ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ فَلَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمُنُونَ - فَمَا يُكَذِّبُكَ بَعْدُ بِالدِّينِ اليْسَ اللهُ بِأَحْكَمِ الْحَكِمِينَ.ترجمہ.مگر وہ لوگ جنہوں نے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے تو ان کے لئے بے انتہا اجر ہے.( تو اے آدمی ) ان سب باتوں کے بعد دین میں تجھے کون جھوٹا سمجھے یا دین کی تکذیب پر کونسی چیز تجھے آمادہ کرتی ہے.کیا اللہ سب حاکموں سے بڑھ کر حا کم نہیں.تفسیر.یہ استثناء بڑا ضروری تھا اور اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ نئی نبوت کے قائم ہونے کے وقت پرانے نبی کے متبعین اگر موجودہ زمانہ کے مرسل کو بھی قبول کر لیں گے.تو ان کا اجر ممنون یعنی منقطع نہ ہوگا بلکہ دوسرے مقام میں فرمایا ہے کہ يُؤْتِكُم كِفَلَيْنِ مِن رَّحْمَتِه (الحدید: ۲۹) یعنی دوہرے اجر ملیں گے.اگلے بھی اور پچھلے بھی.معنے دین کے جزا سزا کے ہیں.بَعدُ بِالدّین سے یہ مطلب ہے کہ جیسی کرنی ویسی بھرنی.جس طرح کہا کرتے ہیں کہ كَمَا تُدين تدان یعنی جس طرح تم ہمارے ساتھ معاملہ کرو گے اسی طرح ہم بھی تم سے کریں گے.سورہ شریفہ بہت چھوٹی ہے.مگر ایک ایک لفظ سے اشارات یہ پائے جار ہے ہیں کہ انتقالِ نبوت بنی اسرائیل سے بنی اسمعیل میں جو ہوا.تو حق اور حکمت کے ساتھ ہوا.بے وجہ نہیں ہوا.طبیب نے نسخہ تبدیل کیا تو سوچ سمجھ کر ہی کیا.فَمَا يُكَذِّبُكَ.اب اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری تکذیب سے ان کو کیا فائدہ؟ جبکہ جزا سزا ، یا یوں کہو کہ مرض کی دوا موافق طبیعت کے ملی ہے.سورہ شریفہ کے مطلع میں تمہیداً تین کو زیتون پر مقدم کر کے ذکر فرمایا تھا مؤخر کرنے میں.تین ، سینین ، بلد الامین، مقفہ بھی ہو جاتا مگر نہ کیا وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ زیتون سے
حقائق الفرقان ۲۸۱ سُورَةُ التَّيْنِ تشبیہہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دی ہے جو بعد میں آنے والے تھے اور فوائد اور نفع رسانی کی رو سے بہ نسبت انجیر کے زیتون میں منافع بہت زیادہ ہیں.کھانے کے علاوہ روشنی کے کام میں بھی آتا ہے اور روشنی بھی ایسی کہ جس میں دھوئیں کا نام تک نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللهُ نُورُ السَّمَوَاتِ والے رکوع میں ۱۱ / ۱۸ زیتون سے مراد پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرار دے کر اس رکوع کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے اس کو براہین احمدیہ صفحہ ۱۷۷ میں ملاحظہ کر لیں.مقام تو اس قسم کا تھا کہ اس سارے بیان کو براہین سے ہم نقل کر دیتے مگر چوں کہ یہ صرف نوٹ ہی کے طور پر ہیں اس لئے طوالت کے خیال سے صرف.حوالہ پر کفایت کیا گیا.اليسَ اللهُ بِاَخيم الحكمينَ.حاکموں پر جو حاکم ہوتا ہے.اس کا یہی کام ہوتا ہے کہ حکمت اور مصلحت کی بناء پر ماتحت حکومتوں کو بدل دے.سورۃ شریف کا مکی ہونا یا مدنی ہونامختلف فیہ ہے.حضرة عباس فرماتے ہیں کہ مدینے میں نازل ہوئی ہے ممکن ہے کہ کچھ حصہ مکی اور کچھ مدنی ہو.حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ ایک رات نماز عشاء میں سورۃ التین کو ایسی خوش الحانی اور سہانی آواز سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا کہ بخدا آپ کی اس قرآۃ سے زیادہ خوش الحانی میں نے کسی اور سے نہیں سنی.مسنون ہے کہ اس سورہ شریف کے ختم پر جواباً بَلَى وَ انَا عَلَى ذلِكَ مِنَ الشَّاهِدِین کہا جاوے.بَلدُ الْآمین.یہ تمہارا شہر جو دارالامن ہے خدا کی زبردست طاقت کا ایک عظیم الشان نشان ہے.اس گھر کا بنانے والا ابراہیم علیہ السلام تھا.جو ابوالملت کہلاتا ہے.اس کے دشمنوں نے ان کے ہلاک کرنے کے لئے کیا کیا منصوبے کئے مگر بالآخر خدا کا ہاتھ اپنا کام کر گیا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دشمنوں کا کوئی نام و نشان بھی نہیں جانتا اور آپ کی ذریت اس قدر ہے کہ اسے کوئی گن نہیں سکتا اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا حال ہوگا.یہ واقعات اہل مکہ کو
حقائق الفرقان ۲۸۲ سُوْرَةُ التَّيْنِ برنگ پیشگوئی سنائے گئے اور پہلی آیتوں میں جو نوح مراد لیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت نوح کے طوفان کے وقت جو کبوتری خشکی کی خبر لائی اس کے منہ میں زیتون کی شاخ تھی اور دوسری نہج پر اس سے مراد یہ لی گئی ہے کہ دراصل ان آیات میں حضرت مسیح اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کو بتایا ہے اور ان بشارتوں کی طرف توجہ دلائی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق فرمائی تھیں.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان آیات میں ان عظیم الشان پیشگوئیوں کی طرف اشارہ ہے جو تورات شریف میں مذکور ہیں.کتاب استثناء ۳۳ باب ۲ میں مسطور ہے.خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے داہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کے لئے تھی.اور حبقوق ۳ باب ۳ میں ہے." آئے گا اللہ جنوب سے ( یعنی مکہ سے ) اور قدوس فاران کے پہاڑ سے ( جو مکہ کا پہاڑ ہے ) اس کی ستائش سے زمین بھر گئی.چنانچہ سینا سے حضرت موسیٰ “ جیسا صاحب شریعت نکلا.ساعید سے حضرت مسیح ظاہر ہوئے اور فاران سے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا.ان آیات میں حضرت مسیح کا پتہ تین اور زیتون سے دیا گیا.وہ پہاڑ جس پر یروشلم آباد ہے اس کے دوٹکڑے ہیں.ایک کو اب تک زیتون کی پہاڑی کہتے ہیں اور دوسرے کو تین کہتے ہیں.اور ساعیر ان دونوں کے مجموعہ کا نام ہے.سوتین اور زیتون کے ذکر سے حضرت مسیح کی جائے ظہور کا پتہ دینا منظور ہے کیونکہ زیتون پہاڑ کے پاس مسیح نے ایک گدھے کا بچہ منگوایا تھا اور اس کے ذریعہ سے اپنی نسبت ایک بڑی پیشینگوئی کو ظاہر کیا تھا ( دیکھ لوقا ۱۹ باب ۳۰ متی ۲۱ باب اہمتی ۱۱ باب ۱) اور تین پہاڑی کے پاس (جس کو تین اس وجہ سے کہتے ہیں کہ وہاں انجیر کے درخت تھے ) حضرت مسیح نے ایک معجزہ ظاہر کیا تھا ( دیکھو مرقس باب ۱۴) اور انجیر کا نشان دیکھنے پر ایک شخص ایمان لایا ( یوحنا باب ۴۸) طور سینا پر حضرت موسیٰ کو خدا کی طرف سے احکام ملے اور ان پر تجلی الہی ہوئی.امن والا شہر یعنی
حقائق الفرقان ۲۸۳ سُورَةُ التَّيْنِ مکه معظمه دشت فاران میں ہے.کیونکہ حضرت اسمعیل اور بی بی ہاجرہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی سرزمین میں چھوڑ گئے تھے (دیکھو پیدائش ۲۱ باب ۲۱) اس دشت سے حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ گر ہوئے اور دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ فتح مکہ کے دن مکہ میں تشریف لائے.اور ان کے ہاتھ میں آتشی شریعت تھی.یعنی مجرموں اور ستم گاروں کو شمشیر تیز کی نار میں بھسم کرنے آئے تھے.آپ ہی کے سبب سے خدا جنوب سے آیا اور دنیا اس کی ستائش سے بھر گئی.پس تين وَزَيْتُونَ.طُورِ سِينِين بَلَد الآمين ) یعنی شہر مکہ ) تین عظیم الشان انسانوں کی یادگار ہیں.جن کی ستائش ہزار ہا سال سے تمام عالم میں ہو رہی ہے.کیا امیر کیا غریب، کیا بادشاہ کیا فقیر ان مقدس انفاس کی مدح و ستائش کو موجب برکت سمجھتا اور اُن کے فیوضات سے مستفیض ہو رہا ہے.اور یہ بات اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسنِ تقویم میں پیدا کیا ہے اور روحانی اور جسمانی دونوں حیثیتوں سے اس کو اعلیٰ سے اعلیٰ خلقت عطا ہوئی ہے.جن کے نمونے یہ تینوں برگزیدہ انبیاء علیہم السلام ہیں.اور جن کی تبلیغ سے ہر ایک انسان اپنی فطرت پر قائم اور فطری نقشے پر جمارہ سکتا ہے.مگر بد عملی اور بے ایمانی کی وجہ سے بھی انسان ایسا خراب ایسا بد اور ایسا غلیظ ہو جاتا ہے کہ ارذل ترین حیوانات سے بھی پرے جا رہتا ہے.ہاں جولوگ ایمان اور اعمالِ صالحہ پر قائم ہیں اور اس تنزل اور فساد سے محفوظ رہتے ہیں.وہ اجر غیر منقطع حاصل کرتے ہیں.پس ایسے ایسے الہی انتظامات انسان کے احسن تقویم میں پیدا کرنے پر بھی جو شخص خدا کے مقصد اور مصلحت حقہ پر نظر نہ کرے اور آفرینش انسان کو بطور لہو و لعب سمجھے اور اس کو اعمال کے نتائج کے ملنے کا ذمہ وار اور جزا سزا کا مورد نہ سمجھے بڑا ہی بے وقوف ہے.جزا اور یوم الجزا کی تکذیب کرتا ہے.حالانکہ وہ دنیا میں برابر مطبع اور غیر مطبع بروں اور بھلوں کے انجام و عواقب کو دیکھتا ہے.جو دنیاوی حکام کی طرف سے ان کو ملتے رہتے ہیں.تو کیا خدا تعالیٰ جو احکم الحاکمین ہے وہ انسان کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دے گا اور
حقائق الفرقان ۲۸۴ سُورَةُ التَّيْنِ اس کے کاموں پر جانچ پڑتال نہ کرے گا اور مطبع اور غیر مطبع میں امتیاز نہ کرے گا اور یہی بھاری دلیل ہے.جزا اور یوم الجزا کے قیام کی فَتَفَكَّرُوْا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۲ تا ۳۳۴)
حقائق الفرقان ۲۸۵ سُوْرَةُ الْعَلَقِ سُوْرَةُ الْعَلَقِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ علق کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس باعظمت اللہ کے نام پاک سے جو رحمن ورحیم ہے.۲ تا ۶ - اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبَّكَ الَّذِى خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقْرَا وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ - الَّذِى عَلَمَ بِالْقَلَم - عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ - ترجمہ.اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے ہر ایک شے کو پیدا کیا.انسان کو پیدا کیا جونک سے.پڑھ اور تیرا رب بہت بزرگ ہے.جس نے علم سکھا یا قلم کے ذریعہ سے.سکھایا انسان کو جو وہ جانتا نہ تھا.تفسیر.ان آیات میں آپ کی ترقی اور کامیابی اور کمالات پر جو کچھ لفظ ربَّكَ اور خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَق اور رَبُّكَ الْأَكْرَمُ اور عَلَمَ الْإِنسَانَ سے ظاہر ہو سکتا ہے.وہ عقل والے آدمی سے مخفی نہیں.پھر یہ پیشینگوئی جیسی پوری ہوئی وہ بالکل معجزہ ہے.(فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۲۴) اقرأ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ یہ پہلے الفاظ ہیں جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئے.ہر کام بسم اللہ سے شروع کرنا چاہیے.خلق کے بعد ربوبیت لازمی اور ضروری ہے.ظاہری جسمانی پرورش سے پرورش روحانی مقدم ہے.رب کے لفظ میں یہ بھی سمجھایا کہ آپ کی روحانی نشو نما کا یہ پہلا اور ابتدائی قدم ہے جو بتدریج ترقی کر کے آپ کو عظیم الشان بنادے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۴) پہلا الہام جو ہمارے سید و مولی مد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوا.وہ بھی اقرا باسم رنک ہی تھا اور پھر رب زدنی علما کی دعا تعلیم ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ علم کی کس قدر ضرورت ہے.سچے علوم کا مخزن قرآن شریف ہے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف کے
حقائق الفرقان ۲۸۶ سُوْرَةُ الْعَلَقِ پڑھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور عمل کے واسطے پڑھنے کی بہت بڑی ضرورت ہے.اور یہ حاصل ہوتا ہے.تقوی اللہ سے مامور من اللہ کی پاک صحبت میں رہ کر.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سلامتی ، صدق نیت، شفقت على خلق الله ، غَايَتُ الْبُعْدِ عَنِ الْأَغنياء ، آسانی، جودت طبع ، سادگی ، دور بینی کی صفات سے فائدہ پہنچاتے ہیں.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۱۷ پریل ۱۹۰۱ ء صفحه ۴) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ - علق بغیر ہڈی کے گوشت کے کیڑے کو کہتے ہیں.انسان کی پیدائش کی ابتدا اس باریک کپڑے سے ہوتی ہے جو نطفہ منی میں ہوتا ہے.جس کو ڈاکٹری اصطلاح میں سپر موٹو زہ کہتے ہیں.ربوبیت کی ابتدائی کیفیت اور علق کی ابتدائی کمیت مساوی الحال ہوتے ہیں.اقْرَأْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ.اکرم کے لفظ میں پیشگوئی فرمائی کہ آپ مکرم و معظم ہو جاویں گے.الَّذِي عَلَم بِالْقَلَم - عرب ایک ایسا جزیرہ نما تھا کہ اسلام سے پہلے کوئی تاریخ نہیں بتا سکتی کہ وہاں سے کوئی کتاب تصنیف ہوئی ہو.ایسی عظیم الشان ربوبیت ہوئی کہ اسلام کی کتابوں کو اب کوئی گن بھی نہیں سکتا.کتب خانه چند ملت بشست له یتیے کہ ناکرده قرآن درست لے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۴) - لا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ تَرَاهُ اسْتَغْنى - ترجمہ.کچھ شک نہیں یقینا انسان سرکشی کرتا ہے.جب وہ اپنے کو مالدار دیکھتا ہے.تفسیر.اب یہاں سے ذکر مخالف کا چل پڑا.معلوم ہوا کہ نبی کے ساتھ مخالف کا ہونا بھی ضروری ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مخالفت کرنے والے بڑے اغنیاء ہی ہوتے ہیں.دوسری جگہ فرمایا ہے.كَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكبر مُجْرِمِيهَا - (الانعام: ۱۲۴) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۴) لے ایک یتیم نے کہ جو قرآن بھی دیا ہے اس نے کئی قوموں کے کتب خانوں کا صفایا کر دیا ہے.اسی طرح ہم نے پیدا کئے ہر بستی میں جناب الہی سے قطع تعلق کرنے والے سردار گناہ گاروں کے.
حقائق الفرقان ۲۸۷ سُوْرَةُ الْعَلَقِ ۱۰ تا ۱۵ - اَروَيْتَ الَّذِى يَنْهى عَبْدًا إِذَا صَلَّى - أَرَوَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى اَوْ اَمَرَ بِالتَّقْوى - اَرعَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى أَلَمْ يَعْلَمُ بِأَنَّ اللَّهَ یری ترجمہ.تو نے اس شخص کو دیکھا جو روکتا ہے.بندے کو جب وہ نماز پڑھتا ہے.بھلا تو دیکھ تو سہی اگر یہ شخص ہدایت پر ہوتا.اور تقویٰ کا حکم کرتا ( تو کیا اچھا ہوتا).کیا تو نے دیکھا کہ اس نے جھٹلایا اور روگردانی کی ( تو اب کیا حال ہوگا ).کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھتا ہے (اس کی بُری حرکتیں ).تفسیر ادویت فرما کر ایک ہی سیاق سے اپنے نبی اور مخالف کو مخاطب فرمایا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۵ اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۴) كَلَّا لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ - ترجمہ.وہ سُن رکھے کہ اگر وہ باز نہ آئے گا.تفسیر.سفع کے معنے زور سے کھینچنے اور گھیسٹنے کے ہیں.ناصية پیشانی اور مقدم رأس کے بال ، غیظ و غضب کے وقت پیشانی پر بل ڈال کر نہایت ڈراؤنی شکل سے انسان اس کو گھر کتا ہے.جس کو مغلوب کرنا چاہتا ہے.یہ حرکت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابوجہل نے کعبہ میں کی تھی اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھنے سے منع کیا تھا.اس لئے یہ پیشینگوئی اس کے حق میں بدر کے دن پوری ہوئی کہ ناصیہ سے پکڑ کر گھسیٹ کر گڑھے میں اس کی لاش کو ڈال دیا گیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۵،۳۳۴) ۱۸ ۱۹.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ - سَنَدُعُ الزَّبَانِيَةَ - ترجمہ.چاہئے کہ وہ بلا لیں اپنے ہم نشینوں کو.ہم بھی اب بلائے لیتے ہیں آتشی فرشتوں کو.تفسیر.نَادِی سے اہل نادی مراد ہیں اور نادی کے معنے مجلس کے ہیں.كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى وَ تانونَ فِي نَادِيكُمُ الْمُنْكَرَ - (العنكبوت: ۳۰) مکہ کے دارالندوہ کو اس لئے نادی کہا کہ اس میں لے اور کرتے ہوا اپنی مجلس میں ناشائستہ حرکتیں.
حقائق الفرقان ۲۸۸ سُوْرَةُ الْعَلَقِ مشورہ کرنے کے لئے لوگوں کو پکار کر بلایا جاتا تھا.جی چاہتا ہے کہ ہمارے وطن کے علماء جو قوم کے پیشوا کہلاتے ہیں اپنے لئے بجائے ندوۃ العلماء کے قدوۃ العلماء نام تجویز کر لیں تو بہتر ہے.بلبلا مشردہ بہار بسیار خبر بد به بُومِ شوم گذار كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ أَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَهَا زَبَانِيَّة- زَبن سے مشتق ہے جس کے معنے دفع کے ہیں.جن اور انس میں سے ہر متمرد شخص کو زبنية کہتے ہیں.اکثر اہل لغت کا قول ہے کہ زبانیہ ان جمعوں میں سے ہے.جن کا مفر نہیں.جیسے ابا بیل وغیرہ.غرض کہ زبن جس کے معنے دفع کے ہیں.ابتدا ہی سے اسلام میں یہ قاعدہ رکھا گیا ہے کہ جنگ صرف دفاعی طور پر کی جائے.آیت باب کے الفاظ کی ترتیب بھی یہی تعلیم دے رہی ہے.پہلا مقابلہ نادیہ اور زبانیہ کا اسلام میں بدر کے دن ہوا.لکھا ہے کہ مکہ معظمہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابو جہل نے ایک ایسا طمانچہ مارا تھا.جس سے ان کا کان پھٹ گیا تھا.بدر کے دن حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہی کو اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کا سر کاٹنے کے لئے اس پر مسلط کیا.جب سرکاٹ چکے تو اس کے کان میں رسہ پرو کر سر کو گھسیٹتے ہوئے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں لایا گیا.اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا - أُذُنْ بِأُذُنِ وَالرَّأْسُ هُهُنَا مَعَ الْأُذُنِ - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۲۲ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۵) لا لَا تُطِعُهُ وَاسْجُدُ وَاقْتَرِبُ - ترجمہ.نہیں نہیں اس کا کہا نہ مان اور سجدہ کر اور اللہ کے نزدیک ہو.تفسیر وَاسْجُدُ وَ اقْتَرِب - قرآن کریم کے سجدات تلاوت میں سے یہ آخری سجدہ ہے.ہے.حدیث شریف میں ہے کہ بندہ سجدہ کی حالت میں خدا وند تعالیٰ سے بہت ہی نزدیک تر ہوتا حدیث شریف کا اور اس آیت شریف کا مطلب گویا کہ ایک ہی ہے.وضو نہ ہو تو تیم ہی کافی ہے.لے اے بلبل بہار کی خوشخبری لاؤ.بری خبر کو کینوس پر چھوڑ دیں.سے حکمت کا کلمہ مومن کی گمشدہ میراث ہے وہ اسے لے لیتا ہے جہاں بھی اسے پاتا ہے.۳ کان کے بدلے کان اور سر بھی کان کا حصہ ہے.
حقائق الفرقان ۲۸۹ سُوْرَةُ الْعَلَقِ گو بے وضو بھی جائز ہے مگر کم از کم تیم کر لیا جاوے تو بہتر ہے.دعا کے لئے سجدہ ایک بے نظیر موقع ہے جس کو زبان عربی نہ آتی ہو وہ اپنی مادری زبان ہی میں تسبیح کے ساتھ اپنی مشکلات کے لئے دعا بھی کرلے.سجدات کے وقت کی دعائیں خطا نہیں جاتیں.یہ وقت بہت ہی قرب الہی کا وقت ہوتا ہے.جس قدر سجدات کی تعداد زیادہ ہوگی.اسی قدر قرب کے مدارج بھی زیادہ ہوں گے.جن کے لئے یہ نعمت مقدر ہی نہیں وہ اس ادنی سی حرکت کی توفیق پانے سے محروم رہتے ہیں.الدُّعَاءُ مُح الْعِبَادَةِ دعا تمام عبادتوں کا مغز ہے اور سجدہ تمام منازل قرب کا انتہائی مقام ہے.یہ دونوں باتیں اکٹھی ہو جاتی ہیں.اس کلامِ الہی میں پانچ پیشگوئیاں ہیں.اوّل.رَبَّكَ الَّذِي خَلَقَ.اس کا مطلب یہ ہے کہ ربوبیت الہی نے جو تیری خاص پرورش فرمائی ہے اور اپنے اندازہ خاص سے قومی مرحمت کئے اور خاص کلام کے لئے تجھے منتخب کیا ہے.اور اپنے ہاتھ سے تیرا پیٹ لگایا ہے اور تیرے مبارک پھلوں کے انتظار میں بیٹھی ہے وہ تجھے ضرور کامیاب اور سرسبز کرے گی اور تیرے نو نہال کو اعداء کے تبر اور مخالف جھونکوں سے محفوظ رکھے گی.دوسری پیشگوئی خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ یعنی اس منی کے کیڑے یا جونک کی طرف دھیان کرو کہ وہ کیسا حقیر اور ذلیل تھا جس کا ایسا خوبصورت اور باکمال انسان بنا.جب ہماری ربوبیت نے نظر عنایت سے ایک کیڑے کو اس صورت و شکل تک پہنچایا ہے اور ایک مقصد اور غایت کے لئے جو ربوبیت کا اصلی نقاضا ہے.یہ خلعت کمال مرحمت فرمایا ہے.تو کیا اب ہماری ربوبیت اس کا ساتھ چھوڑ دے گی.ہم اپنی ربوبیت کا سایہ عاطفت اس پر رکھیں گے.جب تک وہ انسان اپنی خلقت کی علت غائی کو پہنچ نہ جائے.قرآن کریم میں تدبر کرنے والے جانتے ہیں کہ نبوت کی تربیت اور اُسے کمال مطلوب تک پہنچانا خدا تعالیٰ کے اسم رب کا خاصہ ہے.اور جہاں جہاں خدا تعالیٰ نے ضرورت نبوت کی قرآن کریم میں بحث چھیڑی ہے دلیل میں اپنے اسم رب کو مذکور فرمایا ہے اس لئے کہ جیسے اس ربوبیت نے انسان کے عالم اجسام کے لئے زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی اشیاء کو
حقائق الفرقان ۲۹۰ سُوْرَةُ الْعَلَقِ مسخر کیا اور خدمت میں لگا دیا ہے ویسے ہی اس کی ربوبیت نے تقاضا کیا کہ انسان کی روح کی تربیت کے لئے جو اصلی مقصود اور ابدی غیر فانی شے ہے اس کی تربیت کے مناسب حال سامان مہیا کرے.سو اس کے لئے اس نے نبوت کا سلسلہ اس جہان میں قائم کیا.اور جہاں نبوت کے اعداء اور مخالفین کو مقابلہ سے ڈرانا چاہا اور ان کے بارے میں خوفناک وعید بیان کرنے چاہے ہیں وہاں نبوت کی حمایت و دفاع میں اسم اللہ کو جو جامع جمیع صفات کا ملہ ہے پیش کیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نبوت کا اصلی مقصد توحید الوہیت کا قائم کرنا اور الہہ باطلہ اور ہر قسم کی طواغیت کا ابطال کر کے خداوند تعالیٰ کے لئے معبودیت اور الوہیت کا یگانہ استحقاق اور لاشریک منصب مخصوص کرنا ہوتا ہے تو جب عداوت اور مخالفت اپنے ہتھیار پہن کر اس کا استیصال کرنے پر آمادہ ہوں.تب غیرت اور جوش بھی اسی کو آنا چاہیے جس کی خدمت کے لئے نبوت میدان میں نکلی ہے.بہر حال اس علق اور الانسان کے لفظ میں بڑی بھاری پیشگوئی ہے.تیسری پیشگوئی.اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْأَكْرَمُ.اس میں اشارہ یہ ہے کہ اس سلسلہ تبلیغ میں تیری سخت مخالفت ہوگی اور ایک عالم تجھے ذلیل و خوار کرنے پر آمادہ ہوگا اور حکمت الہیہ کے اقتضاء سے کچھ عرصہ تک بظاہر ایسا ہو گا کہ تو مغلوب اور شکستہ نظر آئے گا اور کفر و شرک اپنی جیت پر ناز کرے گا مگر آخر کار غلبہ اور فتح تیرے حصہ میں آئے گی اور تو اکرم اور عزیز ہوگا.اس لئے تیرا رب جس نے تجھے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے پرورش کیا ہے وہ اکرم ہے.لہذا ضروری ہے کہ اس کا مربوب بھی بطور ظل کے اکرم ہو.چوتھی پیشگوئی.الَّذِی عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کتاب عجیب میں جو تجھے دی جاتی ہے اور جو بظاہر انسانی قلم سے لکھی جاتی ہے.وہ وہ علوم عالیہ ہوں گے کہ کل بنی آدم کے معلومات اس کے مقابلہ سے عاجز آ جائیں گے.الْإِنْسَان سے مَالَمُ يعلم ملا کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ فطرتا اور اکتسابا انسان کی بساط میں اور اس کے قومی کی رسائی میں وہ علوم عالیہ آہی نہیں سکتے.جن پر قرآن مجید مشتمل ہے.لہذا یہ علوم لا ریب خدا وند علیم خالق انسان
حقائق الفرقان ۲۹۱ سُوْرَةُ الْعَلَقِ کی طرف سے ہیں اور اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ ذہینوں کے ذہن ، عقیلوں کی عقلیں اور عالموں کے علم اور محرروں کی قلمیں ان سماوی علوم کے مقابلہ میں ٹوٹ جائیں گی.پانچویں پیشگوئی كَلَّا لَبِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ - نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ فَلْيَدْعُ - نَادِيَة - سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ - كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدُ وَاقْتَرِبُ - (العلق:۱۶ تا ۲۰) دشمن کی عداوت کی پیش رفت نہ جائے گی.اگر وہ باز نہ آیا تو ہم اس کی جھوٹی خطا کار چوٹی کو پکڑ کر زور سے کھینچیں گے اور یوں ذلت سے گھسیٹ کر ہاویہ میں گرائیں گے.پھر وہ اپنی مجلس کو جن کے بل بوتے پر اسے ناز تھا بلائے اور ان کی دہائی دے ہم بھی سیاست کے پیادوں کو بلائیں گے.وہ ہرگز اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہو گا.تو اپنے کام میں لگارہ اور ان کے خلاف کی ذرہ بھی پرواہ نہ کر اور کبھی ان کی ہاں میں ہاں نہ ملا.اس لئے کہ ان کے ہاتھ تیرا کوئی نفع اور ضرر نہیں اور ہماری فرماں برداری میں لگارہ اور جس قدر تو ہمارا فرماں بردار ہوگا.ہماری جناب میں تیرا قرب اور درجہ اتنا ہی بڑھے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۶٬۳۳۵)
حقائق الفرقان ۲۹۲ سُوْرَةُ الْقَدْرِ سُوْرَةُ الْقَدْرِ مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ قدر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے اسم پاک کی مدد سے جو رحمن ورحیم ہے.إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ - ترجمہ.بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں اتارا ہے.تفسیر: لیل - ظلمت اور قدر دال کے سکون کے ساتھ بمعنے مرتبہ.یہ دونوں صفتیں اس جگہ ابھی کی گئی ہیں.لیلتہ القدر.ایک خاص رات رمضان شریف کے آخیر دھا کہ میں ہے.جس کا ذکر سورۃ الفجر میں وَالَّيْلِ إِذَا يَسُر - ( الفجر : ۵) میں بھی کیا گیا ہے.ایک جگہ فرما یا شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.(البقرہ:۱۸۶) اور دوسری جگہ بیان فرما یا إِنَّا أَنزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر : ۲) ان دونوں آیتوں کے ملانے سے بھی معلوم ہوا کہ لیلتہ القدر رمضان شریف میں ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور بھی زیادہ تشریح کر کے یہ پستہ دیا ہے کہ لیلۃ القدر رمضان شریف کے آخیر دھا کہ کی طاق راتوں میں ہوا کرتی ہے.کسی سال اکیسویں شب کو ، کسی سال ۲۳ یا ۲۵ یا ۲۷ یا۲۹ ویں شب کو.اس شب کے فضائل صحیح حدیثوں میں بے حد بیان فرمائے ہیں.إنَّا أَنزَلْنَہ کا مرجع جس طرح قرآن شریف سمجھا گیا ہے.اسی طرح اس سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارک بھی مراد ہے.اسی لئے ان لله فرمایا تا کہ قرآن اور منزل علیہ القرآن دونوں ہی مرجع ٹھہریں.ورنہ انزَلْنَهُ هُذَا القران فرمانا کوئی بعید بات نہ تھی.لیل وہ ظلمت کا زمانہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت سے پہلے کا زمانہ تھا.جس کو عام طور پر ایام جاہلیت لے اور رات کی جب وہ گزرتی ہے.۲ رمضان کا مہینہ جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا.
حقائق الفرقان ۲۹۳ سُوْرَةُ الْقَدْرِ کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور قدر دال کی سکون کے ساتھ وہ قابل قدر زمانہ ہے.جس زمانہ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت شروع ہوئی اور اس کی مدت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں سے ۲۳ سال کی مدت تھی.جس میں ابتدا الی آخر سارے قرآن شریف کا نزول ہوا.ایک طرف ظلمت کے ایام ختم ہوئے اور دوسری طرف قابلِ قدر زمانہ شروع ہوا.اس لئے یہ متضاد صفات لیل اور قدر یہاں آ کر ا کٹھے ہو گئے.شب قدر یا لیلۃ القدر دال کی حرکت کے ساتھ صحیح نہیں ہے.قرآن شریف میں بھی شہر اور فجر کی طرح قدر کی دال متحرک ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ راگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۶) حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو اس وقت ان کی بعثت کی بڑی ضرورت تھی.لوگ نہ اسماء الہی کو جانتے تھے نہ صفات الہی کو.نہ افعال سے آگاہ تھے، نہ جزا وسزا کے مسئلہ کو مانتے تھے.انسان کی بد بختی اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ اپنے مالک، اپنے خالق کے نہ اسماء کو جانے نہ صفات کو.غرض لوگ اس کی رضا مندی سے آگاہ تھے نہ اس کے غضب سے.ایسا ہی انسانی حقوق سے بے خبر.سب سے بڑا مسئلہ جو انسان کو نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے.وہ جزا و سزا کا مسئلہ ہے.اگر شریف الطبع انسان کو معلوم ہو کہ اس کام کے کرنے سے میری ہتک ہوگی یا مجھے نقصان پہنچے گا تو وہ کبھی اس کے قریب نہیں پھٹکتا.بلکہ ہر فعل میں نگرانی کرتا ہے.مختلف طبائع کے لوگ اپنے مالک کے اسماء ، صفات کے علم اور جزا وسزا کے مسئلہ پر یقین کرنے سے نیکیوں کی طرف توجہ کرتے اور بدا فعالیوں سے رکتے ہیں.لے چنانچہ ملک عرب میں شراب کثرت سے پی جاتی اور الْخَمْرُ جَمَاعُ الْإِثْمِ صحیح بات ہے.پھر فرمایا النِّسَاء حَبائِلُ الشَّيْطَانِ." سوم.ملک میں کوئی قانون نہیں تھا.ایسا اندھیر پڑا ہوا تھا.جن سعادتمندوں نے نبی کریم کے ارشاد پر عمل کیا.وہ پہلے بے خانماں تھے.پھر بادشاہ ہو گئے.لے شراب گناہوں کا مجموعہ ہے.۲؎ عورتیں شیطان کی رسیاں ہیں.
حقائق الفرقان ۲۹۴ سُوْرَةُ الْقَدْرِ خشن پوش تھے حریر پوش بن گئے.نہ مفتوح تھے نہ فاتح.مگر اس اطاعت کی بدولت دنیا میں فاتح قوموں کے امام خلفاء راشدین اور اعلیٰ مرتبت سلاطین کہلائے.یہ سب اس کتاب کی برکت تھی جسے اللہ نے ایسی اندھیری رات میں جسے لَيْلَةُ الْقَدْرِ سے تعبیر کیا گیا ہے.اپنے بندے پر نازل کیا.جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ایسے ہی حالات میں ہم میں ایک مجدد کو بھیجا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں شرک کا زور تھا.سو اس کی تردید میں آپ نے پوری کوشش فرمائی.قرآن مجید کا کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں.اس زمانہ میں لوگوں میں یہ مرض عام تھا کہ دنیا پرستی غالب ہے.دین کی پرواہ نہیں.اس لئے آپ نے بیعت میں یہ عہد لینا شروع کیا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.کیونکہ دنیا پرستی کا یہ حال ہے کہ جیسے چوہڑے کا چھرا حلال و حرام جانور دونوں پر یکساں چلتا ہے.اسی طرح لوگوں کی فکر اور عقل حرام حلال کمائی کے حصول پر ہر وقت لگی رہتی ہے.فریب سے ملے.دعا سے ملے.چوری سے ملے.سینہ زوری سے ملے کسی طرح روپیہ ملے سہی.ملازم ایک دوسرے سے تنخواہ کا سوال نہیں کرتے.بلکہ پوچھتے ہیں بالائی آمدنی کیا ہے.گو یا اصل تنخواہ آمد میں داخل نہیں.مسلمانوں پر ایک تو وہ وقت تھا کہ اپنی ولادت ، موت تک کی تاریخیں یاد اور لکھنے کا رواج تھا یا اب یہ حال ہے کہ لین دین شراکت تجارت ہے مگر تحریر کوئی نہیں.اگر کوئی تحریر ہے.تو ایسی بے ہنگم جس کا کوئی سر پیر نہیں.نہ اختلاف کا فیصلہ ہو سکتا ہے.نہ اصل بات سمجھ آ سکتی ہے.ہمارے بھائیوں (احمدیوں ) کو چاہیے کہ وہ امام کے ہاتھ پر بیعت کر چکے ہیں.دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.پس وہ دنیا میں ایسے منہمک نہ ہوں کہ خدا بھول جاوے.پھر فرمایا کہ جھوٹے قصے اپنے وعظوں میں ہرگز روایت نہ کرو.نہ سنو مخلوق الہی کو قرآن مجید سناؤ.ہدایت کے لئے کافی ہے.سلیمان کی انگشتری اور بھٹیاری کا بھٹ جھونکنے کا قصہ بالکل لغو اور جھوٹ ہے.اگر ایک پتھر میں جو جمادات سے ہے اتنا کمال ہے تو کیا ایک برگزیدہ انسان میں جو اشرف المخلوقات ہے.یہ کمال نہیں ہو سکتا.انبیاء کی ذات میں کمال ہوتے ہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
حقائق الفرقان ۲۹۵ سُوْرَةُ الْقَدْرِ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه (الانعام: ۱۲۵) پس تم خوب یا درکھو کہ انبیاء دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوتے.جیسے کہ سلیمان کی نسبت شیاطین نے دنیا میں مشہور کیا.اگر دنیا میں کوئی کسی کی شکل بن سکتا ہے تو امان ہی اٹھ جائے.مثلاً ایک نبی وعظ کرنے لگے.اب کسی کو کیا معلوم کہ یہ نبی ہے.یا نعوذ باللہ کوئی برا آدمی ہے.خدا نے ایسی و باتوں کا رد فرما دیا ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا (البقره: ۱۰۳) تم ایسی باتوں سے توبہ کر لو.اگر کوئی ایسا وعظ سنائے تو صاف کہہ دو کہ انبیاء کی ذات جامع کمالات ایسے افتراؤں سے پاک ہے.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۳۹ مورخہ ۲۷ / جولائی ۱۹۱۱ء صفحہ ۲) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ - ترجمہ.شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے.لیلۃ القدر کے اگر صرف اسی قدر معنے ہوتے کہ رمضان شریف کے آخری دھا کہ میں طاق راتوں میں سے ایک رات لیلتہ القدر ہے وبس.اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نہیں.تو اس صورت میں بارہ مہینے ہی بجائے ہزار مہینے کے کافی تھے.کیونکہ دوسرے رمضان شریف میں تو لیلتہ القدر پھر دوبارہ بالیقین موجود ہے.پھر اس سے آگے اور آئندہ رمضان شریف فَهَلُمَّ جَدًّا.ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ کسی سال تو رمضان شریف میں لیلتہ القدر ہوتی ہے اور کسی سال نہیں ہوتی.نہیں بلکہ بالیقین رمضان شریف میں ہر سال کسی نہ کسی طاق رات میں لیلتہ القدر ضرور ہوتی ہے.خواہ ستائیسویں کو ہو یا اکیسویں کو مگر پہلی آیت میں اس سورہ شریف کے جیسا کہ بیان ہوا ہے.انزَلْنَهُ کا مرجع منزّل علیه القرآن بھی ہے اور ایک اور مقام میں بھی اللہ تعالیٰ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن شریف دونوں کو ایک ساتھ نازل شدہ فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا قَد أَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُم ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آیت الله - " (الطلاق : ۱۱، ۱۲) اس جگہ ذکرا کا بدل رَسُولاً واقع ہوا ل اللہ خوب جانتا ہے کہ کہاں اپنی رسالت رکھنی چاہیے.اور سلیمان تو حق چھپانے والی باتوں سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا لیکن شریر ہلاک کرنے والوں ہی نے کفر کیا.بے شک اللہ نے تم کو نصیحت کرنے والا رسول نازل فرما دیا ہے.جو پڑھتا ہے تم پر اللہ کی کھلی کھلی آیتیں.
حقائق الفرقان ۲۹۶ سُوْرَةُ الْقَدْرِ ہے.یعنی ذکر بھی نازل ہوا اور رسول بھی نازل ہوا.قرآن شریف رَسُولُ يَتْلُوا نہیں ہے.رَسُوْلًا ہے.غرض کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور اور آپ کی بعثت کے انوار پوری آب و تاب کے ساتھ قرونِ ثلاثہ مَشْهُودُ لَّهَا بِالْخَيْرِ تک تھے.ہزار مہینے گزرنے تک دنیا نے ظلمانی حالت پھر اختیار کر لی اور پھر وعدہ البى لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنَ الْفِ شَهْرٍ کا پورا ہوا فَهَلُمَّ جَدًّا.اسی طرح سے ہر ہزار مہینے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے اس قرآنی وعدہ کے بموجب رسول مقبول علیہ الصلوۃ والسلام کے دین کی تجدید کے لئے ہر صدی پر جوقریب ہزار مہینے کے بعد آتی ہے مجدد دین کو نازل فرما تارہا.ان اللہ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا.حدیث نبوی اور آیت قرآنی دونوں متفق ہو گئے.قرآن شریف میں پیغمبروں کی نسبت جبکہ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمُ مَنْ لَمْ نَقْصُصُ عَلَيْكَ - (المومن:۷۹) آیا ہے تو مجدددین کی تفتیش کہ کون کون تھے.یہ عبث ہے.لوگ جن جن کو مجد دقرار دیں گے ہم ان کو مان لیں گے.مگر دیکھنا تو یہ ضروری ہے کہ ہماری اس صدی چہار دہم میں یہ وعدہ قرآن شریف کا اور حدیث شریف کا وقوع میں آیا بھی یا نہیں.اگر اور صدیوں میں وقوع میں آتا رہا اور اس صدی میں وقوع میں نہیں آیا تو ہمارے جیسا بد بخت اور کوئی نہیں کہ ظلمت میں چھوڑ دیا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخہ ۲۲ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۷٬۳۳۶) ۵ - تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ - ترجمعہ.اس میں فرشتے اور کلام الہی اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں ہر ایک ضروری کام میں.تفسیر مِن كُلِّ آمد کے معنے لِكُلِ آمر ہیں.ہر کام کی سلامتی سے یہ مراد ہے کہ پیغمبرصلی اللہ ج علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی سے زمانہ نے اپنی دینی و دنیوی دونوں قسم کی ترقیات کا رنگ پکڑ لیا.سائنس کی نت نئی تحقیقات اور ان کی ایجادیں دنیوی اعتبار سے مِن كُلِّ امْرِ سلم کی طرف مصداق ہو رہی ہیں.تو دینِ اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی دوسرے پہلو پر مِنْ كُلِّ اَمْرٍ سَلم کو ے یقینا اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر صدی کے سر پر ایک مجدد مبعوث فرمائے گا جو اس کے لئے اس کے دین کی تجدید کرے گا.۲.اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے تجھ کو بیان کئے اور سنا دیئے اور بعض ایسے ہیں جن کے حالات تجھ کو نہیں سنائے.
حقائق الفرقان ۲۹۷ سُوْرَةُ الْقَدْرِ دکھلا رہی ہے.ہرکارے و ہر مردے.رمضان شریف کی لیلتہ القدر میں جو نزول ملائکہ ہوتا ہے.وہ بھی بجائے خود مسلم و متیقن ہے اور صدی کے راس پر جو نزول ملائکہ ہوتا ہے وہ بھی اپنی تاثیرات وشواہد کی رُو سے مشہود ومرئی ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۲۲ اگست ۱۹۱۲، صفحه ۳۳۷) -- سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ - ترجمہ.وہ سلامتی کی رات ہے جب تک فجر طلوع ہو.تفسیر زبان خلق نقارہ خدا.یہ جملہ ایک حد تک بہت صحیح ہے.عام طور پر ہمارے اس موجودہ زمانہ کو روشنی کا زمانہ، روشنی کا زمانہ کہا جارہا ہے.مگر غور سے اسے دیکھا جاوے تو یہ روشنی کا زمانہ بانی علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے ہی شروع ہو گیا ہے اور اب توضیحی کا وقت ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ دَابَّةُ الْأَرْضِ ضُحى ( يَخْرُجُ الدابةُ عَلَى النَّاسِ ضُحًا) کے وقت نکلے گا.غور کرنے سے معلوم ہوا کہ نبی کے وقت کیا نکلے گا.روشنی کے زمانہ میں نکلے گا.اب اگر کہو کہ دابه الأرض نہیں نکلا تو کہنا پڑیگا کہ روشنی کا زمانہ اس زمانہ کو کہنا بھی غلط ہے.مگر نہیں زمانہ ضرور روشنی کا ہے.اور دابةُ الْأَرْضِ نے بھی زمینی علوم اور سائنس کی ایجادوں میں بڑی ترقی کی ہے اور مِن كُلِّ امْرِ سلام کے وعدہ کے بموجب دنیوی ترقیات کے ایک حصہ کو پورا کیا ہے باقی رہا دوسرا حصہ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ سَلَامٌ اور هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ کا جو دینی ترقیات کا دوسرا پہلو ہے.وہ اس شخص کی ذات بابرکات سے وابستہ ہے.جس نے دنیا میں آ کر بڑے زور سے چلا کر کہا کہ مؤیدے کہ مسیحا دم ست و مهدی وقت بشان اُو دِگرے کے زاتقیا باشد چو غنچہ بود جہانے خموش و سر بستہ من آمدم بقدومی که از صبا باشد لے ( تریاق القلوب صفحه ۳) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۲۲ اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۷) وہ تائید یافتہ شخص جو مسیحادم اور مہدی وقت ہے اس کی شان کو اتقیا میں سے کوئی نہیں پہنچ سکتا.یہ جہان ایک غنچہ کی طرح بند تھا میں اس کے لئے برکتوں کو لے کر آیا ہوں جو بادصبالا یا کرتی ہے.
حقائق الفرقان ۲۹۸ سُورَةُ الْبَيِّنَةِ سُوْرَةُ الْبَيِّنَةِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - اُس با برکت اللہ کے اسم شریف کی مدد سے پڑھتا ہوں جو رحمن ورحیم ہے.۲ ۳ ۴ - لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنقَلِينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ - رَسُولُ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً - فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ - ترجمہ.نہ تھے وہ لوگ جو منکر ہوئے اہل کتاب و مشرکوں میں سے باز آنے والے جب تک ان کے پاس روشن دلیل نہ آجاتی (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ).یعنی اللہ کی طرف سے رسول جو صحیفے پڑھتا ہو.جس میں پائدار کتابوں کی صداقتیں ہیں.و درسور تفسیر.لم يكن...منتقدین کے معنے یہ ہیں کہ اہلِ کتاب کے تمامی فرقے اور مشرکین کے لَمْ تمامی فرقے شرک اور بت پرستی کے اغلال سے کبھی جدا ہونے والے نہ تھے.اگر بینہ نہ آتی.آگے بینہ کے معنی خود ہی بیان فرما دئے.آیت شریفہ میں پستہ دیا گیا ہے اس بات کا کہ رسول کے آنے کا زمانہ کب ہوتا ہے.پہلے پارہ کے چودہویں رکوع میں بھی رسول کے آنے کے زمانہ کی خبر دی ہے.جہاں فرمایا ہے.وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرُى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ لے يَتْلُونَ الكتب - (البقره: ۱۱۴) اور مزہ یہ ہے کہ دونوں ہی فرقے آسمانی کتاب سے استدلال لے رہے ہیں.دونوں فرقوں کے پاس آسمانی کتاب ہو اور پھر وہ باہم استدلال میں ایک دوسرے کی مخالفت میں تل جائیں.تو لے اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی حقیقت و ہدایت پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی سچائی و ہدایت پر نہیں حالانکہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں.
حقائق الفرقان ۲۹۹ سُورَةُ الْبَيِّنَةِ بالطبع ضروری اور لازمی ہوگا کہ کوئی تیسرا حکم اور عدل آوے اور خدائی فیصلہ ان کو خدا کی طرف سے سناوے.یہی حال ہمارے وقت میں اندرونِ اسلام قرآن کریم ہی سے تمسک کرنے والے مسلمانوں کا ہو گیا تھا.اہلِ حدیث غیر اہلِ حدیث کے اور ائمہ سلف کے متبعین با ہم ایک دوسرے کے باوجود ایک ہی آسمانی کتاب کے متمسک ہونے کے سخت مخالف ہو گئے تھے.وقت بتلارہا تھا کہ اب کوئی آسمانی حکم اور عدل آوے.سو خداوند تعالیٰ کے فضل وکرم سے بمقتضائے وقت حکم و عدل آیا.چاہیے تو تھا کہ فیصلہ ہو جا تا مگر نظیر موجود ہے کہ لے وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَةُ - (البينة: ۵) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۷) اہل کتاب اور مشرکوں کا کا فر گروہ اپنی شرارت و کفر سے کبھی نہ ٹلتے.اگر اللہ کا ایسا رسول جو ایک کھلی دلیل ہے نہ آتا.اور یہ پاک صحیفہ جس میں تمام مضبوط کتا بیں موجود ہیں.نہ پڑھ سناتا.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۵۴ حاشیہ) گزشتہ ایام میں چونکہ رستے صاف نہ تھے.تعلقات باہمی مضبوط نہ تھے.اس لئے ایک ایک قوم میں نبی اور رسول آتے رہے.جب مشرق اور مغرب اکٹھا ہونے لگا.خدا کے علم میں وہ وقت خلط ملط کا آ گیا.تو اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا.انبیاء علیہم السلام اور جس قدر رسول آئے.فرداً فرداً قوموں کی اصلاح کے لئے آئے.ان کا جامع اور راستبازوں کی تمام پاک تعلیموں کا مجموعہ قرآن کریم ہے.جو جامع اور مھیمن کتاب ہے.فِيهَا كُتُب قيمة فرمایا.الحکم جلد ۳ نمبر ۷ مورخه ۳/ مارچ ۱۸۹۹ ء صفحه ۴) فِيهَا كُتُب قيمة.کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتا بیں سب کی سب قرآن مجید میں الحکم جلد ۳ نمبر ۱۷ مورخه ۱۲ مئی ۱۸۹۹ ء صفحه ۱) موجود ہیں.کل دنیا کی مضبوط کتابیں اور ساری صداقتیں اور سچائیاں اس میں موجود ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۱۶) لے اور اہل کتاب نے تفرقہ نہیں کیا مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس آ چکی کھلی دلیل.
حقائق الفرقان سُورَةُ البَيِّنَةِ قرآن کریم تمام انبیاء کی پاک باتوں اور کتابوں کے مجموعہ کا خلاصہ ہے فِيهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے.( بدر جلد ۱۲ نمبر ۳۳٬۳۲٬۳۱ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۴) ساری مضبوط تعلیمات اور ہدایات جامع کتاب حضرت قرآن ہے جس نے تمام اگلی صداقتوں کو بھی بہتر سے بہتر اور عمدہ سے عمدہ رنگ میں فرمایا ہے.الفضل جلد نمبرے مورخہ ۳۰ جولائی ۱۹۱۳ ء صفحہ ۱۵) قرآن کریم نے دعوی کیا ہے فِيهَا كُتُب قيمة.جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے.باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.الفضل جلد ا نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۱۳، صفحه ۱۵) ۵- وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتُهُمُ الْبَيِّنَةُ - ترجمہ.اور اہل کتاب نے تفرقہ نہیں کی مگر اس کے بعد کہ ان کے پاس آ چکی کلی دلیل.تفسیر حکم و عدل کی بات کو بھی لوگ بغيا بَینھم.(البقرہ:۲۱۴) کی وجہ سے نہیں مان لیا کرتے.آیت شریفہ میں دو انگلی نظیر میں موجود ہیں.اہلِ کتاب نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیشتر بھی بینہ آنے پر تفرقہ کیا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وقت کے تفرقہ کو تو نظیر ہی اگلے تفرقہ کی بتلایا ہے.اذا تقلى فَتَعَلَّت.جو دو نظیریں موجود ہیں تو تیسری نظیر کیوں نہ قائم ہو؟ یہ اختلاف نبی کی صداقت کی دلیل ہے.نبی مسلمات کو ماننے کے لئے نہیں آیا کرتے.بلکہ کچھ اپنی منوانے کے لئے آتے ہیں.قرآن شریف میں ۱۱۴ کتُب قيِّمَةٌ ہیں..ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ / اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۸٬۳۳۷) و ما أمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُ اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ - ترجمہ.اور ان کو تو یہی حکم دیا گیا کہ اللہ ہی کی عبادت کریں خالص اسی کی عبادت کرتے ہوئے لے آپس کی ضد سے.
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَيِّنَةِ سب سے الگ ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہو کر اور ٹھیک نماز کو درست رکھیں اور زکوۃ دیتے رہیں یہی تو قائم دین ہے.( یعنی عملی حالت کا ).تفسیر: مُخْلِصِينَ لَهُ الذِينَ احْتَفَاء - حنیف کے معنے خود ہی اس جگہ مخلص موجود ہیں.دوسری جگہ -.حَنِيفًا وَمَا آنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ.(الانعام: ۴۰) فرمایا ہے.یہاں بھی عدم شرک جو اخلاص کے مترادف ہے.حنیف کی صفت بیان ہوئی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۸) خدا کی عبادت ایسے طور سے کی جاوے کہ کوئی چیز خدا کے سوا دل میں ، زبان میں ، حرکات میں، سکنات میں معبود نہ رہے.قرآن مجید فرماتا ہے.وَاعْبُدُ اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَمَا أَمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُ اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّين حنفاء یہودی اور عیسائی اس اسلامی اصل کا بظاہر اقرار کرتے ہیں اور حسب کتب مقدسہ خود اسلام کے مخالف نہیں.کیونکہ ان کے یہاں بھی شرع کا بڑا اور پہلا حکم یہی ہے کہ " خداوند کو جو تیرا خدا ہے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان ، اپنی ساری سمجھ سے پیار کر ( متی ۲۲ باب ۳۷- استثناء ۶ باب ۵) فائدہ.خلوص کا لفظ اور لا تشرك کا لفظ اس سارے، سارے ساری کہنے سے اعلیٰ درجے پر ہے.انصاف کرو.عیسائیوں کے صرف لسانی اور کتابی اقرار کی کیا قدر کی جاوے.جب وہ اس کے ساتھ مسیح بن مریم جیسے خاکسار بندے کے سر پر الوہیت کا تاج دھرا یقین کرتے ہیں.اگر وہ کہیں مسیح کوئی علیحدہ اللہ نہیں، بلکہ اسی اللہ خالق زمین و آسمان ، جامع صفات کا ملہ، تمام نقائص سے منزہ نے جب جسم کو قبول فرمایا تو مسیح ابن اللہ کہلایا.ذاتا وہ ایک ہی ہے.تو یہ بڑی سخت نافہمی اور غلطی ہوگی.کیوں؟ عیسائی خدا کو بے حد اور بے انت مانتے ہیں اور اسے ہر جگہ موجود یقین کرتے ہیں.جب لے سب سے الگ ہوکر، ایک ہی کا بن کر.میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں.کے اور بندگی کرواللہ کی اور مت ملا ؤ ساتھ اس کے کسی کو.۳ اور نہیں حکم کیے گئے مگر یہ کہ عبادت کریں اللہ کی حاصل اس کے واسطے بندگی ایک طرف ہوکر ( یا ابراہیم کی راہ پر ).
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَيِّنَةِ اللہ تعالیٰ بے حد ہر جگہ ہے تو وہ صرف محمد و درحم مریم میں کیونکر سمایا.جب وہ محیط گل ہے تو جسمانی حدود نے اس کا کیسے احاطہ کیا.اگر ابن مریم باعتبار مظہر الوہیت ہونے کے ابن اللہ اور الہ مجسم ہے تو پھر کیوں تمام مخلوق مظہر نہیں ہوسکتی؟ اور کیوں ابن اللہ اور الہ مجسم مانی نہیں جاتی.مسیح کھاتا پیتا لڑکپن سے تیس بتیس برس کی عمر تک پہنچا.جو کھانے پینے کا محتاج ہوا.وہ تمام مخلوق کا محتاج ہوا.پانی ، ہوا، چاند، سورج مٹی ، نباتات، جمادات سب کی ضرورت اسے لاحق ہوئی.جب محتاج بنا تو خدا صفات کا ملہ کا متصف نہ رہا.پھر عیسائی کہتے ہیں.یہود کے ہاتھ سے پٹا اور ان کے ٹھٹھوں میں اڑایا گیا.آخر ایلی ایلی پکارتے جان دی.یہ عذاب اور پھر جامع صفات کا ملہ اور الوہیت کا مستحق.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۲۶٬۲۵) اور نہیں حکم کئے گئے وہ لوگ مگر اس بات کا کہ عبادت و پرستش کریں اللہ کی صرف اس لئے خالص کر نیوالے ہوں اپنے دین کو.( نور الدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۸۰ ) - اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَ الْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خلِدِينَ فِيهَا أُولَبِكَ هُمُ شَرُّ الْبَرِيَّةِ - اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أوليكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ - ترجمہ.بے شک جنہوں نے حق چھپایا اہل کتاب میں سے اور مشرکین میں سے وہ جہنم کی آگ میں ہوں گے اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے.یہی لوگ بدترین مخلوق ہیں.بے شک جن لوگوں نے پیچھے دل سے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے تو وہی لوگ بہترین مخلوق ہیں.تفسیر.بَريَّة اور بَرَايَا دونوں کے ایک معنی ہیں یعنی مخلوق بَراً ، خَلَقَ.باری خالق کے خداوند تعالیٰ کا صفاتی نام ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ / اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۸)
حقائق الفرقان ۳۰۳ سُورَةُ البَيِّنَةِ ٩- جَزَاؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنَّتُ عَدْنٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّه - ترجمہ.ان کا بدلہ ان کے رب کے پاس سدار ہنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ اُس میں رہیں گے.اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی.یہ اُس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خوف رکھتا ہے.تفسیر.جو وعدے صحابہ کو دیئے گئے تھے.وہ صرف آخرت ہی کے نہیں تھے بلکہ دنیا اور آخرت دونوں ہی کے تھے.دنیا کے انہار صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لئے بیجوں.سیجوں ، دجلہ اور فرات تھے ابداً کی شہادت اس وقت تک کے قبضہ سے موجود ہے.آیت ۸ میں آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت فرمایا ہے جس سے معلوم ہوا کہ اعمالِ صالحہ کی کمزوری جس قدر ہو گی.اسی قدران انہار و جنات وغیرہ کے قبضہ میں بھی کمزوری واقع ہوگی.اہلِ شیعہ پر بھی یہ آیت شریف حجت ہے.صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال اگر اعمالِ صالحہ نہ ہوتے تو یہ انہار و جنات ان کو کس طرح ملتے.رضی اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - آگے فرمایا کہ ذلِكَ لِمَنْ خَشِيَ ربه.معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم غاصب نہیں تھے.خشیۃ اللہ ان میں سب سے بڑھ کر تھی.اس سورۃ کی ابتدا میں تو بتایا کہ مکہ اور مدینہ کے مشرکین اور اہلِ کتاب میں جو انقلاب مقدر تھا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر موقوف تھا.چنانچہ یہ بات کسی مزید توضیح کی محتاج نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد عرب کی کایا ہی پلٹ گئی اور آپ سے پہلے ساری قو میں تمام فرقے اور اہل مذاہب اپنے مرکز توحید سے دور جا پڑے تھے اور ہر قسم کی بداعتقادیوں، بداخلاقیوں اور بداعمالیوں میں مبتلا تھے.اس لئے قرآن کریم نے فرمایا.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ - (الروم : ۴۲) علاوہ بت پرست مشرکوں کے، اہل کتاب بھی مختلف قسم کے شرکوں اور عملی نجاستوں میں گرفتار تھے.اور اس طرح پر روحانی نکتہ خیال سے دنیا مر چکی تھی اور یہ بگڑی ہوئی قو میں اصلاح پذیر نہیں ہو لے ظاہر ہو گیا فساد خشکی اور تری میں.
حقائق الفرقان ۳۰۴ سُورَةُ الْبَيِّنَةِ سکتی تھیں جب تک البينة نہ آوے.چنانچہ وہ موعود البينة (نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) آئے اور آپ نے دنیا کو اس گند اور ناپاکی سے پاک کیا.جس میں وہ مبتلا تھی.البيئة کے معنی خود قرآن مجید نے کر دیئے ہیں.رَسُولُ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةٌ یعنی وہ اللہ کا موعو د رسول جوان پر پاک صحیفے پڑھتا ہے.کتب مقدسہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیشگوئی کی گئی تھی.اس میں یہی لکھا تھا کہ میں اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا کی تھی.اس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ ایسا رسول مبعوث فرما.جو تیری آیتیں ان پر تلاوت کرے یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر میں بار بار آیا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِم ايته ( جمعه : ۳) غرض وہ کامل اور خاتم رسول آ گیا اور وہ پاک صحیفے ان پر تلاوت کرنے لگا.مگر با وجود اس کے کہ زمانہ کی حالت طبعی اور قوموں کی عملی اور اعتقادی سخت تقاضا کر رہی تھی کہ ایک زبر دست رسول آئے اور خود اہلِ کتاب بھی تو رات اور صحائف انبیاء اور عہد جدید کی پیشگوئیوں کے موافق منتظر تھے کہ مثیل موسی اور مبشر عیسی ( فارقلیط ) آنے والا ہے.مگر جب وہ آ گیا تو بغض وحسد سے انکار کر دیا.حالانکہ یہ کوئی نئی بات نہ تھی.ضرورت نبوت کے وہ قائل اور مثیل موسی اور مبشر عیسی کے وہ منتظر اور پھر آنیوالے نے کوئی نئی تعلیم نیا مذ ہب پیش نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ کے پاک صحیفے ان پر تلاوت کرتا ہے.اور تمام دنیا کی صداقتیں اس کی کتاب میں موجود ہیں.فِيهَا كُتُبْ قَيَّمَةٌ یعنی قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ تمام دنیا کی الہامی کتب کی جمیع محکم اور مستقل صداقتیں اس میں موجود ہیں.یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن مجید تمام کتب سابقہ پر شامل اور جامع اور مہیمن کتاب ہے اور ہر قسم کی تحریف و تبدیل، ترمیم و تنسیخ سے پاک اور خاتم الانبیاء کی طرح خاتم الکتاب ہے.بہر حال اس نبی نے کوئی نئی تعلیم پیش نہیں کی اور کہا کہ مَا كُنتُ بِدُعا من الرُّسُلِ (الاحقاف : ۱۰) اور وہی تعلیم دی جو سب نبی دیتے آئے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو.اخلاص کے ساتھ اپنی عملی اور اعتقادی حالت کی اصلاح کرو.شرک چھوڑ دو.نمازیں پڑھو اور زکوۃ دو.کیونکہ یہی دین قیم ہے اس طرح پر ان پر اتمام حجت کیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۸) لے تو کہہ دے میں نیا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں.
حقائق الفرقان ۳۰۵ سُوْرَةُ الزِلْزَالِ و، سُوْرَةُ الزِلْزَالِ مَكيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم پڑھنا شروع کرتے ہیں سورہ زلزال کو اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲ تا ۴- إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا وَ اَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا - ترجمہ.جب زمین ہلا دی جائے گی اُس کے زلزلے سے.اور زمین اپنے بوجھ نکال ڈالے گی.اور انسان کہے گا کہ اس کو کیا ہوا.تفسیر.زمینی تزلزل اور اور اخراج اثقال کے معنے دوطرح پر ہیں.ایک تو قیامت کو زمین کا سخت بھونچال ہونا اور تمامی مدفونوں کا باہر نکلنا اور دوسرے معنے یہ کہ الارض سے مراد اہلِ ارض ہیں.جیسا کہ فَلْيَدعُ نَادِيَہ.(العلق : ۱۸ ) میں نادی سے اہلِ نادی مراد ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ /اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۸) زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا سے مراد ہے کہ خوب زور شور کی جنبشیں اہلِ ارض میں پیدا ہوں گی.در اصل اس سورہ شریفہ کے الفاظ سورہ القدر کے بیان کے مفسر ہیں.سورۃ القدر میں فرمایا تھا کہ تَنَزَّلُ الْمَلَيكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ - (القدر : ۵ ) یعنی قابل قدر زمانہ میں فرشتوں کا نزول کثرت سے ہوگا.اور الروح جو فرشتوں کے سردار ہیں ان کا بھی نزول ہوگا.اس جگہ آیت نمبر ۳ میں وَ اخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالها فرما کر یہ ظاہر فرمایا کہ فرشتوں ہی کی تحریکات سے اہلِ ارض زمین سے ہر قسم کے انتقال باہر نکال دیں گے.ا چاہئے کہ وہ بلا لیں اپنے ہم نشینوں کو.سے اس میں فرشتے اور کلام الہی اپنے رب کے حکم سے اترتے ہیں.
حقائق الفرقان سُورَةُ الزِلْزَالِ یہ انتقال معدنیات کے قسم سے بھی ہیں اور علوم وفنون کے قسم سے بھی ہیں.جس قدر معد نیات اس وقت میں نکلے اور نکل رہے ہیں.اس کی نظیر اگلے زمانہ میں پائی نہیں جاتی.اور جس قدر علوم وفنون اہلِ ارض کے ہاتھوں سے ملائکتہ اللہ کی تحریکات سے اب ظاہر ہورہے ہیں.اس کی بھی نظیر سابقہ زمانہ میں پائی نہیں جاتی.چوتھی آیت میں جو وَ قَالَ الْإِنْسَانُ مَا لھا ہے.اس سے زیادہ تر رحجان اسی بات کا معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعات قبل از قیام ساعت دنیا ہی میں ہو نیوالے ہیں.کیونکہ انسان کا استعجاب سے ما کها کہنا.دنیوی روز افزوں ترقیات و عجائبات کے ظہور کی وجہ سے ہوگا.آخرت میں بعث بعد الموت کے وقت تو تمامی امور سب پر حق الیقین کے طور پر کھل جاویں گے.اس وقت انسان تعجب کا کلمہ نہیں کہے گا بلکہ يكيتنِي قَدَّمُتُ لِحَيَاتِي - الفجر :۲۵) کہے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۳۹) ۶،۵ - يَوْمَبِذٍ تُحَدِثُ أَخْبَارَهَا بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحَى لَهَا - ترجمہ.اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی.اس لئے کہ تیرے رب نے اس کو وحی کی.تفسیر.اہل ارض جس قدر اپنے اخبار اس وقت شائع کر رہے ہیں.وہ ظاہر ہے.جس قدر بار یک در بار یک علوم وفنون اہل ارض اس وقت ظاہر کر رہے ہیں.یہ ملائکتہ اللہ ہی کی تحریک کے نتائج ہیں یہ ایسی وحی ہے جیسے کہ شہد کی مکھی (محل) کی وحی.وحی کے معنے صرف لطیف، رموز و اشارات و کنایات کے ہیں.وحی کے تین مراتب سورة الشوری میں مَا كَانَ لِبَشَرٍ آن يُكَلَّمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَّا (الشوری: ۵۲) میں بیان ہوئے ہیں.یہاں صرف لغوی معنے وحی کے مراد ہیں.اور دوسری اور تیسری قسم وحی کی یہی مراد لی جاوے تو بھی صحیح ہوسکتی ہے.کیونکہ نزول ملائکہ کے ساتھ الروح کے بھی نزول کا ذکر ہے جو ملائکہ کے سردار ہیں.اور سردار سرداروں سے ملا کرتے ہیں.مشہور قول ہے کہ ” جیسی روح ویسے فرشتے“.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۹) اس آیت پر اعتراض کرتے ہوئے ایک آریہ نے اعتراض کیا کہ : لے اے کاش میں کچھ تو بھیجتا آگے اپنی اس زندگی کے لئے.
حقائق الفرقان ۳۰۷ سُورَةُ الزِلْزَالِ ز مین باتیں کرے گی سورج چاند کیوں نہ کریں گے ستارے کیوں خاموش ہیں“ الجواب :.اول تو سورج اور چاند کی خاموشی کا ذکر نہیں جو آپ کو اس پر تعجب ہوا.۲.دوم ستارے بھی تمہارے دیانند کے اعتقاد میں زمین ہی ہیں.پس ان کی خاموشی بھی ثابت نہیں.کیونکہ وہ بھی زمین ہیں یا زمین کی طرح ہیں.پس جیسے یہ زمین باتیں کرے گی.وہ بھی باتیں کریں گے.۳.سوم یہ تا تستھ اور پارہی ہے.اگر تم کو اس کی سمجھ نہیں تو پڑھو.ستیارتھ پر کاش صفحہ نمبر ۲۵۴.اہم برہم اسمی کے ارتھ میں لکھا ہے.اس موقع پر تا تستھے او پا دہی استعارہ ظرف ومظروف کا استعمال ہے.جیسے: (منچا گری شر نتا) مینی پکارتے ہیں.چونکہ منچ جڑ ہیں.ان میں پکارنے کی طاقت نہیں.اس لئے میچ کے جاگزیں آدمی پکارتے ہیں.پس اسی طرح اس موقع پر بھی سمجھنا چاہیے.چهارم - تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا کے ساتھ ہے بِانَّ رَبَّكَ أوحى لَهَا (الزلزال: ۶،۵) بیان کرے گی زمین اپنی خبر میں اس لئے کہ تیرے رب نے اسے وحی کے ذریعہ حکم کیا ہے.پس ہمہ سامرتھ ( القادر ) سرب شکتی مان (لغنی، القادر ) جو دوسرے کا محتاج نہیں.اگر وہ زمین کو فرمادے کہ تُو بیان کر تو کیا وجہ ہے کہ پھر بیان نہ کر سکے.تم بھی تو قومی خدا داد سے ہی بولتے ہو.زمین بھی قومی خداداد سے بول سکتی یا بیان کر سکتی ہے.۵.پنجم " تحدث میں یہ ضرور نہیں کہ ہماری تمہاری طرح پنجابی یا اردو بولے.ہر ایک کا بولنا اس کے مناسب حال ہوا کرتا ہے.پھر الفاظ کی ضرورت بھی نہیں.ایک لسان الحال اور ایک لسان الافعال بھی ہوتی ہے.اب تم خود سمجھ لو کہ زمین کی لسان کس نوع کی ہے.جس سے وہ بولے گی.اور ظرف ومظروف کے استعارہ پر کیوں تم خود سمجھ نہیں سکتے ؟ وحی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۵۰٬۱۴۹) كُلَّمَا الْقَيْتَهُ إِلى غَيْرِكَ فَهُوَ وَحَى - جو بات کسی کو پہنچائی جاوے وہ وحی ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ عام ہے.حتی کہ زمین کی نسبت بھی فرمایا ہے کہ اُسے وحی ہوتی ہے.چنانچہ فرمایا ہے.يَوْمَئِذٍ
حقائق الفرقان ۳۰۸ سُورَةُ الزِلْزَالِ تُحدِثُ أَخْبَارَهَا بِاَنَّ رَبَّكَ اَولی تھا.اس دن وہ اپنی خبر میں بیان کرے گی.اس لئے کہ تیرے نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰۸) رب نے اُسے وحی کی.ے.يَوْمَن يَصْدُرُ النَّاسُ اَشْتَاتَا لِيَرُوا أَعْمَالَهُمْ - ترجمہ.اس دن آدمی پلٹیں گے مختلف حالتوں پر.تا کہ اپنے کرتوتوں کو دیکھیں.نیر.صدور ضد ہے ورود کا.ماحصل آیت کا بلفظ دیگر یہ ہے کہ كُلُّ إِنَاءِ يَتَرَشّح بمافيه ہر برتن سے وہی چیز ٹپکے گی جو اس ظرف میں ہوگی.خداوند تعالیٰ کی طرف سے ملائکۃ اللہ کے ذریعہ سے وحی تو ہوئی مگر ہر چہ گیر د علتے علت شود لے کے قاعدہ کے بموجب دابتہ الارض یعنی زمینی کیڑے سفلی علوم کی ترقی کی طرف جھک پڑے اور خداوند تعالیٰ کے پاک روحوں کو پاک روح کے نزول سے ایسے حقائق معارف کھلے کہ جو دین اور دار آخرت کے لئے مفید ہیں.صدور جس کے معنے کو ٹنے کے ہیں.اس سے مراد ملا ئکتہ اللہ کے اثر سے متاثر ہو کر مخفی استعدادوں کو مکمن قوت سے حیر فعل میں لانے کے ہیں.یہی لوگوں کا صدور اور ان کا لوٹنا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ موخه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۹) ۹۸- فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَ مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًا يَرَة - ترجمہ.تو جس نے ذرہ برابر بھی بھلائی کی ہوگی تو وہ اس کو دیکھ لے گا.اور جس نے ذرہ برابر بھی بدی کی ہوگی تو وہ اُسے دیکھ لے گا.تفسیر.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں آیتوں کو جَامِعَةٌ فَاذْةٌ فرمایا ہے.ہر نیکی بدی کے تولنے کے لئے یہ کانٹے کی میزان ہے.مثقال ترازو کے بیٹے کے وزن کا نام ہے اور ذرہ بہت ہی کم مقدار چیز ہے.جزا و سزا بھی انسان کو ہر وقت ملتی رہتی ہے.اگر غور کرتا رہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ فلاں عمل کی یہ جز املی اور فلاں کی یہ.نامہ اعمال کے جزاوسزا کا حال بھی آنکھ کے بند ہونے پر اے جس کے باطن میں خرابی ہے وہ جو فعل بھی کرے علت سے خالی نہیں ہوتا.
حقائق الفرقان معلوم ہو جائے گا.۳۰۹ سُوْرَةُ الزِلْزَالِ بوقت صبح شود همچو روز معلومت که با که باخته ای عشق در شب دیجور له ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۳۹) موت کی کوئی خبر نہیں اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا.نہیں.خدا تعالیٰ کسی کے فعل کو ضائع نہیں کرتا.فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَة - (الزلزال : ٨) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں جب کا فر تھا تو اللہ کی راہ میں خیرات کیا کرتا تھا.کیا اس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہوگا.فرمایا.آسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ تیری وہی نیکی تو تیرے اس اسلام کا موجب ہوئی.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ، اور اس کو سچی فرماں برداری کے نمونے سے ثابت کرو.ٹھیک یاد رکھو کہ ہر نیک بیج کے پھل نیک ہوتے ہیں.بڑے بیج کا درخت بُرا پھل دے گا.ع گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشوه الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۵ء صفحه ۶) صبح کے وقت تجھ پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گا کہ اندھیری رات میں تو کس کے ساتھ عشق بازی کرتا رہا ہے.تو جس نے ذرہ برابر بھی بھلائی کی ہوگی تو وہ اس کو دیکھ لے گا.ے.گندم سے گندم اور جو سے جو ہی نکلتی ہے.اس لئے مکافات عمل سے غافل مت ہو.
حقائق الفرقان ۳۱۰ سُوْرَةُ الْعَدِيتِ سُوْرَةُ الْعَدِيتِ مَكِيّة بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ عادیات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ بزرگ کے اسم شریف سے جو رحمن اور رحیم ہے.اس سورہ شریفہ کا مضمون شریف الطبع گھوڑے کی وفاداری اور اس کے بالمقابل انسان کی بے وفائی اور اس پر مردہ دلوں سے پروردگار کی طرف سے مناقشہ ہے.ترتیب آیات میں وفاداری کی تدریجی ترقیات کو دکھایا ہے.۲- وَالْعَدِيتِ ضَبحًا - ترجمہ.قسم ہے ان کی جو دوڑتے دوڑ تے ہانپ اٹھتے ہیں.تفسیر عادِيَةٌ کی جمع عَادِيَاتُ ہے.عَادِيَةٌ ، عَدُو سے مشتق ہے.عدُو کے معنے دوڑنے کے ہیں.جمع میں وہی سے بدل گئی.صبح.گھوڑے کی اس آواز کو کہتے ہیں.جو دوڑنے کے وقت اس کے حلق و سینہ سے نکلتی ہے.یہ وفاداری کا پہلا قدم ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۳۹) فَالْمُورِيتِ قَد حا - ترجمہ.نیز ان گھوڑ سواروں کی جن کے مرکب چوٹ مارکر چنگاریاں نکالتے ہیں.تفسیر.ایوا کے معنے آگ نکالنے کے ہیں.بیچارہ بے زبان محبت کی آگ کس ذریعہ سے نکالے؟ پتھریلی زمین میں ٹھوکریں کھا کر نعل در آتش ہو کر آگ جھاڑتا ہے.اور اپنے سوار کو وفاداری دکھلاتا ہے یہ وفاداری کا دوسرا قدم ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰٬۳۳۹)
حقائق الفرقان ۳۱۱ سُوْرَةُ الْعَدِيتِ فَالْمُغِيرَاتِ صُبحا - ترجمہ.پھر صبح ہی صبح حملہ کرنے والوں کی.تفسیر.مالک کے دشمن پر رات بھر کی دوڑ کا تھکا ہوا صبح کے وقت جا پڑتا ہے.یہ وفاداری کا تیسرا قدم ہے.غارہ چھا پہ مارنے کو کہتے ہیں.۵- فَاثَرْنَ بِهِ نَفْعًا - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ترجمہ.پھر دوڑ دھوپ سے گر داٹھاتے ہیں.تفسیر.نفع کے معنی گردوغبار کے ہیں اور اثر ان کا اڑانا ہے.یہ وفاداری کا چوتھا قدم ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر یاد آ گیا.اگر چہ در در جاناں چو خاک گردیدم دیم تپد که فدایش غبار خود بکنم را (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۴۰) - فَوَسَطنَ بِهِ جَمْعًا - ترجمہ.پھر جماعت کے بیچ میں جا گھستے ہیں.تفسیر عادیات، موریات وغیرہ ہر فعل کو جمع کے صیغہ سے بیان فرما کر آخر میں بھی بھنغا فرمایا.اس تاکید میں یہ اشارہ ہے کہ جس جماعت کا شیرازہ کمزور ہے.وہ جماعت فاتح نہیں ہوسکتی.پانچواں قدم وفاداری کا یہ بیان ہوا ہے کہ میدانِ جنگ کے وسط میں تلواروں اور نیزوں کی زد کے نیچے یہ گھوڑے اپنے مالک کو پشت پر سوار لئے ہوئے بیٹھ جاتے ہیں.پھر آگے وفاداری و جاں بازی کے جو کچھ حرکات اس شریف الطبع بے زبان جانور سے صادر ہوتے ہیں.ان کو ان کے سوار ہی خوب جانتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ا بے شک میں اپنے محبوب کے دروازہ میں خاک کی مانند ہو گیا ہوں لیکن پھر بھی میرا دل کرتا ہے کہ میں اس پر اپنا یہ غبار بھی قربان کر دوں.
حقائق الفرقان ۳۱۲ سُوْرَةُ الْعَدِيتِ ے.اِنَّ الْإِنْسَانَ لِرَبِّهِ لَكُنُودُ - ترجمہ.بے شک انسان اپنے رب کا بڑا ہی ناشکرا ہے.تفسیر.یہ ساتویں آیت جواب قسم ہے.گئود گند سے ماخوذ ہے.اور گند کے معنے قطع کرنے کے ہیں.رسی کے کاٹ دینے کو گند الحبل کہتے ہیں.گھوڑا گھاس، توڑی ، بھوسہ کھاتا ہے اور وفاداری میں بڑا جانباز ہے.انسان ہزاروں قسم کی لذیز سے لذیذ نعمتیں اپنے رب کی دی ہوئی کھاتا ہے اور وفاداری کے وقت اس رشتہ ربوبیت کو کاٹ دیتا ہے.بے وفا ناز پروردہ انسان جو بھینسے کی طرح پھولا ہوا ہوتا ہے.اس کی مثال اس شعر میں خوب بیان کی گئی ہے.روز میداں نہ گاه پرداری اسپ لاغر میاں بکار آید گھوڑا میدان کے دن بڑا چست ہوتا ہے مگر بے وفا انسان کند ہوتا ہے.کنو د میں اسی بات کو بیان ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۴۰) فرمایا ہے.و.وَإِنَّهُ لِحُبّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ - ترجمہ.اور البتہ وہ مال کی محبت کا بڑا دلدادہ ہے.تفسیر.شدید کے معنے بخیل اور ممسک کے بھی ہیں.فَلَان شَدِيدُوَ تَشَدَّدَ بولا کرتے ہیں.خير بمعنی مال.جیسا کہ فرما یا اِن تَرَكَ خَيْرَانِ الْوَصِيَّةُ ( البقرہ: ۱۸۱) محب کے لغت کے معنے پر ہونے اور بھر جانے کے ہیں.معنے آیت یہ ہیں کہ دل کے ہر گوشہ میں مال کی محبت جاگزیں ہوگئی اور پر ہو گئی ہے کہ رب کی وفاداری کے لئے کوئی گوشہ خالی نہ رہا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ۱۰ تا ۱۲ - اَفَلَا يَعْلَمُ اِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ.وَحُقِلَ مَا فِي الصُّدُورِ.اِنَّ رَبَّهُمْ بِهِمْ يَوْمَبِذٍ لَخَبِيرُ - ترجمہ.پس کیا وہ نہیں جانتا کہ جو کچھ قبروں میں ہے انہیں اٹھایا جائے گا.اور جو کچھ سینوں لے کمزور گھوڑا لڑائی میں کام نہیں آتا ہے نہ پلا ہوا موٹا تازہ بیل ( کہ نمائش کے کام آئے ).
حقائق الفرقان ۳۱۳ سُوْرَةُ الْعَدِيتِ میں ہے وہ نکال لیا جائے گا.تو اس روز ان کا جو ایسا حال ہو گا اس سے تو ان کا رب ہی بے شک خبر دار ہے.تفسیر.بغیر کے معنے وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَت ( الانفطار : ۵) میں بیان ہو چکے ہیں.بغیر اور بخیر کے ایک ہی معنے ہیں.اور یہ دونوں بعث اور بحث سے مرکب ہیں.جن کے معنے کریدنے اور مناقشہ کرنے کے ہیں.حدیث شریف میں آیا ہے کہ مَنْ نُوقِشَ عُذاب.جس کے حساب میں ذرا بھی کرید کی گئی.وہ عذاب کیا جائے گا.ان آیتوں میں فرمایا ہے کہ مردہ دل بے وفا جو پنجر قالب میں مقید ہیں.ان کی وفاداری اور بے وفائی کی جب کرید ہو گی تو ان کا پرورش کنندہ ان سے ان کی باغیانہ حرکتوں کی خوب خبر لے گا.ل تاکید کے لئے ہے.یہ کرید حساب کی دنیا میں بھی ہوتی ہے.اور آخرت میں بھی.اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ - (الانبیاء : (۲) میں دونوں حساب مراد ہیں.بلکہ نبی کی معرفت دنیوی محاسبہ اقرب ہے.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.آنَا الْعَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمَى - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ا انسانوں کا حساب قریب ہو گیا ہے.۲ میں وہ حاشر ہوں جس کے قدموں پر لوگوں کو اکٹھا کیا جائے گا.
حقائق الفرقان ۳۱۴ سُوْرَةُ الْقَارِعَةِ سُوْرَةُ الْقَارِعَةِ مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اُس بابرکت اللہ کے اسم شریف سے پڑھتا ہوں جو رحمن اور رحیم ہے.۲، ۳- الْقَارِعَةُ - مَا الْقَارِعَةُ - ترجمہ.کھڑکھڑا ڈالنے والی.کیا ہے وہ کھڑ کھڑا ڈالنے والی.- الْقَارِعَةُ - قَارِعَة قَرَعَ سے مشتق ہے.قرع کے معنے کسی چیز کو سختی اور شدت سے بجانے اور مارنے کے ہیں.خوفناک حادثہ اور مصیبت کو بھی قارعتہ اس لئے کہتے ہیں.قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے.وَلَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَة - (الرعد:۳۲) معلوم ہوا کہ دنیا کا عذاب بھی قارعہ ہے اور آخرت کی مصیبت بھی قارعہ ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ۵- يَوْمَ يَكُونُ النَّاسُ كَالْفَرَاشِ الْمَبْثُوثِ - ترجمہ.ایک دن لوگ بکھرے ہوئے ہوں گے پروانوں کی طرح.تفسیر - فراش : ٹڈیاں بلکہ کل پردار چھوٹے چھوٹے جانور جو چراغ کے گرد جمع ہو جاتے ہیں.مَبْثُوث : منتشر.بکھرے ہوئے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) وَتَكُونُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوشِ - ترجمہ.اور ہو جائیں گے پہاڑ جیسے سرخ اون دھنکی ہوئی.لے اور کافروں کو تو ہمیشہ پہنچتی رہے گی ان کے کرتوتوں کے سبب مصیبت.
حقائق الفرقان ۳۱۵ سُوْرَةُ الْقَارِعَةِ عهن اون یا صوف مختلف رنگ کے نفش کے معنے دھنکنے کے ہیں.مَنْفُوش دھنکے ہوئے.جبال کا اطلاق بڑے بڑے بادشاہوں پر بھی کیا جاتا ہے.آیت میں دونوں قسم کے عذاب اور تباہیوں کا ذکر ہے.جو جنگوں میں ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی ہوں گے.جیسا کہ تُصِيبُهُمْ مَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ.(الرعد: ۳۲) سے واضح ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۰) ۹ تا ۱۲ - وَ أَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينة - فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ - وَ مَا أَدْرِيكَ مَاهِيَة - نَارُ حَامِيَة - ترجمہ.اور جس کا وزن ہلکا ہوا.تو اس کی ماں ہاو یہ ہے (جس کے گودیا پیٹ میں وہ رہے گا).اور تُو نے کیا سمجھا کہ کیا ہے وہ.وہ تو ایک دہکتی ہوئی آگ ہے.تفسیر فاقه هَاوِيَةٌ - باویہ کو اُم کہنے میں یہ مطلب ہے کہ جب تک تربیت یافتہ نہ ہو.ماں سے تعلق رہتا ہے.بعد تربیت پالینے کے ماں سے علیحدگی ہو جاتی ہے.اس لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد طول مکث کے دوزخی دوزخ سے نکال دیئے جائیں گے.هَاوِيَه - طبقے کے بھی نکال دیئے جائیں گے.جو سب سے نیچے کا طبقہ ہے.اسی لئے وہ طبقہ ہاویہ کہلاتا ہے.اُم اور ھوی دونوں ایک جا جمع ہونے سے یہ اشارہ پائی جاتی ہے.نَارُ حَامِيَة - نارِ دوزخ اور نار حرب دونوں مراد ہیں.حرب کو بھی نار ہی فرمایا ہے.كُلَّمَا او قَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَاهَا اللهُ - (المائده : ۶۵) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۴۱) تمام وہ لوگ جن کے اچھے اعمال نہیں.یا ان کے اچھے اعمال کم ہیں.وہ دوزخ میں جائیں گے دوزخ کی گود میں رہیں گے وہی ان کی ماں ہے.دیکھو قرآن.ل پہنچتی رہے گی ان کے کرتوتوں کے سبب مصیبت.۲.وہ سلگاتے ہیں لڑائی کی آگ تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے.
حقائق الفرقان ۳۱۶ سُوْرَةُ الْقَارِعَةِ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُمَّهُ هَاوِيَةٌ - وَمَا ادْرُكَ مَا هِيَهُ - نَارُ حَامِيَةٌ ل بھلا جن کی ماں دوزخ کی گرم آگ ہوئی.وہ لوؤں کی آگ سے نہ بنے ہوں تو پھر کس سے بنیں.سنو.سارے شریر شیطان یا شیطان کے فرزند ہیں ( یوحنا باب ۸ آیت ۴۴ متی ۱۳ باب ۳۹.متی ۱۶ باب (۲۳).جس طرح شریر شیطان کا فرزند ہے.اور عیسائی مسیح کے فرزند.اُسی طرح دوزخ کی آگ شریر کی ماں ہے.اور وہ لوؤں کی آگ سے بنا ہے.بھلا صاحب جب عام شریروں کی ماں ہاویہ دوزخ ٹھہری تو ان اشرار کا شرارتی آپ شیطان دشمن آدم لوؤں سے کیونکر نہ بنا ہو گا.ضرور وہ ہمارا دشمن نار السموم سے بنا.وہ تو پہلے ہی سموم نار سے بنا تھا.اور یہی سچی فلسفی ہے.جس کے خلاف پر کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں.“ 66 فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۷۱) لے اور جس کی تول ہلکی ہوئی تو اس کا ٹھکانہ گڑھا.اور تجھ کو نہ معلوم ہوا کہ وہ کیا ہے آگ ہے دھکتی ہوئی.
حقائق الفرقان ۳۱۷ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ مَكِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - اُس بابرکت اللہ کے اسم شریف سے پڑھتا ہوں جو رحمن اور رحیم ہے.۲ تا ۹ - اَلْهُكُمُ التَّكَاثُرُ - حَتَّى زُرتُمُ الْمَقَابِرَ - كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ.ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ - كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوْنَ الْجَحِيمَ - ثُمَّ لَتَرَوْنَهَا عَيْنَ الْيَقِينِ.ثُمَّ لَتُسُلُنَ يَوْمَبِذٍ عَنِ النَّعِيمِ.ترجمہ.تم کو بہتات کی ہوس نے تباہ کر رکھا ہے.یہاں تک کہ تم قبروں کی جگہ سے جاملو نہیں نہیں آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا.پھر تم جان جاؤ گے.نہیں نہیں معلوم کرو کہ اگر تم یقینی طور پر جانتے تو یہ کفر کی حالت نہ رہتی ).جس کے سبب سے تم ضرور جہنم کو دیکھو گے.ہاں پھر اس کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے.پھر تم سے اُس دن باز پرس ہوگی نعمتوں کی.تفسیر.اللہ جل شانہ نے انسان کو ایسا تو بنایا ہے کہ یہ کھانے کا بھی محتاج ہے.پینے کا بھی محتاج ہے.کپڑے کا محتاج ہے.مکان اور بیوی کا بھی بہت محتاج ہے.بچوں کی بھی ایک حاجت مخفی در مخفی رکھتا ہے.عزت کو بھی چاہتا ہے اور ذلت سے بھی بچنا چاہتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی خواہشیں لگارکھی ہیں.جس سے کوئی انکار نہیں ہوسکتا.ہاں اگر کوئی پاگل ہو تو اور بات ہے.پاگل اور عقلمند میں بھی ایک بڑا بھاری فرق ہے.پاگل کی باتیں سن سن کر عقلمند بول اٹھا کرتے ہیں کہ یہ تو بڑا احمق ہے.بہت بولتے رہنا اور زیادہ بکواس کرتے رہنا بھی احمق کا کام ہے.اور جو آٹھوں پہر چپ رہے.وہ بھی پاگل ہوتا ہے.بہت بولنا اور بہت چپ پاگل اور احمق کا نشان ہے.جو شخص ہمیشہ کھانے پینے میں مصروف رہے وہ بھی پاگل اور جو نہ کھائے وہ بھی پاگل.غرض جب بات حد سے بڑھ
حقائق الفرقان ۳۱۸ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ جائے تو وہ جنون ہوتا ہے.ضرورتیں تو بے شک انسان کو بہت لگی ہوئی ہیں.خواہ کتنے ہی امور کیوں نہ ہوں اور خواہ کیسی ہی حاجتیں کیوں نہ ہوں.ان تمام کاموں میں انسان تکاثر کو چاہتا ہے.اکثر اوقات انسان چاہتا ہے کہ عیش و عشرت کے ایسے ایسے سامان میسر آجاویں.ایسا مکان ہو.ایسا لباس ہو.اور یہ سب خواہشات انسان کے شامل حال ہیں.پھر ان میں غلطی کیا ہے؟ خدا تعالیٰ نے بھی ایک دعا سکھائی ہے یعنی ربنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةٌ (البقرہ:۲۰۲) اس دعا میں اللہ کریم سے اسی دنیا میں حسنہ مانگی گئی ہے.مگر یا درکھو غلطی صرف یہ ہے کہ ناجائز طریقوں سے یہ خواہشات پوری کرنے کی کوشش کی جاوے.اور ان دھندوں میں پھنس کر اپنے مولیٰ سے انسان غافل ہو جاوے.اللہ جل شانہ سے غفلت بہت بری بلا ہے.اکثر انسان آنکھیں بھی بند کیا کرتے ہیں.اپنے گھٹنوں میں سر بھی رکھا کرتے ہیں.نادان سمجھتا ہے کہ یہ جناب البی میں دھیان لگائے بیٹھے ہیں اور روحانی نظارہ دیکھ رہے ہیں.مگر وہ وہی دیکھتا ہے جو ظاہراً دیکھنے کا عادی ہے.پھر اسی غفلت عن اللہ میں مرجاتا ہے.كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ ثُمَّ كَلَّا سَوْفَ تَعْلَمُونَ اس غفلت کا بدنتیجہ تم سمجھ ہی لو گے.پھر ہم ہشیار کر کے تمہیں کہتے ہیں کہ تم ضرور سمجھ لو گے آج جو فعل انسان کرتا ہے.کل کے لئے یہ ایک سبب ہوتا ہے.اور کل جو فعل انسان کریگا.وہ پرسوں کے لئے ایک سبب ہوگا.انسان کی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ جب کبھی اسے کوئی علم حاصل ہو جاتا ہے.بشرطیکہ وہ علم صحیح ہواور علم والا عقلمند ہو تو پھر اس علم کے خلاف عمل نہیں کرتا.انسان کیا بلکہ حیوان بھی ایسا نہیں کرتا.دیکھو ایک اونٹ کتنا بڑا حیوان ہے.مگر ایک بچہ بھی نکیل ڈال کر کہیں کا کہیں لئے پھرتا ہے مگر ایک گڑھے میں داخل کرنے کے لئے اسے کھینچیں تو وہ نہیں جاتا.کیوں نہیں جاتا.صرف اس لئے کہ اسے صحیح علم گڑھے کا حاصل ہے اور یہ کہ اس میں ہلاکت ہے.
حقائق الفرقان ۳۱۹ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ میں نے اپنے بچوں کو دیکھا ہے کہ اگر گرم غذا انہیں دیں یا ان کا ہاتھ اٹھا کر اس گرم غذا پر رکھیں تو وہ پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور کھاتے نہیں کیونکہ انہیں صحیح علم حاصل ہو جاتا ہے.جولوگ قرآن مجید کو خدا کی سچی کتاب اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا رسول اور نبی یقین کرتے ہیں.ائمہ کوسچا سمجھتے ہیں.کسی واعظ کو سچا سمجھتے ہیں وہ سوچیں کہ کیا ان لوگوں کے ذریعہ سے انہیں صحیح علم حاصل نہیں ہوا کہ اِن اِن کاموں سے خدا راضی ہے.اور اِن اِن باتوں سے ناراض ہے؟ پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ باوجود سننے کے بھی تم علم کے خلاف کرتے ہو.خوب یا درکھو کہ صحیح علم کے خلاف کرنا بہت برا ہوتا ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبین رب العالمین ہمارار ہبر ہے اور ہمارے زمانہ کا امام اس کی اتباع کو نجات کا موجب سمجھتے ہیں.پھر یہ کیسا علم ہے جو ان سب باتوں سے ہمیں غافل کر دیتا ہے.دنیوی کاموں میں مختلف اغراضوں میں کچہریوں میں جھوٹی قسمیں، حرفہ، پیشہ ، تجارت، ملازمت میں ایسے اعمال کہ گویا اللہ پر ایمان نہیں.یہاں تک کہ نمازوں میں بھی ریا.یہ کیا سر ہے.سچ تو یوں ہے کہ یقین کم ہے.كَلَّا لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ لَتَرَوُنَ الْجَحِيمَ - (التكاثر ٢، ٧) ل تم لوگ اگر یقین رکھتے تو جزا سزا کا خیال رکھ کر برے کاموں سے نفرت اور اچھے کاموں سے محبت رکھتے.ثُمَّ لَتَرَوُنَّهَا عَيْنَ الْيَقِينِ - (التكاثر: ٨) اور یاد رکھو کہ یہ صرف علم ہی نہیں رہے گا بلکہ تمہیں یہ بھی دکھاویں گے کہ تمہارے اعمال کا کیا نتیجہ ہے.لے نہیں نہیں معلوم کرو کہ اگر تم یقینی طور پر جانتے ( تو یہ کفر کی حالت نہ رہتی ).جس کے سبب سے تم ضرور جہنم کو دیکھو گے.۲.ہاں پھر اس کو یقین کی آنکھوں سے دیکھو گے.
حقائق الفرقان ٣٢٠ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ ثُمَّ لَتُسْلُنَ يَوْمَبِذٍ عَنِ النَّعِيمِ ـ (التكاثر : ٩) اور پھر تم سے سوال کیا جائے گا کہ تمہیں ہاتھ ، پاؤں، آنکھ، کان ، زبان ، علم و دولت دیا گیا.بادی تمہاری طرف بھیجے گئے اور پھر ہم مسلمانوں کا تو رسول ہی افضل الرسل خاتم النبیین ہے جو ہماری رہبری کے لئے آیا.وہ تمام نبیوں کی فضیلتوں کا مجموعہ ہے.ہماری کتاب قرآن مجید سچی ، محفوظ اور جامع کتاب ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہمیشہ مجدد ہوتے رہے.اور پھر موجودہ زمانہ کا امام جس کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.ہمارے پاس موجود ہے.پھر اتنی غفلت! اس سے ضرور پوچھے جاؤ گے اور نتیجہ بھو گو گے.اس غفلت کو دور کرنے کے میں تین علاج تم لوگوں کو بتا تا ہوں.پہلا علاج تو ایسا ہے جو تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اور وہ ہے استغفار.یادرکھو.انسان کی بدیاں اور بدیوں کی طرف اس کو کھینچتی ہیں اور اس کی نیکیاں اور نیکیوں کی طرف اس کو کھینچتی ہیں.استغفار کا مطلب یہ ہے کہ اے میرے خدا میری غفلت ، غلط کاریاں اور ناراض کر نیوالی باتیں اور عدول حکمئیں جو مجھے یاد ہیں یا میری یاد سے بھول گئی ہوئی ہیں.ان کے بدنتائج سے مجھے بچا کے اور آئندہ غلطیوں سے محفوظ رکھ.دوسر ا علاج یہ ہے کہ لاحول بہت پڑھے.اپنی عاجزی کا اقرار کرے اور اپنے آپ کو محض کمزور اور ناکارہ سمجھے.اس طرح سے بہت فائدہ ہوگا.اور بڑی مدد ملے گی.تیسر ا علاج یہ ہے کہ دعائیں بہت مانگے.اپنے محسنوں کے لئے بھی دعا کرے.انہیں دعاؤں میں سے ایک دعا اور بڑی اعلیٰ دعا درود شریف بھی ہے.جو اپنے پیارے محسن اور نہایت ہی عظیم الشان محسن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جاتی ہے.وہ ہمارا بڑا بھاری محسن ہے.ایسے محسن پر اللہ جلشانہ اپنے خاص خاص فضل اور عام رحمتیں کرے تا کہ اس کے بدلہ میں ہم پر بھی خاص رحمتیں اور عام فضل ہو.چاہیے کہ درود شریف بہت پڑھا جاوے اور اپنے محسن کے لئے بہت دعا مانگی
حقائق الفرقان ۳۲۱ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ جاوے تا کہ ہم پر بھی رحم ہو.اللہ کریم ہم سب کو تو فیق دے.آمین.احکم جلد ۱۱ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۱۱.۱۲) الهكم التكاثر - الھا کے معنےکسی چیز سے غافل کر کے دوسری چیز میں مشغول کرنے کے ہیں.جیسے فرمایا.رِجَالُ لا تُنْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعَ عَنْ ذِكرِ اللهِ - (النور:۳۸) تكاثر ایک دوسرے پر زیادت مال کی حرص کرنا.اسی واسطے کہا گیا ہے کہ مَنْ شَغَلَكَ عَنِ اللَّهِ فَهُوَ صَنَمُكَ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۱) حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقابر - صحیحین میں روایت ہے کہ ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے.اور دو چیزیں اس کی جوان رہ جاتی ہیں.ایک ان میں سے حرص مال ہے.ابوھریرہ سے یہ مروی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ التکاثر پڑھی اور پھر فرمایا.بندہ کہتا ہے کہ یہ میر امال ہے.یہ میرا مال ہے.حالانکہ اس کا مال تو صرف اتنا ہی ہے.جو کھا لیا وہ تو فنا کر دیا.اور جو پہن لیا اس کو پرانا کر دیا.اور جو خدا کی راہ میں دیدیا اس کو آگے کے لئے جمع کیا.ان تین قسموں کے سوا جو کچھ اور مال ہے وہ تو لوگوں کا ہے.مقابر کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ ارقام فرمایا ہے.ملخصاً آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے.”برزخ لغت عرب میں اس چیز کو کہتے ہیں.جو دو چیزوں کے درمیان واقع ہوسو چونکہ یہ زمانہ عالم بعث اور عالم نشاء اولے کے کے درمیان واقع ہے اس لئے اس کا نام برزخ ہے.برزت.عربی لفظ ہے جو مرکب ہے بر اور تح سے جس کے معنے یہ ہیں کہ طریق کسب عمل ختم ہو گیا اور ایک مخفی حالت میں پڑ گیا.برزخ کی حالت وہ حالت ہے کہ جب یہ نا پائیدار ترکیب انسانی تفرق پذیر ہو جاتی ہے اور روح الگ اور جسم الگ ہو جاتا ہے اور جیسا کہ دیکھا گیا ہے.جسم کسی گڑھے لے وہ ایسے لوگ ہیں جن کو غافل نہیں کرتی ان کی سوداگری اور نہ خرید وفروخت اللہ کی یاد سے.۲، جو چیز تجھے اللہ کے علاوہ کسی اور طرف مشغول کر دے تو وہ تمہارابت ہے.س موجودہ طرز تحریر میں ” اولی“ لکھا جاتا ہے.
حقائق الفرقان ۳۲۲ سُورَةُ التَّكَاثُرِ میں ڈال دیا جاتا ہے اور روح بھی ایک قسم کے گڑھے میں پڑ جاتی ہے.جس پر لفظ فتح کا دلالت کرتا ہے.کیونکہ وہ افعال کسب خیر یا شر پر قادر نہیں ہو سکتی کہ جو جسم کے تعلقات سے اس سے صادر ہو سکتے تھے.ہماری روح بغیر تعلق جسم کے بالکل لکھی ہے یہ بات بالکل باطل ہے کہ ہم خیال کریں کہ کسی وقت میں ہماری مجرد روح جس کے ساتھ جسم نہیں ہے کسی خوشحالی کو پاسکتی ہے اگر ہم قصہ کے طور پر اس کو قبول کریں تو قبول کریں.لیکن معقولی طور پر اس کے ساتھ کوئی دلیل نہیں ہم بالکل سمجھ نہیں سکتے کہ وہ ہماری روح جو جسم کے ادنی ادنی خلل کے وقت بے کار ہو کر بیٹھ جاتی ہے وہ اس روز کیوں کر کامل حالت پر رہے گی جبکہ بالکل جسم کے تعلقات سے محروم کی جائے گی کیا ہر روز ہمیں تجر بہ نہیں سمجھا تا کہ روح کی صحت کے لئے جسم کی صحت ضروری ہے جب ایک شخص ہم میں سے پیر فرتوت ہو جاتا ہے تو ساتھ ہی اس کی روح بھی بوڑھی ہو جاتی ہے.اس کا تمام علمی سرمایہ بڑھاپے کا چور چرا لے جاتا ہے جیسا کہ اللہ جلشانہ فرماتا ہے.لِكَيْلَا يَعْلَمُ بَعْدَ عِلْمٍ شَيْئاً یعنی انسان بوڑھا ہو کر ایسی حالت تک پہنچ جاتا ہے کہ پڑھ پڑھا کر پھر جاہل بن جاتا ہے پس ہمارا یہ مشاہدہ اس بات پر کافی دلیل ہے کہ روح بغیر جسم کے کچھ چیز نہیں اور یہ خیال بھی انسان کو حقیقی سچائی کی طرف توجہ دلاتا ہے کہ اگر روح بغیر جسم کے کچھ چیز ہوتی تو خدا کا یہ کام لغو ٹھہرتا کہ اس کو خواہ نخواہ جسم فانی سے پیوند دے دیتا اور یہ بھی سوچنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ نے انسان کو غیر متناہی ترقیات کے لئے پیدا کیا ہے.پس جس حالت میں انسان اس مختصر زندگی کی ترقیات کو بغیر رفاقت جسم کے مجرد دروح سے حال نہیں کر سکتا تو کیوں کر امید رکھیں کہ ان نامتنا ہی ترقیات کو جو نا پیدا کنار ہیں.بغیر رفاقت جسم کے خود بخود حاصل کر لے گا سو ان تمام دلائل سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ روح کے افعال کا ملہ صادر ہونے کے لئے اسلامی اصول کی رو سے جسم کی رفاقت روح کے ساتھ دائمی ہے گوموت کے بعد یہ فانی جسم روح سے الگ ہو جاتا ہے مگر عالم برزخ میں مستعار طور پر ہر ایک
حقائق الفرقان ۳۲۳ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ روح کو کسی قدر اپنے اعمال کا مزہ چکھنے کے لئے جسم ملتا ہے وہ جسم اس جسم کی قسم میں سے نہیں ہوتا بلکہ ایک نور سے یا ایک تاریکی سے جیسا کہ اعمال کی صورت ہو جسم تیار ہوتا ہے گویا کہ اس عالم میں انسان کی عملی حالتیں جسم کا کام دیتی ہیں ایسا ہی خدا کے کلام میں بار بار ذکر آیا ہے کہ بعض جسم نورانی اور بعض جسم ظلمانی قرار دیئے ہیں جو اعمال کی روشنی یا اعمال کی ہی ظلمت سے طیار ہوتے ہیں.اگر چہ یہ راز ایک نہایت دقیق راز ہے مگر غیر معقول نہیں.انسان کامل ایسی زندگی میں ایک نورانی وجود اس کثیف جسم کے علاوہ پاسکتا ہے اور عالم مکاشفات میں اس کی بہت مثالیں ہیں اگر چہ ایسے آدمی کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے جو صرف ایک موٹی عقل کی حد تک ٹھہرا ہوا ہے.لیکن جن کو علم مکاشفات میں سے کچھ حصہ ہے وہ اس قسم کے جسم کو جو اعمال سے طیار ہوتا ہے تعجب اور استبعاد کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے بلکہ اس مضمون سے لذت اٹھائیں گے.غرض یہ جسم جو اعمال کی کیفیت سے ملتا ہے یہی عالم برزخ میں نیک و بد کی جزا کا موجب ہوتا ہے.میں اس میں صاحب تجربہ ہوں جو مجھے کشفی طور پر عین بیداری میں بارہا بعض مردوں کی ملاقات کا اتفاق ہوا ہے اور میں نے بعض فاسقوں اور گمراہی اختیار کرنے والوں کا جسم ایسا سیاہ دیکھا کہ گویاوہ دہوئیں سے بنایا گیا ہے.غرض میں اس کو چہ سے ذاتی واقفیت رکھتا ہوں.میں زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایسا ضرور مرنے کے بعد ہی ہر ایک کو ایک جسم ملنا ہے خواہ نورانی ہو.خواہ ظلمانی.انسان کی یہ غلطی ہوگی کہ اگر وہ ان نہایت بار یک معارف کو صرف عقل کے ذریعہ سے ثابت کرنا چاہے ایک اور بات یہ بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ خدا نے ان لوگوں کو جو بدکاری اور گمراہی میں پڑ گئے اپنے کلام میں مردہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور نیکو کاروں کوزندہ قرار دیا ہے اس میں بھید یہ ہے کہ جو لوگ خدا سے غافل مرے.ان کی زندگی کے اسباب جو کھانا پینا اور شہوتوں کی پیروی تھی.منقطع ہو گئے اور روحانی غذا میں ان کو کچھ حصہ نہ تھا.پس وہ در حقیقت مر گئے.وہ صرف عذاب اٹھانے کے لئے زندہ ہوں گے مگر جو لوگ خدا کے محب ہیں وہ موت سے نہیں مرتے.کیونکہ ان کا پانی اور ان کی روٹی ان کے ساتھ ہوتی ہے.خدا کی کتاب میں نیک و بد کی جزا کے لئے دو مقام
حقائق الفرقان ۳۲۴ سُوْرَةُ التَّكَاثُرِ پائے جاتے ہیں ایک عالم برزخ جس میں مخفی طور پر ہر ایک شخص جزا پائے گا.برے لوگ مرنے کے ساتھ ہی جہنم میں داخل ہوں گے.نیک لوگ مرنے کے بعد ہی جنت میں آرام پائیں گے جیسا کہ فرمایا ہے.قبل ادخل الجنہ ۱/ ۲۳ حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ الْقَبُرُ رَوْضَةٌ مِنْ رَيَاضِ الْجَنَّةِ أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النيران قبر یا تو ایک باغ ہے.جنت کے باغوں میں سے یا ایک گڑھا ہے.دوزخ کے گڑ ہوں سے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۲ اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۲٬۳۴۱) لَوْ تَعْلَمُونَ عِلْمَ الْيَقِينِ - لَتَرَوْنَ الْجَحِيمَ - ثُمَّ لَتَرَوْنَهَا عَيْنَ الْيَقِينِ.ان ہر سہ آیات میں یقین کے تین مراتب کا ذکر فرمایا ہے.ایک علم الیقین.دوسرا عین الیقین.تیسرا حق الیقین.دنیا میں بعض اوقات جزا سزا کے ملنے پر آخرت کی جزا سزا کا یقین علمی پیرایہ میں ہو جاتا ہے.قبر اور برزخ کی جزا سزا.عین الیقین کے طور پر ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ قبر میں جنت یا دوزخ کی طرف سے کھڑ کئیں کھول دی جاتی ہیں.یوم المحشر کی جزا سز ا حق الیقین ہیں جو عین یقین ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۲)
حقائق الفرقان ۳۲۵ سُوْرَةُ الْعَصْرِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْعَصْرِ ہم سورہ عصر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲ تا ۴- وَ الْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ - ترجمہ.قسم ہے زمانہ کی.بے شک انسان بڑے گھاٹے میں ہے.ہاں جنہوں نے سچے دل سے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے اور ایک دوسرے کو حق بات کی نصیحت کرتے رہے.اور پیچھے لگے رہے صبر کرانے کے ( یعنی نیکیوں پر جمے رہے اور بدیوں سے بچتے رہے.لوگوں سے بھی اس پر عمل کراتے رہے ).تفسیر.گھاٹے سے وہی بچتا ہے جو چار خصلتیں رکھے.(۱) ایمان (۲) عمل صالح (۳) حق سکھلائے (۴) صبر کرے اور سکھلائے.( تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۸) دو صحابی آپس میں ملتے تھے توکم از کم انا شغل کر لیتے تھے کہ اس سورۃ کو باہم سناویں.سو اس نیت سے کہ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - (التوبه:١٠٠) کے ماتحت رضامندی کا حصہ مجھے بھی مل جاوے.میں بھی تمہیں یہ سورت سنا تا ہوں.عصر کہتے ہیں زمانہ کو جو ہر آن گھٹتا جاتا ہے.دیکھو میں کھڑا ہوں.جو فقرہ بولا.اب اس کے لئے پھر وہ وقت کہاں ہے؟ قسم ہمیشہ شاہد کے رنگ میں ہوتی ہے.گویا بدیہیات سے نظریات کے لئے ایک گواہ ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی عمر گھٹ رہی ہے.جیسے کہ زمانہ کوچ کر رہا ہے.عصر کی شہادت میں ایک یہ نکتہ معرفت بھی ہے.زمانہ کو گالیاں نہیں دینی چاہئیں.جیسا کہ بعض قوموں کا قاعدہ ہے فارسی لٹریچر میں خصوصیت سے یہ برائی پائی جاتی ہے.اسی لئے حدیث شریف میں آیا ہے.لَا تَسُبُّوا الشهر خدا جس کو گواہی میں پیش کرے.وہ ضرور عادل ہے.زمانہ برا نہیں.لے اور ان کی اچھی پیروی کرنے والے لوگ.اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے.
حقائق الفرقان ۳۲۶ سُوْرَةُ الْعَصْرِ ہمارے افعال برے ہیں جن کا خمیازہ زمانہ میں ہم کو اٹھانا پڑتا ہے.عصر سے مراد نماز عصر بھی ہے.اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جیسے شریعتِ اسلام میں نماز عصر کے بعد کوئی فرض ادا کرنے کا وقت نہیں.اسی طرح ہر زمانہ عصر کے بعد کا وقت ہے.جو پھر نہیں ملے گا.اس کی قدر کرو.عصر کے معنے نچوڑنے کے بھی ہیں.گویا تمام خلاصہ اس صورت میں بطور نچوڑ کے رکھ دیا ہے.غرض عصر کو گواہ کر کے انسان کو سمجھایا گیا ہے کہ وہ ایک برف کا تاجر ہے.جو بات لڑکپن میں ہے وہ جوانی میں نہیں.جو جوانی میں ہے وہ بڑھاپے میں نہیں.پس وقت کو غنیمت سمجھو.ائمہ نے بحث کی ہے کہ جو نماز عمد اترک کی جاوے.اس کی تلافی کی کیا صورت ہے.؟ سو سچی بات یہی ہے کہ اس کی کوئی صورت سوائے استغفار کے نہیں.اسی واسطے اللہ تعالیٰ اس خسر کی تلافی کے لئے فرماتا ہے کہ ایک تو ایمان ہو جس کا اصل الاصول ہے.لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.اسی واسطے میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں کہ وہ اسلام کا خاصہ ہے.ایمان کیا ہے.اللہ کو ذات میں بے ہمتا ، صفات میں یکتا ، افعال میں کیس کی یہ یقین کیا جاوے.چونکہ اس کے ارادوں کے پہلے مظہر ملائکہ ہیں اس لئے ان کی تحریک کو تسلیم کیا جاوے.برہمو جو قوم ہے.یہ بڑی بری زبان کے لوگ ہیں.اسلام کے سخت دشمن ہیں.میں حیران ہوتا ہوں.جب لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑے اچھے ہوتے ہیں.یہ تو تمام انبیاء کو مفتری قرار دیتے ہیں.اس سے بڑھ کر اور کوئی گالی کیا ہوسکتی ہے کہ خدا کے راستبازوں کومفتری سمجھا جاوے.چنا نچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ومن أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا.(الانعام: ۲۲) ایک برہمو سے میں نے انبیاء کے دعوئی وحی حق کے بارے میں پوچھا.تو اس نے کہا.دروغ مصلحت آمیز جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ اس قوم کو انبیاء کی نسبت کیسا گندہ خیال ہے.یہ لوگ اللہ کی صفات میں سے ایک صفت يُرْسِلُ رَسُولًا اور اس کے متکلم ہونے کے قائل نہیں اور ملائکہ ماننا شرک ٹھہراتے ہیں.حالانکہ خدا نے انہیں عِبَادُ كُرَمُونَ - (الانبیاء: ۲۷) فرمایا ہے.اور جن پر وہ نازل ہوتے ہیں.ان کی نسبت فرما یا مَنْ يُطِعِ لے اور اس سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھے.۲.رب بندے ہیں.
حقائق الفرقان ۳۲۷ سُوْرَةُ الْعَصْرِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله.(النساء : ۸۱) پھر جزا و سزا کا ایمان ہے.وہ بہت سی نیکیوں کا سر چشمہ ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ آپ تو ابد الآباد غیر منقطع عذاب کے قائل نہیں.اس کا مطلب یہ تھا کہ آخر ہم بھی تمہارے ساتھ آ ملیں گے.بازار میں جارہے تھے.میں نے کہا کہ روپے لو اور دو جوت کھا لو.نہ مجھے کوئی جانتا ہے نہ تمہیں.اس نے قبول نہ کیا کہ میری ہتک ہوتی ہے.میں نے کہا پھر جہاں نے کہا پھر چہار اولین آخرین جمع ہوں گے.وہاں یہ بے عزتی کیسے گوارا کر سکو گے.پھرایمان بالقدر تمام انسانی بلند پروازیوں کی جڑ ہے.کیونکہ جب یہ یقین ہو کہ ہر کام کوئی نتیجہ رکھتا ہے.تو انسان سوچ سمجھ کر عاقبت اندیشی سے کام کرتا ہے.دیکھو اِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ بھی ایمان کا ایک شعبہ ہے.اور اس سے انگریز قوم نے خصوصیت سے فائدہ اٹھایا ہے پشاور سے کلکتہ تک رستہ صاف کیا تو کیا کچھ پایا.مسلمان اگر مسئلہ قدر پر ایمان مستحکم رکھتے تو ہمیشہ خوشحال رہتے.پھر جیسا ایمان ہو اسی کے مطابق اس کے اعمالِ صالحہ ہوں گے.نماز، زکوۃ، روزہ ، حج، اخلاق فاضلہ ، بدیوں سے بچنا.یہ سب ایمان کے نتائج ہیں.پھر اسی پر مومن سبکدوش نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ جو حق پایا ہے.اسے دوسروں کو بھی پہنچائے.اور اس حق پہنچانے میں جو تکلیف پہنچے اس پر صبر کرے اور صبر کی تعلیم دے.صوفیاء میں ایک ملامتی فرقہ ہے.وہ بظاہر ایسے کام کرتا ہے.جس سے لوگ ملامت کریں.رنڈیوں کے گھروں میں کسی دوست کے سامنے چلے جائیں گے.وہاں جا کر پڑھیں گے قرآن شریف اور نماز.مگر رات وہیں بسر کریں گے.حضرت صاحب نے مجھے فرمایا.کہ آمر بالمعروف اور نا ہی عن المنکر خود ملامتی فرقہ ہوتا ہے.جب مومن کسی کو بری رسوم و عادات کی ظلمت سے روکے گا تو تاریکی کے فرزندوں سے ملامت سنے گا.میرا حال دیکھ لو کہ ملامتی فرقے والے مجھ سے زیادہ بدنام ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.پس مومن کو کسی فرقے میں داخل ہونے کی ضرورت نہیں.بلکہ وہ حق کا مبلغ اور اس پر مستقل مزاجی اور استقامت سے قائم رہے.پھر وہ ہر قسم کے دنیا و آخرت کے خسران سے محفوظ رہے گا.( بدر جلد ۹ نمبر ۱۵ مورخه ۳ فروری ۱۹۱۰ء صفحہ ۱.۲) ا جس نے رسول کا حکم مانا اور اس کی اطاعت کی بے شک اُس نے اللہ کی اطاعت کی.
حقائق الفرقان ۳۲۸ سُورَةُ الْعَصْرِ میں دیکھتا ہوں کچھ امراء ہیں ، کچھ علماء ، کچھ سجادہ نشین اور کچھ وہ لوگ ہیں جو قوم کے لئے آئندہ کا لجوں میں تعلیم پانے کی تیاریاں کر رہے ہیں.یہ لوگ اگر سست ہوں تو عوام مخلوقات کا کیا حال ہوسکتا ہے.اس واسطے میں نے یہ سورۃ عصر پڑھی تھی.میرا مقصد اس کے پڑھنے سے یہ بتانے کا ہے کہ زمانہ جس طرح کی تیزی سے گزر رہا ہے.اسی طرح ہماری عمریں بھی گزر رہی ہیں.یعنی عصر کا آنا فانا گزرنا ہماری عمروں پر اثر ڈال رہا ہے.اللہ نے اس کا یہ علاج بتایا ہے کہ تمہیں زمانہ کی پرواہ نہ ہو اگر ہمارا حکم مان لو.وہ حکم یہ ہے کہ مومن بنو اور عمل صالحہ کرو.دوسروں کو مومن بناؤ اور حق کی وصیت کرو اور پھر حق پہنچانے میں تکالیف سے نہ ڈرو.یہ وہ سورۃ ہے کہ صحابہ کرام جب باہم ملتے تو اس سورہ کو پڑھ لیا کرتے.تم اور ہم بھی آج ملے ہیں.اس لئے اسی سنت کریمہ کے مطابق میں نے بھی اس کو پڑھا ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں ( تم میرے دل کو چیر کر نہیں دیکھ سکتے نہ اس کا لکھا پڑھ سکتے ہو.البتہ میری زبان کے اقرار سے پوچھے جاؤ گے اور اس سے اگر نفع اٹھاؤ تو تمہارا بھلا ہوگا).میں جس ایمان پر قائم ہوں وہ وہی ہے جس کا ذکر میں نے لا إلهَ إِلَّا اللہ میں کیا ہے.میں اللہ کو اپنی ذات میں واحد صفات میں یکتا اور افعال میں تیس گپٹل اور حقیقی معبود سمجھتا ہوں.میں اللہ تعالیٰ کے ملائکہ پر ایمان لاتا ہوں جو اللہ نے پیدا کیے ہیں.اور تمام ان رسولوں اور کتابوں پر جو اللہ تعالیٰ نے بھیجیں ایمان رکھتا ہوں.میرا یقین ہے کہ تمام انبیاء تمام اولیاء اور تمام انسانی کمالات کے جامع لوگوں میں ایک ہی ہے جس کا نام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے.میرے واہمہ کے واہمہ میں بھی نہیں آتا کہ کوئی اور ہو.حضرت صاحب کا ایک شعر یاد آ گیا ہے.لے ے اے در انکار و شکر از شاہ دیں خادمان و چاکرانش را به بین ہم جب دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام کیسے پاک گروہ تھے اور مجد د کیسے.یہ تو قصے کہانی بات ہو جاتی.لے اے وہ شخص جو دین کے بادشاہ ( یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات بابرکات کے بارہ میں شک وانکار میں مبتلا ہے تو ذرا ان کے خادموں اور نوکروں کو تو ملاحظہ کر.
حقائق الفرقان ۳۲۹ سُوْرَةُ الْعَصْرِ لیکن تمہار اوجود اس گاؤں میں گواہی ہے کہ احمد کا غلام بننے سے کیا فضل آتا ہے میں تم کو اب اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ میرے پھر تقریر کرنے تک تمہیں کوئی بات سنائے یا تقریر کرے.تو یاد رکھو ہمارا معیار یہ ہوگا کہ ان مذکورہ بالا عقائد کے موافق کوئی بات ہو یا اس کی تفصیل ہو تو ہماری طرف سے ہے اور اگر اس کے خلاف کسی کے منہ سے نکلے تو وہ ہمارے عقائد کے مطابق نہیں.اسلام چونکہ حق کے اظہار کے لئے آیا ہے.جیسا کہ اس سورہ شریف سے ظاہر ہے.اس لئے جہاں دین کی بہت سی باتیں پہنچانی پڑتی ہیں.وہاں ہم تم کو دنیا کے متعلق بھی ایک مختصر سی بات سناتے ہیں اور وہ بھی در اصل دین ہی کی بات ہے وہ یہ ہے کہ دنیا کا کام امن پر موقوف ہے.اور اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہوسکتا.جس قدر امن ہو گا.اسی قدر اسلام ترقی کرے گا.اس لئے ہمارے نبی کریم امن کے ہمیشہ حامی رہے.آپ نے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے تحت جو حبشہ میں تھی.ہم کو یہ تعلیم دی کہ غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے.اس زندگی کے فرائض سے ”امن“ ہے.اگر امن نہ ہو تو کسی طرح کا کوئی کام دین ودنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے.اس واسطے میں تاکید کرتا ہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو.اور امن کے لئے طاقت کی ضرورت ہے.وہ گورنمنٹ کے پاس ہے.میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنوتا تمہاری ترقی ہو.اور تم چین سے زندگی بسر کرو.اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو.اللہ سے اس کا بدلہ مانگو.اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتا ہے.میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کے قائم کرنے میں کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ہم کو ضرور دے گا اور اگر ہم خلاف ورزی کریں گے تو اس کے بد نتیجے کا منتظر رہنا پڑے گا.دوسری بات جو سمجھاتا ہوں.وہ یہ ہے کہ باہم محبت بڑھاؤ.اور بغضوں کو دور کر دو.اور یہ محبت
حقائق الفرقان ۳۳۰ سُوْرَةُ الْعَصْرِ بڑھ نہیں سکتی جب تک کسی قدر تم صبر سے کام نہ لو.اور یاد رکھو.صبر والے کے ساتھ خدا خود آپ ہوتا ہے.اس واسطے صبر کنندہ کو کوئی ذلت و تکلیف نہیں پہنچ سکتی.تیسری بات جو میں کہنی ضروری سمجھتا ہوں.وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب نے ”فتح اسلام میں پانچ شاخوں کا ذکر کیا ہے.اور ان پانچ شاخوں میں چندہ دینے کی تاکید کی.مثلاً آپ کی تصانیف کی اشاعت اشتہارات کی اشاعت.آپ کے لنگر خانہ کو مضبوط کرنے کی تاکید اور مہمان خانہ کی ترقی کی طرف توجہ اور آمد و رفت پر بعض وقت جو خرچ پڑتے ہیں.ان کے لئے مکان بنانے پڑتے ہیں.ان میں انفاق کرنے کی تاکید آپ نے فرمائی ہے.میں اس تاکید پر تاکید کرتا ہوں کہ ہمارا مہمان خانہ کسی قدر آپ لوگوں کی سستی کا مظہر ہے.میں جس طرح دیکھتا ہوں کہ ایک مدرسہ چلتا ہے.لنگر اور دینی مدرسہ بہت کمزور رنگ میں ہے.ہمارے بھائیوں کو توجہ چاہیے کہ ان دونوں امور کی طرف بہت کوشش کریں اور انفاق سے کام لیں.میں یہ باتیں اس لئے بتاتا ہوں کہ تم کو دین اور دنیا دونوں کا وعظ کروں.یہ نہیں کہ مجھے دنیا کی غرض ہے.کیونکہ میری عمر کا بہت بڑا حصہ اللہ کے فضل سے گزرا ہے.یہ تھوڑے دن جو باقی ہیں.میں مخلوق سے سوال کرنے میں اپنی ہمت کو ضائع نہیں کرتا.( بدر جلد ۹ نمبر ۲۳ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۴٬۳) يه سورة ( وَالْعَضير ) میں نے بار ہا لوگوں کو سنائی ہے چھوٹی سے چھوٹی سورۃ جو ہر شخص کے لئے بابرکت ہو خدا تعالیٰ کی کتاب میں میرے خیال میں اس کے سوا اور نہیں آئی.قرآن کریم کے ہر ایک فقرہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل اور محض فضل سے سارے جہان کی تعلیم و تربیت اور پاک تعلیم و تربیت حاصل اور ضرور حاصل ہو سکتی ہے.مگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عادت تھی کہ جب آپس میں ملتے تھے تو اس سورۃ کو پڑھ لیتے تھے.ممکن ہے کہ میری آواز سب لوگوں کے کان میں نہ پہنچے کیونکہ میں بیمار ہوں.صبح سے اب تک خطوط پڑھتا تھا تھک گیا ہوں اور بوڑھا بھی ہوں جولوگ دور ہیں اور ان کے کانوں میں میری آواز نہیں پہنچ سکتی ان کے کانوں میں وہ لوگ جو سنتے ہیں پہنچا دیں.
حقائق الفرقان ۳۳۱ سُوْرَةُ الْعَصْرِ اور کوشش کریں کہ سب کے کانوں تک اس سورۃ کی آواز ضرور پہنچ جائے جو سنتے ہیں وہ اس شکریہ میں دوسروں تک پہنچائیں یہ بڑی مختصر سورۃ ہے.پہلی بات اس سورۃ شریفہ میں یہ ہے کہ والعضير عصر ایک زمانہ کو کہتے ہیں.ہر آن میں پہلا زمانہ فنا اور نیا پیدا ہوتا جاتا ہے.ہر وقت زمانہ کو فالگی ہوئی ہے.کل کا دن ۲۶.دسمبر ۱۹۱۲ ء اب کبھی نہیں آئے گا.۲۷.دسمبر ۱۹۱۲ء آج کے بعد کبھی دنیا میں نہ آئے گا.آج کی صبح اب کبھی نہ آئے گی.یہ زمانہ بڑا بابرکت ہے.یہ جو آریہ لوگ کہا کرتے ہیں کہ زمانہ مخلوق نہیں اور جو قدیم ہے وہ فنا نہیں ہوتا.وَالْعَصْرِ کا الفظ ان کے لئے خوب رد ہے.میں جس زمانہ میں بولا.وہ اب چلا بھی گیا.اور جس میں آگے بولوں گا.وہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا.زمانہ کو غیر مخلوق ماننے والوں کے لئے کیسا عمدہ رد ہے.زمانہ کو جہاں تک لیے جائیں.ایک حصہ مرتا جاتا ہے.ایک حصہ پیدا ہوتا جاتا ہے.اس مرنے اور پیدا ہونے کے سوا اور کچھ بھی نہیں.ایک فائدہ عصر میں یہ ہے کہ ہر ایک وقت جو انسان پر گزرتا ہے اس کو فنا لا زم ہے.اس طرح انسان کے اجزاء بھی ہر آن میں فنا ہوتے ہیں اور ہر آن نئے اجزاء پیدا ہوتے ہیں.اس طرح ایک نئی مخلوق بن کر انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوتا ہے.جب میں جوان تھا میرے سب بال سیاہ تھے.آج کوئی بال سیاہ نہیں.جب ہم نئی حالت میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں.تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں.مجھ میں بینائی کی قوت ہے.اگر بینائی رک جائے تو کیا کیا جائے؟ غرض کہ ہر آن اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں.لا الهَ إِلَّا الله کے معنے ہیں کہ ہر آن میں تم ہمارے محتاج ہو.اگر میر افضل و کرم نہ ہو تو تم کچھ بھی نہیں.ایک بات عصر میں یہ ہے کہ لوگ زمانہ کو برا کہتے ہیں.شاعروں نے تو یہ غضب کیا کہ دنیا کا ہر ایک دکھ اور مصیبت زمانہ کے سر تھوپ دیا.خدا تعالیٰ کا نام ہی درمیان سے نکال دیا.گردشِ روزگار کی اس قدر شکایت کی ہے کہ جس کی حد نہیں.گویا ان کا دارو مدار، ان کا نافع اور ضار سب کچھ زمانہ ہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.زمانہ کی شکایت نہ کرو.یہ بھی قابل قدر چیز ہے.عصر کے بعد پھر کوئی وقت نہیں ہوتا.جو ہم فرض نماز ادا کریں.میرا یقین ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کی غرض
حقائق الفرقان ۳۳۲ سُوْرَةُ الْعَصْرِ ہے کہ اب قرآن شریف جیسی کتاب اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا رسول جس کے جانشین ہمیشہ ہوتے رہیں گے اب دنیا میں نہ آئے گا.عصر سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جانشینوں کا زمانہ ہے.اب اور کے لئے زمانہ نہیں رہا.یہاں تک کہ دنیا کا زمانہ ختم ہو.إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ.جس طرح زمانہ گھاٹے میں ہے، اسی طرح انسان.ایک شخص مجھ سے کہنے لگا کہ زمانہ قدیم ہے.میں نے کہا جب تم ماں کے پیٹ اور باپ کے نطفہ میں تھے.وہ وقت اب ہے اور جب تم مرو گے.وہ زمانہ اب موجود ہے؟ کہا نہیں.میں نے کہا.ایک موجود ہے.وہ معدوم ہے.وہ موجود ہو گا.انسان کا جسم ایک برف کی تجارت ہے.اسی طرح زمانہ ہے.إِلَّا الَّذِينَ امَنُوا.گھاٹے میں تو سب ہیں.مگر ایک شخص مستثنیٰ ہے.وہ کون؟ ایماندار کہ اس کو گھا ٹ نہیں.ایمان کیا ہے؟ غیب الغیب ذات پر ایمان رکھنا، اس کو مقدس سمجھنا، اس کی نافرمانی سے ڈرنا اور یہ یقین کرنا کہ اگر ہم نافرمان ہوں تو اس پاک ذات کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.نماز پڑھنا اور سنوار کر پڑھنا، لغو سے بچنا، زکوۃ دینا، اپنی شرم گاہوں کو محفوظ کرنا، اپنی امانتوں اور عہود کا لحاظ کرنا، اللہ تعالیٰ کی ذات پاک، صفات، افعال، اسماء.اس کے محامد اور اس کی عبادات میں کسی کو شریک نہ کرنا.ملائک کی نیک تحریک کو ماننا، انبیاء کی باتوں اور کتابوں کو ماننا.قرآن کریم تمام انبیاء کی پاک باتوں اور کتابوں کے مجموعہ کا خلاصہ ہے.فِيهَا كُتُبْ قَيَّمَةٌ ( البينة : ۴) قرآن کریم سب کتابوں کا محافظ ہے.اس میں دلائل کو اور زیادہ کر دیا ہے.اس کتاب ( قرآن کریم ) کو اپنا دستورالعمل بنانا، اس کو پڑھنا، سمجھنا، اس پر عمل کرنا، خدائے تعالیٰ سے توفیق مانگنا کہ اس پر خاتمہ ہو، جزاوسزا پر یقین کرنا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم کمالات نبوت و رسالت اور خاتم کمالات انسانیہ یقین کرنا ، دنیا میں جس قدر ہادی ان کے بعد اور آئیں گے، سب انہیں کے فیض سے آئے.ہمارے مسیح آئے مگر غلام احمد ہو کر آئے.وہ فرماتے ہیں: بعد از خدا بعشق محمد محترم گر گفر این بود بخدا سخت کافرم لے اے خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں مخمور ہوں اگر یہ کفر ہے تو خدا کی قسم میں بہت بڑا کا فر ہوں.
حقائق الفرقان ۳۳۳ سُوْرَةُ الْعَصْرِ یہ حضرت صاحب کا سچادعویٰ ہے اور اسی پر عمل درآمد تھا.ایک نکتہ بھی دین اسلام سے علیحدہ ہونا ان کو پسند نہ تھا.تم خدائے تعالیٰ کی تعظیم کرو.اس کی مخلوق کے ساتھ نیک سلوک کرو مخلوق کا لفظ میں نے بولا ہے.تم ایسے بنو کہ درختوں، پہاڑوں، جانوروں سب پر تمہارے ذریعہ سے خدائے تعالیٰ کا فضل نازل ہو.مخلوق الہی پر شفقت کرو.انسان پر جب تباہی آتی ہے.تو اس کی وجہ سے سب پر تباہی نازل ہوتی ہے.ع از زنا رفته وباء اندر جہات لے جناب الہی نے جس طرح حکم دیا اس پر عمل کرو.گھاٹ پر پاخانہ پھرنے سے ، درختوں کے نیچے اور راستوں پر پاخانہ پھرنے سے ہماری شریعت نے منع فرمایا ہے.ایمان کے ساتھ اعمال بھی نیک ہوں.جس میں بگاڑ ہے وہ خدائے تعالیٰ کا پسندیدہ کام نہیں.پھر ان سچے علوم کو میری زبان سے تم نے کچھ سنا ہے اپنے گزشتہ امام سے سنا ہے.اور اس کی پاک تصانیف میں دیکھا ہے.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ.پاک تعلیم یعنی حق کو دوسری جگہ پہنچاؤ.بہت سے لوگ ہم سے ملنا چاہتے ہیں.اور ہم سے محبت اور اخلاص چاہتے ہیں مگر ایمان کے حاصل کرنے اور ایمان کے مطابق سنوار کے کام کرنے اور پھر دوسروں تک پہنچانے میں متامل ہیں.بہت سے لوگ یہاں بھی آئے ہیں اور مجھ سے ملے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آپ ہم سے بالکل مل جائیں تو ہم آپ کے ہو جاتے ہیں.میں نے کہا.ہماری تعلیم پر عمل کرو گے؟ تو کہتے ہیں.تعلیم تو ہماری آپ کی ایک ہی ہے.میں نے کہا جبکہ تم ہماری تعلیم پر عمل کرنے سے جی چراتے ہو تو پھر ہم تم ایک کیسے ہو سکتے ہیں.یہ سن کر شرمندہ ہو کر رہ جاتے ہیں.یہ سب کے سب منافق طبع لوگ ہوتے ہیں.ایسے منافق بہت ہیں.یہ سب ہم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں.تم حق کو پہنچاؤ اور حق کے پہنچانے میں علم و حکمت اور عاقبت اندیشی سے کام لو.جو عا قبت اندیشی سے کام نہیں لیتے.وہ بعض اوقات ایسے الفاظ کہہ دیتے ہیں.جن سے بڑا نقصان ہوتا ہے.کسی شخص نے مجھ کو خط لکھا کہ میں نے ایک شخص سے کہا کہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں میرے لئے دُعا کرنا.ایک احمدی نے سن کر کہا کہ مکہ مدینہ کا کیا کوئی الگ خدا ہے.اس پر اس شخص کو بڑا ابتلاء پیش آیا.اگر ل زنا سے تمام جہات میں وباء پھیلی.
۳۳۴ حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْعَصْرِ نرمی سے کہا جاتا تو نتیجہ خطر ناک نہ ہوتا.اس طرح کہ مکہ مدینہ بیشک قبولیتِ دعا کے مقام ہیں.پھر کہتا ہوں کہ خدا یہاں بھی ہے.وہاں بھی ہے.تم دونوں جگہ دعا مانگو یعنی یہاں بھی دعا ضرور مانگو.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرے خسر سے کہا تھا کہ میرے لئے عرفات میں دعا کرنا.میرے خسر کا بیٹا جو ان کے ہمراہ حج میں موجود تھا.اب موجود ہے.وہ کہتا ہے کہ ہمارے باپ نے عرفات میں دعا مانگی اور میں آمین آمین کہتا جا تا تھا.مگر انسان سے اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں.ان غلطیوں کے دور کرنے کے لئے میں نے کہا تھا کہ میں تین مہینہ میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں.بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی ایک جماعت ہو.قرآن کے لئے بھی دعا مانگنی چاہیے اور متقی بننا چاہیے.وَ اتَّقُوا اللهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقره: ۲۸۳) جو تقوی اختیار کرتا ہے.اس کو خدا سکھاتا ہے.قرآن پڑھو.سیکھو.اس کے علم میں ترقی کرو.اس پر عمل کرو.قرآن سے تم کو محبت ہو.وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.حق کے پہنچانے میں کچھ تکلیف ضرور ہوتی ہے.اس تکلیف کو برداشت کرنے کے لئے دوسرے کو صبر سکھاؤ اور خود بھی صبر کرو.یہ سورۃ اگر تم نے سمجھ لی ہے تو دوسروں کو بھی سمجھاؤ اور برکت پر برکت حاصل کرو.میں چاہتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرو.اس کے ملائکہ سے نبیوں اور رسولوں سے محبت کرو.اور کسی کی بے ادبی نہ کرو تم کو اللہ تعالیٰ نے بڑی نعمت عطا کی ہے.حضرت صاحب کا دنیا میں آنا کوئی معمولی بات نہیں.تم اس طرح یہاں بیٹھے ہو.یہ انہیں دعاؤں کا نتیجہ ہے دعا ئیں بہت کرو اللہ تعالیٰ تم کو دوسروں تک حق پہنچانے کے لئے توفیق دے.( بدر جلد ۱۲ نمبر ۳۱ تا ۳۳ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۱۳ء صفحه ۳، ۴) وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ - عصر کے معنے مطلقا وقت کے ہیں.قسم کے طور پر وقت کو اس لئے یا فر مایا کہ اس کی عظمت اس کا مفید ہونا انسان سوچے.انسان کی عمر کا وقت برف کے تاجر کی طرح ہے کہ ہر لمحہ ہر دقیقہ معرضِ نحسر ان میں پڑا ہوا ہے جس نے چٹ پٹ اس سے فائدہ اٹھالیا.وہ مزے میں رہا.عصر کے معنے نچوڑنے کے ہیں.اس صورت میں وَالْعَصْرِ کے یہ معنے ہیں کہ اسلام سارے ادیان کے حقائق و معارف کا نچوڑ ہے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ
حقائق الفرقان ۳۳۵ سُوْرَةُ الْعَصْرِ مَنِ اسْتَوَى يَوْمَاهُ فَهُوَ مَغْبُونٌ یعنی جس کے دو دن برابر رہے.اور اس نے کوئی ترقی نہ کی یا ان دودنوں میں کوئی کسب خیر نہ کیا وہ گھاٹے میں ہے.ابو مزینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ جب دو صحابی بھی آپس میں ملاقات کرتے تو تذکیر کے طور پر یہ سورہ شریفہ ایک دوسرے کو سناتے.نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی فرض نماز نہیں.سنت الطواف کے سوائے بھی کوئی نفل نماز نہیں.اس میں یہ اشارہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور شریعت نہیں.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ - ایمان اور عملِ صالحہ کے لئے بعض زمانہ بڑا ہی قابل قدر ہوتا ہے.قرآنِ شریف میں ایک اور مقام میں فرمایا ہے.لَا يَسْتَوِى مِنْكُمْ مَنْ أَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَ قَتَلَ أُولَئِكَ أَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِينَ أَنْفَقُوا مِنْ بَعْدُ وَقَتَلُوا - (الحديد : ١١) حدیث شریف میں اسی آیت کی تفسیر یوں ہے کہ سابقین اولین میں سے جو اصحاب پہلے پہل ایمان لائے اور انفاق فی سبیل اللہ ایک مٹھی بھر جو کے ساتھ کیا.بعد میں ایمان لانے والے اور پہاڑ برابر سونا خرچ کر نیوالے ان اگلوں کی برابری نہیں کر سکتے.وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى ( الحديد : ۱۱) اور یوں تو اللہ تعالیٰ نے اگلے پچھلے سب کو نیک وعدے دیئے ہیں.وَتَوَاصَوْا بِالْحَق کی نسبت بھی حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو حق بات جانتا ہے اور بیان نہیں کرتا وہ گونگا شیطان ہے.دوسری حدیث میں ہے کہ ایسے کو بروز قیامت آگ کی لگام چڑھائی جائے گی.ایمان، اعمال صالحہ ، وصیت بالحق اور وصیت بالصبر جو اسلام کا نچوڑ ہے.اس چھوٹی سی سورۃ میں بیان فرما دیا.اسی لئے صحابہ رضی اللہ عنہم بطور تذکیر ملاقاتوں کے وقت ایک دوسرے کو سنا دیا کرتے.احباب بھی اس سنتِ صحابہ پر عمل کریں.ا تم میں سے برابر نہیں ہو سکتا وہ شخص جس نے خرچ کیا ملکہ کی فتح سے پہلے اور دین کے لئے لڑا (اس کے بعد کے خرچ کرنے والے اور لڑنے والے سے ) یہی لوگ درجے میں بڑھے ہوئے ہیں ان سے جنہوں نے خرچ کیا فتح کے بعد اور لڑے.۲.اور سب سے اللہ نے وعدہ فرمالیا ہے نیک حالی کا.
حقائق الفرقان ۳۳۶ سُورَةُ الْعَصْرِ گوش زدہ اثر دارد وصیت بالحق میں اتنا غلو نہ کرے کہ ھمزا ور لمز تک نوبت پہنچ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۲) جاوے.فونوگراف اور حکیم الامت کا وعظ حضرت حکیم الامت کا ایک مختصر وعظ سورہ والعصر پر فونوگراف میں بند کیا گیا تھا ناظرین کے فائدہ کے لئے لکھا جاتا ہے.اعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطَانِ الرَّحِيْم - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : ۱ تا ۴) اس مختصر سی سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین نے محض اپنی رحمانیت سے کس قدر قرب کی راہیں اور آرام و عزت و ترقی کی سچی تدابیر بتائی ہیں.اول یہ بتایا کہ کسی مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے کامل فہم اور تجارب صحیحہ کا وقت لوگوں کے لئے عصر تیسرا حصہ دن کا آخری وقت ہوتا ہے.جس طرح عصر کے بعد پہروں کا وقت ان نمازوں کے لئے نہیں رہتا جو ایمان والوں کے لئے معراج دعا اور قرب کا ذریعہ اور ہر ایک بے حیائی اور بغاوت سے روکنے کا سبب ہیں اسی طرح مرسل من اللہ کا زمانہ اور انسان کے فہم اور تجارب صحیحہ کے بعد اور کوئی وقت نہیں رہتا جس میں انسان اپنے گھاٹے کو پورا کر سکے اس لئے ہر ایک مرسل من اللہ کے زمانہ اور صحت عقل کے وقت کو لوگ غنیمت جان کر یہ کام کر لیں.اول.سچے اور صحیح علوم کو حاصل کریں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی ہستی، یکتائی ، بے ہمتائی.غرض وحده لاشریک ذات کو مانیں.اللہ تعالیٰ کے اسماء میں ، اس کی تعظیمات میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں.ملائکہ کی پاک تحریکات کو مان لیں.اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور رسولوں اور جزا سزا اور قیامت اور دیگر سچے علوم پر یقین کریں.دوم.ان بچے بھی واقعی علوم کے مطابق سنوار کے کام کریں اور کرتے رہیں.کوئی کام اس کا نہ ہو اے کان پڑی بات اثر رکھتی ہے.
حقائق الفرقان ۳۳۷ سُوْرَةُ الْعَصْرِ جو سنوار اور اصلاح کے خلاف ہو.سوم.دوسروں کو آخری دم تک بتاکید حق بتاتے رہیں اور ہر دم کو نفس واپسیں یقین کر کے بطور وصیت حق پہنچا دیں.چہارم.ان سچائیوں صداقتوں پر عمل درآمد کرانے میں کوشش کریں کہ وہ دوسرے لوگ بھی بدیوں سے بچنے اور نیکیوں پر مضبوط رہنے میں استقلال کریں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۸ مورخه ۲۴ اکتوبر ۱۹۰۲ صفحه ۴) میرے دوستوں نے مجھے کچھ وعظ کہنے کے لئے فرمائش کی ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی توفیق دی ہے کہ تم لوگوں کو کچھ سنا دوں.میں اتر ابھی اسی غرض سے ہوں کہ کوئی آدمی کوئی بات سن لے اور اللہ تعالیٰ نفع دے.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : ا تام) یہ ایک چھوٹی سی سورۃ ہے اور میں نے اسی نظارہ پر اس کو پڑھا ہے کہ اس میں عصر کا ذکر آتا ہے.یہ وقت عصر کا ہے اور دن کا آخری حصہ ہے اور میں اس سورہ شریف کو عصر کے وقت شروع کرتا ہوں.اس نظارہ نے مجھے ادھر ہی متوجہ کر دیا کہ شاید اتنے وقت میں پوری ہو جاوے جو سورج غروب ہو.اس سورۃ کے ابتدا میں عصر کا لفظ آیا ہے.عصر مطلق زمانہ کا نام ہے.ہماری عصر کے معنی: زبان میں بھی یہ لفظ ان معنوں پر بولا جاتا ہے.فلاں میرا ہمعصر ہے.اخبار نویس بھی یہ لفظ بولتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمارے عصر نے یہ لکھا ہے.غرض زمانہ کو بھی عصر کہتے ہیں.پھر عصر نچوڑنے کو کہتے ہیں.اني ارينِي أَعْصِرُ خَمْرًا (يوسف:۳۷) عصر اس حصہ کو کہتے ہیں جو ظہر کے بعد نماز کے لئے مقرر ہے.یہ وہی وقت ہے جس کی ابھی نماز پڑھی ہے.پس عصر کے تین معنی ہیں.زمانہ، نچوڑ نا اور بعد ظہر نماز کا وقت.
حقائق الفرقان ۳۳۸ سُوْرَةُ الْعَصْرِ قسمبائے قرآنی کی حقیقت قرآن کریم میں جہاں بڑے بڑے عجائبات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض سورتوں کے شروع میں اور بعض کے درمیان قسموں کا ذکر کیا گیا ہے.میں نے قرآن مجید کی ان قسموں پر بڑا غور کیا ہے تو میں نے یہ پایا ہے کہ قرآن مجید کی قسمیں معجزانہ رنگ رکھتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.عوام پھر ان سے بڑھ کر سمجھدار پھر ان سے بھی بڑھ کر حکومت پیشہ لوگ.عوام میں یہ بات مشہور ہے (اگر چہ اس زمانہ میں اس کے خلاف ثبوت موجود ہے) کہ قسم کھانا جھوٹوں کا کام ہے.پڑھے لکھے نو تعلیم یافتہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سویلز یشن کے خلاف ہے، بیہودہ امر ہے.بہت قسمیں کھانے والے کا اعتبار نہیں کرتے.قرآن مجید میں بھی ایک جگہ اس کی طرف اشارہ ہے.لا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهَيْنِ (القلم: ۱۱) مگر باوجود اس کے قرآن میں قسمیں موجود ہیں.میری سمجھ میں ان قسموں میں کچھ حصہ عوام کا ہے کچھ خواص کا اور کچھ حکام کا ہے.عرب میں اس جہالت کا دور دورہ تھا ان کا اعتقاد تھا کہ قسم ذلیل کر دیتی ہے.ان میں ایک ضرب المثل یا کہاوت تھی.کہاوت یا ضرب المثل ایک فقرہ ہوتا ہے جو بڑے تجربوں کا نچوڑ ہوتا ہے.وہ ضرب المثل جو عربوں میں قسم کے متعلق تھی یہ ہے.اِنَّ الْأَيْمَانَ تَدَعُ الْأَرْضَ بَلَاقِعَ - قسمیں ملک کو ویران کر دیتی ہیں اور قسمیں کھانے والے کی عزت نہیں رہتی.اب قابل غور یہ امر ہے کہ جن لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ قسمیں ذلیل کر دیتی ہیں اور ملک کو تباہ کر دیتی ہیں ان کے سامنے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے قسمیں نکلوائیں اور اس طرح پر ان کے اپنے مسلمہ عقیدہ کے رو سے حجت پوری کی کہ عوام کے خیال کے موافق تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نعوذ باللہ ) ذلیل اور ہلاک ہو جاتے مگر آپ روز افزوں ترقی کرتے گئے یہاں تک کہ آپ کے اقبال سے شاہان وقت لرزہ کھا جاتے تھے.پس عوام کے لئے یہ معجزہ بلکہ آیت اللہ اور سلطان مبین ہے.حکام کے لئے بادشاہ وقت تک تخت پر بغیر قسم کے نہیں بیٹھ سکتا.وزراء، پارلیمنٹ کے ممبر قسم ے اور تو کہا نہ مان ہر ایک بڑی جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل بے عقل کا.
۳۳۹ حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْعَصْرِ کے بغیر اپنے عہدہ پر متعین نہیں ہوتے.بڑے بڑے عہدہ داران جیسے چیف کورٹ یا ہائی کورٹ کے جج ہیں ان سے بھی قسم کی جاتی ہے.یہ شخصی بات سہی مگر ہماری فاتح قوم نے تو حد کر دی اس کے قانون میں یہ بات لازم ہے کہ مسیحی آدمی قسم کھائے اور باقی کے لئے اقرار صالح کافی ہے.غرض عوام کا وہ حال ہے اور حکام کا یہ.بیچ میں رہے فلاسفرز لوگ ان کے لئے قرآن کریم کی قسمیں عجائبات پر مبنی ہیں.سنن الہیہ یال از آف نیچر سے جب قرآن کریم استدلال کرتا ہے تو فلسفی کا دماغ بھی اس کے ماننے پر تیار ہو جاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قسم میں فلسفی مضمون ہوتا ہے جس کے ماننے میں عقلمند کو مضائقہ نہیں ہوتا اور یہ قسمیں بطور شواہد اور دلائل کے ہوتی ہیں.میں قرآن مجید سے ایک دو قسموں کے مقام تمہیں سناتا ہوں.وَ الَّيْلِ إِذَا يَغْشَى - وَ النَّهَارِ إِذَا تَجَلُّى - وَ مَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى - إِنَّ سَعْيَكُم کشتی (اليل: ۲ تا ۵) اس سورت کو بھی قسم سے شروع کیا ہے اور اس میں رات دن کے قدرتی مناظر اور ان کے مختلف نتائج اور عورت و مرد کے باہمی تفاوت اور پھر تعلقات اور نتائج کو بطور شاہد پیش کر کے مسئلہ جزائے اعمال کا ثبوت دیا ہے کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا کیا پتا ہے.نیکوں کو دکھ اور بدوں کو سکھ مل جاتے ہیں.اس مضمون کو ایک فقیر نے ادا کیا ہے اس کے معنی تولطیف ہو سکتے ہیں مگر عوام نے اس سے اباحت اور جرات سیکھی ہے.او تھے گھاڑ گھڑیندے ہور.پکڑن سادھ تے چھڈن چور لیکھا بے پروائیاں دا یعنی دنیا اعتبار کے قابل نہیں ایسے مضامین کبھی لوگ غلط سمجھ لیتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حقائق صحیحہ اور نتائج صحیحہ واقعی ہیں یا وہم ہیں.اس پر دو قسم کے لوگ ہیں ایک وہ جو مذہب کے پابند ہیں اور بعض مذہب کے پابند نہیں رہے.بہت سے لوگ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو مذہب کا بڑا پابند ظاہر کرتے ہیں اور اگر ذرا بھی بے ادبی لے رات کی قسم ہے جب کہ وہ چھا جائے اور دن کی جب کہ وہ روشن ہو اور اس ذات کی قسم ہے جس نے پیدا کیا مرد و عورت نر و مادہ کو.بے شک تمہارے کام الگ الگ ہیں.
حقائق الفرقان ۳۴۰ سُوْرَةُ الْعَصْرِ اپنے مقتدا کے خلاف دیکھیں تو جان تک خطرہ میں ڈال دیتے ہیں مگر عمل کچھ نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عملی رنگ میں جزا وسزائے اعمال کے منکر ہیں.یہاں اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں اس عقیدہ باطلہ کو رد کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ جیسے اسباب مہیا کرو گے ویسے ہی نتائج ہوں گے.اس دعویٰ کا ثبوت ایک قدرتی نظارہ سے دیا جاتا ہے.وَاليْلِ إِذَا يَغْشی.رات کی طرف دیکھو اس کے صفات اور آثار الگ ہیں.جو باغ دن کو راحت بخش ہیں اور جن سے دن کو آکسیجن نکلتی ہے وہی باغات رات کو راحت بخش نہیں اور اب انہیں درختوں سے کاربن نکلتی ہے جو قاطع حیات ہے اور بچوں کے لئے تو وہ خوبصورت درخت رات کو ہوے نظر آتے ہیں.دانا کہتے ہیں کہ درختوں سے رات کو کار بن نکلتی ہے.مذہب منع کرتا ہے کہ رات کو درختوں کے نیچے نہیں سونا چاہیے.دن کی تاثیریں اور عجائبات بالکل جدا ہیں.وہی درخت جو رات کو کاربن نکالتے تھے دن کو آکسیجن چھوڑتے ہیں اور ہندوؤں نے تو درختوں کے متعلق مذہبی قواعد بنا دیئے بہت دانائی اور عاقبت اندیشی کی.اس گرم ملک میں بڑ اور پیپل خدا کی نعمت ہے ان کی حفاظت ایسی نہ ہوتی جیسی اب مذہبی پیرائے میں ہو رہی ہے.غرض رات اور دن کے جدا جدا لوازمات ہیں.اگر کوئی کہے کہ رات کو درختوں کے نیچے سویا کریں تو وہ نقصان اٹھائے گا.دن کو باغات کی سیر کرنے اور ان کے نیچے سونے کو پسند کیا جاتا ہے اور اس سے طبیعت میں خوشی پیدا ہوتی ہے.پھر اگر کوئی اتنا بار یک علم نہ رکھتا ہو تو دن اور رات کے خواص اور تاثیرات پر فلسفی نظر نہ رکھتا ہو تو فرمایا.وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى عورت و مرد کے مساوات والے پڑھیں : عورت اور مرد کی بناوٹ پر غور کرو.دوجدا جدا ہستیاں ایک ہی نوع کی ہیں مگر ہر دو کے اعمال اور قدرتی فرائض جدا جدا ہیں.آج کل تھوڑی تعلیم کے لوگ مساوات کی بحث کرتے ہیں وہ صریح غلطی پر ہیں.میں ایک مرتبہ کشمیر میں ایک دوست کے مکان پر بلا تکلف چلا گیا.وہاں ایک بڑا ڈاکٹر موجود تھا.ڈاکٹر سے مراد علم طب کا ماہر نہیں بلکہ عالم مراد ہے.اس نے عورتوں اور مردوں کے حقوق کی مساوات پر بحث
حقائق الفرقان ۳۴۱ سُوْرَةُ الْعَصْرِ کی.اس نے دو مرتبہ کہا کہ عورت اور مرد باہم برا بر ہیں.تب میں نے اس کو مخاطب کیا اور پوچھا.آپ کا کوئی بیٹا ہے؟ پہلے تو اس نے مکروہ سمجھا کہ میں نے بدوں انٹروڈیوس اس سے خطاب کیا مگر جب اس نے دیکھا کہ صاحب مکان میری تکریم کرتا ہے تو اس نے جواب دینا پسند کیا اور بڑی خوشی سے کہا کہ ہاں! میں نے نہایت بے تکلفی سے اس کی چھاتی پر ہاتھ مار کر ٹولا اور کہا کہ اب تو آپ کی باری بچہ جننے کی ہوگی.میری اس حرکت سے اس نے سمجھ لیا کہ یہ بڑی جرأت والا آدمی ہے اس لئے اس نے گھر والے سے پوچھا کہ یہ کون ہے.اس نے کہا کہ یہ آپ ہی کہہ دیں گے میری تو جرات نہیں کہ بتاؤں.پھر اس کو پتا لگ گیا.میرے اس عملی اعتراض پر وہ بہت گھبرایا اور آخر اسے ماننا پڑا کہ عورت اور مرد با ہم مساوی نہیں.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مرد اور عورت کے خواص الگ ہیں اور ان کے فرائض جدا جدا.اگر ان امور پر تم نظر کرو گے تو تمہیں صاف معلوم ہو جائے گا إِنَّ سَعیکم کشتی.جب کام جدا جدا ہیں تو ان کے نتیجے بھی الگ الگ ہوں گے.اسی طرح پر نیکی اور بدی میں تفاوت ہے.نیکی کا نتیجہ نیک اور بدی کا نتیجہ بد ہوگا.اس کے مطابق اب مسئلہ سزا و جزا کا حل ہو گیا.اس طرح پر قرآن مجید کی قسمیں بڑے بڑے مسائل کا حل کرتی ہیں.۳۵ مقامات پر قسمیں آئی ہیں اور وہ حقیقت مدعا کی مثبت ہیں.وَالْعَصْدِ میں جو قسم ہے وہ بھی ایک امر کی مثبت ہے.فرما یا عصر کو دیکھو.انسان گھٹیل حالت میں ہے.ہر گھڑی جو اس پر آتی ہے وہ اس کو کچھ کم ہی کرتی ہے.ماں کے ہاں جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ ایک دو سال کا ہوتا ہے تو لوگ مبارک باد دیتے ہیں کہ بچہ بڑا ہو گیا مگر غور کروتو دو سال اس کی عمر سے کم ہو گئے اور دن بدن وہ گھٹتا جاتا ہے.انسان گویا برف کا سوداگر ہے ہر لحظہ اس کو کم کر رہا ہے اسی طرح پر انسان کی عمر گھٹتی چلی جاتی ہے تو اب سوال ہوتا ہے کہ کیا اس کی تلافی کا بھی کوئی انتظام ہے خواہ عصر کے کچھ ہی معنے کر و.یہاں بتایا ہے کہ اس کی تلافی کی صورت ہے وہ کیا ؟ اِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر : ٤) کچھ لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچائے جاتے ہیں وہ کون ہیں جو مومن اور اعمال صالحہ کرنے والے ہیں.اب اگر عصر کے معنی زمانہ کے کرو تو اس سے یہ مراد ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ
حقائق الفرقان ۳۴۲ سُوْرَةُ الْعَصْرِ کو عصر سے تشبیہ دی ہے کیونکہ پہلے تو ایک نبی آتا تھا اور شریعت لاتا تھا اور نئی راہیں خدا کی رضامندی کی ظاہر ہوتی تھیں مگر اب تو عصر کا وقت ہے پھر سورج غروب ہوگا.آپ جامع کمالات نبوت ، جامع کمالات انسانیت اور خاتم کمالات نبوت اور خاتم کمالات انسانیہ تھے پھر عصر کے لفظ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ نچوڑنے سے مصفی چیز الگ ہو جاتی ہے اور اس کا ردی حصہ تہ نشین ہوجاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لائے وہ خالص اور تمام صداقتوں کا نچوڑ ہے.دنیا میں کثرت سے انبیاء آئے ہیں.مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصُ عَلَيْكَ - (المؤمن : ۷۹ ).پھر جو آئے ہیں تو کچھ معلوم نہیں کہ ان کی کتابیں محفوظ ہیں یا نہیں.پھر وہ کتا بیں کمی لے بیشی تغیر و تبدل سے پاک ہیں یا نہیں ؟ غرض بیسیوں شبہات وارد ہوتے ہیں.پھر انسانی تاریخ کا پتا نہیں.عیسائی تو پانچ چھ ہزار برس سے پرے کچھ کرنے نہیں دیتے.حد سات ہزار برس بتاتے ہیں.آریوں نے ۴ ارب کے اندر خدا کی بادشاہی کو محدود کیا ہے.زرتشت کے اتباع نے مہاں سنکھ کے آگے سترہ صفر بڑھا دیئے ہیں.مگر ہمارے مولا کے خالق ، مالک،حی، قیوم اور رازق ہونے کے لئے کسی وقت کی حد بست کرنا سخت جہالت ہے.اس لئے ہماری مقدس کتاب قرآن کریم نے کوئی تاریخ نہیں دی.پھر نچوڑنے کے معنوں کو مد نظر رکھ کر فرمایا.فِيهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ ( البيئة: ۴) تمام صداقتوں کا مضمون قرآن مجید میں موجود ہے.کوئی صداقت اس پاک کتاب سے باہر نہیں.ہم نے مختلف رنگوں میں دنیا کے سامنے اس سوال کو پیش کیا ہے کہ تم کوئی صداقت بتاؤ جو قرآن کریم میں نہ ہو.اولاد، بیوی ، والدین، اپنی قوم اور دوسری قوموں سے تعلقات اور خدا کے ساتھ تعلقات کی کوئی جامع کتاب بتاؤ.میری عمر بہت ہو گئی ہے اور مذاہب کی تحقیقات کا اتنا شوق رہا ہے کہ میں نے اپنے ہم جولیوں میں نہیں دیکھا.پھر مدد الہی ایسی پہنچی کہ دوسرے مذاہب کی کتابوں کے خریدنے کے لئے اموال کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ایسا فضل کیا کہ وہ مجھے ایسے مخفی طور سے دیتا ہے کہ انسان کی طاقت نہیں کہ معلوم کر سکے.ان تمام اسباب سے میں نے اس صداقت کو ہمیشہ لانظیر پایا.فِيهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ - لے اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جن کے حالات ہم نے تجھ کو بیان کئے اور سنا دیئے اور بعض ایسے ہیں جن کے حالات تجھ کو نہیں سنائے.
حقائق الفرقان ۳۴۳ سُوْرَةُ الْعَصْرِ غرض اس سورۃ وَالْعَصْرِ میں تلافی کے چار قاعدے بتائے جن پر عمل کرنے سے انسان خسارہ سے محفوظ رہ سکتا ہے.اول.ایمان ہو.سچی باتوں کا علم ہو.عقائد صحیحہ ہوں.دوم.اس علم اور عقائد کے موافق اعمال صالحہ ہوں.سوم.وہ سچی باتیں اور عقائد صحیحہ ، پاک تعلیمات جن پر ایمان لاتا ہے اور عمل کرتا ہے.دوسروں کو پہنچائے اس کا نام وصیت الحق ہے.چہارم.چونکہ سچائی کے پھیلانے میں دشمن ضرور ہوں گے اس لئے اس کی مخالفت میں صبر و استقلال سے کام لے.یہ چار قاعدے ہیں جو شخص ان پر عمل کرے گا وہ خسارہ سے محفوظ رہے گا.اس نسخہ کو صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ا کا بر اولیا و آئمہ نے استعمال کیا.اس زمانہ میں ہماری سرکار مرزا صاحب نے تجربہ کیا لیکن جب مسلمانوں نے اس نسخہ کو چھوڑنا شروع کیا اسی وقت سے ان پر زوال آنے لگا.سب سے پہلے مسلمانوں نے ایسی جامع کتاب کا پڑھنا چھوڑ دیا.ہزاروں لاکھوں بلکہ کروڑوں میں ہاں ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں میں سے کتنے ہیں جو اس کو پڑھتے ہوں اور پھر اس کے مطلب کی تہ کو پہنچ کر عمل کرتے ہوں پھر اس کے حقائق پہنچاتے ہوں اور ان حقائق کے پہنچانے میں جو تکلیفات پیش آئیں صبر و استقلال سے اس کا مقابلہ کرتے ہوں؟ چار قومیں ہمارے سامنے ہیں.ایک زمیندار ہیں جو صبح سے شام تک گویا موجودہ حالت: مزدوری پیشہ ہیں.ان کو کون سا وقت ملتا ہے کہ وہ قرآن مجید کو پڑھیں اور سمجھیں.پھر امراء ہیں انہوں نے اول تو نماز چھوڑ دی ہے اگر پڑھیں بھی تو انہیں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مشکل ہو رہا ہے.گھر میں موقع مل گیا تو پڑھ لی نہیں تو نہیں.ہاں ایسا دیکھا ہے کہ اگر کوئی افسر مال ہو اور وہ نماز پڑھنے لگے تو کم از کم ذیلدار پڑھ لیتا ہے وضو ہو یا نہ ہو.پھر علماء اور گدی نشینوں کے قبضہ قدرت میں بڑی مخلوق ہے.ان کا جو حال ہے اس کو دنیا خوب جانتی ہے.ایک چیز ان کے بغل میں ہے کفر کا فتویٰ یا عورتوں کے حلالے کرنا.اسی سے ان کا کام خوب چلتا ہے.رہی عزت وہ جو کچھ بھی ہے لوگ خوب جانتے ہیں.رہے گدی نشین.میں خدا کے فضل سے دونوں میں داخل ہوں.
حقائق الفرقان ۳۴۴ سُوْرَةُ الْعَصْرِ اللہ کا فضل دستگیری کرے تو بات بنتی ہے.کوئی سات سو برس کی بات ہے.ایک نازک خیال فہیم کہتا ہے.مشکلی دارم ز دانشمند مجلس باز پرس تو به فرمایاں چرا خود تو به کمتر می کنند بڑے داناؤں اور ان کی مجلسوں کے پریسیڈنٹوں سے پوچھو مجھے تو بڑی حیرت ہے یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا که تو به فرما آپ کیوں تو بہ کم کرتے ہیں.ساری کتاب میں اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا وہاں ایک جگہ وہ چوٹ کر کے کہتا ہے.واعظاں کیں جلوہ برمحراب و منبر می کنند چوں بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند " اس کو سخن شناس سمجھتے ہیں.اب قرآن کریم کا پڑھنا اور پھر اس پر عمل کرنا اور پھر دوسروں کو پہنچانا اور بالمقابل جب لوگ فتویٰ دیں اور تو تیاں بجانے والوں کے مقابلہ میں صبر کرے تو گھاٹے میں نہیں رہتا.یہ بھی شہر ہے اور بہت بڑا شہر ہے.بہت مخلوق اس میں ہے یہاں مسلمانوں کے کئی گروہ ہیں.ایک گروہ غزنویوں کے قبضہ قدرت میں ہے.ایک اہل فقہ کی جماعت ہے.کچھ حصہ ثناء اللہ کے ساتھ ہے اور کچھ پیر کشمیر سے آجاتے ہیں.ان میں باہم بغض و عناد اور دشمنی ہے اور قرآن مجید سے اس کا پتا لگتا ہے.فَنَسُوا حَظًّا مِمَّا ذُكِرُوا بِهِ فَأَغْرَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاء (المائدة: ۱۵) آپسی میں ص دشمنیاں تو ہم دیکھتے ہیں پھر شاید یہ بے ادبی ہو اگر ہم ان کو کہیں کہ تم نے قرآن چھوڑ دیا ہے مگر ہم کیا کریں ایسا کہنے پر ہم بھی مجبور ہیں.کیونکہ قرآن مجید یہی فرماتا ہے اگر کوئی عداوت اور کینہ ہے تو صاف ظاہر ہے کہ قرآن مجید کو چھوڑ دیا ہے.میرا ارادہ تھا کہ تمہیں والعصر سنادوں.خدا کے فضل اور توفیق سے میں نے سنادی ہے البتہ میری یہ خواہش ہے اور زبر دست خواہش ہے کہ جب مسلمان دعوی کرتے ہیں کہ ہم قرآن کریم پر ایمان لاتے ہیں تو وہ اس کو پڑھیں اور اس پر عمل کریں پھر وہ لوگوں کو پہنچائیں اور اگر مخالفت ہو تو ا میرا ایک سوال ہے مجلس کے سب سے ذہین شخص سے دوبارہ پوچھو کہ جولوگ ہمیں تو بہ کی نصیحت کرتے ہیں وہ خود کیوں کم تو بہ کرتے ہیں.۲.یہ واعظ لوگ جو محراب اور منبر پر نصیحت کرتے ہیں جب بھی خلوت میں ہوتے ہیں تو ان وعظوں کے برعکس عمل کرتے ہیں.
حقائق الفرقان ۳۴۵ سُوْرَةُ الْعَصْرِ صبر و استقلال سے مقابلہ کریں.اللہ تعالیٰ کی ہی توفیق سے یہ ہوسکتا ہے.مجھے کبھی بھی اس بات کا خیال نہیں ہوتا کہ سننے والے بہت آدمی ہیں یا تھوڑے وہ اعلیٰ طبقہ کے ہیں یا عوام ہیں.خدا تعالیٰ نے میرے دل سے ان باتوں کو نکال دیا ہے.میں تو خدا کا کلام پہنچانا چاہتا ہوں خواہ کوئی ایک ہی سنے والا ہو.یہ بھی یادرکھو کہ جو بڑے آدمی ہیں وہ ہمارے ساتھ سر دست تعلق نہیں رکھ سکتے ہاں وقت آ جائے گا کہ بڑے بڑے لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.ہماری سرکار سے (حضرت مسیح موعود ) اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا کہ بادشاہ تیرے کپڑوں.برکت ڈھونڈیں گے.مگر اس وقت یہ نہیں ہوسکتا کہ جارج پنجم قادیان میں آ جاوے اور آ کر مرید ہو جاوے کیونکہ اگر وہ آئے تو اس کے آنے سے پہلے سڑک ، مکان ، تارگھر وغیرہ سب کچھ فوراً تیار ہو جاوے اور جب وہ وہاں آکر یہ سوچے کہ میرے آنے سے قادیان والوں کو کیا فائدہ ہوا اور مجھ کو قادیان سے کیا فائدہ ہوا؟ تو یہی کہے گا کہ ان غریبوں کے پاس پہلے ہی کیا تھا.میری وجہ سے ان کو یہ فائدہ پہنچا، وہ نفع ہوا وہ اس پاک صحبت کی قدر نہیں کر سکتا.پس یہی حال بڑے آدمیوں کا ہوتا ہے.اس لئے سنت اللہ اسی طرح پر چلی آتی ہے کہ جب کوئی مامور ومرسل دنیا میں آتا ہے تو اولاً اس کو غریب اور ضعیف لوگ قبول کرتے ہیں اور بڑے بڑے لوگ قطع تعلق کر لیتے ہیں.كَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أكبر مُجْرِمِيهَا (الانعام: ۱۲۴)ا کا بر ماموروں کے ساتھ نہیں ہوئے.غریب اور مسکین ان کے ساتھ ہوتے ہیں.پھر ان چھوٹوں کو ان سے نفع پہنچتے ہیں.میں بھی ایک نمونہ ہوں.میرا گھر جہاں تھا میرے اب وہ وہم و گمان میں بھی نہیں آتا.میری ماں اعوان قوم کی ایک زمیندار نی تھی.اپنی قوم میں وہ اکیلی پڑھی ہوئی تھی اور کوئی مرد یا عورت پڑھے ہوئے نہیں تھے.قرآن مجید سے اس کو بہت محبت تھی اور ہمیشہ قرآن پڑھایا کرتی تھی.خدا تعالیٰ نے میری غذا بھی کلام پاک ہی بنائی ہے میں ہمیشہ اس کو سنا کر جیتا ہوں.میرا باپ ایک غریب اور مسکین آدمی تھا.اپنی ضرورت کے موافق تجارت کر لیتا تھا.میں اپنا اسی طرح ہم نے پیدا کئے ہر بستی میں جناب الہی سے قطع تعلق کرنے والے سردار گناہ گاروں کے.
حقائق الفرقان ۳۴۶ سُوْرَةُ الْعَصْرِ حال جانتا ہوں اور میں خوب سمجھ سکتا ہوں کہ مرزا صاحب کی صحبت میں میں نے کیا پایا.میں نے وہ کچھ پایا جواہل دنیا اس کو سمجھ ہی نہیں سکتے.مرزا نے مجھے کتنا بڑا آدمی بنادیا.جارج کی سمجھ ہی میں یہ بات نہیں آسکتی.اس لئے ارادہ الہی اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ غرباء کو ماموروں کی صحبت میں بھیج دیتا ہے اور ا کا بران فیوض سے محروم رہ جاتے ہیں.عبداللہ ابی بن سلول اور ابو جہل بڑے آدمی تھے وہ اگر مسلمان ہو جاتے تو پھر اپنی ہی خوبی جتاتے.اسلام کے احسان اور فضل کو کبھی تسلیم نہ کرتے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے غرباء کو ساتھ کر دیا اور وہی غرباء آخر مقوقس اور ہر قل کے مقابلے میں آئے اور دنیا کے فاتح کہلائے.میرے تو دل میں کبھی آتا ہی نہیں کہ امیر کیوں الہی سلسلوں میں نہیں آتے.پس میں تمہیں اللہ ہی کے سپر د کر تا ہوں.(الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲۹٬۲۸ مورخه ۲۱،۱۴ را گست ۱۹۱۲ء صفحه ۱ تا ۴) وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ الى الآخر قرآن کریم سے بڑھ کر دنیا کے لئے کوئی نور شفا رحمت، فضل اور ہدایت نہیں ہے اور قرآن کریم سے بڑھ کر کوئی مجموعہ سچی باتوں کا نہیں ہے.یہ سچ اور بالکل سچ ہے.أَصْدَقُ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللهِ - اس قرآن کی ایک مختصر سی سورۃ میں اس جمعہ میں سنانے کو کھڑا ہوا ہوں.ذراسی سورت ہے ایک سطر میں تمام ہو گئی ہے.لیکن اگر اسی ذراسی سورۃ کو انسان اپنا دستور العمل بنالے تو کوئی چیز اس سے باہر نہیں رہ جاتی.اس سورۃ کو مولیٰ کریم نے عصر کے لفظ سے شروع فرمایا ہے.انسان کے واسطے دن معاش کا ذریعہ اور رات آرام کا وقت بنایا ہے اور فرمایا وَ جَعَلْنَا النَّهَارِ مَعَاشًا (النبا : ۱۲) سرور عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی باركَ اللهُ فِي بُكُوْرِهَا (ترمذى كتاب البيوع) فرمایا.کس قسم کا معاش؟ دنیوی معاش، اخروی معاش کے لئے یہ جگہ ہے.الدُّنْيَا مَزْرَعَةُ الأخرة ميسا بیج بوؤ گے انجام کا رویسا پھل پاؤ گے.کون اس بات کو نہیں جانتا کہ جو کے بونے والے کو آخر جو کاٹنے پڑیں گے.اس دن میں آخری حصہ کا نام عصر ہوتا ہے.عصر کے بعد کوئی وقت فرضی نماز کے ذریعہ رضاء النبی کے حصول کے لئے باقی نہیں رہتا.دن کی نمازوں کی انتہا عصر لے اور دن کو روزی کمانے کا وقت سے اللہ نے ان کی صبحوں میں برکت ڈال دی.سے دنیا آخرت کی کھیتی ہے.
حقائق الفرقان ۳۴۷ سُوْرَةُ الْعَصْرِ کی نماز ہے جو عصر کی نماز ترک کرتا ہے اسے اب دن نہیں ملتا.اسی طرح جس کو عصر کے وقت تک مزدوری نہیں ملی اب اس کا دن ضائع گیا اور اسے مزدوری نہیں مل سکتی.اسی طرح پر رسول اللہ صلی علیہ وسلم کا زمانہ عصر کا زمانہ ہے.ایک حدیث میں تصریح آئی ہے کہ بعض قو میں صبح سے دو پہر تک مزدور بنائے گئے ہیں اور بعض دو پہر سے عصر تک مزدور بنائے گئے اور ایک قوم عصر سے غروب آفتاب تک ٹھیکہ دار ہے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا زمانہ عصر سے مناسبت رکھتا ہے.جیسے قرآن کریم کے بعد اور کوئی کتاب نہیں اور شرائع الہیہ کے بعد اور شرع نہیں.عصر کے بعد کسی نماز کا وقت نہیں.پس اس عصر کی نماز کے لئے بہت تاکید میں فرمائی ہیں.جو عصر کی نماز چھوڑتا ہے اس کا اہل و مال کاٹا گیا.اسی نماز کے لئے فرمایا کہ یہ نماز منافق کی تمیز کا نشان ہے جو سورج کے غروب کے وقت چار ایک چونچیں سی لگا دیتا ہے.امت محمدیہ میں آنے والے لوگوں کے لئے بھی عصر کا نمونہ ہے.ہم کھلے طور پر مدل مبرہن دکھا سکتے ہیں.حجت ملزمہ کی طرح یقین دلانے کو تیار ہیں اگر فطرت سلیم ہو.یہ حقیقی وقت ہے کہ کوئی کا سر صلیب مامور ہونے والا ہو.پس یہ عصر کا وقت ہے اس کو غنیمت جانو.جب سایہ زرد ہوتا ہے اور آفتاب غروب ہونے کو ہوتا ہے مفید وقت جاتارہتا ہے اسی وقت منافق کی نماز کا وقت ہوتا ہے.ایسا ہی جو قوم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مشرف بہ اسلام نہ ہوئی وہ آخر خلفاء کے زمانہ میں مسلمان تو ہوئے مگر وہ عزت اور شوکت ان کی نہ رہی.رعب کے نیچے آکر کثرت کو دیکھ کر بہت سے لوگ ایک جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں مگر ابتلا کے وقت مخلص ہی شامل ہوتے ہیں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کا ہن، ساحر،مفتری، مجنون کہا جاتا تھا اس وقت جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آکر ملے اور آپ کی دعوت کو قبول کیا ان کے ساتھ پیچھے آنے والے کب مل سکتے ہیں.خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو بھی سابقین کے ایک مٹھی جو کے برابر قدر نہیں ہو سکتی.یہی وہ سرعظیم تھا جس کو پہنچ کر صحابہ نے ابوبکر صدیق کوحضور علیہ السلام کا جانشین بنایا.غارثور میں جب آپ تشریف رکھتے تھے اس تیرہ و تار غار میں ساتھ جانے والا جو کچھ لے گیا ہے وہ دوسروں
حقائق الفرقان ۳۴۸ سُوْرَةُ الْعَصْرِ کو نصیب نہیں ہے.غرض عصر کے وقت کو غنیمت سمجھو.اس عصر کے وقت میں کیا کر سکتے ہو؟ چار کاموں کے لئے ارشاد فرمایا.وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لفی خُسر ساری مخلوق گھاٹے میں ہے.انسان گویا برف کا تاجر ہے.برف پر ایک وقت آئے گا کہ ساری پگھل جائے گی اس لئے برف کے تاجر کو لازم ہے کہ بہت ہی احتیاط کرے.انسان بھی اگر غور کرے تو عمر کے لحاظ سے اس کو برف کا کارخانہ ملا ہے.ایک بچہ کی ماں اپنے بیٹے کو چار برس کا دیکھ کر خوش ہو رہی ہے لیکن حقیقت میں اس کی عمر میں سے چار برس کم ہو چکے ہیں.پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر دم بدم گزرتی اور برف کی طرح پگھلتی جاتی ہے اور اس وقت کا علم نہیں جب یہ تمام ہو.اس لئے انسان کو لازم ہے کہ اپنے وقت کی قدر کرے اور عمر کو غنیمت سمجھے اور اس تھوڑے سے دنوں میں جو اس کو مل گئے ہیں مولا کریم سے ایسا معاملہ کرے کہ ان کے گزرنے پر اس کو عظیم الشان آرام گاہ حاصل ہو.بڑے بد بخت ہیں وہ جو اپنے بیوی بچے کے آرام کے لئے دین بر باد کرتے ہیں.یادرکھیں کہ مال اسباب عزیزوں رشتہ داروں سے برخوردار ہونا اور فائدہ اٹھانا محض مولیٰ کریم کے فضل پر منحصر ہے.اس سورہ شریفہ میں فرمایا کہ سب انسان گھاٹے میں پڑ رہے ہیں مگر ایک قوم نہیں.وہ کون؟ الا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.چار باتوں کو دستور العمل بنالے تو اس عصر کے وقت سارے دن کی مزدوریوں سے زیادہ مزدوری مل جاوے.حدیث میں لکھا ہے کہ صبح سے شام تک مزدور کے لئے ایک دینار ہے.پس صبح والے مزدوروں نے دو پہر تک کام کیا اور چھوڑ بیٹھے، پھر اور مزدوروں نے دوپہر سے عصر تک کام کیا اور پھر کام کو ترک کر دیا.مگر تیسری اور جماعت مزدوروں کی آئی جنہوں نے عصر سے کام کو شروع کیا آخر دن تک ، تو ان کے لئے دو دینار مزدوری ملی.مگر قرآن شریف سے یہ ملتا ہے کہ جب ایک مومن عمل کرتا ہے تو اس کو دس گناہ بڑھ کر اجر ملتا ہے.غرض وہ چار باتیں کیا ہیں جن کا اس سورہ میں ذکر ہے؟ ان میں اول اور مقدم ایمان ہے.یہ عظیم الشان چیز ہے.بدوں اس کے کوئی عمل مقبول ہی نہیں ہوتا.ہر ایک عمل میں ضروری ہے کہ ایمان اخلاص اورصواب ہو.یہ پتا لگانا کہ کس درجہ کا
حقائق الفرقان ۳۴۹ سُوْرَةُ الْعَصْرِ مومن ہے آسان نہیں.ایک در از تجربہ کے بعد معلوم ہوسکتا ہے.شادی غمی کا موقع آتا ہے.ایک طرف اللہ تعالیٰ کی حکومت ہے اور دوسری طرف برادری کا قانون اور قومی محرکات.اب اگر اللہ تعالیٰ کی حکومت سے نہیں نکلتا اور قومی اور برادری کے اصولوں کی پرواہ نہیں کرتا تو بیشک مخلص مومن ہے.ایک طرف نفس کا فیصلہ ہو دوسری طرف قوم کا فیصلہ اور تیسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ.اب اگر اپنے اور قوم کے فیصلہ کی کچھ پرواہ نہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے نیچے گردن رکھ دیتا ہے تو یقیناً مومن ہے.میں دیکھتا ہوں شادیاں ہوتی ہیں تو بڑی قوم کی تلاش ہوتی ہے.تقویٰ کی تلاش نہیں کی جاتی !!! بد معاش ، آوارہ مزاج ، شریر ہو، کچھ پروا نہیں مگر ہڈی پسلی اور خون کسی بڑی قوم کا ہو.افسوس ! صد افسوس !! پھر شادی کی دعوتوں میں مسکینوں کو دھکے دے کر باہر نکالا جاتا ہے لیکن شریر النفس اور بے حیا لوگوں کو بلا بلا کر بٹھایا جاتا ہے.جن لوگوں کے اموال کا تلف کرنا غضب الہی کا موجب ہے نہایت بیبا کی اور شوخی کے ساتھ اس کو تباہ کیا جاتا ہے.دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے میں بیباک ہیں.مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہو کر احکام الہی کو سنتے ہیں.مگر اپنی جماعت یا سوسائٹی کے کسی معمول بہ عمل کے خلاف دیکھ کر اس کے لینے میں مضائقہ کرتے ہیں.میرا تو یقین ہے کہ یہ لوگ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی ہوتے تو آپ کی باتوں کے ماننے میں اسی طرح مضائقہ کرتے جیسا آج امام کی اتباع سے مضائقہ کرتے ہیں.غرض ایمان موقوف ہے خدا کی ذات میں ، اسماء میں ، یاد میں.عظمت و جبروت میں دوسرے کو شریک نہ کرے خواہ فرشتہ ہو یا رسول ہو نبی ہو یا ولی ہو.کیسا افسوس آتا ہے کہ موحد لوگ تو حید کا اقرار کر کے پھر مسیح کو خَالِقٍ كَخَلْقِ اللہ اور مُخینی و احیاء اللہ مانتے ہیں !!! کیا یہی تو حید ہے.اور یہ کہنا کہ خدا کے اذن سے کرتے تھے ایک دھوکا ہے.اگر کوئی کام اذن الہی سے بھی کیا جاوے تو کیا وہ خدا کی طرح کا کام ہو جاتا اور کرنے والے کو خدا کا شریک بنا دیتا ہے.خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ اللہ تعالیٰ کی ہی ذات ہے.ایک شخص امام علیہ السلام کے پاس آیا.جب اس سے پوچھا گیا کہ مسیح اور خدا تعالیٰ کی چمگادڑوں میں کچھ فرق بھی ہے تو اس نے کہا کہ رل مل گئے ہیں.آہ !
حقائق الفرقان ۳۵۰ سُورَةُ الْعَصْرِ ایمان کی پہلی شرط ہے ایمان باللہ کہ کسی حمد، فعل، عبادت،حسن و احسان الہی میں کسی غیر کو شریک نہ کرے.مجھے ان لوگوں پر تعجب آیا کرتا ہے جو اپنی محرومیت کے باعث خدا تعالیٰ سے ہمکلام ہونے سے محروم ہیں.کہا کرتے ہیں کہ الہام حجت نہیں ہے وہ اطِیعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ (التغابن : ۱۳) کے کیا معنے کرتے ہیں.قرآن کریم تو ہمیں اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ پہنچا ہے.اطیعوا اللہ کا موقع ہی کب ملتا ہے.رسول کے ذریعہ مانا اس کے بھی بعد ہے.خدا تعالیٰ کی قدر کرو ایسا نہ ہو کہ مَا قَدَرُوا اللهَ (الانعام: ۹۲) کے نیچے آجاؤ.پس جبکہ اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے اور ہمیشہ کرتا رہا پھر کیا وجہ ہے کہ وہ آج چپ ہو گیا ؟ مجھے اس آیت پر کہ موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں جب قوم نے بچھڑہ کو خدا بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ دلیل دی ہے کہ اَلا يَرْجِعُ اِلَيْهِمُ قولا (طه:۹۰) یعنی تم دیکھتے ہو کہ تمہاری بات کا جواب نہیں دیتا یہ تفہیم ہوئی کہ جو خدا جواب نہ دے وہ بچھڑہ کا سا خدا ہوا.ہاں یہ بھی سچ ہے کہ سارے جگ سے بات کر نا کبھی نہیں ہوا.انسان اپنے اندروہ خوبیاں اور خواص پیدا کرے جو کلام الہی کے لئے ضروری ہیں پھر جواب ملے گا.دوسری شرط ایمان کی اخلاص ہے یعنی خدا ہی کے لئے ہو.اور تیسری شرط صواب ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موافق عملدرآمد ہو.کوئی عمل قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کرتا جب تک اخلاص اور صواب سے نہ ہو.پھر ایمان بالملائکہ ہے.ایمان بالملائکہ ایسی چیز ہے جس کی طرف سے تساہل کر کے لوگ نیکی سے محروم رہ جاتے ہیں.آج کل کے لوگ سمجھتے ہیں اور یقین کرتے ہیں کہ بدوں سبب کے فعل سرزد نہیں ہوتا.پس بیٹھے بیٹھے جو انسان کو دفعتا نیکی کا خیال آتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک لمتہ الملک انسان کے ساتھ ہے.اس کے ذریعہ نیک خیال پیدا ہوتے ہیں اور شیطانی تعلقات سے برے خیالات اٹھتے ہیں پس انسان کو لازم ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر فی الفور نیکی کرے.ایسانہ ہو يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (الانفال: ۲۵) کا مصداق ہو جاوے.ایمان بالملائکہ کا یہی فائدہ ہے کہ نیکی سے تغافل نہ کرے.پھر اللہ کی کتابوں، اس کے رسولوں پر ایمان لاوے.لے اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو.سے اللہ آڑے آ جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے.
حقائق الفرقان ۳۵۱ سُورَةُ الْعَصْرِ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے.اس کو دستور العمل بنادے.افسوس ہے کہ مسلمان اس کو کتاب اللہ جان کر بھی دستور العمل بنانے میں مضائقہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں السُّنَّةُ قَاضِيَةٌ عَلَى کتاب اللہ کا فتوی دیتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی قرآن کو کس ادب اور عظمت کی نگاہ سے دیکھا ہے.ساری حدیث کی کتابیں دیکھو.جن مسائل پر قرآن کریم نے مفصل بحث فرمائی ہے مثلاً ہستی باری تعالیٰ ، ضرورت نبوت ، مسئلہ تقدیر وغیرہ ، ان پر احادیث میں بحث نہیں کی گئی اور نہ ان کے دلائل دیئے.پھر تقدیر کے مسئلہ پر ایمان لاوے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ فاسق کو عمدہ نتیجہ ملے.پھر جزا وسزا پر ایمان لاوے.اس کے بعد دوسری بات عَمِلُوا الصّلِحت ہے.اس کا عام اصول ہے کہ ہر سنوار کا کام کرے اور اس کے معلوم کرنے کے واسطے قرآن کریم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمد معیار ہے.پھر انسان سوچ لے کہ امت محمدیہ کو كُنتُمْ خَيْرَ امة " (ال عمران ) قرار دیا ہے.پس جس سے آٹھ پہر میں کوئی بھلائی بھی نہ ہو وہ اپنی حالت پر غور کرے.ایسی ہی وصیت الحق ضروری ہے.گونگا شیطان بننا اچھا نہیں.مقابلہ میں مشکلات پیش آتی ہیں.پھر کوشش کرے اور صبر و استقلال سے کام لے.یہ ہیں چار دستور العمل جو اس مختصرسی سورت میں بیان ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق دے کہ قرآن ہمارا دستور العمل ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم مطاع ہو اور وہ یہ زمانہ جو امن اور ایمان کے لئے ہے اس کی قدر کریں.آمین.الحکم جلد ۴ نمبر ۲۹ مورخه ۱۶ اگست ۱۹۰۰ ء صفحه ۴ تا ۷ ) ل سنت کتاب اللہ پر قاضی ہے.تم نیک ترین امت ہو.
حقائق الفرقان ۳۵۲ سُوْرَةُ الْهُمَزَة سُوْرَةُ الْهُمَزَةِ مَكِّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اس بابرکت اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتا ہوں جو رحمن و رحیم ہے.۲ - - وَيْلٌ لِكُلّ هُمَزَةٍ تُمَزَةٍ.ترجمہ - ہر ایک عیب چین غیبت کرنے والے پر افسوس ہے.تفسیر - هُمَزَۃ میں مبالغہ کے واسطے ہے.جیسے عَلامُ عَلَّامَةٌ هَمْز کے معنے توڑنے کے ہیں اور لمز کے معنے طعنہ مارنے کے ہیں.هَمَزَہ لَبَزَہ کے معنے لوگوں کی آبروؤں، عرب توں میں طعن و تشنیع کے ذریعہ شکستگی پیدا کرنے کے ہیں.ھامز وہ شخص ہے جو روبرو بدگوئی کرے یا آنکھ اور ابرو وغیرہ کے اشارات سے کسی کی تحقیر کرے.اور لامز جو پس پشت کسی کی بدگوئی کرے.کُل کا لفظ جامع ہے.ہر قسم کے ھا مزین ولا مزین پر.کسے باشد مسلم ہو یا کافر.انبیاء کے اخلاق میں کبھی یہ ضہ ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) پایا نہیں جاتا.الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَ عَدَدَة - ترجمہ.جس نے مال جمع کیا اور اس کو گن گن کر رکھا.ضعف تفسیر محبُّ الدُّنْيَا رَ أُسُ كُلّ خَطِيئَةٍ مال کے جمع کرنے کی حرص کو ہر قسم کے گناہ سے شدید مناسبت ہے.منجملہ ان کے ایک ھمازی اور لتمازی بھی ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ءصفحه ۳۴۳) -- وَمَا ادريكَ مَا الْحُطَمَةُ - ترجمہ.اور تو کیا سمجھا کہ حُطمہ کیا چیز ہے.تفسیر - عظم کے لغوی معنی بھی توڑنے ہی کے ہیں.زراعت کا غلہ جو چورنے کے لئے جانوروں کے پیروں سے روندا یا جاتا ہے.وہ حُطام کہلاتا ہے.كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى لَوْ نَشَاءُ
حقائق الفرقان ۳۵۳ سُوْرَةُ الْهُمَزَة لَجَعَلْنَهُ حُطاما (الواقعه : ۲۲ ) همز اور لمز کی جزا میں بھی سزا بالمثل کے طور پر اللہ تعالیٰ نے نار جہنم کے طبقہ کا نام محطمة بیان فرمایا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) ۸ تا ۱۰ - الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْإِنْدَةِ - إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ - ترجمہ.جو دلوں پر بھڑکتی ہے.بے شک وہ ان پر بند کی جائے گی.لمبے لمبے ستون کے گھروں میں ( یاستونوں کی شکل میں ).تفسیر.جو شخص مال کے جمع کرنے کی فکروں میں چور رہتا ہے.اس کے دل پر ذرا ذرا سے نقصان کے وقت آگ کی لپٹ کی طرح صدمات شعلہ زن ہوتے رہتے ہیں.اسی دنیا میں ایسا شخص زندہ در آتش ہوتا ہے.اس دل کی کیفیت کے اعتبار سے آگ کی لپٹ کی نسبت دل کی طرف کی.آیت نمبر ۹ میں مُؤصَدَةً کے لفظ میں یہ ارشاد فرمایا کہ دنیا کی راحتوں اور آرام کے دروازے بھی باوجود مال و دولت کے ہونے کے ان لوگوں پر بند ہوتے ہیں.فِي عَمَلٍ مُسَدَّدَةٍ لمبی لمبی امیدوں میں مبتلا ہو کر اس عذاب کا مزہ دنیا میں بھی چکھتے رہتے ہیں.اور یہی عذاب آگ کا دنیا سے وہ آخرت میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں.اس سورہ شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں اور نکتہ چینوں کو جو مکہ میں تھے آگاہ کیا ہے کہ ایک وقت آتا ہے کہ تمہارے یہ مال و منال جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کے لئے جمع کئے ہوئے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے پاس ہمیشہ رہیں گے اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کام نہ آئیں گے اور تم ہلاک ہو کر خطرناک عذاب میں مبتلا ہو جاؤ گے.اور عام طور پر دوسروں کی حقارت.نکتہ چینی اور عیب بینی سے منع کیا کہ بالآخر یہ خصال بد انسان کو ہلاکت کے کنویں میں گرا دیتی ہیں.مخالفین مکہ آخر اس پیشگوئی کے موافق مبتلائے عذاب ہوئے اور ان کے اموال کام نہ آئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) لے اگر ہم چاہیں تو کر ڈالیں اس کو چورا چور.
حقائق الفرقان ۳۵۴ سُوْرَةُ الْفِيْل سُوْرَةُ الْفِيلِ مَكِيَةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ہم سورہ فیل کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ رحمن و رحیم کے نام کی مدد سے.- أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُبِ الْفِيلِ ترجمہ.تجھے نہیں معلوم کیا برتاؤ کیا تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ ( تو کیا تیری طرف سے کچھ ان دشمنوں کو نہ ہٹائے گا ایسا تو ہوگا نہیں ).تفسیر.الم تر کے معنی الم تعلم کے ہیں.کیونکہ اصحب فیل کا واقعہ متواتر بیان سے ایسا معتبر و مشہور تھا کہ رؤیت اور علم کا حکم رکھتا تھا.جس سال اصحاب فیل تباہ ہوئے.اسی سال پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.آپ کی ولادت ۱/۲۰ پریل ۵۷۱ء کو ہوئی.آپ کی ولادت باسعادت کے لئے اصحاب الفیل کا واقعہ بطور توطیہ وتمہید کے تھا.كَيْفَ فَعَلَ رتك فرما کر ربوبیت کے لفظ سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تسلی فرمائی کہ آپ کی پیدائش سے پہلے ہی جبکہ آپ کے رب نے آپ کی خاطر اس قسم کی صیانت کی ہے کہ ایک بادشاہ کے زبر دست لشکر کو ہلاک کر دیا.تو کیا وہ ربوبیت جبکہ آپ پیدا ہو چکے ہیں تو آپ سے اب الگ ہوسکتی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) عباسیوں کی سلطنت تھی.ایک دفعہ محمود غزنوی سے ان کی کچھ رنجش ہوگئی.محمود غزنوی نے اس خلیفہ کولکھا کہ میں ہندوستان کا فاتح ہوں اور میرے پاس اتنے ہاتھی ہیں.خلیفہ نے اس کے جواب میں الم الم نہایت خوبصورت لکھوا کر بھیج دیا.محمود کے دربار میں تو سب فارسی دان ہی تھے.چنانچہ اس زمانہ کی یادگار صرف ”شاہ نامہ ہی باقی ہے.وہ تو کچھ سمجھے نہیں.آخر محمود نے کہا کہ خلیفہ نے اکھ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاصْحُبِ الفِيلِ یاد دلائی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے پاس ہاتھی
حقائق الفرقان ۳۵۵ سُورَةُ الفِيْل ہیں تو ہمارا وہ رب ہے جو اصحاب فیل کو ہلاک کر چکا ہے.بہت ڈر گیا اور معذرت کی جس پر تعلقات درست ہو گئے.مگر پھر بغداد کا حال ہمیں معلوم ہے.وہ محمود غزنوی جو خلیفہ کے اَلَمْ اَلم سے ڈر گیا تھا.اسی پای تخت کو ہلا کو اور چنگیز نے تباہ کر دیا.ایک ہزار شخص جن پر سلطنت کے متعلق دعویٰ کا گمان تھا ان سب کو دیوار میں چن دیا.وہ بی بی جس کا نام نسیم السحر رکھا تھا ایک گلی میں اس حالت میں دیکھی گئی کہ کتے اس کا لہو چاٹ رہے تھے.اور پھر میری آنکھوں کے سامنے بخارا، سمرقند ، دہلی، لکھنؤ اور طرابلس کی سلطنتیں مٹ گئیں.دہلی کے شہزادوں میں سے ایک کو میں نے جموں میں ستار بجاتے میراسیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا دیکھا.الفضل جلد نمبر ۱۷ مورخه ۸ /اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) سورة أَلَمْ تَرَ كَيْفَ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قدر اور مرتبہ ظاہر کیا ہے.یہ سورۃ اس حالت کی ہے جب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصائب اور دکھ اٹھا رہے تھے.اللہ تعالیٰ اس حالت میں آپ کو تسلی دیتا ہے کہ میں تیرا مؤید و ناصر ہوں.اس میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے کہ کیا تو نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا کیا یعنی ان کو اپنے منصوبہ اور تجویز میں نامراد رکھا اور ان کا مکر اٹھا کر ان پر ہی دے مارا.اور چھوٹے چھوٹے جانور ان کے مارنے کے لئے بھیج دیئے ان جانوروں کے ہاتھوں کوئی بندوقیں نہ تھیں بلکہ مٹی تھی.سجیل بھیگی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں.اس سورۃ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ جس طرح پر اصحاب الفیل کے حملہ سے بیت اللہ محفوظ رہا اسی طرح پر تو ان مشرکین اور مخالفین سے محفوظ رہے گا اور تیری کا میابی یقینی ہے تو منصور اور مؤید ہو گا.یعنی آپ کی ساری کارروائیوں کو برباد کرنے کے لئے جو سامان آپ کے مخالفین کر رہے ہیں اور جو تدابیر عمل میں لاتے ہیں ان کے تباہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ان کی ہی تدبیروں اور کوششوں کو اٹھا کر انہیں ہلاک کر دے گا اور تیری ضعیف اور کمزور جماعت ان پر غالب رہے گی.جیسے ہاتھی والوں کو ابا بیلوں نے تباہ کر دیا.الحکم جلد ۱۴ نمبر ۱۰ مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۱۰ صفحه ۳)
حقائق الفرقان ۳۵۶ سُوْرَةُ الْفِيْل اَلَمْ يَجْعَلُ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ - ترجمہ.کیا ( ان کو حملہ سے قبل ہلاک کر کے ) ان کے منصو بہ کو باطل نہیں کر دیا.تفسیر تضلیل کے معنے تدبیر کے اکارت ہونے کے ہیں.كَمَا قَالَ اللهُ تَعَالَى أَضَلَّ اللهُ أَعْمَالَهُمْ (محمد : ۲) سورۃ محمدؐ کی اس آیت اور آیت بالا دونوں کا ایک ہی مطلب ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) وَاَرْسَلَ عَلَيْهِمْ طَيْرًا اَبَابِيلَ - ترجمہ.اور ان پر ٹھنڈ کے ٹھنڈ پرندوں کے بھیجے.تفسیر.ابابیل.ڈاروں کے ڈار تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۸۸) ابابیل کے معنے جھنڈ کے جھنڈ.یہ لفظ جمع ہے.واحد اس کا نہیں ہوتا بعضوں نے ابول ابیال اور انبالہ اس کا واحد قرار دیا ہے.غرضیکہ ابابیل کے معنے پڑے باندھ کر قطار در قطار آنے والے جانوروں کے ہیں.عرب کہا کرتے ہیں جَاءَتِ الْخَيْلُ آبَابِيْلَ مِنْ هُهُنَا وَ مِنْ هُهُنَا یعنی گھوڑوں کا لشکر قطار باندھ کر اس طرف سے اور اُس طرف سے آ پہنچا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) ۵.تَرْمِيهِمُ بِحِجَارَةٍ مِّنْ سِجِّيلٍ - ترجمہ.جو ان پر پتھر کی کنکریاں پھینکتے تھے.تفسیر.سجیل کے معنے سخت کنکری کے ہیں.سنگ اور رگل سے اس لفظ کو مرکب جنہوں نے کہا ہے غلطی کی ہے.عربی جیسے وسیع اور بامعنی زبان کو اس طور پر مرکب کرنے کی کیا ضرورت جس مقام پر یہ لشکر ہلاک ہوا.وہ مزدلفہ اور منی کے درمیان کی جگہ ہے.اب بھی حاجی لوگ رمی جمار کے لئے اسی میدان سے کنکریاں چن کر ساتھ لے آتے اور ان سے رمی جمار کرتے ہیں.غالباً علاج فاسد بافسد اس کا مطلب ہو.سجیل استجال سے مشتق ہے.اسجال اور ارسال ایک معنی ہیں.بعضوں کی تحقیق ہے کہ جن کفار پر وہ کنکریاں گرتی تھیں.ان کو چیچک نکل آتی تھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) لے ان کے اعمال اکارت گئے.
حقائق الفرقان ۳۵۷ سُوْرَةُ الْفِيْل تَرْمِيهِمْ بِحِجَارَةٍ - شکاری جانوروں کی عادت ہے کہ وہ گوشت کو پتھر پر مار کر کھاتے ہیں.فَجَعَلَهُمْ كَعَصْفٍ مَّاكُولٍ - تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۸) ترجمہ.تو ان کو ایسا کر ڈالا جیسے چبایا ہوا بھوسا.تفسیر - عضف ماکول کے معنے خوید پس خوردہ کے ہیں.چڑیاں ان کی لاشوں کو نوچ کر لے عَصْفِ جاتیں اور پہاڑوں میں کھاتیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۳) دھرم پال آریہ کے اعتراض طيرا ابابیل کجا ہاتھی اور کجا کرم خور جانور کے جواب میں تحریر فرمایا: قبل اس کے کہ ہم آپ کو اس سوال کا جواب دیں.ضروری سمجھتے ہیں کہ آپ کے سوال میں جو الفاظ آئے ہیں.ان کے معانی بتلائیں.پہلا لفظ گید.ہے.یہاں یادر ہے کہ گیند کے معنے لڑائی کے ہیں.دوسرا لفظ تضلیل ہے تضلیل کے معنے باطل کرنے اور اہلاک کے ہیں.تیسر الفظ ابابیل ہے.ابابیل جمع ہے ابیل اور ابول کی.ابیل اور ابول کے معنے جماعت کے ہیں.ابابیل کے معنے ہوئے بہت سی جماعتیں.ہماری زبان میں ترجمہ ہوا.ڈاروں کی ڈار.چنانچہ لسان العرب میں لکھا ہے.قال النُّ جَاجُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى طَيْرًا اَبَابِيْلَ جَمَاعَاتٌ مِنْ هُهُنَا وَ جَمَاعَاتٌ مِنْ لے هُهُنَا وَقِيْلَ يَتَّبِعُ بَعْضُهَا بَعْضًا إِبْيْلًا إِبْيْلًا أَى قَطِيعًا خَلْفَ قَطِيعِ.دوسرا سوال اس کے بعد یہ پیش آتا ہے کہ دشمن کی فوج کی ہلاکت کو جانوروں سے کیا تعلق ہے.سواس کے واسطے سام و ید فصل نمبر ۳ پر پاٹیک نمبرا کی عبارت دیکھو.اس میں لکھا ہے.ا.کوؤں اور مضبوط بازو والوں پرندوں کو ان کے تعاقب میں بھیج.ہاں تو اس فوج کو کرگسوں کی غذا بنا.اے اندر! ایسا کر کہ کوئی ان میں سے نہ بچے.کوئی نیک کے بھی نہ بچے.ان کے پیچھے تو تعاقب کر نیوالے پرندوں کو جمع کر دے“ 1 زجاج اللہ تعالیٰ کے قول طیرا ابابیل کی تشریح میں کہتے ہیں.کچھ گروہ یہاں سے کچھ گروہ وہاں سے.اور کہا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے پیچھے چلتے تھے.ابیلا بیلا یعنی ایک گروہ دوسرے گروہ کے پیچھے.لطیفہ نیکوں کے لئے بھی بد دعا ہے.
حقائق الفرقان ۳۵۸ سُوْرَةُ الْفِيْل پھر سام وید فصل دوم پر پائیک نمبر ۳ میں یوں ہے.”اے روشن اشاس جب تیرے وقت رجوع کرتے ہیں تو کل چوپائے اور دریاؤں والے حرکت کرتے ہیں اور تیرے گرد باز و والے پرندے آسمان کی تمام حدود سے اکٹھے ہو جاتے ہیں.“ عربی میں بھی ایسے محاورات بکثرت ہیں اور انہی معنوں اور استعاروں میں پرندوں کے الفاظ وہاں مستعمل ہوتے ہیں چنانچہ النابغة الذبیانی کا شعر ہے إِذَا مَاغَرًا بِالجَيْشِ حَلَّقَ فَوْقَهُمْ عَصَائِبٌ طَيْرٍ تَهْتَدِى بِعَصَائِبِ جب وہ لشکر لے کر دشمنوں پر چڑھتا تو پرندوں کے غولوں کے غول دشمنوں کے لاشوں کے کھانے کو جمع ہو جاتے ہیں.ایک مولوی صاحب نے اس موقع پر ایک شعر لطیف لکھا ہے.وہ ہمارے جواب کے ساتھ بڑی مناسبت رکھتا ہے.گو مولوی صاحب نے اس کے معنے کچھ ہی کئے ہوں مگر وہ ہماری وہ ذکر کردہ دلیل کا ہی مثبت ہے اور وہ شعر یہ ہے.ايْنَ الْمَفَرُّ لِمَنْ عَادَاهُ مِنْ يَدِهِ وَ الْوَحْشُ وَ الطَّيْرُ انْبَاعٌ تُسَائِرُة یہاں طیر سے مراد وہی مردار خور پرندے ہیں اور سباع بھی وہی مردار خور ہیں.جو فتح مندی کا نشان ہیں.اسی قسم کے انداز بیان میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اشارہ کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہلاک کئے جاویں گے.جیسے فرماتا ہے: الَم يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ مُسَخَرْتٍ فِى جَةِ السَّمَاءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (النحل :٨٠) کیا وہ ان پرندوں کے حالات پر غور نہیں کرتے.جنہیں ہم نے آسمان کے جو میں قابو کر رکھا ہے.ہم ہی نے تو انہیں تھام رکھا ہے ( اور ایک وقت آنے والا ہے کہ انہیں نبی کریم کے دشمنوں کی لاشوں پر چھوڑ دیں گے ) مومنوں کے لئے ان باتوں میں نشان ہیں.b یہاں بھی پہلے ایک شریر قوم کا بیان کیا ہے.جو بڑی نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی.اور اسلام کو اے ممدوح سے جو دشمنی کرے وہ اس کے ہاتھ سے کہاں بھاگ کر جائے گا.درندے اور شکاری پرندے اس کے ساتھ ساتھ پیچھے جا رہے ہوتے ہیں.( مدوح کے ہاتھوں مرنے والوں کی لاشوں کا گوشت کھانے کے لئے ).
حقائق الفرقان ۳۵۹ سُوْرَةُ الْفِيْل عیب لگاتی تھی.اور بہت سے اموال جمع کر کے فتح کے گھمنڈ میں مکہ پر انہوں نے چڑھائی کی.یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا.جس نے اسی سال مکہ معظمہ پر چڑھائی کی جبکہ حضرت رحمتہ للعالمین نبی کریم پیدا ہوئے.جب یہ شخص وادی محصر میں پہنچا.اس نے عمائد مکہ کو کہلا بھیجا کہ کسی معز ز آدمی کو بھیجو.تب اہل مکہ نے عبد المطلب نامی ایک شخص کو بھیجا جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے.جب عبدالمطلب اس ابرهه نام بادشاہ کے پاس پہنچے.وہ مدارات سے پیش آیا.جب عبدالمطلب چلنے لگے اس نے کہا کہ آپ کچھ مانگ لیں.انہوں نے کہا کہ میری سو اونٹنیاں تمہارے آدمیوں نے پکڑی ہیں.وہ واپس بھیج دو.تب اس بادشاہ نے حقارت کی نظر سے عبدالمطلب کو کہا کہ مجھے بڑا تعجب ہے کہ تمہیں اپنی اونٹنیوں کی فکر لگ رہی ہے.اور ہم تمہارے اس معبد کو تباہ کرنے کے لئے آئے ہیں.عبد المطلب نے کہا.کیا ہمارا مولیٰ جو ذرہ ذرہ کا مالک ہے.جب یہ معبد اسی کے نام کا ہے اور اسی کی طرف منسوب ہے.وہ اس کی حفاظت نہیں کرے گا؟ اگر وہ اپنے معبد کی خود حفاظت نہیں کرنا چاہتا.تو ہم کیا کر سکتے ہیں.آخر اس بادشاہ کے لشکر میں خطرناک و با پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتا ہے ان پر حملہ آور ہوا اور اوپر سے بارش ہوئی.اور اس وادی میں سیلاب آیا.بہت سارے لشکری ہلاک ہو گئے اور جیسے عام قاعدہ ہے کہ جب کثرت سے مردے ہو جاتے ہیں.اور ان کو کوئی جلانے والا اور گاڑنے والا نہیں رہتا تو ان کو پرندے کھاتے ہیں.اُن موذیوں کو بھی اسی طرح جانوروں نے کھایا.یہ کوئی پہیلی اور معمانہیں.تاریخی واقعہ ہے.پر افسوس تمہاری عقلوں پر !! مکہ معظمہ کی حفاظت ہمیشہ ہوتی رہی اور ہوتی رہے گی.کوئی تاریخ دنیا میں ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ اسلام کے مدعیوں یا ابراہیم کے تعظیم کرنیوالوں کے سوا کوئی اور بھی اس کا مالک ہوا ہو.یونانی سکندر بگولے کی طرح یونان سے اٹھ کر تمہارے ملک میں پہنچا اور اسے پامال کیا.اور رچرڈ سارے یورپ کے ساتھ اسلام کی بربادی کو اٹھا اور نیپولین مصر تک پہنچ گیا.مگر عرب کی فتح سے یہ سب ناکام اور نا مرا در ہے.اس میں خدا ترسوں کے لئے بڑے نشان ہیں.پہلا بابل میں ہلاک
حقائق الفرقان ۳۶۰ سُوْرَةُ الْفِيْل ہوا اور دوسرا ملک شام سے نامراد واپس ہوا اور تیسرا سینٹ ہلینا کے قلعہ میں بے انتہا حسرتوں کو دل میں لے کر مرا.تمہارے آریہ ورت کو ہم دیکھتے ہیں اہلِ اسلام اس کے مالک ہوئے یا اُن کے ساتھی اب اہل کتاب ہیں.تمہارے ہری دوار اور کاشی وغیرہ کی حکومت دوسروں کے قبضہ میں ہے.تمہارا کوئی معبد غیر مفتوح نہیں رہا.غیر قوموں کے گھوڑوں کے شموں نے سدا انہیں پامال کیا.یہ عجائبات اور ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰۹ تا ۲۱۱) معجزات ہیں !!
حقائق الفرقان ۳۶۱ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ مَّكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ قریش کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اُس اللہ کے نام کی مدد سے جو رحمن ورحیم ہے.۲ تا ۵ - لايُلفِ قُرَيْشٍ - الفِهِمُ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ - فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّنْ جُوعٍ وَ أَمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ - ترجمہ.واسطے الفت دلا نے قریش کے ان کو الفت دلا نا سفر جاڑے اور گرمی میں.پس چاہیے کہ عبادت کریں پروردگار اس گھر کے کی جس نے کھانا دیا ان کو بھوک سے اور امن دیا ان کو خوف سے.تفسیر.اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے اصحاب فیل کو ہلاک کیا اور اس گھر کی عزت کے واسطے کئی معجزات دکھائے تا کہ قریش اور ان کے ذریعہ سے پھر تمام دنیا الفت پکڑے ان کی الفت کے واسطے جاڑے اور گرمی کے سفر کے اسباب مہیا ہوئے.خدا تعالیٰ کے اس قدر فضل اور انعام پر نگاہ کر کے چاہیے کہ اس رب کی عبادت کریں جس نے اپنے اس عبادت گاہ کی عزت بے نظیر طور پر دنیا میں قائم کی اور جس نے اس کے اہل کو طعام کے سامان بہم پہنچا کر فقر وفاقہ سے بچایا اور ہر طرح کے خوف سے بے خوف کر کے اس جگہ کو دارالامن بنا دیا.اللَّامُ.لَامُ التَّعَجُبِ كَمَا فِي أَغَرَّكَ إِنْ قَالُوا لِعِزَّةِ شَاعِرٍ خَيَالُ آبَاهُ مِنْ عَرِيفٍ وَشَاعِرٍ الْأَلْفُ اجْتِمَاعُ مَعَ الْتِنَامٍ قَالَهُ الرَّاغِبُ وَ قَالَ الْهَرْوِيُّ فِي الْغَرِيْبَيْنِ إِيْلَافُ عُهُودٍ بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ الْمُلُوكِ فَكَانَ هَاشِمْ يُوَالِفُ مَلِكَ الشَّامِ وَالْمُطَلِبُ كِسْرَى وَ عَبْدُ
حقائق الفرقان ۳۶۲ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ شَمْسٍ وَنَوْفَلُ يُوَالِفَانِ مَلِكَ مِصْرَ وَالْحَبَشَةِ وَيُوَالِفُ مَعْنَاهُ يُعَاهِدُ وَ يُصَالِحُ الفَ يُوَالِفُ الافا قُرَيْضٌ وُلْدُ نَضْرِ بْنِ كَنَانَه.وَسَأَلَ مُعَاوِيَةُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ فَقَالَ دَابَّةُ الْبَحْرِ وَاسْتَدَلَّ بِقَوْلِ الْعَجَمِي كَمَا قَالَ - وقُرَيْضٌ هِيَ الَّتِي تَسْكُنُ الْبَحْرَ وَبِهَا سُمِّيَتْ قُرَيْضٌ قُرَيْشًا تَأْكُلُ الْغَثَ وَ السَّمِيْنِ وَلا تَتْرُكُ مِنْهَا لِذِي جَنَاحَيْنِ قُرَيْشًا - وَقَالَ الْفَرَّاءُ وَ مِنَ التَّقَرُّشِ بِمَعْنَى التَكَشبِ سُوَالِتَجَارَتِهِمْ وَ قِيْلَ مِنَ التَّقْرِيشِ هُوَ التَّفْتِيشُ قَالَ الْحَرْثُ بْنُ حَلِنْزَه - أَيُّهَا الشَّامِتُ الْمُقَرِشُ عَنَّا عِنْدَ عُمْرٍ وَفَهْلٍ لَنَا وَابْقَاءِ لِأَنَّ آبَاهُمْ كَانَ يُفَتِّشُ عَنْ أَرْبَابِ الْحَوَائِجِ لِيَقْضِيَ وَ عَلَى ذِي الْخَلَّةِ لِيَسُدُّوْهَا وَ التَّصْغِيرُ لِلتَّعْظِيمِ.” إِيْلَافِهِمْ رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالضَّيْفِ ايْلَافِهِمْ بَدَلْ مِنْ ايْلَافِ قُرَيْشٍ فَلْيَعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ كَمَا قَالَ إِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ الصَّلوةُ وَالسَّلَامُ وَالْبَرَكَاتُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا ، وَكَانُوْا فِي أَرْغَدِ عَيْشِ مَعَ أَنَّهُ كَانَ النَّاسُ يُتَخَطَّفُونَ مِنْ حَوْلِهِمْ وَأَشَارَ اللهُ تَعَالَى ذِكْرُهُ إِلَى هَذَا فِي قَوْلِهِ وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ مِنَةً مُطْمَئِنَّةً يَأْتِيَهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ (نمل) ترجمہ :.لام تعجب کے لئے ہے..کیا تجھے اس بات نے دھوکہ دیا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ عزہ بڑا شاعر ہے اس کے
حقائق الفرقان ۳۶۳ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ باپ پر تعجب ہے کہ اس کا بیٹا کیسا مبصر اور شاعر ہے.راغب اور ہروی نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ الف ایسے طور پر اکٹھا کرنے کو کہتے ہیں کہ مجتمع اشیاء میں پوری پیوشکی ہو.ایلاف سے مراد وہ عہد واقرار ہیں جو قریش اور اس وقت کے ملوک کے درمیان قرار پاچکے تھے.ہاشم کا عہد و پیمان بادشاہ شام کے ساتھ تھا اور مطلب کا کسری کے ساتھ تھا اور عبد شمس اور نوفل کا عہد و پیمان مصر اور حبشہ کے بادشاہوں کے ساتھ.الف کے معنے معاہدہ اور مصالحت کے ہیں.قریش نضر بن کنانہ کا بیٹا تھا.حضرت معاویہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے پوچھا تھا کہ قریش کے لفظ کے کیا معنے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ قریش ایک سمندری چار پایہ کا نام ہے اور اس پر حجمی کے اشعار کو بطور ذیل کے پڑھا جن کے یہ معنے ہیں کہ قریش وہ جانور ہے جو سمندر میں رہتا ہے.اُسی کے نام پر قبیلہ کا نام قریش ہوا وہ دُبلے اور موٹے سب کو کھا جاتا ہے اور کسی پروں والے کے پر باقی نہیں چھوڑتا.فراء کا قول ہے کہ لفظ قریش لفظ تقرش سے نکلا ہے اور تقرش کے معنی کسب کمائی ہے چونکہ یہ قبیلہ تجارت کرتا تھا اس واسطے اس کا نام یہ ہو گیا.ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ لفظ تقرش سے نکلا ہے جس کے معنے تفتیش کے ہیں.حرث بن حلزہ کا ایک شعران معنوں کی تائید کرتا ہے اس شعر کے یہ معنے ہیں.اے ہمارے دشمن عیب تلاش کرنے والے عمر کے پاس ہے کیا تو ہمارا پیچھا چھوڑے گا یا نہیں.قریش کا یہ نام اس واسطے ہوا کہ ان کے بزرگ اہل حاجات کو تلاش کرتے تھے کہ ان کی حاجتیں پوری کریں اور بھوکوں کو خوراک دینے کے واسطے تلاش کرتے تھے اور اس جگہ تصغر تعظیم کے واسطے ہے.اس سورہ شریف میں جو یہ حکم ہوا ہے کہ اس گھر کے رب کی عبادت کرو.جس نے تم کو بھوک سے غنی کرنے کے لئے کھانا کھلایا یہ آیت شریف حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام والبرکات کی اس
حقائق الفرقان ۳۶۴ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ دعا کے مطابق ہے کہ میرے پروردگار اس شہر کو امن کی جگہ بنا.اس دعائے ابراہیمی کی قبولیت کے سبب قریش بڑے عیش و آرام میں زندگی بسر کرتے تھے.حالانکہ ان کے گردونواح کی مخلوق ہلاکت میں پڑی ہوئی تھی.اسی مضمون کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کلام میں سورہ نحل میں بھی اشارہ فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک گاؤں کی مثال بیان فرمائی ہے.جس کے باشندے اطمینان کے ساتھ زندگی گزارتے تھے.ہر طرف سے اس کو رزق با فراغت پہنچتا تھا.پھر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جس پر خدا نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب وارد کیا.جوان کی اپنی بد عملیوں کا نتیجہ تھا.شمار :.اس سورہ شریف میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد چار آیتیں اور تیرہ کلمے اور تہتر حروف ہیں.مقام نزول :.یہ سورہ شریف جمہور کے نزدیک مکی ہے.مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی.قریش کو خاص خطاب اور رب البیت کی عبادت کا حکم بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ سورہ شریف کی ہے بعض بزرگوں کا یہ قول بھی ہے کہ یہ سورۃ مدنی ہے اس اختلاف کی صورت میں وہی امر مد نظر رکھنا چاہیے.جو ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ ایک بار بلکہ کئی بار نازل ہوئی ہوں اور کسی نے نزول اول کے مقام اور وقت کو یا درکھا ہو اور کسی نے نزول دوم کے مقام اور وقت کا خیال رکھا ہو.اس کا نظارہ ہم اس تازہ وحی الہی میں بھی دیکھتے ہیں.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام پر نازل ہوتی ہے کہ ایک پیشگوئی وحی الہی میں ایک دفعہ نازل ہو کر مثلاً کتاب براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے.لیکن جب اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا.تو نزول اول کے بین ۲ پچیس سال بعد پھر وہی الفاظ الہام الہی میں وارد ہوئے اور اخبار میں ایک تازہ تاریخ کے نیچے لکھے گئے.اس جگہ شانِ نزول و مقام نزول کے اختلاف میں اس نکتہ کا دوبارہ لکھنا فائدے سے خالی نہ ہوگا.جو کہ ہم سورہ الماعون کی تفسیر میں لکھ چکے ہیں کہ یہ بھی حکمت الہی ہے کہ انجیل اور توریت کی طرح
حقائق الفرقان ۳۶۵ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ قرآن شریف میں ہر آیت کے ساتھ اس کا شان نزول درج نہیں.ابتدا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کے درمیان کبھی شان نزول یا مقام نزول ساتھ ساتھ نہیں لکھائے.جیسا کہ توریت انجیل میں اور دیگر صحف انبیاء میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ یا عیسی یا کوئی اور نبی پھر اس مقام پر گیا اور اس آدمی کو ملا.اور اس وقت اس پر یہ وحی نازل ہوئی یا خود اس نے یہ کلام کیا.برخلاف اس کے قرآن شریف اول سے خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک سمندر کی طرح اس کی روانی ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں.بشر کے کلام کا اس میں کوئی حصہ نہیں.چونکہ یہ کلام نہ کسی خاص مکان کے واسطے تھا اور نہ کسی خاص قوم کے واسطے جیسا کہ توریت انجیل وغیرہ دیگر کتب سماوی ہیں.اس واسطے اس میں شان......نزول ساتھ ساتھ نہ لکھے گئے بلکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا کہ اس بات کی حفاظت بھی پورے طور سے نہ ہوئی کہ یہ آیتیں کب اور کس کے حق میں اول نازل ہوئی تھیں.یہاں تک کہ ترتیب نزولی بھی خدا تعالیٰ نے قائم نہ رہنے دی.قرآن شریف کی ترتیب اور اس کے درمیان شان نزول اور مقام نزول کا نہ لکھا جانا خود اس بات کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے کہ یہ کتاب بر خلاف دیگر کتب سماوی کے تمام زمین کے واسطے اور قیامت تک سب زمانوں کے واسطے اور سب قوموں کے واسطے خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.نام.اس سورہ شریف کا نام سورہ قریش ہے کیونکہ اس میں قریش کا خاص ذکر ہے اور اس سورۃ کو اس کے پہلے لفظ کے سبب لا یلف بھی کہتے ہیں.ربط ماقبل اور مابعد کے ساتھ.اس سورہ کے ماقبل قرآن شریف میں سورۃ الفیل ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ یمن کا بادشاہ ابرھ جب بہت سے ہاتھی لے کر خانہ کعبہ کوگرانے کے واسطے مکہ معظمہ پر حملہ آور ہوا تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کے لشکر کو ہلاک کر کے اس گھر کی حفاظت کی.یہ خدا تعالیٰ کا ایک انعام تھا.جو بالخصوص قریش پر ہوا.کیونکہ قریش یمن اور شام کی طرف تجارۃ کے واسطے جایا کرتے تھے اور ابرھ کی اس ہلاکت سے تمام قوموں پر خانہ کعبہ کی عظمت کا رعب چھا گیا اور وہ لوگ قریش کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھنے لگے.اللہ تعالیٰ اسی انعام کو یاد دلا کر قریش کو اپنی عبادت کی
حقائق الفرقان ۳۶۶ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ طرف متوجہ کرتا ہے سورۃ الفیل اور سورۃ القریش کا ربط باہم ایسا ہے کہ ابی بن کعب اور ایسا ہی بعض دیگر بزرگ بھی ان دونوں سورتوں کے درمیان بسم اللہ نہیں لکھتے تھے گویا یہ دونوں ملا کر ایک ہی سورۃ ہے.دو جدا سورتیں نہیں ہیں.سورہ ما بعد یعنی سورۃ الماعون کے ساتھ اس کا یہ ربط ہے کہ جب اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو اپنے انعام یاد دلا کر اپنی عبادت کی طرف متوجہ کیا ہے تو سورۃ الماعون میں ان رذایل سے بچنے کی طرف توجہ دلائی ہے جن سے خدا تعالیٰ ناراض ہوتا ہے.تشریح و معانی الفاظ قریش.قریش کا لفظ قرش سے نکلا ہے.قرش ایک سمندر کے جانور کا نام ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ دوسرے جانوروں کو کھا جاتا ہے مگر اُسے کوئی نہیں کھا تا یعنی بہت طاقتور جانور ہے سب پر غالب رہتا ہے اسی سبب سے اس قوم کا نام قریش رکھا گیا تھا.عرب کا ایک شعر ہے.وَقُرَيْضٌ هِيَ الَّتِي تَسْكُنُ الْبَحْرَ بِهَا سُمِّيَتْ قُرَيْضٌ قُرَيْشًا ترجمہ.قریش وہ ہے جو سمندر میں رہتا ہے.اسی کے سبب سے قوم قریش کا یہ نام رکھا گیا ہے.قرش کے معنی کسب کے بھی ہیں چونکہ قریش اپنی تجارت میں کسب اور محنت کے ساتھ اپنی روٹی کماتے تھے اس واسطے بھی ان کا یہ نام ہوا.لیٹ کا قول ہے کہ تقرش جمع ہونے کو کہتے ہیں پہلے یہ قوم مختلف مقامات پر پراگندہ پھرتی تھی.پھر قصی بن کلاب نے ان سب کو حرم میں جمع کیا اور ایک جگہ اکٹھے ہو کر رہنے لگے اس واسطے ان کا نام قریش رکھا گیا چنانچہ اس پر ایک شاعر نے کہا ہے.أَبُو كُمْ قُصَى كَانَ يُدعَى مُجَمَّعًا بِهِ جَمَعَ اللَّهُ الْقَبَائِلَ مِنْ فَهْرٍ تمہارے باپ قصی کا نام ہی ہو گیا تھا کہ وہ جمع کرنے والا ہے کیونکہ اس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے فہر کے قبائل کو ایک جگہ جمع کر دیا تھا.
حقائق الفرقان ۳۶۷ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ قبیلہ قریش.قریش.فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ کا دوسرا نام تھا.قبیلہ قریش حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم علیہما السلام والبرکات کی اولاد میں سے تھا اور اسی قبیلہ کو یہ فخر حاصل ہوا کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے پیدا ہوئے جنہوں نے تمام جہان کو اپنے نور سے منور کیا اور بنی آدم کے واسطے روحانی کمالات کے دروازے کھول دیئے اور تمام دنیا کی متفرق قوموں کو اور ان کے متفرق قومی مذاہب کو ایک ہی قوم اور ایک ہی مذہب میں جمع کر کے ایک ایسی توحید قائم کی کہ چار دانگ عالم میں لا الہ الا اللہ کا نعرہ گونج اٹھا.یہ تو حید اس قلبی تعلق کا نتیجہ تھی.جو آنحضرت صلعم کو اپنے رب اور خالق اور مالک کے ساتھ تھا.اگر محمد دنیا میں نہ ہوتا تو انسانی روح کس تنزل کے گڑھے میں اب تک گری ہوئی ہوتی.اسی واسطے وہ فخر عالم و عالمیان ہے اور اگر روحوں کا خدا کے ساتھ تعلق اپنی ترقی کے انتہائی نقطہ میں اس کمال تک پہنچنے والا نہ ہوتا جو اس پیارے نبی نے پہنچایا تو پھر دنیا کی حالت رذالت اس قابل ہی نہ تھی کہ خدا تعالیٰ اسے خلق کرتا اسی واسطے لَوْ لَاكَ لَهَا خَلَقْتُ الْأَفَلَاكَ کا خطاب آپ کو عطا ہوا.نسب نامہ.اب میں قریش کا نسب نامہ حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات سے لے کر حضرت خاتم النبین تک اس جگہ درج کرتا ہوں.اس جگہ اس بات کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انساب عدنان تک بیان کئے ہیں اور اس سے اوپر بیان نہیں فرمائے.جس سے بعض لوگوں کو ( جن میں سرسید احمد خان صاحب بھی شامل ہیں ) یہ غلطی لگی ہے کہ آنحضرت کو اُس کے او پر انساب کا نام نہ آتا تھا.یہ اس سے اوپر کا سلسلہ قابل اعتبار نہیں ہے.یہ بات صحیح نہیں اور اصل بات یہ ہے کہ یہود چونکہ اہلِ کتاب تھے اور لکھنے پڑھنے کا رواج ان میں عام تھا.وہ جہاں حضرت الحق کا نسب نامہ محفوظ رکھتے تھے وہاں حضرت اسمعیل کا بھی یہ سبب قرب رشتہ داری کے محفوظ رکھا کرتے تھے.لیکن کچھ زمانے کے بعد جبکہ قوموں کی جدائی اور اختلاف بڑھ گیا تو یہودی علماء نے عدنان سے نیچے کا نسب نامہ لکھنا اور اس کی حفاظت کرنا چھوڑ دیا تھا.اس واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدنان تک خود بیان کر دیا اور اس کے اوپر جو یہود کے پاس تھا وہ بہر حال محفوظ تھا.اس واسطے اس لے اگر تجھ کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں کا ئنات کو پیدا نہ کرتا.
حقائق الفرقان ۳۶۸ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ کے بیان کرنے کی ضرورت نہ سمجھی.میں یہ نسب نامہ ایک پرانی قلمی کتاب سے نقل کرتا ہوں جس کے نسخے ہمارے خاندان میں محفوظ چلے آتے ہیں اور سرسید احمد خان صاحب نے جو نسب نامہ اپنے خطبات میں عدنان تک لکھا ہے.اس کے ساتھ مقابلہ کر لیا گیا ہے وہاں تک ہر دو ایک ہی ہیں.یہ نسب نامہ ہمارے خاندان میں اس واسطے محفوظ چلا آتا ہے کہ عاجز بھی قریش میں سے ہے اس واسطے اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا نسب نامہ بھی نقل کر دیا ہے جو کہ بوساطت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بعد مناف سے جاملتا ہے.ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات حضرت اسمعیل علیہ السلام حضرت اسحق علیہ السلام قیدار حمل سلامان 8° لیا اعد بنان
179 حقائق الفرقان
حقائق الفرقان عبد مناف " سُوْرَةُ قُرَيْشٍ عبد المطلب حضرت عبد اللہ عبداللہ حضرت سید المرسلین محمد مصطفیٰ احمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۴ تا ۳۴۷) لایلف - الفت دلانے کے لئے اس گھر کے رب کے ساتھ الفت دلانے کے لئے اصحاب الفیل کو اس واسطے قتل کیا گیا اور شکست دی گئی اور خائب و خاسر واپس کیا گیا ہے کہ قریش اور اہلِ عرب کا یقین تازہ ہو کہ اس گھر کی حفاظت اللہ تعالیٰ خود کرتا ہے.اس طرح وہ خدا تعالیٰ کی خالص عبادت میں مشغول ہوں اور قریش جو موسم سرما وگرما میں سفر پر جاتے تھے.اور تمام بلاد کے بادشاہ اور تجار ان کی عزت کرتے تھے.اس تجارت اور سفر میں فرق نہ آوے بلکہ ان کی عزت اور بھی زیادہ ہو.الفهم - ان کو الفت دلانے کے لئے رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيف.سردی اور گرمی کے سفر میں.قریش تجارت کے واسطے ہر سال دو سفر کرتے تھے.موسم سرما میں افریقہ، ہند ، یمن کی طرف جاتے تھے.اور موسم گرما میں شام، ایران کی طرف جاتے تھے.ہر دوطرف کے لوگ ان کی بہت ہی عزت اور تکریم کرتے تھے.اور ہدیے اور تحفے دیتے تھے.اگر خدانخواستہ اصحاب الفیل کو فتح ہو جاتی
حقائق الفرقان سُوْرَةُ قُرَيْشٍ تو ان کی یہ تمام عزت جاتی رہتی.اور امن اُٹھ جاتا.لیکن اصحاب الفیل کو تباہ کر کے اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو اور بھی بڑھایا.اور پہلے سے بھی زیادہ لوگ قریش کی تعظیم کرنے لگے.اور وہ سفران کے واسطے اور بھی زیادہ آسان اور بابرکت ہو گئے.فَلْيَعْبُدُوا.پس چاہیے کہ عبادت کریں.رَبَّ هذا الْبَيْتِ.اس گھر کے پروردگار کی.الذى - جس نے.أَطْعَمَهُم - ان کو کھانا کھلایا.من جوع.بھوک سے.وا مَنَهُمْ.اور ان کو امن دیا.مِنْ خَوْفٍ.خوف سے.بعض جاہل آریہ اور عیسائی اعتراض کیا کرتے ہیں کہ مسلمان چونکہ عبادت کے وقت خانہ کعبہ کی طرف منہ کرتے ہیں اس واسطے یہ بھی ایک شرک ہے.اور اس گھر کی عبادت کی جاتی ہے.اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کا رد کر دیا ہے.فلیعْبُدُوا رَبَّ هَذَا الْبَيْتِ - عبادت اس گھر کے رب کی کی جاتی ہے نہ کہ اس گھر کی.اور یہ گھر بطور ایک نشان کے ہے.جو خدا تعالیٰ کی برتر اور قادر اور عالم الغیب ہستی کا ثبوت دیتا ہے.کیونکہ دنیا میں بڑے بڑے گھر لوگوں نے بنائے.اور بڑی بڑی قومیں ان کی امداد میں کھڑی ہوئیں لیکن وہ تباہ ہو گئے.اور ان کا نام ونشان مٹ گیا.اور یہ گھر خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق قائم ہے.اور اس کے ارد گر در ہنے والے ہر طرح کے خطرات سے محفوظ ہیں.عبادت کے وقت آخر کسی نہ کسی طرف تو انسان منہ کرتا ہے.وحدت کے واسطے سب نے ایک طرف منہ کیا اور ایک ایسی طرف منہ کیا جس طرف سے خدا تعالیٰ کا پاک کلام اُن تک پہنچا.اور اُن کے واسطے موجب ہدایت ہوا علاوہ اس کے اس میں ایک اور حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ جیسا کہ زمین کے گول ہونے کے سبب دن رات کے ہر ایک حصہ میں مسلمان خدا تعالیٰ کی عبادت میں مصروف ہوتے ہیں.کیونکہ ایک ہی سیکنڈ میں کہیں عصر ہے کہیں مغرب کہیں عشاء کہیں فجر اور کہیں
حقائق الفرقان ۳۷۲ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ ظہر.ان کے علاوہ تہجد اور اشراق اور دوسری نمازیں جدا ہیں.غرض کوئی بھی ایسا وقت نہیں ہوتا جس میں روئے زمین پر کسی نہ کسی جگہ مسلمان خدا کی عبادت نہ کر رہے ہوں.گویا مسلمان ہی ایک قوم ہے جس پر خدا تعالیٰ کی عبادت کے انوار کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا.ایسا ہی عبادت کے وقت ایک خاص سمت کا مقرر کرنا ایک عجیب حکمت رکھتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے سبب اہل ہند کا منہ عبادت کے وقت مغرب کی طرف ہوتا ہے.اہلِ شام کا جنوب کی طرف اور اہل یمن کا شمال کی طرف.اہل مصر کا مشرق کی طرف ہوتا ہے.اور ان سمتوں کے درمیان جو مقام ہے ان کا منہ کم و بیش درجات کے ساتھ ان سمتوں کے درمیان میں ہوتا ہے.الغرض کمپاس کا کوئی ایسا طرف نہیں جس طرف منہ کر کے مسلمان خدا کی عبادت نہیں کرتے.گویا تمام روئے زمین پر اسلامی توحید کی شہادت کی لکیریں اس کثرت کے ساتھ ہر سمت سے گزرتی ہیں اور ہر وقت گزرتی ہیں کہ تمام روئے زمین ہر وقت مسلمانوں کی طرف سے خدا تعالیٰ کی توحید اور تحمید اور تسبیح سے پر رہتی ہے.کوئی اور مذہب دنیا میں ہے.جو اس قدر خدا کی عبادت کرنے والا.خدا کے کام بھی عجیب ہیں.کسی کو اپنا برگزیدہ بندہ بنانا چاہتا ہے.تو ایک غریب کو لیتا ہے.جو غیر مشہور ہو اور ظاہری علوم سے دنیا کی نظر میں ناواقف ہو اور کچھ طاقت نہ رکھتا ہو.نہ کوئی جتھا اس کے ساتھ ہو پھر اسے مامور بنادیتا ہے.چار دانگ عالم میں اس کی قبولیت پھیلا دیتا ہے.تمام عالموں سے بڑھ کر اسے عالم بنا دیتا ہے.اسے طاقتور بنادیتا ہے اور اس کو ایک بڑی قوم کا امام بنا دیتا ہے.ایسا ہی اس نے جب ایک گھر کو اپنی طاقتور ہستی کے ثبوت میں نشان بنانا چاہا.تو کہاں بنایا.عرب کے میدان میں.جہاں پانی نہ ملے نہ چارہ ، نہ خوراک نہ سبزی نہ کوئی بستی نہ کوئی آبادی نہ کوئی حفاظت کی جگہ.پھر اسے آباد کیا تو ایسا کہ ساری دنیا اس کی طرف دوڑی چلی جاتی ہے.تمام جہان کی دولت وہاں پہنچتی ہے.ہر ملک وملت کا آدمی وہاں پایا جاتا ہے.ہر زبان وہاں سمجھی جاتی ہے.طاقت کا یہ حال ہے کہ فوجی لحاظ سے کوئی حفاظت کا سامان نہیں.پھر بھی سکندر رومی یونان سے نکلا.ہند تک فتح کیا.واپسی پر عرب کی فتح کا ارادہ تھا.راستہ میں ہی ہلاک ہو گیا.خود اس زمانہ میں دجال یورپ سے نکلا اور ہند تک پہنچ گیا.مگر وہی بیت اللہ اس سے محفوظ رہا.نبی کریم نے دجال کو دیکھا تھا کہ خانہ کعبہ کا طواف کر
حقائق الفرقان ۳۷۳ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ رہا ہے.وہ طواف بھی ایک تو یوں ہو گیا کہ بحیرہ قلزم ، بحیرہ عرب ، عدن سے ہو کر خلیج فارس میں دجال گھوم رہا ہے.اور اس کے آگے جو ہو گا وہ بھی ظاہر ہو جائے گا.رِحْلَةَ الشَّتَاءِ وَالصَّيْفِ.چونکہ اہلِ عرب کے واسطے مقدر تھا کہ جب نور محمدی ان کے درمیان سے طلوع کرے.تو وہ اس سے منور ہو کر مشرق و مغرب میں پھیلیں.قیصر و کسرای کی سلطنتوں کے وارث بنیں.ایران اور شام کو فتح کریں.مصر، الجیریا، مرا کوکو مسلمان بناتے ہوئے ہسپانیہ میں جا گھیں.دوسری طرف ترکستان، افغانستان، ہند کے فاتح بنیں.چین کے لوگوں کو جا کر مسلمان بنائیں.اس واسطے پہلے سے اللہ تعالیٰ نے ان کے طبائع ایسے بنائے تھے کہ وہ سفر کو پسند کرتے تھے اور کیا گرمی اور کیا سر دی.ہر دو موسموں میں سفر کیا کرتے تھے.پھر اس میں ایک پیشگوئی بھی مخفی ہے کہ اے قریش خدا تعالیٰ نے تمہارے واسطے بڑے بڑے سفر مقدر رکھے ہیں.وہ سفر ایسے نہ ہوں گے کہ تم جس موسم میں جاؤ.اسی میں تم واپس آسکو.بلکہ وہ لمبے سفر ہوں گے.جن میں تم کو سردیاں بھی گزارنی پڑیں گی اور گرمیاں بھی گزارنی ہونگی.خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کیا وسیع ہے کہ اس نے عرب کی قوم ہاں اس پتھر کو جسے معماروں نے رد کر دیا تھا کہ یہ کام کا نہیں اسے ہی کونے پر لگایا.وہی قوم تمام دنیا کی سردار بنتی ہے.وہی قوم تمام یورپ کو مہذب بنانے والی ہوئی.مشرق و مغرب میں اس نے علوم کا چراغ روشن کر دیا.آج تک تمام اعلیٰ علوم انہیں کی کتابوں سے اخذ کئے جاتے ہیں.ایک ایک مسلمان نے وہ شاندار کتاب لکھی ہے جس کے برابر آج بڑی بڑی جماعتیں لگ کر اور لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کر کے بھی نہیں لکھ سکتیں.کیسا طاقتور، قادر، توانا ، آئندہ کی خبروں سے واقف خدا اس گھر کا ہے جو تیرہ سو سال سے اس قدر عزت پارہا ہے.وہ جسے ابراہیم علیہ السلام والبرکات نے جنگل میں بنایا.جنگل بھی وہ جس کے گردا گر دسینکڑوں کوسوں تک کوئی آبادی نہ تھی.اس گھر میں خدا کی عبادت کے واسطے اپنی بیوی اور بچے کو تنہا چھوڑ دیا.اللہ اللہ کیا ہی وہ ایمان تھا جو حضرت ابراہیمؑ کے سینہ اور در ددل میں تھا.کیا ہی تو کل اور ایمان والی وہ بیوی تھی جس نے اپنے خاوند کو کہا کہ جب یہ خدا کا حکم ہے تو اب تو جا.تیری اور نہ کسی اور کی ہم کو پرواہ ہے.کیا ہی پیارا وہ بچہ تھا.جس کی خاطر جنگل بیابان میں چشمہ جاری ہوا.اور ایسا
حقائق الفرقان ۳۷۴ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ جاری ہوا کہ آج تک تمام جہان کے لوگ اس کا پانی پیتے ہیں.خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں ہوں تجھ پراے خدا کے خلیل.اے نبیوں کے باپ اور ہزاروں ہزار برکتیں اور رحمتیں تجھ پر ہوں.اے عورتوں میں ایک بے نظیر عورت ، مصر کی شاہزادی اور ابراہیم کی بیوی اور اسمعیل کی ماں.کیا ہی خدا رسیدہ تیرا دل تھا کہ تو نے خدا کے حکم کی تابعداری میں اپنے بڑے بھاری امتحان کو اپنے سر پر قبول کیا کہ اگر وہ امتحان پہاڑ پر پڑتا تو پہاڑ اس کے بوجھ سے شق ہو جاتا.بے شک تو ہی اس قابل تھی کہ تیری اولاد میں سے نبیوں کا سردار محمد پیدا ہوتا.تیری اس مضطرا نہ دوڑ کی یادگار میں آج تک لاکھوں انسان مختلف بلا د سے آ کر تیرے قدم بقدم دوڑتے اور خدا کی حمد کرتے ہیں.ایک ابراہیم کے اس گھرانے کی تاریخ خدا تعالیٰ کے دلدادہ اور مقبول بندوں کی مثال میں ایسی پر درد ہے کہ دلوں کی کثافت کو دور کرتی اور انسان کو خدا کے نزدیک لا دیتی ہے.اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس طرح کی قربانی کرنے والے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا ہے.چون شود بخشایش حق بر کسے دل نمی ماند به نیایش بسے تا در خوشترش آید بیابان تپاں و ناله زبهر دلستاں پیش از مردن بمیرد حق شناس زینکه محکم نیست دنیارا اساس باخدا ہوش کن ایں جائیکہ جائی فناست مے باش چوں آخر خداست زہر قاتل گر بدست خود خوری من جہاں دائم کہ تو دانشوری ہیں کہ ایس عبداللطیف پاک مرد چوں پئے حق خویشتن برباد کردک لے جب کسی پر خدا کی مہربانی ہوتی ہے تو پھر اس کا دل دنیا میں نہیں لگتا.اس کو تپتا ہوا صحرا پسند آتا ہے تا کہ وہاں اپنے محبوب کے حضور میں گریہ وزاری کرے.عارف انسان تو مرنے سے پہلے ہی مرجاتا ہے.کیونکہ دنیا کی بنیاد مضبوط نہیں ہے.خبر دار ہو کہ یہ مقام فانی ہے.باخدا ہوجا کیونکہ آخر خدا ہی سے واسطہ پڑتا ہے.اگر تو خودہی مہلک زہر کھالے تو میں کیونکر خیال کروں کہ تو عقل مند ہے.دیکھ کہ اس پاک انسان عبداللطیف نے کس طرح سے خدا کے لئے اپنے تئیں فنا کر دیا.
حقائق الفرقان ۳۷۵ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ جاں بصدق آن داستان را داده است تا کنوں این بود رسم از.در سنگها افتاده است و ره صدق و وفا این بود مردان حق را انتہا ریپئے آں زنده از خود فانی اند جاں فشاں بر مسلک ربانی اند فارغ افتاده ز نام دوعه و جاه دل زکف و ز فرق افتاده کلاه دورتر از خود به یار آمیخته آبرو از پہر روئے ریختہ ذکر شاں ہم مے دهد یاد از خدا صدق در زال در جناب کبریا گر بجوئی ایں چنیں ایماں بود کار بر جوئیندگاں آسان بود لیک تو افتاده در دنیا اسیر تا نمیری کے رہی ہیں وارد گیر تا نمیری اے سنگ دنیا پرست دامن آں یار کے آید بدست نیست شو تا برتو فیضانی رسد جاں بیفشاں تا دگر جانے رسد تو گذاری عمر خود در اکبرو کیں چشم بسته از ره صدق و یقین نیک دل بانیکواں وارد سرے بر گهر تف مے زند بد گوہرے ہست دیں تخم فتارا کاشتن واز سرهستی قدم برداشتن چوں بیفتی باد و صد در و و نفیر کس ہے خیزد که گردد دستگیر با خبر را دل تپد بر بے خبر رحم برکورے کند اہل بصر همچنین قانون قدرت اوفتاد مرضعیفاں را قوی آرد بیاد لے اس نے وفاداری کے ساتھ اپنی جان اپنے محبوب کو دے دی اور اب تک وہ پھتروں کے نیچے دبا پڑا ہے.راہ صدق و وفا کا یہی طور و طریق ہے اور یہی مردان خدا کا آخری درجہ ہے.اس زندہ خدا کی خاطر انہوں نے اپنی خودی کو فنا کر دیا اور الہی طریقہ پر جاں نثار کرنے والے بن گئے.ننگ و ناموس اور جاہ وعزت سے لا پرواہ ہو گئے دل ہاتھ سے جاتا رہا اور ٹوپی سر سے گر پڑی.خودی سے دور اور یار سے وابستہ ہو گئے کسی (حسین) چہرہ کے لئے عزت قربان کر دی.ان کا ذکر بھی خدا کی یاد دلاتا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں وفادار ہیں.اگر تو تلاش کرتا ہے تو یا درکھ کہ ایمان ایسا ہوا کرتا ہے.تلاش کرنے والوں کے لئے یہ کام آسان ہو جاتا ہے.لیکن تو دنیا کی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر )
حقائق الفرقان سُوْرَةُ قُرَيْشٍ رَبَّ هذا الْبَيْتِ.اس گھر کے رب کی عبادت کرو.اس میں اس گھر کے متعلق جو اللہ تعالیٰ کی خاص ربوبیت کے نشانات ہیں.ان کی طرف اشارہ ہے.اس قسم کا محاورہ توریت میں بھی ہے.مثلاً ابراہیم کے خدا کی عبادت کرو.اسحاق کے خدا کی عبادت کرو.تم اپنے باپ دادوں کے خدا کی عبادت کرو جو کہ تمہیں ملک مصر میں سے نکال لایا.خانہ کعبہ کو بیت اللہ بھی کہتے اور بیت العتیق بھی کہتے ہیں.قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک وقت یہ خطہ بھی سرسبز و شاداب و سیراب نہروں اور نباتات کے ساتھ ہو جائے گا.چنانچہ اس پیشگوئی کا پورا ہونا آج ظاہر ہے.خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے اور اس کی عبادت میں مصروف ہونے اور تو کل سے فائدہ اٹھا کر دنیوی احتیاج سے محفوظ رہنے کی مثالیں فردا فردا تو جو ہیں سو ہیں.مگر مجموعی طور پر ملک عرب میں اس علاقہ نے اس کا نمونہ دکھایا ہے کہ جب ایک زمین خدا کی عبادت کے واسطے خاص ہوئی تو وہ با وجود بنجر بیابان ہونے کے تمام دنیوی نعمتوں سے متمتع ہو گئی.حدیثوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ جو کوئی اپنی آخرت کے اہتمام میں ہو اللہ تعالیٰ اس کے نفس میں تو نگری دے دیتا ہے.اور دنیا کے ہموم سے اسے کفایت کرتا ہے مگر جس نے غافل ہو کر دنیا کے اہتمام میں شغل کیا.اللہ تعالیٰ اس کی آنکھوں کے سامنے محتاجی کر دیتا ہے.اور دنیوی ہموم سے اسے کفایت نہیں کرتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو دعا اس گھر کے واسطے کی تھی کہ رَبِّ اجْعَلُ هَذَا بَلَدًا مِنَّا وَ ارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرتِ.(البقره: ۱۲۷) وہ دعا بھی اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی.اور اس سے بقیہ حاشیہ.محبت میں گرفتار ہے.جب تک نہ مرے گا اس جھگڑے سے کیسے نجات پائے گا.اپنی ہستی کو فنا کر دے تا کہ تجھ پر فیضان الہی نازل ہو جان قربان کرتا کہ تجھے دوسری زندگی ملے.تو تو اپنی عمر کبر اور کینہ میں بسر کر رہا ہے اور صدق و یقین کے راستہ سے آنکھ بند کر رکھی ہے.نیک دل انسان نیکیوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.مگر بداصل آدمی موتی پر بھی تھوکتا ہے.دین کیا ہے.فنا کا بیج بونا اور زندگی کو ترک کر دینا.جب تو سینکڑوں دردوں اور چیخوں کے ساتھ گر پڑتا ہے تو پھر ضرور کوئی کھڑا ہو جاتا ہے کہ تیرا مددگار ہو جائے.نادان کے لئے دانا آدمی کا دل تڑپتا ہے اور آنکھوں والے اندھے پر ضرور رحم کرتے ہیں.اسی طرح قانون الہی بھی واقع ہوا ہے کہ قوی کمزوروں کو ضرور یاد کرتا ہے.اے اے میرے رب! تو اس شہر کو امن اور سلامتی کا شہر بنادے اور یہاں کے رہنے والوں کو جو تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے ہوں اُن کو پھلوں سے روزی دیجیو.
حقائق الفرقان ۳۷۷ سُوْرَةُ قُرَيْشٍ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اور انبیاء علہیم السلام کی صداقت کا ایک بین ثبوت ظاہر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے حرم کے متعلق قرآن شریف میں جو پیشگوئی کی ہے کہ اَو لَمْ يَرَوْا أَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا أَمِنَّا وَ يُتَخَطَفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنکبوت :۶۸) یہ پیشگوئی آج تک پوری ہو رہی ہے.ایک مفسر لکھتے ہیں.عرب پہلے جاہل کہے جاتے تھے.اسلام لانے سے وہ دنیا کے عالم کہلائے آمَنَهُمْ بِالْإِسْلَامِ فَقَدْ كَانُوا فِي الْكُفْرِ أَطْعَمُهُمْ مِنْ جُوْعِ الْجَهْلِ بِطَعَامِ الْوَخي.کافر تھے خدا نے ان کو مسلمان بنادیا.جہالت میں بھوکے تھے.خدا نے طعام وحی سے مالا مال کر دیا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ پر چڑھائی کی تھی اور اس کو فتح کیا تھا.اور آپ کے بعد بعض دیگر خلفاء کو بھی ایسا کرنا پڑا اور سب کو فتح حاصل ہوئی اور اہلِ مکہ نے شکست کھائی کیونکہ یہ صاحبان بیت اللہ کی تخریب کے واسطے حملہ آور نہیں ہوئے تھے.مگر اس کی حرمت کو قائم کرنے کے واسطے اور فساد کو مٹانے کے واسطے انہیں ایسا کرنا پڑا تھا.اس سے ایک نکتہ معرفت حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی خاص جگہ کسی خاص قوم کے ساتھ کوئی ایسا تعلق نہیں کہ وہ جو چاہیں سو کریں.بہر حال ان کی ہی رعایت ہو گی.بلکہ خدا تعالیٰ کو اپنی توحید پیاری ہے.اور وہ متقی اور صالح لوگوں سے پیار کرتا ہے.خواہ وہ کہیں ہوں.اہل مکہ عرب والے اور گردو نواح کے لوگ بسبب بیت اللہ کی عزت کے حیران بیت اللہ کہلاتے تھے.اور اسی سبب سے ان کے نام سکانِ حرم.خدا تعالیٰ کی حرم میں رہنے والے ولاة الكعبه کعبہ کے والی اور اہل اللہ بھی تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۴۸ تا ۳۵۰) مثنا میں ایران ، شام، مصر، یورپ اور حیف میں افریقہ ، ہندوستان ، چین ، جاوا.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۸) ا کیا انہوں نے نہیں دیکھا ہم نے بنادیا ہے حرم مکہ کو امن کی جگہ اور لوگ اچک لئے جارہے ہیں اس کے آس پاس سے.
حقائق الفرقان ۳۷۸ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ سُوْرَةُ الْمَاعُوْنِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - اللہ کے نام کی برکت سے پڑھنا شروع کرتا ہوں جس نے اوّل سے قریش کو مالا مال کر رکھا تھا اور عمل کرنے والوں کو نتیجہ دینے والا ہے.تفسیر.اس سورہ شریف میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد چھ آئتیں ہیں.جن میں پھیش" کلمات اور ایک سو چھپیں حروف ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ." آرَءَيْتَ الَّذِي يُكَذِبُ بِالدِّينِ.وَ قَدْ سُمِعَ دِيْنُ أَبْرَهَ وَالْإِسْتِفْهَامُ لِتَشْوِيقِ السَّامِعِ إلى تَعْرِيفِ الْمُكَذِّبِ وَ الدِّينُ ثَوَابُ اللهِ وَ عَقَابَهُ وَالْمُكَذِّبُ لا يُطِيْعُ فِي أَمْرِهِ وَلَا يَجْتَنِبُ عَنْ نَوَاهِيْهِ أَوْ بِحُكْمِ اللهِ قَالَهُ ابْنُ عَبَّاسِ وَ بِالْحِسَابِ قَالَهُ ابْنُ جُرَيْحٍ وَمُجَاهِد " فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ الْفَاء لِلسَّبَبِ وَمَا بَعْدَهَا سَبَبُ وَ الْإِشَارَةُ 66 لِلتَّحْقِيرِ وَالْإِشْعَارِ بِعِلَّةِ الْحُكْمِ وَالْمَوْصُولِ لِتَحَقُّقِ الصَّلَةِ.يَدُعُ يَدْفَعُ قَالَ أَبُو طَالِب.يُقَسِمُ حَقًّا لِلْيَتِيمِ وَلَمْ يَكُن يَدُعُ الَّذِي يُسَارِهُنَّ الْأَصَاغِرُ وَيَدْفَعُ حَقَّ الْيَتِيمِ قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ وَيَقْهَرُهُ وَيَظْلِمُهُ عَنْ قَتَادَةً وَهُذَا فِي مُقَابَلَةِ إِطْعَامِهِمْ وَأَمْنِهِمْ عَجِيْبٌ.” وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينَ يَحُضُّ يَحُثُ غَيْرَهُ عَلَى طَعَامِ الْمُحْتَاجِ وَقَدْ أَطْعَمَهُ اللهُ
حقائق الفرقان ۳۷۹ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ جَهَنَّمَ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ" وَيْلٌ وَادِيُّ الَّذِي يَسِيْلُ مِنْ صَدِيدِ أَهْلِ 66 عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ " يُؤَخِّرُونَهَا عَنْ وَقْتِهَا.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِيْهِ وَ تَارِكُونَ قَالُواهُمُ الْمُنَافِقُونَ فَمِن هَذَا قَالُوا نِصْفُ السُّورَةِ مَكَّي وَنِصْفُهَا مَدَنِي وَسَاءَ لاة.الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ النَّاسَ فِي أَعْمَالِهِمُ الْفَاضِلَةِ " وَيَصْنَعُونَ الْمَاعُونَ “ الْمَاعُونَ الْمَنْفَعَةُ الْمَاءُ الَّذِي يَنْزِلُ مِنَ السَّحَابِ مَاعُونَ قَالَ عَبْدُ الرَّاعِي - قَوْم عَلَى الْإِسْلَامِ لَمَا يَمْنَعُوا مَاعُونَهُمْ وَ يَضِيعُوا التَّهْلِيلا أَى الطَّاعَةُ وَالنَّكوةُ.وَقَالَ عَلَى الْمَاعُونُ الزَّكوةُ وَالصَّدَقَةُ الْمَفْرُوْضَةُ.قَالَهُ ابْنُ مَسْعُودٍ وَ ابْنُ عُمَرَ وَالْمَتَاعُ الَّذِي يَتَعَاطَاهُ النَّاسُ بَيْنَهُمْ كَالْقِدْرِ وَالتَّلْوِ وَ الْفَأْسِ وَ شبهة عربی تفسیر کا ترجمہ.کیا تو نے اس شخص کا حال دیکھا ہے.جو دین کو جھٹلاتا ہے.ایسے ہی ایک مکذب ابرھہ نام شاہ حبش کا ذکر اس سورہ شریف سے پہلے سورہ فیل میں ہو چکا ہے.اور اس کے بدانجام کا ذکر کیا جا چکا ہے.اس سورہ شریف کے ابتدا میں بطور استفہام کے لکھا گیا ہے کہ کیا تو اس مکذب کو جانتا ہے.یہ استفہام اس واسطے ہے کہ سننے والے کو اس مکذب کے معلوم کرنے کا خیال پیدا ہو.دین سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب اور عقاب ہے جو کہ انسان کو اس کے اعمال پر ملتا ہے.مکذب وہ ہے جو خدا تعالیٰ کے حکم کی اطاعت نہ کرے اور اس کی مناہی سے پرہیز نہ کرے اور ابن عباس نے لکھا ہے کہ مکذب وہ ہے.جو خدا کے حکم کی تکذیب کرے اور ابن جریح اور مجاہد نے کہا ہے کہ مکذب وہ ہے.جو وقت حساب کا انکار کرے.
حقائق الفرقان ۳۸۰ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ آیت شریفہ فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ میں ف سب کے لئے ہے.کسی کا یتیم کو دھکے دینے کا فعل اس کے لئے مکذب دین ہونے کا سبب ہو جاتا ہے.اور اس میں ذلت کا اشارہ تحقیر کے واسطے ہے.اور علت حکم کے بتانے کے لئے اور موصول صلہ کی تحقیق کے لئے.يَدُ مح کے معنے ہیں.دفع کرتا ہے.جیسا کہ ابوطالب کے شعر میں ہے.جس کے معنے ہیں: یتیم کو اس کا حق تقسیم کرتا ہے.اور امراء کی خاطر غرباء کو دھکے نہیں دیتا.اور یتیم کا حق مارتا ہے.یہ ابن عباس کا قول ہے.اور قتادہ کا قول ہے کہ یتیم پر قہر کرتا ہے اور ظلم کرتا ہے یہ اس شریر کی بداعمالی کیسی عجیب ہے کہ کھانے کھلانے اور امن دینے کے بدلے دھکے دیتا ہے.يَحُضُّ کے معنے ہیں کہ دوسرے کو اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ محتاج کو کھلائے اور دراصل سب کو خدا تعالیٰ کھانا کھلاتا ہے.ویل.اس وادی کا نام ہے جو دوزخیوں کی پیپ سے بہ کر نکلے گی.ساھون کے لفظ میں ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے.جو نمازوں کے اوقات میں تاخیر کرتے ہیں اور ابن عباس اور مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ ساھون سے وہ لوگ مراد ہیں جو نماز کے تارک ہیں اور وہ منافق ہیں.اسی سبب سے کہا گیا کہ یہ سورۃ مکی ہے.اور نصف مدنی ہے.اور ساہ کے معنے ہیں لہو کیا.ریا کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے اچھے عمل لوگوں کو دکھانے کے لئے کرتے ہیں.مَاعُون منفعت کو کہتے ہیں.پس اس پانی سے منع کرنا جو بادلوں سے آتا ہے.ماعون ہے عبدالراعی نے ایک شعر میں کہا ہے.وہ قوم جو اسلام پر ہے.انہوں نے کبھی ماعون سے منع نہیں کیا اور نہ بھی کلمہ لالہ إِلَّا اللہ کو ضائع کیا ہے.یہاں ماعُون سے مراد اطاعت اور زکوۃ ہے.اور حضرت علی نے فرمایا ہے کہ ماعون سے مراد زکوۃ ہے اور صدقہ مفروضہ ہے.یہ ابن مسعود اور ابن عمر کی روایت ہے.اور ماعون ایسی متاع کو بھی ” نصف مکی ہے ہونا چاہیے.سہو کا تب سے نصف کا لفظ رہ گیا ہے.
حقائق الفرقان ۳۸۱ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ کہتے ہیں جو لوگ آپس میں ایک دوسرے کو مانگنے پر دے دیتے ہیں.جیسا کہ دیچی اور ڈول اور کلہاڑی اور ایسی اشیاء.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۳ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۵۳٬۳۵۲) سورت کے نام:.اس سورۃ شریف کو اس کے پہلے لفظ کے لحاظ سے سورہ آر بیت بھی کہتے ہیں جیسا کہ اور بھی بعض سورتوں کے نام ان کے پہلے الفاظ کے لحاظ سے ہیں.مثلاً.والصفت الرّحمن النّجم.الطور وغيره - دوسرا نام اس سورۃ شریف کا الدین ہے کیونکہ اس میں جزا وسزا کے ضروری اور اہم مسئلہ کی تکذیب کرنے والے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے.تیسرا نام اس سورہ شریف کا سورۃ الماعون ہے اور زیادہ تر مشہور یہی نام ہے.مَاعُون کے معنے مفصل آگے بیان ہوتے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ چوتھا نام اس سورہ شریف کا سورۃ الیتیم ہے.کیونکہ اس میں یتیم کے ساتھ محبت کرنے اور اس پر دست شفقت رکھنے کی طرف خاص طور پر ترغیب دی گئی ہے.مقام نزول:.بعض روایات کے مطابق یہ سورہ شریف مکہ میں نازل ہوئی تھی.اور بعض کے نزد یک نصف اول مکہ میں نازل ہوا تھا اور نصف دوم مدینہ میں نازل ہوا تھا اور چونکہ نصف آخر میں منافقین کی طرف اشارہ ہے اور مکہ معظمہ میں بہ سبب تکالیف اور مصائب کے ہنوز صرف مخلص لوگ شامل تھے.اور ایسے وقت میں ممکن نہ تھا کہ کوئی منافق کمزور شامل ہو سکے.اس واسطے قیاس بھی کیا جاسکتا ہے کہ نصف آخر مدنی ہو.لیکن چونکہ اکثر آیات میں جو مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھیں آئندہ حالات کی بھی پیشگوئیاں ہیں.اس لحاظ سے یہ قیاس بالکل صحیح نہیں ٹھہرتا ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ بعض آیات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ ایک بار بلکہ کئی بار ( نازل ) ہوئی ہوں.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود کے تازہ حالات میں دیکھتے ہیں کہ ایک پیشگوئی وحی الہی میں ایک دفعہ نازل ہو کر مثلاً کتاب براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے.لیکن جب اس کے پورا ہونے کا وقت آ گیا تو نزول اول کے ہیں پچیس سال بعد پھر وہی الہام الہی کلام میں دوبارہ نازل ہوئے.
حقائق الفرقان ۳۸۲ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ شانِ نزول:.ایسا ہی شانِ نزول کے متعلق بھی اختلاف ہے.عطا و جابر کا قول حضرت ابن عباس سے ہے کہ یہ سورۃ مکی ہے اور دوسرے قول میں ہے کہ یہ سورت نصف اول عاص بن وائل کے حق میں ہے اور نصف ثانی عبداللہ بن ابی بن سلول کے حق میں ہے.سدی نے کہا ہے کہ ولید بن مغیرہ کے حق میں ہے.ضحاک نے کہا ہے کہ عمر بن عاید کے حق میں ہے.ابن جریح نے کہا ہے کہ ابوسفیان کے حق میں ہے یتیم کے جھڑ کنے کے متعلق ابو جہل کا ایک قصہ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس کی عادت تھی کہ جب کوئی دولتمند مکہ میں قریب المرگ ہوتا تو اس کے پاس جا کر کہتا کہ تیرے بال بچے تیرے بعد اور وارثوں کے سبب خراب حال ہو جائیں گے بہتر ہے کہ تو اپنا مال متاع میرے سپرد کر دے.اس طرح یتیموں کا مال لے لیتا اور پھر جب وہ مرجاتا تو ان یتیم بچوں کو صاف جواب دے دیتا اور جھڑک کر نکال دیتا.ذکر ہے کہ ایک یتیم جس کے ساتھ اس نے ایسا ہی سلوک کیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا تمام قصہ عرض کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ یتیموں پر بہت رحم کرتے تھے اس کی خاطر ابو جہل کے پاس چل کر گئے اور اسے سمجھایا اور یتیم کی سفارش کی مگر وہ نابکار اور بھی افروختہ ہوا.اور یتیم کو مارنے اٹھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی تو ہین کی.جس پر یہ سورت نازل ہوئی.ایسا ہی بعض مفسرین نے ایک روایت یہ بھی لکھی ہے کہ ایک دن ابوسفیان یا ولید بن مغیرہ نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا اور ہنوز اس کے حصے ہی کر رہا تھا کہ ایک یتیم نے آ کر سوال کیا.اس نے لاٹھی سے اس یتیم کو مارا.تب حق تعالیٰ نے اس کی مذمت میں یہ آیتیں نازل فرمائیں.یہ بھی حکمت الہی ہے کہ انجیل اور توریت کی طرح قرآن شریف میں ہر آیت کے ساتھ اس کا شانِ نزول درج نہیں.ابتدا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن شریف کے درمیان کبھی شانِ نزول یا مقام نزول ساتھ ساتھ نہیں لکھائے.جیسا کہ توریت انجیل میں اور دیگر صحف انبیاء میں آتا ہے کہ حضرت موسی یا عیسی یا کوئی اور نبی پھر اس مقام پر گیا اور اس آدمی کو ملا اور اس وقت اس پر یہ وحی نازل ہوئی یا خود اس نے یہ کلام کیا.برخلاف اس کے قرآن شریف اول سے خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور
حقائق الفرقان ۳۸۳ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ ایک سمندر کی طرح اس کی روانی ہے جس میں کوئی رکاوٹ نہیں.بشر کے کلام کا اس میں کوئی حصہ نہیں اور چونکہ یہ کلام نہ کسی خاص مکان کے واسطے تھا اور نہ کسی خاص قوم کے واسطے جیسا کہ توریت انجیل وغیرہ دیگر کتب سماوی ہیں.اس واسطے اس میں شانِ نزول ساتھ ساتھ نہ لکھے گئے.بلکہ خدا تعالیٰ نے یہی چاہا کہ اس بات کی حفاظت بھی پورے طور سے نہ ہوئی کہ یہ آیتیں کب اور کس کے حق میں اول نازل ہوئی تھیں یہاں تک کہ ترتیب نزولی بھی خدا تعالیٰ نے قائم نہ رہنے دی قرآن شریف کی ترتیب اور اس کے درمیان شان نزول اور مقامِ نزول کا نہ لکھا جانا خود اس بات کی ایک بڑی بھاری دلیل ہے کہ یہ کتاب بر خلاف دیگر کتب سماوی کے تمام زمین کے واسطے اور قیامت تک سب زمانوں کے واسطے اور سب قوموں کے واسطے خدا تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.سورہ ایلاف میں اللہ تعالیٰ نے قریش کو اپنے انعام یاد دلائے ہیں.اس کے بعد ان کو یہ سمجھایا گیا کہ جب خدا تعالیٰ کے اس قدر فضل تم پر ہوئے ہیں تو اب تمہیں چاہیے کہ ان رذائل اور بدیوں سے بچو.جن سے خدا ناراض ہوتا ہے.اور جن کا ذکر اس سورہ ماعون میں کیا گیا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۳ را کتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۵۲تا۳۵۵) -۲- اَرعَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ - ۲.ترجمہ.کیا تو نے دیکھا ہے اس کو جو جھٹلاتا ہے جزا سزا کو.تفسیر.ارویت - آیا دیدی؟ کیا دیکھا تو نے.اس میں بظاہر استفہام ہے اور دراصل مطلب تعجب سے ہے کہ کیا ایسے شخص کو بھی تم نے دیکھا ہے.اس قسم کے طرز کلام میں ایک زور اور خوبصورتی ہے.الَّذِی.جو کہ.وہ جو.جوشخص کہ يكذب.جھٹلاتا ہے.تکذیب کرتا ہے.الدین.جزا و سزا کو کہتا ہے کہ نیکی پر انعام یا بدی کی سزا یہ فرضی باتیں ہیں.اس دنیا میں انسان زندگی گزار کر مر جاتا ہے.اور بس.پھر کچھ نہیں.ایسے لوگ اس زمانہ میں بھی پائے جاتے
حقائق الفرقان ۳۸۴ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ ہیں.جو مادی لوگ یا میٹریلسٹ (Materialist) کہلاتے ہیں.انبیاءعلہیم السلام کے بڑے اور عظیم الشان کاموں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ لوگوں کو ایمان بالآخرت پر قائم کریں.اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے بھی یوم الدین پر ایمان کا قائم کرنا امن و امان کے قیام کے واسطے نہایت ضروری ہے.جو شخص اعمال کی جزا و سزا کا قائل نہیں.وہ بے دھڑک ہو کر جس کا مال چاہے گا ناجائز طور پر کھائے گا.ظاہری سلطنتیں دلوں کے درست کرنے سے قاصر ہیں.دلوں کو راہِ راست پر لانا صرف روحانی سلطنتوں کا کام ہے جو انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ سے دنیا میں ہمیشہ قائم ہوتی ہیں.اسی پر حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ میں گورنمنٹ برطانیہ کی سلطنت کی حفاظت کے واسطے ایک تعویذ ہوں.کیونکہ آپ مخلوق کے دلوں میں تقوی اور راستی کی بنیاد ڈال رہے ہیں.گورنمنٹ کے برخلاف جہادی خیالات جو اس ملک میں مشنری، عیسائی پادری، مسلمان ملاں اور آر یہ لوگ پھیلا رہے ہیں اس کو اعتقادی رنگ میں لوگوں کے دلوں سے نکال رہے ہیں اور علاوہ اس کے اپنے مریدوں سے یہ اقرار لیتے ہیں کہ وہ ہمیشہ نیکی کو اختیار کریں.راست بازی پر چلیں بدی کو چھوڑ دیں.کسی قسم کی بغاوت میں ہرگز شامل نہ ہوں.جولوگ جزاوسزا کے قائل نہیں وہ دنیوی مصائب سے گھبرا کر خود کشی کر لیتے ہیں تا کہ اس عذاب سے چھوٹ جاویں.اگر ان کو معلوم ہوتا اور یقین ہوتا کہ آگے ایک اور عذاب ان کے واسطے موجود ہے تو وہ ایسا نہ کرتے.یہ یوم الدین کے انکار کا سبب ہے کہ یورپ امریکہ میں اس کثرت کے ساتھ خود کشی ہر سال ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت اقدس مرزا صاحب کی خدمت میں خط لکھا کہ میں دنیوی مصائب سے تنگ ہوں اور چاہتا ہوں کہ خود کشی کرلوں.حضرت نے اس کو جواب لکھا کہ خود کشی سے کیا فائدہ ہے مرنے سے انسان کا خاتمہ نہیں ہو جاتا.بلکہ ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے.خود کشی کرنا گناہ ہے اور اس کے واسطے عذاب ہے اس سے بچنا چاہیے.دین کے معنے مذہب کے بھی ہیں.اس صورت میں اَروَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ کے یہ معنے ہیں کہ کیا تو نے اس شخص کو دیکھا ہے جو دین کو جھٹلاتا ہے اور آگے تشریح ہے کہ دین کے جھٹلانے
حقائق الفرقان ۳۸۵ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ سے اس جگہ کیا مراد ہے.یتیم کو جھڑ کنا ، مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہ دینا ، نماز سے لا پرواہی کرنا، ریا کاری کرنا، ماعون سے روکنا.ایسا آدمی خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے.اور وہ دین کو جھٹلانے والا ہے.کیونکہ ایسا کر نیوالا درستگی اعتقاد یعنی ایمان متعلق جزاء سزاء سے بے بہرہ ہے.اور تہذیب اخلاق سے بھی عاری ہے.کیونکہ نہ وہ دفع شر کرتا ہے اور نہ طلب منفعت کرتا ہے اور نہ وہ تزکیہ نفس کی طرف توجہ رکھتا ہے.کیونکہ نماز سے تساہل کر نیوالا ہے اور ادنی چیزوں سے جو گھر کے اندر عام استعمال میں آتی ہیں.ایک دوسرے کو برتنے سے منع کرتا ہے.اور اخلاق کے ادنیٰ مراتب سے بھی گرا ہوا ہے.ا.نماز پڑھتا ہی نہیں ۲.یتیم کو دھکے دیتا ہے ۳ مسکین کو کھانا نہیں دیتا ۴.ادنی چیزوں کے باہمی استعمال سے مضائقہ کرتا ہے.شیخ سعدی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں.بخیل از بود زاهد و بهره ور بهشتی نباشد بحکم خبر (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۰ر اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۵۵) - فَذَلِكَ الَّذِي يَدُعُ الْيَتِيمَ - ترجمہ.پس یہی ہے جو دھکے دیتا ہے یتیم کو.تفسیر فذلك.پس یہی ہے الَّذِي.وہ جو يد.دھکے دیتا ہے الْيَتِيمَ.یتیم کو یتیم کی اہانت کر نیو الے اور اس پر سختی کرنیوالے کو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے درمیان شمار فرمایا ہے جو کہ دین کے مکذب ہیں.یتیم سب ضعیفوں سے زیادہ ضعیف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یتیم کا بہت خیال رکھتے تھے.اور یتامی کی بہت خبر گیری کرتے تھے.ہماری انجمن اشاعت اسلام نے بھی اپنے اخراجات میں ایک مڈیتائی کی رکھی ہے.اور مدرسہ تعلیم الاسلام میں بہت سے یتیم اگر ایک بخیل انسان بحر و بر کا سب سے زیادہ متقی انسان ہو تب بھی وہ حدیث کے مطابق جنتی نہیں ہوسکتا.
حقائق الفرقان ۳۸۶ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ پرورش پارہے ہیں.جن کے ہر قسم کے اخراجات تعلیمی اور خوراک پوشاک وغیرہ کے انجمن برداشت (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۵۶٬۳۵۵) کر رہی ہے.- وَلَا يَحُضُّ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ - ترجمہ.اور نہیں رغبت دیتا کہ مسکین کو کھا نا کھلایا جائے.تفسیر وَلا يَعضُ.اور نہیں رغبت دلا تا اور نہیں تاکید کرتا.عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ.مسکین کے کھانا کھلانے پر.یہ دوسری مذمت مکذب کی ہے کہ وہ اول تو یتیم کو دھکے دیتا ہے.اور دوم مسکین کو کھانا نہیں کھلاتا اور نہ کسی دوسرے کو اس امر کی ترغیب دیتا ہے کہ وہ مسکین کو کھانا کھلایا کرے.اس جگہ مکذب کی دو بڑی نشانیاں بیان کی گئی ہیں.ایک یہ ہے کہ یتیم کو دھکے دیتا ہے.اور دوم یہ کہ مسکین کو کھانا نہیں دیتا.مسکین اور یتیم ہر دو عام لفظ ہیں.اور ہر ایک شخص جو مساکین اور یتامی کے ساتھ بدسلوکی کریگا وہ خدا تعالیٰ کے غضب کو اپنے اوپر وارد کرے گا.لیکن اس میں ایک بار یک اشارہ ایک خاص یتیم اور مسکین کی طرف بھی ہے.جس نے اللہ تعالیٰ کی خاطر د نیوی تعلقات کو قطع کر دیا ہے اور دنیوی اموال اور جاہ و حشم کو بالکل ترک کر دیا ہے.اور وہ خدا کی خاطر ایک یتیم اور مسکین بن گیا ہے تب خدا تعالیٰ نے اس کو اپنی ہستی کے ثبوت کے واسطے ایک حجت اور نشان مقرر کر کے دوبارہ دنیا میں داخل کر دیا ہے.خداوند تعالیٰ کے تمام انبیاء کا یہی حال ہوتا ہے.اور وہ لوگ جو دنیا میں عام طور پر اپنی بے دینی کے باعث یتامی اور مساکین پر ظلم روا ر کھتے ہیں.وہ اپنی عادت کے مطابق ان آیات اللہ کے ساتھ ٹکر کھا کر اپنی بداعمالیوں کا آخری نتیجہ پالیتے ہیں.جن لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یتیم اور مسکین بے کس اور بے بس ایک اکیلا انسان سمجھا.اور آپ کے ساتھیوں کو چند غرباء ضعفاء کے سوائے نہ پایا اور آپ کے قتل کے درپے ہوئے.خدا تعالیٰ نے ان کے منصوبوں کو ایسا خاک میں ملایا.اور ان کو ایسی ناکامی کا منہ آنحضرت کے سامنے ہی دکھایا کہ اس کی نظیر تاریخ دنیا کے معرکہ ہائے جنگ و جدال میں نظر نہیں آتی.ایسا ہی اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کا
حقائق الفرقان ۳۸۷ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ ایک مرسل ہمارے درمیان موجود ہے.جس نے آبائی عزت و جاہ اور اموال و جا گیر کو اپنے خدا کی محبت کے آگے بیچ جان کر سب کچھ ترک کیا اور گوشہ میں بیٹھ کر گمنامی کے درمیان اپنے خدا کی یاد کو مسکین سب باتوں پر ترجیح دی.دنیا نے اس کو یتیم اور مسکین دیکھا.اور دنیا کے فرزندوں نے چاہا کہ اس مہ کو کوئی کھانا نہ دے اور نہ اس کو کوئی ملے.اور نہ اس کے ساتھ کوئی بات کرے اور اس کے حق میں سخت سے سخت کفر کے فتوے لگائے لیکن خدا تعالیٰ کا غضب ایسے کفر بازوں پر نازل ہوا اور ان کے نوجوانوں کو کھا گیا اور ان کے بچوں کو یتیم کر گیا اور ان کے گھروں کو ویران کر گیا.پر وہ جس کے لئے کہا گیا تھا کہ کوئی اس کو کھانا نہ دے.اس کا گھر خدا نے ہر قسم کی نعمتوں کے ساتھ بھر دیا.پس بڑا بد نصیب وہ ہے جو خدا کے فرستادہ کو یتیم اور مسکین دیکھ کر دھکے دے اور دوسروں کو بھی اُس کے پاس جانے سے روکے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱/۱۰اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۵۶) ۶،۵ - فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ - ترجمہ.پس افسوس ہے ان نمازیوں کے لئے وہ جوا اپنی نمازوں سے غافل ہیں.تفسیر.فویل.پس وائے ہے.پس افسوس ہے.پس ہلاکت ہے.ن دور دور لِلْمُصَدِّينَ.واسطے نمازیوں کے الَّذِينَ.وہ جو هم وه عَنْ صَلَاتِهِمْ.اپنی نماز سے ساهون - سہو کرنے والے ہیں.غفلت کرنے والے ہیں.تساہل کرنے والے ہیں.اس آیت میں ان لوگوں کو تنبیہ کی گئی ہے.جو نماز کے معاملہ میں سستی اور غفلت کرتے ہیں.مُصلين وہ لوگ جو نماز کے واسطے مکلف ہیں.نماز میں غفلت کئی طرح سے ہوتی ہے.۱.بعض لوگ نماز پڑھتے ہی نہیں.رسمی طور پر مسلمان کہلاتے ہیں.مگر کبھی ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ نماز کا پڑھنا مسلمان کے واسطے فرض ہے اور جب تک کہ وہ اپنے عین کا روبار کے درمیان وقت نماز
حقائق الفرقان ۳۸۸ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ کے آنے پر تمام دنیوی خیالات کو بالائے طاق رکھ کر خدا تعالیٰ کی طرف نہیں جھکتا.تب تک اس میں اسلامی نشان نہیں پایا جاتا.ہر ایک قوم والوں کے درمیان کوئی مذہبی نشان ہوتا ہے.عیسائی لوگوں نے وہ نشان صلیب کا رکھا ہے.جس کو وہ لکڑی یا لو ہے یا چاندی سونے کی بنوا کر اپنی چھاتی پر یاسر پر اور معبد خانوں کے اوپر لگا دیتے ہیں.اس واسطے عیسوی مذہب کو صلیبی مذہب کہتے ہیں.اور عیسائیوں نے جولڑائیاں اپنے مذہب کی خاطر مسلمانوں کے ساتھ کیں ان کو صلیبی جنگ کہتے ہیں.ایسا ہی ہندو لوگ اپنے ہندو ہونے کی نشانی میں بدن پر ایک تا گہ رکھتے ہیں جسے زنار یا جنیو کہتے ہیں.مسلمانوں کے درمیان ان کے اسلام کی نشانی یہی ہے کہ مسلمان ہر حالت رنج و راحت، صحت و بیماری ، امن و جنگ میں اپنے وقت پر اپنے خدا تعالیٰ کے حضور میں حاضری بھرنے کے واسطے چست ہو جاتا ہے.عین جنگ کے موقع پر جہاں دشمنوں کے ساتھ لڑائی ہورہی ہوتی ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ صف بندی کر کے نماز پڑھتے اور پڑھاتے تھے.اس سے بڑھ کر نماز کے واسطے اور کیا تاکید ہوسکتی ہے..وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں مگر کبھی کبھی جس دن کپڑے بدلے یا صبح کے وقت جب ہاتھ منہ دھو یا تو نماز بھی اس اتفاق سے پڑھ لی یا چند ایسے دوستوں میں قابو آ گئے جو نماز پڑھتے ہیں.تو وہاں ان کے درمیان مجبورا پڑھ لی.یہ لوگ بھی غفلت کر نیوالوں میں شامل ہیں.۳.پھر کچھ ایسے لوگ ہیں.جو پڑھتے تو ہیں مگر بہ سبب تکبر کے یا بہ سبب ستی کے اپنے ہی گھروں میں پڑھ لیتے ہیں ہر وقت اپنے کام میں مصروف رہتے ہیں.جب نماز کا وقت آیا تو اسی جگہ جلدی جلدی نماز پڑھ لی.گویا ایک رسم ہے جس کو ادا کرتے ہیں یا ایک عادت ہے جس کو پورا کرتے ہیں.مسجد میں جانا اور جماعت کو پانا ان کے نزدیک ایک بے فائدہ امر ہے.یہ لوگ بھی غافلین میں شامل ہیں.اکثر آجکل کے دنیوی رنگ میں بڑے لوگوں میں اگر کسی کو نماز کی عادت ہے.( توایسی ہے).۴.پھر بعض لوگ مسجد میں بھی جا کر پڑھتے ہیں.مگر بے دلی کے ساتھ.ان میں تعدیل ارکان
حقائق الفرقان ۳۸۹ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ کا خیال نہیں.اور خدا تعالیٰ کی طرف پوری توجہ سے نہیں جھکتے اور جلدی جلدی نماز کوختم کرتے ہیں.اور نماز کے اندر وساوس کو اور غیر خیالات کو بلاتے ہیں.پھر وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں.مگر ویسی نماز نہیں پڑھتے جو خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو سکھلائی اور اس کے رسول نے اپنی امت کو سکھلائی بلکہ وہ اپنے لئے ایک نئی نماز ایجاد کرتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ جس وقت یہ سورہ شریف نازل ہوئی تھی.اس وقت بھی تو نماز پڑھی جاتی تھی.اور ظن کرتے ہیں کہ تاریخی شہادتیں تمام جھوٹی ہیں.خواہ کس قدر جانفشانی کے ساتھ وہ واقعات سینہ بسینہ جمع کئے گئے ہوں.گویا ان کے نزدیک تمام جہان کی تاریخ جھوٹ ہے.اور اس میں کچھ راستی نہیں.اور کہتے ہیں اور گمان کرتے ہیں کہ ہر ایک انسان اپنے لئے آپ قرآن شریف کو سمجھے گا اور وہ دنیا میں ہزار ہا اشیاء کے محتاج ہیں لیکن جب انہیں کہا جائے کہ تم قرآن شریف کے سمجھنے کے لئے بھی کسی کے محتاج ہو تو اپنے نفس کو دھوکہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن شریف کسی کا محتاج نہیں وہ کلام الہی ہے.اور سچ ہے کہ وہ محتاج نہیں.لیکن کیا انسان بھی محتاج نہیں.کیا ماں کے پیٹ سے کوئی شخص قرآن شریف پڑھ کر نکلا تھا؟ اور وہ کہتے ہیں کہ وہ نماز جو دوسرے مسلمان پڑھتے ہیں.وہ درست نہیں.خواہ اس کے متعلق سچی اور حقیقی شہادت دکھائی جائے کہ آنحضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اسی طرح پڑھی تھی اور کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے آنحضرت سے روایت کی وہ قابلِ اعتبار نہ تھے.اور نہیں سوچتے کہ اگر وہ سب کے سب ایسے ہی تھے تو پھر قرآن شریف بھی ہم تک انہیں بزرگوں کے ذریعہ سے پہنچا ہے پس کیونکر یقین ہو کہ قرآن شریف بھی اصلی ہے کیونکہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے.مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ حفاظت کی آیت بھی ان لوگوں نے اپنے پاس سے ڈال دی ہو.جنہوں نے ہم تک قرآن شریف کو پہنچایا؟ پس یہ راہ بہت ہی خطر ناک ہے جو چکڑالوی اور اس کے ہم خیالوں نے اختیار کی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۰ ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۵۷،۳۵۶)
حقائق الفرقان ۳۹۰ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ.الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ.ترجمہ.وہ جو دکھانے کو کام کرتے ہیں.تفسیر.الَّذِینَ.وہ لوگ جو.هُمْ يُراوُونَ.دکھاوا کرتے ہیں.ریا کاری کرتے ہیں.وہ لوگ جولوگوں کی خاطر یا لوگوں کے سامنے لمبی نماز پڑھتے ہیں اور جب علیحدہ ہوتے تو پھر نہیں پڑھتے یا کسل کے ساتھ نماز کو ادا کرتے ہیں.لیکن اصل بات نیت پر موقوف ہے.اگر کوئی شخص بچے اخلاص کے ساتھ اور صدق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے تو خواہ اس کو کوئی دیکھا کرے اس امر کا اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ میں ایک دن نماز پڑھ رہا تھا.ایک آدمی آیا اور مجھے نماز پڑھتے دیکھا.اس کا یہ دیکھنا مجھے بھلا معلوم ہوا.میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا.آپ نے فرمایا کہ تیرے لئے دہرا اجر ہے.ایک ستر کا اجر اور ایک علانیہ کا.غرض یہ باتیں زیادہ تر نیت پر موقوف ہیں.بعض لوگ اس نیت سے ظاہری طور پر صدقہ خیرات کرتے ہیں کہ دوسروں کو بھی نیک کام کے واسطے ترغیب پیدا ہوتی ہے.وہ لوگ جو اندر سے ایک نیکی کا کام کرتے ہیں.اور ظاہر میں اس کو بدی کا رنگ دیتے ہیں تا کہ خلقت کی نظروں میں وہ بد دکھائی دیں.میرے نزدیک یہ بھی ریا کار ہیں.کیونکہ انہوں نے اپنے عمل میں خلقت کی نظر بد یا نیک کی پرواہ کی ہے.انسان کو چاہیے کہ اپنے خدا تعالیٰ کے واسطے خالصۂ عبادت کرے پھر خواہ خلقت اس کو برا سمجھے یا بھلا اس امر کی پرواہ نہیں چاہیے.اور اپنے ظاہر کو جان بوجھ کر برا بنانا آنحضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی اس دعا سے ناجائز ثابت ہوتا ہے.وہ دعا آنحضرت نے حضرت عمر کو سکھلائی تھی اور اس طرح ہے.اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَت خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَّتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَّتِي صَالِحَةً اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے بہتر بنا اور میرے ظاہر کو اچھا کر.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۵۷)
حقائق الفرقان وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ - ترجمہ اور روکتے ہیں برتنے کی چیز سے.۳۹۱ سُوْرَةُ الْمَاعُونِ اور منع کرتے ہیں برتنے کی چیز سے.ماعون بروزن فاعول تھوڑی چھوٹی اور ادنی شئے کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کو مانگنے سے استعمال کے واسطے دی جاوے تو دینے والے کا حرج نہ ہو اور لینے والے کو فائدہ ہو جاوے.جیسا اس ملک میں پینے کے لئے پانی چولہے کی آگ تھوڑا نمک ، کلہاڑی، ہاون دستہ وغیرہ.گھر میں ایسی اشیاء کا رکھنا جو ہمسایہ کے کام کبھی کبھی آویں.موجب ثواب ہے.بعض کے نزدیک ماعون زکوٰۃ کو کہتے ہیں.اس سورہ شریف میں جو نشانیاں مکذبانِ دین کے واسطے بیان کی گئی ہیں وہ سب یوروپ کے عیسائیوں پر ایسی چسپاں ہوتی ہیں کہ گویا یہ سورہ شریف ان کے ہی حق میں نازل ہوئی تھی.سب سے اول دین کی تکذیب ہے.سو یوروپ کے علماء ہی ہیں جنہوں نے دنیا میں سب سے پہلے یہ بات ظاہر کی ہے کہ دین ایک لغو امر ہے.مذہب کی طرف توجہ ہی کرنا بے فائدہ سمجھتے ہیں.یتیم اور مساکین کو جھڑ کنے کا یہ حال ہے کہ اگر کوئی مسکین اور یتیم راہ میں کسی سے سوال کر بیٹھے تو وہ مجرم گردانا جا کر جیل خانہ میں بھیجا جاتا ہے.کسی غریب کو اپنے گھر بلا کر روٹی کھلانا یا مسافر کی خاطر داری کر نا زمانہ جہالت کا طریق خیال کیا جاتا ہے.نماز سے غفلت کا یہ حال ہے کہ ہفتہ میں ایک دن اور اس دن میں بھی ایک گھنٹہ نماز کے واسطے مقرر ہے.اس میں کوئی دس فیصدی عیسائی گرجا جاتے ہوں گے.ہاں دکھاوے کے کام بہت ہیں.چندوں کی لمبی فہرستیں شائع کی جاتی ہیں.ایک دوسرے کو برتنے کے واسطے کوئی شئے لینا دینا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے.اس سے خیال پڑتا ہے کہ شاید یہ سورۃ بھی دجال کے حق میں ہی نازل ہوئی ہو.جس کے مقابلہ کے واسطے خدا نے اس زمانہ میں اپنا مسیح بھیجا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۵۷) ماعون.برتنے کی عام چیزیں ماعون کہلاتی ہیں.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۸)
حقائق الفرقان ۳۹۲ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس کو شروع کیا جاتا ہے جس کی رحمت بلا مبادلہ سب کے واسطے عام ہے اور جو نیک عمل کرنے والوں کے واسطے انعام اور بدی کرنے والوں کو سزا دیتا ہے.یہ سورہ شریف کی ہے.اس میں تین آئتیں اور بارہ الفاظ اور بیالیس حروف ہیں.۲ تا ۴- إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرُ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ ترجمہ.تحقیق عطاء کی ہم نے تجھے کوثر پس نماز پڑھ واسطے اپنے پالنے والے کے اور قربانی کر بے شک دشمن تیرا جو ہے وہ بے نسل ہے.تفسیری ترجمہ.اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہم نے تجھے کوثر جیسی نعمت عطاء کی ہے پس اپنے رب کی عبادت کر اور قربانی دے تیرا دشمن تو ضرور جڑھ سے کاٹا گیا ہے.مَكَّيَّةٌ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاس وَ عَائِشَةَ وَ ابْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُمْ اللَّهُ الْمَنْثُورِ) وَنُسِبَ هَذَا الْقَوْلُ فِي الْبَحْرِ إِلَى الْجُمْهُورِ (الْعَيْنِي وَرُوْحُ الْمَعَانِي) عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ لَمَّا عُرِجَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى السَّمَاءِ قَالَ آتَيْتُ عَلَى نَهَرٍ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللُّؤْلُو مُجَوَفٌ فَقُلْتُ مَا هَذَا يَا جِبْرِيلُ قَالَ هَذَا الْكَوْثَرُ (البخارى كتاب التفسير سورة الكوثر مكتبه دار السلام - ریاض)
حقائق الفرقان ۳۹۳ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ وَمَدَنِيَّةٌ.عَنْ مُجَاهِدٍ وَالْحَسَنِ وَقَتَادَةَ وَ عِكْرَمَةَ وَفِي الْإِيْقَانِ إِنَّهُ الصَّوَابُ وَ رَجَعَهُ النَّوَوِى فِي شَرْحِهِ لِمُسْلِمٍ أَخْرَجَ أَحْمَدُ وَ مُسْلِمُ وَأَبُو دَا وَدَ وَ النِّسَانُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي سُنَنِهِ وَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَ ابْنُ مَرْدَوَيْهِ وَ أَبِي شَيْبَةَ عَنْ أَنَسِ ابْنِ مَالِكٍ أَغْفَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِغْفَاءَةً فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَشِمًا فَقَالَ إِنِّي أُنْزِلَ إِلَى انِفًا سُوْرَةٌ فَقَرَأَ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ حَتَّى خَتَمَهَا.(الْحَدِيثِ) أَمَّا الْكَوْثَرُ فَأَخْرَجَ الْبُخَارِقُ وَالْحَاكِمُ وَ ابْنُ جَرِيرٍ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ قَالُوا اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ هُوَ نَهُرْ أَعْطَانِيْهِ رَبِّي فِي الْجَنَّةِ ، عَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرُ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيمَةِ، انِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ، يُخْتَلَجُ الْعَبْدُ مِنْهُمْ فَأَقُولُ: يَارَبِ ، إِنَّهُ مِنْ أُمَّتِى فَيُقَالُ إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَكَ بَعْدَكَ وَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ قَالَ فِي الْكَوْثَرِهُوَ الْخَيْرُ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ إيَّاهُ قَالَ أَبُو بِشْرٍ قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرِ فَإِنَّ النَّاسَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ نَهْرُ فِي الْجَنَّةِ فَقَالَ سَعِيدُ النَّهْرُ الَّذِي فِي الْجَنَّةِ مِنَ الْخَيْرِ الَّذِي أَعْطَاهُ إِيَّاهُ (البخاري) فِي النَّسَائِي بَدَلْ فِي الْجَنَّةِ فِي بُطْنَانِ الْجَنَّةِ مَعْنَاهُ فِي وَسَطِهَا وَ اخْرَجَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَحْمَدُ وَ التَّرْمَذِى وَ صَحَحَهُ وَ ابْنُ مَاجَهُ وَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَ ابْنُ مَرْدَوَيْهِ أَنَّهُ يَجْرِى عَلَى اللَّهِ وَالْيَا قُوتِ تُرْبَتُهُ أَطْيَبُ مِنَ الْمِسْكِ وَ مَآءَهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَ اخلى مِنَ الْعَسَلِ.وَ سَأَلَ نَافِعُ ابْنُ الْأَزْرَقِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الْكَوْثَرِ فَقَالَ نَهْرُ بُطَنَانِ الْجَنَّةِ حَافَتَاهُ قِبَابُ اللَّهِ وَالْيَاقُوتِ فِيهَا أَزْوَاجُهُ وَ خَدِّمُهُ.قَالَ هَلْ تَعْرِفُ الْعَرَب ذلِكَ قَالَ نَعَمُ أَمَا سَمِعْتَ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ يَقُولُ
حقائق الفرقان ۳۹۴ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ و حَيَّاهُ الْإِلهُ بِالْكَوْثَرِ الْأَكْبَرِ فِيهِ النَّعِيمُ وَ الْخَيْرَاتُ الْكَوْثَرُ مِنَ الْكَثْرَةِ الشَّيءُ الْكَثِيرُ كَثْرَةٌ مُفْرِطَةٌ قَالَ الْكُمَيْتُ وَ اَنْتَ كَثِيرُ يَا ابْنَ مَرْوَانَ طَيِّب و كَانَ أَبُوكَ ابْنُ الْفَضَائِلِ كَوْثَرَا أَخْرَجَ الْبَزَازُ وَ غَيْرُهُ بِسَنَدٍ صَحِيحٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَدِمَ كَعْبُ بْنُ الْأَشْرَفِ مَكَّةَ فَقَالَتْ لَهُ قُرَيْضٌ أَنْتَ سَيْدُهُمْ أَلَا تَرَى إِلَى هَذَا الْمُنْصَبِرَ الْمُنْتَبِرَ مِنْ قَوْمِهِ يَزْعُمُ أَنَّهُ خَيْرٌ مِنَا وَنَحْنُ أَهْلُ الْحَجِيْجِ وَ أَهْلُ السَّقَايَةِ وَ أَهْلُ السَّدَانَةِ قَالَ أَنْتُمْ خَيْرٌقِنُهُ فَنَزَلَتْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ وَ اَمَّا بَقِيَّةُ التَّفْسِيرِ بِالْآثَارِ عَنِ الصَّحَابَةِ وَ التَّابِعِيْنَ رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنِ الْحَسَنِ الْكَوْثَرُ الْقُرْآنُ وَ أَخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَ ابْنُ عَسَاكِرٍ عَنْ عِكْرَمَةَ قَالَ الْكَوْثَرُ مَا أَعْطَاهُ اللهُ مِنَ النُّبُوَّةِ وَالْخَيْرِ وَالْقُرْآنِ.وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَ الْحَاكِمُ وَابْنُ مَرْدَوَيْهِ وَ الْبَيْهَقِيُّ فِي سُنَنِهِ عَنْ عَلِي ابْنِ أبِي طَالِبٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ السُّوْرَةُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِجِبْرِيلَ مَا هَذِهِ النَّحِيرَةُ الَّتِي أَمَرَنِي بِهَارَي قَالَ إِنَّهَا لَيْسَتْ بِنَحِيرَةٍ وَلَكِنْ يَأْمُرُكَ إِذَا قُمْتَ لِلصَّلوةِ أَنْ تَرْفَعَ يَدَيْكَ إِذَا كَبَّرْتَ وَ إِذَا رَكَعَتَ وَإِذَا رَفَعْتَ رَأْسَكَ مِنَ الرَّكُوعِ فَإِنَّهَا صَلوتُنَا وَصَلوةُ الْمَلَائِكَةِ الَّذِينَ هُمْ في السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَإِنَّ لِكُلِّ شَيْءٍ زِيْنَةٌ وَزِينَةُ الصَّلَوَةِ رَفْعُ الْيَدَيْنِ مِنَ الْإِسْتِكَانَةِ الَّتِي قَالَ اللهُ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ.وَأَخْرَجَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبُخَارِيُّ وَ
حقائق الفرقان ۳۹۵ و سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ وَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَالدَّارُ قُطَنِى وَ أَبُو الْشَيْخِ وَ الْحَاكِمُ وَ ابْنُ مَرْدَوَيْهِ وَ الْبَيْهَقِيُّ عَنْ عَلَى ابْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فِي قَوْلِهِ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ قَالَ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْلَى عَلَى وَسَطِ سَاعِدِهِ الْيُسْرَى ثُمَّ وَضَعَهَا عَلَى صَدْرِهِ فِي الصَّلوةِ وَأَخْرَجَ أبو الشَّيْخِ وَ الْبَيْهَقِيُّ فِي سُنَنِهِ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.وَ أَخْرَجَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ وَ ابْنُ مَرْدَوَيْهِ وَ الْبَيْهَقِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ قَالَ إِذَا صَلَّيْتَ فَرَفَعْتَ رَأْسَكَ مِنْ رَكُوعِ فَاسْتَوِقَائِمًا وَأَخْرَجَ عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ بِنَحْرِكَ.وَ اخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ الْمُنْذِرِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.اَلصَّلَوةُ الْمَكْتُوبَةُ وَالذِّبْحُ يَوْمَ الْأَضْحَى وَ أَخْرَجَ ابْنُ جَرِيرٍ عَنْ قَتَادَةَ صَلوةُ الْأَضْحَى وَ نَحْرُ الْبُدُن عربی تفسیر سے ترجمہ: جیسا کہ کتاب الدر المنثور میں لکھا ہے.یہ سورہ شریف حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ اور حضرت ابن زبیر کے قول کے مطابق مکی ہے.اور تفسیر عینی اور روح المعانی میں لکھا ہے کہ بحر میں بھی یہ قول جمہور کی طرف منسوب کیا گیا ہے.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوا.تو آپ نے سنایا کہ شب معراج میں میں نے ایک نہر دیکھی جس کے اردگرد موتیوں کے خیمے لگے ہوئے تھے.مگر خالی تھے.پس میں نے جبرئیل سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا کہ یہ کوثر ہے.مجاہد اور حسن اور قتادہ اور عکرمہ کے قول کے مطابق یہ سورہ شریف مدنی ہے اور کتاب اتقان میں
حقائق الفرقان ۳۹۶ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ اس قول کو درست قرار دیا گیا ہے.اور نووی نے مسلم کی شرح میں بھی اسی بات کو ترجیح دی ہے.احمد اور مسلم اور ابوداؤد اور نسائی اور بیہقی نے اپنی کتابوں میں اور ایسا ہی ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن مردویہ اور ابن ابی شیبہ نے ابن مالک سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیر تک سر نیچے رکھا اور پھر سر اٹھا کر تبسم فرمایا اور کہا کہ ابھی مجھ پر ایک سورۃ نازل ہوئی ہے.پھر سورۃ کوثر پڑھی.لفظ کوثر.بخاری اور حاکم اور ابن جریر نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ اپنے اصحاب کو مخاطب کر کے فرمایا.کیا تم جانتے ہو کہ کوثر کیا شئے ہے.انہوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتا ہے.تب آپ نے فرمایا.کہ کوثر ایک نہر کا نام ہے.جو میرے رب نے مجھے عطا کی ہے.وہ نہر جنت میں ہے.اس میں خیر کثیر ہے.قیامت کے روز میری امت اس پر وارد ہوگی.اس کا برتن ستاروں جتنا وسیع ہے.ان میں سے ایک آدمی اس پر سے ہٹایا جاوے گا تو میں کہوں گا کہ میرے رب.یہ تو میری امت کا آدمی ہے.اسے کیوں ہٹایا جاتا ہے.تو جواب ملے گا کہ تو نہیں جانتا کہ اس نے تیرے بعد کیسی نئی باتیں نکالی تھیں.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کوثر اس خیر کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی ہے.ابو بشر لکھتا ہے کہ میں نے سعید بن جبیر کو کہا کہ لوگ تو خیال کرتے ہیں کہ کوثر جنت میں نہر کا نام ہے.اور آپ کہتے ہیں وہ خیر ہے تو سعید نے کہا کہ جنت میں جو نہر ہے وہ بھی اسی خیر میں سے ہے.جو اللہ تعالیٰ نے رسول کو عطا کی ہے.حدیث شریف کی کتاب نسائی میں فی الجنة کی بجائے في بَطْنَانِ الْجَنَّةِ آیا ہے بَطْنَانِ الْجَنَّةِ کے معنے ہیں بہشت کے وسط میں.ابن ابی شیبہ اور احمد اور ترمذی نے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کو صحیح بتلایا ہے اور ابن ماجہ اور ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن مردویہ نے بھی یہ روایت بیان کی ہے کہ
حقائق الفرقان ۳۹۷ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ وہ نہر موتیوں پر اور یاقوت پر جاری ہے.اس کی مٹی کستوری سے زیادہ خوشبودار ہے اور اس کا پانی دودھ سے بھی زیادہ سفید ہے.اور شہد سے بھی زیادہ میٹھا ہے.اور نافع بن ارزق نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ کوثر کیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ کوثر ایک نہر کا نام ہے جو کہ بہشت کے وسط میں ہے اور اس کے ارد گرد موتیوں کے اور یاقوت کے خیمے ہیں.اس میں بیویاں اور خدام ہیں.نافع نے کہا کہ اہلِ عرب ان معنوں سے واقف ہیں؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ ہاں واقف ہیں.کیا آپ نے حسان ابن ثابت کا یہ شعر نہیں سنا.ترجمہ شعر: اور خدا نے اسے کوثر عطا کیا ہے.بڑا کوثر جس میں نعمتیں اور بھلائیاں ہیں.لفظ کو تر کثرت سے نکلا ہے اور اس کے معنے ہیں.بہت ساری چیز.بہت زیادہ.کمیت شاعر کہتا ہے.اے ابن مروان تو کثیر ہے اور طیب ہے.اور تیرا باپ بہت بڑھی ہوئی فضیلتوں والا تھا.بزاز نے اور دوسروں نے سند صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ کعب بن اشرف ایک دفعہ مکہ میں آیا تو قریش نے اسے کہا کہ تو ہمارا سردار ہے.کیا تو نہیں دیکھتا اس المنصبر المنبتر کی طرف وہ گمان کرتا ہے کہ وہ ہم سے بہتر ہے.حالانکہ ہم وہ ہیں جولوگوں کو حج کراتے ہیں اور لوگوں کو پانی پلاتے ہیں اور لوگوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں.کعب بن اشرف نے کہا کہ نہیں تم اس سے اچھے ہو اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ - اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے باقی تفسیر اس طرح سے ہے کہ ابن ابی حاتم نے حسن سے روایت کی ہے.کہ کوثر کے معنے ہیں.قرآن شریف.اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم اور ابن عسا کرنے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ کوثر اس کا نام ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت اور خیر اور قرآن شریف عطا کیا تھا اور ابن ابی حاتم اور حاکم اور ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ روایت کی ہے کہ جب سورہ کوثر
حقائق الفرقان ۳۹۸ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرئیل سے کہا کہ اس وحی الہی میں بحیرہ سے کیا مراد ہے جس کا حکم خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اس سے مراد کوئی قربانی نہیں ہے.بلکہ خدا تعالیٰ نے اس میں آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ جب آپ نماز پڑھیں اور اللہ اکبر کہیں تو اس وقت اپنے ہاتھ اٹھایا کریں اور جب رکوع کریں اور جب رکوع سے سر اٹھا ئیں تو اس وقت بھی ہاتھ اٹھایا کریں.یہ ہماری نماز ہے اور یہی ان سب فرشتوں کی نماز ہے جو کہ سات آسمانوں میں ہیں.اور ہر ایک چیز کے واسطے ایک زینت ہوتی ہے.پس نماز کی زینت یہ ہے کہ ہر ایک تکبیر کے وقت رفع یدین کی جاوے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دفع يَدَيْین کرنا وہ استکانت ہے.جس کا ذکر قرآن شریف کی اس آیت میں ہے کہ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ.(المومنون : ۷۷) اور ابن ابی شیبہ سے روایت ہے اور بخاری اور ابن جریر اور ابن المنذر اور ابن ابی حاتم اور دار قطنی اور ابوالشیخ اور حاکم اور ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر کے متعلق روایت کی ہے کہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں کلائی کے وسط پر رکھا اور پھر دونوں ہاتھوں کو نماز میں اپنے سینہ پر رکھا اور ابوالشیخ اور بہیقی نے اپنی کتاب میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا تھا.اور ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر سے یہ مراد ہے کہ جب تو نماز پڑھے اور ا پنا سر رکوع سے اونچا کر لے تو سیدھا کھڑا ہوجا اور ابی الاحوص سے روایت ہے کہ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَر سے یہ مراد ہے کہ اپنی قربانی لے کر قبلہ کی طرف متوجہ ہو.اور ابن جریر اور ابن المنذر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ فَصَلِّ لِرَتِكَ وَانْحَر میں صلوۃ سے مراد فرض نماز ہے اور قربانی سے مراد عید الاضحی کی قربانی ہے.لے تو وہ جھکتے نہیں اپنے رب کے سامنے اور نہ عاجزی ہی کرتے ہیں.
حقائق الفرقان ۳۹۹ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ اور ابن جریر نے قتادہ سے روایت کی ہے کہ نماز سے مراد عید الاضلح کی نماز ہے.اور قربانی سے مراد بھی اس عید کی قربانی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان نمبر ۲۶ جلد ۱۲ مورخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۵۸ تا ۳۶۰) اس کے بعد عربی تفسیر میں صرف ونحو کا وہ حصہ ہے جو عام فہم نہیں ہے.اس واسطے اس کو چھوڑا جاتا ہے.لیکن اس میں سے چند باتیں بطور اختصار کے درج کی جاتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے عطائے کوثر کے بیان میں اللہ تعالیٰ نے اول حرف تاکید کا فرمایا ہے.پھر صیغہ ماضی میں بیان کیا ہے.یہ بھی ایک تاکید ہے.اور دیگر صرفی نحوی تاکیدیں بھی ان الفاظ میں ہیں جس سے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل کا اظہار آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے.آپ کے واسطے کوثر کا ملنا ایک امر مقدر ہے.جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحیمیت سے آپ کو عطا ہوا ہے.ایسالفظ آخظی کا استعمال بھی اسی فضلِ عظیم کی طرف اشارہ کرتا ہے.ورنہ صرف دینے کے مفہوم کے واسطے عربی میں لفظ آئی بھی آسکتا تھا.ایسا ہی اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ک کے ساتھ خطاب فرمایا ہے.کہ ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے اور ایسا نہیں فرمایا کہ ہم نے اپنے رسول یا نبی یا عبد کو کوثر عطا کیا ہے.اس میں بھی رحمانیت کے خاص فضل اور عطاء کا تذکرہ ظاہر کیا ہے.ایسا ہی اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر میں بھی دشمن کے بےنسل ہونے کو بہت سی تاکیدوں کے ساتھ بیان فرمایا ہے یہ بات ضرور ہو جانے والی ہے.اس سورۃ کا پہلی سورۃ الماعون ) سے یہ تعلق ہے کہ سورہ ماعون میں ایسے شخص کا ذکر کیا ( گیا ہے جو کہ مذب بالدین.بخیل.تارک صلوۃ.ریا کار.مال زکوۃ اور مانع ماعون ہے اور اس اے چکڑالوی لوگ اس پر توجہ کریں.رسول کے لفظ کے معنے تو وہ قرآن شریف کر دیتے ہیں.تو کیا یہاں بھی ك میں مخاطب قرآن شریف ہے اور قرآن شریف کو حکم ہوا ہے کہ اسے قرآن تو نماز پڑھا کر اور اسے قرآن تو قربانی دیا کر.غور کرو کہ یہ خطاب خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے.اور آپ کو کوثر عطا کیا گیا ہے اور اس کوثر میں خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کی پاک تفہیم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی.کیا چکڑالوی کو قرآن کی تفہیم ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ نہ ہوئی تھی.(ایڈیٹر )
حقائق الفرقان و سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ سورۃ شریف میں ایسے آدمی کا ذکر ہے.جوان بری عادات کے بالمقابل تمام نیک صفات سے متصف ہے.وہ مکذب تھا تو یہ اول المومنین اور مصدق ہے.خدا کی طرف سے اسے کوثر عطا کیا گیا.وہ بخیل اور مانع زکوۃ اور مانع ماعون تھا تو یہ وَانْحَر کے حکم پر چلنے والا ہے.وہ تارک صلوۃ اور ریا کا رتھا تو یہ فصل کی پیروی کر نیوالا ہے.اور وہ بھی لرتبك خاص خدا کے واسطے کسی انسان کے واسطے نہیں.کسی کو دکھانے کے واسطے نہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۷،۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۶۱) الكَوثَرُ النَّهْرُ فِي الْجَنَّةِ وَالْخَيْرُ الْكَثِيرُ وَلَا شَكَ أَنَّ النَّهْرَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَى نَبِيُّنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ شَفِيعُ الْمُذْنِبِينَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَالِهِ أَجْمَعِينَ.-١ كَثْرَةُ الْأَسْمَاءِ الْحُسْنى لِلهِ سُبْحَانَهُ فَمَا تَرَى فِي شَيْءٍ مِنَ الْكِتَابِ الْمَنْسُوبَةِ إِلَى اللهِ سُبْحَانَهُ مِثْلَ مَا تَرَى مِنَ الْأَسْمَاءِ فِي الْكِتَابِ الْمُنْزَلِ عَلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ عَلَى الْخَيْرِ الْكَثِيرِ كَثْرَةُ الْمَحَامِدِ لِلهِ تَعَالَى فَهَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَمُدُّ صَوْتَهُ وَ يُنْدِى وَ يُكَرِرُ بِاللهِ أَكْبَرُ عَلَى الْمَنَارَاتِ وَ الْمُرْتَفَعَاتِ وَ هَلْ يُمْكِنُ لَفْظُ أَكْبَرُ مِنْ ” اللهُ أَكْبَرُ أَوْ مَا تَرَى فِي الْإِسْلَامِ ادْعِيَةَ الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَالْجَمَاعِ وَالتَّوْمِ وَالتَّقْلِيبِ فِي النَّوْمِ وَالْإِنْتِبَاهِ مِنْهُ وَ الدُّخُولِ فِي الْمَسَاجِدِ وَ الْقِيَامِ وَ الْجُلُوسِ وَ الْخُرُوجِ مِنْهَا وَالنَّهَابِ إِلَى السُّوقِ وَ الْإِيَابِ مِنْهَا وَ السَّفَرِ وَ الْحَضَرِ وَادْعِيَةَ الْبَأْسَاءِ وَالطَّرَاءِ وَحِيْنِ الْبَأْسِ وَرُكُوبِ الدَّابَّاتِ وَالْحَاجَاتِ وَالْكَرْبِ وَالْهَةِ وَالْحُزْنِ وَالْفِتَنِ وَ مَحَامِدُ اللهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى فِي ابْتِدَاءِ الْكِتَابِ وَالْخُطَبِ وَالرَّسَائِلِ وَ خِتَامِهَا وَمِنْهَا قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ صَلوتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ كَثْرَةُ وَعْظِ التَّوْحِيْدِ وَ نَفْيِ الشَّرُكِ أَرَأَيْتَ هذَا الْبَيَانَ فِي كِتَابِ اَوْ دِيْوَانٍ أَنْظُرْ كَلِمَةَ التَّوْحِيدِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَهَلْ أَبْقَى فِي
حقائق الفرقان ۴۰۱ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ قَلْبِ أَحَدٍ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ بِهَا أَنْ تُشْرِكَ أَحَدًا فِي النِّيَّةِ وَالْقَصْدِ وَ أَنْ يَدْعُوَ أَحَدًا مِن دُونِ اللَّهِ وَ أَنْ تُطِيعَ أَحَدًا بِدُونِ أَمْرِهِ وَ أَنْ يَتَّخِذَ أَحَدًا مِنْ دُونِ اللَّهِ رَبَّا سِوَاهُ وَ لَوْ كَانَ مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ أَى الْعِبَادِ وَ الْعُلَمَاءِ فِي مَعْصِيَةِ اللَّهِ وَ هَلْ يُمْكِنُ مِنْ أَحَدٍ أَنْ يُؤْمِنَ بِهَا أَنْ يُحِبَّ الْخَلْقَ كَحُبِ اللهِ فَلَا يَرْجُوا الْمُؤْمِنُ بِهَا مِنْ أَحَدٍ وَلَا يَخَافُ مِنْ أَحَدٍ.فَلَا يَعْتَقِدُ فِي أَحَدٍ أَنَّ لَهُ الْعِلْمُ التَّاةُ وَالتَّصَرُفُ التَّاةُ أو لأَحَدٍ سِوَى اللهِ عِبَادَةٌ مَّا فَضْلًا عَنِ السَّجْدَةِ وَالْحَقِّ وَالْقَرَابِينَ فَلَا يَسْتَغْفِرُ إِلَّا الله وَلَا يَتُوبُ إِلَّا إِلَيْهِ.وَلا يَعْتَقِدُ أَحَدًا أَنَّهُ الْخَالِقُ لِشَيْءٍ كَمِثْلِ خَلْقِ اللهِ أَوْ أَحَدٌ يُحْيِي او يُمِيتُ وَاحْيَاءِ اللهِ وَ اِمَاتَةِ اللهِ وَلَا يُسَوَّى بَيْنَ الْخَالِقِ وَ الْخَلْقِ أَبَدًا وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ تَطْهِيرُهُ صَلَّى اللهُ ذُيُوَلَ الْأَنْبِيَاءِ وَسَاحَتَهُمْ عَنِ النُّهَمِ وَالْإِفْتِرَاءَاتِ عَلَيْهِمْ انظُرْ حَالَ الْيَهُودِ بِالنِّسْبَةِ إِلَى الصَّدِيقَةِ الْمَرْيَمَ وَ قَوْلُهُ تَعَالَى بِكُفْرِهِمْ وَ قَوْلِهِمْ عَلَى مَرْيَمَ بُهْتَانًا عَظِيْماً وَقَوْلِهِمْ فِي عِيسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى وَ مُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَقَوْلِهِمْ مَعَ النَّصَارَى فِي دَاوُدَ وَسُلَيْمَانَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ وَقَوْلُهُ تَعَالَى وَ اذْكُرُ عَبْدَنَا دَاود.......الخ وَقَوْلُهُ تَعَالَى وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانَ.عربی تفسیر سے ترجمہ: کوثر جنت کی ایک نہر کا نام ہے.اور کوثر خیر کثیر کو کہتے ہیں.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ نہر بھی خیر کثیر میں سے ہے.اور خیر کثیر میں وہ بہت سی باتیں شامل ہیں جو ہمارے نبی کریم خاتم النبین، رب العلمین کے رسول اور گنہ گاروں کے شفیع کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں.اس خیر کثیر میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ کے اسمائے حسنیٰ جس قدر قرآن شریف میں
حقائق الفرقان ۴۰۲ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الہی بتلائے گئے ہیں.ان کی مثال کسی آسمانی کتاب میں نہیں پائی جاتی اور اسی خیر کثیر میں سے وہ محامد الہی ہیں جو دینِ اسلام کے ذریعہ سے دنیا پر ا پھیلائے جارہے ہیں.کیا آپ دیکھتے ہیں کہ کس طرح سے مسلمان آواز بلند کے ساتھ بلند مناروں اور اونچی جگہوں پر چڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بڑائی کرتے ہیں اور اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے ہیں.کیا اللہ اکبر سے بڑھ کر کوئی بڑا لفظ خدا تعالیٰ کی کبریائی کے واسطے تمہیں معلوم ہے.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ اسلام میں اللہ تعالیٰ کی تعریف اور تسبیح سے بھری ہوئی کس قدر دعائیں ہر ایک موقع پر کی جاتی ہیں.کھانے کے وقت کی دعائیں اور پینے کے وقت کی دُعائیں اور سو کر اٹھنے کے وقت کی دعائیں اور مسجد میں داخل ہونے کی دعا اور مسجد سے نکلنے کے وقت کی دعا اور کھڑا ہونے کے وقت کی دعا اور بیٹھنے کے وقت کی دعا اور بازار کو جانے کی دعا اور بازار سے لوٹنے کی دُعا اور ایسا ہی سفر کی دعائیں اور حضر کی دعائیں اور دکھ درد کے وقت کی دعائیں اور جنگ کے وقت کی دعائیں اور چار پائی پر لیٹنے کے وقت کی دعا ئیں اور حاجت کے وقت کی دعا اور تکلیف اور غم اور حزن اور فتنوں کے وقت کی دعائیں.غرض اسلام میں ہر وقت انسان اپنے رب کی حمد اور تسبیح میں مصروف ہے.اور کسی وقت بھی اس کی تعریف سے غافل نہیں.یہ ایک خیر کثیر ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی عطا ہوئی ہے.پھر دیکھو کہ اسلامی لٹریچر میں ہر ایک کتاب کا ابتدا اور انتہا اللہ تعالیٰ کی حمد اور تعریف سے ہوتا ہے.اور ہر ایک خطبہ اور ہر ایک رسالہ خدا کے نام کی تعریف سے شروع کیا جاتا ہے اور خدا کی تعریف کے ساتھ ہی ختم کیا جاتا ہے اور یہ بھی کوثر کا نتیجہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہے.جو رب العلمین ہے اور یہ خیر کثیر میں سے ہے کہ اسلام میں اس کثرت کے ساتھ تو حید کا وعظ کیا جاتا ہے.اور شرک کی نفی پر تقریریں کی جاتی ہیں.کیا تو نے ایسا کوئی بیان کسی کتاب یا کسی دیوان میں دیکھا ہے.پھر کلمہ توحید کو دیکھو لا إله إلا اللہ کوئی معبود قابل پرستش اللہ کے سوائے نہیں.کیا اس کلمہ کے بعد کسی مومن کے دل میں کوئی شرک باقی رہ جاتا ہے.کیا اس کی نیت اور قصد کے درمیان کوئی ایسی بات باقی رہ جاتی
حقائق الفرقان ۴۰۳ و سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی دوسرے کو پکارے اور اس کے حکم کے سوائے کسی دوسرے کی اطاعت پر قدم مارے اور اس کے سوائے کسی دوسرے کو اپنا رب بنائے.خواہ کوئی اور کیسا ہی عالم فاضل ہو اور راہب ہو.کیا وہ اپنے رب کو چھوڑ کر اور ان کے پیچھے پڑ کر معصیت میں گر سکتا ہے.کیا ممکن ہے کہ کوئی شخص اس کلمہ توحید پر ایمان رکھتا ہو اور پھر خلقت کے ساتھ ایسی محبت کرے جیسی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرنی چاہیے.پس مومن اس کلمہ کو اپنے پاس رکھ کر اور اس پر ایمان لا کر نہ غیر اللہ سے کوئی امید رکھتا ہے اور نہ غیر اللہ سے اس کو کچھ خوف باقی رہ جاتا ہے.پس مومن کبھی یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ اللہ تعالیٰ کے سوائے کسی دوسرے کو علم تام ہے یا کسی اور کے ہاتھ میں تصرف تام ہے.یا اللہ تعالیٰ کے سوائے کوئی کسی قسم کی بھی عبادت کے لائق ہے.چہ جائیکہ کسی غیر کے آگے سجدہ کیا جاوے یا اس کے واسطے حج کیا جاوے یا اس کے لئے قربانی کی جائے.پس مومن اللہ کے سوائے کسی سے استغفار نہیں کرتا اور اس کے سوائے کسی کے آگے اپنے گناہوں سے تو بہ نہیں کرتا.اور مومن کبھی ایسا عقیدہ نہیں رکھ سکتا کہ کوئی اللہ کے خلق کی طرح کسی چیز کا خلق کر سکتا ہے یا اللہ کے مارنے اور جلانے کی طرح کوئی کسی کو مار یا جلا سکتا ہے.غرض مومن خالق اور مخلوق کو کبھی برابر نہیں ٹھہراتا.اور خیر کثیر میں یہ بات بھی شامل ہے جو آنحضرت کو عطا کی ہے کہ آپ نے (صلی اللہ علیہ وسلم) تمام مقربانِ الہی کا دامن ان تہمتوں اور افتراؤں سے پاک کیا جو کہ ان پر ان کے مخالف یا موافق لگاتے تھے.یہود کی طرف دیکھو کہ مریم صدیقہ کی نسبت کیا الفاظ بولتے ہیں.خود قرآن شریف سے ظاہر ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہوں نے مریم پر بڑا بہتان باندھنے کا کفر کیا اور ایسا ہی یہود نے حضرت عیسی پر بھی اتہام باندھے تھے.لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں کفار کی باتوں سے تیری تطہیر کر نیوالا ہوں اور تیرے متبعین کو تیرے منکرین پر قیامت تک غلبہ دوں گا.اور ایسا ہی ان کا اور عیسائیوں کا قول حضرت داؤ د اور حضرت سلیمان علیہم السلام کے حق میں تہمت اور افتراء کا تھا اور خدا تعالیٰ نے ہر دو کا دامن اپنی پاک کتاب میں پاک کیا اور دا ؤ دکو اپنا بندہ فرمایا اور سلیمان کے
حقائق الفرقان ۴۰۴ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ حق میں فرمایا کہ اس نے کوئی کفر نہیں کیا تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۶۱، ۳۶۲) وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِى وَعَدَ اللهُ لَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنُّصْرَةِ فِي قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَ بِأَنَّ وَعَدَ اللهُ الْحِفْظُ كَمَا قَالَ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ وَمَا وَعَدَهُ مِنَ الْعِزَّةِ فِي قَوْلِهِ لَهُ وَ لِلْمُؤْمِنِينَ كَمَا قَالَ وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَمِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي اَعْطَاهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ وَجَدَا يَتِيماً فَاوَى وَسَائِلًا فَهَدَى وَعَائِلًا فَأَغْنى وَقَالُوا نُعْطِيكَ مِنَ الْأَمْوَالِ مَا تَصِيرُ بِهَا أَغْنَى النَّاسِ وَ نُزَوَّجُكَ أَكْرَمَ نِسَاءٍ وَنَجْعَلُكَ رَئِيسًا عَلَيْنَا فَانْظُرُ هَلْ كَانَ فِي مَقْدَرَتِهِمْ أَنْ يُصِيرَ جَمِيعُ الْعَرَبِ تَحْتَ يَدِهِ وَ الْعَجَمِ تَحْتَ غِلْمَانِهِ كَلَّا وَاللهِ وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ سُبْحَانَهُ بِأَنْ أَنْعَمَ قَلْبَهُ الشَّرِيفَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ عَلى آلِهِ وَبَارَكَ وَسَلَّمَ بِذِكْرِ وَحُبِّهِ وَ هذِهِ نِعْمَةٌ لَا يَعْلَمُ قَدْرَهَا وَعَظَمَعَهَا إِلَّا مَنْ وَفَقَهُ اللَّهُ بِهَا نِعْمَةٌ لَّا تُشْبِهُهَا نِعْمَةٌ مِنْ نِعَمِ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ مِنَ الخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى الْهُدَى وَ النُّصْرَةُ الْخَاصَّةُ وَجَعَلَ قُرَّةَ عَيْنِهِ فِي الصَّلوةِ وَانْشَرَحَ بِهِ صَدُرُة وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ يَرْزُقُهُ اللهُ الْوَسِيلَةَ وَالْمَقَامَ الْمَحْمُودَ وَجَعَلَهُ اَوَّلُ مَنْ يَفْتَحُ بَابَ الْجَنَّةِ وَجَعَلَ لِوَاءَ الْحَمْدِ بِيَدِهِ أَعْطَاهُ اللهُ الْحَوْضَ وَالنَّهْرَ وَ مِنَ الْخَيْرِ الكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ جَعَلَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْ أُمَّةٍ أَوْلَادَهُ وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ تَعَالَى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْرٌ مِنْ عَمَلِ أُمَّتِهِ لِأَنَّهُ مَنْ عَمِلَ وَ نَالَ بِأَمْرِهِ وَ اتَّبَاعِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِاَنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ فَكُلُّ مَنْ آمَنَ وَصَلَّى وَزَكَى وَ صَامَ وَ حَجَّ وَتَابَ وَصَبَرَ وَتَوَكَّلَ وَعَلِمَ وَ عَلَّمَ وَقَرَأَ وَانَابَ وَصَدَقَ وَ جَاهَدَ وَ اتَّقَى وَأَصْلَحَ
حقائق الفرقان ۴۰۵ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ وَأَحْسَنَ وَارْضَى رَبَّهُ وَجَاهَدَ وَرَابَطَ وَ مَاتَ شَهِيدًا فِي سَبِيْلِهِ وَاتَّبَعَ فِي هَذِهِ أَوَامِرَهُ وَ اجْتَنَبَ مِنَ الْكُفْرِ وَالشِرْكِ وَ الزَّكَاءِ وَ قَتْلِ النَّفْسِ وَ عُقُوقِ الْوَالِدَيْنِ وَقَوْلِ النُّورِ وَاكلِ مَالَ الْيَتِيمِ وَالتَّوَلّى يَوْمَ الزَّحْفِ وَقَذْفِ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ وَ الْكَذِبِ وَ الْعِجْزِ وَالْكَسَلِ وَ الْجُبْنِ وَ الْبُخْلِ وَأَمْثَالِهَا يُنْهِيهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا بُدَّ اِن قِيْلَ رَسُولُنَا وَحَبِيبُنَا وَنَبِيُّنَا مَا نَالَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْظُرْ إِلَى عُلُو دَرَجَاتِهِ عِنْدَ اللهِ كُلَّ أَنٍ فَاللهُ يُعْطِيهِ بِقَدْرِ أُجُوْرِ أُمَّتِهِ كُلِّهِمْ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُوْرِهِمْ فَإِنَّهُ السبب فِي هِدَايَتِهِمْ وَنَجَاتِهِمْ.فَيَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوهُ يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَجَاهَدُوا فِي اتَّبَاعِهِ وَالْإِقْتِدَاء بِهِ وَامْتَخِلُوا الْأَوَامِرَ وَاجْتَنِبُوا نَوَاهِيَ وَأَكْثِرُوا مِنَ الْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ لِيَكُونَ لَهُ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ أَجْرِكُمْ وَ تَدْنُوا فِيْمَنْ يَشْفَعُ فِيْهِ الرَّسُولُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكَوْنِهِ نِيَالٌ مِثْلَ أُجُوْرِكُمْ وَ مِنَ الْخَيْرِ الْكَثِيرِ الَّذِي أَعْطَاهُ اللهُ صَلَّى اللهُ بِأَنْ وَعَدَ لِإِصْلَاحِ أُمَّتِهِ الْخُلَفَاءَ وَالنُّوَّابَ لَهُ صَلَّى اللهُ وَ آن يُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَطَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا كَمَا قَالَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَّا.عربی تفسیر سے ترجمہ: اور خیر کثیر میں سے وہ وعدہ ہے جو اللہ جلشانہ، نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی نصرت کا وعدہ عطا کیا تھا.جیسا کہ خدا تعالیٰ کے قول پاک میں ہے.اے نبی تجھے اور تیری پیروی کرنے والے مومنوں کو اللہ تعالیٰ کافی ہے.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے اس رسول کو حفاظت کا وعدہ فرمایا.جیسا کہ
حقائق الفرقان ۴۰۶ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ قرآن شریف میں ہے.اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے شر سے بچائے گا.اور خیر کثیر میں وہ عزت کا وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اور اس کی امت کے مومنوں کو عطا کیا ہے.اور فرمایا ہے کہ عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے اور خیر کثیر میں وہ عطاء الہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوئی کہ خدا نے آنحضرت کو یتیم پایا اور آپ کی پرورش کی اور آپ کو سائل پایا تو آپ کو ہدایت دی اور آپ کو فقیر پا یا اور غنی کر دیا.کفار نے آپ کو کہا تھا کہ آہم تجھے مال دیں گے.اور تو سب لوگوں سے غنی ہو جائے گا.اور تجھے سب سے زیادہ شریف عورت نکاح میں دیں گے اور تجھے اپنا کیس بنا ئیں گے.آپ نے کفار کی بات کا انکار کیا تو خدا نے کیا کچھ دیا.کیا کفار عرب کے اختیار و قدرت میں تھا کہ تمام عرب آپ کے ماتحت کر دیتے اور عجم آپ کے خدام کے زیر حکومت ہو جا تا.ہر گز نہیں.قسم بخدا ہرگز نہیں.پھر خیر کثیر میں وہ عطا الہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب شریف کو اپنے ذکر کے ساتھ جاری کیا اور اپنی محبت کے ساتھ پر کر دیا.یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے کہ اس کی قدر اور عظمت کو کوئی نہیں سمجھ سکتا.سوائے اس کے جس کو خدا تعالیٰ توفیق عطا کرے.یہ وہ نعمت ہے کہ اس کے مشابہ کوئی نعمت دنیا اور آخرت میں نہیں ہے.پھر اور خیر کثیر میں یہ بات ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی خاص نصرت اور ہدایت عطا فرمائی اور نماز میں آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک کی.اور اس سے آپ کے سینے کو انشراح عطا فر مایا.پھر خیر کثیر میں سے یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وسیلہ عطا فرمایا اور مقام محمود عطا کیا اور آپ کو پہلا آدمی بنایا جو جنت کا دروازہ کھولے گا اور حمد کا جھنڈا آپ کے ہاتھ میں دیا اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو حوض عطا فر ما یا اور نہر عطا کی.اور خیر کثیر میں یہ بات شامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مومنوں کو آپ کی اولاد بنایا اور پھر خیر کثیر میں آپ پر وہ عطا الہی ہے کہ آپ کی امت کے اعمال خیر
حقائق الفرقان ۴۰۷ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ پر بھی آپ کے واسطے اجر ہے.کیونکہ امت مرحومہ کے افراد نے اعمال نیک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور آپ کی اتباع سے حاصل کیا ہے اور نیکی کی راہ دکھانے والا بھی نیکی کرنے والے کی مانند ہے.پس ہر ایک کے عمل خیر میں آنحضرت کے واسطے اجر ہے.ہر ایک جوایمان لایا اور جس نے نماز پڑھی اور جس نے روزہ رکھا اور جس نے فرائضِ حج کو ادا کیا اور جس نے توبہ کی اور صبر اور توکل سے کام لیا.اور جس نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور جس نے کلام پاک کو پڑھا اور جو خدا کی طرف جھکا.اور تصدیق کی اور جس نے مجاہدہ کیا یا جہاد کیا اور جس نے تقوی اختیار کیا اور اپنی اور دوسروں کی اصلاح کی اور جس کسی نے نیکی کی اور اپنے رب کو راضی کیا اور رب کی راہ میں کوشش کی اور جہاد کیا اور رباط فی سبیل اللہ کیا اور ان باتوں میں ان کی پیروی کی اور کفر اور شرک سے بچا اور زناء اور قتل نفس سے پر ہیز کیا.اور والدین کی نافرمانی نہ کی اور جھوٹ کے بولنے اور یتیم کا مال کھانے سے اجتناب کیا اور بے خبر نیک بخت مومن عورتوں پر عیب نہ لگایا.اور جھوٹ اور عجز اور سستی اور بزدلی اور بخل اور اس قسم کے رذائل سے بچتا رہا.جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے تو ان سب کے اعمال خیر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے اجر ہے اور عمل کر نیوالوں کے اجر میں کچھ فرق نہیں.پس یہ ضروری بات ہے کہ ہمارے رسول اور ہمارے حبیب اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر آن اس قدر درجہ بڑھتا ہے کہ آپ کی امت میں سے کوئی آپ کے درجہ تک نہیں پہنچ سکتا.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی تمام امت کے افراد کے اعمال خیر کے برابر درجہ دیا ہے.اور امت کے درجات اور اعمال خیر کے اجر میں کچھ کمی نہیں واقع ہوتی.اور یہ اس واسطے ہے کہ ان کی ہدایت اور نجات کا سبب آنحضرت ہی ہوئے.پس اے مومنو! اگر تم اللہ سے پیار کرتے ہو.تو اس نبی کی پیروی کرو.خدا تم سے پیار کرے گا.اور اس کی اتباع میں اور اس کی پیروی میں کوشش کرو.اس کے حکموں پر عمل کرو.اور جن باتوں سے وہ منع کرے.ان سے اجتناب کرو.اور اعمالِ صالح کثرت سے بجالا ؤ تاکہ تمہارے اجر کے برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اجر ہو.اور تم اس بات کے قریب ہو جاؤ کہ آنحضرت صلی اللہ
حقائق الفرقان ۴۰۸ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ علیہ وسلم تمہاری شفاعت کریں.بہ سبب اس کے کہ آپ کو تمہارے اعمال کے سبب سے اجر ملتا ہے اور خیر کثیر میں سے یہ عطا الہی ہے.جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وعدہ دیا گیا ہے کہ آپ کی امت کی اصلاح کے واسطے ہمیشہ آپ کے خلفاء اور نائب آتے رہیں گے جو انہیں ان کے دین میں قوت عطا کرے.وہ دین جو خدا نے ان کے واسطے پسند کیا ہے.اور خوف کے بعد ان کے واسطے پھر امن پیدا کر دے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے مومنوں کو جو عمل صالح کریں.یہ وعدہ دیا ہے کہ انہیں زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا.اور ان کے واسطے وہ دین قوی کرے گا جو ان کے لئے پسند کیا ہے اور ان کے خوف کو امن کے ساتھ بدل دے گا.وَلَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِهِ قَوْمٌ ظَاهِرِينَ عَلَى الْحَقِّ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ ثُمَّ انْظُرُ في يَوْمِنَا هَذَا فِتَنَ الرَّجَالِ مِنْ كَثْرَةِ الْخَمْرِ وَهِيَ جِمَاعُ الْإِثْمِ وَتَبَرُّجَ النِّسَاءِ وَ إِبْدَاوَهُنَّ الزِّينَةَ وَالنِّسَاءُ حَبَائِلُ الشَّيَاطِينِ.وَإِعَانَةَ الْمَسِيحِينَ لِقُطَاعِ الطَّرِيقِ وَ اللُّصُوْمِ وَ كُلِّ مَنْ يُؤْخَذُ فِي الْقَضَايَا الضَّابِطِيَّةِ وَالْحُقُوقِ إِنْ مَالَ إِلَيْهِمْ وَ تَوَجَّهَ الْحُكَّامُ إِلَيْهِمْ وَاِعْطَاءَهُمُ الْأَمْوَالَ لِطَامِعِ كَسَلٍ وَ مُفْلِسٍ لَا يَلِيقُ لِلْمُلَازَمَةِ وَ اِنْيَانَهُمْ بِمَدَارِسَ وَ دَارِ الْعُلُومِ الدُّنْيَوِيَّةِ فَقَط وَ الْمَارِسُتَانَاتِ ثُمَّ دَعْوَةَ الْمَرْضَاءِ إِلَى التَّقْلِيثِ وَالْكَفَّارَةِ وَإِرْسَالَ الْفَتَاةِ فِي بُيُوتِ الشُّرَفَاءِ وَ بَيَانَهُنَّ مَفَاسِدَ الْحَجَابِ وَ مَصَائِبَ كَثْرَةِ الْأَزْوَاجِ ثُمَّ ارْسَالَ الدُّعَاةِ فِي الْحَضَرِ وَ السَّفَرِ وَ الْقُرَى وَ الْبَوَادِي وَالْأَسْوَاقِ وَبِنَانَهُمْ ابنِيَةً رَفِيعَةً لِلْخُطَبَاءِ وِ الْوُعَاظِ وَنَشْرَهُمْ الْوَفَ الُوْفِ الصُّحُفِ وَالرَّسَائِلِ فِي بَيَانِ مَعَائِبِ مَنْ أُوتِيَ جَوَامِعَ الْكَلِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعْطَانَهُمْ أَئِمَّةً مَسَاجِدِ الْقُرَى وَالرِّيفِ لِتَعْلِيمِهِمْ أَنَا جِيْلَهُمْ عربی تفسیر سے ترجمہ : اور اس کی امت میں ہمیشہ ایسے آدمی ہوتے رہیں گے جو حق کو ظاہر کرتے رہیں گے.ان کا لے مریض کی جمع لغت میں مرضی ملتی ہے نہ کہ مَرْضَاءُ
حقائق الفرقان ۴۰۹ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ مخالف انہیں کچھ ضرر نہ دے سکے گا.پھر دیکھو کہ اس زمانہ میں دجال کا فتنہ کتنا بڑھا ہوا ہے.کس کثرت سے شراب پی جاتی ہے.وہ شراب جو بدیوں کی جامع ہے.اور دیکھو.کس طرح عورتیں زینت کرتی ہیں اور پھر اپنی زینت کو لوگوں کے سامنے ظاہر کرتی ہیں.حالانکہ عورتیں شیطانوں کی رسیاں ہیں.پھر دیکھو کہ مسیحی لوگ کس طرح ڈاکوؤں اور چوروں کی اور ایسے لوگوں کی جو مقدمات میں پھنس جاتے ہیں.اس واسطے مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین کو چھوڑ کر عیسائی ہو جاویں اور حکام کی توجہ بھی ان کی طرف ہوتی ہے اور دیکھو کس طرح وہ طمع کرنے والے ست اور مفلس کو جو کہیں نو کر رکھا جانے کے قابل نہ ہو.اپنے مال سے مدد کرتے ہیں اور مدرسے بناتے ہیں اور دارالعلوم دنیوی قائم کرتے ہیں اور شفاخانے بناتے ہیں اور ان میں اس بہانے سے بیماروں کو تثلیث اور کفارے کی تعلیم دیتے ہیں.اور نوجوان رمسوں کو شریفوں کے گھروں میں بھیجتے ہیں جہاں کہ پردہ کے خلاف باتیں کہتی ہیں اور کثرت ازواج پر عیب لگاتی ہوئی اس کے معائب بیان کرتی ہیں.پھر دیکھو کہ عیسائی کس طرح اپنے واعظ سفر میں اور حضر میں اور گاؤں اور جنگلوں میں اور بازاروں میں ہر جگہ بھیجتے ہیں اور اپنے لیکچراروں اور منادوں کے واسطے بڑے بڑے بلند مکان بناتے ہیں.پھر دیکھو کہ وہ ہزاروں ہزار کتابیں اور رسالے شائع کرتے ہیں جن میں وہ خدا کے اس برگزیدہ نبی پر معائب گھڑتے ہیں.جسے کامل کلام عطا کیا گیا تھا ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پھر دیکھو کہ گاؤں کی مساجد کے اماموں کو یہ لوگ تنخواہیں دیتے ہیں تا کہ وہ انجیلوں کی تعلیم لوگوں کو دیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۶۳ تا ۳۶۵) فصل : اس میں ف تعقیب کے واسطے ہے.کیا معنے جب ہم نے تجھے کوثر جیسی نعمت عطا فرمائی ہے تو اب بعد اس کے تجھے چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے شکر میں نماز پڑھے اور قربانی دے.یا فی ترتیب اور سبب کے لئے ہے جیسا کہ ایک جگہ قران شریف میں آیا ہے.فوگزہ مولی فَقَضى عَلَيْهِ - (القصص:۱۲).فائدہ: اس سورہ شریف میں انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کونماز اور قربانی کا حکم ہوا ہے مگر ز کوۃ کا حکم لے تو موسیٰ نے اس کو گھونسا مارا تو وہ مر گیا.
حقائق الفرقان وو ۴۱۰ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ نہیں ہوا.اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنے پاس مال جمع نہیں کرتے تھے.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ، وَ مِنْ أَعْظَمِ شَأْنِهِ رَدُّهُ وَالْكُفْرُ بِهِ وَبِمَا جَاءَ بِهِ وَجَعْلُ مَا جَاءَ بِة مِنَ الْأَسَاطِيرِ الْأَوَّلِينَ وَإِنَّهُ سِحْرُ يُؤْثَرُ وَإِنَّهَ قَوْلُ الْبَشَرِ أَوْ شِعرًا وَ كَهَانَةً أَوْ يُعَلِّمُهُ الْبَشَرُ فَهَذَا سَيْلٌ بَلَغَ الرُّبي.وَبِهِ طَمَّ الْوَادِي الْقُرَى فَمَنْ تَوَلَّى الْكِبْرَ مِنْ شَنَائِهِ مَكّيَّا كَانَ أَوْ مَدَنِيًّا أَمِيًّا كَانَ أَوْ كِتَابِيًّا وَضِيعًا كَانَ أَوْ شَرِيفًا حَصَلَ لَهُ نَصِيبَهُ وَ حَقِّهُ مِنْ شَنَاءِ وَ الْإِسْتِبْتَارُ بِهِ عَلَى قَدْرِ شَنْيْهِ وَعَدَاوَتِهِ - أَنْظُرْ صَنَادِيدَ قُرَيْشٍ وَعَمَائِدَ مَكَّةَ وَ سَادَاتِ الْوَادِي وَ أَرْكَانَ مَدِينَةَ الَّذِينَ كَانَ النَّاسُ أَرَادُوا أَنْ يَتَوَجُوهُمْ وَ مَكَرُوْا حَتَّى قَالُوا لَيُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ فَجَعَلَ اللهُ سُبْحَانَهُ الْخَيْرَ كُلَّهُ لَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَالَ إِنْ تَسْتَفْتَحُوا فَقَدْ جَاءَ كُمُ الْفَتْحُ وَ قَالَ فِي أَمْوَالِهِمْ فَسَيُنْفِقُوْنَهَا ثُمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ يُغْلَبُونَ.فَهَلْ رَأَيْتَ لَهُمْ مِنْ بَاقِيَةٍ فَشَانِيَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ شَانِيَ خُلَفَائِهِ وَنَوَائِبِهِ بَتِرَ مِنْ كُلِّ خَيْرٍ وَهَذَا ظَاهِرُ لَا خِفَاءَ فِيْهِ مَا الَ إِلَيْهِ أَرَأَيْتَ أَبِي جَهْلٍ وَابْنَ أَبِي بْنِ سَلُوْلٍ وَ أَبِي عَامِرِ الرَّاهِبَ الَّذِي اسربِنَاء عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ هَلَكَ طَرِيْدًا شَرِيْدًا وَحِيْداً وَمَا حَصَلَ لِمَنْ خَالَفَ الصَّدِيقَ مِنَ الْعَرَبِ وَ مَنْ خَالَفَ الْفَارُوْقَ مِنْ كِسْرَى وَ عَمَلِ قَيْصَرَى وَمُلُوكِ مِصْرَ وَ مَنْ خَالَفَ عُثْمَانَ مِنْ أَهْلِ أَفْرِيْقَةً وَ خُرَاسَانِ وَ مَنْ خَالَفَ عَلِيًّا.ثُمَّ مَنْ خَالَفَ فِي زَمَانِنَا الْمُبَارَكِ مُجَيّدَ الْمِائَةِ الرَّابِعَةِ عَشَرَ وَزَعِيْمَهَا وَ الْمَهْدِقَ الْمَعْهُودَ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودَ كَدَاعِى الأرِيَةِ لِيُكَهرَام وَ شَيْطَانِ النَّصَارَى ثَمَّ وَأَمْثَالَهُمَا كُلُّ أُخِذَ بِذَنْبِهِ.وَكَذَا مِنْ دُوْنِهِمْ كُلُّ شَانِي مُحَمَّدٍ رَسُولِ أَبَتَرُ وَشَانِي خُلَفَائِهِ أَبَتَرُ مِنْ
حقائق الفرقان ۴۱۱ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ كُلِّ خَيْرٍ فَيَبْطُلُ رَفَعَ ذِكْرِهِ بَلْ ذِكْرُهُ بِالْخَيْرِ وَابْتَرُ أَهْلُهُ وَ مَالُهُ آخِرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ وَ ابْتَرُ حَيوتُهُ وَ صِحَتُه وَ فُرْصَتُهُ فَلَا يَنْتَفِعُ بِهَا فِي الدُّنْيَا وَيَتَزَوَّدُبِهَا الْآخِرَةَ فَمَا بَقِيَتْ أُذُنُهُ دَاعِيَةٌ لِلْخَيْرِ.وَ بَصَرُهُ وَ بَصِيرَتُهُ نَاظِرَةٌ إِلَى السُّنَنِ الْإِلَهِيَّةِ لِازْدِيَادِ الْإِيْمَانِ وَ الْمَعْرِفَةِ وَ مَحَبَّةِ اللهِ وَ ابْتَرُ مِنَ الْأَنْصَارِ وَالْأَعْوَانِ لِلْأَعْمَالِ الصَّالِحَةِ وَ أَبْتَرُ مِنْ ذَابِقَةِ حَلَاوَةِ الْإِيْمَانِ وَ إِنْ بَاشَرَ فَقَلْبُهُ مِنَ الْأَوَابِدِ وَالشَّوَارِدٍ.وَهَذَا جَزَاءُ مَنْ شَنَا بَعْضَ مَا جَاءَ بِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لأَجْلِ هَوَاهُ وَ مَتَبُوعُه اَوْ شَيْخُهُ أَوْ أَمِيرُ أَوْ كَبِيرُهُ وَ قَد قَالَ اللهُ تَعَالَى قُلْ إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ.فَأَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ مُقَدَّمَةً وَتَسْلِيَةً تَفْصِيلًا قُوَّةً فِي قَلْبِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ قَلْبِ خُلَفَائِهِ وَ يُزِيلُ الْجُبْنَ عَنْ اَنْفُسِهِمْ لَيُمَكِّنَهُمُ الْإِشْتِغَالَ بِالْأَقْدَارِ عَلَى تَكْفِيرِ مَنْ خَالَفَهُمْ مِنْ جَمِيعِ الْعَالَمِ مَنْ كَانَ وَإِظْهَارُ الْبَرَاءَةِ عَنْ مَعْبُودَاتِهِمْ فَانْظُرُ الْهَيْئَةَ الْعَظِيمَةَ مِنَ الْوَاهِبِ الْعَظِيْمِ وَلَاشَكَ أَنَّ لَنَّةَ الْهِبَةِ عَلَى قَدْرِ الْمَهْدِى الْعَظِيْمِ.فَأَيَّ كِتَابِ بَعْدَ اللَّهِ تَبْغُونَ وَ أَيَّ سُنَّةٍ بَعْدَ سُنَنِ اللهِ تَقْتَدُونَ رَأَيْنَا دَلَائِلَكُمْ وَأَوْرَادَكُمْ وَوَطَائِفَكُمْ.وَتَدَبَّرَنَا كِتَابَ اللهِ وَ سُنَّةَ رَسُولِهِ فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا فَمَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُوَ مَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ فَهَلْ أَدْعِيَتُكُمْ وَلَوْ كَانَ الدُّعَاءُ الْكَبِيرُ الَّذِي تَعْرِفُونَ مَعْنَاهُ وَلَا يَعْرِفُ اَحَدٌ مِنْ أَئِمَّتِكُمْ كَمِثْلِ الْفَاتِحَةِ أَو تَعَوذَاتِكُمْ كَالتَّعَونِ بِالْمُعَوَّذَتَيْنِ.لَا وَالله بَلْ كَلَّا وَاللهِ دَلَائِلُ الْخَيْرَاتِ كِتَابُ اللهِ جَلَّ وَعَلَا شَأْنُهُ وَ السَّيْفُ الْقَاطِعُ سَيْفُ اللهِ سُبْحَانَهُ وَ الْمُغْنِي كَلَامُ اللهِ الْمُغْنِي بَلْ مَا عِنْدَ كُمْ لَيْسَ يُقَرَّبُ بِقَوْلِ الْكَذَّابِ إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْجَمَاهِرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ هَاجِرْان مُبْغِضَكَ رَجُلٌ كَافِرْفَإِنَّ الْأَلْفَاظَ وَالتَّرْتِيبَ فِيهَا أُخِذَ مِنْ هَذِهِ السُّورَةِ
حقائق الفرقان ۴۱۲ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ قَالَ اللهُ تَعَالَى أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ تَمَّتْ بِحَمْدِ اللهِ وَ حَوْلِهِ وَ قُوَّتِهِ وَ مَنْعِهِ وَاِحْسَانِهِ وَ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ عربی تفسیر سے ترجمہ: تحقیق دشمن تیرا وہی ابتر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی دشمنی ہی تھی جو آپ کی وعظ توحید کی تردید کی گئی اور آپ کی رسالت جو تعظیم الہی اور شفقت علی خلق اللہ کے لئے تھی اس کا انکار کیا گیا.اور آپ پر جو کتاب ہدایت کے لئے نازل ہوئی اس کو رڈ کیا گیا بلکہ آپ کو کہا گیا کہ یہ صرف کہانیاں ہیں جو تم پیش کرتے ہو حالانکہ وہ تمام بیانات اس کے لئے بشارت اور انذار تھے.اور بعض نے کہا کہ یہ الہام الہبی نہیں بلکہ صرف ایک انسان کا قول ہے.کسی نے کہا کہ یہ ایک شاعر ہے جو شعر گوئی کرتا ہے اور کسی نے کہا کہ یہ ایک کا ہن ہے جو کہانت کا کام کرتا ہے.اور کوئی بولا کسی انسان نے اس کو تعلیم کی ہے.پس یہ ایک سیلاب تھا جو بہت بڑھ گیا تھا اور اس سے وادی مکہ بھر گئی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں میں سے جو کوئی تکبر کے ساتھ بڑھا.اس نے اپنی بدبختی کا حصہ لیا.اور اس کا بدلہ پایا.خواہ وہ مکی تھا یامدنی تھا.خواہ ان پڑھ تھا اور خواہ اہلِ کتاب میں تھا.خواہ عوام میں سے ہوا.خواہ شرفاء میں سے ہوا.سب نے اپنا بدلہ کافی پایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں نے اور آپ کے ساتھ عداوت کرنے والوں میں سے ہر ایک نے اپنی قدر کے مطابق اور اپنی عداوت کے درجہ کے موافق اپنا کیا اور بو یا اٹھایا اور ابتر ہوا.سردارانِ قریش کی طرف دیکھو اور عمائد مکہ کی طرف نظر کرو.اور اس وادی کے سرداروں کی طرف نگاہ کرو اور شہر کے ارکان کا حال دیکھو.جن کو لوگ اپنی سرداری کا تاج دیتے تھے.اور انہوں نے تدابیر کیں اور کہا کہ اس شہر کے شرفاء ذلیل لوگوں کو یہاں سے نکال دیں گے.پس اللہ تعالیٰ نے تمام خیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کر دی اور دشمن محروم رہے.اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تم فتح چاہتے ہو تو اب فتح تمہارے لئے آ گئی ہے.اور ان کے اموال کے متعلق فرمایا کہ قریب ہے کہ وہ اپنے مال خرچ کریں گے.پھر وہ خرچ بھی ان کے لئے
حقائق الفرقان ۴۱۳ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ موجب حسرت ہوگا اور وہ مغلوب ہو جائیں گے.پس کیا تو دیکھتا ہے کہ ان دشمنوں میں سے کوئی باقی ہے.سو دیکھو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن بلکہ آپ کے خلفاء راشدین اور آپ کے نائیوں کے دشمن بھی ہر ایک نیکی سے ابتر ہوئے اور یہ امرظاہر ہے کوئی مخفی بات نہیں.دیکھو.ابوجہل کا کیا انجام ہوا.اور ابن ابی بن سلول نے کیا نتیجہ پایا.اور پادریوں کے لارڈ بشپ ابو عامر کو دیکھو جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں سارا زور خرچ کیا اور آگ کے گڑھے کے کنارے پر بڑی بنیادکھڑی کی اور پھر اسی آگ میں گرایا گیا اور اکیلا آوارہ بیکس اور بے بس ویرانوں کے اندر ہلاک ہو گیا.پھر دیکھو کہ ان لوگوں کا کیا حال ہوا جنہوں نے اہلِ عرب میں سے خلیفہ اول حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی اور پھر ان کا کیا حال ہوا جنہوں نے حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا.اگر چہ وہ بڑی سلطنتوں کے قیصر اور کسری تھے اور مصر کے ملک کے بادشاہ تھے.اور پھر ان اہل افریقہ اور اہلِ خراسان کو کیا حاصل ہوا جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی تھی.اور پھر انہوں نے کیا پایا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی اور ان کا کیا حال ہوا جنہوں نے معاویہ اور بنوامیہ کی تحقیر کی.پھر اس کی مثال زمانہ حال میں موجود ہے.دیکھو کہ ان لوگوں کا حال کیا ہو رہا ہے جنہوں نے ہمارے اس مبارک زمانہ میں چودہویں صدی کے مجد داور متکفل مہدی معہود اور مسیح موعود کی مخالفت کی مثال میں آریہ لیکھرام کو دیکھو اور نصاری کے شیطان آتھم کو دیکھو اور لدھیانہ کے سعد اللہ ابتر کو دیکھو.ہر ایک اپنے گناہ کے بدلے میں پکڑا گیا.اور اپنے بدلے کو پانے والا ہوا.اور ان کے سوا اور بھی سب دشمن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے خلفاء کے ہر ایک چیز سے ابتر اور بے نصیب ہیں اور ان کا ذکر خیر کے ساتھ ہونا بند ہو جاتا ہے اور ان کا اہل اور مال سب ابتر ہو جاتا ہے.اور دین دنیا میں نقصان پذیر ہوتا ہے.ان کی حیاتی اور ان کی صحت اور ان کی فرصت سب ابتر ہوتی ہیں.وہ ان چیزوں سے نہ دنیا میں فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ دین میں.ان کے کان ایسے نہیں رہتے کہ وہ خیر کی بات سن سکیں.اور نہ ان کو ایسی بصیرت نصیب ہوتی ہے کہ اللہ کو
حقائق الفرقان ۴۱۴ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی محبت ، معرفت اور ایمان میں ترقی کر سکیں اور وہ اس بات سے محروم رکھے جاتے ہیں کہ ان کا کوئی ناصر اور مددگار ان کے اعمال صالح میں سے ہو اور اس بات سے محروم ہوتے ہیں کہ ایمان کی شیرینی کو چکھ سکیں.اور اگر چہ وہ لوگوں میں آئیں با ہم ان کا دل جنگل میں بھاگے ہوئے آوارہ کی طرح اکیلا ہوتا ہے.یہی جزا ان لوگوں کو ہمیشہ ملی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ وحی کے ساتھ عداوت کی اور اپنی حرص و ہوا کی پیروی کی.سب کا حال یہی ہوا.خواہ وہ بڑا تھا یا چھوٹا تھا.امیر تھا یا غریب تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو.خدا تمہارے ساتھ محبت کرے گا.پس ہم نے تجھے کوثر عطا کی ہے پہلے سے اور تسلی کے لئے اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو اور آپ کے خلفاء کے دل کو قوت ملی.اور ان کے نفسوں سے کمزوری کو دور کیا گیا تا کہ ان کو اس امر پر قوت عطا کی جائے کہ اپنے مخالفوں کی تکفیر کریں.خواہ وہ دنیا جہان میں کوئی ہو اور کہیں ہو اور ان کے قصبوں سے بیزاری کا اظہار کریں.پس دیکھو کہ یہ کتنی بڑی بخشش ہے جو بڑے صاحب بخشش کی طرف سے ان کے حصہ میں آئی.اور اس میں شک نہیں کہ اس موہبت کی عظمت اس ذات کی قدر کے مطابق ہے جو مہدی عظیم ہے.پس اللہ کی کتاب کے بعد تم کس کتاب کو چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ کی سنت کے بعد تم کسی سنت کی پیروی کرتے ہو.ہم نے تمہارے دلائل اور تمہارے وظائف دیکھے ہیں.اور ہم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اور اس کے رسول کی سنت میں تدبر کیا ہے.پس ہم نے کوئی شئے اس سے بہتر نہیں پائی.جو تمہارے پاس ہے وہ ختم ہو جانے والا ہے.اور جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے.وہ بڑی سے بڑی دعا نکالو.جس کے معنے تم جانتے ہو.مگر کوئی دعائم فاتحہ کی مانند نہ پاؤ گے.اور نہ کوئی تعوذ تم معوذتین کے برابر پا سکو گے.ہرگز نہیں.بلکہ میں قسم کھا تا ہوں کہ ہرگز نہ پاؤگے.دلائل الخیرات تو اللہ تعالیٰ جل شانہ کی کتاب ہی ہے.اور قطع کر نیوالی تلوار اللہ تعالیٰ سبحانہ کی تلوار
حقائق الفرقان ۴۱۵ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ہے اور غنی کرنے والی تو اللہ تعالیٰ ہی کی کلام مغنی ہے.بلکہ تمہارے پاس تو اس کے قریب بھی نہیں جو کذاب نے ایک قول گھڑا تھا اور کہا تھا.ہم نے تجھے ہی عطا کئے ہیں.پس اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور ہجرت کر.تیرا بغض کرنے والا رجل کا فر ہے.اس میں الفاظ اور ترتیب اسی سورت سے نقل کی گئی ہے اور بے موقع محل الفاظ لگا کر ایک سورت بنالی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا ان کے واسطے یہ کافی نہیں کہ ہم نے تجھ پر ایک کتاب نازل کی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے.اس میں مومنوں کے واسطے رحمت اور نصیحت ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۴ ا کتوبر و۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۶۵ تا ۳۶۷) یہ (کوثر) ایک مختصر سی سورۃ ہے.اور اس مختصر سی سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے اک عظیم الشان پیشگوئی بیان فرمائی ہے.جو جامع ہے.پھر اس کے پورا ہونے پر شکریہ میں مخلوق الہی کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہیے.اس کا ارشاد کیا.وہ پیشگوئی کیا ہے؟ إنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ : تجھے ہم نے جو کچھ دیا ہے.بہت ہی بڑا دیا ہے.عظیم الشان خیر عطا کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن نبوت دیکھو تو قیامت تک وسیع کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) میں ظاہر فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں.یہ کوثر مکان کے لحاظ سے عطا فرمائی.کوئی آدمی نہیں ہے.جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہبی میں اتباعِ رسالت پنا ہی کی ضرورت نہیں.کوئی صوفی کوئی مست قلندر، بالغ مرد، بالغہ عورت کوئی ہو.اس سے مستثنی نہیں ہو سکتے.اب کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا.جو لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا بول اُٹھے.یہ وہ موسی ہے.جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا کوئی آدمی مقرب ہو نہیں سکتا.جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.کتاب میں وہ سچی کوثر عنایت کی کہ فیها كُتُب قَيَّمَةٌ ( البينة:۴) کل دنیا کی صداقتیں اور مضبوط کتابیں سب کی سب قرآن مجید میں موجود ہیں.
حقائق الفرقان ۴۱۶ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ترقی مدارج میں وہ کوثر ! کہ جبکہ یہ سچی بات ہے الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِہ پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کرو جبکہ ان کے دال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کے جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہورہی ہے.اعمال میں دیکھو! اتباع، فتوحات، عادات، علوم، اخلاق میں کس کس قسم کی کوثریں عطا فرمائی ہیں.استحکام وحفاظت مذہب کے لئے دیکھو.جس قدر مذاہب دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے.اس کی حفاظت کا ذمہ دار خود ان لوگوں کو بنایا.مگر قرآن کریم کی پاک تعلیم کے لئے فرمایا.انالۂ لَحَافِظُونَ (الحجر : ۱۰) یہ کیا کوثر ہے! اللہ تعالیٰ اس دین کی حمایت و حفاظت اور نصرت کے لئے تائید میں فرماتا اور مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر پتہ لگ سکتا ہے کہ کیونکر بندہ خدا کو اپنا بنالیتا ہے.اس ہستی کو دیکھو.انسان اور اس کی حرکات کو دیکھو جب خدا بنانے پر آتا ہے.تو اسی عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے اور ایک اُجڑی بستی کو اس سے آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نظارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکثر باز مدبروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع ہوتے ہیں.مثلاً دیکھو! کسی بستی کو برگزیدہ کیا.جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل، نہ علمی چرچے نہ مذہبی تذکرے، نہ کوئی دار العلوم، نہ کتب خانہ ! صرف خدائی ہاتھ ہے جس نے تربیت کی اور اپنی تربیت کا عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو.کس طرح یہ بتلاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے کیا کوثر عطا فرمایا.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت اور ستی کی.ویسے ہی غفلت کا شکار مسلمان بھی ہوئے.آہ.اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے اور خود بھی اُن سے حصہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اللہ تعالیٰ اُن کو بھی کوثر دیتا میں نے جو کچھ اب تک بیان کیا.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی کوثر کا ذکر تھا.پھر مرنے کے بعد ایک اور کوثر برزخ میں حشر میں صراط پر بہشت میں ،غرض کو ثر ہی کو ثر دیکھے گا.اس لے نیکی کی طرف بلانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہوتا ہے.۲؎ اور ہمیں اس کے حافظ ہیں.
حقائق الفرقان ۴۱۷ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ کوثر میں ہر ایک شخص شریک ہوسکتا ہے مگر شرط یہ ہے.فَصَلِّ لِرَبِّكَ : اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.دیکھو.اس آدم کامل کا پاک نام ابراہیم بھی تھا.جس کی تعریف اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے.وَ ابْراهِيمَ الَّذِى وَفَّى ( النجم : ۳۸) اور وہی ابراہیم جو جَاءَ رَبَّهُ بِقَلبِ سلیم - الصفت : ۸۵) کا مصداق تھا.سچی تعظیم البی کر کے دکھائی.جیسے مولیٰ کریم فرماتا ہے.وَ إِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِم رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَانتَهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا - (البقره: ۱۲۵) پھر کیا نتیجہ پایا.الہی تعظیم جس قدر کوئی انسان کر کے دکھاتا ہے.اسی قدر ثمرات عظیمہ حاصل کرتا ہے.مثلاً حضرت ابوالملت ابراہیم کو دیکھو، اس کی دعاؤں کا نمونہ ، دیکھو ہمارے سید و مولیٰ اصفی الاصفیاء خاتم الانبیاء ان دعاؤں کا ثمرہ ہیں.اللّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَعَلَى إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولا د صالح عنایت کی.اسمعیل جیسی اولاد دی.جب جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو.ابراہیم کی قربانی دیکھو بڑھاپے کا زمانہ دیکھو مگر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ، ساری امیدیں ، تمام ارادے یوں قربان کر دیئے کہ ایک طرف حکم ہوا اور معابیٹے کے قربان کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا.بیٹا ائی آزى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ (الصفت: ١٠٣) تووه خدا کی راہ میں جان دینے کو تیار ہو گیا.غرض باپ بیٹے نے ایسی فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزت کوئی آرام کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی کیسی جزا دی.اولاد میں ہزاروں ہزار بادشاہ اور انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء بھی لے اور ابراہیم کی کتابوں میں جس نے عہد پورا کیا.۲.وہ صحیح سلامت دل کے ساتھ اپنے رب کے پاس آیا.سے اور جب کہ ابراہیم کو چند باتوں کے بدلہ میں اُس کے رب نے کچھ انعام دینا چاہا اور ابراہیم نے اچھی طرح ان باتوں کو پورا کیا تو ہم نے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو ہمیشہ کے لئے لوگوں کا پیشوا بنا ئیں گے.۴.میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تجھ کو ذبح کر رہا ہوں.
۴۱۸ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ حقائق الفرقان اسی کی اولاد میں پیدا کیا.وہ زمانہ ملا جس کی انتہا نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں.سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہوئے ہیں اور ہونے والے ہیں.پھر جب شکریہ میں نماز میں خدا کی عظمت اور کبریائی بیان کی تو مخلوق الہی کے لئے بھی کیونکہ ایمان کے اجزاء تو دوہی ہیں.تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ.ہاں مخلوق کے لئے یہ کہ وَانْحَرُ : جیسے نماز میں لگے ہو.قربانیاں بھی دو تا کہ مخلوق سے سلوک ہو.قربانیاں وہ دو جو بیمار نہ ہوں ، دہلی نہ ہوں، بے آنکھ کی نہ ہوں، کان چرے ہوئے نہ ہوں،عیب دار نہ ہوں ،لنگڑی نہ ہوں اس میں اشارہ یہ ہے کہ جب تک کامل قوی کو خدا کے لئے قربان نہ کرو گے.ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی.پس جہاں ایک طرف عظمتِ الہی میں لگو.دوسری طرف قربانیاں کر کے مخلوقِ الہی سے شفقت کرو اور قربانیاں کرتے ہوئے اپنے کل قوی کو قربان کر ڈالو اور رضاء الہی میں لگا دو.پھر نتیجہ کیا ہوگا ؟ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابتر - تیرے دشمن ابتر ہوں گے.انسان کی خوشحالی اس سے بڑھکر اور کیا ہوگی کہ اس کو اب تو راحتیں ملیں.اور اس کے دشمن ہلاک ہوں.یہ باتیں بڑی آسانی سے حاصل ہو سکتی ہیں.خدا کی تعظیم اور اس کی مخلوق پر شفقت.نمازوں میں خصوصیت دکھاؤ.کانوں پر ہاتھ لے جا کر الله اكبر زبان سے کہتے ہو مگر تمہارے کام دکھا دیں کہ واقعی دنیا سے سروکار نہیں.تمہاری نماز وہ نماز ہو جو تنهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَ الْمُنْكَرِ - (العنكبوت: ۴۶) ہو تمہارے اخلاق تمہارے معاملات عامیوں کی طرح نہ ہوں بلکہ ایک پاک نمونہ ہوں.پھر دیکھو.کوثر کا نمونہ ملتا ہے یا نہیں.لیکن ایک طرف سے تمہارا فعل ہے دوسری طرف سے خدا کا انعام.درود پڑھو.آج کل کے دن عبادت کے لئے مخصوص ہیں.وَاذْكُرُوا اللهَ فِي أَيَّامٍ معْدُودَاتٍ.(البقرۃ : ۲۰۴) کل وہ دن تھا کہ کل حاجی ہر طبقہ اور ہر عمر کے لوگ ہوں گے.دنیا سے لے روکتی ہے کھلی بے حیائی اور کار بد سے ( یہود اور نصاریٰ بننے سے ) سے عیدالاضحی ۲۱ را پریل ۱۸۹۹ء.(مرتب) اور اللہ کو یاد کرو گنتی کے چند دنوں میں ( حج کے ).
۴۱۹ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ حقائق الفرقان نرالا لباس پہنے ہوئے عرفات کے میدان میں حاضر تھے.اور لبيك لبيك پکارتے تھے تم سوچو اور غور کرو کہ تمہاری کل کیسی گزری.کیا تم بھی خدا تعالیٰ کے حضور لبيك لبيك پکارتے تھے.آج منی کا دن ہے.آج ہی وہ دن ہے جس میں ابراہیم نے اپنا پاک نمونہ قربانی کا دکھلایا.کوئی اس کی طاقت نہ رہی تھی جسے خدا پر قربان نہ کیا ہو.نہ صرف اپنی بلکہ اولاد کی بھی.یہ جمعہ کا دن ابراہیم کی قربانی اور مفاخر قومی کا روز ہے جس میں عرب کے لوگ قبل اسلام بزرگوں کے تذکرے یاد کر کے فخر کیا کرتے تھے.اس میں خدا کا ذکر کرو جیسے فرمایا.فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكُرِكُمْ آبَائِكُمْ (البقرہ: (۲۰۱) خدا کی یاد میں فریاد کرنے میں خدا کے حضور ساری قوتوں کو قربان کرنے کے لئے خرچ کرو پھر دیکھو کہ تمہارے کام کیا پھل لاتے ہیں.انسان خوشحالی چاہتا ہے اور دشمنوں کی ہلاکت.خدا تیار ہے، مگر قربانی چاہتا ہے.اولاد پر نمونے دکھاؤ جیسے اسمعیل نے دکھایا.پس نئے انسان بنو.پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل تم کو کس طرح کی کوثر دیتا ہے.اور تمہارے دشمنوں کو ہلاک کرتا ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۷ مورخه ۱۲ رمئی ۱۸۹۹ء صفحه ۱ تا ۳) یہ ایک سورۃ شریف ہے بہت ہی مختصر.لفظ اتنے کم کہ سننے والے کو کوئی ملال طوالت کا نہیں یہاں تک کہ ایک چھوٹا سا بچہ بھی ایک دن میں اسے یاد کر لے.مگر ان کے مطالب اور معانی کو دیکھو تو حیرت انگیز.ان کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک ضروری بات سنانی چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جہاں تک میں غور کرتا ہوں واعظوں اور سننے والوں کی دو قسم پاتا ہوں.ایک وہ واعظ ہیں جو دنیا کے لئے وعظ کرتے ہیں.دنیا کا وعظ کرنے والے بھی پھر دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو اپنے وعظ سے اپنی ذات کا فائدہ چاہتے ہیں یعنی کچھ روپیہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.اور ایک وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی یہ غرض تو نہیں ہوتی کہ خود کوئی روپیہ حاصل کریں.مگر یہ مطلب ضرور ہوتا ہے کہ سننے والوں کو ایسے طریقے اور اسباب بتائیں جس سے وہ روپیہ کماسکیں.مادی ترقی کر نیوالے بنیں.دنیا کے لئے وعظ کرنے والوں میں اس اللہ کو یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو.
حقائق الفرقان ۴۲۰ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ قسم کے واعظوں کی اغراض ہمیشہ مختلف ہوتی ہیں.کوئی فوجوں کو جوش دلاتا.ان میں مستعدی اور ہوشیاری پیدا کرنے کے لئے تحریک کرتا ہے کہ وہ دشمن کے مقابلہ کے لئے چست و چالاک ہو جائیں.کوئی امورِ خانہ داری کے متعلق کوئی تجارت اور حرفہ کے لئے.مختصر یہ کہ ان کی غرض انتظامی امور یا عامہ اصلاح ہوتی ہے جو دوسرے الفاظ میں سیاسی یا پولٹیکل تمدنی یا سوشل اصلاح ہے.اور وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرنے کو کھڑے ہوتے ہیں.ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں.ایک وہ جو محض اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرض ان کو ملا ہے.اس کو ادا کریں.بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں.اور اپنے آپ کو اس خیر امت میں داخل ہونے کی فکر ہوتی ہے جس کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے.كُنتُمْ خَيْرٌ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران : 1) تم بہترین امت ہو جولوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو.امر بالمعروف کرتے رہو.اور نہی عن المنکر.اور ایک وہ ہوتے ہیں جن کی غرض دنیا کمانا بھی نہیں ہوتی مگر یہ غرض بھی نہیں ہوتی بلکہ وہ صرف حاضرین کو خوش کرنا چاہتے ہیں یا اُن کی واہ واہ کے خواہشمند کہ کیسا خوش تقریر یا مؤ ثر واعظ ہے.دینی واعظوں میں سے پہلی قسم کے واعظ بھی فتوحات ہی کا ارادہ کرتے ہیں مگر ملکی فتوحات سے ان کی فتوحات نرالی ہوتی ہیں.ان کی فتوحات یہ ہوتی ہیں کہ برائیوں پر فتح حاصل کریں.نیکی کی حکومت کو وسیع کریں.جیسے واعظوں کی دو قسم ہیں.ایسے ہی سننے والوں کی بھی دو حالتیں ہیں.ایک وہ جو محض اللہ کے لئے سنتے ہیں کہ اس کو سن کر اپنی اصلاح کریں اور دوسرے جو اس لحاظ سے سنتے ہیں کہ واعظ ان کا دوست ہے یا کوئی ایسے ہی تعلق رکھتا ہے.یعنی واعظ کی خاطر داری سے.اب تم دیکھ لو کہ تمہارا واعظ کیسا ہے اور تم سننے والے کیسے؟ تمہارا دل تمہارے ساتھ ہے.اس کا فیصلہ تم کر لو.میں جس نیت اور غرض سے کھڑا ہوا ہوں.وہ میں خوب جانتا ہوں.اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ در ددل کے ساتھ خدا ہی کے لئے کھڑا ہوا ہوں.
حقائق الفرقان ۴۲۱ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک تقسیم فرمائی ہے کہ واعظ یامامور ہوتا ہے یا امیر یا متکبر.امیر وہ ہوتا ہے.جس کو براہ راست اس کام کے لئے مقرر کیا جاوے اور مامور وہ ہوتا ہے جس کو امیر کہے کہ تم لوگوں کو وعظ سنا دو.اور متکبر وہ جو محض ذاتی بڑائی اور نمود کے لئے کھڑا ہوتا ہے.پس یہ اقسام واعظوں کی ہیں.اب میں پھر تمہیں کہتا ہوں کہ اس بات پر غور کرو کہ تمہیں وعظ کہنے والا کیسا ہے؟ اور تم کیسا دل لے بیٹھے ہو؟ میرا دل اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ناظر ہے جو بات میری سمجھ میں مضبوط آئی ہے اسے سنانا چاہتا ہوں اور خدا کے لئے.پھر مجھے حکم ہوا ہے کہ تم مسجد میں جا کر نماز پڑھا دو اس حکم کی تعمیل کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور سناتا ہوں.میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود ، ان کے حوصلے چھوٹے، خیالات پست ہوتے ہیں.جس واعظ کی اغراض دینی ہوں وہ ایک ایسی زبر دست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دنیوی وعظ سب اس کے اندر آ جاتے ہیں.کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے.ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بری بات سے روکنے والا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کو اللہ تعالیٰ نے مھیمن فرمایا.یہ جامع کتاب ہے جس میں جیسے ایک ملٹری ( فوجی ) واعظ کو فتوحات کے طریقوں اور قواعد جنگ کی ہدایت ہے.ویسے ہی نظام مملکت اور سیاست مدن کے اصول اعلیٰ درجہ کے بتائے گئے ہیں.غرض ہر رنگ اور ہر طرز کی اصلاح اور بہتری کے اصول یہ بتاتا ہے.پس میں قرآن کریم جیسی کتاب کا واعظ ہوں جو تمام خوبیوں کی جامع کتاب ہے اور جو سکھ اور تمام کامیابی کی راہوں کی بیان کر نیوالی ہے.اور اسی کتاب میں سے یہ چھوٹی سی سورۃ میں نے پڑھی ہے.میں اس سورۃ کے مطالب بیان کرنے سے پہلے یہ بات بھی تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کا طرز بیان دو طرح پر واقع ہوا ہے.بعض جگہ تو اللہ تعالیٰ ایک فعل کو واحد متکلم یعنی میں کے لفظ کے ساتھ بیان فرماتا ہے اور بعض جگہ جمع متکلم یعنی ہم کے ساتھ.ان دونوں الفاظ کے بیان کا
حقائق الفرقان ۴۲۲ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ یہ سر ہے کہ جہاں میں کا لفظ ہوتا ہے وہاں کسی دوسرے کا تعلق ضروری نہیں ہوتا.لیکن جہاں ہم ہوتا ہے.وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کے فرشتے اور مخلوق بھی اس کام میں لگی ہوئی ہوتی ہے.پس اس بات کو یاد رکھو.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ.بے ریب ہم نے تجھ کو دیا ہے الکوثر ہرا یک چیز میں بہت کچھ.یہاں اللہ تعالیٰ نے ہم کا لفظ استعمال فرمایا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا کام ہے جیسے اس میں آپ فضل کیا ہے.فرشتوں اور مخلوق کو بھی لگایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بہت کچھ عطا فرمایا ہے.اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس بہت کچھ کی کیا مقدار ہے؟ تم میں سے بہت سے لوگ شہروں کے رہنے والے ہیں جنہوں نے امیروں کو دیکھا ہے.بہت سے دیہات کے رہنے والے ہیں.جنہوں نے غریبوں کو دیکھا ہے.خدا تعالیٰ نے مجھے محض اپنے فضل سے ایسا موقع دیا ہے کہ میں نے غریبوں، امیروں کے علاوہ بادشاہوں کو بھی دیکھا ہے اور ان تینوں میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے، ان کی ہر چیز میں ، ہر بات میں علی قدر مراتب امتیاز ہوتا ہے.مثلاً ایک کسی غریب کے گھر جا کر سوال کرے تو وہ اُس کو ایک روٹی کا ٹکڑا دیدیتا ہے.اس کی طاقت اتنی ہی ہے.لیکن جب ایک امیر کے گھر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اس کو کچھ دید وتو اس کے کچھ سے مراد تین چار روٹیاں ہوتی ہیں.اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بادشاہ کہتا ہے کہ کچھ دے دو تو اس کے کچھ سے مراد دس بیس ہزار روپیہ ہوتا ہے.اس سے عجیب بات پیدا ہوتی ہے.جس قدر کسی کا حوصلہ ہوتا ہے اسی کے موافق اس کی عطا ہوتی ہے.اب اس پر قیاس کر لو.یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے بہت کچھ دیا ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کی کبریائی، اس کی عظمت و جبروت پر نگاہ کرو، اور پھر اس کے عطیہ کا تصور.دیکھو ایک چھوٹی سی شمع سورج اس نے بنایا ہے، اس کی روشنی کیسی عالمگیر ہے، ایک چھوٹی سی راشین چاند ہے اس کی روشنی کو دیکھو، کس قدر ہے، کنوؤں سے پانی نکالنے میں کس قدر جد و جہد کرنی پڑتی ہے.مگر اللہ تعالیٰ کی عطا پر دیکھو کہ جب وہ بارش برساتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے.غرض یہ سیدھی سادھی بات ہے اور ایک مضبوط اصل ہے جس قدر کسی کا حوصلہ ہو.اسی قدر وہ دیتا
حقائق الفرقان ۴۲۳ و سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ ہے.پس اللہ تعالیٰ کی عظمت کے لحاظ سے اب اس لفظ کے معانی پر غور کرو کہ ہم نے بہت کچھ دیا ہے.خدا کا بہت کچھ وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا.اور پھر اس کا اندازہ میری کھو پری کرے یہ احمقانہ حرکت ہوگی اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اس وقت کوئی کوشش کرے کہ وہ پانی کے ان قطرات کو شمار کرنے لگے جو آسمان سے برس رہے ہیں.( جس وقت آپ یہ خطبہ پڑھ رہے تھے آسمان سے نزول بارانِ رحمت ہور ہا تھا.ایڈیٹر ) ہاں یہ بے شک انسانی طاقت کے اندر ہر گز نہیں ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا ہے اس کو سمجھ سکے چونکہ مجھے اللہ تعالیٰ کے محض فضل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم بھی مجھے دیا گیا ہے.اس لئے میں اندازہ تو ان عطیات کا نہیں کر سکتا لیکن ان کو یوں سمجھ سکتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے کہ باپ انتقال کر گیا.اور چلنے ہی لگے تھے کہ ماں کا انتقال ہوا.کوئی حقیقی بھائی آپ کا تھا ہی نہیں.چنانچہ اسی کے متعلق فرمایا: أَلَمْ يَجِدُكَ يَتيما ( الضحى: ۷) ہم نے تجھے یتیم پایا تھا.اس یتیم کو جسے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ہم نے بہت کچھ دے دیا.خاتم الانبیاء خاتم الرسل تسار علوم کا مالک ، ساری سلطنتوں کا بادشاہ بنادیا.آپ کی عادت شریف تھی کہ کبھی جو بے انتہاروپیہ مالیہ کا آیا ہے تو مسجد ہی میں خرچ کر دیا.غرض غور کرو کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے بہت کچھ دیا.کس قدر خیر کثیر آپ کو دی گئی ہے.آپ کا دامن نبوت دیکھو تو وہ قیامت تک وسیع ہے کہ اب کوئی نبی نیا ہو یا پرانا آ ہی نہیں سکتا.کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان کے ہوئی.اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف: ۱۵۹) میں فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں یہ کوثر بلحاظ مکان کے عطا ہوئی.کوئی آدمی نہیں جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکامِ الہی میں اتباع رسالت پناہی کی ضرورت نہیں کوئی صوفی، کوئی بالغ مرد ، بالغہ عورت کوئی ہو.اس سے مستثنی نہیں ہو سکتے.اب
حقائق الفرقان ۴۲۴ لے سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ کوئی وہ خضر نہیں ہو سکتا جو لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا.(الکھف:۷۶) بول اٹھے.یہ وہ مولی ہے.جس سے کوئی الگ نہیں ہو سکتا.کوئی آدمی مقرب نہیں ہو سکتا جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.تعلیم اور کتاب میں وہ کاملیت اور جامعیت اور کثرت عطا فرمائی کہ فِيْهَا كُتُبْ قَيْمَةٌ (البيئة: ) کل دنیا کی مضبوط کتابیں اور ساری صداقتیں اور سچائیاں اس میں موجود ہیں.ترقی مدارج میں وہ کوثر کہ جبکہ یہ سچی بات ہے الدال عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِہ.پھر دنیا بھر کے نیک اعمال پر نگاہ کر جبکہ ان کے دال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.تو ان کے جزائے نیک آپ کے اعمال میں شامل ہو کر کیسی ترقی مدارج کا موجب ہو رہی ہے.اعمال میں دیکھو.اتباع ، فتوحات، عادات، علوم، اخلاق میں کس کس قسم کی کوثر میں عطا فرمائی ہیں آدمی وہ بخشے جن کے نام لے کر عقل حیران ہوتی ہے.ابوبکر، عمر، عثمان علی رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسے لوگ عباسیوں اور مروانیوں جیسے کیا انتخاب سے ایسے آدمی مل سکتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی گرانے کا حکم دیں خون گرانے کے لئے تیار ہو جائیں.جگہ وہ بخشی کہ ایران ، توران ، مصر، شام، ہند تمہارا ہی ہے.وہ ہیبت اور جبروت آپ کو عطا فرمائی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی طرف کا ارادہ کرتے تو ایک مہینہ کی دورراہ کے بادشاہوں کے دل کانپ جاتے.اللہ جب دیتا ہے تو اس طرح دیتا ہے.یہ بڑا لمبا مضمون ہے جو اس تھوڑے وقت میں بیان نہیں ہوسکتا.مختلف شاخوں اور شعبوں میں جو کوثر آپ کو عطا ہوئی.ایک مستقل کتاب اس پر لکھی جاسکتی ہے.باطنی دولت کا یہ حال ہے کہ تیرہ سو برس کی تو میں جانتا نہیں.اپنی بات بتا تا ہوں.جس قدر مذاہب ہیں.میں نے ان کوٹولا ہے.ان کو پرکھ پر کھ کر دیکھا ہے.قرآن کریم کے تین تین لفظوں سے میں ان کو ر ڈ کرنے کی طاقت رکھتا ہوں.کوئی باطل مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا.لے تو ہرگز میرے ساتھ صبر نہ کر سکے گا.
حقائق الفرقان ۴۲۵ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ میں نے تجربہ کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب اور طرز انسان کے پاس ہو تو باطل مذاہب خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی وہ ٹھہر نہیں سکتا.پھر استحکام و حفاظت مذہب کے لئے دیکھو.جس قدر مذہب دنیا میں موجود ہیں.یعنی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں.اس کی حفاظت کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو ٹھہرایا ہے.مگر قرآن کریم کی تعلیم کے لئے فرمایا.اقالة لحفظونَ.(الحجر:۱۰) یہ کیا کوثر ہے!!! اللہ تعالیٰ خود اس دین کی نصرت اور تائید اور حفاظت فرما تا اور اپنے مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے.جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں.ان کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک انسان کیونکر خدا تعالیٰ کو اپنا بنا لیتا ہے.ہر صدی کے سر پر وہ ایک مجدد آتا ہے.جو ایک خاص جماعت قائم کرتا ہے.میرا اعتقاد تو یہ ہے کہ ہر ۲۵.۵۰ اور سو برس پر آتا ہے.اس سے بڑھ کر اور کیا کو ثر ہوگا ؟ پھر سارے مذاہب میں دعا کو مانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ جب بندہ اپنے مولیٰ سے کچھ مانگتا ہے.تو اسے کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے گو مانگنے کے مختلف طریق ہیں مگر مشترک طور پر یہ سب مانتے ہیں کہ جو مانگتا ہے وہ پاتا ہے.اس اصل کو لیکر میں نے غور کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پہلو سے بھی کیا کچھ ملا ہے.۱۳ سو برس سے برابر امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اللهُم صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَی الِ مُحمد کہ کر دعائیں کر رہی ہے.اور پھر اللہ اور اللہ کے فرشتے بھی اس درود شریف کے پڑھنے میں شریک ہیں اور ہر وقت یہ دعا ہو رہی ہے.کیونکر دنیا پر کسی نہ کسی نماز کا وقت موجود رہتا ہے.اور علاوہ نماز کے پڑھنے والے بھی بے انتہا ہیں.اب سوچو کہ اس ۱۳ سو برس کے اندر کس قدر روحوں نے کس سوز اور تڑپ کے ساتھ اپنے محبوب و آقا کی کامیابیوں اور آپ کے لے اور ہمیں اس کے حافظ ہیں.
حقائق الفرقان ۴۲۶ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ مدارج عالیہ کی ترقی کے لئے اللهُمَّ صَل عَلی مُحمد کہ کر دعائیں مانگی ہوں گی.پھر ان دعاؤں کے ثمرہ میں جو کچھ آپ کو ملا.کیا اس کی کوئی حد ہو سکتی ہے؟ اگر دعا کوئی چیز ہے؟ اور ضرور ہے تو پھر اس پہلو سے آپ کے مدارج اور مراتب کی نظیر پیش کرو.کیا دنیا میں کوئی قوم اور امت ایسی ہے جس نے اپنے نبی اور رسول کے لئے یہ التزام دعا کا کیا ہو؟ کوئی بھی نہیں.کوئی عیسائی مسیح کے لئے.یہودی موسی کے لئے.سناتی شنکر اچارج کے لئے دعائیں مانگنے والا نہیں ہے.اس دنیا کے مدارج کو تو ان امور پر قیاس کرو اور آگے جو کچھ آپ کو ملا ہے.وہ وہاں چل کر معلوم ہو جاوے گا.مگر اس کا اندازہ اسی ” بہت کچھ سے ہو سکتا ہے کہ برزی میں، حشر میں، صراط پر بہشت میں.غرض کو ثر ہی کوثر ہوگا.اس عاجز انسان اور اس کی ہستی کو دیکھو کہ کیسی ضعیف اور ناتوان ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ اس کے بنانے پر آ تا ہے تو اس عاجز انسان کو اپنا بنا کر دکھا دیتا ہے.اور ایک اجڑی بستی کو آباد کرتا ہے.کیا تعجب انگیز نظارہ ہے.بڑے بڑے شہروں اور بڑے اکڑ باز مد بروں کو محروم کر دیتا ہے حالانکہ وہاں ہر قسم کی ترقی کے اسباب موجود ہوتے ہیں اور علم و واقفیت کے ذرائع وسیع مثلاً اس وقت دیکھو کہ کسی بستی کو اس نے برگزیدہ کیا؟ جہاں نہ ترقی کے اسباب نہ معلومات کی توسیع کے وسائل، نہ علمی چرچے ، نہ مذہبی تذکرے، نہ کوئی دار العلوم، نہ کوئی کتب خانہ ! صرف خدائی ہاتھ ہے.جس نے اپنے بندہ کی خود تربیت کی اور عظیم الشان نشان دکھایا.غور کرو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ثابت کرتا ہے کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوثر عطا فرمایا.لیکن غافل انسان نہیں سوچتا.افسوس تو یہ ہے کہ جیسے اور لوگوں نے غفلت کی.ویسی ہی غفلت کا شکار مسلمان ہوئے.آہ.اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی مدارج پر خیال کرتے.اور خود بھی ان سے حصہ لینے کے آرزو مند ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی کوثر عطا فرماتا.میں دیکھتا ہوں کہ جھوٹ بولنے میں دلیر،
حقائق الفرقان ۴۲۷ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ فریب و دغا میں بیباک ہو رہے ہیں.نمازوں میں سستی، قرآن کے سمجھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیا جاتا ہے.اور سب سے بدتر ستی یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال چلن کی خبر نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ عیسائی اور آریہ آپ کے چال چلن کو تلاش کرتے ہیں.اگر چہ اعتراض کرنے کے لئے مگر کرتے تو ہیں.مسلمانوں میں اس قدرستی ہے کہ وہ کبھی دیکھتے ہی نہیں.اس وقت جتنے یہاں موجود ہیں.ان کو اگر پوچھا جاوے تو شاید ایک بھی ایسا نہ ملے جو یہ بتا سکے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی معاشرت کیسی تھی، آپ کا سونا کیسا تھا، جا گنا کیسا، مصائب اور مشکلات میں کیسی استقلال اور علو ہمتی سے کام لیا.اور رزم میں کیسی شجاعت اور ہمت دکھائی.میں یقینا کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جو تفصیل کے ساتھ آپ کے واقعات زندگی پر اطلاع رکھتا ہو.الحکم جلدے نمبر ۱۰ مورخه ۱۷ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۱۴ تا ۱۶ ) حالانکہ یہ ضروری بات تھی کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے حالات زندگی پر پوری اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی.کیونکہ جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ آپ دن رات میں کیا کیا عمل کرتے تھے؟ اس تک وقت ان اعمال کی طرف تحریک اور ترغیب نہیں ہوسکتی.خدا تعالیٰ کی محبت یا اس کے محبوب بننے کا ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع ہے.پھر یہ اتباع کیسے کامل طور پر ہو سکتی ہے.جب معلوم ہی نہ ہو کہ آپ کیا کیا کرتے تھے.اس پہلو میں بھی مسلمانوں نے جس قدر اس وقت سستی اور غفلت سے کام لیا ہے وہ بہت کچھ ان کی ذلت اور ضعف کا باعث ٹھہرا.اس ضروری کام کو تو چھوڑا.پر مصروفیت کس کام میں اختیار کی.نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں.چائے پی لی، حقہ پی لیا، پان کھا لیا.غرض ہر پہلو اور ہر حالت سے دنیوی امور میں ہی مستغرق و گئے.مگر پھر بھی آرام اور سکھ نہیں ملتا.ساری کوششیں اور ساری تگ و دود نیا کے لئے ہی ہوتی ہے ہو.
حقائق الفرقان ۴۲۸ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ اور اس میں بھی راحت نہیں.لیکن جو خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں ان کو وہ دیتا ہے تو پھر کس قدر دیتا ہے؟ اور ساری راحتوں کا مالک اور وارث بنا دیتا ہے.میں نے پہلے بتا دیا ہے کہ جتنا چھوٹا ہوتا ہے.اس کا اتنا ہی دینا ہوتا ہے.اور جس قدر بڑا اسی قدر اس کی دہش ہوتی ہے.جس قدر کبریائی اللہ تعالیٰ رکھتا ہے.اسی کے موافق اس کی عطا ہے اور اس کی عطا کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا.میں نے ایک دنیا دار کو دیکھا ہے.وہ میرا دوست بھی ہے.میں کلکتہ میں اس کے مکان پر تھا.اس نے مجھے دکھایا کہ وہ ایک ایک دن میں چار چار سو پانچ پانچ سوروپیہ کیسے کمالیتا ہے.مگر تھوڑا ہی عرصہ گزرا کہ میں نے اس کو ایک مرتبہ گجرات میں دیکھا.بہت ہی بری حالت میں مبتلا.میں نے اس کو اور تو کچھ نہ کہا.صرف یہ پوچھا کہ بتاؤ کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ یہ حالت ہوگئی ہے کہ رہنے کو جگہ نہیں کھانے کو روٹی نہیں.اس وقت یہاں آیا ہوں کہ فلاں شخص کو پندرہ ہزار روپیہ دیا تھا مگر اب وہ بھی جواب دیتا ہے.میں نے اس کی اس حالت کو دیکھ کر یہ سبق حاصل کیا کہ چالا کی سے انسان کیا کما ہے؟ ادھر بالمقابل دیکھئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع نے کیا کمایا.میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ وعظ کرتے ہیں چالاکیاں کرتے ہیں لیکن ذرا پیٹ میں درد ہوتو بول اٹھتے ہیں کہ ہم گئے.سکتا پس تم وہ چیز بنوجس کا نسخہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے اتباع پر تجربہ کر کے دکھایا ہے کہ جب وہ دیتا ہے تو اس کا کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ بھی کہانی ہے کہ کس کس طرح پر خدا تعالیٰ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی نصرت کی ہے.اسی شہر میں دیکھو مرزا غلام احمد ایدہ اللہ الاحد ایک شخص ہے.کیا قد میں امام الدین اس سے چھوٹا ہے یا اس کی ڈاڑھی چھوٹی ہے.اس کا مکان دیکھو تو حضرت اقدس کے مکانوں سے مکان بھی بڑا ہے.ڈاڑھی دیکھو تو وہ بھی بڑی لمبی ہے.کوشش بھی ہے کہ مجھے کچھ ملے.مگر دیکھتے ہو.خدا کے دینے میں کیا فرق ہے؟ میں یہ باتیں کسی کی اہانت لے مرزا امام الدین
حقائق الفرقان ۴۲۹ و سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ کے لئے نہیں کہتا.میں ایسے نمونوں کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہر جگہ یہ نمونے موجود ہوتے ہیں.میں خود ایک نمونہ ہوں جتنا میں بولتا ، کہتا اور لوگوں کو سناتا ہوں.اس کا بیسواں حصہ بھی مرزا صاحب نہیں بولتے اور سناتے کیونکہ تم دیکھتے ہو.وہ خاص وقتوں میں باہر تشریف لاتے ہیں اور میں سارا دن باہر رہتا ہوں.لیکن ہم پر تو بدظنی بھی ہو جاتی ہے.لیکن اس کی باتوں پر کیسا عمل ہے.بات یہی ہے کہ اللہ کا دین الگ ہے اور وہ موقوف ہے ایمان پر.منصو بہ باز چالاکیوں سے کام لینے والے بامراد نہیں ہو سکتے.وہ اپنی تدابیر اور مکائد پر بھروسہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم یوں کر لیں گے.مگر اللہ تعالیٰ ان کو دکھاتا ہے کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہو سکتی.جب اس کا فضل ہوتا ہے تو اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی.غرض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دینے کے منتظر بنو.اور یہ عطا منحصر ہی ایمان پر ہے.اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ملا.وہ سب سے بڑھ کر ملا.شرط یہ ہے فَصَلِّ لِرَتِكَ اللہ تعالیٰ کی تعظیم میں لگو.نماز سنوار کر پڑھو.نماز مومن کی الگ اور دنیا دار کی الگ، منافق کی الگ ہوتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک نام ابراہیم بھی تھا.جس کی تعریف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وَقُى (النجم : ۳۸) اور وہی ابراہیم جو اِذْ جَاءَ بِقَلبِ سلیم کا مصداق تھا.اس نے سچی تعظیم امر الہی کی کر کے دکھائی اس کا نتیجہ کیا دیکھا، دنیا کا امام ٹھہرا.اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم ہوتا ہے کہ تعظیم لامر اللہ کے لئے تو فَصَلِّ لِرَبِّكَ کا حکم ہے مگر شفقت علی خلق اللہ اور تکمیل تعظیم امر الہی کے لئے وانحر قربانی بھی کرو.قربانی کرنا بڑا ہی مشکل کام ہے.جب یہ شروع ہوئی.اس وقت دیکھو.کیسے مشکلات تھے اور اب بھی دیکھو.ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.99 برس کی عمر تھی.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولا دصالح عنایت کی.اسمعیل جیسی اولا د عطا کی.جب اسمعیل جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دیدو.اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو.زمانہ اور عمر وہ کہ ۹۹ تک پہنچ گئی.اس ابراہیم کی کتابوں میں جس نے عہد پورا کیا.ہے جب وہ صحیح سلامت دل کے ساتھ اپنے رب کے پاس آیا.
حقائق الفرقان ۴۳۰ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ بوڑھاپے ( میں ) آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ساری امید میں اور تمام ارادے قربان کر دیئے.ایک طرف حکم ہوا اور معا بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا.بیٹا! ابی آری فی الْمَنَامِ أَنِّي أذبحك ( الصفت: ۱۰۳) تو وہ بلا چون و چرا یونہی بولا کہ اِفْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصَّابِرِينَ - الصفت: ۱۰۳) ابا جلدی کرو.ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے.اس کی تعبیر ہو سکتی ہے.مگر نہیں.کہا.پھر کر ہی لیجئے.غرض باپ بیٹے نے ایسی فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزت، کوئی آرام کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی.اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء.....پیدا کئے.وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں.سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہو نیوالے ہیں.پس اگر قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو.زبان سے اِنِّي وَ جَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَر السَّمواتِ وَالْأَرْضَ - (الانعام: ۸۰) کہتے ہو تو روح بھی اس کے ساتھ متفق ہو.اِنَّ صَلونِي وَ نُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - (الانعام: ۱۶۴) کہتے ہو تو کر کے بھی دکھلاؤ.غرض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کی فرماں برداری اور تعمیل حکم کے لئے جو اسلام کا سچا مفہوم اور منشا ہے ( کوشش کرو ) مگر میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں وسوسے اور دنیا کی ایچا نیچی ہوتی ہے.لے میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تجھ کو ذبح کر رہا ہوں.۲.اے میرے باپ ! تجھے جو حکم دیا گیا ہے وہ تو کر گزر.قریب ہی تو مجھ کو پائے گا انشاء اللہ نیکیوں پر جمے رہنے والے اور بدیوں سے بچنے والوں میں سے.تو کو عید الاضحی.مرتب ۴ میں نے تو اپنا منہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے.۵ میری نماز اور عبادت اور میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کو آہستہ آہستہ کمال کی طرف پہنچانے والا ہے.
حقائق الفرقان ۴۳۱ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے کل قوی اور خواہشوں کو قربان کر ڈالو اور رضاء الہی میں لا دو تو پھر نتیجہ یہ ہوگا.اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ تیرے دشمن ابتر ہوں گے.انسان کی خوشحالی اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ خود اس کو راحتیں اور نصر تیں ملیں اور اس کے دشمن تباہ اور ہلاک ہوں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز اور اپنی قربانیوں میں دکھا دیا کہ وہ ہمارا ہے.ہم نے اپنی نصرتوں اور تائیدوں سے بتا دیا کہ ہم اس کے ہیں.اور اس کے دشمنوں کا نام و نشان تک مٹا دیا.آج ابو جہل کو کون جانتا ہے.ماں باپ نے تو اس کا نام ابوالحکم رکھا تھا مگر آخر ابو جہل ٹھہرا وہ سَيِّدُ الوَادِی کہلاتا مگر بدتر مخلوق ٹھہرا.وہ بلال جس کو ذلیل کرتے ناک میں نکیل ڈالتے اس نے اللہ تعالیٰ کو مانا اسی کے سامنے ان کو ہلاک کر کے دکھا دیا.غرض خدا کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہو جائے گا مَنْ كَانَ لِلهِ كَانَ اللهُ لَہ.میں دیکھتا ہوں کہ ہزاروں ہزار اعتراض مرزا صاحب پر کرتے ہیں مگر وہ وہی اعتراض ہیں جو پہلے برگزیدوں پر ہوئے.انجام بتا دیا کہ راست باز کامیاب ہوتا ہے.اور اس کے دشمن تباہ ہوتے ہیں.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہی کامیاب ہوتا ہے.ورنہ نامراد مرتا ہے.پس ایسے بنو کہ موت آوے خواہ وہ کسی وقت آوے.مگر تم کو اللہ تعالیٰ کا فرماں بردار پاوے.یاد رکھو کہ مرکز اور مرتے ہوئے بھی اللہ کے ہونے والے نہیں مرتے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمالِ صالحہ کی توفیق دے جو اپنی اصلاح نہیں کرتا اور اپنا مطالعہ نہیں کرتا.وہ پتھر ہے.دنیا کے ایچ بیچ کام نہیں آتے.کام آنیوالی چیز نیکی اور اعمال صالحہ ہیں.خدا سب کو تو فیق عطا کرے.آمین الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخه ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۳ تا ۵) کوثر کے معنے خیر کثیر کے ہیں.پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں تنہا تھے.بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو کیا کچھ خیر کثیر دیا اور دیتا جارہا ہے.سکھوں کا مذہب صرف اتنا ہی ہے کہ اللہ کو ایک مان لو اور دعا کر لو.کوئی زیادہ قیدیں اس مذہب میں نہیں مگر باوجود اس آسانی کے پھر بھی اس مذہب میں کوئی ترقی نہیں.بخلاف اس کے کہ اس میں بہت ساری پابندئیں ہیں.نماز کی ، روزہ کی ، حج کی، زکوۃ کی اور دیگر عبادات کی، معاملات کی.مگر باوجود ان تمام پابندیوں کے اسلام میں روز بروز ترقی ہے.یہ کیسا
حقائق الفرقان ۴۳۲ سُوْرَةُ الْكَوْثَرِ خیر کثیر ہے.جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہورہا ہے.ایک ملاتو کہے گا کہ اعطینا صیغہ ماضی کا بمعنی مضارع ہے.آخرت میں آپ کو حوض کوثر عطا ہو گا.سلَّمنا.اس میں کلام نہیں کہ آخرت میں حوض کوثر آپ کو عطا ہو گا مگر اس میں کیا شک ہے کہ دنیا میں جس کثرت سے آپ پر عطایات الہی ہوئے.وہ بے حد و بے مثل ہیں.کوثر کا لفظ کثیر سے مشتق ہے.پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک ایک صحابی ۲۰۰۰۰، ۴۰۰۰۰، بلکہ ۶۰۰۰۰ پر فاتح ہوا.خود پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام مقبلا نہ ایسا تھا کہ جس کی نظیر نہیں.پنجوقت نماز آپ خود پڑھاتے تھے.سارے قضا یا آپ خودہی فیصلہ کرتے تھے.بیویاں جس قدر آپ کی تھیں ان کی خاطر داری اس قدر تھی کہ سب آپ سے خوش تھیں.لوگ کہتے ہیں کہ اس زمانہ کی عورت کی پوزیشن ہی کچھ ایسی ہی تھی کہ زیادہ تکلفات نہ تھے.مگر عورتوں کی جبلت کا بیان یوں فرمایا ہے کہ مرد کی عقل کو چرخ دینے والی عورتوں سے بڑھ کر اور کوئی مخلوق میں نے نہیں دیکھی کہ عقلمند مرد کی عقل کو کھو دیتی ہے.عورتوں پر ہر بات میں تشد دمت کرو.لڑکوں کو بھی مارنے اور سزا دینے کا میں سخت مخالف ہوں.حضرت صاحب بھی لڑکوں کو مارنے سے بہت منع کیا کرتے تھے.میں تو انگریزی پڑھا نہیں.سنا ہے کہ یونیورسٹی کی بھی یہی ہدایت ہے کہ استاد طلبہ کو نہ مارا کریں.باوجود ان تاکیدوں کے لوگ بچوں کے مارنے سے باز نہیں آئے اور سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہمارا فرض منصبی ہے وہ جھوٹ کہتے ہیں.بہت لوگ ہیں کہ وعظ کرنا تو سیکھ لیتے ہیں مگر خود عملدرآمد نہیں سکھتے.تمہارے ہاتھوں میں اب سلطنت نہیں رہی.اگر تم اچھے ہوتے تو سلطنتیں تم سے نہ چھینی جاتیں.( بدر جلد ۱۱ نمبر ۱۲ مورخه ۲۱ /دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲) الكوثر : نبی کریم کو جو چیز ملی کثرت سے ملی.کتاب ملی تو جامع.امت ملی تو خیر الامم.حکومت ملی تو ابدی.سپاہ ملی تو بے نظیر.دونوں مشہور مذہبوں کے مرکز بھی آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئے پھر حوض کوثر.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۸)
حقائق الفرقان ۴۳۳ سُوْرَةُ الْكَافِرُونَ سُوْرَةُ الْكَافِرُونَ مَحيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - میں اُس اللہ کے نام کی مدد سے پڑھنا شروع کرتا ہوں جس نے اپنی عبادت کی مجھے پہلے سے سمجھ دے رکھی ہے اور عمل پر اس کا نتیجہ دینے والا ہے.۲ تا ۷.قُلْ يَاَيُّهَا الْكَفِرُونَ - لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ - وَلَا أَنْتُمْ عَبدُونَ مَا اعْبُدُ وَ لَا أَنَا عَابِدُ مَا عَبَدُتُّمْ وَلَا انْتُمْ عَبدُونَ مَا أَعْبُدُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ.ترجمہ.کہہ اے کا فرو! نہیں میں عبادت کرتا اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم عبادت کرتے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں اور نہ میں عبادت کرنے والا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں.تمہارے لئے دین تمہارا اور میرے لئے میرا.با محاورہ تفسیری ترجمہ.کہ دے اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کہ سنواے میرے منکرو.میں ان معبودوں کی عبادت نہیں کرتا جن کی تم کرتے ہو اور جس معبود ( اللہ ) کی میں عبادت کرتا ہوں اس کی تم نہیں کرتے اور مجھ سے تم یہ امید نہ رکھو کہ کبھی تمہارے معبودوں کی عبادت کروں اور تمہاری حالت ایسی ہے کہ تم میرے معبود کی عبادت کرنے والے نظر نہیں آتے اس قدر اختلاف کے بعد اب فیصلہ آسان ہے کہ تم اپنے دین پر ہو اور میں اپنے دین پر ہوں.نتیجہ خود ظاہر ہو جائے گا.یہ سورہ شریف مکہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں چھ آیتیں اور چھتیں الفاظ اور نانو نے حروف ہیں.
حقائق الفرقان ۴۳۴ سُوْرَةُ الْكَافِرُونَ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سُوْرَةُ الْكَافِرُوْنَ مَكَّيَّةٌ أَخْرَجَ الطَّبَرَانِي وَ ابْنُ جَرِيرٍ وَ ابْنُ أَبِي حَاتِمٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ قُرَيْشًا دَعَتْ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِلَى أَنْ يُعْطُوهُ مَا لا فَيَكُونَ أَغْلَى رَجُلٍ بِمَكَّةَ وَيُزَوِّجُوْهُ مَا أَرَادَ مِنَ النِّسَاءِ فَقَالُوا هَذَا لكَ يَا مُحَمَّدُ وَكِفَ عَنْ شَتْمِ الِهَتِنَا وَلَا تَذْكُرَ الهَتَنَا بِسُوْءٍ فَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَإِنَّا نَعْرِضُ عَلَيْكَ خَصْلَةً وَاحِدَ وَلَكَ فِيهَا صَلَاحٌ قَالَ مَا هِيَ قَالُوا تَعْبُدُ الِهَتَنَا سَنَةً وَنَعْبُدُ الهَكَ سَنَةً قَالَ حَتَّى أَنْظُرُ مَا يَأْتِينِي مِن رَّبِّي فَجَاءَ الْوَحْنُ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَفِرُ ونَنَا أَعْبُدُ مَا 17997 تعبدون - وَأَنْزَلَ اللهُ قُلْ أَفَغَيْرَ اللهِ تَأْمُرُونْ أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ وَلَقَد أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ بَلِ اللهَ فَاعْبُدُ وَ كُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ وَ أَخْرَجَ مُسْلِمٌ وَ الْبَيْهَقِيُّ فِي سُنَنِهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ فِي رَكْعَتَى وَ الْفَجْرِ قُلْ يَاأَيُّهَا الْكَفِرُونَ اخْتَارَ سُبْحَانَهُ تَعَالَى هُنَا الْكَافِرُوْنَ.بَدَلَ قَوْلِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ عَامَّةَ سُنَّةِ اللهِ فِي الْقُرْآنِ الْكَرِيمِ وَ الْكِتَابِ الْحَكِيمِ الَّذِينَ كَفَرُوا فَمَا قَالَ يَايُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لِاَنَّ كَلِمَةَ كَفَرُوْا تَسُلُّ بِصِيْغَتِهَا الْمَاضِي عَلَى الْإِنْقِطَاعِ وَ الْمَضى فَأَوْلَى إِيْمَاء بَلْ صَرَّحَ تَصْرِيعًا بِأَنَّ الْمُخَاطَبينَ مِنَ الْكُفْرِ وَصْفُ لَازِمٌ لَهُمْ أَعَاذَنَا الله تعالى ابوو.نفى بِحَرْفِ لَا لِلْحَالِ وَالْإِسْتِقْبَالِ مَا تَعْبُدُونَ.مَا اسْمُ مُبْهَهُ - جَاءَ لا بُهَامٍ مَعْبُوْدٍ إِنَّهَمَ عَلَى اخْتِلَافِهِمْ لِأَنَّ الْمُشْرِكَ لَهُ كُلَّ يَوْمٍ مَعْبُوْدٌ بِسَبَبٍ أَهْوَائِهِ وَشَهَوَاتِهِ كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوْتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا.تَكْرِيرُ الْفِعْلِ بِلَفْظِ الْحَالِ وَالْإِسْتِقْبَالِ عِنْدَ الْأَخْبَارِ عَنْ ذَاتِهِ الطَّيِّبَةِ الْمُبَارَكَةِ إِيمَاء إِلَى عِصْمَتِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الزَّيْخِ وَالْإِنْحِرَافِ وَالْإِسْتِبْدَالِ فَمَعْبُوْدُ صَلَّى لے سہو کا تب معلوم ہوتا ہے.خَصْلَةً وَاحِدَةً درست ہے.
حقائق الفرقان ۴۳۵ سُورَة الْكَافِرُونَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاحِدٌ فِي الْمَاضِي وَ كَذَا الْحَالِ وَالْإِسْتِقْبَالِ بِخَلَافِ الْمُشْرِكِينَ.لَكُمْ دِينَكُمْ ثَمَرَةُ مَا تَعْبُدُونَ وَنَتِيْجَةُ لَا اَنْتُمْ عَبدُونَ مَا أَعْبُدُ الرَّجُسُ الْقَبِيحُ الشَّرْكُ فَقَدَّمَ قِسْمَعَهُمْ أَى هَذَا مَا حَصَلَ لَكُمْ مِنْ عِبَادَتِكُمْ وَعَدُهِ تَوْحِيدِ كُمْ قَالَ اللهُ تَعَالَى فَأَمَّا الَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَى رِجْسِهِمْ وَمَاتُوْا وَهُمْ كَافِرُونَ وَلِي دِينِ طَابَقَ اَوَّلَ السُّورَةِ أَخِرُهَا فَقَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ فَحَصَلَ دِينُ التَّوْحِيدِ وَ الْإِخْلَاصِ وَطَرِيقُ الصَّوَابِ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَأَيْضًا لَكُمْ حِسَابَكُمْ وَلِى حِسَابِي فَابْصُرُوا وَأَعِزُوا فَتَحَ بِلَادِكُمْ مَعَ بِلَادٍ أُخْرَى وَالنَّاسُ يَدخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا وَ سَتُنْفِقُونَ أَمْوَالَكُمْ ثُمَّ تَغْلِبُونَ فَالدِّينَانِ لا يَتَشَارَ كَانِ أَصُوْلًا وَفَرُوْعًا وَنَتِيْجَةً.فَالسُّوْرَةُ بَرَاءَةٌ تَامَّةٌ عربی تفسیر سے ترجمہ.سورہ کافرون کی ہے.طبرانی اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ قریش نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ ہم آپ کو اتنا مال دیتے ہیں کہ آپ کی میں سب سے بڑے دولتمند ہو جائیں.اور جس عورت کو آپ پسند کریں.اس کے ساتھ آپ کا نکاح کر دیتے ہیں.یہ سب کچھ آپ لے لیں اور ہمارے معبودوں کی برائی بیان کرنے سے رک جائیں.اور ان کو بدی کے ساتھ یاد نہ کریں اور اگر آپکو یہ بات منظور نہیں تو ہم ایک اور بات پیش کرتے ہیں.اور اس میں آپ کی بہتری ہے.آنحضور نے فرمایا.بتاؤ وہ کیا ہے؟ تو کہنے لگے.ایسا کرو کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی پوجا کرو.اور پھر ایک سال ہم آپ کے معبود کی پرستش کریں گے.حضرت نے فرمایا.ٹھہر جاؤ.اس کا جواب میں خدا سے پا کر میں تم کو بتلاؤں گا.پس یہ وحی الہی نازل ہوئی کہ اے میرے منکر و! الخ اور یہ آیت نازل ہوئی قُلْ أَفَغَيْرَ الله (الزمر : ۶۵)
حقائق الفرقان ۴۳۶ سُورَة الْكَافِرُونَ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ان کو کہہ دو کہ اے جاہلو.کیا تم مجھے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوائے کسی اور کی عبادت کروں.اور تجھ پر اور تجھ سے پہلوں پر یہ وحی نازل ہو چکی ہے کہ اگر تو خدا کے ساتھ شرک کرے گا تو تیری تمام محنت بیکا ر ہو جائے گی.اور تو نقصان پانے والوں میں سے ہوگا.بلکہ ایک اللہ ہی معبود ہے.اسی کی عبادت کر اور قدر دانوں میں سے بن.مسلم اور بیہقی نے اپنی کتاب میں حضرت ابی ہریرہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت نے فجر کی دورکعتوں (سنتوں) میں قُلْ يَأَيُّهَا الكَفِرُونَ اور سورۃ اخلاص پڑھی تھی.عام سنت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سبحانہ اپنی کتاب حکیم قرآن کریم میں جہاں کہیں کفار کا ذکر کرتا ہے تو الَّذِينَ كَفَرُوا کر کے فرماتا ہے لیکن اس کی بجائے اس سورہ شریف میں الَّذِينَ كَفَرُوا نہیں فرمایا بلکہ یوں فرمایا کہ يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ.اے کا فرو! اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ كَفَرُوا صیغہ ماضی میں ہے.اور انقطاع پر دلالت کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے يَأَيُّهَا الكَفِرُونَ.اے کا فرو! فرما کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے.بلکہ صاف تصریح کردی ہے کہ یہ مخاطب ایسے کا فر ہیں کہ صفت کفران کے لازم حال ہو گئی ہے.ایسی حالت سے خدا تعالیٰ اپنی پناہ میں رکھے.لا اعْبُدُ.میں تمہارے بتوں کی نہ اب پوجا کرتا ہوں اور نہ آئندہ کروں گا.اس جگہ بتوں کی عبادت کی نفی حرف لا کے ساتھ کی گئی ہے.کیونکہ حرف لا کی نفی حال اور استقبال ہر دو پرمشتمل ہے.نہ اب اور نہ آئندہ.مَا تَعْبُدُونَ.جو کچھ تم عبادت کرتے ہو.ما اسم مہم ہے.اور مشرکوں کے معبودوں کے ابہام کی طرف اشارہ کرتا ہے.کیونکہ مشرک اپنی خواہش بے جا کے سبب خود اپنے اندر ایک شک وشبہ میں پڑا ہوا ہے.اور ہر روز نیابت اپنے لئے تراشتا ہے.اور اس کا عقیدہ مکڑی کے جالے کی طرح بودہ اور کمزور ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ طیب اور مبارک کے متعلق غیر اللہ کی عبادت سے
حقائق الفرقان ۴۳۷ سُورَة الْكَافِرُونَ بیزاری اس جگہ حال اور استقبال میں دو بار کر کے جو بیان کی گئی ہے.اس میں اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے معصوم ہیں کہ ان کی حالت میں کبھی اور انحراف اور بدی کی طرف تبدیلی واقع ہو.پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا معبود زمانہ گزشتہ میں بھی ایک خدا ہی تھا اور اب بھی وہی ہے اور آئندہ بھی وہی ایک ہوگا.برخلاف مشرکین کی یہ حالت ہے.لَكُمْ دِينُكُمْ.تمہارے لئے پھل اور نتیجہ ہے اس کا جو کچھ کہ تم عبادت کرتے ہو.شرک ایک قبیح رجس ہے.پس پہلے کفار کے حصے کا ذکر کیا گیا کہ کفار کو غیر اللہ کی پرستش کا حصہ مل رہے گا.توحید سے انحراف اور بتوں کی پرستش کا انجام تم پر ظاہر ہوگا.اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے.ان کے رجس پر اور جس بڑھتا ہے.اور وہ حالت کفر میں ہی مرجاتے ہیں.ولی دین.اور میرے لئے میرا دین.اس سورہ شریف کا اوّل اس کے آخر سے مطابق ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میں واحد خدا کی پرستش کرتا ہوں اور تمہارے معبودوں کی پرستش نہ کی ہے.نہ کرتا ہوں اور نہ کروں گا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ توحید اور اخلاص کا دین مجھے حاصل ہوا اور صواب کا طریقہ مجھے ہی ملا اور ان لوگوں کا راستہ جن پر خدا تعالیٰ کا انعام ہوا مجھے ہی عطا ہوا.اور ایسا ہی تمہیں تمہارا حساب بھگتنا پڑے گا.اور مجھے اپنا.پس میری نصرت کی جائے گی اور میری عزت کی جائے گی اور میں تمہارے شہروں کو فتح کروں گا اور اس کے ساتھ دوسرے شہروں کو بھی فتح کروں گا.اور لوگ اللہ تعالیٰ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوں گے اور تم میری مخالفت میں اپنے مال بھی خرچ کرو گے اور پھر بھی مغلوب رہو گے پس یہ دونوں دین بلحاظ اصول اور فروع اور نتیجہ کے یکساں نہیں رہیں گے.پس اس سورہ شریف میں کفر سے پوری بیزاری ظاہر کی گئی ہے.قُل.کہہ دے.بول.یہ خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے.اور آپ کی طفیل تمام مسلمانوں کو ہے کہ ایسے کفار کو جو کفر پر ایسے پکے ہیں کہ نہ پہلے کبھی انہوں نے خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.اور نہ آئندہ ان سے
حقائق الفرقان ۴۳۸ سُورَة الْكَافِرُونَ ایسی امید ہوسکتی ہے.ان کو کہ دو کہ تم جو اپنے کفر پر ایسے پکے ہو اور مسلمانوں کو برا سمجھتے ہو.اسی سے حق اور باطل میں تمیز ہو جائے گی کہ تم اپنے دین پر پکے رہو.اور ہم اپنے دین پر پکے رہیں.نتیجہ خود ظاہر کر دے گا کہ کون سچا اور منجانب اللہ ہے.اور کون جھوٹا اور شیطانی راہ پر ہے.چونکہ اس سورہ شریف میں کفار کو مخاطب کیا گیا ہے.اور ان کے مذہب کے بطلان کے واسطے ایک زبر دست دلیل پیش کی گئی ہے.اس واسطے یہ کلام بطور ایک چیلنج کے خدا تعالیٰ نے اپنے رسول کو القا کیا اور اسی واسطے اس کے شروع میں لفظ قلی آیا ہے.تفاسیر میں فل پر بہت بحث کی گئی ہے.خلاصہ اس تمام تحریر کا یہ ہے کہ یہ سورۃ صریح الفاظ میں کفار کے ساتھ بے زاری کا اظہار کرتی ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اس نیت سے کہ وہ سمجھ جاویں.بہت نرمی کا سلوک کرتے تھے.اور ان کی سخت سے سخت ایذاء رسانی پر صبر کرتے تھے.اور کسی کے ساتھ ذراسی سخت کلامی بھی پسند نہ کرتے تھے.اس واسطے یہ کلام خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا.جس کا پہنچا نا آپ پر فرض ہوا اور اس طرح آپ نے صاف الفاظ میں صراحت کے ساتھ ان پر ظاہر کر دیا کہ ایسے کفار کے ساتھ ہمارا کوئی تعلق نہ ہوا.نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے.يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ.سنو.اے منکر و ! اس میں تین حروف ایک جگہ جمع کئے گئے ہیں.یا ( حرف ندا ) آئی ( تخصیص کے لئے ہے) اور تھا ( تنبیہ کا حرف ہے خبر دار کرنے کے لئے ) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہایت تاکید کے ساتھ اچھی طرح منکروں کے کان کھول کھول کر ان کو یہ پیشگوئی سنائی گئی تھی کہ تم کو تمہارے اس طریقہ کا بدلہ ملنے والا ہے.اور تم دیکھ لو گے کہ خداوند تعالیٰ توحید کے پرستاروں کو تمہارے مقابلہ میں کس طرح کامیابی عطا کرے گا.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یا نداء النفس ہے اور آئی نداء القلب ہے اور کھاندا ء الروح ہے.گویا نفس روح اور قلب ہرسہ کو مخاطب کیا گیا ہے.بعض نے لکھا ہے کہ یا حرف نداء غائب کے واسطے ہے.اور آسٹی حرف نداء حاضر کے واسطے اور کھا تنبیہ کے واسطے.کیا حاضر کیا غائب، سب کو نہایت تاکید کے ساتھ مخاطب کیا گیا ہے.انبیاء کی دعوت ہمیشہ اسی طرح نہایت تاکید کے ساتھ بار بار لوگوں کو بلا کر اور مخاطب کر کے
حقائق الفرقان ۴۳۹ سُورَة الْكَافِرُونَ پہنچائی جاتی ہے چنانچہ اس کی نظیر خود اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے واسطے پیدا کر دی ہے.خدا کا مسیح کس قوت اور زور کے ساتھ دنیا کی تمام قوموں کے درمیان توحید کا وعظ کر رہا ہے.نہ ایک دفعہ کہہ کر وہ خاموش ہوجاتا ہے.بلکہ بار بار ہر ایک ذریعہ سے خدا کا پیغام دنیا کو پہنچا تا ہے.نہ صرف ایک زبان میں بلکہ اردو، عربی ، فارسی اور انگریزی، پشتو وغیرہ زبانوں میں اس کی تبلیغ کا آوازہ دنیا کے چار کونوں تک پہنچ رہا ہے.رسالوں میں ، اخباروں میں، اشتہاروں میں ، زبانی تقریروں میں ، قلمی تحریروں میں غرض کوئی ذریعہ تبلیغ کا اٹھا نہیں رکھا گیا.اور آج دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کے لوگ اس مسیح کے نام سے اور اس کے دعوے سے ناواقف ہوں.خدا کے برگزیدوں کی ہمیشہ سے یہ ہی سنت ہے کہ وہ کھول کھول کر اور پھاڑ پھاڑ کر خدا کا حکم دنیا جہان کو پہنچا دیتے ہیں اور اس کے حکم کے پہنچانے میں نہ وہ کسی دشمن کی دشمنی کی پرواہ کرتے اور نہ کسی مخالف کی مخالفت سے کبھی ڈرتے ہیں.نادان ان کے مقابلہ میں اٹھتے اور جوش دکھاتے ہیں.پھر تھک کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر نا امید ہو کر ناکام مرجاتے ہیں.پر وہ خدا کے بندے ہر روز اپنا قدم آگے بڑھاتے ہیں اور خدا کی تائید سے کامیاب ہو کر رہتے ہیں.شانِ نزول یه سوره شریف بقول ابن مسعود وحسن و عکرمہ کی ہے.اس زمانہ میں نازل ہوئی تھی جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنوز مکہ معظمہ میں قیام رکھتے تھے اس سورہ کی پیشین گوئی سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ سورہ ایسے وقت میں نازل ہوئی تھی.جب کہ کفار اپنے زور پر تھے.اور اپنے بتوں کی حمایت اور ان کی پرستش میں بڑے یقین کے ساتھ مصروف تھے اور گمان کرتے تھے کہ اسلامی سلسلہ ایک چند روزہ بات ہے جو جلدی ہم لوگ اپنی قوت و زور کے ساتھ نیست و نابود کر دیں گے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعولی نبوت کی اصل کیفیت نہ سمجھ کر ان میں سے چند آدمی جیسا کہ ابو جہل، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ، اسود بن عبد یغوث وغیرہ نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ ہمارے بتوں کی مذمت کرنا اور ان کو برائی سے یاد کرنا چھوڑ دو.اور اس کے عوض میں ہم آپ کو اس قدر مال دیں گے کہ مکہ میں آپ سے زیادہ بڑا کوئی مالدار نہ ہو وے.یا اگر آپ چاہیں تو
حقائق الفرقان ۴۴۰ سُورَة الْكَافِرُونَ ہمارے قبائل میں سے سب سے زیادہ خوبصورت عورت جو آپ کو پسند ہو آپ لے لیں اور اگر آپ کو ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات پسند نہ ہو تو پھر تیسری بات یہ ہے کہ آپ ہمارے ساتھ اس طرح سے صلح کر لیں کہ ایک سال آپ ہمارے بتوں کی پرستش کریں تو پھر دوسرے سال ہم آپ کے اللہ کی عبادت کریں گے.اس طرح برابر تقسیم ہوتی رہے گی اور کسی کو شکایت کا موقع نہ رہے گا.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ یہ لوگ کیسے جاہل ہیں کہ نہیں سمجھتے کہ میں کس خوبیوں سے بھرے ہوئے اسلام کی طرف ان کو بلاتا ہوں اور کس قادر تو انا حی و قیوم معبود حقیقی کے قرب کے حصول کا ذریعہ ان کے آگے پیش کرتا ہوں اور کس دائمی خوشی اور ابدی راحت کا تحفہ ان کے واسطے تیار کرتا ہوں جس کے عوض یہ مجھے نا پائیدار مال اور ایک عورت کے چند روزہ حسن کا لالچ دیتے ہیں.اور پتھروں کے آگے سر جھکانے کو کہتے ہیں.جو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں سے گھڑے اور بنائے ہیں.چونکہ آپ کو ان لوگوں کی خیر خواہی کے واسطے بڑا درد تھا.جس کو خدائے علیم نے ان الفاظ میں ظاہر کیا ہے کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ - (الشعراء :۴) کیا تو اس غم میں کہ یہ ایمان کیوں نہیں لاتے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا.آپ نے کفار کے ایسے جاہلانہ سوال پر دردمند ہو کر یہی بہتر سمجھا کہ اس کے جواب کے واسطے اپنے معبود حقیقی کی طرف توجہ کریں اور یہی طریقہ ہمیشہ سے انبیاء کا چلا آیا ہے.چنانچہ آپ کی توجہ کے بعد خدا تعالیٰ سے کفار کے جواب میں یہ سورہ شریف نازل ہوئی جس سے کفار کی تمام امیدیں ٹوٹ گئیں.اس قسم کے صلح کے شرائط عموما کفار انبیاء کے سامنے بہ سبب اپنی جہالت کے پیش کیا کرتے ہیں.چنانچہ اس زمانہ میں بھی خدا کے مرسل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کومخالفوں نے یہ بات کہی کہ ان کے انتقاء اور علم اور عمل میں ہم کو کوئی شک نہیں.بے شک یہ ولی اللہ ہیں اور ہم ان کو ماننے کے واسطے تیار ہیں.صرف مسیح ہونے کا دعوی نہ کریں اور بس.تعجب ہے کہ ان لوگوں کی عقل پر کیسے پتھر پڑ گئے.کیا وہ شخص جو متقی اور عالم اور ولی اللہ مانا
حقائق الفرقان ۴۴۱ سُورَة الْكَافِرُونَ جاسکتا ہے.اس کی نسبت یہ کلمہ بھی کسی عقل کی رُو سے کہنا جائز ہوسکتا ہے کہ اس نے دعوی نبوت اور مسیحیت کا از خود کر دیا ہے.اور خدا پر افتراء باندھا ہے.کیا مفتری علی اللہ متقی اور ولی اللہ ہوسکتا ہے.ہاں کفار کے ساتھ ایک اور صورت صلح کی ہوسکتی ہے.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کفار کے ساتھ کی تھی.جس کی شرط یہ تھی کہ کفار مسلمانوں پر حملہ نہ کریں اور نہ ان لوگوں کی امداد کریں جو مسلمانوں پر ناجائز حملہ کرتے رہتے ہیں.اور ایسے ہی مسلمان نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف دیں گے.اور نہ ان کے تکلیف دہندوں کی کوئی حمایت کرے گا بلکہ ہر طرح سے ان کے بچاؤ کی کوشش کریں گے.اسی رنگ کی صلح حضرت مسیح موعود نے بھی مخالف عیسائیوں ، آریوں ، ہندوؤں اور دیگر اقوام کے سامنے پیش کی تھی کہ چند سالوں تک جو معین کئے جاویں.یہ قومیں مسلمانوں کے خلاف کوئی کتاب نئی یا پرانی شائع نہ کریں اور ایسا ہی مسلمان اس عرصہ میں کوئی کتاب ان مذاہب کی تردید میں نہ لکھیں گے ہاں ہر ایک مذہب کے عالم کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ صرف اپنے ہی مذہب کی خوبیاں بیان کرتے رہیں.کوئی کتاب لکھے جس میں یہ دکھائے کہ اس مذہب پر چلنے سے کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں لیکن کسی دوسرے مذہب کا کچھ ذکر نہ کریں.مذہبی جنگوں کے خاتمہ کے واسطے اور آئے دن کے جھگڑوں اور تنازعوں کے مٹانے کے لئے یہ نہایت ہی احسن طریقہ تھا مگر افسوس ہے کہ لوگوں نے اس طرف توجہ نہ کی.غرض اس قسم کی صلح تو انبیاء کی سنت کے مطابق ہے.لیکن یہ بات کہ مداہنہ کے طور پر اور منافقت سے کچھ تم ہمارے عقائد کو مان لو اور کچھ ہم تمہارے عقائد کو مان لیں.ایسا طریقہ خدا کے سچے رسول کبھی اختیار نہیں کر سکتے.نسخ: بعض لوگ اس سورہ شریف کے یہ معنے سمجھ کر اس کو منسوخ سمجھتے ہیں کہ کفار کو ان کے دین پر رہنے کی اس میں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بیشک اپنے دین پر رہیں اور مسلمان ان کے ساتھ کوئی تعرض نہیں رکھیں گے.لیکن جب جہاد کے متعلق آیات نازل ہوئیں.تو پھر یہ سورۃ منسوخ ہوگئی.یہ بات بالکل غلط ہے.قرآن شریف کی کوئی سورۃ اور سورۃ کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہے سب کا سب ہمیشہ کے واسطے بنی نوع کے عمل کے لئے عمل کرنے اور فائدہ اٹھانے کے واسطے ہے.قیامت
حقائق الفرقان ۴۴۲ سُورَة الْكَافِرُونَ تک قرآن شریف کا ایک نقطہ بھی منسوخ نہیں ہو سکتا.اصل بات یہ ہے کہ مذہب اسلام میں دینی اختلاف کی وجہ سے نہ کوئی لڑائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور نہ آپ کے بعد کبھی کسی کو اجازت ہے کہ دینی اختلاف کی وجہ سے کسی کو قتل کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں کفار نے جب مسلمانوں کو سخت دکھ دیا اور طرح طرح کے ایذاء کے ساتھ پہلے مسلمانوں کو تہ تیغ کرنا شروع کیا اور بڑی بڑی فوجیں لے کر ان پر چڑھائیاں کیں تو بہت سے صبر اور تحمل کے بعد جب وہ کسی طرح بھی باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اجازت دی کہ ایسے شریروں سے اپنا بچاؤ کریں اور ان کو شرارت کی سزا دیں.جہاد کے واسطے جو کچھ حکم تھا.یہی تھا.اور اس زمانہ میں بہ سبب اس کے کہ مذہب کی خاطر مسلمان کسی ملک میں دکھ نہیں دئے جاتے.خود ان کی بھی ضرورت نہیں رہی.سورہ کافرون میں تو خود جہاد کے کرنے یا نہ کرنے کا کوئی تذکرہ بھی نہیں.لیکن اگر بہر حال یہ سمجھا ہی جاوے کہ اس سورہشریف میں جہاد کے متعلق کوئی حکم ہے تو وہ جہاد کے جواز کا ہوسکتا ہے نہ کہ اس کے نسخ کا.کیونکہ اس سورۃ میں مخالفوں کو ایک چیلنج دیا گیا ہے کہ تم اپنے دین کے ساتھ زور آزمائی کرو.اور ہم اپنے دین کی قوت کے ساتھ تمہارا مقابلہ کرتے ہیں.پھر دیکھو کہ خدا کس کو کامیاب کرتا ہے.اور یاد رکھو کہ یہ کامیابی بہر حال اسلام کے واسطے ہے.پس یہ سورۃ کسی حالت میں منسوخ نہیں اور نہ کوئی اور حصہ قرآن شریف کا منسوخ ہوا یا ہوسکتا ہے.مقام نزول: جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ یہ سورہ شریف کی ہے مگر ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ مدنی ہے ایسا ہی بعض دوسری سورتوں کے متعلق بھی بظاہر اس قسم کا اختلاف روایات میں معلوم ہوتا ہے مگر ممکن ہے کہ بعض سورتیں اور آیتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ ایک بار بلکہ کئی بار نازل ہوئی ہوں.جیسا کہ ہم حضرت مسیح موعود کے حالات میں دیکھتے ہیں کہ ایک پیشین گوئی وحی الہی میں ایک
حقائق الفرقان ۴۴۳ سُورَة الْكَافِرُونَ دفعہ نازل ہو کر مثلاً کتاب براہین احمدیہ میں چھپ چکی ہے لیکن جب اس کے پورا ہونے کا وقت قریب آ گیا تو نزول اول کے ہیں پچیس سال بعد پھر وہی الفاظ الہام الہبی میں وارد ہوئے.دین: جزا وسزا کے معنے میں بھی آتا ہے.اور اس کا یہ مطلب ہے کہ تم لوگوں نے جس طریقہ کو اختیار کیا ہے اس کا بدلہ تم کو بہر حال مل کر رہے گا جو طریقہ ہم نے اختیار کر لیا ہے اس کا بدلہ خدا تعالیٰ ہم کو ضرور دے گا.الْكَفِرُون: اس جگہ اگر چہ اول مخاطب وہی کفار اور ان کے ساتھی تھے.جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا تھا اور اس وجہ سے اس سورہ شریف کے نزول کے اصل محرک وہی تھے.لیکن ان کے بعد تمام دنیا کے کفار جو مسلمانوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کریں.اس سورۃ میں مخاطب ہیں.قاعدہ ہے کہ زمانہ نزولِ انبیاء میں بعض منکرین ایسے سخت دل ہو جاتے ہیں کہ کوئی نصیحت ان کے واسطے کارگر نہیں ہو سکتی.اور ہر ایک نشانِ الہی جو دوسروں کے واسطے موجب ازدیاد ایمان ہوتا ہے.ان کے لئے بجز از دیادِ کفر اور کچھ نہیں ہو سکتا.ایسے کفار کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.سَوَاء عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقرہ:۷ ) وہ حالتِ کفر میں ایسے غرق ہیں کہ آنیوالے عذابوں سے تو انہیں ڈرائے یا نہ ڈرائے.سب برابر ہے.وہ کبھی ایمان نہیں لاویں گے.اور فرمایا ہے.وَ لَيَزِيدَانَ كَثِيرًا مِّنْهُمْ مَّا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا (المائده :۶۵) تیرے رب کی طرف سے جو تجھ پر نازل ہوا.یہ ان میں سے بہتوں کی سرکشی اور کفر کو اور بھی بڑھا دے گا.ایسے کافروں کو کہا گیا ہے کہ ولنا أَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ أَعْمَالُكُمْ (البقرہ :۱۴۰) ہمارے عمل ہمارے لئے اور تمہارے عمل تمہارے لئے.اور ایسے ہی مکذبوں کے متعلق فرمایا.فَقُلْ لِي عَمَلِی وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ أَنْتُمْ بَرِيتُونَ مِمَّا أَعْمَلُ وَ أَنَا بَرِى مِمَّا تَعْمَلُونَ (یونس : ۴۲) ان کو کہہ دو کہ میرے عمل میرے لئے ہیں اور تمہارے عمل تمہارے لئے ہیں.تم میری کار کردگی کا ثواب نہیں پاسکتے اور میں تمہاری کارروائیوں سے بری ہوں.حفاظت قرآن : اس سورہ شریف کے الفاظ کو اپنے قرآن شریف پر بغور دیکھتے ہوئے اس
حقائق الفرقان ۴ ۴ ۴ سُورَة الْكَافِرُونَ کی طرز تحریر میں ایک خاص بات مجھے نظر آئی اور وہ یہ ہے کہ اس میں عبدُونَ کا لفظ دو جگہ اس طرح آیا ہے کہ ع کے اوپر کھڑا الف لکھا گیا ہے مگر تیسری جگہ عابد کا لفظ ع کے بعد الف کے ساتھ آیا ہے.حالانکہ دونوں الفاظ تمام تحریر میں ایک ہی طرح آ سکتے ہیں.لیکن میں نے بہت سے مختلف چھاپوں کے قرآن شریف کھول کر دیکھے اور سب میں مذکورہ بالاطر زتحریر پایا....قرآن شریف کی حفاظت کے واسطے یہ بھی ایک دلیل ہے کہ جب سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن شریف لکھا گیا اور جیسا کہ لکھا گیا.اس میں کوئی تغیر وتبدل نہ ہوا اور نہ ہونے کی کوئی گنجائش تھی.برخلاف اس کے ہم انجیل اور تورات کو دیکھتے ہیں کہ اول تو ان کی اصلیت کا کوئی پتہ ہی نہیں ملتا کہ اصل نسخے کیسے تھے.اور کہاں غائب ہوئے.اور جو کچھ نقلی یا فرضی کتابیں موجود ہیں.ان کے متعلق بھی آج تک کمیٹیاں ہو رہی ہیں.جوان امور کی تحقیقات کرتی ہیں کہ ان کتابوں میں سے کونسی عبارتیں ہنوز نکال دینے کے قابل ہیں.جس قدر کتا ہیں اس وقت دنیا میں الہامی مانی گئی ہیں.ان میں سے ایک بھی اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں ہے.سوائے قرآن شریف کے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے سوا اور کسی کتاب کی حفاظت کا ذمہ باری تعالیٰ نے نہیں لیا اور اس واسطے دوسری کتابیں عوام کے دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکیں.خواص سورة : زید بن ارقم رفعا کہتے ہیں کہ جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی ملاقات دوسورتیں ساتھ لے کر کی.اس سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا.وہ دوسورتیں کافرون اور قُلْ هُوَ اللهُ احد ہیں.اس حدیث شریف کا مطلب ظاہر ہے کہ سورہ کافرون میں کفار اور ان کے کفر سے پوری بیزاری اور بے تعلقی ظاہر کی گئی ہے اور سورۃ اخلاص میں خدا تعالیٰ کی توحید کا پورے طور سے اقرار کیا گیا ہے بدی کا ترک اور نیکی کا حصول.شیطان سے دوری اور خدا کا قرب.یہی دو باتیں ہیں جو کسی مذہب کا آخری نتیجہ ہوسکتی ہیں.جب یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے کسی کو حاصل ہو جاویں.تو وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ گیا.اور اس کے واسطے کوئی حساب باقی نہیں رہا.ایک روایت میں ابنِ عمر سے
حقائق الفرقان ۴۴۵ سُورَة الْكَافِرُونَ منقول ہے کہ یہ سورۃ ربع قرآن کے برابر ہے.کیا معنے یہ قرآن شریف کا چوتھا حصہ ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ پاک کے مضامین کا چہارم حصہ کفار اور ان کے کفر سے بیزاری اور خداوند تعالیٰ کی خالص عبادت کے بیان پر مشتمل ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۴ و ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۷۰ تا ۳۷۵) دیکھو.حضرت نبی کریم کی ابتدائی تیرہ سالہ مکہ کی زندگی کیسی مشکلات اور مصائب کی زندگی ہے مگر با ایں کہ آپ بالکل تنہا اور کمزور ہیں.خدا تعالیٰ آپ کی زبان سے اہل مکہ کے بڑے بڑے اکا برقریش اور سردارانِ قوم کو جو اپنے برابر کسی کو دنیا میں سمجھتے ہی نہ تھے.یوں خطاب کراتا ہے.قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کمزوری کی حالت میں بھی خدائی تائید اور نصرت کی وجہ سے جو آپ کے شامل حال تھی اور اس کامل اور سچے علم کی وجہ سے جو آپ کو خدا کے وعدوں پر تھا.آپ میں ایسی قوت اور غیرت و حمیت موجود تھی کہ آپ تبلیغ احکام الہی میں ان کے سامنے ہرگز ہرگز ذلیل نہ تھے.بلکہ آپ کے ساتھ خدا کی خاص نصرت اور حق کا رعب اور جلال ہوا کرتا تھا.پس اس سے مسلمانوں کو یہ سبق لینا چاہیے کہ حق کے پہنچانے میں ہرگز ہرگز کمزوری نہ دکھائیں اور دینی معاملات میں ایک خاص غیرت اور جوش اور صداقت کے پہنچانے میں سچی حمیت رکھیں.کا فر کا لفظ عرب کے محاورے میں ایسا نہیں تھا جیسا کہ ہمارے ملک میں کسی کو کافر کہنا گویا آگ لگا دینا ہے.وہ لوگ چونکہ اہلِ زبان تھے.خوب جانتے تھے کہ کسی کی بات کو نہ ماننے والا اس کا کافر ہوتا ہے.اور ہم چونکہ آپ کی بات نہیں مانتے اس واسطے آپ ہمیں اس رنگ میں خطاب کرتے ہیں.قرآن شریف میں خود مسلمانوں کی صفت بھی کفر بیان ہوئی ہے جہاں فرمایا ہے کہ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ (البقره: ۲۵۷) معلوم ہو کہ کفر مسلمان کی بھی ایک صفت ہے.مگر آجکل ہمارے ملک میں غلط سے غلط بلکہ خطر ناک سے خطر ناک استعمال میں آیا ہے.کسی نے کسی کو کافر کہا اور وہ دست وگریبان ہوا.اصل میں کافر کا لفظ دل دکھانے کے واسطے نہیں تھا.بلکہ یہ تو ایک واقعہ کا اظہار و بیان تھا.وہ
حقائق الفرقان ۴۴۶ سُورَة الْكَافِرُونَ لوگ تو اس لفظ اور خطاب کو خوشی سے قبول کرتے تھے.سن لو.قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ.کے معنے ہوئے کہ وے اے کا فرو ہوشیار ہوکر اور توجہ سے میری بات کو لا اعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ.میں ان بتوں کی ، ان خیالات کی ان رسوم و رواج کی اور ان ظنوں کی فرماں برداری نہیں کرتا.جن کی تم کرتے ہو.ان لوگوں میں اکثر لوگ تو ایسے ہی تھے جو رسم و رواج، عادات اور بتوں کی اور ظنوں اور وہموں کی پوجا میں غرق تھے.ہاں بعض ایسے بھی تھے کہ جو دہر یہ تھے.مگر زیادہ حصہ ان میں سے اوّل الذکر لوگوں میں سے تھا.خدا کو بڑا خدا جانتے تھے.اور خدا سے انکار نہ کرتے تھے.بعض ایسے بھی کافر تھے جو خدا کو بھی مانتے تھے اور بتوں سے بھی الگ تھے.رسم و رواج میں بھی نہ پڑے تھے.آنحضرت کے پاس آنے کو اور آپ کی فرماں برداری کرنے ہی کو اپنی سرداری کی ہتک جانتے تھے.اور ان کے واسطے ان کا کبر اور بڑائی ہی حجاب اور باعث کفر ہورہی تھی.ولا انتم عبدُونَ مَا اَعْبُدُ.اور نہ ہی تم میرے معبود کی عبادت کرتے نظر آتے ہو.وَلَا أَنَا عَابِدُ ما عَبَدتُمْ.اور نہ ہی میں کبھی تمہاری طر ز عبادت میں آؤں گا.وَلَا أَنْتُمْ عِيدُونَ مَا أَعْبُدُ.اور نہ ہی تم اپنے رسوم و رواج، جتھے اور خیالات، اپنے بتوں اور مہنتوں کو چھوڑتے نظر آتے ہو تو اچھا.پھر ہمارا تمہارا یوں فیصلہ ہوگا کہ لَكُمْ دِينَكُمْ وَلَی دِینِ.میرے اعمال اور عقائد کا نتیجہ میں پاؤں گا اور تمہارے بدکردار اور عقائد فاسدہ کی سزا تم کو ملے گی.پھر اس وقت پتہ لگ جاوے گا کہ کون صادق اور کون کا ذب ہے.اس کا جو نتیجہ نکلا.وہ دنیا جانتی ہے.ہر ایک نے سن لیا ہو گا کہ آنحضرت دنیا سے کس حالت میں اٹھائے گئے اور آپ کے اتباع کو دنیا میں کیا کچھ اعزاز اور کامیابی نصیب ہوئی اور آپ کے وہ دشمن کہاں گئے اور ان کا کیا حشر ہوا.کسی کو ان کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں.بس یہی نمونہ اور
حقائق الفرقان ۴۴۷ ما بہ الامتیاز ہمیشہ کے واسطے صادق اور کاذب میں خدا کی طرف سے مقرر ہے.سُورَة الْكَافِرُونَ الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۸ مورخه ۱۸ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۱۵) لَكُمْ دِينَكُمْ وَلَی دِینِ.یہ آیت منسوخ نہیں نہ اس میں مداہنت ہے بلکہ فرمایا کہ تمہارے اعمال کی جزا تمہیں اور میرے کا نیک نتیجہ مجھے ملے گا.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۸)
حقائق الفرقان ۴۴۸ سُورَةُ النَّصْرِ سُوْرَةُ النَّصْرِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - میں اس باعظمت اللہ کے نام سے پڑھنا شروع کرتا ہوں جس کی مددیں دل سے میرے لئے ہو چکی تھیں عمل پر اس کا ظہور کرنے والا ہے.۲ تا ۴.اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ - وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا - فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا - ترجمہ.جب آئی مدد اللہ کی اور فتح اور تو نے دیکھا لوگوں کو کہ داخل ہوتے ہیں بیچ دین اللہ کے فوج در فوج پس تسبیح کر ساتھ تعریف رب اپنے کے اور اس سے استغفار کر تحقیق وہ ہے پھر آنے والا.تفسیر.جب اللہ تعالیٰ کی نصرت ظاہر ہوئی اور مکہ فتح ہو گیا.اور تو نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج دین اسلام میں داخل ہو رہے ہیں.تو خدا تعالیٰ کی تسبیح کر اور اس کی تعریف کر اور اس سے مغفرت طلب کر.وہ بہت ہی رجوع برحمت کرنے والا ہے.یہ سورہ شریف مدنی ہے.یعنی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں بسم اللہ شریف کے بعد تین آیتیں ہیں اور انیس کلمے اور اناسی حروف ہیں.اذا کے معنے ہیں.جب کہ.جب یہ لفظ ماضی پر آوے تو معنے استقبال کے دیتا ہے.اس واسطے اذا جاء کے معنے یہ بھی کئے گئے ہیں کہ جب آوے گی کیونکہ یہ سورۃ بطور ایک پیشگوئی کے نازل ہوئی تھی کہ اس وقت تو اسلام تنگی اور تکالیف کی حالت میں ہے اور سب صحابہ مہاجرین کے دل میں یہ خیال ہے کہ وہ اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور ان کی تعداد قلیل ہے اور ان کے دشمن شہر مکہ میں آرام
حقائق الفرقان ۴۴۹ سُوْرَةُ النَّصْرِ سے ہیں.اور ان پر جنسی کرتے ہیں.اور طعن کرتے ہیں کہ تم لوگوں نے اسلام میں داخل ہو کر کیا فائدہ حاصل کر لیا.دیکھو ہم نے تم کو شہر مکہ سے بھی نکال دیا ہے.لیکن عنقریب وہ وقت آتا ہے کہ ان کی ساری شیخی کرکری ہو جاوے گی اور ان کے متکبر سب ہلاک ہوجائیں گے.اور مکہ کا باعظمت گھر بتوں سے پاک کیا جاوے گا اور اس کے مناروں پر لا إلهَ إِلَّا اللہ کا نعرہ بلند کیا جاوے گا اور کمزور اور ناواقف لوگ جو اس وقت بہ سبب حجاب کے دینِ الہی میں داخل نہیں ہیں.ان کے واسطے وقت آجائے گا کہ تمام روکیں دور ہو کر وہ ایک سیلاب کی طرح اسلام کی طرف دوڑ پڑیں گے اور فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہونے لگ جائیں گے.اگر اذا جاء کے معنے استقبال کے نہ لئے جائیں اور اس کے یہ معنے کئے جاویں کہ ” جب فتح و نصرت الہی آگئی تب بھی یہ درست ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی کے جو پیشگوئیاں نازل ہوتی ہیں اور ان میں خدا اپنے بندے کی نصرت اور فتح کی خوشخبری دیتا ہے.چونکہ وہ بات یقینی ہوتی ہے اور ضرور ہو جانے والی ہے.کوئی اس کو ٹال نہیں سکتا ہے اور آسمان پر مقدر ہو چکا ہے کہ یہ کام اس طرح سے ہو گا.اس واسطے اس کو ایسے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے کہ گویا یہ کام ہو گیا ہے.کیونکہ کوئی کام زمین پر نہیں ہو سکتا جب تک کہ پہلے آسمان پر نہ ہولے.اس کی مثال دنیوی محاورات میں بھی موجود ہے.جب کسی کو یقین ہو جاوے کہ اس مقدمہ میں تمام امور میری مرضی کے مطابق طے ہو جائیں گے اور میں ضرور فتح پالوں گا تو وہ کہتا ہے کہ بس میں نے مقدمہ فتح کر لیا.حالانکہ ہنوز مقدمہ زیر بحث ہوتا ہے اور عدالت نے فیصلہ نہیں سنایا ہوتا.لیکن بہ سبب یقین کے وہ ایسا ہی کہتا ہے کہ مقدمہ فتح ہو گیا.اس قسم کے الہامات اور پیشگوئیوں کی تازہ مثالیں خود اس زمانہ میں موجود ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بسا اوقات ایسے الہامات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں جو کہ اپنے اندر ایک پیشگوئی کا رنگ رکھتے ہیں.مثلاً ۱۴ را پریل ۱۹۰۶ء کو حضرت مسیح موعود پر خدا تعالیٰ کی وحی بدیں الفاظ ہوئی کہ زلزلہ آیا.زلزلہ آیا اور یہ خبر اس زلزلہ کے متعلق تھی جو ۱۸ مئی ۱۹۰۶ ء کو واقع ہوا.لیکن چونکہ اس کا آنا مقدر ہو چکا تھا.اس واسطے ایک ماہ پہلے ہی کہا گیا کہ زلزلہ
حقائق الفرقان آیا.زلزلہ آیا.۴۵۰ سُوْرَةُ النَّصْرِ جاء کے معنے ہیں.آیا.آمد.اس لفظ میں قابل توجہ یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ فتح اور نصرت تیرے پاس آئی جسے خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کی تائید کے واسطے عین ضرورت کے وقت میں بھیجا.نصر الله : اللہ تعالیٰ کی نصرت.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد.وَالْفَتْحُ: وہ خاص فتح جس کے تم منتظر تھے.اور جس کے متعلق پہلے سے پیشگوئی کی جا چکی تھی.اور تورات و انجیل میں جس کا ذکر کیا گیا تھا.یعنی فتح مکہ.وہی مکہ جس میں سے جان بچا کر بھا گنا پڑا تھا.اور خفیہ طور پر رات کے وقت ہجرت کرنی پڑی تھی.اسی کی فتح کے دن آتے ہیں.اور مظفر و منصور ہو کر اس میں داخل ہونے کے ایام قریب ہیں.ورآیت : اور تو نے دیکھ لیا.تو نے جان لیا.تو نے معلوم کر لیا.الناس : لوگوں کو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی رسول دنیا کی طرف مبعوث ہوتا ہے تو اس کا ساتھ دینے والے لوگ اور اس کی پیروی کرنے والے تین قسم کے ہوتے ہیں.اول اور سب سے اعلیٰ طبقہ کے لوگ وہ ہوتے ہیں.جو کسی معجزه ، نشان ، کرامت یا خارق عادت کے دیکھنے کے محتاج نہیں ہوتے.وہ اس نبی کی شکل دیکھتے ہی اور اس کا دعوی سنتے ہی اُمَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہ اٹھتے ہیں.ان کو نبی کے ساتھ ایک ازلی مناسبت حاصل ہوتی ہے اور وہ فورا اس پر ایمان لاتے ہیں جیسا کہ حضرت صدیق اکبر ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے.آپ سفر میں تجارت کے واسطے باہر گئے ہوئے تھے.اور عرب کو واپس آتے ہوئے ہنوز شہر سے دور تھے.راستہ میں ان کو ایک آدمی ملا.اس سے پوچھا کہ شہر کی کوئی تازہ خبر سناؤ.اس نے کہا.تازہ خبر یہ ہے کہ محمد نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت ابوبکر نے کہا کہ اگر محمد نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو بے شک سچا دعویٰ کیا ہے.اسی جگہ ایمان لائے اور صدیق اکبر کہلائے رضی اللہ عنہ.یہ اعلیٰ طبقہ کے آدمیوں کا نمونہ ہے.اس سے کم درجہ کے لوگ وہ ہیں.جو کچھ تھوڑا بہت دلائل سننے اور
حقائق الفرقان ۴۵۱ سُوْرَةُ النَّصْرِ نشان دیکھنے کے بعد ایمان لے آتے ہیں.اور مخالفت کی طرف نہیں دوڑتے.اور رفتہ رفتہ محبت اور اخلاص میں بہت بڑی ترقی کر جاتے ہیں.اس کے بعد تیسرے درجہ کے لوگ وہ ہیں کہ جب خدا تعالیٰ کے قہری عذاب نازل ہوتے ہیں.اور ہر طرف سے فتوحات اور نصرت کے نشانات نمودار ہوتے ہیں تو ان کے واسطے سوائے اس کے چارہ نہیں ہوتا کہ وہ بھی مومنوں کے درمیان شامل ہو جائیں.اول اور دوم درجہ کے لوگوں کی خدا تعالیٰ نے بہت تعریف کی ہے.اور ان کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ (المائدہ:۱۲۰) کا خطاب دیا ہے.مگر تیسرے طبقہ کے لوگوں کا ذکر قرآن شریف میں صرف اتنا ہے کہ رایت النَّاسَ تو نے لوگوں کو دیکھا ہے.کیونکہ وہ عوام ہیں.خواص میں ان کا ذکر نہیں.پھر بھی خوش قسمت ہیں کہ قرآن شریف میں ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا گیا کہ وہ دین اللہ میں داخل ہونے والے لوگ ہیں.اس زمانہ میں خدا کے فرستادہ رسول حضرت مہدی معہود کے پیرو انہیں تین قسم کے لوگوں میں مشتمل ہیں.بعض تو وہ اولین سابقین میں سے ہیں جو حضرت کے دعوئی مسیحائی سے بھی پہلے آپ کے ساتھ خلوص محبت رکھتے تھے.اور دنیا میں کوئی بات ایسی نہ ہوئی جو ان کے خلوص اور محبت کو ایک قدم پیچھے ہٹانے والی ہو.حضرت کا دعولی ان کے واسطے کوئی نئی بات نہ تھی.ہر ابتلا کے وقت انہوں نے قدم آگے بڑھایا ان کی مثال حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ہیں.ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے ازل سے ایک فطرتی مناسبت اپنے رسول کے ساتھ عطا کی ہے کہ وہ اس سے علیحدہ رہ ہی نہیں سکتے.دوسرے وہ لوگ ہیں جو کچھ کتابیں پڑھ کر اور کچھ نشانات دیکھ کر اور کچھ دیکھ بھال کر اس مقدس سلسلہ میں داخل ہوئے اور دن رات انہوں نے اس میں ترقی کی اور خدا تعالیٰ کی اس نعمت کے شکر گزار ہوئے اور اپنے مال اس راہ میں خرچ کئے.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جن کو طاعون نے یا زلزلے نے خوفزدہ کر کے اس طرف کھینچا.پھر بہر حال وہ بھی خوش قسمت ہیں.کیونکہ پاس شدوں کی فہرست میں ان کا نام درج ہو گیا.اور فیل شدوں کا نام تو کسی فہرست میں لکھا ہی نہیں جاتا سوائے ان فیل شدوں کے جو اپنے پر چوں میں شرارت کے ساتھ ناجائز باتیں لکھ دیتے ہیں تو خواہ مخواہ متن کو ان لے اللہ ان سے خوش ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو چکے.
حقائق الفرقان ۴۵۲ سُورَةُ النَّصْرِ کی رپورٹ کرنی پڑتی ہے کہ فلاں امیدوار نے اپنے پرچہ میں ایسی شرارت کی ہے.پس وہ فقط فیل ہی نہیں ہوتے بلکہ آئندہ کے واسطے مدارس سے خارج کئے جاتے ہیں.اور سخت نامرادی کے گڑھے میں پھینکے جاتے ہیں.جہاں سوائے رونے اور دانت پینے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوگا.يَدخُلُونَ : داخل ہوتے ہیں في دِينِ اللهِ : اللہ تعالیٰ کے دین میں افواجا : فوج در فوج.پہلے تو کوئی ایک آدھ مسلمان ہوتا تھا.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تشریف فرما تھے.بعد میں جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں سکونت اختیار کی تو زیادہ تعداد ہونے لگی.لیکن پھر بھی ترقی زور کے ساتھ نہ تھی.یہاں تک کہ جب مکہ فتح ہو گیا تو گروہوں کے گروہ اور جماعتوں کی جماعتیں دین الہی میں داخل ہونے لگیں.کیونکہ تمام مشکلات درمیان میں سے اٹھ گئی تھیں اور حجاب دور ہو چکے تھے.اورا کا بر مجرم ہلاک ہو چکے تھے.فسيخ : پس تسبیح کر.پس پاکی بیان کر.التَّسْبِيحُ هُوَ التَّطْهِيرُ : تسبیح پاکیزگی اور طہارت کو کہتے ہیں.بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد خانہ کعبہ کی تطہیر ہے.کیونکہ کفار نے اس میں بت رکھے ہوئے تھے اور فتح مکہ کا یہ نتیجہ تھا کہ تمام بت وہاں سے نکال دیئے گئے اور اس گھر کو خدا تعالیٰ کی اس عبادت کے واسطے خاص کیا گیا.جس کے لئے حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل نے اپنے کاندھوں پر اینٹیں اٹھا کر اس کی بناء کی تھی.خدا تعالیٰ کے برگزیدے جب اپنے رب کے حضور میں کوئی اخلاص کا کام کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ اس کو ہرگز ضائع نہیں کرتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام والبرکات نے جنگل بیابان کے درمیان جہاں آدمی چھوڑ چرند پرند بھی نہ ملتا تھا.جب خدا کے حکم کے مطابق اپنی بیوی اور بچے کو چھوڑا اور بعد میں خدا تعالیٰ کی عبادت کے واسطے اس جگہ گھر بنایا تو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ایک شہر آباد کر دیا.اور بالآخر جب کفار نے اس گھر میں بتوں کا ٹھکانہ بنادیا ت محمد مجیسے پاک دل کو اس گھر کے مظہر کرنے کا جوش عطا کیا اور خدا تعالیٰ کے اس برگزیدہ نے وہ گھر ایسا پاک کیا کہ اس کے بعد کوئی مشرک نزدیک بھی نہیں
حقائق الفرقان ۴۵۳ سُورَةُ النَّصْرِ جاسکتا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی صداقت پر ایک بین اور زندہ دلیل ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ کی توحید قائم کرنے میں ایسی کامیابی دیکھی کہ اس کی نظیر پہلے کسی نبی کے حالات میں پائی نہیں جاتی.بِحَمْدِ رَبِّكَ : ساتھ تعریف پروردگار اپنے کے.بہ ستائش پر وردگار تو.یعنی اپنے رب کی تعریف کر کہ اس نے اپنی خاص ربوبیت کے ذریعہ سے تجھے ہر معاملہ میں کامیاب کیا اور فتح اور نصرت عطا کی ہے.یہ اسی قادر توانا کا کام ہے کہ ایک یتیم کو دنیا کا بادشاہ بنادے اور ایسی فتح عطا کرے جس کی نظیر دنیا بھر کی تاریخ میں موجود نہ ہو.وَاسْتَغْفِرُهُ : اور اس سے مغفرت طلب کر.غفر کے معنے ہیں ڈھانکنا.دبانا.تمام انبیاء خدا تعالیٰ سے مغفرت مانگا کرتے تھے.اور مغفرت مانگنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان چونکہ کمزور ہے.اس کو معلوم نہیں کہ کونسا کام اس کے واسطے بہتری کا ہے.اور کون سا نقصان کا کام ہے اور تکلیف کا راستہ ہے.پس مغفرت ایک دعا ہے کہ انسان اپنے خدا سے یہ دعا مانگتا ہے کہ وہ اس کے واسطے نیکی کے راہ پر چلنے کے اسباب مہیا کرے.جن سے وہ بدی سے بچار ہے اور کسی طرح کے حرج اور تکلیف میں پڑنے سے محفوظ رہے.خدا تعالیٰ کے انعام کے حاصل کرنے کے واسطے مغفرت کا طلب کرنا نہایت ضروری ہے.استغفار کے معنے اور تشریح میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ حضرت اقدس مسیح موعود کی تحریر نقل کر دی جاوے اور وہ یہ ہے.استغفار کے حقیقی اور اصلی معنے یہ ہیں کہ خدا سے درخواست کرنا کہ بشریت کی کوئی کمزوری ظاہر نہ ہو اور خدا فطرت کو اپنی طاقت کا سہارا دے اور اپنی حمایت اور نصرت کے حلقہ کے اندر لے لے.یہ لفظ غفر سے لیا گیا ہے.جو ڈ ہانکنے کو کہتے ہیں.سو اس کے یہ معنے ہیں کہ خدا اپنی قوت کے ساتھ شخص مستغفر کی فطرتی کمزوری کو ڈھانک لے لیکن بعد اس کے عام لوگوں کے لئے اس لفظ کے معنے اور بھی وسیع کئے گئے اور یہ بھی مراد ہے کہ خدا گناہ کو جو صادر ہو چکا ہے ڈہانک لے.لیکن اصل اور
حقائق الفرقان ۴۵۴ سُورَةُ النَّصْرِ حقیقی معنے یہی ہیں کہ خدا اپنی خدائی کی طاقت کے ساتھ مستغفر کو جو استغفار کرتا ہے.فطرتی کمزوری سے بچاوے اور اپنی طاقت سے طاقت بخشے اور اپنے علم سے علم عطا کرے اور روشنی سے روشنی دے.کیونکہ خدا انسان کو پیدا کر کے اس سے الگ نہیں ہوا.بلکہ وہ جیسا کہ انسان کا خالق ہے اور اس کے تمام قومی اندرونی اور بیرونی کا پیدا کرنے والا ہے.ویسا ہی وہ انسان کا قیوم بھی ہے.یعنی جو کچھ بنایا ہے.اس کو خاص اپنے سہارے سے محفوظ رکھنے والا ہے.پس جبکہ خدا کا نام قیوم بھی ہے یعنی اپنے سہارے سے مخلوق کو قائم رکھنے والا.اس لئے انسان کے لئے لازم ہے کہ جیسا کہ وہ خدا کی خالقیت سے پیدا ہوا ہے.ایسا ہی وہ اپنی پیدائش کے نقش کو خدا کی قیومیت کے ذریعہ سے بگڑنے سے بچاوے.کیونکہ خدا کی خالقیت نے انسان پر یہ احسان کیا کہ اس کو خدا کی صورت پر بنایا.پس اسی طرح خدا کی قیومیت نے تقاضا کیا کہ وہ اس پاک نفس انسانی کو جو خدا کے دونوں ہاتھوں سے بنایا گیا ہے.پلید اور خراب نہ ہونے دے.لہذا انسان کو تعلیم دی گئی کہ وہ استغفار کے ذریعہ سے قوت طلب کرے.پس اگر دنیا میں گناہ کا وجود بھی نہ ہوتا.تب بھی استغفار ہوتا کیونکہ دراصل استغفار اس لئے ہے کہ جو خدا کی خالقیت نے بشریت کی عمارت بنائی ہے.وہ عمارت مسمار نہ ہو اور قائم رہے اور بغیر خدا کے سہارے کے کسی چیز کا قائم رہنا ممکن نہیں.پس انسان کے لئے یہ ایک طبعی ضرورت تھی جس کے لئے استغفار کی ہدایت ہے.اسی کی طرف قرآن شریف میں یہ اشارہ فرمایا گیا ہے.اَللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ یعنی خدا ہی ہے جو قابل پرستش ہے.کیونکہ وہی زندہ کرنے والا ہے اور اسی کے سہارے سے انسان زندہ رہ سکتا ہے یعنی انسان کا ظہور ایک خالق کو چاہتا تھا اور ایک قیوم کو.تا خالق اس کو پیدا کرے اور قیوم اس کو بگڑنے سے محفوظ رکھے سو وہ خالق بھی ہے اور قیوم بھی.اور جب انسان پیدا ہو گیا تو خالقیت کا کام تو پورا ہو گیا مگر قیومیت کا کام ہمیشہ کے لئے ہے.اسی لئے دائمی استغفار کی ضرورت پیش آئی.غرض خدا کی ہر ایک صفت کے لئے ایک فیض ہے اور استغفار صفت قیومیت کا فیض حاصل کرنے کے لئے ہے.اسی کی طرف اشارہ سورہ فاتحہ کی اس آیت میں ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ یعنی ہم تیری ہی
حقائق الفرقان ۴۵۵ سُورَةُ النَّصْرِ عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے اس بات کی مدد چاہتے ہیں کہ تیری قیومیت اور ربوبیت ہمیں مدد دے اور ہمیں ٹھوکر سے بچاوے تا ایسانہ ہو کہ کمزوری ظہور میں آوے اور ہم عبادت نہ کر سکیں.اس تمام تفصیل سے ظاہر ہے کہ استغفار کی درخواست کے اصل معنے یہی ہیں کہ وہ اس لئے نہیں ہوتی کہ کوئی حق فوت ہو گیا ہے بلکہ اس خواہش سے ہوتی ہے کہ کوئی حق فوت نہ ہو اور انسانی فطرت اپنے تئیں کمزور دیکھ کر طبعاً خدا سے طاقت طلب کرتی ہے.جیسا کہ بچہ ماں سے دودھ طلب کرتا ہے.پس جیسا کہ خدا نے ابتدا سے انسان کو زبان آنکھ دل کان وغیرہ عطا کئے ہیں.ایسا ہی استغفار کی خواہش بھی ابتدا سے ہی عطا کی ہے اور اس کو محسوس کرایا ہے کہ وہ اپنے وجود کے ساتھ خدا سے مدد پانے کا محتاج ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے.وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالمُؤْمِنت (محمد: ۲۰) یعنی خدا سے درخواست کر کہ تیری فطرت کو بشریت کی کمزوری سے محفوظ رکھے اور اپنی طرف سے فطرت کو ایسی قوت دے کہ وہ کمزوری ظاہر نہ ہونے پاوے اور ایسا ہی ان مردوں اور ان عورتوں کے لئے جو تیرے پر ایمان لاتے ہیں بطور شفاعت کے دعا کرتارہ کہ تاجو فطرتی کمزوری سے ان سے خطائیں ہوتی ہیں.ان کی سزا سے وہ محفوظ رہیں اور آئندہ زندگی ان کی گناہوں سے بھی محفوظ ہو جاوے.یہ آیت معصومیت اور شفاعت کے اعلیٰ درجہ کی فلاسفی پر مشتمل ہے.اور یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسان اعلیٰ درجہ کے مقام عصمت پر اور مرتبہ شفاعت پر تب ہی پہنچ سکتا ہے کہ جب اپنی کمزوری کے روکنے کے لئے اور نیز دوسروں کو گناہ کی زہر سے نجات دینے کے لئے ہر دم اور ہر آن دعا مانگتا ر ہے اور تضرعات سے خدا تعالیٰ کی طاقت اپنی طرف کھینچتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس طاقت سے دوسروں کو بھی حصہ ملے جو بوسیلہ ایمان اس سے پیوند پیدا کرتے ہیں.معصوم انسان کو خدا سے طاقت طلب کرنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ انسانی فطرت اپنی ذات میں تو کوئی کمال نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے کمال پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی قوت نہیں رکھتی بلکہ ہر دم خدا سے قوت پاتی ہے اور اپنی ذات میں کوئی کامل روشنی نہیں رکھتی بلکہ خدا سے اس پر روشنی اترتی ہے.اس میں اصل راز یہ ہے کہ کامل فطرت کو صرف ایک کشش دی جاتی ہے تا کہ وہ طاقت بالا کو اپنی
حقائق الفرقان ۴۵۶ سُورَةُ النَّصْرِ طرف کھینچ سکے.مگر طاقت کا خزانہ محض خدا کی ذات ہے.اسی خزانہ سے فرشتے بھی اپنے لئے طاقت کھینچتے ہیں.اور ایسا ہی انسان کامل بھی اسی سر چشمہ طاقت سے عبودیت کی نالی کے ذریعہ سے عصمت اور فضل کی طاقت کھینچتا ہے.لہذا انسانوں میں سے وہی معصوم کامل ہے جو استغفار سے الہی طاقت کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کشش کے لئے تضرع اور خشوع کا ہر دم سلسلہ جاری رکھتا ہے تا اس پر روشنی اترتی رہے اور ایسے دل کو اس گھر سے تشبیہ دے سکتے ہیں.جس کے شرق اور غرب اور ہر ایک طرف سے تمام دروازے آفتاب کے سامنے ہیں.پس ہر وقت آفتاب کی روشنی اس میں پڑتی ہے.لیکن جو شخص خدا سے طاقت نہیں مانگتا وہ اس کوٹھڑی کی مانند ہے جس کے چاروں طرف سے دروازے بند ہیں اور جس میں ایک ذرہ روشنی نہیں پڑسکتی.پس استغفار کیا چیز ہے یہ اس آلہ کی مانند ہے جس کی راہ سے طاقت اترتی ہے.تمام راز توحید اسی اصول سے وابستہ ہے کہ صفت عصمت کو انسان کی ایک مستقل جائیداد قرار نہ دیا جاوے بلکہ اس کے حصول کے لئے محض خدا کو سر چشمہ سمجھا جاوے.ذات باری تعالیٰ کو تمثیل کے طور پر دل سے مشابہت ہے.جس میں مصفا خون کا ذخیرہ جمع رہتا ہے اور انسان کامل کا استغفاران شرابیں اور عروق کی مانند ہے جو دل کے ساتھ پیوستہ ہیں اور خون صافی اس میں سے کھینچتی ہیں اور تمام اعضاء پر تقسیم کرتی ہیں جو خون کے محتاج ہیں.إِنَّهُ كَانَ توابا تحقیق وہ تو بہ قبول کرنے والا ہے.ہر آئینہ خدا ہست برحمت رجوع کننده ل تؤاب کے معنے ہیں.بہت تو بہ کرنے والا.بہت رجوع کرنے والا.جبکہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف رجوع لاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس سے زیادہ اس کی طرف توجہ کرتا ہے.اسی پر حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر انسان چل کر خدا تعالیٰ کی طرف جاوے تو خدا اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہے.سورہ شریف کے نام اس سورۃ کا ایک نام تو النصر ہے کیونکہ اس میں ایک نصرت کی بشارت ہے اور اس کا نام فتح بھی ہے.کیونکہ ایک ایسی عظیم الشان فتح کی اس میں پیشگوئی درج ہے جس سے اسلامی سلطنت اور فتوحات کی بنیاد رکھی گئی تھی.یعنی فتح مکہ.ان کے علاوہ ایک نام اس سورۃ کا سورہ تو دریع بھی ہے.کیونکہ جب یہ سورت نازل ہوئی تو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ے خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے کے لئے وہ ہر جگہ موجود ہے.
حقائق الفرقان ۴۵۷ سُوْرَةُ النَّصْرِ کہ نُعِیت الی نفسی اور آپ نے سمجھ لیا کہ ہمارا کام تکمیل کو پہنچ چکا ہے.اور اب وقت آ گیا کہ ہم اپنے خدا کے پاس چلے جاویں.حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ جو آپ کا کام تھا.وہ پورا ہو گیا ہے.اور اب آپ کو اس دار فانی کو چھوڑنے کا وقت قریب آ گیا ہے تو آپ نے ظاہر فرمایا کہ اب میں عالم باقی میں انتقال کروں گا.اس بات کوسن کر جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں.آپ نے فرمایا تم کیوں روتی ہو؟ اہلِ بیت میں سے سب سے پہلے مجھ سے تم ہی ملو گی.یہ سن کر وہ مسکرانے لگیں.اس میں بھی ایک پیشگوئی تھی.چنانچہ اس کے بعد جلد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے.اور آپ کے بعد اہلِ بیت میں سے سب سے اول جس نے وفات پائی.وہ حضرت فاطمہ ہی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کا یہ عجیب نمونہ ہے کہ حضرت فاطمہ کو آنحضرت کی وفات کی خبر نے رلا دیا.لیکن پھر اپنی وفات کی خبر نے اس واسطے ہنسا دیا کہ اس میں آنحضرت کے ساتھ دوسرے عالم میں ملاقات کی جلد صورت پیدا ہوگئی تھی.اپنے مرنے کا خوف نہیں اور آنحضرت کے ساتھ ملاقات کی خوشی غالب ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۸٬۲۱ نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۷۶ تا ۳۷۹) فتح مکہ: اس سورہ شریف میں اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ میں لفظ فتح سے مراد فتح مکہ ہے.فتح مکہ کو فتح الفتوح بھی کہتے ہیں.کیونکہ مکہ کی فتح تمام اسلامی فتوحات کی ابتدا تھی.فتح مکہ کا واقع اس طرح سے ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ایک رؤیا دیکھا کہ آپ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم مکہ معظمہ کو گئے ہیں اور وہاں مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوئے ہیں اور سر منڈاتے ہیں اور بال کترواتے ہیں جیسا کہ مکہ معظمہ سے احرام کھولنے کے بعد کیا جاتا ہے.چونکہ اس وقت مسلمان کفار کے ہاتھوں سے بہت تکلیف اٹھا رہے تھے اور مکہ میں کفار کا غلبہ تھا اور مسلمانوں کو زیارت کعبتہ اللہ کے حصول میں بہت مشکلات کا سامنا ہوتا تھا.اس واسطے اس مبشر مکاشفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسا کہ انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے
حقائق الفرقان ۴۵۸ سُوْرَةُ النَّصْرِ کہ خدا تعالیٰ کے وعدوں پر پورا ایمان لا کر اور خدا تعالیٰ کی فرمودہ باتوں کے پورا ہو جانے پر یقین کر کے ان کے واسطے ہر طرح کے سامان مہیا کرتے ہیں.اسی طرح حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رویا کی سچائی پر یقین کر کے سفر مکہ کی تیاری کی اور چودہ سو اصحاب کے ساتھ شہر مکہ کی طرف آئے.بعض نادان لوگ ایسے موقع پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے کوشش کیوں کی جاتی ہے.وہ تو خدا کا وعدہ ہے بہر حال پورا ہوگا.ایسے اعتراضات تمام انبیاء پر کفار نے کئے اور اس زمانہ کے بدقسمت لوگوں نے بھی یہ اعتراض خدا کے مرسل حضرت مسیح موعود پر کئے کہ مثلاً مقدمہ کے وقت آپ نے پلیڈر کیوں کھڑا کیا.اور شادی کے موقع پر آپ نے خط و کتابت وغیرہ کوششوں میں کیوں حصہ لیا.تعجب ہے کہ یہ اعتراض خود مسلمان اور دوسرے اہلِ کتاب عیسائی بھی کرتے ہیں.جن کی کتب میں انبیاء کی اس سنت کی بہت سی نظیریں موجود ہیں.مسلمانوں کے واسطے تو خود یہی ایک قصہ کافی ہے جو اس سورہ شریف کے متعلق بیان ہوتا ہے اور عیسائیوں کے واسطے خود یسوع کی لائف میں بہت سے ایسے واقعات موجود ہیں.یسوع بچہ ہی تھا کہ اس کی جان بچانے کے واسطے اسے خفیہ طور پر ملک مصر میں لے گئے اور پھر عین نبوت کے زمانہ میں جب دشمنوں سے خوف بڑھا تو اپنے شاگردوں کو حکم کیا کہ کسو سے نہ کہنا کہ میں یسوع مسیح ہوں.پھر بزعم متی کی توریت کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے واسطے خود گدھی کا بچہ منگوایا تا کہ اس پر سوار ہو.غرض ایسے طریق پر اعتراض کرنا ایک جاہل متعصب کا کام ہے.خود دنیا کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ جب مثلاً ایک بادشاہ ایک محل کے تیار کرنے کے واسطے حکم کرتا ہے تو خدام اور ملازمین اس حکم کی تعمیل میں دل و جان سے مصروف ہو جاتے ہیں.اور وہ محل تیار ہو جاتا ہے.گو ظاہری نظر سے دیکھنے والا نادان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ حل فلاں معمار یا فلاں مزدور نے بنوایا ہے.تاہم دانا لوگ جانتے ہیں کہ اس محل کا اصل بانی بادشاہ کے منہ کا حکم ہے.ورنہ کسی کی کیا طاقت تھی کہ کوئی ایسا محل تیار کر دیتا.گو یہ مثال ادنیٰ درجہ کی ہے تاہم اس سے ایک فہیم سمجھ سکتا ہے کہ جس طرح انجینئر بادشاہ کا حکم پا کر
حقائق الفرقان ۴۵۹ سُوْرَةُ النَّصْرِ یقین کر لیتا ہے کہ اب مجھے اس محل کے تیار کرنے کے تمام سامان مہیا ہو جائیں گے اور کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے گی اور میں کامیاب ہو جاؤں گا.اور اس یقین کو ساتھ لے کر وہ کام شروع کر دیتا ہے.اور اس کے واسطے تمام اسباب بامراد ہونے کے بنتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح ایک مامور من اللہ خدا کے حکم پر پورا یقین اور ایمان رکھ کر اس کو پورا کرنے کے درپے ہو جاتا ہے.اس کا خود پیشگوئی کے پورا کرنے میں مصروف ہو جانا اس کے اعلیٰ ایمان اور یقین اور صداقت کی ایک بین دلیل ہوتی ہے.اگر اسے اس الہام کی سچائی پر یقین نہ ہوتا اور اس میں کچھ وہم اور وسوسہ ہوتا تو وہ ہرگز اس کی طرف متوجہ نہ ہوتا.کسی کو اللہ تعالیٰ فرمادے کہ تجھے بچہ دیویں گے اور تیری نسل سے ہو گا تو کیا وہ شکر نہ کرے.الغرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عازم بیت اللہ شریف ہوئے لیکن جب آپ مقام حدیبیہ پر پہنچے جو مکہ سے نو کوس کے فاصلہ پر ہے.تو آپ کو معلوم ہوا کہ کفار مکہ جنگ کے لئے آمادہ ہیں اور آپ کو زیارت کعبہ سے روکتے ہیں.آپ کی عادت تھی کہ باوجود مشرکین کی سختی کے ہمیشہ ان پر نرمی کرتے تھے.اور کبھی کسی معاملہ میں جس میں کسی کو ضرر ہو پیش دستی نہ فرماتے تھے.آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بمعہ دو اور اصحاب کے اہلِ مکہ کی طرف بھیجا کہ میں جنگ کے واسطے نہیں آیا.صرف زیارت کعبہ کے لئے آیا ہوں اور بعد زیارت کعبہ واپس مدینہ منورہ کو چلا جاؤں گا.حضرت عثمان جب کفار کے پاس پہنچے تو انہوں نے حضرت عثمان کو کہا کہ تم کعبہ کا طواف کرنا چاہتے ہو تو کر لو اور واپس چلے جاؤ.انہوں نے جواب دیا.میں اکیلا طواف نہیں کروں گا.جب حضرت رسول کریم کریں گے تو میں بھی کروں گا.اس قسم کی گفتگو میں قریش نے روک رکھا اور یہ خبر مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمان کو کفار مکہ نے قتل کر دیا اور ممکن ہے کہ ان کی نیت قتل کر دینے کی ہو.کیونکہ اسی وقت اپنی کفار مسلمانوں پر آ کر شب خون کرنے لگے مگر گرفتار ہو گئے.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی اس شرارت اور فساد کی خبر ملی تو آپ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ایک کیکر کے درخت کے نیچے ان سے بیعت لی.سب نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان کے
حقائق الفرقان سُوْرَةُ النَّصْرِ قربان کرنے کا صدق دل سے اقرار کیا.اتنے میں حضرت عثمان چند کفار کے ساتھ جو صلح کی شرائط کا فیصلہ کرنے آئے تھے پہنچ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کفار کی شرارتوں کے اور فساد کی نیتوں اور سخت شرائط پیش کرنے کے انہیں کی پیش کردہ سب باتیں مان کر صلح کر لی.جواشی آدمی کفار کے حملہ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے.وہ بھی چھوڑ دیئے اور ایسی شرطیں مان لیں جس سے کفار کا بڑا غلبہ اور رعب بظاہر معلوم ہوتا تھا.اور مسلمان بہت کمزور اور نیچے دکھائی دیتے تھے.چنانچہ ایک شرط ی تھی کہ اس سال بغیر زیارت کعبہ واپس چلے جائیں.پھر یہ کہ دوسرے سال آویں.دو تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں اور مسلمانوں کے ہتھیار بند ہوں.پھر ایک شرط یہ بھی کی تھی کہ اگر کوئی مسلمان مکہ سے بھاگ کر مدینہ میں چلا آئے تو اہل مکہ کو واپس کیا جائے.لیکن اگر کوئی شخص مدینہ سے بھاگ کر مکہ میں آجاوے تو اہلِ مکہ واپس نہ دیں گے.ایک شرط یہ بھی تھی کہ اہل مکہ میں سے جس قوم کی مرضی ہو.اس وقت مسلمانوں کی طرف ہو جائے اور جس کی مرضی ہو اہل مکہ کے ساتھ رہے اور آئندہ اس کے مطابق قوموں کی باہمی تقسیم رہے.چنانچہ ایک قبیلہ جس کا نام وائل تھا.قریش کے عقد و عہد میں ہوا.اور خزاعہ اسلامیوں کے طرفدار بن گئے.ان شرائط کے بعد پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم بدوں ادائے رسم حج مدینہ کو واپس چلے آئے اور اسی مقام حدیبیہ پر قربانی ذبح کر دی.اس صلح کا نام صلح حدیبیہ ہوا.حدیبیہ سے واپس ہوتے وقت ہو سورۃ فتح نازل ہوئی.جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے بعد واپس مدینہ کو تشریف فرما ہوئے تو کچھ عرصہ کے بعد کفار مکہ نے عہد و پیمان کو توڑ دیا.مکہ کے قبائل میں سے بنو بکر اس صلح کے شرائط کے مطابق قریش کے عقد و عہد میں ہوا تھا اور خزاعہ اسلامیوں کے طرفدار بن گئے تھے.بنو بکر اور خزاعہ میں باہم مدت سے جنگ و جدال چلا آتا تھا.اس وقت اسلام کے پھیلنے اور اسلامیوں کے مقابلہ کے نئے شغل نے ان دونوں قوموں کو باہمی جنگ کرنے سے روک رکھا ہوا تھا.اب جبکہ اہل مکہ اور اہل اسلام کے درمیان صلح ہوگئی.تو اس جنگجو
حقائق الفرقان ۴۶۱ سُوْرَةُ النَّصْرِ قوم کو نچلا بیٹھنا محال ہو گیا.لگے کوئی بہانہ لڑائی کا تلاش کرنے.نوفل بن معاویہ بن نفاثہ الدیلی بنو بکر میں سے ایک نامورسپاہی تھا.اس نے خزاعہ قوم پر شبخون مارا.خزاعہ کے لوگ اس وقت بے خوف و خطر و تیر نام چشمے پر غافل پڑے تھے.نوفل کے حملے سے چونک اٹھے اور لڑائی شروع ہو گئی.وہاں کفار مکہ نے پہلے تو ان کی امداد ہتھیاروں سے کی اور جب اندھیرا ہو گیا تو بنو بکر کے ساتھ شامل ہو گئے.جب بنوبکر کو اہلِ مکہ کی مدد ہو گئی تو خزاعہ قوم کمزور ہوگئی اور وہ بدیل بن ورقہ خزاعی اور رافع کے گھر میں پناہ گزین ہوئے.مگر خزاعہ بیچارے صبح تک بہت مارے گئے.صبح کے ہوتے ہی اپنی تباہ حالت کو دیکھ کر وہ بھاگ گئے اور انہوں نے اپنے مامن کو پہنچ کر عمر و بن سالم خزاعی کو چالیس آدمی کے ساتھ مدینہ کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں روانہ کیا.عمرو بن سالم نے عرب کے طریق و رواج کے مطابق اشعار میں اپنا حال حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.خزاعہ صلح نامہ کے مطابق اسلامیوں کی طرفدار قوم تھی اور تمام کفار مکہ کا ان کے برخلاف سازش کرنا اور ان کو اس طرح سے قتل کرنا دراصل اسی سبب سے تھا.ان واقعات اور سچے اقوال کو سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.نُصِرْتَ يَا عَمْرَو بْنَ سَالِمٍ.ادھر کفار مکہ کو اپنی کرتوت کا (جیسے ہر ایک گناہ کا نتیجہ افسوس ہوتا ہے ) افسوس ہوا اور پشیمان ہوئے اور ابوسفیان اپنے رئیس کو اس بد افعالی کے ثمرات سے بچ رہنے کی تدابیر کے واسطے مدینہ روانہ کیا.ابوسفیان کو یقین تھا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کو ہماری اس عہد شکنی کی اب تک خبر نہیں.اس خیال پر اس نے اپنے دل میں ایک چالا کی کی بات سوچی اور آنحضرت سے کہا کہ صلح حدیبیہ، کے وقت میں موجود نہ تھا.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آپ عہد سابق کی تجدید کریں.اس عہد نامہ کی تاریخ آج سے شروع ہو اور صلح کی مدت بڑھادی جاوے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بدعہد یوں کو بار بار دیکھ چکے تھے اور خزاعہ کے مقابلہ میں بنو بکر کی امداد خلاف عہد حدیبیہ کی خبر عمرو بن سالم کے ذریعہ پہنچ چکی تھی.آپ نے ابوسفیان کو جواب دیا کہ کیا تم نے کوئی عہد شکنی کی ہے.جو تم عہد کی تجدید چاہتے ہو.ابوسفیان نے کہا.معاذ اللہ ایسا نہ ہو.کیا ہم ایسے ہیں کہ عہد توڑ ڈالیں گے؟ تب آپ نے فرمایا
حقائق الفرقان ۴۶۲ سُورَةُ النَّصْرِ انتحال سابق عہد و پیمان کو رہنے دو.آخر ابوسفیان واپس مکے کو چلا گیا.ابوسفیان کے جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفیر مکہ کو بھیجا اور حسب دستور ملک بلکہ حسب قانون اخلاق کہلا بھیجا کہ یا تو خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہا دیدو.یا بنو بکر کی حمایت اور جانبداری سے الگ ہو جاؤ یا حدیبیہ کی صلح کا عہد جو ہمارے اور تمہارے درمیان ہے اسے پھیر دو.اہل مکہ نے خیال کیا کہ اہلِ اسلام ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں اور اس نصرت الہی اور امدا د خداوندی کو بھول گئے جو اسلام ہاں سچے اسلام کی ہمیشہ حامی و مددگار ہے.انہوں نے صلح کا عہد پھیر دیا.قطع عہد اور ان کی بے ایمانی اور خزاعہ کا بدلہ لینے کے لئے آپ نے مکہ پر چڑھائی کی چنانچہ مکہ فتح ہوا اور اس حملے میں وہ نرمی اور اخلاقی شریعت کی آپ نے پابندی کی جس کی نظیر دنیا میں مفقود ہے.فرمایا جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان.جو کوئی مسجد میں چلا جائے اسے امان.غرض مطابق پیشگوئی مکہ فتح ہوا اور کچھ بڑی خون ریزی نہ ہوئی.اور کوئی کافر بجبر مسلمان نہ کیا گیا.اس جگہ سارہ والے واقعہ کا بیان کر دینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا.اور وہ اس طرح سے ہے کہ سارہ نام ایک عورت جو کہ مکہ میں رہتی تھی اور خاندان بنی ہاشم کے زیر سایہ پرورش پا یا کرتی تھی.ان ایام میں جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے واسطے کوچ کی تیاری کی.آپ کے پاس مدینہ میں آئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تو مسلمان ہو کر مکہ سے بھاگ آئی ہے.اس نے جواب دیا کہ نہیں.میں مسلمان ہو کر نہیں آئی.بلکہ بات یہ ہے کہ میں اس وقت محتاج ہوں اور آپ کا خاندان ہمیشہ میری پرورش کیا کرتا ہے.اس واسطے میں آپ کے پاس آئی ہوں تا کہ مجھے کچھ مالی امداد مل جائے.اس پر آنحضرت نے بعض لوگوں کو فرمایا.اور انہوں نے اس کو کچھ کپڑا اور روپیہ وغیرہ دیا.جس کے بعد وہ واپس اپنے وطن کو روانہ ہو گئی.جب روانہ ہونے لگی تو خاطب نے جو کہ اصحاب میں سے تھا اس کو دش اور ہم دیئے اور کہا کہ میں تجھے ایک خط دیتا ہوں.یہ خط اہلِ مکہ کو دے دینا.اس بات کو اس نے قبول کیا اور وہ خط بھی لے گئی.اس خط میں حاطب نے اہل مکہ کو خبر کی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر چڑھائی کا ارادہ کیا ہے.تم ہوشیار ہو جاؤ.وہ
حقائق الفرقان ۴۶۳ سُوْرَةُ النَّصْرِ عورت ہنوز مدینہ سے روانہ ہی ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی الہی خبر مل گئی کہ وہ ایک خط لے کر گئی ہے.چنانچہ آپ نے اسی وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بمعہ عمار اور ایک جماعت کے روانہ کر دیا کہ اس کو پکڑ کر اس سے خط لے لیں.اور اگر نہ دے تو اسے ماریں.چنانچہ اس جماعت نے اس کو راہ میں جا پکڑا.اس نے انکار کیا اور قسم کھائی کہ میرے پاس کوئی خطا نہیں.جس پر حضرت علی نے تلوار کھینچ لی اور کہا کہ ہم کو جھوٹ نہیں کہا گیا.بذریعہ وحی الہی کے خبر ملی ہے.خط ضرور تیرے پاس ہے.تلوار کے ڈر سے اس نے خط اپنے سر کے بالوں میں سے نکال دیا.جب خط آ گیا اور معلوم ہوا کہ وہ حاطب کی طرف سے ہے تو حاطب بلایا گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ یہ تو نے کیا کیا.اس نے کہا مجھے خدا کی قسم ہے کہ جب سے میں ایمان لایا ہوں.کبھی کا فرنہیں ہوا.بات صرف اتنی ہے کہ مکہ میں میرے قبائل کا کوئی حامی اور خبر گیر نہیں.میں نے اس خط سے صرف یہ فائدہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ کفار میرے قبائل کو دکھ نہ دیں.حضرت عمرؓ نے چاہا کہ حاطب کو قتل کر دیں مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا اور فرمایا.اللہ تعالیٰ نے اصحاب بدر پر خوشنودی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ کرو جو چاہو.میں نے تمہیں بخش دیا.اس سورہ شریف کی تفسیر میں کئی ایک روایات اس قسم کی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعض صحابہ کرام نے اس سورۃ کے نزول کوسن کر یقین کیا کہ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اس دنیا پر جو تھا وہ ختم ہو چکا ہے.اور وقت آ گیا ہے کہ وہ اپنے محبوب حقیقی کے ساتھ وصالِ دائمی حاصل فرماویں.چنانچہ ایک حدیث جس میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے رونے اور پھر ہنسنے کا ذکر ہے گزشتہ پر چوں میں بیان کی جا چکی ہے.رونے کی وجہ یہ تھی کہ بیوی فاطمہ کو آنحضرت نے بتلایا کہ اب میری وفات کا وقت قریب ہے.پھر ہنسنے کی وجہ یہ ہوئی کہ آپ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بتلایا کہ میرے بعد میرے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میرے ساتھ ملنے والی تو ہے چنانچہ آنحضرت کی وفات کے صرف چھ ماہ بعد حضرت فاطمہ نے وفات پائی تھی.ایک روایت سے جو حضرت ام حبیبہ سے ہے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس سورہ شریف کے
حقائق الفرقان ۴۶۴ سُورَةُ النَّصْرِ نازل ہونے پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی تھی کہ آپ کی عمر حضرت عیسی کی عمر سے نصف ہے اور حضرت عیسی کی عمر ایک سو بیس سال تھی.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اس سورہ شریف کے وقت اس امر کے اشارہ کو سمجھ لیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وقت وفات قریب آ گیا ہے.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ میں امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ابھی بچہ ہی تھا.مگر جب کوئی مجلس شورای قائم ہوتی اور بڑے بڑے اصحاب جو اہلِ بدر تھے جمع کئے جاتے تو حضرت عمر مجھے بھی اس مجلس میں بلاتے.میری عمر کے لڑکے کا ایسی اہم مجلس میں بلایا جانا شائد کسی کو نا پسند ہوا ہو گا کہ کسی نے کہا کہ یہلڑ کا ہمارے بیٹوں کی عمر کے برابر ہے اور ہمارے ساتھ مجلس شوری میں بیٹھتا ہے.مگر حضرت عمرؓ نے جواب دیا کہ تم کیا جانتے ہو کہ یہ کون ہے.اس کے بعد جب پھر ایسا ہی کسی مجلس کا موقع ہوا اور سب بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے مجھے بھی بلایا اور میں دل میں سمجھ گیا کہ آج کچھ بات ضرور ہے چنانچہ جب سب جمع ہو گئے تو حضرت عمر نے اول دوسروں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ سورۃ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ کے متعلق تم کیا کہتے ہو.بعض نے کہا کہ اس میں ہم کو حکم دیا گیا ہے کہ حمد واستغفار کریں.بعض نے کہا کہ اس میں فتح و نصرت ہم کو دی گئی ہے.اور بعض خاموش رہے.تب حضرت عمرؓ نے مجھ سے پوچھا کہ تم کیا کہتے ہو.کیا یہی صحیح ہے.میں نے کہا نہیں.بلکہ میں یہ جانتا ہوں کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جتلایا گیا ہے کہ اب آپ کی وفات کا وقت قریب ہے.اب حمد و استغفار کرو.حضرت عمر نے فرمایا مجھے بھی یہی معلوم ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اس سورہ شریف کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں یہ دعا بہت پڑھتے تھے.سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوْبُ اِلَیهِ.اور ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے بیٹھتے ، آتے جاتے ، ہر وقت سُبحان اللہ و بحمدہ کہتے اور فرماتے کہ مجھے ایسا کہنے کے واسطے حکم دیا گیا ہے.اور اس سورۃ کو پڑھتے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ النَّصْرِ غرض بہت سی روایات سے یہ امر ظاہر ہے کہ اس سورہ شریف کے نزول کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعض احباب نے اس بات کو بخوبی سمجھ لیا تھا کہ چونکہ تبلیغ کا کام اپنے کمال کو پہنچ چکا ہے اور فتح و نصرت کا وقت آ گیا ہے.اور اب قو میں فوج در فوج داخل ہونے والی ہیں.تو اب وہ وقت آ گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس جہان فانی کو چھوڑ کر واصل باللہ ہو جاویں.افواج : جس سال یہ سورۃ نازل ہوئی.اس سال بہت سی قو میں فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئیں.کیونکہ مکہ فتح ہو گیا تھا اور کفار کے سرغنہ سب ہلاک ہو چکے تھے.اور کوئی رکاوٹ اب باقی نہ رہی تھی اور اسلام کی سچی اور راحت بخش تعلیم نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا ہوا تھا.صرف چند شریر لوگوں کی شرارت کا خوف درمیان میں تھا.کیونکہ وہ زمانہ امن کا نہ تھا.اور ہر ایک کو اپنی جان اور مال کا خطرہ رہتا تھا.بالخصوص غرباء امراء کے بہت ہی زیر اثر تھے.اور ان سے خوف کھاتے تھے.جب بڑے بڑے کفار ہلاک ہو گئے اور ان کے زور اور طاقت کی چار دیواری خاک میں مل گئی.تو لوگوں کے دل سیلاب کی طرح اسلام کی طرف جھکے اور قبائل کے قبائل یک دفعہ اسلام میں داخل ہو گئے.چنانچہ بنی اسد اور قریظہ اور بنی حرہ اور بنی التبکا اور بنی الکنانہ اور بنی ہلال اور بلخاء اور نجب اور دارم اور دوسرے قبائل تمیم اور قبائل عبد القیس اور بنی طی اور اہل یمن و شام و عراق وغیرہ کے اطراف واکناف سے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے اور بہت جلد تمام جزیرہ نمائے عرب اسلام میں داخل ہو گیا.اور جملہ قبائل عرب میں کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا.جس نے اظہار اسلام نہ کیا ہو.اہل یمن.ایک روایت میں ہے کہ اس سورہ شریف میں الناس سے مراد اہلِ یمن ہیں.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللهُ أَكْبَرُ جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ وَجَاءَ أَهْلُ الْيَمَنِ قَوْمُ رَقِيْقَةٌ قُلُوْبُهُمْ - الْإِيْمَانُ يمَانٍ وَالفِقْهُ يَمَانِ وَالْحِكْمَةُ يَمَانِيَةً وَ قَالَ أَجِدُ نَفَس رَبِّكُمْ مِن قِبَلِ الْيَمَنِ الله اكبر -
حقائق الفرقان ۴۶۶ سُوْرَةُ النَّصْرِ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح آئی.اور اہلِ یمن آئے.اہلِ یمن ایک قوم ہے جن کے دل نرم ہیں اور اہل یمن اہلِ ایمان اور اہلِ فقہ اور اہلِ حکمت ہیں اور فرمایا کہ مجھے یمن کی طرف سے تمہارے رب کی خوشبو آتی ہے.یعنی اہل یمن اہل اللہ ہیں.اہلِ یمن اس سورہ شریف کے نزول کے بعد ایمان لائے تھے.تسبیح تحمید و استغفار : اس میں اول تسبیح کا حکم ہے پھر تحمید کا.اور پھر استغفار کا.اس ترتیب میں یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات دو قسم پر ہیں.ایک صفات سلبیہ اور دوم صفات ثبویہ.صفات سلبیہ وہ ہیں.جو اللہ تعالیٰ کا تمام نقائص سے پاک اور منزہ ہونا اور اعلیٰ و برتر ہونا ظاہر کرتی ہیں.سلبیہ کے معنے ہیں سلب کر نیوالی ، کھینچنے والی.اور صفات ثبو یہ وہ ہیں.جو اللہ تعالیٰ کے اکرام اور عزت اور بلندی کا اظہار کرتی ہیں.اس ترتیب میں صفات سلبیہ کا پہلے ذکر کیا گیا ہے.اور صفات ثبویہ کو ان کے بعد لیا گیا ہے.تسبیح اللہ تعالیٰ کی جلالی صفات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ تمام بدیوں سے منزہ اور بے عیب اور پاک ذات ہے.تم بھی اس کی تسبیح کرو.یعنی اس کا مقدس اور پاک ہونا بیان کرو.اور اس کی تحمید کرو کہ وہ تمام حمد کا مالک ہے اور سچی تعریف اسی کے لائق ہے.اس کے بعد استغفار ہے جو کہ انسان کو اپنے قصور نفس اور کمزوری کی طرف توجہ دلاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بخشش کی طرف انسان کو کھینچتا ہے کہ اس کے سوائے انسان کا گزارہ نہیں اور انسان کے نفس کو کامل کرنے والی وہی ذات پاک ہے.جس کے ساتھ بچے اور خالص تعلق کے ذریعہ سے انسان بدیوں سے نجات پاسکتا ہے اور نیکیوں کے حصول کی اس کو تو فیق ملتی ہے.دِينِ الله : وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا اور تو نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ دین اللہ میں فوج در فوج داخل ہوتے.اس جگہ دین اللہ سے مراد دین اسلام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں لائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کا منشاء یہی تھا کہ مخلوق الہی دین اللہ میں داخل ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور قرآن شریف کے کلام الہی ہونے پر ایمان لاوے اور شعار اسلامی نماز روزہ حج زکوۃ کی پابند ہو.چنانچہ جب تک یہ سب کچھ ہو نہ لیا.لوگوں کا
حقائق الفرقان ۴۶۷ سُورَةُ النَّصْرِ دین اللہ میں داخل ہونا تسلیم نہ کیا گیا.قرآن شریف میں اور جگہ دین کے معنوں کی وضاحت کی گئی ہے.فرمایا ہے.اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ الله الْإِسْلامُ ( آل عمران : ۲۰) اللہ تعالیٰ کے حضور میں مقبول دین تو صرف اسلام ہی ہے.اور فرمایا وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ (آل عمران :۸۶) اور جو شخص اسلام کے سوائے اور کوئی دین چاہے گا.وہ ہرگز قبول نہ ہو گا.تعجب ہے کہ باوجود ایسی صریح آیات کے ہوتے اس زمانہ میں ڈاکٹر عبد الحکیم خاں جیسوں کی عقل ایسی ماری گئی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور قرآن شریف پر عمل کرنا کچھ ضروری نہیں اور نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ کی پابندی کی کوئی حاجت نہیں اور اسلام میں داخل ہونا ایک بے فائدہ امر ہے.صرف اللہ کو مان لو کہ وہ ہے اور اچھے اچھے کام کرو جو تمہاری نگاہ میں اچھے ہوں (خواہ نیوگ ہی کیوں نہ ہو ) تو بس نجات پا جاؤ گے.لفظ دین کے واسطے اور الفاظ بھی قرآن شریف میں آئے ہیں.جیسا کہ ایمان.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَبَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِينَ (الذاریات: ۳۷۳۶) ہم نے وقتِ عذاب مومنوں کو وہاں سے نکال دیا اور اس میں مسلمانوں کا صرف ایک ہی گھر ملا.اور صراط جیسا کہ فرمایا ہے.صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِي لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ (الشوری: ۵۴) راہ اللہ کی وہ اللہ کہ آسمان وزمین میں جو کچھ ہے.سب اُسی کا ہے اور ایسا ہی دین کے واسطے اور بھی نام ہیں.جیسا کہ كَلِمَةُ اللہ اور نُور اور ھدی اور عُروہ اور حبل اور صِبْغَةُ الله اور فطرة الله فضائل سورۃ النصر : حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سب سے آخر جو سورۃ یہ تمام و کمال اور پوری اتری وہ یہی سورۃ النصر ہے.اس کے بعد کوئی پوری سورۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں ہوئی.ایک حدیث میں آیا ہے کہ یہ سورۃ ربع القرآن ہے.یعنی قرآن شریف کی چوتھائی کے برابر ہے.یہ فضیلت بلحاظ اس شاندار پیشگوئی کے معلوم ہوتی ہے جس پر وہ مشتمل ہے اور بلحاظ لے ے اُس اللہ کی راہ کی طرف کہ اُسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے.
حقائق الفرقان ۴۶۸ سُوْرَةُ النَّصْرِ ان احکام تسبیح اور تحمید اور استغفار کے ہے جو کہ انسان کو اپنے کمال پر پہنچانے کے واسطے کمال درجہ کے ہتھیار ہیں.اسی سورہ شریفہ نے کفار مکہ کو باوجود ایسی سخت بغاوتوں اور سرکشیوں کے اور اذیت رسانیوں کے فتح مکہ کے وقت ہر طرح کے عذاب سے بچا لیا.اور آنحضرت نے اپنے خلق عظیم کے ساتھ سب کو معاف کر دیا اور فرما یالات قریب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ.بلکہ ان کے گناہوں کے واسطے خدا تعالیٰ کے حضور میں معافی چاہی.کیونکہ استغْفِرُ اللہ کا لفظ اسی امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور میں گناہ گاروں کے واسطے شفاعت کریں اور ان کو عذاب میں گرنے سے بچاویں.نئی فوجیں: یہ اللہ تعالیٰ کی فتح و نصرت کا وعدہ اور قوموں کے فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے کی پیشگوئی جو اس سورۃ شریف میں کی گئی ہے.اگر چہ اس کے پورا ہونے کا ابتدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا.تا ہم چونکہ مذہب اسلام ہمیشہ کے واسطے ہے.اس واسطے ظلی طور پر جب کبھی ضرورت ہو یہ وعدہ پورا ہوتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی جبکہ اسلام بہت ضعیف ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے ایک فرستادہ کے ذریعہ سے یہ خوشخبری دوبارہ سنائی ہے کہ اس کی طرف سے اسلام کے واسطے فتح و نصرت کا وقت پھر آ گیا ہے.اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور پھر اسلامیوں میں وہی روحانیت پھونکی جائے گی.مبارک ہیں وہ جو تکبر نہ کریں اور خدا کے کام کی عزت کریں تاکہ ان کے واسطے بھی عزت ہو.اے خدا ہمارے گناہوں کو بخش اور اپنے وعدوں کو پورا کر کہ تو سچے وعدوں والا ہے.اسلام کی عزت کو دنیا میں قائم کر دے اور اسلام کے دشمنوں کو ذلیل اور پست اور ہلاک کر دے خواہ وہ اندرونی ہوں یا بیرونی.کیونکہ اب تیری قدرت نمائی کا وقت ہے اور تو بڑی طاقتوں والا خدا ہے.آمین ثم آمین.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۲۸ / نومبر و ۵/ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸۰ تا ۳۸۳) یہ ایک مختصر اور چھوٹی سی سورۃ (النصر) قرآن شریف کے آخری حصہ میں ہے.مسلمانوں کے بچے علی العموم نمازوں میں اسے پڑھتے ہیں.اس پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو راضی
حقائق الفرقان ۴۶۹ سُوْرَةُ النَّصْرِ کرنے اور اس کی جناب میں قدم صدق پیدا کرنے کے لئے اور اپنی عزت و آبروکودنیا و آخرت میں بڑھانے کے واسطے انسان کو مختلف اوقات میں مختلف موقعے ملتے ہیں.ایک وہ وقت ہوتا ہے کہ جب دنیا میں اندھیر ہوتا ہے اور ہر قسم کی غلطیاں اور غلط کاریاں پھیلی ہوئی ہوتی ہیں.خدا کی ذات پر شکوک ، اسماء الہیہ میں شبہات ، افعال اللہ سے بے اعتنائی اور مسابقت فی الخیرات میں غفلت پھیل جاتی ہے اور ساری دنیا پر غفلت کی تاریکی چھا جاتی ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا کوئی برگزیدہ بندہ اہلِ دنیا کو خواب غفلت سے بیدار کرنے اور اپنے مولیٰ کی عظمت و جبروت دکھانے ، اسماء الہیہ وافعال اللہ سے آگاہی بخشنے کے واسطے آتا ہے تو ایک کمزور انسان تو ساری دنیا کو دیکھتا ہے کہ کس رنگ میں رنگین اور کس دھن میں لگی ہوئی ہے اور اس مامور کی طرف دیکھتا ہے کہ وہ سب سے الگ اور سب کے خلاف کہتا ہے گل دنیا کے چال چلن پر اعتراض کرتا ہے.نہ کسی کے عقائد کی پرواہ کرتا ہے.نہ اعمال کا لحاظ.صاف کہتا ہے کہ تم بے ایمان ہو اور نہ صرف تم بلکہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ ( الزوم:۴۲) سارے دریاؤں، جنگلوں، بیابانوں، پہاڑوں اور سمندروں اور جزائر ، غرض ہر حصہ دنیا پر فساد مچا ہوا ہے.تمہارے عقائد صحیح نہیں ، اعمال درست نہیں، علم بودے ہیں، اعمال ناپسند ہیں.قومی اللہ تعالیٰ سے دُور ہو کر کمزور ہو چکے ہیں.کیوں؟ بمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاس (الروم : ۴۲) تمہاری اپنی ہی کرتوتوں سے.پھر کہتا ہے.دیکھو میں ایک ہی شخص ہوں اور اس لئے آیا ہوں کہ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا ( الزوم:۴۲) لوگوں کو ان کی بد کرتوتوں کا مزہ چکھا دیا جاوے.بہت سی مخلوق اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ ان کے عدم اور وجود کو برابر سمجھتی ہے.اور بہت سے ایسے ہوتے ہیں کہ بالکل غفلت ہی میں ہوتے ہیں.انہیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کچھ مقابلہ وانکار پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں.جن میں اللہ تعالیٰ اپنی عظمت و جبروت دکھانا چاہتا ہے.وہ ان لوگوں کے مقابلہ میں جو مال و دولت، کنبہ اور دوستوں کے لحاظ سے بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوتے ہیں.بڑے بڑے رؤسا اور اہل تدبیر لوگوں کے مقابلہ میں ان کی کچھ ہستی ہی نہیں ہوتی.یہ اس مامور کے ساتھ ہو لیتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا
حقائق الفرقان ۴۷۰ سُوْرَةُ النَّصْرِ ہے؟ یعنی ضعفاء سب سے پہلے ماننے والے کیوں ہوتے ہیں؟ اس لئے کہ اگر وہ اہلِ دُول مان لیں.تو ممکن ہے خود ہی کہ دیں کہ ہمارے ایمان لانے کا نتیجہ کیا ہوا؟ دولت کو دیکھتے ہیں.املاک پر نگاہ کرتے ہیں.اپنے اعوان و انصار کو دیکھتے ہیں تو ہر بات میں اپنے آپ کو کمال تک پہنچا ہوا دیکھتے ہیں.اس لئے خدا کی عظمت و جبروت اور ربوبیت کا ان کو علم نہیں آ سکتا.لیکن جب ان ضعفاء کو جو دنیوی اور مادی اسباب کے لحاظ سے تباہ ہونے کے قابل ہوں.عظیم الشان انسان بنا دے اور ان رؤسا اور اہلِ دُول کو ان کے سامنے تباہ اور ہلاک کر دے تو اس کی عظمت و جلال کی چمکا رصاف نظر آتی ہے.غرض یہ سر ہوتا ہے کہ اوّل ضعفاء ہی ایمان لاتے ہیں.اس ڈبدا کے وقت جبکہ ہر طرف سے شور مخالفت بلند ہوتا ہے خصوصا بڑے لوگ سخت مخالفت پر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں.کچھ آدمی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چن لیتا ہے اور وہ اس راست باز کی اطاعت کو نجات کے لئے غنیمت اور مرنے کے بعد قرب الہبی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور بہت سے مخالفت کے لئے اٹھتے ہیں.جو اپنی مخالفت کو انتہا تک پہنچاتے ہیں.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد آ جاتی ہے.اور زمین سے آسمان سے، دائیں سے بائیں سے ، غرض ہر طرف سے نصرت آتی ہے اور ایک جماعت تیار ہونے لگتی ہے.اس وقت وہ لوگ جو بالکل غفلت میں ہوتے ہیں.اور وہ بھی جو پہلے عدم وجود مساوی سمجھتے ہیں آ آ کر شامل ہونے لگتے ہیں.وہ لوگ جو سب سے پہلے ضعف و ناتوانی اور مخالفت شدیدہ کی حالت میں آ کر شریک ہوتے ہیں.ان کا نام سابقین ، اولین ، مہاجرین اور انصار رکھا گیا.مگر ایسے فتوحات اور نصرتوں کے وقت جو آ کر شریک ہوئے.ان کا نام ناس رکھا ہے.یادرکھو جو پودا اللہ تعالیٰ لگاتا ہے اس کی حفاظت بھی فرماتا ہے.یہاں تک کہ وہ دنیا کو اپنا پھل دینے لگتا ہے.لیکن جو پودا احکم الحاکمین کے خلاف اس کے منشاء کے موافق نہ ہو.اس کی خواہ کتنی ہی حفاظت کی جاوے.وہ آخر خشک ہو کر تباہ ہو جاتا ہے اور ایندھن کی جگہ جلایا جاتا ہے.پس وہ لوگ بہت ہی خوش قسمت ہیں جن کو عاقبت اندیشی کا فضل عطا کیا جاتا ہے.اس سورہ شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کو ظاہر کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَسَيحُ
حقائق الفرقان ۴۷۱ سُوْرَةُ النَّصْرِ محمد ربك - اللہ کی تسبیح کرو، اس کی ستائش اور حمد کرو اور اس سے حفاظت طلب کرو.استغفار یا حفاظت الہی طلب کرنا ایک عظیم الشان سر ہے.انسان کی عقل تمام ذرات عالم کی محیط نہیں ہوسکتی.اگر وہ موجودہ ضروریات کو سمجھ بھی لے تو آئندہ کے لئے کوئی فتوی نہیں دے سکتی.اس وقت ہم کپڑے پہنے کھڑے ہیں.لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہی کی حفاظت اور فضل کے نیچے نہ ہوں اور محرقہ ہو جاوے تو یہ کپڑے جو اس وقت آرام دہ اور خوش آئند معلوم ہوتے ہیں ناگوار خاطر ہو کر موذی اور مخالف طبع ہو جاویں اور وبالِ جان سمجھ کر ان کو اتار دیا جاوے.پس انسان کے علم کی تو یہ حد اور غایت ہے.ایک وقت ایک چیز کو ضروری سمجھتا ہے اور دوسرے وقت اُسے غیر ضروری قرار دیتا ہے.اگر اسے یہ علم ہو کہ سال کے بعد اسے کیا ضرورت ہوگی؟ مرنے کے بعد کیا ضرورتیں پیش آئیں گی ؟ تو البتہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بہت کچھ انتظام کر لے.لیکن جبکہ قدم قدم پر اپنی لاعلمی کے باعث ٹھوکریں کھاتا ہے.پھر حفاظت الہی کی ضرورت نہ سمجھنا کیسی نادانی اور حماقت ہے.یہ صرف علم ہی تک بات محدود نہیں رہتی.دوسرا مرحلہ تصرفات عالم کا ہے.وہ اس کو مطلق نہیں.ایک ذرہ پر اسے کوئی تصرف واختیار نہیں.غرض ایک بے علمی اور بے بسی تو ساتھ تھی ہی.پھر بد عملیاں ظلمت کا موجب ہو جاتی ہیں.انسان جب اولاً گناہ کرتا ہے تو ابتدا میں دل پر نین ہوتا ہے پھر وہ امر بڑھ جاتا ہے.اور رین کہلاتا ہے اس کے بعد مہر لگ جاتی ہے.یہ چھا پا مضبوط ہو جاتا ہے.قفل لگ جاتا ہے.پھر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ بدی سے پیار اور نیکی سے نفرت کرتا ہے خیر کی تحریک ہی قلب سے اٹھ جاتی ہے اس کا ظہور ایسا ہوتا ہے کہ خیر و برکت والی جانوں سے نفرت ہو جاتی ہے.یا تو ان کے حضور آنے ہی کا موقع نہیں ملتا.یا موقع تو ملتا ہے لیکن انتفاع کی توفیق نہیں پاتا.رفتہ رفتہ اللہ سے بعد ملائکہ سے دوری اور پھر وہ لوگ جن کا تعلق ملائکہ سے ہوتا ہے ان سے بعد ہو کر کٹ جاتا ہے.اس لئے ہر ایک عقلمند کا فرض ہے کہ وہ تو بہ کرے اور غور کرے.ہم نے بہت سے مریض ایسے دیکھے ہیں جن کو میٹھا تلخ معلوم دیتا ہے اور تلخ چیزیں لذیذ معلوم ہوتی ہیں.کسی نے مجھ سے مُللذ نسخہ مانگا.میں نے اسے مصبر ، کچلہ ، شہد ملا کر دیا.اس نے کہا کہ
حقائق الفرقان ۴۷۲ سُوْرَةُ النَّصْرِ بڑا ملند ہے.یہ نتیجہ ہوتا ہے انسان کے معاصی کا.ان کی بصر اور بصیرت جاتی رہتی ہے.اور ان کی آنکھیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے چہروں پر نگاہ کر کے اہل بصر انہیں اسی طرح دیکھتے ہیں جیسے سانپ، بندر خنزیرکو دیکھتے ہیں.اس لئے مومن کو چاہیے کہ خدا کی حم اور تسبیح کرتا رہے اور اس سے حفاظت طلب کرتا رہے جیسے ایمان ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے.اسی طرح ہر برائی کا مجموعہ کفر کہلاتا ہے.ان کے ادنی اور اوسط اور اعلیٰ تین درجے ہیں.پس امید و بیم ، رنج و راحت عسر و یسر میں قدم آگے بڑھاؤ اور اس سے حفاظت طلب کرو.غور کرو.حفاظت طلب کرنے کا حکم اس عظیم الشان کو ہوتا ہے جو خاتم الانبیاء، اصفی الاصفیاء سید ولید آدم ہے صلی اللہ علیہ وسلم.تو پھر اور کون ہے جو طلب حفاظت سے غنی ہو سکتا ہے.مایوس اور ناامید مت ہو.ہر کمزوری غلطی ، بغاوت کے لئے دعا سے کام لو.دعا سے مت تھکو.یہ دھوکا مت کھاؤ.جو بعض ناعاقبت اندیش کہتے ہیں کہ انسان ایک کمزور ہستی ہے.خدا اس کو سزا دیکر کیا کریگا؟ انہوں نے رحمت کے بیان میں غلو کیا ہے.کیا وہ اس نظارہ کو نہیں دیکھتے کہ یہاں بعض کو رنج اور تکلیف پہنچتی ہے.پس بعد الموت عذاب نہ پہنچنے کی ان کے پاس کیا دلیل ہو سکتی ہے؟ یہ غلط راہ ہے جو انسان کو کمزور اورست بنا دیتی ہے.بعض نے یاس کو حد درجہ تک پہنچا دیا ہے کہ بدیاں حد سے بڑھ گئی ہیں.اب بیچنے کی کوئی راہ نہیں ہے.استغفار اس سے زیادہ نہیں کہ زہر کھا کرکلی کر لی.یہ بھی سخت غلطی ہے.استغفار انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اس میں گناہ کے زہر کا تریاق ہے.پس استغفار کو کسی حال میں مت چھوڑو.پھر آخر میں کہتا ہوں کہ نبی کریم سے بڑھ کر کون ہے.وہ اخشى لله ، أتقى اللهِ ، اَعْلَمُ بِاللہ انسان تھا.صلی اللہ علیہ وسلم.پس جب اس کو استغفار کا حکم ہوتا ہے تو دوسرے لا ابالی کہنے والے کیونکر ہو سکتے ہیں.پس جنہوں نے اب تک اس وقت کے امام راست باز کے ماننے کے لئے قدم نہیں اٹھایا.اور ڈبدا میں ہیں.وہ استغفار سے کام لیں کہ ان پر سچائی کی راہ کھلے اور جنہوں نے خدا کے فضل سے اسے مان لیا ہے وہ استغفار کریں تا کہ آئندہ کے لئے معاصی اور کسی لغزش کے ارتکاب سے بچیں اور حفاظت النبی کے نیچے رہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۵ مورخہ ۷ /فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۶.۷)
حقائق الفرقان ۴۷۳ سُوْرَةُ النَّصْرِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تین قسم کے لوگ ہوئے تھے.ایک وہ جو سابق اول من المہاجرین تھے.اور دوسرے وہ جو فتح کے بعد ملے ہیں.اور تیسرے اس وقت جو رایت النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَزْوَاجًا کے مصداق تھے.اسی طرح جو لوگ عظمت و جبروت الہی کو پہلے نہیں دیکھ سکتے.آخر ان کو داخل ہونا پڑتا ہے.اور اپنی بودی طبیعت سے اپنے سے زبر دست کے سامنے مامور من اللہ کو ماننا پڑتا ہے.اور بلکہ آخر يُغطوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَبِوَ هُمْ صَاغِرُونَ - (التوبہ:۲۹) کا مصداق ہوکر رہنا پڑتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۲ ، صفحه ۵) قرآن شریف کے ابتدا کو آخر سے ایک نسبت ہے.پہلے مُفْلِحُونَ فرمایا ہے تو اِذَا جَاءَ نَصُرُ اللهِ وَالْفَتْحُ میں اس کی تفسیر کر دی اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کی تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ میں اور ضَالِينَ كارو قُلْ هُوَ الله احد میں کر دیا ہے.غرض عجیب ترتیب سے ان تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے.بدر جلد ۸ نمبر ۵۲ مورخه ۲۱/اکتوبر ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۰) لے وہ جزیہ دیں اپنے ہاتھ سے اور وہ بے قدر ذلیل ہوں.
حقائق الفرقان ۴۷۴ سُوْرَةُ اللَّهَبِ سُوْرَةُ اللَّهَبِ مَكَيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - اس اللہ کے نام کی برکت سے پڑھنا شروع کرتا ہوں جو ہر قسم کے لہب وہلاکت سے بچانے والا نیک و بد کوشش کا نتیجہ دینے والا ہے.۲ تا ۵- تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَ تَبَّ مَا أَغْنى عَنْهُ مَالُهُ وَ مَا كسَبَ - سَيَصْلُ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ وَ امْرَأَتُه حَمالَةَ الحطب - في جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَد - ترجمہ.ہلاک ہوویں ہر دو ہاتھ ابی لہب کے اور ہلاک ہوا وہ نہ کفایت کیا اس سے اس کے مال اور اس کی کمائی نے وہ جلد داخل ہوگا آگ میں جو شعلہ والی ہے اور اس کی جورواٹھانے والی لکڑیوں کی اس کی گردن میں رسی ہے بٹی ہوئی.تفسیر.عربی تفسیر سے با محاورہ ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اس سورۃ شریف کو شروع کیا جاتا ہے.وہ اللہ جو سب کی پرورش کرتا ہے اور محنت کر نیوالے کو اس کی محنت کا پھل دیتا ہے.ابولہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہوں جن کے ساتھ وہ بدی کے کام کرتا ہے اور وہ تو ہلاک شدہ انسان ہے کیونکہ ایسے بدعمل اسے کب تک مہلت دیں گے.وہ سب مال جو اس کے پاس ہے اور سب کچھ جو اس نے کمایا ہے.ان میں سے کوئی شے وقت عذاب کام نہ آئے گی.وقت قریب آتا ہے کہ وہ آگ میں ڈالا جائے گا اور یہی حال اس کی عورت کا ہوگا.جو لکڑیوں کے گٹھے اٹھایا کرتی ہے.اس کی گردن میں بٹی ہوئی رسی ہے.اس سورہ شریف کا نام سورہ تبت ہے اور اس کو سورۃ ابی لہب بھی کہتے ہیں.یہ سورۃ مکہ معظمہ میں
حقائق الفرقان ۴۷۵ سُوْرَةُ اللَّهَبِ اتری ہے.اس سورۃ میں بسم اللہ کے بعد پانچ آیتیں اور بین " کلمات اور اکیا سی حروف ہیں.تشریح و معانی الفاظ : ثبت.ہلاک باد.نابود بود نابود ہو جائیں.یہ لفظ تباب سے مشتق ہے.تباب کے معنے ہیں ہلاکت.عرب میں ایک محاورہ ہے شابةٌ آم تابة اسی معنی میں یہ لفظ قرآن شریف میں اور جگہ بھی آیا ہے.قال الله تعالى وَمَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابِ ( المومن : ۳۸) فرعون کی تدابیر کا نتیجہ ان کے حق میں سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں.کا فر بھی کامیاب نہیں ہوسکتا.اس کی تمام تدابیر ضائع جاتی ہیں.تبت کے دوسرے معنے نقصان اور گھاٹے ہیں.فتح البیان میں تبت کے معنے خَسِرَتْ وَ خابَتْ وَ ضَلَّتْ لکھا ہے یعنی گھاٹے میں پڑا اور نامراد ہوا اور گمراہ ہوا.قرآن شریف میں کفار کے حق میں ہے.وَمَازَادُوهُمْ غَيْرَ تَثْبِيبِ (هود:۱۰۲) ان کو کچھ زیادہ نہ ملا.یعنی کچھ فائدہ نہیں.صرف نقصان ہی ہوا.غرض تبت کے دو معنے ہیں.ہلاکت اور نقصان اور گھاٹا اور مال ہر دو معنوں کا ایک ہی ہے.تباہی ، ناکامی اور نامرادی.يدا: ہر دو دست.دونوں ہاتھ.یذ کا تثنیہ ہے.ید کے معنے ایک ہاتھ.یہا کے معنے دو ہاتھ.آیدی کے معنے بہت ہاتھ.تبت يدا کے معنے دونوں ہاتھ ہلاک ہوں.آبی لھب.کفار مکہ کے اکابر میں سے ایک شخص تھا.رشتہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چھا تھا.ابی لہب اس کی کنیت تھی اور اس کا اصل نام عبد العڑی تھا.عرب میں ہر شخص کو بہ سبب عزت کے کنیت سے بلاتے تھے.اور اصل نام کی بجائے اکثر لوگ کنیت کے ساتھ زیادہ معروف ہوتے تھے.لھب کے معنے ہیں شعلہ اور آب کے معنے باپ.آپی لھب کے معنے ہوئے شعلہ کا باپ.بعض کا قول ہے کہ اس نے تکبر کے طور پر اپنے لئے یہ کنیت پسند کی تھی.ابو لہب اس واسطے بھی اسے کہتے تھے کہ اس کا چہرہ بہت سرخ تھا.ی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہایت عداوت رکھتا تھا.اور عداوت کی وجہ سوائے اس کے نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو حید کا وعظ فرماتے تھے.اور یہ بت پرست تھا.رات دن حضرت کو تکلیف دینے کے درپے رہتا تھا.جو لوگ باہر سے آتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملنا
حقائق الفرقان سُوْرَةُ اللَّهَبِ چاہتے.ان کو آگے جا کر راستہ ہی میں ملتا.اور بڑے تکلف اور تکبر کے ساتھ باتیں کرتا ہوا ان کو سمجھا تا کہ دیکھو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مجنون ہے.ہم اس کے چا ہیں.وہ ہمارا بیٹا ہی ہے.ہم اس کا علاج کر رہے ہیں.تم اس کے پاس مت جاؤ.بعض کو کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر کسی نے جادو کیا ہوا ہے.ایسے جادوزدہ شخص کے پاس جا کر تم کیا لو گے.بہتر ہے کہ یہیں سے واپس چلے جاؤ.چنانچہ اس طرح کی باتیں بنا بنا کر لوگوں کو واپس کرنے کی کوشش کرتا رہتا.بعض بد قسمت اس کا کہنا مان لیتے اور واپس چلے جاتے.اور جو لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے.وہ تو کہتے کہ ہم تو اس کو ملنے کے واسطے آئے ہیں.کچھ ہی ہو.اب تو ملاقات کر کے ہی واپس جائیں گے.ایسے لوگوں پر خفا ہوتا اور پھر جھنجھلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا.اور بعض کے کانوں میں روئی ڈال دیتا کہ اچھا تم ضرور جانا چاہتے ہو تو جاؤ مگر اس کی باتیں نہ سننا کیونکہ اس کی باتوں میں ایک جادو ہے وہ تم پر اثر کر جائے گا تو تم بھی اس کے ساتھ شامل ہو جاؤ گے.چنانچہ ایک صحابی کے ساتھ ایسا ہی کیا اور اس کے ساتھ ایک آدمی بھی لگایا کہ جلد اس کو واپس لے آنا.زیادہ دیر تک وہاں بیٹھنے نہ دینا.ورنہ ( نعوذ باللہ ) خراب ہو جائے گا.مگر وہ خدا کا بندہ ہو شیار آدمی تھا.اس نے تھوڑی دور جا کر اس آدمی کو واپس کر دیا کہ تم جاؤ.میں خودا اپنا راستہ تلاش کرلوں گا.اور روئی کو کانوں میں سے نکال کر پھینک دیا.ربیعہ بن عباد سے روایت ہے وہ کہتا ہے.میں نے ایک دفعہ...حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے زمانہ رسالت میں دیکھا کہ آپ سوق ذی الحجاز میں کہ رہے تھے.اے لوگو! تم لا إلهَ إِلَّا الله کہو توتم اپنی مراد کو پہنچ جاؤ گے.بہت سے لوگ آپ کے پاس جمع تھے اور آپ کا وعظ سن رہے تھے.آپ کے پیچھے ایک شخص سرخ چہرے والا اور احول لوگوں کو بہکاتا تھا کہ یہ شخص صابی ہے اور جھوٹ بولتا ہے.جدھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جاتے وہ بھی آپ کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو بہکا تا کہ ہی خص تم کولات اور عزمی کی عبادت سے منع کرتا ہے.اس کے پیچھے مت جاؤ اور اس کی پیروی نہ کرو.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ شخص کون ہے.تو انہوں نے کہا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو تبلیغ کی تو اس نے سختی سے انکار کیا.تب آپ نے خیال
حقائق الفرقان ۴۷۷ سُوْرَةُ اللَّهَبِ کیا کہ یہ متکبر آدمی ہے.لوگوں کے سامنے اس کو سمجھانا مفید نہیں پڑتا.شاید کہ اس کو علیحدگی میں سمجھایا جاوے تو ہدایت کی راہ پر آجاوے اور جہنم میں گرنے سے بچ رہے.اس واسطے آپ رات کے وقت اس کے مکان پر گئے اور ایسا کرنے میں آپ نے حضرت نوح علیہ السلام کی سنت کو ادا کیا.کیونکہ حضرت نوح نے کہا تھا اِنِّي دَعَوْتَ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا ( نوح: 1) میں نے رات کے وقت بھی انہیں تبلیغ کی اور حق کی طرف بلایا اور دن کو بھی بلایا جب آنحضرت اس کے مکان پر پہنچے تو کہنے لگا کہ شاید آپ نے دن کے وقت جو کچھ کہا تھا اس کے متعلق عذر کرنے کے لئے اس وقت آئے ہیں.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے ادب سے بیٹھ رہے اور اسے اسلام کی طرف بہت تبلیغ کی.پر اس پر کچھ اثر نہ ہوا.حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے زمانہ بعثت میں تبلیغ عام طور پر نہ کرتے تھے.یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ (الشعراء: ۲۱۵) اپنے قریبی قبائل کو آنے والے عذاب سے ڈراؤ.تب آپ کو ہ صفا پر چڑھ گئے اور پکارا.اے آلِ غالب.تب قبیلہ غالب کے لوگ جمع ہو گئے.اور ابولہب نے کہا.لے آل غالب آ گئے.اب بتا تیرے پاس کیا ہے تب آپ نے پکارا یا آل لوئی.اس وقت قبیلہ لوئی جمع ہوا.پھر ابولہب نے وہی کلمات کہے.تب آپ نے آلِ مرہ کو پکارا.اسی طرح پھر آل کلاب اور آل قصی کو پکارا.ہر دفعہ ابولہب ایسا ہی کہتا رہا.جب سب جمع ہو گئے.تب آپ نے فرما یلان الله أَمَرَنِي أَنْ أَنْذِرَ عَشِيْرَتي الْأَقْرَبِينَ وَأَنْتُمُ الْأَقْرَبُونَ اعْلَمُوا أَنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ الدُّنْيَا حَظًّا وَلَا مِنَ الْآخِرَةِ نَصِيبًا إِلَّا أَنْ تَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ فَأَشْهَدُ بِهَالَكُمْ عِنْدَ رَبِّكُمْ - اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اپنے قریبی قبائل کو ڈراؤں.سو تم میرے قریبی ہو.تم یاد رکھو کہ میں نہ دنیا میں تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتا ہوں اور نہ آخرت سے تمہیں کچھ حصہ دلا سکتا ہوں جب تک کہ تم اس بات پر ایمان نہ لاؤ کہ معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں.اگر تم میرا یہ کہنا مان لوتو اللہ تعالیٰ کے حضور اس معاملہ میں میں تمہارے حق میں شہادت دوں گا.ابولہب نے یہ کلمہ سن کر کہا.تَبَّالَكَ أَلِهَذَا دعوتنا تجھ پر ہلاکت ہو.کیا اسی واسطے تو نے ہم کو پکارا تھا.اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
۴۷۸ سُوْرَةُ اللَّهَبِ حقائق الفرقان پر یہ سورہ نازل ہوئی اور وہی ہلاکت کی بددعا جو ابولہب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کی تھی.الٹ کر خود اسی پر پڑی.یہ ایک مباہلہ تھا جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس کا فرنے کیا تھا اور اس قسم کے مباہلوں کی مثالیں خود اس زمانہ میں بھی قائم ہو چکی ہیں.جن میں سے ایک مولوی غلام دستگیر قصوری کا مباہلہ ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ مباہلہ کیا تھا اور ایک کتاب میں لکھا تھا کہ اگر وہ جھوٹے ہیں تو وہ ہلاک ہو جائیں اور اگر ان کو جھوٹا کہنے میں میں جھوٹا ہوں تو میں ہلاک ہو جاؤں.چنانچہ اس کے بعد بہت جلد وہ ہلاک ہو گیا.ایسا ہی علی گڑھ کا مولوی اسمعیل مسیح موعود کے مقابلہ میں مباہلہ کر کے ہلاک ہوا اور ایسا ہی جموں والا چراغ دین عیسائیوں کا دوست اور خود مسیح ہونے کا مدعی وہ بھی مباہلہ کے بعد واصل جہنم ہوا.پھر آ جکل ڈاکٹر عبدالحکیم نے اس مباہلہ میں پیش دستی کر کے حضرت مسیح موعود کے حق میں تین سال کے اندر مر جانے کی پیشگوئی کی ہے.دنیا عنقریب دیکھ لے گی کہ اس کا یہ کلمہ کس کو جھوٹا اور کس کو سچا ثابت کر کے دکھا دیتا ہے.مگر جن بدقسمتوں نے پہلے اس قدر واقعات سے فائدہ نہیں اٹھا یا وہ اب کیا نفع حاصل کر سکتے ہیں؟ وتب: اور ہلاک ہو گیا وہ.تبت يدا أبي لَهَبٍ وتَبَ ( اللهب : ۲) ہلاک ہوں ہر دو ہاتھ ابی لہب کے اور ہلاک ہوا وہ.ہر دو ہاتھ سے مراد اس کا سارا وجود ہے یا اس کا دین اور دنیا.یا اس کی اولاد ہے کیونکہ اس کو نہ دنیا میں کوئی آرام پہنچا اور نہ دین کے معاملہ میں اس کو کوئی کامیابی حاصل ہوئی.ہر طرف سے وہ خائب و خاسر ہی رہا.ابن وقاب نے لکھا ہے کہ تبت کے معنے صفِرت ہیں.یعنی خالی رہے.ہاتھوں کی طرف اشارہ اس واسطے بھی ہے کہ اس کا خیال تھا کہ میرا ہاتھ غالب رہے گا.اور میں رسول کے مقابلہ میں فتح مند رہوں گا.مگر خدا تعالیٰ نے اس کو عذاب کے ساتھ جلد موت دی.بعض نے لکھا ہے کہ تبت سے اشارہ اس کے بیٹے عتبہ کی طرف ہے.اگر بیٹے کی طرف اشارہ ہو تو بیٹے کی ہلاکت بھی باپ کی ہلاکت ہے.اور واقعات یہ ہیں کہ دونوں ہلاک ہوئے تھے.اس کے بیٹے عتبہ کا ذکر ہے کہ وہ تجارت کے واسطے شام کو گیا ہوا تھا.وہاں سے اہل قافلہ کے ذریعہ سے آنحضرت گو کہلا بھیجا کہ تم
حقائق الفرقان ۴۷۹ سُوْرَةُ اللَّهَبِ محمد کو جا کر کہہ دینا کہ میں اسی وحی کا کافر ہوں جو تم پر اتری ہے.اور شرارت میں ہمیشہ مبالغہ کیا کرتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں بددعا کی تھی کہ اللَّهُمَّ سَلْطَ عَلَيْهِ كَلْبًا مِنْ كلابك چنانچہ ایک جنگل میں شیر نے اسے پھاڑ کھایا.الغرض ابولہب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سخت دشمن تھا ہمیشہ ایذا دہی کے درپے رہتا تھا.اور آپ کے حق میں ہلاکت کی بددعا کیا کرتا تھا.وہی بددعا بالآخر الٹ کر اس کے اپنے سر پر جا پڑی اور وہ دین ودنیا میں خائب و خاسر ہو کر ہلاک ہو گیا.ما اغلى عنه : نہ کفایت کیا اس سے.اس کے کسی کام نہ آیا.بیچ دفع نہ کرداز اؤ." مَالُهُ وَ مَا كَسَب: اس کا مال اور جو کچھ اس نے کمایا.مَا كَسَب.جو کچھ اس کی کمائی ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد اس کی اولاد ہے.ما اغلى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبْ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کوئی چیز اس کے کام نہ آئی.خدا کے عذاب سے نہ اس کو اپنا مال چھڑا سکا اور نہ اس کی اولاد اس کے کسی کام آئی.اس میں ایک پیشگوئی بھی ہے کہ باوجود مالدار ہونے کے اور صاحب اولا د ہونے کے اور قوم کے درمیان معزز ہونے کے اس کی تمام کوششیں جو کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں کر رہا ہے.سب کی سب اکارت جائیں گی.وہ اپنی کسی کوشش میں کامیاب نہ ہو گا.بلکہ ایک نامرادی کی موت مرے گا.اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بڑا بھاری نشان ہے.کیونکہ یہ آیات ایسے وقت نازل ہوئی تھیں.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنوز مکہ شریف میں رہتے تھے.اور صرف چند آدمی آپ کے ساتھ تھے.اور بظاہر کوئی رعب آپ کا لوگوں پر نہ تھا.بلکہ سب لوگ ہنسی ٹھٹھا کرتے اور ایذاء دیتے اور تمام قوم آپ کی دشمن تھی اور اپنے کیا بیگانے سب بگڑے ہوئے تھے.کوئی شخص مسلمانوں میں داخل ہونے کی جرات بمشکل تمام کر سکتا تھا.جو مسلمان ہو جاتا.وہ بھی اپنے آپ کو خفیہ رکھتا.غرض ایسے وقت میں جبکہ دنیا دارنظر بہ ظاہر حالات کر کے یہ خیال کرتے تھے کہ یہ سلسلہ ایسا کمزور ہے کہ آج ٹوٹا یا کل.ایسے ا اے اللہ ! تو اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مسلط کر دے.۲؎ اس کا کوئی دفاع نہ کیا.
حقائق الفرقان ۴۸۰ سُوْرَةُ اللَّهَبِ وقت میں یہ پیشگوئی کی گئی کہ خدا تعالیٰ ہم کو کامیاب کرے گا اور یہ اشد دشمن ابولہب جیسا قوم کا سردار نامرادی کے گڑھے میں گر جائے گا.یہ خدا تعالیٰ کے عجائبات کے نمونے ہیں.جن کے ذریعہ سے وہ اپنے بندوں کی سچائی دنیا پر روشن کر دیتا ہے.اور وہ دکھا دیتا ہے کہ بے شک یہ اس کی طرف سے مبعوث ہے ورنہ ایک انسان عاجز کا یہ حوصلہ نہیں کہ ایسی بے کسی اور بے بسی کے وقت میں اتنا بڑا دعوی کرے خدا تعالیٰ ظاہر میں لوگوں کو دکھائی نہیں دیتا.پر وہ اپنے عجائب در عجائب کاموں سے پہچانا جاتا ہے جس زمانہ میں حضرت مرزا صاحب قادیان کے گاؤں میں ایک گوشہ نشین شخص تھے.اور ایک مہمان بھی کبھی آپ کے پاس نہ آتا تھا اور رات دن تنہائی میں خدا کی عبادت کرتے ہوئے گزرتی تھی.اس وقت خدا نے یہ الہام کیا کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ آئیں گے اور دور دور سے تحائف اور ھدایا بھی تیرے لئے لائیں گے.اس وقت ممکن ہے کہ خود مہم کو بھی اس پر تعجب ہوا ہو کہ مجھے تو نہ کوئی جانتا ہے اور نہ میں چاہتا ہوں کہ مجھے کوئی جانے اور میں تو اس کو دوست رکھتا ہوں کہ خلوت میں بیٹھا رہوں اور اپنے خدا کی عبادت میں مصروف رہوں.یہ کیا بات ہے کہ دور دور سے لوگ آئیں گے اور تحفے تحائف بھی لائیں گے مگر قدرت خداوندی اسی طرح سے ہے کہ جو دنیا کو خدا کے واسطے لات مارتا ہے دنیا اسی کی خادم بنائی جاتی ہے اور جو اس کے پیچھے دوڑتا ہے.وہ اس کے آگے سے بھاگتی ہے اور اس کو ہمیشہ حسرت اور نا کامی کی حالت میں رکھتی ہے.سَيَصْلى تارا : جلد داخل ہو گا آگ میں.زُود باشد که در آید باتش.عنقریب آگ میں ڈالا جائے گا.نار سے مراد دو طرح کی آگ ہے.اول اسی دنیا میں نامرادی اور ناکامی کے ساتھ ہلاکت کی آگ کہ باوجو د رات دن کی جان توڑ کوششوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلسلہ دن بدن ترقی پکڑتا گیا اور وہ ترقی ہر وقت اس کے دل کو ایک سوزش اور جلن میں ڈالتی تھی اور آخر اس کی موت بھی طاعون سے ہوئی جو ایک عذاب کی موت ہے اور اس دنیا کے عذاب کے ساتھ آخرت کے عذاب کی جو پیشگوئی کی گئی ہے اس کا سچا ہونا امراول کے پورا ہو جانے سے ثابت ہوتا ہے.ذَاتَ لَهَبٍ: شعلوں والی.وہ آگ جس سے شعلے نکلتے ہیں.اس جگہ لہب کے لفظ میں وہ خوبی
حقائق الفرقان ۴۸۱ سُوْرَةُ اللَّهَبِ ہے کہ خود اس کا نام بھی ابو لہب تھا جو کہ اس نے تکبر اور غرور کے سبب اپنے لئے پسند کیا ہوا تھا.اس آیت شریف پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی اور دوسری آیت تو صیغہ ماضی میں بیان کی گئی ہیں کہ وہ ہلاک ہو گیا اور اس آیت شریف میں صیغہ استقبال استعمال کیا گیا ہے کہ وہ آگ میں داخل ہو گا.اس میں کیا حکمت ہے.سو واضح ہو کہ دراصل یہ ایک پیشگوئی ہے.اور جس وقت سنائی گئی.اس وقت ابولہب چنگا بھلا تھا اور بڑے زور میں تھا.اور قوم میں معزز تھا اور آنحضرت ایک بے کسی اور بے بسی کی حالت میں تھے.لیکن اللہ کے رسول کی تکالیف کو دیکھ کر آسمان پر یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ ان تکالیف کا اب خاتمہ ہو جاوے اور ابولہب ہلاک ہو جاوے.چونکہ کوئی کام زمین پر نہیں ہوتا جب تک کہ پہلے آسمان پر نہ ہو لئے.اس واسطے جس امر کا فیصلہ آسمان پر ہو جاوے.اُس کو ہو گیا ہوا بتایا جاتا ہے.کیونکہ وہ خدا کا حکم ہے اور یقینی پیشگوئی ہے.اور حتمی وعدہ ہے.اس واسطے پہلے سے منادی کی گئی کہ ابولہب ہلاک ہو گیا.حضرت ابورافع فرماتے ہیں کہ میں عباس بن عبد المطلب کا غلام تھا اور ہمارے گھر میں اسلام داخل ہو چکا تھا کیونکہ حضرت عباس مسلمان ہو چکے تھے.اور ام الفضل بھی اسلام میں داخل ہو گئی تھی.اور میں بھی مسلمان ہو گیا تھا لیکن ہم لوگ قوم سے ڈرتے تھے.اور عام طور پر اپنے اسلام کو ظاہر نہ کرتے تھے کہ زمانہ ابتدائی تھا اور لوگ سخت دکھ دیتے تھے.جنگ بدر کے موقع پر ابولہب خود نہ گیا تھا.بلکہ اپنی جگہ اور آدمیوں کو بھیج دیا تھا.جب خبر آئی کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم میں قوت پیدا ہوئی اور ہم بہت خوش ہوئے.میں اور ام الفضل ایک جگہ بیٹھے تھے.اوپر سے ابولہب آیا اور وہ بھی بیٹھ گیا.اتنے میں ابوسفیان جنگ سے واپس آیا.ابولہب نے اس سے جنگ کی کیفیت پوچھی.ابوسفیان نے منجملہ اور باتوں کے بیان کیا کہ عجب بات یہ ہے کہ ہمارے مقابلہ میں کچھ گورے رنگ کے سوار بھی تھے.جو آسمان اور زمین کے درمیان میں تھے.میں نے کہا کہ وہ خدا کے فرشتے تھے.میرا یہ کہنا تھا کہ ابولہب اٹھا اور مجھے مارنے لگا لیکن ام الفضل نے مجھے چھڑایا اور ابولہب کو مارا اور لعنت ملامت کی اس کے سات دن بعد اس کے ہاتھ پر ایک پھوڑا نکلا اور اسی سے مر گیا.
حقائق الفرقان ۴۸۲ سُوْرَةُ اللَّهَبِ وَامْراتُه حَمَّالَةَ الْحَطَبِ : اور اس کی جور و اٹھا نیوالی لکڑیوں کی.ابولہب کی جورو کا نام ام جمیل تھا.حرب کی بیٹی تھی اور ابو سفیان کی بہن.آنحضرت کے ساتھ عداوت اور بغض میں اپنے خاوند کی طرح تھی.ہمیشہ آپ کو دکھ دینے کے درپے رہتی تھی.اس آیت شریف میں اس کے خاوند کا نام ابولہب اور اس کا نام حَمَّالَةَ الْعَطب ایک عجیب صفت ہے.جو اپنے اندر حقیقی اور لطیف معانی رکھتے ہیں.اس کے خاوند کی عادت تھی کہ لوگوں کو آنحضرت کے برخلاف جنگ و جدال پر آمادہ کرتا رہتا تھا.لہب سے مراد شعلہ آتشِ جنگ ہے.ابولہب وہ شخص ہے جو جنگ پر لوگوں کو برانگیختہ کرتا ہے.حَمَّالَةَ الْحَطب لکڑیوں کے اٹھانے والی وہ ہے جو اس شعلہ کو بھڑ کانے کے واسطے اس میں ایندھن ڈالتی رہتی ہے.اس عورت کی عادت تھی کہ ہر جگہ جھوٹی باتیں بنا کر آنحضرت کے برخلاف مخالفت کی آگ کو بھڑکاتی رہتی تھی.سخن چینی کے ذریعہ سے مخالفت کی آگ کا بھر کا نا اس کا پیشہ تھا.اور اسی آگ میں وہ خود بھی بمعہ اپنے خاوند کے ہلاک ہوئی.شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایا ہے.میاں دو کس جنگ چون آتش است سخن چین بدبخت بیرام کش است لے کنند ایں و آں خوش و گر با رہ دل ولے اندر میاں کور بخت و فجل میاں دوکس آتش افروختن نہ عقل است خود درمیاں سوختن کے بخاری شریف میں آیا ہے.قال مجاهد حمالة الحطب تَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ حَمَّالَةَ الْعَطَبِ وه ہے جو چغل خوری کرتی پھرتی ہے.کہتے ہیں.اس کی عادت تھی کہ گھر میں جلانے کے واسطے لکڑیاں خود جنگل میں جا کر چلتی تھی اور اکٹھی کر کے خود اٹھا کر لاتی تھی.اس واسطے بھی اس کا نام حمالة العطب تھا اور آنحضرت کے ساتھ ایسی دشمنی رکھتی تھی کہ جنگل سے کانٹے اور خس و خاشاک اکٹھے کر لے دولوگوں کے درمیان جنگ آگ کی مانند ہوتی ہے اور چغل خور اس آگ کا ایندھن لانے والا ہوتا ہے.چغل خور لوگ اس کو اور اس کے دل کو دوبارہ خوش کرتے ہیں لیکن باطنی طور پر وہ بد بخت اور خوار ہوتے ہیں.دولوگوں کے درمیان جنگ کی آگ بھڑ کا نہ عقلمندی نہیں ہے بلکہ خود کو بھی اس میں جلانے کا باعث ہے.
حقائق الفرقان ۴۸۳ سُوْرَةُ اللَّهَبِ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اور آپ کے راستہ میں بچھا دیتی تھی.تا کہ آپ کو تکلیف پہنچے اور رات کو جب آپ نماز کے واسطے باہر جائیں تو آپ کو کانٹوں کے سبب تکلیف ہو.لکھا ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی اور اس کو خبر لگی کہ میرے اور میرے خاوند کے حق میں اس قسم کے الفاظ آنحضرت نے سنائے ہیں.تو بڑی شوخی اور بے باکی کے ساتھ ایک رسی ہاتھ میں لئے آنحضرت کے پاس آئی اور اس طرح کہتی آتی تھی مُذعَمَّا آبَيْنَا دِينَهُ قَليْنَا وَ أَمْرَهُ عَصَيْنَا.ہم نے ایک مذمت کئے گئے کا انکار کیا اور اس کے دین کو ہم نے ناپسند کیا اور اس کے حکم کی ہم نے نافرمانی کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دشمن نابکار بجائے محمد کے مذم کہا کرتے تھے.محمد کے معنے ہیں تعریف کیا گیا.اور مدتم کے معنے ہیں مذمت کیا گیا.نابکار دشمن ہمیشہ اس قسم کی شرارتیں کیا کرتے ہیں.جیسا کہ آجکل کے بیوقوف مخالف لفظ قادیانی کو کادیانی لکھ کر ایک احمقانہ خوشی اپنے واسطے پیدا کر لیتے ہیں مگر ایسی باتوں سے کیا ہوسکتا ہے.جس کو خدا تعالیٰ عزت دینا چاہتا ہے.اس کو ذلیل کرنے کے واسطے کوئی ہزار ناک رگڑے اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.غرض اس قسم کے الفاظ بولتی ہوئی وہ آنحضرت کی طرف آئی.آگے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت ابو بکر بیٹھے ہوئے تھے.صدیق کو خوف ہوا کہ یہ شریر عورت ہے اور بے ڈھب طور پر غصہ میں ہے.کچھ اذیت نہ دے.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم تشفی رکھو وہ مجھے نہ دیکھ سکے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس کی نظر حضرت ابو بکر پر پڑی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے نہ دیکھا اور حضرت ابوبکر سے پوچھنے لگی کہ مجھے خبر لگی ہے کہ تیرے دوست نے میری ہجو کی ہے.صدیق اکبر نے فرمایا.نہیں.اس نے تیری ہجو نہیں کی ہجو سے مرادشاعرانہ ہجو ہے جو شاعر لوگ کسی دشمن کی کیا کرتے ہیں ) اور حضرت صدیق نے سچ کہا.سورة تبت تو کلامِ خدائے علیم و حکیم ہے نہ کہ کلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم.یہ سن کر وہ واپس چلی گئی.اور کہتی تھی کہ قریش جانتے ہیں کہ میں تو ان کے سردار کی بیٹی ہوں.بھلا میری ہجو کس طرح کوئی کر سکتا ہے.في جِيدِهَا : اس کی گردن میں جید بمعنے گردن ย
حقائق الفرقان حبل: رسی ۴۸۴ سُوْرَةُ اللَّهَبِ مَسَد : بٹی ہوئی.کسی قسم کی بٹی ہوئی رہی.پوست کھجور کی ہو یا چمڑے کی ہو یا لوہے کی ہو.غرض بٹی ہوئی ہو.ہر قسم کی بٹی ہوئی رسی کو مسد کہتے ہیں.فِي جِيْدِهَا حَبْلُ مِنْ مَسَد : اس کی گردن میں بٹی ہوئی رہی ہے.یہ اُس عورت کی صورت ظاہری کا نقشہ ہے جبکہ وہ جنگل سے کانٹے وغیرہ اکٹھے کر کے لاتی تاکہ حضرت کی راہ میں بچھا دے تو اُن کا گٹھا رسی سے باندھ کر پشت پر رکھتی.اور رسی اس کی گردن میں سے ہو کر اس کو پکڑے ہوئے ہوتی.وہی کانٹے اور وہی رسیاں بالآخر اس کے واسطے ہلاکت کا موجب ہوئیں اور جہنم کی زنجیر اس کے گلے میں پڑی.جیسا کہ لیکھر ام اس بدزبانی کے ساتھ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں طعن کی چھری چلاتا تھا.وہ چھری ظاہری شکل اختیار کر کے اس کے پیٹ میں بھونکی گئی.اور جس طعن کے ساتھ شریر لوگ مسیح موعود کے حق میں بدزبانی کرتے تھے.وہی طعن طاعون کی شکل اختیار کر کے ان کے گلے کا ہار ہوا.لکھا ہے کہ ایک دفعہ یہ عورت اسی طرح لکڑیوں کا بڑا گٹھا اٹھا کر جنگل سے لاتی تھی.راستہ میں ایک پتھر پر گٹھا ٹکا کر اور پشت لگا کر آرام لینے کے واسطے ٹھہر گئی تو وہی گٹھا پتھر سے نیچے کھسک کر لٹکنے لگا.اس کے بوجھ سے گردن کی رسی سخت ہو کر اسے جہنم واصل کر گئی.ایسی بدکاروں کا یہی انجام ہوتا ہے.خواہ وہ اپنے ملک اور قوم میں معزز ہی ہوں مگر اللہ تعالیٰ کے رسول کی عداوت انسان کو سخت نقصان میں ڈال دیتی ہے.اور اگلے پچھلے تمام عمل ضائع ہوتے ہیں.اس سورہ شریف میں ابولہب اور اس کے تمام کنبے کے متعلق پیشگوئی ہے اس کے متعلق.اس کے بیٹے کے متعلق ، اُس کی بیوی کے متعلق اُس کے مال و اسباب کے متعلق.قدرت خدا یہ سب پیشگوئیاں اپنے اپنے وقت پر ایسی پوری ہوئیں کہ آج تک ایک زبردست نشان کے رنگ میں دنیا کے سامنے ایک نقشہ عبرت کھینچ رہی ہیں.آج اس زمانہ میں ہی خدا تعالیٰ نے اس قسم کے قہری نشانات کی بہت سی مثالیں قائم کر دی ہیں.جن میں سے ایک لیکھرام کا نشان ہے.وہ آنحضرت
حقائق الفرقان ۴۸۵ سُوْرَةُ اللَّهَبِ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بہت ہی نالائق اور ناپاک کلمات بولا کرتا تھا اور حضرت مرزا صاحب کے حق میں پیشگوئی کی تھی کہ یہ تین سال کے اندر ہیضہ سے مر جائیں گے اور بدگوئی میں اور گالیاں دینے میں حد سے بڑھا ہوا تھا.خدا تعالیٰ نے ان تمام گالیوں اور بدگوئیوں کو ایک خنجر کی شکل میں واپس اس کے پیٹ میں جھونک دیا جہاں سے کہ وہ نکلی تھیں.اس آیت شریف کے شانِ نزول میں یہ اتفاق ہے کہ وہ ابولہب کی گالیوں اور ایذاء کے مقابلہ میں نازل ہوئی تھی.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ہلاکت کی بددعا کیا کرتا تھا.گو اس امر میں کسی قدر اختلاف ہے کہ آیا یہ آیت اس بات پر نازل ہوئی.جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوہ صفا پر چڑھ کر تمام قبائل کو جمع کیا اور انہیں خدا کے عذاب سے ڈرایا تو اس وقت ابولہب نے جھنجلا کر کہا کہ تجھ پر ہلاکت ہو.کیا اسی واسطے تو نے ہمارا سارا دن خراب کیا ہے.کوہ صفا کے نظارے کو اس زمانہ کے شاعر خواجہ الطاف حسین حالی صاحب نے اچھے پیرایہ میں ادا کیا ہے.خدا انہیں جزائے خیر دے وہ لکھتے ہیں.وہ فخر عرب زیب محراب و منبر تمام اہل مکہ کو ہمراہ لے کر گیا ایک دن حسب فرمان داور سوئے دشت اور چڑھ کے کوہِ صفا پر یہ فرمایا سب سے کہ اے آلِ غالب سمجھتے ہو تم مجھ کو صادق کہ کاذب کہا سب نے قول آجتک کوئی تیرا کبھی ہم نے جھوٹا سنا اور نہ دیکھا کہا گر سمجھتے ہو تم مجھ کو ایسا تو باور کرو گے اگر میں کہوں گا کہ فوج گران پشت کوہِ صفا پر پڑی ہے کہ لوٹے تمہیں گھات پا کر کہا ” تیری ہر بات کا یہاں یقین ہے کہ بچپن سے صادق ہے تو اور امین ہے کہا ” گرمری بات یہ دل نشیں ہے تو سن لوخلاف اس میں اصلا نہیں → کہ سب قافلہ یہاں سے ہے جانیوالا ڈرو اس سے جو وقت ہے آنیوالا
حقائق الفرقان ۴۸۶ سُوْرَةُ اللَّهَبِ وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی عرب کی زمین جس نے ساری ہلادی نئی اک لگن دل میں سب کے لگا دی اک آواز میں سوتی بستی جگا دی پڑا ہر طرف غل یہ پیغام حق ہے کہ گونج اُٹھے دشت و جبل نام حق سے بعض کا قول ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام اعمام کو جمع کیا اور ان کی ضیافت کی.اور ان کے سامنے کھانا رکھا تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے تو ہر ایک، ایک پوری بکری کا گوشت کھانے والا ہے.یہ تو نے کیا ہمارے سامنے رکھا ہے.عرب میں قاعدہ تھا کہ دعوت کے وقت ہر شخص کے سامنے بہت سا کھانا رکھا جاتا تھا.اور اس میں ایک عزت سمجھی جاتی تھی.اس کے مطابق انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر اعتراض کیا.کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرامر میں سادگی پسند تھے.اس واسطے ان کو کہا گیا کہ تم کھانا تو شروع کرو.جب انہوں نے کھانا شروع کیا تو خدا تعالیٰ نے اس تھوڑے سے کھانے میں ایسی برکت ڈالی.کہ وہ سب سیر ہو گئے اور کھانا بہت سا بچ بھی رہا.جبکہ وہ کھانے سے فارغ ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی طرف دعوت کی.تب ان میں سے ابولہب بولا کہ اچھا اگر میں مسلمان ہو جاؤں تو میرے لئے کیا ہوگا.آنحضرت نے فرمایا.جو کچھ دوسرے مسلمانوں کے لئے ہو گا وہی تیرے لئے ہوگا.تب اُس نے کہا، کیا مجھے دوسروں پر فضیلت نہیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فضیلت کس بات کی؟ تب اُس نے جواب دیا تَبَّا لِهَذَا الدِّيْنِ يَسْتَوِى فِيْهِ انَا وَغَيْرِ مٹی ، خراب ہو وہ دین جس میں دوسرے میرے برابر ہو جاویں.ایسا ہی ایک دفعہ چند لوگ باہر سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر ن کر آپ کی زیارت کے واسطے مکہ معظمہ میں آئے تو ابولہب ان کو راستہ میں مل پڑا اور کہنے لگا کہ تم اس کے پاس کیا جاتے ہو وہ تو ساحر ہے.ان لوگوں نے جواب دیا کہ کچھ ہی ہو.ہم تو اب ضروران سے مل کر جاویں گے.جب وہ لوگ باوجود اس کی بڑی کوشش کے آنحضرت کے پاس چلے گئے.اور اس کی بات نہ مانی تو وہ کہنے لگا.اِنَّا لَمْ نَزَلُ نُعَالِجُهُ مِنَ الْجُنُونِ فَتَبَّالَّهُ وَ تَعْسًا ہم تو ہمیشہ اس کا
حقائق الفرقان ۴۸۷ سُوْرَةُ اللَّهَبِ علاج کرتے ہیں کہ اس کا جنون دور ہو جاوے، اس پر ہلاکت اور افسوس ہو.ان لوگوں نے یہ بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر سنا دی، جس کے سبب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو حزن پہنچا.الغرض کوئی ہی موقع ابولہب کی شرارت اور شوخی کا ہوا ہو.بہر حال یہ سورہ شریف اسی کے متعلق نازل ہوئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ کفار کا وجود بھی بہت فائدہ دیتا ہے.کیونکہ کفار جب خدا تعالیٰ کے نبی کو دکھ دیتے ہیں اور اس کو ہر طرح ستانے پر کمر باندھتے ہیں.تو خدا تعالیٰ کوئی نہ کوئی نشان دکھا دیتا ہے اور قرآن شریف کے اکثر حصے کے نزول کے باعث بھی کفار ہی تھے.ورنہ سارے لوگ حضرت ابو بکر ہی کی طرح امنا و صدقنا کہنے والے ہوتے تو اس قدر آیات اور نشانات کہاں نازل ہوتے.اس سورہ شریف میں کفار کے سرداروں میں سے ایک کو لیا گیا ہے اور نام ذکر کیا گیا ہے مگر دراصل اس میں تمام کفار کے سرداروں کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بالمقابل کھڑے ہوئے تھے.اور آپ کی مخالفت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہاتھ بڑھاتے تھے.خدا تعالیٰ نے ان سب کو ہلاک کیا اور دین و دنیا میں خائب و خاسر کر دیا.فالحمد للہ علی ذلک.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۲٫۵ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸۴ تا ۳۸۹)
حقائق الفرقان ۴۸۸ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ مَكِّيّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم اللہ کے اسم شریف کی مدد سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جس نے یکتائی اور بے نیازی مقدر کر رکھی تھی عملی طور پر یکتا و بے نیاز بنادیا.۲ تا ۵ - قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لهُ كُفُوًا اَحَدٌ - ترجمہ.کہ وہ اللہ ایک ہے.اللہ بے احتیاج ہے.نہیں جنا اس نے اور نہ وہ جنا گیا اور نہیں اس کے لیے برابری کرنے والا کوئی.تفسیر.او مخاطب تو کہہ دے.اصل بات تو یہ ہے کہ خود بخود موجود جس کا نام ہے اللہ پوجنے کے لائق ، فرماں برداری کا مستحق ، وہ ایک ہے، اپنی ذات میں یکتا، صفات میں بے ہمتا ، ترکیب و تعدد سے پاک.اللہ جس کا نام ہے، وہ اصل مطلب مقصود بالذات ہر کمال میں بڑھا ہوا جس کے اندر نہ کچھ جاوے کہ کھانے پینے وغیرہ کا محتاج ہو.نہ اس کے اندر سے کچھ نکلے کہ کسی کا باپ بنے ، پس نہ وہ کسی کا باپ اور نہ کسی کا بیٹا.اس کے وجود میں ، اس کے بقا میں.اس کی ذات میں ، اس کی صفات میں کوئی بھی اس کے جوڑ کا نہیں.اے رسول اس طرح کہو اور اقرار کرو اور یقین کرو اور لوگوں کو وعظ کرو کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۱٬۲۱۰) واحد اور یگانہ ہے.اللہ بے احتیاج ہے.کسی کا محتاج نہیں.بے نیاز ہے.کسی کی اسے کوئی پروا نہیں.اس نے کوئی بیٹا بیٹی نہیں جنا.اور نہ خود اس کو کسی نے جنا تھا.اور نہ اس کا کوئی کنبہ قبیلہ شریک برادری والا اور برابری کرنے والا ہے.
حقائق الفرقان ۴۸۹ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ یہ سورہ شریف ملتی ہے یعنی مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں بسم اللہ شریف کے بعد چار آیتیں ہیں.اس کے الفاظ پندرہ ہیں اور حروف سینتالیس ہیں.هو : ہو بھی اللہ تعالیٰ کا نام ہے.توریت میں زیادہ تر یہی نام خدا تعالیٰ کا آتا ہے.عبرانی میں اس کا ترجمہ لفظ یہوواہ سے کیا جاتا ہے.مگر عبرانی زبان کے ایک مردہ زبان ہونے کے سبب ٹھیک تلفظ اور اصلیت کے متعلق بہت اختلاف پیدا ہو گیا ہے.عبرانی حروف میں اس کو اس طرح سے لکھا جاتا ہے.n 7 n 7 ی.و چونکہ ابتدائی طرز تحریر زبان عبرانی میں حروف پر حرکات دینے کا رواج نہ تھا.اس واسطے ٹھیک طور پر معلوم نہیں رہا کہ توریت میں یہ لفظ کس طرح سے پڑھا جا تا تھا.بعض کہتے ہیں کہ یہ لفظ یا وہ ہے.بعض کہتے ہیں یاھو سے ہے.بعض کے نزدیک یہوواہ ہے.آجکل کے یہودی اس لفظ کو خدا تعالیٰ کا ایک خاص مقدس نام مانتے ہیں.اور بغیر خاص اوقات نماز اور روزہ کے اس لفظ کا منہ پر لانا گناہ جانتے ہیں.اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ چونکہ عبرانی زبان عربی زبان سے بگڑ کر بنی ہے.اس واسطے یہ لفظ در اصل یاھو تھا.ھو اللہ تعالیٰ کا نام ہے اور یا حرف منادلی ہے.جیسا کہ دعا میں کہا جاتا ہے.اے خدا.یا اللہ.اسی سے بدل کر انگریزی میں جھو اہ JEHOVAH بن گیا ہے.الغرض ھو اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ایک اسم ہے.احد احد کے معنے ہیں.ایک.اکیلا.ایک ہی.عربی زبان میں واحد کے معنے بھی ایک ہیں.اور احد کے معنے بھی ایک ہیں.لیکن یہ اس پاک زبان کے عجائبات میں سے ہے کہ لفظ احد صرف اللہ تعالیٰ کے صفات میں بیان ہوتا ہے اور خدا کے سوائے دوسرے کی صفت میں کبھی بولا نہیں جاتا.پھر ایک فرق واحد اور احد میں یہ ہے کہ جہاں واحد کا لفظ بولا جاوے.وہاں سمجھا جاتا ہے کہ ایک کے بعد دوسرا اور تیسر ابھی ہے.لیکن احد کے بعد دوسرا کوئی نہیں سمجھا جاسکتا.
۴۹۰ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ حقائق الفرقان اس کی مثال یہ ہے کہ جب کہیں لا يُقَاوِمُهُ وَاحِدٌ ایک آدمی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو خیال میں آسکتا ہے کہ دو آدمی مقابلہ کر سکتے ہیں.لیکن جب کہا جائے کہ لا يُقَاوِمُهُ أَحَدٌ تو اس کے معنے ہیں کہ اس کا مقابلہ کوئی بھی نہیں کر سکتا.الله : بیه نام خدا کے واسطے عربی زبان میں اسم ذات ہے.خدا تعالیٰ کا خاص نام ہے.جوصرف اسی کی ذات پر بولا جاتا ہے.دوسری کسی زبان میں خدا تعالیٰ کے واسطے کوئی ایسا خاص نام نہیں.جو صرف اللہ تعالیٰ کے واسطے بولا جاتا ہو اور ایک مفر دلفظ ہو اور کسی دوسرے کے واسطے کبھی استعمال نہ ہوتا ہو مثلاً انگریزی زبان میں اللہ تعالیٰ کے واسطے دو لفظ بولے جاتے ہیں.ایک گاڈ GOD اور دوسرا لارڈ LORD.سوظاہر ہے کہ گاڈ GOD کا لفظ انگریزی زبان میں تمام رومی اور یونانی اور ہندی بتوں پر بولا جاتا ہے اور دیوتاؤں کے واسطے بھی استعمال ہوتا ہے اور لارڈ کا لفظ تو ایسا عام ہے کہ ایک معمولی فوج کا افسر بھی لارڈ ہوتا ہے اور ایک صوبے کا حاکم بھی لارڈ ہوتا ہے.بلکہ ولایت میں پارلیمنٹ کے اعلیٰ حصے کے تمام ممبر لارڈ ہی ہوتے ہیں.ایسا ہی فارسی زبان میں اللہ تعالیٰ کے واسطے کوئی خاص لفظ نہیں.جو لفظ زیادہ تر اللہ تعالیٰ کے واسطے بولا جاتا ہے وہ خدا یا خداوند ہے.خدا ایک مرکب لفظ ہے اور اس کے معنے ہیں.خود آ.جو خود بخود ہے.اور کسی نے اس کو جن نہیں اور فارسی لٹریچر میں یہ الفاظ اوروں کے واسطے بھی استعمال میں آتے ہیں.ایسا ہی سنسکرت زبان میں جس قدر اللہ تعالیٰ کے نام ہیں.وہ سب صفاتی نام ہیں.کوئی اسم ذات نہیں.یہاں تک اس سورہ شریف کی پہلی آیت کے الفاظ کے معانی کی ہم نے تشریح کر دی ہے.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ : کہہ دے اے محمد اور تمام جہان میں منادی کر دے کہ وہ اللہ ایک ہے نہ اس کی ذات میں کوئی شریک ہے نہ اس کی صفات میں کوئی اس کی مانند ہے.نہ یسوع اللہ تھا، نہ رام، نہ کرشن ، نہ بدھ اور نہ کوئی اور.ہمیشہ سے ایک ہی اللہ ہے.اور ہمیشہ تک ایک ہی اللہ ہوگا.ایک ازلی ابدی خدا.اللهُ الصَّمَدُ : صد وہ ہے جس کے سامنے لوگ اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں.اس سورۃ میں صمد
حقائق الفرقان ۴۹۱ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ بمعنی مضمود ہے.جیسا کہ قبض بمعنے مقبوض آتا ہے.اس کے معنے ہیں وہ سردار جس کے لوگ محتاج ہیں.یہ لفظ ان معنوں میں عربی زبان کے لٹریچر میں مستعمل ہے.چنانچہ دوشعر بطور مثال کے اس جگہ نقل کئے جاتے ہیں.الا بکر تاعى بِخَيْرِ بَنِي آسَد! بِعَمْرِو بنِ مَسْعُودٍ بِالسَيّدِ الصَّمَد خبردار! صبح کو موت کی خبر دینے والے نے.بنو اسد کے اچھے آدمیوں سے جس کا نام عمر و بن مسعود اور بڑے سردار کی خلقت محتاج ہے.ایسا ہی ایک اور شاعر کا قول ہے.عَلَوتُه بِحُسَامِي ثُمَّ قُلْتُ لَهُ خُذْهَا حُذَيْفَ فَأَنْتَ السَّيِّدُ الصَّمَد میں اپنی تلوار لے کر اس پر چڑھ گیا.پھر اس کو کہا.لے اس کو اے حذیفہ! کیونکہ تو بڑا سردار اور حاجت روا ہے.پس صد اس سردار کو کہتے ہیں.جس کی طرف وقتِ حاجت قصد کیا جاوے.چونکہ اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کو سب حاجتوں کے پورا کرنے کے لئے قدرت تام رکھتا ہے.اس واسطے اس کی صفت میں یہ لفظ استعمال کیا گیا.اسی لحاظ سے سید سردار کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ تمام قوم اپنے سردار کی محتاج ہوتی ہے.حضرت ابن عباس کی حدیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے.جس میں لکھا ہے کہ جب یہ سورۃ شریف نازل ہوئی تو اصحاب نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صمد کیا ہے تو آپ نے فرمایا.هُوَ السَّيِّدُ الصَّمَدُ الَّذِي يُصْمَدُ الَيْهِ فِي الْحَوَائِجِ.وہ سردار ہے جس کی طرف لوگ احتیاج کے وقت قصد کرتے ہیں..پھر لغت عربی میں صدر اس کو کہتے ہیں جس کا جوف نہ ہو.یعنی اس کے اندر کوئی چیز نہ جا سکے.نہ اس میں سے کوئی چیز نکلے.ایسا ہی صمد اس شفاف پتھر کو بھی کہتے ہیں.جس پر گرد و غبار نہ پڑ سکے.مفسرین نے مختلف پہلوؤں کے لحاظ سے لفظ صمد کی تفسیر کئی طرح سے کی ہے جن میں سے بعض کو اس جگہ نقل کیا جاتا ہے.
حقائق الفرقان ۴۹۲ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ا.صمد وہ عالم ہے جس کو تمام اشیاء کا علم ہو اور وہ بجز ذات الہی کے دوسرا نہیں.صدر علیم کو کہتے ہیں کیونکہ سید وہی ہو سکتا ہے جو حلم اور کرم کی صفات اپنے اندر رکھتا ہو.صمد وہ سردار ہے جس کی سرداری اور سیادت انتہائی اعلیٰ درجہ تک ہو.(ابن مسعود وضحاک) ۴.صمد خالق الاشیاء ہے.(اصم ) ۵.صد وہ ذات ہے.جو چاہے سو کرے اور حکم کرتا ہے جو چاہتا ہے.اس کے حکم کو کوئی پیچھے نہیں کر سکتا اور اس کی قضاء کو کوئی ٹال نہیں سکتا.(حسین بن فضل ) صمد وہ شخص ہے جس کی طرف لوگ حاجت کے وقت رغبت کرتے ہیں اور مصیبت کے وقت اس کے پاس اپنی فریاد لے جاتے ہیں.(سدی) ے.سید المعظم کو صمد کہتے ہیں.۸.صمد غنی کو کہتے ہیں.۹.صمد وہ ہے جس کے اوپر اور کوئی نہ ہو جیسا کہ قرآن شریف میں مذکور ہے.وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عبادة (الانعام : ١٩) ۱۰.صمد وہ ہے جو نہ کھاتا ہے اور نہ پیتا ہے پر دوسروں کو کھلاتا ہے اور پلاتا ہے.( قتادہ) ۱۱.حسن بصری کا قول ہے کہ صد وہ ہے جو لغہ یزل ہے اور لا یزالی ہے.اور اس کے لئے زوال نہیں.۱۲.صد وہ ہے جس پر موت نہیں اور نہ اس کا کوئی وارث ہوگا اور آسمان وزمین کی میراث اسی کی ہے.( ابن ابی کعب ) ۱۳ صد وہ ہے جس پر نیند کا غلبہ نہیں اور نہ اس سے سہو صادر ہوتا ہے.(یمان وابو مالک) ۱۴.صمد وہ ہے کہ جن صفات سے وہ متصف ہوتا ہے.دوسرا کوئی نہیں ہوسکتا.(ابن کیسان) ۱۵.صد وہ ہے جس میں کوئی عیب نہ ہو ( مقابل ابنِ خبان ) ۱۶.صد وہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں پڑ سکتی ( ربیع بن انس )
حقائق الفرقان ۴۹۳ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ۱۷.صمد وہ ہے جو تمام صفات میں اور تمام افعال میں کامل ہو ( سعید بن جبیر ) ۱۸.صد وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو ( جعفر صادق ) ۱۹.صمد وہ ہے جو سب سے مستغنی ہو (ابوھریرہ ) ۲۰.صد وہ ہے کہ خلقت اس کی کیفیت پر مطلع ہونے سے نا امید ہو.۲۱.صد وہ ہے جو نہ جنتا ہے اور نہ اس کو کسی نے جنا.کیونکہ جو جنتا ہے.لامحالہ اس کا وارث ہوتا ہے.اور جو خود جنا گیا ہے.وہ ضرور مرتا ہے گویا صمد کے بعد کلمہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُؤلّند اس کا بیان معنی اور تشریح ہے.(ابو العالیہ) ۲۲.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں.إِنَّهُ الْكَبِيرُ الَّذِي لَيْسَ فَوْقَهُ أَحَدٌ صد وہ کبیر ہے جس کے اوپر اور کوئی نہیں.تفاسیر میں صمد کے معنے اور تشریح اور بھی بیان ہوئی ہے.بخوف طوالت اتنے پر اکتفا کیا گیا.اللهُ الصَّمَدُ : اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے کسی کا محتاج نہیں.سب اس کے محتاج ہیں.وہ کسی کا مخلوق نہیں.سب اس کی مخلوق ہیں.سب کی حاجتوں کو پورا کرتا ہے.وہ سب کی کیفیت جانتا ہے.کوئی اس کی کیفیت کا عالم نہیں.وہ سب پر احاطہ کئے ہوئے ہے کسی کا احاطہ اس پر نہیں.سب کا مالک ہے اور سب اس کے مملوک ہیں.لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ : نہ وہ جنتا ہے اور نہ جنا گیا ہے.نہ اس کا کوئی ولد ہے اور نہ وہ کسی کا ولد ہے.اس آیہ شریفہ میں ان تمام مذاہب باطلہ کا بالخصوص رد ہے جن میں اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اولاد مانی جاتی ہے.جیسا کہ اس زمانہ کے عیسائی یسوع مسیح کو ولد اللہ اور ابن اللہ کہتے ہیں.اس پر ایک سوال ہوا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے لم یکن پہلے کیوں رکھا اور لَم يُولد پیچھے کیوں رکھا.اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر مشرکین کا یہ مذہب ہوتا ہے کہ فلاں شخص خدا کا بیٹا تھا یا فلاں عورت خدا کی بیٹی تھی.مگر یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص خدا کا باپ تھا یا فلاں عورت خدا کی ماں تھی.گوعیسائیوں کے جاہل فرقہ نے اس شرک میں کمال پیدا کیا ہے.کیونکہ ان کے درمیان مریم کو خدا کی ماں کہا جاتا
حقائق الفرقان ۴۹۴ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ہے اور ایک بڑا فرقہ عیسائیوں کا اب تک مریم کی پرستش کرتا ہے.وَ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا اَحَدُ : اور نہ اس کے واسطے کوئی کفو ہے.کفو کے لغوی معنے ہیں نظیر اور مثل.عرب میں بولا کرتے ہیں هَذَا كَفُوكَ أى نَظِيرُكَ یہ تیرا کفو ہے.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لَيْسَ لَهُ كُفُو وَلَا مِثْلُ.مجاہد کا قول ہے کہ کفو سے مراد صاحبہ یعنی جوڑو ہے جیسا کہ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے.بَدِيعُ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ أَثْى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَ لَمْ تَكُن لَّهُ صَاحِبَةٌ وَ خَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ (الانعام : ۱۰۲) وہ آسمانوں کا اور زمین کا بنانے والا ہے.اس کا ولد کہاں سے آ گیا.جبکہ کوئی اس کی کوئی جوڑو نہیں اور اس نے ہر شئے پیدا کی ہے اور ہر شئے اس کی مخلوق ہے نہ کہ اولاد.یہاں تک ہم نے اس سورہ شریفہ کے الفاظ کے معانی اور ان کی تشریح مفصل بیان کر دی ہے.اب اس سورہ کے مضمون پر اور اس کے فوائد اور عجائبات پر کچھ بیان کیا جاتا ہے.یہ سورہ شریفہ باوجود مختصر ہونے کے بڑے عظیم الشان مطالب اور مضامین پر مشتمل ہے.لکھا ہے کہ سورہ الحمد سارے قرآن شریف کا خلاصہ ہے اور آخری دوسورتیں معوذتین آخری دعائیں ہیں اور قرآن شریف کا متن سورۃ بقرہ سے شروع ہوتا ہے اور سورۃ اخلاص پر ختم ہوتا ہے.اس صورت میں یہ سورۃ قرآن شریف کی سب سے آخری سورۃ ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ سورہ آخری زمانہ کے عظیم الشان فتنہ عیسائیت سے بچنے کے واسطے ایک بڑا ہتھیار ہے.اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی توحید پر بالخصوص زور دیا گیا ہے.کہ وہ ایک خدا ہے.اس کا کوئی بیٹا نہیں اور نہ اس کا کنبہ قبیلہ ہے.اس میں عیسوی مذہب کی تردید کی گئی ہے.کیونکہ دین عیسوی کا تمام دارو مدار تثلیث پر ہے کہ ایک خدا باپ ہے اور ایک خدا بیٹا ہے اور ایک خدا روح القدس ہے.عیسائیوں نے ایک کنبہ خدا کا یہاں مقرر کیا ہے.کوئی باپ ہے.کوئی بیٹا ہے.کوئی روح القدس ہے مگر اللہ تعالیٰ نے.
حقائق الفرقان ۴۹۵ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ان سب کی تردید کی ہے کہ خدا وہ ہے جو لم یلد ہے.کسی کا باپ نہیں اور لَم يُولد ہے.کسی کا بیٹا نہیں.اور لَم يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ ہے.نہ اس کے برابر کوئی روح القدس وغیرہ ہے.لَمْ يَلِدُ وَ لَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدٌ - ان ہر سہ کلمات کیساتھ تثلیث کو رد کر دیا گیا ہے.اور اس رد کی دلیل الفاظ احد اور صد میں بیان کی گئی ہے.کیونکہ جو ایک ہے وہ تین کس طرح ہوسکتا ہے.اور جو یگانہ ہے اس کے ساتھ دوسرا تیسرا اس کی مانند کیونکر بن سکتا ہے.اور وہ صمد ہے کسی کا محتاج نہیں.یسوع تو کھانے پینے کا محتاج تھا.بھوک سے ایسا لا چار ہو جاتا تھا.کہ جیسا کہ انجیلوں میں لکھا ہے کہ جس درخت پر سے پھل نہ ملے اس درخت کو بھی دیوانوں کی طرح گالیاں دینے لگ جاتا تھا.معلومات کا یہ حال تھا کہ کہنے لگے کہ مجھے علم نہیں دیا گیا.کہ قیامت کب ہو گی.باوجود بڑی خواہش اور دعا کے صلیب سے اپنے آپ کو بچانہ سکا.وہ جو محتاج ہے.وہ صمد نہیں ہوسکتا.اور جو صمد نہیں وہ خدا نہیں.وہ احد ہے.اس نے اپنی ہستی کو ثابت کرنے کے واسطے اور اپنی قدرت تام دکھانے کے واسطے آخری زمانہ میں اس فتنہ کے بالمقابل ایک سلسلہ قائم کیا ہے.جو احد اور صمد خدا کی پرستش کو دنیا میں قائم کرتا ہے اور بالخصوص اس مذہب اور فرقہ کو دنیا سے اکھیڑ تا ہے جس کا یہ دعولی ہے کہ خدا باپ ہے اور خدا بیٹا ہے.اور خدا روح القدس ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کا ملہ سے اس سورہ شریف کو قرآن شریف کے آخر میں رکھ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ آخری زمانہ کا فتنہ یہ ہوگا کہ تین خدا مانے جاویں گے.ایک خدا کا باپ بنایا جاوے گا ، ایک خدا کا بیٹا بنایا جاوے گا ایک تیسرا بھی ہوگا جوان کی مانند اور مثل ہو گا.ایک روایت میں ہے.عیسائیوں ہی نے سوال کیا تھا کہ آپ کے خدا کی کیا صفات ہیں اور ان کے سوال کے جواب میں یہ سورہ نازل ہوئی تھی.اس فتنہ کو مٹانے والا وہ شخص ہو گا جو خدا کو احد اور صمد مانتا ہوگا اور اس امر کو دنیا کے آگے ثابت کر دیگا کہ خدا صمد ہے اپنے بندوں کی حاجات کو پوری کرتا ہے.بندے اپنی ضرورتوں کے وقت اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ ان کی دعائیں قبول کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود کے اور خوارق میں سے آپ کی دعاؤں کی قبولیت ہے.جس میں مقابلہ کے واسطے تمام جہان کے عیسائیوں آریوں وغیرہ کو بار ہا چیلنج دیا جا چکا ہے.مگر
حقائق الفرقان ۴۹۶ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ کسی کی طاقت نہیں کہ اس مقابلہ میں کھڑا ہو سکے.چونکہ تمام شرائع اور عبادات کا اعلیٰ مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات اور افعال کی معرفت حاصل ہو اور اس سورہ شریفہ سے اس کی ذات کی معرفت حاصل ہوتی ہے.اس واسطے اس کو حدیث شریف میں ثلث القرآن یعنی قرآن شریف کا تیسرا حصہ کہا گیا ہے.بلحاظ ان عجائبات اور فوائد کے جو کہ اس سورہ شریفہ مستنبط ہوتے ہیں اور اُس پر ایمان لانے سے جو راہ سلوک کی طے ہوتی ہے.ان کے لحاظ سے اس سورۃ شریفہ کے بہت سے نام رکھے گئے ہیں.عرف بھی اس بات کا شاہد ہے کہ اچھے ناموں کی زیادتی تعداد مسمی کے شرف اور مزید فضیلت پر دلیل ہوا کرتی ہے.چنانچہ کچھ نام ذیل میں درج کئے جاتے ہیں.۱.سورۃ التفرید : کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ایک اور فرد ہونے اور تثلیث وغیرہ کی تردید میں ہے.۲.سورۃ التجرید : کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ایک اور لاثانی ہونے کا اس میں بیان ہے.۳.سورۃ التوحید: کیونکہ توحید کا ایسا واضح بیان کسی دوسری کتاب میں نہیں ہے.۴.سورۃ الاخلاص اور یہ نام زیادہ تر مشہور ہے.کیونکہ اس سورۃ میں خالص اللہ تعالیٰ کی توحید کا اور صفات اضافیہ اور سلبیہ کا ذکر ہے اور سوائے خدا تعالیٰ کے جلال کے بیان کے اور کسی امر کا اس سورہ شریفہ میں ذکر نہیں ہے.جو کوئی اس کے بیان پر پورا ایمان رکھے.وہ اللہ کے دین میں مخلص ہے.۵ - سورة النجاة : کیونکہ اس پر پورا ایمان لانے سے اور اسی یقین پر مرنے سے کہ خدا ایک ہے انسان نجات پاتا ہے اور دوزخ سے بچتا ہے.برخلاف اس کے عیسائیوں نے نجات اس میں سمجھی ہے کہ خدا تین بنائے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا رڈ کیا ہے کہ نجات اس میں ہے کہ خدا تعالیٰ کو ایک مانا جاوے.- سورۃ الولایۃ: کیونکہ یہ سورۃ پورے علم اور عمل اور معرفت کا ذریعہ ہو کر انسان کو درجہ ولایت تک پہنچا دیتی ہے.
حقائق الفرقان ۴۹۷ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ے.سورۃ النسبة : کیونکہ اس سورہ کے شانِ نزول میں ذکر ہے کہ کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ آپ کے معبود کا نسب نامہ کیا ہے.تب یہ سورۃ نازل ہوئی.- سورة المعرفہ: کیونکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اسی کلام کی معرفت کے ساتھ کامل ہوتی ہے.جابر کی روایت ہے کہ ایک شخص نے نماز پڑھی اور نماز میں قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ کی سورۃ پڑھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اِنَّ هَذَا عَرَفَ رَبِّۂ بیشک اس شخص نے اپنے رب کو پہچان لیا.اس سے سورۃ کا نام سورۃ المعرفہ ہو گیا.۹.سورۃ الجمال: حدیث شریف میں آیا ہے.اِنَّ اللهَ جَمِيلٌ وَيُحِبُّ الْجَمَالَ اللہ تعالیٰ کے جمال کے متعلق جب سوال کیا گیا تو جواب ملا کہ وہ احد صَمَد لَمْ يَلِد ولَمْ يُولَدُ ہے.۱۰.سورۃالمقشقشة: مقشقشہ کے معنے ہیں.بری کرنے والا.جب کوئی بیمار شفا پاتا ہے تو اہلِ عرب کہتے ہیں تَقَشْقَشَ الْمَرِيضُ عَمَّا بِہ.بیمار نے اس سے نجات پائی.جس میں وہ گرفتار تھا چونکہ یہ سورۃ شرک اور نفاق سے انسان کو بری کر کے خدا تعالیٰ کا خالص بندہ بنادیتی ہے.اس واسطے اس کا نام مقشقشہ رکھا گیا ہے.ا.سورۃ المعوذہ : کیونکہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عثمان بن مظعون کے پاس تشریف لے گئے تو آپ نے اس سورۃ کو اور سورتوں کے ساتھ ملا کر تعوذ فرمایا.۱۲.سورۃ الصمد : کیونکہ اس میں صمد کا ذکر خصوصیت کے ساتھ ہے.۱۳.سورۃ الاساس: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سات آسمانوں اور سات زمینوں کی بنیاد قُلْ هُوَ اللهُ اَحَد پر بنائی گئی ہے.اس بات کی سمجھ قرآن شریف کے اس مقام سے بخوبی آسکتی ہے.جہاں اللہ تعالیٰ نے تثلیث اور ایک انسان کو خدا بنانے اور خدا کا بیٹا بنانے کی بھاری خرابی اور نہایت شرارت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ عقیدہ ایسانا پاک ہے کہ تَكَادُ السَّمُوتُ يَتَفَطَرْنَ مِنْهُ وَتَنَشَقُ الْأَرْضُ وَ تَخِرُ الْجِبَالُ (مريم:۹۱) قریب ہے کہ آسمان ٹوٹ پڑیں اور زمین پھٹ جاوے اور پہاڑ گر جاویں.پس جب تثلیث کا باطل عقیدہ دنیا و مافیہا کی خرابی اور لے یقینا اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے.
حقائق الفرقان ۴۹۸ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ بربادی کا موجب ہے.تو اس کے بالمقابل توحید اُس کی عمدگی اور آبادی کا باعث ہے.ایسا ہی قرآن شریف میں ایک اور جگہ آیا ہے کہ لَوْ كَانَ فِيهِمَا الهَةٌ إِلَّا اللهُ لَفَسَدَنَا (الانبياء : ۳۳) اگر زمین و آسمان کے اندر اللہ کے سوائے کوئی اور معبود ہوتا.تو ان میں فساد مچ جاتا.فساد کی دوری اس سے ہے کہ ان میں توحید قائم کی جاوے.۱۴.سورۃ المانعہ : حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ شب معراج میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ میں نے تجھے سورۃ اخلاص عطا کی ہے.جو کہ عرش کے خزانوں کے ذخیروں میں سے ہے.اور عذاب قبر سے روکتی ہے.۱۵.سورۃ الحضر : کیونکہ اس کے پڑھنے کے وقت فرشتے اس کے سننے کے لئے حاضر ہوتے ہیں.۱۶.سورۃ المنفرة: کیونکہ شیطان اسے سن کر بھاگ جاتا ہے.۱۷.سورۃ البراءة : کیونکہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو جو یہ سورۃ پڑھتا تھا فر مایا کہ تو آگ سے بری ہو گیا.۱۸ - سورة المذكرة : کیونکہ یہ سورت انسان کو خدا تعالیٰ کی توحید یاد دلاتی ہے اور غفلت سے نکالتی ہے.۱۹.سورۃ النور - حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہر ایک شے کے لئے ایک نور ہوتا ہے اور قرآن شریف کا نور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ ہے.۲۰.سورۃ الامان : حدیث شریف میں آیا ہے، جس کسی نے کہا لا إلهَ إِلَّا الله وہ اللہ کے قلعہ میں داخل ہوا، جو قلعہ میں داخل ہوا، اُس نے امان پائی.حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی کہ یا رسول الله إنِّي أُحِبُّ هذهِ السُّورَةَ.میں اس سورہ (اخلاص) سے محبت رکھتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حُبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةَ اس کی محبت تجھے بہشت میں داخل کر دیگی.
۴۹۹ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ حقائق الفرقان ایسا ہی اور بہت سی حدیثوں میں اس سورہ شریفہ کی تعریف آتی ہے کہ یہ قرآن شریفکے تیسرے حصہ کے برابر ہے.اور اس کے پڑھنے کے بڑے بڑے فوائد ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سورہ شریفہ میں خالصہ اللہ تعالیٰ کی توحید کا ذکر ہے اور تمام انبیاء اور رسول جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں ان کی بعثت کا اصل منشاء یہی ہوتا ہے کہ توحید الہی کو دنیا میں قائم کریں کہ ایک خدا کی عبادت میں مخلوق کو لگاویں.اور غیر اللہ کی محبت اور خوف کو دلوں سے نکال کر انسان کو خدا کا بندہ بناویں کیونکہ در اصل تمام بدیاں اور گناہ اسی سے شروع ہوتے ہیں کہ انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے سوائے کسی دوسری چیز کی محبت یا اس کا خوف غالب آ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار ہا فرما یا کرتے تھے کہ کیا سبب ہے کہ ایک انسان جب جانتا ہو کہ سوراخ کے اندر ایک زہریلا سانپ ہے.تو وہ ہرگز اس سوراخ میں اپنی انگلی نہیں ڈالتا.اور جب جانتا ہے کہ اس زہر کے کھانے سے میں مرجاؤں گا.تو خواہ کتنا ہی کوئی زور لگائے اس زہر کو ہرگز منہ پر نہیں لاسکتا.تو پھر کیا سبب ہے که انسان با وجود اس اقرار کے کہ خدا ہے اور ایک واحد خدا سب کا مالک اور خالق ہے.پھر گناہ کرتا ہے اس کا سبب یہی ہے کہ معرفت الہی اس کو پورے طور سے حاصل نہیں جب معرفت پورے طور سے حاصل ہو جائے تو پھر ممکن ہی نہیں کہ انسان گناہ کے نزدیک جا سکے.بخاری شریف میں ایک حدیث آئی ہے.حضرت انس سے روایت ہے کہ ایک مرد انصاری مسجد قبا میں امامت نماز کی کرتا تھا.نماز پڑھانے کے وقت جب وہ کوئی حصہ قرآن شریف کا پڑھتا تو اس کوسورۃ اخلاص کے ساتھ شروع یعنی پہلے سورۃ اخلاص پڑھتا اور بعد اس کے کوئی اور سورت یا کوئی حصہ قرآن شریف کا پڑھتا اور ہر رکعت میں وہ ایسا ہی کرتا.دوسرے اصحاب اس معاملہ میں اس پر اعتراض کرتے اور کہتے کہ کیا تو دوسری سورتوں کو کافی نہیں سمجھتا کہ اس سورت کو بہر حال ساتھ ملا ہی دیتا ہے اور بسا اوقات اسے کہتے کہ تو اس سورۃ کا بار بار ہر رکعت میں پڑھنا چھوڑ دے.وہ ہمیشہ یہی جواب دیتا کہ تمہارا اختیار ہے کہ مجھے امام بناؤ یا نہ بناؤ.میں تمہاری امامت چھوڑ دیتا ہوں لیکن اس سورۃ شریفہ کا پڑھنا ترک نہیں کر سکتا.لوگ اس کو دوسروں سے افضل جانتے تھے اور بہر حال اس کو
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ہی امام بنانا پسند کرتے تھے.اس واسطے یہ جھگڑا اسی طرح سے رہا.یہاں تک کہ ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک بات پہنچائی گئی.آنحضرت نے اس کو بلایا اور فرمایا کہ اے فلانے تجھے کون سی بات اس سے مانع ہے کہ تو اپنے ساتھیوں کا کہنا مانے اور ہر رکعت نماز کے اندر تو نے سورۂ اخلاص کا پڑھنا کس واسطے اختیار کیا ہے.اس نے عرض کی.یا رسول اللہ إِنِّي أحبها مجھے یہی سورۃ پیاری لگتی ہے.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.محبُّكَ إِيَّاهَا أَدْخَلَكَ الْجَنَّةُ اس کا پیار کرنا تجھے جنت میں داخل کر دیگا.فقط اس کی وجہ یہی ہے کہ اس سورۃ شریفہ کے ساتھ محبت کرنا خدا تعالیٰ کی توحید کے ساتھ محبت کرنا ہے اور اپنے آپ کو محتاج جان کر ایک خدا کی طرف اپنی احتیاج کو لے جانا.جو شخص تمام دنیا کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھکتا ہے.خدا تعالیٰ اس کو دنیا و مافیہا سے بے احتیاج کر دیتا ہے اور اپنے فضل سے اس کے سارے کام پورے کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ کی توحید کے عقیدہ میں کمال پیدا کرنا انسان کو تمام مشکلات سے با آسانی نکال کر لے جاتا ہے.لیکن اس میں بعض ناواقف لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے.اور وحدت وجود کی طرف جھک گئے ہیں.ان کا خیال ہے کہ ہر ایک چیز جو ہم کو نظر آتی ہے، خدا ہے.ہر ایک آدمی خدا ہے اور صرف خدا ہی ہے باقی اور کچھ نہیں.حضرت اقدس مرزا صاحب مسیح موعود فرمایا کرتے تھے کہ یہ عقیدہ بالکل غلط ہے.یہ لوگ خود خدا تعالیٰ کے خالق بنتے ہیں، اور اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی کیفیت پر ایک احاطہ کرنے کا دعوی کرتے ہیں.گویا انہوں نے مانند ایک جراح کے خدا کو نعوذ باللہ چیر پھاڑ کر دیکھ لیا ہے.اور اس کی تمام حالت پر آگاہ ہو گئے ہیں.یہ بہت برا عقیدہ ہے.ہاں وحدت شہود کا عقیدہ درست ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور عظمت ایسی بیٹھ جائے کہ کسی دوسرے کی اس کو پرواہ ہی نہ رہے.اور خدا تعالیٰ کے ساتھ عشق اور محبت کا ایسا درجہ حاصل ہو جائے کہ بغیر خدا تعالیٰ کے ہر شے اس کو بیچ نظر آئے اور خدا تعالیٰ کی وحدت پر اس کو پورا یقین ہو کہ وہی ایک اس قابل ہے جس کی عبادت کی جاوے.اور جس کی اطاعت کے واسطے اپنی جان کو قربان کر دیا جائے دراصل تمام بدیوں کی جڑھ
حقائق الفرقان ۵۰۱ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ شرک ہے.جلی ہو یا خفی.جب انسان کسی دوسرے انسان کو اپنا حاجت روا یقین کرتا ہے اور اس کی طرف اس طرح جھکتا ہے کہ گویا اس کے بغیر کوئی اس کا کام کر نیوالا نہیں تو وہ توحید کے برخلاف اپنا قدم رکھتا ہے اور ایک شرک میں گرتا ہے.صاف وہ ہے جو ہر حال میں اپنے خدا پر اپنے یقین کو قائم رکھتا ہے اور اسی پر اس کا بھروسہ ہوتا ہے.چیست ایماں؟ وحده پند اشتن! کار حق را ، باخدا بگذاشتن که (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۲ دسمبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۸۹ تا ۳۹۴) اس سورۃ کے فضائل میں سے ایک یہ بھی حدیث صحیح سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ثواب میں قرآن شریف کے تیسرے حصہ کے برابر ہے.یہ بات بالکل سچی اور بہت ہی سچی ہے.اس واسطے که قرآن شریف مشتمل ہے اللہ تعالیٰ کی ذات صفات کے مضامین ، دنیوی امور یعنی اخلاقی ، معاشرتی، تمدنی اور پھر بعد الموت یعنی قیامت کے متعلقہ مضامین پر.اس سورۃ میں چونکہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کی ذات کے متعلق ہی ذکر ہے.اس طرح سے بلحاظ تقسیم مضامین یہ سورۃ قرآن شریف کے سر کے برابر ہے یعنی قرآن کریم کے تین اہم اور ضروری مضامین میں سے ایک مضمون کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیا ہے.دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سورۃ فاتحہ سے جو کہ قرآن شریف کی کلید اور ام الکتاب ہے شروع ہوئی ہے اور یہ ام الکتاب ضالین پر ختم ہوئی ہے.ضال کہتے ہیں کسی سے محبت بے جا کرنے کو.یا جہالت سے کام لینے اور سچے علوم سے نفرت اور لا پرواہی کرنے کو.صرف دو شخص ہی خال کہلاتے ہیں.ایک تو وہ جو کسی سے بے جا محبت کرے.دوسرا وہ جو سچے علوم کے حصول سے مضائقہ کرے.انسان ہر روز علم کا محتاج ہے.سچائی انسان کے قلب پر علم کے ذریعہ سے ہی اثر کرتی ہے.پس جو علم نہیں سیکھتا اس پر جہالت آتی ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے.جس سے انسان اچھے اور برے،مفید اور لے ایمان کیا ہے؟ اس کو واحد ولا شریک ماننا اور خدا کے کاموں کو صرف خدا ہی کے لائق سمجھ کر اسی پر چھوڑنا.
حقائق الفرقان ۵۰۲ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ مضر، نیک اور بد، حق و باطل میں تمیز نہیں کر سکتا.حدیث میں آیا ہے کہ ضال نصالای ہیں.دیکھ لو انہوں نے اپنی آسمانی کتاب کو کس طرح اپنے تصرف میں لا کر ترجمہ در ترجمہ، ترجمہ در ترجمہ کیا ہے کہ اب اصل زبان کا پتہ ہی نہیں لگتا.صاف بات ہے کہ ترجمہ تو خیال ہے مترجم کا.غرض علوم الہی اور کتب سماوی میں انہوں نے ایسا تصرف کیا اور جہالت کا کام کیا ہے کہ وہ اصل الفاظ اب ملنے ہی محال ہیں.دوسری طرف حضرت مسیح کی محبت میں اتنا غلو کیا ہے کہ ان کو خدا ہی بنالیا اور اس سورۃ میں اس قوم نصاری کا ذکر ہے اور یہ سورۃ قرآن شریف کے آخر میں ہے اور یہ ضآل کی تفسیر ہے.اور ضال کا لفظ ام الکتاب کے آخر میں ہے.پس اس طرح سے ام الکتاب کے آخر کو قرآن کے آخر سے بھی ایک طرح کی مناسبت ہے.ایک صحابی جو کہ میرا اپنا خیال ہے کہ غالباً وہ عیسائیوں کے پڑوس میں رہتا ہوگا.وہ اس سورۃ کا ہر نماز میں التزام کیا کرتا تھا بلکہ خود آنحضرت نے بھی اس کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ آپ صبح کی سنتوں میں غالباً زیادہ تر قُل يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ اور قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (الاخلاص) ہی پڑھا کرتے تھے.مغرب کی نماز ( جو کہ جہری نماز ہے ) میں بھی اول رکعت میں قُلْ يَايُّهَا الكَفِرُونَ اور دوسری رکعت میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (الاخلاص) اکثر پڑھا کرتے تھے.وتروں میں بھی آنحضرت کا یہی طریق تھا.چنانچہ پہلی رکعت میں سَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (سورة الاغلى) دوسری میں قُلْ يَايُّهَا الْكَفِرُونَ (سورة الكافرون) اور تیسری میں قُلْ هُوَ اللهُ احد (الاخلاص) بہت پڑھا کرتے تھے.غرض نماز کے اندر اور نماز کے علاوہ اوراد میں اس سورۃ شریفہ کی بڑی فضیلت آئی ہے.قل هُوَ اللهُ اَحَد تو کہہ دے (وہ جو اس کا کہنے والا ہے) اللہ ہے اور وہ واحد ہے ساری ہی صفات کا ملہ سے موصوف اور ساری بدیوں سے منزہ ذات بابرکات ہے.یہ پاک نام اور اس کے رکھنے کا فخر صرف صرف عربوں ہی کو ہے.اللہ کا لفظ انہوں نے خالص کر کے صرف صرف خدا کے واسطے خاص رکھا ہے اور ان کے کسی معبود، بت، دیوی دیوتا پر انہوں نے
حقائق الفرقان ۵۰۳ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ یہ نام کبھی بھی استعمال نہیں کیا.مشرک عربوں نے بھی اور شاعر عربوں نے بھی بجز خدا کی ذات کے اس لفظ کا استعمال کسی دوسرے کے حق میں نہیں کیا.خواہ وہ کتنا ہی بڑا اور واجب التعظیم ان کا کیوں نہ ہو.یه فخر بجر عرب کے اور کسی ملک اور قوم کو میتر نہیں.زبان انگریزی سے میں خود تو واقف ہوں نہیں.مگر لوگوں سے سنا ہے کہ اس زبان میں بھی کوئی معز ز لفظ خاص کر کے خالصتا اللہ نہیں ہے.ہر لفظ جو وہ خدا کے واسطے بولتے ہیں وہ ان کی زبان کے محاورے میں اوروں پر بھی بولا جاتا ہے.سنسکرت میں تو میں علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہوں کہ اول ہی اول جو ان کی کتابوں میں خدا کا نام رکھا گیا ہے وہ اگنی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ اگنی آگ پر بھی بولا جاتا ہے علی لھذا القیاس اور اور جو نام بھی ویدوں میں پرمیشر پر بولے ہیں.وہ سارے کے سارے ایسے ہی ہیں کہ جن کی خصوصیت خدا کے واسطے نہیں بلکہ وہ سب کے سب اور دیوی دیوتاؤں وغیرہ پر بھی بولے جاتے ہیں.یہ فخر صرف اسلام ہی کو ہے کہ خدا کا ایسا نام رکھا گیا ہے کہ جو کسی معبود وغیرہ کے واسطے نہیں بولا جاتا.اَحَد" وہ اللہ ایک ہے نہ کوئی اس کے سوا معبود اور نہ اس کے سوا کوئی تمہارے نفع و ضرر کا حقیقی مالک ہے.کاملہ صفات سے موصوف اور ہر بدی سے منزہ اور ممتاز و پاک ذات ہے.اللهُ الصَّمَدُ : اللہ ہے.صد کہتے ہیں جس کی طرف ان کی احتیاج ہو اور خود نہ محتاج ہو.صمد سردار کو کہتے ہیں.اور صدر اس کو کہتے ہیں کہ جس کے اندر سے نہ کچھ نکلے اور نہ اس میں کچھ گھسے.یہ ایسا پاک نام ہے کہ انسان کو اگر اللہ تعالیٰ کے اس نام پر کامل ایمان ہو.تو اس کی ساری حاجتوں کے لئے کام کافی اور سارے دکھوں سے نجات کے سامان ہو جاتے ہیں.میں خود تجربةً کہتا ہوں اور اس امر کی عملی شہادت دیتا ہوں کہ جب صرف اللہ ہی کو محتاج الیہ بنالیا جاتا ہے تو بہت سے ناجائز ذرائع اور اعمال مثلاً کھانے پینے ، مکان، مہمانداری، بیوی بچوں کی تمام ضروری حاجات سے انسان بچ جاتا ہے اور انسان ایسی تنگی سے بچ جاتا ہے.جو اس کو نا جائز وسائل سے ان مشکلات کا علاج کرنے کی ترغیب دیتی ہے جوں جوں دنیا خدا سے دور ہو کر آمدنی کے وسائل سوچتی ہے اور دنیوی آمد میں ترقی کرتی جاتی
حقائق الفرقان ۵۰۴ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ ہے.توں توں قدرت اور منشاء الہی ان آمد نیوں کو ایک خرچ کا کیر ابھی لگا دیتا ہے.گھر کی مستورات سے ہی لو.اور پھر غور کرو کہ اس قوم نے کس طرح محنت کرنا اور کاروبار خانگی سے دست برداری اختیار کی ہے.چرخہ کا تنا یا چکی پیس کر گھر کی ضرورت کو پورا کرنا تو گویا اس زمانہ میں گناہ بلکہ کفر کی حد تک پہنچ گیا ہے.کام کاج ( جو کہ دراصل ایک مفید ورزش تھی.جس سے مستورات کی صحت قائم رہتی اور دودھ صاف ہو کر اولاد کی پرورش اور عمدہ صحت کا باعث ہوتا تھا ) تو یوں چھوٹا.اخراجات میں ایسی ترقی ہوئی کہ آجکل کے لباس کو دیکھ کر مجھے تو بار ہا تعجب آتا ہے.ایسا نکما لباس ہے کہ دس پندرہ دن کے بعد وہ نکما محض ہو کر خادمہ یا چوہڑی کے کام کا ہو جاتا ہے.اور خدا کی قدرت کہ پھر وہ چوہڑی بھی اس سے بہت عرصہ تک مستفید نہیں ہوسکتی.وہ کپڑے کیا ہوتے ہیں.وہ تو ایک قسم کا مکڑی کا جالا ہوتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ شکار کرتی ہے.پھر اس کے ساتھ ساتھ ایک اور خطر ناک گھن لگا ہوا ہے.وہ یہ کہ اشیاء خوردنی کا نرخ بھی گراں ہورہا ہے.ہر چیز میں گرانی ہے.اگر آمدنی کی ترقی ہوئی تو کیا فائدہ ہوا.دوسری طرف خرچ کا بڑھاؤ ہو گیا.بات تو وہیں رہی.ہمارے شہر کا ذکر ہے کہ ایک قوم دوا (آنہ ) روز کے حساب سے ایک زمانہ میں مزدوری کیا کرتی تھی.ایک دفعہ انہوں نے مل کر یہ منصوبہ کیا کہ بجائے ۸ دن کے ۵ دن میں روپیہ لیا کریں.اور جو شخص ہم میں سے اس کی خلاف ورزی کرے اس کی سزا یہ ہے کہ اس کی عورت کو طلاق.مگر خدا کی قدرت وہ کام نہ چل سکا.اور آخر مجبوراً ان کو فتوای لینا پڑا کہ اب کیا کریں.ملاں کے پاس گئے تو اس نے کہہ دیا کہ ہماری مسجد میں چند روز مفت کام کرو جواز کی راہ نکال دیں گے.غرض ایک تو وہ وقت تھا اور ایک اب ہے کہ وہ روپیہ روز یا بعض سوا روپیہ روزانہ کماتے ہیں.اور عجیب بات یہ ہے کہ کام بھی اس وقت کے برابر عمدہ اور مضبوط نہیں اور مقدار میں بھی اس وقت سے کم ہے.اس وقت وہی لوگ اُسی مزدوری میں انجینئر نگ اور نقشہ کشی کرتے تھے.اور وہی عمارت کا کام کرتے تھے.مگر اب ان کاموں کے واسطے الگ ایک معقول تنخواہ کا ملازم درکار ہے.میرے والد صاحب ایک قسم کی لنگی
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ (کھیں) پہنا کرتے تھے.اور وہ کپڑا گھر کا بنایا ہوا ہوتا تھا.ان میں تلا ضرور ہوتا تھا.ہماری بہنوں کو فخر ہوا کرتا تھا کہ ہم اپنے والد صاحب کے پہنے کی لنگی اپنے ہاتھوں سے تیار کرتی ہیں.غرض ایک وہ وقت تھا کہ آمدنیاں اگر چہ کم تھیں.مگر بوجہ کسب حلال ہونے کے بابرکت تھیں.اور ایک یہ زمانہ ہے کہ دراصل اگر غور کیا جاوے تو آمد نیاں کم مگر خرچ زیادہ ہیں.) آمدنی بڑھی تو خرچ بھی ساتھ ہی ترقی کر گئے.( کیونکہ بوجہ زیادتی اخراجات کے لوگ اکثر ادھر اُدھر سے آمدنی کے بڑھانے کے واسطے بہت قسم کے ناجائز وسائل اختیار کرتے ہیں.اکثر یہی کوشش دیکھی گئی ہے کہ روپیہ آ جاوے اس بات کی پرواہ نہیں کہ وہ حلال ہے یا حرام.یہی وجہ ہے کہ وہ بے برکت ہوتا ہے ) تعلیم کا حال دیکھ لو کیسی گراں ہو گئی ہے حتی کہ گورنمنٹ جو ترقی تعلیم کی از بس مشتاق اور حریص تھی اسے ایسے مشکلات آگئے کہ اب وہ لڑکوں کے پاس کرنے میں مضائقہ کرتی ہے اور اس فکر میں ہے کہ کسی طرح یہ سلسلہ کمی پر آجاوے اور وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگی اور ضرور ہوگی.کیونکہ خدا کو جب تک ان کی سلطنت منظور ہے.جب تک ان کی نصرت بھی کرے گا.غرض یہ کہ اگر اپنی چالا کی اور ناجائز تدابیر اور ناجائز ذرائع سے مالوں کو بڑھانے کی کوشش کرو گے تو دوسری طرف خدا اس کو خاک میں ملاتا جاوے گا.اس وقت ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے کہ ایک شخص نہایت خوبصورت صندوق جس میں مختلف قسم کے رنگارنگ ، کوئی سرخ، کوئی سفید، کوئی زرد قسم کے ٹکڑے کانچ کے تھے.ایک رئیس کے پاس لایا اور پیش کیا کہ آپ اس کو خرید لیں مگر وہ رئیس بڑا عقلمند تھا.اگر چہ مشرک تھا اور مشرک عقلمند نہیں ہوتا مگر ایک قسم کی جزوی عقل تھی.وہ بات کو سمجھ گیا اور کہا کہ یہ شخص شریر تو نہیں ہے.اس کو دھو کہ لگا ہے.اگر شریر ہوتا تو اس کو میرے پاس آنے کی اس طرح جرات نہ ہوتی.یہ سوچ کر اس سے کہا کہ میں ان کو خریدنے کی طاقت نہیں رکھتا.البتہ یہ ایک ہزار روپیہ تم کو دیا جاتا ہے اس بات کے بدلے کہ تم نے ایسی نایاب چیز ہمیں دکھائی.وہ شخص بہت خوش ہو گیا.رئیس نے اس سے یہ بھی کہہ دیا کہ تم چند روز یہیں ٹھہر جاؤ.پھر ایک دو دن بعد بلوا کر پوچھا کہ تم نے یہ صندوق کہاں سے لیا.اس نے سارا ماجرا کہہ دیا کہ جب دلی کے غدر کے موقع پر
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ افراتفری پڑی تو میں نے سنا ہوا تھا کہ بادشاہ اپنے پاس اس قسم کا ایک مختصر صندوقچہ رکھا کرتے ہیں کہ وقت ضرورت کام آوے.تو میں سب سے پہلے قلعہ میں کودا اور یہ صندوقچہ لے بھاگا.رئیس کو یقین آ گیا کہ واقعی یہی بات ہے مگر اس شخص کے ساتھ کہیں دھوکہ کیا گیا ہے.اس نے پوچھا تو پھر سارا ماجرا بیان کرو کہ یہاں آنے تک اور کیا کیا باتیں پیش آئیں.تو اس پر اُس شخص نے بیان کیا کہ رستے میں ایک اور شخص بھی میرا ہم سفر ہوا.اور اس کے پاس بھی ایک صندوق تھا اور وہ یہی تھا.اثنائے راہ میں وہ گاہ گاہ مجھے کھول کر اپنا صندوقچہ دکھایا بھی کرتا تھا اور ذکر کرتا تھا کہ میں نے بھی دلی کی افراتفری میں حاصل کیا ہے مگر چونکہ اس کا صندوقچہ میرے سے عمدہ تھا اور اس کا مال بھی میرے مال سے اچھا تھا.اور پھر وہ گاہ گاہ میرے حوالہ کر کے چلا بھی جاتا تھا اور میرا اعتبار کرتا تھا.میں اس کا اعتبار نہ کرتا اور نہ ہی صند و قیچہ اسے کھول کر بتا تا.آخر ہوتے ہوتے مجھے اس کا صندوقچہ پسند آیا.میں نے موقع پا کر اپنا تو پڑا رہنے دیا اور اس کا صندوقچہ لے بھاگا.جو میرے خیال میں میرے والے بکس سے عمدہ اور عمدہ مال والا تھا.اور یہ وہی صندوقچہ ہے جو میں نے اس شخص کا حاصل کیا.اور ا پنا اس کے واسطے چھوڑا.یہ سارا واقعہ سننے کے بعد اس رئیس نے اس سے کہا کہ اب وہ ہزار روپیہ تو ہم تمہیں دے چکے اور وہ تمہاری محنت کا پھل تھا جو تمہیں مل گیا.مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ معمولی جھاڑ فانوس کے ٹکڑے ہیں.چاہو ان کو رکھو اور چاہو پھینک دو.یہ کسی کام کے نہیں ہیں.اور روشنی کے داروغہ کو بلوا کر اُسے ویسے ہزاروں ٹکڑے بتادے.یہ دیکھ کر اس بیچارے کی آنکھیں کھلیں اور اپنے کئے پر پچھتا یا.رئیس نے کہا کہ خدارحیم کریم ہے.اس نے تمہاری محنت بالکل ضائع بھی نہ کی اور سزا بھی دیدی کہ تم نے چالا کی سے عمدہ مال حاصل کرنا چاہا تھا.الٹا اس حرص سے ایک گناہ بھی کیا اور اصل مال بھی بر باد کیا.اُس کا جو حال ہوا ہو گا.اس کا ہمیں علم نہیں.غرض انسان چاہتا ہے کہ میں چالا کی اور دھوکہ سے کامیاب ہو جاؤں.مگر خدا اس کو عین اسی رنگ میں سزا دیتا ہے اور نا کام کرتا ہے.جس رنگ میں خدا کو ناراض کر کے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے.یہ قصہ کہانی نہیں بلکہ ایک واقعہ کا بیان کیا گیا.اور عقلمند اس سے عبرت پکڑتے ہیں.میں نے یہ ایک
حقائق الفرقان ۵۰۷ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ بات کہی ہے.تم اس سے اصل حقیقت کی طرف چلے جاؤ.الله الصمد: حقیقت میں وہی محتاج الیہ ہے.لم يلد : اس کا کوئی بچہ نہیں کیونکہ وہ صمد ہے اور بچہ لینے کے واسطے بیوی کی حاجت ہوتی ہے.پس وہ لم یلد ہے.کیونکہ وہ صمد ہے.خدا کا ولد ماننے میں نہ تو خدا کی صفت صمد ہی رہتی ہے اور نہ صفت احد ہی قائم رہ سکتی ہے.کیونکہ بچے کے واسطے بیوی کی حاجت لا زمی ہے.اور پھر بیوی اُسی جنس اور کف کی چاہیے.تو احد بھی نہ رہا.غرض یہ بالکل سچ ہے کہ لم یلد ہے.وہ ذات پاک.وَلَمْ يُولَدُ : اور وہ خود بھی کسی کا بیٹا نہیں.کیونکہ اس میں بھی والدین کی احتیاج لا زمی اور کف ضروری ہے.پس وہ اَحَدٌ ہے.صَمَد ہے.لَم يَلِدُ ہے اور لَمْ يُولَدُ اور لَمْ يَكُن لَّهُ كفوا احد ذات ہے.دیکھو میں پھر کہتا ہوں اور درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ اللهُ الصَّمَدُ ہے اسی کو اپنا محتاج الیہ بنائے رکھو.کھانے پینے ، پہننے، عزت اکرام، صحت، عمر، علم ، بیوی بچے اور ان کی تمام ضروریات کے واسطے اُسی کی طرف جھکو.میں اللہ کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جب انسان خدا کو اپنا محتاج الیہ یقین کر لیتا ہے اور اس کا کامل ایمان ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی انسان کو کسی انسان کا محتاج نہیں کرتا.میں اپنا ہر روزہ تجربہ بیان کرتا ہوں کہ اللہ صمد ہے.اُسی پر ناز کرو.خدا کو چھوڑ کر اگر مخلوق پر بھروسہ کرو گے تو بجز ہلاکت کچھ حاصل نہ ہوگا.میں نصیحت کے طور پر تم کو یہ باتیں در ددل سے اور سچی تڑپ سے کہتا ہوں کہ وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور ہر ایک ذرہ اس کے اختیار اور تصرف میں ہے.لَمْ يَكن له كفوا احد : کوئی رسول ہو.خواہ نبی ولی ہو یا کوئی غوث و قطب.کوئی بھی اس کے لگے کا نہیں.کوئی بھی اس کی برابری نہیں کر سکتا.سب اسی کے محتاج ہیں اور اسی کے نور سے روشنی حاصل کر نیوالے ہیں اور اسی سے فیض پا کر دنیا کو پہنچاتے رہتے ہیں.وہی ان سب کے کمال وفضل اور حسن و احسان کے انوار کا منبع اصلی ہے.پس جب ایسا خدا موجود ہے.تو پھر ایک مومن انسان کو کیا
حقائق الفرقان ۵۰۸ سُوْرَةُ الْإِخْلَاصِ غم ہے؟ اور کون سی خوشی اس کی باقی رہ گئی ہے؟ حضرت اقدس فرمایا کرتے ہیں کہ کسی کو اپنے مال پر خوشی ہوتی ہے.کسی کو یار دوستوں پر.مگر مجھے یہ خوشی کافی ہے کہ میرا خدا قادر خدا ہے مگر یہ باتیں ایمان، یقین ،فکر اور تدبر کو چاہتی ہیں.اور اس بات کو چاہتی ہیں کہ انسان ہمیشہ رہنے کے واسطے نہیں بنایا گیا.کسی کو کیا علم ہے کہ میں کل رہوں گا یا نہیں اس واسطے میں جب کبھی وعظ کرنے کھڑا ہوتا ہوں تو ہمیشہ آخری وعظ سمجھ کر کرتا ہوں.خدا جانے.پھر کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں.(اللہ تعالیٰ توفیق دے عمل کی.آمین ) حکم جلد ۱۲ نمبر ۲۹ مورخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۵ تا ۷ ) هُوَ اللهُ أَحَدٌ.وہ یہ کارڈ، فلسفی کا رڈ ہو گیا.اللهُ الصَّمَدُ فرماتا ہے.آنْتُمُ الْفُقَرَآءُ الَى اللهِ - تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۸)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْفَلَقِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْفَلَقِ اُس با برکت اللہ کے نام کی مدد سے پڑھنا شروع کرتا ہوں جواد نی حالت سے اعلیٰ حالت کو پہنچانے والا ہر ایک بُرائی سے بچانے والا.۲ تا ۶ - قُل اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ - وَ مِنْ شَيْرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِّ النَّفْقَتِ فِي الْعُقَدِ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذًا حَسَد ترجمہ.کہہ پناہ پکڑتا ہوں ساتھ رب صبح کے اس چیز کے شر سے جو پیدا کیا ہے اور شر اندھیرا کرنے والے کے سے جبکہ چھپ جاوے شر پھونکنے والیوں کے سے گروہوں میں اور شر حسد کرنے والے کے سے جبکہ حسد کرے.تفسیر.اس طرح سے دعا مانگ.میں اپنے اُس پروردگار کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں.جو اندھیرے کو دور کر کے صبح کی روشنی پیدا کرتا ہے.اُس کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں.ان تمام چیزوں کی بدی سے جو پیدا ہوئی ہیں.اور اندھیرا کرنے والے کی شرارت سے جبکہ وہ چھپ جاوے اور ان کی شرارت سے جو گر ہوں میں پھونکیں دے کر مخلوق الہی کو دکھ دینے کے درپے رہتے ہیں اور حاسد کے شر سے جبکہ وہ حسد پر کمر باندھے.یہ سورہ شریفہ مدنی ہے یعنی مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی.اس میں بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کے بعد پانچ آیتیں ہیں.اور تئیس کلمے ہیں اور تہتر حروف ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹؍ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹۵)
حقائق الفرقان ۵۱۰ سُوْرَةُ الْفَلَقِ چار قل جو نماز میں اور نماز کے بعد پڑھے جاتے ہیں اُن میں سے یہ تیسرا قل ہے.قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ قرآن شریف میں فلق کا لفظ تین طرح پر استعمال ہوا ہے.فَالِقُی الْإِصْبَاحِ فَالِقُ الْحَب وَ النَّوى پس خدا فَالِقُ الْإِصْبَاحِ فَالِقُ الْحَثِ اور فَالِقُ النَّوَى ہے.دیکھورات کے وقت خلقت کیسی ظلمت اور غفلت میں ہوتی ہے.بجز موذی جانوروں کے عام طور سے چرند پرند بھی اس وقت آرام اور ایک طرح کی غفلت میں ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت تاکیدی حکم دیا ہے کہ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کرلیا کرو.کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک رکھا کرو.خصوصا جب اندھیرے کا ابتدا ہو اور بچوں کو ایسے اوقات میں باہر نہ جانے دو.کیونکہ وہ وقت شیاطین کے زور کا ہوتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تصدیق جو کہ آج سے تیرہ سو برس پیشتر ایک اُمّی بیابانِ عرب کے ریگستانوں کے رہنے والے کے منہ سے نکلا تھا آج اس روشنی اور علمی ترقی کے زمانہ میں بھی نہایت بار یک در بار یک محنتوں اور کوششوں کی تحقیقات کے بعد بھی ہو رہی ہے.جو کچھ آپ نے آج سے تیرہ سو برس پیشتر فرمایا تھا.آج بڑی سرزنی اور ہزار کوشش کے بعد کوئی سچا علم یا سائنس اسے جھوٹا نہیں کر سکا.اس نئی تحقیقات سے جو کچھ ثابت ہوا ہے وہ بھی یہی ہے کہ کل موذی اجرام اندھیرے میں اور خصوصا ابتدا اندھیرے میں جوش مارتے ہیں.مگر لوگ باعث غفلت ان امور کی قدر نہیں کرتے.رات کی ظلمت میں عاشق اور معشوق ، قیدی اور قید کننده ، بادشاہ اور فقیر، ظالم اور مظلوم سب ایک رنگ میں ہوتے ہیں اور سب پر غفلت طاری ہوتی ہے.ادھر صبح ہوئی اور جانور بھی پھڑ پھڑانے لگے.مرغے بھی آوازیں دینے لگے.بعض خوش الحان آنیوالی صبح کی خوشی میں اپنی پیاری راگنیاں گانے لگے.غرض انسان حیوان ، چرند، پرند، سب پر خود بخود ایک قسم کا اثر ہو جاتا ہے اور جوں جوں روشنی زور پکڑتی جاتی ہے.توں توں سب ہوش میں آتے جاتے ہیں.گلی ، کوچے، بازار ، دکانیں، جنگل، ویرا نے سب جو کہ رات کو بھیانک اور سنسان پڑے تھے.ان
حقائق الفرقان ۵۱۱ سُوْرَةُ الْفَلَقِ میں چہل پہل اور رونق شروع ہو جاتی ہے.گویا یہ بھی ایک قسم کا قیامت اور حشر کا نظارہ ہوتا ہے.خد تعالی فرماتا ہے کہ فالق الا صباح میں ہوں.حب : گیہوں، جو ، چاول وغیرہ اناج کے دانوں کو کہتے ہیں.دیکھو کسان لوگ بھی کس طرح سے اپنے گھروں میں سے نکال کر باہر جنگلوں میں اور زمین میں پھینک آتے ہیں.وہاں ان کو اندھیرے اور گرمی میں ایک کیڑا لگ جاتا ہے اور دانے کو مٹی کر دیتا ہے اور پھر وہ نشوونما پاتا، پھیلتا پھولتا ہے اور کس طرح ایک ایک دانہ کا ہزار دو ہزار بن جاتا ہے.اسی طرح ایک گٹک ( کٹھلی ) کیسی رڈی اور ناکارہ چیز جانی گئی ہے.لوگ آم کا رس چوس لیتے ہیں.گٹھلی پھینک دیتے ہیں، عام طور سے غور کر کے دیکھ لو کہ گٹھلی کو ایک رڈی اور بے فائدہ چیز جانا گیا ہے.مختلف پھلوں میں جو چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے وہ کھائی جاتی ہے اور گٹھلی پھینک دی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں فَالِقُ الْحَبِ وَالنَّوَى ( الانعام: ۹۶) اس چیز کو جسے تم لوگ ایک ردی سمجھ کر پھینک دیتے ہو اس سے کیسے کیسے درخت پیدا کرتا ہوں کہ انسان، حیوان ، چرند، پرندسب اس سے مستفید ہوتے ہیں.ان کے سائے میں آرام پاتے ہیں.ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.میوے، شربت، غذا ئیں، دوائیں اور مقوی اشیاء خوردنی ان سے مہیا ہوتی ہیں.ان کے پتوں اور ان کی لکڑی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہو.گٹھلی کیسی ایک حقیر اور ذلیل چیز ہوتی ہے مگر جب وہ خدائی تصرف میں آ کر خدا کی ربوبیت کے نیچے آجاتی ہے تو اس سے کیا کا کیا بن جاتا ہے.غرض اس چھوٹی سی سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے لفظ فلق کے نیچے بار یک در بار یک حکمتیں رکھی ہیں اور انسان کو ترقی کی راہ بتائی ہے کہ دیکھو جب کوئی چیز میرے قبضہ قدرت اور ربوبیت کے ماتحت آ جاتی ہے تو پھر وہ کس طرح ادنی اور ارذل حالت سے اعلیٰ اور اعلیٰ بن جاتی ہے.پس انسان کو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو مد نظر رکھ کر اور اس کی کامل قدرت کا یقین کر کے اور اس کے اسماء اور صفات کا ملہ کو پیش نظر رکھ کر اس سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے بڑھا تا اور ترقی دیتا ہے.مجھے ایک دفعہ ایک نہایت مشکل امر کے واسطے اس دعا سے کام لینے سے کامیابی نصیب ہوئی لے دانے اور گٹھلی کا چیرنے والا ہوں.
حقائق الفرقان ۵۱۲ سُوْرَةُ الْفَلَقِ تھی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں لاہور میں گیا.میرے آشنا نے مجھے ایک جگہ لے جانے کے واسطے کہا اور میں اس کے ساتھ ہو لیا مگر نہیں معلوم کہ کہاں لے جاتا ہے اور کیا کام ہے.اس طرح کی بے علمی میں وہ مجھے ایک مسجد میں لے گیا.جہاں بہت لوگ جمع تھے.قرائن سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کسی مباحثہ کی تیاری ہے.میری چونکہ نماز عشاء باقی تھی.میں نے ان سے کہا کہ مجھے نماز پڑھ لینے دو.یہ مجھے ایک موقع مل گیا کہ میں دعا کرلوں.خدا کی قدرت اس وقت میں نے اس سورۃ کو بطور دعا پڑھا اور بار یک در بار یک رنگ میں اس دعا کو وسیع کر دیا اور دعا کی کہ اے خدائے قادر و توانا تیرا نام فالفی الْإِصْبَاحَ فَالِی الْحَبِ وَالنَّوى ہے.میں ظلمات میں ہوں.میری تمام ظلمتیں دور کر دے اور مجھے ایک نور عطا کر جس سے میں ہر ایک ظلمت کے شر سے تیری پناہ میں آ جاؤں.تو مجھے ہر امر میں ایک حجت نیزہ اور برہان قاطعہ اور فرقان عطا فرما.میں اگر اندھیروں میں ہوں اور کوئی علم مجھ میں نہیں ہے تو تو ان ظلمات کو مجھ سے دور کر کے وہ علوم مجھے عطا فرما اور اگر میں ایک دانے یا گٹھلی کی طرح کمزور اور ر ڈی چیز ہوں تو تو مجھے اپنے قبضہ قدرت اور ربوبیت میں لے کر اپنی قدرت کا کرشمہ دکھا.غرض اس وقت میں نے اس رنگ میں دعا کی اور اس کو وسیع کیا جتنا کہ کر سکتا تھا.بعدہ میں نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کی طرف مخاطب ہوا.خدا کی قدرت کہ اس وقت جو مولوی میرے ساتھ مباحثہ کرنے کے واسطے تیار کیا گیا تھا.وہ بخاری لیکر میرے سامنے بڑے ادب سے شاگردوں کی طرح بیٹھ گیا اور کہا.یہ مجھے آپ پڑھا دیں.وہ صلح حدیبیہ کی ایک حدیث تھی.حضرت مرزا صاحب کے متعلق اس میں کوئی ذکر نہ تھا.لوگ حیران تھے اور میں خدا تعالیٰ کے تصرف اور کا ملہ قدرت پر خدا کے جلال کا خیال کرتا تھا.آخر لوگوں نے اس سے کہا کہ یہاں تو مباحثہ کے واسطے ہم لائے تھے.تم ان سے پڑھنے بیٹھ گئے ہو.اگر پڑھنا ہی مقصود ہے تو ہم مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کر دیتے.ان کے ساتھ جموں چلے جاؤ اور روٹی بھی مل جایا کریگی.وہی شخص ایک بار پھر مجھے ملا اور کہا کہ میں اپنی خطا معاف کرانے آیا ہوں کہ میں نے کیوں آپ کی بے ادبی کی.میں حیران تھا کہ اس نے میری کیا بے ادبی کی.حالانکہ اس وقت بھی اس نے
حقائق الفرقان ۵۱۳ سُوْرَةُ الْفَلَقِ میری کوئی بے ادبی نہ کی تھی.غرض یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا قادر خدا ہے اور اس کے تصرفات بہت یقینی ہیں.اس وقت تم لوگوں کے سامنے ایک زندہ نمونہ رب الفلق کے ثبوت میں کھڑا ہے.اپنے ایمان تازہ کرو اور یقین جانو کہ اللہ تعالیٰ سچی تڑپ اور درددل کی دعا کو ہرگز ہر گز ضائع نہیں کرتا.مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ مخلوق الہی میں بعض چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ بعض اوقات انسان کے واسطے مضر ہو جاتی ہیں ان سے بھی اللہ تعالیٰ ہی بچا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں.وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ اور اندھیرے کے شر سے جب وہ بہت اندھیرا کر دیوے.ہر اندھیرا ایک تمیز کو اٹھاتا ہے.جتنے بھی موذی جانور ہیں.مثلاً مچھر، پسو، کھٹمل ، بجوں ، ادنیٰ سے اعلیٰ اقسام تک کل موذی جانوروں کا قاعدہ ہے کہ وہ اندھیرے میں جوش مارتے ہیں اور اندھیرے کے وقت ان کا ایک خاص زور ہوتا ہے.ظلمت بھی بہت قسم کی ہے.ایک ظلمت فطرت ہوتی ہے.جب انسان میں ظلمت فطرت ہوتی ہے تو اس کو ہزار دلائل سے سمجھاؤ اور لاکھ نشان اس کے سامنے پیش کرو.وہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ سکتے.ایک ظلمت جہالت ہوتی ہے.ایک ظلمت عادت ظلمت رسم، ظلمت صحبت ، ظلمت معاصی غرض یہ سب اندھیرے ہیں.دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ان سب سے محفوظ رکھے.وَ مِنْ شَرِّ النَّفْتِ فِي الْعُقَدِ : اس قسم کے شریر لوگ بہت خطرناک ہوتے ہیں.میں نے اس قسم کے لوگوں کی بہت تحقیقات کی ہے اور اس میں مشغول رہا ہوں اور طب کی وجہ سے ایسے لوگوں سے مجھے واسطہ بھی بہت پڑا ہے کیونکہ اس علم کی وجہ سے ایسے لوگوں کو بھی میرے پاس آنے کی ضرورت پڑی ہے اور میں نے ان لوگوں سے دریافت کیا ہے.ان لوگوں کو خطر ناک قسما قسم کے زہر یاد ہوتے ہیں.جن کے ذریعہ سے بعض امراض انسان کے لاحق حال ہو جاتی ہیں.وہ زہر یہ لوگ بار یک در بار یک تدابیر سے خادماؤں یا چوہڑیوں کے ذریعہ سے لوگوں کے گھروں میں دفن کرا دیتے
حقائق الفرقان ۵۱۴ سُوْرَةُ الْفَلَقِ ہیں.آخر کاران کے اثر سے لوگ بیمار ہو جاتے ہیں.پھر ان کے چھوڑے ہوئے لوگ مرد اور عورتیں ان بیماروں کو کہتے ہیں کہ کسی نے تم پر جادو کیا ہے.کسی نے تم پر سحر کیا ہے.لہذا اس کا علاج فلاں شخص کے پاس ہے.آخر مرتا کیا نہ کرتا.لوگ ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور یہ لوگ اپنی مستورات کے ذریعہ سے چونکہ ان کو علم ہوتا ہے کہ وہ زہر کہاں مدفون ہے اور ان کے پاس ایک با قاعدہ فہرست ہوتی ہے.وہ زہر مدفون نکال کر اُن کو بتاتے ہیں اور اس طرح سے ان بیماروں کا اعتقاد اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے.پھر ان لوگوں کو چونکہ ان زہروں کے تریاق بھی یاد ہوتے ہیں.ان کے استعمال سے بعض اوقات تعویذ کے رنگ میں لکھ کر پلوانے سے یا کسی اور ترکیب سے ان کا استعمال کراتے ہیں اور اُن سے ہزاروں روپیہ حاصل کرتے ہیں.اس طرح سے بعض کو کامیاب اور بعض کو ہلاک کرتے ہیں.ایک تو یہ لوگ ہیں جولوگوں کو اپنے فائدے کی غرض سے قسم قسم کی ایذائیں پہنچاتے ہیں.دوسری قسم کے وہ شریر لوگ ہیں جو مومنوں کے کاروبار میں اپنی بد تدابیر سے روک اور حرج پیدا کرتے ہیں اور اس طرح سے پھر مومنوں کی کامیابی میں مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.مگر آخر کار وہ نا کام رہ جاتے ہیں.اور مومنین کا گروہ مظفر ومنصور اور بامراد ہو جاتا ہے.وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ : کسی کی عزت ، بھلائی، بڑائی ، بہتری ، اکرام اور جاہ وجلال کو دیکھ کر جلنے والے لوگ بھی بڑے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ وہ بھی انسانی ارادوں میں بوجہ اپنے حسد کے روک پیدا کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.غرض یہ سورۃ مشتمل ہے ایک جامع دُعا پر.رسول اکرم نے اس سورۃ کے نزول کے بعد بہت سے تعوذ کی دعائیں ترک کر دی تھیں اور اسی کا ورد کیا کرتے تھے.حتی کہ بیماری کی حالت میں بھی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس سورۃ کو آپ کے دست مبارک پر پڑھ پڑھ کر آپ کے منہ اور بدن پر ملتی تھیں.مگر افسوس کہ مسلمانوں نے عام طور سے اب ان عجیب پر تاثیر اور ادکوقریباً ترک ہی کر دیا ہے.انسان جب ایک گناہ کرتا ہے تو اُسے دوسرے کے واسطے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ ایک گناہ
حقائق الفرقان ۵۱۵ سُوْرَةُ الْفَلَقِ دوسرے کو بلاتا ہے اور اسی طرح ایک نیکی دوسری نیکی کو بلاتی ہے.دیکھو بدنظری ایک گناہ ہے.جب انسان اس کا ارتکاب کرتا ہے تو دوسرے گناہ کا بھی اسے ارتکاب کرنا پڑتا ہے اور زبان کو بھی اس طرح شامل کرتا ہے کہ کسی سے دریافت کرتا ہے کہ یہ عورت کون ہے.کس جگہ رہتی ہے وغیرہ وغیرہ.اب زبان بھی ملوث ہوئی اور ایک دوسر اشخص بھی اور جواب سننے کی وجہ سے کان بھی شریک گناہ ہو گئے اس کے بعد اس کے مال اور روپیہ پر اثر پڑتا ہے اور اس گناہ کے حصول کے واسطے روپیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے.غرض ایک گناہ دوسرے کا باعث ہوتا ہے.پس مسلمان انسان کو چاہیے کہ ایسے ارادوں کے ارتکاب سے بھی بچتا ر ہے اور خیالات فاسدہ کو دل میں بھی جگہ نہ پکڑنے دے اور ہمیشہ دعاؤں میں لگا ر ہے.انسان اپنی حالت کا خود اندازہ لگا سکتا ہے.اپنے دوستوں اور ہم نشینوں کو دیکھتا ہے کہ کیسے لوگوں سے قطع تعلق کیا ہے.اور کیسے لوگوں کی صحبت اختیار کی ہے.اگر اس کے یار آشنا اچھے ہیں اور جن کو اس نے چھوڑا ہے ان سے بہتر اسے مل گئے ہیں.جب تو خوشی کا مقام ہے.......ورنہ بصورت دیگر خسارہ میں دیکھنا چاہیے کہ جو کام چھوڑا ہے اور جو اختیار کیا ہے.ان میں سے اچھا کون سا ہے.اگر برا چھوڑ کر اچھا کام اختیار کیا ہے.تو مبارک.ورنہ خوف کا مقام ہے.کیونکہ ہر نیکی دوسری نیکی کو اور ہر بدی دوسری بدی کو بلاتی ہے.اللہتعالیٰ تم لوگوں کو توفیق دے کہ تم اپنے نفع اور نقصان کو سمجھ سکو.اور نیکی کے قبول کرنے اور بدی کے چھوڑنے کی توفیق عطا ہو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۷ ۳ جلد ۱۲ مورخه ۶ رجون ۱۹۰۸ صفحه ۳.۴) اس سورہ شریف کی تفسیر سے پہلے اس امر کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس سورہ کے شانِ نزول میں بعض مفسروں نے یہ بیان کیا ہے کہ کسی یہودی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تھا اور اس قسم کے جادوگروں کے شر سے محفوظ رکھنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھلائی.اس واقعہ کواگر احادیث میں دیکھا جائے.اوّل تو اس حدیث کا راوی صرف ایک شخص ہے یعنی ہشام حالانکہ اتنے بڑے واقعہ کے واسطے ضروری تھا کہ کوئی اور صاحب بھی اس کا ذکر کرتے.دوم اگر
حقائق الفرقان ۵۱۶ سُوْرَةُ الْفَلَقِ یہ واقعہ صحیح بھی ہو تو اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت پر اس جادو کا کچھ اثر ہو گیا تھا یا آنحضرت نے ان جادو کرنے والے لوگوں کا کچھ پیچھا کیا تھا یا ان کو گرفتار کیا تھا.ہاں اس میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ ہر زمانہ میں اور ہر ملک میں اس قسم کے آدمی ہوا کرتے ہیں جن کا یہ پیشہ ہوا کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر جادو کیا کریں.اور یہ لوگ تین قسم کے ہوتے ہیں.ایک تو وہ جو خفیہ سازشوں اور شرارتوں کے ذریعہ سے لوگوں کو سزا دیتے ہیں.مثلاً ایک شخص ان کے پاس آیا ہے.اور وہ ایک دوسرے شخص کے ساتھ دشمنی رکھتا ہے.اس واسطے ان کے پاس اپنی یہ خواہش لاتا ہے کہ میرا دشمن مر جائے یا کسی سخت بیماری میں مبتلا ہو جائے یا مجنون ہو جائے تو وہ اس شخص کو ویسے ہی کوئی تعویذ سا بنا دیں گے یا کوئی تاکہ گر ہیں ڈال کر دیدیں گے اور کہہ دیں گے کہ یہ کسی طرح اپنے دشمن کو کھلاؤ یا اس کے گھر ڈال دو.یا اور کوئی بات اس قسم کی بتلاویں گے لیکن دراصل یہ صرف ایک ظاہری بات اس شخص کو دھوکا دینے والی ہوگی اور خفیہ طور پر وہ اس کے دشمن کو کسی دوائی کے ذریعہ سے بیمار کرنے یا مجنون کرنے یا ہلاک کرنے پر کمر باندھیں گے.اور کسی نہ کسی حیلہ سے اس کام کو پورا کر کے اپنے جادو گر ہونے کا لوگوں کو یقین دلائیں گے.دوسرے قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں.جو توجہ کے ذریعہ سے اس معاملہ میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور دوسروں کو دکھ دینے کے درپے رہتے ہیں.اس قسم کے لوگ بھی ہمیشہ دنیا میں ہوتے رہے ہیں.اور آجکل اس گروہ کی ایک بڑی جماعت امریکہ میں موجود ہے.ان کا مطلب بھی سوائے شرارت کے اور کچھ نہیں ہوتا.اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے پیشہ کو مخفی رکھتے ہیں.ورنہ گورنمنٹ ایسے لوگوں کو ہر جگہ گرفتار کر کے سزا دیتی ہے.ایسے لوگوں کی شرارتوں سے بچنے کے واسطے انسان کو چاہیے کہ ہمیشہ ہوشیار ر ہے اور ہوشیاری کا سب سے عمدہ اور اعلیٰ طریقہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں ان کی شرارت سے پناہ مانگی جائے.اس سورہ شریفہ سے پہلے سورۃ اخلاص ہے.جس میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا تذکرہ ہے.اور اس کے ساتھ ان دوسورتوں میں اس فیضان کا تذکرہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر وارد
حقائق الفرقان ہوتا ہے.۵۱۷ سُوْرَةُ الْفَلَقِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر نہ ہونے کی ایک ظاہر دلیل یہ ہے کہ آنحضرت ↓ کو مسحور کہنا تو قرآن شریف میں کفار کا قول ہے جو کہ جھوٹا قول ہے.اور نیز خدا تعالی کا کلام ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.(المائده: ۲۸) پھر کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ کسی یہودی کا جادو آنحضرت پر چل جاتا.اس جگہ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بیماری کے وقت بیمار کے حق میں دعا کرتے ہوئے خدا تعالیٰ سے استعاذ کر نا طریق سنت ہے.دوا کرنا بھی ضروری ہے مگر اس کے ساتھ دعا بھی چاہیے.چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے.قَالَ ابْنُ عَبَّاس كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا مِنَ الْأَوْجَاعِ كُلِّهَا وَ الْحُمَّى هَذَا الدُّعَاء بِسْمِ اللهِ الْكَرِيمِ اَعُوْذُ بِاللَّهِ الْعَظِيْمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عَرْقٍ نَعَارٍ وَشَرِ حَرَّ النَّارِ - حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تمام دردوں اور بخار کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو یہ دعا سکھایا کرتے تھے.اللہ کے نام کے ساتھ جو کریم ہے.خدا اعظیم کی پناہ مانگتا ہوں.کبر کے شر سے اور آگ کی گرمی کے شر سے.اس طرح خدا تعالیٰ کے حضور میں پناہ مانگنے کی دعا ئیں بہت سی احادیث میں وارد ہیں.جن میں سے بعض بمعہ ترجمہ اس جگہ نقل کی جاتی ہیں.اعُوذُ بِعِزَّةِ اللهِ وَ قُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَ أَحَاذِرُ سَبْعًا) بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيْكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عَيْنٍ حَاسِدٍ اللهُ يَشْفِيكَ بِسْمِ اللهِ أَرْقِيْكَ أَعِيذُ كُمَا بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَ مِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ أَسْأَلُ اللهَ الْعَظِيمَ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيكَ بِسْمِ اللهِ الْكَبِيرِ أَعُوذُ بِاللهِ الْعَظِيْمِ مِنْ شَرِّ كُلِّ عِرْقٍ نَعَارٍ وَ مِنْ شَرِّ حَرِ النَّارِ رَبُّنَا اللهُ الَّذِي فِي السَّمَاءِ تَقَدَّسَ اسْمُكَ أَمْرُكَ فِي السَّمَاءِ وَ الْأَرْضِ كَمَارٌ حُمَتُكَ فِي السَّمَاءِ فَاجْعَلْ رَحْمَتَكَ فِي الْأَرْضِ اغْفِرْ لَنَا حُوْبَنَا وَخَطَايَانَا - أَنْتَ رَبُّ لے اور اللہ تیری حفاظت کرے گا لوگوں سے.
حقائق الفرقان ۵۱۸ سُوْرَةُ الْفَلَقِ الطَّيِّبِينَ انْزِلْ رَحْمَةً مِنْ رَحْمَتِكَ وَشَفَاء مِنْ شَفَائِكَ عَلَى هَذَا لُوَجْعِ اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ يَنْكَالَكَ عَدُوًّا وَ يَمْشِي لَكَ إِلى جَنَازَةٍ.اللهم أحيني مَا كَانَتِ الْحَيَوةُ خَيْرًا لِي وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرَاتِي - اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ وَ دَرْكِ الشَّقَاءِ وَسُوءِ الْقَضَاءِ وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْهَةِ وَالْحُزْنِ وَ الْعِجْزِ وَالْكَسْلِ وَالْجُبْنِ وَالْبُخْلِ وَضَلَعِ الدِّيْنِ وَغَلَبَةِ الرجال - عربی تفسیر سے ترجمہ: پناہ چاہتا ہوں میں اللہ کی عزت اور قدرت کی اس چیز کی بدی سے جو پاتا ہوں اور ڈرتا ہوں میں (سات بار کہے) اللہ کے نام کے منتر پڑھتا ہوں کہ تجھ پر ہر چیز سے جو ایذادے تجھ کو بدی سے ہر جان کے اور آنکھ سے حسد کر نیوالے کے اور شفادے تجھ کو اللہ کے نام سے منتر پڑھتا ہوں تجھ پر.پناہ میں دیتا ہوں میں تم دونوں کو اللہ کے کلموں کی جو پوری ہیں بدی سے ہر شیطان اور جانور ایذاء دینے والے اور ہر آنکھ نظر لگا نیوالی کی سے مانگتا ہوں اللہ عظمت والے سے جو صاحب ہے عرش بڑے کا کہ شفادے تجھ کو.ساتھ نام اللہ بڑائی والے کے پناہ چاہتا ہوں اللہ کی جو عظمت والا ہے بدی سے ہر رگ جوش مارنیوالی کے اور بدی سے دوزخ کی گرمی کے.رب ہمارا اللہ ہے جو آسمان میں ہے پاک ہے نام تیرا حکم ہے تیرا آسمان اور زمین میں جس طرح ہے رحمت تیری آسمان میں.پس کر رحمت اپنی زمین میں بخش واسطے ہمارے گناہ ہمارے اور چوک ہماری تو ہے صاحب پاکوں کا اتار رحمت اپنی میں سے رحمت اور شفا اپنی شفا میں سے اس بیماری پر اے اللہ شفادے اپنے بندے کو کہ زخمی کرے تیری راہ میں دشمن کو اور چلے تیرے واسطے ساتھ کسی جنازہ کے.اے اللہ چلا تو مجھ کو کہ جب تک کہ ہو زندگی بہتر میرے واسطے اور مار مجھے کو جس وقت ہوموت بہتر واسطے میرے.اے اللہ تیری پناہ مانگتا ہوں بلاء کی مشقت سے اور بدبختی کے ملنے سے اور بڑے فیصلہ سے اور دشمنوں کے خوش ہونے سے.اے اللہ تحقیق میں پناہ چاہتا ہوں فکر اور غم سے اور ناتوانی اور ستی سے
حقائق الفرقان ۵۱۹ سُوْرَةُ الْفَلَقِ اور نامردی اور بخل سے اور قرض کے بوجھ سے اور لوگوں کے غلبہ سے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹۵٬۳۹۴) فلق : اس چیز کو کہتے ہیں جو کہ پھٹ کر پیدا ہو.جیسا کہ دانہ جو زمین میں بویا جاتا ہے اور جب اس کونمی پہنچتی ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے اور اس میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہوتا ہے.ایسا ہی فلق صبح کو بھی کہتے ہیں کہ رات کی تاریکی پھٹ جاتی ہے اور اس میں سے صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے.زجاج کا قول ہے الْفَلَقِ الصُّبْحُ لِأَنَّ اللَّيْلَ يَفْلِقُ عَنْهُ الصُّبْحُ وَيَفْرِقُى فعل بمعنى مفعول.فلق صبح کو کہتے ہیں کیونکہ رات سے صبح نکلتی ہے اور جدا ہوتی ہے.اس جگہ فعل مفعول کے معنوں میں آیا ہے.اس کی مثال ہے هُوَ ابيِّنُ مِن فَلَقِ الصُّبْحِ.ایسا ہی قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کی صفات میں بیان ہوا ہے کہ وہ فَالِقُ الْإِصْبَاح (الانعام: ۹۷) ہے.رات کے وقت جب تمام دنیا پر اندھیرا چھا جاتا ہے.تو بادشاہ اور سپاہی ، امیر اور غریب سب برابر ہو جاتے ہیں.تاریکی میں شناخت نہیں ہو سکتی کہ دشمن کون ہے اور دوست کون ہے.کونسی چیز مفید ہے اور کون سی چیز ضر ر دینے والی ہے.لیکن جب صبح کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو انسان پہچان لیتا ہے کہ یہ میرا دوست ہے اور یہ دشمن ہے.اور اس چیز سے مجھے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور اس سے نقصان کا احتمال ہوسکتا ہے گویا اس میں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے کہ اے پروردگار اگر چہ ہم اپنی نادانی اور بے علمی اور گناہ گاری کے سبب ایک ظلمت اور تاریکی در تاریکی میں پڑے ہوئے ہیں.لیکن تیری وہ ذات ہے کہ تمام تاریکیوں کو دور کر دیتی ہے اور روشنی اور نور پیدا کر کے دکھ دینے والی چیزوں سے انسان کو بچانے والا تو ہی ہے.پس تو ہی ہم پر رحم فرما.کیونکہ تیرے حضور میں ہم تمام تاریکیوں سے پناہ گزین ہوتے ہیں قَالَ الْعَرَبُ فِي لُغَاتِ الْقُرْآنِ الْفَلَقُ شَقُ السَّنِي أَوْ إِبَانَةُ بَعْضِهِ عَنْ بَعْضٍ يُقَالُ فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقِ.قَالَ اللهُ) تَعَالَى فَالِقُ الْإِصْبَاحِ وَقَالَ فَالِقُ الْحَيَّ وَ النَّوى ( الانعام : ١١٦) وَ قَالَ فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ (الشعرا : ۲۴).وقوله تعالى قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ (الفلق :۲) الْفَلَقُ بِالتَّحْرِيكِ قِيْلَ هُوَ ضَوْءُ الصُّبْحِ وَإِنَارَتُهُ وَ الْمَعْلَى قُلْ يَأْمُخَاطِبُ اعْتَصِمُ وَ امْتَنِعْ بِرَبِّ
حقائق الفرقان ۵۲۰ سُوْرَةُ الْفَلَقِ الصُّبْحِ وَخَالِقِهِ وَمُدَيْرِهِ وَ مُطْلِعِهِ مَتَى شَآءَ عَلَى مَايُرَى مِنَ الصَّلَاحِ فِيْهِ وَيُقَالُ هُوَا لْخَلْقُ كُلُّهُ لِأَنَّهُمْ يَنْفَلِقُونَ بِالْخُرُوجِ مِنْ أَصْلَابِ الْآبَاءِ وَ أَرْحَامِ الْأُمَّهَاتِ كَمَا يَنْفَلِقُ الْحَبُّ مِنَ الثَّبَاتِ وَيُقَالُ الْفَلَقُ مَا يَنْفَلِقُ عَنِ الشَّيْءِ وَهُوَ يَعُةُ جَمِيعَ الْمَسْكَنَاتِ لِأَنَّهُ جَلَّ شَانُهُ فَلَقَ ظُلْمَةَ عَدمِهَا بِنُورِ ایجادِهَا - ترجمہ کسی شے کے پھٹنے کو یا بعض سے بعض کو جدا کرنے کو کہتے ہیں.جیسا کہ عربی میں کہتے ہیں.فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ میں نے اُسے پھاڑا پس وہ پھٹ گیا.ایسا ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.فائق الإصباح صبح کا پھاڑنے والا ، ظاہر کرنے والا نمودار کرنے والا اور ایسا ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.فَالِقُ الْحَبِ وَالتَّوی دانے اور گٹھلی کے پھاڑنے والا اور اُن سے درخت بنانے والا اور ایسا ہی قرآن شریف میں آیا ہے.فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبُ بعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ (الشعراء: ۶۴) پس ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ اپنی جماعت کو دریا میں لے چل.پس وہ دریا پھٹ گیا.اور جماعت کے واسطے راستہ ہو گیا اور لشکر صاف نکل گیا اور ایسا ہی اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں فرمایا ہے قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ کہ میں پناہ پکڑتا ہوں ساتھ پروردگار فلق کے اس جگہ لفظ فلق حرف ل کی زبر کے ساتھ ہے اور اس کے معنی ہیں.صبح کی روشنی اور اس کا چمکنا اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اے مخاطب حفاظت طلب کر اور پناہ مانگ، اس رب کے حضور میں جو صبح کا رب اور خالق اور مدبر ہے.اور اس کے چڑھانے والا ہے.جب چاہے اور جس کے لئے اس میں صلاحیت دیکھے اور بعض کا قول ہے کہ اس جگہ فلق سے مراد تمام مخلوقات ہے کیونکہ وہ سب کے سب مذکر کے اصلاب سے اور مؤنث کے ارحام سے نکلے ہیں.ایسا ہی دانہ پھٹتا ہے تو اس سے سبزی نکلتی ہے اور بعض کہتے ہیں کہ فلق وہ ہے جو کسی بھے سے پھٹ کر جدا ہوتی ہے اور یہ عام ہے تمام مخلوقات پر.کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے عدم کی ظلمت کو پھاڑ کر اس کو وجود کی روشنی میں لاتا ہے.اور فلق کے ذکر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو ذات صفحہ عالم سے ان ظلمات اور تاریکیوں کو ٹھوکر نے اور مٹادینے پر تام قدرت رکھتی ہے اسے یہ بھی طاقت اور قدرت ہے کہ جو شخص عاجزی کے ساتھ اس کی طرف رجوع کرتا ہے اور اس سے پناہ جو ہوتا ہے وہ اس کے تمام خوف اور
حقائق الفرقان ۵۲۱ سُوْرَةُ الْفَلَقِ دہشت کو دُور کر دیتا ہے.علاوہ ازیں صبح کا طلوع ہونا آغاز فرحت وسرور کی مثال ہے کہ جس طرح آدمی تمام رات طلوع فجر کا انتظار کرتا ہے.اسی طرح خائف و عائذ ، نجاح و فلاح کے طلوع صبح کا انتظار کرتے ہیں.بہر تقدیر خدا تعالیٰ کے حضور پناہ مانگنی چاہیے.تمام مخلوق کی برائی سے.موذی آدمی.جن، درندے ، وحشی جانور ، سانپ بچھو وغیرہ سے..کعب بن احبار فرماتے ہیں کہ دوزخ میں ایک لق و دق جنگل ہے اس کا نام فلق ہے.جب وہ کھولا جاتا ہے تو سارے دوزخی اس کی شدت گرمی کی وجہ سے چیخنے لگتے ہیں.بعض کہتے ہیں کہ دوزخ کی تہہ میں ایک کنواں ہے.جسے فلق کہتے ہیں.اس پر ایک پردہ پڑا ہوا ہے.جب وہ اٹھا دیا جاتا ہے.تو اس میں ایک ایسی سخت آگ نکلتی ہے جس سے خود جہنم چیختی ہے.علاوہ اس کے اور بھی بہت سے اقوال ہیں.مگر سب سے صحیح تر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فلق صبح کو کہتے ہیں یا دانہ اور گٹھلی کے پھوٹنے اور اُگنے کا نام ہے.بعض نے کہا ہے کہ یوسف علیہ السلام جب کنوئیں میں ڈالے گئے تھے تو آپ کے گھٹنے میں سخت درد ہوا ( شاید گرنے کے سبب چوٹ لگی ہو ) ایسا سخت درد ہوا کہ تمام رات جاگتے ہوئے گزری.یہاں تک کہ طلوع صبح کا وقت ہو گیا.تب ایک فرشتہ نازل ہوا جس نے آپ کو تسلی دی اور کہا کہ خدا تعالیٰ سے دعا مانگو.وہ اس درد کو دور کر دیگا.حضرت یوسف نے اس فرشتے کو کہا کہ تو دعا کر میں آمین کہوں گا چنانچہ اس فرشتے نے دعا کی اور حضرت یوسف نے آمین کہی.تب خدا تعالیٰ نے اس دعا کو قبول فرمایا اور وہ درد تھم گیا اور ان کو آرام ہو گیا.تب حضرت یوسف نے دعا کی کہ اس وقت جس قدر بیمار ہیں اور تکلیف میں ہیں ان سب کو آرام دیا جائے.فرشتے نے اس دعا پر بھی آمین کہی اور کہتے ہیں.یہی سبب ہے کہ صبح کے وقت ہر بیمار کو تھوڑا بہت افاقہ ہو جاتا ہے.وہ دعا حضرت یوسف کی مفصلہ ذیل الفاظ میں تھی.يَاعُد تي فِي شِدتِي وَ يَا مُونِسَى فِي وَحْشَتِي وَ رَاحِمَ غُرْيَتِي وَ كَاشِفَ كُرْبَتِي وَيَا مُجِيبَ دَعْوَتِي وَيَا الهِي وَالهَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ ارْحَمْ صِغَرَسِي وَ ضُعْفَ رُكْنِي وَقِلَّةَ حِيْلَتِي
حقائق الفرقان ۵۲۲ سُوْرَةُ الْفَلَقِ يَا حَتى يَا قَيُّومُ يَاذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ - اے میرے ہتھیار میرے مصائب میں اور میرے مونس میری وحشت کے وقت اور اے رحم کرنے والے میری غربت پر اور اے میری گھبراہٹ کے دور کر نیوالے اور اے میری دعا کے قبول کرنے والے اور اے میرے معبود اور میرے باپ دادوں کے معبود ابراہیم و اسحق اور یعقوب کے معبود میری چھوٹی عمر پر رحم فرما اور میرے ضعف رکن پر رحم فرما اور میرے حیلہ کے کم ہونے پر رحم کر.اے جی اے قیوم.اے صاحب جلال اور اکرام.مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ : جو کچھ خدا نے پیدا کیا.اس کے شر سے.یعنی تمام پیدائش الہی میں جو اشیاء انسان کے واسطے مضر اور خراب اور تکلیف دہ ہیں ان سب سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پناہ چاہتا ہے.بعض کا قول ہے کہ شرّ مَا خَلَق سے مراد شیطان ہے کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی شئے انسان کے واسطے موجب شر اور دکھ اور تکلیف نہیں ہے ایک قول یہ ہے کہ شَرِّ مَا خَلَقَ سے مراد جہنم ہے گویا کہ انسان خدا تعالیٰ کے حضور جہنم سے پناہ چاہتا ہے.بہر حال اس میں تمام موذی اور دکھ دینے والے اور خدا سے دور رکھنے والی اشیاء سے خدا کے حضور پناہ مانگی گئی ہے.خواہ وہ شیطان ہو یا جن یا موذی حیوان مثل بچھو، سانپ، شیر وغیرہ.غاسق:اندھیرا کرنے والا.ہر ایک چیز جو تاریکی اور ظلمت پیدا کرے.غاسق رات کو کہتے ہیں اور غسق تاریکی کو کہتے ہیں کیونکہ رات تاریکی پیدا کرتی ہے.اس واسطے وہ غاسق ہے.اور غسق بر دکو بھی کہتے ہیں.کیونکہ رات بہ نسبت دن کے ٹھنڈی ہوتی ہے.غاسق ثریا کو بھی کہتے ہیں.کیونکہ ان کا گرنا عموما وباء اور بیماریوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے.اور غاسق سورج کو بھی کہتے ہیں جبکہ غروب ہو جاوے اور چاند کو بھی کہتے ہیں جبکہ اس کو گہن لگے.غاسق سانپ کو بھی کہتے ہیں جبکہ وہ کاٹ کھائے اور ہر ایک نا گہاں آنے والی چیز جو ضرر پہنچائے یا بھیک مانگنے والا جبکہ وہ تنگ کرے تو اس کو بھی غاسق کہتے ہیں.غرض ہر ایک چیز جو انسان کو ظلمت روحانی یا جسمانی میں ڈالے اس کو
حقائق الفرقان ۵۲۳ سُوْرَةُ الْفَلَقِ غاسق کہتے ہیں.جب رات بہت تاریک ہو تو عرب کے محاورہ میں کہتے ہیں غُسَقَ الَّيْلُ.اور جب آنکھیں آنسوؤں سے بھر جائیں تو کہتے ہیں.غَسَقَتِ الْعَيْنُ اور جب زخم پیپ جائے تو کہتے ہیں غَسَقَتِ الْجَرَاحَةُ - وَقَبَ : کے معنے ہیں چُھپ گیا.وقت کے اصلی معنے ہیں کسی شئے میں داخل ہونا.ایسا کہ وہ نظر سے غائب ہو جاوے.حدیث شریف میں آیا ہے رَوَى أَبُو سَلَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهُ أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بِيَدِهَا وَ أَشَارَ إِلَى الْقَمَرِ وَقَالَ اسْتَعِيْنِي بِاللهِ مِنْ شَيْرِ هَذَا فَإِنَّهُ الْغَاسِقُ إِذَا وَقَبَ ابوسلمہ نے حضرت عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ کا ہاتھ پکڑا اور چاند کی طرف جبکہ وہ کسوف میں تھا اشارہ کر کے فرمایا کہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پناہ مانگ کہ یہ اندھیرا کرنے والا ہے جبکہ چھپ جائے.التَّقْفتِ فِي الْعُقَدِ : گر ہوں میں پھونکنے والیاں.التَّقْقَتِ النَّفْحُ وَمَعَ رِيقٍ - نفت کے معنے ہیں پھونکنا جن میں تھوک بھی ہو.گرہ میں پھونکنا جیسا کہ جادو گر لوگ تا گوں میں گر ہیں ڈال کر پھونکتے ہیں.اور لوگوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ اس کا اثر ہوتا ہے.گرہ میں پھونکنا اور گرہ دینا یہ ایک محاورہ ہے.جس کے معنی ہیں کسی کام میں رکاوٹ ڈالنے کے واسطے کوشش کرنا جیسا کہ وہ لوگ جو جادوگری کا پیشہ رکھتے ہیں اپنی جھوٹی جادوگری میں کامیابی حاصل کرنے کے واسطے خفیہ تدا بیر کرتے ہیں.ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ فلاں آدمی کو ہم نے جادو کے ذریعہ سے بیمار کر دیا ہے.اور دراصل کسی خفیہ ذریعہ سے اس قسم کی دوائیاں اس شخص کو کھلا دیتے ہیں جن سے وہ بیمار ہو جائے.پس ایسے خفیہ شریر لوگوں کی شرارت سے بچا رہنے کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور میں ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے.حاسد : وہ ہے جو یہ خواہش کرے کہ دوسرے کے پاس جو عمدہ شئے ہے وہ اس کو مل جاوے بسا اوقات اس حسد میں اس شخص کو نقصان پہنچانے کی بھی خواہش اور کوشش کرتا ہے جس کو اس نعمت کا
حقائق الفرقان مالک دیکھتا ہے.۵۲۴ سُوْرَةُ الْفَلَقِ لفظ حاسد کو اس جگہ نکرہ رکھا ہے.معروفہ نہیں رکھا.اس میں یہ حکمت ہے کہ حسد ہمیشہ برا نہیں ہوتا.بلکہ اگر نیکیوں کے حصول کے واسطے حسد کیا جائے تو وہ حسد محمود ہے.اس سورۃ میں انسان کے جسمانی فوائد کے واسطے دعا ہے اور انگلی سورۃ میں روحانی فوائد کی باتیں مندرج ہیں.یہ سورۃ بھی بجائے خود ایک جامع دعا ہے جن میں چار چیزوں سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں پناہ مانگی گئی ہے.ا.تمام مخلوقات کے شر سے.۲ تاریکی کرنے والی اشیاء کے شر سے.مخالفانہ مخفی تدابیر کر نیوالوں کے شر سے.۴.حاسد کے شر سے.فقرہ اول میں دراصل سب شامل ہیں اور فقرہ دوم و سوم و چہارم اُس کی تشریح ہیں.یعنی وہ تمام چیزیں جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہیں.ان میں جو امر اس قسم کا ہے کہ کسی انسان کے واسطے موجب تکلیف اور دکھ اور ضرر ہو سکتا ہے.ان سب سے خدا تعالیٰ ہم کو بچائے اور محفوظ رکھے.دنیا میں جس قدر مفاسد پیدا ہوتے ہیں.وہ یا تو بہ سبب تاریکی اور ظلمت کے پھیل جانے کے پیدا ہوتے ہیں.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دنیا میں ایک تاریکی پھیلی ہوئی تھی.لوگ روحانیت کی باتوں سے بے خبر تھے.نصاری مریم اور یسوع اور حواریوں کے بتوں کی پوجا کرتے تھے.ایرانی آتش پرستی میں مصروف تھے.ہندو کئی کروڑ دیوی دیوتاؤں کے آگے پیشانی رگڑنے میں مصروف ہو رہے تھے.تب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دنیا میں چمکا اور مخلوق الہی کے واسطے موجب ہدایت کا ہوا.سو یا تو مفاسد خود تاریکی کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں.اور یا مخالف دشمن لوگ شرارت کے ساتھ تاریکی پیدا کرنا چاہتے ہیں.اور فاسد لوگ از روئے حسد کے فساد مچا کر
حقائق الفرقان ۵۲۵ سُوْرَةُ الْفَلَقِ اصلیت کو چھپانا چاہتے ہیں.یہی حال ہر زمانہ میں اور ہر نبی اور مامور کے وقت میں ہوتا ہے.آجکل بھی زمانہ میں ایک بڑی تاریکی پھیلی ہوئی ہے.اور تمام قومیں اصلیت کو چھوڑ کر گمراہی کی طرف جارہی ہیں.اس واسطے ضرورت کے موافق خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں بھی ایک نور پیدا کیا ہے جو تمام ظلمات کو دور کر دیتا ہے.اور مخلوق کو ہدایت کے راہ پر لاتا ہے.اس کے مخالف چاہتے ہیں کہ حق پر پردہ ڈال دیں اور لوگوں کو ہدایت کے حصول سے محروم رکھیں لیکن خدا تعالیٰ اپنی باتوں کو پورا کر یگا اور اپنے بندے کی صداقت کو روز روشن کی طرح نمایاں کرنا اُسی خدائے قادر کا کام ہے.جس کو کوئی روک نہیں سکتا.اس سورۃ شریف میں جو قرآن شریف کی آخری سورتوں میں سے ہے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ آخری زمانہ میں ایک بڑا فتنہ ہوگا.ایک بہت بڑا شر اٹھے گا اور وہ ایسے وقت میں ہوگا جبکہ اللہ تعالیٰ زمانہ میں سے تاریکی کو دور کرنے کے واسطے ایک صبح کو نمودار کریگا.کیونکہ وہ رب الفلق ہے اور رات کے بعد دن کو لاتا ہے اور تاریکی کے بعد نور پیدا کرتا ہے.اس شر سے بچنے کے واسطے تمام مسلمانوں کو ہمیشہ دعا کرتے رہنا چاہیے.کیونکہ وہ بڑا بھاری شر ہے.اُس شر کا پیدا کر نیوالا خفیہ کارروائیاں بہت کریگا.اور چھپ چھپ کر اپنی سازشیں دینِ حق کے برخلاف نہایت جد و جہد کے ساتھ کرے گا.چنانچہ ظاہر ہے کہ جس قدر خفیہ کاروائیاں مشن کا دجال اسلام کے برخلاف کرتا ہے.ایسی کارروائیاں پہلے کبھی کسی نے نہیں کیں.ایسے ایسے راہوں سے اسلام پر حملہ کرنے کے واسطے کوشش کی جاتی ہے کہ عوام تو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ اس معاملہ میں کیا در پردہ شرارت ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں ایک ایسانور پیدا کیا ہے جس نے نمودار ہو کر ان تمام پردوں کو پھاڑ دیا ہے اور دجال کا دجل کھول کر لوگوں کو دکھا دیا ہے تا کہ مخلوق الہی اس کے شر سے بچی رہے.اور اس کے پھندے میں نہ آئے.افسوس ہے اُن لوگوں پر جو خدا تعالیٰ کے اس نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیں.وہ یا درکھیں کہ یہ نو ر الہی ضرور غالب آئے گا اور اس کے مخالف سب نامراد اور نا کام مریں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹۶ تا ۳۹۸)
حقائق الفرقان ۵۲۶ سُورَةُ النَّاسِ سُوْرَةُ النَّاسِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم اس دعا کو بابرکت اللہ کے نام کی مدد سے پڑھتے ہیں جس نے رحمانیت سے ہمارے لئے دعا ئیں مقدر کر رکھی تھیں اور عمل کے بعد ہمیں اس کے نتائج سے مالا مال فرمائے گا.۲ تا ۷.قُلْ اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِى يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَ الناس.ترجمہ.کہہ پناہ پکڑتا ہوں ساتھ پروردگار لوگوں کے بادشاہ لوگوں کے معبود لوگوں کے برائی وسوسہ ڈالنے والے پیچھے ہٹ جانے والے کی سے جو وسوسہ ڈالتا ہے بیچ سینوں لوگوں کے جنوں میں سے اور آدمیوں میں سے.تفسیر.اس طرح دعا کر.جن ہو یا آدمی ہو، جو کوئی انسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے اور انسان کی ترقی کو روک کر اسے پیچھے ڈال دیتا ہے، اس کے وسوسہ کی بدی سے اس خدا کے حضور میں پناہ گیر ہوتا ہوں.جو انسانوں کا پرورش کنندہ اور ان کا بادشاہ اور ان کا معبود ہے.اس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ کی تین صفتوں کا بیان کیا گیا ہے.رب، مالک، الہ اور پھر ان ہرسہ صفات کے اُس پر تو کی طرف بالخصوص اشارہ کیا گیا ہے جو کہ انسان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے کیا معنے.وہ خدا جس نے انسان کو پیدا کیا، اس کو تمام قوی ظاہری اور باطنی عطا فرمائے اور ان قومی کی تربیت کے واسطے ہر قسم کے سامان مہیا کئے.جنین تھا تو ماں کے پیٹ کے اندر ہی اُسے غذا پہنچائی، پیدا ہوا تو ساتھ ہی ماں کی چھاتیوں میں اپنی غذا کا ذخیرہ موجود پایا، اسے چھوڑا تو ماں باپ اور اقرباء
حقائق الفرقان ۵۲۷ سُورَةُ النَّاسِ کو اپنے سامانِ خوردنی ، پوشیدنی کے مہیا کرنے میں مصروف پایا، بڑا ہوا تو محنت مزدوری کی اور خدا نے اس میں برکت ڈالی.اس لفظ میں اپنے اصل مربی کے بے انتہا احسانات کو یاد کرنے کے بعد اس دعا میں انسان اپنے اس خدا کو یاد کرتا ہے جو اس کا حقیقی بادشاہ ہے.اُسی کے قبضہ قدرت میں تمام زمین اور آسمان کی گل ہے.چاہے تو ایک آن میں زلزلہ سے یا بجلی سے یا اور جس طرح چاہے سب کو فنا کر دے یا فنا شدوں کو پھر پیدا کر دے.تمام انسانوں کے دل بھی اسی کے قابو میں ہیں.وہ بادشاہ حقیقی ہے.ہر ایک انسان کے خیالات اس کی نگاہ میں ہیں.بغیر اس کے اذن کے نہ کوئی کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچا سکتا ہے.وہ مَلِكِ النّاس ہے.پس وہ جو ہمارا رب ہے اور وہ جو ہماراملك ہے اور سلطان ہے.وہی اس لائق ہے کہ ہمارا الہ ہو اور معبود ہو، اسی کی عبادت کی جاوے، اسی سے اپنی حاجتیں مانگنی چاہئیں اور اسی کی تعریف کرتے ہوئے سر اس کے آگے جھکا یا جاوے.پتھر کے بت تو ہماری اپنی مخلوق ہیں اور ہم خود ان کی تربیت کرتے ہیں.اور ان پر حکومت کرتے ہیں.جس طرح چاہیں ان کو گھڑ کر بناتے ہیں اور جہاں چاہیں ان کو رکھتے ہیں.برہمن کے قابو میں آیا تو اس نے زری کے کپڑے پہنا دیئے اور سونے کے زیوروں سے مرضع کر دیا اور محمود کے ہاتھ لگا تو اس نے کاٹ کر جوتیاں رکھنے کے واسطے دہلیز کے باہر گاڑ دیا.رومن پادری نے اس پر سونے کار گلٹ کیا اور گرجے میں سجایا تو اس کے پراٹسٹنٹ بھائی نے بھی اپنے باپ دادوں کی بے وقوفی پر مضحکہ اڑانے کے واسطے اسے عجائب گھر میں رکھ دیا، سو بتوں کا تو ذکر ہی کیا.جبکہ خود بت پرست بھی بتوں کو چھوڑتے جاتے ہیں، باقی رہے عناصر اور حیوان اور انسان جن کی بعض بے وقوف لوگ پوجا کرتے سوسب کے سب خود محتاج تھے اور اپنی عمر گزار کر مر گئے.نہ ان میں سے کسی نے ہماری ربوبیت کی اور نہ کوئی ہمارا مالک اور ملک تھا اور نہ کوئی ہمارا معبود ہو سکتا ہے.ظاہری بادشاہوں کی حکومت ظاہر حالات پر ہے.چور چوری پر سے پکڑا گیا تو اس کو سزا مل گئی.لیکن چور جب چوری کی نیت کرتا ہے اور کسی کی عمدہ شے دیکھ کر دل میں ارادہ کرتا ہے کہ موقع پر اسے اٹھا لے.اس وقت اس کی نیت اور ارادے کو بجز خدا کے کون دیکھ رہا ہے.پس حقیقی بادشاہ وہی ہے.
حقائق الفرقان ۵۲۸ سُورَةُ النَّاسِ اس دعا میں انسان اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہو کر اپنے خدا کے ساتھ اس تعلق کو یاد کرتا ہے کہ اے خدا تو ہی میرا پرورش کنندہ ہے اور تو ہی میرا بادشاہ ہے اور تو ہی میرا معبود ہے.پس میں تیرے ہی حضور میں اپنی یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ نیکی کے حصول کے بعد جو انسان کے دل میں ایسے بڑے خیالات آتے ہیں کہ اس کو نیکی سے پیچھے ہٹانا چاہتے ہیں.ان خیالات کے شر سے مجھے بچا.اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وسوسوں کا پیدا ہونا ضروری ہے پر جب تک انسان ان کے شر سے بچا ر ہے یعنی ان کو اپنے دل میں جگہ نہ دے اور ان پر قائم نہ ہو.تب تک کوئی حرج نہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی خدمت میں عرض کی کہ میرے دل میں بُرے برے خیالات پیدا ہوتے ہیں.کیا میں ان کے سبب سے گنہگار ہوں.فرمایا.فقط بُرے خیال کا اٹھنا اور گزر جانا تم کو گنہگار نہیں کرتا.یہ شیطان کا ایک وسوسہ ہے جیسا کہ بعض انسان جو شیطان کی طرح ہوتے ہیں، لوگوں کے دلوں میں بُرے خیالات ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں.پس فقط اُن کی بات سننے سے اور رڈ کر دینے سے کوئی گنہ گار نہیں ہوسکتا.ہاں وہ گنہ گار ہوتا ہے جو ان کی بات کو مان لیتا اور اس پر عمل کر لیتا ہے.ایک پیشن گوئی سورۃ الناس قرآن شریف کی سب سے آخری سورۃ ہے اور اس کا مضمون آخری زمانہ میں ایک بڑے فتنہ سے خدا تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا حکم دیتا ہے.وہ فتنہ خناس کا ہے.جو کہ لوگوں کے دلوں میں قسم قسم کے وساوس ڈال کر ان کو پیچھے ہٹانے کی کوشش کر ریگا.کیونکہ یسوع کو خدا بنانے اور اس کی پوجا کرنے کا فتنہ زمانہ نبوی سے پہلے دنیا میں پھیلا ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور نے اس کی خرابیوں کو دنیا پر ظاہر کر کے اس کا زور مٹا دیا تھا.یہاں تک کہ خود نو را سلام کی چمک سے جھلک پا کر عیسائی قوم میں اس قسم کے ریفارمر پیدا ہو گئے تھے.جنہوں نے اپنی قوم میں سے یسوع اور مریم کے بت بنانے اور بتوں کی پوجا کرنے کی رسم کو مٹانے کی کوشش کی.اور اس کوشش میں بہت کچھ کامیابی بھی حاصل کی.دوسری طرف لاکھوں عیسائی اپنے مذہب کی خرابیوں سے آگاہ ہو کر اور اس سے بیزار ہو کر اسلام میں داخل ہو گئے تھے.غرض اسلام وہ مذہب تھا جس نے
حقائق الفرقان ۵۲۹ سُورَةُ النَّاسِ دیگر باطل ادیان کے ساتھ دین عیسوی کو بھی پست کر دیا تھا.لیکن آخری زمانہ میں وہی عیسائیت کا فتنہ ایک نئے رنگ میں مخلوق کے سامنے آکر موجود ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ مسلمانوں کو قرآن شریف اور اسلام سے پیچھے ہٹا کر پھر اسی پرانی گمراہی میں ڈال دے.یہ خناس تعلیم دیتا ہے کہ ہمارا رب یسوع حیح ہے.چنانچہ عیسائیوں کی کتابوں میں لکھا ہوا ہوتا ہے رَبُّنَا الْمَسِيحُ اور یسوع کا نام عیسائی کتب میں بادشاہ یعنی ملک بھی ہے.اور اس کی عبادت بھی کی جاتی ہے گویا کہ وہ الہ یعنی معبود ہے.ان عقائد کی بیخ کنی کے واسطے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رَبِّ النَّاسِ اور مَلِكِ النَّاسِ اور إِلهِ النَّاسِ.وہی ایک خدا ہے جس کی صفات حمیدہ کا قرآن شریف میں ذکر کیا گیا ہے اور جس کی وحدانیت کے بارے میں اس سورۃ سے اوپر ایک سورۃ چھوڑ کر اس طرح بیان کیا گیا ہے.قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ - اللهُ الصَّمَدُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدْ - وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا اَحَدُ.(الاخلاص : ۲ تا ۵ ) کہ وہ اللہ ایک ہے، وہ بے احتیاج ہے، نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ وہ کسی کا بیٹا ہے اور نہ اس کا کوئی کنبہ قبیلہ ہے.اس سورہ سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آخری زمانہ جنگ کا زمانہ نہ ہوگا.اور اسلام سے لوگوں کو روگردانی کرانے کے واسطے کوئی لڑائی اور ظاہری جنگ کی کارروائی نہ ہوگی.جیسا کہ پہلے کیا جاتا تھا.بلکہ صُدُورِ الناس پر بذریعہ وساوس ہو گا اور وہ وسوسہ ڈالنے والے خناس دو قسم کے ہوں گے.ایک تو پادری لوگ جن کے وساوس موٹے رنگ کے ہر طرح کے کذب اور بہتان کے ساتھ ہیں.یہ خناس تو ناس میں سے ہے.لیکن ایک بڑا خناس جو شر میں اس سے زیادہ سخت ہے.لیکن اپنی شرارت میں کسی قدر مخفی ہے اس واسطے اس کو جن کہا گیا ہے وہ اس زمانہ کے جھوٹے فلسفی اور جزوی سائنس دان ہیں جو حقیقی فلسفہ اور سائنس سے بے خبر ہیں.اور تعلیم یافتہ گروہ کو خفیہ رنگ میں دہریت کی طرف کھینچ کر لے جا رہے ہیں.حالانکہ بظاہر مذہب سے اپنے آپ کو بے تعلق ظاہر کرتے ہیں مگر باطن میں مذہب کے سچے اصول کو اکھاڑنے کے درپے ہیں.اس سورہ شریف سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ آخری زمانہ کا فتنہ محض دعا کے ذریعہ سے دور ہوگا.چنانچہ اس کی تائید میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ کفار مسیح موعود کے دم سے مریں گے.اور حضرت
حقائق الفرقان ۵۳۰ سُورَةُ النَّاسِ مرزا صاحب سے میں نے بارہا سنا ہے.آپ فرمایا کرتے ہیں کہ اس قدر فتنہ کا مٹانا ظاہری اسباب کے ذریعہ سے نہیں ہوسکتا.ہمارا بھروسہ صرف ان دعاؤں پر ہے جو کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور میں کرتے ہیں.خداوند تعالیٰ ہماری دعاؤں کو سنے گا اور وہ خود ہی ایسے سامان مہیا کریگا کہ کفر ذلیل ہو جائے گا اور اسلام کے واسطے غلبہ اور عزت کے دن آجائیں گے.لطیفہ کسی نے کہا ہے کہ قرآن شریف کا ابتدا حرف ب سے ہوا ہے.اور آخر حرف س کے ساتھ ہوا ہے.یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قرآن شریف انسان کے واسطے بس ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.مَا فَرَّطْنَا فِي الكتب مِنْ شَيْءٍ (الانعام: ۳۹) اس کتاب میں کسی شئے کی کمی نہیں رہی.اس مضمون کو کسی نے فارسی میں اس طرح ادا کیا ہے.اوّل و آخر قرآن زچه با آمد و سین یعنی اندر ره دین رہبر تو قرآن بس لے لطیفہ: فلسفی کہتا ہے کہ اس سورہ شریف میں سب سے پہلے جو لفظ ناس آیا ہے.اس سے مراد اطفال ہیں اور ناس ثانی سے مراد نو جوان لوگ ہیں.اور ثالث سے مراد بوڑھے ہیں.اور چہارم سے مراد صالحین ہیں اور پنجم سے مراد مفسدین ہیں.کیا معنی؟ کہہ میں اس خدا کے حضور پناہ گزین ہوتا ہوں جورب الناس ہے ، چھوٹے ناتواں بچوں کے واسطے بھی تمام سامانِ پرورش کیا ہے.اور ملک الناس ہے.نوجوان جو شیلے لوگ سب اس کے قابو میں ہیں، اله الناس ہے.جب آدمی بڑا ہوتا ہے.اور چالیس سال سے زیادہ عمر پاتا ہے ، تب اس کے عقائد اور معرفت کمال کو پہنچتے ہیں اور عادتیں نیکی پر پختہ ہو جاتی ہیں.اور اپنے خدا کی عبادت میں پکا ہو جاتا ہے، ایسے لوگوں کا معبود وہی خدا ہے اس خدا کے حضور میں میں خناس کے وساوس کے شر سے پناہ چاہتا ہوں.جو يُوسُوسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ( الناس : ٦) نیک لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال دیتا ہے.مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ.وہ خناس کچھ جن ہیں اور کچھ مفسد انسان ہیں.ے قرآن کریم کے شروع سے لے کر آخر تک جو بھی ”ب“ یاسین آئی ہے بس دونوں جہانوں میں ہمارے لئے قرآن ہی رہنما ہے.
حقائق الفرقان ۵۳۱ سُورَةُ النَّاسِ یہ ایک عجیب دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے خود ہم کو سکھائی ہے.اس کے کسی قدر ہم معنے وہ دعا ہے جو دوسری جگہ قرآن شریف میں آتی ہے اور وہ اس طرح سے ہے.رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا (آل عمران : ٩) اے ہمارے رب بعد اس کے کہ تو نے ہمیں ہدایت کی توفیق عطا فرمائی.ہمارے دلوں کو سج نہ کر یعنی ایک دفعہ جس نیکی کو ہم حاصل کریں.وہ استقامت کے ساتھ ہمارے اندر قائم رہے.یه سوره شریف قرآن شریف میں سب سے آخری دعا ہے کہ اے اللہ تعالیٰ یہ قرآن جس کے پڑھنے کی تو نے ہم کو تو فیق دی ہے.اب ایسا کر ہمارے دل اس پر ایمان کے واسطے ایسے پختہ رہیں کہ اس کلام کے متعلق کوئی وسوسہ اور بد خیال کبھی ہمارے دل میں نہ آنے پاوے.اور ہم اس پر عمل کریں اور تیرے نیک بندوں میں شامل ہو جاویں.قرآن شریف کے ذریعہ سے رحمان خدا نے کس قدر رحمت دنیا پر نازل فرمائی.تمام احکام شرعیہ، گذشتہ بزرگوں کی نیک مثالیں ،طریق دعا، غرض ہر شئے ضروری کی تعلیم دی گئی ہے.اس سورہ شریف کے شروع میں انسان کا نام تین بار لیا گیا ہے.اور ہر بار اللہ تعالیٰ کا ایک جدا نام اس پر رکھا گیا ہے.یعنی پہلی دفعہ رب الناس کہا گیا ہے.دوسری بار ملک الناس فرمایا ہے اور تیسری بارالہ الناس مذکور ہوا ہے.یہ ہر سہ صفات الہیہ انسان کی تین مختلف حالتوں کی طرف اور اللہ تعالیٰ کے تین فیضانوں کی طرف جو انسان کی ان حالتوں پر وارد ہوتے ہیں اشارہ کرتی ہیں.انسان بلحاظ اپنی روحانی ترقی یا تنزل کے تین درجے رکھتا ہے.سب سے ادنیٰ درجہ کا انسان وہ ہے جسے کچھ خبر نہیں کہ حصول نیکی اور حصولِ معرفت الہی کیا شئے ہے اور وہ کتنی بڑی نعمت ہے.ایسے شخص کے واسطے نیکی بدی سب برابر ہے.اگر وہ بدی کرتا ہے تو اسے کبھی کچھ فکر نہیں ہوتا کہ میں بدی کرتا ہوں.اس کا نفس اس پر نہ صرف غالب ہے.بلکہ پوری طرح اس پر حکمران ہے، وہ نہیں جانتا کہ دین اور دین داری کیا لطف اپنے اندر رکھتی ہے اور نہ دینداروں کی محبت اختیار کرتا ہے اور نہ اس کو کبھی یہ خواہش ہی پیدا ہوتی ہے کہ دیندار بنے وہ اپنی حالت میں مثل ایک بے خبر کے پڑا ہے.جس
حقائق الفرقان ۵۳۲ سُورَةُ النَّاسِ نے معرفت کا کبھی نام بھی نہیں سنا.یہ شخص نفس امارہ کے ماتحت ہے پر خدا تعالیٰ ان سب کے واسطے رب الناس ہے.یعنی وہ سب کی پرورش کرتا ہے جو لوگ خد تعالیٰ کو نہیں مانتے اور دہر یہ ہیں ان سب کی پرورش کرتا ہے گو ایسے لوگوں کے واسطے ایک وقت عذاب کا بھی بالآخر آ جاتا ہے.مگر سر دست وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ، اس لحاظ سے وہ اللہ تعالیٰ رب الناس ہے.جولوگ نیکی کرتے ہیں ان کی پرورش ہوتی ہے.جو بدی کرتے ہیں ان کی پرورش ہوتی ہے بارش آتی ہے تو نیک و بد سب کے کھیت کو سیراب کر جاتی ہے.اور سورج نکلتا ہے تو کافر اور مومن سب کو روشنی دے دیتا ہے.ہوا چلتی ہے.تو مسلم اور غیر مسلم سب کو اپنا فائدہ پہنچا دیتی ہے اس لحاظ سے خدا تعالیٰ کی ربوبیت عام ہے.وہ تمام جہان کے لوگوں کا رب ہے، کوئی بڑا ہو یا چھوٹا ہو، امیر ہو یا غریب ہو.دانا ہو یا بیوقوف ہو.عالم ہو یا جاہل ہو ، بادشاہ ہو یا رعایا ہو ہر ایک کو اس کی ربوبیت عامہ سے حصہ دیا جاتا ہے اس لحاظ سے وہ رب الناس ہے.درمیانہ درجہ کے لوگ جو درجہ ادنیٰ سے اوپر کے درجہ میں ہیں وہ ہیں ، جن کو معرفتِ الہی کا شوق پیدا ہو گیا ہے انہوں نے جان لیا ہے کہ نیکی عمدہ شئے ہے اور وہ خواہش رکھتے ہیں کہ اپنی موجودہ حالت سے نکلیں اور ترقی کریں اور آگے قدم رکھیں.بدیوں کو چھوڑ دیں اور نیکیوں کو اختیار کریں.لیکن ان کا نفس ہنوز ان پر غالب ہے وہ بدی سے پر ہیز کرتے ہیں مگر بسبب کمزوری پھر بھی کسی نہ کسی وقت بدی میں گر جاتے ہیں.اٹھتے ہیں اور پھر گر جاتے ہیں.پھر اٹھتے ہیں اور پھر گر جاتے ہیں یہی حالت ان کی ہوتی رہتی ہے.وہ دل سے کچی تو بہ کرتا ہے کہ اب آئندہ یہ کام نہ کروں گا لیکن نفس کے جذبہ کے وقت پھر کر بیٹھتا ہے، اور خدا تعالیٰ کی غفاری اور ستاری کی طرف پھر جھکتا ہے اور اس کی رحمت کے حضور میں فریادی ہوتا ہے اور اپنی کمزوری کے سبب نالاں رہتا ہے اور شب و روز اس فکر میں سرگرداں پھرتا ہے کہ کب وہ وقت آئے گا کہ پھر بدی اس کے قریب کبھی نہ آئے گی.وہ اقرار کرتا ہے کہ میں ایک بادشاہ حقیقی ( ملک الناس) کی حکومت کے ماتحت ہوں اور اس کے قوانین کی فرماں برداری مجھ پر واجب ہے اس واسطے وہ قواعد شرعیہ کی پابندی کے واسطے ہر وقت سعی کرتا رہتا ہے لیکن اپنی
حقائق الفرقان ۵۳۳ سُورَةُ النَّاسِ کمزوری اور اپنے ضعف کے سبب غلطی کر بیٹھتا ہے اور اپنے بادشاہ سے معافی کا طلبگار ہوتا ہے ایسے شخص کا نفس لوامہ ہے وہ غلطی کر بیٹھتا ہے لیکن اس غلطی پر راضی نہیں رہتا بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے اور غمگین ہوتا ہے اور افسوس کرتا ہے کہ میں نے کیوں ایسا کام کیا اور پھر تو بہ کرتا ہے.اور ہر دفعہ اس کی تو بہ سچے دل کے ساتھ ہوتی ہے اور تو بہ کے وقت وہ کبھی وہ ہم نہیں رکھتا کہ دوبارہ یہ کام کر یگا اسی واسطے خدا تعالیٰ اس پر رحم کرتا ہے.اور اس کی تو بہ کو قبول کرتا ہے اور اس کے گناہ بخش دیتا ہے.اس سے بڑھ کر درجہ والے وہ لوگ ہیں جو ہر طرح سے تمام گناہوں کو چھوڑ چکے ہیں اور ان کے نفسانی جذبات ٹھنڈے ہو چکے ہیں.اور اب کوئی بدی ان کو دکھ نہیں دیتی بلکہ وہ آرام اور اطمینان کے ساتھ اپنے خدا کی بندگی میں مصروف ہیں.وہ خدا تعالیٰ کو ہی اپنا معبود اور مقصود اور محبوب ٹھہرا چکے ہیں اور اس کی عبادت اور محبت اور خوف اور رجا میں کوئی دوسرا شریک ان کے دل میں باقی نہیں رہا اور انہوں نے اس واحد خدا کی تقدیس اور تسبیح اور عبادت اور تمام عبودیت کے آداب اور احکام اور اوامر اور حدود اور آسمانی قضاء وقدر کے امور کو بدل و جان قبول کر لیا ہے اور نہایت نیک نیتی اور تذلل سے ان سب حکموں اور حدوں اور قانون اور تقدیروں کو بارادت تمام سر پر اٹھا لیا.اور نیز وہ تمام صداقتیں اور پاک معارف جو اس کی وسیع قدرتوں کی معرفت کا ذریعہ اور اس کی ملکوت اور سلطنت کے علو مرتبہ کو معلوم کرنے کے لئے ایک واسطہ اور اس کے آلاء اور نعماء پہچاننے کے ایک قومی رہبر ہیں.بخوبی معلوم کر لیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جو نفسِ مطمئنہ رکھتے ہیں اور بسبب اس کے ان کے افعال، اقوال، حرکات، خیالات، عبادات وغیرہ میں ان کا مقصود محبوب اور معبود صرف اللہ ہی ہے جو کہ الہ الناس ہے.انسان کے ان ہرسہ درجات اور حالات کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.ان ہرسہ حالات کو صوفیاء نے اپنی تجربہ کردہ باتوں کے ذکر کے ساتھ عجیب عجیب پیرایوں میں بیان کیا ہے.چنانچہ حافظ شیراز نے نفس لوامہ کی مشکلات پر نگاہ کر کے اس مضمون کو اس شعر میں ادا کیا ہے.
حقائق الفرقان ۵۳۴ سُورَةُ النَّاسِ شب تاریک و بیم موج و گردا بے چنیں حائل کجا دانند حال ما سبکساران ساحل حافظ شیراز نے اس شعر میں انسان کی ان تین حالتوں کو ظاہر کیا ہے اور اس کی تمثیل کے واسطے دریا اور اس کے دو کناروں کے نظارہ کو لیا ہے کچھ لوگ دریا کے اس کنارے پر ہیں کچھ اس کنارہ پر پہنچ گئے کچھ کشتی میں بیٹھے ہوئے ہنوز اس فکر میں ہیں کہ اس کنارہ تک پہنچ جائیں ایک کنارہ ویران سا ہے، اس میں نہ کوئی شاندار مکان ہے اور نہ پھل پھول ہیں اور اس میں رہنے والے جاہل لوگ ہیں جو دوسرے کنارے کی نعمتوں اور عمدہ اشیاء سے بے خبر ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ دوسرے کنارہ پر کیا کیا آرام کے ذرائع ہیں پس وہ اپنی حالت میں غافل ہیں.اور ان کو یہ خواہش بھی نہیں کہ دوسری طرف جاویں اور ان لوگوں میں جا کر شامل ہوویں جو دوسرے کنارے پر رہتے ہیں بلکہ وہ اپنے موجودہ حال میں ویسے ہی چپ چاپ بیٹھے ہیں دوسرے کنارے پر وہ لوگ ہیں جو دریا اور اس کی تمام تکالیف اور مصائب کو چھیل کر اپنے منزل مقصود تک پہنچ چکے ہیں اور اب آرام کے ساتھ بیٹھے ہیں ان کو کوئی دکھ اور مصیبت نہیں ہے.اور نہ ان کے لئے وہ بے امنی اور غفلت کی حالت ہے جو اس کنارے والوں کے لئے ہے اور نہ ان کے واسطے وہ خطرات اور ہر وقت کا خوف ہے جو کشتی والوں کے لاحق حال ہوتا ہے بلکہ وہ ان تمام مشکلات میں سے گزر چکے ہیں اور تمام مصائب کو عبور کر چکے ہیں اور ان کا نفس نفس مطمئنہ ہے اور پہلے لوگ وہ تھے جن کا نفس نفس امارہ تھا پس دریا کے دو کناروں پر دو قسم کے لوگ آباد ہیں ایک کنارے پر وہ ہیں جو نفس امارہ رکھتے ہیں اور دوسرے کنارے پر وہ ہیں جو نفس مطمئنہ رکھتے ہیں.حافظ شیراز نے ان ہر دو کو اپنے شعر میں سبکسار کہا ہے، کیونکہ ایک کو تو معرفت کی ہی خبر ہی نہیں اور دوسرے کو معرفت حاصل ہو چکی ہے پس وہ دونوں سبکسار ہیں کیونکہ یہ اپنے بوجھ اتار چکا ہے اور اس نے ہنوز بو جھ اٹھایا ہی نہیں.لیکن مشکلات میں وہ شخص ہے جو درمیان میں ہے کیونکہ اس نے رذیل حالت میں رہنا پسند نہ کیا اور اعلی حالت کی طرف جانا چاہا لیکن راستہ میں مشکلات کا دریا ایسا آ گیا ہے جس میں ہر طرف سے موجیں ہیں اور رات اندھیری ہے اور گرداب لے رات کی تاریکی موجوں کا خوف اور گرداب اس طرح ہماری راہ میں حائل ہیں کہ ہمارے حال کو ساحل پر تیز چلنے والے کہاں سمجھ پائیں گے.
حقائق الفرقان ۵۳۵ سُورَةُ النَّاسِ گھیرے ہوئے ہے.اور ہر وقت خطرہ ہے کہ اب ڈوبے اب ڈوبے یہ درمیانی حالت نفس لوامہ کی ہے.اس کو معلوم ہو گیا ہے کہ نفسِ مطمئنہ ایک عظیم الشان نعمت ہے.ان لوگوں کی صحبت نے جو نفس مطمع نہ حاصل کر چکے ہیں یا ان کے حالات عجیبہ کے سننے سے اس کو رغبت پیدا ہوئی ہے کہ میں بھی نیک بن جاؤں اور ان لوگوں کے درمیان شامل ہو جاؤں اور بظاہر پہلی نظر اس کو بہت ہی آسان سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ میں منزل کو آسانی کے ساتھ طے کرلوں گا اور ایسا ہی بن جاؤں گا جیسے کہ وہ لوگ ہیں لیکن تھوڑے ہی دنوں میں معلوم ہو جاتا ہے کہ اس راہ میں بہت مشکلات ہیں اور بدیوں کا ترک کرنا اور نیک بن جانا آسان بات نہیں ہے ایسے وقت میں جلا اٹھتا ہے ع که عشق آساں نمود اول ولے افتاد مشکلہا لے اور جب چاروں طرف سے اپنے آپکو تکالیف میں دیکھتا ہے.تب معلوم ہوتا ہے کہ اس اعلیٰ حالت کا حصول کوئی آسان امر نہیں ہے.ظاہر کہہ دینے کو تو ایک فقرہ ہے اور وہ بھی ایک چھوٹا سا کہ ”میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا لیکن جب اس پر عمل شروع ہوتا ہے.تب اس کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.جیسا کہ ایک ملازم کسی دفتر کا اس اقرار کے بعد اپنے دفتر میں جاتا ہے.اور ایک طرف افسر زور دیتے ہیں کہ یہ کام فورا کرو اور دوسری طرف نماز کا وقت آ جاتا ہے.اس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے کیا معنی ہیں یا ایک عہدہ دار سرکاری جس کے خرچ بہت ہیں اور تنخواہ تھوڑی ہے وہ جب اس اقرار کے بعد اپنے کام پر جاتا ہے اور آمدنی کو کم پاتا ہے اور خرچ زیادہ ہے اور رشوت کے وسائل کھلے ہیں اور کوئی منع کرنے والا نہیں.اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی کیا کیفیت ہوتی ہے.رات کے وقت جب سردی کا موسم ہو اور گرم بستر کے اندر آ دمی لیٹا ہوا ہو اور ہر ایک سامان مہیا ہو اور تہجد کا وقت اور خدا کے یاد کرنے کا وقت آ جائے اور دل نہ چاہے کہ بسترے سے اُٹھے اس وقت انسان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا دین مقدم ہے یا دنیا مقدم ہے.غرض سلوک کی راہ میں سب سے مشکل مرحلہ وہی ہے جو نفس لوامہ کو طے کرنا پڑتا ہے.کیونکہ لے کہ عشق ابتدا میں آسان ہی لگتا ہے مشکلات بعد میں پڑتی ہیں.
حقائق الفرقان ۵۳۶ سُورَةُ النَّاسِ اس کو شیطان کے ساتھ اور اس کے لشکر کے ساتھ ایک جنگ در پیش ہے.شیطان چاہتا ہے کہ وہ اس کو واپس اپنی حالت ردی پر لے جائے.کیونکہ وہ جیسا کہ اس سورۃ میں بیان کیا ہے.خناس ہے یعنی انسان کو نیچے ہٹانا چاہتا ہے اور اس کو رذیل حالت میں ڈالنا چاہتا ہے.یہ شیطان بعض انسانوں کی صورت میں ہیں اور بعض بدروحیں ہیں جو کہ انسان کو خراب حالت میں ڈالنے کے واسطے اس کے دل میں طرح طرح کے وساوس ڈالتی ہیں جس کا ذکر اس سورہ شریف میں اس طرح سے ہے الَّذی يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ یعنی لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتے ہیں.ان سے پناہ مانگنے کے واسطے خدا نے یہ سورہ بطور کلمات دعائیہ کے نازل فرمائی ہے تا ان کو پڑھ کر اور خدا تعالیٰ سے پناہ مانگ کر انسان بد حالت میں پڑنے سے بچ جاوے.اے خدا! تو اپنے فضل و کرم سے ہماری دستگیری فرما اور اس جماعت کے ممبروں کو نفس مطمئنہ عطا فرما اور جو لوگ ہنوز اس سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے ان کی بھی آنکھیں کھول تاکہ وہ اس پاک راہ کو پہچان کر اس کی صداقت کا فائدہ حاصل کریں اور خدا کی برگزیدہ جماعت میں داخل ہو کر رحمت الہی سے حصہ وافر حاصل کریں ! آمین ثم آمین !! امراض سینہ کا علاج میں خیال کرتا ہوں کہ امراض سینہ مثلاً سل، کھانسی وغیرہ کے واسطے اس سورہ شریف میں ایک دعا ہے.کیونکہ آجکل ڈاکٹروں نے یہ تحقیقات کی ہے کہ پھیپھڑے میں ایک باریک کیڑے ہوتے ہیں جن کو جز مز کہتے ہیں.جب وہ پیدا ہو جاتے ہیں تب پھیپھڑا زخمی ہو کر سل کی بیماری اور کھانسی پیدا ہو جاتی ہے.جن بھی ایک بار یک اور مخفی شئے کو کہتے ہیں.اس سورہ میں ان اشیاء کے شر سے پناہ چاہی گئی ہے.جو سینہ کے اندر ایک خرابی پیدا کرتے ہیں.ناظرین اس کا تجربہ کریں لیکن صرف جنتر منتر کی طرح ایک دعا کا پڑھنا اور پھونک دینا بے فائدہ ہے سچے دل کے ساتھ مطلب اور معنی کو یہ سورۃ بطور دعا کے مریض اور اس کے معالج اور تیماردار پڑھیں اور مریض کے حق میں دعا کریں تو اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے اور بخشنے والا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ایسے بیماروں کو اس کلام پاک کے ذریعہ شفا حاصل ہو.واللہ اعلم بالصواب.اس سورہ شریف کے شانِ نزول کے بارے میں حدیث شریف میں آیا ہے کہ رسول اللہ
حقائق الفرقان ۵۳۷ سُورَةُ النَّاسِ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج کی رات مجھ پر اس قسم کی آیات نازل ہوئیں کہ ان جیسی میں نے کبھی نہیں دیکھیں وہ معوذتین ہیں.ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم جن وانس کی نظر بد سے پناہ مانگا کرتے تھے مگر جب معوذتین نازل ہوئیں تو آپ نے اور طرح اس کی سے.امر کے متعلق دعا کرنا چھوڑ دیا اور ہمیشہ ان الفاظ میں دعا مانگتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوا کرتے تو ان دونوں سورتوں کو پڑھ پڑھ کر دم کیا کرتے تھے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۲ مورخه ۱۹ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹۹ تا ۴۰۲) اس سورہ شریف میں کسی خاص مذہب پر کوئی خصوصیت سے حملہ نہیں.جیسے اس پاک کتاب کی ابتدائی سورۃ سورہ فاتحہ میں ایسی تعلیم اور دعا ہے جو سماوی اور اخلاقی مذاہب میں کسی مذہب پر زدنہیں.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ.(الناس : ۲ تا ۴ ) اس سورۂ شریف کی ابتدا میں باری تعالیٰ نے تین نام ظاہر فرمائے ہیں.اور اس جلسہ ( جلسہ مذاہب عالم ) کے پہلے سوال میں بھی ایسے ہی تین امور کا ذکر کیا ہے کہ جن کا فرداً فرداً تعلق ان تین ناموں سے ہے.وہ تین انسان کی جسمانی.اخلاقی اور روحانی حالت کا بیان ہے.قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ غور فرمائیے.ابتدا میں انسان ایک جسم ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهُتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا (النحل : ٧٩) اور بے ریب انسان کا بچہ جب ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو بجز اس کے کہ اس کو جسمانی ضرورتیں سب سے پہلے پیش آتی ہیں.اور کن علوم کی اس کو ضرورت ہے اور بالکل ظاہر ہے کہ اگر مولی کریم رب العالمین انسان کی ربوبیت نہ فرماوے اور چوسنے پھر گلے سے اتارنے کا علم نہ بخشے پھر ہضم کی نالیاں اس غذا پر تصرف نہ کریں پھر شریانوں میں اور پھیپھڑوں میں خون مصفی ہو کر بجز و بدن نہ ہو تو انسانی نشونما کا کیا ٹھکانا ہے.اسی طرح جسمانی غذا میں ماں کی چھاتیوں اور حیوانات کے عمدہ دودھ میسر نہ آویں تو نو زائیدہ انسان کی نسبت کسی کامیابی کی کیا امید ہوسکتی ہے.اسی طرح روشنی اور ہوائیں عمدہ طور پر اسے نہ پہنچیں لے اس نے تم کو پیدا کیا تمہاری ماؤں کے پیٹ سے، تم کچھ بھی تو نہیں جانتے تھے.
حقائق الفرقان ۵۳۸ سُورَةُ النَّاسِ تو انسان کی جاں بری کیونکر ممکن ہے.صاحبان! انسان کی اس حالت پر نظر کرو جو اس کو نطفگی کی حالت میں لاحق ہیں.اور ہر انسان کے اس کمال و استواری پر نظر کر جاؤ جس میں وہ اپنے دائرہ کمال کی تعمیل کرتا ہے اور پھر انصاف سے دیکھو کہ یہ تمام سامان کمالات جسمانیہ اپنے اصول و فروع سے کس نے عطا فرمائے.تو آپ یقین فرمائیں گے کہ ایک رب الناس جس نے اس کو ایک طرف جذب مواد طیبہ کی طاقتیں عطا فرمائیں.دوسری طرف مواد طیبہ کا بے انت خزانہ مہیا فرما دیا.چونکہ وہ ذات پاک طیب اور ہر ایک خبث ونجاست سے منزہ ہے.انسان کے جسمانی حالات کی ترقی کے لئے بھی اس نے کیسے کیسے اسباب طیبہ مہیا کر دیئے ہیں.جب انسان اپنی جسمانی حالت کی ایک حد تکمیل کر لیتا ہے تو اس کی عمدہ پرورش کے بعد انسان کے اخلاق کا نشو و نما ہوتا ہے.کبھی اس کو انواع واقسام کی خواہشیں پیدا ہوتی ہیں.اس لئے رنگارنگ خوراک کے لئے قسم قسم کے غلہ، پھل، پانی ، عرق ، شیر بینیاں، ترشیاں جمع کرتا ہے.پہننے کے واسطے اور ایسا ہی گرمی، سردی ، ہوا ، روشنی، بارش اور گرد و غبار سے بچنے کے لئے ایسا ہی محنت و مزدوری عیش و عشرت ، جنگ وغیرہ وغیرہ حالات مختلفہ کے لئے اسے مختلف اسباب مہیا کرنے پڑتے ہیں.اپنے آرام کی خاطر اس کو مکانات بنانے پڑتے ہیں، جن میں انسان کو گرمی سردی ، غبار، بارش کا لحاظ کرنا پڑتا ہے.اپنی ضروریات کے واسطے مختلف قسم کی چیزیں رکھنا چاہتا ہے.قوائے شہوانیہ اور بقائے نسل کے خیال سے اس کو اپنے جوڑہ کی ضرورت پیش آتی ہے.قوائے غضبیہ کو بھی اسے جوش میں لانا پڑتا ہے.جب دیکھتا ہے کہ اس کے اغراض اور مطالب ضرور یہ اور صحیحہ میں کوئی روک ڈالتا ہے انسان اپنے مطالب جسمانیہ اور اخلاقیہ میں گا ہے قوت استقلال و ہمت بلند کے ساتھ شجاعت و بہادری سے بھی کام لینا پڑتا ہے.اور جب اس کے بنی نوع سے کوئی اس کا مقابلہ کرتا ہے اور اس کے اغراض و مطالب اور شہوات و بلند حوصلگی و کامیابی میں حملہ کرتا ہے تو اس کو بادشاہوں اور حکام کی احتیاج پڑتی ہے اور کبھی حکام میں سے اس کا محتاج الیہ
حقائق الفرقان ۵۳۹ سُورَةُ النَّاسِ حاکم قوت عدل انصاف، رحم، شفقت، غور وفکر سے کام نہیں لیتا تو اس کی فطرت کو ایک ایسی عظیم الشان طاقت کی طرف جھکنا پڑتا ہے جو سب حکام کے حاکم اور سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس کے حضور گڑ گڑاتا ہے کہ میرے دشمنوں اور میرے ظالم حاکموں کا تو انصاف کر اور میرے مطالب و مقاصد میں تو میرا انصاف فرما.اس بادشاہ عظیم الشان کا نام مَلِكِ النَّاس ہے.نیز خودانسان کے لئے اگر چہ اکثر اوقات ایسے بادشاہ ہوتے ہیں جو اس کو جرائم کے ارتکاب اور امن کی خلاف ورزی پر سزا دیتے ہیں.مگر بعض جگہ اور بعض موقعوں پر یا تو حکام و بادشاہ موجود ہی نہیں ہوتے جیسے بعض مہذب بلاد میں بھی بعض وقت ایسا معاملہ پیش آ جاتا ہے اور بعض مکانات اور میدانوں ، پہاڑوں میں ایسا اتفاق ہوتا ہے اور غیر مہذب بلاد میں تو اکثر ہی ایسے مواقع پیش آتے رہتے ہیں.نیز ارتکاب جرم کے وقت اگر دنیوی حکام اور ناظم اگر چہ اپنے قوانین کی رُو سے انسان کی اخلاقی حالت اور انسان کی جسمانی حالت پر اثر ڈال سکتے ہیں.....مگر انسان کے ان اندرونی جوشوں پر جس کے باعث کوئی انسان جرم کا ارتکاب کرتا ہے ایک ایسی زبردست طاقت کا اعتقاد انسان کی اخلاقی حالت کی اصلاح کے لئے ضروری ہے جس کی نگرانی پر یقین انسان یہاں تک بڑھا ہوا ہو کہ وہ انسان کے موجودہ یا آئندہ ارادوں کا علم رکھتا ہے اور یہ بھی بداخلاق کو سزا دیتا ہے.اس کا نام اس سورہ شریف میں ملک الناس ہے.کیا معنے؟ وہ بادشاہ جو انسان کے قویٰ علمیہ اور عملیہ اور انسانی علم وعمل اور انسانی کرم اندر یوں بلکہ گیان اندریوں پر حکمران ہے.پھر جسمانی اخلاقی دونوں حالتوں کی تکمیل کے بعد انسان کی روحانی حالت زور پکڑتی ہے اور ظاہر ہے کہ جب انسان کا جسم کمال پر پہنچا اور ہر قسم کے تکالیف سے صحیح و تندرست ہوا تو انسان کو اخلاق فاضلہ کی ضرورت ہے مگر جب جسم و اخلاق دونوں کمال کو پہنچ جاویں تو اب اس کو ابدی اور لازوال آرام کی خواہش پیدا ہوتی ہے.اگر بقاء کی خواہش انسان کی فطرت و جبلت میں نہ ہوتی تو علم طب کی یہ ترقی تم نہ دیکھتے جو آج نظر آتی ہے اور مذہب کی تحقیق پر کوئی جلسہ نہ ہوتا.نیکی اور نیک جلسہ کے اصول منضبط نہ ہوتے.روح کی کامل محبت اور پورا پیار اور پوری چیز جس میں روح کو کامل طمانیت ہے اس کا نام ہے اسلام میں اللہ.
حقائق الفرقان ۵۴۰ سُورَةُ النَّاسِ تمام تعلقات سے خواہ جسمانی ہوں خواہ اخلاقی ، اندرونی ہوں یا بیرونی جب انسان کو آرام نہیں ملتا تو جو نام انسان کے لئے راحت بخش ہے اس کا نام ہے الہ الناس.انسان کا اصل مطلب اور غایت درجہ کا محبوب اور معبود.غرض انسان نے تینوں حالتوں جسمانی ، اخلاقی ، روحانی میں جو جسم کا مربی، قوی کا مربی، روح کا مربی ہے، اس کو اس سورہ میں رب الناس کہا ہے اور وہ ذات جسمانی، اخلاقی، روحانی افعال، اقوال، اعتقادات پر جزا دیتا ہے تب اس کا نام ہے.ملک الناس.اور جب وہ انسان کا اصل غرض ذاتی محبوب غایت مقصود بنتا ہے تو اس کو الهِ النَّاس کہا ہے.اب غور فرما دیں کہ جب ہر سورۃ میں انسان کی حالتوں کی طرف اشارہ کر کے اللہ کریم نے فرمایا کہ رب بھی میں ہوں اور بادشاہ بھی میں ہوں اور محبوب و مطلوب اور غایتِ مقصود بھی میں ہی ہوں تو میرے بندو! مجھے کامل پاک ذات سے پناہ مانگ لو اور کہہ دو ، ہاں ہر ایک انسان تم سے کہہ دے کہ میں ربوبیت اور ضرورت حکومت میں اور ضرورت محبت میں رب الناس، مَلِك الناس، الهِ النّاس کی پناہ مانگتا ہوں اور پناہ بھی کسی امر میں.مِنْ شَرِ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ( الناس : ۵ تا ۷) یہ قرآن کی آخری سورۃ کیسی بے نظیر اور لطیف ہے جس میں یہ بیان ہے کہ تم اللہ کریم، المولیٰ ، الرؤف الرحیم، رب الناس، ملک الناس الہ الناس سے پناہ مانگ لو تمام ان غلطیوں اور وسوسوں سے جو کسی مُوَسْوِش کے نظارہ یا کلام سے بندے کو ہوں کیونکہ ان وسوسوں کی مثال ہو بہو اس تکلیف رساں کتے کی سی ہے جو آٹھوں پہر کاٹنے کے لئے تیار ہے جس طرح اس کتے سے بچنے کے لئے ہم کو اس کے مالک کی پناہ مانگنی ہے اور اگر اس کا مالک ہمیں بچانا چاہے اور اس کتے کو دھتکار دے تو کیا مجال کہ وہ کتا کسی کو کاٹ کھائے اسی طرح انسانی یا شیطانی وسوسوں سے بچنا بھی اس وجود کی پناہ سے ہو گا جو کل مخلوقات کا رب اور مالک اور محبوب ہے.وسواس نام ہے ہر ایک ایسی چیز کا جس کا بُرا ہونا ہم سے مخفی رہ گیا اور جس کی بدی سے ہم بے خبر
حقائق الفرقان ۵۴۱ سُورَةُ النَّاسِ رہے اور اس کی شرارت ہمارے جسم پر یا اخلاق پر یا روحانی معاملات پر برا اثر ڈالتی ہو یا ڈالا ہواور ہمیں اس کی اطلاع نہ ملی ہو.چاہے وہ مخفی چیز ہو چاہے وہ انسان ، ہاں شیطان بصورت انسان سے.میں اپنے لئے آپ یہ دعا مانگتا ہوں اور آپ کو یہ دعامانگنے کی سفارش کرتا ہوں کہ اس جلسہ میں جو کچھ ہم نے سنا.اس میں سے جو کچھ ہمارے جسم ، اخلاق اور روح کے لئے مفید نہ ہو بلکہ کسی نہ کسی مخفی طریق سے وہ نقصان رساں ہوں اس سے آپ پناہ مانگیں جورب الناس، ملک الناس اور الہ الناس ہے کیونکہ انہیں تین صفات کے ماتحت انسانی جسم ، اخلاق اور روح کی تکمیل ہوتی ہے.رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ ۲۵۸ تا ۲۶۱) اس سورۃ کو اخیر میں لانے میں یہ حکمت ہے کہ قرآن کو ختم کر کے اور شروع کرتے ہوئے اَعُوذُ پڑھنا چاہیے.چونکہ یہ طریق مسنون ہے کہ قرآن کریم ختم کرتے ہی شروع کر دینا چاہیے، اس لئے نہایت عمدہ موقع پر یہ سورۃ ہے.بخاری صاحب نے اپنی کتاب کو إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ سے شروع کیا ہے تا کہ سامعین لوگ اور معلم اور تعلم اپنی اپنی نیتوں پر غور کر لیں.یادرکھو جہاں خزا نہ ہوتا ہے وہیں چور کا ڈر ہے.قرآن مجید ایک بے بہا خزانہ ہے.اس کے لئے خطرہ شیطانی عظیم الشان ہے.قرآن کے ابتدا میں يُضِلُّ بِہ کثیرا پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے اپنی رسومات کے ادا کرنے کے لئے تو مکان بلکہ زمین تک بیچنے سے بھی نہیں ڈرتے مگر خدا کے لئے ایک پیسہ نکالنا بھی دوبھر ہے.ایک قرآن پر عمل کرنے سے پہلو تہی ہے اور خود وضعداری و تکلف ورسوم کے ماتحت جو کچھ کرتے ہیں اس کی کتاب بنائی جاوے تو قرآن سے دس گنا حجم میں تعلیم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ غفور رحیم ہے اس کو ہماری عبادت کی ضرورت کیا ہے حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں بھی بد پرہیزیوں سے اور حکام کی خلاف ورزی سے دکھ ضرور پہنچتا ہے.پس گناہ سے اور احکم الحاکمین کی خلاف ورزی سے کیوں سزا نہ ملے گی.ان تمام اقسام کے وسوسوں اور غلط فہمیوں سے ( جو اضلال کا موجب ہیں).بچنے کے لئے یہ سورۃ سکھائی گئی ہے.عوذ اُن چھوٹے پودوں کو کہتے ہیں جو بڑے درختوں کی جڑ کے قریب پیدا ہوتے ہیں.ہر آدمی کو ایک رب کی ضرورت
حقائق الفرقان ۵۴۲ سُورَةُ النَّاسِ ہے دیکھو انسان غذا کو گڑ بڑ کر کے پیٹ میں پہنچا لیتا ہے.اب اسے دماغ میں ، دل میں، اعضائے رئیسہ میں بحصہ رسدی پہنچانا یہ رب کا کام ہے.اسی طرح بادشاہ کی ضرورت ہے گاؤں میں نمبر دار نہ ہو تو اس گاؤں کا انتظام ٹھیک نہیں.اسی طرح تھانے دار تحصیلدار نہ ہو تو اس تحصیل کا ڈپٹی کمشنر نہ ہو تو ضلع کا کمشنر نہ ہو تو کمشنری کا ، اسی طرح بادشاہ نہ ہو تو اس ملک کا انتظام درست نہیں رہ سکتا پس انسان کہ عالم صغیر ہے اس کی مملکت کے انتظام کے لئے بھی ایک ملک کی حاجت ہے.پھر انسان اپنی حاجتوں کے لئے کسی حاجت روا کا محتاج ہے.ان تینوں صفتوں کا حقیقی مستحق اللہ ہے.اس کی پناہ میں مومن کو آنا چاہیے.تا چپے چپے پیچھے لے جانیوالے مانع ترقی ، وسوسوں سے امن میں رہے.اسلام کی حالت اس وقت بہت ردی ہے ہر مسلمان میں ایک قسم کی خود پسندی اور خود رائی ہے.وہ اپنی اوقات کو ، اپنے مال کو خدا کی ہدایت کے مطابق خرچ نہیں کرتا.اللہ نے انسان کو آزاد بنایا، پر کچھ پابندیاں بھی فرما ئیں بالخصوص مال کے معاملہ میں ، پس مالوں کے خرچ میں بہت احتیاط کرو.اس زمانہ میں بعض لوگ سود لینا دینا جائز سمجھتے ہیں یہ بالکل غلط ہے حدیث میں آیا ہے سود کا لینے والا دینے والا بلکہ لکھنے والا اور گواہ سب خدا کی لعنت کے نیچے ہیں.میں اپنی طرف سے حق تبلیغ ادا کر کے تم سے سبکدوش ہوتا ہوں میں تمہاری ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں رکھتا.میں تو چاہتا ہوں کہ تم خدا کے ہو جاؤ تم اپنی حالتوں کو سنوارو خدا تمہیں عمل کی توفیق دے.آمین.( بدر جلد ۸ نمبر ۳۹ مورخه ۲۲ جولائی ۱۹۰۹ء صفحه ۲) متی کی انجیل کا پہلا صفحہ اٹھا کر دیکھو، وہاں کیا لکھا ہے ” نسب نامہ یسوع مسیح داؤد اور ابراہیم کے بیٹے کا.ابراہام سے اسحاق پیدا ہوا اور الحق سے یعقوب پیدا ہوا...متان سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا.جو مریم کا شوہر تھا جس کے پیٹ سے یسوع جو مسیح کہلاتا ہے پیدا ہوا.“ حالانکہ یہ وہ کام ہے جو ہمارے ملک میں تو میر اسی کرتے ہیں.اس کے مقابل میں قرآن مجید شروع ہوتا ہے اَلْحَمدُ لِلهِ رَبِّ العلمین ہے.یہ وہ آیت ہے جس سے تمام مذاہب باطلہ کا رڈ ہوتا ہے نہ یسوعیوں کا خداوند اقنوم ثالث رہ سکتا ہے.نہ رحم بلا مبادلہ کے بہانے سے کسی بے گناہ کو پھانسی
حقائق الفرقان ۵۴۳ سُورَةُ النَّاسِ چڑھانا پڑتا ہے اور نہ آریوں کا مادہ و روح ازلی و ابدی بن سکتا ہے اور نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے جس کا رڈ اس سے نہ ہو سکے، نہ سوفسطائیوں کو بولنے کی تاب ہے اور نہ برہمو وں کو مسئلہ الہام میں تر ڈدرہ سکتا ہے اور نہ شیعہ صحابہ کرام پر اعتراض کر سکتے ہیں.نہ دہر یہ کسی حجت نیرہ کی بناء پر خدا کی ہستی کے منکر رہ سکتے ہیں.یہ تو ایک آیت کے متعلق ہے.اگر سات آیتیں پڑھی جاویں تو پھر تمام مذاہب کی صداقتوں کا عطر مجموعہ اس میں ملتا ہے.اور دنیا کے آخر تک پیش آنیوالے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں موجود ہے.چنانچہ نصاری کے اس غلبہ اور مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی بھی موجود ہے.ان تمام مفاسد وعقائد فاسدہ کا ابطال ہے.جو دنیا میں پیدا ہوئے یا ہو سکتے ہیں.اور ان اعمالِ صالحہ و عقائد صحیحہ کا تذکرہ ہے جو انسان کی روحانی و جسمانی ترقیات کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح انجیل کا اخیر دیکھو.اس میں لکھا ہے کہ یسوع جو خدا وند کہلا تا تھا.اپنے دشمنوں کے قبضے میں آ گیا اور اس نے ایلی ایلی لما سبقتانی (یعنی اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ) کہتے ہوئے اپنی جان دی.برخلاف اس کے قرآن مجید ختم ہوتا ہے.اَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ - قرآن مجید پڑھنے والا.قرآن شریف کا متبع بڑے زور سے علی الاعلان دعوی کرتا ہے.میں اُس خدا کی پناہ میں ہوں جو تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور پھر انہیں کمال تک پہنچانے والا ہے.وہ سب سے حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے.اللہ اکبر.ایک معمولی تھانیدار یا صاحب ضلع بلکہ نمبر دار اور پٹواری کی پناہ میں آ کر کئی لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں.پس کیا مرتبہ ہے اس شخص کا جو تمام جہان کے رب اور بادشاہ اور سچے معبود کی پناہ میں آ جائے.صرف اس کتاب کا اوّل و آخر ہی اسلام اور عیسائیت میں فیصلہ کن ہے.اگر کوئی خدا ترس دل ( تفخیذ الا ذبان جلد ۶ نمبر ۹.ماہ تمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳۵۳-۳۵۴) لے کر غور کرے.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ
۳۱ ۵۳ ۶۱ انڈیکس ( حقائق الفرقان جلد ششم ) مضامین اسماء مقامات کتابیات
T انڈیکس مضامین ( حقائق الفرقان جلد ششم ) رتق کی حقیقت ۱۱۹ آسمان پھٹنے سے مراد ۱۷۸ آرپ حقائق معاد سے نا آشنائی لیکھرام کے ذریعہ ان کا فیصلہ عقائد زمانہ کو غیر مخلوق مانتے ہیں ۱۴۴ ١١٩ ٣٣١ آریوں کے نزدیک دولتمندی نیکیوں کا پھل ہے ۱۰۸ ابرار ابرار کون ہوتے ہیں علامات خلق عالم کے منکرین آریوں کا رد ۲۰۳ | فرائض اور عملی اوصاف عقیدہ تناسخ پر اعتراض ۱۴۵ مکالمہ الہی کا شرف آریوں کے اعتراضات کے جوابات ان کی جزاء طيرًا ابابیل پر اعتراض کا جواب ۳۵۷ کھانا کھلانے کی تلقین زمین کی باتیں کرنے پر ایک آریہ کے اعتراض کا جواب اسلام پر اعتراضات کے جواب ۱۸۲ ،۱۶۷ ،۱۶۶،۱۱۹ ادب روحانی امور کے بیان میں پاس ادب استغفار ۹۷ ۸۹،۸۸ ۱۰۲ ،۹۱ 1+1 ۱۰۳ ۲۲ آسمان مجر دخلاء نہیں آسمان کے سات طبقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آسمان کے انشقاق و انفطار کا بیان ۱۶۶ ۱۲ 122 معنی اور حقیقت ۴۶۶،۸۰،۱۰ انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے ۴۷۲،۳۲۰ انسانی ضروریات کی جہت سے برکات ونتائج ۴۷۱ ۱۰
آنحضرت صلی للہ اسلام کے استغفار کی حقیقت ۵۴٬۵۳ آخری زمانہ میں دجال کے حملہ کا دفاع کرنے کیلئے طوبى لمن وجد فى صحبة استغفارا كثيرا ۵۴ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور کا نمودار ہونا عمد اترک کی گئی نماز کی تلافی صرف استغفار ہے ۳۲۶ غلبہ اسلام ۳۲۶ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار جماعت احمدیہ کو تاکید حقیقت سچا مفہوم اور منشاء اسلام کا نچوڑ اور خلاصہ اللہ تعالیٰ کی حمد و تسبیح کی کثرت ۵۲۵ ۴۳۰ فتح مکہ کے بعد کثرت سے لوگوں کا قبول اسلام ۳۳۵ اسلام کے نتیجہ میں عرب قوم میں انقلاب اہل اسلام کا عروج پانچ سو سال رہا ۴۶۵،۴۵۲ ۴۷۱ ۷۵ ۴۰۲ آج کے دور میں اسلام کی حالت سب سے افضل و اکمل آنحضرت صلی یا دیپلم کا وجود ہے ۲۴ | الاسلام يعلو ولا یعلی علیہ ہر وقت تمام روئے زمین پر اسلامی شہادت ۳۷۲ مسلمانوں کے لئے مقدر فتوحات خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے عبادت کی حقیقت ۳۷۱ جس قدر امن ہو گا اسی قدر اسلام پھیلے گا افراط و تفریط اور رہبانیت سے منزہ آسان تعلیم ۲۰۶ باوجود بہت ساری پابندیوں کے روز بروز ترقی پذیر ہے غیر مسلم سلطنت کے ماتحت کس طرح زندگی بسر کرنی چاہیے ابتداء سے ہی جنگ صرف دفاعی رکھی گئی ہے ۳۲۹ اس زمانہ میں اسلام کی فتح ونصرت کا وقت پھر آ گیا ہے ۴۴۲،۲۸۸ دعاؤں کے ذریعہ اسلام کے غلبہ اور عزت کے ۲۸۶ دن آئیں گے ۵۴۲ ۱۷۳ ۳۷۳ ۳۲۹ ۴۳۱ ۴۶۸ ۵۳۰،۵۲۹ بغیر جنگ کے محبت و برہان اور تائیدات الہیہ اسلامی کتب کی کثرت اللہ اس دین کی حمایت میں ایسے بندوں کو بھیجتا سے غالب آتا ہے ۱۷۳ ہے جو اپنے کمالات اور تعلقات الہیہ میں ایک نمونہ ہوتے ہیں حکم و عدل کی ضرورت اور آمد ۴۲۵،۴۱۶ اعتراضات کا آغاز اسلام اور عیسائیت میں فیصلہ کن امر ۲۹۹ | مسلمانوں کی نمایاں علامت ۲۱۱ ۵۴۳ ۳۸۸
۴۸۸ ۲۴ ۲۳۲ ۴۶۶ ۲۸۹ ۵۳۷ L اسماء الہی رسول کی اطاعت کی فرضیت اقتصادیات کسب حلال اور ہاتھ سے محنت کی برکات ۵۰۴ خود بخود موجود مستحق عبادت ذات حلول و اتحاد سے منزہ صفات الہیہ کی دو قسمیں اسم رب کا خاصہ مال کمانا آسان ہے البتہ عمدہ موقع پر خرچ کرنا ربوبیت مشکل امر ہے اللہ جل جلالہ اسم ذلت اللہ اسم ذات ہے ۵۸ خلق کے بعدر بوبیت کی اہمیت کریم قدرت کاملہ کے ثبوت ۴۹۰ احد اور واحد میں فرق یہ نام صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے مخصوص ہے ۵۰۲ تکبر میری چادر ہے جو میری چادر چھینے گا میں عربی کے سواد نیا کی کسی زبان میں خدا تعالیٰ کے اسے ذلیل کروں گا (حدیث) واسطے کوئی اسم ذات نہیں ھو بھی اللہ تعالیٰ کا نام ہے اسماء الہیہ کی اہمیت ۴۹۰ ۴۸۹ ۹۹ صفات الہی کا علم حاصل کرنے کی اہمیت اسماء اور صفات کا ملہ کومد نظر رکھ کر دعامانگنی چاہیے ۵۱۱ انسان کی بد بختی اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ اپنے خالق کے نہ اسماء کو جانے نہ صفات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ جس قدر قرآن شریف میں ہیں کسی آسمانی کتاب میں نہیں ۲۹۳ ۲۸۵ ۱۶۹ ۱۲۸ ۴۸۹ ۱۵۰ اس کی کبریائی کے مطابق ہی اس کی عطاء ہے ۴۲۲ الشر اليك والخير كله في يديك صفت رحمانیت سے کفارہ اور تناسخ کا رد ہوتا ہے ۲۱۰ اللہ کی رحمت اس کے غضب سے بڑھی ہوئی ہے ۹۶ اللہ تعالیٰ کے وعدے اس کی صفات قدیم کے تقاضے کے موافق صادر ہوتے ہیں ۲۰۱ ایمان بالله اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی و ابدی ہیں ۶۷ خدا پر ایمان انسان کی اخلاقی اصلاح کیلئے صفات علت العلل ܬܪܙ ضروری ہے ۱۸۴ ۵۳۹ اللہ تعالیٰ کو محتاج الیہ یقین کرنے کی برکات ۵۰۷،۵۰۳
اللہ کی تسبیح کے مختلف مراتب خدا کی تنزیہہ اپنے چال چلن سے دکھا ئیں ۲۱۰ امت محمدیہ میں ہزار سال کے بعدا کا برین ملت و ۲۰۹ | اصلاح کے واسطے خلفاء اور نائب آنے کا وعدہ ۴۰۸ بلاحجاب دیدار الہی کا ثبوت علماء امت میں باہمی اختلافات مسلمانوں کا جم غفیر اللہ تعالیٰ کی عینیت صفات کا امت کے لئے سب سے بڑی مصیبت میری قائل ہے متفرق مختلف زمانوں میں اللہ کی تخت گاہیں تصرفات اللہ کی مخلوق بے حد و شمار ہے نکتہ نواز اور نکتہ گیر ہے اللہ تعالیٰ کے انسان پر احسانات ۶۷ وفات ہے (حدیث) ۲۷۹ ۵۱۲ 72 ۱۴۸ ۹۳ امت کے اعمال خیر سے آنحضرت صلہ یہ تم کو اجر ملتا ہے آنحضرت اللہ السلام نے فرمایا جبتک میرا ایک بھی ۷۵ ۱۶۸ ۴۰۶ امتی دوزخ میں رہے گا میں راضی نہیں ہوں گا ۲۶۰ امن جس قدرا من ہو گا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا ۲۲۹ خدا کے نام اور صفات پر اعتراض کرنے والوں ظاہری سلطنتیں دلوں کو درست کرنے سے قاصر کو جواب دیا جاۓ الہام عقلی چشمے الہام الہی کے محتاج ہیں ۲۱۲ ۱۹۹ ہیں دلوں کو راہ راست پر لانا صرف روحانی سلطنتوں کا کام ہے انجمن اشاعت اسلام ۳۸۴ ۳۸۵ آنحضرت سی پیلم پر نازل ہونے والا پہلا الہام ۲۸۵ یتامی کی پرورش کیلئے انتظام مصلای مامور من اللہ کو اپنے الہامات پر کامل یقین ہوتا ہے ۴۵۹ انجیل نیز دیکھئے عیسائیت پر ہیز گاری کا نورانی راستہ اکتیار کرنے والے کو سائنس سے مقابلہ کرنے سے ہچکچاتی ہے ۲۴۶ انجیل کے اول و آخر کا قرآن کے اول و آخر سے مدد دینے والے الہام ہوتے ہیں ایک الہام کا بار بارنزول ۳۸۱ امت محمدیہ نیز دیکھئے عنوانات ”اسلام اور مسلمان“ امت میں ہر صدی کے سر پر مسجد د آنے کی خبر موازنه ہر آیت کے ساتھ شان نزول کا ذکر انسان ۳۲۰،۲۹۶ احسن تقویم میں پیدا کیا گیا ہے ۱۹۵ ۵۴۳،۵۴۲ ۳۸۲ ۲۷۹
انسانی پیدائش کے مختلف ادوار روحانی قوی انسانی نفس ۱۲ ۲۰۹،۲۰۸ ۲۴۶ اولاد باپ کی صلاحیت بیٹیوں تک مفید ہوتی ہے ایثار ۶۸ نفس انسانی کی بے پناہ استعداد میں اور قسم کی حکمت ۲۵۴،۲۵۳ فاتح بننے کے لئے لازمی شرط روحانی ترقی یا تنزل کے تین مدارج ۵۳۱ ایمان انسان کامل سے فیضیاب ہونے کی استعداد ۲۵۵ ایمان کی تعریف اللہ تعالیٰ کی تین نعمتیں ۹۶ ایمان کا اصل الاصول انسان کے وہ اعضاء وقومی جو جہنمی ہونے کا باعث ہر نیکی کے مجموعہ کا نام ہے بنتے ہیں ہمہ وقت محتاج انسانی قربانی چار خلقوں کا اعتدال انفاق فی سبیل اللہ حضرت ابوبکر کی مثالی مالی قربانی انگریز ایک حدیث نبوی سے استفادہ اہل کتاب ۶۵ ایمان کے دوا جزاء ۳۳۱ ایمان کا خلاصہ ۲۳۹ ۳۲۶ ٣٢٦ ۴۷۲ ۴۱۸ ۳۳۲ ۱۰ ایمان بالقدر تمام انسانی بلند پروازیوں کی جڑ ہے ۳۲۷ ۱۹۹ یوم الدین پر ایمان قیام امن کے لئے ضروری ہے ۳۸۴ جزاء وسزا پرایمان بہت سی نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۳۲۷ ۲۵۷ ۳۲۷ صفات باری پر ایمان کے نتائج سابقون اولون کے ایمان کا مقام اماطة الأذى عن الطریق بھی ایمان کا شعبہ ہے مومنین کے تین مراتب 1..۳۳۵ ۳۲۷ 1++ یہود اور نصاریٰ دونوں ایک موعود کے منتظر تھے ۳۰۴ مومن ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے حضرت اسماعیل سے حسد اور اسحاق وسارہ اونٹ اور پہاڑ کے ذکر میں مومنوں کوصبر و جفائی سے محبت دونوں فرقوں کا ایک دوسرے کی مخالفت میں ٹل جانا ۲۷۲،۲۷۱ اور استقلال کی تلقین ۹۸ ۲۲۲ مومن تن آسان و تن پرور نہیں ہوتا (حدیث) ۱۷۹ ۲۹۸ | ست مومن اللہ تعالیٰ کو پیارا نہیں ہوتا ۵۶
بپ.بائبل نیز دیکھئے عنوانات مثیل موسیٰ کی پیشگوئی مسیح کی ذات میں پوری نہیں ہوئی (اعمال) ۴۵ تورات اور یہودیت یونانی ترجمہ میٹوجنٹ ۲۷۵ یسعیاہ کی پیشگوئی آنحضرت کے متعلق ۲۷۲،۲۶۹ پرانے عربی ترجمہ میں و امتلا الارض من یسعیاہ کی پیشگوئی عرب کی بابت ۴۴ تحمید احمدا لکھا ہے مثیل موسی کی نو علامات بر ہمو سماج ۲۷۰ ابراہیم کی موعود سرزمین پر مسلمانوں کی خلافت کی ۳۶ پیشگوئی فتح مکہ کی پیشگوئیاں ۵۱ خدا، ملائکہ اور انبیاء کے بارہ میں عقاید ۳۲۶ ابولہب کی ہلاکت کی پیشگوئی ابولہب کے پورے خاندان کے متعلق پیشگوئی کا بعث بعد الموت قرآن میں کثرت سے ذکر کی وجہ ۱۹۸ پورا ہونا ۴۸۱ ۴۸۴ ،۴۷۸ کفار کے نزدیک سب سے مشکل مسئلہ ۷۴ ابو جہل کے متعلق بدر کے دن ایک قرآنی پیشگوئی حدیبیہ میں بیعت رضوان پیشگوئی غیب پر متحد یا نہ دعویٰ صرف نبی اور رسول کو حاصل ہوتا ہے پیشگوئی پورا کرنے کی کوشش سنت انبیاء ہے پیشگوئیوں میں تعبیر ۴۵۹ ۲۶ ۴۵ ۱۴۰ کا پورا ہونا ۳۵۳ یوم بد را در فتح مکہ میں پوری ہونے والی پیشگوئیاں ۱۳۷ اہل مکہ کیلئے پر شوکت پیشگوئیاں اور جلالی تحدیاں ۲۲۵ ابتدائی دور میں فتح مکہ اور کفار کی شکست کی پیشگوئی ۱۲۷ اہل مکہ پر ایک سال بعد عذاب آنے کی پیشگوئی ۴۹ مسلمانوں کی مکہ اور اس کے مشرق و مغرب پر فتوحات حاصل کرنے کی پیشنگوئی ۲۰۱ آنحضرت علی ایم کے مخالفین کی ہلاکت کی پیشگوئی ۵۱ بائبل کی پیشگوئیاں آنحضرت صلی ایلام کے دشمنوں کے بے نسل ہونے قرآن کریم کے آہستہ آہستہ نازل ہونے کی پیشگوئی ۱۱۴ کی پیشگوئی تو رات میں مثیل موسیٰ کی پیشگوئی مثیل موسی کی نو علامات ۳۵،۳۴ قرآن مجید کی پیشگوئیاں ۳۶ قرآن مجید کی پانچ پیشگوئیاں ۳۹۹ ۲۸۹
۱۲۰ ۴۸۵ وے ۱۲۹ ۱۴۱ ۱۴۷ ۱۲۶ ۴۹۴ ۴۹۷ ۴۶۶ ایک عظیم الشان پیشگوئی 11 مسیح موعود کے انفاس سے مراد آپ کے دلائل مکی سورتوں میں آئندہ حالات کی پیشگوئیاں ہیں ۳۸۱ اور پیشگوئیاں ہیں سورۃ ایلاف میں ایک پیشگوئی ۳۷۳ لیکھرام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سورۃ الکافرون میں پیشگوئی ۴۳۹ متعلق پیشگوئی سورۃ النصر میں فتوحات کی پیشگوئی ۴۴۸ رمضان ۱۸۹۴ء میں سورج اور چاند گرہن کے اجتماع کی پیشگوئی کا ظہور بے آب و گیاہ عرب میں ہر قسم کی نعمتیں مہیا ہونے کی پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا قرآن مجید کے ہمیشہ پڑھنے پڑھانے اور درس و تدریس میں آتے رہنے کی پیشگوئی ۱۹۲ آنحضرت صلا شما آلہ سلم کی وحی کو محفوظ رکھنے کی پیشگوئی ۲۰۴ آنحضرت مالی ایسی ایم کے مکہ سے نکالے جانے کی خبر ۴۹ اللہ اکبر کے نعروں کے بلند ہونے کی پیشگوئی ۶۰ پہاڑ پہاڑوں کے فوائد تاریخ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار تبلیغ آنحضرت سلی یا ایلم کے مکرم معظم ہونے کی پیشگوئی ۲۸۶ آداب تبلیغ نرمی سے شروع کرنے کی تعلیم انا اعطيناك الكوثر کی عظیم الشان پیشگوئی ۴۱۵ اسلام میں فوج در فوج لوگوں کے داخل ہونے کی مبلغ کو طبقہ امراء کی وجہ سے ضعفاء کو نہیں چھوڑنا پیشگوئی اس زمانہ کیلئے بھی ہے ۴۶۸ چاہیے آئندہ زمانہ میں اسلام کی شان و شوکت کی پیشگوئی ۱۴۹ | تثلیث صحابہ کے حق میں قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا ۱۷۵ کید عظیم حضرت فاطمہ کی وفات کے متعلق خبر ۴۵۶ عیسائیت کی بنیاد تثلیث پر.اس زمانہ کے بارہ میں قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا عقیدہ کی خرابی کی شدت تسبیح ۱۶۷ اس زمانہ میں قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا آخری زمانہ میں دجال کے عظیم فتنہ برپا ہونے مختلف مراتب ۵۲۵ تسبیح تحمید اور استغفار کی ترتیب میں حکمت کی خبر
اللہ اور اس کے اسماء اور منتخب بندوں کی تسبیح میں کوشاں رہنے کی تلقین ۲۱۵ اس میں زیادہ تر خدا تعالیٰ کا نام ھو آتا ہے سچے نبی سے ڈرنے کا حکم ۴۸۹ ۴۵ خدا کی تنزیہ اپنے چال چلن سے دکھا ئیں ۲۱۲ قرآن کریم کے آہستہ آہستہ نازل ہونے کی پیشگوئی ۱۱۴ تصوف سلوک کے تین درجے ضال کے معنی سائل یعنی سالک راہ طریقت ++11+1 ۲۶۱ نفس امارہ ، لوامہ اور مطمئنہ ۵۳۱ تا ۵۳۴ توکل توکل کے نتیجہ میں عظیم انعامات کا نمونہ ۳۷۴،۳۷۳ ۳۲ اہمیت وافادیت عقیدہ وحدت وجود کارو ۵۰۰ ج - چ صوفیاء کا ملامتی فرقہ ۳۲۷ ملامتی طریقہ کار خلاف اسلام ہے انسان ریاضت میں سادہ غذا کھائے ۴۸۲ جادو ایک نکتہ تعبیر پیشگوئیوں میں تعبیر ریشمی کپڑے کی تعبیر تقویٰ ۵۸ جادو کی حقیقت اور آنحضرت سلی لا یلتم پر جادو کئے ۱۰۵ ۱۰۶ جانے والی روایت پر بحث ۱۴۰ جان آدم سے پہلے جان اور اس کی ذریت تھی جزاء وسزا ۵۱۶،۵۱۵ جو تقوی اختیار کرتا ہے اس کو خدا سکھاتا ہے ۳۳۴ تورات نیز دیکھئے بائیل جب کوئی عمل حیطۂ فعل میں آتا ہے تو جزاء وسزا ۳۳۴ اسی وقت شروع ہو جاتا ہے اس پر ایمان بہت سی نیکیوں کا سرچشمہ ہے اہل تو رات کو آنحضرت صلی ایام کا خصوصی خطاب ۴۲ سب سے بڑا مسئلہ جو انسان کو نیکیوں کی طرف تورات کی صداقت موسیٰ کی کتاب ماننے کی وجہ ۵۱ توجہ دلاتا ہے ۲۷۳ یوم الدین پر ایمان دنیوی امن و امان کے قیام ہر آیت کے ساتھ شان نزول کا ذکر ۳۸۲ | کے لئے ضروری ہے ۱۸ ۱۴۴ ۳۲۷ ۲۹۳ ۳۸۴
موجودہ زمانہ کے نوح نے ایک کشتی تیار کی ہے.تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو فتح اسلام میں مذکور پانچ شاخوں کے لئے مبارک ہیں وہ جو اس میں سوار ہوئے انفاق مال کی تلقین حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنے مریدوں سے اقرار لینا دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد ۳۸۴ مہمان خانہ اور دینی مدرسہ کے لئے خرچ ۱۰۳ کرنے کی تاکید میں دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“ بہت مشکل یتیموں اور مسکینوں کی خبر گیری کی تلقین ۵۳۵ تمام دنیا کے ممالک میں تبلیغ کرنے کی تلقین عہد ہے اخبار البدر اور بدر ۱۸۱ تم حق پہنچاؤ اور حق کے پہنچانے میں علم و حکمت چندہ دینے والوں کے لئے دنیا و آخرت میں امن اور عاقبت اندیشی سے کام لو کا وعدہ ۲۵۶ میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے اے خدا تو اپنے فضل و کرم سے ہماری دستگیری فرما واعظ ہوں ۳۲۹ ۳۳۰ ۳۳۰ ۲۲۹ ۸۹ ۳۳۳ ۳۲۶ اور اس جماعت کے ممبروں کو نفس مطمئنہ عطاء فرما۵۳۶ ) مرکز میں رہنے والے) باہر والوں کیلئے نمونہ بنیں ۲۱۶ عقائد و تعلیم ۳۳۲ مرکز میں فساد کرنے والا اصلاح کا دشمن ہے ۲۲۷ مرکز میں باہر سے آنے والوں کو حسن ظن سے کام عقائد کا خلاصہ نماز میں غیر احمدی کی امامت ۸۳ لینا چاہیے جماعت کو خصوصی نصائح جماعت کو خصوصی نصائح ۲۲۸ ۳۳۴ احمدی دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کو نبھا ئیں ۲۹۴ اللہ کے اسماء وصفات.اللہ کے رسول اور اس کے خلفاء پر اعتراضات کا جواب دو سنت صحابہ پر عمل کی تلقین استغفار کی تاکید و تلقین مبر کے ساتھ باہم محبت بڑھانے کی تلقین ۲۱۱ ۳۳۶ ۴۷۲ ،۱۱ ۳۳۰ جس جماعت کا شیرازہ کمزور ہے وہ جماعت فاتح نہیں ہو سکتی عورتوں اور بچوں کو جسمانی سزا نہ دینے کی تاکید ۴۳۲ جمعه جمعہ کی غیر فرضیت پر کتابیں جن خدا تعالیٰ کی غیر مرئی مخلوق ۱۲۲ ۱۸ >
11.۳۸۹ لغت میں بڑے آدمیوں کو بھی جن کہتے ہیں جنوں کے یہودی ہونے کے دلائل جنت دائمی ہے اور فانی نہیں ۱۷ ۱۹ سب سے آخر میں جہنم سے نکلنے والے شخص کیلئے وسیع جنت چکڑالوی ۱۳۵، ۱۷۰ منکرین حدیث وسنت جنت کی سب سے بڑی نعمت خدا کی رضامندی ہے ۱۰۸ اہل جنت کی صفات مومنوں کے ساتھ اس کی مؤمن اولا دملادی جائے گی ۱۰۹ | حدیث 1.2 ۱۷۵ احادیث کو انفاس نبوی قرار دیا گیا ہے ۱۲۰ روایت بلاواسطہ کا دور ایک سو سال کے بعد ختم ہو گیا ۲ اس جلد میں مذکور احادیث ۳۱۷ اتقوا الله فى النساء فأنهن عند كم عوان ۱۰۵ ۱۳۳ احب العمل الى الله الحج و الثج ولدان مخلدون چشمه تسنیم جنون جنون اور پاگل پن کی تعریف جہاد جہاد کی حقیقت ۴۴۲ اذا مشت امتى المطبطا الاسلام يعلو ولا يعلى عليه اس ملک میں جہادی خیالات عیسائی پادری مسلمان ملاں اور آر یہ لوگ پھیلا رہے ہیں ذروة سنام الاسلام جہنم ۳۸۲ | اسلمت على ما اسلفت ۸۴ ۱۷۳ ۳۰۹ ۱۷۵ اشد البلاء الانبياء ثم الامثل فالامثل ٣٣ اکفتوا صبيانكم عند انتشار الظلام ۱۲۴ ۱۸۰ ۳۲۷ اللهم حاسبني حسابا يسيرا اماطة الأذى عن الطريق انا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمی ۳۱۳ الانصار دثار و الناس شعار ۶۰ ۴۹۷ ان الله جميل ويحب الجمال ۱۷۰،۱۳۵ ۳۱۵ ۳۵۲ ۴ غیر منقطع اور دائمی نہیں ام قرار دینے کا مطلب حطمہ نام رکھے جانے کی وجہ انیس داروغے اہل نار کی سات صفات
11 ان في الليل ساعة لا يوافقها عبد مسلم ۳۳ | ذروة سنام الاسلام ان الله يبعث لهذه الامة على راس كل ماة سنة من يجد دلها دينها ۱۷۵ طوبى لمن وجد في صحيفته استغفارا كثيرا ۵۴ ۲۹۶ سبحانك اللهم بلى انه اخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سبقت رحمتی علی غضبی بيدها واشار الى القمر وقال استعيذى شیبتنی هود بالله من شر هذا فانه الفاسق اذا وقب ۵۷۶ | غريمك اسيرك فأحسن الى اسيرك انما الاعمال بالنيات انکم سترون ربكم كما ترون القمر ۵۹۱ لا تثريب عليكم اليوم ΔΙ كان رسول الله يعلمنا من الاوجاع كلها والحمى هذا الدعاء ١٧٩ كلمة الحكمة ضالة المومن اخذها ۸۴ ۹۶ ۵۲ ۱۰۴ ۴۶۸ ۵۱۷ ليلة البدر انى يستجاب له اول الايات خروجا طلوع الشمس من حيث وجدها ۲۸۸ المغرب ۱۴۰ کلمتان خفيفتان على اللسان ۲۱۰ اول ما يحاسب به العبد من اعماله الصلوة ۸۳ بارك الله فى بكورها ۱۳۳ بلی انه علی کل شی قدیر جبلت القلوب على حب من احسن اليها ٩٢ لا تسبوا الدهر ۳۴۵ لا المهدى الا عیسیٰ بن مریم (حدیث) ۱۷۹ لا يبقى من القرآن الارسمه | لا يحل لكافران يجد ريح نفسه الامات و نفسه ينتهى حيث ينتهی طرفه ۳۲ ۱۲۰ حبك اياها ادخلك الجنة حبك لشىء يعميك ويصم ۵۰۰،۴۹۸ لايزداد الامر الا شدة ولا الدنيا الا ۱۵۱ ادبارا ولا الناس الاشحاولا المهدى ۲۲ | الاعيسى بن مريم الخير كله بيديك والشر ليس اليك الدال على الخير كفاعله الدعا مخ العبادة الدنيا مزرعة الآخرة ۴۲۴۴۴۱۶ لایو من احد كم حتى يحب لاخيه ما ۲۸۹ | يحب لنفسه ۱۷۹ 121 ۱۳۹۱۳۳ | لم تكونا منا خلق الله السموت والارض ۷۹
۱۲ لا تنقضي عجائبه لن يغلب عسر يسرين ليسوا عباد الله بمتنعمين ٩ يقبض العلم بقبض العلماء ۲۶۷ اس جلد میں مذکورا حادیث بالمعنی ۱۷۹ جس نے لا الہ الا اللہ کہا وہ اللہ کے قلعہ میں داخل الماهر بالقران مع السفرة البررة ۱۴۹ | ہو گیا ما بعثت باليهودية ولا بالنصرانية ولكن بعثت بلحنيفية السمحية اگر انسان چل کر خدا کی طرف جائے تو خدا اس ۲۰۶ کی طرف دوڑ کر آتا ہے ما نفعنی مال احد قط ما نفعنی مال ابی بکر ۲۵۷ اللہ فرماتا ہے کبر میری چادر ہے جو میری چادر ۳۳۵ چھینے گا میں اسے ذلیل کروں گا من استوی یو ماه فهو مغبون من جعل الهموم هما و احداهما اخرته ۳۴ بندہ سجدہ کی حالت میں خدا تعالیٰ سے نزدیک تر من مات فقد قامت قیامته من نقش عذب من نوقش في الحساب عذب ۱۴۵ ،۷۵ ۳۱۳ ۱۸۰ ہوتا ہے حفظ قرآن کرنے والوں اور قیام اللیل والوں کو اشراف امتی قرار دیا گیا ہے ہر ہر حرف پر دس نیکیوں کا ثواب ہے من يضمن لي ما بين لحييه و ما بين رجليه جسے قرآن یاد ہے اگر وہ اسے دہراتا نہ رہے تو یہ فاضمن له الجنة نصرت یا عمر و بن سالم العظيم ۱۹۷ ۱۱۸ ۴۹۸ ۴۵۶ ۱۵۰ ۲۸۸ ۳۱ ۷۴ سینے سے اس طرح نکل جاتا ہے جیسے آزاد اونٹ ۲۰۴ ۴۶۱ آنحضرت سالی کی تم جب سورۃ البروج کی تلاوت ۸۱ فرماتے تو اللهم انى اعوذ بك من جهد البلاء هو السيد الصمد الذي يصمد اليه فى کی دعا پڑھتے الحوائج وتكون السماوات بيمينه ۴۹۱ ۱۸۴ تین دن سے کم عرصہ میں قرآن ختم کرنے پر ناپسندیدگی ۱۹۱ ۳۲ وخز اعدائكم من الجن (طاعون کے متعلق ) ۱۷ کچھ لوگ قرآن جلد جلد پڑھیں گے نہ کہ ٹھہر ٹھہر کر ۳۲ يأتي على جهنم زمان ليس فيها احد ۱۷۰ آنحضرت صلیہ السلام نے سورۃ التکاثر پڑھی اور فرمایا يخرج دابة على الناس ضحى بندہ کہتا ہے کہ یہ میرا مال ہے یہ میرا مال ہے ۳۲۱ ۲۹۷
۱۳ آنحضرت نے فجر کی نماز میں سورۃ الکافرون سب گھروں میں بہتر گھر وہ ہے جس میں یتیم کے اور سورۃ اخلاص پڑھی تھی ۴۳۶ ساتھ حسن سلوک ہوتا ہے سورۃ النصر کے نزول کے بعد آنحضرت سبحن ذوی القربی سے حسن سلوک زیادتی عمر کا موجب الله و بحمده استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب الیہ بہت پڑھتے تھے ہے ۴۶۴ مجھے یمن کی طرف سے تمہارے رب کی خوشبو آتی سورۃ النصر کے نزول پر فرما نا نعیت الی نفسی ۴۵۶ ہے جب وہ صحابی آپس میں ملاقات کرتے تو تذکیر جب لوگ ناپ تول میں خیانت کرتے ہیں تو کے طور پر ایک دوسرے کو سورۃ والعصر سناتے ۳۳۵ خداوند کریم بارشوں کو روک لیتا ہے ۴۶۵ ابن آدم بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں ۱۰۵ ۱۸۲ ۴۶۶ 121 سورة نصر میں الناس سے مراد اہل یمن ہیں جس شخص نے اللہ کی ملاقات دوسورتیں لے کر کی جوان رہتی ہیں ان میں سے ایک مال کی حرص ہے ۳۲۱ اس سے کوئی حساب کتاب نہیں لیا جائے گا وہ دو اندھے کی لاٹھی مذاق سے اٹھا نا سخت گناہ ہے سورتیں الکافرون اور الاخلاص ہیں ایک شخص نے نماز میں سورۃ الاخلاص پڑھی تو آنحضرت نے فرمایا ان هذا عرف ربه ہر شے کیلئے ایک نور ہوتا ہے اور قرآن کا نور قل هو الله احد ہے ۴۴۴ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کرنے کا حکم ۴۹۷ دعا کے ذریعہ حسد کے شر سے بچنے کی تلقین سود کا لینے والا دینے والا بلکہ لکھنے والا اور گواہ ۴۹۸ سب خدا کی لعنت کے نیچے ہیں کیا میری امت آدھا دن نہ کاٹے گی؟ ۷۵ جو حق بات جانتا ہے اور بیان نہیں کرتا وہ گونگا جب تک میرا ایک بھی امتی دوزخ میں رہے گا شیطان ہے میں راضی نہیں ہوں گا ۲۶۰ ۵۱۰ ۵۴۲ ۳۵۱ ہر قسم کا جوڑا اس کی نظیر کے ساتھ ملا دیا جائے گا ۱۵۹ آنحضرت صلالہ ہی ہم نے عثمان بن مظعون کے ضال نصاری ہیں پاس جاکر تعوذ فرمایا ۵۰۲ ۴۹۷ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ایک سو بیس سال تھی ۴۶۴ آنحضرت سل السلام کا حضرت عمرؓ کو ایک دعا سکھانا ۳۹۰ جو شخص آخرت کے اہتمام میں ہوتا ہے اللہ اسے آنحضرت کا ابوہریرہ سے فرمانا تیرے لئے دہرا تونگری عطاء کرتا ہے اجر ہے ایک سر کا دوسرا علانیہ کا ۳۹۰ | حساب بیسیر کے لئے تین لازمی خصلتیں ۱۸۰
۱۴ قبر میں جنت یا دوزخ کی طرف کھڑکیاں کھول ابراہیم علیہ السلام کی موعودہ زمین پر مسلمانوں کی دی جاتی ہیں ۳۲۴ خلافت کی پیشگوئی ۵۱ جہنم سے نکلنے والے شخص کے لئے جنت کی وسعت خلفاء راشدین کے دشمن بھی ابتر اور نا کام ہوئے ۴۱۳ کفار مسیح موعود کے دم سے مریں گے ۵۲۹ خاتم الخلفاء مثیل موسیٰ کے خاتم الخلفاء کا چودھویں صدی میں ۳۵ ۵۲۹ ۳۸۴ ظہور لازم تھا خناس آخری زمانہ میں خناس کا فتنہ خودکشی ارتکاب کی وجہ ۳۲۱ 112 ۲۹۹ حرص انسان میں مال کی حرص حشر اجساد حشر اجساد پر ملائکہ کی مختلف قسموں کا دلیل ہونا حکم وعدل آنے کا وقت مخاطبین کے نہ ماننے کی وجہ بغیا بینھم ہوتی ہے ۳۰۰ خیر کثیر حیات بعد الموت آنحضرت سالی یا اسلام کو دیئے جانے والے خیر کثیر ۴۰۲،۴۰۱ ٣٠٨ ۲۹۷ ۱۲۵ ۳۹۱ ۴۰۹ سے مراد ۲۳۳ ۲۱۶ ۹۴ ۳۵ دابتہ الارض دابتہ الارض پر زمینی علوم کا کھلنا ضحی کے وقت نکلنے کا مطلب دجال قرآن شریف میں دجالی فتنوں کا ثبوت ۲ سورہ ماعون سے تعلق اس دور کا عظیم فتنہ دجال کا فتنہ ہے موت کے بعد کی جاودانی زندگی خلافت خ خلیفہ وقت کا مقام اور فرائض امت محمدیہ میں خلافت خلفاء امت خلفائے امت مرحومہ کو خلفائے موسوی کا مثیل قرار دیا گیا ہے خلافت راشدہ کا تیس سالہ دور خلفاء کے ذریعہ مقدر ترقیات
۱۵ یورپ سے نکل کر ہندوستان تک پہنچنا ۳۷۲ مکہ اور مدینہ قبولیت دعا کے مقام ہیں مشن کا دجال جو اسلام کے خلاف خفیہ کارروائیاں اللہ تعالیٰ کی خاص صفات کو مدنظر رکھ کر دعا کرنے کرتا ہے کعبہ کا طواف ۵۲۵ کا معجزانہ اثر ۳۷۳،۳۷۲ انبیاء کی دعائیں درود ایک اعلیٰ درجہ کی دعا جسے بہت پڑھنا چاہیے آنحضرت صلی اسلام کے لئے درود پڑھنے کی تلقین ۵۹ دعا الدعا مخ العبادة دعا وصدقہ سے اجل مل سکتی ہے غفلت سے نجات کا علاج آخری زمانہ کا فتنہ محض دعا سے دور ہوگا ابولہب کی بددعا جو الٹ کر اس پر پڑی دعا کی تلقین دعا سے مت تھکو اللہ کے اسماء اور صفات کاملہ کو مدنظر رکھ کر دعا کرنی چاہیے بیمار کے لئے دوا کے ساتھ دعا کرنا سنت ہے ۲۸۹ ۹ ۵۲۹ ۴۷۸ ۴۷۲ ۵۱۱ ۵۱۷ پیغمبروں کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار دعا کا ہوتا ہے محنت و کوشش کے ساتھ دعا اور توجہ الی اللہ سنت انبیاء ہے حضرت نوح کی قوم کیلئے بددعا ابراہیمی دعاؤں کا ثمرہ ۳۳۳ ۵۱۲ ۲۲۴ ۱۵ ۴۱۷ حضرت ابراہیم کی اسماعیل کے لئے دعا اور اس کی قبولیت مکہ کے بارہ میں حضرت ابراہیم کی دعا کی قبولیت ۲۷۲ ۳۷۴ ،۳۶۴ یوسف علیہ السلام کی دعا درد دور کرنے کے متعلق ۵۲۱ آنحضرت نے اپنی قوم کیلئے کبھی بددعا نہیں کی تیرہ سو برس سے امت کی طرف سے آنحضرت ۱۵ کے حق میں درود و دعا مسنون دعائیں ۴۲۵ قبولیت دعا کے لوازمات قبولیت دعا کے لوازمات دعا کیلئے سجدہ بے نظیر موقعہ ہے 129 ۲۸۹ اسلامی تعلیمات میں ہر موقعہ کے لئے دعائیں ۴۰۲ اللهم اجعل سریرتی خیرا من علانیتی قبولیت دعا کیلئے بعض اوقات مخصوصہ اور مقامات و اجعل علانيتي صالحة ۳۹۰ متبرکہ خاص مناسبت رکھتے ہیں ۲۲۵ اللهم اعنى عليهم بسبع كسبع يوسف ۲۱۸
۱۶ اللهم اغفر لقومى فانهم لا يعلمون ۲۶۳ جلسہ اعظم مذاہب کے آخر میں ایک دعامانگنے اللهم انى اعوذ بك من جهد البلاء ودرك کی تلقین ۵۴۱،۵۴۰ ۴۸۰ ۴۶۶ ۳۰۴ الشقاء وسوء القضاء اللهم بارك لامتي في بكورها ۱۹۱ ۲۲۵ دنیا جود نیا کو خدا کے واسطے لات مارتا ہے دنیا اس کی اللهم سلط عليه كلبا من كلابك عتبہ کے خادم بنائی جاتی ہے بارہ میں بد دعا اور اس کا پورا ہونا ربنا اتنا فى الدنيا حسنة سبحن الله و بحمده استغفر الله ربي من كل ذنب و اتوب (حدیث) کوئی دعا فا تحہ جیسی نہیں اور نہ کوئی تعوذ معوذتین ۴۷۹ ۳۱۸ ۴۶۴ دین دین اللہ سے مراد دین اسلام دین قیم کے برابر سورۃ فلق بھی ایک جامع دعا ہے ۴۱۴ ۵۲۴ دین کے مختلف نام دین سے مراد اللہ تعالیٰ کا ثواب وعقاب ذوی القربی ۴۶۷ ذوی القربی سے حسن سلوک زیادتی عمر کا جب رسول اللہ لایا کہ تم بیمار ہوتے تو ان سورتوں (فلق اور الناس) کو پڑھ کر دم کیا کرتے تھے ۵۳۷ موجب ہے ۱۰۲ ۱۱۸ ۲۶ ۴۵۸ ۴۵۷ سورة والناس کی عجیب دعا تعوذ کی جامع دعا ازدیاد علم کی دعارب زدنی علما ۵۳۱ ۵۱۴ ۲۰۵ ۵۱۳ ۵۱۷ رز رسالت جان فزاء بھی ہوتی ہے اور ہلاک کرنے والی بھی تمام قسم کی ظلمتوں کے شر سے محفوظ رہنے کی دعا نزول وحی کے وقت رسول کی حالت بیماری سے شفایابی کی دعا سینہ کے امراض روحانی و جسمانی سے شفا پانے اظهار على الغيب رویا کی دعا ۵۳۶ رؤیا کو پورا کرنے کی کوشش سنت انبیاء ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دعا آنحضرت صلالہ یہ تم کا رویا میں صحابہ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دردمندانہ دعا ۲۷۷ ساتھ مکہ جانا
119 1+7 ΔΙ ۵۴۳ ۶۰ ۱۵۳ ۱۹۱ شوکت وقوت کا ختم ہوجانا سلوک نیز دیکھئے عنوان تصوف سالک راہ محبت کے لوازمات سور قرآن ۱۷ ۳۹۰ ٣٣١ ۳۲۵ رياء زمانه مخلوق ہے اور فانی ہے زمانہ کو برا نہ کہو ( حدیث ) زمانہ کی شکایت نہ کیا کرو یہ بڑی قابل قدر چیز ہے ۳۳۱ سورۃ فاتحہ آخری زمانہ میں ایک عظیم فتنہ کے برپا ہونے کی خبر السبع المثاني والقرآن العظيم تمام مذاہب کی صداقتوں کا عطر مجموعہ سورة المزمل اس سورت میں اپنے نفس کے ساتھ مجاھدہ اور تقرب الی اللہ حاصل کرنے کا حکم ہے سورة المدثر آنحضرت صلی الیتیم کی رسالت اور قرآن کریم کی ۵۲۵،۴۹۵ ٣٣١ ۱۳۱،۱۳۰ ۱۳۲ یہ زمانہ بڑا با برکت زمانہ ہے زمین پیدائش اور ابتدائی ادوار حرکت سیش سائنس سائنسی ترقیات سے ایسی باتیں معلوم ہوئی ہیں جو پہلے مانی مشکل تھیں ۱۸ لفظ عسعس سے زمین کے گول ہونے کا ثبوت ۱۶۳ گراموفون کی ایجاد نامہ اعمال کے محفوظ ہونے کی دلیل ہے سکھ مذہب مذہب کی مختصر تعلیم ۱۷۰ حقانیت کی دلیل ہے سورة المرسلات اس سورۃ کا اکثر حصہ مذہب عیسوی کے متعلق ہے سورة التكوير مضامین سورة البروج ۴۳۱ آنحضرت لا تم جب سور البروج کی تلاوت سکھوں کا فیصلہ باوا نانک کے ذریعہ ہو گیا ۱۲۰ فرماتے تو اللهم انى اعوذ بك من جهد البلايا سکھوں کے عہد میں مسلمانوں کی حالت ۲۶۷ کی دعا پڑھتے
۴۹۶ ۵۳۶ ۱۸۹ ۲۹۳ > ۱۸ سورۃ الغاشیہ سورۃ کے مختلف نام حدیث الغاشیہ مکہ کا سات سالہ قحط تھا ۲۱۸ سورۃ الناس اس میں عقوبات دنیوی اور اخروی دونوں کا ذکر ہے سورۃ االيل شان نزول سورة الضحى شان نزول ۲۱۸ شاہد و مشہود ۲۵۰ مختلف توجیهات شراب الخمر جماع الاثم شان نزول سورة والعصر ۲۵۹ شرک قرآن شریف میں کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں صحابہ کرام جب باہم ملتے تو ایک دوسرے کو یہ سورۃ سناتے تھے سورة الماعون شان نزول اس سورۃ کے مختلف نام سورة النصر سورت کے مختلف نام ربع قرآن ہے فضائل ۲۹۴ ۳۲۸٬۳۲۵ تمام بدیوں کی جڑ شرک ہے خواہ جلی ہو یا خفی ۵۰۱٬۵۰۰ ۳۸۲ ۳۸۱ ۴۵۶ ۴۶۷ ۴۶۷ پیر پرستی بھی شرک ہے ۵۷ مشرک ہمیشہ اندرونی شک وشبہ میں پڑا ہوتا ہے ۴۳۶ مشرک عقل مند نہیں ہوتا شریعت عیسائیت نے شریعت کو غلط سمجھا ہے عیسائیوں کا شریعت کو لعنت قرار دینا ۲۱۴ صحابہ کے بارہ میں شیعوں کے لئے قابل توجہ نکتہ ۲۰۴ ۲۱۳ صحابہ پر برطعن رسول اللہ صل له اسلام کی قوت قدسیہ پر حملہ ہے سورة الاخلاص آخری زمانہ کے فتنہ عیسائیت سے بچنے کا بڑا ہتھیار ۴۹۴ ۴۹۶ ثلث القرآن ہے
۵۱۳ ۹۳ ۸۲ ۱۷ ۴۸۴ ۴۸۰ ۵۳۹ ۱۹۴ ۲۷۸ ۲۷۰ ۵۶ ظلمت صحبت ایک عظیم انعام صدقہ فقیر کو مسکین سے مقدم رکھنے کی حکمت b-b طاعون ۱۹ ۱۵۰ صحابہ کے معائن سے بچنے کی نصیحت صحابہ کے برہ میں شیعوں پر حجت ص صحابہ رضوان اللہ علیہم نبی کی حفاظت کے لئے نجم ثاقب صحابہ کا فعل خدا کا فعل قرار پایا ٣٠٣ ۱۹۳ ۲۰۴ امیر معاویہ کی وفات کے بعد کوئی صحابی بادشاہ نہ ہوا ۲ ۱۶۳ ۱۵۰ رسول اللہ صلی یا پی ایم کے متعلق ایک شعر قرآن میں صحابہ کی تطہیر و تکریم کی شہادت صحابہ غاصب نہیں تھے صحابہ کو برا کہنا رسول اللہ سلیم ایتم کی قوت قدسیہ پر حملہ ہے صحابہ کے حق میں قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا ۲۱۳ ۱۷۵ حدیث میں اسے جنوں (خورد بینی جراثیم ) کی نیش زنی کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے مخالفین کا طعن ہی طاعون بن کر ان کی ہلاکت کا موجب ہوا ابولہب کی موت طاعون سے ہوئی مظلوم صحابہ کو اللہ تعالی کی طرف سے تسلی ۱۹۰،۱۸۹ صحابہ کیلئے دنیا اور آخرت دونوں کے وعدے طب علم طب کی ترقی کا سبب انسانی فطرت میں بقاء کی ٣٠٣ تھے دنیا کے وعدے پورے کئے گئے د نیوی فتوحات کا وعدہ ۲۵۶ خواہش ہے دنیا میں ہی انہیں نعماء جنت سے نوازا گیا ۲۲۱ بعض ستاروں کے طلوع کے وقت ان کی تاثیر سے جب ایک دوسرے سے ملتے تو تذکیر کے طور بیماریوں کے جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں پر ایک دوسرے کو سورۃ والعصر سناتے صحبت کا فور کے طبی خواص ۳۳۵،۳۳۰،۳۲۸،۳۲۵ تین (انجیر ) اور زیتون طب میں استعمال ہوتے ہیں مامور من اللہ کی صحبت سے قرآن کے علوم اور ان پنجه مریم یعنی گل جذیمہ ۲۸۶ | موٹے اور گرم کپڑے کی طبی افادیت پر عمل کی توفیق ملتی ہے
۲۰۷ ۲۳۷ ۳۰۴ ۵۰۲ ۴۲۶ ۱۲۶ ۴۴ ۵۰۲ ۱۹۵ ۱۲۵ ۴۹۴ ۵۲۴ ۲۱۳ ۱۹۵ بیمار کیلئے دوا کے ساتھ دعا کرنا سنت ہے ۵۱۷ ان کا استعمال قد کے معنوں میں امراض سینہ کا روحانی علاج ۵۳۶ لن نفی تاکیدی مستقبل کیلئے ہے آتشک کے مریض کو تھوہر کے دودھ میں گولیاں اذا تثنى فتثلث بنا کر دی جاتی ہیں ۲۲۱ عیسائیت مبشر عیسی فارقلیط کے منتظر تھے ۶۳ نصاری ضال ہیں طہارت باطنی نجاست ظاہری اور باطنی طہارت کا حکم ظلمت ظلمت کی اقسام ع غ عبرانی ایک مردہ زبان عذاب رویت عذاب سے پہلے تو بہ واستغفار سے مل سکتا ہے ؟ عربی زبان وسیع اور با معنی زبان عربی زبان کے عجائبات ۶۳ عیسی پر درود نہیں بھیجتے عبادت میں رکوع نہیں ۵۱۳ جنگ ملوین برج وین عیسوی کی فتح کے حق میں ۵۸۹ ۲۳۳،۲۳۲ ۳۵۶ سنگ میل ثابت ہوا انا جیل کا مقام اپنی آسمانی کتاب میں تصرف انجیل سائنس کے مقابلہ سے ہچکچاتی ہے عقاید اور تعلیمات شریعت کو سمجھنے میں غلطی تثلیث کا معجون مرکب اس مذہب کا سارا مدار تثلیث پر ہے مریم، یسوع اور حواریوں کے بتوں کی پوجا ۴۸۹ کرتے تھے عربی زبان میں لفظ کا فر دل آزاری کیلئے استعمال ان کے نزدیک صرف ایک ہی معصوم ہے یعنی ۴۴۵ مسیح باقی انبیاء کو گنہگار قرار دیتے ہیں نہیں ہوا عربی میں فاعل مفعول کے معنوں میں کثرت عقاید میں بتدریج تبدیلی سے استعمال ہوتا ہے ۱۹۷ ایک پادری کا اعتراف کہ تثلیث کے اثبات ۲۵۲ کیلئے عقلی دلائل نہیں پیش کئے جا سکتے قسم اور تاکیدی الفاظ کا استعمال
۲۱ اسلامی انوار سے متاثر ہوکر عقاید میں اصلاح موجودہ زمانہ کا فتنہ آخری زمانہ کا فتنہ ۵۲۸ علم توجه ۵۲۹ ملائکہ کی تحریکات سے اس زمانہ میں نئے آنحضرت سال الی السلام کے خلاف بد زبانی ۲۱۴ علوم وفنون مشنریوں کی بداخلاقی لوگوں کو عیسائی بنانے کے ہتھکنڈے یورپین عیسائیوں کے خصائل عیسائیت اور احمدیت اسلام اور عیسائیت میں فیصلہ کن امر ۲۱۳ اس زمانہ میں دابتہ الارض پر زمینی علوم اور پاک ۴۰۹ ارواح پر حقائق ومعارف کھلے ہیں ۵۱۶ ۳۰۵ ۳۰۸ ۳۹۱ حقانی علماء کے مرنے سے علم دنیا سے جاتا رہے گا ۱۱۸ ۵۴۳ عیسائیت کا فیصلہ ڈوئی اور آتھم کے ذریعہ ہو گیا 119 عیسائی عقاید کارڈ عورت اتقوا الله في النساء فانهن عند كم عوان (حدیث) عورتوں پر ہر ہر بات پر تشد دمت کرو سورۃ فاتحہ کی ایک آیت سے عیسائی عقائد کارڈ ۵۴۲ مرد و عورت میں مساوات نہیں یسوع مسیح کو ولد اللہ کہنے کا رو کفارہ کی تردید اعتراضات کے جوابات ۴۹۳ گھریلو کام ہاتھ سے کرنے کے فوائد ۱۰۵ ۴۳۲ ۲۵۰،۱۱۰ ۵۰۴ ١٣٦ النساء حبائل الشيطان عید الاضحی قرآن کریم کی ایک آیت پر ایک پادری کے عبادت کے لئے مخصوص ایام اعتراض کا جواب ۱۹۴ غذا فاران کے بارہ میں عیسائیوں کے اعتراضات ۲۷۷ غذا میں سادگی کے فوائد علم کی اہمیت وضرورت ۵۰۱،۲۸۵ غفلت غفلت کے تین علاج ۲۹۳ ۴۱۸ ۵۸ علم سے خدا کے ساتھ محبت بڑھتی ہے ۵۹ صرف رسول کو اظھار علی الغیب حاصل ہوتا ہے ۲۶ قرآن سے علوم کا مخزن ہے علم تاریخ کے بنیادی ماخذ علم طبقات الارض ۲۸۵ غیرت ۲۷۳ خدا اور اس کے رسول کی بزرگی پر طعن کے خلاف کی ۱۳۰ مومن میں غیرت ہونی چاہیے ۲۱۳
۲۲ فق اہم مضامین ۵۰۱،۲۲۶ فراست نور فراست کا گہنانا انسانی فطرت کے تقاضے انسانی فطرت میں بقاء کی خواہش فطرت انسانی میں ہدایت کے نقوش انسانی فطرت میں نفس لوامہ قیامت کی دلیل ہے قرآن انسانی فطرت میں نیکیوں کی نشوو نما کے لئے آیا ہے فطرت انسانی کے قومی میں تدریج عظمت فطرت سجدہ تلاوت کے احکام فاتحہ خلف الامام بیسویں کی صبح کو اعتکاف بیٹھتے ہیں اور یہی مسنون ہے قربانی کامل قومی کی قربانی ابراهیمی قربانی کرو ۷۹ ง Δ ۵۳۹ ۹۴ 22 ۷۵ 1+1 ۵۱۳ ۲۸۸ ΔΙ ۲۲۵ تعلیمات کا خلاصہ بسم اللہ کی ب ، الناس کیس سے مل کر اشارہ کرتا ہے کہ قرآن انسان کیلئے بس ہے جس بات کی تفصیل بائبل میں نہ ہو قر آنِ کریم اسے مفصل بیان کرتا ہے قرآن شرک کی نفی اور بعث بعد الموت کے کثرت سے ذکر کی وجہ کوئی رکوع شرک کی تردید سے خالی نہیں مثیل موسیٰ کی پیشگوئی کی نسبت دعویٰ اور مصداق کی نشان دہی قرآن میں کسی نبی یا رسول کا نسب نامہ نہیں لکھا باطل مذاہب کا رو انبیاء کو بہتانات سے پاک قرار دینا ۳۳۰ ۵۳۰ ۲۶۹ ۱۹۸ ۲۹۴ ۳۹۳۳۵ ۶۶ ۴۲۴ ۴۰۳ تورات وانا جیل اور دیگر کتب سماوی سے موازنہ ۳۸۲ فضائل القرآن من جانب اللہ ہونے کا ایک ثبوت ہر زمانے میں اپنی صداقت دکھانے کو تیار ہے ۴۱۸ | حقانیت کی ایک دلیل ۴۳۰ لا تنقض عجائبه (حدیث) ۱۴۷ ۱۹۶ ۶۰ 29 ۳۲۰ قرآن مجید سچی محفوظ اور جامع کتاب ۴۲۵،۴۱۶ خدا نے اس کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے ان علوم عالیہ پر مشتمل ہے جو انسانی قومی کی بساط اور رسائی میں نہیں ۲۹۰ طرز کتابت اور حفاظت قرآن ۴ ۴ ۴
۲۳ ۳۰۴ جمع و ترتیب قرآن کریم کا جامع اور قاری اللہ ہے ۳۰۴،۳۰۰، ۴۱۵ اللہ تعالیٰ کی پسند کی ہوئی ترتیب کے ساتھ ترمیم و تنسیخ سے پاک تمام کتب سابقہ کی جامع اور مہیمن کتاب اسماء القرآن ذکر ا اور اس کی حقیقت مهیمن کوثر دلائل الخیرات ہے کلام ذ والمعارف بچے علوم کا مخزن ہے شفا بخش نسخہ اور اس کے اثرات طرز بیان ۷۵ ۴۲۱ ۳۹۷ ۴۱۴ ۱۶۱ ،۷۹ ۲۸۵ ۹۹ ۴۲۱ رسول کریم صلی یا کہ تم نے جمع فرمایا حضرت عثمان جامع قرآن نہیں سب قرائتیں ختم ہو گئیں متلو قرات ایک رہ گئی قرآن کریم کا اٹھ جانا اور دوبارہ نزول ایک رات میں ختم قرآن آج وہی قرآن شریف پیش کیا گیا ہے قرآن کریم کی تعلیم اور تفسیر ۳۸ ΔΙ Al ۲۰۴ ۳۲ ۹۵ آنحضرت سلام السلام کے قرآن پڑھنے کی کیفیت ۳۲ جنوں کے ایک وفد کا قرآن سننا ۱۸،۱۷ جملہ مطالب شائستگی اور تہذیب سے بیان کرتا ہے ۱۹۶ قرآن کے ہر لفظ کو حقیقت پر حل کرنا غلطی ہے ۱۸۳ اس کے ہر فقرہ سے تعلیم وتربیت حاصل ہو سکتی ہے ۳۳۰ قرآن کریم کی دو آیات جنہیں آنحضرت سلا می ایستم نے جامعہ فاذة فرمایا ہے نزول آہستہ آہستہ نازل ہونے کی پیشگوئی ۱۱۴ ہرٹی کا ایک نور ہوتا ہے اور قرآن کا نور قل ھو الله وقتاً فوقتاً نازل کرنے کی حکمت ۱۱۴ احد ہے ممکن ہے کہ بعض سورتیں یا آیتیں ایک سے سورة الاخلاص ثلث القرآن ہے اور اس کا زائد بار نازل ہوئی ہوں آیات کے شان نزول سے مراد ہر آیت کے ساتھ شان نزول کا بیان نہ ہونا بھی حکمت الہی ہے ۴۴۲ مطلب ۴۹۸ ۵۰۱،۴۹۶ ۱۴۶ سورۃ الکافرون کے ربع قرآن ہونے کا مطلب ۴۴۵ ۳۸۲ سورة الکافرون کے منسوخ ہونے کارڈ ۴۴۱ قرآن کے ابتداء کو آخر سے ایک نسبت ہے ۴۷۳
۷۵ ۱۳۲ LL ۱۲۷ ۱۲۰ 119 ۱۴۰ ۱۴۰ ۱۸ ۳۹۵ ۴۰۱ ۳۹۷ ۲۱۷ 29 ۲۴ ام الکتاب کے آخر کو قرآن کے آخر سے ایک قیامت کے مختلف مظاہر نسبت ہے خدمت قرآن ۵۰۲ نیند بھی قیامت کا ایک ثبوت ہے انسان میں نفس لوامہ قیامت کا ثبوت ہے الماهر بالقران مع السفرة البررة (حديث) ۱۴۹ فتح مکہ کا واقعہ قیامت کی دلیل ہے قرآن کے کاتبوں، قاریوں اور حافظوں کی عظمت ۱۴۹ یوم الفصل قیامت کا ثبوت ہے علامات کبری اشراط الساعہ کا پورا ہونا جو قرآن کو بار بار نہ پڑھے اس کے سینے سے قرآن اشراط ساعت کا ظہور مسلسل ہوتا جائے گا نکل جاتا ہے (حدیث) قرآن کو ختم اور شروع کرتے ہوئے اعوذ پڑھنا مسنون ہے اتباع کی دنیوی برکات قرآن کریم کی پیشگوئیاں ۲۰۴ ۵۴۱ ۲۹۴ طلوع الشمس من المغرب اور خروج دا بہ کائنات غیر مرئی عالم قرآن کریم ہمیشہ پڑھنے پڑھانے اور کشتی نوح درس و تدریس میں آتا رہے گا مکی سورتوں میں آئندہ حالات کے متعلق پیشگوئیاں بیان ہوئی ہیں قم بدیہیات سے نظریات کیلئے ایک گواہ ہوتی ہے قیامت جو مر گیا اس کی قیامت آگئی (حدیث) قیامت کے تعین وقت کے سوال سے لوگوں کا ۱۹۲ ۳۸۱ ۱۴۵ کینگ اس زمانہ کا نوح اور اس کی تیار کردہ کشتی ”مبارک ہیں وہ جو اس میں سوار ہوئے کوثر کوثر کیا ہے خیر کثیر کوثر سے مراد قرآن شریف کوثر میں شریک ہونے کا طریق گرمین ۱۸۹۴ء میں شمس و قمر کے گر ہنوں کا اجتماع ۱۴۵ ۱۱۷ رک جانا وجود قیامت پر دلیل
۳۲۰ ۴۲۵،۲۹۶ ۲۹۶ ۴۶۴ ۴۴۲ ۴۴۲ ۴۹۳ ۳۸۸ ۱۰۳ ۳۷۳ ۵۴۲،۹۰ ۲۶۷ ۱۱۸ ۲۵ گناه مجدد گناہ کا سبب معرفت الہی کی کمی ہے ۴۹۹ امت محمدیہ میں مجددین کا سلسلہ گناہ کی مبادیات سے بچنا چاہئے ۵۱۵ ہر صدی کے سر پر مجدد آنے کی خبر لم صد سالہ دور اس زمانہ میں ایک مجدد کی بعثت لیلتہ القدر رمضان کے آخری دھاکے کی ایک طاق رات ۲۹۲ مامور خدا تعالیٰ کا انتخاب مامور کے آنے کا وقت مامور کی بعثت سے پہلے تاریکی مامور پر ضعفاء کے ایمان لانے کی حکمت ۳۷۲ ۴۶۹ ۴۷۰ مجلس شوری حضرت عمر کی طرف سے حضرت ابن عباس کو صفار صفات عالیہ ۲۸۶ مامور من اللہ کو اپنے الہامات کی سچائی پر کامل یقین ہوتا ہے مباحثہ مباحثات میں ناپ تول کی خیانت مباہلہ ۴۵۹ باوجود ان کی کم عمری کے شوریٰ میں بلانا مذہب مذہب کا آخری نتیجہ مذہبی اختلاف کی بناء پر کس کو قتل کرنا یا کسی سے جنگ جائز نہیں مذہبی جنگوں کے خاتمہ کا طریق سورۃ اخلاص میں تمام مذاہب باطلہ کا رو مسلمان نیز دیکھئے عنوان ”اسلام“ اسلام کی علامت اور نشانی 121 خدا سے معاہدہ مقدر فتوحات آج کے دور میں مسلمانوں کی حالت سو برس کے اندراندرسب کچھ کھو دیا سکھوں کے عہد میں حالت علماء کے نور کا چشمہ مکدر ہونے کی خبر ۴۷۸ ۴۷۸ ابولہب کا بد دعا کرنا دراصل مباہلہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کرنے والوں کا انجام
۴۹۹ ۴۵۳ ۳۲۶ ۱۳۹ 112 ۳۰۵ ۳۰۵ ۱۷۹ ۲۴۸ ۲۶ اخلاقی اور دینی ابتری غفلت اور مذہب سے دوری با وجود قرآن سے تمسک کے ایک دوسرے فرقہ کی مخالفت ۴۲۶ ۲۹۹ اگر مسئلہ قدر پر ایمان رکھتے تو ہمیشہ خوشحال رہتے ۳۲۷ معرفت الہی گناہ کا سبب عرفت الہی کی کمی ہے خدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کیلئے مغفرت کا طلب کرنا نہایت ضروری ہے ۵۱۴ سورۃ فلق جیسی پر تاثیر دعاؤں کو ترک کرنا منکرین سنت و حدیث چکڑالوی فرقہ دہریہ مسلمانوں کا حال جنہوں نے اب تک اس وقت کے امام راست باز ۳۸۹ ۱۲۱ ملائکہ اللہ کے ارادوں کے پہلے مظہر ملائکہ کی خدمات کے مدارج مدبرات و مقسمات کے ماننے کے لئے قدم نہیں اٹھا یا وہ استغفار سے کام لیں مسیح موعود ۴۷۲ قابل قدر زمانہ میں فرشتوں کا بکثرت نزول رمضان ۱۸۹۴ء میں سورج اور چاند گرہن کا نشان ۷۹ کافرکش انفاس سے مراد آپ کے دلائل قطعیہ اور پیشگوئیاں ہیں اب تو خداوند کریم کے فضل سے ایام بیض اور لیالی ۱۲۰ ۱۸۱ ہوگا ملائکہ کی تحریکات سے اہل ارض کا نئے علوم وفنون اور معدنیات نکالنا تو رات میں ملائکہ کے آسمان پر چڑھنے کا ذکر موت آنکھ بند ہونے پر نامہ اعمال کی جزاء وسزا کا حال بدر ہیں معجزه آنحضرت صلی لا اسلام کے ابتدائی دور میں ہی آپ کی ایک دعوت میں کھا نا بڑھنے کا معجزہ ایلیا کے معجزات معلوم ہو جائے گا مهدی ۴۸۶ لا المهدى الاعیسی بن مریم (حدیث) ۴۸ معراج ناقته الله شهر کوثر ۳۹۵ انسانی نفس کی ناقہ
۴۹ ۲۸۶ ۱۵ ۱۰۵ ۲۷ عظه..نباء عظیم سے مراد نبوت ۱۲۷ جھوٹا نبی قتل کیا جائے گا نبی کے مخالفین کا ہونا ضروری ہے انبیاء کی بددعا سے ڈرنا چاہیے بنی اسرائیل سے بنی اسماعیل کی طرف نبوت کا مقام وخصائص انتقال ۲۸۰ انبیاء اور اولیاء کا مقام عیسائیوں کے نزدیک سوائے مسیح کے تمام انبیاء انبیاء اپنی ذات میں جامع کمالات ہوتے ہیں گنہگار ہیں ضرورت نبوت نبوت ورسالت کی ضرورت ۲۱۳ انبیاء کے اخلاق میں کبھی یہ ضعف ( ہمز ولمز ) ۲۹۰ نہیں پایا جاتا ۲۹۵ ،۲۹۴ ۳۵۲ ۳۸۶ ۲۰۴ ۳۳ ۲۲۴ ۴۷۲ ۴۵۸ ۱۵۸ فطری قومی کے باوجود انبیاء ورسل کی ضرورت ۲۲۲ انبیاء کی مسکینی مناسب استعداد و قوی اشد البلاء الانبياء (حدیث) ۴۹۹ مقصد بعثت انبیاء کی بعثت کا مقصد نبوت کا اصلی مقصد تو حید الوہیت کا قیام ہے ۲۹۰ انبیاء کا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہوتا ہے نبی مسلمات کو ماننے کیلئے نہیں آتے بلکہ کچھ منوانے آتے ہیں کوشش و محنت کے ساتھ عقد ہمت دعا اور ۳۰۰ توجہ الی اللہ سنت انبیاء ہے نبی کا کام صرف تبلیغ کرنا ہے جو نہ مانے ان پر نبی استغفار انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے جبر نہیں کرتے انبیاء انسانیت کے خیر خواہ ہوتے ہیں طریق خطابت انبیاء کی آمد کے اثرات صداقت ۱۴۷، ۲۲۳ پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے کوشش کرنا ۱۴ ،۹ ۴۳۸ ۱۹۹ سنت انبیاء ہے نبی کے متبعین نجوم ہوتے ہیں جن سے مسافروں کو راہ کا پتہ چلتا ہے نسخ اظہار علی الغیب یعنی پیشگوئیوں پر متحد یا نہ دعوی ۲۶ قرآن شریف کی کوئی آیت یا سورت منسوخ نہیں ۴۴۱
۱۳،۱۲ ۲۷ ۳۲ ۳۸۱ ۴۴۹ ۲۹ ۲۸ نصیحت نصیحت ضرور سودمند ہوتی ہے و ۲۱۶ وحی نیز دیکھئے عنوان الہام“ دوسروں کو نصیحت کرنے کے فوائد ۶۲، ۱۰۳ انسان کیلئے وحی الہی کی احتیاج کھنڈرات بہت بڑے ناصح ہوتے ہیں نکاح ۷۷ وحی کی تین اقسام وحی کا قول ثقیل ہونا ۱۶ ایک وحی کا بار بار نزول دوخاندانوں کے درمیان رشتہ اخلاص کا باعث مستقبل سے متعلق وحی کو ماضی کے صیغہ میں بھی بیان کیا جاتا ہے نزول وحی کے وقت رسول کی حالت آنحضرت سلایا یہ تم پر وحی الہی کی عظمت کا اثر آنحضرت صل السلام پر نازل ہونے والی پہلی وحی ۲۸۵ آنحضرت صال السلام کی دوسری وحی وحی متلو آخری زمانہ میں وحی کے نزول کا ذکر ۵۵ ۲۷ ۳۰۶ ۳۸۸ ۸۴ ١٠٢ ۵۹ ۴۱۸ ۳۹۸ نماز اہمیت اور فرضیت قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کے بارہ میں یو چھا جائے گا مومن کا معراج ہے نماز کے معنی سیکھنا مثالی نماز نماز کی زینت سنوار کر پڑھنے سے گناہ سے روکنے کا علاج ہے ۵۹ نازل ہونا محافظ نماز کے لئے اللہ تعالیٰ کی نصرت کا وعدہ ہے ۸۴ نماز میں غفلت کرنے والے پانچ گر وہ عمدا ترک کی گئی نماز کی تلافی صرف استغفار ہے تصدیق رسول نماز پر مقدم ہے رفع یدین نیت نیت کی اہمیت ۳۸۸ ۳۲۶ ۸۳ ۴۴۳،۴۴۲ مسیح موعود علیہ السلام پر ایک وحی کا متعدد بار وعظ نیز دیکھئے عنوان نصیحت دوسروں کو وعظ کرنا ایک مفید امر ہے وعظ محض اللہ کے لئے ہو واعظ کو چاہیے کہ اللہ کے لئے صبر کرے اور اپنا ۳۹۸ کام کرتا چلا جائے ۳۹۰ کوئی سنے یا نہ سنے وعظ ونصیحت کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہیے ۱۰۳ ۶۲ ۶۲ ۲۰۷
۹۵ ۹۷ ۱۴ 17.۳،۲ ۲۹ وصیت بالحق میں اتنا غلونہ کرے کہ ھمز اور لمز قرآن کریم اور آنحضرت صلی اینم کا کامل و پاک تک نوبت پہنچ جائے اپنے وعظوں میں جھوٹے قصے نہ سناؤ ۳۲۶ نمونه میری آرزو ہے کہ ہمارے واعظ اذان کے واعظ ہوں میں اپنے ہر وعظ کو آخری وعظ سمجھ کر کرتا ہوں واعظوں کی اقسام ۲۹۴ ہدایت کے منکرین کا انجام ۳۲۶ ۵۰۸ ۴۱۹ ہندو مذہب نیز دیکھئے آریہ پانچ مشہور دیوتا جو قوم نوح کے دیوتاؤں سے مماثل ہیں انسانی قربانی ی یا جوج و ماجوج غلبہ کی ابتداء ہزار سال (بعد از ہجرت ) ہوئی ۹ آنحضرت سلیم السلام کے نزدیک واعظوں کی اقسام ۴۲۱ ۴۳۲ ۲۳۶ واعظین بے عمل وفات مسیح اس زمانہ کا مہتم بالشان مسئلہ والدین بہترین والد اور بہترین ولد شام کے وقت بچوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے حسن سلوک کی تاکید روکنے کی تاکید ولایت انبیاء اور اولیاء کا مقام ۱۰۴ ۱۲۴ یتیم پرسختی کرنے اور اہانت کرنے والوں کا ذکر ۳۸۵ ۱۰۵ ۳۲۴ ٣١٩ ۳۸۴ ۱۳۴ خدا کے جتنے اسماء وید میں مذکور ہیں وہ صفاتی ہیں ۵۰۳ یقین کے تین مراتب یقین کی کمی کے نتائج یوم والدین اخلاقی اور تمدنی حیثیت سے یوم الدین پر ایمان قیام امن کے لئے ضروری ہے ہجرت يوم الفصل ۱۰ جولائی ۶۲۲ء بروز جمعہ آنحضرت صلی می ایستم / غزوہ بدر ۴۹ نے مکہ سے ہجرت فرمائی
۴۰۳ ۴۲ ۱۹ ۲۱ اخلاقی و روحانی حالت انبیاء اور حضرت مریم صدیقہ پر بہتانات یہود مدینہ یہود مدینہ سے آنحضرت صلی شما پی ایم کی حفاظت یہود خیبر کے نام آنحضرت صلی یا دیپلم کا خط نصبيين یہود تنصیبین کے یہود جن کہلاتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ نصیبین کے یہود نجم تھے ۱۲۰ ۱۸۹ ٣٠٢ ۴۲۶ ۲۰ 17.۳۰۴ قیامت کا ثبوت ہے یوم موعود مختلف توجیهات یہود عقاید موسیٰ پر درود نہیں بھیجتے چوتھی صدی تک یہود عزیر کو ابن اللہ کہتے تھے انسانی قربانی کا رواج مثیل موسیٰ کے منتظر تھے
۴۱۷ ۳۷۳ ۴۱۹ ۴۲۹ ۴۱۷ ۲۳۶ 11° ۳۱ آتھم عبداللہ پادری انجام آدم علیہ السلام آ.اسماء ۱۱۹ ۴۱۳ آدم کامل توکل اور ایمان قربانی کا پاک نمونہ ۹۹ برس کی عمر میں بیٹے کو قربان کرنے کے لئے ۹۴ تیار ہو جانا آدم سے پہلے اس زمین پر جان اور اس کی ذریت تھی ۱۸ بڑھاپے میں اولا دکا عطاء ہونا آل غالب بہترین والد عقل مند بیٹے کی بشارت آنحضرت صل السلام نے کوہ صفا سے ان کو بلایا ۴۷۷ بیٹے کے وارث ہونے کی بشارت آل قصی آل کلاب آل لوی آل مره ابرہہ بد انجام 522 ۴۷۷ آپ قریش کے جد امجد تھے ۲۷۲،۲۷۱ ہزاروں بادشاہ انبیاء بلکہ خاتم الانبیاء آپ کی اولاد میں ہوئے ۳۷ ۴۱۸۴۱۷ ۴۷۷ آپ کی موعود سرزمین پر مسلمانوں کی خلافت کی خبر ۵۱ ۳۷۹ ۳۷۹ مکہ کے متعلق آپ کی دعا کی قبولیت ابراہیم علیہ السلام ۴۶،۸، ۱۱۰،۹۴، ۲۱۳ ، ۲۷۷ محنت کے ساتھ دعا ۵۴۲،۴۳۰،۳۵۹،۲۸۲ ۲۷۲ ابرام سے ابراہام کی تبدیلی آپ کے گھرانے کی پر درد تاریخ اولاد ابراہیم ۳۶۸ ۴۵۲ ۳۷۶،۳۶۴ ،۳۶۳ ۲۶۸ حضرت اسماعیل کے لئے دعا اور اس کی قبولیت ۲۷۲ آپ کی اور اسماعیل کی دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی یا اسلام کی بعثت ابن ابی حاتم ۳۰۴ ۴۳۵،۳۹۷
۳۲ ابن ابی شیبہ ابن أبي كعب ابن ابی ابن سلول عبداللہ انجام ابن ثقیفہ ابن جریح ابن جر پر ابن زبیر عبد اللہ رضی اللہ عنہ ٣٩٨،٣٩٦ سورۃ الکافرون ربع قرآن ہے ۴۹۲ ابن کلبی ابن کیسان ۴۱۳ ابن ماجه ابن مالک ۲۷۵ ۳۸۲،۳۷۹ ۴۳۵،۳۹۸،۳۹۶ ۳۹۵ ۴۴۵ ،۴۴۴ ۲۷۵ ۴۹۲ ۳۹۶ ۳۹۶ ابن مردویه ۳۹۷،۳۹۶ ابن مروان ۳۹۷ ابن مسعود عبد اللہ رضی اللہ عنہ ۴۳۹،۳۸۰، ۴۹۲ ابن المنذر ۳۹۶ ابن عباس عبد اللہ رضی اللہ عنہ ۳۸۰،۳۷۹،۱۳۶،۶۹ ۴۳۵،۳۹۸،۳۹۷،۳۹۶٬۳۹۵، ۴۷۷، ابن وقاب ۴۹۸،۴۹۳ ،۴۹۱ حضرت عمر کی طرف سے آپ کو باوجود آپ کی کم عمری کے مجلس شوری میں بلا یا جانا بیماری سے شفایابی کی دعا کوثر کے بارہ میں ایک روایت ساعون کے معنی الصمد کے معنوں کے متعلق آپ کی روایت مکذب کی تعریف ۴۶۴ تبت کے معنی ابوالا حوص ۵۱۷ ابوالبشر ۳۹۶ ۳۸۰ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۴۷۸ ۳۹۸ ۳۹۶ ۴۸۳ ،۴۵۰،۳۴۷ ،۲۵۷ ،۲۵۶ ۴۹۱ امنا وصدقنا کہنے والے ۳۷۹ بغیر کسی معجزہ یا دلیل کے ایمان لانا آپ سے منقول ایک قول اسقنا وارهق لنا ۱۳۶ اسلام میں چندہ دینے میں سب سے اول ابن عربی محی الدین ایک حافظ قرآن کا واقعہ ابن عساکر ۱۲۳ تمام صحابہ سے نمایاں مالی خدمات ۱۲۳ آپ کے عہد میں خوف وامن کے حالات ابن عمر عبد اللہ رضی اللہ عنہ ۳۹۷ ۴۶۷،۳۸۰،۱۷ امیہ بن خلف سے متضاد کوشش ابولہب کی بیوی کو جواب ۴۸۷ ۴۵۰ ۲۵۷ ۴۵۶ ۱۸۱ ۲۵۰ ۴۸۳
۵۲۳ ۳۹۸ ۳۸۰ ۴۹۳ ۴۱۳ ۳۳ آپ کے مخالفین کا انجام اب کے معنی ۴۱۳ ابو سلمہ رضی اللہ عنہ ابو جہل ۱۵۲ ۴۳۹،۴۱۳ ،۳۴۶،۲۸۷ ،۲۰۳ ابوالشیخ ماں باپ نے اس کا نام ابوالحکم رکھا تھا ۴۳۱ ابوطالب کعبہ میں آنحضرت صل للہ ہم کو نماز سے روکنا ۲۸۷ ابوالعالیہ آنحضرت صلی للہ اسلم کی توہین یتامی کا مال ہضم کرنا ۳۸۲ | ابو عامر لارڈ بشپ ۳۸۲ انجام عبد اللہ بن مسعود کوطمانچہ مارنا انجام ابوالحکم جو بعد میں ابوجہل کے نام سے مشہور ہوا ابوداؤد ابورافع ابولہب کے بارہ میں آپ کی ایک روایت ۲۸۸ ۴۱۳ ،۲۸۷ ۴۳۱ ابوعبیدہ سکونی ابولہب اس کا نام عبدالعزی تھا.رشتہ میں آنحضر کا چچا تھا ۳۹۶ کنیت کی وجہ ۴۸۱ ۴۸۱ ۲۷۵ ۴۷۵ ۴۷۵ ۴۷۵ آنحضرت صلی ا یم اور اسلام کی توہین کا ارتکاب ۴۷۷ مخالفت کے ہتھکنڈے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ہلاکت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ابوسفیان ۵۳۷ اس کی موت طاعون سے ہوئی ۴۸۱ ہاتھ پر پھوڑا نکلنے سے موت فترت وحی کے دنوں ابوسفیان کی بہن کا طعنہ ۲۵۹ ابو مالک ۴۷۷ ۴۷۸ ۴۸۰ ۴۸۱ ۴۹۲ ۳۳۵ ۱۷ ۴۹۳،۴۳۶،۳۲۱ ابومز بینہ رضی اللہ عنہ آپ کی ایک روایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آپ سے مروی روایات ۴۸۲ ۴۸۱ ۴۶۱ ۴۶۲ ام جمیل آپ کی بہن تھی جنگ بدر میں فرشتے دیکھنے کا نظارہ مدینه آمد فتح مکہ کے موقعہ پر ابوسفیان کے گھر میں پناہ لینے والے کے لئے امان
۳۴ احمد سر ہندی (سید) صدر جہان کو خط احمد بن حنبل امام اردبیل بن اسماعیل علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام سعادت مند فرزند جان دینے کے لئے تیار تعمیر کعبہ آپ کے بارہ بیٹے تھے ۳۹۶،۲۱۱ ان کے واقعات صہیب رومی سے منقول ہیں ۲۱۱ ۳۹۶ ۲۷۵ ۲۷۴ ،۲۷۲،۲۷۱ ۴۲۹،۲۳۶ آپ کی اولا دکو برکت کا وعدہ دیا گیا تھا آپ کی اولا دحجاز سے نکل کر تمام عرب میں پھیل گئی ۴۵۲ اصحاب الرس حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے تھے اصحاب الفیل ۱۹۷ منی اور مزدلفہ کے درمیانی علاقہ میں ہلاکت ۳۵۶ ان کا واقعہ اسی سال ہوا جس سال آنحضرت صلی ال سالم ۴۳۰ کی ولادت ہوئی ہلاکت کا مقصد اکبر دیکھئے جلال الدین اکبر ۳۵۴ ۳۶۱ ۴۹۲ ۲۷۴ تا ۲۷۶ اہم اہل کتاب کو آپ سے اور آپ کی اولاد سے ضد چلی آرہی ہے اسماعیل علی گڑھی.مولوی ۲۷۲ ۲۷۵،۲۷۴ ۲۷۱ الطاف حسین حالی امام الدین مرزا ام جمیل ابولہب کی بیوی اور ابوسفیان کی بہن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کر کے آنحضرت سال اسلام کی سخت دشمن تھی ۴۷۴ گلے میں رسی پڑنے سے ہلاکت ۲۱۱ ۴۸۵ ۴۲۸ ۴۸۲ ۴۸۴ ۴۶۳ ۳۲ ۴۸۱ ہلاک ہونا اسماعیل علیہ السلام ام حبیبہ رضی اللہ عنہا رضی اللہ عنہا اسود بن عبد يغوث ۴۳۹ آنحضرت صال اسلام کے قرآن پڑھنے کی اشعیا نبی ۲۷۴ کیفیت بیان فرمانا اصحاب الاخدود ام فضل رضی اللہ عنہا مومن عیسائی موحدین ۱۹۱ قبول اسلام
۲۵۱ ۱۴ ۲۷۴ ۴۳۱ ۷۵ ۴۱۳ ،۴۱۲ ۴۶۰ ۲۷۴ ۵۱ ۳۷ ۴۸ ۲۲۶ ۲۷۹ ۴۵ ۳۵ امیر معاویہؓ.حضرت امیہ بن خلف حضرت ابوبکر سے متضاد کوشش اندر ہندو دیوتا انس بن مالک رضی اللہ عنہ معلم صحابی ۲۵۰ ۱۴ ۳۹۸ معراج کے بارہ میں آپ کی ایک روایت ۳۹۵،۳۹۲ انقلس غار حرا آنحضرت سلیم السلام کی پہلی وحی ایڈورڈ ہفتم ۲۷۷ ۲۸۵ ۲۳۱ بششٹ رشی بشن ہندو دیوتا بطليموس بلال رضی اللہ عنہ لخاء (قبیلہ) قبول اسلام بنوامیہ ان پرسوسال کے بعد قیامت آئی مخالفین کا انجام بنو بکر خزاعہ سے جنگ اور قریش کی طرفداری بن سیرث بن اسماعیل علیہ السلام بنی اسد قبول اسلام بنی اسرائیل بنی اسرائیل کے بھائی بچوں کا قتل نجات ۴۸ ۴۸ ۴۹۰ ۴۶۱ ۱۴ اللہ نے ان کے لئے طور سینین اور شام کو اپنی ۳۹۷ تخت گاہ بنایا سچے نبی سے ڈرنے کا حکم ۲۵۱ ایلیا معجزات بدھ گوتم بدیل بن ورقه خزاعی برہما ہندو دیوتا بزاز بسوامتر
۲۵۱ ۴۳۶،۳۹۷،۳۹۶ ۲۷۴ ۷۶،۴۶ ۷۶ ۲۵۱ ١٩١ بنی ہلال قبول اسلام بھرگ جی بیہقی پلینی (عظم) جغرافیہ دان پولوس شریعت کو غلط سمجھنا پیون راجہ سدامان کا باپ ترمذی امام تمیم (قبیلہ) ۳۶ قبول اسلام تھامس ڈی.ڈبلیو پادری تثلیث کے بارے میں اعتراف تیما بن اسماعیل علیہ السلام ۱۹۵ ۴۷ آپ کی اولا د مسجد سے خلیج فارس تک آباد ہوئی ۲۷۶ ٹھا کر داس پادری ثعلبی امام لغت ثمود ۱۷۵ ۱۹۲ ۲۸۰ ۲۷۹ ۳۵ ۲۷۸ ۳۷ ۲۸۰ ۴۶۵ ۴۶ ۲۷۸ ۴۶ ۲۸۰ ۲۷۵ ۴۵ ۴۶۲ نبوت کا چھن جانا ان کو چھوڑ کر اللہ نے بنی اسماعیل کو اپنا یا ان کے بھائیوں میں سے نبی موعود کا ظہور بنی اسماعیل بنی اسرائیل کے بھائی ہیں بنی اسرائیل سے نبوت کا انتقال بنی حره قبول اسلام بنی طی قبول اسلام بنی عیسو بنی فاران سینا کے مغرب میں آباد ہوئے بنی قطورا بنی قیدار بنی کنانہ قبول اسلام بنی مسمابن اسماعیل بنی نضیر مدینہ سے اخراج بنی ہاشم
۴۶۲ ۵۳۴ ۴۸۲ ۳۹۷ ۳۹۵،۱۳۶،۸۳ ۳۷ ناقتہ اللہ سے بدسلوکی ۲۴۸ حاطب ہلاکت کا انجام جابر ۲۲۷ اہل مکہ کو حملہ کی اطلاع دینے کی کوشش ج - چ - ح - خ حافظ شیرازی جبرئیل علیہ السلام ۴۹۷ ،۳۸۲ ۳۹۵،۲۸۸ نفس لوامہ کی مشکلات کا بیان حاکم حبقوق نبی حداد بن اسماعیل علیہ السلام ۱۶۴ ۲۶۳ حرب ۲۰۴ ابوسفیان کے والد کا نام ۳۹۸ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی السلام سے مشترک صفات اہل طائف کی ہلاکت کی پیشکش آنحضرت صلال اسلام کے ساتھ سال میں ایک بار دوره قرآن کرنا نحر کے معنی بیان کرنا جعفر صادق.امام جلال الدین اکبر شہنشاہ ہند ۴۹۳ آپ کا ایک شعر حسن الروح سے مراد مذہب پر اعتراضات کا آغاز اس کے دور میں شروع ہوا ۸۳ حسن بصری رضی اللہ عنہ ۱۱۶،۱۱، ۴۹۲،۳۹۷ ۲۱۱ استغفار کی نصیحت کا واقعہ جلال الدین رومی مولانا روم علیه الرحمه ۲۲۲ جوزیفس چراغ دین جمونی ۲۷۶،۲۷۵ مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کر کے ہلاک ہوا ۴۷۸ حسین بن فضل خالد بن ولید بن مغیرہ قبول اسلام 11 ۴۹۲ ۶۴ ۴۶۲ ۴۶۰ ۴۶۱ خزاعہ ایک عرب قبیلہ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں کے حلیف ۳۵۵ بنو بکر کا حملہ اور خزاعہ کی شکست بنوبکر چنگیز خان بغداد پر حملہ
٢٠٣ ۳۵۹ ۳۰۶۳۰۵ ۵۱۹ ۲۷۵ 11+ ۴۴۴ ۲۳۰ ۳۸ د.ڈ.رز ۱۱۰، ۴۱۵، ۴۲۴ ربیعه ۳۹۸ ابولہب کی مخالفت کا عینی گواہ رچرڈ روح الروح ملائکہ کا سردار خضر علیہ السلام دار قطنی دارم (قبیله) قبول اسلام داؤد علیہ السلام آپ پر یہود کے بہتانات ۵۴۲ زجاج ۴۰۳ خلق کے معنی دعویل اصحاب الرس کا ایک قبیلہ ۲۷۶ زجاجی زکریا علیہ السلام زیری مؤرخ زید بن رقم سش سام بن نوح سارہ علیہا السلام ۴۴ ۲۷۵ ۳۵۷ ،۲۵۱،۲۳۱ ۳۰۷ ۱۰۸ ١١٩ دوانی دوانیوں کے قافلو دو ماہ بن اسماعیل علیہ السلام دھرم پال آریہ دیانند بانی آریہ سماج جنت کا کا تصور ڈوئی جان الیگزینڈر رافع بنو خزاعہ کا پناہ لینا رام ربیع بن انس ۴۶۱ ۴۹۰ حضرت ابراہیم کا حضرت ہاجرہ سے نکاح کرانا ۲۷۱ حضرت ہاجرہ اور اسماعیل سے ناراضگی ساره ۲۷۲ ۴۹۲ حاطب کا خط اہل مکہ کے نام لے جانے کا واقعہ ۴۶۲ سالم بن عبد اللہ 190
۹۷ ۹۷ ۵۳۴ ۲۴۹ ۲۱۱ ۱۹۱ ۴۹۲ ۴۳۵ ۲۳۰،۲۲۹ ۲۳۰ ۲۲۷ ۳۹ ۲۵۱ شیبه رئیس قریش ۴۹۲ انجام ۴۱۳ ۴۸۲،۳۸۵،۱۹۵ ۱۹۵ ۳۹۶ ۳۷۲،۳۵۹ شیراز.حافظ ص ض ط صالح علیہ السلام مخالفین کا آپ کی اونٹنی سے سلوک صدر جہان دربار میں چار علماء بھجوانے کا حکم مہیب رومی رضی اللہ عنہ ضحاک ۵۱۲،۴۳۹،۳۸۲ طبرانی ع غ عاد ۴۰۳ ۲۹۴ ۴۶ ۱۵ انجام ۱۱۳ ہلاکت و تباہی عاص بن وائل 121 عالمگیر شہنشاہ ہند سدامان سدی سراقہ بن مالک سعد اللہ لدھیانوی.ابتر ہونا سعدی شیخ.شیرازی وسعت علوم و تجربه سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سکندراعظم سلیمان علیہ السلام آپ پر یہود کے بہتانات آپ کے متعلق جھوٹے قصے سموئیل نبی سواع قوم نوح کا دیوتا شافعی.امام شعیب علیہ السلام آپ کے زمانہ کا بڑا مرض شنکر اچارج شنگھ اوتار ہندو دیوتا ۴۲۶ فتاوی عالمگیری کی تصنیف اور اس کے نقصانات ۱۲۲ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا ۴۶۴،۳۹۵، ۵۲۳ ۱۴ آپ کی چند روایات ۵۲۳ ،۴۶۴،۱۸۰
آنحضرت صلیہا السلام کی بیماری میں آپ سورہ فلق عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ پڑھ کر آپ کے منہ اور بدن پر ملتی تھیں معوذتین کے بارہ میں آپ کی روایت عباس بن عبد المطلب ۵۱۴ ۵۳۷ ۸۳ نیز دیکھئے ابن مسعود ابو جہل کا طمانچہ مارنا عبدالمطلب ۳۴ ۲۸۸ قبول اسلام عبدالحکیم.ڈاکٹر ۴۸۱ ابرہہ کو جواب عتبه رئیس قریش ۳۵۹ اس کے نزدیک آنحضرت صلی یا پیام پر ایمان لانا آنحضرت مصلا لا الہ سلم کی دعا کے نتیجہ میں ہلاکت ۴۷۸،۹۷ ضروری نہیں تھا ۴۶۸ ۴۷۸ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ۴۶۰،۴۵۹٬۸۱ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ عبدالحی ابن حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ ۳۰ آپ کے قتل ہو جانے کی افواہ حدیبیہ سے آپ کو کفار مکہ سے گفتگو کیلئے بھجوایا جانا ۴۵۹ عبد الراعی ایک عرب شاعر عبد العزیٰ ۳۸۰،۳۷۹ آپ جامع القرآن نہیں آپ کے مخالفین کا انجام ۴۵۹ ۸۱ ۴۱۳ عبدالعزیز شاہ محدث دہلوی ابولہب کی کنیت سے مشہور ہوا ۴۷۵ عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ آنحضرت سلیم کا آپ کے پاس جاکر تعوذ فرما نا۴۹۷ سورۃ التکویر کی تفسیر ۱۵۳ | عرب (قوم) ۳۷۳ ،۳۷۲ عبد القادر شاہ دہلوی ۶۹ سادہ اور کھردرے لباس کے عادی تھے عبدالقیس امراء کے تکبر کی حد !!! ។ قبول اسلام ۴۶۴ عبد اللہ بن ابی ابن سلول ۳۸۲،۳۴۶، ۴۱۳ عبد اللہ بن ام مکتوم عبداللطیف.حضرت صاحبزادہ ۱۴۶ ۳۷۴ آنحضرت اللہ سیستم کی بعثت کے وقت عربوں کی حالت ۲۹۳ اسلام سے پہلے وہاں کوئی کتاب تصنیف نہیں ہوئی ۲۸۶ نبوت حقہ کی دی ہوئی ہدایت سے عروج حاصل کیا ۹۹ سلطنت عرب کا دور پانچ سوسال کا تھا
3 ۴۱ عزیر علیہ السلام یہود کے نزدیک ابن اللہ تھا عطاء عکرمه علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ۲۰ ۳۸۲ عوص عاد کا دادا عمر و بن سالم خزاعی ۴۳۹،۳۹۵ وفد کے ساتھ مدینہ آنا عیسوا بن ابراہیم ۴۳۸.۳۹۷۳۸۰ عیسی بن مریم علیه السلام ابوتراب ایک عورت کو مع خط کے گرفتار کرنے کی مہم ماعون کے معنی آپ کے مخالفین کا انجام عمادالدین پادری عمار ۲۹ ۴۶۲ ۴۶۱ ۴۶ { ۳۶۵،۲۶۹،۹۴،۶۶،۴۹ آپ کی بعثت موسیٰ سے تیرہ سو برس بعد چودھویں ۳۸۰ صدی موسوی میں ہوئی تھی ۴۱۳ خاتم الخلفاء موسوی ۴۷ موسی کے مثیل قرار نہیں پاتے صاحب شریعت نہیں تھے ۳۵ ۳۵ ۴۵ ۴۵ ۲۸۲ ٣٠٢ ۱۲۴ ۴۶۴ ۱۶۸ ۲۷۰،۲۶۹ ۴۵۸ ۴۹ ۴۰۳ حضرت علی کے ساتھ ایک مہم کے لئے روانگی تین اور زیتون سے آپ کی طرف اشارہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ آپ کو سکھلائی گئی ایک دعا ۴۶۲ ۴۶۴ ،۴۶۳،۳۹۰ ،۱۱۳ ،۶ ۳۹۰ مخلوق کا محتاج تھا آسمان کی طرف نہیں گئے آپ کی عمر ایک سو بیس سال تھی ( حدیث ) آنحضرت مسلم اسلام کے قرب وفات کا علم ۴۶۳، ۴۶۴ حاطب کو قتل کرنے کا ارادہ مجلس شوری میں حضرت ابن عباس کو باوجود ان کی کم عمری کے بلانا آپ کے مخالفین کا انجام عمر بن عاید ۴۶۳ ۴۶۴ ۴۱۳ سرینگر کشمیر میں قبر مسیح تحقیق کی غرض سے اکھاڑے جانے کا امکان کوہ زیتون کے پاس ایک پیشگوئی کو ثابت کرنا پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشش موعود نبی کی بشارت دینا ۳۸۲ آپ پر یہود کے بہتانات
۴۲ آپ کی محبت میں عیسائیوں کا غلو عیسائی آپ پر درود نہیں بھیجتے لا المهدى الاعیسی بن مریم (حدیث) ۵۰۲ | آپ سے مباہلہ کرنے والوں کا انجام ۲۰۶ آپ کے ہاتھ پر بڑے مباحث کا فیصلہ ۱۷۹ الہامات و کشوف ۴۷۸ ١١٩ غلام احمد قادیانی مرزا مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بعض الہامات کا بار بار نزول ۴۴۲،۳۸۱، ۴۴۳ ۱۴۰،۱۳۵، ۳۴۵،۳۳۲،۳۲۱،۲۴۲، ۳۸۴ مستقبل سے متعلق الہامات کے لئے ماضی کے ۵۰۰،۴۹۵،۴۷۸٬۴۵۹٬۴۵۰ ،۴۴۹ ،۴۴۰ صیغہ کا استعمال ان هذا القرآن عرض علی اقوام فما دخل حضرت صاحب کا دنیا میں آنا کوئی معمولی بات نہیں ۳۳۴ فيهم و مادخلوا فيه الا قوم منقطعون موجودہ زمانہ کا امام ٣٢٠ هذا هو الترب الذي لا يعلمون مهدی عظیم جس نے آنحضرت سلی یا یہ ہم سے محبت زلزلہ آیا زلزلہ آیا کا اجر پایا مسیح موعود د جال سے مقابلہ کے لئے خدا نے اس زمانہ میں بھیجا ہے ہمارے مسیح آئے مگر غلام احمد ہو کر آئے ۴۱۴ ۳۹۱ ۳۳۲ مخالفوں میں پھوٹ اور متنافس سگ دیوانہ پر پھٹکار (کتاب البریہ ) ابتدائی دور کی خلوت گزینی اور اللہ تعالیٰ کا الہام کہ تیرے پاس دور دور سے لوگ اور دینی ترقیات کا دور آپ کی ذات بابرکات سے تحائف آئیں گے وابستہ ہے ۲۹۷ اخلاق گورنمنٹ برطانیہ کے لئے تعویذ ہونے کا مطلب ۳۸۴ آپ کی بات کا اثر دلائل صداقت تائیدات سماویہ وارضیہ سے موید آبائی عزت و جاہ اور اموال و جا گیر کو خدا کی ۹۵ محبت کی خاطر ترک کیا ۱۴ را پریل ۱۹۰۶ء کے الہام زلزلہ آیا“ کا آپ کا صوفی احمد جان صاحب سے کہنا کہ ۱۸ رمئی ۱۹۰۶ء کو پورا ہونا اللہ تعالیٰ کی نصرت وعطاء ۴۴۹ میرے لئے عرفات میں دعا کرنا ۴۲۸ آپ کی ایک دردمندانہ دعا عیسائیوں اور ریوں کو قبولیت دعا کے نشان میں خدا تعالیٰ کا پیغام بار بار تاکید کے ساتھ اور مختلف ۴۴۹ ۲۰۷ ۱۳۶ ۴۴۹ ۱۷۴ ۴۸۰ ۴۲۹ ۳۸۶ ۳۳۳ AL مقابلہ کا چیلنج ۴۹۵ ذرائع سے پہنچانا ۴۳۹
1+4 سلسبیل سے متعلق نکتہ ۴۳ نکات علم و معرفت مجھے یہ خوشی کافی ہے کہ میرا خدا قادر ہے عقیدہ وحدت وجود کا رد ۵۰۸ جہنم کے عارضی ہونے کا استدلال ۵۰۰ اشراط ساعت کی تعبیر ۱۷۰ ۱۳۹ محمد خاتم النبیین لا یتیم کی اتباع کو نجات کا از طمع جستیم ہر چیز ے کہ آں بے کار بود ۲۳۴،۸۸ موجب سمجھتے ہیں ۳۱۹ آسمان بار دنشان الوقت می گوید زمین ایک نقط بھی دین اسلام سے علیحدہ ہونا ان کو پسند نہ تھا۳۳۳ اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی (عیسائیت کے موجودہ فتنے کو دور کرنے کے لئے ) ہمارا بھروسہ صرف دعاؤں پر ہے ۵۳۰ آپ نے بتایا کہ گناہ کا سبب معرفت الہی کی کمی ہے ۴۹۹ آپ نے فرمایا کہ آمر بالمعروف اور نا ہی عن المنکر خود ملامتی فرقہ ہوتا ہے ۳۲۷ وساوس کی وجہ سے انسان گنہگار نہیں ہوتا ۵۲۸ ایس چینیں کس چون رو نہد یہ جہاں در کوئے تو گر سرعشاق را زنند اول کسے کہ لاف تعشق زند منم دلم تپد که فدایش غبار خود کنم (الهام) مصفی قطره باید که تا گوهر شود پیدا قرص آفتاب آپ فرماتے تھے کہ کفار کا وجود بھی بہت فائدہ IZA ۱۵۱ ۱۹۹ ۳۱۱ ۲۰۷ ۱۵۸ ۸۳ ۱۹۷ ۳۸۴ دیتا ہے آپ کی کتابوں میں امن کی تعلیم ۴۸۷ نماز می کنی و قبلہ رانمی دانی ۳۲۹ هر که بر وفق حکم مشغول است جلسہ مہوتسو میں قرآنی قسموں کی فلاسفی کا بیان ۲۵۲ بر سراجرت است و قبول است توضیح مرام میں نفس انسانی کے کمالات پر مضمون ۲۵۳ خودکشی کے خواہشمند ایک شخص کو جواب ۴۵۰ ایک شخص کی زودرنجی پر حضور کا ارشاد نبی کا ساتھ دینے والے تین قسم کے لوگ پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے دنیوی کوشش پر اعتراضات کا جواب مختلف مذاہب کو صلح کی پیشکش ۴۵۸ لڑکوں کو مارنے سے بہت منع کیا کرتے ہیں ۴۴۱ جماعت احمدیہ آسمان کے انشقاق و انفطار کی حقیقت کا بیان بیعت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد لینے انتراب اور علم الترب ۱۷۷، ۱۸۳ کی وجہ ۵۸ ۴۳۲ ۲۹۴ ۱۳۹ آپ پر ایمان لانے والوں کے تین طبقات ۴۵۱
۴۶۳ ۴۶۳ ۴۶۳ ۴۶۳ ۳۶۳ ۴۴ میاں نجم الدین ( کارکن لنگر خانہ ) کو ایک فاطمہ رضی اللہ عنہا پر حکمت نصیحت مخالفت اور مخالفین کا انجام ۵۸ آنحضرت صلی شما ایلام کے قرب وفات کا علم ہونے پررونا آپ پر ہونے والے اعتراضات وہی ہیں جو آنحضرت صلی الی السلام سے محبت کا عجیب نمونہ پہلے برگزیدوں پر ہوئے ۴۳۱ آپ کے رونے اور ہنسنے کا ذکر علماء کی طرف سے آپ کی کتابیں نہ پڑھنے کی تاکید ۱۰ فراء ۲۳۰،۱۹۲،۵۰،۳۴ فرعون ۴۴۰ مخالفین کا کہنا کہ اگر آپ مسیح ہونے کا دعویٰ چھوڑ دیں تو ہم انہیں ولی اللہ مان لیں گے آپ کی کتاب حقیقتہ الوحی میں نام بنام مخالفین ذی الا و تا دکہلانے کی وجہ کے انجام کا ذکر ہے ۶۴ بنی اسرائیل کے بچوں کا قتل آپ کے دشمنوں کے طعن طاعون بن کر ان کی عبرتناک انجام ہلاکت کا باعث ہوئے مخالفین کا انجام غلام دستگیر قصوری ۴۸۴ ۴۱۳ ۲۳۰ ۴۷ ۲۲۷ ،۵۰،۳۹ فضل الرحمن.حضرت شاہ گنج مراد آبادی جنت میں قرآن کریم کی تلاوت ۱۲۳ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ اور ہلاکت ۴۷۸ ف ق ک گ فاران بن حمیر فارقلیط عیسائی اس کے منتظر تھے فاسٹر ریورغہ جغرافیہ دان قتاده الروح سے مراد سجرت کے معنی ۲۷۸ قدمان اصحاب الرس کا ایک قبیلہ قریش ۳۰۴ ۲۷۴ ۴۹۲،۳۹۵،۱۳۶ ۱۳۶ قریش کے لئے ابراہیمی دعا کی قبولیت تجارتی سفر ۱۵۹ ۳۷۰،۳۶۴ ،۳۶۳ سورۃ ایلاف میں قریش کو انعامات خداوندی ۳۷۰ ۳۸۳ یاد دلائے گئے ۲۱۵ مشماع کے بارہ میں قیاس
۴۵ قریش کی طرف سے آنحضرت صل الا السلام کو دنیوی انعامات کی پیشکش سرداران قریش کا انجام قیدار قیدار کی حشمت جاتے رہنے کی پیشگوئی قید ماہ بن اسماعیل علیہ السلام حضرت اسماعیل کا بیٹا یمن میں سکونت اختیار کی قیصر حق کی مخالفت کا انجام کانری پی کاری ریورنڈ جغرافیہ دان کرشن کسری انجام کعب بن احبار فلق کے معنی کعب بن اشرف ۴۳۵ ۴۱۳ ۲۷۴ ،۴۴ ۴۴ ۲۷۴ ،۲۷۱ ۴۱۳ ۲۷۵،۲۷۴ ۴۹۰ ۴۱۳ لیکھرام ل من بدزبانی کی چھری سے ہلاکت مبسام بن اسماعیل متان یوسف نجار کے اجداد میں سے ایک فرد متی مجاہد حمالة الحطب کے معنی ۴۱۳ ،۱۱۹ ۴۸۴ ،۴۱۳ ۲۷۵ ۵۹۲ ۵۴۲،۴۵۸ ۴۹۴ ،۳۹۵،۳۹۳ ،۳۷۹ ۴۸۲ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۹، ۲۷۰،۹۷،۹۴ ۳۵۵،۳۵۳،۳۴۹،۳۳۸،۳۱۹،۲۹۹،۲۸۳ ۵۱۰،۴۷۶،۴۳۹،۴۱۲ ،۳۸۶،۳۷۴ سیرت و سوانح ہاجرہ کی نسل سے آپ کی پیدائش آپ کی ولادت ۱/۲۰ پریل ۵۷۱ء کو ہوئی ۵۲۱ آپ کے حالات زندگی تفصیل سے معلوم ۳۹۷ ہونے کی ضرورت دو بار کشفی رنگ میں شرح صدر رؤساء قریش سے ملاقات اور انہیں مسلمانوں سے بہتر قرار دینا کمیت عرب شاعر گوتم بدھ ۳۹۷ وحی کی شدت ۳۹۷ وحی الہی کی عظمت کا اثر ۴۹۰ آپ کی دوسری وحی ۳۷۴ ۳۵۴ ۴۲۷ ۲۶۳ ٣٢،٢٩ ۲۹ ۵۵
۲۳۶ ۲۹۳ ٣٠٣ ۲۸۵ ۳۸۱ ۴۶ عمائدین قریش کی طرف سے دنیوی نعماء کی پیشکش مکہ میں فاتحانہ آنے کی پیشگوئی ۴۰۶، ۴۳۹،۴۳۵ بعثت ۱۰ جولائی ۶۲۲ ء بروز جمعہ آپ نے مکہ سے آپ کی بعثت سے پہلے علماء اور عوام کی ہجرت فرمائی مصروف زندگی نصیبین کے یہود کی آپ سے ملاقات رویا میں صحابہ کے ساتھ مکہ جانا ۴۹ اخلاقی و روحانی حالت ۴۳۲،۳۳ ۴۵۷ وہ آپ کی بعثت پر موقوف تھا آپ کی بعثت کی ضرورت مشرکین اور اہل کتاب میں جو انقلاب مقدر تھا آپ پر نازل ہونے والے پہلے الفاظ بذریعہ وحی ایک عورت کے متعلق اطلاع کہ وہ بعض آیات کا بار بارنزول آپ نے قرآن شریف کی آیات کے ساتھ یہود خیبر کے نام آپ کا خط اہل مکہ کے نام ایک خفیہ خط لے جارہی ہے ۴۲ ۴۶۲ دشت فاران سے جلوہ گری اور دس ہزار قدوسیوں ان کے شان نزول نہیں لکھوائے ۳۷۷،۲۸۳ لوگوں کے ہدایت پانے کی شدید تمنا کے ساتھ فتح مکہ خطبہ حجتہ الوداع ۳۹ آپ کی تبلیغ کا منشاء جبرئیل ہر سال آپ کے ساتھ ایک بار دورہ قرآن شَيْبَتْنِي هُودُ کیا کرتا تھا ۲۰۴ ۳۸۲ ۱۴۶ ۵۲ تبلیغ میں حضرت نوح کی سنت پر عمل فرمانا ۴۷۷ آپ کی عمر حضرت عیسی کی عمر سے نصف ہونے کی خبر ۴۶۴ وانذر عشيرتك الاقربین پر عمل سورۃ النصر کے نزول پر آپ نے سمجھ لیا کہ آپ اپنے بچوں کی دعوت اور تبلیغ کا کام مکمل ہو چکا ہے آپ کے متعلق پیشگوئیاں ۴۶۴،۴۵۷ سوق الحجاز میں تبلیغ باوجود مشکلات کے احکام الہی کی تبلیغ خانہ کعبہ کی تطہیر آپ کی بعثت ابراہیم و اسماعیل کی دعا کا نتیجہ تھی ۳۰۴، ۴۱۷ آپ نے تمام مقربان الہی کا دامن تہمتوں اور تورات میں مذکور مثیل موسیٰ کی پیشگوئی کے افتراؤں سے پاک کیا مصداق ہونے کے دلائل ۳۵ آپ صلی السلام کے اسمائے مبارکہ آپ کے مکرم و معظم ہونے کی پیشگوئی ۲۹۰،۲۸۶ آپ کا پاک نام ابراہیم بھی تھا ۴۷۷ ۴۸۶ ۴۴۵ ۴۵۲ ۴۰۳ ۴۲۹
۴۷ آپ کو عبد اللہ کے نام سے پکارا گیا ہے ۲۵ | مزمل مزمل کے خطاب میں تلطف اور تنبہ دونوں شامل ہیں ۲۹ ایک مہینہ کی راہ کا رعب عطاء کیا جانا مقام جبرائیکی صفات سے متصف آپ کے مجنون نہ ہونے کے دلائل ۱۶۴ آپ پر جادو کئے جانے والی روایت پر محاکمہ خدا کا محبوب بننے کے لئے آپ کی اتباع شرط ہے ۴۲۷ اور آپ کے مسحور ہونے کا رد رفع ذکر ذكرار سولا ۲۶۷ ۲۹۵ برکات ۲۹،۲۸ ۴۲۴ ۱۶۴ ۵۱۶۰۵۱۵ آپ کے توسط سے بلد اللہ الامین اللہ کی تخت گاہ بنا ۲۷۹ اناانزلناہ فی لیلۃ القدر میں آپ کی ذات آپ کی موجودگی میں اہل مکہ پر عذاب نہ آنے بھی مراد ہے سید ولد آدم، فخر الا ولین والاخرین افضل الرسل ۲۹۲ ۳۲۰ کی خبر آپ کے وجود سے وابستہ برکات ۴۸،۴۳ ۱۸۱ خاتم النبیین تمام نبیوں کی فضیلتوں کا مجموعہ ہے سب سے افضل و اکمل وجود ۲۴ آپ کی بعثت کے بعد دینی اور دنیوی ترقیات میں انقلاب آپ کے حسن کے بیان میں ایک فارسی شعر آپ کی اتباع کی دنیوی برکات افصح العرب والعجم مقام محمود کا عطا کیا جانا انا الحاشر الذي يحشر الناس على قدمي ۲۶۰ ۱۹۷ ۴۰۶ ۳۱۳ آپ کے ذریعہ دیئے گئے وعدوں کا پورا ہونا آپ کو کوثر دیئے جانے سے مراد کوثر بلحاظ زمان و مکان آپ کا دامن نبوت قیامت تک وسیع ہے آپ کے بعد کوئی اور شریعت نہیں مثیل موسیٰ ۴۱۵ ،۳۹۶ ۴۲۳ بعثت بالحنيفية السمحية آپ کی بتائی ہوئی راہ کا امتحان آسان ہے آپ کے فرمودات کو سائنس جھوٹا نہیں کر سکی عبادت آپ کے قرآن کریم پڑھنے کی کیفیت ۲۹۶ ۲۹۳ 112 ۲۰۶ ۹۹ ۵۱۰ ۳۲،۳۱ ۳۳۲، ۴۱۵، ۴۲۳ آپ کی تلاوت سن کر یہود کا رقیق القلب ہو جانا ۱۹ ۳۳۵ سورۃ الاعلی اور الغاشیہ کو اکثر نماز جمعہ وعیدین ۵۱،۵۰،۴۱،۳۸٬۳۵ میں پڑھا کرتے تھے ۲۲۳
۴۸ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک قیام لیل آپ پر فرض تھا ۴۰۶ ۳۱ آپ کی صداقت کے دلائل آپ کی صداقت کا زبردست ثبوت میدان جنگ میں صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے ۳۸۸ آپ کی صداقت کا ایک عظیم نشان کثرت استغفار اخلاق خلق عظیم آپ ہمیشہ امن کے حامی رہے ۲۰۶،۱۲۷ ۱۴۷ ۴۷۹ ۵۳ آپ کے زمانہ میں کثرت سے ستارے گرے تھے ۲۱ زمانہ ۴۶۸ آپ کی سچائی کی گواہ آیت ۲۶ سورۃ مدثر آپ کی رسالت کی حقانیت کی دلیل ہے ۶۰ ۳۲۹ يوما فيوما لا انتہا ترقیات آپ کی نو بیویوں کی آپ کے حسن اخلاق مخالفت اور مخالفین کا انجام پر شہادت روف در حیم بادی ۴۳۲،۲۶۴ آپ سے دشمنی کی وجوہات ۲۰۰،۴۹ ابو جہل کا خانہ کعبہ میں آپ کو نماز سے روکنا ۴۵۶،۲۶۰ اولوالعزم انبیاء کے مقابلہ میں آپ کی وسیع حوصلگی ۲۶۳ اللهم اعنى عليهم بسبع كسبع يوسف صبر، حوصلہ اور رحم میں حضرت نوح سے موازنہ ۱۵ با وجود مخالفین کی سازشوں کے آپ کی حفاظت گناہ گاروں کے لئے شفیع خدا کی راہ میں خرچ ۴۶۸ کا نشان ۴۲۳ آپ کی حفاظت و صیانت کا بیان یتیم کا بہت خیال رکھتے تھے ۳۸۲، ۳۸۵ نه صرف مکہ بلکہ پورا عرب آپ کے مخالفین سے قیدیوں اور مقروضوں سے حسن سلوک کی تاکید ۱۰۴ پاک ہو گیا ۴۱۲ ۲۸۷ ۲۱۸ ۱۹۳ ۵۲ لوگوں کی خیر خواہی کے واسطے درد حضرت عمر کو ایک دعا سکھلانا ۴۴۰ ۳۹۰ ابولہب کی بیوی کا معجزانہ طور پر آپ کو نہ دیکھ سکنا ۴۸۳ آپ کے دشمن کے بے نسل ہونے کی خبر ۳۹۹ Λ آپ کے مخالفین کی ہلاکت کی پیشگوئی طائف میں قوم سے دکھ اٹھانے کے باوجودان کی ہدایت کی دعا فرمانا ابن ام مکتوم کی دلداری ۲۶۳ مخالفین کی ہلاکت ۱۴ آپ کی بددعا کے نتیجہ میں عقبہ کی ہلاکت ۳۹ ۴۷۹ فتح مکہ کے موقعہ پر اعلیٰ اخلاق اور نرمی کا نمونہ آپ کو یتیم ومسکین سمجھ کر ظلم کرنے والوں کا انجام ۳۸۶ ۴۶۲ صداقت امت محمدیہ اپنی رسالت ونبوت کی صداقت پر یقین آپ کو عظیم لوگ بخشے گئے ۴۲۴
٣٠١ ۱۲۴ ۲۷۳ ۲۷۵ ۳۸۰ ۴۹ آپ کی بعثت کے انوار قرون ثلاثہ تک آب و تاب عیسائیوں کے نزدیک خدا کا شریک ہے ۲۹۶ زمین کے کفاتا ہونے سے حیات مسیح کے مسئلہ سے تھے آپ کے اتباع ابراہیم کے موعود ملک پر حکومت کریں گے جبتک میرا ایک بھی امتی دوزخ میں رہے گا میں راضی نہیں ہوں گا“ ۵۱ ۲۶۰ کاحل مسیح ناصری ابن داؤد مشماع بن اسماعیل انہی کو مسما، مسماس، مسمیز کہا گیا ہے امت کے اعمال خیر میں بھی آپ کا اجر ہے ۴۰۶، ۴۰۷ دنیا میں کسی امت نے اپنے نبی کے لئے دعا کا مصعب بن سعد ایسا التزام نہیں کیا جیسا کہ امت محمدیہ نے آپ ساھون کے معنی کے لئے کیا ہے ۴۲۵،۲۶۰ آپ کے لئے کثرت سے درود پڑھا جانا چاہیے ۳۲۰ معاویہ امیر انتقال ۶۰ھ آپ کے مخالفین کا انجام ۴۱۳ مقابل این خبان ۴۹۲ منوجی ۲۵۱ موسیٰ علیہ السلام ۹۴ ،۴۹،۴۸،۴۵،۴۲،۳۵،۸ ۳۶۵،۲۷۸،۲۸۵،۲۸۲،۲۶۹ ،۱۴۰،۱۱۰ آپ کی تجلی گاہ ۲۶۹ ۲۷۸ ۵۱ ۲۶۳ ۲۰۶ ΔΙ ۵۲۷ ۳۵۴ محمد اسحاق حافظ محمود غزنوی عباسی خلفاء سے ناراضگی اور مراسلت مریم بنت عمران آپ پر یہود کے بہتانات ۵۴۲،۵۲۸،۵۲۴ ۴۰۳ ۴۹۴ آپ کی پرستش مسابن اسماعیل یمن میں آباد ہوا مسعودی مورخ مسلم امام ۲۷۵ ۱۹۱ مصر سے نکل کر بحر احمر سے پار ہوئے آپ کی قوم کا نجات پا کر خلافت وسلطنت سے سرفراز ہونا قوم سے دکھ اٹھا کر واشدد علی قلوبھم کی دعا کرنا مسیح بن مریم علیہ السلام نیز دیکھئے عیسی بن مریم ۱۲۴،۴۵، ۳۰۲،۳۰۱،۲۸۲ آپ کے لئے یہود درود نہیں بھیجتے
تو رات میں مثیل موسیٰ کی پیشگوئی ۲۶۹،۳۵ | نضر بن کنانہ عیسی مثیل موسی قرار نہیں پاتے آپ سے تیرہ سو برس بعد عیسی علیہ السلام مبعوث ہوئے آنحضرت صلی للہ الم سے موازنہ نابغہ ذبیانی عرب شاعر نافع بن ازرق نافیش بن اسماعیل علیہ السلام آپ کی اولا دعر بیاڈیز رٹا میں آباد تھی نانک علیہ الرحمہ نپولین مصر تک فتوحات نجب (قبیله) قبول اسلام ۴۵ نوح علیہ السلام ۷، ۸، ۱۱،۹، ۱۵، ۹۴، ۲۸۲، ۴۷۷ مقام ۳۵ عبرانی میں توح کے معنی امن و آرام ۹۱ ۲۶۴ طویل عمران کے دعوی کے واسطے کافی دلیل ہے ۸،۷ ۳۵۸ ۳۹۷ ١١٩ ۳۵۹ آپ کے ملک کی حدود قوم نوح کے پانچ دیوتا تبلیغ کے سلسلہ میں آپ کی سنت V ۱۵،۱۴ صبر حوصلہ اور رحم میں آنحضرت سلیا کی تم سے موازنہ ۱۵ قوم سے دکھ اٹھا کر رب لا تذر والی دعا فرمانا ۲۶۳،۱۶ موجودہ زمانہ کا نوح اور اس کی کشتی زمانه کانوح او نورالدین حضرت خلیفۃ المسیح الاول * ۴۵۱،۱۲۹ مقام مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے رسول اللہ صلی شما یہی تم سے محبت ہے اور آپ کی عظمت کا علم مجھے دیا گیا ہے ۴۲۳ مقام اور فرائض ۹۱ ۲۱۶ نجم الدین (منتظم لنگر خانه) دعوی الهام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پر حکمت نصیحت ۵۸ قرآن کریم سے عشق نر قوم نوح کا دیوتا نیم سحر بار بار قرآن کریم سنانا ۱۴، ۱۵ قرآن کریم کے تین تین لفظوں سے باطل مذاہب کار دکرسکتا ہوں خلیفہ بغداد کی بیوی کا نام جو ہلاکو کے حملے میں قتل میں تین مہینے میں قرآن شریف پڑھا سکتا ہوں ہو گئی تھی ۳۵۵ ۱۹۷ ۱۲۲ ۴۲۴ بشرطیکہ پانچ سات آدمیوں کی جماعت ہو ۳۳۴
۴۶۱ ۲۱۵ ۴۶۰ ۵۱ سیرت وسوانح اسوہ صحابہ کی پیروی نوفل بن معاویہ بن نفاثہ ۳۲۵، ۳۲۸ بنوبکر کا نامور سپاہی آپ کے خسر کا ذکر جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ میرے لئے عرفات واقدی و.ھی میں دعا کرنا جلسہ مذاہب عالم کے موقعہ پر صدارتی تقریر ۳۳۴ ۵۳۷ وائل بڑھاپا اور بیماری ۳۳۱،۲۱۰ قریش کے حلیف میں جب کبھی وعظ کرنے کھڑا ہوتا ہوں تو ہمیشہ آخری سمجھ کر کرتا ہوں ۵۰۸ ور میں اپنی طرف سے حق تبلیغ ادا کر کے سبکدوش قوم نوح کا دیوتا ہوتا ہوں ۵۴۲ ولید بن مغیره درد دل کے ساتھ خدا ہی کے لئے کھڑا ہوا ہوں ۴۲۰ وعظ ونصیحت کرنے کے نتیجہ میں لوگوں کی ملامت کا نشانہ فرمودات آپ کی فطرت کی گواہی راقم عینیت صفات کا قائل نہیں ۳۲۷ ۲۹ اس کے دو مشہور لقب عبرتناک انجام ولید بن ولید بن مغیرہ قبول اسلام ۶۷ ہاجرہ علیہا السلام اللہ تعالیٰ کی خاص صفات کو مد نظر رکھ کر دعا اور آپ مصر کی شاہزادی تھیں اس کا معجزانہ اثر ۵۱۲ اعلی درجہ کا ایمان اور توکل اسماعیل کی بشارت میرا اعتقاد ہے کہ تمام جہان کے ہادیوں کو کوئی گن نہیں سکتا بچوں کو مارنے اور سزا دینے کا میں سخت مخالف ہوں ایک رئیس کو نصیحت ایک شرابی کو نصیحت ۱۴ ۴۳۹ ۶۴ ۶۴ ۳۸۲ ۶۴ ₹ ۲۷۷ ،۲۷۳ ،۲۷۲ ۳۷۴ ۳۷۳ ۲۱۴ فاران کے میدان میں بیت اللہ کے مقام پر قیام کے دلائل ۴۳۲ ھذلی عرب شاعر 22 ھشام آنحضرت صلی یا تم پر جادو کئے جانے والی روایت ایک دوست کی اچھی اور بری حالت ۴۲۸ کا واحد راوی ۲۷۲ ۲۷۳ ۱۲ ۵۱۵
۱۵،۱۴ ۴۹۲ ۴۷ ۴۷ ۲۷۴ ۵۲۱،۳۰ ۵۲۱ ۱۹۵ ۴۷ ۵۲ ہشام بن ولید بن مغیرہ قبول اسلام ہلاکوخان بغداد پر حملہ هود علیه السلام یغوث ۶۴ قوم نوح کا دیوتا ۳۵۵ ۲۳۰ یمان یوحنا حواری یا مین اصحاب الرس کا ایک قبیلہ ۲۷۶ یوحنا بپتسمہ دینے والا يسعياه عرب کی بابت پیشگوئی یسوع نیز دیکھئے عیسی بن مریم نہ مسیح ہے نہ ایلیا نہ وہ نبی یورینس یوسف علیہ السلام در ددور کرنے کے متعلق آپ کی دعا ۴۹۰،۴۵۸،۳۰۲،۴۷ ،۴۶،۴۵،۳۵ ۴۵۸ ۴۹۵ شرک کے خلاف پر حکمت وعظ ۵۴۲،۲ یوشع بن نون المشع ۱۵ ،۱۴ بچپن میں مصر لے جایا جانا خدا کا ولد ہونے کا رد یعقوب علیہ السلام یعوق قوم نوح کا دیوتا
۱۱۳ ،۱۰۹ 190 ۳۵۹ ۳۵۹ 주주 ۳۷۳ ۳۷۳ ۳۵۵ ۷۹،۳ ۱۳۴ ،۱۳۳ ۴۴ ۴۶۳ ۳۸۴ Al ۵۳ آ.آریہ ورت نیز دیکھئے بھارت اور ہندوستان مقامات ۳۷۰،۸۹ فتح ایران کی بشارت اور اس کا پورا ہونا انگلینڈ بابل ب-پرت سکندر کی موت بحر احمر ۲۲۹ ،۱۹۰ ۲۳۰ ۸۹،۶۱ ۶۱ موسیٰ مصر سے نکل کر بحر احمر سے پار ہوئے ۳۷۰ بحیرہ عرب ۴۱۳ ۳۷۳ بحیرہ قلزم بخارا ۳۷۳ اسلامی سلطنت کا مٹنا بدر یوم بدر ۲۳۱،۱۹۰ آئرلینڈ ارم افریقہ بغیر لباس کے لوگوں کا رہنا قریش کے تجارتی سفر مخالفین اسلام کا انجام افغانستان الجيريا انگلستان امریکہ خود کشی کی کثرت اور اس کی وجہ ۳۸۴ یوم الفصل اور یوم الفرقان علم تو جہ کو کام میں لانے والوں کا گروہ ۵۱۶ غزوہ بدر کامیابی اسلام کا آغاز اصحاب بدر کے لئے بخشش برطانیہ نیز دیکھئے انگلستان بصره ۴۲۴ ،۳۷۳ ،۱۰۹ ۱۹۵ ۵۲۴ ۳۷۰ حضرت عثمان کا مستند نسخه قرآن بجھوانا ایران سابقہ زمانہ میں علم کا منبع تھا آتش پرستی قریش کے تجارتی سفر
بغداد ہلا کو اور چنگیز کے ہاتھوں تباہی بنت (عربستان) بنارس بھارت بھارت نیز دیکھئے ہند.ہندوستان بنواسد کا قبول اسلام بھیرہ پنجاب پاکستان ایک زیارت کا ذکر بيت لحم فلسطین بیر سبع ۳۵۵ ۲۷۴ ۵۴ جبل کسیونی جدور جموں کشمیر ۱ چراغ دین عیسائیوں کا دوست اور خود مسیح ہونے ۸۹ ۴۶۵ کا مدعی.مباہلہ کے نتیجہ میں ہلاکت دہلی کے ایک شہزادے کو جموں میں ستار بجاتے ۲۲۶ ۲۶۹ حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کا راستہ سے بھٹک جانا ۲۷۳ پیشاور صوبہ سرحد پاکستان ۳۲۷ دیکھنا جیحون دریا چکڑالہ اہل قرآن کے رئیس مولوی عبد اللہ چکڑالوی کا گاؤں چین حاران فلسطین جبشه ۵۱۲ ۴۷۸ ۳۵۵ ٣٠٣ ۳۸۹ ۳۷۳ ،۸۹ ترکستان ۳۷۳ توران ۴۲۴ پر امن عیسائی سلطنت ۳۶۳ ۳۲۹ تهامه حجاز ۲۷۵ | حجاز ۲۷۸،۲۷۵،۲۷۴ ،۳۹ ۲۷۳ نیما حجاز ۴۴ ملک حجاز ہی فاران ہے مخالفین کی ہلاکت ۳۹ ج - چ - ح - خ حديدية جبل الشيخ عرب ۲۷۶ آنحضرت صالی ایم کا عازم بیت اللہ ہو کر یہاں پہنچنا ۵۵۹ جبل طی عرب ۲۷۵ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اور اس کی شرائط ۴۶۰
۳۵۵ ۱۰۹ ،۸۹ :: 1+9 1+9 ۲۷۸ ۲۳۹،۲۷۳ ۲۸۲،۲۶۹ ۲۸۲ ۱۶۸ ۱۶۸ ۲۸۲ ،۲۶۹ ۲۶۹ 19.۲۷۷ ۳۵۵ ۱۹ وہلی بھارت اسلامی سلطنت کا ختم ہونا ۲۷۴ حدیده یمن کا ایک شہر الحذر (عرب کا ایک شہر ) حراء روم غار حراء میں آنحضرت صلی یا پیام کی پہلی وحی ۲۸۵ فتح روم کی بشارت مسلمانوں کی فتوحات رفدیم صحرائے سینا موسیٰ کا قیام زمزم س ش ص ساعیر سعیر اور شعیر یروشلم کا پہاڑ سری نگر کشمیر قبریح سعیر نیز دیکھئے سائیر بیت کم اور ناصرہ سے قریب سکاٹ لینڈ سمرقند ۲۷۴ ۱۶۸ ۴۱۳ ۲۷۴ ۳۷۲،۲۷۸ ۴۲ ٣٠٣ ۲۸۷ ۲۸۸،۲۸۷ ۲۷۵ اسلامی سلطنت کا خاتمہ ۷۸ سوق عكاظ حورا (بندرگاه بحر قلزم ) خانیار سرینگر کشمیر قبر یح خراسان مخالفین اسلام کا انجام خلیج الامتک خلیج فارس یہود خیبر کے نام آنحضرت سایش اینم کا خط دے ڈر ز دجله دریا دار الندوہ مکہ سازشوں کا مرکز دومة الجندل دھار انگر
۲۶۳ ۳۵۵ سوق المجاز آنحضرت صلی یا نام کی تبلیغ اور ابولہب کی مخالفت ۴۷۷ آنحضرت کا دکھ اٹھانے کے باوجود قوم کی ہدایت ۲۸۲،۲۶۹ ۲۷۹ کے لئے دعا فرمانا طرابلس ٣٠٣ اسلامی سلطنت کا خاتمہ ۲۷۸،۲۶۹ | طور سینا موسی کے لئے تجلی گاہ طور سینین ۳۵۹ ع غ ۳۷۰ | عدن سیحون دریا سینٹ ہلینا جزیرہ نپولین کی موت شام ۸۹، ۳۶۰،۲۷۹،۲۷۵، ۴۶۵۴۲۴،۳۷۳ قریش تجارتی سفر عقبہ کا تجارت کی غرض سے شام جانا فتح کی پیشگوئی ۴۷۸ = فتح شام اہل شام کا قبول اسلام حضرت عثمان کا مستند نسخہ قرآن بھجوانا رچرڈ کی واپسی شور صفا (كوه) ۱۷۵ ۴۶۵ ۸۱ ۳۵۹ ۲۷۸ عراق اہل عراق کا قبول اسلام عرب (جزیرہ نما) ۳۷۳ ۱۹۵ عرب قرآن کی برکت سے دنیا کے استاد و معلم بنے ۹۹ باوجود بنجر ہونے کے تمام نعمتوں کے مہیا ہونے کی پیشگوئی کا پورا ہونا عرب کی بابت یسعیاہ کی پیشگوئی ۲۳۹ جزیرہ نمائے عرب میں اسلام کا غلبہ آنحضرت صلیہما السلام کا اہل مکہ کو بلا بلا کر تبلیغ تمام عرب آنحضرت صلی یا اینم کے مخالفین سے پاک ت کے سے ۴۴ ۵۲ ۱۹۵ ۴۱۹،۲۲۵،۶ فرمانا ۴۸۶٬۴۷۷ ہو گیا طع علوم کا ماخذ عرفات طائف یہاں کے شریروں نے آنحضرت مصلی یا ہی تم کو دکھ دیا ۱۹ مسیح موعود علیہ السلام کے لئے عرفات میں دعا ۳۳۳
۵۷ عكاظ سوق عكاظ علی گڑھ بھارت مولوی اسماعیل علیگڑھی کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مباہلہ کر کے ہلاک ہونا عریبیا پیٹرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گمنامی کے ایام ۴۸۰ ۱۹ مرکز میں آنے والوں کی ذمہ داریاں ۲۲۸،۲۲۷ ۴۷۸ ۲۷۴ قادیش قبا مسجد قبا کے صحابی امام کا ذکر قلزم بحیرہ ۲۷۸،۲۷۷ ۴۹۹ ۳۷۳ ،۲۷۴ ۱۶۸ ۲۱۶ ۳۵۵ ۳۵۵ ۳۷۲ ۴۲۸،۳۲۷ ۲۷۷ ΔΙ غار حرا آنحضرت صلی شما پیام کی پہلی وحی فاران ۲۸۵ کاشی بھارت کانگڑہ بھارت ف ق ک گ مشہور زلزله ۲۸۲،۲۷۷ ،۲۷۰،۲۶۹ فاران سے حضرت محمد رسول اللہ صلی له اسلام کا ظہور ہوا ۲۸۲ فاران سے مراد مکہ، مدینہ اور حجاز کرسن ۲۷۰،۲۷۸ قبر سیح موسیٰ کے وقت فاران کا محل وقوع حجاز کے قریب واعظوں کا طریق ثابت ہوتا ہے ۲۷۸،۲۷۰ موجودہ عیسائیوں کے نزدیک فاران کا محل وقوع ۲۷۷ معجزانہ حفاظت فارس خلیج ۲۷۶ دجال کا طواف کلکتہ بھارت کنعان ٣٠٣ کوفه ۴۲۶ حضرت عثمان کا مستند نسخه قرآن بھجوانا فرات قادیان خدا کا عظیم نشان کہ اس نے اس بستی کو اس زمانہ میں برگزیدہ کیا
۵۸ کوه زیتون یروشلم کوه صفا کوه طور گجرات پاکستان گڑرونانا میکنی ۲۸۲ ۲۳۹ ہجرت مدینہ سے ایک سال بعد جنگ بدر ہوئی ۴۳ جمعہ کے دن بازار بند ہو جاتے ہیں قبولیت دعا کا مقام ہے مستند نسخه قرآن کریم ۲۸۲ مراکو ۴۲۸ | مروه ۲۷۴ مزدلفه مسا ۱۲۲ ۳۳۴ ΔΙ ۳۷۳ ۲۳۹ ۳۵۶ ليم یمن کا ایک قدیم شہر ۲۷۵ لاہور پاکستان ۵۱۲ | مصر ۴۵۸،۴۲۴ ،۴۱۳ ،۳۷۳ ،۳۶۳ ،۱۹۵ لدھیانہ پنجاب.بھارت یہاں کے سعد اللہ ابتر کا انجام لکھنو بھارت اسلامی سلطنت کا خاتمہ لندن انگلستان فرعون کی ہلاکت ۲۲۷ ۴۱۳ اسلام دشمن بادشاہوں کا انجام ۴۱۳ علوم کا ماخذ ۱۹۵ ۳۵۵ نپولین کا مصر تک پہنچنا مکہ معظمہ ، ۳۵۹ ۲۳۸،۲۳۶،۲۲۱،۲۰۱،۹۷ ،۵۱،۳۹،۶ ۱۲۲ ۴۵۷ ،۴۱۵،۳۸۱،۳۷۷ ،۳۵۹،۳۳۳ ،۲۸۸ محل وقوع دشت فاران میں ہے ۲۷۰ مکہ مدینہ اور سارا حجاز فاران میں ہے ۲۷۰، ۲۷۷ مقام حضرت ہاجرہ کا قیام ایک مقام غیر ذی زرع شہر بن گیا عربوں میں مکہ معظمہ کی تعظیم اور حرم کا احترام ۳۷۳ ۲۳۵ ۲۲۶ ۴۷۷ ۳۵۹ ۲۷۵ ،۲۷۴ ۴۵ ۴۶۱ المجاز سوق المجاز ابرہہ کا عماید مکہ کو وادی محضر میں بلوانا مدینہ منورہ بنی نضیر کا اخراج یہود مدینہ سے آنحضرت کی حفاظت بنو خزاعہ کا وفد اور ابوسفیان کی آمد
۵۹ اللہ کی تخت گاہ اہل مکہ جیران بیت اللہ کہلاتے ہیں خدا کی ہستی اور انبیاء کی صداقت کا نشان قبولیت دعا کا مقام ہے سورۃ مزمل مکہ میں اتری حضرت عثمان کا مستند نسخہ قرآن کریم بھجوانا حملہ آوروں سے محفوظ رہے گا ابرہہ کا حملہ مخالفت ۲۷۹ فتح ۳۷۷ فتح مکہ کی بشارت ۳۷۷ ۳۳۴ ۵۱ ۸۱ ۳۵۹ ۳۵۹ ۴۴۸،۲۰۱،۱۲۷ اہل مکہ پر ایک سال بعد عذاب آنے کی پیشگوئی ۴۹ فتح مکہ کے موقعہ پر آنحضرت کا تمام دشمنوں کو معاف فرما دینا ۲۶۴ ،۲۶۳ آنحضرت صلی یہ نام کے معاندین سے پاک ہو گیا ۵۲ فتح مکہ فتح الفتوح ہے متفرق کفار مکہ کی آنحضرت سل پیلم کے خلاف سازشیں ۲۰۰ طوائف الملوکی دارالندوہ میں مخالفین اسلام کی سازشیں ۲۸۸،۲۸۷ ملوین برج مکہ میں آنے والے لوگوں کو ابولہب کا گمراہ کرنا ۴۸۷ یہاں کی فتح دین عیسوی کے حق میں سنگ میل ثابت ہوئی ابتدائی دور میں اہل مکہ پر مشکلات اور عذاب آنے ۴۱، ۲۲۵،۲۲۱،۴۲ | منی ۴۵۷ ۳۲۹ ۴۴ ۴۱۹،۳۵۶ ۲۶۹ ۲۷۴ ۲۷۵ ۱۹ ۱۹ کی خبر سات سالہ شدید قحط کعب بن اشرف کی آمد کفار مکہ کا معاہدہ حدیبیہ کی شرائط کو توڑنا آنحضرت صلی ال اسلام کے ہوتے ہوئے مکہ پر عذاب نہیں آئے گا مخالفین کی ہلاکت عمائدین مکہ کا انجام مکہ سے ہجرت کے ٹھیک ایک سال بعد جنگ بدر ہوئی ۲۱۸ ۳۹۷ ۴۶۱ ۴۳ ناصره فلسطین ن.و.ہی حضرت عیسی کی جائے پیدائش نجد ۳۹ بنی مسما کا مسکن ۹۷، ۳۵۳| نخله ۴۳ وہ مقام جہاں نصیبین کے یہود نے آنحضرت صلیہ السلام سے ملاقات کی
۲۷۵ ٣٧٠ ۴۶۵ مسا کا مسکن قریش کے تجارتی سفر ایک روایت کے مطابق سورۃ نصر میں ناس سے ۴۶۶،۴۶۵ ۳۷۳ ۲۷۴ ۳۷۳ ۲۸۳ ۳۹۱ ۳۸۴ ۱۹ ۱۹ نصيبين یہاں کے یہود جن کہلاتے تھے نینوا مراد اہل یمن ہیں اہل یمن کا قبول اسلام ۲۷۵ مجھے یمن کی طرف سے تمہارے رب کی خوشبو واشنگٹن ولش وادی القرى ۱۹۰ بنوخزانہ کا ایک چشمہ ۴۶۱ ہسپانیہ (چین) ہندوستان (انڈیا) ۳۵۴،۸۹، ۳۷۳، ۴۲۴ آتی ہے (حدیث) یورپ ۳۷۳ مینبو (بندرگاه بحر قلزم ) یورپ ہندؤں کا دیوی دیوتاؤں کے آگے ناک رگڑنا ۵۲۴ ہزار سال کے دور کے بعد اہل یورپ کمپنیاں ۳۷۰ بنا کر تجارت کے لئے نکلے قریش کے تجارتی سفر ہند کے علوم ایران سے لائے گئے ۱۹۵ یورپ کے عیسائیوں کی صفات ۳۵۴ خودکشی کی کثرت اور اس کی وجہ محمود غزنوی فاتح ہندوستان یروشلم کوہ زیتون پر آباد ہے یمین ۴۵ یونان ۲۸۲ علوم کا ماخذ ۲۷۶،۴۶۵ ۳۷۲،۳۵۹ ۱۹۵
۶۱ کتابیات نسائی تغیر دار قطنی قرآن کریم واقدی موضح القرآن از شاه عبدالقادر تفسیر ابن کثیر کتب حضرت مسیح موعود علیه السلام تفسیر کبیر للرازي براہین احمدیہ تفسیر عینی ازالہ اوہام روحی المعانی کتاب البریہ اتقان فتح اسلام حدیث آئینہ کمالات اسلام جامع صحیح بخاری صحیح مسلم توضیح مرام صحاح جوہری تصوف ابوداؤد تصدیق براہین احمدیہ از حضرت خلیفہ المسح الاول فتوح الغيب للسيد عبد القادر جیلانی الدر المنشور اخبارات بیہقی الفضل نرمندی
الحكم قادیان البدر قادیان ۶۲ کتب ہندو مذہب ستیارتھ پرکاش ضمیمه اخبار بدر قادیان متفرق لغت فتاوی عالمگیری المفردات لغریب القرآن خطبات الاحمدیه از سرسید احمد خان قاموس مثنوی میرحسن تورات انجیل کتب عیسائیت فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب سیرت ابن ہشام نورالدین بجواب ترک اسلام تاریخ و جغرافیه حیات نور تحقیق الایمان از یادری عمادالدین ابن ہشام ابن خلدون معجم البلدان عدم ضرورت قرآن از پادری ٹھا کر داس