Volume 5

Volume 5

حقائق الفرقان۔۲۰۲۴ء ایڈیشن (جلد ۵)

Chapters: 35-69
Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات


Book Content

Page 1

حقائق الفرقان حضرت حاجی الحرمین مولانا نور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات جلد پنجم سورة فاطر تا سورة الحاقة

Page 2

ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD حقائق الفرقان (جلد پنجم) Haqaa'iqul-Furqaan (Urdu) A collection of the Commentary of the Holy Quran compiled from the Durusul-Quran, sermons, speeches, and writings of Hazrat Khalifatul-Masih I, Maulana Hakeem Noor-ud-Deen, may Allah be pleased with him.Volume - 5 (Complete Set - Volumes 1-6) First Edition Published in 1991-1995 (4 Volumes Set) Reprinted in Qadian, India, 2005 Present Digitally Typeset Edition (Vol.1-6 Set) Published in the UK, 2024 © Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: Pelikan Basim, Turkey For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-275-9 (Set Vol.1-6)

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ نہیں لفظ پیش حضرت حاجی الحرمین مولانا حکیم نور الدین خلیفۃالمسیح الا قول کو خدا تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سے جو غیر معمولی عشق اور اس کے علوم کے ساتھ جو فطری مناسبت تھی اس کا ذکر امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں.مَا انَسْتُ فِي قَلْبِ اَحَدٍ مَحَبَّةَ الْقُرْآنِ كَمَا أَرَى قَلْبَهُ مَمْلُوا بِمَوَدَّةِ الْفُرْقَانِ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۶) میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقان حمید کی محبت سے لبریز ہے.وَلِفِطْرَتِهِ مُنَاسِبَةٌ تَامَّةٌ بِكَلَامِ الرَّبِ الجَلِيْلِ وَ كَمْ مِنْ خَزَائِنٍ فِيْهِ أُوْدِعَتْ لِهَذَا الْفَتَى النَّبِيْلِ - ( صفحہ ۵۸۷) آپ کی فطرت کو رب جلیل کے کلام سے کمال مناسبت ہے.قرآن کریم کے بے شمار خزائن اِس شریف نوجوان کو ودیعت کئے گئے ہیں.وَلَهُ مَلِكَةٌ عَجِيْبَةٌ فِي اسْتِخْرَاجِ دَقَائِقِ الْقُرْآنِ وَبَيَّ كُنُوزِ حَقَائِقِ الْفُرْقَانِ - (صفحه ۵۸۴) آپ کو قرآن کریم کے دقائق معرفت اور باریک نکات کے استخراج اور فرقان حمید کے حقائق کے خزائن پھیلانے کا عجیب ملکہ حاصل ہے.

Page 4

اسی طرح آپ کی تصانیف کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مَنْ أَرَادَ حَلَّ غَوَا مِضِ التَّنْزِيْلِ وَاسْتِعْلَامَ أَسْرَارِ كِتَابِ الرَّبِّ الْجَلِيْلِ فَعَلَيْهِ بِاشْتِغَالِ آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۴) هذه الكتب جو شخص قرآن کریم کے عمیق مطالب کو حل کرنے اور رپ جلیل کی کتاب کے اسرار جاننے کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے.آپ کو قرآن کریم سے جو محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ خود فرماتے ہیں:.مجھے قرآنِ مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا کی ہی کتاب پسند آئی.“ بدر ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ ء صفحہ ۷ ) قرآن میری غذا، میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.“ اور فرمایا کرتے تھے.( ترجمۃ القرآن شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه ۴۶) ” خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور کشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا کہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، پڑھاؤں اور سنوں.“ (تذکرۃ المہدی جلد اول صفحه (۲۴۶) آپ نے ساری عمر قرآن کریم کے علوم کے اکتساب میں گذاری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر جب آپ ہجرت کر کے قادیان دارلامان تشریف لائے تو اُس دن سے وفات تک نہایت یکسوئی اور نہایت با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں اپنی زندگی کے اوقات صرف فرمائے.قادیان میں رمضان المبارک کے خصوصی درس کے علاوہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی سارا سال قرآن کریم کا باقاعدگی سے درس دیتے تھے.

Page 5

ہزاروں صلحاء نے آپ کے درسوں سے اکتساب فیض کیا.آپ کے درس القرآن کے سلسلہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں:.حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے.صاحبزادہ صاحب ! ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو.اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا.یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی.(تذکرۃ المہدی جلد اول صفحه ۲۳۴۴) محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کے ان درسوں کا خلاصہ سلسلہ کے اخبارات بدر اور الحکم میں ساتھ کے ساتھ آئندہ کے لئے محفوظ ہوتا چلا گیا.علوم و معارف کا یہ قیمتی خزانہ اخبارات کی فائلوں میں منتشر اور نایاب کتب کے صفحات میں بند تھا اورنئی نسل کے لئے اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.چنانچہ خلیفہ مسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں ان گراں بہا دفینوں کو باہر نکال کر از سر نو مرتب کیا گیا اور الحکم اور بدر میں وعیدین.خطبات نکاح اور تقاریر سے اس نادر تفسیری مواد کو الگ کر کے جمع کیا گیا اور پھر اسے ترتیب دے کر احباب کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.اللہ تعالیٰ فرقان حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام احباب کو جنہوں نے اس کار خیر میں تعاون فرما یا اپنے فضلوں سے نوازے.آمین سید عبدالهی ناظر اشاعت

Page 6

Page 7

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال سیدنا حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفتہ امسح الا ول رضی اللہ عنہ کو کلام اللہ سے والہانہ محبت اور بے پنہ عشق تھا.اس عاشقانہ محبت کی وجہ سے آپ قرآن کریم پر غور و فکر میں عمر بھر مشغول و مصروف رہے.چنانچہ قرآن مجید کے حقائق و معارف آپ پر کھولے گئے اور معانی ومطالب قرآن سے آپ کو آگہی بخشی گئی.آپ نے زندگی کا ہر دقیقہ خدمت قرآن میں گذارا.اس برکت سے آپ کو نور اور فیض عطا ہوا.آپ نے اس کو پھیلانے کی ہردم کوشش جاری رکھی اور قرآن کریم کی تشریح و تفسیر کے لئے درس دیئے.الحکم اور بدر کے ایڈیٹرز نے اس علم لدنیہ کے خزانے کو شائع کر کے انہیں محفوظ کرنے کی سعادت پائی.جزاھم اللہ احسن الجزا.ایڈیٹر صاحب البدرفرماتے ہیں.اس جگہ اس بات کا ذکر کر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ اگر چہ میں نے بہت دفعہ حضرت خلیفہ اسیح کا درس سنا ہے.تاہم ان نوٹوں کی طیاری میں یادداشتوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ بعض دیگر دوستوں کی نوٹ بکیں بھی دیکھی ہیں.جن میں سے قابلِ ذکر میرے مکرم دوست جناب اکبرشاہ خاں صاحب ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور انہیں دینی دنیوی حسنات سے مالا مال کرے اور اس کے علاوہ دو تین تفسیروں کو بھی مد نظر رکھا ہے.جن میں سے اس جگہ قابل ذکر شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈیٹرالحکم کی تالیف کردہ تفسیر بنام ترجمتہ القرآن ہے جسے میں نے بہت مفید اور کارآمد نکات اور لطائف کا مجموعہ پایا ہے.ضمیمه اخبار بدر ۹ /نومبر ۱۹۱۱ء نمبر ۲، ۱۱،۳)

Page 8

یه روحانی مائدہ متفرق اور منتشر مقامات پر موجود تھا.افادہ عام کے لئے اس کو یکجا کیا گیا تھا جو حقائق الفرقان کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ تھا.اب جبکہ حقائق الفرقان کو دوبارہ شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کتب و رسائل کو ایک دفعہ پھر اس نکتہ نظر سے دیکھ لیا جاوے تا اگر کہیں کمی بیشی ہو تو وہ مکمل ہو جائے.چنانچہ نئے سرے سے تمام کتب ورسائل و اخبارات کو پڑھا گیا جس کے نتیجہ میں.کئی مزید حوالہ جات اس نئی اشاعت میں شامل ہیں.پہلے حوالہ جات میں بعض جگہوں پر جو کمی بیشی تھی اسے مکمل کر دیا گیا ہے.جس سے مضمون زیادہ واضح اور قابل فہم ہو جاتا ہے.-۱ بعض جگہ حوالہ جات درست نہ تھے انہیں بھی درست کر دیا گیا ہے.-۴- عربی عبارات اور فارسی اشعار کا ترجمہ جو پہلے شامل نہ تھا اُسے بھی دے دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرقانِ حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام کارکنان کو جنہوں نے اس کار خیر میں تعاون فرما یا اپنے فضلوں سے نوازے.ناشر

Page 9

۱۵ ۳۰ ۴۶ 72 ۸۷ ۱۱۲ ۱۲۹ ۱۳۸ ۱۶۱ ۱۶۵ ۱۶۸ ۱۸۳ ۱۹۲ ۲۰۴ سورة فاطر الفهرس سورة يس سورة الصفت سُورة ص سورة الزمر سورة المؤمن سورة حم السجدة سورة الشورى سورة الزخرف سورة الدخان سُورة الجاثية سُورة الاحقاف سُورة محمد سورة الفتح سورة الحجرات سورة ق

Page 10

۲۱۳ ۲۱۷ ۲۲۲ ۲۳۸ ۲۴۱ ۲۴۶ ۲۵۳ ۲۶۴ ۲۷۰ ۲۷۹ ۲۸۶ ۲۹۱ ۳۶۱ ۳۶۳ ۳۶۵ ۳۷۵ ۳۸۹ ۴۱۱ ۴۲۹ سُورة الثَّريت سورة الطور سورة النجم سُورة القمر سورة الرحمن سورة الواقعة سورة الحديد سورة المجادلة سُورة الحشر سُورة الممتحنة سورة الصف سورة الجمعة سُورة المنافقون سورة التغابن سورة الطلاق سورة التحريم سورة الملك سُورة القلم سورة الحاقة

Page 11

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرِمَكِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ فَاطِرٍ ہم سورہ فاطر کو اللہ کے نام سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو رحمن ورحیم ہے.- اَلْحَمْدُ لِلَّهِ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَكَةِ رُسُلًا أُولَى أَجْنِحَةِ مَّثْنى وَثُلَثَ وَرُبعَ - يَزِيدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاءُ ۖ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدير - جمہ.سب ہی تعریفیں اللہ ہی کو ہیں وہ اللہ جو آسمان اور زمین کا بنانے والا ہے اور اس نے فرشتوں کو رسول بنایا اور پر دار جن کے دو دو تین تین چار چار پر ہیں اور وہ زیادہ کر دیتا ہے پیدائش میں جس کو چاہتا ہے.بے شک اللہ ہر ایک چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.تفسیر.اللہ تعالیٰ جوفرماتا ہے وہ حق ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات ، اسماء کی نسبت ہمیں اتنا ہی علم ہوسکتا ہے.جتناوہ خود اپنے انبیاء ، اولیاء کی معرفت بتائے.پس اللہ کی ذات وصفات ، ملائکہ ، قبر ، حشر ، دوزخ ، جنت ، پل صراط کے متعلق ہمارا علم وہی صحیح ہوسکتا ہے.جو خود اس نے فرما دیا اور اسی حد تک ہمیں ان میں گفتگو کرنے کی اجازت ہے.أولى أجنحة.یہ اللہ نے فرمایا کہ فرشتوں کے پر ہیں.ان سے کیا مراد ہے.یہ اللہ ہی خوب جانتا ہے.پھر وہ جنہوں نے فرشتوں کو چشم خود دیکھا.جس نے کچھ نہیں دیکھا.اس کا اعتراض (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۸) بیوقوفی ہے.أولى أجنحة - صوفیوں نے لکھا ہے.میں اسکا ذمہ دار نہیں کہ عروج کے اسباب کا نام تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۷۶) اجنحة ہے.

Page 12

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ يَاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُم مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ ترجمہ.اے لوگو! یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے کیا کوئی اور پیدا کرنے والا ہے اللہ کے سوائے جو تمہیں آسمان اور زمین سے کھانا دے.کوئی بھی سچا معبود نہیں مگر اللہ ہی.تو پھر تم کہاں سے کہاں بھٹکتے پھرتے ہو.تفسیر.لا الہ الا ھو.وہی کامل قدرتوں والا غیر محتاج ہے.جو کچھ کسی کو دیا ہے.وہ اس کی عطاء ہے اور پھر محدود آئندہ کیلئے پھر محتاج کا محتاج.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۸) - إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُمْ عَدُةٌ فَأَتَتَّخِذُوهُ عَدُوا إِنَّمَا يَدُعُوا حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَب السَّعِيرِ - ترجمہ.بے شک شیطان تو تمہارا دشمن ہی ہے تو تم بھی اسے دشمن سمجھو.اس کے سوا نہیں کہ وہ تو بلاتا ہے اپنی جماعت کو تا کہ وہ دہکتی آگ والوں میں داخل ہو جائیں.تفسیر.تحقیق شیطان تمہارا دشمن ہے.سو تم سمجھ رکھو اس کو دشمن.وہ تو بلاتا ہے اپنے گروہ کو اسی واسطے کہ ہوویں دوزخ والوں میں.( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۱۷.حاشیہ ) ۹ - أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءٍ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبُ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا 199621 يصنعون - ترجمہ.بھلا جس کو اپنی بداعمالی پسند آ گئی ہے اس نے ان کو اچھا بھی سمجھ لیا ہے کچھ شک نہیں کہ اللہ جس کو چاہتا ہے راہ سے ہٹا دیتا ہے اور راہ راست پر چلاتا ہے جسے چاہتا ہے تو تیری جان نہ جاتی رہے ان پر حسرتیں کھا کر بے شک اللہ جانتا ہے جو کر توت اور صنعت وہ کرتے ہیں.تفسیر.زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ.جس کو بُرے اعمال خوبصورت نظر آتے ہیں.

Page 13

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ فَرَاهُ حَسَنًا.پھر اس بد عملی کو اچھا جانتا ہے.فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ.خدا کی طرف سے گمراہی کا فرد جرم اُنہی پر لگتا ہے جو ضلالت کی راہ عمداً اختیار کریں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۸) ا مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه وَ الَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَ مَكْرُ أُولَبِكَ هُوَ يَبُورُ - ترجمہ.اور جو شخص عزت کا خواہاں ہے تو سب عزت تو اللہ ہی کی ہے.اُسی کی طرف چڑھتے ہیں پاکیزہ کلمے اور عمل صالح ( یعنی تقویٰ ) اللہ اس کو بلند کرتا ہے اور جو لوگ بُری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے اور ان کی تدبیر ہی نابود ہونے والی ہے.تفسیر.وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه - سمجھایا کہ نیک باتوں کے ساتھ نیک اعمال بھی ضروری ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ را کتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۸) ۱۲- وَاللَّهُ خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَاجًا ۖ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أَنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَمَا يُعَمَّرُ مِنْ مُعَمَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِة الا فِي كِتَبِ إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرُ - ترجمہ.اور اللہ وہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے ( یعنی مجموعہ عناصر سے ) پھر تھوڑی سی چیز سے ( یعنی نطفہ سے ) پھر تم کو جوڑی جوڑی بنادیا اور کوئی مادہ پیٹ سے نہیں رہتی اور نہ وہ جنتی ہے مگر اللہ ہی کے علم سے اور نہ کوئی عمر دیا جاتا ہے بڑی عمر والا اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے مگر سب اللہ کی حفاظت میں ہے.بے شک یہ کام اللہ پر بہت آسان ہے.تفسیر - من عُمُرِہ.اس ہی کا مرجع کیا ہے.اس سے ایک مسئلہ حل ہوتا ہے.یہ ضمیر اس معتمر کے مثل کی طرف جاتی ہے.ی «مسیح سے مراد مثیل مسیح (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ را کتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۸)

Page 14

حقائق الفرقان ۱۳ سُوْرَةُ فَاطِرٍ وَ مَا يَسْتَوِي الْبَحْرُنِ هَذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَابِعُ شَرَابُهُ وَهَذَا مِلْحٌ أجَاجُ وَمِنْ كُلِّ تَأْكُلُونَ لَحْمًا طَرِيَّا وَ تَسْتَخْرِجُونَ حِلْيَةً تَلْبَسُونَهَا وَ تَرَى الْفُلْكَ فِيْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - ترجمہ.اور دو دریا برابر نہیں ہو سکتے ایک تو میٹھا پیاس بجھاتا ہے جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ دوسرا کھارا کڑوا اور دونوں میں سے تم کھاتے ہو تازہ تازہ گوشت اور زیور نکالتے ہو جس کو تم پہنتے ہو اور تو دیکھتا ہے کشتیوں کو دریا میں پھاڑتی چلی جارہی ہیں تا کہ تم تلاش کرو اللہ کا فضل و دولت تا کہ تم شکر گزار بن جاؤ.تفسیر.وَمِن كُلّ تَأْكُلُونَ.یعنی جس طرح ملح اجامے سے بھی فوائد حاصل ہوتے ہیں.اسی طرح انہی گندے لوگوں سے نیک بن کر اسلام میں آجائیں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ را کتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۸) ١٦ - يَايُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ.ترجمہ.اے لوگو! تم سب فقیر ہو اللہ کی طرف اور اللہ ہی غنی اور بے پروا تعریف کیا گیا ہے.تفسیر - الفقراء - امیر سے امیر انسان اللہ تعالیٰ کا محتاج ہے.ایک دم کا ایسا احتیاج ہے کہ یہ زندگی وموت کا سوال ہے.اور پھر احتیاج بھی عجیب طور پر ہے کہ ایک طرف سے ہوا کے داخل ہونے کا احتیاج ہے تو دوسری طرف ہوا کے خارج ہونے کا.ایک طرف پانی پینے کا احتیاج ہے.تو دوسری طرف اس کے اخراج کی حاجت ہے.انسان حق کا بھی محتاج ہے.اور حق کے علم پر عمل کرنے کیلئے تو فیق کے حصول کا بھی ایسا ہی محتاج ہے.اگر خدا کا فضل نہ ہو تو بڑے بڑے عالم فسق و فجور میں مبتلا ہو جاویں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۴۸ مورخه ۱۲ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۸) يَايُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاء إِلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ - لے بے ریب انسان اپنا خالق آپ نہیں.نہ اس کے ماں باپ اور اس کے خویش اقارب نے جو اسی کی استعداد کے قریب قریب ہیں اس کو گھڑ کر درست کیا.اپنی بدصورتی کوحسن سے بدلا نہیں سکتا.لے اے انسانوں تم اللہ کے محتاج ہو اور اللہ ہی غنی حمد کیا گیا ہے.

Page 15

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ اپنی طول و عرض پر متصرفانہ دخل نہیں رکھتا.معلوم نہیں کتنی مدت سے چھری لے کر اپنا پوسٹ مارٹم کر رہا ہے.پر اس غریب کو اپنے بدن کے عجائبات کا بھی آج تک پتہ نہ لگا.مائیکروسکوپ ایجاد کر کے کہتے ہیں پچھلوں نے پہلوں سے سبقت لی.مگر عجائبات انسانی پر اور بھی حیرانی حاصل کی.افعال الاعضاء کے محقق اور کیمیا گر اب تک کتاب قدرت کے طفل ابجد خواں ہیں.صوفی ، یوگی ، الہبیات ، اخلاق ، طبعی والے قومی انسانیہ کا بیان کرتے کرتے تھک گئے.مگرا حاطۂ علم الہی سے قطعاً محروم چل دیئے.اچھے فلاسفروں اور نیکو کار عقلاء کے گھروں میں ایسے جاہل کندہ ناتراش پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے مربیوں کی عمدہ عقل کو چرخ دے دیا ! اور وہ بیچارے کف افسوس ملتے رہ گئے.اور ان سے کچھ بھی نہ ہو سکا کہ اپنی اخلاقی ارث سے انہیں تھوڑا ہی سا بہرہ مند کر جاتے.بڑے بڑے مدبر اپنے عندیہ میں تدابیر کے ہر پہلو پر لحاظ کر کے مناسب وقت اور عین موافق لوازم کو مہیا کرتے ہیں.پھر نتائج سے محروم ہو کر اپنی کم علمی پر افسوس مگر قانونِ قدرت کے مستحکم انتظام کو دیکھ کر ہمہ قدرت ذات پاک کا لابد اقرار کرتے ہیں.سلیم الفطرت دانا جب تمام اپنے ارد گرد کی مخلوق کو بے نقص ، کمال ترتیب ، اعلیٰ درجہ کی عمدگی پر پاتے ہیں.ضرور بے تابی سے ایک علیم وخبیر قادر کے وجود پر گواہی دیتے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۲۹،۱۲۸) ۲۵ - إِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ - ترجمہ.ہم نے تجھ کو بھیجا ہے دین حق دے کر (دوستوں کو ) خوشی سنانے والا اور (دشمنوں کو) ڈرانے والا.اور کوئی امت ایسی نہیں جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ آیا ہو.تفسیر.یہودی اللہ تعالیٰ کو جامع صفات کا ملہ یقین کرتے ہیں.پر اس کی روحانی تربیت کیلئے ایک ہی یونیورسٹی یروشلم جیسے آریہ ورت ہی کو آریہ لوگ یقین کرتے ہیں اور ایک ہی قوم کیلئے خدا کی فرزندی کو محدود کرتے ہیں اور کہتے ہیں.انبیاء اور خدا کی طرف سے مندر ایک ہی قوم بنی اسرائیل سے پیدا ہوئے.گویا عموم رحمت الہیہ کے قائل نہیں.قربان جائیے قرآن شریف کے جو فرماتا ہے.Microscope

Page 16

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ (فاطر: ۲۵).فائدہ.اسلامی عقائد میں یہ امر ضروری التسلیم ہے کہ سب انبیاء ورسل پر ایمان لایا جاوے جو قوموں کے نذیر گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول ہو کر آئے.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۲۷) کل دنیا میں مندرین کا آنا تسلیم فرمایا.اور انصاف سے مذاہب پر کلی انکار نہیں کیا بلکہ تمام انبیاء ورسل پر یقین کرنا اور ان پر ایمان لا نا سکھایا اور فرمایا.وَ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ - تمام امتوں میں نافرمانوں کو ڈر سنانے والے گزر چکے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۷) یہ ایک ضروری بات ہے جو یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم میں جس قدر قصص مذکور ہوئے ہیں اُن نبیوں کے ہیں جہاں جہاں نبی کریم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے پہنچنا تھا.اور یہ بات ایسی خصوصیات کے لئے ہے ورنہ قرآن کریم تو صاف فرما تا ہے وَ إِنْ مِّنْ أمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذیر یعنی کوئی امت ایسی نہیں جس میں خدا کی طرف سے ایک ڈرانے والا نہ آیا ہو.ایک طرف تو یہ حال ہے کہ کوئی قوم اور کوئی بستی نہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا مامور نہ آیا ہو.دوسری طرف بہت سے ایسے رسول بھی ہو گزرے ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں نہیں فرما یا تو ایک غور طلب بات ہے کہ کیا وجہ ہے کہ قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے ذکر کو نہیں اور تیں کے اندر محدود کرتا ہے.مجھے یہ بات بتلائی گئی ہے کہ ان ہی نبیوں کا ذکر قرآن نے فرمایا ہے جن کے بلا د میں نافرمانوں اور فرماں برداروں کے نشانات صحابہ کرام کیلئے موجود ہیں اور جہاں پیغمبر خدا نے کامیابی حاصل کرنی تھی.اور صحابہ کرام نے دیکھ لینا تھا.لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيْنَةٍ وَ يَعْنِي مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ - (الانفال: ۴۳) صحابہ وہاں پر پہونچے.ان کا لے اور کوئی فرقہ نہیں جس میں نہیں ہوچکا کوئی ڈرانے والا ہے وہی مرے جو مرتا ہے دلیل سے اور وہی زندہ رہے جو زندہ رہتا ہے دلیل سے.

Page 17

حقائق الفرقان نمونہ یہ تھا کہ نبی کی مخالفت اور متابعت کا کیا انجام ہوتا ہے.سُوْرَةُ فَاطِرٍ الحکم جلد ۵ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۱۴) -۲۸ - اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَتٍ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُهَا وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمُرٌ مُخْتَلِفٌ اَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ و دو، ترجمہ.کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پانی اتارا بادل سے پھر اس کے ذریعہ سے میوے پیدا کئے.طرح طرح کے ان کے رنگ ہیں.اور پہاڑوں میں سرخ و سفید گھاٹیئیں جن کے رنگ مختلف ہیں اور بعض نہایت ہی کالے.تفسیر.باپ کے تقریباً ایک برس کے خیالات کا اثر نطفہ میں پڑتا ہے.پھر وہ ماں کے پیٹ میں جاتا ہے تو ماں کے اور اس کے گھر میں آنے جانے والوں کا اثر پڑتا ہے.پھر ہم صحبتوں ، ہم نشینوں، دعائیں کرنے والوں وغیرھم کا اثر ساتھ ساتھ ہوتا ہے.۱۸ برس تک.انْزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء - یہی حال وحی الہی کا ہے.ثمرات.کھجور.انگور ۱۲۰ قسم کے ہوتے ہیں.جس طرح پانی ایک ہی ہے مگر بیجوں اور زمینوں کے لحاظ سے مختلف ثمرات پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح خدا کی پاک وحی ( قرآن ) کا اثر بھی مختلف طبائع پر مختلف ہوتا ہے.وَمِنَ الْجِبَالِ.پہاڑ میں مختلف قسم کی پیداوار ہے.کہیں ہیرا ، کہیں کنکر.اسی طرح قرآن سننے والوں کے کئی رنگ ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۸-۲۰۹) ۲۹ - وَمِنَ النَّاسِ وَالدَّوَاتِ وَالْأَنْعَامِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ كَذَلِكَ ۖ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ - ترجمہ.اور آدمیوں میں اور چار پائیوں میں اور بھولے جانوروں میں قسم قسم کے رنگ ہیں اسی

Page 18

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ طرح ( اور مخلوقات ہے) اس کے سوائے نہیں کہ اللہ کے بندوں میں علم والے تو وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں.بے شک اللہ بڑاز بردست ہے اور غفور ہے.تفسیر - وَمِنَ النَّاسِ.اب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ آدمیوں میں ہی مجدد ، آدمیوں میں ہی ولی ، آدمیوں ہی سے نبی ، پھر آدمیوں ہی سے فاسق فاجر تک ہوتے ہیں.الْعُلَموا.ان لوگوں میں سے عالموں کا نشان بتاتا ہے کہ ان کی گفتار ، کردار میں خشیتہ اللہ پائی جاتی ہے.کوئی جیا جی جانے والا ہو یا اسرا نمر ہو یا منطقی ہو یا نجومی یا طبیب.خدا کے نزدیک عالم وہ ہے جو خشیتہ اللہ رکھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۷ ۲ اکتوبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۰۹) پھر اندرونی مشکلات قوم کو سمجھنے کے واسطے اہل دل گروہ قوم کا دل اور علماء دماغ تھے.امراء حکومت کرنے والے تھے.لیکن اگر اہل دل علماء اور امراء کے حالات کو غور سے دیکھیں تو ایک عجیب حیرت ہوتی ہے.عظمت الہبی اور خشیت الہبی علوم قرآنی کے جاننے کا ذریعہ تھا إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ العلموا یا یوں کہو کہ اہلِ دل گر وہ علماء سے بنتا ہے.یا اہل دل ہی عالم ہونے چاہیے تھے مگر یہاں یہ عالم ہی دوسرا ہے.فقر اور علم میں باہم تباعد ضروری سمجھا جاتا ہے اور کہہ دیا جاتا ہے کہ عالم اور فقر کیا؟ وہ علم جو خشیت اللہ کا موجب ہوتا اور دل میں ایک رفت پیدا کرتا وہ علم جو خشیت اللہ کا موجب ہوتا.ہرگز الحکم جلد ۵ نمبر ۱۳- ۱۰/ اپریل ۱۹۰۱ ء صفحہ ۷) سچے علوم سے معرفت نیکی اور بدی کی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی عظمت و جبروت کا علم ہوتا ہے اور نہیں رہا.اس سے کچی خشیت پیدا ہوتی ہے.اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا یہ خشیت بدیوں سے محفوظ رہنے کا ایک باعث ہوتی ہے اور انسان کو متقی بناتی ہے اور تقویٰ سے محبت الہبی میں ترقی ہوتی ہے.پس خشیت سے گناہ سے بچے اور محبت سے نیکیوں میں ترقی کرے.تب بیٹرا پار ہوتا ہے اور مامور من اللہ کے ساتھ ہو کر اللہ تعالیٰ کے غضبوں سے جو زمین سے یا آسمان سے یاجو سے نکلتے ہیں محفوظ ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ ) ادفی محبوبوں کو اعلیٰ محبوبوں پر قربان کرنے کا نظارہ ہر سال دیکھتا ہوں.اس لئے ادنی محبت کو

Page 19

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ اعلی محبت پر قربان کرتا ہوں.مثلاً سڑک ہے جہاں درخت بڑھانے کا منشاء ہوتا ہے.وہاں نیچے کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں.پھر درخت پر پھول آتا ہے اور وہ درخت متحمل نہیں ہو سکتا تو عمدہ حصے کے لئے ادنی کو کاٹ دیتے ہیں.میرے پاس ایک شخص سردہ لایا اور ساتھ ہی شکایت کی کہ اس کا پھل خراب نکلا.میں نے کہا کہ قربانی نہیں ہوئی.چنانچہ دوسرے سال جب اس نے زیادہ پھولوں اور خراب پودوں کو کاٹ دیا تو اچھا پھل آیا.لوگ جسمانی چیزوں کے لئے تو اس قانون پر چلتے ہیں مگر روحانی عالم میں اس کا لحاظ نہیں کرتے اور اصل غرض کو نہیں دیکھتے علم کی اصل غرض کیا ہے.شیۃ اللہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا علم پڑھو اس غرض کیلئے کہ لوگوں کو خشیتہ اللہ سکھاؤ.مگر علم کی اصل غرض خشیت ، تہذیب النفس تو مفقود ہو گئی.ادھر کتابوں کے حواشی پڑھنے میں سارا وقت خرچ کیا جا رہا ہے مگر ان کتابوں کے مضمون کا نفس پر اثر ہو اسکی ضرورت نہیں.میں رام پور میں پڑھتا تھا.وہاں دیکھتا کہ لوگ مسجد کے ایک کونے میں صبح کی نماز پڑھ لیتے اور مسجد کے ملاں کو نہ جگاتے کہ رات بھر مطالعہ کرتے رہے ہیں.انہیں جگانے سے تکلیف ہوگی.علم تہذیب النفس کیلئے تھا مگر لوگوں نے اسے تخریب نفس کا ہلی اور سستی میں لگا دیا.دوسروں کی اصلاح کے دعویدار ہیں.مگر خود اپنی اصلاح سے بے خبر.( بدر جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۲۱ /جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۸) ٣٠ - إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَبَ اللهِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سرًّا وَ عَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ - ترجمہ.جولوگ کلام اللہ کو ( مطلب سمجھ کر تدبر کے ساتھ ) پڑھا کرتے ہیں اور نماز کو ٹھیک درست رکھتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ دیا کرتے ہیں چھپا چھپا کر ( خلوص سے ) اور دکھا دکھا کر ( ترغیب کے لئے ) وہ ایسی تجارت کے امید وار ہیں جو کبھی ڈوبے ہی گی نہیں.تفسیر.يَرْجُونَ تِجَارَةً لَنْ تَبُورَ.مومن وہی ہے جو ایسی تجارت کرے جس میں ٹوٹا نہیں.عارضی و نمائشی چیزوں پر اتنا روپیہ نہیں صرف کرتا.ایک بزرگ ایک دعوت میں گئے.معمولی کپڑے

Page 20

حقائق الفرقان سُوْرَةُ فَاطِرٍ تھے.کسی نے نہ پوچھا.پھر آپ خوب لباس پہن کر گئے تو سب نے تعظیم دی.آپ بھی شور بہ وغیرہ کی رکابی اپنے چونہ پر ڈالنے لگے.حاضرین نے تعجب کیا تو جواب دیا.مجھے تو کسی نے پوچھا نہیں.یہ دعوت تو میرے کپڑوں کی ہے.انہی کو کھلاتا ہوں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۹) ٣٣ ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرُتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ ذَلِكَ هُوَ ج وج الْفَضْلُ الكَبِيرُ - ترجمہ.پھر ہم نے وارث بنایا کتاب کا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے منتخب کیا اپنے بندوں میں سے برگزیدہ بندوں کی تین قسم ہیں) کوئی تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے کوئی ان میں سے بیچ کی چال چل رہا ہے اور ان میں سے کوئی نیکیوں میں آگے بڑھنے والے ہیں اللہ کے حکم سے.یہی تو ( بہت بڑا فضل ہے.تفسیر.پھر وارث کیا ہم نے اپنی کتاب کا ان لوگوں کو جو برگزیدہ ہیں.پس بعض ان میں سے ہیں.ظالموں کا گروہ ہے جو اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں اور جبر واکراہ سے نفس امارہ کو خدا تعالیٰ کی راہ پر چلاتے ہیں اور نفس سرکش کی مخالفت اختیار کر کے مجاہدات شاقہ میں مشغول ہیں.دوسرا گروہ میانہ روآدمیوں کا ہے جو بعض خدمتیں خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے نفس سرکش سے بہ جبروا کراہ لیتے ہیں اور بعض البی کاموں کی بجا آوری میں نفس ان کا بخوشی خاطر تابع ہو جاتا ہے اور ذوق اور شوق اور محبت اور ارادت سے ان کاموں کو بجالاتا ہے.غرض یہ لوگ کچھ تو تکلیف اور مجاہدہ سے خدا تعالیٰ کی راہ پر چلتے ہیں اور کچھ طبعی جوش اور دلی شوق سے بغیر کسی تکلف کے اپنے رب جلیل کی فرماں برداری ان سے صادر ہوتی ہے.(۳) تیسرے سابق بالخیرات اور اعلیٰ درجہ کے آدمیوں کا گروہ ہے جو نفس امارہ پر بکلی فتح یاب ہو کر نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں.

Page 21

حقائق الفرقان 11 سُوْرَةُ فَاطِرٍ غرض سلوک کی راہ میں مومن کو تین درجے طے کرنے پڑتے ہیں.پہلے درجہ میں جب بدی کی عادت ہو تو اس کے چھوڑنے میں جان پر ظلم کرے اور اس قوت کو دباوے.شراب کا عادی اگر شراب کو چھوڑے گا تو ابتدا میں اس کو بہت تکلیف محسوس ہوگی.شہوت کے وقت عفت سے کام لے اور قوائے شہوانیہ کو دبا وے.اسی طرح جھوٹ بولنے والا ، ست ، منافق ، راست بازوں کے دشمنوں کو بدیاں چھوڑنے کیلئے جان پر ظلم کرنا پڑے گا تاکہ یہ اس طاقت پر فاتح ہو جاویں.بعد اس کے میانہ روی کی حالت آوے گی کبھی کبھی بدی کے چھوڑنے میں گو کسی وقت کچھ خواہش بد پیدا بھی ہو جاوے.ایک لذت اور سرور بھی حاصل ہو جایا کرے گا.مگر تیسرے درجہ میں پہونچ کر سابق بالخیرات ہونے کی طاقت آ جاوے گی اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی بارش ہونے لگے گی اور مکالمہ الہی کا شرف عطا ہو گا.الحکم جلد ۳ نمبر ۴۱ مورخہ ۱۷ نومبر ۱۸۹۹ءصفحہ ۲.۳) فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِه - برگزیدوں کی تین حالتیں بتاتا ہے.بعض اوقات نفس پر جبر کر کے بدی یا ممنوع شے سے رکنا پڑتا ہے بلکہ نیکی کرنے کے لئے بھی نفس پر بہت کچھ ظلم کرنا پڑتا ہے مثلاً تہجد پڑھنے کے لئے اٹھنے کے واسطے بہت کچھ نفس پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے پھر اس حالت سے نکل کرمیانہ رو ہو جاتا ہے پھر نیکیوں کو لپک لپک کر لیتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۹) فَمِنْهُمُ ظَالِمُ لِنَفْسِہ.جو بدی کو چھوڑ کر نیکی اختیار کرنے کے لئے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالے وہ کتاب کا وارث ہوتا ہے.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۶) ۳۴- جنتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا يُحَلُّونَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَ - ور نُولُوا وَلِبَاسُهُمْ فِيهَا حَرِيرُ.ترجمہ.ہمیشہ کے باغ ہیں جن میں وہ رہیں گے.وہاں انہیں سونے کے اور موتی کے کڑے ائے جائیں گے یا دیئے جائیں گے اور وہاں ان کا لباس ریشمی ہوگا.تفسیر.انسان عالم کبیر ہے اور کائنات عالم صغیر یا کائنات عالم کبیر اور انسان عالم صغیر.کچھ بھی

Page 22

حقائق الفرقان ۱۲ سُوْرَةُ فَاطِرٍ ہو انسان کو چاہیے کہ خدا کی دی ہوئی قوتوں کو برمحل خرچ کرے.اگر ایسا کرے گا تو بہشتی زندگی کا نمونہ اسی دنیا میں دیکھے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۰۹) يُحلُّونَ فِيهَا.دنیا میں بھی اس جنت کا نمونہ صحابہؓ نے دیکھا.ان کو قیصر و کسریٰ کے گھرانوں کے زیور دیئے گئے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷/اکتوبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۰۹) يُحَلُّونَ فِيهَا مِنْ أَسَاوِرَ - یہ ایران کو فتح کرنے کی پیشگوئی ہے.تنفيذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۶) ۳۸ - وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ فِيهَا رَبَّنَا أَخْرِجْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا غَيْرَ الَّذِى كُنَّا نَعْمَلُ اَوَ لَمْ نُعَمِّرُكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيهِ مَنْ تَذكَّرَ وَ جَاءَكُمُ النَّذِيرُ فَذُوقُوا فَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ نَّصِيرٍ - ترجمہ.اور وہ چیچنیں گے اس میں ( یہ دعائیں مانگتے ہوئے ) اے ہمارے رب ! ہم کو نکال کہ ہم بھلے کام کریں گے ان کاموں کے سوائے جو ہم کرتے تھے (اللہ فرمائے گا یا ان کو جواب ملے گا ) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں تم سونچ لیتے جس کو سونچنا ہوتا اور تمہارے پاس آچکا تھا ڈرانے والا.بس اب تو چکھو ( عذاب کا مزہ ) پھر ظالموں کا تو کوئی بھی مددگار نہیں.تفسیر.وَهُمْ يَصْطَرِخُونَ.بدیوں کا ارتکاب کر کے جب اس کا خمیازہ اٹھانا پڑتا ہے تو بد کار چیختا ہے کہ مثلاً اس سوزاک و تشک سے رہائی ہو.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۰۹) مَا يَتَذَكَرُ فِيهِ.میرے نزدیک ادنیٰ حقدار ۱۸ سال ہے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۶) ۳۹ - اِنَّ اللهَ عَلِمُ غَيْبِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ - ترجمہ.بے شک اللہ بڑا جاننے والا ہے آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا کیونکہ وہ تو سینوں کے بھیدوں کو بھی بڑا جاننے والا ہے.

Page 23

حقائق الفرقان ۱۳ سُوْرَةُ فَاطِرٍ تفسیر.غَيْبِ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ.غیب - رضائے الہی کی راہیں (۲).جو موجود ہو کر معدوم ہوگئی ہیں یا ہنوز عدم میں ہیں اور وجود میں نہیں آئیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷/اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۹) b -- هُوَ الَّذِى جَعَلَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ ۖ وَلَا يَزِيدُ الكَفِرِينَ كَفَرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمُ إِلَّا مَقْتَا وَلَا يَزِيدُ الكَفِرِينَ كُفْرُهُمْ إِلَّا ۚ خَسَارًا - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے تم کو بناد یا زمین میں خلیفے پھر جس نے حق کو چھپایا تو اس کی حق پوشی کا وبال اسی کے سر پر ہے اور کافروں کے حق میں ان کا کفران کے رب کے نزدیک غصہ ہی زیادہ کرتا ہے اور کافروں کا کفر تو اُن کے حق میں نقصان ہی بڑھاتا ہے.سیر.فَعَلَيْهِ كُفْرُه.انکار کا برا نتیجہ پاتا ہے.مقْتًا.اللہ تعالیٰ کی ناراضی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۹) ۴۲.اِنَّ اللهَ يُمْسِكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ أَنْ تَزُولَاةَ وَ لَبِنْ زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا - ترجمہ.بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کو روکے ہوئے ہے کہ کہیں اپنی جگہ سے ٹل نہ جاویں اور اگر وہ ٹل جائیں تو اُن کو کوئی بھی تھام نہ سکے اللہ کے سوائے.بے شک اللہ بڑا حلیم وغفور ہے.تفسیر.ان تزولا - بعض دم دار ستارے ایسے ہیں کہ ان کی دم کی ٹکر سے زمین ٹکڑے ہو جاوے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷/اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۹) -۴۴- اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكَرَ السّيّي ۖ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِاَهْلِهِ فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَبْدِيلًا وَ لَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا - ترجمہ.ان کے تکبر کرنے کی وجہ سے ملک میں اور بری تدبیر کرنے سے.اور بڑی تدبیر کا وبال و

Page 24

حقائق الفرقان ۱۴ سُوْرَةُ فَاطِرٍ کسی پر نہیں پڑتا مگر اسی تدبیر کرنے والے پر ( یا جو اس کے لائق ہے ) تو کیا یہ اگلوں کے دستور ہی کے منتظر ہیں تو تو ہرگز نہ پائے گا اللہ کے دستور میں کچھ تبدل، اور ہرگز نہ پائے گا اللہ کے قاعدے میں کچھ تغیر ( یعنی اُن پر بھی عذاب آئے گا ).تفسیر - الْمَكْرُ السني - مکر کے ساتھ سی لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مکر کے معنے بڑے نہیں جبھی تو اس کے ساتھ سیٹی لگایا.لِسُنَّةِ اللهِ تَحْوِيلاً - سنت اللہ اور سنت اللہ میں فرق ہے.غُلَامُ زَيْدٍ.زید کا خاص غلام - غُلامُ لِزَيْدِ خاص غلام نہیں.کوئی ایک.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۰۹) وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَ لكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ترجمہ.اور اگر اللہ پکڑے لوگوں کو ان کے کرتوتوں کے سبب سے تو نہ چھوڑے اللہ پشت زمین پر کسی جاندار کو لیکن اُن کو ڈھیل دے رہا ہے میعاد مقرر تک پھر جب ان کا وقت آ جائے گا تو اللہ دیکھ ہی رہا ہے اپنے بندوں کو.تفسیر.مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ.چونکہ یہ چیزیں آدمی کی بہتری کے لئے ہیں.اس لئے فرمایا جب انسان ہلاک ہو تو یہ چیزیں ہلاک.تشحیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۶)

Page 25

حقائق الفرقان ۱۵ سُوْرَةُ يُس سُوْرَةُ يُسَ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ لیس کو اللہ کے بابرکت نام سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو رحمن و رحیم ہے.اس سورہ میں حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ، قیامت کا ثبوت ، احباء کی کامیابی ، اعداء کی ناکامی کا بیان ہے.۲ تا ۵- ليس - وَ الْقُرْآنِ الْحَكِيمِ - إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - ترجمہ.اے انسان کامل اور سردار قابل.اس حکمت والے قرآن کی قسم ہے.کچھ شک نہیں بے شک بے شک تو رسول ہے.( تجھ میں یہ کمال ہے کہ تو ) سیدھی راہ پر ہے.تفسیر.لیں.اے انسانِ کامل! اے سردار ! کامل انسان جو بات کہتا ہے وہ سچی ہوتی ہے.بڑے بڑے سردار بھی جھوٹ نہیں بولتے.وَ الْقُرْآنِ الْحَكِيمِ - انسان کامل ہونا اور پھر حق و حکمت سے بھری ہوئی کتاب تیرے مرسل ہونے کا ثبوت ہے پھر لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ خود اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کوئی صداقت و حکمت کی بات نہیں جو تو نہیں لا یا.اور تو اگلے نبیوں کے طرز پر ہے.عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ.وہ راہ جس پر چلنے سے انسان خدا کے حضور پہنچ جاتا اور ادھر اُدھر ہونے سے مشکلات میں پڑتا ہے.تو اس پر ہے.یہ بھی صداقت کا ثبوت ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰) لیں.وہ کامل انسان اور کامل سید ، سردار.تشھید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۷۶)

Page 26

حقائق الفرقان ۱۶ سُوْرَةُ يُسَ ، - تَنْزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ ـ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا أَنْذِرَ أَبَاؤُهُمْ فَهُمْ غُفِلُونَ - ترجمہ.اتارا ہوا غالب کا ( یعنی تو بھی غالب ہو گا ) سچی کوشش پر بدلہ دینے والے کا.نتیجہ یہ ہیے کہ تو ڈرا اُن کو جن تَنزِيلَ الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ.یہ اور ثبوت ہے.قرآن اور اس کے لانے والے کی صداقت ا اُن کو جن کے قریب والے نہیں ڈرائے گئے اور وہ غافل ہیں.کا.کیونکہ مومنوں کے شاملِ حال رحمتِ باری تعالیٰ ہوگی اور کفار پر عذاب آئے گا.مَا انْذِرَ اباؤُهُمْ.قریب زمانہ یعنی ان کے باپ دادا میں نبی نہیں آیا.چونکہ یہ لوگ غافل ہو گئے.اور خدا تعالیٰ کو بھول کر بت پرستی میں محو ہو گئے.اس لئے ضروری تھا کہ ان میں کوئی نبی آوے اس زمانہ میں بھی امراء ، علماء، فقراء ، تینوں مصلحان قوم کی حالت ایسی تھی تو خدا کا ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰) فرستادہ آیا.لَقَد حَقَّ الْقَولُ عَلَى أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ - ترجمہ.بے شک پیشگوئی ان پر ثابت ہو چکی ہے تو وہ اکثر تو مانیں گے ہی نہیں.تفسیر.ثابت ہو چکی ہے بات ان بہتوں پر سوئے نہ مانیں گے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۱۹ حاشیہ) و - إِنَّا جَعَلْنَا فِي أَعْنَاقِهِمْ أَغْلَا فَهِيَ إِلَى الْأَذْقَانِ فَهُمْ مُّقْمَحُونَ - ترجمہ.ہم ڈال دیں گے ان کی گردنوں میں طوق تو وہ ان کی ٹھوڑیوں تک ہوں گے تو وہ سر نہ جھکا سکیں گے.تفسیر - في اعناقهم أهلاً - نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قید میں جب کفار آئے تو یہی أَعْنَاقِهِمْ حالت تھی اور اس طرح ظاہری طور پر بھی یہ بات پوری ہوئی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰) ١٠ وَجَعَلْنَا مِنْ بَيْنِ اَيْدِيهِمْ سَدًّا وَ مِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَهُمْ فَهُمْ وور لا يُبْصِرُونَ - ترجمہ.اور ہم نے بنادی ہے اُن کے آگے ایک دیوار اور ان کے پیچھے ایک دیوار پھر ہم نے ان کو

Page 27

حقائق الفرقان ۱۷ سُوْرَةُ يُس ڈھانپ دیا تو انہیں کچھ سوجھتا ہی نہیں.تفسیر.بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا - آگے بڑھ نہیں سکتے کہ اسلام لا ئیں.پیچھے ہٹ نہیں سکتے کہ عذاب سے بچ جاویں اور یہ اس لئے کہ ان کے نزدیک ڈرانا نہ ڈرانا برا بر یکساں ہے اور وہ ایمان ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۰) نہیں لاتے.۱۴.وَاضْرِبُ لَهُمْ مَثَلًا اَصْحَبَ الْقَرْيَةِ إِذْ جَاءَهَا الْمُرْسَلُونَ - ترجمہ.اور ان کے لئے بیان کر اعلیٰ درجہ کی بات گاؤں کے رہنے والوں کی جب وہاں آئے بھیجے ہوئے.تفسیر.ہزار ہالوگوں نے چائنا ، جاپان ، انگلینڈ کونہیں دیکھا مگر وہ ان کی ہستی پر محض شنید سے یقین رکھتے ہیں بلکہ ان کے وجود پر قسم کھا سکتے ہیں.پھر بعض واقعات کو صرف ایک گواہی پر تسلیم کیا جاتا ہے مثلاً کسی کا اپنے باپ کا بیٹا ہونا جس کیلئے صرف اسکی ماں کی گواہی ہے.پھر فلاسفروں کے اقوال میں اتنا اختلاف ہے کہ کسی صورت میں نہیں ملتا.مگر انبیاء کی جماعت ایسی جماعت ہے کہ باوجود یکہ وہ آپس میں نہیں ملے اور مختلف زمانوں میں ہوئے ہیں.پھر بھی وہ اللہ ایک ہے پر اجماع رکھتے ہیں.اس شہادت کو نہ ماننا کیسی بے ایمانی ہے.ایک عورت کی گواہی مان لینے والے اتنی بڑی راست باز جماعت کی مجموعی گواہی کو نہ مانیں تو بہت بے انصافی ہے.پھر وہ لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے خدا سے خود باتیں کی ہیں.ان کی باتیں نہ مانیں مگر فلاسفروں کی باتیں باوجود اس قدر اختلاف کے مان لیں.تعجب ہے.مَثَلاً.عجیب بات.اَصْحبَ الْقَرْيَةِ - مصر جس میں حضرت موسیٰ و ہارون گئے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰)

Page 28

حقائق الفرقان ۱۸ سُوْرَةُ يُس وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلًا - قرآن مجید و صحیح حدیث میں اس قریہ یا ان مرسلوں کا نام ہے میرے ضمیر میں حضرت موسی و حضرت محمد رسول اللہ و حضرت مسیح تین انبیاء ہیں جن کا ذکر ہے.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۷۶) ۱۵ - إِذْ اَرْسَلْنَا إِلَيْهِمُ اثْنَيْنِ فَكَذَّبُوهُمَا فَعَزَزْنَا بِثَالِثٍ فَقَالُوا إِنَّا إِلَيْكُمُ مرسلون - ترجمہ.جب ہم نے ان کی طرف دو رسول بھیجے تو قوم نے دونوں کو جھٹلایا پھر ہم نے عزت دی تیسرے سے تو ان تینوں نے کہا ہم تمہاری طرف بھیجے گئے ہیں.تفسیر.بٹالین.تیسر اعظیم الشان رسول بھجوایا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ را کتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰) فَعَزَزْنَا بِثَالِث - تیسرا ( محمدمصطفی ) ایسا زبردست آیا کہ اس کی قوم سے کوئی لات وعڑی کا پرستار نہ رہا.بلکہ تمام عرب مسلمان ہو گیا.بلکہ تمام دنیا کے مذاہب کے معاہد اسی کے نام پر فتح ہوئے.یوروشلم ۲- آتش کده آذر ۳.خانہ کعبہ.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۶) ١٦ - قَالُوا مَا اَنْتُم إِلَّا بَشَرَ مِثْلُنَا وَمَا اَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ الا تَكْذِبُونَ - ترجمہ.لوگوں نے کہا اجی تم تو ہمیں جیسے انسان ہو اور رحمن نے تو کچھ بھی نہیں اتارا پس تم تو جھوٹ ہی کہتے ہو.تفسیر - مَا اَنْزَلَ الرَّحْمٰنُ مِنْ شَيْءٍ - برہموؤں کا بھی یہی عقیدہ ہے.یہ لوگ تمام راستبازوں کو جھوٹا سمجھتے ہیں.ان کی گندھ تعلیم سب سے زیادہ خطر ناک ہے.جن لوگوں نے سچائیوں کے پہچاننے کیلئے اپنے آرام ، اپنی اولاد ، اپنا جاہ وجلال ، اپنے وطن کو چھوڑ دیا اور اپنی جانیں قربان کر دیں.ان کو جھوٹ اور دروغ مصلحت آمیز سمجھنا حد درجے کی بے باکی ہے.

Page 29

حقائق الفرقان ۱۹ سُوْرَةُ يُس كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں چند گھنٹے ٹھہرنے والے کی نسبت بھی یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ اس نے روایت میں جھوٹ بولا.اور نہ دنیا کی مجموعی طاقت ایسے اتہام کو ثابت کر سکتی ہے.پس جس نبی میں یہ نور و ہدایت ہو کہ اس کی صحبت آدمی کو اعلی درجہ کا راست باز بنا دے.کیا وہ جھوٹا ہو سکتا ہے یا جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بھی خدا پر.خدا نے کچھ وحی نہیں کی.اور وہ کہے مجھ پر وحی ہوئی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱، ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۰) ج -۱۹۱۸ - وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلاغُ الْمُبِينُ - قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرُنَا بِكُمْ لَبِنْ لَّمْ تَنتَهُوا لنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مَنَا عَذَابٌ أَلِيه - ترجمہ.اور ہم پر تو صرف کھول کر پہنچا دینا ہی ہے.قوم نے کہا ہم نے تم کو نامبارک پا یا اگر تم باز نہ آؤ گے تو ہم تمہیں ضرور پتھروں سے ماردیں گے اور ہماری طرف سے تم کو ٹیس دینے والا عذاب الْبَلغُ الْمُبِينُ.کھول کر بات پہونچا دینا.تطَيّرنا.بڑے بڑے دکھ دیکھے ہیں.تمہارے سبب سے.واقعی جب نبی آتا ہے.طاعون ، قحط ، ہیضہ اور ہر قسم کی بلائیں آتی ہیں.اس میں ایک منشاء ایزدی ہوتا ہے.وہ یہ کہ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (الانعام: ۴۳) یعنی شوخی، بے باکی سے باز آ کر خدا کے حضور گریہ وزاری کریں.أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضُرَّعُونَ (الاعراف: ۹۵).اس سے طائر کا مسئلہ بھی حل ہوتا ہے.جہاں انسان جاوے اس کے ساتھ چیل کوے جاتے نظر آویں تو یہ فتح مندی کا نشان ہے.(۲).اسی طرح ہوا کا رخ ادھر ہوجدھر سے یہ جاوے تو یہ بھی کامیابی کا تفاؤل ہے.(۳).جانور بیٹھ جاوے جس پر سوار ہوں (جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ا بہت بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے.وہاں کے رہنے والوں کو سختی اور تکلیف میں لیا تا کہ وہ لوگ گڑگڑائیں اور عاجزی کریں.

Page 30

حقائق الفرقان کی اونٹنی حدیبیہ میں بیٹھ گئی ) تو یہ بھی اچھا نشان ہے.سُوْرَةُ يُس ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۱ ۵۲ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۰) b b -۲۰ - قَالُوا طَابِرُكُمْ مَعَكُمْ - اَبِنْ ذُكَرِرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمُ مُسْرِفُونَ.ترجمہ.نبیوں نے کہا تمہاری نحوست و بدشگونی تو تمہارے ہی ساتھ ہے.کیا اس وجہ سے کہ تم کو سمجھایا گیا.کچھ نہیں تم لوگ حد سے باہر نکلنے والے ہو.تفسیر.مُسْرِفُونَ.خطا کار.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۹ نمبر ۵۲٬۵۱ مورخه ۲۷ /اکتوبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۰) ۲۸،۲۷ - قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ - ترجمہ.کہا گیا جا جنت میں (یعنی جنت کی بشارت دی گئی ) اس نے کہا کاش میری قوم جانتی.۲۸.کہ میرے رب نے کیسی عیب پوشی فرمائی اور مجھے کیسے عزت داروں میں رکھا.تفسیر.قِيلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ - حضرت حق سبحانہ نے بذریعہ الہام جنت کی بشارت دی.لوگ کہتے ہیں اسے قتل کر دیا.قرآن مجید سے تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰٫۳ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۱) مومن اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والا بعد الموت معاً جنت میں داخل ہو جاتا ہے.اور شریر نار میں.جیسے فرمایا.قِيْلَ ادْخُلِ الْجَنَّةَ قَالَ لَيْتَ قَوْمِي يَعْلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَ جَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ - (يس: ۲۸،۲۷) (نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۴۴) -٣- يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ - ترجمہ.افسوس ہے بندوں پر اُن کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر وہ اس کی ہنسی اڑا یا کرتے ہیں.

Page 31

حقائق الفرقان ۲۱ سُوْرَةُ يُس تفسیر - يَسْتَهْزِءُونَ.تحقیر کرتے ہیں.یہی معنے ٹھیک ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) ٣٤ - وَايَةٌ لَهُمُ الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَهَا وَ اَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبَّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ - ترجمہ.اور ایک آیت ان کے لئے مردہ زمین ہے اس کو ہمیں نے زندہ کیا اور اس میں سے اناج اگا یا جس میں سے وہ کھاتے ہیں.تفسیر.بندوں کو اللہ تعالیٰ سمجھانے کیلئے بہت سی مثالیں بیان فرماتا ہے.تمثیلوں سے بات خوب واضح ہو جاتی ہے.دنیا کی تمام مہذب قوموں کے لڑیچر میں یہ طرز پایا جاتا ہے.مسلمانوں میں مثنوی مولانا روم اس کی بہترین مثال ہے.الْأَرْضُ الْمَيْتَةُ.یہ سمجھایا ہے کہ اس ملک میں اخلاقی حالت ، یک جہتی ، امنِ عامہ سب کچھ مر چکا تھا.امن عامہ کا یہ حال تھا کہ ایک کتی کے بچے کے مرنے پر ہزاروں ہی کٹ کے مر گئے.بت پرستی جس کا لازمہ جھوٹے قصے ہیں کیونکہ پجاری اپنے اپنے بتوں کی فوقیت ثابت کرنے کیلئے عجیب عجیب فسانے تراش لیتے ہیں.جن ملکوں میں شرک ہوتا ہے.وہاں الہیات کا علم بالکل نہیں ہوتا.پہاڑوں پر ایسی حالت بہت پائی جاتی ہے.یورپ میں قطعا بت پرستی ہی رہ گئی ہے.حضرت صاحب نے ایک موقع پر نہایت عمدہ نکتہ لکھا ہے کہ ان لوگوں نے نئی نئی ایجادیں کی ہیں یہاں تک کہ خدا بھی نیا ہی گھڑ لیا ہے.لوتھر نے لکھا ہے کہ بدکاری کر اور پیٹ بھر کر ، کر.کیا مسیح تیرے لئے کفارہ نہیں ہوا.ایک پڑھے لکھے شخص سے میں نے پوچھا.ایک شخص ننگے سر دولکڑیاں ہاتھ میں لئے بھاگتا ہوا تمہاری کوٹھی کی طرف آئے اور کہے.آئی ایم گاڈ ، آئی ایم گاڈ.تو تم اسے کیا کہو گے.اس نے کہا کہ آپ گستاخی

Page 32

حقائق الفرقان ۲۲ سُوْرَةُ يُس کرتے ہیں.میں نے کہا.پاگل ہی کہتے ہیں.غرض خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب زمین مردہ ہوتی ہے تو آسمان سے جو پانی برستا ہے اس سے.وه بقاعده وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ (طارق : ۱۲، ۱۳) زندہ ہو ہی جاتی ہے.اور جو جو بیچ بڑھنے کی طاقت رکھتے ہیں.وہ اس سے آگ پڑتے ہیں.اسی طرح آسمانی وحی کا پانی مردہ دلوں پر پڑ کر ( جن میں استعدا د ہو ) ان کو زندہ کرتا ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۱) سُبُحْنَ الَّذِى خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ وَ 1199 مِمَّا لَا يَعْلَمُونَ - ترجمہ.وہ پاک ذات ہے جس نے پیدا فرمائے ہر چیز کے جوڑے جوڑے اس قسم میں سے جو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی ذات میں سے اور ان چیزوں میں سے جن کو وہ جانتے ہی نہیں.تفسیر.خَلَقَ الأَزْواج - روئیدگی کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے کہ اس کو کھا کرنسل بڑھتی ہے.اس تمثیل میں سمجھا دیا ہے.جیسے بارش ہو تو کوئی روئیدگی کو روک نہیں سکتا.اسی طرح یہ الہامی بارش جو ہوئی.تو اب اس کے نتیجہ سے ایک قوم پیدا ہونے والی ہے.تم اسے روک نہیں سکتے.دور کیوں جاؤ.اس گاؤں میں بھی ایک شخص پر خدا کے فضل کی بارش ہوئی.اور پھر باوجو د سخت مخالفت کے ایک قوم خدا کے دین پر چلنے والی پیدا ہو گئی.اور تم جو یہاں دو تین سو بیٹھے ہو.یہ اسی کا (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) ثبوت ہے.مِمَّا لَا يَعْلَمُونَ.تمام نر و مادہ کا علم دنیا کو نہیں.پتھروں کے ،درختوں کے.دونوں کے ( تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۶-۴۷۷) جوڑے ہوتے ہیں.ا اور قسم ہے برسات والے آسمان کی ( کیونکہ زمین سے پانی جا کر واپس آتا ہے ).اور زمین کی قسم جو بہت پھٹ جاتی ہے ( بسبب جھاڑا اور روئید گیوں اور دوسرے صدمات کے ).

Page 33

حقائق الفرقان ۲۳ سُوْرَةُ يُس ۳۹- وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍ تَهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ - ترجمہ.اور آفتاب بہہ رہا، چل رہا ہے اپنی قرار گاہ پر.یہ زبردست علیم کے اندازے باندھے ہوئے ہیں.تفسیر - لِمُسْتَق تھا.گردش کی مقرر کردہ جگہ.ایک طرف خط جدی.ایک طرف خط سرطان.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱) -٤٠ وَالْقَمَرَ قَدر لَهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالعُرْجُونِ القَدِيمِ.ترجمہ.اور چاند کی ہم نے مقرر کر دی ہیں منزلیں یہاں تک کہ پلٹ آیا جیسی پرانی ڈالی.تفسیر.اور چاند کیلئے ہم نے منزلیں مقرر کر دیں.یہاں تک کہ آخر کار وہ چاند پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۴۸) ۴۱- لا الشَّمْسُ يَنْبَغِى لَهَا اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَ الله وروور كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ - ترجمہ.نہ تو سورج ہی سے یہ ہو سکتا ہے کہ وہ چاند کو آ پکڑے اور نہ رات ہی دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور وہ سب آسمانوں میں تیر رہے ہیں.تفسیر.سورج کو طاقت نہیں کہ چاند کو دبوچ لے یا اس سے جاملے.اور نہ رات دن سے آگے نکل سکتی ہے.بلکہ یہ سب کے سب اپنے اپنے فلک میں تیرتے ہیں.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۴۸) ۴۲ - وَايَةٌ لَهُم أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ - ترجمہ.اور ایک نشانی ان کے لئے یہ ہے کہ ہم نے اٹھالیا ان کی ذریت کو بھری ہوئی کشتی میں.تفسیر.حَمَلْنَا ذُريَّتَهُمُ.اب بھی جس کی اولا دبحری سفر کے ذریعے ولایت پہنچتی ہے وہ بڑا فخر تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) کرتا ہے.

Page 34

حقائق الفرقان ۲۴ سُوْرَةُ يُسَ ۴۵،۴۴- وَ اِنْ نَّشَأْ نُغْرِقُهُمْ فَلَا صَرِيخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُونَ إِلَّا رَحْمَةً مِّنَا وَمَتَاعًا إِلَى حِينٍ - ترجمہ.اور ہم چاہیں تو ان کو ڈبا دیں تو ان کا کوئی رونے والا نہیں اور نہ وہ خارج کئے جائیں.مگر ہماری ہی رحمت ہے اور ان کو فائدہ پہنچتا ہے جئے تک.تفسیر.وَإِن نَّشَا نُغْرِقْهُمْ.پیشگوئی فرماتا ہے کہ تم بھی اسی زمین پر بصورت گستاخی و مقابلہ نبی غرق کر دیئے جاؤ گے اور تمہارا کوئی فریا درس نہ ہوگا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۱) - وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّقُوا مَا بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَمَا خَلْفَكُمْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ترجمہ.اور جب ان سے کہا جاتا ہے اللہ کو سپر بناؤ اور اللہ یا اُن پیشگوئیوں سے ڈر کر ) جو تمہارے آگے ہیں اور جو تمہارے پیچھے ہیں تاکہ تم پر رحم کیا جائے.تفسیر - مَا بَيْنَ أَيْدِیکھ.جو عذاب تمہارے سامنے ہے.وَمَا خَلَقَكُمْ.جو عذاب پیچھے آنے والا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) ۴۸ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ امَنوا أَنْطْعِمُ مَنْ لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَةَ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا فِي ضَلِلٍ مُّبِينٍ - ترجمہ.اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تم کو دیا ہے اس میں سے کچھ خرچ کرو تو حق چھپانے والے منکر ایمانداروں سے کہتے ہیں کیا ہم ایسے کو کھلا ئیں جس کو اللہ چاہتا تو خود کھلا دیتا کچھ شک نہیں کہ تم لوگ صریح گمراہی میں پڑے ہوئے ہو.تفسیر قرآن کریم میں لباس اور مکان دینے کی تاکید نہیں آئی.جس قدر کھانا کھلانے کی آئی ہے.ان لوگوں کو خدا نے کافر کہا ہے جو بھوکے کو کہہ دیتے ہیں کہ میاں تم کو خدا ہی نہ دے دیتا اگر دینا منظور ہوتا.قرآن کریم کے دل سورہ یس میں ایسا لکھا ہے قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِلَّذِينَ آمَنُوا اَنْطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشَاءُ اللَّهُ أَطْعَمَةَ آجکل چونکہ قحط ہو رہا ہے.انسان اس نصیحت کو یاد رکھے اور

Page 35

حقائق الفرقان ۲۵ سُوْرَةُ يُس دوسرے بھوکوں کی خبر لینے کو بقدر وسعت تیار رہے.اور اللہ تعالیٰ کی محبت کیلئے یتیموں ، مسکینوں اور پابندِ بلا کوکھانا دیتا رہے مگر صرف اللہ کیلئے دے.یہ تو جسمانی کھانا ہے.روحانی کھانا ایمان کی باتیں ، رضاء الہی اور قرب کی باتیں ، یہاں تک کہ مکالمہ الہیہ تک پہونچا دینا.اسی رنگ میں رنگین ہوتا ہے یہ بھی طعام ہے.وہ جسم کی غذا ہے یہ روح کی غذا.(الحکم جلد ۳ نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ رنومبر ۱۸۹۹ صفحه ۴) ۵۱ - فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً وَ لَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ - ترجمہ.پھر نہ کچھ وصیت ہی کر سکیں گے اور نہ اپنے اہل کی طرف واپس ہی جاسکیں گے.تفسیر.فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً - نہ خود کچھ کر سکو گے.نہ کسی کو کہہ سکو گے کہ ہمارے بعد یوں انتظام کرنا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) بدر میں مارے گئے.نہ وصیت کر سکے.نہ لوٹ کر گھر جا سکے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ۵۲ - وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَاهُمْ مِّنَ الْأَجَدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ - ترجمہ.اور جب پھونکا جائے گا صور میں تو وہ اپنے مقاموں میں سے اپنے رب کی طرف دوڑ پڑیں گے.نُفِخَ فِی الصُّورِ.جب ہمارا بگل بجے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) ۵۳ - قَالُوا يُوَيْلَنَا مَنْ بَعَثْنَا مِنْ مَرْقَدِنَا هُذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ دوور وور المرسلون - ترجمہ.اور کہیں گے ہائے ہماری کم بختی! ہم کو کس نے اٹھا دیا ہماری خواب گاہ سے یہ تو رحمن کا وعدہ ہے سچ کہا تھا نبیوں نے.تفسیر - من مرقدنا.ہماری آرام کی جگہ.اعتراض کیا جاتا ہے.کیا کفار کیلئے قبر آرام گاہ ہے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نسبتی امر ہے.آنے والے عذاب کے مقابل میں یہ عذاب قبر

Page 36

حقائق الفرقان موجب آرام ہی تھا.۲۶ سُوْرَةُ يُس بموتش بگیر تا بمرض راضی شود که سے بھی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر۱، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱) ٢٠ - وَامْتَارُوا الْيَوْمَ أَيُّهَا الْمُجْرِمُونَ - ترجمہ.(اور ہم فرمائیں گے ) آج الگ ہو جاؤ اے قطع تعلق کرنے والے لوگو!.تفسیر - الْمُجْرِمُونَ.قطع تعلق کرنے والے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۱) ج اَلَمْ أَعْهَدُ إِلَيْكُمْ يبَنِي أَدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَنَ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ - ترجمہ.کیا میں نے تم کو حکم نہیں بھیجا تھا اے آدم کی اولاد! کہ تم شیطان کی پوجانہ کرنا بے شک وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.تفسیر الشیطن.خدا سے دور.ہلاک شدہ روحیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۱) ٦٣ - وَلَقَدْ أَضَلَّ مِنْكُمْ جِبِلًا كَثِيرًا ۖ أَفَلَمْ تَكُونُوا تَعْقِلُونَ - ترجمہ.اور شریر ہلاک کرنے والے نے گمراہ کر دیا تم سے بہتوں کو.تو کیا تم کچھ بھی عقل نہیں رکھتے.فسیر.اَضَلّ.ہلاک کر دیا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر۱، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۱) -۲۶ - اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ - ترجمہ.آج ہم مہر لگا دیں گے ان کے منہ پر اور ہم سے بات کریں گے ان کے ہاتھ اور گواہی دیں گے ان کے پاؤں کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے.لے اس کو مرنے سے روکو یہاں تک کہ وہ اپنے مرض پر راضی ہو جائے.

Page 37

حقائق الفرقان ۲۷ سُوْرَةُ يُسَ تفسیر.تُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ - طب پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بیماریاں صرف ہاتھ دیکھنے سے معلوم ہو جاتی ہیں.بعض بیماریاں پیچھے مڑ کر چلانے سے پتہ لگ سکتا ہے.یہ تو دنیا کا حال ہے.آخرت میں تو سب کچھ ظاہر ہو جائے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۲) دو ورد و ٢٩ - وَمَنْ تُعَمرُهُ نُنَكِسُهُ فِي الْخَلْقِ أَفَلَا يَعْقِلُونَ - ترجمہ.اور جس کو ہم زیادہ عمر دیتے ہیں تو اس کو اوندھا کر دیتے ہیں خلقت میں تو پھر کیا وہ سمجھتے ہی نہیں.مَنْ نُعمره - خواہ بحیثیت قومی یا بحیثیت سلطنت یا بحیثیت عظمت تفسیر و تنكسه في الخَلْق.یہ قانون تمام اشیاء عالم میں ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) انسان بہت بڑے بڑے ارادے کرتا ہے.بچپنے سے نکل کر جب جوانی کے دن آتے ہیں اور جوں جوں اس کے اعضاء نشو و نما پا کر پھیلتے ہیں اور قومی مضبوط ہوتے ہیں.اس کے ارادے بھی وسیع ہوتے جاتے ہیں.ایک بچہ رونے اور ضد کرنے کے وقت ماں کی گود میں چلے جانے یا دودھ پی لینے سے یا تھوڑی سی شیرینی یا کسی تماشے کھیل سے خوش ہو سکتا ہے اور اس کے بہلانے کے واسطے بہت تھوڑی سی تکلیف برداشت کرنی پڑتی ہے یا یوں کہو کہ ایک بچے کی خوشی اور خواہشات کا منزل مقصود بہت محدود ہوتا ہے.مگر جوں جوں وہ ترقی کرتا اور اس کے قومی مضبوط ہوتے جاتے ہیں توں توں اس کے ارادوں اور خواہشات کا میدان بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے.حتی کہ قرآن شریف کی اس آیت او لم تعَتِرَكُمْ مَا يَتَذَكَّرُ فِيْهِ مَنْ تَذكَرَ وَجَاءَكُمُ النَّذِيرُ (فاطر: ۳۸) کا مصداق بن جاتا ہے.اس دور کا پہلا درجہ ۱۸ سال کی عمر ہوتی ہے.اسوقت انسان میں عجیب عجیب قسم کی امنگیں پیدا ہوتی ہیں.ایسے وقت میں جبکہ انسان کے قوی بھی مضبوطی اور استویٰ کی حد تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے ارادے بھی بہت وسیع ہو جاتے ہیں.رسول اکرم نے ہر نمازی کو جن میں یہ لڑ کا بھی داخل ہے طول امل اور ہموم وعموم سے پناہ مانگنے کے واسطے حکم دیا ہے.کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس میں تم سونچ لیتے جس کو وچنا ہوتا اور تمہارے پاس آ چکا تھا ڈرانے والا.

Page 38

حقائق الفرقان ۲۸ سُوْرَةُ يُس ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول اکرم نے ایک چار کو نہ شکل بنائی اور اس کے وسط میں ایک نقطہ بنا کر فرمایا کہ یہ نقطہ انسان ہے اور دائرہ سے مراد اجل ہے.یعنی انسان کو اجل احاطہ کئے ہوئے ہے اور پھر انسانی امانی اور آرزوئیں اس سے بھی باہر ہیں.یہ سچی بات ہے کہ انسان بڑے بڑے لمبے ارادے کرتا ہے جو سینکڑوں برسوں میں بھی پورے نہیں ہو سکتے مگر اس کی اجل اسے ان ارادوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دبا لیتی ہے.(الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۸ صفحه ۶،۵) ا - لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيَّا وَ يَحِقَ الْقَوْلُ عَلَى الْكَفِرِينَ - ترجمہ.نتیجہ یہ کہ اس کلام سے اس کو ڈرائے جو جان رکھتا ہو ( معلوم ہوا کہ کا فر مردے ہیں کیونکہ ) ثابت ہو چکی ہے بات کافروں پر.تفسیر.يَحِقَّ الْقَولُ.فرد جرم لگے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) لا وو وووو پوور 4 - لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَهُمْ وَهُمْ لَهُم جُند محضرون - ترجمہ.وہ ان کی مدد نہیں کر سکیں گے اور وہ بت اور جھوٹے معبودان کے لشکر بنا کر حاضر کئے جائیں گے.تفسیر.لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَم.وہ بت مشرکان مکہ کو کچھ مددنہ دے سکے..ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) -۹- وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَ نَسِيَ خَلْقَهُ قَالَ مَنْ يُنِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ - ترجمہ.اور ہمارے لئے مثالیں دینے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا.لگا کہنے کون زندہ کرے گا یہ خالی کھوکھلی ہڈیئیں.تفسير - مَنْ يُنِي الْعِظَامَ وَهِيَ رھی.کھوکھل ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۹)

Page 39

حقائق الفرقان ۲۹ سُوْرَةُ يُس ۸۳ - إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - ترجمہ.اس کے سوا نہیں کہ جب وہ چاہے کسی چیز کو بنانا تو وہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے ہو تو وہ ہو جاتی اس کی بات ہے کہ جب ارادہ کرتا ہے کسی شئے کا تو فرماتا ہے کہ ہو پس ہو پڑتی ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۱۹)

Page 40

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الطَّفْتِ سُوْرَةُ الضَّفت مكيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ صافات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے باعظمت نام سے جس نے سب ہی کچھ مہیا کر دیا اور ہر قسم کی محنت کا صلہ دینے کو تیار ہے.۲ تا ۵ - وَالظُّفْتِ صَفًّا - فَالزَّجِرتِ زَجْرًا فَالتَّلِيتِ ذِكْرًا - إِنَّ الهَكُمُ لواحد - ترجمہ.قسم ہے صفوں میں صف بستہ ہونے والوں کی.پھر انتظا ماڈانٹنے والوں کی.پھر وعظ سنانے والوں کی.کہ تمہارا اللہ تو بس ایک ہی اللہ ہے.تفسیر.وَالظُّفْتِ صفا.اگر بڑے لائق لوگوں کی صفیں عمدہ صف باندھ کر کسی عظیم الشان مذہب کی تحقیق میں بیٹھیں.فالرجوت زجرا - وہ مجلس اتنی بڑی ہو کہ پولیس کا انتظام کرنا پڑے.فالثلیت ذكرا.پھر اس میں بڑے بڑے لیکچرارا اپنے اپنے مضمون پڑھیں.اِنَّ الهَكُم لَواحِدٌ - تو خلاصہ یہی نکلے گا کہ اللہ ایک ہے.واقعہ میں مخلوق پرست کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی.ایک بت پرست رئیس سے میری گفتگو ہوئی.اس نے کہا.قدیم مذہب اچھا ہوتا ہے.میں نے کہا فرمائیے.رام چندر کس کی پرستش کرتے تھے.آخر چلتے چلتے وہ اس بات پر پہونچ گیا کہ ایک خدا کی عیسائیوں سے بھی یہی سوال کیا ہے کہ کنواری کا بیٹا جب دنیا میں نہیں آیا تھا تو کس کی پرستش

Page 41

حقائق الفرقان ۳۱ Σ سُورَةُ الصَّقْتِ لوگ کرتے تھے.تو ان کو ماننا پڑا ہے.اس واحد معبود حقیقی کی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰، صفحه ۲۱۲) وَالطَّفْتِ صفا.صفیں باندھ لی جائیں.لیکچرار لیکچر دیں.پولیس کا انتظام بھی ہو تو یہ ثابت ہوگا کہ اللہ ایک ہے.اس کا نمونہ جلسہ اعظم مذاہب میں ہے.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ٦ - رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَ رَبُّ الْمَشَارِقِ - ترجمہ.وہ رب ہے آسمان اور زمین کا اور جو کچھ ان دونوں میں ہے اور وہ مشرقوں کا رب ہے.تفسیر.رَبُّ الْمَشَارِقِ - شروق نور کے حصول کا نام ہے.تمام نوروں کا سر چشمہ وہی رب ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) ہے.تا ١١ - إِنَّا زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِزِينَةِ الْكَوَاكِب - وَحِفْظًا مِنْ كُلِّ شَيْطن مَّارِدٍ - لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلَا الْاَعْلى وَ يُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ - دُحُورًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبُ - إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبُ - ترجمہ.ہم نے سامنے والے آسمان کو آراستہ کیا ہے ستاروں کی زینت سے.اور محفوظ رکھا ہے شیاطین اور منجم سے.( جو اطاعت سے خارج ہیں ) وہ کان نہیں لگا سکتے بڑی مجلس کی طرف اور پھینکے جاتے ہیں ہر طرف سے.پڑتی ہیں دھتکاریں (ان پر ) اور ان کے لئے عذاب ہے ہمیشہ کا.کوئی چھٹے کسی امر کے دریافت کرنے کے لئے تو چمکتا ہوا شہاب اس کے پیچھے پڑتا ہے.تفسیر.ہم نے خوشنما بنایا اس دور لے آسمان کو کواکب کی زینت سے اور محفوظ کر دیا ہم نے اسے ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک ہونے والے متکبر ضدی سے.ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر جانب سے دھکیلے جاتے ہیں.دھتکارے جاتے اور ان کیلئے دائمی دکھ دینے والا عذاب ہے.ہاں اگر کوئی جھٹی مارے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہاب ثاقب ، میٹیارز ، الکا پات.( نور الدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۶۷)

Page 42

حقائق الفرقان ۳۲ سُوْرَةُ الصَّقْتِ شَيْطن مارے.ایک مخلوق ہے جو نا پاک اور مخلوق سے دور رہتی ہے.عرب اسے کا ہن کہتے ہیں.شانہ بین بھی انہی میں داخل ہیں.وہ انبیاء کی اتباع نہیں کرتے اور غیب کی باتوں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں.لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلا الا علی.جبرائیل اور اس کے قرب والے ملائکہ تک ان کی رسائی نہیں.مگر وہ زمین کے ملائکہ یا ادھر اُدھر سے کچھ اڑا لیتے ہیں.کچھ جھوٹ ملا دیتے ہیں.شهَابٌ ثَاقِب.چمکتا ہوا شعلہ پڑتا ہے اور وہ جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) الْمَلا الاعلى - جناب الہی کا الہام اولاً جن کو پہنچتا ہے.تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ۲۳، ۲۴ - أَحْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَ اَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوا يَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ فَاهُدُ وَهُمْ إِلَى صِرَاطِ الْجَحِيمِ - ترجمہ.حکم ہوگا جمع کرو ظالموں کو اور ان کے ساتھ والوں اور مردوں اور عورتوں کو اور ان کو جن کی یہ پوجا کرتے تھے.اللہ کے سوا.پھر اُن کو دوزخ کے راستہ پر چلاؤ.تفسیر.ازواج جمع ہے زوج کی اور زوج کے معنی ہیں.ساتھی (الْأَزْوَاجُ : الْقُرَنَاءُ) یعنی ازواج بمعنی ساتھی کے ہیں.سُبُحْنَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْوَاجَ كُلَهَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنْفُسِهِمْ ثَنِيَةَ أَزْوَاجِ مِنَ الضَّانِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْمَعْنِ اثْنَيْنِ - وَأَخَرُ مِنْ شَكْلِةٍ أَزْوَاج " سیپارہ ۲۳.رکوع ۲.سورہ.لیس:۳۷) سیپاره ۸- رکوع ۴- سورة الانعام: ۱۴۴) (سیپارہ ۲۳.رکوع ۱۳.سورہ ص : ۵۹) ا پاک ذات ہے وہ جس نے بنائے جوڑے سب چیز کے اس قسم سے جواُگتا ہے زمین میں اور ان کے نفسوں سے.۱۲ ے پیدا کئے آٹھ نر اور مادہ بھیٹر میں سے دوا اور بکریوں میں سے دو.۱۲ سے اور کچھ اور اسی شکل کا طرح طرح کی چیزیں.۱۲

Page 43

حقائق الفرقان ۳۳ سُوْرَةُ الصَّقْتِ لا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ (سیپارہ ۱۳.رکوع.سورة الحجر:۸۹) فَاخْرَجْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِّنْ تَبَاتٍ شَتَّى - (سیپارہ ۱۶.رکوع ۱۱- سوره طه : ۵۴) دیکھو ان تمام محاورات میں جو رواں معنی کرنا ہر گز صحیح نہیں.یہاں ہر جگہ ازواج کے معنے ساتھ والے کے ہیں.مطلب آیت کا نہایت صاف ہے کہ بڑے بڑے ظالم بدکار اور ان کی جنس کے سنگی ساتھی سب کو دوزخ میں لے جاؤ.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۳۱- ۱۳۲) ۳۸- بَلْ جَاءَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ - ترجمہ.حالانکہ وہ تو سچا دین لے کر آیا ہے اور وہ تمام پیغمبروں کا مصدق ہے.تفسیر.وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِينَ - قرآن شریف نے تمام رسولوں کی تصدیق کی.جو صداقتیں انہوں نے مختلف زمانوں میں پیش کیں.وہ سب قرآن مجید میں موجود ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) -۶۶- طَلْعُهَا كَأَنَّهُ رُءُوسُ الشَّيْطِيْنِ - ترجمہ.اس کے خوشے ایسے ہیں جیسے سانپ کے پھن.تفسیر.رُءُوسُ الشَّيطِینِ.سانپوں کا سر.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۲) اس کے پھل ایسے ہوتے ہیں جیسے سانپ کی زبان.تشخيذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ، صفحہ ۴۷۷) ۸۴ ۸۵ - وَاِنَّ مِنْ شِيعَتِهِ لَإِبْراهِيمَ - اِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبِ سَلِيمٍ - ترجمہ.اور اسی کی راہ چلنے والوں میں سے ابراہیم بھی تھا.جب وہ صحیح سلامت دل کے ساتھ اپنے رب کے پاس آیا.نسیسر.انبیاء پہلے تمام اسباب کو اپنی طاقت و وسعت کے مطابق جمع کرتے ہیں پھر خدا کو پکارتے ہیں کیونکہ اسباب کا جمع کرنا بھی خدا ہی کے قانون کی فرماں برداری ہے.تدبیر کے معنے ہیں.آخر کو دیکھنا.ا مت پسارا اپنی آنکھیں اُن چیزوں پر جو بر تنے کو دیں ہم نے ان کو کئی طرح کے لوگوں پر.۱۲ پھر نکالا ہم نے اُس سے بھانت بھانت سبزہ.۱۲

Page 44

حقائق الفرقان ۳۴ سُورَةُ الصَّقْتِ توکل کے معنے ہیں.جو چیز بہم نہیں پہونچ سکی.اس کے لئے جناب النبی میں التجاء اور اس کی ذات پر بھروسہ.مِنْ شِيعَتِه -.نوح کے اتباع میں سے.بِقَلْبِ سَلِيھ.دل ہو جو طمع ، حسد ، شہوت کے خیال اور اس کے لوازمات جہالت ، ستی ، فضولی ، غضب.اس قسم کی بدیوں سے پاک اور اپنے مولیٰ کا فرماں بردار ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) خدا تعالیٰ مخفی در مخفی ارادوں اور نیتوں کو جانتا ہے.اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا.بلکہ اڈ جَاءَ رَبَّكَ بِقَلْبٍ سلیم.کام آتا ہے.سلامتی ہو.انکار نہ ہو.خدا سے سچی محبت ہو.اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے ہمدردی اور خیر خواہی ہو.امر بالمعروف کرنے والا اور نا ہی عن المنکر ہو.بدی کا دشمن ، راست بازوں کا محب ہو.خدا تعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو.یہ منشائے اسلام ہے.الحکم جلد ۳ نمبر۷ مورخه ۳ / مارچ ۱۸۹۹ ، صفحہ ۴.۵) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک نام ابراہیم بھی تھا.جس کی تعریف اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِبْرَاهِيمَ الَّذِي وفى (النجم : ۳۸) اور وہی ابراہیم جو جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِیم کا مصداق تھا.اس نے سچی تعظیم امرالنبی کی کر کے دکھائی.اس کا نتیجہ کیا دیکھا.دنیا کا امام ٹھیرا.-- فَيَا ظُنُّكُمْ بِرَبِّ الْعَلَمِينَ - ترجمہ.بس کیا گمان ہے تمہارا رب العالمین پر.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ / مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۴) تفسیر - فما ظنكم - چور چوری جبھی کرتا ہے کہ اس کو خدا کی صفت اور رازقیت پر ایمان نہیں ہوتا.زانی نہیں سمجھتا کہ اللہ پاک بیبیاں دے سکتا ہے.اسی لئے فرما یا ذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُهُ يرتكُم اَردلكم - (حم السجدہ : ۲۴) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۲) لے اور ابراہیم کی کتابوں میں جس نے عہد پورا کیا.سے یہ بدگمانی ( یعنی اللہ نادان ہے خبیر نہیں ) جو تم نے اپنے رب کے حق میں کی.اُس نے تو تم کو تباہ ہی کر دیا.-

Page 45

حقائق الفرقان ۳۵ سُورَةُ الصَّقْتِ ۹۰،۸۹ - فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ - فَقَالَ إِنِّي سَقِيمُ - ترجمہ.پھر اس نے ستاروں میں خاص نظر سے دیکھا.پھر کہا میں بہت بیمار ہوں.تفسیر.فنظر نظرة في النُّجُومِ.انہوں نے وقت کی طرف توجہ فرمائی.اب بھی مہذب ملک میں دستور ہے کہ کسی کو رخصت کرنا ہو یا خود جانا ہو تو اپنی گھڑی دیکھ لیتے ہیں.وو، إنِّي سَقِيه - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا وہ بڑا راست باز تھا.ادھر حضرت ابرا ہیم فرماتے ہیں.میں بیمار ہوں میری طبیعت ناساز ہے.پس وہ اپنے قول میں سچے تھے.اپنی کمزوری اور کسی اندرونی سقم کو انسان خود ہی سمجھتا ہے.اللہ کے بندے باوجود نا سازی طبع بھی تبلیغ کے جوش میں نکل آتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۳٬۲۱۲) ۹۹ - فَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَهُمُ الْأَسْفَلِينَ - ترجمہ.پس انہوں نے اس کے ساتھ ایک داؤ کرنا چاہا تو ہم نے انہیں کو نیچا دکھا دیا.فَادَادُوا بِه كَيْدًا.صرف ارادہ کیا ہے ( یہ بات یادرکھو) مگر خدا نے یہ ارادہ چلنے نہ دیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳).١٠٣ - فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعَى قَالَ يُبْنَى إِلى آرى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَاذَا تَرى قَالَ يَابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ - ترجمہ.پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑنے کے قابل ہوا تو ابراہیم نے کہا اے میرے پیارے بیٹے ! میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تجھ کو ذبح کر رہا ہوں تو تو سوچ لے کہ تیری کیا رائے ہے.اس نے کہا اے میرے باپ تجھے جو حکم دیا گیا ہے وہ تو کر گز رقریب ہی تو مجھ کو پائے گا انشاء اللہ نیکیوں پر جمے رہنے والے اور بدیوں سے بچنے والوں میں سے.سیر - آری فِي الْمَنَامِ.کوئی شخص دیکھے کہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتا ہوں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ دُنبہ ذبح کردے.عالم رویا میں بیٹا کب ہوتا ہے اور گبَش بیٹا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳ و ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۳) ل كَبَش : دُنبہ.مرتب

Page 46

حقائق الفرقان ۳۶ سُوْرَةُ الصَّفْتِ ابراہیم علیہ السلام بہت بوڑھے اور ضعیف تھے.99 برس کی عمر تھی.خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اولا د صالح عنایت کی.اسمعیل جیسی اولا د عطا کی.جب اسمعیل جوان ہوئے تو حکم ہوا کہ ان کو قربانی میں دے دو.اب ابراہیم علیہ السلام کی قربانی دیکھو.زمانہ اور عمروہ کہ ۹۹ تک پہونچ گئی.اس بڑھاپے آئندہ اولاد کے ہونے کی کیا توقع اور وہ طاقتیں کہاں؟ مگر اس حکم پر ابراہیم نے اپنی ساری طاقتیں ، ساری امیدیں اور تمام ارادے قربان کر دیئے.ایک طرف حکم ہوا.اور معا بیٹے کو قربان کرنے کا ارادہ کر لیا.پھر بیٹا بھی ایسا سعید بیٹا تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے فرما یا بیٹا ! اني أرى فِي الْمَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ تو وہ بلا چون و چرا یونہی بولا کہ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصّبِرِین ابا ! جلدی کرو.ورنہ وہ کہہ سکتے تھے کہ یہ خواب کی بات ہے.اس کی تعبیر ہو سکتی ہے.مگر نہیں.کہا.پھر کر ہی لیجئے.غرض باپ بیٹے نے ایسی فرماں برداری دکھائی کہ کوئی عزت ، کوئی آرام ، کوئی دولت اور کوئی امید باقی نہ رکھی.یہ آج ہماری قربانیاں اسی پاک قربانی کا نمونہ ہیں.مگر دیکھو کہ اس میں اور ان میں کیا فرق ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم اور اس کے بیٹے کو کیا جزا دی.اولاد میں ہزاروں بادشاہ اور انبیاء......پیدا کئے.وہ زمانہ عطا کیا جس کی انتہا نہیں.خلفاء ہوں تو وہ بھی ملت ابراہیمی میں سارے نواب اور خلفاء الہی دین کے قیامت تک اسی گھرانے میں ہونے والے ہیں.الحکم جلدے نمبر ۱۱ مورخہ ۲۴ مارچ ۱۹۰۳ صفحه ۴) یہ دن ( عید الاضحی) بھی ایک عظیم الشان منتقی کی یادگار ہیں.اس کا نام ابراہیم تھا.اس کے پاس بہت سے مویشی تھے.بہت سے غلام تھے اور بڑھاپے کا ایک ہی بیٹا تھا.فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يبنى اني ارى في المَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَا ذَا تَری.سو برس کے قریب کا بڑھا ایک ہی بیٹا ، اپنی ساری عزت ، ناموری ، مال ، جاہ و جلال اور امیدیں اسی کے ساتھ وابستہ.دیکھو متقی کا کیا کام ہے.اس اچھے چلتے پھرتے جوان لڑکے سے کہا.میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کروں بیٹا بھی کیسا فرماں بردار بیٹا ہے.قالَ يَابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ 6

Page 47

حقائق الفرقان ۳۷ سُوْرَةُ الصَّقْتِ اللهُ مِنَ الصبرین.ابا جی.وہ کام ضرور کرو جس کا حکم جناب الہی سے ہوا.میں بفضلہ صبر کے ساتھ اسے برداشت کروں گا.یہ ہے تقویٰ کی حقیقت.یہ ہے قربانی.قربانی بھی کیسی قربانی کہ اس ایک ہی قربانی میں سب ناموں ، امیدوں ، ناموریوں کی قربانی آگئی.جو اللہ کے لئے انشراح صدر سے ایسی قربانیاں کرتے ہیں.اللہ بھی ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.اس کے بدلے ابراہیم کو اتنی اولا د دی گئی کہ مردم شماریاں ہوتی ہیں مگر پھر بھی ابراہیم کی اولا د صحیح تعداد کی دریافت سے مستثنیٰ ہے.کیا کیا برکتیں اس مسلم پر ہو ئیں.کیا کیا انعام الہی اس پر ہوئے کہ گنے میں نہیں آ سکتے.ہماری سرکار خاتم الانبیاء سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی ابراہیمؑ کی اولا د سے ہوئے.پھر اس کے دین کی حفاظت کے لئے خلفاء کا وعدہ کیا کہ انہیں طاقتیں بخشے گا اور ان کو مشکلات اور خوفوں میں امن عطا کرے گا.یہ کہانی کے طور پر نہیں.یہ زمانہ موجود ، یہ مکان موجود ، تم موجود ، قادیان کی بستی موجود ، ملک کی حالت موجود ہے.کس چیز نے ایسی سردی میں تمہیں دور دور سے یہاں اس مسجد میں جمع کر دیا.سنو! اسی دست قدرت نے جو متقیوں کو اعزاز دینے والا ہاتھ ہے.اس سے پہلے پچیس برس پر نگاہ کرو تم سمجھ سکتے ہو کہ کون ایسی سخت سردیوں میں اس گاؤں کی طرف سفر کرنے کے لیے تیار تھا.پس تم میں سے ہر فرد بشر اس کی قدرت نمائی کا ایک نمونہ ہے.ایک ثبوت ہے کہ وہ متقی کے لئے وہ کچھ کرتا ہے جو کسی کے سان وگمان میں بھی نہیں ہوتا یہ باتیں ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتیں.یہ قربانیوں پر موقوف ہیں.انسان عجیب عجیب خوابیں اور کشوف دیکھ لیتا ہے.الہام بھی ہو جاتے ہیں.مگر یہ نصرت حاصل نہیں کر سکتا.جس آدمی کی یہ حالت ہو وہ خوب غور کر کے دیکھے کہ اس کی عملی زندگی کس قسم کی تھی.آیا وہ ان انعامات کے قابل ہے یا نہیں.یہ (مبارک وجود ) نمونہ موجود ہے.اسے جو کچھ ملا.ان قربانیوں کا نتیجہ ہے جو اس نے خداوند کے حضور گزاریں.جو شخص قربانی نہیں کرتا.جیسی کہ ابراہیم نے کی اور جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کے لئے نہیں چھوڑتا.تو خدا بھی اس کیلئے پسند نہیں کرتا.جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حضرت نبی کریم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے.مگر وہ خدا جس

Page 48

حقائق الفرقان دوو ۳۸ سُوْرَةُ الصَّقْتِ نے إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المؤمن: ۵۲) فرمایا.اس نے سب پر فتح دی.صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا تم اپنے بھائیوں کا جتھا نہ چھوڑو.ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہ سے ایک خطر ناک آواز سنی اور وہ ہکا بکا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریم کے اللہ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں شار مرید ملے.آخر وہ جو باپ بنتے تھے.جو تجربہ کار تھے.ہر طرح کی تدبیریں جانتے ان سب کے منصو بے غلط ہو گئے.اور وہ خدا کے حضور قربانی کرنے والا متقی نہ صرف خود کامیاب ہوا بلکہ اپنے خلفاء راشدین کیلئے بھی یہی وعدہ لے لیا.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۸-۹) بخاری شریف جو قرآن مجید کے بعد دنیا کی تمام کتابوں سے زیادہ صحیح اور زیادہ واجب التعظیم ہے.اس میں ایک حدیث آئی ہے.اس کو نقل کرتا ہوں.حدیث.قَالَ أَبُو مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَهَاجِرُ مِنْ مَّكَّةَ إِلى أَرْضِ بِهَا نَخْلُ فَذَهَبَ وَهَلِى إِلَى أَنَّهَا الْيَمَامَةُ أَوْ هَجَرْ فَإِذَا هِيَ الْمَدِينَةُ يَثْرِبُ - (ترجمہ) ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ہجرت کروں مکہ سے ایک زمین کی طرف جس میں کھجوروں کے باغ ہوں.پس گیا میرا اجتہاد اس بات کی طرف کہ وہ جگہ یمامہ نام مقام ہے یا ہجر نام گاؤں ہے.مگر آخر معلوم ہوا کہ وہ مدینہ تھا.اب دیکھئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھی اور جیسا کہ حضرت ابراہیم کا فقرہ ہے ویسا ہی آپ کا ہے.چنانچہ حضرت ابرہیم فرماتے ہیں کہ ائی ارى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ اور ایسا ہی فقرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے.رَنَيْتُ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أُهَاجِرُ یعنی مجھے خواب میں ارشاد ہوا کہ میں ہجرت کروں اور جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خواب وحی الہبی اور امر الہی تھی.اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب بھی وحی الہی تھی.اور اس میں ہجرت کا حکم تھا جیسا کہ لے بے شک ہم مدد کرتے ہیں اپنے بھیجے ہوؤں کی اور ایمانداروں کی دنیا ہی کی زندگی میں.

Page 49

حقائق الفرقان ۳۹ سُوْرَةُ الصَّقْتِ دوسرے مقام پر بخاری شریف ہی میں آتا ہے اُمر بالهجرة یعنی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا تھا.سوصاف ظاہر ہو گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وحی کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس وحی میں ہجرت کا حکم تھا.مگر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو اجتہادی غلطی لگی اور آپ نے مدینہ طیبہ کی جگہ یمامہ اور ہجر نام مقام سمجھ لیا.اب ناظرین ہی انصاف سے دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ جگہ دکھلائی گئی لیکن آپ نے اجتہاد میں غلطی سے بجائے مدینہ طیبہ کے یمامہ اور ہجر خیال کیا.مگر جب ہجرت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا اجتہاد واقعہ کے لحاظ سے ( بدر جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۶) غلط ثابت ہوا.ابراہیم کو کہا بیٹاذ بج کر.چھری نے کاٹ نہ کی.ایک دنبہ بدست جبرائیل بہشت سے بھیج دیا اسمعیل کی گردن تانبہ کی بن گئی.یا کٹ جاتی تو پھر مل جاتی.یہ دنبہ ہابیل والا تھا جو دوبارہ زندہ ہوا.الجواب: قرآن کریم میں صرف اس قدر آیا ہے.باقی محض جھوٹ اور قرآن کریم پر افتراء ہے.قَالَ يُبْنَى إِنِّي أَرى فِي الْمَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ فَانْظُرُ مَا ذَا تَرى قَالَ يَابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ - فَلَمَّا اسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَا بُراهِيمُ - قَدْ صَدَّقْتَ الدُّنْيَا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ - إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلُوا الْمُبِينُ وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ وَ تَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ - سَلامُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ - كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ (الصافات : ۱۰۳ تا ۱۱۲) میرے پیارے بیٹے ! مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میں تجھے ذبح کرتا ہوں اب تو سوچ کر بتا تیری کیا رائے ہے.اس نے کہا میرے پیارے باپ! تو اپنی ماموریت پر عمل کر.مجھے تو انشاء اللہ صابر پائے گا.جب وہ دونوں خدا تعالیٰ کے حکم پر راضی ہو گئے اور ابراہیم نے اسے منہ کے بل زمین پر لٹایا.ہم نے آواز دی.اے ابراہیم ! تو نے اپنی رؤیا کو سچا کر دکھایا ہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں.یہ بڑا بھاری امتحان اور انعام ہے اور ہم نے اس کے عوض میں ایک بڑی قربانی کو فدیہ دیا اور آئندہ آنے والی نسلوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا ابراہیم پر سلامتی.ہم اسی طرح محسنوں

Page 50

حقائق الفرقان ۴۰ سُورَةُ الصَّفت کو بدلہ دیا کرتے ہیں.وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا.باقی جو کچھ آپ نے لکھا ہے سب کا سب جھوٹ اور افتراء اور محض لغو ہے اور قرآن اور احادیث صحیحہ میں اس کا ذرہ ذکر نہیں اور جس قدر قرآن میں ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں.کیوں کہ اس سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ بیٹے کو ذبح کرتے ہیں نہ یہ کہ ذبح کر دیا جیسے قرآنی لفظ إني أرى فِي الْمَنَامِ انّى اَذْبَحُكَ (الصافات : ۱۰۳) گواہی دیتا ہے اس قابل قدر عرفان سے بھرے ہوئے واقعہ پر اعتراض بجز سیاہ دل کور باطن حقیقت نا آشنا کے اور کون کر سکتا ہے؟ سنو! ابراہیم علیہ السلام کی عمر اس وقت نانوے برس کی تھی اور اسماعیل اس کے اکلوتے بیٹے کی تیرہ برس کی.اتنے عمر کے باپ کو آئندہ اور اولاد کی امید کہاں اور بیٹے کی امیدیں اور امنگیں مرنے کے بعد کہاں ! باپ کا اپنے خواب کے خیال کو اظہار کرنا اور بیٹے کا یہ کہہ دینا افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سچی الہی محبت کا نشان ہے جس کی قدر بدوں زندہ دل کے کون کر سکتا ہے؟ اس بات کو ہم قربانی کے مسئلہ میں کسی قدر تفصیل سے لکھ چکے ہیں.انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا جلد ا ص ۵۵ میں ہے کنعانیوں میں جو قدیم باشندے فلسطین کے تھے انسانی قربانی کا رواج تھا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو ان میں مانے ہوئے بزرگ اور ذی رعب تھے باہمہ جاہ و حشمت بیٹے کی قربانی پر با ایں کہ بیٹا بھی راضی ہو چکا تھا مینڈھا ذبح کر دیا اور اس طریق سے انسانی قربانی کے بجائے حیوانی قربانی قائم کر دی اور اب تک گویا کروڑوں جانوں کو بچالیا بَارَكَ اللهُ عَلَيْكَ يَا إِبْرَاهِهیم - نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۱، ۲۲۲) ( حضرت ابراہیم علیہ السلام تم جانتے ہو گے ایک بڑے عظیم الشان خدا کے پیارے نبی گزرے ہیں.ان کو خواب میں دکھایا گیا کہ گویاوہ اپنے بیٹے اسمعیل کو ذبح کرتے ہیں اس وقت اس بچے کی عمر معلوم ہوتا ہے کہ قریبا تیرہ برس کی تھی.حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے کو کہا کہ بیٹے میں نے دیکھا ہے کہ تم کو ذبح کرتا ہوں بیٹے کی فرمانبرداری دیکھو کہ کوئی عذر نہیں کیا بلکہ کہہ دیا کہ يابَتِ افْعَلُ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصّبِرِينَ (الصفت : ۱۰۳) اے باپ جو آپ کو حکم ہوا ہے اسے

Page 51

حقائق الفرقان ۴۱ سُورَةُ الصَّقْتِ بجالائے انشاء اللہ تعالی مجھے آپ صابر پاویں گے.اس وعدہ پر پکار ہوں گا.اب ذرا دیکھو! اللہ تعالیٰ نے اس فرمانبردار بچے کو جس نے اپنے آپ کو حکم الہی کے موجب گویا ذبح کرواہی لیا کیا کیا اجر دیئے.وہ لڑکا جس نے رضا الہی کے لئے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا خدا نے اسے کیسا زندہ کیا کہ قیامت تک بادشاہ لوگ اپنے آپ کو اس کی اولاد میں سے ہونے کا فخر کرتے رہیں گے.اس کی اولاد کے بچے بھی سید یعنی سردار کہلاتے ہیں.خدا نے اس کا نام صادق الوعد رکھ دیا.کیا یہ کوئی چھوٹے بدلے ہیں.نہیں نہیں یہ بڑی بات ہے جو ہر ایک کے نصیب نہیں ہوتی.سرور کائنات بھی انہی کی اولاد میں سے ہیں.کیا یہ کوئی تھوڑی بات ہے مگر کیا وجہ.وہی کہ اس نے خدا کو ناراض نہ کرنا چاہا.اس کی رضا کے لئے مرنے سے پہلے مرنا اختیار کیا.خدا عملوں کو دیکھتا ہے ظاہر شان و شوکت پر ہی یہ انعامات منحصر نہیں جس کو چاہے چن لیوے.( الحکم جلد نمبر ۱۹٬۱۸ مورخہ ۶ و ۱۳/ جولائی ۱۸۹۸ء صفحه ۱۲) ۱۰۴ تا ۱۰۶ - فَلَمَّا أَسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ وَنَادَيْنَهُ أَنْ يَا بْرَاهِيمُ - قَدْ صَدَّقْتَ الدُّنْيَا إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ - ترجمہ.پھر جب دونوں تعمیل حکم پر آمادہ ہوئے اور ابراہیم نے بیٹے کو پیشانی کے بل پچھاڑا.اور ہم نے اس کو زور سے پکارا اے ابراہیم! تو نے اپنار و یا سچا کر دکھایا ( اور تو صدیق اور خلیل ہو گیا ) بے شک ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں محسنوں کو.تفسیر.جب وہ دونوں خدا تعالیٰ کے حکم پر راضی ہو گئے اور ابراہیم نے اسے منہ کے بل زمین پر لٹایا.ہم نے آواز دی.اے ابراہیم ! تو نے اپنی رؤیا کو سچا کر دکھایا.ہم محسنوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۱) صَدَّقْتَ الدُّنْيَا- سیر یا ( شام ، جانب شمالی عرب جس میں بیت المقدس فلسطین ہے) کے ملک میں انسانی قربانی کا رواج تھا چنانچہ میسی تعلیم کی جڑ بھی یہی ہے.اسی بناء پر وہ خدا کے اکلوتے بیٹے کی قربانی پر ایمان لاتے ہیں.ہند میں بلید ان کا رواج تھا.جے پور میں اب بھی اس جگہ روز بکرا ذبح ہوتا ہے.

Page 52

حقائق الفرقان ۴۲ سُوْرَةُ الصَّقْتِ حضرت حق سبحانہ نے حضرت ابراہیم کو ایک رؤیا دکھلائی کہ وہ اپنا بیٹا ذبح کرتے ہیں.اس کا اعلان کیا.اس پر تیار ہو گئے.پھر بیٹے کی جگہ حسب تفہیم الہی بکرا ذبح کیا.اور یہ سمجھایا کہ اس کی اصل یہ ہے کہ خدا کا مکالمہ پہلے ایسے رنگ میں ہوا کہ لوگ سمجھ نہیں سکے کہ بیٹے کی قربانی سے کیا مراد ہے.اور اس طرح پر اس بد رسم کا ایک راستباز کے عمل سے قلع قمع ہوا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰، صفحه ۲۱۳) دو دو ۱۰۷ تا ۱۱۲ - إِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلوُا الْمُبِينُ - وَفَدَيْنَهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ - وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ - سَلَامٌ عَلَى إِبْرَاهِيمَ - كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ - ترجمہ.بے شک یہ تو کھل کھلا انعام ہے.اور ہم نے اس کو ذبح عظیم کے بدلے چھڑالیا.اور ہم نے باقی رکھا ذکر خیر اس کے لئے پچھلے لوگوں میں.سلام ہوا ابراہیم پر.اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں محسنوں کو.کچھ شک نہیں کہ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھا.تفسیر.یہ بڑا بھاری امتحان اور انعام ہے اور ہم نے اس کے عوض میں ایک بڑی قربانی کو فدیہ دیا.اور آئندہ آنے والی نسلوں میں اس کا ذکر خیر باقی رکھا.ابراہیم پر سلامتی.ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں.وہ ہمارے مومن بندوں سے تھا.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۱، ۲۲۲) وَفَدَيْنَهُ يذبح عظیم.اس ملک میں بلیدان آدمی کی قربانی ہوتی تھی.اس کے روکنے کے لئے سمجھایا.اس کی بجائے بکرے کی قربانی چاہیے.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ۱۱۳ ۱۱۴ - وَ بَشَرُنُهُ بِاِسْحَقَ نَبِيَّا مِّنَ الصَّلِحِينَ وَ بُرَكْنَا عَلَيْهِ وَعَلَى إسْحَقَ ، وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِمَا مُحْسِنُ وَظَالِمُ لِنَفْسِهِ مُبِينٌ - ترجمہ.اور ہم نے اُس کو اسحق کی بشارت دی جو سنوار والوں میں سے نبی ہوگا.اور ہم نے و اُس پر اور اسحق پر برکتیں نازل کیں.اور ان کی اولاد میں سے بعض نیکو کار ہیں اور بعض اپنا نقصان

Page 53

حقائق الفرقان ۴۳ سُورَةُ الصَّقْتِ کرنے والے ہیں صریح.تفسیر - وَ بَشَّرْنَهُ بِاسْحق.یہ غلام حلیم کے علاوہ دوسرے بیٹے کی بشارت ہے.وبركنَا عَلَيْهِ.اس اولا دابراہیم پر جس کا نام اسمعیل تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) ۱۲۱ - سَلامُ عَلَى مُوسى وَهُرُونَ - ترجمہ.کہ موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو.تفسیر.کسی نبی کا بیان دوبارہ ہوتا ہے تو دراصل اس میں پیشگوئی ہوتی ہے.احکام فقیہ کے متعلق تو قریباً ڈیڑھ سو آیات ہیں.ان کے علاوہ جو آیات ہیں ان سے مقصود ہے کہ انسان با خدا انسان بن جاوے اور وہ اخلاق فاضلہ سیکھے.اللہ سے پاک تعلق پیدا کرے.سَلَامٌ عَلَى مُوسى وَهُرُونَ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلَى عِبَادِ اللهِ الصَّلِحِینَ.التحیات میں ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۳) ١٢٦ - اَتَدعُونَ بَعْلاً وَ تَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ - ترجمہ.کیا تم بعل کو پوجتے ہو اور اَحْسَنُ الْخَالِقِین کو چھوڑتے ہو ( یعنی بہت ہی اچھے خالق ).تفسیر.بغلا.سورج کو بھی ایک دیوتا مانا گیا ہے.سورج کی ہیکل کو بعل کہتے ہیں.چاند کو وہ لوگ مؤنث سمجھتے تھے اور سورج کو مذکر.بعل مرد کو کہتے ہیں.اَحْسَنَ الْخَالِقِینَ.تمام اندازہ کرنے والوں سے خوبیوں میں بڑھ کر.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۳) ۱۴۰ تا ۱۴۴ - وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ إِذْ اَبَقَ إِلَى الْفُلْكِ الْمَشْعُونِ.فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الْمُرْحَضِينَ - فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمُ - فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَيْحِينَ - ترجمہ.اور بے شک یونس بھی رسولوں میں سے تھا.جب (وہ اپنے بادشاہ سے ناراض ہو کر) بھری

Page 54

حقائق الفرقان ۴۴ سُورَةُ الصَّفت ہوئی کشتی کی طرف چلا گیا.تو انہوں نے قرعہ اندازی کی تو وہ دریا میں پھینکا گیا.پھر مچھلی نے اس کا لقمہ کر لیا اور وہ (اپنے آپ پر ) ملامت کرنے لگا.تو وہ اگر تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا.تفسیر.صوفیوں نے لکھا ہے کہ یہ یونس کا معراج ہے.نینوا ایک شہر تھا.ایک لاکھ بیس ہزار اس کی آبادی تھی.وہ دارالسلطنت تھا.حضرت یونس وہاں بھیجے گئے.آپ نے وعظ کیا.لوگوں نے ممانعت کی تو حضرت یونس نے کہا کہ تم پر عذاب آوے گا.جب وہ دن آئے تو ایسی کچھ بات نکلی کہ ان کے دل میں خدا کی صفت رحمانیت کا جوش آ گیا تو وہ سمجھے.ممکن ہے.اللہ تعالیٰ عذاب ٹال دے.اس لئے وہ علیحدہ ہو گئے.ادھر لوگوں نے عذاب کے نشان دیکھتے ہی تضرع وزاری شروع کر دی اور وہ عذاب ٹال دیا گیا.جب حضرت یونس نے سنا کہ عذاب نہیں آیا تو وہ لوگوں سے بھاگے کہ خواہ مخواہ خدائے کریم کی مصالح و غریب نوازیوں سے ناواقف لوگ اعتراض کریں گے.ابق.جو غلام بغیر رضا مندی اپنے آقا کے نکل جاوے.اسے ابق کہتے ہیں.فَسَاهَمَ.قرعہ کس طرح ڈالا.یہ میں نے قرآن وحدیث میں نہیں پڑھا.فَالْتَقَمَةُ الْحُوتُ - حدیثوں سے تو نہیں مگر تفاسیر سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کی ایڑی کو مونھ میں لیا.مِنَ الْمُسَيْحِينَ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبياء : (۸۸) दु کہنے والے.تیرنے والوں سے بھی معنے کئے گئے ہیں مگر میں ان معنوں کی جرات نہیں کر سکتا.کیونکہ دوسرے موقع پر اس کی تصریح میں فرما دیا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ سُبْحَنَكَ پڑھتے تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) ۱۴۷ - وَانْبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّنْ يَقْطِينِ - ترجمہ.اور اس کے لئے تربوز یا لکڑی وغیرہ کی بیل اُگا دی.لے کوئی سچا معبود نہیں تیرے سوا.تیری پاک ذات بے عیب ہے میں ہوں کمزور مصیبتوں میں پھنسا ہوا.

Page 55

حقائق الفرقان ۴۵ سُوْرَةُ الصَّقْتِ تفسیر.يَقْطِينِ.ایسے درخت کو کہتے ہیں جس کا پھل بڑا ہو اور بہیل ست.پیٹھا ، کردو ، تربوز سب کو یقطین کہتے ہیں.دریا کے کناروں پر ایسی بیلیں لوگ لگا دیتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) ۱۴۸ - وَاَرْسَلْنَهُ إِلَى مِائَةِ أَلْفِ اَوْ يَزِيدُونَ - ترجمہ.اور اس کو ایک لاکھ اور زیادہ کی طرف رسول بنا کر بھیجا.تفسیر.اَوْ يَزِيدُونَ.بلکہ زیادہ.بہر حال لاکھ سے کم نہ تھے...(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) ۱۵۱ - آم خَلَقْنَا الْمَلَبِكَةَ إِنَانًا وَهُمْ شُهِدُونَ - ترجمہ.کیا ہم نے فرشتوں کو عورت ذات بنایا ہے اور وہ گواہ ہیں.تفسیر.وَهُمْ شَهِدُونَ.بہت سے کم عقل لوگ ابتدا خلق پر انکل بازی سے بحث کرتے رہتے ہیں.اللہ نے فرما دیا کہ اس قسم کے مباحث ٹھیک نہیں.قف (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) 199919 -۱۵۵ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ - ترجمہ.تمہیں کیا ہوا یہ کیسا فیصلہ کرتے ہو.تفسیر.مالکھ.اس پر ” قف“ ہے.کہ آدمی خوب کامل کرے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳)

Page 56

حقائق الفرقان ۴۶ سُوْرَةُ صَ سُوْرَةُ صَ مَكيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۃ ض کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے اسم شریف سے جو رحمن و رحیم ہے.۲، ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَ شِقَاقٍ - ترجمہ.ہم ایک صادق کا ذکر کرتے ہیں اور قسم ہے نصیحت کرنے والے قرآن کی.ہاں جن لوگوں نے انکار کیا، حق کو چھپایا وہ ہیکڑی اور سخت اختلاف میں پڑے ہیں.تفسیر.ص.اللہ تعالیٰ کا نام ہے.ذى الذكر.یہ فطرت ہے کہ انسان بلند پروازی چاہتا ہے.شرافت والے تاریخی آدمی تم بن جاؤ گے.شقاق.رسول سے ہٹ جانے کی راہ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۳) ص - صادق ذى الذكر.فطرت کو جگانے ، بھولی ہوئی باتیں یاد دلانے کیلئے قرآن آیا.مسئلہ تثلیث و کفارہ ، بت پرستی انسان کی فطرت میں ہرگز نہیں.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحہ ۴۷۷) -- كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوا وَ لَاتَ حِيْنَ مَنَاصِ - ترجمہ.( اور انہیں معلوم نہیں) کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی بستیاں اور سنگتیں ہلاک کر ڈالیں تو وہ پکار پکار کے چلائے جب کہ بھاگنے کا موقع ہرگز نہیں ہے ( خلاصی کا وقت جا تا رہا ).فَنَادَوا.پس چلا اٹھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴)

Page 57

حقائق الفرقان ۴۷ سُورَةُ صَ - وَ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرُ مِنْهُمْ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سْحِرُ كَذَّابٌ - ترجمہ.اور انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ ان کے پاس ایک ڈرانے والا بھی انہیں میں.آیا اور کافروں نے کہا یہ تو دھوکا باز بڑا جھوٹا پائی ہے.تفسیر.مُنذِرُ مِنْهُمْ - حالانکہ ان کے حکماء وعلماء و مقین و پولیس مین و بادشاہ انہی سے ہوتے ہیں.پس رسول کا انہی میں سے آنا فطرت کے خلاف نہیں.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) اور وہ حیران ہوئے کہ انہی میں سے ان کے پاس ایک ڈرانے والا آیا اور ان منکروں نے کہا یہ جھوٹا جادوگر ہے.- اَجَعَلَ الْأَلِهَةَ الهَا وَاحِدًا ۖ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ عُجَابٌ - ترجمہ.کیا اس نے سب معبودوں کو ایک ہی معبود بنادیا.یہ بات تو بہت ہی تعجب کی ہے.تفسیر.دیکھو اس نے متعدد معبودوں کو ایک ہی معبود بناڈالا.یہ تو اچنبھے کی بات ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۹۱ حاشیہ ) تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۹۱ حاشیہ ) بعض لوگوں نے قرآن مجید کی زبان پر اعتراض کیا کہ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ عُجَابُ اور كُبَّارًا اور هروا به خلاف محاور و غیر صحیح الفاظ ہیں.آپ نے فرما یا کہا ہے کسی زبان دان بوڑھے کو بالا و چنانچہ ایک کو مجلسِ نبوی میں لائے.آپ نے اسے فرمایا.بیٹھ جاؤ.جب بیٹھا تو فرمایا.ذرا اٹھنا.پھر بیٹھا تو پھر فرمایا.ذرا آپ اٹھ کر اس طرف تشریف رکھ لیں.جب وہ اس طرف بیٹھا تو پھر آپ نے فرمایا.آپ ذرا یہاں سے اٹھئے اور ادھر آ جائے تو وہ جھنجھلا کر بول اٹھا.يَا محمد أَتَتَّخِذُ فِي هُزُوًا وَانَا شَيْخٌ كُبَّارُ إِنَّ هَذَ الشَيْي عُجَاب.اے محمد کیا تو مجھے خفیف بنانا چاہتا ہے حالانکہ میں ایک بڑھا، بڑی عمر کا آدمی ہوں.یہ بڑی عجیب بات ہے.اس طرح پر وہ تینوں الفاظ اس زبان دان تجربه کار ، فصیح و بلیغ بڑھے کے منہ سے نکلوائے.اور معترضین نادم ہو کر دم بخودرہ گئے.تشخید الاذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ء صفحه ۸۵)

Page 58

حقائق الفرقان ۴۸ سُوْرَةُ صَ - وَانْطَلَقَ الْمَلَا مِنْهُمُ اَنِ امْشُوا وَاصْبِرُوا عَلَى الهَتِكُمْ إِنَّ هَذَا لَشَيْءٍ يُرَادُ - ترجمہ.اور ان کے رعب دار سردار چلائے اور ان میں کے بڑے بڑے امراء بول اٹھے تو چلے جاؤ اور اپنے معبودوں پر قائم رہو.بے شک اس بات میں تو کچھ غرض ہے ( یعنی یہ دین مطلبی ہے).تفسیر - انطلق.بول اٹھے.شَى يُرادُ.کچھ اعتراض ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۴) اور ان کے سردار یہ کہتے ہوئے (انہیں) چلے کہ چلو اپنے معبودوں پر پکے رہو کیونکہ یہ ایک بات تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۹۱ حاشیہ ) ہے جس کا منشاء کچھ اور ہے.وَ انْطَلَقَ الْمَلا.بول اٹھے سردار.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ٨- مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقُ - ترجمہ.یہ بات ہم نے دوسرے مذہبوں میں نہیں سنی ( یا نصاری وغیرہ کے مذہب میں نہیں سنتے ) بے شک یہ تو ایک بناوٹی بات ہے.تفسير - في الملةِ الأخرة کسی دوسرے کے مذہب میں مجوس عیسائی.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷) ہم نے پچھلے دین میں یہ بات نہیں سنی.یہ تو کچھ گھڑت سی معلوم ہوتی ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۱۹۱ حاشیہ) ج - وَأَنْزِلَ عَلَيْهِ الذِكرُ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُمْ فِي شَكٍّ مِّنْ ذِكْرِى بَلْ لَمَّا يَذُوقُوا عَذَاب ترجمہ.کیا اس پر نازل کیا گیا ہے قرآن ہم سب میں سے ( یعنی یہ شخص خود مستثنی کیوں ہو رہا ہے ) نہیں وہ تو میرے قرآن ہی سے شک میں ہیں.ہاں انہوں نے چکھا نہیں میرا عذاب.

Page 59

حقائق الفرقان ۴۹ سُوْرَةُ صَ تفسیر.الذِكرُ.یہ قابل ذکر ہو جائے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) قف 11- اَم لَهُمْ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۖ فَلْيَرْتَقُوا فِي الْأَسْبَابِ - ترجمہ.( یعنی کیا یہ بڑے متقی ہیں ) یا ان کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں اور ان چیزوں میں جوان کے درمیان ہیں تو انہیں چاہئے کہ ( آسمان میں رسی لٹکا کر ) اس پر چڑھ کر ( تمہاری ) ترقی کے اسباب کاٹ دیں.تفسیر.فليز تقوا.کوئی لئے بنا کر آسمان پر چڑھیں اور نصرت کو روکیں.اپنے آپ کو پھانسی دے دیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ۲ مورخه ۳، ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۴) ۱۲ - جند ما هُنَالِكَ مَهْزُوم مِّنَ الْأَحْزَاب - ترجمہ.یہ تو ان لشکروں میں سے ایک لشکر ہے جو وہاں شکست دے کر بھگایا جائے گا.جند - جھنڈ.دشمن ایک بڑا گروہ ہوں گے.یہ ایک پیشگوئی ہے.هنالك.مدینہ منورہ کی طرف اشارہ ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوهُ مِنَ الْأَحْزَاب - احزاب ( جماعتیں ) احزاب کے بڑے بڑے لشکر اس جگہ شکست کھا جائیں گے.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقرب یہ سب لوگ شکست دیئے جائیں گے اور بھاگ نکلیں گے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۷ حاشیه ) جُنْدٌ مَّا هُنَالِكَ مَهْزُوم مِّنَ الْاَحْزَاب.سورۃ احزاب میں وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قالوا هذا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ ( الاحزاب : ۲۳) یہ مگی آیت ہے هنالك سے اشارہ فرمایا.تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۷۷) مکہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوگی.لے اور جب دیکھا ایمانداروں نے لشکروں کو کہنے لگے کہ یہ وہی ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا تھا اللہ اور اس کے رسول نے.

Page 60

حقائق الفرقان سُوْرَةُ صَ ١٦ - وَمَا يَنْظُرُ هَؤُلَاءِ الاَ صَيْحَةً وَاحِدَةً مَّا لَهَا مِنْ فَوَاقٍ - ترجمہ.اور یہ لوگ نہیں راہ دیکھ رہے ہیں مگر ایک سخت صدمہ کی جس سے مہلت آرام کی نہیں ملے گی.تفسیر.مَا يَنظُرُ.میں نے لوگوں کو بہت سمجھایا ہے کہ جب قوم محدود دائرہ میں ہوتی ہے اور اس کے سامان محدود ہوتے ہیں تو ان کی زبان بھی محدود ہوتی ہے.جب ان کے تعلقات بڑھ جاتے ہیں اور دوسری قوموں سے تعلقات بڑھتے ہیں تو وہ لفظ بھی وسیع ہو جاتے ہیں.فواق.ایک اونٹنی کو دوھ کر جب دوسری کو دوہتے ہیں اور تیسری کو.اور پھر اسی طرح کئی کو ڈوھ کر جب پھر پہلی کو دوہنے لگے تو اس فاصلہ کو فواق کہتے ہیں.اسی طرح جب لڑائی میں ایک شخص مہلت مانگتا ہے تو اس کو فواق کہتے ہیں.یہاں بھی عذاب کی مہلت کا ذکر ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۴) ۱ - اصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَاذْكُرُ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْأَيْدِ ۚ إِنَّهُ أَوَّابٌ - جمہ.یہ جو کچھ کہتے ہیں تو اس پر صبر کرتارہ اور ہمارے بندے داؤد کا حال یاد کر لے جو بڑا قوت والا تھا اور وہ بڑا رجوع کرنے والا تھا.تفسیر - اصْبِرْ عَلَى مَا يَقُولُونَ.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن کبھی نگ و ناموس پر کبھی جان و مال پر ، کبھی مال و اسباب پر ، کبھی دین پر حملہ کرتے ہیں.اور ان حملات کیلئے بعض اوقات مامور کڑھتے ہیں کہ یہ کیوں ایسی شرارتیں کرتے ہیں.اللہ تعالی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تسکین فرماتا ہے کہ تیرے پاس کھلیں نہیں اور داؤد کے پاس تھیں.تیرے پاس فوج نہیں اور داؤد کے پاس تھی.داؤد کی قوم اس سے ملی ہوئی تھی.تیری قوم تیرے ساتھ نہیں.داؤد کے پاس مال و اسباب اور بادشاہت تھی اور تیرے پاس نہیں.شریر لوگ جبکہ داؤد کا مقابلہ کر لیتے تھے تو تیرے جیسے انسان پر اگر حملہ کرلیں تو کیا بات ہے.جس طرح داؤد عفو سے کام لیتے تھے.اسی طرح تم بھی عفو سے کام لو.داؤد کے زمانہ میں جس قدر ہولی لینڈ اور شام کے پہاڑ تھے سب ان کے ماتحت تھے.یہاں تک کہ ل THE HOLY LAND ارض مقدسه ( فلسطین)

Page 61

حقائق الفرقان ۵۱ سُوْرَةُ صَ جو لوگ متنفر تھے وہ بھی ان کے حضور میں حاضر تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۴) قرآن کریم میں ہے حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے وَاذْكُرُ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْاَيْدِ إِنَّهَ أَوَّابٌ (ص: ۱۸) یعنی یاد کرو ہمارے بندے داؤد کو بہت ہاتھوں والا ( بڑا طاقت ور ) وہ جناب الہی کی طرف توجہ کرنے والا ہے.اور ید کے معنے نصرت وغیرہ کے بھی ہیں.راغب میں ہے.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - الفتح : ١) أَى نُصْرَتُهُ وَنِعْمَتُهُ وَقُوتُه - ید کے معنے ملک وتصرف کے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاح - (البقرة: ۲۳۸) ان معنوں میں سے ہر ایک یہاں چسپاں ہو سکتا ہے اور عام انسانی بول چال میں بھی ہاتھ کا لفظ ان سب معنوں پر بولا جاتا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۷۲، ۲۷۳) ۲۰ - وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً كُلٌّ لَه أَوَابٌ - ترجمہ.اور سخت متنفروں کو بھی جمع کیا تھا.سب کے سب اس کی وجہ سے اللہ کی طرف جھکنے والے تھے.تفسیر.الطير - تنفرلوگ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۴) ۱۰ ۲۱ - وَشَدَدْنَا مُلكَهُ وَأَتَيْنَهُ الْحِكْمَةَ وَفَصْلَ الْخِطَاب - ترجمہ.اور ہم نے اس کی سلطنت کو مضبوط کیا تھا اور اس کو عقل و دانائی عطا فرمائی تھی اور وہ فیصلے خوب کرتا تھا.تفسیر - فصل الخطاب.فیصلہ کر دینے والی بات.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) لے اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں کے اوپر ہے.ے یا وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گروہو.

Page 62

حقائق الفرقان ۵۲ سُوْرَةُ صَ ۲۲ - وَهَلْ اَتْنَكَ نَبَوُا الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ - ترجمہ.اور کیا تیرے پاس اس کے دشمن کی خبر پہنچی جو قلعہ کی دیوار پھاند کر آئے.وَهَلْ الكَ.ان کے دشمن کی خبر بھی ہے کہ دشمن اس قلعہ اور فصیل پر بھی کود پڑے.تفسیر - تمہارے پاس تو کوئی قلعہ اور فصیل بھی نہیں ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) إذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَاب.فرماتا ہے بایں ہمہ ساز و سامان حضرت داؤد پر دشمن نے حملہ کر دیا تھا.اور آپ کے پاس (اے نبی ) کوئی قلعہ وغیرہ نہیں.اللہ حافظ ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۷-۴۷۸) حضرت داؤ د خلیفتہ اللہ کا مقابلہ بعض ناعاقبت اندیشوں نے کرنا چاہا.یہاں تک کہ وہ دیوار میں پھاند کر ان کے قلعہ میں گھس آئے.مگر چونکہ اللہ تعالیٰ جن کو خلعتِ خلافت سے سرفراز فرماتا ہے.اُن کو ایک خاص رعب و داب بھی دیتا ہے.اس لئے وہ داخل ہوتے ہی ایسے گھبرائے کہ سوائے ایک جھوٹا قصہ تراشنے کے کچھ بن نہ آیا.چنانچہ قرآن مجید میں ذکر آیا.وَهَلْ أَنكَ نَبَوُا الْخَصمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ - إِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوا لَا تَخَفْ خَصْمِن بَغَى بَعْضًا عَلَى بَعْضٍ ( ص :۲۲، ۲۳) (اور کیا ان دشمنوں کی خبر پہنچی.جب وہ محراب میں دیوار کود کر آئے.جب داؤد “ پر داخل ہوئے تو وہ ان سے ڈرا.انہوں نے کہا.نہ ڈر.دو دشمن ہیں.زیادتی کی ہے ایک نے دوسرے پر ) آخر یہ دشمن بھی لعنتی ہی بنے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لُعِنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِ يُلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُدَ وَ عِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَ كَانُوا يَعْتَدُونَ (المائده : ٧٩) تشحی الا ذبان جلد ۶ نمبر ۱۱.ماہ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۴۳۲.۴۳۳) لے لعنتی ہوئے وہ جنہوں نے کفر کیا بنی اسرائیل سے داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان پر.یہ اس لئے کہ انہوں نے سرکشی کی اور حد سے بڑھتے تھے.

Page 63

حقائق الفرقان ۵۳ سُورَةُ صَ ۲۳ - اِذْ دَخَلُوا عَلَى دَاوُدَ فَفَزِعَ مِنْهُمْ قَالُوا لَا تَخَفْ خَصْمِن بَغَى بَعْضًا عَلَى بَعْضٍ فَاحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَا إِلَى سَوَاءِ الصِّرَاطِ - ترجمہ.اور وہ داؤد کے پاس اندر پہنچے تو وہ چوکس ہو گیا ان سے.انہوں نے کہا آپ کیوں گھبراتے ہیں کیوں چوکنا ہوتے ہیں ہم تو دو دشمن ہیں زیادتی کرتے ہیں ہم ایک دوسرے پر تو آپ حق حق فیصلہ کر دیجیئے اور تاخیر نہ ڈالئے اور ہمیں سیدھا راستہ بتا دیجیئے.تفسیر - إِذْ دَخَلُوا.ایک دفعہ دشمن حضرت داؤد پر اچانک کود پڑے.یہ بھی مستعد بیٹھے تھے.جب ان دشمنوں نے دیکھا کہ یہ مستعد بیٹھے ہیں.تو کہنے لگے کہ حضور ہم ایک مقدمہ فیصل کرانے آئے ہیں.گھبرا کے کہتے ہیں کہ آج ہی فیصل کردیجئے.تاریخ کو بڑھائے نہیں.جھگڑا یہ ہے کہ اسکی سود نبیاں ہیں.دیکھو کیسا جھوٹا مقدمہ بنالیا.لیکن انبیاء کیسے رحیم وکریم ہوتے ہیں.فرماتے ہیں کہ اس نے ظلم کیا ہے کہ تمہاری ایک دنبی کو مانگتا ہے.باوجودیکہ اس کے پاس ہیں.اب حضرت داؤد د کوفکر ہوا کہ ہمارے ملک میں بڑا فتنہ ہے.یہاں تک کہ لوگ ہم پر بھی حملہ آور ہونے لگے.تب انہوں نے جناب الہی میں دعا کی.ہم نے حکم دیا کہ داؤ د تو کوئی اپنی کوششوں سے خلیفہ ہوا ؟ ہم نے تجھ کو خلیفہ بنایا.اس سے بڑی نصیحت یہ نکلتی ہے کہ حوصلہ کرو اور دشمن کو حوالۂ بخدا کرو.دعائیں مانگو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳، ۱۰ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۴) قَالُوا لَا تَخَفْ.جب جاگتا پایا تو ان دشمنوں نے جو بارادہ قتل آئے تھے ایک بات تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ۲۵ - قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَى نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْخُلَطَاءِ ليبغى بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصلحتِ وَقَلِيلٌ قَاهُم گھڑ لی.وَظَنَّ دَاوُدُ أَنَّمَا فَتَتْهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرِّ رَاكِعَاوَ أَنَابَ - ووط ترجمہ.داؤد نے فرمایا کہ بے شک اس نے تجھ پر ظلم کیا ہے وہ جو دنبی مانگتا ہے اپنی دنبیوں میں

Page 64

حقائق الفرقان ۵۴ سُوْرَةُ صَ ملانے کو.اور بہت سے ساتھی ایسے ہی ہوتے ہیں کہ بعض پر بعض زیادتی کرتے رہتے ہیں مگر ہاں جنہوں نے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے (وہ ایسا نہیں کرتے ) اور ایسے تو تھوڑے ہی ہیں اور داؤد نے خیال کیا کہ ہم نے اُس کو آزمایا ہے تو اُس نے حفاظت مانگی اپنے رب سے اور وہ تو بہ کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑا.تفسیر.سورۃ ص میں چند آیات کے معانی نہ سمجھنے کی وجہ سے حضرت داؤڈ پر تہمت لگادی ہے کہ انہوں نے ایک بی بی کے خاوند کو جنگ میں بھجوا کر مروادیا اور اسکی بی بی سے خود نکاح کر لیا.اور فرشتے انہیں سمجھانے آئے حالانکہ یہ بات ہے کہ وہ ملائکہ نہ تھے بلکہ دشمن تھے کہ دیوار میں پھاند کر آپ کے مکان میں گھس آئے آپ بہت گھبرائے کہ ملک میں انار کسٹوں کا غلبہ ہے اور وہ یہاں تک دلیر ہو گئے ہیں کہ شاہی خیموں میں کو دکر آنے میں تامل نہیں کرتے.مگر معا شاہی رعب ان پر غالب آیا اور انہوں نے ایک جھوٹی بات بنالی.آپ نے نہایت متانت سے انہیں جواب دیا اور ظَنَ دَاوُدُ انْمَا فَتَتْهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہ کے یہ معنی ہیں کہ جب داؤد نے یقین کیا کہ رعایا میں بغاوت اور بدامنی کا زور ہے تو سمجھا کہ آخر کوئی کمزوری اور نقص ہے جس کی وجہ سے حکومت کے رعب و جلال میں فرق آ رہا ہے.اس لئے خدا سے حفاظت طلب کی.اور خدا کے حضور گر پڑے تو خدا نے آپ کی حفاظت کی اور اپنے تسلی بخش کلام سے ممتاز فرمایا.چنانچہ ارشاد ہوتا ہے کہ خلیفہ تو ہم نے تجھے بنایا.ان لوگوں کی شرارتوں کا کیا خوف اور کیوں پریشان ہوتے ہو؟ تم حق حق فیصلہ کرتے جاؤ اور عدل و انصاف پر قائم رہو.تمہاری ہی فتح ہوگی.( تفخیذ الا ذبان جلد نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ء صفحه ۸۶، ۸۷) اِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا.افسوس مفسرین پر جنہوں نے حضرت داؤد کے بارے میں قصے لکھے.حالا نکہ اللہ فرماتا ہے.انبیاء تو کجا مومن بھی دوسرے کے حق پر حملہ نہیں کرتے.انا فتنہ.یعنی ضرور مملکت میں کچھ نقص ہے جو دشمن کو جرات ہوئی.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸)

Page 65

حقائق الفرقان ۵۵ سُورَةُ صَ b ۲۷ - يدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَ لا تَتَّبِعَ الْهَوَى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدُ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ - ترجمہ.اے داؤد! ہم نے تجھ کو بنایا نائب ملک میں پس تو حکم کر لوگوں میں حق کا اور گری ہوئی خواہشوں کی پیروی نہ کر تو وہ تجھے گمراہ کر دے گی اللہ کی راہ سے بے شک جو لوگ بہکاتے ہیں اللہ کی راہ سے ان کے لئے سخت عذاب ہے کیونکہ انہوں نے بھلا دیا ہے حساب کے دن کو.تفسیر - إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً - جو خلیفہ بناتا ہے.اللہ ہی بنا تا ہے.حتٰی کہ باپ دادا کا خلیفہ جواس کی اولاد ہے وہ بھی اللہ چاہے تو بنائے ورنہ موت وغیرہ سے نہ بن سکے.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ۲۹،۲۸ - وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلًا ۖ ذَلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ - آم نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفَجَارِ - ترجمہ.اور ہم نے نہیں پیدا کیا آسمان اور زمین اور جو اُن کے اندر ہے بے کار یہ ان کا خیال ہے جو حق کو چھپاتے ہیں.بہت افسوس ہے کافروں کے لئے آگ کے عذاب سے.کیا ہم کر دیں گے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے بدکاروں کے جیسا جو فساد پھیلاتے پھرتے ہیں ملک میں یا ہم بنادیں گے متقیوں کو ظاہر بدکاروں کے جیسا ( یعنی ایسا نہیں کریں گے ).تفسیر.حضرت داؤد کے دشمن ان کے قلعہ پر کود پڑے تھے.اور ان کے سامنے جھوٹا عذر یہ کر دیا تھا کہ ہمارا مقدمہ فیصل کر دیجئے.اس موقع پر لوگوں نے بڑی دور از کار باتیں بیان کی ہیں.حضرت داؤد کی زبانی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی کی دُنبی ناجائز طور پر لے لینا جائز نہیں.پھر بھلا وہ قصے جو ان کی نسبت مشہور ہیں.تو حضرت داؤد نبی کہاں ہو سکتے تھے.حضرت سلیمان کے بعد ان کے جانشین کے پاس امراء آئے.بعضوں نے کہا کہ ہم نے آپ کے باپ اور دادا کے زمانہ میں

Page 66

حقائق الفرقان ۵۶ سُورَةُ صَ خدمات کی ہیں.آپ ہماری رعایات رکھیں.اس جانشین کے مصاحب بڑے کمینے تھے.انہوں نے کہا کہ اتفاق سے یہ اس وقت جمع ہو گئے ہیں.ان سب کو یہیں ختم کر دو.اس جانشین کا نام یر بعام تھا.اس نے کہا کہ نہیں.انہوں سبھوں نے مل کر یعنی بنی اسرائیلی قوموں نے مل کر اسی وقت بغاوت کی.پاک دوست سچی دعاؤں سے میسر آتے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ پاک دوست بچی دعاؤں سے میسر آتے ہیں.وَمَا خَلَقْنَا.یہ خیال کہ بہت سی چیزیں بیکار ہیں.یہ کافروں کا گمان ہے نہ مومن کا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) -۳۰ - كِتَبُ اَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ مُبْرَكَ لِيَدَّبَّرُوا أَيْتِهِ وَلِيَتَذَكَرَ أُولُوا الْأَلْبَابِ - ترجمہ.قرآن شریف ایک بابرکت کتاب ہے ہم نے اس کو تیری طرف اتارا تا کہ لوگ اس کی آیتوں میں بہت غور کریں اور عقلمند لوگ اس سے نصیحت پکڑیں ( اور عمل کریں).تفسیر.لِيَدَّبَّرُوا.لوگ اپنے دماغ سے بڑے بڑے کام لیتے ہیں لیکن قرآن کریم میں تدبر نہیں کر سکتے.حضرت داؤ د بُرے نہ تھے.اگر بڑے ہوتے تو ان کو سلیمان جیسا بیٹا عطا نہ ہوتا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۴) ۳۳ ۳۴ - فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي ۚ حَتَّى تَوَارَتُ بِالْحِجَابِ - رُدُّوهَا عَلَى فَطَفِقَ مَسْعًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ - ترجمہ.( گھوڑوں کو دیکھ کر شکریہ کے طور پر ) سلیمان نے کہا میں نے ذکر الہی کے لئے ( یعنی جہاد میں کام آنے کے واسطے) ان سے محبت کی ہے یہاں تک کہ وہ آڑ میں ہو گئے.حکم دیا کہ ان کو میری طرف لوٹالا ؤ پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر نے لگا.تفسیر.حضرت سلیمان کی نسبت بعض لوگوں نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپکی عصر کی نماز قضاء ہوگئی تو گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں کو تلوار سے اڑا دیا.یہ مجنونانہ فعل ایک نبی کی شان سے بعید ہے.بات یہ ہے کہ آپ گھوڑوں کا معائنہ فرمارہے تھے.آپ نے فرمایا کہ حب بھی دو قسم ہے.بعض حبیں

Page 67

حقائق الفرقان ۵۷ سُورَةُ صَ دکھ کا موجب ہوتی ہیں.جیسے عشق.مگر میری یہ جب جوان گھوڑوں سے ہے یہ پسندیدہ حب ہے کیوں کہ ان سے میں اپنے مولیٰ کو یاد کرتا ہوں حدیث شریف میں آیا ہے الْخَيْلُ مَعْقُوْدْ فِي نَوَاصِيْهَا الْخَيْرُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ آپ خدا تعالیٰ کے فضل و احسان بیان کرنے میں مشغول رہے اتنے میں گھوڑے سامنے سے گزر گئے ( توارَتْ بِالْحِجَابِ ) آپ نے فرمایا انہیں پھر واپس لاؤ.جب پھر گزرنے لگے تو آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیر نے لگے.گھوڑوں کو پیار کرنے کا یہی طریق ہے.اگر مسیح کے معنے تلوار مارنے ہی کے ہوں.تو پھر سب سے پہلے وضو کرنے والے ہی اپنی گردن کاٹ لیا کریں.تشخیذ الا ذہان جلد ۷ نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ صفحہ ۸۷) جب ان کے سامنے پچھلے پہر گھوڑے پیش کے گئے تو انہوں نے وعظ فرمایا کہ مجھ کو گھوڑوں کی محبت خدا کیلئے ہے.یہاں تک کہ سوار ان کو جو پھیر رہے تھے وہ اتنی دور لے گئے کہ نظروں سے غائب ہو گئے.آپ نے حکم دیا کہ لوٹاؤ.ان گھوڑوں کو تھپکی دیتے تھے فَطَفِقَ مَسحا کے یہ معنے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳، ۱۰/ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۴) عَنْ ذِکرِ ربّی.اللہ کیلئے جہاد کا سامان ہونے کی وجہ سے گھوڑوں سے پیار کرتے ہیں.تَوَارَتْ بِالْحِجَاب - معائنہ ہو رہا تھا سوار آگے نکل گئے.فرمایا.واپس لاؤ.فَطَفِقَ مَسْعًا.جو لوگ اس کے معنے تلوار کرتے ہیں وہ وضو میں وَامْسَحُوا بِرُءُ وسلم کی آیت کی تعمیل بھی اسی طرح کریں کہ اپنے سر پر تلوار چلالیا کریں.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ۳۵ ، ۳۶ - وَ لَقَدْ فَتَنَّا سُلَيْمَنَ وَ الْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيّهِ جَسَدًا ثُمَّ انابَ - قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِى إِنَّكَ انْتَ الْوَهَّابُ - ترجمہ.اور بے شک ہم نے سلیمان کو آزمایا اور اس کی کرسی پر ایک جسم ڈال دیا.اس واسطے سلیمان ہماری طرف رجوع ہوا.اور دعا کی اے میرے ربّ! مجھے پناہ دے، میری حفاظت کر اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیر باندھ دی گئی ہے.

Page 68

حقائق الفرقان ۵۸ سُوْرَةُ صَ مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد کسی کو نہ پہنچے، کچھ شک نہیں کہ تو بہت ہی دینے والا ہے.تفسیر.ان کی کرسی پر وہ شخص قائم ہوا جس میں دینداری کی روح نہ تھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۱۰،۳ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۴) الْقَيْنَا عَلَى كُرْسِيهِ جَسَد اثم آنابَ - آیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ آپ کا بیٹا نالائق تھا.هَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي رِحَدٍ مِنْ بَعْدِی سے مرا در ضا وقرب البہی کا مقام ہے.تشخیذ الاذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۷) لا يَنبَغِي لِحَدٍ مِنْ بَعْدِى : اپنے تقرب کا ملک دو.جو دوسرے کی وراثت میں نہیں آتا انسان اپنے آپ میں ترقی کرے تو بڑی بات ہے.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۷۸) ۳۷ ۳۸ - فَسَخَرُنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِى بِأَمْرِهِ رُخَاءَ حَيْثُ أَصَابَ وَالشَّيطِيْنَ كُل بَناءِ وَغَوَاصٍ - ترجمہ.پھر ہم نے اس کے تابع کر دی قوت اور اقبال کی ہوا کہ وہ اس کے حکم سے جہاں چاہتا نرم نرم اور آہستہ چلتی.اور شیاطین کو تابع کر دیا عمارتیں بنانے والے غوطہ لگانے والے.تفسیر.وَالشَّيطِینَ.دُور کا غوطہ لگانے والوں کو کہتے ہیں.شریر آدمی قید بھی ہو سکتے ہیں اور ہنر ور بھی.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۸) پس مفت کام میں لگادی سلیمان کے ہوا.نرم چلتی اس کے (اللہ کے حکم سے جہاں پہنچنا چاہتا.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۵۵ حاشیه ) قرآن کریم میں حضرت سلیمان کے قصہ میں یہ الفاظ کس قدر وضاحت سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کا سفر بادی جہازوں کے ذریعہ ہوتا تھا چنا نچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فَسَخَرُنَا لَهُ الرِّيحَ تَجْرِى بِاَمرِهِ (ص:۳۷) ہم نے ہوا کو اس کے کام میں لگایا.وہ اس کے حالات اور مقاصد کے موافق چلتی تھی.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جہازوں کے سفر میں باد موافق چلا کرتی تھی.اور اس کے سفر

Page 69

حقائق الفرقان ۵۹ سُورَةُ صَ کامیابی اور شاد کامی کو ہمراہ لئے ہوتی تھی.اور جیسا کہ آجکل یورپ کے سٹیمر باوجود قسم قسم کے بچاؤ کی تدابیر کے آئے دن سمندر کی خونخوار موجوں کے لقمہ تر بنتے ہیں.حضرت سلیمان کو اس کے خلاف کبھی تباہی پیش نہیں آئی.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۰۸) ۴۲.وَاذْكُرُ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّةٌ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَنُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ - ترجمہ.اور ہمارے بندے ایوب کا بھی بیان کر کہ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے سخت شدت کے ساتھ پیاس لگی ہے.تفسیر.تین علم عبرت کیلئے لوگوں نے تصنیف کئے ہیں ان میں سے ایک علم تاریخ ہے.اس علم تاریخ کے لکھنے میں بھی مسلمانوں نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے.مسلمانوں اور عیسائیوں کی علم تاریخ میں یہ فرق ہے کہ عیسائی کسی واقعہ کو دیکھ کر اس کا سبب بھی خود تلاش کرتے ہیں حالانکہ ضرور نہیں کہ وہ اصل سبب اس واقعہ کا ہو.دوسرا نقص یہ ہے کہ وہ اپنے ملک پر سب کا قیاس کر لیتے ہیں حالانکہ ہر ملک میں کچھ نہ کچھ مبالغہ ہوتا ہے.ہمارے ملک میں یہ زیادہ ہے.اب وہاں بھی یہ نقص عام پیدا ہوا ہے کہ ناول کو بھی اصل واقعہ سمجھتے ہیں.ہمارے مؤرخین زیادہ تر شیعہ ہیں.شیعوں میں تقیہ جائز ہے.پھر اس تقیہ کی ان کو خوب مشق ہے اور تبرے کے یہ اب تک شروع سے عادی ہیں.تبرے بازی کی انکل سیکھنی ہو تو ان سے سیکھے.وقائع نعمت خان کو دیکھو جس کا نمک کھایا ہے اسی کے حق میں کہیں گالیاں ہیں.خافی خان تو ہنساتا بھی جاتا ہے.اور تبر ابھی.مؤرخ جب شیعہ ہوتا ہے.تو وہ سنیوں کی خوب خبر لیتا ہے.تاریخوں میں بڑے عبرت کے مقام ہوتے ہیں.سینکڑوں جلد میں مطالعہ کر جاؤ.بعض اوقات سمجھنے میں بڑی مشکل ہوتی ہے.دوسرا حصہ جو بہت نیک حصہ تھا.میں نے علم حدیث میں حَدَّثَنَا مَالِكُ حَدَّثَنَا فُلان وغیرہ پڑھا.ہمارے یہاں بہت سے شخصوں نے اس کو چھوڑ کر عَنْ رَسُولِ اللہ پڑھانا شروع کر دیا.اس سے مدعا یہ تھا کہ ان راویوں کی پرہیز گاری اور تقویٰ اور پاک نمونوں کی اتباع ہو جو اس سلسلہ اسناد میں بیان کئے جائیں لیکن ہمارے ملک میں اس قدر نہ استادوں

Page 70

حقائق الفرقان سُوْرَةُ صَ کو فرصت ہے اور نہ شاگردوں کو.میں نے بعض اوقات بڑے بڑے استادوں سے دریافت کیا ہے کہ اسناد کے سلسلہ کی کتابوں میں سے پانچ مستند کتابوں کا صرف نام تو لے دو.تو نہ لے سکے.تیسری بات قرآن کریم.قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کا ذکر موجود ہے.لوگ جھگڑے کرتے ہیں کہ خضر، آدم ، لقمان بھی تھے یا نہ تھے.حالانکہ اس بحث کی ضرورت ہی کیا ہے.اس شخص کی باتیں جو قرآن کریم نے خوبی کے طور پر بیان کی ہیں.ہم کو چاہیے کہ ان باتوں پر عمل کریں.ایک شخص نے سورہ یوسف میں بیان کیا ہے کہ عشق و حسن تو خدا تعالیٰ کو بھی پسند ہے.اَحْسَنَ القَصَصِ میں فقص.قاف کی زیر سے قصہ کی جمع نہیں ہے.جمع در اصل ق کی زیر سے ہے.سورہ یوسف میں دراصل بیان ہے کہ ایک نوجوان آدمی گھر کی سردار عورت سے کس طرح برتاؤ کرے.کس طرح صبر کرے.کس طرح سلوک کرے.قرآن کریم ہر موقع پر اس قسم کی نصائح بیان فرماتا ہے.مسلمانوں نے قرآن کریم کے بیانات حضرت داؤد کے قصہ میں خداوند تعالیٰ نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک کی تاریخ نہیں رکھی.خطر ناک سفر سے اطلاع دی ہے.وَاذْكُرُ عَبْدَنَا أَيُّوبَ یاد کرو ہمارے ایک بندے کو جس کا نام ایوب تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۵) حضرت ایوب کسی سفر میں گئے تھے.مسنی الشیطن کسی تکلیف کی شکایت کی.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ٤٣ - اُرُكُضُ بِرِجْلِكَ هُذَا مُغْتَسَلُ بَارِدُ وَ شَرَابٌ.ترجمہ.اللہ نے فرمایا تیرا پاؤں زمین پر ماریہ ہے نہانے کے لئے چشمہ ٹھنڈا اور پینے کے لئے.تفسیر.انگض برجلك.اپنے سواری کے جانور کو ایڑی مارو.جلدی چلا ؤ اور پانی کے چشمہ پر

Page 71

حقائق الفرقان پہنچ جاؤ.۶۱ سُوْرَةُ صَ ( تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۷۸) حضرت ایوب کے صبر کا بیان کیا ہے.انبیاء علیہم السلام خدا کے حضور بڑے ادب سے کام لیتے ہیں وہ کسی دکھ کو اس کی طرف منسوب نہیں کرتے.جب وہ خدا کے حضور اپنی تکالیف کے متعلق گڑ گڑائے تو ارشاد ہوا.اركض برجلك.اپنی سواری کو اس سرزمین کی طرف لے چل جہاں آپ کیلئے آرام کے سامان مہیا ہیں اور وہاں اہل و عیال اور احباب اس کی مثل دیئے جاویں گے.اور اپنی سواری کو درخت کی ایسی شاخوں سے جس کے ساتھ پیتے بھی ہوں چلائے جا.مگر اسے ضرر نہ پہنچا.یہ دراصل ایک پیشگوئی تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی معاملہ پیش آنے والا تھا.چنانچہ آپ نے بھی مکہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ تشریف لے گئے.جہاں آپ نے بہت سے اہل اور وفادار احباب پائے.اب بھی جو خدا کی راہ میں ہجرت کرے.اس کے لئے امن و آسائش بموجب وعده الى يَجِدُ فِي الْأَرْضِ مُرغَبًا كَثِيرًا وَسَعَةً - (النساء: ١٠١) موجود ہے اور ہرگز خیال نہ کرے کہ اگر میں اپنا گھر یا اپنے رشتہ دار چھوڑ کر جاؤں گا تو نقصان اٹھاؤں گا.خدا تعالیٰ ایسے شخص کو بہتر سے بہتر احباب اصحاب اور رشتہ دار دے گا.تشخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ ء صفحہ ۸۸) ۴۴ ۴۵ - وَ وَهَبْنَا لَةَ اَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرَى لِأُولِي الْأَلْبَابِ وَخُذُ بِيَدِكَ ضِعْنَا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحُنَتْ إِنَّا وَجَدْنَهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ - ترجمہ.اور ہم نے اس کو دیئے اس کے گھر والے اور اتنے ہی اور دیئے اپنی طرف سے مہربانی فرما کر اور یادگار ہے عقل مندوں کے لئے.اور حکم دیا کہ تو ایک کا ڑیوں کا منتٹھا پکڑ پھر اس سے مار اس کو اور قسم کے خلاف نہ کر.ہم نے اس کو پایا صابر.بڑا اچھا بندہ تھا اور بے شک وہ بڑا رجوع بحق کرنے والا تھا.لے وہ زمین میں بہت کشاکش پائے گا اور بڑی جگہ.

Page 72

حقائق الفرقان ۶۲ سُورَةُ صَ تفسیر - ضفنا.دو چار دس پانچ پتلی پتلی تمھیاں.جس میں پتے بھی آخر پر ہوں.ان کو ایک جگہ کرنا.مثلاً جھاڑو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۵) یہ سورۃ مکی ہے.اشارہ بہ ہجرت.چنانچہ آپ کو مدینہ میں مکہ کی بی بی کے علاوہ مدینہ میں اور بیبیاں بھی دلا دیں.ضعنا.مٹھا ٹہنیوں کا.فَاضْرِبُ به.مارو جانور کو ( اور جلدی پہنچو ).وَلا تَحنَت.مگر ا سے زیادہ تکلیف نہ دو.( تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) دوسری کتابوں کے قصے اور خدا کی کتاب میں جو واقعہ گذشتہ بیان ہو اس میں فرق یہ ہے کہ خدا کی کتاب میں صرف قصہ نہیں ہوتا بلکہ بتایا جاتا ہے کہ جو ایسا کرے گا وہ بھی انہی انعامات سے سرفراز ہوگا.چنانچہ وَ ذِكرى لِأُولِي الْأَلْبَابِ اور كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ایسے پاک کلمات سے ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.تشخیذ الاذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۳ ء صفحہ ۸۷-۸۸) وَاذْكُرُ عِبدَنَا إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ أُولِي الْأَيْدِى وَالْاَبْصَارِ - ترجمہ.اور یاد کر ہمارے بندوں ابراہیم اور اسحق اور یعقوب کو جو بڑی طاقت اور عقل والے تھے.الابصار.بڑی بصیرت والے.فلاسفر اور نبی میں یہ فرق ہوتا ہے کہ فلاسفر تو اپنی تحقیقات میں غلطیاں پاتا ہے اور دوسرے لوگوں کو منع کرتا ہے کہ تم اس غلطی میں نہ پڑنا.یا ہلاک ہو جاتا ہے تو دوسرے لوگ اس سے بچتے ہیں لیکن ایک نبی کو کبھی ایسا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰، صفحه ۲۱۵) -۵۱ جَنْتِ عَدْنٍ مُّفَتَحَةً لَهُمُ الْأَبْوَابُ - ترجمہ.سدار ہنے کے لئے باغ اُن کے لئے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے.ہیں.جَنْتِ عَدْنِ.کے متعلق توریت میں لکھا ہے.جہاں سیحون ، جیحون ، دجلہ، فرات بہتے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۵)

Page 73

حقائق الفرقان ۶۳ سُوْرَةُ صَ ۵۳ - وَعِنْدَهُمْ قُصِرْتُ الطَّرْفِ أَتْرَابُ - اور اُن کے پاس ہوں گی نیچی نظر والی عورتیں محبت اور اطاعت کرنے والیاں ہم عمر.تفسیر - قصرتُ الظرف کسی تاریخ سے ثابت نہیں ہوتا کہ کسی صحابی کی عورت بدکار بنی ہو.کسی لڑائی میں کسی دشمن کے قبضہ میں گئی ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۵) هذَا فَلْيَةٌ وَقُوهُ حَمِيمٌ وَغَسَاقُ - ترجمہ.یہ عذاب ہے تو چکھو کھولتے ہوئے پانی اور پیپ اور سخت سردی ( کا مزہ ).عشاق.بہت سرد پانی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۵) حيم - آ تشک والے کے حلق میں زخم اور پیپ.ناچار ان کو کھانا پڑتا ہے.یہ دنیا میں 699 نظارہ ہے.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ۵۹ - وَأَخَرُ مِنْ شَكلِمَ اَزْوَاجُ - ترجمہ.اور کچھ اسی شکل کی طرح طرح کی چیزیں ( چکھو ).تفسیر.اور کچھ اور اسی شکل کا.طرح طرح کی چیز ہیں.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۳۱ حاشیه ) ٧٠ مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَا الْاَ عَلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ - ترجمہ.مجھ کو کچھ خبر نہ تھی ( کہ میں آسمان میں منتخب ہو رہا ہوں ) جب اعلیٰ درجہ کے فرشتے آپس میں جھگڑتے تھے.تفسیر.کسی نبی ، کسی مامور کے دل میں بھی یہ خواہش پنہاں نہیں ہوتی کہ میں لوگوں کا حاکم بنوں اور بڑا آدمی کہلاؤں.وہ مخلوق سے کنارہ کش اور گوشہ نشین ہوتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ انہیں اپنے حکم سے نکالتا ہے تو وہ مجبور ہو کر پبلک میں آتے ہیں.حضرت موسی کو دیکھو کہ آپ کے دل میں ہرگز یہ بات نہ تھی کہ میں قوم کا امام بن جاؤں.چنانچہ ارشاد ہونے پر عذرو معذرت کرتے اور اپنے بھائی کو أفْصَحُ مِنى - (القصص: ۳۵) سے پیش کرتے ہیں.لے وہ مجھ سے زیادہ صاف زبان ہے.

Page 74

حقائق الفرقان ۶۴ سُوْرَةُ صَ اسی طرح نبی کریم صلم فرماتے ہیں.مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ بِالْمَلَا الْأَعْلَى إِذْ يَخْتَصِمُونَ.مجھے کیا علم تھا کہ ملاء اعلیٰ میں میری نبوت کی نسبت کیا مباحثات ہورہے ہیں جیسا کہ ہر مامور کی بعثت پر آسمانوں میں بڑی بحث ہوتی ہے.تشخیذ الاذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ ء صفحہ ۸۸) مَا كَانَ لِي مِنْ عِلْمٍ - انبیاء کے دل میں ذرا بھر بھی خواہش نہیں ہوتی کہ ہم نبی بنیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۵) ۲ - اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ - ترجمہ.اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں سے میں بنانے والا ہوں ایک آدمی مٹی سے.تفسیر - خالق بشرا.ہر ایک روحانی آدمی کے متعلق یہ ذکر ہے.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) طنین.کیچڑ.پانی اور مٹی ملی ہوتی ہے.طین میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اس کو جس سانچہ میں ڈھالنا چاہیں ڈھل جاتی ہے.اور ہر شکل کو قبول کر لیتی ہے.جو آدم کا بچہ ہے وہ توطین سے بناہوا ہوتا ہے.ایک جگہ فرمایا ہے.من تراب.(آل عمران : ۶۰) یعنی مٹی سے بنایا.اور ایک جگہ فرمایا ہے.من ماء ( فرقان: ۵۵) تم کو پانی سے بنایا.اس لئے مٹی اور پانی مل کر کیچڑ ہی ہوئے.حضرت مسیح بھی فرماتے ہیں کہ میں طین سے تجویز کرتا ہوں.اگر تم میں کوئی طائر کی صفت ہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۶،۲۱۵) ۷۳- فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ - ترجمہ.پس جب میں اس کو بنا چکوں اور اس میں اپنی وحی پھونکوں تو تم اس کے فرمانبردار ہو جانا.تفسیر.فَإِذَا سَويْتُه.جب اپنے کمال کو پہونچ جاؤ.جس قدر پاک روھیں ہوتی ہیں.سب فرماں بردار ہوتی ہیں.جس طرح وہ طین سے بنا.اسی طرح شیطان آگ سے بنا.سانپ اور طاعون کے کیڑے کو شیطان اور جن اسی وجہ سے کہا گیا.

Page 75

حقائق الفرقان سُورَةُ صَ ایک وقت آتا ہے کہ انسان نیکی کرتا کرتا ایسے مقام تک پہونچ جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.پھر انسان بدی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہونچ جاتا ہے کہ خدا اس کی ہدایت سے ہاتھ کھینچتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۶) إِلَى يَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُومِ - ترجمہ.معلوم وقت تک.تفسیر.قیامت تک نہیں.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۷۸) ۸۷ - قُلْ مَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ.ترجمہ.تو کہہ دے میں اس بات پر تجھ سے کچھ نہیں مانگتا اجرت اور نہ میں تکلیف کرنے والوں میں سے ہوں.تفسیر.نبی کے ہر ایک قول وفعل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بناوٹ اس میں بالکل نہیں.اس کی کوئی بات بناوٹ سے نہیں ہوتی.اور نہ اس کا کوئی فعل تکلف سے ہوتا ہے اور نہ وہ خلقت کو نصیحت دنیوی فائدہ اٹھانے کی امید یا نیت پر کرتے ہیں.بلکہ وہ بار بار اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا اجر اللہ پر ہے.چنانچہ سیدنا ومولانا حضرت خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو سنادے.مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلفِينَ.اسی معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ملتا ہے.آپ اپنے بارے میں لکھتے ہیں.ابتداء سے گوشئہ خلوت رہا مجھ کو پسند شہرتوں سے مجھ کو نفرت تھی ہر اک عظمت سے عار پر مجھے تو نے ہی اپنے ہاتھ سے ظاہر کیا میں نے کب مانگا تھا یہ تیرا ہی ہے سب برگ و بار اور آپ میں تکلف اور بناوٹ نام کو نہ تھی.اس کی شہادت ہزاروں آدمی دے سکتے ہیں.نہ تقریر میں کوئی بناوٹ تھی نہ تحریر میں ، نہ لباس میں.اور ان آجری إِلَّا عَلَى اللهِ (هود:۳۰) پر جو عمل فرما یا وہ تو اب بھی ظاہر ہے کیونکہ خاص اپنے لئے باوجود اس قدر روپے کے آنے کے کوئی جائیداد نہیں خریدی

Page 76

حقائق الفرقان ۶۶ سُوْرَةُ صَ اور نہ کوئی نفع اپنی ذات کے لئے مخصوص کیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى عَبْدِكَ الْمَسِيحِ تشخید الاذہان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۹) الْمَوْعُودِ

Page 77

حقائق الفرقان ۶۷ سُوْرَةُ الزُّمَرِ سُوْرَةُ الزُّمَرِمَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ زمر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.تَنْزِيلُ الكتب مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.ترجمہ.یہ کتاب اُس اللہ کی طرف سے اتری ہے جو عزیز و حکیم ہے.تفسیر.لوگ معززوں اور حکیموں کی بڑی قدر کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عزیز وحکیم کی (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۶) کتاب ہے.- إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ - ترجمہ.ہم نے کتاب کو حق کے ساتھ تیری طرف اتارا ہے تو تو اللہ ہی کی عبادت کر اُسی کے لئے خالص دین بنا کر.تفسیر.عبادت.اعلیٰ سے اعلیٰ محبت معبود کی جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی عظمت معبود کی جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کا تذلل معبود کی خدمت میں جس سے پرے کوئی درجہ نہ ہو.ایک برہمو نے مجھ سے کہا کہ آپ مکہ معظمہ کی پرستش کرتے ہیں.میں نے کہا کہ پرستش کے کیا معنے ہیں بتاؤ.اس نے کہا پوجا.میں نے کہا.پوجا کس کو کہتے ہیں.تب اس نے پرستش کے معنے بتائے کہ اس کو کہتے ہیں جس میں دھیان ہو.عظمت ہو.میں نے ایک شخص سے کہا کہ ذرا نماز پڑھ کر دکھاؤ.اس نے نماز پڑھی.میں نے اس برہمو سے دریافت کیا کہ بتاؤ.اس میں مکہ معظمہ کا کوئی دھیان یا عظمت ہے یا دُعا ہے.

Page 78

حقائق الفرقان ۶۸ سُوْرَةُ الزُّمَرِ اختلاف کے دور کرنے کیلئے سب سے بڑی چیز دعا ہے.یہ دعا کا ہتھیار تمہارے ہاتھ میں ہے.اعلیٰ درجہ کے ہتھیار کیلئے زبردست ہاتھ کی بھی ضرورت ہے.ورنہ جھوٹے آدمی کی دعا قبول نہیں ہوتی.ناشکر کی بھی دعا قبول نہیں ہوتی.تم میں سے ہر ایک کو بڑی نعمتوں کے حصے ملے ہیں.شکر گزار بنو.اللہ تعالیٰ کا کوئی بیٹا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کے بیٹے کے یہ معنے ہیں کہ وہ کسی کو معزز بنالے.وووو (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۶) -۴.اَلَا لِلهِ الدِّينُ الْخَالِصُ وَ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِةٍ أَوْلِيَاء مَا تعْبُدُهُم إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللهِ زُلْفَى إِنَّ اللهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فِي مَا هُمْ فِيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَذِبٌ كَفَّارُ - ترجمہ.ہشیار ہو جاؤ کہ خالص دین اللہ ہی کا ہے.اور جنہوں نے اللہ کے سوا اور کارساز بنارکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ان کی پوجا صرف اس لئے کرتے ہیں تا کہ وہ ہم کو اللہ کے نزدیک کر دیں قرب اور مرتبہ میں.کچھ شک نہیں کہ اللہ فیصلہ کر دے گا ان کے درمیان اس بات میں جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں.بے شک اللہ کامیابی کی راہ نہیں دکھا تا جھوٹے نافرمان کو.تفسیر.وسائل وسائط کو تمام دنیا کے مذاہب ضروری تسلیم کرتے ہیں.کا فرومومن ، جاہل وعالم، بت پرست و خدا پرست، سوفسطائی، دہریہ، جناب النبی کا معتقد.غرض سب کے سب وسائل ووسائط کو عملاً مانتے ہیں.کون ہے جو بھوک کے وقت کھانا ، پیاس کے وقت پینا ، سردی کے وقت کوئی دوائی یا گرمی حاصل کرنے کا ذریعہ اختیار نہیں کرتا.مقام مطلوب پر جلدی پہنچنے کیلئے میل ٹرین یا سٹیمر کو پسند نہیں کرتا.اگر مومن صرف حضرت حق سبحانہ کی مخلصانہ عبادت کرتا اور شرک اور بدعت اور اھوا سے پر ہیز کرتا ہے.تو غرض اس کی اُسے ذریعہ قرب الہی بنانا ہوتا ہے.اور بت پرست اگر چہ حماقت سے بت پرست ہے مگر کہتا وہ بھی یہی ہے کہ مَا تَعْبُدُهُم إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلفى (الزمر: ۴) ہم تو ان کو خدا کے قرب کا ذریعہ سمجھ کر پوجتے ہیں.اگر چہ یہ ان کا کہنا اور اس کا عمل درآمد غلط ہی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب صحیحہ بھی ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہیں جن کا مہیا کرنا مومن کا

Page 79

حقائق الفرقان ۶۹ سُوْرَةُ الزُّمَرِ کام ہے.اور ایسے بھی ہیں جن کا مہیا کرنا عام عقلمندوں اور داناؤں کا حصہ ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب ماننا باعث شرک ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب خیال کرنا جہالت اور وہم اور حماقت ہے.تعجب انگیز بات ہے کہ بہت سے فلاسفر، سائنس دان اور حکماء علل مادیہ اور اسباب عادیہ پر بحث کرتے کرتے ہزار ہا نکات عجیبہ اور دنیوی امور میں راحت بخش نتائج پر پہنچ جاتے ہیں.مگر روحانی ثمرات پر جنسی ٹھٹھے کر جاتے ہیں.وجنوب شمال کو قطب اور قطب نما کی تحقیق میں اور اس پر مشرق و مغرب کو چھان مارا ہے اور سورج اور چاند کی کرنوں سے اور روشنیوں سے بے شمار مزے لوٹے ہیں لیکن اگر کسی کو انہی نظاموں سے ہستی باری پر بحث کرتا دیکھ لیں تو اسکے لئے مذہبی جنون اور اس کو مجنون قرار دیتے ہیں.کیسا بے نظیر نظارہ ہے جس کو ایک اسلام کا حکیم نظم کرتا ہے.اشقیاء درکار عقبی جبری اند اولیاء درکار دنیا جبری اندے علم ہندسہ جس کی بناء پر آج انجینئر نگ اور اسٹرانومی معراج پر پہنچ گئی ہے.سوچ لو کیسے فرضی امور سطح مستوی اور نقطہ سے جس کو سیاہی سے بناتے ہیں اور قلم کے خط سے شروع ہوتا ہے.خط استوا ، جدی ،سرطان، افق نصف النہار وغیرہ سب فرضی باتیں ہیں.مگر اس فرض سے کیسے حقائقِ مادیہ تک پہنچ گئے ہیں.لیکن اگر ان بدنصیبوں کو کہیں کہ مومن بالغیب ہوکر دعاؤں اور نبیوں کی راہوں پر چل کر دیکھ تو کیا ملتا ہے! تو ہنس کر کہتے ہیں.کیا آپ ہمیں وحشی بنانا چاہتے ہیں؟ میں نے بارہا ان (مادیوں ) کو کہا ہے.تندرست آنکھ بدوں اس خارجی روشنی اور تندرست کان بدوں خارجی ہوا کے اور ہمارا نطفہ بدوں ہم سے خارج رحم کے بہت دور کی اشیاء بدوں ٹلس کوپ کے بار یک در بار یک اشیاء بدوں مائیکروسکوپ کے.دور دراز ملکوں کے دوستوں کی آواز میں بدوں فونوگراف کے اور ان کی شکلیں بدوں فوٹو گرافی کے نہیں دکھائی دیتیں.اب جبکہ تم ان وسائط کے قائل ہو اور اضطراراً قائل ہونا پڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں وسائط کے منکر ہو؟ خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان کر بھی تم ملک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو؟ افسوس ے آخرت بدبختوں کے لئے ناخوش گوار ہوگی اور دنیا اولیاء کے لئے ناخوش گوار ہے.

Page 80

حقائق الفرقان اس کا معقول جواب آج تک کسی نے نہیں دیا.سُوْرَةُ الزُّمَرِ ناظرین! جس طرح بچے وسائط ہمارے مشاہدات میں ہیں.اسی طرح سیچے وسائط مکشوفات میں بھی ہیں.جس طرح مشاہدات میں الہی ذات وراء الورا ہے اور ضرور ہے.اسی طرح الہی ذات روحانیت میں بھی وراء الورا ہے.اگر روحانیات میں بھی بعض وسائط غلط اور وہم ہیں.تو مشاہدات بھی اس غلطی اور وہم سے کب خالی ہیں! فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کے ارواح کیلئے بطور جان کے ہیں.شیاطین بھی ہلاکت.ظلمت اور جناب الہی سے دوری اور دکھوں کے پیدا کرنے کیلئے بمنزلہ اسٹیم کے اسٹیم انجن کیلئے ہے.( نور الدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۲۶۶،۲۶۵) کفر کے معنے ناشکری کے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۶) ط - لَو اَرَادَ اللهُ أَنْ يَتَّخِذَ وَلَدَ الاصْطَفَى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبُحْنَهُ هُوَ اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - ترجمہ.اگر اللہ چاہتا کہ کسی کو بیٹا بنالے تو انتخاب کر لیتا اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہتا خود ہی.وہ تو پاک ذات ہے ( یعنی اس کا کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی ) اور وہی ہے اکیلا ز بر دست غالب.تفسیر - لاصْطَفى مِنَا يَخْلُقُ.بیٹا بنانے کے بھی معنے ہیں کہ منتخب کر لے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) خَلَقَكُم مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَنِيَةَ اَزْوَاجِ ، يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقِ فِي ظُلمتِ ثَلَتْ ذَلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ ۚ فَأَنى تُصْرَفُونَ ترجمہ.اُس نے پیدا کیا تم کو ایک ہی ذات سے پھر بنایا اسی کی قسم سے اس کا جوڑا اور تمہارے واسطے بھولے جانوروں کے آٹھ جوڑے اتارے.وہ تم کو بناتا ہے تمہاری ماؤں کے پیٹ میں ایک

Page 81

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الزُّمَرِ طرح کے بعد دوسری طرح تین اندھیروں میں.یہ اللہ تمہارا رب ہے اسی کا ملک ہے.کوئی بھی سچا معبود نہیں اس کے سوائے تو تم پھر کہاں پھرے جاتے ہو.تفسیر.جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا.اس کی قسم سے خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (انبیاء :۳۸) کے یہ معنے نہیں کہ انسان عجل کا بیٹا ہے.تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۸) ١٠ ـ آمَنْ هُوَ قَانِتَ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوا رَحْمَةً رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِى الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أولوا الألباب - ترجمہ.کیا ( ناشکر مشرک بہتر ہے یا ) وہ جو عبادت میں لگا ہوا ہے رات کے حصوں میں سجدہ کرتا ہے، کھڑا ہوتا ہے، انجام کار سے ڈرتا ہے اور رب کی رحمت کا امیدوار ہے.کہہ دو کہیں برابر ہو سکتے ہیں جاننے والے اور نہیں جاننے والے اس کے سوا نہیں کہ نصیحت تو عقل مند ہی حاصل کرتے ہیں.تفسیر قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.مخاطب! تو کہ بھلا کہیں علم والے اور جاہل بھی برا بر ہوتے ہیں.ہرگز نہیں.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۳) قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.تو کہ علم والے اور بے علم کیا برابر ہوں فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۵۵ حاشیہ ) گے نہیں.کہ کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے برابر ہیں.ہر گز نہیں.نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶) ١١- قُلْ لِعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ ، إِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِساب.ترجمہ.تو کہہ دے اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہوسپر بناؤ تمہارے رب کو اور اُسی کا خوف رکھو.لے انسان بنایا گیا مٹی سے یا جلدی سے.

Page 82

حقائق الفرقان ۷۲ سُوْرَةُ الزُّمَرِ جو نیکی کریں ان کے واسطے اسی قریب جگہ میں ہی (یعنی دنیا ہی میں ) نیکی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے.اس کے سوا نہیں کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا دیا جائے گا ان کا اجر بے حساب.تفسیر.خداوند تعالیٰ کے اوامر کا پابند بنا اور نواہی سے اپنے آپ کو بچانا یہ بھی تقوی کے ایک معنے ہیں.یہ نہایت لغو خیال ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو دنیا میں ذلیل ہی رکھتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے لِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ (منافقون: 9) سکھ دنیا میں سات قسم کے ہوتے ہیں.ایک سکھ انسان کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے.مثلاً اگر انسان میں حرص نہ ہو تو یہ ایک سکھ ہے.ایسے ہی اگر غضب کا مادہ ہم میں نہ ہو تو سکھ ہے.اسی طرح شہوت نہ ہو تو بدنظری اور خیالات سے آزاد.میں نے جریان کے مریضوں میں ۹۵ فیصدی ایسے دیکھے ہیں.جو بد نظری اور خیالی جماعوں کے باعث مبتلا ہوئے.جھوٹ نہ بولے تو بے اعتباری کا داغ اس سے اٹھ جاتا ہے.کا ہلی اور ستی کو چھوڑے.دوسرا سکھ یہ ہے کہ بیوی نیک ہو غمگسار ہو.تیسر ا سکھ ماں باپ بہن بھائی وغیرہ رشتہ داروں کی طرف سے.چوتھا سکھ برادری کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں.پانچواں سکھ غیر قوم اور اپنی قوم سے.چھٹا بادشاہ سے تعلق اچھا ہو یعنی گورنمنٹ کی اعلیٰ خدمات انجام دیں.ساتواں مرتبہ سکھ کا یہ ہے کہ حضرت حق سبحانہ تعالیٰ سے تعلقات اچھے ہوں.جہاں انسان کا دین مذہب اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات بگڑتے ہوں تو انسان کو چاہیے کہ اس مکان کو یا اس شہر یا اس ملک کو چھوڑ دے.پس اگر تم اپنی ذات ، اپنی بیوی ، ماں باپ ، اپنی قوم ، اپنے خدا کے نزدیک بڑا بننا چاہتے ہو تو اپنے تعلقات کوسدھارو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۶) ١٩ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَبِكَ الَّذِينَ هَلْ لَهُمُ اللهُ وَ أُولَبِكَ هُمْ أُولُوا الْأَلْبَابِ - ترجمہ.جو بات سنتے ہیں اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں.یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے کامیابی کی راہ دکھا دی اور یہی عقل مند ہیں.وو

Page 83

حقائق الفرقان ۷۳ سُوْرَةُ الزُّمَرِ تفسیر.يَسْتَبِعُونَ القَولَ اللہ کی بات لوگوں کی بات ہمگر پیروی احسن کی کرتی ہے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۸-۴۷۹) ۲۴ - الله نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتبًا مُّتَشَابِهَا مَثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَونَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَقُلُوبُهُمْ إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ ۖ ذَلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِى بِهِ مَنْ يَشَاءُ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ - ترجمہ.اللہ نے عمدہ سے عمدہ کلام اتارا ایسی کتاب جس کی باتیں ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں دہرائی ہوئی کئی کئی پیرایوں میں.بال کھڑے ہو جاتے ہیں ( اُس کے سننے سے ) ان کی کھال پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ( یعنی عذاب کی جلالی آیتیں سن کر ) پھر اُن کی کھالیں اور اُن کے دل یا دالہی کی طرف نرم پڑ جاتے ہیں.یہ ہے اللہ کی ہدایت ( قرآن کے ذریعہ سے ) ہدایت دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جسے اللہ راہ سے ہٹا دے تو اس کا تو کوئی بھی بادی نہیں.تمہید.دل تین طرح کے ہوتے ہیں.ا.سچی بات معا قبول کرنے والے.۲.مفید و با برکت بات کا فوراً انکار کرنے والے ۳.اندر سے منکر بظاہر موافقت دکھا کر غیبت میں ہنسی اڑانے والے.اس رکوع شریف میں ( تیسرا رکوع ) اول قسم کا ذکر ہے جن کو انشراح صدر حاصل ہوا.نُورٍ مِّن رَّبِّهِ.تین قسم ہے.۱.کتاب الہیہ جس میں معروف ومنکر کا ذکر ہوتا ہے.۲.ارشادات نبوی.جس سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.۳.نور ایمان جس سے قوت ممیز ہ حاصل ہوتی ہے.مُتَشَابِهًا.ایک جیسی آیت ایک دوسرے کی مصدق ہیں.مخالف نہیں.مقانی.ایک ہی امر کو بار بار مختلف رنگوں میں بیان کرنے والی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳.مورخہ ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحہ ۲۱۶)

Page 84

حقائق الفرقان ۷۴ سُوْرَةُ الزُّمَرِ كتبًا مُتَشَابِها يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا - ایک جگہ حل نہ ہو تو دوسری جگہ کر دیتا ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۷۹) ۲۸ - وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ.ترجمہ.اور ہم نے اس قرآن میں ہر ایک قسم کی اعلیٰ درجہ کی باتیں بیان فرمائی ہیں تا کہ وہ بڑے آدمی ہو جا ئیں.تفسیر - للناس.لوگوں کی بھلائی کے واسطے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۶) مِنْ كُلِّ مَثَل.ہر عمدہ بات تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۷۹) -۲۹ - قُرْآنًا عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ.ترجمہ.قرآن عربی زبان میں ( نازل فرمایا گیا ) اُس میں کجی اور ٹیڑھا پن نہیں تا کہ وہ دکھوں بچیں.تفسیر.يَتَّقُونَ.دُکھوں سے بچیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۶) ٣٠ - ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا رَجُلًا فِيهِ شُرَكَاءُ مُتَشْكِسُونَ وَ رَجُلًا سَلَمًا لِرَجُلٍ هَلْ يَسْتَوِينِ مَثَلًا الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.ترجمہ.بیان فرمائی اللہ نے ایک مثال ( مثلاً ایک غلام ) آدمی ہے اس میں کئی شریک ہیں بدخو مخالف اور ایک دوسرا غلام ہے سالم ایک ہی شخص کا.کیا یہ دونوں برابر ہیں مثال میں.ہر ایک تعریف کے قابل تو اللہ ہی ہے ( تو اسی کا غلام بننا چاہئے ) ہاں بہت سے آدمی تو جانتے ہی نہیں.تفسیر - ملا.جوصرف اللہ کو اپنامعمور بناتا ہے.وہی سکھی رہتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۶) b

Page 85

حقائق الفرقان ۷۵ سُوْرَةُ الزُّمَرِ ٣ - إِنَّكَ مَيِّتٌ وَ إِنَّهُم مَّيِّتُونَ.ترجمہ.کچھ شک نہیں کہ تجھے بھی مرنا ہے اور وہ بھی مرنے والے ہی ہیں.إنَّكَ مَيِّت.موت تو بے شک تجھ پر آنے والی ہے لکن اِنَّالَهُ لَحَافِظُونَ خدا تعالیٰ اس کتاب اور دینِ اسلام کا محافظ ہوگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۳ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۶) ٣٣ - فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَبَ عَلَى اللهِ وَ كَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَهُ الَيسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوَى تِلْكَفِرِينَ ترجمہ.اُس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور عمدہ بات کو جھٹلا یا جب کبھی وہ ایس کے پاس آئی.کیا کا فروں کا ٹھکانا جہنم نہیں ہے؟ تفسیر.تمہید: - قرآن کریم کی تعلیم سے واضح ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ سب سے بڑھ کر بدکار ہیں.خدا تعالیٰ ان کا بیان ذکر کرتا ہے.ا.وہ جو اللہ پر افتراء کرے.الہام.وحی و خواب نہ ہو.اور کہے کہ مجھے ہوا ہے یا جھوٹی حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف منسوب کرے.قرآن شریف کی کسی آیت کے معنے سچائی کیلئے نہیں بلکہ اپنے مطلب کیلئے شرارت سے کچھ اور کر لے.۲.وہ جو صادق کی تکذیب کرتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) كَذَبَ عَلَى اللهِ.خواب، کشف، الہام ، وحی.قرآن کی آیت یا حدیث جھوٹی پڑھ دے یا جان بوجھ کر معنی غلط کر دے.b تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹) -۳۵ - لَهُمْ مَّا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ جَزْوُا الْمُحْسِنِينَ ترجمہ.اُن کے لئے ہے جو کچھ وہ چاہیں ان کے ربّ کے پاس.یہ ہے بدلہ محسنوں کا.تفسیر - لَهُمُ مَا يَشَاءُونَ.انکی دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہوگا.الْمُحْسِنِينَ.یہ بات پیچھے نہیں رہ گئی بلکہ آئندہ بھی ہرمحسن کے ساتھ ایسا ہی نیک سلوک (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷)

Page 86

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الزُّمَرِ ۴۰،۳۹ - وَ لَبِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَ اللهُ قُلْ افَرَعَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ اِنْ اَرَادَنِي اللهُ بِضُرٍ هَلْ هُنَّ كَشِفْتُ ضُرَّةٍ اَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ هَلْ هُنَّ مُمْسِكَتْ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللهُ عَلَيْهِ و ج ط يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكَّلُونَ - قُلْ يُقَوْمِ اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنِّي عَامِلٌ فَسَوْفَ 199191 تعلمون - ترجمہ.اور اگر تو ان سے پوچھے کہ کس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو تو وہ ضرور جواب دیں گے کہ اللہ ہی نے.تم کہہ دو بھلا دیکھو تو سہی جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ دفع کر دیں گے اس تکلیف کو اگر اللہ نے مجھ کو کوئی تکلیف دینی چاہی یا میرے حق میں اللہ کچھ رحمت کا ارادہ فرمائے تو کیا وہ اس رحمت کو روک دیں گے.تم جواب دو.مجھے تو اللہ ہی بس ہے اور اسی پر بھروسہ کیا کرتے ہیں متوکل.کہہ دواے میری قوم ! تم اپنی حالت اور قوت اور ارادے کے موافق اپنی جگہ کام کرو میں بھی اپنی جگہ کام کر رہا ہوں تو آگے چل کر تم کو معلوم ہو جاوے گا..تفسیر.لَيَقُولُنَ اللہ.ان کی فطرت بھی جواب دے گی.اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُم.تم سب کھڑے ہو کر میرا مقابلہ کرو.منصوبے کرلو.مددگار بنالو.سارا (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷) زور لگا لو.b ۴۳ - اللهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِهَا وَالَّتِي لَمْ تَبْتُ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ التى قضى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى إِنَّ فِي ذَلِكَ لايتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.ترجمہ.اللہ نفسوں کو اُن کی موت کے وقت وفات دیتا ہے ( قبض کرتا ہے جان کو ) اور جو مرے نہیں اپنے سوتے وقت (اس کو وفات دیتا ہے خواب میں ) پھر ان روحوں کو روک رکھتا ہے جن پر واقعی موت کا حکم جاری کر چکا ہے اور ان دوسروں کو بھیج دیتا ہے ( یعنی سونے والوں کی روحوں کو جو

Page 87

حقائق الفرقان سُورَةُ الزُّمَرِ ابھی مرے نہیں ) ایک مقرر وقت تک.کچھ شک نہیں کہ بڑی بڑی نشانیئیں ہیں اس میں ان کے لئے جو غور کرتے ہیں.تفسیر.قبض روح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اللهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ ( الزمر :۴۳).روح کلام الہی کو کہتے ہیں مگر لوگوں نے غلطی سے نفس کا نام روح رکھ لیا ہے.اللہ تعالیٰ جانوں کو قبض کرتا ہے کب؟ جب کہ مرجاتی ہیں اور جب سو جاتی ہیں.اس طرح تمہاری جانیں قبضہ قدرت الہیہ میں ہیں.بدر جلد ۱۰ نمبر ۴۸ و ۴۹ مورخه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۳) خدا جانوں کو جب ان کی موت کا وقت آتا ہے.اپنے قبضہ میں کر لیتا ہے.یعنی وہ جانیں بے خود ہو کر الہی تصرف اور قبضہ میں اپنی موت کے وقت آ جاتی ہیں.اور زندگی کی خود اختیاری اور خودشناسی ان سے جاتی رہتی ہے.اور موت ان پر وارد ہو جاتی ہے.یعنی بکلی وہ روحیں نیست کی طرح ہو جاتی ہیں اور صفات حیات زائل ہو جاتی ہیں اور ایسی روح جو دراصل مرتی نہیں.مگر مرنے کے مشابہ ہوتی ہے.وہ روح کی وہ حالت ہے کہ جب انسان سوتا ہے.تب وہ حالت پیدا ہوتی ہے.اور ایسی حالت میں بھی روح خدا تعالیٰ کے قبضے اور تصرف میں آ جاتی ہے.اور ایسا تغیر اس پر وارد ہو جاتا ہے کہ کچھ بھی اس کی دنیوی شعور اور ادراک کی حالت اس کے اندر باقی نہیں رہتی.غرض موت اور خواب دونوں حالتوں میں خدا کا قبضہ اور تصرف روح پر ایسا ہو جاتا ہے کہ زندگی کی علامت جو خود اختیاری اور خودشناسی ہے.بکلی جاتی رہتی ہے.پھر خدا ایسی روح کو جس پر در حقیقت موت وارد کر دی ہے واپس جانے سے روک رکھتا ہے.اور وہ روح جس پر اس نے در حقیقت موت وارد نہیں کی اس کو پھر مقرر وقت تک دنیا کی طرف واپس کر دیتا ہے.اس ہمارے کاروبار میں ان لوگوں کیلئے نشان ہیں.جو فکر اور سوچ کرنے والے ہیں یہ ہے ترجمہ مع شرح آیت ممدوحہ بالا کا.اور یہ آیت موصوفہ بالا دلالت کر رہی ہے کہ جیسی جسم پر موت ہے.روحوں پر بھی موت ہے.لیکن قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ابرار اور اخیار اور برگزیدوں کی روحیں چند روز کے بعد پھر زندہ کی جاتی ہیں.کوئی تین دن کے بعد، کوئی ہفتہ کے بعد، کوئی چالیس دن کے بعد.اے اللہ نفسوں کو ان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے ( قبض کرتا ہے جان کو )

Page 88

حقائق الفرقان ZA سُوْرَةُ الزُّمَرِ اور پلید روحوں میں بھی عذاب دینے کیلئے ایک حس پیدا کی جاتی ہے مگر نہ وہ مردوں میں داخل ہوتے ہیں نہ زندوں میں.جیسا کہ ایک شخص جب سخت درد میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بدحواسی اس کیلئے موت کے برابر ہوتی ہے.اور زمین و آسمان اس کی نظر میں تاریک دکھائی دیتے ہیں.انہی کے بارے میں خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے یعنی جو شخص اپنے رب کے پاس مجرم ہو کر آئے گا اس کیلئے جہنم ہے وہ اس جہنم میں نہ مرے گا اور نہ زندہ رہے گا (طہ: ۷۷) اور خود انسان جب اپنے نفس میں غور کرے کہ کیونکر اس کی روح پر بیداری اور خواب میں تغیرات آتے رہتے ہیں تو بالضرور اس کو ماننا پڑتا ہے کہ جسم کی طرح روح بھی تغیر پذیر ہے.اور موت صرف تغیر اور سلب صفات کا نام ہے.ورنہ جسم کے تغیر کے بعد بھی جسم کی مٹی تو بدستور رہتی ہے لیکن اس تغیر کی وجہ سے جسم پر موت کا لفظ اطلاق کیا جاتا ہے.تشخیذ الاذہان جلدے نمبر ۶.ماہ جون ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۷۴-۲۷۵) يتوفى.قبض کرتا ہے جان کو.روح کے معنے عربی میں کلام کے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷) ۴۵- قُلْ لِلهِ الشَّفَاعَةُ جَمِيعًا لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ ثُمَّ إِلَيْهِ ترجمہ.(خود ہی سمجھا دے اللہ ہی کے اختیار میں ہے ساری سفارش.کیونکہ اسی کی بادشاہی ہے آسمانوں اور زمین میں.تو اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.تفسیر.لِلَّهِ الشَّفَاعَةُ - شفاعت پانچ قسم ہے.ا.شفاعت بالمحب.مثلاً کسی پیارے نے بات کہہ دی وہ مانی جاتی ہے.۲.شفاعت بالو جاہت.اللہ کے ہاں بھی بہت سے وجیہہ ہیں.مگر ان کی وجاہت کا دباؤ نہیں ہوتا.۳.شفاعت بالعلم خدا کے ہاں بے علمی نہیں.۴.شفاعت بلحاظ اکرام و اعزاز مثلاً حاکم جانتا ہے کہ مجرم کو چھوڑنا ہے.مگر اس چھوڑنے کے ساتھ کسی کا اکرام رکھ لیتا ہے.۵- شفاعت با عمق کہ یونہی بات کہہ دی.سب قسم کی شفاعتیں اللہ کے اختیار میں ہیں.جس کی شفاعت چاہے ان سے لے جسے چاہے اعزاز وعلم و وجاہت و محبوبیت دیدے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۷۹)

Page 89

حقائق الفرقان و سُورَةُ الزُّمَر ۴۶ - وَإِذَا ذُكِرَ اللهُ وَحْدَهُ اشْمَازَتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِنْ دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ ترجمہ.اور جب بیان کیا جاتا ہے اکیلے اللہ کا تو نفرت کرتے ہیں ان لوگوں کے دل جو مانتے نہیں آخرت کو اور جب بیان کیا جائے اللہ کے سوا اوروں کا تو فوراً ہی خوش ہو جاتے ہیں.تفسیر.قرآن مجید میں ایسے لوگوں کا ذکر آیا ہے کہ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَحْدَهُ اشْبَازَتْ قُلُوبُ الَّذِيْنَ لا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ (الزمر:۴۶) جن میں آخرت کا ایمان نہیں ہوتا وہ لوگ صرف تو حید کے ذکر پر بھڑک اٹھتے ہیں.غرض ایسی بحثوں کو لچر سمجھتا ہوں.اسے چاہیے کہ بہت بہت دعا کرے تا خدا کوئی ایسی راہ سمجھا وے جس سے اپنے مخالف کو نرمی کے رنگ میں سمجھا سکے.( بدر جلد ۸ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۵) اسمارت.نفرت کرتے ہیں.برا مناتے ہیں.انکار کرتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۷) ۴۷.قُلِ اللَّهُمَّ فَاطِرَ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ عَلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ اَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ - ترجمہ.تو کہہ دے اے میرے اللہ ! اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے اور بڑے جاننے والے چھپے اور کھلے کے ! تو ہی فیصلہ فرمائے گا اپنے بندوں میں اس کا جس میں اختلاف کر رہے تھے.تفسیر.قُلِ اللهُم - جب ایسے لوگوں کی کثرت ہو کہ ذکر تو حید کو برا سمجھیں تو دعا کرنی چاہیے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) جولوگ دعا کے ہتھیار سے کام نہیں لیتے.وہ بد قسمت ہیں.امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں.آمَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ (النمل: ٦٣) سے پستہ ملتا ہے کہ اگر یہ لوگ اضطراب سے، تڑپ سے، حق طلبی کی نیت سے، تقویٰ کے ساتھ ا بھلا کون بے چین اور بے کس کی فریاد کو پہنچتا ہے جب وہ پکارتا ہے.

Page 90

حقائق الفرقان ۸۰ سُوْرَةُ الزُّمَرِ دعائیں کرتے کہ الہی اس زمانہ میں کون شخص تیرا مامور ہے تو میں یقین نہیں کرسکتا کہ انہیں خدا تعالیٰ ضائع کرتا.میں کبھی کسی مسئلہ و اختلاف سے نہیں گھبرایا کہ میرے پاس دعا کا ہتھیار موجود ہے اور وہ دعا یہ ہے - اللهُمَّ فَاطِرَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ عَلِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ (الزمر:۴۷) اور حدیث اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَن تَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ سچا تقویٰ حاصل کرنے کیلئے بھی دعاہی ایک عمدہ راہ ہے.پھر قرآن کریم کا مطالعہ.اس میں متقیوں کے صفات اور راست بازوں کے صفات موجود ہیں.اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے فہم و فراست بخشے.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخہ ۲۳ جنوری ۱۹۰۸، صفحه ۱۰) ۴۹ - وَبَدَا لَهُمْ سَيأْتُ مَا كَسَبُوا وَحَاقَ بِهِمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ.ترجمہ.اور ان کو نظر آجائیں گی ان کی کرتوتوں کی برائیاں اور انہیں پر الٹ پڑے گا وہ جس کی وہ ہنسی اڑا یا کرتے تھے.تفسیر - يَسْتَهْزِئُونَ.ھر وسے نکلا ہے.کسی کو خفیف بنانا اور سمجھنا.هز ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷) ۵۰ - فَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَانَا ثُمَّ إِذَا خَوَّلُنَهُ نِعْمَةً مِنَّا قَالَ إِنَّمَا أوتِيتُه عَلَى عِلْمٍ ، بَلْ هِيَ فِتْنَةٌ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ.ترجمہ.جب آتی ہے انسان پر کوئی مصیبت تو وہ ہم کو پکارنے لگتا ہے پھر جب ہم اس کو عطا فرماتے ہیں نعمت اپنی طرف سے تو وہ کہنے لگتا ہے یہ تو مجھ کو علم اور تجربہ کے زور سے ملتا ہے.کچھ نہیں یہ تو آزمائش ہے لیکن بہت سے آدمی جانتے ہی نہیں.تفسیر - خولنه - ہم عطا کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰، صفحه ۲۱۷) لے اے میرے اللہ ! اے پیدا کرنے والے آسمانوں اور زمین کے اور بڑے جاننے والے چھپے اور کھلے کے ! تو ہی فیصلہ فرمائے گا اپنے بندوں میں اس کا جس میں اختلاف کر رہے تھے.۲ے تو اپنے اذن سے اس حق کی طرف جس میں اختلاف کیا گیا ہے میری راہنمائی فرما.یقینا تو جس کے لئے چاہتا ہے اس کی سیدھے راستہ کی طرف راہنمائی فرماتا ہے.

Page 91

حقائق الفرقان ΔΙ سُورَةُ الزُّمَر ۵۲ - فَأَصَابَهُمُ سَيَاتُ مَا كَسَبُوا وَالَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْ هَؤُلَاءِ سَيُصِيبُهُم ياتُ مَا كَسَبُوا وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِينَ سیا ترجمہ.پھر اُن کو ملیں اُن کے اعمال کی سزائیں اور ان لوگوں میں سے جن لوگوں نے بے جا کام کئے ان کو بھی قریب ہی پہنچے گی ان کے کرتوتوں کی سزا اور وہ تھکا نہیں سکتے.تفسیر.وَمَا هُمْ بِمُعْجِزِینَ.اور نہ وہ عاجز ہیں.مطلق عاجز کردینا چونکہ نشانِ نبوت نہ تھا جیسے بارہا ذکر کیا.رسالت مآب کے اثبات نبوت میں قرآن نے یہ ناقص لفظ ترک کر کے آیت اور آیات اور برہان کا لفظ استعمال فرمایا اور خرق عادت کا لفظ چونکہ بالکل غیر صحیح تھا اس لئے اسے صاف ترک ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۷۰) کردیا.۵۴ - قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - ترجمہ.کہہ دے اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر خطا کر بیٹھے ہو اپنے ہاتھ سے اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو.بے شک اللہ ڈھانپتا ہے تمام گناہوں کو.کچھ شک نہیں کہ وہ بڑا غفور الرحیم ہے.کہہ دواے بندو میرے جنہوں نے زیادتی کی اپنی جان پر.نہ آس تو ڑو اللہ کی مہر سے بے شک اللہ بخشتا ہے سب گناہ.وہ جو ہے وہی ہے گناہ معاف کرنے والا.مہربان.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۰۰ حاشیه ) خدا تعالیٰ کے حضور پہنچنے کیلئے دو بازو ضروری ہیں.۱.ایمان ۲ عملِ صالح.اسرفوا - خطا کاری ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۷) ۵۵ - وَ انبُوا إِلى رَبَّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا 179199 تنصرون.ترجمہ.بشرطیکہ رجوع کرو اپنے رب کی طرف اور پورے فرمانبردار فدائی بن جاؤ اس سے پہلے کہ تم پر نازل ہو عذاب ( کیونکہ عذاب آنے پر) تمہاری مددنہ کی جائے گی.

Page 92

حقائق الفرقان ۸۲ سُوْرَةُ الزُّمَرِ تفسیر - وَانبُوا.یہ اس يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا (الزمر:۵۴) کیلئے بطور شرط ہے.اللہ کی طرف.جھکو.اسلموالہ.اس جھکنے کا نشان یہ ہے کہ اس کی فرماں برداری کرو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) ۵۶ - وَ اتَّبِعُوا اَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُم مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ - ترجمہ.اور پیروی کر بہتر بات کی جو اتاری گئی تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اس سے پہلے کہ تم پر عذاب نازل ہو یکا یک اور تم بے خبر ہی ہو.تفسیر.اَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ.مثال کے لئے سنو! دو حکم ہیں کہ کسی کی ایذارسانی کا بدلہ لے لو.دوسرا یہ کہ چشم پوشی کرو.اب یہ عفو احْسَنَ مَا اُنْزِلَ ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ صفت کا شفہ ہے یعنی جو کچھ رب نے اتارا ہے وہ احسن ہی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) احْسَنَ مَا انْزِلَ الیکم.مثلاً بدلہ لینا بھی جائز ہے.اور صبر اور غفر بھی.اب یہ صبر اور معافی دے دینا بہتر ہے.اور یہ طریق صلحاء ہے.( تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹) ۵۸،۵۷ - اَنْ تَقُولَ نَفْسٌ يُحَسْرَى عَلَى مَا فَرَّطْتُ فِي جَنْبِ اللهِ وَإِنْ كُنتُ لمِنَ الشَّخِرِينَ اَوْ تَقُولُ لَوْ أَنَّ اللهَ هَد ينِي لَكُنْتُ مِنَ الْمُتَّقِينَ ترجمہ.کہیں کوئی جی کہنے لگے ( کہ ہمیں خبر ہی نہ ہوئی ) اور اے افسوس میری اس کو تا ہی پر جو میں نے اللہ کے حق میں کی اور میں تو بس ہنسی ہی کرتا رہا.یا کہنے لگے کہ اگر اللہ مجھے کو ہدایت دیتا تو میں ضرور متقیوں میں سے ہو جاتا.تفسیر - فقطت.تفریط کے معنے کمی کرنے کے ہیں.لين الشخِرینَ.آجکل ایسے لوگ بہت ہیں جو مذ ہبی امور کو تمسخر میں اڑاتے رہتے ہیں.مِنَ الْمُتَّقِينَ.دکھوں سے بچنے والے ہوتے.دراصل تمام دکھوں کا اصل بدصحبت ہے اس (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) سے بچو.

Page 93

حقائق الفرقان ۸۳ سُوْرَةُ الزُّمَرِ وو ۶۴ - لَهُ مَقَالِيدُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَيْتِ اللَّهِ أُولَبِكَ هُمُ الخسِرُونَ ترجمہ.اور اُسی کے پاس ہیں آسمان اور زمین کی کنجیاں اور جنہوں نے انکار کیا اللہ کی آیتوں کا وہی ٹوٹا پانے والے ہیں.تفسیر - مَقَالِيدُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ.مثلاً کامیابی کی راہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) ۶۵ - قُلْ أَفَغَيْرَ اللهِ تَأْمُرُونِي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَهِدُونَ.ترجمہ.تو کہہ دے کیا اے نادانو ! تم مجھ سے یہ کہتے ہو کہ اللہ کے سوا میں کسی اور کی عبادت کروں.تفسیر قرآن شریف ایک بے نظیر کتاب ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے سوا کسی کو کتاب مانا ہی نہیں.افسوس کہ اب مسلمانوں میں قرآن شریف کی عظمت بہت کم رہ گئی ہے.قرآن شریف زندوں کو سنانے کیلئے تھا.اب مردوں کو سنایا جاتا ہے.قرآن مجید نے اگلی قوم کو تمام جہان سے غنی کر دیا.مگر اب قرآن شریف سے ٹکے کمائے جاتے ہیں.قرآن مجید راستی قائم کرنے کیلئے آیا مگر اب قرآن شریف ہاتھ میں لے کر جھوٹی قسمیں کھائی جاتی ہیں.گویا یہ جھوٹ پھیلانے کا آلہ ہے.قرآن مجید اللہ کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کیلئے تھا.لوگ اس کی آیتوں سے مخلوق کی محبت حاصل کرتے ہیں چنانچہ وَ الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ (البقرہ:۱۶۶) کا عمل کیا جاتا ہے.حالانکہ یہی آیت اس بات کی تردید کرتی ہے کہ مخلوق میں سے کسی کی محبت میں فنا ہو جاوے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷) ٢٩ - وَنُفِخَ فِى الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَاهُمْ قِيَامُ تَنْظُرُونَ.ترجمہ.اور صور پھونکا جائے گا تو بے ہوش ہو جائیں گے جو آسمان اور زمینوں میں ہیں مگر جس کو اللہ لے اور ایمان داروں کو تو ( سب سے بڑھ کر ) اللہ ہی کی محبت ہوتی ہے.

Page 94

حقائق الفرقان ۸۴ سُوْرَةُ الزُّمَرِ چاہے.پھر صور پھونکا جائے گا دوسری بار تو وہ ایکا ایک کھڑے ہو کر رہ جائیں گے دیکھتے.تفسیر.نُفِخَ فِي الصُّورِ - بگل بجایا جاوے گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۷) ٧٠ - وَ أَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُورِ رَبِّهَا وَ وُضِعَ الْكِتَبُ وَ جَاءَ بِالنَّبِينَ وَ الشُّهَدَاءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ - ترجمہ.اور چمک اٹھے گی زمین اپنے رب کے نور سے اور نامہ اعمال لا کر رکھا جائے گا اور سب نبی اور گواہ حاضر کئے جائیں گے اور فیصلہ کر دیا جائے گا ان میں انصاف سے اور ان پر کچھ ظلم نہ ہوگا.تفسیر.الكتب - نامہ اعمال.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۷) - وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلى جَهَنَّمَ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا فُتِحَتْ ابْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا اَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُم يَتْلُونَ عَلَيْكُم ايت رَبَّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَذَا قَالُوا بَلَى وَلَكِنْ حَقَّتْ كَلِمَةُ الْعَذَابِ عَلَى الْكَفِرِينَ ترجمہ.اور ہانکے اور روانہ کئے جائیں گے کافر جہنم کی طرف گروہ کے گروہ ( یعنی ٹکٹڑیاں ٹکڑیاں ) یہاں تک کہ جہنم کے پاس پہنچیں گے تو اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور دوزخ کا داروغہ ان سے کہے گا کیا تمہارے پاس تمہارے ہی میں کے رسول نہیں آئے تھے وہ تم پر پڑھتے تھے تمہارے رب کی آیتیں اور تم کو ڈراتے تھے اس دن کے دیدار سے.وہ جواب دیں گے کیوں نہیں.آئے تو تھے ضرور لیکن عذاب کی پیش گوئی ثابت ہو چکی تھی کافروں پر.تفسیر.جَهَنَّمَ.دوزخ ایک مقام ہے.اسکی صورت ایسی ہے.جیسے بعض بیماروں کو حمام میں علاج کے واسطے بھیجا جاتا ہے.سرسام کا علاج سانپ کے ڈسوانے سے کیا جاتا ہے.ایسے ہی وہاں بھی روحانی بیماریوں کے معالجہ کے واسطے ایک زہریلی مخلوق ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸)

Page 95

حقائق الفرقان ۸۵ سُوْرَةُ الزُّمَرِ الم يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ.کافروں میں سے رسولوں کو کہا.پس أُولِي الْاِمْرِ مِنْكُمْ صرف مسلمان مراد نہیں.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹) ۷۴- وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا حَتَّى إِذَا جَاءُوهَا وَ فتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلامُ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خلِدِينَ ترجمہ.اور چلایا جائے گا ان لوگوں کو جنہوں نے سپر بنایا اپنے رب کو بہشت کی طرف جماعت جماعت.یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہنچیں گے اور کھولے جائیں گے اس کے دروازے اور رضوان کہے گا ان سے سَلَام عَلَيْكُمْ تم خوش نصیب و خوش حال ہو پس بہشت میں داخل ہو ہمیشہ رہنے کے لئے.تفسیر.جولوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں.جنت کو گروہ گروہ میں انہیں لے چلیں گے.جب اُس کے پاس آویں گے اور اس کے دروازے کھولے جائیں گے.جنت کے نگہبان انہیں کہیں گے تم پر سلامتی ہو.تم نے پاک زندگی بسر کی تو اب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے درآؤ.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۶) الَّذِينَ اتَّقَوا.جن کے عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ ہیں.رنج و راحت، عسرویسر میں اللہ تعالیٰ کے فرماں بردار رہتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۸) -۵- وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِى صَدَقَنَا وَعْدَهُ وَ أَوْرَثَنَا الْأَرْضَ نَتَبُوا مِنَ الْجَنَّةِ حَيْثُ نَشَاءُ فَنِعْمَ أَجْرُ الْعَمِلِينَ - ترجمہ.اور بہشتی کہیں گے الحمد للہ کیسا اللہ اچھا ہے جس نے ہم کو سچ کر دکھلا یا اپنا وعدہ اور ہم کو وارث بنایا اس زمین کا کہ ہم رہیں بہشت میں جہاں چاہیں تو کیا اچھا بدلہ ہے نیک کام کرنے والوں کا.تفسیر.اور وہ ( بہشتی) کہیں گے.اللہ کی حمد ہے.جس نے اپنا وعدہ ہم سے سچا کیا.اور اس زمین کا

Page 96

حقائق الفرقان ۸۶ سُوْرَةُ الزُّمَرِ وارث ہمیں بنایا.اس جنت میں جہاں ہم چاہیں.ٹھکانہ بنالیں.عاملوں کا اجر کیا ہی خوب ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶) ".وَ تَرَى الْمَلَئِكَةَ حَافِينَ مِنْ حَوْلِ الْعَرْشِ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِم وج وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.ترجمہ.اور تو دیکھے گا فرشتوں کو حلقہ باندھے ہوئے عرش کے آس پاس تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اور فیصلہ کر دیا جائے گا لوگوں میں حق حق اور کہا جائے گا سب تعریف اور واہ واہ اسی اللہ کی ہے جو سب جہانوں کو آہستہ آہستہ کمال کو پہنچانے والا ہے.تفسیر.حَوْلِ الْعَرْشِ.اللہ تعالیٰ کی تجلی گاہ میں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ / نومبر ۱۹۱۰ ، صفحه ۲۱۸)

Page 97

حقائق الفرقان ۸۷ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ مومن کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ رحمن اور رحیم کے نام سے.۲ تا ۴.حم - تَنْزِيلُ الْكِتَبِ مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ـ غَافِرِ الذَّنْبِ وَ قابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ ذِي الطَّولِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ إِلَيْهِ الْمَصِيرُ - ترجمہ.جو ہونے والی بات تھی وہ ہو چکی.قرآن مجید کا اُتارنا اللہ ہی کی طرف سے ہے جو بڑا غالب بڑا جاننے والا ہے.( جو کوئی اپنی حالت میں تبدیلی کرے ) اس کے گناہ معاف کرنے والا اور جوتو بہ کر کے نیکی اختیار کرے) اُس کی توبہ قبول کرنے والا ( نیکی نہ اختیار کرے تو ) سخت عذاب دینے والا ہے.( نیکی اختیار کرے تو ) انعام دینے والا ہے.کوئی بھی سچا معبود نہیں مگر وہی اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے.تفسیر - خم - حمید - مجید.بادشاہ جی کی طرف سے یہ کتاب آئی ہے.غافر الذنب غلطیوں کو معاف کرتا ہے.اگر تم باز آؤ.قابل الثوب.توبہ قبول کرنے والا ہے.اگر تم تو بہ کرو.الَيْهِ الْمَصِيرُ.کوئی شخص اپنا ذاتی کمال نہیں رکھتا.اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں غنی ہے اور اس کا کوئی مثل نہیں.اِلَيْهِ الْمَصِيرُ.پھر اسکی طرف لوٹنا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) حم - حمید، مجید ، حی و مالک.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹)

Page 98

حقائق الفرقان ۸۸ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ، كَذَبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَ الْاَحْزَابُ مِنْ بَعْدِهِمْ وَهَمَّتْ كُلُّ أمَّةٍ بِرَسُولِهِمْ لِيَأْخُذُوهُ وَ جَدَلُوا بِالْبَاطِلِ لِيدُ حِضُّوا بِهِ الْحَقِّ فَاخَذْتُهُمْ فَكَيْفَ كَانَ عِقَابِ - وَ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّهُمْ أَصْحَبُ النَّارِ - قف ترجمہ.جھٹلایا تھا ان سے پہلے نوح کی قوم نے اور ان کے بعد اور جماعتوں نے.ہر ایک جماعت نے اپنے رسول کے ساتھ یہی ارادہ کیا کہ اس کو گرفتار کر لیں اور بے ہودہ جھگڑے کئے تا کہ اس کے سبب سے دین حق کو مشتبہ کردیں لڑکھڑا دیں تو پھر میں نے پکڑا تو کیسی تھی میری سزا.اور اسی طرح ثابت ہو چکی تیرے رب کی پیش گوئی کافروں پر کہ وہی دوزخی بھی ہیں.تفسیر - لِيَأْخُذُوهُ - تاکہ پکڑیں اور انبیاء کے مقابلہ میں نامراد ہونا ثابت کریں.عقاب.اللہ تعالیٰ انسان کو جو دکھ دیتا ہے.یونہی نہیں دیتا.بلکہ نافرمانی کے بعد بطور اس کے نتیجہ کے اس پر سز ا مرتب ہوتی ہے.اسی واسطے اس کا نام عقاب فرمایا..ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعَتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَ عِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ - ترجمہ.جو امور دنیا اور دین کی تدبیر کرتے ہیں اور جو عرش کے گردا گرد ہیں وہ تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مغفرت مانگتے ہیں ایمانداروں کے لئے کہ اے ہمارے رب ! تو نے سب چیزوں کو قابل کر رکھا ہے رحم اور علم میں مغفرت کر ان لوگوں کی جو تو بہ کریں اور تیری راہ کی پیروی کریں اور اُن کو دوزخ کے عذاب سے بچا.تفسیر - يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا الخ: اور گناہ بخشواتے ہیں ایمان والوں کے.اے رب ہمارے ہر چیز سمائی ہے تیری مہر اور خیر میں سو معاف کر ان کو جوتو بہ کریں اور چلیں تیری راہ اور بچا ان کو آگ کی مار سے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۴ حاشیه )

Page 99

حقائق الفرقان ۸۹ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ -١٠- وَقِهِمُ السَّيَاتِ وَمَنْ تَقِ السَّيَاتِ يَوْمَبِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَ ذَلِكَ هُوَ دردو الْفَوْزُ الْعَظِيم.ترجمہ.اور ان کو بچا بُرائیوں سے اور جس کو بچایا تو نے آج برائیوں سے تو بے شک تو نے اس پر بڑی مہربانی فرمائی اور یہی تو بڑی کامیابی ہے.تفسیر - الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - فوز بمعنے پاس ہونا.- ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۸) 11 - إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يُنَادَونَ لَمَقْتُ اللهِ أَكْبَرُ مِنْ مَفْتِكُمُ انْفُسَكُمْ إِذْ تدُعَونَ إِلَى الْإِيمَانِ فَتَكْفُرُونَ - ترجمہ.جولوگ منکر ہیں اُن سے بآواز بلند کہہ دیا جائے گا کہ اللہ کی خفگی اس سے بڑھ کر ہے جو تم اپنی جانوں سے خفا ہو جب کہ تم بلائے جاتے تھے ایمان کی طرف تو تم حق پوشی کرتے تھے اور انکار.تفسیر.اگر کوئی شخص اپنی چھوٹی سی غرض کیلئے کسی اپنے بڑے محسن و مربی کو ناراض کرتا ہے تو وہ فطرت کے تقاضا کے خلاف کرتا ہے.پس اللہ سے بڑھ کر کون محسن و مربی ہے کیونکہ دنیا کے عارضی محسنوں کو پیدا کرنے والا بھی وہی ہے.ایسے علیم و حکیم کی بات کو اگر نہ مانا جاوے تو دنیا و آخرت میں دکھ کا موجب ہے.لَمَقْتُ اللہ.اللہ کی ناراضی یا اللہ کی لعنت.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) ۱۲.قَالُوا رَبَّنَا آمَتَنَا اثْنَتَيْنِ وَ اَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إلى خُرُوجٍ مِّنْ سَبِيلٍ - ترجمہ.وہ کہیں گے اے ہمارے رب! تو ہم کو موت دے چکا دو بار اور چلا چکا دو بار اب ہم قائل ہوئے اپنے گناہوں کے.پھر اب بھی کوئی نکلنے کی راہ ہے (جہنم سے ).

Page 100

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ اثْنَتَيْنِ.ایک ہم کچھ نہ تھے.خدا نے بنایا.پھر موت کی تیاری ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) ج - ذَلِكُمْ بِإِنَّةَ إِذَا دُعِيَ اللهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا فَالْحُكْمُ لِلهِ الْعَلِيِّ الكَبِيرِ - ترجمہ.(اُن سے کہا جائے گا) یہ عذاب اس لئے ہے کہ جب پکارا جاتا تھا اکیلے اللہ کو توتم انکار کرتے تھے اور اگر اس کے ساتھ شریک ٹھہرایا جاتا تو تم یقین کرتے تھے.پس اللہ ہی کا حکم ہے جو عالی شان اور بزرگ تر ہے.تفسیر.دُعِيَ اللهُ وَحْد کا.جن لوگوں میں کچھ نہ کچھ شرک ہے.جب محض اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا ذکر کیا جاوے تو انہیں برا معلوم ہوتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۸) ۱۵ فَادْعُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ - ترجمہ.تو اللہ کو خالص اُسی کی اطاعت کر کے پکارو گو کا فر براما نا ہی کریں.تفسیر.اللہ تعالیٰ کو پکارو.اس کی عبادت میں اخلاص سے کام لو اور دین کے قبول کرنے میں ظاہر و باطن میں دکھ سکھ میں.غرض کسی حالت میں ہو.اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے ساتھ تمہارا تعلق نہ ہو.اگر منکر برا مناویں تو پڑے مناویں.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۷) مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ.تمہارا دین خدا کے لئے ہو جاوے.الْكَفِرُونَ.غیر اللہ کے پرستار.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) - رَفِيعُ الدَّرَجَتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ ترجمہ.اللہ تعالیٰ درجے بلند کرنے والا عرش کا مالک ہے.اپنے ہی حکم سے وحی کرتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے تا کہ وہ ڈرائے ملاقات کے دن سے.

Page 101

حقائق الفرقان ۹۱ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ رَفيعُ الدَّرَجَتِ ذُو الْعَرْشِ روح کلام الہی ہی کا نام ہے جس پر عمل کرنے سے موتی اور مردہ بے ایمان زندہ ہوتے ہیں بلکہ قرآن نے انبیاء اور ملائکہ کو بھی روح فرمایا ہے.کیونکہ وہ بھی اسی زندگی کے باعث ہیں جسے ایمان تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۹۹٬۹۸) کہتے ہیں.يُلقى الروح - روح سے مراد کلام الہی ہے جان.سول (SOUL) کو عربی بولی میں نفس کہتے ہیں.قرآن شریف میں روح کے معنے کلام ہی کے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) صاحب اونچے درجوں کا مالک تخت کا.اتارتا ہے بھید کی بات اپنے حکم سے جس پر چاہے.اپنے بندوں میں کہ وہ ڈراوے ملاقات کے دن سے.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۳۹ حاشیہ) -۲۶ - فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْحَقِّ مِنْ عِندِنَا قَالُوا اقْتُلُوا أَبْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ وَ اسْتَحْيُوا نِسَاءَهُمْ وَمَا كَيْدُ الْكَفِرِينَ اِلَّا فِي ضَلَلٍ - ترجمہ.پھر جب اُن کے پاس ہمارا سچا پیغام لے کر آیا تو لوگوں نے کہا جو لوگ اس کے ساتھ نالائے ان کی اولاد کو قتل کرو اور حیا اڑ ادو اُن کی عورتوں کی یا زندہ رکھوان کو اور کافروں کی تدبیر تو گمراہی میں ہی چلتی ہے.تفسیر - اقْتُلُوا ابْنَاءَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَ...الخ : بولے مارو بیٹے ان کے جو یقین لائے ہیں اُس کے ساتھ اور جیتی رکھوان کی عورتیں اور جو داؤں ہے منکروں کا سوغلطی میں.ایک عیسائی کے اعتراض ( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۳۳ حاشیه ) " فرعون نے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو اس لئے مار ڈالا کہ وہ موسی پر ایمان لائے ، یہ غلط ہے.لے بلند درجوں والا صاحب تخت کا اپنے امر سے جس بندے پر چاہتا ہے روح ڈالتا ہے تو کہ وہ ملاقات (قیامت) کے دن سے ڈراوے.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۹۸)

Page 102

حقائق الفرقان ۹۲ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ 66 بلکہ فرعون نے موسیٰ سے پہلے یہودی لڑکے اس لئے مارے کہ وہ بڑھ نہ جاویں.خروج ا باب “ کے جواب میں فرمایا:.میں انصافاً اور حقا کہتا ہوں کہ یہ اعتراض محض نادانی اور قرآن کے طرز اور زبان کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.خوب یا درکھنا چاہیے کہ صیغہ امر ہمیشہ کسی فعل کے وقوع کو مستلزم نہیں ہوا کرتا.قرآن کی اس آیت سے یہ کہاں پایا جاتا ہے کہ فرعون نے انہیں قتل کر ڈالا.نصاریٰ کی عادت میں داخل ہے کہ دھوکہ دہی کے طور پر ایک ترجمہ فرضی اور ذہنی لکھ دیتے ہیں جو اصل کلام منقول عنہ سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتا.اس سے بجائے اس کے کہ ان کا مقصود اغوا واضلال برآوے.اہل انصاف کے نزدیک ان کی اصلیت باطن اور غرض ظاہر ہو جاتی ہے.اگر زبان عرب سے ذرا بھی مس ہو اور قرآنی طرز سے کچھ بھی واقفیت ہو تو بادنی تامل آشکار ہو سکتا ہے کہ آیت کا پچھلا حصہ معترض کے اعتراض کو باطل کئے دیتا ہے کہ ” کافروں کا کید یعنی دھو کے اور فریب کی تدبیریں اکارت ہو جانے والی ہیں، قرآن مجید کا یہ طرز ہے کہ جب منکروں اور کافروں نے خدا کے کسی برگزیدہ شخص کی نسبت ایذاء رسانی یا قتل و غیرہ کا منصوبہ باندھا اور خفیہ تدبیریں کیں مگر بوجہ من الوجوہ ان کی تدبیریں کارگر نہ ہوئیں اور وہ برگزیدہ شخص ان کے ابتلا کے دام سے محفوظ رہا.اس وقت قرآن اس شخص یا اشخاص کے سلامت رہنے اور دشمنوں کی تدابیر کے کارگر نہ ہونے کو اسی طرح پر لفظ کید کے اطلاق سے ذکر کرتا ہے کہ انہوں نے تدبیر تو کی اور منصو بہ تو باندھا مگر ان کا کید یعنی داؤں نہ چلا یا ہم نے چلنے نہ دیا.نظیر دیکھو حضرت ابراہیم کے واقعہ میں جب دشمنوں نے اُن کو آگ میں ڈالا اور پھونک کر جلا دینا چاہا اور نصرت الہیہ سے جو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے شامل حال رہتی ہے حضرت ابراہیم ان کے مکائد اور شر سے محفوظ رہے.قرآن اس کو اس طرح پر بیان فرماتا ہے.وره وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْنَهُمُ الْأَخْسَرِينَ (الانبياء: ا ) - لے انہوں نے اس سے داؤں کرنے کا ارادہ کیا.پس ہم نے انہیں کوٹو ٹا پانے والا کیا.

Page 103

حقائق الفرقان ۹۳ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ اور کفار مکہ جس وقت اس بنی نوع انسان کے بچے خیر خواہ رؤف و رحیم بادی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی کی تدابیر وفکر میں لگے ہوئے تھے قرآن کہتا ہے.إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا ( الطارق :١٧،١٢) - غرض اسی طرح کسی واقعے کو بیان کرنا زبان عرب کا عموماً اور قرآن کا خصوصا طرز ہے.ٹھیک ایسا ہی اس آیت میں ہے جس پر اعتراض کیا گیا ہے کہ فرعون نے کہا یا اپنے ہالی موالی سے مشورہ کیا کہ مومنین کے بیٹوں کو مار ڈالومگر کسی وجہ سے اس کا ارادہ یا قول یا مشورہ صورت پذیر نہ ہوا جسے قرآن ان الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ کفار کی تدابیر یاداؤں اکارت جانے والا ہے.یعنی وہ امر وقوع میں نہیں آیا.بھلا پادری صاحبان ! اگر قتل والی بات غلط تھی تو کیوں بنی اسرائیل موسی اور ہارون کو کہتے ہیں تم نے کیوں فرعون کے ہاتھ میں تلوار دی ہے کہ وے ہم کو قتل کریں خروج ۵ باب ۲۲.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۳۳ تا ۱۳۵) ۲۷.وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي اقْتُلُ مُوسى وَ لَيَدُعُ رَبَّهُ ۚ إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ - ترجمہ.اور فرعون نے کہا میرے مزاحم مت ہو میں موسیٰ کو مار ڈالوں گا اور اسے چاہیے کہ وہ اپنے رب کو بلا لے.میں ڈرتا ہوں یہ کہ کہیں وہ تمہارے دین کو بدل نہ ڈالے یا یہ کہ نکال کھڑا کرے تمہیں ملک سے فساد کر کے.تفسیر.دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں ہوگزری ہیں مگر اب ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں ہے.ان يُبَدِّلَ دِينَكُمْ.قوم کے دینداروں کو اس طریق سے اکسایا ہے.يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ - یہ قوم کے امیروں کو برانگیختہ کیا ہے کہ دیکھو تمہاری امارت چھن (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۸) جائے گی.لے وہ خفیہ داؤں بچارہے ہیں اور میں ان کے داؤں کو باطل کرنے کے درپے ہوں.

Page 104

حقائق الفرقان ۹۴ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ " ۲- وَقَالَ مُوسَى إِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ مِّنْ كُلِّ مُتَكَيْرٍ لَا يُؤْمِنْ بِيَوْمِ الْحِسَابِ.ترجمہ.اور موسیٰ نے جواب دیا میں تو پکار چکا اپنے اور تمہارے رب کو.ہر ایک مغرور حقیر سمجھنے والے کے مقابلہ میں جو یقین نہیں کرتا حساب کے وقت کا.ہیں.تفسیر.اِنِّي عُذْتُ برتی.بڑے سے بڑے زبردست دشمن کے مقابلہ میں خدا کی پناہ میں آ جانا بڑی بات ہے.ہر مشکل کے وقت دعا سے کام لو.دعا کے یہ معنے نہیں کہ اسباب مہیا نہ کریں.بلکہ جس قدر اسباب اپنی طاقت سے مہیا کر سکتے ہیں.وہ تو کر لیں.مگر چونکہ کئی بار یک در بار یک امور ہوتے ہیں اور کئی عجیب موانع جو کامیابی میں سد راہ ہو جاتے ہیں.اس لئے دعا کی جاتی ہے.نیز صحیح اسباب مراد مندی کا علم بھی خدا کے فضل ہی پر موقوف ہے.میں نے بڑے بڑے گھمسان کے مباحثوں میں جہاں میں تن تنہا تھا اور ہزاروں مخالف ہی مخالف.اس عُذْتُ برتی کے جلوے دیکھے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۸) ۲۹ - وَقَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَكْتُمُ إِيمَانَةَ أَتَقْتُلُونَ رَجُلًا اَنْ يَقُولَ رَبِّيَ اللهُ وَ قَدْ جَاءَكُم بِالْبَيِّنَتِ مِنْ رَّبِّكُمْ ۖ وَ إِنْ يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمُ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَّابٌ - ترجمہ.اور کہا ایک مرد ایماندار نے فرعون کے عزیزوں میں سے جو اپنے ایمان کو چھپائے رکھتا تھا کہ کیا تم قتل کئے دیتے ہو ایک مرد کو اسی بات پر کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تحقیق میں تمہارے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آیا ہوں تمہارے رب کی طرف سے اور اگر فرض کرو کہ یہ جھوٹا ہے تو اسی پر پڑے گا اس کے جھوٹ کا وبال اور اگر سچا ہے تو تم پر آ پڑے گا بعض اس عذاب کا جن کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے.بے شک اللہ ہدایت نہیں دیتا حد سے بڑھے ہوؤں جھوٹوں کو.تفسیر.ایک اور بات ہے جو انسان کو سچائی کے قبول کرنے سے روک دیتی ہے.اور وہ تکبر b ہے.خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ متکبروں کو خدا تعالیٰ کی آیتیں نہیں مل سکتیں.کیونکہ تکبر کی وجہ

Page 105

حقائق الفرقان ۹۵ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ سے انسان تکذیب کرتا ہے.اور جھٹلانے کے بعد صداقت کی راہ نہیں ملتی ہے.پہلے تکذیب کر چکتا ہے.پھر انکار کرتا ہے یاد رکھو مفتری کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتا.إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفُ كَذَابُ (المؤمن : ۲۹) پس اپنے اندر دیکھو کہ کہیں ایسا مادہ نہ ہو.کبھی کبھی انسان کی ایک بد عملی دوسری بدعملی کیلئے طیار کر دیتی ہے.خدا تعالیٰ سے بہت وعدہ کر کے خلاف کرنے والا منافق مرتا ہے.امام کے ہاتھ پر بڑاز بر دست اور عظیم الشان وعدہ کرتے ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم کروں گا.اب سوچ کر دیکھو کہ کہاں تک اس وعدہ کی رعایت کرتے ہو اور دین کو مقدم کرتے ہو.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ ، صفحہ ۳.۴) يَكْتُمُ اِيْمَانَةٌ.اس وقت تک ( تقریر ) اس نے اپنے ایمان کو مخفی رکھا تھا.اَنْ يَقُولُ رَبِّي.کیا عمدہ پیرا یہ نصیحت ہے.کیسے دل آویز طریقے سے شرم دلائی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) يُصِبْكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ (المؤمن:۲۹) اس بَعْضُ الَّذِی پر خوب غور کرو کہ اس میں یہی سر تھا کہ تمام وعدے نبی کی زندگی میں پورے نہ ہوں گے.حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ نے فرمایا.قَد يُوعَدُ وَ لایو ٹی.یعنی بعض دفعہ خدا وعدہ کرتا ہے مگر پورا نہیں کرتا.نادان سمجھتا ہے کہ اس نے وفا نہیں کی حالانکہ مناسب وقت پر وہ وعدہ دیا اس کی مثل پورا ہو جاتا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۷ مورخہ ۶/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷) ٣٠ - يُقَومِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظُهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ يَنْصُرُنَا مِنْ بَأْسِ اللَّهِ إن جَاءَنَا قَالَ فِرْعَوْنُ مَا يُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرى وَمَا أَهْدِيكُمُ الأَسَبِيلَ الرَّشَادِ - ترجمہ.اے میرے قوم ! تمہاری ہی سلطنت ہے آج غالب ہورہے ہو ملک میں پھر کون تمہاری مدد کرے گا اللہ کے عذاب سے اگر تم پر آنازل ہوا.فرعون نے کہا میں تمہیں وہی بتاتا ہوں جو خود سمجھتا ا بے شک اللہ ہدایت نہیں دیتا حد سے بڑھے ہوؤں جھوٹوں کو.۲ تم پر آ پڑے گا بعض اس عذاب کا جن کا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے.

Page 106

حقائق الفرقان ہوں اور راہ راست ہی کی ہدایت دیتا ہوں.۹۶ ظهِرِينَ فِي الْأَرْضِ.طاقت وغلبہ والے ہوزمین میں.سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) وَيُقَومِ اإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِ - ترجمہ.اور اے میری قوم! میں تم پر خوف کرتا ہوں ایک دوسرے کو بلانے کے دن کا.تفسیر.يَوْمَ الثَّنادِ.ایک دوسرے کو پکارنے کا دن جیسا کہ مصیبت کے وقت کرتے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۸) ۳۵- وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍّ مِّمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفُ مُرْتَابُ - ترجمہ.اور بے شک تمہارے پاس آچکے ہیں یوسف اس سے پہلے کھلی نشانیاں لے کر پھر تم ہمیشہ شک ہی میں رہے ان چیزوں سے جو وہ لایا تھا یہاں تک کہ جب وہ وفات پا گیا تو لگے کہنے کہ ہرگز نہ بھیجے گا اللہ اس کے بعد کوئی رسول.اسی طرح اللہ اس کو گمراہ کیا کرتا ہے جو حد سے بڑھ جانے والا شکی و ہلاک کنندہ ہو.تفسیر - يُضِلُّ الله.اللہ تباہ ہلاک کر دیتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۴ مورخه ۲۴ /نومبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۸) b -۳۶- الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيْتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطِن أَنْهُمْ كَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللهِ وَعِندَ الَّذِينَ آمَنُوا كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَيْرٍ جَبَّارٍ - ترجمہ.ان لوگوں کو جو جھگڑا کرتے ہیں اللہ کی آیتوں میں بلا سبب اور بلا سند جوان کے پاس آئی ہو.بڑے غضب کی بات ہے یہ اللہ کے پاس اور ایمانداروں کے پاس.اسی طرح اللہ مہر کر دیتا ہے ہر ایک غرور کرنے والے حقیر سمجھنے والے سرکش کے دل پر.

Page 107

حقائق الفرقان ۹۷ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ تفسیر.کفر اور تکبر اور بداعمالی کے کسب سے مہر لگتی ہے.ان بری باتوں کو چھوڑ دو.مہر بٹی ہوئی دیکھ لو.خدائے تعالیٰ نے اپنے قانون میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جن قومی سے کام نہ لیا جاوے وہ قوی بتدریج اور آہستہ آہستہ کمزور ہوتے جاتے ہیں.یہاں تک کہ وہ قویٰ جن سے کام نہیں لیا گیا.اسی طرح سے برکار اور معطل رہتے رہتے بالکل نکھے ہو جاتے ہیں اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قومی پر اور ان قومی کے رکھنے والوں پر مہر لگ گئی ہے.ہر ایک گناہ کا مرتکب دیکھ لے.جب وہ پہلے پہل کسی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے ملکی قوی کیسے مضطرب ہوتے ہیں پھر جیسے وہ ہر روز برائی کرتا جاتا ہے ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامل جو پہلے دن اس بد کا ر کو لاحق ہوا تھا وہ اڑ جاتا ہے.تمہیں تعجب اور انکار کیوں ہے؟ انسانی نیچر اور فطرت اور اس کے محاورے کی بولی پر غور کرو.شریر اور بدذات آدمی کو ایک ناصح فصیح نہیں کہتا کہ ان کی عقل پر پتھر پڑ گئے.ان کے کان بہرے ہو گئے.ان کی سمجھ پر تالے لگ گئے.کیا ان مجازوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۱۸) اسی طرح بہکاتا ہے اللہ اس کو جو ہو زیادتی والا شک کرتا.وے جھگڑتے ہیں اللہ کی باتوں میں بغیر سند کے جو پہنچی ان کو.بڑی بیزاری ہے اللہ کے یہاں اور ایمانداروں کے یہاں.اسی طرح مہبر کرتا ہے اللہ ہر دل پر غرور والے سرکش کے.(فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۴ حاشیه ) على كل قلب مُتَكَبَرِ جَبَّارٍ.مہر بے وجہ نہیں لگی یا در ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹) ۳۷ - وَقَالَ فِرْعَوْنُ يُهَا مَنُ ابْنِ لِي صَرْحًا لَعَلَّى أَبْلُغُ الْأَسْبَابَ - ترجمہ.اور فرعون نے کہا اے ہامان ! بنا میرے لئے ایک اونچا محل تاکہ میں جا پہنچوں ان راستوں یا تد بیروں سے.تفسیر - يُهَا مَنُ ابْنِ لِي صَدُعا.اے ہامان ! میرے لئے ایک محل تیار کر.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۵۰ حاشیه )

Page 108

حقائق الفرقان ۹۸ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ابلغ الاسباب.تاکہ آسمانی اسباب پر پہونچ جائیں.یہ اس نے بطور تمسخر کہا ہے.کیونکہ حضرت موسیٰ اسے کہتے تھے کہ اس کی فوق الفوق حکومت ہے.فرعون نے شرارت سے ان تصرفات کو جسمانی بنالیا.اور کہا کہ ایک محل بناؤ تا موسی“ کا خدا او پر پہونچ کر دیکھیں.ایک دہریہ نے مجھے سے کہا کہ اگر زمین و آسمان کے درمیان پتھر بھر دیے جاویں تو تمہارا خدا کچلا جائے.میں نے کہا احمق کہ ان پر زمانہ گزرتا ہے یا نہیں ؟ کہا.ہاں.میں نے کہا زمانہ تو مخلوق ہے جب وہ نہیں کچلا جاتا تو زمانہ ہی لطیف چیز پیدا کرنے والا تو بہت ہی لطیف ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ /دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۹) ایک عیسائی کے اس اعتراض ہامان تو موسیٰ کی موت کے ڈیڑھ سو برس بعد اخویرس کا وزیر تھا“ (دیکھواستیر ۳ باب ) کے جواب میں تحریر فرمایا.یہ اعتراض ٹھیک ایسا ہی ہے جیسے کوئی عیسائیوں کو کہے.ساؤل داؤد سے پہلے سموئیل کے وقت بادشاہ ہوا.مسیح کا رسول کیسے ہو گیا.یعقوب تو بنی اسرائیل کا باپ الحق کا بیٹا تھا.مسیح کا بھائی کیونکر بن گیا.مریم تو موسیٰ اور ہارون کی بہن تھی.مسیح کی ماں کس طرح ہو گئی.افسوس صد افسوس.ضد اور ہٹ انسان کو کس طرح موت کے اتھاہ کنویں میں جھکاتی ہے! مینس اور یمرس نے موسی کا مقابلہ کیا (۲ تمطاؤس ۳ باب ۸) بتاؤ توریت میں کہاں لکھا ہے کہ موسی کا مقابلہ انہی دو آدمیوں نے کیا.اگر ساؤل یعقوب اور مریم کئی آدمیوں کے نام ہو سکتے ہیں تو کیا ناممکن ہے کہ ہامان فرعون کے افسر کا نام بھی ہو اور خو یرس کے وزیر کا بھی.اگر کہو مینس اور یمرس کا نام گو توریت میں نہیں.تو تمطاؤس چونکہ الہامی کلام ہے.اس لئے اس میں ہونا بھی ان کی صداقت کی کافی دلیل ہے.تو ہم بھی قرآن کو الہامی اور الہبی کلام مانتے ہیں اور بہت صفائی سے وہی جواب دے سکتے ہیں.حقیقی جواب.ہامان کے معنے عربی میں محافظ کے ہیں اور یہ وہ شخص ہے جو فرعون کی طرف سے بنی اسرائیل پر متعین تھا کہ ان سے اینٹیں پکانے کا کام لے.دیکھو خروج ۵ باب ۶ تا ۸

Page 109

حقائق الفرقان ۹۹ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ حضرت موسیٰ اُس شخص کو بھی نصیحت فرماتے تھے اور بنی اسرائیل کے ساتھ حسنِ سلوک کو کہتے تھے قرآن مجید سے بھی یہی پایا جاتا ہے کہ یہ شخص افسر عمارت تھا جہاں فرمایا ہے اور فرعون کا قول جو اس نے ہامان کو کہا نقل کیا ہے.یهَا مُنُ ابْنِ لِي صَرْحًا.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۵۰،۱۴۹) لعلى ابلغ الاسباب.یہ تمسخر کے طور پر کہتا ہے.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۷۹) ۳۸ - اسْبَابَ السَّبُوتِ فَاطَّلِعَ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ كَاذِبًا ۖ وَ كَذَلِكَ زين الفِرْعَوْنَ سُوءُ عَمَلِهِ وَصُدَّ عَنِ السَّبِيلِ وَ مَا كَيْدُ فِرْعَوْنَ إِلَّا فِي تَبَابِ - ترجمہ.آسمان کے راستوں میں پھر میں جھانک کر دیکھوں موسیٰ کے معبود کو اور میں تو اس کو جھوٹا ہی خیال کرتا ہوں اسی طرح فرعون کو پسند آ گئے اپنے بد اعمال اور وہ راہِ راست سے روکا گیا اور فرعون کا منصوبہ تو تباہی کا منصوبہ تھا.تفسیر.الا في تباپ.فرعون کی تدبیروں سے موسی ہلاک نہیں ہوئے بلکہ خود فرعون ہی ہلاک ہوا.خوب یا درکھو.کبھی کسی راست باز کے مقابلہ میں نہ آؤ.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۹) ۳۹ - وَقَالَ الَّذِى أَمَنَ يُقَومِ اتَّبِعُونِ اَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ - ترجمہ.اور اس آدمی نے جو ایمان لایا تھا کہا کہ اے قوم! میری پیروی کرو میں تمہیں راہ راست دکھا دوں گا.تفسیر.اَهْدِكُمْ سَبِيلَ الرَّشَادِ - فرعون نے وَمَا اهْدِ يْكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرِّشَادِ کہا تھا.اس کی تردید میں فرماتا ہے.الى النجوة - اونچے پر آجاؤ جہاں ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ رہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۹)

Page 110

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ٣١ - مَنْ عَمِلَ سَيْئَةً فَلَا يُجْزَى إِلا مِثْلَهَا وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أو أنثى وَهُوَ مُؤْ مِنْ فَأُولَبِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ - ترجمہ.تو جس نے بُرا کام کیا تو اُسے سزا اتنی ہی ملے گی جتنا اس نے کیا ہے اور جس نے نیک کام کیا وہ مرد ہو یا عورت بشر طیکہ وہ ایمان والا ہو تو ضرور یہی لوگ بہشت میں داخل ہوں گے ان کو رزق ملے گا وہاں بے شمار.جس قدر مومن کا ایمان بڑھتا ہے.اسی قدر وہ بڑے فضل کو جذب کرتا ہے اور اسے حاصل کرتا ہے.جیسے جس قدر روشندان اور فتیلہ بڑا ہوگا اسی قدر زیادہ روشنی کو کھینچے گا.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب ایمان فضل کو بلاتا ہے اور فضل سے نجات ہے تو اعمال کیا ہوئے.کیا اعمال لغو اور بیکار ہوں گے تو معلوم ہوا کہ سائل نے ایمان اور اعمال نیک کا تعلق نہیں سوچا.کیونکہ نیک اعمال اور سچا ایمان ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہے.سچا ایمان نیک اعمال کا بیج ہے اور اچھے بیج کا ضرور ہاں اچھا ہی پھل ہوتا ہے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۳) اور جس نے کی ہے بھلائی وہ مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہو.سو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں.روزی پائیں گے وہاں بے شمار.(فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۳ حاشیه ) ۴۲ - وَيُقَومِ مَا لَى ادْعُوكُمْ إِلَى النَّجوةِ وَ تَدْعُونَنِي إِلَى النَّارِ - ترجمہ.اور اے قوم! مجھے کیا ہو گیا ہے کہ میں تمہیں بلاتا ہوں نجات کی طرف اور حالانکہ تم مجھ کو بلاتے ہو جہنم کی طرف.تفسیر.الى النجوۃ.اونچے پر آ جاؤ.جہاں ہر قسم کے عذابوں سے محفوظ رہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۹) ۴ - النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوا وَ عَشِيَّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا الَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ - ترجمہ.وہ آگ ہے کہ اس پر حاضر کئے جاتے ہیں صبح و شام اور جس دن قیامت قائم ہوگی تو حکم ہوگا کہ داخل کر و فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں.

Page 111

حقائق الفرقان 1+1 سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا.اس میں عذاب قبر کا ثبوت ہے.وو تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۷۹) اور ۵۲ - إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ ترجمہ.بے شک ہم مدد کرتے ہیں اپنے بھیجے ہوؤں کی اور ایمانداروں کی دنیا ہی کی زندگی میں اور اس دن جس دن لوگ کھڑے ہوں گے.تفسیر.ہم اپنے مرسلوں اور کامل مومنوں کو جو ہمارے کہے پر چلتے اور ہمیں مانتے ہیں نصرت و امدا دو تائید دیتے رہے اور دیتے رہیں گے.اس دنیا میں اور قیامت کے دن.اب تمام ماموروں مرسلوں اور ان کے بچے ساتھ والوں کی تاریخ دیکھ ڈالو.کس طرح بے کس و بے بس، بے یارو غمگسارد نیا میں آتے ہیں.مثلا یوسف علیہ السلام کو دیکھوز بر دست طاقت اور جماعت نے ان کے ساتھ کیا کیا.مگر آخر یوسف علیہ السلام کامیاب اور وہ سب کے سب باہمہ عصبیت ناکام و نادم ہوئے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کیسے زبر دست تھے.پھر کیسے نامراد ہلاک ہوئے.تائید و نصرت مرسل کے بارے دو خبریں ہیں.ایک دنیا میں تائید و نصرت کی.دوسری بعد الموت کی.ان دو میں سے ایک واقعہ نے دنیا میں اپنی خبر کے مطابق ظہور کیا.پس اسی مناسبت سے دوسری خبر جو اسی کے ساتھ ہے.اپنے واقعہ کے ساتھ ضرور ظہور پذیر ہوگی.فرعون وموسیٰ“ کے مابین جنگ ہو رہی ہے.ایک طرف ایک طاقت ور بادشاہ ہے جو مد مقابل کو کہتا ہے.تو ہمارا نمک پروردہ اور تیری تمام قوم ہماری غلام ہے.ان دونوں کے درمیان البی نصرت کا وعدہ ہوتا ہے کہ موسیٰ ان کی تمام شرارتوں سے محفوظ رہیں گے اور فرعونی بالکل غرق ہو کر عذاب آخرت کے مستحق ہوں گے.فَوَقْهُ اللهُ سَيَاتِ مَا مَكَرُوا وَ حَاقَ بِالِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا (المومن :۴۷٬۴۲) پھر دیکھ لوان تینوں علوم نے کیسی زبردست قوت سے قیامت کو لے تو اللہ نے بچالیا اُن کی بُری تجویز سے اور الٹ پڑا فرعون کے لوگوں پر بُرا عذاب.وہ آگ ہے کہ اس پر حاضر کئے جاتے ہیں.

Page 112

حقائق الفرقان ۱۰۲ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ثابت و محکم کر دیا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۴۲.۴۳) ساری خلقت جو میری نگاہ سے بذریعہ علم ، کتاب، سماع ، مشاہدہ گزری ہے وہ یہی چاہتی ہے کہ میں جیت جاؤں اور مجھے نصرت ملے.لوگ اپنے ننگ و ناموس کے قیام کیلئے جانوں تک بے دریغ شار کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس فطرت کے تقاضا پر فرماتا ہے.اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا - اسی ورلی زندگی میں رسولوں اور مومنوں کی نصرت کریں گے.تاریخ اس وعدہ کے ایفا اور اس نشان کے صداقت کی شہادت دیتی ہے.حضرت نوح علیہ السلام کا ہی معاملہ دیکھو کہ آخر کار آپ ہی سلامت و مامون رہے.دوو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلہ میں مجوس تھے.مگر اس سب سے بڑے مخالف نمرود کا کچھ نشان نہیں.مؤرخین اس کے بارہ میں بحث کرتے ہیں کہ آیا وہ تھا بھی یا نہیں.تھا تو کون؟ اسی طرح حضرت موسیٰ حضرت مسیح کے دشمنوں کا حال ہوا.پھر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام رہ گیا اور کس عزت سے لیا جاتا ہے.امام حسین رضی اللہ عنہ کی اولا د تو ہر جگہ پائی جاتی ہے.مگر یزید کی نسل میں سے ہونا تو در کنار اس کا ہم نام بھی کوئی کہلانا نہیں چاہتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ /دسمبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۹) کس قدر خوشی اور امید کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور تائید اسی دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس دنیا میں نصرت اور تائید الہی کا ملنا آخرت کی نصرت پر ایک قوی دلیل ہے.اور پھر یہ بھی کہ یہ نصرت اور تائید ہر مومن مخلص کو ملتی ہے.اگر صرف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہی مخصوص ہوتی تو البتہ عام مومنوں کیلئے کس قدر دل شکن بات ہو سکتی تھی.مگر خدا کا کس قدر احسان ہے کہ فرما دیا ہے إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا اللہ تعالیٰ کے مامور اور مرسل اور مومن اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی تائیدات سے حصہ لیتے ہیں اور یہ نصرت عجیب عجیب طور پر اپنا ظہور کرتی ہے کیونکہ اس نصرت سے اللہ کی ہستی کا ثبوت ، مامور من اللہ کی صداقت اور اللہ کے دوسرے وعدوں کی تصدیق کی ایک

Page 113

حقائق الفرقان ۱۰۳ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ دلیل ہوتی ہے اور ایک عظیم الشان حجت ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے قائم کی جاتی ہے.کیا خوب فرمایا ہے.خدا کے پاک لوگوں کو خدا سے نصرت آتی ہے جب آتی ہے تو پھر عالم کو اک عالم دکھاتی ہے بھی وہ خاک ہو کر دشمنوں کے سر پہ پڑتی ہے کبھی ہو کر وہ پانی ان پر اک طوقان لاتی ہے غرض رُکتے نہیں ہرگز خدا کے کام بندوں سے بھلا خالق کے آگے خلق کی کچھ پیش جاتی ہے پس میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم اللہ کی نصرت چاہتے ہو.اُسے سپر بنانا چاہتے ہو تو جس نے سپر بنانے کا نمونہ اپنی عملی زندگی سے دکھایا ہے اس کے نیچے آ ؤ اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ.الحکم جلد ۵ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۱ صفحه ۶) ہم ضرور کامیاب کرتے ہیں اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیا کی زندگی میں اور پیش ہونے والوں کے پیش ہونے کے دن میں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۴) حضرت امام حسین کربلا میں شہید ہوئے.یہ إِنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا کے خلاف نہیں.موت تو سبھی کو آتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ دنیا میں معزز و مکرم کون ہے وہ جس کی نسل کا بچہ پیدا ہوتے ہی سید سردار کا لقب پاتا ہے.یا وہ جس کے نام پر کوئی اپنا نام بھی نہیں رکھتا.اور نہ کوئی مانتا ہے کہ میں اس کی نسل سے ہوں.جس کے نام کا تصور قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات کے پڑھتے ہوئے بھی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے.فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِعُوا أَرْحَامَكُمْ - (محمد: ٢٣) وَ إِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَ يُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ - (البقرة : ٢٠٦) تفخیذ الا ذبان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحہ ۱۷۵-۱۷۶) لے تو کیا تم قریب ہو کہ اگر والی بنو تو ملک میں فساد کرو اور اپنے رشتہ داروں کا لحاظ کاٹ دو.ے وہ جب لوٹ کر گیا یا حاکم یا والی بنا تو دوڑتا پھر ا ملک میں تاکہ اس میں شرارت پھیلا دے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے ( یا عورت اور بچوں کو ).

Page 114

حقائق الفرقان ۱۰۴ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ جو شخص اپنی خواہشوں کو خدا کی رضا کیلئے نہیں چھوڑتا تو خدا بھی اس کیلئے پسند نہیں کرتا جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیسے دشمن موجود تھے مگر وہ خدا جس نے اِنا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْیا فرمایا.اس نے سب پر فتح دی صلح حدیبیہ میں ایک شخص نے آ کر کہا.تم اپنے بھائیوں کا جتھا نہ چھوڑو.ایک ہی حملہ میں یہ سب تمہارے پاس بیٹھنے والے بھاگ جائیں گے.اس پر صحابہ سے ایک خطرناک آواز سنی.اور وہ ہکا بکا رہ گیا.یہ حضرت نبی کریم کے اللہ کے حضور بار بار جان قربان کرنے کا نتیجہ تھا کہ ایسے جاں نثار مرید ملے.آخر وہ جو باپ بنتے تھے.جو تجربہ کار تھے.ہر طرح کی تدبیریں جانتے.ان سب کے منصوبے غلط ہو گئے.( بدر جلد نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۹) ۵۶ - فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ - ترجمہ.تو صبر کر ( یعنی نیکیوں پر جمارہ اور بدیوں سے بچتا رہ) بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور حفاظت مانگ اپنی بشریت کی کمزوری کی اور تسبیح کر اپنے رب کی حمد کے ساتھ شام اور صبح.تفسیر.بالعشق.پچھلے پہر.(ضمیمہ اخبار بد قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ دسمبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۱۹) ۵۷.اِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ايْتِ اللَّهِ بِغَيْرِ سُلْطن انهُم إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبُرُ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ، فَاسْتَعِذْ بِاللهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ - ترجمہ.جولوگ جھگڑتے ہیں اللہ کی نشانیوں میں بغیر سند کے جو ان کے پاس آئی ہوان کے سینوں میں تو ایک غرور بھرا ہوا ہے کہ وہ اس تک پہنچنے والے نہیں تو تو پناہ مانگ اللہ کی بے شک وہ بڑا سننے والا بڑا د یکھنے والا ہے.تفسیر.سلطن.دلیل.

Page 115

حقائق الفرقان ۱۰۵ سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ مَاهُمْ بِبَالِغِيهِ - متکبرا اپنی کبریائی کی حد کو کبھی نہیں پہونچتا اور کبھی کامیاب نہیں ہوتا میں نے ایسے نظارے خود دیکھے ہیں.جوشِ تکبر میں جن پر ظلم کیا جنہیں ذلیل سمجھا آخر انہی کے ہاتھوں بلکہ میخ والے جوتوں سے پٹوایا گیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۹) ۵۸ - لَخَلْقُ السَّبُوتِ وَالْاَرْضِ اَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ 199191 لا يَعْلَمُونَ - ترجمہ.کچھ شک نہیں کہ آسمان اور زمین کا پیدا کرنا بہت بڑا ہے آدمی کے پیدا کرنے سے لیکن اکثر لوگ تو جانتے ہی نہیں.وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ.خوب یا درکھو.میجارٹی مذہب میں نہیں چلتی.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۹) b ٦١ - وَقَالَ رَبِّكُمُ ادْعُونِي اَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدُ خُلُونَ جَهَنَّمَ دَخِرِينَ - ترجمہ.اور تمہارا رب فرماتا ہے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا تو تکبر کرنے والے میری عبادت، سے قریب ہی جہنم میں داخل ہوں گے ذلیل بن کر.تفسیر - ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ - (المؤمن :۶۱) یہ ایک ہتھیار ہے اور وہ بڑا کارگر ہے لیکن کبھی اس کا چلانے والا آدمی کمزور ہوتا ہے اس لئے اس ہتھیار سے منکر ہو جاتا ہے.وہ ہتھیار دعا کا ہے جس کو تمام دنیا نے چھوڑ دیا ہے.مسلمانوں میں ہماری جماعت کو چاہیے کہ اس کو تیز کریں اور اس سے کام لیں.جہاں تک ان سے ہو سکتا ہے دعائیں مانگیں اور نہ تھکیں.میں ایسا بیمار ہوں کہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ میری زندگی کتنی ہے اس لئے میری یہ آخری وصیت ہے کہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ دعا کا ہتھیار تیز کرو.البدر جلد ۱۰ نمبر ۱۰ مورخه ۱۲/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۳) ے تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا.

Page 116

حقائق الفرقان 1+4 سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ ۶۲ - اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الَّيْلَ لِتَسْكُنُوا فِيهِ وَالنَّهَارِ مُبْصِرًا إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ - ترجمہ.اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے رات کو بنایا تا کہ تم اس میں آرام کرو اور دن بنادیا ہے سب چیزوں کے دکھلانے کو.کچھ شک نہیں کہ اللہ بڑا فضل رکھتا ہے لوگوں پر لیکن اکثر لوگ شکر گزاری ہی نہیں کرتے.تفسیر لکھ.تمہاری ہی بھلائی کے لئے.لِتَسْكُنُوا فِیهِ - تاکہ تم اس میں آرام کرو.آرام بڑی دولت ہے.آرام سے صحت اچھی رہتی ہے.علم بڑھتا ہے.دنیا کی تمام چیزوں کیلئے قدرتی طور پر ایک وقفہ مقرر ہے.انسان کیلئے بھی ضروری ہے کہ آرام کرے.مگر آرام خدا ہی کے فضل پر موقوف ہے.ہم نے ہمیں روپے سے لے کر کروڑ روپیہ آمد تک کے لوگوں سے پوچھا ہے تو انہوں نے اپنے تئیں دکھی بتایا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ سکھ کی زندگی دولت پر موقوف نہیں بلکہ تمام جسم کے سکھ اللہ کی فرماں برداری میں ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ /دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۱۹) اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ قَرَارًا وَ السَّمَاءَ بِنَاءَ وَ صَوَّرَكُمْ فَاحْسَنَ صُوَرَكُمْ وَ رَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبتِ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ فَتَبَرَكَ اللهُ رَبُّ العلمينَ ترجمہ.اللہ وہ ذات ہے جس نے بنا دیا زمین کو تمہارے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمانوں کو مضبوط جگہ اور تمہاری صورتیں بنائیں تو کیا ہی اچھی تمہاری صورتیں بنائیں اور تم کو پاکیزہ ستھری چیزیں کھانے کو دیں.یہ ہے اللہ تمہارا رب پس بڑی بابرکت ہے اللہ کی ذات جو آہستہ آہستہ سب جہانوں کو کمال کی طرف پہنچانے والی ہے.تفسیر - قرارا - آرام گاہ.

Page 117

حقائق الفرقان 1.6 سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ فَاحْسَنَ صُورَكُمْ.یہ انسان کے تصویر کے عجائبات ہیں کہ ہاتھی ، چیتے ، شیر اس کے اشارہ پر چلتے ہیں.پھر پہاڑ ، بجلی ، ہوا پر قابو ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ /دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۱۹) - ٦٨ - هُوَ الَّذِى خَلَقَكُم مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَةٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَةٍ ثُمَّ يُخْرِجُكُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوا اَشُدَّكُمْ ثُمَّ لِتَكُونُوا شُيُونًا ۚ وَمِنْكُمْ مَنْ يتوفى مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوا اَجَلًا مُّسَمًّى وَلَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا مٹی سے پھر تھوڑی سی چیز سے، پھر لوتھڑے سے، پھر تم کو بچہ بنا کر نکالتا ہے تا کہ تم اپنی جوانی کو پہنچو، پھر تم کو زندہ رکھتا ہے) تاکہ تم بڑھاپے کو پہنچو اور وہی تم میں سے کسی کی تو روح قبض کر لیتا ہے اس سے پہلے اور زندہ رکھتا ہے بعض کو ) تاکہ تم پہنچ جاؤ مقرر وقت تک اور تا کہ تم سمجھ پکڑو.مِن تُرَاب.یہی مٹی ہے.جو اگر کپڑے کو لگے تو کپڑا میلا ہو جائے اور اسی مٹی سے انسان پیدا ہوتا ہے.تَعْقِدُونَ.بدیوں سے رُکو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ /دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۲۰) ٢٩ - هُوَ الَّذِي يُحْيِ وَيُمِيتُ فَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - ترجمہ.وہی اللہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے تو جب ٹھہرا لیتا ہے کسی کام کا کرنا تو اس کو کہہ دیتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے.تفسیر.وہی زندہ کرتا اور مارتا ہے.پس جب جاری کرتا ہے حکم تو کہتا ہے.ہو جا.پس ہو جاتا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۹) الَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيْتِ اللهِ أَنَّى يُصْرَفُونَ - ترجمہ.کیا تو نے ان کی طرف نہیں دیکھا جو جھگڑتے ہیں اللہ کی آیتوں میں وہ کدھر سے پھیرے جاتے ہیں.

Page 118

حقائق الفرقان 1+A سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ تفسیر.کسی کی عظمت، خوبی، جلال، طاقت ، حلم، احسان دیکھنے کیلئے اس کے افعال ہی گواہ ہوتے ہیں.پچھلے رکوع میں اسی بات کا ذکر تھا.اب اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرنے والوں کا ذكر سنو! الي يُصرفون.بت پرستوں کا معاملہ خصوصیت سے موجب تعجب ہے.خود ہی اپنے ہاتھ سے تراشتے ہیں.پھر خود ہی اسے معبود قرار دیتے ہیں.اور اس کے آگے اپنی حاجتیں پیش کرتے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۲۲۰) - فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا يُرْجَعُونَ - ترجمہ.تو صبر کر بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پھر ہم ضرور دکھا ئیں گے تجھے کچھ اُس میں سے جو ہم اُن سے وعدہ کرتے ہیں یہاں تک کہ تجھے وفات دیں گے تو وہ ہماری طرف لوٹائے جائیں گے.تفسیر.فَاهَا نُرِيَنَّكَ - اما سے ظاہر ہے کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کی صورت کا علم اللہ ہی کو ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے.جس رنگ میں چاہے.پوری کر دے.جاتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۲۰) بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ.اس سے پہلے إِنَّ وَعْدَ اللہ حق ہے.بعض وعدوں میں تخلف ہو تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۷۹) - وَلَكُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَلِتَبْلُغُوا عَلَيْهَا حَاجَةً فِي صُدُورِكُمْ وَعَلَيْهَا وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ - ترجمہ.اور تمہارے لئے ان میں بہت سے فائدے ہیں تا کہ تم پہنچوان پر سوار ہو کر اپنے دلی مقاصد تک اور جانوروں اور کشتیوں پر سوار پھرتے ہو تم.تفسیر.اللہ کی کتاب ، اللہ کی عظمت سمجھانے ، قرب کی راہیں بتانے اور اس ذات سے حت کامل پیدا کرانے کیلئے نازل ہوئی ہے.اور یہ باتیں اس کے عجیب در عجیب احسانوں کے مطالعہ

Page 119

حقائق الفرقان 1+9 سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ کرنے سے پیدا ہوتی ہیں جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبّ مَنْ أَحْسَنَ اليْهَا - کامل علم والے، کامل قدرت والے، کامل احسانوں والے کی محبت خود بخود آ جاتی ہے.اور پھر اس محبت کرنے والے میں فرماں برداری پیدا ہوتی ہے جو تمام سکھوں کی موجب ہے.پہلے اپنے احسان بیان فرماتا ہے.وَ عَلَى الْفُلْكِ تُحْمَلُونَ.پہلے بری سفر کا ذکر کیا.اب بحری سفر کے ذرائع بتائے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸/ دسمبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۲۰) ۸۲- وَيُرِيكُمُ ايَتِهِ فَاقَ أَيْتِ اللَّهِ تُنْكِرُونَ -.ترجمہ.اور اللہ تم کو دکھاتا ہے اپنی نشانیاں تو تم اللہ کی کون کون سی نشانیوں کا انکار کرو گے.تفسیر.وَيُدِيكُم الته- ایک مقناطیسی سوئی کے طفیل اندھیری راتوں میں بڑے بڑے سمندروں میں سفر ہوتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ صفحه ۲۲۰) ۳ اَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْهُمْ وَأَشَدَّ قُوَةً وَ أَثَارًا فِي الْأَرْضِ فَمَا أَغْنَى عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ - ترجمہ.کیا ان لوگوں نے ملک میں سیر نہیں کی کہ دیکھتے کیسا انجام ہوا اُن سے اگلوں کا.وہ اُن سے زیادہ تھے اور بہت سخت تھے طاقت میں اور ان ملک و املاک میں جو چھوڑ گئے تو ان کے کچھ کام نہ آیا جو وہ کما یا کرتے تھے.تفسیر - أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ.کتابوں کے ذریعے بھی سیر فی الارض ہوسکتا ہے.فَمَا أَغْنى عَنْهُمْ - تاتاریوں، پٹھانوں نے کتنے ممالک فتح کئے.پھر ایرانیوں نے اپنی ملکداری کا کہاں تک سکہ بٹھایا کہ اب تک اس کے آثار باقی ہیں.فارسی زبان اب بھی گاؤں میں پڑھائی جاتی ہے.مگر آخر تنزل آیا.اب وہ طمطراق ، وہ شوکت ، وہ شان کہاں گئی.خدا جب مٹانے پر آیا تو وہ ساز و سامان کچھ بھی کام نہ آیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۰ نمبر ۶ مورخه ۸ / دسمبر ۱۹۱۰ء صفحه ۲۲۰)

Page 120

حقائق الفرقان 11.سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ - فَلَمَّا جَاءَتُهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ وَ حاقَ بِهِمْ مَا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ - ترجمہ.پھر جب اُن کے پاس آئے اُن کے رسول کھلی کھلی نشانیاں لے کر تو یہ لوگ خوش ہوئے اس پر جو اُن کے پاس علم تھا اور الٹ پڑا اُن پر وہی جس کی وہ ہنسی اڑایا کرتے تھے.تفسیر.اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقویٰ اللہ سے روکنے والی ایک خطر ناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے فَرِحُوا بما عِندَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے.اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے.خواہ کسی قسم کا علم ہو.وجدان کا ، سائنس کا ، صرف ونحو یا کلام یا اور علوم.غرض کچھ ہی ہوانسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے.راست باز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بجھ سکتی.بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے.اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان.اَعْلَمُ بِالله اتقی لِلهِ اخْشى لِلہ جس کا نام محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے.وہ اللہ تعالیٰ کے سچے علوم ، معرفتیں، بچے بیان اور عمل درآمد میں کا مل تھا.اس سے بڑھ کر ، اعلم ، اتھی اور انشی کوئی نہیں.پھر بھی اس امام المتقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - (طه : ۱۱۵) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کیلئے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقہ کیلئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی.جس قدر وہ نیکیوں اور تقویٰ میں ترقی کرے گا.جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بجھا ہوا محسوس کرے.اور فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ کے آثار پائے اس کواستغفار اور دعا کرنی چاہیے کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہے جو اس کیلئے یقین اور معرفت کی راہوں کوروکنے والی ہے.ے کہا کراے میرے رب ! مجھے علم اور زیادہ دے.

Page 121

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُؤْمِنِ چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے انت اور اس کے مراتب و درجات بے انتہا ہیں.پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے اس لئے اسے واجب ہے کہ اللہ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا متبع ہو کر کتاب اللہ کے سمجھنے میں چست و چالاک ہو.اور سعی اور مجاہدہ کرے.تقویٰ اختیار کرے تا سچے علوم کے دروازے اس پر کھلیں.غرض کتاب اللہ پر ایمان تب پیدا ہو گا.جب اس کا علم ہوگا اور علم منحصر ہے مجاہدہ اور تقوی پر اور فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ سے الگ ہونے پر.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۵) یہودیوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور وحی پر ایمان لانے سے جو چیز مانع ہوئی وہ یہی تکبر علم تھا فرِ حُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْم.انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے پاس ہدایت کا کافی ذریعہ ہے.صحفِ انبیاء اور صحف ابراہیم و موسی ہمارے پاس ہیں ہم خدا تعالیٰ کی قوم کہلاتے ہیں تحن ابْنَاءُ اللهِ وَ احِباتہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم عربی آدمی کی کیا پرواہ کر سکتے ہیں.اس تکبر اور خود پسندی نے انہیں محروم کر دیا اور وہ اس رحمۃ للعلمین کے ماننے سے انکار کر بیٹھے جس سے حقیقی توحید کا مصفی اور شیر میں چشمہ جاری ہوا.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱/۱۰ پریل ۱۹۰۵ء صفحه ۶) کتابوں کو جمع کرنے اور ان کے پڑھنے کا شوق جنون کی حد تک پہونچا ہوا ہے.میرے مخلص احباب نے بسا اوقات میری حالت صحت کو دیکھ کر مجھے مطالعہ سے باز رہنے کے مشورے دیئے.مگر میں اس شوق کی وجہ سے ان کے دردمند مشوروں کو عملی طور پر اس بارہ میں مان نہیں سکا.میں نے دیکھا ہے کہ ہزاروں ہزار کتابیں پڑھ لینے کے بعد بھی وہ راہ جس سے مولیٰ کریم راضی ہو جاوے اس کے فضل اور مامور کی اطاعت کے بغیر نہیں ملتی.ان کتابوں کے پڑھ لینے اور ان پر ناز کر لینے کا آخری ڈپلومہ کیا ہوسکتا ہے.یہی کہ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْم الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مورخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۵ صفحه ۶)

Page 122

حقائق الفرقان ۱۱۲ سُورَة حم السجدة سُوْرَةُ حم السجدة مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ سجدہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں با عظمت و شان اللہ کے نام سے جس نے سب کچھ دیا جو چاہیے تھا مخلوق کو اور سب کچھ دے گا باعتبار نتیجوں کے جو چاہیے مخلوق کو.۲ تا ۹ - حُمَ - تَنْزِيلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - كِتَبُ فَصَلَتْ أَيْتُهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ بَشِيرًا وَ نَذِيرًا ۚ فَاَعْرَضَ أَكْثَرُهُمْ فَهُمْ لَا يَسعُونَ وَقَالُوا قُلُوبُنَا فِي رَكِنَّةٍ مِمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ وَفِي أَذَانِنَا وَقُرُ وَ مِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلُ اِنَّنَا عَمِلُونَ - قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى انَّمَا الهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَ وَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ لَا يُؤْتُونَ الزَّكَوةَ وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ كَفِرُونَ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونٍ - ترجمہ.ہو چکا جو ہونے کا تھا فیصلہ.یہ رحمن اور رحیم کا اتارا ہوا کلام ہے.یہ ایک کتاب ہے.مفصل بیان کی گئیں ہیں جس کی آیتیں (یعنی) قرآن عربی اُن لوگوں کے لئے جو جا نہیں.وہ قرآن دوستوں کو خوش خبری سنانے والا دشمنوں کو ڈرانے والا ہے پھر بہتوں نے ان میں سے منہ پھیر لیا پس وہ سنتے ہی نہیں.اور کہتے ہیں ہمارے تو دل پردوں میں ہیں اس خبر سے جس کی طرف تم ہم کو بلاتے ہو اور ہمارے کانوں میں ڈانٹ لگے ہیں بوجھ ہے اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے.تو تُو کر ہم بھی کرنے والے ہیں.تو کہہ دے میں آدمی ہوں تمہیں جیسا ہاں میری طرف وحی کی جاتی ہے اس کے سوا نہیں کہ تمہارا معبود وہی اکیلا معبود ہے تو تم اسی کی طرف سیدھے ہو جاؤ اور اسی سے اپنی حفاظت طلب کرو اور مشرکوں پر تو افسوس ہے.جو ز کوۃ نہیں دیتے اور وہ آخرت کے بھی منکر ہیں.

Page 123

حقائق الفرقان ۱۱۳ سورة حم السجدة بے شک جن لوگوں نے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے ان کے لئے ایسا اجر ہے جو موقوف ہونے والا نہیں (دائمی اور غیر منقطع ہے).تفسیر.رحمن و رحیم کی جانب سے اترا ہوا.یہ کتاب ہے جس کی آیتیں کھلی کھلی ہیں.قرآن عربی جاننے والے لوگوں کے واسطے بشیر و نذیر ہے.پس اکثر لوگوں نے منہ پھیرا اور وہ سنتے ہی نہیں اور کہتے ہیں ہمارے دلوں پر غلاف چڑھے ہوئے ہیں.تیری اس بات کی طرف سے جدھر تو ہمیں بُلاتا ہے.اور ہمارے کان بو جھل ہو رہے ہیں اور تیرے اور ہمارے درمیان اوٹ ہے.تو اپنے کام میں لگارہ.ہم اپنے کام میں.تو کہہ دے (اے محمد) میں ایک تمہیں سابشر ہوں.میری طرف خدا کا پیغام آتا ہے کہ تمہارا معبود واحد ہے.اسی کی راہ پر سیدھے کھڑے ہو جاؤ اور اُسی سے بخشش مانگو.ہلاکت ان مشرکین کے واسطے جو ز کوۃ نہیں دیتے اور آخرت کے منکر ہیں.بے شک ایمانداروں اور نیکوکاروں کیلئے غیر منقطع اجر ہے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۲۴ حاشیه ) قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشر الخ: تو کہہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم حکم آتا ہے مجھ کو کہ تم پر بندگی ایک حاکم کی ہے.سوسیدھے رہوا اسکی طرف اور اس سے گناہ بخشوا ؤ اور خرابی ہے شرک والوں کی.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۵ حاشیه ) b ۱۰ تا ۱۳ - قُلْ اَبِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِى خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَه انْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَلَمِينَ - وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَبَرَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي اَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءَ لِلسَّابِلِينَ.ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانُ فَقَالَ لَهَا وَلِلْاَرْضِ اخْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرِهَا قَالَتَا أَتَيْنَا طَابِعِينَ - فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَلوتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَ أَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءِ أَمْرَهَا وَزَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ - ترجمہ.کہہ دے کیا تم اس کا انکار کرتے ہو جس نے پیدا کیا زمین کو دوروز میں (یعنی دو حالتوں میں ) اور تم مقرر کرتے ہو اللہ کے لئے برابر والا.وہی تو سب جہانوں کو آہستہ آہستہ کمال کی طرف

Page 124

حقائق الفرقان ۱۱۴ سُورَة حم السجدة پہنچانے والا ہے ( تو اس کا برابر والا ہی کون ہے ).اور پیدا کر دیئے زمین میں پہاڑ اور اس کے اندر برکت رکھی اور اس میں ٹھہرادی رہنے والوں کے لئے خوراک.یہ سب چار وقتوں میں ہوا.پورا ہو گیا سوال کرنے والوں کے لئے جواب.پھر متوجہ ہوا آسمان کی طرف اور وہ دھواں تھا پھر اس کو اور زمین کو حکم دیا کہ خوشی سے یاز بر دستی حاضر ہو جاؤ.دونوں نے عرض کی ہم تو بخوشی حاضر ہیں.پھر سات آسمان بنادیئے (اسی طرح زمین) پھر اُن کو بنا دیا دو وقتوں میں اور بھیج دیا ہر ایک آسمان میں اُس کا حکم اور انتظام اور آراستہ کر دیا دنیا کے آسمان کو چراغوں سے ستاروں کے اور محفوظ بنایا.یہ بڑے زبر دست دانا کے اندازے ہیں.تو کہہ.کیا تم ایسے خدا کا کفر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور اس کے شریک مقرر کرتے ہو.یہی تو عالموں کا پروردگار ہے.پھر اس پر پہاڑ بنائے اور زمین کو برکت دی اور اشیائے خوردنی کے اس میں اندازے باندھے.یہ سب کچھ چار دن میں ہوا.حاجت مندوں کیلئے سب سامان درست ہو گیا.پھر سماء کی جانب متوجہ ہوا اور وہ دخان تھا ( یعنی اسے ٹھیک کیا ) پھر اسے اور زمین دونوں کو کہا کہ خواستہ یا نخواستہ تم دونوں حاضر ہو جاؤ.انہوں نے کہا ہم خوشی سے آتے ہیں ( یہ ایک انداز محاورہ ہے جس کا مدعا یہ ہے کہ یہ اشیاء ہمارے مطبع فرمان ہیں اور کبھی کسی طرح ہمارے حکم سے انحراف کر نہیں سکتیں) پھر ان کو سات سماء مقرر کیا دو دن میں اور ہر سماء کو اس کا متعلق کام سپر د کیا.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۸۶ حاشیہ ) مسلمانوں کا اعتقاد یہ ہے.اَللهُ خَالِقُ كُلِّ شَيني (الرعد: ۱۷) اس اعتقاد سے مٹی کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے.اور مٹی کے مادہ کا خالق بھی وہی ہے.مادہ اور روح کی تشریح جس قدر روحانی تربیت میں مفید ہے اس قدر قرآن کریم نے تشریح کر دی ہے.اور جس تفصیل کی ضرورت روحانی تعلیم میں نہیں.اس سے قرآن کریم نے سکوت فرمایا.خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اگر روح کے معنے کلام الہی کے ہیں.تو روح غیر مخلوق اور غیر مادی ہے.یہ روح البی صفت ہے.اور مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ کے پیارے بندوں پر نازل ہوتی رہی اور نازل ہوتی ہے.اور نازل ہوگی اور اُن کی وساطت سے عام

Page 125

حقائق الفرقان ۱۱۵ سُورَة حم السجدة مخلوق الہی کے پاس پہنچی اور پہنچے گی.اور روح کے معنی اگر ملائکہ اور انبیا علیہم السلام کے لیں تو وہ مخلوق ہیں.ایک وقت میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ مختلف اوقات اور انواع واقسام کے مختلف اشیاء سے پیدا ہوا کئے.انسانی جسمانی روح ایک قسم کی لطیف ہوا ہے جو انسان میں شریانی عروق اور انسانی پھیپھڑوں کے بن جانے اور قابل فعل ہونے کے وقت نفخ کی جاتی ہے اس مطلب کو سمجھنے کیلئے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر غور کرو.یہ صادق کتاب حقیقت نفس الامری کی خبر دیتی ہے کہ انسان اسی نطفہ سے جو عناصر کا نتیجہ ہے.خلق ہوتا ہے اور پھر یہیں اسے سمیع و بصیر یعنی مدرک اور ذی العقل بنایا جاتا ہے.نہ یہ کہ پیچھے سے اپنے ساتھ کچھ لاتا ہے.اور پرانے اعمال کا نتیجہ.اس کے ساتھ چپٹا ہوتا ہےجس و ہم وفرض کا کوئی مشاہدہ کا ثبوت نہیں..ایک مدت تک مجھے تعجب اور افسوس ہوا کہ تکذیب براہین کے مصنف صاحب نے اس قدر طول طویل اعتراض آیت شریفہ خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ (الاعراف: ۵۵) پر کیوں کیسے اور میرے تعجب اور افسوس کی کئی وجہیں ہیں.اوّل.اس لئے.چھ دبئی میں زمین ، آسمان اور جو کچھ ان دونوں میں ہے.اس کے پیدا ہونے کی خبر ایسے سچے لوگوں نے دی ہے جن کا صدق مختلف دلائل اور نشانات سے ثابت ہے اور اس خبر کو مشاہدہ ضرور یہ علوم اور قانونِ قدرت کے مستحکم انتظام نے نہیں جھٹلایا.دوم.اس لئے کہ جن لوگوں نے یہ خبر دی ہے ان میں سے ایک کا نام سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہے اور دوسرے کا نام سید نا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور ان لوگوں نے یوں کہا ہے کہ ہم کو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی.اور اسی کے مکالمہ سے یہ بات ہمیں معلوم ہوئی.ان خبر دہندوں کی امداد اللہ تعالیٰ نے جیسے کی ہے اس کی خبر دنیا سے مخفی نہیں.اور جو تعجب انگیز کامیابی ان لوگوں کو ہوئی.اس کی نظیر مدعیانِ الہام میں کوئی نہیں دکھا سکا.انصاف کرو کیا جناب الہی کی پاک اور مقدس بارگاہ سے جھوٹوں کو ایسی امدادل سکتی ہے.دن یا یوم کے معنی ۱۲ گھنٹے کے نہیں.یادرکھو.

Page 126

حقائق الفرقان ۱۱۶ سُورَة حم السجدة سوم.اس لئے کہ جس کتاب میں یہ خبر دی گئی اس کا من جانب اللہ ہونا بہت وجوہ سے ثابت کیا گیا.چاہو اس کا نام توریت لو.چاہو قرآن کریم کہو.چہارم.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے اکثر بلکہ تمام کام جن کو ہم دیکھتے ہیں.آہستگی اور تدریج سے ہوا کرتے ہیں.بقدر امکان اپنے ارد گرد کا کارخانہ قدرت دیکھ لو.پھل دار درخت کتنے دنوں میں پھل دار کہلاتا ہے.گھوڑے اور ہاتھی کا آج پیدا ہوا بچہ کتنے دنوں میں اللہ تعالیٰ اس کو ہماری سواری کے قابل بنائے گا.آدمی کا وہ بچہ جو آجکل ماں کے رحم میں یا باپ کے جسم میں آرام گزیں ہے.اللہ تعالیٰ اس کو کتنے دنوں میں عالم فاضل اور ریفارمر کرے گا.پس جب ایسے کام جو بتدریج ہورہے ہیں اسی قادر مطلق، سرب شکستیمان، گن کے کلمہ کے ساتھ پیدا کر سکنے والے کی پیدائش ہے تو زمین و آسمان اور اس کے درمیانی اشیاء کا چھ روز میں پیدا ہونا کیوں محل انکار ہے؟ پنجم.اس لئے کہ زمین ، آسمان اور ان دونوں کی درمیانی تین چیزیں ہیں اور ان کی بناوٹ دو طرح پر ہے.اول.ان اشیاء کی اصل بناوٹ.دوم.ان کی ترتیب.پس یہ چھ چیزیں ہوئیں.جو چھ یوم میں پیدا ہوئیں یہاں یہ امر بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ آریہ نے بھی تمام مخلوق کے اصول اشیاء چھ چیزوں کو مانا ہے.ارضی اشیاء چہار.جن کو اربعہ عناصر یا چارتت کہتے ہیں.اور سماوی چیزیں دو.زمین کی چار چیزیں.مٹی ، پانی ، آگ، ہوا.سماوی دو چیزیں.اکاش جسے سماء یا الشماء کہئے.اور دوسری روح جسے جیو کہتے ہیں قرآن کریم میں ایک جگہ کچھ تفصیل کی گئی ہے اسے بھی سنو.قُل اینكم لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَنْدَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَلَمِينَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِنْ فَوْقِهَا وَ بَرَكَ فِيهَا وَ قَدَّرَ فِيهَا اقْوَاتَهَا فِي ارْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءَ لِلسَّابِلِينَ - ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ وَ هِيَ دُخَانُ فَقَالَ لَهَا وَ لِلْاَرْضِ اخْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرُهَا b قَالَتَا أَتَيْنَا طَابِعِينَ - فَقَضْهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَ أَوْحَى فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا وَ زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ـ ( حم السجدة: ١٠ - ١٣) لے لے تو کہہ کہ کیا تم ایسے خدا کا کفر کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا.اور اس کے شریک مقرر کرتے ہو.

Page 127

حقائق الفرقان 112 سُورَة حم السجدة ششم.اس لئے کہ ان چیزوں کے بنانے میں یہ نہیں فرمایا کہ تمام تمام دن اور رات میں ان اشیاء کو پیدا کیا.بلکہ یہ فرمایا ہے کہ چھ روز میں یہ چھ چیزیں پیدا کیں.یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک ایک چیز ایک ایک روز میں.ایک آن کے اندر کلمہ کُن سے پیدا ہوئی.ہفتم.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خَالِقُ الْأَرْضِ وَ السَّبُوت.معطل بریکار نہیں.وہ ہمیشہ اپنی کاملہ صفات سے موصوف ہے.ایسا کیوں مانا جاوے کہ تمام اشیاء کو ایک آن میں پیدا کر کے پھر معطل ہو گیا؟ بلکہ وہ ہمیشہ خالق ہے.اور مخلوق کا حافظ ہے اور رہے گا.ہشتم.اس لئے کہ یوم عربی زبان میں مطلق وقت کو کہتے ہیں پس سِتَّةِ أَيَّامٍ کے یہ معنے ہوں گے.چھ وقت میں.چاہو وہ وقت ایک آن كَلَمْحِ الْبَصَر لو.چاہوتو وہ ایک ایک یوم لاکھوں کروڑوں برس کا یوم جیسے راقم کا اعتقاد ہے.سمجھو.نہم.اس لئے کہ یوم عربی زبان میں اس زمانہ اور وقت کو بھی کہتے ہیں جس میں کوئی واقعہ گزرا.گوہ واقعہ کتنے بڑے وقت میں گزرا ہو.دیکھو.یوم بعاث ، يوم حنین ، یوم بنو بکر ، يوم بسوس ، یوم عاد وغیرہ وغیرہ.اس زمین و آسمان وغیرہ کی پیدائش کے زمانہ کو اس محاورہ پر یوم کہا گیا.دہم.اس لئے کہ پدارتھ وڈیا یعنی علم طبعیات.خصوصاً علم طبقات الارض سے ثابت ہو چکا ہے یہ زمین کسی زمانہ میں آتشیں گیاس تھا بلکہ یوں کہیے کہ ایک ستارہ روشن تھا.جب قدرتی اسباب سے اللہ تعالیٰ نے اس میں کسی قدر کثافت پیدا کر دی تو یہ زمین اس وقت ایک سیال مادہ ہو گیا.جسے عربی زبان میں الماء کہتے ہیں.اور اس پر اس وقت ہوا چلا کرتی تھی.جیسے تو ریت شریف کی کتاب بقیہ حاشیہ.یہی تو عالموں کا پروردگار ہے.پھر اس پر پہاڑ بنائے.اور زمین کو برکت دی اور اشیائے خوردنی کے اس میں انداز باند ھے.یہ سب کچھ چار دن میں ہوا.حاجت مندروں کے لئے سب سامان درست ہو گیا.پھر سماء کی جانب متوجہ ہوا اور وہ دخان تھا (یعنی اُسے ٹھیک کیا ) پھر اسے اور زمین دونوں کو کہا کہ خواستہ یا نخواستہ تم دونوں حاضر ہو جاؤ.انہوں نے کہا.ہم خوشی سے آتے ہیں.( یہ ایک انداز محاورہ ہے جس کا مدعا یہ ہے کہ یہ اشیاء ہمارے مطیع فرمان ہیں اور کبھی کسی طرح ہمارے حکم سے انحراف نہیں کر سکتیں) پھر ان کو سات سماء پر مقرر کیا دو دن میں.اور ہر سماء کو اس کا متعلق کام سپر دکیا.

Page 128

حقائق الفرقان ۱۱۸ سُورَة حم السجدة پیدائش کی پہلی آیتوں میں لکھا ہے.پھر جب وہ الماء زیادہ کثیف ہو گیا تو اس پر وہ حالت آ گئی.جس کے باعث اس پر زمین کا لفظ بولا گیا.پس ایک دن اس پر وہ تھا کہ یہ زمین سیال ہوئی.اور دوسرا دن وہ آیا کہ کثیف ہو گئی.طبقات الارض سے یہ امر بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ جس قدر زمین کے نیچے مرکز کی طرف کھودا جاوے.زمین کی گرمی بہ نسبت بالائی سطح کے نیچے کو بڑھتی جاتی ہے حتی کہ اب بھی چھتیس میل کی دوری پر ایسا گرم مادہ موجود ہے جس کی گرمی تصور سے باہر ہے.اس زمانہ سے بہت عرصہ پہلے جب اسکا بالائی حصہ کثیف ہونا شروع ہوا تھا.ایک دن اس ہماری آرام گاہ پر وہ گزرا تھا کہ اس زمین کی بالائی نہایت پتلی سطح کے نیچے اس مادہ کا آتشیں سمندر موجیں مارتا تھا اور اسکی بالائی بار یک سطح کوتوڑ توڑ کے بڑے راکس اور بڑے بڑے حجرے قطعات باہر نکلتے تھے اور پہاڑوں کا سلسلہ پیدا ہوتا جاتا تھا اور ظاہر ہے کہ اس وقت بڑے بڑے زلزلے اور بھونچال ہوتے تھے.جب بڑے بڑے پہاڑ پیدا ہو گئے اور زمین کا بالائی حصہ زیادہ موٹا ہو گیا.پھر تیسرا اور چوتھا دن یا تیسرا اور چوتھا وقت اس کرہ ارضی پر وہ آیا کہ نباتات، جمادات ، پھل، پھول وغیرہ اشیاء انسانی آرام اور آسائش کے سامان مہیا ہوئے.ایک دن ان اشیاء کی پیدائش کا اور دوسرا دن ان اشیاء کی ترتیب کا.غرض دو دن پہلے اور دو دن یہ کل چار روز زمین کی درستی کے ہوئے.اسی طرح زمین کی بالائی فضا اور زمین کی سقف اور زمین کی بناء.آسمان کو اللہ تعالیٰ نے دو روز میں بنایا اور ان میں امر الہی کی وحی ہوئی اور وہ وقت آ گیا کہ انسان زمین پر آباد ہوں.کیونکہ جیسے قرآن کریم نے فرمایا ہے.سواء تسابِلِينَ ( حم سجدہ: ۱۱۱) انسان کی تمام ضرورتیں اور اس کیلئے سب مائیختا مج پورا ہو گیا.اس تکذیب براہین سے غالباً پہلے کا ذکر ہے.میرے ایک پیارے عزیز نے مجھ سے اسی آیت رسوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو قرآن میں القادر یعنی قادر مطلق کہا ہے اور وہ تمام زمین اور آسمان کو ایک آن میں پیدا کر سکتا ہے.کیونکر مان لیا جاوے.آسمان و زمین کو اس نے چھ دن میں بنایا ہو.اس وقت ایک جوار کا کھیت ہمارے سامنے لہلہا رہا تھا.میں نے تھوڑی دیر سکوت کر کے پوچھا.اس کھیت کا لے چٹانیں ROCKS

Page 129

حقائق الفرقان ۱۱۹ سُورَة حم السجدة دانہ کب تک تیار ہو کر کھانے کے قابل ہوگا ؟ اس عزیز نے جواب دیا.کئی مہینے کے بعد پک کر کھانے کے قابل ہو گا.تب میں نے کہا اس کے دانہ کو کون بناوے گا ؟ اس نے جواب دیا.وہی.جسے القادر ، قادر مطلق، سرب شکستیمان، جگدیشر کہتے ہیں.میں نے کہا وہ ایک گن میں سب کچھ پیدا کر سکتا ہے.کیونکر مانا جاوے کہ وہی ایسی قدرت والا دانوں کے بنانے میں اتنی دیر کرے.تب اس عزیز نے کہا.صاحب یہ اس کی خواہش.اچھا.اس کی مرضی ہے.اور ساتھ ہی ہنس دیا اور کہا کہ جواب ہو گیا.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحه ۱۸۴ تا ۱۸۹) ١٨ وَ اَمَّا ثَمُودُ فَهَدَيْنَهُمْ فَاسْتَحَبُّوا الْعَمَى عَلَى الْهُدَى فَاَخَذَتْهُم صعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُونِ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ - ترجمہ.لیکن خمود کو ہم نے راستہ بتلایا تو انہوں نے اندھا رہنے کو اچھا سمجھا راستہ دیکھنے سے.تو اُن کو ذلّت کے عذاب نے پکڑ لیا اُن بڑے کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کرتے تھے.تفسیر.اور جو شمود تھے سو ہم نے ان کو راہ بتائی پھر ان کو خوش لگا اندھے رہنا.سو جھنے سے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۶ حاشیه) ۲۱ - حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - ترجمہ.یہاں تک کہ جب دوزخ پر پہنچ جائیں گے تو ان کے کان گواہی دیں گے ( یا ان کے مخبر ) اور ان کی آنکھیں (ان کے جاسوس ) اور ان کی جلدیں ( عام یا عضو مخصوص ) ان اعمال کی جو وہ کرتے تھے.تفسیر.شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَبْعُهُمْ وَأَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ (حم السجده (۲) نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ (ئیس :۶۶) یہ بڑی عجیب بات ہے کہ آدمی کے ہاتھ پاؤں وغیرہ زبان کا کام دیں گے.یہ ڈھکونسلا ہے.قرآنی بہشت خراب خانہ ہے.الجواب.شہادت تحریری بھی ہوتی ہے اور تقریری بھی.اور تقریر زبان سے اور ایماء وکنایہ سے بھی.لے ہم مہر لگا دیں گے ان کے منہ پر.

Page 130

حقائق الفرقان سُورَة حم السجدة اسی طرح یاد رکھو کہ کلام بھی دو قسم کا ہوتا ہے.ایسا ہی نطق بھی دو قسم کا ہوتا ہے.ایسے ہی شہادت، تحدیث اور قول کے اقسام بھی ہوتے ہیں.تم ایوروید تو پڑھے ہوئے نہیں مگر سنو ! ایک آتشک کا مارا ہوا ہمارے سامنے آتا ہے تو اس کے ہاتھ اور پاؤں کے نقش و نگار جو آ تشک سے پیدا ہوتے ہیں اور اس کے آنکھ کان کی حالت صاف صاف گواہی دیتی ہے کہ یہ آ تشک کا مبتلا ہے.ایک شخص مجلوق اور جریان کا مبتلا ہمارے سامنے آتا ہے اس کا آنکھ سے ہم پتہ لگا سکتے ہیں اور اسی طرح ہزاروں بیماروں میں یہ امر مشہود ہے.پھر کیا علیم وخبیر ذات پاک کے سامنے ہی سمع و بصر گواہی نہیں دے سکتے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۵۱،۱۵۰) ۲۴ - وذلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِى ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ اَردُكُمْ فَأَصْبَحْتُم مِّنَ الْخَسِرِينَ - ترجمہ.اور یہ بدگمانی ( یعنی اللہ نادان ہے خبیر نہیں ) جو تم نے اپنے رب کے حق میں کی.اُس نے تو تم کو تباہ ہی کر دیا اب تو تم بڑے نقصان میں آگئے.اور اسی گمان نے جو تم نے اپنے رب سے کیا تمہیں ہلاک کیا.پھر تم زیاں کا رہو گئے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶ حاشیہ) ج ٢٦ - وَقَيَّضُنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَ حَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِى أمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنَّهُم كَانُوا خَسِرِينَ - ترجمہ.اور پھر یہ بھی ہے کہ ہم نے تعینات کر دیے ان پر ہم نشین تو انہوں نے پسند کر دکھائے ان کے کھلے اور چھپے کام اور ان پر ثابت ہوگئی پیش گوئی عذاب کی اُن اُمتوں کے ساتھ جو پہلے گزر چکے ہیں.امراء، غرباء میں سے کچھ شک نہیں کہ وہ سب کے سب نقصان پانے والے تھے.تفسیر.اور لگادی ہم نے ان پر تعیناتی.پھر انہوں نے بھلا دکھایا ان کو جو اُن کے آگے اور ان کے پیچھے اور ٹھیک پڑی ان پر بات مل کر سب فرقوں میں جو ہو چکے ہیں ان سے آگے جنوں کے اور آدمیوں کے وے تھے ٹوٹے والے.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۰ حاشیه )

Page 131

حقائق الفرقان ۱۲۱ سورة حم السجدة ۳۱ تا ۳۳ - إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَ لَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم تُوعَدُونَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ - نُزُلًا مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ - ترجمہ.کچھ شک نہیں کہ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب تو اللہ ہی ہے ( پھر سب کا دھیان اور مطلق گناہ چھوڑ دیا ) اور اسی حالت پر جمے رہے تو ان پر فرشتے اُترتے ہیں ( یہ کہتے ہوئے ) کہ آپ خوف نہ کریں اور دل میں رنجیدہ نہ ہوں اور خوشخبری سنیں اُس جنت کی جس کا آپ سے وعدہ ہو چکا ہے.ہمیں تمہارے دلی دوست ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی اور تمہارے لئے وہاں موجود ہو گا جو کچھ تم مانگو گے.یہ غفور الرحیم کی طرف سے ناشتہ اور مہمانی ہے.تفسیر.جو لوگ ایمان کو مشروط کرتے ہیں وہ محروم رہ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی پروا نہیں کرتا.ہاں خدا تعالیٰ کسی کو خالی نہیں چھوڑتا.جو اس کی راہ میں صدق و ثبات سے قدم رکھتا ہے.وہ بھی اس قسم انعامات سے بہرہ وافر لے لیتا ہے.جیسے فرمایا إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا ربُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ - جن لوگوں نے اپنے قول وفعل سے بتایا کہ ہمارا رب اللہ تعالیٰ ہے.پھر انہوں نے اس پر استقامت دکھائی.ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ ملائکہ سے پہلے دو باتیں ضروری ہیں.ربنا اللہ کا اقرار اور اس پر صدق و ثبات اور اظہا ر استقامت.ایک نادان سنت اللہ سے ناواقف ان مراحل کو تو طے نہیں کرتا اور امید رکھتا ہے اس مقام پر پہنچنے کی جوان کے بعد واقع ہے.یہ کیسی غلطی اور نادانی ہے.اس قسم کے شیطانی وسوسوں سے بھی الگ رہنا چاہیے.خدا تعالیٰ کی راہ میں استقامت اور عجز کے ساتھ قدم اٹھاؤ.قومی سے کام لو.اس کی مدد طلب کرو.پھر یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے کہ تم

Page 132

حقائق الفرقان ۱۲۲ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے وارث ہو جاؤ اور حقیقی رؤیا اور الہام سے حصہ پاؤ.سُورَة حم السجدة الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۶) خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے.جذبات نفس پر قابورکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے.مساکین اور بیتامی کو مال دیوے.قسم قسم کے طریقوں سے رضا جوئی اللہ تعالیٰ کی کرے.ایک وقت کا عمل دوسرے وقت کے عمل سے بعض دفعہ اتنا فرق رکھتا ہے کہ اول مہاجرین نے جہاں ایک مٹھی جو کی دی تھی.بعد میں آنے والا کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا دیتا تھا تو اس کی برابری نہ کر سکتا تھا.سائل کو دو، دکھی کو دو، ذوی القربی کو دو، نماز سنوار کر پڑھو، مسنون تسبیح اور کلام شریف اور دعاؤں کے بعد اپنی زبان میں بھی عرض معروض کرو تا کہ دلوں پر رقت طاری ہو.غریبی میں ، امیری میں و مشکلات میں و مقدمات میں، ہر حالت میں مستقل رہوا اور صبر کو ہاتھ سے نہ دو.تقویٰ کا ابتدا دعا ، خیرات اور صدقہ سے ہے اور آخر ان لوگوں میں شامل ہونے سے ہے.جن کی نسبت فرمایا ہے.اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا.جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت دکھلائی.( بدر جلد ۲ نمبر ۵۰ مورخه ۱۳/ دسمبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۹) نیکی کی تحریک کیلئے ملائکہ بڑی نعمت ہیں وہ انسان کے دل میں نیکی کی تحریک کرتے ہیں.اگر کوئی ان کے کہنے کو مان لے تو اس طبقہ کے جو ملائکہ ہیں وہ سب اس کے دوست ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں فرمایا.نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَليوة الدُّنيا (آیت:۳۲) ایسی پاک مخلوق کسی کی دوست ہو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے؟ (احکم جلد ۱۵ نمبر ۲۱ و ۲۲ مورخه ۷، ۱۴ جون ۱۹۱۱ صفحه ۶) انسان کو بیٹھے بیٹھے کبھی نیک اور کبھی ہدارا دے پیدا ہو جاتے ہیں.یہ کیوں ہوتے ہیں.جبکہ کوئی کام بدوں اسباب اور عمل کے نہیں ہوتا.تو نیک اور بدارادے کی تحریک کیوں ہوئی.اس محرک کو ہماری شریعت میں فرشتہ کہتے ہیں.ہم اسی پر قناعت کرتے اور نیکی کے محرک کا نام فرشتہ رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ملائکہ وشیاطین کو ہر وقت انسان کے دل سے تعلق لے ہمیں تمہارے دلی دوست ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی.

Page 133

حقائق الفرقان ۱۲۳ سُورَة حم السجدة رہتا ہے اور موقع پر تحریکیں کرتے ہیں.اگر وہ تحریک نیکی کی ہے تو فرشتہ کی طرف سے ہے اور بتدریج پھر وہ تحریک ہوتی اور بڑھتی جاتی ہے.اور وہ انسان اس میں لگ پڑتا ہے.یہاں تک کہ اس کے ملائکہ اور شیاطین میں جنگ ہو پڑتی اور ملائکہ جیت جاتے اور پھر وہ شخص فرشتوں سے مصافحہ کر لیتا ہے اس کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ المليكة...الآيد پس ایسے لوگوں پر پھر ملائکہ نازل ہوتے اور خدا کہتا کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں.مت غم کھاؤ.پس اس طرح ملائکہ کا ماننا بھی نیکی سکھلاتا اور بدی سے روکتا ہے.الحکام جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ ء صفحه ۱۱) اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ( حم السجدہ : ۳۱، ۳۲) جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس اقرار پر پختہ ہو گئے ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور خوشی مناؤ اس جنت کی کہ جس کا تمہیں نہ وعدہ دیا جا تا تھا.ہم دنیا میں اور آخرت میں تمہارے ساتھی ہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۳) ۳۴- وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ - ترجمہ.اور اُس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور بھلے کام کرے اور کہے میں تو فدائی فرمانبرداروں میں سے ہوں.تفسیر.اس شخص سے بھلی بات کس کی.جس نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا اور اچھے کام کئے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۴)

Page 134

حقائق الفرقان ۱۲۴ سُورَة حم السجدة ۳۶،۳۵- وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيهُ - وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقُهَا إِلا ذُو حَظِّ عَظِيمٍ - ترجمہ.اور نیکی بدی تو برابر نہیں ہو سکتی.بڑی بات کو ایسی بات سے دفع کیا کر جو بہت بھلی ہو جب تو ایسا کرے گا تو وہ شخص کہ تجھ میں اور اُس میں دشمنی ہے ( تیرا) گاڑھا دوست بن جائے گا گویا کہ وہ تیرا دلی دوست ہے.اور یہ خصلت انہیں کو دی جاتی ہے جو نیکی پر جمے رہتے ہیں اور بدیوں سے بچتے ہیں اور یہ (بات) تو بڑے ہی خوش نصیب لوگوں کو ملتی اور سکھائی جاتی ہے.تفسیر.نیکی و بدی.دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم پلہ اور خوبی میں مساوی نہیں.بدی کا دفعیہ نیکی کے ساتھ کر دکھاؤ.اگر ایسا ہی حسنِ سلوک اپنے دشمنوں سے کر دکھاؤ گے تو تمہارے دشمن بھی تمہارے سچے دوستوں اور گرم جوش والے خیر خواہوں کی طرح ہو جاویں گے.اس نصیحت کو وہی لوگ مانیں جو بڑی برد باری اور بلند حوصلگی کا حصہ رکھتے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۳۱،۲۳۰) ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ( حم السجدة : ۳۵).مدافعت بھی کرو تو اس طریق سے کہ وہ بہت ہی عمدہ ہو.ادفع الشيئة بالحسنة.ہر بدی کو کسی خوبی سے ہٹادو.جب مخالفوں کے ساتھ بھی ہمیں مدافعت میں خوبیاں مد نظر رکھنی چاہیں تو دو مسلمانوں کے درمیان تباغض، عداوت اور باہم جنگ کیونکر ہوسکتی ہے.( بدر جلد ۱۰ نمبر ۹ مورخه ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء صفحه ۱۴) ۳۷- وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.ترجمہ.اور اگر تجھ کو رو کے شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ تو تو اللہ کی پناہ مانگ ( یعنی کثرت سے استغفار کر ) بے شک وہ بڑا سننے والا ہے ( مضطر کی دعا ) بڑا جاننے والا ہے (نیک نیتی کا ).

Page 135

حقائق الفرقان ۱۲۵ سُورَة حم السجدة وَمِنْ أَيْتِهِ الَّيْلُ وَالنَّهَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِى خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ - ترجمہ.اور اُس کی نشانیوں میں سے رات اور دن اور سورج اور چاند ہیں.تو تم سجدہ کر دسورج کو نہ چاند کو اور سجدہ کر واللہ ہی کو جس نے ان کو پیدا فرمایا اگر تم اسی کی عبادت کرنا چاہتے ہو.تفسیر.اور اس کے نشانوں سے ہے رات، دن ، سورج اور چاند.مت سجدہ کر وسورج اور چاند کو بلکہ اللہ کو سجدہ کرو جس نے انہیں پیدا کیا اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۳۴ حاشیہ) اللہ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا.جو نشان اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کیلئے بطور نشان رکھے ہیں وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہیں.بڑا نشان تذلل کا ہے.سجدہ.اس سے بڑھ کر اور کوئی عاجزی نہیں.زمین پر گر پڑے.اب آگے اور کہاں کدھر جاویں.فرماتا ہے.لا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ.پس جو غیر کو سجدہ کرے وہ مشرک ہے.حنفی مذہب میں یہ معرفت کا نکتہ ہے کہ رکوع کو بھی سجدہ میں داخل کر لیا ہے.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آیت سجدہ پڑھ کر رکوع چلے جانا بھی مِن وَجهِ سجدہ ہے.اسی واسطے ؤ کے ساتھ نہیں آتا.الرُّكَّعِ السُّجُودِ آیا ہے.اردو میں ایک مصرعہ سر تسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے ہاتھ باندھ کر بہیت صلوۃ کسی کے سامنے کھڑے ہونا اور امید وبیم کے لحاظ سے اس کی وہ تعریفیں (جو خدا تعالیٰ کی کی جاتی ہیں ) کرنا بھی شرک ہے.اور کسی سے سوائے اللہ کے دعا مانگنا بھی.ہاں دعا کروانا شرک نہیں ہے.( بدر جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۳ /جنوری ۱۹۱۰ ء صفحه ۲) ٤١ - إِنَّ الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِى أيتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا أَفَمَنْ يُلْقَى فِي النَّارِ خَيْرُ اَم مَنْ يَأْتِيَ امِنَّا يَوْمَ الْقِيمَةِ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ دو بصير - لا ترجمہ.جو لوگ ہیر پھیر کر غلط مطلب ثابت کرنا چاہتے ہیں ہماری آیتوں میں وہ ہم سے چھپے

Page 136

حقائق الفرقان ۱۲۶ سُورَة حم السجدة ہوئے نہیں بھلا جو شخص آگ میں ڈال دیا جائے وہ بہتر ہے یا وہ شخص جو آئے گا قیامت کے دن امن چین سے.خیر کر لو جو تمہیں کرنا ہے کچھ شک نہیں کہ تمہارے سب کر توت اللہ دیکھ ہی رہا ہے.تفسیر - يُلْحِدُونَ.کسی اسم الہی کی تکذیب کرتے.استہزاء کرتے تحریف کرتے ہیں.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۷۹) ۴۳ - لا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ.حَمِيدِ ترجمہ.جھوٹ اس کے پاس آنے ہی نہیں پاتا نہ آگے سے نہ پیچھے سے.یہ اتاری ہوئی بڑے حکمت والے تعریف کئے گئے کی ہے.تفسیر.اس کتاب کا محافظ حضرت حق سبحانہ ہے.جس کیلئے آئندہ پیشگوئی ہے کہ اس کتاب کی باطل کرنے والی آئندہ بھی کوئی چیز نہیں بھیجیں گے.تو پھر ہم کو سائنس یا بیرونی خطرناک دشمن سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.جب ہم کو ایسی کتاب دی گئی ہے کہ جس کا خدا حافظ ہے اور جس کی باطل کرنے والی کوئی چیز فطرت کے خالق نے پیدا ہی نہیں کی.پس جیسا ہمارا رسول کامل ہے.ویسے ہی ہماری کتاب کامل ہے.یہ کتاب تو قیامت تک رہے گی مگر ایسی کامل کتاب ہمارے گھروں سے نکل کر دوسرے گھروں میں چلی گئی.تو ہمارے بزرگوں کی روح کو کیا خوشی ہو گی ؟ پس خوف ہے تو یہ کہ ہمارے گھروں سے یہ کتاب نہ نکلے اور ہم اس کی اتباع سے محروم نہ رہیں.( بدر جلد ۹ نمبر ۲۳ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۳) لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدِ (خم سجدہ: ۴۳) یہ حکیم حمید خدا کی کتاب ہے اس میں کسی راہ سے جھوٹ کا کوئی دخل نہیں.یہ کتاب باوجودان خوبیوں کے جو اس میں ہیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کس ملک میں اتری ہے.وہ ایسے ملک میں اتری جہاں نہ کوئی کالج تھا اور نہ کوئی یو نیورسٹی.اس ملک میں اس زمانہ کی تصنیف شدہ کسی علم کی کوئی کتاب نہیں ملتی نہ کوئی یادداشت دکھائی دیتی ہے.زیادہ سے زیادہ دو علم ان میں رائج تھے.ایک

Page 137

حقائق الفرقان ۱۲۷ سُورَة حم السجدة تو بسبب تجارت پیشہ ہونے کے ان کو علم حساب کی ضرورت رہتی تھی اس واسطے یہ علم ان میں پایا جاتا تھا.دوسرا ان کو اپنی زبان کا فخر تھا اور ان میں سے کا ہر ایک شخص اپنی زبان کے کچھ نہ کچھ اشعار یاد رکھتا تھا.یہی ان سب کا مایہ فخر اور یہی ان سب کا مایہ علم تھا.اس بات پر بہت بحث ہوئی ہے کہ علم حساب سب سے اول کہاں سے نکلا ہے مگر مجھے اس وقت اس بحث میں پڑنے کی کچھ ضرورت نہیں.غرض یہ ہے کہ ہماری کتاب اس خدا کی طرف سے ہے جو سب کچھ جانتا ہے اور اس کتاب کی تعریف میں فرماتا ہے کہ لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ کوئی نیا علم ، کوئی نئی سائنس، کوئی نئی تحقیقات ایسی نہیں ہوسکتی جو اس کتاب کو باطل کر سکے.کوئی مشاہدہ کوئی تجربہ صحیحہ کسی زمانہ کی ترقی علوم ایسی نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے جو اس کتاب کی مبطل ہو سکے.مِن بَيْنِ يَدَیدِ نہ اس وقت وَلَا مِنْ خَلْفِهِ اور نہ اس زمانہ کے بعد کوئی ایسا امر پیدا ہو سکتا ہے جو اس کو باطل کر سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن قیامت تک وسیع ہے.یہ ایک بہت بڑادعویٰ ہے کہ قیامت تک کوئی ایسا امر پیدا نہ ہوگا جو کہ اس کتاب کا مبطل ہو سکے.قرآن ہمیشہ سچا پایا تیرہ سو برس کی ترقیات کو میں نے دیکھا اور پڑھا ہے.یہ ترقی سائنس میں ہو یا صوفیائے کرام میں ہو ہر ایک کے واسطے مسلمانوں میں بہت سامان موجود ہے.کیونکہ یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہے کہ تمام علوم جدیدہ کا ترجمہ عربی میں ہو جاتا ہے.غرض تمام موجودہ علوم کو میں نے دیکھا ہے ان سب کو پڑھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے فرمان کو سچا پایا ہے.جو شخص قرآن کو ہاتھ میں رکھے اس کے واسطے کوئی مشکل نہیں.( بدر جلد نمبر ۳۱ مورخه ۱۳ راگست ۱۹۰۸ء صفحه ۹) یاد رکھو قرآن مجید کامل کتاب ہے لَا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ( حم السجدۃ:۴۳) اس کی شان ہے باطل اس پر اثر نہیں کرسکتا.جو لوگ آجکل کے علوم جدیدہ اور سائنس سے ڈرتے ہیں انہوں نے قرآن مجید کی عظمت اور شوکت کو سمجھا ہی نہیں قرآن مجید پر باطل کا اثر نہیں ہوسکتا.وہ تمام صداقتوں کی جامع کتاب ہے اور خاتم الکتب ہے.اس کے فہم کے لئے اول وہ کتاب خود ذریعہ ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل درآمد ہے پھر احادیث ہیں پھر لغت

Page 138

حقائق الفرقان ۱۲۸ سُورَة حم السجدة ہے پھر اللہ تعالیٰ کی حضور سے مدد اور دعا ذرائع ہیں.یہ میرے اصول ہیں یہاں رہو تب اور الحکم جلد ۱۶ نمبر ۳ مورخه ۲۱ جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۷) چلے جائیں تب ان کو یا درکھو.۴۷ - مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ - ترجمہ.( خیر ) جس نے نیک عمل کیا تو اپنی ذات کے لئے کیا اور جس نے بدکاری کی تو اس کا وبال اسی پر ہے اور تیرا رب تو بندوں پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہیں.تفسیر.اور تیرا رب ایسا نہیں کہ ظلم کرے بندوں پر.( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۰۰ حاشیه) ۴۸ - اِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ وَمَا تَخْرُجُ مِنْ ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَاعِى قَالُوا اذتكَ مَا مِنَا مِنْ شَهِيد - ترجمہ.اللہ ہی کی طرف حوالہ کیا جاتا ہے قیامت کا علم اور جو نکلتے ہیں پھل اپنے گا بھوں میں سے اور جو کسی مادہ کو پیٹ رہتا ہے یا جنتی ہے مگر یہ سب کام اللہ ہی کے علم کے مطابق ہیں اور جس دن اللہ ان کو پکارے گا کہ میرے شریک کہاں ہیں وہ کہیں گے کہ ہم نے تو تجھ کو کہ سنایا تھا کہ ہم میں سے اس بات کا کوئی گواہ نہیں.تفسیر.عِلْمُ السَّاعَةِ.ہر گھڑی کا علم کیا معلوم کہ اب سے کچھ منٹ بعد کیا ہوگا.وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ.یہ تفصیل اس لئے ہے تا لوگ جانیں کہ اللہ کو علم جزئیات کا بھی ہے.فلاسفر کہتے ہیں.صرف کلیات کا علم ہے.وہ غلطی پر ہیں.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰)

Page 139

حقائق الفرقان ۱۲۹ سُوْرَةُ الشُّورى سُوْرَةُ الشُّورى مَكيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ شوری کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اُس عظیم الشان اللہ کے نام سے جو رحمن اور رحیم ہے.۲ ۳ حم عسق - ۳.ترجمہ.جو بات ہونے والی تھی وہ ہو چکی.(اگر ) وعدۂ ساعت قیامت نہ ہوتا.تفسیر.حمید.مجید علی وعظیم.سمیع و قا در وقوی ہوں.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) 21 - تَكَادُ السَّماتُ يَتَفَكَّرُنَ مِنْ فَوْقِهِنَّ وَالْمَلَبِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ ربِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ ، اَلَا اِنَّ اللهَ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ - ترجمہ.معلوم ہوتا ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اوپر سے اور فرشتے تسبیح کرتے ہیں اپنے رب کی حمد کی اور مغفرت مانگتے ہیں ملک والوں کے لئے.ہوشیار ہو جاؤ بے شک اللہ ہی غفور الرحیم ہے.تفسیر - وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ.اور گناہ بخشوا تے ہیں زمین والوں کے..فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۴ حاشیه ) -۹- وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَكِنْ يُدْخِلُ مَنْ يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ وَالظَّلِمُونَ مَا لَهُم مِّنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ - ترجمہ.اور اللہ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتا لیکن وہ داخل فرماتا ہے جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت میں ( یعنی نیک بختوں کو ) اور بے جا کام کرنے والوں کا تو کوئی بھی دلی دوست اور مددگار نہیں (نہ اللہ نہ غیر اللہ ).

Page 140

حقائق الفرقان تفسیر.لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً - اللہ نے چاہا ایک ہو جاؤ گے..سُوْرَةُ الشُّورى چنانچہ ہو گئے.۱۲ - فَاطِرُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَ مِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا ۚ يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ - ترجمہ.وہ پیدا فرمانے والا ہے آسمانوں اور زمین کا اسی نے پیدا کر دیئے تمہارے لئے تمہارے ہی میں سے جوڑے اور چوپایوں میں سے جوڑے تم کو پھیلاتا ہے اُس میں.اُس کے جیسی تو کوئی بھی چیز نہیں اور وہی بڑا سنے والا ہے بڑا د یکھنے والا ہے.تفسیر.ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں کہ وہ جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام بدیوں سے منزہ ہے وہ اپنی ذات میں ، اپنے صفات میں ، اسماء اور محامد اور افعال میں واحد لاشریک ہے.وہ اپنی ذات میں یکتا ، صفات میں بے ہمتا اور افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ اور بے نظیر ہے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۵ مورخه ۲۶ فروری ۱۹۰۸ صفحه ۳) لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ.اس کے مانند کوئی نہیں اور وہ ہے سنتا دیکھتا.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۲۵ حاشیه ) میں جس ایمان پر قائم ہوں وہ وہی ہے جس کا ذکر میں نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ میں کیا ہے.میں اللہ کو اپنی ذات میں واحد، صفات میں یکتا اور افعال میں لَيْسَ كَمِثْلِہ اور حقیقی معبود سمجھتا ہوں.( بدر جلد ۹ نمبر ۲۳ مورخه ۳۱ / مارچ ۱۹۱۰ ء صفحه ۳) ط ۲۴.ذلِكَ الَّذِى يُبَشِّرُ اللهُ عِبَادَهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ قُلْ لَا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى وَمَنْ يَقْتَرِفُ حَسَنَةً نَزِدُ لَهُ فِيهَا حُسْنًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ شَكُورٌ - ترجمہ.یہی وہ حالت ہے جس کی خوش خبری دیتا ہے اللہ اپنے ان بندوں کو جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے.تو کہہ دے میں تو کچھ تم سے مانگتا نہیں اس پر مزدوری مگر رشتے ناتے میں محبت قائم رکھو

Page 141

حقائق الفرقان ۱۳۱ سُورَةُ الشَّورى اور جو شخص نیکی کرے گا ہم اس کو زیادہ دیں گے اُس کی نیکی میں خوبی.بے شک اللہ بڑا عیبوں کا ڈھانپنے والا بڑا قدر دان قبول کرنے والا ہے.ورود تفسیر - إِلَّا الْمَوَدَّةَ في القُربى - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہا اعلان فرمایا لَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ اجرا کہ میں اس تبلیغ پر کوئی اجر نہیں مانگتا.ہاں مودۃ فی القربیٰ چاہتا ہوں.لوگوں نے اس کے معنے کئے ہیں.حضرت امام حسین وسیدۃ النساء سے محبت کرو.یہ بات تو بہت اچھی ہے.مگر یہ سورۃ مکی ہے اور اس وقت امام حسین پیدا نہیں ہوئے تھے.حضرت ابن عباس نے اس کے خوب معنے کئے ہیں کہ تمام عرب آپس میں خانہ جنگیاں چھوڑ کر اتحاد و موڈت پیدا کر لو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قوم میں رشتہ تھا پس آپ نے فرمایا.ان خانہ جنگیوں کو چھوڑ کر مودت اختیار کر لو کہ اس میں بھی تمہارا ہی بھلا ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ جو چیزیں تمہیں اللہ کے نزدیک کرتی ہیں ان کی محبت پیدا کرو اور ان کے حصول کی کوشش و آرزو میں لگ جاؤ.تیسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ کی قربت حاصل کرنے کی محبت رکھو.تینوں معنی صحیح اور پاکیزہ ہیں.تفخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۷۸.۱۷۹) إلَّا الْمَوَدَّةَ فِي القُربى تم پیار کرو ان کاموں میں جو قرب الہی کا موجب ہیں یا یہ کہ اپنے رشتہ تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۰) داروں میں محبت بڑھاؤ.٣١ وَمَا أَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُوا عَنْ ترجمہ.اور تم پر جو کچھ مصیبت پڑتی ہے وہ تمہاری ہی بداعمالیوں کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو وہ معافی کر دیتا ہے یا بہتوں سے وہ معاف کر دیتا ہے.تفسیر.جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے.تو چند دشٹ، منافق، دل کے کمزور جن میں نہ قوت فیصلہ تھی اور نہ تاب مقابلہ.آپ کے حضور حاضر ہوئے اور بظاہر مسلمان ہو گئے اور آخر بڑے بڑے فسادوں کی جڑ بن گئے.وہ مسلمانوں میں آ کر مسلمان بن جاتے اور مخالفانِ اسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی

Page 142

حقائق الفرقان ۱۳۲ سُوْرَةُ الشُّورى بدیاں کرتے.سردست جماعت اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائل اسلام بھی جو پیش ہوئے ہیں بہت کم ہیں.یہ بدبخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تاب مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دل کی مرض سے بزدل ہوکر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یا درکھیں.ان کا یہ کمزوری کا مرض اور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعت اسلام روز افزوں ترقی کرے گی اور یہ موذی بد معاش اور بھی کمزور ہوں گے اور ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقی کریں گے.جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو ان مسائل کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یوماً فيوماً روز افزوں ہیں.بہر حال ان کا مرض اللہ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقی دے گا.ہاں رہی یہ بات کہ یہ سزا ان کو کیوں ملی تو اس کا جواب بھی سچ ہے کہ ان کے اپنے اعمال کا بد نتیجہ تھا.اس میں قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے.مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمُ (الشوری: ۳۱) یعنی تمہیں ہر ایک مصیبت اپنے ہاتھوں کی کرتوت کے سبب سے پہنچتی ہے.عمدہ غذا، ہوا اور بہار کا مزہ تندرست کو ملتا ہے.نہ بیمار کو.یہ قانونِ قدرت ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۸۸-۸۹) میں نے بعض نادانوں کو دیکھا ہے.جب جناب الہی اپنی کامل حکمت و کمالیت سے اس کے قصور کے بدلے سزا دیتے ہیں اور وہ سزا اسی کی شامت اعمال سے ہی ہوتی ہے.جیسے فرمایا.وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمُ تو وہ شکایت کرنے لگ جاتے ہیں.مثلاً کسی کا کوئی پیارے سے پیارا مر جائے تو اس ارحم الراحمین کو ظالم کہتے ہیں.بارش کم ہو تو زمیندار سخت لفظ بک دیتے ہیں اور اگر بارش زیادہ ہو تب بھی خدا تعالیٰ کی کامل حکمتوں کو نہ سمجھتے ہوئے برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے ہر آدمی پر حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تنزیہ وتقدیس و تسبیح کرے.آپ کے کسی اسم پر کوئی حملہ کرے تو اس حملہ کا دفاع کرے.الفضل جلد نمبر ۶ مورخہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۱۳ء صفحه ۱۲) ہر شریف الطبع آدمی دوسرے کو کسی مصیبت میں مبتلا پا کر عبرت پکڑتا ہے.شریف مزاج لڑکوں کو جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو کسی اور کا حوالہ دیتے ہیں کہ فلاں نے ایسا کام کیا تو یہ سزا پائی.اس

Page 143

حقائق الفرقان ۱۳۳ سُوْرَةُ الشُّورى سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہر ایک شریف انسان دوسرے سے عبرت پکڑتا ہے.ہم کس قدر دکھیاروں کو دیکھتے ہیں تو قرآن کریم کے مطابق مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ.ہر ایک کو اپنے کئے ہوئے کی سزا ملتی ہے.جو کچھ تم کو مصیبت آئی.تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تم کو ملی.میں نے کبھی کسی مومن کو نمبر ۱۰ کا بدمعاش نہیں دیکھا.نہ ہی نیک اعمال والے کو آتشک کا شکار ہوتے دیکھا ہے.اس طرح ہر قسم کی بیماریوں اور مصیبتوں کا یہی حال ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میرے ایک استاد صاحب سے ایک جذامی علاج کروایا کرتا تھا.اس کی تنخواہ ماہوار میں ہزار روپے تھی.گویا ایک ہزار روپیہ یومیہ وہ پاتا تھا.ایک دن وہ استاد صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور نے بیسن کی روٹی کھانے کیلئے فرمایا ہے.وہ نکلنی مشکل ہے.اگر حکم ہو تو کچھ لقموں کے بعد ایک ڈلی مصری کی بھی کھا لیا کروں.میرے استاد صاحب نے بڑے زور سے فرمایا کہ نہیں.ہرگز نہیں ہو سکتا.وہ آدمی بڑا مہمان نواز تھا.مگر اس وقت وہ روپیہ اس کے کام نہ آ سکا.اسی طرح دیکھتے ہیں کہ مسلول و مدقوق کی حالت جب ترقی کر جاتی ہے تو دوسرے آدمی پاس بیٹھنے ، کھانے پینے وغیرہ سے مضائقہ کرتے ہیں.یہ جسمانی بیماری کا حال ہے.اسی طرح روحانی بیماری کا حال ہے.سننے والو! ظاہر کو باطن سے تعلق ہوتا ہے.اور باطن کو ظاہر سے رشتہ ہے.غور کرو.( میں دیکھتا ہوں ) ایک دوست کو دیکھ کر میرے دل کو سرور ملتا ہے.اور دیکھتے ہی دل خوش ہو جاتا ہے.اس کا دیکھنا جو ظاہری ہے.اس نے باطن میں جا کر دخل پایا.اسی طرح ایک دشمن کو دیکھ کر میں خوش نہیں ہوتا.بلکہ اس وقت میرے دل کی حالت کچھ اور ہوتی ہے.یہ اس باطن کی رنجیدگی سے ظاہر پر اثر ہوتا ہے.اور اس کے آثار میرے چہرہ پر اور ہر میرے اعضاء پر بھی نمودار ہوتے ہیں.پھر غصہ میں آ کر اسے کچھ نہ کچھ نا گوار لفظ بول دیتے ہیں.اس سے یہ قاعدہ نکلا کہ باطن کو ظاہر کے ساتھ اور ظاہر کو باطن کے ساتھ تعلق ضرور ہوتا ہے تو یہ معاملہ صاف ہے کہ انسان کا اندرونہ اور بیرونہ کچھ عجائبات سے با ہم پیوست ہوتا ہے.الفضل جلد نمبر ۱۸ مورخه ۱۵/اکتوبر ۱۹۱۳ ، صفحه ۱۵)

Page 144

حقائق الفرقان ۱۳۴ سُوْرَةُ الشُّورى ۳۴ اِنْ يَشَأْ يُسْكِن الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ ۖ إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت لِكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ - ترجمہ.اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ٹھہرا دے پس جہاز رہ جائیں کھڑے کے کھڑے دریا کے پشت پر.کچھ شک نہیں کہ اس میں نشانیاں ہیں ہر ایک بڑے صبر کرنے والے اور شکر کرنے والے کے لئے.تفسیر - يسكن الريح.ان کے اسٹیم روک دے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) ۳۷، ۳۸ - فَمَا أُوتِيتُهُ مِنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَمَا عِنْدَ اللهِ خَيْرُ وابْقَى لِلَّذِينَ آمَنُوا وَ عَلَى رَبِّهِمُ يَتَوَكَّلُونَ وَالَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبِيرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُواهُمْ يَغْفِرُونَ - ترجمہ.کہ جو کچھ تم کو دیا گیا ہے کوئی چیز ہو یہ تھوڑے دن کا فائدہ اٹھانا ہے دنیا کی زندگی کا اور جو اللہ کے یہاں ہے وہ تو بہت بہتر و زیادہ پائیدار ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں.اور جو لوگ بچتے ہیں کبیرہ گناہوں سے ( یعنی بڑے گناہوں سے ) اور کھلی بے حیائی کی باتوں سے اور جب ان کو غصہ آ جاتا ہے تو وہ معاف کر دیتے ہیں (ڈھانپ لیتے ہیں یعنی پی جاتے ہیں).يجتنبون كبير - ہر ایک بدی کی ابتدا صغیرہ ہے.یعنی مبادی معاصی اور انتہا کبیرہ تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۰) وَمَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ وَ أَبْقَى هُمْ يَغْفِرُونَ.وہ نعمتیں جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں بہت ہی اچھی اور ہمیشہ رہنے والی ہیں اور انہیں کو ملیں گی کہ جو ایمان لائے اور اپنے رب ہی پر ان کا بھروسہ ہے.ہے اور وہ جو بڑے بڑے گناہوں سے اور بے حیائیوں سے بچے رہتے ہیں.اور اگر کسی پر غضب کریں تو عفو کرتے ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۲۴)

Page 145

حقائق الفرقان ۱۳۵ سُوْرَةُ الشَّورى ۳۹.وَالَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَ أَمْرُهُمْ شُورى 99191 ص بينهم وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ - ترجمہ.اور جنہوں نے حکم مانا اپنے رب کا اور نماز کو ٹھیک درست رکھا اور آپس کے مشورہ سے کام کیا اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے ہیں.ص تفسیر.اور ایمان والے وہ جنہوں نے حکم مانا اپنے رب کا اور درست رکھی نماز اور ان کی حکومت ہے مشورے سے آپس میں.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۵۶ حاشیه ) أَمْرُهُمْ شُوراى بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.اور ان کی حکومت با ہمی مشورہ سے ہوتی اور کچھ ہمارا د یا خرچ کرتے ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۲۲۴) ہندوستان میں بارہ ریاستیں ہمارے دیکھتے دیکھتے تباہ ہوگئی ہیں.کئی معزز گھرانے مرتد اور بے دین ہو گئے ہیں.اسلام پر اعتراضات کا آرا چلتا ہے.مگر کسی کو گھبر انہیں.اس کی کیا وجہ ہے؟ یہی کہ لوگ اپنے اپنے نفسانی ہم وحزن میں مبتلا ہیں اور سچے اسباب اور ذرائع ترقی کی تلاش سے محروم و بے نصیب ہیں.پس دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ عجز سے بچاوے اور بقدر فہم و فراست تہیہ اسباب کرنا ضروری ہے اور پھر اس کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے.قرآن شریف کا رورو و حکم ہے کہ آمُرُهُم شُوری بَيْنَهُم - مشورہ کرنا ایسا پاک اصول ہے کہ اس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت اور برکت عطا ہوتی ہے اور انسان کو ندامت نہیں ہوتی مگر خود پسندی اور کہر ایسی امراض ہیں کہ انہوں نے شیطان اور انسان دونوں کو ہلاک کر دیا ہے.دیکھو ہر انسان ایسی پختہ عقل اور فہم رسا کہاں رکھتا ہے کہ خود بخودا اپنی عقل سے ہی ساری تدا بیر کر لے.اور کامیاب ہو جاوے.یہ ہر ایک انسان کا کام نہیں.اسی واسطے مشورہ کرنا ضروری رکھا گیا.ناتجربہ کار تو نا تجربہ کارہی ہے.مگر اکثر اوقات بڑے بڑے تجربہ کار بھی مشورہ نہ کرنے کی وجہ سے سخت سے سخت ناکامیوں میں مبتلا ہو کر بڑی بڑی ندامتیں برداشت کرتے ہیں.پس خود کو موجودہ ناکامیوں کے بہت فکروں میں ہلاک نہ ہونے دو.اور نہ گزشتہ کاہلیوں

Page 146

حقائق الفرقان ۱۳۶ سُوْرَةُ الشُّورى اور فروگزاشتوں کے خیال سے اپنے آپ کو عذاب میں ڈالو.بلکہ سچے اسباب کی تلاش کرو اور الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۶) مشوروں سے کام لو.٤١ - وَجَزَوُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۖ إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ ترجمہ.اور برائی کا بدلہ برائی ویسی.پھر جو کوئی معاف کر دے اور سنوار کرلے ( یعنی عفو بالا صلاح ہو ) تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے کچھ شک نہیں کہ وہ پسند نہیں کرتا بے جا کام کرنے والوں کو.تفسیر اور برائی کا بدلہ برائی ویسی ہے.پھر جو کوئی معاف کرے اور سنوارے سواس کا ثواب فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۵۲ حاشیه ) ہے اللہ کے ذمے.فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ.جس نے در گزر کی اور سنور گیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۲ حاشیہ) ۵۲ - وَ مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهِ مَا يَشَاءُ إِنَّهُ عَلَى حَكِيمٌ - ترجمہ.اور کسی بشر کی طاقت نہیں کہ اللہ اس سے بات کرے ( یعنی رو برو ) مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے ( رؤیا و کشف کے ذریعہ سے) یا کسی رسول و فرشتے کو بھیج دے.پھر وہ پہنچا دے اللہ کے حکم سے جو اللہ چاہے، بے شک اللہ بڑے مرتبے والا حکمت والا ہے.تفسیر - أَوْ مِنْ وَرَائِی حِجاب.مثلاً کوئی نقشہ دکھا یا جاوے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) براہمولوگوں کو دیکھو تو خدا تعالیٰ کی بڑی تعریفیں کریں گے مگر خدا تعالیٰ کی اس صفت سے ان کو قطعاً انکار ہے.جس سے وہ ہدایت نامے دنیا میں بھیجتا اور انسان کو غلطیوں سے بچانے کے لئے رہنمائی کرتا ہے اور نہیں مانتے کہ يُرسل الرَّسُول بھی خدا تعالیٰ کی کوئی صفت ہے.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۶ مورخه ۵ رمئی ۱۸۹۹ صفحه ۴)

Page 147

حقائق الفرقان ۱۳۷ سُوْرَةُ الشُّورى ۵۳ - وَكَذلِكَ اَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ اَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَكِنْ جَعَلْنَهُ نُورًا نَهْدِى بِهِ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۖ وَ إِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - ترجمہ.اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف ہمارے حکم سے ہمارا کلام قرآن مجید.تُو جانتا ہی نہ تھا کہ کتاب کیا چیز ہے اور ایمان کیا ہے مگر ہم نے بنا دیا اس وحی کو ایک نور.ہم راہ دکھاتے ہیں اس کے ذریعہ سے جسے چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے اور کچھ شک نہیں تو تو ہدایت کرتا ہے سیدھی راہ ہی کی طرف.تفسیر.اور ایسا ہی ہم نے تیری طرف اپنے امر سے روح بھیجی ہے.تو نہ تو کتاب ہی سمجھتا تھا اور نہ ایمان.پر ہم نے اسے نور بنایا ہے.اس سے جس کو چاہتے ہیں اپنے بندوں میں سے ہدایت دیتے ہیں اور یقینا تو سیدھی راہ کی طرف ہدایت کرتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۹۸ حاشیہ)

Page 148

حقائق الفرقان ۱۳۸ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ مَكّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ زخرف کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے.ترجمہ.اللہ نے حمایت کی محمدؐ کی.تفسیر.حمید و مجید وحی تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) إِنَّا جَعَلْنَهُ قُرانَا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ - ترجمہ.ہم نے اس کتاب کو بنایا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم سمجھو.إنَّا جَعَلْنَهُ قُرإِنَّا عَرَبِيًّا (الزخرف:۴) میں جَعَلْنَا پر بڑی بڑی بخشیں ہوئی ہیں کیونکہ مسلمانوں میں ایک فرقہ قرآن کو مخلوق اس بنا پر کہتا ہے.امام احمد بن حنبل فرماتے تھے کہ جعل کا لفظ بولو نہ کہ خَلَقَ کا.جَعَلْنَہ کے معنے بَيَّنَّاهُ ( بیان کیا ہم نے ).ان معنوں کے رو سے کوئی مشکل نہیں پڑتی.الفضل جلد نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱) ۵- وَإِنَّهُ فِي أَمِ الْكِتَبِ لَدَيْنَا لَعَلَى حَكِيمٌ - ترجمہ.اور بے شک وہ قرآن سورہ فاتحہ میں ہے اور ہمارے نزدیک وہ بلند قد رحکمتوں سے بھری ہوئی ہے.تفسیر.انگے.اس ضمیر کی طرف خیال رکھو.سب قرآن مجید کی طرف پھرتی ہیں.سوائے ایک کے کہ شیطان کی طرف ہے.في أم الكتب - محکمات کا علم ہو تو سب قرآن کا حل ہو جاتا ہے.تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰)

Page 149

حقائق الفرقان ۱۳۹ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ إنَّه في أم الكتب (الزخرف:۵) کے متعلق فرمایا کہ اس پر بھی مفسرین نے بہت بحث کی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر خاص فضل کیا اور اس کے معنے سمجھائے کہ الکتب سے مراد تو رات ہے اور ام کے معنے محکمات.تو مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی پیشگوئی تو رات کے محکمات میں موجود ہے.چنانچہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کو پڑھنے سے معلوم ہوسکتا ہے.فرمایا.افَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِكرَ صَفْحًا (الزخرف : ٦) سے مَا مَنَعَنَّا أَنْ تُرسِلَ بِالْأَيْتِ إِلَّا ان كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (بنی اسرائیل : ۵۸) کے معنے حل ہوتے ہیں.فرمایا.جیسے تمہارے خطا کار ہونے سے ہم اس قرآن مجید کے بھیجنے سے نہیں رک سکتے ایسے ہی نشانات بھیجنے سے ہمیں یہ بات نہیں روک سکتی کہ پہلوں نے جھٹلایا.الفضل جلد ا نمبر ۲۶ مورخه ۱۰/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱) ١١ - الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْدًا وَ جَعَلَ لَكُمْ فِيهَا سُبُلًا لَّعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - ترجمہ.جس نے بنا دیا تمہارے لئے زمین کو جھولنا اور بنا دیئے تمہارے لئے اس میں راستے تا کہ تم راہ پا جاؤ.تفسیر.لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.جب ظاہری رستے بنائے تو باطنی رستے بھی ضرور ہیں.کتاب اللہ تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) پر عمل سے خدا تک پہنچو.۱۲ - وَالَّذِى نَزَّلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً بِقَدَرٍ فَانْشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مِّيْتًا كَذلِكَ 179179.تخرجون.ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے اتارا بادل سے پانی اندازے سے پھر ہم نے زندہ کر دیا اس سے ایک شہر مردہ کو.اسی طرح نکالے جاؤ گے یعنی مرے بعد زندہ ہو کر اٹھو گے.فرمایا.علماء میں بحث ہے کہ جس گاؤں میں طاعون ہو اس کے باشندوں کو باہر ڈیرہ لگانا چاہیے یا نہیں.فَانشَرْنَا بِهِ بَلْدَةً مِّيْتًا (الزخرف: ۱۲) سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کیونکہ بارش اس گاؤں کی زمینوں کو تر و تازہ و شاداب کرتی ہے نہ مکانوں کو.پس گاؤں سے نکل کر اس کی زمین میں ڈیرہ الفضل جلد نمبر ۲۶ مورخه ۱۰/ دسمبر ۱۹۱۳ صفحه ۱) لگانا منع نہیں.

Page 150

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ۱۴، ۱۵ - لِتَسْتَوْا عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُوا نِعْمَةَ رَبَّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ و تَقُولُوا سُبُحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَ إِنَّا إِلَى رَبَّنَا لمنقلبون - ترجمہ.تا کہ چڑھ بیٹھو اور ٹھیک سوار ہو اس کی پیٹھ پر پھر یاد کرو تمہارے رب کا احسان جب ان پر بیٹھ جاؤ اور کہو پاک ذات ہے وہ جس نے ہمارے بس میں کر دیا اس سواری کو اور اس کو ہم قابو میں نہ لا سکتے تھے.اور ہمیں تو اپنے رب ہی کی طرف ضرور لوٹ جانا ہے.تفسیر.فرمایا.ہم بچپن سے سنتے تھے کہ گھوڑے کی ایک رکاب میں پاؤں رکھ کر دوسری میں رکھنے تک مولیٰ مرتضی قرآن مجید پڑھ لیا کرتے.اب اس کا مطلب سمجھ میں آیا کہ جزو قرآن بھی قرآن ہے.پس اس سے یہ مراد ہے کہ وہ آیت سُبُحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَ إِنَّا إِلَى رَبَّنَا لمُنقَلِبُونَ (الزخرف: ۱۵،۱۴) پڑھ لیتے تھے.الفضل جلد نمبر ۲۶ مورخه ۱۰/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱) ١٦ - وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِينٌ - ترجمہ.اور لوگوں نے ٹھہرایا اللہ کے بندوں میں سے ایک جزء بے شک انسان بڑا ہی ناشکرا ہے.تفسیر.یہ قرآن کریم میں نہیں لکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی ذات یا اس کی صفات کے جزو ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نور سے ایک ٹکڑ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن گیا.ایسا خیال شرک ہے.قرآن کریم میں اس کو رد کیا گیا ہے.جہاں فرمایا کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے عباد اور بندوں کو اللہ تعالیٰ کا جزو بنایا ہے یہ بڑا کفر ہے اور کھلا کفر ہے جَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورُ مبین.ہاں کل نورانی بندے اس کے نور سے ہوتے ہیں.کیا معنے؟ اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں.مگر یہ لفظ قرآن کریم میں نہیں.( بدر جلد ۹ نمبر ۴۵ مورخه ۹،۲ رستمبر ۱۹۱۰ ء صفحه ۳) 99991 اَوَ مَنْ يُنَشَّوا فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينٍ - ترجمہ.کیا بیٹی ذات جو پرورش پائے زیوروں میں اور وہ جھگڑے کے وقت میں صاف بات بھی نہیں کر سکتی ( تو کیا اللہ کے لئے ایسی چیز مقرر کرتے ہو ).

Page 151

حقائق الفرقان ۱۴۱ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ في الْخِصَامِ.لڑائی میں کھل کر نہیں نکل سکتی.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۰) ۲۱ - وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَنُ مَا عَبَدُ نَهُمْ مَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ، ٢١ 199991 هُمُ الَّا يَخْرُصُونَ - ترجمہ.اور یہ کہتے ہیں کہ اگر رحمن چاہتا تو ہم ان کی پوجا نہ کرتے.اس بات کا تو ان کو علم نہیں ہے ہاں یہ توصرف انکل ہی دوڑ رہے ہیں.تفسیر.اور کہتے ہیں اگر چاہتا رحمن ہم نہ پوجتے ان کو کچھ خبر نہیں ان کو اس کی یہ سب انکلیں فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۵ حاشیه ) دوڑاتے ہیں.m -۳۲- وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ هَذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ ترجمہ.اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا بڑے آدمی پر دو بڑی بستیوں کے رہنے والوں سے.تفسیر.نبوت اور ماموریت ایک باریک اور لطیف راز ہوتا ہے.جس کو دنیا میں منہمک انسان جھٹ پٹ نہیں سمجھ سکتا.اگر یہ بات ہوتی کہ ہر شخص معانی کے دعوی کرنے ہی پر اس کی حقیقت کو سمجھ لیتا تو پھر مخالفوں کا وجود ہی نہ ہوتا.چونکہ انسان اپنی عقل و دانش پر بھروسہ کرنا چاہتا ہے.اور مجرد اسی کے فیصلہ پر راضی ہونا پسند کرتا ہے.اس لئے اکثر اوقات وہ غلطیاں کرتا اور نقصان اٹھاتا ہے.یہی اٹکل بازی تھی جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں سے یہ کہلوایا.کو لَا نُزِّلَ هُذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ - میاں یہ قرآن شریف تو مکہ یا طائف کے کسی بڑے نمبردار پر نازل ہونا چاہیے تھا.اپنی نگاہ و نظر میں وہ یہی سمجھتے تھے کہ قرآن شریف اگر نازل ہو تو کسی نمبر دار پر نازل ہو.کیونکہ ان کی نگاہوں کی منتہا تو وہ نمبر داری ہوسکتی تھی.پس یہی حال ہے کہ انسان اپنی انکلوں سے کام لینا چاہتا ہے حالانکہ ایسا اس کو نہیں کرنا چاہیے.بلکہ جس معاملہ میں اس کو کوئی علم اور معرفت نہیں ہے.اس پر اسکو رائے زنی کرنے سے شرم کرنی چاہیے.اس لئے پاک کتاب کا حکم ہے کہ لَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ.

Page 152

حقائق الفرقان ۱۴۲ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ناواقف دنیا اپنی تدبیروں سے جو انتخاب کرنا چاہتی ہے وہ منظور نہیں ہوسکتا.سچا انتخاب وہی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کرتا ہے.چونکہ انسانی عقل پورے طور پر کام نہیں کرتی اور وہ فتوای نہیں دے سکتی کہ ہمارا کیا ہوا انتخاب صحیح اور مفید ثابت ہوگا یا ناقص.اس لئے انتخاب ماموریت کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخه ۱۷ رفروری ۱۹۰۱ صفحه ۵) مشکلات پیش آنے کا یہ باعث ہوا کرتا ہے کہ انسانی طبائع کسی کا محکوم ہونے میں مضائقہ کیا کرتے ہیں.چنانچہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری حکومت کو یہ لوگ طوعاً اور کرھا مانتے ہیں.پس جب خدا کی حکومت کا یہ حال ہے تو پھر جب انبیاء علیہم السلام کی حکومت ہوتی ہے اس وقت لوگوں کو اور بھی اعتراضات سوجھتے اور کہتے ہیں لَوْ لَا نُزِّلَ هُذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ که وحی کا مستحق فلاں رئیس یا عالم تھا.اس سے ظاہر ہے کہ لوگ رسول کی بعثت کیلئے خود بھی کچھ صفات اور اسباب تجویز کرتے ہیں.جس سے ارادہ الہی بالکل لگاؤ نہیں کھاتا.علی لھذا القیاس.جب رسول کے خلیفہ کی حکومت ہو تب تو ان کو مضائقہ پر مضائقہ اور کراہت پر کراہت ہوتی ہے.الحکم جلد ۹ نمبر امورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) ۳۳ اَهُم يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبَّكَ نَحْنُ قَسَيْنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتِ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيَّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ - ترجمہ.کیا یہ لوگ باٹ رہے ہیں تیرے رب کی رحمت کو.ہم نے تقسیم کی اُن کے درمیان اُن کی روزی اسی دنیا کی زندگی میں.ہمیں نے بلند مرتبہ بنایا ہے ایک کو ایک پرتا کہ بنائے ایک دوسرے کو عکوم.تیرے رب کی رحمت تو ان چیزوں سے بہتر ہے جو یہ جمع کر رہے ہیں.تفسیر.کیا یہ لوگ الہی فضل کی خود تقسیم کرتے ہیں حالانکہ دیکھتے ہیں کہ وجہ معاش میں ہم نے ان کو خود مختار نہیں رکھا اور خود ہم نے اس کی تقسیم کی ہے.پس جب ان کو علم ہے کہ خدا کے ارادہ سے سب کچھ ہوتا ہے تو پھر انبیاء اور ان کے خلفاء کا انتخاب بھی اس کے ارادہ سے ہونا چاہیے.الحکم جلد ۹ نمبر ا مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۱۱)

Page 153

حقائق الفرقان ۱۴۳ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ہمارے سید ابن ابراہیم علیہما الصلوۃ والسلام کی نسبت جب آپ کے پہلے مخاطبوں میں سے چند ناسمجھ اور ناعاقبت اندیشوں نے اس قسم کا اعتراض کیا تھا تو وہ دو گروہ تھے.عرب کے قدیم باشندے اور یہود...عربوں کے سوال کو اس طرح نقل فرمایا ہے.وَقَالُوا لَو لَا نُزِّلَ هُذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف: ٣٢) اور جواب میں فرمایا ہے.اَهُم يَقْسِمُونَ رَحْمَتَ رَبِّكَ نَحْنُ قَسَمُنَا بَيْنَهُم مَّعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَتٍ لِيَتَخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَ رَحْمَتُ رَبَّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (الزخرف:۳۳).اس سوال و جواب میں ایک لطیفہ نور کے قابل ہے.اُمّی، ان پڑھ عربوں نے یہ تو نہ کہا کہ رسول کیوں ہوا؟ اور اللہ تعالیٰ نے کیوں رسول کر کے بھیجا؟ کیونکہ آخر اتنی تو سمجھ رکھتے تھے کہ رسولوں کا آنا، ملہموں کا پیدا ہونا بے وجہ نہیں.ضرور ان کا بابرکت وجود برکات کا مثمر ہے مگر یہ کہا کہ رسولوں کا آنا بے شک ضروری اور فضل ہے.پر جن پر دنیوی فضل ہو رہا ہے وہی اس روحانی فضل کے مور د کیوں نہ ہوئے ؟ اگر امیر ہی رسول ہوتے تو بڑی کامیابی ہو جاتی.پادریو! آریو! کاش تم اتنی عقل رکھتے ! اور جواب سے یہ ظاہر کیا جب دنیوی ترقیات کو دیکھتے ہو کہ بعض ترقی کے اعلیٰ درجہ پر پہنچ گئے ہیں اور بعض سخت تنزل میں گرفتار.پس روحانی معاملات کو دنیا کے حال پر کیوں نہیں قیاس کرتے؟ جیسے لے اور عربوں نے کہا یہ قرآن مکہ اور طائف کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اترا.قرآن کا نازل ہونا.قرآن کالا نے والا ہونا تو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.وہ اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ دنیا کے گزارے میں یہی تو ہم نے ہی تقسیم کر رکھی ہے اور بعض کو بعض پر مختلف درجوں کے فضائل دے کر عزت بخشی ہے تو کہ ایک دوسرے کے کام آویں.بادشاہ رعایا کا خادم اور رعایا بادشاہ کی خدمت گزار.جب ظاہری دنیا و دولت کی تقسیم ان لوگوں کی تجویزوں پر نہیں تو نبوت و رسالت والا تو ان تمام چیزوں سے بڑھ کر ہے.جس کو یہ لوگ جمع کرتے ہیں کیا اس رحمت و فضل کو یہ لوگ اپنے ناقص عقل پر تقسیم کرنا چاہتے ہیں.

Page 154

حقائق الفرقان ۱۴۴ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ 999 وووو دنیاوی عزتوں کی تقسیم الہی ارادوں اور اس کے قدرتی اسبابوں سے ہو رہی ہے.اور تمہاری عقلیں وہاں پوری حاوی نہیں.ایسے ہی روحانی عزت بھی جس کا اعلیٰ حصہ نبوت ورسالت ہے.تمہاری غلط منطق سے کسی کو نہیں مل سکتی.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۴۴ - ۲۴۵) ۳۴- وَلَوْلَا أَن يَكُونَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً تَجَعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ بِالرَّحْمَنِ لبيوتهم سُقْفًا مِنْ فِضَّةٍ وَمَعَارِجَ عَلَيْهَا يَظْهَرُونَ - ترجمہ.اور اگر ایسا نہ ہوتا کہ لوگ ایک ہی جماعت ہو جائیں گے ( کافر و مومن حرص کے سبب سے ) تو البتہ رحمن کے منکروں کے گھروں کی چھت ہم چاندی ہی کی بنا دیتے اور سیٹر یٹیں بھی کہ وہ اس پر چڑھیں.تفسیر - تجعَلْنَا لِمَنْ يَكْفُرُ.آخر کا فر بھی جو محنت کرتے ہیں.ان کا معاوضہ دنیا میں اجر پاتے تشحیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۰) وَزُخْرُفًا ۖ وَإِن كُلُّ ذَلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ - ترجمہ.اور سونے کے بھی ( گھر بنا دیتے ) اور یہ سب کیا ہے دنیا کی چند روزہ زندگی کا گزران ہے اور تیرے رب کے نزدیک متقیوں کے لئے انجام بخیر ہے.تفسیر.عاقبت اندیش اللہ تعالیٰ کی صفت عدل اور رحم اور صفت فوقیت علی الکل پر ایمان رکھنے والا فتح ونصرت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو یقین کرنے والا.تمام نظام عالم کا قابض اور متصرف صرف ایک الہ الحق.قدوس رب کو سمجھنے والا اللہ تعالیٰ ہی کو حق اور راستی کا حامی اور مددگار جاننے والا جانتا ہے کہ الہی امداد انجام کا رراست بازی کے ساتھ ہے.حق ہی کی عمارت مستحکم چٹان پر قائم ہے.سچائی کامیابی سے مال کا علیحدہ نہیں ہوتی.اور وہ الہام الہی بالکل سچ ہے جس میں ہے.وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبَّكَ لِلْمُتَّقِينَ (الزخرف: ٣٦) - لے آخر کار کامیابی خدا کے پاس پر ہیز گاروں ہی کا حصہ ہے.لے تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳)

Page 155

حقائق الفرقان ۱۴۵ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ۳۷- وَمَنْ يَعْشُ عَنْ ذِكْرِ الرَّحْمَنِ نُقَيْضُ لَهُ شَيْطئًا فَهُوَ لَهُ قَرِينَ - ترجمہ.اور جو کوئی رحمن کے ذکر سے غفلت کرے ہم اس پر مقرر کر دیتے ہیں ایک شیطان تو وہ اس کے ساتھ ساتھ رہتا ہے.تفسیر.اور جو کوئی آنکھیں چرا وے رحمان کی یاد سے ہم اس پر تعین کریں ایک شیطان پھر وہ ہے اس کا ساتھی.۴۳ - اَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِى وَعَدُنْهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ - ترجمہ.یا تجھ کو وہی دکھا دیں گے جو ہم نے ان سے پیشگوئیاں کہہ رکھی ہیں کیونکہ ہم تو ان پر بڑا فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۲۱ حاشیه ) اختیار رکھتے ہیں.تفسیر.آؤ نُرِيَنَّكَ یہ الہام کا طرز ہے.اب تو مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں کہ یقینی بات أَوْ نہیں بتائی.تنفیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) ۵۲ - وَ نَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يُقَومِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَ هَذِهِ الأَنْهرُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِى أَفَلَا تُبْصِرُونَ - ترجمہ.اور ڈھنڈوری پٹوا دی فرعون نے اپنی قوم میں اور کہلایا اے میری قوم! کیا مصر کا ملک میری سلطنت نہیں اور یہ نہریں جو بہ رہی ہیں ہمارے مکانوں کے نیچے کیا تم کو دیکھتا ہی نہیں.اے میری قوم.کیا تم نہیں دیکھتے.ملک مصر کا میں مالک ہوں اور یہ ندیاں میرے نیچے بہتی ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۶ حاشیہ) ۵۴،۵۳ - اَم اَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِي هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ - فَلَوْلَا ألقى عَلَيْهِ أَسورَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَيكَةُ مُقْتَرِنِينَ - ترجمہ.ہاں میں بہتر ہی ہوں اُس شخص سے جو ایک ذلیل آدمی ہے ( یعنی موسی ) یہ تو بات بھی صاف نہیں کر سکتا.پھر کیوں نہیں ڈالے گئے اس پر سونے کے کنگن یا اس کے ساتھ فرشتے ہوتے صفیں باندھ کر.

Page 156

حقائق الفرقان ۱۴۶ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ وَلَا يَكَادُ يُبين بولنا بھی نہیں جانتا.بات بھی نہیں کر سکتا.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۰) متقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ بار یک در بار یک تدبیریں کرنے والے ، مال خرچ کرنے والے، جتھوں والے آئے.مگر وہ بھی ان متقیوں کے سامنے ذلیل وخوار ہوئے.فرعون کی نسبت قرآن مجید میں مفصل ذکر ہے.حضرت موسیٰ کے بارہ میں کہا.هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ ایک ذلیل (اور بینا ) آدمی ہے.میرے سامنے بات بھی نہیں کر سکتا.اور اس کی قوم کو غلام بنا رکھا مگر دیکھو آخر اس طاقتوں والے ، شان وشوکت والے ، جاہ وجلال ( بدر جلد نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه (۸) والے فرعون کا کیا حال ہوا.یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اس وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا....حضرت موسیٰ کیسی حالت میں تھے.فرعون نے کہا.هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ.ان کی تمام قوم غلام تھی مگر دو ایک آواز سے سب کام کروا لیا.وَاشْدُدُ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الاکیم.(یونس : ۸۹) نبیوں کو.خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پرواہ ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.( بدر جلد ۹ نمبر ۱ مورخه ۴ / نومبر ۱۹۰۹ ء صفحه ۱) فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ سن کر کہا قومهما لنا عبدُونَ (المؤمنون: ۴۸) اس کی قوم تو ވ ވ ہماری غلام رہی ہے.هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ.یہ کمینہ ہے اور بولنے کی اس کو مقدرت نہیں.اور ایسا کہا کہ اگر خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں الحکم جلد ۶ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۶) ملا.بلکہ میں بہت اچھا ہوں اس ذلیل سے اور یہ تو صاف صاف بول بھی نہیں سکتا بھلا کیوں نہ ڈالے گئے اس کو سونے کے کنگن.اور نہ آئے اس کے ساتھ فرشتے پر باندھ کر.کنگن اس کے زمانہ میں عزت کا نشان تھا جیسے ہندوستان کی ہندور یاستوں میں اب بھی ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۶ حاشیہ ) لے اور سخت کر دے اُن کے دل کہ وہ تجھ پر ایمان ہی نہ لائیں جب تک نہ دیکھ لیں ٹمیں دینے والا عذاب.

Page 157

حقائق الفرقان ۱۴۷ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ۵۷ - فَجَعَلْنَهُمْ سَلَفَا وَ مَثَلًا لِلْآخِرِينَ - ترجمہ.پھر ہم نے اس کو بنا دیا گیا گزرا اور ایک فسانہ پچھلوں کے لئے.تفسیر - مقلاً نیک نمونہ.اچھی صفتوں والا.( تشخیز الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) ۶۱ ۶۲ - وَ لَوْ نَشَاءُ لَجَعَلْنَا مِنْكُم مَّلَيْكَةً فِي الْأَرْضِ يَخْلُفُونَ - وَ إِنَّهُ لعِلْمُ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَبْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطَ مُسْتَقِيمَ - ترجمہ.اور اگر ہم چاہیں تو بنا دیں تم میں فرشتے کہ زمین میں وہ تمہاری جگہ کام کریں.اور بے شک قرآن شریف ایک قیامت کی علامت ہے تو تم قیامت سے شبہ نہ کرو اور میرا کہا مانو یہی سیدھا راستہ ہے.تفسیر.إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ.یہ قرآن کہ اس میں قیامت کا خوب بیان ہے.اگر مسیح کی طرف اگر ضمیر پھرتی ہے تو آگے فرمایا وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ - تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰) إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ - سورہ زخرف کو اگر غور سے مطالعہ کیا جاوے تو صاف کھل جاتا ہے کہ رانہ کی ضمیر قرآن مجید کی طرف راجع ہے چنانچہ شروع سورۃ میں ہے.إِنَّا جَعَلْنَهُ قُرانًا عَرَبِيًّا لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ - وَإِنَّهُ فِي أَمِ الْكِتَب لَدَيْنَا لَعَلَى حَكِيمٌ.یہ انہ قرآن مجید ہے.پھر اس سے آگے اسی سورۃ میں دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے.وَ إِنَّهُ لَذِكْرٌ لَكَ وَلِقَوْمِكَ وَ سَوْفَ تُسْتَلُونَ یہاں بھی انکہ قرآن مجید ہے.آگے چل کر تیسرے مقام پر فرمایا.وَ إِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَبْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمُ.یہاں کیوں قرآن مجید مراد نہ ہو.اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں انسان کے تنزل و ترقی کی گھڑیوں کا علم ہے.اور اس میں بتایا گیا ہے کہ قو میں کیونکر بنتی اور بگڑتی ہیں.پس تو اے قرآن پڑھنے والے ان میں شک نہ کرو کیونکہ یہ بہت ہی قطعی اور صحیح اور سچی باتیں ہیں.اگر یہ ضمیر عیسی کی طرف پھیری جائے تو یہ خرابی پڑتی ہے کہ علم صفت ہے اور مبتدا کی خبر صفت

Page 158

حقائق الفرقان ۱۴۸ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ نہیں ہو سکتی پھر اس کا بھی وَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ سے فیصلہ ہو گیا کہ عیسیٰ علیہ السلام عِلْمُ السَّاعَةِ اور وہ عِلْمُ السَّاعَةِ خدا کے پاس ہے.اور تم بھی اے مخاطبو! اسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے.تُرْجَعُونَ اور اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ سے ظاہر ہے کہ اللہ کے پاس زندہ بجسد العنصری موجود نہیں بلکہ جس طرح اور ابرار مر کر جاتے ہیں.اُسی طرح وہ بھی چلا گیا.تشحیذ الا ذبان جلدے نمبر ۳.ماہ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۳۴) اس سوال کے جواب میں کہ ابن مریم قیامت کی نشانی ہیں یا علامت اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں اور قریب قیامت آویں گئے فرمایا.اول یہاں لفظ علم کا بہ عین مکسور ہے.جس کے معنے یہ لوگ علامت یا نشانی کہتے ہیں حالانکہ وہ لفظ جس کے معنے علامت یا نشانی ہے.علم یہ عین مفتوح ہے سو اول تو ان کی خاطر لغت کو محرف مبدل کیا جاوے تو ان کے معنے تسلیم کئے جاویں.دوم یہاں لفظ ساعت کا ہے جس کے معنے قیامت کے کئے جاتے ہیں حالانکہ یہ لفظ عذاب اور گھڑی یعنی وقت کے معنوں پر آتا ہے اور قیامت صغرای یعنی ایک قوم کی موت یا تباہی پر بھی استعمال ہوتا ہے.کوئی خصوصیت اسے قیامت کبری سے نہیں اور اگر فرض کر لیا جاوے کہ انہ کی ضمیر ابن مریم کی طرف ہے.تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ ابنِ مریم کے ذریعہ اس عذاب کی گھڑی کا علم حاصل ہوتا ہے جو کہ یہودیوں پر آنا ہے.چنانچہ ابن مریم کے بعد یہودی طیطوس رومی کے ہاتھوں سخت تباہ و برباد ہوئے.سوم یہاں ابنِ مریم کو ساعت کا علم کہا گیا ہے اور اسی سورت کے اگلے رکوع ۱۳ میں لکھا ہے.وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ.یعنی ساعت کا علم خدا کے پاس ہے اور تم نے اسی کے پاس جانا ہے.تو جب ساعت کا علم خدا کے پاس ہوا تو جو شئے ساعت کا علم ہوگی وہ خدا کے پاس ہوگی.پس اگر ابن مریم ساعت کا علم ہے تو اسے خدا کے پاس ہونا چاہیے مگر کس طرح جیسے کہ ہم نے بھی خدا کے پاس ہونا ہے اسی طرح دیکھو یہاں بھی لفظ تُر جَعُون کا ہے اور ہماری نسبت بھی ہے انَّا لِلهِ وَاِنّا

Page 159

حقائق الفرقان ۱۴۹ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ إِلَيْهِ رَاجِعُون.تو گویا جیسے ہم نے خدا کے پاس جانا ہے ویسے ہی مسیح بھی خدا کے پاس ہیں اور اس سے وفات ثابت ہوئی.چہارم.اس سورۃ میں جیسے انہ یہاں آیا ہے ویسے ہی اور جگہ بھی آیا ہے.اور وہاں اکثر جگہ قرآن شریف مراد ہے.تو یہ معنے ہوئے کہ قرآن شریف قیامت کی بات کا خوب علم بتاتا ہے اور یہ بالکل سچ ہے.پنجم.کیا وجہ ہے کہ ان کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ پھیری جاوے حالانکہ آپ نے دو انگلیوں کو ملا کر کہا بُعِفتُ انَا وَ السَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ اب کیا ضرورت ہے کہ ابن مریم جو کہ آپ سے پیشتر ہوا.اُسے ساعت کا علم کہا جاوے اور آنحضرت جو بعد ازاں.گویا عیسی علیہ السلام کی نسبت قیامت سے بہت قریب ہوئے ان کو عِلْمُ السَّاعَةِ نہ کہا جاوے.( بدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۰) ٧٠ الَّذِينَ آمَنُوا بِأَيْتِنَا وَكَانُوا مُسْلِمِينَ - ترجمہ.جن لوگوں نے مانا ہماری آیتوں کو اور وہ فدائی فرمانبردار تھے.تفسیر.كَانُوا مُسْلِمِینَ.ایمان کے ساتھ عمل ضروری ہے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۰-۴۸۱) و -- ادْخُلُوا الْجَنَّةَ أَنْتُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ تُحْبَرُونَ ترجمہ.(اُن کو کہا جائے گا) جنت میں جاؤ تم اور تمہارے ساتھ والے یا بیبیاں مزے کرتے ہوئے.تفسیر.داخل ہو جاؤ جنت میں اور تمہاری بیبیاں بڑی خوشی اور امن میں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۶۱) ۲- يُطَافُ عَلَيْهِمْ بِصِحَافٍ مِنْ ذَهَبٍ وَ الْوَابِ وَ فِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ ردوو ج الاَنْفُسُ وَتَلَةُ الاَعيَّنُ وَاَنْتُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ترجمہ.اُن کے سامنے دور چلے گا طلائی رکابیوں کا اور دستی دار پیالوں کا اور اس میں جو تمہارا جی چاہے سب ہی موجود ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے.سدا وہاں رہو گے.

Page 160

حقائق الفرقان ۱۵۰ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ دوو وَفِيهَا مَا تَشْتَهِيهِ الْاَنْفُسُ وَ تَلَذُّ الْأَعْيُنُ - اور تمہارے لئے اس میں وہ چیزیں ہیں جو نفس چاہتا ہے اور آنکھیں مزہ لیتی ہیں.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۷۵ حاشیه ) وَتَبْرَكَ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ وَعِنْدَهُ عِلْمٌ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ - ترجمہ.بڑی بابرکت ہے وہ ذات اور اسی کی سلطنت آسمانوں اور زمین میں ہے اور جو کچھ ان دونوں کے بیچ میں ہے اور اسی کے نزدیک ہے قیامت کا علم اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے.تفسیر.وَعِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ.گویا سیخ مر کر خدا کے پاس ہے جہاں اب بھی مرکر پہنچیں گے.وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ.یہ بھی ثابت ہوا کہ عیسی تمہارے پاس نہیں آئے گا.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۰) -۸- وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ 199171 وَهُمْ يَعْلَمُونَ - ترجمہ.اور وہ تو کچھ اختیار نہیں رکھتے جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا شفاعت کرنے کے لئے مگر ہاں جس نے گواہی دی سچی اور وہ جانتے ہیں.تفسیر.بعض لوگ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شافع ہونے کا ثبوت قرآن مجید سے طلب کرتے ہیں.ان کیلئے یہ آیت حجت قویہ ہے.وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ.اور جن کو یہ خدا کے سوا پکارتے ہیں وہ شفاعت کے مالک نہیں.ہاں یہ بات صحیح ہے کہ ایک شافع ہے.جس نے حق کی گواہی دی اور وہ لوگ اسے خوب جانتے ہیں.یعنی ( سید نامحمد صلی اللہ علیہ وسلم ).اسی طرح ایک اور آیت ہے.وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا اَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا (النساء : ۶۵) اور اگر ان لوگوں نے اپنی جان پر کوئی ظلم کیا تو وہ تیرے پاس آتے اور اللہ سے مغفرت مانگتے اور رسول بھی ان کیلئے مغفرت مانگتا.تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پاتے.

Page 161

حقائق الفرقان ۱۵۱ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ شفاعت کی حقیقت سمجھنے کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ لفظ شفع سے نکلا ہے.اور مندرجہ ذیل لے إن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيم - (آل عمران: ۳۲) آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع انسان کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہے.حضور انور کی ذات ستودہ صفات ایک نور ہے.جو اس نور سے تعلق پیدا کرتا ہے.اس سے ظلمات دور ہوتی ہیں.یہ شفاعت ہے.مجرموں کی جنبہ بازی کا نام شفاعت نہیں جیسا کہ بعض نادانوں نے غلطی سے سمجھا ہے اور اس پر اعتراض کرتے ہیں.تشخیز الاذہان جلدے نمبر ۳.ماہ مارچ ۱۹۱۲ ء صفحہ ۱۳۶.۱۳۷) مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ.جو آجکل حق کی گواہی دے رہا ہے یعنی محمد رسول اللہ.جسے کفار تک جانتے ہیں بعض مسلمان جو شفاعت کے منکر ہیں ان پہ افسوس.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۱) ” میں اپنے فن طبابت میں دیکھتا ہوں کہ میری کوشش کی سپارش ، میری دی ہوئی دواؤں کی سپارش کہیں منظور ہے اور کہیں نا منظور.اسی طرح سائنس دانوں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظور.بادشاہوں کے وزراء، امراء سپہ سالاروں کی سپارشیں کہیں منظور ہیں کہیں نامنظور.دعا ئمیں کہیں کامیاب کر کے شکر کے انعامات کا موجب ہوتی ہیں اور کہیں نا کامی سے صبر کے انعامات دلاتی ہیں.پس اس قاعدہ کے مطابق بعضوں کے حق میں لکھا ہے کہ ان کے لئے سپارش نامنظور ہے اور بعض کے لئے سپارش منظور ہے.اسی طرح بعض کی سپارش منظور اور بعض کی نا منظور.سپارش اور گناہ کا یہ تعلق ہے کہ گناہ اخذ کا موجب ہے.اور سپارش کنندہ کی سپارش اس کے نیک اعمال کے باعث النبی عفو (کھما) کو حاصل کر کے ایک قسم کے گناہ گار کیلئے تو کھما کا موجب ہوتی ہے اور سپارش کنندہ کے واسطے باعث اعزاز و امتیاز.شفاعت ایک دعا بلکہ دعا سے بڑھ کر ایک درجہ کی پرارتھنا ہے.پس اس پر انکار کیا؟ ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۴۱، ۱۴۲) کای لے (اے محمد) تم ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے محبوب بنا چاہتے ہو (جیسا کہ میں اللہ کا محبوب بنا ہوں ) تو تم میرے چال چلو پوری پوری تو تم بھی اللہ کے محبوب بن جاؤ گے اور تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اللہ غفور الرحیم ہے.

Page 162

حقائق الفرقان ۱۵۲ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ایک عیسائی کے اعتراض کہ انسان کی نجات قیامت کے روز کیونکر ہوگی.حسنِ عمل سے یا شفاعت شفیع سے یا دونوں سے“ کے جواب میں تحریر فرمایا.مخلوق کی نجات کا مدار ایسا تنگ اور محدود نہیں جو پادریوں نے بیان کیا.کیا خدائی ارادے محدود ہیں؟ کیا اس بے حد ہستی کے کام کسی مخلوق کے خیال اور وہم پر موقوف ہیں؟ بندگانِ خدا کی نجات قیامت کے روز محض باری تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہوگی اور صرف اس کے رحم اور غریب نوازی سے ہم نجات پائیں گے اگر اعمال وغیرہ سے نجات ہے تو فضل کچھ بھی نہیں ناظرین یقین کرو کہ فضل و کرم خداوندی سے نجات ہے اور یہی فضل و کرم اسلام میں نجات کا باعث ہے دیکھو سورہ دخان.اس میں اہل جنت کے انعامات کا ذکر ہوتے ہوتے بتایا ہے کہ جنت میں جانے والے دوزخ سے اللہ کے فضل سے بچے.وَوَقْهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ـ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَ - (الدخان: ۵۸،۵۷) اور سورہ حدید میں ہے.سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ امَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ (الحديد: ۲۲) وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِينَ وَ الصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ وَكَفَى بِاللهِ - عَلِيمًا.(النساء: ۷۱،۷۰) ے اور بچایا ان کو دوزخ کی مار سے فضل سے تیرے رب کے.۲؎ دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور بہشت کو جس کا پھیلاؤ ہے جیسے پھیلاؤ آسمان اور زمین کا رکھی گئی ہے ان کے واسطے جو یقین لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر.یہ بڑائی اللہ کی ہے دیوے اس کو جس کو چاہے اور اللہ کا فضل بڑا ہے.سے اور جولوگ چلتے ہیں حکم میں اللہ کے اور رسول کے سودے ان کے ساتھ ہیں جن کو اللہ نے نوازا.نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت اور خوب ہے ان کی رفاقت.یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ بس بے خبر رکھنے والا.

Page 163

۱۵۳ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ حقائق الفرقان قرآن بیان کرتا ہے.گناہ تین قسم کے ہوتے ہیں.اوّل شرک.دوم کبائر.سوم صغائر.شرک کی نسبت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے کہ وہ ہرگز بدوں تو بہ معاف نہ ہوگا.اس کی سزا بھگتنی ضرور ہے إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ (النساء : ۱۱۷) انجیل بھی با ایں کہ بڑی بشارت اور بشیر ہے.فرماتی ہے متی ۱۲ باب ۳۱.روح کے خلاف کا کفر معاف نہ ہوگا.دوسری قسم گناہوں کی وہ کبائر اور بڑے بڑے گناہ جو شرک کے نیچے ہیں اور صغائر یا مبادی کبائر سے اوپر اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ ہر ایک کبیرہ اور بڑے گناہ کی ابتدا میں چھوٹے چھوٹے گناہ جواس کبیرہ سے کم ہیں ہوتے ہیں مثلاً جو شخص زنا کا مرتکب ہوا.ضرور ہے کہ ارتکاب زنا سے پہلے وہ اس نظر بازی کا مرتکب ہو جس سے زنا کے ارتکاب تک نوبت پہنچی.یا ابتداء وہ باتیں سنیں جن کے باعث اس بدکاری کے ارتکاب تک اس زنا کنندہ کی نوبت پہنچی.ایسے ہی ان باتوں کا ارتکاب جن کے وسیلے سے اس کو وہ شخص ملا.جس سے زانی نے زنا کیا اور بالکل ظاہر ہے کہ ان ابتدائی کارروائیوں کی برائی زنا کی برائی سے ضرور کمی پر ہے.ایسے کہائر اور بڑے گناہوں کی نسبت قرآن کریم فرماتا ہے.إن تَجْتَنِبُوا كَبَابِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَأْتِكُمْ.(النساء:۳۲) کیا معنی؟ جن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے تم لوگ منع کئے گئے.اگر ان بڑے گناہوں سے بچ رہو تو ان کے مبادی اور ان کے حصول کی ابتدائی کارروائی صرف ان بڑے گناہوں سے بچ رہنے کے باعث معاف ہو سکتی ہے.مثلاً کسی شخص نے کسی ایسی عورت سے جماع کرنا چاہا جو اس کے نکاح میں نہیں اور اس عورت کے بلانے پر کسی کو ترغیب دی یا کچھ مال خرچ کیا.اور اُسے خالی مکان میں لا یا اور اسے دیکھا.بلکہ اس کا بوسہ بھی لے لیا.لیکن جب وہ دونوں برضا و رغبت برائی کے مرتکب ہونے لگے اور کوئی چیز روک اور بدکاری کی مانع وہاں نہ رہی اور اس بد کارروائی کا آخری بد نتیجہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا کہ لے اللہ یہ نہیں بخشا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے اور اس سے نیچے بخشتا ہے.ے اگر تم بچتے رہو گے بری چیزوں سے جو تم کو منع ہو ئیں تو ہم اتار دیں گے تم سے تقصیریں تمہاری.

Page 164

حقائق الفرقان ۱۵۴ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ اس زانی کے ایمان نے آ کر اسے زنا سے روک دیا.اب یہ شخص با ایں کہ مال خرچ کر چکا ہے یا ثانی کی رضامندی پاچکا.صرف ایمان کے باعث ہاں صرف ایمان ہی کے باعث اور خدا کے خوف سے باہمہ وسعت و طاقت اس بڑی برائی کے ارتکاب سے ہٹ گیا اور اسکا مرتکب نہ ہوا.تو صرف اسی اجتناب سے اس کی ابتدائی کارروائیاں جو حقیقت میں مبادی گناہ اور گناہ کی محرک تھیں معاف ہو جائیں گی.کیونکہ اس کا ایمان بڑا تھا.جس نے آخری حالت میں خدا کے فضل سے دستگیری کی.اور تیسری قسم گناہ کی صغائر ہیں.جن کا ذکر کبائر میں ضمناً آ گیا.ناظرین!انجات صرف رحم اور فضل سے ہے اور رحم اور فضل کا مستحق ایماندار ہے.اِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ - (الاعراف: ۵۷) اور ایمان کے پھل نیک اعمال ہیں.پس کل اعمال یا اکثر اعمال اگر عمدہ ہیں تو معلوم ہوا کہ اُن عمدہ اعمال کے عامل کا ایمان بڑا اور قوی تھا.جب ایمان بڑا اور قوی ہوا.تو بہت بڑے فضل کا جاذب ہو گا اور اگر نیک اعمال کے ساتھ تیسری قسم کے چھوٹے بد اعمال یا چھوٹے بڑے دونوں قسم کے بُرے اعمال مل گئے تو ظاہر ہے کہ ایسے شخص کے ایمان میں بمد مقابل کچھ کفر بھی ہے.جس کے بد ثمرات یہ معاصی چھوٹے اور بڑے ہیں.کیونکہ ایمان کا پھل تو یہ بداعمال ہو نہیں سکتے.پھر لامحالہ کفر سے یہ ثمرات ہوں گے.گو وہ چھوٹا ہی کفر کیوں نہ ہو.اور کفر فضل کا جاذب نہیں.بلکہ فضل کو روکتا ہے.جیسے اندھیری کوٹھڑی کی دیوار میں اور چھت سورج کی روشنی کو روکتی ہیں.پس ایسے شخص میں ضرور جنت اور نجات کے اسباب اور فضل کے کھینچنے اور لینے کے ذریعے دوزخ میں جانے کے اسباب اور بہشت و نجات میں جانے کی روکیں مل جائیں گی.اس لئے ایک میزان کی ضرورت پڑی.مگر یہ میزان دکانداروں کی ترازو سے یا ریلوے والوں کی ماپ تول سے نرالی ہے.دیکھو سموئیل ۲ باب ۳.یہ تراز و خدا کے عدل اور قدوسیت کی ترازو ہے.نیک اعمال کی زیادتی میں ایمان کی قوت ظاہر ہے اس لئے وہ ایمان بڑے فضل کا لینے والا ہوا.اور مساوات اور کمی کی لے بے شک مہر اللہ کی نزدیک ہے نیکی والوں سے.

Page 165

حقائق الفرقان ۱۵۵ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ صورت میں قرآن کی اس امید بھری آیت سے وَ أَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَ أَخَرَ سَيْئًا ۖ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ - (التوبة: ١٠٢) امید ہے کہ خداوندی رحم اس کے غضب پر سبقت لے جاوے اور اس کا فضل بچالے.الا یہی فضل کبھی کسی شفیع کو اپنے پہنچنے کیلئے ذریعہ بنالیتا ہے.اہلِ اسلام میں بے اذن شفاعت ثابت نہیں.اور جب اذن سے شفاعت ہوئی.تو وہ شفاعت حقیقت میں فضل ہو گیا.یہی فضل نجات کا باعث ہے اور اس بالا ذن شفاعت کا ثبوت جسے خدا کے رحم اور فضل نے گنہگار کے بچانے کیلئے تحریک دی.قرآن میں یہ ہے.وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا - (النساء : ۶۵) یا درکھو جب نیک اعمال کثرت سے نہیں ہوتے.اور ایمانی قوت کا قوی ہونا ثابت نہیں ہوتا.اس وقت بڑے فضل کو یہ چھوٹا سا ایمان نہیں کھینچ سکتا اور فضل لینے سے سبب میں کمزوری ہوتی ہے اس لئے باری تعالیٰ کا رحم اور کرم چھوٹے سے ایمان کے ساتھ کسی شفیع کی شفاعت اور داعیوں کی دعا کو ملا دیتا ہے اور اسی کمزور ایمان کو اس ذریعہ سے قوت دیکر فضل کے لائق بنادیتا ہے.بلکہ صرف ایمان ہی ابدی سزا سے بچانے کیلئے اس فضل کو لے لیتا ہے.جس کے ساتھ انسان دوزخ کی ابدی سزا سے بچ جاوے.پادری صاحب ! پولوس بھی کیا کہتا ہے.پھر اگر فضل سے ہے تو اعمال سے نہیں نہیں تو فضل فضل نہ رہے گا اور اگر اعمال سے ہے تو پھر فضل کچھ نہیں نہیں تو عمل عمل نہ رہے گا.نامہ رومیاں ا باب ۶.لے اور بعضے لوگوں نے مان لیا اپنا گناہ.ملا یا ایک کام نیک اور دوسرا بد.شاید اللہ معاف کرے ان کو.بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے.۲.اور ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا اگر آتے تیرے پاس پھر اللہ سے بخشواتے اور بخشوا تا ان کو رسول.تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان.اعمال ، ایمان ، گناہ ، ثواب ، فضل ان سب اصطلاحات کی نسبت حکیمانہ طور پر ہمارا خیال کچھ کیوں نہ ہو اور ہم عیسائی مفہوم اور مذاق سے بالکل الگ کیوں نہ ہولیکن بہر حال ان اصطلاحات کا اطلاق مخاطبین ہی کے مذاق کے موافق ہم کیے جاتے ہیں کیونکہ ہماری اس کتاب کا موضوع و منشاء بھی یہی ہے.

Page 166

حقائق الفرقان ۱۵۶ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ پادری صاحبان! آپ کو عہد جدید میں دکھلا دیا کہ آپ کا یہ سوال کہ نجات اعمال سے ہے یا شفاعت سے کیسا کمزور ہے.نجات نہ اعمال سے ہے نہ شفاعت سے.نجات صرف خدا کے فضل سے ہے.ہاں اتنی بات رہی کہ خداوندی فضل کو کون چیز جذب کرتی ہے.اور کس کے ذریعہ ہم محض فضل سے نجات پاسکتے ہیں.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان فضل ربانی کو جذب کرتا ہے.قرآن فرماتا ہے.فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِنْهُ وَفَضْلٍ ( النساء: ۱۷۲) اس آیت سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ان کو خداوند کریم فضل و رحمت میں داخل کرے گا.عہد جدید بھی یہی کہتا ہے.دیکھو نامہ رومیاں ۳ باب ۲۸.کیونکہ ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ آدمی ایمان ہی سے بے اعمال شریعت کے راست باز ٹھہرتا ہے اور نامیہ رومیاں ۴ باب ۳.فرشتہ کیا کہتا ہے.یہی کہ ابراہام خدا پر ایمان لا یا اور یہ اس کیلئے راست بازی گنا گیا.نجات اور فضل اور ایمان کی مثال بعینہ ایسی ہے کہ ایک شخص جس کی آنکھیں تندرست ہیں.ایک ایسے مکان میں جو بالکل بند ہے بیٹھا ہے اور کہیں اُس مکان میں روشنی آنے کا راستہ نہیں.اب اس شخص کو ایک نہایت عزیز اور پیارے دوست کا دیدار مطلوب ہے اور وہ دوست بھی اس مکان میں موجود ہے.اور ظاہر ہے کہ روشنی کے بدوں اپنے دوست کا چہرہ نہیں دیکھ سکتا اور اس دوست کے دیدار سے اس طالب دیدار کے دل اور روح کو کوئی راحت نہیں مل سکتی.جب تک روشنی نہ آوے.اور دوست کا چہرہ نہ دکھلاوے.روشنی لینے کے مختلف ذریعے ہیں.یا تو اس مکان میں روشندان نکالے یا چراغ وغیرہ سے کام لے.غرض کوئی چیز روشنی کی جاذب ہی نہیں تو روشنی دیدار لینے میں امداد نہ کرے ا سو جو یقین لائے اللہ پر اور اس کو مضبوط پکڑا تو ان کو داخل کرے گا اپنی مہر میں اللہ فضل میں.

Page 167

حقائق الفرقان ۱۵۷ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ گی.گوروشنی فی الحقیقت دیکھنے کا آلہ ہے.جب روشندان یا چراغ وغیرہ سے روشنی لے تو دوست کے دیدار سے وہ دیدار کا طالب آرام پاسکتا ہے.ایسا ہی دیدار اور دیدار سے آرام تو نجات ہے.اور وہ روشنی فضل وکرم خداوندی ہے.ایمان ایک روشندان یا چراغ ہے جو فضل کی روشنی کو کھینچتا ہے اور ایمان کو اس روشنی کا جاذب قرآن نے بھی کہا ہے.اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ - (البقرة:۲۵۸) پس جس قدر مومن کا ایمان بڑھتا ہے.اسی قدر وہ بڑے فضل کو جذب کرتا ہے.اور اسے حاصل کرتا ہے جیسے جس قدر روشندان اور فتیلہ بڑا ہو گا.اسی قدر زیادہ روشنی کو کھینچے گا.اب اگر کوئی یہ سوال کرے کہ جب ایمان فضل کو بلاتا ہے اور فضل سے نجات ہے تو اعمال کیا ہوئے؟ کیا اعمال لغو اور بیکار ہوں گے؟ تو معلوم ہوا کہ سائل نے ایمان اور اعمال نیک کا تعلق نہیں سوچا.کیونکہ نیک اعمال اور سچا ایمان ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہے.سچا ایمان نیک اعمال کا بیج ہے.اور اچھے بیج کا ضرور ہاں اچھے بیج کا ضرور اچھا ہی پھل ہوتا ہے.پولوس نامہ رومیاں ۶ باب ۱۵ میں صاف فرماتے ہیں کہ تم فضل کے اختیار میں ہو.پس تو کیا ہم گناہ کیا کریں.اس لئے کہ ہم شریعت کے اختیار میں نہیں.بلکہ فضل کے اختیار میں ہیں.ایسا نہ ہو.کیا تم نہیں جانتے کہ جس کی تابعداری میں تم اپنے آپ کو غلام کے مانند سونپتے ہو.اسی کے غلام ہو.جس کی تابعداری کرتے ہو.خواہ گناہ کی.جس کا انجام موت ہے.خواہ فرماں برداری کی جس کا پھل راست بازی ہے.بھلا کچھ شک ہے کہ درخت اپنے پھلوں سے ہی پہنچانا جاتا ہے.بالکل سچ ہے کہ سچا ایمان اچھے اور نیک اعمال کا باعث ہے اور کفر اقسام بدکاریوں کا مثمر.انسان کی کمزوریاں کبھی اسے کفر کے باعث فضل کے لینے میں بدنصیب کر کے گناہ کا مرتکب بناتی ہیں.اور غفلت کی حالت میں شیطان کڑوے بیج ہوتا ہے.متی ۱۲ باب ۲۵.اس واسطے عادل خدا کی ذات بابرکات نے اس کی تدبیر فرمائی.لے اللہ کام بنانے والا ہے ایمان والوں کا ، نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے اُجالے میں.

Page 168

حقائق الفرقان ۱۵۸ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - (الاعراف: ٩) وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُونَ فِيهَا بِغَيْرِ حِسَابِ.(المومن : ۴۱) کیا معنی؟ کہ جب ایک انسان بد اور نیک اعمال دونوں قسم کے عملوں کا مرتکب ہوتا ہے تو معلوم ہوا کہ اُس میں ایمان اور اس کے مد مقابل کے بیج بوئے گئے ہیں.اس لئے میزان کی ضرورت ہوئی.تا کہ عدل کی صفت پوری ہو.پس جس کے نیک اعمال بڑھ گے.عدل اور رحم اس کا شفیع ہوا اور فضل و کرم سے ایسے شخص کا بیڑا پار ہو گیا.سچ ہے بھلے اور چنگے کو طبیب کی ضرورت نہیں.متی ۹ باب ۱۲.اور جس کے اعمال نیک اور بد ملے جلے ہیں تو اس کیلئے بھی رحم اور کرم کا پلہ امید ہے کہ فضل سے بھاری ہو جاوے.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۸۹ تا ۲۹۴) اس سوال کے جواب میں کہ اگر شفیع کی ضرورت ہے تو اس کے شرائط اور وجہ خصوصیت کیا ہے؟“ جواب:.ہو.شفیع کے شرائط وہی جانے جسے شفیع بنانا ہو.یعنی خدا جس کے رحم اور کرم اور فضل نے شفیع بنایا و.الا جہاں جہاں شفاعت کا ثبوت ہے.وہاں وہاں قرآن نے وہ شرائط بتلا دیئے ہیں.غور کرو.انبیاء اور ملائکہ کی شفاعت اُسی کے رحم اور فضل سے ہے.اور اسی کے اذن اور ا جازت سے دیکھو.بَلْ عِبَادُ مُكْرَمُونَ - لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ (الانبياء: ۲۸،۲۷) وَلَا يَشْفَعُونَ إِلا لِمَنِ ارْتَضى - (الانبياء: ٢٩) وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ - (الزخرف:۸۷) ه ا سوجن کی تو لیس بھاری پڑیں سو وہی ہیں جن کا بھلا ہوا.۲.اور جس نے کی ہے بھلائی وہ مرد ہو یا عورت اور وہ یقین رکھتا ہوسو وہ لوگ جائیں گے بہشت میں.روزی پائیں گے وہاں بے شمار.۳.لیکن وہ بندے ہیں جن کو عزت دی ہے.اس سے بڑھ کر نہیں بول سکتے.اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں.۴ اور سفارش نہیں کرتے مگر اس کی جس سے وہ راضی ہو.ھے اور اختیار نہیں رکھتے جن کو یہ پکارتے ہیں سفارش کا.مگر جس نے گواہی دی سچی اور ان کو خبر تھی.

Page 169

حقائق الفرقان ۱۵۹ سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِيْنَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِيْنَ تَابُوا وَ اتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ - (المومن :۸) وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ - الشورى: 1) فصل الخطاب لمقدمه اهل الكتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۴) اس سوال کے جواب میں کہ شفاعت کبریٰ اور صغریٰ کی تعریف کیا ہے.شفاعت کبری یا صغریٰ کا قرآن سے بہ نسبت محمد صاحب کے کیا ثبوت ملتا ہے.لفظی معنی لکھ کے آیت سے ثابت کریں تاویلیں اور مرادی معنی مطلوب نہیں.جواب:.یہ قرآن ہی وہ کتاب ہے جو ہر زمانے کے فلسفے میں اپنے آپ کو راست باز ثابت کرتی رہی اور ثابت کرے گی جس قدر علوم دنیا میں ترقی پاویں گے.یہ کتاب ان کے نیچے اصولوں سے کبھی مخالفت نہ کرے گی اور اپنا صدق ظاہر کرنے کو بے تعصب محققوں کو اپنی راستی پر کھینچ لائے گی.اگر حق طلبی مد نظر ہے.اسی سوال کے جواب پر اکتفا کیجئے اور لیجئے ہم آپ کے تمام پہلوؤں کو دیکھ کے جواب دیتے ہیں اور لفظی معنے لکھ کر آیتیں دکھلاتے ہیں.اور دونوں قسم کی شفاعتوں کا قرآن سے ثبوت دیتے ہیں.شفاعت کے معنے سفارش.صغریٰ کے معنے چھوٹی اور کبری کے معنی بڑی.شفاعت صغری چھوٹی سپارش.شفاعت کبری بڑی سپارش.ہاں نہیں سپارش بڑی.چھوٹا اور بڑا ہونا ایک نسبتی امر ہے.جیسے ایک اور تین.ایک تین سے چھوٹا اور تین ایک سے بڑا.اب قرآن سے ثبوت لیجئے اور ثبوت بھی کیسا جس میں یہ بات بھی ثابت ہو جائے گی کہ دونوں قسم کی سفارش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں ثابت ہے.پہلے چھوٹی سفارش.وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا الله تَوَّابًا رَّحِيمًا - ( النساء:۶۵) لے اور گناہ بخشواتے ہیں ایمان والوں کے.اے رب ہمارے ہر چیز سمائی ہے تیری مہر اور خبر میں.سو معاف کران کو جو تو بہ کریں اور چاہیں تیری راہ اور بچا ان کو آگ کی مار سے لے اور گناہ بخشواتے ہیں زمین والوں کے.سے اور ان لوگوں نے جس وقت اپنا برا کیا تھا اگر آتے تیرے پاس پھر اللہ سے بخشواتے اور بخشوا تا ان کو رسول تو اللہ کو پاتے معاف کرنے والا مہربان.

Page 170

حقائق الفرقان 17.سُوْرَةُ الزُّخْرُفِ ط خُذُ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهَرُهُمْ وَتُزَلَيْهِمْ بِهَا وَصَلَّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلوتَكَ سَكَنُ لے لَهُمْ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - (التوبه : ١٠٣) دیکھو یہاں صرف منافقوں کے گروہ کی شفاعت کا تذکرہ ہے.اس لئے یہ شفاعت صغری شفاعت ہوئی اور کبری شفاعت کا ذکر ان آیات شریفہ میں ہے جن کے ذریعے آپ بڑے جوش و خروش سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گنہگار ہونے کا استدلال کرتے ہیں.وہ آیات اس قسم کی ہیں.وَاسْتَغْفِرْ لِنَثْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ - (محمد:۲۰) فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۲۹۷،۲۹۶) شفاعت ایک قسم کی دعا ہے اور دعا کا مؤثر ہونا کل مذاہب تاریخیہ میں مسلم اور دعا کیلئے یادعا کی قبولیت کیلئے گناہوں سے پاک ہونا ہرگز ہرگز شرط نہیں.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۷) ٨٩ وَقِيلِهِ يُرَبِّ إِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ لَا يُؤْمِنُونَ ترجمہ.اور رسول اللہ کے یا رب یا رب کہنے کی قسم ہے کہ یہ ایسے لکھے لوگ ہیں کہ مانتے ہی نہیں.تفسیر.وقیلہ.یہ عطف ساعۃ پر ہے.۲.و بمعنے رب یعنی بار بار اس کا کہنا.و تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۱) ٩٠ - فَاصْفَحُ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَمُ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ - ترجمہ.تو خیر تو ان سے منہ پھیر لے اور کہہ دے سلام.آگے چل کر یہ معلوم کر لیں گے.تفسیر فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلم.تو ان سے درگزر کر اور سلام کہہ دے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۲۳۲) پھر عفو کر ان سے اور کہہ سلام.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۵۳ حاشیه ) لے لے ان کے مال میں سے زکوۃ کہ ان کو پاک کرنے اس سے اور تربیت اور دعا دے ان کو البتہ تیری دعا ان کے واسطے آسودگی ہے.اور اللہ سب سنتا ہے جانتا ہے اور معافی مانگ اپنے گناہ کے واسطے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے.

Page 171

حقائق الفرقان ۱۶۱ سُورَة الدُّخَانِ سُوْرَةُ الدُّخَانِ مَكِيَةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.ہم سورہ دخان کو پڑھنا شروع کرتے ہیں صاحب جلال و جمال اللہ کے اسم شریف سے جس کا مظہر رحمن ورحیم ہے.١١ فَارْتَقِبُ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ - ترجمہ.تو تو اس وقت کا منتظر رہ جس دن آسمان لے آوے ایک ظاہر دھواں.تفسیر - تأتي السَّمَاء بدخان مبين - قحط کے دن آئیں گے جن کی وجہ سے آسمان دھواں دھار نظر آئے گا.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۱) جب ابن صیاد کی بعض مشابہ بہ دجال شعبدہ بازیوں کا حال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پہنچا تو آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اسے پوچھا تشْهَدُ أَنِّي رَسُولُ اللهِ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں.اس نے جواب دیا.آپ اُمیوں کے رسول ہیں.پھر اس نے اپنی نسبت سوال کیا تو آپ نے جواب دیا کہ میں اللہ کے سب رسولوں کو مانتا ہوں.اس سے اس احتیاط کا پتہ چلتا ہے جو انبیاء کرتے ہیں.یہ اور ان کے پیرولوگ کبھی تکذیب کی راہ اختیار نہیں کرتے.پھر آپ نے پوچھا کہ میرے دل میں اس وقت کیا ہے.تو اُس نے رُخ کہا.روایات میں آیا ہے.کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِین کا خیال فرما یا تھا.ابن عربی نے اپنا ایک ذوقی لطیفہ اس واقعہ کے متعلق لکھا ہے.وہ کہتے ہیں.ابنِ صیاد کو ڈخ بھی معلوم نہ ہوتا.مگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر بغیر صریح امر بی تشریف لے گئے تھے.میں نے اس حکایت سے یہ فائدہ اٹھایا ہے کہ مباحثہ کبھی اپنی خواہش سے نہیں کرنا چاہیے اور کبھی پہل نہ کرو.

Page 172

حقائق الفرقان ۱۶۲ سُورَة الدُّخَانِ چنانچہ میرا معمول ہے کہ جب بات گلے پڑ جائے.تو پھر میں اللہ سے دعا مانگتا ہوں.اور خدا کے فضل سے ہمیشہ کامیاب ہوتا ہوں.اور مجھے کوئی ایسا واقعہ یاد نہیں کہ میں نے کسی مباحثہ میں زک اٹھائی ہو.مامورین کی جدا بات ہے.انہیں تو اللہ کے حکم سے بعض وقت چیلنج کرنا پڑتا ہے.مگر غور سے دیکھا جائے تو ابتدا ان کی طرف سے بھی نہیں ہوتی.( تشحید الا ذبان جلدے نمبر ۲.ماہ فروری ۱۹۱۲ء صفحہ ۸۵،۸۴) لے يوم تأتي السَّمَاء بِدُخَانٍ مُّبِینٍ.اس آیت کے شان نزول میں لکھا ہے.مکے میں جب قحط نہایت سخت پڑا.ابوسفیان آپ کے پاس آئے اور کہا تو صلہ رحمی کا حکم کرتا ہے.اور دیکھ تیرے باعث ہم کیسے وبال میں ہیں.تو دعا کر.آپ نے دعا کی.جناب یوسف نے تو فرعونی خزانہ سے غلہ دلا یا تھا.آپ نے الہی خزانہ سے دلایا.( بخاری.سورۃ دخان ) فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۷۲) ١٧ - يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الكُبرى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ - ترجمہ.اور جس دن ہم بڑی پکڑ پکڑیں گے ہم تو بدلہ لینے والے ہیں.تفسیر - البطشة الكبرى - جنگ بدر - ( تعمیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۱) ۱۹،۱۸ - وَلَقَدْ فَتَنَّا قَبلَهُمْ قَوْمَ فِرْعَوْنَ وَجَاءَهُمْ رَسُول قَوْمَ فَعَبَ وَ جَاءَهُمْ رَسُولُ كَرِيمُ - اَنْ اَدُّوا إلَى عِبَادَ اللَّهِ إِنِّي لَكُمْ رَسُولُ آمِينَ - ترجمہ.اور بے شک ہم آزما چکے ہیں ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اور ان کے پاس معزز پیغمبر آیا تھا.کہ میرے ساتھ کر دو اللہ کے بندوں کو (یعقوب کی اولاد کو ) میں تمہارے پاس بھیجا ہوا آیا ہوں ، امانت دار ہوں.تفسیر.اور ہر آئینہ آزمایا ہم نے ان سے پہلے فرعون کی قوم کو اور آی ان لوگوں کو سول بزرگ کہ حوالے کر وطرف میرے اللہ کے بندوں کو ہر آئینہ میں تم لوگوں کا امانت دار اور رسول ہوں.لے جس دن لاوے آسمان دھواں صریح.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۵۰ حاشیه )

Page 173

حقائق الفرقان ۱۶۳ سُورَة الدُّخَانِ ۲۱ - وَإِنِّي عُذْتُ بِرَبِّي وَرَبِّكُمْ أَنْ تَرْجُمُونِ - ترجمہ.اور میں پناہ مانگتا ہوں میرے اور تمہارے رب سے اس سے کہ تم مجھ کوسنگسار کرو.تفسیر.وَإِنِّي عُذْتُ بِرَتی.یہ دعا میری مجربہ ہے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۱) ٣٠ - فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ ترجمہ.تو اُن پر آسمان و زمین نہ روئے (مذہبی اور دنیوی لوگ) اور نہ اُن کو مہلت ملی نہ خودرو سکے اور نہ نادم ہو سکے.تفسیر - فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّبَاء - ا - اہل ملک و اہل زمین ۲.اس وقت خاص بارش کے چند تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۱) ۵۰- ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ - رجمہ - چکھ تو تو بڑا عزت والا سردار تھا.عزت بمعنی حمیت ضد جاہلیت ہے.دیکھو قرآن میں ایک جگہ اس کا استعمال ہوا ہے.اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ (البقره: ۲۰۷).یعنی جب اسے خدا سے ڈرنے کو کہا جاتا ہے تو اسے عزت (ضد وحمیت جاہلانہ ) گناہ پر آمادہ کرتی ہے.پس ایسے کیلئے جہنم بس ہے.اور عزیز کا لفظ جو اس سے مشتق ہوا ہے.قرآن میں ( سورۂ دخان ) شریر جہنمی پر جب جہنم میں ڈالا جائے گا بولا گیا ہے.ذی اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ - چکھ کیونکہ تو بڑی حمیت والا اور بزرگ بنا بیٹھا تھا.اور عزیز اور رب العزت کے معنی ایک ہی ہیں.پس رب العزت اُس شخص سے مراد ہے جو دنیا میں متکبر اور جبار اور بڑا ضدی کہلاتا ہے.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۵۳)

Page 174

حقائق الفرقان ۱۶۴ سُورَة الدُّخَانِ ۵۷ ۵۸ - لَا يَذُوقُونَ فِيهَا الْمَوْتَ إِلا المَوتَةَ الأولى وَوَقَهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ـ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ - ترجمہ.نہ مزہ چکھیں گے وہاں موت کا سوا پہلی موت کے ( جو چکھ چکے دنیا میں ) اور ان کو اللہ نے بچا لیا جہنم کی آگ سے.یہ تیرے رب کا فضل ہے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے.تفسیر - وَوَقَهُمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ـ فَضْلًا مِّن ربّك.اور بچا یا ان کو دوزخ کی مار سے فضل ـ بچایا سے تیرے رب کے.فصل الخطاب لمنقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۸۸ حاشیه )

Page 175

حقائق الفرقان ۱۶۵ سُوْرَةُ الْجَاثِيَةِ سُورَةُ الْجَاثِيَةِ مَرِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ جاثیہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے اسم پاک سے جو بلا مبادلہ رحم کرنے والا سچی کوشش کو بے کار نہیں کرنے والا ہے.- تِلكَ أيْتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَ اللَّهِ وَأَيْتِهِ يُؤْمِنُونَ ترجمہ.یہ ہیں اللہ کی آیتیں جو ہم تجھ کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں ٹھیک و درست.پھر اب اللہ اور اس کی آیتوں کے بعد کونسی حدیث اور بات پر ایمان لائیں گے.تفسیر.فَبای حدیث.یعنی قرآن مجید کے بعد.( تشھید الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۱) ۱۳ - اللهُ الَّذِى سَخَّرَ لَكُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِى الْفُلْكُ فِيْهِ بِأَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - ترجمہ.اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے تمہارے قبضہ میں کر دیا سمندر کو اور یہ کہ چلیں اس میں جہاز اللہ ہی کے حکم سے تا کہ تم تلاش کرو اس کا مال اور شکر گزاری اختیار کرو.تفسیر.سچ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ایمان ثریا پر چلا جائے گا.دومولویوں کا ذکر سناتا ہوں.ایک مولوی میرے پاس بڑے اخلاص و محبت سے بہت دن رہا آخر ایک دن مجھے کہا.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے پاس کوئی تسخیر کا عمل ہے جو آسائش کی تمام راہیں آپ کیلئے کھلی ہیں اور اتنی مخلوق خدا آپ کے پاس آتی ہے.میں نے کہا.عملِ تسخیر کیا ہوتا ہے.خدا نے تو فرما دیا که سَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ - سارا جہان تمہارے لئے مسخر.اس سے بڑھ کر اور کیا

Page 176

حقائق الفرقان ۱۶۶ سُوْرَةُ الْجَاثِيَةِ تسخیر ہو سکتی ہے.انسان کو چاہیے کہ دعا کرے.دعا کی عادت ڈالے.اس سے کامیابیوں کی تمام راہیں کھل جائیں گی.میری یہ بات سن کر وہ ہنس دیا اور کہا.یہ تو ہم پہلے ہی سے جانتے ہیں.کوئی عمل تسخیر بتلاؤ.ایک اور مولوی تھا.اس نے مجھ سے مباحثہ چاہا.میں نے اُسے سمجھایا.تم لوگوں کی تعلیم ابتدا ہی سے ایسی ہوتی ہے کہ ایک عبارت پڑھی اور پھر اس پر اعتراض.پھر اس اعتراض پر اعتراض.اسی طرح ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے.اس سے کچھ اس قسم کی عادت ہو جاتی ہے کہ کسی کے سمجھائے سے کچھ نہیں سمجھتے.میں تمہیں ایک راہ بتا تا ہوں.بڑے اضطراب سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرو.اس نے بھی یہی کہا کہ یہ تو جانتے ہیں.غرض دعا سے لوگ غافل ہیں حالانکہ دعا ہی تمام کامیابیوں کی جڑھ ہے.دیکھو قرآن شریف کی ابتدا بھی دعا ہی سے ہوتی ہے.انسان بہت دعائیں کرنے سے منعم علیہ بن جاتا ہے.دکھی ہے تو شفاء ہو جاتی ہے غریب ہے تو دولتمند.مقدمات میں گرفتار ہے تو فتحیاب.بے اولاد ہے تو اولا دوالا ہو جاتا ہے.نماز روزہ سے غافل ہے تو اسے ایسا دل دیا جاتا ہے کہ خدا کی محبت میں مستغرق رہے.اگر کسل ہے تو اسے وہ ہمت دی جاتی ہے جس سے بلند پروازی کر سکے.کاہلی ، سستی ہے تو اس سے یہ بھی دور ہو جاتی ہے.غرض ہر مرض کی دوا ہر مشکل کی مشکل کشا یہی دعا ہے.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۱۰) ٢٠ - إِنَّهُمْ لَنْ يُخْنُوا عَنْكَ مِنَ اللهِ شَيْئًا ۖ وَ إِنَّ الظَّلِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءَ بَعْضٍ ۚ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ ترجمہ.وہ تو تجھے کچھ بھی مدد نہ دے سکیں گے اللہ کے مقابلہ میں.کچھ شک نہیں کہ بے جا کام کرنے والے لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہیں اور اللہ تو متقیوں ہی کا دوست ہے.تفسیر.تقویٰ کے باعث اللہ تعالیٰ متقی کے لئے منتفی ہو جاتا ہے.اور اس سے ولایت ملتی الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵) ہے.اِنَّ اللهَ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ -

Page 177

حقائق الفرقان 172 سُوْرَةُ الْجَاثِيَةِ ۲۴- أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوبِهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَبْعِهِ وَقَلْبِهِ وَ جَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ عِشْوَةً ۖ فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ ترجمہ.بھلا تو نے دیکھا اس کو جس نے اپنا معبود بنا لیا اپنی خواہش کو اور اس کو گمراہ کر دیا اللہ نے علم ہوتے ہوئے اور مہر لگا دی اس کے کان اور دل پر اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو اللہ کے گمراہ کرنے کے بعد اس کی کون رہنمائی کر سکے.تو کیا تم کچھ بھی نہیں سوچتے اور نصیحت نہیں پکڑتے.تفسیر - أَفَرَوَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوله - تم دیکھتے ہو بعض آدمی اپنی خواہش کو معبود بنا لیتے ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن ۱۴۲ حاشیہ ) ۲۵ - وَ قَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَ نَحْيَا وَ مَا يُهْلِكُنَّا إِلَّا الدّهرُ : وَمَا لَهُم بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ - ترجمہ.اور کہتے ہیں یہ کیا ( جھگڑا ہے بس ہماری زندگی تو یہی دنیا کی ہے ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور ہمیں تو کوئی بھی نہیں مارتا مگر زمانہ اور ان کو اس کا کچھ علم بھی نہیں ( دہریوں کو صیح علم نہیں ہوتا) وہ تو صرف انگلیں دوڑاتے ہیں.تفسیر.اور وہ کہتے ہیں.ہماری دنیا کی زندگی ہے ( یہیں ) ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے.انہیں اس بات کا کچھ بھی علم نہیں.وہ تو بس انکلیں دوڑاتے ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن ۱۹۱ حاشیہ )

Page 178

حقائق الفرقان ۱۶۸ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ مَرِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.ہم سورہ احقاف کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس بابرکت اللہ کے نام سے جو سب کچھ دے چکا ہے اور نتیجے دینے کو بھی تیار ہے.قُلْ اَرَوَيْتُمُ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَرُونِي مَا ذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكُ في السموت ايتوني يكتب مِن قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثْرَةٍ مِنْ عِلْمٍ إِن كُنتُم صُدِقِينَ ترجمہ.کہ دے بھلا دیکھو تو سہی جن کو تم پکارتے ہو اللہ کے سوا مجھ کو دکھاؤ تو انہوں نے کیا پیدا کیا زمین میں یا ان کا کچھ ساجھا ہے آسمان میں.تم میرے پاس کوئی کتاب تو لاؤ اس سے پہلے کی یا کوئی علمی نشان بتاؤ یا کوئی علمی روایت جب تم سچے ہو.تفسیر.مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الْأَرْضِ - ارضی اشیاء میں سے کوئی ایک بنائی؟ ثابت ہوا.مسیح نے چمگاڈر نہیں بنائی.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۱) وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ مَنْ لَا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَابِهِمْ غُفِلُونَ.ترجمہ.اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ایسوں کو پکارے جواس کو جواب تک نہ دیں قیامت کے دن تک اور ان کے پکارنے تک کی خبر نہیں.تفسیر.وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ.اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت کرتا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۳۱)

Page 179

حقائق الفرقان ۱۶۹ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ - آم يَقُولُونَ افْتَرَبهُ قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللَّهِ شَيْئًا ۖ هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيْهِ كَفَى بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۖ وَهُوَ الْغَفُورُ لرَّحِيمُ.- ترجمہ.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کو نبی نے اپنے دل سے بنالیا ہے تو جواب دے دے کہ اگر میں اس کو بنالا یا ہوں اپنے دل سے تو تم اللہ سے میرا کچھ پیچھا نہیں چھڑا سکتے وہی بخوبی جانتا ہے جن کاموں میں تم لگے ہوئے ہو تو اللہ کی یہ غیب گوئی کافی ہے تمہارے میرے درمیان شہادت دینے کو اور وہی غفور الرحیم ہے.تفسیر.کیا کہتے ہیں یہ بنالا یا تو کہ اگر میں بنالا یا ہوں تو تم میرا بھلا نہیں کر سکتے.اللہ کے فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۱۹۹ حاشیہ ) ١١،١٠ - قُلْ مَا كُنتُ بِدُعَا مِّنَ الرُّسُلِ وَ مَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ فِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى إِلَى وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ قُلْ أَرَوَيْتُمْ إِنْ كَانَ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَ كَفَرْتُم بِهِ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ عَلَى سامنے کچھ.مِثْلِهِ فَأَمَنَ وَاسْتَكْبَرْتُم إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - ترجمہ.تو کہہ دے میں نیا اور انوکھا رسول تو نہیں ہوں اور میں جانتا نہیں کہ میرے ساتھ اور تمہارے ساتھ کیا کیا جائے گا اور میں تو اُسی پر چلوں گا جو میری طرف وحی کی جاتی ہے اور میں ہوں ہی کیا صرف ایک کھلم کھلا دشمنوں کو ڈرانے والا ہی.تو کہہ دے بھلا غور کرو یہ قرآن اگر اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اس کو نہ مانا اور بنی اسرائیل کا ایک حکمران شہادت دے چکا اپنے مثیل کی تو وہ ایمان لا چکا اور تم نے اپنے کو بڑا سمجھا اور دوسرے کو حقیر.کچھ شک نہیں کہ ظالم لوگ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ تو اللہ کی بتائی ہوئی نہیں.تفسیر.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لطیف ارشاد فرما یا قُلْ مَا كُنْتُ بِدْءًا مِّنَ الرُّسُلِ کہہ دو کہ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.مجھ سے پیشتر ایک دراز سلسلہ انبیاء ورسل کا گزرا

Page 180

حقائق الفرقان ۱۷ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ ہے.ان کے حالات دیکھو.وہ کھاتے پیتے بھی تھے.بیویاں بھی رکھتے تھے.پھر مجھ میں تم کون سی انوکھی اور نرالی بات پاتے ہو غرض یہ مامور ایک ہی قسم کے حالات اور واقعات رکھتے ہیں.ان پر اگرانسان خدا ترسی اور عاقبت اندیشی سے غور کرے تو وہ ایک صحیح رائے اور یقینی نتیجہ پر پہونچ سکتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۶ مورخه ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۶) ہمارے سید و مولیٰ فرماتے ہیں کہ مَا كُنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا.آدم سے لے کر اب تک جو رسول آئے ہیں.ان کو پہچانو.ان کی معاشرت ، تمدن اور سیاست کیسی تھی اور ان کا انجام کیا ہوا؟ ان کی صداقت کے کیا اسباب تھے.ان کی تعلیم کیا تھی.ان کے اصحاب نے اُن کو پہلے پہل کس طرح مانا.ان کے مخالفوں اور منکروں کا چال چلن کیسا تھا اور ان کا انجام کیا ہوا؟ یہ ایک ایسا اصل تھا کہ اگر اس وقت کے لوگ اس معیار پر غور کرتے تو ان کو ذراسی دقت پیش نہ آتی.اور ایک مجدد ، مہدی ، مسیح مرسل من اللہ کے ماننے میں ذرا بھی اشکال نہ ہوتا.مگر اپنے خیالات ملکی اور قومی رسوم ، بزرگوں کے عادات کے ماننے میں تو بہت بڑی وسعت سے کام لیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے ماموروں اور اس کے احکام کیلئے خدا کے علم اور حکمت کے پیمانہ کو اپنی ہی چھوٹی سی کھو پڑی سے ناپنا چاہتے ہیں.ہر ایک امام کی شناخت کیلئے یہ عام قاعدہ کافی ہے کہ کیا یہ کوئی نئی بات لے کر آیا ہے؟ اگر اس پر غور کرے تو تعجب کی بات نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اصل حقیقت کو اس پر کھول دے.ہاں یہ ضروری ہے کہ اپنے آپ کو بیچ سمجھے اور تکبر نہ کرے.ورنہ تکبر کا انجام یہی ہے کہ محروم رہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخہ ۲۴ رمئی ۱۹۰۱ ء صفحہ ۱۰.۱۱) ہمارے سید و مولی بادی کامل محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رسالت اور نبوت کو پیش کرتے ہوئے یہی فرمایا اور یہی آپ کو ارشاد ہوا.قُلُ مَا كُنْتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ میں کوئی نیا رسول تو نہیں آیا ہوں.جو رسول پہلے آتے رہے ہیں.ان کے حالات اور تذکرے تمہارے پاس ہیں.ان پر غور کرو اور سبق سیکھو کہ وہ کیا لائے.اور لوگوں نے ان پر کیا اعتراض کئے.کیا باتیں تھیں جن پر عمل درآمد کرنے کی وہ تاکید فرماتے تھے اور کیا امور تھے جن سے نفرت دلاتے تھے.پھر اگر مجھ میں

Page 181

حقائق الفرقان 121 سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ کوئی نئی چیز نہیں ہے تو اعتراض کیوں ہے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں؟ ان کے معترضوں کا انجام کیا ہوا تھا؟ الحکم جلد ۶ نمبر ۲ مورخه ۱۷ /جنوری ۱۹۰۲ء صفحه ۸) قُل مَا كُنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ.ان کو کہہ دو کہ میں نے کوئی نیا دعویٰ نہیں کیا.نئے رسول کیلئے مشکلات ہوتی ہیں لیکن جس سے پہلے اور رسول اور نواب اور ملوک اور راست باز گزر چکے ہیں اس کو کوئی مشکلات نہیں ہوتیں.جن ذرائع سے پہلے راست بازوں کو شناخت کیا ہے.وہی ذریعے اس کی شناخت کیلئے کافی اور حجت ہیں.تعلیم میں مقابلہ کر لے.اس کا چال چلن دیکھ لے کہ پہلے راست بازوں جیسا ہے یا نہیں.دشمن کو دیکھ لے کہ اسی رنگ کے ہیں یا نہیں.آدمی کو ایک آسان راستہ نظر آتا ہے مگر خدا کے فضل سے مجھے محض اللہ ہی کے فضل سے اس آیت کے قُلْ مَا كُنْتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ کے بعد راست باز کی شناخت میں کوئی مشکل نہیں پڑی.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخه ۱۷ /جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۲) قل ما كنتُ بِدُعَا مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف: ١٠) کہہ دے میں کوئی نیا رسول دنیا میں نہیں آیا دنیا میں مجھ سے پہلے رسول آتے رہے ہیں تم نے اگر کسی کو راستباز اور صادق مانا ہے تو جس قاعدہ اور معیار سے مانا ہے تو وہی قاعدہ اور معیار میرے لئے بس ہے.میں نے قرآن شریف کے اس استدلال کی بنا پر بارہا ان لوگوں سے جو حضرت میرزا صاحب کے متعلق سوال اور بحث کرتے ہیں پوچھا کہ تم نے کبھی کسی کو دنیا میں راستباز اور صادق تسلیم کیا ہے یا نہیں ؟ اگر کیا ہے تو وہ ذریعے اور معیار کیا تھے؟ جن ذریعوں سے تم نے صادق تسلیم کیا ہے پھر میرا ذمہ ہوگا کہ اس معیار پر اپنے صادق امام کی راستبازی اور صداقت ثابت کر دوں.میں نے بارہا اس گر اور اصول سے بہتوں کو لا جواب اور خاموش کرایا ہے اور یہ میرا مجرب نسخہ ہے اس راہ سے اگر چلو و تم تمام مباحث کا دولفظوں میں فیصلہ احکم جلد ۶ نمبر ۱ ۴ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ صفحه ۱۴) کردو.

Page 182

حقائق الفرقان ۱۷۲ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ شاھد کی تنوین واسطے تنظیم و تعظیم کے ہے.اور لفظ صقیلیہ قابل غور ہے...حضرت موسیٰ کا قصہ بتکرارو کثرت قرآن میں مذکور ہونا.اس امر کا اشارہ اور اظہار کرتا ہے کہ قرآن اپنے رسول نبی معر بی کو مثیل موسی ثابت کرتا ہے.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۱۹۷) جو لوگ پیچھے آتے ہیں.وہ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں.کیونکہ پہلے لوگوں کے حالات ان تک پہنچ جاتے ہیں.پس عقلمند ان سے فائدہ اٹھا کر خود ان غلطیوں میں نہیں پڑتے جن میں وہ پڑ کر ہلاک ہوئے بلکہ ان راہوں پر چلتے ہیں.جن پر اگلے چل کر فائز المرام ہوئے.حضرت نبی کریم صلعم نے اپنی صداقت کی دلیل پیش کی اور لوگوں کو متوجہ کیا کہ مجھ سے پہلے کئی رسول ہو چکے ہیں.خصوصا بنی اسرائیل میں سے ایک عظیم الشان اپنے مثیل ہونے کی گواہی دے چکا ہے.وَ شَهِدَ شَاهِدٌ منح بَنِي إِسْرَاءِيلَ عَلیٰ مِثْلِہ ان کے منہاج پر غور کرو تو میرا اصدق کھل جائے گا.پھر صحابہ کرام سے بڑھ کر ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم میں جو ولی اللہ آیا اس سے پہلے ہزاروں اولیاء اللہ گزر چکے ہیں.ان کی کتابیں ہمارے پاس محفوظ ہیں.تمام دنیا کی رسالتیں کھل کر ہم تک پہنچ چکی ہیں.مجوسیوں، یہودیوں، نصرانیوں ، ہندؤوں کے پیغمبروں اور ان کے مذہب کی کتابیں مل سکتی ہیں.پس ایسے وقت میں اگر کوئی تقوی سے لبریز دل لے کر غور کرتا تو اس فرستادہ الہی کی شناخت میں اسے کیا مشکل تھی.آسمان سے نزول کے معنے بھی ایلیاء کی پیشگوئی یوحنا میں پوری ہونے سے حل ہو چکے ہیں.ملا کی نبی باب ۴ آیت ۵ میں ارشاد ہوتا ہے.دیکھو.خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پیشتر میں ایلیا نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا اور وہ باپ دادا کے دلوں کو بیٹوں کی طرف اور بیٹیوں کے دلوں کوان کے باپ دادوں کی طرف مائل کرے گا.یہ پیشگوئی ہے.اس کے پورا ہونے کا حال متی باب ۱۱ آیت ۷ میں پڑھو.الیاس جو آنے والا تھا.یہی ہے.چاہو تو قبول کرو.انجیل مرقس باب ۹ ورس ۱۱.۱۳ میں یہی مضمون ہے.( تشھید الا ذبان جلدے نمبر ۴.ماہ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۷۹.۱۸۰) شَاهِدٌ مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ.یعنی حضرت موسی پیشگوئی فرما چکے ہیں.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۱)

Page 183

حقائق الفرقان ۱۷۳ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ ١٦ وَ وَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ اِحْسَنًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كرُهَا وَحَمْلُهُ وَفِصْلُهُ ثَلَثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَ بَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَى وَ عَلَى وَالِدَيَّ وَ أنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَهُ وَ أَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ترجمہ.اور ہم نے انسان کو وصیت کی ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی.اُس کو پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے تکلیف سے اور جنا تکلیف سے اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھڑائی تیں مہینے کی ہے.یہاں تک کہ جب پہنچا اپنی جوانی کو اور چالیس برس کا ہوا تو لگا کہنے اے میرے رب ! مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ میں شکر ادا کروں تیرے احسان کا جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں نیک کام کروں جس سے تو راضی ہو اور میری اولاد میں نیک بختی پیدا کر.میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں فدائی فرمانبرداروں میں سے ہوں.تفسیر.بڑے ہی بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضامندی کو میں نے دیکھا ہے اللہ کی رضامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطون نے غلطی کھائی ہے وہ کہتا ہے ”ہماری روح جو او پر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے“ وہ جھوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے روح کیا ہے.نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفہ کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.9 مہینے پیٹ میں رکھتی ہے بڑی مشقت سے حَمَلَتْهُ ائمه كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا اسے مشقت سے اٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بسترے کی گیلی طرف اپنے نیچے کر لیتی ہے اور خشک طرف بچے کو کر دیتی ہے.

Page 184

حقائق الفرقان ۱۷۴ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ انسان کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ ( یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا.ور نہ باپ کا حق اول ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہیے ) سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں.وہ ان کی خدمت کرے.اور جس کے ایک یا دونوں وفات پاگئے ہیں.وہ ان کیلئے دعا کرے.صدقہ دے اور خیرات کرے.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھوٹے ہیں.ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا ، استغفار ، صدقہ ، خیرات بلکہ حج زکوۃ ، روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم صلعم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچا نک نکل گئی ہے.اگر وہ بولتی تو ضر ور صدقہ کرتی.اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اسے ثواب ملے گا تو نبی کریم صلعم نے فرمایا.ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا.میری والدہ کی وفات کی تارجب مجھے ملی.تو اس وقت میں بخاری پڑھا رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.میں نے اس وقت کہا.اے اللہ.میرا باغ تو یہی ہے.تو میں نے پھر وہ بخاری وقف کر دی.فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے.الفضل جلد نمبر ۲۵ مورخه ۳ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ج ٣٠.وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِنَ الْجِنْ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا انْصِتُوا فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ - 6 ترجمہ.اور جب ہم نے پھیرا تیری طرف جنوں میں سے چند آدمیوں کو کہ وہ سننے لگے قرآن کو جب پیغمبر کے پاس آچکے تو آپس میں باتیں کرنے لگے کہ چپ رہو تو جب وہ پورا ہو گیا لوٹ کر پہنچے قوم کی طرف ڈراتے ہوئے.تفسیر.نَفَرًا مِّنَ الْجِن.کچھ پہاڑی لوگ تھے.یہودی معلوم ہوتے تھے.نصیبین کے رہنے تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۱) والے.

Page 185

حقائق الفرقان ۱۷۵ سُوْرَةُ الْأَحْقَافِ ٣١- قَالُوا يُقَومَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتبًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَ إِلَى طَرِيقِ مُسْتَقِيمٍ - ترجمہ.کہنے لگے اے ہماری قوم ! ہم نے ایک کتاب سنی جو نازل ہوئی ہے موسیٰ کے بعد تصدیق کرتی ہے سب اچھی باتوں کی جو سامنے پیش ہوئی ہیں اور ایک سچی بات کی رہ نمائی کرتی ہے سیدھی راہ کی طرف.تفسیر.بولے اے قوم ہماری ہم نے سنی ایک کتاب جو اتری ہے موسیٰ کے پیچھے.سچا کرتی سب انگلیوں کو سمجھاتی سچا دین اور راہ سیدھی.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۱۹۷ حاشیہ ) ۳۲، ۳۳ - يُقَومَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللهِ وَامِنُوا بِهِ يَغْفِرُ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَ يُجركُم مِّنْ عَذَابِ اَلِيْهِ - وَ مَنْ لَا يُجِبُ دَاعِيَ اللَّهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزِ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَه مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ أُولَيكَ فِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ - ترجمہ.اے ہماری قوم ! اللہ کی طرف بلانے والوں کو مان لو اور ایمان لاؤ.تمہارے گناہ تمہارے لئے معاف کئے جائیں گے اور ٹیس دینے والے عذاب سے تم پناہ میں آ ہی جاؤ گے.اور جو نہ مانے گا اللہ کی طرف بلانے والے کو تو وہ تھکا نہ سکے گا ملک میں اور اللہ کے سوا اس کا کوئی بھی مددگار نہیں.تو یہی لوگ صریح گمراہی میں ہیں.تفسیر.اے قوم ہماری مانو اللہ کے بلانے والے کو اور اس پر یقین لاؤ کہ بخشے تم کو کچھ تمہارے گناہ اور بچاوے تم کو ایک دکھ کی مار سے اور جو کوئی نہ مانے گا اللہ کے بلانے والے کو تو وہ نہ تھکا سکے گا بھاگ کر زمین میں اور کوئی نہیں اس کو اس کے سوائے مددگار.وہ لوگ بھٹکے ہیں صریح.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۱۹۹ حاشیه )

Page 186

حقائق الفرقان سُورَة مُحَمَّدٍ سُوْرَةُ مُحَمَّدٍ مَّدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ محمد کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے اسم شریف سے جو رحمن و رحیم ہے.۲ - الَّذِينَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ.ترجمہ.جن لوگوں نے حق کو چھپایا اور اللہ کی راہ سے روکا ان کے اعمال اکارت گئے.تفسیر.خدا تعالیٰ کی ذات اس سے پاک ہے کہ اسے گمراہ کرنے والا کہا جائے.اس لئے کہ خود قرآن مجید نے مختلف مقامات میں بڑے بڑے لوگوں اور شریروں کی نسبت کہا ہے کہ وہ گمراہ اور ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں.چنانچہ الَّذِینَ كَفَرُوا وَ صَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ أَضَلَّ أَعْمَالَهُمْ - جولوگ منکر ہوئے.اور اللہ کے راہ سے روکتے ہیں.اللہ نے ان کے عمل باطل کر دیئے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۰۰) ۵- فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا اثْخَذْتُمُوهُمُ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنَا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ذَلِكَ وَ لَو يَشَاء اللّهُ لاَنْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْدُوا بَعْضَكُم بِبَعْضٍ وَالَّذِينَ قتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ فَلَنْ يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ.ترجمہ.پھر جب تمہاری ملاقات ہو جاوے منکروں سے تو ان کی گردنیں مارو.یہاں تک کہ جب ان میں خوب خون ریزی کرو تو مضبوط قید کر لو پھر یا احسان کرنا اس کے بعد یا معاوضہ لے کر چھوڑ دینا یہاں تک کہ لڑائی رکھ دے اپنے ہتھیار.یہ حالت ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ان سے انتقام لیتا لیکن وہ چاہتا ہے کہ آزمائیں تم کو ایک دوسرے سے اور جولوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے تو اللہ

Page 187

حقائق الفرقان 162 سُورَة مُحَمَّد ہرگزا کارت نہ کرے گا ان کے اعمال.تفسیر.حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَا.اس جہاد کا منشاء یہ ہے کہ جنگیں موقوف ہو جا ئیں.غلامی کی نسبت فرمایا تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۱) لے فإمَّا مَنَّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءَ حَتَّى تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا.اسلام میں مخالف قیدی جب جنگ سے آتے اور اس وقت ان کا واپس کرنا مصلحت نہ ہوتا.تو پرورش اور تربیت کے واسطے مجاہدین کے سپر دہوئے اور حکم ہوتا جو کھا نا تم کھاؤ.ان کو دو.جو تم پہنو.ان کو پہناؤ.طاقت سے زیادہ کام مت بتاؤ.ہاں جیل خانوں اور دریائے شور کے دُکھ نہ دیئے ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۵۳) جاتے تھے.قید یانِ جنگ چار قسم کے ہوتے ہیں اور اب بھی چار قسم ہیں اول وہ جو شرارت کے سبب سے اس قابل ہی نہیں رہتے کہ امنِ عام کے سخت دشمن نہ ہوں.ایسے لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے.چنانچہ اب بھی کورٹ مارشل میں ایسا ہی ہوتا ہے.ایسے موذیوں کا زندہ رکھنا ایک ایسے دانت کی مثال ہے جس کے ضرر سے دوسرے دانتوں کو تکلیف پہونچتی ہے.اگر نکالا نہ جاوے تو سارے دانتوں پر اس کا برا اثر پڑ کر سب کو تباہ کر دیتا ہے.دوسرے وہ قیدی جن کے بدلے روپیہ دے کر یا دوسرے قیدیوں کو چھڑانے کا فائدہ حاصل ہوتا ہے.ان دونوں کا ذکر قرآن میں یوں آیا ہے.وَاقْتُلُوهُمُ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُم ( البقرہ : ۱۹۲) ۲ - إِمَّا فِدَاء میں ہے.سوم.وہ جن کا مفت چھڑانا ہی قرین مصلحت ہوتا ہے.جن کا ذکر اما فداء میں آ گیا ہے.چہارم.وہ جن کا واپس کرنا یا ان کا بدلہ لینا یا قتل کرنا مناسب نہیں ہوتا.ایسے قیدی اب بھی مہذب گورنمنٹوں میں موجود ہیں اور پورٹ بلیئر وغیرہ انہیں سے آباد ہیں.ایسے قیدیوں کی اگر شادیاں بیاہ روک دیئے جاویں تو ان کے فطری قومی پر کیسا بُرا اثر پڑتا ہے.میرے ایک انگریزی خواں دوست نے ایسا اعتراض کیا تو میں - پس یا احسان کی یو پیچھے اس کے اور یا بدلہ لیجیئو یہاں تک کہ رکھ دیوے لڑائی بوجھ اپنے.

Page 188

حقائق الفرقان IZA سُورَة مُحَمَّدٍ نے اس کو قیدیوں کی چاروں مثالوں سے سمجھایا تھا.اول بیمار دانت کو باندھا جاتا ہے.اس کی منجنوں سے مالش کی جاتی.پھر کاٹا جاتا.پھر اکھاڑ کر باہر پھینک دیا جاتا ہے.یہی حال ہے قید یانِ جنگ کا.پس جو قیدی دائم الحبس ہوں ان کو بیاہ سے روکنا تو جائز نہیں.پس مرد ہوں یا عورتیں سب کو نکاح کی اجازت ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۴) -۱۴ وَ كَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ هِيَ اَشَدُّ قُوَّةً مِّنْ قَرْيَتِكَ الَّتِي أَخْرَجَتْكَ أَهْلَكْتُهُمْ فَلَا نَاصِرَ لَهُمْ - ترجمہ.اور بہت سے گاؤں جو سخت قوت دار تھے اس تیری بستی سے جس نے تجھ کو وطن سے نکال دیا ہے ہم نے ان کو تباہ کر دیا تو ان کا کوئی بھی مددگار نہ ہوا.اور کتنی تھیں بستیاں جو زیادہ تھیں زور میں اس تیری بستی سے.جس نے تجھ کو نکالا.ہم نے ان کو کھپاد یا پھر کوئی نہیں اُن کا مددگار.(فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۶۰ حاشیه ) -١٦ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِى وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا أَنْهُرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِن وَ - اَنْهُم مِّنْ تَبَن لَم يَتَغَيَّرُ طَعْمُهُ وَاَنْهُرُ مِنْ خَيْرٍ لذَةٍ لِلشَّرِبِينَ وَاَنْهُم مِنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى وَلَهُمْ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَ مَغْفِرَةٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ - كَمَنْ هُوَ خَالِدٌ فِي النَّارِ وَسُقُوا مَاءَ حَمِيمًا فَقَطَعَ أَمْعَاءَهُمْ ترجمہ.اس جنت کی ایک مثال جس کا متقیوں کو وعدہ کیا گیا ہے اس میں کثرت ہے ایسے پانی کی جس میں بو نہیں اور باسی نہیں ہوتا نہریں ہیں اور کثرت سے دودھ کی نہریں ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلتا اور کثرت سے رس پینے والوں کے لئے مزے ہیں اور کثرت سے صاف خالص شہد ہیں اور ان کے لئے وہاں ہر قسم کے میوے ہیں اور ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے ( کمزوری سے حفاظت ) کیا یہ لوگ برابر ہو سکتے ہیں اس کے جو ہمیشہ جلتا بھتا رہے گا اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا اور وہ ان کی آنتوں کوٹکڑے کر دے گا.تفسیر.حالت اس بہشت کی جو تقویٰ والوں سے وعدہ کیا گیا ہے.اس میں نہریں ہیں.اس پانی

Page 189

حقائق الفرقان ۱۷۹ سُوْرَة مُحَمَّدٍ کی جو نہیں اُبستی ہیں اور نہریں ہیں اس دودھ کی جس کا مزہ نہیں بدلتا اور نہریں ہیں شراب کی جس میں مزہ ہے پینے والوں کو اور نہریں ہیں صاف کئے ہوئے شہد کی اور اس میں ہر قسم کا پھل ہے اور معافی ہے ان کے خدا کی.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۷۴ حاشیه ) ۲۰.فَأَعْلَمُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَتِ وَاللهُ يَعْلَمُ مُتَقَبِّكُمْ وَمَثْوكُم - - ترجمہ.تو تو جان رکھ کہ کوئی بھی سچا معبود نہیں اللہ کے سوا اور اپنے بشری تقاضوں کی حفاظت طلب کرتا رہ اور ایماندار مرد اور عورتوں کے لئے یہی دعائے خیر کرتا رہ اور اللہ ہی جانتا ہے تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے کی جگہ کو.تفسیر.ایک عیسائی کے اعتراض ” وَ اسْتَغْفِرْ لِذَ بِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ...اور ان کے امثال سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا گنہ گار ہونا ثابت ہوتا ہے“ کے جواب میں فرمایا: پھر کیا ہوا.سوچو تو سہی.مسیح ملعون بنیں اور ان کی الوہیت اور خدائی میں بٹا نہ لگے بایں ہمہ گنہ گاری کہ تمام عیسائیوں کے معاصی سے گنہگار ہوئے اور بقول ایوب عورت کے شکم سے نکل کر صادق نہیں ٹھہر سکتے تھے.دیکھو ایوب.وہ جو عورت سے پیدا ہوا کیا ہے کہ صادق ٹھہرے.۱۵ باب ۱۴.ایوب.پھر مریم جب بگناہ موروثی آدم گنہگار تھی تو مسیح کو کوئی پاک نہیں ٹھہراسکتا.کون ہے جو نا پاک سے پاک نکالے.کوئی نہیں.ایوب ۱۴ باب ۴.اور پھر عیسائیوں میں تمام آدمی آدم کے گناہ سے گنہگار ہیں اور آدم کا گناہ عورت سے شروع ہوا.تو مریم اور اس کا بیٹا کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ پس گنہگار اگر الوہیت سے معزول نہیں تو گنہ گار نبوت اور رسالت سے کیسے معزول ہو سکتا ہے.اور سنو! کتب مقدسہ کا محاورہ ہے.مورث اعلیٰ کا نام لے کر قوم کو مخاطب کیا جاتا ہے.دیکھو بیرون ( یعقوب) موٹا ہوا.اور اُس نے لات ماری تو تو موٹا ہو گیا.چربی میں چھپ گیا.خالق کو چھوڑ دیا.استثناء ۳۲ باب ۹-۱۵ یعقوب کو جیسی اُس کی روشیں ہیں.سزا دیگا.۱۲ باب ۲ ہوشیع.یعقوب کو اس کا

Page 190

حقائق الفرقان ۱۸۰ سُورَة محمد گناہ اور اسرائیل کو اُس کی خطا جتاؤں.میکہ ۳ باب ۸.یہ تو عہد عتیق کا محاورہ سنایا.اب عہد جدید کو سنئے.اس نے تو حد کر دی ہےسنوسنوسنو.مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت سے چھڑایا کہ وہ ہمارے بدلے میں لعنت ہوا.نامہ گلتیاں ۳ باب ۱۳، ۲.قرنتی ۵ باب ۲۱.پس میں کہتا ہوں جب صاحب قوم قوم کے گناہ سے گنہ گار کہا جاتا ہے.اور جب قوم کو صاحب قوم کے نام سے مخاطب کیا جاتا ہے.تو آپ ان آیات میں جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گنہگار ہونا ثابت کرتے ہیں اس امر کو کیوں فروگزاشت کئے دیتے ہیں با ایں ہمہ جن آیات سے آپ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت الزام قائم کرتے ہیں.ان میں یقینی طور پر بلحاظ عربی بول چال کے اعتراض ہو ہی نہیں سکتا.مثلاً سوچو.آیت وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (محمد :۲۰) میں ہم کہتے ہیں.وَلِلْمُؤْمِنِينَ والا واو عطف تفسیری کا واؤ ہے.اور واؤ تفسیری خود قرآن میں موجود ہے.دیکھو سورہ رعد.تِلْكَ ايْتُ الْكِتَب وَالَّذِى أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ الْحَقُّ (الرعد: ٢) تِلكَ أَيتُ الْكِتَبِ وَ قُرْآنٍ مُّبِيْنِ (الحجر : ٢) فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۶۰-۱۶۱) ۲۳.فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِعُوا أَرْحَامَكُمْ - ترجمہ.تو کیا تم قریب ہو کہ اگر والی بنو تو ملک میں فساد کرو اور اپنے رشتہ داروں کا لحاظ کاٹ دو.تفسیر.فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ.میں جب یہ آیت پڑھتا ہوں.یزید یاد آ جاتا ہے.تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۱) لے یہ آیتیں قرآن کی ہیں اور جوا تارا گیا ہے تیرے پاس تیرے خدا سے وہ سچ ہے.۲.یہ آیتیں ہیں کتاب کی اور کھلے قرآن کی.

Page 191

حقائق الفرقان ۱۸۱ سُوْرَة مُحَمَّدٍ ۳۳ - إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّ وَا عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَشَاقُوا الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْهُدى لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا وَسَيُحيط أَعْمَالَهُمْ - ترجمہ.بے شک جن لوگوں نے انکار کیا اور حق کو چھپایا اور اللہ کے رستے سے روکا اور رسول کو دکھ دیا وہ بھی اس کے بعد کہ ان پر ظاہر ہو چکی راہ راست تو وہ لوگ اللہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکیں گے اور قریب ہی اللہ ان کے اعمال اکارت کر دے گا ( یعنی ان کے منصو بے غلط ہو جائیں گے ).تفسیر.سَيُخبط أعْمَالَهُمْ.ان کی کوششیں بار آور نہ ہوں گی اولا مگر دنیا میں.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۱) ٣٦ - فَلَا تَهِنُوا وَ تَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ وَاللَّهُ مَعَكُمْ وَ لَنْ يتركُم أَعْمَالَكُمْ - ترجمہ.تو تم بودے نہ بنو اور بلا و صلح کی طرف یعنی جنگ کرتے رہو اور تمہیں بڑھ چڑھ کر رہو گے قسم اللہ کی ( اللہ ) تو تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمالوں میں ہرگز تمہارا نقصان نہ کرے گا (یعنی تمہاری تدبیریں بنتی ہی جائیں گی ).تفسیر.جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا ان کو دعویٰ ہے.ان کا تو یہ حال تھا کہ جب ایک جنگ میں بعض صحابہ کی غلطی سے مومنوں کے پاؤں اکھڑ گئے تو آپ تنِ تنہا جس طرف سے تیروں کی بوچھاڑ ہورہی تھی.بڑھے اور انا النَّبِيُّ لا كَذِب انا ابْنُ عَبْدِ المُطلب کا نعرہ لگا نا شروع کیا.دیکھو صاحب.لڑائی ہے تو مجھ سے ہے.میں موجود ہوں.اگر کوئی جاتا ہے تو جائے میں میدانِ جنگ میں موجود ہوں.یہ تھا آپ کا استقلال.اور یہ تھی آپ کی ہمت.یہ تو نبوت کے وقت کا ذکر ہے.اس سے پہلے بھی آپ نے نوجوانی کے عالم میں اپنے بے عدیل بیدار مغزی کا ثبوت دیا.آپ نے نوجوانوں کی ایک انجمن بنائی.جس کا کام تھا مظلوموں کی حمایت.ایک مظلوم آپ کے پاس آیا.جس کی شکایت اس نے کی.وہ بڑا آدمی تھا.کوئی اسے کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا.آپ خود گئے اور کچھ ایسے دل آویز طریق سے تقریر کی کہ اس کا حق اسے دلا دیا.اسی

Page 192

حقائق الفرقان ۱۸۲ سُورَة مُحَمَّد طرح قیصر روم کی طرف سے ایک شخص مقرر ہوا کہ وہ جوڑ توڑ کر کے عرب پر قیصر روم کا اثر بڑھا دے اور یہ ملک اس کے قبضے میں آجائے.آپؐ نے فوراً اسے بھانپ لیا اور اس قومی نمک حرام کو پیش کر دیا.پس اے دوستو ! تم اس نبی کی امت ہو.تو ایسا ہی حزم واحتیاط ، ہمت ،استقلال اور محنت اختیار کرو.فَلَا تَهِنُوا وَ تَدعُوا إِلَى السَّلْمِ وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ * وَاللهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ - ( تفخیذ الا ذبان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ ء صفحہ ۱۷۸) هااَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ b وَ مَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَاللهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءِ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ - ج ترجمہ.تو تم وہ لوگ ہو کہ تم کو بلایا جاتا ہے اس واسطے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو کوئی تو تم میں سے ایسا ہے جو بخل کرتا ہے اور جو بخل کرتا ہے تو اپنی ہی جان کے ساتھ بخل کرتا ہے اور اللہ تو غنی ہے اور تم محتاج فقیر ہو اور اگر تم منہ پھیر و گے تو اللہ دوسری قوم کو بدل لے آئے گا تمہارے سوائے تو وہ تمہاری طرح نہ ہوں گی.تفسیر.انسان محتاج ہے کھانے پینے کا ، مکان کا ، غرض ذرے ذرے میں خدا کے حضور اس کی احتیاج ہے.چنانچہ اس نے فرمایا کہ وَاللهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَاء حقیقی غنی اللہ کی ذات ہے.اور سراپا احتیاج انسان.جو احتیاج میں ہے اس کے برابر کوئی ذلیل نہیں.اسی لئے حکم ہے اسے خدا کے حضور تذلل کا.پھر انسان اپنے وجود میں ، اپنے بقاء میں ، دفع امراض میں ، رنج و راحت ، عسر و یسر ، غرض ہر حالت میں اللہ کا محتاج ہے.پس اللہ کا نام انسان کو یہ سمجھاتا ہے کہ حقیقی معبود حقیقی مطاع، حقیقی غنی ، وہی ذات ہے اور حقیقتا محتاج ، حقیقتا ذلیل ، حقیقتا مطیع وہ انسان ہے جس کو اللہ نے پیدا کیا اور جو اپنے بقا میں ہر آن اس کے فضل کا محتاج ہے.اس فضل کے جذب کیلئے اطاعت فرض ہے.( بدر جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۲)

Page 193

حقائق الفرقان ۱۸۳ سُوْرَةُ الْفَتْحِ سُوْرَةُ الْفَتْحِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ فتح کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس کے نام سے جس نے سب تدبیریں پہلے سے بنا رکھی ہیں سچی کوشش کا بدلہ دیا.٢ ، ٣ - إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا - لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا - ترجمہ.بے شک ہم نے تجھ کو کھلم کھلا فتح دی.نتیجہ یہ کہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دے اور تجھ پر اپنا احسان پورا کرے اور تجھے سیدھی راہ چلائے.تفسیر.ہجرت سے چھٹے سال حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک رؤیا ہوا کہ ہم مع صحابہ مکہ میں گئے ہیں اور عمرہ کے بعد حلق کروا رہے ہیں.اس بناء پر آپ نے پندرہ سو کے ہمراہ ملکہ کی طرف کوچ کیا.حدیبیہ کے پاس مقام فرمایا.ادھر سے مکہ کے لوگ مقابلہ کونکل آئے.آپ نے فرما یا ہم آپ سے لڑنے کیلئے نہیں آئے.آپ ہم کو اجازت دیں کہ بیت اللہ کا طواف کر کے چلے جائیں.اس پر بڑا لمبا مباحثہ ہوا.آخر یہ قرار پایا کہ ایک عہد نامہ لکھا جاوے دو فہرستیں تیار ہوں.ایک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان قبیلوں کے نام ہوں جو ان کے ساتھ ہیں اور ایک طرف مشرکین اور ان کے ہمراہی قبیلوں کے نام ہوں.دوم یہ کہ اس سال آپ واپس تشریف لے جائیں اور آئندہ سال حج کیلئے آویں.آپ نے اسے منظور فرمالیا.حالانکہ صحابہ سے بہت اس پر راضی نہ تھے.سوم یہ کہ اگر کوئی ہم (مشرکین ) میں سے مسلمان ہو جائے.تو وہ آپ ہمراہ نہ لے جائیں.نہ مدینہ میں رہنے دیں اور اگر آپ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سے کوئی مرتد ہو جائے تو

Page 194

حقائق الفرقان ۱۸۴ سُوْرَةُ الْفَتْحِ ہمیں واپس دیا جائے.اسے بھی آپ نے مان لیا.حضرت عمر خصوصیت سے اس پر گھبرا رہے تھے.چہارم یہ کہ جب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ اور محمد رسول اللہ لکھنے لگے تو مشرکین مانع ہوئے اور کہا کہ ہم اگر آپ کو رسول مانتے تو یہ جھگڑا ہی کیوں کرتے.یہ لفظ چونکہ لکھے جا چکے تھے.حضرت علی کو ان کا مٹانا گوارا نہ تھا.اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خود مٹا دیا.یہ چار شرطیں ایسی تھیں کہ صحابہ کو ان پر بڑا قلق تھا.ایسی حالت میں یہ سورۃ نازل ہوئی.إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فتحا مبینا.اب بتاؤ اس وقت اس پیشگوئی کا سمجھ میں آنا آسان تھا ؟ ہر گز نہیں.تشخیذ الاذہان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۸۰) ایسے بشارات حسب کتب مقدسہ ضرور ہوا کرتی ہیں.دیکھومتی.پطرس نے جب کہا.ہم نے تیرے لئے سب کچھ چھوڑ دیا.تو مسیح نے فرمایا.تم بادشاہت کے وقت بارہ تختوں پر بیٹھو گے.۱۹ باب ۲۷ متی.اگر کہو مسیحی بشارات اور پطرس کی خوشخبری مشروط تھی.بدوں شرط نہیں.تو ہم کہتے.مسیحی اور پطرسی شرط کا تو ذکر انجیل میں نہیں.قرآنی بشارات کا خود قرآن میں ذکر ہے.دیکھو آیت.کپن اشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلكَ (الزمر : ۶۶) مطلب یہ ہے کہ اگر خاتمہ ایمان پر ہوا تو تیرے گناہ معاف ہیں.اور سنو! فَتَحْنَا لَكَ فَتْعًا مُبِينًا (الفتح : ٢) کے معنے آپ لوگوں کو معلوم نہیں.اس آیت شریف کی تفسیر کے لئے قرآن ہی عمدہ تفسیر ہے اور وہ خود آیت مفسرہ آیت اَلَم نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ - وَوَضَعْنَا عَنْكَ وِزْرَكَ - (الم نشرح: ۲، ۳) ہے.فتح سے مراد ہے.دل پر علوم باری اور آسمانی بادشاہت کے اسرار کا کھولنا اور جب وہ کھلتے ہیں تو تو بہ اور خشیت اور خوف الہی پیدا ہوتا ہے.جس کے باعث گناہ نہیں رہتے.انسان نئی زندگی پاتا ہے.نیا جلال حاصل کرتا ہے.ایک اور جواب سنئے.میسج حواریوں کو فرماتے ہیں.جن کو تم بخشو.ان کے گناہ بخشے جاتے ہیں.اور جنہیں تم نہ بخشو گے.نہ بخشے جائیں گے.یوحنا، ۲ باب ۲۳.بھلا جہاں مچھوں اور ٹوریوں

Page 195

حقائق الفرقان ۱۸۵ سُوْرَةُ الْفَتْحِ کو گناہ بخشنے کا اختیار ہے.وہاں باری تعالیٰ کو ایک خاتم الانبیاء کے گناہ بخشنے کا اختیار کچھ تعجب انگیز اور محت انکار ہے؟ ہر گز نہیں! بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی عرب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتوحات دیں.ظاہری فتوح فتح مکہ وغیرہ جس کے ظہور سے بت پرستی کا استیصال اس شہر سے کیا.عرب جیسے بت پرست ملک سے ابد کے لئے ہو گیا.اور تمام دنیا میں تو حیدر بوبیت کے علاوہ توحید الوہیت کا شور مچ گیا اور مختلف قبائل عرب لوٹ مار کرتے.شراب خوری اور جوئے بازی پر فخر بگھارتے.سراسر اخلاق مجسم پورے موحد ہو کر نیک چال پر آگئے.اتنی ہدایت پھیلانے سے ہادی کے گناہ معاف نہ ہوئے ہوں؟ بالکل عقل کے خلاف ہے اور فتوحات باطنی کا حال آگے لکھ چکا ہوں.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۶۲ - ۱۶۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بخشش ذنب کے دو معنی لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ (الفتح: ۳) کے متعلق دو معنی مجھے سمجھ میں آئے ہیں.ایک معنی تو امام علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے ہیں اور وہ اس طرح پر ہیں کہ انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو لوگ اس میں کوئی نہ کوئی نقص نکال دیتے ہیں لیکن جب وہ کامیاب ہو جا تا ہے تو اعتراض کرنے والے خود بخود شرمندہ ہو جاتے ہیں.ایسا ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کرتے تھے لیکن جب آپ فاتح ہو گئے تو ان کو معلوم ہو گیا کہ وہ اعتراض ان کی اپنی غلطی تھی.دوسرے معنی جو اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھائے ہیں وہ یہ ہیں.ذنبك یعنی تیرے قصور، کیا مطلب کہ جو بدیاں اہل مکہ نے تجھ سے کی ہیں اور ہجرت سے پہلے جو ایذا ئیں اور تکلیفیں دی ہیں وہ ان کا قصور تھا مگر اللہ نے تیرے سبب سے اہل مکہ کے گناہ بھی بخش دیئے کیونکہ وہ مسلمان ہو گئے.الحکم جلدے نمبر ۳۷ مورخه ۱۰/اکتوبر ۱۹۰۳، صفحه ۳)

Page 196

حقائق الفرقان ۱۸۶ سُوْرَةُ الْفَتْحِ ۷ تا ۱۰ - وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ وَالْمُنْفِقْتِ وَالْمُشْرِكِينَ وَالْمُشْرِكَتِ b ج الظَّانِيْنَ بِاللَّهِ ظَنَّ السَّوْءِ عَلَيْهِمْ دَابِرَةُ السَّوْءِ ۚ وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَ لَعَنَهُمْ وَاَعَدَّ لَهُمْ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ وَ كَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا - إِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا - لِتُؤْمِنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَ تُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَ أصِيلًا - ترجمہ.اور ان منافق مرد اور عورتوں کو عذاب دے گا اور مشرک مرد اور عورتوں کو جو گمان کرتے ہیں اللہ کے ساتھ بُرا.انہی پر پڑے گا مصیبت کا بُرا چکر اور اللہ ان پر خفا ہوا اور در بدر کر دیا اُن کو اور ان کے لئے تیار کر رکھا ہے جہنم اور وہ بہت ہی بُری جگہ ہے.اور اللہ ہی کے لشکر ہیں آسمان اور زمین کے اور اللہ بڑا ز بر دست حکمت والا ہے.بے شک ہم نے تجھ کو بھیجا ہے بادشاہ بنا کر جو دوستوں کو خوش خبری سنانے والا دشمنوں کو ڈرانے والا ہے.تاکہ تم ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو اور اللہ ہی کی تسبیح کرو صبح و شام.تفسیر.اور اللہ سزا دے گا منافق مرد و عورت اور مشرک مرد و عورت کو جو اللہ کی نسبت بدظنی رکھتے ہیں.انہیں کے اوپر برائی کا پھیر ہے اور اللہ ان پر ناراض ہوا اور ان پر لعنت کی اور ان کیلئے جہنم تیار کیا.اور وہ برا ٹھکانہ ہے ( یہ لوگ اپنی دولت ، کثرت اور قوت پر فریفتہ نہ ہوں اور اپنے موجودہ وقت کو جس سے سزا ابھی غائب ہے.سر دست آرام کا زمانہ تصور فرما کر مغرور نہ ہو جاویں.ان کو سزا دینا ، ان کا استیصال کرنا اور عقل و فکر انسان سے باہر نا اندیشہ سامانوں کا ہلاکت کے بہم پہنچانا ہم پر کچھ دشوار نہیں ہے.اسباب ہمارے ہیں اور اسباب کے خالق ہم ہیں ) اور آسمان وزمین کے لشکر اللہ کے قبضہ میں ہیں اور اللہ غالب حکمت والا ہے.ہم نے تجھ کو (اے نبی ) شاہد ، مبشر ، نذیر بھیجا ہے (اب ضرور ہے کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اسے ( رسول کو ) قوت دو اور اس کی تعظیم کرو.اور صبح و شام اللہ کے نام کی تقدیس کرو.( تصدیق براہین احمد یہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰۰ حاشیه )

Page 197

حقائق الفرقان ۱۸۷ سُوْرَةُ الْفَتْحِ ١١ - إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَنْ تَكَتَ فَإِنَّمَا يَنْكُتُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أوفى بِمَا عَهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ اجرًا عَظِيمًا - ترجمہ.کچھ شک نہیں کہ جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں تو وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں کے اوپر ہے پھر جو عہد توڑ دے گا تو وہ اپنے ہی نفس کے لئے تو ڑ دے گا اور جو اس عہد کو پورا کرے گا جو اللہ سے کیا ہے تو اللہ اس کو قریب ہی عطا فر مائے گا بڑا اجر.تفسیر.یقیناً جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ سے بیعت کرتے ہیں.اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.اب جس نے عہد کو توڑ دیا وہ جان لے کہ وہ عہد شکنی کی سزا پاوے گا.اور جس نے پورا کیا اسے جس پر اس نے اللہ سے معاہدہ کیا ہے تو عنقریب اللہ اسے اجر عظیم دے گا.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۰۰ حاشیہ) اپنے اس بڑے عظیم الشان معاہدہ کو اپنے پیش نظر رکھو.یہ معاہدہ تم نے معمولی انسان کے ہاتھ پر نہیں کیا خدا تعالیٰ کے مرسل مسیح و مہدی کے ہاتھ پر کیا ہے.اور میں تو یقین سے کہتا ہوں کہ خدا کے مرسل ہی نہیں خدا کے ہاتھ پر کیا ہے.کیونکہ یدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ آیا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۵ صفحه ۶) ۱۹ تا ۲۱ - لَقَدْ رَضِيَ اللهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَانْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَأَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا وَ مَغَانِمَ كَثِيرَةً يَأْخُذُونَهَا وَ كَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا وَعَدَكُمُ اللهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُ وَنَهَا فَعَجَلَ لَكُم هذِهِ وَ كَفَّ أَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ وَلِتَكُونَ ايَةً لِلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمُ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا - ج ترجمہ.بے شک اللہ راضی ہو گیا ہے مومنوں سے جب وہ تجھ سے بیعت کر نے لگے درخت کے نیچے پس اس نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں ہے پھر نازل فرما یا دلی اطمینان اُن پر

Page 198

حقائق الفرقان ۱۸۸ سُوْرَةُ الْفَتْحِ اور ان کو فتح قریب کا بدلہ دیا.اور بہت سی قیمتیں جن پر قبضہ کریں گے اور اللہ بڑا ز بر دست حکمت والا ہے.اللہ نے تم سے وعدہ فرمایا ہے بہت سی غنیمتوں کا کہ تم ان کو لو گے تو تم کو جلد عطا فرمائیں قیمتیں (یعنی فتح خیبر ) اور لوگوں کے ہاتھ روکے تم سے تا کہ ایک نمونہ ہو قدرت کا ایمانداروں کے لئے اور تا کہ اللہ تم کو سیدھی راہ بتادے ( کامیابی کی ).تفسیر.صحابہ بہت سعید تھے.وہ خدا کے وعدوں پر ایمان لائے.تو مندرجہ ذیل انعامات سے سرفراز ہوئے.ایمان بالغیب کے انعامات ۱.اللہ تعالیٰ راضی ہوا ( لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ ) مومنین کہلائے.شیعہ اس مقام پر غور کریں جو صحابہ کو منافق قرار دیتے ہیں.فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ سے ظاہر ہے کہ ان کے دلوں میں بھی اخلاص ہی بھرا ہوا تھا.(۲) خیبر کی فتح ( وَ أَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا ) (۳).بہت سی غنیمتیں ملیں ( مَغَانِمَ كَثِيرَةٌ يَأْخُذُونَهَا ) (۴) - سكينة كا نزول ہوا ( فَانْزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ ) - هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ سے آنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينة " کے معنے حل ہوتے ہیں کہ تابوت سے مراد وہ دل ہیں مطلب یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اس خلافت سے اطمینان پیدا ہو جائے گا.(۵).وَكَفَ اَيْدِيَ النَّاسِ عَنْكُمْ.لوگوں کی دست اندازی کو روکا.لڑائی نہ ہونے دی.(۶) - صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی.(وَيَهْدِيَكُمُ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا ) (۷).پھر اسی صبر واطاعت کی وجہ سے ( و أخرى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدْ اَحَاطَ اللهُ بِهَا " اور انعامات کئے جن کا ان حالات میں وہ اندازہ نہ لگا سکتے تھے.وہی شرائط جو اس وقت نقصان دہ اور موجب ہتک معلوم ہوتی تھیں.اس عظیم الشان فتح کا لے وہی اللہ ہے جس نے اطمینان اتارا ایمانداروں کے دلوں میں سے کہ ملے گا تم کو ایسا قلب جس میں تسلی ہو.۳، اور ایک فتح اور بھی ہونے والی ہے جن پر ابھی تم نے قدرت نہیں پائی.

Page 199

حقائق الفرقان ۱۸۹ سُوْرَةُ الْفَتْحِ موجب ہو گئیں.جو مسلمان مرتد ہوتاوہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کے کام کا نہ تھا.اس کے جانے سے انہیں کیا نقصان اور جو مشرکین میں سے مسلمان ہوتا وہ مکہ میں رہتا.تو دوسروں کی ہدایت کا موجب بنتا.پھر یہ فائدہ ہوا کہ ابو بصیر مسلمان ہو کر مدینہ بھاگ آیا.دو آدمی مکہ سے اس کو پکڑنے کیلئے روانہ ہوئے.جب حضور رسالت مآب میں پہنچے تو آپ نے حکم دیا کہ ابوالبصیر واپس چلا جائے اس نے بہتیرے عذر کئے مگر آپ نے فرمایا.ہم معاہدہ کے خلاف نہیں کریں گے.راستے میں اس نے اپنے محافظ مشرکوں میں سے ایک کی تلوار لے کر ایک کو مار دیا.دوسرا پھر فریاد کرتا ہوا آیا.ابوبصیر بھی پہنچ گیا.آپ نے اسے کہا.تو لڑائی کرانا چاہتا ہے میں تجھے واپس بھجوا دوں گا.یہ سن کر وہ وہاں سے بھاگ گیا اور ایک جگہ پر ڈیرہ بنالیا.اب جو مسلمان ہوتا مکہ سے بھاگ کر ان کے پاس آجاتا اور رفتہ رفتہ ان کی ایک جماعت بن گئی.چونکہ وہ مکہ والوں کے نکالے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے اپنے اخراجات خوراک وغیرہ کے لئے مکہ ہی کے قافلوں سے اپنا حصہ لینا شروع کیا.اس طرح پر یہ شرط ان مشرکین کیلئے موجب ضرر ہوئی.اور وہ نبی کریم کی خدمت میں آئے کہ آپ اپنے آدمیوں کو بلوا لیجئے.ہم اس شرط کو توڑتے ہیں.دوم.ان فہرستوں کے لکھوانے کا فائدہ یہ ہوا کہ خزاعہ پر جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حمایت میں تھے.بنو بکر وائل نے حملہ کیا اور مشرکین نے ان کا خفیہ خفیہ ساتھ دیا.خزاعہ میں سے دو آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور فریاد لے کر حاضر ہوئے.ادھر مکہ والوں نے بھی اپنا ایک سردار بھیج دیا کہ معاہدہ نئے سرے سے ہو.کیونکہ میں اس وقت موجود نہ تھا.اس طرح پر وہ معاہدہ آپ ہی انہوں نے اپنے عمل اور اپنے قول سے توڑ دیا.اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور اس طرح پر خدا کا کلام إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مبينا پورا ہوا.اور اسی فتح کے ذریعہ ثابت ہوا کہ نبی کریم صلعم کی زندگی ہر قسم کے عیبوں اور ان الزاموں سے پاک ہے.جو آپ کی ذات سے منسوب کئے جاتے تھے لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ کے یہی معنے ہیں کہ تیری ذات پر جو الزام یہ ملکہ کی ہجرت سے پہلے یا پیچھے لگاتے

Page 200

حقائق الفرقان ۱۹۰ سُوْرَةُ الْفَتْحِ تھے.وہ سب دور ہو جائیں.دوسرے معنے یہ ہیں کہ ان مشرکین نے جو تیرے گناہ اس وقت کئے تھے جبکہ تو (اے نبی ) پہلے مکہ میں رہتا تھا اور پھر وہ قصور جو اس وقت کئے جبکہ تو مکہ سے چلا آیا اس فتح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دے چنانچہ جب وہ مشرکین پکڑے حضور رسالت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا.لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ تم پر آج کے دن کوئی الزام نہیں.اللہ تمہیں بخشے اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.تشخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ء صفحه ۱۸۰ تا ۱۸۲) ۲۵ - وَهُوَ الَّذِى كَفَّ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطِن مَكَةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے روک رکھے کافروں کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ ان سے مکہ کے اندر بعد اس کے کہ تم ان پر فتح پاچکے تھے اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو بخوبی دیکھ رہا ہے.تفسیر.كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ.یہ حدیبیہ کا ذکر ہے.b تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۱) - - مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم 79990 تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم b , مِنْ اَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوَريةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرع اَخْرَجَ شَطْعَهُ فَأَزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الرُّرَّاعَ لِيَغِيظُ بهِمُ الْكَفَارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَ اَجْرًا عَظِيمًا - ترجمہ محمد اللہ کا رسول ہے اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر بہت مؤثر ہیں ان سے متاثر نہیں ہوتے.شدید و غالب ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے متاثر ہوئے ہیں رحیم ہیں.تو ان کو دیکھتا ہے رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، اللہ کا فضل چاہتے ہیں اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں ان کی

Page 201

حقائق الفرقان ۱۹۱ سُوْرَةُ الْفَتْحِ نشانیں ان کے چہروں میں ہیں سجدوں کے اثر سے بھی ، ان کی مثال ہے توریت میں (استثناء باب ۳۳) اور یہی ان کی مثال ہے انجیل میں (متی باب ۱۳.آیت ۳۱، ۳۲ و ۸) جیسے ایک کھیتی ہے جس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس کو موٹا کیا تو وہ موٹی ہو گئی ہے پھر سیدھی کھڑی ہو گئی اپنی نال پر پیاری لگتی ہے کسانوں کو تا کہ اللہ جی جلائے ایمانداروں سے سب کافروں کا اور اللہ نے وعدہ فرمایا ایمانداروں سے مغفرت اور اجرت عظیم کا.تفسیر - آشدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ....ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّورِيةِ - وہ بڑے مضبوط ہیں.کفار کا اثر قبول نہیں کرتے.ہاں آپس میں ایک دوسرے سے نیک متاثر ہوتے ہیں.تو ان کو عبادت گزار ، اللہ کے فضل ورضوان کا امیدوار پائے گا.فرماں برداری کے آثار ان کے چہروں سے ظاہر ہیں.دیکھو ۳۳ باب استثناء آیت ۲.خداوند کریم سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.اور ان کے دہنے ہاتھ ایک آتشی شریعت ان کیلئے تھی.ہاں.وہ اس قوم سے بڑی محبت رکھتا ہے.اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وہ تیرے قدموں کے نزدیک بیٹھے ہیں اور تیری باتوں کو مانیں گے.اور وَ مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْهُ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ اس کیلئے دیکھو متی باب ۱۳ آیت ۳۱.وہ ان کے واسطے ایک اور تمثیل لا یا کہ آسمان کی بادشاہت خردل لے کے دانہ کی مانند ہے.جسے ایک شخص نے لے کر اپنے کھیت میں بویا.وہ سب بیجوں میں چھوٹا ہے.پر جب اگتا.تو سب ترکاریوں سے بڑا ہوتا اور ایسا پیٹر ہوتا کہ ہوا کی چڑیا ئمیں آکے اس کی ڈالیوں پر تشخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۴.ماہ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۸۲ - ۱۸۳) بسیرا کریں.اے رائی.مرتب

Page 202

حقائق الفرقان ۱۹۲ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ مَدَنِيَّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ حجرات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس باعظمت اللہ کے اسم شریف سے جس نے رسول اللہ کے مصاحبوں کو آگے سے چن رکھا اور جن کی نیک کوششوں کا بدلہ دینے والا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ - ترجمہ.اے ایماندارو! اونچی اور برابر نہ ہو تمہاری آواز نبی کی آواز سے اور مقابلہ نہ کرو.چینو مت جیسے مقابلہ کیا کرتے ہو تم ایک سے ایک.ایسا نہ ہو کہ اکارت ہو جائے تمہارا سب کیا کرایا اور تم کو خبر ہی نہ ہو.تفسیر.لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ - كلام الله قول الرسول کے مقابل پر اپنی آواز نہ بڑھاؤ.- تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۱) b - وَاعْلَمُوا اَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُم وَلَكِنَّ اللهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّةَ إِلَيْكُمُ الكَفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَبِكَ هُمُ الرُّشِدُونَ - ترجمہ.اور جان رکھو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے اگر وہ تمہارا کہا مانا کرے تمہارے بہت سے کاموں میں تو تم ضرور مشکلات میں پڑ جاؤ مگر اللہ نے تمہارے لئے ایمان پسند فرمایا ہے اور اس کو عمدہ کر دکھایا ہے تمہارے دلوں میں اور تمہاری نظروں میں برا بنا دیا ہے کفر اور فسق اور عصیان کو.یہی لوگ ہیں جو نیک چلن اور لائق اور منزل مقصود کو پہنچے ہوئے ہیں.

Page 203

حقائق الفرقان ۱۹۳ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ b انَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِّنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُمْ.کہ تم میں محمد خدا کا رسول ہے.اگر تمہاری رائے پر چلے تو تمہیں مشکلوں اور دکھوں کا سامنا ہو.الحکم نمبر ا جلد ۹ مورخه ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ ، صفحه ۱۱) ١١ - إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ - ترجمہ.ایماندار تو آپس میں بس بھائی بھائی ہیں تو صلح کراؤ اپنے دو بھائیوں میں اور اللہ کوسپر بناؤ اور اسی کا خوف رکھو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.تفسیر.تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں.امیر سے غریب تک، شریف سے وضیع تک ، اجنبی سے اپنے پرائے ہم قوم تک.اگر ایمان والوں میں رنج آجاوے تو ان بھائیوں میں صلح کرا دو اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم پر رحم ہو.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۲۹) اس آیت کے رو سے مجھے یقین ہے کہ کم از کم اس آیت کے نزول تک جس قدر صحابہ تھے.وہ آپس میں بھائی بھائی تھے.اور یہ شیعہ کے خلاف نص صریح ہے.( بدر جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۲۱ /جنوری ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷) ۱۲ ، ۱۳ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءُ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ ۚ وَلَا تَلْمِزُوا ج انْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الإِيمَانِ وَ مَنْ لَّمْ يَتُبْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْهُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا أيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَابٌ رَّحِيم ترجمہ.اے ایماندارو! ٹھٹھانہ کیا کرے ایک قوم دوسری قوم سے ممکن ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ بہتر

Page 204

حقائق الفرقان ۱۹۴ سُورَةُ الحُجُرَات ہوں ہنسنے والوں سے اور نہ عورتیں ہنسی کیا کریں دوسری عورتوں سے شاید وہ دوسری بہتر ہوں ان سے اور آپس میں ایک دوسرے پر الزام نہ لگایا کرو اور نہ بُڑے نام رکھا کرو ایمان لائے بعد.بُرا نام ایک بدکاری ہے اور جو تو بہ نہ کرے تو وہی لوگ بے جا کام کرنے والے بداخلاق ہیں.اے ایماندارو! بچے رہو بہت بدگمانیوں سے کچھ شک نہیں بعض بدگمانیاں گناہ ہیں اور کسی کا بھید مت ٹٹولا کرو اور نہ کھولا کرو اور بعض کی غیبت بعض نہ کیا کرے بھلا تم میں کسی کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے سو یہ تو تم مکروہ ہی سمجھتے ہوگے ( تو غیبت سے بھی کراہت کرو.بچو) اور اللہ کوسپر بناؤ بے شک اللہ بڑا تو بہ قبول کرنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.مرد مردوں سے ہنسی نہ کریں.ہو سکتا ہے کہ وہی ان سے اچھے ہوں.اور نہ عورتیں عورتوں سے ہوسکتا ہے کہ وہی ان سے اچھی ہوں اور ایک دوسرے کی نکتہ چینی اور عیب گیری مت کرو.بڑے بڑے اور چھیٹر کے ناموں سے کسی کو مت پکارو.مومن ہونے کے بعد یہ نا پاک نام بہت بُری بات ہے.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۴) اے ایمان والو! ٹھٹھا نہ کریں ایک لوگ دوسروں سے.شاید وہ بہتر ہوں اُن سے اور نہ عورتیں دوسری عورتوں سے.شاید وہ بہتر ہوں اُن سے.اور عیب نہ دو ایک دوسرے کو اور نہ نام ڈالو.چڑھ ایک دوسرے کی.بُرا نام ہے گنہ گاری پیچھے ایمان کے اور جو کوئی تو بہ نہ کرے.تو وہی ہیں بے انصاف.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۵۱٬۵۰ حاشیه ) ادایمان والو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے.جس سے تم ہنسی کرتے ہو اور جسے تم مسخرہ بناتے ہو شاید تم سے اچھا ہو اور نہ عورتیں بنی کریں عورتوں سے ، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس سے ایک عورت تمسخر کرتی ہے دوسری سے اچھی ہو اور اپنوں کو کوئی طعن مت دیا کرو اور کسی کی نسبت برا لقب مت بولو.ایسی کرتوتوں سے برے لقب دینے والا اللہ تعالیٰ کے یہاں سے فاسق و بدکار ہونے کا لقب پاتا ہے.اور مومن کہلا کر فاسق بنا برا ہے.جولوگ برے کاموں سے باز نہ آئے تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۳۰) وہی بدکار ہیں.

Page 205

حقائق الفرقان ۱۹۵ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ جب بعض آدمیوں کو آرام ملتا ہے.فکر معاش سے گونہ بے فکری حاصل ہوتی ہے.وہ نکھے ہے لگتے ہیں.اب اور کوئی مشغلہ تو ہے نہیں تمسخر کی خُو ڈال لیتے ہیں.یہ تمسخر بھی زبان سے ہوتا ہے.کبھی اعضاء سے کبھی تحریر سے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس تمسخرکا نتیجہ بہت برا ہے.وحدت باطل ہو جاتی ہے.پھر وحدت جس قوم میں نہ ہو وہ بجائے ترقی کے ہلاک ہو جاتی ہے.حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت کو مار رہے تھے یہاں تک کہ اسے کہا جاتا کہ زنیت سرقت تو نے زنا کیا.تو نے چوری کی.ایک سننے والی پر اس کا اثر ہوا اور اس نے دعا کی کہ الہی میری اولا دا لیسی نہ ہو.گود میں لڑکا بول اٹھا کہ الہی مجھے ایسا ہی بنائیو.کیونکہ اس عورت پر بدظنی کی جارہی ہے.یہ واقع میں بہت اچھی ہے.اسی طرح ایک اور کا ذکر ہے کہ ماں نے دعا کی.البی میرا بچہ ایسا ہی ہو.مگر بچے نے کہا کہ الہی میں ایسا نہ بنوں.غرض کسی کو کسی کے حالات کی کیا خبر ہوسکتی ہے.ہر ایک کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے.ممکن ہے کہ ایک شخص ایسانہ ہو جیسا اسے سمجھا جاتا ہے.لوگوں کی نگاہ میں حقیر ہومگر خدا کے نزدیک مقرب ہو پھر الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیم کے مطابق ممکن ہے.جس سے تمسخر کیا جاتا ہے اس کا انجام اچھا ہو.وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاء - آیت میں آیا ہے.یہاں عورتیں بیٹھی ہوئی نہیں مگر آدمی کا نفس بھی مؤنث ہے.ہر ایک اس کو مرا در کھ سکتا ہے.دوم اپنے اپنے گھروں میں جا کر یہ بات پہنچا دو.کہ کوئی عورت دوسری عورت کی تحقیر نہ کرے.اور اس سے ٹھٹھا نہ کرے.تم ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نام نہ رکھو.تم کسی کا بُرا نام رکھو گے تو تمہارا نام اس سے پہلے فاسق ہو چکا.مومن ہونے کے بعد فاسق نام رکھا نا بہت ہی بری بات ہے.یہ تمسخر کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ بدظنی سے اس لئے فرماتا ہے.اجْتَنِبُوا كَثِيرًا من الظَّنِ بدگمانیوں سے بچو.حدیث میں بھی آیا ہے.اِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظن أكذَبُ الْحَدیث.اس بدظنی سے بڑا بڑا نقصان پہنچتا ہے.میں نے ایک کتاب منگوائی.وہ بہت بے نظیر تھی.میں نے مجلس میں اس کی اکثر تعریف کی.کچھ دنوں بعد وہ کتاب گم ہوگئی مجھے کسی خاص پر تو خیال نہ آیا.مگر یہ خیال ضرور آیا کہ کسی نے اٹھالی.پھر جب کچھ عرصہ نہ ملی تو یقین ہو گیا کہ

Page 206

حقائق الفرقان ۱۹۶ سُورَةُ الحُجُرَات کسی نے چرالی ہے.ایک دن جب میں نے اپنے مکان سے الماریاں اٹھوائیں تو کیا دیکھتا ہوں الماری کے پیچھے بیچوں بیچ کتاب پڑی ہے.جس سے معلوم ہوا کہ کتاب میں نے رکھی ہے اور وہ بچھے جا پڑی.اس وقت مجھے دو معرفت کے نکتے کھلے.ایک تو مجھے ملامت ہوئی کہ میں نے دوسرے پر بدگمانی کیوں کی.دوم میں نے صدمہ کیوں اٹھایا.خدا کی کتاب اس سے بھی زیادہ عزیز اور عمدہ میرے پاس موجود تھی.اسی طرح میرا ایک بستر تھا جس کی کوئی آٹھ نہیں ہوں گی.ایک نہایت عمدہ ٹوپی مجھے کسی نے بھیجی جس پر طلائی کام ہوا تھا.ایک عورت اجنبی ہمارے گھر میں تھی.اسے اس کام کا بہت شوق تھا.اس نے اس کے دیکھنے میں بہت دلچسپی لی.تھوڑی دیر بعد وہ ٹوپی گم ہو گئی.مجھے اس کے گم ہونے کا کوئی صدمہ تو نہ ہوا کیونکہ نہ میرے سر پر پوری آتی تھی نہ میرے بچوں کے سر پر.مگر میرے نفس نے اس طرف توجہ کی کہ اس عورت کے پسند آ گئی ہوگی.مدت گذرگئی.اس عورت کے چلے جانے کے بعد جب بستر کو جھاڑنے کیلئے کھولا گیا تو اس کی ایک تہہ میں سے نکل آئی.دیکھو بدظن کیسا خطر ناک ہے اللہ تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو سکھاتا ہے جیسا کہ اس نے محض اپنے فضل سے میری راہنمائی کی.اور لوگوں سے بھی ایسے معاملات ہوتے ہوں گے مگر تم نصیحت نہیں پکڑتے.اس بدظنی کی جڑھ ہے ” کرید خواہ مخواہ کسی کے حالات کی جستجو اور تاڑ بازی.اس لئے فرماتا ہے وَلا تَجَسَّسُوا اور پھر اس تجسس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے.ان آیات میں تم کو یہ بھی سمجھایا گیا ہے کہ گناہ شروع میں بہت چھوٹا ہوتا ہے مگر آخر میں بہت بڑا ہو جاتا ہے جیسے بڑ کا پیج دیکھنے میں کتنا چھوٹا ہے.لیکن پھر بعض جڑیں ایک ایک میل تک چلی گئی ہیں.میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو.اور بدی کو اس کے ابتداء میں چھوڑ دو.( بدر جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۱۸ / نومبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱) کسی دوسرے کو حقارت سے نہ دیکھو بلکہ مناسب یہ ہے کہ اگر کسی کو اللہ نے علم ، طاقت اور آبرودی ہے تو اس کے شکریہ میں اس کی جو اس نعمت سے متمتع نہیں مدد کرے نہ یہ کہ اس پر تمسخر

Page 207

حقائق الفرقان ۱۹۷ سُورَةُ الحُجُرَات اڑائے.یہ منع ہے.چنانچہ اس نے فرمایا.لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ - ( بدر جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۲) او ایمان والو! بہتی بدگمانیوں سے بچو.بعض بدگمانی بدکاری ہوتی ہے.لوگوں کی عیب جوئی مت کیا کرو اور ایک دوسرے کا گلہ کبھی نہ کرو.گلہ کرنا ایسا برا ہے جیسا بھائی کا گوشت کھا لینا.کیا یہ امر کسی کو پسند ہے.بے ریب کسی کو بھی یہ بات پسند نہیں.اللہ سے اس کی نافرمانیوں پر ڈرو.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو نا فرمانیوں کو چھوڑ ، اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں رحم کرتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۰) بعضے گناہ ہوتے ہیں کہ وہ اور بہت سے گناہوں کو بلانے والے ہوتے ہیں.اگر ان کو نہ چھوڑا جائے تو ان کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص کے بتوں کو تو توڑا جائے مگر بت پرستی کو اس کے دل سے دور نہ کرایا جاوے.اگر ایک بت کو توڑ دیا تو اس کے عوض سینکڑوں اور تیار ہو سکتے ہیں.مثلاً صلیب ایک پیسہ کو آتی ہے اگر کسی ایک کی صلیب کو توڑ ڈالیں تو لاکھوں اور بن سکتی ہیں.غرض جب تک شرارتوں اور گناہوں کی ماں اور جڑھ دور نہ ہو.تب تک کسی نیکی کی امید نہیں ہو سکتی اور تا وقتیکہ اصلی جڑھ اور اصلی محرک بدی کا دور نہ ہو.فروعی بدیاں بکلی دور نہیں ہوسکتیں.جب تک بدیوں کی جڑھ نہ کائی جاوے.تب تک وہ اور بدیوں کو اپنی طرف کھینچے گی اور دوسری بدیاں اپنا پیوند اس سے رکھیں گی.مثلاً شہوت بد ایک گناہ ہے.بدنظری ، زنا ، لواطت ، حسن پرستی سب اسی سے پیدا ہوئی ہیں.حرص اور طمع جب آتا ہے تو چوری جعلسازی ، ڈاکہ زنی ، ناجائز طور سے دوسروں سے مال حاصل کرنے اور طرح طرح کی دھوکہ بازیاں سب اسی کی وجہ سے کرنی پڑتی ہیں.غرض یہ یادرکھنے والی بات ہے کہ بعض باتیں اصل ہوتی ہیں اور بعض انکی فروعات ہوتی ہیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتے.وہ کوئی حقیقی اور سچی نیکی ہر گز نہیں کر سکتے اور وہ کسی کامل خلق کا نمونہ نہیں دکھا سکتے.کیونکہ وہ کسی صحیح نتیجہ کے قائل نہیں ہوتے.میں نے بڑے بڑے دہریوں کو مل کر پوچھا ہے کہ کیا تم کسی بچے اخلاق کو ظاہر کر سکتے ہو اور کوئی حقیقی نیکی عمل میں لا سکتے ہو تو وہ لا جواب سے ہو کر رہ

Page 208

حقائق الفرقان ۱۹۸ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ گئے ہیں.ہمارے زیر علاج بھی ایک دہریہ ہے.میں نے اس سے یہی سوال کیا تھا تو وہ ہنس کر خاموش ہو گیا تھا.ایسے ہی جو لوگ قیامت کے قائل نہیں ہوتے.وہ بھی کسی حقیقی نیکی کو کامل طور پر عمل میں نہیں لا سکتے.نیکیوں کا آغاز جزا سزا کے مسئلہ سے ہی ہوتا ہے.جو شخص جزا سزا کا قائل نہیں ہوتا.وہ نیکیوں کے کام بھی نہیں کر سکتا.ایسے ہی جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دوسرے لوگوں کے اس قسم کے الفاظ سے مجھے رنج پہنچتا ہے.وہ کسی کی نسبت ویسے الفاظ کیوں استعمال کرنے لگا.یا جوشخص اپنی لڑکی سے بدنظری اور بدکاری کروانا نہیں چاہتا اور اسے ایک برا کام سمجھتا ہے.وہ دوسروں کی لڑکیوں سے بدنظری کرنا کب جائز سمجھتا ہے.ایسے ہی جو اپنی ہتک کو برا خیال کرتا ہے وہ دوسروں کی ہتک کبھی نہیں کرتا.بہر حال یہاں اللہ تعالیٰ نے گناہوں سے بچنے کا ایک گر بتایا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْه - ایماندارو اظن سے بچنا چاہیے کیونکہ بہت سے گناہ اسی سے پیدا ہوتے ہیں.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.إيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ ایک شخص کسی کے آگے اپنی ضرورتوں کا اظہار کرتا ہے اور اپنے مطلب کو پیش کرتا ہے.لیکن اس کے گھر کی حالت اور اس کی حالت کو نہیں جانتا اور اس کی طاقت اور دولت سے بے خبر ہوتا ہے.اپنی حاجت براری ہوتے نہ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر شرارت کی اور میری دستگیری سے منہ موڑ ا.تب محض ظن کی بناء پر اس جگہ جہاں اس کی محبت بڑھنی چاہیے تھی.عداوت کا بیج بویا جاتا ہے.اور آہستہ آہستہ ان گناہوں تک نوبت پہنچ جاتی ہے جو عداوت کا پھل ہیں.کئی لوگوں سے میں نے پوچھا ہے کہ جب تم نے میرا نام سنا تھا تو میری یہی تصویر اور موجودہ حالت کا ہی نقشہ آپ کے دل میں آیا تھا.یا کچھ اور ہی سماں اپنے دل میں آپ نے باندھا ہوا تھا تو انہوں نے یہی جواب دیا ہے کہ جو نقشہ ہمارے دل میں تھا اور جو کچھ ہم سمجھے بیٹھے تھے وہ نقشہ نہیں پایا.یاد رکھو.بہت بدیوں کی اصل جڑھ سوء ظن ہوتا ہے.میں نے اگر کبھی سوء ظن کیا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے میری تعلیم

Page 209

حقائق الفرقان ۱۹۹ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ فرما دی کہ بات اس کے خلاف نکلی.میں اس میں تجربہ کار ہوں.اس لئے نصیحت کے طور پر کہتا ہوں کہ اکثر سوء ظنیوں سے بچو.اس سے سخن چینی اور عیب جوئی کی عادت بڑھتی ہے.اسی واسطے اللہ کریم فرماتا ہے.ولا تجسسوا تجسس نہ کرو تجس کی عادت بدظنی سے پیدا ہوتی ہے.جب انسان کسی کی نسبت سور ظنی کی وجہ سے ایک خراب رائے قائم کر لیتا ہے تو پھر کوشش کرتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کے کچھ عیب مل جاویں اور پھر عیب جوئی کی کوشش کرتا اور اسی جستجو میں مستغرق رہتا ہے.اور یہ خیال کر کے کہ اس کی نسبت میں نے جو یہ خیال ظاہر کیا ہے.اگر کوئی پوچھے تو پھر اس کا کیا جواب دوں گا.اپنی بدظنی کو پورا کرنے کیلئے تجسس کرتا ہے اور پھر تجس سے غیبت پیدا ہوتی ہے جیسے فرمایا اللہ کریم نے وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا.غرض خوب یاد رکھو کہ سوء ظن سے تجسس اور تجسس سے غیبت کی عادت شروع ہوتی ہے.اور چونکہ آجکل ماہ رمضان ہے.اور تم لوگوں میں سے بہتوں کے روزے ہوں گے.اس لئے یہ بات میں نے روزہ پر بیان کی ہے اگر ایک شخص روزہ بھی رکھتا ہے اور غیبت بھی کرتا ہے اور تجسس اور نکتہ چینیوں میں مشغول رہتا ہے.تو وہ اپنے مُردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.جیسے فرما یا آئیحِبُّ أَحدُكُمْ آنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ! اب جو غیبت کرتا ہے وہ روزہ کیا رکھتا ہے.وہ تو گوشت کے کباب کھاتا ہے اور کباب بھی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کے اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ غیبت کرنے والا حقیقت میں ہی ایسا بد آدمی ہوتا ہے.جو اپنے مردہ بھائی کے کباب کھاتا ہے.مگر یہ کباب ہر ایک آدمی نہیں دیکھ سکتا.ایک صوفی نے کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص نے کسی کی غیبت کی.تب اس سے قے کرائی گئی تو اس کے اندر سے بوٹیاں نکلیں جن سے بو بھی آتی تھی.یاد رکھو یہ کہانیاں نہیں.یہ واقعات ہیں.جو لوگ بدظنیاں کرتے ہیں وہ نہیں مرتے جب تک اپنی نسبت بدظنیاں نہیں سن لیتے.اس لئے میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اور درد دل سے کہتا ہوں کہ لے ماہ اکتوبر ۱۹۰۷ ء.مرتب

Page 210

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ غیبتوں کو چھوڑ دو.بغض اور کینہ سے اجتناب اور بکلی پر ہیز کرو اور بالکل الگ تھلگ رہو.اس سے بڑا فائدہ ہوگا.میری نہ کوئی جاگیر مشترکہ ہے.نہ کوئی مکان مشترکہ ہے.میرا کوئی معاملہ دنیا کا کسی سے مشترکہ نہیں.اسی طرح میں اور وں پر قیاس کرتا ہوں کہ وہ بھی یہاں آ کر الگ تھلگ ہوں گے اور اگر کچھ بھی معمولی سی شراکت ہوگی بھی تو کوشش کرنے سے بالکل الگ رہ سکتے ہیں.انسان خود بخود اپنے آپ کو پھندوں میں پھنسا لیتا ہے ورنہ بات سہل ہے جو لڑ کے دوسروں کی نکتہ چینیاں اور غیبتیں کرتے ہیں.اللہ کریم ان کو پسند نہیں کرتا.اگر کسی میں کوئی غلطی دیکھو تو خدا تعالیٰ سے اس کے لئے دعا کرو کہ اس کی وہ غلطی نکال دیوے اور اپنے فضل سے اس کو راہ راست پر چلنے کی توفیق دیوے.یاد رکھو اللہ کریم تواب رحیم ہے.وہ معاف کر دیتا ہے.جب تک انسان اپنا نقصان نہ اٹھائے اور اپنے اوپر تکلیف گوارا نہ کرے.کسی دوسرے کو سکھ نہیں پہنچا سکتا.بدصحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جاؤ.خوب یاد رکھو کہ ایک چوہڑی یا لوہار کی بھٹی یا کسی عطار کی دکان کے پاس بیٹھنے سے ایک جیسی حالت نہیں رہا کرتی.ظن کے اگر قریب بھی جانے لگو تو اس سے بچ جاؤ.کیونکہ اس سے پھر تجسس پیدا ہوگا.اور اگر تجسس تک پہنچ چکے ہو تو پھر بھی رک جاؤ کہ اس سے غیبت تک پہنچ جاؤ گے اور یہ ایک بہت بڑی بداخلاقی ہے.اور مردار کھانے کی مانند ہے.وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ - تقوی اختیار کرو اور پورے پورے پر ہیز گار بن جاؤ.مگر یہ سب کچھ اللہ ہی توفیق دے تو حاصل ہوتا ہے.ہم تو انباروں کے انبار ہر روز معرفت کے پیش کرتے ہیں.گو فائدہ تو ہوتا ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ بہت فائدہ ہو اور بہتوں کو ہو خدا تعالیٰ توفیق عنایت فرما دے.آمین ( الحکم جلد ۱۱ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۰۷ء صفحه ۸-۹) -۱۴ - يَاَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انْثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَ قبابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ - ترجمہ.اے لوگو! ہم نے تم کو پیدا کیا ایک ہی آدمی سے ایک ہی عورت سے اور تمہارے قبیلے اور ا قادیان - مرتب

Page 211

حقائق الفرقان ۲۰۱ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ کنبے بنائے تا کہ ایک دوسرے کو پہچانو.بے شک تم میں زیادہ عزت دار اللہ کے نزدیک وہی ہے جو بڑا متقی ہو.بے شک اللہ بڑا جاننے والا ہے بڑا خبر دار ہے.تفسیر.(اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ) ہم نے ہی تم کو پیدا کیا نرومادہ سے اور تم کو قوموں اور قبائل پر تقسیم کیا.تو کہ ایک دوسرے سے تعارف رکھو اور تمہیں یادر ہے کہ خدا کے یہاں تم میں سے وہی معزز ہے جو بڑا پر ہیز گار ہے.اور جان رکھو.اللہ تعالیٰ علیم وخبیر ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۰) اے آدمیو! ہم نے تم کو بنایا نر اور مادہ اور کر دیں تم میں ذاتیں اور قبیلے تا کہ پہچان لو.بے شک بزرگ تم میں سے اللہ کے نزدیک بڑے ادب والا ہے.بے شک اللہ جاننے والا ہے خبر دار.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۵۱ حاشیه ) اِنَّ اكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ انْقَكُم - یعنی تم میں سے معزز اور زیادہ مکرم وہ ہے جو زیادہ تر متقی ہے.جس قدر نیکیاں اور اعمال صالح کسی میں زیادہ تر ہیں وہی زیادہ معزز و مکرم ہے.کیا بے جا شیخی اور انانیت پیدا نہیں ہو رہی؟ پھر بتلاؤ کہ اس نعمت کی قدر کی تو کیا کی؟ یہ اخوت اور برادری کا واجب الاحترام مسئلہ اسلام کے دیکھا دیکھی اب اور قوموں نے بھی لے لیا.پہلے ہندو وغیرہ قومیں کسی دوسرے مذہب وملت کے پیرو کو اپنے مذہب میں ملانا عیب سمجھتے تھے اور پر ہیز کرتے تھے.مگراب شدھ کرتے اور ملاتے ہیں.گو کامل اخوت اور سچے طور پر نہیں.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غور کرو کہ حضور نے اپنی عملی زندگی سے کیا ثبوت دیا کہ زید جیسے کے نکاح میں شریف بیبیاں آئیں.اسلام ! مقدس اسلام نے قوموں کی تمیز کو اٹھا دیا جیسے وہ دنیا میں توحید کو زندہ اور قائم کرنا چاہتا تھا اور چاہتا ہے.اسی طرح ہر بات میں اس نے وحدت کی روح پھونکی اور تقوای پر ہی امتیاز رکھا.قومی تفریق جو نفرت اور حقارت پیدا کر کے شفقت علی خلق اللہ کے اصول کی دشمن ہوسکتی تھی اُسے دور کر دیا.ہمیشہ کا منکر خدا رسول کا منکر جب اسلام لاوے تو شیخ کہلاوے.یہ سعادت کا تمغہ! یہ سیادت کا نشان جو اسلام نے قائم کیا تھا صرف تقوی تھا.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۶ مورخه ۵ رمئی ۱۸۹۹ صفحه ۴)

Page 212

حقائق الفرقان ۲۰۲ سُورَةُ الحُجُرَات ۱۵ - قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا b يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَ اِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ کے حکم دو اعمالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيم ترجمہ.گنوار کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے تم کہہ دو کہ ایمان نہیں لائے لیکن کہو کہ ہم فرمانبردار ہو گئے اور ابھی داخل نہیں ہوا تمہارے دلوں میں ایمان ( یعنی ایمان یا سکینہ نہیں ) اور تم اللہ اور اس کے رسول پر چلو گے تو وہ تمہارے عملوں میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا.بے شک اللہ بڑا غفور الرحیم ہے.تفسیر.اعراب نے کہا ہم ایمان لائے تو کہ کہ تم مومن نہیں ہوئے لیکن بولو کہ ہم فرمانبردار ہوئے اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.(فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۸۰ حاشیه ) -١٦ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَ جهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ هُمُ الصَّدِقُونَ - ترجمہ.اس کے سوا نہیں کہ ایماندار تو وہی ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول کو مانا سچے دل سے پھر کچھ شک وشبہ نہ کیا اور بڑی نیک کوشش کی اپنے مال اور جان سے اللہ کی راہ میں ( یعنی قرآن پر عمل کرنے میں ) یہی لوگ سچے (ایماندار ہیں ).تفسیر.کہ مومن وہی لوگ ہوتے ہیں جو ایمان لاتے ہیں اللہ پر اور ایمان لاتے ہیں اللہ کے رسول پر اور اگر ان پر کچھ مشکلات آ پڑیں تو کوئی شک و شبہ نہیں لاتے بلکہ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَ انْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ وہ اپنے مالوں اور جانوں سے خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے کہ کسی اور کی کمائی سے یا کسی اور کا مال حاصل کر کے خدا کی راہ میں خرچ کر دیں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ پھر ان کو کہاں سے دوں گا اس لئے وہ خود کما کر اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.آجکل قحط کا زور ہوتا جاتا ہے.مومن کو چاہیے کہ اپنی روٹی کا ایک حصہ کسی ایسے شخص کو دے دیا کرے جس کے پاس روٹی نہیں.اگر اس میں سے نہیں دے سکتا تو کوئی پیسہ ہی سہی کہ وہ بیچارہ خرید کر

Page 213

حقائق الفرقان ۲۰۳ سُوْرَةُ الْحُجُرَاتِ کے ہی کھالے.مومن آدمی کو تو خدا کی راہ میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں ہوتا.دیکھو آ جکل سردی کا موسم ہے.کسی مفلس کو اوڑھنے کیلئے کپڑا دینے سے تم کو دریغ نہیں کرنا چاہیے.مومن کو جوں جوں ضرورتیں پیدا ہوتی رہیں.سب میں شرکت لازمی ہے.اسی واسطے میں نے یہ آیات پڑھی ہیں کہ مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اللہ پر اور اللہ کے رسول پر ایمان ہوتا ہے.اور وہ اپنے مال اور جانیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا خرچ کرنا ضائع نہیں جائے گا.اور ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جو خدا کے نزدیک بھی صادق اور سچے مومن ہوتے ہیں.اور پھر اس کے آگے فرمایا.قُلْ اَتُعَلَّمُونَ اللهَ بِدِينِكُمْ کہ کیا تم لوگ زبانی دعوے کرنے سے اللہ تعالیٰ کو اپنی دینداری جتلانی چاہتے ہو.اللہ کے نزدیک تو تب ہی صادق ٹھہر سکو گے.جب عملی طور پر دکھوں دردوں اور مصیبتوں میں ثابت قدم رہو گے.اور اپنے مالوں اور جانوں سے دوسروں کی غم خواری کرو گے اور محتاجوں اور غریبوں کی امداد کرو گے.یادرکھو.دوسروں کی غم خواری بہت ضروری ہے لیکن یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی ہی توفیق سے ہو سکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.الحکم جلد نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱)

Page 214

حقائق الفرقان ۲۰۴ سُوْرَةُ قَ سُوْرَةُ قَ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۃ ق کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے قیامت کی خبر پہلے سے دے رکھی ہے اور نیک کوشش کے بدلہ کا وعدہ فرما رکھا ہے.۲- ق وَالْقُرْآنِ الْمَجِيدِ - ترجمہ.ٹھہر کر غور کر.قسم ہے قرآن مجید کی ( کہ بے شک محمد سچا پیغمبر ہے ).تفسیر.ق.قیامت ہے اور اس کا شاہد قرآن مجید ہے کہ تم بعد الموت مبعوث ہو گے.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۲) 1 - وَنَزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُبْرَكًا فَانبَتْنَا بِهِ جَنْتِ وَحَبَّ الْحَصِيدِ - ترجمہ.اور ہم نے بادل سے پانی برسایا با برکت پھر اس سے اگائے باغ اور اناج جو کاٹا جاتا ہے.تفسیر.اتارا ہم نے بادلوں سے پانی برکت والا پھر لگائے ہم نے اس کے ساتھ باغ اور اناج کاٹنے کے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۹۶ حاشیہ ) ۱۱ ، ۱۲ - وَالنَّخْلَ بسِقْتِ لَهَا طَلُعُ نَضِيدُ.رِزْقًا لِلْعِبَادِ وَ أَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مَّيْتًا كَذلِكَ الْخُرُوجُ - ترجمہ.اور لمبی لمبی اور اونچی کھجوریں بھی جن کے گا بھے تہ بہ تہ ہیں.بندوں کو روزی دینے کے لیئے اور ہم نے اس سے زندہ کر دیا مردہ شہر کو.اسی طرح نکلنا ہو گا ( قبروں سے قیامت کے لئے).تفسیر.اور کھجور میں بلند جن کے خوشے تہ برتہ ہیں.رزق ہے بندوں کیلئے اور زندہ کیا ہم نے اس کے ساتھ مردہ شہر کو.اسی طرح نکلنا ہے ( یعنی زمین سے پھر نکلنا ہے ).تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۹۶ حاشیہ)

Page 215

حقائق الفرقان ۲۰۵ سُوْرَةُ قَ ١٦ - اَفَعَيِينَا بِالْخَلْقِ الْأَوَّلِ بَلْ هُمْ فِي لَبْسٍ مِنْ خَلْقِ جَدِيدٍ - ترجمہ.تو کیا ہم تھک گئے پہلی ہی بار پیدا کرنے سے.کچھ بھی نہیں بلکہ وہ لوگ شبہ میں پڑے ہوئے ہیں جدید پیدائش (یعنی مرکر جی اٹھنے سے ).تفسیر.کیا ہم پہلی پیدائش سے تھک گئے ہیں.نہیں یہ لوگ نئی پیدائش سے شبہ میں ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۷۹ حاشیہ) ١٩ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ - ترجمہ.یہاں تک کہ کوئی بات بھی آدمی منہ سے نہیں نکالتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان تیار رہتا ہے ( لکھ لینے کو ).تفسیر.مومن کو چاہیے کہ ہر ایک چیز سے کوئی نہ کوئی نصیحت حاصل کرے.گر میموفون کو محض تفریح کا ذریعہ سمجھا گیا ہے.انسان غور کرے تو اس کیلئے عبرت کا موجب ہے.جس طرح ایک شخص کی آواز اس میں بند ہوتی ہے اور پھر اس کے تمام انداز محفوظ ہو جاتے اور عام مجالس میں ظاہر ہوتے ہیں.اسی طرح اگر انسان یہ یقین رکھے کہ جو کچھ وہ بولے گا.اس کا ریکارڈ بھر نے والے مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ - کے ماتحت پاس ہی موجود ہوتے ہیں اور اس کے اعمال واقوال کا اثر ذرات عالم پر پڑ کر محفوظ رہتا ہے.اور پھر یہ سب کچھ ظاہر ہو گا.تو وہ کبھی ایسا جملہ نہ بولے، نہ کام کرے جو خلاف شریعت ہو.کیا کوئی شخص جسے یقین ہو کہ میری آواز فونوگراف میں بھری جارہی ہے.کوئی ایسا فقرہ بولتا ہے جس سے اس کا ناپاک اور خبیث ہونا ہرگز ظاہر نہیں.تو پھر باوجود یکہ کلام الہی میں نص صریح ہے کہ مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رقِيبٌ عَتِيدٌ.وہ کیوں گندی باتیں کرے.ایک دن آتا ہے کہ یہ سب کچھ ظاہر کیا جاوے گا اس وقت جو ندامت و فضیحت ہوگی.وہ ایک شریف انسان کیلئے عذاب سے بڑھ کر ہے.یادرکھو کہ جو کچھ ہم منہ سے بولتے ہیں اسے محفوظ کرنے والے خدا کے فرستادہ موجود ہوتے ہیں اور ہماری باتوں اور کاموں کا اثر ذرات عالم اور اعضاء انسانی پر پڑتا ہے.قیامت کے دن گریموفون کی طرح یہ سب کچھ

Page 216

حقائق الفرقان ۲۰۶ سُوْرَةُ قَ واپس ہوگا اور اس وقت فضیحت ہوگی.اگر پہلے ہی سے ہم نہ سنبھل سکے.( تفخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۴ ماہ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۷۶.۱۷۷) ٣٠ - مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَى وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ - ترجمہ.بات نہیں بدلی جاتی میرے پاس اور میں اپنے چھوٹے بندوں پر ظلم کرنے والا بھی نہیں.تفسیر.بدلتی نہیں بات میرے پاس اور میں ظلم نہیں کرتا بندوں پر.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۰۰ حاشیہ) ٣١ - يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاتِ وَ تَقُولُ هَلْ مِنْ قَرِيدٍ - ترجمہ.جس دن ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر پور ہو چکی وہ کہتی جائے گی کیا کچھ اور بھی ہے.تفسیر.ایک آریہ کے اعتراض "مفسر کہتے ہیں.خدا اپنے دونوں پاؤں دوزخ میں ڈال دے گا اور جہنم کو سیر کر دے گا“ کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا.”تمہارے یہاں پر میشور کا نام سرب بیا پک ہے.تو کیا وہ نرک میں نہیں ہے.قرآن کریم میں صرف اس قدر ہے.يَوْمَ نَقُولُ لِجَهَنَّمَ هَلِ امْتَلَاتِ وَ تَقُولُ هَلْ مِنْ قَرِيدٍ (ق: ۳۱) اور جو تم نے مفسروں کا قول نقل کیا ہے.اس میں یہ ہے جہنم هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ کہتی رہے گی حَتَّى يَضَعَ رَبُّ الْعِزَّةِ قدمہ اور کہیں ہے يَضَعُ الْجَبَّارُ قَدَمَہ اور کہیں ہے حَتَّى يَضَعَ اللهُ رِجْلَهُ پس قبل اس کے کہ تم کو مفصل جواب دیں.ضروری معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ ذیل کے معنی لغت عرب سے لکھ دیں.جهنم - رب عزت جبار_قدم_رجل ا.جَهَنَّم.دوزخ.نرک.عذاب کی جگہ.رب کے معنی بڑا پالنہار.یہ لفظ اللہ تعالیٰ پر بھی بولا گیا ہے اور دنیا داروں ، بڑے آدمیوں پر بھی.فرعون نے کہا.آنا رتبه الأعلى - النازعات: ۲۵) یوسف علیہ السلام نے ایک قیدی کو جو - رہا ہونے والا تھا.فرمایا کہ اُذْكُرْنِي عِندَ رَبِّكَ (يوسف : ۴۳) یعنی اپنے مالک وامیر کے پاس ے میں تمہارا بہت بڑا رب ہوں.

Page 217

حقائق الفرقان ۲۰۷ سُوْرَةُ قَ میرا ذکر کیجو اور اسی رب کی جمع ارباب ہے جس کے متعلق فرمایا وَارْبَابٌ مُتَفَرِّقُونَ خَيْرٌ اَمِ اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - (يوسف:۴۰).۳.عزت :.بڑائی ،حمایت ، جاہلوں کی ہٹ ، قرآن شریف میں شریروں کے متعلق فرمایا.اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ (البقره: ۲۰۷) اور فرمایا ہے کہ جب شریر کو عذاب اور دکھ دیا گیا تو کہا جاوے گا.ذُقُ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ - (الدخان:۵۰) پس رب العزت کے یہ معنی بھی ہوئے.متکبر، ضدی، ہٹ والا.۴.جبار کے معنی مصلح کے بھی ہیں.اور ظالم کے بھی مصلح کو تو عذاب ہو نہیں سکتا ہے.اور ظالم کے حق میں آیا ہے.خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ.مشکوۃ صفحہ ۴۹۶ میں ہے.ھب ھب دوزخ میں ایک وادی ہے اس میں جبار لوگ داخل ہوں گے.۵.قدم.جس شخص کو کہیں بھیجا جاوے.اُسے قدم کہتے ہیں.قاموس اللغۃ میں ہے قدمه الَّذِينَ قَدَمُهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ فَهُمْ قَدَمُ اللهِ لِلنَّارِ - كَمَا أَنَّ الْخِيَارَ قَدَمُ اللَّهِ لِلْجَنَّةِ - وَ وَضْعُ القَدَمِ مَثَلُ لِلرَّدْعِ وَالْقَمْحِ - احادیث میں ہے دِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ تَحْتَ قَدَھی.ترجمہ.قدم اس کا وہ بد لوگ ہیں جن کو وہ حسب ان کے اعمال کے آگ میں بھیجے گا.جیسے کہ برگزیدہ لوگ بہشت کیلئے قدم اللہ ہیں.یعنی وہ جنہیں حسب ان کے اعمال کے اللہ تعالیٰ بہشت میں بھیجے گا.اور قدم رکھنے کے اصل معنی ہیں روک دینا اور بیخ کنی کر دینا.جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.جاہلیت کے خون میرے قدم کے نیچے رکھے گئے ہیں.یعنی میں ان کے انتقاموں سے قوم کو منع کرتا ہوں اور ان کو مسلتا ہوں.۲.رجل کے معنے قدم جماعت.عربی زبان میں آتا ہے رِجُلٌ مِّنْ جَرَادٍ یعنی ٹڈیوں کا لے کیا کئی معبود الگ الگ اچھے یا اکیلا زبردست اللہ اچھا.ہے تو اس کو غرور آمادہ کرتا ہے گناہ پر تو ایسے کے لئے جہنم ہی بس ہے.۳ چکھ تو تو بڑا عزت والا سردار تھا.کے قدم سے مراد وہ شریر لوگ ہیں جن کو خدا نے دوزخ کے آگے دھر دیا.پس وہ لوگ خدا کی طرف سے آگ کے لئے آگے کیے گئے.جیسے اچھے لوگ خدا کی طرف سے جنت کی جانب آگے کیے گئے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنی روک اور تھام رکھے گا.

Page 218

حقائق الفرقان ۲۰۸ سُوْرَةُ قَ ٹڈی دل جماعت.اب کس قدر صاف معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہنم کو فرمائے گا کیا تو بھر چکی وہ عرض کرے گی کیا کچھ اور بھی ہے.تب اللہ تعالیٰ شریروں اور ظالموں اور انکی جماعت کو جو جہنم کے لائق ہیں سب کو جہنم میں ڈال دے گا.خلاصه مطلب یہ ہوا کہ نر کی اور جہنمی نرک اور جہنم میں داخل کئے جاویں گے اور یہی انصاف و عدل ہے.اب بتاؤ اس پر اعتراض کیا ہوا؟ ( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۷۷ تا۲۷۹) اسی آیت پر پادریوں کے اعتراض کے جواب میں فرمایا :.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ حدیث (يَضَعُ فِيهَا رَبُّ الْعِزَّةِ قَدَمَة) کا مطلب صاف اور درست ہے مگر زبان اور محاورہ عرب نہ جاننے کے سبب سے پادری صاحب اس بھول بھلیاں میں جا پڑے ہیں جو خود ان کے چالاک ہاتھوں کی کرتوت ہے.اصل منشا آپ کے اعتراض کا جملہ يَضَعُ فِيهَا رَبُّ الْعِزَّةِ قَدَمُہ ہے جس کا ترجمہ ہے رکھے گا اس میں عزت والا اپنا قدم.اب ہم آپ کو ان الفاظ کا صحیح مطلب اور منشا بتاتے ہیں جن سے آپ کو بوجه عدم فہم زبان عرب دھوکا ہوا ہے.گو الفاظ تو صاف تھے اور محاورہ عرب کی طرف ذرا ہی سی رجوع کرنے سے بآسانی حل ہو سکتے تھے مگر چونکہ عادةً نصاری کا خاصہ ہے کہ کسی کلام کا اصل مقصد عمدا یا جہلا بدوں توضیح و تفسیر نہیں سمجھتے یا سمجھ نہیں سکتے اور یہ عادت نسلاً بعد نسل حضرات حوار بین سے وراثت میں انہیں ملی ہے کہ وہ سادہ مزاج بھی حضرت مسیح کے کلام کو بدوں تفسیر و تمثیل سمجھ نہیں سکتے تھے.اس لئے ضرور ہوا کہ ہم پوری تفسیر ان الفاظ کی کر دیں.سنو! جواب ۱.پہلا لفظ جس پر پادری صاحب کو دھوکا ہوا ہے.لفظ رب ہے.سننا چاہیے کہ رب کا لفظ بڑے بڑے آدمیوں پر بولا گیا ہے.جیسے یوسف علیہ السلام کا قول اُس زندانی کو اُڈ کرنی عند ربك (يوسف:۴۳) کہ مجھے اپنے آقا کے روبرو یاد کرنا.اور فرعون کہتا ہے.آنا ربكُمُ الأغلى - النازعات: ۲۵) میں تمہارا بڑا رب ہوں.

Page 219

حقائق الفرقان ۲۰۹ سُورَةُ ق یہ لفظ عام بڑے بڑے رئیسوں اور امیروں پر بھی اطلاق ہوتا ہے اس لئے اس کی جمع ارباب سے امراء اور دنیا دار مراد لئے جاتے ہیں اور ٹھیک اسی طرح عبرانی زبان میں بھی جسے عربی کے ساتھ مشابہت تامہ ہے استعمال ہوا ہے چنانچہ رٹی بڑے بڑے کا ہنوں اور عالموں پر بولا ہی جاتا ہے.اور بعض جگہ جب کسی اسم کے ساتھ ترکیب میں مذکور ہوتا ہے جیسے مثلاً اسی جگہ رب العزة يا رب البيت يا رب المنزل اُس وقت مرادف لفظ صاحب کے ہوا کرتا ہے.مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں صاحب العزة ، صاحب البيت، صاحب المنزل ، عزت والا ، گھر والا ، منزل والا یا مالک منزل.جواب ۲.اور عزت بمعنی حمیت ، ضد جاہلیت ہے.دیکھو قرآن میں ایک جگہ اس کا استعمال ہوا ہے.اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّم (البقرة: ۲۰۷).یعنی جب اسے خدا سے ڈرنے کو کہا جاتا ہے تو اُسے عزت (ضد و حمیت جاہلانہ ) گناہ پر آمادہ کرتی ہے.پس ایسے کیلئے جہنم بس ہے.اور عزیز کا لفظ جو اس سے مشتق ہوا ہے.قرآن میں (سورہ دخان: ۵۰) شریر جہنمی پر جب جہنم میں ڈالا جائیگا بولا گیا ہے.ذُقُ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيمُ (الدخان: ۵۰).چکھ کیونکہ تو بڑی حمیت والا اور بزرگ بنا بیٹھا تھا.اور عزیز اور رب العزة کے معنی ایک ہی ہیں.پس ربّ العزّة اُس نص سے مراد ہے جو دنیا میں متکبر اور جبار اور بڑا ضدی کہلاتا ہے.اسی حدیث کی بعض روایات میں آیا ہے حَتَّى يَضَعَ فِيْهَا الْجَبَّارُ قَدَمَهُ.جَبَّار اور ربّ العزّة کے ایک ہی معنے ہیں.یعنی متکبر ، سرکش ، حدود سے نکل جانے والا.پس گو یا دونوں روایتیں علی اختلاف الفاظ معنی واحد رکھتی ہیں.اب حدیث کے معنی یہ ہوئے کہ دوزخ زیادہ طلبی کرتی رہے گی جب تک شریر ، متکبر اپنے تئیں عزیز جاننے والے اس میں اپنا پاؤں رکھیں یعنی داخل ہوں.

Page 220

حقائق الفرقان ۲۱۰ سُوْرَةُ قَ یادر ہے کہ اہل اسلام کے اعتقاد میں دوزخ شریروں اور بدذاتوں کی جگہ ہے جیسا حدیث ذیل میں مذکور ہے.مشکوۃ صفحہ ۴۹۶.ابوہریرہ سے روایت ہے کہ دوزخ میں ایک وادی ہے اس کا نام ھب ھب ہے اس کی تسکین کا باعث ہر ایک جبّار ہو گا.اس کے آخری جملے کے الفاظ یہ ہیں يُسَكِنَهُ كُلُّ جَبَّارٍ - جواب ۳ بعض روایات میں اگر آیا ہے حتٰی يَضَعَ اللهُ فِيْهَا قَدَمَہ.اوّل تو یہ روایت حدیث کے اعلیٰ طبقے کی روایت نہیں کیونکہ اس میں روایت بالمعنی کا احتمال ہے.اگر مان بھی لیا جاوے.تو قدم سے مرادا شرار ہیں پاؤں نہیں.دیکھو قاموس اللغة قَدَمَهُ - أَتَ الَّذِينَ قَدَمُهُمْ مِنَ الْأَشْرَارِ فَهُمْ قَدَمُ اللهِ لِلنَّارِ كَمَا أَنَّ الْخيَارَ قَدَمَهُ لِلْجَنَّةِ یعنی قدم سے مراد وہ شریر لوگ ہیں جن کو خدا نے دوزخ کے آگے دھر دیا.پس وہ لوگ خدا کی طرف سے آگ کے لئے آگے کئے گئے جیسے اچھے لوگ خدا کی طرف سے جنت کی جانب آگے کئے گئے.پس حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ دوزخ هَل من مزید پکارتی رہے گی جب تک خدا اشرار کو اس میں نہ ڈالے گا.پھر وہ بس کرے گی.جواب ۴: وَضْعُ الْقَدَمِ - مَثَلُ لِلرَّدْعِ وَ الْقَبْحِ یعنی وضع قدم ایک محاورہ ہے جس کے معنے ہیں روکنا اور تھام دینا.اب حدیث کے یہ معنے ہوئے کہ ” یہاں تک اللہ تعالیٰ اپنی روک اور تھام رکھے گا.اور ایسی روک کر دیگا کہ دوزخ هَلْ مِن مزید کہنے سے رک جاوے گی.“ 66 جواب ۵: وَضْعُ القَدَم : ( پاؤں رکھ دینا ) ذلیل اور خوار کرنے پر بولا جاتا ہے.چونکہ عبری اور عربی قریب قریب زبانیں ہیں اور کتب مقدسہ میں بھی یہ محاورہ برتا گیا ہے اس لئے بنظر ثبوت اتنا ہی بس ہے.ا.یسعیاہ ۳۷ باب ۲۵.خدا فرماتا ہے میں اپنے پاؤں کے تلووں سے مصر کی سب ندیاں سکھا دوں گا.

Page 221

حقائق الفرقان ۲۱۱ سُوْرَةُ قَ ۲.۲.سموئیل ۲۲ باب ۳۹.ہاں وہ میرے قدموں تلے پڑے ہیں..۱.سلاطین ۵ باب ۳.جب تک کہ خدا نے ان کو اس کے قدموں تلے نہ کر دیا.۴.زبور ۸.۶.تو نے سب کچھ اس کے قدم کے نیچے کر دیا.لوقا ۲۰ باب ۴۳ و مرقس ۱۲ باب ۳۶.جب تک تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی کروں.دیکھو ان سب محاورات میں لغوی معنوں میں قدم کا لفظ نہیں بولا گیا بلکہ مجازی معنوں میں.پس حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ یہاں تک کہ خدا جہنم کو ذلیل و خوار کر ڈالے اور اسے چپ کرا دے“.ہاں یہ محاورہ اس خطبے میں بھی آیا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج میں بمقام عرفات پڑھا.وو " وَ دِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوْعَةٌ تَحْتَ قَدَمِي ، ل جواب نمبر 4 : یہ جواب گوالزامی جواب ہے مگر ہم نے اس بارے میں مسیح کے اس قول کی پیروی کی ہے کہ الزام مت لگاؤ تا کہ تم پر الزام نہ لگا یا جاوے اور نیز الزامی جواب اس لئے بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ معترض اپنی مسلمہ و مالوفہ کتابوں سے اس قسم کے اشتباہ کو رفع کرے.اب جواب سنئے.مسیحی اعتقاد میں مسیح ملعون ہوا ( نعوذ باللہ ) اور ملعون کا ٹھکانہ جہنم ہے.دیکھوحل الا شکال اور پولوس نامہ گلتیاں ۳ باب ۱۳.جو کا ٹھ پر لٹکا یا جاوے وہ ملعون ہے.اور نیز مسیحی اعتقاد میں مسیح خدا ہیں اور رب العزت بھی ہیں ( صاحب عزت ) پس معنے یہ کہ جہنم کو تسکین نہ ہو گی.جب تک عیسائیوں کے خدا اس میں قدم نہ رکھیں.اب سارے جوابوں کی آپ ہی کوشش کریں.حاصل الامر چونکہ پادری صاحب نے حدیث کا مطلب غلط سمجھا اور بطور بنائے فاسد علی الفاسد اس سے غلط استنباطات کئے پس ان کے اعتراض کے باقی شقوق بھی بیکار ومعطل ہو گئے اس لئے جاہلیت کے زمانہ میں بہائے گئے ) خون میرے قدموں کے نیچے ہیں (یعنی اس کا کوئی قصاص نہیں).

Page 222

حقائق الفرقان ۲۱۲ سُوْرَةُ قَ ہمیں ان شقوں پر فضول خامہ فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ فاسد مقدمے کا نتیجہ لا بد فاسد ہی ہوا کرتا ہے.اگر قدم کے معنے پاؤں لیں جیسے عام مشہور ہے تب بھی اعتراض نہیں رہتا اور عیسائی مذہب کے طور پر ہرگز محل اعتراض نہیں.دیکھو خروج ۱۳ باب ۲۱.خدا آگ کے ستونوں میں اور خروج ۱۹ باب ۱۸ اور استثناء ا باب ۳۳ آگ کو خدا کا قدم نہ جلانے میں بخلاف اور لوگوں کے بے ریب امتیاز ہے.دیکھو استثناء ۴ باب ۱۲ پہاڑ جلا پر خدا نہ جلا.اور استثناء ۴ باب ۳۶ میں.خدا آگ میں کلام سناتا تھا اور دیکھو دانیال ۳ باب ۲۵ خدا کے چند پیارے کھلے آگ میں پھرتے تھے اور آگ انہیں نہیں جلاتی تھی.اور قانونِ قدرت میں دیکھو آگ ذرات عالم کو نہیں جلا سکتی.آگ کا کام تو چند اشیاء کے جلانے کا ہے.وہ اشیاء جوالہبی مخلوق ہیں.نہ خالق کے جلانے کا.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۵۲ تا ۱۵۵) ٣٦ لَهُم مَّا يَشَاءُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ - ترجمہ.اب ان لوگوں کو وہاں ملے گا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس تو بہت کچھ ہے (سب سے زیادہ یہ کہ اللہ کا دیدار نصیب ہوگا ).تفسیر - وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ - جناب الہی کا دیدار.( تنفيذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۲) ولدينا مزيد.ہمارے ہاں تو ترقی ہی ترقی ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۷۳ حاشیہ) ۳۹.وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا ود مِن لَّغُوبِ ترجمہ.اور بے شک ہم نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور اُن چیزوں کو جو اُن میں ہیں چھ وقتوں میں اور ہم کو تکان نے چھوا تک نہیں.اور بے شک ہم نے ہی آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دن میں بنایا اور کسی قسم کی تکلیف نے ہمیں نہیں چھوا.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۹ حاشیہ)

Page 223

حقائق الفرقان ۲۱۳ سُوْرَةُ الثَّرِيتِ سُوْرَةُ الثَّرِيتِ مَكِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ ذاریات کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے ہر ایک شے کے اسباب پہلے سے مہیا کر رکھے ہیں اور ان کے نتائج کو موجود کرنے والا ہے.۱۵،۱۴ - يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ - ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ هَذَا الَّذِي كُنْتُم بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ.ترجمہ.ایک دن وہ آگ پر درست کئے جائیں گے.۱۵.چکھو اس شرارت کا مزہ یہی ہے جس کی تیم جلدی کیا کرتے تھے.تفسیر.فتنہ کے معنے کیلئے دیکھو مفردات راغب کو جو قرآن کریم کی معتبر لغت اور بہت پرانی کتاب ہے.66 أَصْلُ الْفِتَنِ ادْخَالُ الذَّهَبِ النَّارَ لِيَظْهَرَ جَوْدَتُهُ مِنْ رَدَانَتِهِ فتنہ کے اصلی معنی ہیں.زرکو آگ میں ڈالنا تو کہ اس کی میل کچیل نکل جاوے.اور قرآن کریم میں فرمایا ہے.يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (الذاریات: ۱۴).جب وہ آگ میں ڈالے جا کر عذاب دیئے جائیں گے.٢ - الْفِتْنَةُ الْعَذَابُ فتنہ کے معنے ہیں عذاب.اس کے ثبوت میں قرآن کریم کی اس آیت کو پڑھو.ذُوقُوا فِتْنَتَكُمْ (الذاریات: ۱۵).اپنی سزا کا مزہ لو..اسباب عذاب کو بھی فتنہ کہتے ہیں.قرآن کریم میں ہے.اَلَا فِي الْفِتْنَةِ سَقَطُوا (التوبة:٤٩) دیکھ وہ عذاب کے موجبات میں جا پڑے ہیں.

Page 224

۲۱۴ سُوْرَةُ الثَّرِيتِ حقائق الفرقان -۴ امتحان لینا.محنت لینا بھی فتنہ کے معنے ہیں.قرآن کریم میں ہے.وَفَتَتْكَ فُتُونا (طه : ۴۱) اور ہم نے تیرا خوب امتحان لیا - وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةٌ (الانبیاء:۳۶) اور ہم امتحان کے طور پر تمہیں بدی اور نیکی میں مبتلا کرتے ہیں.۵.فتنہ کے معنے دکھ بھی قرآن کریم میں آئے ہیں.چنانچہ فرمایا ہے.وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ القتل (البقرة: ۱۹۲) اور دکھ دینا قتل سے بھی سخت تر ہے.وَ قُتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ (البقرة : ۱۹۴) اور ان لڑنے والوں سے تم بھی لڑو تا ان کی ایذارسانی بند ہو جائے.( نور الدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۰۴) ۲۱، ۲۲.وَفِي الْأَرْضِ أَيتَ لِلْمُوقِنِينَ - وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ - ترجمہ.اور زمین میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں یقین کرنے والوں کے لئے.اور خود تمہارے نفسوں میں بھی.تو کیا تم دیکھتے نہیں؟ فسیر.ہمہ اوست کے مسئلہ پر ایک آیت بھی نص صریح الدلالہ نہیں.یہ دیگر بات ہے کہ خود غرض لوگوں نے اپنے مدعا کے اثبات کے لئے قرآن کریم سے اس پر استدلال کیا ہے.میں نے یہ دو آیتیں قائلین وحدۃ الوجود سے استدلال میں سنی ہیں.b اول - وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ.مگر جب اس آیت کا ماقبل ان سے دریافت کیا جاوے تو حیران رہ جاتے ہیں.اس کا ماقبل یہ ہے.وَ فِي الْأَرْضِ أَيتَ لِلْمُوقِنِينَ.بات نہایت صاف ہے کہ اس زمین میں اس موجودات میں یقین کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں اور جب تم اس سیر بیرونی سے فارغ ہو جاؤ تو پھر اپنے نفوس میں مطالعہ کرو.تدبر کرو.دوسری آیت شریف - هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ - (الحديد: ٤) - ۴) ( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۹۹،۱۹۵) وَفِي أَنْفُسِكُم - اے آیات نہ کہ اللہ تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۲) لے وہی سب سے پہلے ہے (اس سے پہلے کوئی نہیں) اور وہی سب سے پیچھے ہے (اس سے پیچھے کوئی نہیں) وہی ظاہر ہے (اس کے اوپر کوئی نہیں) وہی باطن ہے ( اس سے چھپی ہوئی کوئی چیز نہیں)

Page 225

حقائق الفرقان ۲۱۵ سُوْرَةُ الثَّرِيتِ -٣٠- فَأَقْبَلَتِ امْرَآتُه فِي صَرَّةٍ فَصَدَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُورٌ عَقِيم.ترجمہ.اور اس کی بی بی جماعت میں آئی پھر اس نے اپنا ماتھا پیٹا اور بولی بڑھیا بانجھ ( کو اولاد ہو گی کیا ).تفسیر.في صرة - جماعت میں بولتی جھرو کہ حیرت.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۲) -۴۸- وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَهَا بِأَيْدِ وَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ - ترجمہ.ہمیں نے آسمان بنایا اپنے ہاتھ سے اور کچھ شک نہیں کہ ہمیں سب ہی طرح کی قدرتیں ہیں اور ہمیں کشائش دینے والے ہیں.تفسیر.اس سوال کے جواب میں کہ خدا نے زمین و آسمان کو اپنے ہاتھ سے بنایا اورخدا کو تھکان نہ ہوئی.ہاتھ سے بنانے کی کیا ضرورت تھی.گن سے بنا تا وغیرہ وغیرہ فرمایا.کیا اللہ تعالیٰ کے حضور تمہارے مشورے کی بھی ضرورت ہے؟ پر میشر احکم الحاکین حضرت رب العلمین سرب شکستیمان ہیں.القادر الصمد اور الغنی ہیں.پھر سرشٹی کو میںہنی کیوں بنایا.پھر کیا ضرورت تھی کہ عورتوں سے محبت ہو.ان میں مرد کا نطفہ پڑے اور بشکل لڑکا ایک تنگ سوراخ سے نکل کر محنت و مشقت سے جوان ہو.زمیندار اور گاؤ ماتا کے بچے دکھ اٹھا دیں اور غلہ پیدا ہو.زیرِ اعتراض یہ آیتیں ہیں.وَالسَّمَاءِ بَنَيْنَهَا بِأَيْد وَ إِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاريات: ۴۸) وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبِ (ق:۳۹) کس قدر صاف اور صریح بات ہے مگر بدفطرت نکتہ چین ہر ایک حسن کو بدصورتی ہی قرار دیتا ہے اس میں ایک لفظ ید ہے.جس پر صفات الہیہ سے جاہل کو اعتراض کا موقع مل سکتا ہے..لے صفات اپنے موصوف کی حیثیت اور طرز پر واقع ہوتی ہیں.مثلاً چیونٹی کا ہاتھ، میرا ہاتھ ، شیر کا ہاتھ اور مثلاً اس وقت ہند کی حکومت لارڈ کرزن کے ہاتھ میں ہے.بیہودہ بکواس کرنا.اناپ شناپ لے اور ہم کو تھکان نے چھوا تک نہیں.

Page 226

حقائق الفرقان ۲۱۶ سُوْرَةُ الثَّرِيتِ کہ دینا اور بدوں علم و فہم کے اور بدوں اس کے کہ ویدوں کا تمہیں علم ہو.ویدوں کی تائید میں گالی دینا جھوٹ بولنا تمہارے ہاتھ میں ہے اور اس کے سوا تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں تمام جہان کا تصرف ہے وغیرہ وغیرہ.اسی طرح ضروری ہے کہ جناب النبی کی شان کے مطابق اس کے ہاتھ مانو اور اگر یوں نہیں مانتے تو سنو سام وید فصل دوم حصہ دو کا پر چھا نک نمبر 4 صفحہ ۷۴ میں ہے.اندر بطور اس دیوتا کے جس کا بازو قوی ہے ہمارے لئے اپنے ہاتھ سے بہت سی پرورش کرنے والی لوٹ جمع کر بتاؤ اندر کون ہے؟ پھر اس کا داہنا ہاتھ کیا ہے اور اس سے لوٹ کر نا یہ کیسے الفاظ ہیں؟ کیا تم نے پر میشر کا نام سہنسر با ہو نہیں پڑھا اگر نہیں پڑھا تو یجروید کا پرش سکت دیکھو.پھر اور سنو! ید کے معنے قوت کے ہیں.قرآن کریم میں حضرت داؤد علیہ السلام کی نسبت ارشاد ہے.وَاذْكُرُ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْاَيْدِ إِنَّهُ آوَابٌ ( ص : ۱۸) یعنی یاد کرو ہمارے بندے داؤد کو بہت ہاتھوں والا ( بڑا طاقت ور ) وہ جناب الہی کی طرف توجہ کرنے والا ہے اور ید کے معنی نصرت وغیرہ کے بھی ہیں.راغب میں ہے.يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - الفتح : ١) أَيْ نُصْرَتِهِ وَنِعْمَتِهِ وَقُوَّتِهِ ید کے معنی ملک و تصرف کے بھی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةٌ النكاح (البقرة: ۲۳۸) ان معنوں میں سے ہر ایک یہاں چسپاں ہو سکتا ہے.اور عام انسانی بول چال میں بھی ہاتھ کا لفظ ان سب معنوں پر بولا جاتا ہے.بتاؤ تو تمہاری سمجھ میں کوئی معنی بھی ان معنوں سے آتے ہیں یا نہیں؟ ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۲۷۱ تا ۲۷۳) ۵۷ - وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - ترجمہ.اور میں نے بڑے آدمی اور جن اور غریب آدمی انسان کو جو پیدا کیا ہے تو بس اسی لئے کہ وہ - میری ہی عبادت کرتے رہیں.تفسیر.جن وانس کی پیدائش اس لئے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کریں.نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۳) ل اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں کے اوپر ہے.

Page 227

حقائق الفرقان ۲۱۷ سُوْرَةُ الطور سُوْرَةُ الطور مكية بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ طور کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے اسم شریف سے جو قسموں کو دلائل کے رنگ میں پہلے سے رکھ چکا اور جو دعوؤں کے نتیجوں کو پیش کرنے والا ہے.۲ تا ۵- وَالطُّورِ وَكِتَب مَّسْطُورٍ فِي رَيٌّ مَنْشُورٍ - وَالْبَيْتِ الْمَعْمُورِ - ترجمہ.موسیٰ کے مقام قرب کی قسم.اور اُس قرآن شریف کی.جو ہرن کی صاف جھلی اور کشادہ کا غذ میں لکھا ہوا ہے.اور مکہ معظمہ کی قسم جو ہمیشہ آباد ر ہے گا.تفسیر و الگور.فرمایا.طور میں ہم نے جس سے باتیں کیں.اس کے دشمنوں کو ہلاک کیا.ایسا ہی اے غارِ حرا کے عابد ! تیرے دشمن ہلاک ہوں گے.کر ہو؟ و کتب مَّسْطُورٍ.موسیٰ کو کتاب فرعون کی ہلاکت کے بعد ملی.آپ کو تو پہلے ملی.وَالْبَيْتِ الْمَعْبُورِ.خانہ کعبہ پر حملہ کرنے والے اصحاب فیل کو ہلاک کیا تو کیا تم اس سے بڑھ تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۲) ۲۱ - مُتَكَيْنَ عَلَى سُرُرٍ مَّصْفُوفَةٍ وَزَوَّجُنُهُمْ بِحُورٍ عِيْنٍ - ترجمہ.وہ تکیے لگائے ہوئے برابر بچھائے ہوئے تختوں پر بیٹھے ہوں گے اور ہم ان سے نکاح کر دیں گے اعلیٰ درجہ کی بیبیاں بڑی بڑی آنکھوں والی کا.تفسیر.تکیہ لگائے ہوئے قطار تختوں پر اور بیاہ دیاہم نے ان کو بڑی آنکھ والی گوری عورتوں سے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۱۷۵ حاشیہ)

Page 228

حقائق الفرقان ۲۱۸ سُوْرَةُ الطور ۲۲ تا ۲۵ - وَ الَّذِينَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتُهُم ذُرِّيَّتُهُمْ بِايْمَانِ الْحَقْنَا بِهِم ذُرِّيَّتَهُمْ وَ مَا اَلَتُنْهُمْ مِّنْ عَمَلِهِم مِّنْ شَيْءٍ كُلُّ امْرِى بِمَا كَسَبَ رَهِينَ - وَآمَدَادُ نَهُمْ بِفَاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ - يَتَنَازَعُونَ فِيهَا كَأْسًا لا لغو فِيهَا وَ لَا تَأْثِيمُ - وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُو مکنون.ترجمہ.اور جو ایمان لائے اور اُن کی اولا د اُن کی راہ چلی ایمان کے ساتھ تو ہم ان کے پاس ان کی اولا د کو پہنچادیں گے اور ہم کم نہ کریں گے ان کے اعمال میں سے کچھ.ہر ایک آدمی اپنے کئے ہوئے میں گروی ہے.اور ہم نے میووں اور پھلوں کی جو وہ چاہ رہے ہیں اور گوشت کی ریل پیل کر دی اور مدد دی ہم نے ان کو.اور وہ محبانہ آپس میں چھینا جھپٹی کریں گے ایک دوسرے کے ہاتھ سے پیالے اس میں نہ لغو ہے نہ گناہ.اور ان کے پاس پھرتے آئیں گے نوجوان شہزادے گویا وہ چھپائے ہوئے موتی ہیں.تفسیر.ہم مومنوں کے ساتھ ان کی مؤمن اولاد کو ملا دیں گے اور ان کے عملوں سے کچھ بھی کم نہ کریں گے.ہر شخص کو اپنی اپنی کمائی کا بدلہ ملے گا.اور ہم انہیں میوے اور ان کے پسند کے گوشت دیں گے اور اس میں ایسے پیالے پئیں گے کہ ان کا نتیجہ بیہودہ خیالات اور بدکاری نہیں اور ان کے اردگرد موتیوں کے دانہ جیسے بچے پھریں گے.باری تعالیٰ فرماتا ہے.بہشتیوں کی اولا دان کے پاس پھرے گی.وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے.اور ان کیلئے نہ ترسیں گے.اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورہ دہر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلمان کے بدلہ ولدان کا لفظ جو ولد یا ولید کی جمع ہے.فرمایا ہے.وَ يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ ۚ إِذَا رَأَيْتَهُمْ حَسِبْتَهُمْ لُؤْلُؤًا منثورا (الدھر :۲۰) اور ان کے ارد گرد عمر در از بچے پھریں گے.تم انہیں دیکھ کر یہی سمجھو کہ بکھرے ہوئے موتی ہیں.يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِالْوَابِ وَ آبَارِيقَ وَكَأْسٍ

Page 229

حقائق الفرقان ۲۱۹ سُوْرَةُ الطور من معين (الواقعہ: ۱۹۱۸) اور ان کے ارد گر د عمر در از بچے کوزوں اور لولؤں اور خالص نتھرے صاف پانی کو لئے پھریں گے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۳، ۱۷۴) اور جولوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ان کی اولا دکو بھی ہم ان سے لاحق کردیں گے اور ان کے عمل سے کچھ بھی کمی نہ کریں گے ہر شخص اپنی اپنی کمائی کا گرویدہ ہو گا اور ہم ان کو من بھاتے گوشت اور میوے عنایت کریں گے.ان میں ایسے پیالوں کو دور دیں گے جن میں ( بخلاف دنیوی مے) بہکنا اور بدخیالات کا اثر نہ ہوگا اور ان کے درمکنون کے ایسے لڑکے بالے ان کے ارد گر دا چھلتے کودتے ہوں گے.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۴۱ حاشیہ) باری تعالیٰ فرماتا ہے ” بہشتیوں کی اولا دان کے پاس پھرے گی“ وہاں مومن اولاد کی جدائی کا غم نہ دیکھیں گے اور ان کے لئے نہ ترسیں گے.جب لفظ ولا تأثیم صریح اس کی صفت میں موجود ہے جس کے معنی ہیں.نہ گناہ میں ڈالنا.پھر آپ کو ایسا نا شایاں خیال کیوں گزرا؟ اس معنی کی تفسیر خود قرآن کریم نے سورہ دھر میں اور لفظوں کے ساتھ کی ہے اور وہاں غلمان کے بدلے ولدان کا لفظ جوولد یا ولید کی جمع ہے فرمایا ہے.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۴۱ حاشیہ) غِلْمَان - اعلیٰ آدمیوں کے بچے.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۲) -٣٠ فَذَكَرُ فَمَا أَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبَّكَ بِكَاهِن وَلَا مَجْنُونٍ - ترجمہ.( تواے پیارے محمد تو نصیحت کرتارہ تو تو اپنے رب کے فضل و رحمت سے نہ تو کا ہن ہے (اٹکل باز ) نہ دیوانہ.تفسیر - گاھین : ان لوگوں کی تین عادات ہیں ۱.طبیعت میں یکسوئی ۲.ہر وقت ناپاک رہنا.۳.خلوت میں رہتے ہیں.اختلاط سے بچتے ہیں.( تنفیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۲) ۳۵،۳۴ - اَمْ يَقُولُونَ تَقَوَّلَهُ بَلْ لَّا يُؤْمِنُونَ - فَلْيَأْتُوا بِحَدِيثٍ مِثْلِةٍ إِنْ كَانُوا صُدِقِينَ - ترجمہ.یا کہتے ہیں کہ اس نے بنالیا ہے قرآن کو نہیں نہیں بلکہ وہ ایمان نہیں لائیں گے.تو ان کو

Page 230

حقائق الفرقان ۲۲۰ سُوْرَةُ الطورِ چاہیے کہ لے آئیں کوئی کلام اسی طرح کا جب وہ سچے ہیں.تفسیر.کیا وہ کہتے ہیں اس کو ایسے ہی گھڑ لیا ہے.نہیں بلکہ وہ ایمان نہیں لاتے پھر اس کے مانند کوئی حدیث لا ویں اگر وہ سچے ہیں.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب صفحه ۲۵۴ حاشیه ) باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اس کتاب کو تم لوگ مصنوعی جانتے ہو تو اس کے مثل کوئی کتاب لاؤ اور فرمایا وَإِن كُنتُم فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَ لے الْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَفِرِينَ.(البقره: ۲۵،۲۴) اور کتے میں شرفاء وشعرائے قوم قریش کو خطاب فرمایا.قُل لبِنِ اجْتَمَعَتِ الاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هُذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَ لَو كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا (بنی اسرائیل: ۸۹) ( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۴) ۳۶ تا ۳۸ - اَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمَ هُمُ الْخَلِقُونَ.اَم خَلَقُوا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوْقِنُونَ - اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَائِنُ رَبَّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ - ترجمہ.کیا وہ آپ پیدا ہو گئے ہیں کسی کے پیدا کئے بغیر یا وہ خود پیدا کرنے والے ہیں.یا انہوں نے پیدا کیا آسمان وزمین کو کچھ بھی نہیں وہ تو یقین ہی نہیں کرتے ( بڑے بد عقل ، اکھڑ ، ناسمجھ ہیں ).کیا ان کے نزدیک تیرے رب کے خزانے ہیں یا وہ داروغہ چودھری ہیں.( یا کوتوال وزبر دست ).تفسیر.ایک آریہ کے اعتراض یہ عالم کس نے بنایا؟ کیوں بنایا؟ کب بنایا؟ کن اشیاء سے کس لے اگر تم شک میں ہواسی سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس کے مثل کوئی ایک ٹکڑ الاؤ اور اللہ کے سوا اپنے گواہوں کو بلا ؤ اگر سچے ہو.پھر اگر تم نے نہ کیا اور ہر گز نہ کر سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے.۲؎ تو کہ دے کہ اگر جن اور انس اس قرآن کے مثل لانے پر متفق ہو جاویں تو اس کے مثل نہ لاویں گے گو باہم دگر مددگار بن جاویں.

Page 231

حقائق الفرقان طرح بنایا ؟ کے جواب میں فرمایا.۲۲۱ قرآن کریم نے..ہر ایک دعوی کی دلیل بھی دی ہے.سُوْرَةُ الطورِ دليل خلف ام خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ اَمْ هُمُ الْخَلِقُونَ - اَم خَلَقُوا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بَلْ لَا يُوْقِنُوْنَ اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَابِنُ رَبَّكَ أَمْ هُمُ الْمُصَيْطِرُونَ - کیا یہ لوگ خود بخود ہو گئے عدم سے وجود بلا ئر جج کیونکر ہوا کیا یہ اپنے آپ خالق ہیں؟ یہ بات ہمیں وجدان اور اپنی طاقتوں کے لحاظ سے غلط معلوم ہوتی ہے.اول تو اس لئے کہ جوں جوں ہم پیچھے جاویں کمزوری بڑھتی نظر آتی ہے.دوم ہم تجارب کے بعد بھی انسان کیا ، کیڑا بنانے کے قابل نہیں.علاوہ بریں اس میں تقدم اپنی ذات سے اور دور لازم آتا ہے ) کیا آسمانوں اور زمینوں کے یہ خالق ہیں؟ یہ صریح غلط ہے اور اس سے تعداد آلہہ بھی لازم آتا ہے.کیا ان کے پاس بے انت خزانے ہیں؟ جن سے ان کو پتہ لگا کہ یہ چیز مثلاً ارواح یا فلاں اشیاء ماده و زمانه وغیرہ غیر مخلوق ہیں.نفس انسانی تو محدود ہے خدا کی بے انت باتوں کا احاطہ کیونکر کر سکتا ہے.کیا یہ آزاد ہیں اور کسی کے تحت و تصرف میں نہیں ؟ یہ بات مشاہدہ کے خلاف ہے انسان کھانے پینے، جننے مرنے سب میں کسی کے نیچے ہے اور کسی کے قبضہ قدرت میں ہے.پس جب یہ باتیں غلط ہیں تو خدا سب اشیاء کا خالق ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۳۶،۳۵)

Page 232

حقائق الفرقان ۲۲۲ سُوْرَةُ النَّجْمِ سُوْرَةُ النَّجْمِ مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ نجم کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے اسم شریف سے جو پہلے سے نیک راہ سکھلانے والا ہے اور عمل کرنے والوں کو نیک نتیجے دینے والا ہے.۲ تا ۵- وَالنَّجْمِ اِذَا هَوى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى - اِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى - ترجمہ.ثریا ستارہ کی قسم ہے جب وہ سمت الراس پر نہ ہو، ادھر اُدھر ہو.نہ بہکا تمہارا صاحب نہ بھٹکا.اور وہ بات نہیں کرتا اپنے نفس کی خواہش سے.بے شک وہ تو وحی ہے جو اس کو بھیجی جاتی ہے.تفسیر.وہ اللہ تعالیٰ جس کی ذات بابرکات نے جسمانی ظلمتوں میں تمہارے آرام کے واسطے ایسے جسمانی سامان بنائے ہیں جن سے تم آرام پاؤ بشر طیکہ انکی طرف توجہ کرو.اس نے تمہارے ابدی آرام اور روحانی راحتوں کے واسطے تدابیر نہ رکھی ہوں گی ؟ بے ریب رکھی ہیں.جسمانی لیل اور چند گھنٹوں کی رات میں اگر کوئی راہنما ستارہ موجود ہے تو اس روحانی لیل اور غموم اور ہموم کی نہایت بڑی لمبی رات کے وقت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل نے تمہاری منزل مقصود اور جاودانی آرام تک پہنچانے کا راہنما بھی ضرور رکھا ہوگا.وہ کون ہے؟ بے ریب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.ثبوت.مَا ضَل صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوى (النجم : ۳).وجہ ثبوت.اپنے ہی ملک میں ذرا تجربہ اور بلند نظری سے کام لو.نظر کو اونچا کر کے دیکھو یہ شخص تمہارے شہر کا تمہارا ہم محبتی جس کا نام محمد ، احمد، امین ہے اور جس کو تمہارے چھوٹے بڑے انہیں پیارے ناموں سے پکارتے ہیں.کیسا ہے؟ کیا تمہارے لئے کافی راہنما نہیں؟ بے ریب ہے.کیونکہ نظریات کا علم ہمیشہ بدیہات سے ہوتا ہے.اور غیر معلومہ نتائج پر

Page 233

حقائق الفرقان ۲۲۳ سُوْرَةُ النَّجْمِ پہنچنا ہمیشہ معلومہ مقدمات سے ممکن ہے.نہایت باریک فلسفی کا پتہ عامہ قواعد سے لگتا ہے.جانتے ہو.کسی انسان کو انسان کامل یقین نہ کرنے کے تین سبب ہوتے ہیں.اول یہ کہ تم اس شخص کے حالات سے پورے واقف نہیں جس نے بادی اور انسانِ کامل ہونے کا دعوی کیا.دوم یہ کہ وہ شخص جس نے ہادی اور انسانِ کامل ہونے کا دعولی کیا اُسے علم صحیح نہ ہو.سوم یہ کہ باوجود علم صحیح رکھنے کے اس کی عادت ایسی ہو کہ علم صحیح پر عمل نہ کرے.سو اس رسول خاتم الرسل محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ان تینوں عیوب میں سے ایک بھی نہیں.مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوى (النجم : ۳).یعنی نہ بھولا اور نہ بے علمی سے کام کیا تمہارے ساتھ رہنے والے نے اور نہ کبھی علیم صحیح کے خلاف کرنے کا ملزم ہوا.پہلی وجہ عدم تسلیم کا جواب تو یہ ہے کہ چالیس برس کامل کے تجربہ سے دیکھ لو.یہ شخص محمد امین ( بأبي وأمي صلی اللہ علیہ وسلم) بھلا اس میں کوئی عیب رکھنے کی بات ہے.دوسری وجہ کا جواب یہ ہے کہ مَاضَلَّ جس کے معنے ہیں کبھی نہ بھولا.ہمیشہ تمہاری اور اپنی بہتری کی جوتد بیر نکالی وہ تدبیر آ خرمثمر ثمرات نیک ہوئی.تیسری وجہ کا جواب دیا.وَمَا غَوى (النجم : (۳).چالیس برس تمہارے ساتھ رہا اور تمہارا صاحب کہلایا مگر کبھی کسی بد عملی کا ملزم ہوا؟ ہر گز نہیں.چالیس برس تک جس نے راستی اور راست بازی کا برتاؤ کیا.جس کے ہاتھ پر صدیق نے بھی بیعت کی.جس کے سینکڑوں مریدوں میں سے ایک بھی تبلیغ احکام اسلام میں کذب کا ملزم نہ ہوا.وہ جس نے کبھی مخلوق پر افتراء نہ باندھا اب وہ کیا ہماری ذات پاک پر مفتری ہوگا ؟ ہر گز نہیں.اگر اپنی پہلی تجارب اور اپنی پہلی معلومات صحیحہ پر صحیح نظر کرو گے اور اس کے چالیس سال کے برتاؤ سے پتہ لو گے تو یہ نتیجہ نکلے گا.وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ الا وحي يوحى اور سنو! اس کے علوم اور اس کی ہدایات کسی کمزور معلم کی تعلیم کا نتیجہ نہیں اور نہ ایسا ہے کہ یہ پورا تعلیم یافتہ نہ ہو.اس کی تعلیم تو اس کی نبوت اور رسالت کا عمدہ نشان ہے.اس کی تعلیم بڑے طاقتور معلم کی تعلیم ہے اور یہ بھی تعلیم کے اصلی مدارج پر پہنچ کر ٹھیک اور درست ہو چکا ہے.یہی معنی ہیں لے اور نہیں بولتا اپنی خواہش سے مگر جو بولا وہ الہی الہام ہے جو بھیجا گیا.

Page 234

حقائق الفرقان ۲۲۴ آیات ثلث عَلَمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى - ذُو مِزَةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى سُوْرَةُ النَّجْمِ تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۶۶ ۱۶۷) جب کوئی بادی دنیا میں آتا ہے تو اس کی شناخت کے کئی طریق ہوتے ہیں.اول.جاہل اور بے علم نہ ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے بادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ نادان اور بے خبر نہ ہو.اب کتاب اللہ کو پڑھو اور دیکھو کہ جو معارف اور حقائق اس میں بیان کئے گئے ہیں.وہ ایسے ہیں کہ کسی جاہل اور نادان کے خیالات کا نتیجہ ہو سکتے ہوں.سوچو! اور پھر سوچو!!! نادان ایسی معرفت اور روح و راستی سے بھری ہوئی باتیں نہیں کر سکتے.دوم.وہ بادی اجنبی نہ ہو.کیونکہ ایک ناواقف انسان دور دراز ملک میں جا کر باوجود بدکار اور شریر ہونے کے بھی چند روز تصنع اور ریا کاری کے طور پر اپنے آپکونیک ظاہر کر سکتا ہے.پس بادی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان لوگوں کا واقف ہو.اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعواے صاف ہے کہ مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغَوى تیسری بات یہ ہے کہ بادی یا امام یا مرشد اپنے بچے علوم کے مطابق عمل درآمد بھی کرتا ہو.اوروں کو بتلادے اور خود نہ کرے.پس اس امر کو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت فرمایا ہے.مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَاغوی.حضور کے عملدرآمد کا یہ حال ہے کہ جنابہ صدیقہ علیہا السلام نے ایک لفظ میں سوانح عمری بیان فرما دی كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ یعنی آپ کے اعمال و افعال بالکل قرآن کریم ہی کے مطابق ہیں.الحکم جلد ۳ نمبر ۱۴ مورخه ۱۹ را پریل ۱۸۹۹ء صفحه ۵) اللہ تعالیٰ نے ایک ہادی کی ضرورت اور پھر اس میں جو ضروری اوصاف ہونے چاہئیں.پھر ان اوصاف کا اعلیٰ و اکمل و اتم طور پر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات میں پایا جانا جس دل آویز و دلنشین پیرائے میں بیان کیا ہے.وہ قرآن مجید کی ان اعجازی خواص سے ہے.جو بالخصوص اسی کتاب حکیم میں پائے جاتے ہیں.پہلے تو والنَّجْمِ إِذَا هَوَی فرما کر جسمانی انتظام سے روحانی نظام کی طرف متوجہ کیا.النجم کے سمت الراس سے نیچے ہونے کی وجہ سے مغرب ، مشرق، لے سکھایا اس کو بڑے طاقتور نے.بڑے جگرے کا تھا بس پورا نظر آیا اور وہ اب بلند کنارے پر ہے.

Page 235

حقائق الفرقان ۲۲۵ سُوْرَةُ النَّجْمِ جنوب، شمال کے راستوں کا علم ہوتا ہے.جب جسمانی بہتری و بہبودی کے لئے یہ انتظام ہے.تو روحانی دنیا میں صراط مستقیم کی ہدایت کے واسطے کسی النجم کی ضرورت کیوں نہ ہو.اس کے بعد فرمایا کہ تین وصف اس راہنما میں ہونے ضروری ہیں.ایک تو وہ خود واقف کار ہو.اسے نیکی و بدی نافع وضار کا علم ہو.دوم وہ اجنبی نہ ہو.اس ملک کے رسم و رواج ، مذاق، عادات، حالات سے آگاہ ہو.اور اس ملک کے باشندے بھی اس کے کیریکٹر، علم، قابلیت کو خوب جانتے ہوں تا کہ نہ وہ دھو کہ کھائے.نہ اس کے بارے میں احتمال ہو کہ یہ ہمیں دھوکہ دے گا.سوم.عالم باعمل ہو.اپنے علم کو اپنی اور اپنے بھائی بندوں کی اصلاح میں خرچ کرنے والا ہو.نہ یہ کہ وہ اپنے علم سے مفاسد وشرارت ވހ کو بڑھانے والا ہو.یہ اوصاف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں اعلیٰ درجے کے انتہائی کمال کے ساتھ پائے جاتے ہیں.آپ کا علم ایسا کہ شدید القوی نے آپ کو سکھایا وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلیٰ کا خطاب پاکر يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ - (الجمعه: ۳) آپ کی شان میں آیا.پھر جو کچھ آپ نے فرمایا.وہ ھوی نہیں تھا.بلکہ وَحْيٌ يُوحی تھا.اس لئے آپ پر مَاضَل خوب صادق آتا ہے.اور اجنبی نہیں.اس کے لئے صاحِبُكُمْ فرمایا.عرب کے عمائد و اہل الرائے آپ کے مکارم اخلاق کے مقتر تھے.آپ نے اپنے اعلیٰ کیریکٹر کا دعولی بڑی تحدّی سے پیش کیا اور فرمایا.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.(یونس : ۱۷) امین کا لقب تو آپ پا ہی چکے تھے اور یہ کہ آپ اپنے علم سے لوگوں کو سیدھی راہ پر چلانے کی کوشش کرتے ہیں.واقعات اس کی تصدیق کر رہے تھے.وہ لوگ جو زنا ، شراب، جوا بازی ایسے بدترین گناہوں کو اپنی مجالس میں بڑے فخر کے ساتھ ذکر فرماتے تھے.وہ اپنے کئے پر نادم ہوئے اور شراب کے پانچ بلکہ آٹھ وقتوں کی بجائے اتنے وقتوں کی نمازیں پڑھنے لگے.ایسا ہی ہر بدی کو چھوڑ کر اس کے مقابلہ میں انہوں نے ایک نیکی اختیار کر لی.پس ما توی آپ پر صادق آیا.تشخیذ الا ذبان جلد نمبر ۵ ما مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۲۲۵-۲۲۶) لے ان کو کتاب و دانائی کی باتیں سکھاتا ہے.سے بے شک میں رہ چکا ہوں بڑی عمر اس سے پہلے تم میں تو کیا تم کو کچھ بھی عقل نہیں ہے.

Page 236

حقائق الفرقان ۲۲۶ سُورَةُ النَّجْمِ ۶ تا ۱۰.عَلَمَهُ شَدِيدُ الْقُوى - ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى _ وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعلى - ثُمَّ دَنَا فَتَدَ لى _ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی - ترجمہ.اس کو سکھایا بڑے طاقت ور نے.دل گردہ والے بڑے ہاتھ والے نے (اُس نے اثر لیا یا نہیں تو ارشاد ہوتا ہے کہ ) ٹھیک و درست ہو گیا.( کس درجہ پر ) بڑے ہی اونچے درجہ پر (جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ).(اس کمال سے کیا چاہا ) اس نے قرب الہی چاہا ( پھر کیا ہوا ) اللہ اُس کی طرف جھکا.پھر وہ دو کمانوں کے ملنے سے بھی زیادہ تر قریب ہو گیا.تفسیر.سکھایا اس کو بڑے طاقتور نے.بڑے جگرے کا تھا پس پورا نظر آیا اور وہ اب بلند کنارے پر ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۶۷ حاشیہ) قانونِ قدرت کا عام قاعدہ ہے.جس قدر کوئی چیز دوسری چیز سے تعلق پیدا کرے گی.اسی قدر اس دوسری چیز سے متاثر اور متحد ہوگی.ایک عادل بلکہ ہمہ عدل مالک اور علیم وخبیر سلطان کے لائق اور جان شار ، چست و ہوشیار، رضامندی کے طالب نوکر اور خادم کو جو جو انعام اور اکرام ملیں گے اور ایسے مقتدر اور مقدس بادشاہ کے ایسے پیارے خادم جن جن انعامات اور الطاف کے مورد ہوں گے.ویسے نالائق اور سکتے خود پسند ، مطلبی ، کاہل، نام کے نوکر اور جھوٹے خادم ہرگز ہرگز ہر گز نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ کی ذات سے جس قدر اس کے بندوں کو تعلق ہو گا اسی قدر وہ قابلِ انعام ہوں گے جتنی بندگی اور عبودیت کامل ہوگی اتنا ہی الوہیت کا میل اس سے زیادہ ہوگا اور بقدر ترقی عبودیت روح القدس کا فیضان ہوتا ہے.لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللهَ وَرَسُولَهُ وَ لَوْ كَانُوا اباء هم أو ابناء هُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحِ منه (المجادله: ۲۳) لے تو نہ پائے گا ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت کے دن کو دل سے سچا جانتے ہیں کہ وہ ایسوں سے دوستی کریں جو مخالف ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے گو وہ ان کے مخالف باپ ہی ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی ہی ہوں یا اُن کے کنبے کے.یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان بھیج دیا، محفوظ کر دیا ہے اور ان کی تائید فرمائی ہے روح القدس سے

Page 237

حقائق الفرقان ۲۲۷ سُوْرَةُ النَّجْمِ یا در ہے.یہی تو حید اور تثلیث کا مسئلہ تھا جس کو عیسائی نہ سمجھ کر شرک میں گرفتار ہو گئے اور یہی وہ بھید ہے جس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے انبیاء اور رسل اور اولیاء کے باہمی تعلق کے باعث فیضان روح کا پتہ لگ سکتا ہے.طالب صداقت سچی ارادت سے چند روز بحضور مرزا صاحب حاضر ہوکر استقلال وصبر سے منتظر ہو اور دیکھ بھی لے.عرب کا دستور تھا.جب دو آدمی باہم اتحاد پیدا کرتے اور معاہدہ کر لیتے تو دونوں اپنی اپنی کمانیں اس طرح ملاتے کہ ایک کی کمان کی لکڑی دوسری کی کمان کی لکڑی سے از ابتدا تا انتہا ایک سرے سے دوسرے سرے تک ملائی جاتی اور ایک کمان کی تار دوسری کمان کی تار سے ملائی جاتی تب دونوں قوسوں کے دو قاب ایک قاب کی شکل دکھلائی دیتے.پھر دو کمانوں کو اس طرح ملا کر دونوں معاہدہ کنندے ایک تیر.ان دونوں کمانوں مگر اب ایک ہو گئی ہوئی کمان میں رکھ کر چھوڑتے.اور یہ رسم عرب کی اس امر کا نشان ہوتا تھا کہ اس وقت کے بعد ایک کمان والے کا دوست دوسرے کمان والے کا دوست ہوگا اور ایک کا دشمن دوسرے کا دشمن قرار پائے گا.اسی طرح انبیاء اور رسولوں کی پاک ذات کا خاصہ اور ان کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ پاک گروہ اور ان کے اتباع مگر گرویدہ اتباع الحب لله اور الْبُغْضُ فِی اللہ میں منفرد ہوتے ہیں.اپنے ہر ایک اعتقاد اور قول اور فعل میں حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ کی رضامندی کو مقدم رکھتے ہیں.اسی کے بلائے سے بولتے اور اسی کے چلائے سے چلتے ہیں.ان کا رحم اور ان کا غضب اللہ تعالیٰ کا رحم اور اللہ تعالیٰ کا غضب ہوتا ہے.ایسی وحدت و اتحاد کے باعث ان کے ہاتھ پر بیعت اور اقرار اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت اور اسی سے اقرار ہوتا ہے اور اسی اتحاد کا بیان آیات ذیل میں ہے.إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ - (الفتح: 11) - مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله - ( النساء: ۸۱) ل یقیناً جو لوگ تجھ سے ہاتھ ملاتے ہیں وہ اللہ سے ملاتے ہیں.اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہے.اور جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.

Page 238

حقائق الفرقان ۲۲۸ سُوْرَةُ النَّجْمِ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى - (الانفال: ۱۸) وغیرہ آیات کریمہ میں ہے.والا وہ تو بشر ہوتے ہیں.اور اپنی بشریت اور عجز اور فقر کو ائماً انا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ (الكهف: ).وَإِنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ.وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ (الانعام :۵۱).فرما کر ثابت کرتے ہیں اللهم اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم باری تعالیٰ کی گرامی اور مقدس ذات پاک سے ان کی ذات کو دُنو اور تقرب ہوتا ہے اور ان کی کمان اللہ تعالیٰ کی کمان سے بالکل وحدت پیدا کرتی ہے.اسی عمدہ مضمون کو قرآن کریم نے اس سورہ والنجم میں بایں کلمات فرمایا ہے.ثُمَّ دَنَا فَتَدَلى - فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ ادنی - اب حسب بیان سابق ضرور تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تقرب اور اس کی بارگاہ معلی میں عبودیت تامہ کے ثبوت کے بعد روح حق اور روح القدس کا فیضان ہوتا.اس لئے جناب رسالت مآب کی اعلیٰ درجہ کی عبودیت اور فرماں برداری اور محب اللہ اور بغض في اللہ کے نتیجہ اور فیضان کا بیان ہوتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶۷ تا ۱۶۹) ۱۱ تا ۱۳ - فَاَوْحَى إِلى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى - مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأى - افَتُمُرُونَهُ عَلَى مَا يَرى - ترجمہ.پھر اللہ نے وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو وحی بھیجی ( یعنی قرآن شریف ).جو کچھ اُس نے دیکھا اس کے دل نے اس میں مغالطہ نہیں کھایا.تو کیا تم اس سے اس دید میں جھگڑتے ہو جو اُس نے دیکھا.تفسیر.پھر اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دل میں ان عظیم الشان اسرار ( قرآن کریم ) کو ڈالا.اس دل نے جو دیکھا.خوب دیکھا ( یعنی مغالطہ نہ کھایا) کیا تم اس کی دید پر جھگڑتے ہو.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۷۰ حاشیہ) لے اور تو نے نہ پھینکا جب پھینکا لیکن اللہ نے پھینکا.۲ میں بھی تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہوں.پھر نزدیک ہوا اور پاس کھڑا ہوا.پس دو کمانوں کا ایک قاب یا اس سے بھی قریب تر ہو گیا.

Page 239

حقائق الفرقان ۲۲۹ سُوْرَةُ النَّجْمِ ما اوحی میں ابہام نہیں ماعر بی لفظ موصولہ اور معرفہ ہے.اولی اس کا صلہ ہے.ما اوحی کیا چیز ہے.یہی قرآن کریم اور حضور علیہ السلام کی تمام پاک تعلیم جس کو اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ روح بھی فرمایا ہے.جہاں فرمایا وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا (الشوری:۵۳) اور یہ وہی روح ہے جو الوہیت اور عبودیت کے کامل میل سے پیدا ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اس کا اللہ سے فیضان ہوتا ہے اللهُمَّ آيدني بِرُوحِ الْقُدُسِ.آمین.اب اس کی عمدگی اور راستی کی نسبت فرماتا اور مدعی الہام کی حالت کو بتاتا ہے.مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَارَاى افْتَمَارُونَهُ عَلَى مَا يَرُى - تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۰) ۱۴ تا ۱۹ وَلَقَدْ رَاهُ نَزَلَةَ أَخْرى - عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى - عِنْدَهَا جَنَّةٌ المأوى - إِذْ يَغْشَى السّدُرَةَ مَا يَغْشَى مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ ایتِ رَبِّهِ الكبرى - ترجمہ.اور بے شک اس نے اس کا دوبارہ نزول بھی دیکھا.سدرۃ المنتہی کے پاس.( یہاں کونسی بیری مراد ہے ) وہ جس کے نزدیک جنت آرام گاہ ہے.جب اس بیری کو اعلیٰ درجہ کے انوار ڈھانکے ہوئے تھے (جو بیان کی قوت سے بالا تر ہیں).نہ اس کی نظر نے بھی کی (حق سے ) اور نہ وہ گستاخ ہوا.بے شک اس نے اپنے رب کی بہت نشانیاں دیکھیں.تفسیر.اور یقیناً اس نے اسے بار دیگر دیکھا ( یعنی نظر ثانی کی ) سدرۃ المنتہی کے پاس (سب سے بڑی بیری) جس کے پاس جنت الماوی ہے.اس سدرہ ( بیری) کو بڑے اعلیٰ درجہ کے انوار ڈھانکے ہوئے ہیں.اس کی آنکھ نے کجی نہیں کی.اور غلطی نہیں کھائی.ضرور اپنے رب کے بڑے بڑے نشانات دیکھے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ اے حاشیہ ) عرب کا یہ بھی دستور تھا.جیسے قاضی بیضاوی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جب بڑے بڑے کاموں کے واسطے پبلک اور عام اہل الرائے کی رائے لی جاتی تو کسی سایہ دار درخت کے نیچے بیٹھ

Page 240

حقائق الفرقان سُوْرَةُ النَّجْمِ جاتے.کیونکہ ان کے چھوٹے خیمے جلسہ کے قابل نہ ہوتے تھے.اور عام سایہ دار درختوں میں سے بیری کا درخت اس ملک میں بڑا درخت سمجھا جاتا ہے.اس رسم کے مطابق باری تعالیٰ حجاز کے باشندوں کو جو حضرت صاحب الوحی کے مخاطب ہیں.اور آپ کی دعوت کا ابتداءً روئے سخن بھی ان ہی کی جانب ہے.یوں فرماتا ہے کہ جہاں اس بادی ، محسن خلق ، رحمت عالمیاں نے مشورہ لیا.وہ بیری م شمسی تمام دنیا کی بیریوں سے بڑی بیری تھی.اور وہ تمہاری دنیا کی سی بیری نہ تھی.وہ تمہارے نظام سے کہیں اونچی سات آسمانوں سے پرے کی بیری ہے.وہ بیری تو کچھ ایسی بیری ہے.جس کی جڑھ سے تمام دینی اور دنیوی منافع کی ندیاں نکلتی ہیں.باغ عدن کی ندیاں بھی اسی کی جڑھ سے نکلتی ہیں.جن کو تم جیحون اور سیحون اور نیل و فرات کہتے ہو.اسی کی جڑھ سے نکلتے ہیں.جنة الخلد کی ندیاں بھی وہاں ہی سے رواں ہیں.خود جنت الماؤی بھی اسی کے پاس ہے.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ ان آیتوں میں بیان فرماتا ہے.وَ لَقَدْ رَاهُ نَزْلَةً أُخْرى _ عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى - عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى - إِذْ يَغْشَى السّدُرَةَ مَا يَغْشى - (النجم : ۱۴ تا ۱۷) مَا يَغْشی کا ما بھی موصولہ اور معرفہ ہے...یادر ہے یہ کلمہ ما کا عربی میں تفخیم او تنظیم کے معنی دیتا ہے.وہاں سدرة المنتهی میں جناب رسالت مآب فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا دیکھا اپنے رب تعالیٰ کے بڑے بڑے نقش قدرت دیکھے.کمالات انسانیہ کے حاصل کرنے کے نشانات کا نظارہ کیا جیسے فرماتا ہے.مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأَى مِنْ آیتِ رَبِّهِ الكُبرى ـ (النجم : ۱۹۱۸) مشرکو! اس مہربان ہادی کے منکر و! بت پرستو ! تم نے کیا دیکھا ؟ جس کے دیکھنے کے بعد بت پرستی جیسے گڑھے میں ڈوب مرے.بت پرستی کے لوازم و ہم پرستی اور جہالت میں مبتلا ہو گئے.نہ کوئی تمہارے ملک میں تمدن کا قاعدہ نہ معاشرت کا اصل نہ سیاست کا ڈھنگ اور نہ روحانی تعلیم کا ذریعہ نہ حقیقی عزت اور فخر کا تم میں وسیلہ.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۰-۱۷۱)

Page 241

حقائق الفرقان ۲۳۱ سُوْرَةُ النَّجْمِ ۲۰ تا ۲۳ - أَفَرَوَيْتُهُ اللَّهَ وَالْعُرَى وَمَنْوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى - الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأُنْثَى - تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْزُى - ترجمہ.کیا تم نے لات اور غزی کو بھی دیکھا.اور پھر تیسرے پیچھے پڑے ہوئے منات کو ( جوسب کے سب مؤنث اور ضعیف اور بے حقیقت بت ہیں ).بھلا تمہارے لئے بیٹے اور اللہ کے لئے بیٹیاں.اس صورت میں تو یہ تقسیم بڑی نامنصفانہ ہے اور خلاف حق اور بھونڈی ہے.تفسیر.واہ تم نے تو لات وغذی ہی کو دیکھا اور منات کو جو تیسرا اور سب سے گیا گزرا ہے.کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں.یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۷۲٬۱۷۱ حاشیہ) ان آیات کریمہ کو جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راستی اور عظمت اور بزرگی کے اثبات میں ایک خاص تعلق ہے.ہر دو آیات کیسی لطیف ہیں اور کس خوبی کے ساتھ احقاق حق اور ابطال باطل کرتی ہیں.سنو! مطالب دو قسم کے ہوتے ہیں.اول بڑے ضروری.دوسرے ان سے کم درجہ کے بڑے ضروری مطالب کو بہ نسبت دوسرے مقاصد کے بلاریب تاکید اور براہین و دلائل سے ثابت کیا جاتا ہے.یہ میرا دعوی بہت صاف اور ظاہر ہے.تاکید کے واسطے ہر زبان میں مختلف کلمات ہوا کرتے ہیں.ایسے ہی عربی زبان میں بھی تاکید کیلئے بہت الفاظ ہیں مگر ایشیائی زبانوں میں جیسے علی العموم قسم سے بڑھ کر کوئی تاکیدی لفظ نہیں.ایسے ہی عربی کے لڑیچر میں بھی قسم سے زیادہ کوئی تاکیدی لفظ نہیں.قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا.اس لئے اس میں عربی محاورات پر ضروری مطالب میں قسموں کا استعمال بھی ہوا...رہی یہ بات کہ اہم اور بہت ضروری مطالب میں براہین اور دلائل کا بیان کرنا بھی ضروری ہوتا ہے.قرآن کریم نے ان مطالب میں قسموں کے علاوہ اور کیا ثبوت دیا ہے؟ سو یادر ہے.جہاں قرآن کریم کسی مطلب پر قسم کو بیان کرتا ہے.وہاں جس چیز کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے.وہ چیز قانون

Page 242

حقائق الفرقان ۲۳۲ سُورَةُ النَّجْمِ قدرت میں قسم والے مضمون کے واسطے ایک قدرتی شاہد ہوتی ہے اور یہ قسم قدرتی نظاروں میں اپنے 3/191 مطلب کی مثبت ہوتی ہے جو قسم کے بعد مذکور ہو گا.مثلاً إِنَّ سَعيكم لشتى...الخ (الليل :۵) ایک مطلب ہے جس کے معنی ہیں ”لوگو! تمہارے کام مختلف ہیں.اور ان کے نتائج بھی الگ الگ ہیں، قرآن مجید اس مطلب کو قانونِ قدرت سے اس طرح ثابت کرتا ہے.وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشی.وَ النَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى - وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ وَالْأُنْثَى (اليل: ۲ تا ۴).کیا معنی؟ رات پر نظر کرو جب اس کی کالی گھٹا چھا جاتی ہے.پھر دن پر نظر ڈالو.جب اُس نے اپنے انوار کو ظاہر کیا.پھر مرد اور عورت کی خلقت اور بناوٹ پر غور کرو.اور ان کے قدرتی فرائض اور واجبات کو سوچو تو تمہیں صاف طور پر عیاں ہوگا کہ بے ریب تمہاری کوششیں الگ الگ اور ان کے نتائج علیحدہ علیحدہ ہیں.ایسے ہی باری تعالیٰ کے نام جان و مال کو دینے اور نافرمانیوں سے بچنے والا اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مصدق.اور اس کے مقابل جان اور مال سے دریغ کرنے والا نا فرمان اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا مکذب بھی الگ الگ ہیں اور الگ نتیجہ حاصل کریں گے.ہمارے پاک بادی ، سرور اصفیاء، خاتم الانبیاء کی اثبات نبوت اور آپ کی عظمت اور بڑائی ثابت کرنا بڑا احقاق حق اور آپ کے منکروں کو ملزم کرنا بڑا ابطال باطل تھا.قرآن کریم نے اس احقاق حق اور ابطال باطل پر پرزور دلائل دیئے ہیں.ان دلائل کا بیان اس جگہ موزوں نہیں.البتہ ان براہین میں سے اس والنجم کے پہلے رکوع میں.احقاق حق اور ابطال باطل کا ایک ثبوت ہے.اور قبل اس کے کہ حضور علیہ السلام کی صداقت اور راستی اور سچائی کو ثابت کیا جاوے.نفس نبوت اور مصلح کی ضرورت کو قرآن میں و النجم کا لفظ فرما کر باری تعالیٰ نے ثابت فرمایا ہے.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے.عرب ایک ایسا جزیرہ نما تھا جس میں علی العموم پانی کی قلت تھی اور اس کے ملک حجاز میں بخصوص سڑکوں اور میلوں کے نشانات.اس کے راہوں میں ہرگز نہ تھے.اس لئے عرب لوگ غالباً رات کو سفر کرتے تھے.اور ثریا نام النجم سے سمت کو قائم کر لیتے تھے.جس طرح ا بے شک تمہارے کام الگ الگ ہیں.

Page 243

حقائق الفرقان ۲۳۳ سُورَةُ النَّجْمِ آج جہازی مسافر قطب نما سے سمت کو قائم کر لیتے ہیں.اندھیری راتوں میں وہ النجم گو یا بدرقہ کا کام دیتا تھا.قرآن کریم نے جہاں النجم کے فائدے بیان کئے ہیں.وہاں یہ بھی فرمایا ہے.وَ بِالنَّجْمِ هُمْ يَهْتَدُونَ.(النحل: ۱۸) اور یہ بھی بالکل ظاہر کہ النجم اگر سمت الراس پر واقع ہو تو اس سے مسافروں کو راستہ کا پتہ نہیں لگ سکتا.اس النجم کا مشرق یا مغرب میں ہونا سفر والوں کے لئے ضروری ہے.عربی زبان میں ھوی چڑھنے اور ڈھلنے دونوں کے معنی دیتا ہے.پس اس رکوع کی پہلی آیت وَالنَّجْمِ إِذَا هَوی کے معنے یہ ہوئے.قسم ہے انجم (ثریا) کی جبکہ وہ مشرق یا مغرب کی طرف ہو.باری تعالیٰ رات کے اندھیروں میں جنگلوں اور راستوں کے چلنے والوں کو فرماتا ہے.لوگو! تمہارے لئے تم کو منزل مقصود تک جانے کے واسطے اور جسمانی سمتوں کے سمجھنے کی خاطر ہم نے انجم کو تمہارے کام میں لگایا.تو کیا جسمانی ضرورتوں سے بڑھ کر تمہاری ضرورت کے واسطے اور روحانی منزل مقصود تک پہنچ جانے کے واسطے تمہارے لئے کوئی ایسا مصلح اور کوئی ایسار یفار مرسلیمۃ الفطرت سچا ملہم نہ ہوگا جو تم کو تمہارے روحانی اندھیروں اور اندرونی ظلمتوں کے وقت راہنمائی کرے.فانی اور چند روزہ تکلیف جسمانی راہوں کے نہ سمجھنے میں جب تمہارے گردو پیش کے نشانات تم کو راہنمائی نہیں کرتے تو ہمارے روشن اور بلند ستاروں سے ضرور تمہاری دستگیری کی جاتی ہے.پھر جب تمہارے فطری قومی اور تمہاری روحانی اور ایمانی طاقتوں پر تمہاری جہالتوں ، تمہاری نادانیوں، تمہاری بدرسومات اور عادات اور حرص اور ہوا اور بے جا خود پسندی اور نا جائز آزادی کی اندھیری رات آجاتی ہے اور اس وقت تم ابدی نجات کی منزل تک پہنچنے سے حیران و سرگردان ہو جاؤ تو کیا ہماری رحمت خاص اور فضل عام سے کوئی روشنی بخش اور رہنما سیارہ نہ ہو گا ؟ تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحه ۱۶۳ تا ۱۶۵) تکذیب براہین احمدیہ کے مصنف نے سورۃ نجم کے حوالہ سے یہ لغو فقره تِلْكَ الْغَرَانِيقُ الْعُلَى وَإِن شَفَاعَتَهُنَّ لتُرتجي اعتراض کرنے کو لکھا.اس کے جواب میں آپ نے تحریر فرمایا.”اسلام کے مختلف فرقے دنیا میں موجود ہیں.سب کے پاس قرآن ہے.مگر تعجب ہے کہ کسی لے اور النجم سے وہ راہ پاتے ہیں.

Page 244

حقائق الفرقان ۲۳۴ سُوْرَةُ النَّجْمِ میں یہ موجود نہیں اور ہو کیسے؟ قرآن کریم کی شان اس سے اعلیٰ وارفع ہے کہ اس مجموعہ توحید میں ایسا مشرکانہ مضمون ہو.اب حقیقت میں قرآن پر کوئی اعتراض نہ رہا.“ مکذب - " مفصل حال اس کا معالم جلالین بیضاوی معتمد میں ذکر ہے“ مصدق نے ان تفاسیر کی طرف رجوع کیا مگر ان میں یہ لکھا پایا جو ناظرین کے عرض خدمت ہے.بیضاوی نے اس واہی قصہ کو کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ تِلْكَ الْغَرَانِيقُ العلى...الخ پڑھا تھا لکھ کر کہا ہے.وَ هُوَ مَرْدُودُ عِنْدَ الْمُحَقِّقِيْنَ اور یہی بات معالم کے حاشیہ پر مرقوم ہے.تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے تِلْكَ الْغَرَانِيقُ العُلى...الخ کی نسبت یہ کہنا کہ رسول اللہ نے سورہ نجم میں اس کو پڑھا صحیح نہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں.لَمْ يَصِحَ شَيْءٍ مِنْ هَذَا وَلَا ثَبَتَ بِوَجْهِ مِنَ الْوُجُوْهِ وَمَعَ عَدَمِ عِيَّتِهِ بَلْ بُطْلَانُهُ فَقَدْ دَفَعَهُ الْمُحَقِّقُونَ بِكِتَابِ اللهِ سُبْحَانَهُ حَيْثُ قَالَ اللهُ تعالى ( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيْلِ لَا خَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ وَقَوْلُهُ تَعَالَى (وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى) وَقَوْلُهُ عَنِ تَعَالَى وَلَوْلَا أَن ثَبَّتَنَكَ لَقَدكِدْ تَ تَرَكَنُ إِلَيْهِمْ) فَنَفَى الْمُقَارَبَةَ لِلرُّكُونِ فَضْلًا الرُّكُونِ قَالَ الْبَزَّارُ هَذَا حَدِيثُ لَا نَعْلَمُهُ يُروى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ مُتَصِلٍ قَالَ الْبَيْهَقِيُّ هَذِهِ الْقِصَّةُ غَيْرُ ثَابِتَةٍ مِنْ جِهَةِ النَّقْلِ ثُمَّ أَخَذَيَتَكَلَّمُ أَنَّ رُوَاةٌ هَذِهِ القِصَّةِ مَطْعُونُونَ فِيهِمُ.اس قسم کی کوئی بات بھی کسی وجہ سے ثابت اور صحیح نہیں ہوئی.اگر چہ خود ہی اس کی عدم صحت اور اس کا بطلان ظاہر ہے مگر محققین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہی تو اسے رو کر رہی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اگر یہ (نبی) ہماری نسبت کوئی جھوٹی بات لگا تا تو ہم اس کا دہنا ہاتھ پکڑتے.پھر ہم اس کی رگِ حیات کو کاٹ ڈالتے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.یہ نبی اپنی طرف سے نہیں بولتا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر ہم تجھ کو مضبوط نہ رکھتے تو تو ان کی جانب قریب تھا کہ مائل ہو جا تا.اب یہ آیت مقاربت میلان کی بھی نفی کرتی ہے چہ جائیکہ آنجناب کا میلان ان کی جانب ہوتا.بزار کہتے ہیں.ہم نہیں جانتے کہ کسی نے اس حدیث کو متصل اسناد سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہو.بیہقی کہتے ہیں.یہ قصہ نقل کے قانون کے لحاظ سے ثابت نہیں ہوا.پھر بیہقی نے یہ کلام کیا ہے کہ اس قصہ کے راویوں میں طعن کیا گیا ہے.

Page 245

حقائق الفرقان ۲۳۵ سُورَةُ النَّجْمِ قَالَ اِمَامُ الْأَعْمَةِ ابْنُ خُزَيْمَةَ إِنَّ هَذِهِ الْقِصَّةَ مِنْ وَضْعِ الزَّنَادِقَةِ قَالَ الرَّازِيُّ هَذِهِ الْقِصَّةُ بَاطِلَةٌ مَوْضُوعَةٌ لَّا يَجُوزُ الْقَوْلُ بِهَا.قَالَ اللهُ تَعَالَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌّ يُوحَى وَقَالَ اللهُ تَعَالَى سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنْسى وَلَا شَكَ أَنَّ مَنْ جَوْزَ عَلَى الرَّسُولِ تَعْظِيمَ الْأَوْثَانِ فَقَدْ كَفَرَ لِأَنَّ مِنَ الْمَعْلُومِ بِالضَّرُورَةِ أَنَّ أَعْظَمَ سَعْيِهِ كَانَ فِي نَفْي الْأَوْثَانِ.(تفسير السراج المنير سورة الحج) قَالَ ابْنُ كَثِيرٍ فِي تَفْسِيرِهِ أَنَّ جَمِيعَ الرَّوَايَاتِ فِي هَذَا الْبَابِ إِمَّا مُرْسِلَةٌ أَوْ مُنْقَطِعَةٌ لَا تَقُوْمُ الْحُجَّةُ بِشَيْءٍ مِنْهَاثُمَّ قَالَ فَقَدْ عَرَفْنَاكَ أَنَّهَا جَمِيعُهَا لَا تَقُوْمُ بِهَا الحُجَّةُ لِأَنَّهُ لَمْ يُرُوهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْقِحَةِ وَلَا أَسْنَدَهَا ثِقَةٌ بِسَنَدٍ صَحِيحِ أَوْسَلِيْمٍ مُتَّصِلٍ (فتح البيان مختصرًا) وَ قَالَ فِي الْكَبِيرِ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ خُزَيْمَةَ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ القِصَّةِ فَقَالَ هذَا وَضْعُ مِّنَ الزَّنَادِقَةِ وَصَنَّفَ فِيْهِ كِتَابًا تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰۲٬۲۰۱) امام الائمۃ ابن خزیمہ کہتے ہیں کہ اس قصہ کو زندیقوں نے وضع کیا ہے.امام رازی کہتے ہیں.یہ قصہ جھوٹا بناوٹی ہے.اس کا مانا نا جائز ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نبی اپنی طرف سے کچھ نہیں بولتا.یہ تو وہی کہتا ہے جو اس کے دل میں وحی کی جاتی ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عنقریب ہم تجھے قرآن پڑھاتے ہیں.پھر تو اسے فراموش نہ کرے گا.جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ کہنا وار کھے کہ آپ نے بنوں کی تعظیم کی.ایسا شخص بیشک کافر ہے.اس لئے کہ یہ واضح ہو چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بھاری کوشش جنوں کا نابود کرنا تھا.ابن کثیرا اپنی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اس باب میں جتنی روایتیں ہیں یا تو مرسلہ ہیں یا منقطعہ ہیں اور ایسی روایتیں حجت نہیں ہوا کرتیں.پھر امام صاحب فرماتے ہیں.ہم تجھے سمجھا چکے ہیں کہ یہ تمام روایتیں حجت پکڑنے کے قابل نہیں ہیں.کیونکہ اہلِ صحت میں سے کسی نے انہیں روایت نہیں کیا اور نہ کسی ثقہ نے سند صحیح یا سلیم متصل سے انہیں اسناد کیا.اور امام صاحب تفسیر کبیر میں کہتے ہیں.محمد بن اسحاق بن خزیمہ سے روایت ہے کہ اس سے اس قصہ کی بابت سوال کیا گیا.اس نے جواب دیا کہ زندیقوں نے اسے گھڑا ہے اور اس نے اس بارہ میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے.

Page 246

حقائق الفرقان ۲۳۶ سُورَةُ النَّجْمِ ذرا غور تو کرو.انصاف سے کام لو عقل کو بیکار نہ رکھو.اس عجیب وغریب تفرقہ پر نگاہ تو کرو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سدرۃ المنتہی تک پہنچنےکا نتیجہ کیا ہے؟ اور تمہارے لات اور عربی اور منات کی پرستش کا ثمرہ کیا ہے؟.ایک وہ توحید کا واعظ ، سچے علوم کا معلم ، قوم کو ذلت اور ادبار سے عزت وسلطنت عالمگیر پر پہنچانے والا.دوسرے تم لوگ پتھروں سے حاجات کے مانگنے والے فسق و فجور میں قوم اور ملک کو تباہ کرنے والے اور وہم پرست ایسے کہ اپنے لئے تو اولاد نرینہ کو پسند کریں.اور باری تعالیٰ کی پاک ذات پر یہ عیب لگا دیں.اور یہ بد اعتقاد کریں کہ معاذ اللہ فرشتے اور ملائکہ اللہ تعالیٰ رحمن کی بیٹیاں ہیں.مشرکو! دیکھا بت پرستی نے تم کو کس کنوئیں میں گرایا.ان کی اسی نادانی کا بیان ہے.الكُمُ الذَّكَرُ وَ لَهُ الْأَنْفِی.تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضیزی - (النجم:۲۲، ۲۳) ( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحه ۱۷۲۴۱۷۱) ۳۸- وَابْراهِيمَ الَّذِي وَفَى - ترجمہ.اور ابراہیم کی کتابوں میں جس نے عہد پورا کیا.تفسیر.(وہ ابراہیم ) جس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ صدق و وفا کا پورانمونہ دکھایا.و الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۵) ۴۰ تا ۴۲ - وَ اَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعى - وَ أَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرى - ثُمَّ يُجْزِيهُ الْجَزَاء الْأَوفى - ترجمہ.اور یہ کہ آدمی کو وہی ملے گا جو اس نے عمل کیا.اور وہ اپنی کوشش کا ضرور نتیجہ دیکھ لے گا.پھر اس کو اس کا بدلہ پورا دیا جائے گا.تفسیر.امتحان کے اصل معنی ہیں.محنت کا لینا.ایک دنیا دار امتحان کے لئے کو اغذ امتحان کے جواب مثلاً دیکھتا ہے تو اس لئے کہ طالب العلم کی محنت کا اس کو پتہ لگ جائے اور محنت کا نتیجہ اس کو دے اور اللہ تعالیٰ بھی امتحان لیتا ہے یعنی محنت کرانا چاہتا ہے.ستی کو نا پسند کرتا ہے.ہاں علیم وخبیر ہے.جب کوئی محنت کرتا ہے جیسے کوئی محنت کرے.ویسے ہی جناب الہی سے محنت کرنے کا بدلہ ملتا ہے.لے کیا تمہارے لئے بیٹے اور اس کے لئے بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بھونڈی تقسیم ہے.

Page 247

۲۳۷ سُورَةُ النَّجْمِ حقائق الفرقان گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشوط اسی امتحان کے معنوں کو ایک حکیم مسلمان نے نظم کیا ہے.اور اسی سچے علم کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے.وَ أَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ اللَّا مَا سَعَى وَ اَنَّ سَعْيَه سَوفَ يُرى - ثُمَّ يُجْزِيهُ الْجَزَاء الْأَوفى - (النجم : ۴۰ تا ۴۲) اور انسان کو اس کی سعی کے سوا اور کوئی فائدہ نہیں ملے گا.اور یہ پختہ بات ہے کہ اس کی سعی دیکھی جائے گی.پھر اسی کے مطابق واقع اسے پورا بدلہ دیا جائے گا.نور الدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۹۶) ۴۳.وَ أَنَّ إِلَى رَبَّكَ الْمُنْتَهى - ترجمہ.اور وہی ہنساتا ہے اور رُلاتا ہے.تفسیر.موجودہ امور گزشتہ امور کے نتائج ہوتے ہیں اور مستقبل حال کا ثمرہ.یہ سلسلہ ماضی کی طرف اگر چہ ان لوگوں کے نزدیک جو الہی ہستی سے بے خبر ہیں لامنتہی ہے مگر خدا کے ماننے والے جانتے ہیں کہ بات یہی سچ ہے.الى ربك المنتھی یعنی سب چیزوں کا منتہی اور انجام تیرے رب کی طرف ہے.زمانہ بھی آخر مخلوق ہے.کیونکہ زمانہ مقدار فعل کا نام ہے.مقدار فعل فعل سے پیدا ہوسکتا ہے اور فعل، فاعل سے.جناب الہی کی ذات پاک چونکہ ازلی ہمہ دان.ست اور چت ( عالم ) ہمہ قدرت اور سامرتھ ہے وہ اپنے ازلی علم سے جانتا تھا کہ فلاں اپنے پیارے بندے کو مجھے فلاں وقت مؤید و مظفر اور منصور کرنا ہے اور فلاں وقت فلاں شریر کو جو اس کے مقابل ہوگا ذلیل اور خوار اور خائب و خاسر کر دینا ہے.اس لئے اس نے ابتدا ہی سے ایسے اسباب اور مواد مہیا کر دیے کہ اس وقت معین اور مقلد میں اس کا مخلص مومن متقی محسن اور برگزیدہ بندہ لامحالہ فتح مند ہو جاتا ہے.اور اس کا دشمن شیطان ، اللہ سے دور، فضل سے نا امید ابلیس شریر اور شرارت پیشہ تباہ وہلاک ہو جاتا ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۴۵٬۲۴۴) ا گندم سے گندم اگتی ہے اور جو سے جو.مکافات عمل سے غافل مت رہو.

Page 248

حقائق الفرقان ۲۳۸ سُوْرَةُ الْقَمَرِ سُوْرَةُ الْقَمَرِ مَكِيَة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ا.ہم سورہ قمر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ کے نام سے جس نے رسول اللہ کی حقانیت اور نبوت ثابت کرنے کو علم ہیئت میں چاند کے ٹکڑوں کا گرتے رہنا پہلے سے ثابت کر رکھا ہے اور اس کا ثبوت رسول اللہ کے وقت بھی دیا.اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ - ترجمہ.اور وہ گھڑی آ پہنچی اور چاند شق ہو گیا.تفسیر.وَانْشَقَّ الْقَمَرُ.اوپر سے ایسے پتھر دنیا میں گرے ہیں جن کے بارے میں مان لیا گیا کہ وہ پتھر زمین کے نہیں.قمر.عرب کا قومی نشان ہے.اس سے کبھی مذہبی جنگ نہ ہوئی تھی.صفیہ نے خواب دیکھا کہ چاند میری گود میں آپڑا تو اس کے باپ نے چانٹا مارا.کیا تو عرب کے کسی بادشاہ کے نکاح میں جانا چاہتی ہے.( تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۲) ٣ وَاِنْ يَّرَوا ايَةً يُعْرِضُوا وَ يَقُولُوا سِحْرُ مُسْتَير - ترجمہ.اور اگر منکر کوئی نشانی دیکھیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو ایک فریب ہے دنیا کو اجاڑنے والا.تفسیر - سیخ - جنون کو بھی کہتے ہیں.( تشھید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۳٬۴۸۲) دو اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل رحمانیت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے.اس کا نام قرآن ہے.میں نے اس کو سامنے رکھ کو بانٹیل اور انجیل کو پڑھا ہے.اور ژنداور اوستا

Page 249

حقائق الفرقان ۲۳۹ سُوْرَةُ الْقَمَرِ کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے.وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے.قرآن بڑا آسان ہے.میں ایک دفعہ لاہور میں تھا.ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا.ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے.اس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَلَقَدْ يشرنَا الْقُران مگر قرآن کہاں آسان ہے.میں نے کہا آسان ہے.ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے تو پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنامشکل.پھر اس کی تفسیر کون کرتا.قرآن کریم نے دعوی کیا ہے.فيها كتب قيمَةُ.(البينة :۴) جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں.ان تمام کا جامع قرآن ہے.باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.قرآن کریم میں تین خوبیاں ہیں.پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے.اور جو ضروریات موجودہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا.اس کے سوا جتنے مضامین ہیں اللہ کی ہستی، قیامت ، ملائکہ، کتب، جزا سزا اور اخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں ان کو بیان کیا.الفضل جلد نمبر ۲۶ مورخه ۱۰ / دسمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) ۴۵ ۴۶ - اَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيع مُنْتَصِرُ - سَيُهزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ - ترجمہ.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقریب شکست کھائے گی یہ جماعت تو پیٹھ پھیر کر بھاگے گی ، پلٹے گی.تفسیر.کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم بدلہ لینے والی جماعتیں ہیں.عنقریب یہ سب لوگ شکست دیئے جائیں گے اور بھاگ نکلیں گے.(فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۷ حاشیه ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے یار و غمگسار اور پھر آپ نے ارشاد الہی کی تعمیل میں دعولی نبوت کیا اور تمام مشرکان عرب کو کھول کھول کر سنادیا گیا کہ یہ تمہارے بت کسی کام کے نہیں.پرستش کے لائق صرف ایک ذات جامع صفات ہے.جس کا نام ہے اللہ.تو چاروں طرف سے بڑے بڑے لوگ ا جس میں پائدار کتابوں کی صداقتیں ہیں.

Page 250

حقائق الفرقان ۲۴۰ سُوْرَةُ الْقَمَرِ مخالفت کے لئے اٹھے اور ناخنوں تک زور لگایا.آپ ایک یتیم بے سروسامان مقابلہ میں بڑے بڑے عمائد، بڑے بڑے اراکین اور دولتمند لیکن آخر سيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَ يُولُونَ الدُّبُرَ كا الهام ودرو صداقت نشان پورا ہوا.اور ان کو نیچا دیکھنا پڑا.جس قدر لائق فائق لوگ تھے.وہ سب کے سب آپ کی غلامی میں آگئے.حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان ایسے علم سیاست جاننے والے خالد بن ولید ، ابوعبیدہ ایسے سپہ سالا رسب آپ ہی کے حلقہ بگوش تھے.یہ تو سب نے اس وقت دیکھ لیا.پھر بعد میں جو اللہ نے اپنے دین کی نصرت فرمائی.جس طرح پر مصروشام و ایران ہندو سندھ پر فتح حاصل ہوئی وہ کچھ ایسا نظارہ نہیں کہ بھول جانے والا ہو اور اس شان و شوکت، رعب وسطوت اور حیرت ناک تغیر و تبدل کو دیکھ کر اور اس کے ساتھ ان کی پیشگوئیوں کو پڑھ کر جو قرآن مجید میں مذکور ہیں.اور جو بے بسی و بے کسی کے عالم میں کی گئیں.کون خدا ترس شخص ہے جو بے اختیار.اِنَّه لَقَولُ رَسُولِ كَرِيمٍ - وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَلَا بِقَولِ كَاهِن قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ - تَنْزِيلٌ مِنْ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الحافة : ۴۱ تا ۴۴) نہ پڑھ اُٹھے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ ( تشيد الا زبان جلد ۷ نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۳۰.۲۳۱) ۵۰ - إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْنَهُ بِقَدَرٍ - ترجمہ.ہم نے ہر ایک شے کو ایک اندازہ سے پیدا کیا ہے.تفسیر.ہم نے ہر چیز بنائی پہلے ٹھہرا کر.- فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۳۰۹ حاشیه) ۵۵ - إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنْتِ وَنَهَرٍ - ترجمہ.بے شک متقی لوگ باغوں میں اور ہر طرح کی ترقی میں ہیں.تفسیر.تھر.راحت کی جگہ.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) ا کہ بے شک یہ قرآن شریف رسول کریم کی تلاوت کی چیز ہے.اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں.تم لوگ تو بہت کم یقین رکھتے ہو.نہ کسی کا ہن کا قول ہے تم تو بہت ہی تھوڑا سمجھتے ہو.رب العالمین کا اتارا ہوا ہے.

Page 251

حقائق الفرقان ۲۴۱ سُوْرَةُ الرَّحْمٰنِ سُوْرَةُ الرَّحْمٰنِ مَكَيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ رحمن کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے اسم شریف سے جو پہلے سے نیک راہ سکھلانے والا ہے اور عمل کرنے والوں کو نیک نتیجے دینے والا ہے.۲، ۳ - الرَّحْمَنُ - عَلَمَ الْقُرْآنَ - ترجمہ.رحمن نے قرآن سکھایا ہے.لے تفسیر انسان بڑا کمزور، ناتواں اور ست ہے علم حقیقی سے بہت دور ہے.آہستگی سے ترقی کر سکتا ہے ہم تم تو چیز ہی کیا ہیں.اس عظیم الشان انسان علیہ الف الف صلوۃ والسلام کی بھی یہ دعا تھی کہ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا - ( طه : ۱۱۵) تو جب خاتم الانبیاء ، افضل البشر" کو بھی علمی ترقی کی ضرورت ہے جو انقَى النَّاسِ اَخْشَى النَّاس - اَعْلَمُ النَّاس ہیں اور ان کے متعلق الرَّحْمٰنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ وارد ہونے کے باوجود بھی ان کو ترقی علم کی ضرورت ہے تو ہم اوشا.....حقیقت ہی کیا رکھتے ہیں کہ ہم علمی ترقی نہ کریں اگر میں کہہ دوں کہ مجھے کتابوں کا بہت شوق ہے اور میرے پاس اللہ کے فضل سے کتابوں کا ذخیرہ بھی تم سب سے بڑھ کر موجود ہے.اور پھر یہ بھی اللہ کا خاص فضل ہے کہ میں نے ان سب کو پڑھا ہے اور خوب پڑھا ہے اور مجھے ایک طرح کا حق بھی حاصل ہے کہ ایسا کہ سکوں.مگر بائیں میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھے علم کی ضرورت نہیں.بلکہ مجھے بھی ترقی علم کی ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.علم سے میری مراد کوئی دنیوی علم اور ایل.ایل.بی یا ایل.ایل.ڈی کی ڈگریوں کا لے اے میرے رب! مجھے علم اور زیادہ دے.

Page 252

حقائق الفرقان ۲۴۲ سُوْرَةُ الرَّحْمنِ حصول مراد نہیں ہے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوقَ الا باللہ بلکہ ایسا تو کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا اور نہ ہی ایسی میری کبھی اپنی ذات یا اپنی اولاد کے واسطے خواہش ہوئی ہے.عام طور پر لوگوں کے دلوں میں آج کل علم سے بھی ظاہری علم مراد لیا گیا ہے.اور ہزار ہا انسان ایسے موجود ہیں کہ جن کو دن رات یہی تڑپ اور لگن لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح وہ بی.اے یا ایم.اے یا ایل.ایل بی کی ڈگریاں حاصل کر لیں.ان لوگوں نے اصل میں ان علوم کی دُھن ہی چھوڑ دی ہے.جن پر سچے طور پر علم کا لفظ صادق آ سکتا ہے.پس ہماری مراد ترقی علم سے خدا کی رضا مندی کے علوم اور ا خلاق فاضلہ سیکھنے کے علوم.وہ علوم جن سے خدا کی عظمت اور جبروت اور قدرت کا علم ہو اور اس کے صفات، اس کے حسن و احسان کا علم آ جاوے.غرض وہ گل علوم جن سے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ کا علم آ جاوے.مراد ہیں.- الشَّيْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ - الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۸ مورخه ۱۸ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۱۴) ترجمہ.سورج و چاند حساب سے گردش کر رہے ہیں ( یعنی اپنے محور پر تو حساب کو باہم نہ ملا نا چاہئے ).تفسیر.تو رات میں کچھ شمسی حسابات ہیں، کچھ قمری دونوں میں غور کرو.نبی کریم کی پیدائش کا وقت مل جائے گا.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) انسان کے الفاظ میں کمزوری ہے.انسان کے فلسفے میں کمزوری ہے.جوں جوں زمانہ نئے نے علوم دریافت کرتا ہے.وہ اپنے حالات، اپنی اصطلاحات کو بدلتا جاتا ہے.لیکن خدا کے کلام میں اس قسم کی کمزوری نہیں ہوتی.بلکہ جوں جوں سائنس ترقی کرتی ہے.اس کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.دیکھئے انسان کے جبر و اختیار پر بعض علماء نے بڑی بحث کی ہے.اور اس میں کوئی فیصلہ گن بات نہیں کہہ سکے.قرآن مجید نے ان الفاظ کو اختیار ہی نہیں کیا بلکہ ان کی بجائے استطاعت ، مقدرت اور تمکن فرمایا اور اعجاز و معجزے کے بدلے سلطان و آیات رکھا.اسی طرح حُسبان ایسا لفظ ہے کہ

Page 253

حقائق الفرقان ۲۴۳ سُوْرَةُ الرَّحْمٰنِ تمام دنیا کا فلسفہ پرانا ہو یا نیا.اس کو نہیں جھٹلا سکتا.بخاری نے اس کے معنے کئے ہیں محسبان حُسْبَانِ الرّخی.سورج اور چاند کا حساب دیکھو.ایک سیکنڈ کی بھی اس میں غلطی نہیں ہوتی.اگر ہم قطب شمالی یا قطب جنوبی پر ہوں تو چاند اور سورج چکی کی طرح چلتے معلوم ہوتے ہیں اور اگر ہم خط استوا پر ہوں تو فلک المغزلہ چرنے کی طرح چلتے معلوم ہوں گے.اور محسبان ان دونوں تفخیذ الاذہان جلدے نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۲۲۶) صورتوں میں صادق آتا ہے.و - اَلَّا تَطْغَوْا فِي الْمِيزَانِ - ترجمہ.تم حد سے نہ بڑھوتر از و میں.تفسیر.ہر چیز ، ہر کام، ہر کامیابی کے لئے ایک اندازہ مقرر ہے.اس سے باہر نہ جاؤ.تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) ۱۳ - وَالْحَبُّ ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ - ترجمہ.اور اناج ہے بھو سے والا اور خوشبودار پھول.تفسیر - ذُو الْعَصْفِ وَالرَّيْحَانُ.یہ تمام چیزیں کسی کام کے لئے بنائی گئیں تو کیا تو اے انسان نکما.تو بھی کوئی کام کر.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) ۱۸ رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ - ترجمہ.اور وہ ربّ ہے دو مشرقوں کا اور دو مغربوں کا.تفسیر.رَبُّ الْمَشْرِقَين - صيف وشتاءکےمطالعہ کے اختلاف کے اعتبار سےکہا.۲۰- مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِينِ - تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) اس نے دوسمندروں کو جاری کیا ہے جومل جائیں گے.تفسیر - مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ - بحر قلزم وبيرو روم - تعمیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۳)

Page 254

حقائق الفرقان ۲۷ - كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ - ۲۴۴ ترجمہ.ہر ایک جو اس پر ہے فنا ہونے والا ہے.تفسیر.سب جو اس ( زمین ) پر ہیں فنا ہونے والے ہیں.سُوْرَةُ الرَّحْمٰنِ فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۴۲ حاشیه ) ۲۸- وَيَبْقَى وَجْهُ رَبَّكَ ذُو الْجَللِ وَالْإِكْرَامِ - ترجمہ.اور باقی رہے گی ذات تیرے رب کی جو جلال اور بزرگی والی ہے.تفسیر.يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ.خدا کی توجہ جس شے میں ہے وہ رہ جائے گی.باقی سب فنا.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) بقاصرف ذات الہی کے واسطے ہے.دیکھوا.تمطاؤس ۶ باب ۱۶.لفظ وجہ کے معنی لغت عربی میں دیکھو.الْوَجْهُ مُسْتَقْبَلُ كُلَّ شَيْءٍ وَنَفْسُ الشَّيني یعنی وَجہ ہر چیز کے حصہ مقدم اور نفس شے کو کہتے ہیں.اس لئے ہم نے اردو ترجمے میں وجہ کا ترجمہ ذات کیا ہے.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول.صفحہ ۱۴۲) ۳۴- يُمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطن - ترجمہ.اے جماعت جن و انس کی ! اگر تم میں طاقت ہے کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جا سکو تو نکل بھا گو.نکل ہی نہ سکو گے مگر پروانگی کے ساتھ.تفسیر.کوئی خوبی اگر کسی میں ہے تو اس کا پیدا کرنے والا وہی اللہ ہے.اسی طرح اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ حسن ہے.تو سب محسنوں سے بڑا حسن تو اللہ ہے.جس نے تمہارے محسن کو بھی سب سامان اپنی جناب سے دیا اور پھر اس سامان سے تمتع حاصل کرنے کا موقع اور قومی بھی اُسی کے دیئے ہوئے ہیں.اگر کسی کی اطاعت اس لئے کرتے ہو کہ وہ بادشاہ حکمران ہے.تو تم خیال کرو.اللہ وہ احکم الحاکمین ہے.جس کا احاطہ سلطنت اس قدر وسیع ہے کہ تم اس سے نکل کر کہیں باہر نہیں جاسکتے چنانچہ فرماتا ہے.

Page 255

حقائق الفرقان ۲۴۵ سُوْرَةُ الرَّحْمنِ يمَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ.لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطن - یہ دنیا کے حاکم تو یہ شان نہیں رکھتے.جب ان کی اطاعت کرتے ہو تو پھر اس احکم الحاکمین کی اطاعت تو ضروری ہے.تشخیذ الا ذہان جلد ۷ نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۲۲۹) ۴۷.وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن - ترجمہ.اور جو کوئی ڈرا اپنے رب کے حضور میں کھڑے رہنے سے اس کے لئے دو بہشت ہیں.قرآن کریم میں وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتن میں دو جنتوں کے وعدے ہم کو دیئے ہیں.ایک دنیوی اور دوم بعد الموت.ایک وہ ہے جس کو توریت کے پیدائش باب ۱۵:۲۱ میں جنت عدن کہا ہے اور مسلم کی صحیح میں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۴۶) جنتن.ایک ایمان کا بدلہ، ایک اعمال کا ایک دنیا میں، ایک آخرت میں ، ایک قبر میں ، ایک حشر میں.تشحیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۳) ۵۹.كَانَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ - ترجمہ.وہ عورتیں گویا یا قوت اور مونگا ہوں گی.تفسیر.كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ.ایشیاء کو چک کی عورتیں ایسی ہی ہوتی ہیں.( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳)

Page 256

حقائق الفرقان ۲۴۶ سُوْرَةُ الْوَاقِعَةِ مَكَّيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْوَاقِعَةِ ا.ہم سورہ واقعہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اُس اللہ کے اسم شریف سے جو رحمن و رحیم ہے.۱۹،۱۸ - يَطُوفُ عَلَيْهِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُونَ بِالْوَابِ وَ آبَارِيقَ وَكَأْسٍ مِّنْ مَّعِينٍ - جمعہ.ان کے آس پاس پھرتے رہیں گے بچے جو سدا رہیں گے.آ بخورے اور کوزے اور چھا گئیں اور صاف پانی کے پیالے بھرے ہوئے.عسیر.اور پھرتے ہیں ان کے پاس بچے.سدا رہنے والے.آبخورے.تتیاں اور پیالے ستھرے پانی کے لے کر.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۴۱ حاشیہ) غلمان جمع ہے غلام کی اور ولد ان جمع ہے ولید کی.یہ دونوں لفظ بیٹوں.جوان خدمتگاروں کے لئے ہیں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۴۵) اور ان کے ارد گر دعمر در از بچے کوزوں اور لوٹوں اور خالص نتھرے صاف پانی کو لئے پھریں گے.اور اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک بشارت ہے.جو فتوحات ایران و روم میں اپنے جلال کے ساتھ ظاہر ہوئی.جوان اور ادھیٹر شاہی خاندان کے شاہزادے اور شہزادیاں مسلمانوں کے خادم ہوئے.مخلد ادھیڑ کو بھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۷۴) مُخلدون - جن کی پیشانی کے بال سفید ہوں.( تشخیز الا زبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳، صفحه ۴۸۳) ۳۵- وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ - ترجمہ.اور اونچے اونچے فرشوں میں ہوں گے.تفسیر.وَفُرُشٍ مَرْفُوعَةٍ - اعلیٰ خاندان کی بیویاں.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۳)

Page 257

حقائق الفرقان ۲۴۷ سُوْرَةُ الْوَاقِعَة ۳۹،۳۸ - عُرُبًا أَتْرَابًا - لِأَصْحُبِ الْيَمِينِ - ترجمہ.پیاری پیاری کم عمر والی بنایا ہے.داہنے ہاتھ والوں کے لئے.تفسیر - غربا.خاوند کو اپنی طرف کر لینے والی.عُرُبًا لاصحب الْيَمِينِ.جن کے اعمال صالحہ بڑھتے ہیں.حضرت ابنِ عربی ” نے لکھا ہے.انبیاء علیہم السلام کے مقام جنت میں چاندی کے ہوں گے.کیونکہ سفیدی تمام رنگوں کی جامع ہے اور ( تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۳) اولیاء کے سونے کے.سوال.حوروں پر اعتراض گوری ، کنواری، ہم عمر نوجوان، سیاہ آنکھوں والی دوشیزہ عورتیں ملیں گی.برہم چاری اس قسم کی شلیل باتوں کا منہ پر لانا بھی مہاں پاپ سمجھتا ہے.قرآن کریم کے كلمه طيبه ابكارا، عُرُبًا ، أَتْرَابًا پر اعتراض کیا ہے.الجواب : کیا انہی کتب صرف بر ہیچریہ کے لئے ہوا کرتی ہیں.نادان انسان! اگر خاص خاص مذاق کے لئے الہی کتابیں ہوں تو دوسرے مذاق والے کیا کریں.وہ شتر بے مہار رہیں.بتا ان کی اصلاح کون کرے؟ نیز چاہیے کہ نہ تم نے ستیارتھ پرکاش پڑھنا اور نہ منو کا شاستر اور چاہیے کہ تم دید کو بھی نہ پڑھو کیونکہ ۱۰۴ اور ۱۰۵ صفحہ ستیارتھ پر کاش میں لکھا ہے.اشونی.بھرنی وغیرہ ستاروں کے نام والی مشکلسی گلابی وغیرہ پودوں کے نام والی.گنگا جمنا ندی کے نام والی.پاریتی پہاڑ کے نام والی.پرندوں کے نام والی اور اس قسم کے نام والیوں سے نکاح نہ کرنا نمبر ۹ میں کہا ہے.نہ زردرنگ والی.نہ بھوری آنکھ والی وغیرہ.نمبر 11 میں کہا ہے جس کا نام زیبا جیسے بشودھا.سکھر اوغیرہ ہنس اور ہتھنی کے برابر جس کی چال ہو جس کے بار یک بال، سر کے بال اور چھوٹے دانت والی ہو.اور جس کے سب اعضاء ملائم ہوں.ایسی عورت کے ساتھ بیاہ کرنا.اس قدر حوالے غالباً اگر تم شریف الطبع ہو تو کافی ہیں.پس بڑا اور مہان پاپ کیا اس پاپی نے جس نے ست کے ارتھ میں ایسی شلیل باتوں کا ذکر کیا اور اس کے پڑھنے کو کہا !

Page 258

حقائق الفرقان ۲۴۸ سُوْرَةُ الْوَاقِعَة بد بخت ! کامل کتاب ضروریات اور حقیقی راحت بخش بات کا بیان نہ کرے تو کیا چنڈالوں کی کتا ہیں سچائی بیان کریں.کامل کتاب وہ نہیں ہو سکتی.جس میں صرف برہم چر یہ زندگی کا ہی تذکرہ ہو.نہ وہ جس میں صرف چند اخلاقی باتوں کا ہی تذکرہ ہو.نہ وہ جس میں صرف سوشل امور کا بیان ہو.نہ وہ جس میں صرف سیاست و انتظام کا معاملہ بیان ہو.نہ وہ جوصرف امور آخرت کے متعلق بحث کرے نہ وہ جس میں صرف عبادات کا ذکر ہو کامل کتاب تو وہ ہے.جس میں انسانی اخلاق و عادات، معاملات، سیاست، تمدن، امور بعد الموت اور الہی تعظیمات کی تعلیم بوجہ اتم بیان ہو.یہ بھی ایک موقع اسلام پر اعتراض کا بعض احمقوں کو ملا ہے.مثلاً کسی نے دیکھا کہ عورتوں کے متعلق قرآن شریف میں بحث ہے، پولیٹیکل بخشیں ہیں.تو ایک نامرد و نامراد کسمپرس بول اٹھا کہ ان مباحث کی کتاب الہی میں کیا ضرورت ہے.صرف بھیجن اور توصیف الہی کے گیت کافی تھے.چند لڑکے ان کو یاد کر لیتے اور وہ ڈھولکی پر گاتے.اور نگر کیرتن کرتے.ایک کنجوس اور غریب و مفلس بول اُٹھتا ہے کہ زکوۃ اور اعطاء صدقات کا کیوں قرآن شریف میں ارشاد ہے؟ ہمیشہ کا مفتوح ملک اور جس نے کبھی ذرہ سر اٹھایا تو منہ کے بل گرا.شریروں بدمعاشوں سے جنگ کا تذکرہ سن کر کیا خوشی حاصل کر سکتا ہے؟ جس کو کبھی مکالمات الہیہ کا شرف حاصل نہیں ہوا.وہ بر ہمومت کا آدمی یا عام طور کا غافل یا جس کو یقین ہے کہ الہبی مکالمہ کا شرف دوارب برس کے قریب ملہمان وید کے بعد پھر کسی کو بھی نصیب نہیں.وہ انبیاء کی وحی و مکالمہ کو ڈھکوسلا نہ سمجھے تو کیا کرے؟ یا جس قوم کو باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہوا اور نہ ان کو ضرورتیں پیش آئیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ بعض جگہ گائے کا دودھ اور جو کے ستو اور ساگ نہیں مل سکتا.گو بیہودہ لاف زنی سے کہتے ہوں کہ ہمارے بزرگ لے چکرورتی راجہ تھے وہ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ وَطَعَامُ الَّذِينَ أوتُوا الكتب - (المائدہ : 1 ) کا سرکس طرح سمجھے؟ تجربہ کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آسکتا.غرض جامع کتاب کو سب کچھ جو انسان کے لئے ضروری البیان ہے بیان کرنا پڑتا ہے.اگر وہ تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا تمہارے لئے حلال ہے.

Page 259

حقائق الفرقان ۲۴۹ سُوْرَةُ الْوَاقِعَةِ کتاب بیان نہ کرے جو اپنے آپ کو کامل و جامع کہتی ہے تو کون بیان کرے؟ اگر آپ نہ سمجھیں یا نہ چاہیں تو آپ کی خاطر کیوں ضرورتوں کے بیان کو ترک کیا جاوے؟ کیا ساری دنیا بر بیچر یہ مذہب رکھتی ہے؟ اللہ تعالیٰ نے دماغ برین اور اعصاب میں مختلف خواص رکھے ہیں.ان خواص کو مد نظر رکھنا کامل کتاب کا کام ہے! شلیل کہنا تمہاری شیریں کلامی کا ثبوت ہے.ابکارا، عُرُبًا ، أَتْرَابًا کے معنی کنواریاں.اپنے خاوندوں سے محبت کرنے والیاں.قریب العمر.کیا نیکوں کو ایسی نہ ملیں تو چڑیلیں ملیں؟ ( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۶۹ تا ۱۷۱) ۵۲ تا ۵۶ - ثُمَّ اِنَّكُمْ أَيُّهَا الصَّالُونَ الْمُكَذِبُونَ - لَاكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُومٍ - فَمَالِكُونَ مِنْهَا الْبُطُونَ - فَشْرِبُونَ عَلَيْهِ مِنَ الْحَمِيمِ - فَشْرِبُونَ شُربَ الهيم - ترجمہ.پھر تم اسے گمراہ اور مکذب لوگو! ضرور کھاؤ گے تھوہر کے درخت سے.پھر اس سے پیٹ بھرنا ہوگا.پھر اس پر گرم پانی پینا ہو گا.اور اس طرح پیو گے جس طرح پیاسا اونٹ بے تکا ہو کر پانی میں نے ایک شخص کو ایک بے نماز دکھلا یا جس کے گلے میں ایک زخم آ تشک کا تھا جس میں پیپ بھری ہوئی تھی.اور اس کا کھانا، پینا پیپ سے آلودہ ہو کر اندر جا تا تھا اس طرح سے پیپ کھانے کا عذاب میں نے دنیا میں دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کی پکڑ بڑی سخت ہے اس سے ڈرنا چاہیے.جب میں جوان تھا.مجھے طب کا بھی شوق تھا.ایک شخص میرے پاس آ تشک زدہ آیا.مجھے خیال آیا کہ جو بھنوا کر اس میں تھوہر کا دودھ جذب کر کے گولیاں بنائیں.میں نے اسے طعام الاثیم (یعنی گناہ گاروں کی غذا) سمجھ کر اُس کو بھی وہ گولی دی.اس نے اس کو گھبرا دیا.اور کہنے لگا.میرے اندر تو آگ لگ گئی ہے.پانی دو.پھر میں نے ( اس آیت کا خیال کر کے ) گرم پانی چند گھونٹ پلا دیا.اس کو قے اور دست شروع ہو گئے.مگر آتشک اچھا ہو گیا.( بدر جلد ۱۳ نمبر ۱۱،۱۰ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۱۳ء صفحه ۲۷)

Page 260

حقائق الفرقان ۲۵۰ سُوْرَةُ الْوَاقِعَةِ ۷۲ تا ۷۴.اَفَرَعَيْتُمُ النَّارَ الَّتِى تُوُرُونَ - وَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ نَحْنُ جَعَلْنَهَا تَذْكِرَةً وَ مَتَاعًا لِلْمُقْوِينَ - ترجمہ.بھلا دیکھو تو سہی جو تم آگ سلگاتے ہو.کیا تم نے اس کے درخت پیدا کئے ہیں یا ہم پیدا کرنے والے ہیں.(آگ کا مدار تو لکڑی پر ہے ) ہم نے اس آگ کو بنایا یاد دلانے اور جنگل میں رہنے والوں کے نفع کے لئے.تفسیر.اس آگ کو جسے جلاتے ہو سمجھتے ہو کیا تم نے اس کا درخت پیدا کیا یا ہم پیدا کرنے والے ہیں.- - فَلَا أُقْسِمُ بِمَوقع النُّجُومِ - ( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۳۴ حاشیہ) بموقع النُّجُومِ.ان لوگوں کے دل جن پر قرآن نازل ہو.قرآن کو پاک لوگ ہی سمجھتے لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ - تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) ترجمہ.اسے وہی چھوئیں گے اور سمجھیں گے جو پاک کئے گئے ہیں.تفسیر.ثابت ہوتا ہے کہ زمانہ پاک میں اس ( قرآن مجید ) کے نسخے موجود تھے.اسی واسطے فرما يالاً يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کیسا مشہور قصہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ ایمان لائے تو اس وقت آپ نے اپنی بہن کے پاس سے بیسویں سورت کی نقل لینی چاہی.ان تمام وجوہ کو جو قرآن کریم کی عصمت اور حفاظت کے ہم نے بیان کئے پڑھ کر اور ان میں غور کرنے کے بعد کون ایسا صاحب دل ہے جو قرآن کریم کی لانظیر عظمت میں شک کر سکتا ہے اور معاً اس نتیجہ صحیحہ پر پہنچنے سے رک سکتا ہے کہ دنیا میں قدیم سے اب تک کوئی ایسی کتاب نہیں.جسے اکرام اور حفاظت کا شرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملا ہو.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۱۷) کوئی فرماں برداری بدوں فرمان کے نہیں ہو سکتی.اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا.جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو.پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلم کی ضرورت

Page 261

حقائق الفرقان ۲۵۱ سُوْرَةُ الْوَاقِعَة ہے اور الہی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزکی اور مطہر القلب کے کسی کو نہیں آتی کیونکہ لَا يَمَسُّة الا الْمُطَهَّرُونَ.خدا تعالیٰ کا حکم ہے پس کیسی ضرورت ہے امام کی کسی مزکی کی.میں تمہیں اپنی بات سناؤں.تمہارا کنبہ ہے.میرا بھی ہے تمہیں ضرورتیں ہیں.مجھے بھی آئے دن اور ضرورتوں کے علاوہ کتابوں کا جنون لگا رہتا ہے.مگر اس پر بھی تم کو وقت نہیں ملتا کہ یہاں آؤ.موقع نہیں ملتا کہ پاس بیٹھنے سے کیا انوار ملتے ہیں.فرصت نہیں.رخصت نہیں.سنو! تم سب سے زیادہ کمانے کا ڈھب بھی مجھے آتا ہے.شہروں میں رہوں تو بہت ساروپیہ کما سکتا ہوں مگر ضرورت محسوس ہوتی ہے بیمار کو ظهر الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کا زمانہ ہے.میرے لئے تو یہاں سے ایک دم بھی باہر جانا موت کے برابر معلوم ہوتا ہے.تم شاید دیکھتے ہوگے کہ یہاں کھیت لہلہا رہے ہیں دنیا اپنے کاروبار میں اسی طرح مصروف ہے.مگر میرا ایک دوست لکھتا ہے کہ وبا کے باعث گاؤں کے گاؤں خالی ہو گئے ہیں.بے فکر ہو کر مت بیٹھو.خدا کے درد ناک عذاب کا پتہ نہیں.کس وقت آ پکڑے.غرض تو اس وقت سخت ضرورت ہے اس امر کی کہ تم اس شخص کے پاس بار بار آؤ.جو دنیا کی اصلاح کے واسطے آیا ہے.تم نے دیکھ لیا ہے کہ جو شخص اس زمانہ میں خدا کی طرف سے آیا ہے.وہ انہگہ نہیں ہے بلکہ علی وجہ البصیرت تمہیں بلاتا ہے.تم چاہتے ہو کہ اشتہاروں اور کتابوں ہی کو پڑھ کر فائدہ اٹھا لو.اور انہیں ہی کافی سمجھو.میں سچ کہتا ہوں اور قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہر گز نہیں ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بے فائدہ اپنے وطنوں اور عزیز واقارب کو چھوڑا تھا.پھر تم کیوں اس ضرورت کو محسوس نہیں کرتے.کیا تم ہم کو نادان سمجھتے ہو جو یہاں بیٹھے ہوئے ہیں کیا ہماری ضرورتیں نہیں؟ کیا ہم کو روپیہ کما نانہیں ستا ؟ پھر یہاں سے ایک گھنٹہ غیر حاضری بھی کیوں موت معلوم ہوتی ہے؟ شاید اس لئے کہ میری بیماری بڑھی ہوئی ہو؟ دعاؤں سے فائدہ پہنچ جاوے تو پہنچ جاوے مگر صحبت میں نہ رہنے سے تو کچھ فائدہ نہیں ہوسکتا.مختلف اوقات میں آنا چاہیے.بعض دن ہنسی ہی میں گزر جاتا ہے اس لئے وہ شخص جو اسی دن آ کر چلا

Page 262

حقائق الفرقان ۲۵۲ سُوْرَةُ الْوَاقِعَة گیا وہ کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں میں بیٹھے ہوئے قصہ کر رہے ہوں گے اس وقت جو عورت آئی ہوگی.تو حیران ہی ہو کر گئی ہوگی.غرض میرا مقصد یہ ہے کہ میں تمہیں توجہ دلاؤں کہ تم یہاں بار بار آؤ اور مختلف اوقات میں آؤ.حضرت امام شافعی” کا ایک شعر ہے الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۱ ء صفحه ۳) لے فَإِنَّ الْعِلْمَ نُورٌ مِّنْ الهِ و نُورُ اللهِ لَا يُعْطى لِعَاصِى یہ در اصل تفسیر ہے.لَا يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ کی.پس قرآن مجید کے غوامض کی تہہ کو پہنچنے اور معضلات کے مسائل کے حل کے لئے پاک زندگی اور مطہر قلب ہونا چاہیے.ایک معمولی مہمان کے لئے مکان صاف کیا جاتا ہے.اور حتی الوسع کوئی نا پا کی گندگی نہیں رہنے دی جاتی.تو خدا کے کلام کے معانی کے نزول کے لئے ایک مصفی دل کی کیوں ضرورت نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے معاملہ میں اگر لوگ اس اصل پر چلتے تو کبھی دھوکہ نہ کھاتے اور نہ مستوجب وعید ہوتے.چاہیے تھا کہ وہ خدا کے حضور رو رو کر عرض کرتے کہ الہبی ہم پر حق کھل جائے.استغفار کرتے صدقہ و خیرات دیتے اور پاک زندگی اختیار کرتے.انسان جو بُرے کام کرتا ہے.ان کی ابتدا ان وسوسوں سے ہوتی ہے.جو سینہ میں اٹھتے ہیں.ان کا علاج یہ ہے کہ جب ایسے خیالات کا سلسلہ اٹھنے لگے.تو اس جگہ کو بدل کر باہر چلا جائے.کسی سے باتوں میں لگ جائے.موت کو یاد کرے.ایک مشغلہ میں اگر وہ سلسلہ نہ ٹوٹے تو دوسرا مشغلہ اختیار کرے ( نماز کے ارکان قیام رکوع سجود سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے ).تنہا نہ رہے.قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دے.عام طور پر لا إلهَ إِلَّا اللہ بہت پڑھے.الحمد پڑھے.استغفار کرے.نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجے.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہ کا ورد کرے.تشخید الا ذبان جلدے نمبر ۳.ماہ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۳۷- ۱۳۸) علم اللہ کی طرف سے ایک نور ہے اور اللہ کا نور نافرمان کو عطا نہیں کیا جاتا.

Page 263

حقائق الفرقان ۲۵۳ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۂ حدید کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے پہلے حدید کو پیدا کیا پھر اس کے نتائج دکھلائے.٢ - سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - ترجمہ.اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے اور اللہ ہی عزیز اور حکیم ہے.تفسیر.سبح لِلہ.عرب میں ستاروں کی پرستش ہوتی تھی.مٹادی.خانہ کعبہ میں بت تھے.توڑ ڈالے گئے یہ سب تسبیح میں داخل ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۳) جو چیز نئی دنیا میں آتی ہے.کیسی پاکیزگی اپنے ساتھ لاتی ہے.جب یہ پتے گرے تھے کیسی خراب شکل تھی (جس درخت کے نیچے کھڑے ہو کر درس فرمارہے تھے.اس کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تھا) جب نئے پتے نکلتے ہیں.کیسے بھلے معلوم ہوتے ہیں.اروڑیوں پر کیسا گند ہوتا ہے مگر وہاں بھی جو پتہ نکلتا ہے.کیسا صاف ہوتا ہے.جب بارش کا پانی برستا ہے کیسا صاف ہوتا ہے.ماں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوتا ہے.کیسا مصفی اور بے عیب ہوتا ہے.نہ مشرک ہوتا ہے.نہ بے ایمان ہوتا ہے.بھینسوں اور کتیوں کے چھوٹے بچوں میں جو خوبصورتی پائی جاتی ہے وہ بڑوں میں نہیں پائی جاتی.اگر یہ آنکھیں نہ ہوں.کیسی دقت ہو.کان سے کیسی باتیں سنتے ہیں.زبان سے کیسی پاک باتیں نکلتی ہیں.خدا کے یہاں سے سب چیزیں پاک آتی ہیں.سَبَحَ لِلہ ہر چیز اللہ کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے.میرے پاس کوئی ایسا چا تو نہیں جس سے میں اپنا دل چیر کر تمہیں دکھلا سکوں کہ مجھے قرآن سے کس قدر محبت اور پیار ہے.قرآن کا ایک ایک حرف کیسا عمدہ اور پیارا لگتا ہے.مجھے قرآن کے ذریعہ سے بڑی بڑی فرحتوں کے مقام پر پہنچایا جاتا ہے.دنیا میں جتنی حکمتیں بنی ہوئی ہیں.سب اسی حکیم کی بنائی ہوئی ہیں.( بدر - کلام امیر جلد ۱۳ نمبر ۱۱،۱۰ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۱۳ ، صفحہ ۲۷)

Page 264

حقائق الفرقان ۲۵۴ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يُخي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - ترجمہ.اسی کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں اور وہ جلاتا ہے اور مارتا ہے اور وہ ہر ایک چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.تفسیر.وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے.ہر گھڑی میں پیدا بھی ہو رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں.کوئی ایسا نہ پیدا ہوا.جو موت کی دوا کرے.یاکسی انسان کو پیدا ہی کر سکے.موت سے بچنے کے لئے بادشاہوں نے فوجیں رکھیں.ہتھیار اور قلعے بنائے.دوائیں اور منتر اور ختم اور انتظام بنائے یہ سب کچھ ہوا.مگر کون کہہ سکتا ہے کہ کوئی اس سے بچا ہو.( بدر - کلام امیر جلد ۱۳ نمبر ۱۱،۱۰ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۱۳ء صفحه ۲۷) -۴- هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - ۴.ترجمہ.وہی سب سے پہلے ہے (اس سے پہلے کوئی نہیں ) اور وہی سب پیچھے ہے (اس سے پیچھے کوئی نہیں ) وہی ظاہر ہے (اس کے اوپر کوئی نہیں) وہی باطن ہے (اُس سے چھپی ہوئی کوئی چیز نہیں ) اور وہی ہر شے کا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر - هُوَ الْاوَلُ وَالْآخِرُ کے معنے یہ ہیں کہ جیسا کہ ایک مخلوق اپنی ابتدا میں اُس کا ( یعنی اللہ کا محتاج ہے ویسا ہی بقا و انتہا میں بھی اس کا محتاج ہے.یہ معنے غلط ہیں کہ وہ ( یعنی اللہ ) مخلوق کے پہلے تھا اور جب کل مخلوق فنا ہو جائے گی.تب وہی ہو گا اسی سے تو جنت کی نعماء کی حقیقت فانی ہی رہ جاتی ہے.( بدر جلد نمبر ۱ مورخه ۲ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳) هُوَ الْأَوَّلُ وَالآخِرُ.یہ معنے نہیں کہ پہلے کچھ نہ تھا یا قدیم واز لی.بلکہ صحیح معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اول ہے آخر بھی وہی ہے.ایجاد و بقاء اسی کا.هُوَ الظَّاهِرُ - لَيْسَ فَوْقَهُ شَيْءٌ - هُوَ الْبَاطِنُ - لَيْسَ دُوْنِهِ شَيْءٌ - هُوَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَهُ شَيْءٌ - هُوَ الْأَخِرُ - لَيْسَ بَعْدَهُ شَيْءٍ - تشخید جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۴٬۴۸۴) اللہ تعالیٰ کی یہ چار صفتیں ہر وقت رہتی ہیں.اللہ اول ہے اور جس وقت وہ اول ہے اسی وقت

Page 265

حقائق الفرقان ۲۵۵ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ آخر بھی ہے اور ظاہر بھی اور باطن بھی.ھو الاول کے یہ معنی غلط کئے گئے ہیں کہ ایک وقت میں خدا اکیلا تھا.پھر جہان بنایا.دیانند یوں نے بھی غلطی کی ہے کہ کہا کہ چار ارب سال ہو گیا.حالانکہ اگر مہاں سنکھ کو مہاں سنکھ میں مہاں سنکھ دفعہ بھی ضرب دیں.تب بھی خدا کی ہستی کا پتہ نہیں لگ سکتا.مگر قربان جائیے الحمد شریف کے جس نے رب العلمین فرما کر فیصلہ کر دیا.سب لوگوں نے جہان کی تاریخیں لکھیں.مگر قرآن نے اس کو چھوڑ دیا.عیسائی بڑے بے ہنگم مؤرخ ہیں.سات آٹھ ہزار سے نیچے ہی رہتے ہیں.پانڈوؤں کی لڑائی مسیح سے چار ہزار برس پہلے ہوئی.قرآن کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے بنانے کی کوئی تاریخ ہی نہیں بتائی.دراصل کوئی ہے ہی نہیں.آج بھی اللہ اول ہے اور آج ہی آخر بھی ہے جس وقت وہ مجھ کو بنارہا تھا.نطفہ سے بھی پہلے بقول ہم چو سبزه با ربا روئیده ام...الخل کے جب کہ اناج تھا.پھر روٹی بنی.خون بنا.نطفہ بنا.غرض کہ جس وقت وہ بنارہا تھا.جتنا حصہ میرا بن چکا تھا.ان سب وقتوں میں ربوبیت سے میری حفاظت فرما تا رہا.وہ ہر چیز کے بنانے کے وقت اس کی ابتدا.اوسط اور انتہا میں موجود ہوتا ہے.اوّل: لَيْسَ قَبْلَهُ شَی (جس سے پہلے کوئی شئے نہ تھی) آخر : لَيْسَ بَعْدَہ شَینی (جس کے بعد کوئی شے نہیں) الظاهر : لَيْسَ فَوْقَهُ شَيئ ( اس پر کسی وقت کوئی حکمران نہیں ) الباطن: لَيْسَ دُونَهُ شَيئ ( وہی پوشیدہ ہے.سوا اس کے کوئی چیز نہیں ہے) اللہ کی ربوبیت.رحمانیت اور رحیمیت اور مالکیت.اس سے کوئی الگ چیز ہو ہی نہیں سکتی.ایسی کوئی چیز نہیں جس پر اللہ کی ان صفات کا تسلط نہ ہو.لوگوں نے اس بات پر ہنسی اڑائی ہے کہ تم ہمیشہ کا بہشت کس طرح لو گے جب کہ صرف خدا ہی پیچھے رہ جائے گا.رب ، رحمن ، رحیم ، مالک.یہ چاروں صفتیں کبھی خالی نہیں رہتیں.زمانہ ہر وقت فنا ہوتا ہے.ماضی مر گیا.مستقبل دنیا پر آیا نہیں حال کا کوئی لے میں نے سبزہ کی مانند کئی مرتبہ نشو نما پائی ہے.

Page 266

حقائق الفرقان ۲۵۶ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ زمانہ ہی نہیں.یہ زمانہ جو ہر وقت فنا ہوتا رہتا ہے.اس کے اول.آخر خدا ہی ہے.ہر آن میں خدا ہی ہمارے ساتھ ہے.یہ معنی سوائے قرآن کریم کے اور کسی کو نہیں آتے.( بدر.کلام امیر جلد ۱۳ نمبر ۱۱،۱۰ مورخه ۱۵ رمئی ۱۹۱۳ء صفحه ۲۷) مصنف الجواہر القرآن نے جو ایک عیسائی ہے آیت هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ کو کہا ہے“ قرآن نے خدا کا نام ظاہر یا تو صرف قافیہ بندی کے لئے لیا ہے یا ویدانتیوں کی مث پر مخلوق کے جواب میں فرمایا: اس آیت میں پہلا نام الاول ہے اور دوسرا نام الآخر.یہ دونوں نام یسعیاہ ۴۴ باب ۶ میں موجود ہیں.رب الافواج فرماتا ہے ” میں اول اور آخر ہوں اور میرے سوا کوئی خدا نہیں، تیسرا نام اس آیت میں الظاہر اور چوتھا الباطن ہے.ظاہر کے معنی لغت عرب میں غالب اور بڑے زور والے کے ہیں.اور ظاہر اونچے کو بھی کہتے ہیں اور باطن مخفی کو.اب دیکھو ٹھیک انہیں الفاظ کے مرادف معنی.ایوب ا باب ۸.وہ تو آسمان سا اونچا تو کیا کر سکتا ہے.اور پاتال سے نیچے ہے تو کیا جان سکتا ہے.اور حدیث صحیح میں اس آیت کی تفسیر خود انصح العرب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے.هُوَ الْأَوَّلُ لَيْسَ قَبْلَهُ شَيئ یعنی جب مخلوق میں سے کسی موجود چیز کو دیکھو تو خدائے تعالیٰ کی ذات بابرکات اُس موجود مخلوق سے پہلے موجود ہے.مخلوقات سے کوئی ایسی چیز نہیں جو خدا سے پہلے ہو.هُوَ الْأَخِرُ لَيْسَ بَعْدَهُ شَیئ یعنی ہر چیز کی فنا اور زوال کے بعد اُس کی ذات پاک موجود ہے.هُوَ الظَّاهِرُ لَيْسَ فَوْقَهُ شَیئ یعنی ہر چیز سے اوپر اور غالب وہی ہے.اُس سے اوپر اور غالب کوئی شے نہیں.

Page 267

حقائق الفرقان ۲۵۷ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ هُوَ الْبَاطِنُ لَيْسَ دُونَهُ شَيْئ وہی پوشیدہ ہے.سوا اس کے کوئی چیز نہیں ہے.یہ تفسیر خوب واضح کرتی ہے کہ زبانِ عرب میں ان الفاظ کا مفہوم اور مراد یہ ہے.اور وہی ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۳۵) معتبر ہے.میں نے یہ دو آیتیں قائلین وحدۃ الوجود سے استدلال میں سنی ہیں.اوّل - وَفِي أَنْفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ - (الذاريات : (۲۲) :- دوسری آیت شریف.هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ مگر جب ان سے دریافت کیا گیا کہ جس چیز کے اول و آخر وہ ہو.وہ چیز آپ کیا ہوئی ؟ اور جس چیز کا ظاہر و باطن وہ ہوا.وہ خود کیا ہوئی ؟ تو عوام مدعیان وحدۃ الوجود ساکت رہ جاتے ہیں.ہاں البتہ وید میں مسئلہ وحدۃ وجود کی بنیاد مستحکم رکھی گئی ہے.اس لئے کہ آریہ ورت میں وحدت وجود کے مسئلہ کو ویدانت کہتے ہیں.اور خود یہ لفظ ہی ظاہر کئے دیتا ہے کہ اس کی اصل کہاں سے ہے.اور حضرت مرزا صاحب کے طحہ حق اور سُرمہ چشم آریہ کے جواب میں ایک میرٹھ کے آریہ صاحب جو چھاؤنی نصیر آباد ضلع اجمیر کی عدالت کے سر رشتہ دار ہیں.اپنی کتاب ”تنقیہ“ میں فرماتے ہیں.وہی پر آتما اپنی اچھا سے بہو روپ ہو گیا.یعنی رب شکلوں میں ظاہر ہوا.یہ تیسرے اپنشد کا بچن ہے.“ (انتہی تنقیہ نمبر ے) پھر صفحہ نمبر ۸ میں کہا ہے.اس تمام عالم مجسم کا ظہور نمت کا رن پر کرتی یعنی علت فاعلی پرمیشر سے ہے (انبی ) پھر صفحہ نمبر ۲۷ میں لکھا ہے.یہ بھی واضح ہو کہ ویدانتی یعنی آریوں کے فلاسفر پر میشر کو واحد الوجود مانتے ہیں یعنی جو کچھ ہے اللہ ہی اللہ ہے.ماسوا کچھ نہیں.لے اور خود تمہارے نفسوں میں بھی.تو کیا تم دیکھتے نہیں؟

Page 268

حقائق الفرقان ۲۵۸ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ صفحہ نمبر ۳۰ میں لکھا ہے.وو ارجن سرشٹی کا آد ( ابتدا ).اور مذہ (اوسط ).اور انت (آخر) میں ہوں.ودیاؤں (علم) میں برہم ودیا ( عرفان الہبی ) چر چا ( تذکرہ) کرنے والوں میں یاد میں ہوں“ مرہ کا لفظ جس کے معنے اوسط کے ہیں.بہت ہی توجہ کے قابل ہے.صرف پر میشر ہی یہ تمام دنیا ہے.جو کچھ ہو چکا ہے وہی تھا جو کچھ ہو گا وہی ہوگا“ (رگ وید بھاگ ۲ سکت ۹۰) منتر دوم شین اچارج کہتے ہیں ”جو کچھ گزشتہ زمانوں میں تھا.پر میشور تھا.جو کچھ اب موجود ہے پر میشر ہے.آدمیوں کے جسم جواب موجود ہیں اور گزشتہ زمانوں میں زندہ تھے.تمام پر میشور ہیں اور تھے.جو کچھ آئندہ زمانوں میں ہو گا وہ بھی پر میشر ہے وہ دیوتاؤں کا دیوتا ہے.اس چیز سے جو لوگ کھاتے ہیں وہ نشو نما پاتا ہے اور دنیا بھی اس کے ساتھ بڑھتی ہے.مایا کے سبب چیزیں مختلف نظر آتی ہیں.لاکن دراصل ہر ایک شئی پر میشر ہے.برہم کے تین حصہ اس دنیا سے پرے ہیں.اس کا ایک حصہ تمام دنیا ہے.یہی تمام ہے جو اس کے ایک حصہ سے بنا ہے.منتر ۴ “ پھرسنو! تنقیہ دماغ کا مصنف آریہ کیا کہتا ہے:.بموجب قرآن کے صرف اس قدر تو حید ہے کہ پیدا کرنے والا ایک ہے دو نہیں ہیں مگر بمقابلہ خدا کے دوسری موجودات مخلوق کے وجود سے انکار نہیں کیا گیا.گو اس نے ہی گھڑے پیدا کئے ہوں.مگر اس کے مقابلہ میں اسے علیحدہ موجود ہونا اور تا ابد موجود رہنا ، اہل اسلام کے یہاں ثابت ہے.جب اسے علیحدہ دوسری چیز کا موجود ہونا ثابت و ظاہر ہے.تو پھر تو حید کہاں؟ یہ تو دُوئی ہوگئی تنقیه صفحه نمبر ۲۸.اب میں ان دونوں آیات کا مطلب سناتا ہوں.مگر بیان شروع کرنے سے قبل مختصرسی تمہید کا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے.جب دو یا کئی چیزیں با ہم کسی امر میں شریک ہوتی ہیں اور کسی امر میں مختلف ہوتی ہیں تو ظاہر ہے کہ امر مشترک کے احکام میں ان مشتر کہ اشیاء کو اتحاد ہو گا.اور جن جن

Page 269

حقائق الفرقان ۲۵۹ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ باتوں میں ان چیزوں کو باہمی اختلاف ہوتا ہے ان باتوں میں جو جو احکام ہوں گے ان میں بھی اختلاف ہو گا.مثلاً حیوانات و نباتات جسمیت اور نمو میں باہم شریک ہیں.مگر حیوانات تحرک بالا رادہ، خورد، نوش وغیرہ اوصاف میں نباتات سے ممتاز ہیں.پس حیوانات و نباتات کو جسمیت اور نمو کے احکام میں بھی شرکت ہوگی.مگر خورد ، نوش ، جماع وغیرہ احکام میں حیوانات اور نباتات میں اشتراک ہو گا بلکہ حیوانات کو ان باتوں اور ان کے احکامات میں امتیاز و خصوصیت ہوگی.اسی طرح انسان و حیوان کے درمیان کھانے پینے ، جماع کی خواہش میں جس قدر اشتراک ہے اسی قدر کھانے، پینے، جماع کے احکام میں بھی اشتراک ہوگا.مگر انسان، ترقی، سطوت، جبروت، نئے علوم وفنون کی تحصیل اور نئے علوم کو اپنے ابنائے جنس کے سکھلا دینے میں حیوان سے ممتاز ہے.ان اشیاء کے احکام میں بھی حیوان سے ممتاز ہو گا.ایسے ہی بادی رسولوں اور عامہ آدمیوں میں گو عام احکام بشریت کے لحاظ سے اشتراک ہوتا ہے.رسولوں کا گروہ بخلاف اور عام آدمیوں کے البی مہم مصلح قوم، موید من اللہ ہوتا ہے.اس لئے عام احکامِ بشریت میں اگر چہ عامہ بشر سے اشتراک رکھتے ہیں.لیکن اپنی خصوصیت رسالت، نبوت، اصلاح قوم کے احکام میں عامہ خلائق سے ضرور جدا ہوتے ہیں.بلاتشبیہ ایک مفتوح ملک کی رعایا کے ساتھ ایک فاتح اور حکمران گورنمنٹ کا سپہ سالار یا مجاز حاکم اپنی گورنمنٹ کے حکم سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کو اپنی گورنمنٹ کے احکام سناوے.تو اگر اس مفتوح رعایا کے لوگ ان معاہدات اور احکام کی تعمیل نہ کریں.تو ضر وروہ رعایا اس گورنمنٹ کی مجرم، باغی ، غدار، نافرمان ٹھہرے گی.مگر وہی سپہ سالار اور گورنمنٹ کا ماتحت حکمران اس رعایا کو کوئی اپنا ذاتی کام بتا وے.اور اپنے طور پر ان رعایا میں سے کسی سے کوئی معاہدہ کرے اور اس رعایا کا آدمی اس سپہ سالار اور اس حاکم کی بات نہ مانے یا معاہدہ کا خلاف کرے تو یہ شخص جو اس سپہ سالا ر اور گورنمنٹ کے ماتحت حکمران کے معاہدہ اور حکم کا مخالف ٹھہرا ہے.گورنمنٹ کی بغاوت کا مجرم نہ ہوگا کیونکہ پہلی قسم میں اس سپہ سالار اور حاکم کے احکام فاتح گورنمنٹ کے احکام ہوا کرتے ہیں.اور اس سپہ سالار کی زبان فاتح گورنمنٹ کی زبان، اس کی تحریر فاتح گورنمنٹ کی تحریر ہوا

Page 270

حقائق الفرقان ۲۶۰ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ کرتی ہے.غور کرو.ایک قاتل کو مجاز حاکم کے حکم سے قتل کرنے والے یا پھانسی دینے والے کے ہاتھ اسی گورنمنٹ کے ہاتھ ہوتے ہیں جس کے حکم سے قاتل کو قتل کرنے والے اور پھانسی دینے والے نے قتل کیا اور پھانسی دیا.در صورت دیگر وہی پھانسی دینے والا کسی اور ایسے آدمی کو جس پر اس گورنمنٹ نے موت کا فتویٰ نہیں دیا قتل کر کے دیکھ لے کہ اس کا انجام کیا ہوتا ہے.پس اسی طرح اللہ تعالیٰ کے رسول ان کی بھی دو حالتیں اور دو جہتیں ہیں ایک حالت و جہت میں وہ آدمی ہیں بشر ہیں.اور دوسری حالت ان کی رسالت و نبوت کی ہے.جس کے باعث وہ رسول ہیں.نبی ہیں.البی احکام کے مظہر اور احکام رساں ہیں جس کے باعث ان کو پیغامبر کہتے ہیں پہلی حالت و جہت سے اگر وہ حکم فرما نویں تو اس حکم کا منکر باغی، منکر رسول نہ ہوگا.جس کو شرعی اصطلاح میں کا فر، فاسق، فاجر کہتے ہیں اور دوسری حالت و جہت سے اگر کوئی ان کے حکم کو نہ مانے تو ضرور ان کے نزدیک اس پر بغاوت، انکار کا جرم قائم ہو گا اور ضرور وہ کافر ، فاسق فاجر کہلا وے گا.اس جہت سے چونکہ وہ خداوندی احکام کے مظہر ہیں اور جس سے معاہدہ کرتے ہیں اس سے خدا کے حکم سے معاہدہ کرتے ہیں.اور معاہدہ کنندہ جو معاہدہ ان سے کرتا ہے.وہ اصل میں باری تعالیٰ سے معاہدہ کرتا ہے.پس اگر معاہدہ کنندہ معاہدہ کے خلاف کرے تو باغی و منکر بلکہ کافر ہو گا.نبی عرب محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رسالت و نبوت کا دعوی کیا اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا رسول بتایا.اب ان کو جب لوگوں نے نبی رسول مانا اور ان کے احکام کو الہی احکام یقین کیا.لامحالہ آپ سے ان کا معاہدہ حقیقہ اللہ تعالیٰ سے معاہدہ ہو گا.ہاں جو احکام اور مشورے اس عہدہ رسالت کے علاوہ فرما نویں ان احکام کی خلاف ورزی میں کفر و فسق نہ ہو گا.صحابہ کرام آپ کے عہد سعادت مہد میں یہ تفرقہ عملاً دکھاتے تھے.بریرہ نام ایک غلام عورت تھی.جب وہ آزاد ہو گئی.وہ اپنے خاوند سے جو ایک غلام تھا بیزار ہو گئی.مگر اس کا شوہر اس پر فدا تھا.وہ اس کی علیحد گی کو گوارا نہ کرتا تھا.وہ اس پر سخت کبیدہ خاطر ہوا.اور آنجناب کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس امر کی شکایت کی.آپ نے بریرہ سے اس کے ساتھ مصالحت کر لینے کو ارشاد فرمایا.بریرہ نے جواب دیا.آپ یہ

Page 271

۲۶۱ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ حقائق الفرقان وحی سے فرماتے ہیں یا عہدہ نبوت سے علاوہ بطور مشورہ کے فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا میں رسالت کے لحاظ سے یہ حکم نہیں دیتا.اپنی ذاتی رائے سے تجھے کہتا ہوں.اس نے نہ مانا اور کہا ورود ط مجھے اختیار حاصل ہے.اس طرح إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الهُكُمْ اللَّهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَ لَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكهف : 11) اس آیت میں شرک سے ممانعت اور اس امر کا بیان ہے کہ میں ایک بشر ہوں بشریت میں تمہاری مثل ہوں.خبر دار کبھی شرک نہ کرنا ، مجھے خدا نہ کہ بیٹھنا ، نہ میری عبادت کرنا، اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا.اور ایسا ہی ان آیات کریمہ میں غور کرنے والا یقین کر سکتا ہے کہ اسلام کہاں تک شرک سے بیزاری ظاہر کرتا ہے.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۹۵ تا ۲۰۰) ۲۲ - سَابِقُوا إلى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَ رُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ.ترجمہ.اپنے رب کی مغفرت کی طرف بڑھ جانے کی کوشش کرو اور اس بہشت کی طرف جس کی قیمت آسمان وزمین ہے.تیار کی گئی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے.تفسیر.دوڑو اپنے رب کی معافی کی طرف اور بہشت کو جس کا پھیلاؤ ہے.جیسے پھیلا ؤ آسمان اور زمین کا.رکھی گئی ہے ان کے واسطے جو یقین لائے اللہ پر اور اس کے رسولوں پر.یہ بڑائی اللہ کی ہے.دیوے اس کو جس کو چاہے اور اللہ کا فضل بڑا ہے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۸۸ حاشیه ) جنت کے متعلق عام طور سے یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے.کہ وہ آسمان پر ہے لیکن وَجَنَّةٍ لے اس کے سوا نہیں کہ میں تم سا ایک بشر ہوں مجھے حکم ہوتا ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے.پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہے وہ عمل نیک کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بلا وے.

Page 272

حقائق الفرقان ۲۶۲ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ ط عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أُعِدَّتْ لِلَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ے پر غور کریں تو بالجزم ایسا نہیں کہہ سکتے.کیونکہ جب جنت کی چوڑائی زمین و آسمان دونوں کو ملا کر پوری ہوتی ہے.تو پھر اس کا صرف آسمان پر ہونا کیونکر اس آیت کے مطابق ہو سکتا ہے.( تفخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۲۶-۲۲۷) ۲۶.لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَ مَنَافِعُ ج لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ - ترجمہ.بے شک ہم نے بھیجے ہمارے رسول کھلے کھلے نشان دے کر اور اتاری ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور تر از دو تا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور ہمیں نے لوہا اتارا جس میں سخت ہلاکت ہے لوگوں کے واسطے اور فائدے بھی ہیں تا کہ اللہ معلوم کر لے کہ کون بے دیکھے مدد کرتا ہے اللہ اور اس کے رسولوں کی.کچھ شک نہیں کہ اللہ زبر دست اور زور آور ہے.تفسیر.اختلافات سے گھبرانا بھی مومن کا کام نہیں.اللہ تعالیٰ نے اختلافات کے رفع کے لئے یہ آیت فرمائی ہے لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ.....یعنی اختلاف رفع ہوتے ہیں کتاب سے اور پھر میزان سے ، جس میں علم مناظرہ شامل ہے، پھر لوہا بھی فیصلہ کرتا ہے جو پچھلے زمانہ میں اگر بصورت تلوار فیصلہ کن تھا.تو اس زمانہ میں بصورت قلم.غرض اسلام نے ہر مشکل کے حل کرنے کے لئے طریق سکھایا ہے.مبارک وہ جو قرآن شریف پر عمل کرتے ہیں.( تفخیذ الا ذبان جلد ۷ نمبر ۳.ماہ مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۳۸) لے اور اس بہشت کی طرف جس کی قیمت آسمان وزمین ہے.تیار کی گئی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول کو سچے دل سے مانتے ہیں.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اوراللہ بڑے فضل کا مالک ہے.

Page 273

حقائق الفرقان ۲۶۳ سُوْرَةُ الْحَدِيدِ /// ۲- ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَأَتَيْنَهُ الإِنْجِيلَ وَ جَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأفَةً وَرَحْمَةً ۖ وَ رَهْبَانِيَةَ ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبَنَهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقٌّ رِعَايَتِهَا فَأَتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُم اَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَسِقُونَ - ترجمہ.پھر ہم نے لگا تار بھیجے ان کے پیچھے ہمارے رسول اور عیسی ابن مریم کو ان کے پیچھے بھیجا اور اس کو انجیل عطا فرمائی اور ان لوگوں کے دلوں میں جو اس کے پیرو ہوئے نرمی اور رحمت پیدا کی.اور گوشہ نشینی اور خیال ترک دنیا جو انہوں نے اپنی طرف سے ایجاد کر لیا تھا یہ قاعدہ ہم نے ان پر فرض نہیں کیا تھا مگر انہوں نے اللہ کے خوش کرنے کے لئے خود اپنے دل سے اختیار کیا ( مگر ) اس کو ایسا نہ نبھایا جیسا نبھانا چاہئے تھا پس ان میں سے جو ایمان لائے ہم نے ان کو اجر دیا اور بہت سے ان میں فاسق ہی ہیں.تفسیر- وَرَهْبَانِيَةَ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَهَا عَلَيْهِمْ.اور ایک دنیا چھوڑ نا انہوں نے نیا نکالا.ہم نے نہیں لکھا تھا یہ ان پر.فرقے یہود کے خلوت نشین اور بستی ستی جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خدا داد انعامات سے محروم تھے.اس بے جا تشر وكو آیت وَ رَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوهَا مَا كتبنهَا عَلَيْهِمْ فرما کر مٹادیا اور قدرتی انعامات سے متمتع ہونے کے لئے الآ یہ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا - (المومنون : ۵۲) اور قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ (الاعراف: ۳۳) کا فرمان راحت عنوان جاری فرمایا.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۶۴، ۲۶۵) لے اے لوگو.کھا ؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا.۲ تو کہہ کس نے منع کی ہے رونق اللہ کی جو پیدا کی اس نے اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی.

Page 274

حقائق الفرقان ۲۶۴ سُوْرَةُ الْمُجَادَلة سُوْرَةُ الْمُجَادَلَةِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ مجادلہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اُس اللہ کے نام سے جو سب واقعات کو پہلے ہی سے جانتا ہے اور عدل وانصاف سے فیصلے فرماتا ہے اور عاجزی کو بہت پسند فرماتا ہے.- وَ الَّذِينَ يُظْهِرُونَ مِنْ نِسَا بِهِمْ ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ منْ قَبْلِ أَنْ يَتَمَاشَا ذَلِكُمْ تُوعَظُونَ بِهِ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - ترجمہ.جو لوگ اپنی بیبیوں سے ظہار کر بیٹھیں پھر وہ اپنے کہے سے پلٹنا چاہیں (یعنی اپنے قول سے نادم ہوں ) تو ایک غلام آزاد کرنا چاہیے ایک دوسرے کو ہاتھ لگانے سے پہلے.اس بات کی تم کو نصیحت کی جاتی ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب خبر دار ہے.تفسیر.اس میں عرب کی ایک رسم کا ابطال فرمایا.تشھید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۴) جولوگ اپنی بیبیوں کو ماں کہہ بیٹھے.اور انہیں الگ کرنا چاہتے ہیں.پھر اس بات پر نادم ہوئے ان پر لازم ہے کہ بی بی کے پاس جانے سے پہلے غلام آزاد کریں وغیرہ وغیرہ.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۶) ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا قَالُوا.(۱) جو انہوں نے بات کی اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں.۲.ایک دفعہ نہیں بلکہ پھر کہہ دیتے ہیں.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۴) - إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللهَ وَرَسُولَهُ كَبِتُوا كَمَا كُبِتَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَ قد انْزَلْنَا ايتٍ بَيِّنَتِ وَ لِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ - ترجمہ.جو لوگ مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی وہ ذلیل ہوئے جیسے ذلیل ہوئے ان

Page 275

حقائق الفرقان ۲۶۵ سُوْرَةُ الْمُجَادَلة کے اگلے اور ہم نے اتاریں صاف صاف آیتیں اور منکروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے.تفسیر.جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے مخالف ہوتے ہیں.رد کئے جائیں گے.جیسے کہ پہلے مردود ہوئے.اور ہم کھلے کھلے نشان اتار چکے ہیں.ان کے منکروں کے لئے اہانت کا عذاب ہے.گویا ایک سبب ذلت کا اللہ اور اس کے فرستادہ کی (خواہ وہ کسی زمانہ میں ہو ) مخالفت ہے اور خدا کے کھلے کھلے نشانوں کا انکار.تشحیذ الا ذبان جلد ۶ نمبر ۱۰.ماہ اکتوبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳۹۳) ۹ تا ۱۱- اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَ يَتَنجَونَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ إِذَا جَاءُوكَ حَيَوكَ بِمَا لَمْ يُحَيِكَ بِهِ اللهُ وَ يَقُولُونَ فِي أَنْفُسِهِم لَو لَا يُعَذِّبُنَا اللهُ بِمَا نَقُولُ حَسْبُهُمُ جَهَنَّمُ ، يَصْلَوْنَهَا فَبِئْسَ الْمَصِيرُ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تناجيتُم فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ تَنَاجَوا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطن لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِّهِم شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَ عَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ b ج ترجمہ.تو انہوں نے ان کی طرف نظر نہ کی جن کو روک دیا گیا تھا کا نا پھوسی کرنے سے پھر وہ لوگ وہی کرتے ہیں جن سے اُن کو منع کر دیا گیا تھا اور وہ کانا پھوسی کرتے ہیں گناہ کی اور زیادتی کی اور رسول اللہ کی نافرمانی کی اور جب تیرے پاس آتے ہیں تو تجھ کو ایسے کلمے سے دعا سلام دیتے ہیں جس سے تجھ کو اللہ نے دعا سلام نہیں دی اور اپنے جی میں کہتے ہیں کہ اللہ ہم کو ہمارے کہنے کی سزا کیوں نہیں دیتا.ان کو جہنم کافی ہے اس میں وہ داخل ہوں گے پس وہ کیا ہی بُری جگہ ہے.اے ایماندار و ! جب تم ایک دوسرے کے کان میں بات کرو تو گناہ اور زیادتی اور رسول کی نافرمانی کی بات نہ کرو اور کان میں بات کرو تو نیکو کاری اور تقویٰ کی اور اللہ ہی سے ڈرو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ جس

Page 276

حقائق الفرقان ۲۶۶ سُوْرَةُ الْمُجَادَلة کی طرف تم اکٹھے کئے جاؤ گے.اس کے سوا نہیں کہ کانا پھوسی شیطانی حرکت ہے تا کہ وہ غمگین بنائے ایمانداروں کو اور ان کو تو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتے بغیر اللہ کے حکم کے اور ایمانداروں کو تو اللہ ہی پر بھروسا رکھنا چاہئے.تفسیر.تارک اسلام آریہ کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا.عیسائیوں سے زیادہ تم طاقتور نہیں ہو سکتے.وہ بھی اسلام کے معدوم کرنے میں ناکام ہیں.جن تدابیر پر تم چل رہے ہو اور تمہارے چھوٹے بڑے دھرماتما پارٹی اور گر یجو یٹ، حج ، وکیل وغیرہ جس راہ سے اسلام پر حملہ آور ہیں.یہ راہ کامیابی کی نہیں تم سے بہت پہلے مدینہ کے یہود نے اسی راہ کو اختیار کیا تھا اور ان کی مخفی کمیٹیاں استیصالِ اسلام کے لئے جان توڑ کوشش کر رہی تھیں.جن کا ذکر اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب میں یوں آیا ہے.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ - ترجمہ : کیا نہیں دیکھا تو نے ان لوگوں کی طرف کہ منع کئے گئے مخفی کا نا پھوسی سے پھر باز نہیں آتے.اور کمیٹیاں کئے جاتے ہیں اور فرمایا.اِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَنِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ امَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا یہ کانا پھوسی اور مشورہ اللہ سے دور ہلاک ہونے والی خبیث روح شیطان سے ہے کہ غم میں ڈالے مومنوں کو اور یہ لوگ کچھ بھی مومنوں کوضر ر نہیں دے سکیں گے.پہلے سپارے میں بھی ایسی مخفی مجالس کا ذکر ہے.مگر دیکھ لو وہ تمام مہران اور گرینڈ ماسٹر خائب و خاسر ہو گئے.آخر اللہ تعالیٰ سمیع بصیر علیم وخبیر ہے.اپنی مخلوق کی حرکت و سکون جانتا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۳۶، ۳۳۷) انسان کے دُکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں.سکھوں میں اور.کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے نا کام ہو تو اور طرز.طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا.GRAND MASTEFR !

Page 277

۲۶۷ سُوْرَةُ الْمُجَادَلة حقائق الفرقان يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ تَنَاجَوا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِى إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطِنِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ امَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ ۖ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم کوئی منصوبہ کرتے ہوا مجمنیں بناتے ہومگر یادر ہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرماں برداری کے بارے میں نہ ہو.بلکہ نیکی اور تقویٰ کا مشورہ ہو.بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے.مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسی علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی.یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے.اور وہ اپنے تئیں نَحْنُ ابناء الله و احباة سمجھنے لگے.لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی.ان میں بہت ہی حرامکاری شرک اور بد ذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبر دست قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کیا.T ( بدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳) -١٢ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَأَفْسَحُوا يَفْسَح اللهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انْشُزُوا فَانْشُزُوا يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَتِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - ترجمہ.اے ایماندارو! جب تم سے کہا جائے کہ کھل کر بیٹھو مجلسوں میں تو کھل کر بیٹھ جایا کرو.اللہ تمہارے واسطے کشائش دے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو اللہ اُن کے درجے بلند کرے گا جنہوں نے مانا اللہ اور رسول کا حکم تم میں سے اور جن کو علم دیا گیا ہے ( قرآن اور سنت کا ) اُن کے تو بڑے ہی درجے ہیں اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں.تفسیر.اللہ ایمان داروں اور پاک علوم کے عالموں کو ہی درجات پر پہنچا تا ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۳)

Page 278

حقائق الفرقان ۲۶۸ سُوْرَةُ الْمُجَادَلة ١٣ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَى نَجُوبِكُمْ صَدَقَةٌ ذَلِكَ خَيْرٌ لَكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ - ترجمہ.اور اے ایماندار و ! جب تم پیغمبر سے کان میں کچھ بات کرنا چاہو تو کان میں بات کرنے سے پہلے کچھ خیرات کر دیا کرو یہ تمہارے لئے بہتر اور پاکیزہ تر ہے.پھر اگر تم کو میسر نہ ہو تو بے شک اللہ غفور الرحیم ہے.تفسیر - فَقَدِمُوا بَيْنَ يَدَى تَجْونكُمْ - یہ حکم منسوخ نہیں ہوا.فرض نہ تھا.کیونکہ ذلِك خَيْرٌ لَكُمْ فرما یا.فَاذْلَمْ تَفْعَلُوا کے ساتھ وَ تَابَ اللهُ عَلَيْكُمْ فرما دیا.یعنی پہلے ہی اللہ رجوع برحمت کر چکا ہے کہ یہ حکم واجب نہ ٹھہرایا بلکہ مستحب ہے.چنانچہ اب بھی صلحاء امت حدیث پوچھنے سے پہلے صدقہ کر لیتے ہیں.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۴) ۲۰ - اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَنُ فَانْسْهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَبِكَ حِزْبُ الشَّيْطِنِ الَّا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطن هُمُ الْخَسِرُونَ - ترجمہ.ان پر شیطان مسلط ہو گیا ہے تو ان کو اللہ کا قرآن بھلا دیا ہے.اس کی یاد سے غافل کر دیا ہے تو یہی شیطانی لشکر ہے اور سن رکھو کہ شیطانی لشکر ہی نقصان پانے والا ہے.تفسیر.نبی کریم اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام تمام مخالفوں کے سامنے مظفر منصور بامراد رہے.اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات نہ ہوتی تو اس کے خلاف ہوتا اور یہ بات مجنون کی بڑ بن جاتی.مخالفوں کے حق میں فرما یا أُولَبِكَ حِزْبُ الشَّيْطنِ إِلَّا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطِنِ هُمُ الْخَسِرُونَ بِهِ مخالف شیطانی گروہ ہے.خبر دار ہو.بے ریب شیطانی گروہ ناکام رہے گا.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۲۲)

Page 279

حقائق الفرقان ۲۶۹ سُوْرَةُ الْمُجَادَلَةِ ۲۳ - لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَبِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيْمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحِ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهُرُ خَلِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَبِكَ حِزْبُ الله الا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - ترجمہ.تو نہ پائے گا ان لوگوں کو جو اللہ اور آخرت کے دن کو دل سے سچا جانتے ہیں کہ وہ ایسوں سے دوستی کریں جو مخالف ہوئے اللہ اور اس کے رسول کے گووہ ان کے مخالف باپ ہی ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی ہی ہوں یا اُن کے کنبے کے.یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان بھیج دیا، محفوظ کر دیا ہے اور ان کی تائید فرمائی ہے روح القدس سے اور اُن کو داخل فرمائے گا ایسے باغوں میں جن میں بہہ رہی ہیں نہریں وہ اس میں سدار ہیں گے.اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی.یہی لوگ اللہ کا لشکر ہیں تو یا درکھو اللہ ہی کا لشکر نہال و با مراد و مظفر ومنصور ہوگا.تفسیر - أُولَيْكَ حِزْبُ اللَّهِ إِلَّا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یہی لوگ خدا کی جماعت ہیں.اور یادرکھوخدا کی جماعت مظفر ومنصور ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۶۴)

Page 280

حقائق الفرقان ۲۷۰ سُوْرَةُ الْحَشْرِ سُوْرَةُ الْحَشْرِ مَدَنِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ حشر کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے سب انتظام پہلے ہی سے کر رکھے تھے اور سچی محنتوں کا بدلہ دینے والا ہے.اس سورۃ نے سنی وشیعہ کے جھگڑے دربارہ فدک کا فیصلہ کر دیا کہ یہ وراثت میں آہی نہیں سکتا.یہ مال فئے سے ہے.جس کے مصارف بتادے.مدینہ کے یہود نے بہت شرارتیں کیں.کئی قتل کر دیئے.نبی کریم صلعم کو اپنے محلہ میں بلا کر اوپر سے پتھر گرانے کی تجویز کی.حضور نے ان کو خیبر میں جلا وطن کر دیا.(اول الحشر ) پھر حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں وہاں سے بھی نکالے گئے.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۴) ور ۳،۲.سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - هُوَ الَّذِى اَخْرَجَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِاَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُه أَن يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونَهُمْ مِّنَ اللَّهِ فَانتَهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَ قَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِايْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا ولِي الْأَبْصَارِ - ترجمہ.اللہ کی تسبیح کر رہا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور وہی بڑ از بردست حکمت والا ہے.وہی ہے جس نے نکال کر باہر کر دیا ان کے گھروں سے ان لوگوں کو جو منکر ہوئے اہل کتاب میں سے پہلے ہی بھیڑ وجم لشکر میں.تمہارا تو یہ گمان نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ یہ گمان کرتے تھے کہ ان کو بچالیں گے ان کے قلعے اللہ کے ہاتھ سے.تو ان پر اللہ ایسی جگہ سے آ گیا ( یعنی عذاب الہی )

Page 281

حقائق الفرقان ۲۷۱ سُوْرَةُ الْحَشْرِ جہاں ان کا گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا کہ وہ اجاڑیں گے اپنے گھر اپنے ہی ہاتھوں سے اور ایمانداروں کے ہاتھوں سے بھی تو عبرت پکڑ والے آنکھ رکھنے والو! تفسیر.تورات میں بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ بچے نبی سے ڈریں لیکن ان لوگوں نے کفار مکہ کی طرح نبی برحق کی مخالفت کی.وعید الہی سے نڈر ہو گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنی نضیر ( بنی اسرائیل) ویران اور تباہ ہو کر مدینے سے نکل گئے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۰۴) بت پرست قومیں اسلام کے مقابلہ سے ہار کر بت پرستی کے دعوے سے باز آ رہی ہیں اور بالکل اس مسالہ میں صلح بجو ہورہی ہیں.کیونکہ انڈیا میں کچھ برہموں ہو گئے ہیں اور کچھ آریہ سماج.ادھر یورپ و امریکہ میں یونی ٹیرین.فری تھنکروں کا سمندر موج مار رہا ہے.اور کیا خوب ہوا حضرت مسیح کی خدائی نیست و نابود ہو رہی ہے.يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَ اَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الابصارِ مخلوق اسلام کے مقدس مذہب میں آ رہی ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۸۵) وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانہ میں لوگ خوف کھاتے تھے آج خود عیسائی قومیں اس مذہب کے عقائد سے متنفر ہو کر اس کے برخلاف کوشش میں ایسے سرگرم ہیں کہ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِايْدِيهِمْ کے مصداق بن رہے ہیں اور شرک کے ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصولوں کی طرف اپنا رخ کر رہے ہیں جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.یہ سب واقعات قرآن شریف کی اس پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں.کہ انا نحن نَزَلْنَا اللَّهِ كُرَ وَإِيَّالَهُ لَحَافِظُونَ تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے.اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.( بدر جلد ۲ نمبر ۵۰ مورخه ۱۳ / دسمبر ۱۹۰۶ صفحه ۹) ا.وَالَّذِينَ جَاءُو مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ - ترجمہ.اور ان کے لئے بھی ہے کے کا مال جو ان کے بعد آئے اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب !

Page 282

حقائق الفرقان ۲۷۲ سُوْرَةُ الْحَشْرِ ہمیں اور ہمارے بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے اور پیدا نہ کر ہمارے دلوں میں کوئی کینہ ایمان والوں کی طرف سے.اے ہمارے رب ! تو ہی بڑا شفیع اور نیک کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے دین کے سچے خادموں جو صحابہ، اولیاء، اصفیاء، اتقیاء اور ابدال کے رنگ میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے.ان کے واسطے بھی بوجہ ان کے حسن خدمات کے جن کی وجہ سے انہوں نے بعد رسول اکرم ہم پر بہت بڑے بھاری احسانات اور انعامات کئے.ان کے واسطے بھی دعا کرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی اس گروہ پاک کی مخالفت کرے گا.اور اس کو نظر عزت سے نہ دیکھے گا اور ان کے احکام اور فیصلوں کی پرواہ نہ کرے گا.تو وہ فاسق ہو گا.بلکہ وہاں تک جہاں تک تعظیم الہی اور تعظیم کتاب اللہ اور تعظیم رسول اللہ اجازت دیتی ہو.اس گروہ کا ادب و عزت کرنی اور اس خیلِ پاک کے حق میں دعائیں کرنے کا حکم قرآن شریف سے ثابت ہے.چنانچہ آیت ذیل میں اس مضمون کو یوں ادا کیا گیا ہے کہ وَ الَّذِينَ جَاء وَ مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ - غرض اپنے پہلے بزرگوں اور خادمانِ اسلام و شریعت محمدیہ کے واسطے دعائیں کرنا اور ان کی طرف سے کوئی بغض و کینہ، غل و غش دل میں نہ رکھنا.یہ بھی ایمان اور ایمان کی سلامتی کا ایک نشان ہے.پس انسان کو مرنج و مرنجان ہونا چاہیے.اور خدا کی باریک در بار یک حکمتوں اور قدرتوں پر ایمان لانا چاہیے.اور کسی سے بھی بغض و کینہ دل میں نہ رکھنا چاہیے.خدا کی شانِ ستاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا چاہیے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۵ مورخه ۶ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۴) ١٩ - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ ۖ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ - ترجمہ.اے ایماندارو! اللہ ہی کوسپر بناؤ اور چاہیے کہ دیکھ لے ہر ایک شخص کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور اللہ ہی کو سپر بناؤ بے شک اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بڑا خبر دار ہے.

Page 283

حقائق الفرقان ۲۷۳ سُوْرَةُ الْحَشْرِ تفسیر.تقویٰ اللہ اختیار کرو.اور ہر ایک جی کو چاہیے کہ بڑی توجہ سے دیکھ لے کہ کل کیلئے کیا کیا.جو کام ہم کرتے ہیں ان کے نتائج ہماری مقدرت سے باہر چلے جاتے ہیں.اس لئے جو کام اللہ کے لئے نہ ہو گا تو وہ سخت نقصان کا باعث ہوگا.لیکن جو اللہ کے لئے ہے تو وہ ہمہ قدرت اور غیب دان خدا جو ہر قسم کی طاقت اور قدرت رکھتا ہے اس کو مفید اور مثمر ثمرات حسنہ بنا دیتا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۳) اے ایمان والو! اللہ کا تقوی اختیار کر واور ہرنفس کو چاہیے کہ دیکھتار ہے کہ کل کے لئے اس نے کیا کیا اور تقوی اپنا شعار بنائے.اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو.اس سے خوب آگاہ ہے.غرض دنیا و عقبی میں کامیابی کا ایک گر بتایا کہ انسان کل کی فکر آج کرے.اور اپنے ہر قول و فعل میں یہ یادر کھے کہ خدا تعالیٰ میرے کاموں سے خبر دار ہے.یہی تقوی کی جڑھ ہے.اور یہی ہر ایک کامیابی کی روح ورواں ہے.برخلاف اس کے انجیل کی یہ تعلیم ہے جو ( متی ) باب ۶ آیت ۳۳ میں مذکور ہے بایں الفاظ کہ کل کے لئے فکر نہ کرو کیونکہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کرے گا آج کا دکھ آج کے لئے کافی ہے.اگر ان دونوں تعلیموں پر غور کریں تو صرف اسی ایک مسئلہ سے اسلام و عیسائیت کی صداقت کا فیصلہ ہوسکتا ہے.اور ایک نیک دل پارسا طالب نجات ، طالب حق خوب سمجھ لیتا ہے کہ عملی زندگی کے اعتبار سے کون سا مذ ہب احق بالقبول ہے.اگر انجیل کی اس آیت پر ہم کیا، خود انجیل کے ماننے والے عیسائی بھی عمل کریں تو دنیا کی تمام ترقیاں رک جائیں اور تمام کا روبار بند ہو جائیں.نہ تو بجٹ بنیں.نہ ان کے مطابق عمل درآمد ہو.نہ ریل گاڑیوں اور جہازوں کے پروگرام پہلے شائع ہوں.نہ کسی تجارتی کارخانے کو اشتہار دینے کا موقع ملے.نہ کسی گھر میں کھانے کی کوئی چیز پائی جائے.اور نہ غالباً بازاروں سے مل سکے.کیونکہ کل کی تو فکر ہی نہیں.بلکہ فکر کرنا ہی گناہ ہے.برخلاف اس کے قرآن مجید کی تعلیم کیا پاک اور عملی زندگی میں کام آنیوالی ہے.اور لطف یہ ہے کہ عیسائیوں کا اپنا عمل درآمد بھی اسی آیت پر ہے.ورنہ آج ہی

Page 284

حقائق الفرقان ۲۷۴ سُوْرَةُ الْحَشْرِ سے سب کاروبار عالم بند ہو جائیں.اور کوئی نظام سلطنت قائم نہ رہے.قرآن پاک کی تعلیم وَلْتَنْظُرُ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ پر عمل کرنے سے انسان نہ صرف دنیا میں کامران ہوتا ہے بلکہ عقبی میں بھی خدا کے فضل سے سرخرو ہوگا.ہم کبھی آخرت کے لئے سرمایہ نجات جمع نہیں کر سکتے جب تک آج ہی سے اس دار القرار کے لئے تیاری نہ شروع کر دیں.( تشحیذ الا ذبان جلد نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۲۲۸،۲۲۷) چاہیے کہ ہر ایک نفس دیکھ لے کہ اس نے کل کے واسطے کیا تیاری کی ہے.انسان کے ساتھ ایک نفس لگا ہوا ہے.جو ہر وقت متبدل ہے.کیونکہ جسم انسانی ہر وقت تحلیل ہو رہا ہے.جب اس نفس کے واسطے جو ہر وقت تحلیل ہورہا ہے.اور اس کے ذرات جدا ہوتے جاتے ہیں.اس قدر تیاریاں کی جاتی ہیں.اور اس کی حفاظت کے واسطے سامان مہیا کئے جاتے ہیں.تو پھر کس قدر تیاری اس نفس کے واسطے ہونی چاہیے جس کے ذمہ موت کے بعد کی جواب دہی لازم ہے.اس آنی فنا والے جسم کے واسطے جتنا فکر کیا جاتا ہے.کاش کہ اتنا فکر اس نفس کے واسطے کیا جاوے جو کہ جواب دہی کرنے اتنا والا ہے.إنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ.اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے آگاہ ہے.اس آگاہی کا لحاظ کرنے سے آخر کسی نہ کسی وقت فطرت انسانی جاگ کر اسے ملامت کرتی ہے.اور گناہوں میں گرنے سے بچاتی ہے.( بدر جلد ۲ نمبر ۵۰ مورخه ۱۳ / دسمبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۹) مومن کو چاہیے کہ جو کام کرے اس کے انجام کو پہلے سوچ لے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ انسان غضب کے وقت قتل کر دینا چاہتا ہے.گالی نکالتا ہے.مگر وہ سوچے کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ اس اصل کو مدنظر رکھے تو تقوی کے طریق پر قدم مارنے کی توفیق ملے گی.نتائج کا خیال کیونکر پیدا ہو.اس لئے اس بات پر ایمان رکھے کہ وَاللهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ کو اس کی خبر ہے.انسان اگر یہ یقین کرلے کہ کوئی خبر وعظیم بادشاہ ہے.جو ہر قسم کی بدکاری، دغا، فریب، سستی اور کاہلی کو دیکھتا ہے.اور اس کا بدلہ دے گا.تو وہ بچ سکتا ہے.ایسا ایمان پیدا کرو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے فرائض نوکری ، حرفه، مزدوری وغیرہ میں سستی کرتے ہیں.ایسا کرنے سے رزق حلال نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ سب کو تقوی کی توفیق دے.(الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۰۱۹ مورخه ۲۸،۲۱ رمئی ۱۹۱۱ صفحه ۲۶)

Page 285

حقائق الفرقان ۲۷۵ سُوْرَةُ الْحَشْرِ ۲۰.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَانهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ - ترجمہ.اور ان کے جیسے نہ بنو جنہوں نے اللہ کو چھوڑ دیا تو اللہ نے بھی ان کو ان کی جانوں سے بھلا دیا ( انہیں اپنی خیریت کی فکر نہ رہی اور دنیا میں مستغرق ہو گئے ) تو یہی لوگ بدچلن بد رویہ ہیں.تفسیر.ایسے لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جن کی نسبت فرمایا کہ نَسُوا اللَّهَ فَانْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ.یعنی جنہوں نے اس رحمت اور پاکی کے سرچشمہ قدوس خدا کو چھوڑ دیا اور اپنی شرارتوں ، چالا کیوں ، ناعاقبت اندیشیوں غرض قسم قسم کی حیلہ سازیوں اور رو باہ بازیوں سے کامیاب ہونا چاہتے ہیں.مشکلات انسان پر آتی ہیں.بہت سی ضرورتیں انسان کو لاحق ہیں.کھانے پینے کا محتاج ہوتا ہے.دوست بھی ہوتے ہیں.دشمن بھی ہوتے ہیں.مگر ان تمام حالتوں میں متقی کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ خیال اور لحاظ رکھتا ہے کہ خدا سے بگاڑ نہ ہو.دوست پر بھروسہ ہو.ممکن ہے کہ وہ دوست مصیبت سے پیشتر دنیا سے اٹھ جاوے یا اور مشکلات میں پھنس کر اس قابل نہ رہے.حاکم پر بھروسہ ہوتو ممکن ہے کہ حاکم کی تبدیلی ہو جاوے اور وہ فائدہ اس سے نہ پہنچ سکے اور اُن احباب اور رشتہ داروں کو جن سے امید اور کامل بھروسہ ہو کہ وہ رنج اور تکلیف میں امداد دیں گے.اللہ تعالیٰ اس ضرورت کے وقت ان کو اس قدر دور ڈال دے کہ وہ کام نہ آسکیں.پس ہر آن خدا سے تعلق نہ چھوڑنا چاہیے.جو زندگی ، موت، کسی حالت میں ہم سے جدا نہیں ہوسکتا.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے خدا سے قطع تعلق کر لیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے محفوظ نہ رہ سکو گے.اور سکھ نہ پاؤ گے.بلکہ ہر طرف سے ذلت کی مار ہوگی.اور ممکن ہے کہ وہ ذلت تم کو دوستوں ہی کی طرف سے آ جاوے.ایسے لوگ جو خدا سے قطع تعلق کرتے ہیں وہ کون ہوتے ہیں؟ وہ فاسق ، فاجر ہوتے ہیں.اُن میں سچا اخلاص اور ایمان نہیں ہوتا یہی نہیں کہ وہ ایمان کے کچے ہیں.نہیں ان میں شفقت علی خلق اللہ بھی نہیں ہوتی.الحکم جلد ۳ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۸۹۹ صفحه ۸-۹)

Page 286

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْحَشْرِ ٢٣ - هُوَ اللهُ الَّذِى لَا إِلَهَ إِلا هُوَ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيمُ - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی بھی سچا معبود نہیں چھپے اور کھلے کا بڑا جاننے والا ہے وہی بلا مبادلہ رحم فرمانے والا ہے مبادلہ دینے والا بھی ہے.وہ ذات پاک جس کا نام ہے اللہ تمام صفات کا ملہ سے موصوف.تمام برائیوں سے پاک.وہی جس کے سوا کوئی بھی پرستش و فرمانبرداری کے لائق نہیں.اپنی ذات کو جو تمام غیبوں کا غیب ہے آپ ہی جانتا ہے تمام ان اشیاء کو جو موجود ہو کر فنا ہوگئیں.یا اب تک ابھی پیدا ہی نہیں ہوئیں صرف اس کے علم میں ہی ہیں.اور تمام موجودات کو جانتا ہے.وہ رحمان بروں بھلوں سب کو روزی رساں، بن مانگے فضل کر نیوالا ، وہ رحیم جو بھلوں کو اپنے فضل و رحم سے بخشے اور کسی کے سوال و محنت کو ضائع نہ کرے.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۱۶۴٬۲۱۵) ۲۴- هُوَ اللهُ الَّذِاَ إلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَمُ الْمُؤْمِنُ مِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحْنَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی بھی سچا معبود نہیں وہ بادشاہ ہے ( ذرہ ذرہ کا ) ہر عیب سے پاک ہے.سلامت رہنے والا (اور سلامتی دینے والا ) امن دینے والا ( عذر کو ماننے والا اور اپنے حالات کا آپ ہی مصدق ) ، سب کا محافظ، بڑا زبردست گھاٹے کو پورا کرنے والا، تمام بڑائیوں کا مالک اللہ، پاک ہے شریک کرنے والوں سے.تفسیر.اسلام کا اصلی سر چشمہ اور اس کا حقیقی منبع اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے جس کا نام السلام ہے.قرآن کریم میں اس مبارک نام کا مبارک ذکر اس کلمہ طیبہ میں آیا ہے.دورو هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلامُ یعنی وہی اللہ ہے.کوئی معبود اور کاملہ صفات سے موصوف اس کے سوا نہیں.وہ حقیقی بادشاہ ہر ایک نقص سے منزہ و بے عیب و سلامت ہے.اور اسلام کا حقیقی ثمرہ دارالسلام ہے.جس کا آسمان وزمین اور لے اس سے ہمارا یہ مقصد ہے کہ اسلام کے لفظ میں خدائے علیم کی طرف سے پیشگوئی مرکوز ہے کہ اسلام اور اس کے تمام متعلقات ابد تک سلامتی اور حفاظت سے رہیں گے.جیسا کہ اس کے چشمہ یعنی اللہ تعالیٰ کا نام السلام ہے.اس لئے یہ نام اور یہ خرکسی مذہب کو نہیں ملا.منہ

Page 287

حقائق الفرقان ۲۷۷ سُوْرَةُ الْحَشْرِ درودیوار اور جس کے تمام یارو غمگسار طیب ہوں گے.اور ان کے میل جول میں سلامتی وسلام ہی ہوگا.جیسے فرمایا: وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلم - (يونس: ١١) (نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲) الْمُؤْمِنُ - امن دینے والا.دوسرے جو صداقتیں ان کو اللہ بھی مانتا ہے.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۴) قرآن مجید نے بھی اللہ تعالیٰ کو الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السّلام فرما کر اہلِ اسلام کو یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک الزام سے پاک ہے.مگر دیا نندی آریہ کہتے ہیں.خدا ارواح کا خالق نہیں ! اگر رزق دیتا ہے تو یہ صرف ارواح کے اعمال کی مزدوری ہے! اور وہ بایں کہ ارواح کا خالق نہیں.مگران کے پیچھے ایسا پڑا ہے کہ اس کی دست برد سے انہیں کبھی ابدی نجات نہ ہوگی !!! تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۳۹) وہی اللہ جس کے سوا کوئی دوسرا پرستش و فرماں برداری کے لائق نہیں.المَلِكُ پورا مالک اشیاء کی خلق و بقاء پر.القدوس.تمام ان اسباب عیوب سے پاک جن کو جس دریافت کر سکے یا خیال تصور کرے یا وہم اس طرف جا سکے یا قلبی قوامی سمجھ سکیں.السّلام تمام عیوب سے مبرا.سلامتی کا دینے والا.الْمُؤْمِنُ.امن کا بخشنے والا ، اپنے کمالات و توحید پر دلائل قائم کرنے والا.الْمُهَيِّين - سب کے اعمال کا واقف سب کا محافظ - العَزِیزُ.بے نظیر، سب پر غالب، ذرہ ذرہ پر متصرف.الجبار.سنوار نے والا ہمارے بگاڑوں پر اصلاح کے سامان پیدا کرنے والا ، اصلاح کی توفیق دینے والا.المُتَكَبَرُ.تمام مخلوقی عیوب اور مخلوق کے اوصاف سے مبرا ، تمام چھوٹوں بڑوں آسمانی اور زمینی شریک اور ساتھی سے اس کی پاک ذات بلند ہو.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۶) -۲۵ هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوَّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - b ترجمہ.وہی اللہ ہے جو اندازہ کرنے والا ، تجویز کرنے والا ، پیدا کرنے والا ہے ،موجد ہے،صورتیں ا اور آپس میں کہیں گے سلام (یعنی خیر و خوبی وسلامتی سے رہو )

Page 288

حقائق الفرقان ۲۷۸ سُوْرَةُ الْحَشْرِ بنانے والا، سب اچھے نام اُسی کے ہیں اس کی تسبیح یاد کرتے رہتے ہیں جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہیں.وہی بڑا ز بر دست بڑا ہی حکمت والا ہے.تفسیر.ھو.وہ خود بخود موجود جس کا نام ہے اللہ.الخَالِقُ.ہر ایک چیز کا کامل حکمت کے ساتھ اندازہ کرنے والا.البَارِی.ہر ایک چیز کو اس کے اندازہ کے مطابق بے نقص و تفاوت ظاہر کر نیوالا.المُصَورُ.اسی اندازہ اور عمدگی سے صورتوں اور شکلوں کا عطا کرنے والا.اسی کے ایسے نام ہیں کہ تمام خوبیوں پر شامل ہوں اسی کی تسبیحیں کرتی اور اسی کی پاک اور کامل ترین ہستی کو تمام وہ چیزیں جو آسمان و زمین میں ہیں ثابت کرتی ہیں وہ غالب جس کے تمام کام حکمتوں پر مبنی ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۶) هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنٰی.اللہ تعالیٰ ہے اندازہ کرنے والا ( خلق کے معنے لغت عرب میں تقدیر کے بھی آئے ہیں.اسی واسطے خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ - ( البقرة :٣٠) بلفظ ماضی صحیح ہے ) وجود بخشنے والا اور رنگ برنگ صورتیں عطا کرنے والا.تمام صفاتِ کاملہ سے موصوف تمام نقصوں سے منزہ نیست سے ہست کرنے والا.کیونکہ یہ ایک کمال ہے اور خدا کو سب کمالات حاصل ہیں.خدا کو انسان اپنے پر قیاس نہ کرے کیونکہ انو پیم لَيْسَ كَمِثْلِہ ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۶) لے جس نے زمین کی سب کی سب چیزیں تمہارے ہی واسطے پیدا کیں.

Page 289

حقائق الفرقان ۲۷۹ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ ہم سورہ ممتحنہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے اسم شریف سے جو پہلے ہی سے تجویز بتانے والا ہے، نیک انجام کرنے والا ہے.يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوّى وَ عَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَ إيَّاكُم أَنْ تُؤْمِنُوا بِاللهِ رَبَّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُم جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ تُسِرُّونَ إِلَيْهِمُ بِالْمَوَدَّةِ وَ اَنَا اَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمُ وَمَا أَعْلَنْتُمْ وَ مَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ - ترجمہ.اے ایماندارو! میرے اور تمہارے دشمنوں کو دوست مت بناؤ کہ ان کو تم پیغام بھیجو محبت کے سبب حالانکہ وہ اس سے منکر ہوئے ہیں جو تمہارے پاس برحق دین ہے.وہ تو تم کو اور رسول کو نکالتے ہیں اتنی ہی بات پر کہ تم مانتے ہو اللہ کو جو تمہارا رب ہے.اگر تم نکلے ہو میری راہ میں نیک کوشش کرنے کو اور میری خوشنودی کے لئے تو تم مخفی طور بھی تعلق نہ رکھو ان سے اور میں خوب جانتا ہوں تمہاری چھپی اور کھلی باتوں کو اور جو کوئی تم میں ایسا کرے گا تو اس نے سیدھا راستہ ہی چھوڑ دیا.تفسیر - وَمَنْ يَفْعَلْهُ مِنْكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِیلِ.اور جو کوئی یہ کام کرے تم میں سے وہ فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم.صفحہ ۳۱۱ حاشیہ ) بھولا سیدھی راہ..- عَسَى اللهُ أَنْ يَجْعَلَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ الَّذِينَ عَادَيْتُمْ مِنْهُمْ مَوَدَّةً وَ دو اللهُ قَدِيرُ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.ترجمہ.قریب ہے کہ اللہ پیدا کر دے تم میں اور ان لوگوں میں جن کے ساتھ تمہاری دشمنی ہے، دوستی اور اللہ ہر ایک چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا اور غفور الرحیم ہے.

Page 290

حقائق الفرقان ۲۸۰ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں بتایا ہے کہ کچھ عجب نہیں کہ تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان جن سے تمہیں عداوت ہے.ایک وقت دوستی پیدا کر دے اور اللہ اس بات پر قادر ہے.اس کے متعلق کلام نبوت میں نہایت عمدہ نصیحت فرمائی.آنحبِبْ حَبِيبَكَ هَوْنًا مَّا عَسَى أَنْ يَكُونَ بَغِيْضَكَ يَوْمًا مَّا وَأَبْغِضُ بَغِيْضَكَ هَوْنًا مَّا عَسَى أَنْ يَكُونَ حَبِيْبَكَ يَوْمًا مَّا.کسی سے دوستی کرو تو اس قدر نہ بڑھ جاؤ اور یہاں تک اسے اپنا راز دار نہ بنالو کہ اگر وہ تمہارا دشمن ہو جائے تو تمہیں نقصان پہنچا سکے اور اگر کسی سے دشمنی کرو تو اس قدر نہ بڑھو کہ اگر وہ تمہارا دوست بن جائے تو پھر تمہیں اپنی باتوں پر شرمسار ہونا پڑے.کیا پاک تعلیم ہے.دنیا میں ہزاروں مثالیں ایسی موجود ہیں.بظاہر موجودہ صورت حالات نے یہی فتویٰ دیا ہے کہ اب ان شخصوں میں کبھی اتحاد نہیں ہوسکتا.مگر معاً کچھ ایسے واقعات پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے.ایک دوسرے کے جاں نثار بن گئے.اس وقت اس نا کر دنی و نا گفتنی سلوکوں کی یاد کیا تکلیف پہنچاتی ہے.پس انسان کو چاہیے کہ پہلے ہی معتدلا نہ روش اختیار کرے تا کہ بعد میں شرم یا ندامت پیش نہ آئے.تنفیذ الا ذہان جلدے نمبر ۵.ماہ مئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۲۲۸) لَا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُوهُمْ وَ تُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - إِنَّمَا يَنْهكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ وَ ظَهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - ترجمہ.اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جو تم سے لڑے نہیں دین کے مقدمہ میں اور نہ تم کو نکالا تمہارے گھروں سے کہ تم ان کے ساتھ احسان کرو.اور ان کے حق میں انصاف کرو.بے شک اللہ پسند کرتا ہے عدل وانصاف کرنے والوں کو.تفسیر.جو لوگ تم سے مذہبی عداوت پر نہیں لڑتے.اور نہ انہوں نے تم کو جلا وطن کیا.ان ترمذی باب ماجاء فی الاقتصاد فى الحب والبغض

Page 291

حقائق الفرقان ۲۸۱ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ سے سلوک اور انصاف کے برتاؤ سے اللہ تعالیٰ کبھی نہیں منع کرتا.بلکہ ایسے منصف تو اللہ تعالیٰ کو محبوب و پیارے ہیں.اللہ تعالیٰ تو ان لوگوں کی محبت و دوستی سے تم کو منع کرتا ہے جنہوں نے تم سے مذہبی جنگ کی اور اسلام کے باعث تم سے لڑے اور تم کو جلا وطن کیا.اور تمہاری جلا وطنی میں تمہارے دشمنوں کے مددگار ہوئے.اور جو ایسے دشمنوں سے پیار کریں وہی ظالم ہیں.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۱، ۲۳۲) تارک اسلام آریہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ قرآن کہتا ہے ”مشرک اور کافرنا پاک ہیں ان سے دوستی مت لگاؤ" فرمایا ”منوادھیانمبر ۲ شلوک نمبر ۱۱.جو شخص وید کے احکام کو بذریعہ علم منطق سمجھ کر وید شاستر کی توہین کرتا ہے.وہ ناستک یعنی کا فر ہے.اس کو سادہ لوگ اپنی منڈلی سے باہر کر دیں.کافر کا لفظ بعینہ مطبوع نول کشور میں ہے.پھر ستیارتھ پرکاش سملاس نمبر ۱۰ صفحہ ۳۵۲ فقرہ نمبر ۶ میں ہے کبھی ناستک، شهوت پرست، دغاباز، دروغ گو، خود غرض، فریبی، حیلہ باز وغیرہ برے آدمیوں کی صحبت نہ کرے.آپت ( اہل کمال ) یعنی جو سچ بولنے والا دھرماتما اور دوسروں کی بہبودی جن کو عزیز ہے ہمیشہ ان کی صحبت کرنے کا نام سریشٹ آچار ( پاکیزہ چلن ) ہے.ستیارتھ سملاس صفحہ ۶ ستیارتھ صفحہ ۲۱۱ فقرہ ۵۳.منو ۷.۱۹۵ ۱۹۶.دشمن کو چاروں طرف ، محاصرہ کر کے رکھے اور اس کے ملک کو تکلیف پہنچا کر چارہ.خوراک.پانی اور ہیزم کو تلف و خراب کر دیوے.دشمن کے تالاب شہر کی فصیل اور کھائی کو توڑ پھوڑ دیوے.رات کے وقت ان کو خوف دیوے اور فتح پانے کی تجاویز کرے او نادان! کیا نا پاک اور بے ایمان اور منکر سے پاک اور ایماندار اور حق کے ماننے والے دلی تعلق پیدا کر سکتے ہیں؟ چیت را میوں،اگھوریوں، ناستکوں سے اب تجھے تعلق ہوسکتا ہے اور کیا سعید وشقی.برے بھلے.دیو اسر میں سنگرام ( جنگ ) چاہیے.یا با ہم پریم؟ اے سچائی سے دانستہ دشمنی کرنیوالے فلاح سے کوسوں بھاگنے والے! کبھی تو غور سے کام لے کیا یہ

Page 292

حقائق الفرقان ۲۸۲ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ تیرے اعتراض کچھ بھی راستی اپنے اندر رکھتے ہیں؟ اور اظہار حق کے لئے ایک اور آیت جو تمہارے اعتراض کی بیخ کنی کر دے تجھ کو سناتا ہوں.لَا يَنْصُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ لَمْ يُخْرِجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ أَنْ b تَبَرُوهُمْ وَتُقْسِطُوا اِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - إِنَّمَا يَنْصُكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ أَخْرَجُوكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظُهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۲۸۶) هُمُ الظَّلِمُونَ - لے اَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - احسان کرو تم ان سے اور انصاف کرو طرف ان کے تحقیق اللہ دوست رکھتا ہے انصاف کرنے والوں کو..یہ آیت کسی بے قابو مجذوب کا قول نہیں ہے.نہ کسی فلسفی کا خام خیال ہے بلکہ یہ اس شخص کا فرمودہ ہے جو ایسی سلطنت کا بادشاہ تھا جو اتنی قدرت رکھتی تھی اور جس کا انتظام ایسا عمدہ تھا کہ جیسے اصول کو چاہتی نافذ کر سکتی تھی.اور فرقوں اور اشخاص نے دین میں بھی اور سیاست مدن میں بھی مذہبی آزادی بخشنے کی ترغیب دی ہے مگر اس کے عمل درآمد کی تاکید صرف اس وقت تک کی ہے جب تک وہ خود بے قابو اور کمزور رہے ہیں لیکن شارع اسلام نے مذہبی آزادی کی ترغیب ہی نہیں دی بلکہ اُس کو احکامِ شریعت میں داخل کر دیا ہے.رسول اللہ نے بنی حارث اور بنی نجران کے بڑے استقف اور اساقفہ کو اور اُن کے مریدوں اور راہبوں کو بایں مضمون نامہ لکھا.کہ ہر چیز قلیل و کثیر جس حیثیت سے اب تمہارے کنائس اور خانقاہوں میں ہے.اسی لے نہیں روکتا تمہیں اللہ ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دینی لڑائی نہیں کی اور تمہیں گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے نیکی کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ کرو.بے شک اللہ پیار کرتا ہے انصاف کرنے والوں کو.بلکہ روکتا ہے تم کو اللہ ان لوگوں سے جنہوں نے تم سے دینی لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا اور تمہارے نکالنے میں دشمنوں کی مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو اور جولوگ ایسوں سے دوستی لگائیں وہ ظالم ہیں.

Page 293

حقائق الفرقان ۲۸۳ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ حیثیت سے وہ تمہارے پاس باقی رہے گی اور تم اسے اسی طرح کام میں لاؤ.جس طرح اب لاتے ہو.خود خداوند عالم اور اس کا رسول عہد کرتا ہے کہ کوئی اسقف اعظم اپنی عملداری سے اور کوئی راہب اپنی خانقاہ سے اور کوئی استف اپنے عہدے سے برخاست نہ کیا جاوے گا.اور ان کی حکومت اور حقوق میں کچھ تغیر و تبدل نہ کیا جاوے گا اور نہ اس بات میں کچھ تغیر کیا جاوے گا جو اُن میں مرسوم و مروج ہو اور جب تک وہ صلح و تدین کو اپنا شعار رکھیں گے اُن پر کسی قسم کا جور نہ کیا جاوے گا نہ وہ کسی پر جور و ظلم کرنے پائیں گے.جس زمانہ میں آنحضرت مبعوث ہوئے اُس زمانہ میں مختلف قوموں کے باہمی فرائض کو کوئی جانتا بھی نہ تھا کہ ایک قوم کو دوسری قوم سے کیا سلوک کرنا چاہیے.جب مختلف قو میں یا قبیلے باہم لڑتے بھڑتے تھے تو نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ضعیف آدمی تہ تیغ بے دریغ کئے جاتے اور بے گناہ لونڈی غلام بنائے جاتے اور قوم فاتح قوم مفتوح کے معبودوں یعنی بتوں کو لوٹ لے جاتی تھی.تیرہ سے برس کے عرصے میں رومیوں نے ایک ایسا سلسلہ قوانین اختراع کیا تھا.جو وسیع بھی تھا اور مضامین عالیہ سے مملو بھی تھا.مگر اُس اخلاق اور اُس انسانیت و مروّت کو جو ایک قوم کو دوسری قوم سے کرنی چاہیے.رومی خاک بھی نہیں سمجھتے تھے.وہ فقط اس غرض سے لڑائیاں لڑتے تھے کہ گردونواح کی قوموں کو مغلوب و مقہور کریں.اُن کے نزدیک عہد و پیمان کا نقض کر دینا کچھ بڑی بات نہ تھی بلکہ مصالح وقت پر مبنی تھی.دین مسیحی کے جاری ہونے سے بھی اُن خیالات میں کچھ تغیر و تبدل نہ ہوا.عیسائیوں کے زمانے میں بھی لڑائی میں وہی بے رحمیاں اور وہی قتل اور لوٹ مار ہوتی تھی جو رومیوں کے عہد میں ہوتی تھی اور فاتحین مفتوحین کو بلا تکلف لونڈی غلام بنا ڈالتے تھے اور عہد و پیمان کر کے پھر توڑ ڈالنا بے ایمان سردارانِ فوج کی رائے پر موقوف تھا.الغرض دین مسیحی نے قومی اخلاق کا کچھ تصفیہ نہ کیا.اس زمانہ کے محققین مسیحی نے اس قومی اخلاق کے فقدان کو اپنے دین میں ایک نقص عظیم نہیں قرار دیا ہے حالانکہ یہ نقص اس وجہ سے پیدا ہوا تھا کہ

Page 294

حقائق الفرقان ۲۸۴ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ ان کا دین ناقص اور نا تمام چھوڑ دیا گیا تھا.مذہب پروٹسٹنٹ نے جب فروغ پایا تب بھی علمائے مسیحی کی مذہبی تعدی میں کچھ فرق نہ آیا.بالم صاحب اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ اس مہذب دین ( پروٹسٹنٹ ) کے مختلف شعبوں اور فرقوں سے اعظم معاصی یہ معصیت سرزد ہوئی کہ بندگان خدا پر دین میں جبر وا کراہ کرتے ہیں.اور یہ گناہ ایسا ہے کہ ہر ایک ایماندار آدمی جتنی زیادہ کتب کی سیر کرتا ہے.اتنی ہی اس کو ان سے کدورت اور نفرت ہوتی جاتی ہے.“ الغرض عیسائیوں کے جدید فرقوں میں باہم یا کلیسائے روم سے اعتقادات مذہبی میں کیسا ہی اختلاف عظیم ہو مگر اس باب خاص میں وہ سب متفق الرائے ہیں کہ جو قو میں دین مسیحی کے دائرہ سے باہر ہیں اُن سے کوئی سلسلہ مواجب و حقوق مشترکہ کا قائم رکھنا یا کسی قسم کا فرض اُن کی نسبت بجالا نا حرام مطلق ہے برخلاف دین مسیحی کے یہ بات اسلام کی طینت میں داخل نہیں کہ اور اہل مذاہب سے کنارہ کشی اختیار کرے.اس زمانہ جاہلیت میں جبکہ نصف دنیا پر اخلاقی اور تمدنی تاریکی چھائی ہوئی تھی.آنحضرت نے وہ اصول تمام بنی آدم کی مساوات کے تعلیم فرمائے جن کی قدر اور مذہبوں میں بہت کم کی جاتی تھی.چنانچہ وہ لائق مؤرخ ( ہاتم صاحب ) جس کا قول ہم نے پہلے نقل کیا ہے لکھتا ہے کہ دین اسلام بندگانِ خدا پر عرض کیا گیا مگر کبھی ان سے جبر انہیں قبول کرایا گیا اور جس شخص نے اس دین کو بطیب خاطر قبول کیا اس کو وہی حقوق بخشے گئے.جو قوم فاتح کے تھے اور اس دین نے مغلوب قوموں کو ان شرائط سے بری کر دیا جو ابتدائے خلقت عالم سے پیغمبر اسلام کے زمانہ تک ہر ایک فاتح نے مفتوحین پر قائم کئے تھے.“ ہم اس امر کا قطعی انکار کرتے ہیں کہ اسلام نے کبھی لوگوں کو ز بر دستی مسلمان کرنا چاہا ہو بلکہ اسلام نے فقط اپنی ذات کی حفاظت کے لئے تلوار پکڑی اور اسی غرض سے شمشیر بکف رہا.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۸۳ تا ۸۵)

Page 295

حقائق الفرقان ۲۸۵ سُوْرَةُ الْمُمْتَحِنَةِ ۱۳ - يَاَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكُن بِاللهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقُنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلُنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَان يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَ اَرْجُلِهِنَّ وَ لَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعُهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - ترجمہ.اے نبی ! جب تیرے پاس ایماندار عورتیں آئیں کہ تجھ سے بیعت کریں اس بات کی کہ شرک نہ کریں گی اللہ کے ساتھ کسی کا اور نہ چوری کریں گی اور نہ زنا کریں گی اور نہ اپنی اولا د کو مار ڈالیں گی اور نہ کوئی بہتان نکا لیں گی کہ وہ جھوٹ بنالیں اپنے آپس میں خود ہی اور نہ تیری نافرمانی کریں گی کسی اچھے کام میں تو تو ان سے بیعت لے لیا کر اور ان کے لئے مغفرت کی دعا مانگا کر اللہ سے.بے شک اللہ غفور الرحیم ہے.تفسیر: ایک اور غلطی ہے وہ طاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں طاعت نہ کریں گے.یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے.وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفِ اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے.اسی طرح حضرت صاحب نے بھی شرائط بیعت میں طاعت در معروف لکھا ہے.اس میں ( بدر جلد ۸ نمبر ۵۲ مورخه ۲۱/اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱۱) ایک ستر ہے.

Page 296

حقائق الفرقان ۲۸۶ سُورَةُ الصَّف سُوْرَةُ الصَّفِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ صف کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے.- وَاذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاءِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ b دو مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَى مِنَ التَّورِيةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسمةَ اَحمَدٌ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ.ترجمہ.اور یاد کر جب عیسی مریم کے بیٹے نے کہا اے بنی اسرائیل میں اللہ کا بھیجا ہوا آیا ہوں تمہاری طرف اس کو سچابتا تا ہوں جو میرے سامنے ہے تو رات.اور خوش خبری سناتا ہوں ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد " ہے.پھر جب وہ رسول ان کے پاس آ گیا کھلے کھلے نشان لے کر تو بولے یہ توصریح قطع تعلق کرانے والا ہے.تفسیر.اور جب کہا علیسی مریم کے بیٹے نے.اے بنی اسرائیل میں بھیجا آیا ہوں اللہ کا تمہاری طرف سچا کرتا اس کو جو مجھ سے آگے ہے تو راہ اور خوش خبری سناتا ایک رسول کی جو آوے گا مجھ سے پیچھے اس کا نام ہے احمد.اس بشارت کو یوحنا نے اپنی انجیل میں لکھا ہے.دیکھو یوحنا۱۴ باب ۱۵.۱۷.میرے کلموں پر عمل کرو میں اپنے باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمہیں دوسرا تسلی دینے والا بخشے گا کہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے.قرآن نے کہا ہے.مسیح نے احمد کی بشارت دی اور یہ بشارت نبی عرب نے عیسائیوں کے سامنے پڑھ کر سنائی اور کسی کو انکار کرنے کا موقع نہ ملا.زمانہ دراز کے بعد جب قرآنی محاورات سے

Page 297

حقائق الفرقان ۲۸۷ سُوْرَةُ الصَّفْ بے خبری پھیلی.پادریوں نے کہہ دیا.یہ بشارت انجیل میں نہیں.وو پیشتر زمانے میں اناجیل کے باب اور آیت نہ تھے.والا پرانے اہلِ اسلام نشان دیتے.فارقلیط اور پر کلیٹاس یا پر کلیوس پر بڑی بخشیں ہوئی ہیں.میں کہتا ہوں یوحنا ۱۴ باب ۱۵ میں ہے.دوسرا تسلی دینے والا اور عرب کی کتب لغت میں حمد کے مادے میں دیکھ جاؤ.الْعَوْدُ أَحْمَدُ دوسرے آنے والے کو احمد کہتے ہیں.اور یہ بات بطور مثل عرب میں مشہور و معروف تھی.یہ بشارت قرآنیہ یوحنا ۱۴ باب ۱۵ کے بالکل مطابق ہے کیونکہ یوحنا ۱۶ باب ۱۲.” میری اور بھی بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں.پر اب تم اس کی برداشت نہیں کر سکتے.لاکن جب وہ رُوحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی.لاکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی اور وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھلائے گی.سب چیزیں جو باپ کی ہیں میری ہیں اس لئے میں نے کہا کہ وہ میری چیزوں سے لے گی اور تمہیں دکھاوے گی.یوحنا ۱۶ باب ۱۲.لاکن فارقلیط روح القدس وہ جسے میں باپ کی طرف سے بھیجوں گا.روحِ حق جو باپ سے نکلتی ہے آوے تو وہ میرے لئے گواہی دے گی اور تم بھی گواہی دو گے کیونکہ تم شروع سے میرے ساتھ ہو.میں نے تمہیں یہ باتیں کہیں کہ تم ٹھوکر نہ کھاؤ.یوحنا ۱۵ باب ۱۶،۲۶ بابا.اس بشارت پرغور کرو صاف صاف نبی عرب کے حق میں ہے.روح القدس اور روح الحق ہی قرآن لائے.دیکھو قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبَّكَ بِالْحَقِّ لِيُثَبَتَ الَّذِينَ آمَنُوا - (النحل : ١٠٣) رفيع الدرجتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِى الرُّوحَ مِنْ اَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنْذِرَ يَوْمَ ا تو کہہ اس کو اتارا ہے پاک فرشتے نے تیرے رب کی طرف سے تحقیق تا ثابت کرے ایمان والوں کو.

Page 298

حقائق الفرقان الثلاق - المومن: ١٢) ۲۸۸ سُوْرَةُ الصَّفْ بلکہ قرآن نے بڑے زور ہاں نہایت بڑے زور سے کہا ہے.محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) مظہر اتم اور حق ہیں.غور کرو.ا - وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - ( بنی اسرائیل : ۸۲) ٢ - إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ - (الفتح : ١١) وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَى - (الانفال: ۱۸) عیسائی خوش اعتقاد جیسے الوہیت مسیح اور کفارے پر یقین کر بیٹھے ہیں ایسے ہی یہ بھی خیال وو ہم کرتے ہیں کہ یہ بشارت مسیح کے حق میں اور یا روح القدس کے حق میں ہے.جو حواریوں پر اتری.حالانکہ یہ خیال عیسائیوں کا نہایت غلط ہے.اول تو اس لئے مسیح فرماتے ہیں میرے وصایا کو محفوظ رکھو.پھر اس روح کی خبر دیتے ہیں.پس اگر وہ روح مراد ہوتی ہے جو حواریوں پر اتری تو اس کی نسبت ایسی تاکید ضروری نہ تھی.کیونکہ جس پر نازل ہوتی ہے.اسے اشتباہ ہی کیا ہوتا ہے.حواری تو نزول روح کے عادی تھے.دوم یوحنا 4 ا باب سے میں اس رُوح کی تعریف میں لکھا ہے.وہ روح پاک میرے نام سے ہر بات تم کو سکھلا دیگی.اور یاد دلا وے گی تم کو وہ باتیں جو میں نے کہی ہیں.اعمال حواریوں سے معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح کے فرمانے سے حواری کچھ بھول گئے تھے.اور اس روح القدس نے جو حواریوں پر اتری.حواریوں کو کچھ یاد دلایا.ہاں نبی عرب نے بہت کچھ یاد دلایا.عیسائی مسیح کی خالص ہاں صرف انسانیت بھول گئے ل صاحب اونچے درجوں کا مالک تخت کا اتارتا ہے بھید کی بات اپنے حکم سے جس پر چاہے اپنے بندوں میں کہ وہ ڈراوے ملاقات کے دن سے.۲.تو کہہ آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ بیشک جھوٹ سے نکل بھاگنے والا.۳ جو لوگ ہاتھ ملاتے ہیں تجھ سے وہ ہاتھ ملاتے ہیں اللہ سے.ہے تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی.

Page 299

حقائق الفرقان ۲۸۹ سُورَةُ الصَّفِ تھے.عام بت پرستوں کی طرح الوہیت کو انسانیت سے ملا دیا تھا.مسیح کو معبود بنارکھا تھا.اسی کو کفارہ اپنے معاصی کا بنا رہے تھے.نبی تعرب نے سب کچھ یاد دلایا اور سیدھا راستہ بتایا.سوم.یوحنا ۱۵ باب ۲۶، ۱۶ باب امیں ہے وہ روح میرے لئے گواہی دیگی.اور تم بھی گواہی دیتے ہو.حواری تو مسیح کو خوب جانتے تھے.انہیں گواہی کی حاجت نہ تھی اور اوروں کو اس روح نے جو حواریوں پر اتری گواہی دی نہیں.اور روح القدس نے کوئی گواہی دی ہے تو وہی گواہی ہے جو حواریوں نے دی.اس روح القدس نے حواریوں سے علیحدہ ہر گز کوئی گواہی نہیں دی.چہارم.مسیح نے فرمایا.میرا جانا بہتر ہے.میں جاؤں تو وہ آوے.یوحنا ۱۶ باب ۷.صاف عیاں ہے مسیح کے وقت وہ روح نہ تھی.حالانکہ روح القدس یوحنا بپتسمہ دینے والے کے وقت سے مسیح کے ساتھ تھی.پنجم.یوحنا ۱۶ باب سے میں ہے.وہ سزا دے گی اور بالکل ظاہر ہے.وہ روح جو حواریوں پر اتری بلکہ خود می اور مسیح والی روح سزا دینے کے لئے نہ تھی.دیکھو یوحنا ۱۲ باب ۴۷ ششم.یوحنا ۱۶ باب ۱۲ میں ہے.مجھے بہت کچھ کہنا ہے پر اب تم برداشت نہیں کر سکتے.وہ روح جس کی بشارت ہے سب کچھ بتائے گی.یہ فقرہ بڑی سخت حجت عیسائیوں پر ہے.کیونکہ جو روح القدس حواریوں پر اتر کی اس نے کوئی سخت اور نیا حکم نہیں سنایا.تثلیث اور عموم دعوت غیر قوموں کی بلا ہٹ تو بقول عیسائیوں کے خود مسیح فرما چکے تھے.اور پولوس کی کارستانیوں نے تو کچھ گھٹایا ہے بڑھایا نہیں.ہاں اس روح القدس، اس روح الحق نے جسے فارقلیط کہیئے.پر کلیف اس.پاراکلیوس کیلئے، محمد کہیئے.احمد بو لیئے.عبداللہ اور آمنہ کے گھر جنم لے.صد با احکام حلت و حرمت اور عبادات اور معاملات کے قوانین مسیحی تعلیم پر بڑھا دیئے.فِدَاهُ أَبِي وَ أتى! ہفتم.یوحنا ۱۶ باب ۱۳.وہ اپنی نہ کہے گی اور یہی مضمون قرآن میں محمد بن عبد اللہ کی نسبت

Page 300

حقائق الفرقان ۲۹۰ سُوْرَةُ الصَّف بے مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى - إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يُوحَى (النجم:۵،۴) إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى الى (الانعام: (۵) قُلْ مَا يَكُونُ لَى أنْ أبَدِلَهُ مِنْ تِلْقَايُّ نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَى ائی.(یونس: ۱۶) ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۳۸ تا ۲۴۱) ٩ ١٠ - يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ - هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ وَ لَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ - ترجمہ.یہ چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے اور اللہ تو اپنے نور کو پورا کرنے والا ہے اگر چہ بڑا ما نا کریں کافر.وہی اللہ ہے جس نے بھیجا اپنے رسول ( محمد مصطفی احمد مجتبی صلی تم کو ہدایت کا سچا دین دے کر تا کہ اس کو غالب کرے سب ہی دینوں پر گومشرک برا مانا ہی کریں.تفسیر.چاہتے ہیں کہ بجھا دیں اللہ کی روشنی اپنے منہ سے اور اللہ کو پوری کرنی ہے اپنی روشنی اور پڑے برا مانیں منکر.وہی ہے جس نے بھیجا اپنا رسول راہ کی سوجھ لے کر اور سچا دین کہ اس کو غالب کرے او پر تمام دینوں کے اور پڑے بر اما نیں مشرک.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۶۵ حاشیہ ) ا نہیں بولتا ہے اپنے چاؤ سے یہ تو حکم ہے جو بھیجتا ہے.لے میں اسی پر چلتا ہوں جو مجھ کو حکم آتا ہے.س تو کہ میرا کام نہیں کہ اس کو بدلوں اپنی طرف سے.میں تابع ہوں اسی کا جو حکم آوے میری طرف.

Page 301

حقائق الفرقان ۲۹۱ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ جمعہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس نے اگلی اور پچھلی جماعتوں کو پہلے سے نیک بنا رکھا ہے اور ان کی نیک کوششوں کا بدلہ دینے والا ہے.۲ تا ۶ - يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ـ هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلَتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ـ مَثَلُ الَّذِينَ حَمِلُوا التَّوريةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا بِئْسَ مَثَلُ الْقَوْمِ b.الَّذِينَ كَذَبُوا بِأَيْتِ اللَّهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - ترجمہ.اللہ ہی کی تسبیح میں لگی ہوئی ہیں سب چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں.جوسب کا بادشاہ پاک ذات غالب حکمت والا ہے.وہی اللہ جس نے اُمیوں میں ( یعنی مکہ والوں میں ) رسول انہیں میں سے بھیجا جو ان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتا اور ان کو پاک صاف کرتا اور ان کو کتاب و دانائی کی باتیں سکھاتا ہے بے شک وہ اس سے پہلے صریح نا سمجھی میں تھے.اور ان میں سے پچھلوں کو جو ابھی ان سے ملے نہیں اور وہی زبر دست حکمت والا ہے.یہ اللہ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے دے دیتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل والا ہے.ان لوگوں کی مثال جن پر توریت لا دی گئی ہے پھر انہوں نے اس کو اٹھایا ہے ( ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گدھا ہے جو کتابوں سے لدا ہے.بُری مثال ہے

Page 302

حقائق الفرقان ۲۹۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ لوگوں کی جنہوں نے جھٹلا یا اللہ کی آیتوں کو اور بے جا کام کرنے والوں کی چال تو اللہ کی بتائی ہوئی نہیں.تفسیر.یہ ایک سورۂ شریفہ ہے اور ایسی مہتم بالشان سورۃ ہے کہ مسلمانوں میں جمعہ کے دن پہلی رکعت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد صحابہ، تابعین، تبع تابعین کے زمانہ تک سنائی جاتی تھی.اور اب تک بھی پڑھی جاتی ہے.اس سے تم اندازہ کر لو کہ کس قدر مسلمان گزرے ہیں اور آج تک کس قدر جمعے پڑھے گئے ہیں.اور پھر اس سورہ شریف کو پڑھ کر نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کا اتباع کیا ہے اور اس سورۃ کو جمعہ کے دن خصوصا پڑھ کر لوگوں کو آگاہ کیا ہے.پھر جمعہ ہی کو نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم علیہ التحیۃ والتسلیم جمعرات کو بھی عشاء کی پہلی رکعت میں اس کو پڑھا کرتے تھے.پس ہر ہفتہ میں دو بار جہری قرآت کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورۃ کو پہنچایا ہے.اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ ہمارے سید و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر اہتمام اس سورۃ کی تبلیغ میں تھا.پس مسلمانوں کو لازم ہے کہ وہ اس سورۃ شریف پر بہت بڑی غور وفکر کریں اور میں تمہیں پکار کر کہتا ہوں کہ افلا يتدبرون؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس التزام اور اہتمام پر نظر کر کے اس سورہ شریف پر خاص غور کی ہے.یوں تو قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک ہر روز اس کو کئی مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا.مجھے آرام اور چین نہیں آتا.بچپن ہی سے میری طبیعت خدا نے قرآن شریف پر تدبر کرنے والی رکھی ہے.اور میں ہمیشہ دیر دیر تک قرآن شریف کے عجائبات اور بلند پروازیوں پر غور کیا کرتا ہوں.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس قدر اہتمام اس کی تبلیغ میں کیا ہے.اس نے مجھے اس سورہ شریف پر بہت ہی زیادہ غور اور فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا اور میں نے دیکھا ہے کہ اس سورہ شریف میں قیامت تک کے عجائبات سے آگاہ کیا گیا ہے.بڑے بڑے عظیم الشان مقاصد جو جمعہ میں رکھے گئے ہیں ان سے آگاہ کیا ہے.میرا اپنا خیال نہیں نہیں ایمان بلکہ اس سے بھی بڑھ کر میں کہتا ہوں.میرا یقین ہے اور میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ وہ ٹھوکریں جو اس عظیم الشان جمعہ ( منجملہ ان کے مسیح موعود کے نزول کا مسئلہ بھی ہے ) میں لوگوں کو لگی

Page 303

حقائق الفرقان ۲۹۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہیں وہ اسی عدم تدبر ہی کی وجہ سے لگی ہیں.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس التزام پر عمیق نگاہ کی جاتی.اور اس سورۃ پر تدبر ہوتا تو میں کہہ سکتا ہوں کہ بہت کم مشکلات ان لوگوں کو پیش آتیں.غرض یہ سورۃ اپنے اندر لا انتہا حقائق اور عجائبات رکھتی ہے اور قیامت تک کے واقعات کو بیان کرتی ہے.جن پاک الفاظ سے اس کو شروع کیا گیا ہے.اگر کم از کم ان الفاظ پر ہی غور وفکر کی جاتی تو مجھے امید ہوتی ہے کہ اسماء الہی میں تو کم از کم ٹھوکر نہ لگتی.وہ پاک الفاظ جن سے اس سورۃ کا شروع ہوتا ہے.یہ ہیں يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّ وَسِ الْعَزِيزِ الحكيم - جو کچھ زمین و آسمان میں ہے.وہ سب اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں.اس اللہ کی جو الملك ہے الْقُدوس ہے الْعَزِیز ہے اور الْحَکیم ہے.تسبیح کیا ہوتی ہے؟ سورۃ بقرۃ کے ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی زبان سے بتایا ہے.نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِسُ لَكَ - (البقرۃ:۳۱) قرآن شریف میں جہاں تسبیح کا لفظ آیا یا ہے.وہاں کچھ ایسے احسان اور انعام مخلوق پر ظاہر کئے ہیں جن سے حمد الہی ظاہر ہوتی ہے.اور ان احسانات اور انعامات پر غور کرنے کے بعد بے اختیار ہو کر انسان حمد الہی کرنے کے لئے اپنے دل میں ایک جوش پاتا ہے ہمارے پاک سید و مولیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے فرمایا ہے.سُبُحْنَ الَّذِى اسرى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصا.(بنی اسرائیل:۲) اور پھر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو ارشاد ہوتا ہے.سبح اسم ربك الأعلى ( الاعلیٰ :۲) غرض جہاں جہاں ذکر آیا ہے خدا کے محامد، بز رگیاں اور عجیب شان کا تذکرہ ہوتا ہے تو اس سورۃ کو جو ٹیسبحُ لِلہ سے شروع فرمایا گیا ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے محامد اور انعامات اور احسانات اور فضلِ عظیم کا تذکرہ یہاں بھی موجود ہے.ہر چیز جو زمین اور آسمان میں ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتی ہے.یہ ایک بدیہی اور صاف مسئلہ ہے.نادان دہر یہ یا حقائق الاشیاء سے ناواقف سوفسطائی اس راز کو نہ سمجھ سکے تو لے ہم تو تیری تعریف کے ساتھ کہتے ہیں کہ تیری ذات پاک خوبیوں ہی خوبیوں والی اور سب عیبوں سے پاک ہے..وہ پاک ذات ہے جو لے گیا اپنے پیارے محمد کو راتوں رات مسجد حرام سے اس اخیر مسجد تک.

Page 304

حقائق الفرقان ۲۹۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ید امر دیگر ہے مگر مشاہد ہ بتارہا ہے کہ کس طرح پر ز روز رو خدا تعالیٰ کی تقدیس اور تسبیح بیان کر رہا ہے.دیکھو ایک کو جو زمین سے نکلتی ہے.بلکہ میں اس کو وسیع کر کے یوں کہہ سکتا ہوں کہ وہ پتہ جو بول و براز میں سے نکلتا ہے.کیسا صاف شفاف ہوتا ہے.کیا کوئی وہم وگمان کر سکتا تھا کہ اس گندگی میں سے اس قسم کا لہلہاتا ہوا سبزہ جو آنکھوں کو طراوت دیتا ہے.نکل سکتا ہے.اس پتہ کی صفائی نزاکت اور نظافت خود اس امر کی زبر دست دلیل اور شہادت ہے کہ وہ اپنے خالق کی تسبیح کرتا ہے.اسی طرح پر ذرا اور بلند نظری سے کام لو اور دیکھو کہ انسان کے جس قدر عمدہ کام ہیں وہ روشنی میں کرتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ کے جتنے عجائبات ہیں وہ سب پردہ میں ہوتے ہیں اور پھر کیسے صاف کیسے دل خوش کن اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے والے ہوتے ہیں.ایک انار کے دانہ کو دیکھو.کیسے انتظام اور خوبی کے ساتھ بنایا گیا ہے.کیا وہ دانہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح نہیں کرتا؟ اسی طرح پر آسمان اور آسمان کے عجائبات اور اجرام کو دیکھو.نیچر کے عجائبات سے ناواقف تو عجائبات نیچر کی ناواقفیت کی وجہ سے یہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں امر خلاف نیچر ہے.مگر میرا یقین یہ ہے کہ جس جس قدر سائنس اور دوسرے علوم ترقی کرتے جائیں گے.اسی قدر اسلام کے عجائبات اور قرآن شریف کے حقائق اور معارف زیادہ روشن اور درخشاں ہوں گے اور خدا کی تسبیح ہوگی.غرض یہ سچی بات ہے کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتا ہے.ہر ایک ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ خالق ہے اور اسی کی ربوبیت اور حیات اور قیومیت کے باعث ہر چیز کی حیات اور قائمی ہے.اسی کی حفاظت سے محفوظ ہے.پھر یہ بھی کہ وہ اللہ الملک ہے.وہ مالک ہے.اگر سزا دیتا ہے تو مالکانہ رنگ میں.اگر پکڑتا ہے تو جابرانہ نہیں بلکہ مالکانہ رنگ میں تاکہ ما خود شخص کی اصلاح ہو.پھر وہ کیسا ہے؟ القدوس ہے اُس کی صفات وحمد میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو نقصان کا موجب ہو.بلکہ وہ صفات کا ملہ سے موصوف اور ہر نقص اور بدی سے منزہ الْقُدُّوسُ ہے.قرآن شریف پر تدبر نہ کرنے کی وجہ سے کہو.یا اسماء الہی کی فلاسفی نہ سمجھنے کی وجہ سے.غرض یہ

Page 305

حقائق الفرقان ۲۹۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ایک بڑی غلطی پیدا ہو گئی ہے کہ بعض وقت اللہ تعالیٰ کے کسی فعل یا صفت کے ایسے معنے کر لئے جاتے ہیں.جو اس کی دوسری صفات کے خلاف ہوتے ہیں.اس لئے میں تمہیں ایک گر بتا تا ہوں کہ قرآن شریف کے معنے کرنے میں ہمیشہ اس امر کا لحاظ رکھو کہ کبھی کوئی معنے ایسے نہ کئے جاویں جو صفات الہی کے خلاف ہوں.اسماء الہبی مدنظر رکھو.اور ایسے معنے کرو اور دیکھو کہ قدوسیت کو بطہ تو نہیں لگتا.لغت میں ایک لفظ کے بہت سے معنے ہو سکتے ہیں اور ایک نا پاک دل انسان کلام الہبی کے گندے معنے بھی تجویز کر سکتا ہے اور کتاب النبی پر اعتراض کر بیٹھتا ہے.مگر تم ہمیشہ یہ لحاظ رکھو کہ جو معنے کرو.اس میں دیکھ لو کہ خدا کی صفت قدوسیت کے خلاف تو نہیں ہے؟ اللہ تعالیٰ کے سارے کام حق و حکمت کے بھرے ہوئے ہوتے ہیں.جس سے اس کی اور اس کے رسول اور عامتہ المومنین کی عزت و بڑائی کا اظہار ہوتا ہے.لِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المتفقون: ٩) مومنوں کو معزز کرتا ہے اور پھر ان سے بڑھ کر اپنے رسولوں کو عزت دیتا ہے.اور سچی عزت اور بڑائی حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے.غرض ہر قول و فعل میں مومن کو لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی عزت کا خیال کرے کیونکہ وہ الْعَزِيزِ ہے.ظالم طبع انسان کی عادت ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک فعل سرزد ہوتا ہے تو وہ اس میں اپنی طرف سے نکتہ چینی کرنے لگتا ہے.آدم کی بعثت پر نَحْنُ نُسَبحُ بِحَمدِكَ کہنے والے اپنی کم علم اور ناواقفی کی وجہ سے اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ - (البقرة : ۳۱) پکارا تھے.مگر چونکہ یہ گروہ صاف طینت تھا.آخر اس نے اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ - (البقرة : ۳۳) کہہ کر اللہ تعالیٰ کے اس فعل خلافتِ آدم کو حکمت سے بھرا ہوا تسلیم کر لیا.مگر وہ لوگ جو خدا سے دور ہوتے ہیں.وہ عجائبات قدرت سے نا آشنا محض اور اسماء الہی کے علم سے بالکل بے بہرہ ہوتے ہیں.وہ ل کیا آپ ایسے شخص کو نائب بنائیں گے زمین میں جو وہاں فتنہ انگیزی اور خون ریزی کرے گا.ہاں ہاں تیری ہی ایسی ذات پاک ہے جو کامل علم اور کامل حکمت والی ہے.

Page 306

حقائق الفرقان ۲۹۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اپنے خیال اور تجویز کے موافق کچھ چاہتے ہیں.جو نہیں ہوتا.جیسا ہمارے سردار سرور عالم فخرِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر کہہ اٹھے.لَو لَا نُزِّلَ هُذَا الْقُرْآنُ عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۲) یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو الْحَکیم نہیں مانتے.ورنہ وہ اس قسم کے اعتراض نہ کرتے.اور یقین کر لیتے کہ اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه (الانعام: ۱۲۵) اسی طرح شیعہ نے خلافت خلفاء پر بعینہ وہی اعتراضات کئے جو کفار نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر کئے.حکیم کے معنی ہی ہیں اپنے محل پر ہر ایک چیز کو رکھنے والا اور مضبوط و محکم رکھنے والا.پھر اگر الحکیم صفت پر ایمان ہو تو بعثت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کر کے کیوں اپنے ایمان کو ضائع کرتے.غرض اللہ تعالیٰ یہاں بتاتا ہے کہ اس کے قول اور فعل میں سراسر حکمت ہوتی ہے اس لئے اس کے انکار سے بچنے کے لئے یہی اصول ہے کہ اللہ تعالیٰ کو الحکیم مانو.پس جو کچھ زمین و آسمان میں ہے.وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں.اس اللہ کی جو الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ہے.زمین و آسمان کے تمام ذرات اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی ان صفات پر گواہ ہیں پس زمینی علوم یا آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے.خدا تعالیٰ کی ہستی اور ان صفات کی زیادہ وضاحت زیادہ صراحت ہوگی.میں اپنے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں ہرگز ہرگز تسلیم نہیں کرتا کہ علوم کی ترقی اور سائنس کی ترقی قرآن شریف یا اسلام کے مخالف ہے.سچے علوم ہوں وہ جس قدر ترقی کریں گے.قرآن شریف کی حمد اور تعریف اسی قدر زیادہ ہوگی.اس سورۃ شریف کو ان پاک الفاظ سے شروع کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنا ایک انعام پیش کرتا ہے.هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِينٍ - لے یہ قرآن کیوں نہ اتارا گیا بڑے آدمی پر دو بڑی بستیوں کے رہنے والوں سے.ے اللہ خوب جانتا ہے کہ کہاں اپنی رسالت رکھنی چاہئے.

Page 307

حقائق الفرقان ۲۹۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اُس اللہ نے (جس کی تسبیح زمین و آسمان کے ذرات اور اجرام کرتے ہیں.اور ہر شئے جوان میں ہے.وہ اللہ جو الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ ہے ) اُمیوں میں ( عربوں میں ) ان میں ہی کا ایک رسول ان میں بھیجا جو ان پر اللہ کی آیتیں تلاوت کرتا ہے.اور ان کو پاک صاف کرتا ہے.اور ان کو الکتاب اور الحکمہ سکھاتا ہے.اور اگر چہ وہ اس رسول کی بعثت سے پہلے کھلی کھلی اور خدا سے قطع تعلق کر دینے والی گمراہی میں تھے.(احکم جلد ۶ نمبر ۳۱ مورخه ۳۱/اگست ۱۹۰۲ صفحه ۱۰ تا۱۲ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مکہ والوں میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور حمد کا ایک بین ثبوت ہے کیونکہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ، اہل دنیا اس رشتہ سے جو انسان کو اپنے خالق کے ساتھ رکھنا ضروری ہے.بالکل بے خبر اور نا آشنا تھے.ہزاروں ہزار مشکلات اس رشتہ کے سمجھنے ہی میں پیدا ہو گئی تھیں.اُس کا قائم کرنا اور قائم رکھنا تو اور بھی مشکل تر ہو گیا تھا.کتب الہیہ اور صحف انبیاء علیہم السلام میں تاویلات باطلہ نے اصل عقائد کی جگہ لے لی تھی.اور پھر ان کی خلاف ورزی مقدرت سے باہر تھی.دنیا پرستی بہت غالب ہوئی ہوئی تھی.ان کے بڑے بڑے سجادہ نشین احبار اور رہبانوں کو اپنی گدیاں چھوڑ نا محال نظر آتا تھا.خدا تعالیٰ نے بڑے لوگوں کا ذکر کیا.کیونکہ اس سے چھوٹوں کا خود اندازہ ہو سکتا تھا.اگر ہم ایک نمبر دار کی حالت بیان کریں کہ ایک قحط میں اس پر فاقہ کشی کی مصیبت ہے تو اس سے چھوٹے درجہ کے زمیندار کا حال خود بخود.معلوم ہو جاتا ہے.قرآن شریف نے نہایت جامع الفاظ میں فرما دیا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ (الروم: ۴۲) جنگلوں اور سمندروں میں غرض ہر جگہ تری و خشکی پر فساد نمودار ہو چکا ہے.وہ جو اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے ان کی نسبت قرآن ہی نے خود شہادت دی ہے.اكْثَرُهُمْ فَسقُونَ (التوبة : ۸) ان میں اکثر لوگ فاسق تھے.اور یہاں تک فسق و فجور نے ترقی کی ہوئی تھی کہ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ ( المائدۃ: ۶۱) یہ اس وقت کے لکھے پڑھے علماء سجادہ نشین خدا کی کتاب مقدس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل اور خوار ہیں.جیسے

Page 308

حقائق الفرقان ۲۹۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ بندر.وہ ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے خنزیر.اس سے اندازہ کرو.ان لوگوں کا جو پڑھے لکھے نہ تھے.جو کتاب مقدس کے وارث نہ تھے.جو موسی کی گدی پر نہ بیٹھے ہوئے تھے.پھر یہ تو ان کے اخلاق بد ، عادات بد یا عزت وذلت کی حالت کا نقشہ ہے.اگر چہ ایک دانش مند اخلاقی حالت اور عرفی حالت کو ہی دیکھ کر روحانی حالت کا پتہ لگا سکتا ہے.مگر خود خدا تعالیٰ نے بھی بتا دیا ہے کہ روحانی حالت بھی ایسی خراب ہو چکی تھی کہ وہ عبد الطاغوت بن گئے تھے.یعنی حدود الہی کے توڑنے والوں کے عبد بنے ہوئے تھے.اُن کے معبود طاغوت تھے.اب خیال کرو کہ اخلاق پر وہ اثر ، روح پر یہ صدمہ، عزت کی وہ حالت ، یہ ہے وہ قوم جو نَحْنُ ابْنَوا الله وَاحِباؤُہ کہنے والی تھی.اس سے چھوٹے درجہ کی مخلوق کا خود قیاس کرلو.یہ نقشہ کافی ہے عقائد کے سمجھنے کے لئے ، یہ کافی ہے عزت و آبرو کے سمجھنے کے لئے کہ جو بندر کی عزت ہوتی ہے.پھر یہ نقشہ کافی ہے اخلاق کے معلوم کرنے کے لئے جو خنزیر کے ہوتے ہیں کہ وہ سارا بے حیائی اور شہوت کا پتلا ہوتا ہے.جب ان لوگوں کا حال میں نے سنا یا جو نَحنُ ابْنُوا اللَّهِ وَاحِباؤُهُ (المائدة : ۱۹) کہتے اور ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے.تو عیسائیوں پر اسی کا قیاس کرلو، اُن کے پاس تو کوئی کتاب ہی نہ رہی تھی ، اور کفارہ کے اعتقاد نے ان کو پوری آزادی اور اباحت سکھا دی تھی.اور عربوں کا حال تو ان سب سے بدتر ہو گا، جن کے پاس آج تک کتاب اللہ پہنچی ہی نہ تھی.اور پھر یہ خصوصیت سے عرب ہی کا حال نہ تھا.ایران میں آتش پرستی ہوتی تھی.سچے خدا کو چھوڑ دیا ہوا تھا ، اور اہرمن اور یز دان دو جدا جدا خدا مانے گئے تھے.ہندوستان کی حالت اس سے بھی بدتر تھی جہاں پتھروں، درختوں تک کی پوجا اور پرستش سے تسلی نہ پا کر آخر عورتوں اور مردوں کے شہوانی قوی تک کی پرستش جاری ہو چکی تھی.غرض جس طرف نظر اٹھا کر دیکھو، جدھر نگاہ دوڑا ؤ، دنیا کیا بلحاظ اخلاق فاضلہ اور کیا بلحاظ عبادات اور معاملات ہر طرح ایک خطر ناک تاریکی میں مبتلا تھی اور دنیا کی لے ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے پیارے ہیں.

Page 309

حقائق الفرقان یہ حالت بالطبع چاہتی تھی کہ ع ۲۹۹ مردے از غیب برون آید و کاری بکند لو سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک رسول کو عربوں میں مبعوث کیا جیسا کہ فرمایا: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّثِينَ رَسُولًا مِّنْهُمُ الآيه یہ رسول مصرف عربوں ہی کے لئے نہ تھا با وصفیکہ عربوں میں مبعوث ہوا.بلکہ اس کی دعوت عام اور کل دنیا کے لئے تھی جیسا کہ اس نے دنیا کو مخاطب کر کے سنایا يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف : ۱۵۹) اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں.اور پھر ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ (الانبياء : ١٠٨) یعنی ہم نے تم کو تمام عالموں پر رحمت کے لئے بھیجا ہے.اسی لئے وہ شہر جہاں سرورِ عالم فخر بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہور پایا.وہ ام القری ٹھہرا.اور وہ کتاب مبین جس کی شان ہے لا رَيْبَ فِيهِ - ام الکتاب کہلائی.اور وہ لسان جس میں ام الکتب اتری ام الالسنہ ٹھہری.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا جو آدم زاد پر ہوا.اور بالخصوص عربوں پر اس رسول نے آ کر کیا: يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِينٍ - پہلا کام یہ کیا کہ ان پر خدا کی آیات پڑھ دیں.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتہ.پھر نرے پڑھ دینے سے تو کچھ نہیں ہوسکتا.اس لئے دوسرا کام یہ کیا ویزکیھم ان کو پاک صاف کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس قدر عظیم شان اور بلند مرتبہ ہے.دوسرے کسی نبی کی بابت یہ نہیں کہا کہ یزکیھم.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی قوت قدسی اور قوت تاثیر کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ نے عربوں اور دوسری قوموں پر کیا اثر ڈالا.عرب کی تاریخ سے جولوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر اس کی کایا پلٹ دی.ان کے اخلاق ، عادات اور ے باہر سے کوئی مرد آئے اور کوئی کارنامہ کرے.

Page 310

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ایمان میں ایسی تبدیلی کی جو دنیا کے کسی مصلح اور ریفارمر کی قوم میں نظر نہیں آتی.جو شخص اس ایک ہی امر پر غور کرے گا.تو اُسے بغیر کسی چون و چرا کے ماننا پڑے گا کہ ہمارے سید و مولی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوت قدسی اور تاثیر قوی اور افاضہ برکات میں سب نبیوں سے بڑھ کر اور افضل ہیں اور یہی ایک بات ہے جو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت دوسری تمام کتابوں اور نبیوں کے مقابلہ میں بدیہی الثبوت ہے.عیسائیوں نے حضرت مسیح کی شان میں غلو تو اس قدر کیا کہ (باوجود یکہ وہ اپنی عاجزی اور بے کسی کا ہمیشہ اعتراف کرتے رہے اور کبھی خدائی کا دعوی نہ کیا ) ان کو خدا بنا دیا.لیکن اگر ان سے پوچھا جاوے کہ اس خدا نے دنیا میں آکر کیا کیا؟ تو میں دعوی سے کہتا ہوں کہ کوئی قابل اطمینان جواب اس قوم کے پاس نہیں ہے یہ ہم مانتے ہیں کہ جب مسیح آئے اُس وقت یہودیوں کی ایمانی اور اخلاقی حالت بہت ہی گری ہوئی تھی.لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اخلاق اور عادات اور ایمان میں کیا تبدیلی کی؟ جب کہ وہ اپنے حواریوں کا بھی کامل طور پر تزکیہ نہ کر سکے.تو اوروں کو تو کیا فیض پہنچتا ؟ یہی موجودہ انجیل جو اس قوم کے ہاتھ میں ہے.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ چندلا لچی اور ضعیف الایمان آدمیوں کے سوا وہ کوئی جماعت جو اپنے تزکیہ نفس میں نمونہ ٹھہر سکے.دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکے جو ہمیشہ اپنے مرشد و امام کے ساتھ بے وفائی کرتے رہے حتی کہ بعض ان میں سے اس کی جان کے دشمن ثابت ہوئے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن شریف نے دعوی کیا ہے وَيُز يہم اور اس دعوی کا ثبوت بھی دیا.جب کہ ان میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کر دی.وہ قوم جو بت پرستی میں غرق تھی.لا اله الا اللہ کہنے والی ہی ثابت نہیں ہوئی بلکہ اس تو حید کو جوش اور صدق سے انہوں نے قبول کیا کہ تلواروں کے سایہ میں بھی اس اقرار کو نہیں چھوڑا.ملک و مال ، احباب رشتہ داروں کو چھوڑ نا منظور کیا.مگر اس چھوڑی ہوئی بت پرستی کو پھر منظور نہ کیا.اپنے سید و مولیٰ رسول کے ساتھ وہ وفاداری اور ثبات قدم دکھایا جس کی نظیر دنیا کی کوئی قوم پیش نہیں کر سکتی.یہاں تک کہ غیر قوموں کو بھی اس کا اعتراف کرنا پڑا.یہ واقعات ہیں جن کو کوئی جھٹلا نہیں

Page 311

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ سکتا.اس لئے مجھے ضرورت نہیں کہ میں ان پر کوئی لمبی بحث کروں.میرا مطلب اور مدعا صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ دوسرا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ ان کا تزکیہ کیا کہ ان کی حالت یہاں تک پہنچی.يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا (بنی اسرائیل: ١١٠) وہ روتے ہوئے ٹھوڑی کے بل گر پڑتے ہیں اور ان کو فروتنی میں ترقی ملتی ہے اور يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَ قِيَامًا ( الفرقان: ۶۵) اپنے خدا کے سامنے سجدہ اور قیام میں رات ۱۷) کاٹ دیتے ہیں تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدة: ١٧) راتوں کو اپنی خواب گاہوں اور بستروں سے اٹھ اٹھ کر خوف اور امید سے اپنے رب کو پکارتے ہیں.پھر یہاں تک ان کا تزکیہ کیا کہ آخر رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ - (المائدة:۱۲۰) کی سندان کومل گئی.کسی بادی اور مصلح کی ایسی سچی تاثیر اور تزکیہ کا پتہ دو.میں نے ہزاروں ہزار کتا ہیں پڑھی ہیں اور دنیا کے مختلف مذاہب کو ٹولا اور تحقیق کیا ہے.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی حیرت انگیز تبدیلی ، کوئی ہادی، پیغمبر ، نبی ، رسول، اپنی قوم میں نہیں کر سکا جو ہماری سرکارنے کی ہے.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ وَ بَارِكْ وَسَلِّمْ یہ چھوٹی سی بات نہیں.یہ بہت بڑی عظیم الشان بات ہے.اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تاثیر افاضہ برکات کا ایک زندہ نمونہ موجود ہے جس سے آپ کی شان اور ہمت اور علومرتبت اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ تیرہ سو سال کے بعد بھی اپنی تا شیریں ویسی ہی زبردست اور قومی رکھتا ہے جس سے ہم ایک اربعہ متناسبہ کے قاعدہ سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اس کی تاثیریں ابدی ہیں اور وہ ابدالآباد کے لئے دنیا کا ہادی اور رسول ہے.اس وقت ہمارا امام زندہ نمونہ ہے ان برکات اور فیوض کا.جس نے آکران فیوض اور برکات اور قدسی تا شیروں کا ثبوت دیا ہے.جو صحابہ کی لے اللہ ان سے خوش ہو گیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہو چکے.

Page 312

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کامیاب قوم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فیض صحبت سے ہوئیں.اگر دنیا میں کسی اور نبی کی برکات اور فیوض اس قسم کے ہیں تو پھر ان کے ماننے والوں کو چیلنج کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی قوم کا تزکیہ کیا تھا تو اس کے ثبوت کے لئے آج کوئی مز کی نفس پیش کرو! اور وں کو جانے دو.یسوع مسیح کو خدا بنانے والی قوم ! اس کی خدائی کا کوئی کرشمہ اب ہی دکھائے.مگر یہ سب مردہ ہیں.جو ایک مردہ کی پرستش کرتے ہیں.اس لئے وہ زندوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ! غرض دوسرا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ تھا کہ وہ آیات جو آپ نے پڑھ کر سنائیں.اپنے عمل سے اور اس کی تاثیروں سے بتادیا کہ اس کا منشاء کیا ہے؟ منشاء بھی بتادیا اور عمل کرا کر بھی دکھا دیا.کیونکہ کتاب کا پڑھنا اور اس کے مطالب و منشاء سے آگاہ کر دینا کوئی بڑا کام نہیں.جب تک کوئی ایسی بات نہ ہو کہ عمل کرنے کی روح پیدا ہو جاوے.کتاب کا پڑھنا بھی ضائع ہو جاتا ہے.جب کہ کوئی سننے کے لئے تیار نہیں.جب تک پڑھنے والا خود نہیں سمجھتا.دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا.اس لئے نہایت ضروری ہے کہ پہلے تعلیمات صحیحہ آ جاویں.پھر ان کو پہنچایا جاوے اور سمجھایا جاوے کہ کیسے عمل درآمد ہوتا ہے.یا خود کر کے دکھایا جاوے.یہ ضروری مرحلہ ہے.غور کر کے دیکھو.کہ کیا یہود کے سامنے ایک بڑا بھاری انبار کتابوں کا نہ تھا.کیا مجوس کے پاس کتا بیں نہ تھیں.کیا عیسائی اپنی بغل میں کتاب مقدس مارے نہ پھرتے تھے.اور کیا ان میں عمدہ باتیں بالکل نہ تھیں؟ تھیں اور ضرور تھیں.مگر ان میں اگر کچھ نہ تھا تو صرف یہی نہ تھا کہ ان پر عمل کرا دینے والا کوئی نہ تھا.جب تک ایک روح اس قسم کی نہ آوے جو انسان کو مز کی بنا دے اس وقت تک انسان ان تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۲ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تا ۹) میں بیرونی مذاہب کو چھوڑ کر اندرونی فرقوں کی طرف توجہ کرتا ہوں.کیا یہی قرآن شریف جو ہمارے سرور عالم سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے.اس وقت سنیوں ،شیعوں، خوارج اور اور بہت سے فرقوں کے پاس نہیں ہے؟ کیا واعظ ، امام ، قاری اور دوسرے لوگ ان میں نہیں ہیں؟ مگر سب دیکھیں اور اپنی اپنی جگہ غور کریں کہ کیا اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سچی بات ہے کہ جب تک

Page 313

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کوئی مز کی نہ ہو تو تعلیمات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي یہ صدی جس میں میں ہوں.بڑی خیر و برکت کی بھری ہوئی ہے.اور حقیقت میں وہ صدی بڑی ہی بابرکت تھی کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام اس میں موجود تھے اور آپ کی وساطت سے لوگ تزکیہ سے متمتع ہوتے تھے پھر آپ نے فرمایا کہ دوسری صدی بھی اس پہلی کی طرح خیر و برکت والی ہو گی.اور پھر تیسری پر بھی اس پہلی کا اثر پڑے گا.مگر اس کے بعد جھوٹ پھیل جائے گا.اب غور طلب یہ امر ہے کہ کیا قرآن شریف اس چوتھی صدی میں نہ رہا تھا جس میں جھوٹ کے پھیلنے کی آپ نے پیشگوئی فرمائی.کیا تعامل اور حدیث ان میں نہ تھی؟ پھر وہ کیا بات ہے جو يَفْشُوا الكَذِبُ کہا؟ بات اصل یہی ہے کہ وہ مز کی ان میں نہ رہا.مزکی کو اٹھے ہوئے تین سوسال گزر گئے.بہت سے نادانوں نے مجھ سے سوال کیا ہے کہ ہم مہدی یا مسیح یا امام کی کیا ضرورت رکھتے ہیں جبکہ دلائل سے نتائج تک پہنچ جاتے ہیں.تو پھر امام کی کیا ضرورت ہے؟ میں نے ان سے پوچھا ہے کہ اگر تمہیں امام کی کوئی ضرورت نہیں ہے تو اتنا بتاؤ کہ کتاب کی موجودگی میں معلم کی کیا ضرورت ہوتی ہے؟ اگر کہو بولی کے لئے ضرورت ہے تو میں پھر کہتا ہوں.اچھا بولی سمجھتے ہو؟ ایک عمدہ پڑھا ہوا آدمی جس نے قرآن کو خوب پڑھا ہے اور فرض کرو.وہ قاری بھی ہو.وہ اپنی جان پر تجربہ کر کے صاف صاف بتا دے کہ گھر میں لمبی قرآت کی نمازیں کس قدر پڑھتا ہے؟ اور باہر کس قدر؟ جس قدر جماعت میں التزام کیا جاتا ہے.کیا گھر میں بھی ویسا ہی التزام کیا جاتا ہے؟ لیکن جب دیکھا جاتا ہے کہ باوصفیکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب نماز پڑھائے تو امام کو چاہیے کہ مقتدیوں کا لحاظ کر لے.ان میں کوئی ضعیف ہے.کوئی بیمار ہے وغیرہ.اس لئے ان کے لحاظ پر چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھے لیکن تنہائی میں نمازوں کو لمبا کرے.مگر غور کر کے دیکھ لو کہ معاملہ بالکل اس کے برخلاف ہے اور قضیہ بالعکس ہے.میں نے بہت ٹولا ہے اور دیکھا ہے کہ جبکہ یہ حدیث صحابہ تک پہنچتی ہے.اور کذب کا کوئی احتمال نہیں رہتا تو پھر عمل درآمد کا نہ ہونا صریح اس امر کی دلیل ہے کہ ایک قوت اور کشش کی ضرورت ہے.جو نہیں پائی جاتی.

Page 314

حقائق الفرقان ۳۰۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ریل گاڑی کی گاڑیوں کو دیکھو اگر ان میں باہم زنجیروں کے ذریعہ پیوند بھی قائم کیا گیا ہولیکن سٹیم انجن ان کو کھینچنے والا نہ ہو تو کیا کوئی یقین کر سکتا ہے کہ وہ گاڑیاں باہم ملاپ کی وجہ سے ہی چل نکلیں گی ؟ ہر گز نہیں.اس سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ نر ا اتحاد بھی کچھ نہیں کرسکتا.جب تک اس وحدت کے مفاد سے متمتع کرنے والا کوئی نہ ہو.غرض ہر حال میں ایک امام کی ضرورت ثابت ہوتی ہے.اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرمایا کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَلِيْهِمْ جو کچھ آپ فرماتے اور تلاوت کرتے وہی کر کے بھی دکھا دیتے اور اپنے عمل سے اس کو اور بھی مؤثر بنا دیتے.یہ قاعدہ کی بات ہے کہ واعظ اگر خود کہہ کر عمل کرنے والا نہ ہو تو اس کا وعظ بالکل بے معنی اور فضول ہو جاتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے مز کی ٹھہرے کہ آپ جو تعلیم دیتے تھے پہلے خود کر کے دکھا دیتے تھے.پانچ وقت نماز پڑھنے کا حکم دیا اور خود پڑھ کر دکھا دی.دیکھو امام کوکس قدر التزام کرنا پڑتا ہے.پھر آپ پانچوں نمازوں کے خود امام ہوا کرتے تھے.اس سے قیاس کر لو کہ آپ کو کس قدر التزام کرنا پڑتا تھا.پھر ان پانچوں نمازوں کے علاوہ تہجد اور دوسرے نوافل بھی پڑھتے اور بعض وقت تہجد میں اتنی اتنی دیر تک اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے رہتے کہ آپ کے پائے مبارک متورم ہو جاتے.جس سے آپ کا یہ التزام بھی پایا جاتا ہے کہ عام اور فرض نمازوں سے زیادہ بوجھ آپ نے اپنے اوپر رکھا ہوا ہے.پھر روزہ کی تعلیم دی.آپ نے ہفتہ میں دو بار مہینہ میں تین روزے.اور سال بھر میں معین مہینہ روزے رکھ کر دکھا دیئے.اور شعبان اور شوال بھی روزے رکھا کرتے.گویا قریباً چھ مہینے سال میں روزے رکھ کر بتا دیئے.حج کر کے دکھا دیا.خُذُوا عَلَى مَنَاسِكَكُم پھر زکوۃ کی تعلیم دی.زکوۃ لے کر اور خرچ کر کے دکھا دی.اسی طرح جو تعلیم دی اُسے خود کر کے دکھا دیا.جس سے تزکیہ نفوس ہوا.ایک طرف تلاوت آیات کرتے تھے اور دوسری طرف تزکیہ نفوس کرتے تھے.امام ابوحنیفہ ابھی امام نہ تھے.مگر نماز، روزہ، حج ، زکوۃ کے مسائل جانتے تھے.امام بخاری بھی امام ہونے سے پہلے نماز، روزہ کرتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے تعامل سے سب کچھ

Page 315

حقائق الفرقان ۳۰۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ پہلے ہی سکھا دیا ہوا تھا.اگر ایک بھی حدیث دنیا میں قلم بند اور جمع نہ کی جاتی.تب بھی یہ مسائل بالکل صاف تھے.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل کے لئے مزکی کی ضرورت ہوتی ہے.ورنہ بڑی بڑی کتابوں والے عبدالطاغوت ہو جاتے ہیں اور جب یہ حالت پیدا ہوتی ہے اور قوم کے دماغ اور دل ( علماء اور مشائخ ) کی حالت بگڑ جاتی ہے.اس وقت وہ مزکی آتا ہے اور اصلاح کرتا ہے.جب قوم اور ملک ضلال مبین میں پھنس جاتا ہے تو ایک انسان خدا سے تعلیم پا کر آتا ہے.جو قوم کو نجات دیتا ہے.اور تزکیہ نفس کرتا ہے.خیالی ریفارمروں اور جھوٹے دعویداروں اور خدا تعالیٰ کے مامور ومرسلوں میں بھی امتیاز اور فرق یہی ہوتا ہے کہ اول الذکر کہتے ہیں.پر کر کے نہیں دکھاتے.اور تزکیہ نفس نہیں کر سکتے.مگر خدا کے مامور اور مرسل جو کہتے ہیں وہ کر کے دکھاتے ہیں.جس سے تزکیہ نفوس ہوتا ہے.ان کے قلوب صافیہ سے جو کچھ نکلتا ہے.وہ دوسروں پر مؤثر ہوتا ہے.ان میں جذب اور اثر کی قوت ہوتی ہے جو دنیا دار ریفارمروں میں نہیں ہو سکتی.اور نہیں ہوتی.اور نہیں ہوئی.پس اس نافہم کے سوال کا جواب اس سے بخوبی حل ہوسکتا ہے.جو کہتا ہے کہ کسی کے آنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مامور کے آنے کا وقت صاف بتا دیا ہے جب کہ فرمایا.وَإِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِین.اس کی آمد اور بعثت سے پہلے ایک کھلی گمراہی پھیلی ہوئی ہوتی.اور میں نے ابھی تمہیں بتایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے دنیا کی کیا حالت تھی اور پھر کس طرح آپ نے آکر اس کی اصلاح کی اور تزکیہ نفوس فرمایا.جولوگ علم تاریخ سے واقف ہیں.ان پر یہ امر بڑی صفائی کیساتھ منکشف ہو سکتا ہے.اس سے بڑھ کر تزکیہ نفوس کا کیا ثبوت مل سکتا ہے کہ آپ نے کوئی موقع انسان کی زندگی میں ایسا جانے نہیں دیا جس میں خدا پرستی کی تعلیم نہ دی ہو.میں ایک چھوٹی سی اور معمولی سی بات پیش کرتا ہوں.پاخانہ کے لئے جانا ایک طبعی تقاضا اور ضرورت ہے.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ اس وقت کے لئے کسی بادی اور مصلح نے کوئی تعلیم انسان کو نہیں دی.مگر ہمارے بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بھی انسان کو ایک لطیف اور بیش قیمت سبق خدا پرستی کا دیا

Page 316

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہے.جس سے آپ کے ان تعلقات محبت کا جو خدا سے آپ کے لیے تھے صاف پتہ لگ سکتا ہے.اور یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ انسان کو کس بلند رتبہ پر پہنچانا چاہتے تھے.چنانچہ آپ نے اس وقت تعلیم دی ہے.اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْخَبثِ والخبائت.یعنی جس طرح پر ان گندگیوں کو تو نکالتا ہے.دوسری گندگیوں سے جو انسان کی روح کو خراب کرتی ہیں بچا.جیسے پاخانہ جاتے وقت دعا تعلیم کی ویسے ہی پاخانہ سے نکلتے وقت سکھایا ہے.غفرانگ غور تو کرو کہ کس قدر تزکیہ نفس کا خیال ہے.حضرت ابوالملتہ ابوالحنفاء ابراہیم علیہ السلام اپنی دعا میں کہتے ہیں وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ يزكيهم (البقرۃ:۱۳۰) پھر اگر مز کی کی ضرورت نہ تھی.تو اس دعا کی کیا ضرورت؟ تلاوت کو اس لئے مقدم رکھا ہے کہ علم تزکیہ کے مراتب سکھاتا ہے اور تزکیہ کو بعد میں اس لئے رکھا ہے کہ بڑوں تزکیہ علم کام نہیں آتا اس لئے کتاب کے بعد تزکیہ کا ذکر کر دیا.اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ خَيْرُ الْقُرُونِ قَرنی اور پھر دوسری اور تیسری صدی کو خیر القرون کہا.اس کے بعد فرمایا کہ ثَمَّ يَفْشُوا الكَذِبُ.اب ایک نادان اور خدا کی سنت سے ناواقف کہہ سکتا تھا کہ آپ کی قوت قدسی معاذ اللہ ایسی کمزور تھی کہ تین صدیوں سے آگے مؤثر نہ رہی.اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے کور باطن کے جواب کے لئے فرمایا وَ اخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ.آپ کی قوت قدسی ایسی مؤثر اور نتیجہ خیز ہے کہ تیرہ سو سال کے بعد بھی ویسا ہی تزکیہ کر سکتی ہے چنانچہ وَ أَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بهم کا وعدہ فرمایا یعنی ایک اور قوم آخری زمانہ میں آنے والی ہے جو بلا واسطہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اور برکات حاصل کرے گی.اور ایک بار اور ہم اسی رسول کی بعثت بروزی کریں گے.وہ بعثت بھی اسی کے ہم رنگ ہوگی جو فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا کے وقت تھی.احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ امت کے اعمال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائے جاتے ا تو ان لوگوں سے جو یہاں آباد ہوں ایک رسول قائم کر جو تیرے احکام و نشان اُن پر پڑھے اور اُن کو لکھی ہوئی محفوظ باتیں سکھائے اور کی دانائی کی تعلیم دے اور اُن کو پاک وصاف کرے.

Page 317

حقائق الفرقان ۳۰۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہیں.پس سوچو کیسی تڑپ آپ کو پیدا ہوئی ہوگی.جب آپ کو بتایا گیا ہوگا کہ اس قسم کے حاشیے چڑھائے جاتے ہیں.جن سے امر حق کو شناخت کرنا قریباً محال ہو گیا ہے اور وہ باتیں داخلِ اسلام کر لی گئی ہیں.جن کا اسلام سے کوئی تعلق اور واسطہ نہ تھا.اس لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا کہ اس معلم کو دوبارہ بھیج دیں گے.في الأمينينَ رَسُولًا کی بعثت کریں گے.اس کی توجہ ان پر ڈالیں گے جو لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے مصداق ہیں یعنی ابھی نہیں آئے.آنے والے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۳ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۷ تا۹) یہ سنت اللہ اور استمراری عادۃ اللہ ہے کہ جب دنیا میں بدی پھیلتی ہے.بدی کیسی ! لکھے پڑھے بھی بند رہؤ ر اور عبدالطاغوت ہو جاتے ہیں.خدا کا خوف دلوں سے اٹھ جاتا اور انسانیت مسخ ہو کر حیوانیت اور بہیمیت سی ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم سے تباہ شدہ مخلوق کی دستگیری کے لئے ایک مامور دنیا میں بھیجتا ہے جو آ کر ان کی گم شدہ متاع پھر ان کو دیتا ہے.اور خبیثوں اور طیب لوگوں میں امتیاز ہو جاتا ہے.اس قاعدہ کو مد نظر رکھ کر صاف اشارہ ملتا ہے کہ خدا تعالیٰ کس وقت معلم اور مزکی کو بھیجتا ہے؟ اس کی شناخت کا کیا طریق اور نشان ہونا چاہیے؟ یہ بڑی بھاری غلطی پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی مامور دنیا میں آتا ہے تو نا واقف اور نادان انسان اپنے کمزور خیال کے پیمانہ اور معیار سے اس کو پرکھنا چاہتے ہیں.حالانکہ اس کو پر کھنے کے لئے وہ معیار اختیار کرنا چاہیے جو راست بازوں کے لئے ہمیشہ ہوتا ہے.گورداسپور میں ایک موقع پر ایک شخص حضرت امام علیہ السلام کے متعلق مجھ سے کچھ سوال کرنے آیا.میں نے جب اس سے یہ کہا کہ تم وہ معیار پیش کرو جس سے تم نے دنیا میں کسی کو راست بازمانا ہے.تو وہ خاموش ہی ہو گیا.اور سلسلہ کلام کو آگے نہ چلا سکا.یہ بڑی پکی اور سچی بات ہے کہ راست باز ہمیشہ ایک ہی معیار سے پر کھے جاتے ہیں.اور ان میں کوئی نرالی اور نئی بات نہیں ہوتی.چنانچہ ہمارے بادی کامل فیر بنی آدم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد الہی یوں ہوا.قُلْ مَا كُنتُ بِدُعا من الرُّسُلِ.کہہ دے میں کوئی نیا رسول دنیا میں نہیں آیا دنیا میں مجھ سے پہلے

Page 318

حقائق الفرقان ۳۰۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ رسول آتے رہے ہیں.تم نے اگر کسی کو راست باز اور صادق مانا ہے تو جس قاعدہ اور معیار سے مانا ہے تو وہی قاعدہ اور معیار میرے لئے بس ہے.میں نے قرآن شریف کے اس استدلال کی بناء پر بارہا ان لوگوں سے جو حضرت میرزا صاحب کے متعلق سوال اور بحث کرتے ہیں پوچھا کہ تم نے کبھی کسی کو دنیا میں راستباز اور صادق تسلیم کیا ہے یا نہیں؟ اگر کیا ہے تو وہ ذریعے اور معیار کیا تھے؟ جن ذریعوں سے تم نے صادق تسلیم کیا ہے.پھر میرا ذمہ ہو گا کہ اس معیار پر اپنے صادق امام کی راست بازی اور صداقت ثابت کر دوں.میں نے بارہا اس گر اور اصول سے بہتوں کو لا جواب اور خاموش کرایا ہے.اور یہ میرا مجرب نسخہ ہے.اس راہ سے اگر چلو تو تم تمام مباحث کا دو لفظوں میں فیصلہ کر دو.گورداسپور کا جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے.جولوگ میرے ساتھ تھے.انہوں نے دیکھا ہے کہ باوجود یکہ سوال کرنے والا بڑا چلبلا اور چالاک آدمی تھا.مگر میرے اس سوال پر وہ کچھ بھی نہ کہہ سکا.بعض آدمیوں نے اس کو کہا بھی کہ تم کسی کا نام لے دو.اس نے یہی کہا کہ میں نام لیتا ہوں تو مرتا ہوں ( یعنی ماننا پڑتا ہے اور لا جواب ہوں گا ) غرض یہ ایک سنت اللہ ہے.خدا کا اٹل قانون ہے کہ جب دنیا پر ضلالت کی ظلمت چھا جاتی ہے اور یہ بے دینی اور فسق و فجور کی رات اپنے انتہا تک پہنچ جاتی ہے.تو اسی قانون کے موافق جو ہم رات دن دیکھتے ہیں کہ رات کے آخری حصہ میں آسمان پر صبح صادق کے وقت روشنی کے آثار نظر آنے لگتے ہیں.کوئی آسمانی نو را ترتا ہے اور دنیا کی ہدایت اور روشنی کا موجب ٹھہرتا ہے.اسی طرح پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب امساک باراں حد سے گزرتا ہے.جس کا نام عام لوگوں نے ہفتہ رکھا ہے کہ سات سال سے زیادہ نہیں گزرتا تو سمجھنے والا سمجھتا ہے کہ اب بارش ضرور ہوگی.اس قسم کے نشانات خدا تعالیٰ کے ایک اٹل اور مستقل قانون کا صاف پتہ دیتے ہیں.اگر آنکھ بالکل بند نہ ہو.اگر دل بالکل سو یا ہوا نہ ہو تو اس بات کا سمجھ لینا کہ روحانی نظام بھی اسی طرح واقع ہے کچھ مشکل نہیں مگر یہ آنکھ کی بصیرت اور دل کی بیداری بھی اللہ تعالیٰ ہی کے فضل پر موقوف ہے.میں غور کرتے کرتے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مامور من اللہ اور راست باز کی شناخت کے لئے ہر قسم کے

Page 319

حقائق الفرقان ۳۰۹ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ دلائل مل سکتے ہیں.انفسی اور آفاقی دونوں قسم کے دلائل ہوتے ہیں یعنی اندرونی اور بیرونی دلائل.اندرونی دلائل میں سے ایک عقل بھی ہے پھر اس کے ساتھ نقل کا پتہ لگا سکتے ہیں اور اسے سمجھ سکتے ہیں.اگر اپنی عقل یا نقل کافی نہ ہو تو دوسرے عقیل اور فہیم لوگوں سے سن کر فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بارہا میرے دل میں یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ عقل مقدم ہے یا نقل اور کیا ان دونوں میں کوئی تعارض اور تناقض تو نہیں؟ میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ سماعی چیزوں پر بھی عقل فیصلہ دیتی ہے.جیسے فرمایا گیا ہے تو كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي اصْبِ الشعیر اور پھر عقلِ صریح اور نقل صحیح میں ہرگز کوئی تعارض نہیں ہوتا.دونوں کا ایک ہی فیصلہ ہے.اور عقل مقدم ہے.کیونکہ انسان مکلف نہیں ہوسکتا جب تک سوچنے اور سمجھنے نہ لگے.پس اب ہم اس مدعی کے دعوے کے امتیاز کے لئے عقلی اور نقلی دلائل سے اگر فیصلہ چاہیں تو یقیناً اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ واقعی یہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.عقل سے پہلے ہمیں یہ معلوم کرنا ہوگا کہ کیا اس وقت کسی کے آنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں.خدا تعالیٰ کا مستقل اور اٹل قانون ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی طرف سے ایسے وقت پر مامور آتے ہیں اور آنے چاہئیں.اور پھر جب ہم نقل سے اس کا موازنہ کرتے ہیں تو نقل صحیح ہم کو بتاتی ہے کہ یہ وقت خدا کے ایک مامور کے آنے کا ہے.تمام کشوف اور رویا اور الہام اس بات پر شہادت دیتے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ چودہویں صدی سے آگے نہیں.ہرصدی پر مجدد کے آنے کا وعدہ بجائے خود ظاہر کرتا ہے کہ ایک عظیم الشان مجد داس وقت ہونا چاہیے اور چونکہ صلیبی فتنہ کثرت سے پھیلا ہوا ہے.اس لئے اس صدی کے مجددکا نام بہر حال کا سر الصلیب ہی ہو گا.خواہ وہ کوئی ہو.اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں میں کا سر الصلیب جس کا نام رکھا گیا ہے.وہ وہی ہے جس کو دوسرے الفاظ میں مسیح موعود کہا گیا ہے.اور اسی طرح سے خدا تعالیٰ کے پاک کلام پر جب ہم نگاہ کرتے ہیں تو اور بھی صفائی کے ساتھ یہ بات کھل جاتی ہے کہ اُس نے وعدہ کیا کہ اسی اُمت میں سے خلفاء کا ایک سلسلہ اسی نہج اور اسلوب پر قائم ہوگا.جیسے بنی اسرائیل میں ہوا اور

Page 320

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ پھر یہ بھی کھول کر بیان کیا گیا کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دعوای اور پیشگوئی کے موافق جو استثناء کے ۱۸ باب میں کی گئی تھی مثیل موسی ہیں.اور قرآن نے خود اس دعوای کولیا.إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولًا (المَرْمَل :١٦) اب جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسی ٹھہرے اور خلفاء موسویہ کے طریق پر ایک سلسلہ خلفاء محمدیہ کا خدا تعالیٰ نے قائم کرنے کا وعدہ کیا جیسا کہ سورہ نور میں فرمایا.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ - ( النور :۵۶) پھر کیا چودہویں صدی موسوی کے خلیفہ کے مقابل پر چودہویں صدی ہجری پر ایک خلیفہ کا آنا ضروری تھا یا نہیں ؟ اگر انصاف کو ہاتھ سے نہ دیا جاوے اور اس آیت وعدہ کے لفظ گیا پر پورا غور کر لیا جاوے تو صاف اقرار کرنا پڑے گا کہ موسوی خلفاء کے مقابل پر چودہویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفاء ہوگا اور وہ مسیح موعود ہوگا.اب غور کرو کہ عقل اور نقل میں تناقض کہاں ہوا ؟ عقل نے ضرورت بتائی.نقل صحیح بھی بتاتی ہے کہ اس وقت ایک مامور کی ضرورت ہے اور وہ خاتم الخلفاء ہوگا.اس کا نام مسیح موعود ہونا چاہیے.پھر ایک مدعی موجود ہے.وہ بھی یہی کہتا ہے کہ میں مسیح موعود ہوں.اس کے دعوے کو راست بازوں کے معیار پر پرکھ لو.میں اب ایک اور آسان ترین بات پیش کرتا ہوں.جو عقل اور نقل کی رُو سے اس امام کی تصدیق کرتی ہے.قرآن شریف میں چاند اور سورج کی سنت کے متعلق فرمایا ہے.قدرة مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ - يونس : ٦ ) لے ہم نے تمہاری طرف ویسا ہی رسول بھیجا ہے.جو تم پر نگران ہے جیسا کہ فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا.کہ اللہ نے وعدہ کر لیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جنہوں نے بھلے کام کئے ہیں کہ ان کوضرور خلیفہ بنائے گا زمین میں جیسے کہ خلیفہ بنایا ان سے پہلے والوں کو.سے اور ٹھہرا دیئے ان کے مقامات تاکہ تم لوگ معلوم کر لو برسوں کی گنتی اور حساب.

Page 321

حقائق الفرقان ۳۱۱ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ سورج اور چاند کے نظام اور قانون پر نظر کر کے بہت سے حساب سمجھ سکتے ہو.جنتریاں بنا سکتے ہو جیسے دو اور دو چار ایک یقینی بات ہے.اسی طرح پر یہ نظام بھی حق ہے.اب اگر کوئی شخص میرزا صاحب کے دعوے کے متعلق پہلے دعوے کے وقت نقل صحیح سے کام لیتا تو یہ عقیدہ کیسی آسانی سے حل ہو جاتا تھا.تیرہ سو برس پیشتر کہا گیا تھا کہ اس مہدی کے وقت رمضان میں کسوف اور خسوف ہوگا اور اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.بت پرست قوم بھی سال سے پہلے جنتری لکھ دیتی ہے.مسلمانوں کو غیرت کرنی چاہیے تھی اور معلوم کرنا چاہیے تھا کہ کس سال میں اجتماع ممکن ہے؟ ہندو جاہل جب پتری بنا کر کسوف خسوف کے پتے دیتا ہے تو ایک مسلمان کو جس کی کتاب میں لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ لکھا ہے.سوچنا چاہیے تھا کہ وہ وقت کب ہو گا.اور جب اسے وقت کا پتہ ملتا تو وہ تلاش کرتا کہ مدعی ہے یا نہیں؟ اگر وہ مدعی کو پالیتا تو سوچ لیتا کہ آسمان کی بات میرے یا کسی کے تعلق میں نہیں ہے.نقل میں موجود ہے کہ اس کے وقت کسوف خسوف ہوگا اور عقل بتاتی ہے کہ یہ اجتماع کسوف خسوف فلاں وقت ہوگا.اور وہ وقت آگیا ہے اور مدعی موجود ہے.جب ان امور پر غور کرتا تو بات بالکل صاف تھی اور وہ مان سکتا تھا اور بڑی سہل راہ سے سمجھ سکتا تھا.اگر اتنی عقل اور سمجھ نہ تھی تو دعوے کے وقت ہی حدیث کو دیکھ لیتا او سن لیتا اور سوچتا کہ یہ حدیث کیسی ہے اور پھر کسی ہندو سے دریافت کرتا کہ یہ موقع کب ہو گا اور وہ اسے بتاتا کہ فلاں سنہ میں ہوگا اور پھر جب وقوع میں آتا تو تسلیم کر کے اپنے تزکیہ کے لئے چلا آتا.غرض یہ کیسی صاف اور روشن بات تھی لیکن اگر آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا.اور اس کی نگاہ اتنی اونچی نہ تھی تو زمین میں ہی دیکھتا کہ اس کے لئے کیا نشان ہیں؟ اور اس امر پر غور کرتا کہ قرآن تو اس لئے آیا ہے لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِي مَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ - اب اس دعوی کے موافق اس وقت کوئی اختلاف ہے یا نہیں؟ اور پھر قرآن شریف اس اختلاف کے مٹانے کے لئے بس ہے یا نہیں؟ پہلی بات پر نظر کر کے صاف معلوم ہوتا کہ اختلاف کثرت سے پھیلا ہوا ہے.سب سے پہلا اختلاف تو ہمیں اپنے ہی اندر نظر آتا.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض صداقتیں ہمارے اندر ہیں.جن کو ہم ایمانیات یا عقائد کہتے ہیں اور پھر کچھ اعمال ہیں جو یا نیک ہوتے ہیں یا

Page 322

حقائق الفرقان ۳۱۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ بد.اب مطالعہ کرتے کہ کیا وہ اعمال ان مسلمہ نیکیوں اور صداقتوں کے موافق ہیں یا مخالف ہیں.اگر اس کی مانی ہوئی نیکیاں اور ہیں اور نیک اعمال فی نفسہ اور ہیں تو اس کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوتی کہ یہ پہلا اختلاف مٹنا چاہیے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۱ مورخه ۱۷ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۵،۱۴) پھر اس اختلاف کے بعد اگر اور بلند نظری سے کام لے تو اس کو بہت بڑا اختلاف ان لوگوں میں نظر آئے گا جو بخیال خویش و بزعم خودا کا بران ملت اور علماء امت بنے ہوئے ہیں.ان کے باہمی اختلاف کو چھوڑ کر اگر خود ان کی حالت پر نظر کی جاوے.تو ان کے قول اور فعل میں بُعد عظیم پایا جائے گا.اسی کو زیر نظر رکھ کر ایک پارسی شاعر نے کہا ہے مشکلی دارم ز دانشمند مجلس باز پرس توبہ فرمایاں چرا خود تو به کمتر می کنند لے یہ واعظ ، یہ معلم الخیر ہونے کے مدعی ، صوفی اور سجادہ نشین چرا خود تو به کمتر می کنند کے مصداق ہیں.یہاں تک تو وہ شاعر عقل و دانش کی حد کے اندر ہے.اس سے اور آگے چل کر کہتا ہے.واعظاں کیں جلوہ بر محراب و منبر می ک کنند بچوں بخلوت می روند آن کار دیگر می کنند یہ گواہی جو اس پارسی بان شاعر نے دی ہے کوئی مخفی شہادت نہیں بلکہ واعظوں، صوفیوں ، سجادہ نشینوں تک پہنچی ہوئی ہے.کیونکہ ان کی مجلس وعظ یا مجلس وجد و حال و قال کے لئے اس کے شعر ضروری ہیں.اور ہر ایک مسلمان جو کبھی کبھی اپنی مشکلات اور مصائب میں پھنس کر بے قرار ہوتا ہے تو بد قسمتی سے اسی لسان الغیب کا فال لینے کی طرف توجہ کرتا ہے.اور یوں اپنے اوپر اس دورنگی اور اختلاف کا جو واعظوں اور معلم الخیر کے مدعیوں میں ہے ایک گواہ ٹھیرتا اور اپنے اوپر حجت ملزمہ قائم کرتا ہے.اب ان ساری باتوں کو یکجائی نظر سے دیکھو اور غور کرو کہ کیا یہ علمی اور عملی یا ایمانی اور عملی اختلاف کسی لے میری اس مشکل کو اہل علم کی مجلس سے حل کرواؤ.کہ توبہ کا درس دینے والے لوگ خود کیوں نہیں تو بہ کرتے.یہ واعظ لوگ جو محراب و منبر پر جلوہ افروز ہوتے ہیں ( وعظ ونصیحت کرتے ہیں ) جب انہیں تنہائی میسر آتی ہے تو دوسرے کاموں ( یعنی گناہوں ) میں مشغول ہو جاتے ہیں.

Page 323

حقائق الفرقان ۳۱۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ تال اور سُر کے ذریعہ مٹ سکتا ہے یا خود بخود؟ اور قرآن شریف جو اختلاف مٹانے کا مدعی ہے اور سچا مدعی ہے.اس نے کیا راہ بتائی ہے؟ میں بڑے درد دل سے ان مباحث اور لیکچروں کو پڑھا کرتا ہوں جو اسی زمانہ میں مسلمانوں کے تنزل کے اسباب پر دیئے جاتے ہیں.اسباب تنزل اور اسباب ترقی کے بیان کرنے میں ہمارے ریفارمر ( خود ساختہ ) اور مصلح قرآن شریف کو مس نہیں کرتے اور تفرقہ کے دور کرنے کے لئے قرآن شریف میں علاج نہیں دھونڈتے.میں نے ان لیکچروں اور سپیچوں کو پڑھ کر در ددل کے ساتھ یہی لکھا ہے.يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هُذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا - (الفرقان: ۳۱) غرض میں اس عظیم الشان اختلاف کو ابھی پیش کرتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ یہ کیونکر دور ہوسکتا ہے؟ دیکھو ایک چیز ہے جس کا نام ایمان ہے.اور ایک کا نام عمل.ان دونوں کا باہم مقابلہ کرو اور سوچ کر بتاؤ کہ کیا ان میں موافقت ہے؟ کیا حال اور قال یکساں ہے؟ اگر نہیں! اور یقینا نہیں !! تو پھر کیوں صاف دلی کے ساتھ یہ اقرار نہیں کیا جاتا کہ ایک مزکی کی ضرورت ہے.جو انسان کو اس نفاق سے جو اس کے اندر ایمان اور عمل کی عدم موافقت سے پیدا ہورہا ہے.دور کرے.اگر بر اعلم کوئی چیز ہوتا.معرفت صحیحہ کی ضرورت نہ ہوتی.اگر اس قوت اور کشش کی حاجت نہ ہوتی جو انسان پر اپنا عمل کر کے اس کے دل کو صاف کرنے میں معاون اور مددگار ٹھیرتی ہے.جو مز کی کی تاثیر صحبت اور پاک انفاس کی برکت سے ملتی ہے.جس کی طرف كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ کہہ کہ مولیٰ کریم نے توجہ دلائی ہے.تو میں پوچھتا ہوں کہ پھر اسی پارسی لسان الغیب کو کیا حاجت اور ضرورت تھی جو وہ بول اٹھا کہ مشکل دارم زدانشمند مجلس باز پرس! " اس ایمانی اور عملی اختلاف کے ماوراء اور اختلاف ہے جس نے قوم کے شیرازہ کو پراگندہ اور منتشر کر دیا ا اے میرے رب ! بے شک میری قوم نے اس قرآن شریف کو چھوڑ دیا تھا.میری اس مشکل کو اہل علم سے حل کرواؤ.

Page 324

حقائق الفرقان ۳۱۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہے اور وہ روح قوم میں نہ رہی جو وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَ لَا تَفَرَّقُوا.(آل عمران : ۱۰۴) میں رکھی گئی تھی.یعنی مختلف فرقے ، شیعہ سنی ، خوارج، مقلد ، غیر مقلد، جبریہ قدریہ وغیرہ کے بکھیڑوں اور قضیوں پر نگاہ کر و توعظیم الشان تفرقہ نظر آئے گا.میں نے اکثر لوگوں سے پوچھا ہے کہ یہ فرقہ بندیاں کیوں ہیں؟ اکثروں نے کہا ہے کہ سب فرقے قرآن ہی سے استدلال کرتے ہیں.میں نے نہایت تعجب اور افسوس کیسا تھ اس قسم کی دلیری اور جرات کو دیکھا ہے.اور سنا ہے.قرآن شریف تو اختلاف مٹانے کو آیا ہے.اور یہی اس کا دعوی ہے جو بالکل سچا ہے.پھر یہ اختلاف اس کے ذریعہ کیسے ہوسکتا ہے؟ میرے اس سوال کا جواب کسی نے نہیں دیا.اور حقیقت بھی یہی ہے.کیا معاذ اللہ قرآن شریف موم کی ناک ہے کہ جدھر چاہی پھیر دی یا وہ اپنے اس دعوی میں معاذ اللہ سچا نہیں جو اس نے اختلاف مٹانے کا کیا ہے؟ پھر یہ ایمان کیوں رکھتے ہو.میری سنو! قرآن شریف آیات محکمات ہے.وہ لا ریب اختلاف مٹانے کے لئے حکم ہے مگر اس پر مسلمانوں نے توجہ نہیں کی اور اس کو چھوڑ دیا.وہ اپنی نزاعوں کو قرآن شریف کے سامنے عرض نہیں کرتے.مجھے ایک بار لاہور کے شیعوں کے محلہ میں وعظ کرنے کا اتفاق ہوا.میں نے کہا کہ شیعوں سینوں کے اختلاف کا قرآن سے فیصلہ ہو سکتا تھا.اگر یہ توجہ کرتے.ایک شخص نے کہا کہ وہ قرآن سے ہی استدلال کرتے ہیں.میں نے کہا کہ یہ قرآن موجود ہے.آپ ہی بتا دیں کہ کہاں سے استدلال کیا ہے.غرض قرآن کو ہرگز حکم اور فیصلہ کن نہیں مانتے.اس پر ایمان ہوتا تو بڑی صفائی سے یہ بات سمجھ میں آ جاتی کہ سچی توجہ کے لئے ایک کامل الایمان مز کی اور مطہر کی ضرورت ہے جو اپنی قدسی قوت کے اثر سے دلوں کے زنگ کو دور کرے.بدوں مزکی کے یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی ! اور یہ کوئی ایسی بات نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے.بلکہ وسیع نظارہ قدرت میں اس کے نظائر موجود ہیں.لے اور مضبوط پکڑو، اپنے آپ کو بچاؤ حبل اللہ کے ذریعہ سے اور ایک دوسرے سے الگ نہ ہو.

Page 325

حقائق الفرقان ۳۱۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ دیکھو! ایک درخت کی ٹہنی جب تک درخت کے ساتھ پیوند رکھتی ہے.وہ سرسبز ہوتی ہے.حالانکہ اس کو جو پانی کی غذائیت ملتی ہے.وہ بہت ہی کم ہوتی ہے.اب اگر اس کو دیکھ کر ایک نادان اس کو کاٹ کر پانی کے ایک گڑھے میں ڈال دے کہ لے تو اب جس قدر پانی چاہے جذب کر اور اپنے دل میں خوش ہو کہ یہ بہت جلد بار آور ہو جائے گی.تو اس کی حماقت اور نادانی میں کیا شک رہ جائے گا جب وہ ڈالی بہت جلد خشک ہو کر سڑ گل جائے گی اور اس کو بتادے گی کہ میں سرسبز نہیں رہ سکتی.اس درخت سے الگ ہو کر.اسی طرح یہ نظارہ قدرت عام اور وسیع ہے.اس سے صاف سبق ملتا ہے کہ ایک مزکی کی ضرورت ہے جس کے ساتھ پیوند لگا کر انسان اپنے تزکیہ کا حصہ لے سکتا ہے.ورنہ مزکی سے الگ رہ کر کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ اپنی اصلاح اور تزکیہ کر لے گا.یہ غلط اور محض غلط ہے بلکہ ع اور وہی مشکلے دارم کا سچا مسئلہ.ایں خیال است و محال است و جنوں لو اندرونی اختلاف اور تفرقہ اگر کچھ ایسا نہ تھا کہ اس کے دل پر اثر انداز ہوسکتا.اور اس کو صرف جزئی اختلاف قرار دیتا تھا تو پھر ضرور تھا کہ غیر قوموں کے اعتراضوں ہی کو دیکھتا جو اسلام پر کئے جاتے ہیں اور دیکھتا کہ وہ کون سا ذریعہ ہے جو اسلام کے نابود کرنے اور اس پر اعتراض کر کے اس کو مشکوک بنانے میں غیر قوموں نے چھوڑ رکھا ہے؟ ذرا عیسائیوں ہی کو دیکھو کہ کس کس رنگ میں اسلام پر حملہ ہے.شفاخانوں کے ذریعہ اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ ہفتہ وار.روزانہ اور ماہواری ٹریکٹوں اور اشتہاروں کے ساتھ، فقیروں اور جوگیوں کے لباس میں.مدرسوں اور کالجوں کے رنگ میں، تاریخ اور فلسفہ کی شکل میں.غرض کوئی پہلو نہیں جس سے اسلام پر حملہ نہ کیا جاتا ہو.اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ حملہ کہ بپتسمہ دیتے وقت کہا جاتا ہے.واحد لاشریک باپ ، واحد لاشریک بیٹا واحد لاشریک روح القدس تین واحد لاشریک نہ کہو.بلکہ ایک واحد لا شریک.محض خیال ہے.ناممکن ہے اور دیوانگی ہے.

Page 326

حقائق الفرقان ۳۱۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ باپ قادر مطلق ، بیٹا قادر مطلق، روح القدس قادر مطلق.تین قادر مطلق نہ کہو بلکہ ایک قادر مطلق.باپ از لی، بیٹا از لی، روح القدس از لی.تینوں ازلی نہ کہو.بلکہ ایک ازلی.اب غور تو کرو کہ یہ توحید پاک پر کیسا خوفناک اور بیباک حملہ ہے.یہ کیا اندھیر ہے.اسی طرح اس کے اسماء افعال اور صفات پر مختلف پیرایوں اور صورتوں میں حملہ کیا جاتا ہے.اور غرض اسلام کو نابود کرنا ہے اب اس اختلاف کو کون دور کرے.اور کون اس مرض کا مداوا کرے.وہی جومز کی ہو.مجھے نہایت ہی افسوس اور در ددل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیت کے اس پر آشوب فتنہ کو فرو کرنے کے بجائے مسلمانوں نے مدد دی ہے.اور اس آگ پر پانی ڈالنے کی بجائے مٹی کے تیل ڈال دینے کا کام کیا ہے.جب اپنے عقائد میں ان امور کو داخل کر لیا جو عیسائیت کی تقویت کا موجب الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۲۴ نومبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۰٬۹) یہ فیصلہ بالکل آسان اور صاف تھا.اگر ذرا تدبر اور غور سے کام لیا جاتا.مگر رونا تو اسی بات کا اور باعث ہوئے ہیں.ہے کہ عقل سے کوئی کام نہیں لیا جاتا.خدا تعالیٰ کی مخلوق میں غور نہیں کیا جاتا.یہ کیسی صاف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور انسانی مخلوق کبھی برابر نہیں ہو سکتی.یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ جو کچھ انسان بناتا ہے.خدا وہ کبھی نہیں بناتا اور جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے انسان وہ ہرگز نہیں بنا سکتا مثلاً ایک تنکا ہی لو.ساری دنیا کے صناع اور فلاسفر مل جاویں اور کوشش کریں.ساری عمر جد و جہد کریں کبھی ممکن ہی نہیں کہ ایک تنکا بنا سکیں.گھاس کا تنکا یا دانہ کا ذرہ نہیں بنتا.پھر یہ خیال کر لینا اور مان لینا کہ مسیح بھی خدا تعالیٰ جیسی مخلوق بنا سکتا تھا.کیسی بے ہودگی ہے.دیکھو! خدا تعالیٰ کی مخلوق ہے.غلہ انسان نہیں بنا سکتا.انسان اپنی صنعت سے روٹی بناتا ہے.خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی پسند نہیں کر سکتی کہ وہ درختوں سے روٹیاں نکالے.کپڑے خدا تعالیٰ نے نہیں بنائے اسی طرح پر رُوئی انسان نہیں بنا سکتا.اس سے کیمیا گروں کی حماقت اور فریب کا ایک ثبوت ملتا ہے اور کس طرح واضح طور پر ان

Page 327

حقائق الفرقان ۳۱۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کی تکذیب ہوتی ہے.سونا چاندی اور چاندی سونا نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کیس كَمِثْلِهِ شَيْئ (الشوری: ۱۲) کیا کوئی ہاتھی کے بچہ کو چوہا کہہ سکتا ہے؟ اور کیا ہوسکتا ہے کہ مکھی کے انڈے سے گھوڑا نکل آوے؟ ان امور کا سمجھنا آسان نہیں گو یہ بدیہی باتیں ہیں مگر ایک مز کی جب تک موجود نہ ہو وہ انسان کو اس قسم کے شرک سے نجات نہیں دے سکتا.ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ کیا وفات مسیح کا مسئلہ بھی کوئی اہم مسئلہ تھا لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی اہمیت کس قدر ہے؟ ایک دنیا کو اس نے تباہ کر دیا ہے.اور رب العالمین کے عرش پر ایک عاجز ناتواں انسان کو بٹھایا گیا ہے.غرض اللہ تعالیٰ کے اسماء ، صفات اور افعال کے متعلق سچا علم بخشنا اُس شخص کا کام ہوتا ہے.جو آیات اللہ کی تلاوت کرے اور اپنی قدسی تاثیر سے تزکیہ کرے اور سچی توحید پر قائم کرے.جب تک مز کی نہ ہو یہ سمجھ میں نہیں آسکتا کہ اس جہان کا پیدا کرنے والا رب العلمین ایک ہے.اور اس کا کوئی بیٹا نہیں جس کے بغیر نجات عالم ہی نہ ہوسکتی ہو جیسا کہ عیسائیوں نے مان رکھا ہے تعجب ہے کہ وہ خلق عالم تو اللہ تعالیٰ کی صفت مانتے ہیں.پھر اس مخلوق عالم کو کیا مشکل تھا کہ نجات بھی دے دیتا؟ اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ چونکہ عادل ہے اس لئے مخلوق کے گناہوں کو بحیثیت عادل ہونے کے بغیر سزا کے نہ چھوڑ سکتا تھا اور رحیم بھی ہے.اس لئے بیٹے کو پھانسی دیا.یہ کیا خوب عدل اور رحم ہے کہ گناہ گاروں کے بدلے ایک بے گناہ کو پکڑ لیا اور بے گناہ پر رحم بھی نہ کیا.پھر اور بھی ایک تعجب ہے کہ یہودیوں کو نجات نہ ملی.حالانکہ پہلے نجات کے وہی مستحق تھے جنہوں نے نجات کے فعل کی تکمیل کی کوشش کی یعنی صلیب دلوانے کی.ان کا فعل تو گویا عیسائیوں کے اعتقاد کے موافق خدا کے ارادہ اور منشا سے توارد رکھتا تھا.پھر وہ غضب کے نیچے کیوں رہے؟ پھر ہم پوچھتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو نجات ملی ، کیا مجوسیوں کو ملی ، کس کو ملی ؟ نجات تو پھر بھی محدود ہی رہی.کیا فائدہ اس پھانسی سے پہنچا؟ اور پھر شیطان کا سر جب کچلا گیا تو

Page 328

حقائق الفرقان ۳۱۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اب کیوں گناہ ہوتا ہے پھر پوچھا گیا ہے کہ گناہ کا بداثر جسم پر ہوتا ہے یا روح پر.اگر روح پر ہوتا ہے تو آدم سے کہا گیا کہ محنت سے روٹی کھائے گا.اور عورت دردزہ سے بچہ جنے گی.دیا ہے.اور اگر جسم پر پڑتا ہے تو عیسائی آتشک اور سوزاک وغیرہ امراض میں کیوں مبتلا ہوتے ہیں اور کیا عیسائی عورتیں دردزہ سے بچہ جنتی ہیں یا نہیں؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ نجات کے آثار پائے نہیں جاتے.اس کی وجہ یہی ہے کہ مزکی کے بغیر اصلاح نہیں ہوسکتی.ان خیالی باتوں سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا.اس کفارہ کا نتیجہ تو یہ ہوا کہ دنیا میں فسق و فجور اور اباحت پھیل گئی اور خدا کا خوف اٹھ گیا.اب جس مزکی کی ضرورت ہے وہ ایسی خاصیت اور قوت کا ہونا چاہیے جو اس فتنہ کو دور کرے.اور اب غور کر کے دیکھ لو کہ یہ مزکی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوا ہے یا نہیں؟ ایک ایک اصل جو اس نے پیش کی ہے.اس کے ذریعہ مذاہب باطلہ کو اس نے ہلاک کر دیا ہے.ایک عیسائی نے مجھ سے پوچھا کہ اس نے آ کر کیا کیا ہے؟ میں نے کہا کہ تم کو لا جواب کر الحکم جلد ۶ نمبر ۴۳ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵٬۴) امرتسر میں پندرہ روز تک مباحثہ ہوا.اگر رحیم کریم نہ ہوتا تو ایک ہی منٹ میں ختم کر دیتا.ایک ہی اصل اس نے پیش کی تھی جس کا جواب عیسائی اور دوسری قومیں ہرگز ہرگز نہیں دے سکتیں اور قیامت تک نہ دے سکیں گی.پھر وہ اصل ایسی اصل نہیں ہے کہ اسے یونہی رڈ کر دیا جاوے.بلکہ ہر سلیم الفطرت دانشمند انسان کو ماننا پڑے گا کہ بڑی پکی اصل ہے اور وہ اصل یہ ہے کہ ہر مذہب کی الہامی کتاب کا یہ خاصہ ہونا چاہیے کہ جو دعوای وہ کرے.اس کی دلیل بھی اُسی میں ہو.یعنی دعوی بھی وہی کرے اور دلیل بھی وہی دے.مثلاً عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع خدا ہے.تو چاہیے کہ انجیل میں پہلے وہ یہ دعوی دکھائیں کہ یسوع خدا ہے.پھر اس کے دلائل دیں.مگر یہ اصل انجیل میں کہاں؟ عیسائی مجبور ہو گئے اور ان کو اس حصہ کو چھوڑنا پڑا.اس راہ پر وہ ایک منٹ بھی چل نہ سکتے تھے.مباحثہ کی روئیدادموجود ہے جو چاہے دیکھ لے.میں تو اُسی وقت جب اس کے منہ سے یہ لفظ نکلا تھا.سمجھ گیا اور مان چکا تھا کہ یہ کسر صلیب میں

Page 329

حقائق الفرقان ۳۱۹ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کامیاب ہو گیا.اس اصل سے اُس نے قرآن شریف کی وہ عزت اور عظمت ظاہر کی کہ میرا ایمان ہے تیرہ سو برس کے اندر کسی نے نہیں کی.اس نے کل مباحثہ میں اپنے اس طرز اور اصل کو نہیں چھوڑا.جو دعوی بیان کرتا.قرآن شریف سے اور جو دلیل بیان کرتا وہ بھی کتاب اللہ سے دیتا.اور پندرہ دن تک برابر اسی کا التزام رکھا اب بتاؤ کہ یہ طرز بیان مزکی کے سوا حاصل ہوسکتا ہے؟ میں نے بہت سی کتابیں پڑھی ہیں.اور میں یقیناً کہتا ہوں کہ جس قدر تم اس وقت موجود ہو.تم سب سے زیادہ میں کتابیں پڑھ چکا ہوں اور کتاب میری ہر وقت کی رفیق ہے.لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اس طرز پر مباحثہ کی بنیاد کوئی نہیں ڈال سکا اور ایسی طرز کہ مخالف پہلا ہی قدم نہیں اٹھا سکتا.جو چاہے آزما کر دیکھ لے.میں نے تو آج بھی اس اصل سے فائدہ اٹھایا.ایک شخص نے اعتراض کیا.میں نے اسے بھی کہا کہ اس اصل کو مد نظر رکھو.مجھ پر اعتراض کیا گیا کہ روزہ کیوں رکھا جاتا ہے اور پھر رمضان ہی میں کیوں رکھا جاتا ہے؟ میں نے اس کو اولاً یہی جواب دیا کہ تم بتاؤ تمہاری کس کتاب نے منع کیا ہے کہ روزہ نہ رکھو اور پھر اس منع کے دلائل کیا دیئے ہیں میں تو بتاؤں گا کہ روزہ کیوں رکھنا چاہیے اور رمضان میں کیوں فرض کیا گیا.اُسے کچھ جواب نہ بن پڑا.میں نے اس مضبوط اور محکم اصل کو لے کر کہا کہ دیکھو ہماری کتاب قرآن شریف روزہ کا حکم دیتی ہے تو اس کی وجہ بھی بتاتی ہے.کہ کیوں روزہ رکھنا چاہیے.لَعَلَّكُمْ تتَّقُونَ.روزہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم دکھوں سے بچ جاؤ گے اور سکھ پاؤ گے.رمضان ہی میں کیوں رکھیں؟ اس کی وجہ بتالَى شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ (البقرة: ۱۸۶) چونکہ اس میں قرآن نازل ہوا.یہ برکاتِ الہیہ کے نزول کا موجب ہے.اس لئے وہ اصل غرض جو لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون میں ہے حاصل ہوتی ہے.اسی طرح پر جس امر کولو یا جس نہی کولو.قرآن نے اس کے اسباب اور نتائج کو واضح طور پر بیان کیا ہے.اور نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ ان کے نتائج سے بہرہ مند کر کے دنیا کو دکھا دیا ہے.آخرت کے وعدے تو آخرت میں پورے ہوں گے.اور ضرور ہوں گے مگر اس دنیا میں اُن سے حصہ دیا اور ایسا حصہ دیا کہ اربعہ متناسبہ کے قاعدہ کے موافق وہ آخرت پر بطور دلائل اور

Page 330

حقائق الفرقان ۳۲۰ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ حج کے ٹھیرے.جن کو دیکھ کر اب کوئی آخرت کا انکار نہیں کرسکتا.صحابہ ہی تک وہ فیض اور فضل محدود اور مخصوص نہ تھا.اب بھی اگر کوئی قرآن شریف پر عمل کرنے والا ہو خلوص سے اللہ تعالیٰ کی طرف پر آوے.وہ ان انعامات اور فضلوں سے حصہ لیتا ہے.اور ضرور لیتا ہے.اس وقت بھی لیتا ہے.دیکھو ہمارا امام ان وعدوں اور فضلوں کا کیسا سچا نمونہ اور گواہ موجود ہے.غرض سب کچھ قرآن میں ہے مگر مزکی کے بغیر ، معلم کے بغیر وہ تزکیہ اور تعلیم نہیں ہوتی.مزکی اپنی کشش اور اثر سے تزکیہ کرتا ہے.اور ان انعامات کا مورد بنانے میں، اپنی دعا، عقد ہمت تو جہ تام سے کام لیتا ہے جو دوسرے میں نہیں ہوتی ہے.ایک بھائی نے مجھ سے پوچھا کہ وفات مسیح پر اس قدر زور کیوں دیا جاتا ہے.ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا.اب اس کی کیا ضرورت ہے کہ بار بار اسی کا تذکرہ کیا جاوے؟ میں نے اس کو کہا کہ یہی وہ ستر ہے جس سے یہ مسیح موعود بنایا گیا.اور جو کسر صلیب کا تمغہ لیتا ہے.تم اور میں اور اور اس قابل نہیں ہوئے.یہ ثبوت ہے اس کے خدا کی طرف سے ہونے اور اس کے کامیاب ہو جانے کا.میں سچ کہتا ہوں اور ایمان سے کہتا ہوں کہ میری آنکھ نے وہ دیکھا جو بہت تھوڑوں نے ابھی دیکھا ہوگا.میں دیکھ چکا ہوں کہ کسر صلیب ہو چکی.میں نے تو اسی روز اس کا مشاہدہ کر لیا تھا جب اس نے امرتسر کے مباحثہ میں وہ اصل پیش کی جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے.اس سے بھی بہت عرصہ پہلے مجھے اس کی خوشبو آ رہی تھی.اندر باہر جہاں کہیں ہو.کوئی بھی مضمون ہو.جس پر یہ بول رہا ہو.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ خواہ وہ وفات مسیح سے کتنا ہی غیر متعلق ہو.مگر وفات مسیح کا ذکر ضرور ہی کرے گا.یہ عزم ، یہ استقلال اور عقد ہمت مامور کے سوا کسی دوسرے کو نہیں ملتی ہے اور یا درکھو نہیں ملتی ہے.تم مامورمن اللہ کو اس کے عقد ہمت اور توجہ نام سے بھی شناخت کر سکتے ہو.بیشک خدا تعالیٰ مضطر کی دعا سنتا ہے.جب انسان مضطر ہو تو کیوں نہ سنے.میں دیکھتا ہوں کہ اپنی بیماری یا دوسرے بیماروں کو دیکھتا ہوں تو میں مضطر ہوتا ہوں اور میرا مولیٰ میری دعا سنتا ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ صورت جاتی رہتی ہے تو پھر وہ حالت پیدا نہیں ہوتی.اس وقت میں اپنے نفس کو کہتا ہوں کہ تو مز کی نہیں ہوسکتا.اس وقت مز کی

Page 331

حقائق الفرقان ۳۲۱ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ وہی ہوسکتا ہے.جو ہر حالت میں مسیح کی وفات کو لے آتا ہے.ایک شخص نے عرض کی کہ میں قرآن پڑھایا کرتا ہوں.مجھے کوئی نصیحت فرمائیے.فرمایا.قرآن شریف پڑھایا کرتے ہو تو بس یہی کافی ہے کہ إِنِّي مُتَوَفِيكَ کے معنی إِنِّي مُميتك پڑھا دیا کرو.اب غور کرو کہ کس قدر عقدِ ہمت ہے.کیسی توجہ ہے.ساری نصیحتوں میں اُسے یہی ایک ضروری معلوم ہوئی ہے.مجھ سے اگر وہ شخص پوچھتا تو شاید سینکٹروں نصیحتیں کرتا اور وہ بظاہر ضروری بھی ہوتیں.مگر نہ کرتا تو یہی نہ کرتا اور یہی سب سے اہم ہے یا کسی اور سے وہ پوچھتا تو وہ اپنی جگہ سوچ لے کہ کیا وہ یہی نصیحت کرتا جو اس مزکی نے کی؟ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہرگز نہ کرتا.یہ اسی کا کام ہے.دوسرے کا ہو ہی نہیں سکتا اور یہی تو بتاتا ہے کہ یہ کسر صلیب کے لئے آیا ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۰ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۵) یہ یقین رکھو کہ جب تک خدا تعالیٰ کے فضل کے جذب کرنے کے لئے اضطراب اور سچا اضطراب نہ ہو.کچھ نہیں بنتا.مسیح کی موت معمولی بات نہیں.یہ وہ موت ہے جو عیسوی دین کی موت کا باعث ہے.اس قوم کو اگر کوئی جیت سکتا ہے تو اس کے لئے یہی ایک گر ہے.اب غور کر کے دیکھ لو کہ اس کے لئے اس نے کس قدر دعائیں کی ہوں گی.دل میں کس قدر جوش اٹھتے ہوں گے.ہم تو ان کو سمجھ بھی نہیں سکتے کہ ایک آدمی مر گیا.پس مرگیا، بات کیا ہے، مراہی کرتے ہیں مگر نہیں.اس کے حل سے سب کچھ حل ہے.یہ فہم جو اسے دیا گیا ہے، یہ نہم مامور من اللہ کے سواد وسرے کو نہیں ملتا.یہ اضطراب اور جوش دوسرے کا حصہ نہیں ہو سکتا.اگر کوئی دعوی کرے تو خیال باطل اور و ہم محال ہے.پھر اختلاف اندرونی اور بیرونی پر نظر کرو کہ کیا حالت ہو رہی ہے.ایک کہتا ہے بائیبل میں یہ ہے دوسرا کہتا ہے.قرآن میں یہ ہے.حضرت صاحب مثال دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے مداری کے تھیلے کی سی بات کر رکھی ہے.جیسے وہ چاہتا ہے اس میں سے نکالتا ہے.ویسے ہی یہ بھی جو روایت اپنے مطلب کی چاہتے ہیں نکال کر پیش کر دیتے ہیں اور یہ اختلاف اس شدت سے پھیلا ہوا ہے کہ اس کا بیان کرنا بھی آسان نہیں.صداقت اس طرح پر چھپ جاتی ہے جب تک مامور من اللہ

Page 332

حقائق الفرقان ۳۲۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ خدا تعالیٰ سے لطیف فہم لے کر نہیں آتا.صداقت بیج کی طرح رہتی ہے.جیسے جب بارش آسمان سے آتی ہے تو خواہ ساری دنیا زور لگائے کہ بیج نشو ونما نہ پائے.وہ اُگنے سے نہیں رہتا.اسی طرح پر جب مامور من اللہ آتا ہے تو خواہ کوئی کچھ ہی کرے وہ صداقت کو ضرور نکال لیتا ہے.اس کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ جو کام وہ کرتا ہے عقل صحیح اور نقل صریح اور تائیدات سماوی اس کی تصدیق کرتے ہیں.اس وقت آزادی کی راہیں کھلی ہوئی ہیں.اسلام پر وہ اعتراض کئے جاتے ہیں کہ پہلے کسی نے کبھی سنے بھی نہ تھے.میں نے بعض لوگوں سے سنا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے بھی اعتراض کرتے تھے.میں کہتا ہوں یہ بالکل غلط اور جھوٹ بات ہے.پہلے کوئی اعتراض نہیں کرتا تھا.اسلامی سلطنت کی سطوت و جبروت کے مقابلہ میں کون اعتراض کر سکتا تھا.یہ سب کچھ اس صدی کا کرشمہ ہے.اور اسی انڈیا میں اس کو ترقی ہے جو چاہے کوئی کہہ دے.اخبارات ورسالہ جات میں زور شور سے مخالفت کی جاتی اور اعتراض کئے جاتے ہیں کوئی نہیں روکتا.فسق و فجور نے یہاں تک ترقی کی ہے کہ شراب جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع الاثم کہا ہے اسی پر قیاس کر لو کہ کیا حالت ہے.لنڈن ایک شہر میں اس کی یہ حالت ہے کہ صرف شراب فروشوں کی دوکانوں کو الگ ایک لائن میں رکھا جاوے تو پچہتر میل سے زیادہ تک جاتی ہیں.اور کل کارخانے اتوار کو بندر ہیں مگر شراب کی دوکانیں اتوار کو بھی کھلنی ضروری ہیں.اس سے اندازہ اور قیاس کرلو دوسری حالتوں کا.عورتوں کی بابت آیا ہے کہ وہ حبائل الشیطان ہیں یعنی عورتیں شیطان کی رسیاں ہیں.حقیقت میں جس قدر ابتلا ان عورتوں کے ذریعہ سے آتے ہیں اور جس طرح شیطان ان رسیوں کے ذریعہ سے اپنا کام کرتا ہے.وہ کوئی ایسی بات نہیں کہ کسی سے پوشیدہ ہو.مشنری عورتوں اور مشنریوں سے جو خرابیاں اکثر اوقات پیدا ہوتی ہیں.اور آئے دن اس قسم کی خبریں سننے میں آتی ہیں.کہ فلاں گھر میں ایک مشنری عورت آتی تھی اور وہاں سے فلاں عورت کو نکال

Page 333

حقائق الفرقان ۳۲۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ لے گئی.اس کا پتہ نہیں وغیرہ.پھر اس سے ذرا اور آگے بڑھو.ولایت میں جولوگ پڑھنے کے واسطے جاتے ہیں.اور کوئی ان کے حال کا پرساں اور نگران نہیں ہوتا.پھر جو کچھ وہاں وہ کر گزریں تھوڑا ہے.مذہب کی رسمی قیود بھی بمبئی تک ہی سمجھی جاتی ہیں.اس کے بعد پھر کوئی مذہب نہیں.الا ماشاء اللہ.ایک معزز ہندو نے نواب محمد علی خان صاحب کے مکان پر بیان کیا کہ یہ مت پوچھو کہ ولایت میں کیا کیا کھایا؟ بلکہ یہ پوچھئے کہ کیا نہیں کھایا؟ غرض حبائل الشیطان کی وہ حالت جماع الاثم کا وہ زورشور.سلطنت کا رعب وسطوت و جبروت الگ یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے.گو ویسے کچھ اور ہی ظاہر کر دیا گیا ہو کہ مقدمات میں تبدیلی مذہب نجات کا موجب ہوگئی اور مجسٹریٹ نے لکھ دیا کہ عیسائی مذہب کی وجہ سے خلاف گواہی دی گئی یا مقدمہ بنایا گیا.ایک آدمی بجائے خود ذلیل اور کسمپرس ہوتا ہے لیکن مشنریوں کے ہاں جا کر اسے روز گار مل جاتا ہے.یا کسی کو ممانعت روزگار ہوئی.مشنریوں نے اسے پادری بنا دیا.اس قسم کے واقعات موجود ہیں.یہ خیالی یا فرضی باتیں نہیں ہیں.مشنریوں کی بعض رپورٹوں تک سے واقعات کھل جاتے ہیں اگر ان پر زیادہ غور کی جاوے.یہ تو ان لوگوں کی آزادی کے اسباب ہیں جنہوں نے مذہب کی پرواہ نہیں کی.اس کے علاوہ مصنفوں اور ماسٹروں کا اثر پڑھنے والوں پر اندر ہی اندر ایک مخفی رنگ میں ہوتا چلا جاتا ہے.تصنیف کا ایسا خوفناک اثر ہوتا ہے کہ دوسروں کو معلوم بھی نہیں ہوتا.اور شاید پڑھنے والا بھی اسے جلدی محسوس نہ کر سکے.مگر آخر کار وہ ایسا متاثر ہوتا ہے کہ خود اس کو جرات ہوتی ہے.شاہ عبد العزیز صاحب نے بھی اس اثر کے متعلق لکھا ہے اور میں چونکہ بہت کتابوں کا پڑھنے والا ہوں.میں نے تجربہ کیا ہے اور علاوہ بریں علم طب کے ذریعہ مجھے اس راز کے سمجھنے میں بہت بڑی مدد لی ہے.میرحسن کی مثنوی پڑھ کر ہزاروں ہزارلر کے اور لڑکیاں زانی اور بدکار ہو گئی ہیں.اور یہ ایسی بین اور ظاہر بات ہے کہ کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا.جب کہ تصانیف کا اثر طبائع پر پڑتا ہے.اور ضعیف طبیعتیں بہت جلد اس

Page 334

حقائق الفرقان ۳۲۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اثر کو قبول کرتی ہیں تو آجکل تصانیف کے ذریعہ جو ز ہر مشنری گروہ نے پھیلایا ہے.اس کے متعلق مجھے کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے.ہر رنگ میں فلسفہ، تاریخ، طب وغیرہ ہر شاخ علم اور ہر کتاب میں مذہب سے مغائرت اور آزادی کا سبق پڑھایا جاتا.اور اسلام کی پاک تعلیم پر کسی نہ کسی رنگ میں حملہ کیا جاتا ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کا جادو کچھ ایسا کارگر ہوا ہے کہ ہر شخص بلا سوچے سمجھے کہ اس کے بچے کو کس قسم کی تعلیم مفید اور کارآمد ہو سکتی ہے.اپنے لڑکوں کو سکول اور کالج میں بھیجتا ہے.جہاں حفاظت دین کے اسباب ہم نہیں پہنچائے جاتے.وہاں قسم قسم کی فصیح و بلیغ تقریروں والے اور بڑی بڑی لمبی داڑھیوں والے عجیب غریب باتیں سناتے ہیں اور یورپین اقوام کی ترقیوں اور صناعیوں پر لیکچر دے دے کر نوجوانوں کو اس طرف مائل کرتے ہیں.یہاں تک کہ سیدھے سادھے نوجوان جو اپنی مذہبی تعلیم سے بالکل کورے اور صاف ہوتے ہیں.مذہب کو ایک آزادی کی مانع چیز سمجھنے لگتے ہیں اور انسانی ترقیوں کا مانع اسے قرار دیتے ہیں.باتوں ہی باتوں میں سمجھا دیئے جاتے ہیں کہ اگر وہ اعتراض علماء کے سامنے کئے جاتے ہیں تو ان پر کفر کے فتوے جڑے جاتے ہیں.ان اعتراضوں کا جو بُرا اثر پڑتا ہے اس کے متعلق میں ایک قصہ بیان کرتا ہوں.مگر یاد رکھو کہ میں قصہ گو نہیں.بلکہ در ددل کے ساتھ تمہیں اسلام کی حالت دکھانی چاہتا ہوں.میری غرض کسی پر نکتہ چینی کرنا نہیں ہے اور نہ ہنسانا مقصود ہے.بلکہ اصلیت کا بیان کرنامذ نظر ہے.میں ایک بار ریل میں سفر کر رہا تھا.جس کمرہ میں میں بیٹھا ہوا تھا.اسی کمرہ میں ایک اور بڑھا شخص بیٹھا ہوا تھا.ایک اور شخص جو مجھے مولوی صاحب کہ کر مخاطب کر نے لگا.تو اس دوسرے شخص کو سخت بُرا معلوم ہوا اور اس نے کھڑکی سے باہر سر نکال لیا.وہ شخص جو مجھ سے مخاطب تھا اس کے بعض سوالوں کا جواب جب میں نے دیا تو اس بڑھے نے بھی سر اندر کر لیا اور بڑے غور سے میری باتوں کو سننے لگا اور وہ باتیں مؤثر معلوم ہوئیں.پھر خود ہی اس نے بیان کیا کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں نے کیوں سر باہر کر لیا تھا.میں نے کہا نہیں اس نے بیان کیا کہ مجھے مولویوں کے نام سے بڑی نفرت

Page 335

حقائق الفرقان ۳۲۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہے.اس شخص نے جب آپ کو مولوی کر کے پکارا تو مجھے بہت برا معلوم ہوا.لیکن جب آپ کی باتیں سنیں تو مجھے اُن سے بڑا اثر ہوا.میں نے پوچھا کہ مولویوں سے تمہیں نفرت ہے؟ اس نے کہا کہ میں نے لدھیانہ میں ایک مولوی صاحب کا وعظ سنا اس نے دریائے نیل کے فضائل میں بیان کیا کہ وہ جَبَلُ الْقَمَر سے نکلتا ہے.اور اس کے متعلق کہا کہ چاند کے پہاڑوں سے آتا ہے.میں نے اس پر اعتراض کیا تو مجھے پٹوایا گیا.اس وقت مجھے اسلام پر کچھ شکوک پیدا ہو گئے.اور میں عیسائی ہو گیا بہت عرصہ تک میں عیسائی رہا.پھر ایک دن پادری صاحب نے مجھے کہا کہ ایک نئی تحقیقات ہوئی ہے.دریائے نیل کا منبع معلوم ہو گیا ہے.اور اس نے بیان کیا کہ جبل القمر ایک پہاڑ ہے وہاں سے دریائے نیل نکلتا ہے.میں اس کو سن کر رو پڑا.اور وہ سارا واقعہ مجھے یاد آ گیا.ایک عیسائی نے مجھے مسلمان بنا دیا.اور ایک مولوی نے مجھے عیسائی کیا.اس وجہ سے میں ان لوگوں سے نفرت کرتا تھا.مگر آپ اُن میں سے نہیں ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی یہ کہانی سن کر میرے دل پر سخت چوٹ لگی کہ اللہ ! مسلمانوں کی یہ حالت ہے.غرض اس وقت مسلمانوں کی حالت تو یہاں تک پہنچی ہوئی ہے اور اس پر بھی ان کو کسی مزکی کی ضرورت نہیں ! (احکم جلد ۶ نمبر ۴۵ مورخه ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲، صفحه ۱۴۴۱۳) غرض یہ حالت اس وقت اسلام کی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ مزکی کی ضرورت نہیں قرآن موجود ہے میں پوچھتا ہوں.اگر قرآن ہی کی ضرورت تھی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن شریف کے آنے کی کیا حاجت تھی کسی درخت کے ساتھ لٹکا لٹکا یا مل جاتا؟ اور قرآن شریف خود کیوں یہ قید لگاتا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَيُزَكّيهِمُ وغیرہ.میں سچ کہتا ہوں کہ معلم اور مزکی کے بدوں قرآن شریف جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت غیر مفید ہوتا.آج بھی غیر مفید ہوتا.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ طریق پسند فرمایا ہے کہ وہ انبیاء ومرسلین کے ذریعہ ہدایت بھیجتا ہے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ ہدایت تو آ جاوے مگر انبیاء و مرسلین نہ آئے ہوں.پس اس وقت جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں اور مختلف پہلوؤں سے میں نے دکھایا ہے.

Page 336

حقائق الفرقان ۳۲۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ضرورتیں داعی ہو رہی ہیں کہ ایک مزکی اور مطہر انسان قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کر کے اس ہدایت کو لوگوں تک پہنچا دے.جو قرآن شریف میں موجود ہے.یہ کام اس کا ہے کہ وہ ہدایت کی اشاعت کرے.جب یہ ضرورت ثابت ہے تو پھر اس امر کا پتہ لگانا کچھ بھی مشکل نہیں ہو سکتا کہ وہ مزکی آیا ہے یا نہیں؟ میں کہتا ہوں کہ وہ مز کی آگیا اب اس کی صداقت کا جانچنا باقی رہتا ہے.اس کے لئے قرآن شریف اور منہاج نبوت کامل معیار ہے.اس سے دیکھ لو.اس کی سچائی خود بخود کھل جاویگی اور عقلی دلائل نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ اور تائیدات سے اسے شناخت کرلو.کسوف و خسوف کا کس قدر عظیم الشان نشان موجود تھا مگر دیکھنے والوں میں سے سب نے فائدہ اٹھایا؟ ہرگز نہیں.اس کے پورا نہ ہونے سے پہلے تو اسے صحیح قرار دیتے تھے مگر جب وہ پورا ہو گیا تو روایت کی صحت میں شبہ کرنا شروع کر دیا.حقیقت میں جب انسان تعصب اور ضد سے کام لیتا ہے اور ایک بات مانتی نہیں چاہتا تو اس کی بہت سی تو جیہیں نکالتا ہے اور اپنے خیال کے موافق عذرات تراش لیتا ہے.چونکہ انسان کی قوتیں دن بدن آگے بڑھتی ہیں.اس لئے وہ خیالات ترقی کرتے جاتے ہیں.دیکھو میں کل جس عمر کا تھا آج اُس سے ایک دن بڑا ہوں.اسی طرح دیکھ لو.پچھلے حصہ زندگانی پر جس قدر غور کرو گے اور جتنا پیچھے جاؤ گے.اسی قدر تمہیں نمایاں فرق نظر آئے گا کہ کمزوری بڑھتی گئی ہے.دیکھو پہلے بول نہ سکتا تھا.پھر بولنے لگا اور اپنی مادری زبان میں کلام کرنے لگا.پھر یہاں تک ترقی کی کہ اردو بولنے لگا اور پھر یوما فیوماً اس میں بھی ترقی کی.یہاں تک کہ اب اپنی زبان میں مسلسل دو چار فقرے بھی ادا نہیں کر سکتا.ایک بار حضرت امام علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے پنجابی زبان میں وعظ کرنے کا حکم دیا.میں دو چار فقروں کے بعد ہی پھر اردو بولنے لگا.اسی طرح دیکھ لو کہ ہر صورت میں انسان ترقی کرتا ہے.بچپن کے زمانہ میں جو کپڑے کام آتے تھے اور خوبصورت اور ٹھیک موزوں تھے.آج میں ان کو نہیں پہن سکتا.یہی نہیں کہ وہ میرے بدن پر نہیں آ سکیں گے بلکہ بہت ہی بڑے ہوں گے.

Page 337

حقائق الفرقان ۳۲۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ جہاں تک غور کرتے جاؤ.انسان ترقی کرتا جاتا ہے اسی اصول کے موافق وہ نیکیوں اور بدیوں میں بھی ترقی کرتا ہے اور رسم و رواج لباس وغیرہ امور میں ترقی ہوتی رہتی ہے.ایک زمانہ تھا کہ مردوں کے پاجامے گلبدن کے ہوتے تھے اور وہ دو ہری پگڑیاں پہنا کرتے تھے.اور بھڑی سی تلواریں ہوتی تھیں اور کچھ بد نما ڈھالیں.مگر آج دیکھو کہ وہ طر ز لباس ہی نہیں رہا.ان تلواروں اور ڈھالوں کی ضرورت ہی نہیں رہی.اس اس قسم کی تو ہیں اور بندوقیں آئے دن ایجاد ہورہی ہیں کہ دشمن اپنے ہی مقام پر ہلاک کر دیا جاتا ہے تو اُسے خبر ہوتی ہے.فنونِ حرب میں اس قدر ترقی ہوئی ہے کہ کچھ کہا نہیں جاتا.میری غرض اس وقت زمانہ کی ایجادات اور فنون کی ترقیوں پر لیکچر دینا نہیں ہے.بلکہ میں اس اصل کو تمہارے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ انسان ترقی کرتا ہے اور وہ جس حالت میں ہو اُس میں رہ نہیں سکتا.غرض پھر اس حکومت کے دور دورہ میں جہاں اور ترقیاں ہوئیں.لباس میں بھی ترقی ہونے لگی.پھر الٹی وضع کی پگڑیوں کے بجائے پگڑیوں کا طور بدلا.ٹوپیوں کا رواج شروع ہوا.بال رکھتے تھے.یہ سوچا کہ سر دھونے کی تکلیف ہوتی ہے.بال چھوٹے کئے جاویں.بالوں پر اثر پڑا.پھر داڑھیوں کی صفائی شروع ہوئی پھر جو تہ کی طرف دیکھا کہ پرانی وضع کے جوتے بھرے اور بدنما ہیں اس لئے ان میں ترمیم کرنی چاہیے اور اس قسم کے ہونے چاہیں جیسا کہ پاؤں کا نمونہ نیچر نے رکھا ہے.پس بوٹ کی طرف توجہ ہوئی اور فرغل چغہ کی بجائے کوٹ نکلے.یہاں تک تو خیر تھی.لباس سے آگے اثر شروع ہوا اور ایک تہ بند گزار کو نماز بھی چھوڑنی پڑی.کیونکہ نماز پڑھنے میں ایک قیمتی پوشاک خراب ہوتی ہے.وضو کر نے سے کالر اور نیکٹائی وغیرہ کا ستیا ناس ہوتا ہے اور کفیں خراب ہو جاتی ہیں.یہ انسان کی ترقی کی ایک بات ہے.اور یہی معنے ہیں میری نظر میں.مَنْ نَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ! موجودہ زمانہ میں بھی اثر ہوا ہے.قوم کی حالت اسی طرح بگڑی ہے.بعض کو فلسفہ نے تباہ کر دیا ہے بعض اور مشکلات اور حالتوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوئے.میری طبیعت فلسفہ کو پسند کرتی ہے.مگر ے جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے.

Page 338

حقائق الفرقان ۳۲۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے قرآن جیسا مجھے فلسفہ دیا اور پھر ایک اپنا امام مجھے عطا کیا ہے کہ جس کی قوت قدسی اور تاثیر صحبت سے یہ فلسفہ مجھے بہت ہی عزیز اور کامل تر فلسفہ ملا.میں نے دیکھا ہے کہ آجکل کے نوجوان جو انگریزی فلسفہ کی چند کتا میں پڑھتے ہیں جس پر بجائے خود بیسیوں نہیں سینکڑوں اعتراض ہیں.بڑے فخر سے مل، سپنسر کے نام لیتے ہیں اور ناز کرتے ہیں کہ پلیٹو نے فلسفہ میں یہ لکھا ہے اور فیثا غورث نے یہ کہا ہے.ان باتوں نے ان پر کچھ ایسا اثر کیا ہے کہ اب وہ مذہب پر ہنسی کرتے ہیں اور اس کو ٹھٹھے میں اڑاتے ہیں.مذہب کی حالت تو یوں بدتر ہوئی.پھر سوسائٹی کی طرف دیکھو.ادنیٰ سے اعلیٰ تک کو میں نے دیکھا ہے کہ جب ان سے کوئی بات پوچھو تو ان کے نزدیک گویا حرام ہے کسی مسلمان کا نام لینا.وہ سوسائٹی کے اصولوں کو بیان کرتے ہوئے بڑے خوش ہوتے ہیں اور انگریزوں کے نام لیتے ہیں اور ان کی کتابوں کے حوالے دینے لگتے ہیں.مختصر یہ کہ دنیا الگ معبود ہورہی ہے.حکومت کی طرف سے جو اثر ہورہا ہے.وہ ظاہر ہے.بچے یوں مبتلا ہیں.مدارس میں مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں اور مسلمان کر نہیں سکتے گورنمنٹ برداشت نہیں کر سکتی کہ ہر مذہب کے معلم مدرسوں میں اپنی گرہ سے قائم کرے.کیونکہ مذہبی تعلیم دینا خود مسلمانوں کا اپنا فرض ہے اور اصل تو یہ ہے کہ خود مسلمانوں کی حالت ایسی ہے کہ جہاں جہاں انہوں نے بظاہر دینی تعلیم کا انتظام کیا بھی ہے وہاں بھی یہ حالت ہے کہ دینی تعلیم اصل مقصد نہیں بلکہ دنیوی علوم کے ساتھ برائے نام ایسا رکھا گیا ہے.میں اپنے یہاں دیکھتا ہوں.دوسرے مدرسوں کی نسبت یہاں دینیات کی طرف توجہ ہے.مگر میں نے دیکھا ہے کہ لڑکے مسجد میں بھی انگریزی کتابوں کے مجھے یاد کرتے رہتے ہیں مجھے تعجب ہی ہوا ہے.عربی اور قرآن شریف کی طرف وہ توجہ نہیں پاتا ہوں جو انگریزی اور اس کے لوازمات کی طرف ہے.غفلت جس قدر مسلمانوں پر سایہ کئے ہوئے ہے.اس کا تو ذکر ہی نہ پوچھو.اعمال میں یہ

Page 339

حقائق الفرقان ۳۲۹ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ حالت ہے کہ گھر میں تو انا اعطينك ( الكوثر : ۲) بھی گراں گزرتی ہے.لیکن اگر امام ہوں تو پھر سورۃ بقرۃ بھی کافی نہیں.حدود اللہ میں یہ غفلت ہے کہ اپنی ہی سستی اور کمزوری سے تمام حدود اٹھ گئی ہیں.کسی کو جھوٹ یا چوری یا دوسری خلاف ورزیوں کی سزا نہیں ملتی ہے.ان باتوں کا اگر ذکر نہ بھی کریں اور مختصر الفاظ میں کہیں تو یہ ہے کہ مذہب سے ناواقفی ہوگئی ہے.مہذب جماعت نے مذہب کا ذکر ہی خلاف تہذیب سمجھ رکھا ہے.مذہبی مباحثوں کو وہ اس قدر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کی کچھ حد ہی نہیں.ان کی مجلس میں اگر اسلام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن شریف کی نسبت سخت الفاظ میں حملے کئے جائیں تو ان کوٹن کر خاموش ہور رہنا اور کسی قسم کا جواب نہ دینا فراخ حوصلگی اور مرنج و مرنجاں کا ثبوت ہے.وہ یہ کہتے ہیں کہ مذہب کا تعلق صرف دل سے ہے.زبان سے یا اعمال سے یا مال سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں ہے.جہاں تک نظر دوڑاؤ.مخلوق کو عجیب حالت میں مبتلا پاؤ گے.باوجود اس حالت کے آزادی یہاں تک ہے کہ شاکت مذہب کے متعلق تک بھی کتابیں شائع ہو گئی ہیں اور گپت پر کاش کے نام سے ان کے حالات ظاہر ہو گئے ہیں.کوئی مذہب ایسا نہیں رہا جو اس وقت دنیا میں موجود ہو اور اس کے عقائد اور متعلقات پبلک کے سامنے نہ آئے ہوں.جب یہ حالت ہے تو پھر میں مسلمانوں سے خطاب کر کے پوچھتا ہوں کہ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰) کا وقت کب آئے گا؟ اور علامات اور واقعات سے اگر تم استدلال نہیں کرتے تو مجھے اس کا جواب دو کہ مذاہب مختلفہ کا ظہور تواب ہو چکا ہے وہ رسول اس وقت کہاں ہے.جس نے اسلام کو جمیع ملل پر غالب کر کے دکھانا ہے.الغرض انسان کی اپنی ضرورتیں ، پس و پیش کی ضرورتیں ، اعمال کا مقابلہ، عقل اور فطرت کے ساتھ عقلاء کی گواہیاں، راست بازوں کی گواہیاں، اپنے نفس کی گواہیاں، موجودہ ضروریات کیا کافی نہ تھیں یہ ثابت کرنے کے واسطے کہ یہ زمانہ امام کا زمانہ ہے.بے شک یہ ساری شہادتیں کافی ہیں کہ یہ امام کا زمانہ ہے اور یہ سچ ہے کہ کوئی درخت جڑھ کے لے ہم نے تجھے سب کچھ دیا.۲؎ تا کہ اس کو غالب کرے سب ہی دینوں پر.

Page 340

حقائق الفرقان ۳۳۰ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ سوا کوئی کام ایک مخزن کے سوا نہیں چلتا.آخر خدا ہی کا فضل ہوا.ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَن يَشَاءُ الحکم جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحه ۴٬۳) وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ - اللہ تعالیٰ بڑے ہی فضلوں کا مالک ہے.یہ اُسی کا فضل ہے کہ وہ کس کے زمانہ میں امام، معلم ، مز کی ، تالی بھیج دیتا ہے.اور کوئی قوم کا دردمند انسان مبعوث فرما دیتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی کے فضل اور رحم کا ایک عظیم الشان نمونہ تھا.آپ کی بعثت اللہ تعالیٰ کی رحمانی صفت کے انتہائی تقاضے کا نتیجہ تھی.اسی لئے فرمایا.مَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً للعلمين ( انبیاء: ۱۰۸) محمد وہی ہوتا ہے جس کی تعریف کی جاتی ہے.آپ کے نام ہی میں رحمانیت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ تعریف اسی کی کی جاتی ہے جو بلا مزدوری کام آئے اور شفقت فرمائے.اگر مزدوری بھی لے تو پھر تعریف کیسی ! بے وجہ عنایت فرما کی ہی تعریف ہوتی ہے اور بے مانگے دینے والا رحمن ہوتا ہے.پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمن کا مظہر ہوئے.اس قسم کے رحیم و کریم عنایت فرما کے احکام کی خلاف ورزی ایک شریر النفس اور ناپاک فطرت انسان کا کام ہے.کیونکہ فطرتی طور پر بمصداق جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُبّ مَنْ اَحْسَنَ إِلَيْهَا محسن کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے اور محبت کا شدید تقاضا اس کی اتباع ہے.اس لئے فرمایا گیا: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ - (آل عمران : ۳۲) جو چاہتا ہے کہ وہ مولیٰ کریم کا محبوب ہو.اس کو لازم ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے اور سچی اتباع کامل محبت سے پیدا ہوتی ہے.اور محبت محسن کے احسانوں کی یاد سے بڑھتی ہے.جو شخص اس محسن اور عنایت فرما کی خلاف ورزی کرتا ہے جو بلا وجہ اور بلا مز دمروت واحسان کرتا ہے.وہ سب سے زیادہ سزا کا مستحق ہوتا.اسی لئے ابوالحتفاء کے منہ سے قرآن شریف میں آب آذر لے (اے محمد) تم ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو ( جیسا کہ میں اللہ کا محبوب بنا ہوں ) تو تم میری چال چلو پوری پوری تو تم بھی اللہ کے محبوب بن جاؤ گے.

Page 341

حقائق الفرقان ۳۳۱ سُوْرَةُ الجُمُعَةِ کو یہ کہلوادیا.ابحَ أَخَافُ أَنْ يَمَتَكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمٰنِ.(مریم:۴۶) یعنی جس نے بلا وجہ تم پر احسان کیا.تیرا قلب اچھا ہوتا تو اس کی محبت میں تو ترقی کرتا.برخلاف اس کے تو نے بنوں کی پرستش کی.پس اس رحمانی صفت کے انکار کی وجہ سے عذاب بھی شدید آئے گا.پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پہلو سے بھی رحمانیت کے مظہر تھے کہ آپ قرآن جیسی رحمت، شفاء ، نور، امام کتاب لے کر آئے.اور قرآن کا نزول رحمانی صفت ہی کا اقتضاء تھا.جیسے فرمایا.الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآن قرآن کا نزول چونکہ اس صفت کے نیچے تھا.آپ جب معلم القرآن ہوئے تو اسی صفت کے مظہر بن کر باوجود اس کے کہ ان سے دیکھ اٹھائے.مگر دعا، توجہ، عقدِ ہمت اور تدبیر کو نہ چھوڑا.یہاں تک کہ آخر آپ کامیاب ہو گئے.پھر جن لوگوں نے آپ کی سچی اور کامل اتباع کی ان کو اعلیٰ درجہ کی جزا ملی اور ان کی تعریف ہوئی.اس پہلو سے آپ کا نام احمد ٹھہرا.کیونکہ دوسرے کی تعریف جب کرتا ہے جب فائدہ دیتا ہے.چونکہ آپ نے عظیم الشان فائدہ دنیا کو پہنچایا ، اس لئے آپ کی تعریف بھی اسی قدر ہوئی.اس سے بڑھ کر کیا فائدہ ہو گا کہ ابدالآباد کے لئے خلافت کا سلسلہ آپ کے کامل متبعین میں رکھ دیا.وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصُّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم ( النور : ۵۶) اسی وعده حقہ اور صادقہ کے موافق آج بھی خدا تعالیٰ نے ) خاتم الخلفاء کو بھیجا ہے.غرض !خدا میں جو رحمن ورحیم کی صفت تھی محمد احمد میں وہ جلوہ گر ہوئیں.اس لئے وہ اپنے سچے غلاموں میں دونوں باتیں پیدا کر دیتا ہے.اور یہ دیکھا گیا ہے کہ جس قدر مصلحان اسلام میں ہوئے ہیں وہ یا اسم محمد کے نیچے تھے یا اسم احمد کے.لے میں ڈرتا ہوں کہ رحمان کا عذاب تم کو نہ چھو جائے.۲ اللہ نے وعدہ کر لیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جنہوں نے بھلے کام کئے ہیں کہ ان کو ضرور خلیفہ بنائے گا زمین میں جیسے کہ خلیفہ بنایا ان سے پہلے والوں کو.

Page 342

حقائق الفرقان ۳۳۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ میں نے دیکھا ہے کہ علماء ایک بڑی بھاری غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں.جب کہ وہ تمام مختلف پیشگوئیاں جو مختلف اشخاص کے حق میں ہوئی ہیں.ایک ہی آدمی میں جمع کرنا چاہتے ہیں.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُم کی آیت بھی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ موعود خلیفے ایک سے زیادہ ہوں گے.پھر کیوں سعی کی جاتی ہے کہ سب کا مصداق ایک ہی ہو.مختلف مہدی ہوئے اور اپنے اپنے وقت پر ہو گزرے.مسیح بھی ایک مہدی ہے اور وہ اب موجود ہے.مگر ذلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ جس کو چاہتا ہے فضل دیتا ہے.اگر کہو کہ اس وقت بہت سے سلسلے گدی نشین اور سجادہ نشین اور کیا کیا ہیں.تو سنو! مَقَلُ الَّذِينَ -..الآية.اسفاران بڑی کتابوں کو کہتے ہیں جن سے کشف حقائق ہو جاتا ہے.مگر کوئی بتائے کہ ان انکشافات کے اسباب سے گدھا کیا فائدہ اُٹھا سکتا ہے.گدھا جس کی عقدہمت اور توجہ اس سے پرے نہیں کہ دانہ اور گھاس مل جاوے یا زیادہ سے زیادہ یہ کہ اچھی اروڑی مل جاوے اور طویلہ کا آخری حصہ ہو جو خاکروب نے اچھی طرح صاف نہ کیا ہو.رات کو جھول اور پالان مل جاوے.مقدرت سے زیادہ بوجھ نہ ہو.اصل غرض اس کی تھوڑی سی نفس پرستی ہے.اسی مثال کو اللہ تعالیٰ یہاں بیان کرتا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس انکشاف حقائق کے اسباب ہوتے ہیں مگر وہ ان سے اس قدر فائدہ صرف اٹھاتے ہیں.جس قدر گدھا دانے ،گھاس چُھل ، پالان اور تھوڑی سی رہتی یا اروڑی سے.پس جن کی اصل غرض دنیا ہوتی ہے.وہ ان اسباب انکشاف حقائق سے اسی مقدار دنیا طلبی کے فائدہ اٹھاتے ہیں.اس سے زیادہ کچھ نہیں.اس وقت ایک قوم دنیا میں موجود ہے.جس نے ۲۷ سو زبان میں ایک کتاب کا ترجمہ کیا ہے.اور پھر ترجمہ در ترجمہ کر کے بھی کہتے ہیں کہ وہ کلام اللہ ہے.اگر پوچھو کہ اس پر عمل کرنا شرط ہے.یا نہیں.تو کہہ دیتے ہیں کہ شرط نہیں.کیونکہ شریعت لعنت ہے پر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس قدر بوجھ کیونکر اٹھایا ہے.اس کی غرض ترجمہ کنندہ کی غرض روپیہ ہے.پر بچر کی غرض اتنی ہی ہے کہ تنخواہ مل جاوے! یہ قوم اس کی مصداق ہے يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا

Page 343

حقائق الفرقان ۳۳۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا (البقرة: ۸۰) - یہ صاف ظاہر ہے کہ اس قدر زبانوں میں مسیح نے کلام نہیں کیا.مگر پھر بھی وہ اس کا نام کلام اللہ.کتاب مقدس رکھا جاتا ہے پر یچروں کو کلام الہی کے خادم کہا جاتا ہے.اس سے کس صفائی کے ساتھ معلوم ہوتا ہے کہ یتلوا کی صفت نہیں رہی.یہ تو ہے غیر مذہب کے لوگوں کا حال.اپنے گھر میں غور کرو.الحکم جلدے نمبر ا مورخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷) کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو علماء کہلاتے ہیں ایسے ملیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ تَبَارَكَ الَّذِی یاد ہے.اور کچھ نماز جنازہ آ جاوے.گویا سارے قرآن میں ان کو اتنی ہی ضرورت ہے کہ مردے یا نئے تعلق نکاح وغیرہ سے کچھ مل جاوے.قرآن کی غرض و غایت ان کے نزدیک صرف اتنی ہی ہے اس سے آگے کچھ نہیں.مصنفوں کو دیکھو.کتابیں لکھتے ہیں.مطلب صرف اتنا ہے کہ کچھ فائدہ ہو.ان اسفار کا نتیجہ گدھے کی طرح ہے.جو فوائد قلیلہ کے لئے اس قدر بوجھ اٹھاتا ہے.کیا بُری مثال ہے.وہ جامع اخلاق انسان جو صفات عالیہ کا وارث ہوسکتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل ورحم کا وارث بن سکتا ہے.وہ انسان جس کا خدا اللہ ہے اور بچھڑا نہیں.وہ اس بات پر ایمان لاتا ہے کہ اخلاق فاضلہ کے حاصل کرنے.منشاء زندگی کو معلوم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی معلم آئے جو مز کی ہو اور تالی آیات اللہ کا ہو.مجھے اس آیت نے بارہا متأثر بنایا ہے.أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمُ قولا - (طه: ۹۰) وہ معبود کیسا ہو سکتا ہے جو کسی کی بات کا جواب ہی نہیں دیتا.اگر وہ کسی ایک سے بھی بولتا تو کم از کم یہ الزام اُٹھ جاتا جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اب کسی سے کلام نہیں کرتا.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ بچھڑے خدا پر ایمان لائے ہیں نہ کہ متکلم خدا پر.وہ ہرگز نہیں مانتے کہ وہ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ (الفاتحة: ۲ تا ۴) خدا ہے.ایک - نیچری.....کہتا ہے کہ دعاؤں کا کچھ نتیجہ اور اثر نہیں.اس قسم کا اعتقا در کھنے والا بھی خدا کو بچھڑا ہی ا جو کتاب کو تو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر ( جھوٹ ) لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہی اللہ کا حکم ہے تا کہ ان جھوٹی تحریروں سے تھوڑی سی دنیا کمالیں.۲.بھلا یہ لوگ اتنا بھی نہ دیکھ سکے کہ وہ پلٹا کر جواب بھی تو نہیں دیتا انہیں.۳ سب تعریف اللہ ہی کی ہے جو آہستہ آہستہ سب جہانوں کو کمال کی طرف پہنچانے والا.بے محنت انعام دینے والا ، کچی کوشش کا بدلہ دینے والا.جزا اور سزا کے وقت کا مالک ہے.

Page 344

حقائق الفرقان ۳۳۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ مانتا ہے.اسلام کے خدا پر وہ یقین نہیں لاتا.جس کی بابت یہ اعتقا درکھنا ضروری ہے کہ وہ اللہ وہی ہے جس نے یہ سچ فرمایا.ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ - (المؤمن :(1) غرض انسان اسفار سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.جب تک معلم.مز کی موجود نہ ہو.اگر ساری دانش اور قابلیت کتابوں پر منحصر ہوتی تو میں سچ کہتا ہوں کہ میں سب سے بڑھ کر تجربہ کار ہوتا کیونکہ جس قدر کتابیں میں نے پڑھی ہیں.بہت تھوڑے ہوں گے جنہوں نے اس قدر مطالعہ کیا ہو اور بہت تھوڑے ہوں گے جن کے پاس اس قدر ذخیرہ کتب کا ہو گا مگر میں یہ بھی سچ کہتا ہوں کہ وہ ساری کتابیں اور سارا مطالعہ بالکل رائیگاں اور بے فائدہ ہوتا.اگر میں امام کے پاس اور اس کی خدمت میں نہ ہوتا مجرد کتابوں سے آدمی کیا سیکھ سکتا ہے جب تک مز کی نہ ہو.اب میری حالت یہ ہے کہ جب کہ میں نے محض خدا کے فضل سے راست باز کو پالیا ہے تو ایک منٹ بھی اس سے دور رہنا نہیں چاہتا.یہاں تک کہ ایک نے ہزار روپیہ دے کر بلوانا چاہا.مگر میں نے گوارا نہ کیا پھر اس پر مجھے تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے دوسرے بھائی کیونکر قادیان سے باہر جانا چاہتے ہیں.میں یہ باتیں صرف تحدیث بالنعمۃ کے طور پر کہتا ہوں.شاید کسی کو فائدہ ہو کہ میں نے بہت کتا ہیں جمع کیں لیکن جو کچھ مجھے ملا محض اس کے فضل سے ملائم نہ تھے.کوئی دعوی نہ تھا اس وقت میرے دل نے مان لیا تھا کہ یہ سچا ہے.میرے لئے اس کی سچائی کی دلیل اور نشان میں آپ ہی تھا.پھر میرالڑ کا عبدالحی آیت اللہ ہے.محمد احمد مر گیا تھا.لودھیانہ کے ایک معترض نے اس پر اعتراض کیا.میرے غافل قلب نے اس کی پرواہ نہ کی اور حقیقت میں میری یہ حالت ہے کہ میں محض اولا د کا خواہشمند نہ تھا.میں اسی مجلس میں ایک شخص کو بطور شہادت پیش کر سکتا ہوں اور وہ ایڈیٹر الحکم ہے کہ ایک طبیب نے جو اشتہاری ہے مجھے اس کی معرفت پیغام دیا کہ تم میرا علاج کرو.تمہارے یہاں اولا د ہو جاوے گی.میں نے اس کو یہی جواب دیا کہ مجھے محض اولاد کی ضرورت نہیں بلکہ سعادت مند اولاد کی ضرورت ہے.اگر اس کا ے کہ تم مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا.

Page 345

حقائق الفرقان ۳۳۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کوئی نسخہ تمہارے پاس ہو تو میں کئی ہزار روپیہ دینے کو تیار ہوں.اس کا جواب اس نے کچھ نہ دیا.(یہ واقعہ بالکل درست اور صحیح ہے.ایڈیٹر ) غرض میں نے اس لدھیانوی معترض کی تحریر کا کچھ بھی لحاظ نہ کیا اور اس پر کوئی توجہ نہ کی.مگر میرے آقا امام نے اس پر توجہ کی تو اس کو وہ بشارت ملی جو انوار الاسلام کے صفحہ ۲۶ پر درج ہے.اور پھر اس کے چند برس بعد یہ بچہ جس کا نام عبدالحی ہے پیدا ہوا.اسی کشف کے مطابق اس کے جسم پر بعض پھوڑے نکلے جن کے علاج میں میری طبابت گرد تھی.عبدالحی کو ان پھوڑوں کے باعث سخت تکلیف تھی.اور وہ ساری رات اور دن بھر تڑپتا اور بے چین رہتا.جس کے ساتھ ہم کو بھی کرب ہوتا مگر ہم مجبور تھے.کچھ نہ کر سکتے تھے.ان پھوڑوں کے علاج کی طرف بھی اس کشف میں ایماء تھا.اور اس کی ایک جزو ہلدی تھی.اور اس کے ساتھ ایک اور دوائی تھی جو یاد نہ رہی تھی.ہم نے اس کے اضطراب اور کرب کو دیکھ کر چاہا کہ ہلدی لگا ئیں آپ نے کہا کہ میں جرات نہیں کر سکتا کیونکہ اس کا دوسرا جز و یاد نہیں.مگر ہم نے غلطی کھائی اور ہلدی لگا دی جس سے وہ بہت ہی تڑپا اور آخر ہم کو وہ دھونی پڑی.اس سے ہمارا ایمان تازہ ہو گیا کہ ہم کیسے ضعیف اور عاجز ہیں کہ اپنے قیاس اور فکر سے اتنی بات نہیں نکال سکے اور یہ مامور اور مرسلوں کی جماعت ایک مشین اور گل کی طرح ہوتے ہیں جس کے چلانے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے.اس کے بلائے بغیر یہ نہیں بولتے.غرض میرا ایمان ان نشانوں سے بھی پہلے کا ہے.اور یہ خدا کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو نشان کے بغیر نہ چھوڑا.سینکڑوں نشان دکھا دئے.اور خود میرے ہی گھر میں نشان موجود ہے جس کا میں نے ذکر بھی کیا ہے.یہ بات بھی یاد رکھو کہ جو لوگ اپنا ایمان کسی نشان سے مشروط رکھتے ہیں.وہ ٹھوکر کھاتے ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالی کو آزمانا چاہتے ہیں اور اس شوء ادبی اور جرات کی سزا ان کو یہ ملتی ہے کہ وہ محروم رہ جاتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ جو لوگ اقتراحی معجزات مانگتے ہیں.ان کو کوئی نشان نہیں دیا جاتا.میں نے اب بھی ایسے لوگ دیکھے ہیں جو اس قسم کے اعتراض اور جرات کیا کرتے ہیں کہ اتنے عرصہ میں فلاں قسم کا عذاب ہم پر آ جائے.وہ اللہ تعالیٰ کو اپنی عقل اور حد کے پیمانہ میں محدود کر نا چاہتے ہیں.

Page 346

حقائق الفرقان ۳۳۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اور اس پر حکومت کی خواہش کرتے ہیں حالانکہ اللہ غایب علی آمرہ اس کی شان ہے.مختصر یہ کہ ہم محتاج تھے اور قحط زدہ تھے.فطرتا ہم چاہتے تھے کہ اس وقت ہماری دستگیری کی جاوے لیکن ہماری صرف صورت سوال تھی.اگر ہم میں عقل ہوتی تو زمانہ کی حالت کو دیکھ کر آنے والے کی تلاش کرتے.مگر میں پھر بھی اللہ تعالیٰ کے بڑے فضل کا شکریہ کرتا ہوں کہ اُس نے مجھے ٹھوکر نہیں کھانے دی بلکہ میری حفاظت فرمائی.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷/جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۴) هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُقِينَ رَسُولًا: اُمُّ الْقُرى كی طرف نسبت کرنے میں امی بولتے ہیں...پس اُمی کے معنے ہوئے.اُم القری کا رہنے والا.اور ام القری مکہ کا نام ہے.پس ان پڑھ کے معنے خواہ مخواہ لے لئے.موقع مناسب آگا پیچھا دیکھ کر معنے کرنا چاہیے تھا اور بیچ یہ ہے کہ جہاں کوئی بادی بھیجا جاتا ہے.اسی بستی کو اس بادی کے زمانے میں اور بستیوں کا اُمّم جس کے معنے اصل کے ہیں کہا جاتا ہے ثبوت.يَبْعَثُ فِي أُمَّهَا رَسُولًا (القصص:۲۰) قرآن میں ہے پھر اس لحاظ سے بھی مکہ معظمہ کو اُم اور ام القری کہا گیا.اور ہر مامور کی بستی اُتم ہوا کرتی ہے.نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۱۰) يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَ كَيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ.یعنی پہلے لوگوں کو احکام الہی سنائے جاویں.ان کو کتاب و حکمت سکھائی جاوے.پھر ان کا تزکیہ ہو.تین مرتبے ہیں.يَتْلُوا يُعَلِّمُهُمْ يُزكيهم - حدیث میں ان کو اسلام، ایمان ، احسان سے تعبیر فرمایا گیا ہے.رسول کریم تزکیہ کس رنگ میں فرماتے.جب اپنا فرماں بردار کسی کو دیکھتے تو پھر اس کے لئے دعائیں کرتے اور اسی طرح پر اللہ کا فضل خصوصیت سے اس پر نازل ہوتا اور خدا تعالیٰ خود اس کا متولی ہو جاتا.صحابہ میں بھی تین قسم کے لوگ تھے.ایک معلم چنا نچہ ابوھریرہ ، عبداللہ بن عمر ، انس بن مالک.یہ جس قدر لوگ ہیں احکام سناتے رہے.صحابہ میں سے بعض خواص ایسے تھے کہ ان سے بہت کم احادیث سناتے.جیسے خلفائے راشدین بالخصوص حضرت ابوبکر.مگر جو حدیثیں انہوں نے سنائیں.وہ ایسی جامع ہیں کہ

Page 347

حقائق الفرقان ۳۳۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ان سے بہت سے احکام نکل سکتے ہیں.بعد اس کے جب لوگوں میں کمی آگئی.تو صحابہ کے آخری اور تابعین کے ابتدائی زمانے میں بادشاہ الگ ہو گئے اور معلم لوگ الگ.جو معلم اسلام کے تھے وہ فقہاء کہلائے.گویا ایک طرف بادشاہ تھے اور ایک طرف فقہاء جن کے ذمے تعلیم کتاب اور تزکیہ یا احسان کا کام تھا.یہی اہل اللہ تھے.چونکہ ایک وقت میں دو خلفاء بیعت نہیں لے سکتے.اس لئے ان لوگوں نے بجائے بیعت کے کچھ نشان اپنی خدمت گزاری کے مقرر کر لئے.مشہور پیر قافلہ جنید بغدادی ایک دفعہ بچے ہی تھے کہ مکہ معظمہ اولیاء کرام کی صحبت میں چلے گئے جہاں محبت الہی پر مکالمہ ہو رہا ہے.ان لوگوں نے کہا کیوں میاں لڑ کے تم بھی کچھ بولو گے تو انہوں نے بڑی جرات سے کہا.کیوں نہیں.اس پر انہوں نے کہا لَهُ عَهْدٌ ذَاهِبٌ عَن نَّفْسِهِ مُتَصِلُ بِذِكْرِ رَبِّهِ.قَائِمُ بِأَدَاء حَقِّهِ إِنْ تَكَلَّمَ فَيا اللهِ وَ فِي اللهِ وَإِنْ تَحَرَّكَ فَبِأَمْرِ اللهِ ۖ وَإِنْ سَكَنَ فَمَعَ اللهِ - جس کے مختصر معنے یہ ہیں کہ صوفی وہ ہے جو اپنا ارادہ سب چھوڑ دے.کام کرے مگر خدا کے حکم سے.ہر وقت خدا کی یاد سے اس کا تعلق وابستہ رہے.وہ بیوی سے صحبت کرے مگر اس لئے کہ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ کا حکم ہے.کھانا کھائے مگر اس لئے کہ گلوا.خدا کا حکم ہے.یہ بڑا سخت مجاہدہ ہے.میں نے خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.آٹھ پہر میں انسان اس میں کئی بار فیل ہو جاتا ہے.الأُ مَنْ عَصَمَهُ الله غرض وہ شخص اللہ کے تمام احکام ادا کرتا ہے.جب بولتا ہے تو خدا کی تعلیم کے مطابق.ہلتا ہے تو اللہ کے حکم سے ٹھہرتا ہے تو اللہ کے ارشاد سے.یہ سن کر سب چیخ اٹھے کہ یہ عراقی لڑکا تاج العارفین نظر آتا ہے.ان کے اتباع بہت لوگ نظر آتے ہیں.غرض معلمین سے ایک گروہ تو فقہاء کا تھا.چنانچہ امام ابوحنیفہ ، شافعی ، مالک ، احمد بن حنبل"، داؤد، امام بخاری، اسحاق بن راہویہ تمھم اللہ.یہ سب لوگ حامی اسلام گزرے ہیں.انہوں نے

Page 348

حقائق الفرقان بادشاہوں کا ہاتھ خوب بٹایا.۳۳۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ دوسرا گروہ متکلمین کا ہے جن میں امام ابوالمنصور الما تریدی، الامام ابوالحسن الاشعری، ابن حزم، امام غزالی، امام رازی، شیخ تیمیہ، شیخ ابن قیم رحمہم اللہ ہیں، تیسرا گروہ جنہوں نے احسان کو بیان کیا ہے.ان میں سید عبدالقادر جیلانی بڑا عظیم الشان انسان گزرا ہے.ان کی دو کتا بیں بہت مفید ہیں.ایک فتح الربانی.دوم فتوح الغیب.دوسرا مرد خدا شیخ شہاب الدین سہروردی ہے.جنہوں نے عوارف لکھ کر مخلوق پر احسان کیا ہے.تیسرا آدمی جس کے بارے میں بعض علماء نے جھگڑا کیا ہے.مگر میں تو اچھا سمجھتا ہوں.شیخ محی الدین ابن عربی ” ہے.پھر ان سے اتر کر امام شعرانی " گزرے ہیں پھر محمد انصاری ہیں.ہزار صدی کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب ہیں.مجد دالف ثانی ہیں.ان لوگوں نے اپنی تصنیف پر زور دیا ہے.مگر صرف روحانیت سے.ہندوستان میں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کا نام سکھایا ہے.ان میں حضرت معین الدین چشتی ہیں.حضرت قطب الدین بختیار کا کی ہیں.حضرت فرید الدین شکر گنج ہیں.حضرت نظام الدین محبوب الہی ہیں.حضرت نصیر الدین چراغ دہلی ہیں.رحمہم اللہ.یہ سب کے سب خدا کے خاص بندے تھے.ان کی تصانیف سے پتہ لگتا ہے.کہ ان کو قرآن شریف واحادیث سے کیا محبت تھی.نبی کریم محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کیا تعلق تھا.یہ بے نظیر مخلوقات تھی.بڑا بد بخت ہے وہ جو ان میں سے کسی کے ساتھ نقار رکھتا ہو.یہ باتیں میں نے علی وجہ البصیرت کہی ہیں.ایک نکتہ قابل یا دسنائے دیتا ہوں کہ جس کے اظہار سے میں باوجود کوشش کے رُک نہیں سکا.وہ یہ کہ میں نے حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھا.ان کو قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا.ان کے ساتھ مجھے بہت محبت ہے ۷۸ برس تک انہوں نے خلافت کی ۲۲ برس کی عمر میں وہ خلیفہ ہوئے تھے.یہ بات یادرکھو کہ میں نے کسی خاص مصلحت اور خالص بھلائی کے لئے کہی ہے.( بدر - جلد ۹ نمبر ۱۴ مورخه ۲۷ جنوری ۱۹۱۰ ء صفحه ۹)

Page 349

حقائق الفرقان ۳۳۹ سُوْرَةُ الجُمُعَةِ مَثَلُ الَّذِينَ حُمِلُوا التَّوْرَابِةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا یا جوج اور ماجوج دونوں قوموں کی نسبت بعض مصنفوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ دراز گوش ہیں.اس فقرہ کے سمجھنے میں بہت لوگوں نے جو مقدس کتابوں کی طرز کلام سے بالکل نا آشنا ہیں.کئی غلط نتیجے نکالے ہیں مگر وہ یا درکھیں کہ دراز گوش گدھے کو کہتے ہیں اور جو آدمی علم کے مطابق عمل نہ کرے.اسے بھی الہامی زبان میں گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے.دیکھو! قرآن میں آیا ہے مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَابِةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ اَسْفَارًا.اور ظاہر ہے کہ روس اور انگریز ، جرمن اور ڈنمارک والے الہیات کے سچے علوم اور روحانی برکات سے بالکل محروم ہیں.علم الہیات ان کا نہایت کمزور ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہمارے علمی مذاق والے آریہ بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں کر سکیں گے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۶۴٬۶۳) محرومی کے اسباب سے بچو.ان اسباب کا علم قرآن مجید میں موجود ہے.جو قرآن شریف پر تدبر کرنے سے آتا ہے اور اس کے ساتھ تقوی کی بھی شرط ہے.میں سچ کہتا ہوں...یہ علوم جو قرآنِ مجید میں بیان ہوئے ہیں درس تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقوی اور محض تقوی سے ملتے ہیں وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلَيْكُمُ اللهُ (البقره: ۲۸۳) اگر محض درس تدریس سے آ سکتے تو پھر قرآن مجید میں مَقَلُ الَّذِيْنَ حُمِلُوا التَّوْرَابِةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ کیوں ہوتا؟ الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ۱۰ رمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۵) قُلْ يَأَيُّهَا الَّذِينَ هَادُوا إِن زَعَمْتُمُ أَنَّكُمْ أَوْلِيَاءَ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ فتمنوا المَوْتَ اِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ - ترجمہ.تو کہہ دے اے یہود! اگر تم دعوی کرتے ہو کہ تمہیں اللہ کے دوست ہولوگوں کے سوائے تو تم آرزو کر ومرنے کی ( یا جنگ کی ) جب تم سچے ہو.لے ان لوگوں کی مثال جن پر توریت اٹھوائی گئی.پھر انہوں نے اس کو نہ اٹھایا گدھے کی مثال ہے جس پر کتابیں لدی ہیں.سے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اللہ تم کو سکھاتا ہے.

Page 350

حقائق الفرقان ۳۴۰ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کہہ دو.اے یہودیو! اگر تمہیں یہ ناز اور گھمنڈ ہے کہ تم اللہ کے ولی ہو.تو اگر اس دعوی میں سچے ہو تو پھر الموت کی تمنا کرو.یہودیوں کو اس لئے خصوصاً مخاطب فرمایا کہ وہ عیسائیوں کے بالمقابل مشکلات میں نہ تھے.اور کتاب اللہ کے وارث تھے.چونکہ عمل نہ تھا اور دنیوی لذات اور شہوات پر جو عارضی اور فانی تھیں مر مٹے تھے.اس لئے گدھے کہلائے.بایں وہ اس امر کے مدعی تھے کہ نَحْنُ أَبْنَاءُ اللهِ وَ احِباءُ ذَان کا یہ دعوئی لوگوں کو حیرت میں ڈالتا تھا.اس لئے اس دعوی کی صحت اور عدم صحت کے لئے اللہ تعالیٰ اب اس طرح پر تحدی کرتا ہے.عیسائیوں کی طرح مشکلات میں نہ تھے اس سے یہ مراد ہے کہ عیسائی قوم اپنی کتاب کے متعلق خطر ناک مشکلات میں مبتلا ہے.اوّل حضرت مسیح کی کوئی کتاب ہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہے اور یہ مشکل بہت ہی خطرناک مشکل ہے.پھر دوسری مشکل یہ ہے کہ جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے.اس کے متعلق یہ قطعی اور یقینی فیصلہ نہیں ہے کہ وہ مسیح کے حواریوں کی ہی ہے.کیونکہ لوقا اور مرقس کی بابت تو صاف فیصلہ ہے کہ وہ حواری نہ تھے.اور یوحنا کی بابت بھی بہت سے اعتراض ہوتے ہیں اور ان میں الحاقی حصے پائے جاتے ہیں.پھر یہ دعویٰ نہیں کہ وہ خدا کے الہام اور وحی سے لکھے گئے ہیں.پھر تیسری مشکل اور ہے کہ ان میں باہم اس قدر اختلاف ہے جو ان کو پایۂ اعتبار سے ساقط کر رہا ہے.علاوہ بریں بہت باتیں اُن میں ایسی پائی جاتی ہیں.جن کی کوئی اصل ہی نہیں.چہارم یہ مشکل ہے کہ جس زبان میں مسیح نے وعظ کہا تھا.وہ عبری زبان تھی.ان کی ماں کی بھی یہی بولی تھی.چنانچہ مسیح کے آخری الفاظ جو انجیل میں موجود ہیں.ایلی انیلی لِمَا سَبَقْتَانِی.یہ بھی عبرانی ہیں لیکن اس کے مقابلہ میں یونانی کو اصل سمجھا گیا.حالانکہ یہ زبان عبری کے مقابل میں رڈی اور کفر سمجھی جاتی تھی.یہاں تک کہ یروشلم میں یونانی کے متعلق کسی نے فتوی پوچھا کہ کیا اس کو پڑھ سکتا ہوں تو اس کو یہی جواب دیا گیا کہ رات اور دن کے تمام گھنٹوں میں عبرانی پڑھو.پھر اس سے جو وقت بچے اس میں یونانی پڑھ لو.اب اس سے اندازہ کر لو کہ یونانی کیسی پھیلی ہوئی تھی اور اس سے کس طرح فائدہ اٹھا

Page 351

حقائق الفرقان ۳۴۱ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ سکتے تھے.یوسی فس مؤرخ عبری تھا.وہ یونانی جانتا تھا مگر اسے یہ عذر کرنا پڑا کہ یونانی حرام ہے.اچھا آدمی اس کو سیکھ نہیں سکتا.یوسی فس مستثنیٰ کیا گیا ہے.اور اس طرح پر گویا قوم کا کفر کیا گیا ہے.غرض اس قسم کے مشکلات میں عیسائی قو میں مبتلا ہیں.سب سے بڑی مشکل جس کا ابھی میں نے ذکر کیا.انجیل کی اصلی زبان کا سوال ہے.جس کے حل نہ ہونے کی وجہ سے اناجیل کی حقیقت بہت ہی کمزور اور بے اصل ثابت ہوتی ہے.جب یہ پتہ ہی نہ رہا کہ اصل کتاب کس زبان میں تھی؟ تو کتاب کی اصلیت میں کتنا بڑا شک پڑتا ہے! اور یہ ایسی زبر دست زد ہے عیسائی مذہب پر کہ اس کا جواب کچھ نہیں دے سکتے.چونکہ اصل کتاب ہاتھ میں نہیں ہے.بلکہ ترجمہ در ترجمہ ہے اس لئے اور بھی غلطیاں در غلطیاں اس میں واقع ہو گئیں ہیں.اور اس کا اندازہ کرنا ہی اب قریباً ناممکن ہو گیا ہے کہ یہ قوم کس قدر غلطیوں میں مبتلا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کتاب کے متعلق یہی فیصلہ دیا ہے.ق فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُمْ مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ - (البقرة :٨٠) غرض عیسائی قوم تو ان مشکلات میں مبتلا تھی اور ہے.اس لئے اس قوم کو مخاطب کیا جس کا یہ دعوی تھا.نَحْنُ ابْنَوُا اللهِ وَاحِبَّاوُة - ( المائدة : ۱۹) پس ان کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر تمہارا یہ دعوے اور زعم ہے کہ تم خدا کے محبوب اور ابناء اور اولیاء ہوتو پھر الموت کی تمنا کرو.اولیاء اللہ نہیں فرمایا.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں فرمایا کہ ایسی قوم کو جو گدھے سے مشابہ ہو چکی ہے.اپنی طرف مضاف کرے.الموت کی تمنا کرو.یہ ایک قول فیصل ہے ان لوگوں کے درمیان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بروز علیہ الصلوۃ والسلام کے درمیان.بہادر ہو.ل پھٹکار ہے ان لوگوں کے لئے جو کتاب کو تو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر ( جھوٹ ) لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہی اللہ کا حکم ہے تا کہ ان جھوٹی تحریروں سے تھوڑی سی دنیا کما لیں.پس خرابی اور رسوائی ہے ان کو جنہوں نے یہ ( جھوٹ ) اپنے ہاتھوں سے لکھا اور کمائی پر بھی تھو ہے جو وہ کماتے ہیں.ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے پیارے ہیں.

Page 352

حقائق الفرقان ۳۴۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ خدا کے حضور اپنے تئیں راست باز اور مقرب سمجھتے ہو تو پھر آؤ.میری موت کے لئے بددعائیں کرو.اور منصوبے باندھو کہ میں مرجاؤں.پھر دیکھ لو گے کہ کون کامیاب ہوتا ہے.چنانچہ غور کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کس قدر کوششیں اور نا پاک منصوبے کئے گئے اور آپ کی جان لینے کے لئے کون سا دقیقہ تھا جو باقی رکھا گیا.لیکن اللہ تعالیٰ نے کیسے اپنے وعدہ کو پورا کیا.وَاللهُ يَعْصِكَ مِنَ النَّاسِ - (المائدة: ۶۸) میں انموت کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کی آرزو اور کوشش کیوں کرتا ہوں.اس کا ایک زندہ ثبوت ہے.احمد کے مظہر نے دنیا کے تمام سجادہ نشینوں اور سیفی پڑھنے والوں کو کہا ہے کہ میرے لئے بددعا کرو اور پھر دیکھو کہ وہ کس پر الٹ پڑتی ہیں.مخالف جو بددعائیں کرتے ہیں.ان کی بددعائیں ان پر لوٹیں گی.جوموت کی آرزو کرتے ہیں.خودموت کا نشانہ بنیں گے اور آخران کو ماننا پڑے گا اور یا منافقانہ رنگ میں خاموش ہو جائیں گے اور ملل ہالکہ چوہڑوں اور چماروں کی طرح زندگی بسر کریں گے.(الحکم جلد ۷ نمبر ۴ مورخه ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۵) ۸ تا ۱۱- وَلَا يَتَمَنَونَةَ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَ اللهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ - قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِى تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلْقِيكُمْ ثُمَّ تُرَدُّونَ إلى علِيمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا البيع - ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ - فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا ط في الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - ترجمہ.اور یہ تو کبھی بھی مرنے کی دعانہ کریں گے ان کرتوتوں کے سبب سے جو ان کے ہاتھ آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ کو ظالموں کا حال خوب معلوم ہے.تو کہہ دے وہ موت جس سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو ضرور تم سے ملاقات کر کے رہے گی پھر تم لوٹائے جاؤ گے چھپے اور کھلے کے بڑے جاننے والے کی طرف پھر وہ جزا دے گا اس کی جو تم کرتے تھے.اے ایماندارو! جب اذان دی جائے نماز کے لئے جمعہ کے لے اللہ تیری حفاظت کرے گا لوگوں سے.

Page 353

حقائق الفرقان ۳۴۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ دن تو دوڑ واللہ کی یاد کی طرف اور چھوڑ دوخرید وفروخت.یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہے جب تم جانو.پھر جب نماز تمام ہو چکے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل ڈھونڈو ( کمائی کرو، دولت حاصل کرو) اور اللہ کا بہت ذکر کرو تا کہ تم نہال و با مراد ہو جاؤ.تفسیر.یہ کبھی بھی مرد میدان ہو کر نہ نکلیں گے اور انموت کی تمنا نہ کریں گے.مباہلہ کے لئے نہ آئیں گے.لوگوں کے سامنے چونکہ انکار نہیں کر سکتے.اس لئے ایسی شرائط اور حجتیں پیش کریں گے.جن کا آخری نتیجہ یہ ہو کہ مباہلہ نہ کرنا پڑے.کیونکہ اپنی بداعمالیوں اور ایمانی کمزوریوں کو تو خوب جانتے ہیں.صرف پردہ دری کے لئے حیلے بہانے کرتے ہیں اور دنیوی مفاد اور منافقوں کو نقصان سے بچانے کی خاطر یہ بجائے خود کیسی حیرت انگیز اور عظیم الشان تحدی ہے جس میں مخالفوں کو غیرت بھی دلائی گئی ہے کہ کبھی بھی مباہلہ میں نہ نکلیں گے.اب اگر وہ اپنی ذاتی شعور اور بصیرت سے اپنے ایمان میں قوت پاتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پر نہیں سمجھتے تو پھر کون سا امر ہے جو ان کو اس تمنی سے روک سکتا ہے؟ وہ اتنا ہی غور کریں کہ اس میدان میں نہ نکلنے سے لَا يَتَمَتَّوْنَهُ آبَدا کی پیشگوئی پورا کرنے والے ٹھہریں گے.مگر آخر خدا تعالیٰ کی ہی باتیں سچی اور لا تبدیل ہوتی ہیں.یہی سچ ہے کہ وہ کبھی انموت کی تمنی نہ کریں گے.کیونکہ.وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ( التغابن : ۵) قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِي تَفِرُّونَ مِنْهُ فَإِنَّهُ مُلقِيكُمْ - (الجمعة: ٩) اللہ تعالیٰ صدور ( مراکز قومی) کا عالم ہے.مگر یاد رکھیں کہ یہ بھی مباہلہ ہی ہے.مقابلہ جو کرتے ہیں.اس مقابلہ میں مباہلہ کا رنگ موجود ہوتا ہے.اس لئے وہ موت جس سے بھاگتے ہیں.اسی سے مخالف ہلاک ہوتے ہیں.ثُمَّ تُرَقُونَ إِلى عَلِمِ الْغَيْبِ پھر عالم الغیب کے حضور جاؤ گے اور وہاں بھی عذاب ہوگا اور یہ اربعہ متنا سبہ کے قاعدہ کی رُو سے لے اور اللہ تو سینوں کے بھیدوں سے بڑا واقف ہے.تو کہہ دے وہ موت جس سے تم بھاگتے پھرتے ہو وہ تو ضر ور تم سے ملاقات کر کے رہے گی.

Page 354

حقائق الفرقان ۳۴۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ صحیح ثابت ہے کیونکہ جب اس جہان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق وہ معذب ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے موافق وہ اُس جہان میں بھی معذب ہوں گے.اب اس قوم کا فیصلہ کر کے اللہ تعالیٰ صرف مومنوں کو مخاطب کرتا ہے.یا بہ تغیر الفاظ یوں کہو کہ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کی مصداق قوم کو مخاطب کرتا ہے اور پہلے اس قوم کا ذکر کیا کہ جنہوں نے نشابہ بالیہود کیا.اخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے مصداق گروہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ...الآية یعنی اے مومنو! جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن پکارے جاؤ.تو اللہ کے ذکر کی طرف کوشش کر کے چلے آؤ ذُلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.میں نے ابھی کہا ہے کہ یہ آیت اَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کے نیچے ہے.اور یہ بالا تفاق مانا گیا ہے کہ وہ مسیح موعود و مہدی مسعود کا زمانہ ہے.کھلے الفاظ میں میں یوں کہتا ہوں کہ یہ قوم ہماری قوم احمدی قوم ہے اور تم کو اللہ تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے.مسیح موعود کا زمانہ بھی حقیقت میں ایک جمعہ ہے.جیسا کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش کی تعمیل جمعہ کی آخری ساعت میں ہوئی تھی.اسی طرح پر یہ ضروری تھا کہ آدم ثانی کی بعثت بھی جمعہ ہی کہلائے.اور جس طرح پر جمعہ کے دن باقی ائمہ کو معطل کر دیتا ہے اور مسلمانوں کو ایک مسجد میں جمع کر کے ایک ہی امام کے تابع کر دیتا ہے.مسیح موعود کا نام اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ اسی لئے رکھا گیا ہے.اور حکم بھی اسی واسطے رکھا گیا ہے یہ باتیں میں محض خوش اعتقادی کی بناء پر نہیں کہتا.بلکہ میں یقین رکھتا ہوں اور اللہ تعالیٰ نے جہاں تک مجھے سمجھایا ہے.ہاں اس نے آپ سمجھایا ہے.قرآن شریف اسی مطلب کو ادا کرتا ہے اور قرآن شریف نے اس آیت میں نُفِخَ فِي الصُّورِ فَجَمَعْنَهُمْ جَدُعا.(الکھف: ١٠٠) میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت اخرین لے اور صور پھونکا جائے گا پھر ہم ان سب کو جمع کریں گے بخوبی.

Page 355

حقائق الفرقان ۳۴۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهم كوسورۃ جمعہ ہی میں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے.غرض مسیح موعود کا زمانہ ایک روحانی جمعہ ہے اور کیا یهَا الَّذِينَ آمَنُوا سے مراد وہی قوم ہوسکتی ہے اور ہے.جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے.اگر چہ عام طور پر عام مسلمان بھی اس حکم کے نیچے ہیں لیکن جو باوجود مسلمان اور مومن کہلانے کے مسیح موعود کا انکار کرتے ہیں.وہ دراصل قرآن شریف کی اس آیت کے مصداق ہیں: أَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتَب وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ - (البقرة :۸۲) پس میں یقینی طور پر سچا مصداق اس آیت کا انہیں لوگوں کو مانتا ہوں جو گل قرآن شریف پر ایمان لاتے ہیں اور عملی یا اعتقادی طور پر کسی حصہ کا انکار نہیں کرتے ہیں غرض اللہ تعالیٰ مومنوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ تم ذکر اللہ کی طرف چلے آؤ.صلوۃ کیا ہے؟ اس کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں دیا ہے.إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: ۴۶) نماز تمام بے حیائیوں اور بدکاریوں سے روکتی ہے.پس اگر نماز پڑھ کر بھی بے حیائیاں اور بدیاں نہیں رکھتی ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ابھی تک نماز اپنے اصل مرکز پر نہیں.اور وہ سچا مفہوم جو نماز کا ہے وہ حاصل نہیں ہوا.اس لئے میں تم سب کو جو یہاں موجود ہیں مخاطب کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنی نمازوں کا اسی معیار پر امتحان کرو اور دیکھو کہ کیا تمہاری بد یاں دن بدن کم ہورہی ہیں یا نہیں.اگر نسبتا ان میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا.تو پھر یہ خطرناک بات ہے.مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لئے بلا یا جاوے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی الحکم جلد ۷ نمبر ۵ مورخہ ۱۷ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴) طرف آجاؤ.یہ تمہارے لئے اچھا ہے اور بیج چھوڑ دو.میں نے اس بیع کے لفظ پر غور کی ہے کہ یہ کیوں کہا؟ انسان مختلف مشاغل میں مصروف ہوتا ہے ملازمت ، حرفت، زراعت وغیرہ.یہاں خصوصیت کے لے تو کیا تم کتاب کے بعض احکام پر ایمان لاتے ہو اور بعض احکام سے انکار کرتے ہو.

Page 356

حقائق الفرقان ۳۴۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ساتھ بیچ کا کیوں ذکر کیا ہے؟ حقیقت میں جو لوگ قرآن شریف پر غور کرتے ہیں اور اس کے نکات اور معارف سے بہرہ حاصل کرنا چاہتے ہیں.ان کو ضروری ہے کہ وہ اس کی ترتیب اور الفاظ پر بڑی گہری نگاہ سے غور کیا کریں.میں نے جب اس لفظ پر غور کی تو میرے ایمان نے شہادت دی کہ چونکہ یہ سب سلسله وآخَرِينَ مِنْهُمْ کے نیچے ہے اور یہ مہدی اور مسیح کا زمانہ ہے.اس زمانہ میں دجال کا فتنہ بہت بڑا ہوگا اور دجال کے معنے کتب لغت میں جو لکھے ہیں.اس سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک فرقہ عظیمہ ہو گا جو تجارت کے لئے پھرے گا گویا یہ مشترکہ کمپنیاں تجارت کی طرف بلاتی ہوں گی.اور ذکر اللہ اور طرف.اس لئے اس بیع کے لفظ میں دجال کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.ایک جمعہ تو ہفتہ کے بعد پڑھتے ہیں.جیسے یہ جمعہ چھوٹا ہے.ویسے ہی اس کے مقابل تجار تیں بھی چھوٹی ہوتی ہیں.لیکن ایک عظیم الشان جمعہ ہے.چھ ہزار برس کے بعد ساتویں ہزار کا جمعہ ہے.اگر اور دنوں میں جمعہ کی ضرورت ہے اور اس کے حق میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو جمعہ کی پرواہ نہیں کرتا اس کا ۱/۴ حصہ دل کا سیاہ ہو جاتا ہے.اور دو جمعہ کے ترک سے نصف اور چار جمعہ کے ترک سے سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور اس طرح پر گو یا عبادت کی لذت ہی باقی نہیں رہتی.پھر فرمایا.جو جمعہ سے تخلف کرتے ہیں میرے جی میں آتا ہے کہ اُن کے گھروں میں آگ لگادی جاوے.اور پھر فرمایا کہ اس جمعہ میں ایک وقت ہے جو قبولیت دعا کا وقت ہے.پھر اسی جمعہ میں آدم اپنے کمال کو پہنچا اور بہشت میں داخل ہوا.بہشت سے باہر مخلوقات کے پھیلانے کا ذریعہ ہوا.اسی جمعہ میں بہت درود شریف پڑھنے کا ارشاد ہوا.کم از کم سو بار جمعہ کی رات اور دن کو.اور ایک اور عظیم الشان بات ہے کہ جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھ لیا کرو.اور نہیں تو کم از کم پہلی اور آخری دس آیتیں ہی پڑھ کیا کرو.پہلی آیتوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو ان میں لکھا ہے.وَيُنْذِرَ الَّذِينَ قَالُوا اتَّخَذَ اللهُ وَلَدًا ( الكهف : ۵) یعنی ان کو ڈرایا جاوے جنہوں نے اللہ کا ولد تجویز کیا ہے اور یہ بھی ہے کہ اس کا بیٹا تجویز کرنے میں مالَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ نہ ان کے پاس نہ اُن کے بڑوں کے پاس کوئی علمی دلیل ہے.ہاں یہ بات ہے يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنعا ان کو اپنی صنعتوں پر ہی ناز ہے.

Page 357

حقائق الفرقان ۳۴۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اب ان تمام امور پر نظر کرو اور سوچو تو معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی جمعہ میں بھی فتن دجال سے ڈرایا ہے.جمعہ میں فتن دجال سے ڈرانا اپنے اندر ایک حقیقت رکھتا ہے.جس پر اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے مطلع کیا ہے کہ جمعہ کے ساتھ مسیح موعود کو عظیم الشان تعلق ہے بلکہ میں یہ یقیناً کہتا ہوں کہ جمعہ کا وجود بھی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت اور آمد کے لئے ایک نشان اور پیشگوئی تھا.مگر افسوس ہے کہ جب مسلمانوں نے معمولی جمعہ سے لا پروائی کی اور اس کو ترک کر دیا تو اس بڑے جمعہ کی طرف آنے کی ان کو تو فیق ملنی بہت مشکل ہوگئی.میں نے بڑے غور کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کے زوال کی تاریخ پر فکر کی ہے.اور میں اس صحیح نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ سلسلہ زوال اُس وقت سے شروع ہوتا ہے جب مسلمانوں نے ترک جمعہ کو کیافتنِ دجال سے جو جمعہ کے آداب میں ڈرایا ہے یہ اشارہ تھا اس امر کی طرف کہ دجال کا فتنہ عظیم اس جمعہ میں ہو نیوالا ہے.دجال کے مختلف معنی ہیں.دجال سونے کے معنے بھی دیتا ہے اور دجال تجارتی کمپنیوں کو بھی کہتے ہیں یہاں جملہ میں بیچ کے لفظ سے بتایا ہے کہ دجال کی پروا نہ کرو.اب یہ وہ جملہ آ گیا ہے جس کی یاد دہانی جمعہ میں رکھی گئی تھی.عجیب بات ہے کہ اس مسیح موعود کو آ دم بھی کہا گیا ہے.اور پھر یہ اور بھی مشابہت ہے کہ جیسے آدم کی تکمیل جمعہ کی آخری گھڑی میں ہوئی تھی اسی طرح پر اس مسیح موعود کے ہاتھ پر بھی اسلام کی تکمیل اشاعت کا کام رکھا گیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ - (الصف:١٠) مفسروں نے بالا تفاق تسلیم کر لیا ہے کہ یہ غلبہ مسیح موعود کے وقت میں ہوگا اور حضرت امام ني الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمُ (المائدة: ٤) کے جو معنے کئے ہیں.وہ آپ میں سے اکثروں نے سنے ہوں گے.وہ فرماتے ہیں کہ تکمیل سے دو قسم کی تکمیل مراد ہے.ایک تکمیل ہدایت.دوسری لے وہی اللہ ہے جس نے بھیجا اپنے رسول ( محمد مصطفی احمد مجتبی ملی یا ایلیم) کو ہدایت کا سچا دین دے کر تا کہ اس کو غالب کرے سب ہی دینوں پر گومشرک برا مانا ہی کریں.

Page 358

حقائق الفرقان ۳۴۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ تکمیل اشاعت ہدایت.تکمیل ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ہو چکی اور تکمیل اشاعت ہدایت کا یہ وقت آیا ہے.یعنی یہ مسیح موعود کے وقت مقدر تھی.چنانچہ اس وقت دیکھتے ہو اشاعت کے کس قدر سامان اور اسباب پیدا ہو گئے ہیں.اور پھر جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک جمعہ کے ترک سے ۴ / ا حصہ دل کا سیاہ ہو جاتا ہے.اسی طرح پر یہ بھی مسلم بات ہے کہ خدا کی وحی کے انکار سے سلپ ایمان ہو جاتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کے مامور ومرسل مسیح موعود کے انکار سے سلپ ایمان ہونا یقینی ٹھہرا اور پھر جمعہ میں ایک وقت ایسا ہے جو قبولیت دعا کا ہے.اسی طرح پر جب خدا تعالیٰ کا کوئی برگزیدہ بندہ اصلاح خلق کے لئے آتا ہے تو وہ لیلتہ القدر کا وقت ہوتا ہے.جس کی بابت قرآن شریف میں آچکا ہے کہ وہ خیر مِنْ الْفِ شَهْرٍ ہوتی ہے.ان سارے امور کو اکٹھا کرو اور پھر سوچو اور دیکھو کہ کیا اب یہ وہ وقت نہیں ہے؟ میں ایمان سے کہتا ہوں اور پھر اس پر پورا یقین رکھتا ہوں کہ یہ وہی وقت ہے یہ وہی جمعہ ہے.دجال بھی موجود ہے اور مسیح موعود بھی ہے.فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ دو وقت ایسے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُمیوں میں اپنے رسول کو بھیجا ہے.ایک وہ وقت تھا جب گل دنیا پر تاریکی چھائی ہوئی تھی خصوصاً عرب میں اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرورت تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق اور ابراہیم واسماعیل کی دعا کے نتیجہ میں ان میں رسول مبعوث کیا اور اب آپ آئے.تیرہ سو سال گزرنے کے بعد جب اسلام کی حالت پر امیت غالب ہو گئی اور اخلاقی اور ایمانی اور عملی قوتیں کمزور اور مردہ ہو گئیں اور قرآن شریف کی طرف بالکل توجہ نہ رہی بلکہ وہ وقت آگیا کہ رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: ۳۱) کا مصداق ہے اور قرآن آسمان پر اُٹھ گیا.اور ہر طرف سے اسلام اور قرآن پر حملے ہونے لگے تو لے اے میرے رب ! بے شک میری قوم نے اس قرآن شریف کو چھوڑ دیا تھا.

Page 359

حقائق الفرقان ۳۴۹ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ خدا کے اس وعدہ کا وقت آیا انا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر: ١٠) اس کی حفاظت کی ضرورت ہے اور چونکہ وہ آسمان پر اُٹھ گیا ہے.گویا اس کے دوسرے نزول کی ضرورت ہے.تب ہی تو آخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ والی قوم تعلیم اور ہدایت حاصل کرے.اس لئے آخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمُ والی قوم کا معلم ضرور ہے کہ وہی احمد ہو ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو مکہ میں مبعوث ہوا تھا.پس اس وقت وہی احمد اپنے بروزی رنگ میں آیا ہے.دیکھنے والے دیکھتے ہیں.جن کو توفیق نہیں ملی وہ نہیں دیکھ سکتے.قرآن شریف سے یہ بھی پایا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک نام ذکر بھی ہے.اور جیسے قرآن کریم کی حفاظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے.ویسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا بھی وعدہ فرما یا تھا اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.(المائدہ : ۲۸ ) اور عجیب بات ہے کہ یہی وعدہ حضرت مسیح موعود سے بھی ہوا ہے.ان ساری آیتوں پر غور کرنے سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ یہ صحیح ہے کہ ذکر سے مراد اس آیت میں جمعہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بعثت ہے جو بروزی رنگ میں مسیح موعود کی صورت میں ہوئی.الحکم جلدے نمبر ۶ مورخه ۱۴ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴٬۳) یہ وہ ذکر ہے جو آخری خلیفہ کہلاتا ہے.یہ وہ راہ ہے جو صراط مستقیم ہے.پس اس طرف آجاؤ اور اس وقت دجالی تحریکوں کی طرف نہ جاؤ.اس صراط مستقیم کی طرف آنے یا اُس ذکر کی طرف متوجہ ہونے کا اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ مان لیا کہ وہ حق ہے اور خدا کی طرف سے آیا ہے.یہ ایمان زندہ ایمان نہیں کہلاتا جب تک اس میں عمل کی روح نہ ہو.یہ بالکل سچ ہے کہ ایمان بدوں عمل کے مردہ ہے.میں نے جس وقت حضرت امام کے منہ سے یہ سنا کہ تم میں سے بہت ہیں جو اس چشمہ پر پہنچ گئے ہیں جو زندگی کا چشمہ ہے مگر ابھی پانی نہیں پیا.ہاں منہ رکھ دیا ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ جس وقت سے میں نے یہ سنا ہے.میں بہت ہی ترساں ہوں اور استغفار پڑھتا رہا ہوں کہ خدا نہ کرے.کہیں وہ ے بے شک ہمیں نے اتارا ہے قرآن اور ہمیں اس کے حافظ ہیں.۲ے اللہ تیری حفاظت کرے گا لوگوں سے.

Page 360

حقائق الفرقان ۳۵۰ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ میں ہی نہ ہوں.لا إله إلا الله کے کہنے میں ہم سب یہ اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود محبوب اور مطاع نہ ہو گا.اور کوئی غرض و مقصد اللہ تعالیٰ کے اس راہ میں روک نہ ہوگی.اس امام نے اس مطلب کو ایک اور رنگ میں ادا کیا ہے کہ ہم سے یہ اقرار لیتا ہے.دین کو دنیا پر مقدم کروں گا“.اب اس اقرار کو مد نظر رکھ کر اپنے عمل درآمد کو سوچ لو.کہ کیا اللہ تعالیٰ کے احکام اور اوامر و نواہی مقدم ہیں یا دنیا کے اغراض و مطالب.اس اقرار کا منشاء یہ ہے کہ ساری جز میں اللہ کے خوف کی اور حصولِ مطالب کی امید کی اللہ تعالیٰ کے سوا نہ رہیں یعنی خوف ہو تو اسی سے.امید ہو تو اسی سے.وہی معبود ہو.اسی کی عظمت و جبروت کا خوف ہو.جس سے اطاعت کا جوش پیدا ہو.ایسی اطاعت اور عبادت روح میں ایک تذلل اور انکساری پیدا کرے گی.جس سے سرور اور لذت پیدا ہوگی.اور عملی زندگی کو قوت ملے لگی.لیکن جب اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل ایمان نہ ہو تو اس ایمان میں عملی قوت پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی.وہ اس کھائے ہوئے دانہ کی طرح ہوتا ہے جس میں نشو و نما پانے کی خاصیت باقی نہیں رہی.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم نماز کے لئے جمعہ کے دن بلائے جاؤ تو بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ کی طرف آجاؤ.عام جمعوں میں چھوٹی چھوٹی بیچ ہے.لیکن مسیح موعود کا وقت چونکہ عظیم الشان جمعہ ہے.اس لئے اس وقت دجال کا فتنہ بہت بڑی بیج ہے اس لئے فرمایا کہ اس کو چھوڑو اور ذکر اللہ کی طرف آ جاؤ.نتیجہ اس کا کیا ہے؟ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اگر تم کو کچھ علم ہے تو یا درکھو کہ یہ تمہارے لئے مفید ہے.اس میں خیر و برکت ہے.تمہارے لئے اللہ تعالیٰ جس امر کو خیر و برکت کا موجب قرار دیتا ہے.اس کو ظنی یا وہمی خیال کرنا کفر ہے.انسان چونکہ عواقب الامور اور نتائج کاعلم نہیں رکھتا.اس لئے وہ بعض اوقات اپنی کمزوری علم اور کئی معرفت کی وجہ سے گھبرا جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مامور کی صحبت میں رہنا یا اس کے پاس جانا اخراجات کو چاہتا ہے یا بعض تجارتی کاموں میں اس سے حرج واقع ہوگا.دوکان بند کرنی پڑے گی.

Page 361

حقائق الفرقان ۳۵۱ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ یا کیا کیا عذر تراشتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ یقین دلاتا ہے کہ اس کی آواز سنتے ہی حاضر ہو جانا خیر و برکت کا موجب ہے.اس میں کوئی خسارہ اور نقصان نہیں.مگر تم کو اس کا علم ہونا چاہیے.پس اس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہیے.ہاں فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَ اذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - جب نماز ادا کر چکو تو زمین میں پھیل جاؤ.اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو لو.اس کا اصل اور گر یہ ہے اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرو.نتیجہ یہ ہوگا کہ تم مظفر و منصور ہو جاؤ گے.خدا کی یادساری کامیابیوں کا راز اور ساری نصرتوں اور فتوحات کی کلید ہے.اسلام انسان کو بے دست و پا بنانا یا دوسروں کے لئے بوجھ بنا نا نہیں چاہتا.عبادت کے لئے اوقات رکھے ہیں.جب ان سے فارغ ہو جاوے پھر اپنے کاروبار میں مصروف ہو.ہاں یہ ضروری ہے کہ ان کا روبار میں مصروف ہو کر بھی یاد الہی کو نہ چھوڑے بلکہ دست به کار دل به یار له ہو اور اس کا طریق یہ ہے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھے اور دیکھ لے کہ آیا خلاف مرضی مولیٰ تو نہیں کر رہا.جب یہ بات ہو تو اس کا ہر فعل خواہ وہ تجارت کا ہو.یا معاشرت کا.ملازمت کا ہو یا حکومت کا.غرض کوئی بھی حالت ہو.عبادت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے.یہاں تک کہ کھانا پینا بھی اگر امرالہی کے نیچے ہو تو عبادت ہے.یہ اصل ہے جو ساری فتح مندیوں کی کلید ہے.مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس اصل کو چھوڑ دیا.جب تک اس پر عمل درآمد رہا.اس وقت تک وہ ایک قوم نختمند قوم کی حالت میں رہی.لیکن جب اس پر سے عمل جاتارہا تو نتیجہ یہ ہوا کہ یہ قوم ہر طرح پستیوں میں گر گئی.الحکم جلدے نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۸۴۷) لے کام میں مصروفیت کے دوران بھی دل یا دالہی میں مشغول ہونا.

Page 362

حقائق الفرقان ۳۵۲ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللهِ.ہر جمعہ میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ کوئی شخص تم کو وعظ سنائے اور اتنا وقت ہو کہ نماز سے پہلے سن لو.اس کے بعد نماز پڑھو.نماز کے بعد تم کو اختیار ہے کہ دنیوی کاموں میں لگ جاؤ.میں اس کے حکم کے مطابق تم کو نصیحت کرتا ہوں.اللہ نے ہم کو کچھ اعضاء دیئے ہیں اور ان اعضاء پر حکومت بخشی ہے اور پھر انسان کو اپنی صفات کا مظہر بنایا.چونکہ خدا مالک ہے.اس لئے انسان کو بھی مالک بنایا اور اس کو بہت بڑا لشکر دیا.جن میں سے دو چار نوکروں کا میں ذکر کرتا ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رعیتہ.سب کے سب بادشاہ ہو اور تم سے اپنی رعایا کے متعلق سوال ہوگا.۲.اَلْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعَيّته - امام بھی راضی ہوتا ہے اور اس سے رعایا کی نسبت سوال ہوگا.۳.عورت کے بارے میں بھی فرمایا کہ عَلى بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعٍ میں ان بادشاہوں کا ذکر نہیں کرتا.جوملکوں پر حکمرانی کرتے ہیں بلکہ اس کا ذکر کرتا ہوں جو تم سب اپنے اپنے اعضاء پر حکمران ہو.ان سب میں سے بڑی چیز دل ہے جس کے کچھ فرائض ہیں کچھ محرمات ، کچھ مکروہات ، کچھ مناجات.دل کے فرائض بتاتا ہوں.۱.اس کا عظیم الشان فرض ہے کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله پر ایمان لائے.جب تک دل اس فرض کو ادا کرنے والا نہ ہو.ہلاکت میں يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُمْ.(البقرة : ۱۴۷) اور جَحَدُوا بِهَا وَاسْتَيْقَنَتْهَا أَنْفُسُهُمْ - (النمل: ۱۵) سے پتہ لگتا ہے کہ دل یقین کر چکے ہیں.پس اس یقین کے ساتھ عملی رنگ بھی ضروری ہیں.۲.اس کے بعد فرض ہے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا رسول یقین کرنا.جب اللہ معبود ہوا.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رسول.تو اللہ کے بالمقابل اب اور کسی کا حکم نہیں اور رسول کی اطاعت کے بالمقابل کوئی اطاعت نہیں.یہ واجبات سے ہے.لے اہل کتاب ( محمد مصطفی احمد مجتبی) کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں.ے انہوں نے انکار کیا ان نشانوں کا.

Page 363

حقائق الفرقان ۳۵۳ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ دل کے محرمات میں سے ہے.۱.اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانا ۲.کبر ونخوت ۳ بغض و حسد ۴.ریا و سمعت ۵.نفاق کرنا.شرک کی نسبت تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ معاف نہ کروں گا.اور کہر وہ فعل ہے جس کا نتیجہ شیطان اب تک لعنت اٹھا رہا ہے.اور ریا کہتے ہیں اس عمل کو جو دکھاوے کے لئے کیا جاوے اور نفاق یہ ہے کہ دل سے نہ مانے اور اوپر سے اقرار کرے.اس کے کچھ اور شعبے بھی ہیں.جب بات کرے جھوٹ بولے ۲.امانت میں خیانت کرے ۳.معاہدہ میں غداری کرے ۴.سخت فحش گالیاں دیں.دل کے فرائض سے نیچے یہ بات ہے کہ دل کو اللہ کی یاد سے طمانیت بخشے.آدمی پر مصائب کا پہاڑ گر پڑتا ہے.کسی کی صحت خطرے میں ہے.کسی کی عزت کسی کی مالی حالت کسی کو بیوی کے تعلقات میں مشکلات ہیں.کسی کو اولاد کی تعلیم میں.ان تمام مشکلات کے وقت خدا کی فرماں برداری کو نہ بھولے.ایک شخص دہلی میں ہیں جو ہمارے خیالات کے سخت مخالف ہیں.انہوں نے ایک کتاب الحقوق والفرائض لکھی ہے.میں نے اسے بہت پسند کیا ہے.حق بات کسی کے منہ سے نکلے.مجھے بہت پیاری لگتی ہے.دوست کے منہ سے نکلے تو پھر اور کیا چاہیے.حقوق وفرائض کا ہر وقت نگاہ رکھنا مومن کے لئے مستحب کام ہے.مصائب میں اللہ پر ایسا بھروسہ ہو کہ ان مصائب کی کچھ حقیقت نہ سمجھے اس کی تہہ کے اندر جو حکمتیں، رحمتیں، فضل ہیں ان تک انا للہ کے ذریعے پہنچے.ایک دفعہ میں جوانی میں الحمد پڑھنے لگا.ان دنوں مجھ پر سخت ابتلا تھا اس لئے مجھے جہراً پڑھنے میں تامل ہوا.کیونکہ جب دل پورے طور پر اس کلمہ کے زبان سے نکالنے پر راضی نہیں تھا.تو یہ ایک قسم کا نفاق تھا.اللہ تعالیٰ نے میری دستگیری کی اور معا مجھے خیال آیا کہ جو انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ اور اللَّهُمَّ أَجِرْنِي في مُصیبتی پڑھتا ہے.ہم اس مصیبت کو راحت سے بدل دیتے ہیں.انسان پر جو مصیبت آتی ہے.کبھی گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اس لئے انسان شکر کرے کہ قیامت کو مؤاخذہ نہ ہو گا.دوم.ممکن تھا اس سے بڑھ کر مصیبت میں گرفتار ہوتا.سوم.مالی نقصان کی بجائے ممکن تھا جانی نقصان ہوتا

Page 364

حقائق الفرقان ۳۵۴ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ جو نا قابل برداشت ہے.چہارم.یہ بھی شکر کا مقام ہے کہ خود زندہ رہے کیونکہ خود زندہ نہیں تو پھر تمام مال واسباب وغیرہ کی فکر لغو ہے.یہ سب مضمون جب میرے دل میں آیا تو بڑے زور سے الحمد للہ پڑھا.قرآن میں کہیں نہیں آیا کہ مومن کو خوف وحزن ہوتا ہے.وہ تو لَا يَخَافُ وَلَا يَحْزَنُ ہوتا ہے.زبان کا سب سے بھاری فرض ہے.کلمہ توحید پڑھنا.نماز میں الحمد بھی فرض ہے ۲.تو گویا اتنا قرآن پڑھنا بھی فرض ہوا ۳.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی زبان کا ایک رکن ہے.اس کے محرمات ہیں.غیبت ، تحقیر، جھوٹ ، افتراء ، اس زبان کے ذریعہ عام تلاوت قرآن و تلاوت احادیث کرے.اور عام طور پر جو معرفت کے خزانے اللہ ورسول کی کتابوں میں ہیں.پوچھ کر یا بتا کر ان کی تہہ تک پہنچے.معمولی باتیں کرنا مباح ہیں.پسندیدہ باتیں اپنی عام باتوں میں استحباب کا رنگ رکھتی ہیں.لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِى اَصْحَب السَّعِيرِ ( الملك: (۱۱) اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے.اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سننا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے.سماع کے متعلق صوفیاء میں بحث ہے.میرے نزدیک سماع قرآن و حدیث ضروری ہے.مگر ایک شیطانی سماع ہے کہ راگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو.یہ نا جائز ہے.ناک کے فرائض.ہمیں حکم ہے کہ جس پانی کی بوخراب ہو.اس سے وضو نہ کر یں.اس واسطے پانی کا سونگھنا اس وقت فرض ہو گیا.خصوصاً جب نجاست کا احتمال ہو.عید کے دن عطر لگانا مستحبات میں داخل ہے.ہاں اجنبی عورت کے کپڑوں اور بالوں کی خوشبو کا سونگھنا حرام ہے.اسی طرح آنکھ اور دوسرے اعضاء کے فرائض ہیں.زبان کے فرائض میں سے شکر بھی ہے.ناشکری کا مرض مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے.کسی کو نعمت دیتا ہے تو وہ حقارت کرتا ہے.اس سے نعمت بڑھتی نہیں.اگر انسان شکر کرے تو نعمت بڑھتی ہے.بدر جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۳۰ / دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۳-۴)

Page 365

حقائق الفرقان ۳۵۵ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ١٢ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهُوَا إِنْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَابِمَا قُلْ مَا عِنْدَ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ اللَّهْوِ وَ مِنَ التِّجَارَةِ وَاللهُ خَيْرُ الرُّزِقِينَ - ترجمہ.اور جب تجارت کے سامان مل جاتے ہیں یا کھیل تماشہ کا وقت پاتے ہیں.وہ تجھے چھوڑ کر چل دیتے ہیں.ان کو کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں اور کھیل تماشوں سے بہتر ہے.اور اللہ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے.تفسیر.یہ حالت انسان کی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا تعالیٰ پر سچا اور کامل یقین نہیں رکھتا.اور اس کو رازق نہیں سمجھتا.یوں ماننے سے کیا ہوتا ہے.جب کامل ایمان ہوتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے لئے سب کچھ چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.بعض لڑکوں سے میں نے پوچھا ہے کہ تم جو گھر جاتے ہو.کیوں؟ کیا لھو کے واسطے.اگر یہ غرض ہے تو پھر یہ خدا کے اس ارشاد کے نیچے ہے.لھوا اور تجارةً کو گویا خدا تعالیٰ پر مقدم کرتا ہے.اس سے بچنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کو خیر الرازقین یقین کرو.اور مت خیال کرو کہ صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان ہوگا کبھی ایسی جرات کرنے کی کوشش نہ کرو کہ اپنی ذاتی اغراض کو مقدم کرلو.خدا کے لئے جو کچھ انسان چھوڑتا ہے اُس سے کہیں بڑھ کر پالیتا ہے.تم جانتے ہو.ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا چھوڑا تھا اور پھر کیا پایا.صحابہ نے کیا چھوڑا ہوگا.اس کے بدلہ میں کتنے گنے زیادہ خدا نے ان کو دیا.خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا ہے جو نہیں ہے لِله خَزَائِنُ السّمواتِ وَالْأَرْضِ تجارتوں میں خسارہ کا ہوجانا یقینی اور کاروبار میں تباہیوں کا واقع ہو جانا قرین قیاس ہے.لیکن خدا تعالیٰ کے لئے کسی چیز کو چھوڑ کر کبھی بھی انسان خسارہ نہیں اُٹھا سکتا.(الحکم جلد نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۸) جلدے غرض اللہ تعالیٰ کے پاس جو چیز ہے وہ ساری تجارتوں سے بہتر ہے.وہ خیر الرازقین ہے.میں نے بہت سے ایسے بے باک دیکھے ہیں جو کہا کرتے ہیں

Page 366

حقائق الفرقان ۳۵۶ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ اے خیانت بر تو رحمت از تو گنجے یافتم اے دیانت بر تو لعنت از تو رنجے یافتم لے ایسے شوخ دیده خود ملعون ہیں جو دیانت پر لعنت بھیجتے ہیں.پس خدا کے لئے ان ذریعوں اور راستوں کو چھوڑو جو بظاہر کیسے ہی آرام دہ نظر آتے ہوں لیکن ان کے اندر خدا کی خلاف ورزی پائی جاتی ہے.میں نے بسا اوقات نصیحت کی ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ پر عمل کرنے کے واسطے ضروری ہے.یہاں آکر رہو.بعض نے جواب دیا ہے کہ تجارت یا ملازمت کے کاموں سے فرصت نہیں ہوتی لیکن میں ان کو آج یہ سناتا ہوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.کہ تمام تجارتوں کو چھوڑ کر ذکر اللہ کی طرف آ جاؤ.وہ اس بات کا کیا جواب دے سکتے ہیں؟ کیا ہم گنبہ قبیلہ والے نہیں؟ کیا ہماری ضروریات اور ہمارے اخراجات نہیں ہیں؟ کیا ہم کو دنیوی عزت یا وجاہت بری لگتی ہے؟ پھر وہ کیا چیز ہے جو ہم کو کھینچ کر یہاں لے آئی ؟ میں شیخی کے لئے نہیں کہتا بلکہ تحدیث بالنعمہ کے طور پر کہتا ہوں کہ میں اگر شہر میں رہوں تو شاید بہت روپیہ کما سکوں لیکن میں کیوں ان ساری آمدنیوں پر قادیان کے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں؟ اس کا مختصر جواب میں یہی دوں گا کہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے.جس کو چور اور قزاق نہیں لے جاسکتا.مجھے وہ ملا ہے جو تیرہ سو برس کے اندر آرزو کرنے والوں کو نہیں ملا.پھر ایسی بے بہا دولت کو چھوڑ کر میں چند روزہ دنیا کے لئے مارا مارا پھروں.میں سیچ کہتا ہوں کہ اگر اب کوئی مجھے ایک لاکھ کیا ایک کروڑ روپیہ یومیہ بھی دے اور قادیان سے باہر رکھنا چاہے.میں نہیں رہ سکتا.ہاں امام علیہ السلام کے حکم کی تعمیل میں پھر خواہ مجھے ایک کوڑی بھی نہ ملے پس میری دولت میر امال ، میری ضرورتیں اسی امام کے اتباع تک ہیں اور دوسری ساری ضرورتوں کو اس ایک وجود پر قربان کرتا ہوں.میرے دل میں بارہا یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ صحابہ کو جو مہاجر تھے کیوں خلافت ملی.اور مدینہ والے صحابہ کو جو انصار تھے اس سے حصہ نہیں ملا.بظاہر یہ عجیب بات ہے کہ انصار کی جماعت نے ایسے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی جب آپ مکہ سے تکالیف برداشت کرتے ہوئے ا اے خیانت! تجھ پر رحمت کہ تجھ سے میں نے ایک خزانہ پایا.اے دیانت ! تجھ پر لعنت کہ تجھ سے میں نے رنج اور تکلیف پائی.

Page 367

حقائق الفرقان ۳۵۷ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ پہنچے.مگر اس میں بھید یہی ہے کہ انصار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے چھوڑا نہیں.ان کی نصرت کے لئے خدا نے ان کو بہت کچھ دیا.مگر مہاجر جنہوں نے اللہ کے لئے ہاں محض اللہ ہی کے لئے اپنے گھر بار بیوی بچے اور رشتہ دار تک چھوڑ دیئے تھے.اور اپنے منافع اور تجارتوں پر پانی پھیر دیا تھا.وہ خلافت کی مسند پر بیٹھے.میں ثقیفہ کی بحث پڑھتا تھا اور مِنْكُمْ آمِيرُ وَمِنَّا آمِيرٌ پر میں نے غور کی ہے.مجھے خدا نے اس مسئلہ خلافت میں یہی سمجھایا ہے کہ مہاجرین نے چونکہ اپنے گھر بار تعلقات چھوڑے تھے ان کو ہی اس مسند پر اول جگہ مانی ضرور تھی.اللہ تعالیٰ کے لئے جب کوئی کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرتا پس ایسے عذر بے فائدہ اور بیہودہ ہیں.اس وقت دنیا خطر ناک ابتلا میں پھنسی ہوئی ہے.پہلی بلا جہالت کی ہے.تدبر سے کتاب اللہ کو نہیں پڑھتے اور نہیں سوچتے.جب تدبر ہی نہ ہو.تلاوت ہی نہ ہو تو اس پر عمل کی تحریک کیسے پیدا ہو.کتاب اللہ کو چھوڑ دیا گیا ہے اور اس کی جگہ بہت بڑا وقت قصوں ، کہانیوں اور اور لغویات میں بسر کیا جاتا ہے.دوسرا نقص یہ ہے کہ فسق و فجور بڑھ گیا ہوا ہے.بد معاملگی ہے.جہالت ہے.گندگی اور ناپاکی کو مقدم کر لیا گیا ہے.پھر اس کے ساتھ کبر ہے.وہ کبر کہ یہ برداشت نہیں رہی کہ کوئی نصیحت کرے تو صبر کے ساتھ اس نصیحت کو سن لیں اور اس کے ساتھ اور مصیبت یہ ہے کہ اپنے دکھ سے نا آشنا ہیں.مرض کے حالات سے ناواقف ہیں.اسے محسوس نہیں کرتے.طبیب کی تشخیص پر نکتہ چینیاں کرتے ہیں اور اسے ہی مجنون ٹھہراتے ہیں.غرض یاد رکھو کہ اب زمانہ بہت نازک آ گیا ہے.ایک راست باز دنیا میں آیا ہے.جس کے لئے آسمان نے گواہی دی.اس وقت کہ جب خدا ایک بچھڑا سمجھا گیا تھا.خدا تعالیٰ نے اپنے کلام سے بتایا کہ وہ زندہ اور متکلم خدا ہے اور اُس نے اپنے برگزیدہ بندہ کو بھیج کر حجت پوری کی مگر پھر بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کی مخالفت کی جاتی اور اس کے خلاف منصوبہ بازیاں ہوتی ہیں.مگر اس کی کچھ پرواہ نہیں.یہ لوگ آخر خائب و خاسر ہونے والے ہیں اور ہوتے جاتے ہیں.مخالف منصوبے بناتا ہے.-

Page 368

حقائق الفرقان ۳۵۸ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ کوشش کرتا ہے.سفر کر کے، خرچ کر کے فتوی تیار کرتا ہے کہ یہ کافر ہے اور زور لگا کر کہتا ہے کہ میں اس کو گراؤں گا مگر اس کے سارے اخراجات ، ساری محنتیں اور کوششیں رائیگاں جاتی ہیں.خود گرتا ہے اور جس کو گرانے کا ارادہ کرتا تھا وہ بلند کیا جاتا ہے.جس قدر کوشش اس کے معدوم کرنے کی کی جاتی ہے اسی قدر وہ اور بھی ترقی پاتا اور بڑھتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے ارادے ہیں.ان کو کوئی بدل نہیں سکتا اس کے مخالف ثمَّ تَكُونُ عَلَيْهِمْ حَسْرَةً (الانفال: ۳۷) کے مصداق ہو جاتے ہیں.پس یا درکھو.اس وقت ضرورت ہے.ایسے امام کی جو حق کا سنانے والا سمجھا نیوالا اور پھر تزکیہ کرنے والا ہو.بڑے ہی بدقسمت ہیں وہ لوگ جو اس نور سے حصہ نہیں پاتے.اللہ تعالیٰ مجھے کو اور ت کو تو فیق دے کہ ہم جنہوں نے اس نور سے حصہ لینے کی سعی کی اور اس چشمہ کے پاس پہنچے ہیں.پوری روشنی حاصل کر سکیں.اور سیراب ہوں اور یہ ساری باتیں حاصل ہوتی ہیں جب بصیرت ، معرفت اور عقل عطا ہو اور یہ خدا ہی کے فضل سے ملتی ہیں.پس جب کسی کو صادق کا پتہ لگ جائے تو ساری تجارتوں اور بیع وشراء کو چھوڑ کر اس کے پاس پہنچ جانا چاہیے.اور كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (التوبہ: ۱۱۹) پر عمل کرنا ضروری سمجھا جاوے.بعض لوگ جو یہاں آتے ہیں اور رہتے ہیں ان کو ایسی مشکلات پیش آتی ہیں جو ان کی اپنی پیدا کردہ مشکلات سمجھنی چاہیں.مثلاً کوئی کہتا ہے کہ مجھے چار پائی نہیں ملی یا روٹی کے ساتھ دال ملی.میں ایسی باتوں کو جب سنتا ہوں تو اگر چہ مجھے ان لوگوں پر افسوس ہوتا ہے.جوان خدمات کے لئے مقرر ہیں.مگر ان سے زیادہ افسوس ان پر ہوتا ہے جو ایسی شکایتیں کرتے ہیں.میں ان سے پوچھوں گا کہ کیا وہ اس قدر تکالیف سفر کی برداشت کر کے روٹی یا چار پائی کے لئے آتے ہیں یا ان کا مقصود کچھ اور ہوتا ہے؟ میرے ایک پیر شاہ عبد الغنی صاحب رحمتہ اللہ علیہ مدینہ میں رہا کرتے تھے.ایک شخص ہجرت کر کے مدینہ میں آیا.پھر اُس نے اُن سے کہا کہ میں یہاں نہیں رہتا.کیونکہ لوگ شرارتی ہیں.لے اور وہ ہو گا اُن پر حسرت اور افسوس.اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ.

Page 369

حقائق الفرقان ۳۵۹ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ شاہ صاحب نے اس کو کہا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے یا عربوں کے واسطے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آئے تھے تو وہ تو ویسے ہی ہیں جیسا کہ تم نے یقین کیا تھا اور اگر عربوں کے لئے آئے تھے تو وہ بیشک ایسے ہی ہیں جیسا کہ تم سمجھتے ہو.پس میں بھی ان احمقوں سے یہی کہوں گا جو اس قسم کی شکایتیں کرتے ہیں کہ اگر تم اخرِینَ مِنْهُمْ کے معلم کے لئے آئے تھے تو وہ اپنے خلق عظیم کے ساتھ ویسا ہی موجود ہے اور اگر ہمارے لئے آئے ہو تو ہم ایسے ہی ہیں.کیا کھانا، کپڑا، چار پائی گھر میں نہیں ملتی تھی جو اس قدر تکلیف اٹھا کر اسی روٹی کے واسطے یہاں آئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو لوگ آتے تھے.ان کے لئے جانتے ہو کوئی مہمان خانہ تجویز ہوا ہوا تھا یا کوئی لنگر خانہ جاری تھا ؟ کوئی نہیں پھر بھی لوگ آتے تھے اور کوئی شکایت نہ کرتے تھے.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتے تھے اور وہی ان کی غرض ہوتی تھی.غرض یہاں آؤ.نہ اس لئے کہ روٹی یا بستر ملے بلکہ اس لئے کہ تمہاری بیماریوں کا علاج ہو.تم خدا کے مسیح اور مہدی سے فیض حاصل کرو.ہماری بابت کچھ بھی خیال نہ کرو.ہم کیا اور ہماری ہستی کیا؟ ہم اگر بڑے تھے تو گھر رہتے.پاکباز تھے تو پھر امام کی ہی کیا ضرورت تھی اگر کتابوں سے یہ مقصد حاصل ہوسکتا تھا تو پھر ہمیں کیا حاجت تھی.ہمارے پاس بہت سی کتابیں تھیں مگر نہیں.ان باتوں سے کچھ نہیں بنتا.دیکھو ایک در دسر کا بیمار ایک کھانسی والے بیمار کے پاس ہو اور وہ ساری رات کھانستا رہے اور اس کو تکلیف ہو اور اس کی شکایت کرے تو یہ شکایت بے جا ہو گی.وہ خود مریض ہے.اسی طرح پر ہم جس قدر یہاں ہیں اپنے اپنے امراض میں مبتلا ہیں اگر ہم تندرست ہو کر کسی مریض کو دکھ دیں تو البتہ ہم جواب دہ ٹھہر سکتے ہیں لیکن جبکہ خود مبتلائے مرض ہیں اور یہاں علاج ہی کے لئے بیٹھے ہیں تو پھر ہماری کسی حرکت سے ناراض ہونا عقلمندی نہیں ہے.پس ہمارے سبب سے ابتلا میں مت پڑو.جو لوگ ابتلاؤں سے گھبراتے ہیں.میں سچے دل سے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے لئے نہ آیا کریں اور اگر

Page 370

حقائق الفرقان ۳۶۰ سُوْرَةُ الْجُمُعَةِ ہماری کوئی تقریر ان کو پسند نہ آوے تو وہ یہ سمجھیں کہ ہم مامور نہیں.صادق مامور ایک ہی ہے جو مسیح اور مہدی ہو کر آیا ہے.پس خدا سے مدد مانگو.ذکر اللہ کی طرف آؤ جو فحشا اور منکر سے بچانے والا ہے.اسی کو اسوہ بناؤ اور اسی کے نمونہ پر چلو.ایک ہی مقتداء اور مطاع اور امام ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ ہم اسی سے پیوند کر یں.آمین.الحکم جلدے نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۴٬۳)

Page 371

حقائق الفرقان ۳۶۱ سُوْرَةُ الْمُنْفِقُونَ سُوْرَةُ الْمُنْفِقُونَ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ منافقون کو پڑھنا شروع کرتے ہیں.اس اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے.- إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ - ترجمہ.جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بے شک بے شک تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ بھی جانتا ہے کہ یقینا تو اس کا رسول ہے اور اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ منافق تو بالکل جھوٹے ہیں.تفسیر.بہت سے آدمی اس قسم کے ہوتے ہیں کہ قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ اے محمد صلم تو ہمارا رسول ہے.لیکن ہم قسم کھاتے ہیں کہ یہ لوگ جو اس قسم کے دعوے کرتے ہیں تو یہ صریح جھوٹے ہیں اور منافق ہیں.کیونکہ ان کا عمل درآمد ان کے دلی ایمان کے خلاف ہے.اور جو باتیں یہ زبان سے کہتے ہیں.اُن کے دل ان باتوں کو نہیں مانتے.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۶ مورخہ ۲۴؍ دسمبر ۱۹۰۷ء صفحه ۱۱) يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لِيُخْرِجَنَّ الْآعَةُ مِنْهَا الْأَذَلَ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ - ترجمہ.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینے واپس جائیں گے تو عزت دار ذلیل کو مدینے سے نکال دے گا حالانکہ اللہ ہی کی عزت ہے اور اس کے رسول کی اور ایمانداروں کی لیکن منافق تو جانتے ہی نہیں.تفسیر.میں نے بار ہا سنایا ہے کہ جب مامور من اللہ آتا ہے تو لوگوں کو اس کی مخالفت کا ایک جوش بارہا ہوتا ہے اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی کے اعزاز کے لئے تل جائے اس کو کوئی ذلیل نہیں

Page 372

حقائق الفرقان ۳۶۲ سُوْرَةُ الْمُنْفِقُونَ کر سکتا.مدینہ طیبہ میں ایک رأس المنافقین کا ارادہ ہوا.لَئِنْ جَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ...الآية اگر ہم لوٹ کر مدینہ پہنچیں گے تو ایک ذلیل گروہ کو معزز گروہ نکال دیگا.جناب الہی نے فرمایا وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوله...الآية معزز تو اللہ ہے اور اُس کا رسول اور اس کی جماعت.منافقوں کو یہ کبھی سمجھ نہیں آتی.آخر ایام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک بھی منافق نہ رہا.بلکہ یہ فرمایا.مَلْعُونِينَ أَيْنَمَا ثُقِفُوا أَخِذُوا وَقُتِلُوا تَقْتِيلا - (الاحزاب ::۱۲) اللہ تعالیٰ نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ تیری مجاورت میں بھی نہ رہیں گے.الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۰۱ صفحه ۶) عزت اللہ کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے.منافقین ایسی باتوں سے بے علم ہیں.پس مومن اور پھر ذلیل یہ غیر ممکن ہے.مومن تو اسی دنیا میں بہشت پالیتا ہے.صحابہؓ کرام نے جب جاہلیت کے عقائد فاسدہ سے توبہ کی اور اسلام کے پاک عقائد پاک اعمال اختیار کئے تو سب سے پہلی جنت ان کے لئے یہی تھی.پھر جب مکہ سے مدینہ ہجرت کی تو یہ بھی ان کے لئے جنت ہی تھی.پھر جب ملک پر ملک فتح کئے تو ایک دنیا کے فاتح کہلائے تو یہ بھی ان کے لئے جنت تھی.پھر جب دنیا سے کوچ کرنے پر پہلی منزل قبر ( قبر وہ ہے جہاں انسان اپنے اعمال کے بدلہ میں بعد الموت رہتا ہے ) بھی رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ہوگئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیبیاں جنگ میں اپنے ساتھ رکھتے.دراصل آپ ان جاہلوں کو یہ سمجھاتے تھے کہ دیکھو اللہ تعالیٰ مجھے ذلیل نہیں کرتا.ورنہ جنگ کیسے خطرہ کا موقع ہے اور دستور کے لحاظ سے بیبیوں کا قید میں پڑ جانا یا اور اور طرح ذلیل ہونا ممکن ہے.مگر اللہ تعالیٰ میرا حامی و ناصر ہے.وہ مومن کے اعداء کو کوئی ایسا موقع نہیں دیتا.تشخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۴.ماہ اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۷۵) اے (قتل کئے گئے لعنتی جہاں پائے جائیں پکڑے جائیں اور خوب قتل کئے جائیں.

Page 373

حقائق الفرقان ۳۶۳ سُوْرَةُ التَّغَابُنِ سُوْرَةُ التَّغَابُنِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ تغابن کو اس اللہ کے نام سے پڑھنا شروع کرتے ہیں جو رحمن و رحیم ہے.٢ ، ٣ - يُسَبِّحُ لِلهِ مَا فِي السَّمَواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرُ وَ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ - ترجمہ.اللہ ہی کی تسبیح کرتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے.اسی کی سلطنت ہے اور اسی کی تعریف اور وہی ہر چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.یہ وہ اللہ ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تو تم میں سے کافر ہوا اور کوئی مومن.اور اللہ جو تم کر رہے ہو بخوبی دیکھ رہا ہے.تفسیر.لوگ یا تو اس واسطے کسی کی فرماں برداری کرتے ہیں کہ وہ پاک اور مقدس ہے.یا اس لئے کہ وہ بادشاہ ہے اگر نافرمانی کریں گے تو سزا دیگا یا اس واسطے کہ وہ ہمارا حسن ہے.ہم پر انعام کرتا ہے.اس لئے اس کی اطاعت ضروری ہے.اللہ تعالیٰ اپنی اطاعت کی طرف اپنی انہیں تین صفتوں کا ذکر فرما کر بلاتا ہے.لَهُ الْمُلْكُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - هُوَ الَّذِى خَلَقَكُمْ فَمِنْكُمْ كَافِرُ وَ مِنْكُمْ مُّؤْمِنٌ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِير.ملک بھی اسی کا اور سب خوبیوں کا سرچشمہ بھی وہی اور ہر چیز پر قادر بھی وہی ، وہی پیدا کرنے والا ، وہی نگرانِ حال.پس عبادت کے لائق بھی وہی.اگر تم کسی کی اس لئے اطاعت کرتے ہو کہ وہ حسن رکھتا ہے.تو یا درکھو تمام کائنات کے حسن کا سر چشمہ تو وہی ذات بابرکات ہے.کوئی خوبی اگر کسی میں ہے.تو اس کا پیدا کر نیوالا وہی اللہ ہے.اسی طرح اگر تم کسی کی اس لئے

Page 374

حقائق الفرقان ۳۶۴ سُوْرَةُ التَّغَابُنِ اطاعت کرتے ہو کہ وہ محسن ہے.تو سب محسنوں سے بڑا محسن تو اللہ ہے.جس نے تمہارے محسن کو بھی سب سامان اپنی جناب سے دیا.اور پھر اس سامان سے تمتع حاصل کرنے کا موقع اور قومی بھی اسی کے دیئے ہوئے ہیں.اگر کسی کی اطاعت اس لئے کرتے ہو کہ وہ بادشاہ حکمران ہے.تو تم خیال کرو.اللہ وہ احکم الحاکمین ہے.جس کا احاطہ سلطنت اس قدر وسیع ہے.کہ تم اس سے نکل کر کہیں باہر نہیں جا سکتے.چنانچہ فرماتا ہے.یمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمُ اَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ فَانْفُذُوا لَا تَنْفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطن - (الرحمن: ۳۴) یہ دنیا کے حاکم تو یہ شان نہیں رکھتے.جب ان کی اطاعت کرتے ہو تو پھر اس احکم الحاکمین کی اطاعت تو تشخیز الاذہان جلدے نمبر ۵ ماه مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۲۹٬۲۲۸) ضروری ہے.اے اے جماعت جن وانس کی ! اگر تم میں طاقت ہے کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاسکوتو نکل بھا گو.نکل ہی نہ سکو گے مگر پروانگی کے ساتھ.

Page 375

حقائق الفرقان ۳۶۵ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ مَدَنِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ طلاق کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اللہ رحمن و رحیم کے نام سے ٢ - يَايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللهَ رَبَّكُمُ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدرِى لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا - b ترجمہ.اے نبی ! جب تم طلاق دینی چاہو عورتوں کو تو ان کو طلاق دو تو ایسے وقت میں طلاق دو کہ عدت کا شمار آسان ہو اور عدت کے دن گنتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ جو تمہارا رب ہے ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو اور وہ خود بھی نہ نکلیں مگر یہ کہ کر بیٹھیں کوئی صریح بے حیائی کا کام ( تو نکال دینا مضائقہ نہیں یا وہ خود نکل جائیں ) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں پس جو شخص آگے بڑھے اللہ کی حدوں سے تو اس نے اپنے اوپر آپ ظلم کیا.اے مخاطب ! تو نہیں جانتا شاید اللہ ان میں پیدا کر دے طلاق کے بعد کوئی بات ( میل ملاپ کی ).تفسیر.اے نبی.جب تم طلاق دو عورتوں کو تو ان کو طلاق دو ان کی عدت پر اور گنتے رہو عدت اور ڈرواللہ سے.رہوعدت فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول - صفحہ ۴۷ حاشیہ) لِعِد تھن.ایک وقت میں ایک طلاق دے.حیض میں نہ دے.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۴) لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ -

Page 376

حقائق الفرقان ۳۶۶ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ اور مت نکالوان کے گھروں سے اُن کو.اور وہ بھی نہ نکلیں مگر جو کریں صریح بے حیائی.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل.صفحہ ۴۹ حاشیہ ) ۴،۳.فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ فَارِقُوهُنَّ روود b بِمَعْرُوفِ وَ اَشْهِدُوا ذَوَى عَدْلٍ مِنْكُمْ وَ اَقِيْمُوا الشَّهَادَةَ لِلهِ ذَلِكُم يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا - ترجمہ.پس جب وہ اپنی عدت کی مدت پوری کر چکیں تو ان کو نیک نیتی سے رکھ لو یا نیک سلوکی کے ساتھ جدا کر دو اور گواہ کر لو دو انصاف والے گواہ اور اللہ کے واسطے گواہی پر قائم رہو رہو.اس بات کی اُس کو نصیحت کی جاتی ہے جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور روز آخرت پر اور جو شخص ڈرتا ہے اللہ سے تو اللہ پیدا کر دے گا اس کے لئے کوئی راہ نجات.اور اس کو وہاں سے رزق پہنچائے گا جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو.جو اللہ پر بھروسہ رکھے تو اللہ اس کے لئے کافی ہے.بے شک اللہ اپنا کام پورا فرما لیتا ہے.تحقیق کہ اللہ نے ٹھہرا رکھا ہے ہر ایک چیز کا اندازہ.تفسیر.پھر جب پہنچیں اپنے وعدے کو تو ر کھلوان کو دستور سے یا چھوڑ دو ان کو دستور سے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۴۸ حاشیہ) بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ.جب عدت گزرنے کو ہو.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۴) تقوای عظیم الشان نعمت اور فضل ہے جسے ملے.انسان اپنی ضروریات زندگی میں کیسا مضطرب اور بے قرار ہوتا ہے.خصوصا رزق کے معاملہ میں.لیکن متقی ایسی جگہ سے رزق پاتا ہے کہ کسی کو تو کیا معلوم ہوتا ہے.خود اس کے بھی وہم گمان میں نہیں ہوتا.يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ.پھر انسان بسا اوقات بہت قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ متقی کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے.جیسے فرمایا وَ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا - انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار

Page 377

حقائق الفرقان ۳۶۷ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ علوم الہیہ پر ہے.کیونکہ جب تک کتاب اللہ کا علم ہی نہ ہو.وہ نیکی اور بدی اور احکام رب العالمین سے آگاہی اور اطلاع کیونکر پاسکتا ہے.انسان اپنے دشمنوں سے کس قدر حیران ہوتا ہے.اور ان سے گھبراتا ہے.لیکن متقی کو کیا خوف؟ اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں.الحکم جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحه ۱۴- ۱۵) انسان کو بہت ضرورت ہے اس بات کی کہ کھائے ، پینے، پہنے.اللہ تعالیٰ متقی کے لئے فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ انسان جب متقی بن جائے تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کے گمان میں بھی نہیں ہوتا.پس اگر کوئی رزق کا طالب ہے تو اس پر واضح ہو کہ رزق کے حصول کا ذریعہ بھی تقوی ہے.۲.انسان جب مصیبت میں حوادث زمانہ سے پھنس جاتا ہے اور اس کی بے علمی اسے آگاہ نہیں ہونے دیتی کہ کس سبب سے تمسک کر کے نجات حاصل کرے تو وہ خبیر جو ذرہ ذرہ کا آگاہ ہے.فرماتا ہے.متقی کو ہم تنگی سے بچائیں گے.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۸) ہر شخص کو ضرورت ہے کہ اُسے رزق ملے اور وہ کھائے پیئے.دواو علاج اور تیمار دار.غرض بہت سی ضروریات کا محتاج ہے.مگر اللہ تعالیٰ متقی کو بشارت دیتا ہے.يَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ متقی کو ایسے طریق پر رزق ملتا ہے جو اسے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا.پھر انسان مشکلات میں پھنستا ہے اور ان سے نجات اور رہائی چاہتا ہے.متقی کو ایسی مشکلات سے وہ آپ نجات دیتا ہے.يَجْعَلُ له مَخْرَجًا.ہر قسم کی تنگی سے وہ آپ نجات دیتا ہے.یہ متقی کی شان ہے.لا الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۰۱۹ مورخه ۲۸،۲۱ رمئی ۱۹۱۱ صفحه ۲۶) ۵- وَاللّن يَسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِنْ نِسَا بِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَثَهُ اشْهُرٍ وَ إِلَىٰ لَمْ يَحِضْنَ وَ أَوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا - ترجمہ.اور جو تمہاری عورتیں حیض کے آنے سے نا امید ہوگئیں تو اگر تم کو شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے ایسا ہی ان کی جن کو ابھی حیض نہیں آیا اور حمل والیوں کی یہ عدت ہے کہ وہ اپنا حمل جن

Page 378

حقائق الفرقان ۳۶۸ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ چکیں اور جو اللہ کو سپر بناوے تو اللہ اس کے لئے پیدا کر دے گا اس کے کام میں آسانی.تفسیر : کسر کو بھی انسان بہت پسند کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ آمده پسرا گویا سکھ بھی متقی ہی کا حصہ ہے.تاریخ کے صفحوں کو الٹ جاؤ اور دیکھو کہ متقیوں کے مقابلہ میں بڑے بڑے بادشاہ بار یک در بار یک تدبیریں کرنے والے، مال خرچ کرنے والے، جتھوں والے آئے مگر وہ بھی ان متقیوں کے سامنے ذلیل وخوار ہوئے.( بدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۸) ہر قسم کے دکھوں کو سکھوں سے تقوی ہی بدل دیتا ہے.يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا پھر جب متقی انسان ان ثمرات کو پاتا ہے تو میرے دوستو ! سب کو تقوی اختیار کرنا چاہیے.رزق کے لئے تنگی.نجات کے لئے تقوای کرو.سکھ کی ضرورت ہے.تقومی کرو.محبت چاہتے ہو تقومی کرو.سچا علم چاہتے ہو تقویٰ کرو.میں پھر کہتا ہوں تقویٰ کرو.تقویٰ سے خدا کی محبت ملتی ہے.وہ اللہ کا محبوب بنا دیتا ہے.دکھوں سے نکال کر سکھوں کا وارث بنادیتا ہے.علوم صحیحہ اُسی کے ذریعہ ملتے ہیں.ے.الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۰۱۹ مورخه ۲۸٬۲۱ مئی ۱۹۱۱ صفحه ۲۶) اسكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُم مِّنْ وَجُدِكُمْ وَ لَا تُضَارُوهُنَّ لِتُضَيقُوا عَلَيْهِنَّ وَ إِنْ كُنَ أَوْلَاتِ حَبْلٍ فَانْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتَّى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ فَإِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَأْتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ وَأَتَمِرُوا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوفٍ وَإِن تَعَاسَر تُم فَسَتُرْضِعُ لَهُ أَخْرى - ترجمہ.طلاق دی ہوئی عورتوں کو رہنے کے لئے گھر دو جہاں تم خود ر ہو اپنے مقدور کے موافق اور ان کو ایذا نہ دو تا کہ تم تنگی کرنے لگو ان پر.اور اگر وہ پیٹ سے ہوں تو ان کو روٹی کپڑا دو.یہاں تک کہ وہ اپنا بچہ جنیں پھر اگر دودھ پلائیں تمہاری خاطر تو ان کو تنخواہ دو اور آپس میں موافقت رکھو خوبی کے ساتھ اور اگر آپس میں ضد کر و تو دودھ پلا وے گی کوئی اور عورت.تفسیر - آسکنُوهُنَّ.گھر دو ان کو رہنے کو جہاں سے آپ رہو.اپنے مقدور سے اور ایذا نہ چاہوان کی یا تنگ پکڑوان کو.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۴۷ حاشیہ )

Page 379

حقائق الفرقان ۳۶۹ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ - وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبُنُهَا حِسَابًا شَدِيدَ الوَ عَنْ بُنَهَا عَذَابًا تُكْرًا - ترجمہ.بہت سی بستیاں بڑھ چلیں یعنی اپنے رب اور اس کے رسولوں کے حکم سے تو ہم نے ان سے سخت حساب لیا اور ان کو بُرے عذاب کا دکھ دیا.تفسیر.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.پہلی بستیوں کو دیکھو جنہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کی تھی.ان پر کیسا عذاب آیا تھا.تمام کتب الہیہ کو پڑھنے اور پہلی قوموں کے حالات کے مطالعہ سے انسان اس نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ کفر و شرک اور انبیاء علیہم السلام کو نہ ماننا ضر ور ایک ایسی چیز ہے جس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا ہے لیکن شوخی اور بے باکی اور شرارت بہت ہی بری شے ہے اور اس کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ کو شوخ آدمی کبھی پسند نہیں.اور ہر ایک شہر میں کوئی نہ کوئی ایسا نظارہ ضرور ہوتا ہے.اور نہیں تو کسی بڑے امیر کبیر کے مکانات کے کھنڈرات ہی ہوتے ہیں.لاہور میں شاہی قلعہ دیکھنے والوں کو وعظ کر رہا ہے ہر ایک بستی اور گاؤں کے نزدیک کوئی نہ کوئی کھیڑا ضرور ہوتا ہے.دہلی کے حالات پر غور کرو تغلق آباد کیسا آباد کیا گیا تھا.اس کی چھتوں پر لکڑی نہ ڈالی گئی تھی مگر اب کیسا بے نشان پڑا ہے.یہاں بھی قریب ہی ایک تغل والا گاؤں موجود ہے جہاں کہ تغل لوگ رہتے تھے لکھنو کے خرابوں اور ویرانوں پر غور کرو اور ان سے عبرت حاصل کرو.ایک صوفی کا قول ہے کہ انسان کی کیا ہستی ہے.بقطر 6 آبے موجود و به خروج بادے معدوم ہے پھر حیرت و تعجب کی بات ہے کہ انسان کس ہستی پر غرور کرتا ہے.موت کے سامنے کوئی طاقت نہیں چلتی.دیکھو سکندر جب تمام فتوحات کر کے بابل میں پہنچا تو موت آ گئی اور کچھ پیش نہ گئی.بغداد میں اس قدر مخلوق تھی کہ شہر کی حفاظت کے واسطے پانچ لاکھ فوج یا کتنی تھی.مگر جب خدا کا عذاب آیا تو اٹھارہ لاکھ اس معرکہ میں قتل کیا گیا.جن لوگوں سے ملک پر دعوے دار ہونے کا اندیشہ ہوسکتا تھا.کہتے ہیں ان کے ایک ہزار آدمیوں کی قطار کھڑی کر کے سب دیوار میں چن دیئے گئے.غرض خداوند تعالیٰ کا لے قطرہ آپ اس کی زندگی ہے اور ہوا کے جھونکے سے فنا ہو جاتا ہے.

Page 380

حقائق الفرقان ۳۷۰ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ جب عذاب آتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا اسی عذاب کا اس آیت میں ذکر ہے.پہلے رسولوں کے مخالفین کا یہ حال ہوا تو تم کیونکر بچ سکتے ہو؟ یہی حال تمہارا بھی ہونے ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ انمبر ۳٬۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۵) والا ہے! ۱۱ ، ۱۲ - اَعَدَ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللَّهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ امَنُوا قَد اَنْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُولًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللهِ مُبَيِّنَتِ ليُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يَدُ خِلْهُ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا اَبَدًا قَدْ أَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا - ترجمہ.اللہ نے ان کے واسطے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے.تو اے عقل مند و! اسی اللہ کوسپر بناؤ جس کو تم نے مانا ہے اور بے شک اللہ نے تم کو نصیحت کرنے والا رسول نازل فرما دیا ہے.جو پڑھتا ہے تم پر اللہ کی کھلی کھلی آیتیں تا کہ ان لوگوں کو نکالے جو ایمان لائے اور بھلے کام کئے اندھیروں سے اجالے کی طرف.اور جو شخص ایمان لا یا اللہ پر اور بھلے کام کئے تو اسے اللہ داخل فرمائے گا ایسے باغوں میں جن میں نہریں بہہ رہی ہیں ( نیک لوگ) وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں.اللہ نے اس کے لئے اچھی روزی بنائی.تفسیر اتقوالله - تقوی اختیار کرو أولى الْأَلْبَاب - عقل مند الَّذِينَ آمَنُوا - عقل مند وہی ہیں جو ایمان لائے.ذكرا - خدا تعالیٰ نے ایک ایسی کتاب اتاری ہے جس پر عمل کرنے سے تمہارا ذکر پھیلے.وہ تمہاری عظمت اور جبروت کا باعث ہونے والی ہے.رَسُولاً - اگر تم دیکھنا چاہو کہ اس تعلق کا کیا فائدہ ہے تو رسول کا نمونہ دیکھو.جو اللہ تعالیٰ کی آیات تم پر پڑھتا ہے.خدا تعالیٰ نے اُسے کیا عزت عطا کی ہے.

Page 381

حقائق الفرقان ۳۷۱ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّورِ.اس رسول کی اطاعت اور اس کلام پر عمل کا نتیجہ یہ ہے کہ تم تاریکی سے نکل کر نور میں داخل ہو جاؤ گے.ظلمت پانچ قسم ہے.۱.ظلمت فطرت.انسان ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہی جاہل ہوتا ہے.ظلمت عادت.بد عادات انسان کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں اور انبیاءعلیہم السلام اسی واسطے آتے ہیں کہ عادات بد کو دنیا سے مٹادیں.ظلمت رسم.رسم و رواج سے بھی بڑے نقصان مترتب ہوتے ہیں.بعض رسمیں اس وقت شروع ہوئیں جبکہ مسلمان امیر اور بادشاہ ہوئے تھے.لیکن اب حالت فقر میں بھی ان پر چلنا چاہتے ہیں.ظلمت جہل.جاہل و نادان.بہ سبب جہالت کے اپنے آپ کو عجیب عجیب تکالیف میں مبتلا کر لیتے ہیں.۵- ظلمت عدم استقلال.بعض آدمی بڑے بڑے وعدے اور ارادے کرتے ہیں اور کام شروع کرتے ہیں مگر آخر نباہ نہیں سکتے.جنت.فرمایا.وہ جنت جس کے نیچے ندیاں بہتی ہیں.ایمان اور عمل صالح سے مل سکتی ہے.اس سورہ شریف میں طلاق کے نہایت ضروری مسئلہ کو حل کیا ہے.یہو د طلاق کے معاملہ میں بہت سختی کرتے تھے.ذرا ذراسی بات پر طلاق دیتے تھے.اور عیسائیوں کے درمیان سوائے زنا کے طلاق نہ ہو سکتی تھی.افراط اور تفریط کو دور کیا گیا.اور ایک درمیانی راہ سکھلائی گئی.اور عورتوں کے حقوق قائم کئے گئے.جن سے پہلی قومیں نا آشنا ہیں بلکہ اس وقت یورپ کا قانون لندن تک خاموش ہے.اس سورہ شریف میں بار بار تقوی پر زور دیا گیا ہے.لوگ عورتوں کے معاملہ میں تقوی سے دُور جا پڑے ہیں.بعض لوگ اپنی عورتوں کو نہ آباد کرتے ہیں اور نہ طلاق دیتے ہیں.بعض مارتے ہیں، تنگ کرتے ہیں.بد اخلاقی سے پیش آتے ہیں.یہ بہت بڑی ظلم کی باتیں ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۶٬۲۶۵)

Page 382

حقائق الفرقان ۳۷۲ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَبُوتٍ وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزِّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ علما - ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے سات آسمانوں کو پیدا کیا اور زمین کو بھی انہیں کی طرح ( یعنی خشکی کے سات بڑے قطعات) ان کے درمیان حکم اتارتا ہے تا کہ تم جانو کہ اللہ ہر شے کا اندازہ کرنے والا ہے اور بے شک اللہ نے ہر شے کا اپنے علم میں احاطہ کر رکھا ہے.تفسیر - آحاط.کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم و قدرت کے دائرہ سے خارج نہیں.ایک صوفی کہتا ہے رمزیست زسر قدرتش کُن فیگون با دانش او یکیت بیرون و دروں در غیب و شهادت ذره نتوان یافت از دائره قدرت و علمش بیروں کے ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ رنومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۶۶) ایک آریہ کے اعتراض کہ سات آسمان باطل ہیں“ کے جواب میں تحریر فرمایا:.اس کا جواب نمبر وار دیتے ہیں.اوّل سات آسمانوں اور سات زمینوں کی ہر کسی عالم بلکہ اہل عالم.ماہر تواریخ و ہیئت و جغرافیہ نے نمبر وار تردید کی ہے مرد آدمی ! ان کا نام ہی لکھ دیا ہوتا.سنئے.آپ کو ہم بتا دیں.آپ نے تو منکر اہل علم کا نام نہیں لیا.ہم ماننے والوں کے نام سناتے ہیں.یوگ، پاتخجل، کرت سوتر نمبر ۲۵، دیاس منی کی بھاس اور ادھیا سوم.سورج دھارنا کی نرنی میں لکھا ہے.بُھو کی اوپر گھوڑ سوز گھر جن تپ انتر رکھ کٹ.یہ سات آسمانی طبقات ہیں.جوز مین کے اوپر ہیں.اور مہیاتل، رسائل، اتل، مستل، وقل، تلاتل، پاتال.یہ سات طبقات زمین کے نیچے ہیں.اب بتائیے یہ آریہ ورتی اہل علم و ہیئت دان اور جا گرفی کے ماہر تھے.یا نہ تھے مگر یہ تو بتاؤ لے کن فیکون اس کے رازوں میں سے ایک راز ہے.ہر ظاہر و باطن چیز اس کے علم میں ہے.ظاہر و باطن میں ایک ذرہ بھی اس کی قدرت و علم سے باہر نہیں ہے.

Page 383

حقائق الفرقان ۳۷۳ سُوْرَةُ الطَّلَاقِ جنبو دیپ کے گرد لون سمندر اور شاک دیپ کے گردا کمبیورس (شہد) سمندر.کشن دیب کے گردسورا (شراب) سمندر.کرونج دیپ کے گرد سرپی ( گھی) سمندر شال مل دیپ کے گرد دو ہی سمندر.گیؤ مید دیپ کے گرد.کمپیر سمندر پشکر دیب کے گرد.جل سمندر.ان دیپوں کا بیان اور تشریح کسی جاگر فی دان سے پوچھیں.پھر میں کہتا ہوں کہ زمین اور آسمان کا سات سات حصص پر منقسم ہونا سچی تقسیم ہے جو سراسر حق ہے اس کے ماننے میں بطلان ہی کیا ہے کہ قرآن کریم نے اس کا ابطال نہیں کیا.قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں سبع ارضین کا تذکرہ موجود ہے.مگر یادر ہے.موجودات مرکبہ کی تقسیم کئی طرح ہو سکتی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے یہ تقسیم فرما دی تو بطلان کیا ہوا؟ اب ہم ایک ایسی بات کہتے ہیں.جس کے سننے سے کسی منصف آریہ کو قرآن کریم کے سبع سموت کہنے میں انکار کی جگہ نہیں.زمین سے لے کر جہاں تک فوق میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.اس مخلوق کو اللہ نے ایک تقسیم میں سات حصوں پر تقسیم کیا ہے.ہر ایک آسمان جس کا بیان اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے.ان کا بیان آیات ذیل میں موجود ہے.اول.وہ مقام جس میں ہمارے لئے کھانے کا سامان رکھا ہے.جیسے فرمایا ہے.وَفي السَّمَاء رزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ (الذريت: ۳۳) دوم.وہ مقام جس کے اندر جانوراڑتے ہیں.جیسے فرمایا.اَو لَمْ يَرُوا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمُ صفت ( الملك: ٢٠) سوم.وہ مقام جس میں اولے بنتے ہیں اور کھیتوں اور باغوں کو ویران کرتے ہیں.جیسے فرما یا فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوا رِ جُذَا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرة : ٢٠) لے اور آسمان ہی میں تمہارے لئے رزق یعنی کھانے پینے کا سامان رکھا ہے اور وہ چیز ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا.کیا یہ لوگ پرندوں کی طرف نہیں دیکھتے کہ کیسے صفیں باندھے آسمانی فضا میں موجود ہیں.پھر ہم نے ہی ا تارا بدکاروں پر ان کی بدکاری کے بدلہ آسمان سے عذاب.

Page 384

حقائق الفرقان ۳۷۴ چہارم.وہ مقام جس میں سے مینہ آتا ہے جیسے فرمایا.وَ انْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا تَكُمْ (البقرة: ٢٣) پنجم.وہ مقام جس میں ستارے اور نیازک گرتے ہیں.جیسے فرمایا.سُوْرَةُ الطَّلَاقِ وَلَقَد زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رُجُومًا لِلشَّيطِينِ وَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ الشعير - (الملک: 1) ششم.وہ مقام جس میں ستارے ہیں.جیسے فرمایا.وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَ زَيَّتُهَا لِلنَّظِرِينَ - (الحجر: ۱۷) ہفتم.وہ حصہ جو ان سب سے اوپر ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے بہشتوں کو رکھا ہے کہ ان مشہودستاروں سے اوپر بھی کوئی مقام ہے جیسے فرمایا.جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ (آل عمران : ۱۳۴) ( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۵ تا ۲۶۷) لے اور اُس نے آسمانوں یعنی بادلوں سے پانی اتارا اور اس کے درمیانی ہونے سے پھل نکالے جو تمہارے لئے رزق یعنی کھانے اور پینے کا سامان ہیں.۲.اور ہم نے سامنے والے آسمان کو سجا رکھا ہے چراغوں سے تاروں کے اور اُس کو شیطانوں کے واسطے نشانہ غیب کا ٹھہرا دیا ہے اور تیار کر رکھا ہے ہم نے ان کے لئے دیکھتی ہوئی آگ کا عذاب سے ہم نے آسمان میں برج یعنی روشن ستارے بنائے ہیں اور دیکھنے والوں کے لئے اس کو آراستہ کیا ہے.کہ جنت جس کی قیمت ( یا چوڑائی ) آسمان اور زمین ہے.

Page 385

حقائق الفرقان ۳۷۵ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ تحریم کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے.۳،۲ - يَايُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِي مَرْضَات اَزْوَاجِكَ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - قَدْ فَرَضَ اللهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّهُ E موليكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ - ترجمہ.اے اللہ کے نبی ! تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تجھ پر حلال کیا ہے اپنی بیبیوں کی رضا چاہنے کے لئے اور اللہ غفور الرحیم ہے.اللہ نے تمہارے واسطے قسموں کا توڑنا ٹھہرا دیا ہے.اور اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہی بڑا جاننے والا حکمت والا ہے.تفسیر.يَايُّهَا النَّبِيُّ.اس سورۃ کے شروع میں بھی پچھلی سورۃ کے شروع کی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کیا ہے.مگر حکم عام سب کے لئے ہے.لِمَ تُحَدِّم - تو کیوں حرام کرتا ہے؟ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی حلال چیز کو چھوڑ دیا تھا.اس کا پتہ احادیث سے دو جگہ سے ملتا ہے.ان دو میں سے کسی ایک کو یہاں سمجھ لو.ا.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہر پیا تھا.تو ایک بیوی نے کہا.آپ کے منہ سے بو آتی ہے.آپ نے خیال فرمایا کہ اگر شہد کا پینا کسی بیوی کو نا پسند ہے تو ہم نہیں پیتے.شہد کے پینے کی ضرورت ہی کیا ہے.۲.دوسری بات حدیثوں میں یہ کھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی بیبیوں سے ان کے کسی معاملہ پر ناراض ہو کر ان سے علیحدگی اختیار کی تھی اور چند روز تک ایک علیحدہ مکان میں رہے

Page 386

حقائق الفرقان سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ تھے.اس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا.بہر حال ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات ہے یا کوئی اور امر ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا.جس کے سبب سے یہ آیت نازل ہوئی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترک میں مشکلات تھے.اگر وہ قائم رہتا تو مسلمان اسے ایک سنت بنا لیتے.فَرَضَ الله.عام حکم ہے اللہ تعالیٰ نے سب پر فرض کر دیا ہے کہ ایسی قسموں پر قائم نہ رہا کریں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۶) لِمَ تُحَدِّمُ.نبی کریم صلعم نے شہد کھا یا کسی بیوی نے کہا.اس سے بو آتی ہے.آپ نے اسے چھوڑ دیا.حرام کے معنے ترک کے ہیں.تشعیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۸۴) اس آیت کے حوالہ سے پادریوں کے سوالوں کے جواب میں حضرت خلیفہ المسیح اول نے فرمایا.پادری کا سوال سورۂ تحریم کے پہلے رکوع کی تفسیر میں ہے محمد صاحب اپنی زوجہ حفصہ کے گھر گئے اور اُس کی لونڈی ماریہ قبطیہ سے اپنی زوجہ کی غیر حاضری میں ہمبستر ہوئے.حفصہ مذکور یہ معلوم کر کے ناراض ہوگئی.تب محمد صاحب نے اس شہرت بد کو بند کرنے کے لئے اور اپنی زوجہ حفصہ کو راضی کرنے کے لئے قسم کھائی اور کہا کہ میں پھر اس لونڈی سے ہمبستر نہ ہوں گا اور اپنی زوجہ حفصہ سے فرمایا کہ یہ بات تیرے پاس امانت ہے سو یہ ماجرا تو کسی پر ظاہر نہ کرنا.جب محمد صاحب اُس کے گھر سے چلے گئے تو حفصہ نے یہ تمام احوال عائشہ پر ظاہر کر دیا اور پھر عائشہ سے جب محمد صاحب کو معلوم ہو گیا کہ یہ ماجرا چھپ نہ سکا تو قرآن میں بمقام مذکورۃ الصدر ایک آیت نازل کر لی کہ بیشک قسم کو توڑ کر لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہیے.اپنی عورتوں کی خوشنودی نہ چاہیے.پس اس ماجرے سے تین گناہ محمد صاحب پر ثابت ہیں.اول گناہ زنا کا کہ جس کے سبب محمد صاحب نے اپنی زوجہ حفصہ سے ملامت اُٹھائی اور بدنام ہو کر اس گناہ کے چھپانے کی کوشش کی اور آخر کار قسم اٹھا کر جان چھوڑانی پڑی.دوم گناہ قسم پر قائم نہ رہنے کا کہ وہ پھر اسی لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہے اور اسی سبب محمد یوں

Page 387

حقائق الفرقان ۳۷۷ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ پر بھی قسم کا توڑنا جائز کردیا.سوم ایسے ناشائستہ فعل میں یعنی لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہے اور قسم کے توڑنے میں خدا کو بھی شریک کر کے اجازت دینے والا قرار دیا.جواب.غورفرمانے والے ناظرین سنو.عیب گیر پادری صاحب اول تو قرآن سے نکال کر یہ اعتراض نہیں دکھا سکتے بلکہ کسی تفسیر سے.سچ ہے قرآن کریم ایسے اعتراضات کا اناجیل کی طرح منشاء نہیں ہوسکتا.رہیں تفاسیر سیل صاحب اور راڈویل نے تفاسیر قرآن لکھی ہیں.پھر کیا ان تفاسیر کے باعث اسلام یا قرآن یا صاحب قرآن محل اعتراض ہو سکتا ہے.دوم.پادری کہتے ہیں حفصہ کی لونڈی ماریہ قبطیہ حالانکہ ماریہ قبطیہ ہمارے بچے اور پاک ہاں نہایت کچے اور نہایت پاک خاتم الانبیاءمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ام ولد اور سریہ بی بی تھیں.ماریہ حفصہ کی لونڈی ہرگز نہیں ہاں ہر گز نہیں.یہ ماریہ قبطیہ وہ ہے جس کے ام ولد بننے سے مصر اور اسکندریہ کے بادشاہ مقوقس کے ساتھ تعلقات پیدا ہوئے.افسوس آپ کو گھر کی بھی خبر نہیں.یہ مقوقس عیسائی تھا.زرقانی شرح مواہب.یہ ماریہ وہی ہے جس کی حقیقی بہن حسان کے گھر میں تھیں اور عبدالرحمن بن حسان اُس کے پیٹ سے پیدا ہوئے.مواہب لدنیہ.یہ ماریہ وہ ہے جس کے ساتھ شہباء فچری آئی جسے مسلمان دلدل کہتے ہیں.پادریو! آپ کے تمام اعتراض کا زور اسی پر تھا کہ ماریہ قبطیہ حفصہ کی لونڈی تھی.جب حفصہ کی لونڈی ہونا ماریہ کا ثابت نہ ہوا تو آپ کی ساری یا وہ سرائی بیہودہ گوئی اُڑ گئی.سوم.پادری کہتے ہیں محمد صاحب نے ایک آیت سورہ تحریم کی ابتدا میں نازل کر لی.پادری لوگ آیت تو نہیں لکھتے صرف اُس کے بدلے یہ اُردو عبارت لکھ دیتے ہیں.بیشک قسم توڑ کر لونڈی سے ہمبستر ہوتے رہیے.اپنی عورتوں کی خوشنودی نہ چاہیے.اعتراض

Page 388

حقائق الفرقان ۳۷۸ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ میں یہی عبارت مرقوم ہے.اب تمام ناظرین کی خدمت میں التماس ہے قرآن تمام عمرانات میں موجود ہے.ایسی کوئی آیت تمام قرآن میں نہیں جس کا یہ ترجمہ ہو.اس محرف قوم کے تعصبات کی حد نہیں.جان بوجھ بے ایمانی پر کمر بستہ ہے اور کیوں نہ ہوں.کفارے کے بیہودہ خیالی پلاؤ نے ان کو گناہ سے بے ڈر کر رکھا ہے.پادریوں نے آخر تین اعتراض اس قصے پر جمائے.جب قصہ ہی سرے سے غلط ٹھہرا تو یہ نتیجہ کیونکر قابل التفات ہوگا.ماریہ قبطیہ جب ام ولد بی بی ٹھہریں تو زنا کیسا.ہوش کی لو.ماریہ قبطیہ جب ام ولد بی بی ٹھہریں تو قسم کیا اور قسم توڑنا کیا.ماریہ قبطیہ جب ام ولد بی بی ٹھہریں تو ناشائستہ فعل کیا.معترض کہتا ہے قسم توڑنے کی آیت نازل کرلی.قسم توڑنے کی کوئی آیت سورہ تحریم میں نہیں اور نہ اُس کے بعد کوئی قسم توڑنے کی آیت اتری ہاں قسم کے توڑنے پر کفارہ دینے کا قرآن میں سورۃ مائدہ میں ذکر آیا ہے مگر یادر ہے سورہ مائدہ سورۂ تحریم سے پہلے اُتری ہے.ہاں.مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے.سورہ تحریم کی پہلی چند آیات کی تفسیر لکھ دوں.ياَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا اَحَلَّ اللهُ لَكَ تَبْتَغِى مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ وَ اللهُ غَفُورٌ E رَّحِيمُ - قَدْ فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ (التحريم : ٣٠٢) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی زینب کے گھر میں شہد پیا.عائشہ اور حفصہ نے زینب پر غیرت کی.اور رسول خدا سے عرض کیا کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے.آپ نے فرمایا کہ میں نے زینب کے گھر میں شہر پیا ہے.اب پھر شہد نہ پیوں گا.یہ بات اس لئے کہی کہ جب عورتوں کو شہد کی بُو لے اے نبی ! تو کیوں چھوڑے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر.چاہتا ہے رضا مندی اپنی عورتوں کی اور اللہ بخشنے والا ہے.مہربان ٹھہرادیا ہے اللہ نے تم کو کھول ڈالنا اپنی قسموں کا.

Page 389

حقائق الفرقان ۳۷۹ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ سے نفرت ہے تو اس کا پینا کیا ضرور.معاشرت میں نقص آتا ہے.باری تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا.حلال اشیاء کا ترک کرنا اور اس پر حلف کرنا کیوں.ایسے امور میں عورتوں کی رضامندی ضرور نہیں.قسم سے بیچ رہنے کے لئے سورہ مائدہ میں کفارے کا حکم ہے اس پر عمل کرو.قد فَرَضَ اللَّهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ مِیں فَرَضَ ماضی کا صیغہ ہے.حال یا استقبال نہیں.یہ زینب کا قصہ اور اس پر آیت کا نازل ہونا بخاری و مسلم وغیرہ حدیث کی اعلیٰ کتابوں میں موجود ہے.اور قرآن کی تفسیر یا خود قرآن سے یا لغت عرب سے یا قرآن کی تفسیر صحیح احادیث سے تفسیر کا اعلی درجہ ہے.بعض مفسر لوگوں نے زینب کے بدلے میں ماریہ قبطیہ کا نام لیا.الا مار یہ بھی رسول خدا کی بی بی ہیں.اور ایک بیٹے کی ماں.اس بیٹے کی ماں ہیں جس نے لڑکپن میں انتقال کیا.تب بھی کوئی حرج نہیں.الا یہ مفسروں کا قول حدیث کے مقابلہ میں التفات کے قابل نہیں.بلکہ متقین نے ماریہ کے وجود پر بھی انکار کیا ہے.(فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۱۲۲ تا ۱۲۵) وَإِذْ اَسَةَ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّاتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَ أَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَاهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ انباك هذا قَالَ نَبَّانِى الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ - ترجمہ.اور جب نبی نے اپنی بعض عورتوں سے کوئی بات چپکے سے کہی تھی پھر اُس نے اس کی خبر کر دی اور اللہ نے نبی کو اس کی خبر کر دی تو نبی نے بات میں سے کچھ تو جتا دیا اور کچھ ٹال دیا پھر جب نبی نے اس کو بتلا دیا تو اس نے پوچھا کہ یہ آپ کو کس نے خبر دی.آپ نے فرمایا کہ مجھ کو اس بڑے جاننے والے خبر دار نے خبر دی.تفسیر.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی بات اپنی کسی بیوی کو کہی تھی.اُس نے کسی اور کے آگے ذکر کر دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ الہام الہی کے معلوم ہو گیا کہ اس بیوی نے اس راز کی بات کو آگے ذکر کر دیا ہے.شیعوں نے کہا ہے کہ وہ بات یہ تھی کہ میرے بعد حضرت علی خلیفہ ہوں گے اور سنی کہتے ہیں

Page 390

حقائق الفرقان ۳۸۰ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ کہ وہ بات یہ تھی کہ میرے بعد ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما خلیفہ ہوں گے.مگر جب اللہ تعالیٰ نے اس بات کو مقید نہیں کیا اور بیان نہیں فرمایا کہ وہ کیا بات تھی.تو ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم کہیں کہ وہ یہ بات تھی یا وہ بات تھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۶) اسر النَّبِيُّ -.محبت بڑھانے کے لئے اپنی بیوی سے مخفی بات بھی بعض اوقات کہہ دینی چاہیے لیکن اگر وہ ظاہر کر دے تو جتلا دینا چاہیے.(تمیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر صفحه ۴۸۴) اِن تَتُوبَا إِلَى اللهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا وَ إِنْ تَظَاهَرَا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَولىهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَبِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرُ - ترجمہ.اگر تم اللہ کی طرف جھک جاؤ (اے بیبیو! تو بہتر ہے ) کیونکہ تمہارے دل اللہ کی طرف جھکے ہوئے ہیں.اگر نبی کریم کی مددگار ہو تو بے شک اللہ اُسی کا مولیٰ ہے اور جبریل اور نیک مومن اور فرشتے بھی اس کے مددگار ہیں.تفسیر.صَعَت.جھکے ہوئے ہیں.تمہارے دل تو پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف جھکے ہوئے ہیں.کجی کا ترجمہ کرنا یہاں غلط ہے.وَإِن تَظَاهَرا.اگر تم ایک دوسرے کی پیٹھ بھر و.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۶) فَقَد صَغَتْ قُلُوبُكُها - تو بہ کرو تو یہی تم سے توقع ہے.کیونکہ تمہارے دل پہلے ہی سے ایسے ہیں کہ وہ جناب الہی میں جھکے ہوئے ہیں.( تشحی الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ تمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۸۵) عسى رَبُّةَ إِنْ طَلَّقَيْنَ اَنْ يُبْدِلَةٌ أَزْوَاجًا خَيْرًا مِنْكُنَ مُسْلِتٍ مُؤْمِنَت قُنِتَّتِ تبلت عبدَتِ سختِ ثَيْبَتِ وَ ابْكَارًا - ترجمہ.اگر وہ تم کو طلاق دے دے تو قریب ہے کہ تمہارا رب تم سے بہتر بیبیاں اُس کے واسطے بدل کر لاوے.فرمانبردار، ایماندار، نمازی، تو بہ کرنے والیں، روزہ دار، غیر باکرہ اور باکرہ (وہ ہوں گی ).

Page 391

حقائق الفرقان ۳۸۱ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ تفسیر.تبدیلی کا اختیار دیا گیا.مگر تبدیلی کوئی نہیں ہوئی.جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ سب صفات جن کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے کہ نبی کو خدا ایسی بیبیاں دے گا.وہ انہی بیبیوں میں موجود تھیں.اور اگر کچھ کمزوریاں تھیں.تو وہ خداوند تعالیٰ نے دور کر دیں.- يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ترجمہ.اے ایماندارو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے سلگنے کا سبب آدمی اور پتھر ہیں اس پر سخت مزاج تند خو فرشتے مقرر ہیں.جو کچھ اللہ ان کو حکم کرے وہ نافرمانی نہیں کرتے اور وہ تو وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا گیا ہے تفسیر.اوپر عورتوں کا ذکر ہوا.اب اللہ تعالیٰ تاکید فرماتا ہے کہ اپنے اہلِ خانہ کو وعظ ونصیحت کرتے رہو.اور انہیں نیک باتوں کی طرف متوجہ کرتے رہوتا کہ وہ بھی عذاب سے بچیں اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء (النساء:۳۵) مرد عورتوں کے مؤدب ہوا کرتے ہیں کہ ان کو ہر قسم کے آداب شرعیہ و اسلامیہ سکھا دیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳۰۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۶) - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ لا عَنكُمْ سَيَأْتِكُمْ وَ يُدخِلَكُمْ جَنَّتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهُرُ يَوْمَ لَا يُخْزِى اللهُ النَّبِى وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَ بِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۚ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ وو قدير - ترجمہ.اے ایماندارو! اللہ کی طرف خالص تو بہ کے ساتھ جھکو.امید ہے کہ تمہارا رب تم سے دور کر دے گا تمہارے گناہ اور تم کو داخل فرمائے گا ایسے باغوں میں جن میں بہہ رہی ہیں نہریں جس دن اللہ

Page 392

حقائق الفرقان ۳۸۲ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ رسوا نہ کرے گا نبی کو اور ایمانداروں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ان کا نور ان کے آگے آگے اور سیدھی طرف دوڑ رہا ہوگا عرض کریں گے اے ہمارے رب ! ہمارا نور پورا کر دے اور ہماری عیب پوشی کر اور حفاظت فرما بے شک تو ہر ایک چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.تفسیر.نَصُوحا - خالص توبہ نصوح کے معنے ہیں.خالص رجوع.اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع.کرنا مومن کا کام ہے.اس میں فرمایا ہے کہ خالص تو بہ کا یہ نتیجہ ہوگاکہ تم پچھلی بدیوں کے برے نتائج سے محفوظ رہو گے اور آئندہ بدیوں کے جوش کو دبا سکو گے اور ایک نور تمہیں دیا جائے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے اور ہر قسم کی ٹھو کر اور لغزش سے محفوظ رہو گے.ط - يَايُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنْفِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ، وَمَأولهم جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - ترجمہ.اے نبی ! خوب کوشش کر کافروں اور منافقوں سے مقابلہ میں ) اور ان پر سختی کر اور ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے اور وہ بُری جگہ ہے.تفسیر.اس آیت میں منافقوں سے جہاد کا حکم ہوا ہے.جس سے ظاہر ہے کہ منافق ظاہر ہو چکے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم تھے.اگر ظاہر نہ ہوتے تو ان کے ساتھ جہاد کیونکر ہو سکتا تھا.اگر شیعوں کے کہنے کے مطابق عمر منافق تھا.تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لازم تھا بلکہ ان پر فرض تھا کہ اس آیت کے ماتحت ان کے ساتھ جہاد کرتے.مگر انہوں نے نہیں کیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۸) ا - ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ كَانَتَا تَحْتَ عَبدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ اللَّهِ خِلِينَ - ترجمہ.اللہ نے مثال بیان فرمائی کافروں کے لئے نوح کی جورو اور لوط کی جورو کی جو ہمارے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں پھر ان عورتوں نے خیانت کی تو وہ دونوں اللہ کے مقابلہ میں ان کے

Page 393

حقائق الفرقان ۳۸۳ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ کچھ کام نہ آئے اور حکم دے دیا کہ تم دونوں چلی جاؤ جہنم میں جہنم میں جانے والوں کے ساتھ.تفسیر.امر انا لوچ.حضرت نوح کی بیوی کا نام علمہ تھا.اس آیت میں اللہ تعالی نے کافروں کی مثال دو عورتوں کے ساتھ بیان کی ہے.جیسے کہ حضرت نوح اور حضرت لوط کی بیویاں تھیں کہ وہ ایک خدا کے رسول کی بیویاں تھیں مگر چونکہ وہ ایمان نہ لائیں.اس واسطے ظاہری تعلق اور رشتہ کسی کام نہ آیا بلکہ ان کی بدگوئی اور مخالفت کی وجہ سے عذاب الہی میں گرفتار ہو کر ہلاک ہوگئیں.فَخَانَتهُمَا.یہاں خیانت سے مراد انبیاء کی بد گوئی اور عداوت ہے.خیانت سے مراد فسق و فجور نہیں ہے.فسق و فجور کے واسطے جو لفظ آتا ہے وہ خبث ہے.یہ خبیثہ نہ تھیں بلکہ کافر تھیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۸) ۱۲ ۱۳ - وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِى مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَ نَجِنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ - وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِى اَحْصَنَتُ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيهِ مِنْ رُوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ - ترجمہ.اور اللہ نے مثال بیان فرمائی ایمانداروں کے لئے شیطان فرعون کی جورو کی.جب اُس عورت نے کہا اے میرے رب ! بنا میرے لئے اپنے پاس جنت میں ایک گھر اور مجھ کو نجات دے شیطان فرعون اور اُس کے کرتوت سے اور بے جا کام کرنے والوں سے مجھے بچالے.اور مثال دی عمران کی بیٹی مریم کی جنہوں نے ان سے حفاظت کی اپنی شرم گاہ کی پھر ہم نے ڈال دیا اپنی طرف سے روح ( یعنی مسیح) اور تصدیق کرتی رہی اپنے رب کی پیشگوئیوں کی اور اس کی کتابوں کی اور وہ فرمانبرداروں میں سے تھی.تفسیر.مومن دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک امرأة فرعون کی مانند اپنے جذبات نفس میں مقید ہیں.اس حالت سے نکلنے کے واسطے کوشش کرتے رہتے ہیں.دوسرے مریم بنت عمران کی طرح ہیں جو اپنے نفس کو پاک کئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ کی رُوحِ صدق ان میں پھونکی جاتی ہے اور وہ مسیحی نفس

Page 394

حقائق الفرقان بن جاتے ہیں.//// ۳۸۴ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۳٬۲ مورخه ۹ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۸) وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمان.اسی امت میں ابن مریم پیدا ہونے کی بشارت حضرت مسیح موعود نے اپنے آپ کو مریم بھی فرمایا.مطلب یہ کہ گنا ہوں سے پاک ہوں.مِنَ الْقَنِتِينَ.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۵) اس کی تفسیر میں ایک مفصل بیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب کشتی نوح میں لکھا ہے جس کو ہم درج ذیل کرتے ہیں.خداوند تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں آیت اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں بشارت دی کہ اس امت کے بعض افرادا نبیاء گزشتہ کی نعمت بھی پائیں گے نہ یہ کہ نرے یہودی ہی بنیں یا عیسائی بنیں اور ان قوموں کی بدی تو لے لیں مگر نیکی نہ لے سکیں.اسی کی طرف سورۃ تحریم میں بھی اشارہ کیا ہے کہ بعض افراد امت کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ مریم صدیقہ سے مشابہت رکھیں گے جس نے پارسائی اختیار کی.تب اس کے رحم میں عیسی کی روح پھونکی گئی.اور عیسی اس سے پیدا ہوا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اس امت میں ایک شخص ہوگا کہ پہلے مریم کا مرتبہ اس کو ملے گا پھر اس میں عیسی کی روح پھونکی جاوے گی.تب مریم میں سے عیسی نکل آئے گا.یعنی وہ مریمی صفات سے عیسوی صفات کی طرف منتقل ہو جائے گا.گویا مریم ہونے کی صفت نے عیسی ہونے کا بچہ دیا اور اس طرح پر وہ ابنِ مریم کہلائے گا.جیسا کہ براہینِ احمدیہ میں اول میرا نام مریم رکھا گیا.اور اسی کی طرف اشارہ ہے الہام صفحہ ۲۴۱ میں اور وہ یہ ہے کہ آٹی لكِ هذ ا یعنی اے مریم تو نے یہ نعمت کہاں سے پائی اور اسی کی طرف اشارہ ہے صفحہ ۲۶۶ میں یعنی اس الہام میں کہ هُرِ إِلَيْكَ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ یعنی اے مریم کھجور کے تنا کو ہلا.اور پھر اس کے بعد صفحہ ۴۹۶ براہین احمدیہ میں یہ الہام ہے.يَا مَرْيَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ نَفَخْتُ فِيْكَ مِن لَّدُنِي رُوحَ الصِّدْقِ یعنی اے مریم تو مع اپنے دوستوں کے بہشت میں داخل ہو.میں نے تجھ میں اپنے پاس سے صدق کی رُوح پھونک دی.خدا نے اس آیت میں میرا نام روح الصدق رکھا.یہ اس آیت کے مقابل پر ہے کہ نَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُوحِنَا پس اس جگہ گویا

Page 395

حقائق الفرقان ۳۸۵ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ استعارہ کے رنگ میں مریم کے پیٹ میں عیسی کی رُوح جا پڑی جس کا نام روح الصدق ہے پھر سب کے آخر میں صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں وہ عیسی جو مریم کے پیٹ میں تھا.اس کے پیدا ہونے کے بارہ میں یہ الہام ہوا.يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَى وَ جَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ اس جگہ میرا نام عیسی رکھا گیا.اور اس الہام نے ظاہر کیا کہ وہ عیسی پیدا ہو گیا جس کی رُوح کا نفخ صفحہ ۴۹۶ میں ظاہر کیا گیا تھا.پس اس لحاظ سے میں عیسی بن مریم کہلایا.کیونکہ میری عیسوی حیثیت مریمی حیثیت سے خدا کے نفخ سے پیدا ہوئی.دیکھو صفحہ ۴۹۶ اور صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ اور اسی واقعہ کو سورۃ تحریم میں بطور پیشگوئی کمال تصریح سے بیان کیا گیا ہے کہ عیسی ابن مریم اس امت میں اس طرح پیدا ہو گا کہ پہلے کوئی فرد اس امت کا مریم بنایا جائے گا اور پھر بعد اس کے اس مریم میں عیسی کی روح پھونک دی جائے گی.پس وہ مریمیت کے رحم میں ایک مدت تک پرورش پاکر عیسی کی روحانیت میں تولد پائے گا.اور اس طرح پر وہ عیسی بن مریم کہلائے گا.یہ وہ خبر محمدی ابنِ مریم کے بارہ میں ہے جو قرآن شریف یعنی سورہ تحریم میں اس زمانہ سے تیرہ سو برس پہلے بیان کی گئی ہے.اور پھر براہین احمدیہ میں سورۃ تحریم کی ان آیات کی خدا نے خود تفسیر فرما دی ہے.قرآن شریف موجود ہے.ایک طرف قرآن شریف کو رکھو اور ایک طرف براہین احمدیہ کو اور پھر انصاف اور عقل اور تقوی سے سوچو کہ وہ پیشگوئی جو سورۃ تحریم میں تھی یعنی یہ کہ اس امت میں بھی کوئی فرد مریم کہلائے گا اور پھر مریم سے عیسی بنایا جائے گا.گویا اس میں سے پیدا ہو گا.وہ کس رنگ میں براہین احمدیہ کے الہامات سے پوری ہوئی.کیا یہ انسان کی قدرت ہے.کیا یہ میرے اختیار میں تھا اور کیا میں اس وقت موجود تھا جبکہ قرآن شریف نازل ہو رہا تھا.میں عرض کرتا کہ مجھے ابن مریم بنانے کے لئے کوئی آیت اتاری جاوے اور اس اعتراض سے مجھے سبکدوش کیا جائے کہ تمہیں کیوں ابن مریم کہا جائے.اور کیا آج سے ہیں بائیس برس پہلے بلکہ اس سے بھی زیادہ میری طرف سے یہ منصوبہ ہوسکتا تھا کہ میں اپنی طرف سے الہام تراش کر اول اپنا نام مریم رکھتا اور پھر آگے چل کر افتراء کے طور پر یہ الہام بنا تا کہ پہلے

Page 396

حقائق الفرقان ۳۸۶ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ زمانہ کی مریم کی طرح مجھ میں بھی عیسی کی روح پھونکی گئی.اور پھر آخر کار صفحہ ۵۵۶ براہین احمدیہ میں یہ لکھ دیتا کہ اب میں مریم میں سے عیسی بن گیا.اے عزیز و ! غور کرو اور خدا سے ڈرو.ہرگز یہ انسان کا فعل نہیں.یہ باریک اور دقیق حکمتیں انسان کے فہم اور قیاس سے بالا تر ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱ نمبر ۳۰۲ مورخه ۹ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۸) اگر براہین احمدیہ کی تالیف کے وقت جس پر ایک زمانہ گزر گیا ہے.مجھے اس منصو بہ کا خیال ہوتا تو میں اسی براہین احمدیہ میں یہ کیوں لکھتا کہ عیسی ابن مریم آسمان سے دوبارہ آئے گا.سوچونکہ خدا جانتا تھا کہ اس نکتہ پر علم ہونے سے یہ دلیل ضعیف ہو جائے گی.اس لئے گواس نے براہین احمدیہ کے تیسرے حصہ میں میرا نام مریم رکھا.پھر جیسا کہ براہینِ احمدیہ سے ظاہر ہے دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی اور پردہ میں نشو نما پا تارہا.پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو جیسا کہ براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۴۹۶ میں درج ہے.مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ میں نفخ کی گئی اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا.اور آخر کئی مہینہ کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم صفحہ ۵۵۶ میں درج ہے.مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا.پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا اور خدا نے براہین احمدیہ کے وقت میں اس سر مخفی کی مجھے خبر نہ دی.حالانکہ وہ سب خدا کی وحی جو اس راز پر مشتمل تھی.میرے پر نازل ہوئی اور براہین احمدیہ میں درج ہوئی.مگر مجھے اس کے معنوں اور اس ترتیب پر اطلاع نہ دی گئی.اسی واسطے میں نے مسلمانوں کا رسمی عقیدہ براہین میں لکھ دیا تا میری سادگی اور عدم بناوٹ پر وہ گواہ ہو.وہ.....لکھنا جو الہامی نہ تھا.محض رسمی تھا.مخالفوں کے لئے قابل استناد نہیں کیونکہ مجھے خود بخو دغیب کا دعوئی نہیں.جب تک کہ خود خدا تعالیٰ مجھے نہ سمجھا دے.سواس وقت تک حکمت الہی کا یہی تقاضا تھا کہ براہین احمدیہ کے بعض الہامی اسرار میری سمجھ میں نہ آتے.مگر جب وقت آ گیا.تو وہ اسرار مجھے سمجھائے گئے.تب میں نے معلوم کیا کہ میرے اس دعولی مسیح موعود ہونے میں کوئی نئی بات نہیں یہ وہی دعولی ہے جو براہین احمدیہ میں بار بار بتصریح لکھا گیا ہے.اس جگہ ایک اور

Page 397

حقائق الفرقان ۳۸۷ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ الہام کا بھی ذکر کرتا ہوں اور مجھے یاد نہیں کہ میں نے وہ الہام اپنے کسی رسالہ یا اشتہار میں شائع کیا ہے یا نہیں.لیکن یہ یادر ہے کہ صد با لوگوں کو میں نے سنایا تھا.اور میری یادداشت کے الہامات میں موجود ہے.اور وہ اس زمانہ کا ہے.جب کہ خدا نے مجھے پہلے مریم کا خطاب دیا اور پھر نفخ روح کا الہام کیا.پھر بعد اس کے یہ الہام ہوا تھا فَا جَاءَ هَا الْمَخَاضُ إِلى جِذْعِ النَّخْلَةِ قَالَتْ يَا لَيْتَنِي مِثْ قَبْلَ هَذَا وَ كُنتُ نَسيا منسيا.یعنی پھر مریم کو جو مراد اس عاجز سے ہے.دردزہ کھجور کی طرف لے آئی ہے.یعنی عوام الناس اور جاہلوں اور بے سمجھ علماء سے واسطہ پڑا جن کے پاس ایمان کا پھل نہ تھا.جنہوں نے تکفیر و توہین کی اور گالیاں دیں اور ایک طوفان برپا کیا.تب مریم نے کہا کہ کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور میرا نام و نشان باقی نہ رہتا.یہ اس شور کی طرف اشارہ ہے جو ابتدا میں مولویوں کی طرف سے بہ ہیئت مجموعی پڑا اور وہ اس دعوای کی برداشت نہ کر سکے.اور مجھے ہر ایک حیلہ سے انہوں نے فنا کرنا چاہا.تب اس وقت جو کرب اور قلق نا سمجھوں کا شور وغوغا دیکھ کر میرے دل پر گزرا.اس کا اس جگہ خدا تعالیٰ نے نقشہ کھینچ دیا ہے.اور اس کے متعلق اور بھی الہام تھے جیسا لقد جِئتِ شَيْئًا فَرِيَّا مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَ سَوْءٍ وَ مَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا اور پھر اس کے ساتھ کا الہام براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۲۱ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے آلیس اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَ لِنَجْعَلَهُ ايَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةً مِّنَا كَانَ أَمْرً ا مَقْضِيًّا.قَوْلَ الْحَقِ الَّذِي فِيهِ تَمْتَرُونَ.دیکھو براہین احمدیہ صفحہ ۵۱۶ سطر ۱۲، ۱۳ ( ترجمہ ) اور لوگوں نے کہا کہ اے مریم تو نے یہ کیا مکر وہ اور قابل نفرین کام دکھلایا جو راستی سے دور ہے.تیرا باپ اور تیری ماں تو ایسے نہ تھے مگر خدا ان تہمتوں سے اپنے بندہ کو بری کرے گا.اور ہم اس کو لوگوں کے لئے ایک نشان بنادیں گے اور یہ بات ابتداء سے مقدر تھی اور ایسا ہی ہونا تھا.یہ عیسی بن مریم ہے جس میں لوگ شک کر رہے ہیں.یہی قول ہے.یہ سب براہین احمدیہ کی عبارت ہے اور یہ الہام اصل میں آیات قرآنی ہیں جو حضرت عیسی اور ان کی ماں کے متعلق ہیں.ان آیتوں میں جس عیسی کو لوگوں نے ناجائز پیدائش کا انسان قرار دیا ہے.اسی کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس کو اپنا نشان بنائیں گے اور یہی عیسی ہے جس کی انتظار تھی اور الہامی عبارتوں میں

Page 398

حقائق الفرقان ۳۸۸ سُوْرَةُ التَّحْرِيمِ مریم اور عینی سے میں ہی مراد ہوں.میری نسبت ہی کہا گیا ہے کہ ہم اس کو نشان بنادیں گے اور نیز کہا گیا کہ یہ وہی عیسی بن مریم ہے جو آنیوالا تھا.جس میں لوگ شک کرتے ہیں.یہی حق ہے اور آنے والا یہی ہے.اور شک محض نافہمی سے ہے جو خدا کے اسرار کو نہیں سمجھتے اور صورت پرست ہیں حقیقت پر ان کی نظر نہیں.( منقول از ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۵٬۴ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۶۹)

Page 399

حقائق الفرقان ۳۸۹ سُوْرَةُ الْمُلْكِ سُوْرَةُ الْمُلْكِ مَدَنِيَّةٌ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ ملک کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن ورحیم ہے.٢ - تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - ترجمہ.بڑا بابرکت ہے وہ اللہ جس کے ہاتھ میں ملک ہے اور وہ ہر ایک چیز کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.تفسیر.تبرك - بہت برکت والا.دائمی خیر والا.پاک ذات ہے.بابرکت والا ہے.ملکہ ملک و دولت کا مالک ہے.سب چیزوں پر قادر ہے.کسی پارلیمنٹ کے ماتحت نہیں.کسی مجلس شورای کے قوانین مانے پر مجبور نہیں.ایسے مالک کی حکومت کا ماننا ہمارے واسطے ضروری ہے اور مفید ہے.انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ طاقتور اور بڑے کی بات کو مان لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے قدرت کو اپنے ہاتھ میں رکھا ہے بڑے بڑے فلاسفر ایک ایک ذرے کی تحقیقات میں بھی حیران رہ جاتے ہیں.اس سورہ شریف کو نہایت پر شوکت الفاظ سے شروع کیا گیا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی طاقت سلطنت عزت و عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا ہے.اس کے قبضہ قدرت میں سب حکومتیں ہیں.یہ سورۃ مکی ہے.ایسے وقت میں نازل ہوئی.جب مسلمان تھوڑے اور کمزور تھے اور مشرکین کا زور تھا اس میں ایک پیشگوئی ہے.کہ سلطنت اصل میں خدا کے ہاتھ میں ہے.اور وہ اب کفار سے لے کر محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلطنت کا مالک بنائے گا.دنیا داروں کی نگاہ میں یہ بات دُور از قیاس ہے.مگر خدا تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۴ ۵ مورخه ۱۶ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۰٬۲۶۹) بِيَدِهِ الْمُلْكُ.انسان کی فطرت میں ہے کہ جو بڑا ہو قدرت والا ہو اس کی عزت کرتا ہے.اللہ فرماتا ہے.میں تمہارا مالک پھر عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر ہوں.میری فرمانبرداری کرو.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۵)

Page 400

حقائق الفرقان ۳۹۰ سُوْرَةُ الْمُلْكِ - الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ - ترجمہ.جس نے موت و زندگی اس لئے پیدا کی کہ ہم میں جو اچھے عمل کرے اسے انعام دے.وہ عزیز ایا ایسا جو قصوروں کا بڑاڈھانپنے والا ہے.خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة - خدا تعالیٰ نے موت اور زندگی بنائی.اس دنیا کو چھوڑنا اور پھر ہمیشہ زندہ رہنا.جس چیز کا تقاضا اور خواہش انسان میں ہے.اس کا سامان بھی ضرور موجود ہو جاتا ہے.انسان کی یہ فطری خواہشات سے ہے کہ وہ فنا نہ ہو.تو اس کا سامان بھی اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ہے.مرنے کے بعد روح قائم رہتی ہے.اللہ تعالیٰ نے موت بھی بنائی ہے.یہ بھی اس کی بڑی غریب نوازی ہے.موت کے ساتھ دنیا کی سب تکالیف کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور موت کے بعد پھر ترقیات کا زمانہ شروع ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الرحمتہ فرمایا کرتے تھے کہ موت انسان کے واسطے اس طرح ضروری ہے جس طرح ہر اُس لڑکی کے واسطے جو کسی کے گھر میں پیدا ہو.یہ ضروری ہے کہ اس کے ماں باپ بصد محبت اُسے پال پوس کر اور ہر طرح سے اس کی تعلیم و تربیت کر کے بالآخر ایک دن اسے اپنے گھر سے رخصت کر کے دوسرے گھر میں پہنچا آویں.کیونکہ اس میں ایک جو ہر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.جس کی شگفتگی سوائے اس کے نہیں ہو سکتی کہ وہ اس گھر کو چھوڑ کر اُس گھر میں چلی جاوے.خواہ اس کے ماں باپ اور خویش و اقرباء اس کی جدائی کے صدمہ سے روئیں اور غم کھا ئیں اور آنسو بہائیں.پرضرور ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے اُسے رخصت کریں.جس طرح وہ جدائی کی گھڑی سخت ہے اسی طرح موت کی ساعت بھی سخت ہے.مگر اس کے بعد آرام و راحت کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے.اس موت وحیات کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں قوموں کی روحانی موت اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طفیل دوبارہ زندگی کی طرف بھی اشارہ ہے.

Page 401

حقائق الفرقان ۳۹۱ سُوْرَةُ الْمُلْكِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل دنیا کی تمام قوموں پر روحانی مردگی وارد ہو چکی تھی.اور بر و بحر ہلاک ہو چکے تھے.اسی کی طرف قرآن مجید میں دوسری جگہ اشارہ فرمایا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُم (الانفال:۲۵) اے مومنو! اللہ اور رسول کی بات مانو.جبکہ وہ تمہیں بلاوے تا کہ تمہیں زندگی عطا کرے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۵۰۴ مورخه ۱۶/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۰) ليبلوكم.تاکہ تمہیں انعام دے.انعام امتحان کے بعد ہوتا ہے.امتحان کے معنے ہیں.محنت میں ڈالنا.جس کسی کو ایک محنت اور بلا میں اور مشقت میں ڈالا جاتا ہے.اور وہ اس سے کامیاب نکلتا ہے تب وہ انعام پاتا ہے.تا کہ دیکھنے والے دیکھیں کہ محنت کا نتیجہ کیا ہے.اور وفاداری کا پھل کس طرح ملتا ہے.اسی طرح دوسروں کو نیکی کی تحریک ہوتی ہے.بعض نادانوں نے اس لفظ پر اعتراض کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش کیوں کرتا ہے.کیا وہ اپنے علم غیب سے نہیں جانتا کہ انسان کس حالت میں ہے.قرآن شریف میں تو آزمائش کا لفظ ہی نہیں آیا وہاں تو بلا کا لفظ ہے.جس کے معنے انعام کے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ہماری یہ حالتیں موت اور زندگی کی اس واسطے بنائی ہیں کہ ہمیں انعام عطا کرے.لیکن خدا تعالیٰ کے افعال کو قانونِ قدرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہر ایک شئے پر ایک محنت کرنی پڑتی ہے اور یہی امتحان ہے.دانہ زمین میں چھوڑ ا جاتا ہے.خس و خاشاک میں ملا دیا جاتا ہے.پھر پانی سے اُسے اس مٹی میں تر کیا جاتا ہے.تب وہ پھٹتا ہے اور اس میں سے نرم پیتیاں نکلتی ہیں.جو ہوا، آندھی، دھوپ کی شدت اور قسما قسم کے حالات سے گزر کر آخر پھلتا ہے.یہی امتحان ہے.محنت کے بعد پھل ملتا ہے.آریاؤں نے بھی جنم لینے کا مسئلہ ایجاد کیا ہے.اور انجیل میں بھی لکھا ہے کہ ٹھوکروں کا آنا ضروری ہے.امتحان کے معنے ہیں.کسی سے محنت لینا اور اس پر مزدوری دینا.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أُولبِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَى لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمُ (الحجرات: ۴) اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقوی کے لئے ایک امتحان میں ڈالا.جس سے وہ کامیاب ہوئے

Page 402

حقائق الفرقان ۳۹۲ سُوْرَةُ الْمُلْكِ اور مغفرت اور اجر عظیم انہوں نے حاصل کیا.عزیز - پیاری باتوں کو پیار کرنے والا.غالب.بڑی عزت والا ہے.اور بندوں سے غلطیاں ہوئی ہوں تو وہ استغفار کریں.وہ معاف کرنے والا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۵۰۴ مورخه ۱۶/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۰) الَّذِى خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِن فُطُورٍ - ترجمہ.جس نے تہ بہ تہ یا چوڑے چوڑے سات آسمان بنائے.اے دیکھنے والے! بھلا تجھ کو بے محنت دینے والے اللہ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں کچھ کسر دکھائی دیتی ہے (ایک بار نہ دیکھے تو) دوبارہ دیکھ لے کیا تجھے کوئی کوتا ہی دکھائی دیتی ہے؟.فسیر.سَبْعَ سَبُوت.سات آسمان چھوٹے بڑے سیاروں اور ستاروں کے آسمان پرسات طبقات ہیں..طباقا.کے دو معنے ہیں ۱.بہت چوڑے چوڑے ۲.ایک دوسرے کے اوپر یا ایک دوسرے کے بعد.آسمان کے ذکر میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ انسانی زندگی کے لوازمات کی بہت سی اشیاء آسمان سے وابستہ ہیں.آسمان سے پانی آتا ہے.تو کھیتی بنتی ہے.اور سورج کی دھوپ سے وہ پکتی ہے آسمان سے بارش نہ ہو.تو کنویں اور دریا بھیخشک ہو جانے لگتے ہیں.جب ظاہری ضروریات کے واسطے انسان آسمان کا محتاج ہے تو روحانی فیوض کے واسطے تم کیوں آسمانی وحی والہام کی قدر نہیں کرتے.خَلْقِ الرَّحْمنِ.رحمانی تقاضا سے جو اشیاء مفت میں مل گئی ہیں.ان کی شکر گزاری کرو.ان میں کوئی فرق نہیں.سورج برابر روشنی دیئے جاتا ہے.پھر ضرورت نبوت میں کیوں فرق کے قائل بنتے ہو.تفوت.اضطراب کو بھی کہتے ہیں اور اختلاف کو بھی کہتے ہیں.اضطراب یہ ہے کہ کوئی چیز کہیں کی کہیں ڈال دی جائے.ایسا نہیں ہے.اور نہ ایسا اختلاف اور گڑ بڑ ہے کہ مثلاً آگ کی خاصیت پانی

Page 403

حقائق الفرقان ۳۹۳ سُوْرَةُ الْمُلْكِ میں جا پڑے اور پانی کی خاصیت آگ میں جا پڑے.تفاوت نقصان کے معنوں میں بھی آتا ہے.اللہ تعالیٰ کی حق و حکمت میں کوئی نقصان نہیں ہوتا.انسان کی تحقیقات میں نقصان ہو.ورنہ خدا کے کاموں میں کوئی نقص نہیں.فُطُورٍ - ق - فَارْجِعِ الْبَصَرَ.بار بار چیزوں کو دیکھو.تحقیقات کرو.نقص نہ پاؤ گے.پھر.پھر غور کرو.تمہاری آنکھیں دیکھتے دیکھتے تھک جائیں گی.مگر کوئی بھی نقص نہ ملے گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۵۰۴ مورخه ۱۶/ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۰) تو رحمان کی پیدائش میں کوئی تفاوت نہ دیکھے گا.تو اپنی آنکھ کو پھیرا تو کیا تجھے کوئی نقص نظر آتا ہے.تَفَاوُت ( بخاری ) ہر شے میں نسبت ایک قانون پر ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۷۹) تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۵) وَ لَقَدْ زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَ جَعَلْنَهَا رُجُومًا لِلشَّيطِينِ وَ اعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ - ترجمہ.اور ہم نے سامنے والے آسمان کو سجا رکھا ہے چراغوں سے تاروں کے اور اُس کو شیطانوں کے واسطے نشانہ غیب کا ٹھہرادیا ہے اور تیار کر رکھا ہے ہم نے ان کے لئے دہکتی ہوئی آگ کا عذاب.تفسیر - سماء الدُّنْيَا - والا آسمان.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس ورلے آسمان کو عجیب در عجیب چراغوں سے روشن کیا ہے اور ان میں ایسے بھی ستارے ہیں جو شریروں کو دور کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے حضور سے جب احکام صادر ہوتے ہیں.تو بڑے فرشتے چھوٹے فرشتوں کو پہنچاتے ہیں.اسی طرح رفتہ رفتہ وہ بات وہاں تک پہنچتی ہے جہاں بادلوں کا طبقہ ہے اور وہاں تک شیطانوں کا دخل ہے.کیونکہ ارواح خبیثہ کے بھی مدارج ہوتے ہیں.بعض وہاں تک پہنچتے ہیں جہاں بادلوں کا آسمان ہے.شيطين - منجمین اور کا ہن بھی انہیں میں سے ہیں جو کہ رجما بالغیب کرتے ہیں.آئندہ کی باتیں بیان کرتے ہیں اور ستاروں کو دیکھ کر تکہ بازیاں کرتے ہیں.یہ ستارے ان کے واسطے تکہ بازی کا ایک ذریعہ بن گئے ہیں.جوتشی اور ر مال لوگ ایسا کرتے ہیں.

Page 404

حقائق الفرقان ۳۹۴ سُوْرَةُ الْمُلْكِ رُجُومًا لِلشَّيطين مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ چند ایسے صاف اور بدیہی امور کو بیان کر دوں.جن کے ملحوظ رکھنے سے آیات نمبر ۲ اور نمبر ۳ کے فہم میں بہت سہولت ہو.کیونکہ اس سوال پر آجکل بہت زور دیا جاتا ہے اور عام کالجوں کے لڑکے اور وہاں سے نکل کر بڑے عہدوں پر ممتاز اور ان کے ہم صحبت ایسی باتوں پر بہت تمسخر کرتے ہیں.پس چندا مور بدیہی کا بیان کرناضروری معلوم ہوا.اول: مناظر قدرت کو دیکھنے والے مختلف الاستعداد لوگ ہوا کرتے ہیں.مثلاً دوسرے کی آنکھوں کو ایک بچہ بھی دیکھتا ہے جو مصنوعی اور اصلی آنکھ میں تمیز نہیں کر سکتا.پھر ایک عظمند بھی دیکھتا ہے.گو وہ اصلی اور مصنوعی میں فرق کر لیتا ہے.مگر آنکھ کے امراض سے واقف نہیں ہوسکتا.اور نہ اس کی خوبیوں اور نقصانوں سے آگاہ ہوتا ہے.پھر شاعر دیکھتا ہے جو اس کے حسن و فتح پر سینکڑوں شعر لکھ مارتا ہے.پھر طبیب ڈاکٹر دیکھتا ہے.جو اس کی بناوٹ اور امراض پر صدہا ورق لکھ دیتا ہے.پھر موجدین دیکھتے ہیں.جیسے فوٹو گرافی کے موجد نے دیکھا اور دیکھ کر فوٹوگرافی جیسی مفید ایجادیں کیں.پھر اس کے اور بھائی دیکھتے ہیں جنہوں نے عجیب در عجیب ٹیلی سکوپ وغیرہ ایجاد کئے.پھر ان سے بالا تر صوفی دیکھتا ہے.اور اس سے بھی اوپر انبیاء ورسل دیکھتے ہیں.اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر اللہ کریم دیکھتا ہے.غرض اسی طرح پر ہزاروں ہزار نظارہ ہائے قدرت ہیں اور ان کے دیکھنے والے الگ الگ نتیجے نکالتے ہیں.اب ہم شہاب ثاقبوں کے متعلق لکھتے ہیں.شہاب وہ چیزیں ہیں جنہیں انگریزی میں میٹر بلے کہتے ہیں یہ تو بچہ ، عامی ، شاعر ، حکیم سب یکساں دیکھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ یہ شہب گاہ گاہ نظر آتے ہیں.اس سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا.اب یہ بات کہ کیوں کر گرتے ہیں.اس پر خدا داد عقل والے بھی غور کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ بھی جانتا ہے کہ کیوں گرتے ہیں اور نیز یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہے.اس کا کوئی کام لغو اور بے حکمت نہیں ہوتا.اس لئے ہم میٹر ز کے متعلق عامیوں کے بے فائدہ نظارہ کو چھوڑ کر پہلے حکماء کا نظارہ بیان کرتے ہیں.METEORS

Page 405

۳۹۵ سُوْرَةُ الْمُلْكِ حقائق الفرقان وہ لکھتے ہیں کہ مٹیئر ز آسمان میں سے کرہ ہوائی میں داخل ہو کر روشن ہو جاتے ہیں.ایسے ہر روز ۲۰ ملین ہوا میں داخل ہوتے ہیں.یہ چھوٹے اور عام اور روزانہ ہیں.رات کے پچھلے حصہ میں پہلے کی نسبت تین گنے زیادہ ہوتے ہیں.مٹیئر ز کی فوج دورے کے ساتھ آتی ہے.یہ دورہ صدی ل میں تین بار ہوتا ہے.عموما نومبر کے مہینہ میں اور بڑے بڑے دورے مفصلہ ذیل ہیں.۲۸۶ هجری و ۵۹۹ هجری ) مئی ۱۰ و ۱۰۲ عیسوی و ۹۳۱ء و ماء و الماء و ۱۹ / جنوری ۱۱۳۵ ء ۱۲۰۲۰ ۶ و ۱۳۶۶ ء و ۱۰ / مارچ ۱۵۲۱ء میں حیرت بخش رمی ہوئی) ۱۵۳۳ ء و ١٢٠٢ ١٩٨٠ ء ٧٩٩٠ء و ۱۸۳۲ء و ۱۸۶۶ء و ٨٧٢اء بعض مٹیئر ز سورج کے گرد شکل کانک سکشن ( انقطاع خرطومی ) میں دورہ کرتے ہیں.مٹیئر ز کامٹ کے گرد بہت ہوتے ہیں.اور وہیں سے آتے ہیں.جن دنوں کا مٹ نمودار ہوتا ہے ان دنوں میں یہ بھی کثرت سے گرتے ہیں.خود کامٹ بھی ایک می ٹی ارز ہے.کیمیکل ( کیمیاوی) امتحان سے معلوم ہوا ہے کہ مفصلہ ذیل اشیاء می ٹی ارز میں پائے جاتے ہیں اور کوئی چیز نہیں پائی جاتی.لوہا.ایکومینیئم میگنیشیم.پوٹاشیم سلیکون.سوڈیم.آکسیجن کیلشیم.نکل.آرسینک.کو بالٹ.فاسفورس.کرومیم.نائیٹروجن میگینسی.سلفر کلورائن.کاربن میٹینیم.ہائیڈ روجن.ٹین.تانیا.تمام مقامات جن میں میٹر ز جمع کئے گئے ہیں.یورپ میں وی آنا، پیرس، لندن ، برلن اور امریکہ میں نیو ہیون، ایمبرسٹ ، لوئنزول.یہ پتھر عموماً بڑے نہیں ہوتے.عجائب خانوں میں ایک سو پونڈ سے زیادہ وزن کے پتھر کم ہی پائے جاتے ہیں.ایسی بارش ان پتھروں کی شاز و نادر ہی ہوئی ہوگی.جس میں کل پتھروں کا وزن ہزار پونڈ تک پہنچا ہو.مقام پلٹسک کے نوسو پچاس سالم پتھر پیرس کے عجائب خانہ میں موجود ہیں.جن میں سے ہر ایک کا اوسط وزن ۶۷ گرام ہے یعنی کم ۲ اونس سے ل METEORS comet ✓

Page 406

حقائق الفرقان ۳۹۶ سُوْرَةُ الْمُلْكِ بھی کم ہے.سٹاک ہولم کے عجائب خانہ میں ایک پتھر کا وزن ایک گرین سے بھی کم ہے.مقام ایمٹ کی بارش میں ایک پتھر قریباً ۵۰۰ پونڈ کا گرا تھا.میٹی ارک آیرن.اس قسم کا ایک ٹکڑا ۱۶۳۵ پونڈ وزنی بیل کالج میوزیم میں موجود ہے.قریباً اتنے ہی حجم کا ایک ٹکڑا پیرس کے میوزیم میں ہے.اس سے کسی قدر چھوٹا ٹکڑا شہر واشنگٹن کے نیشنل میوزیم میں ہے.اور ان سے ایک بہت بڑا ٹکڑا برٹش میوزیم میں ہے.دوسرا امر یہ ہے کہ ہم اس مذہب کی تحقیق بیان کرتے ہیں جس کو پال نے مذہب اسلام سے اوپر یقین کیا ہے اور بتایا ہے کہ اسلام سے وہ مذہب اچھا ہے.اس کی آخری تحقیقات کی کتاب مکاشفات کے باب ۱۲ میں ہے.ایک بڑا سرخ اثر دیا جس کے سات سر اور دس سینگ اور اس کے سروں پر سات تاج تھے.ظاہر ہوا اور اس کی ڈم نے آسمان کے تہائی ستارے کھینچے اور انہیں زمین پر ڈالا.اور اسی باب میں ہے.پھر آسمان پر لڑائی ہوئی.میکائیل اور اس کے فرشتے اثر د ہے سے لڑے اور اثر دہا اور اس کے فرشتے لڑے.پھر متی ۲۴ باب ۲۹ آیت.ستارے گریں گئے.اور بروج کے متعلق مسیحی کتابوں میں ہے.دیکھو ایوب ۳۸ باب ۳۲ آیت."کیا تجھ میں قدرت ہے کہ منطق البروج ایک ایک اس کے موسم پر پیش کرئے“ اور شہابوں کے بارے ان میں لکھا ہے.دیکھو ایوب ۳۸ باب ۳۶ آیت میں ہے یا کس نے شہابوں کو فہمید عطا کی اس سے اتنا پتہ لگتا ہے کہ شہابوں کو بھی فہمید ہے.پر آگے بیان نہیں کیا کہ کیا فہمید ہے اور اس فہمید سے کیا کام لیتے ہیں.اور زبور ۱۰۴ میں ہے وہ اپنے فرشتوں کو روحیں بناتا ہے اور اپنے خدمت گزاروں کو آگ کا شعلہ“ اب تک ہم نے یہ باتیں بیان کی ہیں کہ میٹی ارز الکا پات.شہاب ثاقب اور شعلہ ہائے نار آسمان سے گرتے نظر آتے ہیں اور کتب یہود اور مسیحیوں نے بھی نہیں بتایا کہ کیوں گرتے ہیں.اور یہ بات ظاہر ہے کہ یہ فعل الہی ہے.اس لئے لغو بھی نہیں بلکہ ضرور ہے کہ عادت اللہ کے موافق اس

Page 407

حقائق الفرقان میں بڑی حکمتیں ہوں.۳۹۷ سُوْرَةُ الْمُلْكِ اب تیسرا امر جو اس مضمون میں مجھے بیان کرنا ہے.یہ ہے کہ الہامی مذاہب قائل ہیں کہ دیوتا.ملک اور فرشتے موجود ہیں اور ان کا ماننا ضروری ہے کیونکہ الہی کلام میں ان کا ذکر ہے.اور شیاطین اور جن بھی ہوتے ہیں اور ان کی مخالفت کرنا ضروری ہے.میں بھی الہامی مذہب اسلام کا معتقد ہوں اور اس کی کتاب میں پاتا ہوں.امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَيكَتِهِ (البقرة : ۲۸۲) ترجمہ: رسول ایمان لایا اس پر جو اتارا گیا اس کی طرف اس کے رب سے اور مومن بھی سب کے سب ایمان لائے اللہ اور اس کے فرشتوں پر.اس لئے میں فلاسفروں ، سائنس دانوں ، برہموؤں اور آریہ سماجیوں کے لئے ایک دلیل وجود ملائکہ پر اور ان پر ایمان لانے کی ضرورت کی وجہ بیان کرتا ہوں.شاید کوئی رشید سعادتمند اس پر توجہ کرے.سب سے پہلے میرے نزدیک ہزاروں ہزار انبیاء ورسول جور است بازی میں ضرب المثل تھے اور ان کے مخلص اتباع کا اعتقاد اس بارے میں کہ ملائکہ اور شیاطین ہیں بہت بڑی دلیل ہے.مگر ایک دلیل مجھے بہت پسند آئی ہے جسے میں پیش کرتا ہوں اور دلیری سے میں پیش کرتا ہوں کیونکہ وہ میرے بار بار کے تجارب میں آچکی ہے اور وہ یہ ہے.تمام عقلاء میں یہ امر مسلم ہے.کہ اس زمین کا کوئی واقعہ بدوں کسی سبب کے ظہور پذیر نہیں ہوتا.بلکہ صوفیائے کرام اور حکمائے عظام اس بات پر متفق ہیں کہ کوئی امر حقیقت میں اتفاقی نہیں ہوا کرتا.تمام امور علل اور حکم سے وابستہ ہوتے ہیں.اب میں پوچھتا ہوں کہ تنہائی میں بیٹھے بیٹھے نیکی کا خیال بدوں کسی تحریک کے کیوں اٹھتا ہے.بلکہ بعض وقت ایسا ہوتا ہے کہ ارد گرد بد کار بدیوں کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ بدی کے عین ارتکاب و ابتلا میں ان کو نیکی کی تحریک اور رغبت پیدا ہو جاتی ہے.کوئی بتائے کہ اس

Page 408

حقائق الفرقان ۳۹۸ سُوْرَةُ الْمُلْكِ تحریک نیک اور رغبت پسندیدہ کا وقوع کیوں ہوا؟ آیا بلا سبب اور اتفاقی طور پر؟ یہ تو باطل ہے.کیونکہ تجارب نے اس کو باطل ٹھہرایا ہے.پس لامحالہ نیکی کا محرک ضرور ہے.اسی نیکی کے محرک کو اسلامی کتب اور شریعت میں ملک کہتے ہیں.اور ان کے اس تعلق وتحریک کوله الملك کہا گیا ہے.وہ ملک لطیف اور پاک روحیں ہیں جنہیں قلوب انسانی سے تعلق ہوتا ہے اور ہر وقت قلوب کی تحریک میں لگے رہتے ہیں.اور ان کے مدمقابل اور ان کی تحریک کے مخالف شیاطین اور ابلیسوں کی روحیں ہیں.جو بدی اور بدکاری کی محرک ہیں.ان کے اس تعلق کا نام لِئَةُ الشَّيْطَان ہے.ایمان بالملائکہ کے معنے اور اس کا فائدہ.شریعت اسلام میں حکم ہے کہ فرشتوں پر ایمان لاؤ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب جب وہ تم کو نیکی کی تحریک کریں تو معا اسی وقت کر لو تو کہ اس نیکی کے محرک کا تعلق تم سے بڑھے اور وہ زیادہ نیکی کی تحریک دے بلکہ اس کی جماعت کے اور ملائکہ بھی تمہارے اندر نیکی کی تحریکیں کریں اور اگر اس تحریک کو نہ مانو گے.تو اس ملک نیکی کے محرک کو تم سے نفرت ہو جائے گی.اس لئے ضروری ہوا کہ ملائکہ سے تعلق بڑھاؤ تو کہ نیکی کی تحریک بڑھے اور آخر وہ تمہارے دوست بن جاویں.قرآن کریم میں اس نکتہ کو یوں بیان فرمایا ہے.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنْتُمْ تُوعَدُونَ - نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ : - حم السجدة: ۳۱-۳۲) ترجمہ.جن لوگوں نے کہا ہمارا رب اللہ ہے پھر اس اقرار پر پختہ ہو گئے.ان پر فرشتے اترتے ہیں یہ کہتے ہوئے کہ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو.اور خوشی مناؤ اس جنت کی کہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا تھا.نہ نیم ہم دنیا میں اور آخرت میں تمہارے ساتھی ہیں اور فرمایا ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّةٌ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (الانفال: ۲۵) اور یقین جانو کہ اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان روک ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے.

Page 409

حقائق الفرقان ۳۹۹ سُوْرَةُ الْمُلْكِ اور ان ملائکہ کے مد مقابل یا ضد ظلمت و ہلاکت.دوری اور عدم کے فرزند شیاطین اور ارواح خبیثہ ہیں.ان کے تعلقات سے ان کی جماعت دوست بنتی ہے.آخر اللہ تعالیٰ پھر فرشتوں، ملائکہ، دیوتا ، ابر من، ارواح خبیثہ ، آئر، شیاطین کے تعلقات سے ان مظاہر قدرت سے تعلقات پیدا ہو جاتے ہیں.پھر آخر کا راچھے لوگوں کو اور اچھے لوگوں سے پیوستگی ہو جاتی ہے.اور بروں کو اور بروں سے.بلکہ یہ تعلقات اس قدر ترقی پذیر ہوتے ہیں کہ ذرات عالم میں اچھے ذرات کا اچھوں سے تعلق ہوتا ہے.اور برے موذی دکھ دائک ذرات کا بروں سے.کیا کوئی شخص تاریخی مشاہدات اور تجارب صحیحہ سے ہمیں بتا سکتا ہے کہ آتشک اور خاص سوزاک، جذام اور گھناؤنے اور گندے گندے امراض اور جان گداز ناکامیاں،ماموروں ، مرسلوں اور ان کے پاک جانشینوں کو لاحق ہوتی ہیں یا ان کے مخالفوں کو؟ قرآن کریم کیسے زور سے دعوای فرماتا ہے کہ مقبولان و مقربانِ الہی کے یہ سچے نشان ہیں.اسی واسطے کوئی صحابی حضرت خاتم النبین بہرہ نہیں ہوا.أولَبِكَ حِزْبُ اللهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ - (المجادلة: ٢٣) ترجمہ : یہی لوگ خدا کی جماعت ہیں اور یاد رکھو.خدا کی جماعت مظفر و منصور ہے اور فرمایا: وَ لِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: 9) ترجمہ.اور غلبہ سدا اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے ہے لیکن منافق نہیں جانتے.اور فرمایا: إنَّا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (المومن : ۵۲) ترجمہ : ہم ضرور کامیاب کرتے ہیں اپنے رسولوں اور مومنوں کو دنیا کی زندگی میں اور پیش ہونے والوں کے پیش ہونے کے دن.اس جنگ اور اولیاء اللہ کی کامیابی کے متعلق جسے دیو.اسر سنگرام کہتے ہیں.ہم نے اس رسالہ میں بہت جگہ تذکرہ کیا ہے.چوتھا امر.قابل بیان یہ ہے کہ وسائل ووسائط کو تمام دنیا کے مذاہب ضروری تسلیم کرتے ہیں.

Page 410

حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْمُلْكِ کا فرومومن، جاہل و عالم، بت پرست و خدا پرست، سوفسطائی، دہریہ، جناب الہی کا معتقد.غرض سب کے سب وسائل و وسائط کو عملاً مانتے ہیں.کون ہے جو بھوک کے وقت کھانا ، پیاس کے وقت پینا ، سردی کے وقت کوئی دوائی یا گرمی حاصل کرنے کا ذریعہ اختیار نہیں کرتا.مقام مطلوب پر جلدی پہنچنے کے لئے میل ٹرین یا اسٹیر کو پسند نہیں کرتا.اگر مومن صرف حضرت حق سبحانہ ، کی مخلصانہ عبادت کرتا اور شرک اور بدعت اور اھواء سے پر ہیز کرتا ہے.تو غرض اس کی اسے ذریعہ قرب الہبی بنانا ہوتا ہے.اور بت پرست اگر چہ حماقت سے بت پرست ہے مگر کہتا وہ بھی یہی ہے کہ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى الله زُلفى (الزمر: ۴) ہم تو ان کو خدا کے قرب کا ذریعہ سمجھ کر پوجتے ہیں.اگر چہ یہ ان کا کہنا اور اس کا عمل درآمد غلط ہی ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسباب صیحیحہ بھی ہوتے ہیں اور ایسے اسباب بھی ہیں جن کا مہیا کرنا مومن کا کام ہے اور ایسے بھی جن کا مہیا کرنا عام عقلمندوں اور داناؤں کا حصہ ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب ماننا باعث شرک ہے اور ایسے بھی ہیں جن کو سبب خیال کرنا جہالت اور وہم اور حماقت ہے.تعجب انگیز بات ہے کہ بہت سے فلاسفر، سائنس دان اور حکماء علل مادیہ اور اسباب عادیہ پر بحث کرتے کرتے ہزار ہا نکات عجیبہ اور دنیوی امور میں راحت بخش نتائج پر پہنچ جاتے ہیں.مگر روحانی ثمرات پر ہنسی ٹھٹھے کر جاتے ہیں.جنوب شمال کو قطب اور قطب نما کی تحقیق میں اور اس پر مشرق و مغرب کو چھان مارا ہے اور سورج اور چاند کی کرنوں سے اور روشنیوں سے بے شمار مزے لوٹے ہیں.لیکن اگر کسی کو انہیں نظاموں سے ہستی باری پر بحث کرتا دیکھ لیں تو اس کے لئے مذہبی جنون اور اس کو مجنون قرار دیتے ہیں.کیسا بے نظیر نظارہ ہے جس کو ایک اسلام کا حکیم منظم کرتا ہے اشقیاء درکار عقبی جبری اند اولیاء درکار دنیا جبری اندک علم ہندسہ جس کی بناء پر آج انجینئر نگ اور اسٹرانومی معراج پر پہنچ گئی ہے.سوچ لو.کیسے فرضی ا آخرت بدبختوں کے لئے نخواستہ ہوگی اور دنیا اولیاء کے لئے نخواستہ ہے.( یعنی ناخوشگوار ہے)

Page 411

حقائق الفرقان ۴۰۱ سُوْرَةُ الْمُلْكِ امور سطح مستوی اور نقطہ سے جس کو سیاہی سے بناتے ہیں اور قلم کے خط سے شروع ہوتا ہے.خط استوی.جدی، سرطان، افق ، نصف النهار وغیرہ سب فرضی باتیں ہیں.مگر اس فرض سے کیسے حقائق مادیہ تک پہنچ گئے ہیں.لیکن اگر ان بدنصیبوں کو کہیں کہ مومن بالغیب ہو کر دعاؤں اور نبیوں کی راہوں پر چل کر دیکھو تو کیا ملتا ہے.تو ہنس کر کہتے ہیں.کیا آپ ہمیں وحشی بنانا چاہتے ہیں.میں نے بارہا ان ( مادیوں) کو کہا ہے.تندرست آنکھ بدوں اس خارجی روشنی کے اور تندرست کان بدوں اس روشنی کے اور تندرست کان بدوں خارجی ہوا کے اور ہمارا نطفہ بدوں ہم سے خارج رحم کے.بہت دور کی اشیاء بدوں ٹیلی سکوپ کے بار یک در بار یک اشیاء بدوں مائیکرو سکوپ کے.دور دراز ملکوں کے دوستوں کی آوازیں بدوں فونوگراف کے اور ان کی شکلیں بدوں فوٹوگرافی کے نہیں دکھائی دیتیں.اب جب کہ تم ان وسائط کے قائل ہو اور اضطراراً قائل ہونا پڑتا ہے تو روحانی امور میں کیوں وسائط کے منکر ہو.خدا تعالیٰ کی ہستی کو مان کر بھی تم ملک اور شیاطین کے وجود پر کیوں ہنسی کرتے ہو.افسوس اس کا معقول جواب آج تک کسی نے نہیں دیا ناظرین جس طرح سچے وسائط ہمارے مشاہدات میں ہیں.اسی طرح بچے وسائط مکشوفات میں بھی ہیں.جس طرح مشاہدات میں الہبی ذات وراء الورا ہے اور یہ ضرور ہے.اسی طرح الہبی ذات روحانیات میں بھی وراء الورا ہے اور اگر روحانیات میں بھی بعض وسائط غلط اور وہم ہیں تو مشاہدات بھی اس غلطی اور وہم سے کب خالی ہیں.فرشتے آسمان اور آسمانی اجرام اور ان کے ارواح کے لئے بطور جان کے ہیں.شیاطین بھی ہلاکت، ظلمت اور جناب الہی سے دوری اور دکھوں کے پیدا کرنے کے لئے بمنزلہ اسٹیم کے اسٹیم انجن کے لئے ہیں.خلاصه امور چهارگانه مذکوره ا.مظاہر قدرت کے دیکھنے والے اعلیٰ بھی ہوتے ہیں.اور ادنی بھی.ادنی کو اعلیٰ کی رؤیت کا انکار مناسب نہیں.

Page 412

حقائق الفرقان ۴۰۲ سُوْرَةُ الْمُلْكِ ۲.الکا پات.مٹی ارز.شعلے ایک عظیم الشان کارخانہ ہے اور اس میں اس قدر مواد ہوتے ہیں کہ اسلحہ کے بنانے والوں نے اور ستیارتھ والے نے جو ہتھیار لکھے ہیں.ان میں اتنے مواد مشتعل نہیں ہوتے.پس کیا وہ صرف اس لئے گرتے ہیں کہ چند عجائب خانوں میں پڑے رہیں.اور خدا کا یہ عظیم الشان فعل لغو ہے؟ نہیں ہرگز نہیں.۳.فرشتے.ملک ، ائر، شیاطین ، اہرمن، ائر ہیں اور ان کا باہم عداوت کا رشتہ ہے.ان کی جنگ نور وظلمت بلکہ عدم ووجود کی جنگ ہے.۴.اگر وسائط غلط اور برے ہیں تو وسائل صحیحہ اور عمدہ بھی ہیں.اب ہم آیات کا ترجمہ لکھتے ہیں.جن میں اس جنگ کا تذکرہ ہے.اور پوچھتے ہیں.انصاف سے بتاؤ کہ آریو.کیا تمہارا کام تھا کہ تم انکار کرتے.ا - وَ لَقَد جَعَلْنَا فِي السَّمَاءِ بُرُوجًا وَ زَيَّتُهَا لِلتَّظِرِينَ وَحَفِظْنَهَا مِنْ كُلِّ شَيْطن رَّجِيم - إِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ مُّبِينٌ ـ (الحجر: ۱۷ تا ۱۹) ضرور ہم نے ہی بنائے آسمان میں روشن اجرام.اور خوبصورت بنایا انہیں دیکھنے والوں کے لئے اور محفوظ رکھا ہم نے انہیں ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک شوندہ.تگہ باز یا مردود سے.ہاں اگر کوئی چھپ کر سننا چاہے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں.شہاب ثاقب، مٹی ارز، الکا پات.٢ - إِنَّا زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِزِينَةِ إِلكَوَاكِبِ وَ حِفْظًا مِّنْ كُلِّ شَيْطَنٍ مَّارِدٍ - لَا يَسْمَعُونَ إلَى الْمَلَا الْاَعْلَى وَ يُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ - دُحُورًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَة شِهَابٌ ثَاقِبُ - الصفت : ۷ تا ۱۱) ترجمہ: ہم ہی نے خوش نما بنا یا اس ورلے آسمان کو کو اکب کی زینت سے اور محفوظ کر دیا ہم نے اسے ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک ہونے والے متکبر ضدی سے.ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکتے اور ہر جانب سے دھکیلے جاتے ہیں.دھتکارے جاتے اور ان کے لئے دائمی دُکھ دینے والا عذاب ہے.ہاں اگر کوئی چھٹی مارے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہاب ثاقب، میٹی ارز، الکا پات.

Page 413

حقائق الفرقان ۴۰۳ سُوْرَةُ الْمُلْكِ وَ لَقَد زَيَّنَا السَّمَاءِ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَجَعَلْنَهَا رُجُومًا لِلشَّيْطِيْنِ وَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابَ السَّعِيرِ - (الملك: ٢) ہم ہی نے مزین کیا اس ورلے آسمان کو روشن چراغوں سے اور کر دیا ہم نے انہیں مارشیاطین کے لئے اور تیار کر دیا ہم نے ان کے لئے جلنے کا عذاب.آنا كُنَّا نَقْعُدُ مِنْهَا مَقَاعِدَ لِلسَّبْع فَمَنْ يَسْتَيعِ الأَن يَجِدُ لَهُ شِهَا بَارَصَدَ ا (الجن :١٠) تحقیق ہم بیٹھتے تھے.بیٹھنے کی جگہوں میں سننے کے لئے.پس اگر اب کوئی بات سنا چاہے.پاتا ہے اپنے لئے شہاب انتظار میں.تم ہندیوں اور عام یورپ والوں سے تو طائف کے عرب نمبر دار ہی اچھے نکلے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ نبی کریم کے عہد نہ ء سعادت مہد میں میٹی ارز غیر معمولی بکثرت نظر آئے تو عام طور پر لوگوں نے خیال کیا کہ آسمان تباہ ہو چلا.اس لئے لگے اپنے مویشیوں کو ذبح کرنے.تب ان کے نمبر دار عبدیالیل نے کہا کہ اگر وہ ستارے نظر آتے ہیں.جن سے تم لوگ راہنمائی حاصل کرتے ہو تو جہان خراب نہیں ہو گا.یہ ابن ابی کبشہ ( ہمارے نبی کریم کی طرف اشارہ کرتا ہے ) کے ظہور کا نشان ہے.ابن کثیر میں ہے آنا لَمَسْنَا السَّمَاء کے نیچے ہی ابن جریر کہتا ہے.اس آیت کے نیچے کہ آسمان کی حفاظت دو باتوں کے وقت ہوتی ہے.یا عذاب کے وقت جب ارادہ الہی ہو کہ زمین پر اچانک عذاب آجاوے یا کسی مصلح راہ نما نبی کے وقت.اور یہی معنے ہیں اس آیت شریفہ کے.انا لا نَدْرِكَ اَشَدُّ يُرِيدَ بِمَنْ فِي الْأَرْضِ أَمْ اَرَادَ بِهِمْ رَبُّهُمْ رَشَدًا - (الجن: ۱۱) یعنی ستاروں کے گرنے کو دیکھ کر وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ آیاز مین والوں کے لئے تباہی کا ارادہ کیا گیا ہے.یا ان کے رب نے انہیں کوئی فائدہ پہنچانا ہے.خدائے تعالیٰ کی عادت ہے کہ مصلح کے تولد ، ظہور اور اس کی فتمندی پر حزب الرحمان اور حزب الشیطان کی جنگ پہلے اوپر ہوتی ہے.پھر زمین پر.

Page 414

حقائق الفرقان ۴۰۴ سُوْرَةُ الْمُلْكِ آیت کریمہ فَالْمُد ترتِ أَمْرًا.(النازعات:) اور فَالْمُقَسمتِ امرات (التريات: ۵) اور آیت اِنْ كُلُّ نَفْسٍ لَمَّا عَلَيْهَا حَافِظ - ( الطارق (۵) کے نیچے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب نے مفصل لکھا ہے کہ فرشتے بروج پر اثر ڈالتے ہیں اور ان سے ایک اثر ہوا اور دیگر اشیاء پر پڑتا ہے.اور ملائکہ کا اثر شہب میں بھی نفوذ کرتا ہے.۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء میں ۲۷ اور ۲۸ نومبر کی درمیانی رات میں غیر معمولی کثرت سے شہب گرے تو اس وقت ہمارے امام علیہ السلام کو اس نظارہ پر یہ وحی بکثرت ہوئی.دیکھو صفحہ ۲۳۸ براہین احمدیہ.يَا أَحْمَدُ بَارَكَ اللهُ فِيكَ مَا رَمَيْتَ إِخْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى اور اسی کے بعد مدارز والسنین نظر آیا اور ۱۸۷۲ء کی رمی شہب غیر معمولی تھی.وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.پس یہ اور کل کو اکب زینتِ سماء الدنیا ہیں اور روحانی عجائبات کی علامات ہیں اور نیز ان سے راہ نمائی حاصل ہوتی ہے.یہی تین فائدے بخاری صاحب نے اپنی صحیح میں بیان فرمائے ہیں.اب اس سوال کا جواب ختم کرتے ہیں.مگر قبل اس کے کہ ختم کریں.آیات ذیل کا بیان بھی ضروری و مناسب معلوم ہوتا ہے.وَ مَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيطِين وَ مَا يَنْبَغِى لَهُمْ وَ مَا يَسْتَطِيعُونَ إِنَّهُمْ عَنِ السَّبْعِ لَمَعْرُولُونَ (الشعراء: ۲۱۱ تا ۲۱۳) تَنَزِّلُ عَلَى كُلِّ أَفَاكِ أَثِيمٍ - (الشعراء: ۲۲۳) اللہ سے دور ہلاک ہو نیوالی خبیث روحوں کے ذریعہ یہ کلام الہی نازل نہیں ہوا.اور ان کے مناسب حال بھی نہیں اور ایسا کلام لانے کے لئے وہ طاقت ہی نہیں رکھتے.بے ریب ایسا کلام سننے سے وہ الگ کئے گئے ہیں.کیونکہ تمام شیطانی کاموں کا قرآن مجید میں استیصال ہے.بھلا شیطان اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے؟ شیاطین تو ہر ایک کذاب، مفتری، بہتانی ، بدکار پر نازل ہوا کرتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۷۶ مورخہ ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۱ تا ۲۷۵) ا پھر قسم ہے تدبیر کرنے والوں کی حکم سے.۲.پھر قسم ہے ان فرشتوں کی جو تمام امور کے بانٹنے والے ہیں.سے کوئی نفس ایسا نہیں جس پر محافظ نہ ہو.ہے اے احمد خدا نے تجھ میں برکت رکھ دی ہے.جو کچھ تو نے چلایا تو نے نہیں چلا یا بلکہ خدا نے چلا یا.

Page 415

حقائق الفرقان ۴۰۵ سُوْرَةُ الْمُلْكِ ا - وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسُعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَب السَّعِيرِ - ترجمہ.انہوں نے کہا.ہم سننے سمجھنے والے ہی ہوتے تو دوزخیوں ہی میں کیوں ہوتے.تفسیر روح کی بیماریوں کے علاج کا ایک ہی نسخہ ہے.جس کا نام قرآن شریف ہے.اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بدکار لوگ کہیں گے تو كُنَّا نَسْبَحُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَب السَّعِيرِ کہ اگر ہم خدا کے فرستادوں کی باتوں کو کان دھر کر سنتے اور عقل سے کام لیتے تو آج ہم دوزخیوں میں سے نہ ہوتے.یہ حسرت ان کو کیوں ہو گی.صرف اس لئے کہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اب پھر ہاتھ نہیں آسکتا.پس روح کی بیماری کا یہی علاج ہے کہ وقت کو ہاتھ سے نہ گنوادے اور اس نور اور شفا کتاب قرآن شریف پر عملدرآمد کرے.اپنے حال اور قال اور حرکت اور سکون میں اُسے دستور العمل بناوے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۴ ، صفحه ۱۳) اگر ہم حق کے شنوا ہوتے تو دوزخ میں کیوں جاتے.اس سے ثابت ہوا کہ حق کا سننا فرض ہے اور غیبت کا سننا حرام ہے.سماع کے متعلق صوفیا میں بحث ہے.میرے نزدیک سماع قرآن وحدیث ضروری ہے مگر ایک شیطانی سماع ہے کہ راگنی کی باریکیوں پر اطلاع ہو.یہ ناجائز ہے.۱۲.( بدر جلد ۹ نمبر ۱۰ مورخه ۳۰ دسمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۴) ج فَاعْتَرَفُوا بِذَنْبِهِمْ فَسُحْقًا لِاصْحِب السَّعِيرِ - ترجمہ.غرض جہنمی لوگ اپنے گناہوں کا اقرار کریں گے اور جہنمی رحمت سے دور ہوں گے.سُحْقًا - لعنت (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ۷ - ۲۳ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) یعنی دوزخی (حسرت سے) کہیں گے اگر ہم سنتے یا عقل سے کام لیتے تو دوزخیوں میں شامل نہ ہوتے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۱۵) ۱۳ - إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرُ - ترجمہ.جو لوگ تنہائی میں یا بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں تو ان کے لئے معافی ہے اور بڑے بڑے اجر ہیں.يَخْشَونَ.ڈرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے.

Page 416

حقائق الفرقان ۴۰۶ سُوْرَةُ الْمُلْكِ اسی کے متعلق دوسری جگہ قرآن شریف میں فرمایا ہے.وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتِن (الرحمن: ۴۷).جو اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑے ہونے کے وقت کے متعلق ڈرتا ہے.اس کے واسطے دو جنت ہیں.بے خوف اور بے باک آدمی اصل میں خوف میں.خوف سے امن میں وہ ہے.جس کے دل میں خدا کا خوف ہے.ایک شاعر نے کیا خوب لکھا ہے لا تخافوا مژده ترسنده است ہر کہ می ترسد مبارک بنده است خوف و خشیت خاص دانایاں بود ہر کہ دانا نیست کے ترساں بود ترسگاری رستگاری آورد ہر که درد آرد عوض درمان بود لے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۶ ، ۷ - ۲۳ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ۱۵ - اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ - ترجمہ.بھلا جس نے پیدا کیا وہی ناواقف ہو حالانکہ وہ تو بڑا باریک بین اور باخبر ہے.تفسیر.مَنْ خَلَقَ کس نے پیدا کیا؟ اس میں آریاؤں کے اس عقیدہ کا رد ہے جو وہ کہتے ہیں کہ خدا مادہ اور روح کا پیدا کرنے والا نہیں ہے دلیل دی ہے.اِنَّ اللهَ هُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ - کسی شئے کے پیدا کرنے کے واسطے اس شئے کا کامل علم لازم ہے.خدالطیف ، خبیر ہے.روح اور مادہ کے متعلق اُسے کامل علم ہے کہ وہ کیونکر پیدا ہو سکتا ہے اور پھر اسے قدرت بھی ہے.اگر خدا تعالیٰ نے کوئی ذرہ اور روح پیدا ہی نہکیا.تو اس کے متعلق کامل علم کیوں کر رکھ سکتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۶ ، ۷ - ۲۳ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ١٦ هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُورًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِنْ رِّزْقِهِ وَالَيْهِ النُّشُورُ - ترجمہ.(اے آدمیو) تمہارا رب وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے نرم بچھونا بنادیا ہے تو اُس کے اطراف میں ( جدھر چاہو ) چلو پھرو اور اسی کی روزی کھاؤ اور اسی کی طرف مرکر چلنا ہے.ل لا تَخَافُوا اصل میں ڈرانے والا پیغام ہے.مبارک ہے وہ جو خوف رکھتا ہے.خوف وخشیت عقل مندوں کا خاصہ ہے.بھلا نا دان بھی کبھی ڈرا کرتے ہیں؟ خوف نجات دیتا ہے وہ جو درددلاتا ہے اس کا علاج بھی کرتا ہے.کچھ شک نہیں کہ اللہ بڑا باریک بین اور باخبر ہے.

Page 417

حقائق الفرقان ۴۰۷ سُوْرَةُ الْمُلْكِ تفسیر.ذلولا.وہ خدا جس نے زمین کو تمہارے ماتحت کیا ہے.فَامْشُوا.ایک جگہ سے دوسری جگہ چلے جاؤ.یہ صحابہ کو حکم ہے کہ جہاں یہ سمجھو کہ اس جگہ ہمارا دین قائم نہیں رہتا.اس جگہ کو چھوڑ دو.ذَلُول.اس اونٹنی کو بھی کہتے ہیں جس سے لادنے وغیرہ کا ہر قسم کا کام لیا جائے.وہ جانور جو بار برداری کا کام دیں.زمین بھی چلتی ہے اور تمام انسانوں اور مکانوں کو اپنے ساتھ اٹھائے پھرتی ہے.اس آیت میں آریاؤں کا ایک رد ہے جو کہتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں ملتا ہے.وہ پہلے جنم اور تناسخ کا نتیجہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.خدا نے تمہیں زمین دی اور اسے تمہارے لئے مسخر کر دیا.بتلاؤ یہ تمہارے کس عمل کے نتیجہ میں تمہیں ملی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ، ۷-۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ۱۱ ۱۷ - وَاَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يَخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ فَإِذَا هِيَ تَبُورُ - ترجمہ.کیا تم بے خوف ہو گئے اس رب سے جو آسمان کا مالک ہے اس سے کہ زمین میں تمہیں دھنسا دے پھر وہ پڑی جھکولے مارا کرے.تفسیر - يُخْسِفَ بِكُمُ الْأَرْضَ تمہیں ذلیل کر دے.اس میں غزوہ بدر کی طرف اشارہ ہے.تمور.زمین کانپ رہی ہے کیونکر عمائد مر گئے ہیں.وو مَنْ فِي السَّمَاءِ.پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ خدا آسمان میں ہی ہے.انہیں سمجھنا چاہیے کہ قرآن شریف نے اللہ تعالیٰ کے واسطے کوئی خاص مکان تجویز نہیں کیا بلکہ للہ تعالیٰ کے متعلق انه بِكُلِّ شَيْءٍ مُحيط - ( حم السجدة: ۵۵) فرمایا ہے.ہاں اس آیت میں جو فی السَّمَاء کا لفظ آیا ہے.یہ ایک محاورہ عربی زبان ہے.اور اس سے مراد ہے.ایک اٹل بات.اور چونکہ آسمان بلندی پر ہے.اور سب بلندیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے.اس لئے بغرض اظہار عظمت خداوندی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ، ۷ - ۲۳ / نومبر ۱۹۱۱ ، صفحه ۲۷۵) لے بے شک اللہ سب ہی چیز کو گھیرے ہوئے ہے.

Page 418

حقائق الفرقان ۴۰۸ سُوْرَةُ الْمُلْكِ ۱۸ - اَم اَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ أَنْ يُرْسِلَ عَلَيْكُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُونَ كَيْفَ نَذِيرِ - ترجمہ.یا اس کے رب کے غضب سے نہیں ڈرتے جو آسمان میں ہے کہ بھیج دے تم پر پتھر کی برسات.تو قریب ہی تم کو معلوم ہو جائے گا کہ ہمارا ڈرانا کیسا تھا.تفسیر.حَاصِبا.اس میں غزوہ خندق کی طرف اشارہ ہے جس میں مکہ والے مدینہ والوں کے ساتھ مل گئے تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۶، ۷-۲۳ نومبر ۱۹۱۱، صفحه ۲۷۵) - اَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ ضَفْتِ وَ يَقْبِضْنَ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا الرَّحْمٰنُ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْ عِم بَصِيرٌ - - ترجمہ.کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو ان کے اوپر پرکھولے اور موچے اڑا کرتے ہیں.رحمن کے سوا انہیں کون تھامے رہتا ہے.بے شک وہ ہر شے کا نگران ہے.تفسیر.الگیر.مردار خوار جانور.پیشگوئی ہے کہ تم شکست کھاؤ گے.اور یہ جانور تمہاری لاشیں کھائیں گے.یہ گدھ جو آسمان میں پھرتے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے رکے ہوئے ہیں ورنہ یہ تم کو نوچ نوچ کر کھا جاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ا نمبر ۷۶ مورخه ۲۳ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ٢١ ـ آمَنْ هذَا الَّذِى هُوَ جُنْدٌ تَكُمْ يَنْصُرُكُم مِّن دُونِ الرَّحْمَنِ اِنِ الْكَفِرُونَ اِلَّا فِي غُرُورٍ - ترجمہ.بھلا ایسا کون ہے جو تمہارا لشکر بن کر تمہاری مدد کرے رحمن کے مقابلہ میں.بے شک کا فرتو لو دھو کے ہی میں ہیں.جنڈ.یہ تمہارے لشکر تمہارے کسی کام نہ آویں گے اور خدا کے عذاب کو ٹال نہ سکیں گے.مِنْ دُونِ الرَّحْمٰنِ.رحمان کے مقابلہ میں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ، ۷ - ۲۳ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵)

Page 419

حقائق الفرقان ۴۰۹ سُوْرَةُ الْمُلْكِ ۲۲ - آممَّنْ هُذَا الَّذِي يَرْزُقُكُمْ إِنْ أَمْسَكَ رِزْقَهُ ۚ بَلْ تَجُوا فِي عُتُةٍ وَ نُفُورٍ - ترجمہ.بھلا ایسا کون ہے جو تمہیں روزی دے اگر رحمن روزی بند کر دے.ہاں کا فرتو سرکشی اور حق سے نفرت کرنے پر اڑے بیٹھے ہیں.امسک.اس میں پیشگوئی ہے کہ جب قحط پڑے گا تو پھر کون تمہاری امداد کرے گا؟ مکہ میں ایک دفعہ شدید قحط پڑا تھا.جس میں لوگوں نے ہڈیاں پیس پیس کر کھائی تھیں.لَجُوا.اڑ رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ۷ مورخه ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۷۵) -۲۳ - اَفَمَنْ يَمْشِي مُكِبًا عَلَى وَجْهِدَ أَهْدَى أَمَّنْ يَمْشِي سَوِيًّا عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - ترجمہ.تو کیا جوشخص اپنا منہ اوندھا کئے چلے وہ زیادہ راہ راست پر ہے یا وہ شخص جو سیدھا راہِ راست پر چلا جا رہا ہے.تفسیر.اس آیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نمونہ ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے کہ دیکھو یہ شخص تم میں ہے جو بڑی دوراندیشی سے سیدھا ہو کر چلتا ہے.وہ صراط مستقیم پر ہے.اس کی راہ کو تم بھی اختیار کرو تا کہ تمہیں کامیابی حاصل ہو.ورنہ وہ تم پر فتح یاب ہوگا.کیونکہ اس کے مقابلہ میں تم تو منہ کے بل گرے ہوئے ہو.تم کامیاب نہیں ہو سکتے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ، ۷.۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ۲۴- قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَاكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْاَفَدَةَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ - ترجمہ.ان سے کہ دو ہی تو رحمن ہے جس نے تم کو پیدا کیا اور تمہارے لئے سنے کو کان اور دیکھنے کو آنکھیں اور سمجھنے کو دل بنائے.اور تم لوگ بہت ہی کم شکر گزار ہو.اللہ تعالیٰ اپنے احسانات کا ذکر کرتا ہے.اس نے تمہیں کان، آنکھ اور دل دیا.اگر آدمی کے ناک کی نوک ایک ماشہ بھر کٹ جائے تو وہ مجلس میں بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا.ہمارے سامنے اندھے موجود ہیں لیکن ہم آنکھوں والے اپنی آنکھوں کی قدر نہیں کرتے.انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ

Page 420

حقائق الفرقان ۴۱۰ سُوْرَةُ الْمُلْكِ کی نعمتوں کی قدر کرے کہ اس نے کس قدر احسان ہم پر کئے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۶ ، ۷.۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۵) ٢٦ - وَيَقُولُونَ مَتَى هُذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمُ صُدِقِينَ - ترجمہ.اور وہ ( بے ایمان ) کہتے ہیں کہ ( عذاب یا قیامت کا ) وعدہ کب پورا ہوگا جب تم سچے ہو.تفسیر.متی.کفار سوال کرتے ہیں، یہ وعدہ کب پورا ہوگا.ہم پر کب عذاب آئے گا.یہ تو اسی دنیا کی بات ہے.تم تاریخ مقرر کرو! (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۷،۶.۲۳ نومبر ۱۹۱۱ صفحہ ۲۷۶) فلمَّا رَاَوْهُ زُلْفَةً سِيِّئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَقِيلَ هَذَا الَّذِى ۲۸.كُنْتُم بِهِ تَدَّعُونَ - ترجمہ.پھر جب اُس (عذاب یا قیامت کو دیکھیں گے کہ قریب ہی موجود تھا تو منکروں کے چہرے بگڑ جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ وہی تو ہے جس کو تم مانگتے تھے.فرمایا.عذاب آئے گا.اور تم رُوسیاہ ہو جاؤ گے.تدعون.وہ عذاب جس کو تم زور سے مانگتے تھے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ۷ - ۲۳ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۷۶) سيتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا - کافروں کے بڑے آدمی برا منائیں گے.تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۸۵) ۲۹ - قُلْ اَرَوَيْتُمْ إِنْ أَهْلَكَنِيَ اللَّهُ وَمَنْ مَّعِيَ أَوْ رَحِمَنًا فَمَنْ يُجِيرُ الْكَفِرِينَ مِنْ عَذَابِ اليم - ترجمہ.ان سے کہہ دو (خبر ) اگر مجھے اور میرے ساتھ والوں کو اللہ ہلاک کر دے یا ہم پر رحم فرماوے، مگر وہ کون ہے جو کافروں کو ٹیں دینے والے عذاب سے پناہ دے.تفسیر.بہت لوگ کہا کرتے ہیں کہ یہ الہام ہوا تھا.کیوں پورا نہیں ہوا.فرما یا.تم پر عذاب ضرور آئے گا خواہ میرے سامنے آئے.خواہ میرے بعد آئے.تم نجات نہیں پاسکتے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۶، ۷ مورخه ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۷۶)

Page 421

حقائق الفرقان ۴۱۱ سُوْرَةُ الْقَلَمِ سُوْرَةُ الْقَلَمِ مَدَنِيَّةٌ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورۃ قلم کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جو رحمن و رحیم ہے.۲ تا ۷.ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ - مَا اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبَّكَ بِمَجْنُونِ وَإِنَّ لَكَ لاَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ وَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ - فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ.وو بِايْكُمُ الْمَفْتُون - ترجمہ.قسم ہے نون اور قلم اور کل مسودات کی.تو اپنے رب کی مہربانی سے دیوانہ تو نہیں ہے.بے شک تیرے لئے اجر ہے جو کبھی منقطع ہونے والا نہیں (اس لئے کہ مجنون کے کام کی مزدوری نہیں ملتی).(تیسری دلیل یہ ہے کہ) بے شک بے شک تو اعلیٰ درجہ کے خلق پر پیدا کیا گیا ہے (یعنی مجنون میں تو خلق نہیں ہوتا).تو قریب ہے کہ تو بھی دیکھ لے گا اور وہ بھی دیکھ لیں گے.( یہ چوتھی دلیل کہ مجنون غور نہیں کرتا.کہ تم میں سے کون بڑا خبطی ہے ( یہ پانچویں دلیل ہے).دوات اور قلم اور وہ عظیم الشان صداقتیں جن کو لوگ لکھتے ہیں اور لکھتے رہیں گے.(ان کے مطالعہ کا نتیجہ تو یہی ہو گا) کہ تو اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں کیونکہ وہ تمام تحریریں تیری صداقت کی گواہ رہیں گی اور دوسری دلیل یہ ہے کہ تیری محنت و کوشش کا بدلہ.اجبر.اس کی مزدوری تیرے لئے غیر منقطع ابدی ہے اور ظاہر ہے کہ مجنون کی محنت و کوشش کا تو کوئی اجر ہی نہیں ہوا کرتا.تیسری دلیل یہ ہے کہ مجنون تو خلیق نہیں ہوتے.اور تو خلق پر کیا خلق عظیم پر ہے.آپ کی مقناطیسی جذب اور آپ کے اخلاق ہی تھے کہ ارب عرب آپ کے حکم پر اپنے خون کو پانی کی طرح بہاتے تھے اور چوتھی دلیل یہ ہے کہ مجنون کے افعال و اقوال مثمر ثمرات خیر اور منتج کسی نیک نتیجہ کے نہیں ہوا

Page 422

حقائق الفرقان ۴۱۲ سُوْرَةُ الْقَلَمِ کرتے اور تیرے اقوال اور تیرے افعال کا نتیجہ تو بھی دیکھ لے گا.اور دوسرے لوگ بھی دیکھ لیں گے.اور یہ کیسی کچی پیشگوئی نکلی.دنیا میں صرف آپ ہی اکیلے ایسے کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - (المائدۃ: ۴) کی آواز اپنی زندگی میں اپنے کانوں نکھوں سے سنی اور رایت النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا.(النصر : ۳) کا نظارہ اپنی آ سے دیکھا.صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ فَإِنَّهُ حَمِيدٌ فَجِيْدٌ.اس پر بھی نہ ماننے والوں نے نہ مانا ( نور الدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۶۶٬۶۵) پر نہ مانا.دنیا میں انسان ایک عجب معجون ہے.اس نے زمین کو پھاڑا ، پہاڑوں کو چیرا، سمندر کی تہہ سے موتی نکالے، ہوا، سمندر، روشنی پر حکومت کرتا ہے.باوجود اس کمال کے کسی اور کے نمونہ کو اختیار کرنا چاہتا ہے.وہ تاجر، کسی بڑے تاجر، سپاہی کسی بڑے کمان افسر کی طرح بننا چاہتا ہے.راولپنڈی کے ایک دربار میں پرنس آف ویلز سے کی شان و شوکت دیکھ کر ایک احمق نے مضمون لکھا کہ کاش میں ہی پرنس ہوتا.ایک میرا دوست مرض جذام میں گرفتار یہاں آیا.مجھے کہنے لگا.آپ عظمند نہیں معلوم ہوئے.آپ مجھے اجازت دیں.میں کوشش کروں.فوراً آپ کو زمین کے بڑے مربعے دلا سکتا ہوں.آپ بادشاہ بن جائیں گے ! میں نے اسے کہا تم نہیں جانتے.خوشی اور شے ہے.تم مجھے زمین دلواتے ہو.خود تو بڑے زمیندار ہو.مگر دیکھو.تم میں ایسی بیماری ہے کہ تمہارے رشتہ دار بھی تم سے نفرت کرتے ہیں.پھر وہ زمین کس کام.غرض ہر شخص کسی نمونہ کو سمجھنے کا خواہشمند ہے.کوئی حسن و جمال کا شیدا، کوئی ناموری چاہتا ، کوئی حکومت کو پسند کرتا ، کوئی کسی اور بڑائی کا حریص ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ ان کے واسطے ایک نمونہ پیش کرتا ہے.دوات اور قلم ہو.اور اس سے جو کچھ لکھا جاسکتا ہے.سیاسی لوگ سیاست پر کتب لکھتے ، ناولسٹ ناول لکھتے اور مختلف لکھنے والے مختلف اشیاء پر لکھتے اور ان کی تحریریں جمع کرو.یہ ثابت ہوگا کہ محمد رسول مجنون نہیں تھا.اس نے جو کچھ خلقت کے سامنے پیش کیا.وہ حق و حکمت سے پر.اور اس نے جو تحریر پیش کی ہے اس کا مقابلہ کوئی تحریر دنیا بھر کی نہیں کرسکتی.تمام لے میں نے کامل کر دیا تمہارے لئے دین اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی.۲.اور تو دیکھے لوگوں کو کہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں.۳ بعدۂ جارج پنجم.مرتب

Page 423

حقائق الفرقان ۴۱۳ سُوْرَةُ الْقَلَمِ تعلیمات جن پر عمل کر کے انسان خدا تک پہنچ سکتا ہے.وہ سب اس کتاب میں جمع ہیں.دلیل یہ ہے کہ مجنون کے نہ رونے کی کسی کو پرواہ ہے نہ اس کے ہنسنے کی کسی کو خواہش ہے نہ اس کی طاقت کی قدر ہوسکتی ہے وہ سارا دن سوئے، جاگے ، بیٹھے ، سردی میں ننگا ، گرمی میں لحاف لے.اس کی محنت کا بدلہ نہیں.لیکن اے نبی ! تیری محنتوں کا ثمرہ غیر ممنون ہے.اس کا خاتمہ نہیں.ہم نے خود تجربہ کیا ہے.آنحضرت کے ہر کام کا پھل ہمیشہ قائم ہے.پھر مجنون کے اخلاق نہیں ہوتے.وہ دوست کو دشمن اور دشمن کو دوست بنا لیتا ہے.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اخلاق اعلیٰ رکھتے تھے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ قرآن لائف آف محمد ہے.خُلُقُهُ الْقُرْآنُ.پھر فرمایا.دیکھو اے مخالفو! اس کے مقابلہ میں کسی کا زور نہ چلے گا.یہ بھی دیکھے گا اور تم بھی دیکھو گے کہ کون فتح مند ہوتا ہے.عرب اور عجم کوئی اس کے بالمقابل کامیاب نہ ہو سکے گا.یہ اس کی صداقت کی دلیل ہے.اگر تم کوئی نمونہ اعلیٰ چاہتے ہو اور وعدہ خداوندی فمن تبعَ هُدَای سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو یا درکھو کہ علم کے لئے قرآن شریف اور عملی زندگی کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمد بس ہے...آج تک جس نسخہ کو بہت آزمایا اور سچا پایا ہے.وہ یہی کہ فتح اور نصرت اور کامیابی کے حصول کا ایک ہی نسخہ قرآن شریف ہے.( بدر جلد ۱۲ نمبر ۱۵ مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳) ن والقلم.دواتوں اور قلموں سے جو کچھ لکھا جاتا ہے ان سب پر غور و خوض اور سب علوم پر مفید نتائج مرتب ہوتے ہیں.( اجرا غَيْرَ مَمْنُونٍ ) پھر مجنون میں خلق نہیں ہوتا اور تم اعلیٰ اخلاق پر تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ماه تمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۸۵) قائم ہو.مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبَّكَ بِمَجْنُونِ.......اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے رب کے فضل سے تو مجنون نہیں کیونکہ تو اعلیٰ اخلاق پر ہے اور مجنون کے اخلاق و فضائل اعلیٰ کیا ادنی درجہ پر بھی نہیں ہوتے.پھر مجنون تمام دن اور رات میں کوئی کام کرے اس کے کاموں پر کچھ نتائج و ثمرات صحیحہ واقعیہ مرتب نہیں ہوا کرتے اور جو تو نے کام کئے ہیں ان کے نتائج تو بھی دیکھ لے گا اور تیرے مخالف بھی دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام صفحه ۳۲۲) ن - دوات- مَا أَنتَ بِنِعْمَةِ رَبَّكَ بِمَجْنُونِ.تو مجنون نہیں ہے.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس قول کا رد کیا ہے کہ نعوذ باللہ آنحضرت (صلی اللہ

Page 424

حقائق الفرقان ۴۱۴ سُوْرَةُ الْقَلَمِ علیہ و آلہ وسلم ) مجنون ہیں.اور اس پر دلائل دیئے ہیں.فرمایا قلم دوات کولو اور جو علوم دنیا میں پیدا ہوئے ہیں سب کو جمع کرو اور تمام انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کولو اور ان کو ایک جگہ جمع کرو.اور پھر اس کلام ( قرآن ) کے ساتھ مقابلہ کر کے غور کرو کہ کیا یہ مجنون کا کلام ہے.بلکہ فرمایا.قلم اور دوات کے ساتھ جو کچھ آئندہ بھی کبھی لکھا جاویگا.اس سے ہمیشہ یہی ثابت ہوتا رہے گا کہ یہ خیال جو اس نبی کے متعلق کیا گیا ہے بالکل باطل ہے.ہر ایک نیا علم جو دنیا میں نکلے گا.جو خداوند تعالیٰ سے محبت اور مخلوق پر شفقت کے متعلق ہو گا.وہ اس کی صداقت اور علم و عقل کے کمال کو ثابت کرتا رہے گا.وہ تمام بخشیں اور تحریریں جو آئندہ ہوں گی وہ کوئی ایسا دینی مسئلہ پیدا نہ کر سکیں گی.جو انسان کی بہبودی کے واسطے ضروری ہو اور اس پاک کلام میں نہ پایا جاتا ہو.پھر ایسی کتاب کالا نے والا کیونکر مجنون ہو سکتا ہے.ان آیات میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب قلم و دوات کا زمانہ آنے والا ہے جبکہ ہر شے لکھی جائے گی اور صحائف بہت کثرت سے ہوں گے.اور بڑے علوم کا زمانہ خیال کیا جاوے گا.اس وقت بھی قرآن شریف کی شریعت صحیح اور غیر متبدل ثابت ہوگی.اور دنیا کو ماننا پڑے گا کہ ایسے مستحکم ، معقول، مدلل کا لانے والا بجز ایک کامل نبی کے کوئی ہو نہیں سکتا.چہ جائیکہ وہ دیوانہ ہو.غَيْرَ مَمنون.غیر منقطع.چونکہ یہ کلام ایسا ہے کہ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ (البينة : ۴) اس میں مضبوط کتابیں شامل ہیں جو قائم رہنے والی ہیں.اس واسطے یہ علوم ہمیشہ سچے ثابت ہوتے رہیں گے اور ان سے دنیا میں ہمیشہ نور پھیلتا رہے گا اور اس طرح تیرا ثواب جاری رہے گا کیونکہ یہ ابدی شریعت ہے.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مجنون نہ ہونے کی ایک دلیل بیان فرمائی ہے.کیونکہ پاگل جو ہوتا ہے.نہ اس کے کاموں میں کوئی ترتیب اور نظام ہوتا ہے اور نہ اس کے کاموں پر نتائج مترتب ہوا کرتے ہیں.برخلاف اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام منتظم تھے.اور ان سے بڑے بڑے اہم اور مفید نتائج پیدا ہوئے.اس میں اہل عرب کو اور آئندہ تاریخ زمانہ پر نگاہ کرنے والوں کو سمجھایا ہے کہ دیکھو ہمارا رسول بھی ایک کام کر رہا ہے اور اس کے بالمقابل تم بھی ایک کام کر رہے ہو.اب دیکھنا یہ ہے کہ مکہ کوکون فتح کرتا ہے اور غیر منقطع اجر کس کو ملتا ہے.کون عاقل ثابت ہوتا ہے اور کون دیوانہ.

Page 425

حقائق الفرقان ۴۱۵ سُوْرَةُ الْقَلَمِ ایک اور دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاگل نہ ہونے کی اس جگہ بیان فرمائی ہے.فرمایا.جو شخص خلق عظیم اپنے اندر رکھتا ہے.اس کو پاگل کس طرح کہہ سکتے ہیں.پاگل کے اخلاق اچھے نہیں ہوا کرتے.کیا وہ شخص جو عاقبت اندیشی ، شجاعت ، مروت ، جودوسخا ، استقامت ، بلند ہمتی ، عفت، حیا ، زہد، اتقا.ریاضت، فصاحت، بلاغت، عفو، کرم ، رحم ، حلم ، توکل، امانت، دیانت.غرض تمام اخلاق فاضلہ کا سر چشمہ ہو.کیا وہ مجنون ہوسکتا ہے.ہر گز نہیں.یاد رکھنا چاہیے کہ خلق صرف نرمی، حلیمی اور انکسار کا نام نہیں.جیسا کہ عام طور پر سمجھا گیا ہے.بلکہ انسان کے اندر بمقابلہ ظاہری قوی کے جو باطنی کمالات کی کیفیات ہیں.ان سب کا نام خلق ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ سب پائی جاتی تھیں.اسی پر قرآن شریف میں دوسری جگہ فرمایا ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب: ۲۲) کہ اخلاق کے واسطے یہ رسول کامل نمونہ ہے.اس کی سنت کو اختیار کرو.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کے متعلق سوال ہوا تھا تو انہوں نے فرمایا.خُلُقُهُ الْقُرآنُ آپ کا خلق قرآن تھا.قرآن مجید میں جو اعلی تعلیم دی گئی ہے اس سارے کے عمل کا آپ نمونہ تھے.جو لوگ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سوانح عمریاں تلاش کرتے ہیں.انہیں چاہیے کہ جناب صدیقہ کے اس قول کی طرف توجہ کریں.دنیا داروں کی ہمیشہ عادت چلی آئی ہے کہ خدا کے محبوب مجذوب لوگوں کا نام دیوانہ رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب سلطان روم کو اس کے اراکین کی خراب حالت کی طرف توجہ دلائی تو آپ کو بھی کہا گیا کہ تو مجنون ہے.جس پر انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور میں عرض کیے آنکس که بتو رسد شہاں راچه کند بافتر توفر خسرواں چه چوں بندہ شناخت بداں عز و جلال بعد از جلال دیگران راچه دیوانہ کنی ہر دو جہانش بخشی لے دیوانہ تو ہر دو جہاں را چه کند لے جس نے تجھے پالیا ( یعنی خدا کو ) اس کو بادشاہوں سے کیا واسطہ.وہ احترام وشکوہ خسر و کولے کر کیا کرے گا.جب بندہ تیرے اس عز و جلال کو پہچان لے تو اس کے بعد اُسے کسی دوسرے کے جلال کی حاجت نہیں رہتی.تو پہلے اپنا دیوانہ کرتا ہے اور پھر اسے دونوں جہان بخش دیتا ہے.جبکہ تیرا دیوانہ اُن دو جہانوں کا کیا کرے گا.کند

Page 426

حقائق الفرقان ۴۱۶ سُوْرَةُ الْقَلَمِ اسی خلق عظیم کی طرف اشارہ ہے.جہاں گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم ہوا ہے.فَبِهُدهُمُ اقْتَدِه (الانعام:۹۱) انبیاء سابقین میں جو خاص باتیں منفر د طور پر.مخصوص تھیں.ان تمام اخلاق متفرقہ کو اپنی ذات میں جمع کرلے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۶ ۷ مورخہ ۲۳ نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۷۶) حدیث شریف میں آیا ہے اثْمَا بُعِثْتُ لِأُتَيَّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ میری بعثت اس غرض کے واسطے ہے کہ تمام اخلاق حسنہ کو اپنے کمال تک پہنچا دوں.اسی پر شاعر نے کہا ہے حسنِ یوسف دم عیسی ید بیضاداری آنچه خوباں آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہاداری فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِأَيْكُمُ الْمَفْتُونُ - یہ پیشگوئی ہے کہ اے نبی وہ زمانہ قریب ہے جبکہ تو بھی دیکھ لے گا.اور یہ تیرے مخالف بھی دیکھ لیں گے کہ کس کی بات سچی نکلتی ہے.اور کون مجنون ثابت ہوتا.ں ہوتا ہے.فتح مکہ نے بہت جلد کفار پر ثابت کر دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو فرمایا تھا وہی سچ اور حق تھا.مجنون اسباب صحیحہ کے مہیا نہ کر سکنے کے سبب ناکام رہتا ہے.انبیاء ہمیشہ کا میاب ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۹۴۸ مورخه ۳۰ / نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۷) ہوتے ہیں.- إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ - ترجمہ.بے شک تیرا پروردگار اسے خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستہ سے گمراہ ہے ( یعنی تیرے منکر گمراہ ہی ہیں ) اور وہ ہدایت پائے ہوؤں کو بھی خوب جانتا ہے ( یعنی تجھے جو سب ہادیوں کا سردار ہے ).تفسیر.اللہ تعالی نا کامیابی اور کامیابی اندھا دھند نہیں دیا کرتا بلکہ مومن کو کامیاب کرتا ہے اور منکر کو نا کا می حاصل ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۸ ، ۹ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۷) لے تو انہیں کے سیدھے راستہ کی پیروی کر.۲؎ آپ حسن یوسف دم عیسی اور ید بیضا رکھتے ہیں.وہ تمام معجزات جو دوسروں کی انفرادی خوبیاں ہیں وہ سب آپ میں جمع ہیں.

Page 427

حقائق الفرقان ۹ - فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ - ترجمہ.تو جھٹلانے والوں کا کہا نہ ماننا.مکذبین کا کہنا نہ مانو.۴۱۷ سُوْرَةُ الْقَلَمِ مباحثہ کے وقت مخالف کے مقدمات کو مان نہیں لینا چاہیے.بلکہ مخالف جو باتیں پیش کرتا ہے وہ غالب دعاوی ہی ہوتے ہیں چکر دے کر ان سے دلائل پوچھنے چاہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد انمبر ۸، ۹ مورخہ ۳۰ / نومبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۷۷) ا.وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيدُ هِنُونَ - ترجمہ.وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ تم ذرہ دھیمے پڑو تو وہ بھی دھیمے پڑ جائیں.تفسیر.وہ چاہتے ہیں کہ تو ان سے چکنی چپڑی باتیں کرے اور وہ بھی تیرے ساتھ ایسی ہی باتیں کریں اور اپنے مذہب پر پکے رہیں.حق کے منکرین ہمیشہ یہ چاہتے ہیں کہ مذہب کے معاملہ میں ان کے ساتھ گفتگو نہ کی جائے اور جو عیب ان میں ہے وہ کبھی ان کو نہ جنتلا یا جاوے اور باہمی میل جول ہوتار ہے.یہ بات خداوند تعالیٰ کو پسند نہیں.ان آیات میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جبکہ عمائد قریش جمع ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم آپس میں صلح جوئی اختیار کریں اور اس کی راہ یہ ہے کہ اگر آپ کو مال و دولت کی خواہش ہے تو ہم بہت سا مال جمع کر دیتے ہیں اور اگر عیش و عشرت مقصود ہے تو عمدہ سے عمدہ کنواری لڑکیاں آپ کے لئے بہم پہنچا دیویں.غرض ہر طرح سے لالچ دیا گیا مگر آپ نے فرمایا کہ میں ان اشیاء میں سے کسی کا بھی آرزو مند نہیں ہوں.میں تو صرف تمہاری بہتری چاہتا ہوں تا کہ تم ہلاک ہونے سے بچ جاؤ.مروی ہے کہ وہ لوگ جو ایسا پیغام لائے تھے ان کے نام یہ ہیں.ولید بن مغیرہ ابو جہل، اسود بن عبد یغوث اور اخنس بن شریق.مدارات جائز ہے.مداہنہ جائز نہیں.امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ مدارات اور مداہنہ میں باریک سا فرق ہے.مدارات اس کو کہتے ہیں کہ اپنے دین کی سلامتی اور حفاظت کے واسطے

Page 428

حقائق الفرقان ۴۱۸ سُوْرَةُ الْقَلَمِ چشم پوشی کی جائے یا اس چشم پوشی میں اپنے بھائی مسلمان کی اصلاح مد نظر رکھی جائے اور مداہنت وہ ہے کہ اپنے حظ نفس خواہش نفسانی اور سلامتی جاہ کے لئے چشم پوشی کی جاوے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۲۷۷) ا - وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهِينٍ - ترجمہ.اور تو کہا نہ مان ہر ایک بڑی جھوٹی قسمیں کھانے والے ذلیل بے عقل کا.تفسیر.حلاف.جھوٹی قسمیں کھانے والا.بہت قسمیں کھانے والا.جیسا کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ بات بات پر واللہ، باللہ کہتے رہتے ہیں.ایسے لوگ خدا تعالیٰ کا نام بے فائدہ لیتے ہیں.اور لَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِاَيْمَانِكُمْ - (البقرة : ۲۲۵) کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں.مهین - قلیل الفہم ، پست ہمت ، ست رائے، خفیف العقل.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰/ نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۷) ۱۲ - هَمَّارٍ مَشَاءٍ بِنَمِيمٍ - ترجمہ.طعنہ دیتا ہے چغلیاں کرتا پھرتا ہے.تفسیر - هناز.طعنہ دینے والا.لوگوں کی برائیاں بیان کرنے والا.مساءٍ بِنَمِيم - چغل خور سخن چینی کے واسطے لوگوں کے درمیان آمد ورفت کرنے والا.حدیث شریف میں آیا ہے.سب سے بہتر وہ بندگانِ خدا ہیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آتا ہے.اور سب سے بدتر وہ ہیں جو لگائی بجھائی کر کے دوستوں میں جدائی ڈلواتے اور پاک لوگوں کے عیب تلاش کرتے پھرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۸، ۹ مورخہ ۳۰ / نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۷) ۱۳.مَنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ - ترجمہ.نیک کام سے روکتا ہے سخت دل، بداخلاق، حد سے بڑھتا ہے.تفسیر.مَناعِ لِلْخَيْرِ.نیکی سے منع کرنے والا.خیر کے معنے مال کے بھی ہیں.ولید بن مغیرہ اپنے بیٹوں اور اقارب کو کہا کرتا تھا کہ جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی متابعت کرے گا وہ میرے مال سے محروم رہے گا.لے نہ بنالو اللہ کو مانع اپنی قسموں کے باعث.

Page 429

حقائق الفرقان ۴۱۹ سُوْرَةُ الْقَلَمِ اس کی بہت سی مثالیں اس زمانہ میں بھی موجود ہیں.بعض لوگوں نے اپنی اولا د کو مسلمان ہو جانے کے سبب محروم الارث کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ انہیں اس سے بہتر مال عطا کرے گا.اشیم - بدکار ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸ ، ۹ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ صفحہ ۲۷۷) ވ ވ ۱۴ - عُتُةٍ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ - ترجمہ.اڑیل ضدی بڑا بداصل ہے.تفسیر.عقل.جھگڑے میں سخت.اُجڈ زنیم - ولد الزنا نطفہ ہے تحقیق جو کسی قوم کا نہ ہو اور اپنے آپ کو اس قوم کا بتلائے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ا ا نمبر ۸، ۹ - مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۷۷) ۱۷ - سَنَسِبُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ - ترجمہ.ہم قریب ہی اس کی سونڈھ یعنی لمبی ناک پر داغ لگادیں گے.تفسیر.جس امر میں وہ عزت چاہتا ہے.اسی میں اس کو بے عزت کیا جاوے گا.خرطوم سے مراد ناک ہے.مطلب یہ کہ اس کی ناک کٹ جاوے گی.بے عزت ہوگا ، ذلیل ہو گا.یہ ایک پیشگوئی تھی.چنانچہ ایسا ہی واقعہ ہوا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰ / نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۷) ج ١٩١٨ - انا بكونهُمْ كَمَا بَلَوْنَا اَصْحَبَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ وَلَا يَسْتَثْنُونَ.ترجمہ.ہم نے ان کو آزمایا جیسا باغ والوں کو آزمایا.جب انہوں نے قسم کھائی کہ باغ کے پھل ضرور تو ڈلیں گے صبح ہی.اور انشاء اللہ بھی نہ کہا.بكونھم.ہم نے ان کو امتحان میں ڈالا.یہاں ایک قوم کا حال بطور مثال کے بیان کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے انہیں ایک باغ عطا کیا تھا.مگر انہوں نے خداوند تعالیٰ کی نعمت کا شکریہ کر کے مساکین کو حصہ نہ دینا چاہا.بخل کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ تمام باغ جل کر خاک سیاہ ہو گیا.اور ان کے ہاتھ بھی کچھ نہ آیا.اس مثال سے اہلِ مکہ کو عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ تمہیں جو ریاست و دولت

Page 430

حقائق الفرقان ۴۲۰ سُوْرَةُ الْقَلَمِ دی گئی ہے.اس سے نیک فائدہ اٹھاؤ.یہ ایک ابتلا ہے کہ مال و جاہ والا ہوکر تم پیغمبر وقت کی اطاعت کرتے ہو یا نہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۹٬۴۸ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۸٬۲۷۷) يَسْتَثْنون.استثناء سے مراد شکر نعمت اللہ کا بجالانا ہے اور انشاء اللہ کہنا ہے.اہلِ محاورہ بولتے ہیں.حَلَفَ فُلَانٌ يَمِينًا لَيْسَ فِيْهَا إِسْتِفْنَاءٍ انسان کو چاہیے کہ اپنے ہر ارادے میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرے اور اس کے علم اور قدرت سے سہارا لے.اور انشاء اللہ کہے.مگر اس مقدس کلمہ کو وعدہ پورا نہ کرنے کا بہانہ نہ بنائے جیسا کہ فی زمانہ بعض لوگوں کی عادت ہو گئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۹۴۸ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۸) ٢٠ - فَطَافَ عَلَيْهَا طَابِفٌ مِّنْ رَّبِّكَ وَهُمْ نَابِرُونَ - ترجمہ.پھر اُس پر تیرے رب کی طرف سے ایک بلا پھر گئی اور وہ سوتے کے سوتے ہی رہے.تفسیر.کاہف.پھر جانے والا عذاب.رات کے وقت اس قوم پر عذاب آیا تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۹۴۸ مورخه ۳۰ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۸) -۲۶ وَغَدَوا عَلَى حَرْدِ قَدِرِينَ - ترجمہ.اور سویرے ہی جا پہنچے بخل کی نیت سے اپنے کو پورا قادر سمجھ کر.تفسیر.قارئین.لپک کر چلنے والے.مساکین کے نہ دینے کا اندازہ کرنے والے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۹۴۸ مورخه ۳۰ نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۸) -۲۹ - قَالَ اَوْسَطُهُمْ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ لَوْلَا تُسَبِّحُونَ.ترجمہ.(ان کے) مجھے اور بہتر آدمی نے کہا کیوں میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ اللہ کی تسی کیوں نہیں کرتے.تفسیر.اوسطھم.جو ان میں سے اچھا تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۹۴۸ مورخه ۱۳۰ نومبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۷۸) ا فلاں شخص نے قسم کھائی اور انشاء اللہ نہ کہا.

Page 431

حقائق الفرقان ۴۲۱ سُوْرَةُ الْقَلَمِ ۳۳ عَسَى رَبُّنَا أَنْ يُبْدِ لَنَا خَيْرًا مِنْهَا إِنَّا إِلَى رَبَّنَارُ غِبُونَ - ترجمہ.قریب ہے کہ ہمارا رب اس سے بہتر بدلہ عنایت کرے.ہم تو اپنے رب کی طرف راغب ہیں.تفسیر.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سرشت اچھی تھی کیونکہ پھر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کا عزم ان میں پیدا ہوا.جو شخص نقصان پر صبر کرتا ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے.اللہ تعالیٰ پہلے سے بہتر و برتر عنایت کرتا ہے.مولا نا روم فرماتے ہیں اوّلم خم شکست و هر که بریخت من نگفتم که این زیانم کرد و شاد مانم کرد خم صافی از پی آں حوضم داد صد (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰ /نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۸) ۳۵ - إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِنْدَ رَبِّهِم جَنَّتِ النَّعِيمِ.ترجمہ.بے شک متقیوں کے لئے ان کے رب کے نزدیک نعمت کے باغ ہیں.تفسیر.مُتقین.اوپر کی آیات میں منکرین کا بیان ہے.اب متقین کا ذکر ہے کہ جن لوگوں نے مُتَّقِينَ.تقوی اختیار کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت اختیار کی.وہ کامیاب اور بامراد ہوں گے.ان کے لئے جنت النعیم ہے.یہاں بھی اور وہاں بھی.یہ ایک پیشین گوئی ہے جو کہ اس جہاں میں بھی پوری ہوگی اور اگلے جہاں میں بھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸ ۹ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۹،۲۷۸) - اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ - ترجمہ.کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کے برابر کر دیں گے.تفسیر.مُجرھ.قطع تعلق کرنے والا.مسلم.سچا فرماں بردار.خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والا.فرمایا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکموں کو نہیں مانتے اور رسول کا انکار کرتے ہیں.وہ ان لوگوں پہلے میرا پیالہ گر کر ٹوٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی جو اس میں تھا وہ بھی سب گر گیا.مگر میں یہ نہیں کہتا کہ اس سے میرا نقصان ہوا ہے کیونکہ اس نے ( یعنی خدا نے) صد خالص پیالے میرے حوض کو دے کر مجھے خوش کر دیا ہے.

Page 432

حقائق الفرقان ۴۲۲ کے ساتھ برابر نہیں ہو سکتے جو قطع تعلق کرنے والے ہیں.سُوْرَةُ الْقَلَمِ ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۹) -۳۹- إِنَّ لَكُمْ فِيهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ - ترجمہ.کیا آخرت میں تم کو وہی ملے گا جو تم پسند کرو گے ( کیا تم کو پورا اس میں اختیار دیا گیا ہے ).تفسیر.تَخَيَّرُونَ.جو تم پسند کرو.کیا جو تم پسند کرتے ہو وہ شریعت بن سکتی ہے؟ خیالات کے ساتھ واقعات وابستہ نہیں ہو سکتے.یہ بہت مشکل بات ہے کہ انسان کی تمام خواہشات پوری ہوتی چلی جائیں.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۸، ۹ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۹) ۴۱۴۰.اَم لَكُمْ اَيْمَانَ عَلَيْنَا بَالِغَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ - سَلُهُمْ أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ - ترجمہ.یا تم نے ہم سے قسمیں لے رکھی ہیں جو قیامت کے دن تک چلی جائیں گی اور تم کو وہی ملے گا جو تم حکم کرو گے.ان سے پوچھ کہ ان میں سے کون اس کا ذمہ لیتا ہے.تفسیر - إلى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ - قیامت کے معاملہ میں.609 - زعيم - ذمہ دار ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۹۴۸ مورخه ۳۰/نومبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۷۹) ۴۳ ۴۴ - يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ - خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا يُدْعَونَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَلِمُونَ - ترجمہ.جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور ان کو بلایا جائے گا سجدہ کرنے کو ( یعنی نماز کے لئے ) تو وہ نہ کر سکیں گے ( یعنی تارک نماز اذان سنے تو سجدے کی طرف نہیں آ سکتے ).جھکی ہوں گی ان کی آنکھیں اور ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی اور حالانکہ وہ تندرستی کی حالت میں نماز کے لئے بلائے جاتے تھے.تیری يُكشَفُ عَنْ سَاقٍ - یہ ایک محاورہ عربی زبان کا ہے.اور اس کے معنے ہیں.جب حقیقت کھل جائے گی یا جب بہت گھبراہٹ ہوگی.

Page 433

حقائق الفرقان ۴۲۳ سُوْرَةُ الْقَلَمِ بعض تفاسیر کے بیان کردہ معانی کی بناء پر اس آیت پر آریوں اور عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے جو کہ بمعہ جواب درج ذیل ہے." مکذب براہین نے تکذیب کے صفحہ ۶۹ میں قرآن شریف کی آیت يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساق کو صانع عالم کی ہستی کی دلیل سمجھ کر یہ اعتراض کیا ہے ” خدائے بے چون و چرا محمد یوں کو کہتا ہے.میں قیامت کے روز تم کو دیدار دوں گا اور تم نہیں مانو گے.اور پھر میں تمہارے اصرار کرنے پر پنڈلی سے جامہ اٹھا کر بتلاؤں گا تب تم سجدہ میں گرو گے.جائے تعجب اور حیرت ہے.خداوند تعالیٰ بسبب زودرنجی کے جامہ سے باہر ہوا جاتا ہے.اور نہیں شرماتا“ مصدق: تمام اعتراض از سرتا پا افتر اور بہتان اور راستی سے بے نام و نشان ہے.اوّل اس لئے کہ اگر معترض ہی کا وہ ترجمہ مان لیا جاوے جو خود معترض نے اس آیت کے نیچے لکھا ہے ” جس روز جامہ اٹھایا جاوے گا پنڈلی سے اور بلائے جاویں گے لوگ واسطے سجدہ کرنے کے.بس نہ کرسکیں گے“ تکذیب صفحہ نمبر (۶۸) جب بھی اس ترجمہ سے وہ باتیں نہیں نکلتیں جو مکذب براہین نے اپنے اعتراض میں بیان کی ہیں.مثلاً ” تم کو دیدار دوں گا ایک.”اور تم نہیں مانو گے“ دو.پھر میں تمہارے اصرار پر تین ۳." تب تم سجدہ میں گرو گے“ چار.” زود رنجی، پانچ نہیں شرما تا چھ.تعجب و حیرت ہے فَلَا يَسْتَطِيعُونَ کے معنے مکذب نے یہ لکھے ہیں.” پس نہ کرسکیں گئے اور اعتراض میں مکذب نے لکھا ہے ” تب تم سجدہ کرو گے“ آریہ صاحبان! انصاف کرو! اور سیچ کے اختیار کرنے میں دیر نہ کرو.وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: ۱۲۹) اب میں آپ کو اس آیت کی بقدر ضرورت تشریح سناتا ہوں اور آیت کا مابعد بھی ساتھ ہی بیان کرتا ہوں.يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَ يُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُونَ خَاشِعَةٌ أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۖ وَقَدْ كَانُوا يُدعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ وَهُمْ سَلِمُونَ - لے یادرکھو انجام کار کامیابی خدا ترسوں کے حصہ میں آتی ہے.۲.جس وقت سخت اضطراب کا وقت ہوگا.

Page 434

حقائق الفرقان ۴۲۴ سُوْرَةُ الْقَلَمِ الساق : عربی میں شدت اور تکلیف کو کہتے ہیں اور کشف الساق شدت اور تکلیف کا ظہور ہے.پس يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقِ کے معنے ہوئے.جب شدت اور تکلیف کا ظہور ہوگا ان معنوں کا ثبوت علاوہ لغت عرب کے قرآن کریم سے دیا جاتا ہے.كَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِ - وَ قِيْلَ مَنْ رَاقٍ - وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ - وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ إلَى رَبَّكَ يَوْمَئِذٍ نِ الْمَسَاقُ - (القيامة : ۲۷ تا ۳۱ ) عَجِبْتُ مِنْ نَّفْسِى وَ مِنْ اَشْفَاقِي وَ مِنْ طَرَّاوِي الطَّيْرِ عَنْ أَرْزَقِهَا في سَنَةٍ قَد كَشَفَتْ عَنْ سَاقِهَا! اور اب جب جنگ کی شدت ہوتی ہے تو کہتے ہیں كَشَفَ الْحَرْبُ عَنْ سَاقٍ یعنی گھمسان کا رن واقع ہوا.اب اس تحقیق پر آیت شریف کا یہ مطلب ہوا کہ جب عبادت کے کمزور کو مرض موت کی شدت انتہا درجہ کو پہنچ جاتی ہے اور بڑا بوڑھا یا نا تواں زار ونزار ہو جاتا ہے اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلانے والے موذن نے حَى عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاح کا کلمہ بڑے اونچے منار سے بلند آواز کے ساتھ پکار سنایا.اور وہ میٹھی آواز سلیم الفطرت ناتواں کے کان میں پہنچی.اب اس کا دل مسجد کو جانے کے لئے تڑپتا ہے.مگر اس وقت وہ مرنے کی حالت میں مبتلا.اچھی طرح ہل جل بھی نہیں سکتا اور دل میں کڑھتا ہے مگر اب اس کڑھنے سے قوی نہیں ہو جاتا.اسی آیت شریف میں بقیہ حاشیہ.اور سجدہ کی طرف بلائے جائیں گے.پس ان کو سجدہ کرنے کی طاقت نہ ہو گی.اُن کی آنکھیں مارے ضعف و دہشت) کے بے نور ہو گئی ہوں گی.ذلت نے انہیں ڈھانک رکھا ہوگا.اور ( اس حالت سے پہلے ) جب بھلے چنگے تھے.سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے.اے ایسا نہ ہو گا.جس وقت سانس ہنسلی پر پہنچ جاتی ہے اور کہا جاتا ہے.کون افسوس کرنے والا ہے (جو اسے اب بچالے ) اور ( مریض ) یقین کرتا ہے کہ اب جدائی کا وقت ہے اور سخت گھبراہٹ اس پر طاری ہوتی ہے.اس وقت چلنا تیرے رب کی طرف ہے را جز عرب کے نامی شاعر کا قول ہے.۲.تعجب ہے کہ قحط کے دنوں میں جب شدت سے اضطراب واقع ہوا.میں بھوکوں مرنے کے خوف سے پرندوں کو ان کی روزی کھانے سے روکتا تھا.

Page 435

حقائق الفرقان ۴۲۵ سُوْرَةُ الْقَلَمِ وَقَدْ كَانُوا يُدعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ کے پیچھے وَهُمْ سَالِمُونَ کا کلمہ ان معنے کا قرینہ موجود ہے.جس کے معنی ہیں ” اور تحقیق وہ لوگ بلائے جاتے تھے سجدہ کی طرف جبکہ بھلے چنگے تھے“ ان معنی کی تصدیق تفسیر کبیر کے جلد نمبر ۸ صفحہ ۲۷۴ سے بخوبی ہوسکتی ہے.دوسری توجیہ.اس آیت شریف کی السّاقُ ذَاتُ الشَّيرِ وَ حَقِيْقَةُ الْأَمْرِ - کیا معنی ساق کا لفظ عربی زبان میں کسی چیز کی ذات اور اس کی اصل حقیقت کو کہتے ہیں.يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقی کے معنے یہ ہوئے.جس دن اشیاء کی اصل حقیقت ظاہر ہوگی.اور انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی تعلیمات کے منکر اپنی نافرمانیوں کا بدلہ دیکھیں گے.اس وقت اتماما للحجہ پھر سجدہ کی طرف بلائے جائیں گے مگر پہلی نافرمانی کا بد نتیجہ یہ ہوگا کہ اس وقت سجدہ نہ کرسکیں گے.تیسری توجیہ اس آیت شریف کی یہ ہے کہ ہر ایک چیز کی پہچان مختلف اسباب سے ہوا کرتی ہے مثلاً کوئی شخص ایک آدمی کو اس کا منہ دیکھ کر پہچان سکتا ہے اور سابقہ جان پہچان والا ادنی نشان جیسے قدم اور ساق کو دیکھ کر پتہ لگا سکتا ہے.اسی طرح ایک سمجھدار، صحیح الفطرت، صاحب دانش ادنی ادنیٰ امور سے باری تعالیٰ کے وجود اور اس کی ہستی کا پتہ حاصل کر سکتا ہے.شعر برگ درختان سبز در نظر ہوشیار ہر ورقے دفتر معرفت کردگار کے اور کم فہم مریض الفطرت کو عمدہ عمدہ دلائل سے بھی معرفت الہی حاصل نہیں ہو سکتی.اسی طرح ہنگامہ محشر کے وقت جو اسی موجودہ دنیا کا نتیجہ ہے.جب الہی صفات کا ظہور ہوگا تو ناسمجھ اپنی کمی معرفت اور نقص عرفان کے باعث بخلاف سمجھ داروں کے سجدہ سے محروم رہ جاویں گے.اور اسلام والے اپنے عرفان اور ایمانی نور کے باعث ادنی ظہور صفات پر جسے کشف ساق کہتے ہیں.جو کشف وجہ سے کم ہے سجدہ میں گریں گے اور منافقوں نافہموں کی پیٹھ اس وقت طبق واحد ہو جائے گی.لے باشعور انسان کی نظر میں سر سبز درختوں کے پتے ، خالق کی معرفت کے صحائف کے اوراق ہیں.

Page 436

حقائق الفرقان ۴۲۶ سُوْرَةُ الْقَلَمِ چوتھی تو جیہ.جو بالکل میرے مسلک پر ہے یہ ہے.ساق اور اس کا کشف باری تعالیٰ کی صفت ہے اور صفات کا معاملہ ایسا ہی ہے کہ ان کی حقیقت ہمیشہ بلحاظ اپنے موصوف کے بدل جایا کرتی ہے مثلاً بیٹھنا ہماری صفت ہے جس سے ہم ہر روز متصف ہوتے ہیں.مگر ایک بڑے ساہوکار یا کسی امیر کا عروج کے بعد بیٹھ جانا ہمارے ہر روزہ بیٹھ جانے سے نرالا ہوگا.برسات کے دنوں میں مینہ کے زور سے دیوار کا بیٹھ جانا پہلے بیٹھنوں سے بالکل الگ ہوگا.اور ایک بادشاہ کا تخت پر بیٹھ جانا کوئی اور ہی حقیقت رکھے گا.ان مثالوں میں دیکھ لو.بیٹھنا ایک صفت ہے مگر بلحاظ تبدل موصوفین کے اس صفت کا ایک قسم دوسری قسم سے بالکل علیحدہ ہے.اب ان سب سے ایک لطیف بیٹھنا سنو ! جس کی حقیقت ان تمام بیٹھنوں سے بالکل الگ ہے وہ بیٹھنا کیا ہے؟ کسی کی محبت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا اور کسی کی عداوت کا کسی کے دل میں بیٹھ جانا کسی کی کلام کا کسی کے دل میں گھر کر لینا یا بیٹھ جانا.جب اہلِ اسلام نے باری تعالیٰ کو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَی - (الشوری: ۱۲) انو پیم.بے مانند مانا ہے تو اس بات کا تسلیم کرنا ہر عاقل منصف کا فرض ہے کہ وہ اس کی تمام صفات بھی اس پاک موصوف کی طرح کیس گیفل اور انو پیم.بے مانند مانتے ہوں گے.اس کی قدرت.اس کی طاقت.اس کا علم.اس کی حیات.اس کا موجود ہونا.اس کا ازلی ہونا.اس کا ابدی ہونا.اس کا ید.اس کا وخبہ.اس کی ساق.اس کا کشف.اس کا عرش پر بیٹھنا سب بے مثل ہوگا.چونکہ ہم اس کی پاک ذات سے کوئی مشابہت نہیں رکھتے.اس لئے ہماری کوئی صفت اس کی کسی صفت سے مشابہ نہ ہوگی.تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۷۳ تا ۱۷۷) لے اُس کے جیسی تو کوئی بھی چیز نہیں.

Page 437

حقائق الفرقان ۴۲۷ سُوْرَةُ الْقَلَمِ ۴۵.فَذَرْنِي وَمَنْ يُكَذِبُ بِهَذَا الْحَدِيثِ سَنَسْتَدْرِجُهُم مِّنْ حَيْثُ لا يَعْلَمُونَ - ترجمہ.اب تو مجھ کو اور اس کو چھوڑ دے جو جھٹلاتا تھا اس کلام کو.قریب ہی ہم اس کو کھینچیں گے آہستہ آہستہ ایسی طرح کہ ان کو معلوم بھی نہ ہو.تفسیر.سیر کرنی.یہ ایک محاورہ ہے.ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں.مجھے چھوڑ دو.میں ذرا اس کی خبر لے لوں.زبان انگریزی میں بھی اس قسم کا محاورہ لفظ Let سے استعمال کیا جاتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۱۰ مورخہ ۷ /دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۱) ۴۷ - اَم تَسْلُهُمْ أَجْرًا فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُّثْقَلُونَ - ترجمہ کیا تو ان سے کوئی مزدوری مانگتا ہے سو یہ فیس کے بوجھ سے دبے جاتے ہیں.یہ بھی اس نبی کی صداقت کا ثبوت ہے کہ وہ تمہاری خیر خواہی میں رات دن مصروف ہے اور اس کے عوض میں تم سے کچھ مزدوری نہیں چاہتا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ا ا نمبر ۱۰ مورخہ ۷ /دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۱) ۴۸ - ام عِنْدَهُمُ الْغَيْبُ فهم يكتبون - ترجمہ.یا ان کے پاس علم غیب ہے کہ وہ لکھ لیتے ہیں.غیب.دیکھو غیب کی پیشگوئیاں خدا تعالیٰ سے خبر پاکر کون کر رہا ہے؟ کیا ایسی زبر دست پیشگوئیاں کوئی مفتری یا مجنون کر سکتا ہے.جو برابر پوری بھی ہو رہی ہیں اور بڑی بڑی فتوحات پر مشتمل ہیں.اگر یہ رسول خدا کی طرف سے نہیں ہے تو یہ غیب اُسے کہاں سے مل گیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلدا انمبر ۱۰ مورخہ ۷ /دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۱) ۴۹.فَاصْبِرُ لِحُكْمِ رَبَّكَ وَلَا تَكُنْ كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَى وَهُوَ مَكْظوم - ترجمہ.تو تو اپنے رب کے حکم کی وجہ سے صبر کر ( اور اس کے حکم کا منتظر رہ ) مچھلی والے کے مانند نہ ہو جا.جب اس نے اللہ کو پکارا اور وہ دل آزردہ اور غم سے پر تھا.

Page 438

حقائق الفرقان ۴۲۸ سُوْرَةُ الْقَلَمِ صَاحِبِ الْحُوت: تیزی والا.غضب والا.حوت مچھلی کو بھی کہتے ہیں.اس لئے ترجمہ ہوا.مچھلی والا.تب اشارہ ہوا الْتَقَبَهُ الْحُوتُ کی طرف.فرمایا.اے نبی تو منکرین کی تکلیف دہی پر صبر کر.یہ تکالیف اور مصائب تیرے لئے غمزدہ ہونے کا موجب نہ ہوں.وقت قریب ہے کہ تیری کامیابی ظاہر ہوگی.اور تیری صداقت سب پر کھل جائے گی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۱) ۵۲.وَإِن يَكَادُ الَّذِينَ كَفَرُوا لَيُزْلِقُونَكَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِكرَ وَ يَقُولُونَ إِنَّهُ لَمَجْنُونَ - ترجمہ.اور قریب ہے کہ منکر آنکھوں سے تجھے گھور گھور کر پھنسلا پچھلا دیں جب وہ سنتے ہیں قرآن اور بولتے ہیں کہ یہ بھی ضرور دیوانہ ہے.تفسیر.يُزلِقُونَك.تجھے گھورتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۰ مورخہ ۷ /دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۱) -۵۳- وَمَا هُوَ الَّا ذِكرُ لِلْعَلَمِينَ - ترجمہ.اور قرآن تو کچھ نہیں مگر تمام جہانوں کے واسطے پند و یادگارا ہے.تفسیر.ذکر.شرافت.بڑائی.اس کتاب پر عمل کرنے والے تاریخی لوگ ہو جائیں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۰ مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۱۱ صفحه ۲۸۱)

Page 439

حقائق الفرقان ۴۲۹ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ مَكِيّة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ہم سورہ حاقہ کو پڑھنا شروع کرتے ہیں اس اللہ کے نام سے جس کے پاس سچا علم.قیامت کا اور وہ اس کے نتیجوں سے بھی خبر دینے والا ہے.لا ۲ تا ۱۰ - اَلْحَاقَّةُ مَا الْحَاقَّةُ - وَ مَا ادريكَ مَا الْحَاقَةُ - كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَ عَادُ بِالْقَارِعَةِ - فَأَمَّا ثَمُودُ فَأَهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ - وَ أَمَّا عَادُ فَأَهْلِكُوا بِرِيج صَرُ صَرٍ عَاتِيَةِ - سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَ ثَنِيَةَ أَيَّامٍ حُسُومًا فَتَرَى الْقَوْمَ فِيهَا صَرْعى كَأَنَّهُمْ أَعْجَازُ نَخْلِ خَاوِيَةٍ فَهَلْ تَرَى لَهُم مِّنْ بَاقِيَةٍ وَجَاءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَهُ وَالْمُؤْتَفِكُتُ بِالْخَاطِئَةِ - ترجمہ.سچ ہونے والی.کیا ہے وہ سچ ہونے والی.اور تو نے کیا سمجھا کہ وہ سچی ہونے والی ہے کیا چیز.شمود نے جھٹلایا اور عاد نے اس کھڑکھڑا ڈالنے والی کو.وہ جو شمود تھے وہ تو ہلاک کر دیئے گئے.اور عاد بھی ایک زناٹے کی آندھی سے ہلاک کر دیئے گئے.جڑ کاٹنے والے عذاب کو اللہ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن متعین کر رکھا تھا لگا تار.اور (اے مخاطب ) تو ان لوگوں کو اس آندھی میں ان سے پچھڑے ہوئے دیکھے گا گویا وہ کھجوروں کے کھو کھلے جڑ کی طرح ڈھائے ہوئے پڑے ہیں.تو کیا تو دیکھتا ہے ان میں کوئی بھی بچا ہوا.اور فرعون اور اس سے پہلے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والے یعنی قوم لوط ) خطاوار ہوئی تھی ( اس وجہ سے یعنی افعال طاغیانہ کے باعث ).تفسیر - الحاقة.سچ سچ ہو جانے والی.ایک عظیم الشان شد نی امر.جو اہل ہے.اور یقیناً واقعہ ہونے والا ہے.اس سے مراد آپ کے سخت اعداء کی تباہی ہے.جس کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ

Page 440

حقائق الفرقان ۴۳۰ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ و آلہ وسلم نے دی اور وہ پیشگوئیاں ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صداقت اور منکرین کی ہلاکت کے متعلق کیں کہ وہ ضرور پوری ہونے والی ہیں.ان آیات میں پہلے انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کی مثال دی ہے اور بطور عبرت کے ان کا واقعہ پیش کیا ہے کہ وہ بھی مجھ سے پہلے انبیاء ورسول.نبی ورسول نبی تھے.اگر ان کے نہ ماننے والوں نے سکھ نہیں پایا تو تم کیوں کر سکھ پاؤ گے.عاد اور ثمود کی قوم کا حال دیکھو کہ کیا ہوا اور خداوند تعالیٰ سے ڈرو کہ کہیں تمہارا بھی وہی حال نہ ہو.قارِعَة.ٹھونک کر سمجھانے والی.بالطَّاغية - بہ سبب حد سے بڑھی ہوئی نافرمانی کے وہ ہلاک ہوئے.عاتية - قابو سے نکلنے والی.حد سے بڑھی ہوئی.مؤتفكتُ.جن پر پہاڑ گرا تھا.سڈوم و مارا کے لوگ.بِالْخَاطِقة.ان کی خطا کاریوں کے سبب.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۲) سارا جہان یہاں تک کہ درخت بھی قانونِ الہی کے سب پابند ہیں.گائے، بھینس، بیل، بکری وغیرہ کو دیکھو کہ وہ گھاس کو جھٹ جھٹ اپنے دانتوں سے کاٹ کر نگل جاتے ہیں.پھر آرام سے یٹھ کر اس کو اپنے پیٹ سے نکال کر چباتے اور پھر نگلتے ہیں.اور اسی طرح سے وہ جگالی کرتے ہیں اور اسی طرح آرام کر کے پیشاب و گو بر کرتے ہیں.یہ ان کے ساتھ ایک سنت ہے.اگر اس کے خلاف کوئی جانور کھاتا ہی چلا جائے اور جگالی اور آرام وغیرہ بالکل نہ کرے تو وہ بہت جلد ہلاک ہو جائے گا.اسی طرح بچوں کی حالت ہے.اگر بچہ اور بچہ کی ماں کوئی بد پرہیزی کریں تو دونوں کو تکلیف ہوتی ہے.اگر کوئی شخص کھانا کھانے کی بجائے روٹی کانوں میں ٹھونسنے لگے تو کیا وہ بچ جائے گا.اسی طرح بہت سے قانون ہیں جو ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں.وہ ذلیل ہو جاتے ہیں.جھوٹے

Page 441

حقائق الفرقان ۴۳۱ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ جھوٹ بولتے ہیں مگر ایک زمانہ کے بعد اگر وہ کبھی سچ بھی بولیں.تب بھی کوئی ان کا اعتبار نہیں کرتا.یہاں تک کہ اگر وہ قسمیں کھا کر بھی کوئی بات کہیں تو تب بھی کوئی یقین نہیں کرتا.اسی طرح ست آدمی اپنی آبائی جائیداد تک بھی فروخت کر کے کھا جاتا ہے.الْحَاقَةُ - مَا الْحَاقَّةُ - تم جانتے ہو کہ ہونے والی باتیں ہو کر ہی رہتی ہیں اور کس طرح ہو کر رہتی ہیں.مثل کی طرح سنو.كَذَبَتْ ثَمُودُ.جن لوگوں نے حق کی مخالفت کی.ان کو خدا نے ہلاک کر دیا.شمود قوم نے تکذیب کی.اس کا انجام کیا ہوا.ہمارے ملک میں سلاطین مغل ، پٹھان، سکھ وغیرہ تھے.جب انہوں نے نافرمانی کی تو خدا نے ان کو ٹھونک ٹھونک کر ٹھیک کر دیا.پیارو! اگر تم بدی کرو گے تو تم کو بدی کا ضرور نتیجہ بھی بھگتنا پڑے گا.یاد رکھو.بدی کے بدلہ میں کبھی سکھ نہیں مل سکتا.عاد قوم بڑی زبر دست تھی.اس کو اللہ تعالیٰ نے ہوا سے تباہ کر دیا.سات رات اور آٹھ دن متواتر ہوا چلی.سب کا نام ونشان تک اڑا دیا.بڑے بڑے عمائید قوم اس طرح گرے.جیسے کھوکھلا درخت ہوا سے گر جاتا ہے.بتاؤ تو سہی.اب کہاں ہیں.رنجیت سنگھ اور ان کی اولاد.ان کے بیٹے پوتے اور پڑپوتے.اس کا بیٹا ایک ہوٹل میں ایسی کسمپرسی کی حالت میں مرا کہ کسی نے یہ بھی نہ پوچھا کہ کون تھا! وَ جَاءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبلَه - فرعون اور اس کی بستیوں کو الٹ کر پھینک دیا.ایک میرے بڑے دوست شہزادہ تھے.وہ بیچارے خود کپڑ اسی کر گزارہ کیا کرتے تھے.اور ایک اور میرے دوست تھے.وہ ان کو سینے کے لئے کپڑے لا دیا کرتے تھے.اور خود دے آیا کرتے تھے.انہوں ہی نے مجھے کہا کہ تم اس سے اپنے کپڑے سلوایا کرو.خود دار بھی وہ ایسے تھے کہ کسی کو اس کی خبر تک ہونا گوارا نہیں کر سکتے تھے.خود کبھی کسی سے کپڑا نہیں لیتے تھے.اور اس عالم میں بھی ان کی مزاج سے وہ شاہانہ بو دور نہیں ہوئی تھی.خمرے رکھا کرتے تھے کوئی اپنے حسن پر مغرور ہے.کوئی اپنے علم پر اتراتا ہے.کوئی اپنی طب پر اکڑتا ہے.حالانکہ یہ سب غلط ہے.جب تک خدا کا فضل نہ ہو.کچھ بھی نہیں ہوسکتا.خدا سے ڈرو.سچ سچ یہ بات ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے.خدا رحم کرے میری ماں

Page 442

حقائق الفرقان ۴۳۲ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ پر وہ کہا کرتی تھی کہ جو آگ کھائے گا وہ انگا ر ہے گا.شمود نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا.ہم نے بھی ایسا پکڑا کہ کہیں نہ جانے دیا.جانتے ہو کہ نوع کی قوم کو کس طرح غرق کیا.تم کو چاہیے تھا کہ اس سے عبرت حاصل کرتے.دار السلام اس میں سولہ لاکھ آدمی قتل کر دیے وہ جو بادشاہ تھا.اس نے اپنی بیوی کا نام نسیم السحر “ رکھا ہوا تھا.جس طرح صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے آدمی کو نیند آتی ہے.اسی طرح اس کو اپنی بیوی کی صحبت خوشگوار معلوم ہوتی تھی.جب اس نیم السحر " و قتل کیا تو کسی گلی کے کتے ہی چاہتے تھے.کسی نے کفن تک بھی نہ دیا.جب بادشاہ نے قید میں پانی مانگا تو فاتح بادشاہ نے سپاہ کو حکم دیا کہ اس کے محل میں سے تمام لعل و جواہرات لوٹ لاؤ.وہ وحشی لوگ فوراً گئے اور تمام محل کی آرائش کو لوٹ کھسوٹ کر لے آئے تو اس کے سامنے ایک تھالی میں نہایت قیمتی قیمتی جواہرات بھر کر بادشاہ بغداد کے سامنے پیش کئے گئے کہ لو ان کو پیو اور پھر گالی دے کر کہا کہ بدذات تو فوج کو تنخواہ نہ دیتا تھا.اور تیرے گھر میں اس قدر مال تھا.یہ کہہ کر اس کا سر اڑا دیا گیا.تم اپنی جان پر رحم کرو.یاد رکھو کہ کسی کا حسن نہ کام آئے گا اور نہ کسی کا مال کام آئے گا.نہ جاہ وجلال ، نہ علم ، نہ ہنر.( البدر حصہ دوم کلام امیر مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۵۸-۵۹) ۱۱ تا ۱۳- فَعَصَوا رَسُولَ رَبِّهِمْ فَأَخَذَهُمْ أَخْذَةً رَّابِيَةً - إِنَّا لَمَّا طَعَا الْمَاءِ ووو حَمَلْنَكُمْ فِي الْجَارِيَةِ - لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ - ترجمہ.تو انہوں نے نافرمانی کی اپنے رب کے رسولوں کی تو اللہ نے ان کو پکڑ لیا بڑی سخت پکڑ میں.جب پانی حد سے بڑھ گیا ہمیں نے سوار کر لیا تم کو کشتی میں.تا کہ اس واقعہ کو بنائیں تمہارے لئے ایک یاد گار تو اس کو یا در کھے کوئی یا درکھنے والا کان.تفسیر.عَصَوا.انہوں نے رسول کی نافرمانی کی اور یہ تمام عذاب اسی سبب سے ان پر پڑا.رابية - بڑھ چڑھ کر.جَارِيَةً.چلتی ہوئی کشتی.بغداد مرتب

Page 443

حقائق الفرقان ۴۳۳ لِنَجْعَلَهَا.تمہیں اس واسطے سناتے ہیں کہ تمہیں نصیحت حاصل ہو.سُوْرَةُ الْحَاقَةِ ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۲۸۲) ۱۴ تا ۱۶ - فَإِذَا نُفِخَ فِي الصُّورِ نَفْخَةُ وَاحِدَةً وَحُمِلَتِ الْأَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُكَّتَادَكَةً وَاحِدَةً فَيَوْمَينِ وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ - ترجمہ.پھر جب ایک دفعہ صور پھونکا جائے گا.اور زمین و پہاڑ اٹھائے جائیں گے اور ایک بار و حکم دھکا ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے.تو اس روز واقع ہونے والی واقع ہو جائے گی.تفسیر.اِذَا نُفِع.ایک وقت آتا ہے جبکہ بگل بجایا جائے گا.عذاب و ہلاکت کا وقت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین پر جو عذاب آنے والا ہے.اس کا وقت آ جائے گا.جِبَالُ.۱.پہاڑ اڑ جائیں گے یا.۲.مشرکین کے عمائد جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی مانند مضبوط سمجھتے ہیں ہلاک ہو جائیں گے.وَقَعَت.خطرناک عذاب آئے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۲) ۱۸،۱۷ - وَانْشَقَتِ السَّمَاءِ فَهِيَ يَوْمَبِدٍ وَاهِيَةٌ وَالْمَلَكُ عَلَى أَرْجَابِهَا وَ يَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَينِ ثَنِيَةٌ - ترجمہ.اور آسمان پھٹ جائے گا اور ڈھیلا پڑ جائے گا اور پھس پھسا ہو جائے گا اس دن.اور فرشتے اس کے کناروں پر ہوں گے.اور تیرے رب کے عرش کو اس روز آٹھ فرشتے اٹھائے ہوں گے.تفسیر.انشقت السماء - آسمان پھٹ پڑے گا.سخت بارش ہوگی یا کوئی عذاب آئے گا.ملك فرشتے.ملائکہ کا ایک خاص اثر دہام اور ہجوم ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی تائید اور نصرت میں ملائکہ کا نزول ہوتا تھا.ثنية - اس دن اللہ تعالیٰ کے عرش کے حامل آٹھ فرشتے ہوں گے.کیا معنی.اللہ تعالیٰ کی

Page 444

حقائق الفرقان ۴۳۴ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ چار صفات ( رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) کی خاص تجلی ہوگی.اس آیت کی تفسیر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی عربی کتاب "کرامات الصادقین میں لکھی ہے جو اصل عبارت یہاں لکھی جاتی ہے اور نیچے اُس کا ترجمہ لکھا جاتا ہے.ثُمَّ اعْلَمُ أَنَّ لِلَّهِ تَعَالَى صِفَاتٍ ذَاتِيَةً نَاشِئَةً مَنِ اقْتِضَاء ذَاتِهِ وَعَلَيْهَا مَدَارُ الْعَالَمِينَ كُلِّهَا وَهِيَ أَرْبَعَةٌ رَبُوَبِيَّةٌ وَرَحْمَانِيَّةٌ وَرَّحِيمِيَّةٌ وَمَالِكِيَّةٌ كَمَا أَشَارَ اللَّهُ تَعَالَى إِلَيْهَا فِي هَذِهِ السُّورَةِ وَقَالَ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ.فَهَذِهِ الصَّفَاتُ الذَّاتِيَّةُ سَابِقَةٌ عَلى كُلِّ شَيْءٍ وَ مُحِيْطَةٌ بِكُلِّ شَيْءٍ وَ مِنْهَا وُجُودُ الْأَشْيَاء وَاسْتِعْدَادُهَا وَقَابِلِيَّتُهَا وَ وَصُوْلُهَا إِلى كَمَالَاتِهَا وَأَمَّا صِفَةُ الْغَضَبِ فَلَيْسَتْ ذَاتِيَّةٌ لِلَّهِ تَعَالَى بَلْ هِيَ نَاشِيَةٌ مِّنْ عَدَمِ قَابِلِيَّةِ بَعْضِ الْأَعْيَانِ لِلْكَمالِ الْمُطْلَقِ.وَكَذَلِكَ صِفَةُ الْإِضْلَالِ لَا يَبْدُو إِلَّا بَعْدَ زَيْغِ الضَّالِّينَ وَأَمَّا حَصْرُ الصَّفَاتِ الْمَذْكُورَةِ فِي الْأَرْبَعِ فَنَظَرًا عَلَى الْعَالَمِ الَّذِي يُوْجَدُ فِيْهِ آثَارُهَا أَلَا تَرَى أَنَّ الْعَالَمَ كُلَّهُ يَشْهَدُ عَلَى وُجُوْدِ هَذِهِ الصَّفَاتِ بِلِسَانِ الْحَالِ وَقَدْ تَجَلَّتْ هذِهِ الصَّفَاتُ بِنَحْوِلَا يَشُكُ فِيهَا بَصِيرٌ إِلَّا مَنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَمِيْنَ.وَهَذِهِ الصَّفَاتُ أَرْبَعُ إِلَى انْقِرَاضِ النَّشْأَةِ الدُّنْيَوِيَّةِ ثُمَّ تَتَجَى مِن تَحْتِهَا أَرْبَعُ أُخْرَى الَّتِي مِنْ شَانِهَا أَنَّهَا لَا تَظْهَرُ إِلَّا فِي الْعَالَمِ الْآخِرِ وَأَوَّلَ مَطَالِعِهَا عَرْشُ الرَّبِ الْكَرِيمِ الَّذِي لَمْ يَتَدَنَّسُ بِوُجُوْدِ غَيْرِ اللَّهِ تَعَالَى وَ صَارَ مَظْهَرًا تَأَمَّا لِانْوَارِ رَبّ الْعَالَمِينَ وَ قَوَائِمُهُ أَرْبَعُ رَبُوبِيَّةٌ وَرَحْمَانِيَّةٌ وَ رَحِيْمِيَّةٌ وَ مَالِكِيَّةُ يَوْمِ الدِّينِ وَ لَا جَامِعَ لِهَذِهِ الْأَرْبَعِ عَلَى وَجْهِ الظَّلِّيَّةِ إِلَّا عَرْشُ اللَّهِ تَعَالَى وَقَلْبُ الْإِنْسَانِ الْعَامِلِ.وَهُذِهِ الصَّفَاتُ أُمَّهَاتُ لِصِفَاتِ اللهِ كُلِّهَا وَوَقَعَتْ كَقَوَائِمِ الْعَرْشِ الَّذِي اسْتَوَى اللهُ عَلَيْهِ وَ فِي لَفْظِ الْإِسْتِوَاء إِشَارَةٌ إِلى هَذَا الْإِنْعِكَاسِ عَلَى الْوَجْهِ الْآتَةِ الْأَكْمَلِ مِنَ اللهِ الَّذِي هُوَ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ.وَ تَنْتَهِيَ كُلُّ قَآئِمَةٍ مِنَ الْعَرْشِ إِلَى مَلَكٍ هُوَ حَامِلُهَا وَ مُدَائِرُ أَمْرِهَا وَ مَوْرِدُ تَجَلِيتِهَا وَ قَاسِمُهَا عَلى أَهْلِ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِينَ فَهَذَا مَعْلَى

Page 445

۴۳۵ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ حقائق الفرقان قَوْلِ اللهِ تَعَالَى وَيَحْمِلُ عَرْشَ رَبَّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئِذٍ ثَمَانِيَةً فَإِنَّ الْمَلَئِكَةَ يَحْمِلُوْنَ صِفَاتًا فِيهَا حَقِيقَةٌ عَرْشِيَّةٌ وَالسّر فِي ذلِكَ أَنَّ الْعَرْشَ لَيْسَ شَيْئًا مِنْ أَشْيَاءِ الدُّنْيَا بَلْ هُوَ بَرْزَخٌ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ مَبْدَ قَدِيمُ لِلتَّجَلِيَاتِ الرَّبَّانِيَّةِ وَ الرَّحْمَانِيَّةِ وَالرَّحِيمِيَّةِ وَالْمَالِكِيَّةِ لإظْهَارِ التَّفَضَلَاتِ وَ تَكْبِيلِ الْجَزَاء وَالدِّينِ.وَهُوَ دَاخِل فِي صِفَاتِ اللهِ تَعَالَى فَإِنَّهُ كَانَ ذَا الْعَرْشِ مِنْ قَدِيمٍ وَلَمْ يَكُنْ مَّعَهُ شَيْ ءٍ فَكُنْ مِنَ الْمُتَدَثِرِيْنَ وَحَقِيقَةُ الْعَرْشِ وَ اسْتِوَاءِ اللهِ عَلَيْهِ سِر عَظِيمٌ مِنْ أَسْرَارِ اللهِ تَعَالَى وَحِكْمَةٌ بَالِغَةٌ وَمَعْنَى رُوحَا وَسُمِّيَ عَرْشَا لِتَفْهِيْمِ عُقُولِ هَذَا الْعَالَمِ وَلِتَقْرِيبِ الْأَمْرِ إِلَى اسْتِعْدَادَاتِهِمْ وَ هُوَ وَاسِطَةٌ فِي وُصُوْلِ الْفَيْضِ الْإِلهِي وَ التَّجَلِي الرَّحْمَانِي مِنْ حَضْرَةِ الْحَقِّ إِلَى الْمَلِئِكَةِ وَ مِنَ الْمَلَئِكَةِ إِلَى الرُّسُلِ وَلَا يَقْدَحُ فِي وَحْدَتِهِ تَعَالَى تَكَثُرُ قَوَابِلِ الْفَيْضِ بَلِ التَّكْثُرُهُهُنَا يُوجِبُ الْبَرَكَاتِ لِبَنِي آدَمَ وَيُعِيْنُهُمْ عَلَى الْقُوَّةِ الرُّوحَانِيَّةِ وَيَنْصُرُهُمْ فِي الْمُجَاهَدَاتِ وَالرِّيَاضَاتِ الْمُوْجِبَةِ لِظُهُورِ الْمُنَاسَبَاتِ الَّتِي بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَصِلُونَ إِلَيْهِ مِنَ النَّفُوسِ كَنَفْسِ الْعَرْشِ وَ الْعُقُولِ الْمُجَرَّدَةِ إِلَى أَنْ يَصِلُونَ إِلَى الْمَبْدَهِ الْأَوَّلِ وَ عِلَّةِ الْعِلَلِ ثُمَّ إِذَا أَعَانَ السَّالِكَ الْجَنَّبَاتُ الْإِلَهِيَّةُ وَالنَّسِيمُ الرَّحْمَانِيَّةُ فَيَقْطَعُ كَثِيرًا مِنْ مُجَبِهِ وَيُنْجِيْهِ مِنْ بُعْدِ الْمَقْصَدِ وَكَثْرَةِ عَقَبَاتِهِ وَافَاتِهِ وَيُنَورُهُ بِالنُّوْرِ الْإِلهِي وَيُدْخِلُهُ فِي الْوَاصِلِينَ.فَيَكْمُلُ لَهُ الْوُصُولُ وَالشُّهُودُ مَعَ رُؤيَتِهِ عَجَائِبَاتِ الْمَنَازِلِ وَالْمَقَامَاتِ وَلَا شُعُورَ لِأَهْلِ الْعَقْلِ بِهَذِهِ الْمَعَارِفِ وَالنِّكَاتِ وَلَا مُدْخَلَ لِلْعَقْلِ فِيْهِ وَ الْإِطِلَاعُ بِأَمْثَالِ هَذِهِ الْمَعَانِي إِنَّمَا هُوَ مِنْ مِشْكَوةِ النُّبُوَّةِ وَ الْوَلَايَةِ وَمَا شَمَتِ الْعَقْلَ رَائِحَتُهُ وَمَا كَانَ لِعَاقِلِ أَنْ يَضَعَ الْقَدَمَ فِي هَذَا الْمَوْضِعِ إِلَّا بِجَذْبَةٍ مِنْ جَدِّبَاتِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَإِذَا انْفَكَتِ الْأَرْوَاحُ الطَّيْبَةُ الْكَامِلَةُ مِنَ الْأَبْدَانِ وَيُتَطَهَّرُونَ عَلَى وَجْهِ الْكَمَالِ مِنَ الْأَوْسَاحُ وَ الْأَخْرَانِ يُعْرَضُونَ عَلَى اللهِ تَحْتَ الْعَرْشِ بِوَاسِطَةِ الْمَلَئِكَةِ فَيَأْخُذُونَ بِطَوْرٍ جَدِيدٍ حَقًّا مِنْ رَبُوَبِيَّتِهِ يُغَائِرُ رُبُوَبِيَّةً سَابِقَةً وَ حَقًّا مِنْ رَحْمَانِيَّةٍ مُّغَابِرَ رَحْمَانِيَّةٍ أَوْلَى وَ حَظَّا مِن رَحِيْمِيَّةٍ وَمَالِكِيَّةٍ مُغَابِرَ مَا كَانَ فِي الدُّنْيَا فَهُنَالِكَ تَكُونُ ثَمَانِيَ صِفَاتٍ تَحْمِلُهَا

Page 446

حقائق الفرقان ۴۳۶ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ ثَمَانِيَّةٌ مِنْ مَلئِكَةِ اللهِ بِإِذْنِ أَحْسَنِ الْخَالِقِيْنَ.فَإِنَّ لِكُلِّ صِفَةٍ مَّلَكٌ مُوَكَّلْ قَدْ خُلِقَ لِتَوْزِيْعِ تِلْكَ الصَّفَةِ عَلَى وَجْهِ التَّدْبِيرِ وَوَضْعِهَا فِي مَحَلِهَا وَإِلَيْهِ إشَارَةٌ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى فَا الْمُدَ بْرَاتِ أمْرًا فَتَدَبَّرُ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَفِلِينَ.وَ زِيَادَةُ الْمَلئِكَةِ الْحَامِلِينَ فِي الْآخِرَةِ لِزِيَادَةِ تَجَلِيَاتٍ رَبَّانِيَّةٍ وَرَحْمَانِيَّةٍ وَ رَحِيمِيَّةٍ وَ مَالِكِيَّةٍ عِنْدَ زِيَادَةِ الْقَوَابِلِ فَإِنَّ النُّفُوسَ الْمُطْمَئِنَةَ بَعْدَ انْقِطَاعِهَا وَرُجُوعِهَا إِلَى الْعَالَمِ الثَّانِي وَالرَّبِ الْكَرِيمِ تَتَرَقَى فِي اسْتِعْدَادَاتِهَا فَتَتَمَوجُ الرَّبُوْبِيَّةُ وَالرَّحْمَانِيَّةُ وَالرَّحِيْمِيَّةُ وَ الْمَالِكِيَّةُ بِحَسَبِ قَابِلِيَّاتِهِمْ وَ اسْتِعْدَا دَاتِهِمْ كَمَا تَشْهَدُ عَلَيْهِ كُشُوْفُ الْعَارِفِينَ.وَإِنْ كُنتَ مِنَ الَّذِينَ أُعْطِيَ لَهُمْ حَظِّ مِنَ الْقُرْآنِ فَتَجِدُ فِيهِ كَثِيرًا مِّنْ مِّثْلِ هَذَا الْبَيَانِ فَانْظُرُ بِالنَّظَرِ الدَّقِيْقِ لِتَجِدَ شَهَادَةَ هَذَا التَّحْقِيقِ مِنْ كِتَبِ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ کرامات الصادقین.روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۲۸ تا ۱۳۱ ) ترجمہ.واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعض ذاتی صفات ہیں جو اقتضائے ذات سے پیدا ہوتے ہیں.اور انہی صفات کاملہ پر جملہ عالمین کا مدار ہے اور وہ چار ہیں.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان صفات کی طرف اس سورہ شریفہ میں اشارہ فرمایا ہے.رب العالمین.الرحمن الرحیم.مالک یوم الدین.یہ صفات ذاتیہ ہر چیز پر سابق ہیں اور ہر چیز کو محیط ہور ہے ہیں اور انہی سے اشیاء کا وجود اور اشیاء کی استعداد میں اور قابلیتیں تیار ہوتی ہیں اور ان کا وصول اپنے کمالات کو ہوتا ہے.اور صفت غضب اللہ تعالیٰ کی ذات میں نہیں ہے بلکہ یہ صفت بعض اعیان کی عدم قابلیت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.اور ایسا ہی صفت اضلال بھی ظاہر نہیں ہوتی مگر گمراہ ہو نیوالوں کے کجر و ہونے کے بعد ظاہر ہوتی ہے.اور صفات مذکورہ کا چار میں حصر ہونا بنظر عالم ہے جس میں ان صفات کے آثار پائے جاتے ہیں.کیا تم نہیں دیکھتے کہ سارا عالم ان صفات کے وجود پر زبانِ حال سے گواہ ہے.اور یہ

Page 447

حقائق الفرقان ۴۳۷ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ صفات اس طرح متجلی ہو رہے ہیں کہ کوئی بینا ان میں شک نہیں کرتا اور یہ چار صفات انقراض ایام دنیا تک رہیں گی.پھر ان کے نیچے چار اور صفات جلوہ گر ہوں گی جن کی شان میں سے ہے کہ وہ صفات ظاہر نہیں ہوتیں مگر دوسرے عالم میں جو عرش النبی کا پہلا مطلع ہے اور وجود غیر اللہ سے آلودہ نہیں ہوا اور انوار رب العالمین کا مظہر تام ہے.اور عرشِ الہی کے چار پائے اس کی ربوبیت و رحما نیت و رحیمیت اور مالکیت یوم الدین ہیں اور ان چاروں کا جامع بروجہ طلیت عرش الہی اور انسانِ کامل کا دل ہے.یہ چار صفات ساری صفات الہبی کے امہات و اصول ہیں.اور عرشِ الہی کے پایوں کی طرح واقع ہوئے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ کا استواء ہے.اور لفظ استوی میں اس اتم و اکمل عکس الہی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور پایہ عرش ایک فرشتے کی طرف منتہی ہوتا ہے جو اس کا حامل اس کا مد بر اور اس کا مور دتجلیات ہے اور اس صفت کو وہ اہل آسمان واہل زمین پر تقسیم کرتا ہے.پس یہ معنے ہیں کلام الہی کے.جو اس نے فرمایا ہے.وَيَخْلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَبِذٍ ثنية کیونکہ ملائکہ ان صفات کے حامل ہیں جن میں حقیقت عرشِ الہی ہے.اور سر اس بات کا یہ ہے کہ وہ عرش کوئی چیز دنیا کی چیزوں میں سے نہیں ہے بلکہ وہ دنیا اور آخرت کے درمیان ایک برزخ ہے.اور وہ مبدء قدیم ہے واسطے تجلیات ربانیہ ورحمانیہ و رحیمیہ و مالکیہ کے واسطے ظاہر کرنے تفضلات اور کامل کرنے جزا ودین کے.اور یہ بات صفات النبی میں داخل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ قدیم سے صاحب عرش ہے اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہ تھی.خوب سوچ کرو اور حقیقت عرش اور استوی اللہ تعالیٰ کے اسرار میں سے ایک عظیم الشان سر ہے اور بلیغ حکمت اور روحانی معنے ہیں.اور عرش اس لئے نام رکھا گیا کہ اس عالم کے عقول کو سمجھایا جاوے اور ان کے منہمی استعدادوں کے نزدیک اس امر کو قریب کیا جائے.اور یہ واسطہ و ذریعہ ہے.وصول فیض الہبی اور تجلی ءِ رحمانی میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملائکہ کی طرف اور ملائکہ کی طرف سے رسولوں کی طرف.اور وحدت الہی میں کثرت قابلات فیض قادح نہیں بلکہ کثرت قوابل موجب برکات بنی آدم ہیں اور یہ امران کو قوت

Page 448

حقائق الفرقان ۴۳۸ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ روحانی میں مدد دیتا ہے اور ان کو مجاہدات وریاضتوں میں نصرت کرتا ہے جو مناسبات کے ظہور کے باعث ہوتے ہیں جو ان کے درمیان اور ان نفوس کے درمیان ہوتے ہیں.جو ان تک پہنچتے ہیں اور نفس عرش اور عقول مجردہ کی طرح ہوتے ہیں حتی کہ وہ مبدء اول وعلت العلل تک پہنچ جاتے ہیں.جب سالک جذبات الہیہ اور نسیم رحمانیہ کو دیکھتا ہے تو بہت سے حجاب قطع کر جاتا ہے.اور بعد مقصود و کثرت عقبات و آفات سے نجات پاتا اور نور الہی سے منور ہو جاتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اس کو واصلین میں داخل کر دیتا ہے.اور اس کا وصول و شهود مع رؤیت عجائبات منازل و مقامات کے کامل ہو جاتا ہے.اور اہلِ عقل کے لئے ان معارف و نکات کا شعور نہیں ہوتا اور نہ عقل کا ان میں دخل ہوسکتا ہے اور اس قسم کے معانی پر اطلاع پانامشکوۃ نبوت و ولایت سے میسر ہو سکتا ہے.عقل کو ان حقائق سے بو بھی نہیں پہنچتی.اور نہ کسی عاقل کی طاقت ہے کہ وہ بجز جذباتِ الہی اس مقام میں قدم رکھے.جب ارواح پاکیزہ کاملہ بدنوں سے جدا ہوتے اور بروجہ کمالِ روحانی میلوں کچھیلوں سے پاک کئے جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے حضور میں عرش کے نیچے بذریعہ ملائکہ کرام پیش کئے جاتے ہیں.پس وہ جدید طور پر ربوبیت الہی سے حظ و حصہ لیتے ہیں.جور بوبیت سابقہ سے علیحدہ و مغائر ہوتی ہے اور اس کی رحمانیت سے بھی بہرہ اندوز ہوتے اور حصہ لیتے ہیں جو پہلے رحمانیت سے مغائر ہوتا ہے.اور اس کی رحیمیت سے بھی حصہ پاتے ہیں جو اس کی پہلی رحیمیت سے الگ ہوتی ہے اور اس کی مالکیت سے بھی بخرہ پاتے ہیں جو دنیا کے حصہ سے مغائر ہوتی ہے.پس اس وقت آٹھ صفات ہو جاتے ہیں.جن کے آٹھ ملائکۃ اللہ باذن احسن الخالقین حامل ہیں کیونکہ ہر صفت کے لئے ایک فرشتہ مؤکل ہے جو اس صفت کے پراگندہ کرنے کے لئے بر وجہ تدبیر اور اس کو برمحل خود ر کھنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اپنی کلام میں اشارہ فرمایا ہے.فَالْمُدَ بِرَاتِ أَمْرًا پس تم غور کرو اور غافل نہ بنو.آخرت میں ملائکہ حاملین کا زیادہ ہونا تجلیات ربانیہ ورحمانیہ ورحیمیہ و مالکیہ کے زیادہ تجلیات

Page 449

حقائق الفرقان ۴۳۹ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ کے لئے ہے.کیونکہ اس جگہ محل قابلات تجلیات بہت ہوں گے.وجہ یہ ہے کہ نفوس مطمئنہ جب اس عالم سے منقطع ہو کر عالم ثانی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں تو اپنی اپنی استعدادوں کے موافق ترقی کرتی ہیں تو ربوبیت و رحمانیت و رحیمیت اور مالکیت ان کی قابلیتوں و استعدادوں کے حساب پر جوش زن ہوں گے.چنانچہ عارفوں کے کشوف اس امر پر گواہ ہیں اگر تم ان لوگوں میں سے ہو جن کو قرآن کریم سے حصہ ملا ہے تو ایسا بیان قرآن میں بہت پاؤ گے.نظر دقیق سے دیکھو تا کہ اس شہادت کی تحقیق کو قرآنِ کریم سے پالو.اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھنے اور آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کے متعلق آریوں نے بعض اعتراض کئے ہیں.جن کے جواب حضرت خلیفہ اسیح نے جو دیئے ہیں وہ درج ذیل ہیں.سوال.(۱) خدا زمین و آسمان پر کرسی نشین ہے گویا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے.(۲) عرش پر وو ہے.(۳) اس کو آٹھ فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہے.الجواب." پہلا سوال محض غلط فہمی اور علوم الہیہ حقہ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ تمام آسمانی مذاہب اس پر متفق ہیں.ہاں تارک اسلام کو علوم اسلامی سے نابینائی کی وجہ سے کرسی سے ٹھوکر لگی اور منہ کے بل جہالت کے گڑھے میں گرا ہے.سنو! ہماری مکرم کتاب صحیح بخاری میں جسے ہم کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں.لکھا ہے.كُرْسِية - عِلمه یعنی کرسی کے معنے علم کے ہیں.معنے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (البقرۃ:۲۵۶) کے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تمام بلندیوں اور زمین کو وسیع و محیط ہورہا ہے.اب بتاؤ اس مسئلہ میں جو مذاہب اللہ تعالیٰ کے ماننے والے ہیں اور صفات الہیہ کے منکر نہیں.ان میں کس کو کلام اور بحث ہے.سوال دوم.پر الزامی جواب کو اور سوال سوم کے الزامی کے بعد حقیقی جواب کو ملاحظہ کرو.تمہارے بیجر ویداکتیسویں ادھیائے میں لکھا ہے.دیکھو نمبرا ”اے منشو.سب پرانیوں کی ہزاروں آنکھیں ہزاروں پاؤں جس سروتر بیا پک جگ ویشور میں ہیں.وہ پرش ہے.وہ تمام بھو گول میں سب

Page 450

حقائق الفرقان ۴۴ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ طرف سے بیا پت یہ پانچ استھول ( عناصر خمسہ) پانچ سوشم ( حواس ) یہ دس بھوت جس کے انگ ہیں اور وہ سب جگت ( مخلوق ) کو اونگھ کر ( کو دکر ) ٹھیرا ہے.اور منتر نمبر ۳: اس ایشور کی سب زمین وغیرہ چرا چر جگت ( کل مخلوق ) ایک جزو ہیں اس جگت بنانیوالے کے تین حصہ ناش رہت مہما اپنے منور سروپ میں ہے.نمبر ۴: اور کہا تین حصوں والا پر میشور سب سے او تم سنسار سے الگ مکت سروپ نکلتا ہے.اس پرش کا ایک حصہ سے ایک جگت میں پھر ہر پیدائش اور پرلے کا چکر کھا تا ہے.نمبر ۵ میں ہے اس براٹ سنسار کے اوپر سردار پورن برہم رہتا ہے.اس کے بعد بھی وہ پہلے سے ظاہر برش جگت سے علیحدہ رہتا ہے.غرض سترہ منتر تک یہی مضمون مکز رکیا گیا ہے پہلے منتر میں یہ لفظ کہ وہ سب جگت کو اونگھ کر ٹھیرا ہے.منصف انسان کے لئے قابل غور ہے.اس کا ترجمہ یہ ہے.کہ وہ خدا پر میشر سب جگت کو پھاند کر ٹھہرا ہے.اور تیسرے منتر کا مطلب ہے کہ خدا پر میشور کے چار حصہ ہیں.ایک حصہ مخلوق میں اور تین حصہ بالاتر ہیں.اور نمبر ۴ کا مطلب ہے کہ پر میشور سنسار سے الگ ہے اور اس کے تین حصہ خلق سے بالا ہیں اور نمبر ۵ میں ہے.اوپر پورن برہم رہتا ہے.اور ( دیونہ.امرت مانشو ناش ترشئے وہام لوگ ندھیر تم ) کا مطلب اور عرش پر ہے کا مطلب اگر ایک نہ ہو تو ہم ذمہ دار ہیں.سوال سوم : اگر قرآن کریم نے آٹھ کا ذکر کیا ہے تو وہاں فرشتوں کا تذکرہ نہیں مگر آپ کے ہاں صاف مسلم ہے کہ آٹھ دیوتا اس کے تخت سلطنت کو اٹھا رہے ہیں.دیکھو ستیارتھ پرکاش صفحہ ۴۴ میں ہے کہ یا گولکیہ جی نے شاکلیہ کو فرمایا ہے.آٹھ دسویہ ہیں.پھر ان کی تفصیل کرتے کہا ہے کہ ان سب کو دسو اس لئے کہتے ہیں کہ ان میں یہ گنج کائنات محفوظ اور قائم ہے یا گولکیہ کے معتقدہ انسانی بات کو ماننا اور خدائے پاک کی بات کو نہ ماننا کیسی بے انصافی ہے.اور حقیقی بات سناتے ہیں.

Page 451

حقائق الفرقان ۴۴۱ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ سنو! مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے.عرش کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے.جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.تمام قرآن شریف کو اول سے آخر تک پڑھو.اس میں ہرگز نہیں پاؤ گے کہ عرش کوئی چیز محدود اور مخلوق ہے.خدا نے بار بار قرآن شریف میں فرمایا ہے کہ ہر ایک چیز جو کوئی وجود رکھتی ہے اس کا میں ہی پیدا کرنے والا ہوں.میں ہی زمین آسمان اور روحوں اور ان کی تمام قوتوں کا خالق ہوں.میں اپنی ذات میں آپ قائم ہوں اور ہر ایک چیز میرے ساتھ قائم ہے.ہر ایک ذرہ اور ہر ایک چیز جو موجود ہے وہ میری ہی پیدائش ہے.مگر کہیں نہیں فرمایا کہ عرش بھی کوئی جسمانی چیز ہے.جس کا میں پیدا کرنے والا ہوں.اگر کوئی آریہ قرآن شریف میں سے نکال دے کہ عرش بھی کوئی جسمانی اور مخلوق چیز ہے تو میں اس کو قبل اس کے جو قادیان سے باہر جائے ایک ہزار روپیہ انعام دوں گا.میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتی کا کام ہے کہ میں قرآن شریف کی وہ آیت دکھاتے ہی ہزار روپیہ حوالہ کر دوں گا.ورنہ میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ایسا شخص خود لعنت کا محل ہو گا جو خدا پر جھوٹ بولتا ہے.اب ظاہر ہے کہ اس اعتراض کی بنیاد تو محض اس بات پر ہے کہ عرش کوئی علیحدہ چیز ہے جس پر خدا بیٹھا ہوا ہے.اور جب یہ امر ثابت نہ ہو سکا تو کچھ اعتراض نہ رہا.خدا صاف فرماتا ہے کہ وہ زمین پر بھی ہے اور آسمان پر بھی ہے اور کسی چیز پر نہیں.بلکہ اپنے وجود سے آپ قائم ہے اور ہر ایک چیز کو اٹھائے ہوئے ہے.اور ہر ایک چیز پر محیط ہے.جہاں تین ہوں تو چوتھا ان کا خدا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۱۷ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۲ تا ۲۸۴) جہاں پانچ ہوں تو چھٹا ان کے ساتھ خدا ہے اور کوئی جگہ نہیں جہاں خدا نہیں اور پھر فرماتا ہے.اينمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ (البقرة : ١١٦) جس طرف تم منہ کرو اسی طرف تم خدا کا منہ پاؤ گے.وہ تم سے تمہاری رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہے.وہی ہے جو پہلے ہے اور وہی ہے جو آخر ہے اور سب چیزوں سے زیادہ ظاہر ہے اور وہ نہاں در نہاں ہے اور پھر فرماتا ہے.

Page 452

حقائق الفرقان ۴۴۲ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (البقرة: ۱۸۷) یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے.پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں.جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو میں اس کا جواب دیتا ہوں.ہر ایک چیز کی کل میرے ہاتھ میں ہے.اور میراعلم سب پر محیط ہے.میں ہی ہوں جو زمین و آسمان کو اٹھارہا ہوں.میں ہی ہوں جو خشکی تری میں اٹھا رہا ہوں.یہ تمام آیات قرآن شریف میں موجود ہیں.بچہ بچہ مسلمانوں کا ان کو جانتا ہے اور پڑھتا ہے جس کا جی چاہے وہ ہم سے آ کر ابھی پوچھ لے.پھر ان آیات کو ظاہر نہ کرنا اور ایک استعارہ کو لے کر اس پر اعتراض کر دینا کیا یہی دیانت آریہ سماج کی ہے.ایسا دنیا میں کون مسلمان ہے جو خدا کو محدود جانتا ہے.یا اس کے وسیع اور غیر محدود علم سے منکر ہے.اب یا درکھو کہ قرآن شریف میں یہ تو کہیں نہیں کہ خدا کو کوئی فرشتہ اٹھارہا ہے بلکہ جابجایہ لکھا ہے کہ خدا ہر ایک کو اٹھا رہا ہے.ہاں بعض جگہ یہ استعارہ مذکور ہے کہ خدا کے عرش کو جو دراصل کوئی جسمانی اور مخلوق چیز نہیں فرشتے اٹھا رہے ہیں دانشمند اس جگہ سے سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ عرش کوئی مجسم چیز نہیں تو فرشتے کس چیز کو اٹھاتے ہیں.ضرور کوئی یہ استعارہ ہوگا.مگر آریہ صاحبوں نے اس بات کو نہیں سمجھا کیونکہ انسان خود غرضی اور تعصب کے وقت اندھا ہو جاتا ہے.اب اصل حقیقت سنو! کہ قرآن شریف میں لفظ عرش کا جہاں جہاں استعمال ہوا ہے.اس سے مراد خدا کی عظمت اور جبروت اور بلندی ہے.اسی وجہ سے اس کو مخلوق چیزوں میں داخل نہیں کیا.اور خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت کے مظہر چار ہیں.جو وید کی رُو سے چار دیوتے کہلاتے ہیں.مگر قرآنی اصطلاح کی رُو سے ان کا نام فرشتے بھی ہے.اور وہ یہ ہیں.اکاش جس کا نام اندر بھی ہے.سورج دیوتا جس کو عربی میں شمس کہتے ہیں.چاند جس کو عربی میں قمر کہتے ہیں.دھرتی جس کو عربی میں ارض کہتے ہیں.یہ چاروں دیوتا جیسا کہ ہم اس رسالہ میں بیان کر چکے ہیں.خدا کی چارصفتوں کو جو اس کے جبروت اور عظمت کا آئم مظہر ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا جاتا ہے اٹھارہے ہیں.یعنی

Page 453

حقائق الفرقان ۴۴۳ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ عالم پر یہ ظاہر کر رہے ہیں.تصریح کی حاجت نہیں.اس بیان کو ہم مفصل لکھ آئے ہیں اور قرآن شریف میں تین قسم کے فرشتے لکھے ہیں ا.ذرات اجسام ارضی اور روحوں کی قوتیں ۲.آکاش ، سورج ، چاند ، زمین کی قوتیں جو کام کر رہی ہیں ۳.ان سب پر اعلی طاقتیں جو جبرئیل، میکائیل و عزرائیل وغیرہ نام رکھتی ہیں جن کو وید میں جسم لکھا ہے.مگر اس جگہ فرشتوں سے یہ چار دیوتے مراد ہیں.یعنی اکاش اور سورج وغیرہ جو خدا تعالیٰ کی چار صفتوں کو اٹھا رہے ہیں.یہ وہی چار صفتیں ہیں جن کو دوسرے لفظوں میں عرش کہا گیا ہے.اس فلسفہ کا وید کو بھی اقرار ہے مگر یہ لوگ خوب وید دان ہیں جو اپنے گھر کے مسئلہ سے بھی انکار کر رہے ہیں.اخیر میں سنو.بہولوگ ، انترکش ، برہم لوگ جن کا ذکر منو ۲.۲۳۳ میں ہے.اس کے اوپر کس کی حکومت ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۵) ۲۰ تا ۳۰ - فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبَه بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَبِيَهُ - إنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلِقٍ حِسَابِيَهُ - فَهُوَ فِي عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ فِي جَنَّةٍ عَالِيَة - قُطُوفُهَا دَانِيَةً - كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُم فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ - وَ أَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَبَةَ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يُلَيتَنِي لَم أَوتَ كتبية - وَ لَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهُ - لِلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ - مَا أَغْنى عَنِّى مَالِيَهُ - هَلَكَ عَنِّى سُلْطَنِيَهُ - ترجمہ.پس جس کو کتاب داہنے ہاتھ میں دی گئی تو وہ کہتا پھرے گا لو آؤ میری کتاب پڑھو.میں یقین رکھتا تھا کہ بے شک میں اپنے حساب سے ملنے والا ہوں.پس وہ شخص تو بڑے عیش اور پسندیدہ زندگی میں ہوگا.بلند بہشت میں.جس کے میوے جھکے ہوئے ہیں.ان سے کہا جائے گا کھاؤ پیور چتا پچتا ان اعمال کے نتیجوں میں جو تم گزشتہ زمانہ میں کر چکے ہو.اور جس کے بائیں ہاتھ میں کتاب دی گئی تو وہ کہے گا کاش مجھ کو میرا نامہ اعمال نہ ملتا.اور مجھے خبر بھی نہ ہوتی کہ میرا حساب

Page 454

حقائق الفرقان ۴۴۴ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ کیا ہے.اے کاش موت میرا خاتمہ کرنے والی ہوتی.میرے کچھ بھی کام نہ آیا میرا مال.مجھے سے جاتی رہی میری سلطنت.تفسیر.یمین.جو حق ہو اور جناب الہی کی طرف سے ہو.زمانہ حال کی تحقیقات میں یہ مسلم ہے کہ انسان کے جسم کے اکثر حصوں کا خون داہنی طرف سے ہی قلب میں داخل ہوتا ہے.ان آیات میں جزائے اعمال کے لحاظ سے آدمیوں کی دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے.اصحاب الیمین نیکو کار لوگ جو داخل جنت ہوں گے.اور اصحاب الشمال.بدکار لوگ جو داخل دوزخ ہوں گے.هاؤُمُ.آؤ.لے لو.يمَا اسْلَفْتُم.یہ انعام جو تم کو ملا ہے.اس کا ذریعہ وہ نیک اعمال ہیں جو تم پہلے کر چکے ہو.سُلْطنية.میرے دلائل.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶٬۲۸۵) كُلُوا وَاشْرَبُوا...- کھاؤ پیو ا چھی طرح بسبب اس کے کہ تم کر چکے گئے دنوں میں.فصل الخطاب المقد مہ اهل الكتاب صفحه ۱۷۵) ۳۹ تا ۴۴- فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ - وَ مَا لَا تُبْصِرُونَ إِنَّهُ لَقَولُ رَسُولِ كَرِيمٍ - وَ مَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ وَ لَا بِقَولِ كَاهِن قَلِيلًا مَا تَذَكَرُونَ - تَنْزِيلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعَلَمِينَ - ترجمہ.تو میں قسم کھاتا ہوں جو تم دیکھتے ہو.اور اُن کی جو تم نہیں دیکھتے.کہ بے شک یہ قرآن شریف رسول کریم کی تلاوت کی چیز ہے.اور یہ کسی شاعر کا قول نہیں.تم لوگ تو بہت کم یقین رکھتے ہو.نہ کسی کا ہن کا قول ہے تم تو بہت ہی تھوڑا سمجھتے ہو.رب العالمین کا اتارا ہوا ہے.تفسیر - اقسم.اس جگہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کے دلائل قسم

Page 455

حقائق الفرقان ۴۴۵ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ کے رنگ میں بیان فرمائے ہیں.قرآن شریف میں جہاں کہیں قسموں کا ذکر ہوتا ہے.اس کی تہہ میں کوئی نہ کوئی بڑی بڑی حکمت خدا تعالیٰ نے رکھی ہوتی ہے.وہ حکمت جاہلوں ، عالموں ، صوفیوں سب کے لئے ہوتی ہے اور سب کے واسطے یہ قسمیں فائدہ بخش ہوتی ہیں.عام لوگوں کی فطرتوں میں اور بالخصوص اہلِ عرب کے دلوں میں یہ بات مرکوز ہے کہ جو شخص جھوٹی قسمیں بہت کھاتا ہے وہ برباد ، ذلیل ، ناکام اور نامراد ہوجاتا ہے.ایک طرف تو مشرکین عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافر سمجھتے تھے.دوسری طرف ان کی زبان سے یہ قسمیں سنتے تھے.اس سے ثابت ہوا کہ یہ قسمیں کھانیوالا اگر جھوٹا ہوتا تو ضرور تباہ ہو جاتا.لیکن جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامیابیاں دن بدن ترقی پذیر تھیں تو ان سے ثابت ہوا کہ یہ راست باز ہے.فلاسفروں کو ان قسموں سے یہ فائدہ ہوا کہ جہاں کہیں قرآن کریم میں قسم کھائی جاتی ہے.اس کی تہ میں فلسفیانہ ثبوت ضرور ہوتا ہے.اس جگہ فَلا أقسم میں یہ بات ہے کہ نبی کریم کے ساتھ اہلِ عرب میں سے کس قسم کے اور کس مزاج کے لوگ شامل ہوتے تھے اور کس طرح حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے لوگ جمع ہوتے رہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا نہیں کہ تم میں سے کام کے شخص....اس کے ساتھ ملتے جاتے ہیں.آیا اس کو کامیابی حاصل ہو رہی ہے یا نہیں.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ.قسم قائمقام شہادت کے ہوتی ہے.اور قرآن شریف کی قسمیں ان امور پر دلائل ہیں جن کے لئے وہ کھائی گئی ہیں.مرئی اور مشہود اشیاء اور غیر مرئی اشیاء غرض تجمیع الاشیاء یہ شہادت پیش کی گئی ہے کہ یہ نبی سچا رسول ہے.شَاعِر - شخص شاعر نہیں کیونکہ شاعر منہ سے کہتا ہے.خود کرتا کچھ نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو تعلیم پیش کی خود اس پر عمل کر کے دکھا دیا.

Page 456

حقائق الفرقان ۴۴۶ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ شاعر کبھی کوئی ایسا نہیں گزرا کہ جس کے کلمات اور اشعار پیشگوئیوں پر مبنی ہوں جو پوری ہو جا ئیں.شاعر کے کلام کا اثر آنی ہوتا ہے.لیکن قرآن شریف کا اثر دیر پا ہے.گاھن.کہانت کرنے والا.اسپریچیولزم کا ماہر.یہ لوگ بڑے بڑے مجاہدات اور ریاضات سے ایک علم حاصل کرتے ہیں.مگر ان کی اکثر باتیں جھوٹی ہوتی ہیں اور ان کے کلمات میں دروغ بہت شامل ہوتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶) یہ بات ہے ایک پیغام لانے والے سردار کی اور نہیں یہ بات کسی شاعر کی تم تھوڑا یقین کرتے اور نہ یہ بات کا ہن کی تم تھوڑ ادھیان کرتے.( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب صفحه ۳۴) کوئی جھگڑے کی بات نہیں.ہم شہادت پیش کرتے ہیں ان امور کو جو تم دیکھتے ہو اور پھر ان کو جو ابھی ظہور میں نہیں آئے اور تم نہیں دیکھتے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ یہ قرآن مجید کسی کے خیالی پلاؤ نہیں.بلکہ ایک معزز پیغمبر کے ذریعہ پہنچا ہے.اور رب العالمین کا نازل شدہ کلام ہے.تفخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۵ - ما مئی ۱۹۱۲ ء صفحه ۲۳۰) ۴۵ تا ۴۸ - وَ لَوْ تَقَوّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ.ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَجِزِينَ - ترجمہ.اور اگر کوئی بات بنالا تا یہ پیغمبر ہم پر خود.تو ہم پکڑ لیتے اس کا داہنا ہاتھ.پھر کاٹ ڈالتے اُس کی رگِ گردن.پھر تم میں کوئی بھی اس کو روک نہیں سکتا ( یعنی اس کے قتل کو ).تفسیر.تقول.جھوٹی بات بنانا.اس میں اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ ہے جو توریت میں مثیل موسی کے لئے کتاب استثناء باب ۱۸ میں مذکور ہے کہ اس نبی کی صداقت کا یہ نشان ہے کہ اگر وہ افتراء کرے گا تو قتل کیا جاوے گا.یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی ایک دلیل ہے کہ نہ وہ قتل ہوئے.نہ ناکام رہے اور اس طرح پر آئندہ کے لئے ہر صادق مامور کے واسطے یہ ایک نشان ہوا کہ کوئی مفتری علی اللہ افتراء کر

Page 457

حقائق الفرقان ۴۴۷ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ کے ۲۳ سال تک زندہ نہیں رہ سکتا.و تین.وہ رگ ہے جو قلب سے سر کو جاتی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶) باری تعالی بڑا ثبوت آنحضرت کی نبوت کی صداقت کا دیتا ہے.وَ لَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ لے الْأَقَاوِيْلِ لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ - ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ.یعنی اگر یہ شخص جھوٹا رسول ہوتا.تو بیشک بیشک قتل کیا جاتا ، تباہ ہو جاتا ، مارا جاتا.کیونکہ خداوند خدا پہلے سے اپنے برگزیدہ نبی موسی کی معرفت اپنے اس اولوالعزم نبی کی بابت ارشاد اور وعدہ فرما چکا تھا.اور اس سچے نبی کی صداقت نبوت کی پہچان بھی بتا چکا تھا کہ وہ زندہ رہے گا.ہاں وہ سلامت رہے گا.اور اس کے مخالفین معبودانِ باطل کے عابد ہلاک ہو جاویں گے.(فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۲) میرے سامنے بعض نادانوں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ مفتری کے لئے مہلت مل جاتی ہے.قطع نظر اس بات کے کہ ان کے ایسے بیہودہ دعوی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت پر کس قدر حرف آتا ہے.قطع نظر اس کے ان نادانوں کو اتنا معلوم نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کی پاک تعلیم پر اس قسم کے اعتراف سے کیا حرف آتا ہے.اور کیونکر انبیاء ورسل کے پاک سلسلہ پر سے امان اٹھ جاتا ہے.پوچھتا ہوں کہ کوئی ہمیں بتائے کہ آدم سے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اور آپ سے لے کر اس وقت تک کیا کوئی ایسا مفتری گزرا ہے جس نے یہ دعوی کیا ہو کہ وہ خدا کی طرف سے مامور ہو کر آیا ہے.اور وہ کلام جس کی بابت اس نے دعوی کیا ہو کہ خدا کا کلام ہے.اس نے شائع کیا ہو اور پھر اسے مہلت ملی ہو.قرآن شریف میں ایسے مفتری کا تذکرہ یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک اقوال میں پاک لوگوں کے بیان میں اگر ہوا ہے تو دکھاؤ کہ اس نے تقول عَلَی اللہ کیا ہو اور بچ گیا ہو.میں دعوی سے کہتا ہوں کہ وہ ایک مفتری بھی پیش نہ کر سکیں گے.مہلت کا زمانہ میرے نزدیک وہ ہے جبکہ مکہ میں اللہ تعالیٰ کا کلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اگر یہ رسول ہماری نسبت جھوٹی باتیں بناتا تو ضرور ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑتے پھر اس کی رگ حیات کو کاٹ ڈالتے.

Page 458

۴۴۸ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ حقائق الفرقان پر یوں نازل ہوا.کو تقول عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - فَمَا مِنْكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِینَ.اگر یہ رسول کچھ اپنی طرف سے بنالیتا اور کہتا کہ فلاں بات خدا نے میرے پر وحی کی ہے.حالانکہ وہ اس کا اپنا کلام ہوتا.نہ خدا کا.تو ہم اسے دائیں ہاتھ سے پکڑ لیتے اور پھر اس کی رگ جان کاٹ دیتے.اور کوئی تم میں سے اس کو بچا نہ سکتا کیسا صاف اور سچا معیار ہے کہ مفتری کی سزا ہلاکت ہے.اور اسے کوئی مہلت نہیں دی جاتی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کیسی روشن دلیل اور ہر صادق مامور من اللہ کی شناخت کا کیسا خطا نہ کرنے والا معیار ہے.مگر اس پر بھی نادان کہتے ہیں کہ نہیں مفتری کو مہلت مل جاتی ہے !!! یہ آیت مکہ میں نازل ہوئی.اب کیا مشکل ہے جو ہم اس زمانہ کو جو مفتری کے ہلاک ہونے اور راست باز کے راست باز ٹھہرائے جانے پر بطور معیار ہوسکتا ہے.سمجھ لیں.اس آیت کے نزول کا وقت صاف بتاتا ہے.مگر اندھوں کو کون دکھا سکے.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبکہ جامع جمیع کمالات تھے.آپ کی امت ان تمام برکات اور فیوض کی جامع ہے.جو پہلی امتوں پر انفرادی طور پر ہوئے اور آپ کے اعداء تمام خسرانوں کے جامع جو پہلے نبیوں کے مخالفوں کے حصہ میں آئے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب سورہ شعراء میں ہر نبی کا قصہ بیان فرماتا ہے تو اس کے بعد فرماتا ہے اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ - الحكم جلد ۶ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۶) غرض یہ آیت کو تقول والی ہر ایک مفتری اور صادق مامور من اللہ میں امتیاز کرنے والی اور صادق کی صداقت کا کامل معیار ہے.لیکن اگر کوئی نادان یہ کہے کہ اس سے تاریخ کا پتہ کیونکر لگا ئیں اور میعاد مقررہ کیونکر معلوم ہو؟ میں کہتا ہوں.ان امور کے لئے اسی قدر کافی ہے کہ یہ آیت مکی ہے.اگر اس پر بھی کوئی یہ کہے کہ مکی اور مدنی آیتوں کا تفرقہ مشکلات میں ڈالتا ہے اور اصطلاحات میں اب تک بھی اختلاف چلا آتا ہے تو میں کہتا ہوں.اس سے بھی ایک آسان تر راہ ہے.اور وہ یہ ہے کہ تم اس آیت کو آخری آیت ہی تجویز کر لو پھر بھی تم کو مانا پڑے گا کہ تئیس برس تک خیر الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت عظمت و جبروت، عزت و وجاہت، تائید و نصرت، دشمن کے خسران کے لئے ایک

Page 459

حقائق الفرقان ۴۴۹ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ فیصلہ کن امر ہے.اب بتاؤ کہ کیا حجت باقی رہی؟ مکی مدنی کا فیصلہ نہ کرو.اصطلاحات کے تفرقہ میں نہ پڑو.اس تنیس سال کی عظیم الشان کامیابیوں کا کیا جواب دو گے.پس بہر حال ماننا پڑے گا کہ اس قدر عرصہ دراز تک جو چوتھائی صدی تک پہنچتا ہے.اللہ تعالیٰ مفتری کو مہلت نہیں دیتا.ایک راست باز کی صداقت کا پتہ اس کے چہرہ سے.اُس کے چال چلن سے ، اُس کی تعلیم سے ، ان اعتراضوں سے جو اس پر کئے جاتے ہیں.اس کے ملنے والوں سے لگ سکتا ہے.لیکن اگر کوئی نادان ان امور سے پتہ نہ لگا سکے تو آخر ۲۳ سال کی کافی مہلت اور اُس کی تائیدیں اور نصر تیں اس کی سچائی پر مہر کر دیتی ہیں.میں جب اپنے زمانہ کے راست باز کے مخالفوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے حالات پر غور کرتا ہوں تو مجھے اس زمانہ کے مخالفوں کی حالت پر بہت رحم آتا ہے کہ یہ اُن سے بھی جلد بازی اور شتاب کاری میں آگے بڑھے ہوئے ہیں.وہ نوح علیہ السلام کی تبلیغ اور دعوت کو سن کر اعتراض تو کرتے ہیں مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں فَتَرَبَّصُوا بِهِ حَتَّى حِينٍ چندے اور انتظار کر لو.مفتری ہلاک ہو جاتا ہے.اس کا جھوٹ خود اس کا فیصلہ کر دے گا.مگر یہ شتاب کار نادان اتنا بھی نہیں کہہ سکتے.العجب ! ثم العجب !! الحکم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ ، صفحہ ۶.۷) ۴۹ - وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِلْمُتَّقِينَ ترجمہ.اور بے شک قرآن نصیحت اور یادگارا ہے متقیوں کے لئے.تفسیر.تذکر.یادرکھنے کے لائق.یاد رہ.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کا ثبوت ہے کہ جو کلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیش کیا ہے.وہ ایک متقی جماعت بناتا ہے اور ایک تاریخی قوم پیدا کرتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶) ۵۰ - وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ مِنْكُمْ مُكَذِّبِينَ - ترجمہ.اور ہم جانتے ہیں جو تم میں سے جھٹلانے والے ہیں.

Page 460

حقائق الفرقان ۴۵۰ سُوْرَةُ الْحَاقَةِ تفسیر - مكذبين.یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ کے مخالف جھوٹے ہیں.اور جو باتیں آنحضرت کے متعلق کہتے ہیں.ان میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۱۱ نمبر ۱۱ مورخه ۱۵ دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲۸۶)

Page 461

مضامین اسماء مقامات کتابیات انڈیکس ۳۱ ۳۵

Page 462

Page 463

۴۰۳ ۴۳۳ ۳۹۱ ۲۹۰ 1 انڈیکس مضامین ( حقائق الفرقان جلد پنجم ) ۲۴۹ حفاظت کے دو مواقع آسمان پھٹنے سے مراد ابتلاء ابتلاء کی حقیقت اور حکمت اختلاف رفع اختلاف کے ذرائع اخوت اخوت و برادری کا واجب الاحترام مسئلہ ۲۷۱ ۴۴۱ ۲۷۷ آتشک آتشک زدہ کا علاج آریہ بت پرستی چھوڑنا آریوں کو انعامی چیلنج عقائد خدا کے متعلق تصور جنم کا مسئلہ ۳۹۱ | ادب آریوں کے اس عقیدہ کا رد کہ خدا روح اور مادہ کلام اللہ اور قول الرسول کے مقابل پر اپنی کا پیدا کرنے والا نہیں آریوں کے اعتراضات کے جوابات خدا تعالیٰ کے متعلق آریوں کے ایک اعتراض کا جواب آٹھ فرشتوں کے عرش اٹھانے کے متعلق ایک آریہ کے اعتراضات کا جواب ۴۰۶ ۲۱۵ ۴۳۹ جہنم کے متعلق آریوں کے ایک اعتراض کا جواب ۲۰۶ آسمان سات آسمان آسمان کے سات طبقات زندگی کے لئے ضروری سامان ۳۹۲،۳۷۲ ۳۹۲ ۳۹۲ آواز نہ بڑھاؤ صحابہ، اولیاء واصفیاء کا ادب کرنے کی تلقین اسلام حقیقت اسلام کا اصلی سر چشمہ اور حقیقی منبع اللہ تعالیٰ ہے اسلام کا حقیقی ثمرہ دار السلام ہے ہر مشکل حل کرنے کا طریق سکھاتا ہے انسان کو بے دست و پا اور دوسروں کے لئے بوجھ بنا نا نہیں چاہتا مذہبی آزادی مساوات اور رواداری ۱۹۲ ۲۷۲ ۲۶۲ ۳۵۱ ۲۸۴،۲۸۲

Page 464

اخوت و برادری عورت کے حقوق کا قیام صداقت صداقت کی ایک دلیل ۲۰۱ اعتدال ۳۷۱ دوستی اور دشمنی میں اعتدال اختیار کرو افتراء ۲۷۳ ۲۴۰ مفتری کو ۲۳ سال کی مہلت نہیں ملتی ۲۸۰ ۴۴۹ دین اسلام کی نصرت ہندوستان میں اشاعت اسلام کرنے والے چند بزرگان ۳۳۸ اللہ جل جلالہ اسماء الہیہ کی اہمیت خادمان اسلام و شریعت محمدیہ کے واسطے دعائیں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات کا سچا علم ایک مز کی ہی کرنی چاہئیں غلبہ اسلام ۲۷۲ سکھا سکتا ہے زمینی اور آسمانی علوم جس قدر ترقی کریں گے اللہ تعالیٰ تکمیل اشاعت مسیح موعود کے ہاتھ پر ہوگا ۳۴۷ کی ہستی اور صفات کی اسی قدر وضاحت ہوگی اسلامی سلطنتوں کی سطوت و جبروت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات ازلی و ابدی ہیں پہلے اسلام پر اعتراضات کرنے کی جرات نہیں اللہ کی ذات کی طرح اس کی صفات بھی بے مثل ہوتی تھی ۳۲۲ اور مانند ہیں اس زمانہ میں غیر مسلموں کی طرف سے اسلام پر صفات اعتراضات ۳۱۵ جامع جمیع صفات حسنہ اسلام کی پاک تعلیمات پر تصانیف کے ذریعہ جملہ ۳۲۳ سب چیزوں کا منتہی ہے عیسائی اسلام کو معدوم کرنے میں ناکام ہیں اسماء الہی قرآن شریف کے معنی کرنے میں اسماء الہی کو مد نظر رکھو سورۃ جمعہ اسماء الہیہ کے سمجھنے میں مد ہے اطاعت ۲۶۶ ۲۹۵ ۲۹۳ چار صفات ذاتیہ انسان کامل کا دل اللہ تعالیٰ کی ذاتی صفات اربعہ کا بر وجہ ظلیت حامل ہوتا ہے ہنگام محشر الہی صفات کا ظہور ۳۱۷ ۲۹۶ ۲۵۵ ۴۲۶ ۲۷۶ ۲۳۷ ۴۳۶ ۴۳۷ ۴۲۵ قیامت کے دن آٹھ صفات ذاتیہ کی جلوہ گری ۴۳۳ اطاعت کے تین موجبات اطاعت در معروف ۳۶۳ ارواح پاکیزہ کاملہ پراللہ تعالیٰ کی آٹھ صفات ذاتیہ ۲۸۵ | کا ظہور ۴۴۰

Page 465

اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو اسے عبادت اور اطاعت خدا کی شان ستاری سے ہمیشہ فائدہ اٹھاتے رہنا کا مستحق قرار دیتی ہیں اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ مالک الملک الملک القدوس السلام ۳۶۳ چاہیے ۲۷۲ ۲۷۷، ۲۷۸ | خبير بما تعملون کی آگاہی کے نیک نتائج ۲۷۴ ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھنا چاہیے ۳۵۱ ۳۸۹ ۲۷۷ ۲۷۷ ،۲۷۶ خدا سے قطع تعلق کرنے والوں کی صفات ویدوں کی رو سے خدا کا تصور اللہ کی ذات پر عیسائیت کا حملہ ۲۷۵ ۲۵۷ ۳۱۵ العزيز ۳۹۲،۳۹۳ | امام ۲۹۶ امام کی ضرورت کی دلیل ۳۰۳،۳۰۲،۲۵۱ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے علم وقدرت کے احاطہ سے ساری شہادتوں کی رو سے یہ امام کا زمانہ ہے ۳۲۹ روسے باہر نہیں القدوس مهیمن لطیف و خبیر الملک.جبار متکبر ۳۷۲ ۲۷۷ ۴۰۶ امت محمدیه نیز دیکھئے عنوانات ”اسلام اور مسلمان“ ان تمام برکات و فیوض کی جامع ہے جو پہلی امتوں ۲۷۷ پر انفرادی طور پر ہوئے الاول الاخر الظاہر الباطن.اللہ کی یہ چار صفات امت محمدیہ کے چند روشن ستارے ۴۴۸ ۳۳۸،۳۳۷ ہر وقت رہتی ہیں غالب على امره صفت تکلم ليس كمثله شيء استواء علی العرش کی حقیقت قرآن کا نزول رحمانی صفت کا اقتضاء تھا ۲۵۴ اصلاح کے واسطے خلفاء اور نائب آنے کا وعدہ ۳۰۹ ۳۳۶ امت میں ابن مریم پیدا ہونے کی بشارت ۳۸۴ ۳۳۵ اکابرین ملت و علماء امت میں باہمی اختلافات ۳۱۲ امت میں ایک کامل الایمان مزکی اور مطہر کی ۴۲۶،۳۱۷ ۴۳۷ محمدصلی ہیں اسلام کی بعثت رحمانی صفت کے تقاضے کا نتیجہ تھی ٣٣١ ۳۳۰ ضرورت انجمن اسلام میں انجمن سازی کے بارہ میں ہدایات عزت اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کیلئے ہے ۳۶۲ انجیل نیز دیکھئے عیسائیت صفات غضب اور اضلال اللہ کی ذاتی صفات نہیں ۴۳۶ انا جیل کا ضعیف اور بے اصل ہونا ۳۱۳ ۲۶۷ ۳۴۱

Page 466

انجیل یوحنا میں الحاقی حصے پائے جاتے ہیں ۳۴۰ انا جیل کی رو سے حواری بہت ضعیف الایمان تھے ۳۰۰ انسان اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا فرض ہے انسان کے اعمال واقوال کا محفوظ رہنا ۴۱۰ ،۴۰۹ ۲۰۵ بت پرستی اسلام سے ہار کر ا کثر بت پرست بت پرستی کو چھوڑ رہے ہیں بدظنی کسی انسان کو انسان کامل یقین نہ کرنے کے تین بہت بدیوں کی جڑھ ہے اسباب اولاد ۲۷۱ ۱۹۸ ۲۲۲ پیدا ہونے کی وجوہات اور اس کی مضرت ۱۹۵ ۱۹۶ بر ہمو سماج بت پرستی چھوڑنا مجھے محض اولاد کی ضرورت نہیں بلکہ سعادت مند اولاد کی ضرورت ہے ( نورالدین) ۳۳۴ ۲۷۱ بعثت نبی کی بعثت بروزی ایمان اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے دو بازو.بیع ا.ایمان.۲ عمل صالح سورۃ جمعہ میں بیع سے مراد فتنہ دجال ملائکہ پر ایمان اور اس کے فوائد ۳۹۸ بیعت ٣٠٦ ۳۵۰ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل ایمان نہ ہونے کے انبیاء ورسل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کا مطلب ۲۲۷ نتائج ۳۵۰ پراٹسٹنٹ نیز دیکھئے عیسائیت زندہ ایمان کے ساتھ عمل کی روح کا ہونا ضروری مذہبی تشد داور جبر ہے کسی نشان سے اپنے ایمان کو مشروط رکھنے والے ٹھوکر کھاتے ہیں مومنوں کی مثال مومن اور ذلت آپس میں جمع نہیں ہو سکتے ۳۴۹ ۳۳۵ ۳۸۴،۳۸۳ ۳۶۲ پیشگوئی غیب سے مراد پیشگوئیاں مکہ میں شدید قحط کی پیشگوئی قرآن مجید کی پیشگوئیاں ایک قرآنی پیشگوئی کا ظہور ۲۸۴ ۴۲۷ ۴۰۹ ۲۷۱

Page 467

آئندہ قلم و دوات کا زمانہ آنے والا ہے.ہر نیا علم تصوف آنحضرت سلی یا اسلام کی صداقت کی گواہی دے گا ۴۱۱ محمد مصطفی اللہ اسلام کے غلبہ اور سلطنت کا مالک بنائے جانے کی بشارت ۴۱۶،۳۸۹ مخالفین کی طرف سے مباہلہ کی جرات نہ ہو سکنے کی پیشگوئی ۳۴۳ وحدت الوجود والوں کے دلائل مدعیان وحدت الوجود کا لا جواب ہو جانا جائز اور نا جائز سماع تعامل حضور علیہ السلام نے تعامل سے سب کچھ سکھادیا کچھ تھا اس لئے اگر احادیث نہ بھی ہو تیں تو بھی مسائل فتح روم و ایران کی بشارت متقین کے لئے جنت النعیم کی پیشگوئی ۲۴۶ ۴۲۱ صاف تھے اس زمانہ کے بارہ میں قرآنی پیشگوئیوں کا پورا ہونا تقویٰ آنحضرت صلی یتیم کی پیشگوئیاں پوری ہونے کی خبر متقی کی شان تثلیث ۴۳۰،۴۲۹ عظیم الشان نصرت اور فضل تقویٰ کی جڑ ۲۱۴ ۲۵۷ ۳۵۴ ۳۰۵،۳۰۴ ۲۷۵ ۳۶۷،۳۶۶ ۲۷۳ توحید و تثلیث کے مسئلہ کی حقیقت ۲۲۷ قرآن مجید کے علوم محض تقویٰ سے ملتے ہیں ۳۳۹ تجسس بطنی سے پیدا ہوتا ہے ۱۹۹ یسیر (سکھ ) بھی متقی کا ہی حصہ ہے متقی کے لئے رزق کا وعدہ ۳۶۸ اس سے غیبت کا مرض پیدا ہوتا ہے ۱۹۶ عورتوں کے بارے میں تقوی سے کام لینے کی تعلیم ۳۷۱ تزکیہ بغیر تزکیہ علم کا م نہیں آتا تسبیح حقیقت مخلوقات کی تسبیح ۲۹۳ ،۲۵۳ ۲۹۴ بچائی سے روکنے والی بات.تکبر نتائج توبه توبتہ النصوح ۹۴ ۱۹۶ ۳۶۲

Page 468

توحید پر عیسائیت کا حملہ مسئلہ توحید و تثلیث کی حقیقت اس میں شمسی اور قمری دونوں حسابات ہیں ۲۲۷ ۲۴۲ ۶ جنت کیا جنت آسمان پر واقع ہے؟ اس دنیا اور اگلے جہان کی جنت نیکیوں کے لئے توفیق اللہ سے ملتی ہے ۲۰۳،۲۰۰ تہجد آنحضرت صلیہما السلام کے پاؤں طویل تہجد سے متورم صحابہ کرام کے لئے مقدر اس دنیا کی جنتیں جہنم ہو جاتے تھے で جماعت احمدیہ سورۃ جمعہ کی آیت آخرین منھم میں جماعت احمدیہ سے خصوصی خطاب ۳۰۴ ۳۴۴ ۲۶۲،۲۶۱ ۴۲۱،۲۴۵ ۳۶۲ لغوی معنی ۲۰۶ دوزخ کی ایک وادی کا نام ہب ہب ہے ۲۱۰،۲۰۷ خدا تعالیٰ کا اپنے پاؤں دوزخ میں ڈالنے کی حقیقت ۲۰۶ تا ۲۱۲ جماعت کو خصوصی نصائح اپنی نمازوں کا اس معیار پر امتحان کرو کہ کیا حدیث اگر ایک حدیث بھی قلمبند نہ کی جاتی تو بھی حضور تمہاری بد یاں دن بدن کم ہو رہی ہیں؟ ۳۴۵ علیہ السلام نے تعامل سے سب کچھ سکھا دیا تھا ۳۰۵ سکھادیا پوری روشنی حاصل کرنے اور سیراب ہونے کی خلفاء راشدین سے بہت کم احادیث مروی ہیں ۳۳۶ توفیق ملنے کی دعا قادیان بار بار آکر مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی نصیحت مرکز میں آکر رہنے کی تلقین جمعه جمعہ کی پروانہ کرنے والے کے لئے انذار مسیح موعود کا نزول عظیم الشان جمعہ ہے ۳۵۸ ۲۵۱ ۳۵۵ ۳۴۶ ۲۹۲ صلحاء امت حدیث پوچھنے سے پہلے صدقہ کر لیتے ہیں اس جلد میں مذکور احادیث ۲۶۸ احبب حبيبك هو نا ما عسى ان يكون بغيضك يوماما ۲۸۰ اللهم انى اعوذ بك من الخبث والخبائث ۳۰۶ اللهم ایدنی بروح القدس انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق ۲۲۹ ۴۱۶

Page 469

اياكم والظن فان الظن اكذب الحديث ہب ہب دوزخ کی ایک وادی جس میں جبار ۱۹۵، ۱۹۸ لوگ داخل ہوں گے ۲۰۷ جبلت القلوب على حب من احسن الیها ۳۳۰ مہدی کیلئے رمضان میں کسوف و خسوف کا نشان ۳۱۱ حتى يضع رب العزة قدمه ۲۰۶ حواری خذوا عني مناسككم ۳۰۴ حواریوں پر نزول روح ۲۸۸ خیر القرون قرنی خ خير القرون قرنى...ثم يفثوا الكذب ٣٠٣ خلافت دماء الجاهلية موضوعة تحت قدمی ۲۰۷ ایک وقت میں دو خلفاء بیعت نہیں لے سکتے ۳۳۷ روضة من رياض الجنة غفرانك كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته ۳۵۲ امت محمدیہ میں خلافت ۳۶۲ موعود خلیفے بھی ایک سے زیادہ ہوں گے ۳۳۲ ٣٠٦ من تشبه بقوم فهو منهم آنحضرت صلی شما ایلم کے کامل متبعین میں ابدالا باد ۳۲۷ ۲۵۴ ۲۰۸ ۲۰۸ هو الاول ليس قبله شی يضع الجبار قدمه يضع فيها رب العزة قدمه اس جلد میں مذکورا حادیث بالمعنی خلفائے راشدین سے بہت کم احادیث مروی ہیں ۳۳۶ آنحضرت صلی شم السلام کے بعد خلافت کے بارہ میں امت کے اعمال آنحضرت صلی للہ یہ تم کو پہنچائے دو متضاد روایات کے لئے خلافت کا سلسلہ رکھ دیا گیا ہے امت محمدیہ میں سلسلہ خلافت کا وعدہ ٣٣١ ٣١٠ مہاجر صحابہ کو خلافت ملنے کی وجہ ۳۵۷ جاتے ہیں خاتم الخلفاء آنحضرت صلیہ السلام کا بیویوں سے ناراض ہوکر علیحدہ رہنا سب سے بہتر اور سب سے بدتر بندگان خدا ۳۷۵ ۴۱۸ جو جمعہ کی پروا نہیں کرتا اس کے دل کا ۱/۴حصہ سیاہ ہو جاتا ہے بدظنی کے بارے میں ایک واقعہ ۳۴۶ ۱۹۶،۱۹۵ چودھویں صدی کا خلیفہ خاتم الخلفاء ہونے کی دلیل ۳۱۰ آج بھی اللہ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو بھیجا ہے ۳۳۱ حضرت خواجہ سلیمان رحمتہ اللہ علیہ کی خلافت ۳۳۸ خلق خلق کی تعریف آنحضرت صلی یا سلیم کا خلق قرآن تھا ۴۱۵ ۴۱۵

Page 470

آنحضرت صل للہ یہ ستم کی بعثت کی غرض اخلاق حسنہ آنحضرت صلی ہی ہم اپنے صحابہ کو دیکھ کر ان کے کو کمال تک پہنچانا تھی خواب ۴۱۶ لئے دعا فرماتے مسنون دعائیں حضرت صفیہ کا خواب.”چاند میری گود میں آپڑا ہے“ چاند کو خواب میں دیکھنے کی تعبیر خیانت ۲۳۸ ۲۳۸ بیت الخلاء جانے کی اور باہر آنے کی دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سجادہ نشینوں کو چیلنج کہ وہ آپ کے خلاف بد دعا کر کے نتیجہ دیکھ لیں ۳۴۲ انبیاء کی بد گوئی اور عداوت بھی خیانت ہے ۳۸۳ | دل دجال اس دور کا عظیم فتنہ دجال کا فتنہ ہے فرقہ عظیمہ جو تجارت کے لئے پھرے گا ۳۵۰ ۳۴۶ دل کے فرائض و محرمات ۳۵۲ دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک لاجواب دلیل ۳۱۹ دلیل خلف درود جمعہ کے دن کم از کم سو بار درود پڑھنے کا ارشاد دمدار ستاره دعا دعا کی تلقین مسیح موعود کی بعثت پر ظہور دوست امت محمدیہ کے صلحاء واتقیاء کے لئے دعا کرنے صرف ان لوگوں سے دوستی منع ہے جو مذہب کی کا حکم ۲۷۲ قولیت دعا کے لوازمات جمعہ میں ایک وقت قبولیت دعا کا ہوتا ہے مضطر کی دعاسنی جاتی ہے انبیاء کی دعائیں ابراہیم و اسماعیل کی دعاؤں کے نتیجہ میں آنحضرت صلہ الہ سلم کی بعثت ۳۴۶ ۳۲۰ بناء پر جنگ کرتے ہیں یا جلا وطن کرتے ہیں دہریت دہریوں سے بچے اخلاق ظاہر نہیں ہو سکتے ذوالسنین دیکھئے دمدار ستارہ ذکر ۳۴۸ | آنحضرت سلی یا پی ایم کا ایک نام ہے ۲۲۱ ۴۰۴ ۲۱۸ ۱۹۷ ۴۰۴ ۳۴۹

Page 471

۳۰۵ ۳۵۴ ۲۳۷ ۲۵۵ ۹ رب کے لغوی معنی رزق رز رزق کے حصول کا ذریعہ تقویٰ ہے رزق حلال کے منافی اعمال رسول نیز دیکھئے عنوانات مامور.نبی عام بشر اور رسول میں فرق رمضان رمضان میں روزے رکھنے کی حکمت روح روح اور مادہ مخلوق ہیں روح کی بیماریوں کا علاج ریفارم مامور اور ریفارمر میں فرق ۲۰۶ | زبان ٣٦٦ ۲۷۴ ۲۵۹ ۳۱۹ زبان کے فرائض اور محرمات زمانه زمانہ کی تعریف مخلوق ہے اور فانی ہے سائنس سیش حسابی علوم کی بنیا دمفروضات پر ہے اسباب اور وسائط کی اہمیت سائنسی علوم کی ترقی سے قرآن کریم اور اسلام ۴۰۱،۴۰۰ ۴۰۱ کے حقائق و معارف زیادہ روشن ہوں گے حضور علیہ السلام کی پاک تعلیم بھی روح ہے ۴۰۶ ۴۰۵ ۲۲۹ فوٹوگرافی اور ٹیلی سکوپ کی ایجاد سدرة المنتهى ۲۹۶،۲۹۴ ،۲۴۲ ۳۹۴ ۲۲۹ روح حق اس سے مراد محمد صلی ا یتیم ہیں نہ کہ حضرت عیسی ۲۸۷ سرسام روزه فرضیت اور حکمت ۳۱۹ روزہ رکھ کر غیبت کا ارتکاب رہبانیت یہود اور نصاریٰ میں ریا ۱۹۹ ۲۶۳ ۳۵۳ سرسام کا علاج سانپ ڈسوانا سکھ دنیا میں سکھ کی سات اقسام سکھ مذہب تباہی سماع جواز اور عدم جواز ۸۴ ۷۲ ۴۳۱ ۴۰۵

Page 472

سورۃ کہف سور قرآن شیعوں کے خلاف ایک نص صریح شیعوں پر حجت جمعہ کے دن سورۃ کہف کی پہلی اور آخری دس دس لاہور کے شیعوں میں حضرت خلیفہ المسح الاول آیتیں پڑھنے کا ارشاد سورة الحشر اس سورۃ نے سنی شیعہ جھگڑے درباره فدک کا فیصلہ کر دیا اہمیت اور فضیلت لا انتہاء حقائق و عجائبات کی حامل سورۃ شاکت مذہب شراب الخمر جماع الاثم شرک بعض اسباب کو سبب ماننا باعث شرک ہے شفاعت شفاعت کی پانچ اقسام ۳۴۶ کا وعظ شق قمر شکر مقامات شکر شکر کرنے سے نعمت بڑھتی ہے ۲۷۰ ۲۹۲ ۲۹۳ ۳۲۹ ۱۹۳ ۳۸۲ ۳۱۴ ۲۳۸ ۳۵۳ ۳۵۴ شہاب ثاقب Meteors ۳۹۴ اہم سن جن میں شہب کثرت سے گرے ہیں ۳۹۵ ۳۲۳ آنحضرت صلی شما اسلام کی بعثت پر ۶۱۰ء میں ۴۰۰ بکثرت ظهور ۱۸۷۲ء میں غیر معمولی ظہور ۲۸ نومبر ۱۸۸۵ء میں شہب ثاقبہ کا کثرت ۴۰۳ ۴۰۴ ZA سے گرنا شیطان ۴۰۴ شیاطین میں منجم اور کا ہن بھی شامل ہیں شیعہ سنی اختلاف کا فیصلہ قرآن سے ہو سکتا ہے ۳۱۴ لمة الشيطان خلافت خلفاء پر شیعوں نے وہی اعتراض کئے جو کفار مکہ نے نبی کریم کی بعثت پر کئے حضرت علی کی خلافت کے متعلق ایک روایت باغ فدک کے بارہ میں سورۃ الحشر کا فیصلہ ۲۹۶ ۳۸۱،۳۸۰ ۲۷۰ ص صحابہ رضوان اللہ علیہم ۳۹۳ ۳۹۸ ۳۵۵،۲۶۰ نبی کریم اور آپ کے صحابہ تمام مخالفوں کے سامنے مظفر و منصور ر ہے ۲۶۸

Page 473

۳۶۵ ۳۵۱ ۲۰۹ ۲۲۶ ۲۹۹ ۲۳۱ ۲۲۹ ۲۳۰ ۴۴۲ ۴۳۷ 11 صحابہ میں تین اقسام کے لوگ مہاجر صحابہ کو خلافت ملنے کی وجہ ۳۳۶ طلاق ۳۵۶ طلاق کے بارہ میں یہود ونصاری کی تعلیمات میں مز کی کی تاثیر صحبت اور پاک انفاس کی برکت ۳۱۳ افراط و تفریط اور اسلام کی معتدل تعلیم ایک بھی کذب کا ملزم نہ ہوا آنحضرت سلیما ایلم کا کوئی صحابی بہرہ نہیں تھا صحابہ کرام کیلئے مقدر کئی قسم کی جنتیں دین قائم رکھنے کے لئے ہجرت کا حکم اپنے وطنوں اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر حضور علیہ السلام کے پاس آکر رہنا قیام اللیل ۲۲۳ مسائل طلاق ۳۹۹ ۳۶۲ ۴۰۷ ۲۵۱ ٣٠١ ظلمت ظلمت کی اقسام عبادت عبادت کی حقیقت عبرانی ع غ بے نظیر جان نثاری و قربانی آپس میں بھائی بھائی ہونا ۱۹۳ عربی سے مشابہت تامہ صحبت مامور کی صحبت میں رہنے کا حکم صادق کی صحبت میں رہنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا عبودیت ۳۵۰ جتنی بندگی اور عبودیت کامل ہوگی اتنا ہی الوہیت ۳۵۵ کامیل اس سے زیادہ ہوگا عربی زبان مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کی اہمیت ۲۵۱،۲۵۰ بد صحبتوں سے بکلی کنارہ کش ہو جاؤ صور صور بجائے جانے سے مراد طب مامورین ومرسلین اور ان کے پاک جانشینوں کو امراض خبیثہ لاحق نہیں ہوتیں آتشک کا علاج ۲۰۰ ۴۳۳ ام الالسنة قسم اور تاکیدی الفاظ کا استعمال ما موصولہ و معرفه ما تفخيم و تعظیم کے معنی دیتا ہے عرش ۳۹۹ عرش کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ کا ظلی طور پر حامل ۲۴۹

Page 474

۳۱۵ ۳۲۴ ۲۵۵ ۲۸۳ ۳۲۲ اسلام کے خلاف مختلف شکلوں میں حملہ ۱۲ ۴۴۲ جسمانی اور مخلوق چیز نہیں اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش کی حقیقت ۴۳۷ فلسفہ، تاریخ، طب اور ہر علم کی کتب کے ذریعہ آٹھ فرشتوں کے عرش اٹھانے کے متعلق آریوں مذہب سے مغائرت کا سبق دیا جارہا ہے عیسائی بڑے بے ہنگم مورخ ہیں جنگ اور فتح میں کوئی اخلاقی معیار اور بین الاقوامی قانون مد نظر نہیں رکھا ۴۳۹ ۲۹۸ کے اعتراض کا جواب عیسائیت آنحضرت صلی کا اسلام کی بعثت کے وقت عیسائیوں کی اخلاقی و روحانی حالت مشنری عورتوں کے ہتھکنڈے ان کے پاس کتاب مقدس تو تھی مگر اس پر عمل ۳۰۲ مسلمانوں کی طرف سے اس پر آشوب فتنہ کی مدد ۳۱۶ ۲۰۸ ۳۱۸ عیسائیت اور احمدیت وفات مسیح کا مسئلہ عیسوی دین کی موت کا باعث ہے ۳۲۰ امرتسر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عیسائیوں کا پندرہ روزہ مباحثہ ۳۱۸ عیسائی عقاید کارت عیسائی عقاید کا محاکمہ ۳۱۸،۳۱۷ اس اعتقاد کارد که روح حق سے مراد حضرت عیسی ہیں ۲۸۸ ۲۱۱ ٣٠٩ ۳۴۰ ۳۳۲ ۳۴۰ ۲۷۳ کرانے والا کوئی نہ تھا نصاری کا خاصہ عیسائیوں میں نجات کے آثار نہیں ملتے انا جیل کا مقام موجودہ اناجیل کا غیر الہامی اور غیر ثقہ ہونا ستائیس سو زبانوں میں انجیل کے تراجم عقاید اور تعلیمات عیسائیوں کی دینی مشکلات ناقص تعلیم مسیح کی شان میں غلو بعثت نبوی کے وقت عیسائیوں کے غلط عقاید ۲۸۸ اعتراضات کے جوابات اللہ تعالیٰ کے بارہ میں غیر معقول عقاید ۳۱۷ پادریوں کے اعتراض پر ایک الزامی جواب سوائے زنا کے طلاق کو نا جائز قرار دیتے ہیں ۳۷۱ عقاید میں بتدریج تبدیلی بہت سے فرقے مسیح کی خدائی کا عقیدہ چھوڑ رہے ہیں عقل عقل مقدم ہے یا نقل ۲۷۱ | کامل علم خالق ہونے کو مستلزم ہے

Page 475

۲۷۱ ۲۷۲ ۳۹۰ ۳۸۹ ۲۶۴ ۴۴۵ ۳۸۹ ۳۶۲ ۳۶۲ ۲۳۹ ۲۲۴ ۱۳ ہر انسان کو ازدیاد علم کی ضرورت ہے بغیر تزکیہ علم کام نہیں آتا حقیقی علوم انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علوم الہیہ پر ہے علم ہندسہ کی بنیا مفروضات پر ہے عورت آدمی کا نفس بھی مونث ہے اسلام میں عورت کے حقوق کا قیام والمرءة راعية فى بيت زوجها ۲۴۱ ٣٠٦ ۲۴۱ ۳۶۷،۳۶۶ ۴۰۱ محبت بڑانے کے لئے بعض اوقات بیوی کو راز کی بات بتانی چاہیے مرد عورتوں کو آداب شرعیہ اسلامیہ سکھانے کے ذمہ دار ہیں ۱۹۵ ۳۷۱ ۳۵۲ ۳۸۰ ۳۸۱ فری تھنکرز فق فاسق کی تعریف فطرت فق انسانی فطرت میں بقا کی خواہش انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ طاقتور اور بڑے کی بات مانتا ہے ظہار کی سزا فلسفہ اہل خانہ اور عورتوں کو نصائح کرنے کی تلقین ۳۸۱ فلاسفروں کے لئے قرآنی قسموں کی فلاسفی طلاق کے مسائل غزوہ بدر يخسف بکم الارض میں اشارہ غزوہ خندق غیب سے مراد پیشگوئیاں غیبت غیبت کا سننا حرام ہے روزہ رکھ کر نیست ۳۶۵ بڑے بڑے فلاسفر ایک ذرے کی تحقیقات ۴۰۷ ۴۰۸ میں بھی حیران رہ جاتے ہیں قبر وہ مقام جہاں انسان اپنے اعمال کے بدلہ میں بعد الموت رہتا ہے روضة من رياض الجنة ۴۲۷ قرآن مجید قرآن کریم کی تین خوبیاں ۳۵۴ اس کے معارف و حقائق کسی نادان یا جاہل کے ۱۹۹ | خیالات کا نتیجہ نہیں ہو سکتے

Page 476

۱۴ سائنسی علوم کی ترقی سے قرآن کریم کے معارف اسماء القرآن زیادہ روشن ہوں گے ۲۴۲، ۲۹۴ ام الکتاب دنیا کی کوئی تحریر اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ۴۱۲ ذکر اور اس کی حقیقت قسموں کا استعمال اور ان کی حقیقت ۴۴۵،۲۳۱ ۲۹۹ شفاء ، نوراور امام آنحضرت صلی یا پریتم کی صداقت کا ثبوت ۴۴۹ کامل ترین فلسفه ٣٣١ ۳۲۸،۳۲۷ آنحضرت لیل اسلام کے مجنون نہ ہونے پر ایک ہرا مراور نہی کے اسباب اور نتائج بیان کرتا ہے دلیل ہے ۴۱۳ فتح و نصرت اور کامیابی کے حصول کا نسخہ دوسری مذہبی کتابوں کے مقابل پر بہت آسان ہے ۲۳۹ روح کی بیماریوں کا علاج يكشف عن ساق کے محاورہ پر ایک آریہ کے نزول اعتراض کا جواب سات آسمان اور سات زمین کے ہونے پر ایک آریہ کا جواب ۴۲۳ ۳۷۲ قرآن کریم پر آریوں کے ایک اعتراض کا جواب ۷ ۲۴ اس کا نزول رحمانی صفت کا اقتضا تھا روح القدس ہی قرآن لایا ہے جمع و ترتیب آنحضرت صلی یا اسلام کے زمانہ میں اس کے نسخے کیا قرآن شریف اختلافات مٹانے کیلئے کافی ہے؟۳۱۱ موجود تھے شیعہ سنی اختلافات کا فیصلہ قرآن کریم سے ہوسکتا ہے فضائل القرآن اعجازی خواص تین خصائص قرآن کی مثل لانے کا چیلنج قرآن کریم کے عجائبات ابدی شریعت پاک اور جامع تعلیم ۳۱۴ ۲۲۴ قرآن کریم کا اٹھ جانا اور دوبارہ نزول مہجور کئے جانے کا زمانہ مسلمانوں کے خود ساختہ ریفارمروں کا قرآن کریم کو مہجور چھوڑنا ۲۳۹ آسمان پر اٹھ گیا ہے اور اس کے دوبارہ نزول کی ۲۲۰ ۲۵۵ ۴۱۴ ضرورت ہے مسیح موعود علیہ السلام کا قرآن کریم کی عزت و عظمت ظاہر فرمانا قرآن شریف میری غذا اور میری تسلی اور اطمینان ۲۷۳ کا سچا ذریعہ ہے (نورالدین) ۳۱۹ ۴۱۳ ۴۰۵ } } ۲۸۷ ۲۵۰ ۳۴۸ ۳۱۳ ۳۴۹ ۳۱۸ ۲۹۲

Page 477

۱۹۸ ۲۷۳ ۲۱۹ ۱۵ قرآنی تعلیمات کا حصول قیامت معلم اور مزکی کے بغیر قرآن شریف غیر مفید ہے ۳۲۵ جو قیامت کا قائل نہ ہو وہ حقیقی نیکی نہیں کر سکتا قرآن کو پاک لوگ ہی سمجھتے ہیں قرآن کو سمجھنے کے لئے پاک زندگی اور مطہر قلب چاہیے ۲۵۱ ۲۵۲ کامیابی گ میگ قرآن شریف کے معنی کرنے میں کبھی صفات الہی دنیا و عقبی میں کامیابی کا گر کے خلاف معنی نہ کرو ۲۹۵ قرآن مجید کے علوم محض تقویٰ سے ملتے ہیں ۳۳۹ کا بہن کا ہنوں کی تین عادات وہ فعل ہے جس کا نتیجہ شیطان اب تک اٹھارہا ہے ۳۵۳ ۳۵۷ اس زمانہ کی ایک اخلاقی خرابی ۳۷۹ قرآن کریم کی تعلیم اور تفسیر مز کی کے بغیر اس کی تعلیم نہیں ہوتی تفسیر کا اعلیٰ درجہ قرآن کریم کی پیشگوئیاں مکی دور میں مسلمانوں کے غالب آنے کی پیشگوئی ۳۸۹ کفار کی شکست کی پیشگوئی فتح ایران و روم کی بشارت ایک پیشگوئی کی صداقت کا ظہور ۴۰۸،۴۰۷ ۲۴۶ تصنیف کا اثر کسر صلیب نیز دیکھئے عیسائیت ۳۲۳ ۲۷۱ میں دیکھ چکا ہوں کہ کسر صلیب ہو چکی (نورالدین )۳۲۰ کسوف و خسوف قرآن کریم میں قسم کا استعمال اور اس کی حقیقت ۲۳۱ عظیم الشان نشان قرآن میں مذکور قسموں کی حکمت اس زمانہ میں قلم فیصلہ کن ہے قمر عربوں کا قومی نشان ہے ۴۴۵ ۲۶۲ ۲۳۸ كشف مسیح موعود علیہ السلام کے کشف کے مطابق حضرت خلیفہ امسیح الاول کے گھر میں عبدالحی کی پیدائش ایک صوفی کا کشف ۳۲۶ ۳۳۵ ۱۹۹

Page 478

۱۶ کفاره قسم کا کفارہ مامور اور ریفارمر میں فرق ۳۰۵ مصیبت گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے ۳۷۹ ۳۵۳ اختلاف مٹانے کے لئے آتا ہے صداقت ۳۱۴ کہانت سپریچیولزم سے تعلق ۴۴۶ راست باز ہمیشہ ایک ہی معیار پر پر کھے جاتے ہیں ۳۰۸ مامور من اللہ کی شناخت کیلئے انفسی اور آفاقی دلائل ۲۲۵ شناخت کا طریق اور نشان گراموفون صداقت کے معیار ایک سبق آموز آلہ ۲۰۵ صداقت کی پہچان ۳۰۷ ۴۴۸ ۳۲۲ گناه گناہ سے بچنے کا ایک گر ۱۹۸ لم لیلة القدر صادق مامور من اللہ کے لئے ۲۳ سال کی مہلت ۴۴۷ صادق مامور ایک ہی ہے جو مسیح اور مہدی ہو کر آیا ۳۶۰ مباحثه آداب مباحثه مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے مباحثہ کی ۴۱۷ اصلاح خلق کیلئے آنے والے مامور کا زمانہ ۳۴۸ کامیاب طرز ۳۱۸ ۳۴۳ ۴۱۷ ۳۱۸ مامور مامور کے آنے کا وقت بعثت کے موجبات مامور من اللہ کے آنے پر لوگوں میں اس کی مخالفت جوش مارتی ہے صفات عزم استقلال اور عقد ہمت ۳۰۷ ۳۰۹ ۳۶۱ مباہلہ آنحضرت صالی پہ ستم کی طرف سے یہود و نصاری کو مباہلہ کی دعوت مجوس مدارات مدارات اور مداہنہ میں فرق ۳۲۱ مذہب مامورمن اللہ کو خاص علم عطا ہوتا ہے ۳۲۱ ہر مذہب جو دعویٰ کرے اپنی الہامی کتاب سے اللہ کے بلائے بغیر یہ نہیں بولتے ۳۳۵ پیش کرے

Page 479

۱۷ تمام الہامی مذاہب جن ، فرشتوں اور شیاطین کے اس زمانہ میں ایک مز کی کی ضرورت ۳۲۵،۳۱۳ قائل ہیں اس زمانہ میں مذہب سے دوری کے اسباب موجودہ زمانہ میں تمام مذاہب کے عقائد اور متعلقات پبلک کے سامنے آچکے ہیں مزکی ۳۹۷ ۳۲۳ ۳۲۹ مسیح موعود تمام کشوف اور رویا اور الہام شہادت دیتے ہیں که مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ چودھویں صدی سے آگے نہیں چودھویں صدی کا خلیفہ اور خاتم الخلفاء ایک مزکی کی ضرورت ۳۰۳، ۳۱۳، ۳۱۴ مسیح موعود وہ ہے جو کسر صلیب کا تمغہ حاصل ۳۰۹ ٣١٠ آنے کا وقت ۳۰۵ کرے ۳۲۰۳۰۹ صفات کے متعلق سچا علم بخش سکتا ہے ۳۱۷ معجزه مسلمان نیز دیکھئے عنوان ”اسلام“ اقتراحی معجزات مانگنے والوں کو نشان نہیں دیا جاتا ۳۳۵ زوال کی وجہ ۳۵۱ ملائکہ علماء کا حال ۳۳۴ ایمان بالملائکہ کی حقیقت اور فوائد اکابرین ملت اور علماء امت کے باہمی اختلافات ۳۱۲ | وجود ملائکہ پر دلیل غفلت اور مذہب سے دوری ۳۹۸ ۳۹۷ ۳۲۰ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت کا ایک فرشتہ موکل ہوتا ہے ۴۳۸ خودساختہ ریفارمر اسباب تنزل اور اسباب ترقی کے آسمان اور آسمانی اجرام کیلئے بطور روح کے ہیں ۴۰۱ بیان کرنے میں قرآن کریم کو چھوتے تک نہیں ۳۱۳ آنحضرت صلی یا پی ایم کی تائید و نصرت اپنے اختلافات مٹانے کیلئے قرآن کریم کی طرف قرآن کریم میں مذکور تین قسم کے فرشتے رجوع نہیں کرتے جمعہ سے لا پرواہی ٣١٣ | لمة الملك ۳۴۷ موت کے بعد ترقیات کا زمانہ شروع ہوتا ہے ناشکری کا مرض مسلمانوں میں بہت بڑھ گیا ہے ۳۵۴ مہدی نوجوان نسل کی مذہب سے دوری ۳۲۸ قرآن کی موجودگی میں مہدی کی ضرورت عیسائیت قبول کرنے کے موجبات ۳۲۴ تمام کشوف ورؤیا اور الہام شہادت دیتے ہیں عیسائیت کے فتنہ کی مدد مسیح کو خالق ماننا ۳۱۶ که مسیح موعود اور مہدی کا زمانہ چودھویں صدی ۳۱۵ سے آگے نہیں ۴۳۳ ۴۴۳ ۳۹۸ ۳۹۰ ٣٠٣ ٣٠٩

Page 480

۲۵۷ ۲۷۰ ۲۵۲ ۳۱۷ وحدت الوجود مدعیان وحدت الوجود کا لا جواب ہو جانا وراثت باغ فدک مال فئے میں سے تھا اس لئے یہ وراثت میں نہیں جا سکتا تھا وسوسه وساوس دور کرنے کا طریق وفات مسیح مسئلہ کی اہمیت ایک وقت آئے گا کہ لوگ کہیں گے کہ کیا وفات مسیح کا مسئلہ بھی کوئی اہم مسئلہ تھا ؟ ۱۸ ۳۳۲ ٣١١ ۲۶۲ ۴۲۷ ۲۲۷ ۳۳۶ مختلف مہدی ہوئے ہیں اور مسیح بھی ایک مہدی ہے رمضان میں کسوف و خسوف کا نشان میزان اس میں علم مناظرہ بھی شامل ہے ن نبوت صداقت صداقت کا ایک ثبوت مقام و خصائص انبیاء ورسل کی پاک ذات کا خاصہ قوم کی تربیت کے تین مرتبے نجات انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علوم الہیہ ہے ۳۶۶ وید عیسائیوں میں نجات کے آثار نہیں ملتے ۳۱۷ وید میں مسئلہ وحدت وجود کی بنیادمستحکم رکھی گئی ہے ۲۵۷ ۴۴۲ ۲۵۷ ۲۲۵ ۲۲۴ ۳۵۷ نفاق وید میں مذکور چار دیوتا منافق کی تعریف ۳۶۱٬۳۵۳ ویدانت عقیدہ وحدت الوجود نفاق کے شعبے ۳۵۳ منافقین سے جہاد کا حکم هی ۳۸۲ نبی کریم صلی شما پیام کے آخری ایام میں ایک منافق بادی بھی باقی نہیں رہا تھا نماز ۳۶۲ کی شناخت کے طریق ہجرت تمام بے حیائیوں اور بدکاریوں سے روکتی ہے ۳۴۵ ہجرت کی فضیلت اور برکات

Page 481

۱۹ ہدایت کسی بادی کی شناخت کے طریق ہادی کے اوصاف ۲۲۴ عقائد رہبانیت ۲۲۵،۲۲۴ ذرا ذراسی بات پر طلاق دیتے تھے اخلاقی و روحانی حالت ہندو مذہب نیز دیکھئے آریہ اور برہموسماج کے عنوانات عقاید و حالات پہلے دوسروں کو اپنے مذہب میں شامل نہیں کرتے تھے اسلام کے زیراثر انڈیا میں برہمو اور آریہ سماج بت پرستی کو چھوڑ چکے ہیں یا جوج و ماجوج دراز گوش ہونے سے مراد ۲۴۸ ۲۰۱ ۲۷۱ ۳۳۹ مسیح کی بعثت کے وقت اخلاقی و روحانی حالت بہت گری ہوئی تھی آنحضرت صلی یا اسلم کی بعثت کے وقت یہود کے عوام اور علماء کی اخلاقی و روحانی ابتر حالت یہود مدینہ یہود مدینہ کی اسلام کے خلاف کارگزاریاں اور انجام یہود کو الموت کی تمنا کرنے کی دعوت مدینہ سے خیبر کی طرف جلا وطنی ۲۶۳ ۲۹۷ ۲۷۱،۲۶۶ ۳۴۱ ۲۷۱ ۳۴۴ یہود سے مشابہ قوم نتشابه بالیهود قوم ۲۷۱ ☑ يوم موعود یوٹی ٹیرین نیز دیکھئے عیسائیت هود ان کے پاس کتا ہیں تو تھیں لیکن ان پر عمل کرانے والا کوئی نہیں تھا

Page 482

۴۰۳ ۳۳۸ ۲۳۵ ۲۴۷ ۳۳۸ ۴۰۳ ،۲۳۵ ۲۴۰ ۲۲۳ ۳۳۶ ۳۳۸ آدم علیہ السلام آیا اسماء ۴۴۷۳۴۴ پیدائش کی تکمیل جمعہ کی آخری ساعت میں ہوئی تھی ۳۴۴ ابن جریر ابن حزم ابن الخزیمہ امام الائمہ محمد بن اسحاق خلافت آدم آذر آمنہ بنت وهب علیہ السلا ابراہیم علیہ السلام ۲۹۵ ۳۳۰ ۲۸۹ ابن عربی محی الدین ابن قیم متکلم ۲۹۸،۲۳۶ ابن کثیر ابو الحنفاء ۳۳۰ ۲۳۶ صدیق صدق و وفا کا پورا نمونہ دکھانے والا آپ کے فرزند کہلانے والے عربوں کی اکثریت فاسق تھی آپ کی اور اسماعیل کی دعا کے نتیجہ میں ۲۹۷ ۳۴۸ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ نے بہت کم احادیث سنائیں ابوالحسن الاشعری امام ابوالحکم آنحضرت صلی لا الہ سلم کی بعثت ابن ابی کبشہ ابو جہل رئیس طائف عبدیالیل کی گفتگو میں ذکر ۴۰۳ ابوحنیفہ علیہ الرحمہ ابن تیمیه امام متكلم ۴۱۷ ۳۳۷ امام بننے سے پہلے فقہ کے مسائل جانتے تھے ۳۰۴ ۳۳۸ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ ۲۴۰

Page 483

۳۳۸ ۲۶۰ ۲۳۵ ۲۶۶ ۲۷۱ ۲۱ ابوالمنصور ماتریدی.امام متكلم ابوہریرہ رضی اللہ عنہ معلم صحابی احمد سر ہندی (سید) مجددالف ثانی بختیار کا کی ۳۳۸ قطب الدین علیہ الرحمہ ۲۱۰ بریرہ رضی اللہ عنہا ۳۳۶ ۳۳۷ ۳۳۷ بزاز بنی اسرائیل عسرویسر کے مختلف ادوار اللہ نے ان کے لئے طور سینین اور شام کو اپنی احمد بن حنبل امام اخنس بن شریق ۴۱۷ تخت گاہ بنایا اسحاق بن راھویہ ۳۳۷ بنی اسرائیل کی طرح امت محمدیہ میں سلسلہ خلافت کا وعدہ اسماعیل علیہ السلام ابراہیم اور آپ کی دعا کے نتیجہ آنحضرت سال عالی پیام بنی حارث کی پیدائش اسود بن عبد يغوث ۳۴۸ آنحضرت صلیا کی ستم کی طرف سے کامل مذہبی ۴۱۷ اصحاب الفیل اندر ہندو دیوتا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اہرمن ༣ بخاری امام محمد بن اسماعیل امام ہونے سے پہلے نماز روزہ کرتے تھے ۲۱۷ ۲۱۶ ۳۳۶ ۲۹۸ آزادی کا عہد بنی نجران ۲۸۳،۲۸۲ آنحضرت صلی لا السلام کی طرف سے مذہبی آزادی کا عہد بنی نضیر مدینہ سے اخراج ۳۳۷ بیضاوی ۳۰۴ سدرۃ المنتہی کے بارہ میں آپ کی تفسیر ۲۸۳،۲۸۲ ۲۷۱ ۲۲۹

Page 484

۳۳۷ ۲۵۵ ۴۲۴ ۳۳۸ ۲۱۳ ۴۳۱ ۲۰۱ ۳۲۸ ۳۶۹ ۳۳۸ ۳۳۷ ۲۲ تلك الغرانیق العلی کے بارہ میں رائے ۲۳۴ داؤد ( الظاهری) بیہقی پرت پال پولوس (Paul) پیٹھان پلیٹو (افلاطون) ۲۳۴ حامی اسلام ۳۹۶ ۴۳۱ ۳۲۸ ۲۸۹ ۴۳۱،۴۳۰ ۴۳۰ دیانند بانی آریہ سماج دیا نندیوں کی خدا کے بارہ میں غلطی را جز عرب شاعر رازی فخر الدین امام متكلم مفسر راغب اصفہانی آپ کی کتاب مفردات کی تعریف رنجیت سنگھ مہاراجہ پولوس شمود ہلاکت کا انجام جبرئیل علیہ السلام ج - ح - خ ۴۴۳ با وجو د غلام ہونے کے قریش میں آپ کا نکاح جلال الدین رومی مولانا روم علیہ الرحمہ ۴۲۱ زینب ام المومنین رضی اللہ عنہا زید رضی اللہ عنہ جنید بغدادی علیہ الرحمہ بچپن میں ہی معرفت کی باتیں فرمانا حفصہ ام المومنین رضی اللہ عنہا خالد بن ولید بن مغیرہ رضی اللہ عنہ داؤد علیہ السلام ذا الاید در ز ۳۳۷ ۳۷۸ ۲۴۰ ۲۱۲ س ش ص سپنسر یورپین فلاسفر سکندر اعظم سلیمان خواجہ رحمتہ اللہ علیہ قرآن شریف سے بڑا تعلق تھا اور بائیس برس کی عمر میں خلیفہ ہوئے شافعی امام علیہ الرحمہ

Page 485

۳۵۸ عبد الغنی شاہ علیہ الرحمہ حضرت خلیفتہ المسح الاول کے استاد ۲۳ ۲۵۲ ۳۳۸ آپ کا ایک شعر شاہ ولی اللہ شعرانی امام ۳۳۸ عبد القادر سید جیلانی.علیہ الرحمہ شہاب الدین سہر وردی علیہ الرحمہ عظیم الشان انسان اور آپ کی دو کتب کی تعریف ۳۳۸ آپ نے عوارف لکھ کر مخلوق پر احسان کیا ۳۳۸ عبد الله ۲۸۹ صفیہ ام المومنین رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی شما اسلام کے والد ماجد ۲۸۹ آپ کی رؤیا ۲۳۸ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نیز دیکھئے ابن عمر ۳۳۶ عبد یا لیل رئیس طائف.جس نے شہاب ثاقب کی وجہ ۴۰۳ ۲۴۰ ۲۲۷ ۲۲۹ ۲۲۹ ۲۳۸ ۲۵۳ ۴۴۵ ۲۹۸ عاد انجام ہلاکت و تباہی آنحضرت صلی السلام کی بعثت بتائی ۴۳۰ ۴۳۱ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا ۳۷۸، ۴۱۳، ۴۱۵ عرب (قوم) باہم اتحاد کی ایک خوبصورت رسم آنحضرت صلی شما اسلام کے اعلیٰ اخلاق پر گواہ ہے ۴۱۳ عربوں کی ایک رسم آنحضرت مصلی شمالی ایم کے خلق کے متعلق آپ کا جواب ۴۱۵ پبلک کی رائے لینے کے سلسلہ میں عربوں کا عبدالحی ابن حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ ایک دستور آیت اللہ ہے ۳۳۵ مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ست مطابق آپ کی پیدائش ۳۳۵ عربوں کا قومی نشان قمر ہے ستاروں کی پرستش ہوتی تھی اہل عرب میں یہ مشہور تھا کہ جھوٹی قسمیں کھانے والا برباد ہو جاتا ہے عبدالعزیز شاہ محدث دہلوی ۴۰۴ آنحضرت سلی شما ایتم کی بعثت کے وقت عربوں ۳۲۳ کی حالت کتابوں کا اثر

Page 486

غزالی امام رحمہ اللہ علیہ غ مدارات اور مداہنت میں فرق ۳۳۸ ۴۱۷ غلام احمد قادیانی مرزا مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام مقام آنحضرت صلی اسلم کی برکات و فیوض کا زنده نمونه ۳۰۱ ہمارا امام ( قرآن کریم کے ) ان وعدوں اور فضلوں کا کیسا سچانمونہ اور گواہ ہے اس نے قرآن شریف کی وہ عزت و عظمت ظاہر کی ۳۲۰ ۳۱۹ ۳۴۴ جو تیرہ سو برس کے اندر کسی نے نہیں کی امامکم منکم کاسر ۲۴ ۲۲۵ ۴۴۳ ۲۳۶،۲۳۱ ۳۸۳ آنحضرت الیھا السلام کی قوت قدسی کے نتیجہ میں انقلاب عزرائیل علیہ السلام ۳۸۲،۳۷۹ ۳۸۲ عزی مشرکین عرب کا دیوتا علمه حضرت نوح کی بیوی کا نام ہے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اگر حضرت عمرؓ منافق ہوتے تو حضرت علی پران ۳۸۲ ،۲۴۰ ۲۵۰ ۲۷۰ کے خلاف جہاد کرنا فرض تھا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ایمان لانے پر قرآن کریم کی ایک سورت کی نقل طلب کرنا آپ کے عہد میں خیبر سے یہود کا نکالا جانا اگر آپ منافق تھے تو حضرت علی پر تو آپ کے آخرين منهم كا معلم خلاف جہاد کرنا فرض تھا عیسی بن مریم علیہ السلام آپ کی مادری زبان عبرانی تھی دم عیسی احمد کے بارہ میں آپ کی پیشگوئی ۳۸۲ آدم ثانی ۳۴۰ ۳۵۹ ۳۴۷ ،۳۴۴ جمعہ کا وجود مسیح موعود کی بعثت اور آمد کے لئے ایک نشان اور پیشگوئی تھا ۴۱۶ مریم اور ابن مریم ہونے کا دعویٰ ۲۸۶ ۳۴۷ ،۳۴۴ ۳۸۵،۳۸۴ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف سے احمد کی بشارت ۲۸۶ ۳۴۹،۳۴۱ امت میں عیسی بن مریم پیدا ہونے کی بشارت ۳۸۴ احمد کا مظہر اور بروز

Page 487

۲۵ دلائل صداقت آپ کی صداقت کے دلائل آپ کے راستباز ہونے کا معیار ۳۱۸،۳۱۰ ٣٠٨ ۲۵۲ ۲۸۵ شرائط بیعت میں اطاعت معروف کی شرط آپ کا فرمانا کہ تم میں بہت ہیں جو اس چشمہ پر پہنچ گئے ہیں جو زندگی کا چشمہ ہے مگر ابھی پانی نہیں پیا ۳۴۹ آپ کو شناخت کر کے قبول کرنے کا طریق آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی دردمندانہ آپ کی حفاظت کا وعدہ ۳۴۹ نصیحت آپ کی بعثت پر ۱۸۸۵ء میں شہب ثاقبہ اور مخالفت اور مخالفین کا انجام دمدار ستارے کا ظہور ۴۰۴ ۲۵۲ سیح موعود کے انکار سے سلب ایمان ہو جاتا ہے ۳۴۸ تمام سجادہ نشینوں کو چیلنج کہ میرے خلاف بد دعا آپ کے اور نوح کے مخالفین کا موازنہ ۳۴۲ کر کے دیکھو کہ وہ کس پر الٹ کر پڑتی ہے الہامات وكشوف حضرت خلیفہ المسیح الاول کے ہاں ایک بیٹے کے فارقلیط ف ق ک گ ۴۴۹ ۲۸۹ ۲۸۷،۲۸۶ ۳۳۸ ۳۳۸ ۳۲۸ ۳۸۳ ،۲۱۷،۲۰۶ متعلق آپ کا ایک کشف مندرجہ انوار الاسلام ۳۳۵ اخلاق خلق عظیم کا حامل قوت قدسی اور تاثیر صحبت عقد ہمت عزم اور استقلال نکات علم ومعرفت ۳۵۹ ۳۲۸ ۳۲۰ پیشگوئی پر بحث فخر الدین رازی امام علیہ الرحمہ فرید الدین شکر گنج فیثا غورث فرعون آپ فرماتے تھے کہ موت انسان کے لئے ضروری ہے ۳۹۰ عبرتناک انجام ۴۳۲ ۲۱۷ موسیٰ کو کتاب فرعون کی ہلاکت کے بعد ملی سلطان روم کو اس کے خراب اراکین کی طرف توجہ دلانا جماعت احمدیہ ۴۱۵ امرء فرعون کی مثال قریش بیعت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد لینے قریش کی طرف سے آنحضرت صلی یا پیام کود نیوی ۳۸۳ ۴۱۷ ۳۵۰ | انعامات کی پیشکش کی وجہ

Page 488

۲۶ قطب الدین بختیار کا کی علیہ الرحمہ کرزن لارڈ گیپت پر کاش گولکیہ جی لم لات مشرکین عرب کی ایک دیوی لوط علیہ السلام آپ کی بیوی کو رشتہ کام نہ آیا لوقا حواری نہیں تھے ۳۳۸ ۲۱۵ ۳۲۹ محی الدین ابن عربی میں ان کو اچھا سمجھتا ہوں ( نورالدین) مرقس ۴۴۰ حواری نہیں تھے ۲۳۶،۲۳۱ ۲۳۶،۲۳۱ مریم بنت عمران مومنوں کی مثال ۳۳۸ مسیح بن مریم علیہ السلام نیز دیکھئے عیسی بن مریم آپ کے عاجزی اور بیکسی کے اعتراف کے باوجود ۳۴۰ ۳۸۳ ۳۸۳ عیسائیوں کی طرف سے آپ کی شان میں غلو ۳۰۰ ۳۸۳ یورپ و امریکہ میں (اب) مسیح کی خدائی نابود ۳۴۰ ہو رہی ہے مسلمانوں کا مسیح کو خالق ماننا ۲۷۱ حیات مسیح کے مسئلہ نے ایک دنیا کو تباہ کر دیا ہے ۳۱۷ ماریہ قبطیہ ام المومنین رضی اللہ عنہا ۳۷۹،۳۷۸ معین الدین چشتی علیہ الرحمہ ۳۳۸ ۳۲۸ ۲۳۶،۲۳۱ ۲۹۸،۲۶۷ ۲۱۷ ۲۶۷ مالک بن انس امام ۳۳۷ مل Mill محمد انصاری ۳۳۸ فلاسفر محمد احمد ابن نظرت خلیفه امتع الاول منات ۳۳۴ محمد بن اسحاق ابن خزیمه محمد بن اسماعیل بخاری عرب دیوی موسیٰ علیہ السلام آپ کو کتاب فرعون کی ہلاکت کے بعد ملی محمد علی خان نواب آف مالیر کوٹلہ ۳۲۳ آپ کے ذریعہ بنی اسرائیل کی نجات ذریعہ ۲۳۵ ۳۳۷

Page 489

۳۰۵ ۲۹۹ ۲۷ آپ کی گدی پر بیٹھنے والے علماء کی ابتر حالت ۲۹۷ خدا پرستی کی تعلیم میں کوئی موقعہ بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا آپ کے عظیم الشان کام آپ نے عیسائیوں کے غلط عقائد کی نشان دہی فرمائی اور ان کی اصلاح کی ۲۸۹،۲۸۸ ۳۰۰،۲۹۹ ۲۹۹ قوم میں بے نظیر انقلاب پیدا فرمانا صحابہ کا نتزکیہ ۳۲۳ ۴۴۳ ۳۳۱،۳۳۰ میرحسن مثنوی کے اثرات میکائیل محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سیرت و سوانح عمائدین قریش کی طرف سے دنیوی نعماء کی پیشکش ۱۷ جاہلیت کے خون آپ کے قدموں کے نیچے ہیں ۲۰۷ آپ کے متعلق پیشنگوئیاں آپ کی بعثت ابراہیم واسماعیل کی دعا کا نتیجہ تھی انا جیل میں آپ کے متعلق پیشگوئیاں وہ اپنی نہ کہے گا“ بعثت آپ کی بعثت سے پہلے علماء اور عوام کی اخلاقی و روحانی حالت آپ سانی لا الہ نام کے اسمائے مبارکہ ۳۴۸ آپ کا نام احمد ٹھہرا ۲۸۶ ۲۸۹ ۳۰۵،۲۹۷ آپ کی بعثت رحمانی صفت کے تقاضے کا نتیج تھی ۳۳۰ آپ کے اسماء احمد.امین مقام مظہر اتم اور روح حق ہیں اللہ تعالیٰ سے اتحاد اور تعلقات محبت آپ سے معاہدہ اللہ سے معاہدہ ہوگا مظہر رحمن ۳۳۱ ۲۲ ۲۸۸ ۳۰۶،۲۲۷ ۲۶۰ خدا کا محبوب بننے کیلئے آپ کی اتباع شرط ہے ۳۳۰ آپ کی بعثت آدم زادوں پر اللہ تعالیٰ کا خاص ذكرار سولا فضل تھا ۲۹۹ جامع جمیع کمالات آپ کی بعثت اللہ تعالیٰ کی عزت وحمد کا ایک بین آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری ثبوت ہے بعثت کی غرض اخلاق حسنہ کو کمال تک پہنچانا تھی ۲۹۷ افصح العرب و العجم ۳۷۰،۳۴۹ ۴۴۸ ۴۱۶ ۲۵۶ ۴۱۶ افاضہ برکات میں سب نبیوں سے بڑھ کر اور آپ کے ذریعہ قرآن کریم کے نزول کی اہمیت ۳۲۵ افضل ہیں

Page 490

۲۸ تیرہ سو سال بعد بھی آپ کی قوت قدسیہ مؤثر ہے ۳۰۶ اپنی بشریت کا اقرار ۴۴۶،۳۱۰ خلق عظیم اور مقناطیسی جذب ۲۲۴ كان خلقه القرآن ۲۲۲ قرآن لائف آف محمد ہے (عائشہ) آپ کے اعمال و افعال قرآن کریم کے مثیل موسیٰ روحانی لیل کا رہنما ستارہ سدر المنتہی تک پہنچنا ہادی ہونے کے لحاظ سے آپ کے اوصاف ۲۲۴ مطابق تھے مز کی آپ کے شاعر ہونے کی نفی آپ کے مجنون نہ ہونے کے دلائل ۲۳۶ ۳۰۴ ۲۲۸ ۴۱۱ ۴۱۵ ،۴۱۳ ۴۱۳ ۲۲۴ تمام انبیاء سابقین کے اخلاق آپ میں جمع ہیں ۴۱۶ ۴۴۵ عرب کے عمائد واہل الرائے آپ کے مکارم اخلاق ۴۱۳ ،۴۱۱ کے مقر تھے ۲۲۵ ۳۳۰ اللہ کے فضل اور رحم کا عظیم الشان نمونہ آپ جن اصولوں کو قائم کرنے آئے تھے دنیا ۲۷۱ آپ کے صحابہ کا اپنے وطنوں اور عزیز واقارب کو ان کی طرف آ رہی ہے عبادت چھوڑ کر آپ کے پاس آکر رہنا ۲۵۱ تلاوت آیات کے ساتھ اپنے عمل سے اور اس کی اپنے فرمانبردار صحابی کو دیکھ کر اس کیلئے دعا فرماتے ۳۳۶ تا شیروں سے بتادیا کہ اس کا منشاء کیا ہے جمعرات کی عشاء اور نماز جمعہ میں سورۃ الجمعہ کی قرات فرمانا ٣٠٢ مساوات واخوت کا بے نظیر مظاہرہ اسوہ حسنہ ۲۰۱ ۴۱۵ ۲۹۲ بنی حارث اور بنی نجران سے مذہبی آزادی کا عہد ۲۸۲ سال میں قریباً چھ ماہ روزے رکھتے تھے ۳۰۴ آپ کی ازواج مطہرات کی صفات روزانہ پانچوں نمازوں کا التزام فرمانا ۳۰۴ صداقت طویل تہجد کے نتیجہ میں آپ کے پاؤں متورم ہو صداقت کی شناخت کا معیار جاتے تھے غزوات میں بیویوں کو ساتھ رکھنے کی حکمت آپ کے لئے تسبیح کا حکم اخلاق انسان کامل ہونے کے دلائل ۳۰۴ ۳۶۲ آپ کی صداقت کے دلائل ۳۸۱ ۴۴۹،۴۱۲ ۲۹۳ آپ کے دعوی پر ۶۱۰ء میں شہاب ثاقب کا ظہور ۴۰۳ آیت لو تقول آپ کی صداقت کی دلیل ہے ۴۴۶ ۲۲۲ صداقت کی تائید ۴۴۵

Page 491

۲۹ دوات اور قلم آپ کی صداقت کی گواہ ہوں گی آپ اور آپ کے صحابہ مظفر و منصور رہے آپ کی کامیابی کے موجبات مخالفت اور مخالفین کا انجام آپ کی بعثت پر کفار مکہ کے اعتراضات یہود مدینہ کی آپ کو مار دینے کی سازش آپ کی حفاظت کا نشان ۴۱۱ ۲۶۹ ٣٣١ ۲۹۶ ۲۷۰ ۳۴۹،۳۴۲ ۲۴۰ آپ اور مسیح موعود کے مخالفین کا موازنہ نورالدین خلیفة المسیح الاول مقام مجھے جو کچھ ملا محض اس کے فضل سے ملا اللہ تعالیٰ کا آپ کو تعلیم فرمانا ۴۴۹ ۳۳۴ ۱۹۸ ،۱۹۶ خدا تعالیٰ کی طرف سے قرآن مجید کا سمجھایا جانا ۳۴۴ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سینکڑوں نشان دکھائے باوجود بے سروسامانی کے مخالفوں پر فتح پانا مخالفین کو مباہلہ کی دعوت امت محمدیہ آپ کے ذریعہ قوموں کی روحانی زندگی آپ کی بعثت بروزی مغل تباہی نسیم سحر خلیفہ بغداد کی بیوی کا نام جو ہلاکو کے کے حملے میں قتل ہوگئی تھی نصیر الدین چراغ دہلی نظام الدین محبوب الہی علیہ الرحمہ نوح علیہ السلام قوم کی غرقابی آپ کی بیوی کو اس کا رشتہ کام نہ آیا ۳۴۳ ۳۹۰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت قرآن کریم سے عشق قرآن کریم سے عشق ۳۰۶ سورۃ جمعہ پر خاص غور ۴۳۲ ۳۳۸ مسیح موعود علیہ السلام سے عشق اپنے امام کی عظمت کا اعتراف امام الزمان کی بات سن کر تر ساں ہونا مسیح موعود علیہ السلام سے ایک دن کی جدائی بھی برداشت نہیں میرے لئے مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی کی دلیل اور نشان میں آپ ہی تھا ۳۳۸ ۳۸۳ ۴۳۲ ۳۸۳ امام الزمان کی کمال اتباع قادیان سے تعلق قادیان سے ایک دم کے لئے باہر جانا موت معلوم ہوتا ہے ۳۳۵ ۳۳۶ ۲۹۲،۲۵۳ ۲۹۲ ۳۲۸ ۳۴۹ ۳۳۴ ۳۳۴ ۳۵۶ ۲۵۱

Page 492

قادیان میں رہنے کی وجہ سیرت وسوانح عاجزی اور خاکساری ۳۵۶ میں دیکھ چکا ہوں کہ کسر صلیب ہو چکی ۳۵۹ مجھے محض اولاد کی ضرورت نہیں بلکہ سعادت مند کتب کا وسیع ذخیرہ اور ازدیاد علم کی پیاس کثرت مطالعہ ۲۴۱ ۳۳۴ اولا د کی ضرورت ہے وہی ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ۳۲۰ ۳۳۴ قرآن کریم اور دوسری مذہبی کتب کا مطالعہ ۳۰۱۴٬۲۳۸ کتاب ہر وقت میری رفیق ہے کتابوں کے اثر کے متعلق ذاتی علم فلسفہ سے دلچپسی ۳۱۹ ولید بن مغیره ایک مخالف کی کتاب کی تعریف فرمانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے آپ کو پنجابی زبان میں وعظ کا ارشاد ۳۲۳ ۳۲۷ عالم مورخ اسلام کی مذہبی رواداری کا اعتراف ۳۵۳ پراٹسٹنٹوں کا مذہبی جبر ۳۲۶ یزدان آپ کی والدہ کی بیان فرمودہ ایک کہاوت ۴۳۲ یوحنا بپتسمہ دینے والا ایک موقعہ پر الحمد پڑھنے میں تامل ۳۵۳ یوسف علیہ السلام میرا کوئی معاملہ دنیا کا کسی سے مشترکہ نہیں فرمودات معرفت کے انبار پیش فرمانا کسی خاص مصلحت کی بناء پر خواجہ سلیمان تونسوی) کی خلافت کا تذکرہ فرمانا میں ابن عربی کو اچھا سمجھتا ہوں ۲۰۰ ۳۳۸ ۳۳۸ حسن یوسف ۳۳۷ ۴۱۷ ۲۸۴ ۲۸۴ ۲۹۸ ۲۸۹ ۲۰۸،۲۶۷،۲۰۶ آپ کی وجہ سے مصر میں بنی اسرائیل کو بہت آرام ملا یوسی فس (جوزیف) عبرانی مورخ ۴۱۶ ۲۶۶

Page 493

۳۶۹ ۲۴۳ ۲۴۳ ۳۹۵ ۳۶۹ ٣٢٣ ۳۱ مقامات بابل سکندر کی موت بحیرہ روم بحیرہ قلزم برلن جرمنی شہاب ثاقب بغداد سولہ لاکھ افراد کا قتل سمبلی بھارت بھارت نیز دیکھئے ہند.ہندوستان اکثر بت پرست ہندو بت پرستی کو چھوڑ رہے ہیں ۲۷۱ پلٹسک شہب ثاقب کی بارش ۳۹۵ پیرس فرانس ۳۹۶ شہاب ثاقب ۳۹۵ ۴۱۵ ۲۵۷ ۳۳۹ ۳۱۸ ۳۲۰ ۲۷۱ ۳۹۴ ۲۷۱ ۲۴۰ ۲۹۸ ۲۴۶ ۲۴۵ اجمیر بھارت انگلستان انگریز الہیات کے سچے علوم اور روحانی برکات سے محروم ہیں امرتسر بھارت مسیح موعود علیہ السلام اور عیسائیوں میں پندره روزه مباحثه مباحثہ امرتسر میں کسر صلیب ہو چکی امریکہ شہاب ثاقب عیسائی مسیح کی خدائی کے منکر ہورہے ہیں ایران آتش پرستی فتح ایران کی بشارت اور اس کا پورا ہونا ایشیائے کوچک ایمٹ شہب ثاقبہ کی بارش ایمہرسٹ (امریکہ) ۳۹۵ ترکی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سلطان روم کو اس ۳۹۵ کے خراب اراکین کی طرف توجہ دلانا

Page 494

۳۶۹ ۳۶۹ ۳۳۹ ۴۱۲ ۲۴۶ ۲۴۶ ۲۸۳ ۳۹۶ ۴۳۰ ۲۴۰ ۲۳۰ ۲۴۰ ۴۰۳ ۳۲ تغلق آباد دہلی.بھارت کھنڈرات میں عبرت کا سبق تغل والا ( قادیان کے مضافات میں ایک گاؤں) دہلی بھارت ۳۶۹ عبرت کا سبق ڈنمارک ۳۶۹ یہاں کے لوگ الہیات کے سچے علوم اور روحانی ج - ح - خ برکات سے بالکل محروم ہیں راوالپنڈی پرنس آف ویلز کا در بار روم ۳۲۵ جبل القمر افریقہ دریائے نیل کا منبع جرمنی یہاں کے لوگ الہیات کے سچے علم اور روحانی فتح روم کی بشارت برکات سے محروم ہیں ۳۳۹ رومی بین الاقوامی قوانین سے ناواقف تھے جیجون دریا حجاز ۲۳۰ رات کو سفر کرتے ہوئے شریا سے سمت قائم سٹاک ہولم کرتے تھے یہاں کے باشندے ہی آنحضرت صلی یتیم کے اول مخاطب تھے خط استواء ۲۳۲ ۲۳۰ سیش سدوم Sedom خیبر یہود مدینہ کا خیبر کی طرف جلا وطن کیا جانا د ڈر دار السلام نیز دیکھئے بغداد سندھ ۲۴۳ سیجون دریا ۲۷۰ شام طائف ط غ بغداد کی تباہی اور حکمرانوں کا انجام ۴۳۲ شہب کے ظاہر ہونے پر عبدیالیل کی گفتگو

Page 495

۲۳۹ ۳۶۹ ۳۱۴ ۳۳۴ ۳۲۵ ۱۴۲ ۳۶۹ ۳۹۵ ۳۲۲ ۳۳ طور سينا موسی کے لئے بجلی گاہ غار حرا ۲۱۷ ۲۱۷ لاہور پاکستان ال شاہی قلعہ عبرت کا سبق دیتا ہے فق یک گ حضرت خلیفہ اسیح الا ول کالاہور کے شیعوں فدک مال فئے تھا.وراثت میں نہیں آسکتا تھا فرات قادیان ۲۷۰ ۲۳۰ میں وعظ لدھیانہ پنجاب.بھارت حضرت خلیفہ امسیح الاول کے بیٹے محمد احد کی وفات پر یہاں کے ایک شخص کا اعتراض ایک جاہل مولوی کا قصہ میں نے یہاں وہ دولت پائی ہے جو غیر فانی ہے ۳۵۶ لکھنو بھارت مجھے اس پر تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے کھنڈرات میں عبرت دوسرے بھائی کیونکر قادیان سے باہر جانا چاہتے ہیں بار بار قادیان آکر رہنے کی نصیحت آنے والوں کے لئے نصائح ۳۳۴ لندن انگلستان ۲۵۲ شہاب ثاقب ۳۵۹،۳۵۸ شراب فروشوں کی کثرت کارکنوں اور آنے والے مہمانوں کے فرائض ۳۵۸ ۲۴۳ لوئزول (امریکہ) عورت کے حقوق کے بارہ میں خاموش ہے شہاب ثاقب کا کثرت سے گرنا ۳۹۶ م ۲۷۰،۲۶۶،۲۵۶ یہود مدینہ کی شرارتیں اور انجام ۲۱۷ قطب شمالی و قطب جنوبی گورداسپور مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت کے بارہ میں مدینہ منورہ ایک شخص کو جواب

Page 496

۲۳۰ ۳۲۵ ۳۹۵ اد ۳۴ نیل ۳۶۲ ۳۵۶ ۳۵۸ رأس المنافقین کا ارادہ انصار مدینہ کو خلافت نہ ملنے کی وجہ شاہ عبدالغنی کی ایک شخص کو نصیحت ۲۴۰ جبل القمر سے نکلتا ہے بنی اسرائیل جب مصر گئے تو یوسف علیہ السلام کی نیوهیون (امریکہ) وجہ سے ان کو بہت آرام ملا ۲۶۷ معظمہ ۳۵۶،۳۴۹،۲۲۰، ۴۱۹،۴۱۹،۴۱۴ و.ہ.ی واشنگٹن مقام ام القرى آنحضرت صلہ اسلم کی بعثت مخالفت ۲۹۹ ۲۹۷ اہل مکہ کو عبرت حاصل کرنے کی طرف توجہ دلانا ۴۱۹ میوزیم ہندوستان (انڈیا) ۳۹۶ ۲۹۸،۲۴۰ آنحضرت صلی شما اسلام کی بعثت کے وقت ہندوستان کی روحانی حالت ۲۹۸ اشاعت اسلام کرنے والے چند بزرگ ۳۳۸،۳۳۷ فتح مکہ سے آنحضرت سلیم کی صداقت ثابت مسلمانوں کے زوال کی ایک وجہ ہوئی متفرق ۳۴۷ ۴۱۶ اس صدی میں اسلام پر اعتراضات کی کثرت ۳۲۲ یروشلم حضرت جنید بغدادی کا بچپن میں یہاں کی ایک یہاں یونانی زبان کو پڑھنا کفر سمجھا جاتا تھا مجلس صوفیاء میں معارف بیان کرنا ۳۳۷ ۳۳۶ یورپ حضرت مسیح کی خدائی نابود ہورہی ہے ام الالقرى منی عورت کے حقوق کے بارہ میں خاموش ہے میرٹھ بھارت ۲۵۷ عجائب گھروں میں برسنے والے شہب ثاقبہ ۳۴۰ ۲۷۱ ۲۷۱ ۳۷۱ ۳۹۵

Page 497

۳۵ کتابیات تفسیر البیضاوی حدیث جامع صحیح بخاری روحی المعانی صحیح بخاری کو ہم کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں تفسیر عینی حیح مسلم فتح البیان شرح مسلم للنووی تفسیر کبیر للرازی ابوداؤد تفسیر معالم التنزيل ابن ماجه نسائی دار قطنی الدر المنشور موضع القرآن از شاه عبدالقادر منتخب الكلام حل الاشكال کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام بیہقی تفسیر ازالہ اوہام تفسیر ابن کثیر اتقان براز انوار الاسلام بحر محیط براہین احمدیہ تصدیق براہین احمدیہ از حضرت خلیفہ المسح الاول توضیح مرام

Page 498

۳۶ حقیقة الوحی سرمه چشم آرید سناتن دھرم شحنه حق فتح اسلام کتاب البریه کرامات الصادقین تصوف ابن ہشام ابن خلدون تاریخ و جغرافیه شاه نامه فردوسی معجم البلدان وید یجروید کتب ہندو مذہب کشتی نوح سام وید عوارف المعارف للشیخ شہاب الدین السبر وردی منوشاستر الفتح الرباني للسيد عبد القادر جیلانی ستیارتھ پرکاش فتوح الغيب للسيد عبدالقادر جیلانی کتب عیسائیت تورات بائبل کتاب یسعیاہ صحاح جوہری قاموس قاموس اللغه المفردات لغریب القرآن انجیل انجیل یوحنا تشريح التثليث مصنفہ پادری ڈی ڈبلیو.تھامس

Page 499

۳۷ تحقیق الایمان از پادری عمادالدین اندرونہ بائبل فتاوی عالمگیری متفرق عدم ضرورت قرآن از پادری ٹھا کر داس خطبات الاحمدیه از سرسید احمد خان میزان الحق از پادری فنڈر مثنوی میرحسن

Page 500

Page 500

← Previous BookNext Book →