Language: UR
حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات
حقائق الفرقان حضرت حاجی الحرمین مولانانور الدین خلیفۃ المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات جلد اوّل سورة الفاتحة سورة البقرة
ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD حقائق الفرقان (جلد اوّل) Haqaa'iqul-Furqaan (Urdu) A collection of the Commentary of the Holy Quran compiled from the Durusul-Quran, sermons, speeches, and writings of Hazrat Khalifatul-Masih I, Maulana Hakeem Noor-ud-Deen, may Allah be pleased with him.Volume-1 (Complete Set - Volumes 1-6) First Edition Published in 1991-1995 (4 Volumes Set) Reprinted in Qadian, India, 2005 Present Digitally Typeset Edition (Vol.1-6 Set) Published in the UK, 2024 O Islam International Publications Limited Published by: Islam International Publications Ltd Unit 3, Bourne Mill Business Park, Guildford Road, Farnham, Surrey GU9 9PS, UK Printed at: Pelikan Basim, Turkey For more information please visit www.alislam.org ISBN: 978-1-84880-275-9 (Set Vol.1-6)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ حضرت حاجی الحرمین مولا نا حکیم نور الدین خلیفتہ المسیح الاوّل کو خدا تعالیٰ کی آخری کتاب قرآن کریم سے جو غیر معمولی عشق اور اس کے علوم کے ساتھ جو فطری مناسبت تھی اس کا ذکر امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی متعدد تصانیف میں فرمایا ہے.حضور فرماتے ہیں.مَا أَنَسْتُ فِي قَلْبِ اَحَدٍ مَحَبَّةَ الْقُرْآنِ كَمَا أَرَى قَلْبَهُ مَمْلُو بِمَوَدَّةِ الْفُرْقَانِ ( آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۸۶) میں نے کسی کے دل میں اس طرح قرآن کریم کی محبت نہیں پائی جس طرح آپ کا دل فرقانِ حمید کی محبت سے لبریز ہے.وَلِفِطْرَتِهِ مُنَاسِبَةٌ تَامَّةٌ بِكَلَامِ الرَّبِ الجَلِيْلِ وَكَمْ مِنْ خَزَائِنٍ فِيْهِ أُوْدِعَتْ لِهَذَا الْفَتَى النَّبِيْلِ - (صفحہ ۵۸۷) آپ کی فطرت کو رپ جلیل کے کلام سے کمال مناسبت ہے.قرآن کریم کے بے شمار خزائن اِس شریف نوجوان کو ودیعت کئے گئے ہیں.وَلَهُ مَلِكَةٌ عَيْبَةٌ فِي اسْتِخْرَاجِ دَقَائِقِ الْقُرْآنِ وَبَقِ كُنُوزِ حَقَائِقِ الْفُرْقَانِ - (صفحه ۵۸۴) آپ کو قرآن کریم کے دقائق معرفت اور باریک نکات کے استخراج اور فرقان حمید کے حقائق کے خزائن پھیلانے کا عجیب ملکہ حاصل ہے.
اسی طرح آپ کی تصانیف کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں.مَنْ أَرَادَ حَلَّ غَوَا مِضِ التَّنْزِيلِ وَاسْتِعْلَامَ أَسْرَارِ كِتَابِ الرَّبِ الْجَلِيْلِ فَعَلَيْهِ بِاشْتِغَالِ (آئینہ کمالات اسلام صفحه ۵۸۴) هذِهِ الْكُتُبِ جو شخص قرآن کریم کے عمیق مطالب کو حل کرنے اور رب جلیل کی کتاب کے اسرار جاننے کا ارادہ رکھتا ہوا سے چاہیے کہ آپ کی کتب کا مطالعہ کرے.آپ کو قرآن کریم سے جو محبت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ خود فرماتے ہیں:." مجھے قرآن مجید سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا کی ہی کتاب پسند آئی.“ بدر ۱۸ /جنوری ۱۹۱۲ء صفحہ ۷ ) قرآن میری غذا، میری تسلی اور اطمینان کا سچا ذریعہ ہے اور میں جب تک اس کو کئی بار مختلف رنگ میں پڑھ نہیں لیتا مجھے آرام اور چین نہیں آتا.“ اور فرمایا کرتے تھے.ترجمۃ القرآن شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحه ۴۶) "خدا تعالیٰ مجھے بہشت اور کشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تاکہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں ، پڑھاؤں اور سنوں.“ (تذکرۃ المہدی جلد اوّل صفحہ ۲۴۶) آپ نے ساری عمر قرآن کریم کے علوم کے اکتساب میں گزاری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر جب آپ ہجرت کر کے قادیان دارلامان تشریف لائے تو اُس دن سے وفات تک نہایت یکسوئی اور نہایت با قاعدگی کے ساتھ قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے میں اپنی زندگی کے اوقات صرف فرمائے.قادیان میں رمضان المبارک کے خصوصی درس کے علاوہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی اور آپ کی وفات کے بعد بھی سارا سال قرآن کریم کا باقاعدگی سے درس دیتے تھے.
ہزاروں صلحاء نے آپ کے درسوں سے اکتساب فیض کیا.آپ کے درس القرآن کے سلسلہ میں حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی تحریر فرماتے ہیں:.حضرت اقدس علیہ السلام بار بار مجھے فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے.صاحبزادہ صاحب ! ان سے قرآن پڑھا کرو اور ان کے درس قرآن میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو.اگر تم نے دو تین سیپارہ بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جائے گا.یہ بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ بھی ہوگی.(تذکرۃ المہدی جلد اول صفحه ۲۳۴) کہی یہ محض اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تھا کہ حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے ان درسوں کا خلاصہ سلسلہ کے اخبارات بدر اور الحکم میں ساتھ کے ساتھ آئندہ کے لئے محفوظ ہوتا چلا گیا.علوم و معارف کا یہ قیمتی خزانہ اخبارات کی فائلوں میں منتشر اور نایاب کتب کے صفحات میں بندتھا اور ٹی نسل کے لئے اس سے استفادہ کرنا مشکل تھا.چنانچہ خلیفہ مسیح الرابع حضرت مرزا طاہر احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد کی تعمیل میں ان گراں بہا دفینوں کو باہر نکال کر از سر نو مرتب کیا گیا اور الحکم اور بدر میں وعیدین.خطبات نکاح اور تقاریر سے اس نادر تفسیری مواد کو الگ کر کے جمع کیا گیا اور پھر اسے ترتیب دے کر احباب کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ فرقان حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام احباب کو جنہوں نے اس کارِ خیر میں تعاون فرما یا اپنے فضلوں سے نوازے.آمین سید عبدالهی ناظر اشاعت
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عرض حال سید نا حضرت حکیم مولوی نور الدین خلیفہ مسیح الا قول رضی اللہ عنہ کو کام اللہ سے والہانہ محبت اور بے پنہ عشق تھا.اس عاشقانہ محبت کی وجہ سے آپ قرآن کریم پر غور وفکر میں عمر بھر مشغول و مصروف رہے.چنانچہ قرآن مجید کے حقائق و معارف آپ پر کھولے گئے اور معانی و مطالب قرآن سے آپ کو آگہی بخشی گئی.آپ نے زندگی کا ہر دقیقہ خدمت قرآن میں گذارا.اس برکت سے آپ کو نور اور فیض عطا ہوا.آپ نے اس کو پھیلانے کی ہر دم کوشش جاری رکھی اور قرآن کریم کی تشریح وتفسیر کے لئے درس دیئے.الحکم اور بدر کے ایڈیٹرز نے اس علم لدنیہ کے خزانے کو شائع کر کے انہیں محفوظ کرنے کی سعادت پائی.جزاهم الله احسن الجزا.ایڈیٹر صاحب البدر فرماتے ہیں.اس جگہ اس بات کا ذکر کر دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ اگر چہ میں نے بہت دفعہ حضرت خلیفہ اسیح کا درس سنا ہے.تاہم ان نوٹوں کی طیاری میں یادداشتوں پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ بعض دیگر دوستوں کی نوٹ بکیں بھی دیکھی ہیں.جن میں سے قابل ذکر میرے مکرم دوست جناب اکبرشاہ خاں صاحب ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور انہیں دینی دنیوی حسنات سے مالا مال کرے اور اس کے علاوہ دو تین تفسیروں کو بھی مدنظر رکھا ہے.جن میں سے اس جگہ قابل ذکر شیخ یعقوب علی عرفانی ایڈیٹرالحکم کی تالیف کردہ تفسیر بنام ترجمتہ القرآن ہے جسے میں نے بہت مفید اور کارآمد نکات اور لطائف کا مجموعہ پایا ہے.ضمیمه اخبار بدر ۹ / نومبر ۱۹۱۱ء نمبر ۲، ۱۱،۳)
یه روحانی مائدہ متفرق اور منتشر مقامات پر موجود تھا.افادہ عام کے لئے اس کو یکجا کیا گیا تھا جو حقائق الفرقان کے نام سے کتابی صورت میں شائع شدہ تھا.اب جبکہ حقائق الفرقان کو دوبارہ شائع کرنے کا ارادہ ہوا تو ضرورت محسوس ہوئی کہ ان کتب و رسائل کو ایک دفعہ پھر اس نکتہ نظر سے دیکھ لیا جاوے تا اگر کہیں کمی بیشی ہو تو وہ مکمل ہو جائے.چنانچہ نئے سرے سے تمام کتب و رسائل و اخبارات کو پڑھا گیا جس کے نتیجہ میں - کئی مزید حوالہ جات اس نئی اشاعت میں شامل ہیں.پہلے حوالہ جات میں بعض جگہوں پر جو کمی بیشی تھی اسے مکمل کر دیا گیا ہے.جس سے مضمون زیادہ واضح اور قابل فہم ہو جاتا ہے.۲.بعض جگہ حوالہ جات درست نہ تھے انہیں بھی درست کر دیا گیا ہے.۴.عربی عبارات اور فارسی اشعار کا ترجمہ جو پہلے شامل نہ تھا اُسے بھی دے دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرقانِ حمید کے ان حقائق کو پڑھنے اور استفادہ کرنے کی ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے اور اُن تمام کارکنان کو جنہوں نے اس کارِ خیر میں تعاون فرمایا اپنے فضلوں سے نوازے.ناشر
الفهرس سورة الفاتحة سورة البقرة ۳۷
حقائق الفرقان أعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ نزول قرآن کی غرض تَفْسِيرُ الْقُرْآن نزول قرآن کی اصل غرض (۱) شبہات کو دُور کر دے ( وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءُ) (بنی اسراءیل: ۸۳) (۲) رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ جناب الہی کے ساتھ براہ راست تعلق ہو جائے.(۳) تمیز حق و باطل ہو جائے.(۴) کوئی ایسا سوال نہیں جس کا جواب نہ دیا.کافی ہتھیار.أوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ - (العنكبوت: ۵۲) - کلام الہی کے سمجھنے کے اصول تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۴) میرے فہم میں کلام الہی کے سمجھنے کے لئے یہ اصول ہیں.اول.دعا پر ارتھنا ) جناب الہی سے صحیح فہم اور حقیقی علم طلب کرنا.قرآن مجید میں آیا ہے وقل ربّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) میرے رب! میرے علم میں ترقی بخش.اور دعا کے لئے ضرور ہے طیب کھانا، طیب لباس، عقدِ ہمت ، استقلال.دوم.صرف الہی رضامندی اور حق تک پہنچنے کے لئے خدا میں ہو کر کوشش کرنا جیسے فرمایا وَالَّذِينَ ی جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت:۷۰).لے اور ہم قرآن میں سے وہ آیتیں اتارتے ہیں جو شفاء ہے.سے کیا ان کے لئے یہ ( نشان ) کافی نہیں کہ ہم نے نازل فرمائی تجھ پر کتاب.سے اور جن لوگوں نے محنتیں اور کوششیں کیں ہمارے میں ہو کر تو ہم ضرور ضرور دکھا ئیں گے ان کو اپنے رستے.( ناشر )
حقائق الفرقان لے سوم.تدبر ، تفکر.قرآن مجید میں ارشاد ہے اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ أَمْ عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا (محمد : ۲۵) اور فرمایا.لايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا و عَلَى جُنُوبِهِمْ (ال عمران : ۱۹۱، ۱۹۲).چہارم حسن اعتقاد و حسن اقوال و حسن اعمال اور فقر، بیماری ،مقدمات و مشکلات میں صبر و استقلال.اس مجموعہ کو قرآن نے تقوی کہا ہے.دیکھو رکوع لَيْسَ البر (البقرۃ:۱۷۸) اور اس کا ایک درجہ سورہ بقرہ کے ابتدا میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ الغیب پر ایمان لاوے.پرارتھنا اور دعا اور بقدر ہمت و طاقت دوسرے کی ہمدردی کے لئے کوشش کرنے والا متقی ہے اور تقوی کے بارے میں ارشاد الہی ہے.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (البقرة: ۲۸۳) ہے لیکن خود پسند آدمی آیات الہی کے سمجھنے میں قاصر ہے جیسے فرمایا سَأَصْرِفُ عَنْ ايْتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ (الاعراف: ۱۴۷).b قرآن کریم کے معانی خود قرآن مجید اور فرقان حمید میں دیکھے جاویں.شم.اسمائے الہیہ اور الہی تقدیس و تنزیہ کے خلاف کسی لفظ کے معنے نہ لئے جاویں.ہفتم.تعامل سے جس کا نام سنت ہے معانی لے اور اس سے باہر نہ نکلے.ہشتم سننِ الہیہ ثابتہ کی خلاف ورزی نہ کرے.نہم.لغت عرب و محاورات ثابتہ عن العرب کے خلاف نہ ہو.دہم.عرف عام سے جس کو معروف کہتے ہیں.معانی باہر نہ نکلیں.یاز دہم.نور قلب کے خلاف نہ ہو.ا تو کیا لوگ غور نہیں کرتے قرآن میں یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں.۲ عقلمندوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی بہتیری) نشانیاں موجود ہیں.جو کھڑے اور بیٹھے اور پڑے پڑے کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں.س نیکی یہی نہیں.ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اللہ تم کو سکھاتا ہے.۵ے قریب ہی ہم پھیر دیں گے اپنی آیتوں کے سمجھنے سے اُن کو جو اپنے کو بڑا سمجھتے اور تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق.( ناشر )
حقائق الفرقان دوازدہم.احادیث صحیحہ ثابتہ کے خلاف نہ ہو.سیز دہم.کتب سابقہ کے ذریعہ بھی بعض معانی قرآن حل کئے جاتے ہیں.چہار دہم.کسی وحی الہی اور الہام صحیح کے ذریعہ سے بھی معانی قرآن حل ہو سکتے ہیں.ہر ایک اصل کی مثالیں دوں تو ایک مجلد صحیم بن جاوے اور بعض اصول عام لوگوں کے استعمال میں آنے والے نہیں معلوم ہوتے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن.صفحہ ۱۰ تا ۱۲) قرآن شریف کے علوم کے حصول کے ذرائع اللہ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں بیان کر دیئے ہیں.الرَّحْمَنُ عَلَمَ الْقُرْآنَ (الرَّحْمَن : ۳۲) قرآن شریف کا سکھانا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا تقاضا ہے.اس واسطے ضرورت کن چیزوں کی ہے وہ بھی خود خدا تعالیٰ نے بیان ހ فرما دی ہیں.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِمُكُمُ اللهُ " (البقرة : ۲۸۳) متقی کوخدا تعالیٰ معارف اور علوم قرآنی سے خبر دار کر دیتا ہے اور تقوی ایک ذریعہ ہے قرآن دانی کے لئے.دوسری جگہ فرمایا ہے وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ٧٠) تقوی کے ساتھ جہاد اور کوشش کی بھی شرط ہے.پس علوم قرآنی کا معلم خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس فیض اور فضل رحمانی کا جاذب تقویٰ اور جہاد فی اللہ ہے.فرمایا کہ ہمارے نزدیک ہم نے ایک راہ کا تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان دل میں سچی تڑپ اور پیاس علوم قرآنی کے حصول کے واسطے پیدا کر کے تقوی تام سے دعائیں کرے اور اس طرح سے قرآن شریف شروع کرے.دور اول.خود تنہا ایک مترجم قرآن شریف لے کر جس کا ترجمہ لفظی ہو انسان کی اس میں اپنی ملاوٹ کچھ نہ ہو اور اس کے واسطے میں شاہ رفیع الدین صاحب علیه الرحمة اے رحمن نے قرآن سکھایا ہے.سہ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اللہ تم کو سکھاتا ہے.سے اور جن لوگوں نے محنتیں اور کوششیں کیں ہمارے میں ہو کر تو ہم ضرور ضرور دکھا ئیں گے ان کو اپنے رستے.(ناشر)
حقائق الفرقان کا ترجمہ پسند کرتا ہوں لے کر ہر روز بقدر طاقت بلا ناغہ کچھ حصہ قرآن کا پڑھا کرے اور لفظوں کے معنوں میں غور کرے پھر جہاں آدم اور شیطان کا حال مذکور ہوا اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا میں آدم ہوں یا کہ ابلیس.موسیٰ ہوں کہ فرعون.مجھ میں یہودیوں کے خصائل ہیں یا کہ مسلمانوں کے اور اسی طرح سے عذاب کی آیات سے ڈرے اور پناہ مانگے اور رحمت کی آیات سے خوش ہو اور اپنے کو رحمت کا مورد بننے کے واسطے دعائیں کرے.ہر روز درود، دعا، استغفار اور لاحول پڑھ کر شروع کرے اور اسی طرح ختم کرے.اسی طرح سے دور اول ختم کر دیوے اور اس دور میں ایک نوٹ بک پاس رکھے مشکل مقامات اس میں نوٹ کرتا جاوے.پھر دور دوم شروع کرے اور اس میں اپنی بیوی کو سامنے بٹھا کر سناوے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دونوں کے واسطے نازل ہوا ہے بیوی خواہ توجہ کرے یا نہ کرے یہ سنائے جاوے اور پہلے دور کی نسبت کسی قدر بسط کرتا جاوے اور پہلے طریق کی طرح اس دور کو بھی ختم کرے اور وہ پہلی نوٹ بک پاس رکھے اور اسے دیکھتا رہے پھر اس دور میں یہ دیکھے گا کہ بہت سے وہ مشکل مقامات جو دور اول میں نہیں سمجھتا تھا اس دور میں حل ہو جائیں گے.اس دور ثانی کی بھی ایک الگ نوٹ بک تیار کرے.پھر اسی طرح سے دور ثالث شروع کرے اور گھر کے بچوں ،عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی اس دور میں شامل کر لے مگر وہ لوگ ایسے ہوں کہ کوئی اعتراض نہ کریں اور پہلی اور دوسری دونوں نوٹ بکیں اپنے سامنے رکھے اس طرح اس دور میں دیکھے گا بہت سے مشکلات جو پہلے دونوں دوروں میں حل نہ ہوئے تھے اس دفعہ حل ہو جاویں گے.اس دور کی الگ ایک نوٹ بک تیار کرے.دور ثالث کے بعد چوتھا دور عام مجمع کے سامنے شروع کرے مگر سامعین ہوں.ان کے اعتراضات وغیرہ کے اگر جواب آتے ہوں تو دیتا جاوے ورنہ نوٹ بک میں نوٹ کرتا جاوے اور ان کے حل کے واسطے اللہ تعالیٰ کے حضور در ددل سے دعائیں کرتا رہے اور پانچواں دور شروع کر دے اور ہلا امتیا ز مسلمان و مشرک کافر و مومن کو سنانا شروع کر دے.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور فیضان اس کے شامل حال ہو گا اور ایک بہت بڑا حصہ قرآن شریف کا اسے سکھا دیا جاوے گا
حقائق الفرقان اور بار یک در بار یک حقائق و معارف اور اسرار کلام ربانی اس پر کھولے جاویں گے.غرض یہ ہمارا مجرب اور آزمودہ طریقہ ہے پس جس کو قرآن سے محبت اور علوم قرآن سیکھنے کی پیاس اور سچی تڑپ ہو وہ اس پر کار بند ہوکر دیکھ لے.الحکم جلد ۱۷ نمبر ۲۶ مورخه ۷ /اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۶) یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اس لئے کہ اس پر عمل ہو.ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جاؤ اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم رکس گروہ میں ہو.کیا منعم علیہم ہو یا مغضوب ہو یا ضالین ہو اور کیا بنا چاہیے.منعم علیہم بننے کے لئے سچی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لئے دعائیں کرو.جو طریق اللہ تعالیٰ نے انعام الہی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو.اس طریق پر اگر صرف سورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو میں یقیناً کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷۲۴ پریل ۱۹۰۴ صفحه ۱۲) قرآن کریم میں عظمت الہی کا ذکر زیادہ ہے احکام کے متعلق تو اڑھائی سو کے قریب آیات ہیں مگر عظمتِ الہی کے بیان سے کوئی رکوع خالی نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں اللہ کی عظمت بیٹھ جائے تو دولت و اسباب و دیگر سامانِ دنیا کی پرواہ جو احکام الہی کی بجا آوری میں مانع ہو سکتے ہیں مطلق نہیں رہتی اور خود بخو دانسان اپنے مولیٰ کا فرماں بردار بن جاتا ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۶ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۱ ء صفحه ۳۵۳) قرآن مجید کے مقابلہ میں انجیل متی کی انجیل کا پہلا صفحہ اٹھا کر دیکھو وہاں کیا لکھا ہے ” نسب نامہ یسوع مسیح ، داؤد اور ابراہیم کے اور بیٹے کا.ابراہام سے اسحاق پیدا ہوا اور اسحاق سے یعقوب پیدا ہوا...متان سے یعقوب پیدا ہوا اور ا یعقوب سے یوسف پیدا ہو ا جو مریم کا شوہر تھا جس کے پیٹ سے یسوع جو مسیح کہلاتا ہے پیدا ہوا.
حقائق الفرقان حالانکہ یہ وہ کام ہے جو ہمارے ملک میں تو میراثی کرتے ہیں اس کے مقابل میں قرآن مجید شروع ہوتا ہے الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ ہے.یہ وہ آیت ہے جس سے تمام مذاہب باطلہ کا رڈ ہوتا ہے.نہ یسوعیوں کا خداوند اقنوم ثالث رہ سکتا ہے نہ رحم بلا مبادلہ کے بہانے سے کسی بے گناہ کو پھانسی چڑھانا پڑتا ہے اور نہ آریوں کا مادہ و رُوح ازلی و ابدی بن سکتا ہے اور نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے جس کا رڈ اس سے نہ ہو سکے.نہ سوفسطائیوں کو بولنے کی تاب ہے اور نہ بر ہموؤں کو مسئلہ الہام میں تر ڈر رہ سکتا ہے اور نہ شیعہ صحابہ کرام پر اعتراض کر سکتے ہیں نہ دہر یہ کسی حجت نیرہ کی بنا پر خدا کی ہستی کے منکر رہ سکتے ہیں.یہ تو ایک آیت کے متعلق ہے اگر سات آیتیں پڑھی جاویں تو پھر تمام مذاہب کی صداقتوں کا عطرِ مجموعہ اس میں ملتا ہے اور دنیا کے آخر تک پیش آنے والے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں موجود ہے.چنانچہ نصاری کے اس غلبہ اور مسیح کی آمد ثانی کی پیشگوئی بھی موجود ہے.ان تمام مفاسد وعقائد فاسدہ کا ابطال ہے جو دنیا میں پیدا ہوئے یا ہو سکتے ہیں اور ان اعمالِ صالحہ وعقائد صحیحہ کا تذکرہ ہے جو انسان کی روحانی وجسمانی ترقیات کے لئے ضروری ہیں.اسی طرح انجیل کا اخیر دیکھو اس میں لکھا ہے کہ یسوع جو خداوند کہلاتا تھا اپنے دشمنوں کے قبضے میں آگیا اور اُس نے ایلی ایلی لِمَا سَبَقَتَانی ( یعنی اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا) کہتے ہوئے اپنی جان دی.برخلاف اس کے قرآنِ مجید ختم ہوتا ہے.لے اعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِى يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ " قرآنِ مجید پڑھنے والا.قرآن شریف کا متبع بڑے زور سے علی الإعلان دعویٰ کرتا ہے.میں اس خدا کی پناہ میں ہوں جو تمام انسانوں کو پیدا کرنے والا اور پھر انہیں کمال تک لے میں لوگوں کے رب کا آسرا لیتا ہوں.لوگوں کے بادشاہ کی پناہ لیتا ہوں.لوگوں کے برحق و سچے معبود کی حفاظت میں آنا چاہتا ہوں.شیطان چھپنے والے کے شر سے.جولوگوں کے مرکز قومی اور سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے.وہ بڑے آدمیوں میں سے ہو یا غریب آدمیوں میں سے جن ہو یا آدمی (اے اللہ بدنام نہ کرتا پھرے وہ وسواس ڈال کر خناس).(ناشر)
حقائق الفرقان پہنچانے والا ہے.وہ سب حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے.حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے.اللہ اکبر ! ایک معمولی تھانیدار یا صاحب ضلع بلکہ نمبر دار اور پٹواری کی پناہ میں آ کر کئی لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں پس کیا مرتبہ ہے اُس شخص کا جو تمام جہان کے رب اور بادشاہ اور سچے معبود کی پناہ میں آ جائے! صرف اس کتاب کا اول و آخرہی اسلام اور عیسائیت میں فیصلہ کن ہے اگر کوئی خدا ترس دل لے کر غور کرے! تفخیذ الا ذبان جلد ۶ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳۵۴،۳۵۳)
حقائق الفرقان Δ سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ تمہید سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ مَكَّيَّةٌ اس سورہ شریف کی بہت سی تفاسیر لوگوں نے لکھی ہیں.ہمارے گھر میں اس سورۃ کی ایک قلمی تفسیر باریک لکھی ہوئی ساٹھ جزو کی تھی.حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام) نے تین مبسوط تفسیریں اس سورہ شریف پر لکھی ہیں جن میں سے ایک اُردو میں ہے اور کتاب براہین احمدیہ میں ہے اور دو عربی زبان میں ہیں.ایک کا نام "کرامات الصادقین ہے اور دوسری کا نام اعجاز مسیح ہے.وہ بڑا خوش قسمت ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ کم از کم ان تفاسیر کا مطالعہ کرے.میں اس امر کی طرف تم کو خاص توجہ دلاتا ہوں.جو عربی نہیں جانتے وہ کم از کم اُردو کو پڑھ لیں.عبدہ مصری نے بھی ایک کتاب سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں الگ لکھی ہے اور ایک ضخیم کتاب سورۂ فاتحہ کی تفسیر میں صدر الدین قنوی نے لکھی ہے.فاتحہ خلف الامام بچپن سے لے کر اس بڑھاپے تک جو کچھ میں نے تحقیقات کی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے.(خواہ انسان الگ نماز پڑھتا ہو خواہ جماعت کے ساتھ کسی امام کے پیچھے پڑھ رہا ہو ہر دو صورتوں میں سورہ فاتحہ پڑھنی چاہیے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی یہی عمل درآمد تھا.ایڈیٹر ).تعداد رکعات چونکہ سورہ فاتحہ کا ہر رکعت میں پڑھنا ضروری ہے اس واسطے ایک مسلمان دن رات میں سورۃ فاتحہ عمو ما۸۰ بار پڑھتا ہے یا کم از کم ۴۰ بار.کیونکہ رکعات کی تفصیل یہ ہے.
سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ ۱۲ ۱۳ 1.۶۲ حقائق الفرقان فجر : سنت ۲.فرض ۲ ظہر : سنت ۴.فرض ۴.سنت ۴ عصر : سنت ۴.فرض ۴ مغرب : فرض ۳- سنت ۲ نفل ۲ ۹ عشاء : فرض ۴ سنت ۴.وتر ۳ نفل ۲ میزان پانچ نماز : اشراق : ۲ ضحی : ۸ تهجد : کل میزان زوال: ۴ تحیۃ الوضو : ٦ تحیۃ المسجد : ۶ اگر اشراق اور اوابین کے نوافل انسان نہ پڑھ سکے اور ایسا ہی ظہر اور مغرب اور عشاء کے نوافل بھی نہ پڑھ سکے اور ظہر، عصر اور عشاء کی سنتیں بجائے چار کے دو پڑھے تو تہجد ملا کر پھر بھی ۴۰ رکعتیں ہو جاتی ہیں.سنتوں کی تاکید بڑے بڑے تجربہ کاروں کا قول ہے کہ جو لوگ مستحب کے ادا کرنے میں سستی کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ سنتوں کے تارک ہو جاتے ہیں اور جولوگ سنتوں کے تارک ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور فرائض سے غافل ہونے والے کے واسطے فتوای سخت ہے.ایک غلط فہمی کا ازالہ حضرت صاحب ( مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد
حقائق الفرقان 1.سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ فوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر میں بھی کرتا ہوں.اس سے بعض نادان بچوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ پھر وہ سنتوں کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں.ان کو یا درکھنا چاہیے کہ حضرت صاحب ( مرحوم و مغفور ) اندر جا کر سب سے پہلے سنتیں پڑھتے تھے اور ایسا ہی میں بھی کرتا ہوں.کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اس عمل درآمد کے متعلق گواہی دے سکے؟ (اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العادت مجلس درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآواز بلند کہا کہ بے شک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سنتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراً سنتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اور نماز سنت پڑھ کر پھر اور کوئی کام کرتے.ان کے بعد صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی اور ان کے بعد حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحق صاحب نے اور پھر حضرت مرحوم کے پرانے خادم حافظ حامد علی صاحب نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا ).(ایڈیٹر بدر ) وتر (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱) وتر میں بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے کہ وہ صرف ایک رکعت پڑھ لیتے ہیں.حضرت صاحب کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپ دورکعت پڑھ کر اور سلام پھیر کر پھر ایک رکعت پڑھتے تھے.الحمد متن کتاب ہے شیخ محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ میں نے جتنی دفعہ الحمد شریف پڑھا ہے ہر دفعہ اس کے نئے معنے میری سمجھ میں آئے ہیں.میں اگر چہ ایسا دعویٰ تو نہیں کر سکتا مگر میں نے بغور دیکھا ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ سارا قرآن مجید الحمد شریف کے اندر ہے.الحمد متن ہے اور قرآن شریف اس کی شرح ہے.الحمد میں شفا ہے صحابہ کے زمانہ میں ایک شخص کو جو کسی گاؤں کا نمبر دار تھا سانپ نے ڈسا تھا صحابہ نے
حقائق الفرقان 11 سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ الحمد شریف پڑھ کر اس کا علاج کیا تھا اور اُسے شفا ہوگئی تھی.ایسا ہی ابن قیم نے لکھا ہے کہ جب میں مکہ معظمہ میں تھا اور طبیب کی تلاش میرے واسطے مشکل تھی تو میں اکثر الحمد کے ذریعہ اپنی بیماریوں کا علاج کر لیا کرتا تھا.ابن قیم کا میں بہ سبب اس کے علم کے معتقد ہوں اور اسے ایسا آدمی جانتا ہوں جو لاکھوں میں ایک ہوتا ہے.میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ میں نے بہت سے بیماروں پر الحمد کو پڑھا اور انہیں شفا ہوئی.میں چاہتا ہوں کہ لوگ سوچ سوچ کر الحمد کو نماز میں پڑھا کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۲،۱) سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ آدمی امام کے پیچھے ہو.دن کی نمازوں میں یا رات کی نمازوں میں.قرآن شریف کی کوئی آیت اس کے مخالف نہیں نہ کوئی حدیث اس کے مخالف ہے.البدر جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخه ۲۳ مئی ۱۹۱۲ صفحه ۳) الحمد اُم القرآن ہے یہ ایک سچی اور پکی بات ہے.الحمد شریف کے اندر تمام قرآن اللہ نے درج فرمایا ہے.الحمد شریف گویا خلاصہ ہے قرآن مجید کا.اللہ تمام اسماء حسنیٰ کا جامع ہے اللہ کے جس قدر نام ہیں اللہ کے ماتحت ہیں، اللہ کا لفظ بیان فرما کر پھر صفات کاملہ کا بیان ہوتا ہے.اس واسطے اللہ کے معنوں کے نیچے ایک تو یہ بات ہے کہ وہ ساری خوبیوں کا جامع ہے.جہاں تنزیہ کا ذکر ہے وہاں اللہ کا ذکر لا کر یہ ذکر کرتا ہے کہ ہر عیب سے پاک ہے.ان دو باتوں کے بعد فرماتا ہے.لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ ( حم السجدة : ۳۸) چونکہ وہ سارے محامد کا جامع اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے اس لئے اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں.پھر اللہ کی صفت صمد ہے.صمد کے معنے خود ہی دوسرے مقام پر کھول کر ے تم سجدہ کر وسورج کو نہ چاند کو اور سجدہ کرو اللہ ہی کو جس نے ان کو پیدا فرمایا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۲ سُورَةُ الْفَاتِحَة بتائے ہیں.اَنْتُمُ الْفُقَرَاءِ إِلَى اللَّهِ ۚ وَاللَّهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ.(فاطر: ۱۲) تم سب محتاج ہو.غیر محتاج صرف اللہ کی ذات ہے.خلاصہ تمام کلام الہی کا کیا ہے غرض اللہ کے لفظ کے جو معنی ہیں کہ ساری خوبیوں والا اور ساری برائیوں سے منزہ اور پاک، معبود حقیقی ، اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت ناجائز ہے.یہ خلاصہ ہے تمام کلام الہی کا اور اسی کا ذکر ہر رکوع بلکہ ہر آیت میں ہے.بعض کتابوں میں اللہ کا ذکر تک نہیں ہوتا بخلاف اس کے دیگر کتا بیں ہیں کہ ان کے صفحے کے صفحے پڑھ جاؤ، ان میں خدا کا نام تک نہ نکلے گا.بائبل میں ایک کتاب ہے.اس میں اللہ کا ذکر ضمیر کے رنگ میں بھی نہیں حالانکہ اسے بھی کتب مقدسہ میں سے سمجھتے ہیں.مگر قرآن مجید میں تو کوئی رکوع ایسا نہیں جہاں عظمت الہی کا ذکر نہ ہو.الفضل جلد ا نمبر ۸ مورخه ۶ /اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) اس سورۃ شریف کا نام اُمّ الکتاب اور سبع من المثانی بھی ہے.یہ سورۃ شریف ایک متن ہے اور قرآن شریف اس کی تفسیر ہے.کلام کی تین اقسام ہیں.اوّل بعض نا فہم اور نا خواندہ لوگ اس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ سر کار و دربار میں کس طرح اور کس مضمون کی درخواست دی جاوے تو اس لئے کوئی دوسرا شخص جو در بار کے آداب اور قانون سے واقف ہو تو اگر وہ ایسی عرضی لکھ دیوے یا وہ مضمون بتلا دیوے جس کی دربار میں شنوائی ہو سکے اور اگر چہ مدعا اور آرزو اسی سائل کا اپنا ہوتو ایسے بتلانے والے اور لکھ دینے والے کو مجرم نہیں قرار دیا جاتا.دنیاوی گورنمنٹ جو کہ آسمانی گورنمنٹ کا ظل ہوتی ہے ان میں بھی ایسے قواعد ہوتے لے اے لوگو تم سب فقیر ہوا اللہ کی طرف اور اللہ ہی غنی اور بے پروا تعریف کیا گیا ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۳ سُوْرَةُ الْفَاتِحَةِ ہیں.بعض فار میں (Forms) چھپی ہوئی ہوتی ہیں ان پر صرف سائل کے دستخط کرالیے جاتے ہیں.اس کی مثال قرآن شریف میں یہ سورۃ ہے جو بطور عرضی کے ہم کو عطا ہوئی.دوم جولوگ حکام کی پیشی میں بعہدہ سر رشتہ دار وغیرہ ہوتے ہیں وہ کوئی حکم با ضابطہ حاکم کی طرف سے اجازت پا کر لکھ دیا کرتے ہیں وہ بھی اصلی حاکم کا حکم ہی سمجھا جاتا ہے.اس کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا (الزمر: ۵۴) سوم بعض اوقات خود حاکم اپنے پروانہ جات سے براہِ راست حکم سنا دیتا ہے اس کی مثال سارا قرآن کریم علی العموم ہے.کلام کی ان تین قسموں سے یہ امر بخوبی واضح ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں اور قرآن میں ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اور دیگر دعاؤں وغیرہ کے الفاظ اس لحاظ سے محلِ اعتراض نہیں ہو سکتے کہ جس حالت میں قرآن شریف خدائے پاک کا کلام ہے تو اس میں ایسی عبارتیں کیوں موجود ہیں جو کہ بندوں کی زبانی ہونی چاہیے تھیں.گویا اس طریق سے خدا تعالیٰ نے ایک ادب اور طریق بارگاہِ عالی میں دعا کرنے کا بتلا دیا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۷) الحمد ایک جامع دعا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دعا نہیں کر سکتی نہ کسی مذہب نہ کسی احادیث کی دعائیں.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۵،۴۳۴) عمدہ دعا الحمد ہے اس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ دونوں ترقی کے فقرے موجود ہیں.(البدر جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱/اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳) ا کہہ دے اے میرے بندو! جو اپنے نفسوں پر خطا کر بیٹھے ہو.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۴ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة ا.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - ترجمہ.میں پڑھنا شروع کرتا ہوں اس کے نام کی مدد سے جس میں خوبیاں ہی خوبیاں ہیں جو مانگے دینے والا ، سچی محنتوں کو ضائع نہیں کرنے والا ہے.تفسیر.اللہ کی عظمت اور بڑائی سے شروع کرتا ہوں جو بن مانگے دینے والا اور سچی محنتوں پر عمدہ نتائج مرتب کرنے والا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۹ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸۷) با بہت سے معانی کے لئے آتی ہے اور یہاں پر استعانت کے لئے ہے.وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ اور خصوصا إياكَ نَسْتَعِينُ اس کے مؤید ہے.استعانت کسی فعل میں ہوتی ہے.اس فعل میں بہت کچھ بحث کی گئی ہے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شروع میں اِقْرَ أُبِاسْمِ رَبِّكَ ارشاد ہوا تھا.لہذا کتاب اللہ کے افتتاح کے وقت فعل قرآت (اقرأ) میں استعانت بہت موزوں ہے.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۱.جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۳) ب.استعانت کی ہے.اللہ کی مدد سے.بعض لوگوں نے غلطی کھائی ہے کہ کہا ہے کہ جس شے سے استعانت کی جاتی ہے وہ ہتھیار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ہتھیار بنانا بے ادبی میں داخل ہے.مگر ایسا خیال درست نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ وَاللهُ الْمُسْتَعَانُ اور ایسا ہی سورہ الحمد میں إيَّاكَ نَسْتَعِينُ آتا ہے.غرض استعانت جائز ہے.تمام کتب الہیہ ب سے شروع ہوتی ہیں.شیخ محی الدین ابن عربی نے بھی ایسا لکھا ہے........اب کے معنے ہیں ساتھ اور اس کا فعل خود قرآن شریف میں آیا ہے.کیونکہ سب سے پہلی آیت جو آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی تھی وہ یہ ہے.اقرا باسم ربك اسم سمو کے معنے ہیں عظمت، بلندی بزرگی.ضمیمه اخبار بدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۱۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) ہر ایک سچی اور آسمانی کتاب اگر اپنی اصلی زبان میں ہو تو اس کے ابتدا میں حرف ب ہی
حقائق الفرقان ۱۵ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة لفظ سمو ہوگا.ب.کے تین معنے یہاں ہو سکتے ہیں اول بسبب.دوم.ساتھ.سوم - قسم.اسم کا لفظ سے نکلا ہے اور اس کے معنے بڑائی کے ہیں تو اب بسم کے معنے ہوئے.بسبب عظمت الہی.یا ساتھ عظمت الہی کے.یا قسم ہے عظمت الہی کی.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹رجنوری ۱۹۰۳، صفحه ۸۷) راسم نام کو کہتے ہیں.اس میں زمانہ دراز سے بحث چلی آئی ہے کہ اس کا ماخذ اور اصل سمو ہے جو بمعنی علو" ہے یا وسم ہے جو بمعنی علامت ہے لیکن اب حضرت امام ہمام واجب الاتباع اور مطاع نے (جس کی نسبت مخبر صادق نے خبر دی تھی کہ وہ احکم الحاکمین کی طرف سے حکم عدل ہو کر آئے گا ) یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اسم وسم سے بنایا ہوا ہے اور وہ اپنے مسٹمی پر دال اور علامت (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ا.جولائی ۱۹۰۶، صفحہ ۳) ہوتا ہے.اللہ نام ہے اُس ذات کا جو کہ سب نقصوں سے پاک اور سب کمالات کی جامع ہے اور یہی (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ا.جولائی ۱۹۰۶ صفحہ ۴) اس کے معنے ہیں.اللہ جامع جمیع صفات کا ملہ اور ہر ایک بدی سے منزہ.ایسی ذات جس کی عبادت میں کوئی شامل (البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ /جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۸۷) نہ کیا جاوے.اللہ سب خوبیوں کا جامع.سب بدیوں سے منزہ.معبود حقیقی.عربی کے سوائے کسی دوسری زبان میں خدا تعالیٰ کے نام کے واسطے کوئی ایسا مفر دلفظ نہیں ہے جو خاص اسی کے واسطے ہو اور کسی دوسرے پر اس کا اطلاق نہ پاسکے.انگریزی کا لفظ گاڈ (god) دیوی دیوتا.سب پر بولا جاتا ہے اور لفظ لارڈ (Lord) تو بہت ہی عام ہے.سنسکرت کا لفظ اوم بھی مرتب اور ہے غالباً آم سے نکلا ہے کیونکہ یہ عبادت میں اوم سے دعائیں مانگتے ہیں.عبرانی کا ایل.الا سے نکلا ہے اور یہوواہ یا ھو سے نکلا ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۲) الرحمٰن.اس کے معنے ہیں بن مانگے اور بے عوض رحمت کرنے والا جیسا کہ قرآنِ مجید کے استعمال سے ثابت ہے.مثلاً فرماتا ہے.اَلرَّحْمٰنُ - عَلَمَ الْقُرْآنَ - خَلَقَ الْإِنْسَانَ - عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۱.جولائی ۱۹۰۶ صفحہ ۴) (الرحمن: ۲ تا ۵) ا رحمن نے قرآن سکھایا ہے.انسان کو پیدا کیا.اس کو بیان کرنا سکھایا.( ناشر ) لے
حقائق الفرقان ۱۶ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة الرحمٰن.بلا کسی قسم کی کوشش اور استدعا کے انعام کرنے والی ذات.بن مانگے دینے والا.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۷) الرَّحْمٰنِ - فضل کنندہ بلا مبادلہ.بلا محنت دینے والا.الرَّحِيمِ - کئے پر اپنے رحم سے پھل دینے والا.- (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۱۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) الرَّحِيمِ.وہ ہے جو نیک اعتقاد اور نیک اعمال اور نیک اخلاق پر اور مانگنے سے رحمت کرنے والا ہو.اس پر قرآن مجید کا استعمال شاہد ہے.مثلاً فرمایا.وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيمًا (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۱.جولائی ۱۹۰۶ صفحہ ۴) (الاحزاب: ۴۴).الرَّحِيم - اللہ تعالیٰ جو اسباب یا ذرائع کسی نتیجہ کے حاصل کرنے کے واسطے بنائے ہیں.ان کو عمل میں لانے سے وہ نتائج عطا کرنے والا.انسان کی سچی محنتوں اور کوششوں پر ثمرات حسنہ مرتب کرنے والا.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۷) بِسْمِ اللهِ جَهْراً ( نماز میں.مرتب) اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اللَّهُمَّ اغْفِرُهُ وَارْحَمْهُ) جو شیلی طبیعت رکھتے تھے.بِسْمِ اللهِ جَهْراً پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب جهراً نہ پڑھتے تھے.ایسا ہی میں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہ میں ہر دو قسم کے گروہ ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے، بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا برا لگتا تھا تو صحابہ خوب اونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے کوئی اونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے.البدر جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخه ۲۳ رمئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳) ے اور وہ ایمانداروں پر بڑا رحیم ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۷ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة ٢ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ترجمہ.سب تعریف اللہ ہی کی ہے جو آہستہ آہستہ سب جہانوں کو کمال کی طرف پہنچانے والا.تفسیر.الحمد - ال کے معنے ہیں سب.وہ (اعلی شی ) سب قسم کی حمد.رب.پیدا کرنے والا ، ترقی دینے والا.بتدریج کمال تک پہونچانے والا.عالمین.سب جہان.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحة: (۲) کے معنے جو ہم نے بچپن سے سیکھے ہیں.وہ بھی اسی طرح تعامل کے نیچے چلے آتے ہیں.ان کے معنے ساری حمد تعریفیں ل کے معنے واسطے، اللہ معنے اللہ ، رب کے معنی پالنے والا ، آئی معنے سارے، عالمین معنے جہانوں یعنی ساری تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے.(الحکم جلد ۴ نمبر ۱۱، ۱۲ مورخه ۲۸ / مارچ و۷ را پریل ۱۹۱۰ء صفحه ۱۹) الْحَمدُ لِلهِ.ایسا پاک کلمہ ہے اور اس میں ایسے سمند ر حکمت الہی کے بھرے ہوئے ہیں کہ جن کا خاتمہ ہی نہیں.میں بعض اوقات نماز میں الحمد للہ پڑھنے کے بعد ٹھہر جاتا ہوں.اس کی وجہ یہی ہے کہ میں ان کے معانی میں غور و خوض کرتا ہو اغرق ہو جاتا ہوں.دیکھو! بعض وقت مجھے بھی سخت سے سخت مشکلات اور تکالیف پہنچتی ہیں کہ ان سے جان جانے کا بھی اندیشہ ہوا ہے مگر میں نے جب قرآن شریف کو شروع کیا ہے اور اس میں اوّل ہی اول الْحَمدُ لِلہ سے شروع ہوا ہے اور میں نے اس آیت پر غور کیا ہے تو دل میں بسا اوقات جوش آیا ہے کہ بتاؤ تو سہی اب الحمد للہ کا کیا مقام ہے؟ ان مصائب اور دکھوں کے سمندر میں کس طرح سے اَلْحَمْدُ لِلهِ کہو گے؟ اور ممکن ہے کہ کسی دوسرے مومن کے دل میں بھی آیا ہو کیونکہ میرے دل میں ایسا بارہا آیا ہے تو اس کے واسطے میں نے غور سے دیکھا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں واقعی اللہ تعالیٰ کی ذات سات طرح سے الْحَمدُ لِلَّهِ کہے جانے کے لائق ذات ہے.
حقائق الفرقان ۱۸ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة ہر بلاکیں قوم را حق داده است زیر آن گنج کرم بنهاده است له ا.اوّل تو اِس لئے کہ مصائب اور شدائد کفارہ گناہ ہوتے ہیں.سو یہ بھی اس کا فضل ہے ورنہ قیامت میں خدا جانے ان کی سزا کیا ہے؟ اس دُنیا ہی میں بھگت کر نپٹ لیا.۲.اس لئے کہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ممکن ہے اس کا فضل ہے کہ اعلیٰ اور سخت مصیبت سے بچالیا.۳.مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں دینی اور دنیوی ممکن ہے کہ گناہ کی سزا میں انسان کی اولاد مرتد ہو جاوے یا یہ خود ہی مرتد ہو جاوے.سو اس کا فضل ہے کہ اس نے دینی مصائب سے بچالیا اور دنیوی مشکلات ہی پر اکتفا کر دیا.۴.مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اجر ملتے ہیں.چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ پڑھ کر یہ دعا مانگو.اللَّهُمَّ أَجْرُنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفُ لِي b خَيْرًا مِنْهَا - اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اجر کا وعدہ ہے.وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوكَ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَ أُولِيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقرة: ۱۵۶ تا ۱۵۸) یعنی مصائب پر صبر کر نے والوں اور انا للہ کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں.- صلوات ہوتے ہیں ان پر اللہ کے.لے ہر آزمائش جو خدا نے اس قوم کے لئے مقدر کی ہے، اس کے نیچے رحمتوں کا خزانہ چھپارکھا ہے.اے اللہ میری مصیبت میں ( صبر پر ) مجھے اجر دے اور بدلے میں اس سے بہتر مجھے دے.( ناشر ) سے (اور اے پیارے محمد تو ) خوش خبری سنادے ان صابروں کو.جن پر جب کوئی مصیبت آپڑتی ہے تو وہ بول اٹھتے ہیں ہم تو اللہ کے (مال) ہیں اور ہم تو ہر حال میں اُسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمت ہیں اور یہی لوگ منزل مقصود کو پہنچے ہوئے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة ۶.رحمت ہوتی ہے ان پر اللہ کی.ے.اور آخر کار ہدایت یافتہ ہوکر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.اب غور کرو ! جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسان کو ان انعامات کا تصور آ جاوے جو اس کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت ، مصیبت رہ سکتی ہے اور غم ، غم رہتا ہے؟ ہر گز نہیں.پس کیسا پاک کلمہ ہے الْحَمدُ للهِ اور کیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے.یہ نہایت ہی لطیف نکتہ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اسی آیت سے شروع ہوا ہے اور رسول اکرم صلعم کے تمام خطبات کا ابتدا الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مورخه ۱۰ مارچ ۱۹۰۸ء صفحه ۳،۲) بھی اسی سے ہوا ہے.رب.کہتے ہیں پیدا کر کے کمال مطلوب تک پہنچانے والے کو.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۱.جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۲) الْعَلَمِينَ.جمع ہے عالم کی جو اسم آلہ ہے.مايُعْلَمُ بِہ جس کے ذریعے سے علم آتا ہے.۴.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.جزا اور سزا کے وقت کا مالک ہے.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۸۷) لملك.یعنی وہ اپنی مخلوق کے ساتھ مالکانہ سلوک کرتا ہے..یوم الدین.اہل عرب بُرے کاموں کو اور جن کاموں کے نتائج بد ہوں ان کو رات سے منسوب کیا کرتے ہیں اور اچھے کاموں پر یوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں.چونکہ اللہ تعالیٰ کی جزا سزا میں نتائج بدنہیں ہیں لہذا یوم کا لفظ یہاں استعمال کیا.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۷) یوم - وقت دین.جزا سزا.اسلام جزا سزا کے وقت کا مالک خدا ہے اسی کے حکم سے کسی کو جزا یا سزا مل سکتی ہے.اب بھی اور آئندہ بھی ہے.
حقائق الفرقان اسلام کے وقت کا مالک خدا ہے وہ اس کی آپ حفاظت اور نصرت کرے گا.سُوْرَةُ الْفَاتِحَة (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۲) یوم کا لفظ عربی زبان میں وسیع معنے رکھتا ہے منجملہ ان معنے کے یوم کے معنی وقت ہے.سُنو ! محاورة عرب يَوْمَ وُلِدَ لِلْمَلِكِ وَلَدٌ يَكُونُ سُرُورٌ عَظِيمٌ وَيَوْمَ مَاتَ فُلَانٌ بَكَتْ عَلَيْهِ الْفِرَقُ الْمُخْتَلِفَةُ حالانکہ لڑکے کا پیدا ہونا اور آدمی کا مرنا کبھی دن کو ہوتا ہے اور کبھی رات کو.پس ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے معنے ہوئے.مالک ہے وقت جزا کا.ہر روز جس وقت کسی کو اپنے اعمال نیک کے بدلے انعام اور بد اعمال کے بدلے سزا ملتی ہے اس وقت کا مالک باری تعالیٰ ہے بلکہ یوم اتنے وقت کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی واقعہ گزرا ہو.دیکھو یوم بعاث.وَذَكِّرْهُم بِایدم الله ابراهیم: ۲).ہمارے ملک میں دن ٹھیک ترجمہ یوم کا ہے.لوگ کہتے ہیں آج فلاں شخص کے دن اچھے آئے ہیں اور فلاں شخص کے بڑے آئے ہیں.پس یوم کا ترجمہ دن بھی کریں تو کوئی تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۵۵) عیب نہیں.بجائے لفظ وقت اور حسین کے قرآن نے یوم کا لفظ ملِكِ يَوْمِ الدِّينِ میں کیوں اختیار کیا ؟ سو گزارش ہے کہ عرب لوگ کبھی رات کی طرف ان امور کو نسبت کرتے ہیں جن میں نقص اور عیب ہوتا " ہے.دیکھو شعر حماسہ کا.لَا ذَتْ هُنَالِكَ بِالْأَشْعَافِ عَالِمَةً أَنْ قَدْ أَطَاعَتْ بِلَيْلِ أَمْرِ غَادِيهَا اگر چہ بعض اوقات کسی خاص مصلحت کے واسطے لیل کی طرف بھی بعض امور کو منسوب کرتے ہیں مگر وہاں لیل کو خاص صفت سے موصوف کر لیتے ہیں یا اُسے مُعرف بِاللام بنا لیتے ہیں جیسے انا ا جس وقت بادشاہ کے بیٹا پیدا ہو گا.عظیم خوشی ہوگی.اور جس وقت فلاں فوت ہوگا.مختلف متعدد جماعتیں اس پر روئیں گی.(ناشر) ۲؎ اور اُن کو یاد دلا ان کے دن (یعنی انعام اور انتقام کا زمانہ ).( ناشر ) سے تو انہوں نے اسی وقت پہاڑوں کی چوٹیوں پر یہ جان کر پناہ لی کہ انہوں نے اپنے غلط کار اور گمراہ سردار کی اطاعت کی ہے اور جن کی مخالفت نہیں کرنا چاہیے تھی ان کی مخالفت کر کے بہت بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.
حقائق الفرقان ۲۱ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة انْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُبرَكَةٍ (الدخان: ٢) إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (القدر : ٢) وَ مِنَ الَّيْلِ فَتَهَجَّدُ بِهِ نَافِلَةٌ لكَ " (بنی اسراءیل :۸۰).اسی واسطے باری تعالیٰ فرماتا ہے ہم جو انصاف کرتے ہیں وہ بے نقص ہوتا ہے اس میں حرف گیری کا موقع نہیں ہوتا.ہمارا انصاف اور ہماری سزا روزِ روشن کا معاملہ ہوتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۵۷) یوم بمعنے وقت، دین، جزا و سزا اہل عرب بُرے کاموں کو اور جن کاموں کے نتائج بد ہوں ان کو رات سے منسوب کیا کرتے ہیں اور اچھے کاموں پر یوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں چونکہ اللہ تعالیٰ کی جزا سزا میں نتائج بد نہیں ہیں لہذا یوم کا لفظ یہاں استعمال کیا.(البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۹/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۸۷) ملِكِ يَوْمِ الدين -....مسئلہ جزا و سزا.رحم پر مبنی ہے.اور اس سے تکمیل نفس مقصود ہے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۵) اللہ تعالیٰ محامد کا ملہ سے موصوف ہے اور صفات کا ملہ کا مقتضا ہے کہ وہ مؤثر ہوں.مثلاً فرمایا.الحمدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.کیا معنی؟ اللہ تعالیٰ میں یہ صفات ہیں.پس جب اس میں یہ صفات ہیں اور اللہ تعالیٰ سوتا یا اُونگھتا نہیں تو اگر خلق پیدا نہ کرے تو اس کے لئے حمد.ربوبیت.رحمانیت.رحیمیت.مالکیت کیونکر ثابت ہو؟ کیا آنکھ ہو اور دیکھے نہیں اور کان ہوں اور سنے نہیں؟ (نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۳۳) پانچواں رکن ایمان کا جزاوسزا پر ایمان ہے.یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے...کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو.پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کا جزو لے ہم نے اس کو نازل فرما یا ایک مبارک رات میں.سے بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں اتارا ہے.اور رات کے کچھ حصہ میں بیدار رہ کر قرآن نماز تہجد میں پڑھو.یہ تمہارے لئے زیادتی ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۲ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة رکھا ہے کہ جزا وسزا پر ایمان لاؤ.اللہ ملِكِ يَوْمِ الدِّینِ ہے.روزِ روشن کی طرح اس کی جزا ئیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور بُرے کام پر سزا دیتا ہے.اس حصہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں شستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قرب الہی کی راہوں سے دور چلا جاتا ہے.۵- ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ - الحکم جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۴) ترجمہ.(اے سب خوبیوں والے صاحب!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں حالانکہ ہم تجھی سے مدد بھی چاہتے ہیں.کلام تین قسم کا ہوتا ہے (۱) عرضی نویس کسی قانون کے ناواقف کی طرف سے عرضی لکھ دیتا ہے (۲) منتظم اپنے رنگ میں ادا کرتا ہے (۳) کبھی حاکم سمجھا دیتا ہے کہ اس قسم کی عرضی لکھ دو.قرآن میں تینوں قسم کے کلام موجود ہیں.پس ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ایک ایسی عرضی ہے جسے حق سبحانہ نے خود سمجھا یا ہے کہ ہمارے حضور یوں عرضی دو.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۴) ایا ضمیر ہے.واحد، تثنیہ، جمع مذکر اور مؤنث غائب ، مخاطب متکلم ،سب کے لئے آتی ، ہے.فرق کے لئے اس کے ساتھ ه ها، هما، هم، هن ، گ، ک، گما، کم، کن، ی، نا لگایا جاتا ہے.یہاں پر یہ ضمیر خطاب ہے اور مخاطب اللہ ہے.عبادت کہتے ہیں اعلیٰ درجہ کی تعظیم کے ساتھ لوازم عبودیت بجالانے کو.عبادت کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہے محبت ، خضوع ، کمال علم اور کمال تصرف کا یقین.یا بالفاظ دیگر یوں کہنا چاہیے کہ امید وبیم کے یقین اور جوشِ محبت کے ساتھ خضوع کرنے کو عبادت کہتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ا.جولائی ۱۹۰۶ء صفحہ ۲۲) جب ایسے کاملہ صفات سے متصف معبود کی ہستی پر آگاہی ہوتی ہے تو ایک سلیم القلب انسان بے اختیار بول اُٹھتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ.خصوصیت کے ساتھ ایسی ہی ذات پاک ہر ایک قسم کی عظمت اور پرستش کے قابل ہے.اے مولیٰ ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور چونکہ اس
حقائق الفرقان ۲۳ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة عالم کے ایک ایک ذرہ پر تیری ربوبیت کام کر رہی ہے اور تو ہی مرتبہ کمال تک پہنچانے والا ہے اس لئے ايَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم صرف تجھ ہی سے استعانت یعنی مدد اور دستگیری طلب کرتے ہیں.بعض لوگ اس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اوّل مقدم ہونا چاہیے تھا اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ اس کے بعد کیونکہ عبادت کے لئے استعانت اللہ تعالیٰ سے اول طلب کرنی چاہیے.اس کا جواب یہ ہے کہ شرعی امور میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان اول خدا تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات سے کام لے کر اس کا شکریہ ادا کرے تو پھر اللہ تعالیٰ اور انعامات عطا کرتا ہے چنانچہ یہ امر نبی کریم صلعم کی اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بھر آوے تو میں ایک ہاتھ اس کی طرف آتا ہوں اور اگر وہ ہاتھ بھر چل کر آوے تو باع بھر چل کر آتا ہوں اور اگر چل کر آوے تو میں دوڑ کر آتا ہوں.اس کے علاوہ خود قرآن شریف نے اس مضمون کو لیا جہاں فرماتا ہے اِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم:۸).پھر ایک اور جگہ ہے وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوا زَادَهُمْ هُدًى محمـ (محمد : ۱۸) خدا تعالیٰ نے جو قو تیں انسان کو دی ہیں ان سے تو اس نے ابھی کام لیا ہی نہیں تو اس کو اور زیادہ مانگنے کی کیا ضرورت پڑ گئی؟ اور ایسی حالت میں کیوں خدا تعالیٰ اسے اور دیوے؟ ایسی صورت میں تو اگلا دیا ہو ابھی واپس لے لینا چاہیے کیونکہ اس سے کام نہیں لیا گیا اور خداداد نعمت کی قدر نہ کی گئی.تو ايَّاكَ نَعْبُدُ کے یہ معنے ہیں کہ انسان اعتراف کرتا ہے اور عمل کر کے دکھلاتا ہے کہ اے مولیٰ ! جس قدر تو نے اپنے فضل سے عطا کیا ہے اس سے تو کام لے رہا ہوں اور موجودہ نعمت کو زوال سے محفوظ رکھنے اور اس میں بڑھتی چاہنے کے لئے تیری ذات پاک سے استعانت طلب کرتا ہوں.گویا ان آیات کی ترتیب ایک طبعی ترتیب ہے جس کے بدلنے سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا موجودہ قانونِ قدرت ایک احسن اور ابلغ نظام پر نہیں ہے.لے اگر تم شکر کرو گے تو میں (خود) تم کو اور زیادہ کردوں گا.( ناشر ) ے اور جولوگ ہدایت پر ہیں ان کو اللہ نے اور بھی ہدایت دی ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۴ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة عبادت کے معنے ہیں عاجزی، انکساری سے فرمانبرداری کرنا.عبادت کے مفہوم میں اس نکتہ کو ضرور یادرکھنا چاہیے کہ نماز اور روزہ اور دیگر معروفہ عبادات جس ہیئت اور طرز سے ادا کی جاتی ہیں اس کے خلاف ہیئت اختیار کرنے سے ممکن نہیں کہ ان پر ثواب ملے یا رضائے الہی کا موجب ہوں اور در حقیقت ثواب کا حق دار حکم بناتا ہے.مثلاً یہ روزہ جو کہ ہم رکھتے ہیں اگر ایک خاص وقت تک کھانے پینے سے باز رہنے کا نام ہے تو ضرور ہے کہ ہم جمعہ کو یا عید کے دن بھی روزہ رکھ لیا کریں تو ثواب ملے لیکن ان ایام میں روزہ رکھنے سے تو ثواب کے بجائے عذاب ہوتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق روز ہ اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے.اسی طرح اگر نماز بہ ایں ہیئت کہ ہم ادا کرتے ہیں اگر عبادت ہے تو فجر کی دو رکعت کے بجائے اگر تین یا چار پڑھ لیں تو بھی ثواب ہونا چاہیے بلکہ زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ محنت زیادہ ہوئی.وہی کلمات ہیں جن کی تکرار کثرت سے کی گئی ہے مگر ظاہر ہے کہ دو کے بجائے ۴ تو در کنار صرف ایک رکن نماز ہی بڑھا دینے سے ساری نماز باطل ہو کر موجب عذاب ہو جاتی ہے تو معلوم ہوا کہ نماز مطلق اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے.پھر ہم معاشرت کو دیکھتے ہیں کہ وہی چہل پہل اور محبت اور پیار اور راز و نیاز کی باتیں اور معاشرت کے حرکات ہیں کہ جب انسان اپنی منکوحہ بیوی سے معاشرت کرتا ہے تو ثواب پاتا ہے لیکن جب ایک نامحرم عورت سے کرتا ہے تو عذاب کا مستحق ہے حالانکہ عورت ہونے میں تو بیوی اور نامحرم ایک ہی ہیں اور وہی حرکات ہیں.تو ان نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز روزہ معاشرت اور دیگر عبادات شرعیہ مطلق اپنی ذات اور ہیئت کے لحاظ سے ہرگز نہیں ہیں بلکہ اس لئے عبادت کا لفظ ان پر آتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کی جاتی ہیں اور جب ان میں ایک ذراسی بات بھی اپنی طرف سے ملا دی جاوے تو پھر یہ عبادت نہیں رہتیں اور اسی سے یہ بات خوب ظاہر ہو گئی کہ عبادت کے معنے اصل میں اطاعت کے ہی ہیں اور ہر قابلِ اطاعت چونکہ تعظیم اور تعزیز کا مستحق ہوتا ہے اس لئے اس کے معنے عظمت اور عزت کے بھی ہیں.إيَّاكَ نَسْتَعِین کا کلمہ خالص توحید کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے واسطے صرف خدا کو ہی ذریعہ بنا یا جاوے اور اس کلمہ کا قائل یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ خدا شناسی کا مرحلہ طے کرنے
حقائق الفرقان ۲۵ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة کے واسطے کسی اور شے کو ذریعہ نہیں بناتا ، نہ کسی بت کو ، نہ مخلوق کو ، نہ عقل کو ، نہ علم کو اور اپنی ہر ایک احتیاج کے واسطے وہ خدا ہی کی طرف رجوع کرتا ہے.(البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۹۵) نماز میں ہر روز محبوب حقیقی جامع جمیع کمالات، رحمن رحیم ، حضرت رب العلمین ، مالك یوم الدین کی تعریف کر کے آپ پڑھا کرتے ہو.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - إِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنی ہیں.تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کریں گے.یہ دعوی سب مسلمان رات دن کئی بار خداوند عالم سے کرتے ہیں.پیارے دیکھ ! اس دعوے میں ہم کس قدر سچے ہیں؟ رات کو سور ہے چار پہر تین پہر سوتے رہے.صبح کو اٹھے پاخانے گئے.وہاں سے آئے باتیں کیں.پھر کھانے کی فکر میں لگے.روٹی کھائی.پھر کچہری میں دنیا کمانے کو گئے.پھر جو جو کام وہاں ہم کرتے ہیں اس کو ہم ہی خوب جانتے ہیں.پھر آئے.ہوا خواری.کوچہ گردی.سیر بازار.گھر آئے بال بچہ میں لگ گئے.لیاقت و استعداد پر الف لیلہ.فسانہ آزاد.کفارسیان وغیرہ وغیرہ وغیرہ پڑھنے بیٹھ گئے.بتاؤ یہی اِيَّاكَ نَعْبُدُ کا مطلب ہے پھر اگر کوئی بہت بڑا نیک ہو ا تو پنجگانہ نماز بھی دربان میں پڑھ لی.پھر اس میں ریاء، سمعة، سستی کاہلی، تاخیر وقت ، نقصان سجود، رکوع، قومه، جلسه و قرآت ވ ވ ہوتا ہے.جو منصف ہے اسے خوب جانتا ہے.بھلا پیارے ! یہی معنے ايَّاكَ نَعْبُدُ کے ہوں گے؟ نہیں نہیں !! بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو ہر ایک کام میں اور بات میں رضامندی جناب باری تعالیٰ کی مد نظر رکھنی چاہیے.نوکری کریں مگر اس نیت پر کہ روپیہ حاصل کر کے صلہ رحمی کریں گے ماں کو ، بہن کو ، بھائی، بھانجا، بھتیجا وغیرہ کو دیں گے صلہ رحمی سے رب تعالیٰ راضی ہو گا جہاں تک ہو سکا لوگوں کی بہتری میں کوشش کریں گے.سوتے ہیں مگر اس نیت سے کہ خواب سے طاقت کمانے کی حاصل ہوگی.بدن کو صحت میں عبادت پر لگائیں گے.وہ روزی جس سے صلہ رحمی ہو اور آپ سوال، چوری، فریب ، دغا، قمار وغیرہ وغیرہ سے آدمی بچے کمانے کی
حقائق الفرقان ۲۶ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة طاقت اُسے نیند سے حاصل ہوتی ہے اس واسطے سوتے ہیں.لوگوں سے باتیں کرتے ہیں اس ވ ވ خیال سے کہ باہم محبت بڑھے اتفاق پیدا ہو جو خداوند کریم کا حکم ہے.اسی طرح ہر ایک کام میں رضا مندی مولیٰ مقصود ہو اور وہی مد نظر ر ہے تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ کے معنے صحیح ہم پر صادق آویں اور دعوای درست ہو.اب چلو اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اِس کے معنے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں یہ بھی دعوی ہے.سچا تب ہو جب ہر کام میں ہم کو یہی خیال رہے کہ اس کا انجام اور اتمام بدوں رضا مندی حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ اور اس کی عنایت کے نہیں ہو سکتا.اے خدا! تو ہی مرد اور معاون رہ.دیکھو! کبھی زمیندار کا شتکاری کرتا ہے.خرمن بناتا ہے.امید وار ہے کہ دانہ گھر لے جاؤں.خرمن کو آگ لگ جاتی ہے اور گناہ کی شامت وہ خرمن خاکستر کا انبار ہو جاتا ہے.اسی کا رحم ہو کہ معاصی عفو ہو جاویں اور اس خرمن سے ہم نفع اٹھا دیں.پس ضرور ہوا کہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں ذاتِ باری پر اعتما در ہے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ رفروری ۱۹۰۲ صفحه ۲) (و).عبادت نام ہے کامل درجے کی محبت.کامل تعظیم اور اپنی طرف سے کامل تذلل کا.(ز).عبادت وہی ہے جو خود اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی معرفت بتائے باقی سب بیچ.(ه) - وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ میں واؤ حالیہ ہے.تیری عبادت ہم اس وقت کر سکتے ہیں کہ تو ہی تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۵) واؤ حالیہ ہے ہم تیری عبادت کرتے ہیں اس حال میں کہ تجھ سے مدد چاہتے ہیں کیونکہ تیرے فضل کے سوائے عبادت کی توفیق بھی حاصل نہیں ہوسکتی.توفیق دے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۲) اس اعتراض کے جواب میں کہ چوری قتل، ڈکیتی، قمار بازی کے لئے یہی کلام (ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ناقل ) مسلمانوں اور ان کے ملانوں کا وظیفہ ہو اکرتا ہے فرمایا.چوری، ڈکیتی ، قمار بازی خدا کی عبادت نہیں اور نَسْتَعِينُ سے پہلے إِيَّاكَ نَعْبُدُ کا لفظ ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ تیرے ہی فرماں بردار ہوں یار ہیں اور نَسْتَعِينُ کے ما بعد اهْدِنَا الصِّرَاطَ
حقائق الفرقان ۲۷ الْمُسْتَقِيمَ.(الفاتحة: (۶) موجود ہے جس کے معنے ہیں دکھا ہمیں سیدھی راہ.- اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - سُوْرَةُ الْفَاتِحَة تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۵۷) ترجمہ.ہمیں وہ پاس والی سیدھی راہ چلا.تفسیر القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.خط مستقیم اسے کہتے ہیں جو دو نقطوں کے درمیان چھوٹے سے چھوٹا خط بیچ سکے.اس لئے اس کے معنے ہوئے بہت ہی اقرب راہ جو ہر ایک قسم کی افراط اور تفریط سے پاک ہو.ہم کو سیدھی راہ یا قریب ترین راہ چلا.اھد کے معنے ہدایت کر.البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۵) ہدایت کے معنے قرآن شریف میں چار طرح پر آئے ہیں..قومی یا خواص طبعی.کہ جس سے ہر ایک شئے اپنے اپنے فرض منصبی کو بجالا رہی ہے.قرآن شریف نے یہ معنے بیان کئے ہیں جہاں فرمایا.اغطی محلّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى (طه:۵۰) یعنی ہر ایک شے کو پیدا کر کے اس میں اس کے خواص رکھ دیئے ہیں.۲.حق کی طرف بُلانا - إِنَّكَ لَتَهْدِى إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (الشوری: ۵۳) یعنی تُو خداشناسی کی بہت اقرب راہ کی طرف بلاتا ہے.توفیق جیسے زَادَهُمْ هُدًى (محمد : ۱۸).۴.کامیاب با مراد کرنا جیسے فرمایا.الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى هَدينا لهذا (الاعراف: ۴۴) خدا ہی کی حمد ہے جس نے ہمیں یہ کامیابی عطا کی.(البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۹۵) اهدنا.چلا ہم کو.جمع کا صیغہ ہے.مومن کو چاہیے کہ صرف اپنے واسطے دعا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ لے ان کو اللہ نے اور بھی ہدایت دی ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۸ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة شامل کر لے.ہدایت عموماً چار ذرائع سے ہے..قوت دینا.فطری قومی بخشا.۲.ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کی توفیق دینا.۳.اس مقصد پر پہنچانا جو نیکی کے واسطے مقدر ہو.۴.راستہ بتلا دینا.مُسْتَقِيمَ - أقرب راہ.جوسب سے زیادہ نزدیک ہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) ا.ہدایت قوی فطری کا عطا کرنا.آخطی محلّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى (طه:۵۰) - ۲.عطاء فہم (۳) انبیاء کی تعلیم سے بُرے بھلے راہوں کو دکھانا.وَ هَدَيْنَهُ النَّجْدَينِ (البلد: ۱۱).۴.بہشت میں پہنچانا.چنانچہ جنتی کہیں گے کو لا أَنْ هَدْنَا اللهُ (الاعراف: ۴۴).تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۵) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ.اِس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کام اس دنیا میں بدوں کسی سبب کے نہیں ہوتا.ظاہری اندھیرے کے لئے سُورج، چاند، چراغ ، برق وغیرہ کی روشنی چاہیے ، سینے کو ہوائے سرما کے واسطے گرم کپڑا الگ چاہیے.دوسرے دوست کے مطالب سمجھنے کو خط و کتابت، پیغام چاہیے.دریا سے پار اترنے کو کشتی چاہیے شنائی مسلہ وغیرہ چاہیے.پیاس کے دور کرنے کو پانی.ٹھوک کے لئے غذا.جلد پہنچنے کو ریل.جلد خط بھیجنے کو تار کی خبر.اسی طرح دیکھتے جاؤ کوئی کام بڑوں سبب نہیں جن کاموں کو آپ بدوں سبب جانتے ہو وہ بھی حقیقت میں سبب کے ساتھ پیوستہ ہیں.اهْدِنَا الصِّرَاط سے یہ مطلب ہے کہ الہی کوئی کام پڈوں سبب واقعی نہیں ہو ا کرتا اور ہم کو کاموں کے اسباب ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں اس لئے ہمارے کام نہیں ہوتے.اگر بیماری کی صحت کا ٹھیک سبب معلوم ہو تو ہمارے بیمار کیوں بیمار رہیں؟ اور اگر دفع افلاس کے واقعی اسباب معلوم ا جس نے ہر ایک ٹھے کو عطا فرمائی اس کی اصلی صورت، پھر اس کی ضرورت کے رستے بنا دیے.۲.اور اس کو دور استے نہیں بتلا دیئے (نیکی اور بدی کے ).سے اگر اللہ ہم کو یہاں نہ پہنچاتا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۹ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة ہوں تو ہم کیوں مفلس رہیں؟ عزت کے اسباب دریافت ہو جاویں تو جلد تر ذی عربات ہور ہیں.ذلت کے اسباب معلوم ہوں تو ان سے بچیں اور ذلیل نہ ہوں.پادشاہ ہو جانے کے اسباب دریافت ہوں تو پادشاہ بنیں.غرض ہر وقت ہر آن میں ہم کو ضرور ہے کہ خدا وند کریم کی درگاہ میں سوال کرتے رہیں کہ الہی فلانے کام میں سبب حقیقی کی راہنمائی فرما.فلانے میں راہنمائی کر فلانے میں راہنمائی عطا کر.اگر ہر وقت کاموں کی ضرورت ہے تو ہر وقت اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کی ضرورت بھی لگی ہوئی ہے.ہر صبح نماز کے بعد کئی بار اسی طرح اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ کیا ، ساری الحمد فکروں کے ساتھ پڑھنی چاہیے.الحکم جلد ۶ نمبر ۸ مورخه ۲۸ فروری ۱۹۰۲ صفحه ۲) مسلمانوں کو صراط مستقیم کی دعا مانگنے کی ضرورت سوال.ایک شخص نے سوال کیا کہ سب لوگ جو مسلمان ہیں وہ تو خود صراط مستقیم پر ہیں.اب ان کو صراط مستقیم کی دعامانگنے کی کیا ضرورت ہے.جواب میں حضرت نے فرمایا.اول تو یہ کہنا غلط ہے کہ سب مسلمان ہیں.مسلمان کہاں ہیں؟ چوریاں کرتے ہیں، زنا کرتے ہیں اور ان باتوں کو پسند کرتے ہیں بلکہ ضروری و حلال جانتے ہیں.جیل خانے ان سے بھرے پڑے ہیں.وحدت ملیہ اور غیرت دینیہ کا ان میں نام نہیں.إِلَّا مَا شَاء اللہ.کیا یہ مسلمان ہیں؟ پھر کیا وہ مسلمان ہیں جو پورٹ بلیر میں اور گجپت کے قلعہ میں مقید ہیں.یا وہ رنڈیاں جو بازاروں میں پائی جاتی ہیں وہ مسلمان ہیں یا وہ عیاش جو صبح کو رنڈیاں پسند کرتے ہیں اور رات کو بدکاری کرتے ہیں وہ مسلمان ہیں یا وہ امراء مسلمان ہیں جنہوں نے شریعت کا کوئی حکم اپنے واسطے ضروری نہیں سمجھا کیا کسی نواب یا بادشاہ اسلام بلکہ ملکہ شریف کے پاس کوئی بیت المال ہے اور اس میں ان کا تصرف بے جا نہیں.یا وہ لوگ مسلمان ہیں جو قبروں کے آگے سجدہ کرتے ہیں یا وہ عوام مسلمان ہیں جنہوں نے کبھی نماز کا نام نہیں لیا یاوہ ملاں مسلمان ہیں جو مساجد میں بدکاری کرتے ہیں اور
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْفَاتِحَة جنابت کے ساتھ امامت کرتے ہیں؟ یا عدالتوں کے وہ گواہ مسلمان ہیں جو قرآن شریف لے کر جھوٹی قسم کھاتے ہیں؟ یا وہ مقدمہ باز اور وکیل مسلمان ہیں جو خود ایسے گواہ بناتے ہیں ؟ آہ! مسلمان کہاں ہیں؟ ذرا قرآن شریف پڑھو! ذرا قرآن شریف پڑھو! اس میں مومنوں کی کیا نشانی لکھی ہے.انما الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (الانفال : ٣ ).ترجمہ.مومن تو وہ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل دھڑکتے ہیں اور جب اُن پر نشانات الہی پڑھے جائیں تو ان کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں.ایسا ہی دوسری جگہ لکھا ہے کہ ذکر الہی سے اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس غور کرو کہ ایسے لوگوں کو صراط مستقیم مانگنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ دوم.جیسا کہ دنیوی امور میں ترقی کی کوئی حد نہیں ایسا ہی دینی امور میں بھی ترقی کی کوئی حد نہیں.دنیوی مثال دیکھو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے وقت انسان پیادہ جاتا ہے.گھوڑے پر سوار ہو کر جاتا ہے.پھر ہاتھی کی سواری ہے.پھر بیل گاڑی، اگہ ٹم ٹم ، فٹن ہے.پھر بائیسکل، موٹر ،ٹریم، ریل، جہاز ہے اور اب ایک نئی سواری ایروپلین ہے ابھی بس نہیں.دیکھئے آگے کیا کچھ ایجاد ہوتا ہے.یہ دنیوی راہوں کے طے کرنے کے ذرائع ہیں.ایسا ہی دینی راہوں کے طے کرنے واسطے بھی طریقے ہیں اور محامد الہیہ اور اس کی رضا کی راہوں کے علم میں ترقی کی حد نہیں.علماء، اولیاء، انبیاء جس قدر ترقی کرتے جاتے ہیں اس قدر انشراح بڑھتا جاتا ہے.میں نے آج قرآن شریف شروع کرنے سے قبل دعا کی ہے.ہر دفعہ جب میں قرآن شریف سناتا ہوں مجھے ایک نیا انشراح ہوتا ہے اور ہر دور میں کچھ نئے علوم کھلتے ہیں.ہمارے زمانے میں جولٹریچر تھا اس میں آج بہت فرق ہو گیا ہے.الفاظ کا ہجا کرنے تک طریق بدل گیا ہے.ہر روز طریقہ تعلیم میں ایک نئی راہ نکلتی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کو تو حکم ہوتا ہے کہ وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا ( طه : ۱۱۵) دعا مانگ کہ اے رب ! میراعلم بڑھا.جب یہ دعا آپ کی ہے صلی اللہ علیہ وسلم تو ہم کون ہیں جو کامل ہو چکے ؟ یہ سب صراط مستقیم ہے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْفَاتِحَة فطرت انسانی انسان کی منی کے ان کیڑوں میں جو کچھ بننے والے ہوتے ہیں تین صفات عجیبہ پائے جاتے ہیں.ا.چلنے میں انحراف نہیں کرتے.ادھر ادھر نہیں ہوتے سیدھا چلتے ہیں.پیچھے نہیں ہٹتے..ان کا ایک انتہائی مقصد ہوتا ہے کہ انڈے کے اندر گھس جائیں.اس مقصد کو نہیں چھوڑتے.ان ہر سہ باتوں کی ہم کو اب بھی ضرورت ہے.انسان کی ترقی اگر ہر آن جاری نہ رہے تو وہ مرجاتا ہے.ہر آن دوران خون کے چلتا رہنے کی ضرورت ہے جو انسان کل تھا وہ آج نہیں.ہر آن جسم میں ایک تغیر ہے.ہم بچے تھے، جوان ہوئے ، اب بوڑھے ہو گئے.وہ جسم جو بچپن میں تھا وہ کہاں ہے.اسی طرح ہر وقت علم میں بھی ترقی چاہئے.کل والا علم آج کے واسطے بس نہیں اور اسی طرح عمل میں ترقی ضروری ہے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۲۹ تا۳۱) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ - ترجمہ.جو تیرے مقبول بندوں کی ہے.ان کی راہ مت چلا جن پر تو خفا ہوا اور نہ ان کی جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے.تغییر اَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ.جن پر تیرا انعام ہوا.منعم علیہ کی تفسیر خود قرآن نے کر دی ہے.من النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ (النساء:۷۰).انسانی افعال کے چار ہی مراتب ہو ا کرتے ہیں.اوّل مطلق کام صلاحیت سے کرنا.اسے صالح کہتے ہیں.دوسرے جب آقا یا حاکم سر پر کھڑا ہو تو وہ اس کام کو اور بھی تیزی سے کرتے ہیں تو اسے شہید کہتے ہیں.تیسرے ٹھیکہ کے طور پر کام کرنا جس میں انسان کو خود بخودہی ایک فکر لگی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی نقص نہ رہے اور بڑی دیانت سے کام لیتا ہے اسے صدیق کہتے ہیں.چوتھے ایک کام میں اپنے آپ کو ایسا محو کرنا کہ وہ طبعی تقاضا ہو جاوے اور جیسے ایک مشین لے نبیوں اورصدیقوں اور شہیدوں اور صالحین کے ساتھ ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۲ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة انجن کے زور سے خود بخود کام کرتی ہے نہ تھکتی ہے نہ سُست ہوتی ہے اسی طرح افعال حسنہ کا اس سے سرزد ہونا.اسے نبی کہتے ہیں.(البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۹۵) انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.جن پر انعام ہوا.وہ نبی.صدیق.شہید اور صالح ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ رفروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۲) مرزا نے دعوئی مکالمہ الہیہ کا کیا.مگر اس دعوے کی بنا اس پر تھی کہ اللہ تعالیٰ اپنے صفات میں آلان كما حان ہے.پس اگر وہ پہلے کسی سے بولتا اور کلام کرتا تھا تو اب وہ کیوں نہیں بولتا اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَتَ عَلَيْهِمُ میں دعا ہے کہ الہی ! انبیاء، صدیقوں، شہداء اور صلحاء کی راہ عطا فرما اور ان راہوں میں ایک راہ مکالمہ کی بھی ہے.پس اگر ہم مکالمہ کے مدعی ہیں تو کیا کفر کیا ؟ بنی اسرائیل کو اس لئے عبادت عجل پر ملامت ہوئی.اَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا (الاعراف: ۱۴۹) کہ ان کا معبودان سے بات نہیں کرتا اور ان کو ہدایت نہیں فرماتا.پس اس وقت کیوں مسلمان مکالماتِ الہیہ سے انکار کرتے ہیں؟ ( مرقات الیقین فی حیات نورالدین.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۴۹) خدا کا کسی کو نعمت دینا اور پڑوں کسی سابق مزدوری اور کسی محنت کے اللہ تعالیٰ کا انعام اور اکرام کرنا اس کی رحمت اور فضل کا نشان ہے جو باری تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی صفت ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۱۶۱) غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ.نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب دنیا میں ہی آیا.اس سے پہلی آیت میں جلب خیر کا ذکر ہو چکا اب دفع ضرر کی دعا تعلیم کی اور اس سے مراد یہودی ہیں جنہوں نے غضب الہی حاصل کیا.وہ کیا افعال تھے جن سے وہ مغضوب ہوئے اس سے سارا قرآن بھرا ہو ا ہے انشاء اللہ اپنے وقت پر ذکر ہوگا.( البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶٬۹۵) الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.میں منعم علیہ بن کر تیرا مغضوب نہ بنوں.مغ مغضوب کے دو
حقائق الفرقان ۳۳ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة علامات ہیں.(۱) علم ہو عمل نہ کرے.(۲) کسی سے بے جا عداوت رکھے.ضالین وہ بھولا بھٹکا انسان جو کسی سے بے جا محبت کرے اور سچے علوم سے بے خبر ہو.پس انسان کو چاہیے کہ یہ دعا کرے کہ اپنا منعم علیہ بنالے مگران انعام کئے گیوں سے کہ جن پر تیرا نہ غضب کیا گیا ہونہ وہ بھولے بھٹکے.البدر جلد نمبر ۳ مورخه ۲۳/ جنوری ۱۹۰۸ صفحه ۱۰) مَغْضُوب.یہود.جن میں بے جاعداوت ہے اور علم پڑھ کر عمل نہیں کرتے.اتین.بہکے ہوئے.نصاری.جنہوں نے اپنے نبی سے بے جا محبت کی اور علومِ الہی کو سیکھنے کی بجائے اپنی رائے کے تابع ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) الضالين - راستہ سے بہک جانے والے بے جا محبت کرنے والے بے علم.حضرت مسیح موعود نے اس کے معنے گم ہو جانے والے کے کئے ہیں کیونکہ یہ لوگ آخر اس سلسلہ میں گم ہو جا ئیں گے اور اس مضمون پر دلیل یہ آیت قرآنی ہے.ضَلَلْنَا فِي الْأَرْضِ (السجدة : ۱۱).(البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶/جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶) ضالين.ان کے دو نشان ہیں.۱.الہیات کا علم نہ ہو مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ وَلَا (الكهف : ۲).۲.کسی سے بے جا محبت جیسے نصاری.ضَاتین میں چونکہ شد و مد ہے اس میں بتایا کہ ان کا زمانہ لمبا اور مضبوط ہوگا.( تشخیذ الا زبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۳۵) جب انسان منعم بن جائے اور اسے آسودگی ملے بلحاظ اپنے مال کئے اپنی قوت کے اپنی اولاد کئے اپنی عزت و جبروت کے اپنے علم و معرفت کئے تو پھر کبھی کبھی اعمال بد کا نتیجہ یہ ہو جاتا ہے کہ غضب آ جاتا ہے.وہ اپنی آسودگی کو اپنی تدابیر کا نتیجہ سمجھ کر انہی تدابیر کو معبود بنا لیتا ہے اور بُرے عملوں میں پڑ جاتا ہے.اس لئے دعا سکھائی گئی کہ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِينَ (الفاتحة: ۷).میں منعم علیہ بن کر تیرا مغضوب نہ بنوں.مغضوب کی دو علامات ہیں.(۱) علم ہو عمل نہ کرے.(۲) کسی سے بے جاعداوت رکھے.ضالین وہ بھولا بھٹکا انسان جو کسی سے بے جا محبت ا ہم مل جائیں گے زمین میں.۲.اس بات کا ان کو کچھ بھی علم نہیں ہے اور نہ ان کے باپ دادوں کو.( ناشر ) ع
حقائق الفرقان ۳۴ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة کرے اور سچے علوم سے بے خبر ہو.پس انسان کو چاہئے کہ یہ دعا کرے.اپنا منعم علیہ بنا لے مگران انعام کئے گیوں سے کہ جن پر تیرا نہ غضب کیا گیا ہو، نہ وہ بھولے بھٹکے.(البدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۱۰) اس اُمت میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ، مَغْضُوب اور ضَال تینوں قسم کے لوگ موجود ہیں پس وہ مسیح موعود علیہ السلام بھی موجود ہے جس نے ہم میں نازل ہونا تھا وہ مہدی معہود اور اس وقت کا امام بھی ہے اور انہی میں موجود ہے.وہ اختلافوں میں حگم.ہم نے اس کی آیات بینات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ڈر کر، جزا سزا،حشر اجساد، جنت و نار، اپنی بے ثبات زندگی کو نصب العین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے.' ( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۶۹) ہم نے تین دعائیں الحمد میں کی ہیں.منعم علیہ بنیں.مغضوب علیہم اور ضالّ نہ بنیں.ہرسہ خدا نے قبول کی ہیں.انعام ان پر ہو اجو متقی ہیں.مغضوب بے ایمان ،منکر ہیں جن کو وعظ کرنا نہ کرنا برا بر ہو.ضالین منافق لوگ ہیں.ہر سہ کا ذکر الحمد میں ہے پھر ترتیب وار ہر سہ کا ذکر سورہ بقرہ کے ابتدا میں ہے.یہ قرآن شریف کی ترتیب کا ایک نمونہ ہے.البدر جلد ۱۱ نمبر ۳۲ مورخه ۲۳ مئی ۱۹۱۲ء صفحه ۳) الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ.سارے جہانوں کا رب.عبادت کے لائق وہی ہے اسی کے لئے سب محامد ہیں.اس میں حکم ہے کہ عبادت اسی کی کی جائے جو سارے جہانوں کا رب ہے.کوتاہ نظر لوگ اپنی نادانی سے کسی ادنی چیز میں اپنے زعم کے مطابق حسن یا احسان خیال کر کے اُسی کی پرستش کرنے لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُن کے عقیدہ باطل کی تردید فرماتا ہے کہ وہ اشیاء رب العالمین نہیں ہیں سب جہانوں کی ربوبیت نہیں کر سکتے ہم خود دیکھ رہے ہو.پھر وہ عبادت و اعلیٰ محامد کے لائق کیونکر ہو سکتے ہیں.ماں کے پیٹ سے لے کر بچپن ، جوانی، بڑھاپا، موت تک ہر حالت میں اور ہر جگہ انسان اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا محتاج ہے بلکہ باپ کے جسم میں بلکہ عنصری حالت میں.پھر
حقائق الفرقان ۳۵ سُوْرَةُ الْفَاتِحَة بعد الموت جو حالات انسان پر وارد ہونے والے ہیں ان سب میں بھی اللہ تعالیٰ ہی کی ربوبیت کام آوے گی.لوگ پتھر ، مورت، تصویر، قبر، آدمی ، فرشتہ وغیرہ کیا کیا کی پرستش کرتے ہیں.یہ سب عبادت بے سود ہے کیونکہ یہ اشیاء ربّ العالمین نہیں بلکہ خود ربّ العالمین کی ربوبیت کے ماتحت ہیں.یہی دلائل الرحمن الرحيم - مالک یوم الدین میں مذکور ہیں.نَعبُدُ.یہ ایک دعوی ہے کہ اے اللہ ! ہم تیری ہی فرمانبرداری کرتے ہیں اور کریں گے.ہمارے سب کام تیری ہی اطاعت کے لئے ہیں اور ہوں گے اور کسی کی پرستش ہم نہیں کرتے نہ کریں گے.عبادت کے اصول یہ ہیں کہ جس کی عبادت کی جائے.اُس کے ساتھ کامل محبت ہو.اُس کے حضور اپنا کامل تذلل ہو.کیا معنے اُس کے حضور میں کامل تواضع وانکسار کیا جائے جو اُس کا ارشاد ہو اُس کے مطابق عملدرآمد ہو.ہر وقت اُسی پر بھروسہ ہو.نَسْتَعِينُ.میں جتلایا گیا ہے کہ آدمی کو ست نہیں ہونا چاہئے بلکہ چست کام کرنے والا بننا چاہئے.شیطان انسان کو دھوکا دیتا ہے کہ تو کمزور ہے یہ دینی خدمت ادا نہیں کر سکتا اور وہ نہیں کر سکتا.کئی ایک نالائق عذر دل میں پیدا ہو جاتے ہیں کہ ہم معذور ہیں مسجد نہیں جا سکتے یا روزہ نہیں رکھ سکتے یا نماز جمع کر لینی چاہیے.ایسے عذرات سے بچنا چاہئے.چستی سے خدا کی عبادت اور فرمانبرداری کی طرف متوجہ ہونا چاہئے.نَعبُدُ کا دعویٰ اور سستی میں بھلا کیا تعلق.الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - سارا قرآن شریف صراط مستقیم سیدھی راہ دکھانے کے واسطے آیا ہے صراط مستقیم وہی ہے جو نبیوں ،صدیقوں ، شہیدوں، صالحین کی راہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ ، آپ کے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کا تعامل.وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ رسول کی اطاعت ضروری نہیں.ایسے لوگوں کو عملدرآمد کی توفیق نہیں ملتی.الْمَغْضُوبِ اور الضَّال.مغضوب وہ قومیں ہیں جنہوں نے علم پڑھا پر اُس پر عمل نہ کیا اور
حقائق الفرقان ۳۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ضَآل وہ لوگ ہیں جنہوں نے دینی علم پڑھا ہی نہیں یا کسی سے بے جا محبت کی یا محبت میں غلو کیا.البدر - کلام امیر حصہ دوم - مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۲۹) انسان خدا کے غضب سے بچنے کے لئے ہر وقت دعا کرتا رہے.وہ دعا جس کے پڑھنے کے بغیر نماز نہیں ہوتی ، وہ ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ - صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.(الفاتحة : ۷۶) یعنی ہم کو صراط مستقیم دکھا جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہوا.ان لوگوں کی راہ سے بچا جن پر تیرا غضب ہوا اور جو حق سے بیجا عداوت کرنے والے ہیں اور نہ ان لوگوں کی راہ جو گمراہ ہو گئے ہیں.مُنْعَمُ عَلَیہ گروہ کی شناخت کے لئے ایک آسان اور سہل راہ ہے.انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات، احکام اور عملدرآمد اور ان کی زندگی کو ان کے ثبوتوں اور آخر انجام کو دیکھو.پھر ان کے حالات پر نظر کر وجنہوں نے مخالفت کی.غرض مامور من اللہ لوگوں کا گروہ ایک نمونہ ہوتا ہے.اس خواہش کے پورا کرنے کے قواعد بتانے کے لئے جو ہر انسان میں بطور حجت رکھی گئی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ معزز ہو.خدا تعالیٰ کے حضور معزز وہی ہوسکتا ہے جو رب العالمین کا فرمانبردار ہو.یہ ایک دائمی سنت ہے جس میں تخلف نہیں ہوسکتا.اب ہم لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ہم غور کر کے دیکھیں کہ ہم لباس، عادات عداوت دوستی، دشمنی، غرض ہر رنج و راحت، ہر حرکت و سکون میں کس پر عمل درآمد کرتے ہیں.کیا فرمانبرداری کی راہ الحکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مورخه ۲۴ رمئی ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۱) ہے یا نفس پرستی کی؟
حقائق الفرقان ۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سُوْرَةُ الْبَقَرَةِ مَدَنِيَّةٌ 1 - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ - ترجمہ.میں پڑھنا شروع کرتا ہوں اس سورۃ کو اس کے نام کی مدد سے جو تمام صفات کاملہ کا جامع ، بلا درخواست دینے والا ، سچی محنتوں کا ضائع نہیں کرنے والا ہے.تفسیر.مقطعات کی نسبت اس زمانہ میں اعتراض ممکن تھا کیونکہ آزادی حد سے بڑھی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے تمام متمدن قوموں ( جو انتظام مدائن کو خوب کرسکیں ) میں ان کا رواج دے کر انہیں ملزم کر دیا.یورپ ، امریکہ کے لوگوں کے لئے تو یہ مسئلہ صاف ہے کیونکہ وہ اپنی قلموں، دواتوں، پنسلوں اور چھڑیوں، سلے ہوئے کپڑوں کو مقطعات کے نام سے وابستہ کرتے ہیں.الیف.اے ، بی.اے ایم.اے کو تو سب لوگ جانتے ہیں.ریلوں کے این.ڈبلیو.آر کو بھی اکثر سمجھتے ہوں گے اور بعض خطابات اور قومی دکانوں کے مقطعات گو ذرا غور سے معلوم ہوتے ہیں مگر مخفی نہیں.عرب میں بھی ان مقطعات کا رواج تھا چنانچہ بالام ایک مشہور شاعر گذرا ہے.الله کی تشریح دو عظیم الشان بزرگوں نے کی ہے جنہیں قرآن دانی میں کسی نے برا نہیں کہا وہ عبد اللہ بن عباس اور عبداللہ بن مسعود تھے.انہوں نے بالا تفاق ایک معنے کئے ہیں.صحابہ نے ان معنوں کا انکار نہیں کیا اور نہ یہ کہا ہے کہ یہ احتیاط کے خلاف کرتے ہیں اس لئے میں ان معنوں کو اپنے فہم کے مطابق صحیح سمجھتا ہوں.
حقائق الفرقان ۳۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پھر ان کے بعد ہمارے زمانہ میں امام نے بھی یہی معنے کئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے ابن عباس وابن مسعود کی تقلید سے یہ معنے نہیں کئے بلکہ اپنے ذوق سے بیان کئے.وہ معنے یہ ہیں کہ انَا اللهُ أَعْلَمُ میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.آنا کا پہلا حرف لے لیا.اللہ کا درمیانی حرف اور اعلم کا آخری.مجموعی حیثیت سے لوگوں نے طبع آزمائیاں کی ہیں اور دوسرے معانی بھی اپنے اپنے ذوق کے مطابق بیان کئے ہیں چنانچہ ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ یہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس سورۃ میں آدم ، بنی اسرائیل اور ابراہیم کا قصہ آئے گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۳٬۲) الله - اِس قسم کے الفاظ قرآن شریف کی اکثر سورتوں میں آتے ہیں اور ان کا نام عربی زبان میں حروف مقطعات ہیں اور دراصل یہ ایک مختصر نویسی کا ایک طریق ہے.انگریزی زبان میں بھی اس کی نظیریں موجود ہیں جیسے ایم.اے اور بی.اے اور ایم.ڈی وغیرہ.ہر ایک محکمہ اور دفتر کی اصطلاح اختصار الگ الگ ہے.محدثین نے اس سے کام لیا ہے چنانچہ بخاری کی بجائے لفظ خ لکھتے ہیں.طب میں بھی اس سے کام لیتے ہیں.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ کی جگہ بسملہ کہتے ہیں جس سے مقصودساری آیت ہوتی ہے.اسی طرح لاحول.اسی طرح کا ایک الہام حضرت مسیح موعود کو ہوا تھا کہ ”یلاش“ جس کے معنے ہیں یامن لا شَرِيكَ لَہ.غرض ان مقطعات میں باریک اشارات ہوتے ہیں.چونکہ ان کی تفصیل لمبی ہے اس لئے درج نہیں کی جاتی.حضرت اقدس نے براہین احمدیہ میں الله کے معنے آنَا اللهُ أَعْلَمُ کے کئے البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶) ہیں.الم - انا اللهُ أَعْلَمُ.حضرت علی ، ابن عباس ، ابن مسعود، ابی ابن کعب رضی اللہ عنہم ہر چہار نے بالا تفاق یہی معنی کئے ہیں.تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۵)
۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان ( حروف مقطعات سے متعلق ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا.) اول.اگر مقطعات کا استعمال معمے و چیستان اور پہیلی ہے اور اس لئے تم کو اس سے متنفر ہے تو ایف.اے اور پھر بی.اے کیوں ہوئے اور اس پر تمہارا فخر کیوں ہے؟ تم نے بی.اے ہونے سے دکھایا ہے کہ تم نے دھوکہ نہیں کھایا اور بی.اے وغیرہ تو مقطعات ہیں.مطلب تم نے خوب سمجھ لیا کہ بی.اے اگر معما نہیں تو ال پر کیوں لمعتا ہے؟ دوم.تمہارا منہ کالا کرنے کو اس وقت تمام دنیا کے مہذب ہلا داور تعلیم یافتہ قوموں کی دکانوں، مکانوں، چیزوں ، ناموں ، عہدوں ، ڈگریوں اور اعلیٰ عزت و عظمت کے خطابوں میں انہی معتے و پیلی و مقطعات کا استعمال ہو رہا ہے.لوگوں نے ہی عام طور پر اس کو قبول نہیں کیا بلکہ گورنمنٹ نے اپنے محکموں، ریلوں ، سٹیشنوں کو بھی یہی ٹیکا لگایا ہے.فارن آفس کی تمام تحریروں کا انہیں پر مدار ہے جو حکومت کی اصل کل ہے.ڈی.ای.وی.دیا نندی کالج اس پہیلی سے زینت یافتہ ہے.یونانی (۱) اغطس.اگست ، ایلوس ، برس ، سال ،ایٹیکو پرانے وغیرہ پندرہ کلمات کے اختصار پر بولا کرتے تھے ( ل ) لوئیں.لوکس.جگہ کے معنی میں.(م) مجسٹریٹ.مانو منٹ بمعنی یادگار پر بولتے ہیں...اوم کا لفظ جو آ.اُ.م کے مقطعات سے بناہے.اپنے ابتدا اور انتہا سے قرآن کے مقطع اللہ کے الف پہلے حرف اور میم آخری حرف کا شاہد ہے.صحابہ کرام نے فرمایا ہے.(دیکھ یہ وہی اصحاب الرسول ہیں جن کی نسبت تو نے بکواس کی ہے کہ اصحاب الرسول بھی زور لگا چکے گر ) ابن جریر.معالم التنزیل.ابن کثیر.تفسیر کبیر در منثور وغیرہ میں لکھا ہے علی المرتضیٰ ، ابن مسعود اور ناس من اکثر اصحاب النبی اور ابن عباس رضوان اللہ علیہم کے نزدیک یہ تمام حروف جو سورتوں کے ابتدا میں آئے ہیں اسماء الہیہ کے پہلے اجزا ہیں.ابن جریر نے بہت بسط سے اس بحث کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کریم کھلی عربی میں ہے پس ممکن نہیں کہ اس میں ایسے الفاظ ہوں جو ہدایتِ عامہ کے لئے نہ ہوں پھر اے بی.اے کو بھی کوئی کوئی سمجھتا ہے اور اللہ کو بھی کوئی کوئی ۱۲ منہ
حقائق الفرقان ۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة صحابہ و تابعین کی روایات کا بسط کیا ہے.آخر کہا ہے کہ ان مقطعات کو صحابہ کرام نے اسماء الہیہ کا بجا و مانا ہے اور بعض نے ان پر اساء الہیہ کا اطلاق کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ان سے قسم کی گئی ہے ان کو اسماء السور، اسماء القرآن، مفتاح القرآن بھی کہتے ہیں.آخر مجاہد کی روایت لی ہے کہ یہ با معنی الفاظ ہیں اور الربیع بن انس تابعی کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے بہت معنی لینے چاہئیں اور یہ بھی کہا ہے کہ یہ اسماء وافعال کے اجزا ہیں.بالآخر الربیع بن انس کی روایت پر کہا ہے کہ یہ سب معانی صحیح ہیں اور ان میں تطبیق دی ہے.میں کہتا ہوں بات کیسی آسان ہے کیونکہ ان حروف کا اسماء الہیہ کی جزو ہونا تو قول حضرت علی المرتضی علیہ السلام کا ہے اور ابن مسعود اور بہت صحابہ اور ابن عباس کا ، رضوان اللہ علیہم اجمعین.پس یہ معنے اصل ہوئے اور جن لوگوں نے کہا کہ یہ اسماء الہیہ ہیں انہوں نے اصل بات بیان کر دی کیونکہ آخر ان اسماء سے اسماء الہیہ ہی لئے گئے اور چونکہ اسماء الہیہ کے ساتھ قسم بھی ہوتی ہے اس لئے یہ تیسرا قول بھی پہلا قول ہی ہو ا.پھر چونکہ سورتوں کے نام ان کے ابتدائی کلمات سے بھی لئے جاتے ہیں اسی واسطے فاتحۃ الکتاب کو اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ اور سورۃ اخلاص کو قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ کہتے ہیں اور اسی لئے یہ حروف مفاتح السور اور اسماء السؤ ر ہوئے اور چونکہ ہر ایک سورۃ کو قرآن کہتے ہیں جیسے آیا ہے انا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا (الجن : ۲) اور فرمایا ہے وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَه (الاعراف: ۲۰۵) اس لئے بعض نے ان کو اسماء القرآن بھی کہا ہے.پس مجاہد کا قول کہ یہ حروف موضوع ہیں معانی کے لئے.اور ربیع بن انس کا یہ قول کہ ان کے بہت معانی ہیں درست و صحیح ہے اور یہ تمام اقوال پہلے قول کے مؤید ہیں اور انہی معنوں کے قریب بلکہ عین ہے وہ قول جو ابن جریر میں ہے کہ اللہ کے معنی انا اللہ اعلم ہیں.پس جو معانی صحابہ کرام نے کئے ہیں وہ بالکل صحیح ہوئے.اول تو اس لئے کسی نے ان صحابہ کرام پر اعتراض نہیں کیا.نہ لے ہم نے عجیب ہی قرآن سنا ہے.ہے اور جب قرآن پڑھا جاوے تو اسے کان لگا کر سنو.سہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دوسرے صحابہ نے اور نہ تابعین نے.نہ پچھلے علماء نے اور اگر کسی نے ان کے علاوہ کہا ہے تو اس کا کہنا صحیح ہے جیسا ہم نے دکھایا ہے.ابن جریر نے ان گل معانی بلکہ ان کے سوا اور معانی لے کر سب کو جمع کرنے کو بہت پسند کیا ہے اور اپنے طور پر ان کو جمع کر کے بھی دکھایا ہے.ابن جریر کی یہ عبارت بڑی قابل قدر ہے جو آخر مقطعات پر لکھی ہے اِنَّهُ عَزَ ذِكْرُهُ أَرَادَ بِلَفْظِهِ الثَّلَالَةَ بِكُلِّ حَرْفٍ مِنْهُ عَلَى مَعَانٍ كَثِيرَةٍ لَا عَلَى مَعْنَى وَاحِدٍ كَمَا قَالَ الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ وَإِنْ كَانَ الرَّبِيعُ قَدِ اقْتَصَرَ بِهِ عَلَى مَعَانٍ ثَلقَةٍ دُونَ مَا زَادَ عَلَيْهَا وَالصَّوَاب فِي ذلِكَ عِنْدِى أَنَّ كُلَّ حَرْفٍ مِنْهُ يَحْوِى مَا قَالَهُ الرَّبِيعُ وَمَا قَالَهُ سَائِرُ الْمُفَشِيرِينَ وَاسْتَغْلى شَيْئًا ربیع کے تین معنی یہ ہیں.اول اللہ میں الف سے اللہ.لام سے لطیف اور میم سے مجید.دوم.الف سے اللہ تعالیٰ کے آلاء و انعامات اور لام سے اس کا لطف اور میم سے اس کا مجد پھر الف سے ایک.لام سے تھیں.میم سے چالیس عدد.ابن جریر کا منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی اور معانی بھی لے لے ( جیسے کہا گیا ہے کہ الف سے قصہ آدم اور لام سے حالات بنی اسرائیل اور میم سے قصہ ابراہیم مراد ہے ) جب بھی درست ہے.زمخشری اور بیضاوی نے علوم قراءت وصرف کے بڑے بڑے ابواب کا پتہ ان سے لگایا ہے اور شاہ ولی اللہ نے غیب غیر متعین کو متعین اس عالم میں مانا ہے اور مبرد اور دیگر متقین ، فراء وقطرب و شیخ الاسلام الامام العلامہ ابوالعباس ابن تیمیہ اور الشیخ الحافظ المجتهد ابوالحجاج المزی اور زمخشری کا قول ہے کہ یہ منکروں کو ملزم کرنے کے لئے بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً مخالفوں کو تحدّی سے کہا گیا کہ الف حرف ہے جو گلے سے نکلتا ہے اور لام درمیانی مخارج سے اور میم آخری مخرج ہونٹ سے ہے.پس جبکہ ان معمولی لفظوں سے قرآن کریم بنا ہو ا ہے تو تم اس کی مثل کیوں نہیں بنا سکتے ؟ ترجمہ از مرتب.اللہ تعالیٰ نے مقطعات میں جو حروف بیان فرمائے ہیں ان میں سے ہر حرف بہت سے معانی رکھتا ہے ایک ہی معنی نہیں رکھتا.جیسے کہ ربیع بن انس بیان کرتے ہیں.اگر چہ ربیع نے تین سے زائد ممکنہ معانی میں سے صرف تین ہی بیان کئے ہیں اور اس سلسلہ میں میرے نزدیک درست رائے یہ ہے کہ جیسے کہ ربیع اور تمام مفسرین نے بیان کیا ہے.ان میں سے ہر حرف متعدد معانی رکھتا ہے.البتہ الربیع نے بعض استثناء بھی بیان کئے ہیں.
حقائق الفرقان ۴۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اب ہم تینوں الزامی اور تینوں نقلی جوابوں سے فارغ ہو کر عقلی جواب دیتے ہیں.ناظرین! کیا معجزہ قرآنی نہیں کہ مقطعات قرآن کریم پر مخالفانِ اسلام کا اعتراض ہو اور تمام دنیا کے مخالفانِ اسلام اسلامیوں سے بڑھ چڑھ کر ان حروف مقطعہ کے استعمال میں مبتلا دکھائے جائیں؟ اور ہم نے تو صحابہ کرام کے اقوال سے ان کے معانی کو ثابت کیا ہے مگر معترض لوگ آ.اُ.م کے معنی ملہمان وید کے صحابہ سے بتا ئیں تو سہی! دو ارب برس کی تصنیف کتاب کونسی ہے جس میں یہ معانی لکھے ہوئے ہیں جو سندھیا ودھی بلکہ ستیارتھ کے پہلے ہی صفحہ میں لکھے ہیں اور پھر جب اسلام کی کتب میں یہ معانی موجود ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ہے؟ اور اس طرح اختصار سے کلام کرنا تو عربی علوم میں عام مروج ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی طریق سے اختصار کیا جاتا ہے مثلاً يَسْمَلُ حَمْدَلٌ حَوْتَل رَجَعَ هَلَّلَ اور مثلاً خود قرآن کریم کے آیات کے نشان پر ط مطلق اور ج جائز.ص صلی کا اختصار ہے اور قرآنوں کے اوپر ع رکوع کا چنا نچہ اع اس طرح کے نشانوں میں اُوپر کا نشان پارہ کا یا سورۃ کا اور اوپر والا اگر پارہ کا نشان ہے تو نیچے والا سورۃ کا اور اگر اوپر والا سورۃ کا ہے تو نیچے والا پارہ کا.درمیانی ہندسہ آیات رکوع کا نشان ہے.علیم قرآت میں فمی بشوق کے مقطعات سات منازل قرآت کا نشان ہے.علم حدیث میں نا.انا.ح.ت - ن - د.ق.م - خ - حدثنا - اخبرنا حول السند.ترمذی.نسائی.ابو داؤد - متفق علیہ مسلم و بخاری کے نشان ہو ا کرتے ہیں.علم فقہ میں صدہا علامات ہوتی ہیں.ان کا ایک فقرہ ہے مسئلہ البئر جحط.کنوئیں کے پانی میں ایک خاص امر میں اختلاف پر لکھا ہے کہ اس وقت پانی نجس ہوا ہے یا برحال رہتا ہے یا طاہر و 1 پاک رہتا ہے.علم صرف میں س سمع يسمع کا نشان، ک کرم ، ن نصر ض ضرب کا ،ف فتح یفتح کا نجو میں طاعطف کا نشان ، حد تعلق کا ، مف مفعول کا وغیرہ.لغت میں بلدۃ کا ، ج جمع کا ، کاف کسرہ عین ماضی ، فتح عین مضارع کا نشان ہے.طب میں مكد من كل واحد كا نشان ہے جس کے معنی ہیں ہر ایک سے.
حقائق الفرقان ۴۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عقلی جواب قبل اس کے کہ عقلی جواب بیان ہو ہمیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عقلاء کی بعض اصطلاحات بیان کی جاویں اور اس وقت ہم صرف ویدک معتقدوں اور اسلامی فلسفوں کی اصطلاحات پر اکتفا کرتے ہیں.علت فاعلیہ یا فاعل کام کرنے والے کو کہتے ہیں.سنسکرت میں اس کا نام نِمِتُ کارن ہے.علت مادیہ.مادہ جس سے کوئی چیز بنتی ہے اس کو اپا دان کا رن کہتے ہیں.علت صور یہ صورت شکل اور آلات وغیرہ کو سادھارن کا رن کہتے ہیں.علت غاية اصل مقصود کو پر یوجن کہتے ہیں مثلاً اس کتاب کا مصنف و متکلم فاعل ہے اور اس کا نیمت کارن.مصنف کے علوم وغیرہ اور آپا دان کا رن ہے اور اس کے آلات و اسباب مثلاً قلم و سیاہی کاغذ وغیرہ سادھارن کارن ہیں.اس کا اصل مقصود یعنی نافہموں کے سامنے صداقتوں کا اظہار اس کا پر یوجن ہے.دلائل کی چند اور اصطلاحیں (1) الہی اقوال یا اچھے لوگوں کی بات سے سند لینا سمعی دلیل ہے اور اس کو نسکرت میں شہد کہتے ہیں.(۲) تشبیہ کو ایمان کہتے ہیں.علت سے معلول کو سمجھنا لم کہلاتا اور معلول سے علت کو سمجھنلان ہے.(۳) اور استنقراء سے پتالگا نا تمثیل ہے اور ان سب کو انو مان کہتے ہیں.(۴) مشاہدات سے استدلال سنسکرت میں پر تیکش ہے جو اس ظاہرہ سے استدلال ہو یا حواس باطنہ سے.دلائل میں پہلی دلیل شہد ہے اس سے ہم نے استدلال نقلی دلائل میں کیا ہے.دوسری دلیل ایمان یا تشبیہ ہے.اس دلیل سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ جس طرح مقطعات تمہارے مقدس وید میں ہیں اسی طرح ہماری مقدس کتاب میں ہیں.جس طرح وہاں اسماء الہیہ لئے گئے ہیں اسی طرح یہاں لئے گئے ہیں فرق اتنا ہے کہ اسلامیوں کے پاس ایک قاعدہ ہے اور تمہارے یہاں دھینگا دھانگی ہے کہ ”آ“ سے یہ لواور ا سے یہ اور ”م“ سے یہ مرادلو.تیسری دلیل انومان سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ ہم نے استقراء کیا ہے کہ ہندو، سناتن، آریہ، یورپ، امریکہ کے لوگ مقطعات کو اجزا کلمات تجویز کرتے ہیں تو ہم نے اسی استقراء سے مقطعات قرآنیہ کوا جزاء کلمات طیبات لیا ہے.
حقائق الفرقان ۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اب چوتھی دلیل پر تیکش یوں ہے کہ کلمہ طیبہ.الم - ذَلِكَ الْكِتَبُ - لَا رَيْبَ فِيْهِ - هُدًى لمتقين چار جملے ہیں.چوتھا جملہ مطلب وغایت کو ادا کرتا ہے اور تیسرا جملہ سروپ کو.دوسرا جملہ مادہ کتاب کو تو ان مشاہدات ثلاثہ سے یہ پتا لگا کہ پہلا جملہ اس کتاب کے متکلم ومصنف کا پتا ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۲۵ تا ۳۳۱) دیتا ہے.حروف مقطعات کے معنے یہ حروف اسماء الہی کے ٹکڑے ہیں اور ان کے ساتھ اُن اسماء الہی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے کہ جن کی یہ جز و ہوتے ہیں اور یہ دعوے ہم از خود نہیں کرتے بلکہ حضرت علی اور ابن مسعود اور ابن عباس اور بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اور خیر التابعین فی التفسیر مجاہد اور سعید بن جبیر اور قتادہ اور عکرمہ اور حسن اور ربیع بن انس اور سدی اور شعبی اور اخفش اور تابعین کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے کہ ان حروف کے ساتھ اسماء الہیہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ ان اسماء الہی کے ابعاض اور اجزا ہیں اور ضحاک نے اس پر یہ استدلال کیا ہے کہ کلمہ کے بعض کو ذکر کر کے پورا کلمہ مراد لینا یہ عربوں کی عادت میں داخل ہے اور اس کی تائید کے لئے اُس نے کچھ اشعار پیش کئے ہیں بلکہ جو قرآنِ مجید کہ ہدایت اور شفا ہے اس میں بھی تم دیکھتے ہو کہ وقفوں کے رموز کے لئے حروف لکھے ہوئے ہیں مثلاً مطلق کا نشان ط ہے اور جائز کا نشان ج ہے اور رکوع کا نشان حاشیہ پر ع ہے.اسی طرح کتب احادیث میں نا.انا.نبا.ح رموز ہیں اور علم کلام میں ہذا خلف کے عوض ہف ہوتا ہے اور کتب فقہ میں جحط وغیرہ رموز موجود ہیں اور کتب لغت میں لیں.ن یض_کف_ح بابوں کے رموز ہیں اور ت.ع.ج.بلدہ اور معروف اور جمع کے رموز ہیں اور کتب طب میں مکد مِن كُلّ واحد کی رمز ہے.پس یہ سب رموز اس بات کے شاہد ناطق ہیں کہ یہ طریقہ اختصار عربوں میں دائر اور سائز ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیث میں بھی موجود ہے اور اس زمانہ میں تو قریباً ہر ایک قوم میں اس کی اس قدر کثرت ہے کہ جس کے ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی.
حقائق الفرقان ۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پس جبکہ یہ طریق اختصار زبانِ عرب بلکہ خود قرآن میں موجود ہے اور بہت سے جلیل القدر صحابہ اور اہل علم تابعین اور ائمہ سے مروی ہے تو اب اس سے بے وجہ عدول کرنا اور محض احتمالات بے وجہ سے ان کے معنوں میں اشتباہ پیدا کر کے ان کو متشابہات میں داخل کرنا درست نہیں اور بعض لوگ بعض روایات کو بزعم خودان معنوں کے مخالف تصور کرتے ہیں حالانکہ فی الحقیقت وہ انہی معنوں کی مؤید اور مثبت ہیں نہ مخالف.مثلاً حضرت ابن مسعود اور ابن عباس اور شعبی سے مروی ہے کہ یہ حروف اسماء الہی ہیں.تو اگر چہ بعض نے غلطی سے اس روایت کو پہلی روایت کے خلاف خیال کیا ہے لیکن فی الحقیقت یہ اس کی مؤید ہے کیونکہ دونوں روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان حروف سے مراد اسماء الہی ہے اگر چہ اس قدر فرق ہے کہ پہلی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حروف اسماء الہی پر اس لئے دلالت کرتے ہیں کہ یہ اُن کی جو وہیں اور دوسری روایت میں یہ نہیں بیان کیا گیا بلکہ بجز کا گل پر بلکہ بدل کا مبدل منه پر اطلاق کر کے انہی حروف کو اسماء بول دیا ہے اور یہ استعمال عام اور شائع ہے اور ان دونوں روایتوں کے متحد المطلب ہونے پر یہ بڑا قرینہ ہے کہ قائل دونوں کے ایک ہی ہیں اور دوسری کی عبارت ان معنوں کی متحمل ہے جو کہ پہلی کے معنی ہیں.اسی طرح بعض سے مروی ہے کہ یہ حروف اسماء الہی ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ پہلی روایت کے مؤید ہے کیونکہ پہلی روایت کے مطابق ان سے مراد اسماء الہی ہیں اور ظاہر ہے کہ اسماء الہی عموماً خدا کی صفت اور ثناء ہوتے ہیں.مثل رب العالمین، الرحمن الرحيم، الرزاق ذو القوة المتین وغیرہ کے.پس یہ روایت بھی مؤید ہے نہ مخالف.اسی طرح حضرت ابن عباس اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہ حروف قسم ہیں کہ جن کے ساتھ قسم کھائی گئی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ قسم بھی اسماء الہی کے ساتھ کھانے کا حکم ہے.پھر بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ الم نام ہے سُورۃ کا اور یہ وہ بات ہے کہ جس پر اکثر مفسرین کا اتفاق ہے اور اکثر محققین نے اسی کو پسند کیا ہے اور خلیل اور سیو یہ جیسے جلیل القدر امام بھی اسی طرف گئے ہیں اور اس پر ان احادیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ جن میں کسی عورت کو ان حروف کے ساتھ نامزدکر کے ذکر کیا گیا ہے جیسا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت جمعہ کی صبح کی نماز میں
حقائق الفرقان ۴۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الم سجدۃ اور ھل اتی پڑھا کرتے تھے اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیس قرآن مجید کا دل ہے اور ایک دوسری میں آیا کہ آنحضرت نے ص میں سجدہ کیا.مجاہد نے کہا کہ یہ سورتوں کے اوّل کے حکم میں ہیں یعنی جس طرح سورتوں کے اوّل سے ان سورتوں کو نامزد کیا جاتا ہے جیسا کہا جاتا ہے سورۂ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَفِرُونَ يَا قُلْ هُوَ اللهُ وَغَيْرَهُمَا.اسی طرح ان حرفوں سے بھی ان سورتوں کو نامزد کیا جاتا ہے اور یہی قول ہے مجاہد اور حسن اور زید بن اسلم کا.تو یہ قول بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ جب یہ مسلم بات ہے کہ سورتوں کا نام ان کے ابتداء کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور ان کے اوائل کے فی الحقیقت کچھ معنے بھی ضرور ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ حروف جو سورتوں کے اوائل میں ہیں اگر باوجود اسماء الہی کی طرف مشیر ہونے کے ان سورتوں کے نام بھی ہوں تو اس میں کیا حرج ہے.پھر مجاہد سے مروی ہے کہ یہ قرآن مجید کے نام ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ ہر ایک سورۃ قرآن ہے تو جب یہ سورتوں کے نام ہوئے تو بالضرور قرآن مجید کے بھی نام ہوئے اور جس طرح کہ سورتوں کے اسماء اور اسماء الہی کے اجزا ہونے میں کسی قسم کی منافات نہیں بلکہ دونوں ہو سکتے ہیں اسی طرح اسماء قرآن مجید اور اسماء الہی کے اجزاء ہونے میں کوئی مخالفت نہیں اور نہ اسماء قرآن مجید اور اسماء الہی ہونے میں کچھ نقص عائد ہوسکتا ہے.پھر مجاہد سے مروی ہے کہ حروف سورتوں کے مفاتیح ہیں اور چونکہ سورتیں بھی قرآن مجید ہیں لہذا وہ مفاتیح القرآن بھی ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اس لئے کہ سورتوں کا افتتاح بھی تسبیح وتحمید اور اسماء حسنیٰ کے ساتھ کیا جاتا ہے.پس اگر باوجود ان کے اسماء الہی کی طرف مشیر ہونے کے مفاتیح القرآن بھی ہوں تو کچھ حرج کی بات نہیں ہے اور پھر بعض کا قول ہے کہ یہ اسماء الہی اور افعال سے ہیں اور یہ حضرت ابن عباس سے مروی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اس لئے کہ اسماء الہی میں سے وہ بھی ہیں جو کہ افعال الہی پر دال ہیں.پھر بعض نے کہا ہے کہ یہ معنے کے لئے یا بہت معانی کے لئے موضوع ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں
حقائق الفرقان ۴۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بلکہ مؤید ہے اور پہلا مجاہد ہی کا قول ہے اور مؤید اس وجہ سے ہے کہ مجاہد وغیرہ نے جو معنے بیان کئے ہیں وہ وہی ہیں جو پہلے ہم بیان کر آئے ہیں اور ان کا مؤید ہونا ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اور وضع یہاں پر مجاز کو بھی شامل ہے کہ جس کو وضع نوعی کہتے ہیں اور اصل معنوں کی تائید اس دلیل عقلی سے بھی ہوتی ہے جو کہ اس دور کے امام حضرت مسیح موعود اور مہدی مسعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک واقعی شئی کے لئے چار علتوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایک علت مادی کہ جس میں وہ شئی بنے کی استعداد اور قابلیت ہوتی ہے.دوم علت صوری کہ جس کے ساتھ وہ چیز موجود ہو جاتی ہے.سوم علت غائی.اور یہ وہ غرض اور فائدہ ہے کہ جو اس شئے پر مرتب ہوتا ہے اور اسی کے لئے وہ شئے بنائی جاتی ہے اور چہارم علت فاعلی ، اور یہ وہ ہے جو کہ اس شئے کو بنانے والی ہوتی ہے.تو یہاں پر علت مادی ذلِك الكتب ہے یعنی جو کہ اللہ کے علم میں ہے اور علت صوری لا ريب فیہ ہے اور علت غالی هدی لِلْمُتَّقِينَ ہے.اب باقی رہی علت فاعلی تو یقینا ثابت ہوتا ہے کہ اس کا بیان اللہ میں ہے.پس ثابت ہوا کہ الف لام میم میں اشارہ ہے اللہ لطیف معلم اور مرسل اور منزل کتاب کی طرف یا آنا اللہ اعلم کی طرف یعنی میں ہوں بہت جاننے والا اللہ.پس اس دلیل عقلی سے بھی یہی ثابت ہے کہ ان حروف سے مراد اسماء الہی ہیں یا بالفاظ دیگر یوں کہنا چاہیے کہ یہ اللہ علیم کے ان پروانوں پر اپنے خاص دستخط ہیں.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۳.ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۹۵ تا۹۹) ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - ترجمہ.یہ ایک کتاب ہے.اس میں کچھ شک نہیں.سیدھی راہ چلانے والی ہے اللہ ڈرنے والوں کو.ނ تفسیر.وہ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ جو کہ سُورۃ فاتحہ میں اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ لوگوں کی طلب کی گئی تھی وہ بتلائی جاتی ہے کہ اگر تم انعامات الہی سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہو تو یہ ہدایت نامہ جو کہ تم کو دیا جاتا ہے اس پر البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ /جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶) عمل کرو.
حقائق الفرقان ۴۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ.یہ وہ لکھی ہوئی چیز ہے.لکھی ہوئی اس لئے فرمایا کہ جب آیت نازل ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے اپنے سامنے لکھا لیتے.دوسری وجہ یہ کہ کتيبة لشکر کو بھی کہتے ہیں اور جیسے لشکر بہت سے افراد کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اسی طرح یہ کتاب بہت سے مضامین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور جیسے لشکروں سے دشمن بھاگتے ہیں ایسے ہی شبہات انسانیہ اس کتاب کے لشکر سے بھاگ جاتے ہیں اسی لئے فرما یا لا ریب یعنی یہ ایک ایسی عظیم الشان کتاب ہے جس کے عظیم الشان ہونے میں کچھ بھی شک نہیں یا جس میں کسی قسم کی کوئی شبہ والی بات نہیں.پھر ذلِكَ الْكِتب لا ریب میں جو فرمایا یہی ایک کتاب ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ نے اور کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جس کو ”کتاب“ کہا جا سکے.آپ کے زمانہ میں یہی ایک کتاب تھی جو حقیقی معنوں میں کتاب کہلا سکے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۳) ذلك الكتب - یہی کتاب ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اور کوئی کتاب، کتاب کہلانے کی مستحق نہیں.اس کا ثبوت نبی کریم اور آپ کی جماعت نے اپنی عملی حالت سے یوں دیا ہے کہ جب تک انہوں نے قرآن کی اشاعت نہیں کر لی تب تک کوئی دوسری کتاب بالکل نہیں لکھی.نبی کریم نے اس کا ادب یہ کیا ہے کہ جن امور کے دلائل قرآن شریف نے بیان کئے ہیں ان امور پر آپ نے کوئی سلسلہ دلائل کا بیان قطعا نہیں کیا.الكتب - مكتوب (من اللہ ).حدیث میں ہے کہ جب جبرائیل قرآن شریف لاتے تو حریر پر لکھا ہوا ہوتا اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کا تب موجود ہوتے تھے جب آیت نازل ہوتی بڑی احتیاط سے اسی وقت لکھائی جاتی.لا رَيْبَ - رَيْب کے معنے ہلاکت.یعنی کوئی ہلاکت اور شک نہیں عربی زبان میں ریب کا لفظ (البدر جلد نمبر ۱۲ مورخه ۱۶ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۹۶) جھوٹ پر بھی بولا جاتا ہے.ذلِكَ الْكِتب.....ابن عباس ، مجاہد ، سعید ، اخفش ، ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں پر اس
حقائق الفرقان ۴۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے معنے ھذا کے ہیں یعنی اس کا لام دوری کے لئے نہیں بلکہ تاکید کے لئے ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے ذلِكَ تَتْلُوهُ عَلَيْكَ (ال عمران: ۵۹) ( ترجمہ ) : یہ وہ ہے جو کہ ہم تیرے پر پڑھتے ہیں اور پھر فرما یا ان هذا لَهُوَ الْقَصَصُ الْحَقُّ (ال عمران : (۶۳) (بے شک یہ حق بیان ہے ) تو پہلے قرآنِ مجید یا ایک سورۃ یا ایک واقعہ کے لئے ذلك لانا اور پھر اسی کے لئے وہاں پر ہی ھذا لانا صاف دکھاتا ہے کہ ان دونوں کے ایک ہی معنے ہیں ورنہ ایک چیز ایک ہی وقت میں بعید اور قریب کس طرح ہو سکتی.اور ایک دوسری آیت کریمہ میں قرآن مجید کے لئے ھذا بھی آیا ہے جیسا فرما يا هذا كتب اَنْزَلْنَهُ اِلَيْكَ :(الانعام: (۹۳) یه کامل کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اُتاری ہے.تو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ذلِكَ ، هذا کے معنوں میں ہے اور فراء نے کہا ہے کہ ذلك دوری کے لئے ہے لیکن دوری اکثر تو مکانی ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے اور یہاں پر بھی مرتبہ کے لحاظ سے ہے یعنی وہ عظیم الشان کتاب جو کہ اپنی عظمت اور رفعت کے لحاظ سے نوع انسان سے بہت دُور اور ارفع ہے جیسا کہ حضرت یوسف کی نسبت عزیز مصر کی بی بی کا قول نقل ہے فَذَلِكُنَ الَّذِي يُبْتُنَنِي فِيْهِ (يوسف:۳۳) ( یہ وہ عظیم الشان شخص ہے کہ جس کی نسبت تم مجھے ملامت کرتی ہو ).رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۳ ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۰۳،۱۰۲) ذلِكَ الْكِتَبُ لا رَيْبَ فِيهِ.پس ایک کتاب ہے جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں یا شک وشبہ کی گنجائش نہیں.ریب کے دو معنے ہیں شک وشبہ اور ہلاکت.اور دونوں ہی یہاں خوب لگتے ہیں.قرآن کریم میں شک وشبہ نہیں.بالکل درست ہے.اس کی ساری ہی تعلیم یقینیات پر مبنی ہے نطقی اور خیالی نہیں.یا آجکل کی اصطلاح میں یوں سمجھ لو کہ قرآنِ مجید میں تھیوریاں نہیں بلکہ بصائر ہیں.وہ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ (بنی اسراءیل:۱۰) ہے.پھر قرآن مجید میں ہلاکت کی راہ نہیں.یہ بھی سچ ہے کیونکہ اس میں تو شفاء للناس ہے.(البدر جلد ۱۲ نمبر ا مورخہ ۴؍ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحه ۴) لا رَيْبَ فِيهِ (البقرۃ:۳).ریب کے دو ترجمہ ہیں (۱) ہلاکت (۲) شک وشبہ.اور دونوں درست ہیں.تعلیمات الہیہ میں کوئی تعلیم ایسی نہیں جس سے ہلاکت کی راہ پیدا ہو بلکہ قرآن کے بیان
حقائق الفرقان لے سُوْرَةُ الْبَقَرَة سے یہ یقین ثابت ہوتا ہے کہ ہ یقینا شفاء للناس ہے اور اس کے عملدرآمد سے میں علی وجہ البصیرت کہتا ہوں کہ اس پر عمل کرنے سے انسان فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: ٣٩) کا مصداق ہو سکتا ہے.ہاں اس تعلیم کی خلاف ورزی سے غلطی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بڑے بڑے نقصان اس کو اٹھانے پڑتے ہیں.جہاں تک میری نظر جاتی ہے اور میں نے غور کیا ہے یہ بالکل امر واقعی ہے.ہوسکتا ہے تمہارے علوم، تجربے اور معلومات میں وسعت ہو.ہوسکتا ہے میرے بیان میں کمزوری ہو.ہو سکتا ہے تمہیں ایک واقعہ معلوم ہو اور مجھے نہ ہومگر یہ بات کہ میری عمر بڑی ہو چکی ہے اور قوی ضعیف ہو چکے ہیں اگر چہ میرے کان ، زبان وہ طاقت نہ رکھتے ہوں مگر یہ یقینی بات ہے کہ قرآن مجید پر عمل انسان کو خوف و حزن سے نکال دیتا ہے.میں نے اپنی تمام عمر میں تجربہ کیا ہے اور جہاں تک میں قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتا ہوں انسان خوف وحزن سے بچ جاتا ہے.میرے دوست بے شک کہہ دیں کہ کیا میں کبھی غمگین ہوا ہوں یا انہوں نے مجھے کسی خوف سے روتے دیکھا ہے.وہ برسوں سے میرے پاس رہتے ہیں.انہوں نے مجھے خوف اور حزن میں نہیں دیکھا پس اگر تم خوف و حزن سے بچنا چاہو اور اس کا علاج کرنا چاہو تو قرآن کریم کی اتباع سے ہوتا ہے مگر ایک شرط ہے.وہ یہ ہے کہ علم صحیح ہو اور اس کے ساتھ عمل ہو.علم بدون عمل کے کچھ فائدہ نہیں دیتا.مثلاً یہاں کنواں ہے کوئی شخص جو اس کا علم صحیح رکھتا ہے وہ اس میں نہیں گرے گا.مسلمانوں کو یہ صحیح علم ہے کہ قرآن مجید کی تعلیم کے ذریعہ وہ خوف وحزن سے محفوظ رکھے گئے لیکن جب تک عمل نہ ہو کچھ فائدہ نہیں.البد رجلد ۱۲ نمبر ۳ مورخہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۷) الم - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ (البقرة : ۲ ، ۳) - یہ سُورت جس کا نام اللہ ہے.وہ کتاب ہے (جس کے اُتارنے کا موسیٰ علیہ السلام کی کتاب استثناء کے باب ۱۸ میں وعدہ ہو چکا ) اِس میں شک وریب کی جگہ نہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.تصنیف حضرت خلیفہ اسی الاول کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۸) هُدًى لِلْمُسْتَقِيْنَ - اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ میں دُعا مانگی گئی تھی کہ ہمیں راہ ہدایت دکھا.یہاں منعم علیہم لے اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ ٹھگین ہوگا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة گروہ کا دوسرا نام متقی رکھ کر فرمایا کہ یہ کتاب ان دعا مانگنے والوں کے لئے موجب ہدایت ہے جو اَنْعَمْتَ کے مورد بننا چاہتے ہیں یا بن چکے یا آئندہ بہنیں گے سب کے لئے راہنمائی کا قانون ہے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے انسان خواہ کیسا منتقی ہو جائے قرآن مجید میں اس کی آئندہ ترقی کے لئے سامان موجود ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۳) میں نے دنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دنیا کی دلربا راحت بخش ، لذت دینے والی، جس کا نتیجہ دکھ نہ ہو نہیں دیکھی جس کو بار بار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فکر کرنے سے جی نہ اکتائے ، طبیعت نہ بھر جائے اور یا بدخو دل اکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو.میں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر، میری مطالعہ پسند طبیعت ، کتابوں کا شوق اس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لئے جرات دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے.وہ کونسی کتاب؟ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ کیا پیارا نام ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لطف اور راحت بڑھتی جاوے گی طبیعت اکتانے کے بجائے چاہے گی کہ اور وقت اسی پر صرف کرو.عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان ، یقین اور عرفان کی لہریں اُٹھتی ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ را پریل ۱۹۰۴ صفحه ۱۶) کلمہ طیبہ ا - الم - ٢ - ذلِكَ الْكِتَبُ - ٣ - لَا رَيْبَ فِيهِ - ۴ - هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.چار جملے ہیں.چوتھا جملہ مطلب و غایت کو ادا کرتا ہے اور تیسر اجملہ سروپ کو.دوسرا جملہ مادہ کتاب کو.تو ان مشاہدات ثلاثہ سے یہ پتالگا کہ پہلا جملہ اس کتاب سے متکلم ومصنف کا پتہ دیتا ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۳۱) متقی کو عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں اور ذات پاک سے اس کے خاص تعلقات ہوتے ہیں.
حقائق الفرقان ۵۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قرآن مجید میں اُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ بھی متقیوں کے لئے آیا ہے یعنی اگر مظفر ومنصور فتح مند ہونا ہو تو بھی متقی بنو.(البدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ جنوری ۱۹۰۸ء صفحه ۸) ذلِكَ الْكِتب يهِ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کا جواب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ایک ہی کتاب دیکھی لکھی ، پڑھی، پڑھائی سنی اور سنائی.اس کے سوائے آپ نے کوئی اور کتاب نہ دیکھی.یہود و نصاری کو کہا گیا تھا.فَأْتُوابکتاب (الصافات: ۱۵۸) مگر کوئی نہ لایا.(البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۱) ہدایت اُن لوگوں کا حصہ ہے جو گناہ آلود زندگی سے بچنے والے ہوں.پھر ایمان بالغیب رکھیں دعاؤں میں لگے رہیں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کریں.( تشخیز الاذہان جلدے نمبر ۳.مارچ ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۳۷) هُدًى لِلْمُتَّقِینَ.انعمت علیہم میں دعا مانگی گئی تھی کہ ہمیں راہ ہدایت دکھا.یہاں منعم عليه......گروہ کا دوسرا نام متقی رکھ کر فرمایا کہ یہ کتاب ان دعا مانگنے والوں کے لئے موجب ہدایت ہے.جو انعمت کے مورد بننا چاہتے ہیں یا بن چکے یا آئندہ بنیں گے سب کے لئے رہنمائی کا قانون ہے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے انسان خواہ کیسا متقی ہو جائے.قرآن مجید میں اس کی آئندہ ترقی کے لئے سامان موجود ہے.(ضمیمه اخبار بدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۱۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳) هُدًى لِلْمُتَّقِينَ - نور ہے متقیوں کے لئے.یہی مروی ہے ابنِ مسعود اور ابن عباس اور اور بہت سے صحابہ سے.اور قرآنِ مجید میں آیا ہے.وَ اتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَةً (الاعراف: ۱۵۸) (اس نور کی اتباع کرو جو کہ اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے ) اور فرما یا قَدْ جَاءَكُم مِّنَ اللهِ نُورٌ وَ كِتَبٌ مُّبِينٌ (المائدۃ:۱۲) (ضرور اللہ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور یعنی بیان کرنے والی کتاب آئی ہے ).رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۳ ستمبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۱۶) خداوند کریم نے متقی کی اپنی کتاب میں یہ تفسیر فرمائی ہے.وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَب وَالنَّبِينَ وَأتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمُ إِذَا
حقائق الفرقان ۵۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عهَدُوا وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ حِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرة: ۱۷۸) ( لیکن نیکی اس کی ہے جو کہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے اور باوجود مال کی محبت کے پھر بھی مال دے قرابت والوں اور یتیموں ، مسکینوں، مسافروں کو اور گردنوں میں.اور جب عہد کرتے ہیں تو اس کو پورا کرنے والے ہوتے ہیں اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت صبر کرنے والے ہوتے ہیں.انہیں لوگوں نے صدق دکھایا اور تقوی اختیار کیا ہے ) اور دوسرے مقام پر فرمایا ہے وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ ية أُولبِكَ هُمُ الْمُتَتَّقُونَ (الزمر: ۳۴) ( اور جو سچائی لایا اور اس کی تصدیق کی وہی متقی ہیں ) اور فرمایا : أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَ الْعَظِمِينَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ - وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ ۖ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ.(ال عمران: ۱۳۴ تا۱۳۶) ( جو تیار کیا گیا ہے ان متقیوں کے لئے جو خرچ کرتے ہیں خوشی اور تکلیف میں اور غصہ کو کھاتے اور لوگوں سے معاف کرتے ہیں اور اللہ مخلصوں سے محبت کرتا ہے اور جو کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کرتے ہیں تو معا اللہ کو یاد کرتے ہیں پھر اس سے مغفرت مانگتے ہیں اپنے گناہوں کی اور اللہ کے سوا اور کون ہے گناہوں کی مغفرت کرنے والا.اور کئے ہوئے پر جان کر اصرار نہیں کرتے ) اور ایک اور مقام پر الَّذِينَ اتَّقَوْا کے بعد فرمایا ہے الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا أَمَنَا فَاغْفِرُ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - الصُّبِرِينَ وَ الصُّدِقِينَ وَالْقَنِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ (ال عمران: ۱۸،۱۷) ( جو کہتے ہیں اے ہمارے رب! ہم ایمان لائے ہیں پس ہمارے گناہ معاف کر اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا.اور صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور عبادت بجالانے والے اور خرچ کرنے والے اور سحریوں کے وقت استغفار کرنے والے ) پھر ایک اور محل پر ذِكْرًا لِلْمُتَّقِينَ (الانبياء: ۴۹) کے بعد فر ما یا الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ (الانبياء:۵۰) ( جو غیب
حقائق الفرقان ۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لے میں اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس گھڑی سے خوف کرنے والے ہیں ) پھر ایک جگہ اِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَعُيُونٍ....الخ کے بعد فرمایا.اِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَلِكَ مُحْسِنِيْنَ - كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ - وَ بِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ - وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَ الْمَحْرُومِ - (الذاريات: ۱۷ تا ۲۰) ( بے شک وہ اس سے پہلے مخلص تھے.رات سے بہت تھوڑا آنکھ لگاتے تھے اور سحریوں کے اوقات مغفرت مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کا حصہ تھا ) اور تقوی کے آثار جو قرآنِ مجید نے بیان فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں.تقوی سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاتا ہے.فرمایا اِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ( التوبة: ٤) (بے شک اللہ متقیوں سے محبت کرتا ہے اللہ تقی کا ولی ہوتا ہے.فرمایا وَاللهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الجانية: ٢٠) ( اور اللہ متقیوں کا سر پرست ہوتا ہے ).اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے.فرمایا أَنَّ اللهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ (البقرة: ۱۹۵) (بے شک اللہ متقیوں کے ساتھ ہوتا ہے ) متقی کی اللہ قبول کرتا ہے فرما یا إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (المائدة: ۲۸) (اللہ تو متقیوں ہی سے قبول کیا کرتا ہے ) عاقبت اور آخرت اور اچھا انجام متقی کے لئے ہوتا ہے فرمایا وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (الاعراف: ۱۲۹) (بے شک انجام یا نیک نامی متقیوں کے لئے ہے ) وَ الْآخِرَةُ عِنْدَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ (الزخرف:۳۶) (اور آخرت اللہ کے نزد یک متقیوں کے لئے ہے ( وَ إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ لَحُسْنَ مَاآپ (ص:۵۰) (بے شک متقیوں کے لئے اچھا انجام ہے ) مشقی کو اللہ ہر ایک تنگی سے کوئی نہ کوئی مخلصی دے دیتا ہے.فرمایا وَ مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (الطلاق : ۳ ) ( جو اللہ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتا ہے تو خدا اس کے لئے خلاصی کی راہ نکال دیتا ہے ) متقی کو اللہ ایسی راہوں سے رزق دیتا ہے کہ اس کو خیال تک نہیں ہوتا.متقی کو اللہ ایسا امتیازی نشان دیتا ہے کہ اہلِ دُنیا سے اس کو ممتاز کر دیتا ہے.فرما یا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا (الانفال:۳۰) ( اگر تم تقومی کرو گے تو اللہ تمہارے لئے ما بہ الامتیاز بنادے گا ) اللہ علیم متقی کا معلم ہوتا ہے.فرمایا وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة: ۲۰۳) لے بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ سے تقومی کرو اور اللہ تم کو تعلیم دے گا ) متقی کو جنت ملتی ہے اور جو چاہے گا وہی اس کو دیا جائے گا.فرمایا.وَ لَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِينَ - جَنْتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ لَهُمْ فِيهَا مَا يَشَاءُونَ كَذلِكَ يَجْزِى اللهُ الْمُتَّقِينَ (النحل: ۳۲،۳۱) (متقیوں کا گھر کیا ہی عمدہ ہے! اور وہ عدن کے جنت ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے.ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان کے لئے ان میں وہ سب کچھ مہیا ہوگا جو کہ وہ چاہیں گے.اللہ اسی طرح متقیوں کو جزا دے گا ) رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۳ ستمبر ۱۹۰۶، صفحہ ۱۱۷ تا۱۱۹) ۴ - الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.ترجمہ.جو لوگ اللہ کو مانتے ہیں بے دیکھے یا تنہائی میں اور ٹھیک نماز پڑھا کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ دیا کرتے ہیں.تفسیر.الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ متقی کون لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.غیب الغیب تو اللہ کی ذات ہے پھر مابعد الموت کے حالات.پھر ملائکہ، رسول اور اس کی کتابیں اسی میں شامل ہیں.رسول بحیثیت انسان ہونے کے تو غیب نہیں مگر بحیثیت رسول ہونے کے اس کی ذات غیب میں داخل ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۳) يُؤْمِنُونَ ایمان لاتے ہیں.ایمان کہتے ہیں ماننے کو.اس طرح سے ماننا کہ جو دل کی بات ہے وہ دل سے مانی جاوے.جو ہاتھ سے ماننے کی ہے وہ ہاتھ سے مانی جاوے.غرض اس طرح زبان ، آنکھ، کان اور ہر ایک اعضاء سے جو بات حسب فرمودہ الہی ماننے کی ہے وہ مانی جاوے.اعضاء سے اس طرح مانا کرتے ہیں کہ اس بات یا امر کو عملا کر کے دکھلا دیا جاوے.الْغَيْب.اس سے مراد اللہ تعالیٰ بھی ہے کیونکہ وہ ایک نہاں در نہاں ہستی ہے جو اِن آنکھوں سے نہیں دیکھی جاتی اِن ہاتھوں سے نہیں ٹولی جاتی.ان کانوں سے اس کی آواز نہیں سنی جاتی.یہ اس کی صفت ہے منجملہ اور صفات کے.اس کے معنے تنہائی کے بھی ہیں جیسے فرمایا.يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ (الملك: ۱۳) یعنی لے جو لوگ تنہائی میں یا بے دیکھے اپنے رب سے ڈرتے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ایمان داری کی یہ نشانی ہے کہ عالم تنہائی میں جب اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا نہ کوئی رشتہ دار، نہ برادری، نہ قوم، نہ شاہی چوکیدار وغیرہ تو اس وقت جن جرائم کو وہ کر سکتا ہے ان کو اس لئے نہیں کرتا کہ خدا کی ہستی پر اُسے یقین ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی اور نہیں دیکھتا تو خدا کی ذات پاک دیکھ رہی ہے.ایسے عالم تنہائی میں گناہوں سے بچنا در اصل ایمان کا ثبوت ہے اور اس کا پتہ ماہِ رمضان میں بھی خوب ملتا ہے جبکہ ایک شخص اپنے گھر کے اندر کوٹھڑی میں بیٹھا ہے پینے کے لئے سرد پانی، کھانے کے لئے نعمتیں اور شہوانی ضرورتوں کے لئے بیوی موجود ہے.کوئی اُسے دیکھنے والا نہیں دل بھی للچاتا ہے مگر پھر خدا تعالیٰ کے خوف سے وہ پر ہیز کرتا ہے.اکثر لوگ جب اپنے محلہ یا شہر کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں تو شرارتوں اور بدکاریوں میں دلیر ہو جاتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اپنے مقام پر ان کو برادری اور قوم وغیرہ کا ڈر ہوتا ہے جب وہ نہ ہوئے تو پھر معلم کھلا وہ جو چاہتے ہیں کرتے ہیں.اگر ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی مقتدر ہستی پر ہوتا تو وہ جہاں رہتے گناہ سے بچتے.یہ ایک لطیف حقیقت يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے معلوم ہوتی ہے.وہ تقولی جو کہ ہر ایک کامیابی اور فلاح کی جڑ ہے اس کا ابتداء کیوں يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ سے شروع ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کامیابی خواہ دنیا کی ہو خواہ دین کی ، اس کا اصل اصول ایمان بالغیب ہی ہے اور اسی کے ذریعے سے انجام کار بڑے بڑے علوم اور بار یک در بار یک اسرار کا پتہ لگتا ہے.مثال کے طور پر دیکھو کہ اگر ایک لڑکا ابتدائی قاعدہ شروع کرتے وقت اگر الف کو الف نہ مانے اور استاد سے کہے کہ تم اسے الف کیوں کہتے ہو؟ کچھ اور نام لوتو کیا وہ کچھ ترقی کر سکتا ہے.ہرگز نہیں.بہر حال اُسے ماننا پڑے گا کہ جو کچھ استاد کہتا ہے وہ ٹھیک ہے تو ہی ترقی کرے گا.پھر جس قدر علوم ریاضی ، اقلیدس، الجبرا اور جغرافیہ طبعی وغیرہ ہیں ان میں جب تک اوّل اول کچھ باتیں فرضی طور پر نہ مان لی جاویں تو آگے انسان چل ہی نہیں سکتا.ابتدا میں جب وہ کچھ مان کر آگے چلتا ہے تو پھر بڑے بڑے علوم وفنونِ حقہ کا دروازہ اس پر گھل جاتا ہے.محکمہ پولیس جب کسی مقدمہ کا سراغ لگاتا ہے تو وہ بعض اوقات شریر لوگوں کی بات پر بھی اعتبار
حقائق الفرقان ۵۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کر لیتا ہے اور پھر ان فرضی باتوں کے ذریعے سے مقدمات کی اصل حقیقت کو پالیتا ہے.غرضیکہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر فرضی باتوں کو مان کر انسان بڑے بڑے علوم حاصل کر لیتا ہے.اسی طرح اگر دہر یہ طبع لوگ اللہ تعالیٰ کو فرضی مان کر ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق کام کریں تو دیکھ لیں کہ کیا کیا نتائج نکلتے ہیں اور وہ لوگ جن کو براہ راست مکالمہ الہیہ کا شرف حاصل نہیں ہے ان کے لئے اللہ تعالیٰ ابھی غیب میں ہی ہے اگر وہ بھی فرض کر کے اللہ تعالیٰ سے دعائیں شروع کر دیویں تو نتائج حسنہ پالیویں گے.ایمان بالغیب کی حقیقت کو حضرت احمد مرسل یزدانی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ ۳۳۶ میں اور اپنی دوسری مقدس تالیفات میں بھی دکھایا ہے وہاں دیکھ لیا جاوے کہ انسانی نجات کے واسطے کس قدر ضرورت ایمان بالغیب کی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر دنیا میں کوئی بھی ایسا عمل ہر گز نہیں ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان انعامات الہی کا مستحق ہو سکے کیونکہ جیسے انسان دور سے ایک دھواں دیکھ کر یہ گمان کرتا ہے کہ وہاں آگ ہو گی اور اس وقت اس کا ایک فتنی علم ہوتا ہے جب تک وہ اس دھوئیں کی طرف قدم بڑھا کر نہ چلے اور اس آگ میں ہاتھ ڈال کر نہ دیکھ لیوے تب تک یقینی علم کا مرتبہ نہیں حاصل کر سکتا.در اصل ایسی علمی حالت کا نام ایمان ہے.اسی طرح بعض قرائن مرتجہ سے اس کو ایک خطنی علم خدا کی ہستی کا پیدا ہوتا ہے وہ اس کے دل میں ایک جوش اس ہستی کا یقینی علم حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتا ہے جو کہ اس کی ترقیات کا موجب ہوتا ہے.ظنی امور سے یقینی امور کی طرف آنے کے لئے چونکہ انسان کو ضرور کچھ نہ کچھ محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کے دل میں ایک اضطراب ہوتا ہے اس لئے متقی کی دوسری صفت یہ فرمائی يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وہ نماز کو قائم کرتے ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳۰،۲۳ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۵) ایمان کیا ہے خداوند تعالیٰ نے فرمایا ہے إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ b يَرْتَابُوا وَ جَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللهِ أو لَبِكَ هُمُ الصُّدِقُونَ (الحجرات: ١٦) مومن تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں
۵۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان مال و جان سے کوشش کی.بے شک وہی بچے ہیں.اور فرما یا فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( النساء : ٢٦) تیرے رب کی قسم ہے کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک کہ تجھے حکم نہ بنائیں ان امور میں کہ جن میں ان کے مابین نزاع ہو اور پھر تیرے فیصلہ میں کسی قسم کی اپنے جی میں تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر تسلیم کر لیں.اور فرمایا اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ (النور: (۶۳) مومن تو وہی ہیں جو کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی ایسے اہم امر پر اس کے ساتھ ہوں جولوگوں کو جمع کرتا ہے تو اذن لینے کے سوا نہیں جاتے.اور فرمایا إِنَّمَا يُؤْ مِن بایتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِرُوا بِهَا خَرُوا سُجَّدًا وَ سَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ - تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ - (السجدة : ۱۶، ۱۷ ہماری آیتوں پر تو وہی ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کو ان کے ساتھ نصیحت (یا یاد دہانی ) کی جاتی ہے توسجدہ میں گر پڑتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کرتے ہوئے تسبیح کہتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے ان کے پہلو بستروں سے جُدا رہتے ہیں اور خوف و امید سے اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں.اور فرمایا.وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُةٌ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ (الاحزاب: ۳۷) کسی مومن مرد اور مومن عورت کو اختیار نہیں جبکہ اللہ اور رسول کسی امر میں فیصلہ کر دیں.اور فرمایا - إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُم بَيْنَهُم أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ( النور : (۵۲) مومن لوگ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف فیصلہ کے لئے ملائے جاتے ہیں تو اُن کا یہی قول ہوتا ہے کہ ہم نے سنا.قبول کیا اور اطاعت کی.اور فرمایا آمِنُوا بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ الْكِتَبِ الَّذِى نَزِّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَ الْكِتَبِ الَّذِي أَنْزَلَ مِنْ قبل ( النساء: ۱۳۷) اللہ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو کہ اللہ نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور اس کتاب پر جو کہ اس سے پہلے اُتاری ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا
حقائق الفرقان ۵۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الرَّسُولَ وَأُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (النساء: ۶۰) اے ایمان والو! اللہ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو اور اپنے میں سے حکومت والوں کی اور اگر کسی شئے میں تمہارا تنازع ہو جائے تو اس کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو.اگر تم اللہ اور آخر آنے والے دن ( یا وقت ) پر ایمان رکھتے ہو.اور فرمایا.لا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ (المجادلة: ۲۳) تم کوئی لوگ نہ پاؤ گے جو کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہوں اور پھر ان سے محبت اور دوستی رکھتے ہوں جو کہ اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں.اور فرمایا.وَ لَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالنَّبِي وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاء (المائدة : ۸۲) اور اگر اللہ اور آخری دن پر اور اس پر جو اللہ نے اتارا ہے ایمان رکھتے تو پھر ان سے کبھی دوستی نہ لگاتے.اور فرمایا.وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ أَوَوا وَ نَصَرُوا أُولَبِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا (الانفال: ۷۵) اور جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں انہوں نے مجاہدہ کیا اور جگہ دی اور مدد کی.وہی پکے مومن ہیں.اور فرما یا.إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ (الحجرات : ۱۱) مومن تو بھائی ہی ہیں نہ اور کچھ.اور فرمایا.وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرَّبُوا إِنْ كُنْتُم مؤْمِنينَ (البقرة: (۲۷۹) اور چھوڑ دو جو سود باقی رہا ہے اگر تم مومن ہو.اور فرمایا.وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ انْتُمُ الْأَعْلَونَ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (ال عمران : ۱۴۰) اور نہ سست ہو اور نہ غم ناک ہو اور تم ہی ٹھیک ٹھیک غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو.اور فرمایا.وَ الَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ (البقرة: ۱۶۲) اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اللہ سے سخت محبت رکھنے والے ہوتے ہیں.اور.يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ (التوبة: (۱۱) اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اللہ کی فرمایا..راہ پر جنگ کرتے ہیں.اور فرمایا.فَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَ هُمْ وَ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ۖ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ (الاعراف: ۸۲) اور پیمانہ اور تر از وکو پورا کرو (پورا ما پوراور پورا تو لو ) اور لوگوں کی چیزوں میں نقصان مت ڈالو اور زمین میں
۶۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان اصلاح کے بعد فسادمت ڈالو.یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم مومن ہو.اور فرمایا.فَاتَّقُوا اللهَ وَ أَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنَكُمْ وَاَطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ - إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ أَيْتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَ عَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ (الانفال: ۲ تا ۴) پس اللہ سے ڈرو اور اپنے درمیانی تعلقات کی اصلاح کرو اور اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو.مومن تو وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر ہوتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان کو اس کی آیتیں سنائی جاتی ہیں تو وہ اُن کے ایمان کو بڑھاتی ہیں اور وہ اپنے رب پر ہی سہارا رکھتے ہیں اور جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے سے کچھ خرچ کرتے ہیں.اور فرمایا.فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ (البقرة : (۲۷) لیکن جو لوگ ایمان لاتے ہیں پس وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے.اور حدیثوں کے لحاظ سے ایمان کی تعریف یہ ہے حدیث میں آیا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آنحضرت سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں اور آخری دن پر ایمان لائے.اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آخرت میں اُٹھائے جانے پر اور اس پر ایمان لاؤ کہ اچھائی اور برائی کا اندازہ اللہ کی طرف سے ہے تو جبرائیل نے کہا صَدَقْتَ (آپ نے سچ فرمایا ) یہ حدیث بخاری، مسلم، ابن ماجہ میں ہے.اور فرمایا ہے تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اپنے والد اور اولا داور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں.یہ حدیث بخاری میں ہے اور ابن خزیمہ میں اس پر زیادہ یہ بھی آیا ہے کہ اپنے اہل وعیال اور مال سے.اور بخاری میں ایک اور حدیث میں فرمایا ہے تم سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے وہ پسند نہ کرے جو کہ وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.اور شعب الایمان میں ایک حدیث میں فرمایا ہے اُس شخص کا ایمان نہیں جس کے لئے امانت نہیں.اور حضرت عبد اللہ بن عباس نے
حقائق الفرقان ۶۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عبد القیس کے قافلہ کے قصہ میں روایت کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ ایمان اس امر کی شہادت ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمد اللہ کے رسول ہیں اور صلوۃ کا قائم کرنا اور زکوۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنے اور مسجد حرام کا حج کرنا ہے.امام احمد اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں اس حدیث کو روایت کیا ہے اور نسائی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ مومن وہ ہے کہ جس کو لوگ اپنے مال و جان پر امین سمجھیں اور امام احمد اور عبدالرزاق نے روایت کیا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو زنا کرنے کے وقت ہرگز مومن نہیں ہوتا اور نہ چور چوری کرنے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ شرابی شراب پینے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ کوئی اُچکا کسی ذی قدر شئے کے اُچک کر لے جانے کے وقت مومن ہوتا ہے جب لوگ نظریں اُٹھا کر اس کو دیکھتے ہوتے ہیں اور وہ پھر بھی اُچک لے جاتا ہے اور نہ خائن خیانت کے وقت مومن ہوتا ہے تم اس سے بچو.اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ان سے ایمان نکل کر سایہ بان کی طرح ان کے اُو پر ہوتا ہے.تو جب وہ اس عمل کو قطع کر دیتا ہے تو اللہ اس کی طرف ایمان کو لوٹا دیتا ہے اور صحیح مسلم میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا کہ ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں.سب سے ردنی راستہ سے موذی چیز کا دُور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے اور جب آنحضرت سے یہ سوال ہوا ہے کہ کونسا ایمان افضل ہے تو آپ نے یہ جواب دیا ہے کہ اخلاق حسنہ.اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے.اور امام احمد کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ تو محبت بھی اللہ ہی کے لئے کرے اور عداوت بھی محض اللہ ہی کے لئے کرے اور اپنی زبان کو اللہ کے ذکر میں لگائے اور فرمایا ہے کہ جو شخص محض اللہ ہی کے لئے دیتا ہے اور اللہ ہی کے لئے روکتا ہے تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا ہوتا ہے.اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور بخاری میں ہے کہ ایمان کا نشان انصار کی محبت ہے اور مسلم میں ہے کہ حضرت علیؓ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن ہی پیار کرے گا نہ اور.اور ابوسلیمان دارانی سے مروی ہے کہ آنحضرت نے قافلہ کو فرمایا تھا کہ تمہارے ایمان کا کیا نشان ہے؟ تو انہوں نے عرض کی کہ آپ کے بھیجے ہوؤں نے ہم کو پانچ چیزوں کا حکم دیا ہے کہ ہم شہادت دیں کہ اللہ کے
حقائق الفرقان ۶۲ سُورَةُ الْبَقَرَة سوا اور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور صلوٰۃ کو قائم کریں اور زکوۃ دیں اور رمضان کے روزے رکھیں اور خانہ کعبہ کا حج کریں اور ان پر عمل کریں اور پانچ اشیاء کا حکم دیا ہے انہوں نے کہ ہم ان پر ایمان لائیں.اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور بعد الموت اُٹھائے جانے پر.اور پانچ چیزوں کو ہم نے جاہلیت اور اسلام میں اپنا خُلق بنایا ہے اور وہ یہ ہیں کہ مصیبت کے وقت صبر کرنا اور آرام و آسائش کے وقت شکر کرنا اور قضاء وقدر کی رفتار پر راضی رہنا.اور دشمنوں کی ملاقات کے مقاموں پر صدق دکھانا اور دشمنوں پر شماتت نہ کرنا اور اس سے زیادہ آنحضرت نے اُن کو یہ فرمایا کہ وہ جمع نہ کرو جو تم نہ کھاؤ اور نہ وہ بناؤ کہ جن میں نہ رہو اور نہ ان اشیاء کی رغبت یا ان میں ترقی کرو کہ جن کو تم چھوڑ جانے والے ہو.اور اس اللہ تعالیٰ سے ڈرو کہ جس کے طرف تمہارا رجوع ہو گا اور جس پر تم پیش کئے جاؤ گے اور اس کی خواہش کرو کہ جس کی طرف تم جانے والے ہو اور جس میں تم رہو گے اور یہ ایمان کبیر میں مذکور ہیں.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۴.اکتوبر ۱۹۰۶ ء صفحہ ۱۳۹ تا ۱۴۴) ایمان لاتے ہیں اس حالت میں کہ وہ لوگوں سے غائب ہوتے ہیں جیسا فرمایا ہے وَخَشِيَ الرّحمن بِالْغَيْبِ (يس:۱۲) جو ڈرا الرحمن سے غائب ہونے کی حالت میں.اور فرمایا.يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ (الانبیاء : (۵۱) ڈرتے ہیں اپنے رب سے پوشیدہ ہونے کی حالت میں.پس اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کا قول قرآن مجید میں منقول ہے کہ لِيَعْلَمَ أَنِّی لَم اَخْنُهُ بِالْغَيْبِ (يوسف:۵۳) تا کہ وہ جان لے کہ غائبانہ حالت میں میں نے اس کی خیانت نہیں کی.تو ان معنوں کے رُو سے مطلب یہ ہوگا کہ متقی لوگ ان لوگوں کی مانند نہیں ہوتے کہ جن کے حق میں آیا ہے.اِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلى شَيْطِيْنِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ (البقرة : ۱۵) جب مومنوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کو اکیلے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں بلکہ جیسے وہ لوگوں کے سامنے ایمان لاتے ہیں ان اشیاء ( اللہ اور نبوت، رسالت، کتاب اللہ کے منجانب اللہ ہونے اور قیامت وغیرھا) پر جو کہ لا
حقائق الفرقان ۶۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لوگوں سے غائب ہیں.پس بالغیب یہاں پر ایسا ہے جیسا کہ ہاللہ امَنَّا بِاللہ میں ہے.اور دلائل بیہقی میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا أَلا إِنَّ انجب الْخَلْقِ إِلَى إِيْمَانًا قَوْمٌ يَكُونُونَ بَعْدَ كُمْ يَجِدُونَ صُحُفًا فِيهَا كُتُبْ يُؤْمِنُونَ بِمَا فِيهِ.ہاں ! سب مخلوق سے مجھے زیادہ پسند ان لوگوں کا ایمان ہے جو کہ تم سے پیچھے آئیں گے تو کچھ صحیفے پائیں گے کہ جن میں کتا بیں ہوں گی اور وہ ان پر ایمان لائیں گے.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۴.اکتوبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۵۰) صلوۃ کی اقامت سے یہ مراد ہے کہ سجود، رکوع ، تلاوت کو پورا کیا جائے اور خشوع اور حضور کے ساتھ پڑھی جائے اور خوب توجہ رکھی جائے.تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس نے یہی معنے بیان فرمائے ہیں.اقامت چیز کے ادا کرنے کو بھی کہتے ہیں.پس ان معنوں کے لحاظ سے یہ مقصد ہو گا کہ صلوۃ کا حق ادا کر تے یا یوں کہنا چاہیے کہ اس کو کما حقہا ادا کرتے ہیں اور امام راغب نے لکھا ہے کہ یہ لکڑی کی اقامت سے ہے جو کہ سیدھا کرنے کے معنوں میں ہے یا بمعنے مداومت یا بمعنے محافظت ہے.پس معنے یہ ہوں گے کہ صلوٰۃ کو سیدھا کرتے ہیں یا اس پر مداومت کرتے ہیں یا اس کی محافظت کرتے ہیں جیسا قرآن مجید میں آیا هُمْ عَلى صَلَاتِهِمْ دَابِرُونَ (المعارج:۲۴) وہ اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں.هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المؤمنون: ١٠) وہ اپنی نمازوں پر حفاظت کرتے ہیں.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۵.نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۶۹) يُقِيمُونَ الصَّلوةَ.وہ نماز کو قائم کرتے ہیں یقیمُونَ قائم کرتے ہیں یعنی کھڑی کرتے ہیں.اس لفظ کے استعمال میں یہ لطیفہ ہے کہ چونکہ ابتدائی منازل میں مومن کی نفسِ اتارہ سے جنگ ہوتی ہے نفس اس کو بار بار دُنیا اور اس کے لذات اور افکار کی طرف کھینچتا ہے اور ادھر یقینی امر کے تحصیل کے واسطے اس کے دل میں امنگ ہوتی ہے.ایسے موقع پر متقی کو ایک جنگ کرنا پڑتا ہے اس لئے فرمایا کہ بوجہ وساوس کے متقی کی نماز بار بار گرتی ہے مگر وہ ہر آن اسے پھر قائم کرتا ہے.یہ ایک ایسی حالت ہے جسے پڑھنے والے خوب مشاہدہ کرتے ہوں گے یا کر چکے ہوں گے
حقائق الفرقان زیادہ تفصیل کی کیا ضرورت ہے.۶۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الصَّلوةَ.وہ خاص نماز جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھ کر دکھلائی.صلوۃ کا لفظ صلی سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کسی لکڑی کو گرم کر کے سیدھا کرنا.اور چونکہ نماز سے بھی انسان کی تمام کبھی نکل کر وہ سیدھا ہو جاتا ہے اس لئے نماز کو صلوٰۃ کہتے ہیں.وہ کجیاں کیا ہیں؟ محش اور غیر پسندیدہ امور کی طرف انسان کا میلان.ان سے یہ نماز روکتی ہے جیسے فرما یا إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ (العنكبوت: ٤٦).انسان کی نجات کا مدار ایمان کے بعد دو باتوں پر ہے ایک تعظیم لأمر الله.دوسرے شفقت على خَلْقِ الله.پہلی بات تعظیم لامر اللہ کے لئے صلوۃ ہے کہ انسان دنیاوی حکام کی ملا زمت میں مشغول ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی کا خطرہ ہوتا ہے اور نماز کا وقت آتا ہے تو ان سب حاکموں کو چھوڑ کر وہ احکم الحاکمین کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے اور جس الغیب ہستی پر وہ ایمان لا یا تھا پانچ دفعہ دن میں اس ایمان کی عملی شہادت اپنے اعضاء سے دیتا ہے اسی طرح تاجرا اپنی تجارت اور ہر پیشہ ور اپنے پیشے میں جب نماز کے اوقات کی پابندی كَمَا حَقُہ کرتا ہے تو یہ اس کے مومن ہونے کی دلیل ہوتی ہے اور یہ ثبوت ہوتا ہے اس امر کا کہ اس نے اپنا معبود، اپنا حاکم اور اپنا رازق اللہ تعالیٰ ہی کو مانا ہوا ہے اور اپنی تجارت یا پیشہ کو اس کا شریک نہیں بنایا ہے.صلوۃ کے معنے دعائے رحمت کے بھی ہیں اور اختصاراً یہاں تمام حقوق الہی پر شامل ہے اس لحاظ سے يُقِيمُونَ الصَّلوةَ کے یہ معنے بھی ہوئے کہ وہ تمام حقوق الہی کو قائم کرتے ہیں.(البدر جلد ۲ نمبر ۱ ، ۲ مورخه ۳۰،۲۳ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۶،۵) قرآن مجید کی اصل غرض اور غایت تقویٰ کی تعلیم دینا ہے.اتقاء تین قسم کا ہوتا ہے پہلی قسم انتقاء کی علمی رنگ رکھتی ہے یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے اس کو يُؤْمِنُونَ بِالْغَیب کے الفاظ میں ادا کیا.دوسری قسم عملی رنگ رکھتی ہے جیسا کہ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ میں فرمایا ہے.انسان کی وہ لے کچھ شک نہیں کہ نماز روکتی ہے کھلی بے حیائی اور کار بد سے (یہود اور نصاری بننے سے).(ناشر)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے يَقْرَؤُن نہیں فرمایا بلکہ يُقيمون فرمایا یعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا.ہر ایک چیز کی ایک علت غائی ہوتی ہے اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہو جاتی ہے.یقیمُونَ الصَّلوة سے لوازم الصلوۃ معراج ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق شروع ہوتا ہے مکاشفات اور رؤیا صالحہ آتے ہیں.لوگوں سے انقطاع ہو جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پید اہونے لگتا ہے یہاں تک کہ تبتل تام ہو کر خدا سے کامل تعلق پیدا کر لیتا ہے.الحکم جلد ۱۴ نمبر ۱۰ مورخه ۲۱ / مارچ ۱۹۱۰ء صفحه ۳) صلوة اس تعظیم اور عبادت کا نام ہے جو زبان ، دل اور اعضاء کے اتفاق سے ادا کی جاوے کیونکہ ایک منافق کی نماز جو کہ ریاء اور دکھلاوے کی غرض سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے.نماز بھی ایک تعظیم ہے جس کا تعلق بدن سے ہے.بدن کا بڑا حصہ دل اور دماغ ہیں.چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے تو جہ الی اللہ کرنے میں اور ظاہری اعضاء ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم کے ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم ہے اس لئے بدنی عبادت کا نام صلوۃ ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۴ مورخه ۶ را پریل ۱۹۰۸ء صفحه ۳) يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ.وہ اپنی نمازوں، دعاؤں کو سنوار سے ادا کرتے ہیں اور پھر جو کچھ ہم نے دیا.اس سے خرچ بھی کرتے رہتے ہیں.بہت دنوں سے یہ بات میرے دل میں قائدہ کی طرح جم گئی ہے کہ جو کبھی کچھ بھی خدا کی راہ میں نہیں دیتا.نہ دعا مانگتا ہے وہ ہدایت سے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۱۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳) محروم رہ جاتا ہے.اسلامی نماز اسلامی دوسری اصل نماز ہے.نماز کیا ہے؟ خدا سے دلی نیاز ، اور یہ عبادت تمام مذاہب میں اصل عبادت ہے.اور کچھ شک نہیں دلی جوشوں کا اثر ظاہری حرکات اور سکنات پر ضرور پڑتا ہے اور ظاہر
حقائق الفرقان ۶۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حرکات وسکنات کی تاثیر قلب پر ضرور پہنچتی ہے.باری تعالیٰ ہی کے دست قدرت میں محبوس رہنے کا ثبوت اور اس کی بارگاہ میں بکمال ادب حاضر ہونے کا بیان اگر ہمارے اعضاء کر سکتے ہیں تو نماز کا قیام اور نماز میں ہاتھ باندھنا بے شک عمدہ نشان ہیں.دلی عجز وانکسار، غایت درجے کا تذلل اگر کوئی ظاہری نشان رکھتا ہے تو حالت رکوع وسجدہ ہر گز کم نہیں.اسلامی نماز میں جو کلمات ہیں ان میں صرف باری تعالیٰ کا معبود ہونا اور اس کی رحمتِ عامہ اور خاصہ اور سزا اور جزا کا بیان ہے پھر اسی مالک کی عبودیت کا اقرار اور اسی کی امداد کا اعتراف ہے پھر نمازی اپنے اور تمام لوگوں کے لئے راہ راست پر چلنے کی دعا مانگتا ہے اور بارگاہ حق میں عرض کرتا ہے مجھے ایسے لوگوں کی راہ دکھا جن پر تیرا فضل ہے اور اُن بڑوں کی راہ سے بچا جن پر الہی تیرا غضب ہے یا جو لوگ راہ سے بہک گئے.پھر کچھ الہی تعریف کے الفاظ ہیں پھر تمام نیک لوگوں کے لئے دعا ہے پھر واعظ تو حید ابراہیم راست باز پر ( جو تمام بنی اسرائیل اور بنی اسمعیل کے مورث اعلیٰ ہیں اور جن کی اولاد میں محمد صاحب بھی ہیں ) اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا ہے کیونکہ ان کے مساعی جمیلہ سے شرک کا بڑا استیصال ہوا اور توحید نے عروج پایا.پھر اپنے لئے دعا ہے.انسان کا خاصہ ہے اس کے دل پر کسی واعظ کی نصیحت کا اثر ایک ہی بار کچھ نہیں پڑتا.انسان کے دل کا زنگ جو اسے محسوسات میں لگائے رکھنے سے پیدا ہو جاتا ہے ایک دفعہ کے تذکار سے دُور نہیں ہوتا.قانونِ قدرت میں محسوسات میں زنگ زدہ اشیاء ایک دفعہ کے مصقلہ پھیرنے سے روشن اور چمک دار نہیں ہوتیں.سورۃ فاتحہ بھی بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے زنگ کا مصقلہ تھی اسی واسطے ایک نماز میں کئی بار پڑھی جاتی ہے.بتاؤ کون قوم ہے جو مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے کمال دلیری اور جوش سے اپنے معبود اور نہایت ہی بڑائی والے خدا کی عظمت اور اس کے معبود ہونے کی شہادت دے اور اپنے محسن ہادی کی رسالت پر شہادت دے.پانچ وقت مکر رالفاظ سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بڑی بلند آواز سے
حقائق الفرقان ۶۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة منارے پر چڑھ کر بلاوے اور اپنی عبادت کی خوبی بتلاوے اور پھر اپنی اس منادی کو خدا کی کمال تعظیم پر ختم کرے؟ سوچو! یہی معنی کلمات اذان کے ہیں.ہاں ! ہادی اسلام نے قوم کو گھنٹوں، سیپوں، ناقوسوں ، سارنگیوں، بربطوں سے قوم کو معافی بخشی بلکہ یوں کہیے بچالیا.یہ اسلامی ہی مذہب کی خصوصیت ہے کہ اپنی ہر ایک کتاب کی ابتدا میں اپنے خالق کی ستائش کریں.اپنے محسن کی تعریف کریں.اس کے لئے دعا مانگیں.لکچروں کی ابتدا میں یہی حال ہے ( لکچر کا ترجمہ خطبہ ہے) بلکہ لیکچر کی خوبی بھی اسلامیوں پر ختم ہے کھڑے ہو کر لکچر دینا تو ان کی ہر نماز جمعہ میں دیکھ لوگر غور کے قابل یہ ہے کہ عین لیکچر میں جہاں اور قوموں کو تالی بجانے کا موقع ملتا ہے وہاں اسلام میں اللہ اکبر اور سبحان اللہ موزوں ہے.فصل الخطاب المقدمة اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۳۲ تا ۳۴) دُنیا کے مذاہب پر غور کرنے اور قریباً گل اقوامِ عالم کو ایک ہی بڑے مرکز اور مرجع کی طرف بالاشتراک رجوع ہو ہو دیکھنے اور قانونِ قدرت کے معجز بے نقص کتاب کے مطالعہ کرنے سے فطرت سلیم، قوتِ ایمانی، نور فراست کے اتفاق سے فورا شہادت دے اُٹھتی ہے کہ ایک ہمارا خالق زمین و آسمان ہے جس کی قدرت کا ملہ کل عالم پر محیط اور تمام اشیاء میں جاری وساری ہے.غرض ایک ہمہ قدرت ، فوق الگل وجود کا خیال یا اعتقاد قریباً گل اقوام دنیا میں پایا جاتا ہے.یہ فطرت کا اشتراک اور قوائے باطنیہ کی اضطراری توجہ ایک اعلیٰ ہستی کی جانب وجودِ باری کی عجیب دل نشین دلیل ہے.اب عالم اسباب یا اسباب عالم پر جب انسان نظر کرتا ہے تو خوب سمجھتا ہے کہ عالم کون وفساد کے انقلابات میں وہ ہمیشہ مجبور و معذور ہے اور یہ کہ تمام اختیارات کے مواد اور مقدورات کے اسباب اس کی قدرت سے باہر ہیں.مثلاً جب دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے قوائے طبعی سورج، چاند، ستارے، ہوا، بادل وغیرہ میرے بے مزد خدمت گار ہیں بلکہ جب وہ اپنے اسباب قریبہ یعنی جسم ہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے مناسب آلات اور موافق ادوات اس کو ملے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مفقود ہو جائے تو جبر کسر کے لئے اس کا یا اس کے مثل بے نقص جزو کا موجود کرنا اس کے امکان سے خارج ہے.
حقائق الفرقان ۶۸ سُورَةُ الْبَقَرَة پس یہ تصورات انسان کے دل میں ضرور سخت جوش اور عجیب جذبات پیدا کرتے ہیں اور دلی نیاز بڑی شکر گزاری کے ساتھ مل کر اس کو اس منعم ومحسن کی ستائش ومحمد کی طرف مائل کرتا ہے اور جس قدر زیادہ اس کو اپنی احتیاج و افتقار کا علم اور فوق القدرت سامانوں کے بہ آسانی بہم پہنچ جانے کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا دل اس منعم کے احسانات کی شکر گزاری سے بھر جاتا ہے.یہی دلی نیاز اور قلبی شکر گزاری جو سچی محبت اور باطنی اخلاص سے ناشی ہوتی ہے اور یہی جوش و خروش جو انسان کے دل میں ہوتا ہے واقعی اور اصلی نماز ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ ہمارے ظاہری اقوال و افعال، حرکات وسکنات کا اثر ہمارے لب پر پڑتا ہے یا یوں کہو کہ جو کچھ ہمارے باطن میں مرکوز ہے حرکاتِ ظاہری ہی اس کی آئینہ دار ہیں.بہت صاف بات ہے کہ اچھا بیج اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.مشاہدہ گواہ ہے کہ جس وقت ہم کسی بچے دوست یا کسی بڑے محسن کو دیکھتے ہیں جس کی مہربانیاں اور عطایات ہمارے شامل حال ہیں تو بے اختیار بشاشت اور طلاقت کے آثار ہمارے چہرے پر آشکار ہوتے ہیں اور اگر کسی مخالف طبع مکر وہ شکل کو دیکھ پاویں تو فی الفور کشیدگی اور انز جار کا نشان پیشانی پر نمودار ہو جاتا ہے.غرض اس سے انکار کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ تمام واردات اور عوارض مثلاً انبساط، انقباض، یاس، رجا، فرحت، غم ،محبت ، اور عداوت اعضائے ظاہری کو باطنی سمیت یکساں متغیر و متأثر کر دیتے ہیں.پس اب سوچنا چاہیے کہ جب اس خالق، مالک، رزاق، منعم کا تصور انسان کے قلب میں گزرے گا اور اس کے عطایات اور نعمتوں کی تصدیق سے اس کا دل و جان معمور ہو جائے گا تو یہ دلی جوش اور اضطراری ولولہ اس کو ساکن، غیر متحرک چھوڑ دے گا ؟ نہیں نہیں.ضرور طوعاً و کرہاً اعضائے ظاہری سے ٹپک پڑے گا.جڑ کو صدمہ پہنچے اور شاخوں کو حس تک نہ ہو غیر معقول بات ہے.غیر مہذب اقوام کے مذہبی رسوم کے آزاد دل سے تحقیقات کرو تو عجیب و دلکش اصول کا مجموعہ تمہیں ملے گا کہ اس اُو پر دیکھنے والی ہستی نے قوائے روحانی کی ابتدائی شگفتگی کے زمانے میں جس کو زمانہ حال کے مہذبین زمانہ جہالت و تاریکی بولتے ہیں.رکن رکن صورتوں اور رنگوں میں
حقائق الفرقان ۶۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس فیاض مطلق کی حمد و سپاس کے قلبی زبر دست اثر کوظاہر کیا ہے.خارجی بد آثاری اور عوارض کو چھوڑ دو.اصلی بے رنگ و بے لوث فطرت پر غور کرو تو تمہیں دُنیا کی قوموں میں رنگارنگ حرکات دکھائی دیں گے جو بائیں ہمہ رنگارنگی کیسے اس بے رنگ کا معبود و مسجود ہونا ثابت کر رہے ہیں! اس بیان سے صرف اس قدر مقصود ہے کہ ہر قوم کے نزدیک کوئی نہ کوئی طریق معبود حقیقی کی یاد کا ضرور ہے جس کو وہ لوگ اپنی نجات کی دستاویز سمجھتے ہیں اور یہ کہ عقائد باطنی کے حسن و قبح کی تصویر اعضاء وجوارح کے آئینے میں دیکھی جاسکتی ہے.ہر قوم میں جوش قلبی کی تحریک اور اس کی آگ بھڑ کانے کے لئے کئی ایک ظاہری اعمال کا التزام پایا جاتا ہے مثلاً بدن کو پانی سے طاہر کرنا، کپڑا صاف رکھنا، مکان لطیف و نظیف رکھنا.ظاہری صفائی اور حسبِ فطرت اصلاح بدن سے بے شک اخلاق پر قومی اثر پڑتا ہے.نجاست، گندگی، ناپاکی ، چرک، غچلا پن سے کبھی وہ علو ہمت ، بلند حوصلگی، پاکیزگی اخلاق پیدا نہیں ہوسکتی جو واجبی صفائی اور طہارت کا لازمی نتیجہ ہے.بدیہی بات ہے کہ ہاتھ منہ دھونے وغیرہ افعال جوارح سے حتماً ایک قسم کی بشاشت اور تازگی عقلی قولی میں پیدا ہوتی ہے.علی الصباح بستر غفلت سے اُٹھ کر بدنی طہارت کی طرف متوجہ ہونا تمام مہذ بین بلاد میں ایک عام لازمی عادت ہے.صاف عیاں ہوتا ہے کہ تقاضائے فطرت سے اس کے زور و اجبار سے یہ دائمی عادات پیدا ہوئے ہیں اور طبیعت اعضاء و جوارح سے جبراً اس خدمت کا لینا پسند کرتی ہے.پس اگر ایسی عبادت میں جس میں روحانی جوشوں اور اصلی باطنی طہارت کا اظہار مقصود ہو ایسی طہارت ظاہری کو لازمی اور لا بدی کر دیا جاوے تو کس قدر اس شوق و ذوق کو تائید ہوگی.صاف واضح ہے کہ جہاں فانی طہارت اور ظاہری صفائی کا حکم ہو گا وہاں باطنی طہارت اور باطنی صفائی کی کتنی اور زیادہ تاکید ہوگی.غرض اِس میں شک نہیں کہ صفائی ظاہر کی طرف طبعا ہر قوم متوجہ ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ نہایت بد بخت سیاه دروں ہیں جو صرف جسمانی صفائی اور ظاہری زیب وزینت کی فکر میں لگے رہتے ہیں.یقینا بہت سے انہیں ظاہری رسوم کی پابندی اور انہیں فانی قیود میں ایسے الجھے ہیں کہ
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة قساوت قلبی اور بداخلاقی کے سوا کوئی نتیجہ ان کے اعمال و افعال پر مترتب نہیں ہوا.اس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ انہوں نے ظاہر ہی کو مقصود بالذات اور قبلہ ہمت ٹھہرا لیا.یا ان کے پاس کوئی روحانی شریعت نہ تھی جو مجاز سے حقیقت کی طرف ان کو لے جاتی مگر اس سے نفس فعل طہارت قبیح یا مستوجب ملامت نہیں ٹھہرتا.اس عملی افراط و تفریط کے اور ہی موجبات اور بواعث ہیں.ہمیں اس وقت اور قوموں کے رسوم سے تعرض کی ضرورت نہیں اس وقت ہم اسلامی طہارت ( وضو ) کو پیش نظر رکھتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ غیر قوموں نے اسلامی اعمال پر انصاف سے غور نہیں کیا.انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمانوں نے ، ہاں محمد رسول اللہ صلعم کی سنت پر چلنے والوں نے ہرگز ظاہری طہارت میں خوش نہیں کیا.وہ اسی کو مقصود بالذات نہیں سمجھتے کیونکہ ایک پیچھے آنے والے جلیل الشان حقیقی فعل نماز کا یہ عمل مقدمہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل تو صرف نشان یا دلیل دوسرے امر کی ہے.وضو میں مسلمانوں کو جو دعا پڑھنے کی نصیحت کی گئی ہے یقینا معترض کو راہ حق پر آنے کی ہدایت کرتی ہے.سنواورغور کرو! وَهُوَ هذَا: اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ سُفْنَكَ اللَّهُمْ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا أَنْتَ اسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ غسل جنابت میں بھی یہی دعا مانگی جاتی ہے اور بعد اس دعا کے یہ فقرہ کہا جاتا ہے اب غسل پورا ہوا“.یعنی ظاہر باطن سے مل کر پورا ہوا.یا د رکھنا چاہیے کہ عذر اور ضرورت کے وقت یہ طہارت ساقط ہو جاتی ہے.یہ کافی دلیل اس امر کی ہے کہ عمل بھی صرف مقصود بالعرض ہے.مثلاً پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو لے اے اللہ! مجھے اپنی طرف خالص رجوع کرنے والوں سے بنا اور مجھے پاک رہنے والوں کی جماعت میں شامل کر.اے اللہ ! تو قدوس ہے تیری حمد ہی میں دل سے شہادت دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اور تیری طرف رجوع لاتا ہوں.۱۲
حقائق الفرقان اے سُوْرَةُ الْبَقَرَة دونوں حالتوں میں اس آسان شریعت نے تمیم کر لینے کا حکم دیا ہے جس سے مقصود اتنا ہے کہ اعضائے ظاہری کا جرس بجا کر قوائے باطنی کے غافل قافلے کو بیدار اور برسر کا ر کیا جائے.یہ ناپاکی اور پاکی ( طہارت ) کا لفظ اور اس کا مفہوم اسلام میں ایسا نہیں برتا گیا جیسا وسوسہ ناک طبائع اور وہمی مزاجوں کے درمیان معمول ہوا ہے کہ انسان کی ذات میں کوئی ایسی نجاست نفوذ کر گئی ہے جس نے اس کو گھنو نا اور لوگوں کے پرہیز و اجتناب کا محل بنا دیا ہے اور جس کا ازالہ سوائے اس ظاہری طہارت کے ہو نہیں سکتا.میں سچ سچ تمہیں بتا تا ہوں کہ اسلام ان تو ہمات سے بالکل پاک ہے.احبار ۱۵ باب ۸ اور ۱۸ باب ۱۵ میں ہے کہ ” جریان والا کپڑے دھودے اور غسل کرے.شام تک نا پاک ہے اور جس پر وہ سوار ہو اور جو کوئی اس کی سواری کو چھوئے وہ بھی ناپاک.“ اور خروج ۱۹ باب ۱۰’ اور خدا نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا اور انہیں پاک کر اور ان کے کپڑے دھلوا اور تیسرے دن تیار رہیں کہ خداوند تیسرے دن لوگوں کی نظر میں کوہ سینا پر اتر آئے گا.“اسلامی شریعت کے احکام سے انہیں مقابلہ کر لو صاف کھل جائے گا.اسلامی شریعت نے روحانیت کی کیسی توجہ دلائی ہے.ذرا رنگ یا پانی چھڑکنا اور چلو بھر میں کفارے والی بادشاہت میں داخل ہونے کی شرط قرار دی گئی ہے اس پر رسوم ظاہری سے انکار! قرآن سنیں.اس کے مقابل میں کیا فرماتا ہے:.ج صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً - (البقرة : ١٣٩) یہی اعتقاد قدیم سے مسلمانوں میں چلا آیا ہے کہ طہارتِ باطنی ہی راساً مطلوب ہے چنانچہ اسلام کے قدیم فلاسفر امام غزالی نے ان لوگوں کی نسبت جو صرف ظاہری طہارت پر مرتے ہیں اور جن کے قلوب کبر وریا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلعم فرما یا کرتے تھے کہ سب سے اہم اور اعظم طہارت پاک کرنا دل کا ہے تمام بری خواہشوں اور بیہودہ رغبتوں سے اور دفع کرنا ہے نفس سے تمام مکروہ و مذموم خیالات کو اور ان تصورات کو جو انسان کے دل کو خدا کی یاد سے باز رکھتے ہیں.لے رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ اللہ سے بہتر ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۷۲ سُورَةُ الْبَقَرَة جب ہم نے اتنا ثابت کر دیا کہ قلبی حالت اعضاء و جوارح کو حرکت دیئے بغیر رہ نہیں سکتی اور یہ کہ ظاہر و باطن میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے تو گویا نفس ارکانِ نماز سے کچھ بحث نہیں کیونکہ جذبات قلب اور اس کی واردات کا ظہور اور کیفیت روحانی کے عروض کا ثبوت اعضاء و جوارح کی زبانِ حال ہی سے مل سکتا ہے البتہ گفتگو اس امر میں رہ جاتی ہے کہ آیا یہ ہیئت مقتضائے فطرتِ انسانی سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں یا اس سے بڑھ کر اور پسندیدہ صورت و ترکیب فلاں قانون اور فلاں مذہب میں رائج ہے یا اب نئی صورت وہم و تصور میں آسکتی ہے.میں بڑی جرأت اور قومی ایمان سے کہتا ہوں کہ اس کی مثال یا اس سے بڑھ کر مقبول و مطبوع صورت نہ تو کسی مذہب میں رائج ہے اور نہ اور بی عقل میں آسکتی ہے.یہ جامع مانع طریق ان تمام عمدہ اصولوں اور مسلّمہ خوبیوں کو حاوی ہے جو دنیا کے اور مذاہب میں فرداً فرداً موجود ہیں اور تمام ان نیازمندی کے آداب کو شامل ہے جو ذو الجلال معبود کے عرشِ عظیم کے سامنے قوائے انسانی میں پیدا ہونے ممکن ہیں.وہ خاص اوراد و کلمات جو اس مجموعی ترکیب کے اجزا.قومہ، رکوع، قعدہ ،سجود، جلسے وغیرہ میں زبان سے نہیں دل سے نکالے جاتے ہیں اس کی بے نظیری کے کافی ثبوت ہیں.انصاف سے سوچئے! کہ یہ ہیات قوائے قلبی پر کس قدر قوی اثر کرنے والی ہے.تعیین ارکان سے کون قوم انکار کر سکتی ہے.دعا میں سرنگا کرنا، سیدھا کھڑا ہونا، آنکھیں بند کرنا، آخر میں برکت دیتے وقت ایک ہاتھ لمبا کرنا اور ذرا انگلیوں کو نیچے کی طرف جھکانا اور کبھی کبھی خاص حالت میں گھٹنے ٹیکنا یا گھٹنے پر کہنی ٹکا کر اُس پر سر رکھ دینا.یہ سب امور بتفاوت نصاری میں معمول ہیں.کوئی انہیں کہے ان ظاہری رسوم سے کیا نکلتا ہے عبادت دل سے تعلق رکھتی ہے اسی پر اکتفا کرنا چاہیے صاف بات کا وہ کیا جواب دیں گے؟ پس اسلامی صورت سے کیوں چڑتے ہیں؟ مجھے امید ہے کہ نصاری نفس وجود ارکان سے تو کچھ تعرض نہ کریں گے کیونکہ اس طبعی حالت میں وہ اضطرارا اہل اسلام کے ساتھ شریک کر دیئے گئے ہیں.بایں معنی کہ وہ بھی دعا یا نماز میں کسی نہ کسی صورت ورکن کا ہونا تو ضرور تسلیم کرتے ہیں.اگر زبان سے اور مذہبی مباحث کے وقت نہیں
حقائق الفرقان ۷۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عملاً تو ثابت کر رہے ہیں پس اب اصل وجود ارکان پر زیادہ قلم فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی.ہاں شاید مقابلہ بین الصور تین منظور ہو تو خدا پرست قلب کی اعانت سے غور کریں کہ اسلامی طریق میں کیسا جلال ، کمال تمکین اور وقار پایا جاتا ہے.اس بے رنگ، بے چوں ، واحد ، احد، لم یلد، لم ٹیولد کے حضور اقدس میں بے رنگ، بے تصویر مکان میں باوقار ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اللہ اکبر سے افتتاح کرنا اور سورۂ فاتحہ جیسی پر معنی دعا کا پڑھنا اور پھر فرطِ انکسار سے اللہ اکبر کی عظمت کا تصور کر کے پشت مستقیم کو جھکا کر سُبحان ربی العظیم پڑھنا اور پھر زمین پر منہ رکھ کر بال گرا کر سُبحان ربی الاعلیٰ کہنا کیا یہ کم اثر کرنے والے اعمال ہیں.کیا یہ فطرتِ انسانی کے موافق نہیں ہیں؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے شخص کو جو عبادت حق کو کسی صورت میں کیوں نہ ہو انسان کی عبودیت کا لازمی فرض جانتا ہے اسلامی صورت نماز سے انکار ہو.یہاں ایک اور لطیف بات سوچنے کے قابل ہے کہ اسلامی احکام دو قسم کے ہیں احکامِ اصلی اور تابع یا محافظ اصلی.مقصود بالذات احکام اصلی ہوتے ہیں اور احکام محافظ صرف احکام اصلی کی بقا اور حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں.نماز کے سب ارکان ظاہری احکام محافظ ہیں اور اس امر کا ثبوت اس وقت بخوبی ہوتا ہے جب یہ ارکان عذر کی حالت میں انسان کے ذمے سے ساقط ہو جاتے ہیں مثلاً نماز میں بحالت مرض على اختلاف الأحوال قومه، قعدہ، جلسہ وغیرہ سب معاف ہو جاتے ہیں مگر وہ اصلی حکم اور حقیقی فرض جو مقصود بالذات ہے یعنی قلبی خشوع و خضوع جب تک قالب عصری میں سانس کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہے کبھی بھی انسان کے ذمّے سے نہیں ملتی.یہی اور صرف یہی نماز ہے جسے اسلام نے لائق اعتبار اور مستحق ثواب کہا ہے.سنو! وَاذْكُرُ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُةِ وَالْأَصَالِ وَ لا تَكُن مِّنَ الْغُفِلِينَ - (الاعراف : ٢٠٦) لے اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو دل میں گڑ گڑانے اور ڈرنے اور پکارنے سے کم آواز بولنے میں صبح اور شام کے وقتوں اور مت رہ بے خبر.۱۲.
حقائق الفرقان ۷۴ سُورَةُ الْبَقَرَة أَتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَ اَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ b لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت: ۴۲) ان آیات سے نماز کی علت غائی خوب ظاہر ہوتی ہے کہ نماز منکرات اور فواحش سے محفوظ رہنے کے لئے فرض کی گئی ہے اگر نماز کی اقامت اور مداومت سے نمازی کے اقوال وافعال میں کچھ روحانی ترقی نہیں ہوئی تو شریعت اسلامی ایسی نماز کو ستحق درجات ہر گز نہیں ٹھہراتی.اب مجاز وظاہر کہاں رہا ؟ نبی عرب علیہ الصلوۃ کے لئے کچھ کم فخر کی بات نہیں اور اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی قوی دلیل ہے کہ اس نے خدا کی عبادت کو طبلوں، مزماروں،سارنگیوں اور بربطوں سے پاک کر دیا اللہ کے ذکر کی مسجدوں کو رقص و سرود کی محفلیں نہیں بنایا اور یہاں تک احتیاط کی کہ تصاویر اور مجسمہ بنانے کی اور مسجدوں میں موہم بالشرک نقش و نگار کرنے کی قطعی ممانعت کر دی کہ ایسا نہ ہو یہی مجاز رفته رفته مبدل بحقیقت ہو کر اور یہی مجتمے معبودی تماثیل بن کر تو حید کے پاک چشمے کو مکد رکر ڈالیں.جب ہم ایک خوش قطع گرجا میں عیسائی جھنڈ کو بزعم عبادت جمع ہوئے دیکھتے ہیں.سجے سجائے بنے ٹھنے.نیوانیاں اور گوری گوری یور پانیاں قرینے سے کرسیوں پر ڈٹی ہوئیں.اس وقت ہمیں عیسائیوں کا یہ فقرہ کہ مسلمانوں میں صرف رسمی اور مجازی عبادت ہے“ بڑا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے.یقیناً اہل اسلام کی غیور طبیعت نصاری کی اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کبھی کوشش نہ کرے گی.اس موقع پر طریق اذان پر بھی کچھ تھوڑ اسالکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے.ہر قوم نے پراگندہ افراد کو جمع کرنے یا منشائے عبادت کو حرکت دلانے کے لئے کوئی نہ کوئی آلہ بنا رکھا ہے.کسی نے ناقوس نرسنگا کسی نے گھنٹے گھنٹیاں مگر انصاف شرط ہے.ان میں سے کوئی وضع بھی اذان سے مقابلہ کر سکتی ہے؟ لے تو پڑھ جو اتری تیری طرف کتاب اور کھڑی رکھ نماز بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور بری بات سے اور اللہ کی یاد ہے سب سے بڑی اور اللہ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو.۱۲
حقائق الفرقان ۷۵ اس پیارے رسول نے جس کی واقعی صفت میں قرآن فرماتا ہے.인 سُوْرَةُ الْبَقَرَة وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ (الاعراف: ۱۵۸) ان تمام رسمی بندشوں، سیپوں اور سینگوں کی تلاش سے اُمت کو سبکدوش کر دیا.ذری انصاف سے ان کلمات کو سوچو.اس ترکیب کے سر پر نگاہ کرو کہ کوئی قوم بھی دنیا میں ہے جو اس شد ومد سے پہاڑوں اور مناروں پر چڑھ کر اپنے بچے اصولوں کی ندا کرتی ہے؟ عبادت کی عبادت اور ملا ہٹ کی بلا ہٹ دنیا میں ہزاروں حکماء وریفارمر گزرے ہیں اور قومی گڈریے پیدا ہوئے ہیں مگر تر بتر ہوئی بھیڑوں کے اکٹھا کرنے اور ایک جہت میں لانے کا کس نے ایسا طریق نکالا؟ کس نے کبھی ایسی ترکی پھونکی جس کی دلکش آواز معا روحانی جوش اور ولولہ تمام ظاہر و باطن میں پیدا کر دے؟ اللہ اکبر! کیسی صداقت ہے کہ ایک قوم علی الاعلان صبح و شام پانچ دفعہ اپنے بے عیب عقیدے کا اشتہار دیتی ہے.تعیین اوقات، پابندی وقت ! آہ کیسے مقبول کلمات ہیں کہ جب کسی قوم کی ترقی کی راہ کھلی.اسی مشعلِ جان افروز کے نور سے تمام موانعات کی تاریکی دُور ہوئی !! شریعتِ موسوی میں احکام نماز منضبط نہیں ہوئے تھے.توریت طریق نماز سے بالکل ساکت ہے صرف علمائے دین کو دہ یکی دیتی اور پلوٹھے لڑکے کو ہیکل مقدس میں لا کر نذر دیتی.وقت خاص دعا پڑھی جاتی اور لڑکے کا باپ تمام احکام شرعی کو بجالا کر یہودہ سے دعا مانگتا تھا کہ اس اسرائیلی لڑکے کو برکت دے جیسے تو نے اس کے آبا و اجداد پر برکت نازل کی تھی.لیکن جب یہود اور ان کے علماء کا اعتقاد باری تعالیٰ کی نسبت زیادہ تر معقول اور پاکیزہ ہو گیا اور خداوند عالم کے مشکل بشکل انسان ہونے کا فاسد عقیدہ دفع ہونے لگا تب نماز یا دعا کی حقیقت ان کی سمجھ میں آنے لگی کہ نماز انسان کے لئے بارگاہ الہی سے تقرب کا وسیلہ ہے مگر چونکہ شریعت موسوی میں کوئی خاص قاعدہ نماز کا مقرر نہ تھا لہذا روایت اور رواج پر مدار رہا اور بقول ڈالنجر صاحب کے یہود بھی ایک نماز گذار قوم ہو گئے اور لے اور اتارتا ہے ان سے بوجھ ان کے اور پھانسیاں جو ان پر تھیں.۱۲
حقائق الفرقان ZY سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہر روز تین گھنٹے عبادت خدا کے قرار دیئے گئے یعنی نو بجے اور بارہ بجے اور تین بجے مگر چونکہ نماز میں مجتہدین کی ضرورت تھی اور اس کا علم قطعی نہ تھا کہ خودحضرت موسیٰ کیونکر نماز پڑھتے تھے لہذا اکثر اوقات یہود کی نماز صرف ایک مصنوعی فعل ہوتا تھا.حضرت مسیح نے جو آخری رسول یہود کے تھے اور ان کے حوار متین نے بھی عبادت کی تاکید کی.مگر افسوس اس میں بھی یہ نقص رہ گیا کہ کوئی محدود و معتین قاعدہ نماز کا انہوں نے ترتیب نہ دیا اس لئے چند عرصے کے بعد عبادت خدا کا معاملہ بالکل عوام الناس کی رائے پر موقوف ہو گیا اور پادریوں ہی کے اختیار میں رہا جنہوں نے نماز کی تعداد اور مدت اور الفاظ وغیرہ مقرر کرنا اپنے ہی فرقے میں منحصر کر دیا اسی وجہ سے دعاؤں کی کتابیں تصنیف ہوئیں اور قستیسین کی کمیٹیاں اور مجلسیں منعقد ہوئیں تا کہ اصول دین اور ارکانِ ایمان مقرر کریں اور اسی وجہ سے راہبوں نے عجیب پر تکلف طریقہ عبادت کا نکالا اور گرجوں میں ہفتہ وار نماز قرار دی گئی یعنی چھ روز کی غذائے روحانی نہ ملنے کی مکافات صرف ایک روز کی نماز سے کی گئی.الغرض یہ سب خرابیاں منتہی درجے کو پہنچ گئیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسول عربی نے ایک مہذب اور معقول مذہب تلقین کرنا شروع کیا.آنحضرت نے نماز پنجگانہ کا طریقہ اس لئے جاری کیا کہ آپ خوب جانتے تھے کہ انسان کی روح حق سبحانہ و تعالیٰ کی حمد وستائش کرنے کی کیسی مشتاق رہتی ہے اور نماز کے اوقات مقرر کر دینے سے آپ نے ایک ایسا مضبوط قاعدہ نماز گزاری کا معین کر دیا کہ نماز کے وقت انسان کا دل عالم روحانی سے عالم مادی کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہو سکتا.جو صورت اور ترکیب آپ نے نماز کی اپنے قول وفعل سے مقرر کر دی ہے اس میں یہ خوبی ہے کہ اہلِ اسلام ان خرابیوں سے محفوظ رہے ہیں جو اس لڑائی جھگڑے سے پیدا ہوتی تھیں جو عیسائیوں میں نماز کی ترکیب پر ہمیشہ ہوا کرتے تھے اور پھر ہر مسلمان کو گنجائش رہی کہ بکمال خشوع و خضوع عبادت خدا میں مصروف ہوئے.پابندی اوقات میں ایک قدرتی تاثیر ہے کہ وقت معینہ کے آنے پر قلب انسانی میں لے تنقید الکلام ترجمہ لائف آف محمد بائی سیدامیر علی ۱۲
حقائق الفرقان 22 سُوْرَةُ الْبَقَرَة بے اختیار جذب و میلان اس ڈیوٹی کے ادا کرنے کے لئے پیدا ہو جاتا ہے اور روحانی قومی اس مفروض عمل کی طرف طوعا و کر با منجذب ہو جاتے ہیں.جو نہی اس غیر مصنوعی ناقوس (اذان) کی آواز سنائی دیتی ہے ایک دین دار مسلمان فی الفور اس ایلیکٹر یسیٹی کے عمل سے متاثر ہو جاتا ہے.پابندِ صلوۃ گویا ہر وقت نماز ہی میں رہتا ہے کیونکہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد معا دوسری نماز کی تیاری اور فکر ہو جاتی ہے.نماز پنجگانہ کا باجماعت پڑھنا اور جمعہ وعیدین کی اقامت جس حکمت کے اصول پر مبنی ہیں انتظامات ملکی کا دقیقہ شناس اس کی خوبی سے انکار نہیں کر سکتا.ہزاروں برسوں کے دور کے بعد جو دنیا نے ترقی کی اور چاروں طرف غلغلہ تہذیب بلند ہوا اس سے بڑھ کر اور کوئی تجویز کسی کی عقل میں نہ آئی کہ کلب بنائے جائیں انجمنیں منعقد ہوں اور وقت کی ضروریات کے موافق قوم کو بیدار کرنے والی تقریریں کی جائیں لیکن ظاہر ہے کہ بایں ہمہ ترقی علوم ایسی انجمنوں کے قیام و استحکام میں کس قدر دقتیں واقع ہوتی ہیں.مگر مبار کی ہو اس افضل الرسل خاتم الرسالۃ کو کہ اس نے کیسے وقت میں کیسی انجمنیں قائم کیں! ان کے قیام و استحکام کے کیا کیا طریقے نکالے جنہیں کوئی مزاحم کوئی مانع تو ڑ نہیں سکتا.اعضائے انجمن کے اجتماع کے لئے ٹکٹ جاری کئے جاتے ہیں.اشتہار چھاپے جاتے ہیں.اس الہی طریق میں وقت معین پر اذان دی جاتی ہے جو اس پاک انجمن ( مسجد ) میں پہنچائے بغیر چھوڑ ہی نہیں سکتی.قرب و جوار کے لوگوں کا ہر روز پانچ مرتبہ ایک جگہ میں جمع ہونا اور پھر شانے سے شانہ جوڑ اور پاؤں سے پاؤں ملا کر ایک ہی بچے معبود کے حضور میں کھڑا ہونا قومی اتفاق کی کیسی بڑی تدبیر ہے! ساتویں دن جمعہ کو آس پاس کے چھوٹے قریوں اور بستیوں کے لوگ صاف و منظف ہو کر ایک بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوں اور ایک عالم بلیغ تقریر ( خطبہ ) حمد ونعت کے بعد ضروریات قوم پر کرے.عیدین میں کسی قدر دُور کے شہروں کے لوگ ایک فراخ میدان میں جمع ہوں اور اپنے ہادی کی شوکت مجسم کثیر جماعت بن کر دنیا کو آفتاب اسلام کی چمک دکھاویں اور بالآخر اس پاک سرزمین
حقائق الفرقان ZA سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں اس فاران میں جہاں سے اولا نور توحید چمکا.کل اقطار عائم کے خدا دوست حاضر ہوں ساری بچھڑی ہوئی متفرق امتیں اسی دنگل میں اکٹھی ہوں.وہاں نہ اس مٹی اور پتھر کے گھر کی بلکہ اس رب الا رباب معبود الگل کی جس نے اس ارضِ مقدسہ سے توحید کا عظیم الشان واعظ بے نظیر ہادی نکالا حمد وستائش کریں.اسی طرح ہر سال اس یادگار ( بیت اللہ ) کو دیکھ کر ایک نیا جوش اور تازہ ایمان دل میں پیدا کریں جو بحسب تقاضائے فطرت ایسی یادگاروں اور نشانوں سے پیدا ہو ناممکن ہے.سخت جہالت ہے اگر کوئی اہل اسلام کسی موحد قوم کو مخلوق پرستی کا الزام لگاوے.ایسے شخص کو انسانی طبیعت کے عام میلان اور جذبات کو مد نظر رکھ کر ایک واجب القدر امر پر غور کرنا چاہیے کہ اگر قرآن کے پورے اور خالص معتقدین کے طبائع میں بت پرستی ہوتی تو ان کو اپنے ہادی منجی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مقدسہ سے بڑھ کر کونسا مرجع تھا.اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ میں آنحضرت کا مرقد مبارک نہیں ہونے دیا تا کہ توحید الہی کا سرچشمہ پاک ہر قسم کے شائیوں اور ممکن خیالات کے گردوغبار سے پاک صاف رہے اور مخلوق کی فوق العادت تعظیم کا احتمال بھی اُٹھ جائے.مسلمانوں کے ہادی علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری دُعا اللَّهُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِى مِنْ بَعْدِى عِيْدًا اے اللہ ! میری قبر کو میرے بعد عید نہ بنائیو.خوب یاد ہے اور وہ بجان و دل اپنے نبی کی اس دُعا کے ظاہر نتیجے کی تصدیق کر رہے ہیں اور ہمیشہ أَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا الله کے ساتھ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ پڑھ کر اللہ اور عبد میں امتیاز بین دکھلاتے ہیں.بہت صاف امر ہے اور حقیقت شناس عقل کے نزدیک کچھ بھی محل اعتراض نہیں.اُس بادی کو جس نے تمام دنیا کی متداولہ عبادت کے طریقوں سے جن میں شرک اور مخلوق پرستی کے جزو اعظم شامل تھے اپنے طریق عبادت کو خالص کرنا منظور تھا اور ایک واضح وممتاز مسلک قائم کرنا ضرور اس لئے واجب ہوا کہ وہ اپنی امت کے رُخ ظاہر کو بھی ایسی سمت کی طرف پھیرے جس میں قوائے روحانی کی تحریک اور اشتعال کی قدرت و مناسبت ہو.
حقائق الفرقان ۷۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہر ایک مسلمان کو یقین ہے کہ مکے میں بیت اللہ کو تو حید کے ایک بڑے واعظ نے تعمیر کیا اور آخری زمانے میں اسی کی اولاد میں سے ایک زبر دست کامل نبی مکمل شریعت لے کر ظاہر ہوا جس نے اس پہلی تلقین و تعلیم کو پھر زندہ اور کامل کیا.پس نماز میں جب ادھر رُخ کرتے ہیں یہ تمام تصور آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور اس مصلح عالم کی تمام خدمات اور جاں فشانیاں جو اس نے اعلائے کلمۃ اللہ میں دکھلا ئیں یاد آ جاتی ہیں.یاد رہے کہ نماز علاوہ ان تمام خوبیوں کے جو اس پر مداومت کا لازمی نتیجہ ہیں بڑا بھاری قومی امتیاز اور نشان ہے.روزہ ، حج ، زکوۃ وغیرہ میں ایک منافق مسلمانوں کو دھوکا دینے یا ان کے رازوں پر مطلع ہونے کے لئے شامل ہو سکتا ہے اور اس کی قوم کو اس پر اطلاع بھی نہ ہو کیونکہ ان امور کی بجا آوری میں اپنی قوم کے نزدیک وہ کسی بیماری لزوم، فاقہ، سفر وتفرج یا خیرات کا حیلہ تراش سکتا ہے اور مسلمان بھی اُسے بے تر ڈد و فادار مسلمان کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں امور میں مسلمان ہونا محصور ہو.مگر سخت مشکل اور پردہ برانداز امر نماز ہے جسے کوئی شخص بھی جو اپنے مذہب کا کچھ بھی پاس اور ہیبت دل میں رکھتا ہو کبھی بھی ادا کرنا گوارا نہیں کر سکتا خصوصا ایک علیحدہ قومی نشان اور ایک بالکل الگ ہیئت میں الگ مذہبی سمت کی طرف متوجہ ہو کر اور بایں ہمہ اپنی قوم میں بھی شامل رہے ناممکن ہے.اب غور فرمائیے آنحضرت کو اس خصوص میں کیا مشکلات پیش آئیں.تاریخ اور قومی روایت متفقا شہادت دیتی ہے کہ بیت اللہ زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے برابر أَبَا عَنْ جَةٍ قوموں کا مرکز اور جائے تعظیم چلا آیا ہے.کفار مکہ گو بت پرستی کے لباس میں تھے اس بیت ایل کو مقدس عبادت گاہ یقین کرتے.جب آنحضرت نے دینِ حق کا وعظ شروع فرمایا اور خدا کا کلام دن بدن پھیلنے لگا اور دشمنان دین مخالفت میں ہر طرح کے زور لگا کر تھک گئے آخر یہ حیلہ سوچا کہ نفاقاً اسلام میں داخل ہو گئے اور اس طرح وہ لوگ سخت سخت اذیتیں اور مخفی دیر پا مصائب مسلمانوں کو پہنچانے لگے بناء على هذا - بانی مذہب کو ضرور ہو ا کہ اس معجون مرتب کے اجزاء کی تحلیل کے لئے کوئی بھاری کیمیاوی تجویز نکالے.آپ نے ابتداء سکتے میں بیت المقدس کی جانب نماز میں منہ پھیرا.اس
حقائق الفرقان ۸۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ربانی الہامی تدبیر سے قریش مکہ جو نہایت بت پرست تھے اور اہلِ کتاب اور ان کے مذاہب کو بہت بُرا جانتے تھے مسلمانوں کی جماعت سے بالکل الگ ہو گئے.اب کوئی منافق ظاہر طور پر بھی شامل ہونے کو گوارا نہ کر سکا اور خاص لگے میں بجز خالص مخلص اصحاب اور یارانِ جاں نثار کے اور کوئی پیرو نہ بنا.اس تدبیر سے ایک اور عظیم فائدہ یہ ہوا کہ بانی کو اپنے مشن کی ترقی اور خالص پیروؤں کا اندازہ معلوم ہو گیا اور آئندہ کے واسطے معتمد وفاداروں اور غدار منافقوں میں امتیاز نکلی ہو گیا.پھر جب مدینے میں آپ تشریف لے گئے جہاں بکثرت یہود رہتے تھے اور جو اوّل اوّل باغراض مختلفہ آپ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے اور آپ کے تابعین میں خوب مل جل گئے.پھر آخر اپنی امیدوں کے برخلاف دیکھ کر خفیہ خفیہ اضرار و افساد میں ریشہ دوانی کرنے لگے.تب آنحضرت نے ربانی الہامی ہدایت سے، جو ایسے تاریک وقتوں میں اپنے پاک نبیوں کو کشائش کی راہ دکھاتی ہے، اصلی قدیمی ابراہیم ، اسمعیل کے بیت اللہ کی طرف نماز میں تو جہ کی.اس سے خالص انصار اور غدار یہودیوں میں امتیاز کی راہ نکل آئی.قرآن بھی اسی مطلب کا اشارہ کرتا ہے.وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِى كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ- (البقرة: ۱۴۴) اس بات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ایسی جدید قوم کو جس کے استیصال کے در پے مختلف قومیں ہو رہی تھیں ایسے نئے مذہب کو جسے اولاً مخلصین و منافقین میں تمیز کرنا اور دشمنوں کے جابرانہ جملوں کا اندفاع اختیار کرنا تھا نہایت ضرور تھا اور عقلاً، نقلاً اس سے بہتر نہیں ہوسکتا تھا کہ ایسی ہی تدبیر سے کام لے.پس گوابتداء میں سمت قبلہ کسی مصلحت کے لئے معین کی گئی ہو اور عادۃ اللہ نے اس میں کوئی راز مرکوز رکھا ہو مگر انتہا میں بھی یادگار کے طور پر اور اس امر کے نشان اور یاد آوری کے لئے کہ یہ کامل مذہب ، یہ توحید کا آفتاب اُسی پاک زمین سے نمودار ہو ا.وہ خداوندی حکمت بحال رکھی گئی ور نہ اہلِ اسلام کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ذات مکان اور جہت کی قید سے منزہ ہے اور لے اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر تو تھا نہیں مگر اسی واسطے کہ معلوم کریں کون تابع ہے رسول کا اور کون پھر جاوے گا الٹے پاؤں.۱۲
حقائق الفرقان ΔΙ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عنصری وکونی صفات سے اعلیٰ اور مبرا ہے.کوئی جہت نہیں جس میں وہ مقید ہو.کوئی خاص مکان نہیں جس میں مخصوصا وہ رہتا ہو.اسی مطلب کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور معترض کے اعتراض کو اپنے علم بسیط سے پہلے ہی رڈ کر دیا ہے.وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَتُوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ (البقرة :١١٢) پھر اور زیادہ مقصود حقیقی کی راہ بتاتا اور فرماتا ہے.لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالكتب وَالشَّهِينَ وَأتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتْلَى وَالْمَسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّلْوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَهَدُوا وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.(البقرة: ۱۷۸) ان آیات نے صاف بتادیا کہ سمت قبلہ کی جانب توجہ کرنا مقصود بالذات اور اہم نہیں ہے.اصلی اور ابدی نیکیاں اور آسمانی خزانے میں جمع ہونے والی خوبیاں یہی ہیں جو ان آیات میں مذکور ہوئیں.ایک اور لطیف بات قابل غور ہے کہ آغاز نماز میں جبکہ مسلمان رو بقبلہ کھڑا ہوتا ہے یہ آیت پڑھتا ہے.إنِّي وَجَهتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ - - (الانعام: ۸۰) لے اور اللہ کی ہے مشرق اور مغرب سو جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی متوجہ ہے اللہ.۱۲ - ۲ نیکی یہی نہیں کہ منہ کرو اپنے مشرق کی طرف یا مغرب کی ولیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور پچھلے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر اور دیوے مال اس کی محبت پر ناطے والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور راہ کے مسافر کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں اور کھڑی رکھے نماز اور دیا کرے زکوۃ اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب پورا کریں اور ٹھہرنے والے تختی میں اور تکلیف میں اور وقت لڑائی کے وہی لوگ ہیں جو بچے ہوئے اور وہی بچاؤ میں آئے.۱۲.۳ میں نے اپنا منہ کیا اس کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین ایک طرف کا ہو کر اور میں نہیں شریک کرنے والا.۱۲
حقائق الفرقان اور یہ آیت.۸۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ و انا اوَّلُ الْمُسْلِمِينَ (الانعام : ۱۶۳، ۱۶۴) اس آیت کا افتتاح میں پڑھنا خوب آشکار کرتا ہے کہ اہلِ اسلام کا باطنی رخ اور قلبی تو جہ کدھر ہے.کعبہ حقیقی اور قبلہ تحقیقی انہوں نے کس چیز کوٹھہرا رکھا ہے؟ ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ " فضائل اسلام میں سے ایک یہ بھی فضیلت ہے کہ اسلام کے معابد ہاتھ سے نہیں بنائے جاتے اور خدا کی خدائی میں ہر مقام پر اس کی عبادت ہو سکتی ہے.اَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ الله (البقرة: ۱۱۲) جس مقام پر خدا کی عبادت کی جاوے وہی مقام مقدس ہے اور اُسی کو مسجد سمجھ لیجئے.مسلمان چاہے سفر میں ہو چاہے حضر میں، جب نماز کا وقت آتا ہے چند مختصر اور پر جوش فقرات میں اپنے خالق سے اپنے دل کا عرض حال کر لیتا ہے.اس کی نماز اتنی طولانی نہیں ہوتی کہ اس کا جی گھبرا جائے اور نماز میں جو کچھ وہ پڑھتا ہے اُس کا مضمون یہ ہوتا ہے کہ اپنے عجز و خاکساری کا اظہار اور خداوند عالم کی عظمت اور جلال کا اقرار اور اُس کے فضل ورحمت پر توکل.عیسائی کیا جانیں کہ اسلام میں عبادت خدا کا مزا کیسا کوٹ کوٹ کے بھرا ہے " !! فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم - صفحه ۲۷۵ تا ۲۸۸) نماز میں ایک خاص قسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استعداد کے موافق ان سے حصہ لیتا ہے پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلقات کا سلسلہ وسیع ہوتا ہے.ہزاروں کمزوریاں دُور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دُور ہوتے ہوئے محسوس کر لیتا اے میری نماز اور قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ کی طرف ہے کوئی نہیں اس کا شریک اور یہی مجھ کو حکم ہوا اور میں سب سے پہلے حکم بردار ہوں.۱۲ جس طرف تم منہ کرو وہاں ہی متوجہ ہے اللہ.۱۲ تنقید الکلام ترجمه لائف آف محمد از سید امیر علی.۱۲
حقائق الفرقان ۸۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے اور پھر اُن کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آتی ہیں جو آہستہ آہستہ نشو ونما پا کر اخلاق فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۴ء صفحه ۸) وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ مِنْ کے معنے یہاں پر ہیں بعض اور کچھ کے.اور ما کے ہیں جو یا شئے کے یا اس کے....اور رَزَقْنَا رزق سے بنایا ہو ا لفظ ہے اور رزق کہتے ہیں اس چیز کو جس سے نفع اُٹھا سکتے ہوں اور کبھی بمعنے نصیب اور حصہ کے آتا ہے اور کبھی بمعنے مرزوق یعنی جو چیز رزق کے طور پر دی جاتی ہے اور گا ہے اس کے معنے شکر اور ملک کے ہوتے ہیں.دوم اور سوم معنوں کی مثال قرآن مجید میں بھی آئی ہے جیسا کہ فرمایا ہے.وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُم أَنَّكُمُ تكذِبُونَ (الواقعه: ۸۳) ( اور اپنا نصیبہ اور حصہ یہ بناتے ہو کہ تکذیب کرتے ہو ) اور فرمایا.اَرعَيْتُم مَّا اَنْزَلَ اللهُ لَكُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَ حَللًا ( يونس :٢٠) ( تم بتاؤ تو سہی کہ جو رزق اللہ نے تمہارے لئے اُتارا ہے پس تم نے خود ہی اس میں سے کچھ تو حرام قرار دیا اور کچھ حلال بنا دیا ) اور فرمایا وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا (هود:۷) (اور جو کوئی زمین پر چلنے والی چیز ہے ان سب کا رزق اللہ ہی پر ہے ) ھم کے معنے ہیں ان کو.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۵ - نومبر ۱۹۰۶ صفحه ۱۸۸) تیسری صفت متقی کی اس مقام پر یہ بیان کی کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا اس میں سے کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.متقی کی چونکہ ابتدائی منازل میں نظر بہت وسیع نہیں ہوتی اور خدا شناسی کے مکتب میں ابھی اس کے داخلہ کا ہی ذکر ہے اس لئے فرمایا کہ جو کچھ رزق ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے کچھ ہماری راہ میں دیتا ہے.اصل میں حق تو یہ تھا کہ سب کا سب ہی دے دیتا کیونکہ جس کا دیا ہے اُسی کو دیتا ہے مگر ابتدائی حالت میں جو بخل بتقاضائے نفس دخیل کا ر ہوتا ہے وہ ایسا کرنے سے روکتا ہے.یہ نکتہ ایک دفعہ حضرت اقدس نے بیان فرمایا تھا.یہاں رزق سے مراد خوردنی اشیاء ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک ا.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام (ناشر)
حقائق الفرقان ۸۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نعمت جو خدا کی طرف سے انسان کو ملی ہے وہ مراد ہے یعنی وہ ہمہ تن بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے تیار رہتا ہے اور ہر ایک گوشہ اور پہلو سے اس خدمت کو بجالا تا ہے.اس کی نظیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے جو کہ انسان کے ہر ایک حال اور مذاق کے موافق آپ نے دی ہے آپ کے انفاق سے جیسے ایک تاجر اسلامی اصول کے مطابق تجارت کر کے خدا کی رضا حاصل کرتا ہے ویسے ہی ایک جنگجو جنگ کی تعلیم لے کر رضائے الہی کو حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی رضامندی کے واسطے اپنی عادتوں کو بدلنا، اخلاق رذیلہ کو چھوڑ دینا یہ بھی ایک انفاق فی سبیل اللہ ہے.اسی طرح زبان سے نیک باتیں لوگوں کو بتلانی اور برائیوں سے روکنا بھی اس میں داخل ہے.اگر خدا نے علم دیا ہے تو اسے لوگوں کو پڑھاوے.اگر مال و دولت دی ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقوں سے اس کے محل پر صرف کرے.اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے واسطے خرچ کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کی اولا د تک کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے اور نہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی کم ہوتا ہے بلکہ اس میں اور زیادتی ہوتی ہے.ز بذل مال در راہش کے مفلس نے گردد خدا خود می شود نا صر ا گر ہمت شود پیدا کے فی زمانہ حال انفاق کا بڑا محل یہ ہے کہ اپنے حوصلوں کو وسیع کر کے اس الہی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کے واسطے مال و زر د یا جاوے.اُس وقت بھی جس نے مال وزر سے پیار نہ کیا اور دین کی خدمت میں اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے صرف کیا وہی اعلیٰ مرتبہ پا گیا اور صدّیق بنا.اب بھی جو کرے گا بنے گا اور خدا اس کی محنت اور سعی کو ضائع نہ کرے گا.اُمید دیں روا گرداں، امید تو روا گردد زصد نومیدی و یاس و الم ، رحمت شود پیدا سے اے اس کی راہ میں مال خرچ کرنے سے کوئی مفلس نہیں ہو جایا کرتا اگر ہمت پیدا ہو جائے تو خدا خود ہی مددگار بن جاتا ہے.۲ تو دین کی امید پوری کرتا کہ تیری امیدیں پوری ہوں سینکڑوں نا امیدیوں اور یاس اور غم کے بعد رحمت پیدا ہو جائے گی.(ناشر)
۸۵ سُورَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان در انصار نبی بنگر ، که چون شد کار تا دانی که از تائید دین، سر چشمه دولت شود پیدا له بجواز جان و دل تا خدمتے از دست تو آید بقائے جاوداں یا بی ، گر ایں شربت شود پیدا ہے البدر جلد ۲ نمبر ۱، ۲ مورخه ۳۰/۲۳ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۶) دوسری بات جو سکھائی گئی ہے منکم علیہ بننے کے واسطے وہ شفقت علی خلق اللہ ہے یعنی مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ: ۴ ) اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے رہو.یہاں کوئی چیز مخصوص نہیں فرمائی بلکہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو....اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو خدا کے لئے مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی میں خرچ کرو اور ایسا ہی اگر اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے، کپڑا دیا ہے ، غرض جو کچھ دیا ہے اسے مخلوق کی ہمدردی اور نفع رسانی کے لئے خرچ کرو.میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں لیکن وہ پرانے کپڑے کسی غریب کو نہیں دیتے بلکہ اسے معمولی طور پر گھر کے استعمال کے لئے رکھ لیتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر کسی کو خدا کے فضل سے نیا ملتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ نیا کپڑا خرید کر بنالے تو وہ کیوں پڑا نا اپنے کسی غریب اور نادار بھائی کو نہیں دیتا؟ اگر نیا جوتا ملا ہے تو کیوں پرانا کسی اور کو نہیں دے دیتے ہو؟ اگر اتنی بھی ہمت اور حوصلہ نہیں پڑتا تو پھر نیا دینا تو اور بھی مشکل ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے تعمیل ایمان کے لئے دو ہی باتیں رکھی ہیں تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ.جو شخص ان دونوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا.کیا تم میں سے اگر ایک ہاتھ ایک ٹانگ کسی کی کاٹ دی جاوے تو وہ نقصان نہ اُٹھاوے گا اسی طرح پر ایمان کا بہت بڑا جزو ہے شفقت علی خلق اللہ.مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پر زیادہ توجہ ہی نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایمان کا پہلا جز وتعظیم لامر اللہ بھی نہیں رہی ہے....جب انسان اس قسم کا بن جاتا ہے کہ الغیب پر ایمان لاتا ہے اور خدا کی عبادت کرتا اور اُس کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم اس کا بدلہ کیا دیں گے؟ اے آنحضرت کے انصار کی طرف دیکھ کہ کس طرح انہوں نے کام کیا تا کہ تجھے پتہ لگے کہ دین کی مدد کرنے سے دولت کا منبع پیدا ہو جاتا ہے.۲ دل و جان سے کوشش کرتا کہ تیرے ہاتھوں سے کوئی خدمت اسلام ہو جائے اگر یہ شربت پیدا ہو جائے تو تو بقائے دوام حاصل کرلے گا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۸۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہ لوگ مظفر و منصور ہو جائیں گے.دنیا میں بامراد اور کامیاب ہونے کا یہ زبر دست ذریعہ ہے اور اس کا ثبوت موجود ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لائف پر نظر کرو ان کی کامیابیوں اور فتح مندیوں کی اصل جڑ کیا تھی؟ یہی ایمان اور اعمالِ صالحہ تو تھے ورنہ اس سے پہلے وہی لوگ موجود تھے، وہی اسباب تھے، وہی قوم تھی لیکن جب ان کا ایمان اللہ تعالیٰ پر بڑھا اور ان کے اعمال میں صلاحیت اور تقوی اللہ پیدا ہو ا تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق وہ دنیا میں بھی مظفر و منصور ہو گئے تاکہ ان کی اس دنیا کی کامیابیاں آخرت کی کامیابیوں کے لئے ایک دلیل اور نشان ہوں.یہ نسخہ صرف کتابی نسخہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ شدہ اور بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے جو اسے استعمال کرتا ہے وہ یقینا کامیاب ہوگا اور منعم علیہ گروہ میں داخل ہو جاوے گا.پس اگر تم چاہتے ہو کہ بامراد ہو جاؤ، تم چاہتے ہو کہ منعم علیہ بنوتو دیکھو! اس نسخہ کو استعمال کرو.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۹ مورخه ۱۰ جون ۱۹۰۴ صفحه ۸) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ.اس آیت شریفہ میں کامیابی کے تین اصول بتلائے گئے ہیں.ایمان بالغیب، د کھا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا.دراصل ہر ایک کام جس کو انسان اختیار کرے اس میں انسان تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جبکہ یہ تین کام کرے.سب سے اوّل غیب سے کام لیا جاتا ہے.تمام ریاضی کی بنیاد غیب پر ہے.نقطہ، دائرہ اور خط سب فرضی ہوتے ہیں اور اسی پر سب ریاضی کا علم بنتا ہے.علم حساب بھی فرضی باتوں سے شروع ہوتا ہے.لڑکوں کو سوال حل کرنے کے لئے دیا جاتا ہے کہ ایک شخص کے پاس دس ہزار روپیہ ہے.وہ تجارت کرتا ہے اس بھاؤ خریدتا ہے اُس بھاؤ بیچتا ہے.بتلاؤ کیا منافع ہوگا.یہ سب فرضی باتیں ہیں نہ کوئی شخص ہے، نہ کچھ روپیہ ہے، نہ کوئی تجارت ہے لیکن اسی سے بچہ بڑا حساب دان بن جاتا ہے.پولیس بھی غیب سے کام چلاتی ہے.اس کو پکڑو، اس کی تلاشی لو، آخر مقدمہ نکل ہی آتا ہے.ایسا ہی دعا اور توجہ ہے.میری تحقیق ہے کہ جو شخص ہدایت کے واسطے دعا نہیں مانگتا وہ کبھی فائدہ نہیں اُٹھاتا.
حقائق الفرقان ۸۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بسر اگر کامیابی کا خرچ کرنا ہے.ہر ایک کام کے واسطے پہلے کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے پھر اتنا ہی نفع ہوتا ہے.ریل بنائی جاتی ہے.ایک میل پر ایک لاکھ روپے کے خرچ کا اندازہ ہوتا ہے.جب یہ خرچ ہو چکتا ہے تو پھر آمدنی بھی کروڑوں کی ہوتی ہے.البدر کلام امیر حصہ دوم مؤرخه ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۱ ۳۲۰) ۵- وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمُ يُوقِنُونَ - ترجمہ.اور جو لوگ مانتے ہیں اس کلام کو جو تیری طرف اتارا گیا اور جو اتارا گیا تجھ سے پہلے لوگوں پر اور وہ پیچھے آنے والی پر بھی یقین رکھتے ہیں.تفسیر.وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُونَ - پھر ان متقیوں کے لئے ہدایت ہے جو اس سے زیادہ ترقی کر کے اس وحی کو مانتے ہیں جو تیری طرف نازل ہوئی اور جو تجھ سے پہلے نازل ہوتی رہی اور آخری کی گھڑی پر بھی وہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مؤرخه ۱۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۳) یقین رکھتے ہیں.مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ سے وہ سب وحی مراد ہے جو کہ خدا وند کریم نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے خواہ وہ کسی رنگ میں ہو اور مَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ وہ كل وحی الہی ہے جو کہ گل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل کی گئی اور گل اس لئے لیا ہے کہ ما کا لفظ جبکہ یہ موصولہ یعنی بمعنے جو ہو تو عام اور سب کو شامل ہوتا ہے لیکن چونکہ سب انبیاء کا ہم کوعلم نہیں جیسا کہ خداوندِ کریم نے فرمایا ہے وَمِنْهُمْ مَنْ لَّمْ نَقْصُصُ عَلَيْكَ (المومن:۷۹ ) ( اور بعض انبیاء سے وہ ہیں جو کہ ہم نے تیرے آگے بیان نہیں کئے ) تو پھر جو کچھ ان پر اُتارا گیا ہے اس کا ہمیں کب علم ہو سکتا ہے؟ پس لفظ ما کو موصولہ یعنی بمعنے جو قرار نہیں دینا چاہیے اس کو مصدر یہ قرار دیا جائے یعنی جو کہ مابعد کے فعل کو مصدر بنادیتا ہے جس سے فعل اور باقی اسماء بنائے جاتے ہیں تا کہ ترجمہ یہ ہو جائے اور جو ایمان لاتے ہیں تیری طرف اُتارے جانے پر اور تجھ سے پہلے اُتارے جانے
حقائق الفرقان ۸۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پر اور پیچھے آنے والی پر یقین کرتے ہیں اور اس صورت میں اُن کا ر ڈ ہو گا جو کہ نبوت کے اور وحی کے منکر ہیں جیسے کہ برہمو لوگ ہیں کہ نبوت کے صریح منکر ہیں اور عبداللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود اور بہت سے اور صحابہ نے فرمایا ہے کہ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ الخ سے مراد وہ مومن ہیں جو کہ عربوں میں سے ہوئے ہیں اور وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ الخ سے مراد اہلِ کتاب کے مومن ہیں اور مجاہد تابعی نے کہا ہے کہ ان دونوں سے عام مومن مراد ہیں اور تفسیر ابن کثیر میں اسی کو پسند کیا گیا ہے اور الَّذین کا مکرر لانا اور پہلے هُدًى لِلْمُتَّقِينَ اور دوسرے میں علی ھندی کہنا اور پھر دوباره اولیک لانا اور نئی خبر کا لانا صحابہ کے قول کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دو متفائر عبارتوں سے متغائر لوگ مراد ہیں لیکن سورۃ بقرہ کے آخر میں جو یہ آیا ہے کہ كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَ مَلكَتِهِ (البقرة : ۲۸۲) تو یہ مجاہد کے قول کی تائید کرتا ہے کیونکہ اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کا مومن بہ یکساں ہے اور آخرۃ چونکہ قرآن مجید میں بعض مقام پر داریا یوم ملا کر لایا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرُ (یوسف:۱۱۰) ( اور ضرور پیچھے آنے والی حیاتی کی حویلی بہتر ہے ) اور اليوم الأخر ( پیچھے آنے والا دن ) اور دار آخرت اور یوم آخر سے مراد حشر کا وقت ہے لہذا مفسروں نے یہاں پر اکیلے اَلْآخِرَةِ سے بھی حشر کا وقت اور قیامت ہی مرا درکھا ہے لیکن ما قبل پر یعنی مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ اور مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ (البقرة: ۵) پر نظر کرنے سے حضرت خاتم النبیین کی دوسری بعثت ثابت ہوتی ہے جس کا کہ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ وَأَخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - (الجمعة: ٣، ٤) اللہ وہ ہے کہ جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو کہ ان سے ہے کہ ان پر اللہ کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگر چہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور ان آخرین میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو اب تک ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے ) میں ذکر آیا ہے کیونکہ یہاں سے صاف صاف ثابت ہے کہ آنحضرت ایک دفعہ تو اُمّی لوگوں میں مبعوث b
حقائق الفرقان ۸۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہوئے یعنی بھیجے گئے اور ایک دفعہ ان پیچھے آنے والوں میں بھی مبعوث ہوں گے جو کہ ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے.پس ماقبل پر نظر کرنے سے وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرۃ:۵) کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ لوگ پیچھے آنے والی بعثت نبی کریم پر یقین کرتے ہیں.یہ تو اس صورت میں ہوں گے جب ما قبل میں یعنی مَا اُنْزِلَ میں مامصدر یہ لیا جائے یعنی دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے یہاں پر بھی بعثت مراد ہوگی جیسی کہ ما انزل سے بعثت مراد ہے اور اگر ما موصولہ بمعنی جو بنایا جاوے یعنی پہلا ترجمہ لیا جائے تو اس سے وحی مراد ہے جو کہ پیچھے آنے والی ہے جیسے کہ مَا اُنْزِلَ سے وحی مراد ہے پس پہلے ترجمہ کے لحاظ سے وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة : ۵) کے یہ معنے ہوں گے اور وہ لوگ پیچھے آنے والی وحی پر یقین لاتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۵.نومبر ۱۹۰۶، صفحه ۱۹۲ تا ۱۹۴) متقی کی چوتھی علامت وَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ (البقرة: ۵) اور وہ لوگ جو اِس ( کلام الہبی اور تمام اس وحی کے ساتھ ) ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف نازل ہوا ( اور یہ امر ان پر واضح ہونے سے کہ خدا کی صفت تکلم ہمیشہ سے ہے ) تجھ سے پہلے جو ( کلام الہبی ) نازل ہوئی اس کو بھی مانتے ہیں ( اور اس صفت تکلم کو صرف تجھ تک بھی محدود نہیں کرتے) اور پیچھے آنے والی ( کلام الہی ) پر بھی یقین رکھتے ہیں.ان آیات میں اللہ تعالیٰ بتلاتا ہے کہ متقی کی صفت ایک یہ بھی ہے کہ مکالمہ الہی پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور وہ خدا کو کسی زمانہ ماضی، حال اور مستقبل میں گونگا نہیں مانتا.خدا تعالیٰ کے اس صفت تکلم کا ذکر ایمان، اقام الصلوۃ اور انفاق رزق کے بعد اس لئے ضروری ہے کہ ان اعمال کا یہ تقاضا عملی طور پر ایک متقی کے واسطے ہونا چاہیے کہ آیا اس کی محنت خداشناسی کا کوئی راستہ اس کے واسطے صاف کر رہی ہے کہ نہیں ؟ اور جس راہ پر میں نے قدم مارا ہے کیا اس پر دوسرے بھی قدم مار کر تسلی یافتہ ہوئے ہیں کہ نہیں ؟ تو اس کو یہ نظیر زمانہ ماضی، حال میں ملتی ہے جس سے آئندہ کے لئے اُسے یقینی حالت پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی صفت تکلم کے بارے میں انسانوں کے تین گروہ ہیں (۱) وہ تو سرے سے
حقائق الفرقان ۹۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة انکار کرتے ہیں اور خدا کو گونگا مان بیٹھے ہیں (۲) وہ جن کا یہ اعتقاد ہے کہ از منہ گزشتہ میں خدا ایک حد تک بول چکا مگر آئندہ وہ لوگوں سے یا کسی سے بولتا نہیں (۳) جن کا یہ اعتقاد ہے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں کلام کرتا ہے.تیسری قسم کے لوگ ہی ہمیشہ بامراد اور کا میاب ہوتے رہے ہیں اور ہر ایک مومن کی یہی صفت ہونی چاہیے اور یہی اعتقاد ہے جو کہ اعلیٰ اعلیٰ مراتب اور درجات حاصل کرواتا ہے.اس کے مخالف جس قدر عقیدہ ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو ایک کامل ہستی نہیں مانتے بلکہ ان کا اللہ ناقص خدا ہے.ان کا مذہب ناقص مذہب ہے.یہ شرف بچے اور زندہ مذہب ہونے کا صرف اسلام ہی کو حاصل ہے اور چونکہ متکلم ازل سے ایک ہی ذاتِ پاک ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اصولاً ہر ایک زمانہ کے الہام کی تعلیم ایک ہی ہو اور ہر زمانہ کے الہامات ایک دوسرے کے مؤید اور مصدق ہوں.مکالمہ الہی کے ذکر کا اس مقام پر یہ فائدہ بھی ہے کہ انسان کو حرص پیدا ہوتی رہے کہ خدا مجھ سے بھی کلام کرے اور اپنے اعمال کو سنوار کر ادا کرے جیسے ایک شخص کو خفی دیکھ کر اس کے پاس سوالی جمع ہو جاتے ہیں کہ ان کو بھی ملے اور جن اعمال سے یہ شرف مکالمہ کا حاصل ہوسکتا ہے ان کو اول بیان فرما دیا ہے کہ وہ سب اعمال مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے مطابق ہوں.کلام الہی کے نزول اور اس کی ضرورت پر ہمیں ریمارک دینے کی ضرورت نہیں ہے براہینِ احمدیہ سے اس کا عقدہ پورے طور پر حل ہوتا ہے.مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ لَو مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ پر اس لئے مقدم رکھا ہے کہ سب سے مقدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے یعنی وہ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ جس کو مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ تصدیق کرتا ہے یہ نہیں کہ جو رطب و یابس اور ترجمہ در ترجمه در ترجمہ پادریوں وغیرہ کے اپنے خیالات صُحف سابقہ میں ملے ہوئے ہیں ان کو بھی مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ میں شمار کر لیا جاوے بلکہ سابقہ اور آئندہ سب کا معیار ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ ہے اور اسی لئے بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ سے بھی یہ مقدم ہے.
حقائق الفرقان ۹۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بِالْآخِرَةِ کے ساتھ مَا اُنْزِل کا کلمہ استعمال نہیں کیا ہے کیونکہ آئندہ مکالمہ الہی کا جس قدر سلسلہ ہو گا وہ آنحضرت صلعم کے طفیل ہو گا اور مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ سے اس کا وجود الگ نہ ہوگا اور چونکہ اس کے ذریعہ سے مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ پر ایک کامل یقین حاصل ہوتا جاوے گا اِس لئے اخرة کے ساتھ يُوقِنُونَ کا لفظ رکھا ہے.اس کا اطلاق خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود آنحضرت صلعم کی ذات پر اس طرح ہوا کہ اس سورت کے بعد اور بھی حصہ قرآن کریم کا آپ پر نازل ہوا اور صحابہ اس كو.مان کر گویا اس آیت پر عامل ہو گئے.اخرة.اس کے معنے پیچھے آنے والی بات کے کئے ہیں.کلام الہی پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ آئندہ مکالمہ الہیہ کی طرف اشارہ ہے.اب اعمال کے لحاظ سے دیکھا جاوے تو ہر ایک عمل کے بعد جو ایک نتیجہ اس کا ہے اس پر یقین کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جب تک انسان کے دل میں یقینی طور پر یہ بات نہ بیٹھ جاوے کہ میرا ہر ایک عمل خواہ اس کا تعلق صرف قلب سے ہے یا اس میں اعضاء بھی شامل ہیں ضرور ایک نتیجہ نیک یا بد پیدا کرے گا اور میری اس عملی تخمریزی پر شمرات مرتب ہوں گے تب تک گناہ سے رہائی ہرگز ممکن ہی نہیں ہے اور بجز اس علاج کے اور کوئی علاج گناہ کا نہیں.دیکھو البدر جلد 1 صفحہ ۶۹) جب کوئی آگ کو جلانے والی جانتا ہے تو اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا.بچہ اسی وقت تک انگار کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے جب تک اس کے دل میں یہ نہیں بیٹھا ہوا ہوتا کہ یہ جلا دیوے گی لیکن جب یہ علم اُسے ہو جاتا ہے تو پھر ہر گز ہاتھ نہیں بڑھاتا.غرضیکہ گناہ کا صدور اس وقت تک ہے جب تک یقینی علم گناہ کے بدنتائج پر نہیں ہے.جس قدر حرام خور یاں اور فسق و فجور ہوتے ہیں اگر انسان ایک قلب سلیم لے کر اپنے اپنے محلہ میں یا تعارف میں ایسے بدکاروں کے آخرت یعنی نتائج دیکھے تو اسے پتہ لگے گا کہ یہ آخرت کا مسئلہ بالکل ٹھیک ہے.غفلت اور گناہ ایک ایسی شئے ہے کہ ہلا اثر کئے کے ہر گز نہیں رہ سکتا.مثلاً اگر غلطی سے ہی کا نٹا لگ جاوے تو کیا اس کا دُکھ نہ ہوگا یا زہر کھالی جاوے تو کیا ہلاکت کا باعث نہ ہوگی؟ اسی لئے
حقائق الفرقان ۹۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة خدا تعالیٰ نے بدکاروں کے انجام اپنی کتاب میں لکھ دیئے ہیں کہ عبرت ہو اور اسی لئے پہلی باتوں کے ساتھ تو لفظ ایمان کا رکھا ہے مگر آخرت کے ساتھ یقین کا.اور جب متقی کے اعمال ما أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے موافق اپنے اپنے محل اور موقعہ پر ہوں گے تو اس کی آخرت یہ ہوگی کہ مرتبہ یقین کا اُسے حاصل ہوگا.(البدر جلد ۲ نمبر ۳ مورخه ۶ رفروری ۱۹۰۳ صفحه ۲۳) مَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ.پہلے لوگوں کو جو ہدایت نامے آئے وہ سب قرآن شریف میں موجود ہیں.ہمیں کیا معلوم ہے کہ جہان کب سے ہے اور خدا کے نبیوں اور رسولوں اور کتابوں کا کیا شمار ہے.یسوعی لوگ دنیا کی عمر پانچ چھ ہزار سال قرار دیتے ہیں اور آریہ لوگ بھی کچھ ہند سے لکھ کر دنیا کی عمر قرار دیتے ہیں مگر قرآن شریف نے کوئی حد بندی نہیں کی.ہاں اُن تمام مشتر کہ ہدایت کی باتوں کو جو پہلوں پر نازل ہو ئیں اور ہمارے لئے ضروری ہیں اس پاک کتاب میں جمع کر دیا ہے.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ را کتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲) - أوليك عَلى هُدًى مِنْ رَبِّبِهِمْ وَ أُوتِيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ترجمہ.یہی لوگ ہیں اللہ کے بتائے ہوئے راستہ پر اور یہی لوگ نہال اور بامراد ہیں.أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یہ لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت کے گھوڑوں پر سوار ہو جاتے ہیں.اور یہی لوگ وہ ہیں جو مظفر ومنصور ہوں گے.اللہ نے دنیا میں منظفر منصور ہونے کا گر بتا دیا.وہ لوگ جو حق و حقیقت سے دور ہیں وہ منعم علیہم کے بعد مغضوب علیہم ہو جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۳) یہی لوگ ( جن کا اوپر ذکر ہوا ) اپنے رب سے ہدایت پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو مظفر ومنصور ہوں گے.اس سے سابقہ آیات میں متقی کی تعریف اور معنے بیان کر کے اب اللہ تعالیٰ نے بطور نتیجہ کے بتلا دیا کہ متقیوں کے لئے اس کتاب سے ہدایت پر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ جب انسان ایمان بالغیب رکھ کر اور حقوق الہی اور حقوق العباد کو کما حقہ ادا کر کے اور خدا تعالیٰ کے کلیم ہونے پر ایمان لا کر
حقائق الفرقان ۹۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اپنے اعمال کے نتائج اور ثمرات پر کامل یقین رکھتا ہے تو ہر ایک حجاب دُور ہو کر اس کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور متقی کے ہدایت پر ہونے کی یہ ایک دلیل بیان فرمائی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاویں تو پھر اُن کی کامیابی ان کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل ہے.دعویٰ کر کے دشمن پر ایک خاص غلبہ پانا ایک خاص نشان صداقت کا ہوتا ہے.آنحضرت اور آپ کی جماعت کو دیکھو اللہ تعالیٰ کا یہ کس قدر احسان ہے اور کیسا شکر کا مقام ہے کہ ہم لوگوں کو اب ان باتوں کو ساعی طور پر نہیں ماننا پڑتا ہے بلکہ خدا کے کرم وفضل سے ایک علی ھدی اور ضلح وجود ہمارے زمانہ میں موجود ہے اور عرصہ بائیس سال سے جو کامیابی وہ دشمنوں پر حاصل کر رہا ہے وہ اس کے راہ راست پر ہونے کی دلیل ہے اور یہی وہ منہاج نبوت ہے جس کو وہ دکھلاتا ہے اور کم بخت نادان دشمن نہیں دیکھتے......کامیابی یعنی امن ، آرام اور سکھ کی زندگی کے اسباب اور اس کے اصول اس میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما کر اب آگے مغضوب علیہم گروہ کے حالات بیان کئے ہیں.مفد البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۳۰) مُفْلِحُونَ.مظفر و منصور، کامیاب.یہ ہدایت یافتوں کا نشان ہے.اگر آجکل مسلمان ہدایت پر ہوتے تو وہ ایسے ذلیل وحقیر نہ بنتے بلکہ اپنے ہر کام میں مظفر ومنصور ہوتے.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲) - اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَاَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ ترجمہ.بے شک جن لوگوں نے حق کو چھپایا برابر ہے ان پر کیا ڈرایا تو نے انہیں یا نہ ڈرایا تو نے انہیں وہ نہ مانیں گے (کبھی).تفسیر.یہ غضب گفر سے پیدا ہوتا ہے.پس فرماتا ہے إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا جن لوگوں نے گفر اختیار کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے بطور جملہ معترضہ اس کی وجہ بیان فرمائی.جملہ معترضہ مبتدا و خبر کے درمیان میں کئی وجوہات سے آتا ہے.ایک وجہ بیان کرنے کے لئے چنانچہ یہاں اسی لئے فرمایا سواء عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لا يُؤْمِنُونَ کہ برابر ہو گیا ہے ان پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا یعنی وہ
حقائق الفرقان ۹۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کا فر تیرے انذار وعدم انذار کو مساوی سمجھتے ہیں.جب کسی کی نصیحت کا عدم وجود برابر سمجھ لیا گیا تو پھر کچھ پرواہ نہ رہی.اس ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان نصیب نہیں ہوتا.تین مرضیں ہیں.سب سے پہلے تو وہ جو بات کو سنتا ہی نہیں.پہلے ہی سے انکار کر دیا (۲) دوسرا وہ جس نے سنا مگر اس کا سننا نہ سننے کے برابر ہے (۳) تیسرا وہ جو نگاہ سے کام نہیں لیتا کہ نہ ماننے والوں کا کیا حشر ہو رہا ہے کوئی بات ہو اس کو غور سے سن لینا پھر فکر کرنا بہتر ہے کہ یہ میرے لئے برکت کا موجب ہے یا نقصان کا.پھر دیکھے کہ اس کے ماننے والے آرام میں ہیں یا نہیں اور اس کے نہ ماننے والوں کا انجام کیا ہورہا ہے؟ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳) بیشک وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اور تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر جانا وہ مومن نہ بنیں گے كَفَرُوا یعنی اپنے اختیار سے کفر کیا.کفر کے معنے انکار حق کو چھپانا، ڈھانک دینا.اور یہ سب باتیں انسانی اختیار میں ہیں.جس طرح سے ادویات میں خواص اور تاثیرات ہیں کہ جو ان کو استعمال کرتا ہے وہ ان سے ضرور مؤثر ہوتا ہے اسی طرح سے انسانی اعمال کی بھی تاثیرات ہیں کہ اس کا ہر ایک عمل اس کی رُوح پر ایک اثر کرتا ہے اور وہ اثر اس کی ایمانی حالت میں ایک کیفیت پیدا کرتا ہے اور جس طرح سے کہ ایک طبیب اغذیہ اور ادویہ کے خواص سے واقف انسانوں کو مفید اور مضر اشیاء کا علم بتلاتا ہے اور جو اس کی بتلائی ہوئی بات پر یقین کر کے عمل کرتے ہیں وہ سکھ اور امن سے رہتے ہیں اور جو نہیں عمل کرتے بلکہ اس کے علم کو غیر ضروری خیال کر کے اپنی ضد اور ہٹ پر رہتے ہیں وہ دکھ بھگتے ہیں اسی طرح انبیاء کو انسانی اعمال اور افعال اور اقوال کے خواص کا علم ہوتا ہے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ انسان بستر بیماری پر ہوتے ہیں یعنی ایک معالج کے حکم میں ان کے پاس آتے ہیں جو لوگ اس کی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور جن مضر باتوں سے وہ روکتا ہے اُس سے نہیں رکتے بلکہ اس کی ضرورت کو ہی محسوس نہیں کرتے وہ ضرور دکھ پاتے ہیں.یہی بلا اب اس زمانہ میں بھی لوگوں کو لاحق حال ہے کہ ایک نذیر کے وجود اور عدم وجود کو برا بر خیال کر رہے ہیں.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے
حقائق الفرقان ۹۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ انہوں نے ایمان بالغیب سے کام نہ لیا اور کفر کیا اور آخرت یعنی نتائج اعمال پر جو یقین چاہیے تھا اس کے نہ ہونے سے ایک مامور کے ڈرانے اور نہ ڈرانے کو برابر جانا یعنی اس کی ضرورت نہ سمجھی.نتیجہ اس سے یہ نکلا کہ جب خدا تعالی کی کسی نعمت کی قدر نہیں کی جاتی اور ایک شئے کے ہونے اور نہ ہونے کو یکساں سمجھا جاتا ہے تو وہ ایمان جس پر بڑے بڑے علومِ حقہ کا مدار ہوتا ہے اُسے نصیب نہیں ہوتا جیسے کہ اس سے پیشتر کسی حصہ درس قرآن میں ذکر ہوا ہے کہ اگر ایک شخص اُستاد کے بتلانے پر الف کو الف اور ب کو ب نہ مانے تو پھر وہ تحصیل علوم سے محروم رہے گا اسی طرح جب ایک شخص عربی یا انگریزی زبان کے سیکھنے اور نہ سیکھنے کو برابر خیال کرے تو وہ ان دونوں زبانوں سے کیا فائدہ حاصل کرے گا ؟ کچھ بھی نہیں.اسی طرح سے جو لوگ خدا کے ماموروں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کی ہداتیوں پر عمل درآمد نہیں کرتے وہ دولت ایمان سے تہی دست رہتے ہیں.ایمان اُس وقت نصیب ہوتا ہے جبکہ انذار کو ترجیح دیوے اور یہ بھی انسان کا اختیاری امر ہے کیونکہ ایمان لانے اور کفر کرنے میں خدا نے کسی کو مجبور نہیں کیا بلکہ فرما یا اِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِراً وَ إِمَا كَفُورًا (الدھر: ۴) یعنی ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب وہ خواہ شاکر ہو خواہ کافر.بلکہ ایک اور جگہ فرماتا ہے وَ لَوْ شَاءَ اللهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدى (الانعام: ۳۶) یعنی خدا نے اگر جبر کرنا ہوتا تو ہدایت کے واسطے کرتا کہ سب کے سب مومن ہو جاتے.البدر جلد ۲ نمبر ۴ مورخه ۱۳ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۰) غرض جب خدا نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس پر اپنا کمال رحم کیا کہ اس کے فائدے کی اشیاء اس کے لئے بنا ئیں جس سے اس کے وجود کا قیام اور دفعیہ حوائج ہوتا رہتا ہے.تو جس حالت میں اس نے ہدایت کے واسطے مجبور نہ کیا تو کفر اور ضلالت کے واسطے کیوں مجبور کرتا اور نیک اعمال کی بجا آوری پر رضامندی اور بداعمالی پر نارضامندی کا کیوں اظہار کرتا؟ سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ.قبل ازیں یہ بات تھی کہ ایک صادق صداقت لے کر آیا اور اس کا ان لوگوں نے کفر یعنی انکار کیا.اب دوسری بات یہ کی کہ اس انکار کے بدنتائج جو ایک صادق آ کر بیان کرتا ہے ان
حقائق الفرقان ۹۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کولوگ بیہودہ اور لغو جان کر اس کے وجود کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر تُو مبعوث ہوتا تو کیا اور نہ مبعوث ہوتا تو کیا.اس کی بعثت سے پہلی حالت جو ان لوگوں کی ہوتی ہے بعثت کے وقت اس میں کچھ تغیر نہیں کرتے اس لئے خدا تعالیٰ ان کو ایمان لانے کی توفیق بھی عطا نہیں کرتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے بطور نتیجہ کے آگے بیان کیا ہے کہ لا يُؤْمِنُونَ یہ لوگ ایمان نہ لاویں گے کیونکہ ایمان تو مان لینے کا نام ہے.مگر جب انہوں نے ایک شخص کے وجود اور عدم وجود کو ہی برابر جانا تو ایمان لانا کیسا ؟ ایمان تو بعد شنید اور بعد ارادہ اتباع کے ہوتا ہے.خوب یاد رکھو! کہ اِس آیت میں دو اسباب بیان کئے ہیں جن کا نتیجہ ہو ا کرتا ہے کہ ایک صادق کے ماننے کی توفیق نہیں ملا کرتی.ایک تو انکار دوسرے اس کے وجود اور عدم وجود یا انذار اور عدم انذار کو برا بر جاننا.اب بھی جو لوگ منکر ہیں اور پھر اپنے انکار پر چلے آتے ہیں اس کا باعث یہی ہے.بعضوں کا انہماک تو دنیاوی اشغال کی طرف اس قدر ہے کہ ان کو خبر ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیوں پیدا کرتا ہے؟ اگر کسی سے نام سن بھی لیا تو پھر اس امر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ تحقیق و تفتیش کر کے اس کا جھوٹا یا سچا ہونا تو دیکھ لیں.اس قسم کے لوگ دولت ایمان سے محروم رہتے ہیں.نتائج عمل یہ دنیا جائے اسباب ہے اور ہم رات دن مشاہدہ کرتے ہیں کہ جیسے ایک نیک عمل کے بجالانے سے دوسرے نیک عمل کی توفیق ملتی ہے اسی طرح ایک بدی کرنے سے دوسری بدی کرنے کی جرات بھی پیدا ہوتی ہے.مثلاً دیکھو انسان جب اوّل بد نظری کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوبارہ اس حسن و ادا کو دیکھتا ہے پھر کوئی خط و خال پسند آیا اور محبت نے غلبہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کے گوچہ اور گلی میں جانے کا شوق پیدا ہوتا ہے جس پر اس نے بد نظری کی تھی اور اگر ملاقات کا اتفاق ہو ا تو ہاتھ ، زبان، آنکھ اور خدا معلوم کن کن اعضاء سے وہ معصیت میں مبتلا ہوتا ہے یہ نتیجہ کس بات کا تھا؟ اس
حقائق الفرقان ۹۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اوّل معصیت کا جو اس نے بدنظری کے ارتکاب میں کی.اسی طرح جو لوگ بدصحبتوں اور بد مجلسوں میں جاتے ہیں صرف وہاں جانا ایک خفیف سا فعل نظر آتا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ انہیں بدصحبتوں سے چور، ڈاکو، فاسق ، فاجر ، ظالم وغیرہ بن جاتے ہیں اور پھر ان باتوں کے ایسے خُوگر ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی خود بھی ان میں سے چھوڑنا چاہے تو مشکل سے چھوڑ سکتا ہے.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک قانون یہ ہے کہ جب انسان ایک فعل کرے تو اس پر دوسرا فعلِ الہی بطور نتیجہ کے وارد ہوتا ہے جس طرح جب ہم ایک کوٹھڑی کے دروازے بند کرتے ہیں تو ہمارے اس فعل پر دوسرا فعلِ الہی یہ ہوتا ہے کہ وہاں اندھیرا ہو جاتا ہے اسی طرح سے انسان سے جو اعمال ایمان اور کفر کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں ان پر ایک فعل النبی یا قبر خداوندی.....بھی صادر ہوتا ہے جس کا ذکر اس اگلی آیت میں ہے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ صفحه ۳۹) چونکہ وہ لوگ اول انکار کر چکے تھے اس لئے سخن پروری کے خیال نے ان کو رسول اللہ صلحم کی مجلسوں میں بیٹھنے اور آپ کی باتوں پر غور کرنے نہ دیا اور انہوں نے آپ کے انذار اور عدم انذار کو برابر جانا.اس کا نتیجہ کیا ہوا.لَا يُؤْمِنُونَ یعنی ہمیشہ کے لئے ایمان جیسی راحت اور سرور بخش نعمت سے محروم ہو گئے.یہ ایک خطر ناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے انذار اور عدم انذار کی پرواہ نہیں کرتے.ان کو اپنے علم پر ناز اور تکبر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتاب الہی ہمارے پاس بھی موجود ہے ہم کو بھی نیکی بدی کا علم ہے یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں؟ ان کم بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہود کے پاس تو تو رات موجود تھی اس پر وہ عمل درآمد بھی رکھتے تھے.پھر ان میں بڑے بڑے عالم، زاہد اور عابد موجود تھے پھر وہ کیوں مردود ہو گئے؟ اس کا باعث یہی تھا کہ تکبر کرتے تھے ، اپنے علم پر نازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اسلم کے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہ تھی.ابراہیم کی طرز اطاعت ترک کر دی.یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السلام اور اس رحمتہ للعالمین نبی کریم صلعم کے ماننے سے جس سے تو حید کا چشمہ جاری ہے ماننے سے باز رکھا.الحکم جلد 9 نمبر ۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۵ء صفحه ۷)
حقائق الفرقان ۹۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کفار تین قسم کے ہوتے ہیں.(۱) وہ جو بات کو سنتے ہی نہیں اور انکار کرتے چلے جاتے ہیں.(۲) وہ جو بات کو سن تو لیتے ہیں مگر کچھ تو جہ نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ہاں ایسی باتیں سناہی کرتے ہیں.اور یہ دلیلیں سنی ہوئی ہیں.کچھ قابل توجہ نہیں.(۳) تیسرے وہ جو توجہ کرتے ہیں مگر اچھی چیز کو سمجھ کر بھی قبول نہیں کرتے.جو کفار ایسے ہیں کہ ان کی سخت دلی اُس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ان کو نصیحت کوئی فائدہ نہیں دیتی.عذاب الہی سے ڈرانا بھی کچھ کارگر نہیں ہوتا.انہوں نے جن قوتوں سے کام لینے سے انکار کیا ہے وہ قو تیں ان کی چھین لی جاتی ہیں.ان کی مثال ایسی ہے جیسے کہ ایک تحصیلدار اپنے عہدے سے فائدہ نہیں اٹھاتا.سرکار کا کام پورانہیں کرتا تو بالآ خر ا سے عہدہ تحصیلداری سے علیحدہ کیا جاتا ہے.ایسا ہی جو لوگ خدا کی باتوں کو کسی حالت میں نہیں ماننے میں آتے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر ہو جاتی ہے.پھر کسی بات کا اثر ان پر نہیں ہوسکتا.جیسا کہ بعض ہند و فقیر اپنا ہاتھ اونچا کرتے ہیں اور اسی طرح رہنے دیتے ہیں اور نیچے نہیں کرتے تو کچھ عرصہ کے بعد پھر وہ ہاتھ وہیں خشک ہو جاتا ہے اور اس میں نیچے آنے کی طاقت رہتی ہی نہیں پھر اگر وہ چاہیں بھی کہ اُسے نیچے کریں تو بھی نہیں کر سکتے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ / اکتوبر ۱۹۱۲ ، صفحه ۳۲) b - خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَبْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ - ترجمہ.مہر کر دی اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر پردہ آیا ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے.تفسیر.ختم کہتے ہیں چھاپے کے ساتھ چھا پہ لگانے کو اور اس اثر کو جو کہ چھا پہ لگانے سے حاصل
حقائق الفرقان ۹۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہوتا ہے اور حفاظت اور آخر تک پہنچنے کو.اور قلوب قلب کی جمع ہے اور قلب کہتے ہیں دل کو.اور دل کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ خون کو قلب کرتا ہے کیونکہ وہ ایک جانب سے لیتا ہے اور دوسری طرف سے بدن کی طرف بھیجتا ہے یا اس کے تقلب کے لئے کیونکہ وہ قرار نہیں پکڑتا.اور اسی وجہ سے آنحضرت نے فرمایا ہے الْقَلْبُ بَيْنَ أُصْبُعَى الرَّحْمٰنِ يُقَلِّبُهَا كَيْفَ شَاءَ ( دل رحمن کی دو اُنگلیوں کے درمیان ہے اُلٹاتا ہے اس کو جیسا کہ چاہتا ہے ) رسال تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۷.جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۴۵) خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَبْعِهِمْ ۖ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ (البقرة: ۸) هُمْ کا لفظ یہاں تین بار آیا ہے اور یہ ضمیر جمع مذکر غائب کی ہے جس کے معنے ہیں وہ لوگ پس معلوم ہوا 66 کہ یہ ذکر ایسے لوگوں کا ہے جن کا پہلے کوئی ذکر آچکا ہے اس لئے ھم“ کے معنے سمجھنے کے لئے ضرور ہوا کہ ماقبل کو ہم دیکھ لیں.تو جب ہم نے ماقبل کو دیکھا تو یہ آیت موجود ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ اَم لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقرۃ: ۷) اس بیان سے اتنا تو معلوم ہوا کہ وہ ایسے منکر لوگ ہیں جن کے لئے ختم اللہ کا ارشاد ہے.عام نہیں.پھر قرآن کریم نے صاف صاف بیان فرمایا ہے جہاں ارشاد کیا ہے.بل طَبَعَ اللهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ (النساء : ۱۵۶) یعنی ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگا دی.اس سے معلوم ہوا کہ مہر کا باعث کفر ہے.انسان کفر کو چھوڑے تو مہر ٹوٹ جاتی ہے.اسی طرح فرمایا.كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَتِرٍ جَبَّارِ (المؤمن : ٣٦) پس تفصیل دونوں آیتوں کی یہ ہے.إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا (البقرة: ( تحقیق جن لوگوں نے کفر کیا ) یا درکھو کہ کفر کرنا کا فرانسان کا اپنا فعل ہے جیسے قرآن کریم نے بتایا اور یہ پہلی بات ہے جو کافر سے سرزد ہوئی ہے اور یہ کفر خدا دا دروحانی قوتوں، طاقتوں سے کام نہ لینے سے شروع ہوا جو دل کی خرابی کا نشان ہے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة سَوَاءُ عَلَيْهِمْ وَانْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ ( برابر ہورہا ہے ان کے نزدیک خواہ ڈرایا تو نے یا نہ ڈرایا تو نے ) یعنی تیرے ڈرانے کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.یہ دوسر افعل کا فرانسان کا ہے کہ اس نے اپنی عقل و فکر سے اتنا کام بھی نہیں لیا.اگر اس میں یہ خوبی نہ تھی کہ ایمان کے لئے خود فکر کرتا، سوچتا، عقل سے اپنا کام لیتا تو کم سے کم رسول کریم کے بیانات کو ہی سنتا کہ کفر کا نتیجہ کیسا برا اور اس کفر کا انجام کیسا برا ہے؟ لا يُؤْمِنُونَ نہیں مانتے.یہ تیسر آ فعل کا فرانسان کا ہے.اوّل تو ضرور تھا کہ قلب سے کام لیتا جو روحانی قوت کا مرکز ہے.اگر اس موقع کو ضائع کر چکا تھا تو مناسب یہ تھا کہ نبی کریم کی باتیں سنتا.پس کان ہی اس کے لئے ذریعہ ہو جاتے کہ ایمان دار بن جاتا اور یہ دوسرا موقع حصول ایمان کا تھا.پھر اگر یہ بھی کھو بیٹھا تو مناسب تھا کہ پکے ایمان داروں کے چال چلن کو دیکھتا جو ایسے موقع پر اُسی کے شہر میں موجود تھے اور یہ بات اس کا فر کو آنکھ سے حاصل ہو سکتی تھی مگر اس نے یہ تیسرا موقع بھی ضائع کر دیا.غور کرو ! اگر کوئی دانا حاکم کسی کو مختلف عہدے سپر د کرے لا کن وہ عہدہ دار کہیں بھی اپنی طاقت سے کام نہ لے تو کیا حاکم کو مناسب نہیں کہ ایسے سکتے شخص کو عہدہ سے اُس وقت تک معزول کر دے جب تک وہ خاص تبدیلی نہ کرے.اب اسی ترتیب سے دوسری آیت پر غور کرو.خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ.مُہر لگا دی اللہ نے ان کے دلوں پر.اس لئے کہ انہوں نے پہلے دل کا ستیا ناس خود کیا اور کفر کیا.وَ عَلَى سَبْعِهِمْ.اور ان کے کانوں پر.یہ دوسری سزا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے کانوں سے کام نہ لیا.وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ.یہ تیسری سزا ہے کہ اُن کے آنکھوں پر پٹی ہے کیونکہ انہوں نے آنکھ سے بھی کام نہ لیا.ظاہری مثال آپ نے قرآن کریم کے فہم میں دل سے اب تک کچھ کام نہ لیا اور یہ بات مجھے تمہارے
حقائق الفرقان 1+1 سُوْرَةُ الْبَقَرَة سوالوں سے ظاہر ہوئی ہے اور نہ یہ کوشش کی کہ پہلے ان سوالات کے جوابات کسی متکلم سے سنتے.اب میں آپ کے آگے آپ کی آنکھ کے آگے یہ رسالہ رکھتا ہوں دیکھئے ! آپ روحانی آنکھ سے کام لیتے ہیں یا نہیں؟ اگر توجہ کی اور کفر چھوڑا تو دیکھ لینا مہر ٹوٹ جائے گی.بات یہ ہے کہ ایک عام قانون جناب الہی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے جس سے یہ تمام سوال حل ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے.فَلَمَّا زَاغُوا أَزَاغَ اللَّهُ قُلُوبَهُمُ (الصف:۲) جب وہ کج ہوئے خدا نے ان کے دلوں کو سچ کر دیا.یہ بات انسانی فطرت کے دیکھنے سے عیاں ہوتی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ قو تیں عطا فرما کر ان قوتوں کے دینے کے بعد ان قوتوں کے افعال کے متعلق انسان کو جواب دہ کیا ہے اور انہیں طاقتوں کے متعلق نافرمانی کے باعث انسان عذاب پاتا ہے مثلاً ایک ہوا دار روشن کمرہ کی کھڑکیاں عمدہ طور پر بند کی جاویں تو اس بند کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کمرہ کے اندر اندھیرا ہو اور کمرہ کی ہواڑک جاوے.یہ مشل ٹھیک ان اعمال پر صادق آتی ہے جن کا انسان جواب دہ ہے.اسی طرح آتشک اور خاص سوزاک اُن لوگوں کو ہو گا جو بدی کے مرتکب ہوئے.پس جب کھڑکیاں کھول دی گئیں اور پورا اور صحیح علاج کر لیا گیا تو کمرہ پھر ہوا دار، روشن اور مریض اچھا ہو جائے گا.مہریں اسلام کے رُو سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں.اسی واسطے قرآن کریم میں آیا ہے هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَةٍ مِنَ الْهُدى ( البقرة : ۱۸۲) مُہریں ہی ٹوٹیں تو نبی کریم سے لے کر کروڑ در کروڑ آج تک مسلمان ہوئے.ہاں ! تمہارے مذہب کے رُو سے مہر کا ٹوٹنا ضرور محال ہے کیونکہ اگر مہروں کا ٹوٹنا محال نہیں تو آپ کم سے کم اپنی گا ؤ ماتا کو اس کے بھرشٹ جنم سے چھڑاتے.ہمیں اسے پنڈتانی بنا کر دکھاؤ تو سہی! اس بیچاری کا جنم صرف سزا ہی بھوگ رہا ہے کاش اس کی مہر ٹوٹتی تو نہ انگریز اسے مارتے اور نہ ہم پر اتنے مقدمات قائم ہوتے.( نور الدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۳۸ تا ۱۴۱) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَاَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَبْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ.(البقرة: ۸۷)
حقائق الفرقان ۱۰۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس کے لطیف معنے اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتائے ہیں.ایک آدمی ایسا شریر ہوتا ہے اور گندا ہوتا ہے کہ جب اس کو اس کی بھلائی کے لیے کوئی بات کہتے ہیں تو معاوہ انکار کر جاتا ہے.اس کو اس خیر خواہی پر ذرا بھی پرواہ نہیں ہوتی اس واسطے اس کے دل پر مہر لگ جاتی ہے.میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ میں تم سے کسی بات کا خواہش مند نہیں.اپنی تعظیم کے لیے تمہارے اٹھنے کا محتاج نہیں.تمہارے سلام تک کا محتاج نہیں.باوجود اس کے میں کسی کو کچھ کہتا ہوں اور نصیحت کرتا ہوں لیکن ایسے بھی ہیں کہ ابھی تھوڑے دن ہوئے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو نصیحت کی اس نے مجھ کو دو ورق کا خط لکھ کر دیا.خلاصہ کلام جو انسان کو دکھ پہنچتا ہے تو کسی گناہ کے ذریعہ سے اس کو پہنچتا ہے.البدر جلد ۱۴ نمبر ۲۰ مورخه ۲۷ / نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۳) مسئلہ تقدیر اور انسانی تصرف ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے جو قوی اور اعضاء دیئے ہیں وہ دو قسم کے ہیں.ایک وہ جن پر انسان کا کوئی دخل اور تصرف نہیں ہے.مثلاً انسان کے جوڑ ، ہڈیاں، پٹھے، پر دے بنا دیئے ہیں جن میں وہ کوئی دست تصرف نہیں رکھتا.اس کا قدا گر لمبا ہے تو وہ اسے چھوٹا نہیں کر سکتا اور اگر چھوٹا ہے تو بڑا نہیں کر سکتا.علی ھذا القیاس اعضاء کی ساخت میں کچھ دخل نہیں دے سکتا تو اس قسم کے اعضاء پر جن میں انسان کا کوئی دخل اور تصرف نہیں ہے شریعت اسلام نے بھی کوئی حکم انسان کو نہیں دیا کیونکہ اس میں انسان کے اجتہاد کا کوئی دخل نہیں ہے صانع حقیقی نے جو کچھ بنا دیاوہ اُسے بہر حال منظور کرنا پڑتا ہے اور اسی لئے جو شریعت ایسے امور میں کوئی حکم تجویز کرتی ہے وہ کبھی خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی.دوسرے وہ اعضاء ہیں جن پر انسان کا دخل اور تصرف ہوتا ہے اور ان کے فعل کے ارتکاب یا ترک پر وہ قدرت اور استطاعت رکھتا ہے مثلاً زبان کہ اس میں ایک قوت تو چکھنے کی ہے جس سے مزا کی تمیز کرتی ہے کہ کھٹا ہے یا میٹھا نمکین ہے کہ پھیکا.یہ اس کی ایسی قوت ہے کہ انسان کا اس پر تصرف نہیں ہے جو مزا شئے کا ہو گا تندرست زبان وہی محسوس کرے گی مگر زبان سے بولنا یہ اس کی ایک اور قوت ہے جس پر انسان مقدرت رکھتا ہے خواہ بولے یا نہ بولے.ایک امر واقعہ کے خلاف بیان
حقائق الفرقان ۱۰۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کرے یا اس کے موافق کہے.اسی طرح آنکھ ہے کہ اس میں جو قوت بینا ئی ہے اس پر انسان کا تصرف نہیں ہے مگر کہاں کہاں نظر کو ڈالے اور کہاں کہاں نہ ڈالے یا ایک دفعہ ڈالے مگر دوسری دفعہ نہ ڈالے اس پر انسان کا تصرف ہے اس لئے ایسے امور میں جن میں انسان کا تصرف ثابت ہے احکام بتلائے ہیں کہ انسان ان کی خلاف ورزی نہ کرے.البدر جلد ۲ نمبر ۵ مورخه ۲۰ فروری ۱۹۰۳ ء صفحه ۳۹) اس بیان سے یہ ثابت ہے کہ انسان کن کن امور میں مجبور اور کن کن میں مختار ہوتا ہے.اس لفظ مختار اور مجبور پر بھی لوگوں نے بحث کی ہے لیکن قرآن شریف اور احادیث اور آثار صحابہ میں یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے.پھر نہیں معلوم کہ اہل اسلام کو ان الفاظ پر بحث کرنے کی ضرورت کیوں آپڑی اور اگر یہ الفاظ استعمال میں آگئے ہیں تو بھی ان سے ذاتِ باری پر کوئی حرف نہیں آ سکتا.صاف ظاہر ہے کہ جیسے ایک مجبور کو سزا دینی ظلم ہے ویسی ہی ایک مختار کو پکڑنا بھی ظلم ہے.تم اس شخص کے حق میں کیا کہو گے جو ایک آدمی سے جبراً ایک فعل کرواتا ہے اور پھر اسے اس پر سزا دیتا ہے یا ایک شخص کو تمام اختیارات دے دیئے ہیں کہ جو چاہے کرے مگر پھر اس کی حرکتوں پر اسے گرفت کیا جاتا ہے ایسے آدمی کا نام سوائے احمق کے اور کیا ہو گا؟ پس یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی ذات ایسے خطاب سے پاک ہے اور نہ اس کے علم اور قدرت کا یہ تقاضا ہو سکتا ہے کہ مختار یا مجبور کی حالت میں انسان کو سزا دیوے.اس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر انسان سے کیوں باز پرس ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک کو دخل اور تصرف دے کر نتائج سے آگاہ کر دیا جاتا ہے اور یہ سب اُسے حاکمانہ حیثیت سے عطا کر کے بتلایا جاتا ہے تو اس وقت اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو وہ قابل مواخذہ ضرور ہوتا ہے.دنیاوی حکاموں اور سلطنتوں میں اس کی نظیریں موجود ہیں کہ ایک عہدہ دار یا ملازم کو دخل اور تصرف مال و زر یا دیگر اشیاء سرکاری پر دیا جاتا ہے، اس کے اختیارات کا اسے علم ہوتا ہے، اس کی حدود مقرر ہوتی ہیں اور جب ان کو ٹھیک ٹھیک بجالا وے تو قابل انعام و شکر یہ ہوتا ہے خلاف ورزی کرے تو سزا پاتا ہے یہی حال انسان کا اس دنیا میں ہے اور خود آسمانی کتابوں کا نازل ہونا اس امر کی
حقائق الفرقان ۱۰۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة طرف اشارہ کرتا ہے ورنہ شریعت اور قانون کی کوئی ضرورت نہ تھی.اس سے ہم کو پتہ لگتا ہے کہ انسان کی جواب دہی اس حال میں ہے جب کہ وہ اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نتائج اعمال سے آگاہ کیا گیا ہے.یہ آگاہی اُسے بارگاہ ایزدی میں جواب دہ بناتی ہے.اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر آسمانی کتابوں کا نازل کرنا، انبیاء اور ان کے خلفاء کو مبعوث کرنا خدا کا ایک بے شود فعل ہوتا.جیسے آنکھ اپنا کام کرتی ہے اور وہ کان کا کام نہیں دے سکتی اسی طرح انسان فرشتوں کی طرح بنایا جاتا مگر اس طرح کی بناوٹ سے وہ کسی ثواب اور اجر کا مستحق نہ ہو سکتا تھا کیونکہ ثواب اور انعامات وغیرہ کا انسان اُسی وقت مستحق ہوتا ہے جب وہ کوئی امر خلاف طبع کر کے دکھاتا ہے.ایک پیشہ ور اگر اپنی خواہشِ طبعی کے موافق گھر بیٹھا ر ہے اور اپنے نفس کے خلاف کوئی تکلیف حرکت کرنے کی اپنے اعضاء سے کام لینے کی گوارانہ کرے تو وہ کب کچھ حاصل کر سکتا ہے؟ انسان کا نفس تو آرام کو چاہتا ہے مگر جب تک وہ اس آرام کو چھوڑ کر کچھ تکلیف خلاف نفس گوارا نہ کرے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح خادم اپنے آقا کو، ملازم اپنے افسر کو خوش نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کچھ اپنے خلاف نفس نہیں کرتا.یہ شب و روز کا نظارہ اس امر کو خوب ظاہر کرتا ہے کہ انسان کے اندر نتائج اعمال کا علم ہے جس سے وہ ترقی مراتب کی کوشش کرتا رہتا ہے.پس جن راہوں پر وہ چل کر انعام اور ترقی حاصل کرتا ہے ضرور ہے کہ جب ان کو ترک کرے تو نقصان بھی اٹھاوے.بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض انسانی قوی کی ساخت ہی اس قسم کی واقع ہوئی ہے کہ اس قسم کے اعضاء والوں سے وہ حرکات ہی ناشائستہ سرزد ہوں مثلاً ڈاکو، چور وغیرہ جو ہوتے ہیں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی کھو پریوں کی ساخت ایک خاص قسم کی ہوتی ہے جو دوسرے لوگوں سے بالکل علیحدہ اور متمیز ہوتی ہے پھر جس حال میں کہ قدرت نے ان کی ساخت ہی ایسی بنائی ہے وہ کس طرح جواب دہ ہونے چاہئیں؟ اس کا جواب یہ کہ اس سوال کا تعلق علم قیافہ سے ہے جو ایک مومن کا کام ہے.حدیث شریف میں ہے اِتَّقُوْا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللہ کہ تم مومن کی فراست سے
حقائق الفرقان ۱۰۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ڈرو کیونکہ وہ اللہ کے عطا کردہ نور سے ہر ایک شئے کو دیکھتا ہے.یادر ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسے اعضاء دیئے ہیں کہ وہ ان کو دبا سکتا ہی نہیں ہے ان کا نام مجنون رکھا ہے جن پر شریعت کا کوئی حکم جاری نہیں ہے.ہاں اگر اس کے اندر کچھ نہ کچھ قوت ان اعضاء کے تقاضا کو دبانے کی ہے تو وہ ضرور قابل مؤاخذہ ہیں کیونکہ جب وہ بعض حالتوں میں ان قوی کو دبا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حکم خداوندی سے نہیں دبا سکتے یا کم از کم اپنے اس فعل پر نادم ہو کر ان کے دبانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگ سکتے ؟ ہم نے خود مجنونوں کو دیکھا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ قوت ضرور باقی رہتی ہے.روٹی وہ ضرور کھاتے ہیں بعض کو پیسہ مانگتے بھی دیکھا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ قوت ضرور باقی ہوتی ہے.اسی طرح ہم ایک چور اور ڈاکو کو دیکھتے ہیں کہ اگر یہ افعال بدان سے بہ تقاضائے فطرتی صادر ہوتے ہیں تو پھر وہ حفاظت کا کیوں انتظام کرتے ہیں اور جب ان کو خطرہ ہو کہ ہم پکڑے جاویں گے تو کیوں بھاگتے ہیں؟ پس معلوم ہوا کہ ان میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنے قومی کو دبانے کی قوت بھی ہے اور اسی کا نام تو بہ ہے کہ جب انسان ایک طاقت کو بار بار دیا تا ہے تو وہ آخر کار زائل ہو جاتی ہے اور یہی شریعت کا حکم ہے.ہاں! اگر اس میں دبانے کی طاقت نہیں ہے تو وہ مجنون اور پاگل ہے اس پر کوئی حکم شریعت کا نہیں ہے.جو شخص بدی کو بدی جان کر کرتا ہے وہ ضرور قابل مؤاخذہ ہے.بعض قو میں ایسی بھی ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ جن کو تم بدی کہتے ہو ہم اُن کو بدی نہیں تصور کرتے.مگر وہ اپنے اقوال میں جھوٹے ہیں اور شرارت سے یہ بات کہتے ہیں.ایک دفعہ ایک کنجر سے مجھے گفتگو کرنے کا اتفاق ہوا اُس نے کہا کہ ہم زنا کو ہرگز بدکاری نہیں سمجھتے.میں نے اُس سے پوچھا کہ اگر یہ تمہارے نزدیک بدکاری نہیں ہے تو پھر بہوؤں سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے ؟ تب اُس نے کہا کہ وہ غیر کی لڑکی ہوتی ہے اُس سے یہ ید کنجر لوگ جب اپنا بیاہ کرتے ہیں تو اس بیا ہتا عورت کو بہو کہتے ہیں اور اس سے حرام کاری کروانا سخت گناہ خیال کرتے ہیں.
حقائق الفرقان 1.7 سُوْرَةُ الْبَقَرَة خرابی اور گند کروانا ٹھیک نہیں ہے.اس کم بخت نے اپنے منہ سے اس کام کو خرابی اور گند کہا حالانکہ اول کہہ چکا تھا کہ ہم زنا کو بدکاری نہیں خیال کرتے.میں نے اُسے ملزم کیا اور کہا کہ دوسرے تماش بین جو تمہاری لڑکیوں کے پاس آتے ہیں کیا وہ ان لڑکیوں کو اپنی لڑکیاں خیال کرتے ہیں؟ وہ بھی غیروں کی سمجھ کر آتے ہیں.اس بات کو سن کر پھر اُسے کلام کی جرات نہ ہوئی.البدر جلد ۲ نمبر ۶ مورخه ۲۷ فروری ۱۹۰۳ء صفحه ۴۶) اسی طرح ایک دفعہ ڈاکو اور چوروں سے میں نے پوچھا کہ تم ڈا کہ اور چوری کو گناہ خیال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہر گز نہیں.مجھے چونکہ ان کے انتظامات کا علم تھا کہ ڈاکو کس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور چور کس طرح نقب زنی کرتے ہیں.کہاں کہاں پہرہ ان کا ہوتا ہے پھر ایک اندر جاتا ہے ایک سامان کو پکڑنے والا ہوتا ہے.ایک ڈاک چوروں کی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ مال کو جھٹ دوسری جگہ پہنچا دیں.پھر جس زرگر سے ان کی سازش ہوتی ہے وہ سونا چاندی گلانے کا سامان تیار رکھتا ہے کہ دیر نہ ہو.میں نے ان سے پوچھا کہ جب تم آپس میں مال ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہو تو اگر اس میں سے دوسرا کچھ نکال لیوے یا اگر کہیں دباتے ہو تو دوسرا چوری سے کھود کر لے لے اور تم کو اطلاع نہ دے یا ز ر گر اپنے مقررہ حصہ سے کچھ زیادہ رکھ لے تو پھر کیا کرتے ہو؟ اس پر طلیش میں آ کر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایسے خائن بے ایمان کی گردن مار ڈالیں.میں نے کہا کہ خیانت اور چوری تو تمہارے نزدیک گناہ نہیں پھر اس کو سزا کیوں دیتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایسے بے ایمان کو ہم کبھی شامل ہی نہیں کیا کرتے.پھر میں نے ان کو کہا کہ جب تمہارا مال کوئی بے ایمانی سے لے تو تم اسے گناہ کہتے ہو بتلاؤ تم جو دوسروں کا مال لیتے ہو اور خدا معلوم کن کن مشکلوں سے انہوں نے کیسے کما یا ہو ا ہوتا ہے یہ کونسی ایمانداری ہے؟ غرضیکہ ان نظائر سے پتہ لگتا ہے کہ ہر بد کارا اپنی بدی کے ارتکاب میں ضرور ملزم ہے.ہاں! اب یہ سوال ہوسکتا ہے کہ انسان ان بدکاریوں کا کیوں ایسا مرتکب ہوتا ہے کہ پھر چھوڑ نہیں سکتا یا اگر چھوڑ نا چاہے تو اس کا کیا علاج ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قومی عطا کئے
حقائق الفرقان 1+2 سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں اُن سے جب ان کے تقاضا کے موافق حسب فرمودہ الہی وہ کام نہیں لیا جا تا تو ان کی قوت زائل ہو جاتی ہے اور جو قوت ان کی بالضد بالمقابل ہوتی ہے وہ ترقی پاتی ہے اور بہت نشو و نما کرتی ہے.یہ ایک ایسا بندھا ہوا قانون ہے کہ جس کے مشاہدہ کثرت سے اس عالم میں ہیں.تم نے دیکھا ہوگا کہ بعض ہند وفقیروں کے ہاتھ سوکھے ہوئے اور کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ہاتھوں کو ایک عرصہ تک کھڑا کر چھوڑتے ہیں اور قدرت کے منشاء کے موافق ان سے کام نہیں لیتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام کرنے کی طاقت ہاتھ سے زائل ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر آنکھ کوتم چالیس دن تک ایسی پٹی باندھ چھوڑو کہ اُس سے کچھ نظر نہ آوے تو آخر کار پھر اس سے قوت بینائی کم ہو جاوے گی.اسی طرح سے جو لوگ نیکی کی قوتوں سے کام نہیں لیتے آخر کار وہ دن بدن کمزور ہو کر زائل ہو جاتی ہیں اور ان کے مقابل پر بدی کی قوت ترقی پکڑتی پکڑتی آخر کار ایک حجز وطبیعت ہو جاتی ہے.پس جو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ وہ ان کو دن بدن دبانا شروع کریں اور نفس کی مخالفت پر زور دیویں اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتے رہیں آخر کار وہ ایک دن اُن سے نجات پا جاویں گے کیونکہ جیسے ہم نے پیشتر بیان کیا ہے خدا کا لا تبدیل قانون یہی ہے کہ ہر انسانی فعل کے بعد ایک فعل الہی صادر ہوتا ہے.انسان اگر نیکی کے قومی سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ دن بدن اسے اور برکت دیتا ہے حتی کہ نیکی اس کی طبیعت کا جزو ہو جاتی ہے.شکر نعمت پر ازدیاد نعمت کی یہی فلاسفی ہے اور جولوگ خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے قومی سے ٹھیک کام نہیں لیتے وہ دن بدن بدیوں پر دلیر ہو کر خدا کا غضب حاصل کرتے ہیں یعنی وہ خدا کی نعمت کا کفر کرتے ہیں اسی لئے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں.پس اس تفصیل سے خوب ظاہر ہو گیا ہے کہ ختم اللہ میں کسی قسم کا جبر انسان کے اوپر نہیں ہے کیونکہ ختم اللہ تو ایک فعل الہی ہے جو کہ انسانی فعل کے بعد حسب قانونِ قدرت ضروری صادر ہونا تھا.خدا تعالیٰ نے ہدایت کے سامان ان کے لئے مہیا کئے مگر انہوں نے اُن سے کام نہ لیا اس لئے جو قومی ترقی ایمان کے ان کو عطا ہوئے تھے وہ ان سے لے لئے گئے اور حکمت بالغہ کا یہی نتیجہ ہونا
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة چاہیے تھا.دیکھو اگر آج تم میں سے ایک کو تحصیلداری کے اختیارات دیئے جاویں لیکن وہ ان کو استعمال نہ کرے اور تمام دن اور ہی کام کرتا رہے تو کیا گورنمنٹ وہ اختیارات اس کے پاس رہنے دیوے گی ؟ ہر گز نہیں.پس جبکہ دنیاوی مصلحت اور حکمت اس امر کا تقاضا نہیں کرتی تو خدا تعالیٰ پر کیوں یہ امر لازم ہوسکتا تھا؟ ختم.اس کے معنے نشان کے ہیں.دوسرے مہر کے.اول معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر نشان یا علامت کر دی تا کہ فرشتہ یا فرشتوں کے رنگ کی انسانی مخلوق ان کو پہچان کر ان سے مناسب حال سلوک کرے.اہل فراست ان کو پہچان کران سے پر ہیز کریں.دوسرے معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ جب کسی شئے پر مہر لگ جاتی ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شئے اس کے اندر اب نہ داخل ہو سکتی ہے نہ باہر آ سکتی ہے یعنی اب ان کے دل ، کان اور آنکھ کسی حقیقت تک پہنچنے سے محروم کر دیئے گئے ہیں.نہ حق داخل ہوسکتا ہے نہ کفر نکل سکتا ہے.قُلُوب جمع قلب کی بمعنے دل.اس سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں ہے جو آنکھوں سے نظر آتا ہے وہ تو ایک گدھے میں بھی ہوتا ہے بلکہ قوت اورا کیہ جس کا ایک مجہول الکنہ تعلق اس انسانی قلب کے ٹکڑے سے ہے.قلب پر ختم کا یہ باعث ہو ا کہ ان کو قلب الہی اس لئے دیا گیا تھا کہ وہ سوچتے کہ شخص ( محمد صلم ) مدت سے ہم میں رہتا ہے.اس کے اخلاق ، عادات، تعلقات، معاملات، لین دین وغیرہ سب امور پر نظر مارتے ، اس کی گذشتہ زندگی کو جانچتے ، اس کی خلوت ،جلوت کے حالات کا مطالعہ کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا اور فرمایا قَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمْرًا مِّنْ قَبْلِهِ اَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس : ۱۷).اس دعویٰ اور تحدی پر غور کرتے جب اس نے قلب سے قلب کا کام نہ لیا اور اس کو معطل رکھا تو آخر اللہ تعالیٰ نے وہ نو را ایمان ان سے لے لیا.سمع.بمعنے کان اور سننا.اس پر ختم کا یہ باعث ہو ا کہ اگر اس کا قلب اس قابل نہ تھا تو پھر لے بے شک میں رہ چکا ہوں بڑی عمر اس سے پہلے تم میں تو کیا تم کو کچھ بھی عقل نہیں ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان 1+9 سُوْرَةُ الْبَقَرَة کانوں سے آپ کی (یعنی آنحضرت صلعم) کی تعلیمات اور دعاوی اور دلائل کو ہی سنتا مگر جب یہ بھی نہ سنا تو آخر خدا نے یہ قوت بھی لے لی.ابصار بمعنی بصر یعنی بینائی.اس پر پٹی اِس لئے پڑ گئی کہ سمع اور قلب کے جاتے رہنے کے بعد اگر قوت بینائی سے جو باقی رہ گئی تھی اس سے کام لیتا.آپ کے ساتھ جو نشان تائیدات الہی کے تھے اُن پر نظر ڈالتا.اپنے شہر کے چیدہ اور قابل قدر آدمیوں کو دیکھتا کہ وہ کس کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں تو بھی اُسے راہ حق مل جاتا مگر جب اس نے اس سے بھی کام نہ لیا تو خدا نے یہ بھی اس سے لے لیا.غرضیکہ کفر کیا تو قلب گیا.انذار اور عدم انذار کو برابر جانا تو کان گئے.تائیدات سماویہ کو نہ دیکھا تو آنکھیں گئیں.غشاوة کے معنے جھلی ، پردہ.عظیم.اُس کو کہتے ہیں جو ہر ایک پہلو سے بڑا ہو.چونکہ انہوں نے ہر ایک پہلو سے صداقت کو چھوڑا اس لئے عذاب عظیم ہی مناسب حال تھا جو کہ ہر طرف سے اُن کو احاطہ کرتا.البدر جلد ۲ نمبر۷ مورخہ ۶ / مارچ ۱۹۰۳ء صفحه ۵۴) اس سوال کے جواب میں کہ جب خدائی مہر دلوں پر لگ گئی تو ہدایت کیونکر ممکن ہوگی ؟ فرمایا.اسی قرآن میں مہر کی وجہ اور جس لاکھ کی مہر ہے اس کا پتہ اور اس کا سبب مرقوم ہے وہ سبب اور وہ مُہر وہ لاکھ ہٹا دو.وہ خدائی مہر خوداُکھڑ جائے گی.ط لے وَقَوْلِهِمْ قُلُوبِنَا خُلُفْ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ (النساء:۱۵۲) كَذلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْب مُتَكَذِرٍ جَبَّارٍ (المومن : ٣٦) كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِم مَّا كَانُوا يَكْسِبُونَ (المطففين : ۱۵) دیکھو کفر اور تکبر اور بداعمالی کے کسب سے مہرلگتی ہے ان بُری باتوں کو چھوڑ دو، مہر بٹی ہوئی دیکھ لے اور اس کہنے پر کہ ہمارے دل پر خلاف ہے کوئی نہیں پر اللہ نے مہر کی ہے ان پر مارے کفر کے.سے اسی طرح مہر کرتا ہے اللہ ہر دل پر غرور والے سرکش کے.سے کوئی نہیں پر زنگ پکڑ گیا ہے ان کے دلوں پر جوئے کماتے تھے.( ناشر )
حقائق الفرقان 11 • سُوْرَةُ الْبَقَرَة لو.خدائے تعالیٰ نے اپنے قانون میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جن قوی سے کام نہ لیا جاوے وہ قوی بتدریج اور آہستہ آہستہ کمزور ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ قوای جن سے کام نہیں لیا گیا اسی طرح سے بیکار اور معطل رہتے رہتے بالکل سکتے ہو جاتے ہیں اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قوی پر اور ان قوی کے رکھنے والوں پر مہر لگ گئی ہے.ہر ایک گناہ کا مرتکب دیکھ لے جب وہ پہلے پہل کسی بُرائی کا ارتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے ملکی قوای کیسے مضطرب ہوتے ہیں.پھر جیسے وہ ہر روز برائی کرتا جاتا ہے ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامل جو پہلے دن اس بد کا رکو لاحق ہو اتھا وہ اُڑ جاتا ہے..انسانی نیچر اور فطرت اور اس کے محاورے کی بولی پر غور کرو.شریر اور بدذات آدمی کو ایک ناصح فصیح نہیں کہتا کہ ان کی عقل پر پتھر پڑ گئے، ان کے کان بہرے ہو گئے ، ان کی سمجھ پر تالے لگ گئے.کیا ان مجازوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے؟ فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۱۸) - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ - ترجمہ.اور آدمیوں میں سے بعض آدمی ایسا بھی ہوتا ہے جو بتاتا ہے کہ ہم نے اللہ اور قیامت کے دین کو مانا حالانکہ وہ ماننے والوں میں نہیں.تفسیر.ان تمام لوگوں میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم الآخر پر ایمان لائے اور وہ دراصل ایمان دار نہیں ہیں.اس سے پیشتر کے رکوع میں مُنْعَمُ عَلَيْهِم اور مَغْضُوبِ عَلَيْہ گروہ کا ذکر ہوا ہے اور اب ضالین کا ذکر ہے یعنی ان لوگوں کا جو کہ گمراہی میں ہیں.منافق کو بھی چونکہ ڈھل مل یقین ہوتا ہے کبھی ادھر اور کبھی اُدھر.صراط مستقیم پر اس کا قدم نہیں ہوتا اس لئے وہ بھی ضال یعنی گمراہ ہوتا ہے.قرآن کریم میں یہ ذکر اس لئے ہیں کہ ہر ایک مومن اپنے نفس کو ٹولے اور جو مذموم صفت اسے نظر آوے اسے دور کرے اور نفس کے اس دھوکے میں نہ آوے کہ اس سے مراد وہ منافق ہیں جو کہ کسی نبی یا مامور پر ایمان کے بارے میں نفاق رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تو حقیقی مومن
سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان ہیں.نہیں ہرگز نہیں.بلکہ اپنی حالت قلبی اور اللہ تعالیٰ کی عنایات اور تائیدات کا رنگ اپنے وجود میں امتحان کر کے اس بات کو پر کھے کہ اگر میں منافق نہیں ہوں تو کیوں ناکامیاں میرے شامل حال ہیں اور جن کو میں منافق کہتا ہوں ان سے میرے حالات متمیز ہیں کہ نہیں.حضرت احمد مرسل یزدانی نے ۲۵ / مارچ کی ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ نیکی اور تقوی کا دعوی کرتے ہیں تو ان کا دعولی کیوں قرآن کے برابر آ کر ٹھیک نہیں بیٹھتا.خدا تو وعدہ کرتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷) اور إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ (الانفال:۳۵) اگر یہ لوگ واقعی طور پر متقی ہیں تو خدا ان کا کیوں کفیل نہیں اور خدا کا قول کیوں صادق نہیں آتا.پس ہر ایک نفس کو دیکھنا اور غور کرنا چاہیے.میں جو دوسروں کو منافق اور کا فر وغیرہ کہ کر الہی تائید اور نصرت سے محروم کہتا ہوں کہیں وہی محرومی میرے شامل حال تو نہیں ہے.پس اگر دیکھے کہ وہ بھی ظلمتوں میں پھنسا ہوا ہے اور الہی تائید اس کے معاملات اور کاروبار میں شریک نہیں ہے اور اُسے کھلی کھلی اور تین صراط مستقیم نہیں تو سمجھے کہ کوئی شعبہ نفاق یا کفر کا ضرور دل میں ہے اور ممکن ہے کہ اس کی اسے خبر بھی نہ ہو.من.بمعنے جو ، وہ کون.یہ لفظ ایک، دو، تین اور اس سے زیادہ کے واسطے آتا ہے.يَقُولُ بمعنے بتلاتا ہے.خواہ زبان سے خواہ ہاتھ سے خواہ اپنے اور اعضاء سے تحریر سے یا تقریر سے.غرض دوسرے کو بتلا دینے کے موقع پر استعمال ہوتا ہے اس سے قال کا لفظ عام ہے.یہ ضرور نہیں کہ بالمشافہ گفتگو ہو.اسی لئے اکثر قصے اس قسم کے بنے ہوئے ہوتے ہیں کہ دیوار نے میخ کو کہا کہ تو مجھے کیوں چھید رہی ہے.شیخ نے کہا اس سے پوچھ جو مجھے ٹھوک رہا ہے.میخ اور دیوار کی زبان نہیں ہوتی.یہاں زبان سے مراد زبانِ حال ہے.امَنَّا بِاللہ اللہ پر ایمان لانے کے یہ معنے ہیں کہ کل قرآن شریف کی باتوں کو ماننا.اسلام میں اللہ لفظ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا خدا جو کہ تمام صفات کا ملہ اور عالیہ سے متصف اور جمیع خصائل اور رزائل سے منزہ ہو اور اسلام نے وہ خدا پیش کیا ہے جو کہ کتا بیں نازل کرتا، اپنے بندوں سے کلام کرتا، ان کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول اور مجد دمبعوث کرتا، جو اس کا طالب ہوتا اس کو اپنی راہیں دکھاتا، لے اور وہی نیک بندوں کی حمایت کرتا ہے.۲.اُس کے ولی اور مستحق تو متقی ہی ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۱۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نیکی کا بدلہ نیک اور بدی کا بدلہ بددیتا اور اپنے دوستوں کو عزت دیتا اور ان کے لئے خوارق عادت کام کرتا اور اپنے دوستوں کے دشمنوں کو ذلیل کرتا، ایسے خدا کو جو ماننے والا ہوا سے نفاق کی کیا ضرورت ہے اور کس کا ڈر ہے کہ وہ حق کو چھپاوے اور درپردہ خدا کے دشمنوں سے بھی تعلقات رکھے.يَوْمِ الْآخِر پر ایمان کے یہ معنے ہیں کہ انسان جزا و سزا کا قائل ہو.اس کے دل میں یہ بات جمی ہوئی ہو کہ نیکی کا بدلہ بدی اور بدی کا بدلہ نیکی نہیں ہو سکتا.پھر جس کو یہ ایمان حاصل ہو اور ادھر وہ خدا کو ایک متصرف مقتدر ہستی مانتا ہو تو بتلاؤ نفاق کہاں رہے گا.اس لئے خدا تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ یہ لوگ اس دعوی میں جھوٹے ہیں.صرف ظاہری باتوں اور فعلوں سے دکھلانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں.وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِين.وہ مومن ہر گز نہیں ہیں.جب ما کا صلہ با آوے تو اس سے تاکید مُراد ہوتی ہے واؤ یہاں حالیہ ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخه ۱۷ را پریل ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۰۲) بہت لوگ ایسے ہیں جو کہہ تو دیتے ہیں کہ ہم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے مگر وہ ذرا بھی مومن نہیں ہوتے.ایمان کے سبق کا شروع اللہ پر ایمان لانے سے ہے اور اس سبق کا اختتام آخرت کے ماننے پر ہے اس لئے اس کے اندرونی حصوں کا ذکر نہیں آیا وہ سب ان دونوں کو ماننے میں آ گیا.اللہ پر ایمان جبھی مکمل ومسلّم ہو سکتا ہے جب اس کے ملائکہ ، کتب و رسولوں پر ایمان لا یا جاوے.ماننے کے معنے صرف زبان سے کہنا نہیں بلکہ تصدیق قلب اور عملوں کے ذریعہ اپنے ایمان کا ثبوت ضروری ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ رفروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۴) قرآن میں بہت جگہ پر اس قسم کا ذکر پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کے بھی ہؤا کرتے ہیں کہ زبان سے تو وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں دکھاتے.زبان سے وہ ایسی ایسی باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جن کو ان کے دل نہیں مانتے.چنانچہ قرآن کریم کے شروع میں ہی لکھا ہے وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ
حقائق الفرقان ۱۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مَا هُمْ بِمُؤْمِنين.(البقرة: 9) ایسے لوگ اللہ پر ایمان لانے اور آخرت پر ایمان لانے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے دل مومن نہیں ہوتے.اسی لئے باوجود اس کے کہ وہ اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لانے کا دعوی کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مومنوں میں سے نہیں سمجھتا.وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم کو اللہ پر اور آخرت پر ایمان ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ کہ وہ اللہ کے نزدیک مومن نہیں.الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۰۷ صفحه ۱۱) -١٠- يُخْدِعُونَ اللهَ وَ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يشعرون - ترجمہ.وہ اللہ کو چھوڑتے ہیں اور ایمان والوں کو ( فریب دیتے ہیں ) اور وہ کسی کو بے نصیب نہیں کرتے مگر اپنے آپ کو اور وہ کچھ شعور بھی نہیں رکھتے.تفسیر.وہ اللہ کو چھوڑتے ہیں اور ان کو جو ایمان لائے حالانکہ وہ تو اپنے نفسوں ہی کو ( دراصل) محروم کرتے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کا کچھ شعور نہیں رکھتے.يُخْدِعُونَ کا ترجمہ ”دھوکہ دیتے ہیں“ کریں تو اس میں بہت سی مشکلات ہیں اس لئے میرے نزدیک اس کے معنے ” ترک کرتے ہیں، صحیح ہیں.ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑا تو اس کا خمیازہ یہ اٹھایا کہ اپنے آپ کو محروم کر لیا.عبد اللہ بن ابی بن سلول ایک شخص تھا وہ بھی انہی مِنَ النَّاسِ “ میں سے تھا.نبی کریم ایک مجلس میں وعظ کہنے لگے.اس روز بہت جھگڑہ تھا سواری میں غبار جو اُٹھا تو اس نے رومال اپنے منہ پر رکھ لیا اور کہا کہ باتیں تو اچھی ہیں اگر گھر ہی سناتے تو اچھا تھا یہاں ہم کو تکلیف ہو رہی ہے.اس پر صحابہ میں بہت گفتگو ہوئی.ایک صحابی نے عرض کیا اس سے در گزر کر دیں.پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے اپنا بادشاہ بنا لیں يُتَوجُوهُ وَ يُعَصِبُوهُ یعنی تاج شاہی اس کے سر پر رکھ دیں اور نمبر داری کی پگڑی اسے بندھا دیں مگر اب گھل گیا کہ یہ شخص اس قابل نہیں.اس نے اپنے تئیں ذلیل کر لیا.دیکھو وہ پھر کیسا تباہ ہو امومنوں کے سامنے ہلاک ہوا اور اس نے کوئی شرف نہ پایا.
۱۱۴ حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة منافق اپنے تئیں بڑا ہو شیار سمجھتا ہے اور اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ میں بڑا دا نا ہوں کہ دونوں طرفوں کو گانٹھ رکھا ہے لیکن در حقیقت منافق بڑا کمزور ہوتا ہے اس میں نہ قوت فیصلہ ہوتی ہے نہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۵ مورخه ۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۴) تاب مقابلہ.سچی اخلاص اور محبت اور اطاعت سے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں وہ صرف زبانی باتوں اور ریا کاری کے اعمال سے حاصل نہیں ہو سکتے.اگر صرف زبانی قول پر نجات کا مدار ہوتا تو پھر قول تو منافقوں کا بھی اللہ تعالیٰ نے نقل کر کے دکھایا ہے بلکہ وہ ایسے قول سے بجائے نجات کے عذاب کے حقدار بن گئے.ایک ہی قول ہے کہ ایک ایسے شخص کے زبان سے نکلتا ہے جس کا دل اور زبان ایک ہے نیت میں اخلاص ہے.اسی قول سے وہ واصل الی اللہ اور باری تعالیٰ کا مقرب ہوتا ہے.وہی ایک قول ہے جو کہ ایسے شخص کی زبان سے نکلتا ہے جس کا قلب اور زبان ایک نہیں ہے.وہ خدا تعالیٰ سے بعد اور قطع تعلق کا باعث ہوتا ہے.خدا اور یوم آخر پر ایمان کا اصل نتیجہ کیا تھا کہ خدا سے تعلقات بڑھتے اور اس کے انعامات اور اکرام کا مور د وہ ہوتا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقوں نے اس کا الٹا پھل پایا یعنی ترقی معکوس.کہ بجائے قریب ہونے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اور دُور ہوتے گئے اور ان کے نفسوں کو دھوکا لگا.يُخْدِعُونَ کے معنے يَتْرُكُونَ یعنی چھوڑتے ہیں اور يَخْدَعُونَ کے معنے محروم کر لیتے ہیں.عام تر جموں میں جو اس کے معنے فریب اور دھوکہ دینے کے کئے جاتے ہیں ان کی تصدیق قرآن کی کسی آیت سے نہیں ہوتی ہے بلکہ قاموس وغیرہ لغت کی کتب میں خَادِعَہ کے معنے ترگه کے لکھے ہیں.قرآن سے بھی ان معانی کی تصدیق ہوتی ہے جیسے سورۃ نساء میں ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ يُخْدِعُونَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمُ (النساء : ۱۴۳ ) یعنی منافق خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور خدا ان کو چھوڑتا ہے.خدا کو چھوڑ دینے کے یہ معنے ہیں کہ اس کے اوامر اور نواہی کی پرواہ نہ کرنی.بعض وقت ایک انسان مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے اور اس وقت شکایت کرتا ہے کہ خدا اس کی مدد کیوں نہیں کرتا؟ اس کا
حقائق الفرقان ۱۱۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة باعث یہی ہوتا ہے کہ اس نے اپنے تعلقات خدا سے قائم نہیں رکھے ہوئے ہوتے اور اسی وجہ سے خدا نے اس کی حفاظت سے اپنا ہاتھ اُٹھایا ہو اہوتا ہے جیسے کہ آجکل طاعون اس نظارہ کو دکھا رہی ہے.وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ - خَدَعَ کے معنے اَمْسَكَ کے ہیں یعنی یہ لوگ نہیں روک سکتے فوائد سے یا نہیں بخل کرتے یا نہیں محروم رکھتے مگر اپنی جانوں کو.جب اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں سے قطع تعلق کر لیا تو تعلق سے جو فوائد حاصل ہونے تھے اُن سے وہ محروم ہو گئے.محرومی نفاق کا نتیجہ ہے.وَمَا يَشْعُرُونَ.ان میں شعور نہیں.شعور ایک حیوانی صفت ہے.اللہ تعالی...یہاں منافقوں کو شرم دلاتا ہے کہ تم تو حیوانات سے بھی گئے گزرے ہوئے ، ان میں شعور ہوتا ہے تم اس سے بھی محروم ہو.ہمیشہ اس امر کا خیال رکھو کہ کلمہ جو منہ سے نکالتے ہو اس کا تعلق دل اور زبان دونوں سے ہو اور تمہارا ہر ایک عمل اس کی تصدیق کرتا ہو.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۲۴ را پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۱) خادع کے معنے ترک کے ہیں پس جہاں يُخْدِعُونَ الله ہے وہاں ” وہ چھوڑتے ہیں اللہ کو ترجمہ کیوں نہیں کرتے.خَدَعَ کے معنے ہیں اَمْسَگ.اور عرب کا محاورہ ہے فُلان كَانَ يُعْطى فَخَدَعَ فُلانا دیتا تھا اب اُس نے دینا چھوڑ دیا.پس وَهُوَ خَادِعُهُمُ (النساء : ۱۴۳) کے معنے یہ کیوں نہیں کرتے کہ اللہ ان منافقوں کو محروم رکھنے والا ہے.اسی طرح تمام الاشباہ والنظائر میں ایسا ہی برتاؤ کرو اور مثلاً وَوَجَدَكَ ضَالاً (الضحی : ۸) میں ضلال کا اثبات نبی کریم کے لئے ہے مگر ما ضَلَّ صَاحِبُكُم (النجم:۳) میں ضلال کی نفی بھی آپ کے حق میں موجود ہے.تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محب ، طالب ، سائل کے کرو جو اما السّابِلَ فَلَا تَنْهرُ (الضحی (۱) کی ترتیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے لو جو ماغوی کے مناسبت سے درست ہیں.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن - صفحہ ۱۲، ۱۳) يُخْدِعُونَ ، مُنَادِعَةُ سے ہے اور مُخادِعَہ کے معنے ہیں ترک کے.پس يُخْدِعُونَ اللهَ لے نہ بہکا تمہارا صاحب کے اور سائل کو نہ جھڑ کنا.( ناشر )
سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان کے معنے ہوئے يَترُكُونَ الله ( وہ چھوڑتے ہیں اللہ کو ) جیسا کہ ایک دوسرے محل پر آیا ہے نسوا الله (التوبة: ۶۷) ( چھوڑ دیا انہوں نے اللہ کو ) کیونکہ اس کے مقابل الله عز وجل کی نسبت بھی نَسِيَهُمْ آیا ہے اور اس کے معنے بجز ترک کے اور کچھ نہیں ہیں اور يُخْدِعُونَ، خَدَع سے ہے اور خَدَعَ کے معنے امساک یعنی رکنے اور بخل کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے فُلانٌ كَانَ يُعْطِي فَخَدَع فلاں دیا کرتا تھا لیکن اب دینے سے رک گیا ہے اور بخل کرتا ہے ) اور منافقوں میں یہ وصف تھا جیسا کہ خداوند علیم نے اور محل پر بیان فرمایا ہے کہ فَلَمَّا الهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا (التوبة: ۷۶ ) ( پس جب اللہ نے اپنے فضل سے ان کو دیا تو بخل کرنے لگے (یا) انہوں نے بخل کیا ) اور فرما یاهُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا (المنافقون : ۸) ( یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہ خرچ کروان پر جو رسول اللہ کے پاس ہیں تاکہ وہ پراگندہ ہو جاویں) اور نفس کہتے ہیں ذات اور حقیقت اور عین شئے اور رُوح اور قلب اور خون اور پانی اور جسم اور حشم اور عظمت اور عزت اور ہمت اور اکڑ بازی اور فراخی اور تر و تازگی اور کلام طویل کو اور بمعنے پاس بھی آتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے تعلمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ (المائدة: ۱۱۷) ( تو جانتا ہے اس کو جو میرے پاس ہے اور میں اس کو نہیں جانتا جو تیرے پاس ہے ) اور علماء نے کہا ہے کہ یہ اجسام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خداوند تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے جو کہ جسم سے پاک اور منزہ ہے جیسا فرمایا ہے كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ (الانعام: ۵۵) ( تمہارے رب نے اپنے نفس پر ( یعنی اپنے پر رحمت مقرر کی ہے ) اور فرمایاؤ يُحدرُكم اللهُ نَفْسَهُ (ال عمران : ۲۹ ) ( اور اللہ تم کو اپنے نفس سے ڈرا کر بچانا چاہتا ہے ) پس معنے یہ ہوئے وہ چھوڑتے ہیں اللہ اور مومنوں کو.حالانکہ وہ نہیں بخل کرتے مگر اپنی جانوں پر...منافقوں نے اپنے جانوں کو اللہ کریم کی راہ میں خرچ کرنے سے روکا.پس اس سے انہوں نے اپنے نفسوں کو اس عزت و نصرت اور رزق وفلاح سے محروم کر دیا کہ جس کا خداوند کریم نے اللہ کے راستہ میں صرف کرنے والوں کو وعدہ فرمایا ہوا تھا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: ۹) (اور اللہ ہی کے لئے عزّت ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے ) اور فرما یا انا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ
حقائق الفرقان 112 سُوْرَةُ الْبَقَرَة الدُّنْيَا (المؤمن : ۵۲ ) ( ضرور ہم مدد دیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو دنیا میں ) اور فرمایا كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا (البقرة: ٢٦) ( جب کبھی رزق دیا جائے گا ان کو ( مومنوں کو ) اس سے ) منافق لوگ لا إلهَ إِلَّا اللہ کا اظہار کرتے ہیں تا کہ اس کے ذریعہ سے اپنے مال و جان کو حفاظت میں کر لیں.پس منافق لوگ کشتی کے کناروں کی مانند ہوتے ہیں جب اور جس طرف ہوا چلتی ہے تو اس وقت اور اسی طرف کشتی بھی چل پڑتی ہے اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ انفس سے یہاں پر وہی مراد ہو جو کہ لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنتُ بِاَنفُسِهِم خيرا (النور: ۱۳ ) ( کیوں نہ مومنوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ میں اچھا گمان کیا) اور ندع ابناءَنَا وَ ابْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ (آل عمران: ۶۲) ( ہم پکاریں اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنے آپ کو اور تم کو ) میں ہے اور کوئی اور معنے انفس سے یہاں پر نہ لئے جاویں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ منافق لوگ دعوی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور پھر وہ خود ہی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور مومنوں پر خرچ کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خدع فساد کو بھی کہتے ہیں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ وہ نہیں بگاڑتے مگرا اپنی جانوں کو.اور شعور اس علم کو کہتے ہیں جو کہ بذریعہ حواس یعنی آنکھ ، کان وغیرھما کے (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸.فروری ۱۹۰۷ صفحه ۲۶۰ تا ۲۶۲) حاصل ہو.(۱) خدعہ کا لفظ ہے.سورہ بقرہ کے دوسرے رکوع میں موجود ہے.يُخْدِعُونَ اللهَ..وَ مَا يَخْدَعُونَ (البقره: (۱۰) اور سورہ نساء رکوع ۲۱ میں وَهُوَ خَادِعُهُمُ (النساء : ۱۴۳) اس کا ترجمہ متر جموں نے دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو.اور دھوکہ نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو.اور اللہ تعالیٰ دھوکہ دیتا ہے ان کو یا بجائے دھوکہ فریب دیتا ہے، دغا دیتا ہے.وغیرہ وغیرہ.اللہ تعالیٰ ان نا پاک معنی کی تصدیق قرآن مجید میں نہیں فرماتا.اس ترجمہ کے معائب یقینا یا غالباً آپ پر ظاہر ہوں گے.اس لئے مجھے شاید ضرورت نہیں.اب میں اس کے ایسے معنے عرض کرتا ہوں کہ جن کی تصدیق قرآن کریم میں ہے اور لغت عرب اس کی تصدیق کرتی ہے.يُخْدِعُونَ اللهَ - يَتْرُكُونَ الله - قاموس میں ہے.خَادِعُهُ يَتْرُكُهُ.ترجمہ اس کا چھوڑتے
حقائق الفرقان ۱۱۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں.ترک کرتے ہیں اللہ کو.وَهُوَ خَادِعُهُمُ اور وہ چھوڑنے والا ترک کرنے والا ہے ان کو.قرآن کریم میں دوسرے موقعوں پر منافقوں کے حق میں فرمایا ہے.وَ تَرَكَهُمْ فِي ظُلمتِ (البقرة :۱۸) وَ يَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ (الاعراف: ۱۸۷) وغيره يَخْدَعُونَ کے معنے يُمْسِكُونَ يَبْخُلُونَ کیا معنے ؟ خادع.مزید کے معنے ہیں.ترک اور مجرد کے معنے ہیں.امسك.بخل اور یہ معنے صراح وصحاح و قاموس میں موجود ہیں.قرآن کریم ان معنوں کی تصدیق فرماتا ہے کہ منافق کہتے ہیں.لَا تُنْفِقُوا عَلَى مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّى يَنْفَضُّوا (المنفقون:۸) اور فرماتا ہے بَخِلُوا (آل عمران : ۱۸۱) اور فرماتا ہے.يَبْخَلُونَ الحکم جلد ۲ نمبر ۵ ، ۶ مورخه ۲۷ / مارچ و ۱/۶ پریل ۱۸۹۸ء صفحه ۸) (آل عمران:۱۸۱).١١ - في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ اَلِيمُ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ - ترجمہ.اُن کے دلوں میں کمزوری ہے اس لئے اللہ نے بھی ان کی کمزوری بڑھا دی اور ان کے لئے ٹیس دینے والا عذاب ہے کیونکہ وہ غلط کہتے ہیں.تفسیر.ان کے دلوں میں ایک مرض ہے تو اللہ نے ان کے اس مرض کو بڑھنے دیا اور ان کے لئے دکھ دینے والا عذاب ہے یہ سبب اس کے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے.مرض کا بڑھنا اس لئے فرمایا کہ جب تھوڑے سے مسئلوں میں اس کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو پھر جب یہ مسئلے بہت بڑھ جائیں گے تو یہ کمزوری اور بھی بڑھے گی.پس یہ مرض روز افزوں ہے.اسی طرح جب چھوٹی سی جماعت کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا تو بڑی جماعت کے سامنے تو اور بھی جھوٹ بولے گا اور یہی باتیں اس کے لئے دُکھ دینے والی ہو جائیں گی.آخرت کا عذاب تو ہے ہی مگر منافق کے لئے ے اور اُن کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چھوڑ دیا.سے اور اللہ ن کو چھوڑ دیتا ہے اپنی سرکشی میں ( ناشر ) تم ان پر نہ خرچ کرو جو رسول اللہ کے یہاں رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نثر بتر ہوجائیں.ہے انہوں نے بخل کیا.۵ بخل کرتے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان 119 سُوْرَةُ الْبَقَرَة دُنیا میں بھی یہ کم عذاب نہیں.زَادَهُمُ اللہ پر مفسرین نے بہت اختلاف کیا ہے مگر جب یہ امر واقعہ ہے تو اس پر اختلاف کیسا ؟ یہ سب کچھ نتیجہ ہے جھوٹ بولنے کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۵) نفاق ایک قلبی مرض کا نام ہے.اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے مریض میں قوت فیصلہ بہت کمزور ہوتی ہے اور اسے کسی کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہوتی.ابتداء میں جبکہ اسلام کی جمعیت کم تھی اور مسائل تھوڑے تھے تو ایسی حالت میں جب ان کو جھوٹ اور مداہنہ سے کام لینا پڑا حالانکہ اُس وقت ادنیٰ سے ادنی انسان بھی مقابلہ کرتا تھا.تو جب اسلام کی جمعیت ترقی کرے گی اور مسائل بڑھتے جاویں گے تو اپنی اس کمزوری کی وجہ سے ہر ایک بات اور حکم پر وہ امَنَّا وَ صَدَّقْنَا کہیں گے حالانکہ ان کے دل میں وہ بات نہ ہوگی.گویا اس طرح سے ان کو زیادہ جھوٹ بولنا پڑے گا اور جن جن باتوں کو ان کے دل تسلیم نہیں کرتے ان ان باتوں کو زبان سے ماننا پڑے گا اور انجام یہ ہوگا کہ ہلاکت لا کا طعمہ بن جاویں گے.البدر جلد ۲ نمبر ۱۴ مورخه ۱/۲۴ پریل ۱۹۰۳ء صفحه ۱۱۱) جیسے ایک مریض بعض اوقات اپنا ذائقہ تلخ ہونے کی وجہ سے مصری کو بھی تلخ بتاتا ہے وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے اس سے لذت نہیں آتی.اس کے کہنے پر کیا انحصار ہے خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا اور پھر صاف صاف ارشاد کر دیا لا يَمَسة الا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة :۸۰) جس جس قدر انسان پاکیزگی تقویٰ اور طہارت میں ترقی کرے گا اُسی اُسی قدر قرآن شریف کے ساتھ محبت اس کے مطالعہ اور تلاوت کا جوش اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اور قوت اسے ملے گی لیکن اگر خدا تعالیٰ کے احکام اور حدود کی خلاف ورزی میں دلیری کرتا ہے اور گندی صحبتوں اور ناپاک مجلسوں اور ہنسی ٹھٹھے کے مشغلوں سے الگ نہیں ہوتا.وہ اگر چاہے کہ اس کو قرآن شریف پر غور و فکر کرنے کی عادت ہوتد بر کے ساتھ اس کے مضامین عالیہ سے حظ حاصل کرے.ایں خیال است و محال است و جنون.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۲ مورخه ۱۰ / ا پریل ۱۹۰۴ ، صفحه ۱۶، ۱۷) لے اسے وہی چھوئیں گے اور سمجھیں گے جو پاک کئے گئے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة صرف زبانی دعولی کرنے والوں کے دلوں میں ، جنہیں نہ قوت فیصلہ نہ تاب مقابلہ، مرض ہے.اللہ اس مرض کو بڑھائے گا اس طرح پر کہ جوں جوں اسلام کے مسئلے بڑھیں گے ان کے دل میں شبہات بڑھیں گے یا یہ عملی طور پر انکار کریں گے.پھر یہ چھوٹی سی جماعت کے مقابل میں گیدی ہیں تو بڑوں کے سامنے کیا کچھ بزدلی نہ دکھا ئیں گے یا تھوڑے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت سے مسائل کا فیصلہ کیا کریں گے.چونکہ انہوں نے جھوٹا دعوی ایمان کا کیا اس لئے ان کو دُکھ دینے والا عذاب ہے.الفضل جلد نمبر ۸ مورخه ۶ /اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ میں رونق افروز ہوئے تو چند دشٹ.منافق ، دل کے کمزور ، جن میں نہ قوت فیصلہ تھی اور نہ تاب مقابلہ، آپ کے حضور حاضر ہوئے اور بظاہر مسلمان ہو گئے اور آخر بڑے بڑے فسادوں کی جڑ بن گئے.وہ مسلمانوں میں آ کر مسلمان بن جاتے اور مخالفانِ اسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی بدیاں کرتے...اس شریر گروہ کے متعلق یہ آیت ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ سر دست جماعت اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائل اسلام بھی جو پیش ہوئے ہیں بہت کم ہیں.یہ بد بخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تاب مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دل کی مرض سے بزدل ہو کر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یا درکھیں ان کا یہ کمزوری کا مرض اور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعت اسلام روز افزوں ترقی کرے گی اور یہ موذی بدمعاش اور بھی کمزور ہوں گے.اور ہوں گے.چنانچہ ایسا ہی ہو ا.نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقی کریں گے.جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو ان مسائل کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یوماً فيوماً روز افزوں ہیں.بہر حال ان کا مرض اللہ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقی دے گا.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۸۸) حضرت عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعودؓ سے اور اور بہت سے صحابہ سے یہی مروی ہے کہ مرض سے مراد شک ہے یعنی ان کے دلوں میں شک کا مرض تھا یا بزدلی اور صادق و کا ذب اور
حقائق الفرقان ۱۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت کی کمی کی بیماری تھی یا حسد کی بیماری تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقبال اور رفعت شان کو دیکھ دیکھ کر حسد اور غم کی آگ سے جل جاتے تھے اور فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًادعا اور بشارت ہے.پس اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا ( پس اللہ ان کی بیماری کو زیادہ کرے) پس وہ بزدل ہو گئے قلیل جماعت سے حالانکہ وہ روز افزوں ترقی کر رہی ہے اور تھوڑے سے مسائل کو امتیاز نہ کر سکے حالانکہ وہ زائد ہورہے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبرے.جنوری ۱۹۰۷ء صفحہ ۲۷۶) بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ.باء بمعنے سبب کے ہے اور مامصدر یہ ہے ( جو کہ اپنے ما بعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنا دیتا ہے ) اور کان کا مصدر کون ہے اور یہ لغت عرب میں مستعمل ہے اور گان دوام و استمرار کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ خداوند کریم نے فرمایا ہے كَانَ اللهُ عَلِيمًا (اللہ ہمیشہ جاننے والا ہے).انسان کو جھوٹ سے بہت ہی بچنا چاہیے.دیکھو کہ نفاق جیسے گندے گناہ اور مرض کا سبب بھی یہی جھوٹ ہے.پھر نفاق بھی ایسا کہ جس کی نسبت فرمایا ہی فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ( پس وہ رجوع نہ کریں گے ) اور جہاں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاق کے علامات بیان فرمائے ہیں وہاں پر فرمایا ہے کہ منافق کے پاس جب امانت رکھو تو خیانت کرے گا اور جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ دیتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور قرآن مجید میں جھوٹ بولنے والوں پر لعنت آئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب دریافت کیا گیا کہ مومن سے فلاں فلاں گناہ ہو سکتے ہیں فرمایا ہاں.لیکن جب جھوٹ کی نسبت دریافت کیا گیا تو فرمایا.نہیں.الغرض کہ جھوٹ بہت برا مرض ہے مومن کو اس سے ہمیشہ بہت ہی بچنا چاہیے.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸.فروری ۱۹۰۷ صفحه ۲۸۸٬۲۸۷) زاد.چونکہ ان پر یہ ابتلا نئے مسائل کی وجہ سے تھا جو کہ ان کے رسم و رواج یا عام خیالات
حقائق الفرقان ۱۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے خلاف تھے.اس واسطے فرمایا کہ ایسے مسائل تو دن بدن بڑھتے جائیں گے.ابھی قرآن شریف نازل ہو رہا ہے ساتھ ہی ان کا مرض بھی بڑھتا جائے گا.عَذَاب الیم - یہ لوگ ہمیشہ دکھ میں رہیں گے کیونکہ مسلمانوں کی فتوحات دن بدن ترقی کریں گی.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱/۱۰ کتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۲) ۱۳،۱۲ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِن لَّا يَشْعُرُونَ - ترجمہ.اور جب اُن سے کہا گیا یا کہا جائے کہ ملک میں شرارت مت کرو جواب دیا ہم تو ملک کے خیر خواہ ہی ہیں.سن رکھو یہ ہی ہیں شریر فسادی لیکن وہ شعور بھی نہیں رکھتے.تفسیر.اِذَا ظرف زمان ہے.یہ عطف ہے مِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ الخ پر.پس اوّل میں تو کمال ایمان کا ادعا ہے اور دوم میں کمال اصلاح کا ادعا ہے.گویا وہ کہتے ہیں کہ ہم کامل ایمان اور کامل اصلاح والے ہیں اور اس زمین سے مراد مدینہ منورہ کی زمین ہے اور جن کو کہا جاتا ہے یا کہا جائے وہ تو منافق ہی ہیں.ہاں کہنے والوں کا یقینی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کون ہیں؟ آیا اہلِ اسلام ان کو یہ کہتے تھے کہ مدینہ کی سرزمین میں فساد نہ کر دیا کہ کفار ان کو یہ کہتے تھے.میرا خیال ہے کہ کہنے والے کفار ہیں اور ان کے نزد یک منافق لوگ یہ فساد کرتے تھے کہ اہلِ ایمان کے پاس جاتے اور ان سے باتیں چیتیں کرتے ہیں تو ان کے اس ملاپ کو فساد قرار دے کر اس سے منع کرتے ہیں کہ تم ان سے کیوں ملتے ہو اور جب ان کی اس ممانعت سے وہ باز نہ آتے تو پھر وہ کہتے کہ اچھا پھر تم بھی ان معروف لوگوں کی مانند ایمان لے آؤ اور منافق ان کو جواب میں کہتے کہ کیا ہم بھی ان نادانوں کی طرح ایمان لائیں چنانچہ ان کا یہ سوال و جواب بھی اس کے بعد متصل بدیں الفاظ خداوند علیم نے بیان فرمایا ہے کہ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاء ( اور جب ان کو
حقائق الفرقان ۱۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کہا جائے کہ تم ایمان لاؤ جیسا کہ وہ لوگ ایمان لائے ہیں تو کہیں گے کیا ہم ان کی مانند ایمان لائیں رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸.فروری ۱۹۰۷ صفحه ۲۹۱ تا ۲۹۴) جو کہ نادان ہیں ) جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں نفاق سے فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو طرفین میں اصلاح کرنے والے ہیں.سُنو ! بے شک یہی لوگ مفسد ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۵) جب واعظ وعظ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ خطرناک ہے.تم دنیا میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تو بہ ! ہم فسادی ہیں؟ ہم تو با مسلمان اللہ اللہ بابر یمن رام رام کے اصل پر چل کر سب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں اور بڑی سنوار والے ہیں.اللہ فرماتا ہے الا إِنَّهُم هُمُ الْمُفْسِدُونَ یہی بڑے مفسد لوگ ہیں کہ دعوے زبان سے کچھ ہیں ہاتھ سے کچھ کرتے ہیں.ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں.حضرت نبی کریم نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ جب تکبیر ہو جائے تو میں دیکھوں کہ کون کون جماعت میں نہیں آیا اور ان کے گھر جلا دوں.مگر باوجود اس کے کئی لوگ جو نماز با جماعت نہیں پڑھتے تم ان میں سے نہ بنو.منافق اصل میں بڑا مفسد ہوتا ہے اس میں شعور نہیں ہوتا.خدا تمہیں سمجھ دے جو میں نے کہا ہے اسے سمجھو.الفضل جلد نمبر ۸ مورخه ۶ /اگست ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) ۱۴ تا ۱۷.وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ امِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْ مِنْ كَمَا أَمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَوْا إِلى شَلِطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِعُونَ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ - أُولَبِكَ لا الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدى فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ترجمہ.اور جب ان سے کہا گیا یا کہا جائے کہ دین اسلام کی باتیں مانو جیسے لوگوں نے مانیں.جواب دیا کیا ہم مان لیں جیسے مان لی بیوقوفوں نے سن رکھو یہی ہیں کم عقل بے وقوف لیکن وہ جانتے نہیں.
حقائق الفرقان ۱۲۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جب ایمان داروں سے ملے کہہ دیا ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اپنے شریر سرداروں کے پاس گئے، کہا بے ریب ہم تمہارے ہی ساتھ ہیں.بے ریب ہم تو صرف ہنسی میں اڑانے والے ہیں مسلمانوں کو.اللہ بھی ہنسی میں اڑا دے گا انہیں.ابھی ان کو ڈھیل دے رہا ہے وہ اپنے بھترے اور گمراہی میں دل کے اندھے ہورہے ہیں.یہی لوگ ہیں جنہوں نے ناکامی مول لی کامیابی بیچ کر، تو ان کی سوداگری بے سود ہوئی اور انہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دیا اور وہ راہ یاب اور کامیاب نہ ہوئے.تفسیر - ما مصدر یہ ہے جو کہ اپنے مابعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنادیتی ہے لہذا امن جو اس کے بعد آیا ہے اس کے معنے ایمان لانے کے ہیں نہ یہ کہ وہ ایمان لائے.ال جنس کے لئے ہے یعنی جنس انسان اور کبھی اس سے معتبر افراد مراد ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے یہاں پر کامل انسان مراد ہوں گے.سفية کہتے ہیں ضعیف العقل، کذاب، جلد باز، بڑے ظالم، مخالف حق ، ضعیف الرّائے ، انجان کو.اسی وجہ سے بچوں اور عورتوں کو سفھاء کہا گیا ہے جیسا کہ اس آیت کریمہ میں ب لَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ اَمْوَالَكُمُ (النساء:1) ( نه دو ضعیف العقلوں کو اپنے مال) یعنی بچوں اور عورتوں کو..ہوتا.امَنَ النَّاسُ : کمال ایمان لانا، نامناسب کے ترک کرنے اور مناسب کے کرنے کے ساتھ ان و من میں جو استفہام کا ہمزہ ہے یعنی دریافت کرنے کا.یہ یہاں پر انکار کے لئے ہے.پس کیا ہم ایمان لائیں“ کا مطلب یہ ظہرا کہ ہم سے ایسی بیوقوفانہ حرکت کبھی نہیں ہو سکتی یعنی ہم ایسا ایمان نہ لائیں گے.اور ان دونوں کے لانے سے مطلب یہ بنا کہ گویا منافقوں کو کہا گیا کہ ایسا کامل ایمان لے آؤ جیسا کہ وہ کامل لوگ لائے ہیں.ان کے فساد کے بیان کے وقت تو ان کی نسبت لَا يَشْعُرُونَ فرمایا ہے اور ایمان کے بیان میں لا يَعْلَمُونَ فرمایا ہے اس لئے کہ فساد ایک ظاہری اور محسوس امر ہے لہذا اس میں لا يَشْعُرُونَ فرمایا جو کہ حواس ظاہرہ کے علم کو کہتے ہیں اور ایمان کے
حقائق الفرقان ۱۲۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بہت کچھ لوازم اور آثار اگر چہ محسوس بحواس ظاہرہ ہیں لیکن چونکہ نفس ایمان امور مخفیہ سے ہے اور حواس باطنہ سے تعلق رکھتا ہے لہذا ایمان کے بیان میں لا يَعْلَمُونَ فرمایا ہے جو کہ باطنی علوم پر بولا جاتا ہے اور یہ بھی فرمایا ہے کہ جس طرح یہاں پر گیا امَنَ النَّاسُ فرمایا ہے اس طرح کے فساد کے متعلق گیا کو ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ ایمان میں تو ان کو کہا گیا ہے کہ فلاں کی مانند ایمان لاؤ اور اس کی مثل ہو سکتی تھی لہذا یہاں پر گہا لایا گیا اور فساد میں ان کے واقعی فساد کا بیان ہے اور چونکہ منافقوں کا فساد بے مثل تھا اور اس کے بے مثل ہونے کا بیان کرنا مقصود تھا لہذا فساد کے بیان میں گما کو ذکر نہیں کیا.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸.فروری ۱۹۰۷ صفحه ۳۰۴،۳۰۳) جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے کہ عام لوگ ایمان لائے تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے یہ کم عقل لوگ ایمان لا رہے ہیں.سنو ! یہی بے عقل ہیں ولیکن یہ علم انہیں کہاں کہ اپنی بے عقلی کو سمجھیں.جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے سرداروں کے پاس تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو انہیں خفیف بنانے والے ہیں.ھڑوا کے معنے ہیں کسی کو خفیف بنانا اور یہ ٹھٹھے کا لازمہ ہے.اللہ انہیں ذلیل کرے گا اور ان کو ڈھیل دیتا ہے وہ الہی حد بندیوں سے گزر کر اندھے ہو رہے ہیں يَسْتَھری بھم کا لمبا جواب دینے کی ضرورت نہیں.چونکہ اس ملک کے لوگ عربی سے نابلد ہیں اس لئے انہیں یہ سمجھانا کہ مشاکلت کے لئے ہے فضول ہے سیدھا جواب یہی ہے جو ہم نے معنوں میں ظاہر کیا.یہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے ضلالت کو ہدایت کے بدلے خرید لیا.تو ان کی تجارت نے نفع نہ دیا اور وہ ہدایت یاب نہ ہوئے.اشْتَرَوُا الضَّللَةَ بِالْهُدی پر اعتراض ہے کہ جب ان کے پاس ہدایت نہیں تو یہ خریدو فروخت کیسی؟ اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ ان کو ہدایت لینی چاہیے تھی پر انہوں نے نہ لی.دوم یہ کہ انسان کی فطرت میں ہدایت کا مادہ ہے مگر انہوں نے اس کے بدلے گمراہی کو لیا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۵)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ تعالیٰ نے اس (سورۃ فاتحہ.ناقل ) میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے.ایک اَنْعَبْتَ عَلَيْهِمُ ۲.ایک مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ.ایک الضَّالِّينَ.میرا اعتقاد ہے کہ تمام قرآن سورۃ الحمد کی تفسیر ہے اور اس میں ایک خاص ترتیب سے انہی تین گروہوں کا ذکر ہے چنانچہ سورہ بقر ہی کولو کہ ھدی ل میں مُنْعَمُ عَلَيْهِمْ کا ذکر ہے اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِیں مَغْضُوبِ عَلَيْهِم کا اور أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلِّلَةَ بِالْهُدَی میں ضالین کا.یہ ابتداء کا حال ہے اب جہاں قرآن ختم ہوتا ہے وہاں سورۃ نصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ میں مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ کا بیان ہے اور تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا اور هُوَ اللهُ اَحَدٌ اللَّهُ القَمَرُ - لَمْ يَلِدُ وَلَمْ يُولَدُ ے میں ضالون کی تردید ہے اس واسطے ہم کو چاہیے کہ بہت فکر کریں اور اپنا آپ محاسبہ کریں اپنے اعمال کو دیکھیں کہ ہم کس فریق کے کام کر رہے ہیں آیا مُنْعَمُ عَلَيْهِم کے یا مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کے یا صَالِین کے منعم علیہم تم ان تین گروہوں کے اوصاف پر غور کرو مُنْعَمُ عَلیہم گروہ کے لئے سب سے پہلی صفت بیان کرتا ہے کہ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ایمان بالغیب ایسا ضروری ہے کہ دنیا کا کوئی کام اس کے بغیر نہیں ہوتا.پہاڑے، مساحت، اقلیدس، طبعیات سب کے لئے فرضی بنیاد پر کام ہوتا ہے یہاں تک کہ پولیس بھی ایک بدمعاش کے کہنے پر بعض مکانوں کی تلاش شروع کر دیتی ہے تو کیا وجہ کہ انبیاء کے کہنے پر کوئی کام نہ کیا جائے جس کا تجربہ بارہا کئی جماعتیں کر چکی ہیں.پھر فرمایا يُقِيمُونَ الصَّلوةَ دعاؤں میں، نمازوں میں قائم رہتے ہیں ، وہ مالوں کو خرچ کرتے ہیں بِمَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ اور مِنْ قَبْلِكَ اور آخرت پر ان کا ایمان ہوتا ہے.لے جس وقت اللہ تعالیٰ کی مدد ظاہر ہو جائے فتح مکہ ہو.۲ ہلاک ہو گیا غصیلا مغرور اور تباہ ہو گیا.سے وہ اللہ ایک ہی ہے ( تو اسی ایک کا ہو جا ).اللہ بے نیاز ہے (صرف اسی کا نیازمند بن ).نہ اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا.( ناشر )
حقائق الفرقان دوسرا گروہ ۱۲۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پھر دوسرے گروہ کی صفات بیان کیں کہ ان کے لئے تذکیر و عدم تذکیر مساوات کا رنگ رکھتی ہے.وہ سنتے ہوئے نہیں سنتے.ان میں عاقبت اندیشی نہیں ہوتی ضم بگم ہوتے ہیں پھر انہی کی نسبت اخیر قرآن میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو مَا كَسَب یعنی جتھا اور مال دونوں پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ دونوں کو غارت کر دیتا ہے.منافقین پھر تیسرے گروہ ضالون کا ذکر فرمایا کہ ان کو صفات الہی کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان میں نہ تو قوت فیصلہ ہوتی ہے نہ تاب مقابلہ.قرآن شریف کے ابتداء کو آخر سے ایک نسبت ہے.پہلے مُفْلِحُونَ فرمایا ہے تو اِذَا جَاءَ نَصُرُ اللهِ وَ الْفَتْحُ میں اس کی تفسیر کر دی اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی تبت يدا أبي لَهَبٍ وَتَب میں اور ضالین کا رَدّ قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ میں کر دیا ہے.غرض عجیب ترتیب سے ان تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے.ان سب کی صفات بیان کر کے میں تمہیں مکر نصیحت کرتا ہوں کہ تم سوچو مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ میں سے ہویا مَغْضُوبِ عَلَيْہم میں...یا ان لوگوں میں جن کو ضالین کہا گیا ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۵۲ مورخه ۲۱/اکتوبر ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۰) الحمد میں تین قوموں کا ذکر فرمایا ہے.ایک منعم علیہم.دوم مغضوب علیہم.مغضوب کا فاعل نہیں بیان کیا.کیونکہ ان پر خالق بھی غضبناک ہے اور مخلوق بھی.سوم ضالین کا.اب اس کی تفصیل میں پہلے رکوع میں منعم علیہم کا بیان کہ وہ ایمان بالغیب رکھتے ہیں.مقیم الصلوۃ ہوتے ہیں - مُنْفِقُ فِي سَبِيلِ اللهِ ہوتے ہیں.مومن بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ ہوتے ہیں اور مومن بالآخر - اس کے بعد مغضوبوں کا ذکر کیا کہ ان کے دل حق کے شنوا زبان حق کی گویا نہیں ہوتی اور بہرے اندھے تکالیف کے لحاظ سے عذاب میں ہوتے ہیں.اس لئے فرمایا وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرة: ۸) اب فرماتا لے اور اُن کے لئے بڑا عذاب ہے.
حقائق الفرقان ۱۲۸ سُورَةُ الْبَقَرَة ہے کہ ضال لوگ کس طرح ہوتے ہیں؟ یہ بیان دو رکوع میں ہے.چنانچہ أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوا الضَّلَلَةَ بِالْهُدی (البقرۃ: ۱۷) فرما کر بتا دیا کہ یہ ضالین کا بیان ہے جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت کو مول لیا ہے.اور اس سے اگلے رکوع میں يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۖ وَمَا يُضِلُّ بِه إِلا الْفُسِقِينَ (البقرة: ۲۷) فرمایا کہ ضالین وہ ہیں جو بدعہد ہیں.غرض أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ کا نام متقی، مغضوب کا نام لایو من.ضالین کا ذکر ان دور کو عوں میں ہے.اب ایک اور بات قابل سمجھنے کے ہے.بہت سے لوگ پڑھے ہوئے یا ان پڑھ ایسے ہیں کہ انہوں نے غضب ڈھایا ہے کہ وہ عمل کو جزو ایمان نہیں مانتے.وہ کہتے ہیں عمل ہو یا نہ ہو عقیدہ تو اچھا ہے.بعض لوگوں نے تو یہاں تک اس میں غلو کر لیا ہے کہ وہ دعویٰ ایمان باللہ و بالآخرۃ کا کرتے ہیں حالانکہ وہ مومن نہیں ہوتے.”ما“ کے بعد جواب آئے تو معنے بالکل کے ہوتے ہیں.یعنی بالکل مومن نہیں.اب تم اپنی اپنی جگہ غور کرو کہ تمہارے اس دعوے کے ساتھ کہ ہم مومن ہیں، ہم احمدی ہیں ہم مرزائی ہیں، دلائل کیا ہیں؟ ایسا نہ ہو کہ تم کہو.آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ (البقرة: 9) اور خدا تعالیٰ فرمائ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ (البقرة:9) دیکھو! ایسے لوگوں کے لئے فرماتا ہے کہ ان کے افعال کو دیکھیں تو اللہ کو چھوڑ بیٹھے ہیں.کہیں مخلوق کا لحاظ ہے کہیں رسم و عادت کا کہیں دم نقد فائدے کا.مگر انہوں نے اللہ کو کیا چھوڑنا ہے اپنے تئیں محروم کیا ہے.فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِينَ (ال عمران:۹۸) اور اس کا وبال ان کی اپنی جان پر ہے.ہمارے نبی نے تو تصدیق کو بھی اعمال سے گنا ہے.فرمایا النَّفْسُ تَمَلَى وَتَشْتَهِيَ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ (بخاری کتاب القدر) انسان کا نفس کچھ خواہشیں کرتا ہے جن کا علم کسی کو نہیں ہوتا اور شرمگاہ یہی لوگ ہیں جنہوں نے نا کا می مول لی کامیابی بیچ کر.۲ بہکاتا ہے اس سے بہتوں کو اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتوں کو اور وہ تو گم راہ نہیں کرتا اس سے کسی کو مگر بدکار ( گم راہ ہوتے ہیں ).(ناشر) سے ہم نے اللہ اور قیامت کے دن کو مانا.۴.حالانکہ وہ ماننے والوں میں نہیں.۵.تو بے شک اللہ بے پرواہ ہے سب جہان سے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس کی تصدیق کرتی ہے.گویا عمل کا نام بھی تصدیق ہے.غرض اعمال ایمان کا جزو ہیں.الفضل جلد نمبر ۸ مورخه ۶ /اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) لقُوا ، لقی کی جمع ہے لِقاء سے، جس کے معنے قرب کے ہیں.پس لَقِی کے معنے ہوئے قَرَبَ نزدیک ہوا اور لگوا کے معنے ہوئے وہ نزدیک ہوئے.جیسا کہ قرآن مجید کے ایک اور مقام پر آیا ہے کہ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَنِ (ال عمران : ۱۹۷) ( جس دن قریب قریب ہوئیں دو جماعتیں ) اور اس کے معنے ملنے کے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی قریب ہی ہے.خَلَوْا، خَلی کی جمع ہے جس کے معنے ہیں مضی گیا.جیسا کہا کرتے ہیں الْقُرُونُ الْخَالِيَةُ گذشتہ صدیاں.اور جب خلا کے بعد باء آتا ہے تو اس کے معنے اکیلا ہونے کے ہوتے ہیں جیسا کہ خَلَوْتُ بِه ( میں اس کے ساتھ اکیلا ہوا).شیطن کے لفظ میں اختلاف ہے کہ یہ شَطَنَ سے ، یا شیط سے، پس اگر اول سے ہے تو اس کے معنے ہوئے بہت دُور ہونے والا کیونکہ شَطَنَ بمعنے بَعْدَ ( دُور ہوا) کے آیا ہے اور اگر دوم سے ہے تب اس کے معنے ہوئے ، بہت ہلاک ہونے والا اور بہت بطلان والا.کیونکہ شیط ہلاکت اور بطلان کو کہتے ہیں اور ہر ایک سرکش چیز کو شیطان کہتے ہیں اور یہاں پر جو شیطینیم آیا ہے اس سے مراد ان کے سردار اور بڑے ہیں.حضرت ابنِ عباس اور ابنِ مسعود اور اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے فرمایا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کہ کفر میں ان کے سردار تھے.جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ اِنَّا أَطَعْنَا سَادَتَنَا وَكُبَرَاءَنَا فَأَضَلُّونَا السبيلا (الاحزاب : ۶۸) (بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہم کو اس راستہ سے بہکا دیا ) اور انما اس خبر کے لئے آتا ہے جس سے مخاطب جاہل نہ ہو اور نہ اس کی صحت سے انکار کرتا ہو.دلائل الاعجاز میں عبد القاهر جرجانی رحمتہ اللہ علیہ نے کہا ہے اِستہزاء حقیر کرنے اور جانے اور اہانت کرنے کو کہتے ہیں اور یہ لفظ ھری سے بنایا ہوا ہے اور هَزَئ کہتے ہیں ہلکا پن اور ملنے ہلانے کو.چنانچہ کہا جاتا ہے ناقةٌ تهز ا ( اونٹنی تیز اور ہلکی چلتی ہے ) (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸.فروری ۱۹۰۷ء صفحه ۳۰۹،۳۰۸)
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا (البقرة : (۱۵) یہ آیتیں سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی ہیں.الحمد شریف میں خدا تعالیٰ نے تین راہیں بتائی ہیں ایک انْعَمْتَ عَلَيْهِم کی راہ.دوسرے مَغْضُوب.تیسرے الصَّالِین کی راہ.أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم کے معنے خود قرآن شریف نے بتائے ہیں کہ وہ انبیاء، اصدقاء،شہداء اور صالحین کی جماعت ہے.انبیاء وہ رفیع الدرجات انسان ہوتے ہیں جو خدا سے خبریں پاتے ہیں اور مخلوق کو پہنچاتے ہیں.پھر وہ راستباز ہیں جو انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر وہ لوگ ہیں جن کے لئے وہ باتیں گویا مشاہدہ میں آئی ہوئی ہیں اور پھر عام صالحین.اس گروہ کی تفسیر خدا تعالیٰ نے آپ ہی سورۃ بقرۃ کے شروع میں بیان کر دی ہے کہ ہدایت کی راہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اللہ پر ایمان لائے ، جزا وسزا پر ایمان لاوے اور پھر اللہ ہی کی نیازمندی کے لئے تعظیم لامر اللہ کے واسطے نمازوں کو درست رکھنا اور شفقت علی خلق اللہ کے واسطے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کریں.پھر اس بات پر ایمان لاویں کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تسلی اور تعلیم پا کر دنیا کی اصلاح کے لئے معلم اور مزکی آئے ہیں.یا د رکھو صرف علم تسلی بخش نہیں ہو سکتا جب تک معلم نہ ہو.بائبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بغل میں کتاب لئے پھرتے ہیں.پھر اگر ایمان صرف کتابوں سے مل جاتا تو کیا کمی تھی مگر نہیں ایسا نہیں.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ (الجمعة: ۳) کے مصداق ہوتے ہیں.ان مزگی اور مطہر لوگوں کی توجہ، انفاس اور رُوح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے جو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے.یاد رکھو انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر مزکی کرنے والا اور پھر علم ا جوان کو اس کی آیتیں پڑھ پڑھ کرسنا تا اور ان کو پاک صاف کرتا اور ان کو کتاب و دانائی کی باتیں سکھاتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۳۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة معد اور عمل کی قوت دینے والا نہ ہو.تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علم تب مفید ہوسکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علم معلم سے ملتا ہے.بہر حال مومنوں کا ذکر ہے کہ ان کو ایمان بالغیب کی ضرورت ہے جس میں ، حشر و نشر ، صراط جنت و نارسب داخل ہیں.یہ اس کا عقیدہ اول درست ہو جائے تو پھر نماز سے امرالہی کی تعظیم پیدا ہوتی ہے اور خدا کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرنے سے شفقت على خلق اللہ.پھر برہموؤں کی طرح نہ ہو جاوے جو الہام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اس بات پر ایمان لائے کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام اتارا اور آپ سے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی مکالمات الہیہ کا سلسلہ بند نہیں ہوا.یہ تو منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے.اس کے بعد وہ لوگ مغضوب ہیں جو خدا تعالیٰ کے ماموروں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھے لیتے ہیں اور ان کے انذار اور عدم انذار کو مساوی جان لیتے ہیں اور پروا نہیں کرتے اور اپنے ہی علم و دانش پر خوش ہو جاتے ہیں وہ خدا کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں.یہی حال یہود کا ہو ا.پھر تیسرا گروہ گمراہوں کا ہے جن کا ذکر ان آیات میں ہے جو میں نے پڑھی ہیں.ان کے ↓ کاموں میں دجل اور فریب ہوتا ہے.وہ اپنے آپ کو کلامِ الہی کا خادم کہتے ہیں مگر مَا هُمْ بِمُؤْمِنِينَ بڑی بڑی تجارتیں کرتے ہیں مگر ہدایت کے بدلے تباہی خریدتے ہیں اور کوئی عمدہ فائدہ ان کی تجارت سے نہ ہوا.میرے دل میں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ ایک تنکے پر بھی شئے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہی شئے کا لفظ وسیع ہوکر خدا پر بھی بولا جاتا ہے.یا درکھو نفاق دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ کہ دل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی.وہ اعتقادی منافق ہوتا ہے.اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ عیسائیوں کا مذہب ہے.انجیل کی حالت کو دیکھو کہ اس کی اشاعت پر کس قدر سعی بلیغ کی جاتی ہے مگر یہ پوچھو کہ اس کتاب کے جملہ جملہ پر اعتقاد ہے؟ تو حقیقت معلوم ہو لے حالانکہ وہ ماننے والوں میں نہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جائے گی.اسی طرح پر میں دیکھتا ہوں کہ خدا کا خوف اُٹھ گیا ہے.وہ دعولی اور معاہدہ کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا قابل غور ہو گیا ہے.اب اپنے حرکات وسکنات ، رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے.پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو ایسا نہ ہو کہ مَاهُمْ بِمُؤْمِنین کے نیچے آ جاؤ.منافق کی خدا نے ایک عجیب مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی مگر وہ روشنی جو آگ سے حاصل کرنی چاہیے تھی وہ جاتی رہی اور ظلمت رہ گئی.رات کو جنگل کے رہنے والے درندوں سے بچنے کے واسطے آگ جلایا کرتے ہیں لیکن جب وہ آگ بجھ گئی تو پھر کئی قسم کے خطرات کا اندیشہ ہے.اسی طرح پر منافق اپنے نفاق میں ترقی کرتے کرتے یہاں تک پہنچ جاتا ہے اور اس کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ حق کا گویا شنوا اور حق کا بینا نہیں رہتا.ایک شخص اگر راہ میں جاتا ہو اور سامنے ہلاکت کا کوئی سامان ہو وہ دیکھ کر بچ سکتا یا کسی کے کہنے سے بچ سکتا یا خود کسی کو مدد کے لئے بلا کر بیچ سکتا ہے مگر جس کی زبان، آنکھ ، کان کچھ نہ ہو اس کا بچنا محال ہے.یا جوج ماجوج بھی آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں مگر انجام وہی نظر آتا ہے.مومن کا کام ہے کہ جب دعویٰ کرے تو کر کے دکھاوے کہ عملی قوت کس قدر رکھتا ہے.عمل کے بدوں دنیا کا فاتح ہونا محال ہے.یا درکھو ہر ایک عظیم الشان بات آسمان سے ہی آتی ہے.یہ امر خدا کی سنت اور خدا کے قانون میں داخل ہے کہ امساک باراں کے بعد مینہ برستا ہے.سخت تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے اسی طرح پر فیج اعوج اور سخت کمزوریوں کے بعد ایک روشنی ضروری ہے وہ شیطانی منصوبوں سے ٹل نہیں سکتی بہتوں کے لئے اس میں ظلمت اور دکھ ہو اور ایک نمک کا تاجر جو اس میں جا رہا ہے اسے پسند نہ کرے.بہت سے لوگ روشنی سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور اکثر ہوتے ہیں جو اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں مگر احمقوں کو اتنی خبر نہیں ہوتی کہ خدائی طاقت اپنا کام کر چکی ہوتی ہے.غرض یہ ہے کہ علم حاصل کرو اور پھر عمل کرو.علم کے لئے معلم کی ضرورت ہے.یہ دعوی کرنا کہ ہمارے پاس علم القرآن ہے صحیح نہیں ہے.ایک نوجوان نے ایسا دعوی کیا.ایک آیت کے معنے اس سے پوچھے تو اب تک نہیں بتا سکا.ہمارے بادی کامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ت یہ تعلیم ہوتی ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِي
حقائق الفرقان ۱۳۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عِلمًا (طه: ۱۱۵) تم بھی دعا کرو.یا درکھو کہ اگر انعمت علیہم میں سے ہو تو اور ترقی کرو اور کسی وجود کی جو خدا کی طرف سے آیا ہے وجود اور عدم وجود کو برابر نہ سمجھو.ظاہر و باطن مختلف نہ ہو.دنیا کو دین پر مقدم نہ کرو.بعض اوقات دنیا داروں کو دولت ، عزت اندھا کر دیتی ہے.خدا کی برسات لگ گئی ہے وہ اب نیچے پودوں کو نشو ونما دے گی.اور ضرور دے گی خدا کی ان ساری باتوں پر ایمان لا کر بچے معاہدہ کو یا درکھو ایسا نہ ہو کہ اذا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا (البقرة : (۱۵) ہی کے مصداق رہ جاؤ.اس کا اصل علاج استغفار ہے اور استغفار انسان کو ٹھوکروں سے بچانے والا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۴۳ مورخه ۲۴ نومبر ۱۹۰۱ ء صفحه ۸،۷) جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشاء اور مقصد معلوم ہوگی وہ ہے حصول سکھ.اس کے لئے وہ ہر قسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے لیکن میں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پورا کرنے کا ایک آسان اور مجرب نسخہ بتا تا ہوں کوئی ہو جو چاہے اس کو آزما کر دیکھ لے.میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہو گی اور میں یہ بھی دعوی سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پر سکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اس کے لئے کرو تو کامل طور پر سکھ مل سکتا ہے وہ نسخہ راحت یہ کتاب مجید ہے اور میں اسی لئے اس کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور اس وجہ سے کہ کامل مومن اس وقت تک انسان نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے.میں اس کتاب کا سنانا بہت پسند کرتا ہوں.اس کتاب مجید کی یہ پہلی سورۃ شریف ہے اور اس میں الحمد شریف کی گویا تفسیر ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ الحمد شریف کی تفسیر میں سے پہلی سورۃ ہے.الحمد شریف کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اسماء ظاہری اللہ رب العلمينَ ، الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدین سے شروع فرمایا تھا اور اس سورہ شریفہ کو اسماء باطنی سے شروع فرمایا یعنی اللہ جس کے معنی لے اور کہا کہ اے میرے رب ! مجھے علم اور زیادہ دے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۳۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں اگا اللہ اعلم.پھر الحمد شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایک کامل دعا تعلیم فرمائی تھی اِهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم یعنی ہم کو اقرب راہ کی جو تیرے حضور پہنچنے کی ہے راہنمائی فرما.وہ راہ جو ان لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہو ا یعنی نبیوں ،صدیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ.سورۃ فاتحہ میں یہ دعا تعلیم ہوتی ہے لیکن اس سورۃ بقرۃ میں اس دعا کی قبولیت کو دکھایا ہے اور اس کا ذکر فر ما یا جبکہ ارشاد الہی یوں ہوا ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ یہ وہ ہدایت نامہ ہے یعنی متقی اور با مراد گروہ کا ہدایت نامہ.ہاں انعمت علیہم گروہ کی راہ یہی ہے.پھر منعم علیہ گروہ کے اعمال و افعال کا ذکر کیا اور ان کے ثمرات میں اولكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ فرمایا.ان کے افعال و اعمال میں بتایا کہ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وحی اور کلام اور سلسلہ رسالت پر ایمان لاتے ہیں، جزا و سزا پر ایمان لاتے ہیں.یہ منعم علیہ گروہ کی راہ ہے.اب ہر ایک شخص کا جو قرآن شریف پڑھتا ہے یا سنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع سے آگے نہ چلے جب تک اپنے دل میں یہ فیصلہ نہ کر لے کہ کیا مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں؟ اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فکر کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمان صحیح عطا فرما دے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ در اصل عقائد صحیحہ کومشتمل ہے اور يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مسئلہ رسالت اور الہام و وحی کے متعلق ہے اور بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ جزا وسزا کے متعلق ہے.پھر ان اعمال و افعال کے ثمرات میں أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ بتایا ہے.اگر انسان حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے اور بامراد ہو رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے منعم علیہ گروہ کے زمرہ میں شامل ہے لیکن اگر نہیں تو پھر فکر کا مقام اور خوف کی جاہے.پس قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے.منعم علیہ گروہ کے ذکر کے بعد پھر بتایا کہ مغضوب علیہم کون لوگ ہیں ان کے کیا نشانات ہیں؟ اور ان کا انجام کیا ہوتا
حقائق الفرقان ۱۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے؟ ان کے عام نشانات میں سے بتایا کہ یہ وہ گروہ ہے جو تیرے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتا ہے اور چونکہ وہ وجود و عدم وجود کو برابر سمجھتے ہیں اس لئے باوجود دیکھنے کے وہ نہیں دیکھتے اور باوجود سننے کے نہیں سن سکتے.دل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھ سکتے ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے عَذاب الیم.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جو شخص آنکھ رکھتا ہے وہ کیوں نہیں دیکھتا، کان رکھتا ہے کیوں نہیں سنتا.انہیں یا درکھنا چاہیے کہ یہ نتیجہ ہے ایسے لوگوں کے ایک فعل کا.وہ فعل کیا ہے؟ انذار اور عدم انذارکو مساوی سمجھنا.اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کو برابر سمجھے تو وہ اس کو کب سیکھ سکتا ہے اس صورت میں وہ اس زبان کی اگر کسی کتاب کو دیکھے تو بتاؤ اس دیکھنے سے اسے کیا فائدہ؟ اگر کسی دوسرے کو پڑھتے ہوئے سنے تو اس سُننے سے کیا حاصل؟ دیکھو وہ دیکھتا ہے اور پھر نہیں دیکھتا.سنتا ہے اور پھر نہیں سنتا.اسی طرح پر جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مامور ومرسل کے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتے ہیں تو وہ اس سے فائدہ کیونکر اُٹھا سکتے ہیں؟ کبھی نہیں.جب ایک چیز کی انسان ضرورت سمجھتا ہے تو اس کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہے اور پھر اس مجاہدہ پر ثمرات مترتیب ہوتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا تو اس کے قومی مجاہدہ کے لئے تحریک ہی پیدا نہیں ہوگی.یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے جو انسان رسولوں اور اللہ تعالیٰ کے ماموروں اور اُس کی کتابوں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لے.اس مرض کا انجام اچھا نہیں بلکہ یہ آخر کار تکذیب اور کفر تک پہنچا کر عذاب الیم کا موجب بنا دیتا ہے.پس تلاوت کرنے والے کو پھر اس مقام پر سوچنا چاہیے کہ کیا میں خدا کے رسول و مامور کے اندار اور عدم انذار کو مساوی تو نہیں سمجھتا ؟ کیا میں اس کی باتوں پر توجہ تام کرتا ہوں اور کان لگا کر سنتا ہوں اور سوچتا ہوں ؟ انذار و عدم انذار کے مساوات کی یہی صورت نہیں ہوتی جو آدمی زبان سے کہہ دے بلکہ اگر رسول کے فرمودہ کے موافق عمل نہ کرے تو یہی ایک قسم کی انذار اور عدم انذار کی مساوات ہے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۱۴ ۱۵ مورخه ۱/۳۰ پریل/ ۱۰ مئی ۱۹۰۴ صفحه ۱۳) پھر الضال کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ سورۃ فاتحہ میں جو دعا تعلیم کی تھی اس میں ضالین کی راہ سے بچنے کی دعا تھی اور یہاں اُن لوگوں کے حالات بتائے کہ وہ
حقائق الفرقان ۱۳۶ سُورَةُ الْبَقَرَة کون ہوتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے.اسی لئے ص فرما يا أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى فَمَا رَبِحَتْ تَجَارَتُهُمْ وَمَا كَانُوا مُهْتَدِينَ یعنی یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی کو مول لے لیا ہے پس ان کی تجارت ان کے لئے سودمند تو نہ ہوگی اور وہ کب بامراد ہو سکتے تھے.ان لوگوں کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے کہ وہ زبان سے تو ایمان باللہ اور یوم الآخر کی لاف و گزاف مارتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کا فیصلہ ان کے حق میں یہ ہے.مَاهُم بِمُؤْمِنین اس سے ایک حقیقت کا پتہ لگتا ہے کہ انسان اپنے منہ سے اپنے لئے خواہ کوئی نام تجویز کر لے اس نام کی کوئی حقیقت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک آسمان پر کوئی مبارک نام نہ ہو اور یہ امر اس وقت پیدا ہوتا ہے جبکہ انسان اپنے ایمان کے موافق اعمال بنانے کی کوشش کرے.ایمان جب تک اعمال کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا کوئی سودمند نہیں ٹھہر سکتا اور اگر بڑا ایمان رکھ کر انسان اعمال اس کے موافق بنانے کی کوشش نہ کرے تو اس سے مرض نفاق پیدا ہوتا ہے جس کا اثر آخر یہاں تک ہو جاتا ہے کہ نہ قوتِ فیصلہ باقی رہتی ہے اور نہ تاب مقابلہ.ان لوگوں کے دوسرے آثار اور علامات میں سے بیان کیا کہ وہ مفسد علی الأرض ہوتے ہیں اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ تم فساد نہ کرو تو وہ اپنے آپ کو مصلح بتاتے ہیں حالانکہ وہ بڑے بھاری مفسد ہوتے ہیں.اس طرح پر الضال کی ایک تفسیر ختم کر دینے کے بعد پھر اس سورت میں فرمانبرداری کی راہوں کا ذکر کیا اور بتایا ہے کہ فرمانبرداری اختیار کرنا انسان کی اصل غرض اور مقصد ہے اور یہ بتایا ہے کہ حقیقی راحت اور سکھ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہے اور فرمانبرداری کے راہوں کے بیان کرنے میں قرآن کریم کا ذکر فرمایا جس سے یہ مراد اور منشا ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بناؤ اور اس کی ہدایتوں پر عمل کرو.پھر اس بات کی دلیل پیش کی ہے کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور ایک زبردست تحدی کی ہے کہ اگر کسی کو اس کے منزل میں اللہ ہونے میں شک ہو تو وہ اس کی نظیر لاوے.پھر منعم علیہم قوم میں سے آدم علیہ السلام ابوالبشر کا ذکر کیا اور بتایا کہ راستبازوں کے ساتھ شریروں اور فساد کرنے والوں کی ہمیشہ سے جنگ ہوتی چلی آئی ہے اور آخر
حقائق الفرقان ۱۳۷ سُورَةُ الْبَقَرَة خدا کے برگزیدے کامیاب ہو جاتے ہیں پھر مغضوب اور الضال کا ذکر کیا ہے بالآخر ابوالملت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر فرمایا اور اس کی فرمانبرداری کو بطور نمونہ پیش کیا کہ اس کی راہ اختیار کر کے انسان برگزیدہ ہو سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فیوض و برکات کو حاصل کر لیتا ہے.پھر نماز، روزہ، حج ، زکوۃ کی تاکید اور اسی سورۃ شریف میں عبادت کے طریق سکھائے ہیں پھر آخر میں یہ دعا سکھائی ہے.وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة: (۲۵) یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورۃ فاتحہ کا جو اس سورہ بقرہ میں موجود ہے.اس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہیئے مگر میں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سناؤں گا چنانچہ ابتداء میں مولیٰ کریم فرماتا ہے الم - ذلِكَ الكتبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ مِیں اللہ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی آرام اور بچے عقاید اور جسمانی راحتیں حاصل کر سکتا ہے.میں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اللہ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مشقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے.وَلِلهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ (المنفقون: 9) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزز ہوتے ہیں.ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عمل درآمد کرتے ہیں.یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے تاریخ اور واقعات صحیحہ اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستور العمل بنا یا وہ دنیا میں معز ز و مقتدر بنائی گئی.کون ہے جو اس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ دنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ گل دُنیا کی فاتح کہلائی.علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے.پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ آجکل مسلمانوں کے تنزیل واد بار کے اسباب پر بڑی بخشیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اے اور مدد فرما ہماری کا فرقوم کے مقابلے میں.۲؎ حالانکہ اللہ ہی کی عزت ہے اور اس کے رسول کی اور ایمانداروں کی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۳۸ سُورَةُ الْبَقَرَة اس نکتہ سے دور ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عمل درآمد کرنے والے معزز ہو سکتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آجاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کی قابلیت عطا کرتی ہے جیسا کہ اوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقرة: ٢) سے پایا جاتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اللہ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت نامہ دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اٹھانے والا انسان تقوی شعار ہو، متقی ہو.ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو ان لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متقی ہیں اور دوسرے مقام پر علوم قرآنی کی تحصیل کی راہ بھی تقوی ہی قرار دیا ہے جیسے فرمایا وَ اتَّقُوا اللهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة: ۲۸۳) یعنی تقوی اختیار کرو اللہ تعالیٰ تمہارا معلم ہو جائے گا.تقویٰ کے پاک نتائج بڑے عظیم الشان ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو وہ ہے جو میں نے ابھی بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کا معلم ہو جاتا ہے اور قرآنی علوم اس پر کھلنے لگتے ہیں پھر تقویٰ ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے جیسے فرما یا إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُونَ (النحل : ۱۳۹) بے شک اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو محسنین ہوتے ہیں.احسان کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہواگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اس پر ایمان رکھتا ہو کہ اللہ اس کو دیکھتا ہے.پھر یہ بھی تقوی ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر تنگی سے منتقلی کو نجات دیتا ہے اور اس کو مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَيبُ ( الطلاق : ۴) رزق دیتا ہے متقی اللہ کا محبوب ہوتا ہے يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ.غرض تقولی پر ساری بناء ہے.پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ ان کی پہلی نشانی یہ ہے يُؤْمِنُونَ بِالْغَیبِ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں خلوت اور جلوت میں برابر مومن ا.یہی لوگ نہال اور با مراد ہیں.۲؎ جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة رہتے ہیں.ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہو ناسہل ہے لیکن خلوت میں جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بجز اللہ تعالیٰ کے اس کا مومن رہنا ایک امرا ہم ہے لیکن متقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں.اسی بنا پر کسی نے کہا ہے.مشکل دارم ز دانشمند مجلس باز پرس تو بہ فرمایاں چرا خود تو به کمتر می کنند اے واعظاں کہیں جلوہ بر محراب و منبر میکنند بچوں بخلوت می روند آن کار دیگر می کنند ۲؎ پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہیئے.اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شئے ہے.اگر کوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتاؤ کہ یہ ایمان اس کو کس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں.لیکن جن چیزوں کو اُس نے دیکھا نہیں ہے صرف قرائن قویہ کی بنا پر ان کو مان لینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں آئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سودمند اور مفید ہے.پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تو اس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظیم لامر اللہ کا لحاظ ہو اس لئے فرمایا وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ یہ متقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں کیونکہ نماز اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے مومن کو چاہیے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے.ابتداء نماز سے جب اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دنیا اور اس کی مشیختوں سے الگ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی سروکار رکھتا ہے پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے.نماز میں قیام، رکوع، سجدہ اور سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کر سکتا ہے پھر التحیات میں صلوۃ اور درود کے بعد دعامانگ سکتا ہے.گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۷ رمئی ۱۹۰۴ء صفحه ۸) لے مجھے مجلس کے دانشمند سے اس بات کی پوچھ کچھ کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے کہ یہ جو تو بہ کرنے کا حکم صادر کرتے ہیں یہ خود تو بہ کیوں نہیں کرتے.کہ یہ واعظ لوگ جو محراب و منبر پر جلوہ گری کرتے ہیں جب یہ تنہائی میں جاتے ہیں تو پھر دوسرا ہی کام کرتے ہیں.( شرح دیوانِ حافظ شیرازی غزل نمبر ۱۴۲) (ناشر)
حقائق الفرقان ۱۴۰ سُورَةُ الْبَقَرَة مُسْتَهْزِءُونَ.تحقیر کرتے ہیں.خفیف سمجھتے ہیں.ھرو کے معنے ہیں تحقیر کرنا.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۲) اللهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ استہزاء کا بدلہ دے گا یا حقیر کرے گا ان کو اور یمن کے معنے یہاں پر زیادہ کرنے کے ہیں نہ عمر میں لمبائی کرنے کے، کیونکہ اس کے بعد لام آیا کرتا ہے جو کہ یہاں پر نہیں ہے.پس یمدھم کے معنے ہوئے ” زیادہ کرتا ہے ان کو جیسا کہ مَدَّ الْجَيْش اور آمد انجیش کے معنے ہیں لشکر کو زیادہ کیا اور قوی کیا.طغیان کے معنے سرکشی کے ہیں اور حضرت ابنِ عباس اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ طغیان سے مراد کفر ہے اور معنے یہ ہوئے اور ان کو زیادہ کرتا یا مہلت دیتا ہے کفر میں.يَعْمَهُونَ عَمه سے ہے اور عمہ کہتے ہیں تر و دکو.يَعْمَهُونَ حیران اور مترۃ دہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۸ - فروری ۱۹۰۷ صفحه ۳۱۰) ا - ذَكَرَ حُجَّةُ الْإِسْلَامِ الْغَزَالِيُّ - أَنَّ الْإِسْتِهْزَاء الْإِسْتِحْقَارُ وَالْإِسْتِهَانَةُ وَالتَّنْبِيه عَلَى الْعُيُوبِ وَالنَّقَائِصِ عَلَى وَجْهِ يُضْحَكُ مِنْهُ ۱۲ ( رُوح المعانی ) تحقیر کو استہزاء کہتے ہیں.٢ - الهرأة اصله الخِفَّةُ وَهُوَ الْقَتْلُ السَّرِيعُ هَر أَ عَهْراً : مَات فَجَاءَ أَوَعَهْر أَيه - هَزَأَ يَهْزَأَ ناقة: أنى تُسْرِعُ بِهِ وَتَخفُ فتح.ہلکا سمجھنے ، جلدی قتل کرنے ، اچا نک مرنے کو هزو کہتے ہیں.پس اللهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمُ (البقرة:۱۲) کے معنے ہوئے اللہ تحقیر کرے گا، اہانت کرے گا اور ان کے عیوب ونقائص سے خلقت کو ایسی آگہی دے گا کہ ان کی ہنسی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو خفیف کرے گا.جلدی ہلاک کر دے گا.1 حجت الاسلام امام غزالی نے بیان کیا ہے کہ عیوب اور نقائص پر اس طور پر اطلاع دینا کہ اس پر ہنسا جائے نیز تحقیر اور اہانت کرنا استہزاء کہلاتا ہے.۲- هدى ةٌ في الأصل.ہلکا سمجھنا اور جلدی سے قتل کرنا ہے.ھدی يَهْری.اچانک فوت ہو گیا.تَهْزِئُ بِهِ نَاقَةٌ تُسْرِعُ بِهِ وَتَخِفُـ (ناشر)
حقائق الفرقان ۱۴۱ سُورَةُ الْبَقَرَة یہ بیان ہے منافقوں کے حالات کا جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتا ہے.دل میں کپٹ ہوتی ہے اور ظاہر میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں.مومنوں کی تحقیر و اہانت اور تخفیف کرتے ہیں.آخر اللہ تعالیٰ ان کی تحقیر، اہانت اور تخفیف کرتا ہے اور کرتا رہے گا اور ہلاک کر دے گا اور ان کے عیوب و نقائص کی اطلاع دیتا ہے اور دیتا رہے گا اس لئے کہ دنیا میں ان کی ہنسی ہو.یہ بڑی بھاری پیشگوئی ہے اور وہ روز روشن کی طرح پوری ہوئی کہ تمام وہ لوگ جو اسلام پر جنسی اُڑاتے اور اس کی تحقیر کرتے تھے خدا تعالیٰ نے انہیں ضعیف و حقیر کر دیا.صداقتوں اور واقعات حقہ پر اعتراض کرنا سخت ناپاکی اور جہالت نہیں تو کیا ہے؟ ( نور الدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن.صفحہ ۱۱۱، ۱۱۲) السُّفَهَاءُ.سفاہت نام ہے اضطراب کا.پتلے کپڑے کو بھی سفیہ کہتے ہیں.فما ربحت تُجَارَتُهُمْ.ضالین بڑے تاجر ہوں گے مگر دینی ہدایت نہ لیں گے نہ دینی نفع تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۶) اُٹھائیں گے.فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ.ان کی تجارت بھی ان کے لئے فائدہ مند نہ ہوئی.اس کی مثال انگریزوں کے حالات میں خوب پائی جاتی ہے.کس قدر وسیع تجارت کرتے ہیں.سب ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں.سب زبانیں سیکھتے ہیں.تمام علوم میں ترقی کرتے ہیں.لیکن یہ توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے مذہب کی اصلاح کر لیں.فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ان کی تجارت نے ان کو یہ فائدہ نہ دیا کہ وہ راہ پانے والے ہو جاتے.ہر ایک ملک سے وہاں کی صنعت کا نمونہ لے جاتے ہیں.چکیاں، جوتیاں، لوہاروں کی چیزیں، ترکھانوں کی چیزیں، کشیدہ، برتن.غرض ہر شے کا نمونہ ہر ملک سے لیتے ہیں اور اس کی نقل کرتے ہیں بلکہ اس سے بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اتنی عقل نہیں اور نہ تو فیق ملتی ہے کہ اور مذاہب میں سے اچھے مذہب کو قبول کریں اور اُس سے فائدہ اُٹھا ئیں.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۷)
حقائق الفرقان ۱۴۲ سُورَةُ الْبَقَرَة اس زمانے کا حال دیکھ کر تعجب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں.زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر مومن نہیں کیونکہ ان کے عقائد سے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں.عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کس طرح ہوتی ہے اور میں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور اس خدا کے فضل کو ایمان کھینچتا ہے.اس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے.پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیز نہیں حالانکہ کون دنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے.پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاس لگنے پر اس سے پیاس نہ بجھائے.ہم تو یہی دیکھتے ہیں کہ جب ایمان ہے پانی پیاس بجھاتا ہے تو پیاس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے.پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قرآنِ مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزا وسز اضروری ہے اور پھر اس پر عمل درآمد نہ ہو؟ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے مقابل میں دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچے ہیں.منہ سے بہت باتیں بناتے ہیں مگر عمل درآمد خاک بھی نہیں.ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں مگر اپنے شیاطین اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے ہیں.اِستہزاء ھزو سے نکلا ہے.ہلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جا سکتا ہے اس لئے استہزاء تحقیر کو کہتے ہیں.اللہ ان کو ہلاک کرے گا کسی کو جلد کسی کو دیر سے.اللہ تو تو بہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حد بندیوں کی پرواہ نہیں کرتے.حد بندی سے جوشِ نفس کے وقت یوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آ کر کناروں سے باہر نکل جائے.ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں.یہ تجارت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیں ان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے میں نے طب میں دیکھا ہے کہ بعض وقت نرم کھچڑی شدّت صفراء کی وجہ سے نہایت تلخ معلوم ہوتی ہے.یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرض قلبی کے آگاہ نہیں.پس ایسے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لئے جیسے کوئی آدمی جنگل میں
حقائق الفرقان ۱۴۳ سُورَةُ الْبَقَرَة آگ جلائے تو اس سے یہ فائدہ اٹھا لیتا ہے کہ شیر، چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے.اسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اقرار کر کے مصائب سے عارضی طور پر بچاؤ کر لیتا ہے لیکن بعد میں بلائیں ، جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں.اس کا نفاق کھل جاتا ہے پھر کچھ سوجھ نہیں پڑتا.غرض اپنا ظاہر کچھ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اُٹھاتے ہیں.الفضل جلد نمبر ۹ مورخه ۱۳ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) اشتری.یہاں پر کوئی حقیقی خرید و فروخت مراد نہیں ہے بلکہ یہاں پر اس سے یہ مراد ہے کہ انہوں نے ہدایت کو ترک کر دیا ہے اور بجائے اس کے گمراہی کو اختیار کر لیا ہے...حضرت عبد اللہ بن عباس اور عبد اللہ بن مسعود اور اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہی معنے کئے ہیں اور...مَا كَانُوا مُهْتَدِينَ ( نہ وہ راہ پانے والے بنے) سے یہ مراد ہے کہ وہ تجارت کی صحیح راہ نہ پا سکے یہاں تک کہ تجارت سے اصل مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ اصل مال قائم رہے اور اس سے علاوہ کچھ زائد فائدہ بھی حاصل ہو جائے لیکن منافقوں نے اصل مال ( یعنی فطرت سلیم اور تحصیل کمالات کی فطرتی استعداد ) کو ہی ضائع کر دیا.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۹.مارچ ۱۹۰۷ صفحہ ۳۳۳) ۱۸ ۱۹ - مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِي اسْتَوْقَدَ نَارًا ۚ فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِي ظُلمتِ لاَ يُبْصِرُونَ - صُمٌّ بُكُمُ عُمَى فَهُمْ لَا می 21 وور يرجعون.2 ترجمہ.جیسے ایک آدمی ہے جس نے آگ سلگائی تو جب آگ نے اجالا کیا آگ سلگانے والے کے آس پاس تو اللہ نے اُن کا نور اور اجالا کھود یا اور اُن کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں چھوڑ دیا، وہ کچھ دیکھتے نہیں ہیں.بہرے ہیں (حق سننے سے ) گونگے ہیں (حق بولنے سے ) اندھے ہیں (حق دیکھنے سے ) وہ پھرنے والے حق کی طرف نہیں.تفسیر.حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا قاعدہ تھا کہ جہاں کوئی میلہ ہوتا یا کوئی مجلس تو
حقائق الفرقان ۱۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة آپ ضرور پہنچتے اور توحید کا وعظ فرماتے.اس کے لئے سب سے عمدہ واعلیٰ موقع حج تھا جس میں آپ ایک ایک قبیلے کے جتنے میں وعظ فرماتے.بڑے بڑے واقعات آپ کو پیش آئے.ایک شخص مشہور عاقبت اندیش تھا.اس نے کہا اگر ایک آدمی میرے قابو میں آجائے تو میں اس کے ذریعہ ساری دنیا کو فتح کر سکتا ہوں.وہ نبی کریم صلعم کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میری ساری قوم تمہیں مان لے تو مجھے کیا دو گے؟ آپ نے فرمایا میں کسی کو کیا دے سکتا ہوں.میرے بعد خدا جانے کیا ہو.اس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا.اپنی قوم سے کہنے لگا.ہے تو ایسا ہی مرد جیسا میں نے کہا تھا مگر میں اس پر ایمان لانے کا تمہیں مشورہ نہیں دیتا.آپ انہی حج کے ایام میں منیٰ ایک مقام ہے وہاں وعظ فرما رہے تھے.چھ آدمیوں نے جو مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے اشارہ کیا کہ ہم آپ سے علیحدہ کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ منی کے پاس پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جو چکر کھاتا ہوا جاتا ہے اس کے اندر ایک ٹیلہ ہے وہاں چبوترہ پر جا بیٹھے اور ان کو دین اسلام کی تلقین کی.انہوں نے بیعت کی اور کہا کہ ابھی ہمارا نام نہ لیویں ہم جا کر مشورہ کریں گے اور آئندہ سال انشاء اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے دوستوں کو بھیجیں گے چنانچه آئنده سال باراہ آدمی بھیجے اور تیسرے سال ۷۲ آدمی حاضر ہوئے اور حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ان چھ آدمیوں کی کوشش اور بارہ دوستوں کی کمر بستگی سے مدینہ میں کوئی گھر نہیں رہا جس میں آپ کا تذکرہ نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے شہر میں چلیں.عباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے گو وہ بظاہر مسلمان نہ تھے مگر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمدرد تھے.آپ نے فرمایا کہ دیکھو ان کو لے جانے میں تم کو بہت سخت مشکلات ہیں یہاں تمام منافی و ہاشمی آپ کے ساتھ ہیں مگر وہاں یہ بات نہیں.اس پر انہوں نے بڑا بھاری معاہدہ کیا اور اس معاہدہ میں رسول اللہ نے اُن سے قسمیں لیں.آپ نے فرمایا میرے مدینہ میں لے جانے کے یہ معنے ہیں کہ سارے جہان سے لڑائی کے لئے تم تیار رہو.مکہ میں قریش دشمن ہیں پھر مسجد ، غطفان ، مصر کو ساتھ ملائیں گے پھر عراق و شام کے راستے کی قومیں ان کے ساتھ ہیں.اچھی
حقائق الفرقان ۱۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة طرح سوچ سمجھ لو اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تو لے چلو.انہوں نے عرض کیا کہ ہم حاضر ہیں.عرب میں بہت سی آ گئیں جلاتے تھے.ایک آگ نارالحرب کہلاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے.كُلما أوقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَاهَا اللهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا (المائدة: ۶۵) میں نے غور کیا تو معلوم ہؤ الڑائی آگ سے شروع ہوتی ہے چنانچہ پہلے دل میں ایک آگ اٹھتی ہے پھر وہی آگ تمام گھر میں پھیلتی ہے پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ ملانے کے لئے ان کی دعوتوں کے لئے آگ جلانی پڑتی ہے پھر پہاڑ پر آگ جلا کر اس مہمانی کو وسیع کیا جاتا ہے.پھر بارود کی آگ ہے، پوٹاس کی آگ ہے، توپ کی آگ ہے، ڈائنامیٹ کی آگ ہے.پھر رسول سے جنگ کرنے والوں کا اخیر انجام دوزخ ہے کہ وہ بھی آگ ہے.اس قدر تمہید کے بعد میں اس آیت کے معنے کرتا ہوں.مدینہ میں جب آپ تشریف لائے تو اس وقت جو قوم تھی ان میں عبد اللہ بن ابی بن سلول ایک شخص تھا لوگوں نے ارادہ کیا کہ نمبر داری کی پگڑی اسے بندھا ئیں.جن دنوں میں جلسہ نمبر داری کا ارادہ تھا نبی کریم آ گئے اور اس کی بات بگڑ گئی.اُسے بہت رنج پیدا ہوا اور وہ اکثر موقعوں پر رنج نکالتا رہا لیکن کھل کر مخالفت نہ کر سکتا تھا.اس طرز کے آدمی منافق کہلاتے ہیں یہ اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں.پس ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے جلانا چاہا ہے آگ کو.گویا نبی کریم کو بلوا کر سارے جہان سے جنگ کی ٹھانی.جب جنگ کی آگ ارد گرد بھی بھڑک اُٹھی تو ان لوگوں کا نور معرفت جا تا رہا.جب نار میں سے نور نکل جائے تو پیچھے اس کی تپش ، دھواں اور تکلیف رہ جاتی ہے.اسی طرح ان لوگوں کا حال ہے جب ان کا وہ نور جو حصہ ہے ایمان اور معرفت کا اور اللہ کو راضی کرنے کا ، جاتا رہا تو وہ اندھیرے میں پڑ جاتے ہیں.اندھیرا بھی ایک نہیں بلکہ کئی اندھیرے جیسے کچھ رات کا اندھیرا پھر کچھ معا روشنی گم ہو جانے سے جو اندھیرا ہو جاتا ہے وہ.پھر بادلوں کا اندھیرا.پس وہ کچھ دیکھتے نہیں اور کچھ سوجھائی نہیں دیتا اور لے جب وہ سلگاتے ہیں لڑائی کی آگ تو اللہ اُس کو بجھا دیتا ہے اور کوشش کرتے ہیں ملک میں شرارت پھیلانے کی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۴۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دکھائی کس طرح دے جب کہ تمیز باقی نہیں.دل کمزور ہے اس لئے حق کے شنوا نہیں رہتے پھر حق کے گویا نہیں رہتے.حق کے گویا بننے میں بڑے فائدے ہیں.جب انسان دوسروں کو نیکی سمجھاتا ہے تو آخرا اپنی حالت پر بھی شرم آتی ہے کہ میں جو اوروں کو نصیحت کرتا ہوں خود میری اپنی حالت کیا ہے اور جب میں اپنی اصلاح نہیں کرتا تو دوسروں کی اصلاح کے لئے کیا کہہ سکتا ہوں.اس لئے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ انسان وعظ سنے اور وعظ کرے کہ اس سے بھی راہ حق ملتی ہے.لیکن اس شخص کی حالت قابل رحم ہے جو نہ تو آنکھ رکھتا ہے جس سے رستے میں ہلاکت کی چیز کو دیکھ کر بچ سکے اور نہ کان ہیں کہ کسی ہمدرد کی آواز سن کر بچ جائے جو اُسے بتائے کہ دیکھو اس رستے نہ آؤ اور نہ زبان ہے کہ خود چلا کر کسی سے پوچھ لے کہ میاں فلاں مقام پر پہنچا دو اور وہ اسے پہنچا دے.پس وہ جو نہ حق کا شنوا ہے نہ حق کا گویا نہ حق کا بینا ہلاکت کی طرف سے مڑکر نیک راہ پر نہیں آسکتا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۶،۵) ج ۲۰.اَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ فِيهِ ظُلمتَ وَ رَعْدٌ وَبَرْقٌ يَجْعَلُونَ اَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ مِنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ وَاللهُ مُحِيطٌ بِالْكَفِرِينَ - ترجمہ.یا جیسے بادل سے برسات ہو جس میں گھٹا ٹوپ اندھیریاں اور گرج اور چمک ہے، وہ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھوس لیتے ہیں.بجلیوں سے موت سے ڈر کر اور اللہ نے گھیر لیا ہے کافروں کو.تفسیر.آؤ.دو چیزوں میں سے ایک کے لئے آتا ہے یعنی یہ یا وہ.اور کبھی بمعنے بل یعنی کبھی اس کے معنے بلکہ کے ہوتے ہیں اور گا ہے بمعنی واؤ یعنی بمعنے اور آتا ہے.پس اگر پہلے معنوں میں آئے تو گا ہے شک پیدا ہوتا ہے اور گا ہے ابہام و اجمال اور گا ہے تفصیل ہوتی ہے، خبر میں ، خواہ وہ تفصیل واقعی ہو یا متکلم کے اعتبار کے موافق ہو اور جب بمعنی واؤ ہو تو اس سے اباحت اور تخییر پیدا ہوتی ہے، انشاء میں ، اور یہاں پر دوامر میں سے ایک کے لئے ہے اور متکلم کے اعتبار کے مطابق تفصیل ہے.صیب کہتے ہیں بارش کو.یہ صوب سے بنایا ہوا ہے اور صوب کہتے ہیں نازل ہونے.
حقائق الفرقان ۱۴۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کو.سماء کہتے ہیں ہر ایک بلند شئے کو جو کہ انسان کے اوپر ہو.یہ سمو سے ہے جو کہ صورت اور معنے کی رُو سے علو کی مانند ہے اور مین کے معنے ہیں” سے.رغد بادل کے گرجنے کی آواز کو کہتے ہیں.برق بجلی جو کہ بادل میں یا آسمان کے کناروں پر چمکا کرتی ہے.يَجْعَلُونَ جَعَلَ سے ہے جو بمعنے رکھنے کے ہے.پس يَجْعَلُونَ کے معنے ہوئے رکھتے ہیں“.رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر ۹.مارچ ۱۹۰۷ ، صفحہ ۳۴۵) صیب مینہ کو کہتے ہیں.صیب نیچے اترنے اور جھکنے کو.مینہ کا پانی چونکہ نیچے کو گرتا ہے اس لئے اس کا نام صیب ہے.من السماء یعنی اس مینہ کی طرح جو بادل سے گر رہا ہو.پھر وہ مینہ کس وقت کا ہو جبکہ شورج بھی نہیں ، چاند بھی نہیں ، ستارے بھی نہیں.اس پر بادلوں کا اندھیرا، اس میں رعد ہے یعنی بجلی کی کٹڑک اور برق یعنی بجلی.نادان انسان اپنی انگلیاں کانوں میں کر لیتے ہیں موت سے بچنے کے لئے.مگر ایسے لوگ واقعی کم عقل ہیں کیونکہ سائنسدان جانتے ہیں کہ بجلی بہت تیز ہے وہ روشنی سے بھی پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے بعد آتی ہے چنانچہ چھاؤنیوں میں جہاں توپ دشتی ہے وہ جانتے ہیں کہ چمک پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے پیچھے.اسی طرح بجلی کی آواز کا حال ہے.آواز پہنچنے پر انگلیاں کانوں میں کرنے اور چھپ جانے والا بیوقوف ہے کیونکہ جو مار بجلی نے کرنی ہوتی ہے وہ تو اس سے پہلے کر چکتی ہے.منافق کی طبیعت کا حال بارش کی مثال سے کھلتا ہے جب بارش آتی ہے تو جولوگ ندیوں کے کنارے پر ہیں یا جن کے مکان کچے ہیں اور لپائی ٹھیک نہیں یا جنہوں نے نمک خرید رکھا ہے اُن کو بہت خطرہ ہوتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو اس بارش کو اپنے لئے رحمت سمجھتے ہیں انہوں نے بجلی کی روک کے لئے سلاخیں اور تانبے کے تار کنوئیں میں ڈال رکھے ہوتے ہیں وہ بہر حال خوش حال ہوتے ہیں.اسی طرح کمزور انسان زمانے کے حوادث کی تاب نہ لا کر ایمان سے دور چلے جاتے ہیں.بعض وقت غریبی کے سبب خدا کو کوستے ہیں.لڑکا مر جاتا ہے تو خدا کو گالیاں دیتے ہیں.ایسے نابکار بھی میں نے دیکھے ہیں جو خدا کی خدائی پر الزام دیتے ہیں اور تھوڑی سی مصیبت کو برداشت نہیں کر سکتے.ایک
حقائق الفرقان ۱۴۸ سُورَةُ الْبَقَرَة شاعر کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے شعر کہا جو اس کی نظر میں خاص طور سے قابلِ انعام تھا اور اس نے سنا تھا کہ سعدی نے ایسا ایک شعر کہا تھا تو اُسے خاص طور سے انعامِ الہی ملے تھے.پس اس امید پر اس نے آسمان کی طرف منہ اُٹھایا.اتفاق سے ایک چیل کی بیٹ منہ میں پڑ گئی اس پر وہ بول اُٹھا کہ شعر نہی عالم بالا معلوم شد لے غرض ایسے ایسے نادان لوگ ہوتے ہیں بعض خدا کا ادب کرتے تو گردش دار اور زمانہ کو کوستے ہیں مگر اس کو سنے کا فائدہ کیا؟ اللہ جل شانہ نے یہ بات فرمائی کہ مینہ پڑتا ہے اس میں کڑک بھی ہوتی ہے بجلی بھی ہوتی ہے اندھیرے بھی ہوتے ہیں اس پر نادان تو غیر محل وغیر موقعہ پر اپنے بچاؤ کے سامان کرتے ہیں مگر وہی بارش بہتوں کے لئے مفید ہوتی ہے اسی طرح احکام شرع اور دنیا کی مصیبتیں جب نازل ہوں تو بہت سے لوگ ایمان لاتے ہیں اور مشکلات میں گھبراتے نہیں.ایک جذامی کا حال مجھے معلوم ہے کہ میں نے اسے کہا کہ آپ کے علاج کا مجھ میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے.اُس نے کہا کہ رہنے دیجئے میں تو جس حال میں ہوں خوش ہوں.تنہائی ہے لوگ کم آتے ہیں دعاؤں کا موقع ملتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گھبرا جاتے ہیں اور خدا کو کوستے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہم خدا کا کیا بگاڑ سکتے ہیں.وہ بجلی اگر گر نے والی تھی تو ان کے روکنے سے رک نہیں سکتی پھر وہ خدا کا شکر کریں کہ ان کے کان تو ہیں اگر کان نہ ہوتے تو بجلی کی آواز کس طرح سنتے.ان کی آنکھیں تو ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو پگ ڈنڈی کس طرح نظر آتی.ہر ایک دُکھی اپنے سے بڑھ کر دُکھی کو اپنے ہی شہر میں دیکھ سکتا ہے پس اسے چاہیے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرے اور مشکلات میں گھبرائے نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۷،۶) صیب.دین کے کام میں مشکلات ہوتے ہیں اور یہ مشکلات منافقوں کی منافقت کو ظاہر کر دیتے ہیں.منافقوں کو جب لڑائی کا حکم ہوتا تو عذر کر دیتے.یہاں ہم نے ایک شخص کو جو مہاجر ہونے کا دعویٰ کرتا تھا ایک نصیحت کی کہ تم اپنی محنت سے کچھ عالم بالا کی سخن نہی معلوم ہوگئی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۴۹ سُورَةُ الْبَقَرَة اپنے لئے کما لیا کر وست بیٹھنا اچھا نہیں.تو بہت خفا ہو کر بولا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں ٹوکری اٹھاؤں یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا.ایسا ہی ایک اور شخص کو نصیحت کی کہ کچھ ملا زمت یہاں کر لے جس سے گزارہ چل جائے اور کسی سے کچھ مانگنا نہ پڑے.تو بولا کیا میں محمد علی کو اپنا بادشاہ بنالوں.یہ سب فضول تکبر کے کلمات ہیں.بعض منافق ایسے ہوتے ہیں کہ کچھ حصہ شریعت کو مانتے ہیں باقی پر عمل کرنے سے ڈرتے ہیں.جس حصے میں شامل ہوتا ہے اس کی برسات رحمت اُس پر پڑتی ہے مگر بعض باتوں کو برداشت نہیں کر سکتا کیونکہ بارش میں اگر چہ بڑی بڑی رحمتیں ہیں مگر ابتلاء بھی ہیں.مثلاً رات کا وقت ہو اندھیرا ہو.بادلوں کے سبب چاند اور ستارے بھی نظر نہ آویں.ایسی سخت تاریکی پھر گرج اور کڑک.کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے.ایک دفعہ ہم کشمیر سے آ رہے تھے.ٹانگہ پر سوار تھے.راستہ میں ایک جگہ ہوا کی بالکل بندش کے سبب بہت تکلیف تھی.ٹانگہ والا بھی کہتا تھا کہ غضب ہے.تھوڑی دیر میں خدا تعالیٰ نے بادل بھیجے خوب بارش ہوئی.سڑک پر پانی ہو گیا جس سے ٹانگے کو چلنے میں دقت ہوئی.ٹانگے والا بولا غضب الہی میں چلتے تو تھے اب رحمت الہی تو چلنے بھی نہیں دیتی.یہی حال منافق کا ہے.منافق جہاد میں جانے سے ڈرتا ہے کہ کہیں موت نہ آ جائے.بعض لوگ اپنی ملازمت پر معقول تنخواہ پاتے ہیں لیکن وہ عہدہ ایسا ہوتا ہے کہ وہاں رشوت لے سکتے ہیں ساتھ والوں کو رشوت لیتے ہوئے دیکھ کر رہ نہیں سکتے.آخر اس بدی میں گرفتار ہو جاتے ہیں یہ عملی منافق ہیں.ایسے لوگ اپنے آپ کو پاک قرار دیتے ہیں اور دلائل دینے لگتے ہیں.ایسوں کے متعلق فرمایا کہ ان کو تھوڑی بینائی گی ہے مگر جو لگی ہے وہ بھی کہیں جاتی نہ رہے.بعض لوگ انگریزوں کی نقل کے سبب چھری کانٹے سے کھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ایک دفعہ چھری سے کھایا تھا یا پتلون کے سبب کھڑے ہو کر پیشاب کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آنحضرت نے ایسا کیا تھا.یہ منافق ہیں کیونکہ دین کی باتیں جب ان کو سنائی جاتی ہیں تو ٹال دیتے
حقائق الفرقان ۱۵۰ سُورَةُ الْبَقَرَة ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے.صرف اپنے نفسانی مطالب کے مسائل مانتے ہیں باقی کے متعلق کہتے ہیں کہ مشکلات ہیں عمل نہیں ہو سکتا ہم کیا کریں.منافق کا دل کمزور ہوتا ہے.نہ اس میں قوت فیصلہ اور نہ تاب مقابلہ.اسی واسطے فرما یا کہ تم فیصلہ تو کر نہیں سکتے کہ حق بات کون سی ہے اور یہاں مسائل دن بدن بڑھیں گے.سارا قرآن شریف نازل ہوگا.تمہارا مرض بھی ساتھ ہی ساتھ بڑھتا جائے گا اور مسلمانوں کی تعداد بڑھتی رہے گی.زَادَهُمُ الله.یا تو دعا کے رنگ میں ہے یا امر واقعہ ہے کہ ایسا ہونے والا ہے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸٬۳۷) يَجْعَلُونَ اَصَابِعَهُمْ فِي آذَانِهِمْ.منافق مشکلات کے وقت کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں....الصَّوَاعِقِ.بجلی کی چمک پہلے ہوتی ہے پھر کڑک.بجلی کی آواز سن کر بچاؤ کی تد بیر فضول ( تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۶) ہے.منافقوں کی مثال اُس شخص کی مثال ہے جس پر مینہ برستا ہو.گھٹاٹوپ اندھیرا چھا رہا ہو جب ذرا بجلی چمکی تو آگے بڑھے ورنہ وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے.جب کوئی فائدہ پہنچا تو اسلام کے معتقد بنے رہے جب کوئی ابتلاء پیش آیا تو جھٹ انکار کر دیا ایسے لوگ بیوقوف ہیں جیسے بعض نادان بجلی کی کڑک سن کر پھر کانوں میں انگلیاں دیتے ہیں حالانکہ روشنی کی رفتار آواز سے تیز ہے اور بجلی اس کڑک سے پہلے اپنا کام کر چکتی ہے.الفضل جلد نمبر ۹ مورخه ۱۳ اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) تتَّقُونَ.اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کرنے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۸) ۲۲ - يَأَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِى خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.ترجمہ.اے لوگو! فرمانبرداری کرو تمہارے اُس رب کی جس نے تم کو پیدا کیا اور تم سے پہلے والوں کو تا کہ تم دکھوں سے بچو.پناہ میں آ جاؤ.
حقائق الفرقان ۱۵۱ سُورَةُ الْبَقَرَة تفسیر.کوئی شخص کسی کے ساتھ نیکی کرے صرف ہنس کے بولے یا کسی دکھ کے وقت مدد دے تو آدمی اُس کا ممنون ہو جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب احسان دراصل اللہ تعالیٰ کا ہے جس نے اس محسن کو پیدا کیا پھر اس چیز کو جس سے احسان کیا گیا پھر خودا سے جس پر احسان ہو ا.پس خدا کو بھول جانا انسانیت سے بعید ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اسی لئے اپنے رنگارنگ انعامات واحسانات کا ذکر فرماتا ہے چنانچہ یہاں بھی ارشاد کیا کہ لوگو! تم فرمانبردار بن جاؤ.کس کے؟ اپنے پالن ہار کے.جس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہیں ہی نہیں بلکہ تمہارے بڑوں کو بھی.یعنی پشتہا پشت سے اس محسن کے احسان تم پر چلے آتے ہیں.لعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.فرمانبردار بنو گے تو اس سے کوئی خدا کی خدائی بڑھ نہ جائے گی بلکہ اس میں بھی تمہارا ہی فائدہ ہے وہ یہ کہ تم ہی دکھوں سے بچو گے.میں دیکھتا ہوں آ تشک انہی کو ہوتی ہے جو نا فرمانی کرتے ہیں.میں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو نماز پڑھنے سے سوزاک ہو گیا یا ز کوۃ دینے سے کوڑھ ہو گیا ہو.لوگ کہتے ہیں نیکی مشکل ہے یہ غلط ہے نیکی تو سکھوں کی ماں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۷ ) سنو ! اولوگو! فرمانبرداری کرو اپنے اس محسن، مربی کی جس نے تم کو اور تم سے پہلوں کو خلق کیا.اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ دکھوں سے بیچ رہو گے.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۷) ياَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُم - لوگو اپنے رب کے فرمانبردار بن جاؤ.فرمانبرداری ضروری ہے مگر کوئی فرما نبرداری بدوں فرمان کے نہیں ہو سکتی اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آ تا جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو.پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلم کی ضرورت ہے اور الہی فرمان کی سمجھ بدوں کسی مزگی اور مطہر القلب کے کسی کو نہیں آتی کیونکہ لَا يَمَسة الا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: ۸۰) خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس کیسی ضرورت ہے امام کی کسی مزکی کی.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۴ مورخه ۱۷ / اپریل ۱۹۰۱ صفحه ۳) لے اسے وہی چھوئیں گے اور سمجھیں گے جو پاک کئے گئے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۵۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۳ - الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ فِرَاشًا وَ السَّمَاءِ بِنَاء وَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ - ترجمہ.وہ رب جس نے ( چکر کھانے والی ) زمین کو تمہارے لئے بچھونا بنایا اور آسمان کو مضبوط چھت اور برسا یا بادل سے پانی پھر اگا ئیں اس کے ذریعہ سے کھانے کی چیزیں تمہارے لئے ، تو مت سمجھو اور نہ ٹھہراؤ اللہ کے جیسا کسی کو حالانکہ تم جانتے ہو.تفسیر.جس نے تمہارے لئے زمین کو گول پھر آرامگاہ بنایا اور آسمان کو ایسا کر دیا کہ وہ زمین کے قیام کا باعث ہو رہا ہے.اور جہاں دیکھو وہ آسمان زمین کے لئے نیو ہے.وہی جس نے بادلوں سے ایسا پانی اتارا جس سے تمہارے کھانے کے واسطے رنگ برنگ کے پھل نکالے ایسے محسن مربی کامل صفات کے جامع کا کسی کو کسی امر میں شریک نہ ٹھہراؤ.اور تم جانتے ہو تمہارے انسانی عمدہ قومی میں اتنا تو رکھ ہی دیا ہے کہ ایسا محسن مربی کامل فرمانبرداری اور عبادت کا مستحق ہے پس اپنے قومی کو بریکار نہ کرو.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن - صفحہ ۲۱۷) پھر اُس نے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو ہی نہیں بنایا بلکہ تمہاری زندگی کے سامان بھی مہیا کئے.رہنے کو زمین ، حفاظت کو آسمان ، بادل سے پانی اُتار کر طرح طرح کے میوے بطور رزق دیئے.پس تم ایسے خدا کا کوئی (مد مقابل ) نہ ٹھہراؤ.اور تم غور کرو تو خود اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ اور یہ یقین ہو جائے کہ اللہ کا یہ واقعی کوئی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۷) سرکس میں تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ جانور کس طرح اپنے مالک کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں حالانکہ اس مالک نے نہ جان دی ہے نہ وہ کھانے پینے کی چیزیں پیدا کی ہیں.جب ایک معمولی سے، اس کی اس قدر اطاعت کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم پر فدا نہ ہو جس نے اسے حیات بخشی ، رزق دیا، پھر قیام کا بندو بست کیا.اس لئے فرمایا کہ منافقو ! تم معمولی فائدہ کے اٹھانے کے لئے جہان کا لحاظ کرتے ہو مگر کیوں نہیں اُس سچے مربی کے فرمانبردار ہوتے جو تمام انعاموں کا سرچشمہ ہے.کم عقلو! اُس نے تمہیں پیدا کیا.پھر تمہارے باپ دادا کو بھی پیدا کیا.
حقائق الفرقان ۱۵۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پھر فرمانبرداری کرنے میں اللہ کا کچھ فائدہ نہیں بلکہ تم ہی دکھوں سے بچو گے اور سکھ پاؤ گے.دیکھو! اس نے تم پر کیسے کیسے احسان کئے ہیں.تمہارے لئے زمین بنائی جو کیسی اچھی آرام گاہ ہے پھل پھول اور طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی ہے جسے تم کھاتے ہو.پھر آسمان کو بنا یا جیسے ایک خیمہ ہے.وہ زمین کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.پھر بادلوں سے پانی اُتارا اس سے رنگارنگ کے پھل اگائے.یہ فضل ہوں اور پھر تم اس کا نڈ بناؤ.بڑے افسوس کی بات ہے.نڈ بنانا کیا ہے؟ سنو! یہ کہنا کہ دوست آ گیا تھا اس کی خاطر تواضع میں نماز رہ گئی.بچوں کے کپڑوں اور بیوی کے زیوروں کی فکر تھی نماز میں شامل نہ ہو سکا.رات کو ایک دوست سے باتیں کرتے کرتے دیر ہوگئی اس لئے صبح کی نماز کا وقت نیند میں گزر گیا.غور کرو اس دوست یا اس شخص نے جس کے لئے تم نے خدا کے حکم کو ٹالا ویسے احسان تمہارے ساتھ کئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے تم سے کئے؟ اسی طرح آجکل مجھے خط آ رہے ہیں کہ بارش ہوگئی ہے تخمریزی کا وقت ہے اگر آپ اجازت دیں تو روزے پھر سرما میں رکھ لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کے احکام کا استخفاف ہے اس سے توبہ کرلو.یہ اپنے دنیاوی کاموں کو خدا کا نڈ بنانا ہے جو کفرانِ نعمت ہے.الفضل جلد نمبر ۱۰ مورخه ۲۰ /اگست ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) اَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً (البقرة : ۲۳) یعنی یہ غلہ اناج وغیرہ کا میٹر (Matter) ہوا اور زمین میں موجود ہوتا ہے پھر جب تک آسمان سے پانی نازل نہ ہو اور اس سے ان میں نشو و نما پیدا نہ ہوں تب تک وہ غذا تمہارے کھانے کے قابل کب ہو سکتی ہے.ادھر سے ہمارا مینہ آوے نیچے سے وہ دانہ نشوونما پاوے تب تم اس کو حاصل کر سکتے ہو.پس تعلیم تو دنیا میں ضرور ہوتی ہے پھر جب تک آسمانی بارش یعنی الہام نازل نہ ہو وہ تعلیم نشو ونما نہیں پاسکتی.الحکم- مورخہ ۲۴ /نومبر ۱۹۰۴ صفحه ۲) بناء.آسمان کو جہاں دیکھو گول ہی نظر آتا ہے.جیسے ڈیرہ اور خیمہ.ند - مد مقابل.نہ خدا کا کوئی شریک ہے نہ اس کا کوئی مد مقابل ہے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۸)
حقائق الفرقان ۱۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۵،۲۴ - وَ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِّنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ اِنْ كُنْتُم صُدِقِينَ - فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا وَ لَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتُ لِلْكَفِرِينَ - ترجمہ.اور اگر تم کو شک ہے (اللہ کے کلام ہونے میں ) اس کلام میں جو ہم نے اتارا اپنے بندے ( پیارے محمد ) پر تو لاؤ تو ایک سورت اس کے جیسی اور بلا ؤ تمہارے ہی حمایتیوں کو اللہ سے الگ ہو کر جب تم سچے ہو.جب تم کر ہی نہ سکے اور کبھی کر بھی نہ سکو گے تو بچو اس آگ سے جس کے سلگنے کا سبب آدمی اور پتھر ہیں وہ آگ تیار کی گئی اور دہکائی گئی حق چھپانے والوں کے لئے.تفسیر.اب جب فرمانبردار بنتا ہے تو فرمان کی ضرورت ہے وہ فرمان قرآن ہے جو ہم نے تو اپنے بندے پر نازل کیا.اگر اس کے کلام الہی ہونے میں تمہیں کچھ شک ہے تو اس کی مثل لاؤ.یہ آسان فیصلہ ہے کیونکہ جیسے دوسری مخلوقات میں خدا کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کی بنائی ہوئی چیزوں سے الگ نظر آتی ہیں اسی طرح یہ کلام اللہ کلام انسانی سے لگا نہیں کھاتا.اگر تم نظیر نہ لائے اور لابھی نہ سکو گے تو اس آگ سے بچاؤ کر لو جس کا ایندھن منکر لوگ اور پتھر ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷) اس کا سب سے بڑا انعام تم پر یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی.اگر تم کو یہ شک ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ بناوٹی ہے اور انسانی کلام ہے تو تم بھی کوئی ایسی کتاب لا ؤ بلکہ اس کتاب کے ایک ٹکڑے جیسا ٹکڑا بنا کر دکھاؤ.ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قرآن کو توڑ موڑ کر اپنے مطلب کا ترجمہ کر لیتا ہے میں کہتا ہوں جیسا تمہارا سنانے والا ہے ایسا کوئی سنانے والا لاؤ.میں تمہیں کہتا ہوں جھوٹ نہ بولو کیا تم کوئی ایسا مترجم لا سکتے ہو جو کہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ جھوٹ بولا کرو.میں کہتا ہوں کہ بد معاملگی چھوڑ دو تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا کہ بد معاملگی کیا کرو.میں کہتا ہوں تم راست باز بنو، لڑائی چھوڑ دو، آپس کا فساد چھوڑ دو، تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا کہ لڑائی
حقائق الفرقان کیا کرو، فساد مچایا کرو.۱۵۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة غرض نہ تو قرآن جیسی کتاب بنا کر لاتے ہو اور نہ اس سے بہتر بنا سکتے ہو تو پھر ڈرو اور بچاؤ اپنے آپ کو اس آگ سے جس کا ایندھن یہ شریر لوگ اور جس کے بھڑکنے کا موجب یہ معبودانِ باطل ہیں.جولوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اعمال صالحہ کئے وہ باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں.ایمان تو جنات کے رنگ میں متمثل ہو گا اور اعمال صالحہ اس کی نہریں ہیں جو پاک تعلیم کے نیچے.آتا ہے وہ ترقی کرتا ہے اور پاک آرام میں آتا ہے.ہر آن میں اسے یقین آتا ہے کہ کیا عظیم الشان اور کیا پاک اس کا کلام ہے جس نے فسانہ عجائب لکھی ہے ! الفضل جلد نمبر ۱۰ مورخه ۲۰ /اگست ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا تو اس کے مثل کوئی ایک ٹکڑر الاؤ اور اللہ کے سوا اپنے گواہوں کو بلاؤ اگر سچے ہو.پھر اگر تم نے نہ کیا اور ہرگز نہ کر سکو گے تو ڈرواس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۴ حاشیه ) وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (البقرة: (۲۵) کے معنے یہ ہیں کہ انسانوں اور پتھروں میں جو تعلق پیدا ہوا ہے کہ انسانوں نے پتھروں کی پرستش شروع کر دی ہے یہی تعلق دوزخ کے اشتعال کا باعث اور اس کا ہیزم ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۷۹) ۲۶ - وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الاَنْهُرُ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هُذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ b " أتُوا بِهِ مُتَشَابِهَا وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُطَهَّرَةٌ وَهُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ترجمہ.اچھی خبر سنادو ان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے یہ کہ ان کے لئے عمدہ عمدہ باغ ہیں.پھر رہی ہیں نہریں اُن میں.جب ان کو وہاں باغوں سے کھانے کو پھل پھلاری ملے گی لے جس کے سلگنے کا سبب آدمی اور پتھر ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة بولیں گے یہ وہی ہے جو ہمیں پہلے سے مل چکا ہے اور وہ دیئے گئے ایک دوسرے سے ملتا جلتا اور اُن باغوں میں مردوں کے لئے عورتیں ہیں بڑی پاکیزہ ستھری اور وہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں.تفسیر.مومنوں اور نیک عمل والوں کے لئے آرام کی جگہیں ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں.جب کبھی اس سے کوئی میوہ دیا جائے گا کہیں گے یہ تو وہی ہے جس کا ہمیں پہلے وعدہ دیا جا چکا تھا اور پھر ایک نہیں بلکہ رنگارنگ ایک جیسے دوسرے دیئے جاویں گے اور ان کے لئے اس میں جوڑے ہوں گے.بیبیاں ہی ہوں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷) عرب ریگستان کے باشندے، خشن پوش کھجور پر زندگی بسر کرتے تھے.ان کے لئے کہا گیا بَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ أَنَّ لَهُمْ جَنْتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ (البقرة: ۲۶).پھر دیکھا اب تک ہم لوگ قریش اس جنت کے مالک ہیں.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۳۲۳) ایک تارک اسلام کے اس اعتراض کے جواب میں کہ "بہشت میں نہریں ہوں گی.بعض کہتے ہیں کہ دُودھ اور شہد کی نہریں.“ تحریر فرمایا :.او بد بخت ! اسلامی نہروں سے محروم! دیکھ تیرے سام وید نے تجھے اب وید سے بھی متنفر کرانے کی تجویز کی ہے.جو کوئی کہ اُس خلاصی یعنی پومن ( سوم ) بھیجن کو جسے خدا رسیدہ لوگوں نے جمع کیا پڑھتا ہے اس کے لئے سرسوتی ، پانی مکھن ، دودھ اور مدہ برساتا ہے.دیکھوسام وید پر پاٹھک ۸ سوم پومن صفحہ ۱۲۹ پر پاٹھک ۹ ، سرسوتی ) ہاں اُس سات بہنوں والی پیاری نہروں میں نہایت پیاری سرسوتی نے ہماری تعریف حاصل کی ہے.وہ اس کی نہر کے ساتھ اپنے تئیں صاف کر کے زرد و سرخ رنگ ہو کر چمکتا ہے.اس وقت جب کہ وہ مدح گولیوں کے ساتھ سات مونہہ رکھنے والا تعریف کرنے والوں کے ساتھ کل شکلوں کا احاطہ
حقائق الفرقان ۱۵۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کرتا ہے.صفحہ ۵۱.وہ مضبوط پہاڑی ڈھل مستانہ خوشی کے لئے نہروں میں نچوڑا گیا ہے باز کی طرح وہ اپنی جگہ قرار پذیر ہوتا ہے.صفحہ ۵۳ اے اندر! تیری نہر قوت کے ساتھ دیوتاؤں کی ضیافت کے لئے بہتی ہے.اے سوم مدہ سے مالا مال ! ہمارے برتن میں نشست گاہ اختیار کر صفحہ ۶۴ دودھ ان کی طرف اس طرح دوڑا ہے جس طرح طغیانیاں کسی چٹان پر دھکیلتی آتی ہیں.وہ اندر کے پاس صاف ہوکر آتے ہیں.صفحہ ۹۷ نیز اگر نہروں والی بہشت نا پسند تھی تو تمہارے آریہ کو جو تبت میں آباد تھے جب اپنے ملکوں سے اپنے کرموں انسار سے ( نتائج اعمال ) جلاوطنی کا انعام ملا تھا تو چاہیے تھا کہ افریقہ کے ریگستان میں جاتے.انہوں نے انڈیا کو کیوں پسند کیا جس میں دودھ اور شہد ہر قسم تعیش اور شم کی نہریں بہتی ہیں.تم کیسے شریر ہو مکہ معظمہ کا تذکرہ ہو تو اُسے ریگستان سمجھتے ہو اور اگر نہروں کا تذکرہ ہو تو اس پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہو.تم اس پر راضی ہو کہ تمہیں نرگ میں بھیج دیا جاوے.حقیقی جواب نھر کے معنے کثرت کے ہیں اور پھر کے معنے ندی کے ہیں.اور وہ آیات جن میں نہروں کے عطیہ کا تذکرہ ہے.وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کرام کے حق میں ان کی محنتوں، مشقتوں اور تکالیف کے بدلہ جو انہوں نے اپنے پاک نبی کی اتباع میں اٹھا ئیں اللہ کی طرف سے وعدہ تھا کہ انہیں اسی جنم میں ریگستان عرب کے بدلہ نہروں والے ملک عطا کروں گا.چنانچہ جیسے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا اور آپ کے نیچے اور مخلص اتباع ان بلاد کے مالک ہو گئے جن میں دجله، فرات ، جیحون ،سیون، پر دن اور نیل بہتے تھے اور اسی پیروی کی برکت سے مسلمانوں نے آریہ ورت کو بھی لے لیا جس میں گنگا ، جمنا اور سرسوتی بہتے ہیں.سوچو اور خوب غور کرو! کیسے قبل از وقت بتایا ہو اوعدہ پورا ہوا...ان الفاظ کے حقائق کے سمجھنے کے لئے ہمیں کتب تعبیر الرویا کی طرف رجوع کرنا چاہیے چنانچہ نھر کے حقائق کی نسبت ان میں ہم
حقائق الفرقان یہ پاتے ہیں.۱۵۸ سُورَةُ الْبَقَرَة النَّهْرُ يَدُلُّ عَلَى إِقْلِيمِهِ كَسَيْحُوْنَ وَجَيْعُوْنَ وَالْفُرَاتِ وَالنَّيْلَ - نہر سے مراد یہ ہے کہ ایسی اقلیمیں جن میں نہریں بہتی ہیں جیسے سیون، جیحون اور فرات اور نیل اسلام کے قبضہ میں آجائیں گی اور آخر وہ آگئیں.وَالنَّهْرُ فِي الْمَنَامِ عَمَلَ صَالِحٌ أَورِزْقٌ مُسْتَمِرُ وَ نَهْرُ اللَّبَنِ دَلِيْلٌ عَلَى الْفِطْرَةِ وَنَهْرُ الْخَمْرِ دَلِيْلٌ عَلَى السُّكَّرِ مِنْ حُبِ اللهِ تَعَالَى وَ الْبُغْضِ عَنْ مَحَارِمِهِ وَ نَهْرُ الْعَسْلِ دَلِيْلٌ عَلَى الْعِلْمِ (تعطیر الانام صفحه ۳۲۶) وَالْقُرْآنِ - اور خواب میں نہر کو دیکھنے سے مراد ہوتا ہے عمل صالح اور دائی رزق.یہ بھی مسلمانوں کو ملا.دودھ کی نہر دیکھنے سے مراد ہے فطرت صحیحہ اور شراب کی نہر سے مراد ہے اللہ تعالیٰ کی محبت کے نشہ سے سرشار ہونا اور اس کی حرام کردہ اشیاء سے بغض رکھنا اور شہد کی نہر سے مراد ہے علم اور قرآن کا حاصل ہونا.غَيْرُ الْكَوْثَرِ فِي الْمَنَامِ نُصْرَةٌ عَلَى الْأَعْدَاء بِقَوْلِهِ تَعَالَى إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر - (تعطیر الانام صفحه ۳۲۵) نہر کوثر کا رویا میں دیکھنا دلیل ہوتا ہے اعداء پر مظفر ومنصور ہونے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ کے كلام إنا أعطينكَ الْكَوْثَرَ سے مستنبط ہوتا ہے.چنا نچہ بے چارگی اور بے سامانی کے زمانہ میں جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھوں سے شکار لاغر کی طرح دکھ اٹھا رہے تھے.یہ وحی آپ کو عالم الغیب قادر خدا کی طرف سے ہوئی کہ ہم نے تجھ کو الکوثر عطا فرمایا ہے.دنیا جانتی ہے کہ وہ مظلوم بیکس انسان جسے اپنے بیگانوں نے پاؤں کے نیچے مسلنا چاہا تھا کس طرح اپنے اعداء پر منصور و مظفر ہوا اور اس کے قوی اور متکبر دشمن خاک میں مل گئے.سوچو اور غور کرو! کہ یہ غیب کی باتیں کس طرح حرفاً حرفاً پوری ہوئیں اور خدا کے غضب سے ڈرو.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن - صفحہ ۱۶۵ تا ۱۶۷) جنات.جنت کیا ہے؟ آدمی کی آنکھ ہے، کان ہیں ، زبان ہے، مزہ ہے ،ٹولنا ہے..
حقائق الفرقان ۱۵۹ سُورَةُ الْبَقَرَة اللہ تعالیٰ کے لئے جو ان باتوں کو ترک کرتا ہے اُسے جنت ملتی ہے.اللہ کے لئے جو ہم قربان کریں اس کا نعم البدل جنت ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ (جنوری ۱۹۰۹ ء صفحہ ۷) جنت - (۱) تعلیم نبوی (۲) مدینہ طیبہ (۳) فتوحات (۴) عراق.عرب محجم.مصر و شام (۵) قبر (۶) محشر (۷) جنت.هذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ - یہ وہ چیز ہے جس کا ہم سے وعدہ تھا.وَاتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا.جس رنگ کے عمل کئے اُسی رنگ کی عنایات الہیہ.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۶) رزقنا.یہ وہی چیز ہے جس کا ہم کو پہلے سے وعدہ دیا گیا تھا.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸) ۲۷ ۲۸ - إِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ أَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَا ذا اراد اللهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۖ وَمَا يُضِلُّ بِهَ إلَّا الْفَسِقِينَ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا ص اَمَرَ اللهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ - ترجمہ.بے شک اللہ نہیں رکتا اس سے کہ بیان کرے مثال کسی مچھر کی یا اس سے چھوٹے بڑے کی تو جو لوگ اللہ کو مان چکے ہیں وہ تو جانتے ہیں کہ وہ مثال سچ ہے اُن کے رب کی طرف سے اور جنہوں نے حق کو چھپا یادہ کہتے ہیں اللہ نے کیا چاہا اس مثال کے بیان کرنے سے.بہکاتا ہے اس سے بہتوں کو اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتوں کو اور وہ تو گم راہ نہیں کرتا اس سے کسی کو مگر بدکار ( گم راہ ہوتے ہیں ).جولوگ توڑتے ہیں اللہ کے اقرار کو شریعت کے مضبوط ہونے کے بعد اور اُن سے جدائی چاہتے ہیں جن سے ملنا اللہ پسند کرتا ہے اور ملک میں شرارت کرتے ہیں یہی لوگ نقصان میں ہیں.تفسیر.یہ تو تھوڑی سی چیز ہے جو اللہ بیان کرتا ہے اور جنت کے نعماء کے مقابل میں ایسی ہے جیسی
حقائق الفرقان 17.سُورَةُ الْبَقَرَة مچھر کے سامنے ہاتھی.تاہم کسی بات کے سمجھانے کے لئے مچھری بلکہ اس سے بھی ادنیٰ مثال دینے سے اللہ نہیں رکھتا.جو ایمان دار ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ یہ ان کے رب سے برحق ہے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں اس مثال سے اللہ نے کیا ارادہ کیا.بہت سے اس سے گمراہ ہوتے اور بہت ہدایت پاتے ہیں.گمراہ کون ہوتے ہیں وہی جو بد عہد ہیں اپنے عہد کا پاس نہیں رکھتے جن سے اللہ نے قطع تعلق کرنے کے لئے فرمایا ان سے تعلق جوڑتے ہیں اور جن سے تعلق جوڑنے کے لئے کہا ان سے قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں مگر شرارت کا پھل سواٹو ٹا پانے کے کچھ نہیں.دیکھو تم کچھ نہ تھے خدا نے زندہ کیا پھر مارے گا اور جزا اور سزا کے لئے زندگی دے گا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخہ ۱۱ فروری ۱۹۰۹ صفحہ ۷ ) دُنیا کی نعمتوں کی مثال تو ان کے مقابل میں مچھر کی سی ہے یعنی دنیا کی چیزوں کی بہشت کی نعمتوں کے سامنے ایک پقہ کے برابر بھی حقیقت نہیں.ایسی مثالوں سے مومن حق کو پالیتا ہے اور کا فر کہتا ہے تمثیلوں سے کیا فائدہ ؟ بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں الفضل جلد نمبر ۱۱ مورخه ۲۷ اگست ۱۹۱۳ صفحه ۱۵) جو فاسق ہوں.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَ يَهْدِي بِهِ كَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِينَ (البقرة: ۲۷) کیسا صاف مطلب ہے کہ فاسق ہی اس کتاب کریم کو پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شفا اور راحت ( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۲۲) اور نور ہے.لا يستحي - نہیں رکتا.بعُوضَةً - منافقوں کے متعلق جب آگ جلانے کی مثال دی گئی تو بڑ بڑانے لگے کہ آگ تو مچھر ہٹانے کے واسطے جلائی جاتی ہے کیا ہم مچھر ہیں جو ہمارے واسطے ایسی مثال پیش کی گئی ہے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۸) فَاسِقِين - بدعہد.اضلال جس سے یضلل نکلا ہے نتیجہ ہے ضلال کا اور ضلال پیدا ہوتا ہے ان انسانی طاقتوں.اے گمراہ کرتا ہے اس سے بہتیرے اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتیرے اور گمراہ کرتا ہے انہیں کو جو بے حکم ہیں.۱۲
حقائق الفرقان ۱۶۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جو انسان کے تابع ہیں.قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب صاف کیا ہے جہاں فرمایا ہے.وَمَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا الْفُسِقِينَ (البقرة: ۲۷) یعنی اس سے وہ انہیں لوگوں پر ضلال اور گمراہی کا حکم لگاتا ہے جو اس کے حدود اور احکام کو توڑتے ہیں.-۲- يُضِلُّ اللهُ الظَّلِمِينَ (ابراهیم: ۲۸) اللہ ظالموں پر گمراہی کا حکم لگا تا اور انہیں گمراہ ٹھہراتا ہے.- يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُرْتَابُ (المومن : ۳۵) اللہ گمراہ ٹھہراتا ہے ایسے شخص کو جو حد سے نکلنے والا متردد ہوتا ہے.ان آیات سے یہ بات کس قدر صاف ہو جاتی ہے اور خدا ترس دانش مند کے نزدیک حرف رکھنے کی جگہ نہیں رہتی.جو لوگ بدکار اور ظالم اور مسرف اور کذاب ہوتے ہیں وہ اپنے اعمال سے کیا ہر ایک سلیم الفطرت کے نزدیک اس بات کے مستحق نہیں ہوتے کہ وہ انہیں دیکھتے ہی حکم لگا دے کہ یہ تو ہلاک اور تباہ ہونے والے لوگ ہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن - صفحہ ۹۹) ٣٠ هُوَ الَّذِى خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاءِ فَسَواهُنَّ سَبْعَ سَمُوتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمٌ.ترجمہ.وہی اللہ ہے جس نے زمین کی سب کی سب چیزیں تمہارے ہی واسطے پیدا کیں پھر متوجہ ہوا دو، - آسمان کی طرف تو ٹھیک بناڈالے انہیں سات آسمان اور وہ ہر ایک چیز کا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.اس نے تمہاری بھلائی کے لئے زمین کی سب چیزوں کو پیدا کیا.پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور انہیں درست کیا سات آسمان اگر کسی طرح نہیں مانتے تو یوں تو مانو کہ وہ ہر چیز کا عالم ہے اور علم والوں کی بات ماننا فطرت انسانی میں داخل ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۷ ) خَلَقَ لَكُمْ.اندازہ کیا تمہارے لئے کیونکہ قیامت تک خلق ہوگی....سبع سموات آسمان کے ستارے سات قسم کے ہیں.تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۳۶)
حقائق الفرقان ۱۶۲ سُورَةُ الْبَقَرَة ۳۱.وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ - ترجمہ.اور (اے پیغمبر ! وہ کیفیت بھی بیان کرو) جب تیرے رب نے کہا فرشتوں سے کہ میں خاص زمین میں ایک نائب حاکم بنانے والا ہوں ، فرشتوں نے عرض کی، کیا آپ ایسے شخص کو نائب بنائیں گے زمین میں جو وہاں فتنہ انگیزی اور خون ریزی کرے گا اور ہم تو تیری تعریف کے ساتھ کہتے ہیں کہ تیری ذات پاک خوبیوں ہی خوبیوں والی اور سب عیبوں سے پاک ہے.اللہ نے فرمایا ، میں وہ بھید خوب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.تفسیر.خَلِيفَةً خَلِيْفَةٌ مِّنَ الله - خدا کی طرف سے بنا ہوا خلیفہ خلیفہ اللہ.خلیفتہ اللہ کے یہ معنے کرنے کہ اللہ کا قائمقام غلط ہیں.ہم نے کبھی کسی انسان کو انسانوں کی ربوبیت کرتے نہیں دیکھا.اس واسطے ایسے معنے مشرکانہ ہیں.خلیفہ وہ ہے جو کسی کے بعد آوے یا کسی کو اپنے پیچھے چھوڑ جائے.نافذ الحکم اور بادشاہ کو بھی خلیفہ کہتے ہیں.وَنَحْنُ ملائکہ نے پہلے عذر کیا.مگر پھر کہا ہم بہر حال حاضر ہیں.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ ۱۷اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸) سورۃ الحمد میں دو گروہوں کا ذکر ہے منعم علیہم ، مغضوب علیہم منعم علیہم کو متقین فرمایا اور بتایا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز پڑھتے ، اپنے مال و جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وحی کا سلسلہ ابتدائے خلق آدم سے تا قیامت جاری ہے.یہ لوگ ہدایت کے گھوڑوں پرسوار ہیں اور مظفر و منصور ہوں گے.دوم وہ لوگ ہیں جن کے لئے سنانا نہ سنانا برا بر ہے اور جو شرارت سے انکار کرتے ہیں مغضوب علیہم ہیں ایسے ہی منافق.سوم وہ جو غلطی سے گمراہ ہیں یا بدعہد یوں کی وجہ سے یہ ضالّ ہیں.اب ایک منعم علیہ کی مثال دے کر سمجھاتا ہے.اللہ نے فرشتوں سے مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں
حقائق الفرقان ۱۶۳ سُورَةُ الْبَقَرَة اطلاع دی.( یہ اطلاع دینا خدا کا خاص فضل ہے جو بعض خواص پر ہوتا ہے ) کہ میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.خلیفہ کہتے ہیں گذشتہ قوم کے جانشین کو جو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑے بادشاہ کو ( ظاہری باطنی سلطنت کو شامل ہے.) سیہ ملائکہ وہ تھے جن کے متعلق عناصر کی زمینی خدمات ہوتی ہیں اور یہ ثابت ہے اس آیت سے استكبرت أم كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ ( ص : ۷۶) جس سے معلوم ہوا کہ عالین اس حکم کے مکلف نہیں تھے.صوفیوں نے لکھا ہے تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے.ہر عنصر پر ایک فرشتہ ہوتا ہے وہ اپنے اپنے متعلقہ شئے کی ماہیت کو جانتے تھے وہ سمجھے کہ یہ تمام عناصر جب ملیں گے ضرور ان میں اختلاف ہو گا مگر انہیں معلوم نہ تھا.خدا انسان کو مجموعہ کمالات بنانا چاہتا ہے.واقعی ہماری غذا بھی عجیب ہے کچھ اس میں پتھر (نمک) ہے.کچھ نباتات کچھ حیوانات.پس وہ بول اُٹھے کہ وہ فساد کرے گا اور خونریزی.مگر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں تیری ذات کو اس بات سے منزہ سمجھتے ہیں کہ تیرا کوئی کام حکمت اور نیک نتیجہ سے خالی ہو.فرشتے جو اعتراض کر رہے تھے دراصل وہی ان پر وارد ہوتا تھا کہ وہ بنی آدم کی پیدائش اور اس کی نسل کی نسبت چاہتے تھے کہ نہ ہو گو یا سفکِ دماء کرتے تھے اور یہ بھی فساد تھا.ایک دفعہ کسی شخص نے مجھے کہا بہت علماء تمہارے مرزا صاحب کو خلیفہ اللہ نہیں مانتے.میں نے کہا یہ تعجب نہیں.خلفاء پر فرشتوں نے اعتراض کئے ہیں یہ علماء فرشتوں سے بڑھ کر نہیں مگر فرشتوں اور دوسرے لوگوں کے اعتراض میں فرق تھا فرشتوں نے وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ اور سُبْحَنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَناً کہہ کر اپنے اعتراض واپس لے لیا...فرشتوں کے سوال سے انسان کو عبرت پکڑنی چاہیے جسے نہ تو خدا کی صفات کا علم ہے نہ صفات سے پیدا شدہ فعل کا.بلکہ فعل کا اثر کچھ دیکھا ہے پس وہ کس بات پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرتا ہے اور مامورمن اللہ کی نسبت کہتا ہے یہ نہیں چاہیے تھا وہ چاہیے تھا.(البدر جلد نمبر ۳۶ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۰۸ ء صفحه ۲)
حقائق الفرقان ۱۶۴ سُورَةُ الْبَقَرَة آئندہ آنے والی باتوں کی نسبت مدتبرانِ ملک پیشگوئی کرتے ہیں جن کے تجارب صحیحہ آئندہ واقعات کے متعلق ہوں وہ تمدن کے فلاسفر کہتے ہیں جو دوائی اور نسخہ تجویز کرتے ہیں وہ بھی مریضوں کے متعلق ایک پیشگوئی کرتے ہیں جن کی ایسی پیشگوئیاں کثرت سے صحیح ہوں وہ طبیب حاذق کہلاتے ہیں.ایک اور قوم ہے جو کسی حساب کی بنا پر پیشگوئی کرتی ہے پھر یہ پیشگوئیاں جس کی زیادہ صحیح ہوں وہ نجم کہلاتا ہے.پھر اس سے بڑھ کر ایک اور قوم ہے جس کے دماغوں کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ وہ آئندہ واقعات کے متعلق بعض اوقات صحیح پیشگوئیاں کر سکتے ہیں ان میں سے جو اخلاق فاضلہ اور عقیدہ صحیحہ رکھتے ہیں وہ ولی کہلاتے ہیں.دوسرے ہر پوپو.پھر ایک اور قوم ہے جو ملائکہ کے نام سے مشہور ہے ان کو بعض معاملات کی قبل از وقت اطلاع خدا کی طرف سے دی جاتی ہے.پھر ان سے بالا تر ایک اور قوم ہے جو ملائکہ سے میرے خیال میں افضل ہے انہیں رسول یا نبی کہتے ہیں ان کی اگر کوئی پیشگوئی بظا ہر صحیح نہ ہو تو یہ امر ان کی ترقی کا موجب ہے کیونکہ ایسی بات پیش آنے سے تو جہ جناب الہی میں بڑھے گی اور ترقیات کو طلب کرے گا.بہر حال خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو اطلاع دی که انِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً میں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کر نے والا ہوں.خَلِيفَةً.اس کے تین معنے ہیں (۱) قوم کا قائم مقام يخلف قوما (۲) جو اپنی جگہ کسی کو قائم مقام چھوڑے یخلف قومًا (۳) وہ بادشاہ جو نافذ الحکم ہو جیسے پنجابی میں منیا پرونیا“ کہتے ہیں.آدم علیہ السلام کے متعلق تینوں باتیں صحیح ہو سکتی ہیں.ان سے پہلے بھی قو میں ہوسکتی ہیں اور بعد میں بھی ہوئیں اور اللہ نے انہیں طاقت بھی بخشی.ایک اور جگہ داؤد علیہ السلام کے متعلق یہی لفظ فرمایا انا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً ( ص : ۲۷) حضرت حق سبحانہ ، نے یہ اطلاع ملائکہ کو دی ہے اور ہرگز ہرگز بطور مشورہ نہیں بتایا.جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ غلطی پر ہیں خدا کسی سے صلاح نہیں پوچھا کرتا.اطلاع کا نام مشورہ نہیں ہوسکتا.اس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا تو مقرر کرے گا اسے خود فساد کرے گا اور خون ریزی؟ ان معنوں پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ خدا کے سامنے ملائکہ نے اعتراض کیوں کیا اس لئے اس سے بچنے کے لئے بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ کیا آپ بھلا ایسا بنانے لگے ہیں جو فساد و خون ریزی اے ہم نے تجھ کو بنا یا نائب.( ناشر )
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة کرے؟ گویا استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہوسکتا.پھر یہ بھی خیال کر لینا چاہیے کہ فرشتے جو عرض کرتے ہیں وہ خود اس اعتراض کے نیچے ہیں.وہ یہ بات کہہ کر آدم کو مفسد ٹھہراتے اور اس کو مرواتے ہیں اور ان انبیاء و اولیاء کے ظہور کے مانع ہیں جنہوں نے اپنے کمالات سے مخلوق کو فائدہ پہنچایا اور خدائی جلال کو ظاہر کیا اس طرح وہ خون ریزی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر یہ سی نہیں.بہر حال مجھے تو وہی پہلے معنے پسند ہیں کیونکہ اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے ایک خاص آدمی کے بارے میں پوچھا کہ آپ اسے کیسا سمجھتے ہیں؟ میں نے کہا نیک ہے، بزرگ ہے.اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ تو مرزا صاحب کا مخالف ہے.میں نے کہا پھر کیا ہو ا ؟ آدم کی خلافت پر اس کے خلاف کہنے والے تو ملائکہ کہلاتے ہیں اور میں نے اسے ملک بھی نہیں کہا.وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ اس پچھلی بات کا فرشتے ازالہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے کل عیوب سے پاک سمجھتے ہیں اور تیری ذات اس سے اعلیٰ و ارفع ہے اور اقدس ہے کہ کوئی ایسا فعل کرے جس کا نتیجہ اچھا نہ ہو.یہ قول کہ فرشتوں نے گویا اپنے تئیں منصب خلافت کے قابل سمجھا میں نے کہیں نہیں دیکھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تم سے اعلم ہوں اور اب اس اعلم ہونے کا ثبوت دیتا ہے کہ علم ادَمَ الْأَسْمَاء كُلها - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۸،۷) دُنیا میں خلیفے پیدا ہوئے ، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.چار قسم کے آدمیوں پر تصریح کی ہے جناب الہی نے.ایک حضرت آدم کو فرمایا ابی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةٌ یعنی ہم نے آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا.ایک حضرت داؤد کو فرما یا يُدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ (ص:۲۷) اے داؤد! ہم نے تجھے خلیفہ بنایا.ایک سارے جہان کے آدمیوں کو خلیفہ کا لقب دیا ثُمَّ جَعَلْنَكُم خَليفَ فِي الْأَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (يونس:۱۵) ہر انسان کو فرماتا ہے تم کو خلیفہ بنایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوں گے؟ ایک دفعہ جب میرا بیٹا پیدا ہوا اگر وہ نہ ہوتا تو اس وقت ایک شخص تھا جس کا خیال تھا میں ہی وارث ہو جاؤں گا ) تو کسی شخص نے اُس شخص سے بھی ذکر کر دیا.اس کو بڑا رنج ہوا اور بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا کہ یہ
حقائق الفرقان ۱۶۶ سُورَةُ الْبَقَرَة بد بخت کہاں سے پیدا ہو گیا ؟ میری تو ساری امیدوں پر پانی پھر گیا مگر آج میں دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل لا ولد ہے نہ لڑکی نہ لڑکا اور پھر خدا کا ایسا فضل ہے کہ ایک باغ لگا دیا.سو کسی قسم کا خلیفہ ہو اس کا بنانا جناب الہی کا کام ہے آدم کو بنا یا تو اُس نے ، داؤد کو بنا یا تو اُس نے ، ہم سب کو بنایا تو اُس نے.پھر حضرت نبی کریم کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم آمنا (النور: ۵۷) جو مومنوں میں سے خلیفے ہوتے ہیں ان کو بھی اللہ ہی بناتا ہے.ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خدا تعالیٰ ان کو تمنت عطا کرتا ہے.جب کسی قسم کی بدامنی پھیلے تو اللہ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے.جوان کا منکر ہواس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.جناب الہی نے ملائکہ کو فرمایا کہ میں خلیفہ بناؤں گا کیونکہ وہ اپنے مقربین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے.ان کو اعتراض سوجھا جو ادب سے پیش کیا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے کہا حضرت صاحب نے دعویٰ تو کیا ہے مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں.میں نے کہا وہ خواہ کتنے بڑے ہیں مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں.اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا اور کہا اتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدّماء کیا تو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خون ریزی کرے.یہ اعتراض ہے مگر مولی ! ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں ، تیری حمد کرتے ہیں ، تیری تقدیس کرتے ہیں.خدا کا انتخاب صحیح تھا مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پا سکتی تھیں.الفضل جلد نمبر ۱۶ مورخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ایک خلیفہ آدم تھا اُس کی نسبت فرمایا ہے اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً.اب خود ہی اس.لے اللہ نے وعدہ کر لیا ہے ان لوگوں سے جو تم میں ایماندار ہیں اور جنہوں نے بھلے کام کئے ہیں کہ ان کو ضر ور خلیفہ بنائے گا زمین میں جیسے کہ خلیفہ بنایا ان سے پہلے والوں کو اور بے شک ان کے دین کو مضبوط کرے گا ان کے لئے جس کو ان کے لئے پسند فرمالیا ہے.اور ان کو خوف کے بدلے میں امن عنایت فرمائے گا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۶۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ور و کے بارے میں ارشاد ہے عطى ادم ربِّه فَغَوی (طه: ۱۲۲) لیکن جب فرشتوں نے کہا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ تو ان کو ڈانٹ بتائی کہ تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے.پس اُسْجُدُوا لادم تم آدم کو سجدہ کرو چنانچہ ان کو ایسا کرنا پڑا.دیکھو خود تو عاصی اور غوی تک کہ لیا مگر فرشتوں نے بچوں کی تو اس کو نا پسند فرمایا.میں نے کسی زمانے میں تحقیقات کی ہے کہ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کے لئے تو بالکل ہی لازمی نہیں دیکھو آدم.پھر داؤد کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آئے.میں اس قسم کا قصہ گو واعظ نہیں کہ تمہیں عجیب عجیب قصے ان کے متعلق سناؤں مگر فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرِّ رَاكِعًا وَ أَنَابَ (ص:۲۵) سے یہ تو پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو تھا جس کے لئے یہ الفاظ آئے.تیسرا خلیفہ ابوبکر ہے اس کے مقابلہ میں شیعہ جو کچھ اعتراض کرتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ ۱۳۰۰ برس گزر گئے مگر وہ اعتراض ختم ہونے میں نہیں آئے.ابھی ایک کتاب نئی نئی میں نے منگوائی ہے جس کے ۷۴۰ صفحات میرے پاس پہنچے ہیں.اس میں صرف اتنی بات پر بحث ہے کہ مولیٰ علی رضی اللہ عنہ بہتر ہے یا ابوبکر.پھر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ پیشگوئی نہیں فرمائی.چوتھا خلیفہ تم سب ہو چنانچہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ثُمَّ جَعَلْنَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ (یونس : ۱۵) اگلی قوموں کو ہلاک کر کے تم کو ان کا خلیفہ بنا ديا لِنَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ (یونس : ۱۵) اب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو؟ چار کا ذکر تو ہو چکا اب میں تمہارا خلیفہ ہوں.اگر کوئی کہے کہ الوصیت میں حضرت صاحب نے نورالدین کا ذکر نہیں کیا تو ہم کہتے ہیں ایسا ہی آدم اور ابوبکر کا ذکر بھی پہلی پیشگوئی میں نہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۵۲ مورخه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۰۹ ، صفحه ۱۱،۱۰) سعیدوں کے ایک مورث اعلیٰ سعید کا قصہ قرآن کریم نے مکتر رعبرت کے لئے بیان کر کے مشاہدہ کرایا ہے کہ ہمیشہ برے بھلوں پر حملہ آور ہوتے رہے مگر انجام کا ربھلوں ہی کی فتحیابی ہوتی رہی اور اشقیاء ہمیشہ شقاوت کا نتیجہ پاتے رہے.اس سعید کا نام آدم علیہ السلام تھا اس کا مورث اعلیٰ ہونا اے آدم نے نافرمانی کی اپنے رب کی تو اس کا گزران تنگ ہو گیا.(ناشر) سے تو اُس نے حفاظت مانگی اپنے رب سے اور وہ تو بہ کرتا ہوا سجدہ میں گر پڑا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۶۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یہود کوتوریت سے اور عیسائیوں کو نیوٹسٹنٹ سے ظاہر ہے.عرب کے لوگوں کو اپنی قومی اور ملکی روایت اور یہود اور عیسائیوں کے قرب سے یہ قصہ معلوم تھا اور غالب عمرانات کے لوگ آدم علیہ السلام کے اس دشمن کی بدحالت سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ تمثیل سے بہتر اور نتائج کے دکھانے سے زیادہ کوئی عمدہ ذریعہ روحانی اور اخلاقی تعلیم کے لئے نہیں ہو سکتا.باری تعالیٰ نے ایک خاص ملک اور ایک خاص زمین میں آدم علیہ السلام کو پیدا کرنا چاہا اور قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ آدم کو خلیفہ اور امام اور دینی ڈ نیوی بادشاہ بناوے.اس ملک کے دیوتا اور سرون اور ملائکہ کو الہا ما آگاہ فرمایا کہ میں اس زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں............وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً - الارض کا الف اور لام اگر چہ عموم اور استغراق کے معنے بھی دیتا ہے مگر خصوصیت کے معنے بھی دیتا ہے.ہر دو معنے اپنے اپنے موقع پر لئے جاتے ہیں.یہاں آدم علیہ السلام کے ایک جگہ سے نکالے جانے اور دوسری جگہ چلا جانے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جہاں آدم علیہ السلام خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ایک خاص ملک تھا اور جہاں آدم پیچھے روانہ کئے گئے وہ اور ملک تھا اس لئے یہاں الف لام تخصیص کے معنے رکھتا ہے اور لفظ خلیفہ اور الارض کے معنے معلوم کرنے کے واسطے آیت ذیل کو پڑھنا چاہیے.لے يدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (ص: ۲۷) اس آیت میں لفظ خلیفہ اور لفظ الارض سے اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ الف و لام خصوصیت کے معنے دیتا ہے اور آگے چل کر لفظ جنت کی تحقیق میں ہم اور زیادہ تفصیل کریں گے.تفاسیر میں لکھا ہے.فَهِمُوا مِنَ الْخَلِيْفَةِ أَنَّهُ الَّذِى يَفْصِلُ بَيْنَ النَّاسِ مَا يَقَعُ بَيْنَهُمْ مِنَ الْمَظَالِمِ وَيَرُدُّ عَنْهُمُ الْمَحَارِمَ وَالْمَاثَمِ (قرطبی.ابنِ کثیر زیر آیت البقرۃ:۳۱) وَ الصَّحِيحُ إِنَّهُ إِنَّمَا سُمَّى خَلِيفَةً لِأَنَّهُ خَلِيفَةُ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ لِإِقَامَةِ حُدُودِهِ وَ تَنْفِيْنِ ے جب کہا تیرے رب نے ملائکہ کو کہ میں اس سر زمین میں ایک خلیفہ بنایا چاہتا ہوں.کہ اے داؤد! ہم نے تجھ کو اس زمین میں خلیفہ بنایا سوٹو لوگوں میں حق حق فیصلہ دیا کیجیو.سے لفظ خلیفہ سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے تنازعات با ہمی کو فیصل کرے اور نا کر دنی امور سے انہیں باز رکھے.
حقائق الفرقان قضاياه ( فتح البيان ) ۱۶۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الْخَلِيفَةُ هُوَ مَن تَحْلُفُ غَيْرَهُ وَالْمَعْنى خَلِيْفَةٌ مِنْكُمْ لِأَنَّهُمْ كَانُوا سُكَانُ الْأَرْضِ أَوْخَلِيْفَةُ اللهِ فِي أَرْضِهِ وَكَذَلِكَ كُلُّ نَبِي نَحْوَيْدَاوَدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً في الْأَرْضِ.(تفسیر مدارک التنزيل) غرض اس زمین کے تمام مقدس فرشتوں کے مقدس گروہ نے آدم علیہ السلام سے پہلی قوموں کی بد اطواری اور کافروں، ڈھٹوں، دیسیوں، شیطانوں اور آسروں کے بڑے کام اور بد چلنی دیکھی ہوئی تھی.عالم الغیب تو بجز ذات پاک باری تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں.الا من شاء اللہ.نہ انبیاء نہ اولیاء.وہ ملائکہ بھی ایسے ہی محدود العلم ، محدود التجربہ مخلوق تھے.اپنی کم علمی اور غیب نہ جاننے کے باعث اور کچھ خلیفہ کے لفظ سے جس کے معنے نائب اور قائم مقام کے ہیں.غلطی سے سمجھ بیٹھے کہ یہ آدم بھی آدم ہے پہلی قوموں کی طرح فسادہ قتل اور سفك دماء نہ کرے.اس آدم کی واقعی نیکی اور نیک چلنی کا ان کو علم نہ تھا اس لئے باری تعالیٰ کی معلی بارگاہ میں عرض کیا.ا تَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ (البقرة: ٣١) بزرگوں، دیوتاؤں کا کام تو یہی تسبیحات اور تمجید الہی اور باری تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے اور بس.وہ بیچارے اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت اور اس کے کاموں کے اسرار سے کیا واقف کہ فقط لسانی تحمید و تقدیس سے دنیوی انتظام اور دینی کام اس دار نا پائیدار کے نہیں چلتے.میرا یہ کہنا کہ آدم سے پہلے اور قو میں دنیا میں آباد تھیں اوّل تو قرآن کی اس آیت سے ظاہر ہے بلکہ مکذب نے بھی اس امر کو تکذیب میں تسلیم کیا ہے.ا اور اصل یہ ہے کہ اُسے خلیفہ اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کا خلیفہ بن کر اُس کی زمین میں حدود کو قائم کرتا اور اور احکامات کو جاری کرتا ہے.سے خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کا قائم مقام ہو.آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تم میں کا خلیفہ ہے.کیونکہ وہ لوگ زمین کے باشندے تھے اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اللہ کا خلیفہ ہے اس کی زمین میں.اور اسی طرح ہر نبی اس کا خلیفہ ہے.مثلاً اے داؤد! ہم نے تجھے اس زمین میں خلیفہ بنا یا.(تفسیر مدارک) کیا آپ ایسے شخص کو نائب بنائیں گے زمین میں جو وہاں فتنہ انگیزی اور خون ریزی کرے گا اور ہم تو تیری تعریف کے ساتھ کہتے ہیں کہ تیری ذات پاک خوبیوں ہی خوبیوں والی اور سب عیبوں سے پاک ہے.
حقائق الفرقان ۱۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فَسَجَدُوا إِلا إِبْلِيسَ الى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ (البقرة: ۳۵) اور لفظ مِن کے معنے بعض کے ہوتے ہیں اور گان ماضی کا صیغہ ہے اور اخبار الدول اور آثار الاول کی چوتھی فصل میں لکھا ہے.رَوَى مُجَاهِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ فِي الْأَرْضِ قَبْلَ الْجِنَّ خَلْقُ يُقَالُ لَهُمُ الْجِنَّ وَالْبُنَّ وَالهِمَّ وَالرَّةَ وَانْقَرَضُوا وَ ذَكَرَ غَيْرُهُ أَنَّ أَوَّلَ مَنْ سَكَنَ الْأَرْضَ أُمَّةٌ يُقَالُ لَهُمُ الْجِنَّ وَالْبُنُ ثُمَّ سَكَنَهَا الْحِنُ قَامُوا يَعْبُدُونَ اللَّهَ زَمَانًا فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَفَسَدُوا فَأَرْسَلَ اللهُ إِلَيْهِمْ نَبِيًّا مِنْهُمْ لِقَوْلِهِ تَعَالَى يَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ وَقِيْلَ مَلِكًا مُنْذِرًا يُقَالُ لَهُ يُوْسُفُ فَلَمْ يُطِيْعُوهُ وَ قَاتَلُوا فَأَرْسَلَ اللهُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةَ فَأَجَلَّتْهُمْ إِلَى الْبِحَارِ - اور تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے.أَفَسَدَتِ الْجِنَّ فِي الْأَرْضِ فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ طَائِفَةً مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَطَرَدُوهُمْ إِلَى الْبِحَارِ وَرُؤُوسِ الْجِبَالِ وَأَقَامُوا مَكَانَهُمْ - ( فتح البيان) ا ان سب نے اس کی اطاعت کی مگر ابلیس نے ابا کیا اور گردن کشی کی اور باغیوں میں سے ایک وہ بھی ہو گیا.۲؎ مجاہد، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ جن سے پہلے یہاں زمین پر ایک لوگ رہتے تھے جنہیں جن ، بن طم ، رم کہتے تھے اور وہ سب نا پید ہو گئے اور ایک شخص کا قول ہے کہ زمین کے پہلے باشندے ایک قوم تھی جنہیں جن اور بن کہتے تھے.پھر اُس پر جن آباد ہوئے.کچھ دنوں تو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بنے رہے پھر لگے شرارتیں کرنے تو اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کی طرف ایک نبی بھیجا چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے گر وہ جن و انس کیا تم میں سے تمہاری طرف رسول نہیں آئے؟ کہتے ہیں ڈرانے والا بادشاہ.اس کا نام تھا یوسف.انہوں نے اُس کا کہا نہ مانا اور اس سے لڑنے کو کھڑے ہوئے.تب اللہ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو بھیجا انہوں نے ان باغیوں کو سمندر کی طرف نکال دیا.۳ جنوں نے زمین میں فساد برپا کیا اللہ تعالیٰ نے ان پر ملائکہ کو بھیجا وہ انہیں پہاڑوں اور سمندر کی طرف بہن کا کر ان کی جگہ آباد ہو گئے.
حقائق الفرقان 121 سُورَةُ الْبَقَرَة اسْكَنَ الْجِنَّ فِي الْأَرْضِ فَمَكَّحُوا فِيْهَا دَهْرًا طَوِيلًا ثُمَّ ظَهَرَ فِيْهِمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْى فَأَفْسَدُوا فِيهَا فَبَعَكَ اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِمْ جُنَدًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ يُقَالُ لَهُ الْجِنَّ وَهُمْ خَزَانُ لے الْجَنَانِ اشْتَقَ لَهُمْ اِسْمُ مِنَ الْجِنَّةِ رَأْسُهُمْ اِبْلِيسُ فَكَانَ رَئيسُهُمْ - (تفسیر سراج المنير از خطیب شربینی جزء اصفحه ۹۵) وَعَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ عَمْرٍ وَكَانَ الْجِن بَنُو الْجَانِ فِي الْأَرْضِ قَبْلَ أَنْ تُخْلَقَ ادَمُ بِالفَى ٢٠٠٠ سَنَةٍ فَأَفْسَدُوا فِي الْأَرْضِ وَسَفَكُوا الدّمَاءَ فَبَعَثَ اللَّهُ جُنَّدًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ فَضَرَبُوْهُمْ حَتَّى الْحَقُوْهُمْ بِجَزَائِرِ الْبُحُورِ.(ابنِ کثیر زیر آیت البقرة: ۳۱) - ان عبارات سے صاف واضح ہوتا ہے جیسے ہمیشہ فاتح لوگ قلب ملک پر قابض ہو جاتے ہیں ایسے ہی ملائکہ اور وہ دیوتا جن کے سامنے یا جن پر آدم علیہ السلام خلیفہ بنائے گئے شیاطین پر فاتح تھے اور شیاطین ذلیل اور خوار ہو کر دُور دُور بلاد میں بھاگ گئے.اور امام الائمہ حضرت سیدنا امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے جیسے تفسیر کبیر میں لکھا ہے اس آدم علیہ السّلام سے پہلے ہزار دو ہزار آدم گذر چکے ہیں.حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ فتوحات مکیہ کے باب حدوث الدنیا میں فرماتے ہیں ” میں ایک دفعہ کعبہ کا طواف کرتا تھا.مجھے کچھ لوگ طواف کرتے ملے ان کی حالت سے مجھے معلوم ہوا کہ یہ کوئی روحانی گروہ ہے.اے خدا نے جنوں کو زمین میں ٹھہرایا پس اس پر ایک لمبا عرصہ تک رہے پھر ان میں حسد اور بغاوت پیدا ہوگئی چنانچہ انہوں نے زمین میں فساد کرنا شروع کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انکی طرف فرشتوں کی ایک فوج ارسال کی انہیں جن کہا جاتا ہے اور وہ تاریکی کے خزانچی تھے.ان کا جن نام جنہ سے مشتق ہے.انکی سرکردگی ابلیس کر رہا تھا اور وہ ان کا سردار تھا.(ناشر) مجاہد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ جن زمین میں تخلیق آدم سے دو ہزار سال قبل تاریکی کے فرزند تھے.انہوں نے فساد فی الارض کیا اور خون بہایا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کا ایک لشکر ان کی طرف ارسال کیا چنانچہ انہوں نے ان کو اس قدر مارا کہ انہیں سمندروں کے جزائر میں جاننے پر مجبور کر دیا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۷۲ سُورَةُ الْبَقَرَة لے فَقُلْتُ لِوَاحِدٍ مِّنْهُمْ مَنْ أَنْتُمْ ، فَقَالَ نَحْنُ مِنْ أَجْدَادِكَ الْأَوَّل فَقُلْتُ كَمْ لَكُمْ مِنَ الزَّمَانِ وَ الْمُدَّةِ فَقَالَ بِضْعُ وَ أَرْبَعُونَ أَلْفَ سَنَةٍ فَقُلْتُ لَيْسَ لِأَدَمَ قَرِيبٌ مِنْ تِلْكَ السِنِينَ فَقَالَ عَنْ أَنِ ادَمَ تَقُوْلُ عَنْ هَذَا الْأَقْرَبِ إِلَيْكَ أَوْ غَيْرِهِ فَفَكَرْتُ فَتَذَكَرْتُ حَدِيثًا مِنْ رَّسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللهَ خَلَقَ قَبْلَ أَدَمَ الْمَعْلُوْمِ عِنْدَنَا مِائَةَ أَلْفِ ادَمَ - شیخ صاحب کہتے ہیں میں عالم کشف میں حضرت ادریس نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے ملا اور کے اس کشف کی صحت پر سوال کیا.فَقَالَ إِدْرِيسُ صَدَقَ الْخَبَرُ وَصَدَقَ شُهُودُكَ وَمُكَاشِفَتُكَ - جب ملائکہ، دیوتا نے اپنے اس غلط قیاس کے باعث وہ عرض کی جس کا ذکر آیت التَّجْعَلُ فِيهَا يُفْسِدُ فِيهَا میں گذرا تب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا انّي اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرة: ٣١) اللہ تعالیٰ علیم وخبیر کی غیب دانی پر غور کرو.کیسی غیب دانی ہے اور وہ پاک ذات اپنے علم کے ساتھ کیسا محیط الگل ہے.کسی تاریخ سے قرآن کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آدم علیہ الصلوۃ و السلام سے کسی قسم کا فساد فی الارض یا سفك دماء ہو اہو.ملائکہ کا اعتراض حضرت آدم پر تھا اور اعتراض بھی یہ کہ فساد فی الارض اور سفك دماء اس سے سرزد ہو گا مگر حضرت آدم ان عیوب سے پاک اور بری نکلے.اگر حضرت آدم کی اولاد میں سے کوئی شخص اُن کی طرز پر نہ چلا تو اُس کے جرم سے حضرت قصور وار نہیں ہو سکتے.اولا د کے گناہ سے باپ کو بدنام کرنا بیٹے کے قصور پر باپ کو ملامت کے قابل بنانا بے انصافی ہے.باپ کی کرتوت سے بیٹا بد نام ہو ނ ا میں نے ان میں سے ایک سے کہا آپ کون لوگ ہیں؟ اس نے کہا.ہم تیرے پہلے باپ دادوں ہیں.میں نے کہا تمہیں کتنا عرصہ ہوا.کہا پچاس ہزار سال کے.میں نے کہا اس ہمارے آدم کو اتنے برس نہیں ہوئے.اس نے کہا تو کس آدم کی بابت کہتا ہے.اس اپنے قریبی آدم کی بابت یا کسی اور کی بابت.میں سوچ میں پڑ گیا.اتنے میں مجھے ایک حدیث یاد آ گئی کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اس معلوم آدم سے پہلے لا کھ آدم پیدا کئے.پس حضرت ادریس نے فرمایا.خبر درست ہے.تیرے گواہان نے سچ بیان کیا اور تیرا مکاشفہ سچا ہے.(ناشر) ے میں وہ بھید خوب جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۷۳ سُورَةُ الْبَقَرَة تو ہومگر بالعکس بالکل غلط ہے.ہاں حضرت آدم شیطان کی ناراستی اور قسم پر دھوکا کھا جاتے تو ممکن تھا کیونکہ نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں.نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے نیک گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۰۳ تا ۱۰۹) میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں بلکہ خَلِيفَةً (البقرة : ٣١) خدا تعالیٰ کا کام ہے.آدم کو خلیفہ بنا یا کس نے؟ اللہ تعالیٰ نے اِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲۲ ۲۳ مورخه ۲۸٬۲۱ / جون ۱۹۱۲ صفحه ۱۹٬۱۸) ۳۲ تا ۳۴ - وَعَلَمَ آدَمَ الْإِسْمَاء كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَكَةِ فَقَالَ انونى بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِن كُنتُم صُدِقِينَ - قَالُوا سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا علمتَنا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ - قَالَ يَادَمُ انْبِتُهُم بِأَسْبَابِهِمْ فَلَمَّا انباهُم بِأَسْبَابِهِمْ قَالَ اَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ.ترجمہ.اور آدم کو سب چیزوں کے نام سکھا دیئے پھر ان چیزوں کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے فرمایا تم بتاؤ تو مجھے ان چیزوں کے نام جب تم سچے ہو.فرشتوں نے عرض کی کہ آپ کی ذات بے عیب، بڑی خوبیوں والی ہے جو تو نے ہمیں بتا دیا ہے اُس کے سوائے ہمیں کچھ معلوم نہیں.ہاں ہاں تیری ہی ایسی ذات پاک ہے جو کامل علم اور کامل حکمت والی ہے.اللہ نے آدم کوفرمایا ، اے آدم فرشتوں کو ان کے نام بتا دے تو آدم نے جب فرشتوں کو ان کے نام بتا دیئے تو اللہ نے (فرشتوں سے ) فرمایا کیوں ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ ہمیں آسمان و زمین کی سب چھپی چیز میں معلوم ہیں اور ہم خوب جانتے ہیں جو تمہارے ارادے ظاہر ہیں اور جو تم سے چھپے ہوئے ہیں.تفسیر.(اس سوال پر کہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی ایسی باتیں آدم علیہ السلام کو سکھا ئیں جو فرشتوں کو معلوم نہ تھیں پھر اسے فرشتوں کے سامنے پیش کیا ) فرمایا.فرشتوں کو یا انسان کو جو کچھ ملا ہے سب خدا ہی کی طرف سے ہے.اس کی مثال ایسی ہے
حقائق الفرقان ۱۷۴ سُورَةُ الْبَقَرَة جیسا کہ ہمیں خدا نے کسی بیماری کا ایک نسخہ سکھلا دیا.دوسرے نہیں جانتے.وہ اس میں ہمارے محتاج ہیں جس کو ہم بتائیں وہی جانے.اسی طرح ملائکہ کو ارشاد ہے کہ تم سب ہماری تعلیم میں محتاج ہو جس کو ہم پڑھا ئیں وہی پڑھے.اسماء.وہ اسماء کیا ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو سکھلائے.بعض صحابہ نے فرمایا ہے کہ وہ زبان تھی.بعض نے لکھا ہے کہ وہ اسمائے الہیہ تھے.بعض کے نزدیک کلمات دعائیہ تھے مگر ایسی تحقیقاتوں میں توغل کرنا ایک بے فائدہ کوشش ہے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ ۱۷اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۸) اللہ تعالیٰ نے ملائکہ، دیوتا اور سروں کو آدم کے خلیفہ بنانے پر جب یہ فرمایا انّي اَعلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ( البقرۃ: ۳۱) اس دعوی کی نہایت لطیف دلیل بتائی.دعوئی تو یہ فرمایا کہ بے ریب میں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اس دعوی کا ثبوت یوں دیا وَ عَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاء كُلَّهَا (البقرة: ۳۲) آدم کو چیزوں کے نام سکھائے اس تعلیم سے جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو دی.اتنا تو ثابت ہوا کہ جو چیز آپ کو سکھائی گئی وہ فرشتے نہیں جانتے تھے اگر وہ جانتے تو اس چیز کے بتانے سے عاجز آ کر یہ نہ کہتے سُبُحْنَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَيْتَنَا (البقرة: ٣٣) آدم کو ایسی بات تعلیم کر دینی جس کا علم فرشتوں کو نہ ہو.ضرور اس کا مثبت ہے کہ اللہ تعالیٰ وہ کچھ جانتا ہے جسے فرشتے نہیں جانتے.اگر فرشتے جانتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے اگر آدم کو پڑھادیا تھا گو ہم نے مانا کہ علیحدہ پڑھا یا تھا تو واجب تھا کہ فرشتے بدوں اس کے کہ خدا سے پڑھتے بتلا دیتے اور اگر نہ بتلا سکے تو معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فرموده أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ (البقرۃ: ۳۱) بالکل سچ تھا.جب وہ ایسا علیم تھا کہ فرشتے اس کے علوم سے بے خبر ہیں تو اس کے کسی فعل پر کسی کو خواہ ملائکہ کیوں نہ ہوں اعتراض کا موقع نہیں.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۱۱،۱۱۰) اب ہر سہ گروہ ( منعم علیہم، مغضوب علیہم اور ضالین.مرتب ) کا ذکر تمثیلی رنگ میں فرماتا ہے....و نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ یعنی یہ ایک سوال ہے مگر ہم آپ کو گلی عیوب سے پاک جانتے میں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.سے تو پاک ہے ہمیں کوئی علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا.
حقائق الفرقان ۱۷۵ سُورَةُ الْبَقَرَة ہیں.ابع أعْلَمُ کا ثبوت عَلَّمَ آدَم سے دیا یعنی اس کو سکھا دیا.فرشتوں کو نہ پڑھایا اور بتا یا.دیکھو جسے ہم پڑھاتے ہیں وہی جانتا ہے دوسرا نہیں.ان مسمیات کو پیش کیا وہ نام کیا تھے.اس میں تشخص بیہودہ ہے.صوفیوں نے اسماء الہی مراد لئے فلاسفروں نے ہر چیز کا ربّ النوع مَا كُنتُم تَكْتُمُونَ.اللہ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں یہ نہیں کہ فرشتے دل میں کوئی برا خیال رکھتے تھے.( تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۳۶، ۴۳۷) الاسماء.کچھ نام سکھا دیئے وہ نام کیا تھے اس پر لوگوں نے بحث کی ہے.صوفی تو کہتے ہیں اللہ نے اپنے نام سکھائے ، فلاسفر کہتے ہیں چیزوں کے نام اور خواص.یہ سب باتیں قیاسی طور پر کہی جاتی ہیں.کسی وحی سے ثابت نہیں.پس میں اتنا کہوں گا کہ اللہ نے کچھ باتیں سکھائیں ان کو اللہ خوب جانتا ہے پھر فرشتوں سے کہا کہ کیا تم بتا سکتے ہو.اس پر ایک عیسائی نے اعتراض کیا ہے کہ اللہ نے ملائکہ سے نا انصافی کی کہ ان کو نہ بتایا اور آدم کو بتایا حالانکہ وہ نادان نہیں جانتا کہ ثابت بھی یہی کرنا تھا کہ جسے میں علم دوں وہ عالم ہے اور جسے میں نہ دوں وہ جاہل ہے چنانچہ فرمایا ہے كُلُّكُمْ ضَالٌ إِلَّا مَن هَدَيْتُهُ كُلُّكُمْ عَادٍ إِلَّا مَنْ كَسَيْتُه پہلے دونوں جاہل تھے اور دونوں تعلیم کے محتاج.آدم کو پڑھا دیا اسے آ گیا.ملائکہ کو نہ پڑھایا اسے نہ آیا چنانچہ فرشتوں نے خود اقرار کیا سُبحَنَكَ لَا عِلْمَ لنا إلا ما علمتنا پھر فرما یا اَعْلَمُ غَيْبَ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی چھپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے وہ علیم وحکیم ہے.ایک بچہ درزی کو دیکھے کہ اس نے تمام تھان کے ٹکڑے کر دیئے تو وہ گھبرا اُٹھتا ہے کیونکہ نہیں جانتا کہ یہ ٹکڑے ایک اعلیٰ ملبوس بننے والے ہیں اسی طرح اللہ کے مصالح اکثر نادانوں سے مخفی رہتے ہیں وہ ظاہری صورت دیکھ کر چلا اٹھتے ہیں.گلستان میں ایک شخص کی حکایت ہے کہ وہ لنگڑا ہو گیا اور ایک دن بیگار میں لوگوں کو پکڑ رہے تھے اُسے چھوڑ گئے تو وہ خدا کا شکر بجالایا.قرآن شریف میں موسی اور خضر کا قصہ ہے.خضر نے ایک کشتی کو عیب ناک کر دیا اور بعد میں اس کی حکمت ظاہر ہوئی.پس ہمیں چاہیے کہ خدا کی حکمتوں پر ایمان لائیں اے تم میں سے ہر ایک گم گشتہ راہ ہے.سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں ، راہ دکھاؤں.اور ہر ایک برہنہ ہے سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۷۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اور اس کے حکم مانیں.شیطان نے اپنی رائے کو ترجیح دی.اس نے انکار کیا.اکثر بازی کی کا فر ہو گیا.بہت سے لوگ خدا کا فضل لے کر غضب کما لیتے ہیں بعض غضب تو نہیں کماتے مگر بھول جاتے ہیں.خدا کے انکار اور شرک وغیرہ کی سزائیں بعد الموت ہیں مگر شوخی ، بے حیائی، کسی کو دُکھ دینا، کسی کی ہتک کرنا، ان سب کے عذاب اسی دنیا میں بھی آتے ہیں.جو محض خدا کے حقوق ہیں ان کے لئے فروگذاشت معاف کی جاتی ہے مگر حقوق العباد میں دسترس کرنے کی سزا بہت جلد ملتی ہے.بعض آدمیوں کو خدا تعالیٰ حسن دیتا ہے مگر وہ اسی نعمت سے عورتوں کو اپنے او پر رجھا کر اپنے لئے موجب غضب بنالیتے ہیں.دولتمند انسان کے پاس دولت ایک نعمت ہے مگر یہی نعمت خدا کا غضب بن جاتی ہے اگر اسے فضولیوں اور عیاشیوں میں صرف کیا جائے.یہی حال تندرستی، ذہانت، فراست، موز وقیت طبع کا ہے کہ بعض ایسی باتوں میں لگ جاتے ہیں جو حسن و عشق سے وابستہ ہیں.ایک گندی کتاب ہمارے بچپن کے زمانہ میں پڑھائی جاتی تھی جس کا نام بہار دانش ہے.میں نہیں سمجھ سکتا کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے آگے کس طرح اس کا ترجمہ کر سکتا ہے.غرض خدا تعالیٰ ذہن وذکا ، فہم و فراست ، جاہ و جلال حسن و جمال دیتا ہے مگر انسان انعام لے کر غضب کے نیچے آ جاتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۸) b ۳۵ ۳۶.وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا لِأَدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَ اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ - وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هُذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ - ترجمہ.اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے فرماں بردار بن جاؤ (اور آدم کے سبب سے سجدات شکر بجالا ؤ ) تو ابلیس کے سوا سب نے حکم مانا.(ابلیس نے جو کافر تھا ) آدم کا انکار کر دیا اور اُسے اپنے سامنے بیج سمجھا اور وہ حق پوش تھا.اور ہم نے حکم دیا اے آدم! تُو اور تیری بیوی ایک خاص باغ میں امن چین سے رہو اور تم دونوں میاں بی بی اس باغ کا ہر ایک پھل جو یا جہاں جی چاہے فراغت سے کھاؤ اور تم دونوں اس خاص درخت ( ممنوعہ ) کے پاس نہ جانا نہیں تو تم دونوں اپنی جان پر
حقائق الفرقان 122 سُورَةُ الْبَقَرَة مصیبت جھیلنے والوں میں سے ہو جاؤ گے.تفسیر.اب جو رکوع اس وقت پڑھتا ہوں اس میں نام لے کر ایک منعم علیہم کا ذکر ہے یعنی آدم اور ایک مغضوب علیہم یعنی شیطان کا اور بھول میں پڑنے والے گروہ ملائکہ کا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۸) مخلوق دو قسم کی ہے.ایک وہ جونور کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ان میں ملائکہ ہیں ، نیک لوگ ہیں اور تمام مفید اور بابرکت اشیاء ہیں.دوسری جو ظلمت سے تعلق رکھتی ہیں.ان میں ابلیس ہے شریر لوگ ہیں اور تمام موذی جانور اور ضرر دینے والی اشیاء ہیں.بعض شریر آدمیوں کو بھی قرآن شریف میں شیطان کہا گیا ہے.مثلاً إِذَا خَلَوْا إِلى شَيْطينِهِمْ (البقرة :۱۵) جبکہ اپنے سرداروں، شیطانوں کی طرف علیحدہ ہوتے ہیں.خدا کے نیک بندوں کو فرشتہ کہا جاتا ہے.حضرت یوسف کے متعلق مصر کی عورتیں بول اُٹھیں.مَا هُذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكَ كَرِيمُ (یوسف : ۳۲).یہ انسان نہیں یہ تو صرف فرشتہ ہی ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک دفعہ مولوی شیر علی صاحب بی اے کے متعلق فرمایا تھا کہ شیر علی تو فرشتہ ہیں.ایڈیٹر ) بعض جگہ میں نے ملک کا ترجمہ نیک بندے یا شیطان کا ترجمہ شریر لوگ کیا ہے.اس سے کسی کو یہ دھو کہ نہ لگے کہ میں فرشتے یا شیطان کے وجود کا قائل نہیں ہوں.میں ان کے علیحدہ وجود کو مانتا ہوں لیکن ان کے مظاہر بندوں میں اور دیگر اشیاء میں بھی ہوتے ہیں.شجرة.جھگڑے کو بھی کہتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ کسی جھگڑے کی بات میں نہ پڑو نسل بڑھانے کو بھی شجرہ کہتے ہیں.اسی واسطے شجرہ نسب ہوتا ہے.اور شجرہ کے معنے ہیں درخت.البدر - کلام امیر حصہ دوم ۱۰ /اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۹) للہ جو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ کچھ نواہی بھی ہوتے ہیں یہاں اُسْكُن كُلّا مِنْهَا رَغَدًا تو احکام ہیں اور لا تقربا نہی ہے.هذه الشجرة.ایک درخت سے منع کیا جو ان کے لئے مضر تھا.بے جا تکلیف اُٹھائی ان
حقائق الفرقان IZA سُورَةُ الْبَقَرَة لوگوں نے جنہوں نے اس درخت کا نام ڈھونڈا ہے.میرے اپنے ذوق کے مطابق یہ اعتقاد ہے کہ ہر شخص کو کچھ حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی کچھ ممانعت بھی کی جاتی ہے كُلُوا وَاشْرَبُوا کے ساتھ وَلَا تُسْرِفُوا فرمایا ہے ایسا ہی آدم کو کسی بات سے جو اس کے مضر تھی روکا.فَتَكُونَا مِنَ الظلمین ایسا کرو گے تو اپنی جان پر بوجھ ڈالو گے.آدم خدا کا مصطفے اور مجتبی تھا اور قرآن مجید میں آیا ہے.ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتَبَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لنفسه (فاطر :۳۳) جس سے معلوم ہو ا کہ برگزیدہ لوگ بھی ظالم ہیں مگر وہ ظالم نہیں جن کے ظلم کا نتیجہ بڑا ہے بلکہ وہ نفس پر رضاء الہی کے لئے ظلم کرتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۹) چونکہ حضرت آدم کی خلافت ان کے کمال علمی کے باعث ثابت ہوگئی اور علمی کمال بطریق اولی تسبیح اور تحمید کا باعث ہوتا ہے جیسے قرآن کریم نے کہا.اِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر: ۲۹) يَرْفَعَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجت " (المجادلة:۱۲) تو حضرت آدم ملائکہ سے بڑھ گئے اور ان پر فضیلت پاگئے.جن باتوں پر خلافت کا مدار ہے اس آیت میں بیان ہوئی ہیں.اِنَّ اللهَ قَد بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِحًا قَالُوا الى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُوتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ قَالَ إِنَّ اللهَ اصْطَفْهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ (البقرة:۲۴۸) اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اس خلیفہ اور حاکم کی اطاعت کرو.الہی خلفاء کی تابعداری اور فرمانبرداری انسانی ضرورت ، تمدن اور سیاست کا لا بدی مسئلہ ہے.اسی واسطے جامع لے پھر ہم نے وارث بنا یا کتاب کا ان لوگوں کو جنہیں ہم نے منتخب کیا اپنے بندوں میں سے ( برگزیدہ بندوں کی تین قسم ہیں ) کوئی تو اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے.(ناشر) سے اللہ کے بندوں سے جو اللہ سے ڈرتے ہیں وہ جاننے والے ہی ہیں.سے جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا.اللہ ان کے درجے بلند کرے گا.ے اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے.انہوں نے کہا ہم پر اس کی بادشا ہی کیونکر ہو سکے گی بلکہ ہم اس کی نسبت بادشاہی کے زیادہ حقدار ہیں.اور اس کے پاس مال کی طرف سے کوئی وسعت نہیں.اس نے کہا اللہ نے اسے تم پر چن لیا اور اسے علم و جسم دونوں میں کشائش دی ہے.
حقائق الفرقان 129 سُورَةُ الْبَقَرَة العلوم کتاب قرآن کریم اس بارے میں حکم دیتی ہے.اطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُم (النساء :٢٠) تمام مذاہب میں یہ امر مسلم ہے کہ عبادت نام ہے اللہ تعالیٰ کی آگیا کے پالن کرنے یعنی اس کا فرمانبردار ہونا.جب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو آدم کو سجدہ کرنا اور اس کی آگیا کا پالن کرنا در حقیقت باری تعالیٰ کی جناب کو سجدہ تھا نہ آدم کو.سچ ہے مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله " (النساء : ۸۱) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کے خلفاء کی فرمانبرداری بھی خود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اور حکام وقت کے بھلے حکموں اور اچھے ارشادوں کی اطاعت حضرت حق سبحانہ وتعالی کی ہی اطاعت ہو ا کرتی ہے.سجدہ کا لفظ اسلامی شرع میں ایک وسیع لفظ ہے اس کے معنے سمجھنے کے لئے ان آیات و محاورات پر غور کرو.وَلِلهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (النحل:۵۰) وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السموتِ وَالْأَرْضِ (الرعد:۱۲) سجدہ کا لفظ عرب کی لغت میں انقیاد اور فرمانبرداری کے معنے دیتا ہے.زید النخیل عرب کا ایک مشہور شاعر ایک قوم کی بہادری کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے اس بہادر قوم کے سامنے ٹیلے اور پہاڑ سب سجدہ کرتے ہیں یعنی فرمانبردار ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی اس قوم کو روک نہیں سکتی.تَضِلُّ الْبَلْقَ فِي حُجُرَاتِهِ وَتَرَى الأَكْمَ فِيهَا سُجَّدًا لِلْحَوَافِرِه وَالسَّجُوْدُ التَّذَكُلُ وَالْإِنْقِيَادُ بِالسَّفِي فِي تَحْصِيْلِ مَا يَنُوْطُ بِهِ مَعَاشَهُمْ لَ يجمع لے اللہ اور رسول کی اور حاکموں کی اپنے اطاعت کرو.سے جس نے اس رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی.سے آسمانوں اور زمین کی اشیاء اللہ کو سجدہ کرتی ہیں.کے آسمانوں اور زمین کے رہنے والے اللہ کو سجدہ کرتے ہیں.۵.اتنے بڑے لشکر کے ساتھ جس میں کناروں تک بلق گھوڑے (چتکبرے گھوڑے) گم ہو جاتے ہیں.ان گھوڑوں کے آگے پہاڑ اور ٹیلے سب سجدہ کرتے ہیں.اس چیز کے حاصل کرنے کے لئے جس سے ان (لوگوں) کی معاش وابستہ ہے.کوشش کر کے فرمانبرداری اور تذلل اختیار کرنا سجود ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۸۰ سُورَةُ الْبَقَرَة فتح تفسیر مدارک میں ہے وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَكَةِ اسْجُدُوا لِلْأَدَمَ فَسَجَدُوا (البقرة: ۳۵) أَيْ أَخْضَعُواله وَأَقَرُّوا بِالْفَضْلِ لَهُ (تفسير النسفی المسمى بمدارک زیر آیت سورۃ البقرۃ:۳۵) غرض آدم علیہ السلام وہاں رہے اور ہر طرح اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے رہے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ انگور یا لنشجر اور انجیر کے پاس بھی نہ جانا.وَقُلْنَا يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هُذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ " (البقرة : ٣٦) سعید بن جبیر.سدی.شعبی.جعدہ بن ہبیرہ محمد بن قیں.عبداللہ بن عباس.مُرہ ابن مسعود اور کئی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے کہ وہ انگور کا درخت تھا.مدارک میں لکھا ہے کہ یہی درخت تمام فتنوں کی جڑھ ہے اور مندر بن سعید نے اپنی تفسیر میں ایسا ہی لکھا ہے جیسے امام ابن قیم نے حادی الارواح میں بیان کیا اور وہ جنت جس میں آدم علیہ السلام رہے وہ زمین پر تھا غور کر ودلائل ذیل پر.وَالْقَوْلُ بِأَنَّهَا جَنَّةُ فِي الْأَرْضِ لَيْسَتْ بِجَنَّةِ الْخُلْدِ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ - وَهَذَا ابْنُ عُيَيْنَةَ يَقُولُ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ وَ أَنَّ لَكَ أَنْ لَّا تَجُوعَ فِيهَا وَ لَا تَعُرُى قَالَ يَعْنِي فِي الْأَرْضِ وَ ابْنُ عُيَيْنَةِ اِمَامُ وَابْنُ نَافِعٍ اِمَامُ وَهُمْ (أَي الْمُنْكِرُونَ) لَا يَأْتُونَنَا مِثْلِهِمَا - اور امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں فرمایا ہے.خَلَقَ آدَمَ وَزَوْجَهُ ثُمَّ تَرَكَهُمَا وَقَالَ اعْتَبِرُوا وَاكْثِرُوا وَامْلَنُوا الْأَرْضَ وَتُسَلِّطُوا عَلَى لے اس کی فرمانبرداری کرو اور اسی کے لئے ہر فضیلت کا اقرار کرو.ہے اور ہم نے کہا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور جہاں چاہو اس میں سے کھاؤ.پر اس درخت کے قریب نہ جائیو کہ گناہگار ہوجاؤ گے.(ناشر) ے اور یہ قول کہ وہ جنت زمین پر ہے، اس سے مراد جنت خُلد یعنی ہمیشہ رہنے والی جنت نہیں ہے.یہ ابو حنیفہ اور آپ کے رفقاء کا قول ہے.اور ابن عیینہ کے مطابق فرمانِ الہی : وَآنَ لَكَ أَنْ لَا تَجُوْعَ فِيهَا وَلَا تَعْزِی ( کہ اس میں تو بے خوراک و بے پوشاک نہ ہوگا ) یعنی اس سرزمین میں.اور یادر ہے کہ ابن عیینہ اور ابن نافع ایسے امام ہیں جن کی مثال منکرین کے پاس نہیں ہے.(حادی الارواح، امام ابن قیم، الباب الثانی ) ( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۸۱ سُورَةُ الْبَقَرَة أَلْوَانِ الْبُحُورِ وَطَيْرِ السَّمَاءِ وَالْأَنْعَامِ وَعُشُبِ الْأَرْضِ وَشَجَرِهَا وَثَمَرِهَا فَأَخْبَرَ أَنَّهُ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ قَالَ وَنَصَبَ الْفِرْدَوْسَ فَانْقَسَمَ عَلَى أَرْبَعَةِ أَنْهَارٍ - سَيْحُونَ وَ جَيْحُوْنَ وَدَجْلَةً وَفُرَات وَقَالَ مُنْذِرُ بْنُ سَعِيدٍ - هَذَا وَهَبْ ابْنُ مُنَبِّهِ يُحْكِي أَنَّ ادَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ خُلِقَ فِي الْأَرْضِ وَفِيهَا سَكَنَ وَ فِيهَا نُصِبَ لَهُ الْفِرْدَوْسُ وَ إِنَّهُ كَانَ بِعَدْنٍ إِنَّ الْأَرْبَعَةَ الْأَنْهَارِ انْقَسَمَتْ مِنْ ذَالِكَ النَّهْرُ الَّذِى كَانَ يُسَمَّى فِرْدَوْسُ أَدَمَ و تِلْكَ الْأَنْهَارُ مَعَنَا فِي الْأَرْضِ لَا اِخْتِلَافَ بَيْنَ الْمُصَلِّينَ فِي ذَالِكَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولى الْأَلْبَابِ.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۱ تا ۱۱۴) ابى وَاسْتَكْبَرَ وَ كَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ (البقرة: ۳۵) - یعنی اس نے سرکشی کی اور انکار کیا اور وہ کافروں میں سے تھا یا ہؤا.اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہلاکت کو خود اس نے اپنی سرکشی سے خریدا.خدا نے اسے بجبر ہلاک نہیں کیا.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۱۰۶) میں عورتوں کو درس دے رہا تھا اور میرے درس میں یہ آیت آئی.يَادَمُ اسْكُنُ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ _ (البقرة: ٣٦) میرے دل میں اس وقت کے حسب حال اس کا یہ مفہوم ڈالا گیا کہ میاں بیوی کو جنت میں رہنے کا حکم دیا گیا ہے کہ تم دونوں مل کر جنت میں رہو اور یہ جنت اس وقت تک جنت رہ سکتا ہے جب تک تم آپس میں جھگڑا نہ کرو.جہاں میاں بیوی میں تنازعات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے پھر وہ گھر جنت نہیں اے آدم اور اس کی بی بی کو پیدا کر کے فرمایا جاؤ آباد ہو بڑھو پھولو اور زمین کو بھر دو اور طرح طرح کے دریاؤں، آسمانوں کے پرندوں ، مویشیوں، زمین کی گھاس پات اور اس کے درخت وشمر سب پر قابض ہو جاؤ پھر کہتا ہے کہ وہ ( جنت جہاں یہ پیدا ہوئے اور یہ حکم ہوا ) زمین میں ہے پھر کہتا ہے فردوس کو بنایا اور اس میں چار نہریں بنا ئیں ، سیحون ، جیحون ، دجلہ ، فرات.(ناشر) ۲؎ اور منذر بن سعید نے کہا کہ وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ آدم علیہ السلام زمین میں پیدا کئے گئے اور اسی میں رہے اور اسی میں ان کے لئے فردوس بنائی گئی جو عدن میں تھی.اور فردوس آدم نامی دریا چار دریاؤں میں تقسیم ہوا اور یہ چاروں زمین میں واقع ہیں.اس بارہ میں اہلِ صلوۃ یعنی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَلْبَابِ (ناشر)
حقائق الفرقان ۱۸۲ سُورَةُ الْبَقَرَة بلکہ دوزخ کا نمونہ ہو جاتا ہے.اس لئے چاہئے کہ میاں بیوی باہم نہایت خوشی اور آرام سے مل کر رہیں جھگڑا نہ کریں ایک دوسرے کی دل شکنی نہ کریں.اور مرد خصوصیت سے عورتوں کی بعض کمزوریوں پر برداشت اور حوصلہ سے کام لیں.الحکم جلد ۱۵ نمبر ۷ ۸ مورخه ۲۸،۲۱ فروری ۱۹۱۱ء صفحه ۴) پہلا گناہ دین میں خلیفة اللہ کے مقابل یہی تھا آبی و استكبر.اس میں شک نہیں کہ سُنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں.اچھے بھی کرتے ہیں اور بڑے بھی.مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور بڑے نہیں کرتے.مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے.پس اگر یہ ملک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑے گا ور نہ لعنت کا طوق گلے میں پڑے الحکم جلد نمبر ۳ مورخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۴) پہلا نافرمان جس کی تاریخ ہمیں معلوم ہے ابلیس ہے وہ کیوں نافرمان بن گیا اس کی خبر بھی قرآن شریف نے بتلائی ہے کہ اس نے ابی اور استکبار کیا یعنی اس میں انکار اور تکبر تھا جس کی وجہ سے وہ اسلیم کی تعمیل نہ کر سکا.اس وقت بھی بہت لوگ ہیں کہ اس ابی اور استکبار کی وجہ سے اسلیم کی تعمیل سے محروم ہیں.کسی کو عقل پر تکبر ہے کسی کو علم پر کسی کو اپنے بزرگوں پر جو کہ ان کے نقصان کا باعث ہو رہا ہے اور جب کبھی خدا کے مامور آتے رہے ہیں.یہی ابی اور استکبار اُن کی محرومی کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں.انسان جب ایک دفعہ منہ سے نہ کر بیٹھتا ہے تو پھر اُسے دوبارہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگوں سے شرم کی وجہ سے وہ اپنی ہٹ پر قائم رہنا پسند کرتا ہے اس کا نتیجہ پھر کھلم کھلا انکار اور آخر کار وگان مِنَ الْكَفِرِینَ کا مصداق بننا پڑتا ہے.الحکم جلد 9 نمبر ۷ مورخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۵ صفحہ ۷) ابى واستكبر - تکبر اور ابی بہت بُرا مرض ہے اور آجکل کثرت سے پھیلا ہوا ہے.فرمانبرداری بہت کم رہ گئی ہے.فضولی ، سستی اور ساتھ ہی تکبر بہت بڑھ گیا ہے اور یہ زیادہ تر یورپ سے سیکھا گیا ہے.افسوس ہے کہ ہمارے لوگ یورپ کی نیکیاں نہیں لیتے اور ان کی بدیاں اختیار کرتے ہیں.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹)
حقائق الفرقان ۱۸۳ سُورَةُ الْبَقَرَة ابى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ.اِس سے ظاہر ہے کہ اول ہی انکار اور کبر ایک ایسی شئے ہے جو کہ فیضانِ الہی کو روک دیتی ہے.طاعون کے گذشتہ دورہ میں جو الہام حضرت اقدس کو ہو ا تھا اس میں بھی شرط لگی ہوئی تھی کہ اتي أحافظ كُلّ مَن فِي الدَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوْا بِالْإِسْتِكْبَارِ کبر تزکیۂ نفس کی ضد ہے اور دونوں چیزیں ایک جا جمع نہیں ہوسکتیں.الحکم جلد ۹ نمبر ۲ مورخه ۱۷ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۹) ص - فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُةٌ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعُ إِلَى حِينٍ - ترجمہ.پھر شیطان نے اُن کو اس درخت کے ذریعہ سے پھسلانا چاہا اور جہاں وہ تھے وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے کہ دیا چونکہ تمہاری آپس میں عداوت ہے (صفائی نہیں ) اس لئے یہاں سے چلے جاؤ اور خالص ملک میں تمہیں رہنا اور فائدہ اٹھانا ہے ایک مدت (یعنی) جئے تک.تفسیر - فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَنُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِنَا كَانَا فِيهِ (البقرۃ:۳۷) کتاب خازن کی تفسیر میں لکھا ہے.ازل آئی اِسْتَزَلْ آدَمَ وَحَوْا أَوْ دَعَاهُمَا إِلَى الزَّنْةِ وَهِيَ الْخَطِيئَةُ - " (کتاب التاويل تفسیر خازن تفسير سورة البقرة زير آيت فازلهما الشيطان) غرض آدم علیہ السلام اس ملک سے چل دیئے اور کسی اور زمین میں جا کر آباد ہوئے.توریت شریف میں لکھا ہے ” خداوند خدا نے آدم علیہ السلام کو لے کے باغ عدن میں رکھا کہ اس کی باغبانی اور نگہبانی کرئے ( پیدائش ۲ باب (۱۵) اور پیدائش ۳ باب ۲۴ آیت میں ہے اس نے آدم کو نکال دیا اور باغ عدن کے پورب کی طرف کرو بیوں کو جو چمکتی تلوار کے ساتھ چاروں طرف پھرتے تھے مقر رکیا.تو غالباً یہ وہ مکان تھے جہاں قائن جا کر آباد ہوا.سو قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا اور عدن کے اے یعنی میں ہر ایک ایسے انسان کو طاعون کی موت سے بچاؤں گا جو تیرے گھر میں ہوگا.مگر وہ لوگ جو تکبر سے اپنے تئیں اونچا کریں.( تذکرہ.ایڈیشن چہارم صفحہ ۳۵۰ ) - ( ناشر ) سے ان کو شیطان نے پھسلانا چاہا اور پھر ان کو جہاں وہ تھے وہاں سے نکال دیا.سے شیطان نے ان دونوں کو پھسلا دیا.یعنی حضرت آدم اور حواء کو اور ان دونوں کو ذلت یعنی خطاء کی طرف بلایا.
حقائق الفرقان ۱۸۴ سُورَةُ الْبَقَرَة پورب کی طرف نود کی سرزمین میں جارہا.( پیدائش ۴ باب (۱۶) اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اس واسطے تم کو نکالتے ہیں کہ تم لوگوں میں باہمی عداوت ہے اور باہمی عداوت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ آخر کچھ قوموں کو نکلنا پڑتا ہے.سوچو آر یہ ہند میں کس طرح آئے.مقام تامل اور غور ہے.اب بھی اگر ناعاقبت اندیشوں کے باعث محرم دوسہرہ وغیرہ کے فسادات ہوتے رہے تو بہت ساروں کو حکم ہو گا پورٹ بلیر چلے جاؤ اور یوں مجبوراً قلنا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُةٌ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ (پورٹ بلیر) مُسْتَقَرٌّ و متاع إلى حين (البقرۃ: ۳۷) کی تعمیل کرنی پڑے گی.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۸،۱۱۷) فَازَلَهُمَا الشَّيْطنُ - شیطان کو بھی ایک موقع معلوم ہوا اس نے پھسلانا چاہا.عَنْهَا.اس درخت سے.قرآن مجید میں لکھا ہے کہ نَسِيَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهُ عَزْما (طه:١١٢) کچھ مدت کے بعد آدم حکم الہی کو بھول گئے اور یہ کسی انسان کے لئے موجب تعجب نہیں ہوسکتا.ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی نماز کے لئے بڑے اہتمام کے ساتھ گھر سے آتا ہے وضو کرتا ہے.پھر پہلی رکعت دوسری سے بالکل مختلف ہے پھر بھی بھول جاتا ہے.قرآن مجید کی آیات کا بھی یہی حال ہے.بعض وقت معمولی آیت قرآت کے وقت بھول جاتی ہے.روزہ رکھا جاتا ہے مگر بھول کر پانی پی لیتے ہیں یہ عجائبات قدرت ہیں.اَخْرَجَهُمَا.اللہ نے نکال دیا اس حالت سے جس میں وہ تھے.پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جب بعض تمہارے دشمن بھی ہیں تو تم چوکس رہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخہ ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۹) ابلیس اور شیطان کی اصل جن ہے.اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو چیزا اپنی ذات میں بُری اور پر ضر ر ہو وہ تو ابلیس ہے.اور جس چیز کا ضرر متعدی ہو دوسروں کو بھی دکھ پہنچائے تو وہ شیطان ہے.چنانچہ پارہ اول رکوع ۴ میں فرماتا ہے.فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَهُ وَكَانَ مِنَ ا ہم نے کہا چلے جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتاؤ کرنا ہے.(ناشر) ۲ بھول گیا تھا اور ہم نے اس میں قصد نہ پایا.
حقائق الفرقان ۱۸۵ سُورَةُ الْبَقَرَة الكفِرِينَ (البقرۃ: ۳۵) جب تک اس میں انکار و استکبار تھا وہ ابلیس تھا لیکن جب اس کا ضر ر متعدی ہوا اور فَازَلَهُمَا الشَّيْطنُ عَنْهَا (البقرة : ۳۷) اس کی شان ہوئی ، دوسروں کو بہکانے لگا تو پھر اسے شیطان فرمایا.سارے قرآن مجید میں خوب غور کر کے دیکھ لو جہاں جہاں ابلیس آیا ہے وہاں اس کا ضررا اپنی ذات میں ہے اور جہاں اس کا ضرر دوسروں تک پہنچا تو نام شیطان ہے.احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا لفظ بہت وسیع ہے.آپ نے ایک باز کو کبوتری کے پیچھے جاتا دیکھ کر فرمایا.شَيْطَانُ يَتَّبِعُ شَيْطَانَةً (سنن ابی داؤد كتاب الادب باب اللعب بالحمام) النِّسَاءُ حَبَائِلُ الشَّيْطَانِ (اعتلال القلوب للخرائطى باب ذكر من فتنة النساء عن طاعة الله جلد صفحه ۱۰۳ طبع الثانيه - ریاض).غرض ظلمت کے مظاہر شیاطین ہیں اور نور کے مظاہر ملائکہ.(البدر.جلد ۱۱ نمبر ۱۰ مورخہ ۷ /دسمبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۲) عَدُوٌّ.میں بھی اپنے دوستوں کو تاکید کرتا ہوں کہ چوکس ہوکر رہو.مومن کو چاہئے کہ دشمن سے کبھی بے خبر نہ ہو.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۳۹) ۳۸ ۳۹ - فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ كَلِمَةٍ فَتَابَ عَلَيْهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَى فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - ترجمہ.پھر آدم کو اللہ کی طرف سے کچھ باتیں القا ہوئیں اور اللہ نے رجوع برحمت فرما یا آدم پر کیونکہ البتہ وہ تو تو بہ کرنے والوں کو بڑا معاف کرنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.(اس کے بعد ) ہم نے آدم اور اُس کی نسل کو حکم دیا کہ اس (فساد کی ) جگہ سے تم سب کے سب چلے جاؤ پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے اُس اُس وقت جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گذشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہوگا.لے تو ابلیس کے سوا سب نے حکم مانا.(ابلیس نے جو کافر تھا ) آدم کا انکار کر دیا اور اسے اپنے سامنے بیج سمجھا اور وہ حق پوش تھا.سے پھر شیطان نے ان کو اس درخت کے ذریعہ سے پھسلانا چاہا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۸۶ سُورَةُ الْبَقَرَة اهبطوا.میرا ایمان ہے کہ یہ سزا نہیں.آدم نے خدا سے کچھ باتیں سیکھیں جیسے حضرت ابراہیم نے وَ اِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِم رَبُّهُ بِكَلِمَةٍ فَاتَتَهُنَّ (البقرۃ:۱۲۵) یعنی کچھ احکام دیئے جن کو ابراہیم نے پورا کیا تو امام بنایا گیا.اسی طرح خدا نے حضرت آدم کو درجات عطا فرمائے.هُوَ التَّوَابُ الرَّحِيمُ کے بعد قُلْنَا اهْبِطُوا فرما نا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بطور سزا ہر گز نہیں.یہ قرآن شریف کے سیاق کے بالکل خلاف ہے.فَإِمَّا يَأْتِينَكُم مِنّى هُدًى - ہمارا ہدایت نامہ جب آئے تو قاعدہ یا درکھو جو تابع ہوگا اس پر کوئی خوف و حزن نہیں.ہر زمانے میں ایک تغیر آتا ہے اس تغیر میں ایک قوم خوف و حزن میں ہوتی ہے.رسول کریم جب مبعوث ہو کر پبلک میں آئے تو لا الهَ إِلَّا الله کا وعظ کیا.اس وقت دو مذہب تھے ایک موحد دوسرے بت پرست.ان میں سے جو مشبع تھے حضرت نبی کریم کے وہ کامیاب ہوئے اور سارے عرب کو ساتھ ملا لیا مگر کا فراسی خوف و حزن میں رہے.عبداللہ بن اُبی اور ابو جہل کو تھوڑا رنج نہ تھا اور پھر کفار کو کتنا خون ہوا ہو گا جبکہ دونوں کے بیٹے مسلمان ہو گئے.غرض جو فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں وہ سکھ پاتے ہیں اور جو مقابلہ کرتے ہیں وہ اصحاب النار جل بھن کے کباب ہو جاتے ہیں.ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ مومنون کو بھی خوف و حزن ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مومنوں کے لئے یہ وعدہ ہے وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِم آمنا (النور:۵۶).غرض یہ خوف و حزن ایک فریق کے لئے کامیابی کا موجب ہوتا ہے تو دوسرے کے لئے نا کامی کا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۹) : اسلام نے اس سورۃ میں اَنْعَمتَ عَلیہم کی راہ کی ہدایت کی دعا سکھائی ہے اور پھر ہدایت.عمل سے بھی یہی بتایا اور کہا.اِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِنِّي هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة :٣٩) - عمل بڑا کارخانہ ہے اور دنیا ایک عملی دنیا ہے جو لے اور ان کو خوف کے بدلے میں امن عنایت فرمائے گا.۲ پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے اُس اُس وقت جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرنے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ نمگین ہوگا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۸۷ سُورَةُ الْبَقَرَة البدر - ۱۸ / جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۷ جلد ۱۲ نمبر ۳) انسان ہدایت کی اطاعت کرتا ہے وہ کبھی خوف وحزن میں مبتلا نہیں ہوسکتا اور الہی ہدایت ہمیشہ دنیا میں آتی رہتی ہے.حزن گذشتہ کا خوف ہوتا ہے اور خوف آئندہ کے نقصان کے لئے ہوتا ہے.اسی خوف وحزن پر ساری دوستیوں اور مخلوق کا مدار ہے.اللہ جلشانہ فرماتا ہے کہ خوف اور حزن سے بچنے کی ایک راہ ہے اور وہ اتباع ہدایت.فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِنَى هُدًى سے ظاہر ہوتا ہے.میری طرف سے ہدایت نامے ملا کریں گے.ہدایت نامہ تو ایک ہی ہوتا ہے مگر زمانہ کی نیرنگیاں ، نئی تعلیم ، ترقی ، تنزل، زبان کی حالت چاہتی ہے کہ پیرایہ جدید ہو.اس لئے فرماتا ہے مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ ذَكَرٍ مِّنْ رَّبِّهِمْ محدث الانبیاء : ۳).یہ معلم فطرت کو جگانے کے لئے آتے ہیں.اس لئے ان کا نام ذکر ہوتا ہے وہ آکر فطری قومی کو جگاتے ہیں.آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے اور اس پر فضل ہوا اور اللہ نے حکم دیا کہ اب جب کبھی ہماری ہدایت پہنچے جو اس کے تابع ہو گا اس پر کسی قسم کا خوف وحزن طاری نہ ہوگا اور جو حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے نقصان پہنچے گا تم سب دل میں سوچو کیا تمہارا جی چاہتا ہے کہ تمہیں غم ہو خوف ہو.عموں اور خوفوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ ہدایت کی اتباع کروا گر نہیں کرو گے تو دُکھ اُٹھاؤ گے.الفضل جلد نمبر ۱۵ مورخه ۲۴ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.خدا تعالیٰ کی ہدایت پر چلنے والوں کا یہ نشان بتلایا گیا ہے کہ ان پر حزن وخوف نہیں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ والی دعا کا یہ نتیجہ ہے.یہ آیت قابل نوٹ ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی حالت کو اس کے مطابق پر کھیں اور دیکھیں کہ آیا وہ اس درجے کو پہنچے ہیں یا کہ نہیں.کیا مسلمانوں میں اب خوف وحزن نہیں.اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا - (البقرة:٣٩) البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۳۹) یہ حکم اللہ تعالیٰ کے فضل کا نشان تھا.حضرت آدم غالباً ہند بلکہ سراندیپ میں چلے آئے جیسے لے اُن کے پاس نہیں آئی کوئی نصیحت اُن کے رب کی طرف سے نئی.۲.یہاں سے سب کے سب نکل جاؤ.( ناشر )
حقائق الفرقان ۱۸۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جابر، ابن عمر ، سید نا علی اور جماعت صحابہ اور تابعین اور من بعدھم سے مروی ہے.کیونکہ جس مکان پر کسی سے غلطی ہوتی ہے وہ منحوس جگہ اس قابل نہیں ہوتی کہ محتاط لوگ وہاں رہیں.علاوہ بریں ایسے مکان سے ہجرت کرنا آئندہ کے واسطے ہشیار اور خبر دار بنادیتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۱۰،۱۰۹) خلیفہ امسیح کا اعلان خلافت.میں اس مسجد میں قرآن ہاتھ میں لے کر اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے پیر بننے کی خواہش ہرگز نہیں اور نہ تھی اور قطعا خواہش نہ تھی.خدا تعالیٰ کے منشاء کو کون جان سکتا ہے اس نے جو چاہا کیا تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا اور اس نے آپ نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کرتہ پہنا دیا.میں اس کی عزت اور ادب کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں باوجود اس کے میں تمہارے مال اور تمہاری کسی بات کا بھی روادار نہیں اور میرے دل میں اتنی بھی خواہش نہیں کہ کوئی مجھے سلام کرتا ہے یا نہیں.تمہارا مال جو میرے پاس نذر کے رنگ میں آتا تھا اس سے پہلے اپریل تک میں اسے مولوی محمد علی کو دے دیا کرتا تھا مگر کسی کو غلطی میں ڈالا اور کہا کہ یہ ہمارا روپیہ ہے اور ہم اس کے محافظ ہیں.تب میں نے محض خدا کی رضا کے لئے اس روپیہ کو دینا بند کر دیا کہ میں دیکھوں یہ کیا کر سکتے ہیں؟ ایسا کہنے والے نے غلطی کی نہیں بے ادبی کی.اسے چاہئے کہ وہ توبہ کرلے میں پھر کہتا ہوں کہ وہ توبہ کرلے، اب بھی تو بہ کر لیں.ایسے لوگ اگر تو بہ نہ کریں گے تو ان کے لئے اچھا نہ ہو گا.ایک وقت مجھ سے کسی نے جھگڑا کیا اس وقت کے بعد سے میں ایسے اموال ان کو دیتا نہیں جو مخصوص مجھے ہی دیئے جاتے ہیں.ہاں میں انہیں ایک مد میں رکھتا ہوں اور اسے ایسی جگہ خرچ کرتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہ ہو.میں اپنی ذات اور اپنے متعد نے متعلقین کے لئے تمہارے کسی روپیہ کا محتاج نہیں ہوں اور کبھی بھی خدا تعالیٰ نے مجھے کسی کا محتاج نہیں کیا.وہ اپنے غیب کے خزانوں سے مجھے دیتا ہے اور بہت دیتا ہے اور میں اب تک وہ کسب کر لیتا ہوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.یاد رکھو میں پھر کہتا ہوں کہ میں تمہارے اموال کا محتاج نہیں ہوں اور نہ تم سے مانگتا ہوں تم میرے پاس اگر کچھ بھیجتے ہو تو اسے اپنے فہم کے
حقائق الفرقان ۱۸۹ سُورَةُ الْبَقَرَة موافق خدا کی رضا کے لئے خرچ کرتا ہوں پھر وہ کون سی بات ہو سکتی تھی کہ میں پیر بننے کی خواہش کرتا.اب خدا تعالیٰ نے جو چاہا کیا اس میں نہ تمہارا کچھ بس چلتا ہے اور نہ کسی اور کا.اس لئے تم ادب سیکھو کیونکہ یہی تمہارے لئے بابرکت راہ ہے تم اب اس حبل اللہ کو مضبوط پکڑ لو یہ بھی خدا ہی کی رسن ہے جس نے تمہارے متفرق اجزا کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو.تم خوب یاد رکھو کہ معزول کرنا اب تمہارے اختیار میں نہیں.تم مجھ میں عیب دیکھو آگاہ کر دومگر ادب کو ہاتھ سے نہ دو.خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں یہ خدا تعالیٰ کا اپنا کام ہے.اللہ تعالیٰ نے چار خلیفے بنائے ہیں آدم کو، داؤد کو اور ایک وہ خلیفہ ہوتا ہے جو لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ ( النور :۵۶) میں موجود ہے اور تم سب کو بھی خلیفہ بنایا.پس مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے دے گا (اللَّهُمَّ ايْدِ الْإِسْلَامَ وَالْمُسْلِمِيْنَ بِبَقَائِهِ وَطُوْلِ حَيَاتِهِ.ایڈیٹر ) تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کرو تم معزول کی طاقت نہیں رکھتے میں تم میں سے کسی کا بھی شکر گزار نہیں ہوں.جھوٹا ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا مجھے یہ لفظ بھی دکھ دیتا ہے کہ جو کسی نے کہا کہ پارلیمنٹوں کا زمانہ ہے دستوری حکومت ہے ایران اور پرتگال میں بھی دستوری ہو گئی ہے.ترکی میں پارلیمنٹ مل گیا.میں کہتا ہوں وہ بھی تو بہ کر لے جو اس سلسلہ کو پارلیمنٹ اور دستوری سمجھتا ہے.کیا تم نہیں جانتے کہ ایران کو پارلیمنٹ نے کیا سکھ دیا اور دوسروں کو کیا فائدہ پہنچایا ہے.ترکوں کو پارلیمنٹ کے بعد کیا نیند آتی ہے؟ ایرانیوں نے کیا فائدہ اٹھایا.محمد علی شاہ کے سامنے کتنوں کو غارت کرایا اور اب پچھلوں کو الٹی میٹم آتے ہیں.ادھر انجمن ترقی واتحاد جو دکھ اٹھا رہی ہے اس کا اندازہ ان خبروں سے کر لو جوطرابلس سے آ رہی ہیں.تم دستوری کو کیا سمجھتے ہو خدا ہی کے فضل سے اور اسی کے رسن کو مضبوط پکڑے رہنے سے کچھ بنتا ہے.اس لئے میں لے ان کوضرور خلیفہ بنائے گا زمین میں سے اے اللہ آپ کی بقا اور لمبی زندگی کے ذریعہ اسلام اور مسلمانوں کی تائید و نصرت فرما.
حقائق الفرقان ۱۹۰ سُورَةُ الْبَقَرَة ހވއވމ پھر کہتا ہوں وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا (ال عمران:۱۰۴) میں تمہیں پھر یاد دلاتا ہوں کہ قرآن مجید میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اللہ ہی خلیفے بنایا کرتا ہے.یاد رکھو آدم کو خلیفہ بنایا تو کہا اِنِّی جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً (البقرة: (۳۱) فرشتوں نے اس پر اعتراض کر کے کیا خمیازہ اٹھایا.تم قرآن میں پڑھو جب فرشتوں کی یہ حالت ہے اور انہیں بھی سُبحنك لا علم لنا (البقرة : ٣٣) کہنا پڑا تو تم مجھ پر اعتراض کرتے ہو.اپنا منہ دیکھ لو مجھے وہ لفظ خوب یاد ہیں کہ ایران میں پارلیمنٹ ہوگئی اور دستوری کا زمانہ ہے انہوں نے اس قسم کے الفاظ بول کر جھوٹ بولا بے ادبی کی.خدا تعالیٰ کی غیرت نے انہیں دستوری کے نتیجے ایران ہی میں دکھا دیئے.میں پھر کہتا ہوں وہ اب بھی تو بہ کر لیں میں دوستوں کو کہتا ہوں لَا اسْتَلكُمُ عَلَيْهِ مَالاً إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى اللهِ (هود:۳۰) میرا مولا مجھے سب کچھ دیتا ہے اگر وہ نہ چاہتا تو جب میں گھوڑے سے گرا تھا تو اس صدمہ سے مرجاتا مگر اسی نے میری حفاظت کی اور جہاں پچھلے سال مجھے بولنے کی طاقت نہ تھی آج خدا کے فضل سے میں اس سے بھی بلند آواز سے بول سکتا ہوں (الْحَمْدُ لِلّهِ عَلی ذَلِک.ایڈیٹر ) پس ایسے خیالات کو چھوڑ دو.پھر جو اخباروں میں بعض مضامین دیتے ہو اللہ تعالیٰ کے آگے ڈرواور نہ تم پر الزام قائم ہوگا.خوب یاد رکھو اور سن رکھو میری امانت دیانت کی حفاظت تم سے نہیں ہوسکتی اور کوئی بھی نہیں کرسکتا.کل ایک بیوی نے مجھے سو روپیہ دیا اس کے بیٹے نے ایک مصیبت سے مخلصی پائی اس نے نذر مانی تھی.مجھے وہ روپیہ دیا.کیا کوئی جان سکتا تھا میری بیوی میرے پاس بیٹھی تھی میں نے سمجھا کہ شائد اس کا دل للچایا ہو.میں نے اس دینے والی سے پوچھا کہ کہاں خرچ کریں وہ بولی کہ کسی اچھی جگہ خرچ کرو.میں نے وہ جمع کر کے گھر میں نہیں رکھے.میرے پاس تین قسم کی رقوم آتی ہیں کچھ کپڑے آتے ہیں یتامی اور مساکین کے لئے اور ایسا ہی روپیہ بھی آتا ہے کوئی روپیہ دیتا ہے کہ جہاں آپ چاہیں خرچ لے اور مضبوط پکڑو اپنے آپ کو بچاؤ حبل اللہ کے ذریعہ سے ہے میں خاص زمین میں ایک نائب حاکم بنانے والا ہوں.(ناشر) سے آپ کی ذات بے عیب بڑی خوبیوں والی ہے جو تو نے ہمیں بتا دیا ہے اُس کے سوائے ہمیں کچھ معلوم نہیں.ہے میں اس تعلیم پر تم سے کچھ مال بھی نہیں مانگتا میری مزدوری تو اللہ پر ہے.
حقائق الفرقان ۱۹۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کر دیں.ایک کہتا ہے جہاں میرے مردے کو ثواب پہنچے وہاں خرچ کر دو اور کچھ خیرات بھی آتی ہے.بعض لوگ مخصوص کر دیتے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ کے خاص منشا کے ماتحت ہوتا یہ تمہاری ذات کے لئے ہے ان تمام اموال میں سے یتامی کے اموال کو تو میں لَا تَقْرَبُوا مَالَ اليتيم (الانعام: ۱۵۳) پر عمل کرنے کے لئے محمد علی صاحب کے حوالہ کر دیتا ہوں اور ایسا ہی ان کے کپڑے بھی.جو اموال میرے پاس آتے ہیں میرے حفاظت کرنے والوں کو تو میرے گوہ کی بھی خبر نہیں تو اموال کی کیا خبر ہو؟ یہ سخت لفظ میں نے ایک خاص وجہ سے بولا ہے.پھر جو کپڑے ہوتے ہیں بعض وقت ان میں قیمتی کپڑے ہوتے ہیں میں نے ایک دفعہ اپنی بیوی کو کہا کہ ان کو بیچ کر اوسط درجہ کے کپڑے بنادیا کرو تا کہ وہ زیادہ کے کام آ سکیں.اس نے کہا کہ اگر میں خود لینا چاہوں تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہرگز نہیں.اگر کوئی اور بیوی ہو جو ہماری رشتہ دار نہ ہو وہ چاہے تو لے سکتی ہے.تو ایسے کپڑے بعض وقت ہم بیچ دیتے ہیں گو بہت ہی کم موقع ملتا ہے.مجھے یہاں شادیاں کرنی پڑتی ہیں اور وہ مسکینوں کی ہوتی ہیں ابھی آٹھ دس نکاح ان دنوں میں ہوئے ہیں اور بجز میری ایک نواسی کے سب مساکین تھے.ان کو کپڑے اور مختصر سے زیور دینے پڑتے ہیں ایسے اموال سے جو مساکین کے لئے آتے ہیں اسی قسم کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں.میں یہ واقعات اپنی برأت کے لئے نہیں کہتا اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے میں تمہاری مدح ، مذمت ، انکار کی پرواہ نہیں کرتا بلکہ اس لئے سناتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بدگمانی کر کے گنہ گار نہ ہووے.ایک عورت نے ایک مرتبہ کہا کہ کپڑوں کے کو ٹھے بھر لئے ہیں کوئی حساب تو نہیں.مجھے خیال ہوا کہ ممکن ہے اس قسم کے وہم مردوں میں بھی ہوں ایسے لوگ اگر ہوں تو توبہ کر لیں عشق است و ہزار بدگمانی سے میں تمہارے روپیہ کا محتاج نہیں حضرت صاحب کے وقت میں بھی ایسے اموال میرے پاس آتے تھے اور میں لے لیتا تھا.میں تمہاری بھلائی کے لئے کہتا ہوں مجھے تم میں سے کسی کا خوف نہیں اور بالکل نہیں ہاں میں صرف خدا ہی کا خوف رکھتا ہوں.پس تم ایسی بدگمانی نہ کرو اور تو بہ کرو.اگر ہمارا گناہ ہے ہمارے ذمہ رہنے دو اگر میں غلطی کرتا ہوں اس بڑھاپے ا یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ.(ناشر) سے ایک عشق ہزار بدگمانیاں پیدا کرسکتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۲ سُورَةُ الْبَقَرَة اور اس عمر میں قرآن مجید نے نہیں سمجھایا تو پھر تم کیا سمجھاؤ گے؟ میری یہ حالت ہے کہ بیٹھتا ہوں تو پیر دکھی ہوتے ہیں کھڑا ہوتا ہوں تو محض اس نیت سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے تھے.میں نہیں جانتا میرا کتنا وقت ہے میں اس راہ سے ناواقف ہوں إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ لَّا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُب (صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب قول النبی ﷺ لا نكتب و لانحسب، روایت نمبر ۱۹۱۳) میں نے ملازمت بھی کی مگر اس میں بھی گھڑی نہیں رکھی.میں نے روٹی بھی نہیں کھائی اور اگر چائے کی پیالی بھی نہ آتی تو اس کا بھی محتاج نہیں تھا.تمہاری بھلائی کے جوش میں میں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتا.مجھے کیا معلوم ہے کہ پھر کہنے کا موقع ملے گا یا نہیں موقع ہو تو تو فیق ہو یا نہ ہو.اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ تم کو حق پہنچا دوں.پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو ! اسی کی بات ہے جو میں سناتا ہوں میری نہیں کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ( آل عمران : ۱۰۴) غرض تفرقہ نہ کرو وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا (آل عمران : ۱۰۴).اللہ کا فضل یاد کرو جب کہ تم باہم اعداء تھے.نظارہ تفریق اللہ تعالیٰ نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تم باہم بھائی بھائی ہو گئے.تم خود غور کرو تم جو یہاں موجود ہو سب کے ذوق الگ، سب کی طرز کلام اور طریق بیان جدا، شکلیں الگ اور زبانیں الگ ہیں اور تمہارے لباس ایک دوسرے سے نہیں ملتے ، پگڑیوں کے رنگ ان کے باندھنے کے طریق سب جدا جدا ہیں.اکبر کے زمانہ میں بڑی خوبصورت پگڑیاں باندھنے کا طریق تھا ایک پگڑی سیدھی سادھی نور دین کی سی تھی دربار میں اس سے کہا گیا کہ تم کو پگڑی باندھنی نہیں آتی ؟ اس نے کہا کہ مجھے تو آتی ہے یہ باقی عورتوں لے ہم اُمی لوگ ہیں، نہ ہم لکھتے ہیں اور نہ ہم حساب کرتے ہیں.(ناشر) ۲؎ اور مضبوط پکڑو، اپنے آپ کو بچاؤ حبل اللہ کے ذریعہ سے اور ایک دوسرے سے الگ نہ ہو.۳، اور اللہ کے احسان نہ بھولو جو تم پر ہیں وہ دن یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُسی نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کی تو اس نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۳ سُورَةُ الْبَقَرَة سے بندھوا کر لائے ہیں اگر انہوں نے آپ باندھی ہیں تو پھر بندھوا کر دیکھ لو.چنانچہ جب ان کو حکم دیا گیا تو نہ باندھ سکے کیونکہ گھر میں تو بڑے تکلف اور آئینہ سامنے رکھ کر باندھا کرتے تھے.عورتوں سے مراد نفس ہی لے لو.غرض اس وقت بھی پگڑیوں کی بندش ان کے رنگ اور ململوں اور لمبائی چوڑائی سب باتوں میں فرق ہے.یہ اختلاف اور فرق دور تک چلتا ہے ایک خالق ہے ہم سب مخلوق ہیں پھر اختلاف ہے ایک مرد ہے ایک عورت دونوں کے کام الگ ہیں.ہر ایک کے اعضاء میں فرق ہے.باوجود اس اختلاف کے پھر وہ اتحاد چاہتے ہیں جب ان کا اختلاط ہوتا ہے تو پھر وہ کسی اور کے خواہشمند ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی بچہ ہو جاوے.ہمیں بھی خطوط آتے ہیں کہ دعائیں کرو کسی نے اپنے بچہ کا نام غلام مرزا رکھا مگر وہ زندہ نہ رہا.غرض اکیلا ہو کر بیوی چاہتا ہے اس کے آنے پر پھر اولا د چاہتا ہے پھر اولاد کی شادی پھر ان کی اولاد کی خواہش کرتا ہے.اختلاف ہے تو کتنا اتحاد ہے تو کس حد تک.یہ تمام اختلافات اللہ تعالیٰ کی ہستی کے دلائل ہیں خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اخْتِلَافُ الْسِنَتِكُم ( الزوم : ٢٣) فی الحقیقت اگر ایک ہی قسم کے چہرے ہوتے اور ایک ہی قسم کی آواز میں قدوقامت ہوتے تو کیسا دکھ اور مصیبت ہوتی دوست دشمن بیوی بہن میں تمیز نہ ہو سکتی.اختلاف مثمر ہونے کے لئے وحدت چاہتا ہے پس اختلاف جہاں بہت ہی مفید ہے وہاں باوجود اختلاف کے وحدت کے نظام کو چاہتا ہے تب یہ نتیجہ خیز اور مثمر ہوسکتا ہے.میں دیکھتا ہوں ایک دوات ہے وہ آسٹریا ، چائنا یا انگلینڈ یا امریکہ سے بن کر آتی ہے.پھر سیاہی اور اس کے اجزا کو دیکھو جب تک باہم مل کر متحد نہیں ہو گئے اس سیاہی میں لکھنے اور نقش پذیر ہونے کی طاقت نہیں.پھر قلم ہے اس میں آجکل کے قلم کو مد نظر رکھ کر دو تین جزو ہیں کچھ لکڑی ہے کچھ لوہا ہے یہ اجزا اگر باہم نہ ملیں تو قلم نہیں بن سکتا.پھر قلم بھی ہو لیکن اگر سیاہی کے ساتھ اس کا تعلق نہ ہو تو کچھ فائدہ نہیں قلم کسی شخص کے ہاتھ میں ہو اور وہ ہاتھ اس کو اس دوات تک لے جاوے اور پھر اس سیاہی سے کاغذ پر کچھ لکھے.کاغذ کے مختلف اجزا کو دیکھو اور غور کرو پھر لکھنے کے لئے ہاتھ کی جنبش اور لے اور تمہاری بولیوں...کا مختلف ہونا بھی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۴ سُورَةُ الْبَقَرَة آنکھ کی بصارت اور دماغ کی قوت متفکرہ سے کام نہ لیا جاوے تو کچھ بھی نہیں.اب تمام پراگندہ صورتوں پر غور کرو پھر ان کے اتحاد کو دیکھو وہ حالت منتشرہ میں کیا کچھ بھی مفید ہوسکتی تھیں؟ لیکن جب ان میں اتحاد اور اختلاط ہوا اور ایک مرکز پر جمع ہو گئیں تو اس سے کتابیں اور نہایت قیمتی تحریریں پیدا ہو گئیں.یہ مضمون بجائے خود بڑا وسیع مضمون ہے اور اس پر غور کر کے نہایت مختصر الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ نظام عالم کی رونق اختلاف سے ہے جب جب وہ اختلاف ایک مرکز پر متحد ہو.اپنے وجود پر غور کروکس قدر مختلف چیزوں کا مجموعہ ہے لیکن ان مختلف چیزوں کا اجتماع کیسا خوبصورت بن گیا ہے.اب تم سوچو کہ باوجود یکہ تمہارے رنگ و روپ تمہاری شکلیں، علوم عقول تعلیم ، تربیت ، سوسائٹی ، مطالعہ کی کتابیں اور خواہشیں جدا جدا ہیں.پھر تم دیکھو کہ کیوں اکٹھے ہوکر باہم ایک جگہ جکڑے گئے.تناسخ والوں کو اس اختلاف نے غلطی میں ڈالا اور وہ اس اختلاف کو تناسخ کا نتیجہ سمجھ بیٹھے کاش وہ اس اختلاف کی حقیقت پر غور کرتے تو اس کثرت میں وحدت کا مزہ پاتے.یہ خوب یادرکھو کہ کثرت میں وحدت کی ضرورت ہے جب تک وحدت نہ ہو کثرت مفید ہی نہیں ہو سکتی.دیکھو کلکتہ سے لے کر پشاور تک ایک شاہی سڑک ہے جس پر ریلیں دوڑتی ہیں.اب تم غور کرو کہ یہ مختلف قطعات زمین مختلف لوگوں کے قبضہ میں تھے ایک طاقت جس کو گورنمنٹ کہتے ہیں آئی اور اس نے ان قطعات کو مختلف مالکوں سے لے کر ایک کی ملکیت میں شامل کر دیا تب اس کثرت میں وحدت پیدا ہوگئی.پھر اینٹوں پتھروں اور مٹی کو مختلف جگہ سے لا کر اس پر جمع کیا بظاہر مختلف چیزیں جمع کر دیں مگر ان کو ایک سطح اور ایک ترتیب میں رکھ کر ایک سڑک کی شکل میں تبدیل کر دیا پھر لکڑی اور لوہے کو بچھا کر اور ایک خاص صورت سے انہیں ملا کر لائن بچھا دی اور سكة الحدید بن گئی پھر اس لائن پر گاڑیوں کو جمع کیا جن میں مختلف عقلوں اور ہاتھوں کے ذریعہ مختلف چیزوں لکڑی، لوہا، رنگ وغیرہ کو ایک خاص شکل میں بنایا گیاوہ اختلاف بجائے خود قائم رہ کر وحدت کا رنگ پیدا ہو گیا.پھر ایک اور چیز جس کو انجن کہتے ہیں ان کے آگے لگادیا پھر اس انجن میں آگ پانی کوئلہ رکھا گیا سب کی سب مختلف اور متضاد چیزیں تھیں مگر ایک خاص ترکیب سے ان کو ملا یا تب ان سے بھاپ پیدا ہو کر حرکت کا موجب ہو گئی اب کلکتہ اور پشاور کے درمیان ریل گاڑی دوڑنے
حقائق الفرقان ۱۹۵ سُورَةُ الْبَقَرَة لگی.جو فوائد اور آرام اس سے مل رہے ہیں وہ ظاہر ہیں مگر یہ سب کچھ کثرت فی الوحدت کا نتیجہ ہے.اسی طرح پر میں تمہیں کہتا ہوں کہ اختلاف کو رہنے دو مگر اس اختلاف کو وحدت کے مرکز کے نیچے لاؤ کہ یہ مفید اور کار آمد شئے بن جاوے.ہمارے لوگ اختلاف کو تو ترقی دیتے ہیں مگر مرکز وحدت سے الگ ہو کر اس صورت میں یہ مفید نہیں بلکہ مضر ہو گا.(احکم جلد ۱۶ نمبر ۳ مورخه ۲۱ جنوری ۱۹۱۲ صفحه ۴ تا۷) فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرة: ٣٩) مومن کیا اور ڈر کیا.ضرار بن از در کی بہن کو دیکھو کہ جہاں ہزاردو ہزار دشمنان اسلام ) کی صف دیکھتی تھیں فوراً اس میں گھس پڑتی تھیں اور چیر کر چھوڑتی تھیں.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۶۷) يبنى إسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِى اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِى أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَ إِيَّايَ فَارْهَبُونِ - ترجمہ.اے اللہ کے پہلو ان کی اولاد ! تم میرے ان انعاموں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے ہیں اور تم میری شریعت کے اقرار کو پورا کرو میں تمہارا اقرار پورا کروں گا ( یعنی جزا دوں گا ) اور میری ہیت وجلال کے وقت سے ڈرو.تفسیر.سارا قرآن شریف حقیقت میں الحمد کی تفسیر ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تین گروہوں کا اور اپنی صفات میں سے چار صفات کا ذکر کیا ہے.ایک گروہ کا نام منم علیہم ہے.بہت سے لوگ منعم علیہ ہو کر بھی مغضوب بن جاتے ہیں.مغضوب علیہ وہ ہوتا ہے جو علم پر عمل نہ کرے اور کسی سے بے جاعداوت رکھے.احادیث میں یہود بتائے گئے ہیں ان میں یہی بات ہے کہ بے جاعداوت رکھتے ہیں اور جو انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ہو کر علم نہیں رکھتے اور کسی سے بے جا محبت رکھتے ہیں وہ ضالین ہیں.احادیث میں ان کا نام عیسائی آیا ہے.یہاں یعقوب کا نام چھوڑ دیا ہے.اسرائیل کو یونانی زبان میں س کی بجائے ش بولتے ہیں.اشر کے معنے سپاہی ، بہادر.خدا تعالیٰ نے یعقوب علیہ السّلام کا جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہوگا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یہ نام رکھا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا بہادر سپاہی ہے.ماں باپ نے تو یعقوب نام رکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اسرائیل نام رکھا.یہاں ہم کو بتایا کہ تم کن اسلاف کی اولا دہو.انعامات کو یاد کرنے سے یہ فائدہ ہے کہ ہمارے احکامات کی بجا آوری میں سستی نہ کرو.ہمارے احکامات کی بجا آوری کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جو نتائج پہلوں کو عطا ہوئے ہیں وہ تم کو بھی عطا ہو جائیں گے.بعض اوقات انسان کو ایک اور مشکل پیش آجاتی ہے وہ یہ کہ بعض آدمی غریب ہوتے ہیں ان کو فکر ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑے آدمی کی مخالفت کریں تو ہم کو نقصان پہنچے گا.- نِعْمَتِي الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.سب سے بڑی نعمت تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجو د مبارک تھا.أونِ بِعَهْدِكُمْ.میرے وعدوں کے پابند ہو جاؤ.جو میں نے ان پر ثمرات عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ میں دے دوں گا.چونکہ کسی شرعی حکم پر عمل کرنے میں بعض آدمیوں کو مشکلات ہوتی ہیں اور بڑے آدمیوں کا خوف ہوتا ہے کہ شاید وہ تکلیف دیں.اس لئے فرماتا ہے ايَّايَ فَارْهَبُونِ ڈر صرف میرا ہی رکھو.انسان حق بات کا اظہار بوجہ مالی ضعف یا ضعف جاہ و جلال یا ضعف علم و ہمت کے نہیں کر سکتا.مثلاً ایک آدمی غریب ہے اپنا جتھا نہیں رکھتا پس وہ دوسروں کا محتاج ہے فرماتا ہے کہ تم اظہار حق میں کسی کی پرواہ نہ کرو.تم میرے وفادار بنو اور میرا ڈر رکھو میں ضرور تمہاری مددکروں گا.یہ ضعفاء کے لئے ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ رفروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۰،۹) قرآن سنانے والوں کو یہودیوں، عیسائیوں میں قرآن سنانے کا کم موقعہ ملتا ہے پس جہاں یہ ذکر ہے وہاں مسلمانوں کو متنبہ کرنا مقصود ہے.پس مسلمان کو چاہیے کہ جن ناپسندیدہ کاموں کی وجہ سے یہودی عیسائی عذاب پانے والے ہوئے ان سے بچے اور جن پسندیدہ کاموں کے سبب انعام پائے وہ کرے.اس قوم کے مورث اعلیٰ کا نام نہیں لیا بلکہ لقب بیان کیا ہے اس سے ان کو شرم اور جوش دلانا مقصود تھا.عربی زبان میں اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی.اس نام سے یہ غیرت دلائی کہ تم بھی اللہ کے بہادر بنو.ہماری سرکا رسید الا برار سے بڑھ کر اور کون اللہ کا پہلوان ہے.بس اتنے بڑے انسان کی
حقائق الفرقان ۱۹۷ سُورَةُ الْبَقَرَة اُمت اور اولاد ہو کر ہم نفس و شیطان کے مقابلہ میں بزدلی دکھا ئیں تو ہم پر افسوس ہے! نعمتى التى انْعَمْتُ عَلَيْكُم وہ نعمت کیا تھی.دوسری جگہ فرما یا کہ تم میں سے انبیاء وملوک بنائے اور وہ کچھ دیا جو دوسروں کو نہ دیا گیا.اب اے مسلمانو! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم پر بھی یہ انعام ہو چکے ہیں.اس کتاب پر ایمان لاؤ کیونکہ اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تمام نصائح کی جامع ہے.اگر کسی اگلی کتاب میں تحریف ہو چکی ہے تو یہ اسے صاف کرتی ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۶ /نومبر ۱۹۰۸ء صفحه ۳) اس رکوع میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب کی اولا د کو ، بنی اسرائیل کو بہادر سپاہی کے بیٹوں سے خطاب کیا.مسلمانوں کو عبرت چاہیے کہ تم بھی کسی بہادر سپاہی کی قوم ہو.محمد رسول اللہ تمہارا امام تھا.صحابہ کرام اور تابعین کی اولا د ہو.تمہیں یاد ہے کہ تم پر کیا کیا فضل ہوئے.پہلا فضل تو یہی ہے کہ تم کچھ نہ تھے.پیدا ہوئے پھر مسلمان ہوئے.قرآن جیسی کتاب تمہیں دی گئی.محمد رسول اللہ جیسا خاتم النبیین رسول عطا فرمایا.تمہیں سمجھانے کے لئے متنبہ کرنے کے لئے دوسروں کے حالات سناتا ہے کہ ایک قوم کو ہم نے بڑی نعمتیں دی.فَكَفَرَتْ بِانْعُدِ اللهِ (النحل : ۱۱۳) اس قوم نے اللہ کی نعمتوں کی کچھ قدر نہ کی تو ہم نے ان کو بھوک کی موت مارا.بھوک کی موت.بہت ذلّت کی موت.بہت دُکھ کی موت ہوتی ہے.میں نے ان اپنی آنکھوں سے بھوک کی موت مرتے لوگ دیکھے ہیں.دودھ ان کے منہ میں ڈالیں تو وہ بھی حلق سے نیچے نہیں اترتا.کشمیر میں خطرناک قحط پڑا کا فرتوسو کبھی کھاتے ہیں ان کے باورچی خانہ کے اردگر دلوگ جمع ہو جاتے کہ شاید کوئی چھچھڑ مل جائے.یہ حالت اضطراری تھی اس لئے مسلمان معذور تھے.پندرہ بڑے بڑے غرباء خانے تھے اور رئیس چار سیر گیہوں خرید کر سولہ سیر کے حساب سے دیتا مگر پھر بھی خدا ہی دے تو بندہ کھائے بندے کی کیا ہی طاقت ہے کہ اتنی دُنیا کی رزق رسانی کر سکے.غرض اللہ تعالیٰ ایک قوم کو نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہے اوفوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُم مجھ سے جو عہد کیا تھا وہ پورا کرو تو میں وہ عہد پورا کروں گا جو تم سے کیا تھا.ا پھر اس نے ناشکری کی اللہ کے انعاموں کی (یعنی نبوت و قرآن و توحید کی ).(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس کا ذکر پہلے آچکا ہے چنانچہ فرما یا فَأَمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنَى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة:۳۹) یعنی تم میری ہدایت کے پیرو بنو تو میں تمہیں لَا خَوْفٌ وَلَا يَحْزَنُونَ زندگی دوں گا.اس وقت کیسی مصیبت کے دن ہیں.سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں چھ کروڑ کے کان میں قرآن کبھی نہیں گیا ایک کروڑ ہوگا جو یہ سنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں.پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید با ترجمہ پڑھتے ہیں.اب یہ دیکھو کہ ان میں عمل درآمد کے لئے کس قدر تیار ہیں.میں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا میں بھی شاگر د تھا.وہ ایک پرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے.ساری عمر اس میں گزار دی اور قرآنِ مجید نہ سنایا حالانکہ علم تھا، فہم تھا، ذہین و ذ کی تھے ، نیک تھے، دُنیا سے شاید کچھ بھی تعلق نہ تھا.پھر ان کی اولادکو بھی میں نے دیکھا وہ بھی اسی خطبہ پر اکتفا کرتی.میں نے آنکھ سے روزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا.ان بعض ملکوں میں یہ دیکھا ہے کہ کسی فقہ کی کتاب کی عبارت عشاء کے بعد سنادیتے ہیں.پس میں تمہیں مخاطب کر کے سناتا ہوں.اللہ فرماتا ہے ہمارے فضلوں کو یاد کرو اور میرے عہدوں کو پورا کرو میں بھی اپنے عہد پورے کروں گا.کبھی ملونی کی بات نہ کیا کرو اور گول مول باتیں کرنا ٹھیک نہیں.حق کو چھپایا نہ کرو بحا لیکہ تم جانتے ہو.قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں ایک تعظیم لآمر الله - لا إلهَ إِلَّا الله کے ساتھ مُحمد رسُولُ اللہ اس کلمہ توحید کی تکمیل کے لئے ہے.دوم شفقت علی خلق اللہ.اس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو.آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.حرفت پیشہ کو فرصت نہیں.زمیندار صبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں.ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں.پھر واعظوں اور قرآن سنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو.علماء، 1 پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے اُس اُس وقت جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہوگا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۱۹۹ سُورَةُ الْبَقَرَة فقراء، گڈی نشین سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو، منافق نہ بنو، حق میں باطل نہ ملاؤ، وفادار بنوتا کہ بے خوف زندگی بسر کرو.دوسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو.اگر تبلیغ میں کوئی مشکل پیش آجائے تو استقلال سے کام لو، بدیوں سے بچو، نیکیوں پر جمے رہو، نمازیں پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اللہ کے پاس جانا ہے.زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں.میں نے ایک شخص کو دیکھا بادشاہ کے پاس قلم و کاغذ لے کر گیا ادھر پیش کیا اُدھر جان نکل گئی.ایک اور شخص تھا بڑے شوخ گھوڑے پر سوار میری طرف مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا.میں نے کہا آپ کا گھوڑا بڑا شوخ ہے.کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے.میں ادھر گھر پہنچا کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ مر گیا.غرض یہ دوست ، یہ احباب ، یہ آشنا، یہ اقرباء، یہ مال یہ دولت، یہ اسباب ، یہ دکانیں، یہ ساز و سامان سب یہیں رہ جائیں گے.آخر کار با خداوند.اللہ تم پر رحم کرے.الفضل جلد نمبر ۱۶ مورخہ یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ۴۲ - وَامِنُوا بِمَا اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلَا ص تَشْتَرُوا بِأَيْتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ - ترجمہ.اور اب جو شریعت اتاری ہے اس کو مان لو اس کے انکار کرنے والوں میں اول نمبر نہ بنواور میری آیتوں کو دنیا کے بدلے نہ خریدو.مجھ سے ڈرو اور مجھ ہی کو سپر بناؤ.تفسیر - مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ - مُصَدِّقًا بعض عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ پھر مسلمان کیوں انجیل پر عمل نہیں کرتے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مصدق ہونے کو تیار ہیں بشرطیکہ انجیل وہ ہو جو عیسی پر نازل ہوئی.اگر وہ انجیل ہو تو ہم اس کے مصدق ہیں.پھر کوئی چیز مصدق اُس چیز کے لئے ہو سکتی ہے جو تصدیق کی محتاج ہو.مثلاً سبت مناؤ یا یہ کرو تو یہ محتاج تصدیق نہیں.تصدیق کی محتاج پیشگوئیاں ہوتی ہیں اسلام کی وجہ سے جو تغیر ان کے بلا داور مذہب میں ہوا.عیسائیوں سے ہمارا سوال ہے کہ آیا اس کے متعلق کوئی پیشگوئی تمہاری کتابوں میں ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو وہ پوری ہو چکی.تصدیق کے دوسرے معنے سچ کو سچ کہنے والا.جھوٹ کو جھوٹ کہنے والے کو مصدق نہیں کہتے.
حقائق الفرقان ۲۰۰ سُورَةُ الْبَقَرَة پس جو ان کتابوں میں سچ ہے اس کو اپنی تعلیم میں لے کرسچا ثابت کر دیا اور جو جھوٹ ہے اس کی تکذیب کر دی.مثلاً یہود کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور سیمی کہتے ہیں کہ خدا تین ہیں.پس فرمایا.لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَثَةِ (المائدة: ۷۴) وَلَا تَكُونُوا اَوَلَ كَافِر ہے یعنی تم پڑھے ہوئے کافر بنو گے تو اول درجہ کے کافر کہلاؤ گے.گو مشرک پہلے کافر ہوئے تھے مگر وہ جاہل تھے.اس لئے پڑھے ہوؤں سے کہا کہ تم اول درجہ کے کافر بنو گے کیونکہ تم کو منہاج نبوت کا علم ہے اور پھر کافر بنے.ثمنا قليلا کے یہ معنے نہیں کہ قرآن کی قیمت تھوڑی نہیں لینی چاہیے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹے مسئلے بنا کے اپنی بڑائی یا دنیا چاہنا بہت برا ہے.قرآن مجید میں آیا ہے کہ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قليل ( النساء: ۷۸) جس سے تمنا قليلا کے معنے کھل سکتے ہیں.فَاتَّقُونِ.میرا تقوی اختیار کرو.(ضمیمہ اخبار بدر جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۰) اول نمبر کے کافر نہ بنو یا پہلا برانمونہ تم نہ بنو کہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور سب کا گناہ تمہارے ذمہ پر ہو گا.کلام الہی کی بے ادبی نہ کرو.جس شخص نے بہار دانش لکھی ہے اُس نے کسی سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا اِنَّ كَيْدَكُن عَظیم.(یوسف: ۲۹) کی تفسیر کر رہا ہوں.راگ والی کتاب کسی نے بنائی اور او پر لکھ دیا يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ (الزمر: 19) سب لا تَشْتَرُوا بِایتِی ثَمَنًا قَلِیلا کی خلاف ورزی ہے.(البدر جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۶ نومبر ۱۹۰۸ء صفحه ۳) ۴۳، ۴۴- وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقِّ بِالْبَاطِلِ وَ تَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ وَاقِيمُوا الصَّلوةَ وَأَتُوا الزَّكَوةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ - ترجمہ.اور کھرے کھوٹے کو نہ ملادو اور ناحق نہ چھپاؤ حق کو جب کہ تم کو بخوبی معلوم ہے.اور نمازوں لے البتہ البتہ کا فر ہو گئے جنہوں نے کہا اللہ تین میں کا تیسرا ہے.( ناشر ) سے تم جواب دو کہ دنیا کا فائدہ تھوڑا ہی سا ہے سے کچھ شک نہیں کہ تم عورتوں کی تدبیر بڑی ہوتی ہے.۴، جو بات سنتے ہیں اور اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۰۱ سُورَةُ الْبَقَرَة کو ٹھیک درست رکھو اور زکوۃ دیا کرو اور اللہ کے سامنے جھکنے والی جماعتوں کے ساتھ تم بھی جھکو.تفسیر.دُنیا میں ایک فرقہ ایسا بھی ہے کہ راستبازی ان کی فطرت میں داخل ہوتی ہے.ایک فرقہ وہ ہے جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر اپنے تئیں سچا ثابت کرنے کے لئے حق کو چھپا دیتا ہے.بچے کا حال بیج کی مانند ہے کہ تم اچھا ہو پر زمین اچھی نہ ہو.زمین اچھی ہو تو آب پاشی نہ ہو.آب پاشی ہو تو حفاظت نہ ہو.پس خوش قسمت انسان کو نیک ماں باپ، نیک ہم نشین ، عمدہ تربیت و نگرانی حاصل ہوتی ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۵ مورخه ۱۰ر دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) انتُم تَعْلَمُونَ.جب کہ تم پر حق واضح ہو چکا ہو.یہ سب علماء سے خطاب ہے کیونکہ ایسے لوگ علماء میں بہت ہیں.مثلاً ایک امیر شیعہ نے ایک عالم سے پوچھا کہ کربلا جانا بہتر ہے یا مکہ جانا.اُس نے جواب دیا مکہ کے واسطے تو زادراہ اور امن کی شرط ہے اور کربلا کے واسطے یہ شرط نہیں.اوہ! کربلا کی اتنی عظمت اور اس کی طرف اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر جانا سمجھ کر سُبحان اللہ پڑھتا چلا گیا.بعد میں کسی دوست نے پوچھا کہ کیوں حضرت یہ کیا فرمایا.کہنے لگے کہ اس نے دھوکہ کھایا.میرا مطلب یہ تھا کہ کربلا جانا ثابت ہی نہیں.دیکھو اگر اسے حق کہنا منظور ہوتا تو ایسے مشتبہ لفظ نہ بولتا.پھر فرمایا کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور زکوۃ دیتے رہو.میں نے بہت کم عالموں کو زکوۃ دیتے دیکھا ہے.ان میں زکوۃ کا رواج کم ہے.ارْكَعُوا - فرمانبرداروں کے ساتھ ہو جاؤ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۷ ۱ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۰) أقِيمُوا الصَّلوةَ.نماز کو قائم کرو.بعض کام روزمرہ کی عادت بن جاتے ہیں.پھر ان کا لطف نہیں رہتا.دیکھا گیا ہے کہ زبان سے اللهم صل علی ہو رہا ہے مگر قلب کی توجہ کام کی طرف ہے.پس نماز کوسنوار کر پڑھو اور جو معاہدہ نماز میں کرتے و عملی زندگی میں اس کا اثر دیکھو.زبان سے کہتے ہو ايَّاكَ نَعْبُدُ ہم تیرے فرمانبردار ہیں مگر کیا فرمانبرداری پر ثابت قدم ہو؟ پھر واعظوں کو ڈانٹا
حقائق الفرقان ۲۰۲ سُورَةُ الْبَقَرَة ہے کہ تم دوسروں کو نیکی کی نسبت کہتے ہو اور اپنے تئیں بھلاتے ہو.پس تم دونوں سنانے والے اور سننے والے ثابت قدمی سے کام لو اور دُعا کرو.نماز پڑھو کہ یہ دونوں کام خاشعین پر گراں نہیں.جن کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین ہو وہی حقیقی خشوع کر سکتے ہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۵ مورخه ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲) وَإِقَامِ الصَّلوة - صبح کا وقت ہے اور سردی کا موسم ہے.رات کو احتلام ہو گیا ہے اور صبح کی اذان ہوئی ہے.نماز پڑھنی ہے.پھر چستی سے اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے غسل کرتا اور نماز میں جا کر شامل ہوتا ہے.علیٰ ہذا القیاس.عشاء کا وقت ہے یا عصر کا وقت ہے کہ دوکان پر خریداروں کا جمگھٹا لگا ہوا ہے کہ مسجد سے اذان کی آواز آئی ہے.اور یہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مسجد کو دوڑتا ہے.اسی واسطے صبح اور عشاء کی نماز میں منافق کسل کا ہلی کرتا ہے.الحکم جلد ۹ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) اللہ تعالیٰ ان آیات میں اپنے احسانات یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے احسان کرنے والے کا شکر گذار ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنا اپنا فرض جانتا ہے.پس اللہ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ تم خدا کے ناشکرے کس طرح بنتے ہو.اپنا حال تو دیکھو تم مُردہ تھے ، بے جان ذرات تھے، تمہارا نام و نشان نہ تھا خدا نے تمہیں زندہ، جاندار بنا یا پھر تم مر جاؤ گے پھر زندہ کئے جاؤ گے اور خدا کی طرف پھیرے جاؤ گے..پھر احسان الہی کو یاد کرو کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء تمہارے فائدہ کے واسطے بنا ئیں.پھر تم زمین سے لے کر آسمان تک بلکہ عرش تک نگاہ ڈالو ہر امر میں خدا تعالیٰ کے تمام کاموں کو حق و حکمت سے پُر پاؤ گے.کوئی بات ایسی نہیں ہے جس میں کوئی کمزوری یا خرابی نگاہ میں آ سکے اور خدا سب باتوں کا علیم ہے وہ تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے اور اُن سے باخبر ہے.(البدر جلد نمبر ۳۵ مورخه ۱۷ رستمبر ۱۹۰۸ ء صفحه ۲) واركعوا سوال نمبر ۳.نماز با جماعت کی تاکید میں وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (البقرة: ۴۴) کا ارشاد ہوا ہے.وَاسْجُدُوا وغیرہ نہ ہونے کی مصلحت اور حکمت کیا ہے؟
حقائق الفرقان ۲۰۳ سُورَةُ الْبَقَرَة جواب.رکوع رکعت کا درمیانی حصہ ہے.الفاظ رکوع اور رکعت ایک ہی مادہ سے نکلے ہیں.رکعت میں کھڑا ہونا، بیٹھنا، سجدہ کرنا اور رکوع کرنا سب شامل ہے.جو شخص نماز باجماعت میں رکوع میں آکر مل جائے اس کی رکعت ہو جاتی ہے سجدہ میں آکر ملنے سے وہ رکعت نہیں ہوتی.اس واسطے جماعت نماز کی تاکید کے وقت رکوع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.(البدر جلد ۱۳ نمبر ۱ مورخه ۶ / مارچ ۱۹۱۳ء صفحه ۳) ۴۵.اَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الكتب أَفَلَا تَعْقِلُونَ - ترجمہ.بھلا کیا تم دوسروں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے آپ کو بھولے جاتے ہو حالانکہ تم کتاب بھی پڑھتے رہتے ہو پھر کیا تم کو کچھ بھی عقل نہیں ہے.تفسیر.اَتَا مُرُونَ النَّاسَ.ایسے نہ بنو کہ لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرو اور اپنے تئیں ترک کر دو.تنسون کے معنے ترک کر دینے کے ہیں.قرآن شریف میں ایک جگہ آیا ہے نَسُوا الله فَنَسِيَهُمْ (التوبة: ٦٧) ۶۷) أفَلَا تَعْقِلُونَ.تم کیوں نہیں رکھتے.عقل ایک صفت ہے جس سے انسان اپنے تئیں بدیوں سے روک سکتا ہے.یہ دو گروہ ہوئے.ضعفاء اور علماء.اب تیسرے گروہ کا ذکر آتا ہے یہ امراء کا گروہ ہے.ہمارے ملک میں ان لوگوں کے لئے تو گویا کوئی شریعت ہی نہیں اور نہ کوئی واعظ ہے.ہر قسم کی بدی ان کے لئے مباح ہے.ان کی مجلسوں والے نرے خوشامدی ہیں.ایک امیر نے بینگن کی تعریف کی.حاضرین مجلس نے بھی ہاں میں ہاں ملائی.دوسرے دن اُس نے بینگن کی مذمت کی تو وہ بھی مذمت کرنے لگا.ایک دوست نے کہا کہ یہ کیا؟ کہنے لگا میں تو امیر کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.پس امراء کو خصوصیت سے حکم دیتا ہے کہ روزے رکھو، نماز پڑھو.یہ طریق مشکل ہے مگر خشوع اختیار کرنے والوں کو نہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۰) لے انہوں نے اللہ کو چھوڑ دیا تو اللہ نے بھی ان کو چھوڑ دیا.
حقائق الفرقان ۲۰۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة أَفَلَا تَعْقِلُونَ.یہ غلط ہے جو کہا گیا ہے کہ عقل جو ہر ہے.عقل جو ہر نہیں بلکہ ایک صفت ہے.قرآن شریف میں آیا ہے.لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا - (الحج : ۴۷) عقل کے معنے ہیں روکنا اور باندھنا.جو شخص حکم سن کر پھر نہیں رکھتا وہ لا یعقل ہے.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۷ /اکتوبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۳۹) ۴۶ ۴۷ - وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ۖ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - ترجمہ.اور نیکیوں پر ہمیشگی اور بدیوں سے بچنے اور دعائیں کرنے پر مضبوط رہو اور صبر اور دعا کرنا بڑی باتیں ہیں مگر دل سے ڈرنے والوں کے لئے (نہیں).جو یقین رکھتے ہیں کہ انہیں اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے اور یقینا یقینا اس کی طرف لوٹ جانا ہے.تفسیر.اِنگا کی ضمیر مؤنث ہے جو صبر و صلوۃ کی طرف پھرتی ہے.عربوں میں قاعدہ ہے کہ مذگر و مؤنث مل جاویں تو مذکر کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر علیحدہ مؤنث و مذکر کو ضمیر پھیر نا ہو تو مؤنث ہوگا.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا وَ الَّذِينَ يَكْذِرُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا.(التوبة: ٣٤) ها ضمير فِضَّة کے لحاظ سے مؤنث آیا ہے حالانکہ اشارہ دونوں کی طرف ہے.یہ انگریزوں میں بھی رواج ہے کہ ہاتھ ملانے ، خطاب کرنے میں عورتوں کو مقدم کرتے ہیں.عرب کے شعراء کا بھی یہی مسلک ہے ایک شعر ہے وَمَا ذِكرُ الرَّحْمَن يَوْمًا وَ لَيْلَةً مَلَكْنَاكَ فِيهَا لَمْ تَكُنْ لَيْلَةُ الْبَدْرِ الَّذِينَ يَظُنُّونَ.یقین کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ار فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۰) اسْتَعِينُوا بِالصَّبْر میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے گئے ہیں.روزے کے ساتھ دُعا (البدر جلد ۸ نمبر ۳۳، ۳۴ مورخه ۱۷رجون ۱۹۰۹ء صفحه ۲) قبول ہوتی ہے.لے ان کے دل ایسے ہوتے کہ وہ ان سے سمجھتے.(ناشر) سے اور جو لوگ جمع کرتے ہیں خزانے سونے اور چاندی کے اور ان کو خرچ نہیں کرتے سے الرحمن کا ذکر دن رات رہا اور کوئی پورے چاند کی رات ایسی نہ تھی جس میں ہم نے تجھے اپنے قبضہ میں نہ لیا ہو.( تیرا ذکر غالب نہ رہا ہو ) (ناشر)
حقائق الفرقان ۲۰۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة - يُبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى العلمين - ترجمہ.اے یعقوب کی اولا دا تم میرے ان انعاموں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے اور میں نے ہی تم کو بزرگی دی تھی (اس وقت کے ) سب لوگوں پر.تفسیر - يبني اسراویل.اللہ تعالیٰ مخاطب کرتا ہے ایک قوم کو اور فرماتا ہے کہ تم بہادر سپاہی کی اولا د ہو اور بہادر بنو.میں سمجھتا ہوں تمہیں بھی مخاطب کر کے یہی کہتا ہے.تم اپنے بزرگوں کو دیکھو کہ کس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام نے اسلام کی اشاعت میں اپنی جان تک لڑا دی.صحابہ ایسے بہادر تھے کہ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا دریا کے کنارے پر جاؤ کچھ کام ہے.تین سو آدمی روانہ ہوئے اور میں حیران ہوں کہ یہ نہیں پوچھا کہ ہماری رسد کا کیا انتظام ہو گا.کچھ کھجوریں مدینہ سے لے گئے جو رستے ہی میں ختم ہو گئیں.جب کچھ پاس نہ رہا تو کیکر کے پتے پھانک کر گزارہ کرتے رہے.پھر ایک ویل مچھلی مل گئی جس پر تین سو آدمیوں نے سترہ روز تک گزارہ کیا.دیکھو اتباع کی کیا محبت تھی جو ان لوگوں میں تھی اب میں دیکھتا ہوں کہ کسی کو مالی نقصان ہی پہنچ جائے یا عزت میں فرق آ جاوے یا کسی کے خیال کے خلاف ہی کوئی حکم شرعی ہو تو اسے گراں گزرتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۱،۱۰) اللہ تعالیٰ ہمارا مالک، ہمارا خالق، ہمارا رازق کثیر اور بے انتہا انعام دینے والا مولیٰ فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو.انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت ودیعت رکھی ہے کہ جب کوئی اُس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلَى حُتِ مَنْ أَحْسَنَ الیھا.اور ایسا ہی اُس آدمی سے اُس کے دل میں ایک قسم کی نفرت اور رنج پیدا ہو جاتا ہے جس سے اُس کو کسی قسم کی تکلیف یا رنج پہنچے اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا انسان کا ہے.پس اسی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس مقام پر فرماتا ہے کہ اللہ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو
حقائق الفرقان ۲۰۶ سُورَةُ الْبَقَرَة اور ان کو یاد کر کے اس محسن اور منعم کی محبت کو دل میں جگہ دو.اس کے بے شمار اور بینظیر احسانوں پرغور تو کرو کہ اُس نے کیسی منور اور روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارہ قدرت کو دیکھتے اور ایک حفظ اُٹھاتے ہیں.کان دیئے جن سے ہر قسم کی آوازیں ہمارے سننے میں آتی ہیں.زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں.ہاتھ دیئے کہ جن سے بہت سے فوائد خودہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں.پاؤں دیئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں.پھر ذرا غور تو کرو کہ دنیا میں اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ ادنی سا احسان بھی کرتا ہے تو وہ اس کا کس قدر ممنون ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس احسان کو محسوس کرتا ہے.غرض کل دُنیا کی نعمتوں سے جو انسان مالا مال ہو رہا ہے یہ اس کی ہی ذرہ نوازیاں ہیں.جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اب میں ایک عظیم الشان نعمت رُوح کے فطرتی تقاضے کو پورا کرنے والی نعمت کا ذکر کرتا ہوں.وہ کیا؟ یہ اُس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہوا اور ایک ظلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا.ایک انسان دوسرے انسان کی باوجود ہم جنس ہونے کے، رضا سے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا سے واقف ہونا کس قدر محال اور مشکل تھا.یہ خدائے تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنی رضا کی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الوراء مرضیوں کو ظاہر کرنے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ قائم فرمایا...یہ احسان ہے اللہ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے کہ بھولی بسری متاع اللہ تعالیٰ ، جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اُس کا یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے.یہ انعام ہے.یہ فضل اور احسان ہے اللہ تبارک و تعالی کا...اس آیت میں خدا تعالیٰ اُس فطرت کے لحاظ سے جو انسان میں ہے ارشاد فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کی ہیں.وَ إِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ (البقرة : ۴۸) بنی اسرائیل کو کہتا اور مسلمانوں کو سناتا ہے کہ اور میں نے تم کو دنیا پر ایک قسم کی بزرگی عطا فرمائی ہے.خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اُس سے بہتر اور افضل و ہم میں بھی نہیں آ سکتی.منافق کا نفاق جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے.جھوٹ بولنے والے کے
حقائق الفرقان ۲۰۷ سُورَةُ الْبَقَرَة جھوٹ کے ظاہر ہونے پر وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ پر ان کو کیسا دکھ ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے مذہبی حیثیت سے اپنے پاک اور ثابت شدہ بین اور روشن عقائد اور اصولِ مذہب کے لحاظ سے کل دنیا پر فضیلت رکھتے ہیں.کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعوے سے افضل ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں.خدا تعالیٰ مخفی در مخفی ارادوں اور نینوں کو جانتا ہے اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا بلکہ مَنْ أَنَّ اللَّهَ بِقَلْبِ سَلِيم (الشعراء: ۹۰) کام آتا ہے.٩٠) الحکم جلد ۳ نمبر ۷ مورخه ۳/ مارچ ۱۸۹۹ صفحه ۳تا۵) قرآن کریم عجیب عجیب پیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے.بہادر سپاہی کی اولاد تم بھی غور کرلو ! کوئی اپنے آپ کو سیدہ سمجھتا ہے وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے.کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیدوں کو اپنی جز وقرار دیتا ہے.اسی طرح کوئی مغل ہے.کوئی پٹھان، کوئی شیخ.غرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کو کسی بڑے آدمی سے منسوب کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا؟ اپنے اعمال سے.پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.جو بہادری انسان کو بڑا بنا سکتی ہے کیا اُس بہادری کا ترک کر دینا انسان کو بزدل نہیں بنا سکتا...پس میرے پیارو! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو اور خدا نے تمہیں تیرہ سو برس سے عزت دی تو بڑوں کے کاموں کو نابود کرنے والے نہ بنو.تم خود ہی بتاؤ کہ وہ شرک کرتے ،جھوٹ بولتے ، دھوکا کرتے ، دوسروں کو دُکھ دیتے تھے؟ ہر گز نہیں.تو کیا تم ان افعال کے مرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو؟ بنی اسرائیل کو تو خدا نے شام میں بڑائی دی تھی مگر اسلام نے یہاں تک معزز کیا کہ تمہیں سارے جہان میں عظیم انسان بنادیا.اس نعمت کا شکر کرو کیونکہ یہ آیت نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمتُ عَلَيْكُمْ وَإِنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ تمہیں انعامات الہی یاد دلانے کے لئے نازل ہوئی ہے.اگر تم انعام النبی کی ناقدری کرو گے تو اس کا وعید تیار ہے کیونکہ جس طرح نیکی کا پھل اعلیٰ درجے کا آرام ملتا ہے ایسا ہی بدی کا پھل بھی ذلت و ادبار کے سوا کچھ نہ ہو گا.یہود کو کفرانِ نعمت کی سزا میں پہلے مدینہ ے ہاں جو آئے گا اللہ کے پاس بے عیب دل لے کر.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۰۸ سُورَةُ الْبَقَرَة سے نکالا گیا تو لبِن أُخْرِجْتُمُ لَنَخْرُجَنَ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيكُمْ أَحَدًا اَبَدًا وَ إِنْ قُوتِلْتُم لنَنْصُرَتكم (الحشر:۱۲) کہنے والے کچھ کام نہ آئے.پھر جب مدینہ سے نکالے گئے تو ان کا کوئی مددگار نہ ہوا.اسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی معاملہ ہوا.سپین سے ایک دن میں نکال دیئے گئے لاکھوں لاکھ تھے جنہوں نے جانے سے ذرا چون و چرا کی ان کو عیسائی بنالیا گیا.اب سیاحوں سے پوچھو اسلام کا وہاں نام نشان تک نہیں.مسجدیں ہیں اور چند عدالت کے کمرے.وہ تمہارے رُلانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں..غرض اگر بنی اسرائیل کو یہ احسان یاد دلایا ہے تو مسلمانوں کے فرعون کو خشکی میں غرق کر کے اس کے بعد کئی انعامات ان پر کئے ہیں.اب اگر وہ ناشکری کریں گے تو سزا پائیں گے.جس طرح حضرت موسیٰ کو چالیس روز خلوت میں رکھا اُسی طرح ہماری سرکا ر بھی غار حرا میں رہے.الفضل جلد نمبر ۱۷ مورخه ۸ /اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) اسراءیک کے معنے ہیں بہادر سپاہی اے بہادر سپاہی یعنی اسحق کی اولا د تم میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہارے بزرگوں پر کئے.احسان اللہ تعالیٰ نے اس لئے یاد دلائے کہ یہ انسان کا فطری تقاضا ہے کہ جب وہ اپنے محسن کے احسانات یاد کرتا ہے تو خواہ مخواہ اُس کے دل میں اپنے محسن کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس کا دل چاہتا ہے کہ میں بھی اپنے محسن کو کسی طرح سے خوش رکھوں.اُس کی فرمانبرداری اور اس کا شکریہ ادا کروں کہ شکریہ اور فرمانبرداری میں خدا کی رحمت اور اُس کے فضل کی ترقی کا راز پنہاں ہے.اس لئے خدا نے فرمایا کہ أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى العلمينَ " پھر اگلی آیت میں یہ فرما کر ڈرایا کہ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ - ٣ لے اگر تم نکال دیئے جاؤ گے ملک سے تو ہم بھی ضرور نکل کھڑے ہوں گے تمہارے ساتھ اور ہم تو تمہارے مقدمہ میں کبھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہونے لگے گی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے.(ناشر) اور میں نے ہی تم کو بزرگی دی تھی (اس وقت کے) سب لوگوں پر.(ناشر) سے اور تم اُس دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی آدمی کسی آدمی کے ذرہ کام نہ آئے گا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۰۹ سُورَةُ الْبَقَرَة ایک طرف تم کو میں اپنے احسانات اس لئے یاد دلاتا ہوں کہ تا تمہاری سوئی ہوئی فطرتیں بیدار ہو کر محسن کے بھیجے ہوئے شخص کو تسلیم کر لیں.اگر تم میرے بھیجے ہوئے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو تو یا درکھو کہ جیسی بزرگی میں نے تم کو اپنے اور انبیاء کے قبول کرنے پر دی تھی ویسی اب دوں گا اور تمہارے تمام خوف حزن فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ کے ماتحت دور کر دوں گا لیکن اگر تم اس کی اتباع نہیں کرو گے تو یا درکھو کہ ایک وہ دن آنے والا ہے کہ اس وقت کوئی کسی کے کام نہیں آئے گا.نہ اُس روز کسی کی سفارش قبول ہوگی اور نہ کسی کو جرمانہ لے کر بغیر سزا کے چھوڑا جاوے گا اور نہ وہاں پر کوئی کسی کی مدد کر سکے گا.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۳۱ / اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۵۶) ۴۹.وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةً وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْكَ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ - ترجمہ.اور تم اُس دن سے ڈر جاؤ جس دن کوئی آدمی کسی آدمی کے ذرہ کام نہ آئے گا اور نہ کوئی سفارش قبول ہوگی اس کی طرف سے اور نہ کفارہ ہی لیا جائے گا اُس کی طرف سے اور نہ اُن کو کہیں سے مدد ہی ملے گی.تفسیر.احمدی قوم پھر قادیان کے رہنے والے خصوصیت سے اس پر غور کریں.ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ کوئی جی کسی جی کے کام نہیں آسکتا.والدہ کو کتنی محبت ہوتی ہے مگر ذرا بچے کے پیٹ میں درد اُٹھے وہ اس درد کو بانٹ ہی نہیں سکتی.سب سے زیادہ محبت کرنے والے تو پیر ہوتے ہیں.ان پیروں میں سے سب سے بزرگ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے ہمیں لگنے لموتنے تک کی جانچ سکھائی.پھر ہم نے اپنے امام کو دیکھا.میں بیمار ہوتا تو وہ میرے لئے قربانیاں کرتے اور بار بار مکان کی تبدیلی کراتے اور دم بدم خبر منگواتے.ایسا درد کسی میں ہوسکتا ہے؟ پھر بھی جب وہ فوت ہونے لگے تو ہم نے کیا کر لیا.بعض وقت سفارش بھی لے جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہوگا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۱۰ سُورَةُ الْبَقَرَة کام دے جاتی ہے مگر ایک وقت سفارش بھی نہیں مانی جاتی.مؤاخذہ النبی کا وقت ایسا آتا ہے کہ وَ لَا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةُ یہاں شفاعت کی مطلق نفی نہیں ہے کیونکہ الّا یا ذیہ کا استثناء دوسرے مقام پر موجود ہے.وَلَا يَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَى (الانبیاء: ۲۹) قرآن میں آ چکا ہے.دیکھو یہودیوں پر ایک وقت آیا کہ لَبِن أُخْرِجُتُم لَنَخْرُجَنَ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيْعُ فِيْكُمْ أَحَدًا اَبَدًا وَ إِنْ قُوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُم (الحشر: ١٢) کہنے والے بھی کچھ بھی اُن کے کام نہ آ سکے.(۱۲: ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۱) اللہ تعالیٰ کے انعام یاد کر کے مومن اس بات کو سوچے کہ ایک وقت آتا ہے.وَاتَّقُوا يَوْمًا.ایک وقت آتا ہے کوئی دوست، آشنا، اپنا برگا نہ کچھ کام نہیں آتا.دُنیا میں نمونہ موجود ہے انسان بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کی بیماری کو نہیں بٹا سکتے.یہ نمونہ اس بات کا کہ یہ سچی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے وقت کوئی کام نہیں آتا.کسی کی سپارش اور جرمانہ کام نہیں آتا اس لئے اُس دن کے لئے آج سے ہی تیارر ہو.پس خدا تعالیٰ کے فضل کو یاد کر کے محبت الہی کو زیادہ کرو اور غفلتوں اور کمزوریوں کو چھوڑ دو اور اپنے وعدوں پر لحاظ کرو کہ دین کو دُنیا پر مقدم رکھیں گے.“ رنج و راحت، عسر ئیسر میں قدم آگے بڑھائیں گے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور بھائیوں سے محبت کریں گے.پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ جو وعدوں کے خلاف کرتا ہے وہ منافق ہوتا ہے.جھوٹ اور وعدوں کی خلاف ورزی کرتے کرتے انسان کا انجام نفاق سے مبدل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اس سے بچائے اور صدق، اخلاص اور اعمال حسنہ کی توفیق دے.آمین الحکم جلد ۳ نمبر۷ مورخه ۳ مارچ ۱۸۹۹ صفحه ۶) لا تَجْزِى نَفْسٌ عَن نَّفْسِ.جب مدینہ کے بنی اسرائیل کو بہکا یا تو وہ جلا وطن ہوئے یقینا یہی دن مراد ہے.قیامت کا ذکر نہیں.تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۳۷) لے اور اللہ جن سے راضی نہیں وہ ان کی شفاعت نہیں کرتے.۲.اگر تم نکال دیئے جاؤ گے ملک سے تو ہم بھی ضرور نکل کھڑے ہوں گے تمہارے ساتھ اور ہم تو تمہارے مقدمہ میں کبھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے لڑائی ہونے لگے گی تو ہم ضرور تمہاری مددکریں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۱۱ سُورَةُ الْبَقَرَة يَوْمًا لَا تَجْزِی - یوم سے مطلب قیامت کا دن بھی ہے اور وہ دن بھی ہے جو خدا نے کفار کو جنگ بدر میں قیامت کے ثبوت میں دکھلایا.کیونکہ مومن اور مسلمان تو جزا وسزا کو اپنے عقیدہ کے موافق یقین جانتے ہیں.پر کفار کی تسلی بھی تو ضروری تھی کہ دیکھو جس طرح اس دنیا میں جب تم کو خدا کے عقاب سے کوئی نہ بچا سکا تو قیامت میں تم کو کون بچا سکتا ہے اور یہود کے لئے تو وہ دن ہے جب جلا وطن ہوئے اور قریظہ قتل ہوئے.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱/۳۱اکتوبر ۱۹۱۲ صفحه ۵۶) ۵۰ وَ اِذْ نَجَيْنَكُمْ مِّنْ اِلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ ابْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ وَ فِي ذَلِكُم بَلَاءٍ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ - ترجمہ.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہمیں نے تمہیں فرعونیوں کے پنجے سے چھڑایا تھاوہ تمہیں بری بری تکلیفیں دیتے تھے تمہارے بیٹوں کو وہ ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو وہ جیتا رہنے دیتے تھے یا اُن کی حیا دور کر دیتے تھے اور اس مصیبت میں بھی تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے ایک b انعام عظیم تھا.تفسیر.وَإِذْ نَجَّيْنَكُمْ مِنْ إِلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُم (البقرة : ۵۰).یاد کرو جب ہم نے بچایا تم کو فرعونیوں سے تم کو برا دکھ دیتے اور تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے.اور فرماتا ہے اِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُم (البقرۃ: ۵۱).اور جب فرق ڈال دیا ہم نے تمھارے لئے دریا میں اور پھر بچا لیا تم کو.پھر فرماتا ہے.ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ انْتُم ظلِمُونَ (البقرة: ۵۲).پھر بنالیا تم نے بچھڑے کو معبود پیچھے اس کے اور تم ظالم ہو.( ریویو آف ریلیجنز.جلدے نمبر ۷۶.جون جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۲۷۷) يَسْتَحْيُونَ.عورتوں کو زندہ رکھتے.دوسرے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ ان کے حیا کو سلب کرتے.بَلاءُ مِّن رَّبِّكُم - انعام ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۱) تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحہ ۴۳۷)
حقائق الفرقان ۲۱۲ سُورَةُ الْبَقَرَة پھر بنی اسرائیل کو اپنے احسانات یاد دلا کر فرماتا ہے کہ دیکھو اس زمانہ کو یاد کرو جبکہ فرعونی تمہاری لڑکیوں کو زندہ رکھتے تھے اور تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے.پھر دیکھو ہم نے تم کو ان سے نجات دلائی اور تمہاری آنکھوں کے سامنے ان ظالموں کو غرق کیا.کیا یہ کچھ تھوڑا سا احسان تھا.پھر جب ہم نے موسیٰ کو کتاب کا وعدہ دیا اور وہ جیسا کہ عبادت الہی کے لئے تنہائی کے لئے نہایت مناسب موقع ہوتا ہے کوہ طور پر تم سے علیحدہ چلا آیا تو تم نے اس کے بعد میں خدا کے احسانات کو بھلا دیا اور ایک بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر اپنی جان پر ظلم کیا مگر دیکھو ہمارے رحم کو کہ ہم نے تمہاری اس نہایت عظیم الشان خطا کو بھی معاف کر دیا اور یہ اس لئے تا کہ تم شکر کرو.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۳۱ ۱۷ کتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۵۶) ۵۱- وَاذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَانْجَيْنَكُمْ وَاغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَ انْتُمْ تَنْظُرُونَ - ترجمہ.اور وہ وقت بھی یاد کرو کہ جب ہمیں نے تمہارے لئے سمندر کو چیر کر ہٹا دیا.پھر سلامتی کے کنارے پر تمہیں پہنچادیا اور فرعونیوں کو تمہاری آنکھوں کے سامنے وہیں ڈبادیا.تفسیر.اور جب الگ کر دیا ہم نے تمہارے لئے دریا کو پھر بچالیا تمہیں اور غرق کر دیا ہم نے فرعونیوں کو اور تم دیکھتے رہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۰۲،۲۰۱) فرقنا بكم - دریا کو تمہارے لئے الگ کر دیا.کس طرح کیا.دوسری آیت میں فرمایا ہے فَاضْرِبُ رووو لَهُمُ طَرِيقًا فِي الْبَحْرِ يَبَسًا (طه: ۷۸) ایک راستہ اس دریا میں خشک نکال دیا ہے.انْتُم تنظرُونَ.ایک فضل تو یہ تھا کہ دشمن کو ہلاک کر دیا اب دوسرا افضل یہ ہوا کہ دشمن کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ رفروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۱) تنظرُونَ میں ایک خاص لذت ہے.دشمن کو ہلاک تو کیا مگر آنکھوں کے سامنے.دشمن تو مرا ہی کرتے ہیں مگر آنکھوں کے سامنے کسی دشمن کا ہلاک ہونا ایک لذیذ نظارہ ہے جو آخر اس متقی کو (البدر جلدے نمبر ۳ مورخه ۲۳ /جنوری ۱۹۰۸ ء صفحه ۸) نصیب ہوا.لے پھر ان کے لئے راستہ تلاش کر خشک دریا میں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۵۲، ۵۳ - وَاِذْ وَعَدْنَا مُوسَى اَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ انْتُمْ ظَلِمُونَ.ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - ترجمہ.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کے لئے (اپنے حضور میں ٹھہرنے کے واسطے ) چالیس رات میعاد مقرر کی پھر تم نے موسیٰ کے پیچھے بچھڑے کی پوجا شروع کی اور تم مشرک ہو گئے.پھر تمہاری (ایسی بے ہودہ حرکت پر بھی) ہم نے تم کو معاف کیا تا کہ تم (ہماری مہر بانیوں کو دیکھ کر ) شکر گزاری اختیار کرو.تفسیر.وَ اَنْتُمْ ظلِمُونَ.اور تم مُشرک ہو گئے.إِنَّ الشَّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (لقمن : ۱۴) تَشْكُرُونَ - تاتم قدر کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۹ صفحه۱۱) عفونا.اس لئے کہ اس شرک سے توبہ کر لی.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۳۷) ۵۵،۵۴- وَ إِذْ أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَب وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَ إِذْ قَالَ مُوسى لِقَوْمِهِ يُقَومِ إِنَّكُمْ ظَلَمُتُم اَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بارِيكُم فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ عِنْدَ بَارِيكُمُ ، فَتَابَ عَلَيْكُم إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - ترجمہ.اور (وہ بھی یاد کرو) جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور حق اور ناحق میں فیصلہ کرنے والی چیز دی تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم کچھ شک نہیں کہ تم نے ظالمانہ اور مشرکانہ کارروائی کی اپنی جانوں کے لئے کیونکہ تم نے بچھڑے کی پوجا اختیار کی.مناسب ہے کہ تم اپنے سچے پیدا کرنے والے کی طرف متوجہ ہو اور اللہ کے حضور اپنی جانوں کو قربان کر دو (مشرک سرداروں کو مار ڈالو) تمہارے واسطے تمہارے پیدا کرنے والے کے نزدیک یہی بہتر ہے.اس پر بھی تمہارا رب متوجہ ہوا تمہاری طرف.بے شک وہ تو بہ کرنے والوں کو بڑا معاف کرنے والا سچی محنت کا بدلہ دینے والا ہے.کچھ شک نہیں کہ شرک بڑا ہی ظلم ہے.(ناشر) b
حقائق الفرقان ۲۱۴ سُورَةُ الْبَقَرَة الْفُرْقَانَ.وہ مددجس سے دشمن اور موسیٰ کے درمیان فیصلہ ہوا وہ یہی کہ فرعون غرق ہو گیا اور بنی اسرائیل نجات پاگئے اور عمدہ ملکوں کے وارث ہوئے.حضرت موسی علیہ السلام ایک زمانہ میں طور پر تشریف لے گئے.ایک شریر آدمی نے بچھڑا بنایا اور ان لوگوں سے کہا کہ یہی موسی کا معبود تھا وہ بھول کر پہاڑ پر چلا گیا.تم لوگ غالباً تعجب کرو کہ ایک قوم بچھڑے کو کیونکر خدا ٹھہراسکتی ہے سوئیں تمہیں سناتا ہوں کہ دیکھو آ جکل ہندو کیسے ذہین اور چالاک ہیں پھر بھی پتھروں کو معبود سمجھتے ہیں.بچھڑے میں تو پھر ایک آواز تھی پتھر میں یہ بات بھی نہیں.پھر پتھروں پر ہی اکتفا نہیں بلکہ جمنا جی ، گنگاجی اور اس قسم کی کئی ندیوں کی پرستش کرتے ہیں.خیر یہ تو ہندو ہیں.مسلمانوں کا حال بھی اچھا نہیں.لاہور دارالسلطنت ہے اس کی نسبت دارا شکوہ لکھتے ہیں کہ یہاں تیس ہزار حفاظ قرآن شریف موجود ہیں باوجود اس کے پھر علم قرآن ایسا مفقود ہے کہ وہاں بھی گھوڑے شاہ کی خانقاہ ہے.پھر اس قسم کی ہزاروں قبریں ہیں جن پر ٹلیاں یا رستے چڑھتے ہیں.اس کی وجہ کیا ہے؟ صرف یہی کہ کوئی قوم خواہ کس قدر اچھی ہو جب بُروں سے اس کا تعلق ہو تو ان کی رسم و عادت نیکوں میں بھی رواج پذیر ہو جاتی ہے.دیکھو مسلمان جانتے ہیں صبر بھی اچھی چیز ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بے صبری کا نتیجہ کچھ بھی نہیں اور پھر یہ بھی جانتے ہیں کہ چیخ کر رونا جائز نہیں.با وجود اس کے شیعہ کو دیکھ کرشتی بھی محترم میں روتے پیٹتے ہیں اور تعزیئے بناتے ہیں.میں نے تعزیہ بنانے والوں کو پوچھا ہے کہ یہ واقعی امام حسین کی قبر ہے تو وہ کہتے ہیں نہیں.پھر جب یہ جتایا گیا کہ جو دن امام حسین کے قبر بنانے کا ہے اس دن تم اس قبر کو توڑتے ہو تو وہ بہت نادم ہوئے.غرض انسان کی غیرت اٹھ جاتی ہے اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے.یہاں بنی اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا کہ فرعونیوں میں رہتے رہتے وہ اپنے خدا کو بھول گئے اور گائے کی عظمت ان کے دلوں میں گھر کر گئی اور وہ اس کی پوجا کرنے لگ گئے تو خدا نے فرمایا.تُوبُوا الى باري تم اپنے گھڑنے والے کی پرستاری کرو.فَاقْتُلُوا انْفُسَكُم.اس کے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ اس جرم کے جو سرغنہ ہیں ان کو قتل کر
حقائق الفرقان ۲۱۵ سُورَةُ الْبَقَرَة دو.جو عام تھے ان کو خدا نے معاف فرما دیا جیسا کہ آگے فرمایا.فَتَابَ عَلَيْكُمْ - ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۱) الْفُرْقَان.جب دشمن کی کمر ٹوٹ جائے.(تعویذ الاذهان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۳۷) بڑے تعجب کی بات ہے کہ لوگ شرارتیں کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں.موسی نے اپنی قوم کو کہا يُقَومِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمُ انْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ (البقرة : ۵۵) تم نے بچھڑے کو خدا بنالیا اور اپنے او پر ظلم کیا حالانکہ خدا کے تم پر بڑے بڑے احسان ہیں.فتوبوا إلى بارِ یکھ اپنے پروردگار کی طرف توجہ کرو اور اللہ تعالیٰ نے انسان پر بڑے بڑے فضل و احسان کئے ہیں.اس کے قابو میں خدا نے ہر ایک چیز کر دی ہے.ہاتھی جیسا بڑا جانورانگوٹھے کے اشارہ پر چلتا ہے.اونٹ کو ایک تکمیل کے اشارہ سے چلا لیتا ہے.اسی طرح پر ہزاروں کام جانوروں سے نکالتا ہے.طوطے سے توپ بندوق چلوا لیتا ہے.بعض لوگ احسن تقویم کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاه رنگ اور بدصورت بھی ہوتے ہیں بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابو میں کر دیا.سرکس میں کسی نے تماشا دیکھا ہو گا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں.یہ سب اللہ کے احسان ہیں.ہر قوم میں غریب سے غریب اور امیر سے امیر لوگ موجود ہیں لیکن اُمراء کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم پر بڑا احسان ہوا ہے.اس زمانہ کا بڑا بچھڑا روپیہ ہے جس کے پاس یہ ہوا اس کی بڑی عزت و توقیر ہوتی ہے.اگر وہی روپیہ والا انسان غریب ہو جاوے تو اُسے پوچھتا بھی کوئی نہیں.روپے کے پیچھے خواہ نماز الفضل جلد نمبر ۱۸ مورخه ۱۵ اکتوبر ۱۹۱۳ صفحه (۱۵) روزہ حج جائے مگر کوئی پرواہ نہیں.عجل.بچھڑا.اے بنی اسرائیل ہم نے تو تم کو تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی پر تمہاری عقل کو کیا ہو گیا تھا کہ تم نے ایک بچھڑے کو جو تمہارا خادم ہونے کے سوا مخدوم ہونے کی بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحه ۵۶) معبود بنا لیا.پھر ہم نے کہا.اُقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ یعنی ان لوگوں کو قتل کرو.جنہوں نے بت پرستی کی.
حقائق الفرقان ۲۱۶ سُورَةُ الْبَقَرَة بار یکم.( خالق کا مرادف نہیں ) مختلف اشیاء میں سے خلاصہ درخلاصہ نکالنے والا.انسان کو ممتاز کرنے اور مصیبت سے نکالنے والا.اسی کی طرف قرآن مجید میں اشارہ - مِنْ سُللَةٍ مِّنْ طين (المؤمنون: ١٣) البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲ء صفحه (۶۱) ۶ ۵ تا ۵۸ - وَإِذْ قُلْتُم يَمُوسى لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَاخَذَ تَكُمُ الصَّعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُونَ - ثُمَّ بَعَثْنَكُم مِّنْ بَعْدِ مَوتِكُمْ لَعَلَّكُم تَشْكُرُونَ.وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلوى كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ - ترجمہ.پھر جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تیری باتوں کو ہرگز نہیں مانیں گے جب تک کہ ہم خود اللہ کو کھلم کھلا سامنے نہ دیکھ لیں تو تمہاری اس گستاخی کی وجہ سے تم کو کڑکتی بجلی نے پکڑ لیا اور یہ تمہارے آنکھوں کے سامنے ہوا.پھر اس موت کی حالت سے تم کو ہم نے اٹھا کھڑا کیا تا کہ تم شکر گزار بن جاؤ.اور ہم نے تم کو بادلوں کے سایہ میں رکھا اور تم پر من وسلویٰ اتارا ( اور حکم ہو گیا کہ ) تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ ہماری دی ہوئی اور ہم نے ان پر مہربانی کرنے میں کچھ کمی نہیں کی ہمارا تو انہوں نے کچھ نہ بگاڑ مگر وہ اپنا نقصان آپ ہی کرتے رہے.تفسیر - جَهْرَةً.خدا کوکھلا دیکھ لیں یا یہ بات کھل کر کہہ دی.مَوْتِكُمْ - غشی از صاعقہ.ظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ - مصیبتوں کے وقت بادلوں کا سایہ بھیجا.من.جو رزق بِلا محنت کسی انسان کو ملے.الْكَمِئَةُ مِنَ الْمَنِ لڑکے جو روٹی کھاتے ہیں میرے خیال میں وہ بھی من ہے کیونکہ ان کو وجہ معاش کے لئے کچھ پریشانی نہیں اٹھانی پڑتی.سلوی.عربی زبان میں شہد کو بھی کہتے ہیں جو جنگلوں میں بافراط مل جاتا تھا اور چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھی کہتے ہیں.اہ مٹی کے خلاصہ سے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۱۷ سُورَةُ الْبَقَرَة ظلمونا.ہمارا نقصان نہیں کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸رفروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۱) کی.نَدَى اللهَ جَهْرَةً.یہ گستاخی کی.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۷) الضُّعِقَةُ - عذاب سخت محنت کے بغیر جو رزق ملتا ہے اس کو عربی میں من کہتے ہیں اس لئے لکھا کہ الْكَمْأَةُ مِن الْمَنِ یعنی کھبی بھی من سے ہے اور ترنجبین.اور اس کے معنی میں شیر خشت اور تمام جنگل کی اشیاء.ان سب کو من میں داخل کیا گیا ہے.ایک دفعہ پنجاب میں قحط پڑا تھا.بہت بڑھے ابھی تک اس کو جاننے والے موجود ہیں اس میں مزگن نام ایک بوٹی بہت پیدا ہوئی تھی اسی پر لوگوں کا گزارہ تھا.اسی واسطے اس سال کو مڑکن کا سال کہتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جنگل کے درمیان مصیبت کے ایام میں جنگلی اشیاء سے سہارا بخشا اور بھوک کے عذاب سے ہلاک نہ ہونے دیا...بنی اسرائیل چالیس برس اس ملک میں رہے جو ملک فلسطین اور بحیرہ قلزم کے درمیان ہے.انسانی ضرورتیں بغیر پانی کے پوری نہیں ہو سکتیں.اللہ تعالیٰ نے ان دنوں ضروری وقتوں پر مینہ برسائے یہ ان پر خاص فضل تھا اور کرم کی نگاہ تھی.والا خشک سالیوں میں ہلاک ہو جاتے.جب موسی کے قصہ میں مشکلات پیش آویں تو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملات سے وہ مشکل بخوبی حل ہو سکتی ہے.موسیٰ کا قصہ بسط کے ساتھ قرآن کریم میں صرف اسی واسطے ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موسی علیہ السلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے چنانچہ آپ کے لئے ضرورت کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے بادل کا سایہ کر دیا جیسے کہ غزوہ بدر اور احزاب میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح بارش کی سخت ضرورت پیش آئی تو اُس وقت خدا تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ مومنوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھا.استسقاء کی نماز ایسے ہی وقتوں کے لئے مسنون ہوئی.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۸،۲۱۷) انتشاری بجلی سے ہلاکت اور نقصان اگر تم نے نہیں سنا تو کسی سائنسدان سے دریافت کرو اور کچھ ہم بھی بتا دیتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ جس وقت جناب موسیٰ علیہ السلام چند منتخب لوگوں کو طور کے قریب
حقائق الفرقان ۲۱۸ سُورَةُ الْبَقَرَة لے گئے اُس وقت پہاڑ پر آتش افشانی ہو رہی تھی اور بجلیاں اپنی چمک دمک دکھلا رہی تھیں.جناب موسیٰ علیہ السلام نے حسب ارشاد الہی قوم کو روک دیا تھا کہ پہاڑ کے اوپر کوئی نہ جاوے اور ہم نے ظاہر کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ بائیبل کو قرآن پر پال نے ترجیح دی ہے پس اُس نے بائیبل کو پڑھا ہو گا.کتاب خروج میں مفصل موجود ہے اور قرآن کریم کے ان کلمات طیبات پر اعتراض کیا ہے.ا - فَأَخَذَ تَكُمُ الصُّعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُونَ ٢ ثُمَّ بَعَثْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - (البقرة: ۵۶،۵۷) پکڑ لیا تم کو کڑک نے اور حال یہ ہے کہ تم دیکھتے تھے.پھر اٹھا یاتم کو تمہاری موت کے بعد تو کہ تم قدردانی کرو.صاعقه، صعق سے نکلا ہے.صعق کے معنی میں لکھا ہے.الصَّعْقُ أَنْ يُغْشَى عَلَيْهِ مِنْ صَوْتٍ شَدِيدٍ يَسْمَعُهُ وَرُبَّمَامَاتَ مِنْهُ (مجمع البحار) صعق یہ ہے کہ بے ہوشی پڑ جاوے کسی پر کسی سخت آواز سے جس کو اس بے ہوش ہونے والے شخص نے سنا اور کبھی اس سے موت بھی ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں آیا ہے.وَخَرِّ مُوسى صَعِقَا فَلَمَّا آفَاقَ (الاعراف: ۱۴۴) موسی بے ہوش ہو کر گر پڑے پس جب افاقہ آیا.پھر مجمع البحار میں لکھا ہے.يُنتَظَرُ بِالْمَصْعُوقِ ثَلَاثَا مَالَمْ يَخَافُوا عَلَيْهِ نَتَنَا وَهُوَ الْمَغْشَى عَلَيْهِ أَوْ مَنْ يَمُوْتُ فَجَانَةً وَلَا يُعْجَلُ دَفْنُه - جس پر صاعقہ گرے اور اس کو تین دن تک دفن نہ کیا جاوے جب تک سڑ جانے کا ڈر نہ ہو.اور یہ وہ ہے جس پر غشی ہو یا اچانک مرجاوے دفن میں جلد بازی نہ کی جاوے.مفردات راغب میں لکھا ہے الصَّاعِقَہ تین قسم کا ہوتا ہے.(۱) موت.فرمایا ہے فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّبُوتِ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ (الزمر : ٢٩) ے تو بے ہوش ہو جائیں گے جو آسمان اور زمینوں میں ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۱۹ سُورَةُ الْبَقَرَة (۲) عذاب.فرمایا ہے اَنْذَرُ تُكُمُ صُعِقَةً مِثْلَ صُعِقَةِ عَادِ وَثَمُودَ (حم السجدة : ۱۴) (۳) آگ.فرمایا.يُرْسِلُ الصَّوَاعِقَ فَيُصِيبُ بِهَا مَنْ يَشَاءُ (الرعد: ۱۴) اس بیان سے اتنا معلوم ہو گیا کہ صاعقہ.بیہوشی ،موت ، عذاب اور نار کو کہتے ہیں.دوسرا لفظ قابلِ غور موت کا لفظ ہے.موت کے معنی مجمع الجار میں جو لغت قرآن وحدیث کی جامع کتاب ہے یہ ہیں.ا.موت کے معنی سو جانا.حدیث میں آیا ہے آحْيَانَا بَعْدَمَا آمَاتَنَا.۲.موت کے معنی سکون.کیا معنی؟ حرکت نہ کرنا.مَاتَتِ الريحُ ہو ا ٹھہر گئی.۳.موت ، حیات کے مقابلہ ہو ا کرتی ہے اور حیات کے معنی میں آیا ہے قوت نامیہ کا بڑھنا.قرآن کریم میں آیا ہے يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید: ۱۸) زمین کو اللہ تعالیٰ اُس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے.۴.قوتِ حسیہ کے زوال پر موت بولتے ہیں.قرآن کریم میں آیا ہے لِدَيْتَنِي مِثْ قَبْلَ هُذَا (مریم: ۲۴) کیا معنے؟ بچہ جننے سے پہلے میری قوتِ حسیہ نہ رہتی کہ درد تکلیف دہ ہوتا.۵ - جهل و نادانی کو موت کہتے ہیں.قرآن میں یہ معنے آئے ہیں.اَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَاحْيَيْنَهُ " (الانعام: ۱۳۳).حزن.۷.خوف مکڈر کو موت کہتے ہیں.قرآن میں یہ محاورہ آیا ہے يَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كل مكان (ابراهیم: ۱۸) ہر طرف سے اس پر خوف اور غم آتے تھے.احوال شاقہ.فقر.ذلت.سوال کرنا.بڑھاپا.۹.اور معصیت وغیرہ کو موت کہتے ہیں.حدیث میں آیا ہے اَوَّلَ مَنْ مَاتَ اِبلیس - ا میں نے تم کو ڈرایا ہے ایک ایسے عذاب سے جیسے عاد اور ثمود کی قوم پر ہوا تھا.سے وہی بھیجتا ہے گرنے والی بجلیوں کو پھر ان کو گراتا ہے جن پر وہ چاہتا ہے.(ناشر) سے اُس (خدا) نے ہمارے مرنے (سوجانے ) کے بعد ہمیں زندہ کیا.(ناشر) ہے بھلا ایک مردہ تھا پھر ہم نے اس میں جان ڈالی.۵.سب سے پہلے جو مرا وہ ابلیس ہے یعنی نافرمانی کر کے روحانی موت مرنے والا پہلا فردا بیس ہے.
حقائق الفرقان ۲۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۱۰.اور آیا ہے اللبن لا يموت زندہ سے جو جز والگ ہو وہ مردہ ہے مگر دودھ.بال.اُون مردہ نہیں ہوتے.یہ موت کے معنے ہوئے اور اسی طرح مفردات راغب میں موت کے بہت معنی بتائے ہیں.اور تیسر ا لفظ بعث کا ہے.(۱) بعث کے معنی بھیجنا.قرآن میں ہے وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رسُولاً (النحل : ٣٧) ۲.اٹھانا.قرآن میں ہے ثُمَّ بَعَثْنُهُم ۳ (الکھف:۱۳) حدیث میں ہے فَبَعَثْنَا الْبَعِير (صحیح بخاری، کتاب التیمم باب نمبر ا روایت نمبر ۳۳) ۳.متوجہ کرنا.قرآن میں ہے وَلكِن كَرِهَ اللهُ انْبِعَاثَهُمْ (التوبة: ۴۶) لیکن خدا نے انہیں متوجہ کرنا نہ چاہا.۴.جگا دینا.آتانی اتيَانِ فَبَعَثَانِي أَى أَيْقَظَانِي مِنَ النَّوْمِ.انہوں نے مجھے نیند سے جگایا.۵.بھڑک اُٹھنا.قرآن میں ہے اِذا بَعَثَ اشقهَا (الشمس: ۱۳) جب کہ انہیں کا بڑا بد بخت بھڑک اُٹھا.اور بعث بمقابلہ موت کے بھی ہوتا ہے اس لئے جس قدر موت کے معنی ہیں ان کے مقابلہ میں بعث ہوگا.قرآن میں ہے بَعَثْنَكُمْ مِنْ بَعْدِ مَوْتِكُمْ ل (البقرة: ۵۷) - صَاعِقَہ.موت اور بعث کے معنی جب معلوم ہوئے اور سمجھے گئے تو معلوم رہے کہ صاعقہ کے دو طریق ہیں.اس کا آنا اور گرنا.اس میں تو نقصان کم پڑتا ہے اور ایک دو تین سے زیادہ آدمی اس میں نہیں مرتے.دوسرا واپس ہونا اور اس کا انتشار کرنا.واپسی کے وقت بجلی یا صاعقہ بہت لوگوں کو دُکھ دیتی ہے، غشی ہوتی ، ہڈیاں ٹوٹتی ، نفاطات نکلتے ہیں.لے دودھ مردہ نہیں ہوتا.سے ہم نے بے شک ہر ایک امت میں رسول بھیجے.۳.پھر ہم نے اُن کو اٹھایا.ے پھر ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا.۵ لیکن اللہ ہی نے ناپسند کیا ان کا اٹھنا.(ناشر) 1 اس موت کی حالت سے تم کو ہم نے اٹھا کھڑا کیا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اب ہر دو آیہ کریمہ کے معنی بتاتے ہیں مگر اتنا اور یادر ہے کہ یہاں جناب الہی نے اَخَذَتْكُم رووو الصعِقَةُ فرمایا ہے اَهْلَكَهُمُ الصَّاعِقَةُ نہیں فرمایا پھر اس کے ساتھ بتایا ہے کہ وَ انتُم تنظرُونَ اِس کے کیا معنے کہ جنہیں بجلی یا صاعقہ نے پکڑا وہ دیکھ رہے تھے.لہذا اس آیت شریفہ اَخَذَ تُكُمُ الطَّعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُونَ (البقرة : ۵۲) کے یہ معنی ہوئے کہ تم کو خاص صاعقہ نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے..خاص کا ترجمہ ہم نے لفظ ال سے لیا ہے جو الصَّاعِقَہ کے پہلے ہے اور اس صاعقہ سے مراد وہ صاعقہ ہے جور جعت کے وقت انتشار کرتی ہے اور دوسری آیۃ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے ثُمَّ بَعَثْكُم مِّنْ بَعْدِ مَوْتِكُم (البقرة: ۵۷) پھر اٹھایا ہم نے تم کو تمہاری موت کے بعد.چونکہ موت کے معنی میں دکھ اور تکلیف بھی آیا ہے اس لئے یہاں تکلیف ہی لیں گے کیونکہ معانی مختلفہ میں حسب قرینہ و امکان معنی لئے جاتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم صاعقہ میں سخت مبتلا ہوئی اور امید زیست نہ رہی اور ایک قسم کی موت ان پر طاری ہوگئی تو جناب موسیٰ کی اس قوم پر الہی رحم ہوا اور آخر وہ بچ گئی.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۳ تا ۲۱۷) پھر تم نے اس کے بعد ایک بڑی بھاری گستاخی یہ کی کہ تم نے موسیٰ کو یہ کہا.اے موسیٰ ! ہم تجھ پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ تو ہم کو صاف طور پر خدا کا چہرہ نہ دکھلا دے.پھر تم کو بجلی کے عذاب نے پکڑ کر بیہوش کر دیا اور تمہاری حالت مردوں جیسی ہوگئی مگر ہم نے پھر تم سے اُس غشی کو دور کر دیا تا کہ تم شکر کرو.تری اللہ.ظاہر.علانیہ.بعض طبائع الہامات نبی کوسن کر یہ خواہش کیا کرتی ہیں کہ کاش ہم کو بھی رویاء.الہام ہونے لگے.صَاعِقَةٌ.ایک قسم کی غشی یا مہلک عذاب.پھر تمہاری اس خطاء سے بھی در گزر کر کے تم پر یہ اپنا فضل کیا کہ تم کو بلاکسی محنت و مشقت برداشت کرنے کے اعلیٰ درجہ کا کھانا اور تمہاری صحت کے لئے جنگل کی تازہ ہوا دی.تم کو آزاد کیا
حقائق الفرقان ۲۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تا کہ تم سے غلاموں والی عادتیں دور ہو جائیں اور تم بادشاہ بننے کے قابل ہو جاؤ مگر تم نے اس کی ناقدری کی اور کفرانِ نعمت کر کے اپنی ہی جان پر ظلم کیا.تم شہروں میں بود و باش کرنے اور اعلیٰ اور بلا مشقت کے کھانا کھانے کو چھوڑ کر لہسن، پیاز اور دالوں کے خواہشمند ہوئے.سلوی.شہد ، بٹیر.من.جو رزق بلا محنت و مشقت ملے.مِنَ السَّمَاء - اٹل، ناگزیر ، آسمان سے، بادل سے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۶۱) ۵۹ - وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَ ادْخُلُوا البَابَ سُجَّدًا وَ قُولُوا حِطَةٌ تَغْفِرُ لَكُمْ خَطيكُمْ وَ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ - ترجمہ.اور جب ہم نے تم کو حکم دیا کہ اس شہر میں داخل ہو جاؤ اور اس میں جہاں چاہو با فراغت کھاؤ اور فرماں بردار ہو کر دروازے سے داخل ہو اور اپنے گناہوں سے پاک رہنے کی دعا (یعنی استغفار کرتے جاؤ ہم تمہاری سب خطائیں معاف کر دیں گے ، اور اچھے کام کرنے والوں پر تو قریب ہی بہت بڑے بڑے فضل کریں گے.تفسیر.وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُوا هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُوا مِنْهَا (البقرۃ:۵۹) اور جب کہا ہم نے داخل ہو تم اس بستی میں پس کھاؤ تم اس سے.(ریویو آف ریلیجنز جلدے نمبر ۶، ۷.جون، جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۲۷۷) پس پھر جب ہم نے تمہاری خواہش پورا کرنے کے لئے کہا کہ جاؤ شہروں میں رہو اور با فراغت کھاؤ اور پیو اور داخل ہو دروازوں میں فرمانبردار ہو کر دعائیں اور استغفار کرتے ہوئے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۱) وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا - کسی بستی میں جاؤ تو پکا عہد کر لو کہ فرمانبردار ہو کر رہیں گے اور خلل امن کے مرتکب نہ ہوں گے.حظة - تو بہ کرنے سے ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے.اور سُجَّدًا کا اجر نزِيدُ
حقائق الفرقان ۲۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الْمُحْسِنِينَ سے ظاہر ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۱) ٢٠ - فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجَرًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ.ترجمہ.مگر اس جماعت سے ظالم طبع لوگوں نے جو کچھ ان کو کہا گیا تھا کسی اور بات سے بدل دیا اس وجہ سے ہم نے ان ظالموں پر آسمانی و با نازل کی کیونکہ انہوں نے نافرمانی کی تھی.تفسیر.مگر ظالموں نے ہماری بتلائی ہوئی دعاؤں کو تبدیل کر کے کچھ کا کچھ بنالیا.پس نازل کیا ہم نے اوپر ان کے عذاب ناگزیر بدلے اس کے کہ وہ فسق کرتے تھے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه (۶۱) ۶۱ ۶۲ - وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبُ بَعَصَاكَ الْحَجَرَ - فَانْفَجَرَتْ b مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا قَدْ عَلِمَ كُلُّ أَنَاسِ مَشْرَبَهُمْ كُلُوا وَاشْرَبُوا مِنْ.رزْقِ اللهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ - وَاذْ قُلْتُمْ يَمُوسى لَنْ نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامِ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُخْرِجُ لَنَا مِنَا تُنبِتُ الْأَرْضُ مِنْ بَقْلِهَا وَقِنَا بِهَا وَفُومِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا قَالَ اتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرُ اهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَّا سَاَلْتُمْ وَ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَ المَسْكَنَةُ وَبَاوُرُ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِأَيْتِ اللهِ وَ b b يَقْتُلُونَ النَّبِيِّنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ ، ذلِكَ بِمَا عَصَوا وَ كَانُوا يَعْتَدُونَ - ترجمہ.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب کہ اپنی ( پیاسی) قوم کے لئے موسیٰ نے پانی مانگا تو ہم نے ایک تدبیر بتائی کہ تو اپنی لاٹھی پتھر پر مار پس اُس میں بارہ چشمے پانی کے بہہ نکلے اور سب لوگوں نے اپنا (اپنا) گھاٹ معلوم کر لیا اور حکم ہو گیا کہ ( اللہ کی دی ہوئی روزی تم کھاؤ اور پیو اور ملک میں فسادنہ پھیلاتے پھرو.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب تم نے کہا اے موسیٰ! ہم سے تو ایک ہی طرح کے کھانے پر نہیں رہا جاتا تو اپنے رب سے ہمارے لئے دعا مانگ کہ زمین سے جو چیزیں اُگتی ہیں ساگ ہوں
حقائق الفرقان ۲۲۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة گڑی ہوں گیہوں ( یا لہسن ہوں ) مسور اور پیاز ہوں وہ ہمارے لئے پیدا کر دے.موسیٰ نے کہا کیا تم بہتر چیزوں کو چھوڑ کر ادنی چیزوں کی خواہش کرتے ہو (اچھا) تم کسی شہر میں چلے جاؤ تم ، جو تم لوگ مانگتے ہو وہ تمہیں مل جائے گا اور ان پر ذلت اور مسکینی کی مار پڑی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے یہ ان کی حالت اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے اللہ کی آیتوں کا انکار کیا.اور وہ ناحق نبیوں سے مقابلہ کرتے تھے اور ان کے در پے قتل رہتے یہ جراتیں ) اس لئے کہیں کہ انہوں نے نافرمانی اختیار کی اور اللہ کی حدوں سے آگے نکل گئے تھے.تفسیر.وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ.دنیا میں قحط پڑتے ہیں ان کے دُور کرنے کے لئے دو راہیں ہیں.ایک تو یہ کہ مدبرانِ ملک نے مل کر سوچا کہ اب کیا تد بیر کریں اور پھر جو مجموعی طور سے رائے قائم ہو اس پر عمل کیا چنانچہ اس زمانے میں ریل گاڑی کو قحط کا علاج سمجھا گیا تا کہ جس جگہ پیداوار ہو وہاں سے اس جگہ فورا پہنچائی جاوے جہاں پیداوار نہیں ہوئی پھر گرانی وارزانی کی اطلاع جلد بہم پہنچانے کے لئے تارا ایجاد کی گئی.دوسری تجویز یہ ہے کہ جنگلوں کو آباد کر دیا تاکہ لوگوں کے لئے کافی غلہ بہم پہنچ سکے.ایک دنیا دار تو اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا مگر انبیاء کی راہ ان راہوں سے علیحدہ ہے.وہ ہر مصیبت کا علاج اللہ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں.دیکھو بعض صحابہ کرام کو جب کفار سے تکالیف پہنچیں تو وہ اور ملکوں کو ہجرت کر کے چلے گئے مگر نبی کریم خود نہیں گئے بلکہ ایک دن حضرت ابوبکر کے گھر گئے اور فرمایا کہ ہم اور آپ اکٹھے چلیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ خدا مجھے بھی ہجرت کا حکم دے.اوروں نے اگر اپنے ارادے اور تکالیف سے سفر کیا مگر نبی کریم حکم الہی کے منتظر ر ہے.اسی طرح آپ کے زمانہ میں قحط ہو ا.آپ اور بھی تدابیر کر سکتے تھے مگر انبیاء کا طریق دعا ہے اسی پر عمل کیا.چنانچہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو بھی جب ایسی مصیبت پیش آئی تو انہوں نے پانی مانگا قوم کے لئے کس سے؟ چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک نبی اللہ ہی سے مانگتا ہے اس لئے اللہ کا ذکر نہیں کیا.اس پر ہم نے الہام کیا.
حقائق الفرقان ۲۲۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اضْرِبُ نِعَصَاكَ الْحَجَرَ.اس کے کئی معنے ہیں.سبھی معنے صحیح ہوں گے.ایک تو یہ کہ اس پہاڑ پر تم اپنا عصا مارو وہاں بارہ چشمے پھوٹ نکلے اور یہ امرممکن ہے کیونکہ زمین کے اندر پانی چلتا ہے اور جہاں اللہ کی مرضی ہو پھوٹ نکلتا ہے.اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو کشف صحیح عطا کیا.آپ کو جب اعلام النبی سے معلوم ہوا کہ یہاں کوئی پانی قریب ہی جاتا ہے تو برچھا مارا اور اس سے چشمہ پھوٹ نکلا.میرے خیال میں فلسفی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.مگر ایک اور معنے بھی مجھے پسند ہیں وہ یہ کہ لے جا اپنی جماعت کو پہاڑ پر.عصا کے معنے عربی زبان میں جماعت اسلام یعنی فرماں بردار جماعت کے ہیں.لاٹھی کو بھی اس لئے عصا کہتے ہیں کہ اس پر انگلیوں کی جماعت اکٹھی ہوتی ہے.لا تعثوا.جب گھر سے بلا محنت کھانا ملے اور پیٹ بھر جائے تو بعض لوگ فرمانبرداری کی قدر نہیں کرتے اور ان کے دماغ میں باغیانہ خیالات اٹھتے ہیں.پس وہ امن میں خلل ڈالتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے تمہیں بے محنت رزق دیا تو بجائے شکر، فساد نہ کر و.عھی.سخت فساد کو کہتے ہیں.لا تعفوا.بہت شرارت نہ کرو.لَن نَّصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ - اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے پانی ہی کا انتظام نہیں کیا بلکہ تمہیں اپنی جناب سے طیب کھانا بھی دیا.طَعَامٍ وَاحِدٍ.ایک ہی طرز پر یعنی جنگل سے.یا یہ کہ من جو انہیں ملتی تھی وہ ہمیشہ ہی ملتی.سلوای کی نسبت تو رات میں لکھا ہے کہ چند روز ملی.بقلھا.ترکاریاں زمین کی.نا کھا.لکڑیاں زمین کی.قوم لہسن کو کہتے ہیں اور گیہوں کو بھی.میری سمجھ میں انہوں نے ان چیزوں کا ذکر کر کے زمیندارہ چاہا.بالذی.بدلے اس کے.خیر.یہ خیر کی تھی سنو ! مجھے ان معنوں پر یقین ہے کہ وہ خیر فرعون کی غلامی اور ماتحتی سے چھڑا کر
حقائق الفرقان ۲۲۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جہاں ان کی صحت و قوای جسمانی میں فتور آ گیا.آزادی اور جنگل اور پہاڑوں کی رہائش اور بے محنت رزق کی بخشش تھی.خدا کا مقصود یہ تھا کہ ان میں حریت کی روح بھر جائے اور پھر یہ فاتح بنیں مگر انہوں نے اس انعام الہی کی قدر نہ کی اور کہا کہ زمیندارہ کریں گے.بعض حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ نے ایک گھر میں زمیندارہ کے آلات دیکھے تو فرمایا ذلّت کے سامان ہیں.اس ارشاد نبوی سے یورپ کی قوموں نے نفع اٹھایا.دیکھو کہ جنگلوں کو آباد کر دیا ہے مگر وہ زمینیں ہمیں دیتے ہیں.انگریزوں کو عموما نہیں دلاتے.یہ اس لئے کہ انہوں نے دیکھ لیا مسلمانوں کی چار قومیں سید مغل، پٹھان ، ترک فاتح ہو کر آئیں لیکن آ کر زمیندارہ شروع کر دیا تو آخر کار کمزور ہوگئیں.کیونکہ وہی زمین جو کسی مورث اعلیٰ کے پاس ہزار بیگہ تھی اولاد میں تقسیم ہوتے ہوتے ہر ایک کے پاس چار چار بیگھ رہ گئی جس سے قوت لا یموت بھی حاصل نہیں ہو سکتی.خیر.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اچھا جو کچھ تم نے چاہا وہ ہم نے دیا.جاؤ کوئی گاؤں آباد کر لومگر ان سے یہ معاہدہ کر لیا کہ شام کے فتح ہونے تک دوسری قوم کے ساتھ رہیں گے.ضُرِبَت.لگا دی گئی.ذِلّة.دن بدن کم ہوتے گئے.ذلت کے معنے کمی کے ہیں.مَسْكَنَةُ.بے دست و پا ہو گئے.زمیندارہ چھوڑ کے کہیں نہ جاسکتے تھے.پھر یہ غضب زمیندارہ سے نازل نہیں ہوا.بلکہ اس لئے کہ وہ آیات اللہ کا کفر کرتے.انبیاء کے قتل کی تدبیریں سوچتے رہتے.یہ جرات کیوں ہوئی پہلے چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کرتے تھے جن سے جرات بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی.اس بات کا تماشا میں نے آگ سے دیکھا ہے کہ پہلے ایک دیا سلائی ہوتی ہے جس کی تیلی کے ایک کنارہ پر آگ مخفی ہوتی ہے.مگر ذرا گھنے سے وہ بھڑک اٹھتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ مکانوں اور شہروں کو جلا سکتی ہے.اسی طرح گناہ پہلے تھوڑا سا ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے فسق و فجور تک نوبت پہنچتی ہے پھر اس سے کفر تک.یہاں تک کہ دوزخ کی آگ اس کا انجام ہے.تم اپنے تئیں پہلے ہی سے بچاؤ تاہلاکت میں نہ پڑو.بنی اسرائیل
حقائق الفرقان ۲۲۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کی مثال سے عبرت پکڑو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۱، ۱۲) اضْرِبْ نِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ.اس کے دو معنی ہیں عصا پتھر پر مارو.پانی کا چشمہ کھل گیا.اللہ صاحب کشف کو آگاہ فرما سکتا ہے کہ اس پتھر کے نیچے پانی کا سوتا ہے.۲.پہاڑ پر جماعت کو لے جاؤ.....فَاقْتُلُوا اَنْفُسَكُمْ.ان مشرکوں مجرموں کو قتل کر دو.باءُ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ.بتادیا کہ یہ مغضوب علیہم کا ذکر تھا.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۷) فَقُلْنَا اضْرِبُ نِعَصَاكَ الْحَجَرَ - فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا (البقرۃ:۶۱) اپنی جماعت کو لے کر پہاڑ پر چلا جا.پس بارہ چشمے ایسے جاری ہیں.اس آیت میں تین لفظ ہیں ان کے معنے سنو! ١- الضّرْبُ ايُقَاعُ شَيءٍ عَلَى شَيْءٍ مِنْهُ ضَرْبُ الرِّقَابِ ثُمَّ ضَرْبُ الْخَيْمَةِ وَضَرْبُ الذلة - ضرب کے معنے ہیں ایک چیز کا دوسری پر مارنا.گردن کا مارنا.خیمہ کا لگانا اور ذلت کی مار مارنا اسی سے نکلا ہے.٢ - وَ الطَّرْبُ فِي الْأَرْضِ التِّهَابُ فِيهِ وَمِنْهُ إِذَا ضَرَبْتُهُ فِي الْأَرْضِ وَاضْرِبُوْا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا وَمِنْهُ ضَرَبَ يَعْسُوبُ الدِّين أَى أَسْرَعَ الشَّهَابَ فِي الْأَرْضِ فِرَارًا مِنَ الْفِتَنِ (لسان ، تاج، مجمع البحرين) اور ضرب کے معنی ہیں زمین میں جانا اور اسی سے ہے جب تم زمین میں جاؤ اور زمین کی مشرق و مغرب میں جاؤ اور اسی محاورہ سے ہے یعسوب دین چلا یعنی فتنوں سے بھاگ کر جلدی کہیں کو نکل گیا.( یعسوب الدین مولیٰ مرتضیٰ علیہ السلام کا لقب ہے ).وَالطَّرْبُ الْإِقَامَةُ حَتَّى ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ أَىٰ رَوِيَتْ إِبِلُهُمْ حَتَّى بَرِكَتْ وَأَقَامَتْ يُقَالُ ضَرَبَ بِنَفْسِهِ الْأَرْضَ أَتَى أَقَامَ وَالطَّرْبُ يَقَعُ عَلَى كُلِّ فِعْلٍ وَعَلَى جَمِيعِ الْأَعْمَالِ إِلَّا قَلِيلًا (تاج، لسان) اور ضرب کے معنی ہیں اقامت کرنا.محاورہ ہے لوگوں نے اپنے اے ہم نے ایک تدبیر بتائی کہ تو اپنی لاٹھی پتھر پر مارپس اُس میں بارہ چشمے پانی کے بہہ نکلے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۲۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اپنے ڈیروں میں آرام کیا.کیا معنی؟ اُونٹ پانی پی کر بیٹھ گئے اور ٹھہرے.اپنے آپ کو زمین میں ٹھہرایا.ضَرَبَ کا لفظ ہر فعل پر اور تمام اعمال پر بجز اندک کے اطلاق پاتا ہے.خلاصہ.ضَرَب کے معنے ہوئے کسی چیز کا کسی پر ڈالنا.کہیں جانا.کہیں اقامت کرنا یا کوئی کام کرنا.۲ - الْعَصَا: جَمَاعَةُ الْإِسْلَامِ - قاموس و صحاح میں ہے.شَقَوْا عَصَا الْمُسْلِمِينَ أَى اجْتَمَاعَهُمْ وَايْتِلَا فَهُمْ - مسلمان لوگوں کے اتفاق اور باہمی محبت اور اُلفت کو توڑ دیا انہوں نے.اور لاٹھی کو اس لئے عصا کہتے ہیں کہ اس پر انگلیاں اور ہاتھ جمع ہوتے ہیں..حجر کے معنی بادیہ ، وادی ، ویلی ، پتھر.حدیث جستا سه و دقبال میں ہی يَتْبَعُهُ أَهْلُ لے الْحَجَرِ أَى أَهْلُ الْبَادِيَةِ - پس آیت کا ترجمہ ہوا.پس کہا ہم نے لے جا اپنی فرمانبردار جماعت کو یا جا ساتھ اپنی فرمانبردار جماعت کے فلاں بادیہ یا وادی میں.پس چل رہے تھے وہاں بارہ چشمے.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰۲ تا ۲۰۴) وَاذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا (البقرة: (۶۲) اور جب کہا تم نے اے موسیٰ.ہم صبر نہ کریں گے ایک طعام پر پس دعا مانگ ہمارے لئے.( ریویو آف ریلیجنز جلدے نمبر ۶، ۷.جون، جولائی ۱۹۰۸ صفحہ ۲۷۷) اس رکوع شریف میں ہم لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انسان دنیا میں کس طرح ذلیل ہوتے ہیں.کس طرح مسکین بنتے ہیں اور کس طرح خدا تعالیٰ کے عقب کے نیچے آتے ہیں.کس طرح ابتداء اور انتہا ہوتی ہے؟ بہت سے لوگ دنیا میں ہیں جب وہ بدی کرنا چاہتے ہیں اگر وہ نیکوں کے گھر میں پیدا ہوئے ہیں یا کسی نیکی کی کتاب پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں تو پہلے پہل ان کو حیا مانع ہوتا ہے اور وہ بدی میں مضائقہ کرتے ہیں.پہلے چپکے سے ایک چھوٹی سی بدی کر لی.پھر اس بدی لے اس کے پیچھے پیچھے اھل حجر یعنی بادیہ نشین چلیں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں تکرار کرتے ہیں.پھر بدی میں ترقی کرتے ہیں.رفتہ رفتہ بدیوں میں کمال پیدا کر لیتے ہیں.کل جہان میں دیکھو بدی اسی طرح آتی ہے کبھی یکدم نہیں آتی.حضرت موسیٰ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو.انہوں نے جواب دیا یہ تو ہم سے نہیں ہوسکتا.نافرمانی کا نتیجہ کیا ہوا؟ ذلیل اور مسکین ہو گئے.- ذلِكَ بِمَا عَصَوا وَ كَانُوا يَعْتَدُونَ کا پہلے انسان ادنیٰ نافرمانی کرتا ہے پھر ترقی کرتا کرتا حد سے بڑھ جاتا ہے.حضرت موسی کی قوم با وجود کمزور ہونے کے پانی تک کے لئے اجازت مانگتی ہے.حضرت موسی نے خدا سے دعا کی.حکم ہوا پہاڑ پر جاؤ وہاں پانی بہتا ہے پیو.ایک کھانے پر بس نہیں کی.کہنے لگے.دعا کریں ہم کھیتی باڑی کریں.ترکاری، لکڑیاں لہسن ، مسور اور پیاز کھا ئیں.موسی علیہ السلام نے فرمایا یہ بڑی غلطی ہے.یہ ادنی چیزیں ہیں.یہ تو تمہاری محنت سے مل سکتی ہیں.کم عقلو! چھوٹے کاموں میں لگ جاؤ گے تو حکومت کس طرح کرو گے.ان میں سے جو کمزور تھے ان کو حکم دیا جاؤ کسی گاؤں میں جا کر آباد ہو.فؤمِھا کا ترجمہ بعض نے گندم کیا ہے یہ غلط ہے میں کبھی نہ کروں گا.میں نے ایک کتاب دیکھی اگر چہ وہ مجھے نا پسند آئی مگر میں نے اس کو خرید لیا.رات کو مجھے رؤ یا ہوا کہ ایک بازار ہے اس میں بہت خوبصورت پیاز اور لہسن خرید لیا.جب جاگ آئی تو زبان پر قوْمِھا تھا تو سمجھ آئی کہ لہسن پر خوب ہاتھ مارا.(الفضل جلد نمبر ۱۹ مورخه ۱/۲۲اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) وَ إِذِ اسْتَسْقى موسى لِقَومِه.اور جب موسیٰ نے یہ سبب قلت کے اپنی قوم کے لئے پانی کے واسطے دعا کی تو ہم نے کہا کہ اِضْرِبْ نِعَصَاكَ الْحَجَرَ - اضرب.اپنی جماعت کو پہاڑ پر لے جایا اپنے عصا کو پتھر پر مار.اُس نے ایسا ہی کیا.پس وہاں بارہ چشمے موجود ہو گئے.اذ استسقی بھی سنت انبیاء ہے.حضرت نبی کریم نے بھی نماز استسقا پڑھی ہے.عصاء کے معنے جماعت کے بھی ہیں اور لاٹھی پر چونکہ پانچوں انگلیاں جمع ہو جاتی ہیں.اس لئے اس کو بھی عصاء کہتے ہیں.
حقائق الفرقان انْفَجَرتُ بہتے تھے.قوم لہسن.٢٣٠ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پس ہر ایک سردار نے اپنی اپنی قوم کے ساتھ ایک ایک چشمہ پر قبضہ و تصرف کیا.پس کھاؤ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق میں سے اور زمین میں فساد مت کرو.اور جب کہا تم نے اے موسیٰ ! ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے.پس تو اپنے رب سے ہمارے لئے دعا کر کہ اُگائے ہمارے واسطے اُس چیز سے کہ اُگاتی ہے زمین.مثل سبزی ساگ، لکڑیاں لہسن ، مسور اور پیاز کے حکم ہوا.کیا بدلتے ہوا دنی چیز کو اعلیٰ کے بدلہ میں.جاؤ کسی شہر میں اس میں تم کو وہ ملے گا جو تم مانگتے ہو اور اُن پر ذلت اور مسکنت ماری گئی.اور وہ اللہ کا غضب کمالائے.اور یہ سب کچھ اس واسطے ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے.انبیاءکےساتھ بغیر حق کے لڑتے تھے.اور یہ بدلہ تھا اس بات کا کہ وہ حد سے تجاوز کر جاتے تھے.آدنی کھیتی باڑی میں پڑو گے تو ذلیل ہو جاؤ گے کیونکہ خدا نے تو یہ حالت جس سے تم نکلنے کی کوشش کر رہے ہو اس لئے تجویز کی کہ تاتم آزادی پسند ہو.فرعون کی غلامی کرتے کرتے جو کمینہ خصلتیں تم میں پیدا ہو گئی ہیں وہ دور ہو جائیں اور بادشاہت کرنے کے لئے تم میں طاقت ولیاقت پیدا ہو جائے.مسْكَنَت.بے دست و پا ہو جانا.بنی اسرائیل نے یہ دعا کی اور قبول ہو گئی.مگر کیسا نقصان اُٹھا یا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض دعاؤں کا قبول ہونا اچھا نہیں بلکہ نہ ہونا ہی اچھا ہوتا ہے.يَعْتَدُونَ.مسلمانوں کی تباہی بھی اسی طرح سے ہوئی چھوٹے گناہوں سے بڑے گناہ پیدا ہوتے ہیں یہاں تک کہ آدمی نبیوں کے قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.افسوس ہے کہ اس زمانہ کے مسلمان ان تمام مصائب میں گرفتار ہیں لیکن اب تک کروٹ نہیں بدلتے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲ ، صفحہ ۶۲۶۱)
حقائق الفرقان الْيَوْمِ ۲۳۱ سُورَةُ الْبَقَرَة - إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرَى وَالشَّبِينَ مَنْ أَمَنَ بِاللهِ وَ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ * وَلَا.وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ رور دور لَا هُمْ يَحْزَنُونَ - ترجمہ.جو لوگ مسلمان ہیں اور جو یہودی کہلاتے ہیں اور نصاریٰ اور ستاروں کو پوجنے والے ہمہ حق بولنے والے صابی (ان میں سے کوئی ہو ) جس نے سچے دل سے اللہ اور قیامت کو مانا اور بھلے کام کئے تو ایسے لوگوں کو اُن کے رب کی طرف سے ضرور اجر ملے گا اور نہ اُن کو کوئی آئندہ غم ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہوں گے.یہاں تین باتوں کا ذکر آیا ہے ایک تو یہ کہ اسلام کے بعد دوسروں کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں؟ دوم ایمان کے بعد ہمارا عمل درآمد کیسا ہو؟ سوم یہ کہ اگر کہا نہ مانو گے تو حال کیا ہوگا؟ فرماتا ہے جو لوگ کسی قسم کے ایمان کا دعوی کرتے ہیں خواہ دہر یہ ہی ہوں غرض پابند ہوں کسی چیز کے کسی اصل کے.پھر وہ خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی.جو کوئی اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے.ان دو باتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ایمان کی جڑ اللہ پر ایمان ہے اور ایمان منتہی آخرت پر ایمان اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کا نشان بھی بتا دیا کہ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (الانعام: ۹۳) وہ ایک تو تمام قرآن مجید پر ایمان لاتا ہے دوم اپنی صلوۃ کی محافظت کرتا ہے.آج ہی ایک نوجوان سے میں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ اُس نے کہا صبح کی نماز تو معاف کرو...باقی پڑھتا ہوں.یہ مومن کا طریق نہیں ہے.ایک مقام پر فرمایا اَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْض الكتب وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْض (البقرة :۸۲) پس تمام کتاب پر ایمان و عمل موجب نجات ہے.اس آیت میں اللہ نے بتا دیا ہے کہ ایک ہندو، ایک عیسائی ، ایک چوہڑا، ایک چمار جب لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھتا ہے اور یوم آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے اور پھر تم سب ایک ہو جاتے ہو.یہ اخوت اسلام کے سوا کسی مذہب میں نہیں.میں نے دیکھا ہے کہ شرفاء، حکماء، غرباء، ایک صف میں مل کر کھڑے ہوتے ہیں.اِس فرمانبرداری کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ وہ لاخوف
حقائق الفرقان ولا جلوی زندگی بسر کرتا ہے.۲۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الفضل جلد نمبر ۲۱ مورخه ۵ /نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) تحقیق وہ لوگ جو مسلمان ہوئے خواہ وہ یہودی تھے یا عیسائی تھے یا صائب تھے.پس جو اللہ تعالیٰ پر آخرت پر ایمان لے آئے اور نیک اعمال کرنے لگے اُن کے ان نیک کاموں کا خدا بدلہ دے گا اور اُن سے تمام خوف و غم دور کر دے گا.صابی.اپنے آپ کو دین اور میں پر سمجھتے ہیں اور بعض حضرت یحیمی کو اپنا مطاع مانتے ہیں.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۶۲) وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.چونکہ اس وقت ایک مذہبی جنگ شروع تھی اس واسطے تمام قومیں خوف کی حالت میں تھیں کہ خدا جانے ہمارا مذہب اور ہماری عزت باقی رہتی ہے یا نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مومن ہیں ان کا نشان یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی ڈر نہیں اور نہ ان میں حزن باقی رہے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۱۸ / فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۲) بعض لوگ قرآن مجید کی اِس آیت إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ الَّذِينَ هَادُوا وَ النَّصْرِى وَالصُّبِرِينَ مَنْ امَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة: ۶۳) سے غلط فہمی میں پڑے ہیں.ان کا اعتقاد ہے کہ جولوگ مسلمان ہوں، یہودی ہوں ، صابی ہوں ، جو ایمان لائیں اللہ پر اور روز آخرت پر اور عمل کریں نیک.پس ان کے لئے رب کے حضور اجر ہے.نہ ان کو خوف ہے نہ حزن.مطلب یہ ہے کہ بس اللہ کو مان لینا اور روزِ آخرت پر ایمان نجات کے لئے کافی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے متعد دمقامات میں اس مسئلہ کو واضح کیا گیا ہے کہ یوم آخرت پر ایمان لانا کن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے.تشخیذ الا ذبان جلدے نمبر ۷.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۴) - وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا أَتَيْنَكُم بِقُوَّةٍ وَ اذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - ترجمہ.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب ہم نے تم سے شریعت کی پابندی کا اقرار لیا اور تم کوہ طور کے نیچے تھے کہ ہمارے دیئے ہوئے احکام خوب مضبوطی سے پکڑو اور بہ خوبی یاد کر لو ان احکام کو جو اس میں
حقائق الفرقان ۲۳۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بیان کئے گئے ہیں تا کہ تم دیکھوں سے بچو.تفسیر.میقاق.پکا وعدہ.رفعنا.اونچارکھا ہم نے تم پر طور کو..بنی اسرائیل سے کچھ لوگ حضرت موسیٰ" کے ساتھ اس شوق میں گئے کہ ہم بھی مکالمات الہیہ سنیں.حضرت موسیٰ نے انہیں ہدایت کی کہ میں پہاڑ پر جاتا ہوں تم یہاں پہاڑ کے نیچے انتظار کرو.جب جناب الہی سے ارشاد ہوگا تمہیں اس دعا کے مقام پر بلالوں گا.چونکہ انہیں پہاڑ کے نیچے رہنے کی سخت تاکید کی.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم پر پہاڑ کو اونچارکھا.( پھر اس میں زلزلہ آیا.جس سے وہ سمجھے کہ وہ ہم پر گر پڑنے والا ہے).ہمارے ملک میں بھی ایسے محاورات بولے جاتے ہیں جیسے راوی پر لاہور آباد ہے یا راوی لاہور کے نیچے بہتی ہے اور قرآن کریم میں ہے.دَخَلُوا عَلَى يُؤْسَفَ.اس سے یہ مراد تو نہیں کہ سب بھائی آکر یوسف کے اوپر چڑھ بیٹھے.ایک حدیث سے بھی یہ محاورہ صاف ہو جاتا ہے وہ ہجرت کی حدیث ہے جس میں حضرت ابوبکر فرماتے ہیں.فَرَفَعَ لَنَا الْجَبَل.وَاذْكُرُوا مَا فِیهِ.جو کچھ اس میں ہے اس پر عمل کرو.تَتَّقُونَ.تاکہ تم دکھوں سے بچ جاؤ.مخاطب بنی اسرائیل ہیں مگر ہمیں سمجھاتا ہے کہ غار حرا میں رسول کریم بھی اوپر گئے تھے اللہ نے انہیں وہاں کتاب دی.تم اس پر عمل کرو تا کہ دکھوں سے بچ جاؤ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۷ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۳،۱۲) اور جب لیا ہم نے مضبوط وعدہ تمہارا اور اوپر رکھا ہم نے تم پر طور کو.لوجود یا ہم نے تمہیں قوت سے اور عمل کرو جو اس میں ہے تو کہ تم متقی بن جاؤ.دوسرے مقام پر رفعنا کے بدلہ آیا ہے نَتَقْنَا الْجَبَلَ فَوْقَهُمْ كَأَنَّهُ ظُلَّةً وَظَنُّوا أَنَّهُ واقع بهم (الاعراف: ۱۷۲) مجاہد جو قرآن کے معانی بیان کرنے میں عظیم الشان تابعی ہے ا ہم نے بلند کیا پہاڑ کوان پر گو یا وہ چھتری ہے اور انہوں نے یقین کیا کہ وہ اب ان پر گرا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۳۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس نے کہا ہے نَتَقنَا کے معنی زَعْزَعْنَا کے کئے ہیں.زَعْزَعْنَا کے معنے ہوئے ہلا دیا ہم نے.اور فرا ء نے کہا ہے نَتَقنَا کے معنی رَفَعْنَا کے ہیں اور رَفَعنا کے معنے ہیں او پر رکھا ہم نے.کیا تم نے نہیں سنا کہ راوی لاہور کے نیچے بہتی ہے اور لاہور راوی کے اوپر آباد ہے.ٹیمس لندن کے نیچے بہتا ہے.پہاڑوں میں ایسے نظارے عام ہیں کہ پہاڑ سر پر ہوتا ہے اور اگر زلزلہ پہاڑ میں آ رہا ہو اور پہاڑ آتش فشاں ہو تو اور بھی وہ نظارہ بھیانک ہو جاتا ہے..معنی آیت کے اس صورت میں یوں ہوئے جب بلند کیا تم پر اس چیز کو جو طور میں نازل ہوئی.آگے کا فقرہ اس معنی کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فيه (البقرة: ۶۴) لوجود یا ہم نے تم کو بڑی قوت سے اور عمل درآمد میں لاؤ جو اس میں ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن.صفحہ ۲۰۵،۲۰۴) بنی اسرائیل کو فرماتا ہے کہ ہم نے تم سے کوہ طور کے نیچے پختہ وعدہ لیا اور تم کو اس امر کی ہدایت کی کہ جو کچھ ہم تم کو دیتے ہیں تم اس پر پورے طور سے عملدرآمد کرنا تا کہ متقی بن جاؤ.رفعنا.اونچا رکھا.جیسا کہ دَخَلُوا عَلَى يُوسُفَ (یوسف :١٠٠) اس کا یہ مطلب نہیں کہ یوسف کے اوپر چڑھ گئے بلکہ یوسف کے پاس گئے.ایسا ہی ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ لاہور دریائے راوی پر ہے.علی اور پر کے مضمون پر غور کرنا چاہئے.وَاذْكُرُوا.عمل کرو.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنو مبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۲) ۶۵ - ثُمَّ تَوَلَّيْتُم مِّنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْتُهُ لَكُنتُم مِنَ الْخَسِرِينَ ترجمہ.پھر تم نے منہ پھیر لیا اس حکم کے بعد پس اگر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت ( نے ) تمہاری دست گیری نہ کی ہوتی تو تم ضرور نقصان پانے والے ہوتے.تفسیر.تم نے عہد کیا پر پھر تم پھر گئے.پس یا درکھو کہ اگر تمہاری اس بدعہدی کے بدلہ میں تم کوسزا ملتی اور خدا کا فضل اور رحم تم پر نہ ہوتا تو تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۲)
حقائق الفرقان ۲۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۶ ، ۶۷ - وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَوا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَسِبِيْنَ - فَجَعَلْنَهَا نَكَالًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَ مَا خَلْفَهَا وَ مَوْعِظَةً للمتقين ترجمہ.بے شک تم تو جانتے ہی ہو ان کو جنہوں نے آرام اور سکھ کے دن میں خلاف حکم الہی زیادتیاں کیں تو ہم نے ان کو کہہ دیا کہ تم ہو جاؤ خفیف العقل بندر ذلیل.پھر ہم نے اس نافرمان جماعت کو موجودہ اور آگے آنے والے لوگوں کے لئے عبرت کا مقام بنادیا اور اللہ سے ڈرنے والوں کے واسطے بڑی نصیحت کا موجب ہوا.تفسیر.اور البتہ جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے زیادتی کی ہفتہ کے دن میں تو کہا ہم نے ہو جاؤ بندر پھٹکارے.پھر ہم نے وہ دہشت رکھی اس شہر کے رو برو والوں کے اور پیچھے والوں کو.اور نصیحت رکھی ڈروالوں کو.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۰۳) لَقَد عَلِمْتُم - خاسرون میں سے ہونے کی ایک مثال دیتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے حکم کو نہیں مانتے وہ کس طرح دکھوں میں مبتلا ہوتے ہیں.علمتم یعنی تمہیں یہ واقعہ خوب معلوم ہے.اِعْتَدَوْا مِنْكُم - خدا کے حکموں سے نکل کر کام کیا اور الہی حد بندیوں کو توڑ دیا.في السبت - سبت کے معنے ہیں آرام ، راحت ، آسودگی کے.لغت میں ہے السبت.الرّاحَةُ - اکثر لوگ جب خدا انہیں دولت و مال، جاہ و جلال، جتھا، صحت عافیت دیتا ہے تو اس آسودگی میں خدا کو راضی کرنے کی بجائے ناراض کر لیتے ہیں اور قسم قسم کی بدیاں اور حق تلفیاں کرتے ہیں اور اس آرام میں حدود البہیہ سے نکل جاتے ہیں.سبت کے ایک اور معنے بھی ہیں وہ ایک دن کا نام ہے جیسے ہمارے ہاں جمعہ ہے.یہودیوں میں بھی ہفتہ ایک دن ایسا مقرر کیا گیا تھا جس میں ارشاد الہی تھا کہ شکار نہ کرو.وہ یوں کرتے تھے کہ گڑھوں میں مچھلیوں کو روک لیتے تھے اور دوسرے دن اٹھا لاتے اور کہتے کہ آج تو سبت نہیں ہے.شریعت کے احکام میں کئی لوگ ایسے حیلے بنالیتے ہیں جس سے ظاہری طور پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا مگر خدا تو ان کے دلوں کی نیتوں کو خوب جانتا ہے اس کو یہ لوگ
حقائق الفرقان ۲۳۶ سُورَةُ الْبَقَرَة کیونکر دھوکہ دے سکتے ہیں.یاد رکھو اس آیت میں یہ نصیحت ہے کہ مُرقہ الحال ہو کے کوئی شخص اللہ تعالیٰ کو ناراض کرے تو وہ بھی بڑا اور خدا نے جو عبادت کے وقت مقرر کر رکھے ہیں ان میں حیلہ گریوں سے کام لے تو وہ بھی برا.پس ان دونوں باتوں سے بچو.دیکھو ایک قوم نے ایام راحت اور یومِ عبادت کی قدر نہ کی.حکم الہبی کی بجا آوری میں طرح طرح کے حیلے کئے تو اللہ نے ان کو یہ عذاب دیا کہ بندروں کی طرح ذلیل بنا دیا.وہ احکام کو ٹال کر اپنی عزت چاہتے تھے مگر خدا نے انہیں ذلیل کر دیا اور یہ واقعہ ایسا خطر ناک ہوا کہ فَجَعَلْنَهَا نَكَالا کہ اسے دہشت بنا دیا ان لوگوں کے لئے جو اس وقت موجود تھے اور ان کے لئے بھی جو پیچھے آئیں گے.پارہ ۹ رکوع گیارہ اور پھر پارہ ۶ رکوع ۱۳ میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ کس طرح بندر بنائے گئے.(۱) فَلَمَّا عَتَوا عَنْ مَّا نُهُوا عَنْهُ قُلْنَا لَهُمْ كُونُوا قِرَدَةً خَسِبِيْنَ وَ إِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثْنَ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ مَنْ يَسُومُهُم سُوءَ الْعَذَابِ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ وَ إِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمُ - وَ قَطَعْنَهُمْ فِي الْاَرْضِ أَمَمَّا مِنْهُمُ الصَّلِحُونَ وَ مِنْهُم دُونَ ذَلِكَ وَ يَكونَهُم بِالْحَسَنتِ وَالسَّيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ.(الاعراف: ۱۶۷ تا ۱۶۹) پس جب ممنوع امور کو گردن کشی سے کرنے لگے تو ہم نے کہا ہو جاؤتم....بندر ذلیل.اور جب تیرے رب نے آگاہ کر دیا کہ ان (یہود ) پر ایسے لوگوں کو مسلط رکھے گا جو قیامت تک انہیں بڑے بڑے دکھ پہنچاتے رہیں.تحقیق تیرا رب جلد اعمال کا برا نتیجہ دینے والا ہے اور بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے.اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بنا کر ملک میں منتشر کر دیا.ان میں سے بعض نیکو کار ہو گئے اور انہی میں سے بعض اور طرح کے ر ہے اور انہیں ہم نے دکھوں سکھوں سے آزمایا تا کہ رجوع کریں.J......(۲) - قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٌ مِنْ ذَلِكَ مَثْوَبَةً عِنْدَ اللهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَبِكَ شَرُّ مَكَانًا وَ أَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ.وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا وَ قَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَد خَرَجُوا بِهِ وَ اللهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوا
حقائق الفرقان ۲۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة يَكْتُمُونَ وَتَرى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ - (المائدة: ۶۱ تا ۶۳) میں تمہیں آگاہ کروں کہ اللہ کے حضور بدتر بدلہ پانے والا کون ہے وہی گروہ جسے اللہ نے اپنی رحمت سے دور کیا اس پر غضب نازل کیا جن کو بندر اور سور بنایا کیونکہ انہوں نے طاغوت کی فرمانبرداری کی.انہی لوگوں کا بُرا ٹھکانا ہے اور سیدھے راستے سے بہت دور ہیں.جب وہ تمہارے پاس آئے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کفر سے بھرے ہوئے آئے اور اسی کے ساتھ نکل گئے اور اللہ جانتا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں اور تو ان میں سے بہت کو دیکھے گا کہ گناہ اور زیادتی میں اور حرام خوری میں پیش دستی کرتے ہیں.بہت برا ہے وہ امر جو وہ کر رہے ہیں.اس سے صاف ثابت ہوا کہ ان کی شکلیں مسخ نہیں ہوئیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۳) اور تم جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دن میں زیادتی کی.پس ہم نے کہا ان کو کہ ذلیل بندر ہو جاؤ.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب.حصہ اوّل صفحہ ۱۴۴ حاشیہ) سبت لغت میں آرام کو کہتے ہیں.دیکھو قاموس - السبتُ الرَّاحَةُ.اور ہفتے کے دن کو بھی کہتے ہیں.یہودی آرام کے دنوں میں یا یوں کہو سبت کے دن خداوند خدا کی نافرمانی کرتے اور ان کی سرکشی اور بغاوت پر جب باری تعالیٰ کا غضب بھڑکتا تو ذلیل اور خوار ہو جاتے.اور ان کی حالت اس ذلت اور ادبار کی وجہ سے گویا بندروں اور سوروں اور کتوں کی سی ہو جاتی.اسی مجاز کو قرآن کریم بیان کرتا اور اہل کتاب کو جو زمانہ نبوی میں تھے ان کے اسلاف کا عبرت انگیز حال یاد دلا کر نصیحت دیتا ہے.ایسے مجازوں کو جو کتب الہامیہ میں خصوصا اور ہر زبان میں عموما مستعمل ہوتے ہیں حقیقت اور نفس الامری سمجھ لینا سخت غلطی ہے اور یہ خوش نہی انہیں حضرات نصاری سے ہی مخصوص ہے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحه ۱۴۵،۱۴۴) چونکہ یہود کو سبت کی حفاظت کی تاکید شدید تھی جیسا خروج ۲۰ باب ۹.اور ۳۵ باب سے پایا جاتا ہے.مگر وہ شریر قوم بخلاف حکم ربانی بغاوت اور عصیان کرتی تھی اس لئے غضب خداوندی ان پر نازل
حقائق الفرقان ۲۳۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہوتا اور وہ ذلیل ومردود ہو جاتے.اور اس کو سو ر اور بندر کے استعارے میں مجاز اذ کر کیا ہے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۴۵) اور تحقیق تم جانتے ہو کہ جو لوگ سبت کے دن میں حد سے بڑھ گئے تھے یعنی وہ سبت کے دن کی بے حرمتی کرتے تھے ان کو ہم نے بندر بنا کر ذلیل کر دیا.وہ دراصل بندر ہو گئے تھے.پارہ ۶ رکوع ۱۳ میں بھی ان کا ذکر ہے کہ یہ بندر اور سؤر جب تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان لائے.نیز دیکھو پارہ نمبر ۹.پس ہم نے اس واقعہ کو ان کی آئندہ نسلوں اور متقیوں کے لئے عبرت بنایا.وہاں بنی اسرائیل کو سبت کے دن کی عزت و حرمت کی تاکید تھی اور یہاں جمعہ کے دن ( کی ) عزت کی مسلمانوں کو تاکید کی گئی.مسلمانوں کے سامنے یہودیوں کے اس سبت کے دن کی بے حرمتی کرنے سے بندر بنے ہو ربنے ، بت پرست بنے ، ذلیل ہوئے.اس ذلت کو عبرت کے رنگ میں پیش کیا گیا ہے اور ڈرایا گیا ہے کہ دیکھو سبت کے دن کی بے حرمتی کر کے یہودیوں نے یہ پھل پایا ایسا نہ ہو کہ کہیں تم جمعہ کے دن کی عزت سے لا پروائی کر کے مور د غضب بنومگر افسوس کہ مسلمانوں نے جمعہ کے دن سے پھر بھی غفلت کی.آخر کو اب وہ زمانہ آ گیا کہ یہ بھی ذلیل ہو گئے.مسلمانوں نے عالمگیر کے آخری زمانہ سے جمعہ کے معاملہ میں سستی شروع کی تھی.وس ( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۳،۶۲) ۶۸تا۷۲- وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِةٍ إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُوا بَقَرَةً قَالُوا ا تَتَّخِذُنَا هُزُوًا قَالَ اَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِينَ - قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يبين لنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لَا فَارِضٌ وَلَا بِكُر عَوَانَ بَيْنَ ذلِكَ فَا فَعَلُوا مَا تُؤْمَرُونَ.قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنُ لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاءُ فَاقِعُ لَوْنُهَا تَسُرُّ النَّظِرِينَ قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يبين لنَا مَا هِىَ إِنَّ الْبَقَرَ تَشْبَهَ عَلَيْنَا ۖ وَ إِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ
حقائق الفرقان ۲۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ج و لَمُهْتَدُونَ - قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لا ذُلُولُ تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَرْثَ : مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ، قَالُوا الْنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَ مَا كَادُوا يَفْعَلُونَ - ترجمہ.اور یہ کیفیت بھی یاد کرو کہ جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اے میری قوم ! تم کو تحقیق اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے ذبح کرو.قوم نے جواب دیا، اے موسیٰ ! کیا تم ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے موسیٰ نے جواب دیا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں میں تو جاہل لوگوں میں سے نہیں ہوں اور نہ ہونا چاہتا ہوں.قوم نے کہا (اگر یہ ہی حکم ہے ) تو تو اپنے رب سے اتنا تو پوچھ دے کہ ہم کو بتا دے کہ وہ گائے کونسی ہے؟ موسیٰ نے کہا تحقیق اللہ فرماتا ہے کہ بے شک وہ ایک گائے ہے نہ تو بہت بڑھی ہے اور نہ بچھیا ہے ادھیڑ عمر کی ہے تو جو تم کو حکم دیا جاتا ہے اس کی تعمیل کرو.( پھر ) قوم نے کہا ، اپنے رب سے یہ بھی تو پوچھ دو کہ ہم کو بتا دے کہ اُس گائے کا رنگ کیسا ہے؟ موسیٰ نے جواب دیا تحقیق اللہ فرماتا ہے کہ بے شک وہ گائے زرد رنگ کی ہے اُس کا رنگ بھڑک دار ( شوخ ) ہے دیکھنے والوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا ہے.پھر قوم نے کہا تو اپنے رب سے کوئی خاص علامت ) پوچھ دے کہ ہم کو بتاوے کہ وہ کونسی گائے ہے.بے شک وہ گائے ہم پر مشتبہ ہوگئی ہے اور ہم اگر اللہ چاہے تو اپنے مقصود کو پالیس گے.موسیٰ نے کہا بے شک اللہ فرماتا ہے وہ گائے ایسی ہے جس سے کوئی محنت نہیں لی جاتی زمین میں ہل جو تنے کی اور نہ اس سے کھیتی کو پانی ہی دیا جاتا ہے موٹی تازی صحیح سلامت بے داغ گائے ہے.بول اٹھے کہ (ہاں) اب تو حق و ہدایت لے کر آیا پس انہوں نے اس گائے کو ذبح تو کیا گو دل سے اس کو ذبح کرنا نہ چاہتے تھے.تفسیر.تَذْبَحُوا بَقَرَةً.وہ لوگ گائے کی پرستش کرتے تھے خدا نے ان سے درشنی گائے ذبح کرائی.مُسَلَّمَةٌ - اِن کاموں (تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ ) سے بچے.بے داغ.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۳) انبیاء بنی اسرائیل شرک اور بت پرستی کے دشمن تھے.بعض نادان فرقوں میں ایک
حقائق الفرقان ۲۴۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة گائے کی پرستش ہوتی تھی اور وہ ان میں درشنی گائے تھی.چنانچہ تَسُرُّ النَّظِرِينَ اور تُثِيرُ الْأَرْضَ وَلَا تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لَا شِيَةَ فِيهَا ( البقرة : (۷۲) ( سے ) اس کا صاف پتہ لگتا ہے.اس کا ذبح کرنا بت پرستی کی جڑ کاٹنی تھی.ج (نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن.صفحہ ۲۱۸) فرعون جو تھا اس کے آباء و اجداد گاؤ کی پرستش کرتے تھے.اسکندریہ میں ایک لائبریری تھی اس کو بروچیم کہتے تھے.بروچیم بیل کا نام ہے.اس لائبریری کے آگے ایک بیل بنا ہوا تھالائبریری کی حفاظت کے لئے.مؤرخوں کا اس میں اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں ڈھائی سو سال رہے یا چار سو سال.خیر یہ تمہاری دلچسپی کی بات نہیں.اور فرعون کے سر کا تاج بھی گئؤ موکہی کا تھا اور اس کا بڑا ثبوت قرآن سے یوں ملتا ہے کہ جب بنی اسرائیل وہاں سے آئے تو بار بن کر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیر اثر تھے.سیدنا موسیٰ علیہ السّلام کے بعد انہوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی.گاؤ کو تو پہلے ہی مانتے تھے.انبیاء کوتو شرک سے نفرت ہی ہوتی ہے.موسی علیہ السلام کو بچھڑے کی پرستش بری لگی سیدنا موسیٰ علیہ السّلام نے فرمایا کہ گاؤ کی قربانی کرو.عادت بڑی بری بلا ہے.لگے ایچ پیچ بنانے.سیدھی بات تھی گائے ذبح کر دیتے...موسی اتنا بڑا اولوالعزم نبی تھا کتنے نشان دکھلائے.فرعون کی غلامی سے بچایا.ید بیضاء، عصاء، جراد، و با قمل ، طوفان وغیرہ وغیرہ دکھائے.فرعون غرق ہو ا.اسی دریا سے بنی اسرائیل بچ کر نکل آئے.ان کے دل میں کوئی ادب معلوم نہیں ہوتا اور کہنے لگے کہ کیا آپ ہنسی کرتے ہیں.کہا اَعُوذُ بااللہ یہ تو جاہلوں کا کام ہے.ہماری سرکار نے فرمایا، صلی اللہ علیہ وسلم ، کہ میں تم سے بڑا عالم اور متقی ہوں.ٹھٹھا یا محول کرنا عالم کا کام نہیں.مجھے یاد نہیں کہ کبھی درس میں یاطب میں ٹھٹھا کیا ہو.وہ بد معاش خوب سمجھتے تھے کہ سید ناموسی کی کیا غرض تھی مگر رسم کے خلاف کرنا بھی مشکل تھا اِس لئے خوئے بدرا بہانہ ہا بسیار یا ، کہتے ہیں کہ أدعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّنُ لَنَا مَا هِيَ یہ تمسخر ہے.جواب ملا گائے ہے، نہ بچھیا ہے اور نہ بڑھیا ہے اور لے اگر عادت بری ہو تو اس کے لئے بے شمار بہانے مل جاتے ہیں.
حقائق الفرقان ۲۴۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة.جوان ہے جو حکم ہوا ہے اس کی تعمیل کرو.شریر پابند رسوم و عادات بھلا کیسے جلد سیدھا ہو.لگے پوچھنے کہ اس کا رنگ کیسا ہو.علاج تو یہ تھا کہ دو جوت لگا دیتے مگر انبیاء رحیم کریم ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ زردرنگ اور شوخ ڈھڈھا رنگ ہے یعنی گوڑھا گورا.خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو.کیا معنے ؟ درشنی گاؤ ہے.ہندو ایسی عمدہ گھروں میں رکھتے ہیں اور ان کو گندھا آنا کھلاتے ہیں.اب یہ بد بختی پیچھا نہیں چھوڑتی.کہتے ہیں کہ حضور گائیں بہت ہیں.گوریاں بھی ہیں ذرا تفصیل سے پوچھو ہم کو تو شبہ پڑ گیا ہے.پھر تاڑ گئے کہ یہ شرک کو تو پسند نہ کرے گا اور فرمایا کہ وہ ذلیل نہیں ہے.وہ تو کھا کھا کر اتنی موٹی ہوئی ہے کہ وہ زمین پر گھر مارتی ہے کبھی کھیتی میں نہیں لگائی گئی.اس میں کلا کوئی نہیں اور نہ داغ ہے.مجبور ہو گئے.آخر ذبح کرنی پڑی.آخر انبیاء علیہم السلام کے حضور کیا پیش جاتی.ایک اور بات سناتا ہوں کہ جب انسان کسی جگہ کو آگ لگاتا ہے تو پہلے دیا سلائی کو جلاتا ہے.پہلے چیتھڑے اور کاغذ وغیرہ کو آگ لگاتا ہے.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے کھنڈ تباہ کر دیں.اسی طرح قومی افساد کیلئے بعض لوگ ایک امر کو دینی اور مذہبی امر تجویز کر کے اس سے افساد شروع کرتے ہیں اور شاید ان کی اتنی عقل ہوتی ہے یا یہ ان کی بد عادت ہے اس کو پورا کرنے کو ایک ایمانی امر تجویز کرتے ہیں اس لئے میں اوّل اپنا ایمان ظاہر کرتا ہوں.ہمارے ایمان میں جو کچھ ہے یہ ہے کہ لَا اِلهَ اِلَّا الله اور گواہ رہیو قیامت کے دن پوچھے جاؤ گے کہ کوئی معبود برحق ،محبوب، مطلوب حقیقی جس کے آگے کامل اطاعت کریں، تذلل اختیار کریں اللہ ہے.اس کے مقابل میں کوئی نہیں.رب ، رحمن ، رحیم، مالک یوم الدین اس کی صفتیں ہیں.لاکھوں فرشتے اس نے بنائے ہیں یہ اس کے کارخانہ میں اس کے حکم کے ماتحت کارکن ہیں.ان کی معرفت حکم الہی آتا ہے اور بالواسطہ بھی آتا ہے اور جن کے پاس آتا ہے اگر وہ مامور ہوں تو وہ رسول کہلاتے ہیں اور سب کے سردار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.اس کے بعد دوزخ ، جنت، پل صراط، قیامت برحق ہیں.الفضل جلد نمبر ۲۲ مورخه ۱۲/ نومبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) جب خدا تعالیٰ نے یہ دیکھا کہ موسیٰ کی قوم میں گائے کی عظمت یہاں تک بڑھ گئی ہے کہ وہ اُس
حقائق الفرقان ۲۴۲ سُورَةُ الْبَقَرَة کو خدا کا شریک ٹھہرانے لگے تو اس کی غیرت جوش میں آئی اور اس نے چاہا کہ ان کے دلوں سے اس شرک کا نام و نشان تک بھی اٹھا دے.اس کے لئے یہ ارشاد فرمایا کہ اے موسیٰ ! تو اپنی قوم کو یہ حکم دے کہ وہ گائے کو ذبح کریں اور اس کی قربانی کریں.تا کہ جب وہ اس کے گوشت کو کھا ئیں تو ان کو یہ بات محسوس ہو جائے کہ واہ! ہم نے یہ اچھا معبود بنایا ہے کہ جس کا ہم گوشت بھی کھا جاتے ہیں.جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ دیکھو خدا تم کو حکم کرتا ہے کہ تم گائے کو ذبح کرو تو قوم نے کہا کہ اے موسیٰ کیا تو ہمارے ساتھ ہنسی کرتا ہے.آپ نے فرمایا.اَعُوذُ بِاللهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَهِلِيْن.میں اس امر کے لئے خدا سے مدد طلب کرتا ہوں کہ میں جاہلوں سے نہ ہو جاؤں.یہاں پر ایک نکتہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنسی ٹھٹھا کرنا جاہلوں کا کام ہوتا ہے تب ہی تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ میں تو اس بات سے خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں کہ میں وہ کام کروں جو جاہل کیا کرتے ہیں.هُزُوا.جس چیز سے جنسی کی جاتی ہے اور جس کی تحقیر ہو.فَارِضُ - كَبِيرَة - بکر.جس نے ایک بار بچہ دیا ہو.عوان.جس نے دوبارہ بچہ دیا ہو.تسر النظرين - درشنی گائے.خوش کرے دیکھنے والوں کو.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۳) ۷۳، ۷۴.وَ إِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادْرَ تُم فِيهَا ۖ وَ اللهُ مُخْرِجُ مَا كُنتُم تَكْتُمُونَ - فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذلِكَ يُحْيِ اللَّهُ الْمَوْتَى وَ يُرِيكُمُ ايَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ - ترجمہ.اور جب تم نے مارا نفس کو پس تم نے اُس میں ایک سخت احتیاط چھپانے کی کی اور اللہ ظاہر کر دینے والا ہے چھپی ہوئی باتوں کو جو تم نہیں جانتے یا سخت چھپاتے ہو.پس ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ بعض
حقائق الفرقان ۲۴۳ سُورَةُ الْبَقَرَة کو بعض کے ساتھ مار و قاتل کو قتل کرو اسی طرح اللہ تعالیٰ زندہ کیا کرتا ہے مردوں کو اور اپنی نشانی تم کو دکھایا کرتا ہے تا کہ تم عقل سیکھو.وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيُوةٌ پر غور کرو.بچ گئے.اذْ قَتَلْتُم نَفْسًا.ایک یہودی نے ایک مسلم عورت کو مار دیا.وہ قریب المرگ حالت میں بتائے گئی میرا قاتل کون ہے.پس حکم ہوا اس کو مار دو.ببعضها بعض کے بدلے میں.اس لئے فرمایا کہ کوئی خواہ سوکو مارے آخر اسی ایک قاتل کو قتل کیا جائے گا.ب دوم جُرم کا ارتکاب خدا جانے کتنی بار کر چکا ہے اور اب پکڑا گیا.يخي الله الموتى - وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوة اس قاتل کو مارنے سے آئندہ قتل ہونے والے تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۳۷، ۴۳۸) میں نے اس آیت پر غور کیا ہے وَاذْ قَتَلْتُم نَفْسًا یہ ایک سیدھی آیت ہے اس کے معنے " تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا.آدمی کو تو مارا ہی کرتے ہیں.یہ ترجمہ اس کا صحیح نہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم نے ایک جی یا جان کو مارا پھر اپنے آپ سے ہٹانے لگے کہ ہم نے نہیں مارا.معلوم ہوا کہ وہ جان ایسی نہ تھی جس کا وہ بہادری کا کام سمجھ کر اقرار کرتا.کعب بن اشرف مارا گیا.اس کے قاتل کا پتہ پوچھنے پر نبی کریم نے فرمایا میں نے مارا ہے.ابورافع مارا گیا اس کے لئے بھی نبی کریم صلعم نے فرمایا کہ ہم نے اس کو مارا ہے گشت وخون جیسا کہ آجکل سرحدیوں ، وزیریوں اور محسور یوں وغیرہ میں ہے ایسا ہی عرب میں تھا.سب کے نزدیک عورت کا مارنا بہت معیوب ہے.ابوسفیان نے کہا تھا کہ آپ اس لڑائی میں عورتوں کو بھی مقتول پائیں گے مگر میں نے یہ حکم نہیں دیا.میں ایک دفعہ ایک رئیس کے ساتھ جس کے ساتھ انگریز بھی تھے سور کے شکار میں گیا.سامنے سے ایک سو ر آیا.اس کا گھوڑا اس سے ڈر گیا.وہ جھک کر گھوڑے کو ایک طرف دوڑا کر لے گیا.ایک انگریز بھی ان میں تھا اس نے اس رئیس کو کہا کہ واہ.آپ کا گھوڑا سؤ رسے ڈر گیا تو اس رئیس نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں.میں جھکا تھا.میں نے دیکھا کہ وہ سور کی مادہ سو رنی تھی.ہم سپاہی مادہ کو نہیں مارا کرتے.تو اس انگریز نے دوسرے انگریزوں کو کہا شکر ہے ہم نے اس کو نہیں مار اور نہ ہماری تو بدنامی ہوتی.
حقائق الفرقان ۲۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس آیت میں جس نفس کا ذکر ہے وہ عورت ہے.مرد کو اگر مارتے تو کچھ حرج نہ تھا.تحقیقات کرنے پر انہوں نے اس کو ایک دوسرے پر تھوپا.آخر نبی کریم صلعم نے مدینہ کے سارے بد معاشوں کو جمع کیا اور اس عورت کے آگے سب کو پیش کیا.(وہ بول تو نہ سکتی تھی مگر قوت ممیزہ اس میں تھی ) جب قاتل کو اس کے سامنے لایا گیا تو اس نے سر سے اشارہ کیا کہ یہی ہے.اس کو نبی کریم صلعم نے کئی پیچوں سے اس عورت پر پیش کیا مگر وہ اس کو پہچان لیتی.اس کا ذکر بخاری شریف میں ہے.اس بدمعاش نے اس عورت کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا تھا ( کچھ زیور کے سبب سے ).وَاللهُ مُخْرِج مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ.اللہ اس بات کو نکالنے والا تھا آخر وہ بات نکل آئی.فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا.تب ہم نے اس قاتل کو مارنے کا حکم دیا اور یہ اس کے بعض کا بدلہ تھا.اس نے پہلے بھی کئی بدمعاشیاں کیں اور آگے بھی وہ کرتا.اس لئے یہ سزا اس کے بعض کی ہے.اور جگہ فرمایا وَ لَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوةُ (البقرة : ۱۸٠) بدلہ لینے میں تمہارے لئے حیات ہے.یخی کا لفظ رکھا ہے یہ ان کی بے حیائی ہے کہ انہوں نے عورت کو مارا.عورت کو مارنا کوئی بہادری نہیں.الفضل جلد ۱ نمبر ۲۳ مورخه ۱۹ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) یاد کرو جب تم نے ایک جی کو قتل کیا اور لگے ایک دوسرے پر تھوپنے.اللہ تعالیٰ نکالنے والا ہے جو تم چھپاتے ہو.تب ہم نے کہا قاتل کو مارو.اور یقتل تو بعض نفوس کے بدلہ ہے.تمہیں کیا معلوم کتنے آدمی اس قاتل نے مارے.کیونکہ یعفوا عن کثیر آیا ہے اور آئندہ اس کے ہاتھ سے قتل ہونے والے بچ گئے.جیسے فرمایا.وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَوةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ - البدر جلد ۱۴ نمبر۷ مورخه ۲۸ راگست ۱۹۱۳ ، صفحه ۳) مخرج.تم گائے کی خفیہ طور سے عبادت کرتے تھے خدا نے اس کو ظاہر کر دیا.پیس کہا ہم نے کر قتل کرو گائے کو کیونکہ اُس کو تم نے معبود بنایا تھا.تم گائے کی پوجا کر کے مردہ ہو گئے تھے.اس لئے خدا نے چاہا کہ تمہارے دلوں سے شرک کی تاریکی اور زنگ دور کر کے نور ایمان اور روحانیت سے بھر دے اور تم کو زندہ کر دے.دیکھو اس طرح سے اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر کے اپنے نشان دکھلاتا ہے تا کہ تم اگو نہ بنو بلکہ عقل کرو.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲، صفحہ ۶۳)
حقائق الفرقان ۲۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۷۵.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً.وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهرُ ۖ وَ إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاءُ وَ إِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تعملون - b ترجمہ.پھر تمہارے دل اس کے بعد سخت ہو گئے گویا کہ وہ پتھر ہیں یا پتھر سے بھی زیادہ سخت کیونکہ بعض پتھر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ ان سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں اور بے شک بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے پھٹ پڑنے سے پانی جاری ہو جاتا ہے اور تحقیق بعض پتھر ایسے ہوتے ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں اور اللہ تمہارے کرتوتوں سے غافل نہیں.تفسیر.فَيَخْرُجُ مِنْهُ المَاءِ - جب بعض پتھر ایسے ہیں کہ ان سے پانی نکلتا ہے تو مومن کے اندر سے تو اس سے بڑھ کر کچھ نکلنا چاہیے یعنی اتنی ندیاں پھوٹ کر نکلیں کہ عالم سیراب ہو.پتھروں سے پانی نکل کر فارغ البالی ، سرسبزی کا ذریعہ بنتا ہے تو مومن کے اندر سے بھی ایسے کلمات نکلنے چاہئیں جن سے روحانی سرزمین میں بہار آتی ہو.لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ.پتھر کے اوپر سے گرنے کا نظارہ انسان میں خشیت پیدا کرتا ہے یا ضمیر قلوب کی طرف ہو.وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ - گناہ سے بچنے اور خشیت اللہ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ یہی ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو اللہ میرے کاموں سے بے خبر نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۴) میں اس آیت کو سنا کر افسوس کرتا ہوں.مسلمانوں کو بتلایا کہ تم ایسا کام نہ کرنا.صد با قتل کرتے ہیں ڈرتے نہیں.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمُ.تمہارے دل سخت ہو گئے.بعض پتھروں سے نہریں چلتی ہیں اور ان سے نفع پہنچتا ہے مگر تم تو ان پتھروں سے بھی بدتر ہو.تم جس قدر ہو تم میں سے ندیاں اور نہریں جاری ہوتیں اور کچھ نہیں تو پانی نکلتا.میں تمہارا خیر
حقائق الفرقان ۲۴۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة خواہ ہوں.میں نے تمہیں سمندر کے سمند ر سنائے مگر تم بھی بہادر ہو.بعض ہیں کہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہی نہیں قَسَتْ قُلُوبُكُم خدا ساری قوم کو برا نہیں کہتا.بعض نیک بھی تو ہوتے ہیں جو ان مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ الله کے مصداق ہوتے ہیں.منھا میں جو ضمیر ہے اس میں اختلاف ہے.بعض پتھروں کی طرف پھیرتے ہیں بعض قلوب کی طرف.جیسے اِقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِ فِيهِ فِي الْيَمِ (طه:۴۰) موسی کو صندوق میں ڈال دو اور صندوق کو دریا میں ڈال دو.الفضل جلد نمبر ۲۳ مورخه ۱۹ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) مگر پھر تمہارے دل سخت ہو گئے اور سخت بھی ایسے کہ پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے کیونکہ پتھروں سے تو پانی بھی جاری ہو جاتا ہے مگر تمہارے دل خوف الہی سے پیسجے تک بھی نہیں.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۳) b ، افتَطْمَعُونَ اَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ امَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُم إِلى بَعْضٍ قَالُوا أَنْحَدِ تُونَهُمْ بِمَا فَتَحَ اللهُ عَلَيْكُم لِيُحَاجُوكُم بِهِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلَا تَعْقِلُونَ - ترجمہ.(اے مسلمانو!) کیا تم اُن ( سنگ دلوں) سے امید رکھ سکتے ہو کہ وہ تمہاری باتیں مانیں گے حالانکہ اُن میں سے ایک فریق ایسا بھی ہے کہ جو کلام اللہ کو سن سمجھ کر پھر اس کو تبدیل کرتا ہے حالانکہ وہ اس کے درست معنی کا علم رکھتا ہے.جب (وہ) مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب خلوت میں الگ ہو کر وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کیا تم ایسی باتیں بتا دیتے ہو مسلمانوں کو جن کی حقیقت اللہ نے تم پر کھول رکھی ہے اسی وجہ سے تو مسلمان تم پر حجت قائم کر کے تمہارے رب کے حضور تم کو قائل کر لیتے ہیں یا کر لیں گے.کیا تم کو کچھ بھی عقل نہیں.تفسیر.اَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بات مان لیں مگر یہ وہ لوگ ہیں کہ جس کتا ہے کو کلام اللہ مانتے ہیں اس کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں بعد اس کے کہ اس کو يَسْمَعُونَ كَلمَ اللهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ -
حقائق الفرقان ۲۴۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کوئی نیک نتیجہ نہیں رکھتی.ليحاجوكم - حجت میں غالب آئیں گے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ رفروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۴) انسان کے ذمے تین طرح کے حقوق ہیں.اوّل اللہ تعالی کے.دوم.اپنے نفس کے.سوم مخلوقات کے.ان حقوق کے متکفل قرآن کریم اور احادیث صحیحہ ہیں.جناب البہی کے حقوق کون بیان کرسکتا ہے عقل میں تو نہیں آ سکتے.جس طرح وہ وراء الوراء ہستی ہے اس کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں.جب انسان ایک دوسرے انسان کی رضامندی کے طریقے کو اچھی طرح نہیں جان سکتا تو خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے رستوں کو کب کوئی پاسکتا ہے اور جب انسان کے حقوق کو نہیں سمجھ سکتے تو خدا کے حقوق کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں.مثلاً میں یہاں کھڑا ہوں تم میری رضامندی کی راہ کو نہیں جانتے.تو وہ ذات جو لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٍ (الشوری:۱۲) ہے اس کے حقوق کو کیونکر انسان سمجھ سکتا ہے؟ اسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں.انسان بہت کچھ غلطیاں کر جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک قانون بنایا ہے.ایک صحابی دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے.وہ حضرت سلمان فارسی کے دوست بھی تھے.ایک دفعہ سلمان ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی بیوی کے کپڑے خراب تھے.انہوں نے ان کی بیوی سے پوچھا کہ بھا وجہ صاحبہ آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کپڑوں کی حالت کیونکر اچھی ہو تمہارے بھائی کو تو بیوی سے کچھ غرض ہی نہیں.وہ تو دن بھر روزے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے ہیں.حضرت سلمان نے کھانا منگوایا.اور اس دوست کو کہا کہ آؤ کھاؤ.انہوں نے جواب دیا کہ میں تو روزے دار ہوں.تو حضرت سلمان نے ناراضگی ظاہر کی تو مجبورا اُس صحابی نے آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا.پھر حضرت سلمان نے جب رات ہوئی تو چار پائی منگوا کر ان کو کہا کہ سو جاؤ.انہوں نے اس سے لے اس کے جیسی تو کوئی بھی چیز نہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۴۸ سُورَةُ الْبَقَرَة انکار کیا اور کہا کہ میں رات کو عبادت کیا کرتا ہوں تو پھر حضرت سلمان نے ان کو زبردستی سلا دیا.صحابہ ایسے نہ تھے کہ اِذَا جَاءَهُمُ اَمْرٌ مِنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ (النساء: ۸۴) جب کوئی امن وخوف کی بات ہوتی تو اسے پھیلا نہ دیتے تھے.تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بات سنی تو فوراً اس کو پھیلا دیتے ہیں.آخر ان کا معاملہ حضرت نبی کریم صلعم کے پیش ہوا تو آپ نے اُس صحابی کو فرمایا کہ تمہارے متعلق ہمیں یہ بات پہنچی ہے تو انہوں نے یہ عرض کیا کہ بات تو جیسے حضور کو کسی نے پہنچائی ہے وہ صحیح ہے.تب نبی کریم صلعم نے ان کو فرما یا إِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا.یہ بھی فرمایا تها وَلِعَيْنَيْكَ عَلَيْكَ حَقًّا.تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں تیری بیوی کے بھی حقوق ہیں.اس نے عرض کیا یا رسول اللہ (اس کی مراد اس سے یہ تھی کہ میں تو خوب مضبوط ہوں آپ مجھے کچھ تو اجازت دیں) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ایک مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو( چاند کی تیرہ، چودہ، پندرہ) اُس نے پھر کہا یا رسول اللہ ( مطلب یہ تھا کہ میں بہت طاقتور ہوں آپ مجھے اور زیادہ اجازت دیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا دو دن افطار کر کے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو.اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ تو نبی کریم صلعم نے فرمایا اچھا.سب سے بڑھ کر تو صوم داؤ دی تھا.تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو.پھر کہا یا رسول اللہ ( مطلب یہ تھا کہ مجھے قرآن کریم کے روزانہ ختم کرنے کی تو اجازت فرما دیں) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہفتہ میں ایک ختم کرلیا کرو.تو اس نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ.تو نبی کریم صلعم نے فرمایا اچھا قرآن کریم کا ختم تین دن میں کر لیا کرو اس سے جلدی کی بالکل اجازت نہیں.جب وہ بوڑھے ہو گئے تو پھر ان کو اس سے تکلیف ہوئی اور اب نبی کریم صلعم تو فوت ہو گئے ہوئے تھے.اب لگے رونے اور پچھتانے کہ میں نے نبی کریم کی اجازت کو اس وقت کیوں نہ مانا جب ایسے ایسے صحابہ کو رضامندی کا پتہ نہیں لگ سکا تو تم کو کیونکر لگ سکتا ہے؟ ہم بیمار ہو جاتے ہیں یا ہمیں کوئی خوشی ہوتی ہے تو تم میں سے بعض ایسے ہیں (جن کا ہم سے کوئی
حقائق الفرقان ۲۴۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تعلق نہیں) کہ وہ ہماری رنج و راحت میں بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہمیں پوچھتے تک نہیں.وَإِذَا خَلَا بَعْضُهُم إلى بعض.اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو تم نے فلاں بات جو تم کو سمجھ آگئی وہ کیوں بتلائی.اب وہ تم کو خدا کے رو بر وملزم ٹھہرائے گا.اَوَلَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُونَ وَمَا يُعْلِنُونَ (البقرة: ۷۸) کیا یہ نہیں جانتے کہ اللہ اُن کے چھپے اور ظاہر اور ان کے سب بھیدوں کو جانتا ہے تو وہ پھر چھپاتے کس سے ہیں.الفضل جلد نمبر ۲۴ مورخه ۲۶ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) منشی جمال الدین مدار الہمام....مغرب کے بعد خود قرآن شریف کا لفظی ترجمہ پڑھایا کرتے تھے.ایک روز میں بھی اس درس میں چلا گیا.وہاں یہ سبق تھا.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَ إِذَا خَلَا بَعْضُهُم إلى بعض (البقرة: ۷۷).....میں نے کہا کیا اجازت ہے ہم لوگ کچھ سوال بھی کریں؟ منشی صاحب نے فرمایا بخوشی.میں نے کہا یہاں بھی منافقوں کا ذکر ہے اور نرم لفظ بولا ہے.یعنی بَعْضُهُم إلى بَعْضٍ اور اس سورۃ کے ابتداء میں جہاں انہیں کا ذکر ہے وہاں بڑا تیز لفظ ہے.اذا خَلَوْا إِلى شَيْطينهم (البقرة : (۱۵) اس نرمی اور سختی کی کیا وجہ ہو گی ؟ منشی صاحب نے فرمایا کیا تم : جانتے ہو؟ میں نے کہا.میرے خیال میں ایک بات آتی ہے کہ مدینہ منورہ میں دو قسم کے منافق تھے، ایک اہل کتاب ، ایک مشرک.اہل کتاب کے لئے نرم یعنی بعضھم کا نرم لفظ اور مشرکین کے لئے سخت إلى شيطينهم بولا ہے.منشی صاحب سن کر اپنی مسند پر سیدھے کھڑے ہو گئے اور میرے پاس چلے آئے.مجھ سے کہا کہ آپ وہاں بیٹھیں اور میں بھی اب قرآن شریف پڑھوں گا.قدرت الہی ہم وہاں ایک ہی لفظ پر قرآن کریم کے مدرس بن گئے.(مرقات الیقین فی حیات نورالدین صفحہ ۱۰۲) پس اے مومنو! کیا تم یہ امید رکھتے ہو کہ وہ ایمان لائیں گے کیونکہ وہ تو ایک ایسا خبیث فریق تھا کہ باوجود اُس نے کلام الہی کو سننے اور سمجھنے کے تبدیل کر دیا.اس رکوع کی تین آیتوں میں خدائے تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہود کا قصہ سنا کر ڈرایا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی ( گئوماتا جی کے ) پرستاروں یا ان کے معاونین میں شامل ہو جاؤ.اگر تم نے ان جیسی چال اختیار کی تو یا درکھو کہ جس جس قسم کی
حقائق الفرقان ۲۵۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ذلتیں ان پہلے خبیثوں کو اٹھانی پڑی ہیں تم بھی اُن کے برداشت کرنے کے لئے کمر بستہ ہو جانا.مگر افسوس کہ اب مسلمانوں پر وہی زمانہ آ گیا جس کے لئے ان کو پہلے ہی تنبیہ کی گئی تھی.آج ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بعض اُلو کے چرنے گاؤ کشی کے خلاف گئو رکھشا کے ہیڈ نگ دے دے کر گائے کی پرستش کے ممد و معاون ہیں اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں نہایت صفائی کے ساتھ ارشاد الہی لوگوں کے دلوں سے گائے کی عظمت اٹھا دینے کے لئے.اس کے ذبح اور قربان کرنے کے لئے لکھا پا کر بھی قرآن کی مخالفت کرتے اور اس کے حرفوں کو تبدیل کر کے ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ (البقرۃ:۷۶) کے مصداق بنتے ہیں.ހކވވހ ان کی یہ حالت اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ یا تو وہ برائے نام ہی مسلمان ہیں.قرآن کو جانتے ہیں خوب سمجھتے ہیں مگر اپنی خباثت اور منافقت طبع کی وجہ سے وہ ہندوؤں سے سگرہ بھلائی لینے کے لئے خدائی احکام کی مخالفت اسلام کی آڑ میں کر رہے ہیں.یا وہ بالکل قرآن سے واقف ہی نہیں بلکہ لا یعقل بیوقوف ہیں.اس لئے بیہودہ بکواس کر رہے ہیں اور مطلب اس سے صرف اسی قدر ہے کہ کوئی ہمیں بھی قاضی و مفتی سمجھے.یا یہ بات ہے کہ اگر چہ وہ بظاہر کسی مسلمان کے گھر پیدا ہو گئے مگر حقیقتاً ان میں کسی دال خور گئو کی رکھشا کرنے والے اور اس کے پرستار کا خمیر شامل ہے جو ان کو ان کے آبائی فطرت کے مطابق مجبور کر کے یہ کارروائی کرا رہا ہے.ورنہ اگر یہ بات بھی نہیں تو ان کو مفتی و قاضی مقرر کس نے کیا ہے؟ کہ تم اس امر میں ضرور ہی فتوی دو.(البدر- کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۴،۶۳) ٧٩ ٨٠ - وَ مِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لَا يَعْلَمُونَ الْكِتَبَ اِلَّا اَمَانِي وَإِنْ هُمُ الا يَظُنُّونَ - فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِنْدِ اللهِ لِيَشْتَرُوا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَوَيْلٌ لَهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ بوو 179 لهم مما يكسبون - مِّمَّا - ق ترجمہ.اور بعض اُن میں سے وہ ناواقف قوم بھی ہے جو کتاب کو تو کچھ سمجھتی بو جھتی نہیں مگر واہیات لے جو کلام اللہ کوس سمجھ کر پھر اس کو تبدیل کرتا ہے حالانکہ وہ اُس کے درست معنی کا علم رکھتا ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۵۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة من مانی باتوں کو جانتی ہے اور وہ اس وہم و گمان ہی میں مگن ہورہے ہیں.پھٹکار ہے ان لوگوں کے لئے جو کتاب کو تو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں پھر (جھوٹ ) لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہی اللہ کا حکم ہے تا کہ ان جھوٹی تحریروں سے تھوڑی سی دنیا کمالیں.پس خرابی اور رسوائی ہے ان کو جنہوں نے یہ ( جھوٹ ) اپنے ہاتھوں سے لکھا اور کمائی پر بھی تھو ہے جو وہ کماتے ہیں.تفسیر.امی.صرف تلاوت قرآن کرتا ہے اور معنے نہیں جانتا.آماتی.امیدیں.امیون.ماں والے، ماں کے لاڈلے، ان پڑھ.ویل.کلمہ افسوس ہے اور جہنم کی ایک وادی کا نام ہے.يكتبون.سے مطلب عیسائیوں کے ترجموں سے ہے کہ وہ ترجمے در ترجمے کرتے چلے جاتے ہیں اور اصل عبارت کا پتہ نہیں ہوتا.ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمے کرنے سے فرق پڑپڑ کر کچھ کا کچھ بن جاتا ہے مگر وہ اس کو کلام الہی کہہ کہ کر تھوڑی تھوڑی قیمتوں پر فروخت کرتے رہتے ہیں.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۴) امانی.امانی کے تین معنے ہیں (۱) امانی جمع امید کی امیدیں (۲) امانی کے معنے تلاوت.(۳) امانی کے معنے اکاذیب.اَن پڑھ ان تینوں باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں.جھوٹے خیالات، جھوٹی امیدیں.عبارت تو سن لیتے ہیں مگر مطلب نہیں سمجھتے.تمنا قليلا - دنیا.جیسا کہ فرمایا.مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلُ (النساء: ۷۸) مطلب یہ کہ وہ دنیا کی چند روزہ فائدہ کے لئے دین کو چھوڑتے ہیں.مِمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ.( بائیبل خصوصا اس میں اناجیل اور اس کے ملحقات ترجمہ در ترجمہ ہو کر اس کی مصداق ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل کیا تھا ).( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۴) یہ سچی بات ہے کہ ترجمہ مترجم کے ذاتی خیالات ہوتے ہیں.اب دیکھ لو نصارای قوم تراجم کو لے جھوٹی باتیں.(مرتب)
حقائق الفرقان ۲۵۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہاتھ میں لے کر کہتے پھرتے ہیں خدا کا کلام ہے.کتاب مقدس میں یوں لکھا ہے حالانکہ اصل کتاب کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئی؟ بلکہ یہاں تک مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ وہ اصلی زبان جس میں انجیل تھی عبری تھی یا یونانی.حالانکہ مسیح علیہ السلام کے آخری کلمات ایلی ایلی لِمَا سَبَقَتَانی اور ان کی قومی اور مادری زبان سے صاف طور پر یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ عبرانی ہی تھی مگر یہ یونانی کہتے جاتے ہیں اصل یہ ہے کہ اصل کتاب کا پتہ ہی نہیں ہے.اب جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ ذاتی خیالات ہیں.غرض اس قسم کا تو مذہب کمزور ہے اور پھر اس پر طرفہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے طریق اشاعت کی وجہ سے کہیں خوبصورت عورتوں کے ذریعہ تبلیغ کر کے ، کہیں ہسپتالوں کے ڈھنگ ڈال کر اخبارات اور رسالجات کی اشاعت سے کوئی قوم، کوئی خاندان ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کسی کو گمراہ نہ کر لیا ہو.الحکم جلد ۵ نمبر ۱۲ مورخه ۳۱ مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۷) ۸۱ تا ۸۳ - وَقَالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا ايَّامًا مَّعْدُودَةً ۖ قُلْ اتَّخَذْتُم عِندَ اللهِ عَهْدًا فَلَنْ يُخْلِفَ اللهُ عَهْدَةَ أَم تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ - بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيَّتُهُ فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ أُولَبِكَ أَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ترجمہ.اور (ایسے کرتوتوں پر یہ کہتے ہیں کہ ہم کو دوزخ کی آگ کچھ گنتی کے تھوڑے ہی دن جلائے گی.ان سے پوچھو تو کہ کیا تم اللہ سے کوئی اقرار لے چکے ہو کہ اللہ اپنے اقرار کے خلاف نہیں کرے گا یا تم خود اللہ کی طرف سے ایسی باتیں بناتے ہو جس کا کوئی علم تمہارے پاس نہیں.ہاں جس نے گناہ کو اپنا کسب بنالیا اور اُس کی بدیوں نے اُس کو ہر طرف سے گھیر لیا تو ایسے ہی لوگ آگ میں جلتے بُھنتے رہیں گے ہمیشہ.اور جو لوگ سچے دل سے ایمان لائے اور اچھے کام کئے ایسے ہی لوگوں کے لئے جنت ہے اور وہ ان کا سدا رہنے کا ٹھکانا ہے.لے اے میرے اللہ اے میرے اللہ تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۵۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً.اس پر دعوی کہ ہم کو آگ نہ چھوئے گی.وہ جھوٹ کہتے ہیں.ہم جناب الہی کا قاعدہ بتلاتے ہیں بلی مَنْ كَسَبَ سَيْئَةً وَ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ جنہوں نے بدیاں کیں اور ان کو ان کی بدیوں نے گھیر لیا تو وہی دوزخی ہیں اور وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت جولوگ ایمان لاتے اور عمل صالح کرتے ہیں ان کو دنیا میں بھی جنت اور آخرت میں بھی جنت ہے.الفضل جلد نمبر ۲۴ مورخه ۲۶ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) اور کہتے ہیں ہم کو آگ نہ لگے گی مگر کئی دن گنتی کے.تو کہہ! کیا لے چکے ہو اللہ کے یہاں میں رہیں گے.سے قرار تو البتہ خلاف نہ کرے گا اللہ اپنا اقرار یا جوڑتے ہو اللہ پر جو معلوم نہیں رکھتے.کیوں نہیں؟ جس نے کما یا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے.سو وہی ہیں لوگ دوزخ کے ، اُسی فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۶۴ حاشیه ) اللہ تعالیٰ ستار ہے اور جب تک کسی کی بدیاں انتہا تک نہ پہنچ جاویں اور احاطتْ بِه خَطيته (البقرۃ:۸۲) نہ ہوجاوے اور حد سے تجاوز نہ کر جاوے خدا تعالیٰ کی ستاری کام کرتی ہے بعد اس کے پھر سزا کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے.اس لئے اس سے پہلے کہ تمہاری بدیاں اور کمزوریاں اپنا اثر کر چکیں اور یہ زہر تمہیں ہلاک کر دے.اس کی تریاق تو بہ کا فکر کرو.الحکم جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۳۱ مئی ۱۹۰۴ ء صفحه ۸) اسی لئے فرقے یہود کے خلوت نشین اور جتی ستی جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خدا دا د انعامات سے محروم تھے.فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۶۴) - وَإِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَ ذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَنى وَالْمَسْكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسُنَا وَ أَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمُ الَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَأَنْتُم مُّعْرِضُونَ - ترجمہ.اور ہمارا بنی اسرائیل سے یہی اقرار تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی دوسرے کی بندگی نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا اور قرابت دار اور یتیموں اور بے دست و پا لوگوں سے
حقائق الفرقان ۲۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نیک سلوک کرنا اور عام لوگوں کو نیکی اور بھلائی کی نصیحت کرتے رہنا اور نماز کو ہمیشہ ٹھیک پڑھتے رہنا اور زکوۃ دیا کرنا ، پھر تم نے ان باتوں سے منہ پھیر لیا سوا تھوڑے آدمیوں کے.تم سب کے سب اقرار سے پھر جانے والے ہو.تفسیر.ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو.جب عہد لیا ہم نے بنی اسرائیل سے کہ تم خدائے واحد کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اپنے والدین کے ساتھ احسان کرنا اور اپنے قریبی رشتہ داروں، یتیموں ، مسکینوں کو بھلی باتیں بتلاؤ اور نیک سلوک کرو اور نماز کو مع پابندی ارکان کے قائم رکھو.زکوۃ دیتے رہو مگر افسوس ہے کہ تم میں تھوڑے لوگ ایسے تھے جو اپنے عہد پر قائم رہے باقی سب کے سب بدل گئے.قرآن شریف میں اس قصہ کو بیان کرنے سے ایک تو پیشگوئی کا اظہار کرنا تھا کہ تم ایک زمانہ میں چل کر بد عہد ہو جاؤ گے.دوسرے مسلمانوں کو تاکید اس امر کی کی گئی کہ دیکھو ایسا نہ ہو کہ کہیں تم بھی یہود جیسی کر تو تیں کرنے لگومگر افسوس کہ مسلمانوں نے سب کچھ بھلا دیا اور وہی روش اختیار کی جس سے ان کو منع کیا گیا تھا.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ رنومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۴) حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے چالیس سال کی عمر میں اطلاع دی کہ خدا نے مجھے رسول بنایا.تیرہ برس آپ مکہ میں رہے.اس کے بعد جب آپ کی عمر ۵۳ سال کی ہوئی حکم الہی کے مطابق ہجرت کر کے چلے گئے.مکہ میں آپ کو کئی قسم کی سہولتیں تھیں.اول تو یہ کہ ایک ہی قسم کے مخالفین سے پالا پڑتا تھا یعنے مشرکوں سے پھر بوجہ اس کے کہ آپ کا خاندان نہایت معزز تھا اور آپ کے قرابت دار بھی وہاں تھے کوئی ایذاء رسانی کی جرات نہ کر سکتا تھا.آپ ان لوگوں کے رسم و عادات کو بھی سمجھتے تھے.آپ کے کئی پرانے دوست بھی تھے جو ہر وقت مدد کرتے.برخلاف اس کے مدینہ میں جب آپ آئے تو بڑی مشکلات پیش آئیں.پہلی مشکل تو یہ کہ مکہ کی مخالفت بدستور تھی (۲) پھر مدینہ میں بھی مشرکین موجود تھے (۳) ایک منافقوں کا گروہ بھی وہاں پیدا ہو گیا یہ بدذات گروہ بڑا خوفناک ہوتا ہے،
حقائق الفرقان ۲۵۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اندر سے کچھ باہر سے کچھ.(۴) عیسائی بھی تھے (۵) بنو قینقاع یہودی بڑے شہدے اور او باش تھے (۶) بنو نضیر.(۷) بنو قریظہ.پھر ان کے علاوہ مدینہ کے ارد گرد غطفان.مضر کا گروہ تھا مجھے یہاں ایک نکتہ یاد آ گیا.ایک شیعہ نے مجھ سے کہا بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَه (المائدة: ۶۸) سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا اخطر ناک کام تھا.میں نے کہا کہ بیشک.اتنی قوموں کی مخالفت میں پیغام البی پہنچانا بڑا مشکل تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کی تسلی کے واسطے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائدة: ۶۸) آیت نازل فرمائی.مکہ کے لوگ تو ایسے تھے کہ نہ ان کے پاس کتاب نہ انبیاء کے علوم نہ وہ اتنے چالاک.مگر مدینہ کا دشمن بڑا خطرناک اور چالاک دشمن تھا کیونکہ عیسائی اور یہودی سب پڑھے ہوئے تھے.ان کا ایک کالج بھی وہاں تھا جسے بیت المدارس کہتے تھے.پھر ان میں رہبان بھی تھے جو کچھ روحانی طاقتیں بھی رکھتے تھے اور اپنا خاص اثر بھی.اس واسطے حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے تجویز کی کہ سب قوموں کو بلایا اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو میں یہاں آ کر آباد ہو گیا ہوں میری قوم کے لوگ میرے دشمن ہیں.تم جانتے ہو کہ اس قوم کا رُعب تمام علاقہ عرب پر ہے پس ان کے ساتھ اور قو میں بھی مل کر ہمیں ایذاء پہنچائیں گی.پس ضرور ہے کہ ہم بیرونی دشمنوں سے بچنے کے لئے اتفاق کریں.میں اس کے لئے چند شرائط پیش کرتا ہوں جن پر اگر ہمارا تمہارا اتفاق ہو جائے تو کوئی فساد نہ رہے چنانچہ آپ نے ان کے سامنے عہد نامہ کا یہ مسودہ پیش کیا جو انہوں نے مان لیا اور جو اس رکوع میں مفصل مذکور ہے.اس میں حقوق الہی اور حقوق العباد دونوں آ گئے.لا تَعْبُدُونَ إِلَّا الله.یہی آپ کا اصل منشاء تھا جو ان سے منوالیا کہ ہم لوگ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے.یہودیوں کے لئے اس کا مان لینا کوئی مشکل امر نہ تھا.بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا.یہ عام اخلاقی باتیں ہیں.ل پہنچا دے جو تیری طرف وحی کی گئی تیرے رب سے.اگر تونے ایسا نہ کیا توٹو نے اللہ کی رسالت نہ پہنچائی.اللہ تیری حفاظت کرے گا لوگوں سے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۵۶ قُولُوا لِلنَّاسِ حُسُنا - خوش معاملگی کرنا.قُولُو احسنا کے یہی معنے ہیں.سُوْرَةُ الْبَقَرَة اقيموا الصلوۃ.اپنے اپنے طور سے نمازیں پڑھنا اور زکوۃ دیتے رہنا یہ تو دین الہی کے متعلق معاہدہ ہوا.اب دوسری طرف.یہ وعدہ لیا (۱) تم اپنے خون نہ بہاؤ گے یعنی آپس میں نہ لڑو گے (۲) اپنے لوگوں کو گھروں سے باہر نکال کر انہیں در بدر نہ کراؤ گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۴) خلاصہ دینِ انبیاء کیا ہے؟ تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا ہے.لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ لَا إِلَهَ إِلَّا الله - اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی.بس یہی خلاصہ ہے تمام دینوں کا اور یہی لا اله الا اللہ کے معنے ہیں.عبادت کسے کہتے ہیں لوگوں کو اس کے معنے نہیں آتے.بعض اس کے معنے بندگی کرنے کے کرتے ہیں اور بعض پرستش اور پوجا کے کرتے ہیں.اس کے کئی ارکان ہیں.اللہ تعالیٰ کی بے نظیر تعظیم جیسی اس کی تعظیم کرے اور کسی کی نہ کرے.مثلاً ہاتھ باندھنے ، اس کے آگے جھکنا (رکوع ) اس کے آگے سجدہ میں گر جانا ، حج کرنا، روزے رکھنا ، اپنے مال میں سے ایک حصہ اس کے لئے مقرر کر دینا، اُٹھنے بیٹھنے میں اسی کا نام لینا.آپس میں ملتے وقت اس کا نام لینا جیسے اسلام علیکم ورحمۃ اللہ اور اس کی تعظیم میں قطعا دوسرے کو شریک نہ کریں.دوسرا رکن.اس کی محبت کے مقابلہ میں کسی دوسرے سے محبت نہ کرنا.تیسرا رکن.اپنی نیازمندی اور عجز و انکساری کامل طور پر اس کے آگے ظاہر کرے.چوتھا رکن.یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری میں کمال کر دے.ماں باپ محسن و مربی، بھائی بہن، رسم و رواج اس کے مقابلہ میں کچھ نہ ہوں.لَا تَجْعَلُوا لله آنْدَادًا لَا تَعْبُدُوا إِلَّا الله - اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں.بعض روپیہ سے محبت کرتے ہیں.جو لوگ چوری ، جھوٹ ، دغا سے کماتے ہیں وہ اللہ سے نہیں بلکہ روپیہ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اگر اس کے دل میں خدا کی محبت ہوتی تو وہ ایسانہ کرتا.اس سے اُتر کر ماں باپ کے ساتھ احسان ہے.بڑے ہی بد قسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں
حقائق الفرقان ۲۵۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ، باپ دنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضامندی کو میں نے دیکھا ہے اللہ کی رضا مندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطون نے غلطی کھائی ہے.وہ کہتا ہے ” ہماری روح جو او پر اور منزہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر لے آئے.“ وہ جھوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے کہ روح کیا ہے.نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفے کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے.بڑی مشقت س حَمَلَتْهُ أُمه كُرْهًا وَ وَضَعَتْهُ كُرْهًا (الاحقاف: ۱۲) اسے مشقت سے اُٹھائے رکھتی ہے اور مشقت سے جنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بسترے کی گیلی طرف اپنے نیچے کر لیتی ہے اور خشک طرف بچے کو کر دیتی ہے.انسان کو چاہیے کہ اپنے ماں باپ ( یہ بھی میں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ور نہ باپ کا حق اول ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہیے ) سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کے ایک یا دونوں وفات پاگئے ہیں وہ ان کے لئے دعا کرے،صدقہ دے اور خیرات کرے.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھوٹے ہیں ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا، استغفار، صدقہ، خیرات بلکہ حج ، زکوۃ ، روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم صلعم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی ہے اگر وہ بولتی تو ضر ور صدقہ کرتی.اب اگر میں صدقہ کروں تو کیا اُسے ثواب ملے گا ؟ تو نبی کریم صلعم نے فرمایا.ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا.میری والدہ کی وفات کی تارجب مجھے ملی تو اس وقت میں بخاری پڑھا رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.میں نے اس وقت کہا اے اللہ ! میرا باغ تو یہی ہے تو میں نے پھر وہ بخاری وقف کر دی.فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے.
حقائق الفرقان ۲۵۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وَذِي الْقُرْبى.پھر حسب مراتب قریبیوں سے نیک سلوک کرو اور یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرو.قُولُوا لِلنَّاسِ حُسُنا.قَالَ کا لفظ عربی زبان میں فَعَل کے برابر لکھا ہے بلکہ اس سے وسیع لکھا ہے اس سے کم ضَرَب کا لفظ لکھا ہے.لوگوں کو بھلی باتیں کہو.بد معاملگیاں چھوڑ دو.بد معاملگیوں سے باز آ جاؤ.وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكوة.نمازیں پڑھو اور زکوۃ دیا کرو.ثُمَّ تَوَلَّيْتُم إِلَّا قَلِيلًا مِنْكُمْ وَ اَنْتُمْ مُعْرِضُونَ.تم پھر جاتے ہو.باز نہیں آتے.اگر کسی کا روپیہ ہاتھ میں آ گیا تو اسے شیر مادر سمجھ لیا اور اسے دینے میں آتے ہی نہیں.اللہ تم پر رحم کرے.الفضل جلد نمبر ۲۵ مورخه ۳/دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ۸۶،۸۵- وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَ لَا تُخْرِجُونَ انْفُسَكُم مِّنْ دِيَارِكُمْ ثُمَّ اَقْرَرْتُهُ وَ اَنْتُمْ تَشْهَدُونَ.ثُمَّ أَنْتُمْ هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ أَنْفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُم مِّنْ دِيَارِهِمْ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ " ن بِالاثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ إِنْ يَأْتُوكُم أسرى تُفَدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمُ عَلَيْكُم اِخْرَاجُهُمُ افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَب وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ۚ وَ يَوْمَ الْقِيمَةِ يُرَدُّونَ إِلَى اَشَلِ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ - b ترجمہ.اور جب ہم نے تم سے یہ عہد لے لیا کہ تم اپنوں ہی کی خونریزی نہ کرو اور خویشوں ہی کو وطن سے نہ نکالو تو اس عہد کا تم نے اقرار بھی کر لیا اور تم شاہد بھی ہو گئے.پھر تمہیں وہ لوگ ہو کہ اپنوں ہی کو مار ڈالتے ہو اور اپنوں میں سے ہی ایک فریق کو اُن کے گھروں سے نکال دیتے ہو اور گناہ وظلم ان پر کرنے کے لئے پشتی دیتے ہو غریبوں کو اور اگر کسی دوسری قوم کی قید میں ہو کر وہ تمہارے پاس آجائیں تو فدیہ دے کر تم اُن کو چھڑانے لگتے ہو حالانکہ اُن لوگوں کا پہلے گھروں ہی سے نکالنا تم پر حرام تھا، تو کیا تم کتاب
حقائق الفرقان ۲۵۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے بعض احکام پر ایمان لاتے ہو اور بعض احکام سے انکار کرتے ہو تو جو شخص تم میں سے یہ طریق اختیار کرے اُس کی سزا اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ دنیا کی زندگی میں بھی ذلیل کیا جاوے اور قیامت کے دن تو سخت سے سخت عذاب میں ڈالا جاوے اور اللہ تعالیٰ تمہارے کرتوتوں سے ہر گز بے خبر نہیں.تفسیر میقاق.پختہ وعدہ.نبی کریم نے بھی تمام اقوام سے وعدہ لیا.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ ء صفحہ ۶۴) وَ انتُم تَشْهَدُونَ.تم نے اس معاہدہ پر اپنی گواہیاں ثبت کر دیں.اس سے آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر تم وہی ہو کہ اپنے لوگوں کو قتل کرانا اور جلاوطن بنانا چاہتے ہو.یہ اس طرح کہ تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمُ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ، بدکاری اور ظلم کے لئے ان کی پیٹھ بھرتے ہو.مدد دیتے ہو.قیدیوں کو تو فدیہ دے کر چھڑاتے ہومگر جو اس سے برا کام ہے جلا وطن کرانا اس سے باز نہیں آتے.افَتُؤْمِنُونَ بِبَعْض الكتب - یہ مرض آج کل بہت ساری ہے کہ ایک ہی کتاب کے بعض احکام کی تو تعمیل کی جاتی ہے بعض کی مطلق پرواہ نہیں کرتے.کئی لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں مگر زکوۃ کا خیال تک نہیں.روزے رکھتے ہیں مگر نہیں سوچتے کہ کسی پر ظلم کرنا برا ہے.یوں تو تہجد گذار ہیں مگر لڑکیوں کو میراث دینے کی قسم ہے.یہ بہت بری بات ہے اس سے بچو ورنہ اس کی سزا جہنم ہے.وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ.یہ ایک پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۵،۱۴) اللہ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل رحمانیت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے.اس کا نام قرآن ہے میں نے اس کو سامنے رکھ کر بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے اور ژنداور اوستا کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے.قرآن بڑا آسان ہے.میں ایک دفعہ لاہور میں تھا.ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا.ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے.اُس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَلَقَد يسرنا القُرآن (القمر: ۴۱) مگر قرآن کہاں آسان ہے.میں نے کہا آسان ہے.ہم دوسری کتابوں کو جمع ا اور بے شک ہم نے آسان کر دیا قرآن سمجھنے کے لئے.
حقائق الفرقان ۲۶۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کرتے اور ان کی زبانوں کو سکھتے تو پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل.پھر اس کی تفسیر کون کرتا.قرآن کریم نے دعوی کیا ہے فیها كتب قيمة (البينة: ٤) جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے با وجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.قرآن کریم میں تین خوبیاں ہیں.پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے اور جو ضروریات موجودہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا اس کے سوا جتنے مضامین ہیں اللہ کی ہستی ، قیامت، ملائکہ، کتب، جزا سزا اور اخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں ان کو بیان کیا جیسے کہ کوئی بدکار ہمارے مذہب پر نا پاک حملہ کرے تو اس کے مقابلے کے لئے فرمایا کہ ان کو گالیاں مت دو.فَيَسْبُوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام: ۱۰۹) پھر وہ اللہ کو اپنی نادانی کے سبب گالیاں دیں گے.كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِ اُمَّةٍ عَمَلَهُمُ (الانعام: ۱۰۹) ہر ایک اُمت کے لئے وہ اعمال جو اس کے کرنے کے قابل تھے وہ اس کے سامنے خوبصورت کر کے پیش کئے گئے تھے.مگر پھر اندھوں کے لئے روشنی کا کیا فائدہ.میں نے اس کا مقابلہ دوسری کتابوں سے کیا ہے.انجیل کو دیکھو وہ تو اس سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں بیٹا فلاں کا اور فلاں بیٹا فلاں کا مگر قرآن کریم الْحَمْدُ لِلہ سے شروع ہوتا ہے اور انجیل کے اخیر میں لکھا ہے کہ پھر اس کو یہودیوں نے پھانسی دے دیا.ہماری کتاب کے آخر میں قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ ( النَّاسِ : ۲ تا ۴) لکھا ہے.بڑا افسوس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسی اعلیٰ کتاب ہے مگر وہ عمل درآمد کے لئے بڑے کچے ہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی کسی کی انگلی بھر زمین ظلم سے لے لے گا تو قیامت کے دن سات زمینیں اس کے گلے کا طوق ہوں گی مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہے.اسی طرح معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات بھر سوچتا رہتا ہے کہ کسی کے گھر روپیہ ہو تو اس سے کسی طریقہ سے لیا جائے.پھر اگر کسی نہ کسی طریقہ سے لے لیتے ا جس میں پائیدار کتابوں کی صداقتیں ہیں.(ناشر) ۲؎ کہہ دے میں لوگوں کے رب کا آسرا لیتا ہوں.لوگوں کے بادشاہ کی پناہ لیتا ہوں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۶۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں تو پھر واپس دینے میں نہیں آتے.اسی طرح زنا ، لواطت، چوری، جھوٹ، دغا، فریب سے منع کیا گیا تھا مگر آجکل نوجوان اسی میں مبتلا ہیں.اسی طرح تکبر اور بے جا غرور سے منع فرمایا تھا لیکن اس کے برخلاف میں دیکھتا ہوں کہ اگر کسی کو کوئی عمدہ بوٹ مل جاوے تو وہ اکڑتا ہے اور دوسروں کو پھر کہتا ہے او بلیک مین ( کالا آدمی ) دوسروں کی تحقیر کرتا ہے اور بڑا تکبر کرتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مکہ میں تو آپ کو بہت سی سہولتیں تھیں.مکہ میں آپ کے چھوٹے بڑے، بوڑھے، ادھیٹر ہر قسم کے رشتہ دار بھی تھے.اور آپ کے حمایتی بھی وہاں بہت تھے.مکہ میں آپ کے دوست غمخوار بھی تھے اور آپ دشمنوں کو خوب جانتے تھے اور ان کی منصوبہ بازی کا آپ کو خوب علم ہو جاتا تھا اور آپ ان کی چالا کیوں اور اپنے بچاؤ کے سامان کو جانتے تھے.تو جب آپ مدینہ شریف میں تشریف لائے تو آپ کو اس دشمن کی شرارت کا کچھ علم نہ ہوتا تھا اور پھر آپ کے یہاں اور بھی دشمن تھے.بنوقینقاع اور بنو قریظہ اور بنونضیر آپ کے دشمن تھے اور پھر جہاں آپ اُترے تھے وہاں ابو عامر راہب جو بنی عمرو بن عوف میں سے تھا اس کا جتھا آپ کا دشمن تھا.یہود چاہتے تھے کہ ایران کے ساتھ مل کر ان سے آپ کو ہلاک کروا دیں اور عیسائی قیصر کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ غطفان اور فزارہ کو بھی ملالیا تھا.یہ نو مشکلات آپ کو تھیں.اس سے بڑھ کر یہ کہ یہاں ایک منافقوں کا گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا.ان منافقوں نے عجیب عجیب کارروائیاں کیں.وہ آپ کے پاس بھی آتے تھے اور آپ کے دشمنوں کے پاس بھی جاتے تھے.اور بارھویں بات جو اس سے بھی سخت تھی وہ یہ کہ مکہ والے ان پڑھ تھے اور وہ بے قانون تھے.ان کا مقابلہ صرف عقل سے ہی تھا.مگر یہاں تمام اہلِ کتاب پڑھے لکھے ہوئے تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی کتا بیں تھیں تو رات اور انجیل اور اس کے سوا اور بھی کتابیں ان کے پاس تھیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ مدینہ میں مشکلات بہت ہیں اس لئے آپ نے عیسائیوں اور مشرکوں سے معاہدہ کر والیا کہ لا تَسْفِكُونَ دِمَاء کُم آپس میں خوں ریزی نہ کرنا وَ لَا تُخْرِجُونَ أَنْفُسَكُمْ مِنْ
حقائق الفرقان ۲۶۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة رووو دیارِ کم ایک دوسرے کو اپنے ملک سے نکالنا نہیں ثُمّ اَقْرَرْتُم تم نے اقرار تو کیا.وَ اَنْتُم تشْهَدُونَ اور تم گواہی دیتے ہو.روو جیسے تم نے ہمارے ہاتھ پر اقرار کیا.کہنا تو آسان تھا مگر معاملات میں دین کو دنیا پر مقدم کر کے دکھلانا.ثُمَّ انْتُم هَؤُلَاءِ تَقْتُلُونَ اَنْفُسَكُمْ پھر تم وہی ہو کہ تم نے وعدہ تو کیا مگر ایفا نہ کیا اور تم خوں ریزی کرتے ہو وَ تُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِنْكُمْ مِنْ دِيَارِھم اور تمہیں اس سے منع کیا تھا کہ کسی کو اپنے گھر سے نہ نکالنا.مگر تم ان کو ان کے گھروں سے باہر نکالتے ہو.تَظْهَرُونَ عَلَيْهِمْ ان کی پیٹھ بھرتے ہو ظلم اور زیادتی سے کبھی کبھی کوئی نیک کام بھی کر لیتے ہو.وَ اِنْ يَأْتُوكُمْ أَسْرَى تُفْدُ وُهُمُ اگر کوئی قیدی آجائے تو اُسے چھڑا دیتے ہو حالانکہ تمہیں اس سے منع کیا گیا تھا.آفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَبِ وَ تَكْفُرُونَ بِبَعْض کتاب کے بعض حصے پر تو ایمان لاتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو.فما جزا مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمُ الاخرى تم تو دنیا کی عزت بڑھانے کے واسطے ایسا کرتے ہو.مگر پھر ایسوں کی جزا یہ ہے کہ وہ ذلیل ہوں گے.آخرت کی ذلت تو ہوگی ہی وہ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور سخت ذلّت اُٹھا ئیں گے اور ان کو سخت سے سخت عذاب ملے گا اور آخرت میں بھی ان کو سخت عذاب میں دھکیلا جائے گا.وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اللہ تمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہے.الفضل جلد نمبر ۲۶ مؤرخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) کیا اس تحریر کا کچھ حصہ مانتے ہو اور کچھ سے انکاری ہو گئے ہو.پس کوئی نہیں سزا اس کی جو ایسا کرے تم میں سے مگر یہ کہ ذلیل ہو اس دنیا میں اور قیامت کے دن بڑے عذاب کی طرف بھیجے جاویں گے اور اللہ غافل نہیں تمہاری کرتوتوں سے.تفصیل.مدینہ کے بارعب بنی اسرائیل اور یہود کو یہ خطاب ہے.یہ لوگ مدینہ کے نواح میں خیبر ، فدک وغیرہ کے مالک تھے اور بڑے جاہ و حشم کی جماعت تھی.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معاہدہ کیا تھا.آخر ان بدعہدوں نے اس عہد نامہ کے بعض حصوں کی خلاف ورزی کی اور یہاں تک گستاخی میں بڑھے کہ استیصالِ اسلام کی دھمکیاں دیں.ان کے متعلق یہ آیت قرآن کریم میں
حقائق الفرقان ۲۶۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.اس میں دو خبریں دی ہیں.اول یہ کہ اس بد عہدی پر تم دنیا میں ذلیل ہو گے اور یہ امر بظا ہر محال تھا کیونکہ ایک طرف کمزور قلیل جماعت اسلام کی اور مقابلہ میں یہ زبردست زمینوں کے مالک.تجارتوں میں ممتاز.دوسری خبر یہ ہے کہ قیامت میں تم پر عذاب ہوگا.یہ دو اطلاعیں قبل از وقت دی گئیں.پھر تیسری بات یہ ہے کہ وہ قوم بارعب و صاحب جاہ و حشم مع تمام قبائل عرب کے جن کو احزاب کہتے ہیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے مگر آخر وہ یہود عرب سے جلاوطن کئے گئے.ان کا نام بنونضیر اور بنو قینقاع تھا اور بنو قریظہ کے یہود بالغ سب کے سب مارے گئے.دیکھود نیوی خبر اور اخروی خبر دو خبریں تھیں اور ان کے مقابلہ میں دو واقعات تھے جن کے متعلق وہ خبریں تھیں.ایک خبر نے اپنے واقعہ کے ساتھ صداقت کی مہر لگادی ہے کہ دوسری خبر عذاب قیامت بھی اپنے واقعہ کوضرور لائے گی.( نور الدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن - صفحہ ۴۲،۴۱) أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَب وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ( البقرۃ:۸۶) کیا تم قرآن کے بعض حصوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو.یہ انکار کتاب اللہ نہیں تو کیا ہے؟ جب کہ كُونُوا مَعَ الصدِقِينَ (التوبة : ۱۱۹) کی ہدایت کی گئی ہے.پھر اس حکم کی ضرورت نہ سمجھنا اور عملی طور پر اس کو بیکار ٹھہرانا اس سے بڑھ کر کس قدر ظلم اور حماقت ہوگی ؟ اتَّقُوا الله جو لوگ ایسا کرتے ہیں کہ قرآن شریف کے بعض حصص کا انکار کرتے ہیں خواہ علمی طور پر خواہ عملی وہ یاد رکھیں ان کی پاداش اور سزا بہت خطر ناک ہے.خزى في الحيوةِ الدُّنْيَا (البقرة : ۸۶) اسی دنیا میں وہ ذلیل ہو جائیں گے اور اب دنیا کی تاریخ کو پڑھ لو اور انبیاء علیہم السلام کے معاملات پر غور کرو کہ جن لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ انکار کیا ان کا انجام کیا ہوا؟ کیا وہ اسی دنیا میں ذلیل اور خوار ہوئے ہیں یا نہیں؟ جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے یا آثار الصنادید سے پتہ مل سکتا ہے وہاں تک صاف نظر آئے گا کہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد صاف اور ثابت شدہ امر ہے.(الحکم.جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۱۰ اکتوبر ۱۹۰۳ء صفحه ۴۶، ۴۷)
حقائق الفرقان ۲۶۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة - أولبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَوةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ - ترجمہ.یہی لوگ ہیں جنہوں نے اس دنیا کی زندگی کو آخرت سے ( بہتر سمجھ کر ) مول لے لیا تو ایسے لوگوں کی سزا تخفیف اور کم نہیں ہو سکتی اور ان کا کوئی معاون اور مددگار نہ ہوگا.تفسیر.مدینہ طیبہ میں ایک شخص ایک مسلمان کے ہاتھ سے اتفاقیہ طور پر مارا گیا.یہ واقعہ گذر گیا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام شہر کے لوگوں کو بلا کر فرمایا کہ ہم مقتول کے وارثوں کو خون بہا دینا مناسب سمجھتے ہیں تا کہ اس کی قوم کے لوگ ہماری مخالفت نہ کریں مگر امنِ عامہ کے شریک اس دیت کے دینے میں شریک نہ ہوئے بلکہ ایک مسلمان عورت تکلا سیدھا کرانے کے لئے قینقاع ( جو لوہار تھے ) کے محلہ میں گئی.وہ گھونگٹ نکالے ہوئے تھی.شریر لوہار نے کہا کہ یہ کپڑا کیوں منہ پر ڈالے ہوئے اُس نے جواب دیا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پردہ کا حکم دیا ہے.اس پر اس بد معاش نے شرارت سے لوہے کی ایک میخ پچھلی طرف کپڑے میں ٹھونک دی.عورت اٹھنے لگی تو اس کا کپڑا بھی پھٹ گیا اور گھونگٹ بھی اتر گیا.یہ حالت دیکھ کر بجائے اس کے کہ معذرت کرتے انہوں نے تمسخر اڑایا.عورت نے گھبرا کر کہا کہ کوئی ہے جو میری مدد کرے.ادھر سے ایک مسلمان بھائی نے یہ بات سن لی وہ مدد کو دوڑا.آپس میں وہاں لڑائی چھڑ گئی جس سے ایک قتل ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خبر بھیجی تو فرمایا کہ ہم نے بیرونی انتظام کے لئے یہ معاہدہ کیا تھا.تم اندرونی معاملات میں ایسے تیز ہو جاتے ہو کہ قتل تک نوبت پہنچ گئی ہے.جب وہ بہت تنگ ہوئے تو مدینہ چھوڑ کر چلے گئے.ادھر بنو نضیر سے ایک حماقت ہوئی کہ کسی اپنے معاملہ کے لئے نبی کریم صلعم کو اپنے محلہ میں بلالیا اور وہاں ایک شخص کو سکھایا کہ جب یہ دیوار کے پاس بیٹھے ہوں تو تم اوپر سے چلی کا پاٹ گرا دو.آپ کو ان کی اس بدنیتی کی خبر کسی نہ کسی طرح مل گئی اس لئے آپ یک دم اٹھ کر چلے گئے اور ان کا داؤ نہ چل سکا.یہ بات بڑھ گئی.ان میں کچھ شاعر بھی تھے وہ مکہ میں گئے اور وہاں کے سرداروں کو جا کر بھڑ کا یا اور بعض نے مسلمان عورتوں سے تعزیل کیا.اس لئے بنو نضیر کو حکم ہوا کہ یہاں سے چلے
حقائق الفرقان ۲۶۵ سُورَةُ البَقَرَة جاؤ.جلا وطن کر دیا گیا حالانکہ ان سے معاہدہ لیا جا چکا تھا کہ وہ ایسے کام نہ کریں گے جن سے یہ جلا وطنی کرنی پڑے.ادھر مکہ والوں نے پیغام بھیجا کہ تم ان مسلمانوں کی عورتوں کو مارو اور ہم باہر سے لشکر لے کر اُن پر حملہ کرتے ہیں.چنانچہ وہ ایک اپنے ساتھ گردونواح کی قوموں کو جمع کر لائے سورۃ احزاب میں اس کا ذکر ہے.آخر خدا تعالیٰ نے اس لڑائی سے مسلمانوں کو بچا لیا.جب وہ لوگ چلے گئے تو آپ نے بنو قریظہ سے پوچھا کہ تم پہلے دو واقعے قینقاع اور بنونضیر کے دیکھ چکے اور پھر بھی شرارت سے باز نہ آئے اور اب تمہارے حق میں ایک فیصلہ کرتا ہوں جو تمہیں ماننا پڑے گا.بد قسمت انسان نیک کی بات کو نہیں مانتا اس لئے انہوں نے کہا ہمیں سعد بن معاذ کا فیصلہ منظور ہے نہ آپ کا.اس نے کہا کہ میری رائے تو یہ ہے کہ جنگ کے شرکاء کو قتل کر دیا جاوے.یہ فیصلہ انہیں چارونا چار منظور کرنا پڑا.جن کو قتل کی سزا دی گئی ان کی تعداد کم از کم دوسو پچاس اور زیادہ سے زیادہ نوسو کی بتائی گئی.خیر یہودیوں کے فرقے تو اس طرح تباہ ہوئے.باقی رہے عیسائی ان کالاٹ پادری عامر تھا اُس نے لوگوں کو خواب سنایا کہ میں نے محمد (رسول اللہ علیہ وسلم) کو دیکھا ہے کہ وہ پراگندہ اور ملک ملک اکیلا پھر تا ہو ا مر جائے گا.آپ نے فرمایا خواب تو سچ دیکھا ہے مگر میرا نہیں اپنا یہ انجام دیکھا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.وہ مکہ گیا اس خیال سے کہ کچھ انتظام مسلمانوں کے خلاف کروں مگر وہاں اس نے شراب پی کر بدمستی کی تو نکالا گیا مگر روما چلا گیا.وہاں بادشاہ کو سکھا یا مگر بادشاہ کسی امر پر ناراض ہؤا راتوں رات نکل کر بھاگنا پڑا اور آخر اسی طرح مارا گیا.حدیث میں وَحِيدًا ، طَرِيدًا، شَرِيدا آیا ہے.اب میدان صاف تھا.دو گروہ رہ گئے ایک منافقوں کا اور دوسرے مسلمانوں کا.منافقوں کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا أُولبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّللَةَ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ورلی زندگی کو اختیار کر لیا اس لئے ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ وہ مدد دیئے جائیں گے چنانچہ جب ان لوگوں کی تباہی آئی کوئی ان کا حامی و ناصر نہ ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ صفحه ۱۵) لے اکیلا ، دھتکارا ہوا ، مار بھگایا ہوا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۶۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں نصیحت کرتا ہے بایں طور کہ جو اگلی قوموں کی برائیاں اور خوبیاں ہیں ان کا بیان کرتا ہے تا کہ مسلمان ان برائیوں سے بچیں.اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ان عذابوں سے محفوظ رہیں گے جوان برائیوں کی وجہ سے ان پر نازل ہوئے اور ان خوبیوں کو اختیار کریں جن کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے.ان آیات میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ بہت سے لوگ ورلی زندگی کو پسند کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے.پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لطف دے اور وہ نظارہ اُن کے مرغوب خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہولیکن اس سچے سرور کی پرواہ نہیں کرتے جو دائمی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کے لئے یہی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ، ہر گھڑی ان کو دُکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا.چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بعد میں ہوتے ہیں.جو عذاب ہے وہ اس سے معذب ہوتے ہیں لیکن اس قسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں.یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دنیا میں بھی دکھا دیا جاتا ہے تا کہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو.دیکھو! وہ قوم جس میں آج اچھے لڑکے نہیں ان پر کبھی وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ ان میں اچھے لڑکے پیدا ہوں.وہ قوم جن میں زور آور نہیں ایک وقت ان پر آتا ہے کہ ان میں زور آور پیدا ہوں اگر ان کے پاس آج سلطنت نہیں تو اس زمانہ کی امید کی جاسکتی ہے جب ان میں بھی امارت آ جائے.ہندوؤں کی حالت گذشتہ و موجودہ پر غور کرو.جب ہم بچے تھے تو یہ ہندو اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے کہ معلم بن سکیں اسی لئے اکثر مسلمان معلمین نظر آتے تھے پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تعلیم میں اس قدر ترقی کر گئے ہیں کہ اب معلم ہیں تو ان میں سے.افسر ہیں تو ان میں سے.وہ اپنی طاقت پر اب یہاں تک بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہم کو اس ملک سے نکال دینے یا گورنمنٹ پر دباؤ ڈال دینے پر تلے بیٹھے ہیں.اس بات کا ذکر میں نے صرف اس لئے کیا ہے کہ قوموں میں جہالت کے بعد علم آ جاتا
حقائق الفرقان ۲۶۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.زوال کے بعد ترقی ہوسکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک قوم ہے ( یہود ) جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا ہم نے ان کو یہ سزا دی کہ اور قوموں میں تو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہ ہوگی اور ان کا کوئی ناصر و مددگار نہ ہو گا چنانچہ یہودیوں کی کوئی مقتدرانہ سلطنت رُوئے زمین پر نہیں.چپہ بھر زمین پر بھی ان کا تسلط نہیں.اگر ان کو تکلیف دی جاوے تو کوئی نہیں جو ان کی حامی بھرے.تیرہ سو برس سے خدا کا یہ کلام سچا ثابت ہو رہا ہے.پس ہمیں اس سے یہ سبق لینا چاہیے کہ خدا کے خلاف جنگ نہ کریں اور ہرگز ہرگز ورلی زندگی کو مقدم نہ کر لیں ورنہ لَا يُنصَرُونَ کی سزا موجود ہے.(البدر جلد ۸ نمبر ۷ ۸ ۹ مؤرخه ۲۴و۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ صفحه ۲) 15 - وَلَقَد أَتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَ أَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَ اَيَّدُ لَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ افَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لا تَهُوَى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَنَّ بُتُم وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ - ترجمہ.اور یہ بات تو یقینی ہے کہ ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی پھر اس کی تائید میں ہم نے لگا تار رسول بھیجے موسیٰ کی وفات کے بعد ( یہاں تک کہ بھیجا اور دیئے ) عیسی بن مریم کو کھلے کھلے نشانات اور اس کی مدد کی کلام پاک سے (بھلا اے بنی اسرائیل!) جب کبھی تمہارے پاس ایسا رسول آیا جو تمہاری من مانی باتوں کا بیان کرنے والا نہ تھا تو تم نے اس سے تکبر ہی کیا انجام یہ کہ ) کسی فریق کو تم نے جھٹلایا اور کسی فریق کے در پے قتل ہور ہے ہو.تفسیر.ہم نے تو ان لوگوں کی بہتری کے لئے موسیٰ کو کتاب دی.پھر اور رسول بھیجے.اخیر میں عیسی بن مریم کو کھلے نشانات کے ساتھ مبعوث کیا اور اسے اپنے کلام پاک سے موید کیا.پھر بھی اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اس نے ان کی خواہشوں کے خلاف کہا تو یہ ا کر بیٹھے.پھر بعض کی تکذیب کی اور بعض کے قتل کے منصوبے کرنے لگے.مگر اس کا انجام ان کے حق میں اچھا نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو فہم عطا کرے.عاقبت اندیشی دے.یہ دنیا چند روزہ ہے.سب یارو آشنا الگ ہونے والے ہیں ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دنیا و آخرت میں ساتھ ہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۷ ۸ مؤرخه ۲۴ و ۳۱ دسمبر ۱۹۰۸ء صفحه ۲)
حقائق الفرقان ۲۶۸ سُورَة البَقَرَة کیسا اللہ کا فضل اور اس کا رحم اور اس کی غریب نوازی ہے کہ ہمیشہ اپنا پاک کلام ہماری تہذیب کے لئے بھیجتارہتا ہے.اگر کسی آدمی کے نام وائسرائے یا حاکم یا کسی امیر کا خط آ جاوے تو وہ اس سے بڑا خوش ہوتے ہیں اور اس کی تعمیل کو بہت ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی تعمیل کرتے ہیں مگر قرآن کریم جو رب العلمین اور تمام جہان کے مالک و خالق کا حکم نامہ ہے اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے اور ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کرتے ہیں.کوئی موسی پر ہی مدار نہ تھا وَ فَفَّيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسل اس کے بعد بھی رسول آتے رہے سلیمان و داؤ د بھی اس کے بعد ہی آئے عیسی بن مریم کو بھی کھلے کھلے نشانات اور تعلیمیں جن پر کوئی اعتراض نہ آتا تھا دیئے.وہ اخلاقی تعلیم تھی.مان لیتے تو کیا حرج تھا ؟ پھر جب تعلیم آئی بِمَا لَا تَهْوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكَبَرتم تم اسے پسند نہیں کرتے اور اسے اپنے مناسب حال بناتے ہو.فَفَرِيقًا كَذَّ بتُم ایک کو تو تم نے جھٹلایا وَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ اور ایک کو اب الفضل جلدا نمبر ۷ ۲ مؤرخہ ۱۷ار دسمبر ۱۹۱۳ ، صفحه ۱۵) بھی قتل کرنا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے موسی کو بھیجا اور پھر اس کے بعد کئی رسول اور بھیجے حتی کہ عیسی کو بھیجا أَيَّد لَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ اور اسے اپنے کلام سے مؤید کیا.پارہ ۲۵ سورۃ شوری کے آخری رکوع کی آیت وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ روح سے مراد کلام ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۵) وَلَقَد اتينا - موسیٰ کو کتاب دی.روح - کلام الہی مسیح علیہ السلام تو موٹی موٹی باتیں ارشاد فرماتے تھے.اخلاقی امور ،کوئی بار یک باتیں نہیں بتاتے تھے.البيِّنت - حجت نیرہ ، شہادت عظیم الشان نشان.هوی گرنا ھوی کے معنے پیارا لگنا.بِمَا لا تھوڑی.جن چیزوں کو تم پسند نہیں کرتے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۶۹)
حقائق الفرقان يُؤْمِنُونَ ۲۶۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وَ قَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِم فَقَلِيلًا مَّا ترجمہ.انہوں نے کہہ دیا کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں ( غلافوں میں کیا ہیں ) بلکہ ان کے کفر کے سبب سے اللہ کی لعنت اُن پر پڑ گئی ہے پس تھوڑے ہیں جو ایماندار ہیں.لف.جس کا ختنہ نہ ہو اس پر ایک پردہ رہ جاتا ہے.اغلف وہ شخص جو نامختون ہے.تفسیر.کا دوسرے معنے غلاف میں ہیں جیسے کہ آیا ہے قلوبنا في النة ( حم السجدة:1) تیسرے معنے ہم بڑے مکرم معظم لوگ ہیں جن پر کسی کا اثر نہیں پڑتا.فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ.کم ہی ایمان لاتے ہیں یہ محاورہ ہے یعنی ایمان نہیں لاتے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مؤرخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۵) وَقَالُوا قلوبنا خلف عربی زبان میں نامختون کو غلف کہتے ہیں اور عرب لوگ نامخنتون کو اچھا نہ جانتے تھے.مگر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کے لئے اس لفظ کو بھی اپنے لئے پسند کیا اور کہا کہ ہمارے دل نامختون ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرما یا بَلْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ یہ تمہارے کفر کے سبب تم پر لعنت ہوئی.الفضل جلد نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱۷؍دسمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) بہت سے لوگ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُم مِّنَ الْعِلْمِ (المؤمن: ۸۴) پر نازاں ہوتے ہیں اور نئی ہدایت کے ماننے سے پس و پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں قلوبنا خُلف یعنی ہمارے دل نا مختون ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان پر لعنت پڑ گئی ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۴ مؤرخه ۲۸/جنوری ۱۹۰۹ ء صفحه ۹) خُلُف.توریت میں اس لفظ کو نا مختون کہا ہے وہاں اس لفظ کے یہ معنے ہیں کہ جو ملت ابراہیمی کے خلاف ہو.یہ معنے بھی ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں.لعن.دھتکارا ہوا.علم پر عمل نہ کرنا اور پاک بندوں سے مخالفت کرنا غضب ہے.ا ہمارے تو دل پر دوں میں ہیں.(ناشر) ۲؎ یہ لوگ خوش ہوئے اس پر جو ان کے پاس علم تھا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۷۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ٩٠ وَلَمَّا جَاءَهُمُ كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقُ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُمْ مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ - ترجمہ.اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے (وہی) کتاب آئی جس سے ان کے پاس کی کتاب کی تصدیق ہوتی ہے اور یہ لوگ پہلے منکروں کو وہ کھول کھول کر بتادیا کرتے تھے اب جبکہ وہ اُن کے پاس آ گیا جس کو وہ پہچانتے تھے تو خود ہی منکر ہو بیٹھے تو منکروں پر اللہ کی لعنت ہی ہوا کرتی ہے.تفسیر - مُصدقی.ایسے لوگوں کی وہ کتا بیں تھیں جن میں کچھ باتیں آئندہ کی نسبت لکھی ہوئی تھیں.قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہو گئی.چنانچہ تو رات باب ۱۸، استثناء آیت ۱۸ میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسیٰ کے ساتھ جانے والوں نے گھبرا کر کہا کہ اے خدا ! ہم تیری آواز سننا نہیں چاہتے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اب وحی تم میں نہیں بلکہ تمہارے بھائیوں میں اترے گی اور پھر اس رسول کے نشان بتائے.(۱) وہ بت پرستی کا دشمن ہو گا (۲) بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا (۳) اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.(۴) جو کہے وہ مانیورنہ دکھ پاؤ گے (۵) جو کہے گا وہ پورا ہوگا (1) وہ موسی کا مثل ہو گا.اعمال حواریوں میں اس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا گیا ہے جہاں لکھا ہے کہ تم دعائیں کرو.ضرور ہے کہ مسیح کے دوبارہ آنے سے پہلے وہ باتیں پوری ہو جاویں جو ہمارے باپ دادا کو کہی گئیں.اس سے صاف ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی مسیح کے حق میں نہ تھی.يَسْتَفْتِحُونَ.یہ باتیں تم کافروں پر کھولا کرتے تھے اور ان کے مقابلہ میں فتوحات کی دعائیں کیا کرتے تھے.وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ.اور پہلے اس آنے والے رسولوں کے متعلق خوب کھول کھول کر بیان کرتے تھے.باب استفعال.مبالغہ کے لئے بھی آتا ہے.یہ بھی معنے ٹھیک ہیں کہ آپ کے نام سے ہی فتح طلب کرتے تھے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۶۹)
حقائق الفرقان ۲۷۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مَا عَرَفُوا.دوسری جگہ فرمایا ہے يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ (البقرة: ۱۴۷) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۵ ۲ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶،۱۵) وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ - جب ان کے پاس اللہ کی کتاب آئی جو اس کتاب کی اور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتی ہے جو تمہارے پاس ہے.تم نبی کریم صلعم کی آمد آمد کی خبر دے رہے تھے جیسا میں نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مہدی کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے تھے مگر وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر کسی کو خبر نہ ہوئی...اصل بات یہ ہے فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِہ.آئے پر انکا ر ہی ہوتا ہے.پھر دل لعنتی ہو جاتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.الفضل جلد نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱۷ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اللہ کا باغی بن جاتا ہے اور اللہ کے رسول اور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدیقوں کو جھٹلاتا ہے.وہ مرض عادت، رسم ورواج اور دم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے.یہ چار چیزیں میں نے دیکھا ہے چاہے کتنی نصیحتیں کرو.جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کیخلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لے گا.میں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے ان کو کسی برائی یا بد عادت سے منع کیا جاوے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتنی نیکیاں کرتے رہتے ہیں.یہ بد عادت ہوئی تو کیا.معلوم ہوتا ہے وہ بدی ان کو بدی نہیں معلوم ہوتی.انبیاء اور خلفاء اور اولیاء اور ماموروں کی مخالفت کی یہی وجہ ہے.یہ قرآن کریم آیا اور اس نے ان کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہی پہلے لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے مگر جب قرآن شریف آیا كَفَرُوا بِہ انہوں نے اس کا انکار کر دیا فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِین تو اللہ سے وہ بعید ہو گئے.ایک آدمی جب جھوٹ بولنے لگتا ہے تو پہلے تو مخاطب کو کہتا ہے کہ میری بات کو جھوٹا نہ سمجھنا میں تمہیں سچ سچ بتا تا ہوں میں تو جھوٹے کو عنتی سمجھتا ہوں مگر ہوتا دراصل وہ خود ہی جھوٹا ہے.الفضل جلد نمبر ۲۸ مورخه ۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) لے اہل کتاب ( محمد مصطفی احمدمجتبی ) کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۷۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۹۱ - بِئْسَمَا اشْتَرُوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللهُ بَغْيًا أَنْ يُنَزِّلَ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ فَبَاءُ وَ بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَ الكفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ - ترجمہ.ان لوگوں نے اپنی جانوں کو بڑے سودے میں ڈالا صرف اسی ضد پر اللہ کے اتارے ہوئے کلام سے منکر ہو گئے کہ اللہ نے اپنے بندوں میں سے ایک بندے ( محمد ) پر جس کو اس نے اپنے ارادہ میں فضل کے لائق پایا اپنا فضل نازل کیا (اسی بے جاضد کے سبب سے ) غضب پر غضب چڑھا لائے اور ان منکروں پر اب ذلت اور رسوائی کا عذاب ہوگا.تفسیر - بِئْسَمَا اشْتَرُوا بِهِ أَنفُسَهُمْ - یہ بہت بری بات ہے.وہ اللہ کا انکار کرتے ہیں صرف وہ بغاوت کی وجہ سے.داؤ د وسلیمان کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی.اس وجہ سے ان پر لعنت پڑی اور وہ تتر بتر ہو گئے.ہسپانیہ میں اللہ کی مخالفت ہوئی.ان پر عذاب الہی نازل ہوا.مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا.صرف عمدہ عمدہ کتابیں لے جانے کی اجازت دی گئی.مگر ان کتابوں کے تینوں جہاز جو انہوں نے بھرے تھے بمع آدمیوں کے غرق کر دیئے گئے.بغداد میں احکام الہی کا مقابلہ کیا گیا تو ان کا نام و نشان اٹھادیالَهُمْ دَارُ السَّلَامِ عِنْدَرَبَّهِمْ کے تفاؤل پر اس کا نام دار السلام رکھا گیا تھا.عیسائیوں نے مسیح کی مخالفت کی.ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور ان پر غضب پر غضب نازل ہؤا.ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر تم آخری نبی کو مان لو گے تو تم کو اجر ملے گا اور تم کو نجات دی جاوے گی مگر انہوں نے نہ مانا اس لئے ان کو عذاب مہین ہوگا.الفضل جلد نمبر ۲۸ مؤرخه ۲۴ دسمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) بِغَضَب على غضب مسیح کی مخالفت کا غضب پھر اس نبی کی مخالفت کا غضب.609 (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶) عَذَابٌ مُّهِينٌ.یہ سزا ہے استکبار کی جس کی وجہ سے انکار کیا.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۸) لے ان کے لئے ان کے رب کے ہاں سلامتی والا گھر ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۷۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة b ۹۲ - وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ أمِنُوا بِمَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا نُؤْمِنْ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَ يَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاءَهُ وَهُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَهُمْ قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاءَ اللهِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ترجمہ.اور جب ان کو کہا جاتا ہے کہ یہ کلام جو اللہ کی طرف سے اترا ہے اس کو مان لو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُس کلام کو جو ہم پر اتر چکا ہے مانتے ہیں اور جو اس کے سوا ہے اس کے منکر ہیں.حالانکہ وہ ( قرآن ) حق اور حکمت سے بھرا ہوا (ہے) اُن کے پاس والے کلام کو سچا ٹھہراتا ہے ان سے کہہ دو اچھا ) جب تم (اپنی کتاب کو) مانتے ہو تو پھر اللہ کے نبیوں کے در پے قتل کیوں ہورہے ہواؤل سے.وَهُوَ الْحَق.اور وہ حق ہے اگر کتاب سچی بھی ہو اور سچ کی تصدیق کرنے والی بھی ہو تو پھر انسان کیوں نہ مانے؟ تقتلون.مقابلہ کرتے رہے.اگر کہیں کہ وہ نبی نہ تھے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اچھا موسیٰ کو تو تم سب نبی مانتے ہو پس تم نے اس کی کیوں حکم عدولی کی؟ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۶) فَلِمَ تَقْتُلُونَ.دیکھومتی باب ۲۳ آیت ۳۷.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۸) جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے اللہ تعالیٰ کے مُرسل و مامور اپنے اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مرتے اور نہ ہلاک ہوتے اور نہ مارے جاتے ہیں.مامورین کے ساتھ جدال وقتال ہوتا ہے.مگر یہ مقابلہ و مقابلہ کرنے والے ناکام و نامراد مرتے ہیں اور مامور لوگ اللہ کے فضل سے مظفر و منصور اور کامیاب ہو کر دنیا سے جاتے ہیں.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن - صفحہ ۲۲۸،۲۲۷) وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أَمِنُوا بِمَا اَنْزَلَ الله - اور جب ان کو کہا جاوے کہ اس کتاب کو مانو جس کو اللہ نے اتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے او پر اتاری گئی حالانکہ وہ بھی ایک حق ہے.
حقائق الفرقان ۲۷۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فرمایا.اگر تم اس کو ماننے والے ہوتے تو تم نبیوں کا مقابلہ کیوں کرتے.وہ اگر کہیں کہ ہم ان کو نبی نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ موسیٰ بھی تو توحید لائے تھے تم نے ان کا کیوں انکار کیا؟ الفضل جلد نمبر ۲۸ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ انْبِيَاءَ اللهِ.تم نے کس لئے اللہ کے انبیاء کو قتل کیا جو پہلے آئے.میرے خیال میں تو صاف ظاہر ہے کہ انبیاء تو قتل نہیں ہوئے میرے نزدیک قتل کے معنے سخت مقابلہ کے ہیں.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ صفحه (۶۹) ۹۳ ۹۴ - وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَ اَنْتُم ظُلِمُونَ - وَ اِذْ اَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا أتَيْنَكُم بِقُوَّةٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَ أَشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِهِمْ قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِه إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ.ترجمہ.( اور اچھا جب کہ) تمہارے پاس موسیٰ کھلے کھلے نشان لے کر آ چکا تھا تو تم نے اس کے پیچھے بچھڑے کی پوجا ( کیوں ) شروع کر دی تھی اور تم ( کیوں) مشرک ہو گئے؟ اور (اچھا) جب کہ ہم نے کوہ طور کوتم پر بلند رکھ کر شریعت کی پابندی کا تم سے عہد لیا تھا کہ جو حکم تم کو دیئے جاتے ہیں ان کو خوب مضبوط پکڑو اور خوب سنو ( بظاہر تو انہوں نے ) یہی کہا کہ جی ہاں ہم نے سنا ( مگر دل میں وہی نیت ) نافرمانی کی رہی اور اُن کے کفر کے سبب سے اُن کے دلوں میں بچھڑے کی محبت خوب رچ گئی ، اُن سے کہہ دو کہ جب تم ایسے ہی ایمان دار ہوتو پھر یہ تمہارا ایمان تم کو بری راہ سکھاتا ہے.تفسیر.عَصَيْنَا.مان تو لیا مگر ہم سے اس پر عمل نہیں ہوسکتا.اُشْرِبُوا.رچ گئی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مؤرخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶) ایک پہاڑی پر جس کا نام حراء ہے ہماری سر کا ر سے بھی اللہ نے کلام کیا.ایسا ہی حضرت موسیٰ“ سے بھی ایک پہاڑ پر کلام ہو اجس کا نام طور ہے.رَفَعْنَا فَوقَكُمُ الظور کے معنے ہیں کہ اس کے دامن میں سب قوم کو کھڑا کیا.جیسے بولتے ہیں لا ہور شہر راوی کے اوپر ہے.ایسا ہی ہجرت کی ایک حدیث
حقائق الفرقان ۲۷۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں ہے فَرُفِعَ لَنَا الجبل تو اس کے یہ معنے نہیں کہ پہاڑ اکھیڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے او پر رکھ دیا گیا.خُذُوا مَا أَتَيْنَكُم بِقُوَّةٍ - جیسے بنی اسرائیل کو تو رات محکم پکڑنے کا حکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآنِ مجید کے بارے میں حکم ہے.اگر مانو گے تو فائدہ ہوگا اور اگر نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے.عورتوں کا بڑا حصہ تو قرآن سنتا ہی نہیں.امیر بھی بدبختی سے قرآن نہیں سن سکتے نہ باجماعت نماز پڑھ سکتے ہیں.زمینداروں کو فرصت نہیں.فصل خریف سے فراغت پا کر کماد پیرنے کا موسم آ جائے گا.پھر ہم سے سوال کئے جاتے ہیں کہ سفر میں روزہ معاف ہے تو کٹائی کے موقع پر بھی کر دیجئے حالانکہ میں ایسا مجتہد نہیں تمہیں دنیا میں خبر ہے یہود نے کیا کیا ؟ انہوں نے سبت (خواہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کا ، اس کے معنے کرو، خواہ آرام کے معنے لو ) میں بے اعتدالی کی.آرام میں ، آسودگی میں انسان اپنے مولی، اپنے حقیقی محسن کو بھول جاتا ہے.میں نے اپنی اولاد کے لئے بھی دولت کی دعا نہیں کی.اس اعتداء کی پاداش میں ان کو ایسا ذلیل کیا جیسے بندر، کہ قلندر کے نچانے پر ناچتا ہے.یہی حال آجکل مسلمانوں کا ہے.ان کا اپنا کچھ بھی نہیں انگریزوں کے نچانے پر ناچتے ہیں.جو لباس ان کا ہے وہی یہ اختیار کرتے ہیں.جو فیشن وہ نکالتے ہیں ، جو ترقی کی راہ بتلاتے ہیں بلا سوچے سمجھے اس پر چل پڑتے ہیں.ایسی حالت میں کب لا خَوْفٌ وَلَا يَحْزَنُ ہو سکتے ہیں.یہ حالت کیوں ہوئی اس لئے کہ خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا.میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو.اس پر عمل کرو !! الفضل جلد نمبر ۲۱ مؤرخه ۵/ نومبر ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) خُذُوا مَا أَتَيْنَكُمْ بِقَوةٍ.بڑی قوت سے اس پر عمل کرو.لے ہمارے سامنے پہاڑ ظاہر ہوا.(ناشر) البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۶۹)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة ود ۹۶۹۵ - قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللَّهِ خَالِصَةً مِّنْ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمُ صُدِقِينَ - وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ - - ترجمہ.( اور اچھا یہ بھی ) تم ان سے کہہ دو کہ اگر آخرت کا گھر اللہ کے نزدیک سب لوگوں کے سوا خالص تمہیں کو ملے گا تو تم سب کے سب میرے مرنے کے لئے بددعائیں کرو جب تم سچے ہو.اور وہ ہرگز ہرگز اس فیصلہ کی آرزو نہ کریں گے جو اُن کے سامنے ہے کیونکہ وہ آگے بڑے کرتوت کر چکے ہیں اور اللہ تو ظالموں سے خوب واقف ہے.تفسیر.تَمَتَّوُا الْمَوْتَ.اس کے دو معنے ہیں.دونوں پسند ہیں.ایک تو یہ کہ تم سب مل کر اس نبی کے مرنے کی دعائیں کرلو اور پھر دیکھو کہ یہ دعا مقبول ہوتی ہے یا نہیں یا الٹی تم پر پڑتی ہے یا وہ جنگ کر لو جو ایک گروہ کو فنا کر دے.موت بمعنی جنگ.قرآن کریم میں بھی آیا ہے.چنانچہ فرمایا ؤ لَقَد كُنتُم تَمَنَّونَ الْمَوْتَ - (ال عمران : ۱۴۴) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۱۶) قُلْ اِن كَانَت.اچھا تو یہ بتاؤ کہ آخرت پر ایمان لاتے ہو اور اپنے آپ کو کامیاب ہونے والا سمجھتے ہو تو آؤ ایک فیصلہ کن جنگ کر لو مگر ہم جانتے ہیں کہ یہ زندگی کے بڑے شائق ہیں.مگر یہ یا در ہے کہ بڑی عمر پا نا عذاب سے نہیں بچاسکتا.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۶۹) ۹۷ - وَلَتَجِدَتْهُمُ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيوةِ وَ مِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ - ترجمہ.اور تو ان کو سب سے زیادہ دنیا کی زندگی پر حریص لوگوں سے پائے گا اور یہ مشرک نصاری وغیرہ آرزو کرتے ہیں کہ کاش ان میں سے ہر ایک ہزار ہزار سال کی عمر پاوے اور اگر ہر اے اور بے شک تم ایسی جنگیں چاہتے تھے جنگوں کے پیش آنے سے پہلے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۷۷ سُورَةُ الْبَقَرَة ایک اتنی عمر پائے جب بھی ان کو عذاب سے کوئی چھڑانے والا نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ تو اُن کے کرتوتوں کو خوب دیکھ رہا ہے.تفسیر.وَمِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا.یہ تو زیادہ جینے کی حرص میں مجوسیوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں جن میں ایک دعائیہ فقرہ ہے کہ ہزار سال نبوی.بچاسکتی.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۶) لَوْ يُعَمَّرُ الفَ سَنَةٍ - ہزار سال پزی (۲) یا جوج ماجوج کے خروج کی بابت پیشگوئی ہے کہ ہزار سال بعد ہو گی بعض کہتے تھے اس وقت تک جیئیں.پھر تو مان لیں.فرمایا یہ بات عذاب سے نہیں تنفيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۸) ٩٩،٩٨ - قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللهِ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ - مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِلهِ وَ مَلَكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِنْكُلَ فَإِنَّ اللهَ عَدُوٌّ لِلْكَفِرِينَ - ترجمہ.کہہ دو کون دشمن ہے جبرئیل کا اُس نے تیرے دل پر جو کچھ نازل کیا ہے وہ اللہ کے حکم سے کیا ہے.وہ کلام سچ سچ کرنے والا ہے اُن باتوں کا جو سامنے ہیں اور ہدایت ہے اور بشارت ہے مومنوں کے لئے.جو شخص اللہ کا دشمن ہو اور اُس کے فرشتوں اور رسولوں کا اور جبرئیل اور میکائیل کا تو بے شک اللہ بھی ایسے منکروں کا دشمن ہے.تفسیر - قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ لوگ کس طرح اللہ کی بات سے محروم رہتے ہیں اور کیونکر را ستبازوں کے دشمن ہو جاتے ہیں اور کس طرح ضد اور عداوت بے جا کلمات کے لئے جرات دلاتی ہے.ان تین باتوں کا بیان اس رکوع میں ہے.بہت سے لوگ ملائکہ کے منکر ہیں.بعض مسلمانوں نے بھی ان پر ایمان لانے کو اتنا ضروری نہیں سمجھا حالانکہ تمام نیک تحریکوں کے سرچشمے یہی ہیں.علم عقائد میں ایک کتاب ”کتاب التوحید نام میں نے دیکھی ہے جس میں اس نیک بخت نے ملائکہ کا ذکر نہیں کیا.میں ملائکہ کی نسبت کچھ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان پر ایمان نے مجھے بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے.
حقائق الفرقان ۲۷۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس دنیا میں کوئی مستقب بغیر از سبب نہیں ایک چیز دوسری چیز سے پیدا ہوتی ہے.اس زمانے کے فلاسفر بھی اس بات کو مانتے ہیں.پس خیال کرو کہ بعض وقت بیٹھے بیٹھے آدمی کے دل میں نیک کام کے لئے ایک لہر اٹھتی ہے اور ایک نیکی کے کرنے کے لئے جوش پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں جدید تحریک نظر آتی ہے.حالانکہ انسان اور اس کا علم اور اس کے قومی پہلے سے موجود تھے مگر یہ تحریک یک دم پیدا ہوتی ہے جس سے معلوم ہوا کہ کوئی نہ کوئی وجود اس کا محرک ہے.پس ایسی تحریک کرنے والے کا نام حدیث و قرآن کی رو سے ملک ہے.ملک کو علم ہوتا ہے اس لئے وہ حسب موقعہ محل ایک کام کی تحریک کرتا ہے جو انسان فورا اس پر عمل کرتا ہے.( ہمارے حضرت اقدس اپنے قلب صافی میں جس وقت کسی کام کی تحریک پاتے تو اسی وقت خواہ رات کے بارہ بجے ہوں اس کے کرنے میں مشغول ہو جاتے اور مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ) تو ملک کو اس شخص کے ساتھ ایک محبت پیدا ہو جاتی ہے اس لئے وہ اور تحریکیں کرتا ہے اور پھر دوسرے ملائکہ کو بھی جو اس کے قریب ہوتے ہیں اطلاع دیتا ہے کہ یہ قلب اس قابل ہے کہ ہم اسے نیک تحریکیں کرتے رہیں.اس طرح تمام ملائکہ حتی کہ ملاء اعلیٰ میں اس کی نسبت ایک توجہ پیدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق بڑھتے بڑھتے وہ زمانہ آتا ہے کہ تتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا (حم السجدة: ۳۱) یہ بالکل سچی بات ہے جو میں نے کہی تم تجربہ کر کے دیکھ لو.پھر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام ملائکہ کا آفیسر جبرائیل امین ہے یعنی تمام محکمے نیکیوں کی تحریک کے جو قلب سے متعلق ہیں ان کا افسر جبرائیل ہے چنانچہ قرآن مجید میں عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَدِيْنِ.مُطَاعِ ثُمَّ آمِين (التکویر : ۲۱، ۲۲) آیا ہے.رسول کریم نے فرمایا أُوتِيتُ جَوَامِعَ الكَلِمِ میری تعلیم تمام دنیا کی پاک تعلیموں کی جامع ہے کیونکہ تمام نیکیوں کی تحریکوں کے آفیسر کا تعلق میرے قلب سے ہے.جامع کے یہ معنے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسی صداقت ( جو قلبی اور روحانی ہو ) نہ ہوگی جس کے لئے قرآن مجید سے کوئی آیت نہ ملے.لے ان پر فرشتے اُترتے ہیں ( یہ کہتے ہوئے ) کہ آپ خوف نہ کریں اور دل میں رنجیدہ نہ ہوں.(ناشر) عرش عظیم کے مالک کے نزدیک بڑا درجہ پایا ہوا ہے.اطاعت کیا گیا اللہ کے پاس بڑا امانت دار ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۷۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جبرائیل کا کون دشمن ہو سکتا ہے جبکہ وہی نیک تحریکوں کا سر چشمہ ہے.اسی نے نازل کیا ہے یہ قرآن تیرے قلب پر.آئندہ جو ہو گا وہ دنیا دیکھ لے گی مگر موجودہ تعلیمات دنیا میں جس قدر ہیں ان ساری پاک تعلیموں اور نیک تحریکوں کا عطر نکالو پھرمحمد رسول اللہ (صلعم) کی تعلیم سے مقابلہ کرو تو وہ سب کچھ اس میں موجود ہو گا اور میں (نورالدین) اس بات کا گواہ ہوں کہ میں نے ساری بائیبل کو دیکھا ہے اور تین ( سام، بحجر اور رگ ) ویدوں کو خوب سنا ہے پھر دسا تیر کو بہت توجہ سے پڑھا ہے اور برہموؤں کی کتابوں کو دیکھا یہی کتابیں میرے نز د یک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کی ہیں.ان سب میں کوئی ایسی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں نہ ہوا اور پھر ا تم نہ ہو.مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنین پھر فرماتا ہے کہ جو اگلی کتابوں میں سچ ہے اس کی تصدیق کرنے کے علاوہ اس میں اور بھی کچھ ہدایتیں ہیں جو پچھلی کتابوں میں نہیں.ایک بات سناتا ہوں.اگلی کتابوں میں جو نصائح ہیں ان پر دلائل نہیں.چنانچہ ان میں لکھا ہے خدا ایک ہے.زمین و آسمان میں تیرے لئے کوئی دوسرا خدا نہ ہو.پڑوسی کی مددکر.سبت منا.مبارک وہ جو غریب دل ہیں.اس قسم کی تعلیمات ہیں مگر ان کے ساتھ دلائل کوئی نہیں مگر قرآن شریف میں یہ خاصہ ہے کہ ایک طرف دعوی ہے دوسری طرف اس کے دلائل بھی ساتھ دیئے ہیں.اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَايْتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (البقرة: (۱۶۵) میں لآیات سے مراد دلائل ہیں.ا بے شک آسمان اور زمین کے پیدا کرنے میں اور رات اور دن کے ہیر پھیر میں اور جہازوں میں جولوگوں کے فائدہ کی چیزیں لے کر سمندر میں چلتے ہیں اور برسات میں جس کو اللہ بدلی سے برساتا ہے پھر اُس کے ذریعہ سے زمین کو جلاتا ہے اُس کے مر گئے پیچھے اور ہر قسم کے جانوروں میں جو اس زمین میں پھیلا رکھے ہیں اور ہواؤں کے چلانے میں اور اُس بادل میں جو ( اللہ کے حکم سے ) گھرا ہوا رہتا ہے آسمان اور زمین کے بیچ میں ( غرض ہر ایک میں) بہت کچھ نشانیاں موجود ہیں اُن ہی کے لئے جو عقل رکھتے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۸۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یہ قرآن مجید پہلے مصدق ہوا.پھر اس میں نئی باتیں بھی ہیں.یہ تو علمی پہلو سے اس کا کمال ہے.اب عملی پہلو میں اس کا ثبوت لو.وہ یہ کہ قرآن کریم پر عمل کرو تو دنیا کے فاتح بن جاؤ گے چنانچہ صحابہ کی ذات میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی.بشری کی ایک تشریح یہ بھی ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۸ مورخه ۲۵ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۶) مباحثات سے بہت بچنا چاہئے.مباحثات میں ابتداء کبھی نہ کرے ابتداء کسی اور کی طرف سے ہونی چاہئے.جب ابتدا اپنی طرف سے نہ ہو تو خدا تعالیٰ ضرور مدد کرتا ہے.قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیل.تو کہہ دے جو جبرائیل کا عدد ہے.کہتے ہیں کہ کچھ یہودی مدینہ میں آئے اور نبی کریم سے مباحثہ کیا اور مباحثہ میں کہا کہ کیا ثبوت ہے کہ آپ کو الہامات ہوتے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ وہی ثبوت ہے جو حضرت موسیٰ کے لئے الہام کا ثبوت ہے.ایک جگہ فرمایا ہے.قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِى جَاءَ بِهِ مُوسى (الانعام:۹۲) اُس نے کہا کہ ہم تو موسیٰ کے الہام کو بھی نہیں مانتے کہنے کو تو یہ بات کہہ گیا مگر پھر حیران رہ گیا.پھر سوچ کر کہنے لگا کہ آپ کے پاس کونسا فرشتہ وحی لاتا ہے.آپ نے کہا جبرئیل.اس نے کہا کہ جبرئیل تو ہمیشہ سے یہود کا دشمن ہے.یہ صرف مباحثات کا نتیجہ ہے کہ انسان اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ اپنا مذہب بھی چھوڑ بیٹھتا ہے.اسی واسطے احادیث میں مذکور ہے کہ زمانہ وغیرہ کو بھی گالی نہ دو.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۷ /نومبر ۱۹۱۲ صفحہ ۷۰۶۹) ميكل - ان تمام ملائکہ کا آفیسر ہے جن کے علوم دماغ سے وابستہ ہیں مثلاً ریاضی (موسیقی، ہندسہ، جبر و مقابلہ ) اور طبیعات ( اسٹرانومی، کیمیا) یہ علوم البیات سے کم درجہ پر ہیں اس لئے جلد سمجھ میں آ جاتے ہیں.مگر جوں جوں علوم اعلیٰ ہوتے جاتے ہیں تو باریک بھی ہوتے جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک اپنے عزیز کو میں نے وہ لیکچر سننے کے لئے بھیجا جو سورج گرہن کو دیکھ کر ایک انگریز نے دینا تھا.وہ لڑکا کہنے لگا میں نے تو کچھ نہیں سمجھا.پھر اس نے اپنے ماسٹر سے پوچھا تو اس نے کہا.پانچ سال میں اس کی صحبت میں رہوں تو اس کی باتیں سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہوں.غرض دنیا میں کئی قسم کے علوم ہیں اور وہ تمام علوم ملائکہ کی معرفت لوگوں پر کھلے ہیں.وہ الہیات کے ہوں یا طبیعات کے،
حقائق الفرقان ۲۸۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دونوں کا انکار ملائکہ اور ملائکہ کے آفیسر ز جبرائیل و میکائیل کا انکار ہے.پھر رسولوں کا انکار ہے جو ان ملائکہ کی تحریکات کے مہبط ہیں.پھر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار ہے جو تمام رسولوں کے کمالات کے جامع ہیں اور ایسے لوگوں کا اللہ تعالیٰ مخالف ہے.اور پھر ایسا کفر کرنے والوں کا ایک نشان ہے کہ وہ سب بدعہد ہیں اور فاسق و فاجر، اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کیونکہ جبرائیل و میکال کا دشمن وہی ہوگا جو دین و دنیا کے متعلق عمدہ و نیک تحریکوں کا مخالف ہو اور وہ فاسق فاجر کے سوا کون ہو ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۴و۱۱ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۷) سکتا ہے.میں نے بارہا سنایا کہ ملک پر ایمان لانے کا منشاء کیا ہے؟ صرف وجود کا مانا تو غیر ضروری ہے.اس طرح تو پھر ستاروں ، آسمانوں ، شیطانوں کا ماننا بھی ضروری ہوگا.پس ملائکہ پر ایمان لانے سے یہ مراد ہے کہ بیٹھے بیٹھے جو کبھی نیکی کا خیال پیدا ہوتا ہے اُس کا محرک فرشتہ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جائے کیونکہ جب وہ تحریک ہوتی ہے تو وہ موقعہ ہوتا ہے نیکی کرنے کا.اگر انسان اس وقت نیکی نہ کرے تو ملک اس شخص سے محبت کم کر دیتا ہے.پھر نیکی کی تحریک بہت کم کرتا ہے اور جوں جوں انسان بے پرواہ ہوتا جائے وہ اپنی تحریکات کو کم کرتا جاتا ہے اور اگر وہ اس تحریک پر عمل کرے تو پھر ملک اور بھی زیادہ تحریکیں کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس شخص سے تعلقات محبت قائم ہوتے جاتے ہیں بلکہ اور فرشتوں سے بھی یہی تعلق پیدا ہو کر نَتَنَزِّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلكَةُ (حم السجدۃ: ۳۱) کا وقت آ جاتا ہے.یہاں خدا تعالیٰ نے خصوصیت سے دوفرشتوں کا ذکر کیا ہے اس میں ایک کا نام جبرئیل ہے.دوسرے مقام پر اس کے بارے میں فرمایا ہے.اِنَّه لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ - ذِى قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينِ.مُطَاع ثم آمین.(التكوير : ۲۰ تا ۲۲) یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزت والا.طاقتوں والا.رتبے والا.اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں.اللہ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے.پس جب یہ امر مسلم ہے کہ تمام دنیا میں ملائکہ کی تحریک سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے اور ملائکہ کی فرمانبرداری مومن کا فرض ہے تو پھر اس ملائکہ کے سردار کی تحریک اور بات تو ضرور مان لینی چاہیے.چونکہ یہ تمام محکموں کا لے ان پر فرشتے اترتے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۸۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة افسر ہے اس کی باتیں بھی جامع ہیں.پس ہر ایک ہدایت کی جڑ یہی جبرئیل ہے جس کی شان میں ہے فَإِنَّهُ نَزَّلَه عَلى قَلْبِكَ (البقرة: ۹۸) یعنی اس کی تمام تحریکوں کا بڑا مرکز حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب ہے.پس ہمہ تن اس کے احکام کے تابع ہو جاؤ کیونکہ یہ جامع تحریکات جمیع ملائکہ ہے اور اسی لحاظ سے قرآن شریف جامع کتاب ہے جیسا کہ فرماتا ہے فیها كُتُب قيمة (البينة:۴) تو گویا جو جبرئیل کا منکر ہے وہ اللہ کا دشمن ہے.پھر اللہ کے کلام کا کافر ہے.پھر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مخالف ہے.پھر ایک اور ملک کا ذکر فرمایا ہے.جہاں تک میں نے سوچا ہے حضرت ابراہیمؑ کی دعا ربنا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة : ۲۰۲) سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ انسان کو دو ضرورتیں ہیں ایک جسمانی جیسے عزبت، اولاد.ان کے اخراجات، کھانے کے لئے چیزیں، ایک روحانی، جبرائیل کے بعد ایسی تحریکوں کا مرکز میکائیل ہے.اللہ نے دین بنا یا.دنیا بھی بنائی.یہ جہان بھی بنایا وہ جہان بھی.دونوں تحریکوں کا مرکز ہمارے نبی کریم کا قلب مبارک تھا.اسی لئے فرمایا أُوتِيتُ جَوَامِعَ الكَلِم المسلم كتاب المساجد و مواضع الصلاة.باب المساجد و مواضع الصلاة) قرآن شریف میں دنیا و دین دونوں کے متعلق ہدایتیں ہیں.بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اللہ کی پاک آیات کو واہیات بناتے ہیں.بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو انسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اللہ غفور رحیم ہے.اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدم کر لیتا ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مؤرخه ۴ فروری ۱۹۰۹ء صفحه ۳) لجبريل.اس کا ذکر دانیال باب ۸ آیت ۱۲ میں ہے.جابرایل.خدا کا مقترب.ا جس میں پائدار کتابوں کی صداقتیں ہیں.۲.اے ہمارے صاحب ! تو ہمیں دنیا میں بھی خیر و برکت دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا.۳ مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۸۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دینیات کا مرکز جبرائیل ہے اور دنیوی کارخانہ کا میکائیل.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۸) ١٠٠ - وَلَقَد أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ أَيتِ بَيِّنَتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلَّا الْفُسِقُونَ - ترجمہ.اور بے شک خود ہمیں نے تجھ پر نازل کی ہیں ایسی کھلی کھلی آیتیں اور فاسقوں کے سوا ان کا کون منکر ہوسکتا ہے.تفسیر.اور بے شک ضرور ہی بھیجیں ہم نے تیرے پاس کھلی نشانیاں اور ان کا منکر کوئی نہیں b مگر فاسق لوگ.(ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.تصانیف حضرت خلیفہ مسیح الاول' کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۲) ١٠٣ - وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُوا الشَّيطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَنَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَ لكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا يُعَلِمُونَ النَّاسَ السّحْرَة وَ مَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِمَنِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرُ ، فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَ مَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَريهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ - ترجمہ.اور کتاب ( الہی کو چھوڑ کر ) اس کے پیچھے پڑ گئے جو شیاطین بدکارسلیمان کی حکومت میں پڑھتے رہتے تھے اور سلیمان تو حق چھپانے والی باتوں سے کوئی تعلق نہ رکھتا تھا لیکن شریر ہلاک کرنے والوں ہی نے کفر کیا جو لوگوں کو دل رُبا یا گمراہ کرنے والی باتیں سکھاتے تھے اور اتباع کیا اُس کا جوا تارا گیا بابل میں ہاروت و ماروت دوفرشتوں پر اور وہ دونوں نہیں سکھاتے تھے کسی ایک کو یہاں تک کہ کہہ لیتے تھے کہ ہم بڑے بھلے کی امتیاز کے لئے ہیں تو کافر نہ بنیو.پس سیکھتے ہیں ان دونوں سے ایسی باتیں جس سے عورت مرد میں فرق کرتے ہیں اور وہ تو کسی کو بھی اس کے ذریعہ تکلیف نہیں پہنچا سکتے (ہاں ضرر تو اسی کو پہنچتا ہے ) جس کو اللہ چاہے اور ( شریر لوگ ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر پہنچاتی ہیں اور نفع نہیں
حقائق الفرقان ۲۸۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیتیں اور بے شک وہ خود بھی جانتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے خریدا ہے اس کا کچھ بھی نتیجہ آخرت میں نہیں ہے اور البتہ بُرا ہے جو کچھ انہوں نے اپنی جانوں کے بدلے میں خریدا.کاش وہ جانتے.لو تفسیر او كُلبَا عَهَدُوا عَهْدًا عہد کرتے ہیں اور پھر توڑ دیتے ہیں.خدا تعالیٰ کی کتاب کو اس طرح سے پس پشت ڈال دیتے گویا کہ وہ جانتے ہی نہیں.انسان کے قومی محدود ہیں ایک حد تک کام کر کے تھک جاتے ہیں.اسی واسطے انسان بعض اوقات لعب کی کتابوں میں مصروف ہو جاتا ہے.حضرت سلیمان کے زمانہ میں بڑا امن ہو گیا تھا.ایسی ہی حالت میں بیرونی آدمی آتے تھے اور اپنے ہمراہ عجیب عجیب دلر با اشیاء لاتے تھے تا کہ مقبول ہوں مگر جب مقبول نہیں ہوتے تو برا بھلا کہتے ہیں.اس لئے بہت سے لوگوں نے اپنی عجیب عجیب بدذاتیوں کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف منسوب کیا ہے.مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ - سلیمان علیہ السلام کا فر نہ تھے بلکہ کافر شیطان تھے جو سحر کی باتیں کرتے تھے.و سخر - كُلُّ مَا دَقَ وَ لَطَفَ مَأْخَذُهُ ، ناول، دلربا با تیں حقیقت سے بات کو ہٹا دینا.ایسے اعمال جن سے انسان ارواح بحیثہ سے تعلق پیدا کرتا ہے.اعلی درج کی لطیف بات کو بھی بھر کہتے ہیں.حضرت نبی کریم نے فرمایا ہے.وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لسخرًا (صحيح بخاري كتاب النكاح باب الخطبة ).پس معلوم ہوا کہ سحر ممدوح بھی ہے اور مذموم بھی.سحر کی میں نے بڑی کتابیں پڑھی ہیں.بعض لوگ تو خواص اشیا میں کام کرتے ہیں.ہمارے ملک کے لوگ تو کیمیا کے پھندے میں پھنس گئے ہیں.پھر مغربی ملک کے لوگوں نے ریل اور تار برقی وغیرہ ایجادیں کیں.بار یک در بار یک تدابیر جس کو پولیٹیکل اکانومی کہتے ہیں.ایک ہاتھ کی چلا کی ، ایک قوت نفسانی کی تحریک،ایک روحوں کی بڑی طاقت ہوتی ہے کبھی لوگوں کو دھوکا دے دیتے ہیں.جیسے حضرت موسیٰ کے مقابل پر ساحروں نے کیا.کچھ ستاروں کی تاثیریں ہوتی ہیں.ان میں بھی عجیب در عجیب باتیں ہوتی ہیں.سورج کے پوجاری میں ے ان بدکاروں نے جب کبھی کوئی معاہدہ کیا.۲ سخر : جس کا ماخذ نہایت باریک اور لطیف ہو.( ناشر ) ے اور یقینا بیان بھی سحر ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۸۵ سُورَةُ الْبَقَرَة نے دیکھے ہیں کہ طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک تمام دن ٹکٹکی باندھ کر سورج کو دیکھتے ہی رہتے ہیں اور ایسے لوگوں میں ہندوؤں کو بھی دیکھا اور مسلمانوں کو بھی.بعض شریف بھی ہیں.ہمارے زمانہ میں بعض لوگ بڑے بزرگ کہلاتے ہیں اور وہ ان سب باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں.مَا كَفَرَ سُلَيْمَن.وہ لوگ جو ہم پر اعتراض کیا کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کو کیا خصوصیت ہے وہ غور کریں کہ کیا نبی کا فر ہوا کرتے ہیں.حضرت سلیمان کی نسبت یہودیوں میں ساڑھے نو قو میں یہ اعتقاد رکھتی ہیں کہ وہ کافر تھے.اسی طرح عیسائی بھی کہتے ہیں کہ وہ ایک عورت کی محبت میں مشرک ہو گئے تھے.خدائے تعالیٰ نے ان دونوں کی یہاں پر نفی فرمائی ہے.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۷۰) جب آدمی میں آسائش آجاتی ہے تو وہ ہر نئی چیز میں بڑی دلچسپی لیتا ہے اور اس انہماک میں پھر جائز و ناجائز امرکو نہیں دیکھتا.حتی کہ جس طرح شیعہ حضرت ابوبکر وعمر وعثمان کو برا کہتے ہیں اور خارجی اہل بیت کو.اسی طرح وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.شیعہ نے اس نکتہ چینی سے کیا فائدہ اُٹھایا.اسی طرح حضرت داؤد کے بیٹے سلیمان برگزیدہ نبی تھے مگر ان لوگوں نے ان کی بھی عیب چینی شروع کر دی اور ان سے ایسی باتیں منسوب کیں جو ایک نبی کی شان سے بالکل بعید ہیں.اس کی اصلیت یہ ہے کہ حضرت سلیمان کے عہد میں جب ان کو آسودگی ہوئی تو ہندوستان ، چین اور مصر سے نئے نئے آدمی وہاں جا آباد ہوئے اور ان لوگوں کی دلچپسی کے لئے عجیب عجیب فن پیش کئے جن میں وہ ایسے مشغول ہوئے کہ سب کچھ بھول گئے.جیسا کہ انسان کی عادت ہے کہ جب ایک طرف متوجہ ہو تو دوسری طرف توجہ ضرور کم ہو جاتی ہے اسی طرح بنی اسرائیل کی خدا کی طرف توجہ کم ہو گئی اور ان بے ہودہ باتوں کی طرف بڑھ گئی اور ایسی بڑھی کہ اس کا اثر مسلمانوں تک بھی پہنچا نقش سلیمانی سحر ہاروت ماروت اور ایسی کتابیں اسی بیہودگی اور لغویت کی یادگار ہیں اور غضب یہ ہے کہ یہ کفر سلیمان پر تھوپا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سلیمان نے یہ کفر نہیں کیا اور ہر گز نہیں کیا.آپ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ بلقیس نام ایک ملکہ پر عاشق ہو گئے اور پھر اس کو راضی کرنے کے لئے بت پرستی بھی کی.یہ
حقائق الفرقان ۲۸۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سب جھوٹ ہے.خدا نے اصل واقعہ سورۂ نمل رکوع ۸ میں بیان فرمایا ہے اور وہاں ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ملکہ تو خود مسلمان ہوئی اور عذرخواہ ہو کر سلیمان کے دربار میں آئی.قَالَتْ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ أَسْلَمْتُ مَعَ سُلَيْمَنَ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (النمل: ۴۵) بعض وقت انبیاء کی نسبت جو الفاظ بولے جاتے ہیں ان سے ان کی تعریف مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف اس الزام کا اٹھانا ہوتا ہے جو ان پر لگایا گیا ہے یہاں مَا كَفَرَ اِسی لئے آیا ہے.وَ لكِنَّ الشَّيطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السّحْرَ - وہ قومیں جو اللہ سے بہت دور تھیں ( الشَّيطِین کے یہاں یہی معنی ہیں ) جب وہ ملک سلیمان میں آئیں تو بنی اسرائیل کو اپنے ڈھب کا پا کر اپنی طرف متوجہ کر لیا اور انہیں سحر کی تعلیم شروع کر دی.سحر کہتے ہیں دلر با باتوں کو خواہ از قسم عملیات ہوں یا شعبدہ بازی یا تخیر كُلّ مادى و لطف مَأْحَدُهُ " جس کی دریافت نہایت بار یک در باریک ہو.إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسخَرًا (بخارى كتاب النکاح باب الخطبة) بھی آیا ہے اس لئے ناول بھی سحر میں داخل ہے.بعض ناول ایسے ہوتے ہیں کہ انسان بغیر ختم کرنے کے ہاتھ سے چھوڑ ہی نہیں سکتا.حضرت عمر سے کسی نے پوچھا تھا آپ کی طبیعت میں وہ تیزی نہیں رہی جو زمانہ جاہلیت میں تھی.آپ نے جواب دیا.تیزی تو وہی ہے مگر اب وہ کفار کے مقابلہ میں دکھائی جاتی ہے.اسی طرح جن لوگوں کو لکھنا آتا ہے اور طبیعت موزوں واقع ہوئی ہے وہ ناول نویسی کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں.ایسے شغلوں میں پڑ کر انسان اپنی کتاب سے بے خبر ہو جاتا ہے اور اکثر اوقات یہ بھی نہیں سمجھا جاتا کہ میری روحانی حالت دن بدن بگڑ رہی ہے.اس کے بعد ایک اور نصیحت فرمائی وہ یہ کہ انسان جب کسی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو پھر اس دشمنی کے بڑھانے یا اس سے انتقام لینے کے لئے اپنے دشمن کی باتیں سنتا اور اس کے خلاف منصوبے کرتا ا بلقیس نے کہا اے میرے رب ! میں نے اپنا ہی نقصان کیا اور میں ایمان لائی.اپنا معاملہ سپر دیبحق کر دیا سلیمان کے ساتھ ہو کر رب العالمین پر.(ناشر) سے ہر وہ جس کا ماخذ نہایت باریک اور لطیف ہو ( وہ سحر ہے).(ناشر) سے یقینا بیان بھی سحر ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۸۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اور اپنے ساتھ اور لوگوں کو ملاتا ہے.ہر وقت اس کو یہی دھت لگی رہتی ہے اور وہ اپنے دین سے بے خبر ہو جاتا ہے.بنی اسرائیل جب قید تھے وہ زمانہ دانیال عزرا، حز قیل اور ارمیاہ وغیرھم انبیاء کا تھا.جب یہ بابل میں گئے تو بابل والے آسودہ تھے اور آسودگی کی وجہ سے طرح طرح کے گندوں میں مبتلا.دانیال باب درس ۱۶ اور ۱۲ باب ودرس میں شراب پینے کا ذکر ہے.اللہ نے ہاروت ماروت دوفرشتے نازل کئے.ہرت کہتے ہیں زمین کو صاف کرنے کو.مرت کہتے ہیں نشیب و فراز دبا کر درخت گھاس کٹوا کر صاف میدان کر دینے کو.ان فرشتوں کے ذریعے یسعیاہ کو آگاہ کیا کہ یہ لوگ خراب ہو گئے ہیں اس واسطے تم اور کسی سلطنت سے گانٹھو اور اس کے ذریعے سے ان کو ہلاک کر دو.یہ علم ملائکہ کے ذریعے ان پر نازل ہوا چنانچہ مید و فارس کے بادشاہوں سے دوستی لگا کر بنی اسرائیل نے بابل والوں کو تباہ کر دیا.بابل بڑا شہر تھا.یہ بھاری آبادی تھی.کوئی پہچان میل میں.چونکہ بابل کی تباہی میں اللہ نے فارس کے بادشاہوں کے ذریعہ سے فضل کیا اس لئے بنی اسرائیل کے تعلقات فارس والوں سے قائم رہے.جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ میں آئے تو یہودیوں نے چاہا کہ پھر فارس کے بادشاہ کے ذریعے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کا استیصال کریں چنانچہ فارس کے بادشاہ نے اپنے یمنی گورنر کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار بھی کرنا چاہا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فرستادوں سے کہا کہ جس نے تمہیں میری گرفتاری کے لئے بھجوایا ہے اس کو میرے خدا نے اسی کے بیٹے کے ہاتھ سے ہلاک کروا دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا.لیکن چونکہ یہ ایک نبی کا مقابلہ تھا اس لئے اس میں ناکام رہے.اللہ تعالیٰ ان آیات میں انہی واقعات کی طرف ایماء فرماتا ہے.وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ.پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس کے جو ایک زمانہ میں دوفرشتوں پر نازل ہو ا تھا ( ان فرشتوں کا کام تھا کہ بابل کو ویران کر کے صاف کر دیں اسی واسطے ان کو ہاروت و ماروت کہا گیا ) اس وقت تو یہ کامیاب ہو گئے کیونکہ خدا کے منشاء کے ماتحت تھا مگر اب تو یہ کفر ہے کیونکہ ایک نبی کے مقابلہ میں ہے.اس وقت تو ہم نے ان
حقائق الفرقان ۲۸۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کو ہدایت کر دی تھی کہ اسے بے موقع استعمال کر کے کافر نہ بننا اور دوسری یہ بات ہے کہ اپنی عورتوں کو بھی اس راز کی خبر نہ کرنا کیونکہ عورت کمزور ہے اس کے ذریعے بات نکل جاتی ہے یہ مطلب ہے يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِه کا.بس یہاں یہ بات ختم ہوئی.اب فرماتا ہے و يَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ آب یہ یہود پھر انہی باتوں کو تعلیم و تعلم کرتے ہیں مگر بجائے فائدے کے نقصان اُٹھاتے ہیں اس لئے کہ آگے تو ملائکہ کے ذریعہ یہ باتیں القاء ہوئی تھیں.چنانچہ يَتَعَلَّمُونَ کے ساتھ مِنْهُمَا ( ان دو فرشتوں سے ) آیا ہے اب یہ شیطانی القاء ہے.بہتر تھا کہ وہ ان شرارتوں کی بجائے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے اور دنیا و آخرت میں فلاح پاتے.ایسی منصوبہ بازیوں کی کمیٹیوں کا سورہ مجادلہ رکوع ۲ میں مفصل ذکر ہے جہاں فرما یا اکھ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نُهُوا عَنِ النَّجْوَى ثُمَّ يَعُودُونَ لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَيَتَنْجَوْنَ بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ (المجادلة: 9) کیا تجھے معلوم نہیں ان لوگوں کا حال جن کو منصو بہ بازی کی خفیہ لمیٹیوں سے منع کیا اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جس سے منع کئے جاچکے ہیں اور وہ خفیہ سازشیں کرتے ہیں.گناہ سرکشی اور رسول کی مخالفت کی.اور پھر آگے چل کر ارشاد فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَ اتَّقُوا اللهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ - إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَنِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِصَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ - (المجادلة: ١١،١٠) سنو! اے مومنو! جب تم کوئی خفیہ مشورہ کرو تو اس میں کوئی گناہ اور سرکشی کی اور رسول کی مخالفت کی بات نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوی کے متعلق سرگوشی ہو.اُس اللہ سے ڈرو جس کے حضور ا کٹھے کئے جاؤ گے یہ جو خفیہ انجمنیں ہیں یہ شیطانی کام ہے صرف مومنوں کو گھبراہٹ میں ڈالنے کے لئے مگر الہی اِذن کے سوا کوئی ضررا نہیں نہیں پہنچا سکتے اور اللہ تعالیٰ پر ہی چاہیے کہ مومن تو کل کریں.وور (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مؤرخه ۴و۱۱ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحہ ۱۸،۱۷) يُعلمُونَ النَّاسَ السّحْرَ - فری میسنوں کے لاج کا نام جادو گھر اب تک مشہور ہے.هَارُوتَ
حقائق الفرقان ۲۸۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وَمَارُوتَ فرشتوں کے نام.ان کے ذریعے علم پا کر یہود نے دشمنوں پر فتح حاصل کر لی.ان کو بتایا گیا اب تم محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں ان ہتھیاروں سے کام نہیں لے سکتے کیونکہ الہی حکم سے یہ خفیہ کمیٹی نہیں.بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوجِه - آجکل بھی فری میسن عورتوں کو شامل نہیں کرتے.وَمَا هُمُ بضارين اس کی تشریح اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ نُهُوا عَنِ النَّجوى (المجادلة:1) میں پڑھو اس میں لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ بھی ہے.تشویذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۳۹،۴۳۸) ہمارے ایک بہت پیارے کے والد فری میسن تھے.میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی کمیٹی کب سے ہے.کہا حضرت سلیمان کے وقت سے.میں نے کہا پھر کب سے.کہا بابل کے وقت سے.پھر میں نے پوچھا کہ قانون کے ذریعہ سے جس شخص کو نہ مارسکو کیا اس کے ذریعہ سے قتل کر سکتے ہو.کہا کہ اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا.پھر میں نے چند اور سوالات کئے جن کے ذریعہ سے معلوم ہوا کہ مار ڈالتے ہیں.عورت فری میسن نہیں بن سکتی.ان کے چند اشارات ہوتے ہیں اشاروں سے باتیں کرتے ہیں.ایک اور فری میسن سے بھی باتیں ہوئیں.پھر مجھ کو خدا تعالیٰ نے عالم رؤیا میں -- یہاں ایک شخص دکھایا کہ یہ فری میسنوں کی طرف سے خاص طور پر یہاں رہتا ہے.یہ لوگ رات دن دشمنوں کے پیچھے لگے رہتے ہیں.مذہب سے انکو کوئی تعلق نہیں.ان کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ حضرت محمد صلعم اور حضرت ابو بکر و عمر نے ملک عرب میں سے اس کمیٹی کا نام ونشان تک اُڑا دیا اور پینتیس سال تک اس کا کوئی پتہ ونشان باقی نہ رہا اور آپ کے اصحاب میں سے کوئی اس کمیٹی میں قطعاً شریک نہ ہوا.پھر جناب علی مرتضیٰ کے عہد میں انہوں نے سر نکالا.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ ، صفحہ ۷۱) بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اللہ کی پاک آیات کو واہیات بناتے ہیں.بڑے تعجب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو انسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر.اللہ غفور رحیم
حقائق الفرقان ۲۹۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدم کر لیتا ہے.حضرت سلیمان کے عہد میں جب لوگوں کو امن حاصل ہوا اور مال ثروت کی فراوانی ہوئی تو ان میں نئی نئی تحریکیں ہونے لگیں.آسمانی کتب کا جو مجموعہ ان کے پاس تھا اس سے طبیعت اکتا گئی تو کسی اور تعلیم کی خواہش ہوئی.مگر وہ تعلیم ایسی تھی جو خدا سے دور پھینکے والی تھی.نقش سلیمانی وغیرہ اسی تعلیم کی یادگار بعض مسلمانوں میں مروج ہے.بنی اسرائیل نے جب خدا کی کتاب سے دل اُٹھایا تو ان لغو باتوں میں پڑ گئے جو بعض شیطانی اثروں کے لحاظ سے دلر با باتیں بن گئیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ سب اس زمانہ کے شریروں کی کارروائی ہے.سلیمان علیہ السّلام نے ان کو یہ تعلیم نہیں دی بلکہ از خود یہ باتیں انہوں نے گھڑ لیں اور ایسی دلر با باتوں کی اشاعت کی.(البدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مؤرخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۳) انسان میں عجیب در عجیب خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.جب وہ بچہ ہوتا ہے پھر جب ہوش سنبھالتا ہے پھر جب جوان ہوتا ہے پھر جب بُری صحبتوں میں پھنستا ہے.جب اچھی صحبتوں میں آتا ہے جب کامیاب زندگی بسر کرتا ہے جب ناکام ہوتا ہے تو اس کے حالات میں تغیر پیش آتے رہتے ہیں.میں نے ایک خطرناک ڈاکو سے پوچھا کہ کبھی تمہارے دل نے ملامت کی ہے تو وہ کہنے لگا کہ تنہائی میں تو ضرور ضمیر ملامت کرتا ہے مگر جب ہماری چار یاری اکٹھی ہوتی ہے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ یہ افعال بڑے لگتے ہیں یہ سب صحبتِ بد کا اثر ہے.قرآن کریم میں كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ ل (التوبة: ١١٩) كا اسی واسطے حکم آیا ہے تا کہ انسان کی قوتیں نیکی کی طرف متوجہ رہیں اور نیک حالات میں نشو و نما پاتی رہیں.غرض انسان کے دکھوں میں اور خیالات ہوتے ہیں سکھوں میں اور.کامیاب ہو تو اور طریق ہوتا ہے.ناکام ہو تو اور طرز.طرح طرح کے منصوبے دل میں اٹھتے ہیں اور پھر ان کو پورا کرنے کے لئے وہ کسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جب بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں اللہ تعالیٰ نے اس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَ مَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَ تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِى إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ - إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَنِ لِيَحْزُنَ سیجوں کے ساتھ ہو جاؤ.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۹۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الَّذِينَ آمَنُوا وَ لَيْسَ بِضَارِهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ ـ (المجادلة : ١١،١٠) ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصو بہ کرتے ہو.انجمنیں بناتے ہومگر یادر ہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ سرکشی اور رسول کی نافرماں برداری کے بارے میں نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوای کا مشورہ ہو.بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسیٰ علیہ اسلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی.یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے اور وہ اپنے تئیں نَحْنُ ابْنَوا اللَّهِ وَ احِباؤُة (المائدة: 19) سمجھنے لگے لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہوگئی.ان میں بہت ہی حرام کاری ، شرک اور بدذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کیا.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أولى بأسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلكَ الدِّيَارِ وَ كَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا - (بنی اسراءیل : 1) ۷۰ برس وہ اس بلاء میں مبتلا ر ہے.آخر جب بابل میں دکھوں کا زمانہ بہت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتی کہ دانیال عزرا ، حز قیل ، ارمیا ایسے برگزیدہ بندگانِ خدا پیدا ہوئے اور انہوں نے جناب الہی میں ہی خشوع خضوع سے دعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہوا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہو چکی اب ہم ان کی خبر گیری کرتے ہیں.اللہ کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ایسے کہ ان میں انسان کو مطلق دخل نہیں.مثلاً اب سردی ہے اور آفتاب ہم سے دور چلا گیا ہے پھر گرمی ہو جائے گی اور آفتاب قریب آ جائے گا.یہ کام اپنے ہی بندوں کی معرفت کرایا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بادشاہ اب ہلاک ہونے والا ہے پس تم مید و فارس کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ عنقریب یہ دکھ دینے والی قوم اور ان کی سلطنت لے ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اس کے پیارے ہیں.۲.جب آیا ان دو میں سے پہلے فساد کا وعدہ تو ہم نے بھیجے تم پر اپنے بندے سخت لڑائی والے تو وہ پھیل گئے شہروں میں اور وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۲۹۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہلاک ہو جائے گی.پس اللہ نے دو فرشتے ہاروت ماروت نازل کئے.ہرت کہتے ہیں زمین کو مصفا کرنے کو اور مرت زمین کو بالکل چٹیل میدان بنا دینا.گویا یہ امران فرشتوں کے فرض میں داخل تھا کہ یہ لوگ برباد ہو جا ئیں اور بنی اسرائیل نجات پاکے اپنے ملک میں جائیں.پس وہ ہاروت ماروت نبیوں کی معرفت ایسی باتیں سکھاتے تھے اور ساتھ ہی یہ ہدایت کرتے تھے کہ ان تجاویز کو یہاں تک مخفی رکھو کہ اپنی بیبیوں کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ عورتیں کمزور مزاج کی ہوتی ہیں اور ممکن بلکہ اغلب ہے کہ وہ کسی دوسرے سے کہہ دیں.پس اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لحاظ سے میاں بی بی میں بھی افتراق ہو جاتا تھا.یعنے میاں اپنی بی بی کو اس راز سے مطلع نہ کرتا تھا.اور پھر یہ بات جب پختہ ہو گئی تو مید و فارس کے ذریعہ بابل تباہ ہو گیا اور خدا نے بنی اسرائیل کو بچا لیا مگر جتنا ضرر دشمنوں کو پہنچایا گیا چونکہ اللہ کے اذن سے تھا اسی واسطے وہ اس میں کامیاب ہو گئے.اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے تو مکہ والوں کو بڑا غیظ و غضب پیدا ہوا.پس انہوں نے یہودیوں سے دوستی گانٹھی اور یہودی وہی پرانا نسخہ استعمال کرنے لگے کہ آؤ کسی بادشاہ سے مل کر اس محمدی سلطنت کا استیصال کریں اسی واسطے ایرانیوں سے توسل پیدا کیا.یہ ایک لمبی کہانی ہے.ایرانیوں کے گورنر بعض عرب کے مضافات میں بھی تھے.انہوں نے اپنے بعض آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لئے بھی بھجوائے مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی.اس کی وجہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آگے تو تم اے یہود یو! خدا کے حکم سے ایسے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے.اب تم چونکہ یہ نسخہ اللہ کے رسول کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہو اس لئے ہرگز کامیاب نہ ہو گے.چنانچہ چند آدمی شاہ فارس کی طرف سے گرفتار کرنے آئے آپ نے ان کو فرمایا میں کل جواب دوں گا.صبح آپ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے اس کے بیٹے نے اسے قتل کر دیا ہے.وہ یہ بات سن کر بہت حیران ہوئے.بات میں بات آگئی ہے ہر چند کہ وہ ایسی عظیم الشان نہیں ہے.وہ یہ کہ جب دوا پیچی نبی کریم کے حضور آئے تو صبح صبح داڑھیاں منڈوا کر آئے.آپ نے فرمایا یہ تم کیا کرتے ہو.ہم اس امر کو
حقائق الفرقان ۲۹۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کراہت کے ساتھ دیکھتے ہیں (جہاں اُوپر کا قصہ لکھا ہے وہاں یہ بات بھی ہے خیر ) اور خائب و خاسر واپس پھرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب یہ یہودی ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضر ر دیتی ہیں ان کے حق میں مفید بالکل نہیں ہیں.جواب یہ کرتے ہیں آخرت میں ان کے لئے کوئی حصہ نہیں.ہاروت ماروت نے جو سکھایا تھا وہ چونکہ نبیوں کے حکموں کے ماتحت تھا اس لئے کامیابی کا موجب ہوا.لیکن اب چونکہ نبی کی نافرمانی میں وہ ہتھیار چلتا ہے اس لئے کچھ کام نہ دے گا.کیا اچھا ہوتا کہ وہ ایسی بری ھے کے بدلے میں اپنی جانوں کو نہ بیچتے بلکہ اب تو یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایمان لائیں.متقی بن جاویں تو اللہ کے ہاں بہت اجر پائیں.( بدر جلد ۸ نمبر ۱۵ مؤرخه ۴ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۴،۳) إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ.سونے کو کٹھالی میں رکھنا تا کہ اس کا کھرا اور کھوٹا پین معلوم ہو جاوے.آزمائش، امتحان - دیکھو يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ (الذريت : ١٤) أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا...(العنكبوت : ٣) اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ.(الانفال : ٢٩) وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ...(البقرة :۱۵۶)..بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً - الانبياء : ه ۳۶) فلا تكفر.پھر کفر کا ارتکاب نہ کرنا.تعلیم کے خلاف نہ کرنا.البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۱۴ نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۱) سحر کے کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں (۱) ترکیب و تحلیل کا علم (۲) پولیٹکل اکانومی.پالیٹکس (۳) ہاتھ کی چالاکی (۴) قوت نفس رُوح جس میں تو جہ سے کام لیا جاتا ہے.سلب امراض و حُبّ عداوت کے کام لئے جاتے ہیں.(۵) تو ہمات یعنی ارواح خبیثہ سے تعلق پیدا کر کے پھر ان سے کام لینا یہ تعلق پیدا کرنے اور پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے عجیب عجیب کام ان کو کرنے پڑتے ہیں.ہر وقت جنبی رہتے ہیں.مرگھٹ کی آگ پر مردوں کی کھو پر یوں میں کھانا پکاتے ہیں.انسانی چمڑے پر بیٹھتے ہیں وغیرہ ذلک.ایسے لوگ بھی ہم نے بچشم خود دیکھے ہیں جو سورج کو لے ایک دن وہ آگ پر درست کئے جائیں گے.۲.کیا لوگوں کو خیال ہے کہ وہ چھوڑے جائیں.۳ تمہارے مال اور تمہاری اولاد آزمائش ہی ہیں.ہے اور ہم تمہارا امتحان لیں گے.۵.برائی و بھلائی سے آزما کر.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۹۴ سُورَةُ الْبَقَرَة چڑھنے کے وقت سے ڈوبنے تک برابر دیکھتے رہتے ہیں پھر ان کی قوت نفس بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ غیر معمولی کام دنیا میں کر سکتے ہیں.تفخیذ الا ذبان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۵) ۱۰۵ تا ااا - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقُولُوا رَاعِنَا وَقُولُوا انْظُرُنَا وَاسْمَعُوا وَ لِلْكَفِرِينَ عَذَابٌ اَلِيْمُ - مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَلَا دو b الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْكُمْ مِنْ خَيْرٍ مِنْ رَّبِّكُمْ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنَسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - أَلَمْ تَعْلَمُ اَنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِّن دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِي وَلَا نَصِيرٍ - اَمَ تُرِيدُونَ أَن تَسْتَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُبِلَ مُوسَى مِنْ قَبْلُ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ وَذَ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الكتب لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كَفَارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - وَأَقِيمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ مَا تُقَدِّمُوا لِاَنْفُسِكُم مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ - ترجمہ.اے ایمان والو! تم (یہودیوں کی طرح رسول اللہ کو ) رَاعِنَا نہ کہو بلکہ انظُرْ نَا کہا کرو اور اچھی طرح سن لیا کرو اور منکروں کو دکھ کی مار پڑنے والی ہے.ان اہل کتاب میں سے جومنکر ہو گئے ہیں اور مشرک بھی ، یہ چاہتے ہی نہیں کہ تمہارے رب کی طرف سے کوئی خیر و برکت تم پر نازل ہو اور اللہ تعالیٰ تو اپنی رحمت سے خاص کر رہا جس کو چاہ رہا ہے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے.ہم جو کسی نشان کو مٹاتے یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا اُس کے مانند لاتے ہیں کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک شے کا اندازہ کرنے والا ہے.کیا تو نہیں جانتا کہ آسمان اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے.اللہ کے سوا تمہارا کوئی بھی حامی اور مددگار نہیں ہے.(اے ایماندارو!) کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے رسول سے
حقائق الفرقان ۲۹۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة (ایسے ہی بے جا ) سوالات کرو جیسا کہ اس سے پہلے موسیٰ سے سوالات کئے گئے اور جو شخص ایمان کو کفر سے بدلتا ہے وہ ضرور راہ راست سے بھٹک گیا ہے.ان اہل کتاب میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہی چاہتے ہیں کہ تم کو تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر کا فر کر دیں اُس حسد کی وجہ سے جوان کی جانوں میں ہے حق بات ظاہر ہو جانے کے بعد ان کو ان کی حالت میں پڑے رہنے دو اور ان کی صحبت سے ہٹ جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے امر کے ساتھ آ جائے گا ( یعنی خود پکڑلے گا سزا دے دے گا) بے شک اللہ ہر چاہے ہوئے پر قادر ہے.اور تم درستی کے ساتھ نماز میں لگے رہو اور زکوۃ دیا کرو اور تم ہر ایک نیکی جو آگے بھیجتے جاتے ہو اپنے لئے اللہ کے پاس اسے پاؤ گے.بے شک اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں کو دیکھ رہا ہے.تفسیر.اللہ جل شانہ نے ان آیات میں چند باتیں بطور نصیحت فرمائی ہیں.پہلی بات بہت سے لوگ جن کے دلوں میں کینہ اور عداوت ہوتی ہے تو اپنے حریف کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جس میں ایک پہلو بدی کا بھی ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرپوک ہوتے ہیں کھل کر کسی کو برا نہیں کہہ سکتے.راعنا ایک لفظ ہے جس کے کئی معنی ہیں.یہ رعونت ، بڑائی ، خود پسندی، حماقت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ آپ ہماری رعایت کریں.اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھایا ہے کہ ایسا لفظ اپنے کلام میں اختیار نہ کرو جو ذو معنی ہو بلکہ ایسے موقع پر انظر ناکہا کرو.اس میں بدی کا پہلو نہیں ہے.ایک شخص نے مجھ سے اصلاح کا ثبوت قرآن مجید سے پوچھا میں نے یہی آیت پڑھ دی.اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرما کر متنبہ کرتا ہے کہ جو لوگ انکار پر کمر باندھے ہیں اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں وہ دکھ درد میں مبتلا رہتے ہیں.اس کے آگے عام کافروں کا رویہ بتایا ہے کہ یہ اہلِ کتاب اور مشرکین تمہارے کسی سکھ کو محض از روئے حسد دیکھ نہیں سکتے.اس حسد سے ان کو کچھ فائدہ سوا اس کے کہ جل جل کر کباب ہوتے رہیں نہیں پہنچ سکتا.
حقائق الفرقان ۲۹۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یہ حسد بڑا خطرناک مرض ہے اس سے بچو.اللہ تعالیٰ کے علیم وحکیم ہونے پر ایمان ہو تو یہ مرض جاتا رہتا ہے.دیکھو لمل کا کپڑا ہے کوئی اسے سر پر باندھتا ہے.کوئی اس کا قمیص بنا تا ہے.کوئی زخموں کے لئے پٹی.سب جگہ وہ کام دیتا ہے اور کبھی جگہ واقعہ میں اس کی ضرورت ہے.اسی طرح اگر انسان سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے عجائبات قدرت سے جو کام ہو رہے ہیں وہ بلا ضرورت وحکمت کے نہیں تو معترض کیوں ہو؟ اگر خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو اپنی رحمت خاصہ کے لئے چن لیا ہے تو یہ کیوں جلتے ہیں؟ یہ تو عام قانونِ قدرت ہے کہ آج ایک درخت بغیر پھول اور پھل پتوں کے بالکل سوختنی ہیئت میں کھڑا ہے.اب بہار کا موسم آیا تو اس میں پتے لگنے شروع ہوئے پھر پھول پھر پھل.اسی طرح قوموں کا نشو و نما ہے ایک وقت ایک قوم برگزیدہ ہوتی ہے لیکن جب وہ انعامات کے قابل نہیں رہتی تو خدا تعالیٰ دوسری قوم کو چن لیتا ہے اور وہ پہلی قوم ایسی مٹ جاتی ہے کہ بالکل بھلا دی جاتی ہے یا اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے.غرض اِس جہان میں اس طرح بہت تغیر ہوتے رہتے ہیں.ایک شریعت دی جاتی ہے پھر اس کی بجائے دوسری.اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کوئی نشانِ قدرت نہیں بدلتے اور نہ اسے ترک کرتے ہیں مگر کہ اس کی مثل یا اس سے اچھا لاتے ہیں کیا تم کو یہ خبر نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.اسی کا راج آسمانوں اور زمینوں میں ہے.وہ حق و حکمت سے ایسی تبدیلیاں کرتا رہتا ہے.اس پر کسی کا بس نہیں چلتا.اس کے سوا کسی کو مددگار اور کارساز نہ پاؤ گے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۱۱ار فروری ۱۹۰۹ صفحه ۲) لا تَقُولُوا رَاعِنَا - بعض لوگ شرارت کے طور پر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو ذ و معنی ہوتے ہیں.ہمارے ایک آشنا تھے.ان کی ایک کتاب جو مناظرہ کے متعلق تھی پڑھی.ایک جگہ یہ فقرہ لکھا تھا.آپ ہر ایک صداقت کو ایک ہی کو لہو میں نہ پیٹر ہیں.میں نے کہا کہ اس محاورہ کے استعمال کی کیا ضرورت تھی؟ کہنے لگے کہ مخاطب تیلی ہے یہ اس پر چوٹ کی ہے! پھر ایک جگہ دکھائی جہاں لکھا ہوا تھا کہ مٹ کا مٹ ہی بگڑا ہوا ہے اور بڑے فخر سے کہا کہ یہ شخص جس کے مقابلہ میں یہ تحریر ہے رنگ ریز ہے.
حقائق الفرقان ۲۹۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لے میرے نزدیک یہ طریق اچھا نہیں متانت کے خلاف ہے.افسوس کہ مسلمانوں میں بھی یہ برائی پھیل گئی.ایک قصیدہ کے چند اشعار مجھے یاد ہیں جو اؤل سے آخر تک اسی قسم کی شرارت سے پر تھے ایک مصرعہ تمہیں سناتا ہوں تا سرت باشد ہمیشہ تاجدار ع یہاں تاجدار کے ایک معنے ظاہر ہیں اور دوسرے یہ کہ تاجدار یعنی تیرا سر دیوار سے ٹکر کھائے گیا ہو.اس طرح کے کلام سے ہمارے سردار نے ہمیں منع کیا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے دَاعِئانہ کہو کیونکہ اس کے معنے ایک تو یہ ہیں کہ ہماری رعایت کرو.ہم نہیں سمجھے دوبارہ سمجھا دو.دوم راعن کا لفظ عبر و میں گالی ہے.احمق ، رعونت والے کو کہتے ہیں.اگر ایسی ضرورت پیش آ جائے تو بجائے رَاعِنَا کے جو ذو معنی لفظ ہے انظر کا بولو جس کے معنے ہیں ہم غرباء کی طرف بھی آپ نظر رکھیں.ان منکروں کے لئے جو اس قسم کے الفاظ نبی کریم کے حضور بولتے ہیں دُکھ دینے والا عذاب ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۴ ۱۱۹ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۸) انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے قوتیں ترقی کرنے کے لئے رکھی ہیں.اور منشاء اُن کا یہ ہے کہ ایک دوسرے پر بڑھو اور ترقی کرو ایک آدمی دوسرے سے بڑھتا چلا جائے.یہ فطرت انسان کی تمام ترقیات کے لئے رکھی گئی ہے.لیکن بعض لوگ ناجائز استعمال کر کے حسد سے کام لیتے ہیں.ایک شخص جو خوش چلن ، نیک اور خوش رہنے والا ہو اس سے ان باتوں میں ترقی کرنے کے بجائے حسد کرتے ہیں.حسد کی صفت کو ناجائز استعمال کر کے اس کے منافع سے محروم رہتے ہیں.نیکیوں میں رشک کرنا مفید ہوسکتا ہے.حسد کو جب ناجائز استعمال کرتے ہیں تو محسود کی نسبت بُرے الفاظ زبان سے نکالتے ہیں.اللہ جلشانہ اس رکوع شریف میں فرماتا ہے کہ ایمان والو! لوگ دغا، فریب اور حسد کے وقت برے برے الفاظ استعمال کیا کرتے ہیں.تم کو چاہئے کہ تم ایسے دور نے ذو معنی الفاظ بھی استعمال نہ کیا کرو.دیکھو ر ا عِنا ایک دور خہ لفظ ہے تم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے یہ لفظ بھی مت بولا کرو کیونکہ یہود کی زبان میں اس کے کچھ اچھے معنے نہیں ہیں.اس کی بجائے لے تاکہ تمہارے سر پر ہمیشہ تاج رہے.(ناشر)
حقائق الفرقان تم انظرنا کہا کرو.يَوَدُّ - يُحِبُّ ۲۹۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مَا يَوَدُّ الَّذِينَ.یہ منکر اہل کتاب چاہتے ہی نہیں کہ تم پر کوئی مکرم چیز اتاری جائے.انظرنا.آپ ہماری طرف توجہ فرماویں.آپ ہم پر نظر عنایت فرماویں.امنوا.مسلمانوں کو روکا تو پھر یہودیوں کو بھی رُکنا پڑا.حدیث میں ہے کہ عشاء کے واسطے عَتَمَہ کا لفظ نہ بولو کیونکہ یہ جنگلیوں کا لفظ ہے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ نومبر ۱۹۱۲، صفحه ۷۲) الَّذِينَ كَفَرُوا.یہ کا فر دو قسم کے ہیں اہل کتاب (یہود، نصاری ، مجوس ) دوسرے وہ جن کے پاس کوئی کتاب نہیں.سنی سنائی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں.غرض یہ دونوں گروہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر کوئی ایسا امرا تارا جائے جو خیر و برکت کا موجب ہو مگر اللہ تعالیٰ خصوصیت دے دیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہے.مکہ والوں نے کہا کہ عَلى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف:۳۲) مگران کا یہ اعتراض فضول تھا کیونکہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ واقعی یہی مبارک وجود ( حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اس رسالت کا مستحق تھا.میرا اعتقاد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم انسانیت ہیں نہ ایسا کوئی عظیم الشان ہوا اور نہ ہو گا.ایک شخص نے مجھے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے.میں نے کہا کہ تم کسی اصل مذہبی کے قائل ہو یا نہیں.کہا دعا کا قائل ہوں.میں نے کہا.دیکھو تم مانتے ہو کہ تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور زمین گول ہے.پس رُوئے زمین پر کوئی ایسا وقت نہیں گزرتا جب کوئی مسلمان نماز نہ پڑھ رہا ہو اور نماز میں درود شریف نہ پڑھتا ہو.پھر میں پوچھتا ہوں کیا دنیا میں کوئی ایسا پیشوا ہے جس کے مرید ہر وقت اس کے علو مدارج کے لئے دعا کر رہے ہوں اور پھر الدال على الخير كفاعله " کے مطابق وہ تمام نیکیاں جو یہ لوگ ( مسلمان ) کرتے ہیں حضور کے نامہ اعمال میں بھی لکھی جاتی ہوں گی یا نہیں؟ پھر فضائل نبوی میں دوسری بات مجھے یہ سوجھی لے بڑے آدمی پر دو بڑی بستیوں کے رہنے والوں سے.( ناشر ) ۲ نیکی کی طرف راہنمائی کرنے والا نیکی بجالانے والے کی مانند ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۲۹۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے کہ دنیا میں جس قدر مرکز ہدایت کے ہیں وہ دراصل صرف دو ہیں ایک آتشکده آذر اور دوم بیت المقدس.ان دونوں کا اثر عرب پر بالکل نہیں پڑا مگر ہمارے سردار نے عرب والوں کو اپنا دین منوالیا اور پھر ان کے ذریعہ ان دونوں مرکزوں ( بیت المقدس، آتشکده آذری) پر بھی فتح پائی.الله ما نَسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنْسِهَا ـ نسخ کے معنے ہیں نقل کے.إِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمُ تَعْمَلُونَ (الجانية: ۳۰) اور نسخ کے معنے ہیں مٹا دینے کے جیسے فرمایا إِذَا تَمَلَّى القَى الشَّيْطَنُ في أمْنِيَّتِهِ فَيَنْسَحُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْضُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللهُ ايْتِهِ (الحج: ۵۳) نُفْسِهَا نکلا ہے نسیان سے.اس صورت میں اس کے معنے ہیں ”ہم بھلا دیتے ہیں“ یانسا بمعنی تاخیر ہے.اس صورت میں اس کے معنے ہیں ہم مؤخر کر دیتے ہیں.“ سو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کو بدلاتے یا مٹاتے ہیں یا بالکل بھلاتے اور کسی دوسرے سے تاخیر میں ڈال دیتے ہیں تو اس میں ہمارے مصالح ہوتے ہیں.اس کی مثال سنئے ! قرآنِ مجید میں ایک تعلیم ہے.يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَأَنْذِرُ - وَ رَبِّكَ فَكَبَرُ - المدثر : ۲ تا ۴ اور پھر اخیر میں کھانے پینے کے احکام نازل فرمائے اور ارشاد کیا اليَوْمَ المَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة: (۴) تو اب پہلی تعلیم کو جو مقدم کیا اور دوسری کو مؤ خر تو خاص مصلحت سے ہے ( یعنی پہلے عقیدہ درست ہو جاوے پھر شریعت نازل ہو).دوسری مثال یہ ہے کہ بعض مذاہب ایسے ہیں جو بالکل نسيا منسیا ہو گئے اور بعض ایسے جن کے اصول کچھ تو موجود ہیں مگر بہت کچھ تبدیل ہو گئے.پھر آیت کے معنے علاوہ کلام الہبی کے مطلق نشان بھی ہیں مثلاً خزاں میں درختوں کے پتے میٹ ا ہم محفوظ رکھتے اور لکھاتے جاتے تھے جو تم کرتے تھے.(ناشر) سے اس نے جب کچھ آرزو کی تو شریر و بد کا راس کی خواہش میں روک ڈالنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ شیطان کی خواہش کو مٹا دیتا ہے اور باطل کر دیتا ہے اور پھر اپنی آیتوں کو مضبوط کرتا ہے.(ناشر) سے اے خلعت نبوت پہننے والے (چادر پوش).اٹھ اور لوگوں کو ڈرا.اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر.(ناشر) ہے آج میں نے کامل کر دیا تمہارے لئے دین.(ناشر)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة جاتے ہیں پھر ان جیسے یا ان سے بہتر پیدا کرتے ہیں.نفس نسخ کے متعلق بحث فضول ہے کیونکہ یہ ممکن ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کارخانہ ہستی میں ایسا ہوتا رہتا ہے.ہاں یہ بات کہ قرآن مجید میں نسخ ہے یا نہیں ؟ اس کے متعلق جہاں تک میرا فہم ہے.میں یہی کہوں گا کہ آج تک کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جو منسوخ اور موجود فی القرآن ہو.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ مروی نہیں جس سے ایسی آیات کا موجود فی القرآن ہونا پایا جاتا ہو.الم تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ - فرمایا کہ اس نسخ ( تغییر ) کا سبب ہم نہیں بلکہ تمہارے حالات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اس لئے ہمیں احکام میں تغییر کرنا پڑتا ہے.كما سيل موسى من قبل.موسیٰ علیہ السّلام سے کیا سوالات ہوئے.ایک کا ذکر سورہ نساء پارہ ۶ کے پہلے رکوع میں ہے جہاں فرماتا ہے فَقَالُوا آرِنَا اللَّهَ جَهْرَةٌ ( النساء:۱۵۴) حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِاَمرِہ.اس وقت تک کہ اللہ حکومت تمہیں دے تمہیں چاہیے کہ در گذر سے کام لواور نماز سنوار کر پڑھتے رہو اور زکوۃ دیتے رہو.زکوۃ ہر ایک دے سکتا ہے.یہ بھی زکوۃ ہے کہ کوئی اپنے نفس کا تزکیہ کرے.پھر کسی کو نیک بات بتانا یہ بھی زکوۃ ہے.نیا لباس ملے تو پرانا کسی غریب کو دینا یہ بھی زکوۃ ہے.اور ایک وہ زکوۃ ہے جو مشہور ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۰،۱۹ مورخه ۴ ۱۱/ مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۱۹) ننس.بھلا دیتے ہیں.چھوڑ دیتے ہیں.ما ننسخ.جو کچھ ہم کھو دیں یا بھول جائیں مٹادیں.خدا ہم کو اُس سے بہتر دے سکتا اور سکھلا سکتا ہے.قرآن شریف میں کوئی ایسا حکم نہیں جو منسوخ ہو چکا ہے اور اس پر عمل کرنا اس وقت ممنوع ہو.ننسخ.ہم دنیا کے کچھ مذاہب کو مٹادیں گے.وَاللهُ يَخْتَضُ.اللہ تعالیٰ اس وقت ایک شخص کو خصوصیت دے رہا ہے.انہوں نے کہا تھا کہ ہم کو دکھا دے اللہ کو کھلم کھلا.( ناشر )
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة ننسخ - باطل کرنا ، ازالہ کرنا، نقل کرنا، حالتوں کو بدل دینا.توریت و انجیل کا اصل نہیں ملتا.مٹ گئیں.اُن کی جگہ ان سے اعلیٰ و افضل تریں کتاب یعنی قرآن شریف عطا کیا گیا.اية - نشان عبرت ، ایک فقرہ قرآنی، (نبی).مَا نَنْسَخ مِنْ آيَةٍ کے یہ معنے ہوئے کہ اس کو اس طرح سے مٹادے کہ نام ونشان تک بھی باقی نہ رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عربی اقوام کے رسم و رواج، اخلاق و عادات میں کیسی تبدیلی پیدا کر دی.شرک کو بالکل مٹا کر وحدانیت کو پھیلا دیا.( بدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۴ رنومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۲) فقره اول- نسخ کے معنے.نسخ لغت میں ایک چیز کے باطل کر دینے اور دور کر دینے اور اس کے بدلہ اور چیز کو رکھ دینے کے ہیں.اور نقل اور تحویل اور تغیر کے معنوں میں بھی آیا ہے.قاموس میں لکھا ہے.نسخه كَمَنَعَهُ أَزَالَهُ وَغَيْرَهُ وَابْطَلَهُ وَأَقَامَ شَيْئًا مَقَامَهُ وَالشَّيْءُ نَسَخَهُ وَالْكِتَابُ كَتَبَهُ (قاموس) - النَّسْخُ ابْطَالُ شَيْءٍ وَإِقَامَهُ غَيْرِهِ مَقَامَهُ نَسَخَتِ الشَّمْسُ الظَّلَّ وَهُوَ مَعْلَى مَا نَنْسَخُ (مجمع البحار).وَالنَّسْخُ النَّقْلُ كَنَقْلِ كِتَابٍ مِنْ آخَرَ وَالثَّانِي: الْإِبْطَالُ وَالْإِزالَةُ وَهُوَ الْمَقْصُودُ.ههنا (ابو سعود) النَّسْخُ فِي اللُّغَةِ الْإِبْطَالُ وَالْإِزَالَةُ وَيُرَادُ بِهِ النَّقُلُ وَالتَّحْوِيلُ وَالْأَكْثَرُ عَلَى أَنَّهُ حَقِيقَةٌ فِي الْإِزَ الةِ مَجَازَ فِي النَّقْل - (حصول) النَّسْحُ الْأَوَّلُ وَالنَّقْلُ وَالتَّحْوِيلُ وَالثَّانِي الرَّفْعُ وَالْإِزَالَهُ - (مظهرى) ل نَسَخَهُ (بروزن مَنَعَهُ) اُسے اس کی جگہ سے ہٹا دیا.اسے تبدیل کر دیا اور اسے کینسل کر دیا.اور کسی اور چیز کو اس کا قائم مقام بنادیا شی کے لئے نسخہ اور کتاب کے لئے کتبہ آتا ہے.۲.نسخ کسی چیز کو باطل کر کے کینسل کر کے اس کی جگہ پر دوسری چیز رکھ دینا.سورج نے سایہ مٹادیا اور مانَنسَخ کا یہی مفہوم ہے.(ناشر) سے نسخ کے معنی نقل کرنے کے ہیں جیسے ایک کتاب دوسری سے نقل کرنا اس کے دوسرے معنی ابطال اور ازالہ کے ہیں.اس سے مراد نقل اور تحویل ہیں.اکثر کی رائے میں ازالہ حقیقی معنی ہیں.اور نقل مجازی معنی ہیں.م نقل اور تحویل نسخ کے پہلے معنی ہیں ”رفع اور ازالہ اس کے دوسرے معنی ہیں.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة فقرہ دوم :- فقرہ اوّل میں معلوم ہو چکا کہ نسخ کے معنے ابطال اور تغیر اور نقل کے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ آیت ماننسخ میں ابطال کے ہی معنے مطلوب ہیں جیسے ابو سعود.مجمع الجار سے ظاہر ہے اور علاوہ بریں جب ہم ناسخ اور منسوخ کا ذکر کرتے ہیں تو نقل والے معنے ضرور نہیں لئے جاتے.کیونکہ اس صورت میں سارا قرآن منسوخ ہے اور تغیر کے معنی بھی مراد نہیں کیونکہ مطلق کی تنقید اور عام کی تخصیص اور ایز اد شروط اور اوصاف کو اگر نسخ کہیں تو قرآن کی منسوخ آیتیں سینکڑوں کیا ہزاروں ہو جاتی ہیں.تخصیص اور نسخ اور تقید اور نسخ کا تفرقہ ثابت ہے.ونثبت انشاء اللہ تعالی.یاد رکھو کہ ابطال ہی کے معنے میں نسخ کا لفظ قرآن کریم میں وارد ہوا ہے.والقرآن يفسر بعضه بعض قال الله تعالى إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطنُ فِي امُنِيَّتِهِ فَيَنْسَخُ اللَّهُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَنُ الـ (الحج : ۵۳) - آن يُزِيلُهُ وَيُبْطِلُه اور یا درکھو کہ نسخ کے حقیقی معنے ابطال اور ازالہ کے ہیں.حقیقی معنے کو بدون ضرورت چھوڑ نا مناسب نہیں اور ان معنے کے لحاظ سے قرآن میں کوئی آیت منسوخ موجود نہیں ہے.یادر ہے کہ میں مطلق نسخ کے وقوع کا منکر نہیں ہوں.فقرہ سوم :- جن آیات کو لوگوں نے منسوخ مانا ہے ان کے معنے کرنے میں نسخ کے ماننے والوں نے ابطال کے معنے میں ضرور تساہل کیا ہے.مجھے ایک زمانہ میں اس مسئلہ کی جستجو تھی اُس وقت ایک رسالہ ایسا ملا جس میں پانچ سو آیت سے زیادہ منسوخہ آیات کا بیان تھا.میں اسے سوچتا اور مصنف کی لا پرواہی پر تعجب کرتا تھا.تھوڑے دنوں بعد سیوطی کی اتقان دیکھی.تو ایسی خوشی ہوئی جیسے بادشاہ کو ملک لینے کی.یا عالم کو عمدہ کتاب ملنے کی یا قوم کے خیر خواہ کو کامیابی کی ہوتی ہے.مجھ کو امام سیوطی کی ذکر کردہ آیات میں بھی تر ڈر تھا.الا چھوٹا منہ بڑی بات پر خیال کر کے خاموش رہا پھر چند دنوں بعد فوز الكبير في اصول التفسیر راحت بخش دل مضطر ہوئے اس میں مصنف علامہ نے صرف پانچ لے قرآن کا بعض بعض دوسرے حصہ کی تفسیر کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِلَّا إِذَا تَمَتَّى الْقَى الشَّيْطَانُ....اس نے جب کچھ آرزو کی تو شریر و بد کار اس کی خواہش میں روک ڈالنا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ شیطان کی خواہش کو مٹا دیتا ہے اور باطل کر دیتا ہے.آتی يُزِيلُه ويُبْطِلُهُ.یعنی اس کا ازالہ اور ابطال کرتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۰۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة آیتیں منسوخ مانی ہیں.میں نے ان پانچ مقام کی تحقیق تفاسیر سے کی تو ان پانچ مقامات کا منسوخ ماننا نفس الامر کے مطابق نہ پایا.فقرہ چہارم :- عزیز من ایمان اور انصاف کا مقتضی ہے.اگر ہم دو احکام شرعیہ کو متعارض دیکھیں تو بحکم وَ لَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثيرا (النساء : ۸۳) کے ہم ضروریقین کریں کہ یہ تعارض ہمارے فہم کی غلطی ہے.اگر تطبیق دو آیتوں یا حدیثوں کی ہمیں نہیں آئی تو اللہ کے ہزاروں ایسے بندے ہوں گے جو تطبیق دے سکتے ہوں گے.ہم بڑے نادان ہیں اگر اپنی کمزوریوں کو نہیں سمجھتے.بڑی غلطی پر ہیں اگر اس فیض الہی کے منتظر نہ ہیں جس کے ذریعہ تطبیق حاصل ہو.بڑی ناامیدی ہے اگر قبض کی حالت میں بسط کا انتظار نہ ہو.صاف دھوکہ ہے اگر فوق کل ذی علم علیم ہمیں بھول جائے.فقره پنجم : فوز الکبیر میں لکھا ہے.شیخ جلال الدین سیوطی در کتاب اتقان بعد ازاں که از بعض علماء آنچه مذکور شد به بسط لائق تقریر نمود و آنچه بر رائے متاخرین منسوخ است بر وفق ابن العربی محور کردہ قریب بست آیت شمرده - فقیر را در اکثر آن بست آیت نظر است - فلنورد کلامه مع التعقب.فمن البقرة كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ (البقرة : ۱۸ - الْآيَةُ مَنْسُوْخَةٌ قِيْلَ بِآيَةٍ مَوَارِيكَ وَقِيلَ لِحَدِيْبِ لَا وَصِيَّةٌ لِوَارِثَ وَقِيلَ بِأَلا جُمَاعِ حَكَاهُ ابْنُ الْعَرَبِي - ا اگر وہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف پایا جاتا.۲.شیخ جلال الدین سیوطی اپنی کتاب اتقان میں بعض علماء سے منسوب بات کا تذکرہ کرنے کے بعد اور اس (جس آیت کے نسخ کا تذکرہ ہے.مترجم) کے بارہ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ متاخرین کی رائے میں جو منسوخ ہے.اور ابن العربی نے بھی جو آیات منسوخ شمار کی ہیں ان کی تعداد میں ہے، میری نظر میں ان کی تعداد میں سے زیادہ ہے.(ناشر) سے پس اس کا کلام مؤقف مع التعقب ( یعنی اس مؤقف پر تبصرہ کے ساتھ ) پیش کرتے ہیں.سورہ بقرہ میں ہے.تم پر لازم کیا جاتا ہے جب سامنے آموجود ہو تم میں سے کسی کی موت اگر ( وہ مرنے والا ) چھوڑے کچھ مال ( تو چاہئے کہ ) کہے میرے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے یہ آیت منسوخ ہے کہا گیا ہے کہ آیت مواریث سے اور کہا گیا کہ حدیث لا وَصِيَّةَ لِوَارِثِ سے اور کہا گیا کہ اجماع سے.یہ ابن عربی نے حکایت کیا ہے.
حقائق الفرقان ۳۰۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس پر مؤلّف علا مہ کہتا ہے کہ یہ آیت آیت یوصیکم اللہ (النساء : ۱۲) سے منسوخ ہے اور لاوصيةلوارث کی حدیث اس نسخ کو ظاہر کرتی ہے.فقیر کہتا ہے یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ کتب.آہ.کے معنے ہیں لکھی گئی تم پر جب آجاوے ایک کو تم میں سے موت.اگر چھوڑے مال.الوصیۃ ماں باپ اور نزدیکیوں کے لئے اور ظاہر ہے کہ جب موت حاضر ہوگئی تو آدمی مر گیا.ان ترک کا لفظ وجود موت پر قرینہ ہے.اس آیہ شریفہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص مال چھوڑ مرے تو اس کے حق میں کوئی وصیت لکھی گئی ہے.جب ہم نے قرآن کریم میں جستجو کی تو اس میں پایا يُوصِيكُمُ اللهُ فِى اَوْلادِكُم آہ معلوم ہوا کہ والدین اور رشتہ داروں کے حق میں یہ وصیت الہیہ لکھی ہوئی ہے وَالْقُرْآنُ يُفَتِرُ بَعْضُهُ بَعْضًا اور اسی وصیت پر عمل کا کتب علیکم والی آیت میں حکم ہے.پس یہ آیت كُتِبَ عَلَيْكُمْ اور آیت يُوصِيكُمُ اللهُ آپس میں متعارض نہ ہوئیں بلکہ ایک دوسرے کی جز ٹھہریں اور لاوَصِيَّةٌ لِوارِث والی حدیث بھی معارض نہ رہی کیونکہ بلحاظ حدیث یہ حکم ہے کہ يُوصِيكُمُ اللہ میں وارثوں کے حقوق مقرر ہو چکے ہیں.اور شارع نے ان کے حصص بیان کر دیئے ہیں.اب وارث کے لئے وصیت نہیں رہی.ہاں وارثوں کے سوا اور لوگوں کے حق میں وصیت ہو تو ممنوع نہیں.آگے کی آیت میں حکم ہے جس نے بدلا وصیت کو سننے کے بعد ضرور اس کا گناہ بدلنے والوں پر ہوا اور اللہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.کیوں نہ ہو خدائی وصیت کا بدلنا مسلمان کا کام نہیں) اور آیت فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا کا ترجمہ ہے جس کو ڈر ہو کہ کسی موصی نے بھی کی یا گناہ کیا پس اُس نے سنوار دیا تو اسے گناہ نہیں تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے.ظاہر ہے جس موصی نے خدائی وصیت کے خلاف کیا اُس نے بے شک کبھی کی اس کے سنوارنے والے کو کوئی گناہ نہیں.اور ہو سکتا ہے کہ موصی سے وہ وصیت والا مرد ہو جس نے ثلث سے زیادہ وصیت کی یا ثلث میں یا ثلث کے اندر کسی برے کام پر اور بری طرز پر روپیہ لگا دینے کی وصیت کی اور آیات يُوصِيكُمُ میں مِنْ بَعْدِ وَصِيَّة بدوں تقید مذکور ہے اس لئے یہاں بتادیا کہ بھی اور بدی کی سنوار معاف ہے اس سنوار نے پر کوئی جرم نہیں اگر اس نے اس موصی کی لے قرآن کا ایک حصہ دوسرے حصہ کی تفسیر کرتا ہے.۲ وارث کے لئے وصیت نہیں ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۰۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وصیت میں اصلاح کی اور اس میں ایما ہے کہ اصلاح کے وقت غلطی بھی ہو جاتی ہے الا ان کی معافی ہے.دوسری وجہ آیت منسوخ نہ ہونے کی الوالدین اور الاقربین یہاں معرف باللام ہیں.پس کہتے ہیں کہ یہاں خاص والدین اور اقارب کا ذکر ہے اور چونکہ آیت يُوصِيكُمُ اللهُ میں اکثر وارثوں کے حق بیان ہوچکے ہیں اور حدیث لا وصية لوارث میں وارثین کے حق میں وصیت کرنے کی ممانعت آچکی ہے اس لئے الو الدین اور الاقربین سے وہ ماں باپ اور رشتہ دار مراد ہیں جو وارث نہیں.مثلاً کسی شخص کے ماں باپ غلام ہوں یا مورث کے قاتل ہوں یا کافر ہوں اور ایسے وہ اقارب ہوں جو محروم الارث ہوں پس آیت مخصوص البعض ہے.اگر یہ تر ڈ دہو کہ یہ وصیت اکثر اہل اسلام میں فرض نہیں اور یہاں کتب کا لفظ فرضیت ظاہر کرتا ہے تو اس کا ازالہ یہ ہے کہ اول تو لمعروف کا لفظ ندب کے لئے ہے.دوم ابن عباس حسن بصری مسروق طاؤس.مسلم بن بیسار.علاء بن زیاد کے نزدیک اس وصیت کا وجوب ثابت ہے.اور پہلے معنے ہی کافی مان لو.و دوسری آیت : - وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ (البقرة : ۱۸۵).قِيل مَنْسُوْخَةٌ بِقَوْلِهِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ " ( البقرة : ١٨٦) وَقِيلَ مُحْكَمَةٌ وَلَا مُقَدَّرَةٌ قُلْتُ عِنْدِى وَجْهُ أَخَرُ وَهُوَ أَنَّ الْمَعْلَى وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَةُ الطَّعَامَ فِدْيَةٌ هِيَ طَعَامُ مَسْكِينَ فَأَضَمَّ قَبْلَ الذِكرِ لِأَنَّهُ مُتَقَدَّمَةٌ رُتْبَةً وَذِكْرُ الضَّمِيرِ لِأَنَّ الْمُرَادَ مِنَ الْفِدْيَةِ هُوَ الطَّعَامُ وَالْمُرَادُ مِنْهُ صَدَقَةُ الْفِطْرِ - لے وارث کے لئے وصیت نہیں.سے اور جو طاقت رکھتے ہیں وہ کھانا بھی دیں.سے تم میں سے جو شخص مقیم ہو یا اس مہینے کو پاوے (اس میں حاضر ہو) تو چاہئے کہ اس کے روزے رکھے.(ناشر) کہ آیت وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ.کہا گیا منسوخ ہے اللہ کے فرمان فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهر سے.یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیت محکم ہے ( منسوخ نہیں) اور لا مقدر ہے.میں کہتا ہوں کہ میرے نزدیک ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ آیت عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ....میں ضمیر طعام مسکین سے اضمار قبل الذکر ہے.کیونکہ طعام مسکین کا ٹکڑا اگر چہ بعد میں آیا ہے لیکن مرتبہ میں مقدم ہے.ضمیر کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ فدیہ سے مراد طعام ہی ہے اور اس سے مراد صدقہ فطر ہی ہے.
حقائق الفرقان ۳۰۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عَقَبَ الله تَعَالَى الْأَمْرُ بِالصَّيَامِ فِي هَذِهِ الْآيَةِ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ كَمَا عَقَبَ الْأَيْتِ رُ الثَّانِيَةِ بِتَكْبِيرَاتِ الْعِيدِ - خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کسی نے کہا ہے کہ یہ آیت منسوخ ہے.آیت فمن شھد کے ساتھ اور کسی نے کہا منسوخ نہیں اور لا مقدر ہے.یادر ہے کبیر میں لکھا ہے (الْوَاسِعُ اِسْمُ لِمَنْ كَانَ قَادِر أَعَلَى الشَّيْء مَعَ الشَّدَّةِ وَالْمُشَقِّةِ ).پس لا کا مقدر کہنا نہ پڑا.یا اس کے معنے ہیں جو لوگ طعام دینے کی طاقت رکھتے ہیں فطرانہ میں ایک مسکین کا کھانا دے دیں.فقیر کہتا ہے.لا مقدر کرنے کی حاجت اس لئے بھی نہیں کہ باب افعال کا ہمزہ سلب کے واسطے بھی آتا ہے.دیکھو مفلس کے معنے فلوس والا نہیں بلکہ یہ ہیں جس کے پاس فلوس نہ ہو پس یہاں یطیقون.الخ کے معنے ہوئے جس میں طاقت نہ ہو روزہ کی وہ روزہ کے بدلے کھانا کھلاوے جیسے بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت اور اس آیت کا منسوخ نہ ہونا روایت کیا ہے بخاری نے عباس سے اور حافظ ابونصر بن مردویہ نے عطاء سے.66 تیسری آیت: " كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ ، الخ (البقرة: ۱۸۴) مَنْسُوخٌ بِقَوْلِهِ تَعَالَى أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَابِكُمْ “ (البقرۃ:۱۸۸) اور دلیل میں لکھا ہے کہ موافقت کا مقتضی تھا کہ اہل کتاب کی طرح عورت سے صحبت کرنا اور کھانا نیند کے بعد حرام ہوتا.فوزالکبیر والے فرماتے ہیں یہ تشبیہ نفس وجوب میں ہے پس آیت منسوخ نہ ہوئی اور سچ ہے تشبیہ میں کل وجوہ کی مساوات نہیں ہوا کرتی نیز وہ حکم قرآن میں موجود نہیں.چوتھی آیت:- " يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالِ فِيهِ “الخ (البقرة: ۲۱۸) منسوخ ہے لے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صدقۃ الفطر کے بعد روزوں کا حکم دیا جیسا کہ دوسری آیت کے بعد تکبیرات کا حکم بیان کیا.سے لفظ میں وسعت ہے اس شخص کے لئے جو کسی بات کی قدرت تو رکھتا ہے مگر سخت تکلیف اور مشقت کے ساتھ.۳.جس طرح حکم دیا تھا تم سے پہلے والوں کو.(ناشر) کے حلال کر دیا گیا ہے تم کو روزوں کی راتوں میں تمہاری بیبیوں سے صحبت کرنا.۵ اے پیغمبر تجھ سے پوچھتے ہیں ادب کے مہینوں میں لڑنے کا حال.
حقائق الفرقان ۳۰۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة "وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَة (التوبة: ۳۶) کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے یہ آیت تحریم قتال پر دلالت نہیں کرتی بلکہ یہ آیت تو قتال کے مجوز ہے.البتہ یہ آیت علت کو تسلیم کر کے مانع کا اظہار کرتی ہے.پس یہ معنے ہوئے کہ اشهر حرم میں قتال بڑی سخت بات ہے لیکن فتنہ اس سے بھی برا ہے پس فتنہ کے مقابلہ میں قتال برا نہ ہوگا.پانچویں آیت ” وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمُ “ (البقرة: ۲۳۵) الى قوله ” مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ“ الخ (البقرة: ۲۴۱)- مَنْسُوخَةٌ بِأَيَةِ اَرْبَعَةَ اَشْهَرٍ وَعَشْرًا وَالْوَصِيَّةُ مَنْسُوخَةٌ بِالْمِيْرَاتِ وَالسُّكْنى بَاقِيَةً عِنْدَ قَوْمٍ مَنْسُوخَةٌ عِنْدَ آخَرِينَ فوز الکبیر میں ہے کہ جمہور مفسرین اسے منسوخ کہتے ہیں.پھر کہا وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ يَسْتَحِبُّ اَوْ يَجُوزُ لِلْمَيَّتِ الْوَصِيَّةُ وَلَا يَجِبُ عَلَى الْمَرْأَةِ أَن تَسْكُنَ فِي وَصِيَّةٍ وَعَلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُذَا التَّوْجِيَهُ ظَاهِرُ مِنَ الْآيَةِ.میں کہتا ہوں کہ اس ظہور میں کچھ کلام نہیں.مجاہد اور عطا سے مروی ہے کہ آیتہ منسوخ نہیں اور حسب اس وصية کے سال بھر کامل اگر عورت اپنے شوہر کے گھر میں رہنا چاہے ان کو منع کرنا درست نہیں اور اگر چار مہینے دس دن کے بعد یا وضع حمل کے بعد نکلنا چاہے اور دوسری جگہ چلی جائے تو مختار ہے.اور یہی مذہب ہے ایک جماعت کا اور پسند کیا اس کو ابن تیمیہ نے.چھٹی آیت: - "وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمْ بِهِ الله (البقرة: ۲۸۵) مَنْسُوخَة بِقَوْلِهِ تَعَالَى لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷).صاحب فوز الكبير لے اورلر ومشرکوں سے سب کے سب - وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ...الآية.یہ آیت منسوخ ہے.آیت أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا سے اور وصیت منسوخ ہے آیت میراث سے (بیوہ کے لئے ایک سال تک مرحوم خاوند کے گھر میں ) رہائش رکھنا ایک گروہ کے نزدیک باقی ہے جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ منسوخ ہے.سے پھر کہا وَيُمكنُ آن يُقال.یہ کہا جائے ممکن ہے کہ میت کے لئے وصیت کرنا مستحب ہے اور عورت ( بیوہ) کے لئے واجب نہیں کہ وہ وصیت ( کی پوری مدت ) میں رہائش رکھے اور ابن عباس کا یہی موقف ہے اور آیت کریمہ سے یہ تو جیہ ظاہر ہے.(ناشر) ، اگر چہ تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے یا اس کو چھپاؤ اللہ تم سے حساب لے گا.ھے اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اُس کی برداشت کے موافق.
حقائق الفرقان ۳۰۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فرماتے ہیں یہ مَا فِي أَنْفُسِكُمْ عام مخصوص البعض ہے.لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا کی آیت شریف نے بیان کر دیا کہ مَا فِي أَنفُسِكُمْ سے مراد بے جا کینہ اور نفاق ہے نہ وہ تو ہمات جو دل پر بے اختیار آجاتے ہیں کیونکہ طاقت سے باہر باتوں کا حکم نہیں اور نہ انسان کو اس کی تکلیف بلکہ ماموصول معرفہ ہے.پس حاجت تخصیص بھی نہیں.وو ساتویں آیت: ” اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقتِه “ (آل عمران: ۱۰۳) قِيْلَ مَنْسُوْخَةٌ بِقَوْلِهِ فَاتَّقُوا اللهَ مَا اسْتَطَعْتُم التغابن: ۱۷) - وَقِيلَ لَابَلٌ مُحْكَمَةٌ - فوز الکبیر میں ہے حَقَّ " تقاتہ کا حکم شرک اور کفر اور اعتقادی مسائل میں ہے اور مَا اسْتَعَظتُمْ کا حکم اعمال میں ہے مثلاً جو کوئی وضو نہ کر سکے تمیم کرلے.جو کوئی کھڑا نماز نہ پڑھ سکے بیٹھ کر پڑھ لے اور یہ توجیہ سیاق ،، آیت سے ظاہر ہے.آٹھویں آیت : - وَ الَّذِيْنَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَأْتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ (النساء : ۳۴) قَالُوا مَنْسُوخَةٌ بِقَوْلِهِ تَعَالَى " وَ أُولُوا الْأَرْحَامِ بَعْضُهُم أولى بِبَعْضٍ (الانفال: (۷۶) فوز الكبير میں ہے.آیت کا ظاہر یہ ہے کہ میراث وارثوں کے لئے ہے.اور احسان وسلوک مولی الموالاۃ کے واسطے.نسخ کوئی نہیں.نویس آیت : - "وَإِذَا حَضَرَ الْقِسْمَةَ ، النساء: 9) آو.یہ آیت منسوخ ہے اور کہا گیا منسوخ نہیں لوگوں نے سستی کی اس پر عمل کرنے میں.ابن عباس نے کہا یہ استحبابی حکم ہے.سچ ہے.بھلا اس کا نسخ کرنے والا کون ہے.دسویں آیت : "وَالَّتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ " (النساء:۱۲) کہا گیا منسوخ ہے آیت سورہ نور لے اللہ کو بخوبی سپر بناؤ اور اس کی نافرمانی سے ڈرو جتنا اس سے ڈرنے کا حق ہے.۲؎ تو اللہ ہی کو سپر بناؤ تم سے جہاں تک بن پڑے.۳.اور تم نے جس سے عہد واقرار مضبوط کر لیا ہو تو اُن کو اُن کا حصہ دے دو.ہے اور قرابت دار ایک دوسرے کے حق دار ہیں آپس میں.(ناشر) ۵ے اور جب تقسیم ( ترکہ ) کے وقت ( دور کے رشتہ دار اور ) یتیم بچے اور مساکین آموجود ہوں.1 اور مسلمانو ! تمہاری عورتوں میں سے جو عور تیں بدکاری کی مرتکب ہوں.
حقائق الفرقان ۳۰۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سے.فوز الکبیر میں ہے.یہ بالکل منسوخ نہیں بلکہ واللاتی آہ میں حکم ایک غایت کے انتظار کا ہے.سورہ نور میں اس غایت کا بیان ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ وہ سبیل ہے جس کا وعدہ دیا تھا پس نسخ نہ ہوئی.یا فاحشة کے معنی میں عام طور کی شرارتیں مراد ہیں بدون زنا کے.پس مطلب یہ ہے کہ عورت کو عام طور پر بعض شرارتوں کے باعث گھر میں روکا جاسکتا ہے.گیارہویں آیت ” وَلَا الشَّهْرَ الْحَرَامَ “ (المائدة: ۳) آہ اس مہینے میں اباحت قتال کے ساتھ منسوخ ہے فوز الکبیر میں ہے قرآن اور سنت ثابتہ میں اس کا نسخ موجود نہیں.بارہویں آیت " فَإِنْ جَاءُوكَ فَاحْكُمُ بَيْنَهُم أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ، " (المائدة: ۴۳) منسوخ ہے وَ آنِ احْكُمُ بَيْنَهُم بِمَا أَنْزَلَ اللهُ " (المائدۃ:۵۰) کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ اس کے معنے ہیں کہ اگر تو حکم کرے اہل کتاب کے مقدمات میں تو ما انزل اللہ پر حکم کر اور ان کی خواہشوں پر نہ جا.حاصل یہ ہوا کہ یا تو ہم اہل ذمہ کو چھوڑ دیں وہ اپنے مقدمات اپنے افسروں کے پاس لے جاویں اور وہ اپنی شریعت کے موافق فیصلہ کریں اگر ہمارے پاس آویں تو حسب شریعت 66.991 خود فیصلہ کر دیں.تیرہویں آیت : ” أَوْ أَخَذَنِ مِنْ غَيْرِ كُمُ “ (المائدة: ١٠٧) منسوخ ہے.وَأَشْهِدُوا ذَوَى عَدْلٍ مِنْكُمْ (الطلاق: ۳) کے ساتھ.فوز الکبیر میں ہے کہ امام احمد نے آیت کے ظاہر پر حکم دیا ہے اور اس آیت کے معنے اور لوگوں نے یہ کئے ہیں.أَوْ أَخَرْنِ مِنْ غَيْرِكُمْ أَتَى مِنْ غَيْرِ قَارِبِكُمْ فَيَكُونُونَ مِنْ سَائِرِ الْمُسْلِمِينَ _ 66199 چودھویں آیت : " إِنْ يَكُنْ مِنْكُمْ عِشْرُونَ طَيرُونَ ، الاية (الانفال: ۲۲) منسوخ لے اور نہ تعظیم والے مہینے کو.سے پھر اگر وہ تیرے پاس آئیں تو ان میں فیصلہ کر دے یا ان سے منہ پھیر لے ( تیرا اختیار ہے).۳.اور اگر تم فیصلہ کرو اُن میں اللہ کے اتارے ہوئے حکم کے موافق.(ناشر) ہے تمہارے سوائے اور دو شخصوں کی.۵.اور گواہ کر لو دو انصاف والے گواہ - 1 یعنی تمہارے اقارب کے سوا دوسروں میں سے.پس وہ باقی سب مسلمانوں میں سے ہوں گے.کہ اگر ہوں گے تم میں سے ہیں آدمی صابر.
حقائق الفرقان ۳۱۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بالاية بعدھا.میں کہتا ہوں ان دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں.اوّل تو اس لئے پہلی آیت شرطیہ جملہ ہے امر نہیں.پس جو کوئی آیت ان يكُن منکم کا مخاطب ہے اس وقت اس کے صابر دس گنے دشمنوں کو کافی تھے.جو لوگ الآن کے وقت نکلے اس مجموعہ کے صابر دو چند کے مقابلہ میں غالب ہو سکتے تھے.اگر یہ پچھلے وہی پہلے ہوں تو بھی مختلف اوقات میں انسانی حالت کی تبدیل کوئی تعجب انگیز نہیں.اور اصل بات یہ ہے کہ جنگ بدر پہلی جنگ ہے جس میں صحابہ کرام کو عمائد مکہ اور صنادید قریش سے مقابلہ کا اتفاق پڑا تو اس پہلی جنگ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آئندہ تو تم کو اگر تم صابر ہوئے تو دس کے ساتھ.ہیں کو دوسو کے ساتھ.سو کو ہزار کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑے گا اور اب تو اس پہلی بار میں اللہ نے تخفیف کی تمہارا مقابلہ اگر دو چند سے ہوا تو کامیاب رہو گے.الآن اور عَلِمَ أَنَّ فِيكُم ضعفا (الانفال: ۶۷) صاف تفرقہ کی دلیل ہے.- 66 -" پندرہویں آیت.اِنْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالاً " الح (التوبة: ٤١) - مَنْسُوخَةً بِأَيَةِ الْعُذْرِ وَهُوَ قَوْلُهُ لَيْسَ عَلَى الْأغْنى حَرج (النور: ۲۲) وقوله لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ " (التوبة: 9) فوز الکبیر میں کہا ہے خفافا کے معنے ہیں کہ نہایت تھوڑے جہاد کے سامان ( جیسے ایک سواری ایک نوکر اور معمولی زادراہ) سے بھی لڑائی کرو.اور ثقالا کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے نوکر اور سواریاں اور زادراہ تمہارے پاس ہو.سولہویں آیت: - " الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلا زَانِيَةٌ “ (النور: (٢) - منسوخة بقوله " وَ انْكِحُوا الايا فى مِنْكُمْ (النور: ۳۳) فوز الکبیر میں ہے امام احمد ظاہر آیت پر حکم کرتے تھے.اور امام احمد کے سوا اور لوگوں نے کہا کہ کبیرہ کا مرتکب زانیہ ہی کا کفو ہے یا یہ کہ زانیہ کا نکاح پسند کرنا اچھی بات نہیں بلکہ آیت شریف میں محرم ذلك کا اشارہ زنا اور شرک کی طرف ہے پس نسخ نہ ہوئی یا لے اور جانا تھا کہ تم میں کمزوری ہے.سے آیت انْفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا، منسوخ ہے آیت العذر سے اور وہ ہے لَيْسَ عَلَى الْأَعْلَى حَرَج اور آیت لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ - (ناشر) ۳ بدکار مرد بد کار عورت سے نکاح کرتا ہے.کے اور جس کا خاوند نہ ہو تم میں سے اُس کا نکاح کر دو.
حقائق الفرقان ۳۱۱ سُورَةُ الْبَقَرَة فانکحوا الا یامی عام ہے اور عام کا ناسخ خاص کو کہنا اجماعی نہیں.ستارہویں آیت : لِيَسْتَأْذِنُكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ “ ( النور : ۵۹) بعض اسے منسوخ کہتے ہیں اور بعض منسوخ نہیں کہتے مگر لوگوں نے اس پر عمل کرنے میں سستی کی ہے.فوز الکبیر میں ہے ابن عباس کہتے تھے منسوخ نہیں اور یہی وجہ اعتماد کے لائق ہے.اٹھارویں آیت : - "لا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاء مِنْ بَعْدُ (الاحزاب:۵۳) الآية منسوخة بقوله تَعَالَى إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ قُلْتُ تَحْمِلُ أنْ يَكُونَ النَّاسُ مُقَدَّمًا فِي التَّلَاوَةِ وَهُوَ الْاَظْهَرُے میں کہتا ہوں بعد کا مضاف اليه الجناس الَّتِي مَرَّذِكَرُهَا فِي قَوْلِهِ إِنَّا احللنا.الآیة.سپس معنے آیت کے یہ ہوں گے کہ اے نبی تجھے حلال نہیں عورتیں ان چار قسم کے سوا ( تری بیبیاں اور مملوکہ اور بنات عم، بنات عمات، بنات خال ، بنات خالات جنہوں نے ہجرت کی اور وہ مومنہ جس نے اپنا آپ تجھے بخش دیا) اور ولا ان تبدل اس کی تاکید ہے." انیسویں آیت : - " إِذَا نَاجِيتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِمُوا الآية (المجادلة: ١٣) منسوخة بالآیۃ بعدھا.میں کہتا ہوں اوّل تو یہ استحبابی حکم ہے اور اس استحباب کو مٹانے والی قرآن میں کوئی آیت نہیں بلکہ شیخ ابن عربی نے فتوحات میں لکھا ہے کہ میں تو اگر حدیث سے مشورہ لیتا ہوں تو بھی چونکہ وہ کلمات نبویہ سے مشورہ صدقہ دے لیتا ہوں.جزاہ اللہ بیسویں آیت: - " فَأْتُوا الَّذِيْنَ ذَهَبَتْ اَزْوَاجُهُمْ مِثْلَ مَا أَنْفَقُوا (الممتحنة: ١٢) قِيْلَ مَنْسُوخَةٌ بِآيَةِ الصَّيْفِ وَقِيْلَ بِآيَةٍ أُخْرَى وَقِيلَ مُحَكَم - فوز الکبیر والے فرماتے ہیں ظاہر یہی ہے کہ آیت منسوخ نہیں.یہ حکم الزمان ہے.ل آيت لا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاء مِنْ بَعْدُ منسوخ ہے آیت إِنَّا أخللنالك سے.میں کہتا ہوں کہ احتمال ہے.آیت میں بعد کا مضاف الیہ وہ اجناس ہیں جن کا ذکر آیت انا اخللنالك میں گزرا ہے.جب تم پیغمبر سے کان میں کچھ بات کرنا چاہو تو کان میں بات کرنے سے پہلے کچھ خیرات کر دیا کرو.(ناشر) کے ان لوگوں کو دے دو جن کی عورتیں جاتی رہیں ( یعنی تمہارے قبضہ میں آ گئیں ) جتنا انہوں نے خرچ کیا تھا.
حقائق الفرقان ۳۱۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اکیسویں آیت: - "قم اليْلَ إِلا قَلِيلًا (المزمل: ۳) آخر سورۃ کے ساتھ منسوخ ہے اور بات یہ ہے کہ قیام اللیل ایک امر مسنون ہے.آیات شریفہ میں فرضیت قطعی نہیں اور سنیت قیام اللیل کی بالا تفاق اب بھی موجود ہے.فقره ششم :- ضعف اور قلت کے وقت صبر اور درگذر کا حکم قرآن شریف میں بہت جگہ ہے لوگ کہتے ہیں کہ یہ آیتیں آیت قتال سے منسوخ ہیں اور یہ بات صحیح نہیں بلکہ قال کا حکم تاخیر میں رہا ہے.سیوطی نے کہا دیکھو باب ناسخ منسوخ انقان میں.الثَّالِثُ مَا أُمِرَ بِهِ لِسَبَبٍ ثُمَّ يَزُولُ السَّبَبُ كَالْأَمْرِ حِيْنَ الضُّعْفِ وَالْقِلَّةِ بِالصَّبْرِ وَالصَّفْحِ ثُمَّ نُسِحَ بِإِيجَابِ الْقِتَالِ وَهَذَا فِي الْحَقِيقَةِ لَيْسَ نَسْخًا بَلْ هُوَمِنْ قِسْمِ الْمُنْسَاءِ كَمَا قَالَ تَعَالَى آوَنُنَسِهَا الْمُنْسَاءُ هُوَ الْأَمْرُ بِالْقِتَالِ إِلَى أَنْ يَقَوَى الْمُسْلِمُونَ إِلَى أَنْ قَالَ وَبِهَذَا يَضْعُفُ مَا لَهِجَ بِهِ كَثِيرُونَ مِنْ أَنَّ الْآيَةَ فِي ذلِكَ مَنْسُوخَةٌ بِأَيَةِ السَّيْفِ وَلَيسَ كَذَلِكَ بَلْ هِيَ مِنَ الْمُنْسَاءِ بِمَعْلَى أَنَّ كُلَّ أَمْرٍ وَرَدَ يَجِبُ اِمْتِقَالُهُ فِي وَقْتٍ مَا لَعَلَّتِي تَقْتَضِيَ ذَالِكَ الْحَكَمُ ثُمَّ يَنْتَقِلُ بِاِنْتِقَالِ تِلْكَ الْعِلْةِ إِلى حُكْمٍ أَخَرَ وَلَيْسَ بِنَسْخِ إِنَّمَا النَّسْخُ الْإِزَالَهُ لِلْحُكْمِ حَتَّى لَا يَجُوزُ امتثاله (یہ حتى لا يجوز کا لفظ یا د رکھنے کے قابل ہے خصوصاً الآن خفف اور اشفقتم وغیرہ میں ) لے کھڑا رہا کر رات کو مگر تھوڑی ہی رات.(ناشر) سے تیسرے وہ جس کا حکم ایک سبب کی بنیاد پر دیا گیا.پھر وہ سبب جا تا رہا جیسے ضعف اور قلت ( کمزوری کی حالت اور تعداد کی کمی کی صورت) میں صبر اور درگذر کا حکم دیا گیا اور پھر قتال کی فرضیت کے حکم سے وہ منسوخ کیا گیا.اور یہ فی الحقیقت نسخ نہیں ہے بلکہ وہ از قسم نسی“ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.آؤنُنُسِهَا.اور نشئی امر بالقتال سے متعلق ہے.یہاں تک کہ مسلمان طاقت پکڑ لیں...پھر کہا اس سے وہ موقف کمزور ہو جاتا ہے جس کو بہت سے لوگوں نے اپنایا کہ (صبر و در گذر والی ) آیت منسوخ ہے آیت سیف سے.بات ایسے نہیں ہے بلکہ مفہوم یہ ہے کہ جو حکم بھی وارد ہوا ہے اس کو مانا اور اس پر عمل کرنا واجب ہے.اس موقع پر جو بھی اس کے عملدرآمد کا متقاضی ہو اور اس سبب کے بدل جانے پر حکم دوسرے حکم کی طرف منتقل ہو جائے گا.اس میں کوئی نسخ نہیں ہے.نسخ تو صرف ازالہ حکم ہے یہاں تک اس پر عمل درآمد جائز نہ رہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فقرہ ہفتم.بعض صحابہ اور سلف سے تقید اور تخصیص اور ابطال وغیرہ کونسخ کہنا ثابت ہے الا اقول تو ان کے اور ساتھ والوں نے نسخ کے ایسے عام معنے نہیں لئے.دوم.اگر نسخ تغیر کہتے تھے تو ان کے یہاں ایسے معنے کی نسخ قرآن میں آجاوے.اخبار سے ممنوع نہ تھی.ہمارے صاحبان نسخ کے معنوں میں ان کا محاورہ لیتے ہیں اور پھرسمن ثابتہ ہے.قرآن کی یہ نسخ تجویز نہیں کرتے.عملدرآمد میں اس اصطلاحی نسخ کو نسخ بمعنے رفع الحکم کا مرتبہ دے رکھا ہے.فقره پشتم.ماننسخ کا جملہ جملہ شرطیہ ہے اور شرط کا وجو دضرور نہیں ہوتا.دیکھو إن كَانَ لِلرَّحْلَن وَلَدٌ (الزخرف: ۸۲) والی آیت پس آیت ماننسخ سے مطلق نسخ کا وقوع بھی ثابت نہیں ہوسکتا.قرآن میں آیات منسوخہ کا موجود ہونا اس سے کیونکر ثابت ہوسکتا ہے.یادرکھو میں مطلق وقوع نسخ کا انکار نہیں کرتا بلکہ کہتا ہوں کہ قرآن اور صحیحین اور ترمذی میں بالا تفاق منسوخ کوئی حکم نہیں ( ترمذی میں جمع صلواتیں ظہرین و مغر بین اور قتل شارب کی حدیث بھی منسوخ نہیں تفصیل اُس کی دراسات وغیرہ میں موجود ہے ) فقرہ نہم:.میں نے بہت ایسے لوگ دیکھے جن کا یہ ڈھنگ ہے کہ جب دو بظاہر متعارض حکموں کو دیکھا اور تطبیق نہ آئی لا اعلم کہنے سے شرم کھا کر ایک میں نسخ کا دعوی کر دیا.یا جب کوئی نص اپنے فتوے کے خلاف سنی اول تو لگے اس میں تو جیہات جمانے.جب یہ کوشش کارگر نہ ہوئی جھٹ دعوئی کر دیا کہ ان میں سے فلاں حکم اجماع کے خلاف ہے.جب اجماع کی غلطی معلوم ہوئی تو اجماع کو مقید کردیا اور کہ دیا کہ یہ اجماع اکثر کے اعتبار سے ہے.جب اس کو بھی کسی نے خلاف ثابت کیا تو نسخ کا دعوی کر دیا.حالانکہ بظاہر متعارض حکموں میں ایک کو عزیمت پر محمول کر لینے اور اباحت اصلیہ کو عارضی حرمت پر ترجیح کا موجب جان لینے اور شریعت کو اسباب اور موانع کا مبین مان لینے سے قریباً کل تعارض دفع ہو سکتے ہیں.یہ عجیب قاعدہ تفصیل طلب ہے.الا اس خط میں گنجائش نہیں چند مثالیں سن رکھو.میں ذکر سے وضو کرنا.یا عدم انزال میں غسل کر لینا.ایسا ہی ایک مومن صابر کا دس کفار کا مقابلہ کرنا اور رسول سے گوشہ کرنے میں صدقہ دینا عزیمت ہے اور یہ کام نہ کر نا رخصت.وتر کی ایک
حقائق الفرقان ۳۱۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یا تین یا پانچ یا سات یا نور کعتیں باختلاف انواع سب درست ہیں اور یہ اختلاف ایسا ہے جیسے نماز میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وبارک وسلم نے کوئی سورۃ پڑھی کبھی کوئی.خرگوش کے استعمال میں اگر کوئی کراہت کی دلیل پیش کرے ( گو دلائل پیش شدہ صحیح نہیں ہیں ) تو اس کا کھانے والا اباحت اصلی کو بعد میں تسلیم تعارض مرجح کہہ سکتا ہے.مومن کا عمد اقتل ابدی سزا کا سبب ہے اور قاتل کا سچا ایمان اور رحمت الہیہ اور شفاعت شافعین بلکہ تو بہ وغیرہ اس ابدی سزا کے مانع ہیں اور تجاذب کی حالت میں قوالی کا مؤثر ہونا ظاہر ہے.فقرہ دہم.روز مرہ کے مسائل میں رفع یدین اور فاتحہ کا مسئلہ لو.جناب شیخ عبدالحق دہلوی سفر السعادت کی شرح میں فرماتے ہیں.علماء مذہب ما این مقدار اکتفا نمی کنند وگویند که حکم رفع (رفع يدين عند الركوع والرفع منه والرفع ابتداء مر الثالثه) منسوخ است و چون ابن عمر را که راوی حدیث رفع است دیدند که بعد رسول اللہ صلعم عمل بخلاف آں کردہ ظاہر شد که عمل رفع منسوخ است و از ابن همام نقل فرموده در نماز ابتدا حال اقوال وافعال از جنس این رفع (رفع یدین در سجدتین ) مباح بوده که منسوخ شده است پس دور نیست که این نیز از این قبیل باشد و مشمول نسخ بود - انتھی.شیخ نے نسخ کا مدار اؤل تو ابن عمر کے نہ کرنے پر رکھا.دوم اس پر کہ جب سجدے کے رفع یدین اجماعاً منسوخ ہے تو رکوع کو جاتے اور اٹھتے اور تیسری رکعت کی رفع بھی منسوخ ہوگی اور یہ دونوں باتیں تعجب انگیز ہیں.اول تو اس لئے کہ ابن عمر ا ہمارے مسلک کے لوگ صرف اسی تعداد پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ رفع کا حکم (یعنی رفع یدین رکوع کے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے شروع میں کرنا ) منسوخ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جو کہ رفع یدین والی حدیث کے راوی ہیں ان کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد دیکھا گیا کہ انہوں نے نماز میں رفع یدین نہیں کیا اور ان کا یہ مل ظاہر کرتا ہے کہ رفع یدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور ابن ہمام سے روایت ہے کہ ابتدا میں نماز میں رفع یدین کی طرح کے اعمال ( یعنی : سجدوں میں رفع ) جائز تھے جو بعد میں منسوخ کر دیئے گئے پس بعید نہیں ہے کہ یہ حکم (یعنی رفع یدین رکوع کے وقت اور رکوع سے اُٹھتے وقت اور تیسری رکعت کے شروع میں کرنا) اسی طرح کے احکام میں سے ہو جو منسوخ ہو چکے ہیں.
حقائق الفرقان ۳۱۵ سُورَةُ الْبَقَرَة کا رفع نہ کرنا ابوبکر بن عیاش نے روایت کیا ہے اور یہ شخص معلول مختلط الخبر ہے.دیکھو بخاری کی جزء الرفع اور ابن معین نے توَهُمْ مِّنْ اِبْنِ عَيَّاشٍ لَا أَصْلَ لَهُ دویم.عینی نے بہیقی سے روایت کیا کہ مجاہد کی روایت ( ابن عیاش والی ) ربیع لیث ، طاؤس، سالم ، نافع ، ابوالزبیر ، محارب بن دثار جیسے ثقون کے خلاف ہے یہ ثقہ لوگ ابن عمر سے اس رفع یدین کا کرنا نقل کرتے ہیں.سیوم.ابن عمر سے مسند احمد میں مروی ہے إِنَّهُ إِذَا رَأَى (ابن عمر) مُصَلِّيَّا لَمْ يَرْفَعُ حَصَبَہ اور بخاری نے جزء الرفع میں کہا رماه بالعصی.سمبھلا جو شخص یہ تشدد کرے کہ رفع رَمَاهُ یدین نہ کرنے پر پتھر مارے وہ خود نہ کرے.- چہارم.خاری نے جزو میں فرمایا ہے لَمْ يَثْبُتُ مِنْ أَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَمْ يَرْفَعُ - پنجم.ناسخ کو منسوخ کے مساوی ہونا چاہئے یہاں ایک طرف ابن عمر کا معلول اور بے اصل اثر دوسری طرف ابن عمر سے صحیح ثابت اثر بلکہ مرفوع روایت اور بیہقی کی حدیث جناب ابوبکر سے ردار قطنی کی عمر رضی اللہ عنہ سے بلکہ پچاس صحابہ کی روایت اور بہیقی کی وہ روایت جس میں فمازالت تلك الصلوة حتى لقى اللہ والی موجود ہے اور سیوطی کا اس حدیث کو ازہار میں احادیث متواتر اور سے شمار کرنا.ششم.مانا کہ ابن عمر سے عدم رفع ثابت ہے پھر کیا غیر معصوم پر صرف یہ حسن ظن کر کے کہ اُس نے خلاف امر مشروع نہ کیا ہوگا.نبی معصوم کے ثابت فعل کو منسوخ کہ دینا، انصاف ہے اور کیا صحابی کا عدم فعل شرعی امر کا ناسخ ہوسکتا ہے.ل ابن عیاش کا وہم ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں.ہے کہ جب وہ (حضرت ابن عمر) کسی کونماز پڑھتے دیکھتے کہ اس نے رفع یدین نہیں کیا.تو اس کو کنکریاں مارتے.بخاری نے جزء الرفع میں (حَصَبَہ کی بجاۓ) رَمَاهُ بِالْحَصى کے الفاظ بیان کیے ہیں.اسے کنکریاں مارتے.سے.رسول اللہ کے صحابہ میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے کہ اس نے رفع یدین نہیں کیا.(ناشر) سے آپ کی یہی نماز رہی یہاں تک کہ آپ اللہ سے جاملے.
حقائق الفرقان ۳۱۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہفتم.صحابہ پر بڑا سوء ظن ہے کہ انہوں نے منسوخ حدیث رفع یدین کو بیان کیا اور ناسخ کی روایت نہ کی.ہشتم.جائز ہے کہ ابن عمر نے رفع یدین کو عزیمت خیال فرمایا اور عدم رفع کو رخصت اور رخصت پر عمل کیا.نہم.قیاس نص کا ناسخ نہیں ہوتا.وہم.یہاں اصل یعنی سجدے کی رفع یدین کو منسوخ کہنا ہی صحیح نہیں.فرع یعنے نُسِحَ رَفع عِنْدَ الرَّكُوعِ وَالرَّفْعُ عِنْدَ الرَّفْعِ مِنْهُ وَعِنْدَ الثَّالِثَةِ - لے کیونکر ثابت ہوسکتا ہے.فائدہ.ابن زبیر سے یہ رفع ثابت ہے اور نسخ کی روایت ان سے بالکل ثابت نہیں ایسا ہی ابن مسعود سے نصا نسخ ثابت نہیں.دوسری بات کی غلطی سجدتین کی رفع نسائی میں مالک بن حویرث سے.ابو داؤد میں عبد اللہ بن زبیر سے.جس کی تصدیق ابن عباس نے کی.ابن ماجہ میں ابوہریرہ سے موجود ہے.ان روایات پر جو کچھ کلام ہے اس کا محل اور ہے اور سجدتین کی رفع.انس.ابن عمر.ابن عباس حسن بصری.عطاء.طاؤس.امام مالک.شافعی کا مذہب ہے.اگر اجماعاً یہ رفع منسوخ ہوتی تو یہ خلاف کیوں ہوتا.دوم.اثبات کی روایات کو ایسی جگہ نفی کی روایات پر خواہ مخواہ ترجیح حاصل ہے.سوم.ثقہ کی زیادتی مقبول ہونے میں جمہور کا اتفاق ہے اور سجدتین کی رفع ثقات کی زیادتی ہے.چہارم.جن لوگوں نے نفی کی روایت کی ہے ان کی روایت اس لئے مضر نہیں کہ یہ رفع یدین سجد تین کے وقت رسول اللہ صلعم نے کبھی ترک کی اور راوی نے رفع یدین کرتے نہ دیکھا اس لئے عدم رفع کی روایت کر دی.صاحب البدایہ والنہایہ نے ترک فاتحہ خلف الامام پر اجماع صحابہ کا دعوئی کیا ہے.ابطال دعولی اجماع کی تفصیل کا محل نہیں انشاء اللہ کسی اور جگہ مذکور ہوگا.رکوع کرتے وقت رفع یدین کرنا اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا اور تیسری رکعت کے آغاز میں رفع يدين کرنا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۱۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ترمذی نے عبادہ کی حدیث میں کہا ہے کہ اکثر اہل علم صحابہ کرام سے فاتحہ خلف امام کے وجوب پر ہیں اور بخاری نے جز القراۃ میں فرمایا ہے بے شمار تابعین قرآت خلف الامام کا فتوی دیتے تھے.وَلَمْ يَكُنْ أَحْمَدُ يُقَدِّمُ عَلَى الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ عَمَلًا وَلَا رَأْيَا وَلَا قِيَاسًا وَلَا قَوْلَ صَاحِبِ وَلَا عَدَمَ عِلْمِهِ بِالْخِلَافِ الَّذِي يُسَمِّيْهِ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ إِجْمَاعًا وَيُقَدِّمُوْنَهُ عَلَى الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ وَقَدْ كَذَّبَ أَحْمَدُ مَنِ ادَّعَى الْإِجْمَاعَ وَلَمْ يَمْتَنِعُ تَقْدِيمُهُ عَلَى الْحَدِيثِ الثَّابِتِ وَكَذَلِكَ الشَّافِعِيُّ أيضاً نَضَ فِي رِسَالَةِ الْجَدِيدَةِ عَلَى أَنَّ مَالَمْ يُعْلَمُ فِيْهِ الْخِلَافُ فَلَيْسَ إِجْمَاعًا وَ نَصُوصُ رَسُولِ اللهِ صَلْعَمُ عِندَ الْإِمَامِ أَحْمَدَ وَسَابِرِاَئِمَّةِ الْحَدِيثِ أَجَلِ مِنْ أَنْ يُقَدَّمَ عَلَيْهَا تَوَهُمُ إِجْمَاعِ مَضْمُونَه عَدَمُ الْعِلْمِ بِالْخِلَافِ وَلَوْ سَاغَ تَعَطَّلَتِ النُّصُوصُ وَسَاغَ لِكُلِ مَنْ لَّمْ يَعْلَمْ مُخَالِفًا فِي حُكْمِ مَسْئَلَةٍ أَنْ يُقَيِّمَ جَهْلَهُ بِالْمُخَالِفِ عَلَى النُّصُوصِ فَهَذَا هُوَ الَّذِي أَنْكَرَهُ الْإِمَامُ أَحْمَدُ وَالشَّافِعِيُّ مِنْ لے دَعْوَى الْإِجْمَاعِ لَا يَظُنُّ بَعْضَ النَّاسِ أَنَّهُ اسْتِبْعَادُهُ الْوُجُودَ......فقرہ.سورہ کافرون میں لکم دینکم ولی دین کا جملہ عام لوگوں کی زبان پر منسوخ ہے اور فی الواقع منسوخ نہیں کیونکہ ے امام احمد حدیث صحیح پر مقدم نہیں کرتے تھے نہ کسی عمل کو، نہ کسی رائے کو، نہ کسی قیاس اور نہ کسی صحابی کے قول اور نہ اس کی لاعلمی اس مخالف امر سے جسے بہت سے لوگ اجتماع کا نام دیتے ہیں اور اسے حدیث صحیح پر مقدم کرتے ہیں اور امام احمد نے اس شخص کی تکذیب کی ہے جس نے اجماع کا دعوی کیا اور اسے ثابت شدہ حدیث پر مقدم کرنے سے باز نہ آیا اسی طرح امام شافعی بھی رسالۃ الجدید میں اس بات پر نص لائے ہیں.جس امر پر اختلاف کا علم نہیں وہ اجماع نہیں ہے.امام احمد اور دیگر آئمہ حدیث کے نزدیک حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصوص اس بات سے بالا اور برتر ہیں کہ ان کے مقابل پر اجماع کا واہمہ جس کا مضمون اختلاف سے لاعلمی پر مشتمل ہو مقدم کیا جائے.اگر اس کو مقدم کرنا جائز قرار دیا جائے تو نصوص بے کار ہو کر رہ جائیں.اور ہر اس شخص کے لئے جو کسی مسئلہ کے حکم میں مخالف (امر) کو نہیں جانتا اس کے لئے جائز ہو جائے گا کہ نصوص کے مقابل پر اپنی جاہلانہ رائے کو مقدم کر لے.اور یہ وہ بات ہے جس کے امام احمد اور امام شافعی نے اجماع قرار دینے کا انکار کیا ہے.کچھ لوگ یہ خیال نہ کریں یہ مستعد ہے.
حقائق الفرقان ۳۱۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دین کے معنے لغت میں جزا اور سزا کے ہیں پس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ جس کو تم پوجتے ہو ہم اُسے نہیں پوجتے اور جس کو ہم پوجتے ہیں تم نہیں پوجتے تم کو تمہاری سزا ہے اور ہم کو ہماری جزا.دیکھو حماسہ وَلَمْ يَبْقَ سِوَى الْعُدْوَانِ دَنَاهُمْ كَمَا دَانُو وَرَدَ كَمَا تُدِينُ تُدَانُ مشہور ہے اور اگر دین کے مشہور معنے میں لیں تب آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ ہر گاہ تم باز نہیں آتے اور صرف سچے معبود ہی کی پرستش نہیں کرتے اور بتوں کی پرستش کرتے ہو تو ہم بھی وہ کریں گے جو ہمارے دین میں ہے کہ تم سے بجہا د پیش آویں گے.غرض آیت جہاد کی مانع نہیں.فقره عزیز من خاتمہ خط پر ایک ضروری فائدہ لکھ کر خط کو اب ختم کرتا ہوں.فائدہ حدیث یا قرآن کے موافق ہے یا قرآن کی تفسیر ہے یا ایسے حکم کی مثبت ہے جس کا ذکر ہمیں قرآن کریم میں معلوم نہیں ہوا پس جو حدیث صحیح ہمیں زائد علی کتاب اللہ نظر آئے وہ نبی کریم کا استنباط ہے قرآن کریم سے.ہمارے فہم سے بالا تر ہے اور فرمایا اللہ تعالیٰ نے وَمَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ الله - ( النسا: ١) وَمَا الكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ _ (الحشر: ٨) دیکھو حدیث سے بھتیجے کا نکاح اس کی پھوپھی پر اور بھانجے کا اس کی خالہ پر حرام ہے.حدیث سے رضاعت کی حرمت نسبتی حرمت کی طرح ثابت ہے حالانکہ قرآن کریم میں أُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاء ذلکم نام موجود ہے.وطن میں رہن کا رکھنا جدہ کو وارث بنانا بنت الا بن کو سدس دلا نا حائض پر روزہ نماز چند روز موقوف سمجھنا.نہایت ضعیف خبر سے نبیذ التمر کے ساتھ وضو کر لینا حالانکہ قرآن میں پانی نہ ہوتو تیم کا حکم ہے.ادنی مہر کے لئے مفلس سے مفلس کے لئے دس درہم معین کرنا.لا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الكافر پر عمل کرنا.چور کا پاؤں کاٹنا حالانکہ قرآن میں ہاتھ کاٹنا مذکور ہے.طواف میں قیاسا طہارت لے اور ( زیادتی کے جواب میں ) زیادتی کے سواء چارہ نہ رہا ہم نے ان کے ساتھ وہی (سلوک) کیا جو انہوں نے ہمارے ساتھ کیا.اسی طرح كَما تدين تدان “ آیا ہے جیسا کرو گے تم سے بھی ویسا ہی کیا جائے گا.۲.جس نے رسول کا حکم مانا اور اس کی اطاعت کی بے شک اُس نے اللہ کی اطاعت کی.۳ اور جو کچھ تم کو رسول دے ، لے لو.(ناشر) ہے اور ان کے علاوہ سب عورتیں تم پر حلال ہیں.۵ مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا.(صحیح البخاری، کتاب الفرائض باب لايرث المسلم الكافر ، روایت نمبر ۶۷۶۴)
حقائق الفرقان ۳۱۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کی شرط کا ایزاد کر نا حالانکہ قرآن مطلق ہے.مغمی علیہ سے اعمال حج دوسرا ادا کر دے اسے جائز قرار دینا حالانکہ صوم عن الميت میں ان ليسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا ما سعی کا عذر ہے.عاقلہ پردیت کا حکم لگانا وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى ا خلاف بجالا نا.نہایت ہی ضعیف حدیث سے نماز میں ہنس پڑنے کو ناقض وضو جاننا اور اونٹ کے گوشت کھانے کو ناقض نہ ماننا.ضعیف خبر سے غسل جنابت میں مضمضہ واستنشاق کو فرض کر دینا با اینکہ وضو میں مضمض واستنشاق کی فرضیت سے انکار ہے.موزہ پر مسح کرنے میں جواز کا فتوی اینکہ عمامہ پرمسح سے انکار ہے.اور حدیثیں دونوں کی مساوی ہیں اور ایسی ہی صد ہا جگہ احادیث سے قرآن پر ایزاد مانا اور کہیں انکار کرنا.اور مقدام بن معدیکرب کی اس حدیث پر خیال نہ کیا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا أَلَا إِنِّي أُوتِيتُ رِجْلُ الْقُرْآنِ وَمِثْلَهُ مَعَهُ أَلَا يُوْشِكُ رَجُلٌ شَبْعَانَ عَلَى آرِيكَتِهِ يَقُوْلُ عَلَيْكُمْ بِإِذَا الْقُرْآنِ...لَا لَا يَحِلُ لَكُمُ الْحِمَارُ الْأَهْلِي وَلَا كُلُّ ذِى تَابِ مِنَ السَّبْعِ وَلَا نُقْطَةُ مُعَاهَدٍ....( خطوط جواب شیعہ ورد سخ.تصانیف حضرت خلیفہ مسیح الاول" کمپیوٹرائزڈایڈ یشن صفحہ ۶۷تا۸۲) مَا نَنْسَحْ مِنْ آية...الخ (البقرة : ۱۰۷) اگر مٹا دیں ہم کوئی بھی نشان یا اسے دنیا سے بھلا ہی دیں تو لاتے ہیں ہم بہتر اس سے یا اس کی برابر.کیا معنی؟ اگر ہم کوئی نشان کسی طرح کا ہوا اگر ہم مٹادیں اور مٹا کر ایسا کر دیں کہ وہ بھول ہی جاوے تو ہم اس سے بہتر لاتے ہیں.دیکھو ہزاروں اشیاء دنیا سے مٹیں اور بھلائی گئیں مگر موجودہ وقت میں اللہ نے اس سے بہتر موجودکر دیں.یہی حال شرائع سابقہ کا بھی ہوا.فقط الحکم جلد ۵ نمبر ۳۳ مورخه ۱۰ ستمبر ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱) ایک زمانہ مجھ پر ایسا بھی گزرا ہے کہ ایک تفسیر کے شوق میں میں بمبئی گیا اور ایک دوست سے لے اور یہ کہ آدمی کو وہی ملے گا جو اس نے عمل کیا.۲.اور نہیں اٹھائے گا بوجھ کوئی کسی کا.3 سنو مجھے قرآن اور اس کی مثل ( کلام ) اُس کے ساتھ دیا گیا ہے.سنوقریب ہے کہ کوئی شخص جو سیر ہو اپنے تخت پر بیٹھے ہوئے کہے کہ تم پر یہ قرآن پکڑ نالازم ہے.سنو تمہارے لئے پالتو گدھا حلال نہیں اور نہ کوئی کچلیوں والا درندہ اور معاہد کی گری پڑی چیز.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس کے متعلق پوچھا اس نے کہا ہاں مل سکتی ہے.دوسرے دن جب میں اس دوست کے پاس گیا تو گو میں طالب علم تھا تا ہم اللہ تعالیٰ نے مجھے طالب علمی کے زمانہ میں بھی مالدار رکھا ہے میں جیب میں کچھ روپیہ ڈال کر لے گیا میں نے اس دوست سے کہا کہ وہ کتاب آئی ہے تو عطا کرو.انہوں نے کہا کہ ہاں کتاب تو آگئی ہے مگر اس کی قیمت پچاس روپیہ ہے.اس کتاب کے ساٹھ صفحہ ہیں اور ایک اس کا ضمیمہ ہے.اس کے ۵۸ صفحہ ہیں.میں نے کہا بہت اچھا لائیے.اور میں نے پچاس روپیہ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیا وہ بولے کہ وہ کتاب طبع شدہ ہے اور اسی شہر بمبئی میں چھپی ہے.میں نے کہا اچھا ہے اس پر انہوں نے وہ کتاب مجھے دی اور میں اس کو لے کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا اور تھوڑی دیر کے لئے باہر چلا گیا.وہاں تیلی کی گلی مشہور ہے اس کا یہ واقعہ ہے.پھر میں اندر گیا تو وہ حیران ہوا اور پوچھا کہ آپ باہر کیوں چلے گئے تھے میں نے کہا فقہی بحث ہے کہ تکمیل بیع کے لئے تفارق جسمی بھی قول کے ساتھ ضروری ہے یا نہیں.محدثین اور شوافع کا قول ہے کہ تفارق جسمی بھی چاہئے میں نے اس پر عمل کر لیا.اس لئے باہر گیا تھا تا کہ بالا تفاق کتاب میری ہو جاوے.میری ۳۵ ویں پشت میں میرے ایک دادا نے اس مسئلہ پر عمل کیا تھا میں نے اس کی سنت ادا کر لی.پھر اس نے پوچھا کتاب کو بھی دیکھا میں نے کہا ” جمادے چند دادم جاں خریدم سلماس کتاب کا نام مجھے قدرت ہی نے سکھا دیا تھا میں جب اس دوست کے پاس اٹھنے لگا تو اس نے کہا میں آپ سے محبت کرتا ہوں.میں نے جواب دیا کہ آپ کی مہربانی ہے.تب اس نے کہا کہ اظہار محبت میں یہ پچاس روپیہ نذرکرتا ہوں.میں نے کہا کہ میں ہوں تو طالب علم مگر میری جیب میں اب بھی روپیہ موجود ہے.اس نے بہر حال وہ پچاس روپیہ واپس کر دیا.اسی طرح پر جب میں مدینہ طیبہ میں گیا تو ایک ترک کو مجھ سے بہت محبت تھی اس نے کہا کہ اگر کوئی کتاب آپ کو پسند ہو تو ہمارے کتب خانہ سے لے جایا کریں گو ہمارا قانون نہیں ہے مگر آپ کے اس عشق و محبت کی وجہ جو آپ کو قرآن کریم سے ہے آپ کو اجازت ہے.ا میں نے اتنی زیادہ بے جان چیزوں کے عوض اپنی جان خرید لی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ناسخ منسوخ کا مسئلہ کیسے حل ہوا میں نے کہا کہ مسئلہ ناسخ و منسوخ کے متعلق کوئی کتاب دو.انہوں نے مجھے ایک کتاب دی جس میں ۶۰۰ آیت منسوخ لکھی تھی مجھے یہ بات پسند نہ آئی.ساری کتاب کو پڑھا اور مزہ نہ آیا.میں اس کتاب کو واپس لے گیا اور کہا کہ میں جوان آدمی ہوں اور خدا کے فضل سے یہ ۶۰۰ آیت یاد کر سکتا ہوں.مگر مجھے یہ کتاب پسند نہیں.وہ بڑا بڑھا اور ماہر تھا اس نے ایک اور کتاب دی.اس کا نام انقان ہے اور ایک مقام اس میں بتا دیا جہاں ناسخ و منسوخ کی بحث ہے.خوشی ایسی چیز ہے کہ میں نے ابھی پچاس والی کو پڑھا بھی نہیں.مگر اسے لا یا اور اس کو پڑھنا شروع کیا.اس میں لکھا تھا کہ ۱۹ آیتیں منسوخ ہیں.میں اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ گویا بادشاہ ہو گیا.میں نے کہا کہ ۱۹ یا ۲۱ آیتیں تو فوراً یاد کرلوں گا.مجھے بڑی خوشی ہوئی مگر مجھے ایسا قلب اور علم دیا گیا تھا کہ اس پر بھی وہ کتاب مجھے پسند نہ آوے.آخر میں نے کہا کہ یہ بھی پوری خوشی کا موجب نہیں پھر مجھے خیال آیا کہ پچاس روپے والی کتاب بھی تو پڑھ دیکھیں.اس کو پڑھا تو انہوں نے لکھا کہ خدا تعالیٰ نے جو علم مجھے دیا ہے اس میں ۵ آیتیں منسوخ ہیں.یہ پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اب کیا مشکل ہے.میں نے جب ان پانچ پر غور کی تو خدا تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی کہ ناسخ و منسوخ کا جھگڑا ہی غلط ہے کوئی پانچ سو چھ سو بتا تا تھا کوئی انیس ، اکیس، کوئی پانچ اس سے معلوم ہوا کہ یہ تو صرف فہم کی بات ہے.اور میں نے یہ قطعی فیصلہ خدا کے فضل سے کر لیا کہ ناسخ ومنسوخ کا علم صرف بندوں کے فہم پر ہے.ان پانچ نے سب پر پانی پھیر دیا.یہ فہم جب مجھے دیا گیا تو اس کے بعد ایک زمانہ میں لاہور کے اسٹیشن پر شام کو اترا.بعض اسباب ایسے تھے کہ چینیاں والی مسجد میں گیا.شام کی نماز کے لئے وضو کر رہا تھا کہ مولوی محمد حسین بٹالوی کے بھائی میاں علی محمد نے مجھ سے کہا کہ جب عمل قرآن مجید و حدیث پر ہوتا ہے تو ناسخ و منسوخ کیا بات ہے.میں نے کہا کچھ نہیں.اگر چہ وہ پڑھے ہوئے نہیں تھے (عالم مراد ہے.ایڈیٹر ) گومیر ناصر کے استاد تھے.انہوں نے اپنے بھائی سے ذکر کیا ہوگا.یہ ان دنوں جوان تھے اور بڑا جوش تھا.میں نماز میں تھا اور وہ جوش سے ادھر ادھر ٹہلتا رہا.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو کہا ادھر آؤ.تم نے میرے بھائی کو کہ دیا کہ قرآن میں ناسخ منسوخ نہیں.میں نے کہا ہاں نہیں ہے.
حقائق الفرقان ۳۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تب بڑے جوش سے کہا کہ تم نے ابو مسلم اصفہانی کی کتاب پڑھی ہے وہ احمق بھی قائل نہ تھا میں نے کہا پھر تو ہم دو ہو گئے.پھر اس نے کہا کہ سید احمد کو جانتے ہو.مراد آباد میں صدرالصدور ہے.میں نے جواب دیا کہ میں رام پور لکھنو اور بھوپال کے عالموں کو جانتا ہوں ان کو نہیں جانتا.اس پر کہا کہ وہ بھی قائل نہیں.تب میں نے کہا بہت اچھا پھر ہم اب تین ہو گئے.کہنے لگا کہ یہ سب بدعتی ہیں.امام شوکانی نے لکھا ہے کہ جو نسخ کا قائل نہیں وہ بدعتی ہے.میں نے کہا تم دو ہو گئے.میں ناسخ و منسوخ کا ایک آسان فیصلہ آپ کو بتاتا ہوں تم کوئی آیت پڑھ دو جو منسوخ ہو اس کے ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ اگر یہ ان پانچ آیتوں میں سے کوئی پڑھ دے تو کیا جواب دوں.خدائے تعالیٰ ہی سمجھائے تو بات بنے.اس نے ایک آیت پڑھ دی میں نے کہا کہ فلاں کتاب نے جس کے تم بھی قائل ہو اس کا جواب دے دیا ہے.کہنے لگا ہاں پھر میں نے کہا اور پڑھو تو خاموش ہی ہو گیا.علماء کو یہ وہم رہتا ہے ایسانہ ہو ہتک ہو.اس لئے اس نے یہی غنیمت سمجھا کہ چپ رہے.بھیرہ میں ایک شخص نے نسخ کا مسئلہ پوچھا اور میں نے اپنے فہم کے مناسب جواب دیا اور کہا کہ پانچ کے متعلق میری تحقیق نہیں تو اس دوست نے کہا کہ اب ان پانچ پر نظر ڈال لیں.میں نے تفسیر کبیر رازی میں بہ تفصیل ان مقامات کو دیکھا تو تین مقام مجھے خوب سمجھ میں آگئے اور دو سمجھ میں نہ آئیں.تفسیر کبیر میں اتنا تو لکھا ہے کہ شدت اور خفت کا فرق ہو گیا ہے.غرض میں ان کتابوں کو پڑھتا ہوں مگر تعاون على البر کے لئے نہ اس محبت اور جوش سے جو مجھے پیارے کی پیاری کتاب سے ہے.پھر میں ایک مرتبہ ریل میں بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا.جیسے بجلی کوند جاتی ہے.میں نے پڑھا کہ فلاں آیت منسوخ نہیں ہے.میں بڑا خوش ہوا کہ اب تو چار مل گئیں صرف ایک ہی رہ گئی.بڑی بڑی کتابوں کا تو کیا ذکر میں ٹھٹ بھیوں کی بھی پڑھ لیتا ہوں.مگر اسی غرض تعاون علی البر کے لئے.اس طرح پر ایک میں وہ پانچویں بھی مل گئی اور اس طرح پر خدا کے فضل سے مسئلہ ناسخ و منسوخ حل ہو گیا.الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲ مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۱۲ صفحه ۵،۴) أَقِيمُوا الصلوۃ میں تعظیم الہی ہے اور زکوۃ میں مخلوق سے ہمدردی ہے.جو کچھ کرو گے.اللہ
حقائق الفرقان ۳۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تعالیٰ سے اجر پاؤ گے.وہ داناو بینا ہے.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخہ ۱۴ رنومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۲) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عملدرآمد میں دیکھو وہاں بھی قرآن کریم کی تفسیر ملے گی.مثلاً صلوۃ اور زکوۃ کے الفاظ قرآن مجید میں آئے ہیں.اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملدرآمد تمہیں بتائے گا کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے.ہمارے بعض دوستوں کو بھی اس قسم کا ابتلا آیا تھا.انہوں نے کہا کہ قرآن شریف میں نماز حج وغیرہ دکھاؤ.میں نے کہا کہ پہلے گھوڑے، خچر میں امتیاز بتاؤ.پھر البغال والحمید میں تفرقہ کر کے دکھاؤ میں نے ان کے لئے بہت دعا کی اور خدا تعالیٰ نے ان کو سمجھ دی اور یہ ابتلا جاتا رہا.میں نے کہا کہ جب تم بغال اور حمیر میں فرق کرنے کے لئے ان کو دیکھتے ہو تو کیوں تم اس شخص کی نماز نہیں دیکھتے جس پر قرآن نازل ہوا ایک بات میری سمجھ میں آئی ہے کہ اگر قرآن مجید میں صلوۃ کی تمیز ہوتی تو وہ بھی عربی میں ہوتی پھر ان لفظوں کے کئی کئی معنی کرتے اور کس قدر مشکلات پیدا ہوتیں.پھر ایک اور نکتہ ہے.جب میں رامپور میں طالب العلم تھا کسی مقلد نے غیر مقلد کو کہا کہ نذیر حسین کے کیا معنی ہیں تو غیر مقلد طالب العلم نے کہا کہ اصل میں نذیر عد وحسین ہے لفظ عد و محذوف ہو گیا ہے حالانکہ نذیر ان کا نام تھا اور حسین کا لفظ باظہار قومیت شامل کر لیا گیا.والا اس طرح حذف مضاف سے عبدالنبی بھی جائز ہو جاوے کیونکہ بحذف مضاف عبدست النبی ہو سکتا ہے.اور کہیں کنایۃ وغیرہ نکال کر خدا جانے کیا کیا معنی کرتے.پس ہمارے مولیٰ نے کامل رحم فضل سے نماز پڑھوا کر دکھا دی اور ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابی نے دیکھ لی حتی کہ یہودو نصاری اور مجوس نے بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لی اب کسی اور معنی کی ضرورت نہیں.نہ تقدیم تاخیر، نہ کنایہ نہ حذف و محذوف کی.گجرات کے ضلع میں دتہ شاہی ایک قوم ہے وہ کام (شہوت) کرو دہ (غضب) لوبھ ( حرص ) موہ (بے جا محبت) ہنکار ( غرور ) کو چھوڑنے کا نام ہی نماز رکھتے ہیں.یہاں ایک گلوسقہ ہے جب وہ جماعت میں نہ تھا تو کہتا تھا کہ یہ خود منارہ ہیں،سر گنبد ہے اور آپ نماز ہیں.غرض اس قسم کی بیہودہ تو جیہیں پیدا کر لی جاتی ہیں.مسلمانوں پر یہ دکھ اور مصیبت کا وقت ہے ایسے وقت میں یاد رکھو کہ قرآن کریم کی تفسیر
حقائق الفرقان ۳۲۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قرآن شریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عملدرآمد سے کرو.اور پھر تمام امت میں مشتر کہ رنگ کو دیکھ لو.پھر احادیث صحیحہ کو پڑھو.ایک بڑی گندی قوم گزری ہے جو احادیث کا انکار کرتی ہے.ایک نے یہ گندا لفظ کل کہا اور بڑی جرات سے کہا کہ روات احادیث شیاطین ہیں وہ نہیں مرے گا جب تک خود شیطان نہ بن لے.وہ لوگ بڑے ہی محروم ہیں جو اس علم حدیث سے محروم ہیں میں بچپن سے ۷۵.۷۶ سال کی عمر تک پہنچا ہوں اور میرا یہ تجربہ ہے کہ علم حدیث کے بغیر دین آتا ہی نہیں.تم ہی بتاؤ جس نے علم حدیث پڑھا ہے اس کی گواہی حدیث کے متعلق مانی چاہیے یا اس کی جس نے یہ علم پڑھا ہی نہیں.پھر ایک وہ طریقہ قرآن کریم کے فہم کا ہے جو میرے ہادی نے مجھے سمجھایا ہے.میں نے ایک بار حضرت مرزا صاحب کے حضور عرض کیا کہ آپ کے طریق میں مجاہدات کیا ہیں؟ فرمایا.اگر شوق ہے فصل الخطاب کے لکھنے کی وجہ ان مجاہدات کا جو ہمارے طریق میں ہیں تو ایک کتاب عیسائی مذہب کے رڈ میں لکھو.میں نے جب اس کتاب کے لکھنے کا ارادہ کر لیا تو ایک مسیحی کو مقر ر کیا کہ وہ جو اعتراض قرآن شریف پر رکھتا ہے لکھے.اس نے ایک ہزار کے قریب اعتراض لکھ کر بھیج دیا.میں نے اس کے اعتراضوں کو پڑھ کر ساری بائیبل کو کئی مرتبہ پڑھا اور نوٹ کرتا گیا.(وہ بائیبل اب کسی نے چرالی ہے ) میں نے کل اعتراضات کے الزامی جواب نوٹ کر لئے اور پھر حقیقی جوابات کی طرف متوجہ ہوا تو بعض اعتراضوں کے جواب سمجھ میں نہ آئے.میں نے مرزا صاحب سے عرض کیا کہ بعض اعتراضوں کے جواب حقیقی نہیں ہو سکتے.یا تو ان اعتراضات کا ذکر ہی نہ کریں یا الزامی جواب دے کر خاموش ہو جائیں.میرا ایک دوست تھا اللهم اغفرہ وارحمه مولوی عبد الکریم نام ، انہوں نے کہا کہ الزامی جواب پسند نہیں.میں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا.آپ کی عادت تھی کہ ہنستے ہنتے کپڑا منہ پر رکھ لیتے تھے.یہ سن کر فرمایا کہ بڑی بے انصافی کی بات ہے کہ جس بات کو آپ کا قلب نہیں مانتاد شمن کو وہ آپ کیونکر منوائیں گے.اس بات کو سن کر میرا اعتقاد آپ کی نسبت بہت بڑھ
حقائق الفرقان ۳۲۵ سُورَةُ الْبَقَرَة گیا کہ جب تک اس کا قلب مطمئن نہیں ہوتا یہ بات کرتا ہی نہیں اور مجھے بزور کہا کہ یہ بے انصافی ہے کہ جس بات کو خود نہ سمجھو دوسروں کو منواؤ.میں نے سمجھا کہ اس کا ایمان بڑا عجیب ہے اور یہی وجہ ہے جو ا یک بات کو بیسیوں مرتبہ بیان کرتا ہے.میں یہ سن کر خاموش ہو گیا اور دل میں آیا کہ پھر کیا کریں.جب اٹھنے کے قریب ہوئے تو فرمایا کہ جو مقامات حل نہیں ہوتے ان کو خوشخط لکھ کر سامنے لگا لو.جب آمد رفت کے وقت ان پر نظر پڑے تو دعا کرو چند روز کے بعد وہ انشاء اللہ حل ہو جائیں گے.میں ان ایام میں صوفیت سیکھتا تھا.میں نے سوچا کہ خوشخط لکھنا اور پھر سامنے لڑکا نا تو مشکل کام ہے اس لئے دل ہی میں لڑکا دو یہ میرا اپنا ذوق تھا.اب بھی یہ گر یا درکھنے کے قابل ہے جو آیت سمجھ میں نہ آوے اس کو خوشخط لکھ کر سامنے لٹکا دو اور دعا کرتے رہو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حل ہو جائے گی.غرض میں نے ان سوالات میں سے بعض کو اپنے دل پر لٹکا دیا اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں حل کر دیا.انہیں سوالوں میں سے والفجر اور والنجم کی تفسیر ہے جو میں نے لکھی ہے.اگر کوئی چاہے تو وہ سوال موجود ہیں.میں اس کے حوالہ کر سکتا ہوں غرض تم کو کوئی آیت سمجھ میں نہ آوے تو اس طریق سے کام لو اور جناب الہی میں گر پڑو کہ تیری کتاب ہے میری سمجھ میں یہ آیت نہیں آتی.دعاؤں میں لگے رہو اور منتظر رہو کہ کب انکشاف ہو جاتا ہے.کیا میں نے اس موقع پر اپنے خیال کو ترجیح دی ہے یا کسی تفسیر کی سپارش کی ہے بلکہ یہ چوتھا مرتبہ بتایا ہے کہ قلب مطہر لے کر جناب النبی میں گر جائے یہ اصول ہیں فہم قرآن کریم کے لئے.الحکم جلد ۱۶ نمبر ۲ مورخه ۱۴ جنوری ۱۹۱۲ء صفحه ۶،۵) مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنُسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قدير (البقرۃ:۱۰۷) یہاں آیت کا لفظ ایک وسیع لفظ ہے انسانوں پر بھی بولا جاتاہے.دکھواللہ عالی ایک ویران بستی پر گزرنے والے کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ.(البقرة:٢٢٠) یہاں اس گزرنے والے کو آیت فرمایا ہے جو لوگ دنیا میں مامور ہو کر آتے ہیں وہ بھی آیت اللہ ا ہم جو کسی نشان کو مٹاتے یا اس کو بھلا دیتے ہیں تو اُس سے بہتر یا اُس کے مانند لاتے ہیں کیا تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک شے کا اندازہ کرنے والا ہے.سے تا کہ ہم بنائیں تجھ کو نشان و نمونہ لوگوں کے لئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۲۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہوتے ہیں اور ان کا اس دنیا سے کوچ کر جانا ان کے عنصری وجود کی نسخ ہوتی ہے.بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آتا ہے کہ بعض آیات بھول بھی جاویں.لاکن رحمت الهيه نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلِهَا ہم کو عمده تسلی بخش ہے.جس پر ہم ایمان لا کر یقین کرتے ہیں کہ آپ کی اولا د سے آپ سے خیر کان اللہ نزل من السماء یا کم سے کم آپ کی مثل آنے والا ہے اور نسخ کے ایسے وسیع معنے لینے میں السید عبدالقادر الجیلانی جیسے بزرگ ہمارے ساتھ ہیں..ریویو آف ریلیجنز.جلدے نمبر ۶، ۷ ماہ جون، جولائی ۱۹۰۸ صفحه ۲۷۳) ۱۱۲، ۱۱۳.وَقَالُوا لَنْ يَدخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصْرُى تِلْكَ b ق أنتُهُم لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةٌ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - ترجمہ.اور اہل کتاب نے جو کہا کہ یہودیوں اور نصاری کے سوا کوئی بہشت میں ہرگز داخل نہ ہوگا اُن کی یہ آرزوئیں بالکل جھوٹ ہیں اُن سے کہ دو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی حجت پیش کرو.(ہاں بہشت میں وہ داخل ہو گا ) جس نے اپنی ذات کو ہر طرح اللہ کے سپر د کر دیا اور وہ نیکو کا راللہ کا دیوانہ اور شیدا قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمُ صُدِقِينَ - بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ ہو تو ایسے کو اجر ہے اُس کے رب کے پاس اور نہ اُن کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ غم رکھتے ہیں.تفسیر - قَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ - آدمی جب اکیلے بیٹھتے ہیں تو دوسروں کی عیب چینی کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کی حقارت سما جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم ہی جنت میں جائیں گے.یہ صرف ہوائی باتیں ہیں.هَاتُوا بُرْهَا نگم.برہ کے معنے ہیں قطع کے.اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل قاطع یا حجت نیره پیش کرو اور بَرْهَنَ کے معنے ” ظاہر کیا“ کے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۴و۱۱/ مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۱۹) بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) ہاں جس نے فرمانبردار کیا اپنی ساری طاقتوں کو اللہ کا اور وہ محسن بھی ہو پس اس
حقائق الفرقان ۳۲۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے لئے اجر ہے اس کے پروردگار کے پاس اور ایسے لوگوں پر نہ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈیشن.صفحہ ۲۸) اللہ تعالیٰ کے فرمان بردار بنیں اور اس کے حکم کے مقابل کسی اور کے حکم کی پرواہ نہ کریں.فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے.ایک طرف قوم اور رسم و رواج بلاتا ہے دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے.اگر قوم اور رسم و رواج کی پرواہ کرتا ہے تو پھر اُس کا بندہ ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ پر سچا ایمان رکھتا ہے اور اس کا فرمانبردار ہے اور یہی عبودیت ہے.قرآن مجید نے اسلام کی یہی تعریف کی ہے.مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنُ.سچی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے.اس کی آرزوئیں اور امیدیں، اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اللہ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں.میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا، چلنا پھرنا سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے.خدا تعالیٰ کی فرمان برداری اور رضامندی کی راہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.چونکہ ہر شخص کو مکالمہ الہیہ کے ذریعہ الہی رضا مندیوں کی خبر نہیں ہوتی ہے.اگر کسی کو ہو بھی تو اُس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں کی وحی کی ہوتی ہے اور خصوصا سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی کہ جس کے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں اس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور وہی مقتدا اور مطاع ہیں.پس ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہو اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے نیچے ہو.( البدر جلدے نمبر ۹ مؤرخہ ۵ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۶،۵) خدا تعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو یہ منشائے اسلام ہے.پس یا درکھو کہ عقائد کے لحاظ سے دنیا میں بینظیر چیز اسلام ہے.میں راستی سے کہتا ہوں کہ ایمان کے لحاظ سے، اعمال کے لحاظ سے دنیا میں کوئی مذہب اسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتا مگر میں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گا کہ اسلام ہو.
حقائق الفرقان ۳۲۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دعوئی اسلام نہ ہو.مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَ هُوَ مُحْسِنُ کا مصداق ہو.ساری توجہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگا دیوے اور ایسے طریق پر کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم اتنا ہی ہو کہ اس بات کو کامل طور پر سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے.خدا تعالیٰ کے انعام کو یاد کر کے اور یہ دیکھ کر کہ کیسی کتاب، کیسا مذہب اُس نے عطا کیا ہے! الحکم جلد ۳ نمبر ۷ مؤرخہ ۳/ مارچ۱۸۹۹ء صفحه ۵) ۱۱۴ - وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرَى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَبَ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قولهم فالله تعا وبرود فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ - ترجمہ.اور یہودی کہتے ہیں کہ عیسائی حقیقت و ہدایت پر نہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ یہودی سچائی و ہدایت پر نہیں حالانکہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں ایسا ہی انہوں کہا جو بے پڑھے ہوئے جاہل ہیں.بس اللہ ہی ان کے درمیان قیامت کے دن فیصلہ فرمائے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں.تفسیر.وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرِى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرِى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْ ءٍ وَ هُمْ يَتْلُونَ الْكِتَب كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ.(البقرة : ۱۱۳) یہود نے کہا عیسائی کچھ راہ پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا یہود کچھ راہ پر نہیں حالانکہ ممکن ہے بلکہ واقعی یوں ہے کہ عیسائیوں میں بہت سی خوبیاں ہوں.پس یہود کا عام طور پر یہ کہنا کہ عیسائی کچھ راہ پر نہیں غلطی اور ناسمجھی ہے.ایسا ہی ممکن ہے بلکہ واقعی ہے کہ یہود میں کچھ بھلائی بھی ہو.پس عیسائیوں کا علی العموم یوں کہہ دینا کہ یہود کچھ بھی راہ پر نہیں بڑی نا سمجھی اور بے انصافی ہے.غرض علی العموم کسی مذہب کو یوں کہہ دینا کہ وہ بالکل ہی بھلائی سے مبرا ہے کوئی علمی بات نہیں.تصدیق براہینِ احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۸) اے اور یہود کہتے ہیں نصاری کچھ بھی نہیں اور نصاری کہتے ہیں یہود کچھ بھی نہیں.حالانکہ وہ کتاب (مقدس) کو پڑھتے ہیں.نادان ایسا ہی کہا کرتے ہیں.
حقائق الفرقان ۳۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہمیں تو قرآن کریم یہود و نصاری کے اس غلط قول کو نصیحت کے طور ہمیں بتاتا ہے.وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصرى عَلَى شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصْرَى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَب كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (البقرة : (۱۱۴) یہود نے کہا نصرانی کچھ بھی نہیں.نصرانیوں نے کہا یہود کچھ ہی نہیں حالانکہ کتاب پڑھتے ہیں.اس طرح تو بے علم لوگوں نے کہا ہے یا کیا ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۰) یہ ایک عیب ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی نسبت رنج پیدا کر لیتا ہے.اگر آدمی حد سے بڑھ جائے تو یہ بھی ایک قسم کا جنون ہے.ایسا ہی نصاری اور یہود میں رنج پیدا ہو گیا کیونکہ یہودیوں نے حضرت عیسی کو حقارت سے دیکھا اور رنج کیا تھا اس لئے نصاری ان پر عیب جوئی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو لاھی یقین کرتے ہیں.وَهُمْ يَتْلُونَ الكتب.حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں اور پڑھے ہوؤں کا یہ حال ہے.ایسا ہی آجکل مولوی و بابی یا حنفی اور یا دوسرے متفرق الطریق لوگ دوسروں پر اس قد رفتوے لگاتے ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا.پھر وہ سب پڑھے ہوئے.اب جاہلوں کی بات تو سمجھتے نہیں.اب ان کو 99191 سمجھائے کون.فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ.یہ لوگ جو مسجدوں سے منع کرتے ہیں آخر ذلیل ہوں گے.کامیابی کا منہ نہ دیکھیں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مورخه ۴ واا / مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰،۱۹) عیب چینی کی راہ بہت ہی خطرناک راہ ہے.عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا.نقصان اٹھایا.ایک نبی کی معصومیت کے ثبوت کے لئے سب کو گناہ گار قرار دیا.پھر آریہ نے یہی طریق اختیار کیا.وہ بھی دوسرے مذاہب کو گالیاں دینا جانتے ہیں.پھر شیعہ ہیں وہ بھی خلفائے راشدین پر تبترہ بھیجنے کے گناہ میں پڑ گئے.ایک دفعہ امرتسر میں میں نے ایک شخص کو قرآن کی بہت ہی باتیں سنائیں.میرا ازار بندا اتفاق سے ڈھیلا ہو گیا.آخر اس نے مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارا پاجامہ ٹخنوں سے کیوں نیچا ہے.میں نے کہا اتنے عرصہ سے جو تم میرے ساتھ ہو تمہیں کوئی بھلائی مجھ میں نظر نہیں آئی سوائے اس
حقائق الفرقان ۳۳۰ سُورَةُ الْبَقَرَة عیب کے اور یہ عیب جو تم نے نکالا یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ حدیث میں جَر ثَوْبَهُ خُيَلا آیا ہے اور یہاں اس بات کا وہم تک نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصْرى عَلَى شَيْءٍ وَ قَالَتِ النَّصْرِى لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَى شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَبَ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ - گویا اس طرح کہنا لا يَعْلَم لوگوں کا دستور ہے.عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجہ رہنا ٹھیک نہیں.کچھ اپنی اصلاح بھی چاہیے.ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتباع رسول پر کہاں تک قدم ما را اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے.ایک عیب کی وجہ سے ہم کسی شخص کو برا کہہ رہے ہیں.کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہوتا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں برا معلوم ہوتا یا نہیں...عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا.کسی کا عیب بیان کیا اور اُس نے سن لیا.وہ بغض و کینہ میں اور بھی بڑھ گیا پس کیا فائدہ ہوا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہو جاتے ہیں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جاؤ ہم یونہی کریں گے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۴ مؤرخه ۲۸ جنوری ۱۹۰۹ صفحه ۱۰،۹) جب کوئی کسی کا دشمن ہو جاتا ہے تو اس کی کسی خوبی کا قائل نہیں رہتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کوئی ایسی چیز ہوتی ہے کہ جس میں کچھ بھی خوبی اور کوئی بھی فائدہ نہ ہو تو ہم اس کو دنیا میں رہنے نہیں دیتے جیسے فرمایا - أَمَا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَنكُتُ فِي الْأَرْضِ - الرعد : ۱۸) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہود کا نصاری کو یہ کہنا کہ یہ کچھ بھی نہیں اور نصاری کا یہود کو یہ کہنا یہ کچھ نہیں عداوت پر مبنی ہے.اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ یہ یہود و نصاری ہی سے متعلق نہیں بلکہ فرمایا.كَذلِكَ قَالَ لے جس نے اپنا کپڑا (ازار) گھسیٹا تکبر کرتے ہوئے.(ناشر) پر لوگوں کو نفع دینے والا وہ زمین میں ٹھہرا رہتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۳۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الَّذِینَ یعنی جو کوئی بھی ایسا کہے وہ سب اسی بنا پر مبنی ہے.پھر قرآن میں سب سے بڑا سبب عداوت كا فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكروا به (الانعام : ۴۵) لکھا ہے یعنی جب لوگ قرآن کریم یا کتاب اللہ کو چھوڑ دیتے ہیں تو ان میں بغض و عداوت پڑ جاتی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آجکل جو مسلمانوں میں باہم ناچاقی کی وبا پھیلی ہوئی ہے تو اس کا سبب قرآن کو پس پشت ڈال دینا ہے.مسلمانوں میں پہلے یہ وبا شروع ہوئی تو جبر و قدر کا جھگڑا شروع ہوا پھر خوارج کا پھر شیعوں کا.میں کہتا ہوں کہ انہوں نے قرآن کریم کو چھوڑ کر جبر و قدر کو کیوں چھیڑا.میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی کو ر ڈی نہیں سمجھتا.اس جھگڑے کو بھی مفید ہی سمجھتا ہوں.میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ کو ہر گز کسی سے بھی بغض نہیں حتی کہ شیطان سے بھی نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ خدائے تعالیٰ نے اس کو بھی کسی غرض سے ہی پیدا کیا ہے.بھوپال میں میرے استاد مولوی عبد القیوم صاحب تھے.جب میں ان سے رخصت ہونے لگا تو میں نے کہا کہ مجھے کوئی ایسی بات بتلائیے کہ جس سے میں ہمیشہ ہی خوش رہوں.فرمایا کہ تم اپنے آپ کو خدا اور رسول نہ سمجھنا.میں نے عرض کیا کہ بھلا میں اپنے آپ کو خدا اور رسول کیسے سمجھ سکتا ہوں؟ انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ تم خدا کس کو کہتے ہو؟ میں نے کہا.فَقَالُ لِمَا يُرِيدُ (هود: ۱۰۸) یعنی خدا وہ ہے کہ جو چاہے سو کر گزرے.انہوں نے فرمایا کہ بس اگر تمہاری خواہش پوری نہ ہو تو اپنے نفس کو کہنا کہ میاں تم کوئی خدا ہو؟ اس نکتہ سے مجھے اب تک فائدہ پہنچا ہے اور میں بہت راحت و آرام میں رہتا ہوں.دوسری بات یہ کہ رسول نہ بننا.میں نے کہا وہ کیسے؟ فرمایا کہ رسول کے پاس خدا سے حکم آتا ہے.اس کو خوف ہوتا ہے کہ اگر لوگ میری باتوں کو نہ مانیں گے تو دوزخ میں جائیں گے اس لئے وہ کڑھتا ہے مگر جو تمہارا فتوی نہ مانے تو وہ تو دوزخ میں نہیں جا سکتا.اس لئے تم اس کا بھی کبھی رنج نہ کرنا کہ فلاں شخص نے ہمارا کہنا کیوں نہ مانا.ہمارے شیخ المشائخ شاہ ولی اللہ صاحب کے والد ماجد کو ایک مرتبہ الہام ہوا کہ اس وقت
حقائق الفرقان ۳۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جولوگ تمہارے پیچھے نماز پڑھیں گے سب جنتی ہیں.ایک شخص پر ان کو شبہ پڑ گیا کہ یہ نیک نہیں معلوم ہوتا.جب انہوں نے نماز پڑھ کر سلام پھیرا تو دیکھا کہ وہی شخص ان میں نہ تھا.دریافت کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ وضو کرنے کے لئے چلا گیا تھا اور بعد میں نماز ہو چکی.مگر مقتدیوں کو شمار کرنے سے معلوم ہوا کہ اتنے ہی ہیں جس قدر پہلے تھے.ایک شخص نے اٹھ کر بیان کیا کہ میں وضو سے تھا جب میں نے دیکھا کہ یہاں جماعت طیار ہے تو میں فورا ہی شامل ہو گیا.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۱۲ ء صفحه ۷۸،۷۷) ۱۱۵- وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَسْجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَى فِي خَرَابِهَا أُولَبِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَابِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْى وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ - ترجمہ.اور اُس شخص سے زیادہ تر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اُس کا نام لینے اور یاد کرنے سے روکتا ہے اور اُن کے اجاڑنے کی کوشش کرتا ہے یہ لوگ اس قابل نہیں کہ اب ان پاک مکانوں میں داخل ہو سکیں نڈر ہو کر.ان لوگوں کی دنیا ہی میں ذلت ہے اور آخر کا رتو بڑا عذاب ہوگا.تفسیر.بعض بعض مسجدوں کے دروازوں پر لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص نہ آئیں.ایسے لوگ دنیا میں ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کو بڑا عذاب دیا جائے گا.نہ ہوتا.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۸) خالفین.خدا کا خوف دل میں رکھ کر ادب و تعظیم و عاجزی سے آتے اور کسی کا نقار دل میں ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۰،۱۹ مؤرخه ۴ ۱۹ ار مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰) الا خايفين - اللہ کے خوف سے معمور ہو کر آئے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۹) افسوس کہ لوگ اگر ذرا بھی آسودگی پاتے ہیں تو مخلوق الہی کو حقارت سے دیکھتے ہیں اس کا انجام خطر ناک ہے.ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کسی کی طاقت مسجد کے متعلق
حقائق الفرقان ۳۳۳ سُورَةُ الْبَقَرَة ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے.ایسا کر کے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے.بارا ہو میں صدی تک اسلام کی مسجد میں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سنی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اب تو کوئی حساب ہی نہیں.ان لوگوں کو یہ شرم نہ آئی کہ مکہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہے.قرآن بھی ایک ، نبی بھی ایک، اللہ بھی ایک.پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں.ان کو چاہیئے کہ مسجدوں میں خوف الہی سے بھرے داخل ہوتے.صرف اسی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہوتو وقار اور سکینت سے آئے اور ادب کرے جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے لیکن وہ اگر خوف الہی سے کام نہیں لیتے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اُن کے لئے دُنیا میں بھی ذلت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے.یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے.اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طرز عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجد مبارک میں گر جا کر نے کی اجازت دے دی.صحابہ کرام کو تسلی دیتا ہے کہ اگر تمہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکتا ہے تو کچھ غم نہ کرو میں تمہارا حامی ہوں جس طرف تم گھوڑوں کی باگیں اُٹھاؤ گے اور منہ کرو گے اسی طرف میری بھی تو جہ ہے چنانچہ جدھر صحابہ نے رخ کیا فتح و ظفر استقبال کو آئی.یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کہ کسی کو عبادت گاہ سے نہ روکو اور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو.مگر اس سے یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں امر بالمعروف نہ کرو.ہر گز نہیں.بلکہ صرف حُسنِ سلوک اور سلامت روی سے پیش آؤ.جو کسی کی غلطی ہو اس کی فوراً تر دید کرو.مثلاً عیسائی ہیں جب وہ کہیں کہ خدا کا بیٹا ہے تو ان کو کہو خدا تعالیٰ اس قسم کی احتیاج سے پاک ہے.جب آسمان وزمین میں سب کچھ اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں تو اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۱۷ مؤرخہ ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ ء صفحه ۲)
حقائق الفرقان ۳۳۴ سُورَةُ الْبَقَرَة ق ۱۱۶ تا ۱۱۸ - وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ، فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا سُبُحْنَةَ بَلْ لَّهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ كُلُّ لَهُ قُنِتُونَ - بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ إِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ - ترجمہ.اور مشرق اور مغرب تو اللہ ہی کا ہے تم جس طرف منہ پھیر وادھر اللہ ہی کی توجہ کا لحاظ رکھو بے شک اللہ بڑی وسعت دینے والا بڑا جاننے والا ہے.اور کسی قوم نے کہا کہ اللہ نے ایک بیٹا اختیار کیا یہ بات اللہ کے شان کے لائق نہیں.پاک ذات ہے وہ ، ہاں آسمان وزمین میں جو کچھ ہے اُسی کا مال ہے.وہ سب کے سب اللہ کے فرماں بردار ہیں.وہ آسمان وزمین کو ( بغیر مادہ اور نمونہ کے ) بنانے والا ہے اور وہ جب کسی چیز کو ظاہر کرنا چاہتا ہے تو سوائے اس کے نہیں اس کو کہہ دیتا ہے کہ ہو تو وہ ہو جاتی ہے.تفسیر.اور اللہ کی ہے مشرق اور مغرب.سوجس طرف تم منہ کر دو ہاں ہی متوجہ ہے اللہ.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب.حصہ دوم صفحہ ۲۸۶ حاشیہ) فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ الله - جدھر تم تو جہ کرو گے ادھر ہی خدا کی بھی تو جہ ہوگی کیونکہ مشرق و مغرب اسی کا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ،۲۰ مؤرخه ۴ و ۱۱/ مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۰) لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ.سارا جہان خدا کا ہی ہے جس طرف تم توجہ کر و خدا کی فتح ونصرت تمہارے ساتھ ہوگی.آئین.ظرف مکان بھی ہے اور ظرف زمان بھی ہے.اس میں سارا جہان مخاطب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور جس وقت توجہ کرو پس اسی طرف توجہ ہے اللہ کی.فی الواقع جدھر صحابہ متوجہ ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی توجہ کو مثمر ثمرات بنایا.قَالُوا اتَّخَذَ الله.بیٹا ہونا سبحان کے بالکل خلاف ہے.عیسائیوں نے ایک مجلس کا نام تقدیس رکھا ہے اور اس میں بیٹا ہونے کا ذکر کرتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ یہ نقد میں نہیں.
حقائق الفرقان ۳۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قنوت.نماز میں کھڑا ہونا ، فرمانبرداری، دعا مانگنا ، عام عبادت سب کو قنوت کہتے ہیں.قطی.قَدَّرَ ، اندازہ کیا، حکم جاری کیا، کام کو پورا کیا، پیدا کیا، خبر دی.(البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۷۸) قَالُوا اتَّخَذَ الله ولدا - اتخاذ ولد کی تردید فرماتا ہے.ایک یہ فرما کر کہ صبحانہ.دوم لَهُ مَا فِي السبوتِ وَالْأَرْضِ - سوم كُلٌّ لَهُ قُنِتُونَ - چهارم بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ نجم إِذَا قَضَى أَمْرًا - قضی کے معنے ایک تو اَمَرَ دوم خَلَقَ - سوم اَخْبَر.چوتھا فارغ ہوا.اس کی مثال فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ (الاحقاف:۳۰) ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۰،۱۹ مؤرخه ۴ وا ا / مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰) أَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجُهُ اللَّهِ (البقرة : (١١٦ جس طرف تم منہ کرو اسی طرف خدا کا منہ ( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن.صفحہ ۱۲۴) پاؤ گے.فَثَمَّ وَجْهُ الله - جدھر تم (صحابہ) تو جہ کرو ادھر جناب الہی کی تو مجہ ہو گی.ملک فتح ہو جائے گا.وحدت وجودی غلطی پر ہیں.سبحنة - عقائد باطلہ عیسائیان کے مطابق اللہ کامل 61199 قدوس نہیں بن سکتا.كُن فَيَكُونُ.مرنے کے بعد زندہ وہی کرتا ہے.( تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۹) ١١٩ - وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَو لَا يُكَلِّمُنَا اللهُ اَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ كَذلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ مِثْلَ قَوْلِهِمْ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ - قَدْ بَيَّنَا الْآيَتِ لِقَوْمٍ يوقنون.- ترجمہ.اور جاہل نادانوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہم سے کیوں کلام نہیں کرتا یا ہماری طرف کوئی نشان کیوں نہیں بھیجتا.اُن سے پہلے کے لوگ بھی اسی طرح اعتراض کرتے رہے ان سب کے دلوں کی ایک ہی حالت ہوگئی ہے.بے شک ہم نے اپنی آیتوں کو ان لوگوں کے لئے جو یقین رکھتے ہیں کھول لے تو جب وہ پورا ہو گیا لوٹ کر پہنچے قوم کی طرف ڈراتے ہوئے.(ناشر)
حقائق الفرقان کھول کر بیان کر دیا ہے.۳۳۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تفسیر.لَوْ لَا يُكَلِّمُنَا اللہ یعنی اللہ میں کیوں الہام نہیں کرتا.اس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی جاہل جٹ کہے کہ بادشاہوں پیادوں کی معرفت احکام بھیجتا ہے خود کیوں ہم سے مطالبہ نہیں کرتا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مؤرخه ۴و۱۱ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۰) ۱۲۳ ، ۱۲۴ - يبَنِي إِسْرَاءِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمُتُ عَلَيْكُمْ وَ أَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ وَاتَّقُوا يَوْمًا لَا تَجْزِى نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَيْئًا وَلَا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدُكَ وَلَا تَنْفَعُهَا شَفَاعَةٌ وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ - ترجمہ.اے اسرائیل کی اولا دوہ نعمت جو تم کو میں نے بخشی تھی اس کو یاد کرو اور ہمیں نے تم کو بزرگی دی تھی اُس وقت کے سب لوگوں پر.اب اس وقت سے ڈرو جس وقت کوئی جان کسی جان کے کچھ کام نہ آئے گی اور نہ اُس کی طرف سے کوئی بدلہ لیا جاوے گا اور نہ اُس کو کوئی سفارش نفع دے گی اور نہ وہ مرد ہی دیئے جائیں گے.تفسیر.الحمد شریف میں تین قوموں کا ذکر ہے ایک اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کا ایک مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا اور ایک ضالین کا.قرآن کریم نے یہاں تک ان تین گروہوں کا رنگ برنگ میں ذکر کیا ہے.رکوع اول میں بتایا کہ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ کا دوسرا نام متقین ہے ان کو انعام ملتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مؤرخه ۴و۱۱ مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰) اللہ جلشانہ نے الْحَمد میں اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضَالِين کا ذکر فرمایا ہے.علمی طور پر فرمایا کہ جو لوگ نمازوں کے پابند ہیں، اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ، کتاب اللہ اور آخرت یا جزا سزا پر ایمان رکھتے ہیں وہ اَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ میں ہیں مگر دوسرے لوگ جو انکار کرتے ہیں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ہیں.تیسرے وہ جو ضالین ہیں جو تجارت کے ذریعہ سے تمام مذہبوں سے واقف ہو سکتے تھے اور وہ نصاری ہیں.پھر فرمایا کہ بدعہد لوگ ضَآلّ ہوتے ہیں.ان کا ذکر لمبا کیا پھر مَغْضُوب اور مُنْعَمْ عَلَيْهِمْ کا نام لے کر بتایا.
حقائق الفرقان ۳۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پھر بنی اسرائیل کا بار بار ذکر کیا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ کی اُن نعمتوں کو یاد کر وجو اس نے تم پر کیں.پہلوں میں اور ان میں یہ فرق دکھلایا کہ یہاں عدل کو مقدم کر دیا اور ان میں شفاعت مقدم تھی اس لئے کہ بعض دنیا کو چھوڑ نہ سکے پہلے سپارش سے کام لیا جب اس سے کام نہ چلا تو بدلہ دینے کو ہوئے.دوسروں نے مال کا دینا مقدم کیا جب کام نہ چلا تو لگے سپارش کرانے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ء صفحه ۷۸) أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ پھر مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا وعید بیان کیا.وَ لَهُم عَذَابٌ عَظِيمٌ پھر ضَالِين کا ذکر کیا.أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّللَةَ ان کی سزا ہے.فَمَا رَبِحَتْ تجارتهم رکوع سوم میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے منعم علیہم بن جاؤ گے اور اس کے خلاف کرنے کی سزا دوزخ کی آگ ہے.وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ پھر ضَالّين کا ذکر فرمایا کہ مَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا الْفُسِقِینَ.رکوع چہارم میں ایک منعم علیہ ( آدم ) ایک مغضوب و ضال شیطان کا قصہ بیان کیا.پھر رکوع ۵ میں بنی اسرائیل کا ذکر شروع کیا اور اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ سے ظاہر کر دیا کہ وہ ایک منعم علیہ قوم تھی.پھر قسم قسم کے انعاموں کا جو ان پر ہوئے مذکور ہے اور ساتھ ہی ان اسباب کا ذکر فرماتا ہے جن سے یہی منعم علیہ قوم مغضوب علیہ بنی.از آن جملہ گائے کی پرستش ، موسیٰ کی فرمانبرداری چھوڑ کر زمیندارہ پسند کرنا.چھوٹے چھوٹے گناہوں کی پرواہ نہ کرنا.یہاں تک کہ کفر و قتل انبیاء تک نوبت پہنچ گئی.پھر سلیمان کے زمانہ میں امن و آسودگی میں بجائے شکر الہی کے بغاوت و عملیات و خفیہ کمیٹیوں کی طرف مائل ہونا.مسیح کا انکار.پھر اس رسول علیہ السلام کا انکار.اب اس رکوع ۱۵ میں یہ قصہ ختم ہوتا ہے.فرماتا ہے کہ او بہادر سپاہی کی اولاد! میں نے تمہیں ہم عصر لوگوں پر بہت سی بزرگیاں دیں، پر تم نے اس بزرگ کی شان کو قائم نہ رکھنا چاہا.تم اس دن سے ڈرو جب کہ کوئی جی کسی کے کام نہ آئے گا چنانچہ بنی قریظہ قتل ہوئے.سعد بن معاذ کو انہوں نے خیر خواہ سمجھا پر اس نے بھی ان کے خلاف ہی رائے دی.بنی نضیر کا تعلق عبد اللہ بن ابی سے تھا اس نے کہا.یہی.وَ اِن
حقائق الفرقان ۳۳۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قوتِلْتُمْ لَنَنْصُرَنَّكُم (الحشر:۱۲) مگر موقعہ پر نہ کوئی سفارش کر سکا اور نہ ہی نصرت دے سکا.وَلَا هُمْ يُنْصَرُونَ کیسی عظیم الشان پیشگوئی ہے.تیرہ سو برس گزر چکے مگر لا يُنصَرُونَ کا فتوی ایسا اہل فتوی ہے کہ اب تک کوئی قوم بنی اسرائیل کی ناصر دُنیا میں نہیں.چپہ بھر کہیں ان کی سلطنت نہیں ہے.جس ملک میں جاتے ہیں ایسے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں کہ ذلیل ہو کر نکلنا پڑتا ہے اس کی جڑ یہ ہے کہ یہ شود خوار قوم ہے.جب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں ہوسکتا تو اپنے بادشاہوں کے پاس چغلیاں کھاتے ہیں اور پھر انہیں حکم ہوتا ہے نکل جاؤ.میں اکثر مخالفانِ اسلام کو چیلنج دیا کرتا ہوں کہ ایسی پیشگوئی کسی قوم کی نسبت کر دکھاؤ.راست بازوں سے مقابلہ کرنا بڑا خطرناک ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مؤرخه ۴ ۱۱ار مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰) اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ.یہ اس پہلی بات کو دہرایا ہے.لیکچرار کو بھی ایسا ہی چاہیے کہ بات کی تشریح کر کے پھر خلاصہ دہرا دے.لا يُقْبَلُ مِنْهَا عَدْلُ اور رکوع ۶ لا يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةُ یعنی شفاعت پہلے ہے اس کی وجہ یہ ہے دنیا میں دو قسم کے آدمی ہیں.پہلے وہ شفاعت کی طرف جھکتے ہیں.جب اس نے کام نہ دیا تو جرمانہ بھرنے پر بھی حاضر.دوسرے اس کے خلاف ہیں.اس کے بعد اور سلسلہ انعمت کا لیا تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۹) ہے.۱۲۵ - وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرهِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَتِ فَاَتَتَهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ - ترجمہ.اور جب کہ ابراہیم کو چند باتوں کے بدلہ میں اس کے رب نے کچھ انعام دینا چاہا اور ابراہیم نے اچھی طرح ان باتوں کو پورا کیا تو ہم نے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو ہمیشہ کے لئے لوگوں کا پیشوا بنا ئیں گے.ابراہیم نے عرض کی اور میری اولاد میں سے.اللہ نے فرما یا نہیں ظالموں کو ہمارا اقرار نہیں پہنچتا.لے اور اگر تم سے لڑائی ہونے لگے گی تو ہم ضرور تمہاری مددکریں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تفسیر.وَإِذِ ابْتَلَى إِبْراهِمَ رَبُّه - اب بنی اسرائیل کے بعد ایک اور سلسلہ کی طرف متوجہ ہؤا ہے.وہ بھی انْعَمْتَ عَلَم تھے.منظم ہونے کے بعد ان میں سے بھی مغضوب وضال ہو گئے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ۲۰ مؤرخه ۴ و ۱۱/ مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۰) ابتلى.امتحان ، آزمائش.اور امتحان کے معنے ہیں کسی کی محنت لینا اور محنت کے بدلہ میں کچھ دینا.ایک جگہ اظہار کے معنے بھی آتے ہیں.تنبلی السراير (الطارق : ١٠) یہاں بھی محنت لینے کے معنے ہو سکتے ہیں.امام.اس دھاگے کو کہتے ہیں جو معماروں کے پاس ہوتا ہے جس کو شاقول کہتے ہیں.دیکھو پھر اس لفظ کو کس قدر وسیع کیا ہے کہ جس کی اتباع سے انسان اپنا سیدھا اور ٹیڑھا پن دیکھ سکے ایسے شخص کو امام کہتے ہیں.قرآن بھی امام ہے، محمد رسول اللہ بھی امام ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے متبع بھی ہیں.ذُرِّيَّةٌ.پھیلنا نسل ( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۸) ابتلى.عربی زبان میں کہتے ہیں کسی چیز کے ظاہر کر دینے کو.قرآن شریف میں یہ محاورہ ہے يَوْمَ تُبلَى السَّرَايِرُ - فَمَا لَهُ مِنْ قُوَةٍ وَلَا نَاصِير ( الطارق: ۱۱۰) أَبْلَاهُ: أَظْهَرَ رَ دُأْتَهُ وَ جَوْدَته فلاں چیز کے رڈی یا جید ہونے کو ظاہر کیا.پس اللہ نے ابراہیم کو کچھ احکام دیئے گلیمت کے یہی معنے ہیں ) جو انہوں نے پورے کئے.تو ان کا جید ہونا ظاہر ہو گیا.ایک دوسرے مقام پر فرمایا ہے.جَعَلْنَا مِنْهُم اَبِيَّةً يَهُدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِأَيْتِنَا يُوقِنُونَ (السجدة: ۲۵) یعنی ہم امام اس وقت بناتے ہیں جب انسان احکام الہی پر ثابت قدم ہو جاوے اور ہماری آیات پر پورا یقین رکھے.خیر جب ابراہیم کے جید ہونے کو ظاہر کر دیا تو ارشاد ہوا.إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا.میں تمہیں نمونہ اور مقتدا بنانے والا ہوں.آپ نے اپنی لے تمام بھید جانچے جائیں گے.(ناشر) سے ایک دن تمام بھید جانچے جائیں گے.پھر اس کے واسطے نہ کوئی طاقت ہوگی نہ مددگار.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۴۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اولاد کے بارے میں دریافت کیا تو ارشاد ہوا کہ مشرک اس عہد کے لائق نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی قوم میں ایسے لوگ بھی ہونے والے تھے.ط (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۱۹ ،۲۰ مؤرخه ۴و۱۱/ مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۰) ١٢٦ - وَاذْ جَعَلْنَا البَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِم مُصَلَّى وَ عَهِدُنَا إِلَى إِبْرهِمَ وَ اِسْعِيلَ أَن طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَ الْعَرِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ - ترجمہ.اور ہم نے خاص کعبہ کو دجال کے فتنہ سے سلامتی کا گھر اور لوگوں کے ثواب میں جمع ہونے کی جگہ بنا دیا ہے اور ابراہیم کے مقام کو تم نماز کی جگہ ٹھہرا لو.اور ہم نے ابراہیم اور اس کے بیٹے اسماعیل سے یہ عہد کیا تھا کہ تم دونوں میرے گھر کو پھیرے پھرنے والوں، اللہ کی یاد میں گوشہ میں بیٹھنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے واسطے پاک صاف رکھیو.تفسیر - وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ (البقرة: ۱۲۶) بیت اللہ کولوگوں کے لئے جھنڈ در جھنڈ آنے کی جگہ بنایا.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن.صفحہ ۳۳۴) مثابة.ایسا بنایا کہ یہاں لوگ آتے رہیں گے.شبہ کہتے ہیں جماعت کو.ثائب ایک جماعت کو جو دوسری جماعت سے آکر مل جائے.يَتُوبُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ مَقَابَةً کے دوسرے معنے ثواب کی جگہ.یہاں دونوں معنے صحیح ہیں.عهدنا - مضبوط وعدہ لینا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۱) مَثَابَةً - ثبه جماعت کو کہتے ہیں اور مثابه جماعتوں کے آنے یا امن کی جگہ کو کہتے ہیں.فاتمهن سے ابراہیم کے مقام کا صاف پتہ لگتا ہے.ہم نے ابراہیم کو بڑا ضروری حکم بھیجا کہ اس گھر کو ان لوگوں کے لئے ہمیشہ پاک رکھیو جو طواف، اعتکاف اور رکوع و سجود کے لئے یہاں آئیں.حضرت ابراہیم نے قد آدم دیوار بنانے میں سات اے اُن کے بعض بعض سے آملیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۴۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة رڈے رکھے.سات ہی مرتبہ طواف کیا اور ہر جگہ دعائیں کیں.البدر کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۸) وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْراهِمَ مُصَلَّى - جس مقام پر ابراہیم نے نماز پڑھی اس درجہ کی تم فرماں برداری کرو اور عبادت کرو.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۳۹) اَنْ طَهَّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرة : ١٢٦) کا مطلب یہ ہے کہ مکہ معظمہ کو بت پرستی اور بتوں سے پاک کر دو.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن - صفحہ ۱۳۴) ستھرا رکھو اس میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن - صفحہ ۳۳۴) والوں کے لئے.۱۲۷- وَ اِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا مِنَّا وَ ارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ b مَنْ أَمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَ مَنْ كَفَرَ فَأَمَتَّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ اضْطَرة إلى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ - ترجمہ.اور جب ابراہیم نے دعا مانگی، اے میرے رب ! تو اس شہر کو امن اور سلامتی کا شہر بنادے اور یہاں کے رہنے والوں کو جو تجھ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے ہوں ان کو پھلوں سے روزی دیجیو، اللہ نے فرمایا اور منکر کو میں تھوڑا سا فائدہ دوں گا پھر اس کو آگ کے عذاب میں بے بس کر دوں گا اور وہ بہت بُرا ٹھکانہ ہے.تفسیر.اور جب کہا ابراہیم نے اے رب کر اس شہر کو امن کا اور روزی دے اس کے لوگوں کو میوے.جو کوئی ان میں یقین لاوے اللہ پر اور پچھلے دن پر.( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۱۹۱ حاشیه ) رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا - واقعی بیت اللہ امن کا گھر بنا کہ يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ ے اور لوگ اُچک لئے جار ہے ہیں اس کے آس پاس سے.
حقائق الفرقان ۳۴۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حَوْلِهِمْ (العنكبوت: (١٨) وَأَمَنَهُمْ مِنْ خَوْفٍ ( القريش: (۵) کا نظارہ پیش نظر ہے.چونکہ حضرت ابراہیم علیه السلام لا يَنَالُ عَهْدِى الظَّلِمِينَ (البقرة : ۱۲۵) سے سمجھ گئے تھے کہ یہاں کچھ شریر بھی ہوں گے اس لئے عرض کیا کہ وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ أَمَنَ مِنْهُمْ بِاللهِ یعنی مومنوں کو رزق طیب دے.اللہ نے فرمایا.نہیں.ہم رحمن ہیں اس لئے ہم کا فر کو بھی روٹی دیں گے مگر دنیا میں.مومن کی طرح آخرت میں بھی نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۱) وَارْزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ - یہ قید حضرت ابراہیم نے پچھلے خوف سے لگائی کہ وہاں وَ مِنْ ذُرِّيَّی کے جواب میں لا يَنَالُ عَهْدِى الظلمين (البقرة: ۱۲۵) فرمایا تھا مگر یہ قیاس غلط نکلا.فرمایا وَ مَنْ كَفَرَ فَأُمَتَّعُهُ قَلِیلا کا فر کو بھی رزق دوں گا.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۰،۴۳۹) لے اور ہر قسم کے خوف سے امن میں رکھا.۲، ۳، ظالموں کو ہمارا اقرار نہیں پہنچتا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۴۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۱۲۸ تا ۰ ۱۳ - وَ إِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ - رَبَّنَا وَ اجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا اُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَ اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَ تُبْ عَلَيْنَا ۚ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ - - ترجمہ.( وہ وقت بھی یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل نے کعبہ کی بنیادیں اٹھاتے ہوئے (کہا) اے ہمارے رب ! تو ہمارے بنائے ہوئے مکان کو پسند فرمالے تو تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے.اے ہمارے رب ! تو ہم دونوں کو اپنا ہی فرمانبردار بنا لے اور ہماری اولاد میں سے ایک جماعت تیری فرمان بردار پیدا کر اور ہم کو اپنے حدوں سے آگاہ کر اور ہم کو تیری طرف جھکنے کی توفیق عطا فرما، ہاں اے صاحب! بس تو ہی تو بہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.اے ہمارے ربّ! تو ان لوگوں سے جو یہاں آباد ہوں ایک رسول قائم کر جو تیرے احکام و نشان اُن پر پڑھے اور اُن کو لکھی ہوئی محفوظ باتیں سکھائے اور پکی دانائی کی تعلیم دے اور اُن کو پاک وصاف کرے بے شک تو.ہی بڑا عزت والا حکمت والا ہے.تفسیر - السميع العليم - دعائیں سنتا ہے.دلوں کے بھیدوں ،ضرورتوں، اخلاص کو جانتا ہے..مناسكنا - طریق عبادت.تب.رجوع برحمت کر.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ تم قرآن سنتے ہو.یہ بھی ابراہیم کی دُعا کا اثر ہے.حكمة کے معنے ہیں پکی بات.عربوں نے اس کے معنے لئے ہیں جو بات انسان کو معزز بنانے والی اور فتیح باتوں سے ہٹانے والی ہو ( پارہ ۱۵ رکوع ۳ میں اس کی تشریح ہے ).ان آیات میں شیعہ کا رڈ بھی ہے کہ جو رسول آئے گا وہ تزکیہ نفوس کرے گا.گنہ گاروں کو
حقائق الفرقان ۳۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پاک انسان بنا دے گا مگر شیعہ کے عقائد کے مطابق آدم سے لے کر قیامت تک کوئی گناہ ایسا نہیں ہوسکتا جن کا ارتکاب صحابہ نے (نہ) کیا ہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۱) رکوع ۱۵ میں حضرت ابراہیم نے ے دعائیں کیں.رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنَّا ملا کر ایک پھیرے میں ایک دعا.اب بھی سات طواف ہیں.فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ (البقرة: ۱۳۸) یہ پیشگوئی تنخعید الاذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۴۰) ہے جو پوری ہوئی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسجد (خانہ کعبہ) کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں.(۱) - رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَا (البقرة :۱۲۸) اے ہمارے رب! قبول ہی کر لے ہم سے.(۲) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةٌ لَكَ وَ آرِنَا مَنَاسِكَنَا ص (البقرۃ: ۱۲۹) اے ہمارے رب ! اپنا ہی ہمیں فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد سے ایک گروہ معلم الخیر تیرا فرمانبردار ہو اور دکھا ہمیں اپنی عبادت گاہیں اور طریق عبادت.(۳).وَاجْنُبْنِي وَ بَنِيَّ اَنْ نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ (ابراهیم:۳۶) بچالے مجھے اور میری اولاد کو اس سے کہ بت پرستی کریں.(۴) - وَارزُقُ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ (البقرة : (۱۳) اور رزق دے مکہ والوں کو پھلوں سے.(۵) - فَاجْعَلْ أَفْبِدَةٌ مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمُ (ابراهيم: ۳۸) کچھ لوگوں کے دل اس شہر والوں کی طرف جھکا دے.(۶) - وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا (البقرة: ۱۳۰) ان میں عظیم الشان رسول بھیج.(2) - اِجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ أَمِنَّا (ابراهیم: ۳۶) اس شہر کو امن والا بنا.اور قرآن کریم میں ان دعاؤں کے قبول ہونے کا ذکر آیات ذیل میں ہے جو سات ہیں.اللہ تمہیں کافی ہے ان کی مخالفت کے لئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اوّل.جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ (المائدة: ۹۸) اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو عزت والا اور حرمت والا گھر بنایا.دوم - وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصّلِحِينَ (البقرۃ: ۱۳۱) اور بے ریب برگزیدہ کیا ہم نے اسے اس دنیا میں اور بے ریب آخرت میں سنوار والوں سے ہے.سوم - طهرا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (البقرة: ۱۲۶) ستھرا رکھو اس میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لئے.اور فرما يا وَ هُدًى لِلنَّاسِ ہدایت کا مقام ہے لوگوں کے لئے.چهارم - أَطْعَمَهُم مِّن جُوع (قريش: ۵) کھانا دیا ان کو بھوک کے بعد.وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ (البقرة: ۱۲۶) بيت اللہ کولوگوں کے لئے جھنڈ در جھنڈ آنے کی جگہ بنایا.شم - هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ ( الجمعة : ۳) اللہ وہ ہے جس نے بھیجا مکہ والوں میں رسول انہی میں سے.پڑھتا ہے ان پر اللہ کی آیتیں.پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور حکمت.ہفتم.وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ أَمِنَّا ( ال عمران: ۹۸) اور جو داخل ہوا مکہ میں ہوا امن پانے والا.سات دعائیں حضرت ابراہیم علیہ السلام و برکاتہ نے مانگیں اور ساتوں قبول ہوئیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۳۳۳، ۳۳۴) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُم - الآية اس وصیت پر غور کر کے ہمیں اندازہ کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے اور کیا ارادہ رکھتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۲ مؤرخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۲)
حقائق الفرقان ۳۴۶ سُورَة البَقَرَة اور جب اٹھانے لگا ابراہیم بنیادیں اس گھر کی اور اسمعیل.اے رب ہمارے قبول کر ہم سے.تو ہی ہے اصل سنتا جانتا.اے رب ہمارے اور کر ہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک امت حکم بردار اپنی اور بتا ہم کو دستور حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر.تو ہی ہے اصل معاف کرنے والا مہربان.اے رب ہمارے! اور اٹھا ان میں ایک رسول انہیں میں کا.پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھاوے ان کو کتاب اور پکی باتیں اور ان کو سنوارے.تو ہی ہے زبر دست حکم والا.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب.حصہ دوم صفحہ ۱۹۱، ۱۹۲ حاشیہ) اب ان آیات قرآنی (۱۲۸ تا ۱۳۰ ناقل) کو آیات توریت سے تطبیق دی جاتی ہے.توریت میں لکھا ہے حضرت حق سبحانہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے آپ کے پلو ٹھے بیٹے حضرت اسمعیل کی نسبت وعدہ فرمایا.وو میں نے تیری دعا اسمعیل کے حق میں قبول کی.دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس سے بڑی قوم بناؤں گا.“ کتب سابقہ کے ناظرین اور الہامی مضامین پر گہری نگاہ کرنے والے اگر انصاف سے دیکھیں تو یہ پیشین گوئی صاف محمد بن عبد اللہ بن اسمعیل بن ابراہیم کے حق میں ہے.اس بشارت میں کئی امور غور طلب ہیں.اول.برکت دوں گا، برومند کروں گا، بہت بڑھاؤں گا“ نہایت انصاف سے دیکھنے کو مجبور کرتے ہیں اور بڑی بلند آواز سے کہتے ہیں کہ اسمعیلی وعدوں کو جسمانی مت کہو.صرف جسمانی وعدے میں برکت اور فضیلت نہیں بلکہ بالکل نہیں.وہ تو موت کے گہرے کنوئیں میں رہنے کا باعث ہے، منصفو! کیا اگر ابراہیم کی اولاد بت پرست، رہزن ، چور، جاہل، بدتہذیب، قمار باز، زانی ، مکار، بدکار ہی رہتی تو حضرت اسمعیل کو کوئی عاقل کہہ سکتا کہ تو برو مند ہوا، تجھے برکت ملی، تجھے فضل عطا ہوا،
حقائق الفرقان ۳۴۷ سُورَة البَقَرَة تجھ سے بڑی قوم بنی.ہر گز نہیں.ہر گز نہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی اولاد میں ایک زبر دست رسول پیدا ہوا جس نے اس متفرق گروہ کو ایک قوم بنایا.اسی کے وسیلے سے وہ قوم برومند ہوئی اور اسے یہاں تک بڑھایا کہ انمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَن کہہ کر ابد الآباد تک ہر ملک اور ہر جنس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو ان کی ترقی کا ضمیمہ بنایا.فداہ ابی و اقی، صلی اللہ علیہ وسلم دوم.جو بشارات عہد جدید میں حواریوں اور اناجیل کے منصفوں نے مسیح کی نسبت خیال کر کے مندرج کی ہیں وہ سب کی سب ادنی لگاؤ اور ابہام سے بڑھ کر کوئی وقعت نہیں رکھتیں.یہاں نہ صرف لگاؤ ہی لگاؤ بلکہ تصریح و توضیح موجود ہے کہ بنی اسمعیل ( قوم عرب ) فضیلت والے، برکت والے، برومند.امام قوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد برکت مہد میں ہوئے.سوم.فضیلت اُسی وقت پوری فضیلت ہوتی ہے جب اپنے اقران و امثال پر ہو اور تمام عالم شاہد ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے عرب اور حجاز والوں نے بنی اسرائیل پر کبھی کوئی علوّ حاصل نہیں کیا.متعصب عیسائی میں عرب کی بشارات پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہے ہیں جو یہودیوں کے اُن اعتراضوں سے کہ بشارات مسیح پر انہوں نے کئے ہیں زیادہ زور آور نہیں ہیں چنانچہ اس بشارت پر یہ اعتراض کیا ہے ” اسحاق کی نسبت روحانی وعدہ ہے اور اسمعیل کی نسبت جسمانی اگر چہ اس کا جواب ابھی ہو چکا ہے الا مزید توضیح کے لئے کسی قدر تفصیل کی جاتی ہے.ہم اسمعیلی اور اسحاقی وعدوں کو بمقابلہ یکدگر تو رات سے جمع کر کے ناظرین با انصاف کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے نورِ ایمان اور انصاف سے پوچھتے ہیں کہ کس طرح سے وہی وعدہ اسمعیل کے حق میں تو جسمانی اور الحق کے رنگ میں روحانی ہو سکتا ہے اور چونکہ باری تعالیٰ کے وعدے ابراہیم کے ساتھ دو طرح کے ہیں ایک عام طور پر ابراہیم کی اولاد کے لئے اور ایک خاص طور پر اسمعیل اور اسحق کے لئے.اس لئے قبل از مقابلہ ہم مشتر کہ وعدے بیان کریں گے کیونکہ وہ وعدے جیسے اسحق کے حق میں ہیں ویسے ہی اسمعیل کے حق میں بھی ہیں.اگر ان سے الحق کو ترجیح ہو سکے تو انہیں.یقینا مومن بھائی بھائی ہیں.۲ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ فدا ہوں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۴۸ سُورَة البَقَرَة اسمعیل کو بھی ہو سکتی ہے.اگر یہ وعدے روحانی ہیں تو اسحق اور اسمعیل دونوں کے لئے اور اگر جسمانی ہیں تو بھی دونوں کے لئے.اور اگر عام ہیں.روحانی ہوں یا جسمانی.تو بھی دونوں کے لئے.مشتر کہ وعدے ا.جب ابراہیم کنعان میں پہنچا تو خدا نے کہا یہ زمین میں تیری اولا دکو دوں گا.پیدائش باب ۷:۱۲ ۲.جب ابراہیم لوط سے جدا ہوئے خدا نے کہا آنکھیں کھول چاروں طرف کی زمین تیری اولاد کو دوں گا.پیدائش باب ۱۴:۱۳ تا ۱۶.مصر سے فرات تک کی زمین میں تیری اولا د کو دوں گا.پیدائش باب ۱۸:۱۵ ۴ تیری اولا دکو وسیع اور بے شمار کروں گا.پیدائش باب ۵:۱۵ ۵.جب ابراہیم نانوے برس کے ہوئے خدا نے وعدہ کیا کہ تجھے زیادہ سے زیادہ کروں گا.تجھ سے قو میں پیدا ہوں گی اور بادشاہ ہوں گے اور کنعان کی زمین بوراشت دائی تجھ کو دوں گا.پیدائش باب ۶:۱۷ تا ۸ یہ وہ وعدے ہیں جو ابراہیمؑ کی اولاد کے لئے مشترکہ ہیں اور یہ خدا کے سچے وعدے دونوں بھائیوں اسمعیل اور اسحق کے حق میں ظاہر ہوئے.کنعان کا ملک ایک زمانے تک بنی اسحق کے قبضے میں رہا پھر تیرہ سو برس سے آج تک بنی اسمعیل یا ان کے خادموں کے قبضے میں ہے.ایسا ہی وہ ملک جو لوط کے جدا ہوتے وقت ابراہیم نے دیکھا اور ایسے ہی مصر سے فرات تک کا ملک دونوں صاحبوں کو ملا.اسمعیل اور الحق سے ابراہیم کی اولاد بہت بڑھی.ان سے قو میں پیدا ہوئیں.بادشاہ نکلے.کنعان کے مالک ہوئے.کوئی تخصیص بنی اسحق کے لئے اس میں نہیں بلکہ زبور ۹:۱۰۵ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ الحق سے جسمانی وعدہ تھا کیونکہ لکھا ہے کہ ” وہ عہد جو ابراہیم سے ہوا اور اسحق سے اس کی قسم کھائی اور بنی اسرائیل سے دائمی باندھا گیا اور یعقوب سے بطور قانون کے مقرر ہو اوہ کنعان کی زمین دینے کا وعدہ تھا.“
حقائق الفرقان ۳۴۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة خاص خاص مگر ہم معنی وعدوں کا بیان تکوین (پیدائش) باب ۱۷-۱۹ خاتون سارہ آپ کی اولا د بے شمار ہوگی.پیدائش ۱۶.۱۰ خاتون ہاجرہ آپ کی اولاد بے شمار ہوگی.۲۵.۱۱ آپ کے فرزند اسحق کو برکت دی اللہ تعالیٰ نے.۱۷.۲۰ آپ کے فرزند اسمعیل کو برکت دی اللہ تعالیٰ نے.۲۱.آپ کے دردو غم کو سنا اللہ نے.۱۶.۱۱ آپ کے دردو غم کو نا اللہ نے -۲۶ ۲۴ آپ کے فرزند کے ساتھ خدا تھا.۲۰۲۱ آپ کے فرزند کے ساتھ خدا تھا.۱۰ ۲۵ تی تقسیم اللہ تعالیٰ نے زمانہ یقطان میں کر دی تھی.۱۷.آپ کی اولادکو زمین کنعان دی گئی.۱۵ - ۱۸ آپ کی اولا د کوزمین عرب عنایت ہوئی.۱.آپ کے فرزند کا اللہ تعالیٰ نے نام رکھا.۱۹۱۷ آپ کے فرزند کا اللہ تعالیٰ نے نام رکھا.۱۷.۱۶ آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہوا.۲۰۱۷ - ۲۶-۲۵.آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہوا.۱۵.۴ آپ کا فرزند پہلوٹا اور وعدہ وراثت اور تسلی کا پہلا مصداق تھا.سارہ.ہاجرہ ۱۶.۱۲.آپ کو برکت دی گئی اور فرزند کی بشارت دی گئی اور آپ کو بتایا گیا کہ وہ عربی ہوگا.نکننہ.اُردو تر جموں میں لفظ وحشی اور جنگلی لکھا ہے جو ٹھیک لفظ عربی یا اُمّی کا مترادف ہے دیکھیں تو اہلِ کتاب اسے کیونکر گوارا کر سکتے ہیں )
حقائق الفرقان ۳۵۰ سُورَةُ الْبَقَرَة پیدائش ۱۷ باب ۱۵.آپ کے فرزند کے باعث آپ سرے سے سرد ہو ئیں.پیدائش ۷ ا باب ۵.آپ کے فرزند کے باعث آپ کے شوہر کا نام ابرام سے ابرہام ہوا.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب.دوم حصہ صفحہ ۱۹۲ تا ۱۹۵) دعاؤں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہیے.ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن مومن کبھی تھکتا نہیں.قرآن شریف میں دعاؤں کے نمونے موجود ہیں ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے ہیں.رَبَّنَا وَابْعَثُ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ اس دعا پر غور کرو حضرت ابراہیم کی دعا روحانی خواہشوں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلقات بنی نوع کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے.وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولا دکو بادشاہ بنادے مگر وہ کیا کہتے ہیں.اے ہمارے رب میری اولاد میں انہیں میں کا ایک رسول مبعوث فرما.اس کا کام کیا ہو؟ وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے اور اس قدر قوت قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہر کرے اور ان کو کتاب اللہ کے حقائق و حکم سے آگاہ کرے.اسرار شریعت ان پر کھولے.یہ ایسی عظیم الشان دعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ابتدائے آفرینش سے جن لوگوں کے حالات زندگی ہمیں مل سکتے ہیں.کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی.حضرت ابراہیم کی عالی ہمتی کا اس سے خوب پتہ ملتا ہے.پھر اس دعا کا نتیجہ کیا ہو ااور کب ہو !؟ عرصہ دراز کے بعد اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان پیدا ہوا اور وہ دنیا کے لئے بادی اور مصلح ٹھہرا.قیامت تک رسول ہوا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رشد، نور اور شفا نہیں ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۸ مؤرخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۴ صفحه ۴) ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جناب رب العزت اور رب العالمین اللہ جل شانہ کے حضور مانگی ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اس دنیا میں اسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے
حقائق الفرقان ۳۵۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لئے اللہ تعالیٰ کے فضل نے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پیدا کر دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تو ہمارا رب اور مربی اور محسن ہے.تیری عالمگیر ربوبیت سے جیسے جسم کے قوالی کی پرورش ہوتی ہے.عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزین ہوتا ہے ویسی ہی ہماری روح کی بھی پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا.اے اللہ ! اپنی ربوبیت کے شان سے ایک رسول ان میں بھیجیو جو کہ منهم یعنی انہی میں کا ہو اور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری ( اپنی نہیں) باتیں پڑھے اور پڑھائے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے.پھر اس پر بس نہ کیجیوبلکہ ایسی طاقت ، جذب اور کشش بھی اسے دیجیو جس سے لوگ اس تعلیم پر کار بند ہو کر مزگی اور مطہر بن جاویں.تیرے نام کی اس سے عزت ہوتی ہے کیونکہ تو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.اس دعا کی قبولیت کس طرح ہوئی وہ تم لوگ جانتے ہو اور یہ صرف اس دعا ہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اٹھاتے ہیں.(احکم جلد 9 نمبر ۱ مؤرخہ ۱۰ جنوری ۱۹۰۵ صفحه ۱۱) حضرت ابراہیم نے سات دعائیں کی ہیں:.ا - رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ ٢- وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ ٣- وَآرِنَا مَنَاسِكَنَا - وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ۵ - رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ ٦ - وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ - - وَيُزَلِيْهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ (البقرة: ١٣٠١٢٩) الْحَكِيمُ ا.اے ہمارے رب ہم کو اپنا فرمانبردار بنا لے.۲.ہماری اولاد میں سے ایک فرمانبردار جماعت جو دوسرے کے لئے امام ہو، بنا.۳.ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا.اس میں تنبیہہ ہے اس بات کی طرف کہ کوئی من گھڑت طریق مقبول نہیں ہے.۴.اور ہماری فرمانبرداری میں جو غلطیاں یا کمزوریاں ظاہر ہوں ان سے در گزر فرما.۵.۶.۷.اور پھر ان میں ایک رسول مبعوث کر جوان کو کتاب اور پختہ باتیں سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے.تشخیذ الا ذبان جلد ۶ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۳۵۶)
حقائق الفرقان ۳۵۲ سُورَة البَقَرَة حضرت ابوالملۃ ابوالحنفاء ابراہیم علیہ السلام اپنی دُعا میں کہتے ہیں وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيْتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ (البقرة:۱۳۰) پھر اگر مزگی کی ضرورت نہ تھی تو اس دعا کی کیا ضرورت.تلاوت کو اس لئے مقدم رکھا ہے کہ علم تزکیہ کے مراتب سکھاتا ہے اور تزکیہ کو بعد میں اس لئے رکھا ہے کہ بدوں تزکیہ علم کام نہیں آتا اس لئے کتاب کے بعد تزکیہ کا ذکر کر دیا.(الحکم - جلد ۶ نمبر ۳۳ مورخه ۱۷ ستمبر ۱۹۰۲ صفحه ۹) غرض یہ حالت اس وقت اسلام کی ہے اور پھر کہا جاتا ہے کہ مرگی کی ضرورت نہیں.قرآن موجود ہے میں پوچھتا ہوں اگر قرآن ہی کی ضرورت تھی تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ قرآن شریف کے آنے کی کیا حاجت تھی؟ کسی درخت کے ساتھ لڑکا لڑکا یامل جاتا ؟ اور قرآن شریف خود کیوں یہ قید لگاتا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ (البقرة:١٣٠) وغیرہ میں سچ کہتا ہوں کہ معلم کے اور مزگی کے بدوں قرآن شریف جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت غیر مفید ہوتا آج بھی غیر مفید ہوتا.خدا تعالیٰ نے ہمیشہ سے یہ طریق پسند فرمایا ہے کہ وہ انبیاء ومرسلین کے ذریعہ ہدایت بھیجتا ہے ی کبھی نہیں ہوا کہ ہدایت تو آ جاوے مگر انبیاء ومرسلین نہ آئے ہوں.(الحکم.جلد ۶ نمبر ۴۶ مورخه ۲۴ / دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۳) ۱۳۱ ۱۳۲ - وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْراهِمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ ۖ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ في الدُّنْيَا وَ إِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّة اسلم قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ - ترجمہ.اور ابراہیم کے دین سے کون منہ پھیرتا ہے مگر وہی جس نے اپنے آپ کو بے وقوف ثابت کیا اور بے شک ہم نے اس کو دنیا میں چن لیا اور آخرت میں بھی وہ صالحین میں ہے.جب ہی کہ ابراہیم کو اس کے رب نے کہا کہ تو فرمانبردار بن جا تب ہی اس نے عرض کی میں تو رب العالمین کا فرمانبردار ہو چکا.
حقائق الفرقان ۳۵۳ سُورَة البَقَرَة تفسیر.دنیا کے لوگ عزت چاہتے ہیں.اولاد چاہتے ہیں.کامیابی چاہتے ہیں.ذکر خیر چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں سے ابراہیم کو تمتع کیا.ان کی اولاد دیکھو کہ کوئی حساب نہیں.عظمت کا یہ حال ہے کہ مسلمان، یہودی ، صابی ، پارسی، عیسائی باوجود بہت سے اختلاف کے ان کو یکساں معزز و مکرم مانتے ہیں افسوس کہ بعض لوگوں نے باوجود صديقًا نَبِيًّا نص صریح کے بعض روایات کی بنا پر انہیں جھوٹ بولنے کا الزام دیا ہے.تو رات میں ہے کہ جو تیری بے ادبی کرے گا میں اسے ذلیل کروں گا.جو تیرے لئے برکت مانگے گا میں اسے برکت دوں گا اسی لئے اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّد پڑھنے کی ہدایت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے عدیم النظیر انسان کی ملت سے کون ترغب بے رغبتی کرتا ہے.ملة - اللہ تعالی کوئی شریعت کسی نبی کی معرفت یا نبیوں کی معرفت قوم کو دیتا ہے جس کے ذریعے سے اس قوم کے آگے خدا کے قریب پہنچ سکیں تو اس کا نام ملۃ ہے.دین و ملت میں یہ فرق ہے کہ دین کی نسبت اللہ اور لوگوں کی نسبت ہو سکتی ہے یعنی دین اللہ مگر ملت اللہ نہیں کہتے.سفة - جو کپڑا برا بنا ہوا ہوا سے سفیہ کہتے ہیں.ثوب سَفیة.ایسے ہی جو مہا ر خراب ہوا سے بھی سفیہ کہتے ہیں.زمامٌ سَفِیة.غرض سفیہ کا اطلاق او چھے، کم عقل اور اُس شخص پر ہوتا ہے جو دین ودنیا میں ناعاقبت اندیشی سے کام لے.لا تُؤْتُوا السُّفَهَاء أَمْوَالَهُمْ قرآن شریف میں آیا.ابراہیم میں جو خوبی بدرجہ کمال تھی.وہ یہ ہے کہ جب اللہ نے اُسے فرمایا اسلیم فرماں بردار بن جا تو اس نے پوچھا نہیں کہ کس بات میں.بلکہ کہہ دیا اسکمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ "میں پہلے فرمانبردار ہو چکا کیونکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ میرا رب جو کچھ کہے گا وہ ربوبیت کی شان سے کہے گا اور اس حکم میں میری ہی تربیت منظور ہوگی.پھر یہ کہ اپنی جان تک ہی اس تعلیم کو محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی اولا د کو بھی اسی ملت کی وصیت کی.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۱) ل مال ان کے حوالے نہ کرو جو کم عقل ہوں.۲ میں تو رب العالمین کا فرمانبردار ہو چکا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیکھو خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور فرماتا ہے کہ ابراہیم “ کے دین کو کوئی نہیں چھوڑ سکتا مگر وہی جو سفیہ ہو.ابراہیم کو خدا نے برگزیدہ کیا.یہ سنواروالے لوگوں میں سے تھا.تمام محبتوں ، عداوتوں اور تمام افعال میں ادنی کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا لحاظ رکھو پھر تمہیں ابراہیم سا انعام دیں گے.فرمانبرداروں کی راہ اختیار کرو.میں تو حضرت صاحب کی مجلس میں بھی قربانی ہی سیکھتا رہتا تھا.جب وہ کچھ فرماتے تو میں یہ دیکھتا تھا کہ آیا یہ عیب مجھ میں تو نہیں؟ البدر جلد ۸ نمبر ۱۳ مؤرخه ۲۱ جنوری ۱۹۰۹ء صفحه ۸) مَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ ابرهم - ہر ایک سلیم الفطرت انسان کے قلب میں اللہ تعالیٰ نے یہ ایک بات حجت کے طور پر رکھ دی ہے کہ وہ ایک مجمع کے درمیان معزز ہو جاوے.گھر میں اپنے بزرگوں کی کوئی خلاف ورزی اس لئے نہیں کی جاتی کہ گھر میں ذلیل نہ ہوں.ہر ایک دنیا دار کو دیکھتے ہیں کہ محلہ داری میں ایسے کام کرتا ہے جن سے وہ با وقعت انسان سمجھا جاوے.شہروں کے رہنے والے بھی ہتک اور ذلت نہیں چاہتے.پھر اس مجمع میں جہاں اولین و آخرین جمع ہوں گے.اس مقام پر جہاں انبیاء و اولیاء موجود ہوں گے وہاں کی ذلت کون عاقبت اندیش سلیم الفطرت گوارا کر سکتا ہے کیونکہ عزت و وقعت کی ایک خواہش ہے جو انسان کی فطرت میں موجود ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک نظیر کے ساتھ اس خواہش اور اس قاعدہ کو جس کے ذریعہ انسان معزز ہو سکتا ہے بیان کرتا ہے.نظیر کے طور پر جس شخص کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اس کا نام ہے ابراہیم ( علیہ السلام).اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو کیسی عزت دی.یہ اس نظارہ سے معلوم ہوسکتا ہے جو خدا نے فرما یاؤ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ ہم نے اس کو برگزیدہ کیا دنیا میں اور آخرت میں بھی سنوار والوں سے ہوگا.اللہ تعالیٰ کے مکالمات کا شرف رکھنے والے، شریعت کے لانے والے، ہادی ورہبر، بادشاہ اور اس قسم کے عظیم الشان لوگ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہوئے.یہ ابراہیم علیہ السلام کی اولاد کے لئے نتیجہ دکھایا ہے.حضرت موسیٰ ، حضرت داؤد ، حضرت مسیح علیہ السلام سب حضرت ابراہیم کی نسل
حقائق الفرقان ۳۵۵ سُورَة البَقَرَة سے تھے اور حضرت اسمعیل اور ہمارے سید و مولی بادی کامل صلی اللہ علیہ وسلم اسی کی اولاد سے ہیں.ایک اور جگہ یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابراہیم اور اس کی اولا دکو بہت بڑا ملک دیا مگر غور طلب امر یہ ہے کہ جڑ اس بات کی کیا ہے؟ کیا معنی؟ وہ کیا بات ہے جس سے وہ انسان اللہ تعالیٰ کے حضور برگزیدہ ہوا اور معزز ٹھہرایا گیا.قرآن کریم میں اِس بات کا ذکر ہوتا ہے جہاں فرمایا ہے اذْ قَالَ لَهُ رَبُّكَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ جب ابراہیم کے رب نے اس کو حکم دیا کہ تو فرمان بردار بن جا تو حضرت ابراہیم عرض کرتے ہیں میں رب العلمین کا فرمان بردار ہو چکا.کوئی حکم نہیں پوچھا کہ کس کا حکم فرماتے ہو.کسی قسم کا تامل نہیں کیا.فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ ہی معابول اُٹھے کہ فرمانبردار ہو گیا.ذرا بھی مضائقہ نہیں کیا اور نہیں خیال کیا کہ عزت پر یا مال پر صدمہ اُٹھانا پڑے گا یا احباب کی تکالیف دیکھنی پڑیں گی.کچھ بھی نہ پوچھا.فرمان برداری کے حکم کے ساتھ اقرار کر لیا کہ اسلمتُ لِرَبِّ العلمین.یہ ہے وہ اصل جو انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور برگزیدہ اور معزز بنا دیتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سچا فرماں بردار ہو جاوے.فرمان برداری کا معیار کیا ہے؟ ایک طرف انسان کے نفسانی جذبات کچھ چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کچھ اور.اب دیکھیں کہ آیا خدا تعالیٰ کے احکام کو انسان مقدم کرتا ہے یا اپنے نفسانی اغراض کو.اسی طرح رسم و رواج، عادات کسی کا دباؤ ، حب جاہ و رعایت قانون قومی ایک طرف کھینچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ایک طرف.اس وقت دیکھنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی طرف جھکتا ہے یا اس پر دوسرے امور کو ترجیح دیتا ہے.اب اگر اللہ تعالیٰ کے احکام کی قدر کرتا اور اُن کو مقدم کر لیتا ہے تو یہی خدا کی فرمانبرداری ہے...حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خود بھی خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور انہی باتوں کی وصیت اپنی اولا د کو بھی کی اور یعقوب نے بھی یہی وصیت کی کہ اے میری اولاد اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک عجیب دین کو پسند کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر وقت فرمانبرداری میں گزارو.چونکہ موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے اسی لئے ہر وقت فرمان بردار ہوتا کہ ایسی حالت میں موت آوے کہ تم فرمانبردار ہو.میری
حقائق الفرقان ۳۵۶ سُورَةُ الْبَقَرَة تحقیقات میں یہی بات آئی ہے کہ بچی تبدیلی کر کے اللہ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرے.احکم جلد ۵ نمبر ۱۹ مؤرخہ ۲۴ مئی ۱۹۰۱ء صفحه ۱۱،۱۰) ان آیتوں میں ان کلمات شریف میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کی راہ پر چلنے کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ انسان اس قسم کا ہے جس کو ہر مذہب وملت کے لوگ عموماً یا غالباً عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ کون؟ ابوالا نبیاء.حنفاء کا باپ.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسّلام.یہ ابراہیم وہ ہے جس کی نسبت اس سے پہلے فرما یا و اذ ابتلى إِبْرهِم رَبُّهُ بِكَلِمت فَاتَهُن کہ جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں کے بدلے انعام دینا چاہا تو اُس نے اس کو پورا کر دکھایا.اللہ تعالیٰ جب انسان کو بچے علوم عطا کرتا ہے اور اس کا ان علوم کے مطابق عمل درآمد ہو پھر اس میں قوت مقناطیسی پیدا ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا نمونہ ہو کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.یہ درجہ اس کو تب ملتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کا وفادار بندہ ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ رنج میں راحت میں بسر میں ٹیسر میں ، باساء میں ضراء میں ،غرض ہر حالت میں قدم آگے بڑھانے والا ہو اور اللہ جل شانہ کی وفاداری میں چست ہو.اس کو حاجتیں پیش آتی ہیں مگر وہ اس کے ایمان کو ہر حال میں بڑھانے والی ہوتی ہیں کیونکہ بعض وقت حاجت پیش آتی ہے تو دعا کا دروازہ اس پر کھلتا ہے اور تو جہالی اللہ اور تضرع الی اللہ کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور اس طرح پر وہ حاجتیں مال و جان کی ہوں عزت و آبرو کی ہوں.غرض دنیا کی ہوں یا دین کی اس کے تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتی ہیں کیونکہ جب وہ دعائیں کرتا ہے اور ایک سوز ورقت اور دل گداز طبیعت سے باب اللہ پر گرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو باب شکر اس پر کھلتا ہے اور پھر وہ سجدات شکر بجالا کر از دیا دنعمت کا وارث ہوتا ہے جو ثمرات شکر میں ہیں اور اگر کسی وقت بظاہر نا کامی ہوتی ہے تو پھر صبر کے دروازے اس پر کھلتے ہیں اور رضا بالقضاء کے ثمرات لینے کو تیار ہوتا ہے اسی طرح یہ حاجتیں جب کسی بدبخت انسان کو آتی ہیں اور وہ مالی ، جانی یا اور مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ حاجتیں اور بھی اس کی دوری اور مہجوری کا باعث ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ بیقرار مضطرب ہو کر قلق کرتا اور
حقائق الفرقان ۳۵۷ سُورَة البَقَرَة نا امید اور مایوس ہو کر مخلوق کے دروازہ پر گرتا ہے اس وقت اللہ تعالیٰ سے ایسا بے گانہ اور نا آشنا ہوتا ہے کہ ہر قسم کے فریب و دغا سے کام لینا چاہتا ہے اگر کبھی کامیاب ہو جائے تو اس کو اللہ تعالی کے فضل و رحمت کے ذکر اور اس کی حمد و ستائش کا موقع نہیں ملتا بلکہ وہ اپنی کرتوتوں اور فریب و دغا اور چالبازیوں کی تعریف کرتا اور شیخی اور تکبر میں ترقی کرتا اور اپنی حیل و تجاویز پر عجب و ناز کرتا ہے.اگر نا کام ہوتا ہے تو رضا بالقضاء کے بدلے اس کی مقادیر کوکوستا اور بری نگاہ سے دیکھتا اور اپنے رب کا شکوہ کرتا ہے.غرض یہ حاجتیں تو سب کو ہیں اور انبیاء اولیاء وصد یقوں اور تمام منعم علیہ گروہ کے لئے بھی مقدر ہوتی ہیں مگر سعید الفطرت کے لئے وہ تقرب الی اللہ کا باعث ہو جاتیں اور اس کو مزید انعامات کا وارث بنادیتی ہیں اور شقی مضطرب ہو کر قلق کرتا ہے اور نا کام ہو کر سخط علی اللہ کر بیٹھتا ہے کامیابی پر وہ مبتلا فی الشرک ہو جاتے ہیں اور نا کامی پر مایوس.مشکلات اور حوائج کیوں آتے ہیں؟ ان میں بار یک در بار یک مصالح الہیہ ہوتے ہیں کیونکہ مشکلات میں وسائط کا مہیا کرنا تو ضروری ہوتا ہے.اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ مَنْ يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةٌ ( النساء:۸۲) کا ثواب لینا بھی کیسی نعمت الہی ہے اور پھر ان میں حکمت ہوتی ہے کہ ان خدمات کے ثمرات مساعی جمیلہ ان کی فکر اور محنت پر اللہ تعالیٰ کو انعام دینا منظور ہوتا ہے اور اس طرح پر نہ سننِ الہی باطل ہوتے ہیں اور نہ سلسلہ علم ظاہری کا باطل ہوتا ہے.غرض سچا اور پکا مومن وہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت امام نے شرائط بیعت میں لکھا ہے کہ رنج میں، راحت میں، سر میں، کیسر میں قدم آگے بڑھا وے اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان امور کا پیش آنا ضروری ہے تو ہر ایک حالت میں فرمانبردار انسان کو چاہیے کہ ترقی کرتار ہے اور دعاؤں کی طرف توجہ کرے تا کامیابی کی راہیں اسے مل جائیں اور یہ ساری باتیں ابراہیمی ملت کے اختیار کرنے سے پیدا ہوتی ہیں.ابرا ہیمی ملت کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا اسلم تو فرمان بردار ہو جا.انہوں نے کچھ نہیں پوچھا یہی کہا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ.ا جو کوئی بھلائی کی سفارش کرے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۵۸ سُورَة البَقَرَة اسلام کسی دعوئی کا نام نہیں بلکہ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچا نمونہ ہو صلح و آشتی سے کام لے.فرمانبردار ہو.سارے اعضاء قلب، زبان، جوارح، اعمال و اموال انقیاد الہی میں لگ جائیں.منہ سے مسلمان کہلا لینا آسان ہے.شرک ، حرص، طمع اور جھوٹ سے گریز نہیں.زنا، چوری، غفلت اور کینہ پروری ، ایذاء رسانی سے دریغ نہیں.پھر کہتا ہے میں فرمانبردار ہوں.یہ دعویٰ غلط ہے.کیسا عجیب زمانہ تھا جب یہ دعوے کہ تمحن له مُخلِصُونَ نَحْنُ لَهُ عَابِدُونَ عَلَى رَؤُوسِ الْأَشْهَادِ کئے جاتے تھے.ایسے پاک مدعیوں کی طرح مومن بننا چاہیے جن کی تصدیق میں خدا نے بھی فرمایا کہ ہاں سچ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے مخلص عابد ہیں.مومن کو اسلم کہنے کے ساتھ ہی اسکیت کہنے کے لئے تیار رہنا چاہیے.یہی نکتہ معرفت کا ہے جو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے اور اس کے نہ سمجھنے کی وجہ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُم مِّنَ الْعِلْمِ (المؤمن: ۸۴) کے مصداق ہو جاتے ہیں..میں پھر کہتا ہوں کہ ملت ابراہیم بڑی عجیب راحت بخش چیز ہے.وہ ملت وہ سیرت کیا ہے؟ اسلم فرمانبردار ہوکر چلو قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعلمين.پھر اس ملت اور سیرت کو چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شفا بخش رحمت اور نور پایا تھا اس لئے نہ صرف اپنے ہی لئے اس کو پسند کیا بلکہ وظى بِهَا إِبْراهِم - الآية اسی سیرت اور ملت کی ابراہیم نے اپنی اولا دکو وصیت کی.الحکم جلد نمبر ۲ مؤرخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ ء صفحه ۱۲،۱۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے عمل درآمد اور ان کی تعلیم کا خلاصہ قرآن شریف نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے کہ جیسا اس کے رب نے اُسے کہا اسلم تو فرمانبردار ہو جا تو ابراہیم نے کوئی سوال کسی قسم کا نہیں کیا اور نہ کوئی کیفیت دریافت کی کہ میں کس امر میں فرماں برداری اختیار کروں بلکہ ہر ایک امر کے لئے خواہ وہ کسی رنگ میں دیا جاوے اپنی گردن کو آگے رکھ دیا اور جواب میں کہا اسلمت لرب العلمین کہتے ہیں میں تو رب العلمین کا تابعدار ہو چکا.ابراہیم علیہ السلام کی یہی فرمانبرداری اپنے رب کے لئے تھی جس نے اسے خدا کی نظروں میں برگزیدہ بنادیا.وہ لوگ لے اور ہم تو سب سے بڑھ کر اسی کو دل سے چاہنے والے ہیں.۲؎ اور ہم تو اسی اکیلے اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں.۳.یہ لوگ خوش ہوئے اس پر جو ان کے پاس علم تھا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۵۹ سُورَة البَقَرَة جو ابراہیم کا دین یعنی ہر طرح اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا اختیار نہیں کرتے غلطی کرتے ہیں اور اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو سفیہ قرار دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے دنیا میں بھی برگزیدہ کیا.پس وہ لوگ جو کہ دنیا میں ترقی کرنا چاہتے ہیں وہ غور کریں کہ خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں.ہر ایک قسم کی عزت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل ہے اور یہ سب کچھ اسکمت کا نتیجہ ہے.یہ ایک خطر ناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے انذار اور عدم انذار کی پرواہ نہیں کرتے.اُن کو اپنے علم پر ناز اور تکبر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتاب البی ہمارے پاس بھی موجود ہے.ہم کو بھی نیکی بدی کا علم ہے.یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں.ان کم بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہود کے پاس بھی تو تو رات موجود تھی.اس پر وہ عمل درآمد بھی رکھتے تھے.پھر ان میں بڑے بڑے عالم، زاہد اور عابد موجود تھے.پھر وہ کیوں مردود ہو گئے؟ اس کا باعث یہی تھا کہ تکبر کرتے تھے.اپنے علم پر نازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالی اسلم کے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہ تھی.ابراہیم کی طرز اطاعت ترک کر دی.یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السّلام اور اس رحمۃ للعالمین نبی کریم صلعم کے ماننے سے جس سے تو حید کا چشمہ جاری ہے ماننے سے باز رکھا.الحکم جلد 9 نمبر۷ مؤرخہ ۲۴ فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۷) مسلمان بنو.اسلم کی آواز پر اسکمت کا جواب عمل سے دو.دوست احباب رشتہ داروں اور عزیزوں کو نصیحت کرو کہ اسلام اپنے عمل سے دکھاؤ تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت عمدہ موقع دیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے وقت پر آیا ہے جور استبازوں کا پورانمونہ ہے اور تم میں موجود ہے وہ تم سے بھی چاہتا ہے کہ تم دین کو دنیا پر مقدم کرو.اس پر عمل کرو گے تو نا کام نہ رہو گے.مومن کبھی ناشاد نہیں رہ سکتا بلکہ سرا ہی بہشت میں رہتا ہے.اس کو دو بہشت ملتے ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مؤرخہ ۱۷ رمئی ۱۹۰۵ء صفحه ۶)
حقائق الفرقان ۳۶۰ سُورَة البَقَرَة جو قربانی کرتا ہے اللہ اس پر خاص فضل کرتا ہے.اللہ اس کا ولی بن جاتا ہے پھر اسے محبت کا مظہر بنا تا ہے.پھر اللہ انہیں عبودیت بخشتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں لامحدود ترقیاں ہوسکتی ہیں چنانچہ حضرت ابراہیم کو بھی کہا گیا اسلم تو انہوں نے فوراً کہا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ.خیر جب یہ عبودیت کا تعلق مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر اس میں عصمت پیدا ہوتی ہے اور خدا اسے تبلیغ کا موقعہ دیتا ہے پھر اس کو ایک قسم کی دھت ہو جاتی ہے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے.اس میں ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور وہ قول موجہ سے لوگوں کو امر بالمعروف کرتا ہے پھر وقت آتا ہے جب حکم ہوتا ہے کہ لوگوں سے یوں کہو.جوں جوں ترقی کرتا جاتا ہے خدا کا فضل اور درجات بڑھتے جاتے ہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۱۳ مورخه ۲۱ جنوری ۱۹۰۹ ء صفحه ۸) رشک (غبطة) تمام انسانی ترقیات کی جڑ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رشک کرنا ہے تو ابراہیم سے کرو.دیکھو اس نے اپنے اخلاص و وفا کے ذریعے کیسے کیسے اعلیٰ مدارج پائے.ابراہیم کی ملت سے کون بے رغبت ہو سکتا ہے مگر وہی جس کی دینی دنیوی عقل کم ہو.اس کی ملت کیا تھی ؟ بس حنیف ہونا.حنیف کہتے ہیں ہر امر میں وسطی راہ اختیار کرنے والے کو.عربی زبان میں جس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوں اُسے احنف کہتے ہیں.اس واسطے حنیف کے معنے میں بعض لوگوں کو دھوکا ہوا ہے حالانکہ ایسے شخص کو احنف بطور دعا وفال نیک کہتے ہیں.ہمارے ملک میں ہر چہ گیر علتی علت شودل کے مریض سیدھے کے معنے بھی اُلٹے ہی لیتے ہیں.جس آدمی کو سیدھا کہا جاوے گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ تم بڑے بیوقوف ہو.ابراہیم کی راہ یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچے رہنا.کسی کی طرف بالکل ہی نہ جھکنا بلکہ دین و دنیا دونوں کو اپنے اپنے درجے کے مطابق رکھنا چنانچہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وقِنَا عَذَابَ النَّارِ " (البقرۃ:۲۰۲) ایک ہی دعا ہے.رابعہ بصری ایک عورت گزری ہے ایک دن کسی ا جو بھی اس پر مشکل یا بیماری آتی ہے وہ اس کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن جاتی ہے.کہ اے ہمارے صاحب! تو ہمیں دنیا میں بھی خیر و برکت دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۶۱ سُورَة البَقَرَة شخص نے ان کے سامنے دنیا کی بہت سی مذمت کی.آپ نے توجہ نہ فرمائی لیکن جب دوسرے دن پھر تیسرے دن بھی یونہی کہا تو آپ نے فرمایا اس کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ یہ مجھے کوئی بڑا دنیا پرست معلوم ہوتا ہے جبھی تو اس کا بار بار ذکر کرتا ہے.پس ایک وسطی راہ اختیار کرنا جس میں افراط و تفریط نہ ہوا براہیمی ملت ہے مومن کو یہی راہ اختیار کرنی چاہیے اور میں خدا کی قسم کھا کر شہادت دیتا ہوں کہ ابراہیم کی چال اختیار کرنے سے نہ تو غریب الوطنی ستاتی ہے نہ کوئی اور حاجت.نہ انسان دنیا میں ذلیل ہوتا ہے نہ آخرت میں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ وہ دنیا میں بھی برگزیدہ لوگوں سے تھا اور آخرت میں بھی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا میں خواہ کیسی ذلت ہو آخرت میں عزت ہو اور بعض آخرت میں کسی عزت کے طالب نہیں یا تھوڑی چیز پر اپنا خوش ہو جانا بیان کرتے ہیں چنانچہ ایک دفعہ میں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ کوئی بزرگ لکھتے ہیں کہ ہمیں تو بہشت میں پھونس کا مکان کافی ہے اور دنیا کے متعلق لکھا ہے کہ یہاں کفار کوٹھیوں میں رہتے ہیں مسلمانوں کے لئے کچے مکانوں میں رہنا اسلامیوں کی ہتک ہے.اب میں پوچھتا ہوں کہ جب اس دنیا میں وہ اپنی ہتک پسند نہیں کرتا تو اس عالم میں اپنا ذلیل حالت میں رہنا اسے کس طرح پسند ہے؟ یہ خیال ابراہیمی چال کے خلاف ہے! ابراہیم نے جن باتوں سے یہ انعام پایا کہ دنیا و آخرت میں برگزیدہ اور اعلیٰ درجہ کا معزز انسان ہوا وہ بہت لمبی ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں سب کو بیان فرما دیا کہ اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِینَ پھر انسان کو اپنی بہتری کے ساتھ اپنی اولاد کا بھی فکر ہوتا ہے مسلمانوں میں کئی قسم کے لوگ گزرے ہیں بعض کو اپنی اولاد کا اتنا فکر ہوتا ہے کہ دن رات ان کے فکر میں مرتے ہیں اور بعض ایسے کہ اولاد کے متعلق اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۴ مورخه ۸ و ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۲) اسلام کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور
حقائق الفرقان ۳۶۲ سُورَةُ الْبَقَرَة اپنی گردن فرمانبرداری کے لئے رکھ دے.اپنی خواہش، اپنا ارادہ کچھ باقی نہ رہے اور یہی مومن ہونے کے معنے ہیں.اگر مسلمان مسلمان کہلا کر، ایمان باللہ کا دعوی کر کے اللہ تعالیٰ کے احکام کا جوا اپنی گردن پر نہیں رکھتا اور اپنی خواہش اور ارادے کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کا پابند اور مطبع نہیں ہوتا تو اس کو اپنے اندر غور کرنا چاہیئے کہ اسلام اور ایمان کے لوازم سے اس نے کیا لیا.اور اس بات کا معلوم کرنا کہ آیا میں نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ہے یا نہیں بڑی صفائی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور بہت ہی آسان ہے اگر وہ اپنے ارادوں ، اپنی خواہشوں، اپنے دوستوں ، اپنی ملکی رسم و رواج قومی عادات اور شعائر کو مقدم کرتا ہے اور الہی قوانین اور فرامین کی اتنی بڑی پرواہ نہیں کرتا کہ رسم و رواج یا سوسائٹی اور برادری کے اصولوں پر اللہ تعالیٰ کی باتوں کو مقدم کر لے تو اس کو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نے کچھ بھی نہیں بچا یا کہو کہ مومن اور مسلمان کہلانے کے ساتھ اپنی جان و مال کو بیچ کر بھی اس پر نا جائز تصرف کیا ہے.پس یہ بہت خطرناک اور نازک مقام ہے.مسلمان یا مومن باللہ کہلا نا آسان ہو تو ہومگر بننا کارے دارد.مسلمان بنے کا نمونہ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں دیکھو.إِذْ قَالَ لَهُ رَبِّةٌ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العلمین پھر مسلمان بننے کا کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مشاہدہ کرو.غرض مومنوں کے جان و مال اللہ تعالیٰ نے خرید لئے ہیں اور اس کے معاوضہ میں وہ فوز عظیم اور وہ عظیم الشان ابدی راحت اور آسائش کا مقام اس نے دیا ہے جس کو جنت کہتے ہیں.اب جبکہ مومن اپنے ایمان کے اقرار کے ساتھ اپنے جان اور مال بیچ چکے تو پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں ان کے خرچ کرنے سے مضائقہ کیا ؟ الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مؤرخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۱ صفحه ۱۱) إذْ قَالَ لَهُ رَبُّةَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة: ۱۳۲) ایک ہی نکتہ ہے اور وہ کامل
حقائق الفرقان ۳۶۳ سُورَةُ الْبَقَرَة اتباع اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.جب اللہ تعالیٰ نے اسے کہا کہ تم ہمارے فرمانبردار ہو جاؤ تو کہا حضور میں تو فرمانبردار ہو چکا اور آپ کا کیوں فرمانبردار نہ بنوں آپ تو رب العالمین ہیں.ابراہیم فرمانبرداری کی نوعیت اور وجہ نہیں پوچھتا.حکم کے ساتھ ہی فرمانبرداری کا اقرار کیا ہے.یہاں تک ہی نہیں بلکہ وَ وَطَى بِهَا إِبْرَاهِمُ بَنِيْهِ وَ يَعْقُوبُ يبَنِى إِنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ اَنْتُم مُّسْلِمُونَ (البقرة : ۱۳۳) یعنی اسی فرمانبرداری کی ابراہیم نے اپنے بیٹے کو وصیت کی اور یعقوب نے بھی کہا کہ اے میرے بیٹو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے دین کو برگزیدہ کیا ہے جو فرمانبردار بنے کا دین ہے.پس تم فرمانبردار ہو کر ہی مرو.اسی ایک نکتہ پر سارے کمالات کا دارو مدار ہے.غرض فرمانبرداری کامل فرمانبرداری تمام سکھوں کی جڑ ہے.میں نے بتایا ہے کہ انسانی اور جسمانی علوم سکھ کا موجب ہوتے ہیں تو جاودانی علوم کیوں جاودانی راحت کا ذریعہ نہ ہوں؟ میں اپنے تجربہ سے اور تمام راستبازوں کے تجربہ کے علم سے کہتا ہوں کہ جاودانی علوم سے متمتع ہونے والا کبھی گھبراؤ میں نہیں ہوتا.اتنا سکون راحت اسکیت کہنے والے کے سوا کسی اور کو نہیں مل سکتا.الحکم جلد ۱۴ نمبر ۱۱ ، ۱۲ مورخه ۲۸ / مارچ و ۷ را پریل ۱۹۱۰ صفحه ۱۸،۱۷) ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ صدق اور اخلاص کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ اسلم قال أَسْلَمْتُ ( البقرة : ۱۳۲) اے ابراہیم تو فرمانبردار ہو جا عرض کیا حضور میں تو فرمانبردار ہو چکا.اسلہ نہیں کہا اسلمٹ کہا یعنی اپنا ارادہ رکھا ہی نہیں معا حکم الہی کے ساتھ ہی تعمیل ہو گئی.الحکم جلد ۸ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۰۴ صفحه ۴) وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَ لَقَدِ اصْطَفَيْنَهُ فِي الدُّنْيَا ۚ وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ إِذْ قَالَ لَهُ رَبَّهُ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ وَ وَصّى بِهَا إِبْرَاهِمُ b و بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِى إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ - اَمَ كُنْتُمُ
حقائق الفرقان ۳۶۴ سُورَة البَقَرَة شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَالهَ أَبَابِكَ ابْرُهم وَ اسْعِيلَ وَإِسْحَقَ الَهَا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.(البقرة : ۱۳ تا ۱۳۴) دنیا کی بڑی بڑی قومیں اہل اسلام تمام عیسائی، تمام یہودی، سارا یورپ سارا امریکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بڑی تعظیم سے یاد کرتے ہیں اور سب ابراہیم علیہ السلام کے عظیم الشان انسان ہونے کے معتقد ہیں.ابراہیم علیہ السلام میں اس قدر خوبیاں اور برکتیں تھیں کہ ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ابراہیم ! اگر تمام آسمان کے ستارے اور زمین کے ذرات گن سکتا ہے تو گنے.اسی قدر تیری اولاد ہوگی.مکہ معظمہ میں جہاں جہاں حضرت ابراہیم کھڑے ہوئے، جہاں جہاں چلے پھرے اور جہاں جہاں دوڑے ہیں یہ سب حرکات اللہ تعالیٰ نے عبادات میں داخل کر دیں.اخیر عمر میں ایک شہزادی بھی آپ کے نکاح میں آئی.ننانوے سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے ایک صالح اور نیک لڑکا عطا فرمایا.مال مویشی کثرت سے تھے اور بیبیاں اور بچے بھی تھے.دنیوی دلجمعی کے اسباب بھی سارے مہیا تھے.جب مہمان آیا تو معاً عجل حنیذ بھنا ہوا گوشت مہمان کے سامنے لا حاضر کیا.اگر اسباب مہیا نہ ہوتا تو معایہ تیاری ناممکن تھی.وہ گر جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کو یہ دین ودنیا کی برکتیں عطاء کی تھیں وہ کیا تھا ؟ جو سارے پیغمبر موسی داؤد عیسی ساروں کو ابرہیم کی ہی برکت سے حصہ ملا تھا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ اور كَمَا بَارَكْتَ عَلی ابراھیم میں بھی اسی مماثلت کی دعا سکھلائی ہے.جڑان برکتوں کی اور گران تمام نعمتوں کا کیا تھا؟ بس یہی ایک گر تھا اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّةَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العلمین جب کہا اس کو اس کے رب نے کہ تو فرماں بردار ہوجا.عرض کیا کہ میں فرمانبردار ہو چکا.تو تو رب العالمین ہے.تیری فرمانبرداری سے کون اعراض کرے سوائے اس کے جو کہ بے وقوف ہو.اللہ اللہ ! رب العالمین اور اس کی سچی فرمانبرداری ! اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے؟ یه گردینی و دنیوی برکتوں کا نہ صرف اپنے ہی لئے ابراہیم علیہ السلام نے تجویز کیا بلکہ اپنے بیٹوں
حقائق الفرقان ۳۶۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے لئے اور ان بیٹوں نے ابراہیم کے پوتوں کے لئے بھی یہی اسلَمتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرة: ۱۳۲) سے سبق حاصل کر کے استحضار موت کے وقت وصیتیں کیں.وَ وَصُّى بِهَا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَ يَعْقُوبُ يُبَنِى إِنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاء إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَإِلَهَ ابا بِكَ إِبْراهِم وَ اسْعِيلَ وَإِسْحَقَ إِلَهَا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ.میں بھی تم کو تمام خوشحالیوں کا گر بتا تا ہوں کہ تم بھی رب العالمین کے فرمانبردار بن جاؤ.کسی میں تکبر فرمانبردار بن جانے میں حجاب ہوتا ہے.کسی میں کسل فرمانبرداری کے لئے حجاب ہوتا ہے کیسل کو دور کرو اور اتباع نبوی کا التزام رکھو.اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران: - ۳۲) دوسری جگہ فرمایا ہے اِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنّى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.(البقرۃ:۳۹) مگر مشکل یہ ہے کہ یا توکسل ہوتا ہے یا اپنی ہی انکل سے کاموں کے وقت اپنا ایک مذہب بنا لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ متبع ہو جاؤ اور فرمانبردار بن جاؤ.آمین ( البدر جلد نمبر ۱۱ مورخه ۱۴ / دسمبر ۱۹۱۱ء صفحه ۲) ۱۳۳- وَوَلّى بِهَا إِبْرَاهِمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ يُبَنِيَّ إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدين فَلا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ - ترجمہ.اور فرمانبرداری اور اطاعت کی ابراہیم اور یعقوب نے بھی اپنے بیٹوں کو وصیت کر دی کہ اے میرے بیٹو! یہی ہے وہ خاص دین اسلام جو اللہ نے تمہارے لئے چن لیا ہے تو دیکھو تمہاری موت اس مسلمانی طریقہ کے سوا کسی اور طریقہ پر نہ ہو.تفسیر.اضطفی.پسند کیا.لے (اے محمد) تم ان سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو ( جیسا کہ میں اللہ کا محبوب بنا ہوں ) تو تم میری چال چلو پوری پوری تو تم بھی اللہ کے محبوب بن جاؤ گے.سے جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے اُس اُس وقت جو جو شخص اُن میرے ہدایت ناموں کی پیروی کرے گا اُسے کسی قسم کا نہ آئندہ خوف ہوگا اور نہ گزشتہ ہی عمل کے لئے وہ غمگین ہو گا.
حقائق الفرقان ۳۶۶ سُورَة البَقَرَة لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ انْتُم مُّسْلِمُونَ.موت اختیار میں نہیں.موت سے پہلے بے ہوشی ہو جاتی ہے.ایسی ایسی حالتوں میں موت آتی ہے کہ اس سے پہلے ایک منٹ اپنے انجام کی خبر نہیں ہوتی.پھر انسان پر کئی قسم کی حالتیں آتی ہیں باوجود اس کے ارشاد ہے الا وَ اَنْتُمْ مُسْلِمُونَ.اس میں نکتہ یہ ہے کہ انسان موجودہ حالت میں ترقی کرے اور آئندہ بھی نیکی کا ارادہ رکھے.جولوگ کہتے ہیں کہ بدی کر کے تو بہ کر لیں گے یا آئندہ من جائیں گے وہ غلطی کرتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۱) ابراہیم کا پوتا یعقوب اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کہتا ہے يُبَنِي إِنَّ اللهَ اصْطَفى - الآية اے میری اولا د اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک دین برگزیدہ کیا ہے فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ پس کو تاکید کرتا ہوں کہ تمہاری موت نہ آوے مگر ایسے رنگ میں کہ تم مسلمان ہو اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہو.انسان کو موت کا وقت معلوم نہیں اور پتہ نہیں اس وقت حواس درست ہوں یا نہ ہوں اور پھر یہ امرا اختیاری نہیں اس لئے یہ عقدہ کس طرح حل ہو؟ ایک صحیح حدیث نے اس مسئلہ میں میری راہنمائی کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب عمل کرتا ہے تو فرشتے اس کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیں سعادت کے اعمال بھی اور شقاوت کے اعمال بھی.اور موت کے قریب ان کی میزان کی جاتی ہے اور پھر وہ مقادیر البیہ سبقت کرتی ہیں.اگر وہ لوگوں کی نظر میں نیک تھا پر اللہ سے معاملہ صاف نہیں یا اللہ سے معاملہ صاف ہے مگر لوگوں کی نگاہ میں نہیں تو وہ کتاب باعث ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ اللہ کی رضا یا سخط پر جیسی صورت ہو، ہو.پس ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ چاہیئے.ایک صحابی نے ہماری سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جاہلیت میں میں نے کچھ صدقات کئے تھے کیا وہ بابرکات ہوں گے؟ ارشاد ہوا کہ أَسْلَمْتَ عَلى ما أسلفت یہ اسلام ان ہی کی برکت سے تجھے نصیب ہو ا ہے.موت علی الاسلام اس طرح نصیب ہو سکتی ہے کہ انسان ہر روز محاسبہ کرتار ہے اور اللہ تعالیٰ ! لے تو نے ماضی میں جو نیک اعمال کیسے ہیں.انہی کی بدولت تو نے اسلام قبول کیا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۶۷ سُورَة البَقَرَة سے اپنا معاملہ صاف کرے اگر تعلقات صحیحہ نہ ہوں تو تو بہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.الحکم جلد نمبر ۲ مؤرخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳، صفحه ۱۲، ۱۳) میرے ایک شیخ تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ غَايَةُ الْعِلْمِ حَيْرَةٌ غرض وہ بات جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے جس سے وہ راضی ہوتا اور اپنے فضلوں سے انسان کو بہرہ مند کرتا ہے وہ نہ بہت باتوں سے مل سکتی نہ بہت کتابوں کے پڑھنے سے بلکہ وہ بات تعلق رکھتی ہے دل سے.وہ اس کی ایک کیفیت ہے جس کو عام الفاظ میں وفاداری، اخلاص اور صدق کہہ سکتے ہیں اور یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے ماموروں کی اطاعت سے اور سچی پیروی سے...ابراہیم علیہ الصلوۃ و السلام جس کی نسل سے ہونے کا آج سب سلطنتیں فخر کرتی ہیں اس نے اس راہ کو اختیار کیا.اس نے صدقِ دل سے اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ کہا اور اسی ایک امر کی اولاد کو وصیت کی.نتیجہ کیا ہو ا خدا تعالیٰ نے اسے ایسا معزز و مکرم بنایا کہ اس کی اولاد کی گنتی تک نہیں ہو سکتی.وہ بادشاہ جو اس کے مقابلہ میں اُٹھا آج کوئی اس کا نام تک بھی نہیں جانتا.یقیناً سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کا احسان اپنے ذمہ نہیں رکھتا وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے.دیکھو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا ہوگا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کس قدر قدر کی.اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا.حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک اونٹ چرانے والے کو کس وسیع مملکت کا خلیفہ بنا دیا.جناب علی نے خدمت کی اس کی اولا د تک کو مخدوم بنا دیا.غرض میں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور صدق و اخلاص سے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی ہزاروں گنا بدلہ پاتی ہے.وہ تھوڑی سی بات کا بہت بڑا اجر دے دیتا ہے پھر جواس کے ساتھ سچا رشتہ عبودیت قائم کرتا ہے.اس کے عظمت وجلال سے ڈر جا تا ہے.دین کو دنیا پر مقدم کرتا ہے جیسا کہ تم نے اپنے مرشد و مولی مہدی ومسیح کے ہاتھ پر اقرار کیا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت میں ایسا لگ جاتا ہے کہ اے علم کی انتہا حیرت ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۶۸ بر کسے چُوں مہربانی سے گنی از زمینی آسمانی مے کنی لے سُوْرَةُ الْبَقَرَة کا اسے سچا مصداق بنا دیتا ہے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ تم سچ سچ وہ نمونہ دکھاؤ جو ابراہیم نے دکھایا.کہنے والوں کی آج کمی نہیں تم سے تمہارا امام عمل چاہتا ہے عملی حالت درست ہوگی تو خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام و اکرام تمہارے شامل حال ہو جائیں گے.وہ ہزاروں ہزار ابراہیم بنا سکتا ہے تم ابراہیم بنو بھی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم اور اس کے خاندان نے یہ مجرب نسخہ بتایا کہ تمہاری موت ایسی حالت میں ہو کہ تم مسلمان ہو.موت کا کیا پتہ ہے کہ کب آ جاوے.ہر عمر کے انسان مرتے ہیں بچے ، بوڑھے، جوان ، ادھیڑ.موسم میں جو تغیر ہو رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اندار ہے.شروع سال میں زمینداروں سے سنا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اس قدر غلہ ہوگا کہ سمانہ سکے گا مگر اب وہی زمیندار کہتے ہیں کہ سردی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے.آئندہ کے لئے خطرات پیدا ہور ہے ہیں اس لئے یہ وقت ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے صلح کر لو اور اس ایک ہی مجرب نسخہ کو ہمیشہ مد نظر رکھو.لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ اَنْتُم مُّسْلِمُونَ.موت کی کوئی خبر نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا.نہیں.خدا تعالیٰ کسی کے فعل کو ضائع نہیں کرتا.ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں جب کافر تھا تو اللہ کی راہ میں خیرات کیا کرتا تھا کیا اُس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہو گا.فرما یا اسلمت على مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ تیری وہی نیکی تو تیرے اس اسلام کا موجب ہوئی.خدا تعالیٰ پر سچا ایمان لاؤ اور اس کو سچی فرمانبرداری کے نمونے سے ثابت کرو.ٹھیک یاد رکھو کہ ہر نیک بیچ کے پھل نیک ہوتے ہیں.بڑے بیچ کا درخت بُرا پھل دے گا.گندم از گندم بروید جو ز جو از مکافات عمل غافل مشو کے الحکم جلد ۹ نمبر ۱۷ مؤرخہ ۷ ارمئی ۱۹۰۵ صفحه ۶) تنہائی میں بیٹھ کر اگر ایک شخص کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایسا مکان ہو، ا جب تو کسی پر فضل کرتا ہے تو اسے زمینی وسفلی وجود سے آسمانی وجود بنادیتا ہے.(ناشر) ۲ گندم سے گندم اور جو سے جو ہی اُگتا ہے اس لئے تم اپنے مکافات عمل سے غافل مت رہو، جیسا کروگے ویسا بھرو گے“.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۶۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ایسالباس ہو، ایسا بستر ا ہو، ایسے ایسے عیش و عشرت کے سامان موجود ہوں ، اِس اِس طرح کے خوشکن اسباب میتر آ جاویں تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہوسکتی.مومن اور مسلمان انسان کی تو ایسی حالت ہو جانی چاہیے کہ مرتے وقت کوئی غم اور اندیشہ نہ ہو.اسی واسطے فرمایا لا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ یعنی فرمانبردار ہو کر مریو.کس کو خبر ہے کہ موت کے وقت اس کی ہوش بھی قائم ہوگی یا نہیں.کئی مرنے کے وقت خراٹے لیتے ہیں.دہی بلونے کی طرح آواز نکالتے ہیں اور طرح طرح کی سانس لیتے ہیں.کئی کتے کی طرح ہاہا کرتے ہیں.جب یہ حال ہے اور دوسری طرف خدا بھی کہتا ہے کہ مسلمان ہو کر مریو.ایسے ہی رسول نے بھی کہا.تو یہ کس کے اختیار میں ہے کہ ایسی موت مرے جو مسلمان کی موت ہو گھبراہٹ کی موت نہ ہو؟ اس کا ایک ستر ہے کہ جب انسان سکھ میں اور عیش وعشرت اور ہر طرح کے آرام میں ہوتا ہے.سب قوای اس میں موجود ہوتے ہیں کوئی مصیبت نہیں ہوتی.اس وقت استطاعت اور مقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظ نفس کو پورا کرے اور کچھ دیر کے لئے اپنے نفس کو آرام دے لے.پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اس کے احکام کو نگاہ رکھے تو اللہ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے.اگر وہ اس وقت مرے گا جبکہ مَنْ تَقُلَتْ مَوَازِينه (القارعة :) یعنی جب اس کی تراز و زور والی ہوگی تو وہ بامراد ہوگا اور مسلمان کی موت مرے گا ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ میں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے دس خاں میں کون ہوں؟ تیسری پوچھتی ہے دسو خاں جی میں کون ہاں؟ اور اسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے.الحکم جلد نمبر ۳۱ مؤرخه ۳۱/اگست ۱۹۰۷ ء صفحه ۱۱) ابراہیم نے اپنی اولاد کی بہتری چاہی تو اس کے لئے ایک وصیت کی يُبَنِی إِنَّ اللهَ اصْطَفَى لَكُمُ الدِّينَ فَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَ اَنْتُم مُّسْلِمُونَ.اے میرے بچو! اللہ نے تمہارے لئے ایک دین پسند فرما یا پس تم فرمانبرداری کی حالت میں مرو.کئی لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر تو بہ کرلیں گے مگر یہ غلطی ہے کیونکہ عمر کا کچھ بھروسہ نہیں.البدر جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۲)
حقائق الفرقان ۳۷۰ سُورَة البَقَرَة ۱۳۴ - ام كُنتُم شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِى قَالُوا نَعْبُدُ الهَكَ وَإِلَهَ أَبَا بِكَ إِبْرَاهِم وَاسْمَعِيلَ وَ اسحق الهَا وَاحِدًا وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ - ترجمہ.کیا تم اُس وقت موجود تھے جب یعقوب کی موت قریب آ پہنچی جس وقت اُس نے اپنے بیٹوں سے پوچھا کہ میرے مرے بعد تم کس کی عبادت کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا ہم تیرے معبود اور تیرے باپ دادا ابراہیم اور اسماعیل اور احق کے معبود کی جو ایک ہی اکیلا اللہ ہے ، عبادت کریں گے اور ہم اُسی کے مسلمان بندے بنے رہیں گے.تفسیر.کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوب کو موت ؟ جب کہا اپنے بیٹوں کو تم کیا پوجو گے میرے پیچھے؟ بولے ہم عبادت کریں گے تیرے اور تیرے باپ دادوں کے رب کی.ابراہیم اور اسمعیل اور الحق.وہی ایک رب اور ہم اسی کے حکم پر ہیں.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اول صفحہ ۴ حاشیہ ) ام كُنتُم شُهَدَاء - الآية تم تو موجود تھے تمہارے اسلاف گواہی دیتے ہیں کہ یعقوب نے آخر وقت کیا ارشاد کیا ؟ کس کی اطاعت کرو گے؟ انہوں نے کہا نَعْبُدُ الهَكَ ہم اللہ کے فرمانبردار ہوں گے جو تمہارا اور اسحق اور ابراہیم کا معبود تھا اور وہ ایک ہی تھا.وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ہم ہمیشہ اسی کے فرمانبردار رہیں گے.پس یہ حق وصیت کا ہے اور تمام وعظوں کا عطر اور اصل مقصد یہی ہے جو تمہارے سامنے پیش کیا ہے اور یہ وصیت ہے اس شخص کی جو ابوالا نبیاء اور ابوالحنفاء ہے اور اسی کی وصیت کو میں نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے پس تم اپنے کھانے پینے ، لباس، دوستی ،محبت ، رنج ، راحت، عُسر ، ٹیسر ، افلاس، دولتمندی ، صحت اور مرض ، مقدمات و صلح میں اس اصول کو مد نظر رکھو کہ اللہ کی فرمانبرداری سے کوئی قدم باہر نہ ہو.پس یہ وصیت تمام وصیتوں کی ماں ہے اللہ تعالیٰ تمہیں تو فیق دے کہ ہر حال میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری مد نظر ہو اور یہ ہو نہیں سکتی جب اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہو اور یہ بھی بغاوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک کو بڑا بناتا ہے اور اس کو برگزیدہ کرتا ہے مگر یہ اس کی مخالفت کرتا اور اس سے انکار کرتا ہے.برہموؤں نے اسی قسم کا دعویٰ کیا ہے جو وہ رسالت اور نبوت کے منکر ہیں.یہ بغاوت ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ مطاع ہو اور وہ گو یا ارادہ الہی کا دشمن اور باغی ہے.
حقائق الفرقان سُورَة البَقَرَة پس اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا کرو.علوم پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو.رنج میں راحت میں اور عُسر یسر میں قدم آگے بڑھاؤ.الحکم جلدے نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳، صفحہ ۱۳) ١٣٦ وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصْرِى تَهْتَدُوا قُلْ بَلْ مِلَّةَ إِبْرَهِمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ - ترجمہ.اور ان کا یہ کہنا کہ یہود ہو جاؤ یا نصاری بن جاؤ جب نجات پاؤ گے ( بالکل جھوٹ ہے ) تم جواب دو کہ ہم نے تو ابراہیمی طریقہ اختیار کر لیا ہے ابراہیم سب طرف سے منہ پھیر کرا اللہ کو پوجنے والا تھا اور وہ ہرگز مشرکوں میں سے نہ تھا.تفسیر.كُونُوا هُودًا أَوْ نَصْرُى تَهْتَدُوا.فرماتا ہے کہ یہودی و نصرانی بننے میں (اسی طرح تم سمجھو صرف مرزائی کہلانے میں ) بھلائی نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ فرمانبرداری کرے جس جس وقت جناب النبی کوئی حکم دیں مان لے.اس میں ان لوگوں کا رد بھی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں ہمارے پاس کتاب ہے ہمیں کسی اور امام یا مجد دیا ہدایت یا وحی کی ضرورت نہیں.مومن کی شان تو یہ ہے کہ ہم ایمان لائے جو پہلے اتر چکا اور جواب ہماری طرف اترا.ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے کہ بعض احکام کو یا انبیاء کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں.سوائے اسلام کے کسی نے اس اصل سے فائدہ نہیں اُٹھایا کہ اپنے سے پہلے تمام انبیاء اور ان کی تعلیمات کو بھی سچا مانتا ہے اور موجودہ کو بھی اور بعد آنے والی ہدایتوں پر بھی ایمان لانے کی ہدایت کرتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۲،۲۱) ۱۳۷ - قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا اُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرَاهِم وَ اِسْعِيلَ وَ اسحق وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسى وَعِيسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِنْ رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ - ترجمہ.ان کو سنا دو کہ ہم اللہ کو مان چکے اور جو کلام ہم پر اُترا ہے اُسے مان چکے اور جو ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور اُن کی پاکباز اولاد پر نازل ہوتا رہا (اس پر بھی ہم نے یقین کر لیا ہے ) لے ہمیں وہ پاس والی سیدھی راہ چلا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۷۲ سُورَةُ الْبَقَرَة اور جو کچھ موسیٰ اور عیسی اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے ملا ہے (اسے بھی ہم نے مان لیا ہے ) ہم تو ان اللہ کے رسولوں میں کچھ بھی فرق نہیں کرتے سب کو رسول مانتے ہیں اور ہم اس ایک ہی اللہ کے فرمانبردار ہو چکے ہیں.تفسیر قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ مَا أُنْزِلَ إِلَى إِبْرھم.کہ ہم نے یقین کیا اللہ پر اور جو اُتر اہم پر اور جو اُترا ابراہیم پر.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۲۹۸ حاشیه ) ۱۳ - فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُم بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوا ۚ وَ إِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ.ترجمہ.پھر اگر یہ اہل کتاب (یعنی یہود اور نصاری) اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم ایمان لائے ہو تو بے شک وہ سیدھا راستہ پا جائیں گے اور اگر منہ پھیر لیں گے تو اس کے سوا نہیں کہ وہ ایک ضد پر اڑ رہے ہیں اللہ تمہیں کافی ہے ان کی مخالفت کے لئے اور وہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.پھر اگر وہ یقین لاویں جس طرح پر تم یقین لائے تو راہ پاویں اور اگر پھر جاویں تو اب وہی ہیں ضد پر.سواب کفایت ہے تیری طرف سے ان کو اللہ اور وہی ہے سنتا جانتا.شقاق - ضد میں.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۵۹ حاشیه ) فَسَيَكفِيكَهُمُ اللهُ یہ ایک پیشگوئی ہے کہ سارا جہان ایک طرف ہوا اور تو اکیلا ایک طرف.سب وو کے مقابلہ میں صرف ہم تیرے لئے کافی ہیں.رکوع اول میں ایک پیشگوئی ہے أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یعنی مظفر و منصور ہوں گے.دوسری پیشگوئی.بَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الظَّلِحَتِ أَنَّ لَهُمُ جَنَّتِ (البقرة: ۲۶) چنانچه اسی دنیا میں ان کو باغات ملے.تیسری پیشگوئی.لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) چنانچہ وہ خوف جاتا رہا لے اچھی خبر سنا دوان لوگوں کو جنہوں نے اللہ کو مانا اور بھلے کام کئے یہ کہ ان کے لئے عمدہ عمدہ باغ ہیں.نہ اُن کو کچھ خوف ہے اور نہ وہ غم رکھتے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۷۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نہ صحابہؓ صرف خودامن میں ہوئے بلکہ دوسروں کے امن کا موجب ہوئے.چوتھی پیشگوئی - اَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَ وَجْهُ اللهِ (البقرة: ۱۱۶) جدھر صحابہ نے قدم اُٹھا یاوہی ملک تصرف میں آیا.پانچویں پیشگوئی.إِنَّا أَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ( البقرة: ۱۲۰) چنانچہ ماننے والوں کو بشارتیں عطا ہوئیں اور منکروں کو سزائیں ہوئیں.چھٹی پیشگوئی یہ ہے جو او پر بیان ہوئی.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۲) یوں تو قرآن مجید کا لفظ لفظ اعجاز ہے اور آیت آیت نشان.لیکن اس سے پہلے پارہ میں سات پیشگوئیاں بہت زبردست ہیں:.ا وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ اَنَّ لَهُمْ جَنْتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الانْهرُ (البقرة: ۲۲) جو ایمان لائے جنہوں نے عمل صالح کئے ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں پڑی بہہ رہی ہیں.دنیا میں اِس کا نظارہ یوں نظر آیا کہ وہ تمام ممالک جو بوجہ پنے باغات اپنی زرخیز زمین اور چشموں اور نہروں کے مشہور ہیں مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور ایک ملک کے بعد دوسرا ملک اسی جیسا جب فتح کرتے اور یہ فتوحات پیہم ہوتی تھیں تو اس آیت کے معنے کھلتے تھے.كُمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِزْقًا قَالُوا هَذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ وَ أَتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا (البقرة: ۲۶) یعنی جب جنت سے کوئی پھل ان کو دیا جائے گا تو وہ پکار اُٹھیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہم کو دیا جا چکا ہے اور دیئے جائیں گے اس جیسا اور.دوم - أوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقرة: 1) یعنی جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ اللہ کے دیے سے دیتے ہیں اور جو ایمان لاتے ہیں اُس پر جو تیری طرف اُتارا گیا اور جو کچھ ا تم جس طرف منہ پھیرو ادھر اللہ ہی کی توجہ کا لحاظ رکھو.سے بے شک ہم نے تجھے حق اور حکمت کے ساتھ بھیجا ہے تو ( ماننے والوں کے لئے ) بشارت دینے والا اور (منکروں کے واسطے ) ڈرانے والا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۷۴ سُورَةُ الْبَقَرَة تجھ سے پہلے نازل کیا گیا اور آخرت پر یقین لاتے ہیں یعنی مسلمان وہی مظفر و منصور ہوں گے چنانچہ آخر ایک زمانہ نے دیکھا کہ صحابہ اپنے تمام مخالفین پر فتحیاب ہوئے اور اپنی ہر ایک آرزو میں کامیاب ہوئے.سوم - لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرة : ۱۱۳) جس قدر خوف صحابہ کو در پیش تھے آخر وہ سب کے سب جاتے رہے.وہ سعادت مند لوگ نہ صرف خود امن میں ہوئے بلکہ ایک جہان میں امن پھیلا.جو خوف پیش آیا وہ دور کیا گیا اور کوئی حزن نہ تھا جو ان کے لئے قائم رہتا.چہارم.اِنَّا اَرْسَلْنَكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا ( البقرۃ :۱۲۰) یعنی اے نبی ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیجا چنانچہ ماننے والوں کو بشارتیں عطا ہوئیں اور منکروں کو سزائیں ملیں.یہ نظارہ بھی ایک دنیا نے دیکھا.ق م وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعُ عَلِيمٌ (البقرة : ١١٦) مشرق اور مغرب اللہ کا ہے پس اے صحابہ ! جدھر تمہارا رُخ اُدھر ہی اللہ کا رُخ.اللہ تعالیٰ کشائش والا اور جانے والا ہے.اس آیت میں جو پیشگوئی تھی وہ جس شان وشوکت سے پوری ہوئی بڑے بڑے معاندین و مخالفین اس کے قائل ہیں.صحابہ کو خدا نے وہ عزم ، وہ ہمت ، وہ برکت دی کہ جدھر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں اُٹھا ئیں.فتح و ظفر استقبال کو آئی.جس ملک پر فوج کشی کی فوراً تصرف میں آیا.وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (البقرة : ۱۳۸) یعنی اگر یہ کفار روگردانی کرتے ہیں تو سوا اس کے اور کوئی بات نہیں کہ یہ پرلے درجے کی مخالفت وضد میں ہے.ان سب کے لئے اللہ تجھے کافی ہے اور وہ سمیع علیم ہے.الله الله !! تمام عمائد ورؤساء ملکہ بلکہ بڑی بڑی ملک عرب کی بہادر قو میں ایک طرف.عرب ہی کی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایران و شام والوں نے بھی بڑا بڑا زور لگایا اور انہوں نے اپنی طرف سے
حقائق الفرقان ۳۷۵ سُورَة البَقَرَة کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.نہ صرف مال بلکہ اپنی جان تک ضائع کرنے سے انہوں نے دریغ نہیں کیا لیکن اس ساری جد و جہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ مد صلی اللہ علیہ وسلم کا میاب ہوئے اور یہ تمام مخالفین ناکام.سارا جہان ایک طرف اور محمد عربی ( صلحم ) ایک طرف.ایک اللہ نے سب کے مقابل میں کیسی کفایت کی.تاریخ عالم اس پر شاہد ہے ہمیں ظاہر کرنے کی حاجت نہیں.تشخیز الا ذبان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۵ تا ۳۲۷) ۱۳۹ ۱۴۰ - صِبْغَةَ اللَّهِ ۚ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةَ وَ نَحْنُ لَهُ عبدُونَ - قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ - ترجمہ.الہی رنگ سے کس کا رنگ بہتر ہے اور ہم تو اسی اکیلے اللہ کی عبادت کرنے والے ہیں.ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اللہ کے بارے میں ہم سے کیا جھگڑتے ہو وہ تو ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور ہمارے اعمال کا بدلہ ہمیں ملے گا اور تمہارے اعمال کا بدلہ تمہیں اور ہم تو سب سے بڑھ کر اسی کو دل سے چاہنے والے ہیں.تفسیر.صِبْغَةَ الله - الہی رنگ میں رنگین ہو جاؤ..اتحاجوننا في الله.مسلمانوں کے خدا پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ اسے تمام خوبیوں کا صاحب اور تمام عیبوں ، نقصوں ، کمزوریوں سے منزہ مانتے ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۱ مؤرخه ۱۸ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۲) ۱۴۳ ۱۴۴ - سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا قُلْ لِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَةً
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة إلا عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللهُ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيْمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ دو، لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ - ترجمہ.قریب ہے کہ بے وقوف کہیں گے کہ مسلمانوں کو کس نے پھیر دیا اُس قبلہ کی طرف سے جس کی طرف وہ پہلے تھے.ان سے کہہ دو کہ مشرق اور مغرب (سب) اللہ ہی کا ہے وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ چلاتا ہے.اور ایسی باتوں کے سبب سے ہم نے تم کو ایک جماعت اعلیٰ درجہ کی نیکی سکھانے والی بنایا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے گواہ یعنی نمونہ بنو اور رسول تمہارا گواہ یعنی نمونہ ہو (اور اے پیغمبر!) جس قبلہ کی طرف تم تھے اُس کو اس لئے ہم نے بدل دیا کہ ہم دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے الگ ہو کر اُس سے جو پھر جاتا ہے الٹے پاؤں اور یہ قبلہ کا بدلنا ) بڑا شاق گزرا مگر اللہ نے جن کو ہدایت دی (انہیں کچھ بڑی بات معلوم نہ ہوئی ) اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری نماز ضائع کر دے.بے شک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت رکھنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.میں نے اس آیہ کریمہ پر مدتوں غور کیا ہے ہمارے مفسر لوگ تحویل قبلہ کے متعلق لکھتے ہیں.مجھ کو روایت سے باہر جانے میں جب تک الہام یا وحی نہ ہو نکلنا دشوار ہے ہیں صحابی ہیں جو اس آسیہ کو تحویل قبلہ کے متعلق بتاتے ہیں.بنی اسرائیل کے متعلق سورۃ البقر میں خوب بوچھاڑ ہے.اُن کو اور ان کے علماء وغیرہ سب کو خوب خوب بتایا ہے اور ان کے حالات گزشتہ یاد دلائے ہیں.ان کی غلط کاریاں اور اپنے احسانات و انعامات یاد دلائے ہیں.پھر اُن کی غلطیاں اور جہالتیں بتا کر ابراہیمی لوگوں کی غلطیاں بتائی ہیں.میرے استاد حضرت رحمت اللہ صاحب کو نبی کریم نے خواب میں بتایا تھا کہ تم سے مباحثہ ہو گا.تم نے آیت ۱۹ اور ۲۱ سے استدلال کرنا.یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جب تم ابراہیمی تھے تو تم نے قبلہ سے کیوں منہ پھیرا ؟ خدائے تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب مشرق و مغرب ہمارا ہی ہے.ہم اپنے مصالح سے جس کو چاہیں ہدایت کریں.( البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۷۹)
حقائق الفرقان ۳۷۷ سُورَة البَقَرَة سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ.یہ بڑی یا درکھنے والی بات ہے کہ صرف عیب چینی بہت بری بات ہے.میں چھوٹا بچہ تھا تو ایک کتاب میں نے پڑھی جس کا نام ” دل بہلاؤ تھا.اس میں سے دو کہانیاں مجھے یاد ہیں ایک یہ کہ حضرت مسیح کہیں جارہے تھے آپ نے ایک مردہ کتا دیکھا تو کسی نے کہا کہ دیکھئے کیا خراب شکل ہے.آپ نے فرمایا اس کے دانت بہت خوبصورت ہیں.کتاب والا اس کہانی سے یہ عمدہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اچھے آدمی خوبیوں کی طرف نظر رکھتے ہیں مگر بڑے جنہیں میں بدقسمت کہوں گا نکتہ چینیوں کی طرف جھک جاتے ہیں.پھر ایک اور کہانی لکھی ہے کہ ایک سورآتا تھا.مسیح دیوار کی طرف ہو گئے اور کہا کہ آپ سلامتی سے نکل جاویں.کسی نے کہا کہ ایک سو ر سے ایسا ادب.فرمایا میں زبان کو درست رکھتا ہوں.تین قومیں دنیا میں ہیں ایک عیسائی.انہوں نے تمام انبیاء کے معاصی کو بیان کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے.معصوم نبی کے نام سے جو رسالے نکلتے رہتے ہیں ان میں مقدس لوگوں کی اس قدر عیب چینیاں ہوتی ہیں کہ ان کو دیکھ دیکھ کر ہماری کتابوں میں بھی بدگمانیاں پھیل گئی ہیں.اس کا نتیجہ دیکھو کہ خود یہ قوم فسق و فجور میں مبتلا ہو گئی ہے حتی کہ شریعت کے قانون کا نام لعنت رکھا ہے اور زنا کوئی جرم ہی نہیں.دوم.بدقسمتی سے مسلمانوں میں چند شر پر اتنفس لوگوں نے دنیا کے لئے دین کا جھوٹا پیرایہ اختیار کر کے غلط فہمیاں پھیلائیں اور مومنوں کے دو فریقوں میں سے ایک کی عیب چینی کر کے ان میں فساد ڈلوا دیا.یہ لوگ تمام صحابہ، تابعین، ازواج النبی کو فاسق ، فاجر ، ظالم ، کافر کہتے ہیں حتی کہ ان کے ایک مفتر نے لکھا ہے آدم سے لے کر ایں دم تک کوئی گناہ نہیں جس کا مرتکب عمر" نہیں اور دوسرے بد بخت تمام اہل بیت پر تبر کر تے ہیں.تیسری قوم آریہ کی ہے ان کی نظر بھی عیب ہی پر پڑتی ہے اپنی خوبی کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہیں.ہاں دوسرے مقدسوں کو گالیاں سناتے ہیں.اس کی سزا انہیں یہ ملی کہ خود نیوگ کا مسئلہ ان میں جاری ہوا جو فسق و فجور کی جڑ ہے.
حقائق الفرقان ۳۷۸ سُورَة البَقَرَة یہ تین قومیں میں نے دیکھی ہیں.اللہ تعالیٰ کی قسم ! کہ انہوں نے اس بدگوئی کا نتیجہ نیک نہیں اُٹھایا.اب میں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کو عیب شماری کا شوق ہے مگر میں سچ کہتا ہوں اور اپنے مشاہدے سے کہتا ہوں کہ جو دوسروں کے عیب از راہ تحقیر نکالتا ہے وہ مرتا نہیں جب تک خود اس عیب میں مبتلا نہ ہو جائے.اس رکوع میں بھی ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے.سُفَهَا جَمْعَ سَفِيهِ - ثَوْب سَفِيه وہ رڈی کپڑا جو بہت ہی خراب ہو.سفیہ کہتے ہیں اُس شخص کو جود ینی دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو.قرآن کریم میں ہے.لَا تُؤْتُوا السُّفَهَاء أَمْوَالَكُمُ (النساء : 1) یہ کام سفہا ء کا ہے کہ دوسروں کی عیب شماری کرتے رہیں اور ہر وقت اعتراض ہی کرتے رہیں.مَا وَلَهُمْ.کس چیز نے ہٹا دیا ان کو.كذلك - به سبب ایسی ہی باتوں کے.اسی لئے انہی تدبیروں سے.یہاں گذلك کے یہی معنے ہیں.اُمَّةً وَسَطًا.اعلیٰ درجہ کے لوگ.شُهَدَاءَ - نگران.لِنَعْلَم.تا ہم دیکھیں.مِمَّن.ان لوگوں سے الگ کر کے.ایمانکم.تمہاری نمازوں کو.حضرت نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ معظمہ میں تھے اس وقت بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے.ہر قوم میں ایک نہ ایک مسئلہ بہت عزیز ہوتا ہے اور اس پر سب قوم متفق ہوتی ہے.دیکھو ہندو ہیں ان میں جھوٹ، فریب ، دغا، زنا، شراب سب کچھ ہے مگر ایک مسئلہ ہے ان میں قومیت کا کہ برہمن کھتریوں سے بیاہ نہ کرے.کھتری شودروں سے الگ رہیں.اس مسئلے کے کوئی خلاف نہیں کرتے.ل مال ان کے حوالے نہ کرو جو کم عقل ہوں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۷۹ سُورَة البَقَرَة ایک مسلمان جھوٹ بول لے، چوری کرے، دغا دے،حرام خوری سے مال چھین لے.سب کچھ کرے مگر مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان سؤر کھا لے تو میں نہیں سمجھتا اسے کوئی مسلمان سمجھے حالانکہ دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ہونے سے ایسا نہیں سمجھا جاتا.اسی طرح عرب والوں میں ایک مسئلہ تھا اور وہ مکہ معظمہ کی تعظیم کا تھا.وہ ہر بدی کا ارتکاب کر لیتے تھے مگر کبھی مکہ پر چڑھائی نہ کرتے.چڑھائی تو در کنار اس کے حدود میں شکار نہ کرتے.کوئی پناہ لیتا تو پھر اس سے تعرض نہ کرتے.قرآن کریم میں اسی لئے أَطْعَبَهُم مِّنْ جُوع (القريش: ۵) اور يُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ (العنكبوت: ۶۸) فرمایا.یہاں تک ادب تھا کہ مکہ میں آمد و رفت کے دنوں تمام جنگ موقوف ہو جاتے تھے.ایسے موقعہ پر اللہ نے دل میں ڈالا کہ مکہ قبلہ ہونا چاہیے مگر چونکہ وہاں بت پرستی تھی اور یہ دین محض تو حید تھا اس لئے پہلے اجازت نہیں ملی.پھر جب مدینہ میں گئے تو وہاں یہودی بیت المقدس کی تعظیم کرتے تھے.اس وقت ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ مکہ کو قبلہ بنایا جائے تا معلوم ہو کہ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۳، ۲۴) بیت اللہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے پر آریہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ تم بیت اللہ کی پوجا کرتے ہو.یہ خیال ان کا بالکل غلط ہے.وہ نہیں جانتے کہ انسان جب عبادت الہی کرے گا تو کسی نہ کسی سمت کو تو اس کا منہ ہو ہی جائے گا.ہر صورت یہ اعتراض انسان پر آ سکتا ہے کیونکہ وہ بھی مشرق کی طرف عبادت میں اور آگ کی طرف ہون میں منہ کرتے ہیں اس لئے آریہ لوگ خود بھی اس کے نیچے ہی ہیں.اہل اسلام اگر نماز اس طرح سے پڑھتے کہ کسی کا منہ پورب کو کسی کا پچھتم کو کسی کا اوتر کو اور کسی کا دکن کو تو کیا اس سے سب کے خیالات و اعتقادات کا یکساں ہونا اور سب کے اتفاق و محبت کا اظہار ہو سکتا تھا.پھر جو خوبی اور خوبصورتی دوش بدوش کھڑے ہو کر اور ایک لے جس نے ان کو بھوک کے وقت کھا ناد یا اور ہر قسم کے خوف سے امن میں رکھا.لوگ اُچک لئے جارہے ہیں اس کے آس پاس ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۸۰ سُورَة البَقَرَة.جانب کو منہ کر کے عبادت الہی کرنے میں پائی جاتی ہے وہ دوسری صورت میں کہاں پیدا ہوسکتی ہے.لطف تو اس میں ہے کہ ایک خدا کے پرستار ایک کتاب کے ماننے والے ایک ہی رسول کے مطبع ایک ہی جانب کو منہ کر کے عبادت الہی کرتے ہوں جو اُن کی پجہتی اور ان کے ہم اصول ہونے پر ایک مضبوط دلیل ہے.اور اس میں کیا مزا ہے کہ زبان سے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک خدا کی پرارتھنا کرتے ہیں اور جب پرارتھنا کرنے کے لئے بیٹھیں تو جس طرف کو ایک مہاشہ کا منہ ہو ادھر دوسرے کے چوتڑ ہوں اور جدھر تیسرے کے چوتڑ ہوں اُدھر چوتھے کا منہ ہو.گویا کہ جنگل میں ایک دوسرے سے روٹھے ہوئے بیٹھے ہیں.اب غور کر کے دیکھو کہ آیا یہ فطرت انسانی کے عین مطابق ہے یاوہ.پھر کسی کی عبادت کے لئے دل میں اعتقاد ہوتا ہے معبود کے سامنے انسان اپنے آپ کو ذلیل خیال کرتا ہے.تعظیمات کے الفاظ بولتا ہے.اس سے دعائیں مانگتا اور التجائیں کرتا ہے.اس کے حسن و احسان کا اقرار کرتا ہے اس سے امن و امان کی درخواست اور مصائب کے دور ہونے کی نہایت تذلل کے ساتھ دعائیں کرتا ہے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۲۱ / نومبر ۱۹۱۲ صفحه ۸۰) دو قسم کے اہل مذاہب ہیں ایک اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے والے دوسرے مذاہب پر عیب چینی کرنے والے.آخر الذکر جھوٹے ہیں.عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا یہ طعنہ دیا کفار نے کہ ان مسلمانوں کا مرکز تو مکہ تھا کیوں ان کو وہاں سے نکال دیا گیا.جواب دیا گیا مشرق و مغرب اللہ کا ہے عنقریب فتح ہوگا.شهدا آو.بادشاہ.سبعہ معلقہ کا ایک شعر اس پر گواہ ہے.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۰) اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر تو تھا نہیں مگر اسی واسطے کہ معلوم کریں کون تابع ہے رسول کا اور کون پھر جاوے گا اُلٹے پاؤں.(فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب.حصہ دوم صفحہ ۲۸۶ حاشیہ)
حقائق الفرقان ۳۸۱ سُورَة البَقَرَة اور نہیں کیا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر تو تھا مگر اس لئے کہ ظاہر ہو جاوے کہ کون رسول کے تابع ہے اُس سے جو پھر جاتا ہے ایڑی پر.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب.حصہ دوم صفحہ ۳۳۱ حاشیہ) تحویل قبلہ کے بارے میں بہت سی بحثیں ہیں اور آج کل تو زیادہ تر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان کعبہ کی عبادت کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے کیونکہ عبادت تو یہ ہے کہ جلب نفع و دفع مضرت کے خیال سے کسی کی غایت درجہ تعظیم کی جائے اور کعبہ نہ تو نافع ہے نہ ضار.پس عبادت کعبہ کی نہیں کی جاتی بلکہ رب الکعبہ کی.۲.ساری نماز پر اوّل سے آخر تک غور کر لو کعبہ کی مدح و ثناء اس میں کہیں بھی نہیں..عبادت کی جاتی ہے اس کی جو حسن و احسان کا سر چشمہ ہو، جو صمد ہو مگر کعبہ اس کا مصداق نہیں.۴.کسی کی طرف منہ کرنا یہ امر کوئی عبادت نہیں کہلاتا کیونکہ تمام آدمی آخر کسی نہ کسی طرف منہ کر کے ہی کھڑے ہوتے ہیں پھر نماز میں نیت استقبال الی القبلہ شرط نہیں.۵.ایک حکم ہوتا ہے ایک حاکم.پس ہم تو حاکم کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور اس طرح پر قبلہ رخ نماز ادا کرنا خانہ کعبہ کی عبادت نہیں بلکہ اس حکم کے دینے والے کی عبادت ہے.- إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ے میں اقرار کیا جاتا ہے کہ زبان و دیگر جوارح سے آے رب العلمين ، الرحمن الرحیم، مالک یوم الدین تیری ہی عبادت کرتا ہوں.پس قبلہ رُخ ہونا کعبہ کی پرستش کس طرح بن سکتا ہے اور نماز شروع کرتے ہی اِنِّي وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السمواتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ " (الانعام: ۸۰) پڑھا جاتا ہے جس سے تمام ایسے اعتراض رفع ہو جاتے ہیں اور ان کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.1 (اے سب خوبیوں والے صاحب!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں حالانکہ ہم تجھی سے مددبھی چاہتے ہیں.(ناشر ) ۲.میں نے تو اپنا منہ اسی کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے سب سے الگ ہو کر ایک ہی کا بن کر.میں تو مشرکوں میں سے نہیں ہوں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۸۲ سُورَة البَقَرَة ے.اس کعبہ کی نسبت بائبل میں بھی بہت سی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور انہی میں حضرت ہاجرہ، حضرت اسمعیل اور پھر حضرت نبی کریم صلعم کی بعثت کا مذکور ہے ملاحظہ ہو پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ پھر خداوند کے فرشتے نے اسے ( ہاجرہ کو ) کہا کہ میں تیری اولا دکو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گئی نہ جائے.پھر دیکھو ۱۷ باب اور پھر ابراہیم نے خدا سے کہا کہ اسمعیل تیرے حضور جیتا رہے اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سنی.دیکھ میں اسے برکت دوں گا اور اسے بہرہ مند کروں گا اور بہت بڑھاؤں گا.(۱) یسعیاہ باب ۴۲ پڑھیئے دیکھو میرا بندہ جسے میں سنبھالتا.میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے میں نے اپنی روح اس پر رکھی وہ قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گا.وہ نہ چلائے گا.اپنی صدا بلند نہ کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سنائے گا.وہ مسلے ہوئے سٹے کو نہ توڑے گا اور دہکتی ہوئی بتی کو نہ بجھائے گا.وہ عدالت کو جاری کرائے گا کہ دائم رہے.اس کا زوال نہ ہوگا نہ مسلا 66 جائے گا جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں.“ (ب) میں خداوند نے تجھے صداقت کے لئے بلایا.میں تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نور کے لئے تجھے دوں گا.“ (ج) اے بحری ممالک اور ان کے باشندو! تم زمین پر سر تا سراسی کی ستائش کرو.بیابان اور اس کی بستیاں قیدار کے آباد دیہات اپنی آواز بلند کریں گے.سلع کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے.پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں گے.وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے.بحری ممالک میں اس کی ثناء خوانی کریں گے.خداوند ایک بہادر کی مانند نکلے گا.وہ جنگی مرد کی مانند اپنی غیرت کو اسکائے گا.وہ چلائے گا.ہاں وہ جنگ کے لئے بلائے گا.وہ اپنے دشمنوں پر بھاری کرے گا.(د) خداوندا اپنی صداقت کے سبب راضی ہوا.وہ شریعت کو بزرگی دے گا اور اسے عزت بخشے گا.(ح) کیونکہ انہوں نے نہ چاہا کہ اس کی راہوں پر چلیں.وہ اس کی شریعت کے شنوا نہ ہوئے اس لئے اس نے اپنے قہر کا شعلہ اور جنگ کا غضب اس پر ڈالا.
حقائق الفرقان ۳۸۳ سُورَة البَقَرَة یہ آیت پکار پکار کر بتلا رہی ہے کہ موسوی شریعت کے بعد پھر ایک کامل شریعت بنی آدم کو ملنے والی ہے اور وہ ملک عرب میں ہوگی اور نئے سرے سے خدا کی توحید قائم ہوگی جو اس کی مخالفت کرے گا وہ پیسا جائے گا اور ہلاک ہو گا.پھر پڑھو ساٹھواں باب ” میں اپنی شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا..اس کے بدلے تو ترک کی گئی اور تجھ سے نفرت ہوئی.ایسا کسی آدمی نے تیری طرف گزر بھی نہیں کیا.میں تجھے شرافت دائمی اور پشت در پشت لوگوں کا سردار بناؤں گا.آگے کو کبھی تیری سرزمین میں ظلم ( بت پرستی ) کی آواز سنی نہ جائے گی اور نہ کہ تیری سرحدوں میں خرابی یا بربادی کی.تو اپنی دیواروں کا نام نجات اور اپنے دروازوں کا نام ستودگی رکھے گی...تیرا سورج پھر کبھی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہو گا......کیونکہ خداوند تیرا ابدی نور ہو گا اور تیرے نام کے دن آخر ہو جائیں گے اور تیرے لوگ سب کے سب راستباز ہوں گے.وہ ابد تک سرزمین کے وارث اور میری لگائی ہوئی ٹہنی اور میرے ہاتھ کی کاریگری ٹھہریں گے تاکہ میری بزرگی ظاہر ہو.ایک چھوٹے سے ایک ہزار ہوں گے اور ایک حقیر سے ایک قومی گروہ ہوگی.میں خداوند اس کے عین وقت میں یہ سب کچھ جلد کروں گا.“ تمام قوموں کو دیکھ لو بیت اللہ صرف مسلمانوں ہی کے قبضے میں ہے اور وہیں سے بت پرستی کا نام و نشان تک مٹایا گیا اور وہی ایک سے ہزار ہوئے اور حقیر تھے پھر قوی بنے.پھر اعمال باب ۳ پڑھیے اور متوجہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تا کہ خداوند کے حضور سے تازگی بخش ایام آئیں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منادی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آئیں کیونکہ موسی نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھائے گا.جو کچھ کہ وہ تمہیں کہے اس کی سب سنو.اور ایسا ہوگا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا.“ خوب غور کر کے دیکھ لو کہ مسیح کے دوبارہ نزول سے پہلے حضرت موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق
حقائق الفرقان ۳۸۴ سُورَة البَقَرَة بنی اسحق سے نہیں بلکہ بنی اسمعیل سے ایک نبی ضرور مبعوث ہونے والا تھا.یہ ایسی صاف اور صریح پیشگوئی ہے.اس کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی.( تشخیز الا ذبان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ صفحہ ۳۲۸ تا ۳۳۱) ۱۴۵ - قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجُهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَتِيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضُهَا فَوَلِ.ج ص وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمُ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَةً وَإِنَّ ، ۖ الَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا 199191 يعملون - ترجمہ.ہم دیکھ رہے ہیں تیرے منہ کا پھر پھر جانا آسمان کی طرف تو ضرور ہم پھیر دیں گے تجھ کو اُس قبلہ کی طرف جس کو تو چاہتا ہے، پسند کرتا ہے.لو! اب پھیر لو اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف اور ( مسلمانو!) تم بھی جہاں کہیں ہوا کرو تم اس کی طرف اپنا منہ کر لیا کرو اور اہل کتاب بخوبی جانتے ہیں کہ قبلہ کا بدلنا حق ہے اُن کے رب کے حکم سے.اللہ ان کے کرتوتوں سے بے خبر نہیں.تفسیر.تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء - تیری توجہ اس بات کی طرف کہ آسمان سے وحی نازل ہو اور آخری قبلہ کھلے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۴) تَقَلُّبَ وَجْهِكَ.جناب الہی سے کام کرانے کے لئے بڑی توجہ کی ضرورت ہے.أَنَّهُ الحق.یعنی مکہ فتح ہو جائے گا.( تشخیز الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۴۰) ۱۴.وَلَبِنْ آتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ بِكُلِّ آيَةٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا انت بتابع قِبْلَتَهُمْ وَ مَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعِ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَ لَبِنِ اتَّبَعْتَ ج أَهْوَاءَهُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذَا تَمِنَ الظَّلِمِينَ - ترجمہ: اگر تو اہل کتاب کے سامنے ساری دلیلیں پیش کرے تو بھی تیرے قبلہ کی پیروی نہ کریں گے اور نہ تو ہی پیروی کرنے والا ہے ان کے قبلہ کی اور نہ اہل کتاب میں سے کوئی کسی کے قبلہ کی پیروی کرنے والا ہے اور (اے مخاطب ! ) اگر تو چلا اُن کی خواہشوں پر علم حاصل ہوئے بعد جب تو بے شک بے جا کام کرنے والوں میں سے ہو جائے گا.
حقائق الفرقان ۳۸۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تفسیر - بِكُل آية - ۱۲ باب پیدائش.یسعیاہ : ۶۰،۴۵،۴۲.بیت اللہ کے اعزاز کی بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو مکہ کے متعلق ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم خواہ کس قدر آیات پیش کرو یہ مانیں گے نہیں.تیری کیا مانیں جو ان میں ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۴) b اپنا اتفاق نہیں.۱۴۷ - الَّذِينَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ ابْنَاءَهُم ، وَ اِنَّ فَرِيقًا منْهُمْ لَيَكْتُبُونَ الْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ - ترجمہ.اہل کتاب ( محمد مصطفی احمدمجتبی ) کو پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں اور کچھ لوگ اُن میں کے ایسے بھی ہیں جو ضرور چھپاتے ہیں حق بات کو حالانکہ وہ جانتے ہیں.تفسیر - يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ - انسان بیٹے کو پہچانتا ہے اور اسے اپنا بیٹا مانتا ہے حالانکہ اگر شک کرنے لگے تو پھر مشکلات کا سامنا ہے.ممکن ہے کہ وہ اس کے نطفے سے نہ ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اتنی حد تک تو ہم سمجھا چکے ہیں کہ جتنی حد تک بیٹے کے لئے ثبوت درکار ہے اور اگر شک کرنے لگے تو پھر کئی شبہات ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵/ مارچ ۱۹۰۹ صفحه ۲۴) يَعرِفُونَ ابْنَاءَهُم - قرائن سے اپنی اولا دکو پہچانتا ہے.شبہ تو ہوسکتا ہے.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۰) ۱۴۸ - اَلْحَقُّ مِنْ رَبَّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ - ترجمہ.سچ تیرے پروردگار کی طرف سے ہی ہے تو تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو جانا.تفسیر.اس سوال کے جواب میں کہ بادی اسلام متشکلک تھے، تحریر فرمایا.بڑی دلیل سائل کی سورہ بقرہ کی آیت ذیل ہے.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ (البقرة: ۱۴۸) سو اس کا پہلا جواب یہ ہے لا تكون نفی کا صیغہ ہے نہ نہی کا اور تاکید کے واسطے نون مشدّد اس کے آخر زیادہ کیا گیا تو لا تكونن ہو گیا.مشد دنون ماضی اور حال پر نہیں آسکتا.پس لا تكونن
حقائق الفرقان ۳۸۶ سُورَةُ الْبَقَرَة استقبال کا صیغہ ہوگا.اب اس تحقیق پر آیت کے یہ معنے ہوں گے.یہ حق ہے تیرے رب کی طرف سے ( چونکہ الہی الہام اور دلائل سے یہ حق ثابت ہو گیا) تو تو کبھی شک والوں میں سے نہ ہوگا.دوسرا جواب.ہم نے مانا لا تكون نفی نہیں نہی کا صیغہ ہے مگر ہم کہتے ہیں نہی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک طلب ترک فعل.دوم طلب عدم فعل.سائل کا اعتراض اس صورت میں ہے کہ یہاں نہی کو بغرض طلب ترک فعل لیا جاوے.جس کا یہ مطلب ہے کہ مخاطب فعل شک کو ترک کر دیوے مگر ہم کہتے ہیں یہاں شک معدوم ہے اور نہی کا منشاء یہ ہے کہ جیسے شک معدوم ہے آئندہ بھی معدوم رہے.تیسرا جواب.سائل ! یہاں آیت فَلا تَكُونَنَّ میں ایسا کون سا امر ہے جس کے باعث ہم کو خواہ مخواہ ماننا پڑے کہ لا تكونن کے مخاطب ہادی اسلام ہیں.صلی اللہ علیہ وسلم.ہم کہہ سکتے ہیں بدلائل مذکورہ سابقہ حضور علیہ السلام کو اپنی رسالت پر یقین تھا اور قرآن کریم میں اختلاف نہیں.اس لئے ثابت ہو الا تكونَنَّ کا مخاطب کوئی متر د داور شک کرنے والا آدمی ہے نہ حضور علیہ السلام.چوتھا جواب.ہم نے مانا اس جملہ لا تكونن کے مخاطب ہمارے پاک ہادی علیہ السلام ہیں مگر عبری اور عربی کا طرز کلام با ہم قریب قریب ہے اور کتب مقدسہ کا غیر محرف حصّہ اور قرآن کریم دونوں ایک ہی متکلم کے کلمات ہیں اور دونوں ایک ہی مخرج سے نکلے ہیں اور دونوں کا محاورہ ہے کہ اعلیٰ مورث کو مخاطب کیا جاتا ہے اور مراد اس مورث کی قوم ہوتی ہے.کسی کو خطاب کرتے ہیں اور کسی دوسرے کو مقصود بالخطاب رکھتے ہیں.دیکھو یرمیاہ.ہائے کہ وہ دن بڑا ہے یہاں تک کہ اس کی مانند کوئی نہیں.وہ یعقوب کی مصیبت کا وقت ہے.پر میاه ۳۰ باب ۷ تا ۱۰.اے میرے بندہ یعقوب ! ہراساں مت ہو.یرمیاہ ۴۶ باب ۲۸ خداوند کا یہوداہ کے ساتھ بھی ایک جھگڑا ہے اور یعقوب کو جیسے اس کی روشیں ہیں ویسی سزا دے گا.ہوسیع ۱۲ باب ۲.دلاوری سے لبالب ہوں کہ یعقوب کو اس کا گناہ اور اسرائیل کو اس کی خطا جتا دوں.میکاہ ۳ باب ۸ یعقوب کی رونق کو اسرائیل کی رونق کی مانند پھر بحال کرے گا.نجوم ۲ باب ۲.
حقائق الفرقان ۳۸۷ سُورَة البَقَرَة اے گرازین ! ( یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو افسوس اور ملامت کے قابل نہیں ) تجھ پر افسوس ہے.اے بیت صیدا!! ( یہ بھی گاؤں ہے) تجھ پر افسوس.متی ا باب ۲۱.اے یروشلم ! اے یروشلم ! ( یہ بیت المقدس ہے ) جو نبیوں کو مارڈالتی ہے.متی ۲۳ باب ۳۷.ایسی صد ہا کتب مقدسہ صد ہا جگہ دیکھ لو.اب اس طرح کے محاورات قرآن کریم سے سنو.(1) يَايُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ (الطلاق: ۲) اے نبی ! جب تم لوگو! عورتوں کو طلاق دو.(۲) يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللهَ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا (الاحزاب :٢) اے نبی ! خدا سے ڈر اور کفار کی فرمانبرداری اور منافقوں کی اطاعت مت کر.بے شک اللہ تعالیٰ جو کچھ تم ( عام لوگوں کو خطاب کرتے ہو اس پر خبر دار ہے.(۳) وَسُلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَا (الزخرف: ۴۶) پوچھ ان رسولوں سے جو تجھ سے پہلے گزرے.ان مقامات میں دیکھ لو یا " کے لفظ سے مخاطب کون ہے اور طَلَّقْتُم سے کون؟ اتَّقِ کے لفظ میں مخاطب کون اور تعملُونَ " کے لفظ سے کون معلوم ہوتا ہے؟ مَنْ سے مراد کون ہے اور قبلک کس کا پتہ دیتا ہے؟ پانچواں جواب.میں نے مانا لا تكونن نہی کا صیغہ ہے اور نہی بھی بمعنی طلب ترک ہے اور یہاں مخاطب بھی سرور کائنات اور فخر موجودات ہیں صلی اللہ علیہ وسلم اور مراد بھی وہی ہیں مگر میں کہتا ہوں جب لا تکن نہی کے صیغہ پر نون مشدده تاکید کے لئے آیا اور نون تاکید مشدّد ماضی اور حال پر ہرگز آتا نہیں.جس فعل پر آتا ہے اس کو استقبالی فعل کر دیتا ہے.پس لَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُسْتَرِيْنَ کے معنے یہ ہوں گے.اے محمد تو زمانہ ماضی اور حال میں شک کرنے والا نہیں رہا.اب آگے زمانہ استقبال میں بھی متر ڈ داور متشکلک نہ رہیو.گویا یہ الہی دعا ہے جو یقینا قبول ہے یا جس حالت میں تیری جبلت ہی ایسی سہو کتابت ہے تُطع چاہیے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۸۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تعلیم پر تر ڈ دوالی نہیں تو اب تو میرے مطالب، دلائل سے مائل ہو چکے.چھٹا جواب.میں نے بفرض محال مان لیا تر ڈد واقع ہوا تو کیا ایسا تر و حسب مسلّمات عیسائیوں کے نبوت کے عہدہ سے معزول کر سکتا ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں.دیکھو موسیٰ علیہ السلام کی توریت ، کتاب خروج اور کتاب قاضی ، موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی نجات کے لئے منتخب فرمایا تو حضرت موسیٰ فرماتے ہیں.میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکالوں.خروج ۳ باب ۱۱.پھر موسیٰ علیہ السلام لگے غذر کرنے کہ میں اچھی طرح بول نہیں سکتا اور پھر اللہ تعالیٰ نے بتاکید کہا کہ تو جا میں تیرے ساتھ ہوں.پھر اپنی کمزوری پر ان سب باتوں پر بقول عیسائیوں کے اطمینان نہ ہوا تو عرض کیا کہ کسی اور کو مصر میں بھیج.تب باری تعالیٰ ( موجودہ توریت کہتی ہے) کا غصہ موسیٰ پر بھڑ کا.دیکھو.تب خداوند کا قہر موسیٰ پر بھڑ کا.خروج ۴ باب ۱۴ اور جدعون نے جو کچھ کیا ہے وہ کتاب قاضی ۶ باب ۳۶.۴۰ ورس سے ظاہر ہے.کیہ امتحانات کرتا رہا؟ ذرا منصف عیسائی اس پر پھر غور کریں.ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات.تصانیف حضرت خلیفہ مسیح الاول کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱ تا۱۳۴) ۱۵۰،۱۴۹ - وَ لِكُلٍ وجَهَةٌ هُوَ مُوَلِيهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ ، أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَاتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ - وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِنَّهُ لَلْحَقِّ مِنْ رَّبِّكَ وَ مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعمَلُونَ - b ترجمہ.اور ہر ایک کے لئے ایک طرف ہے جدھر کو وہ منہ پھیرتا ہے تو مسلمانو ! ) تم نیکیوں کی طرف دوڑو.تم جہاں کہیں ہو گے اللہ تعالیٰ تم سب کو اکٹھا کر لائے گا بے شک اللہ ہر چیز کا اندازہ کرنے والا ہے.اور تو جہاں کہیں سے نکلے اپنا منہ مسجد معظم یعنی کعبہ شریف کی طرف کر لیا کر اور وہ قبلہ برحق ہے تیرے رب کی طرف سے اور اللہ بے خبر نہیں اس سے جو تم کام کرتے ہو.
حقائق الفرقان ۳۸۹ سُورَة البَقَرَة تفسیر.وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيْهَا - توجہ دوطرح کی ہے ایک یہ کہ کسی طرف کومنہ کرنا.دوسرے یہ کہ کسی کی پرستش کرنا.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مسلمان سنگ اسود کو بوسہ دیتے ہیں.میں نے کہا.کیا تم کسی کے بوسہ لینے کو پرستش سمجھتے ہو؟ پھر اس نے کہا کہ تم قبلہ کی طرف منہ جو کرتے ہو.میں نے کہا کہ تم میری طرف منہ کر کے کھڑے ہو.کیا یہ پرستش ہے؟ پھر نماز کے تمام ارکانوں کی طرف خیال کرو کعبہ کی طرف منہ نہیں رہتا بلکہ رکوع میں زمین کی طرف ہوتا ہے.دائیں بائیں بھی منہ ہوتا ہے.پس کسی کی طرف منہ کرنا اور بات ہے اور پرستش کرنا اور بات.پھر یہ کہ مکہ معظمہ کی نسبت نہ کوئی خواہش ہے نہ کوئی درخواست مکہ معظمہ سے ہوتی ہے نہ کوئی اس سے التجا کرتے ہیں ہاں حضرت نبی کریم کے روضئہ مقدسہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں لوگ یہ خیال کر سکتے تھے کہ یہ نبی کی پرستش کرتے ہیں.مگر جو لوگ مکہ کے درمیان ہوتے ہیں ان کی اور خصوصا حنفی مصلی والوں کی تو مدینہ کی طرف پیٹھ ہوتی ہے.انسان کی ایک روح ہوتی ہے روح کا تو آگا پیچھا دایاں بایاں کچھ نظر نہیں آ سکتا.پس جو عبادت رُوح سے متعلق ہے اس کے ساتھ جہات کو کوئی تعلق نہیں مگر جسم میں چونکہ جہات ہیں اس لئے اس کے لئے عبادت میں بھی ایک جہت کی ضرورت تھی.تو جہ الی القبلہ سے یہی مقصود ہے کہ مسلمان اپنی عبادت میں خدا تعالیٰ کے فرمان کی پابندی کر کے پورے موحد اور فرمانبردار ہونے کا ثبوت دیتا ہے کہ میری اپنی کوئی خواہش نہیں (حتی کہ تیرے حضور کھڑا ہونے میں بھی ) پھر یہ کہ مسلمان اِس لئے اس طرف منہ کرتے ہیں کہ حکم مکہ سے صادر ہوا.اس لئے اسی طرف توجہ کرتے ہیں.پھر یہ کہ یک جہتی بڑی اچھی چیز ہے.کوئی کسی طرف کوئی کسی طرف منہ کر لیتا تو یہ بات اچھی نہ ہوتی بلکہ یہ امر افتراق کا موجب ہو جاتا.عبادت کے لئے ایک نہ ایک جہت ضرور اختیار کرنی پڑتی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کو چھوڑا ان کو پتھروں اور درختوں کی پرستش کرنی پڑی ہے.ہندوؤں میں ایک فرقہ ہے جو لنگ پوجا کرتے ہیں دوسرا گروہ جلہری کی پوجا کرتا ہے.ایک ہندو رئیس نے ایک مندر بنایا اور اس میں تین لاکھ لنگ اور تین لاکھ جلہری کی مورتیں بنا کر رکھیں.کیسا تعجب ہے.
حقائق الفرقان ۳۹۰ سُورَة البَقَرَة أيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا.جہاں کہیں تم ہو گے اسی طرف منہ کر لو گے تو پھر گویا تم سب کو اکٹھا کیا.شاہ عبدالعزیز صاحب نے جو ہمارے شیخ المشائخ ہیں ایک دلچسپ نکتہ لکھا ہے که خداوند کریم نے مکہ معظمہ ہمارا جائے تو جہ بنایا.کعبہ میں چار مصلی ہیں.حنفی لوگ کہتے ہیں ( جن کا مصلی شمالی جانب ہے ) کہ ہم اسی طرف اور اسی طرز سے نماز پڑھتے ہیں جس طرف سے رسول کریم نے پڑھی یعنی ہماری پیٹھ بھی اسی طرف رہتی ہے جدھر رسول کریم کی.شافعی کہتے ہیں کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِمَ مُصَلَّى (البقرة: ۱۲۲) کی تعمیل ہم ہی کر رہے ہیں کیونکہ ہمارا مصلی اس کے قریب ہے.حنبلی کہتے ہیں ہمارا مصلی سنگ آسود کے قریب ہے.مالکی اِن سب کی تردید کرتے ہیں مگر تا ہم ان سب کی توجہ تو ایک ہی طرف ہے مَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ میں غالبًا انہی چارمصلوں کی نسبت پیشگوئی تھی.الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.بعض ملکوں میں جب کسی غیر ملک کے لفظ جاتے ہیں تو ان کے معنے بھی بدل جاتے ہیں چنانچہ یہ حرام کا لفظ ہے یہ ہمارے ملک میں برے معنوں میں استعمال ہوتا ہے حالانکہ عربی زبان میں حرام بڑی عزت کے لئے استعمال ہوتا ہے.ایک کنچنی نے مسجد بنوائی ایک ظریف نے اس کی تاریخ نکالی.بیت الحرام.یہ بہت بری بات ہے کہ اچھے لفظوں کو برے معنے میں لا یا ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۴) جاوے.وَلِكُلٌ وَجْهَةٌ.کسی نہ کسی امر کی طرف متوجہ رہتا ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ : پس تم نیکیوں کی توجہ میں پیش دستی کرو.عَمَّا تَعْمَلُونَ.مسلمانوں نے یہ کیا کہ کعبہ تو فتح کر لیا مگر پھر چار مصلوں پر تقسیم کر کے جھگڑا ڈال دیا.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۴۰) لے اور ابراہیم کے مقام کو تم نماز کی جگہ ٹھہرالو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۹۱ سُورَة البَقَرَة ۱۵۱ - وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَيْثُ مَا كنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُم فَلَا تَخْشَوهُمْ وَاخْشَونِي وَلاتِم نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُم 179121 تهتدون - ق ترجمہ.اور تو جہاں کہیں سے نکلے اپنا منہ مسجد مکرم یعنی کعبہ شریف کی طرف کرلیا کر (اور مسلمانو!) تم بھی جہاں کہیں ہوا کرواسی کے طرف اپنے منہ کر لیا کرو تا کہ نہ رہے لوگوں کا تم پر کوئی الزام مگر اُن میں کے ظالم ( تو بے جا الزام لگا ئیں گے ہی ) سو تم اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو تا کہ میں اپنا فضل تم پر تمام کروں اور اس لئے کہ تم سیدھی راہ پا جاؤ.تفسیر.حُجَّةُ - الزام نہ رہے کہ تم ابراہیمی ملت کے مدعی اور توجہ کعبہ کی طرف نہیں کرتے.وَاخْشَونی.یہ بہت ضروری نصیحت ہے کہ کسی سے ڈر کے گناہ کا ارتکاب نہ کرو.ڈر رکھو (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۴) ۱۵۲ ۱۵۳ - كَمَا اَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَ يُعَلّمُكُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ - فَاذْكُرُونِي اَذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ - ایک اللہ کا.ترجمہ.جیسا کہ ہم نے بھیجا تم میں ایک رسول تمہیں میں کا جو ہماری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سناتا ہے اور تمہاری اصلاح کرتا ہے اور تم کو قرآن پڑھاتا ہے اور دانائی کی باتیں سکھاتا ہے اور تم کو (وہ) اچھی باتیں بتاتا ہے جو تم جانتے نہ تھے.پس تم میری یاد میں لگے رہو میں تم کو نہیں بھولوں گا اور تم میرا احسان مانتے رہو اور (کبھی) ناشکری نہ کرو.تفسیر یز کینگم.وہ اس کوشش میں ہے کہ تم میں سے ایک مز کی گروہ پیدا ہو جائے..مزکی الْحِكْمَةَ - کی باتیں.و اشكروا لی.دوسرے مقام پر فرمایا ہے لَبِنْ شَكَرْتُم لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ
حقائق الفرقان ۳۹۲ سُورَةُ الْبَقَرَة عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراهيم:۸) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۴) كما ارسلنا.اسی واسطے ہم نے رسول بھیجا.( تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ صفحه ۴۴۰) ۱۵۴ ۱۵۵ - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا ۚ وَلَكِنْ لَا وود تشعرون.ترجمہ.اے ایمان والو! نیکیوں پر ہمیشگی اور بدیوں سے بچنے اور دعائیں کرنے پر مضبوط رہو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.اور نہ کہو اُن لوگوں کو مردے جو اللہ کی راہ میں مارے ہا ئیں بلکہ وہ (اللہ کے نزدیک ) زندہ ہیں لیکن تم سمجھ نہیں سکتے.نفسیر.اسْتَعِيْنُوا بِالصّبرِ.جہاں تک میں نے تجربہ کیا ہے دکھوں، رنجوں، مصیبتوں وغیر ہا مسائل کے صاف کرنے میں اور پیش آمدہ امور کے متعلق فیصلہ دینے میں اللہ جل شانہ، نے جو راہ انسان کو دکھائی ہے اس سے بہت کم لوگ کام لیتے ہیں چنانچہ ایک راہ کا یہاں ذکر ہے.فرماتا ہے.اولوگو! جو ایمان لا چکے ہو استعانت کرو تو اللہ سے اور وہ بھی صبر وصلوۃ سے.صبر سے مراد ہے روزہ اور بدیوں سے بچنا اور صلوۃ سے مراد ہے دعا.ہر ایک تم میں سے اس بات پر غور کرے کہ لوگ اپنے مقصود کے پورا کرنے کے لئے بار یک در بار یک فکر کرتے ہیں یہاں تک کہ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رستہ میں اُنگلی اِدھر اُدھر گھماتے جاتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے مگر یہ طریق جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بدیوں سے بچ کر روزہ رکھ کر جناب البی میں خشوع و خضوع سے دعا کریں اس طریق پر انبیاء کے سوا دوسرے لوگ کم چلتے ہیں.إِنَّ اللهَ مَعَ الصبرین.ایسے لوگ جو صبر سے اور دعا سے استعانت کرتے ہیں اُن کے ساتھ ہم ہو جاتے ہیں.میں نے مشکل سے مشکل امور میں اس طریق کا تجربہ کیا اور میں شہادت دیتا ہوں لے اگر تم شکر کرو گے تو میں (خود) تم کو اور زیادہ کر دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو میری مار بڑی سخت ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۹۳ کہ لم اكنُ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مريم: ۵) سُورَةُ الْبَقَرَة افسوس کہ مسلمانوں کے پاس ایسا عمدہ نسخہ ہو اور پھر بھی وہ ناکام رہیں.کسی کو بیبیوں کی نسبت شکایت کسی کو قرض کی نسبت کسی کو عدم ترقی کا شکوہ.یہ سب کچھ کیوں ہے؟ اس لئے کہ استعانت کا یہ طرز چھوڑ دیا.جب سلطنت اسلام موجود تھی تو اس وقت کی حالت کا ایک شخص نقشہ کھینچتا ہے.شب چو عقد نماز بر بندم چه خور د بامداد فرزندم که ( گلستان سعدی باب دوم ) اس وقت کا یہ حال ہے تو آج جو کچھ ہو ا تھوڑا ہے.دنیا طلبی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے.ایک مسلمان بادشاہ دہلی سے ملتان جاتا تھا خوا جہ فرید الدین سے اس کے وزیر کو عقیدت تھی.اپنے پیر و مرشد کے آگے کچھ نقد روپیہ اور کچھ کا غذر کھے.نقد روپیہ تو خوا جہ صاحب نے لے لیا اور گاؤں کی نسبت پوچھا.یہ کیا ہے؟ اس نے کہا.یہ دس گاؤں بطور جا گیر پیش کرتا ہوں تا لنگر خانہ وغیرہ کے خرچ میں کوئی دقت پیش نہ آئے.فرمایا.اس کو اٹھا لو.حدیث میں آیا ہے کہ جس قوم میں زمینداری کا سامان آ جائے وہ ذلیل ہو جاتی ہے.قرآن شریف سے استنباط فرمایا ہے جہاں یہودیوں کا واقعہ بیان فرمایا که اهْبِطُوا مِصْرًا فَانَ لَكُم مَّا سَأَلْتُم " (البقرة: ۶۲) اور پھر ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِلَّةُ وَ المَسْكَنَةُ (البقرۃ: ۶۲) پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور تنگی معیشت کا ذکر کیا کہ اتنے روپیہ کے سوا میرے پاس کچھ نہیں.ہنس کر کہنے لگے کہ میرے گھر ساری عمر میں اتنا کبھی جمع نہیں ہوا.یہ عجیب کیمیا ان کے پاس موجود تھی.اہل اللہ لوگ اپنی خواہشیں بہت مختصر رکھتے ہیں اور پھر انہیں حصولِ مطالب کا ایک گرآتا ہے اور وہ گر یہی ہے جو او پر بیان ہوا.اموات.جو لوگ خدا کی راہ میں مقابلہ کرتے ہیں اور اس حالت میں فوت ہو گئے یہ مت کہو کہ وہ اپنی عمریں برباد کر گئے وہ عمریں برباد نہیں ہوئیں ان کے اعمال غیر منقطع ہیں اس لئے انہوں نے ے اور تجھ سے دعا مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا.کے ترجمہ.رات کو میرا دل نماز میں کیسے لگے جب یہ پریشانی دامن گیر ہو کہ صبح سویرے میرے بچے کیا کھائیں گے.سے تم کسی شہر میں چلے جاؤ تم جو تم لوگ مانگتے ہو وہ تمہیں مل جائے گا.ہے اور ان پر ذلت اور مسکینی کی مار پڑی.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۹۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حیاتِ جاوید پائی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۵،۲۴) اسْتَعِينُوا بِالصَّبر - یہ مشکلات سے نکلنے کا علاج - طاعت الہیہ کرو اور بدیوں سے بچو.تفخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ - ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۰) پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم مکہ معظمہ میں تھے تو صرف ایک بت پرست قوم آپ کی دشمن تھی لیکن اس دشمن کے ہوتے آپ کے گنبہ اور قوم کے لوگ آپ کا ساتھ دیتے تھے.آپ ان کے باریک منصوبوں کو بھی خوب سمجھتے تھے.آپ کا بال بال ان کے رشتوں میں گتھا ہوا تھا اور تکالیف کے باعث آپ کو اور آپ کے اتباع کو بہت مشکلات پیش آئے مگر جب آنحضرت مدینہ میں پہنچے تو ہر ایک قسم کی تکلیف بڑھ گئی کیونکہ ایک بت پرست قوم تو دشمن تھی ہی مگر اب اوس اور خزرج کے بت پرست فرقے بھی دشمن ہو گئے.پھر پڑھے لکھے یہودی بھی آمادہ مخالفت ہوئے.ان کی چالبازیاں رسول اللہ صلعم کی ایڈا کے لئے بہت باریک تھیں جن کا اشارہ اوّل ہاروت ماروت کے قصہ میں ہو چکا ہے پھر ان کے علاوہ بنونضیر اور بنو قریظہ دشمن اور بنو قینقاع دشمن.قریظہ دشمن اور ان سب کے علاوہ عیسائیوں کی طرار قوم دشمن پھر ان کے بھی علاوہ دوسری اقوام عرب تھیں جن کی نظروں میں آپ کا وجود مبارک کھٹکتا تھا اور سب سے مشکل یہ تھی کہ ان قوموں کی باریک اندرونی چالوں سے کیسے آگاہی ہو.یہ سب ایک دوسرے کو اور دوسری قوموں کو اکساتے تھے.اس لئے مدنی آیات میں آیا ہے يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبَّكَ وَ إِنْ لَمْ تَفْعَلُ فَمَا بَلَغْتَ رِسَالَتَهُ ۖ وَاللَّهُ يَعْصِبُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ (المائدة: (۶۸) کیونکہ سخت مشکلات کا سامنا تھا ان کے سامنے ملت ابراہیم کو پیش کیا گیا ہے جیسے کہ پیچھے ذکر ہوا اور اسی سخت مشکل کے وقت دوا تجویز کی گئی ہے جو کہ بتلاتی ہے کہ اس کا کیا فائدہ ہوا اور رکن رکن نے اس کا تجربہ کیا اور انہوں نے کیا برکات اور فوائد اس دوا سے حاصل کئے اور کیا نتیجہ نکلا ؟ وہ دو علاج ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے لے اے رسول! پہنچا دے جو تیری طرف وحی کی گئی تیرے رب سے.اگر تُو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اللہ کی رسالت نہ پہنچائی.اللہ تیری حفاظت کرے گا لوگوں سے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۹۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة.یعنی اے ایمان والو! تم پر بڑی مشکلات کا وقت ہے تم میری مدد اور عون حاصل کرو اس کا طریق ایک صبر اور ایک صلوۃ ہے.صبر کے دو معنے ہیں ایک تو عام طور پر روزہ رکھنا اور واقعی میں روزہ اور نماز دونوں جناب الہی کی طرف توجہ کا بڑا ذریعہ ہیں.دوسرے معنے صبر کے نیکیوں پر مستقل رہنا اور بدیوں کا ارتکاب نہ کرنا.مشکلات کے وقت انسان اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت کو چھوڑ بیٹھتا ہے.مثلاً بیماری ہو یا ہتک عزت ہو.کوئی مقدمہ ہو یا تجارت کا مقابلہ ہو یا کسی کام میں اُسے خسارہ ہوا ہو تو ایسی تمام مشکلات کے وقت ایک ناعاقبت اندیش انسان اللہ تعالیٰ کی نارضامندی کو جائز کر لیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے وقت تم یہ نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرو اور اطاعت الہی میں بہانہ تلاش کر کے کمزوری کرو.انسان اگر خدا کی مدد لینا چاہتا ہے تو اس کا یہی طریق ہے کہ مطلق عبادت کو ترک نہ کرے اور نہ کسی نافرمانی کا ارتکاب کرے.روزہ کا اصل میں یہی مطلب ہوتا ہے کہ بقائے نوعی اور بقائے شخصی کے لئے جو اُسے ضروریات ہیں اُسے وہ ترک کئے ہوتا ہے اور باوجو د ضرورت کے ترک کرتا ہے تو پھر غیر ضروری باتوں کو کب اختیار کرتا ہے.تو یا درکھو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد و طاقت پر مستقل رہنے اور بدی سے بچنے پر آیا کرتی ہے.صبر کے بعد پھر دعا ( صلوۃ) کرے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان الله مع الصبرين صابروں کا ہم ساتھ دیتے ہیں مَعَ البِرین کے لفظ سے مجھے بہت بڑی خوشی ہؤا کرتی ہے کیونکہ جب ایک دولتمند وکیل اور حاکم یا کوئی اور ذی وجاہت کسی کو یہ کہہ دے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں تو اسے کس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے اور اس کی ڈھارس بندھتی ہے تو پھر جب احکم الحاکمین بتلا دے کہ ہم صابروں کے ساتھ ہیں تو کس قدر خوشی ہونی چاہیے! اس سے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے بہت سے قتل تو ہوں گے مگر وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَموَات تم یہ نہ سمجھنا کہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مریں گے وہ مردہ ہوگئے بل احیا و لكن لا تَشْعُرُونَ بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے.اللہ کی راہ میں جو مارا جاوے اسے احیاء کہتے ہیں اور تین طرح سے وہ زندہ ہوتے ہیں جن کو ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے اور
حقائق الفرقان ۳۹۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة متوسط درجہ کے آدمی بھی اور ایک مومن بھی سمجھ سکتا ہے.گویا ان کی حیات قائم رہتی ہے.اسے تو ایک مومن سمجھ سکتا ہے.دوسری بات کہ متوسط درجہ کا عرب سمجھ سکتا ہے کہ اہل عرب کا محاورہ ہے کہ جس کا بدلہ لیا جاوے اسے وہ مردہ نہیں کہتے بلکہ زندہ کہتے ہیں.شہید کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے مرے گا اس کا بدلہ لیا جاوے گا.تیسری بات کہ ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ جب میدان ہاتھ آوے اور فتح ہو جاوے تو پھر مردوں اور مقتولوں کو مردہ اور مقتول نہیں سمجھتے اور نہ ان کا رنج و غم ہوتا ہے میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی درد محسوس نہیں ہوتا اور میں نے اس کی نظیر میں خود دیکھی ہوئی ہیں.البدر جلد ۲ نمبر ۹ مؤرخه ۲۰ / مارچ ۱۹۰۳ ء صفحه ۶۹) آج یہ جو دو آیت میں نے تمہارے سامنے پڑھی ہیں یہ میرے کسی خاص ارادے، غور وفکر کا نتیجہ نہیں اور نہ میں نے کوئی تیاری قبل از وقت اِس مضمون اور ان آیات کے متعلق آج جمعہ کے خطبہ میں سنانے کی کی تھی.وعظ کا بیشک میں عادی ہوں مگر یہ آیتیں محض اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے دل میں ڈالی گئیں.اس کا مطلب سمجھنے کے واسطے میں پہلے تمہیں تاکید کرتا ہوں.توجہ سے سنو اور یا درکھو جب تمہیں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو پہلے دائیں لے طرف تھوک دو پھر لاحول پڑھو اور ان باتوں کو کثرت سے استعمال کرو.دعا کرو.پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ اب تمہارا کام یہ ہے کہ ہتھیار بند ہو جاؤ ، کمریں کس لو اور مضبوط ہو جاؤ.وہ ہتھیار کیا ہیں ؟ یہی کہ دعائیں کرو.استغفار، لاحول، درود، اور الحمد شریف کاورد کثرت سے کرو.ان ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لو اور ان کو کثرت سے استعمال کرو.میں ایک تجربہ کار انسان ہونے کی حیثیت سے اور پھر اس حیثیت سے کہ تم نے مجھ سے معاہدہ کیا ہے اور میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے تم کو بڑے زور سے اور تاکیدی حکم سے کہتا ہوں کہ سر سے پاؤں تک ہتھیاروں میں محفوظ ہو جاؤ اور ایسے بن جاؤ کہ کوئی موقعہ دشمن کے وار کے واسطے باقی نہ رہنے دو.لے دائیں سہو کتابت ہے.اصل میں بائیں طرف ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۳۹۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بائیں طرف تھوکنا، لاحول پڑھنا، استغفار، درود اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ کرنا.ان ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ان آیات کا مضمون سن لو.تم نے سنا ہو گا اور مخالفوں نے بھی محض اللہ کے فضل سے اس بات کی گواہی دی ہے اور تم میں سے بعض نے اپنی آنکھ سے بھی دیکھا ہوگا کہ حدیث شریف میں آیا الْمَبْطُونُ شَهِيدٌ (بخاری کتاب الاذان باب فضل التهجير الى الظهر) وہ جو دستوں کی مرض سے وفات پاوے وہ شہید ہوتا ہے.مبطون کہتے ہیں جس کا پیٹ چلتا ہو یعنی دست جاری ہو جاویں.اب جائے غور ہے کہ آپ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام) کی وفات اسی مرض دستوں ہی سے واقع ہوئی ہے.اب خواہ اسی پرانے مرض کی وجہ سے جو مدت سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ایک نشان کے آپ کے شامل حال تھا یا بقول دشمن وہ دست ہیضہ کے تھے.بہر حال جو کچھ بھی ہو یا مرقطعی اور یقینی ہے کہ آپ کی وفات بصورت مبطون ہونے کے واقع ہوئی ہے.پس آپ بموجب حدیث صحیح کہ مبطون جو مرض دست سے خواہ کسی بھی رنگ میں ہو وفات پانے والا شہید ہوتا ہے.پس اس طرح سے خود دشمنوں کے منہ سے بھی آپ کی شہادت کا اقرار خدا نے کرا دیا تُقتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ سے مراد لڑائی اور جنگ ہوتی ہے.لڑائی اور جنگ ہی میں صلح ہوتی ہے.خدا نے آپ کو پیغام صلح دینے کے بعد اُٹھایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب جنگ کا خاتمہ ہونے کو ہے کیونکہ اب صلح کا پیغام ڈالا گیا ہے مگر خدا کی حکمت اس میں یہی تھی کہ آپ کو حالت جنگ ہی میں بلالے تا آپ کا اجر جہاد فی سبیل اللہ کا جاری اور آپ کو رتبہ شہادت عطا کیا جاوے.یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس صلح کی کارروائی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے جبکہ ابھی زمانہ زمانہ جنگ ہی کہلاتا تھا اُٹھا لیا.اب اللہ تعالیٰ کہتا ہے.يَآتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا ہم سناتے ہیں ذرا غور سے توجہ سے اور خبر دار ہو کر سن لو.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کیا کہتے ہیں؟ یہی کہ تم ان لوگوں کے حق میں یہ کبھی بھی مت کہیو جو خدا کی راہ میں جان خرچ کر گئے ہیں اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں.کیا مت کہیو ؟ یہ مت کہیو کہ وہ مر گئے ہیں.وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں.آپ نے خدا کی راہ میں تبلیغ احکام البیہ میں ، خدا کی راہ میں حالت سفر میں
حقائق الفرقان ۳۹۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وفات پائی ہے.پس یہ خدا کا حکم ہے اور کوئی بھی اس بات کا مجاز نہیں کہ آپ کو مردہ کہے آپ مردہ نہیں.آپ ہلاک شدہ نہیں بک اختیار بلکہ زندہ ہیں.یا درکھو کہ یہ نہی الہی ہے.ہم وجوہات نہیں جانتے کہ ایسا کیوں حکم دیا گیا بلکہ اس جگہ ایک اور نکتہ بھی قابل یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ اور جگہ جہاں شہداء کا ذکر کیا ہے وہاں احیاء عند ربہم کا لفظ بھی بولا ہے مگر اس مقام پر عِند ربهم کا لفظ چھوڑ دیا ہے.دیکھو انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزاء متفرق ہو جاتے ہیں مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ اس نے حضرت مرزا صاحب کی جماع کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء کے اور اجزاء کے تھی اس تفرقہ سے بچالیا اور اتفاق اور اتحاد اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیاتِ ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دنیا میں ظاہر کر دیا.صرف تخمریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے مونہہ پر خاک ڈال کر وحدت کو قائم کر دیا.دیکھو یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے الْمَبْطُونُ شَهِيدٌ اور دوسری طرف قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑ کر کہا ہے کہ مردہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ اختیا ر یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی.ہم نے خود دم نکلتے دیکھا، غسل دیا، کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے گاڑ دیا اور خدا کے سپر د کیا پھر یہ کیسے ہو کہ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر دیکھو اللہ فرماتا ہے کہ تمہارا شعور غلطی کرتا ہے.میں یہ مسئلہ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندر غیرت پیدا کریں اور سچے جوش جو حق اور راستی کے قبول کرنے سے ان میں موجود ہو گئے ہیں ان کا اظہار کریں اور ہمیں دکھا دیں کہ واقعی ان میں ایک غیرت اور حمیت ہے اور ان مخالفوں سے پوچھیں کہ دشمن جو کہتا ہے کہ ہیضہ سے مرے ہیں.اچھا مان لیا کہ دشمن سچ کہتا ہے پھر ہیضہ سے مرنا شہادت نہیں ہے؟ پیغام صلح جنگ کو ثابت کرتا ہے اور دشمن بھی اس بات کو تسلیم کرے گا کہ واقعی آپ کی وفات عین جہاد فی سبیل اللہ میں واقع ہوئی ہے.دشمن نے خود بھی ہر طرح سے مورچہ بندی کی ہوئی تھی اور اپنے پورے ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کے سامان کرنے کی فکر میں لگ رہا تھا.اراکین اور امراء لے دستوں کی مرض سے وفات پانے والا شہید ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۳۹۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کو دعوت دے کر آپ نے اپنے تمام دعاوی پیش کئے تھے یا کہ نہیں ! پس ان سب لوازم کے ہوتے ہوئے بھی اگر دشمن آپ کے احیاء کے قائل نہیں تو جانور ہیں.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۸ مؤرخہ ۱۴ / جون ۱۹۰۸ ء صفحه ۸،۷) ۱۵۶ تا ۱۵۸ - وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا قف إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَ أولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ - ترجمہ.اور ضرور ضرور ہم انعام دیں گے تم کو بدلہ میں تھوڑے خوف اور بھوک اور کمی ہر مالوں اور جانوں اور پھلوں کے.کیا معنے اگر تم ذرا سا بھی اللہ تعالیٰ سے خوف کرو اور اس کی رضا جوئی کے لئے کسی خوف کی برداشت کر لو اور اللہ کی راہ میں روزہ وغیرہ بھوک کو اختیار کرو.اموال اور جانوں اور پھلوں کو اس کی راہ میں دے دو یا کھو بیٹھو.اور خوشی کی خبر سنا دو ان مستقل مزاجوں کو جو سکھ اور دکھ دونوں میں اللہ تعالیٰ کو نہیں چھوڑتے بلکہ ثابت کر دکھاتے ہیں کہ ہم اللہ کے اور اسی کی طرف ہمارا جانا ہے.ایسے لوگ ان کے لئے شاباش ہے اور رحمت ، وہی راہ راست پر ہیں.تفسیر - لنبلونکم.اس کے معنے ہیں ضرور ضرور ہمیں اپنی ذات کی قسم ہے کہ ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں مگر کچھ تھوڑا سا خوف دے کر.خوی.صوفی کہتے ہیں الہی خوف.فقہاء کے نزدیک یہ معنے ہیں کہ اکل حرام سے خوف.اور شافعی کہتے ہیں جہاد کی تکالیف کا خوف.الجوع.اس کی بھی تین صورتیں ہیں (۱) روزہ (۲) مال حرام ملتا ہے تو نہ لے.اور اگر اس نہ لینے سے فاقہ آتا ہو تو اس فاقہ کو مقدم کر کے اسے برداشت کرے (۳) بعض وقت اپنے پیٹ کو خالی رکھ کر دینی امور میں امداد دے.نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ - مالوں کی کمی کی بھی کئی صورتیں ہیں (۱) اللہ کی راہ میں خرچ کر
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیا.(۲) رشوت حرامزدگی، باطل سے مال ملتا ہے اُسے نہ لیا.غرض نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ ہوتا ہے زکوۃ دینے سے.حرام سے بچنے سے یا کسی الہی حکمت کے ماتحت کسی چیز کے قبضہ سے نکل جانے سے.وَالْأَنْفُسِس - جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا.القمرت.پھلوں کی زکوۃ.اور اس سے مراد اولا د بھی ہے.انا للہ.ایک شخص کا کوئی بہت پیارا مر گیا.وہ بہت مضطرب تھا.ایک دوست نے اسے آکر ایک کہانی سنائی کہ ایک شخص نے کسی کے پاس جواہرات امانت رکھے تھوڑے دن بعد جب وہ واپس لینے کو آیا تو اس نے رونا چیخنا چلا نا شروع کر دیا اس پر وہ شخص بولا جس کا بہت پیارا مر گیا تھا کہ پھر تو وہ بڑا ہی بیوقوف تھا جو امانت کو واپس دیتے ہوئے روتا ہے.جب اس کے منہ سے یہ بات نکلی تو اس کے دوست نے کہا آپ اپنی طرف نگاہ کریں.لڑکے بھی آپ کے خدا کی امانت تھے اگر خدا نے واپس لے لئے تو پھر جزع فزع کا کیا مقام ہے؟ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ.یعنی اگر خدا با وجود اس کا مالک، اس کا بادشاہ اور اس کا خالق وربّ ہونے کے کوئی چیز لے لیتا ہے تو غم کی بات نہیں کیونکہ ہم نے بھی اسی کے حضور جانا ہے اور وہاں جا کر اس کا نعم البدل پانا ہے بلکہ اسی دنیا میں بھی.میرے نوٹڑ کے لڑکیاں (عبد اللہ، اسامہ، حفیظ الرحمن محمد احمد، عبد القیوم ، امتہ اللہ ، رابعہ ، عائشہ، امامہ ) مرچکے ہیں ہر ایک کے مرنے پر میں نے یہی خیال کیا ہے کہ آخر ایک دن ہم نے جدا ہو نا تھایا میں نے مرنا تھا یا ان میں سے کسی نے.بہر حال خدا کے پاس جا کر پھر جمع ہونا تھا.پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اور بہت اولا د دے دی.وَالْحَمْدُ للہ.أوليكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ.صَلَوَات کہتے ہیں کہ بدی کا اثر اور سزا جس بات پر مرتب نہ ہو.ان خاصہ عنایات کا نام صلوات ہوتا ہے.رَحْمَةٌ.یعنی علاوہ ان خاص عنایتوں کے عام رحمتوں سے بھی حصہ ملتا ہے.یہ تو ایک دعوی تھا اب اس کا ثبوت میں بیان فرماتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ مارچ ۱۹۰۹، صفحه ۲۵)
حقائق الفرقان وَالثَّمَرتِ.جنگ میں بیٹے بھی مرتے ہیں کھیتی کی نگرانی نہیں ہو سکتی.سُوْرَةُ الْبَقَرَة تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۰) اور ہم تم کو انعام دیں گے کسی قدر خوف کے بدلے اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کے کم کرنے کے بدلے اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو کہ جنہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزر ڈایڈ یشن صفحہ ۲۵) جناب ہاجرہ علیہا السلام کو ایک بڑا ابتلا پیش آیا جس کا اشارہ اِن باتوں سے ہوا.وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقرة : ۱۵۶) اور انعام دیں گے ہم تم کو بدلہ میں تھوڑے سے خوف اور بھوک اور مالوں کی کمی اور جانوں کے اور پھلوں کے نقصان کے اور ان پانچوں پر امنا باجرہ نے انَّا لِلہ اور اِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کہا.ہم سب اللہ کے ہیں اور اسی کی طرف جانا ہے.پس اپنے دو اقوال سے صبر و استقلال اور ایمان کا اظہار فرمایا.اس واسطے اللہ تعالیٰ کریم ورحیم نے اس کی اولا دکو آمَنَهُم مِّنْ خَوف (قريش: ۵) امن دیا ان کو عظیم الشان ڈر أَطْعَمَهُم مِّنْ جُوع (قریش: ۵) کھانا دیا ان کو بھوک سے اور بلدہ کو بلدۂ مبارک فرما کر کثرت اموال و انفس و ثمرات اور الصبر کا نعم الاجر صلوات و رحمت عطا فرما کر اس کی اولا دکو ہدایت یافتہ فرمایا.نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۳۳۵) مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اجر ملتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُوْنَ پڑھ کر یہ دعا مانگو اللهُم أَجْرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَاخْلُفْنِي خَيْرًا مِّنْهَا (المسلم - كتاب الجنائز باب ما يقال عند المصيبة) اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اجر کا وعدہ ہے.وبشر الصُّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ - أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَ ا جس نے ان کو بھوک کے وقت کھانا دیا.(ناشر) سے اے اللہ میری مصیبت میں ( صبر کرنے پر ) اجر اور ثواب عطا فرما اور مجھے ( اس نقصان پر ) اس سے بہتر بدلے میں بخش.(ناشر)
حقائق الفرقان وو ۴۰۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الْمُهْتَدُونَ یعنی مصائب پر صبر کرنے والوں اور انا للہ کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں.ا_صلوات ہوتے ہیں ان پر اللہ کے.۲.رحمت ہوتی ہے ان پر اللہ کی..اور آخر کار ہدایت یافتہ ہوکر ان کا خاتمہ بالخیر ہوجاتا ہے.اب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسان کو ان انعامات کا تصور آ جاوے جو اس کو اللہ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت ، مصیبت رہ سکتی ہے اور غم غم رہتا ہے؟ ہر گز نہیں ! پس کیسا پاک کلمہ ہے الحمد للہ اور کیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے! یہ نہایت ہی لطیف نکتہ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اسی آیت سے شروع ہوا اور رسول اکرم صلعم کے تمام خطبات کا ابتدا بھی اسی سے ہوا ہے.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۸ مؤرخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۸ صفحه ۳،۲) میں نے تمہیں یہ چند آیتیں جو قرآن کریم کی سنائی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے چند ایک نصیحتیں اپنے بندوں کو فرمائی ہیں جن میں سے ایک صبر بھی ہے.صبر کے نتیجے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کس طرح اور کیونکر دیتا ہے اس کی بہت سی مثالیں ہیں.جن کو اگر مفصل بیان کیا جاوے تو بیان بہت لمبا ہو جاتا ہے مگر میں تمہیں بتلائے بغیر بھی نہیں رہ سکتا.شاید تم میں کوئی نیک بی بی ہو جو اس پر محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے عمل کرے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت تھی جس کا خاوند زمینداری کرتا تھا.ان کا لڑکا بیمار تھا.ایک روز خاوند باہر کام پر گیا اور پیچھے سے لڑ کا فوت ہو گیا.اس کی بیوی نے لڑکے کو ایک چار پائی پر ایک کونے میں لٹا دیا اور آپ خوب عمدہ لباس پہن کر خاوند کے آنے سے پیشتر عمدہ کھانا تیار کر کے شاداں و فرحاں بیٹھ رہی.جب خاوند آیا تو اس نے لڑکے کا حال دریافت کیا.عورت نے جواب دیا اس نے آج آرام کیا
حقائق الفرقان ۴۰۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.خاوند نے سمجھا کہ ٹھیک کہتی ہے جبھی تو اس نے عمدہ لباس پہنا ہے غرض دونوں نے کھانا کھایا اور ہر طرح سے لطف اٹھایا جب کھانا کھا کر اور جماع سے بھی فارغ ہو چکے تو عورت نے خاوند سے پوچھا ہمارے پاس کسی شخص کی امانت کچھ روز ر ہے پھر وہ صاحب امانت اپنی امانت مانگنا چاہے تو ہم کو بخوشی وہ امانت دے دینا چاہیے یا نہیں ؟ خاوند نے کہا کہ امانت والے کو دینا چاہیے.پس عورت نے کہا کہ بچہ بھی امانت کے طور پر ہمارے پاس تھا.صاحب امانت نے اسے لےلیا.پھر خاوند تر سال و ہراساں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا.حضور نے فرمایا کہ اس صبر کے معاوضہ میں جو تیری بیوی نے کیا اللہ تعالیٰ نے ان کو سات یا نو بیچے دیئے جوسب کے سب قاری ہوئے ایک شخص بیان کرتا ہے کہ میں نے ان سب کو دیکھا ہے.دیکھو کس قدر بدلہ عظیم اللہ تعالیٰ نے ایک صبر کرنے پر دیا.سنو؟ عورتوں میں دستور ہے کہ جب دو چارمل کر بیٹھتی ہیں تو غیبت، بدگوئی ،گلہ اور طرح طرح کی شرارتیں کرتی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب عورتیں آپ کی مرید ہونے کو آتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.يَايُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنتُ يُبَايِعُنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكُنَ بِاللهِ ( الممتحنة : ١٣ ) یعنی اے محمد رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) جب تیرے پاس مومن عورتیں اس غرض کے واسطے آدیں کہ وہ تجھ سے بیعت کریں پس ان سے یہ اقرار لے کر بیعت کر کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو.یعنی کوئی منت اور نذر غیر اللہ کی نہ مانیں اور نہ غیر اللہ سے مرادیں مانگیں.چوری نہ کریں.زنانہ کریں ہاتھ کا زنا کان کا زنا، ناک کا ، آنکھ کا اور وہ زنا تو بدرجہ اولیٰ نہ کریں جسے عام زنا یا بدکاری کہتے ہیں اپنی اولاد کو قتل نہ کریں.اولا د کو قتل کرنے کی کئی راہیں ہیں.اوّل تو اس وقت کئی عورتیں اپنی لڑکیوں کو جب وہ پیدا ہوتی تھیں مار ڈالتی تھیں.چنانچہ اب بھی میں دیکھتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے.دوئم اولا د ہونے کے بعد ایسی دوا کھاتی ہیں کہ جو مانع حمل ہو.تیسر احمل کا گرا لے اے نبی ! جب تیرے پاس ایماندار عورتیں آئیں کہ تجھ سے بیعت کریں اس بات کی کہ شرک نہ کریں گی اللہ کے ساتھ کسی کا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۰۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دینا.چہارم اگر لڑ کیاں بیمار ہو جاویں تو ان کا علاج نہ کرنا اور یہ کہنا کہ ان کو موت کہاں آتی ہے.پھر بہتان باندھنے سے باز آؤ.بہتان وہ عیب کی بات ہے کہ جو کسی شخص میں نہ ہو اور اس پر وہ عیب لگا یا جاوے.وہ بہتان جو تم اپنے ہاتھوں اور پاؤں سے بناتی ہو اور بھلے کاموں میں تیری نافرمانی نہ کریں.پھر ایسی عورتوں کے واسطے مغفرت مانگ.پس ہر ایک عورت کا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرید ہونا چاہتی ہے یا اپنے آپ کو مرید بجھتی ہے یعنی مسلمان کہلاتی ہے ضروری ہے کہ وہ ان بری باتوں کو چھوڑ دے ورنہ وہ نام کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ کے استغفار میں شامل ہو کر خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے حصہ نہیں لے سکتی.غور کرو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قرآن کریم کے پہنچانے میں کتنی کتنی مصیبتیں بھی آئیں آخر حضور نے اس کو پہنچایا.مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس نے صرف خدا تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے سارے قرآن کو ایک بار بھی سمجھ کر پڑھا ہو یا سنا ہو.ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی جس کو کافروں نے کہا کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے مگر اس نے انکار کیا.اس پر ان شریروں نے اس کی شرمگاہ میں برچھی مارکر گلے سے نکالی.اس کا خاوند دیکھتا تھا اسے کہا تو بھی گالی دے ورنہ تیرا بھی ایسا ہی حال ہو گا چنانچہ اس نے بھی انکار کیا اور انہوں نے اس کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری دوسرے سے باندھ کر ان کو الگ الگ چلا دیا اور اس کو اس طرح پر پھڑوا کر مرواڈالا.دیکھو وہ کیسے مبارک لوگ تھے.اس قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر کیا کیا تکلیفیں برداشت کیں اگر تمہارے کسی پیارے شخص کی کوئی چٹھی آوے تو جب تک تم اسے پڑھ یا پڑھا نہ لو تمہیں چین نہیں آتا.قرآن اللہ تعالیٰ کی چٹھی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان شخص لانے والا مگر اس کی کچھ پرواہ نہیں کی جاتی.پیار یو! اللہ تعالی بڑا نکتہ گیر اور نکتہ نواز ہے ہر وقت اس سے ڈرنا چاہئے.میں تمہیں ایک آپ بیتی کہانی سناتا ہوں شاید تم میں سے کوئی نیک بی بی نصیحت پکڑے.میری والدہ صاحبہ نے اتنی برس تک قرآن پڑھایا اور ان کے ہم نو بچے تھے.ہمارے ہاں ایک بڑا مال و اسباب اور کتب خانہ بھی تھا.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة جن دنوں روس اور روم کی لڑائی ہو رہی تھی میں نے اپنی والدہ سے ایک روز کہا کہ اچھا ہوا گرتم اپنا ایک بچہ اس وقت قربان کر دو اور اسے مسلمانوں کی مدد کے لئے لڑائی میں بھیج دوخواہ میں ہی کیوں نہ ہوں.میری والدہ نے کہا کہ ایں! میرے جیتے جی اتم مجھ سے الگ ہو جاؤ نہیں ہوسکتا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سب اولا دیں بجز میرے ان کی زندگی میں فوت ہو گئیں.ایک روز میں اس کتب خانہ کے مکان میں لیٹا ہوا تھا جب کہ وہ بالکل خالی پڑا تھا.میری والدہ صاحبہ وہاں آئیں اور انہوں نے اس حالت کو دیکھ کر بہت بلند آواز سے کہا کہ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ (البقرۃ:۱۵۷) میں نے کہا کہ اتاں یہ آواز کی بلندی بے صبری سے معلوم ہوتی ہے.مجھے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تمہارے مرنے پر شاید میں بھی نہ پاس ہوں گا یا اسی کے قریب الفاظ ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا جب ان کا انتقال ہوا تو میں کہیں دور تھا.غرض اللہ تعالیٰ بڑا ہی بے نیاز اور نکتہ نواز ہے تم اپنے الفاظ سمجھ کر خدا سے ڈر کر منہ سے نکالا کرو.پھر میں دیکھتا ہوں کہ عورتیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی بالکل پرواہ نہیں کرتیں اور اپنے رسومات کی ایسی پابند ہیں جس کی کچھ حد نہیں ہے.ہمارے پڑوس میں ایک عورت کے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے.میرا دل اس بات کو دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ اس نے اپنی کسی منت کے واسطے قبل از تولد اور عین تولد پر تو بکرے ذبح کر دیے مگر جو امر مسنون اور ساتویں دن عقیقہ کرنے کا حکم تھا اس کے واسطے اس کے پاس خرچ نہیں کبھی اس لڑکے کا باپ آوے گا تو شاید کرے گا.ایک اور عورت ہمارے پڑوس میں رہتی ہے کہ جو اپنی اولادکو ایسے ایسے خطرناک الفاظ سے پکارتی ہے کہ اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آمین کہنے میں شامل ہوویں اور آمین کہہ دیں اور اس کی وہ بددعا قبول ہو جاوے تو شاید اللہ تعالیٰ پر اسے کتنی بڑی بدظنی اور ناراضی ہو.احکم جلد ۲ نمبر ۲۶ ، ۲۷ مورخه ۶ و ۱۳ ستمبر ۱۸۹۸ صفحه ۹،۸) دیکھو یہ سب کچھ صبر ہی کا نتیجہ تھا.سنو ! جس گھر میں کوئی مصیبت یا تکلیف آتی ہے اللہ تعالیٰ وہاں اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے کہ جو کچھ گھر والے کہیں تم ساتھ آمین کہو.پس جو عورت بے صبری سے کلمات زبان پر لاتی ہے اگر اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آمین کہہ دیں اور وہ دعا منظورِ خدا لے ہم تو اللہ کے ( مال ) ہیں اور ہم تو ہر حال میں اُسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۰۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہو جاوے تو اس عورت کا کیا حال ہو.ایسی بے صبریوں میں کوئی آنکھیں کھو بیٹھتی ہے کوئی ہاضمہ بگاڑ لیتی ہے.کسی کا سر خراب ہو جاتا ہے.غرض طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں.پس بڑے صبر سے کام لو.کاش میری بیویاں بھی میرے کہنے پر بتمامہ عمل کرتیں تو میں ان کو اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا جواب کرتا ہوں.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶، ۲۷ مورخه ۶ و ۱۳ رستمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۱۰) صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی وفات اور پھر خود حضرت اقدس علیہ الف صلوۃ والسلام کا کوچ کرنا واقعی اپنے اندر ضرور ابتلا کا رنگ رکھتے ہیں مگر اس سے خدا ہم کو انعام دینا چاہتا ہے.انعام الہی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو.خوف کس کا؟ خوف اللہ کا، خوف دشمن کا ، خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا.مگر وہ بہت تھوڑا ہو گا.یہ ایک پیشگوئی ہے اور اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ الخ.خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا.کچھ جُوع ہوگی ( جوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے.مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو ) اور یا اس رنگ میں جوع اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے.اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں اور جانوں کو بھی اسی کی راہ میں خرچ کرو.عَلى هذا پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو.و الصبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ اور ایسے لوگوں کو جو مصائب اور شدائد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں اور نیکی پر ثبات رکھتے ہیں.خدا کو نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ ہم سب البی رضا کے واسطے ہی پیدا ہوئے ہیں.جس طرح وہ راضی ہو اس راہ سے ہم اس کے حضور اس کو خوش کرنے کے واسطے حاضر و تیار اور کمر بستہ ہیں.ہم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے.پس جس کے حضور انسان نے ایک نہ ایک دن حاضر ہونا ہے وہ اگر اس سے خوش نہیں تو پھر اس ملاقات کے دن سُرخروئی کیسے ہوگی؟ پس تم خود ہی پیشتر اس کے کہ خدا کی طرف سے تم پر خوف، جوع اور نقص اموال اور ثمرات کا ابتلا آوے خود اپنے اوپر ان باتوں کو اپنی طرف سے خدا کی خوشنودی
حقائق الفرقان ۴۰۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے حصول کے واسطے وارد کر لو تا کہ دوہرا اجر پاؤ اور یہ قدم خدا کے لئے اُٹھاؤ تا کہ اس کا بہتر بدلہ خدا سے پاؤ.یہ مصائب دینی نہیں بلکہ صرف معمولی اور دنیوی ہوں گے.زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ دشمن بُرا بھلا کہہ لے گا.کوئی گندہ گالیوں کا بھرا اشتہار دے دے گا یا خفگی اور ناراضگی کے لہجہ میں کوئی بودا سا اعتراض کر دے گا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لَن يَضُرُوكُم إِلَّا أَذًى (ال عمران - ۱۱۲) یہ تکلیف ایک معمولی سی ہوگی کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہوگی.دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچالیا کہ تفرقہ سے بچا لیا.اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رشنی میں پروئے نہ جاتے اور تم تتر بتر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک ابتلا.مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے.اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہو گی بھی تو یہیں ہوگی اس کا مابعد الموت سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ ما بعد الموت کو باعث اجر اور رحمت الہی ہوگی اور اس تھوڑی سی مشکل پر صبر کرنے اور مستقل رہنے اور بچے دل سے إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ کہنے کا بہتر سے بہتر بدلہ دینے کی قدرت اور طاقت رکھنے والا تمہارا خدا موجود ہے وہ خاص رحمتیں جو کہ ورثہ - انبیاء اور شہدا ہوتی ہیں وہ بھی تمہیں عطا کرے گا اور عام رحمتیں بھی تمہارے شامل حال کرے گا اور آئندہ ہدایت کی راہیں اور ہر مشکل سے نجات پانے کی، ہر دکھ سے نکلنے، ہر سکھ اور کامیابی کے حصول کی راہیں تم پر کھول دے گا.دیکھو میں یہ اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ ” بلوح خدا ہمیں است“ خدا کے اپنے وعدے ہیں اور خدا اپنے وعدے کا سچا ہے.آج کا مضمون اور اس کی تحریک محض خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے دل میں ڈالی گئی ہے ورنہ نہ میں نے اس کا ارادہ کیا تھا اور نہ اس کے واسطے کوئی تیاری کی تھی.پس یہ خدا کی بات ہے.میں تم کو پہنچا تا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ ایسے اوقات میں تم کثرتِ دعا، استغفار، درود، لاحول، الحمد شریف کا ورد کیا کرو.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۳۸ مؤرخہ ۱۴؍جون ۱۹۰۸ صفحه ۸) خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم خوف، جوع، نقصان مال و جان و پھل کے ذریعے تمہارے اندرونی صفات کو ظاہر کریں گے اور صابروں کو بشارت دے جن کا یہ حال ہے کہ جب انہیں مصیبت پہنچے تو وہ
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة حال و قال سے کہتے ہیں ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.صبر کی مختصر حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر ایک نیکی اور نیک بات پر جما ر ہے.بدی سے رکا رہے.گویا صبر تمام نیکیوں کا جامع ہے.مشکل کے وقت بدی سے بچنا یہی تو صبر ہے.شہوت میں عفت ، غضب کے وقت حلم ، حرص کے مقابل میں قناعت، وقار ، استقلال، ہمت، عزم پر کارفرما رہنا.شرع و عقل سلیم کی مخالفت نہ کرنی.یہ سب صبر ہے.تفخیذ الا ذبان جلدے نمبر ۷.جولائی ۱۹۱۲ ء صفحہ ۳۲۷) صلوۃ کے معانی صلوۃ.تعریف کرنا، دعا کرنا.وَصَلِّ عَلَيْهِمْ.دعا کر وہ تعریف کرو.اللہ تعالیٰ جس طرح اپنے رسول کی تعریف کر سکتا ہے دوسرا اس طرح کیونکر کر سکتا ہے.صلوۃ کے معنے رحمت کے نہیں ہیں کیونکہ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُونَ (البقرة- ۱۵۷) صَلَواتُ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ (البقرة: ۱۵۸) میں صلوۃ کے معنے رحمت البدر - کلام امیر حصہ دوم مورخه ۵ /دسمبر ۱۹۱۲ء صفحه ۹۳) پھر میں دیکھتا ہوں کہ انسان جس دنیا اور مال و اولاد کی خاطر ایسی ایسی تکلیفیں اٹھاتا ہے.کے نہیں بنتے.ان میں سے کوئی ایک بھی اس کی مصائب میں حصہ نہیں لے سکتا.ذرا پیٹ میں درد ہو تو اس کے ہٹانے والا کوئی نہیں.غور کرو.مجھے حضرت مرزا صاحب نہایت ہی پیارے ہیں.میں نے ملک، وطن، نوکریاں، زمین، ہر قسم کے ذرائع تحصیل مال و منال ان کے حضور خاص رہنے کی خاطر چھوڑیں ہیں.اگر کہیں جاتا بھی ہوں تو صرف ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے اور بھی یہاں تک مجھے وہ پیارے ہیں کہ اگر میرے پچاس بیٹے ہوں تو میں اس کے ایک بیٹے پر ان پچاس کو قربان کردوں لاکن غور کرو جب مجھے کوئی دکھ، درد، تکلیف پہنچتی ہے.وہ بھی بجز رضاء الہی کے ہرگز ہرگز ہرگز میرے دکھ درد کا حصہ نہیں لے سکتے.پس اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگو اور صبر اور استقلال سے کام لو.اس کی لے وہ بول اٹھتے ہیں ہم تو اللہ کے (مال) ہیں اور ہم تو ہر حال میں اُسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.اُن کے رب کی نوازشیں اور رحمت ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۰۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة رضاء پر راضی ہو جاؤ اور قرآن کریم پر عمل کرو.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶، ۲۷ مورخه ۶ و ۱۳ رستمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۱۰) ۱۵۹ - إِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَابِدِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ تَطَوَّفَ بِهِمَا ۖ وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ۚ فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ - ترجمہ.بے شک صفا اور مروہ کے پہاڑ اللہ کی باتوں کا شعور حاصل کرنے کے لئے ہیں تو جو شخص خانہ کعبہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اگر دونوں کے درمیان طواف کرے اور جو اپنے شوق سے کوئی آدمی نیکی کرے تو بے شک اللہ قدر دان بڑا جانے والا ہے.تفسیر.صبر کا نتیجہ دیکھ صفا و مروہ پر کہ کیسے مقام پر ہاجرہ نے رہنا اختیار کر لیا جو بے کھیت کا ملک ہے پھر صبر کے بدلہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اولا دکو کیسا سکھ دیا.الحکم جلد ۲ نمبر ۲۶، ۲۷ مورخه ۱۳۹۶ ستمبر ۱۸۹۸ء صفحه ۸) باجرہ نام ایک عورت تھی جو میری تحقیق کے مطابق ملک مصر کی ایک شاہزادی تھی.ابراہیم کی کرامتوں کو دیکھ کر بادشاہ نے اپنی لڑکی ابراہیم کے نکاح میں دے دی.نوجوان اور خوبصورت اور باکرہ تھی اُس وقت ابراہیم کی عمر ۸۴ سال تھی جبکہ وہ حاملہ ہوئی.میں بہت ہی مختصر سناتا ہوں کہ پہلی بی بی نے اسے نکلوا دیا.اس پر اللہ سے مکالمہ ہوا کہ کیوں نکلی ؟ آپ نے عرض کیا کہ بڑی بی بی رہنے نہیں دیتی.خدا نے فرمایا واپس جاؤ اور اس کی فرمانبردار ہوکر رہو.اس صبر کے بدلے میں ہم تمہیں ایک لڑکا دیں گے جس کی اولا د تمام جہان کے لئے موجب ہدایت ہوگی اور آسمان کے تارے اور ریت کے ذرے گنے آسان ہوں گے مگر تیری اولا د کو کوئی نہ گن سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا.پھر جب دوبارہ اس بی بی نے ہاجرہ کو دکھ دیا تو ابراہیم انہیں مکہ میں چھوڑ گئے.ابراہیم سے پوچھا کہ ہمیں کس کے سپرد کرتے ہو؟ آپ نے اس کا جواب نہیں دیا.پھر پوچھا کہ کس کے حکم سے یہاں لائے ہو؟ فرمایا خدا کے حکم سے.اس پر اس نیک بخت صابرہ بی بی نے کہا تو پھر اب تمہاری ضرورت نہیں.اس بی بی کے پاس نہ روپیہ تھا نہ مال اسباب تھا نہ مویشی تھے.بچہ بھی چھوٹا تھا وہاں کوئی غمگسار نہ تھا.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة درندوں کا بھی ڈر تھا کوئی آبادی بھی نہ تھی.مگر اس صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مکہ ایک عظیم الشان شہر آباد ہے جو کر وڑ ہا مخلوق کا ملجاو ماوی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے نام کے لئے صبر کر کے اس کے نتائج سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ صفا و مروہ سے جا کر یہ شعور، یہ معرفت حاصل کریں کیونکہ وہ مقام اللہ کی طرف سے صبر کے نتائج کے شعور کے حصول کا ذریعہ مقرر شدہ ہے جو حج کرنے جائے وہ وہاں ذرا چل کر پھر کر دیکھے کہ ہمارا فضل اس صابرہ پر کیسا ہوا.ہم کیسے قدردان ہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۶،۲۵) إِنَّ الصَّفا - صبر کے نتائج نیک کی مثال.ایک بیوی کے صبر سے مکہ مرجع خلائق بن گیا.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۰) صبر اور پھر اس پر اجر کی ایک مثال بیان فرماتا ہے اور وہ صفا ومروہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے شعائر اللہ سے قرار دیا ہے.اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَابِدِ اللہ.یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہ اپنے بیٹے اسمعیل کے ساتھ حکم الہی کے ساتھ چھوڑ دی گئیں.وہاں آپ نے صبر سے کام لیا تو اس کا جو انجام ہوا وہ صفا ومروہ پر جا کر دیکھ لو کہ کیسی گھمسان کی آبادی ہے اور کس طرح پر دور دراز علاقوں سے لوگ دیوانہ وار وہاں دوڑتے آتے ہیں اور کس طرح پر وہ مقام جو بالکل ایک ویرا نہ تھا خدا کے فضل سے مرجع خلائق بن رہا ہے اور کس کثرت کے ساتھ برکات کا نزول ہوتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہاجرہ کی بھی خصوصیت نہیں بلکہ جو صبر کرے اجر پائے گا.وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ۚ فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرُ ( تشحیذ الاذہان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۲۸،۳۲۷) عليم.علِیم.۱۶۴ - وَالهُكُمْ الهُ وَاحِدٌ : لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ - ترجمہ.تمہارا معبود و مقصود و مطلوب ایک ہی ہے کوئی معبود نہیں بجز اس کے وہ رحمان رحیم ہے.تفسیر.تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے جسے اللہ کہتے ہیں.ہر ایک کا ملہ صفت سے موصوف.ہر ایک برائی سے پاک.بن مانگے احسانات کرنے والا.مانگنے والوں کے سوال و محنت پر عنایت فرما.
حقائق الفرقان اس اللہ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں.۴۱۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۱) اوپر کی آیات میں کفار پر لعنتوں کا ذکر ہے اب ان سے بچنے کا ایک نسخہ بتلایا ہے.(۱) اللہ کی طرف جھک جانا جو اپنی ذات وصفات میں یگانہ ہے.یہاں اس معبود کی دو عظیم الشان صفتوں کا ذکر ہے.الرحمٰن.بلا مبادلہ رحم کرنے والا.الرَّحِيمُ - سچی محنتوں کو ضائع نہ کرنے والا بلکہ ان پر ثمرات مرتب کرنے والا.اب اپنی ہستی.اور صفت رحمانیت کا ثبوت دیتا ہے.پہلا ثبوت آسمان و زمین کی پیدائش ہے اور رات و دن کا اختلاف.ایک چھوٹی سی پیالی انسان کسی کے پاس دیکھے تو یہ کبھی وہم میں نہیں آتا کہ خود بخود بن گئی.تو اتنا بڑا آسمان وزمین دیکھ کر یہ یقین کیوں حاصل نہ ہو کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی کوئی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۶) وَالهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقره: ١٦٤) لا إلهَ إِلَّا الله یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جسے ہر ایک طبقہ کے مسلمان خواہ مرد ہوں خواہ عورت بچہ ہو یا بوڑھا بداطوار ہو یا نیک اطوار اعلی ہو یا ادنی غرض کہ سب جانتے ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ دو برس اور ڈیڑھ برس کا بچہ بھی لا اله الا اللہ جانتا ہے.اگر کسی سے سوال ہو کہ میاں تم مسلمان ہو؟ تو وہ حجٹ لا إلهَ إِلَّا اللہ پڑھ کر اپنے مسلمان ہونے کا ثبوت دے دیتا ہے.اب غور کرو اور سوچو کہ اس اقرار اور اس کے تکرار کرنے میں کیا سر ہے؟ کیا یہ ایک چھوٹی سی بات ہے جو کہ اہل اسلام کو بتلائی گئی تھی.نہیں ، ہر گز نہیں.اس چھوٹے سے فقرے میں دو باتیں ہیں.اول حصہ میں تو انکار اور دوسرے میں اقرار ہے.اور ان چند ایک چھوٹے حرفوں میں اس قدر قوت اور زور ہے کہ اگر ایک شخص سو برس تک کا فرر ہے اور کفر کے کام بھی کرتا رہے لیکن اگر وہ اپنے آخر وقت میں لا إلهَ إِلَّا اللہ کہہ دے تو وہ کافروں سے الگ اور مسلمانوں میں شمار ہونے لگ جاتا ہے.نبی کریم صلی اللہ علیہ و
حقائق الفرقان ۴۱۲ سُورَة البَقَرَة جنگیں اور بڑی بڑی خونریزیاں اور جانفشانیاں انہی دو حرفوں پر تھیں.انہی حرفوں کے ذریعہ سے اجنبی لوگ دور دور سے آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیارے بن جایا کرتے تھے.کیا تمہارے خیال میں یہ کوئی منتر جنتر ہے؟ نہیں.یہ کوئی منتر جنت نہیں ہے کہ بے معنے منہ سے کہہ دینے سے کوئی شعبدہ نظر آ جاتا ہے.جب یہ بات ہے تو کیا ہر ایک مسلمان کا فرض نہیں ہے کہ وہ کم از کم غور تو کر لے کہ یہ ہے کیا؟ کہ جس کے ذریعے سے سو برس کا شریر النفس دشمن معتبر دوست بن جاتا ہے اور سو برس کا دوست اس کے انکار سے دشمن بن جاتا ہے.پیدائش کے بعد کچھ خواہشیں ہوتی ہیں جو کہ انسان کو لگی ہوئی ہوتی ہیں.بھوک چاہتی ہے کہ غذا ملے اور شکم سیری ہو.پیاس چاہتی ہے کہ ٹھنڈا پانی ملے.آنکھ چاہتی ہے کہ کوئی خوش منظر شے سامنے موجود ہو.کان چاہتے ہیں کہ سریلی اور میٹھی آواز ان میں پہنچے.اسی طرح ہر ایک قوت الگ الگ اپنا تقاضا وقتا فوقتا کرتی ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انسان بعض وقت ایسے کام بھی کرتا ہے جن کو اس کا جی نہیں پسند کرتا.بعض تو ان میں سے ایسے ہیں کہ قوم ، اپنے بیگانے ، برادری اور اہل محلہ اور شہر والوں کی مجبوری سے کرتا ہے اور بعض کام حاکموں کے ڈر سے کرنے پڑتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں کسی نہ کسی کی بات کے ماننے کا بھی مادہ موجود ہوتا ہے.انسان تو درکنار حیوانوں میں بھی ہم ایک اطاعت کا مادہ پاتے ہیں.بندروں کو دیکھو کہ کس طرح سے ایک شخص کی بات مانتے چلے جاتے ہیں اور اسی طرح سے سرکس میں کتے، گھوڑے، شیر، ہاتھی وغیرہ بھی اپنے مالک کا کہا مانتے ہیں.پس انسان کو حیوانوں سے متمیز ہونے کے لئے ان سے کہیں بڑھ چڑھ کر اپنے آقا اور مولا کی اطاعت کرنی چاہیے.اللہ تعالیٰ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے سے کلمہ میں اول تو ہر ایک کو اپنے بیگانے یار، دوست ، خویش ، ہمسائے اور نفس و خواہش کی فرماں برداری سے منع فرمایا ہے اور یہ اس کلمہ کا اول حصہ لا الہ ہے.لیکن اگر کسی کا بھی کہا نہ مانا جاوے تو زندگی محال ہوتی ہے.انسان نہ کہیں اٹھ سکتا ہے، نہ بیٹھ سکتا ہے.نہ کسی سے مل جل سکتا ہے، نہ صلاح مشورہ لے سکتا ہے.نہ کوئی کسب و غیرہ کرسکتا
حقائق الفرقان ۴۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے اور اپنی ضروریات مثل بھوک، پیاس، لباس اور معاشرت وغیرہ سب سے اسے محروم رہنا پڑتا ہے.اس لئے آگے إِلَّا اللہ کہہ کر ان سب باتوں کا گر بتلا دیا ہے کہ تم سب کچھ کر ولیکن اللہ کے فرماں بردار بن کر کرو.پھر دیکھو کہ دنیا تمہاری بنتی ہے کہ نہیں.کھانا کھاؤ.کیوں؟ صرف اس لئے کہ خدا کا حکم كُلوا ہے.پانی پیو.کیوں؟ صرف اسی لئے کہ اشیر بُوا خدا کا حکم ہے.اپنی بیبیوں سے معاشرت کرو.کیوں؟ صرف اس لئے کہ عَاشِرُوهُنَّ کا حکم ہے.غرضیکہ اسی طرح سے اپنے بیگانے ، ماں باپ اور حکام وقت کی اطاعت وغیرہ سب کاموں کو خدا کے حکم اور اطاعت کے موافق بجالاؤ.یہ معنے ہیں إِلَّا الله کے کہ میں حالت عسر اور یسر میں صرف خدا کا فرماں بردار ہوں.اب انسان کو غور کرنا چاہئے کہ صبح سے لے کر شام تک اور شام سے لے کر صبح تک جس قدر حرکت وسکون وہ کرتا ہے اگر وہ خدا کے حکم سے اور فرمان کے بموجب کرتا ہے تو وہ اس کلمہ میں سچا ہے ورنہ وہ اسے کہنے کا کیونکر مستحق ہے.میں یہاں کس لئے آیا ہوں.دیکھو بھیرہ میں میرا امکان پختہ ہے اور یہاں میں نے کچے مکان بنوائے اور ہر طرح کی آسائش مجھے یہاں سے زیادہ وہاں مل سکتی تھی.مگر میں نے دیکھا کہ میں بیمار ہوں اور بہت بیمار ہوں.محتاج ہوں اور بہت محتاج ہوں.لاچار ہوں اور بہت ہی لاچار ہوں.پس میں اپنے ان دکھوں کے دور ہونے کے لئے یہاں ہوں.اگر کوئی شخص قادیان اس لئے آتا ہے کہ وہ میرانمونہ دیکھے یا یہاں آ کر یا کچھ عرصہ رہ کر یہاں کے لوگوں کی شکایتیں کرے تو یہ اس کی غلطی.اور اس کی نظر دھوکا کھاتی ہے کہ وہ بیماروں کو تندرست خیال کر کے ان کا امتحان لیتا ہے.یہاں کی دوستی ہے اور تعلقات، یہاں کا آنا اور یہاں سے جانا اور یہاں کی بود و باش ، سب کچھ لا إلهَ إِلَّا الله کے ماتحت ہونی چاہئے ، ورنہ اگر روٹیوں اور چار پائیوں وغیرہ کے لئے آتے ہو تو بابا! تم میں سے اکثروں کے گھر میں یہاں سے اچھی روٹیاں وغیرہ موجود ہیں پھر یہاں آنے کی ضرورت کیا ؟ تم اس اقرار کے قائل ٹھیک ٹھیک اسی وقت ہو سکتے ہو جب تک تمہارے سب کام خدا کے لئے ہوں.اگر کوئی تمہارا دشمن ہے تو اس سے خوف مت کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ
حقائق الفرقان ۴۱۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة امَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا ( مريم : ٩ ) که ایمان داروں اور نیک عمل کرنے والوں کے لئے ہم خود دوست مہیا کر دیں گے.بڑی ضروری بات یہ ہے کہ تمہارا ایمان لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ پر کامل ہو.مطالعہ کرو کہ ایک چھوٹے سے کلمے کی اطاعت کی جو ایک انگلی کے ناخن پر کھلا لکھا جاسکتا ہے کس قدر تاکید ہے.اس لئے اپنے ہر ایک کام اور عزت اور آبرو کے معاملہ میں اور سکھ اور دکھ میں جناب الہی سے صلح کرو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سوائے خدا کے سایہ کے اور کوئی سایہ نہ ہو گا.یہ واقعہ دنیا میں بھی پیش آتا ہے.بیٹھے بٹھائے انسان کے پیٹ میں سخت درد شروع ہو جاتی ہے اور انسان ماہی بے آب کی طرح لوٹنے لگ جاتا ہے.بیوی سے بڑھ کر غمگساری اور ماں سے بڑھ کر محبت میں اور کوئی نہیں ہوتا.لیکن دونوں میں سے ایک بھی اس کے دکھ کو دور نہیں کر سکتی جب تک خدا کا فضل نہ ہو.پس لا إلهَ إِلَّا الله کا مطالعہ کرو، اس پر کار بند ہو اور خدا کے سواکسی اور کے فرمانبردار نہ بنو.اسی سے تم کو عزت آبرو اور دوست وغیرہ سب حاصل ہوں گے.تجربہ اور فہم کے لحاظ سے ہم جانتے ہیں کہ اس وقت خدا کا منشا ہے کہ لا الہ الا اللہ کا راج ہو.پس تم اس دعولی میں سچے بن کر دکھلاؤ.(البدر جلد ۳ نمبر ۵ مورخه یکم فروری ۱۹۰۴ صفحه ۵،۴) ۱۶۵ - إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا انْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَايْتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ.ترجمہ.آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں اور رات اور دن کے اختلاف یا آگے پیچھے آنے میں اور جہازوں میں جو سمندروں میں چلتے ہیں لوگوں کی نافع چیزوں کو اپنے اندر لے کر اور بارش میں جو اللہ نے اوپر سے اتاری.پھر زندہ کیا اس سے زمین کو خشک ہو جانے کے بعد اور پھیلائے اس میں ہرقسم کے رینگنے والے اور ہواؤں کے ادلنے بدلنے میں اور بادل میں جو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں آسمان
حقائق الفرقان ۴۱۵ اور زمین کے درمیان نشان ہیں عقل مندوں کے لئے.سُورَةُ الْبَقَرَة تفسیر.چونکہ صرف فلسفیانہ ہستی باری کے ماننے سے انسان کو جناب الہی سے محبت اور اس پر ایمان، بلکہ اعلی محبت اور اعلیٰ ایمان اور مقامات قرب و رضوان نہیں مل سکتے اس لئے قرآن کریم ہستی باری تعالیٰ کے دلائل کے ساتھ ساتھ اپنے احسانات کا بسیط بیان فرماتا ہے.از بس کہ فطرت انسانی میں یہ مادہ خمیر کیا گیا ہے کہ سلیم اور حق شناس قلوب محسن کے ساتھ محبت کرنے اور اطاعت کرنے میں کمال دلیری دکھاتے ہیں.اس واسطے احسان الہی کا بیان ان دلائل کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے اور یہ بھی فطرت انسانیہ کا تقاضا ہے کہ ہر ایک شخص اپنے سے زیادہ قوی ، زیادہ علم والے، زیادہ تر دانا کے کہنے کی قدر کرتا ہے اور بڑی قدر کرتا ہے اور ایسے قادر، حاکم حکیم کی ماتحتی کو اپنے لئے فخر وعزت یقین کرتا ہے.اس واسطے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنی ربوبیت رحمانیت رحیمیت اور مالکیت اور کاملہ صفات کا بیان بڑے زور سے فرماتا ہے.تو کہ آدمی کا ایمان و یقین احکام الہیہ پر بڑھے.پھر اس ذریعہ سے اس مقام پر پہنچتا ہے جس کا نام وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللَّهِ أَكْبَرُ (التوبة: ۷۲) ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۸،۲۷) یہ فطری بات ہے کہ جب مختلف اشیاء کو خاص ترتیب سے رکھا ہوا دیکھتے ہیں تو ایک بچہ بھی سمجھ جاتا ہے کہ ان کا اس ترتیب سے رکھنے والا ضرور کوئی ہے چہ جائیکہ ایک عقلمند انسان آسمان کو دیکھے، زمین کو دیکھے ، اس کی مختلف مخلوقات کو ایک خاص نظام میں دیکھے.دن رات کے کاموں میں ایک خاص انتظام نظر آئے اور پھر یہ نہ مانے کہ ان کا مرتب کرنے والا بھی کوئی ہے میں تمہیں ایک قصہ سناتا ہوں.دارالسلطنت بغداد میں کچھ ایسے آدمی جمع ہو گئے جود ہر یہ تھے.ان میں سے چند آدمی ایک دفعہ حضرت امام ابوحنیفہ کے پاس آئے.جب امام صاحب نے انہیں اپنے مکان میں جمع ہوتے دیکھا تو نہایت متفکر چہرہ بنالیا.انہوں نے کہا حضرت آپ کس خیال میں ہیں؟ ہم تو ایک مسئلہ اے اور اللہ کی خوشنودی جو سب سے بڑھ کر بات ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۱۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دریافت کرنے آئے ہیں.آپ نے فرمایا میں تو اس حیرت میں ہوں کہ یہاں بغداد میں لاکھوں آدمی رہتے ہیں ہر ایک کی ضرورت مختلف ہے.کوئی چین سے ، کوئی جبش سے، کوئی کسی اور بحری مقام سے وابستہ ہے پھر ہر ایک ضرورت کے لئے جہاز پر جہاز اڑے چلے آتے ہیں اور سنتا ہوں نہ ان پر کوئی ملاح ہے، نہ ان کا کوئی مالک ہے، نہ انہیں کوئی چلانے والا ہے.اس پر اس دہر یہ جماعت کا بڑا بولا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ کو کوئی صدمہ ہو گیا ہے.یہ کام بغیر کسی مدبر بالا رادہ کے نہیں چل سکتا اور نہ چل رہا ہے.آپ نے فرمایا بغداد کی کارروائی تو بغیر کسی مدبر کے نہ چلے مگر آسمان و زمین کا کارخانہ خود بخود چلتا رہے.اس پر وہ بہت ہی نادم ہوئے اور چلے گئے.مجھے بھی کئی دہریوں سے گفتگو کا اتفاق ہوا.ایک دفعہ میں نے ایک دہریہ سے اس دری کی طرف اشارہ کر کے جس پر ہم بیٹھے تھے پوچھا اس کا یہ دھاگا یہاں سے پلٹ کر ادھر کیوں گیا ہے.اس نے کہا مد تبر بالا رادہ دری کے بننے والے نے اسے پیچدار بنالیا.میں نے کہا آپ نے اس دری کا بننے والا دیکھا.کہا نہیں.مگر ایسی دریاں بنتے میں نے دیکھی ہیں.جب اسے سمجھایا گیا کہ تم لوگ تو تماثل اجسام کے قائل نہیں تو اس نے ہنس کر بات کو ٹالنا چاہا.یہاں وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ تک تو اپنی ہستی اور صفت رحمانیت کا ثبوت دیا اب رحیمی صفت کا بیان ہوتا ہے پہلے تو جہازوں کو لوجن سے لوگوں کو بہت نفع پہنچتا ہے.یہ دوسرے ممالک کے ناموں کا بائیکاٹ کرنے والے اور سودیشی تحریک کے بانی اس آیت کا انکار کرنے والے ہیں اگر ہم آج یہ تفریق کریں گے کہ فلاں ملک کی چیز خواہ کیسی اچھی ہو ہم نہیں لیتے.توکل پھر بعض شہروں کا بائیکاٹ کریں گے پھر مذہبی تفریق درمیان میں آئے گی.مسلمان کہیں گے ہم ہندوؤں کی نہیں خریدتے اور ہندو کہیں گے ہم عیسائیوں سے یہ معاملہ نہیں رکھتے.پھر مذہبوں کی آپس میں تفریق ہو گی.وہابی کہیں گے ہم حنفیوں کی بنی ہوئی چیزیں نہیں خریدتے اور حنفی کہیں گے ہم احمدیوں کی نہیں خریدتے.اس طرح تو بڑا فساد پڑے گا.پھر اوپر سے پانی کا برسنا اور اس پانی سے فائدہ اُٹھانا.یہ بھی رحیمی صفت کے ماتحت ہے.پھر
حقائق الفرقان ۴۱۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جانداروں کا پیدا کرنا جو طرح طرح کی ضرورتوں میں ہمارے کام آتے ہیں.کوئی بوجھ اُٹھاتا ہے کوئی ہل چلاتا ہے، کوئی حفاظت کرتا ہے، کوئی غذا بناتا ہے.وَتَصْرِيفِ الريح.ہواؤں کے بارے میں بڑی بڑی کتا بیں بنی ہوئی ہیں.ایک ہوا ہے جو جہازوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جاتی ہے.ایک ہوا ہے جو ریل کو چلاتی ہے.ایک گندگیوں کو صاف کرتی ہے.ایک بیماری کے جرم فنا کرتی ہے.ہوا کی تعریف میں بھی خدا کی قدرتوں اور اس کے رحیم ہونے کے بہت سے نشانات ہیں.پھر بادل جو آسمان وزمین میں مسخر ہے گویا کہ وہ سقہ ہے جو جناب الہی کے امر کا منتظر ہے جہاں اسے حکم ہو پانی پہنچائے.یہ سب کچھ بیان کر کے فرماتا ہے کہ اولوالالباب کا تو اعلیٰ درجہ ہے معمولی عقل والے بھی اس سے اس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہے اور وہ رحمن ورحیم ہے اس کا مد مقابل کوئی نہیں.حسن واحسان میں اس سے بڑھ کر کوئی نہیں.پس عشق و محبت بھی اسی ذات سے سزاوار ہیں.اکثر لوگ ہیں جو کسی کی آن پر ، آواز پر ، اداؤں پر ، مال پر ، جاہ وجلال پر علم و فضل پر، حسن و خوبی پر لٹو ہو جاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ یہ سب چیزیں فانی ہیں.بہت سی عورتیں جو اپنے محسن دل آویز کی وجہ سے دوسروں کے ابتلا کا موجب تھیں ایک وقت ان پر ایسا آیا کہ آ تشک ہوئی اور ناک گرگئی.بہت سے ایسے امراء ہیں کہ ایک دم میں غریب ہو گئے.بہت سے ایسے علماء ہیں کہ حواس باختہ ہو گئے پھر جس کمال کی وجہ سے ان کی قدر ہوتی تھی وہ جا تارہا تو کسی نے بات تک نہ پوچھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مورخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۶) بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں کہ دونوں میں کس قدر مختلف القولی اشیاء موجود ہیں اور پھر ان میں کیسا با ہمی تعلق ہے.تم کو کس قدر وقتا فوقتاً ضرورتوں کا سامنا ہوتا ہے پھر آسمان اور زمین میں کتنا سامان تمہاری ضرورتوں کے علاوہ تمہاری راحت کے واسطے بھی موجود ہے اور رات ودن کے اختلاف میں کہ کس طرح دونوں طول البلد میں بائیں اختلاف کہ ہر ایک دوسرے کے پیچھے موجود ہے اور عرض بلد میں بایں اختلاف کہ کم و زیادہ موجود رہتے ہیں اور ان جہازوں میں جولوگوں
حقائق الفرقان ۴۱۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کے لئے ہر قسم کے منافع کے واسطے سمندر میں پہلے پتلے پانیوں پر بڑے بڑے بوجھوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں اور اس میں کہ اللہ تعالیٰ ویران و غیر آبادزمینوں کو اس پانی سے آباد کر دیتا ہے جس کو وہ آپ بادلوں سے اُتارتا ہے اور اس میں کہ پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے کھانے ، غرض آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کی روشنی و اندھیری اور بادلوں کی بارش کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہی زمین میں ہر قسم کے جانداروں کو پھیلایا اور ہواؤں کے ادھر ادھر پھیرنے میں کہ کہیں ان میں کوئی حیوانات و نباتات کی زندگی کا باعث ہیں.کہیں خون کے صاف کرنے اور گھسے پسے اجزا کے نکالنے میں مددگار.کہیں جہازوں اور کشتیوں کے لے جانے میں مفت کے مزدور کہیں بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں فرمانبردار.کہیں ضرورت کے موافق ذرات کو جمع کر دیں.کہیں صفائی میں مدد دیں اور بادلوں میں جو آسمان وزمین کے درمیان اللہ تعالیٰ کے قبضہ حکم میں مسخر ہو رہے ہیں.ضرور ہی ان باتوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی، اس کی یکتائی، اس کی کاملہ صفات، حکمت، قدرت، علم ، رحم وغیرہ وغیرہ کے نشان ہیں مگر صرف اس قوم کے واسطے جو عقلِ سلیم رکھتے ہیں.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۲۱۱، ۲۱۲) الْمُسَخَّر - مفت کام میں لگائے گئے.تسخیر کے علم والے دیکھیں.ہمارے لئے بغیر کسی عمل پڑھنے کے سب کچھ مسخر ہے.تفخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۱،۴۴۰) ہماری کتاب بڑی عجیب ہے.ہماری کیا ؟ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی.دنیا کی کوئی کتاب نہیں جو سائنس کی طرف توجہ دلاتی ہو.قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ في خَلْق السموت (البقرة : ۱۶۵) اس میں آسمان کی بناوٹ کا ذکر ہے.وَ الْأَرْضِ پھر زمین کے بارہ میں سارا علم جیالوجی داخل کر دیا وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ میں علم جغرافیہ آ جاتا ہے.وَالْفُلْكِ الَّتِى تَجْرِى فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ اس میں سٹیمر ، جہاز ، قطب شمالی کی سوئی ،سمندر، پانی، ہوا اور کشتیوں کا علم آجاتا ہے.وَ مَا انْزَلَ اللهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اس میں بخارات اور بارشوں اور نباتات کا علم آجاتا ہے.وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ اس میں جانوروں کا
حقائق الفرقان ۴۱۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة علم آجاتا ہے.وتَصْرِيفِ الریح اس میں ہوا اور ہوا کی قسموں کا ذکر ہے.کار بالک ہائیڈروجن وغیرہ موٹی موٹی چیزیں ہیں.علاوہ ان کے اور بھی ہوا میں کئی اجزا ہیں.وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَ الأرض بادلوں میں روشنی ، لچک، ایتھر کا کارخانہ الگ ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری کتاب کسی علم سے نہیں ڈرتی.لایت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ اس میں نشان ملتے ہیں مگر عقلمندوں کے لئے.وہ کون لوگ ہیں الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ (ال عمران: ۱۹۲) اس میں اب ہی مجھے ایک لطیفہ خیال میں آیا کہ اس موجودہ سائنس پر جس قدر لوگ غور کرتے ہیں وہ دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو اٹھتے بیٹھتے جب سوچتے ہیں تو ساتھ ہی خدا کو بھی یاد کر لیتے ہیں.ایک وہ جو قدرت الہی پر غور کرتے ہیں تو مولا کو بھول جاتے ہیں.یہاں یہ فرمایا ہے کہ اگر تم سائنس پر غور کرو تو اللہ کو بھی یاد کیا کرو کیونکہ ایسے وقت میں جو اللہ کا خیال نہیں رکھتے ان کو سکھ حاصل نہیں ہوتا.میں نے سنا ہے کہ جس نے کو نین بنائی تھی اس کو قید کر دیا گیا تھا اس خیال سے کہ اس نے کسی جن کو قابو کر کے اس سے یہ کام لیا ہے.البدر - جلد ۱۲ نمبر ۶ مورخه ۸ /اگست ۱۹۱۲ ء صفحه ۳) ١٦٦ - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُتِ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ وَ لَوْ يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا إِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ أَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا وَ أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعَذَابِ - ترجمہ.اور آدمیوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے جیسا اوروں کو بھی ٹھہراتے ہیں (ان غیروں کو ) ایسا چاہتے ہیں جس طرح اللہ سے محبت رکھنی چاہئے اور ایمان داروں کو تو (سب سے بڑھ کر ) اللہ ہی کی محبت ہوتی ہے اور کاش سمجھ لیتے ظالم وہ بات جو عذاب دیکھنے پر سمجھیں گے کہ سب طرح کی قوت اللہ ہی کو ہے اور بے شک اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے.تفسیر.پس جو مومن ہے وہ اپنا محبوب اللہ کو بناتا ہے.وہ نہ اپنے پیر ومرشد سے اتنی محبت کرتا ہے جتنی اللہ سے چاہیے اور نہ اپنی بیوی سے نہ دنیا کی کسی اور چیز سے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۵ / مارچ ۱۹۰۹ء صفحه ۲۶) ے جو کھڑے اور بیٹھے اور پڑے پڑے کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں.(ناشر) b
حقائق الفرقان ۴۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة وَ لَو يَرَى الَّذِينَ ظَلَمُوا.جو ایسا نہیں کرتے وہ مشرک ہیں.جب کوئی عذاب آ جاتا ہے تو پھر جس صاحب قوت یا صاحب جمال یا صاحب مال سے خدا کے برابر محبت کرتے تھے وہ کسی کام نہیں آتا.اس وقت پتہ لگتا ہے.اَنَّ الْقُوَّةَ لِلهِ جَمِيعًا.کہ بل بو تہ سب اللہ ہی کے لئے ہے.کوئی قوت خدا کے مقابل کام نہیں دے سکتی.حسن و جمال، علم و فضل کی قوت تو تلواروں کے ماتحت ہے الہی قوت کسی کے ماتحت نہیں.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۲۷) بعض آدمی بعض اشیاء کو مختلف اغراض کے باعث پرانوں سے پیارا سمجھتے ہیں.تم نے سنا ہوگا کہ ہزاروں اپنے پرانوں کو خدا کے سوا اور اشیاء کی محبت پر تیاگ دیتے ہیں.پس سچی تعلیم اور کامل تعلیم میں بجائے اس کے کہ باری تعالیٰ کو پرانوں سے پیارا کہا جاوے اُس کو ہر ایک چیز سے زیادہ پیارا ہونے کا یقین کرایا جاوے اور یہی فائدہ ہے جو قرآن کریم کے لفظ مِنْ دُونِ اللہ سے حاصل ہوتا ہے اور یہی قرآن کریم کی تکمیل ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۴۱، ۱۴۲) قرآن شریف نے ایک اور شرک کی طرف بھی توجہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُتِ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ یعنی جیسا پیار اللہ سے کرتے ہو یہ کسی اور سے کرنا خدا کا شریک بنانا ہے.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ اندادا.نہ بنانا یوں ہے کہ مثلاً ایک طرف آواز آ رہی ہے حتی علی الفلاح اور دوسری طرف کوئی اپنا مشغلہ جس کو نہ چھوڑا تو یہ بھی شرک ہے.(البدر جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۳ رجنوری ۱۹۱۰ صفحه ۲) 1 - إِذْ تَبَرَّاَ الَّذِينَ اتَّبِعُوا مِنَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا وَرَاوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ - ترجمہ.جب الگ ہو جاویں گے وہ گرو جن کی پیروی کی گئی اُن چیلوں سے جنہوں نے پیروی کی تھی اور دیکھ لیں گے عذاب اور ٹوٹ جاویں گے ان کے آپس کے سب علاقے.تفسیر.تَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْأَسْبَابُ - اسباب کے معنے تعلقات کے ہیں یعنی ان کے باہمی
حقائق الفرقان ۴۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تعلقات قطع ہو جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹، صفحه ۲۷) ۱۲۸ - وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَو اَنَ لَنَا كَرَّةً فَنَتَبَرًا مِنْهُمْ كَمَا تَبَرَّءُوا مِنَا كَذلِكَ يُرِيهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْهِمْ وَمَا هُمْ بِخْرِجِينَ مِنَ النَّارِ - ترجمہ.اور بول اٹھیں گے چیلے جنہوں نے پیروی کی تھی کاش ہم کو دنیا میں پھر ایک بار جانا ملتا تو ہم بھی اُن سے الگ ہو جاتے جیسے یہ لوگ الگ ہو گئے ہم سے اسی طرح اُن کو دکھا دے گا اللہ تعالیٰ اُن کے کرتوت افسوس دلانے کو ، اور وہ دوزخ سے نکلنے والے نہیں.تفسیر - يُرِيْهِمُ اللهُ أَعْمَالَهُمْ حَسَرَاتٍ - ایک پاگل میرے ہاں رہتا تھا.سوکر جاگتا تو چند منٹ کے لئے اس کے ہوش وحواس درست ہو جایا کرتے اُس وقت وہ کہتا ” لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ حَشنًا (اس کا نام ہے ) تو نے کئی گھروں کو آباد کیا اور کئی گھروں کو اجاڑا.پر تیرے کام کچھ نہ آیا.“ دیکھو! انسان جب خدا کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے عمل اس کے افسوس کا موجب ہو جاتے ہیں اور پھر ہر وقت اس کے دل میں ایک آگ لگی رہتی ہے.یہ بات یا درکھو کہ انسان جوانی میں بہت کچھ غلطیاں کرتا ہے مگر جو لاحول اور استغفار کے عادی ہوتے اور پاک صحبتوں میں رہ کر دعاؤں میں مشغول ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی دستگیری کرتا ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۲۷) ١٢٩ - يَاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَللًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ - ترجمہ.اے لوگو! اُن چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں کھاؤ حلال پاکیزہ اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے.كُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَلًا طَيِّبًا- بعض مسائل بہت ضروری ہیں.میں نے بہت کم ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں ان کا مذکور ہو.ضروریات ایمان ہمارے علماء نے صرف یہ لکھی ہیں.ایمان اللہ پر ملائکہ پر، کتب پر ، رسل پر، یوم آخرت پر ، تقدیر پر اور عملی حصہ میں کلمہ منہ سے بولنا،
حقائق الفرقان ۴۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کلمہ شہادت کی شہادت ، نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ.بس اس کے آگے خاموشی ہے حالانکہ کئی باتیں اور بھی ایسی ہیں جو بعینہ اسی طرح فرض عین ہیں جیسے کہ نماز روزہ.دیکھو.یادرکھو نیک کام کرنا بھی فرض عین ہے اور بدی سے بچنا بھی فرض عین ہے.کسی مسلمان سے پوچھیں پہنچ ارکانِ اسلام کیا ہیں تو وہ سنادے گا مگر اس کے ساتھ چوری ، حرام زدگی ، رنڈی بازی اور قسم قسم کی بدکاریوں کا ذکر ہو تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.جھوٹ کا مرض بڑھتا جاتا ہے مگر بچپن میں اس کا کوئی علاج نہیں کیا جاتا.حالانکہ سر چشمه شاید گرفتن به میل چو پرشد نشاید گذشتن به پیل لے ایک سچی مثل ہے آم کا درخت ہے جب اس کا پودہ زمین سے نکلے تو اکھیڑا جاسکتا ہے مگر جب وہ بڑا درخت بن جائے تو اُسے اکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے.اسی طرح بدیوں کی مثال ہے انہیں پہلے ہی روکو.تا نیکی کی طرف تمہاری طبیعت رجوع رہے.جس طرح نماز روزہ فرضِ عین ہے اسی طرح جھوٹ سے، بدنظری سے، بد سمعی سے (جو زنا کے مقدمات ہیں ) سستی سے، کاہلی سے طمع سے ، حرص سے، تکبر سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے.میں نے اپنی تحقیق میں چودہ ضروریات اسلام سمجھے ہیں اور وہ تمام نیکیوں اور بدیوں سے بچنے کے اصول ہیں.(۱) اللہ پر ایمان.اس کے ساتھ اللہ کی صفات پر ایمان ، اس کے افعال پر ایمان ، اس کی معبودیت پر ایمان.اتنا ایمان لانا ضروری ہے.دوسری بات اللہ کے فرشتوں کی تحریکوں پر ایمان.تیسری بات اللہ کے کلام پر ایمان.چوتھی بات اللہ کے پاک رسولوں پر ایمان.پانچویں بات مسئلہ تقدیر پر ایمان جو تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.چھٹی بات ختم نبوت پر ایمان.ساتویں بات بعث بعد الموت.یہ سات حصے نیکیوں کے اصول میں ہیں.عملی حصے میں پہلی بات اللہ کی توحید کا اقرار کرنا.دوسری بات ہر ایک قسم کی بدعملیوں سے بچنا.اے چشمے کا سوراخ ایک سلائی سے بند کیا جا سکتا ہے لیکن جب وہ بھر جاتا ہے تو اس کو ایک ہاتھی کے ذریعہ بھی عبور نہیں کیا جاسکتا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تیسری بات نیک اعمال کی طرف اپنے تئیں متوجہ کرنا.چوتھی بات نماز.پانچویں بات زکوۃ.چھٹی بات روزہ.ساتویں بات حج.مجھے نہایت افسوس ہے کہ ایسی تعلیم میں نے اپنی اسلامی کتابوں میں کم دیکھی ہے اور اگر ہے بھی تو انگریزی سکولوں کی پڑھائی کے اثر کے سامنے اس کا کچھ اثر نہیں.جس قدر کوئی کسی مصنف کی کتاب پڑھتا ہے اس مصنف کے عقائد و اعمال کا ایک مخفی اثر پہنچتا رہتا ہے اس کے ازالہ کے لئے ضروری ہے کہ انگریزی کتب کے خفیہ اثر کو دینی تعلیم سے زائل کیا جائے اور وہ دینی تعلیم قرآن مجید میں ہے.اس سے پہلے توحید کا بیان کرتا آتا ہے اب ایک گر سمجھا تا ہے کہ لوگو! جو اس زمین میں ہے اس سے کھا لومگر دوشرطیں ہیں ایک تو یہ کہ حلال ہو.بالباطل رزق نہ ہو.حلال کا علم کیسا ضروری ہے اور حلال کیسا مفید ہے اس کے متعلق بیان بہت طویل ہے.پھر حلال ہو تو طیب بھی ہو.بعض لوگ مسلمانوں میں ایسے گزرے ہیں کہ وہ پلاؤ پکوائیں گے تو اس میں تھوڑی سی راکھ ڈلوائیں گے.ایک صوفی کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ حلوا، ساگ، دال، دودھ، چھاچھ سب کچھ ملا کر رکھ چھوڑتا جب کس جاتا تو کھاتا.یہ طیب رزق نہیں ہے.بس میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ رزق حلال کھاؤ پھر وہ طیب بھی ہو.وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيطن.وہ چال نہ چلو جس پر شیطان چلا.شیطان وہ ہے جو خدا سے دُور ہے.اس شیطان کا پتہ اس طرح لگتا ہے کہ وہ تمہیں بدی اور بے حیائی کی باتوں کی ترغیب دیتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۲۷) ١١،١٧٠ - اِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوءِ وَالْفَحْشَاءِ وَ اَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ وَ إِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا اَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا اَو لَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَ لَا يَهْتَدُونَ - ترجمہ.وہ تو تمہیں عام بدیوں اور کھلی ہوئی قباحتوں کا ہی حکم دے گا اور یہ کہ بے جانے بوجھے اللہ پر بہتان باندھو.اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ( فقط ) جو حکم اللہ نے اتارا ہے اُسی پر چلو تو جواب
حقائق الفرقان ۴۲۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیتے ہیں (نہیں) بلکہ ہم تو اسی چال پر چلیں گے جس پر پایا ہم نے اپنے باپ دادا کو.بھلا اگر ان کے باپ دادا محض بے عقل ہوں اور راہ راست پر بھی نہ چلتے ہوں ( جب بھی کیا وہ انہیں کی چال پر چلیں گے ).تفسیر.شیطانی گناہ کے تین اصول ہیں.ان میں سے آخری یہ ہے کہ آنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تعلمون کہ جھوٹا خواب یا جھوٹا کشف یا جھوٹا الہام بنائے یا بلا حجت نیرہ کسی چیز کو حلال یا حرام، بھلا یا بُرا کہہ دے اور ایک یہ کہ شوء دوم فحشاء یعنی ہر ایسی بدی کہ دوسرے پر اس کا بداثر پڑے.ایسے لوگوں کو جب کہا جائے کہ تم ما اَنْزَلَ کی تابعداری کرو تو وہ کہتے ہیں ہم اپنے باپ دادا کے پیرو ہیں.لا يَعْقِلُونَ خواہ ان کے باپ دادا ایسے ہیں کہ اپنے تئیں کسی بد چیز سے روک نہ سکتے ہوں یہاں تک یہ باتیں بیان ہوئیں (۱) حلال کھاؤ (۲) طیب ہو (۳) بدیوں کو چھوڑ دو (۴) فحشاء سے پر ہیز کرو.(۵) اللہ پر تقول چھوڑ دو (۶) اندھادھند تقلید چھوڑ دو (۷) کوئی لا یعقل لا یہ ہند کام کرتا ہوتو تم وہ نہ کرو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحه ۲۸،۲۷) بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مدارج تحقیقات پر پہنچے ہوئے ہیں.اس غلط خیال نے بہت بڑا نقصان پہنچایا ہے.اسی سے مشرکوں نے استدلال کر لیا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ اب و نا.غرض ایک راستباز کی شناخت کے لئے کبھی کوئی مشکل یہود یا نصاری یا منکرین امام پر نہ آتی اگر وہ سمجھتے کہ پاک رسول نے کیا دعوی کیا.(الحکم جلد ۷ نمبر ۲ مؤرخہ ۷ ارجنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) ۱۷۲ - وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِى يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاء وَ ووو يداء - صُمٌّ بُكْمٌ عُمَى فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ - و نِدَاءً ترجمہ.اور اُن لوگوں کی مثال جنہوں نے حق کو چھپایا اُس کے جیسی ہے جو اُس کو چلا چلا کر پکار رہا ہے جو نہیں قبول کرتا ہے مگر محض بلانا اور پکارنا.بہرے ہیں ( حق سننے سے ) گونگے ہیں ( حق بولنے سے ) اندھے ہیں ( حق دیکھنے سے ) تو وہ کچھ بھی عقل نہیں رکھتے.تفسیر - مثال ان لوگوں کی جو بے ایمان ہیں ایسی ہے جیسی کسی پر کوئی آوازے کستا ہے اور وہ سنتا
۴۲۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان ہی نہیں.میرے ایک نوجوان دوست تھے.میں ان کو درس قرآن شریف کے سنے کی تاکید کرتا تھا.وہ میرے سامنے تو نہ کہتے مگر میرے پیچھے اپنے اس خیال کا اظہار کر دیا کرتے تھے کہ آسودگی ہو تو پھر قرآن بھی پڑھیں.آخر جب وہ کسی عہدہ پر ممتاز ہوئے تو مجھے لکھا کہ بارہ برس ہوتے ہیں کہ میں قرآن شریف نہیں پڑھ سکا.خدا کرے تم لوگ ایسے نہ بنو کہ تمہارا قرآن سنانے والا ایسے لوگوں سے ہو کہ اس کے سامعین ایسے ہوں جو نہ آنکھیں رکھتے ہوں کہ دیکھیں، نہ کان رکھتے ہوں کہ سنیں ، نہ زبان رکھتے ہوں کہ حق بولیں.تم قرآن شریف سنے کو غنیمت سمجھو.دنیا کے جھمیلے تو بھی کم ہونے میں آ نہیں سکتے.ایک کتاب میں میں نے ایک مثال پڑھی ہے کہ ایک شخص ندی سے گذرنا چاہتا تھا اس نے تامل کیا کہ یہ موج گزر جائے تو میں گزروں مگر اتنے میں ایک اور آگئی.آخر وہ اسی طرح خیال کرتے کرتے رہ گیا.بس طریق یہی ہے کہ حلال طیب کھاؤ.طیب کہتے ہیں اسے جو انسان کے لئے دکھ نہ دے اور پھر شکر کرو.سات اصول بتائے ہیں ان کو ہر وقت زیر نظر رکھو.حلال طیب کھاؤ.سُوء وفحشاء وتقول نہ ہو.تقلید بے جانہ ہو.کبھی ایسے رنگ میں اپنے تئیں نہ بناؤ کہ گوش حق کے شنوا ، آنکھیں حق کی بینانہ رہیں.یہاں تک یہ بیان فرمایا ہے کہ حق کے حصول کا ذریعہ حلال وطیب روزی ہے.انسان فاقے پر فاقہ اُٹھائے مگر حلال کا رزق کھائے.جو مالدار ہیں ان کی حالت نہایت نازک ہے.غضب الہبی بھی مال والوں پر نازل ہوتا ہے.خدا کی ہدایت سے محرومی بھی اکثر مال والوں کے حصہ میں آئی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے كَذلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أكبر مُجْرِمِيهَا (الانعام: ۱۲۴) ایک حدیث میں ہے کہ اِبْلِيسُ كَانَ مِنْ خَزَانِ الْجَنَّةِ- گویا آدم کی مخالفت میں جس گروہ کو بڑی محرومی ہوئی وہ بھی مالداروں ہی کا گروہ تھا.ایک دفعہ مولوی ریاض الدین احمد نے مجھ سے پوچھا کہ پانچ آدمی قوموں کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں کیشب چندر، دیانند، رائے موہن لال، سرسید ، مرزا صاحب.آپ کوئی موٹا ے اسی طرح ہم نے پیدا کئے ہر بستی میں جناب الہی سے قطع تعلق کرنے والے سردار گناہ گاروں کے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۲۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سامابہ الامتیاز ان میں بتائیں.میں نے کہا بس یہ دیکھ لو کہ اکا بر کس طرف گئے ہیں اور غریب کس طرف آئے ہیں.اوّل اوّل خدا کے رسیدوں کے ساتھ انہی کو تعلق ہوتا ہے جو بڑے مالدار نہ ہوں.ہارون رشید مکہ میں گیا تو ابن المبارک کو بھی ساتھ لیتا گیا جو اہلِ حدیث و اہل باطن میں عظیم الشان عالم تھا.جہاں جہاں ملاقات کو جاتا اس شخص کے مذاق کے مطابق اپنے ہمراہ کسی معتمد کو لے جاتا.فضیل عیاض سے ملاقات چاہی تو ابن المبارک سے استدعا کی.یہ گئے.باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے آواز آئی.کون ہے ؟ جواب دیا.ابنِ مبارک.کہا.مَرْحَبًا يَا أَخِي وَ صَاحِبِی.پوچھا.میرے ساتھ بھی ایک شخص قریشی ہے.کہا مجھے کسی قریش کی ملاقات پسند نہیں.کہا میرا تم پر حق ہے.وہ بولا.ہاں.کہا پھر اسے مجھ پر ایک حق ہے.کہا.اچھا.ہارون رشید خاموش بیٹھ گیا.فضیل عیاض اسے دیکھ کر کہنے لگے.یہ جوان ہے تو خوبصورت میں دعا کرتا ہوں کہ جہنم سے بچ جائے.پھر جہنم میں پڑنے کی وجوہات بتلائیں جس پر ہارون رشید دھاڑیں مار مار کر رونے لگا.وہ کونسی قوت تھی جو ایک بادشاہ رُوئے زمین کو یوں ڈانٹ بتانے کی جرات دے رہی تھی.صرف حلال خوری.ایک دفعہ ہارون رشید پھر گیا اور ایک ہزار دینار پیش کیا.فضیل نے بہت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا اسے میرے سامنے سے اُٹھا لو یہ بیت المال کا ہے اور تمہیں اس سے بے تحقیق دینے کا کوئی حق نہیں.اس کے بعد ایک لونڈی گھر سے نکلی اور اس نے کہا ہم کئی دن سے فاقے میں ہیں اور یہ بڑھا روپیہ لانے والوں کو جھڑک دیتا ہے.اس پر آپ نے نرمی سے اسے سمجھایا کہ دیکھو حلال بڑی نعمت ہے.ہارون رشید نے چاہا کہ گھر والوں کو یہ روپیہ دے مگر انہوں نے بھی نہ لیا.جو حلال رزق چاہتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں غیر معمولی حوصلہ دیتا ہے اور انہیں اپنی جناب سے رزق عطا فرماتا ہے اور حرام رزق سے کسی نہ کسی حیلے سے بچالیتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۲۸)
حقائق الفرقان ۴۲۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۱۷.يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ کرتے ہو.كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ - ترجمہ.اے ایمان والو! کھاؤ ہمارے رزق سے ستھرے اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اس کی عبادت فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۵۸ حاشیه ) ۱۷۴ - إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطَرَ غَيْرَ بَاغِ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ ج ترجمہ.پس اس نے تو حرام کیا ہے تم پر خود مردہ اور خون اور سور کا گوشت اور وہ چیز جو اللہ کے سواکسی اور کے نام سے پکاری جائے پھر جو مضطر اور نا چار ہو.نافرمانی کرنے والا اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو.تو اس پر کچھ گناہ نہیں.بے شک اللہ ڈھانپنے والا سچی محنت کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر - حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ - مردار کے اندر ایک خطرناک زہر ہوتا ہے جس کا نتیجہ انسان کے لئے اچھا نہیں.چنانچہ جتنی مردار خوار قومیں ہیں ان کی زبان ، جلد عقل موٹی اور بھڑی ہوتی ہے.اوروں کو نہیں تو چوہڑوں کو دیکھ لیں شریف گھروں سے کھاتے ہیں، انہی کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتے ہیں مگر پھر بھی مردار خواری کا اثر ان کی شکلوں اور عقلوں سے ظاہر ہے.واللہ.ہم نے ایسی قومیں دیکھی ہیں جو جانور کا خون پی جاتی ہیں یا اسے بھون کر کھا لیتی ہیں.خون میں اس قسم کی زہریں ہوتی ہیں جن سے اعصاب کو شیخ، فالج ، استرخاء ہوجاتا ہے.وَلَحْمَ الْخِنْزِیر.اس جانور کا گوشت کھانے سے قوت شہوت وغضب میں بہت ترقی ہوتی ہے اور یہی دو قو تیں ہیں جو تمام قسم کی بداخلاقیوں کی جڑ ہیں.یہودی تو اس کا نام تک نہیں لیتے.بعض مسلمانوں میں بھی یہ بات ہے.وہ خنزیر یا سو رنہیں کہتے.وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ الله.وہ جانور جو نامزد کیا گیا ہو اللہ کے غیر کے لئے.ایسے جانور تقریب و حاجت روائی کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں.
حقائق الفرقان ۴۲۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة غير باغ.دل سے چاہنے والا نہ ہو.وَلَا عَادٍ.اور پھر اضطرار کی ضرورت سے حد سے بڑھنے والا نہ ہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۲۸) حَرَّمَ عَلَيْكُمْ.سب چیزیں جو قوی فطری یادین یا اخلاق کی مہلک ہوں حرام ہیں.دو، تشخید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۱) ۱۷۵ - إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا اَنْزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتَبِ وَ يَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قليلا أولبِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ - ترجمہ.جو لوگ چھپاتے ہیں جو ا تارا اللہ نے کتاب میں اور لیتے ہیں اس کے بدلہ تھوڑا سا مال یہ لوگ اپنے پیٹوں میں انگارے ہی بھرتے ہیں اور کچھ نہیں کھاتے ہیں اور بات بھی نہیں کرے گا ان سے اللہ قیامت کے دن اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لئے ٹمیں دینے والا عذاب ہے.تفسیر - إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ - اِس سورہ شریف میں اللہ تعالیٰ نے قسم قسم کی کامیابیوں اور فتح مندیوں کے اصول بتلائے ہیں.میرے اپنے اعتقاد کے مطابق یہ تمام سورۃ جہاد کی ترغیب کے لئے ہے اور اس میں جابجا مجاہدین کو بتایا ہے کہ وہ کس طرح مظفر ومنصور ہو سکتے ہیں.پارہ اوّل میں مُفْلِحُونَ کے معنے مظفر و منصور کے ہیں.فتح کا تاج بھلا جہاد کے سوا کسی کے سر پر رکھا جاسکتا ہے؟ پھر اس کے بالمقابل اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا کا ذکر ہے جس کے بعد عذاب عظیم آیا ہے.گویا دوگروہ بتادیئے ہیں جن میں مقابلہ ہو گا.اللہ تعالیٰ چاہے گا تو میں کسی دوسرے مقام پر اس کی تشریح کروں گا یہاں صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ ایک جگہ فرمایا اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة (البقرة : ۱۵۴) پھر صاف بتلا دیا.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمَوَاتٌ (البقرة : ۱۵۵) پھر فرمایا.وَ لے نیکیوں پر ہمیشگی اور بدیوں سے بچنے اور دعائیں کرنے پر مضبوط رہو.کے اور نہ کہو اُن لوگوں کو مردے جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ (البقرة : ۱۵۶) یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت جہاد میں ہے.پھر جہاد میں ضروری ہے کہ اللہ پر پورا ایمان ہو اور یہ موقوف ہے تو حید پر اور توحید کامل نہیں ہوتی جب تک شرک سے نفرت نہ ہو اسی واسطے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ ( البقرة: ١٢٦) میں شرک سے منع فرمایا اور بتلایا کہ مومن کو چاہیے اکل حلال سے غازی بنے.پھر اسی پر بس نہیں کہ حلال کھانے کا عادی بنے بلکہ ترک حرام بھی کرے.پھر اس ترک حرام میں سے ایک اعلیٰ حرام خوری کا ذکر کیا ہے.کل کے درس میں اصول محرمات کا ذکر تھا استنباطی طاقت جب پیدا ہوتی ہے جب بطور مثال کچھ بیان ہو چنانچہ یہاں ایک مثال اس آیت میں ذکر کر دی گئی ہے.مَا انْزَلَ اللهُ مِنَ الْكِتب - جو کچھ اتارا اللہ نے ایک کامل مجموعہ میں.ثمنا قليلاً - مول بہت تھوڑا.یعنی دنیا.جیسے فرما یا قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلُ (النساء: ۷۸) مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ - اِس طرز عمل کا نتیجہ سوا اس کے نہیں کہ جل بھن کر اندر ہی اندر کباب ہوتے رہیں.لا يُكَلِّمُهُمُ اللهُ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ - لوگ اپنا مال ، اپنی دولت، اپنی عزت، اپنی آبرو کسی بڑے کی بات سننے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں.پس اللہ کی ذات سے جو تمام حسینوں ، عالموں اور بادشاہوں کا خالق ہے کلام کرنے کو کیوں دل نہ تڑپتا ہوگا ؟ سوخدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوسری سزا یہ دے گا کہ ان سے کلام نہ کرے گا.اندھا آدمی جود یکھنے کے عجائبات سے واقف نہیں ہوتا وہ اگر دید کی حرص نہ کرے تو تعجب نہیں.اسی طرح جسے کلام الہی کی عذوبت سے آگا ہی نہیں وہ اگر اسے عذاب نہ سمجھے تو نہ سمجھے یہ ہے بڑا عذاب.پھر ایک اور دکھ ہو گا وہ یہ کہ مرشحی نہ کرے گا بلکہ ان کے لئے عذاب ہے.لے اور البتہ ہم تمہارا امتحان لیں گے انعام دینے کو کچھ خوف سے اور کچھ بھوکا رکھ کر.ے اور آدمیوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے جیسا اوروں کو بھی ٹھہراتے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۳۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عَذَاب الیم.یہ عذاب عذوبت والا نہیں بلکہ دکھ دینے والا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۹) ۱۷۶.أُولَبِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ ۚ فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ - ترجمہ.یہی ہیں جنہوں نے خریدی ناکامی کامیابی کے عوض اور قہر مہر کے بدلے سواد ہو کس قدر سہار ہے اُن کو آگ کی.تفسیر - اشْتَرَوُا الضَّلَلَةَ بِالْهُدی.ان لوگوں نے حرام خوری سے کیا فائدہ لیا سوا اس کے کہ.ضلالت کو ہدایت کے بدلے خریدا.یہ اس طرح کہ حرام خوری سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں.جب دعائیں قبول نہ ہوئیں تو یہ کہہ دیا کہ اچھا دعا ئیں بھی دیکھ لیں.اس قول کا نتیجہ کفر ہے.پس بجائے اس کے کہ مغفرت حاصل کریں انہیں عذاب ہوگا.فَمَا أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ - ان کے نظارے دیکھنے والے یہ کہیں گے.بعض صوفیوں نے بھی بعض جرات کے کلمے کہے ہیں.مثلاً یہ کہ دوزخ میں کیا رکھا ہے حالانکہ وہ دنیا کی ایک معمولی تکلیف کو تو برداشت کر نہیں سکتے.مثلاً تپ چڑھی ہو تو ہال پکار سے شور بر پا کر دیتے ہیں تو کیا دوزخ جو بڑے دکھ کا مقام ہے اسے انہوں نے کچھ معمولی سمجھ لیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ دید و شنید برا بر نہیں ہوتی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۲۹) ۱۷۷ - ذلِكَ بِاَنَّ اللهَ نَزَّلَ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ وَ اِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَبِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ - ترجمہ.وہ اس لئے کہ اللہ نے اتاری کتاب برحق سچی اور جنہوں نے جھگڑا کیا کتاب میں تو البتہ وہ بڑے دور کے جھگڑے میں پڑے ہوئے ہیں.تفسیر - إِنَّ الَّذِيْنَ اخْتَلَفُوا.اس کے معنے ہیں جن لوگوں نے اس کی خلاف ورزی کی ہے.
حقائق الفرقان ۴۳۱ سُورَة البَقَرَة شِقَاقٍ بَعِيد.یعنی ہمارے اور ان کے درمیان جو تعلقات تھے اور جو وصل تھا اس میں شق آ گیا شق بھی پرلے درجہ کا.پنجابی پاژن پاڑنا اس مفہوم کو خوب ادا کرتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحه ۲۹) ۱۷۸.لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِى الْقُرْبى وَالْيَتَنى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَهَدُوا ۚ وَ الصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أوليك هم المتقون ج ترجمہ.نیکی یہی نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرلیا کرو بلکہ نیکی تو اس کی ہے جس نے (سچے دل سے اللہ کو مانا اور آخرت کے دن کو اور فرشتوں کو اور (اللہ کی) کتابوں کو اور نبیوں کو.اور پیارا مال دیا اللہ کی محبت میں رشتہ داروں (یا اللہ کے مقربوں کو ) اور یتیموں اور بے اسبابوں اور مسافروں اور مانگنے والوں اور غلاموں اور پھندوں میں پھنسے ہوؤں کے چھڑانے میں، اور نماز کو ٹھیک درست رکھا اور زکوۃ دیتا رہا اور نیک لوگ) جب کسی سے کچھ اقرار کر لیتے ہیں تو پورا کرتے ہیں تنگی اور تکلیف اور لڑائی کے وقت صابر و مضبوط رہتے ہیں یہی لوگ سچے ہیں ( دین اسلام میں ) اور بس یہی متقی ہیں.تفسیر.نیکی یہی نہیں کہ منہ کروا پنے مشرق کی طرف یا مغرب کی.ولیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور پچھلے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر اور دیوے مال اس کی محبت پر ناطے والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور راہ کے مسافر کو اور مانگنے والوں کو اور گرد نہیں چھڑانے میں اور کھڑی رکھے نماز اور دیا کرے زکوۃ اور پورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب پورا کریں اور ٹھہرنے والے سختی میں اور تکلیف میں اور وقت لڑائی کے.وہی لوگ ہیں جو سچے ہوئے اور وہی
حقائق الفرقان ۴۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بچاؤ میں آئے.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۸۶، ۲۸۷ حاشیه ) لَيْسَ الْبِرِّ اَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ.چونکہ اس سے پہلے خدا تعالیٰ وَلِلهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فرما چکا ہے کہ جدھر تمہارا رُخ ہوگا اُدھر ہی میرا رُخ ہے یعنی میری نصرت تمہارے ساتھ ہوگی اس پر صحابہ نے خیال کیا ہو گا کہ ہم سے بڑا کون ہے کیونکہ جدھر ہماری تو جہ ہے ادھر ہی خدا کی توجہ ہے اس لئے فرمایا ہے تو ٹھیک مگر نیکی صرف جہاد و فتوحات سے وابستہ نہیں اور نہ صرف مشرق و مغرب کو فتح کر لینا کافی ہے بلکہ ضروری ہے کہ مَنْ آمَنَ بِاللہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.وَالْيَوْمِ الأخير - اس وقت پر ایمان ہو جہاں انسان اپنے اعمال کے نتائج دیکھتا ہے.یہ یاد رکھو کہ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ جس کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اس کی صفات کے خلاف حتی الوسع کوئی بات نہیں کرتا اس خیال سے کہ اس کی نظر سے گر نہ جائے.پس حضرت حق شبحانہ کے قرب کے لئے بھی ہم میں ایمان اور فضائل اور کفر ور ذائل سے بچنے کی ضرورت ہے.والمليكة.پھر ایمان بالملائکہ بڑا ضروری ہے.میرے خیال میں ہے کہ یہ چوتھی مرتبہ ملائکہ کا ذکر کیا ہے.ایک تو وہاں بیان ہو ا جہاں یہود کی خفیہ سوسائٹیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ہاروت ماروت کی مدد سے اس زمین کو ہرت ومرت کر دیا.پھر دوسرا وہ مقام ہے جہاں بتایا ہے کہ ایک وہ علوم ہیں جن کا تعلق قلب کے ساتھ ہے اور ایک وہ جن کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے ان دونوں میں جو تحریک کرنے والے سردار ہیں ان کا نام جبرئیل و میکائیل ہے.پھر تیسرا مقام آدم کے قصے میں ہے.چوتھی بار یہاں ذکر کیا ہے اور میں نے بار ہا بتایا ہے کہ وہ تمام پاک تحریکیں جن کا انجام بخیر ہوملائکہ کی طرف سے ہوتی ہیں.والكتب.پھر اللہ کی رضا مندیوں کی راہیں جہاں مذکور ہیں وہ اس کی بھیجی ہوئی کتا بیں ہیں ان کا ماننا ضروری ہے.انسان اگر جناب الہی کے صفات سے آگاہ نہیں.ملائک کی تحریک کو نہیں سمجھتا تو کلام الہی ہی سے سمجھے جو اللہ پن خدا کی جناب سے غیب کی آگاہی پانے والوں کو عطا ہوتی ہے.
حقائق الفرقان ۴۳۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ کی کتابوں میں سے سب سے جامع کتاب قرآن مجید اور تمام کمالات انبیاء کا جامع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.آدمی پہلے قرآن کریم پڑھے پھر حضرت نبی کریم کے سوانح عمری ( جن میں احادیث شامل ہیں).میں کامل یقین سے گواہی دیتا ہوں کہ ایسا کامل انسان پھر پیدا نہیں ہوسکتا.اب عملی حصہ کا ذکر آتا ہے وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبّہ یعنی محبت الہی کے ساتھ مال کو خرچ کرے.بعض لوگ حتہ کا ترجمہ کرتے ہیں وہ مال جس سے محبت ہے مگر میرے نزدیک جس عمل میں اخلاص و ثواب نہ ہو وہ کسی کام کا نہیں.ذَوي القربی.اب اس مال کے مصارف بتلاتا ہے.انسان غیروں کو دیتا ہے مگر رشتہ داروں کو نہیں دیتا کیونکہ ان سے بوجہ رات دن کے معاملات کے بعض اوقات ناراضی بھی ہوتی ہے.والیتی.پھر یتیم کو دے کیونکہ اس سے بدلے کی امید نہیں.وَالْمَسْكِينَ.پھر ان لوگوں کو دے جو بے دست و پا ہیں.میرے خیال میں تین قسم کے لوگ مساکین ہو سکتے ہیں ایک تو وہ جو کام نہیں کر سکتا بوجہ معذوری اور یہ دوطرح ہے.مثلاً ایک شخص لو ہاری کا کام جانتا ہے مگر اوزار نہیں رکھتا.سینا تو جانتا ہے مگر شوئی اور قیچی و گز نہیں.پس یہ اسباب ان کو مہیا کر دینے چاہئیں کیونکہ بغیر ان کے وہ بھی اپانچ کے حکم میں ہیں.ایک اور مثال سنو ! کوئی کسب جانے والا ہے تو سہی مگر وہاں اس کے ہنر کا کوئی قدردان نہیں یا دکان چلانے کے لئے مکان نہیں.پس اپا نبی ہو عدم مال کی وجہ سے یا عدم اعضاء کی وجہ سے ہر دوصورت مستحق امداد ہے.وَابْنَ السَّبِيلِ.مسافر کو بعض وقت بہت مشکلات پیش آ جاتی ہیں مثلاً نقدی چوری ہوگئی یا کسی اتفاق سے چند پیسے کرایہ سے گم ہو گئے وغیرہ یا ٹکٹ گم ہو گیا.وَ السَّابِلِينَ.سوال کرنے والوں سے آجکل بہت برا سلوک کیا جاتا ہے.بعض لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی سوالی ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اس پر عیب لگانے شروع کئے.وَ فِي الرِّقَابِ.گردنوں کے چھڑانے سے مراد غلاموں کا آزاد کرنا ہے.ایک دفعہ ایک
حقائق الفرقان ۴۳۴ سُورَة البَقَرَة غیر مذہب کا شخص بڑے زور سے کہہ رہا تھا غلاموں کی آزادی دلانے والا عیسائی مذہب ہے.میں نے کہا کہ مسیح ناصری نے کوئی قانون ان کے لئے نہیں بنایا نہ کوئی حصہ مقرر کیا مگر ہماری شریعت میں قانون ہے جو ان آیات میں مذکور ہے اور پھر بیت المال کا حصہ ان کے لئے مقرر ہے.چھ مصرفوں کا ذکر تو یہاں کیا اور پارہ ۱۰ میں دو مصرف اور بتائے ہیں ایک مؤلفۃ القلوب.میرے نزدیک اس زمانہ میں بھی یہ بہت ضروری ہے.دوم اس محکمہ زکوۃ کے جو ملازم ہیں ان کی تنخواہ.و اقام الصلوۃ.وہ پاک عبادت جس کا نام نماز ہے غفلتوں ، ہستیوں، ناکامیوں میں اسے قائم رکھے.واتى الزكوة - زکوۃ دے.تزکیہ نفس بھی کرے.وَالصُّبِرِينَ فِي الْبَاسَاء - باساء کہتے ہیں غریبی ، تنگ دستی کو.یہ بری بلا ہے.کسی کے گھر میں شادی ہو.غریب کے گھر میں بیوی بچوں کے اصرار کی وجہ سے جو وہ کپڑوں اور زیوروں کی وجہ سے کر رہے ہیں ماتم ہو رہا ہے.امراء میں عید ہے مگر غریب کے گھر رونا پڑا ہو ا ہے مگر مؤمن ان مشکلات کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.پھر اس سے بڑھ کر مشکل ایک اور ہے.والضراء.وہ کیا ہے.بیماری.چاہے کا نٹا ہی کیوں نہ چبھا ہوا ہو.پیٹ میں کیوں نہ درد ہو.آنکھ ہی دکھتی ہو سارا مریض کے لئے اندھیر ہو جاتا ہے اور دولت ، بیوی ، بچے ، عیش وعشرت کے سامان سب بڑے معلوم ہوتے ہیں.ایک شخص میرے پاس آیا کہ بیوی حسین موجود ہے قوتِ رجولیت نہیں خود کشی کر لوں گا اگر تم نے کوئی امید نہ دلائی.دیکھو کیسا نازک مقام ہے مگر مومن نہیں گھبرا تا وہ استقلال واستقامت سے رہتا ہے.پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور مصیبت ہے.وَ حِيْنَ الْبَاس.وہ ہے مقدمات کی.(خواہ جہاد شمشیر کی صورت میں ہو.خواہ جہاد قلم کے رنگ میں ہو ) یہ بہت بری بلاء ہے.دیکھو جنگوں میں کتنی سلطنتیں تباہ ہوئیں.کتنی مقروض ہوئیں.کتنے جوان سپاہی اور سپہ سالار ہلاک ہوئے.ایسے وقت سچا مومن وہ ہے جو مستقل مزاج رہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۰،۲۹)
حقائق الفرقان ۴۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حسن اعتقاد وحسن اقوال وحسن اعمال اور فقر، بیماری، مقدمات و مشکلات میں صبر واستقلال اس مجموعہ کو قرآن نے تقوی کہا ہے.دیکھو رکوع کیس البر (البقرة: ۱۷۸) اور اس کا ایک درجہ سورہ بقرہ کے ابتداء میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ الغیب پر ایمان لاوے.پرارتھنا اور دعا اور بقدر ہمت و طاقت دوسروں کی ہمدردی کے لئے کوشش کرنے والا متقی ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۱۱) وَ الصُّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالصَّرَاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ (البقرۃ:۱۷۸) دکھوں، بیماریوں اور تحطوں اور جنگوں میں صبر کرنے والے.وہی صادق ہیں اور وہی متقی ہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن - صفحہ ۲۴) پسندیدہ باتیں یہی تو نہیں کہ مشرق اور مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لی.نیکی اور عمدہ بات تو اُس شخص کی ہے جس نے دل سے مانا زبان سے اقرار کیا اور اپنے کاموں سے کر دکھا یا کہ وہ اللہ کو مانتا.جزا و سزا کے دن پر یقین رکھتا ہے.ملائکہ اور اللہ تعالیٰ کی پاک کتاب اور سچے نبیوں پر اس کے اعتقاد لایا اور باایں کہ اسے خود حاجت وضرورت ہے اور زندگی کا امیدوار ہے مگر اپنے مال سے رشتہ داروں کی خبر گیری کرتا ہے اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں، سائل کی پرورش، غلاموں کے آزاد کرنے میں مال کو خرچ کرے، عبادت و نمازوں کو ٹھیک درست رکھے.اپنے مال سے مقرری حصہ جسے زکوۃ کہتے ہیں ادا کرتار ہے اور نیکی تو ان کی ہے جو تمام ان بھلے معاہدوں اور اقراروں کا ایفا کریں جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے یا اس کے کسی بندہ سے باندھے.باتوں میں صداقت کو کام میں لاویں.امانت میں خیانت نہ کریں.افلاس میں ، مرض میں ، جنگ کی شدت میں تنگی میں ، تکلیف میں وفادار، ثابت قدم مستقل مزاج رہیں.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۸) تقوی کی جڑ اور بنیاد سچے عقائد ہیں اور ان کی جڑ کی بھی جڑ کیا ہے؟ آمَنَ بِاللہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانا.کہ وہ ہر بدی سے منزہ اور گل صفات کا ملہ کا مالک اور حقیقہ وہی معبود ، مقصود اور مطلوب ہے.اس کے اسماء، افعال اور صفات پر کامل ایمان لانا اور کہ وہ نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہو
حقائق الفرقان ۴۳۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کر نیکی کے عوض انعامات اور بدیوں پر سزا دینے والا اور قادر مقتدر ہستی ہے.وہ ربّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے، مالک یوم الدین ہے.غرض انسان اس طرح سے جب حقیقی طور سے اللہ کی صفات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر کامل ایمان لاتا ہے تو پھر ہر بدی سے بچنے کے واسطے اس کو جناب النبی سے ایک راہ عطا کی جاتی ہے جس سے بدیوں سے بچ جاتا ہے.فطرتِ انسانی میں یہ امر روز ازل سے ودیعت کر دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کو اپنے واسطے یقیناً مضر جانتا ہے اس کے نزدیک تک نہیں جاتا.بھلا کبھی کسی نے کسی سلیم الفطرت انسان کو کبھی جان بوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالتے یا آگ کے انگارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے یا کوئی شخص اس حالت میں کہ اس کو اس امر کا وہم ہی ہو کہ اس کے کھانے میں زہر کی آمیزش ہے اس کھانے کو کھاتے دیکھا ہے؟ یا کبھی کسی نے ایک کالے سانپ کو حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس کے دانت نہیں توڑے گئے اور اس میں زہر اور کاٹنے کی طاقت موجود ہے کسی کو ہاتھ میں بے خوف پکڑنے کی جرات کرتے دیکھا ہے؟ یا درکھو کہ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جائے گا کیونکہ یہ امر فطرت انسانی میں مرکوز ہے کہ جس چیز کو یہ ضرر رساں یقین کرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا اور حتی الوسع اس سے بچتا رہتا ہے.تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب انسان خدا پر کامل یقین رکھتا ہو اور اس کے صفات سے خوب آگاہ ہو اور یہ بھی یقین رکھتا ہو کہ خدا نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہوتا ہے اور سخت سے سخت سزا دینے پر قادر ہے اور سزا دیتا ہے اور یہ کہ گناہ حقیقت میں ایک زہر ہے اور خدا کی نافرمانی ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے اور اس کو آگ کے جلانے پر اور زہر کے ہلاک کر دینے پر اور سانپ کے کاٹنے سے مرجانے پر جیسا ایمان ہے اگر ایسا ہی ایمان خدا کی نافرمائی اور گناہ کرنے پر خطرناک عذاب اور ہلاکت و عذاب کا یقین ہو تو کیونکر گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور کیونکر خدا کی نافرمانی کے انگارے کھائے جاسکتے ہیں.دیکھو انسان اپنے مربی ، دوست، یار، آشنا اور کسی طاقتور با اختیار حاکم کے سامنے کسی بدی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور گناہ کرتا ہے تو چھپ کر کرتا ہے کسی کے سامنے نہیں کرتا.تو پھر اگر اس کو خدا پر اتنا ایمان ہو کہ وہ غیب در غیب اور پوشیدہ در پوشیدہ انسانی اندرونہ اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے اور یہ کہ کوئی بدی خواہ کسی
حقائق الفرقان ۴۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اندھیری سے اندھیری کوٹھڑی میں جا کر کیا جاوے اس سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ انسان کا بڑا مربی ، رب محسن اور احکم الحاکمین ہے تو پھر انسان کیوں گناہ کی جگر سوز آگ میں پڑسکتا ہے.پس ان باتوں میں غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کو خدا اور اس کے صفات اور افعال اور علیم وخبیر اور ہر بات سے واقف ہونے اور قادر مقتدر اور منتم اور شدید البطش ہونے پر ایمان نہیں.ہر بدی خدا کے صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے.صفات النبی پر ایمان لانے کی کوشش کرو.انسان اگر خدا کے علیم، خبیر اور احکم الحاکمین ہونے پر ہی ایمان لاوے اور یقین جانے کہ میں اُس کی نظر سے کسی وقت اور کسی جگہ بھی غائب نہیں ہوسکتا تو پھر بدی کہاں اور کیسے ممکن ہے کہ سرزد ہو.غفلت کو چھوڑ دو کیونکہ غفلت گناہوں کی جڑ ہے ورنہ اگر غفلت اور خدا کےصفات سے بے علمی اور بے ایمانی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا کو قادر مقتدر اور احکم الحاکمین علیم وخبیر اور اخذ شد ید والا مان کر اور یقین کر کے بھی اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں حالانکہ اپنے معمولی دوستوں، آشناؤں، حاکموں اور شرفاء کے سامنے جن کا نہ علم ایسا وسیع اور نہ ان کی طاقت اور حکومت خدا کے برابر.ان کے سامنے بدی کا ارتکاب کرتے ہوئے رُکتا ہے اور خدا سے لا پرواہ ہے اور اس کے سامنے گناہ کئے جاتا ہے اس کی اصل وجہ صرف ایمان کی کمی اور صفات الہی سے غفلت اور لاعلمی ہے.پس یقین جانو کہ اللہ اور اس کے اسماء اور صفات پر ایمان لانے سے بہت بدیاں دور ہو جاتی ہیں پھر انسان کی فطرت میں یہ بھی رکھا گیا ہے کہ انسان اپنی ہتک اور بے عزتی سے ڈرتا ہے اور جن باتوں میں اسے اپنی بے عزتی کا اندیشہ ہوتا ہے ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے.پس غور کرنا چاہیے کہ دنیا میں اس کا دائرہ بہت تنگ ہے.زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں یا محلے میں یا گاؤں یا شہر میں یا اگر بہت ہی مشہور اور بہت بڑا آدمی ہے تو ملک میں بدنام ہوسکتا ہے مگر قیامت کے دن جہاں اولین و آخرین خدا کے کل انبیاء، اولیاء، صحابہ اور تابعین اور کل صالح اور متقی مسلمان بزرگ باپ دادا اور پڑدادا وغیرہ اور ماں بہن ، بیوی بچے غرض کل اقربا اور پھر خود ہمارے سر کار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہوں تو ذرا اس نظارے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس ہتک اور بے عزتی کا خیال تو کرو اور
حقائق الفرقان ۴۳۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس نظارے کو ہمیشہ آنکھ کے سامنے رکھو اور پھر دیکھو توسہی کیا گناہ ہو ناممکن ہے؟ جب انسان ذراسی بے عزتی اور معدود چند آدمیوں میں ہتک کے باعث ہونے والے کاموں سے پر ہیز کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میری ہتک نہ ہو جاوے.تو پھر جس کو اس نظارے کا ایمان اور یقین ہوجس کا نام يوم الآخرۃ ہے تو بھلا اس سے بدی کہاں سرزد ہو سکتی ہے.پس يوم الآخرة پر ایمان لانا بھی بدیوں سے بچاتا ہے.تیسرا بڑا ذریعہ نیکی کے حصول و توفیق اور بدی سے بچنے کا ایمان بالملائکہ ہے.ہر نیکی کی تحریک ایک ملک کی طرف سے ہوتی ہے اس تحریک کو مان لینے سے اس ملک کو اس ماننے والے سے اُنس اور محبت پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور اس طرح سے ملائکہ کے نزول تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس چاہیے کہ انسان کے دل میں جب کوئی نیکی کی تحریک پیدا ہو فوراً اس کو مان لے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور اس پر اچھی طرح سے کار بند ہو جاوے ورنہ اگر اس موقع کو ہاتھ سے دے دے گا تو پچھتانا بے سود ہوگا.بعض لوگ پچھتاتے ہیں کہ فلاں وقت اور موقع کیسا اچھا تھا یہ کام ہم نے کیوں اس وقت نہ کر لیا.پس نیکی کی تحریک کا موقع فرصت اور وقت مناسب اور نیک فال سمجھ کر فور امان لینا چاہیے.اس طرح سے نیکی کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اور انسان بدیوں سے دُور ہوتا جاتا ہے.پھر اس بات کا اعتقا در کھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ صرف كتب النبی اور انبیاء ہیں.خدا کے مقدس رسولوں کی پاک تعلیم اور کتب البیہ کی سچی پیروی کے سوا خدا کی رضامندی ممکن ہی نہیں.خدا کی پہچان اور اس کی ذات صفات اور اسماء کا پتہ خدا کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے بغیر لگ ہی نہیں سکتا.خدا کے اوامر و نواہی اور عبادت و فرمانبرداری کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ کتب الہیہ ہی ہیں جو خدا کے پاک رسولوں کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہیں.غرض انسان کے عقائد درست ہوں تو فروعات خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں.انسان کو لازم ہے کہ اصل الاصول پر توجہ کرے فروعات تو ضمنی امور ہیں اور اصول کے ماتحت غور کر کے دیکھو کہ جس انجمن ،جس کمیٹی اور سوسائٹی نے صرف فروعات میں کوشش کی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی.دیکھو اگر
حقائق الفرقان ۴۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جڑ ہی خشک ہو تو پتوں کو پانی میں تر کرنے سے کیا فائدہ؟ جڑ سیراب ہونی چاہیے درخت مع اپنی تمام شاخوں اور پتوں کے خود بخو دسر سبز و شاداب ہو جاوے گا اور ہرا بھرا نظر آنے لگے گا ورنہ اگر جڑ ہی قائم نہیں تو پتوں اور شاخوں کو خواہ پانی میں ہی کیوں نہ رکھو وہ ہرگز ہرگز ہری بھری نہ ہوں گی بلکہ دن بدن خشک ہوتی جاویں گی.الحکم جلد ۱۲ نمبر ۲۲ مؤرخه ۲۶ مارچ ۱۹۰۸ ء صفحه ۶،۵) فرماتا ہے تم مشرق مغرب کو فتح کر رہے ہو یہ نیکی نہیں.نیکی تو اس وقت ہوگی جب اس فتح مندی کے ساتھ اللہ پر تمہارا ایمان ہو گا اگراللہ پر ایمان نہیں تو پھر تمہاری ہستی کیا ہے؟ پھر یومِ آخرت پر ایمان ہو.جو لوگ کہتے ہیں ” دُنیا ٹھگے مکر سے روٹی کھائے شکر سے“ وہ بے ایمان ہیں.دیکھو جب تک خشیة اللہ نہ ہو ، آخرت پر ایمان نہ ہو حرام خوری سے نہیں رک سکتے.میں نے ریاستوں میں رہ کر دیکھا وہاں نوشیروانی ہوا کرتی تھی.ایک شخص عرضیاں سنایا کرتا تھا.ایک اہل غرض نے اس عرضیاں سنانے والے کوسور و پیہ دیا کہ تم یہ عرضی اس ترتیب سے سنا دینا چنانچہ اس نے عرضی بڑی عمدگی سے سنائی اور کہا حضور بڑی قابل توجہ ہے اور ساتھ سورو پیر رکھ دیا کہ اس نے مجھے رشوت کا دیا ہے.رئیس کے دل میں عظمت بیٹھ گئی کہ یہ کیسا ایمان دار آدمی ہے.میں اسے جانتا تھا کہ وہ بڑا حرام خور ہے میں نے کہا.یہ کیا؟ کہا مولوی صاحب آپ نہیں جانتے یہ سوروپیہ ظاہر کر دیا اس سے پچھلا تو ہضم ہو جائے گا اور آئندہ کے لئے راہ کھل جائے گا یہ راجہ لوگ تو اُ تو ہوتے ہیں ہم نے اس حیلہ سے اپنا اُ تو سیدھا کرلیا.دیکھو میرے جیسا شخص اگر خائن ہو جائے تو ہزاروں روپے کما سکتا ہے مگر آخرت پر ایمان ہے جو اس بات کا وہم تک بھی آنے نہیں دیتا.مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ فاتح ہونے میں بڑائی نہیں بلکہ ایمان بالله و ایمان بالیوم الآخر میں بڑائی ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ہو جو تمام نیک تحریکوں کے مرکز ہیں.پھر اللہ کی کتابوں پر اور اللہ کے نبیوں پر ایمان ہو.پھر خدا کی راہ میں کچھ دے.میں نے تجربہ سے آزمایا ہے جو کنجوس ہو وہ حق پر نہیں پہنچتا.بعض دفعہ سخاوت والے انسان کے لئے کسی محتاج کے دل سے دعا نکلتی ہے.جا تیرا دونوں جہان میں بھلا! اور پھر وہ عرش تک پہنچتی ہے اور اسے جنت نصیب ہو جاتا ہے.ایک یہودی تھا وہ بارش کے دنوں میں چڑیوں کو چوگا ڈالا کرتا.بزرگ ملاں تھا
حقائق الفرقان ۴۴۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس نے حقارت سے دیکھا اور یہ ملاں بڑی بد بخت قوم ہوتی ہے.ایسا ہی گڈی نشین ملا نمبر دار کے ماتحت ہوتا ہے اور گڈی نشین کو تو سب کچھ حلال ہے.رنڈیاں ان کے دربار کی زینت ہیں.نماز روزہ کو جواب دے رکھا ہے.بزرگوں کے نام سے کھاتے ہیں.خیر ! ایک وقت آیا کہ وہ یہودی مسلمان ہوا.وہ حج کو گیا.وہاں ملا بھی حج کر رہا تھا.اپنا روپیہ کب خرچ کیا ہو گا.کرایہ کا ٹو بن کر گیا ہوگا.یہودی نے کہا.دیکھا.وہ چوگا ڈالنا ضائع نہ گیا.ایک واقعہ رسول کریم کے زمانے میں بھی ایسا ہوا کہ کسی نے سو اونٹ دیئے تھے.پوچھا.کیا وہ اکارت گئے.فرمایا نہیں أَسْلَمْتَ عَلَى مَا أَسْلَفْتَ مِن خَيْر.اسی سے تو تمہیں اسلام کی توفیق ملی.پس فرماتا ہے کہ مال دو.باوجود مال کی محبت کے غیروں کو دیتے ہیں مگر رشتہ داروں کے دینے میں مضائقہ ہوتا ہے.فرمایا ان کو بھی دو اور یہ نہ کہو کہ اس کے باپ کے دادا کو ہمارے چچا کے نانا سے یہ دشمنی کی تھی.پھر فرمایا یتیموں کو مسکینوں کو ، مسافروں کو دو.اللہ کے نیک کاموں ، اسلام کی اشاعت میں خرچ کرو.مشکلات کے تین وقت آتے ہیں.ایک قرض.سو اس میں بھی امداد کرو.ایک غریبی جس میں انسان بہت سی بدیوں کا ارتکاب کر گزرتا ہے.ایک بیماری.فرمایا ان سب میں استقلال سے کام لو.اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دیوے.البدر جلد ۸ نمبر ۴۰ مؤرخہ ۲۹ جولائی ۱۹۰۹ء صفحه ۲) لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ ج الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتب وَالنَّبِيَّنَ وَأتَى الْمَالَ عَلَى حُبّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتْلَى وَالْمَسْكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ وَ أَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عهَدُوا وَ الصّبِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولَبِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ.(البقرة: ۱۷۸) تفسیر.انسان پر جناب الہی نے بڑے بڑے کرم غریب نوازیاں اور رحم کئے ہیں.اس کے سر سے لے کر پاؤں تک اس قدر ضرورتیں ہیں کہ یہ شمار نہیں کر سکتا.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان تعد وا ا تو نے ماضی میں جو بھلے کام کئے انہی کی بدولت تو نے اسلام قبول کیا.( ناشر ).سے نیکی یہی نہیں کہ تم
حقائق الفرقان ۴۴۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا (ابراهیم:۳۵) اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور غریب نوازیوں کا مطالعہ کرو تو کیا گن سکتے ہو؟ ایک بال جو ان کا سفید ہو جائے تو گھبرا اٹھتا ہے اور حجام کو بلا کر نوچ ڈالتا ہے.اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسی نعمت ہے.پھر کھانے پینے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھا نا غریب سے غریب آدمی کے سامنے بھی جو آتا ہے تو دیکھو کہ وہ پانی، غلہ، نمک کہاں کہاں سے آیا ہے اور اگر دال، گوشت، چاول بھی میز پر آجاوے تو دیکھو کہاں کہاں کی نعمت ہے اور ہر ایک کا جدا جدا مزا ہے.پھر ہوا، روشنی وغیرہ کوئی ایک نعمت ہو تو اس کا شمار اور ذکر ہوں.کسی نے مختصر تر جمہ کیا ہے.ابر و باد مه و خورشید هم در کار اند تا تو نانے بکف آری وغفلت نکنی کے سورج، چاند کو دیکھتے ہیں.بادل اور ہوا کو دیکھتے ہیں.یہ سب تیری روٹی کے فکر میں ہیں.پھر جس کا نمک کھائیں اور حکم نہ مانیں تو یہ نمک حرامی ہوئی یا کچھ اور ؟ کوئی کسی کا نوکر ہو، اگر وہ آقا کی فرمانبرداری نہیں کرتا تو وہ نمک حرام کہلاتا ہے.پھر کس قدر افسوس ہے انسان پر کہ اللہ تعالیٰ کے لا انتہا انعام واکرام اس پر ہوں اور وہ غفلت کی زندگی بسر کرے.دو قسم کے لوگ دنیا میں ہیں.ایک کامیاب ہوتے ہیں، فاتح اور ملکوں کے بادشاہ ہوتے ہیں.صحابہ پر بھی وہ وقت آیا.اس لئے فرمایا.لَيْسَ الْبِر - الخ آجکل جو مشرق و مغرب کی طرف منہ کر رہے ہو جدھر توجہ کرتے ہو جناب الہی دستگیری کر رہا ہے اور خدا کی توجہ بھی اسی طرف ہے.پس یا درکھو ہماری بقیہ حاشیہ.اپنے منہ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا کرو بلکہ نیکی تو اُس کی ہے جس نے (سچے دل سے اللہ کو مانا اور آخرت کے دن کو اور فرشتوں کو اور (اللہ کی) کتابوں کو اور نبیوں کو.اور پیارا مال دیا اللہ کی محبت میں رشتہ داروں (یا اللہ کے مقربوں کو ) اور یتیموں اور بے اسبابوں اور مسافروں اور مانگنے والوں اور غلاموں اور پھندوں میں پھنسے ہووں کے چھڑانے میں ، اور نماز کو ٹھیک درست رکھا اور زکوۃ دیتا رہا اور ( نیک لوگ ) جب کسی سے کچھ اقرار کر لیتے ہیں تو پورا کرتے ہیں تنگی اور تکلیف اور لڑائی کے وقت صابر و مضبوط رہتے ہیں یہی لوگ بچے ہیں ( دین اسلام میں ) اور بس یہی متقی ہیں.اے اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنے لگو تو پورا کبھی نہ گن سکو گے.(ناشر) سے بادل، ہوا، سورج اور چاند سب خدمت پر مامور ہیں تا کہ تو اپنا رزق حاصل کر سکے اور غفلت نہ کرے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۴۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مہر بانیوں سے آرام پاتے ہو اگر وہ باتیں جو ہم بیان کرتے ہیں تو تمہارا فاتح ہونا اور مالدار ہونا کچھ کام نہیں آئے گا.ولکن البر - الایۃ نیک تو وہ شخص ہے یا نیکی تو اس شخص کی ہے جس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان ہو.ایمان کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی کامل صفات کو مان لینا.پھر جب انسان کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے اور اپنے آپ کو اسی کے قبضہ قدرت میں یقین کرتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی اسی کا ہو جاتا ہے.مَن كَانَ لِلهِ حانَ الله له لی کسی چیز پر ایمان، وہ بری ہو یا بھلی اس کی پہچان کیا ہے؟ بھلی چیز پر ایمان ہو تو اس کے لینے میں مضائقہ نہیں کرتا.مثلاً کھانا آتا ہے اور بھوک ہو تو اس کے لینے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے.لیکن اگر بجائے کھانے کے آگ سامنے رکھ دی جاوے تو ہر چند بھوک ہو مگر چونکہ جانتا ہے کہ یہ آگ ہے، ہاتھ اس کی طرف اٹھتا ہی نہیں.میرے جیسی فطرت تو آگ کو تا پنا بھی پسند نہیں کرتی.بارہا میں نے سنایا ہے کہ اگر پانچ سو اونٹ کی قطار ہو تو ایک لڑکا بھی ان کی نکیل پکڑ کر لئے جاتا ہے.لیکن اگر ایسے کنوئیں میں دھکیلنا چاہو تو پانچ سو آدمی بھی ایک اونٹ کو پکڑ کر کھینچیں تو وہ آگے نہیں بڑھتا.پس اسی طرح پر اگر انسان کو یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کیسی قادر، رحیم، علیم، خبیر ، رب ، رحمان ، رحیم اور مالک یوم الدین اور وہ شہنشاہ احکم الحاکمین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر وقت یہ خواہش نہ ہو کہ اسے راضی کیا جاوے.پھر اس نے اپنے رسولوں کی معرفت بتا دیا ہے کہ وہ کسی بدی پر راضی نہیں.میں سمجھ ہی نہیں سکتا کہ ایک شخص ایمان حقیقی رکھ کر سب نبیوں کی مشترکہ تعلیم کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے؟ کیا کسی بھی نبی کی تعلیم ہے کہ جھوٹ بولیں، دنیا کے حریص ہوں، کاہل اور ست بن جاویں دھوکہ دیں.حضرت حق سبحانہ تعالیٰ کی عبادت سے غافل ہو جاویں.شریر اور بدمعاشوں سے تعلق پیدا کریں؟ خدا تعالیٰ اس کو کبھی پسند نہیں کرتا اور ان تمام بدیوں سے بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ اللہ پر ایمان ہو.پس جو شخص مَنْ آمَنَ بِاللہ کا مصداق ہو وہ تمام نیکیوں کا گرویدہ اور بھلائیوں کا پسند کرنے والا ہوگا.اگر اس طرح پر سمجھ نہیں آتا تو ایک اور راہ ہے جس پر چل کر انسان بدیوں سے بچ سکتا لے جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۴۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.وَالْيَوْمِ الْآخِرِ یوم آخرت پر ایمان ہو کہ بدیوں کی سزا ملے گی اور نیکیوں کا بدلہ نیک ملے گا.اگر انسان جزائے اعمال کو مانتا ہو اور اسے ایمان ہو تو وہ بدیوں سے بچ جاتا ہے.ایک شریف الطبع انسان کو کہہ دیں کہ دو روپیہ دیتے ہیں، بازار میں دو جوتے لگا لینے دو، وہ کبھی پسند نہیں کرے گا.پھر یوم آخرت میں کب کوئی گوارا کر سکتا ہے.پس اس پر ایمان لا کر بدی نہیں کر سکتا.میں جانتا ہوں کہ ایک نو کر اپنے فرض منصبی میں ستی کر کے تنخواہ پاسکتا ہے.ایک اہل حرفہ دھوکہ دے کر قیمت وصول کر سکتا ہے.ایک شخص دوست کو دھوکہ دے کر آؤ بھگت کرا سکتا ہے.یہ ممکن ہے لیکن اگر آخرت پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جا کر ان اعمال کی جوابدہی کرنا ہے تو ایسا عاقبت اندیش بدی کا ارتکاب نہیں کر سکتا.ایک لڑکا جو قلا قتند کھاتا ہے اور باپ کو کہتا ہے کہ جب لئے تھے یا کاپی لی تھی، وہ سوچ لے کہ اس کا انجام کیا ہوگا ؟ ایسا ہی جولڑ کا اپنے ہاتھوں سے اپنے قوائے شہوانی کو تحریک دیتا ہے، اس کا نتیجہ لازمی ہے کہ آنکھ اور دماغ خراب ہو جاوے.ہر ایک کام کے انجام کو سوچو ! پھر نیکی کی تحریک کے لئے ملائکہ بڑی نعمت ہیں.وہ انسان کے دل میں نیکی کی تحریک کرتے ہیں.اگر کوئی ان کے کہنے کو مان لے تو اس طبقہ کے جو ملائکہ ہیں ، وہ سب اس کے دوست ہو جاتے ہیں.قرآن مجید میں فرمایا.نَحْنُ اَولِیؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (حم السجدة:٣٢) ایسی پاک مخلوق کسی کی دوست ہو اور کیا خواہش ہو سکتی ہے؟ پھر ایمان بالکتب ہے اللہ کے فرمان اور حکم نامہ سے بڑھ کر کیا حکم نامہ ہوگا.بہت سے افعال ہیں جن کی بابت لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ قانون، قاعدہ اور تحریر کے خلاف ہے.یہاں سے کیسی نصیحت ملتی ہے کہ جب قوم، برادری اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی اچھے نتائج پیدا نہیں کرتی تو اللہ تعالیٰ کی کتاب، اس کے قوانین اور قواعد کے خلاف کر کے انسان کب سر خرو ہو سکتا ہے؟ یہ تمام امور انسان کے عقائد کے متعلق ہیں.جب عقائد کی اصلاح ہو جاوے تو انسان کی عملی حالت پر اس کا اثر پڑتا ہے.فرما یاد ائی ا ہمیں تمہارے دلی دوست ہیں دنیا کی زندگی میں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الْمَالَ عَلَى حُصّہ (البقرة: ۱۷۸) مال کو دے کہ اس کو محبت ہے یا خدا کی محبت کے لئے رشتہ داروں کو دے.رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنا بڑے بہادروں اور پاک بندوں کا کام ہے.کہیں شادی نمی، ناطہ رشتہ اور سلوک بدسلوک میں رنج پیدا ہو جاتا ہے.پھر بہت سے مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں.اس واسطے ان سے سلوک بڑا بھاری کام ہے.پھر یتامیٰ سے سلوک کرو.مساکین جو بے دست و پا ہیں ان کی خبر گیری کرے.ایک جلد ساز ہے اس کے پاس تراش نہیں یا اور ضروری سامان نہیں.موچی کے پاس چمڑا نہیں.لوہار کے پاس ہتھوڑا نہیں.یہ سب مساکین میں داخل ہیں.وَابْنَ السَّبِيلِ مسافروں کو دو.پھر سائلین کو دو.کیا خبر ہے ان کے پاس ہے یا نہیں، تم انہیں دو.وَفِی الرِقَابِ غلاموں کے آزاد کرنے میں خرچ کرو.دیوانی کے مقدمات میں قیدی ہو جاتے ہیں، ان کو چھوڑانے میں خرچ کرو.اس کے بعد آقامَ الصَّلوةَ اور اتی الزکوة ہے.نماز مومن کا معراج ہے.نماز اللہ کی تسبیح وتحمید ہے.اللہ کے حضور دعا ہے.اس کے حضور جھک کر عرض کرنا ہے.اپنے محسن مربی خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے لئے دعا ہے.پھر ز کوۃ ہے.پھر وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں.پہلا اقرار تو قَالُوا بَلی (الاعراف: ۱۷۳) میں ہوا ہے.جب اللہ تعالیٰ کو اپنا ربّ مانتا ہے تو چوری کیوں کرتا ہے؟ بدذاتی کیوں کرتا ہے؟ جاہل ہے، پھر مسلمان کہلا کر اسلام کے دعولی سے تمام نیکیوں کا اقرار کرتا ہے.وَالْبَأْسَاء انسان کو بیماری میں مشکلات آتے ہیں.مجھ پر تو اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہوا ہے.مجھے تو پتہ بھی نہیں لگا.گویا سویا ہوا تھا بیدار ہو گیا.مومن اور نیک مرد وہی ہیں جو بیماری، غریبی میں نافرمان نہیں ہوتے.مقدمات میں سچائی کو ہاتھ سے نہیں دیتے.یہی لوگ راستباز اور متقی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہیں متقی کرے.جس قدر مجلس میں بیٹھے ہیں خدا ان سے راضی ہو اور ناراض نہ ہو.تم بھی خدا تعالیٰ سے راضی ہو اور وہ دستگیری کرے.کبھی اس کا شکوہ نہ کرو.الحکم جلد ۱۵ نمبر ۲۱ ، ۲۲ مورخه ۷ و ۱۴ / جون ۱۹۱۱ء صفحه ۶) لكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِيِّنَ ۚ وَأَتَى الْمَالَ عَلَى حُبْهِ
۴۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ (البقرة : ۱۷۸) اس آیت میں حقیقی نیکی کو انہی دوحصوں پر منقسم فرمایا ہے جن میں سے پہلے حصہ میں ایمان یا طاعت لأمر الله کا ذکر ہے اور دوسرے میں مال کے خرچ کرنے یا شفقت على خَلْقِ اللہ کا حکم ہے اور انفاق فی سبیل اللہ میں ذَوِی الْقُرْبی کے بعد دوسرے درجہ پر مستحق امداد یتامی کو قرار دیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائیوں پر رحم کرنے کے متعلق جو تاکید فرمائی ہے.اس سے حدیث کی کتابیں بھری پڑی ہیں.چنانچہ ایک حدیث میں فرمایا ہے.تَرَى الْمُؤْمِنِينَ فِي تَرَاحُمِهِمْ وَتَوَادِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ كَمَثَلِ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى عُضُوا تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمى (صحيح بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبهائم ) یعنی مومن باہم ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے میں ایک جسم کے حکم میں ہیں.اگر جسم کے ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو اس کی خاطر سارا جسم تکلیف اٹھاتا ہے اور پھر خصوصیت سے ان بے کس بچوں پر رحم کے لئے جنہیں یتیم کہتے ہیں.فرمایا.انا وَ كَافِلُ الْيَتِيم لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا (صحيح البخارى كتاب الطلاق باب اللعان) یعنی میں اور وہ شخص جو یتیم کی خبر گیری کرتا ہے.جنت میں اس طرح سے ملے ہوئے ہوں گے.جس طرح دو انگلیاں باہم ملی ہوئی ہیں.ایک سچے مومن کی آرزو اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتی ہے کہ نہ صرف جنت میں ہو بلکہ جنت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو.اس کے لئے فرمایا کہ جو یہ چاہتا ہے کہ یتیم کا کفیل بن جاوے.خواہ وہ یتیم کوئی اس کا اپنا رشتہ دار ہو یا کوئی اور ہو.میرے دوستو ! تم میں سے کون ہے جو یہ نہ چاہتا ہو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنت میں ہو.پس تم علیحدہ علیحدہ تو قیموں کے کفیل بن نہیں سکتے.اگر تم اس ثواب میں شریک ہونا چاہو تو یتیم فنڈ کے لئے کچھ اپنے ذمہ لگا لو خواہ وہ تھوڑی رقم ہی ہو.یہاں انجمن کی زیر نگرانی تمہاری قوم کے بہت سے یتیم بچے پرورش پارہے ہیں اور بہت سے ہیں جن کی درخواستیں آتی ہیں.پس جو شخص تم میں سے، جو شخص تم میں سے ان کی پرورش کے لئے چندہ دیتا ہے وہ یتیم کی کفالت کرتا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کے مخلص جلد اس طرف توجہ کر کے یتیم فنڈ کی موجودہ حالت کو
حقائق الفرقان ۴۴۶ ایسا بنانے کی کوشش کریں گے کہ اس کے لئے دوبارہ مجھے کہنے کی ضرورت نہ ہو.609 سُوْرَةُ الْبَقَرَة الحکم جلد ۱۶ نمبر ۱۰ مورخه ۱۴ / مارچ ۱۹۱۲، صفحه ۲) ١٧٩ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأنْثَى بِالْأُنثى فَمَنْ عُفِى لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٍ فَاتِبَاعُ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَدَاء إِلَيْهِ بِاِحْسَانِ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّنْ رَّبِّكُم وَرَحْمَةٌ فَمَن اعتدى بَعد ذلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ اَلِيم - ترجمہ.اے ایماندارو! تم پر لازم کیا جاتا ہے برابری کرنا مارے جانے والوں میں شریف کے بدلے شریف، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت جس ( قاتل کو ) معاف کیا گیا اُس کے بھائی ( مقتول کے وارث ) کی جانب سے کچھ تو ملنا چاہئے دستور ( شرع ) کے مطابق ( اور عوض خون کا مقتول کے وارث کو ) دے دینا چاہئے نیک سلوک سے یہ آسانی اور مہربانی ہے تمہارے ربّ کی طرف سے پھر جو زیادتی کرے اس کے بعد تو اس کے لئے ٹمیں دینے والا عذاب ہے.تفسیر.كُتِبَ لکھا گیا ہے یہ قانون.قصاص.بدلہ جو وارثان مقتول ، قاتل سے لیتے ہیں.اس میں جہاد کا ایماء ہے کہ جب قصاص ضروری ہے تو پھر تم بھی اپنے مقتولوں کا بدلہ لو جو کفار وقتا فوقتا کرتے رہتے ہیں.و.آزاد.اصیل.باقی رہی یہ بات کہ حر، عبد کے مرد، عورت کے مقابلہ میں بھی مارا جائے یا نہیں؟ اس کا جواب پے سورۃ مائدۃ رکوع 11 میں موجود ہے أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ (المائدة: ۴۶) حفى لئے.قتل کا بدلہ یادیت کا کچھ حصہ ہی معاف کر دیا جائے..فَاتِبَاعُ بِالْمَعْرُوفِ.وارثان مقتول کو تابع ہونا چاہیے.قاتل کے ساتھ قاعدہ حکومت وعرف کے مطابق اور چونکہ بدلہ قتل نہیں لیا گیا اس لئے خوبی سے ادا کریں.ذلِكَ تَخْفِيفٌ مِنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَةٌ - عرب میں ایک کے بدلے سینکڑوں قتل کر دیئے جاتے ا کہ جان کے بدلے جان.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۴۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تھے.بڑوں کا جو غلام ہوتا اگر وہ قتل ہو جاتا تو اس کے بدلے میں کئی ختر مارے جاتے.اس لئے الْحُرُ بِالْحُر کا قانون مقرر کر کے فرماتا ہے یہ خاص تخفیف ہے تمہارے رب سے اور اس کی رحمت.اس سے پہلے ایک معمولی بات پر جنگیں ہو کر ہزاروں کے گشت وخون کی نوبت پہنچ جاتی مگر اب یہ بات نہیں بلکہ صرف ایک کے بدلے میں ایک کو قتل کرنے کا حکم ہے.فَمَنِ اعْتَدی.اگر پھر وہی اپنا رواج چلا ؤ گے تو تمہیں ایک دکھ دینے والا عذاب پہنچے گا.خدا کی طرف سے یا حکام کی طرف سے جو کہ وہ مناسب موقعہ و حال تجویز کریں گے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۰) ۱۸۰ - وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيوةٌ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.ترجمہ.اور قصاص میں زندگی ہے تمہارے لئے اے عقل والو! تا کہ تم دکھوں سے بچو.تفسیر.اس قصاص میں تمہاری زندگی ہے وہ اس طرح کہ اب ایسا نہ ہوگا کہ ایک کے بدلے میں ہزاروں کے گشت و خون کی نوبت پہنچے بلکہ حکومت قصاص لے گی اور قاتل و وارثان مقتول بیچ کر کام کریں گے اس طرح آبادی کی تعداد بڑھ جائے گی.يا ولي الالباب - صاحبانِ عقل کو خصوصیت سے خطاب فرمایا کیونکہ اس راز کو موٹی عقلیں نہیں سمجھ سکتیں.کیونکہ بدلہ لینا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ شریعت کے بہت سے ایسے کام ہیں جو انسان کی اپنی ذات سے وابستہ ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو حکام سے مخصوص ہیں.جن لوگوں نے اس بھید کو نہیں سمجھا انہوں نے نقصان اُٹھایا.اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا اَطِيْعُوا اللهَ وَ اطِيعُوا الرَّسُولَ وَ أُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء:۲۰) جولوگ حکام کی پابندی نہیں کرتے وہ خطرے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۳ مؤرخہ یکم اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۰) میں ہیں.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.اس رکوع میں تقوی کی بات چلی ہوئی ہے.لَيْسَ الْبِر میں تقوی کے اصول بتائے ہیں اب قصاص کے حکم میں فرماتا ہے کہ لعلكم تتقون ہے یہ جانوں کے متعلق تقوی کا جو لے اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو اور اُن کا جو تم میں سے حکومت والے ہوں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۴۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بیان فرمایا.اب مال کے متعلق جو تقوی ہے وہ بیان کرتا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ مؤرخه ۱/۸ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۱) ۱۸۱ - كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ - ترجمہ.تم پر لازم کیا جاتا ہے جب سامنے آ موجود ہو تم میں سے کسی کی موت اگر ( وہ مرنے والا ) چھوڑے کچھ مال ( تو چاہیے کہ) کہے میرے ماں باپ اور رشتہ داروں کے لئے (شرعی ) دستور کے موافق.یہ حق ہے متقیوں پر.تفسیر - اذا حضر.حاضر ہونے کی دو صورتیں ہیں ایک شدت بیماری.دوم یہ کہ موت ہی آ جائے.پس ایک شق کے لحاظ سے تو یہ معنے ہوئے کہ جب کوئی ایسا بیمار ہو تو وصیت کر دیا کرے اپنے مال کے متعلق.وصیت کس کے لئے ہو.لِلْوَالِدَيْنِ.اپنے ماں باپ کے واسطے.کیا وصیت ہو؟ ایک تو یہ معنے ہیں کہ اپنے ماں باپ سے کہہ جائے میرے بعد یوں انتظام کرنا.دوم یہ کہ اپنے ماں باپ کے حق میں وصیت کر جائے اس صورت میں جبکہ وہ شرعی قانون کے لحاظ سے ترکہ کے وارث نہ بن سکیں مثلاً وہ کافر ہوں ، غلام ہوں یا اپنے بیٹے کے قاتل ہوں.پس ان صورتوں میں وارث اگر ان کے لئے وصیت کر جائے تو جائز ہے یا یہ مطلب کہ ان کو اپنے کاموں کا وصی کر دے.یہ سب احکام بھی جہاد کی تمہید میں ہیں.کیونکہ جنگ کا زمانہ تھا اس لئے صحابہ کو فرمایا اپنی وصیتیں کر چھوڑو.اور اگر حضر کے معنے یہ ہوں کہ موت آ ہی جائے تو پھر یوں معنے ہوں گے کہ لکھی گئی ہے تمہارے لئے وصیت جو والدین اور اقارب کے متعلق ہے وہ بالکل مناسب ہے اور حق ہے متقیوں پر کہ اس کے مطابق عمل درآمد کرو.وہ وصیت کہاں لکھی ہے؟ دیکھوپ سورۃ نساء کا دوسرا رکوع يُوصِيكُمُ اللهُ (النساء:۱۲) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ مؤرخه ۸ /اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۱)
حقائق الفرقان ۴۴۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۱۸۲ - فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ترجمہ.پھر جو کوئی ( شرعی ) وصیت کو سن سنا کر بدل دے تو بس اُس کا گناہ انہیں لوگوں پر ہے جو اُس ( وصیت کو ) بدلیں ، بے شک اللہ بڑا سننے والا ، بڑا جاننے والا ہے.تفسیر - إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.فرماتا ہے کہ ہم علیم خدا ہیں.سمجھ بوجھ کر حصص مقرر کئے ہیں اور وصیتوں کے بدلانے کو بھی سنتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَة يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا (النساء: ۱۵) فَمَن بدله - اب سن لو کہ کیا کچھ تبدیل کیا گیا ہے.سب سے اول تو یہ کہ لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیا - لو جا تا.خدا تعالیٰ نے عورت کو بھی حزث فرمایا ہے اور زمین کو بھی.ایسا ہی زمین کو بھی ارض فرمایا ہے اور عورتوں کو بھی.فَإِنَّمَا اثْمه.چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے ان کی زمینیں ہندوؤں کی ہو گئی ہیں.جو ایک وقت سو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو بیگھہ کے بھی نہیں رہے.یہ اس لئے کہ صریحاپ سورۃ نساء رکوع میں فرما یا وَ لَهُ عَذَابٌ مُهين " (النساء: ۱۵) اب اس سے زیادہ اور کیا نت ہوگی.عورتوں پر جو ظلم ہورہا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے.خدا تعالی فرماتا ہے و لا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا " (البقرة :۲۳۲) دوسرا وَ عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء :٢٠) تیسرا وَلَا تُضَارُوهُنَّ (الطلاق:-) چوتھا فَإِنْ كَرِهْتُمُوهُنَّ النِّسَاءِ:۲۰) پنجم وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ (البقرۃ: ۲۲۹) باوجود اس کے وراثت کے کا ظلم بہت بڑھ رہا ہے.پھر دوسرا یہ کہ بعض لے اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی (باندھی ہوئی ) حدوں سے بڑھ چلے ( تو اللہ ) اس کو دوزخ میں ( لے جا) داخل کرے گا ( اور وہ ) اس میں ہمیشہ (ہمیشہ رہے گا.(ناشر) ۲؎ اور اس کو ذلت کی مار دی جائے گی.۳) اور اُن کو تکلیف دینے کو نہ رکھنا.آے اور ان بیبیوں کے ساتھ حسن سلوک سے رہو سہو.۵ اور ان کو ایذا نہ دو.4 اور تم کو بی بی ( کسی وجہ سے ) نا پسند ہو.کے اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا مردوں کا اُن پر حق ہے.یعنی ورثہ نہ دینے کا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۵۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ظالم عورت کو نہ رکھتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ مورخه ۱/۸ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۱) ۱۸۳ - فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُم فَلَا اِثْمَ عَلَيْهِ اِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ - ترجمہ.پھر جس نے خوف کیا وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی ایک کی طرف جھکنے یاکسی کی حق تلفی یا گناہ کا پس صلح کرا دے آپس میں ( وارثوں کے ) تو اس پر کچھ گناہ نہیں بے شک اللہ بڑا ڈھانپنے والا ، سچی محنت کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر - فَمَنْ خَافَ مِنْ مُوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا.اس حکم وصیت میں ایک اور وصیت کا ذکر ہے بالفاظ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ (النساء: ۱۲) پس اس وصیت میں اگر کوئی کبھی کرے تو اس کی اصلاح کر لی جائے.b جنفًا کے معنے غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِاثْم (المائدة: (۴) سے ظاہر ہوتے ہیں یعنی نہ جھکنے والا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ مؤرخه ۸ /اپریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۱) ۱۸۴ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - ترجمہ.اے ایماندار و تم کو (عام) روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح حکم دیا تھا تم سے پہلے والوں کو تا کہ تم دکھوں سے بچو.تفسیر.كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ.اس میں رمضان کا ذکر نہیں فرمایا تمہید ہے.تشخيذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۱) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ - روزوں کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کو دو چیزوں کی بہت ضرورت ہے ایک بقاء شخصی کے لئے غذا کی.دوم بقاء نوعی کے لئے بیوی کی.اب دیکھو انسان گھر میں تنہا بیٹھا ہے.پیاس بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے.دودھ موجود ہے برف موجود ہے.
حقائق الفرقان ۴۵۱ سُورَةُ الْبَقَرَة شربت حاضر ہے کوئی روکنے والا بھی نہیں مگر پھر بھی سچا روزہ دار مطلق ان چیزوں کے کھانے کا ارادہ تک نہیں کرتا.اسی طرح بیوی پاس ہے کوئی چیز مانع بھی نہیں مگر پھر بھی وہ اس سے محتر ز ہے.یہ کیوں؟ محض اس لئے کہ روزہ دار ہے اور اس کے مولیٰ کا حکم ہے کہ ان دونوں چیزوں سے رُکار ہے.یہ مشاقی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ باوجود سامانوں کے مہیا ہونے اور ضرورت کے...ہم ان چیزوں سے رکے رہیں جن سے رکے رہنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے.اسلام میں ہر سال ایک ماہ تو بالالتزام یہ مشق کرائی جاتی ہے اور ایک طرح سے چار ماہ کے لئے یہ مشق ہوتی ہے کیونکہ عادتِ نبوی تھی کہ ہر دوشنبہ اور جمعہ کو روزہ رکھتے پھر ایام بیض ( ۱۲، ۱۳، ۱۴) میں بھی روزہ رکھتے.گویا ہر مہینے میں بالا وسط دس دن.اس حساب سے روزہ کے لئے سال کے چار ماہ ہوتے ہیں.اب خیال کرو کہ جولوگ چار ماہ یہ مشق کرتے ہیں وہ رشوت کیونکر لیں گے.اکل بالباطل کیوں کریں.کوئی ضرورت انسان کو ان ضرورتوں سے بڑھ کر پیش نہیں آ سکتی جو بقاء شخصی و بقاء نوعی کے لئے ضروری ہیں.جب ان ضرورتوں میں باوجود سامانوں کے مہیا ہونے اور کسی روک کے نہ ہونے کے صرف اللہ کی فرمانبرداری کے لئے محتر زرہا ہے تو پھر ایک صریح حرام امر کا کیوں مرتکب ہونے لگا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ مؤرخه ۱/۸ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۱) سب کے بعد تقوی کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک وقت معین تک چھوڑتا ہے.اب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کو استعمال کیوں کرے گا.روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اللہ کو ناراض نہ کرے اس لئے فرما يا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخہ ۲۴ جنوری ۱۹۰۳، صفحه ۱۵) روزہ کی حقیقت کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان مشتقی بن جاتا ہے.اس سے پیشتر کے رکوع میں رمضان شریف کے متعلق یہ بات مذکور ہے کہ انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی اور بقائے نسل کی شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے
حقائق الفرقان ۴۵۲ سُورَةُ الْبَقَرَة اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق.ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بننا سیکھ لیوے.آجکل تو دن چھوٹے ہیں.سردی کا موسم ہے اور ماہِ رمضان بہت آسانی سے گذرا مگر گرمی میں جولوگ روزہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھوک پیاس کا کیا حال ہوتا ہے اور جوانوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان کو بیوی کی ( بیویوں کی ) کس قدر ضرورت پیش آتی ہے.سخت گرمی کے موسم میں انسان کو پیاس لگتی ہے.ہونٹ خشک ہوتے ہیں.گھر میں دودھ، برف، مزہ دار شربت موجود ہیں مگر ایک روزہ دار ان کو نہیں پیتا.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے مولیٰ کریم کی اجازت نہیں کہ ان کو استعمال کرے.بھوک لگتی ہے ہر ایک قسم کی نعمت زردہ، پلاؤ، قلبیہ، قورمہ، فرنی وغیرہ گھر میں موجود ہیں اگر نہ ہوں تو ایک آن میں اشارہ سے تیار ہو سکتے ہیں مگر روزہ داران کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا.کیوں؟ صرف اس لئے کہ اس کے مولی کریم کی اجازت نہیں.شہوت کے زور سے پیچھے پھٹے جاتے ہیں اور اس کی طبیعت میں سخت اضطراب جماع کا ہوتا ہے.بیوی بھی حسین، نوجوان اور صحیح القوی موجود ہے مگر روزہ دار اُس کے نزدیک نہیں جاتا.کیوں؟ صرف اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر جاؤں گا تو خدا تعالیٰ ناراض ہوگا.اُس کی عدول حکمی ہوگی.ان باتوں سے روزہ کی حقیقت ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے نفس پر یہ تسلط پیدا کر لیتا ہے کہ گھر میں اس کی ضرورت اور استعمال کی چیزیں موجود ہیں مگر اپنے مولیٰ کی رضا کے لئے وہ حسب تقاضائے نفس ان کو استعمال نہیں کرتا تو جو اشیاء اس کو میسر نہیں اُن کی طرف نفس کو کیوں راغب ہونے دے گا.رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا.قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا اور کہتا ہے یايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقوی سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے.ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو
حقائق الفرقان ۴۵۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے.(الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۲) صوم ایک محبت الہی کا بڑا نشان ہے.روزہ دار آدمی کسی کی محبت میں سرشار ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بیوی کے تعلقات اس سے بھول جاتے ہیں.یہ روزہ اسی حالت کا اظہار ہے.یہ بھی غیر اللہ کے لئے جائز نہیں.البدر جلد ۹ نمبر ۱۲ مؤرخہ ۱۳ جنوری ۱۹۱۰ ء صفحه ۲) روزے داری کا ستر یہ ہے کہ سلیم الفطرت پیاس کے وقت گھر میں دودھ ، بالائی ، برف رکھتا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں.بھوک کے وقت گھر میں انڈے، مرغیاں، پلاؤ موجود اور کوئی روکنے والا نہیں.قوت شہوانیہ موجود.گھر میں اپسر ادلر با موجود.پھر اس کے نزدیک نہیں جاتا.صرف الہی حکم کی پابندی سے وہ رکتا ہے.اس مشق سے وہ حرام کاری حرامخوری سے کس قدر بچے گا ! مگر یہ تو بتاؤ کہ سمادھی کا حبس نفس چرند پرند کرتے ہیں اور کاربن کا روکنا مفید ہوسکتا ہے؟ پرانایام میں آریہ سانس بند کرتے ہیں.( نورالدین بحوالہ ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۲۷۱) ہماری کتاب قرآن شریف روزہ کا حکم دیتی ہے تو اس کی وجہ بھی بتاتی ہے کہ کیوں روزہ رکھنا چاہیے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: ۱۸۴) روزہ رکھنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم دکھوں سے بچ جاؤ گے اور سکھ پاؤ گے.رمضان ہی میں کیوں رکھیں ؟ اس کی وجہ بتائی شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (البقرة: ۱۸۲) چونکہ اس میں قرآن نازل ہوا، یہ برکات الہیہ کے نزول کا موجب ہے اس لئے وہ اصل غرض جو لعلكم تَتَّقُونَ میں ہے، حاصل ہوتی ہے.الحکم- جلد ۶ نمبر ۴۴ مورخه ۱۷ دسمبر ۱۹۰۲ ء صفحه ۵)
حقائق الفرقان ۴۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۱۸۵ - آيَامًا مَّعْدُودَتِ ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ط فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ - ترجمہ.چند روز گنتی کے ( روزے رکھنا ہے ) پھر جو شخص تم سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے ( یعنی اور دنوں میں روزے رکھ لے) اور جو طاقت رکھتے ہیں وہ کھانا بھی دیں ایک بے سامان کو پھر جو اپنی خوشی سے کچھ نیکی کرنی چاہے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے، اور روزہ رکھنا بہر حال اچھا ہے تمہارے حق میں جب تم سمجھو.تفسیر.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ.اور جو صوم کی طاقت رکھتے ہیں یعنی جنہیں روزے رکھنے میتر آ جاویں.فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین.وہ ایک مسکین کا کھانا بطور صدقہ دیں.یہ صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ تعامل سے ثابت ہے کہ ہر روزہ دار نماز عید سے پہلے ایک مسکین کا کھانا صدقہ دیتا ہے دوسرا میرا اپنا طرز پسندیدہ جو آثار سلف کے مطابق ہے یہ ہے کہ خود روزہ رکھا اور اپنی روٹی کسی غریب کو کھلا دی اور جو لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جو لوگ طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ دیں یہ بھی ایک ہے.نفلی روزوں میں ایسا کر لیں کہ ہر دوشنبه و جمعہ وایام بیض کو روزہ نہیں رکھ سکتے تو اس روز مسکین کو کھانا کھلا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا کیونکہ آپ تو ماہ صیام میں موسم بہار کی ہوا سے بڑھ کر جو دوسخا میں ہوتے تھے.فَمَن تَطَوَّعَ.جو شخص کوئی نیکی خوش دلی سے کرے وہ بہت اچھی ہے اور یہ کہ روزہ رکھنا تو بہت ہی مفید ہے اس سے دُعا کی قبولیت ہوتی ہے.صبر و استقلال اور نواہی سے بچنے کی مشق ہوتی ہے اپنی اصلاح ہوتی ہے.یہ بات یادر ہے کہ کمزور لوگوں کے لئے اس قسم کے مجاہدات منع ہیں جن میں روزہ رکھتے ہوں اور وہ اخیر میں خشکی دماغ سے نیم سودائی ہو جاویں اور کسی کام کے نہ رہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مورخه ۸، ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۱، ۳۲)
حقائق الفرقان ۴۵۵ سُورَةُ الْبَقَرَة ايا ما مَعْدُودَت.ہر مہینے میں تین یادہائی میں ایک.يُطِيقُونَہ.جو روزہ اچھی طرح رکھ سکتے ہیں.حدیث میں ہے ایكُمْ يُطِيقُ ذَلِکَ.وہ بعض قصوروں کے کفارہ میں فدیہ ( صدقۃ الفطر ) دے دیں.فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - یعنی نفلی روزوں کو مثلاً ۱۳.۱۴.۱۵ میں نہ رکھ سکے تو پھر رکھ لے.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا.ایک آدمی کے کھانے کے بدلے تین چار کا کھانا دیدے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۱) ۱۸۲ - شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَتِ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُبُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا ط ط اَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَ بِكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ - ترجمہ.رمضان کا مہینہ جس کے بارے میں قرآن اتارا گیا ( کیسا قرآن جو ) لوگوں کا رہنما ہے اور سیدھی راہ کے کھلے کھلے نشانات اور حق ناحق کا جس میں فیصلہ ہے تو (مسلمانو ) تم میں سے جو شخص مقیم ہو یا اس مہینے کو پاوے (اس میں حاضر ہو ) تو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے پھر جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر لے (رمضان کے سوا اور دنوں میں روزے رکھ لے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا نتیجہ یہ کہ تم پوری کر لو گنتی اور اللہ نے جو تمہاری رہنمائی فرمائی ہے اس کے شکریہ میں اس کی بڑائی اور تعظیم کرو، اور تا کہ تم اس کا احسان مانوشکر کرو.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ - قرآن شریف کا طرز ہے کہ پہلے عام فضائل سکھاتا ہے پھر خاص فضیلت کی بات.اسی طرح پہلے عام رذائل سے ہٹاتا ہے پھر ارذل الرذائل شرک سے.پہلے عام بات کا حکم ہوتا ہے پھر خاص کا.مثلاً پہلے عمرہ وغیرہ کا ذکر ہے پھر حج کا.پہلے صدقات کی ترغیب ہے پھر زکوۃ کی.اسی طرح پہلے یہاں عام طور پر نفلی و فرضی روزوں کا حکم دیا
حقائق الفرقان ۴۵۶ سُورَةُ الْبَقَرَة ہے پھر رمضان کے روزوں کا حکم دیتا ہے.پہلے شھر رمضان کی فضیلت بیان کی ہے کہ اس میں قرآن شریف نازل ہوا.چونکہ قرآن کا اطلاق جزو سورہ پر بھی ہوسکتا ہے اس لئے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام قرآن ماہِ رمضان میں نازل ہوا ہے بلکہ صرف ایک جزوسورۃ کا نزول بھی کافی ہے.میں نے جو تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن دنوں غارِ حرا میں عبادت فرمایا کرتے تھے وہ دن رمضان کے تھے اور وہیں پہلی سورۃ کا جزو نازل ہوا.اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر رمضان اس لئے فضیلت کا مہینہ ہے کہ اس میں قرآن کا کوئی جز و نازل ہو ا تو اس فضیلت میں دوسرے مہینے بھی شامل ہیں.اس لئے گو یہ دوسرے معنے بھی بہت سچ ہے کہ وہ رمضان جس کے بارے میں قرآن شریف نازل ہو انگر شروع نزول ایک رنگ رکھتا ہے.بيِّنت.کھلے ہدایت نامے.الْفُرْقَانِ.قرآن سے مجھے اس کے یہ معنے معلوم ہوئے کہ فرقان نام ہے اس فتح کا جس کے بعد دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ بدر کا دن تھا.غزوہ بدر بھی ماہ رمضان میں ہوا ہے.غرض رمضان المبارک کیا بلحاظ فتوحات دنیاوی اور کیا باعتبار ابتداء نزولِ قرآنی یا تاکید قرآنی ہر طرح قابل قدر حرمت ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۲) اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ.اس کے متعلق قرآن نازل ہوا.قرآن میں روزے کی تاکید ہے.قرآن روزوں میں شروع ہوا.دونوں معنی صحیح.شھد.مسافر نہ ہو بلکہ حاضر.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۱) رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں خاص احکام دیئے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے.جو لوگ مسافر ہیں یا بیمار ہیں ان کو تو سفر کے بعد اور بیماری سے صحت یاب ہو کر روزے رکھنے کا حکم ہے مگر دوسرے لوگوں کو دن کے وقت کھانا پینا اور بیوی سے جماع کرنا منع ہے.کھانا پینا بقائے شخص کے لئے نہایت ضروری ہے اور جماع کرنا بقائے نوع کے لئے سخت ضروری ہے.اس مہینہ میں خدا تعالیٰ نے دن کے وقت ایسی ضروری چیزوں سے رکے رہنے
حقائق الفرقان ۴۵۷ سُورَةُ الْبَقَرَة کا حکم دیا تھا.ان چیزوں سے بڑھ کر اور کوئی چیزیں ضروری نہیں.بے شک سانس لینا ایک نہایت ضروری چیز ہے مگر انسان اس کو چھوڑ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے یہ مہینہ اس واسطے بنایا ہے کہ جب انسان گیارہ مہینے سب کام کرتا ہے اور کھانے پینے، بیوی سے جماع کرنے میں مصروف رہتا ہے تو پھر ایسی ضروری چیزوں کو صرف دن کے وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک ماہ کے لئے ترک کر دے تو پھر دیکھو جہاں ایک طرف ان ضروری اشیاء سے منع کیا ہے دوسری طرف تدارس قرآن ، قیام رمضان اور صدقہ وغیرہ کا حکم دیا ہے اور اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جب ضروری چیزیں چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کو خدا کے حکم سے اختیار کیا جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے برخلاف غیر ضروری چیزوں کو حاصل کیا جاتا ہے.رمضان کے مہینہ میں دعاؤں کی کثرت، تدارس قرآن ، قیام رمضان کا ضروری خیال رکھنا چاہیے.حدیث شریف میں لکھا ہے مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَلَه مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ ( بخاری کتاب الایمان باب صَوْمَ رَمَضَانَ احْتَسَابًا مِنَ الْإِيمَانِ ) مگر افسوس که بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں.سحرگی کے وقت اتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دو پہر تک بدہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیر مارا اور ایسی شکم پری کی کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور سستی پرستی آنے لگی.اتنا خیال نہیں کرتے کہ روزہ تو نفس کے لئے ایک مجاہدہ تھانہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ پر کر کے کھایا جاوے.یا درکھو اسی مہینہ میں ہی قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے اسی کی ہدایت کے بموجب عمل درآمد کرنا چاہیے روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دنیا کے کاموں میں سکھ حاصل کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں.آرام تو یا مرکز حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر تو اے جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور ثواب کی نیت سے رکھے.اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دیئے گئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۵۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حاصل ہوتا ہے.اس لئے روزہ سے بھی سکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قرب حاصل کر سکتا اور متقی بن سکتا ہے اور اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے فانی قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ الخ الحکم جلد ۱۱ نمبر ۴۱ مؤرخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (البقرة: ۱۸۲) رمضان کا مہینہ ایسا بابرکت ہے کہ اس کے متعلق قرآن شریف میں ذکر ہوا ہے اور اس میں ایک خاص عبادت کے احکام نازل ہوئے ہیں.کیا ہی بچے اور صحیح معنے ہیں.بعض مفسرین نے اس کلمہ طیبہ کے یہ معنے کئے ہیں کہ قرآن شریف سارا یک دفعہ رمضان کے مہینہ میں نازل ہوا تھا.پھر اس تفسیر کو قرآن شریف کے تئیس سالہ نزول مختلف اوقات مختلف مقامات کے مخالف پا کر اپنی تفسیر کی.یوں تفسیر کی ہے کہ پہلے رمضان کے مہینہ میں قرآن شریف اکٹھا کسی آسمان پر نازل ہوا تھا وہاں سے رفتہ رفتہ تئیس سال کے عرصہ میں زمین پر آیا.بعض اصحاب نے کچھ اور تو جیہات بھی نکالی ہیں.مثلاً یہ کہ قرآن شریف کا کچھ حصہ ماہ رمضان میں بھی نازل ہوا.اور یہ صیح بات ہے لیکن میری رائے میں قرآن شریف کے ماہ رمضان میں نازل ہونے کی ایک صحیح تاویل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس مبارک مہینہ میں قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے اور اس پر عمل کرنے کا اس قدر موقع ہوتا ہے کہ گویا اس ماہ میں ہر سال نئے طور پر قرآن شریف نازل ہوتا ہے.مجھے جنٹلمینوں کی تو خبر نہیں جو ملاقاتوں ، تماشاؤں اور ناول خوانی وغیرہ سے فارغ ہو کر رات کے ۲ بجے بستر پر گرے تو صبح کے دس بجے اٹھ کر چائے پی مگر پرانے لوگوں میں اتنی نیکی اب تک چلی آتی ہے کہ گیارہ مہینے کیسی ہی غفلت میں گزرے ہوں رمضان کے روزے ضرور اہتمام سے رکھے جاتے ہیں اور اس ماہ میں نمازوں کی پابندی بھی کی جاتی ہے اور صدقہ و خیرات کا دروازہ بھی حسب مقدور کھولا جاتا ہے.البدر.کلام امیر حصہ دوم مورخه ۱۹ / ستمبر ۱۹۱۲ ، صفحہ ۷)
حقائق الفرقان ۴۵۹ سُورَةُ الْبَقَرَة ماہ رمضان ایسا مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے.در آنحالیکہ تمام لوگوں کے لئے وہ بڑا ہدایت نامہ ہے اور روشن حجتیں ہیں.ہدایت ہے اور حق و باطل میں تمیز کرنے والے دلائل ہیں.پس جو تم میں سے پاوے اس مہینہ کو تو اس کو چاہئے کہ اس میں روزے رکھے اور جو مریض یا مسافر ہو تو اور دنوں میں گن کر روزے رکھ لے.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی کا ارادہ کرتا ہے اور دشواری کو نہیں چاہتا اور تاکہ تم پوری کر لو گنتی قضا شدہ روزوں کی اور تا کہ بڑائی بیان کرو اللہ کی اس پر کہ تم کو ہدایت کی اور تا کہ تم شکر کرو.واضح ہو کہ یہ آیت دوسرے پارہ کے رکوع سے میں واقع ہے اور تمہ ہے ان آیات کا جو اس سے پہلے فضیلت صیام میں بیان فرمائی گئی ہیں.یا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ - اَيَا مَا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (البقرة : ۱۸۵،۱۸۴) - احادیث میں فضائل روزہ رکھنے کے بہت کثرت سے مکتوب ہیں جن کو محب صادق کسی قدر بدر میں شائع فرما رہے ہیں.لہذا میں اس وقت بحولہ وقوتہ تعالیٰ صرف قرآن مجید ہی سے کچھ فضائل صیام وماہ رمضان کے بیان کروں گا.الا ماشاء اللہ.لیکن واسطے تفقہ ان آیات کے اولاً چند امور کا بیان کر دینا ضروری ہے امید ہے کہ ان کو بتوجہ سنا جاوے.b (۱) اس آیت سے پہلی آیات میں یعنی يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى لے اے ایماندار و! تم کو ( عام ) روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جس طرح حکم دیا تھا تم سے پہلے والوں کو تا کہ تم دکھوں سے بچو.چند روز گنتی کے روزے رکھنا ہے ) پھر جو شخص تم سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے ( یعنی اور دنوں میں روزے رکھ لے) اور جو طاقت رکھتے ہیں وہ کھانا بھی دیں ایک بے سامان کو پھر جو اپنی خوشی سے کچھ نیکی کرنی چاہے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا بہر حال اچھا ہے تمہارے حق میں جب تم سمجھو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۶۰ سُورَةُ الْبَقَرَة الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمُ الآیة.میں اگر الصیام سے مراد الہی رمضان شریف ہی کے روزے لئے جاویں تو تشبیه بلفظ کمابخوبی چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ امم سابقہ پر رمضان شریف کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے بلکہ مختلف ایام کے روزوں کا رکھنا بغیر کسی خاص تعین کے ثابت ہوتا ہے جیسا کہ قرآن مجید کے الفاظ آيا ما معدودات بھی اسی کی طرف ناظر ہیں.دیکھو کتاب خروج کا باب ۳۴ اور کتاب دانیال کا باب دہم جس میں تین ہفتہ کے روزوں کا رکھنا حضرت دانیال کا ثابت ہوتا ہے اور کتاب سلاطین ۱۹ باب ورس ۸ سے چالیس دن کا روزہ رکھنا معلوم ہوتا ہے اور اعمال حوار بین کے ۲ باب ورس ۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے آیا ما مَعْدُودَتِ رکھا کرتے تھے.غرض کہ تعیین ایک ماہ رمضان کے کتب بائیبل سے روزوں کے لئے نہیں پائی جاتی.ہاں صرف آیا ما مَعْدُودَتِ کے روزے بغیر تعین شھر رمضان کے معلوم ہوتے ہیں.اور اگر یہاں پر صرف ایک ادنی امر میں ایجاب میں ہی حرف کما تشبیہ کے لئے تسلیم کر لیا جاوے تو دوسرا امر یہ ہے کہ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مسکین سے رمضان کے روزے رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار ثابت ہوگا.ہاں البتہ صرف ایک فضیلت ہی روزہ رکھنے کی ثابت ہو سکتی ہے.کما قال الله تعالى وَ أَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ لیکن 1999 در صورتیکه مراد كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ سے رمضان کے ہی روزے ہو دیں تو یہ مخالف ہے آگے کی ودو آیت کے، جو بصیغہ امر فَلْيَصُهُ وارد ہے اور نیز مخالف ہے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ کے، کیونکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ارادہ کرتا ہے کہ تم عدت صیام شھر رمضان کا اکمال کرلو، نہ یہ کہ صیام اور فدیہ کے درمیان تم کو اختیار ہو.اور اگر يُطيقونہ کے پہلے لا مقدر مانا جاوے جیسا کہ بعض مفسرین نے لکھا ہے تو اس طرح سے محذوفات کے ماننے میں مخالف کو بڑی گنجائش مل جاوے گی کہ جس آیت کو اپنے خیال کے مطابق نہ پایا اس کو اپنے خیال کے مطابق کوئی کلمہ محذوف مان کر بنالیا.ہاں البتہ اس امر کا انکار نہیں ہو سکتا کہ قرائن سے جملہ کلاموں میں اور نیز قرآن مجید میں اکثر محذوفات مان لئے جاتے ہیں اور اگر ہمزہ باب افعال کا سلب کے لئے کہا جاوے تو اطاق يُطِيقُ کا محاورہ بمعنی عدم طاقت کے عرب عربا سے ثابت کرنا ضروری ہوگا.مختار الصحاح میں تو لکھا ہے.وَالطَّوْقُ أَيْضًا الطَّاقَةُ
حقائق الفرقان ۴۶۱ سُورَةُ الْبَقَرَة وَأَطاقَ الشَّيئ إطاقَةً وَهُوَ فِي طَوْقِهِ أَتي في وُسعه اور یہی محاورہ مشہورہ ہے.پس ہمزہ سلب کے لئے اس میں ماننا غیر مشہور ہے اور الفاظ قرآن مجید کے معنی حتی الوسع مشہور ہی لینے مناسب ہیں نہ غیر مشہور اور اگر یہ سب کچھ تسلیم بھی کر لیا جاوے تو آنْ تَصُوْمُوَاخَيْزِلَكُمْ اس کے منافی ہے کیونکہ اس کا مفہوم صرف روزے رکھنے کی فضیلت ہے نہ لزوم روزوں کا حالانکہ رمضان کے روزے 99.9171 فرض ولا زم ہیں نہ غیر لازم یا اختیاری.جیسا کہ فلیصمہ اور وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ سے ثابت ہوتا ہے.اور اگر یطیقونے کی ضمیر فدیہ کی طرف راجع کی جاوے تو بلا وجہ وجیہ کے اضمار قبل الذکر لازم آوے گا اور اگر پھر اضمار قبل الذکر بھی تسلیم کر لیا جاوے تو ضمیر مذکر کی لفظ فدیہ کی طرف جو مونث ہے راجع ہوگی پھر اس میں تاویل در تاویل یہ کرنی پڑے گی کہ مراد فدیہ سے چونکہ طعام ہے اس لئے ضمیر مذکر لائی گئی اور یہ سب امور تکلفات سے خالی نہیں ہیں.تیسرا امر یہ ہے کہ مریض اور مسافر کا حکم پہلے ایک مرتبہ بیان ہوچکا ہے.پھر آیت شَهرُ رَمَضَانَ الَّذِی اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرآن کے آگے اس کا مکر رلانا کس فائدہ کے لئے ہے.اگر کہا جاوے کہ واسطے تاکید کے ، تو اس پر کہا جاوے گا کہ یہاں پر مقصود تاکید کب ہے.کیونکہ اوّل تو بین الفدية پرمن والصيام “اجازت دی گئی ہے اور ثانیاً وَ اَنْ تَصُومُوا خَیر لکم فرما کر صرف روزے کی فضیلت بیان فرمائی ہے نہ لزوم جس کی تاکید کے لئے فَعِدَّةٌ مِنْ آيَامٍ اُخَر دوبارہ فرما یا جاتا.اندریں صورت تکرار بے سود لازم آتا ہے اور اگر مکر رہی فرمانا تھا تو وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ کو بھی مکر رلا یا جاتا.خلاصہ یہ کہ ایک جگہ تو فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ کے آگے وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ بھی فرمایا گیا اور وَ اَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ بھی ارشاد ہوا اور دوسری جگہ پر فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ کے آگے وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ الآية ارشاد ہوا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات میں دو قسم کے روزے ہیں جن کا حکم علیحدہ علیحدہ ہے.یہ بیان تو اس صورت میں تھا کہ مراد الصیام سے صیام رمضان ہی ہووے.لے لفظ طوق “ کے معنی طاقت بھی ہیں.اَطاقَ الشَّنِي اطَاقَةَ اس نے کسی چیز کی بجا آوری کی طاقت رکھی.ھو فِي طَوقہ.وہ اس کے دائرہ استطاعت میں ہے.
حقائق الفرقان ۴۶۲ سُورَةُ الْبَقَرَة شق دوم.اور اگر پہلی آیت سے علاوہ رمضان کے دوسرے روزے مراد لئے جاویں مثلاً ایام بیض کے روزے یا ستہ شوال وغیرہ جن کی فضیلت بھی کتب معتبرہ احادیث میں لکھی ہوئی ہے اور علماء وفقہاء نے ان روزوں کی فضیلت میں یہاں تک لکھا ہے کہ جس نے رمضان اور ستہ شوال کے روزے رکھے اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لئے اور اس کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ ہر ایک نیکی کا ثواب وہ اللہ رحمن و رحیم دس گنا عطا فرماتا ہے.کما قال الله تعالى - مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا (الانعام : (۱۲۱) یعنی جو شخص ایک نیکی بجالا وے گا تو اس کو اس نیکی کا دس گنا ثواب ملے گا.تو تیس روزوں کا ثواب تین سو روزوں کا ثواب ہوا اور چھ روزوں کا ثواب ساٹھ روزوں کا ثواب ہوا اور سال تمام کے قمری دن بھی تین سو ساٹھ (۳۶۰) ہی ہوتے ہیں.علی ھذا القیاس اگر ایام بیض کے تین روزے دس ماہ کے لئے جاویں تو بھی تیس روزے ہوتے ہیں جس کے تین سو ہوئے اور پھرستہ شوال بھی لیا جاوے جس کے ساٹھ ہوئے، تو بھی تین سو ساٹھ روزوں کا ثواب حاصل ہو گیا اور صیام فرض رمضان کے اس پر علاوہ رہتے ہیں.اور صرف دس ماہ ہی کے ایام بیض اس واسطے لئے گئے کہ ایک ماہ رمضان کا علیحدہ رہا اور چونکہ ستہ شوال کا بھی لے لیا گیا ہے لہذا اس حساب میں شوال کے ایام بیض بھی نہیں لئے گئے بلکہ صرف دس ماہ کے ایام بیض لے لئے گئے ہیں.الحاصل اندریں صورت چونکہ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (البقرة : ۱۸۴) سے ان کی فرضیت مفہوم ہوتی ہے حالانکہ یہ روزے ایام بیض وغیرہ کے لازم نہیں ہیں.اس لئے اس شق کی صورت میں مفسرین اس آیت کو دوسری آیت فَلْيَصُهُ اور یا وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ سے منسوخ قرار دیتے ہیں.مگر ایک کلام کے سلسلہ میں ایسا ناسخ و منسوخ ماننا عظمت شان کلام الہی کے بالکل منافی ہے.چہ جائیکہ بموجب مسلک ان مفسرین کے جو کسی آیت قرآنی کو منسوح مانتے ہی نہیں.پھر ایک ایسے کلام کے سلسلہ میں جو متصل ہے ناسخ منسوخ کیونکر تسلیم کیا جاسکتا ہے.اب خلاصہ کلام یہ ہوا کہ کوئی ایسی توجیہ صرف نظم قرآن مجید سے ہی پیدا کرنی چاہئے جس سے نہ تو کلمہ لا کو محذوف ماننا پڑے، نہ اضمار قبل الذکر لازم آوے، نہ ضمیر مذکر کی مونث کی طرف راجع ہو، نہ ناسخ منسوخ کا ماننا پڑے ، نہ کسی
حقائق الفرقان ۴۶۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قسم کا تخالف آیات مذکورہ کے مفہومات میں لازم آوے اور نہ عدم فرضیت روزوں رمضان کے مفہوم ہو دے کیونکہ عدم فرضیت صیام رمضان کہ ادلہ شرعیہ کے محض خلاف ہے.اگر کسی توجیہ سے یہ تکلفات رفع ہو جاویں تو البتہ ثلج صدران آیات کے تفقہ میں حاصل ہوسکتا ہے.اب اس جلسہ خطبہ میں صرف ایک توجیہ بیان کی جاتی ہے.اگر اہل علم حاضرین جلسہ کے نزدیک یہ پسند آجاوے تو زہے عز و شرف ورنہ وہ خود بعد خطبہ کے بیان فرماویں اور اگر بعد خطبہ کے کسی صاحب نے اہل علم میں سے کوئی تطبیق اور تو جبیہ دیگر بیان نہ فرمائی تو یہی ثابت ہوگا کہ یہ ہی تطبیق ان کو پسند ہے اور وہ تطبیق یہ ہے کہ اسلام میں دو قسم کے روزے ہیں جو کتاب وسنت سے ثابت ہیں.ایک لا زم اور دوسرے غیر لازم.چونکہ روزہ جو بہ نسبت دیگر عبادات کے ایک عمدہ عبادت ہے جس سے مومن متبع انوار الہی کو حاصل کر سکتا ہے اور مکالمات النبی کا تجلی گاہ ہو سکتا ہے جیسا کہ کلام نبوت میں وارد ہوا ہے کہ الصَّوْمُ لِي وَأَنا أُجْرَى بِهِ (بخاری _ کتاب الصوم) یعنی بصیغہ مجہول ترجمہ.روزہ مومن کا خاص میرے ہی لئے ہوتا ہے جس میں ریا وغیرہ کو کچھ دخل نہیں اور اس کی جزا میں خود ہو جاتا ہوں.یا انا اجزی بہ بصیغہ معروف کہ میں بلا وساطت غیرے خود اس کی جزا دیتا ہوں وغیرہ وغیرہ من الاحادیث الصحیحہ.یہ احادیث اس امر پر صریح دال ہیں اور ستر اس میں یہی ہے کہ انسان روزے میں فجر سے لے کر شام تک تینوں خواہشوں ، کھانے پینے ، جماع سے رکا رہتا ہے اور پھر اس کے ساتھ اپنے قلب کو ذکر الہی ، تلاوت ، نماز ، درود شریف کے پڑھنے میں مشغول رکھتا ہے تو پھر اس کی روح پر عالم غیب کے انوار کی تجلی اور ملاء اعلیٰ تک اس کی رسائی کیونکر نہ ہو گی.اور یہ جوا حادیث میں وارد ہوا ہے کہ رمضان شریف میں شیطان زنجیروں میں بند کئے جاتے ہیں اور جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور مہم غیبی آواز دیتا ہے کہ اے طالب نیکی کے ! اس طرف کو آ اور اے بدی کے کرنے والے ! کوتاہی کر.یہ سب ایسی احادیث اسی امرلطیف کی طرف اشارہ کر رہی ہیں.پس کوئی شبہ نہیں کہ ظلمات جسمانیہ کے دور کرنے کے لئے روزہ سے
حقائق الفرقان ۴۶۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بہتر اور افضل کوئی عبادت نہیں اور انوار و مکالمات الہیہ کی تحصیل کے لئے روزہ سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں.اور حضرت موسی نے جب کوہ طور پر تئیں بلکہ چالیس روزے رکھے تب ہی ان کو تو رات ملی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غارحرا کے اعتکاف میں روزوں کا رکھنا ثابت ہے جس کے برکات سے نزول قرآن کا شروع ہوا اور خود قرآن مجید بھی اسی طرف ناظر ہے کہ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ اور مسیح موعود نے بھی چھ ماه یا زیادہ مدت تک روزے رکھے ہیں جن کی برکات سے ہزاروں الہامات کے وہ مورد ہو رہے ہیں.بدیں وجوہ موجہ قرآن اور اسلام نے جو جامع تمام صداقتوں اور معارف کا ہے دونوں قسم کے روزوں کو واسطے حاصل ہونے مزید تصفیہ قلب کے ثابت و برقرار رکھا.ہاں دونوں قسموں کے حکم جدا گانہ فرما دیئے گئے.صیام غیر لازم کا حکم تو یوں فرمایا کہ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَه الآية اور صيام لازم کا حکم یوں ارشاد ہوا کہ فَلْيَصُبُهُ اور وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ الآیة.آگے رہا لفظ كتب جس کے معنے مفسرین فرض لکھتے ہیں.اس کی نسبت یہ گزارش ہے کہ کچھ ضروری نہیں کہ اس کے معنی فرضیت ہی کے لئے جاویں بلکہ جو حکم شرعی لازم یا غیر لازم ہو ، اس کو کہہ سکتے ہیں کہ یہ شرع اسلام میں مکتوب یا لکھا ہوا ہے خواہ وہ حکم لازم ہو یا غیر لازم.یہ اصطلاح کہ کتب بمعنی فرض کے ہی لیا جاوے اصطلاح علما ہی کی ہے نہ قرآن مجید کی اصطلاح ، کیونکہ لفظ کتاب یا اس کی مشتقات قرآن مجید میں صدہا جگہ آئے ہیں ، تا ہم وہاں لے پر مراد الہی فرضیت نہیں ہے.کما قال الله تعالی.وَلَيَكْتُبُ بَيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ - (البقرة : ۲۸۳) أَيْضًا يَكْتُبُونَ الْكِتَبَ بِأَيْدِيهِمْ (البقرة : ۸۱) وَغَيْرُ ذُلِكَ مِنَ الْآيَاتِ الكَثِيرَةِ.آگے رہا حکم شیخ فانی مرضعہ پیر ضعیف یا جوان نہایت لاغر نحیف وغیرھم کا جن پر روزہ 97 9121 رکھنا نہایت درجہ پر شاق معلوم ہوتا ہے.سو یہ سب لوگ بایں شرط مشقت حکم مریض میں داخل ہیں کیونکہ تعریف مریض کی ان پر صادق آتی ہے کہ ان کے جملہ قومی کے افعال اپنی حالت اصلی پر باقی نہیں لے اور چاہئے کہ لکھ دے تم میں سے کوئی لکھنے والا انصاف سے.سے جو کتاب کو تو اپنے ہاتھ سے لکھتے ہیں.اور اس کے علاوہ اور بہت سی آیات ہیں.
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة رہے.اگر یہ لوگ فدیہ بھی دیویں تو مَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ پر قیاس کئے جاسکتے ہیں مگر فدیہ بھی اسی شخص پر ہے جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتا ہو ورنہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رمضان کا روزہ افطار کرنے والے نے خود الٹا ساٹھ مسکینوں کا طعام فدیتاً لے لیا ہے کما فی المشکوۃ اور خود لے قرآن مجید ہی فرماتا ہے کہ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ (البقرة: ۱۸۲) اور لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷).وغیرہ وغيره من الآيات - اس تو جیہ سے وہ تکلفات جو مذکور ہوئے نہیں لازم آتے وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.اب واضح ہو کہ جس قدرا حکام شرع اسلام میں مقرر ہیں ان میں اسرار عجیبہ اور لطائف غریبہ غور کرنے سے معلوم ہو سکتے ہیں.مثلاً یہاں پر جو شَهُرُ رَمَضَانَ واسطے صیام کے اللہ تعالیٰ کے کلام میں مخصوص فرمایا گیا اس میں ایک عجیب سریہ ہے کہ یہ مہینہ آغاز سنہ ہجری سے نواں (۹) مہینہ ہے.یعنی.محرم صفر.ربیع الاول ربیع الثانی جمادی الاول جمادی الثانی رجب شعبان - رمضان.اور ظاہر ہے کہ انسان کی تحمیل جسمانی شکم مادر میں نو ماہ میں ہی ہوتی ہے اور عددنو کا فی نفسہ بھی ایک ایسا کامل عدد ہے کہ باقی اعداد اسی کے احاد سے مرکب ہوتے چلے جاتے ہیں، لاغیر.پس اس میں اشارہ اس امر کی طرف ہوا کہ انسان کی روحانی تکمیل بھی اسی نویں مہینے رمضان ہی میں ہونی چاہئے اور وہ بھی اس تدریج کے ساتھ کہ آغاز شہور ہجری سے ہر ایک ماہ میں ایام بیض وغیرہ کے روزے رکھنے سے بتدریج تصفیہ قلب حاصل ہوتا رہا.جیسا کہ شیخ نے کہا ہے کہ تامل در آئینه دل کنی صفائی بتدریج حاصل کنی حتی کہ نواں مہینہ رمضان شریف کا آگیا تو اس کے لئے یہ حکم ہوا کہ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ " (البقرة: ۱۸۶).یہاں تک کہ مومن متبع کو روزے رکھتے رکھتے آخر عشرہ درو لے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے سختی نہیں کرنا چاہتا.(ناشر) ہے دل کے آئینے میں غور وفکر کر.آہستہ آہستہ صفائی حاصل کر.سے تم میں سے جو شخص مقیم ہو یا اس مہینے کو پاوے(اس میں حاضر ہو ) تو چاہیے کہ اس کے روزے رکھے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۶۶ سُورَةُ الْبَقَرَة رمضان شریف کا بھی آ گیا.پس اب تو ظلمات جسمانیہ اور تکدرات ہیولا نیہ سے پاک وصاف ہوگیا تو عالم ملکوت کی تجلیات بھی اس کو ہونے لگیں اور تاریخوں طاق میں مکالمات الہیہ کا مورد ہو گیا اور یہی حقیقت ہے لیلۃ القدر کی جو آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اس لئے شارع اسلام نے تعیین لیلتہ القدر کی ۲۷ شب مقرر فرما دی کیونکه در صورت ۲۹ دن ہونے شہر رمضان کے وہی ۲۷ شب آخری طاق شب ہو جاتی ہے، جس میں تکمیل روحانی انسان متبع کے حاصل ہوسکتی ہے.اس لئے یہ شب ۲۷ کی ایک یب مبارک شب ہے جس میں قرآن مجید بھی نازل ہوا.کما قال الله تعالى - إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَ مَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ - لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ (القدر - ۲ تا ۴) ايضاً قال تعالى- إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةٍ مُبرَكَةٍ (الدخان (۴) اور چونکہ یہ شب مبارک اور لیلۃ القدر دونوں رمضان شریف ہی میں ہوتی ہیں لہذا ان تینوں آیتوں میں کوئی اختلاف بھی باقی نہیں رہا.اور إِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں ضمیر مذکر غائب کا مرجع اس لئے مذکور نہیں ہوا ہے کہ جملہ اہل کتاب یہود و نصاریٰ حضرت خاتم النبیین صلعم کے اشد درجہ منتظر تھے کیونکہ تمام کتب بائبل میں آپ کی بشارات اور صفات حمیدہ موجود تھیں اور اب تک موجود ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام آپ کے منہ میں ڈالا جانا بھی بائیبل میں اب تک پایا جاتا ہے.اس لئے اس کلام الہی کے نزول کا بھی ان کو سخت انتظار تھا اور نیز مشرکین عرب اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آتے تھے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے بنی اسمعیل میں ایک نبی عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے.لہذا جملہ اہل مذاہب اور اہل کتاب کو اس نبی آخرالزمان اور نزول کلام الہی کا انتظار تھا اور ان میں آپ کی بعثت کا ذکر خیر رہتا تھا جیسا کہ سورہ بینہ کی ہماری تفسیر سے واضح ہے.اس لئے انزلنہ کے مرجع کے ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی بلکہ مرجع کے ذکر کرنے میں وہ نکتہ حاصل نہ ہوتا تھا جو اس کے عدم ذکر کرنے میں ایک لطیفہ حاصل ہوا اس لئے مرجع ضمیر انزلنه " کا ذکر سابق میں نہیں کیا گیا.کیونکہ اس کا ذکر تو کل اہل کتاب 12/2699 ل بے شک ہم نے اس کو شب قدر میں اتارا ہے.اور تو کیا جانے شب قدر کیا ہے.شب قدر ہزار مہینے سے بہتر ہے.
حقائق الفرقان ۴۶۷ سُورَةُ الْبَقَرَة اور مشرکین عرب میں موجود ہے.اسی طرح پر الہام اِنَّا اَنْزَلْنَاهُ قَرِيبًا مِنَ الْقَادِيَانِ براهین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۴۹۸ حاشیه در حاشیہ نمبر ۳) میں بھی مرجع کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیونکہ اب بھی کوئی فرقہ مذہبی اس قرآن میں ایسا موجود نہیں ہے جو ایک مصلح کامل کا منتظر نہ ہو.اہل کتاب یہود و نصاریٰ بھی مسیح اور الیاس کے نزول کے منتظر ہیں اور اہل اسلام بھی مہدی معہود اور مسیح موعود کے نزول کا انتظار کر رہے ہیں اور ہنود بھی کنکی او تار کرشن علیہ السلام کی آمد کے لئے منتظر بیٹھے ہوئے ہیں اور تمام عقلاء اور علماء کی انجمنیں ایک مصلح کامل کو بلا رہی ہیں.اس لئے مرجع کے ذکر کرنے کی یہاں پر بھی ضرورت نہیں بلکہ ذکر کرنے مرجع میں کلام الہبی عالی مقام بلاغت سے نیچے اتر جاتا ہے.یہ بھی واضح ہو کہ شریعت اسلام میں تمام اوقات عبادات اور از مند روحانیت کو ایک دور کے ساتھ قائم کیا ہے جس طرح پر جسمانیات اور زمانیات میں بھی یہ دور مشاہدہ ہورہا ہے.دیکھو فصل بہار کو کہ ہر ایک سال دورہ کرتی رہتی ہے اور نظر کر و تمام شمار اور غلہ جات وغیرہ کو کہ اپنے اپنے وقت پیداوار پر دورہ کرتے رہتے ہیں اور غذائے انسان و حیوانات ہوتے ہیں.اسی طرح پر نظام روحانی کا انتظام منجانب اللہ فرما یا گیا ہے.دیکھو ایک ہفتہ ہی کو کہ یوم جمعہ ہمیشہ دورہ کرتارہتا ہے جس کی برکات سے مومنین کا ایمان تازہ ہوتا ہے اور ہفتہ بھر کی خطیبات کا کفارہ ہوجاتا ہے.پھر دیکھو رمضان شریف اور موسم حج کو اور لیلۃ القدر وغیرہ کو کہ ہر سال ایک مرتبہ ان کا دورہ ہو جاتا ہے.یہ کیوں؟ اسی لئے کہ مومنین کا ایمان ان کی برکات سے تازہ ہوتا رہے اور تجلیات الہیہ کا ورود جن میں مکالماتِ الہیہ ہیں، مومن متبع پر ہوتا رہے.اسی طرح پر ہر ایک صدی پر واسطے تجدید دین اسلام کے مجددین کا دورہ ہوتا رہتا ہے گما فِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ.چنانچہ اس چودھویں صدی میں دورہ مسیح موعود کا ہورہا ہے.یہ مسیح موعود عند اللہ مر بھی ہے اور ایک لحاظ سے شمس بھی ہے.كَمَا بَت في محله - شمس و قمر کا ا بے شک ہم نے اس کو قریب ہی یعنی قادیان میں اتارا.(ناشر) ہے جیسا کہ حدیث صحیح میں ہے.سے جیسا کہ اپنے محل پر ثابت ہو چکا ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۶۸ سُورَةُ الْبَقَرَة دورہ رمضان شریف کے ساتھ بڑی مناسبتیں رکھتا ہے.یعنی جس طرح پر رمضان شریف میں ایک قسم کی نفس کشی بسبب امساک کے اکل و شرب سے اور جماع سے کی جاتی ہے اسی طرح اس دور قمر میں مومنین متبعین کو کسی قدر صعوبتیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں برداشت کرنی پڑتی ہیں بلکہ بعض متبعین کو ترک اکل وشرب و جماع کا بھی تائید اسلام اور تبلیغ دین حق کے لئے کرنا پڑا ہے کہ اکثر جگہ پر ازواج میں با ہم تفریق واقع ہوگئی اور مخالفین اکثر مخلصین کے اکل و شرب میں بھی حارج ہوئے.دوسری مناسبت رمضان کو اس دور قمر کے ساتھ یہ ہے کہ جو معارف قرآنی بذریعہ اس شمس و قمر کے دنیا پر منکشف ہوئے وہ پچھلی صدیوں میں نازل نہیں ہوئے تھے اور رمضان کی خصوصیات سے ضروری ہے کہ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة: ۱۸۶) کانزول ضرور ہو.یہ تینوں امور نزول قرآن مجید کے لئے اس لئے ضروری ہیں کہ ایک تو ہدایت عام ہوتی ہے تمام آدمیوں کے لئے.دوسرے اس ہدایت کے دلائل قطعیہ اور شواہد یقینیہ کا ہونا بھی ضروری ہے.مصداق اس کا کسوف و خسوف ماہ رمضان ۱۳۱۱ ھ اور دیگر بینات واقع ہوئے.تیسرے اس ہدایت عامہ کے لئے الفرقان ہونا چاہئے جیسا کہ واقعہ لیکھرام اور چراغ دین کے اس کے شواہد ہیں وغیرہ وغیرہ، جو اس خطبہ میں مفصل بیان نہیں ہو سکتے.پس جب ان ہر سہ امور کا نزول اس دور شمس و قمر میں ہم کو مشاہد ہورہا ہے تو پھر ہم کیونکر تسلیم نہ کریں کہ زمانہ بعثت اس مسیح موعود کو ساتھ شهر رمضان کے بالضرور ایک مناسبت قوی ہے کما قال الله تعالى - شُهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنت مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ.پس اگر یہ زمانہ مسیح موعود کا شھر رمضان کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتا تو پھر یہ نزول قرآن یعنی رد شبہات تمام فرق باطلہ کا قرآن مجید سے کیوں ہورہا ہے؟ ہر ایک اہل بصیرت سمجھ سکتا ہے کہ علت کے وجود سے معلول کا وجود سمجھا جاتا ہے اور معلول کے وجود سے علت کا وجود سمجھ میں آجاتا ہے اور جس طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بعثت کا ایک اے لوگوں کا رہنما ہے اور سیدھی راہ کے کھلے کھلے نشانات اور حق ناحق کا جس میں فیصلہ ہے.
حقائق الفرقان ۴۶۹ سُورَةُ الْبَقَرَة عظیم الشان لیلۃ القدر تھا كما قال الله تعالى- وَمَا أَدْراكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (القدر : ۳) - اى طرح پر یہ آخری زمانہ یعنی دور شمس و قمر کا زمانہ ایک قسم کی لیلۃ القدر ہے کہ اس میں بھی اس مسیح موعود علیہ السلام پر نزول ملائکہ او روح یعنی جبرائیل کا ہورہا ہے جس کو کوئی مخالف نہیں ٹال سکتا کیونکہ باذنِ رَبِّهِمْ (القدر: (۵) ہے اور اسی لئے یہ مسیح موعود سلامتی کا شہزادہ ہے کمافی الالهام وكما قال الله تعالى - سلم هِيَ حَتى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر :۲).چونکہ معارف الہامات مسیح موعود کے بے نہایت ہیں، اس لئے میں اب اس خطبہ کو یہیں ختم کرتا ہوں.بَاركَ اللهُ لَنَا وَلَكُمْ فِي الْقُرْآنِ الْعَظِيمِ وَنَفَعَنَا وَإِيَّاكُمْ بِالْآيَاتِ وَالذِكْرِ الْحَكِيمِ إِنَّهُ تَعَالَى جَوَادُ قَدِيمٌ كَرِيمٌ مَلِكُ زَهُ وَفٌ رَّحِيمٌ - الحکم جلد ۱۰ نمبر ۳۸ مورخه ۱۰/ نومبر ۱۹۰۶ ء صفحه ۳ تا ۵) ط ۱۸۷ - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.ترجمہ.اور (اے پیغمبر) جب تم سے ہمارے بندے میرا حال پوچھیں تو (اُن کو سمجھا دو ) میں بہت ہی پاس ہوں ( یعنی بڑا ہی مہربان ہوں).میں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کی پکار کا جب وہ مجھے پکارے لیکن دعا کرنے والوں کو چاہئے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر دل سے فریفتہ تو ہوں تا کہ وہ سیدھے رستے لگ جائیں یعنی کامیاب ہو جائیں.تفسیر.یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں.جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو لے اور تو کیا جانے شب قدر کیا ہے.۲.اپنے رب کے حکم سے.سے وہ سلامتی کی رات ہے جب تک فجر طلوع ہو.کے اللہ تعالیٰ قرآن عظیم میں ہمارے اور تمہارے لئے برکت رکھ دے اور ہمیں اور تمہیں آیات سے اور حکمت والے ذکر ( قرآن مجید) سے نفع پہنچائے.یقینا اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے نہایت سخی ، قدیم ، کریم ، بادشاہ ، نہایت شفقت کرنے والا ، بار بار رحم کرنے والا ہے.(ناشر)
۴۷۰ سُورَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان میں اس کا جواب دیتا ہوں.( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۲۴) و إذا سألك - اگر لوگ یہ سوال کریں کہ روزوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے تو ایک تو یہاں لَعَلَّكُمْ تتَّقُونَ (البقرة : ۱۸۴) اور دوم یہ کہ انسان کو خدا کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں بہت قریب ہو جاتا ہوں اور دعائیں قبول کرتا ہوں.أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ.اس کے یہ معنے نہیں کہ جو مانگو وہی ملے.کیونکہ دوسرے مقام پر فرما دیا.جوپ رکوع ۱۰ سورۃ انعام ( آیت : ۴۲) میں ہے بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إن شاء.یعنی اگر چاہے تو اس مصیبت کو ہٹا دیتا ہے.یہاں بھی آنی کے ساتھ اس طرف اشارہ کر دیا ہے.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا ئی.فرمایا ہے یعنی جس قدر تم میرے فرمانبردار ہوتے جاؤ گے ایمان میں ترقی کرتے جاؤ گے اُسی قدر میں دعائیں قبول کروں گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۲) روزہ جیسے تقوی سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قرب الہی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ماہ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے.وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبُ - أَجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.یہ ماہ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیا ہے اور اس سے اس ماہ کی عظمت اور ستر الہی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو میں قبول کروں گا لیکن ان کو چاہیے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں.انسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قومی ہوتا ہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو رشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان، اُس کے احکام کی اتباع اور دُعا کو قرار دیا ہے.اور بھی باتیں ہیں جن سے قرب الہی حاصل ہوتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۲)
حقائق الفرقان ۴۷۱ سُورَةُ الْبَقَرَة روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.الصَّوْمُ لئ (بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم ) روزہ میرے لئے ہے کیونکہ روزے میں خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ ہے.جس طرح خدا تعالیٰ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ اس کی کوئی عورت ہے.ایسا ہی روزہ دار بھی تھوڑے وقت کے واسطے محض خدا کی خاطر بنتا ہے.اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ (البقرة: ۴۶) میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے گئے ہیں.روزے کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۳۳، ۳۴ مورخه ۱۷ رجون ۱۹۰۹ء صفحه ۲) اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.یعنی میں قریب ہوں اور اس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سنتا ہوں.چاہیے کہ پہلے وہ ان احکاموں پر عمل کریں جن کا میں نے حکم دیا اور ایمان حاصل کریں تاکہ وہ مراد کو پہنچ سکیں اور اس طرح سے بہت ترقی ہوگی.الحکم جلد نمبر ۱ ۴ مؤرخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ صفحه ۵) ١٨٨ - أحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَا بِكُمُ ، هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمُ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ b ص وَعَفَا عَنْكُمْ فَالْتَنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُوا القِيَامَ إِلَى الَّيْلِ وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَاَنْتُمْ عَكِفُونَ فِي الْمَسْجِدِ تِلْكَ حدودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ - ترجمہ.حلال کر دیا گیا ہے تم کو روزوں کی راتوں میں تمہاری بیبیوں سے صحبت کرنا وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو اللہ تعالیٰ نے جانا کہ تم اپنے نفس کا نقصان کرتے تھے اس پر بھی متوجہ ہوا تمہارا رب تمہاری طرف اور تمہارا قصور معاف کر دیا تو اب صحبت کرو ان سے اور خواہش کرو اس چیز کی جو لکھ دیا اللہ نے محفوظ کتاب میں تمہارے لئے ( یعنی ہم بستری سے بچہ ہونے کی
حقائق الفرقان ۴۷۲ سُورَةُ الْبَقَرَة خواہش رکھو) اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ ( رات کی ) کالی دھاری سے فجر کی سفید دھاری تم کو صاف دکھائی دینے لگے پھر روزہ پورا کر ورات تک.اور رات کو بھی صحبت نہ کر وعورتوں سے جب تم اعتکاف ( یعنی اللہ کی یاد میں بیٹھے ہو مسجدوں میں یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں ان کے پاس بھی نہ جانا ( یعنی خلاف حکم الہی ہر گز نہ کرنا ) اسی طرح اللہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے اپنی نشانیاں لوگوں کے لئے تا کہ وہ دکھوں سے بچیں.تفسیر - الرفث - عورت سے رغبت کرنا.جماع کرنا.جماع کی باتیں کرنا.هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ - عورتوں کو لباس فرمانے میں ان کے بہت سے حقوق فرمائے ہیں.عورتوں کو ساتھ رکھنا چاہیئے.یہ فلاسفی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ لحاف کشمیر میں ہو اور موسم سرما پنجاب میں بسر کرے.جاڑا لگے تو کہہ دے میرا لحاف کشمیر میں ہے.تَخْتَانُونَ اَنْفُسَكُمْ.یہ لوگ ایک غلط رسم میں مبتلا تھے.ان میں کوئی سو جاتا تو پھر رات کو نہ کھانا کھاتا نہ بیوی سے جماع کرتا.فرمایا اللہ نے تم پر فضل کیا.مغرب کے بعد سو جائے تو اُٹھ کر کھانا کھاوے ایسا کرنے کی ممانعت نہیں).حَتٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ.ایک شخص نے ایک دفعہ کہا کہ صبح صادق ایک انتظامی بات ہے پانچ منٹ ادھر ہو گئے تو کیا اور اگر اُدھر ہو گئے تو کیا.اللہ تعالیٰ نے عجیب طور سے اسے اس کا جواب سمجھایا.وہ جولاہا تھا.اسے خواب آیا کہ میں تانی پھیلا رہا ہوں مگر ایک طرف سے شیخ کے ساتھ باندھنے میں پانچ انگلی کا فرق رہ گیا ہے اور وہ چلا رہا ہے یا تو شیخ کو ادھر کر و یا رستہ کولمبا کرو ورنہ میری تانی بگڑتی ہے اور کوئی اسے کہ رہا ہے کیا ہو اصرف پانچ اُنگلی کا فرق ہے.اس پر اس کی جاگ کھلی اور بہت نادم ہوا اور 1 اسے تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا کے معنے سمجھ میں آئے.كَذلِكَ يُبَيِّنُ الله - واقعی یہ طریق عوام و خواص کو سمجھانے کا کب آتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ ۲۵ مورخه ۸و۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۲)
حقائق الفرقان ۴۷۳ سُورَةُ الْبَقَرَة ۱۸۹ - وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْنُوا بِهَا إِلَى الْحُكَامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ - ترجمہ.آپس میں ایک دوسرے کے مالوں کو ناحق نہ کھاؤ اور حکام تک بواسطہ ان مالوں کے اس لئے نہ پہنچنا کہ کسی طرح لوگوں کا کچھ مال خرد برد کر لو.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۰) وَلَا تَأْكُلُوا اَمْوَالَكُمْ.فرمایا ہے کہ ہم نے یہ سارا علم حصول تقوی کے لئے بیان کیا ہے پس تم مالی معاملات میں وہ راہ اختیار کرو جو خدا کو پسند ہے.مجھے افسوس آتا ہے اس ملک کے لوگوں پر.یوں تو چو ہڑوں کی نسبت مشہور ہے کہ ان کا چھرا حلال وحرام پر چلتا ہے مگر میں کہتا ہوں کئی گھر مسلمانوں کے چوہڑوں کے گھر بن رہے ہیں.ایک ضرب المثل ہے، ضرب المثل کہنا تو نہیں چاہیے کیونکہ اس کے کہنے والے تو حکماء ہوتے ہیں.یہ کسی سفیہ کا قول ہے کہ دنیا کمائے مکر سے اور روٹی کھائے شکر سے.یہ بالکل ایک گندہ قول ہے اور کسی مادہ پرست تاریکی کے فرزند کا ہے.تدلوا بِهَا إِلَى الْحُكام - رشوت نہ دو اور نہ یونہی مقدمہ بازی میں ناحق خرچ کرو.باطل کہتے ہیں اس کو کہ اجازت شرعیہ کے خلاف کچھ حاصل کیا جائے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مورخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۲) باطل طریق سے اموال کا لینا بہت خطرناک بات ہے.پس ہر ایک اپنے اپنے اندر سوچو اور غور کرو کہ کہیں بطلان کی راہ سے تو مال نہیں آتا.اپنے فرائض منصبی کو پورا کرو.ان میں کسی قسم کی سنتی اور غفلت نہ کرو.لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ( بخاری - کتاب الایمان باب مِنَ الْإِيْمَانِ أَنْ تُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِه) (الحكم جلد ۵ نمبر ۶ مؤرخہ ۱۷؍فروری ۱۹۰۱ ء صفحه ۶) تقوی کے لئے ایک جزئی بیان کی ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال مت کھایا کرو.حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قسم کا ہوتا ہے.ایک نوکر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے مگر وہ اے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۷۴ سُورَةُ الْبَقَرَة اپنا کام سستی یا غفلت سے آقا کے منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے.ایک دُکاندار یا پیشہ ور خریدار کو دھوکا دیتا ہے اسے چیز کم یا کھوئی حوالہ کرتا ہے اور مول پورا لیتا ہے تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھو کہ ہو اتو کیا وہ اسے پسند کرے گا؟ ہر گز نہیں.جب وہ اس دھوکا کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے.اس کے کاروبار میں ہرگز برکت نہ ہوگی.پھر ایک شخص محنت اور مشقت سے مال کماتا ہے مگر دوسرا ظلم ( یعنی رشوت، دھوکا، فریب) سے اس سے لینا چاہتا ہے تو یہ مال بھی مال بالباطل لیتا ہے.ایک طبیب ہے اُس کے پاس مریض آتا ہے اور محنت اور مشقت سے جو اس نے کمائی کی ہے اس میں سے بطور نذرانہ کے طبیب کو دیتا ہے یا ایک عطار سے وہ دوا خریدتا ہے تو اگر طبیب اس کی طرف توجہ نہیں کرتا اور تشخیص کے لئے اس کا دل نہیں تڑپتا اور عطا ر عمدہ دوا نہیں دیتا اور جو کچھ اسے نقد مل گیا اُسے غنیمت خیال کرتا ہے یا پرانی دوائیں دیتا ہے کہ جن کی تاثیرات زائل ہوگئی ہیں تو یہ سب مال بالباطل کھانے والے ہیں.غرضکہ سب پیشہ ورحتی کہ چوڑھے چمار بھی سوچیں کہ کیا وہ اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ اُن کی ضرورتوں پر ان کو دھوکا دیا جائے.اگر وہ پسند نہیں کرتے تو پھر دوسرے کے ساتھ خود وہی ناجائز حرکت کیوں کرتے ہیں؟ روزہ ایک ایسی شے ہے جو ان تمام بری عادتوں اور خیالوں سے انسان کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے اور تقوی حاصل کرنے کی مشق سکھاتا ہے.جو شخص کسی کا مال لیتا ہے وہ مال دینے والے کی اغراض کو ہمیشہ مد نظر رکھ کر مال لیوے اور اُسی کے مطابق اُسے شے دیوے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۲) مت کھاؤ آپس میں مال ناحق اور نہ پہنچاؤ اُن کو حاکموں تک کہ کھا جاؤ کاٹ کر لوگوں کے مال سے مارے گناہ کے اور تم کو معلوم ہے.(فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اول.ایڈیشن دوم صفحہ ۵۸ حاشیہ) ناحق کسی کا مال لینا ایسا ضروری نہیں جیسے کہ اپنی بیوی سے جماع کرنا یا کھانا پینا.اس لئے خدا تعالیٰ سکھاتا ہے کہ جب تم خدا تعالیٰ کی خاطر کھانے پینے سے پر ہیز کر لیا کرتے ہو تو پھر ناحق کا مال اکٹھا نہ کرو بلکہ حلال اور طیب کما کر کھاؤ.اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب تک رشوت نہ لی جاوے
حقائق الفرقان ۴۷۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اور دغا فریب اور کئی طرح کی بددیانتیاں عمل میں نہ لائی جاویں روٹی نہیں ملتی.یہ ان کا سخت جھوٹ ہے.ہمیں بھی تو ضرورت ہے.کھانے پینے پہنے ، سب اشیاء کی خواہش رکھتے ہیں.ہماری بھی اولاد ہے ان کی خواہشوں کو ہمیں بھی پورا کرنا پڑتا ہے اور پھر کتابوں کے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دُھت اور ایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے گو اللہ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اور دوسری کتابوں کا خرید کرنا اتنا ضروری نہیں مگر میرے نفس نے ان کا خرید کرناضروری سمجھا ہے اور گو میں اپنے نفس کو اس میں پوری طرح سے کامیاب نہیں ہونے دیتا مگر پھر بھی بہت سے روپے کتابوں پر ہی خرچ کرنے پڑتے ہیں مگر دیکھو ہم بڑھے ہو کر تجربہ کار ہو کر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.بد سے بد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھوٹ بولا جا سکتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جاسکتا ہے.ایک راکھ کی پڑیا دے کر طبیب کہ سکتا ہے کہ یہ سونے کا کشتہ ہے فلانی چیز کے ساتھ اسے کھاؤ اور ایسے ہی طرح طرح کے دھو کے دیئے جاسکتے ہیں.جس طبیب کو پورا فہم نہیں.پوری تشخیص نہیں اور دوائیں دے دے کر روپیہ کماتا ہے تو وہ بھی بطلان سے مال کماتا ہے.وہ مال طیب نہیں بلکہ حرام مال ہے.اسی طرح جتنے جعل ساز، جھوٹے اور فریبی لوگ ہوتے ہیں اور دھوکوں سے اپنا گزارہ چلاتے ہیں وہ بھی بطلان سے مال کھاتے ہیں.ایسا ہی طبیبوں کے ساتھ پنساری بھی ہوتے ہیں جو جھوٹی چیزیں دے کر سچی چیزوں کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو طرح طرح کے دھو کے دیتے ہیں اور پھر پیچھے سے کہتے ہیں کہ فلاں تھا تو دا نامگر ہم نے کیسا اُلو بنا دیا.ایسے لوگوں کا مال حلال مال نہیں ہوتا بلکہ وہ حرام ہوتا ہے اور بطلان کے ساتھ کھایا جاتا ہے.مومن کو ایک مثال سے باقی مثالیں خود سمجھ لینی چاہئیں.میں نے زیادہ مثالیں اس واسطے نہیں دی ہیں کہ کہیں کوئی نہ سمجھ لے کہ ہم پر بدخلنیاں کرتا ہے اسی واسطے میں نے اپنے پیشہ کا ذکر کیا ہے.میں اسے کوئی بڑا اعلم نہیں سمجھتا میں اسے ایک پیشہ سمجھتا ہوں.طبیبوں سے حکماء لوگ ڈرتے ہیں اس لئے انہوں نے اس پیشہ کا نام صنعت رکھا ہے.یادرکھو یہ بھی ایک کمینگی کا پیشہ ہے.اس میں حرام خوری کا بڑا موقع ملتا ہے اور طب کے ساتھ پنساری کی دکان بنانا اس میں بہت دھوکہ ہوتا ہے.نہ صحت کا اندازہ ایسے لوگوں کو
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة ہوتا ہے نہ مریض کی پوری تشخیص ہوتی ہے اور پھر نہایت ہی معمولی سی جنگل کی سوکھی ہوئی بوٹی دے کر مال حاصل کر لیتے ہیں یہ بھی سخت درجہ کا بطلان کے ساتھ مال کھانا ہے.وہ جو میں نے اپنے جنون کا ذکر کیا ہے چند روز ہوئے کہ ایک عمدہ کتاب بڑی خوشنما بڑی خوبصورت اور دل لبھانے والی اس کی جلد تھی جس پر رنگ لگا ہوا تھا.اس کو جو کہیں رکھا تو اور چیزوں کو بھی اس سے رنگ چڑھ گیا جس سے ہمیں بہت دکھ پہنچا.غرض ! پس جلد گر نے جو جلد کی قیمت لی ہے حقیقت میں وہ حلال مال نہیں بلکہ بطلان سے حاصل کیا ہوا ہے.اسی طرح اور بھی پیشے ہیں مگر ان کا ذکر میں اس واسطے نہیں کرتا کہ کسی کو رنج نہ پہنچے.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکام تک مال نہ پہنچاؤ.بعض لوگ یونہی لوگوں کو وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور لوگوں کو نا جائز طور پر پھنسانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اس لئے بعض لوگ ان سے ڈر جاتے ہیں اور نقصان اُٹھا لیتے ہیں.غرض روزہ جو رکھا جاتا ہے تو اس لئے کہ انسان متقی بننا سیکھے.ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیر نہ پایا.الحکم جلد نمبر ۴۱ مؤرخہ ۱۷ نومبر ۱۹۰۷ ء صفحه ۶،۵) ١٩٠ - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَقِّ وَلَيْسَ البر بِاَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأتُوا الْبُيُوتَ مِنْ اَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - ترجمہ.(اے پیغمبر!) تجھ سے لوگ نئے چاند کے (حالات ) دریافت کرتے ہیں تو جواب دے کہ اس سے لوگوں کے ( کاموں کے ) وقت معلوم ہوتے ہیں اور حج کے، اور گھروں میں پچھواڑوں کی طرف سے آنا کچھ نیکی نہیں بلکہ نیکی تو اس کی ہے جس نے اللہ کو سپر بنایا اور اللہ سے ڈرا اور گھروں میں آؤ تو دروازوں میں سے آؤ اور اللہ ہی سے ڈرو تا کہ نہال بامراد ہو جاؤ.تفسیر.یہ سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی تھی.مدینہ طیبہ کا وقت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گزرا ہے اس کا پتہ چار باتوں سے لگتا ہے.مکہ معظمہ میں آپ کو اور آپ کی جماعت کو شدید تکلیفیں دی گئیں یہاں تک کہ جن لوگوں کے
حقائق الفرقان ۴۷۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جتھے تھے وہ بھی ہار کر افریقہ میں چلے گئے.جب جتھے والوں کی یہ حالت تھی تو جن کا جتھا نہیں تھا ان کی حالت خود ظاہر ہے.صرف اسی بات کی طرف غور کر کے ان کے مشکلات کا اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر افریقہ چلے گئے جو بالکل بیابان و غیر آباد تھا.پھر وہاں تک پہنچنا بھی کوئی آسان نہیں تھا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو تین برس آئے وہ تو ایسے تھے کہ بڑی مشکلات کا سامنا تھا.کسی سے نکاح نہیں کر سکتے روٹی وغیرہ کسی کے ساتھ نہیں کھا سکتے.کوئی ان کو سلام نہیں دیتا تھا.غلہ جو باہر سے آتا تھا اسے بنی ہاشم خرید نہیں سکتے تھے.پھر تیسری تکلیف یہ تھی کہ جب آپ مدینہ میں چلے گئے تو بد بخت لوگوں نے مدینہ کے اردگرد شام کی تجارت کا بہانہ بنا کر تمام نواحی مدینہ کی قوموں پر رُعب ڈالنے کے لئے قافلے پر قافلے بھیجنے شروع کئے.چوتھی بات تکلیف کی یہ تھی کہ وہاں بھی دشمن موجود تھے.بنو قینقاع، قریظہ، بنونضیر، عیسائی وغیرہ سات قوموں کا جمگھٹا تھا.ان سب ضرر دینے والوں کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے جہاد کے سواکوئی تدبیر نہ تھی.چنانچہ یہ سورۃ اؤل سے آخر لو تک جہاد کی ترغیب میں نازل ہوئی پہلے رکوع میں اُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (آیت:۲) فرما کر یہی اشارہ کیا ہے.مفلح کہتے ہیں اُسے جس کے سر پر فتمندی کا تاج ہو.پھر تیسرے رکوع میں بشیر الَّذِينَ آمَنُوا فرما کر مفتوح ملکوں کا نقشہ دکھایا ہے کہ ان میں نہریں بہتی ہوں گی.باغ ہوں گے جن کے وارث مومن ہوں گے اور اس کے ساتھ کفار کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ نارالحرب میں ہلاک ہوں گے.پھر بنی اسرائیل کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے حکم کے خلاف جہاد میں جانے سے مضائقہ کیا تو اِهْبِطُوا مِصْرًا (آیت:۶۲) کے ماتحت مسکنت میں کچلے گئے.اس میں اشارہ کیا کہ تم یوں نہ کرنا.اس کے بعد کئی طور سے ترغیبیں دی ہیں اور بتایا ہے کہ جہاد میں خوف، جوع، مال و جان کا نقصان سب کچھ ہو گا لیکن اگر تم استقلال سے کام لو گے تو پھر تمہارے لئے بشارت ہے.ہاجرہ علیہا السلام کے واقعہ پر غور کرو کہ اس نے صبر کا کیا اجر پایا.پھر قصاص کی ترغیب دی اور یہ بھی بتایا کہ یہ سب کچھ بیچ ہے جب تک تقوی نہ ہو کیونکہ یہی تقوی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.پھر تقوی کے اے یہی لوگ نہال اور بامراد ہیں.۲.تم کسی شہر میں چلے جاؤ.
حقائق الفرقان ۴۷۸ سُورَةُ الْبَقَرَة حصول کے ذریعے بتائے ہیں چنانچہ ان میں سے ایک ذریعہ کا ذکر پچھلے رکوع میں فرمایا کہ روزے رکھو.مناہی سے بچنے کی مشق کرتے رہو.جب ایک مہینہ کی نسبت صحابہ کو یہ علم ہوا کہ اس میں یہ فضیلتیں ہیں تو انہوں نے دوسرے تمام چاندوں کی نسبت بھی سوال پیش کیا.یہ شانِ نزول ہے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ کا تو فرمایا کہ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج وَلَيْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَأْتُوا الْبُيُوت.اِس سے پہلے ایک دفعہ جو لیس البر آیا اس میں بتایا کہ تم مشرق و مغرب کے فاتح ہو جاؤ گے مگر تقوی نہیں تو کچھ بھی نہیں.یہاں یہ بتایا کہ ظاہری رسوم کی پابندی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ اس کی روح پر تمہارا عمل نہ ہو.ہمارے علاقہ ( بھیرہ ضلع شاہ پور ) میں ایک رسم ہے کہ حرام کا دودھ الگ برتنوں میں رکھتے ہیں اور حلال کا الگ برتنوں میں.مٹی کے برتنوں کا تو بڑا اہتمام ہوتا ہے مگر پیٹ میں سب کچھ جمع کر لیتے ہیں.اس ظاہر داری پر کیسا افسوس آتا ہے کہ مٹی کے برتن میں تو حلال و حرام کے لئے تفرقہ کر لیں مگر حقیقی برتن ( پیٹ) کے لئے کچھ پرواہ نہ کریں.اسی طرح نمازوں میں صفیں سیدھی کرنے کی تو بہت تاکید ہوتی رہتی ہے مگر جو اس کا اصل مقصد ہے جب وہ نہ ہوتو یہ ایک معمولی رسم رہ جائے گی.وہ یہ کہ کوئی بڑا بن کر آگے نہ ہو اور پیچھے نہ ہو اور آپس میں ایک جان ہو کر رہو.پس اگر تم ایک نہ ہو جاؤ اور دلوں میں کھوٹ رہے تو پھر ٹخنے کا ٹخنے سے ملانا عبث ہے.وَأتُوا الْبُيُوتَ مِن أبوابها.ہر ایک چیز کے حصول کے لئے ایک راہ ہوتی ہے پس اسی راہ سے اسے طلب کر و.جب انسان اس راہ پر نہ چلے گا تو منزل مقصود کو ہرگز نہ پہنچے گا.ان میں ایک رسم بھی تھی کہ گھروں میں واپس آتے تو چھت پھاڑ کر گذرتے.اس سے منع فرمایا کہ یہ رسم ہے اس کے اصل کی طرف توجہ کرو.وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ - أَى أَنْتُمْ تَصِيرُونَ مُفْلِحِینَ یعنی تم تقوی اختیار کرو شاید کہ وہ مصلح تم ہی ہو جاؤ.وہی مفلحون جن کا ذکر رکوع نمبر میں آیا ہے.میں کہتا ہوں کہ تم بھی (اے احمد یو!) اپنے دلوں کو صاف کرو.منصوبہ بازیوں میں شریک نہ ہو.کسی
حقائق الفرقان ۴۷۹ سُورَةُ الْبَقَرَة سے مقابلہ کرو تونفس کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ کے لئے.رسول کریم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی شجاعت کے اظہار کے لئے لڑتا ہے.کوئی اپنی قوم کی عزت و جلال کے لئے.کوئی کسی خیال سے.کوئی کسی خیال سے مگر جوڑتا ہے کلمہ اللہ کے اعلاء کے لئے وہی خدا کے نزدیک سچا مجاہد ہے.اب بتا تا ہے کہ لڑائی کروتو کن سے کرو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۴ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۲، ۳۳) یہ رکوع شریف جو میں نے ابھی پڑھا ہے یہ رمضان شریف کی تاکیدوں اور اس کے احکام اور فضائل اور فوائد کے بیان کے بعد نازل فرمایا گیا ہے.اس رکوع کا مضمون اور مطلب رمضان کے بعد ہی سے بلا فصل شروع ہوتا ہے جو آج کی تاریخ ہے.یہ مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ بہ نسبت اور مہینوں کے ایک خاص فضل اور انعام مسلمانوں پر اس میں نازل ہوا ہے.گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا یہی مہینہ ابتدائی سال ہے.آخر رمضان میں جو وحی نازل ہوئی ہے تو تبلیغ شوال ہی سے شروع فرمائی ہے.وہ جو نور تاریکیوں سے دُور کرنے کے واسطے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور جس کا ذكر أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورا میں کیا ہے اس کا شروع یہی مہینہ ہے.رمضان میں تقوی کا سبق یوں ملتا ہے سخت سے سخت ضرورتیں بھی جو بقائے نفس اور بقائے نسل کے لئے ضروری ہیں ان کو بھی روکنا پڑتا ہے.بقائے نفس کے لئے کھانا پینا ضروری چیز ہیں اور بقائے نسل کے لئے بیوی سے تعلق ایک ضروری شے ہے مگر رمضان میں کچھ عرصہ کے لئے یعنی دن بھر ان ضرورتوں کو خدا کی رضامندی کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس میں یہ سبق سکھایا ہے کہ انسان جب بڑی ضروری خواہشوں اور ضرورتوں کو ترک کرنے کا عادی ہوگا تو غیر ضروری کے چھوڑنے میں اس کو کیسی سہولت ہوگی.دیکھو ایک شخص کے گھر میں تازہ دودھ ،ٹھنڈے شربت ، انگور، نارنگیاں موجود ہیں.پیاس کے سبب سے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں.کوئی روکنے والا نہیں.باوجود سہولت اور ضرورت کے اس لئے ارتکاب نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم ناراض نہ ہو جائے اور اسی طرح عمدہ عمدہ کھانے ، پلاؤ، کباب اور دوسری نعمتیں میسر ہیں اور بھوک سے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں اور پھر کوئی لے ہم نے اتارا تمہاری طرف جگمگاتا ہوا نور.
حقائق الفرقان ۴۸۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نہیں جو ان کھانوں سے روکنے والا ہو مگر یہ اس لئے استعمال نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو.جبکہ یہ حال ہے کہ ایسی حالت اور صورت میں کہ اس کی عمدہ سے عمدہ نعمتیں جو اس کے بقائے نفس کے لئے اشد ضروری ہیں یہ صرف مولیٰ کریم کے حکم کی رضامندی کی خاطر ان کو چھوڑتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ چھوڑ سکتا ہے تو بھلا ایسا انسان جو خدا کے لئے ضروری چیزیں چھوڑ سکتا ہے وہ شراب کیوں پینے لگا اور خنزیر کیوں کھانے لگا جس کی کچھ بھی ضرورت نہیں ہے؟ یا مثلاً کوئی رشوت خور ربا خوری کرنے والا یا چور یا ایسا انسان جو قرض لیتا ہے کہ ادا کرنے کی نیت نہیں ہے جبکہ دیانت داری سے کام لیتا ہے اور مولیٰ کریم کی اجازت اور پروانگی کے سوا کچھ نہیں کرتا وہ ایسا خبیث مال لینے میں کیوں جرأت کرے گا ؟ ہر گز نہیں.اسی طرح گھر میں حسین جوان بیوی موجود ہے مگر اللہ ہی کی رضا کے لئے تیس دن چھوڑ سکتا ہے تو بد نظری کے لئے جی کیوں للچائے گا ؟ غرض رمضان شریف ایک ایسا مہینہ تھا جو انسان کو تقوی ، طہارت، خدا ترسی، صبر و استقلال ، اپنی خواہشوں پر غلبہ، فتمندی کی تعلیم عملی طور پر دیتا تھا.ان ترقیوں کو دیکھ کر جو صحابہ نے رمضان میں تقوی میں کی تھیں.انہوں نے دوسرے مہینوں کے فضائل و فوائد سننے کی خواہش ظاہر کی اور سوال کیا.اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا جواب یوں دیا تھا قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ.کہہ دولوگوں کے فائدہ کے لئے یہ وقت مقرر فرمائے ہیں.کیسا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو صحت ، فرصت ، پھر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے علم بھی عطا ہوا ہے اور اگر نہیں تو کوئی دردِ دل سے سنانے والا موجود ہے.عاقبت اندیشی کی عقل دی ہے مگر باوجود اس قدر اسباب اور سہولتوں کے میسر آ جانے پر بھی اگر اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی فکر نہیں کرتا اور منافع اُٹھانے کی سعی میں نہیں لگتا تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کون ہوسکتا ہے.مَوَاقِيتُ لِلنَّاس.کیا عجیب وقت بنایا ہے تمہارے فائدہ کے لئے اور نفع اٹھانے کا بہت بڑا موقع دیا ہے اور اس لئے بھی کہ تم حج کرو.یا در کھوج اللہ کی سنن میں سے ہے.یہ ایک سچی بات ہے کہ جہاں بدکاریاں کثرت سے ہوں وہاں غضب الہی نازل ہوتا ہے
حقائق الفرقان ۴۸۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة.اور جہاں عظمت اور ذکر الہی ہو وہاں فیضانِ الہی کثرت سے نازل ہوتا ہے.قومی روایات سے متفقہ یہ شہادت ملتی ہے کے بیت اللہ کا وجود تو بہت بڑے زمانہ سے ہے لیکن حضرت ابوالملة ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے جس کی تاریخ صحیح موجود ہے.ابا عن جد قوموں کا مرکز اور جائے تعلیم چلا آیا ہے اور پستہ ملتا ہے کہ رات دن میں کوئی ایسا وقت بیت اللہ میں نہیں آتا کہ وہاں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے اوراد نہ پڑے جاتے ہوں.مکہ معظمہ میں اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کا زندہ اور بین ثبوت موجود ہے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے جَعَلَ اللهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ (المائدة: ۹۸) یعنی اس الہبی گھر کو معزز گھر بنایا.اس کولوگوں کے قیام اور نظام کا محل بنا یا اور قربانیوں کو مقرر کیا کہ تم کو سمجھ آ جائے کہ خدا ہے اور وہ علیم وخبیر خدا ہے کیونکہ جس طرح اس نے فرمایا ہے اُسی طرح پورا ہوا.میں نے ایک دہریہ کے سامنے اس مجت کو پیش کیا.وہ ہکا بگا ہی تو رہ گیا.لوگوں کے مکانات اور پھر مذہبی مقامات کو دیکھو کہ ذراسی انقلاب سے ساری عظمت خاک میں مل جاتی ہے.بابل کس عظمت و شان کا شہر تھا مگر آج اس کا کوئی پتہ بھی نہیں دے سکتا کہ وہ کہاں آباد تھا.کا نتیجے میں ہنی بال کا معبد، پیرامون کا مندر جہاں سکندر عظیم الشان بادشاہ آ کر نذر دیتا تھا اور اپنے آپ کو اس کا بیٹا منسوب کرتا تھا.آتش کدہ آذر غرض بڑے بڑے مقدس مقامات تھے جن کا نام و نشان آج زمانہ میں موجود نہیں ہے مگر مکہ معظمہ کی نسبت خدائے علیم و حکیم نے اس وقت جبکہ وہ ایک وادی غیر ذی زرع تھا یہ فرمایا کہ وہاں دنیا کے ہر حصہ سے لوگ آئیں گے.وہاں قربانیاں ہوں گی اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا رہے گا.صدیاں اس پر گذر گئیں.دنیا میں بڑے بڑے انقلاب ہوئے.سلطنتوں کی سلطنتیں تباہ ہو کرنئی پیدا ہو گئیں مگر مکہ معظمہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی وہ آج بھی اُسی شوکت اور جلال کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پر کئی سو سال پیشتر.اس سے اللہ تعالیٰ کی علیم وخبیر ، ہستی کا کیسا پتہ لگتا ہے.اگر انسانی منصوبہ اور ایک خیالی اور فرضی بات ہوتی تو ان کا نام ونشان اسی طرح مٹ جاتا جیسے دنیا کے اور بڑے بڑے مقدس قرار دیئے گئے مقامات کا نشان مٹ گیا.
حقائق الفرقان ۴۸۲ مگر نہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی با تیں تھیں جو ہر زمانہ میں اس کی ہستی کا زندہ ثبوت ہیں.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ کی شانِ نزول سُورَةُ الْبَقَرَة الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مؤرخه ۱۰ فروری ۱۹۰۱ صفحه ۴ تا ۶ ) جب صحابہ (رضوان اللہ علیہم نے دیکھا کہ ایک ماہ رمضان کی یہ عظمت اور شان ہے اور اس میں قرب الہی کے حصول کے بڑے ذرائع موجود ہیں تو ان کے دل میں خیال گذرا کہ ممکن ہے کہ دوسرے چاندوں (مہینوں) میں بھی کوئی ایسے ہی اسرار مخفیہ اور قرب الہی کے ذرائع موجود ہوں وہ معلوم ہو جاویں اور ہر ایک ماہ کے الگ الگ احکام کا علم ہو جاوے اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دوسرے چاندوں کے احکام اور عبادات خاصہ بھی بتا دیئے جاویں.ہلال اور قمر کا تفاوت.یہاں لفظ اهلة کا استعمال ہوا ہے جو کہ ہلال کی جمع ہے.بعض کے نزدیک تو پہلی دوسری اور تیسری کے چاند کو اور بعض کے نزدیک ساتویں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد قمر کا لفظ اطلاق پاتا ہے.احادیث میں جو مہدی کی علامات آئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک ہی ماہ رمضان میں چاند اور سورج کو گرہن لگے گا.وہاں چاند کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اعلیٰ درجہ کا قمر ۱۳، ۱۴، ۱۵ تاریخ کو ہوتا ہے اور اس کے گرہن کی بھی یہی تاریخیں مقرر ہیں.اس سے کم زیادہ نہیں ہوسکتا اور ایسے ہی سورج گرہن کے لئے بھی ۲۷ ۲۸ ۲۹ تاریخ ماہ قمری کی مقرر ہے.غرض کہ قمر کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کی رُو سے مہدی کی علامت تھی لیکن لوگوں نے تصرف کر کے وہاں قمر کے بجائے ہلال کا لفظ ڈال دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے.صحابہ کرام کے اِس سوال پر کہ اور چاندوں کے برکات وانوار سے ان کو اطلاع دی جاوے اللہ جل شانہ نے یہ جواب دیا قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج.یعنی جیسے ماہ رمضان تقوای سکھانے کی ایک شے ہے ویسے ہر ایک مہینہ جو چڑھتا ہے وہ انسان کی بہتری کے لئے ہی آتا ہے.انسان کو چاہیے کہ نئے چاند کو دیکھ کر اپنی عمر رفتہ پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ میری عمر میں سے ایک ماہ اور کم ہو گیا
حقائق الفرقان ۴۸۳ سُورَةُ الْبَقَرَة ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ چاند تک میری زندگی ہے کہ نہیں.پس جس قدر ہو سکے وہ خیر و نیکی کے بجا لانے میں اور اعمالِ صالحہ کرنے میں دل و جان سے کوشش کرے اور سمجھے کہ میری زندگی کی مثال برف کی تجارت کی مانند ہے.برف چونکہ پگھلتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہوتارہتا ہے اس لئے اس کے تاجر کو بڑی ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی حفاظت کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے ایسے ہی انسان کی زندگی کا حال ہے جو برف کی مثال ہے کہ اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کم ہوتا ہی رہتا ہے اور اس کا تاجر یعنی انسان ہر وقت خسارہ میں ہے.۶۴ - ۶۵ سال جب گذر گئے اور اس نے نیکی کا سرمایہ کچھ بھی نہ بنایا تو وہ گویا سب کے سب گھاٹے میں گئے.ہزاروں نظارے تم آنکھ سے دیکھتے ہو.اپنے بیگانے مرتے ہیں.اپنے ہاتھوں سے تم ان کو دفن کر کے آتے ہو اور یہ ایک کافی عبرت تمہارے واسطے وقت کی شناخت کرنے کی ہے اور نیا چاند تمہیں سمجھا تا ہے کہ وقت گزر گیا ہے اور تھوڑا باقی ہے اب بھی کچھ کر لو.لمبی لمبی تقریریں اور وعظ کرنے کا ایک رواج ہو گیا ہے ورنہ سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ایک لفظ ہی کافی ہے.کسی نے اسی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہے مجلس وعظ رفتنت هوس است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است اے پس ان روزانہ موت کے نظاروں سے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے اور تمہارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں عبرت پکڑو اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور کاہلی اور سستی میں وقت کو ضائع مت کرو مطالعہ کرو اور خوب کرو کہ بچے سے لے کر جوان اور بوڑھے تک اور بھیڑ بکری اونٹ وغیرہ جس قدر جاندار چیزیں ہیں سب مرتے ہیں اور تم نے بھی ایک دن مرنا ہے.پس وہ کیا بدقسمت انسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وقت کی کیسی قدر کرتے تھے کہ جب ان کو ماہ رمضان کے فضائل معلوم ہوئے تو معا دوسرے مہینوں کے لئے سوال کیا کہ قرب الہی کے اگر اور ذرائع بھی ہوں تو معلوم الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ /جنوری ۱۹۰۴ ء صفحه ۱۲، ۱۳) ہو جاویں.ا تیرا وعظ ونصیحت کی مجلس میں جانا ایک بے جاہوس ہے، تیرے لئے تو تیرے ہمسایہ کی موت ہی سب سے بڑا واعظ ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۸۴ سُورَةُ الْبَقَرَة لَيْسَ الْبِرُّ.انسان کو ایک زبر دست طاقت کا خیال ہمیشہ رہتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ ہر ایک مذہب میں جناب البی کا عظمت و جبروت ضرور مانا جاتا ہے.جولوگ اس سے منکر ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ ایک عظیم الشان طاقت ضرور ہے جس کے ذریعہ سے یہ نظامِ عالم قائم ہے اس کے قرب کے حاصل کرنے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.بعض کی غرض تو یہ ہوتی ہے کہ جسمانی سامان حاصل کر کے جسمانی آرام حاصل کیا جاوے جیسے ایک دکاندار کی بڑی غرض و آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کا گا ہک واپس نہ جاوے.ایک اہلِ کسب ایک دور و پیہ کما کر پھولا نہیں سما تا لیکن ایسے لوگ انجام کار کوئی خوشحالی نہیں پاتے.وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہش محدود ہوتی ہے اسلئے محدود فائدہ اُٹھاتے ہیں اور محمد ود خیالات کا نتیجہ پاتے ہیں.بعض اس سے زیادہ کوشش کرتے ہیں اور ان پر خواب اور کشف کا دروازہ کھلتا ہے اس قسم کے لوگوں میں بھلائی اور اخلاق سے پیش آنے کا خیال وارادہ بھی ہوتا ہے مگر چونکہ اُن کی عقل بھی محدود ہوتی ہے اس لئے ان کی راہ بھی محدود ہوتی ہے.ایک حد کے اندر اندر رہتے ہیں اور ان کو مشیر بھی محدود الفطرت ملتے ہیں.تیسری قسم کے لوگ کہ کوئی بھلائی ان کی نظر میں بھلی اور برائی بدی کسی محدود خیال سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر وسیع اور اُس بات پر ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات واراء الوراء ہے.کوئی عقل اور علم اُسے محیط نہیں بلکہ کل دنیا اس کی محاط ہے.اس کی رضامندی کی راہوں کو کوئی نہیں جان سکتا بجز اس کے کہ وہ خود کسی پر ظاہر کرے.یہ نظر انبیاء اور رسل اور ان کے خلفاء راشدین کی ہوتی ہے وہ نہ خود تجویز کرتے ہیں اور نہ دوسرے کی تراشیدہ تجاویز مانتے ہیں بلکہ خدا کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں.عرب کے نادانوں کو خیال تھا کہ جب وہ گھر سے حج کے لئے نکلیں اور پھر کسی ضرورت کے لئے اُن کو واپس گھر آنا پڑے تو گھروں کے دروازہ میں سے داخل ہونا وہ معصیت خیال کرتے تھے اور پیچھے سے چھتوں پر سے ٹاپ کر آیا کرتے تھے اور اسے ان لوگوں نے نیکی خیال کر رکھا تھا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ باتیں نیکی میں داخل نہیں بلکہ نیکی کا وارث تو متقی ہے.تم اپنے گھروں میں دروازہ کی راہ سے داخل ہوا کرو اور تقوی اختیار کرو تا کہ تم فلاح پاؤ.( الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۳، ۱۴)
حقائق الفرقان ۴۸۵ سُورَةُ الْبَقَرَة رمضان شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو تقوی میں ایک ریاضت کرائی جاتی ہے کہ جب مباح چیزیں انسان خدا کی خاطر چھوڑ دیتا ہے تو پھر حرام کو کیوں ہاتھ لگانے لگا.پھر فرمایا کہ ایک وقت تو خدا تعالیٰ کی صفت رحم اور درگذر کی کام کرتی ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب دُنیا کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے پھر بھی ایسے وقت میں ایک سمجھانے والا ضرور آتا ہے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اور اس زمانہ میں بائبل کی کثرت اشاعت جو ہوتی ہے باوجود یکہ عیسائی اپنے عقائد میں اس کو قابل عمل نہیں جانتے.پھر کروڑوں روپے اس پر خرچ کرتے ہیں.اس میں بھی یہی حکمت الہی ہے کہ توحید اور عبادت الہی اور اعمال صالحہ کا وعظ اس کے ذریعہ سے بھی تمام دنیا پر ہو رہا ہے.صحابہ نے اھلہ کے متعلق جو سوال کیا وہ اس واسطے تھا کہ جب رمضان کی عبادت کے برکات انہوں نے دیکھے تو ان کو خواہش ہوئی کہ ایسا ہی دوسرے مہینوں کی عبادت کا ثواب بھی حاصل کریں اس واسطے اُنہوں نے یہ سوال پیش کیا.فرمایا.دو بڑے نشان آسمان پر دکھائے گئے سُورج گہن اور چاند گہن ماہِ رمضان میں.ایسا ہی دونشان زمین پر ہیں.قحط اور طاعون.فرمایا.حج کے متعلق حضرت ابراہیم کو خدا تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ آئين فِي النَّاسِ بِالحج سب سے آج تک یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.جس طرح کبوتر اپنے کا ٹک کو دوڑتے ہیں اس طرح لوگ حج کو جاتے ہیں.زمانہ جاہلیت عرب میں رسم تھی کہ سفر کو جاتے ہوئے کوئی بات یاد آتی تو دروازے کے راہ سے گھر میں نہ آتے.اس سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا اور اس میں ایک اشارہ اس امر کی طرف ہے کہ ہر ایک کام میں اس راہ سے جاؤ اور اس دروازے سے داخل ہو جو خدا نے مقرر کیا اور اس کے رسول نے دکھایا اور رسول کے خلفاء اور اس زمانہ کا امام بتلا رہا ہے.فرمایا.خدا چاہتا تو اپنے رسول کے واسطے اپنے خزانے کھول دیتا اور تمہیں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی مگر پھر تمہارے واسطے کوئی ثواب نہ ہوتا.جب خدا کسی قوم کو عزت دینا چاہتا ہے تو یہی سنت اللہ ہے کہ پہلے اس سے اللہ کی راہ میں مالی، جانی، بدنی خدمات لی جاتی ہیں.فرمایا.اس زمانہ میں غلام کے چھڑانے کا ثواب مقروض کے قرضہ کے ادا کرنے سے ہو سکتا ہے.(البدر جلد ۶ نمبر ۴۶ مؤرخہ ۱۰ نومبر ۱۹۰۷ ، صفحہ اوّل) ے لوگوں میں حج کے لئے اعلان کر.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۸۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس سوال کے جواب میں کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پیغمبر ہوتے تو اُس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم ہے یعنی مجھے معلوم نہیں ؟ فرمایا.خاکسار عرض پرداز ہے.مخالف اور موافق لوگوں نے حضور علیہ السلام سے جس قدر سوال کئے اُن کا جواب اگر ممکن تھا تو حضور علیہ السلام نے ضرور دیا ہے.قرآن میں حسب ذیل سوالات کا تذکرہ موجود ہے.مُنصف غور کریں.اوّل رمضان کے مہینہ اور روزوں کے چاند کا تذکرہ جب قرآن کریم نے کیا تو لوگوں نے رمضان کے اور چاندوں کا حال دریافت کیا جیسے قرآن کہتا ہے اور ماہ رمضان کے تذکرہ کے بعد اس سوال کا تذکرہ کرتا ہے.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ (البقرة : ۱۹۰) پوچھتے ہیں تجھ سے رمضان کے سوا اور چاندوں کا حال یعنی ان میں کیا کرنا ہے اس سوال کا جواب سوال کے بعد ہی بیان کیا گیا اور جواب دیا.قُلْ هِيَ مَوَاقِيْتُ لِلنَّاسِ وَ الْحَیچ تو اِس سوال کے جواب میں کہہ دے کہ یہ چاند لوگوں کے فائدہ اُٹھانے کے وقت ہیں اور بعضے چاندوں میں حج کے اعمال ادا کئے جاتے ہیں.دوسرا سوال یہ ہے.يَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ (البقرہ : ۲۱۶) سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں.اس کا جواب قرآن نے دیا ہے.مَا انْفَقْتُمْ مِنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ (البقرة: ٢١٢) جو کچھ خرچ کرو مال سے تو چاہیے کہ وہ تمہارا دیا اور خرچ کیا تمہارے والدین اور تمہارے رشتہ داروں اور یتیموں اور غریبوں اور مسافروں کے لئے ہو.تیسرا سوال يستلونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ (البقرة : ۲۱۸) پوچھتے ہیں تجھ سے حرمت والے مہینہ کے متعلق کہ اس میں جنگ کا کیا حکم ہے؟ تو جواب دیا.قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرُ وَصَةٌ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ (البقرة: ۲۱۸)
حقائق الفرقان ۴۸۷ سُورَةُ الْبَقَرَة تو جواب دے اس مہینہ میں لڑائی کرنا بری بات ہے اور اس سے حج و عمرہ کی سی عبادت سے رو کنالا زم آتا ہے.چوتھا سوال يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَيْرِ وَالْمَيْسِرِ (البقرة : ۲۲۰) پوچھتے ہیں تجھ سے شراب اور جوئے کی بابت.تو جواب دے.فِيهِمَا اِثْمَّ كَبِيرُ (البقرة: ۲۲۰) شراب خوری اور قمار بازی نہایت بڑی اور بڑی بدکاری ہے.پانچواں سوال يَستَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ (البقرة : ۲۲۰) پوچھتے ہیں.کیا خرچ کریں.تو جواب دے.العفو (البقرة: ۲۲۰) اپنی حاجت سے زیادہ مال کو خرچ کرو.چھٹا سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ (البقرة: (۲۲۳) پوچھتے ہیں حیض میں عورت سے صحبت جائز ہے یا نہیں؟ تو جواب دے.قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاء فِي الْمَحِيضِ - (البقرة: ۲۲۳) حیض کے دنوں میں جماع کرنا دکھ دیتا ہے.حیض کے دنوں میں عورتوں کی صحبت سے الگ رہو.ساتواں سوال - وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتى (البقرة : (۲۲۱) پوچھتے ہیں یتیموں کے متعلق ؟ جواب دے.إصْلَاح لَهُمْ خَيْرُ (البقرۃ: ۲۲۱) یتیموں کے مال ، عزت، پرورش غرض ہر طرح اُن کی اصلاح اور سنوار عمدہ بات ہے.آٹھواں سوال - يَسْتَلُونَكَ مَا ذَا أُحِلَّ لَهُمْ (المائدة : ۵) پوچھتے ہیں کیا کچھ کھانے میں حلال ہے؟ جواب دے.أحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ (المائدة: ۵)
حقائق الفرقان ۴۸۸ سُورَةُ الْبَقَرَة تمہارے لئے تمام وہ چیز میں جو غالب عمرانات کے سلیم الفطرتوں میں ستھرے اور پسندیدہ ہیں وہ تو حلال کر دی گئیں.نواں سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ (الانفال: ۲) تجھ سے پوچھتے ہیں غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ تو جواب دے.اَلْاَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ غنیمت کی تقسیم اللہ پھر رسول کے اختیار میں ہے.دسواں سوال.يَسْتَلُونَكَ عَنْ ذِي الْقَرْنَيْنِ (الكهف: (۸۴) ذوالقرنین کا قصہ تجھ سے پوچھتے ہیں تو جواب میں قصہ سنا دے.انا مَكَنَّا لَهُ فِي الْأَرْضِ (الكهف: ۸۵) سے ذوالقرنین کا قصہ شروع کر دیا اور بقدرضرورت اسے تمام کیا.یہ ذوالقرنین وہ ہے جس کا ذکر دانیال ۸ باب ۸ میں ہے.گیارھواں سوال - وَ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْجِبَالِ (طه: ۱۰۲) تجھ سے پوچھتے ہیں ایسے مضبوط پہاڑ کیا ہمیشہ رہیں گے؟ تو جواب دے.يَنْسِفُهَا رَبِّي نسفا (طه : ١٠٦) اُڑا دے گا اور پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا میرا رب.بارھواں سوال - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح (بنی اسراءيل : ۸۶) تجھ سے سوال کرتے ہیں قرآن کس کا بنایا ہؤا ہے؟ تو جواب دے.مِنْ اَمرِ رَبِّي (بنی اسراءیل : ۸۲) یہ قرآن میرے رب کا حکم اور اسی کا کلام ہے.یا درکھو میں نے روح کا ترجمہ قرآن کیا ہے اس کے کئی باعث ہیں.اول.قرآن میں خود اس وحی اور کلام الہی کو رُوح کہا گیا.وَ الْقُرْآنُ يُفَتِرُ بَعْضُهُ بَعْضًا دیکھو وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشوری: ۵۳) اور اس طرح وحی کی ہم نے تیری طرف رُوح اپنے حکم سے.دوم - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوح (بنی اسرائیل:۸۶) کے ماقبل اور مابعد صرف قرآن کریم کا تذکرہ ا ہم نے اس کو قدرت دی تھی ملک میں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۸۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.ہاں ممکن ہے کہ ہم اس آیت میں روح کے معنے اُس فرشتہ کے لیں جو وحی لاتا تھا اور جس کا نام اسلامیوں میں جبرائیل ہے.یا یوں کہیں کہ روح کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا سوال ہوا.جواب دیا گیا.رُوح حادث اور رب کے حکم سے ہوا ہے.تیرھواں سوال.يَسْتَلْكَ اَهْلُ الْكِتب ( النساء: (۱۵۴) ما نگتے ہیں تجھ سے یہودی اور عیسائی اہل کتاب اَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتبًا مِّنَ السَّمَاءِ (النساء : (۱۵۴) کہ ان پر اتار دے تو ایک کتاب آسمان سے.یہ سوال اہلِ کتاب نے اس لئے کیا کہ محمد صاحب (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دعوی کیا ہے کہ میں موسی کی مانند نبی ہوں اور وہی ہوں جس کی بابت توریت استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ میں پیشگوئی موجود ہے اور اس نبی کی پیشگوئی تو ریت میں اس طرح لکھی تھی.”تجھ سا ایک نبی بر پا کروں گا اور اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالوں گا“.(استثناء ۱۸ باب (۱۸) پس لا محالہ اس نبی کے واسطے کوئی ایسی کتاب آسمان سے نہ اترے گی جو لکھی لکھائی آجاوے کیونکہ توریت میں تو لکھا ہے اپنا کلام اس کے منہ میں دوں گا، پس ایسے سوال کے جواب میں فرمایا.فَقَدْ سَأَلُوا مُوسَى أَكْبَرَ مِنْ ذَلِكَ فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً ( النساء: ۱۵۴) باقی پانچ سوال یہ ہیں جن کے جواب میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے.میرا رب جانتا ہے.اول - يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرسهَا (الاعراف: ۱۸۸) پوچھتے ہیں قیامت کی گھڑی کب ہوگی؟ جواب دیا قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللهِ (الاعراف:۱۸۸) تو کہہ اس کا علم میرے رب ہی کے پاس ہے.دوسرا - يَسْتَلُونَ أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ (الذريت : ۱۳) پوچھتے ہیں جزا کا دن کب ہوگا.جس کا جواب کچھ نہیں دیا.غالباً اس لئے کہ وہ ہمیشہ ہی یا کہ اس لئے کہ ان کی مراد قیامت ہے.لے بے شک موسیٰ سے تو اس سے بڑھ کر درخواست کر چکے ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ہم کو دکھا دے اللہ کو کھلم کھلا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۹۰ سُورَةُ الْبَقَرَة تیسرا.يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا ( النازعات: ۴۳) پوچھتے ہیں وہ گھڑی کب ہوگی؟ جس کا جواب ديا فِيمَ اَنْتَ مِنْ ذِكريها - إلى رَبِّكَ مُنْتَههَا (النازعات: ۴۵،۴۴) تجھے ایسے قصوں سے کیا.اس کا علم رب تک ہے.چوتھا.يَسْتَلْكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ (الاحزاب: (۶۴) پوچھتے ہیں اس ساعت سے.جس کا جواب دیا.إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللهِ (الاحزاب : ۶۴) اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے.پانچواں - يَسْتَدُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا (الاعراف: ۱۸۸) جس کا جواب دیا عِلْمُهَا عِندَ اللہ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا تو ایسی باتوں کے پیچھے پڑا ہو ا ہے.اس کا علم اللہ کے پاس ہے.لاکن اس سوال کا جواب نہ دینے سے نبوت میں کوئی نقص نہیں آتا کیونکہ حضرت مسیح فرماتے ہیں.اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتہ تک کوئی نہیں جانتا.(متی ۲۴ باب ۳۶) اور جگہ فرماتے ہیں.اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں اور نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا ہے.(مرقس ۱۳ باب ۳۲) سائل اور اس کے ہم خیال غور کریں.اس گھڑی کی بابت حضرت مسیح کیا فتوی.ایسی گھڑی کا وقت نہ بتانا اگر نبوت اور رسالت میں خلل انداز ہے تو حضرت مسیح کی نبوت اور رسالت بلکہ عیسائیوں کی مانی ہوئی مسیح کی الوہیت میں خلل پڑے گا.ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۴ تا ۱۹) پھر آپ نے يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ (البقرة : ۱۹۰ ) پڑھ کر فرمایا کہ صحابہ نے رمضان کے مہینے کی برکات سن کر دوسرے چاندوں کی نسبت بھی پوچھا.اصل میں تمام عبادتیں چاند سے متعلق ہیں اور دنیا داروں کی تاریخیں سورج سے.اس میں یہ نکتہ ہے کہ چاند کے حساب پر عبادت کرنے کی وجہ سے سورج کی کوئی تاریخ خالی نہیں رہتی جس میں امت محمدیہ کے افراد نے روزہ نہ رکھا ہو یا ز کوۃ نہ دی ہو یا حج نہ کیا ہو.کیونکہ قریباً گیارہ روز کا ہر سال فرق پڑتا ہے اور ۳۶ سال کے بعد وہی دن پھر
حقائق الفرقان آ جاتا ہے.۴۹۱ سُورَةُ الْبَقَرَة البد رجلد ۸ نمبر ۴۵ مورخه ۲ ستمبر ۱۹۰۹ ء صفحه ۱) ١٩١ - وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - ترجمہ.اور اللہ کی راہ میں تم اُن سے لڑو جو لوگ تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو.بے شک اللہ دوست نہیں رکھتا زیادتی کرنے والوں کو.تفسیر.الَّذِيْنَ يُقَاتِلُونَكُمْ.جو تم سے لڑائی کرتے ہیں.وہ بھی از خود نہیں بلکہ ایک امام کے ماتحت.فرما یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے الْإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَآئِهِ ( بخاری کتاب الجهَادِوَ السَّيْرِ باب يُقَاتَلُ مِنْ وَرَاءِ الإِمَامِ وَيُتَّقَى بِهِ ) امام ایک سپر ہے اسکے پیچھے لڑا جاتا ہے.ایک سپاہی دوسرے سپاہی کو مارتا ہے مگر اس کا واقف نہیں ہوتا.کوئی پوچھے یہ جو اس کے مقابلہ کے لئے آگ ہو رہا ہے آخر کوئی وجہ؟ تو اس کا یہی جواب ہوگا کہ وجہ ان کے آفیسر کو معلوم ہے.پس سپاہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آفیسر کا تابع رہے.ولا تعتدوا.حد سے نہ بڑھو.یہ اس لئے فرمایا کہ سپاہی کو جوش میں حد کی خبر نہیں رہتی اس لئے اس کی ہر ایک حرکت اپنے آفیسر کے ماتحت ہونی چاہیے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۳) اللہ کے رستے میں ان سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے مت بڑھو.اللہ حد سے بڑھنے تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۴۳ حاشیہ) والوں کو پیار نہیں کرتا.مقابلہ کر و اعلاء کلمۃ اللہ میں اُن سے جو تم سے مقابلہ کرتے ہیں اور حد سے نہ بڑھنا.اس کے معنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جانشین نے یہ کئے ہیں کہ لڑکے، عورتیں، بڑھے، فقیر اور تمام صلح جو نہ مارے جائیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۱۸۴) اور خدا کی راہ میں انہیں سے لڑو جو تم سے لڑیں اور حد سے مت بڑھو.اللہ حد سے بڑھنے والوں
حقائق الفرقان ۴۹۲ سُورَةُ الْبَقَرَة کو دوست نہیں رکھتا.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۸۸) وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ الله (البقرۃ: ۱۹۱) اللہ تعالیٰ کی راہ میں، اعلاء کلمتہ اللہ میں، اللہ کے بندوں کی عزت اور وقعت کے لئے دشمنان دین، دشمنان قرآن کریم، نبی کریم کے دشمنوں، آپ کے جانشینوں کے دشمنوں سے مقابلہ کرو مگر اس راہ سے جس راہ سے وہ مقابلہ کرتے ہیں.وہ اگر تلوار اور تیر سے کام لیں تو تم بھی تلوار اور تیر سے کام لو.لیکن اگر وہ تدابیر سے کام لیتے ہیں تو تم بھی تدابیر ہی سے مقابلہ کرو.ورنہ اگر اس راہ سے مقابلہ نہیں کرتے تو یہ اعتدا ہو گا اور اللہ تعالیٰ اعتدا کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.غرض جو راہ دشمن اختیار کرے اسی قسم کی راہ اختیار کرو.الحکم جلد ۵ نمبر ۵ مورخه ۱۰ / فروری ۱۹۰۱ صفحه ۴ تا ۶ ) پھر قَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ (البقرة: 191 کی تفسیر میں فرمایا کہ اسلام کے دشمن اسلام کے خلاف کوشش کرتے رہتے ہیں.مسلمانوں میں نہ تعلیم ہے، نہ روپیہ، نہ وحدت، نہ اتفاق، نہ وحدت کے فوائد سے آگاہ نہ پیجہتی کی روح ، نہ اپنی حالت کا علم.ملاں کی ذلیل حالت دیکھ کر مسجدوں میں جانا تک چھوڑ دیا.تم سنبھلو اور ان کوششوں کے خلاف دشمن کا مقابلہ کرومگر حد سے نہ بڑھو.اپنے مومن بھائیوں سے حسن ظنی کرو.ایک نے مجھے کہا تھا حسن ظنی کر کے کیا کریں.اس میں سراسر نقصان ہے.میں نے کہا کم از کم اپنی والدہ کے معاملہ میں تو تم کو بھی حسن ظنی سے کام لینا پڑے گاور نہ تمہارے پاس اپنے باپ کے نطفہ سے ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ اسلام پر قائم رہو.یہ وہ مذہب ہے جس کا مانے والا کسی کے آگے شرمندہ نہیں ہوتا.اس کا اللہ تمام خوبیوں کا جامع ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۴۵ مورخه ۲ ستمبر ۱۹۰۹ء صفحه ۱) ١٩٢ - وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَ اَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ وَ الْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقْتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقْتِلُوكُم b فِيهِ فَإِنْ قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ - كَذلِكَ جَزَاءُ الكَفِرِينَ - ترجمہ.اور قتل کرو ان کو جہاں پاؤ اور نکال دوان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکال دیا اور دکھ دینا قتل
حقائق الفرقان ۴۹۳ سُورَةُ الْبَقَرَة سے بھی سخت تر ہے.اور کافروں سے مت لڑ وادب والی مسجد کے پاس جب وہ نہ لڑیں تم سے اُس جگہ و پس اگر وہ تم سے لڑیں تو تم ان کو قتل کرو.یہی سزا ہے حق چھپانے والوں کی.تفسیر.وَاقْتُلُوهُمْ.ھم سے کون مراد ہیں؟ وہی جو الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ کے مصداق ہیں یعنی جو جنگ کرتے ہیں.وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ قتل سے ایک نفس کا نقصان ہوتا ہے مگرفتنہ ایسی بلا ہے کہ اس میں قوم کی قوم ہلاک ہو جاتی ہے.بعض دفعہ ایک بچہ فتنہ کا ذریعہ بن جاتا ہے.اس کی مثال دیا سلائی سی ہے کہ پہلے ایک گرین بھی سلفر اس میں نہیں ہوتا مگر جب اسے گھسا کر کسی لکڑی سے لگاتے ہیں تو پھر بعض اوقات محلوں کے محلے بلکہ شہروں کے شہر جل جاتے ہیں.پس تم چھوٹی بات کو چھوٹا نہ سمجھو بلکہ بڑا سمجھو اور فتنوں سے بچتے رہو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ ۱۷ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۳) ۱۹۴ - وَقْتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ - فَإِنِ انْتَهَوا فَلَا عُدوان الا عَلَى الظَّلِمِينَ - ترجمہ.اور لڈو اُن سے تا کہ باقی نہ رہے فتنہ اور فساد مفسدوں کا اور ہو جائے اکیلے سچے اللہ ہی کا دین پھر اگر وہ باز آجائیں تو پھر کسی قسم کی زیادتی نہیں مگر ظالموں ہی پر.تفسیر وقتلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ.یہ مسئلہ خوب یا درکھنا چاہیے کہ اللہ مذاہب کا ابطال نہیں چاہتا بلکہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا تو سارے جہان کو ایک مذہب پر قائم کر دیتا.فَلَوْ شَاءَ لَهَل لَكُمْ أَجْمَعِينَ (الانعام: ۱۵۰) دوسرے مقام پر فرما یا کولا کردی دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمُ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتَ وَمَسْجِدُ (الحج : ٤١) یعنی اگر اللہ آدمیوں کی ایک دوسرے سے مدافعت نہ کرتا رہتا تو عیسائیوں کی ، مسلمانوں کی ، مجوسیوں کی ، یہودیوں کی عبادت گاہیں منہدم ہو جاتیں.جس سے معلوم ہوا کہ مذاہب کا اختلاف
حقائق الفرقان ۴۹۴ سُورَةُ الْبَقَرَة اللہ کے منشا کے ماتحت ہے.اللہ تعالی جو انبیاء کو بھیجتا ہے تو امن قائم کرنے کے لئے.یہ منشا نہیں ہوتا کہ لوگوں کو پکڑ کر مسلمان بنا ئیں بلکہ وہ لا إكراه في الدِّينِ (البقرۃ: ۲۵۷) کے ماتحت چلتے ہیں کیونکہ انسان اس وقت تک خدا کے نزدیک تو مومن نہیں ہوتا جب تک کہ دل سے ایمان نہ لائے.اور پھر ضروری ہے کہ اس کے ایمان کے آثار اس کے ظاہری کاموں میں ہویدا ہوں اور کوئی اس کو روک نہ سکے.پس جہاد بھی اس وقت تک جائز ہے کہ مومن کفار کے فتنہ میں نہ رہے اور جو ایمان لا چکے ہیں وہ اپنی عبادت بلا کسی خوف و روک کے ادا کر سکیں.وہ نفاق سے کام لینے پر مجبورنہ ہوں بلکہ يَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ اللہ کے لئے ان کا دین ہو اور کوئی فتنہ نہ رہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ (البقرۃ: ۲۱۸) شرارتیں اور فتنے اللہ کو ناپسند ہیں.پس اس وقت تک لڑائی جائز ہے کہ جب تک فتنہ رہے.وَلَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا (البقرة: ۲۱۸) یعنی وہ تم سے لڑتے رہیں گے جب تک کہ تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر لیں.پس جب یہ خوف جاتا رہے اور کفار بالا کراہ کسی مسلمان کو کافر نہ بنا سکتے اور فتنہ بازیوں سے ہٹ جائیں تو پھر تمہارے الہی حد بندی (امن ) کو توڑنے کا کوئی موقع نہیں مگر ان لوگوں کے لئے جو فتنہ ڈالتے رہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ /۱اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۳، ۳۴) وَ يَكُونَ الدِّينُ لِلهِ (الانفال: ۴۰).ظاہر و باطن لوگوں کا دین ایک ہو جائے.مذہبی آزادی ہو.تشخیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۱) وقتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ (البقرة: ۱۹۴).مقابلہ کرو یہاں تک کہ فتنہ اور شرارت نہ رہے.نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۱۸۴) اس لئے لڑو کہ لوگ آزمائشوں اور دین میں پھسلائے جانے سے بچ جاویں اور ظاہر و باطن میں اے دین میں کچھ زبردستی نہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۹۵ سُورَةُ الْبَقَرَة مسلمان ہو کر بسر کریں.ایسا نہیں کہ ڈر کے مارے اندر سے مسلمان اور باہر سے کافر.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۹۷) اوران سے ( کافران مکہ اور ان کے خصال وصفات کے آدمی ) لڑو جب تک روک ٹوک اُٹھ جاوے اور دین اللہ کے لئے ہو یعنی فرائض دین بلا روک ٹوک ادا کئے جاسکیں اور مخل خلل اندازی چھوڑ دیں.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۴۳ حاشیہ) ١٩٦ - وَاَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَ أَحْسِنُوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ - ترجمہ.اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو بے شک اللہ نیکی کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے.تفسیر.وَ انْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ.لڑائی کے وقت مالوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے اس لئے اسکی ترغیب دی دیکھو! ابوبکر و عمر قوم کے لحاظ سے ابو جہل وغیرہ سے بڑے نہ تھے مگر انہوں نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا تو وہ بڑے بن گئے.میں ہمیشہ اس امر کو ذوق سے دیکھا کرتا ہوں کہ مہاجرین نے خدا کے لئے وطن چھوڑا تو ان کو بدلے میں ملک کی سلطنت ملی.انصار نے یہ کام نہ کیا اس لئے ان کو یہ اجر بھی نہ ملا.خدا کی راہ میں خرچ کرنا کبھی ضائع نہیں جاتا.ایک صحابی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ دیا تھا کیا اس کا کچھ ثواب ملے گا فرما يا أَسْلَمْتَ عَلى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ ( بخاری کتاب الادب باب مَنْ وَصَلَ رَحِمَهُ فِي الشرك ثُمَّ أَسْلَمَ) اُسی کی برکت سے تو تو مسلمان ہوا.ایسا ہی ایک اور قصہ ہے کہ کوئی خشک فتوای گر تھے ان کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا جو ہر صبح چڑیوں کو چوگا ڈالتا تھا.اس فتوی گر نے کہا کہ کیوں ناحق اپنا مال ضائع کرتا ہے.تیرے اس جود وسخا کا بوجہ کفر کوئی فائدہ نہیں.کچھ مدت ہوئی تو اسے حج کرتے پایا.اُس وقت سمجھا کہ یہ اسی خیرات کا اثر تھا.ایسا ہی ایک اور بدکار نے ایک پیاسے کتے کو اپنے ے جو بھلائی نیکی ( اسلام لانے سے پہلے تجھ سے وقوع میں آئی اسی کے طفیل تو مسلمان ہوا.( ناشر )
حقائق الفرقان ۴۹۶ سُورَةُ الْبَقَرَة موزے سے پانی نکال کر پلا یا تو خدا نے اسے نجات کی راہ بتائی.بہر حال انفاق فی سبیل اللہ بہت سے ثمرات رکھتا ہے اور ہر زمانے میں انفاق کا ایک رنگ ہوتا ہے.یہ زمانہ فوجی تیاریوں پر خرچ کرنے کا نہیں بلکہ قلمی جہاد کا ہے.پس اسی میں مدد کرنا ہر مومن پر فرض ہے.اگر تم یہ خرچ نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے تئیں ہلاک کر لو گے کیونکہ جب دشمن کا مقابلہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سوا اپنی بربادی اور گمنامی کے اور کچھ نہیں.اس لئے فرماتا ہے.ولا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ - تم اپنے ہاتھوں سے اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو.وَاحْسِنُوا ۚ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ - احسان کی عادت ڈالو تا تم خدا کے محبوب بن جاؤ.رُوح کے خواص میں سے ایک یہ بات ہے کہ ہر شخص محبوبیت کے مقام کا خواہاں ہے.شاعر شعر کہتا ہے.لیکچرار لیکچر تیار کرتا ہے خوبصورت بن ٹھن کے نکلتا ہے.دولتمند مال خرچ کرتا ہے اس لئے کہ وہ محبوب بن جائے.اس محبوبیت کے مقام کے حصول کا ایک ذریعہ اللہ بتا تا ہے وہ یہ کہ تم محسن بن جاؤ.پھر تم محبوب بنو گے اور محبوب بھی کس کے اللہ کے.کوئی شخص اپنے محبوب کو ذلیل نہیں کرتا.پس وہ جس کا خدا محب ہو وہ کیونکر ذلیل ہوسکتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۵،۲۴ مورخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۴) أَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ الله (البقرة: ۱۹۶) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے.اگر تم اس پر عمل نہیں کرتے تو ہلاک ہو جاؤ گے.کئی قسم کی ضرورتیں درپیش ہیں.حضرت امام کی تعلیم کی اشاعت اور تبلیغ ، مہمانوں کی خبر گیری، مکانات کی توسیع کی ضرورت، مدرسہ کی ضروریات، غرباء ومساکین رہتے ہیں ان کا انتظام، مدرسہ میں غریب طالب علم ہیں ان کے خرچ کا کوئی خاص طور پر متکفل نہیں اور مستقل انتظام نہیں.اس کے علاوہ اور بہت سی ضروریات ہیں.اسی مسجد کا خادم ایک بڑھا ہے اور حضرت اقدس کا ایک سچا خادم حافظ معین الدین ہے.ایسے لوگوں کی خبر گیری کی ضرورت ہے.غرض یہاں کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ہر شخص کو جو کچھ اس سے ہو سکے اپنے مال سے، کپڑے سے الگ کرنا چاہئے.یہ مت خیال کرو کہ بہت ہی ہو، کچھ ہو خواہ ایک پائی ہی کیوں نہ ہو.ہر قسم کا کپڑا یہاں کام آ سکتا ہے.پس یہاں کی
حقائق الفرقان ۴۹۷ سُورَةُ الْبَقَرَة ضروریات کو پیش نظر رکھ کر ان میں دینے کے لئے کوشش کرو.صحابہ کی سوانح پڑھتا تمہیں معلوم ہو کہ کیا کرنا پڑا تھا.تم جو ان سے ملنا چاہتے ہو وہی راہ اور رنگ اختیار کرو.اللہ تعالیٰ ہم تم سب کو اس امر کی توفیق دے کہ ہم سچے مسلمان بنیں اور امام کے متبع ہوں.آمین الحکم جلدے نمبر ۴ مورخه ۳۱ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷ ) انفاق فی سبیل اللہ کی حقیقت اور اس کے اسرار قرآن مجید اور احادیث میں اور آثار میں بہت ملتے ہیں.ایک موقع پر فرمایا ہے اَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: ١٩٢).فرمایا اپنے اموال کو اللہ کی راہ میں خرچ کروا گر نہیں کرو گے تو اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دو گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا انسان کو ہلاکت سے بچاتا ہے مخلوق الہی سے احسان کرنے کے نتائج و ثمرات کے قصے میں تمہیں کیا سناؤں اور کہاں تک سناؤں ان سے تو ایک کتاب بنتی ہے تاہم میں تمہیں دو گواہیاں سناتا ہوں اور اگر اپنی شہادتیں سناؤں تو کہو گے باتیں بناتا ہے.رابعہ بصری کے پاس ایک مرتبہ میں مہمان آگئے.ان کے گھر میں اس وقت صرف دور وٹیاں تھیں انہوں نے سوچا کہ ان دو روٹیوں سے ان مہمانوں کو تو کچھ بھی نہ ہوگا بہتر ہے کہ اللہ سے سودا کرلوں.اتنے میں کوئی سائل آیا اور انہوں نے وہ دو روٹیاں اپنے نوکر کی معرفت اس کو دے دیں.نوکر حیران ہوا کہ دو بھی ہاتھ سے دے دیں.مگر رابعہ جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے عَشْرُ أَمْثَالِهَا (الانعام: ۱۶۱) کا وعدہ کیا ہوا ہے.تھوڑی دیر کے بعد ایک خادمہ کھانا لے کر آئی کسی بیوی نے ان کے گھر میں بھیجا تھا.رابعہ نے اس خادمہ سے پوچھا کہ کتنی روٹیاں ہیں اس نے کہا ، ۱۸.تب رابعہ نے کہا لے جاؤ.یہ میری نہیں ہیں.انہیں تو اللہ تعالیٰ پر ایمان تھا کہ دو کی بجائے ہیں آنی چاہئیں.غرض وہ خادمہ جب لوٹ کر گئی تو اس کی مالکہ نے اسے ڈانٹا کہ تو اتنی دیر کہاں رہی میں نے رابعہ کے گھر کھا نا بھجوانا تھا.اس لونڈی نے وہ قصہ سنایا تو مالکہ نے کہا کہ وہ حصہ تو رابعہ کا نہ تھا.پھر وہ ہیں روٹیاں لے کر گئی تو رابعہ نے لے لیں ے اُس کا دس درجہ بڑھ کر فائدہ ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۹۸ سُورَةُ الْبَقَرَة اور ان مہمانوں کو کھلا دیں جس سے وہ سیر ہو گئے.بعض جگہ ایک روٹی اتنی بڑی ہوتی ہے کہ ایک آدمی مشکل سے کھا سکتا ہے.میری خالہ اتنی بڑی روٹی پکاتی تھیں کہ محلہ میں بانٹ دیتے.غرض رابعہ جانتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ اَمْثَالِهَا (الانعام: (۱۶) وہ لونڈی اس راز سے آگاہ نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ کرشمہ دکھا دیا.ایسا ہی ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہوا اسے ایک آدمی راستہ میں ملا تو اس نے اس کو دو پیسے کا سوال کر دیا اس نے اس کو دو پیسے دے دیئے.سپاہیوں نے بھی تعرض نہ کیا وہ جانتے تھے کہ اب تو اس کو پھانسی کی سزا ہوگئی ہے.آگے نان بائی کی دوکان تھی وہاں سے اس نے دو پیسہ کی روٹی خرید لی جب اور آگے گئے تو اس کے کان میں ایک سوالی کی آواز آئی.تیرا دو ہیں جہا نہیں بھلا ہو کچھ کھلا دے؟ اس نے اس کو دونوں روٹیاں دے دیں.ادھر یہ واقعہ پیش آیا کہ جب یہ شخص پھانسی کے مقام پر پہنچا اور اس کے تختہ پر قدم رکھا.بادشاہ کو کسی نے کہا کہ اس مقدمہ کی اصلیت تو یہ ہے.بادشاہ نے یہ سن کر فوراً سوار بھیجا کہ اس کو پھانسی نہ دی جاوے تحقیقات ہوگی اور اس طرح پر اس صدقہ نے اس کو بچا دیا.یہ واقعات ہیں مگر ان کے ماننے کے لئے ایمان کی ضرورت ہے.میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ایک ہمارا محسن اور آشنا تھا وہ مارا گیا.جس روز وہ مارا گیا اس کے ایک ملازم نے مجھے کہا کہ آج نہیں جانا میں نے انکار کر دیا راستہ میں اس کو دشمن نے مار ڈالا.ہمارے ساتھ اس کے بڑے بڑے سلوک تھے اس کے مقدمہ کی تحقیقات ہونے لگی.مجھے اس حج سے ملنے کا موقع ملا جس نے تحقیقات کی تھی.اس نے بتایا کہ اس مقدمہ کی اصلیت ہم نے معلوم کر لی ہے اور کل اتنے آدمیوں کو پھانسی لگ جاوے گی.میں اس کے پاس سے اٹھا تو ایک غلبہ نیند کا ہوا.میں لیٹ گیا تو میں نے جو کوئی نیکی لے کر آوے تو اس کے لئے اُس کا دس درجہ بڑھ کر فائدہ ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۴۹۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیکھا کہ جن کے متعلق پھانسی کا حکم دیا گیا تھا.وہ چار پائی پر بیٹھے ہیں اور کچھ سکھ مجھ کو دکھائے گئے جو زمین پر بیٹھے تھے.میں نے اس کی تعبیر یہ کہی کہ یہ سب چھوٹ جاویں گے اور اس کے قاتل وہ سکھ ہیں جوسزا پائیں گے.میں نے اس حج سے جا کر کہا کہ آپ کا فتوی جھوٹ ہے اس نے کہا کہ کل ۹ بجے دیکھ لینا.میں نے اس کو کہا کہ ہم کو بھی کسی نے بتا دیا ہے.اس نے کہا تمہیں خبر نہیں میرے فیصلہ کی اپیل بھی نہیں وہ اب چھوٹ نہیں سکتے.میں نے کہا کچھ ہو وہ مجرم نہیں قاتل اور ہیں اور یہ چھوٹ جاویں گے اور مرتے نہیں.ان گرفتاروں میں بعض میرے بھی آشنا تھے.ٹھیک ۹ بجے جب کہ ان کی پھانسی کا مقررہ وقت تھا.سیالکوٹ سے تار آ گیا کہ اصل مجرم پکڑے گئے ہیں ان کو یہاں بھیج دو.مقدمہ یہاں منتقل کر دو.میں نے اس حج کو کہا کہ اب تو چھوٹ گئے.اس نے کہا کچھ پرواہ نہیں مقدمہ وہاں چلا جاوے.میں نے ایسے وجوہات لکھے ہیں کہ یہ بیچ سکتے ہی نہیں.مگر وہاں تحقیقات پر مقدمہ نئی طرز کا ہو گیا اور وہ رہا ہو گئے.تب وہ حج کہنے لگا بڑا آشچرج ہے.تب اس نے پوچھا کہ اب کون سزا پائے گا میں نے کہا دو سکھ ہیں.ان مجرموں میں ایک سرکاری گواہ وعدہ معافی پر بن گیا.وہ بچ گیا اور باقی پھانسی پاگئے.اس پر اس حج نے کہا کہ ایک تو بچ گیا.میں نے کہا کہ مجھے تو یہ نہیں دکھایا گیا کہ یہ بچے.چنانچہ اس نے وہاں سے نکل کر خوشی میں شراب پی اور شراب پی کر ایک لڑکی کو چھیڑا.اس کے رشتہ داروں نے وہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.اس قسم کے عجائبات بہت ہوتے ہیں.صدقات اور خیرات واقعی انسان کو بہت سے عذابوں سے بچالیتے ہیں اور یہ انسانی فطرت اور عام اقوام کے طرز عمل میں داخل ہے جو لوگ اپنے اموال میں سے خیرات کا حصہ نہیں نکالتے وہ ہلاکت کی طرف چلے جاتے ہیں.اس لئے قرآن مجید نے کامیابی کا یہ اصل تعلیم کیا کہ مومن کامیاب ہونے والے مومن اپنے اموال سے زکوۃ دیتے ہیں.اس لئے مومن کا یہ کام ہونا چاہئے.اپنی سرگزشت رابعہ بصری کے قصہ کا میں آپ بھی تجربہ کار ہوں.طالب علمی کے زمانہ میں ایک مرتبہ میں نے نہایت عمدہ صوف لے کر دوصدریاں بنوائیں اور انہیں
حقائق الفرقان سُورَةُ الْبَقَرَة الگنی پر رکھ دیا.مگر ایک کسی نے چرالی.میں نے اس کے چوری جانے پر خدا کے فضل سے اپنے دل میں کوئی تکلیف محسوس نہ کی بلکہ میں نے سمجھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بہتر بنا دینا چاہتا ہے.تب میں نے شرح صدر سے اناللہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا اور اس صبر کے شکریہ میں دوسری کسی حاجتمند کو دے إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا دی.چند روز ہی اس واقعہ پر گزرے تھے کہ شہر کے ایک امیر زادہ کو سوزاک ہوا اور اس نے ایک شخص سے جو میرا بھی آشنا تھا کہا کہ کوئی ایسا شخص لاؤ جو طبیب مشہور نہ ہو اور کوئی ایسی دوا بتاوے جس کو میں کودے خود بنالوں.وہ میرے پاس آیا اور مجھے اس کے پاس لے گیا.میں نے سن کر کہا کہ یہ کچھ بھی نہیں صدری ہے.میں جب وہاں پہنچا تو وہ اپنے باغ میں بیٹھا تھا میں اس کے پاس کرسی پر جا بیٹھا تو اس نے اپنی حالت کو بیان کر کے کہا کہ ایسا نسخہ تجویز کر دیں جو میں خود ہی بنالوں.میں نے کہا ہاں ہوسکتا ہے جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں کیلے کے درخت تھے میں نے اس کو کہا کہ کیلے کا پانی ۵ تولہ لے کر اس میں ایک ماشہ شور قلمی ملا کر پی لو.اس نے جھٹ اس کی تعمیل کر لی کیونکہ شورہ بھی موجود تھا، اپنے ہاتھ سے دوائی بنا کر پی لی.میں چلا آیا.دوسرے دن پھر میں گیا تو اس نے کہا کہ مجھے تو ایک ہی مرتبہ پینے سے آرام ہو گیا ہے.اب حاجت ہی نہیں رہی.میں تو جانتا تھا کہ یہ موقع محض اللہ تعالیٰ کے فضل نے پیدا کر دیا ہے اور آپ ہی میری توجہ اس علاج کی طرف پھیر دی.میں تو پھر چلا آیا مگر اس نے میرے دوست کو بلا کر زربفت کمخواب وغیرہ کے قیمتی لباس اور بہت سے روپے میرے پاس بھیجے.جب وہ میرے پاس لایا تو میں نے اس کو کہا کہ یہ وہی صدری ہے.وہ حیران تھا کہ صدری کا کیا معاملہ ہے؟ آخر سارا قصہ اس کو بتایا اور اس کو میں نے کہا کہ زربفت وغیرہ تو ہم پہنتے نہیں اس کو بازار میں بیچ لاؤ.چنانچہ وہ بہت قیمت پر بیچ لایا.اب میرے پاس اتنا روپیہ ہو گیا کہ حج فرض ہو گیا.اس لئے میں نے اس کو کہا کہ اب حج کو جاتے ہیں کیونکہ حج فرض ہو گیا ہے.غرض اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے کو کچھ بھی نقصان نہیں ہوتا ہاں اس میں دنیا کی ملونی نہیں چاہئے.بلکہ خالصا لوجہ اللہ ہو اللہ کی رضا مقصود ہو اور اس کی مخلوق پر شفقت ملحوظ ہو.پس تم مظفر و منصور ہونے کے لئے نمازوں میں خشوع ا یقینا ہم اللہ ہی کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۰۱ سُورَةُ الْبَقَرَة پیدا کر و.لغویات سے بچو اور پھر اپنے اموال سے زکوۃ دو.الحکم جلد ۱۹ نمبر ۵، ۶ مورخہ ۷، ۱۴ فروری ۱۹۱۵، صفحه ۵ تا ۷) حفظ نفس و تربیت اولاد پر فرمایا لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُم إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: ۱۹۶) اپنے تئیں (الحکم جلد ۱۹ نمبر ۵، ۶ مورخہ ۷، ۱۴ / فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۶ تا ۷ ) ہلاکت میں مت ڈالو.لا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُم إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة : ۱۹۶ ).یعنی اپنے تئیں خود ہلاکت میں نہ ڈالو.اسی سنت الہی کی اتباع میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام آگ میں خود گو د کر نہیں گرے تھے بلکہ لوگوں نے کہا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُم إِنْ كُنْتُمْ فَعِلِينَ (الانبياء- ١٩) (نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۶) b ۱۹۷ - وَ اَتِمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلّهِ فَإِنْ أَحْصِرُتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدِّى مَحِلَّه فَمَنْ كَانَ مِنْكُمُ مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكِ فَإِذَا اَمِنْتُم فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَقِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَّمْ وقفة يَجِدُ فَصِيَامُ ثَلَثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجّ وَسَبْعَةِ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.ترجمہ.اور حج اور عمرے کو اللہ ہی کے لئے پورا کرو پھر اگر تم راستہ میں رو کے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو ( بھیجو ) اور تمہارا سر نہ منڈواؤ جب تک قربانی اپنے محل پر نہ پہنچ جائے.تو جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اُس کو کچھ تکلیف ہوسر کی طرف سے تو ( بال منڈوانے کا ) بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی سے پھر جب تم نے امن پایا تو جو کوئی عمرے کو حج سے ملا کر فائدہ اٹھانا چاہے تو جیسی قربانی میسر ہو ( کرنی چاہیے ) پھر جو کوئی قربانی نہ کر سکے تو تین روزے رکھ لے حج کے دنوں میں اور سات روزے (رکھو) جب واپس آؤ یہ پورے دس ہوئے یہ حکم اس کے لئے ہے جس کا گھر بار مکہ میں نہ ہو اور اللہ ہی سے اے ابراہیم کو جلا ڈالو اور اپنے معبودوں کی ذرا مد دکر واگر تم کچھ کرنا چاہتے ہو.
حقائق الفرقان ۵۰۲ سُورَةُ الْبَقَرَة ڈرو اور جانو کہ اللہ ہی سخت سزا دینے والا ہے ( کافروں کو ).وَاتِقُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلهِ - مکہ والوں نے مسلمانوں کو حج وعمرہ سے منع کیا ہو ا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم حج کرو گے.یہ کب تک روکتے رہیں گے.فَإِنْ أَحْصِرُ تُم.اگر تم رو کے گئے ( جیسے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر ) تو بھی اندیشہ کی بات نہیں اخیر تمہاری فتح ہے.ذلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ.ذلِك میں بحث ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ حج و عمرہ کو ملا کر کرنے کی بیرونی لوگوں کو اجازت ہے مکہ والوں کو نہیں.بعض کہتے ہیں کہ مکہ والے بھی کر سکتے ہیں.مجھے وہ بات پسند ہے کہ یعنی مکہ والے تمتع نہیں کر سکتے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴، ۲۵ مؤرخه ۸ و ۱۵ را پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۴) حج اسلام کا ایک اعلیٰ رکن ہے.باوجود اس کے کہ نوٹس اور اشتہاروں کی کثرت ہورہی ہے اور ہر جگہ مجلسیں اور سوسائٹیاں جوش و خروش سے قائم ہو رہی ہیں مگر پھر بھی دنیا میں کوئی مجلس ایسی دید وشنید میں نہیں آئی جس کے ممبر پانچ وقت جمع ہوتے ہوں مگر جناب الہبی نے اطاعت اور طہارت کے ساتھ پانچ وقت جمع ہونے اور مل کر اس کی عظمت و جبروت کو بیان کرنا مسلمانوں کا فرض کر دیا ہے.کوئی شہر اور قصبہ نہ دیکھو گے جس کے ہر محلہ میں اسلام کی یہ پنجگانہ کمیٹی نہ ہوتی ہو لیکن اس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام باشندگانِ شہر کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا جاتا تو یہ ایک تکلیف مالا بطاق ہوتی.اسی لئے تمام شہر کے رہنے والے مسلمانوں کے اجتماع کے لئے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا مقرر ہوا پھر اسی طرح قصبات اور دیہات کے لوگوں کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی اور چونکہ یہ ایک بڑا اجتماع تھا اس لئے عید کا جلسہ شہر کے باہر میدان میں تجویز ہو الیکن اس سے پھر بھی کل دنیا کے مسلمان میل ملاپ سے محروم رہتے تھے اس لئے کل اہلِ اسلام کے اجتماع کے لئے ایک بڑے صدر مقام کی ضرورت تھی تا کہ مختلف بلاد کے بھائی اسلامی رشتہ کے سلسلہ میں یکتا باہم مل جاویں لیکن اس کے لئے چونکہ ہر فرد و بشر مسلمان اور امیر اور فقیر کا شامل ہونا محال تھا اس لئے صرف
حقائق الفرقان ۵۰۳ سُورَةُ الْبَقَرَة صاحب استطاعت منتخب ہوئے تا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر تبادلہ خیالات کریں اور مختلف خیالات و دماغوں کا ایک اجتماع ہو اور سب کے سب مل کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو بیان کریں.حج میں ایک کلمہ کہا جاتا ہے لبنك لبنكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَ اليَعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لا شَرِيكَ لَك جس کا مطلب یہ ہے کہ اے مولیٰ! تیرے حکموں کی اطاعت کے لئے اور تیری کامل فرمانبرداری کے لئے میں تیرے دروازے پر حاضر ہوں.تیرے احکام اور تیری تعظیم میں کسی کو شریک نہیں کرتا.غرضکہ یہ حقیقت ہے مذہب اسلام کی جس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.پھر دن میں پانچ دفعہ کل مسلمانوں کو اللہ اکبر کے لفظ سے بلا یا جاتا ہے.کوئی نادان اسلام پر کیسے ہی اعتراض کرے کہ ان کا خدا ایسا ہے ویسا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے اللہ اکبر سے بڑھ کر لفظ وضع نہیں کر سکتا.نماز کے لئے بلاتے ہیں تو اللہ اکبر سے شروع کرتے اور ختم کرتے ہیں تو رحمہ اللہ پر.حج کے برکات میں سے ایک یہ تعلیم ہے جو کہ اس کے ارکان سے حاصل ہوتی ہے کہ انسان سادگی اختیار کرے اور تکلفات کو چھوڑ دے.اس کے ارکان کبر و بڑائی کے بڑے دشمن ہیں.دور دراز کا سفر اختیار کرنا پڑتا ہے.احباب اور اقارب چھوٹتے ہیں.سستی اور نفس پروری کا استیصال ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بات یہ ہے کہ ہزاروں ہزارسال سے ایک معاہدہ چلا آتا ہے وہ یہ کہ جناب الہی کے حضور حاضر ہوکر منظور کرتا ہے اور بہت سی دعائیں مانگتا ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۳) حج.عاشق جب سنتا ہے کہ میرا محبوب فلاں شخص کو نظر آیا اور فلاں مقام پر ملاتو وہ دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور اسے تن بدن کا کچھ ہوش نہیں رہتا.نہ گرتے کی خبر ہے نہ پاجامہ کی.پھر وہاں جا کر دیوانہ وار مکانوں میں گھومتا ہے بعینہ یہ عبادت حج کا نظارہ ہے.یہ بھی کسی غیر کے لئے جائز نہیں.ایک شخص نے مجھے کہا وہاں مکہ میں جا کر کیا لینا ہے.علی گڑھ حمایت الاسلام کا جلسہ کافی ا میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں.تیرا کوئی شریک نہیں.میں حاضر ہوں.سب تعریف اور نعمت اور بادشاہت تیرے لئے ہی ہے.تیرا کوئی شریک نہیں.(ناشر )
۵۰۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان ہے.اس کو معلوم نہیں تھا کہ خدا کیا ہے؟ البدر جلد ۹ نمبر ۱۲ مورخه ۱۳ جنوری ۱۹۱۰ ء صفحه ۲) اسلامی پانچویں اصل حج ہے.حج کیا ہے.اہلِ اسلام کے قومی اجتماع کا ایک سفر.مسلمان بھائی محلے محلے کے آپس میں ہر روز پانچ دفعہ پانچ نمازوں میں باہم مل لیا کریں.یہ بات محلوں کی مسجدوں میں پانچ بار حاصل ہو جاتی ہے اور شہر شہر کے اہلِ اسلام کا باہم ملنا برسویں روز حج کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے.تمام بلاد اسلام کے مسلمان بھائیوں کے اجتماع کے واسطے صدر مقام وہ جگہ تجویز ہوئی جہاں سے ایسے عظیم الشان حکیمانہ مذہب کا نشو نما اور ابتدا شروع ہوئی.الا ہر ایک مسلمان فقیر ہو یا امیر ہر سال اس کا وہاں جانا خلاف فطرت تھا اور خلاف امکان.اس لئے حکم ہوا آسودہ لوگ ، استطاعت والے مسلمان وہاں جاویں.مختلف بلاد کے حالات جاننے اور ان کے علوم وفنون کے ادھر سے اُدھر.اُدھر سے ادھر لانے میں اصحاب استطاعت ہی غالباً عمدہ طور پر کامیابی کا ذریعہ ہو سکتے ہیں.کمال اتحاد اور با ہم پرلے درجہ کی یکتائی کے واسطے اور اس لحاظ سے بھی کہ امراء اور رؤساء کے ساتھ ان کے غریب نوکر چاکر بھی ہوں گے اور ضرور ہے کوئی عاشق الہی غریب اور مسکین مسلمان بھی وہاں جا پہنچے.حکم دیا تمام حجاج سادہ لباس صرف دو چادروں پر اکتفا کریں.کسی کے سر پر عمامہ اور ٹوپی نہ ہو.کوئی کر تہ نہ پہنے.کمال درجے کی بے تکلفی اور سادگی سے باہم ملیں اور لبيك لبيك اللهُمَّ لَبَّيْكَ لا شَرِيكَ لَكَ کی صدا بلند کریں.اتنابڑا اجتماع اس صدر مقام میں کہاں ہو.شہر سے کئی کوس کے فاصلے پر نہایت بڑے وسیع میدان میں جہاں کسی مخلوق کی تعظیم کا نام ونشان ہی نہیں نہ کوئی پتھر ، نہ کوئی درخت ، نہ کوئی ندی ، نہ کوئی رتھ..لطیفہ.ذرا ناظرین صاحبان اس امر پر غور کریں.میرے اکلوتے فرزند نے سَلَّمَهُ اللهُ وسلم ( جس کی جدائی سے نہایت سخت رنج میں ہوں.وَ أَشْكُوا بَى وَحُزْنِي إِلَى اللهِ (يوسف: ۸) 1ء میں حاضر ہوں.میں حاضر ہوں.اے اللہ میں حاضر ہوں.تیرا کوئی شریک نہیں.کے اللہ تعالیٰ اُسے سلامتی عطا فرمائے.(ناشر) سے میں اپنے ہم وغم کا اللہ سے ہی اظہار کرتا ہوں.( ناشر )
سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان اللهم أطلبُ وصَالَهُ إِنْ كَانَ مَعَ رَضَاكَ مجھ سے نماز اور زکوۃ اور روزے اور حج کے اسرار پر سوال کیا اُس وقت میں نے اسے جواب دیا.نیازمندی دو قسم کی ہوتی ہے.ایک نیازمندی خادمانہ.خدام کی نیاز مندی اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے.دوسری نیازمندی عاشقانہ.عاشق کی محبوب کے ساتھ.پہلی قسم کے نیاز مند کو مناسب ہے درباری لباس پہن کر بڑے ادب اور وقار سے ما لک کے دربار میں حاضر ہو اور تمام حکام اور مربیوں کی اطاعت سے کان پر ہاتھ رکھ کر اطاعت کا اقرار کرے.ہاتھ باندھ حکم کا منتظر رہے.جھک کر تعظیم دے.زمین پر ماتھا ر کھے.حضور کے غریب نوکروں کے لئے نذر دے.یہی مجملاً حقیقت نماز اور زکوۃ ہے.عاشقانہ نیاز میں ضرور ہے عاشق اپنے محبوب کے سامنے عشق میں بھوک اور پیاس بھی دیکھے.نہایت درجہ کے اس عزیز کو بھی جس کی نسبت لکھا ہے انسان کےماں باپ چھوڑ کر اس سے متحد اور ایک جسم ہوگا.کچھ دیر کے لئے ترک کرے اور جہاں یقینی طور پر سن لیا ہو کہ میرے محبوب کی عنایات اور تو جہات کا مقام ہے وہاں دوڑتا کودتا پسر کے عمامہ اور ٹوپی سے بے خبر پہنچے.پروانہ وار وہاں فدا ہو.کہیں دشمنوں کی روک ٹوک کی جگہ سن پائے تو وہاں پتھر چلاوے.یہی مجمل حقیقت روزے اور حج کی سمجھو.مولوی محمد قاسم مرحوم نے یہ صوفیانہ تقریر مفصل اپنے کسی رسالہ میں لکھی ہے.اس جواب پر میرے عزیز فرزند نے مجھے کہا آپ جب اسرار شرائع اسلام بیان کرتے ہیں تو ان پر دو اعتراض وارد ہوتے ہیں.اوّل یہ اسرار جو آپ بیان کرتے ہیں اگر واقعی اور بچے ہیں تو خود خدا نے یا جناب رسالت مآب نے یا آپ کے صحابہ نے کیوں بیان نہ کئے؟ دوم ان اعمال کے ساتھ اسلام نے یہ چند رکعات اور دعائیں کیوں لگا دیں.اگر صرف اجتماع قومی ہی جمعہ اور جماعت عیدین اور حج میں مقصود تھا؟ خاکسار نے اس عزیز سے کہا.قانونِ قدرت پر نظر کرو.فونوگراف لیتھوگراف.ٹیلیگراف، چھاپہ ، ریل، اسٹیم کے اسرار عناصر میں اس وقت سے موجود ہیں جب سے عناصر کو خالق عناصر نے اے اور اسے اللہ میں اس کا وصال اگر وہ ( وصال) تیری رضا کے ساتھ ہو طلب کرتا ہوں.(ناشر) ۲.پیدائش ۲: ۲۴
سُوْرَةُ الْبَقَرَة حقائق الفرقان پیدا کیا ( یہاں میرا عزیز غور کرے ( الا نہ خدا نے اس وقت ان اسرار کو بیان فرمایا نہ اس کے ان مقربین بارگاہ نے جو اس وقت تھے ان کی تشریح کی پھر کیا اس وقت کے بیان نہ کرنے سے لازم آتا ہے کہ یہ اسرار موجود ہی نہ تھے اور یہ منافع جو آج ظاہر ہوئے ان عناصر میں اسی زمانہ میں موجود ہو گئے ہیں.عزیز من ! قانونِ شریعت ہاں اسلام بعینہ قانونِ الہی سمجھو.عزیز من! قانونِ قدرت اور طبعیات میں صرف وہی اسرار اور منافع نہیں جو حکمائے یونان اور یورپ اور بقول آریہ سماج دانایان هند ( تو به ) آریہ دیش نے بیان کئے بلکہ اور بے انت اسرار بھی ہیں.اگر طبعی قانون کے اسرار بے انتہا ہیں اور صرف اس قدر نہیں جو اب تک حکماء نے بیان کئے ہیں تو احکام اسلام کے اسرار بھی ایسے ہی سمجھو.معلوم نہیں زمانے کی ترقی پر کیا کیا اسرار قانونِ قدرت اور قانونِ شریعت میں ظاہر ہوں گے سلف اُمت اگر اسرار بیان کرتے تو کس قدر اور کیا بیان کرتے...دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے.صرف اجتماع قومی ہی مقصود بالذات نہیں ہوتا بلکہ اسلام کا منشاء ہے کہ ہر ایک فعل میں، ہر ایک قول میں ہم کو ہمارا خالق اور رازق مربی یا در ہے.کوئی فعل اور قول بد وں شمول نام باری و رضائے ایزدی نہ ہو.ہر وقت فانی اشیاء سے بقا کی طرف.جسم سے رُوح کی طرف تو عبد ر ہے.دیکھو پاخانے کو جاتے ہوئے ایک جسمانی نجاست پھیلنے کی جگہ جاتے ہیں.اسلام سکھاتا ہے پائخانے میں جاتے وقت کہو اللهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُبِكَ مِنَ الْخَبْثِ وَالْخَبَائِثِ اور جب پائخانے سے نکلے تو اس واسطے کہ ایک جسمانی دکھ سے نجات پائی اور جسم سے جسمانی نجاست دُور ہو گئی.روحانی نجاستوں کے دُور ہونے کی دعا مانگے اور کہے غُفْرَانَكَ یعنی ہر ایک برائی پر تیری مغفرت مانگتا ہوں.دوسری بات بجواب اعتراض دوم یہ ہے کہ اگر یہ روحانی محرکات انہی اذکار اور الہی عبادتیں ان اعمال کے ساتھ نہ ہوتیں تو یہ اعمال متروک ہو جاتے.باہمی اختلافات سے یہ انجمنیں مثل اور دنیوی انجمنوں کے فنا ہو جاتیں یا یہ اعمال صرف دنیوی منافع پر محدود رہ جاتے.فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۳۷ تا ۴۰) لے اے اللہ میں گندگی ونجاست اور تکلیف دہ چیزوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۰۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ١٩٨ - اَلْحَجُ اَشْهُرُ مَعْلُومَتَ فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجّ وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمُهُ اللهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَأُولِي الْأَلْبَابِ - ترجمہ.حج کے چند مہینے مشہور و معلوم ہیں تو جو شخص اُن مہینوں میں حج کا قصد کر لے تو وہ عورت سے صحبت نہ کرے اور نہ ( کسی قسم کی ) بدکاری کرے اور نہ جھگڑا حج کے دنوں ) میں اور جو کچھ نیکی کرو تم وہ اللہ کو معلوم ہے اور تم سامان اور تو شہ ساتھ لو اور عمدہ سے عمدہ تو شہ تو تقوای (اور اللہ سے ڈرنے کا) ہے اور مجھ ہی سے ڈرو اور مجھ ہی کو سپر بناؤ اے عقل والو! تفسیر.مَعْلُومت.اسلام کے تعارف میں ہر ایک جانتا ہے.رفت.جماع کا ذکر کرنا.جماع کے سامان.خود جماع.تینوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے.ابنِ عباس نے پہلے معنوں کو پسند کیا ہے.بعض لوگ إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَبِ اللَّهِ (التوبة : ٣٢) سے استدلال کر کے کل کا نام حج قرار دے لیتے ہیں لیکن ائمہ اربعہ میں میں نے دیکھا ہے کہ وہ تمام سال احرام باندھنے کو پسند نہیں کرتے.تزودوا کھانے پینے.سواری کا انتظام.یہ سامان بہت ضروری ہیں.مدینہ کی راہ میں میں نے ایک نوجوان شخص کو دیکھا کہ جب وہ سخت تھک گیا تو ایک شخص کو ٹانگ سے پکڑ کر اونٹ پر سے گرا دیا اور خود او پر چڑھ گیا.اگر اس کے پاس زادِ راہ ہوتا تو یہ جدال کیوں کرتا.فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقوی.سامان کا عظیم الشان فائدہ تو یہ ہے کہ آدمی سوال اور گناہ سے بچ جاتا ہے.جس کے پاس زادراہ نہ ہو وہ چوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور غالباً اس قسم کی حکایتیں انہی قسم کی کمزوریوں کی وجہ سے بن گئی ہیں.ایک نابینا عورت کی کسی نے چادر اتار لی تو وہ کہنے لگی.وے بچہ حاجیا میری چادر تو دیتا جا.1 مہینوں کی گنتی تو اللہ کے یہاں بارہ ہی ہے اللہ کے دین میں محفوظ.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۰۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فسُوقَ.جو کچھ ایمان کے خلاف ہے وہ فسق ہوا.جدال.بے جالڑائی کرنا.ایک دو کہانیاں مجھے یاد آ گئی ہیں.ایک دفعہ راہ میں ایک شخص کی مجھ سے چابی گم ہو گئی.وہ مجھے کہے کہ میں بعینہ وہی چابی لوں گا.میں نے کہا کہ بہت اچھا.خدا تعالیٰ قادر ہے.اصل بات یہ تھی کہ کچھ ڈا کو ہمارے اسباب و سامان پر پڑے تھے اس روز وہ چابیاں لے گئے.چونکہ میرا صندوق سب سے بھاری تھا اس لئے اس شخص کا مطالبہ تھا کہ تمہاری وجہ سے ہماری چابی گئی ہے وہ مہیا کر دو.اب ان ڈاکوؤں کی چند سپاہیوں سے مٹھ بھیڑ ہوئی اور وہاں وہ چابیاں چھوڑ گئے اور اتفاق سے وہ سپاہی ہمارے قافلہ میں آگئے اور اس طرح وہ چابی ہمیں مل گئی.دوسرا قصہ یاد آیا کہ ایک دفعہ دو بھائی حج کرنے چلے.میں نے ان سے کہا کہ تم جو خرچ کرتے ہو لکھتے جاؤ بعد میں حساب کر لینا مگر انہوں نے اسے برادرانہ تعلقات کے خلاف سمجھا لیکن آخر جا کر ان کی لڑائی ہوئی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۴ ۲۵ مورخه ۱۵٫۸ / اپریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۴) تیسری بات مجھے یاد آئی کہ بڑوؤں کی عادت ہے کہ جب ایک کھانا کھانے لگے تو جتنے بڑو ہوں سب اسی پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس طرح وہ بھوکے رہتے ہیں.میں اپنے اونٹ والے کو آدھی رات کے وقت کھجوریں دیا کرتا تھا.ایک دفعہ میں نے اسے کہا جاؤ پانی لاؤ.وہ گیا اور تھوڑی دیر بعد خالی واپس آیا.میں نے کہا کیا ہوا.کہا تری ان شاء الله مصبحين صبح معلوم ہوا کہ ایک رئیس کے مُصْبِحِيْنَ یہاں قافلے میں پانی کی بوند نہیں تھی.بات یہ ہوئی کہ اس نے پانی مانگا.انہوں نے انکار کیا.اسے غصہ جو آیا تو ان کے مشکیزوں میں سوراخ کر دیا.یہ باتیں میں نے اس لئے سنائیں تا آپ کو معلوم ہو کہ جھگڑے کیوں پیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ اتنے مختلف المزاج لوگوں میں ایسے معاملات کا پیش آناممکن ہے.پس خدا فرماتا ہے کہ بیجا لڑائی مت کرو.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۵) لے ان شاء اللہ آپ صبح ہونے پر ( جو ہوا) دیکھیں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۰۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ص ۱۹۹.لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ فَإِذَا أَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفْتِ فَاذْكُرُوا اللهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَ اذْكُرُوهُ كَمَا هَدَيكُمْ ۚ وَ إِنْ كنْتُمْ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ - ترجمہ.تم کو منع نہیں کچھ مال کی تجارت کرنا ہے تو پھر جب کوچ کروعرفات سے تو مشعر الحرام ( مولفہ ) کے پاس اللہ کی یاد کرو.اور اللہ کو یاد کر و اُس طرح جس طرح اُس نے تم کو بتایا ہے ( رسول کے ذریعہ ) اور اس سے پہلے تو تم البتہ راہ بھولے ہوؤں میں سے تھے.تفسیر آن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ - چونکہ اس راہ میں کچھ آسودگی بھی چاہیے پس اس کے لئے اجازت ہے کہ تم کچھ تجارت بھی کرو.بعض علماء ظاہر مال کو برا سمجھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ اسے فضل فرماتا ہے.الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ - مزدلفہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۵) ۲۰۰.ثُمَّ اَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ عفور رحیم - ترجمہ.پھر تم بھی چلو جہاں سے دوسرے لوگ چلیں اور اللہ ہی سے گناہ بخشواؤ بے شک اللہ بڑا ڈھانپنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.ثمَّ اَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ - دو غلط رسمیں تھیں ان کی اصلاح فرمائی.ایک تو یہ کہ مکہ والے عرفات کے کنارے رہتے آگے نہیں بڑھتے تھے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب وہاں اکٹھے جائیں.دوسری رسم یہ تھی کہ مزدلفہ سے سویرے کوچ نہ کرتے تھے بلکہ شبیر پہاڑی پر جب دھوپ آ جاتی تو اس وقت چلتے.وَاسْتَغْفِرُوا الله.ہر عبادت کے بعد استغفار کا حکم ہے.دیکھو بڑی عبادت سجدہ ہے اور سجدہ کے بعد پڑھا جاتا ہے اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمنِی وَعَافِنِی ایسا ہی جب نماز سے فارغ ہو جائیں تو لے اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے عافیت عطا فرما.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۱۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة استغفار پڑھتے ہیں.اسی طرح بیان فرمایا کہ جب حج کی عبادت ختم ہونے کے قریب آئے تو استغفار پڑھو.نبی کریم کسی مجلس سے جب اٹھتے تو ۷۰ سے ۱۰۰ ( بار ) تک استغفار پڑھتے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵) ۲۰۱، ۲۰۲.فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ او أَشَدَّ ذِكْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا وَ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ - وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - ترجمہ.پھر جب تم اپنے حج کے ارکان تمام کر چکو تو اللہ کو یاد کرو جس طرح تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بڑھ چڑھ کر تو بعض آدمی ایسا ہوتا ہے جو دعا مانگتا ہے کہ اے ہمارے رب ! تو ہمیں دنیا ہی میں دے دے تو اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں.اور آدمیوں میں سے بعض آدمی ایسا ہوتا ہے جو دعا مانگتا ہے کہ اے ہمارے صاحب ! تو ہمیں دنیا میں بھی خیر و برکت دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا.تفسیر - فاذكروا الله - اس اکٹھ میں شاعر اپنی شاعری کا کمال دکھاتا.بہادرا اپنی بہادری کا.فرمایا تم اپنی مفاخرت کے بدلے حضرت حق سبحانہ کا ذکر کرو.فَمِنَ النَّاسِ.بعض لوگ صرف یہاں دنیا کمانے کے لئے آتے ہیں بعض دین و دنیا دونوں کے لئے.وہ بھی اچھے ہیں.دنیا کے حسنات میرے نزدیک یہ ہیں.ا.صحت ۲.علم اور اس پر عمل ۳.اللہ کی سچی عبادت اور اخلاص و توفیق خیر ۴.رزق میں اتنا جتنا ضرورت ہو ۵.نیک اولاد ۶.نیک بی بی.عمدہ مکان ۸ لباس اچھا ۹ دوست اچھے ۱۰.خاتمہ بالخیر.اور آخرت کے حسنات کے لئے میں یہ کہہ لیا کرتا ہوں کہ جو تیرے حضور حسنہ ہوں.جسے تیرے پاک بندوں اولیاء و انبیاء نے حسنہ کہا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵)
حقائق الفرقان ۵۱۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَذِكرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا میں اللہ تعالیٰ فرماتا تشعیذ الا ذہان جلدے نمبرے.جولا ئی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۳۳) ہے اپنے اللہ کا ذکر کرو اپنے باپوں کی مانند.اس میں یہ سمجھایا کہ ہر ایک شخص کا باپ ایک ہی ہوتا ہے.اللہ بھی ایک ہی مانو.۲۰۵ - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الدُّ الْخِصَامِ - ترجمہ.اور بعض آدمی ایسا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اُس کی بات تجھ کو پسند آتی ہے اور وہ اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ قرار دیتا ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے.تفسیر.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو باتیں بنانا خوب آتی ہیں.باتیں بنانے کے لئے اس فن کی کتابوں کو پڑھتے ہیں مگر مومن کا یہ کام نہیں ہوتا.وَمَا أنَا مِنَ الْمُتَكَلفين (ص:۸۷) امام مالک سے کسی نے چالیس سوال کئے.ایک دو کا جواب دے کر کہا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ - وَيُشهد الله - یعنی بات بات پر قسم کھانا کہ واللہ، اللہ ، بخدا یوں بات ہے.الدُّ الْخِصَامِ.جھگڑالو حق کا طالب نہیں ہوتا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵) ٢٠ - وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ الله لا يُحِبُّ الْفَسَادَ - ترجمہ.وہ جب لوٹ کر گیا یا حاکم یا والی بنا تو دوڑتا پھرا ملک میں تاکہ اس میں شرارت پھیلا دے اور کھیتی اور نسل کو تباہ کرے ( یا عورت اور بچوں کو ) اور اللہ تعالیٰ شرارت اور فساد کو پسند نہیں کرتا.تفسیر.توٹی.حاکم بن جائے.لے اور نہ میں تکلیف کرنے والوں میں سے ہوں ( یعنی جھوٹی بات بنا کر پھنسانے والا نہیں ہوں ).(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۱۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سطی.کوشش کرتا ہے.الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ.ظالموں کا قاعدہ ہے لوگوں کی کھیتیاں برباد کر وادیتے ہیں اور غرباء کے بال بچوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.بہت ہی افسوس سے ایک اور معنی بھی سناتا ہوں وہ یہ کہ لواطت کرتا ہے اور لواطت والا اپنی نسل کو ہلاک کرتا ہے اور حرث سے مراد عورت بھی ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵) ۲۰۷ - وَ إِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ ، وَ لَبِئْسَ الْمِهَادُ - ترجمہ.اور جب اس سے کہا جاوے اللہ سے ڈر تو اُس کو غرور آمادہ کرتا ہے گناہ پر تو ایسے کے لئے جہنم ہی بس ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا اور قرارگاہ ہے.تفسیر.الْعِزَّةُ.دنیا کی نمائش اور عزت پر مرتا ہے.ایک شخص کو میں نے لڑکی کے نکاح پر کہا تھا کہ وہ خرچ کر لو جو دنیا کے بڑے معزز نے کیا یعنی محمد رسول اللہ نے کیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۵) -۲۰۸ - وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ - ترجمہ.اور بعض آدمی ایسا (اچھا نیک) ہوتا ہے جو اللہ کی خوشنودی کے لئے اپنی جان دے دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بڑی شفقت رکھتا ہے بندوں پر.تفسیر - ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللہ.واسطے چاہنے اللہ کی رضامندی کے.مَنْ يُشْرِى نَفْسَهُ - اپنے آپ کو فروخت کر دیتا ہے.اس کا سکھ.اس کا آرام اس کی کوئی خواہش اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۲۲ ۱٫ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵)
حقائق الفرقان ۵۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة -۲۰۹ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَّةً وَ لَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ - ترجمہ.اے ایمان دارو! داخل ہو جاؤ سلامتی میں ( یعنی اسلام میں ) سب کے سب یا پورے پورے اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر ( شریر فسادی کی چال نہ چلو ) بے شک وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.فسیر - ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافةً - فرمانبرداری میں داخل ہو جاؤ.فرمانبرداری انسان کو کامیاب کر لیتی ہے.ابتدا سے یہ سبق شروع ہے.پہلے بتایا لِيُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِن قَبْلِكَ (البقرة:۵) پھر فرمایا اعْبُدُوا رَبَّكُمُ (البقرة :۲۲) لِمَا يَأْتِينَكُمْ مِنِّي هُدًى (البقرة: ٣٩) پھر ابراہیم کی طرز پر چلنے کا وارث کیا.پھر فرمایا کہ اس راہ میں جان پر بھی پڑے تو تامل نہ کرو کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱٫۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۵) ۲۱۱ - هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَبِكَةُ وَ قُضِيَ الْأَمْرُ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ - ترجمہ.کیا وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ خود اللہ آجاوے ان کے پاس ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے ، اور معاملہ طے ہو جائے حالانکہ اللہ ہی کے طرف سب کام لوٹتے ہیں.هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ - اِس کی تفسیر پارہ ۹ سورہ انفال رکوع ۱، ۲ سے ہوتی ہے وہ پڑھ لینا چاہیے جہاں اللہ تعالیٰ کی مدد کا ذکر ہے کہ گھٹا ٹوپ بادل آ گیا جو کفار کے نقصان اور مومنوں کے فائدے کا موجب ہوا.اِذْ يُغَشِيكُمُ النُّعَاسَ آمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ لے جو لوگ مانتے ہیں اس کلام کو جو تیری طرف اتارا گیا اور جوا تارا گیا تجھ سے پہلے لوگوں پر.۲؎ فرمانبرداری کرو تمہارے اُس رب کی.۳.پھر جب جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت نامے آتے رہیں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۱۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاء مَاء لِيُطَهِّرَكُم بِه (الانفال: ۱۲) اور ملائکہ کا بھی ذکر ہے اِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُسِدُّكُمْ بِالْفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُردِ فِيْنَ.(الانفال:١٠) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹، صفحه ۳۵) خداوند کا بدلیوں میں آنا.یہ آسمانی کتب کا محاورہ ہے اور بعض اوقات ایسے محاورے نہ سمجھنے سے بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں جن کا کچھ حل نہیں ط سوجھتا پاره ۲ رکوع ۹/۲۵ میں ایک آیت ہے.هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي خُللِ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلبِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ.یعنی کیا اب یہ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان پر بادلوں کے سائبانوں میں ظاہر ہو اور فرشتے اور فیصلہ ہو جائے اور تمام باتیں اللہ ہی کی طرف رجوع کرتی ہیں.فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ اور نزولِ ملائکہ کے معنے سمجھنے کے لئے پارہ 9 سورۃ انفال رکوع ۱ کو بغور سے پڑھنا چاہیے جہاں اس پیشگوئی کی تفصیل کر دی ہے وہ یوں کہ فرماتا ہے.اِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ إِنِّي مُمِنكُمْ بِالْفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُردِفِينَ وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرَى وَلِتَطْمَينَ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلا مِنْ عِنْدِ اللهِ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے منظور فرمایا کہ میں تمہیں ہزار فرشتے سے جو لگا تار آنے والے ہیں مدد دینے والا ہوں.یہ اللہ نے فقط خوشخبری دی اور تا کہ اس سے تمہارے دل تسلی پائیں اور فتح تو صرف اللہ ہی کے ہاتھ ہے.وہ زبر دست حکمت والا ہے.اس سے ظاہر ہے کہ جنگ میں ملائکہ اُترے اور انہوں نے حسب حكم الى إذْ يُوحَى رَبُّكَ إِلَى الْمَلَكَةِ إِنِّي مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِينَ آمَنُوا سَأَلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرعب.( میں تمہارے ساتھ ہوں.مومنوں کو ثابت قدم رکھو اور ان کے قلب کو مضبوط ط لے جب تم کو ڈھانپ لیا اونگھ نے اللہ کی طرف سے تسکین کے لئے اور اتارتا تھا تم پر بادل سے پانی تا کہ پاک کرے تم کو اس کے ذریعہ سے.۲ جب تم پانی مانگنے لگے تمہارے رب سے تو اس نے قبول فرمائی تمہاری دعا، میں تم کو مدد دوں گا ہزار فرشتوں سے ایک کے پیچھے ایک آنے والوں سے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۱۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کرتے رہو اور میں کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دوں گا ).مومنوں کو ثابت قدم رکھا اور کافروں پر رعب چھا گیا اور وہ بھاگ نکلے.علاوہ ازیں اللہ جل شانہ کی نصرت بدلیوں کی صورت میں اُتری یعنی بارش ہوئی اور اس سے مسلمانوں کے قدم ریت میں جم گئے اور ان کی پیاس بھی جاتی رہی اور یہی پانی دیگر ضروریات کے کام آیا جس سے مومن از سر کو تازہ ہو گئے اور خوب جم کے لڑے اور ان کو فتح حاصل ہوئی جس سے وہ پیشگوئی پوری نکلی جو پہلے اَنْ يَأْتِيَهُمُ اللهُ فِي خُل مِنَ الْغَمَامِ میں کی جا چکی تھی چنانچہ فرماتا ہے اِذْ يُغَشِيكُمُ النُّعَاسَ آمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطن وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقدام - پاره ۲ رکوع ۹/۲۵ اور سورۃ انفال رکوع کی ان آیات کے تطابق کی طرف فَإِنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.اشارہ کر رہا ہے جو دونوں کے اخیر میں ہے.تشحیذ الا ذہان جلدے نمبر ۸.اگست ۱۹۱۲ء صفحه ۳۸۰،۳۷۹) في ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ.بدر کے متعلق جو پیشگوئی تھی کہ مینہ برسے گا اور بہادر لوگ گھٹ جائیں گے سورہ انفال رکوع ۲ إِذْ يُغَشِيكُمُ النُّعَاسَ آمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاءِ مَاءً ليطهركم اس کی طرف اشارہ ہے.تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۲) ۲۱۲.سَلْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ كَمْ أَتَيْنَهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ ۖ وَمَنْ يُبَدِّلُ نِعْمَةَ اللهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ وَإِنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ - ترجمہ.بنی اسرائیل سے پوچھ لوکس قدر کھلے کھلے نشانات ان کو ہم نے دیئے اور جو شخص بدل ڈالے اللہ کے انعام کو اُس کو ملے بعد تو بے شک اللہ سخت سزا دینے والا ہے.تفسیر - سَلْ بَنِي إِسْرَاوِيْلَ كَمْ أَتَيْنَهُمْ مِنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ - اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو قو تیں عطا کی ہیں وہ دو قسم کی ہیں.ایک وہ جن پر انسان کو کوئی دخل و تصرف نہیں اور ترک یا فعل ان قوی کے متعلق انسان کا کچھ نہیں.ان قوتوں کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں.مثال کے لئے دیکھو انسان کا قد.ایک قد میرا ہے اور ایک میری ہی عمر کے کسی اور شخص کا.اسی طرح بدن
حقائق الفرقان ۵۱۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں ہڈیوں کی تعداد، پٹھے اور شریانیں ہیں ان میں انسان کا کچھ دخل نہیں.ایسا ہی کوئی شخص جناب الہی کو گالیاں دے رہا ہے تو کان سننے سے نہیں رہ سکتے.دوم وہ حصہ انسانی قوی کا جس پر انسان کو قابو ہے.دونوں کی سہل مثال میرے نزدیک زبان ہے.اس میں جبر و اختیار کے دونوں رنگ موجود ہیں.زبان پر میٹھا، نمک، کسیلا رکھ کر پھر زبان سے کہو کہ وہ نمکین کو میٹھا کہے تو یہ ہرگز نہ ہوگا.ہاں یہی زبان ہے اس سے چاہے کوئی خدا کو ، انبیاء کو گالیاں دے کر جہنم اپنا گھر بنالے اور خواہ ذکر و محامد الہی کر کے جنت الفردوس کا وارث بن جائے نتیجہ اس ساری بات کا یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص پوچھے کیا انسان مجبور ہے تو کہو نہیں.اور اگر کوئی کہے مختار ہے تو کہو نہیں.ایک فریق ایسا ہے جو سمجھا ہے کہ انسان مجبور ہے چنانچہ اس قسم کے اشعار کہے ہیں.درمیان قعر دریا تخته بندم کرده باز مے گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش لے میرے نزدیک یہ نام ہی ہے.انسان کو مجبور پیدا کر کے پھر اسے دوزخ میں ڈالنا ظلم ہے اس واسطے میں نہ انسان کو بالکل مجبور کہتا ہوں نہ بالکل مختار.قرآن کی صداقت کا ایک یہ نشان بھی ہے کہ اس میں ایسے کچے الفاظ بالکل نہیں اختیار کئے گئے.چنانچہ کسی آیت قرآنی بلکہ حدیث صحیح، حسن اور ضعیف میں بھی جبر و اختیار کا لفظ نہ پاؤ گے.پس تم یا درکھو کہ جس حصہ میں انسان کو جناب النبی سے اختیار حاصل ہے اس میں بعض امور کے کرنے کا حکم ہے اور بعض کے نہ کرنے کا.اب جو منشاء خداوندی کے برخلاف کرے اس کے متعلق باز پرس ہوتی ہے.انبیاء کی آمد اسی حصہ کی اصلاح کے متعلق ہے اور انہی قومی کی ہدایت پر مبنی ہے جو انسانی مقدرت کے نیچے ہیں.حضرت یوسف کی وجہ سے بنی اسرائیل کو مصر میں بہت عزت حاصل ہوگئی تھی مگر کوئی قوم جب آسودہ حال ہو جاتی ہے اور ان میں کوئی بڑا ولی پیدا ہو جاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ کچھ مدت بعد اس نسل کے لوگوں میں کا ہلی اور سستی آجاتی ہے.اس ولی کے جو صاحبزادے ہوتے ہیں وہ بھی چونکہ مریدوں اے تونے میرے ہاتھ پاؤں باندھ کر مجھے سمندر کی گہرائی میں پھینک دیا ہے اور پھر یہ بھی کہ رہا ہے کہ خبردار تمہارا دامن بھی گیلا نہ ہونے پائے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۱۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سے حضور حضور سننے کے عادی ہو جاتے ہیں اس واسطے ان کو بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.پھر ان کا اثر قوم پر پڑتا ہے اور آخر وہ قوم پانچوں عیب شرعی ہو جاتی ہے چنانچہ اسی قانون کے موافق بنی اسرائیل میں یہ عیوب آ گئے اور پھر ان پر خدا کی طرف سے ذلت اور مسکنت لیس دی گئی.بیگاروں میں پکڑے جاتے تو وہی ، اینٹیں پکوانے کے کام لئے جاتے تو ان سے ، پھر ایک اور قانونِ الہی ہے کہ جب اصل گناہوں والے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں تو پھر اس نکبت زدہ قوم میں ہی سے خدا کا کوئی پاک بندہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ وہ قوم سمبھلتی ہے.چنانچہ جب بنی اسرائیل کی نکبت انتہا کو پہنچی اور اصل مجرم ہلاک ہو چکے تو حضرت موسی پیدا ہوئے چنانچہ ان کے ذریعہ بنی اسرائیل کو پھر نجات کی راہیں دکھائی گئیں.آپ کا منشاء تھا کہ جہاد کے لئے یہ قوم تیار ہو اور ملک شام کی وارث ہو اس لئے آپ نے حکم دیا.یقومِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ وَلا تَرْتَدُّ وَا عَلَى أَدْبَارِكُمْ (المائدة: ۲۲) حضرت موسیٰ تو انہیں فاتح بنانا چاہتے تھے مگر انہوں نے بے ادبی کا کلمہ منہ سے نکالا کہ وہ بڑے بہادر ہیں ہم سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ، جاتو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھرو.قرآن کے درس میں کوئی بنی اسرائیلی شامل نہیں ہوتا.پس یہ قصہ کیوں سنایا ؟ اس لئے کہ حضرت نبی کریم نے بھی اپنی قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا.آپ کا بھی یہی منشاء تھا کہ اس ملک سے نکل کر صحابہ مقابلہ کریں اور فاتح بنیں آپ کی قوت قدسیہ کا اثر یہاں تک بڑھا ہوا تھا کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا کہ کیا تم جہاد کو تیار ہو تو انہوں نے جواب دیالًا نَقُولُ كَمَا قَالُوا لِمُوْسٰى اِذْهَبْ انْتَ وَ رَبُّكَ فَقَا تِلَا بَلْ نُقَاتِلُ عَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِك ( بخاری - كتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ......یعنی ہم حاضر ہیں آپ جہاں چاہیں لے جائیں.ايم بَيِّنَةٍ - ایک آیت تو یہ کہ فرعون کی غلامی سے نکالا نَجَّيْنَكُمْ مِنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ اے اے قوم! اُس پاک ملک میں داخل ہو جاؤ جس کو اللہ نے تمہارے لئے محفوظ رکھا ہے ( اور لکھ دیا ہے کہ وہ تمہیں کو ملے ) اور تم الٹے پھرو.۲ے ہم نہیں کہیں گے وہ جو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تو اور تیرا رب جاؤ اور دونوں جنگ کرو.بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے.
حقائق الفرقان ۵۱۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة (البقرة:۵٠) سوء الْعَذَابِ.(البقرة: ۵۰) ۲.پھر جنگل میں موقع پر پانی برسایا اور بلا محنت رزق دیا..بادشاہ ہو گئے لیکن چونکہ انہوں نے انعام الہی کی قدر نہ کی اس لئے ان پر پھر طرح طرح کے عذاب آئے.عِقاب.یہ عقاب نکلا ہی عقب سے.مطلب یہ کہ اللہ کی سزا اعمال کے عقب میں نازل ہوتی ہے چنانچہ فرمایا مَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ (الشوری: ۳۱) مَا اور مِنْ حصر کے لئے ہیں گویا بڑی تاکید سے فرماتا ہے کہ تمہاری تکالیف تمہاری نافرمانی کا نتیجہ ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مورخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۶) الْعِقاب.وہ عذاب جو نا فرمانی کے بعد نازل ہوا.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۲) بنی اسرائیل کو کس قدر کھلے کھلے نشان دیئے.ان کے دشمن کو ان کے سامنے اسی بحر میں جس سے وہ صحیح سلامت نکل آئے ان کے دیکھتے دیکھتے ہلاک کیا.ان کے املاک کا وارث کیا اور پھر یہ کہ بنی اسرائیل سب کے سب غلام تھے.حضرت موسی خود فرماتے ہیں وَ تِلْكَ نِعْمَةُ تَمْتُهَا عَلَى أَنْ عَبَدتَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ (الشعراء: ۲۳) خدا نے ان پر یہاں تک فضل کیا کہ غلامی سے بادشاہی دی، نبوت دی، تمام جہانوں کے لوگوں پر فضیلت دی.چنانچہ فرماتا ہے.اِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاء وَجَعَلَكُمْ قُلُوْعًا وَاشْكُمْ مَا لَمْ يُوْتِ اَحَدًا مِّنَ الْعَلَمِينَ (المائدة: ٢١) لیکن جب بنی اسرائیل نے ان انعامات الہی کی کچھ قدر نہیں کی تو وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَ اے ہمیں نے تمہیں فرعونیوں کے پنجے سے چھڑایا تھا وہ تمہیں بڑی بڑی تکلیفیں دیتے تھے.سے اور تم پر جو کچھ مصیبت پڑتی ہے وہ تمہاری ہی بد اعمالیوں کی وجہ سے ہے.۳.اور یہ نعمت جس کا تو مجھ پر احسان جتا تا ہے اس لئے ہے کہ تو نے غلام بنا رکھا ہے بنی اسرائیل کو.کے اُس نے تم میں پیغمبر پیدا کئے اور تم کو بادشاہ بنایا یعنی سلطنت والی قوم اور تم کو وہ کچھ دیا جوتمہارے زمانے میں کسی کو ہم نے نہیں دیا تھا دنیا جہان سے.(ناشر )
حقائق الفرقان ۵۱۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة باءُ بِغَضَبٍ مِّنَ اللهِ (البقرة: ۲۲) کا فتوای ان پر چل گیا.وہی یہود جو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے دنیا میں اُن کے رہنے کے لئے کوئی اپنی سلطنت نہیں.جدھر جاتے ہیں بندروں کی طرح دھتکارے جاتے ہیں.یہ کیوں؟ وَمَنْ يُبَدِّلُ نِعْمَةَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.اب یہاں بنی اسرائیل نہیں بیٹھے سب مسلمان ہی ہیں.مسلمانوں پر خدا نے بنی اسرائیل سے بڑھ کر انعامات کئے.ان کو نہ صرف بنی اسرائیل کے ملکوں کا وارث کیا بلکہ اور ملک بھی دیئے.ملک شام کے علاوہ افریقہ تک حکومت دی.جبل الطارق پر یہی حکمران تھے.مشرق میں کاشغر، بخارا سے چائنا تک پہنچے لیکن جب مسلمانوں نے خدا کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو جبل الطارق جبرالٹر بن گیا.کاشغر وغیرہ پر روس کی حکومت ہو گئی.گنگا کا کنارا اور سندھ انگریزوں کے قبضہ میں آیا.ایسا کیوں ہوا؟ جو بنی اسرائیل نے کیا وہی مسلمانوں نے کیا.خدا نے ان کو ایسا دین دیا جو کل دینوں سے بڑھ کر ہے.ایسی کتاب دی جو کل کتب الہیہ کی جامع ہے.ایسا نبی دیا جو تمام انبیاء کا سردار ہے اور احمدیوں کو تو وہ امام دیا جو تمام اولیاء کا سردار ہے ) بنی اسرائیل کے فرعون کو تو سمندر میں غرق کیا مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرعون ( ابو جہل ) کو باوجود یکہ ہم کتابوں میں یہی پڑھتے آتے تھے إِمَّا أَنْ لَّا يَكُونَ فِي الْبَحْرِ إِمَّا أَنْ يُغْرَقَ کے خشکی میں غرق کر کے دکھا دیا.کس قدر افسوس ہے کہ مسلمان ان نعمتوں کی بے قدری کر رہے ہیں.اس کتاب کی جس کو ذلِكَ الْكِتب (البقرة : ٣) فرمایا ( یعنی اگر کوئی کتاب ہے تو یہی ہے ) کچھ پرواہ نہیں کی جاتی.اس میں اس قدر علوم ہیں کہ شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کتابیں جمع کرنے کے لئے ۳ کروڑ روپیہ چاہیے ( یہ ان کے زمانے کا ذکر ہے، اب تو اس قدر کتا ہیں ہیں کہ کئی کروڑ روپے بھی کافی نہ ہوں ) لیکن کئی مسلمان ہیں جو اس کے معمولی معنے بھی نہیں جانتے.پھر خود پسندی ، خود رائی کا یہ حال ہے کہ نہ قرآن سے واقف ، نہ حدیث سے آگاہ.نہ حفظ نفس، حفظ مال، حفظ اعراض کے اصول سے باخبر مگرا اپنی رائے کو کلام الہی لے اور ان پر ذلت اور مسکینی کی مار پڑی اور وہ اللہ کے غضب میں آگئے.(ناشر) سے یا تو یہ ( ہلاکت) سمندر میں نہیں ہوگی یا یہ ( سمندر میں ) غرق ہوگا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پر ترجیح دینے کو تیار.قرآن کو امام ومطاع نہیں بناتے.تم لوگوں نے دین کے لئے اپنے گھر بار.اپنے خویش واقارب.اپنے احباب وغیرہ کو چھوڑا ہے اگر تم بھی قرآن کی تعلیم حاصل نہ کرو تو افسوس ہے.البدر جلد ۸ نمبر ۴۶، ۴۷ مؤرخہ ۱۶ رستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ اوّل) ۲۱۳.زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَ اللَّذِينَ اتَّقَوْا فَوقَهُمْ يَوْمَ الْقِيمَةِ وَاللهُ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ.ترجمہ.مغروروں کو مرغوب کر دی گئی ، اور پسند آ گئی ہے حق چھپانے والوں کو دنیا ہی کی زندگی اور وہ ہنسی کرتے ہیں مسلمانوں سے اور متقی اُن کے مرے بعد فاتح اور غالب اور بڑھ چڑھ کر ( اور اعلیٰ درجہ پر ہوں گے قیامت میں.اور اللہ روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بے حساب.تفسیر.زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا.خوبصورت دکھلائی گئی ہے کافروں کے لئے ورلی زندگی زین کا فاعل نہیں بتایا.یہ امر تحقیق طلب ہے.قرآن مجید میں تین موقعہ پر اس کا فاعل مذکور ہے.ایک جگہ حضرت حق سبحانہ فرماتا ہے.حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيْمَانَ وَزَيَّنَةَ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات :٨) دوم ایک مقام پر فرمایا کہ تم کسی کے بزرگوں کو گالیاں نہ دو وہ تمہارے معبود حقیقی کو گالی دیں گے.لا تسبوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسْبُوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام : 109) اس سے آگے فرماتا ہے.كَذلِكَ زَيَّنَا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُم غرض ایمان کی خوبیاں اور ایمان کے متعلقات ان کو خوبصورت دکھلانے والا تو اللہ ہے اور وہ جو بدی کو خوبصورت دکھاتا ہے اس کا ذکر اس آیت میں ہے زَيَّنَ لِكَثِيرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ اَوْلَادِهِم م (الانعام: ۱۳۸) اور وَ إِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطنُ أَعْمَالَهُمْ (الانفال: ۴۹).جو اللہ سے دور آدمی ہیں وہ بد عملیوں کو خوبصورت دکھاتے ہیں.غرض زُيِّنَ کے دو فاعل ہیں ل اللہ نے تمہارے لئے ایمان پسند فرمایا ہے اور اس کو عمدہ کر دکھایا ہے تمہارے دلوں میں.۲.اور تم برا نہ کہا کرو اُن کو جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں کہیں وہ بڑا کہ بیٹھیں گے اللہ کو دشمنی سے بے جانے بوجھے.سے اسی طرح ہم نے پسند کر دیئے ہیں ہر ایک جماعت کو اُن کے کام.۴ پسند کرا دیا ہے بہت مشرکوں کو اپنے بچوں کا مار ڈالنا ان کے شریکوں نے.۵.اور جب اُن کو پسند کرا دیئے شیطان نے ان کے کام.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نیک کاموں کے لئے نیک اور بدکاریوں کے بیان بد (شیطان).سورۃ نحل آیت ۶۴ میں بھی آیا ہے تاللهِ لَقَدْ اَرْسَلْنَا إِلَى أُمَمٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَزَيَّنَ لَهُمُ الشيطنُ أَعْمَالَهُمْ فَهُوَ وَلِيُّهُمُ الْيَوْمَ - کے وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا.جب کوئی مامور آتا ہے تو دوگروہ ہو جاتے ہیں ایک مانتا ہے ایک نہیں مانتا.اللہ کی کتاب سے مجھے یوں معلوم ہوا ہے کہ جوا کا بر ہوتے ہیں وہ قطع تعلق کرتے ہیں.اکا بر علوم کے لحاظ سے فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُم مِّنَ الْعِلْمِ (المؤمن : ۸۴) جاہ وجلال.مال و منال کے لحاظ سے.حضرت نوع کے پیروؤں کو کہا گیا آرا ذلنَا بَادِيَ الرأي (هود: ۲۸) (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۶) رينَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا کفر کا مزین شیطان ہے کیونکہ اللہ تو ایمان کا مزین ہے حَبَّبَ اِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَ زَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات: ٨) تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۲) ۲۱۴ - كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُم بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ البينتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ E بِاِذْنِهِ وَاللهُ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - ترجمہ.سب لوگ ایک ہی رنگ سے رنگین تھے پھر بھیج دیئے اللہ نے پیغمبر خوش خبری سنانے والے ڈرانے والے اور اُتاریں ان کے ساتھ سچی کتابیں وہ کتاب فیصلہ کرتی ہے لوگوں میں جس اے اللہ کی قسم ! بے شک ہم نے رسول بھیجے امتوں کی طرف تجھ سے پہلے پھر شیطان نے ان کے کرتوت اُن کو اچھے کر دکھائے تو شیطان ہی منکروں کا دلی دوست ہے آج سے یہ لوگ خوش ہوئے اس پر جو اُن کے پاس علم تھا.(ناشر) سے ہم میں کے ذلیل (سطحی رائے والے ) اور یہ ہماری رائے کھلی ہے.(ناشر) سے اللہ نے تمہارے لئے ایمان پسند فرمایا ہے اور اس کو عمدہ کر دکھایا ہے تمہارے دلوں میں.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بات میں وہ جھگڑا کریں.اور کتاب میں جھگڑا نہ ڈالا مگر انہیں لوگوں نے جن کو کتاب ملی تھی (اور وہ بھی) اس کے بعد کہ اُن کے پاس کس قدر کھلے کھلے نشان آچکے آپس کی ضد سے تو اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو اپنی طرف سے ہدایت دے دی اُس سچی بات کی جس میں ( کتاب والے ) جھگڑتے تھے اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ بتادیتا ہے.تفسیر.لوگوں کا دین ایک تھا.پھر بھیجے اللہ نے نبی خوشی اور ڈر سنانے والے اور اتاری ان کے ساتھ کتاب سچی کہ فیصل کرے لوگوں میں جس بات میں جھگڑا کریں.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۲۶۴ حاشیه ) كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً.نیک و بد تو دنیا میں ہوتے ہیں مگر ایک وقت لوگوں پر ایسا آتا ہے کہ ان میں سے غیرت ایمانی اُٹھ جاتی ہے اور وہ مذہبی بحثوں کو فساد جاننے لگتے ہیں.ایک منصف فخر کے طور پر کہتا ہے کہ میرا ایک دوست بڑا پیارا تھا تیس برس سے ملاقات چلی آتی ہے اور میں نے کبھی اس کے سامنے خدا کا نام نہیں لیا.اُمَّةً وَاحِدَةٌ کے میرے نزدیک یہی معنے ہیں کہ بے غیرت ہو کر ایک رنگ میں رنگین ہو جانا.ایسے وقت میں اللہ کے مامور آتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے.فَبَعَثَ اللهُ المین.نبیوں کو مبعوث کرتا ہے.بَغْيًا بَيْنَهُم - یعنی محض ضد کی وجہ سے نہیں مانتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ دن پہلے مسیلمہ کذاب نے پیغمبری کا دعوی کیا.ایک صحابی کا آشنا مسیلمہ کا مرید تھا.اس سے پوچھا گیا تم نے مسیلمہ کو کیوں مان لیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کیا نقص دیکھا تو وہ کہنے لگا أَكْذَبُ بَنِي يَمَامَةَ أَحَبُّ إِلَى مِنْ أَصْدَقِ قُرَيْش - قریشی خواہ کیسار است باز ہو آ خرقریشی ہے اس سے مجھے اپنی قوم کا اکذب اچھا.پس یہ وجہ ہوتی ہے اختلاف کی.میں کل بتلا چکا ہوں کہ جس حصہ میں انسان کا دخل نہیں اس میں شریعت نازل نہیں ہوتی اور جس میں دخل اور اختیار ہے اس میں شریعت ہے.قانونِ سرکاری اور شریعت میں یہ فرق ہے کہ قانون گورنمنٹ اس وقت گرفتار کر سکتا ہے
حقائق الفرقان ۵۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جب گناہ کا اثر کسی دوسرے پر عملی رنگ میں پڑے مگر شریعت گناہ کے مبدء کو پکڑتی ہے مثلاً بد نظری ہے.اب پولیس اسے نہیں پکڑتی لیکن شریعت نے یہ برکت کا کام دنیا میں کیا ہے کہ جو شخص شریعت پر عمل پیرا ہو وہ پولیس کے ہاتھ میں آتا ہی نہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۶، ۳۷) كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً.اس کی تفسیر سورۃ یونس (آیت ۲۰) وَمَا كَانَ النَّاسُ إِلَّا أُمَّةً لے وَاحِدَةً فَاخْتَلَفُوا میں ہے.گان حرف ہے.یہ مطلب نہیں کہ سب کا فر تھے یا سب مومن بلکہ یہ کہ انسان بحیثیت انسان ایک گروہ ہے جیسے کتے الگ گھوڑے الگ.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۲) كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً (البقرة: ۲۱۴) اس کا ترجمہ میری سمجھ میں یہی ہے کہ سب آدمی ایک جماعت ہیں جس طرح تمام دنیا کی اشیاء کی جماعت بندی ہے انسان بھی ایک جماعت ہے.اس میں مومن، کافر مسلمان، شریر سب ہی ہیں صلح جو بھی ہیں شرارت پیشہ بھی ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ فرمایا ہے قریش میں امام ہیں شریروں کے شریر اور خیار کے خیار.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا سمجھانے والا ، ابوجہل جیسا انکار کرنے والا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے تیرہ برس تک کیسے کیسے دلائل اور سلطان سنے مگر اس کے دل پر ذرا بھی اثر نہ ہوا.ایک دفعہ ایک نوجوان نے مجھ سے کہا کہ میں مصر جانا چاہتا ہوں تا کہ وہاں جا کر عربی سیکھوں اور پھر دین سیکھوں کیونکہ ہمارا دین عربی میں ہے اور بغیر عربی کے دین نہیں آسکتا.میں نے کہا تم ابو جہل سے بڑھ کر زبان دان نہیں بن سکتے.مصر جاؤ.روم میں جاؤ یا شام میں ابو جہل کو جیسی عربی زبان آتی تھی ویسی تم کو نہ آئے گی لیکن ابو جہل مسلمان نہ ہوا.یہ دنیا کے عجائبات ہیں سب لوگ ایک جماعت ہیں پھر باوجود یکتائی کے کس قدر تفاوت اور فرق ہے کوئی اس کو بیان نہیں کرسکتا.البدر جلد ۱۲ نمبر ۳۰،۲۹٬۲۸ مورخه ۳۰/جنوری ۱۹۱۳ء صفحه ۴،۳) ا سب لوگ ایک ہی رنگ میں رنگین تھے پھر الگ الگ ہوئے اختلاف کئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۲۴ سُورَةُ الْبَقَرَة ۲۱۵ - آم حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيب - b ترجمہ.کیا تم خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) چلے جاؤ گے جنت میں حالانکہ تم کو (ابھی ) پیش نہیں آئی وہ حالت جیسے تم سے پہلے والوں کو پیش آئیں تختیئیں اور تکلیفیں اور فقر و فاقہ اور جھڑ جھڑائے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول اور اُس کے ساتھ والے ایمان دار کب آئے گی اللہ کی مدد؟ سن رکھو! اللہ کی مدد قریب ہی ہے.تفسیر.اب اس آیت کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ آرام چاہتا ہے چنانچہ جہاں اس نے روح کے تقاضے بیان کئے ہیں وہاں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ وہ آرام کو چاہتی ہے.جس قدر معالجات ہیں.علوم ہیں.اموال خرچ کئے جاتے ہیں ان سب کا منشا یہی ہے کہ آرام حاصل ہو اور آرام کے لئے جامع لفظ ہے جنت.جنت کہتے ہیں باغ کو.باغ میں جانے سے غم غلط ہوتا ہے.نظارۂ قدرت دیکھا جاتا ہے.پھولوں سے دل کو راحت حاصل ہوتی ہے.احباب کی ملاقات کا لطف آتا ہے.پھر طرح طرح کے میوے کھائے جاتے ہیں.گویا باغ میں آنکھوں کا مزا، کانوں کا مزا، زبان کا مزا، ناک کا مزا سب کچھ شامل ہے.سائنسدان بھی اِس بات کو مانتے ہیں کہ باغ میں جو ہوا چلتی ہے وہ خاص طور پر راحت بخش ہوتی ہے.شدت گرمی میں جو آرام باغوں میں ہوتا ہے وہ بھی بے مثل ہے.الغرض انسان کی فطرت میں آرام کی خواہش ہے.اللہ تعالیٰ اسے تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ میں ظاہر فرما کر کہتا ہے کہ تم چین کے مقام میں جانا چاہتے ہومگر کیا بغیر کچھ کہئے کہتے؟ ہر گز نہیں.ہر شخص کو چین کے حصول کے لئے کچھ کام کرنا پڑے گا.جنت میں جانے کے کچھ اصول ہیں ان میں چند کل انبیاء واولیاء میں مشترک ہیں منجملہ ان کے ایک نفس کی بے انت خواہشوں کو روکنا.تین قسم کی خواہشیں ہیں.
حقائق الفرقان ۵۲۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ایک.مال کی خواہش ہے چنانچہ اس کے لئے انبیاء نے یہ قاعدہ بنا یالا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِل (البقرة: ۱۸۹) اس میں ملازم، پیشہ ور وغیرہ سب آگئے.دوم.کان، آنکھ، زبان حسن کے بہت مشتاق ہیں.حسین چیز کو دیکھنا ، اس کی خوشبو کو سونگھنا، اس کی آواز سننا، ان تمام باتوں کی خواہش کا نام شہوت ہے.شہوت آنکھ سے شروع ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے سورہ نور میں قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ ار کی لَهُم ( النور : ۳۱) اسی طرح مومنات کے لئے حکم ہے.سوم.غضب.اس کے متعلق بھی بڑی تعلیمیں ہیں.چنانچہ پارہ ۶ کے شروع میں فرماتا ہے.إِنْ تُبْدُ وَ خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا ( النساء: ۱۵۰) یعنی تم اپنے حال کو نہیں دیکھتے کہ خدا کے مقابلہ میں کیا کیا بغاوتیں کی ہیں پھر بھی اللہ تعالیٰ اس پر گرفت نہیں فرماتا.وہ قادر ہو کر عفو کرتا ہے پس تم بھی در گذر کیا کرو.خلاصہ یہ ہوا کہ انسان چین چاہتا ہے اور چین کے حصول کے لئے خواہش کرتا ہے.مال کی.شہوت کی غضب کی لیکن جو ان کو ناجائز طریق سے حاصل کرتا ہے یا ان کا بے جا استعمال کرتا ہے وہ پکڑا جاتا ہے.زانی کو دیکھو کہ وہ جب شہوت کو بے جا طور سے استعمال کرتا ہے تو اسی عضو پر آ تشک و سوزاک سے سزا کھاتا ہے جس سے خدا کے قانون کو توڑا.اسی طرح چور کا حال ہے کہ وہ مال کے لئے شریعت کی مخالفت کرتا ہے اس لئے کبھی کوئی چور دولتمند نہ دیکھو گے.ایک چور کسی عورت کا چوڑا اتار کر لے گیا.عورت نے دیکھ لیا مگر پکڑ نہ سکی.آخر کئی سالوں کے بعد چوراسی عورت کے دروازے سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اسے بدبخت میرے ہاتھوں میں تو پھر بھی چوڑا ہی موجود ہے تجھی پر خدا کی پھٹکار پڑی.اسی ا تم ایک دوسرے کے مال آپس میں ناحق نہ کھاؤ.کے ایماندار مردوں سے کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں اور اپنی فرجوں کی حفاظت کیا کریں یہ ان کے واسطے زیادہ پاک ہے.(ناشر) سے اگر تم نیکی کو ظاہر کرو یا چھپا کر کرو یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو بے شک اللہ بھی بڑا درگزر کرنے والا بڑی طاقت والا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۲۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة طرح غضب والے جو ارتکاب جرائم کرتے ہیں اس کی سزا پاتے ہیں.پس خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت جب ملے گی جب تم ا - بأساء- غریبی.یہ بھی پیدا ہوتی ہے مال کی کمی سے.۲.ضرآء.بیماری.ماتحت ہے.زُلْزِلُوا.دوسرے مقام پر حِينَ الْبَأْس (البقرۃ:۱۷۸) فرمایا ہے.یہ غضبی قوت کے ان تین امتحانوں میں پورے نہ نکلو گے تو جنت نصیب نہ ہو گی.اس پر صحابہ نے عرض کیا کہ حضور جب یہ حال ہے کہ مال کو جائز طریقوں سے حاصل کرنا ہے پھر کمسیر یٹ (فوجی اخراجات) کہاں سے آئے گی.فرمایا جو مال سے میسر ہو خرچ کرو اور صرف کمسیریٹ ہی نہیں بلکہ والدین کو بھی دو اور رشتہ داروں کو بھی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۷) ٢١٦ - يَسْتَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ، قُلْ مَا انْفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَ الأَقْرَبِينَ وَالْيَتْلَى وَالْمَسْكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ الله بِهِ عَلِيمٌ - ترجمہ.اے پیغمبر! تجھ سے پوچھتے ہیں کہاں خرچ کریں؟ تم کہہ دو کہ مال جو کچھ تم خرچ کرو تو وہ ماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور بے سامانوں اور مسافروں پر (خرچ کرو) اور تم جو کچھ مال خرچ کرو گے تو اللہ اس کو بخوبی جانتا ہے ( یعنی نیک بدلہ دے گا).تفسیر.مَاذَا يُنفِقُونَ.کہاں دیں.کتنا خرچ کریں.دونوں معنی ہیں.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۴۲)
حقائق الفرقان ۵۲۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۱۷ - كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَهُوَ كُرُهُ تَكُمْ وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خير b تَكُمْ وَعَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا 199191 تعلمون - ترجمہ.فرض کر دیا گیا تم پر ( دفاعی) جنگ و جہاد اور وہ تمہارے لئے مشکل کام ہے اور عجب نہیں کہ تم ایک ایسی چیز کو نا گوار سمجھو جو تمہارے لئے بہتر ہو اور ایسی چیز کو پسند کرو جو تمہارے حق میں بڑی ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو.( تو اللہ ہی کے کہنے پر چلو ).تفسیر - كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ - یہ بھی اس اُمت کے لئے مقدر تھا کہ دشمنوں کے ظلم کی وجہ سے ان سے لڑنا پڑے..كرة لكم تمہارے لئے ایک بڑی مشکل ہے.اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ تمہیں بری لگتی ہے.کسی رافضی کا ترجمہ ہو سکتا ہے، کم از کم میں ایک ایسا انسان ہوں جو صحابہ کے لئے یہ بات گوارا نہیں کرسکتا اور نہ اس مقدس جماعت کے منہ سے یہ لفظ نکل سکتا ہے.صحابہ کے لئے مشکلات البتہ تھیں، مال نہ تھا، جاہ وجلال نہ تھا ، جتھا نہ تھا اور دشمن کے لئے یہ سب کچھ حاصل تھا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مورخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۷) وَهُوَ كُره لكم - کے معنی برا جاننے کے نہیں بلکہ مشقت کے.حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرُهَا وَ وَضَعَتْهُ كرها (الاحقاف: ۱۲) تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۲) تُحِبُوا.مثلاً انسان کہتا ہے کہ مال جس حیلے سے ملے لے لوں.کسی حسین کو دیکھے تو چاہتا ہے جیسے بھی ہو میرے قبضے میں آ جائے مگر اس کے نتائج بہت خراب ہیں.وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ان ہدایتوں کے اصولوں سے بے خبر ہو.ہم سب کچھ جانتے ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۷) لے اُس کو پیٹ میں رکھا اس کی ماں نے تکلیف سے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۲۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۱۸ - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيْهِ قُلْ قِتَالُ فِيْهِ كَبِيرُ ۖ وَ صَدُّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ كُفْرًا بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ إِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللهِ وَ الْفِتْنَةُ اَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ وَ لَا يَزَالُونَ يُقَاتِلُونَكُمْ حَتَّى يَرُدُّوكُمْ عَنْ دِينِكُمْ إِنِ اسْتَطَاعُوا وَمَنْ يَرْتَدِدُ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتُ وَ هُوَ كَافِرُ فَأُولَبِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَ أُولَبِكَ أصحُبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ج ترجمہ.اور اے پیغمبر ! تجھ سے پوچھتے ہیں ادب کے مہینوں میں لڑنے کا حال تو کہہ دے ان مہینوں میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور اللہ کے راستہ سے روکنا یعنی حج سے اور اس کو نہ ماننا اور کعبہ شریف سے روکنا اور مکہ والوں کو مکہ سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بھی بڑھ کر گناہ ہے ( یعنی ادب کے مہینوں میں لڑنے سے ) اور شرارت تو قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ تم سے ہمیشہ لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ تم کو ہٹا لیں تمہارے دین سے اگر اُن سے ہو سکے اور بن پڑے اور تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے اور کفر ہی کی حالت میں مرجائے تو ان کا کیا کرایا دنیا اور آخرت (دونوں) میں اکارت گیا اور یہی لوگ ہیں جن کا انجام ایک آگ ہے جس کی جلن میں وہ مدتوں جلتے بھنتے رہیں گے.تفسیر.تجھ سے پوچھتے ہیں مہینے حرام کو اور اس میں لڑائی کرنی تو کہہ لڑائی اس میں بڑا گناہ ہے اور روکنا اللہ کی راہ سے.فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۹۸ حاشیہ ) عرب میں خانہ جنگیاں ہوتی رہتی تھیں.چھوٹی چھوٹی بات پر خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں.ایک فریق دوسرے کی مانتا نہ تھا اس واسطے ان میں طوائف الملوکی رہتی تھی.جہاں کوئی جو ہر ہوتا وہ جنگ گاہ بن جاتا.اس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ مویشی رکھتے تھے اور ہر ایک یہی چاہتا کہ میں ہی اپنے مویشی کو آرام پہنچاؤں اس لئے ان کے دارات مقاتلات بن جاتے تھے.غرض حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس قوم میں دو بڑے عیب تھے ایک.بت پرستی.دوم.باہم لڑائی.ان دونوں کی اصلاح آپ نے فرمائی.چنانچہ قرآن مجید
حقائق الفرقان ۵۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں ہے.كُنتُم اَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَاصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا (ال عمران:۱۰۴) یعنی تم دشمن تھے ایسے دشمن کہ ابن العم کا لفظ بھی گویا لڑائی کا نشان تھا حالانکہ یہ رشتہ اتحاد وقرب کے لئے ہے.دوسرا عیب شرک کا تھا.اس کا اس قدر زور تھا کہ مکہ معظمہ کے اندر ۳۶۰ بت تھے.اس شرک کے متعلق آپ کی تعلیم خصوصیت سے ایسی تھی کہ اس کی جڑیں کاٹ دے چنانچہ اوّل تو لا إلهَ إِلَّا اللہ تمام شرکوں کی جڑ کو کاٹتا ہے.اس کے معنے ہیں اللہ کے سوا کوئی ہمارا حاجت روا نہیں.ہم کسی کو سجدہ نہیں کرتے.اس کے سوا کوئی ہماری دعا کو نہیں سنتا.ہم کسی کی نذرکو نہیں مانتے.پھر صریح طور پر فرما یا إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَ يَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ (النساء:۴۹) آپ جب عورتوں سے بیعت لیتے تھے تو سب سے پہلے یہی وعدہ لیتے تھے اَنْ لَا يُشْرِكُنَ بِاللهِ شَيْئًا- (الممتحنة: ۱۳) غرض عرب میں دو عیب تھے دونوں کے دور کرنے کے لئے آپ نے بڑی بڑی کوششیں کیں اور ان کو شرک سے نکال کر توحید کی راہ دکھائی اور خانہ جنگیوں سے چھڑا کر بھائی بھائی بنادیا.قوموں میں وحدت کا بیج بونے کے لئے چار اصول بتلائے.ا.بدظنی کی ترک.کیونکہ یہی جڑ ہوتی ہے تمام لڑائیوں کی.بدظنی سے نکتہ چینی تک نوبت پہنچتی ہے اور پھر غیبتیں شروع ہو جاتی ہیں اس لئے ارشاد کیا.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الفن (الحجرات: ١٣) ۲.ٹھٹھا کی ترک.یہ بھی کئی قسم کی لڑائیوں کا موجب ہو جاتا ہے اس لئے فرمایا.ا تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُسی نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کی تو اس نعمت سے تم بھائی بھائی ہو گئے.۲.بے شک اللہ یہ قصور نہیں معاف کرتا کہ کسی کو اُس کے برابر سمجھا جائے، اُس کا شریک کیا جائے اور معاف کر دیتا ہے اس کے سوائے نیچے کے گناہ (سب قصور ).سے شرک نہ کریں گی اللہ کے ساتھ کسی کا.ہے اے ایماندارو! بچے رہو بہت بدگمانیوں سے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۳۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ (الحجرات:۱۲) ۳.اگر کوئی تمہیں تکلیف دے تو تم صبر سے کام لو.چنانچہ فرمایا إِنَّ اللهَ مَعَ الصُّبِرِينَ (البقرۃ: ۱۵۴) دنیا میں جتنی جنگیں ہوتی ہیں اگر ایک طرف صابر ہو تو نفع اٹھائے مگر افسوس کہ سطحی خیالات کے لوگ صبر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے حالانکہ دیکھتے ہیں اگر شہنشاہ کسی کی معیت کا دعوای کرے تو وہ شخص پھولا نہیں سماتا.پس جس کے ساتھ اللہ ا پنی معیت جتائے اُسے کتنا فخر حاصل کرنا چاہیے اور فرمایا ہے اِنَّمَا يُوَفَّى الصُّبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (الزمر: ۱۱) صابرین کے لئے نیک ثمرات کا وعدہ ہے اور وَ لَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الأمور (الشورى: (۴۴) میں بتلایا ہے کہ صبر کرنا بھاری کام ہے.۴.چوتھا اصل یہ فرمایا که اِنْ طَائِفَتَنِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَاَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا.(الحجرات: ١٠) غرض بدظنی سے روکا تمسخر سے روکا.صبر کے فوائد بتلائے اور یہ کہا کہ اگر آدمیوں میں نقار ہو تو تم صلح کرا دو.ان چار اصولوں کو بتا کر دنیا میں امن عامہ کی بنیا دڈالی.عرب کی جنگجو قوم میں صبر کا مادہ ضرور تھا چنانچہ اسی لئے وہ شہر حرام میں قتال نہ کرتے تھے.حتی کہ اپنے بیٹے یا بھائی یا باپ کے قاتل کو بھی نہ مارتے تھے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مادہ کو بڑھانے کی کوشش فرمائی اور ان میں وحدت کی روح پیدا کرنے کی تدبیریں کیں.ازاں جملہ ایک یہ تھی کہ اپنی پھوپھی کی لڑکی کا نکاح اپنے غلام سے کر دیا تا کہ غلاموں کو حقیر نہ سمجھا جائے.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس ارادہ میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ایک ایسی جماعت ل ٹھٹھا نہ کیا کرے ایک قوم دوسری قوم سے ممکن ہے کہ جن پر ہنستے ہیں وہ بہتر ہوں ہنسنے والوں سے.۲؎ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.سے اس کے سوا نہیں کہ صبر کرنے والوں کو پورا پورا دیا جائے گا ان کا اجر بے حساب.ہے اور البتہ جس نے صبر کیا اور عیب پوشی کی تو بے شک یہ بہت ہی بڑے ہمت کے کام ہیں.۵.اگر دو جماعت مسلمانوں کی باہم لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۳۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پیدا کر لی جو امنِ عامہ کی بہت طرف داری کرتی تھی.شریر لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ تو صبر کرتے ہیں اس لئے انہوں نے شہر حرام میں بھی ان کو چھیڑنا شروع کیا.اس پر صحابہ نے سوال کیا کہ ہمیں شہر حرام میں لڑائی کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے اور اس لڑائی کے تین نقصان ہیں.صَلَّ عَنْ سَبِيلِ الله (اللہ کی راہ میں آمد و رفت سے روکا جاتا ہے ) اور پھر اس کا کفر ہے اور عزت والی مسجد کا کفر ہے اور پھر خاص شہر والوں کا نکالنا تو اس سے بھی بڑا جرم ہے.وَ مَنْ يَرْتَدِدُ.دوسرے مقام پر فرمایا.مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ - (المائدة: ۵۵) پھر فرما یا حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ.وہ اسلام کے مقابلہ میں تیزی سے اُٹھیں گے مگر ان کی کوششیں اکارت جاویں گی.وہ دنیا میں ہلاک ہوں گے.میں اس آیت پر یقین کر کے کہتا ہوں کہ جولوگ امن عامہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ضرور نا کام ونامراد ہلاک ہوں گے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۸) اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَ جَهَدُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.ترجمہ.البتہ جو لوگ ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے یا گناہ سے باز آ گئے اور جہاد کئے یا نیک کوشش ( ہر قسم کی کئے ) تو یہی لوگ فضل الہی کے امید وار ہیں اور اللہ کمزوریوں کو بڑا ڈھانپنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.اس (آیت) میں ایک غلطی کی اصلاح ہے جو نہ صرف چھوٹوں میں پائی جاتی ہے بلکہ بڑوں میں بھی اور وہ یہ ہے کہ مستحق کرامت گنہ گاراں انند کا مصرعہ زبان پر رہتا ہے جس نے بہت لوگوں کو بیا کی کا سبق دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أُولبِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللَّهِ رحمت الہی کے مستحق تو وہ ا جو تم میں سے پھر جائے گا اپنے دین سے تو اللہ تعالیٰ لے آئے گا اور ایک ایسی قوم کو کہ وہ اللہ کو دوست رکھتی ہوگی اور اللہ ان کو دوست رکھتا ہوگا.( ناشر ) ترجمہ.( ہم ) گنہگا رہی مستحق کرامت ہیں.
حقائق الفرقان ۵۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لوگ ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں.اول ایمان باللہ یعنی یہ یقین ہو کہ تمام خوبیوں سے موصوف اور تمام نقصوں سے منزہ ذات اللہ کی ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ہو یعنی ان کی تحریک پر عمل کیا جاوے.پھر کتب اللہ پر ایمان ہو.نبیوں پر ایمان ہو.یومِ آخرت پر ایمان ہو.صرف عذاب القبر حق ہی نہ کہے بلکہ رحمت القبر حق بھی.تقدیر ( یعنی ہر چیز کے اندازے اللہ تعالیٰ نے بنارکھے ہیں) پر ایمان ہو.پھر اس ایمان کے مطابق عمل درآمد بھی ہو.عیسائیوں نے دھوکہ دیا ہے اور وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے یا ایمان سے یا عمل سے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ نجات فضل سے ہے کیونکہ قرآن شریف میں ہے اَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ (فاطر :۳۶) ہے مگر اس فضل کا جاذب ایمان ہے اور جیسا کسی کا ایمان مضبوط ہے اسی کے مطابق اس کے عمل ہوتے ہیں اسی واسطے یہاں امنوا کا ذکر فرما دیا.کیونکہ اعمال ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں چنانچہ اس ایمان کا ایک نشان ظاہر کیا ہے کہ تمام مقدمات کی بنا تو زمین ہے مگر جب انسان ایمان میں کامل ہو جاتا ہے تو پھر وہ خدا کے لئے اس زمین کو بھی چھوڑ دیتا ہے یعنی ہجرت کیونکہ کسی چیز کو اللہ کے لئے چھوڑ دینا بہت بڑا عمل صالحہ ہے.پھر فرمایا ایمان کا مقتضی اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ کیا جهَدُوا فِي سَبِیلِ اللہ یعنی اس کا دن اس کی رات.اس کا علم ، اس کا فہم ، اس کی محبت ، اس کی عداوت، اس کا سونا اور اس کا جاگنا، غرض کر دار، گفتار.رفتار سارے کے سارے اس کوشش میں ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.یادرکھو کہ خدا تعالیٰ قدوس ہے.اس کا مقترب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو.انسان بے شک کمزور ہے اس لئے وہ غلطیوں کو بخشنے والا ہے مگر اپنی طرف سے کوشش ضروری ہے.مومن میں استقلال و ہمت بہت ضروری ہے.یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اس وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا.حضرت نوح علیہ السلام کے جتھے کا کیا حال تھا ؟ مَا آمَنَ مَعَةَ إِلَّا قَلِيلُ (هود: ۴۱) جب آپ کو مقابلہ کی ضرورت پڑی تو ایک جملہ سے وہ کام لیا جو کل دنیا کی فوج نہیں کر سکتی یعنی لا تذر ا جس نے ہم کو اتارا سدا رہنے کے گھر میں اپنے فضل سے.(ناشر) ہے اور اس پر ایمان تھوڑے ہی لوگ لائے تھے.
حقائق الفرقان ۵۳۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ވ b عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَفِرِينَ دَيَارًا (نوح : ۲۷) حضرت موسی" کیسی حالت میں تھے؟ فرعون نے کہا هُوَ مَهِيْنَّ وَلَا يَكَادُ يُبِينُ (الزخرف:۵۳) ان کی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروالیا.وَاشْدُدْ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُوا حَتَّى يَرَوُا الْعَذَابَ الْأَلِيمَ " (يونس: ٨٩) نبیوں کو خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پرواہ ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.میں تمہیں دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں.تم یوں سمجھو کہ دعاؤں کے لئے پیدا کئے گئے اور یہی دعائیں تمہارے سب کام سنواریں گی.البدر جلد ۹ نمبر ا مؤرخہ ۴/نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ اوّل) ۲۲۰ - يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَيْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا اثْهُ كَبِيرُ وَ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاثْبُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا وَيَسْتَلُونَكَ مَا ذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْأَيْتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ - ترجمہ.(اے پیغمبر!) تجھ سے پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کی بابت ، تو کہہ دے اِن دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے ( کچھ تھوڑے سے ) فائدے، اور ان دونوں کا گناہ بہت بڑھ کر ہے اُن کے نفع سے.اور تجھ سے پوچھتے ہیں کس قدر خرچ کریں؟ جواب دے ضرورت سے جس قدر زائد ہو یا جس کے خرچ کرنے سے مال میں نقصان زیادہ نہ معلوم ہو اسی طرح کھول کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تم سے احکام تاکہ تم فکر کرو.تفسیر.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْخَيْرِ وَالْمَيْسِرِ - لڑائی میں سپاہی کو شراب پلا دیتے ہیں تا کہ اس کے مزاج میں رحم وغیرہ نہ رہے اور وہ اندھا دھند تلوار چلاتا جائے اس لئے صحابہ نے شراب کے متعلق سوال کیا.پھر لڑائی کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.عرب میں ایسے موقع پر یہ دستور تھا کہ بڑے بڑے امیر لوگ جو کھیلتے.جو ہارتا اس کے ذمہ قحط اور ضرورتوں کا خرچ ہوتا.عرب کے بعض شعروں لے نہ چھوڑ خاص زمین پر کافروں کا کوئی گھر بسنے والا.سے جو ایک ذلیل آدمی ہے ( یعنی موسیٰ ) یہ تو بات بھی صاف نہیں کر سکتا.سے اور سخت کر دے اُن کے دل کہ وہ تجھ پر ایمان ہی نہ لائیں جب تک نہ دیکھ لیں ٹیں دینے والا عذاب.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۳۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سے پایا جاتا ہے کہ وہ ہارنے کو بہت پسند کرتے تھے اور اپنی ہار کو فخر سے بیان کرتے تھے.اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ ایسے لوگوں کے ذمہ تمام اخراجات ہو جاتے اور قحط میں سارے غریبوں کا نان ونفقہ اسی کو دینا پڑتا.چونکہ اس میں ایک نیکی کا موقع ملتا تھا اس لئے وہ تفاخر کرتے تھے.اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں بڑی بدکاری ہے.بے شک غرباء کو نفع پہنچتا ہے نَفْعِهِمَا کے یہی معنے ہیں مگر اس بدکاری کا جو نتیجہ ہے وہ سخت گندہ ہے.اس کے مقابل میں اس نفع رسانی کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ جب ان کے ذمہ یہ اخراجات پڑتے اور پاس ایک کوڑی بھی نہ ہوتی تو نا چاران کو آرمینیا اور کا کس تک ڈاکہ زنی کرنی پڑتی.جب صحابہ نے خمر و میسر کے متعلق حکم سنا تو معا ان کے دلوں میں خیال پیدا ہوا مَا ذَا يُنْفِقُونَ پھر خرچ کہاں سے آوے.فرمایا.العَفُو جو تمہاری حاجتِ اصلی سے زیادہ ہو.مٹھی بھر جو جمع کرو خدا تعالیٰ اسی میں برکت ڈال دے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۱/۲۲ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۸) اس آیت شریف سے ثابت ہوا شراب میں اثم ہے اور بڑا اثم ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۷۴) يَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ (البقرة :۲۲۰) صدقات کیسے مال سے دیں.کس قدر صدقہ نہایت ضرور ہے.اس کے قواعد جیسے اسلام میں مفصل موجود ہیں مجھے معلوم نہیں کہیں اور جگہ بھی ہوں.مسیح فرماتے ہیں جو کوئی تجھ سے مانگے اُسے دے.کہاں سے دے.چوری حرام کاری سے بھی.بُری چیز مانگے.محال بھی مانگے کیا تب بھی ہم دیں.مگر قرآن فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُم بِأَخِذِيهِ (البقرة: ۲۶۸) فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۳۶) لے اور پوچھتے ہیں تجھ سے کیا خرچ کریں تو کہہ جو افزود ہو ( حاجت سے).(ناشر) ۲.اے ایمان والو خرچ کر وستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اور جو ہم نے نکال دیا تم کو زمین میں سے اور نیت نہ رکھو گندی چیز پر کہ خرچ کرو اور تم آپ نہ لو.۱۲
حقائق الفرقان ۵۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة عفو یعنی جو حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو حلال اور طبیب مال دے.روی چیز نہ ہو.ابتغاء لِوَجْهِ اللهِ دے.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۱.جنوری ۱۹۱۳ ء صفحہ ۳۲) مَاذَا يُنْفِقُونَ.کہاں دیں.کتنا خرچ کریں.دونوں معنی ہیں.عَنِ الْخَيْرِ وَالْمَير - آیات میں ربط قائم ہے.جنگ میں شراب اور جو ا آج تک ہوتا ہے فوجوں میں جوش اور خرچ اسی ذریعہ سے مہیا کرتے ہیں.صحابہ نے اس بارے میں دریافت کیا.مَا ذَا يُنْفِقُونَ جو ا منع ہے تو اب راشن وغیرہ کہاں سے لائیں گے.اس سے آگے بھی سب سوال جنگ کے نتائج پر مبنی ہیں.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۲) b b ۲۲۱ - في الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْيَتَى قُلْ إِصْلَاحَ لَهُمْ خَيْرُ وَ اِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَلَوْ شَاءَ اللهُ لاَعْنَتَكُمْ ، إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمُ.ترجمہ.دنیا اور آخرت کے معاملہ میں اور تجھ سے پوچھتے ہیں یتیموں کے بارے میں تو جواب دے ان کی بہتری کے کام کرنا بہتر ہے، اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بہن ہیں اور اللہ جانتا ہے بگاڑنے والے اور سدھارنے والے کو.اور اگر اللہ چاہتا تو م کو مشکل میں ڈال دیتا.بے شک اللہ ز بر دست حکمت والا ہے.يَسْتَلُونَكَ عَنِ الیتی.جب لڑائی چھڑتی ہے تو اس میں مقتول بھی ہوتے ہیں اور مقتول کے بچے یتیم بھی ہوتے تھے اس لئے ان کی نسبت حکم دیا اصلاح لَّهُم خَیر ان کی بہتری ، بہبودی کا فکر بہت بڑی نیکی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۶ مؤرخه ۲۲ را پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۸) وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِح - امام محمد کے پاس کسی یتیم کے کپڑے تھے آپ نے انہیں بیچ ڈالا.کسی نے کہا یتیم کے مال میں کیوں تصرف کرتے ہو؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور اسے سمجھایا کہ کپڑے تو پرانے ہو کر ان کی قیمت گھٹتی جاتی تھی اس لئے ان کو بیچ دیا تامال محفوظ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۹) رہے.
حقائق الفرقان ۵۳۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۲۲ - وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِتِ حَتَّى يُؤْمِنَ ۖ وَلَامَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَ لَعَبدُ ط مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَ لَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولَبِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللهُ يَدْعُوا إِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ التِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يتذكرون - ترجمہ.اور (اے مسلمانو!) مشرک عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک ایمان نہ لائیں.بے شک مسلمان باندی اچھی ہے شرک کرنے والی عورت سے اگر چہ وہ مشرکہ تم کو بہت ہی بھلی معلوم ہو اور (اے مسلمان عورتو!) تم مشرکوں سے نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور البتہ مسلمان غلام بہتر ہے مشرک سے اگر چہ وہ مشرک تم کو کتنا ہی بھلا معلوم ہو.یہ مشرک تو جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور مغفرت کی طرف بلاتا ہے اپنی مہربانی سے خود ہی اور اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتا ہے لوگوں سے تا کہ وہ یاد کریں اور نصیحت لیں.تفسیر.وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِتِ حَتَّى يُؤْمِنَ.لڑائی میں کفار کی عورتیں قیدی بن کر آتی تھیں اس لئے صحابہ نے ان کے نکاح کا مسئلہ پوچھا کیونکہ وہ ان کی رشتہ دار تھیں.آپ نے حکم دیا کہ مشترکہ سے نکاح جائز نہیں.اس میں بہت بڑی حکمتیں تھیں.ایک تو یہ کہ عورتوں میں شرک بہت ہوتا ہے.اگر مشرکہ عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں آجائیں تو ان کی اولاد پر برا اثر پڑتا ہے.میں نے ایک عورت کو ایسے شرک میں مبتلا دیکھا جس کو میر او اہمہ تجویز نہیں کر سکتا.وہ یہ کہ ایک عورت ہر صبح پاخانہ کو سجدہ کرتی اور کہتی کہ ہے قدمچہ مائی ! مجھے بیٹا ملے تو میں اپنا بیٹا تجھی پر ہگایا کروں گی.وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِکِینَ.یعنی اپنی لڑکیوں کی شادیاں مشرکوں کومت کر دو.اسی بنا پر ہمارے امام نے حکم دیا کہ غیر احمدیوں کو اپنی لڑکیاں نہ دو کیونکہ ان میں بھی شرک ہے اور اس طرح میل جول سے شرک بڑھ جائے گا.شرک میں نے بلا تحقیق نہیں کہا.مسیح کے مسئلہ ہی میں جو خوفناک گمراہی ان میں ہے وہ کم نہیں.وہ کونسی اللہ کی صفت ہے جو اس کی طرف منسوب نہیں کرتے.خَالِقِ كَخَلْقِ اللہ اسے
حقائق الفرقان ۵۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مانتے ہیں.احیاء موتی اس کی طرف منسوب کرتے ہیں.عالم الغیب اسے جانتے ہیں.حرام وحلال کا اختیار اسے دے رکھا ہے.پھر ختم نبوت کے بھی وہ قائل نہیں.پس ایسے مشرک لوگوں سے ہمیں تعلق ازدواج قائم کرنے میں سراسر نقصان ہے اس لئے امام نے منع فرمایا.جن احمدیوں نے حضرت امام کی اس نصیحت پر عمل نہیں کیا سکھ انہوں نے بھی نہیں پایا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ، صفحه ۳۹) ج ۲۲۳ - وَ يَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ اَمَرَكُمُ اللهُ - إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ - ترجمہ.اور اے پیغمبر ! تجھ سے پوچھتے ہیں حیض کے بارہ میں تو جواب دے وہ گندگی ہے تو حیض کے دنوں میں تم عورتوں سے الگ رہو یعنی ( صحبت نہ کرو) اور عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ خوب پاک نہ ہوں پھر جب اچھی طرح پاک ہو جائیں تو ان کے پاس آؤ جس طرح اللہ نے تم کو حکم دیا بے شک اللہ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور صفائی رکھنے والوں کو پسند فرماتا ہے.وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ.عرب کا دستور تھا کہ وہ جنگ میں اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے.اس رسم کا فائدہ یہ تھا کہ وہ بڑے جوش سے جنگ کرتے تھے اور جان تو ڑ کر لڑتے تھے کیونکہ ان کو خیال ہوتا کہ اگر ہم نے پیٹھ پھیری اور بزدلی دکھائی تو ہماری عورتوں کی عصمت محفوظ نہیں رہے گی اور سب بال بچہ دشمنوں کے قبضہ میں آ جائے گا اس واسطے جنگ کا نام بھی انہوں نے حفیظہ رکھا تھا کیونکہ جنگ ان کے ننگ و ناموس کی حفاظت کا موجب تھی.اب جنگوں میں جب عورتیں ان کے ساتھ تھیں تو بعض وقت ان کو حیض بھی آ جاتا.اس حالت میں انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ کیا حکم ہے؟ اسلام میں حیض کے متعلق عورتوں کو کئی حکم ہیں.مثلاً یہ کہ وہ روزہ نہ رکھے ( کیونکہ پہلے ہی سے بہت ضعیف ہوتی ہے اس طرح بیماری بڑھتی ہے ).نماز نہ پڑھے.وضو نہ کرے کیونکہ ٹھنڈے پانی سے استنجا سخت نقصان پہنچاتا ہے.
حقائق الفرقان ۵۳۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَةُ الْمُؤْمِنِ حَيْثُ وَجَدَهَا أَخَذَهَا ( الترمذى.كتاب العلم باب ما جافى فضل الفقه على العبادة) کے ماتحت میں ہندو مذہب کے اس طریق کو بہت اچھا سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی عورتوں کو آٹا تک نہیں گوندھنے دیتے تا کہ پانی نقصان نہ پہنچائے.گو وہ اس احتیاط میں حد سے بڑھ گئے ہیں.ہماری پاک شریعت چونکہ انسان کے جان و مال کی محافظ ہے اس واسطے اللہ نے خاص عبادتیں معاف کر دی ہیں اور ادھر مردوں کو روک دیا.ھو آدمی.بد بودار چیز ہے.اس حالت میں انسان جماع کرے تو دکھ کا موجب ہے.اس سے معلوم ہوا کہ خلاف وضع فطرت بھی حرام ہے.ایک پاک فطرت کا انسان حضرت علی فرماتا ہے اگر قرآن میں اس کا ذکر نہ ہوتا تو میر او ہمہ تجویز ہی نہیں کر سکتا کہ یہ بد کاری بھی ہے.وَلا تَقْرَبُوهُنَّ.بالکل نزدیک نہ جاؤ.اس سے لواطت کی حرمت بھی ظاہر ہے.يَطْهُرْنَ.پاک ہو جاویں.ہمارے ملک کی عورتیں بہت ناواقف ہیں خوشبو وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں.يُحِبُّ الْمُتَطَرِینَ.اس کے معنے اللہ نے سورۃ النمل آیت ۵۷ میں بتائے ہیں اخْرِجُوا ال ج کو لوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ إِنَّهُمُ أَنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ و یا جوشخص لواطت سے اجتناب کرے اسے متطہر ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۹) کہتے ہیں.إنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ (البقرة: ۲۲۳) اللہ دوست رکھتا ہے تو بہ کرنے والوں کو اور دوست رکھتا ہے پاک صاف ہونے والوں کو.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶) ا حکمت کی بات مومن کی گمشدہ (متاع) ہے وہ اسے جہاں بھی ملے لے لیتا ہے.(ناشر) سے نکالولوط کے گھر والوں کو تمہاری بستی سے کیونکہ یہ لوگ تو بڑے صاف د پاک رہنے والے ہیں.سے بے شک اللہ تو بہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور صفائی رکھنے والوں کو پسند فرماتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۳۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ص ۲۲۴ - نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ تَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِنْتُم وَقَدِمُوا ط لاَنْفُسِكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلْقُوهُ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ - ترجمہ.تمہاری بیبیاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو تم اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ اور آخرت کا بھی بندو بست رکھو ( اولا د صالح چھوڑ و ) اور اللہ ہی کا خوف رکھو اور جانو کہ بے شک تم کو اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور ( یہ ) خوش خبری ایمان داروں کو سنا دے.تفسیر.عورتوں کو کھیت کہنے کی غرض کیا ہے؟ اول.یہ کہ عورت سے خلاف وضع فطرت عمل نہ کیا جاوے.دوم.اس سے بکثرت جماع نہ کیا جاوے.سوم.اس کی اور اس کے حمل کی ہمیشہ حفاظت ہو.چہارم.جن کے بچہ گر جاتے یا مر جاتے وہ اس تشبیہ سے یہ فائدہ اُٹھائیں کہ ایک سال صحبت ترک کر دیں جس طرح زمین اس ترک سے مضبوط ہو جاتی ہے اسی طرح وہ عورت قابل حمل رکھنے کے ہو جائے گی.پنجم.اپنے کھیت میں دوسرے کا بیج پڑنے نہ دے اس لئے کہ اس سے فساد ہوگا.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۹۳، ۲۹۴) ۲۲۵ - وَلَا تَجْعَلُوا اللهَ عُرُضَةً لِاَيْمَانِكُمْ أَنْ تَبَرُّوا وَ تَتَّقُوا وَتُصْلِحُوا بَيْنَ النَّاسِ وَاللهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.ترجمہ.اور نہ بنالو اللہ کو مانع اپنی قسموں کے باعث کہ نہ سلوک کرو نہ پر ہیز گار بنو نہ ملاپ کراؤ - آدمیوں میں اور اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.عُرضَةٌ - اللہ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ.مثلاً خدا کی قسم کھا کر یہ کہ دیا میں فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا.فلاں کے گھر نہ جاؤں گا.وغیرہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۲۹ ا پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۳۹) عُرُضَةً - حاجز تشخحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۲)
حقائق الفرقان ۵۴۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۲۶ - لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُ كُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمُ ، وَاللهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ - ترجمہ.تمہیں اللہ پکڑتا نہیں تمہاری لغو اور بلا ارادہ قسموں میں ولیکن پکڑتا ہے تم کو ان قسموں پر جن کا ارادہ تمہارے دلوں نے کر لیا اور اللہ بڑا ڈھانپنے والا بردبار ہے.تفسیر باللغو في ايْمَانِكُمْ.مختلف مذاہب کی رو سے پانچ طرح کی قسمیں ناجائز ہیں.ا.غضب کے وقت.۲.عادت کے طور پر واللہ بالہ.بخدا کہنا.۳.اپنی جگہ تحقیق سے کہتا ہے مگر دراصل وہ بات غلط ہے.۴.قسم کھا کر بھول جائے اور ارتکاب اس فعل کا کر لے جس کے نہ کرنے کی قسم کھا چکا ہو.۵.حلال چیز کو کہہ دے کہ یہ میرے لئے حرام ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۳۹) ۲۲۷ - لِلَّذِينَ يُؤْلُونَ مِنْ نِسَابِهِمْ تَرَبُّصُ ارْبَعَةِ أَشْهُرٍ ۚ فَإِنْ فَاءُو فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيم.ترجمہ.اُن لوگوں کے لئے جو قسم کھا لیں اپنی عورتوں سے الگ رہنے کی چار مہینے کی مہلت ہے پھر اگر وہ رجوع کرلیں تو اللہ ڈھانپنے والا سچی کوشش کا بدلہ دینے والا ہے.تفسیر.یولون - ایلاء کرتے ہیں.اپنی بی بی کے پاس نہ جانے کی قسم کھانا.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۳۹) ۲۲۸ - وَإِن عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.ترجمہ.اور اگر انہوں نے ٹھان لی طلاق کی تو بے شک اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.وَ إِنْ عَزَمُوا الطلاق.یہاں میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسلام میں کئی مسئلے موجود ہیں تا کہ انسان کی جان و مال و عزت کا نقصان نہ ہو.کوئی کسی کو دکھ نہ پہنچائے مگر خود مسلمانوں ہی نے ایک مسئلہ کو تمام دکھوں کی جڑ بنا دیا ہے حالانکہ نکاح آرام و دوستی و رحمت کے لئے تھا چنانچہ فرمایا ے تا کہ تم آرام پاؤ ان کے ساتھ.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۴۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا (الروم:۲۲) مگر بعض ایسے لوگ ہیں کہ نکاح کر کے نہ تو بساتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.طلاق کی اجازت پر اگر یہ عمل کرتے تو عورتوں پر یہ ظلم وستم نہ ہوتا.میں نے دنیا بھر میں مکہ ایک ایسا شہر دیکھا جہاں عورت کو ذرا بھی تکلیف ہو تو وہ قاضی کی عدالت میں چلی جاتی ہے.اسی وقت شوہر کو بلایا جاتا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ یا تو ابھی طلاق دو یا آئندہ نیک سلوک کی ضمانت دو.دیکھو میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ عورتیں بہت ہی کمزور ہیں.تم ان مظلوموں پر رحم کرو.ان سے نیکی کے ساتھ معاشرت کرو.لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ " (البقرة: ۲۲۹) کو یا درکھو.اگر نشوز کا خوف ہو کوئی لڑائی ہوتو ایک اپنے قبیلے سے ایک اس کے قبیلے سے حکم مقرر کر کے جلد فیصلہ کر دو.حتی الوسع عفو و درگذر، چشم پوشی سے کام لو.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے اِستَوْصُوا بِالنِّسَاء خَيْرًا.اسے مت بھولو.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۰،۳۹) ۲۲۹ - وَالْمُطَلَّقْتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلَثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ اَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللهُ فِى اَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَ يُؤْمِنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَ بُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَيْهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۖ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةُ ، وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ - ترجمہ.اور طلاق پائی ہوئی عورتیں اپنے کو روکے رکھیں تین حیض یا تین طہر ( کے اندر نکاح نہ کریں) اور انہیں جائز نہیں کہ چھپارکھیں اس کو جو پیدا کیا اللہ نے ان کے پیٹوں میں اگر وہ اللہ پر ایمان رکھتی ہیں اور پچھلے دن پر اور اُن کے خاوند زیادہ حق دار ہیں اُن کو لوٹا لینے کے اس مدت میں اگر چاہیں اچھی طرح رکھنا.اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا مردوں کا اُن پر حق ہے دستور کے مطابق اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے.( تو عورتیں مردوں کو حقارت سے نہ دیکھیں ) اور اللہ زبردست حکمت والا ہے.لے تا کہ تم آرام پاؤ ان کے ساتھ.ہے اور عورتوں کا بھی حق ہے جیسا مردوں کا اُن پر حق ہے.سے میری مانو عورتوں کے ساتھ بھلائی اور نرمی کا سلوک کیا کرو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۴۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تفسیر - ثلثة قروء.یہ عدت کی مدت ہے.قرء کہتے ہیں حیض کو اور طہر کو بھی.اللہ تعالیٰ قُرُوءٍ اپنی خاص حکمت سے ایسے ذو عمل الفاظ قرآن مجید میں لاتا ہے تا کہ جنہیں قرآن کا عشق ہے ان کے لئے تدبر کا میدان وسیع ہو.ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں جو کہتے ہیں میں نے بخاری رسول علیہ السلام سے سبقا سبقا پڑھی ہے.جب قرء کی بحث آئی تو میں نے عرض کیا یہ حیض ہے؟ یا رسول اللہ ! تو فرما یا اِذَا فَرَغَتُ مِن قَرء مکر رسہ کر ر عرض کیا پھر بھی آپ نے یہی قرء کا لفظ فرمایا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۰) قروء.اس کے معنوں میں اختلاف ہے طہر یا حیض.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۲) اسلام نے عورت کو صاف اجازت دی ہے وہ بھی واقعات ضروری کے پیش آنے پر مرد سے طلاق لے سکتی ہے.اسے اسلام کی اصطلاح میں خلع کہتے ہیں.بایں ہمہ خدا تعالیٰ کی کتاب فرماتی ہے وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرة : ۲۲۹) اور عورتوں کے حقوق کی رعایت مردوں کے ذمہ ویسی ہے جیسی کہ عورتوں پر مردوں کے حقوق کی.ہم نے تمام دنیا کے قوانین اور آسمانی کتابوں میں وہ آزادی اور حقوق عورتوں کے نہیں دیکھے جو قرآن کریم میں بیان کئے ہیں.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۹۶) نکاح کے فوائد دو قسم کے ہوتے ہیں اول شخصی منافع.دوم نوعی مقاصد شخصی منافع میں مثلاً ا.حفظ صحت بعض بیماریوں میں.۲.آرام یار و غمگسار کے ساتھ ہونے کا.۳.قوائے شہوانی کے اقتضاء کا طرفین سے ہلا مزاحمت پورا ہونا.۴.ان قوائے انسانیہ کا نشوونما جن کے باعث انسان دوسرے سے تعلق پیدا کرتا یا کسی کالحاظ کرتا ہے.۵.حلم ومروت و برد باری کا اسی مدرسہ میں سبق حاصل ہوتا ہے.امورِ خانہ داری کی اصلاح.حفظ ننگ و ناموس و حفظ مال و اسباب.نوعی مقاصد مثلاً حفظ نوع ، تربیت اولاد.کیونکہ بے تحقیق نطفوں کی علی العموم خبر گیری نہیں ہو ا کرتی.روسی شاہی خانہ زاد اوّل تو خصوصیت سلطنت کے باعث مستثنیٰ ہیں پھر سوائے
حقائق الفرقان ۵۴۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جنگی کا موں کی کیا تربیت پاتے ہیں.اس لئے شادی کا حکم اول تو جسمی طاقت اور مالی وسعت پر صادر ہوا ہے.قرآن کریم میں آیا ہے وَ لْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتَّى يُغْنِيَهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ( النور : ۳۴) ار فرمایا وَ مِنْ آلِته أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم:۲۲) اور فرمایا.نِسَاؤُكُمْ حرث لكم - (البقرة: ۲۲۴) پس عورت طلاق لے سکتی ہے.اگر مرد اس کی نفسانی ضرورتوں کو پورا نہ کر سکے.۲.قابلِ ولادت نہ ہو.۳.معاشرت کے نقائص رکھتا ہو.۴.نان ونفقہ نہ دے سکے.اسی واسطے قرآن کریم میں ہے وَ لَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرارًا.اور ان احکام کی عام تعمیل پر فرمایا.وَلَا تُضَارُوهُنَّ وَلَا تَتَّخِذُوا أَيْتِ اللهِ هُزُوا اسی طرح مرد طلاق دے سکتا ہے.اگر عورت تقویٰ کے متعلق نفسانی اغراض پوری نہ کر سکے.قابلِ ولادت نہ ہو.معاشرت کے نقائص رکھتی ہو.نکاح کے منافع شخصیہ اور نوعیہ کی خلاف ورزی کرتی ہو.بدچلنی کے باعث فساد و مزاحمت کا باعث ہو.پھر کبھی طلاق فوری ہو سکتی ہے جیسے لعان.واقعی ہم بستری سے پہلے وعدہ میں اور کبھی تدریجی ہوتی ہے جیسے فہمائش.شروط طلاق اور منصفوں کے فیصلہ کے بعد.تعداد ازواج پر منع، تعدد ازواج کے نقصانات نمبر 1.عورتوں کے قتل کے واقعات ہوں گے.جب پہلی بی بی نا پسند ہو اور کوئی دوسری پسند آ جاوے تو ان بلا دو اقوام میں جن میں دوسری بی بی کرنا منوع ہے اور بائیں قوم بہادر ہے پہلی کو ماردیں سے.لے اور چاہیے کہ وہ لوگ پاک دامن بنے رہیں جن کو نکاح کا مقدور نہیں یہاں تک کہ اللہ ان کوغنی بنادے اپنے فضل ۲؎ اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے پیدا کر دیا تمہارے لئے تمہارے ہی میں سے بیبیوں کو تا کہ تم آرام پاؤ ان کے ساتھ اور تمہارے میں پیار رکھ دیا اور مہربانی سے تمہاری بیبیاں تمہاری کھیتیاں ہیں.(ناشر) ۴ اور اُن کو تکلیف دینے کو نہ رکھنا.(ناشر) ۵.اور ان کو ایذا نہ دو.(ناشر) ، اور اللہ کے احکام اور نشان کے ٹھٹھے نہ اڑاؤ.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۴۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة گے.نمبر ۲.خود کشی ہو گی.جیسے آسٹریا کے ولی عہد کو یہ مصیبت پیش آئی جب پسندیدہ بی بی بیا ہے کی اجازت قانون اور قوم نے نہ دی.نمبر ۳.یا بے غیرتی ہوگی جیسے بعض انڈین کے لئے پیش افتاد امر ہے کہ مردد یکھتا ہے اور بول نہیں سکتا.نمبر ۴.زنا کاری کی کثرت ہوگی جبکہ پہلی پسند نہیں اور دوسری کا مجاز نہیں اور قوای بہت مضبوط رکھتا ہے.نمبر ۵.یا آخر نیوگ کا فتوی ہو گا جیسا آریہ میں ہوا.نمبر 4 قطع نسل بعض حالتوں میں ضرور پیش آئے گا.نمبر ۷.دختر کشی کی رسم اسی سے پیدا ہوئی ہے کہ نہ لڑکیاں رہیں اور نہ مصائب پیش آئیں.نکتہ.۱.عورتوں مردوں میں ایک قدرتی فرق ہے عورت جبر سے بھی اپنا کام.سکتی ہے بخلاف مرد کے.اس واسطے علی العموم عدالتوں میں زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتیں ہی مدعی ہیں.نہ جوان مرد.۲.عورت کے بہت مرد ہوں تو اس کی صحت قطعا نہ رہے گی.کنچنیوں کے حالات سے یہ تجربہ ہو سکتا ہے.۳.اس کے نطفہ بے تحقیق کی پرورش مشکل ہوگی کون ذمہ دار ہو گا.۴.ایک وقت میں اگر کئی طالب اس کے پیش ہو گئے تو مزاحمت اور جنگ ہوگا بشرطیکہ قوم با ہمت ہو.۵.قدرتی طور پر ایک عورت ایک برس میں ایک مرد کے نطفہ سے زیادہ چند مردوں کے نطفوں کے بچے پیٹ میں نہیں رکھ سکتی اور ایک مرد چند عورتوں میں اپنے بچہ وہ نطفہ رکھ سکتا ہے.یہ قدرتی اجازت تعداد ازواج کی معلوم ہوتی ہے.۶.قرار حمل میں مشکلات ہوں گے.وضع حمل کی ضرورتیں پیش آجائیں گی اور حمل کے بعد مرد کو دیا نند جماع کی اجازت نہیں دیتے.اگر کثرت ازواج نہ ہو تو قوی مردوں کی جماعت میں ان کا فتوی کون سنے گا.گو مجھے تو اب بھی یقین ہے کہ بیا ہے آریہ لوگ جن کی ایک بی بی ہے اور تندرست ہیں اس دیا نندی فتوی پر عمل درآمد کم کرتے ہوں گے.ہاں البتہ حیوانات میں خود ئر حیوان اور ان کی مادہ حمل کے بعد ضرور متنفر ہو جاتے ہیں مگر انسانوں میں یہ نیچر..قابل غور ہے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۶۲ تا ۶۴)
حقائق الفرقان ۵۴۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة b ص ۲۳۰ - الطَّلَاقُ مَرَّتَنِ فَامُسَاكَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحُ بِاِحْسَانِ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا اتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا اَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللهِ فَإِنْ خِفْتُمُ اَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۚ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - ط ترجمہ.طلاق دو ہی دفعہ ہے پھر یا تو ( عورت کو روک رکھنا دستور کے موافق یا (اس کو) رخصت کرنا ہے نیک سلوک کر کے اور تم کو نا جائز ہے اُس مال میں سے کچھ بھی واپس لینا جو تم عورتوں کو دے چکے ہو مگر یہ کہ جو رو خاوند ڈریں کہ اللہ نے جو حدیں باندھی ہیں ان پر قائم نہ رہ سکیں گے پس اگر ایماندار ڈریں کہ حدود اللہ کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ایسی صورت میں عورت اپنا پیچھا چھڑانے کو کچھ بدلہ دے دے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں یہ اللہ کی حد بندیاں ہیں اُن سے آگے مت بڑھوا اور جو اللہ کی حدوں سے آگے بڑھ جائے تو یہی لوگ بے جا کام کرنے والے ہیں.تفسیر.طلاق ایک اسلامی حکم ہے جو شریعت نے ضرور ٹا جائز رکھا ہے کیونکہ بعض وقت جو حقیقی تعلق میاں بی بی کا ہے وہ قائم نہیں رہ سکتا اسی لئے اس کو قطع کرنا پڑتا ہے وہ حقیقی تعلق آیت لتسکنوا إليها (الروم: ۲۲) میں مذکور ہے کہ تسکین ہوتی ہے.۲.مَوَذَةً دوستانہ بڑھانے کا ذریعہ ہے.وَرَحْمَةً ۴.خانہ داری کا انتظام.عورت ایک بہت نازک صنف ہے اور ہر طرح مدد کی محتاج ہے.وہ تعلیم میں مرد کی برابری نہیں کر سکتی کیونکہ حمل اور بچہ کی پرورش اور منتقلی کورس کی کمزوری اس کے لاحق حال ہے.اس کے اعضا میں ایک قسم کی نزاکت ہوتی ہے اور پھر بوجہ پردہ عام طور سے اسے تجارب کا موقعہ نہیں ملتا.پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھ کو اگر ذرا بھی دکھ پہنچے تو ایڑی کے زخم سے اس کی زیادہ غور و پرداخت کی جاتی ہے تو پھر عورت کے چھوٹے سے چھوٹے دکھ کی بھی کیوں نہ پرواہ کی جائے.بعض وقت میاں بی بی کے اے تا کہ تم آرام پاؤان کے ساتھ.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۴۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تعلقات میں اس قسم کی باتیں آجاتی ہیں کہ ان میں کسی طرح اصلاح نہیں ہوسکتی تو اس صورت میں بجائے اس کے کہ اس بے چاری کو دکھ دیا جائے.طلاق دینے کا ارشاد ہے مگر یک دم طلاق دینے کی اجازت نہیں.الطَّلَاقُ مَرَّتن - طلاق دو بار ہے.پھر اس کے بعد امساك بِمَعْرُوفِ رکھ لے تو پسندیدہ طور پر.تشریح باحسان یا رخصت کر دے بہت سلوک سے.افسوس مسلمان اس پر عمل نہیں کرتے اور یک دم سو طلاق دیتے ہیں حالانکہ طلاق متفرق طہروں سے دینی چاہیے.شيْئًا.یہ تاکید کے لئے ہے کہ کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں.فيمَا افْتَدَتْ بِه - عورت کچھ روپیہ دے کر مرد سے طلاق لے سکتی ہے.اس کا نام ضلع ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۰) جاتیں.الطَّلَاقُ مَرَّتن.یکدم طلاق جائز نہیں.عہد نبوی میں بہت سی طلاقیں یک دم ایک ہی سمجھی تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۳) ۲۳۱ - فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۖ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يَتَرَاجَعَا إِنْ ظَنَّا أَنْ يُقِيِّمَا حُدُودَ اللَّهِ وَ تِلكَ حُدُودُ اللهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ - ترجمہ.پھر اگر طلاق دے دے عورت کو تو طلاق دینے والے مرد پر وہ عورت حلال نہیں جب تک دوسرے خاوند سے نکاح نہ کر لے پھر اگر وہ (دوسرا) خاوند (اُس کو ) طلاق دے دے تو دونوں میاں بی بی پر کچھ گناہ نہیں اگر دونوں مل جائیں جبکہ دونوں کو یقین ہو کہ اللہ کے حکم کے موافق رہ سکیں گے.یہ اللہ کے ٹھہرائے ہوئے قاعدے ہیں جن کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے ان لوگوں کے لئے جو جانتے ہیں.تفسیر.فَإِنْ طَلَّقَهَا.یہ تیسری طلاق کا ثبوت ہے.فَلَا تَحِلُّ لَهُ.اس سے جو حلالہ کی بدرسم جاری ہوئی وہ اسلام کے لئے ننگ ہے.حلالہ اس چیز کا نام ہے کہ موقت نکاح کرتے ہیں.ادھر نکاح و جماع اور صبح طلاق.پھر پہلا شوہر نکاح کر لیتا
حقائق الفرقان ۵۴۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے.یہ بہت بری رسم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۷ ۲ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۰) فَإِنْ طَلَّقَهَا.حلالہ جائز نہیں اپنی مرضی سے طلاق دے.تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۳) ۲۳۲ - وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ صِرَارًا لِتَعْتَدُوا ۚ وَمَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ فَقَد ظَلَمَ نَفْسَهُ وَلَا تَتَّخِذُوا أيتِ اللهِ هُزُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ وَ مَا اَنْزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَبِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُمْ بِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ - ترجمہ.اور جب تم نے عورتوں کو طلاق دے دی اور وہ اپنی عدت کی مدت پوری کر چکیں تو (اب یا تو ) دستور کے مطابق ان کو رکھو یا اچھی طرح رخصت کر دو اور اُن کو تکلیف دینے کو نہ رکھنا کہ زیادتی کرنے لگو اور جو ایسا کرے گا تو وہ اپنی ہی جان پر ظلم کرے گا اور اللہ کے احکام اور نشان کے ٹھٹھے نہ اڑاؤ.اور یاد کرو جو اللہ نے تم پر احسان کئے ہیں اور وہ جو اس نے خاص کتاب اور دانائی کی باتیں اتاریں تا کہ وہ تم کو اس کے ذریعہ سے نصیحت کرے اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اُسی کا ڈر رکھو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے.تفسیر.وَلَا تَتَّخِذُوا آیتِ اللهِ هُزُوًا.مسلمانوں کو اس سے عبرت پکڑنی چاہیے.جولوگ نہ عورتوں کو بساتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور خدا کے عذاب کے نیچے (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۰) ۲۳۳ - وَ اِذَا طَلَقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحُنَ اَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوفِ ، ذلِكَ يُوعَظُ بِهِ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكُمْ أَزْكَى لَكُمْ وَأَطْهَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا ہیں.تَعلَمُونَ - b b ط ترجمہ.اور جب عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت کی مدت پوری کر چکیں تو ان کو نہ روکو اس
حقائق الفرقان ۵۴۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سے کہ نکاح کر لیں وہ اپنے شوہروں سے جب وہ آپس میں راضی ہو جا ئیں دستور کے موافق یہ اُس کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو یہ تمہارے لئے بڑی لیز گی اور بڑی صفائی کی بات ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے.وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء - چونکہ جنگ میں بہت ہی قریب کے رشتہ دار مرد اور عورتیں موجود تھے اور طرف مخالف میں ان مسلمان عورتوں کے رشتہ دار بھی تھے اس لئے بعض وقت یہ عورتیں نشوز بھی کر لیتی تھیں کیونکہ رشتہ داری کا معاملہ تھا اس لئے اور پھر زناشوئی کے تعلقات پر اس کا اثر پڑتا تھا اس لئے مجبوراً طلاق دینا پڑتا تھا.اس لئے جہاد کے بیان میں طلاق کے مسائل بیان ہو رہے ہیں.فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ.یہ آیت ایک واقعہ کے بیان سے صاف ہو جائے گی وہ یہ ہے کہ ایک شخص کی حقیقی بہن نے کسی کے ساتھ نکاح کیا.میاں بی بی میں ناموافقت ہوئی تو میاں نے طلاق دے دی مگر عدت گزرنے سے پہلے اس نے پھر رجوع کر لیا.اسی طرح کئی بار ہوا کہ جب وہ وقت گزرنے کو آتا تو پھر وہ باہمی تعلقات کو جائز کر لیتا.آخر جب ایک دفعہ اس نے رجوع کرنا چاہا تو چونکہ قانونِ الہبی کے مطابق پانچ جگہوں کی رضامندی حاصل کرنا پڑی تھی.اول قرآن.اس سے یہ دیکھا جاتا کہ تعلق جائز ہے یا نہیں.دوم.رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل درآمد.سوم.عورت کی رضا مندی.چہارم.مرد کی رضامندی.پنجم.عورت کے کنبہ کی.یعنی جو عورت کا ولی ہے اس کی رضامندی.اس آخری شرط کے مطابق میاں نے اپنی بی بی سے مصالحت کے بعد پیغام بھیجا کہ چونکہ آپ کی رضامندی ضروری ہے اس لئے آپ بیٹھیں تا یہ معاملہ طے ہو جائے.اس پر اس نے بہنوئی کو سخت ست کہلا بھیجا اور کہا کہ میں ہرگز اپنی بہن کو اب تجھ سے نکاح نہ کرنے دوں گا.اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب میاں بیوی راضی ہیں تو تمہیں روکنا نہیں چاہیے.مذکورہ بالا بیان سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مخفی د مخفی نکاح یا عربی زبان میں عورتوں سے نکاح کر لینا شریعت نے جائز نہیں رکھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۴۰)
حقائق الفرقان ۵۴۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَنْ يَنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ - تو اب نہ روکو اُن کو کہ نکاح کر لیں اپنے خاوندوں سے.( فصل الخطاب لمقدمہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۴۸ حاشیہ) اَنْ تَنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ.اپنے پہلے خاوندوں سے.فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ - عدت پوری ہونے کے قریب ہو جائے.تشحید الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) ۲۳۴ وَالْوَالِدتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلِّفُ نَفْسٌ إِلا وُسْعَهَا لَا تُضَارَ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضِ مِنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا ۖ وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ ما أَتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ - ترجمہ.اور مائیں اپنے بچوں کو کامل دو برس دودھ پلائیں اس شخص کے لئے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور (باپ پر ) جس کا وہ بچہ ہے ماؤں کو کھانا کھلانا اور کپڑا دینالازم ہے دستور کے مطابق.نہ تکلیف دی جائے کسی شخص کو مگر اس کے مقدور کے موافق اور نہ نقصان پہنچا یا جاوے ماں کو اس کے بچہ کے سبب اور نہ باپ کو ضر ر دیا جائے اس کے بچہ کے باعث اور وارث پر بھی ایسا ہی (لازم ہے پھر اگر دونوں نے اپنی مرضی اور صلاح سے دودھ چھڑانا چاہا تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم دودھ پلوانا چاہو تمہاری اولاد کو ( کسی انا اور دایہ سے) تو کچھ گناہ نہیں جب تم حوالہ کر دووہ چیز جو تم نے دینا کہا ہے ( دایہ کو ) دستور کے موافق اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اسی کا خوف رکھو اور جانو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اس کو اللہ تعالیٰ دیکھ رہا ہے.تفسیر.وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ.چونکہ اکثر ایسی مطلقہ بھی ہوتی تھیں جن کی گود میں بچہ دودھ پینے
حقائق الفرقان ۵۵۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة والا ہوتا اس لئے دودھ پلانے کے متعلق بھی فیصلہ ہونا چاہیے تھا جو یہاں بیان کر دیا کہ اول تو مائیں ہی دودھ پلائیں.لا تُكَلِّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا.یہ بات خود یا درکھو کہ اسلام جو قاعدہ سکھائے گا وہ انسان کے قوالی روحانیہ و عقلیہ و مشاہدہ و تجربہ کے خلاف ہرگز نہ ہوگا.جس چیز کی برداشت انسان کی قوت نہیں کر سکتی اس قوت کے متعلق کوئی حکم نہ ہوگا.رمضان کا روزہ ہے تو بیمار و مسافر کے لئے حکم ہے کسی اور دن میں رکھ لیں.ایسا ہی دودھ پلانے والی اور حاملہ اور بوڑھے آدمی کے لئے اجازت ہے کہ وہ کھانا دے دیا کرے کیونکہ اسے پھر رکھنے کی امید نہیں.پھر نماز ہے اس کے لئے اجازت ہے وضو کر کے نہیں پڑھ سکتے تو تیم کر کے.اُٹھ کے نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کے پڑھ لیں.بیٹھ کر نہیں تو لیٹ کر.ان سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے احکام شریعت میں انسان کی برداشت کو مد نظر رکھا ہے.اسلام میں کوئی مسئلہ تثلیث کی مانند نہیں کہ ایک + ایک + ایک کو ایک ماننا پڑتا ہو.نہ کفارہ کا مسئلہ ہے کہ بدی کا ارتکاب کرے زید اور سزا دی جائے بکر کو.نہ اس میں یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ انگور کا پانی اور روٹی واقعی مسیح کا لہو بن جاتا ہے نہ اس میں بت پرستی ہے جو بہت ہی بود اعقیدہ ہے.کیونکہ جب گل چیزیں انسان کی خادم ہیں اور وہ مخدوم نہیں بن سکتیں تو معبود کس طرح بن سکتی ہیں؟ باوجود اس تعلیم کے میں نے اکثر بدمعاش شریر النفس لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ بدکاری کے بعد یہ غذر کرتے ہیں کہ خدا نے مجھے سے ایسا کروادیا در گوئے نیک نامی مارا گذر ندادند گر تو نے پسندی تغییر کن قضارات اگر یہ جواب صحیح ہو تو پھر تمام رسالتیں باطل ٹھہرتی ہیں اسی واسطے فرماتا ہے.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - (البقرة: ۲۸۷) عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَ تَشَاوُرٍ.اگر دونوں باہمی رضا مندی اور باہمی مشورہ سے دودھ چھڑا دیں لے نیک نامی کے گلی کوچہ میں ہم کو جانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا اگر تجھے ہماری یہ ادا پسند نہیں تو ہماری قسمت کو تبدیل کر دے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۵۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تو کوئی گناہ نہیں.وَاتَّقُوا الله - بس اصل حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ جہاد کے مسئلے ہوں یا تمدن و معاشرت کے ، ان میں بہر حال تقوی مد نظر رکھو.اب منتقی بنے کا ایک گر بتاتا ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيْرُ.جب تم کوئی کام کرو.کوئی بھی ہو.اصولاً تین نوع میں گل کام آ سکتے ہیں.غضب و انتقام ایک.غرض دنیوی حرص دو.شہوت ، شجاعت تین.سب میں یہ بات یادرکھو کہ تم پر کوئی حکمران اور نگران ہے.تمام افعال و اقوال میں اگر انسان اس دستور العمل کو نگاہ رکھے تو تقی بن جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخه ۱۷۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۴۱٬۴۰) ۲۳۵ - وَ الَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۚ فَإِذَا بَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ في أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - ترجمہ.اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور چھوڑ جائیں بیبیاں تو وہ اپنے کو چار مہینے دس دن رو کے رہیں پھر جب وہ اپنی عدت کی مدت پوری کر چکیں تو کچھ گناہ نہیں تم پر اگر وہ جائز طور پر کچھ اپنے حق میں کر لیں اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے بخوبی خبر رکھتا ہے.تفسیر.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ.تین صورتیں ہیں.ایک تو یہ کہ حاملہ ہو.اس صورت میں دوسرا نکاح نہ کرے جب تک بچہ نہ جن لے.دوم یہ کہ حاملہ نہ ہو اس صورت میں چار ماہ دس دن انتظار کرے.بصورت فوتیدگی شوہر اور بصورت طلاق دینے کے.ثَلثَةَ قُرُوءٍ یہ سب اس لئے کہ شاید حمل ہو تو اس مدت میں پتہ لگ جاتا ہے یا پچھلے تعلقات زناشوئی کا لحاظ مقصود ہے.فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا فَعَلْنَ فِي أَنْفُسِهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ.بیوہ کے نکاح ثانی کے متعلق اکثر مسلمان تامل کرتے ہیں.یہ رسم بہت ہی بُری رسم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہے.سادات میں سے وہ عورت جس پر کل سادات کو فخر ہے جس سے سیدوں کی اولا د چلی بیوہ تھی.
حقائق الفرقان ۵۵۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مغول کی عظمت کا سلسلہ بھی جہاں سے شروع ہوتا ہے ان کے مورث اعلیٰ کی بیوی بھی بیوہ تھی جیسا نسل بڑھانے کا عضو مرد کے ساتھ ہے عورت کے ساتھ بھی ہے.کھانے پینے پہننے کی خواہش اگر مرد میں ہے تو عورت میں بھی ہے.اگر عورت کسی کی سخت بیمار ہو تو مردکو دوسرے نکاح کی فکر پڑ جاتی ہے اور عورت کے مرنے پر تو کوئی مرد نہیں جو عزم کرے میں نکاح نہیں کروں گا.اگر کوئی ایسا ہو تو میں اسے سلیم الفطرت مرد نہیں سمجھتا.غرض نکاح ثانی سے مرد کی ناک نہیں کٹتی تو عورت کی کیوں کٹنے لگی.اس بد رسم کا اثر میں نے اپنے طبتی پیشہ میں بہت دیکھا جہاں کئی شریف زادیاں اسقاط حمل کی دوائیاں پوچھتی پھرتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۲۹ را پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۱) ۲۳۶ - وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا عَرَّضْتُم بِهِ مِنْ خِطْبَةِ النِّسَاءِ أَوْ أَكْنَنْتُمْ في أَنْفُسِكُمْ عَلِمَ اللهُ أَنَّكُمْ سَتَذْكُرُونَهُنَّ وَلَكِنْ لَا تُوَاعِدُ وهُنَّ سِرًّا إِلَّا أن تَقُولُوا قَوْلًا مَعْرُوفًا ۖ وَلَا تَعزِمُوا عُقْدَةَ النِّكَاحَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكِتَبُ أَجَلَهُ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا فِي اَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَفُورٌ دو، b ترجمہ.اور کچھ گناہ نہیں تم پر اگر کسی اشارہ کی بات میں عورتوں کو نکاح کا پیام دو یا اپنے دلوں میں چھپائے رکھو اللہ کو پہلے ہی معلوم ہے کہ قریب ہی ان سے کہو گے مگر تم ان سے وعدہ تو چپکے سے بھی نہ کرنا مگر ہاں ( کچھ مضائقہ نہیں ) جو کہہ گزر و عام طور کی بات، نکاح کی گرہ مضبوط نہ کر بیٹھنا جب تک قرآنی میعاد پوری نہ ہو جائے اور جان رکھو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تو اُسی کا ڈر رکھو اور (یہ بھی ) جان رکھو کہ بے شک اللہ بڑا ڈھانپنے والا بردبار ہے.تفسیر.وَلَا تَعْرِمُوا عُقْدَةَ النكاح.اس حکم کی عدم تعمیل میں بھی بدذاتی سے کام لیا گیا ہے اور اکثر ملاں باوجود اس نص صریح کے ایام عدت میں نکاح پڑھ دیتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں صرف روک کے لئے تا کہیں کسی اور جگہ نکاح نہ کر لے.دیکھو کیسا بودا عذر ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان حیلوں سے خلقت کے سامنے شاید عہدہ برآ ہو جاؤ مگر خدا تمہارے دلی ارادوں اور منصوبوں کو
حقائق الفرقان ۵۵۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة خوب جانتا ہے اس کے غضب سے ڈرتے رہو.وہ اگر چہ بردبار ہے مگر اس کی بردباری یہ معنے نہیں رکھتی کہ وہ اپنے قانون کی خلاف ورزی پر باز پرس نہ کرے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۴۱) ۲۳۸ - وَ اِنْ طَلَقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَن تَمَسُّوهُنَّ وَ قَد فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُم إِلَّا اَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوا الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةٌ النكاح وَ اَنْ تَعُفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا 609 تعملون بصير - ترجمہ.اور اگر تم طلاق دے دو عورتوں کو ہاتھ لگانے سے پہلے حالانکہ تم مہر ٹھہرا چکے ہو تو آدھا (دے دو) جو تم نے مہر ٹھہرایا، مگر یہ کہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہو تو اب کچھ دینا لازم نہیں.اور اگر تم معاف کر دو تو یہ پر ہیز گاری کے بہت ہی قریب ہے، اور آپس کی بزرگی مت بھولو بے شک اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے.تفسیر.وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ.باہمی نیکی ترک نہ کرو.نہ تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ - ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) ۲۳۹- حفِظُوا عَلَى الصَّلَواتِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَنِتِينَ - ترجمہ.نمازوں کی پابندی کرو اور خاص کر بیچ کی نماز کی اور اللہ کے سامنے ادب سے کھڑے رہو.تفسیر - حفظوا عَلَى الصَّلَوتِ جہاد کا مسئلہ تھا.اس میں نماز کا ذکر بظا ہر خلاف ترتیب معلوم ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک اصل ترتیب تو یہی تھی کہ جہاد کا ذکر ہو کیونکہ اول سے آخر تک یہی بیان چلا جاتا ہے درمیان میں طلاق وغیرہ کے مسائل تو ضرور تا آگئے تھے اور صلوٰۃ وسطی کی تاکید اس لئے فرمائی کہ جنگ دو پہر ڈھلنے کے وقت شروع ہوتا تھا اور ظہر وعصر کی نماز جمع کرنی پڑتی تھی اس لئے
حقائق الفرقان ۵۵۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس نماز کی خصوصیت سے تاکید فرمائی کہ جنگی اشغال تمہیں نماز سے نہ روکیں.ایک صوفی نے اس آیت پر ایک نکتہ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ نے جہاد کے بیان میں خانہ داری کے امور کا بیان کرتے کرتے نماز کا بھی ذکر کر دیا گویا یہ سمجھایا کہ جیسا ہم نے ان جہاد کے مسئلوں کے درمیان طلاق وغیرہ کے ضروری مسئلے بیان کر دیئے اسی طرح تم بڑے بڑے ضروری کاموں میں نماز کو درمیان رکھ لیا کرو اور اسے قضا نہ کر دینا.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۲۹ را پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۱) ۲۴۱ - وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا وَصِيَّةً لِازْوَاجِهِمْ مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ ، فَإِنْ خَرَجْنَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِي مَا فَعَلْنَ في أَنْفُسِهِنَّ مِنْ مَّعْرُوفٍ وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمُ.ترجمہ.اور جولوگ مر جائیں تم میں سے اور چھوڑ جائیں بیبیاں ( تو چاہئے کہ ) وصیت کرمریں اپنی بیبیوں کے واسطے سلوک کرنے کی ایک سال تک اور نہ نکالنے کی پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں جو کچھ کریں وہ اپنے لئے دستور کے موافق اور اللہ بڑا عزت والا بڑا حکمت والا ہے.تفسیر.وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ.یہ بھی جہادی کی بات ہے کیونکہ آخر مسلمان بھی مقتول ہوتے تھے.ان کی بیبیاں پیچھے رہ جاتیں.ان کے لئے وصیت فرمائی کہ ایک سال تک نہ نکالی جاویں.یہ آیت چار ماہ دس دن کے حکم کے خلاف نہیں بلکہ وہ عدت کی مدت ہے جو عورت پر واجب ہے اور یہ بطور وصیت اس متوفی کے وارثوں کو حکم ہے کہ ایک سال تک اس بیوہ کو خرچ دیتے رہیں.وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.چونکہ لوگ بیوہ کے نکاح کے بارے میں کہتے ہیں یہ ہماری عزت کے خلاف ہے.اس لئے فرمایا کہ میرا نام عزیز ہے.میں سب سے زیادہ عزت والا ہوں.میں یہ حکم دیتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ بیوہ کا نکاح نامناسب ہے.اس لئے فرمایا ہم حکیم ہیں ہر قسم کی حکمت کو خوب سمجھتے ہیں اس لئے یہ حکم دیا جو نا مناسب نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۱)
حقائق الفرقان ۵۵۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة مَتَاعًا إِلَى الْحَوْلِ.ایک سال تک خود نہ نکالے گو وہ ۱۰ دن ۴ ماه بعدا اپنی مرضی سے نکل تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) سکتی ہے.۲۴۴ - اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَهُمْ أَلُونَ حَذَرَ المَوتِ ط فَقَالَ لَهُمُ اللهُ مُوْتُوا ثُمَّ احْيَاهُمُ إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ اكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ - ترجمہ.کیا تم نے نظر نہیں کی ان کے حال پر جو نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے ،موت کے ڈر کے مارے تو اللہ نے ان کو کہا کہ مرجاؤ پھر ان کو زندہ کر دیا بے شک اللہ بڑا مہربان ہے لوگوں پرولیکن اکثر لوگ ( اس کا ) شکر نہیں کرتے.تفسیر.اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ.اس آیت کے متعلق بہت سے اختلاف ہیں مگر میں جو معنے کروں گا وہ کامل یقین اور پورے انشراح صدر کے ساتھ ہیں.اسی آیت کے اخیر میں فرمایا ہے اِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ.اللہ کے آدمی پر بڑے بڑے احسان ہیں.پہلے ہم کو انسان پیدا کیا.اگر کتے اور سو ربنا دیتا تو ہم کیا دخل دے سکتے تھے.پھر چوہڑے چمار بنا دیتا تو ہم کیا دخل دے سکتے.پھر کمزور قوموں میں پیدا کر دیتا تو ہمارا کیا بس تھا.پھر ماں کے پیٹ سے نکل کر ہم پاگل ہو جاتے یا اندھے یا بہرے یا گونگے یا اپاہج تو ہمارا کیا زور تھا.دیکھو اس کا ہم پر کیسا فضل ہے کہ معدوم سے موجود کیا.موجود ہوئے تو آدمی بنایا.میرے ایک دوست ذلیل قوم سے تھے ان کو اس بات کا رنج تھا.وہ مجھے کہتے جب ہم وہ پیشہ چھوڑ چکے جو ذات کا موجب تھا تو پھر لوگ ہمیں کیوں حقارت سے دیکھتے ہیں.میں نے کہا میرے نزدیک تمہارا ہی قصور ہے.یہ لقب تمہارا کسی تمہاری مخفی بدکاری کا نتیجہ ہے جو اس زمین میں تم لوگوں نے کی.اگر تم اس لعنتی سر زمین کو چھوڑ کر سومیل دور چلے جاتے تو کم از کم لوگ تمہیں شیخ تو کہتے.اس پر وہ بولا کہ یہاں ہماری حویلیاں ہیں یہ ہے وہ ہے.میں نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة ابھی تمہیں ان بدکاریوں سے کچھ تعلق ہے.یوسف کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا پاک معاملہ تھا.جس ملک میں وہ رہتا ( تھا) ان کے لئے ترقی کے سامان نہ تھے.اللہ نے انہیں ایک عجیب تدبیر سے مصر پہنچایا.وہاں جب پہنچے تو ان کی نیکی، نیک نیتی ، عاقبت اندیشی، علم و دیانت، شجاعت ایسی تھی کہ مقربانِ بارگاہ بادشاہی سے بنا دیا.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اب بھی جو بچہ ان خصلتوں کو لازم پکڑے گا ان مدارج کو پہنچے گا جن پر یوسف علیہ السلام پہنچایا گیا.چنانچہ فرماتا ہے.وَ لَمَّا بَلَغَ أَشُدَةَ أَتَيْنَهُ حُكْمًا وَ عِلْمًا ۖ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ (يوسف:۲۳) پس انہی حضرت یوسف کے طفیل بنی اسرائیل مصر میں آباد ہوئے.میں نے بار ہا بتایا ہے کہ جب خدا کے فضل سے کوئی قوم مالدار اور آسودہ حال ہوتی ہے اور اسے عزت ، مکان ، اولاد، صحت و عافیت ، جتھا مل جاتا ہے تو وہ خدا کو بھلا دیتی ہے.کبھی تو اس کے افراد علموں پر گھمنڈ کرتے ہیں چنانچہ ایک نے کہا إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِي (القصص: ۷۹) ہم مولوی فاضل ہیں یا حکیم ہیں یا مد تر ہیں اس لئے ہم کو یہ کامیابی ہوئی اور کبھی مال و منال ، جاہ وجلال پر غزہ کرتے ہیں.جب قوم کی یہ حالت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا تنزل شروع ہوتا ہے پھر بعض کی تو قطع نسل ہو جاتی ہے اور وہ بالکل بے نام و نشان ہو جاتے ہیں اور بعض حاکم سے محکوم بن جاتے ہیں اور ان کا نام عزت سے نہیں لیا جا تا.بنی اسرائیل پر جب یہ زمانہ آیا تو وہ خدا کے احکام کو بھول گئے اور خدا نے ان پر ذلت و مسکنت لیس دی.بیگاروں میں پکڑے جاتے.پزاوے پکانے کا کام ان کے سپرد ہوا.ایک صوفی لکھتا ہے کہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب اس کے پیٹ میں درد ہو تو پہلے وہ اپنی تدبیروں سے کام ا اور جب یوسف اپنی جوانی کو پہنچا تو ہم نے اس کو جو کچھ سکھایا وہ مضبو ط علمی با تیں تھیں اور اسی طرح ہم بدلہ دیتے ہیں ہمارے دیکھنے والوں نیکو کاروں کو.۲؎ اس کے سوا نہیں کہ یہ مال تو دیا گیا ہے یا مجھ کو ملا ہے میرے تجربہ اور کمال سے.(ناشر)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة لیتا ہے.مثلاً فاقہ کرنا.پھر گھر میں جو سیانا ہو اس کی رائے پر چلنا.پھر اپنے محلہ کے حکیم سے مشورہ لیتا ہے پھر اس طبیب سے جو بڑا ہو.یہاں تک کہ پھر کسی اور مشہور طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو.آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ پھر وہ اس ملک کو چھوڑ کر محض علاج کی خاطر دوسرے ملک میں چلا جاتا ہے.جب وہاں بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر کسی خدا رسیدہ کے قدموں پر گرتا ہے.جب وہاں سے بھی مایوسی ہو تو پھر پکار اُٹھتا ہے لَا إِلَهَ إِلَّا انْتَ سبحْنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانبياء: ۸۸) تب خدا کی رحمت کا دریا جوش مارتا ہے اور وہ اسے شفا دیتا ہے.اسی طرح بنی اسرائیل کی حالت جب یہاں تک پہنچی تو انہوں نے خدا کے حضور تضرع کیا اور موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے.وہ انہیں اس ملک سے نکال لائے وہاں ان کے لئے کیا تھا ؟ يُذَ بِحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ (البقرۃ:۵۰) اولا د کو ذبح کرنے اور عورتوں کو بے پرد کرنے کی تجویزیں تھیں.پس یہ حَذَرَا لَمَوْتِ تھا جس سے ہزارو ہزار اس ملک سے نکلے.اب موسیٰ نے ان کو حکم دیا يُقَوْمِ ادْخُلُوا الْأَرْضَ الْمُقَدَّسَةَ الَّتِي كَتَبَ اللهُ لَكُمْ (المآئدۃ: ۲۲) مگر انہوں نے بے ادبی سے کہا کہ وہ زور آور ہیں ہم سے تو مقابلہ نہیں کیا جاتا جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو.اس پر اللہ نے فرمایا ہم نے تمہیں زندہ قوم بنانے کے لئے اپنے نبی کی معرفت یہ حکم دیا تھا نہیں مانتے تو جاؤ.موتوا.ہلاک ہو جاؤ.اس پر ان پر وہ حالت طاری ہوئی جو 4 پارہ سورہ مائدۃ رکوع ۴ میں درج ہے اور وہ موسی کی دعا کا اثر تھا جو انہوں نے ان الفاظ میں کی.فَافُرُقُ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ لے کوئی سچا معبود نہیں تیرے سوا.تیری پاک ذات بے عیب ہے میں ہوں کمزور مصیبتوں میں پھنسا ہوا.تمہارے بیٹوں کو وہ ذبح کر ڈالتے تھے اور تمہاری عورتوں کو وہ جیتا رہنے دیتے تھے.سے اے قوم! اُس پاک ملک میں داخل ہو جاؤ جس کو اللہ نے تمہارے لئے محفوظ رکھا ہے اور لکھ دیا ہے کہ وہ تمہیں کو ملے ).(ناشر)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة الفسِقِينَ (المائدة:٢٢) قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِيْنَ سَنَةً يَتِيْهُونَ فِي الْأَرْضِ فَلَا تَأسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفُسِقِينَ (المائدة: ۲۷) کہ چالیس سال خراب خستہ حال مارے مارے جنگلوں میں پھرتے رہیں.چنانچہ جب یہ لوگ جو بے ادبی میں شامل تھے ہلاک ہو چکے اور چالیس سال میں ان کے بچے جوان ہوئے یا وہ لوگ رہ گئے جو بے ادبی میں شریک نہ تھے.تو پھر ثُمَّ احْيَاهُم - ان کو زندہ قوم بنا دیا.ھے.سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہی مر کر زندہ ہوئے بلکہ متکلم مخاطب غائب کا ضمیر اس کے مثیل کی طرف بھی پھرتا ہے.متکلم کی مثال سُنئے.مَا قُتِلْنَا هنا (ال عمران: ۱۵۵) ہم اس جگہ مقتول نہ ہوتے.حالانکہ جو قتل ہو چکے ہیں وہ کس طرح بول سکتے تھے.مراد ان کے مثیل ہیں.مخاطب کی مثال وَاذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَنْ تُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللهَ جَهْرَةً (البقرة :۵۶) غائب کی مثال ما يُعَمرُ مِنْ مُعَيَّرٍ وَلَا يُنْقَصُ مِنْ عُمُرِةٍ (فاطر : ۱۲) جس کی عمر بڑھائی گئی اُسی کی گھٹانے کا ذکر بظاہر معلوم ہوتا ہے مرا داس کا مثیل ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ صفحه ۴۲،۴۱) ۲۴۵ - وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ - ترجمہ.اور اے مسلمانو! اللہ کی راہ میں لڑو اور جانو کہ اللہ بڑا سننے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسير - وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللهِ - دشمن کا مقابلہ کرومگر اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے نفسانی غرض شامل نہ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۲) ہو.لے تو جدائی کر دے ہم میں اور فاسق نافرمان قوم میں سے اللہ نے فرمایا وہ ملک ان پر حرام ہوا چالیس برس، ہلاک ہو جاویں ملک میں.تو نافرمان قوم پر کچھ افسوس نہ کرنا.سے ہم یہاں مارے ہی نہ جاتے.۴.پھر جب تم نے موسیٰ سے کہا کہ اے موسیٰ ! ہم تیری باتوں کو ہرگز نہیں مانیں گے جب تک کہ ہم خود اللہ کو علم کلا سامنے نہ دیکھ لیں.۵.نہ کوئی عمر دیا جاتا ہے بڑی عمر والا اور نہ کسی کی عمر کم کی جاتی ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۵۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ٢٤٦ - مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُطْعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً ۖ وَ ص اللهُ يَقْبِضُ وَيَبْقُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ - ترجمہ.کون ہے جو اللہ کی راہ میں مال کو الگ کر دیتا ہے عمدگی کے ساتھ.اللہ بڑھاتا ہے اس کو بہت اور اللہ لیتا ہے اور اس کو بڑھاتا ہے اور تم اُسی کے طرف لوٹو گے ( یعنی جیسا کرو گے ویسا پاؤ گے ).تفسیر - يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا - قرض کے لفظ پر بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ مسلمانوں کا خدا مفلس ہے جو اپنی مخلوق سے قرض مانگتا ہے ایسے لوگوں کو کہنا چاہیے کہ گورنمنٹ بھی بینک میں روپیہ لیتی ہے تو کیا وہ غریب ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ، ہر چہ گیرد علتے علت شود، کے ماتحت اس لفظ کے معنے بھی ہمارے ملک میں آ کر بگڑ گئے.قرض کے معنے ہیں مال کا حصہ کاٹ کر دینا.مقراض اسی سے نکلا ہے پس اب ان معنوں پر کوئی اعتراض نہیں.يقبضُ.اور لیتا ہے.يَبْصُط.پھر اسے بڑھاتا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مورخه ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۲) قرض کے معنی - الْقَرَضُ وَيُكْسَرُ مَا سَلَّفْتَ مِنْ اِسَأَةٍ وَاِحْسَانٍ وَمَا تُعْطِيْهِ لِتُقْضِيه وَأَقْرَضَهِ أَعْطَاهُ قَرْضًا وَقَطَعَ لَه قِطْعَةً يُجَازِى عَلَيْهَا (قاموس اللغة) پہلے معنی کے لحاظ سے ایسے فعل کا نام قرض ہے جس کا بدلہ ہم نے پانا ہے.یہ قرضہ دو قسم کا ہوا کرتا ہے.ایک بُرا اور ایک بھلا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أمْثَالِهَا (الانعام: (۱۶) یعنی کون ہے جو صرف اللہ کے واسطے اچھے اعمال کرے.اے ترجمہ.جس کے باطن میں خرابی ہے وہ جو فعل بھی کرے علت سے خالی نہیں ہوتا.۲.فرض قاف کی فتحہ اور کسرہ دونوں سے آتا ہے اور اس کا مفہوم ہے تو جو برا سلوک اور احسان کا معاملہ کرے اور جو تو دے تا وہ تجھے واپس دیا جائے قرض کہلاتا ہے.اقْرَضَہ.اس نے اسے قرض دیا اور اپنے مال میں سے ایک حصہ کاٹ کر دیا جس کا اسے بدلہ دیا جائے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۶۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پس اللہ تعالیٰ اس کو اس کا بڑھا کر اجر دے جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ ص اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْحِفَهُ لَةَ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللهُ يَقْبِضُ وَ يَبْقَطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرة: ۲۴۶) جیسے ترک اسلام لکھ کر تو نے ہم کو مقروض کیا تو ہم نے خدا کے فضل سے الزامی جوابوں سے اور پھر تحقیقی جوابوں سے مع تمہارے اصل سوالوں کے وہ قرضہ مع شیء زائد ادا کر دیا.اللہ تعالیٰ اس دینے والے کو اس کے اجر میں بہت بڑھا کر دے.آمین.یاد رکھو اللہ تعالیٰ ہر ایک نیکی کا بدلہ بڑھ چڑھ کر دیتا ہے.دوسری ایک آیت اس کی تصریح کرتی ہے اور وہ یہ ہے الَّذِینَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ (البقرة - ۲۶۲).خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال اُس دانہ کی ہے جس نے سات بالیاں نکالیں ہر بالی میں سودانے.اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھ چڑھ کر دیتا ہے.قرآن مجید میں صاف موجود ہے.الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ اغْنِيَاءُ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا (ال عمران : ۱۸۲) یعنی کا فر ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں.کیا معنی؟ ہم ان کی بات کو محفوظ رکھیں گے.اور فرمایا.يَأَيُّهَا النَّاسُ أَنتُمُ الْفُقَرَاءِ إلَى اللهِ وَاللهُ هُوَ الْغَنِيُّ (فاطر :(۱۶) اے لوگو تم اللہ کے محتاج ہوا اور اللہ ہی غنی ہے.قرآنی صداقتیں تو ہر جگہ اور ہر وقت نمایاں ہیں.کیا جو شخص پر امیسری نوٹ لیتا یا سیونگ بینک میں ایک غریب سود خوار اپنا روپیہ رکھتا ہے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ غریب ہے.ہر گز نہیں.رہی یہ بات کہ خدا کے سپرد کیا ہوا مال بڑھتا ہے یا نہیں اس امر کی صداقت تمام جہان کو کھیتوں کے نظارہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ ایک ایک دانہ سے کتنا غلہ حاصل ہو جاتا ہے.یہی مطلب ہے اس آیت کا جس میں لکھا ہے مَنْ ذَا الَّذِى يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضْحِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةٌ وَاللهُ يَقْبِضُ وَيَبْقُطُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرة: ۲۴۶) اس کا ترجمہ ہو ا کون ہے جو اللہ کے حضور اعلیٰ نیکی کرے ( یا اس کی رضا کے لئے مال کو دے) بڑھا کر دے گا اس کے لئے
حقائق الفرقان ۵۶۱ اللہ تعالیٰ.اور اللہ لیتا ہے اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف تم جاؤ گے اور بدلہ پاؤ گے.سُورَةُ الْبَقَرَة ( نورالدین بجواب ترک اسلام کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۸۱،۲۸۰) ۲۴۷ - الم تَرَ إِلَى الْمَلَا مِنْ بَنِي إِسْرَاءِيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسَى إِذْ قَالُوا لِنَبِي b لَهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِحًا تُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ قَالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ الاَ تُقَاتِلُوا قَالُوا وَمَا لَنَا أَلَّا تُقَاتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَقَدْ أخْرِجُنَا مِنْ دِيَارِنَا وَ ابْنَا بِنَا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوا إِلَّا قَلِيلًا ط مِنْهُمْ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ ترجمہ.کیا نظر نہیں کی تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے حال پر موسیٰ کے بعد جب انہوں نے کہا اپنے نبی سے ٹھہرا دے ہمارے لئے ایک بادشاہ ہم لڑیں اللہ کی راہ میں.اُس نبی نے کہا کیا عجب ہے اگر فرض ہو جائے تم پر جہاد اور تم نہ لڑ وانہوں نے جواب دیا ہمیں کیا عذر ہے کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں حالانکہ ہم نکالے گئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے پھر جب فرض ہو گیا اُن پر جہاد تو پیٹھ پھیر بیٹھے سب مگر چند آدمی اُن میں کے (اللہ کی راہ میں مضبوط رہے ) اور اللہ بخوبی جانتا ہے ظالموں کو.تفسیر مِنْ بَعْدِ مُولی.مِنْ بَعْدِ لانے سے صاف ظاہر ہے کہ پہلا واقعہ موسی کے زمانہ کا ہے.قَالُوا لِنَبِي لَهُمُ.اس زمانہ میں جوڑ وحانی بادشاہ ہوتا اُسے نابیل کہتے.اس قصہ میں اللہ مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ ایک وقت آئے گا تم میں بھی روحانی بادشاہ الگ ہو جاویں گے اور جسمانی الگ.چنانچہ ابوبکر و عمر مدینہ کی خلافت تک روحانی و جسمانی بادشاہ جمع رہے پھر ملک الگ منتخب ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۱/۲۹ پریل ۱۹۰۹ء صفحه ۴۲) ہوتے رہے.ے عبرانی زبان میں سے ملک : بادشاہ.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۶۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۴۸ - وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ اللهَ قَد بَعَثَ لَكُمْ طَالُوتَ مَلِحًا قَالُوا أَنَّى يَكُونُ لَهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُوتَ سَعَةً مِّنَ المَالِ قَالَ اِنَّ اللهَ اصْطَفْهُ عَلَيْكُمْ وَ زَادَهُ بَسْطَةً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَ اللهُ يُوتِي مُلكَهُ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ.ترجمہ.اُن سے کہا اُن کے پیغمبر نے بے شک اللہ نے مقرر فرمایا تمہارے لئے ایک قد آور بادشاہ.قوم نے کہا اس کی حکومت ہم پر کب ہو سکتی ہے حالانکہ ہم حکومت کے زیادہ حق دار ہیں اُس سے اور وہ تو نہیں دیا گیا فارغ البالی مال سے.نبی نے کہا کہ اللہ نے پسند فرمایا ہے اُس کو تم پر اور اُس کو کشادگی دی علم اور جسم میں اور اللہ دیتا ہے اپنا ملک جس کو چاہتا ہے اور اللہ بڑی وسعت دینے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ - یہ بہت سوچنے کی بات ہے کہ خدا کے انتخاب پر آدم سے ایں دم تک ایک اعتراض ہوتا چلا آیا ہے.پہلے آدم پر اعتراض کیا گیا پھر داؤد کا ذکر کہ دشمن قلعہ کی دیواریں پھاند کر چڑھ آئے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے یدَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ - (ص:۲۷) ہماری سرکار پر بھی اعتراض ہوا کہ قرآن عَلَى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَتَيْنِ عَظِيمٍ (الزخرف: ۳۲) پر کیوں نہ اترا.پھر ہمارے امام پر بھی کم اعتراض نہ ہوئے.لوگ کہتے رہے کہ الْأَئِمَّةُ مِنْ قُرَيْشٍ امامت بنو فاطمہ کا حق ہے.مغلوں کو کیوں دی؟ ایک شخص نے مجھے کہا پنجاب کے ایک کوردہ کا رہنے والا ہے.کم از کم دہلی کا تو ہوتا.جواب دیتا ہے کہ زاده بسُطَةٌ فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ یہ علم وقوت میں تم سے بڑھ کر ہے اس کو نہیں مانتے تو کم از کم یہ خیال تو کرو کہ اللہ تم سے وسیع علم والا ہے اور یہ اس کا انتخاب ہے.وہ مالک ہے جسے چاہے سلطنت دے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۳) لے اے داؤد ! ہم نے تجھ کو بنا یا نا ئب ملک میں.کہ بڑے آدمی پر دو بڑی بستیوں کے رہنے والوں سے.(ناشر)
حقائق الفرقان w ۵۶۳ - سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۴۹ - وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ ايَةَ مُلْكِهِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةُ من رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ المُوسى وَأَلُ هَرُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَيكَةُ إِنَّ فِي ذلِكَ لآيَةً تَكُمْ إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ - ترجمہ.اور اُن سے کہا اُن کے نبی نے اُس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ ملے گا تم کو ایسا قلب جس میں تسلی ہو تمہارے رب کی طرف سے اور ورثہ ہے اس کا جو چھوڑا ہے ہارون اور موسیٰ کے ہم رنگوں نے جس کو فرشتے اٹھائے پھرتے ہیں.اس میں تمہارے لئے پوری نشانیں ہیں جب تم ایمان رکھتے ہو.پھر ایک اور نشان بتایا کہ آنْ يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ تمہیں ایسے دل ( قلب ) عطا ہوں گے کہ ان میں تسلی ہوگی.یعنی اس کے زمانے میں لوگوں کے قلوب میں ایک خاص سکینت واطمینان نازل ہوگا.اور یہ بَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ الُ مُوسى وَال هَرُونَ.اور یہ وہی قوت قدسیہ کا اثر ہے جو موسیٰ و ہارون کی اولاد میں ورثہ بہ ورثہ چلا آیا ہے کہ لوگ ان کے ساتھ آرام پاتے اور ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور خود بخود دلوگوں کے دل ان کی طرف رجوع کرتے ہیں.انہیں ایک خاص جذب دیا جاتا ہے.ان کی تقریر میں ایک خاص اثر ہوتا ہے.جب وہ کسی امر میں فیصلہ دیتے ہیں تو دشمن بھی اس وقت مان جاتے ہیں.تَحْمِلُهُ المَلكة.اس میں کچھ شک نہیں کہ دلوں کا اُٹھانا فرشتوں کا کام ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۳) يَأْتِيَكُمُ النَّابُوتُ.تابوت کے معنی دل کے ہیں.نووی شرح مسلم میں اس کی شہادت ہے.بخاری میں ہے التابوت - القلب.قرآن حل کرتا ہے اَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ (الفتح: ۵) تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹.ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) لے جس نے اطمینان اتارا ایمانداروں کے دلوں میں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۶۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اللہ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے.انہوں نے کہا ہم پر اس کی بادشاہی کیونکر ہو سکے گی بلکہ ہم اس کی نسبت بادشاہی کے زیادہ حقدار ہیں اور اس کے پاس مال کی طرف سے کوئی وسعت نہیں.اُس نے کہا اللہ نے اسے تم پر چن لیا اور اسے علم وجسم دونوں میں کشائش ( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۱۱۱ حاشیہ) ۲۵۰ - فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوتُ بِالْجُنُودِ قَالَ إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ دی ہے.b شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّى وَمَنْ لَّمْ يَطْعَمُهُ فَإِنَّهُ مِنِّى إِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِيَدِهِ فَشَرِ بُوا مِنْهُ إِلَّا قَلِيلًا مِنْهُمْ فَلَمَّا جَاوَزَهُ هُوَ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ قَالُوا لَا طَاقَةَ لَنَا الْيَوْمَ بِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ ملقُوا اللهِ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصبرين - ترجمہ.پھر جب روانہ ہوا قد آور بادشاہ فوجوں کے ساتھ تو نبی نے کہا کہ اللہ آزمائے گا تم کو ایک نہر سے تو جو پٹے گا اس کا پانی وہ میرا نہیں اور جس نے اس کو نہ چکھا وہ میرا ہے مگر جو بھر لے ایک چگو اپنے ہاتھ سے.پس سب نے پی لیا اس کا پانی مگر ان میں سے تھوڑے آدمیوں نے (نہیں پیا) پھر جب پار ہو گئے نہر کے وہ قد آور بادشاہ اور اُس کے ساتھ والے ایمان دارلوگوں نے کہا ہم کو تو آج طاقت نہیں ہے جالوت اور اُس کے لشکر سے مقابلہ کی.کہہ اٹھے وہ لوگ جن کو یقین تھا کہ وہ اللہ سے ملنے والے ہیں کہ اکثر تھوڑی سی جماعت غالب آ گئی ہے بڑی بڑی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.تفسیر.جہاد کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ فی سبیل اللہ ہو اور سپاہی اپنے آفیسروں کی فرما نبرداری کریں.حدیثوں میں آیا ہے کہ بعض موقعہ پر امتحان لینامنع ہے لیکن اس بات کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض موقعوں پر امتحان لے لینا چاہیے.یہاں اس صورتِ آخرہ کی مثال اس آیت میں ہے.
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة فَلَمَّا فَصَلَ.شہر سے جدا ہوئے.إِنَّ اللهَ مُبْتَلِيكُم.ابتلا کہتے ہیں اس امر کو جس کے ذریعے فرمانبردار اور نافرماں بردار، کچے اور پکے میں امتیاز ہو جاوے.جب طالوت ایک فوج لے کر چلے تو کئی تماش بین بھی ساتھ ہو لئے اس لئے آپ نے ایک امتحان میں ڈالا تا جو حقیقی فرمانبردار ہیں وہ میرے ساتھ رہیں.نَهَرْ.اس کے دو معنے ہیں ایک تو نہر.دوم آرام و آسائش.چنانچہ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّتٍ وَنَهَرٍ القمر : ۵۵) میں نھر کے معنے آسائش کے ہیں.نظر کے معنے ہوں تو کیا متقی نہر میں ڈوبے رہیں گے؟ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیسَ مِنی.اس جنگل میں شہد بہت تھا.پس جب نھر کے معنے آسائش کے ہوں تو اس سے مراد شہد کا پینا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مورخه ۴ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۳) فَإِنَّهُ مِنِّي - أَنْتَ مِٹی و انا منك " کے معنی حل ہوتے ہیں.تشخیز الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) إلَّا قَلِيلًا مِّنْهُم - ایک علم ہوتا ہے ایک عمل شنیدہ گے بود مانند دیده! ليس الخبر كَالْمُعَايَتة! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوسف کے معاملہ میں ( جب ان کے پاس چوبدار آیا کہ بادشاہ تمہیں بلاتا ہے اور وہ نہ گئے ) فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو چلا جاتا مگر خود جب مسجد سے قریب اپنی ایک بیوی کے ساتھ کھڑے تھے اور پاس سے کچھ آدمی گزرے تو آپ نے انہیں روک لیا اور کہا دیکھو یہ میری بیوی صفیہ ہے!! يظنون.یقین کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ صفحه ۴۳) لے بے شک متقی لوگ باغوں میں اور ہر طرح کی ترقی میں ہیں.۲.تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں.سے سنی سنائی بات آنکھ سے دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوسکتی.(ناشر)
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۵۱ - وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - ترجمہ.اور وہ جب نکلے جالوت اور اُس کے لشکر سے لڑنے کو دعا کی کہ اے ہمارے پروردگار! انڈیل دے ہم پر صبر اور استقلال اور جمادے ہمارے پاؤں اور مددفرما ہماری کافر قوم کے مقابلے میں.تفسیر.صبرا.یہاں صبر کے معنے استقلال کے ہیں.حدیث میں صبر کی دعا منع ہے کیونکہ جو صبر مانگتا ہے ( گویا وہ.مرتب ) بلا مانگتا ہے.ہاں ضرورت کے وقت استقلال کی دعا (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۳) ممنوع نہیں.۲۵۲ - فَهَزَمُوهُمْ بِاِذْنِ اللهِ وَ قَتَلَ دَاوِدُ جَالُوتَ وَ اللهُ اللهُ الْمُلْكَ وَ قف الْحِكْمَةَ وَ عَلَمَهُ مِمَّا يَشَاءُ ۖ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ تَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلكِنَّ اللهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَلَمِينَ - لا ترجمہ.پھر اس نیک قوم نے ان کو بھگا دیا اللہ کے حکم سے.اور مار ڈالا داؤد نے جالوت کو اور دے دی اللہ نے اُس کو سلطنت اور دانائی اور سکھا دیا اس کو جو چاہا اور اگر اللہ ایک کو ایک کے ہاتھ سے دفع نہ کرتا تو ضرور تباہی ہو جاتی ملک میں لیکن اللہ بڑا مہربان ہے لوگوں پر.تفسیر.قَتَلَ دَاوُدُ جَالُونَ.یہ ایک مقام ہے جس پر بعض نادانوں کو تاریخی طور پر اعتراض کرنے کا موقعہ ملا.پہلا اعتراض یہ ہے کہ جس ندی پر آزمائش ہوئی تھی وہ جدعون کے زمانے کی بات ہے.جہاں داؤ دو جالوت کی لڑائی کا ذکر ہے وہاں ندی کا ذکر نہیں بلکہ جدعون اور طالوت میں ۱۵۶ سال کا فرق ہے.دوسرا اعتراض تابوت سکینہ کے متعلق ہے کہ داؤد اور جالوت کی لڑائی سے ہیں سال پہلے عمالیق لوگ صندوق لے گئے تھے.ان میں مری پڑ گئی تو ان کو وہم ہو گیا کہ ہو نہ ہو اسی صندوق کی نحوست ہے اس لئے انہوں نے اس صندوق کو ایک چھکڑے پر لا دکر بیلوں کو ہانک دیا.ساؤل ایک شخص تھا.اس کی زمین پر یہ چھکڑا جا ٹھہرا.کہتے ہیں یہ میں برس پہلے کی بات ہے.
حقائق الفرقان ۵۶۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تیسرا اعتراض.کوئی ندی وہاں نہ تھی جہاں داؤد و جالوت کی لڑائی ہوئی.ان تینوں اعتراضوں کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم ٹھر کے معنے آرام و آسائش کرتے ہیں.پس ندی کے موجود نہ ہونے کا اعتراض ختم ہوا.دوم یہ کہ یہ باتیں تم نے سموئیل کی کتاب باب سے اسے لی ہیں اسی سموئیل کے باب ۹، ۱۰ میں لکھا ہے که داؤد بربط نوازوں میں نوکر تھا.پھر لکھا ہے کہ داؤد اپنے بھائی کی روٹی لے کر آیا وہاں ایک عملیقی کے ساتھ جھگڑا دیکھا.یہ نوجوان تھے بول اُٹھے.میں اس کا مقابلہ کرتا ہوں.اس پر سموئیل نے کہا کہ یہ کون ہے؟ دیکھئے.پہلے تو اسے بربط نو از بتا یا پھر یہ کہ بادشاہ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کون ہے؟ پھر لکھا ہے کہ اس نے کہا جو نامختون سے مقابلہ کرے میں اُسے لڑکی دوں گا اور (پھر) اپنی زرہ نکال کر دی.اس اختلاف کو دیکھ کر متقین یورپ نے فیصلہ دیا ہے کہ سموئیل کا باب ۱۷ الحاقی ہے.پس جس کی اصلیت خود ہی مشتبہ ہے اس سے قرآن پر اعتراض صحیح نہیں.پھر ہم پوچھتے ہیں تمہاری تاریخوں میں طالوت کا لفظ کہاں ہے؟ پس یہ کہنا کہ اس کا نام ساؤل تھا یا نہ تھا فضول ہے کیونکہ قرآن شریف نے ان میں سے کسی کا نام ہی نہیں لیا.جہاں طالوت کا ذکر ہے وہاں جالوت کا نہیں اور جہاں جالوت کا ہے وہاں طالوت کا نہیں.پس دونوں کا زمانہ متحد کہاں سے ثابت ہوا.پھر ہم کہتے ہیں طالوت کے معنے ہیں لمبے قد والا.بائبل میں بھی لمبے قد والا ہی لکھا ہے.پس یہ نام نہیں.ایسا ہی جالوت اس کو کہتے ہیں جو میدان میں جولان کرے.پس اس طرح کوئی اعتراض نہیں رہتا کیونکہ یہاں کسی کا نام ہے ہی نہیں.پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ داؤد کا مقابلہ جہاں ہوا وہاں شورق نام ندی ہے.پرانے جغرافیے جو ہیں ان میں اس کا موقع موجود ہے.پھر آخری فیصلہ کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ تمام صحیح قرآنوں میں فَهَزَمُوْهُم بِاذْنِ اللہ پر وقف ہے.پس وہ قصہ الگ ہے اور یہ الگ.وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمُ بِبَعْضٍ کئی موقع پر میں اس کی تفصیل کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے خود اپنی مرضی سے جہان میں اختلاف رکھا ہے اور اسی پر کارگاہِ عالم کا دارو مدار ہے.
حقائق الفرقان ۵۶۸ سُورَةُ الْبَقَرَة اگر جہان میں سب اسی خیال کے ہوں کہ بھنگی کا کسب بڑا ہے تو اعلیٰ قوموں کی زندگی وبال جان (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۳، ۴۴) ہو جاتی.فَهَزَمُوهُمْ بِإِذْنِ اللہ.یہاں قف ہے.پچھلا قصہ ختم ہوا.قَتَلَ دَاوُدُ جَالوت.ایک میدان میں آنے والے کو داؤد نے بھی قتل کیا تھا.تفخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳) قتل دَاوُدُ جَالُوت.عربی میں غالبا جب نکرے کا اعادہ ہوتا ہے تو وہ پہلا مراد نہیں ہوتا.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ اوّل صفحه ۱۷۴) قف ۲۵۴ - تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُم مَّنْ كَلَّمَ اللهُ.رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَتِ وَ أَتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَأَيَّدُ نَهُ بِرُوحِ القُدسِ وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تُهُمُ وَلَوْ البَيِّنتُ وَلكِنِ اخْتَلَفُوا فَمِنْهُم مَّنْ أمَنَ وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا وَلَكِنَّ اللهَ يَفْعَلُ مَا يُرِيدُ - ترجمہ.یہ سب رسول ہیں ان میں سے ہم نے بعض کو بعض پر بزرگی دی اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں کہ ان سے اللہ نے باتیں کیں اور بعض کے درجے بلند کئے اور مریم کے بیٹے عیسی کو ہم نے کھلے کھلے نشان دیئے اور اس کی تائید کی پاک کلام سے اور اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو آپس میں نہ لڑتے وہ لوگ جو پیچھے ہوئے ان کے (اور وہ بھی) اس کے بعد کہ آچکیں اُن کے پاس کھلی کھلی نشانیاں مگر انہوں نے اختلاف کیا تو کوئی تو ان میں سے ایمان پر قائم رہا اور کسی نے حق کو چھپایا اور اگر اللہ نے چاہا ہوتا تو وہ لوگ آپس میں نہ لڑتے لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.تفسیر.مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللهُ کلام تو سب پیغمبروں سے ہوا مگر بعض کو مخصوص، بوجہ کثرت کلام کیا.البينت.کھلی باتیں.عیسی کی تعلیم اخلاق کی تھی اور اخلاقی رنگ کا وعظ ہر مذہب میں مقبول ہوتا ہے اس لئے اسے بیلت فرما یا.
حقائق الفرقان ۵۶۹ سُورَةُ الْبَقَرَة و ايدنُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ.اس اخلاقی تعلیم کو اپنے پاک کلام سے مؤید کیا.روح القدس کبھی کلام لانے والے فرشتے کو بھی کہتے ہیں مگر عام معنے یہی ہیں.پاک کلام.قرآن شریف میں ہے وَكَذَلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا (الشوری: ۵۳) ایک دوسری جگہ فرمایا.يُنَزِّلُ الْمَلَئِكَةَ بِالرُّوحِ مِنْ اَمْرِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ أَنْ أَنْذِرُوا انَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاتَّقُونِ - (النحل :٣) مَا اقْتَتَلَ اللَّذِينَ مِن بَعْدِهِمْ یعنی اگر کوئی لڑائی کرتا تو ہم اس کے ہاتھ کوشل کر دیتے.بد زبانی کرتا تو زبان بند کر دیتے.مگر بندوں کو اللہ نے مجبور پیدا نہیں کیا اور نہ ان کے اختیارات کو چھینا بلکہ مقدرت عطا کی ہے.ولكن اخْتَلَفُوا.جب خدا نے جبر نہ کیا.اختیارات نہ چھینے تو ان لوگوں نے تو اس مقدرت کے سبب شرارتیں کیں.ہم زور سے کام لیتے تو وہ نہ لڑتے مگر جب ہم نے ہدایت پر مجبور نہ کیا تولڑ نے اور گمراہی پر کیوں مجبور کرنے لگے.فَمِنْهُمْ مَنْ آمَنَ.مگر کچھ ایسے تھے جنہوں نے ایمان کے مطابق عمل کیا.وَمِنْهُمْ مَنْ كَفَرَ.بعض ایسے تھے جنہوں نے امن میں خلل ڈالا.امن کی تعلیم کا انکار کیا.وَ لَوْ شَاءَ اللهُ مَا اقْتَتَلُوا.جناب الہی تو ایسی طاقت رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کو یہ قدرت نہ دیتے.مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہ جبر کرنے والا نہیں.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۵) فَضَّلْنَا.بحث فضیلت باعتبار تعلقات روحانی وخدمات دینی.اللہ کوعلم ہے.لے اسی طرح بھیجا ہم نے تیری طرف ہمارے حکم سے ہمارا کلام قرآن مجید.سے وہی اللہ اتارتا ہے فرشتوں کو کام دے کر آپ ہی جس پر چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے کہ ڈرا دو یہ بتا کر کوئی سچا معبود نہیں مگر میں، تو مجھے ہی کو سپر بناؤ مجھ ہی سے ڈرو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۷۰ سُورَةُ الْبَقَرَة اتيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ.یہ ورہ مدنی ہے.یہود کے خلاف مسیح کی فضیلت کا اظہارضروری تھا.بِرُوحِ الْقُدُسِ.کلام پاک وَ لَوْ شَاءَ الله - جبراً مگر اللہ نے انسان کے ایسے قوی بنائے ہیں کہ وہ اپنی مقدرت سے بعض کام کرتا ہے.تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۹ - ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۳، ۴۴۴) -۲۵۵ - يَااَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمَ لَا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَةٌ وَلَا شَفَاعَةُ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ - ترجمہ.اے ایمان دارو! ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کر لو اس سے پہلے کہ آ جاوے وہ دن جس میں نہ خرید و فروخت ہوگی اور نہ دوستی و پہچانت اور نہ سفارش اور حق چھپانے والے منکر ہی ظالم ہیں.تفسیر.يَوْمُ لا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَةٌ وَلَا شَفَاعَةُ - ایک دن ایسا آ نے والا ہے کہ وہاں نہ کوئی نئی بیچ ہو سکے گی نہ خلت نہ شفاعت.یہاں بیج ، خلت ، شفاعت کی مطلق نفی ہر گز نہیں ہے.عربی میں لا دو طرح کے آتے ہیں.ایک وہ جس کے بعد تنوین آتی ہے اور ایک وہ جس کے بعد تنوین نہیں آتی.پہلے کی مثال یہی آیت ہے اور دوسرے کی مثال لا رفت وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ (البقرة :١٩٨) ان دونوں یا میں فرق ہے.تنوین نہ ہو تو اس کے معنے ہیں’ بالکل نہیں.“ لا نفی جنس کا ہے اور اگر تنوین ہو تو اس سے مراد ہے بعض صورتوں میں نہیں.یہ لا مشبہ بہ لیس ہے.اب چونکہ یہاں تنوین ہے اس لئے یہاں بیچ کی مطلق نفی نہیں.اسی لئے دوسرے مقام پر فرمایا فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمُ (التوبة:1) اور نہ خلة کی مطلق نفی ہے.چنانچہ فرمایا الْأَخِلَّاءُ يَوْمَبِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُو إِلا الْمُتَّقِينَ (الزخرف: ۶۸) اور نہ شفاعة کی چنانچہ اس سے آگے اِلَّا بِإِذْنِ؟ آتا ہے.لے وہ عورت سے صحبت نہ کرے اور نہ ( کسی قسم کی ) بدکاری کرے اور نہ جھگڑا.ہے بشارت اور خوشی ہو اس سوداگری پر جو تم نے اللہ سے کی.(ناشر) سے اس دن جتنے دوست ہیں سب ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے صرف متقی ہی دوست بنے رہیں گے.(ناشر) به
حقائق الفرقان ۵۷۱ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ.کافر اپنی جان پر بھی ظلم کرتا ہے اور دوسروں پر بھی.سُوْرَةُ الْبَقَرَة ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ صفحه ۴۵) لا خُلَةٌ وَلَا شَفَاعَةُ.یہ کافر کے لئے ہے کیونکہ دوسرے مقام پر فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي با يَعتُم بِه (التوبة: ۱۱۱) ۲ - اَلْأَخِلاءُ يَوْمَبِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ إِلَّا الْمُتَّقِينَ (الزخرف: ۲۸) إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ تشخیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۴) ٢٥ - اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ : لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا b في السمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضَ وَلَا يَعُودُهُ حِفْظُهُمَا ۚ وَهُوَ الْعَلِيُّ ج الْعَظِيمُ.ترجمہ.اللہ وہ پاک ذات ہے جس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ سدا زندہ ہے سب کا تھا منے والا مد تبر عالم اُسے اونگھ اور نیند نہیں آتی.آسمان اور زمین کے اندر جو کچھ ہے سب اُسی کا ہے.ایسا کون ہے جو سفارش کرے اُس کی درگاہ میں بغیر اس کی اجازت کے وہ مخلوق کے رو برو اور پیٹھ پیچھے کا سب حال جانتا ہے اور مخلوق اس کی معلومات میں سے خود کسی چیز کا پورا پورا علم نہیں حاصل کر سکتی مگر جس قدر وہ چاہے اُس کی کرسی یعنی علم میں آسمان اور زمین سب شمار ہے ہیں اُسے بوجھل نہیں معلوم ہوتی ان دونوں کی حفاظت اور وہ بڑا عالی شان عظمت والا ہے.تفسیر.اللهُ لَا إِلَهَ إِلا هُوَ معبود وہی ہے جس کی بات کو مانا جائے.پس اس کی فرمانبرداری کرو.الْقَيُّوم - حافظ و ناصر.سنة.کسی شخص نے اعتراض کیا تھا کہ اُونگھ سے کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ اس کے ہاتھ میں دوشیشے دیئے گئے اور کہا گیا کہ تم اس کی حفاظت کرو.جب اسے نیند کا غلبہ ہوا تو اس نے اپنے تئیں بہت روکا.مگر اُونگھ جو آئی دونوں شیشے آپس میں ٹکر کھا کر ٹوٹ گئے.
حقائق الفرقان ۵۷۲ سُورَةُ الْبَقَرَة ولے کرنسیه - گری کے معنے علم کے ہیں.بخاری میں یہ معنے موجود ہیں.ایک شعر بھی یاد آ گیاب تَحَفُّ بِهِ بِيْضُ الْوُجُوهِ وَعُصْبَةٌ گراسى بِالاحْدَاثِ حِينَ تَنُوبُ (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۵) ہماری مکرم کتاب صحیح بخاری میں جسے ہم کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب مانتے ہیں لکھا ہے کرنسیه عِلْبُه، یعنی کرسی کے معنے علم کے ہیں.پس معنی وَسِعَ کُرسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ (البقرة: ۲۵۶) کے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کا علم تمام بلندیوں اور زمین کو وسیع ومحیط ہو رہا ہے.نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۱۲۱، ۱۲۲) ہر ایک عیب سے پاک.تمام صفات کا ملہ کے ساتھ موصوف.جس کا نام ہے اللہ.اس کے بغیر کوئی بھی پرستش وفرمانبرداری کا مستحق نہیں.دائم اور باقی تمام موجودات کا مدبر اور حافظ جس کو کبھی شستی ، اُونگھ اور نیند نہ ہو.اُسی کے تصرف اور ملک اور خلق میں ہیں.آسمان و زمین اُسی کی ہستی اور یکتائی کو ثابت کرتے ہیں.کوئی بھی نہیں کہ اس کی کبریائی ، عظمت کے باعث اس پاک ذات کی پروانگی کے سوا کسی کی سپارش بھی کر سکے.پس کسی کو مقابلہ و حمایت کی تو کیا سکت ہوگی.وہ جانتا ہے تمام جو کچھ آگے ہوگا اور جو کچھ گذر چکا ہے.موجودات کی نسبت کیا کہنا ہے.کوئی بھی اس کے علم سے کسی چیز کا اس کی مشیت کے سوا احاطہ نہیں کر سکتا.اس کا کامل علم آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے اور وہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت سے کبھی نہیں تھکتا.وہ شریک اور جوڑ سے بلند ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۱۵) ۲۵۷ - لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرُ بالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنُ بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَ 609 دو، الله سميع عليم.ترجمہ..دین میں کچھ زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے صاف صاف الگ ہو چکی ہے تو جونہ مانے جھوٹے معبود کو اور اللہ ہی کو مانے تو البتہ اس نے مضبوط رتی پکڑ لی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ بڑا لے اس کے اردگرد خوبصورت لوگوں اور واقف حالات علماء کا گروہ جب وہ حالات وارد ہوں تو اکٹھا ہو جاتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۷۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سننے والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.لا اکراہ فی الدین.ایک انبیاء کی راہ ہوتی ہے ایک بادشاہوں کی.انبیاءکا یہ قاعدہ نہیں ہوتا کہ وہ ظلم و جور و تعدی سے کام لیں.ہاں بادشاہ جبر و اکراہ سے کام لیتے ہیں.پولیس اس وقت گرفت کر سکتی ہے جب کوئی گناہ کا ارتکاب کر دے مگر مذہب گناہ کے ارادہ کو بھی روکتا ہے.پس جب مذہب کی حکومت کو آدمی مان لیتا ہے تو پولیس کی حکومت اس کی پر ہیز گاری کے لئے ضروری نہیں ہوتی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جبر وا کراہ کا تعلق مذہب سے نہیں.پس کسی کو جبر سے مت داخل کرو کیونکہ جو دل سے مومن نہیں ہوا وہ ضرور منافق ہے.شریعت نے منافق اور کا فرکو ایک ہی رہتی میں جکڑا ہے.غلطی سے ایسی کہانیاں مشہور ہوگئی ہیں کہ اسلام بزور شمشیر دنیا میں پھیلا یا گیا ہے.بھلا خیال تو کر واگر اسلام میں جبر جائز ہوتا تو ہندوستان میں اتنے سو سال حکومت رہی پھر یہ ہزاروں برسوں کے مندر،شوالے اور ٹیسٹکیں کیوں موجود پائی جاتیں؟ عالمگیر کو بھی الزام دیتے ہیں کہ وہ ظالم تھا اور بالجبر مسلمان کرتا.یہ کیسی بیہودہ بات ہے.اس کی فوج کے سپہ سالار ایک ہندو تھے.بڑا حصہ اس کی عمر کا اپنے بھائیوں سے لڑتے گزرا.اس کی موت بھی تاناشاہ کے مقابل میں ہوئی.پھر اسلام بادشاہوں کے افعال کا ذمہ دار نہیں.مسلمانوں نے یہی غلطی کی کہ معترضین کے مفتریات کو تسلیم کر لیا حالانکہ اسلام دلی محبت و اخلاق سے حق بات ماننے کا نام ہے.اسی لئے اسلام میں جبر نہیں.یہ آیت ضروری یاد رکھنی چاہیے.اسلام میں ہرگز اکراہ نہیں.چنانچہ پارہ گیارہ رکوع ۱۰ میں فرماتا ہے.وَ لَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنين - (يونس: ١٠٠) قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ - رُشد کہتے ہیں اصَابَةُ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ یعنی واقعی بات کو پالینا لے اور اگر تیرا رب چاہتا ( یعنی جبراً ) تو ضرور ایمان لے آتے سب کے سب جو زمین میں ہیں اکٹھے تو کیا تو زبر دستی کر سکتا ہے لوگوں پر کہ وہ ایمان لا ہی لیں.
حقائق الفرقان ۵۷۴ سُورَةُ الْبَقَرَة اور حق تک پہنچ جانا.غی کہتے ہیں اس حق وصواب کی جگہ سے رُک جانے کو.اسلام کے چند اصول بیان کرتا ہوں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رُشد وغی کو کیا امتیاز سے بیان کیا ہے.فرمایا.شرک نہ کرو.وعید بتلایا.إِنَّ اللهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ (النساء: ٢٩) کوئی حضرت مسیح کو پوجے یا امام حسین یا سید عبدالقادر جیلانی کو یا درخت یا تالاب.پہاڑ.جانور کوسب برابر ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خادم ہیں سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّبُوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( الجاليه: ۱۳) پس جو مخدوم ہونے کی بھی حیثیت نہیں رکھتی وہ تمہاری معبود کس طرح بن سکتی ہے؟ انجیل.وید ند وستا بدھ کی تعلیم میں میں نے عظمت النبی کی یہ راتیں ہر گز نہیں پائیں.قرآن کا ایک ایک رکوع مسلمانوں کو توحید کا سبق دیتا ہے پھر بھی اگر یہ شرک میں گرفتار رہیں تو ان کی قبردیتی.کیا خوب فرما یا ابْغِيكُمُ الهَا وَهُوَ فَضَّلَكُمْ عَلَى الْعَلَمِينَ (الاعراف:۱۴۱) تم خود جہان والوں سے افضل اور پھر انہی میں سے کوئی چیز تمہاری معبود بنے؟.پھر اسلام میں عام اخلاق کی نسبت دیکھو کہ شراب سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا کیونکہ یہ سب برائیوں کی جڑ ہے.ایک شخص ایک عورت پر عاشق ہو گیا.اس نے کہا وصل کی شرط میں اس بت کی پرستش کرو.۲.خاوند کو قتل کر دو.۳.شراب پی لو.اس نے کہا کہ ایک شراب پینا مان لیتا ہوں باقی بہت خوفناک گناہ کے افعال میں نہ کروں گا.جب شراب پی تو پھر دوسری چیزوں کا بھی مرتکب ہو گیا.اسلام کا تیسرا اصول.پردے کی تعلیم ہے.میں نے کسی کتاب میں جو خدا کی طرف منسوب کی جاتی ہے یہ تعلیم نہیں پائی.قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ اور قُلْ لِلْمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ ابْصَارِهِنَّ (النور: ۳۱، ۳۲) مومن مرد اور عورتیں بیچی اور نیم باز نگاہیں رکھنے کی عادت ڈالیں.لے بے شک اللہ یہ قصور نہیں معاف کرتا کہ کسی کو اُس کے برابر سمجھا جائے، اُس کا شریک کیا جائے.سے اور تابع کر دیا تمہارے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور زمین میں سب کا سب سے میں تم کو لادوں کوئی اور معبود حالانکہ اُس نے بزرگی دی تم کو موجودہ سب جہان والوں پر.(ناشر) ہے ایماندار مردوں سے کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی رکھا کریں.اور ایماندار عورتوں سے کہہ دے نیچی نگاہ رکھا کریں اپنی.
حقائق الفرقان ۵۷۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة دیکھا جماع الاثم ( خمر ) اور حبائل الشیطان ( عورت ) سے کس طرح روکا.پھر نماز کی تاکید کی.جو شخص پانچ نمازوں کا پابند ہے وہ کبیرہ گناہ شراب وغیرہ کا ارتکاب بھی نہیں کرے گا.پھر اسلام میں مال حرام سے ممانعت کی.شراب وغیرہ کا پینا مال کثیر پر موقوف ہے اور مال کثیر زیادہ تر طریقِ حرام ہی سے آتا ہے اس لئے منع کیا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے اللَّهُمَّ ارْزُقُ الَ مُحَمَّدٍ قُوْتًا - پھر اسلام میں جزا وسزا کا مسئلہ ہے.یہ بھی کل گنا ہوں سے روکنے والا ہے.پھر اسلام کا یہ اصل کہ وہ تمام پسندیدہ امور کے کرنے اور قبیحہ امور کے نہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر فرما رہے تھے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ _ (ال عمران : ۱۱۱) ایک قوم نے اپنا سفیر واسطے تحقیق دینِ اسلام کے بھیجا تھا وہ یہ کلمہ سنتے ہی واپس گیا اور اپنی قوم سے جا کر کہا سب مسلمان ہو جاؤ.وہ حیران ہوئے تو اس نے بتایا کہ جس مذہب کا اصل امر بالمعروف، نہی عن المنکر ہو وہ کیونکر برا ہو سکتا ہے بلکہ اس میں نہ داخل ہونے والا برا ہے.فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ.طاغوت طغووت سے نکلا ہے.حد بندی سے آگے بڑھنے والے کو طافی کہتے ہیں.سیلاب کو بھی طغیانی اسی لئے کہتے ہیں کہ پانی ندی کی حد مقررہ سے باہر نکل کر اچھلتا ہے.شریعت نے ہر بات کے لئے حد رکھی ہے پس جو اس حد سے نکلا ہے وہ طاغی ہوا اور جو تمام حد بندیوں کو تو ڑ کر نکل جاوے وہ طاغوت کہلاتا ہے.پس جو حضرت حق سبحانہ کا، جو منزہ ہے تمام عیوب و نقائص سے اور جامع ہے کمالات و خوبیوں کا ، فرمانبردار ہو تو فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُروة الوثقی اس نے بڑی مضبوط پکڑنے کی چیز کو پکڑا.غروہ کہتے ہیں پکڑنے کی چیز کو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۶،۴۵) ا تم نیک ترین امت ہو پیدا کئے گئے ہولوگوں کے لئے تم نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور بڑے کاموں سے منع کرتے ہو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۷۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى - دین کے معاملہ میں جبر نہیں.وہ کھلی چیز ہے.رشد اور غنی الگ الگ چیزیں ہیں.رُشد اختیار کرنے اور غنی کے چھوڑنے میں کسی اکراہ کی ضرورت نہیں.اس آیت میں تین لفظ ہیں دین، رُشد اور غی.الدین.اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں جو دین کی توضیح اور تفسیر فرمائی ہے وہ یہ ہے ان الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسلام - اللہ تعالیٰ کے حضور دین کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟ الْإِسلام اپنی ساری قوتوں اور طاقتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو جائے.اللہ تعالیٰ کے فرمان کو لے اور اس پر رُوح اور راستی سے عمل درآمد کرے.دین کے متعلق جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سوال کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلکہ ہم کو آگاہ کیا ہے کہ یہ جبرائیل تھا.آتَاكُمْ لِيُعَلِّمَكُمْ دِينَكُمْ.پس دین کی حقیقت اور اس کا صحیح اور سچا مفہوم وہ ہو گا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت بیان فرمایا.الاسلام کے معنے یہ ہیں.سر رکھ دینا.جان سے.دل سے.اعضاء سے.مال سے.غرض ہر پہلو اور ہر حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری کرنا.دین کے لئے اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کی کامل اطاعت ، فرمان پذیری اور وفاداری کا اظہار کر سکتے ہیں اور پھر ان کے وراء الورا اندر ہی اندر قوی پر حکمرانی کر سکتے ہیں اور ان کو الہی فرمانبرداری میں لگا سکتے ہیں.غرض دین کی اصل حقیقت جو قرآن شریف نے بتائی ہے وہ مختصر الفاظ میں کامل وفاداری ، سچی اطاعت اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.الدین کا پہلا کن یعنی الایمان.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل کے توسط سے جو کچھ صحابہ کو اور ہم کو سکھایا ہے وہ ان سوالات میں بیان ہو ا ہے جو صحابہ کی موجودگی میں جبرائیل نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے اور جن کی اصل غرض لِيُعَلِّمَكُمْ دِينَكُمْ تھی.ان میں - پہلا یہ ہے.مَا الإِیمَانُ ؟ یا رسول اللہ ! ایمان کس چیز کا نام ہے؟ فرمایا آن تُؤْمِنَ بِالله ایمان کی
حقائق الفرقان ۵۷۷ سُورَةُ الْبَقَرَة عظیم الشان اور پہلی جزوایمان باللہ ہے اور یہ بالکل سچی بات ہے کہ ایمان کا سر چشمہ اور اس کی ابتدا اللہ پر یقین کرنے سے شروع ہوتی ہے.ایمان باللہ کیا چیز ہے؟ اللہ تعالیٰ کو جمیع صفات کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسماء حسنیٰ کا مجموعہ اور مسٹمی اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزہ یقین کرنا اور اس کے سوا کسی شئی سے کوئی امید و بیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کا نڈ اور شریک نہ ماننا یہ ایمان باللہ ہے.جب انسان اللہ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف یقین کرتا ہے تو ایسے خدا سے وہی قرب اور تعلق پیدا کرسکتا ہے جو خوبیوں سے موصوف اور بدیوں سے پاک ہوگا.پس جس جس قدر انسان فضائل کو حاصل کرتا اور رذائل کو ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے قرب کے مدارج اور مراتب کو بڑھاتا اور اللہ تعالیٰ کی ولایت میں آتا جاتا ہے کیونکہ پاک کو گندے کے ساتھ قرب کی نسبت نہیں ہو سکتی اور جوں جوں رذائل کی طرف جھکتا اور فضائل سے بہتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے محروم ہو کر اُس کے فیضانِ ولایت سے دور اور مہجور ہوتا جاتا ہے.یہ ایک قابل غور اصل ہے اور اس کو کبھی بھی ہاتھ سے دینا نہیں چاہیے.صفات الہی پر غور کرو اور وہی صفات اپنے اندر پیدا کر نتیجہ یہ ہوگا کہ قرب الہی کی راہ قریب ہوتی جائے گی اور اس کی قدوسیت اور سبحانیت تمہاری پاکیزگی اور طہارت کو اپنی طرف جذب کرے گی.بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جو خود ناپاک اور گندی زیست رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ کیوں ہم کو قرب الہی حاصل نہیں ہوتا ؟ وہ نادان نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں کو قرب الہی کیونکر حاصل ہو جو اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پیدا نہیں کرتے.قدوس خدا ایک نا پاک انسان سے کیسے تعلق پیدا کرے؟ ایمان بالملائکہ کی فلاسفی ایمان باللہ کے بعد دوسری جز و ایمان کی ایمان بالملائکہ ہے.ایمان بالملائکہ کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ نے یوں سمجھ دی ہے کہ انسان کے دل پر ہر وقت ملک اور شیطان نظر رکھتے ہیں اور یہ امرایسا واضح اور صاف ہے کہ اگر غور کرنے والی فطرت اور طبیعت رکھنے والا انسان ہو تو بہت جلد اس کو سمجھ لیتا ہے بلکہ موٹی عقل کے آدمی بھی معلوم کر سکتے ہیں اور وہ اس طرح پر کہ بعض وقت یکا یک بیٹھے بٹھائے
حقائق الفرقان ۵۷۸ سُورَةُ الْبَقَرَة انسان کے دل میں نیکی کی تحریک ہوتی ہے یہاں تک کہ ایسے وقت بھی یہ تحریک ہو جاتی ہے جبکہ وہ کسی بڑی بدی اور بدکاری میں مصروف ہو.میں نے ان امور پر مدتوں غور کی اور سوچا ہے اور ہر ایک شخص اپنے دل کی مختلف کیفیتوں اور حالتوں سے آگاہ ہے.وہ دیکھتا ہے کہ کبھی اندر ہی اندر کسی خطرناک بدی کی تحریک ہو رہی ہے اور پھر محسوس کرتا ہے کہ معا دل میں رقت اور نیکی کی تحریک کا اثر پاتا ہے.یہ تحریکات نیک یا بد جو ہوتی ہیں بڑوں کسی محرک کے تو ہو نہیں سکتی ہیں.پس یہ وہی بات ہے جو میں نے ابھی کہی ہے کہ انسان کے دل کی طرف ملائکہ اور شیاطین نظر رکھتے ہیں.پس ایمان بالملائکہ کی اصل غرض یہ ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر جو ملائکہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے کبھی کسل و کاہلی سے کام نہ لے اور فورا اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جائے اور توجہ کرے.اگر ایسا نہ کرے گا تو وَ اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ " کا مصداق ہو کر پھر نیکی کی تو فیق سے بتدریج محروم ہو جائے گا.قرب الہی کا دوسرا ذریعہ یہ پکی بات ہے کہ جب انسان نیکی کی تحریکوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر وہ طاقت ، وقت ،فرصت اور موقع نہیں ملتا.اگر انسان اسی وقت متوجہ ہو جاوے تو معا نیک خیال کی تحریک ہوتی ہے.چونکہ اس خواہش کا محرک محض فضل الہی سے ملک ہوتا ہے جب انسان اس کی تحریک پر کار بند ہوتا ہے تو پھر اس فرشتہ اور اس کی جماعت کا تعلق بڑھتا ہے اور پھر اس جماعت سے اعلیٰ ملائکہ کا تعلق بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جاتا ہے.ایک حدیث میں صاف آیا ہے کہ جب اللہ تعالی کسی سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل کو آگاہ کرتا ہے تو وہ جبرائیل اور اس کی جماعت کا محبوب ہوتا ہے اسی طرح پر درجہ بدرجہ وہ محبوب اور مقبول ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین میں مقبول ہو جاتا ہے.یہ حدیث اسی اصل اور راز کی حل کرنے والی ہے جو میں نے بیان کیا ہے.ایمان بالملائکہ کی حقیقت پر غور نہیں کی گئی اور اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیا جاتا ہے.یا درکھو کہ ملائکہ کی پاک تحریکوں پر کار بند ہونے سے نیکیوں میں ترقی ہوتی ہے یہاں تک کہ لے اور جان رکھو کہ اللہ آڑے آ جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۷۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة انسان اللہ تعالیٰ کا قرب اور دنیا میں قبول حاصل کرتا ہے.اسی طرح پر جیسے نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے میں نے کہا کہ بدیوں کی بھی تحریک ہوتی ہے.اگر انسان اس وقت تعوذ ، استغفار سے کام نہ لے.دعائیں نہ مانگے.لاحول نہ پڑھے تو بدی کی تحریک اپنا اثر کرتی ہے اور بدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس جیسے یہ ضروری ہے کہ ہر نیک تحریک کے ہوتے ہی اس پر کار بند ہونے کی سعی کرے اور شستی اور کاہلی سے کام نہ لے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر بد تحریک پر فی الفور استغفار کرے، لاحول پڑھے، درود شریف پڑھے اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور دعائیں مانگے.یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ ایمان باللہ کے بعد ایمان بالملائکہ کو کیوں رکھا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ساری سچائیوں اور پاکیزگیوں کا سر چشمہ تو جناب النبی ہی ہے مگر اللہ تعالیٰ کے پاک ارادے ملائکہ پر جلوہ گری کرتے ہیں اور ملائکہ سے پاک تحریکیں ہوتی ہیں.ان نیکی کی تحریکوں کا ذریعہ دوسرے درجہ پر چونکہ ملائکہ ہیں اس لئے ایمان باللہ کے بعد اس کو رکھا.ملائکہ کے وجود پر زیادہ بحث کی اِس وقت حاجت نہیں.یہ تحریکیں ہی ملائکہ کے وجود کو ثابت کر رہی ہیں.اس کے علاوہ لاکھوں لاکھ مخلوقِ الہی ایسی ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں اور نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم ہے.ایمان بالكتب اس کے بعد تیسر احجز و ایمان کا ایمان پالکتب ہے.براہ راست مکالمہ اول فضل ہے.پھر ملائکہ کی تحریک پر عمل کرنا اس کے قرب کو بڑھاتا ہے ان کے بعد کتاب اللہ کے ماننے کا مرتبہ ہے.کتاب اللہ پر ایمان بھی اللہ کے فضل اور ملائکہ ہی کی تحریک سے ہوتا ہے.اللہ کی کتاب پر عمل درآمد جو بچے ایمان کا مفہوم اصلی ہے چاہتا ہے محنت اور جہاد.چنانچہ فرمایا.وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ اور سعی کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.یہ کیسی کچی اور صاف بات ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختلاف کے وقت انسان مجاہدات سے کام نہیں لیتا.
حقائق الفرقان ۵۸۰ سُورَةُ الْبَقَرَة کیوں ایسے وقت انسان دبدبہا اور تردد میں پڑتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک کچھ فتوی دیتا ہے اور دوسرا کچھ تو وہ گھبرا جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.کاش وہ جَاهَدُوا فِینَا کا پابند ہوتا تو اس پر سچائی کی اصل حقیقت گھل جاتی.مجاہدہ کے ساتھ ایک اور شرط بھی ہے وہ تقوی کی شرط ہے.تقوی کلام اللہ کے لئے معلم کا کام دیتا ہے.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ اللَّہ کی تعلیم تقولی پر منحصر ہے اور اس کی راہ کا حصول جہاد پر.جہاد سے مراد اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور کوشش ہے.ترقیات کا مانع اللہ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقوی اللہ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُم مِّنَ الْعِلْمِ کسی قسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے.اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے.خواہ کسی قسم کا علم ہو، وجدان کا ، سائنس کا صرف ونحو یا کلام یا اور علوم، غرض کچھ ہی ہو.انسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقیوں کی پیاس مٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے.راست باز انسان کی پیاس سچائی سے کبھی نہیں بجھ سکتی بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے.اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ ایک کامل انسان ، اعلم بااللہ آتھی لِلهِ ، آخشی اللہ جس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سچے علوم.معرفتیں.بچے بیان اور عمل درآمد میں کامل تھا اس سے بڑھ کر اعلم.انفی اور اخشی کوئی نہیں.پھر بھی اس امام المتقین اورامام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا.(طه: ۱۱۵) اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچائی کے لئے اور اللہ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں اور علوم حقہ کے لئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی جس قدر وہ نیکیوں اور تقوی میں ترقی کرے گا.لے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اللہ تمکو سکھاتا ہے.اور کہا کراے میرے رب ! مجھے علم اور زیادہ دے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۸۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بجھا ہوا محسوس کرے اور فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ کے آثار پائے اس کو استغفار اور دُعا کرنی چاہیے کہ وہ خطرناک مرض میں مبتلا ہے جو اس کے لئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے.چونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے انت اور اس کے مراتب و درجات بے انتہا ہیں پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے.اس لئے اسے واجب ہے کہ اللہ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا منبع ہوکر کتاب اللہ کے سمجھنے میں چست و چالاک ہو اور سعی اور مجاہدہ کرے.تقوی اختیار کرے تا بچے علوم کے دروازے اس پر کھلیں.غرض کتاب اللہ پر ایمان تب پیدا ہو گا جب اس کا علم ہوگا اور علم منحصر ہے مجاہدہ اور تقوی پر اور فَرِحُوا بِمَا عِندَهُم مِّنَ الْعِلْمِ سے الگ ہونے پر.ایمان بالرسالت اس کے بعد چوتھا رکن ایمان کا ایمان بالرسول ہے.بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں ڈھیر کتا بیں ہیں.پرانے لوگوں کی یادداشتیں ہیں.ہم نیکی اور بدی کو سمجھتے ہیں.کسی ما مورو مرسل کی کیا ضرورت ہے؟ الحکم جلدے نمبر ۲.مورخہ ۱۷ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵،۱۴) یہ لوگ اپنے مخازن علوم کو کافی سمجھتے ہیں اور خطرناک جرم کے مرتکب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور باغی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے.اللہ تعالیٰ ہی سے تو وہ مقابلہ کرتے ہیں.جب اللہ تعالیٰ ایک انسان کو معظم و مکرم اور مطاع بنانا چاہتا ہے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ رضاء النبی کو مقدم کرے اور اس کو اپنا مطاع سمجھے.ارادہ الہی کو کوئی چیز روک نہیں سکتی.اس کے مقابلہ میں تو جو آئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا.پس جو خلاف ورزی کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ میرے علوم کے سامنے اس کی احتیاج نہیں وہ اس تعظیم ،مکرمت ، اعزاز میں جو اس مطاع مکرم و معظم کے متبعین کو لے یہ لوگ خوش ہوئے اس پر جو اُن کے پاس علم تھا.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۸۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ملتا ہے حصہ دار نہیں ہوتا بلکہ محروم رہ جاتا ہے خواہ ایسا انسان اپنے طور پر کتنی ہی نیکیاں کرتا ہو مگر اس ایک انسان کی مخالفت اور خلاف ورزی سے اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان منشاء کے خلاف کرتا ہے.اس پر بغاوت کا الزام ہے.دُنیوی گورنمنٹوں کے نظام میں بھی یہی قانون ہے.ایک بھلا مانس آدمی جو کبھی بد معاملگی نہیں کرتا.چوری اور رہزنی اس کا کام نہیں.تاجر ہے تو چونگی کا محصول اور دوسرے ضروری محاصل کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرتا.زمیندار ہے تو وقت پر لگان ادا کرتا ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ بادشاہ کی ضرورت نہیں اور اس کے اعزاز و اکرام میں کمی کرے تو یہ شریر اور باغی قرار دیا جاوے گا.اسی طرح پر ماموروں کی مخالفت خطر ناک گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور ہوسکتا ہے.ابلیس نے یہی گناہ کیا تھا.انبیاء علیہم السلام کے حضور شیاطین بہت دھو کے دیتے ہیں.میرے نزدیک وہ لوگ بڑے ہی بد بخت ہیں جو اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ذرہ ذرہ اس پر لعنت بھیجتا ہے.جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ معزز و مکرم اور مطاع ہو تو اس کی مخالفت کرنے والا تباہ نہ ہو تو کیا ہو؟ یہی بستر ہے جو انبیاء و مرسل اور مامورین کے مخالف ہمیشہ تباہ ہوئے ہیں.وہ جرم بغاوت کے مجرم ہوتے ہیں.پس کتابوں کے بعد رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ انسان متکبر ہو جاتا ہے اور پہلا گناہ دین میں خلیفہ اللہ کے مقابل یہی تھا آبی وَاسْتَكْبَر.اس میں شک نہیں کہ سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں.اچھے بھی کرتے ہیں اور برے بھی.مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور برے نہیں کرتے.مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے.پس اگر ملک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہ چھوڑے گا ورنہ لعنت کا طوق گلے میں پڑے گا.جزا و سزا اس کے بعد پانچواں رکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے.یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی
حقائق الفرقان ۵۸۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے.یہ ایک فطرتی مسئلہ ہے اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.ایک بچہ بھی جب دیکھتا ہے کہ یہاں سے دکھ پہنچے گا وہاں سے ہٹتا ہے اور جہاں راحت پہنچتی ہے وہاں خوشی سے جاتا ہے.چلا چلا کر بھی جزا لینے کو تیار ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ فاسق و فاجر کی فطرت میں بھی یہ امر ہے.ایک آدمی کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے کے سامنے ذلیل وخوار ہو.ہر ایک چاہتا ہے کہ معزز ہو.میں نے دیکھا ہے کہ فیل ہونے سے ایک بچہ کو کیسی ذلت پہنچتی ہے.بعض اوقات ان ناکامیوں نے خود کشیاں کر دی ہیں اور پاس ہونے سے کیسی خوشی ہوتی ہے.زمینداروں کو دیکھا جب بر وقت بارش نہ ہو ، پھل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو.کیسا رنج ہوتا ہے! لیکن اگر غلہ گھر لے آئے تو کیسا خوش ہوتا ہے! اسی طرح ہر حرفہ وصنعت والا دکاندار.غرض کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو.پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اللہ تعالیٰ نے ایمان کا جزور کھا ہے کہ جزا وسزا پر ایمان لاؤ اللہ مالک یوم الدین ہے.روزِ روشن کی طرح اس کی جزا ئیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور برے کام پر سزا دیتا ہے.اس حصہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قرب الہی کی راہوں سے دُور چلا جاتا ہے.دوسرا سوال پھر دوسرا سوال جو جبرائیل نے تعلیم الدین کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور آپ نے اس کا جواب دیا وہ ہے مَا الْإِسْلَامُ ؟ اس کا جواب جو پاک انسان خاتم الانبیاء و خاتم الاولیاء خاتم الکمالات کی زبان سے نکلاوہ یہ ہے آنْ نَشْهَدَ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ جو بات انسان کے دل سے اٹھتی ہے ضرور ہے کہ اس کا اثر اس کے اعضاء و جوارح اور مال پر
حقائق الفرقان ۵۸۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پڑے.کون نہیں سمجھتا کہ شجاعت اگر اندر ہوتو وہ اپنے ہاتھ ، باز و اور اعضاء سے محل وموقع پر اس کا ثبوت نہ دے گا.اگر وہ موقع پر بھاگ جاتا اور بزدلی ظاہر کرتا ہے تو کوئی اس کو شجاع نہیں کہہ سکتا.اسی طرح سخاوت ایک عمدہ جو ہر ہے لیکن اگر اس کا اثر مال پر نہیں پڑتا تو وہ سخاوت نہیں بخل ہے.ایسا ہی عفت ایک عمدہ صفت ہے ضرور ہے کہ جس میں یہ صفت ہو وہ بدنظری اور بے حیائی سے بچے اور تمام فواحش اور نا پاک کاموں سے پر ہیز کرے.اسی طرح جس کے اندر قناعت ہوضروری ہوگا کہ وہ دوسروں کے مال پر بے جا تصرف سے پر ہیز کرے گا.غرض یہ ضروری بات ہے کہ جب اندر کوئی بات ہو تو اس کا اثر جوارح اور مال پر ضرور ہوتا ہے.پس اگر سچی نیازمندی ، فرمانبرداری، تحریک ملائکہ، کتابوں، ماموروں، خلفاء اور مصلحوں کی اطاعت میں ہو اور دل میں یہ بات ہو تو زبان پر ضرور آئے گی اور وہ اظہار کرے گا.اگر سچائی سے کسی انسان کو مانا ہو ا ہو اور اس کے اظہار سے مضائقہ ہوتو یا درکھو دل کمزور ہے.اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اللہ کے اسماء پر کامل یقین ہو اور اس کے رسولوں پر، ملائکہ پر اور کتابوں اور انبیاء پر یقین ہو اور ایسا ہی اس یقین میں اس کے نواب اور اللہ کا قرب داخل ہے تو اس یقین کا اثر زبان پر آتا ہے اور وہ ایک لذت کے ساتھ کہہ اٹھتا ہے اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - بے ریب سید الاولین والآخرین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامل صفات والا انسان کل سچائیوں اور علومِ حقہ کا لانے والا ہے.جب یہ اقرار اور وہ ایمان ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سچی نیازمندی کے ساتھ جناب الہی کے حضور پیش ہو اور یہی نماز ہے.نماز ظاہری پاکیزگی اور ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرم گاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے میں اس ظاہر پاکیزگی کوملحوظ رکھتا ہوں اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچی طہارت عطا کر اور پھر اللہ تعالی کے حضور سبحانیت، قدوسیت، مجدیت پھر ربوبیت رحمانیت، رحیمیت اور اس کے ملک و ملک میں تصرفات اور اپنی ذمہ داریوں کو یاد کر کے کہ اس قلب کے ساتھ ماننے کو تیار ہوں.سینہ پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں.اس قسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس میں وہ خاصیت اور اثر پیدا ہوتا
حقائق الفرقان ۵۸۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے جو إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِے میں بیان ہوا ہے.پھر پاک کتاب کا کچھ حصہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اور نیاز مندی کی انتہا بجز سجدہ کے اور کوئی نہیں.جب اس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیا ز مندی اور سچائی جب اعضاء اور جوارح پر اپنا اثر کر چکی تو اور جوش مارکر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا.وحدت کی ضرورت اور ایک مقررہ حصہ اپنے مال کا دے گا جیسے آج کے دن بھی صدقۃ الفطر ہر شخص پر غمنی ہو، " ہو یا عبد.غرض سب پر واجب ہے کہ وہ صدقہ دے تا کہ اوروں کے لئے طہر کا کام دے اور نماز سے پہلے ایک مقام پر جمع کرے.اس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وحدت پیدا ہو.اسلام کے ہرامر میں وحدت کی روح پھونکی گئی ہے.جب تک وحدت نہ ہو اس پر اللہ کا ہاتھ نہیں ہوتا جو جماعت پر ہوتا ہے.میں درختوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایک پتہ کہے کہ میں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں اور اپنے رب سے مانگتا ہوں وہ مجھے سرسبز کر دے گا.کیا وہ الگ ہو کر سرسبز رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ مرجھا جائے گا اور ادنی سے جھونکے سے گر جائے گا اس لئے ضروری ہے کہ ایک شاخ سے اس کا تعلق ہوا اور پھر اس شاخ کا کسی بڑی شاخ سے اور اس کا کسی بڑے تنے سے تعلق ہو جو جڑ اور اس کی رگوں سے اپنی خوراک کو جذب کرے.یہ سچی مثال ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کا پیج لگا تا ہے تو جو شاخ اس سے الگ ہو کر بار آور اور مر دار ہونا چاہے وہ نہیں رہ سکتی خواہ اسے کتنے ہی پانی میں رکھو.وہ پانی اس کی سرسبزی اور شادابی کی بجائے اس کے سڑنے کا موجب اور باعث ہوگا.پس وحدت کی ضرورت ہے اسی لئے صدقۃ الفطر بھی ایک ہی جگہ جمع ہونا چاہیے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید سے پہلے یہ صدقہ جمع ہو جاتا اور ایسے ہی زکوۃ کے اموال بڑی احتیاط سے اکٹھے کئے جاتے یہاں تک کہ منکرین کے لئے قتل کا فتوی دیا گیا.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں ابھی یہ وحدت پیدا نہیں کچھ شک نہیں کہ نماز روکتی ہے کھلی بے حیائی اور کار بد سے ( یہود اور نصاری بننے سے ).( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۸۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہوئی یا ہوئی ہے تو بہت کمزور ہے.تم پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ تم نے اس کو کامل صفات سے موصوف مانا ہے اور یہاں تک تم نے توحید سے حفظ اُٹھایا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے مخلوق میں سے کسی کو ان صفات سے موصوف مانتا تھا تم نے اس کو بھی اس امام کے طفیل سے چھوڑا اور اب تم پاک ہو گئے کہ مسیح کو خالق اور باری ملل محترم اور ٹی اور کمیت اور عالم الغیب سمجھو.تو جیسے یہ امتیاز حاصل کیا تھا اب کیسی ضرورت تھی کہ پھر صحابہ کی طرح تمہارے سارے تعلقات اس شجر طیبہ کے ساتھ ہوتے جس کے ساتھ پیوند ہوکر وہ تمام پھل لانے والے تم ہو سکتے تھے.مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے جب میں کسی کو ایسے تعلقات سے باہر دیکھتا ہوں.دیکھو! تمہارے تعلقات تمہارے چال چلن ، شادی و فمی، حسن معاشرت، تمدن، سلطنت کے ساتھ تعلقات ، غرض ہر قول و فعل آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہوگا.پھر کیا تم چاہتے ہو کہ رحمت اور فضل کا نمونہ تم بنو یا لعنت کا.پس دعائیں کرو کہ تم جو اس پاک چشمہ پر پہنچے ہو اللہ تعالیٰ تمہیں اس سے سیراب کرے اور عظیم الشان فضل اور خیر کے حاصل کرنے کی تمہیں تو فیق ملے اور یہ سب توفیقیں اس وقت ملیں گی جب تمہارے سب معاملات ایک درخت سے وابستہ ہوں.پس ان سارے چندوں اور اغراض میں ایک ہی تنا اور جڑ ہو.پھر ایسی وحدت ہو کہ تمام دغا اور فریب کپٹ سے بڑی ہو جاؤ.شاید تم نے سمجھا ہو کہ کسی کتاب کا نام کشتی نوح ہے.نہیں.کچھ اغراض و مقاصد ہیں.کچھ عقائد اور اعمال ہیں.اس پر وہی سوار ہوسکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کی تعلیم کے موافق بناتا ہے.پھر ان سب کے بعد تقوی کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک وقت معین تک چھوڑتا ہے.اب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کا استعمال کیوں کرے گا؟ روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اللہ کو ناراض نہ کرے اس لئے فرمایا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ پھر جیسے پنجگانہ نمازیں ہر محلے میں باجماعت پڑھتے ہیں اور پھر جمعہ کی نماز سارے شہر والے
حقائق الفرقان ۵۸۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اسی طرح اردگرد کے دیہات والے اور کل شہر کے باشندے جمع ہو کر عید کی نماز ایک جگہ پڑھتے ہیں اس میں بھی وہی وحدت کی تعلیم مقصود ہے.غرض اسلام کے ہر رکن میں ایک وحدت کو قائم کیا ہے پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے خاص حکم بھی دیا لا تَنَازَعُوا باہم کشمکش نہ کرو کیونکہ جب ایک کھچا کھچی کرتا ہے تو دوسرا بھی اس میں مبتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہوا بگڑ جاتی ہے.جب یہ خود دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو چونکہ وہ بھی کبر الہی کا مظہر ہے اس لئے تکبر کرتا اور وحدت اُٹھ جاتی ہے.الحکم جلدے نمبر ۳ مؤرخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۱۴، ۱۵) اسی لئے حکم دیا کہ نزاع نہ کیا کرو ورنہ پھسل جاؤ گے اور فرمایا صبر کرو.ایسا صبر نہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری پھیر دو بلکہ ایسا صبر کرو اور عفو ہو کہ جس میں اصلاح مقصود ہو.سچے لے مومن بننا چاہتے ہو تو یا درکھو لا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِه - ( بخاری کتاب الایمان باب مِنَ الْإِيمَانِ اَنْ يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ ) اسی وحدت کے قائم رکھنے کے لئے نمازوں میں یک جہتی تھی.مکہ کا وجود تھا اور اب اس وقت خدا کا کیسا فضل ہے اور کیسی مبار کی کا یہ زمانہ ہے کہ سب سامان موجود ہیں.مکالمہ الہی ہوتا ہے ایک مطاع مکرم معظم موجود ہے جو اپنے عام چال چلن، مخلوق کے ساتھ تعلقات، معاشرت اور گورنمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات کا نمونہ دکھانے سے قوم بنا رہا ہے اس لئے اب کوئی عذر باقی نہیں رہ سکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں، کرنے کی نہیں.یہ ان کی غلطی ہے.اللہ تعالیٰ نے کوئی امر و نہی ایسا نہیں دیا ہے جو انسان کی طاقت سے باہر ہو.ورنہ اس کی حکیم کتاب قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) باطل ہوگا اور وہ باطل نہیں ہے متقی اور خدا سے ڈرنے والا ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتا یہ صرف خبیث روح کی تحریکیں ہیں.الإحسان.اس کے بعد تیسری بات جبرائیل نے پوچھی ہے جس سے دین کی تکمیل ہوتی ہے ا تم میں سے کوئی مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے نفس کے لئے پسند کرتا ہے.(ناشر) ۲ اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اُس کی برداشت کے موافق.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۸۸ سُورَةُ الْبَقَرَة اور وہ یہ ہے مَا الْإِحْسَانُ؟ احسان کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ایسا اخلاص اور احتساب ہو کہ تو گویا اس کو دیکھتا ہے اور اگر اس درجہ تک نہ پہنچے تو کم از کم اپنے آپ کو اس کی نگرانی میں سمجھے.جب تک ایسا بندہ نہ ہو وہ دین کے مراتب کو نہیں سمجھ سکتا.پس ایسا دین کوئی سلیم الفطرت کہہ سکتا ہے کہ اس میں اکراہ کی ضرورت ہے؟ ہرگز نہیں.لا إكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى (البقرۃ: ۲۵۷)اس وقت بھی ویسا ہی وقت ہے جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا.ہدایت کی راہیں کھلی ہوئی ہیں.تجربے، مشاہدہ ، سائنس ، قوالی کا نشو ونما، وجدان صحیح ، فطری قوای، رشد اور فی میں امتیاز کرنے کو موجود ہیں.رُشد کو اقتصاد بھی کہتے ہیں جو افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے.بہت سے لوگ ہیں جو خاص خاص مذاق میں بڑھے ہوئے ہیں.بعض ایسے ہیں کہ اُن کو کھانے ہی کی ایک دھت ہوتی اور اب وہ اس میں بہت ترقی کر گئے ہیں اور کرتے جاتے ہیں.بعض کو دیکھا ہے کہ بچپن میں یہ عادت ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے بہت سی بد اطوار یوں کا باعث بن گئی.ایسا ہی لباس میں افراط کرنے والے، مکانات میں افراط سے کام لینے والوں کا یہ حال ہے.ایسا ہی بعض جمع اموال میں ، بعض فضول خرچیوں میں بڑھتے ہیں.جب ایک کی عادت ڈال لیتے ہیں تو پھر وہ ہر روز بڑھتی ہے.غرض افراط اور تفریط دونوں مذموم چیزیں ہیں.عمدہ اور پسندیدہ اقتصاد یا رشد ہے.یہی حال اقوال اور افعال میں ہے.اس طرح پر ترقی کرتے کرتے ہم عقائد تک پہنچتے ہیں.بعض نے تو سوسائٹی کے اصول رسم و رواج سب کو اختیار کر لیا اور مذہب کا جو و قرار دے لیا اور بعض ایسے ہیں کہ ساری انجمنوں کو لغو قرار دیتے ہیں.غرض دنیا عجیب قسم کی افراط اور تفریط میں پڑی ہوئی ہے.رُشد اور اقتصاد کی صراط مستقیم صرف اسلام لے کر آیا ہے.بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ اسلام تو رشد اور اقتصاد سکھاتا ہے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقابلہ کیوں کیا ؟ مگر افسوس ہے کہ ان کو معلوم نہیں انہوں نے تو تیرہ سال تک صبر کر کے دکھایا اور پھر آخر آپ چونکہ کل دنیا کے لئے ہادی تھے تو بادشاہوں اور لے دین میں کچھ زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے صاف صاف الگ ہو چکی ہے.( ناشر )
حقائق الفرقان ۵۸۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تاجداروں کے لئے بھی کوئی قانون چاہیے تھا یا نہیں؟ اب دیکھ لو کہ غیر قوموں کی لڑائیوں میں کیا ہوتا ہے جب دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو بعض اوقات عورتیں، بچے، مویشی ، کھیت سب تباہ ہو جاتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صرف اس لئے کہ مذہب نے ملک داری کا کوئی نمونہ اور قانون پیش نہیں کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ضرورت کی خود تکمیل کی ہے اور اسی لئے خانہ داری کے اصولوں پر الگ بحث کی ہے.ان لوگوں کو جو حیض و نفاس کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں غور کرنا چاہیے کہ معاشرت کا یہ بھی ایک جزو ہے.غرض ہماری شریعت جامع شریعت ہے جس میں انسان کے فطری حوائج ، کھانے پینے سے لیکر معاشرت، تمدن ، تجارت، زراعت، حرفت، ملک داری اور پھر ان سب سے بڑھ کر خداشناسی اور روحانی مدارج کی تکمیل کی یکساں تعلیم موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں.یہی باعث ہے کہ اسلام مکمل دین ہے.یہ ایک نیا قصہ ہے کہ اسلام ہر شعبہ اور ہر حصہ میں کیا تعلیم دیتا ہے؟ چونکہ اس وقت کتاب اللہ موجود ہے اور اس کا معلم بھی خدا کے فضل سے موجود ہے اور اس کا نمونہ تم دیکھ سکتے ہو میں صرف یہی کہوں گا.قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَی.اس کی راہ رُشد کی راہ ہے اور اس کے خلاف خواہ افراط کی راہ ہو یا تفریط کی.اس کا نام غئی ہے رُشد والوں کو مومن ، متقی ، سعید کہا گیا ہے اور غنی والوں کو کافر، منافق ، شقی.فَمَن يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ الآیہ.جو لوگ الہی حد بندیوں کو توڑ کر چلے گئے ہیں ان کو طاغوت کہا ہے.اللہ تعالیٰ کی را ہیں جن کوقرآن نے واضح کیا اور آنحضرت نے دکھایا ان میں تو صم نہیں ہے.ادنی درجہ فصم ہے.اس سے بڑھے تو قسم پھر اس سے بڑھے تو قضم.اللہ وہ اللہ ہے جو تمہاری دعاؤں کو سنتا اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے.الغرض یہ دین اور اس کا نتیجہ ہے قرب الہی.جب انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے تو چونکہ اللهُ نُورُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ہے اس لئے یہ ظلمت سے نکلنے لگتا ہے اور اس میں امتیازی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے.ظلمت کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک جہالت کی ظلمت ہے.پھر رسومات ، عادات ،عدم استقلال کی ظلمت ہوتی ہے.جس جس قدر ظلمت میں پڑتا ہے اسی قدر اللہ تعالیٰ سے دُور ہوتا جاتا ہے اور جس قدر
حقائق الفرقان ۵۹۰ سُورَةُ الْبَقَرَة قرب حاصل ہوتا اسی قدر امتیازی قوت پیدا ہوتی ہے.نزول وصعود پس اگر کسی صحبت میں رہ کر ظلمت بڑھتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قرب الہی کا موجب نہیں بلکہ بعد حرمان کا باعث ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تو جس قدر انسان قریب ہوگا اسی قدر اس کو ظلمت سے رہائی اور نور سے حصہ ملتا جاوے گا.اسی لئے ضروری ہے کہ ہر فعل اور قول میں اپنا محاسبہ کرو.نیچے اور اوپر کے دو لفظ ہیں جو سائنس والوں کی اصطلاح میں بھی بولے جاتے ہیں اور مذہب کی اصطلاح میں بھی ہیں.میں نے نیچے اور اوپر جانے والی چیزوں پر غور کی ہے.ڈول جوں جوں نیچے جاتا ہے اس کی قوت میں تیزی ہوتی جاتی ہے اور اسی طرح پتنگ جب او پر جاتا ہے پہلے اس کا اُوپر چڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن آخر وہ بڑے زور سے اوپر کو چڑھتا ہے.یہی اصل ترقی اور تنزیل کی جان ہے یا صعود اور نزول کے اندر ہے.انسان جب بدی کی طرف جھکتا ہے تو اس کی رفتار بہت سست اور دھیمی ہوتی ہے لیکن پھر اس میں اس قدر ترقی کرتا ہے کہ خاتمہ جہنم میں ہوتا ہے یہ نزول ہے اور جب نیکیوں میں ترقی کرنے لگتا اور قرب الی اللہ کی راہ پر چلتا ہے.ابتداء مشکلات ہوتی ہیں اور ظالم لنفسہ ہونا پڑتا ہے.مگر آخر جب وہ اس میدان میں چل نکلتا ہے تو اس کی قوتوں میں پر زور ترقی ہوتی ہے اور وہ اس قدر صعود کرتا ہے کہ وہ سابق بالخیرات ہو جاتا ہے.جو لوگ اس اصل پر غور کرتے ہیں اور اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں یا تنزل کی طرف.وہ ضرور اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں...میں مختصر الفاظ میں کہتا ہوں کہ اصل غرض اور منشاء دین کا سعادت اور شقاوت کی راہوں کا بیان کرنا ہے.ایمان باللہ ، ایمان بالملائکہ ، اللہ کے رسولوں اور اس کی کتابوں پر ایمان ، جزا وسزا پر ایمان ہو اور پھر اس ایمان کے موافق عمل درآمد ہو اور ہر روز اپنے نفس کا محاسبہ کرو.الحکم جلدے نمبر ۴ مؤرخہ ۳۱/جنوری ۱۹۰۳ء صفحه ۷،۶) انفصام.ایک دانت سے دبائیں اور نشان پڑ جائے اسے قسم کہتے ہیں اس سے بڑھ کر قصم ، اس سے بڑھ کر قضم ہے.فرمایا اس میں تو فصم بھی نہیں ہے.تشخيذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۴)
حقائق الفرقان ۵۹۱ سُورَةُ الْبَقَرَة ہمیں کتب مغازی میں (خواہ کیسی ہی نا قابل وثوق کیوں نہ ہوں ) کوئی ایک بھی ایسی مثال نظر نہیں آتی کہ آنحضرت نے کسی شخص کسی خاندان ، کسی قبیلے کو بزور شمشیر و اجبار مسلمان کیا ہو.سرولیم میور صاحب کا فقرہ کیسا صاف صاف بتاتا ہے کہ شہر مدینے کے ہزاروں مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی بزور و اکراہ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا.اور مکے میں بھی آنحضرت کا یہی رویہ اور سلوک رہا.بلکہ ان سلاطین عظام ( محمود غزنوی، سلطان صلاح الدین، اور نگ زیب) کی محققانہ اور صحیح تواریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی شخص کو انہوں نے بالجبر مسلمان کیا ہو.ہاں ہم ان کے وقت میں غیر قوموں کو بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر ممتاز وسرفراز پاتے ہیں.پس کیسا بڑا ثبوت ہے کہ اہل اسلام نے قطع نظر مقاصد ملکی کے اشاعت اسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی.آنحضرت صلعم کے دشمنوں ، اسلام کے مخالفوں نے اکثر یہ طعن کیا ہے کہ آپ کا دین بزور شمشیر شائع ہوا ہے اور تلوار ہی کے زور سے قائم رہا.جن مؤرخین عیسائیوں نے آنحضرت کا تذکرہ یعنی لائف لکھی ہے آپ پر طعن کرنا انہوں نے اپنا شعار کر لیا ہے اور ان کے طعن کی وجہ فقط یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے تئیں اور اپنے رفقا کو دشمنوں کے حملوں سے بچایا.یہ سچ ہے کہ بعض برگزیدگانِ خداد نیا میں وقتا فوقتاً پیدا ہوئے ہیں اور سوء اتفاق اور گردشِ تقدیر سے خدا کی راہ میں اور اعلائے کلمتہ اللہ کی کوشش میں شہید ہوئے ہیں اور بعض لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے خلل دماغ کی وجہ سے اس امر کا دعوی کیا جس کی تکمیل ان سے نہ ہو سکی.الغرض مخبوط بھی گزرے ہیں اور مجذوب بھی ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مجنونانہ حرکات کی سزا پائی مگر اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ مثلاً اگر حضرت مسیح مصلوب ہوئے یا مسیلمہ کذاب اپنی کذابیت اور مجذوبیت کی سزا کو پہنچا تو معاذ اللہ آنحضرت صلم کو بھی ان کی تقلید کرنا فرض تھا اور بغیر اپنی رسالت کے اتمام و تکمیل کے شہید ہو جانا لازم تھا ؟ قوانینِ اسلام کے موافق ہر قسم کی آزادی مذہبی اور مذہب والوں کو بخشی گئی جو
حقائق الفرقان ۵۹۲ سُورَةُ الْبَقَرَة سلطنت اسلام کے مطیع ومحکوم تھے.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرۃ:۲۵۷) دین میں کوئی اجبار نہیں.یہ آیت کھلی دلیل اس امر کی ہے کہ اسلام میں اور اہلِ مذاہب کو آزادی بخشنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے.( فصل الخطاب لمقدمه اہل الکتاب حصہ اوّل صفحہ ۸۲ ۸۳) اسلام کے معنے ضلع کے ساتھ زندگی بسر کرنا، چین سے رہنا.کیونکہ یہ لفظ سلم سے مشتق ہے جس کے معنے ضلع اور آشتی کے ہیں.بعضے پادریوں کی دشمنانہ تحریر نے ، میں سچ کہتا ہوں، آپ کو دھوکہ دیا ہے.جبر و اکراہ سے اسلام اور تصدیق قلبی کا حصول ممکن نہیں.قرآن کی دوسری سورہ کو جو مدینہ میں نازل ہوئی اور جس میں جہاد کا حکم ہوا ہے پڑھ لیجئے اور غور کیجئے آپ کا کلام کہاں تک سچ ہے لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى (البقرة: ۲۵۷) اسلام میں شرط ہے کہ آدمی صدق دل سے باری تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی معبودیت اور اس کے رسولوں کی رسالت وغیرہ وغیرہ ضروریات دین پر یقین لا وے تب مسلمان کہلاوے اور ظاہر ہے که دلی یقین جبر و اکراہ سے کبھی ممکن نہیں ہے.میں بڑی جرات سے کہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام اور ان کے راشد جانشینوں کے زمانے میں کوئی شخص جبر و اکراہ سے مسلمان نہیں بنایا گیا.بلکہ محمود غزنوی اور عالمگیر کے زمانے میں بھی کوئی شخص عاقل و بالغ جبر سے مسلمان نہیں کیا گیا.دنیا میں تاریخ موجود ہے صحیح تاریخ سے اس الزام کو ثابت کیجئے.میں نے زمانہ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے وقت اور محمود عالمگیر کی تاریخ کو اچھی طرح دیکھ بھال کر یہ دعوی کیا ہے.زمانہ رسالت مآب میں اور خلافت راشدہ میں صلح اور معاہدہ امن کے بعد گل مذہب کے لوگ مذہبی آزادی حاصل کر لیتے تھے.خیبر کے یہود بحرین اور غسان کے عیسائی ، حضرت خاتم الانبیاء اور خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے وقت شام کے یہود اور عیسائی اسلام کی رعایا تھے اور اپنے مذہبی فرائض کی بجا آوری میں بالکل آزاد تھے.عالمگیر کے عہد میں بڑے بڑے عہدوں پر ممتاز ہندوستان کے پرانے باشندے اپنی بت پرستی پر ا اس میں زبردستی نہیں اور حق و باطل واضح ہو گیا.۱۲
حقائق الفرقان ۵۹۳ سُورَةُ الْبَقَرَة قائم دکھلائی دیتے.اگر عالمگیر کی لڑائیوں سے اسلام پر الزام ہے تو عالمگیر نے تاناشاہ سے جو ایک سیّد تھا دکن کے ملک میں جنگ کی.پھر اپنے مسلمان باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو معاملہ کیا و مخفی نہیں.پس عالمگیری جنگ مذہبی جنگ کیوں خیال کی جاتی ہے؟ عالمگیر نے کبھی کسی ہندو کو تلوار اس سبب سے نہیں لگائی کہ وہ ہندو تھا اور کبھی اس نے زبر دستی ان کو مسلمان نہیں کیا.ان کی جو مذہبی عبادت اور رسومات جو قدیم سے چلی آتی تھیں ان کو نہیں روکا.محمود کی نسبت کہیں تاریخ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے اشاعت اسلام اور دعوتِ اسلام میں ہمت صرف کی ہو.گجرات میں اتنے دنوں تک پڑا رہا مگر ایک ہندو کو مسلمان نہ بنایا.اپنے بھائی مسلمان امیر اسمعیل سے جنگ کی.کیا وہ لڑائی بھائی کو مسلمان بنانے کے لئے تھی؟ اور ہند کے حملے تو راجہ جے پال نے خود کرائے جس نے محمود سے لڑنے میں ابتدا کی.وَإِلّا محمود کا تو یہ منشاء تھا کہ تا تار کے بلا د کو فتح کرے نہ ہندکو.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۴۲، ۴۳) لوگوں نے بہت بڑی غلطی کھائی ہے اسلامی دفاعی جنگوں کے راز کے سمجھنے میں.اور انہوں نے اسلام پر اعتراض کیا کہ وہ دین کے لئے تلوار اٹھانے کا حکم دیتا ہے.حالانکہ اسلام کے لفظ میں صلح اور آشتی اور سلامتی کا مفہوم اور منطوق موجود ہے اور اسلام نے پکار پکار کر کہا ہے لا إكراه في الدين (البقرة - ۲۵۷) اور قرآن کریم میں ایک بھی آیت اس مضمون کی نہیں ہے کہ تم غیر مذہب والوں سے مسلمان بنانے کے لئے لڑو.پھر خدا تعالیٰ جانے یہ لوگ کیوں ظلم اور زور کی راہ سے اسلام پر افترا کرتے ہوئے خدا سے نہیں ڈرتے.مسلمان کی تعریف ہمارے سید و مولی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی ہے کہ مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے عام لوگ عامہ اور مسلمان خاصۂ محفوظ رہیں.غرض یہ افتراء ہے جو مسلمانوں پر کیا جاتا ہے.الحکم جلد ۵ نمبر ۹ مورخه ۱۰ / مارچ ۱۹۰۱ ء صفحه ۱۲)
حقائق الفرقان ۵۹۴ سُورَةُ الْبَقَرَة لا ۲۵۸ - اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُم مِّنَ الظُّلمتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا اَولِيْتُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ النُّورِ إِلَى الظُّلمتِ أُولَبِكَ أصحب النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ترجمہ.اللہ انہیں کا دوست دار و حامی ہے جنہوں نے اُسے مانا اور وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر اُجالے میں لاتا ہے.اور جو لوگ منکر کا فر ہیں ان کے رفیق حمایتی بدچلن شیطان ہیں وہ اُن کا فروں کو اُجالے سے اندھیریوں کی طرف لے جاتے ہیں یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے.تفسیر - اللهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا اللہ جو سمیع علیم ہے اس کی پہچان کیا ہے؟ فرماتا ہے کہ وہ مومنوں کا والی بن جاتا ہے.اب مومنوں کی پہچان بتاتا ہے کہ وہ ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آتے جاتے ہیں.ظلمت کیا ہے جس میں تمیز نہ رہے.روشنی کیا ہے؟ جس میں تمیز ہو سکے.معمولی روشنی سورج کی ہے پھر اس سے بڑھ کر نور طب ہے جس سے انسان کے اندرونی امراض معلوم ہوتے.پھر اس سے بڑھ کر نور فلاسفہ ہے کہ وہ خط و خال سے، بال سے، آواز سے، ناک سے، ہونٹ سے کسی کے اخلاق پر آگاہ ہو جاتے ہیں.پھر جن کو اس سے بھی بڑھ کر انوار دیئے جاویں وہ مومن ہیں چنانچہ فرمایا اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللهِ پس مؤمن ہونے کا نشان ہے کہ اس انسان کی قوت متمتیزہ بڑھتی جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تاریکیوں سے نکل کر انوار میں آتا جاتا ہے اور اپنی حالت میں دن بدن نمایاں تبدیلی پاتا ہے.ظلمتیں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں.ایک رسم کی ، مثلاً شادی آ گئی.اب رسم کہتی ہے کہ دس ہزار روپیہ خرچ کرو.اب گھر میں تو اپنے روپے ہیں نہیں.پس ساہوکاروں کے پاس جاتا ہے.وہ شود مانگتا ہے.خدا فرماتا ہے جو سود دیتا یا لیتا ہے وہ خدا سے جنگ کرتا ہے.پھر اسی طرح بڑھتے بڑھتے ایک گناہ سے کئی گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے.لے مومن کی فراست سے ڈرو یقیناً وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۹۵ سُورَةُ الْبَقَرَة پھر عادت کی ظلمت ہے.یہ عادت بری بلا ہے.جس چیز کی عادت پڑ جاوے وہ پیچھا نہیں چھوڑتی.بعض کو قصہ سننے کی دھت ہوتی ہے بعض کو ناول پڑھنے کی.بعض کو چائے پینے کی ، حقہ پینے کی ، پان کھانے کی.پھر ظلمت سے شہوت ، حرص، غضب ،شستی ، کا ہلی.پس یہ بات یادرکھو کہ جس تعلیم سے قوت ممیزہ بڑھے وہ سچی ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۶ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۶) مِنَ الظُّلمت - ا.والدین کی ظلمت ۲- احباب کی ظلمت ۳.کفرو شرک کی ظلمت ۴.جہالت کی ظلمت ۵.محبت کی ظلمت ۶.عجز و کسل کی ظلمت ے.ظلم کی ظلمت ے.رسم و بدعت کی ظلمت.تشویذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ ء صفحه ۴۴۴) کوئی چیز روشنی کی جاذب ہی نہیں تو روشنی دیدار لینے میں امداد نہ کرے گی گوروشنی فی الحقیقت دیکھنے کا آلہ ہے.جب روشندان یا چراغ وغیرہ سے روشنی لے تو دوست کے دیدار سے وہ دیدار کا طالب آرام پاسکتا ہے.ایسا ہی دیدار اور دیدار سے آرام تو نجات ہے اور وہ روشنی فضل و کرم خداوندی ہے.ایمان ایک روشندان یا چراغ ہے جو فضل کی روشنی کو کھینچتا ہے اور ایمان کو اس روشنی کا جاذب قرآن نے بھی کہا ہے.الله وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمتِ إلَى النُّورِ (البقرة: ۲۵۸) اللہ کام بنانے والا ہے ایمان والوں کا.نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے اُجالے میں.( فصل الخطاب لمقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحه ۲۹۲، ۲۹۳) ۲۶۰،۲۵۹ - اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِى حَاجَ إِبْرهِمَ فِي رَبَّةٍ أَنْ اللهُ اللهُ الْمُلْكَ إِذْ ط قال إبراهمُ رَبِّيَ الَّذِى يُخي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أخي وَ أَمِيتُ قَالَ إِبْرهم فَإِنَّ اللهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ - اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا ۚ قَالَ أَنَّى يُحْيِ هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ b
حقائق الفرقان ۵۹۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرُ إِلى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ ۚ وَ انْظُرُ إِلى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَ انْظُرُ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ اَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - ترجمہ.کیا تو نے نہیں معلوم کیا اس شخص کا حال جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے متعلق اس واسطے کہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا اُس کو غلبہ وشاہی جب کہا ابراہیم نے میرا رب وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے.اُس نے کہا میں ( بھی ) جلاتا اور مارتا ہوں.ابراہیم نے کہا اللہ تو سورج کو چڑھاتا ہے مشرق سے پس تو چڑھا اُس کو مغرب سے تو کا فرمبہوت اور حیران رہ گیا اور اللہ سمجھ نہیں دیتا ظالم قوم کو.یا جیسا اُس کا حال جو گزرا ایک بستی کی طرف اور وہ گری ہوئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر اُس نے کہا اللہ پاک اس بستی کو کب آباد کرے گا اس کی تباہی کے بعد.تو مار رکھا اللہ نے اُس کو سو برس پھر اٹھا کھڑا کیا پوچھا تو کتنی دیر رہا، جواب دیا ایک دن یا ایک دن سے کم ،فرمایا بلکہ رہا تو سو برس اب تو دیکھ اپنے کھانے اور پینے کی چیز کی طرف کہ سڑی تک نہیں یا اُس پر برس نہیں گزرا اور دیکھ تو اپنے گدھے یا قوم کی طرف اور تا کہ ہم بنائیں تجھ کو نشان و نمونہ لوگوں کے لئے اور دیکھ ہڈیوں کی طرف کس طرح ہم ان کا ڈھانچ بناتے ہیں پھر پہنا دیتے ہیں اُس پر گوشت تو جب اُس پر کھل گیا حال بولا میں بخوبی جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر شے کا بڑا اندازہ کرنے والا ہے.تفسیر.یہ تو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس ساری سورۃ کا مقصد دشمن سے مقابلہ کے لئے تیار کرنا ہے اور اس کے ضمن میں تمام قسم کی سچائیاں اور فضائل اور تقوی کی راہیں بتادی ہیں اور یہ سمجھا دیا ہے کہ کامیابی کی سچی راہ کا پاک اصل صرف تقوی ہے.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ..أُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (البقرۃ: ۴ تا۶) سے اس مضمون کو شروع کیا ہے اور یہاں اب بتایا جاتا ہے کہ بہت سے شریر لوگ ہوتے ہیں جو اللہ کے پاک بندوں سے جھگڑا کرتے ہیں.وہ بندے اگر چہ کمزور ہوتے ہیں مگر اللہ عین وقت پر ان کی ایسی دستگیری کرتا ہے کہ دشمن دم بخودرہ جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ے جو لوگ اللہ کو مانتے ہیں بے دیکھے یا تنہائی میں یہی لوگ نہال اور بامراد ہیں.
حقائق الفرقان ۵۹۷ سُورَةُ الْبَقَرَة میں مقابلہ میں کامیاب ہو جاؤں گا اور اس غریب جماعت کو ہلاک کر دوں گا مگر آخر وہ خود ہلاک ہوتا ہے.یہ مخالف نادانی سے انبیاء کے ہمراہیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں چنانچہ نوٹ کے ماننے والوں کو اس کی قوم کے امراء کہتے ہیں آرا ذِلُنَا بَادِى الرأي (هود: ۲۸) پھر موسیٰ علیہ السلام کو بھی فرعون نے یہی کہا أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينَا وَلِيْدًا وَ لَبِثْتَ فِيْنَا مِنْ عُمُرِكَ سِنِينَ (الشعراء: ۱۹) کیا ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی اور تو اپنی عمر کے بہت سال یہاں نہیں گزار چکا.اس کا جواب موسی نے بھی کیا خوب ديا.وَ تِلْكَ نِعْمَةٌ تَنْتُهَا عَلَى أَنْ عَبْدُكَ بَنِي إِسْرَاءِيلَ (الشعراء: ۲۳) کیا یہ کوئی بڑی نیکی ہے جس کا تو مجھ پر احسان جتا رہا ہے حالانکہ اس کی جڑ یہ ہے کہ تو نے تمام بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے پس کیا ہوا اگر ان کے ایک بچے نے تمہارے ہاں پرورش پالی اگر تم پرورش نہ کرتے تو کیا اس کے ماں باپ پر اس کی روٹی دو بھر تھی؟ غرض پاک لوگوں اور ان کے اتباع کو یہ نادان حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ان کو مقابلہ میں ذلیل کرتا ہے چنانچہ اس کے ثبوت کے لئے حضرت ابراہیم کا قصہ بیان کیا ہے.آپ کی قوم مجوسیوں کی تھی جو سورج چاند کی پرستش کرتے تھے.ان میں جس کو خدا نے حکومت دی تھی ابراہیم نے کہا کہ رَبِّيَ الَّذِي يُخي وَيُمِيتُ میرا رب ہی ہے کہ جو آبادی اور ویرانی کرتا ہے.یہاں احیاء وامانت کے یقینا یہی معنے ہیں.غلطی کرتے ہیں وہ جو یہاں زندہ کرنے اور مارنے کے معنے لیتے ہیں کیونکہ یہ تو ایک بیوقوف سے بیوقوف بھی دعوئی نہیں کرتا کہ حیات و ممات طبعی کا موجد میں ہوں.اس کے ثبوت میں ہم موت کے کئی معنے پیش کرتے ہیں جو لغات عرب سے ثابت ہیں.موت کے ایک معنے ہیں نشو و نما کے.چنانچہ فرما یا یخی الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحدید: ۱۸) اور أَحْيَيْنَا بِهِ بَلْدَةً مِّيْتًا احساس کا دُور ہونا.قوی کا زوال جیسے اس آیت میں یکیتَنِي مِن قَبْلَ هَذَا وَ كُنْتُ نَسْيًا منسيا (مریم: ۲۴) مرجانے کی دعا جیسے احادیث میں منع ہے ایسے ہی تو رات میں بھی.پس مریم اپنے لئے موت کی دعا نہیں کر سکتی تھی.۳.زوال عقل.أَوَ مَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ (الانعام: ۱۳۳) ا ہم میں کے ذلیل (سطحی رائے والے ) اور یہ ہماری رائے کھلی ہے.(ناشر) ۲؎ کہ اللہ زمین کو اس کے مرے بعد زندہ کیا کرتا ہے.سے کاش اس سے پہلے ( یعنی درد سے ) مجھے ششی آ جاتی ( یا میں مرگئی ہوتی ).
حقائق الفرقان ۵۹۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة یعنی کم عقل ، بے ایمان، انسانیت سے نابلد تھے.آخر وہ انبیاء کی پاک صحبت سے عقلوں والے ہو گئے.۴.حزن مكدر للحياة - يَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيْتٍ (ابراهيم: ۱۸) ہر طرف سے دُکھ اور حیات کو مکۃ رکرنے والے آئیں گے.۵.نیند کے معنے.سونے کے بعد اُٹھے تو یہ دعا احادیث میں آئی اَلْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَمَا أَمَاتَنَا - ۶ - قوتِ حیات کا بطلان - إِنَّكَ مَيْت وَإِنَّهُمْ مَّيْتُونَ (الزمر: ۳۱) ۷.جن کا بدلہ نہ لیا جاوے وہ بھی مردہ ہیں.سبعہ معلقہ کا ایک شعر ہے انْ نَبَثْتُمْ بَيْنَ مِلْحَةَ فَالصَّا قِبِ فِيهَا الْأَمْوَاتُ وَالْأَحْيَاء لا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْیا.زندہ کہنے سے یہ مراد ہے کہ ان کا بدلہ لیا جاوے گا.غرض یہ موت کا لفظ متشابہ رنگ میں آیا ہے.پس جو راسخ فی العلم ہوتے ہیں وہ مختلف المعانی الفاظ کو حسب موقع معنی کا لباس پہناتے ہیں.۸.ترقی کے رُک جانے کا نام بھی موت ہے.۹.فقر کا نام بھی موت ہے.۱۰.موت العقل.موت العلم اور ذلت کا نام بھی موت ہے.أَوَّلُ مَنْ مَّاتَ إِبْلِيسُ.پس یہاں حسب موقع موت کے معنے ویرانی کے ہیں.ابراہیم نے کہا کہ آبادی و ویرانی میرے رب کے اختیار میں ہے.وہ کافر بولا نہیں یہ کام بادشاہوں کے متعلق ہے.میں بھی بادشاہ ہوں پس یہ تو میں بھی کر سکتا ہوں.سبحان اللہ.انبیاء کی کیا عقل ہوتی ہے.فرما یا اِنَّ اللهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ نادان خیال تو کر تو اپنے مذہب کو چھوڑ بیٹھا ہے تم تو سورج کی پرستش کرتے ہو اس وجہ سے کہ فصول وغیرہ کو اسی سے وابستہ سمجھتے ہو.اب اگر احیاء وامانت ( ویرانی.آبادی ) تمہارے اختیار میں ہے تو گویا سورج تمہارا معبود نہیں بلکہ وہ تمہارے قبضہ اختیار میں ہے.پس اگر یہ بات ہے تو تم اس کی لے اگر تم اس زمین کی کھود کرید کرو گے جو ( مقام ) ملحہ اور صاحب کے درمیان ہے تو اس میں کچھ مردے تمہاری قوم کے مقتولین جس کا خون بہا نہیں لیا گیا ) اور کچھ کچھ زندہ ( ہماری قوم کے وہ مقتولین جن کا بدلہ لے لیا گیا ہے ) ملیں گے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۵۹۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة چال پر ذرا حکومت دکھاؤ.جن لوگوں کو اس نکتہ چینی کی سمجھ نہیں آئی انہوں نے کہا کہ ابراہیم نے اِنَّ اللهَ يَأْتي کہہ کر تبدیل استدلال کیا ہے اور صوفیوں نے یہ بتایا ہے کہ پہلی دلیل کو قوی کیا ہے.یہ بات یاد رکھو کہ انبیاء کا طریق مباحثات میں یہ ہے کہ وہ اپنا آپ درمیان سے نکال دیتے ہیں.وہ جناب النبی کے حکم کے نیچے ہو کر کام کرتے ہیں اس لئے مناظروں میں ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور وہ کافر بھونچکا ہوکر رہ گیا.ایک بات یاد آئی کہ ابنِ صیاد کے پاس نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم ) گئے اور اسے کہا میرے دل میں کیا ہے؟ اُس نے کہا.رُخ.آپ کے دل میں يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُ خَانٍ مُّبِينٍ (الدخان: 1) تھی.اس نے بتایا کہ رخ کے متعلق کوئی مضمون ہے آپ نے فرمایا انحَسَأَلَمْ تَعْدُ قَدْرَكَ ذلیل رہ.اس سے نہیں بڑھے گا.مطلب یہ تھا کہ آئندہ ہم احتیاط کریں گے.جناب الہبی کے حکم کے نیچے حسب دستور مناظرہ ہو گا پھر تو کبھی کا میاب نہیں ہوگا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۶ ۴۷) ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ وقت سے بھی مقابلہ کیا اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی عظمت کے قائم کرنے کے لئے کیا گیا تھا.اس مباحثہ میں احیاء اور امانت کی بھی ایک بحث تھی جہاں ابراہیم علیہ السلام کا قول رَبِّي الذي يُحْيِي وَيُمِيتُ درج ہے اور جو کہ توحید باری تعالیٰ کے متعلق ایک عجیب فقرہ ہے جس کو ہمارے زمانہ سے بڑا تعلق ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ اسلام نے بھی مردہ زندہ کئے تھے تو پھر ابراہیم علیہ السلام کا یہ استدلال کوئی قابل وقعت شئے نہیں ہو سکتا اور ان کا یہ کام اور کلام سب خاک میں مل جاتا ہے.ہاں ایک معنے کے رُو سے انبیاء بھی احیاء کرتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَینی ہے اس لئے اس کا احیاء بھی لَيْسَ كَمِثْلِہ شیخی ہی ہوگا اور انبیاء کا احیاء اس سے کوئی لگا نہیں کھائے گا.یہ بالکل سچ ہے کہ احیاء موتی صرف رب کا ہی کام ہے اور وہ بھی کسی اور عالم میں.انبیاء کے احیاء کے یہ معنے ہیں کہ بعض شریر لوگ جو کہ اُن کی پاکیزہ مجالس میں آتے رہتے ہیں
حقائق الفرقان ۶۰۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اور ان میں سے بعض اپنی کسی فطری سعادت کی وجہ سے جو کہ ان کے نطفہ میں آئی ہوتی ہے ہدایت پا جاتے ہیں اُن کی کفر اور فسق کی حالت کا نام موت ہوتا ہے اور ہدایت پا جانے کو احیاء سے تعبیر کرتے ہیں.الحکم جلد 9 نمبرے مورخہ ۲۴ / فروری ۱۹۰۵ ، صفحہ ۷) بھلا دھیان تو کرو اُس شخص کی طرف جس نے ابراہیم راست باز سے رب کی بابت بحث کی.کیا یہ بحث بدلہ تھی اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پادشاہی دے رکھی تھی.جب ابراہیم علیہ السلام راستباز نے کہا میرا رب تو ایسا طاقتور ہے کہ زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نادان نے (غور کرو) کیا جواب دیا؟ میں بھی مارتا اور زندہ کرتا ہوں.جب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا کہ یہ ایسا نادان ہے کہ زندہ کرنا اور مارنا ہی نہیں سمجھتا.تو فرمایا اچھا اللہ تعالیٰ تو سورج کو مشرق کی جانب سے طلوع کرتا ہے تو سورج کو مغرب کی طرف سے لا دکھا.اتنی بات سن کر کا فر بغلیں جھانکنے لگا اور اللہ تعالیٰ تو ایسے بدکاروں کو بحث کی سمجھ بھی نہیں دیتا.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۴۰) اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ کیونکر دنیا میں احیاء و امانت یعنی ویرانی سے آبادی کرتا ہے.پہلے تو اس مضمون پر ایک مباحثہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مجوسی قوم کے ایک شخص کے ساتھ ہوا.آن الله الله المُلک میں ضمیر کا مرجع اگر حضرت ابراہیم ہوں تو اشارہ ہے وَ كَذلِكَ نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّبُواتِ وَالْأَرْضِ ( الانعام: ۷۲ ) کی طرف.اور اگر مرجع و خصم عنید ہو تو یہ کہ مخالف کسی جاگیر و جائیداد پر تصرف رکھتا تھا.بعض نادانوں کو اس بات نے بہت گمراہ کیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ ناموں کی تدقیق و تحقیق میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اصل مقصود کی طرف توجہ نہیں رہتی.بعض لوگوں نے اس مخالف کو نمرو سمجھا ہے اور پھر یہ اعتراض پیش آیا کہ آیا نمرود حضرت ابراہیم کے زمانے میں تھا بھی یا نہیں ؟ حالانکہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ناموں کے پیچھے پڑ جائیں.کوئی ہو.ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے فرما یار تي الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ میرا اے اور ہم نے اسی طرح دکھائے ابراہیم کو آسمان اور زمین کے ملک ( و عجائبات و تصرفات ).( ناشر )
حقائق الفرقان ۶۰۱ سُورَةُ الْبَقَرَة رب ہے جو آباد کرتا ہے اور ویران کرتا ہے.احیاء و امانت کے اس مقام پر یہی معنے ہیں کیونکہ مردوں کا اس دنیا میں زندہ کرنا سنت اللہ نہیں.اس مخالف نے بھی یہی مطلب سمجھا.اس واسطے جواب میں کہا انا أخي و امیت کہ میں آباد سے ویران اور ویران سے آباد کرتا ہوں.کسی کو جا گیر دے دی.انعام دیا.آباد ہو گیا.کسی کو لوٹ لیا.ویران ہو گیا.چونکہ یہ جواب بہت ناقص تھا اور وہ مجوسی.( قرآن مجید کی متعدد آیات سے یہ امر واضح ہے کہ ابراہیم کے مقابلہ میں مجوسی قوم تھی ) اور مجوسی اجرام سماوی کی پرستش کرتے تھے.حضرت ابراہیم نے کئی کئی رنگوں میں ان پر اتمام حجت کی.مثلاً ایک جگہ کو کب ، قمر ، سورج کو بطور استفہام انکاری هذا ربي کہہ کر پھر نتیجہ نکالا ہے اتي بري تما تُشْرِكُون مجوسیوں نے بہت برا اثر پھیلایا (ایران کے لڑیچر میں اجرام کی تعریف پائی جاتی ہے بعض مسلمان بھی اس اثر سے متاثر ہو گئے.سکندر نامہ دیکھو پھر ابوالفضل کی تصنیف جس میں آفتاب کو حضرت نیر اعظم لکھا گیا ہے ) تھا اس لئے حضرت ابراہیم نے اسے خوب جواب دیا کہ یہ آبادی و ویرانی تو اجرام سماوی کے اثر سے وابستہ ہے جب آپ مُخی و مینیت ہیں تو گویا آپ کو دعوی ہے کہ سورج پر بھی میں ہی حکمران ہوں اور یہ اجرام سب تمہارے ماتحت ہیں حالانکہ یہ اس کے اور اس کی جماعت کے عقائد کے خلاف تھا اس لئے وہ یہ جواب سن کر فَإِنَّ اللهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ مبہوت رہ گیا یعنی اگر سورج تمہارے ماتحت ہے تو اپنا تصرف تفخیذ الا ذہان جلدے نمبر ۷ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۳۱، ۳۳۲) دکھاؤ.اَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ.اس آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی سمجھایا ہے کہ انسان جب اللہ کے حضور کامل یقین سے دعا کرتا ہے تو وہ کبھی محروم نہیں رہتا.دعا میں تین مشکلات لوگوں کو پیش آئی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ خدا کی خدائی اور اس کی حکمتوں پر ایمان نہیں لاتے.قسم قسم کی خواہشیں کرتے ہیں جن کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ جب قبول نہیں کرتا تو وہ نادانی سے دعا ہی کے منکر ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر ان کی یہ دعائیں قبول ہوں تو دنیا فنا ہو جائے.عورتوں ہی کو لو وہ بچوں سے تنگ آ کر انہیں کس طرح کوستی ہیں.ایک عورت ایک
حقائق الفرقان ۶۰۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة نئی قسم کی بددعا دیا کرتی تھی.وہ یہ کہتی لوہے کا جھاڑو لوہے کا جھاڑو.‘ مطلب یہ تھا کہ ایسا صفایا ہو کہ کوئی نام ونشان نہ رہے.اسی طرح گنوار زمیندار اپنے مویشیوں کے حق میں بددعائیں دیتے ہیں.ادھر فریق ثانی بھی.اب اگر دونوں کی دعائیں خدا تعالیٰ سن لے تو ایک بھی نہ رہے.پھر دوسری بات یہ ہے کہ دعا ایک محنت ہے اور اپنے لئے ایک موت اختیار کرنا ہے.دعا جب ایک خاص نقطہ تک پہنچتی ہے تو اسے قبولیت کا جامہ پہنایا جاتا ہے.بعض لوگ ورے ورے ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.مگر یہ نہیں ہوتا تو گھبرا اُٹھتے ہیں.پھر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اس نکتہ معرفت سے بے خبر ہیں کہ دعا ضائع نہیں جاتی بلکہ اگر وہ مقصد حاصل نہ ہو تو اس کا فائدہ ضرور ہے کہ معاصی کے نتائج اور آنے والی بلاؤں سے بچا لیتی ہے.یہاں ان آیات میں جو مذکور ہے اس کی اصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب شرارت میں حد سے بڑھ گئے تو خدا تعالیٰ نے ان پر ذلت و مسکنت لیس دی.وہ بابل میں جلاوطن کئے گئے.پھر جب انہوں نے خدا کی طرف رجوع کیا تو ان میں حز قیل ، عزرا، دانیال سے برگزیدہ پیدا ہوئے.حز قیل نے ان کے لئے بہت دعائیں کیں اور گھبرا کر پکارا تھے کہ اب یہ مردہ قوم کب زندہ ہوگی.یہ ویرانہ کب آباد ہو گا ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کو رویا میں سب کچھ دکھایا.یہ ایک عام سنت اللہ ہے کہ جس بات کی تو رات میں تفصیل ہو قرآن شریف اس کی طرف اجمالی اشارہ کرتا ہے اور جس کا تورات میں مجمل بیان ہو قرآن شریف اسے مفصل بیان کرتا ہے.اس قصہ کو تورات میں خوب کھولا گیا ہے.وہاں حز قیل بائے " میں صاف لکھا ہے کہ آپ نے خواب دیکھا ایک وادی میں ہڈیاں بھری ہیں.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نبوت ( پیشگوئی ) کرو.جو سچ بات ہو اس کی مثالیں بہت مل جاتی ہیں.چنانچہ اس طرز کی ایک رؤیا ابوحنیفہ کی بھی ہے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں ہڈیوں کو اکٹھا کر رہے ہیں.معترین زمانہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے علم میں ایک بے خبری کا مرض آ گیا تھا آپ کے ذریعہ سے اب یہ دین از سر نو زندہ ہوگا.اَمَانَهُ الله کے متعلق میں یہ بھی سنائے دیتا ہوں کہ بعض وقت نبی امت کا قائم مقام ہوتا ہے
حقائق الفرقان ۶۰۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة چنانچہ ہماے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں دودھ اور شراب پیش کیا گیا تو آپ نے دودھ پیا تب جبرائیل نے بتایا کہ اگر آپ شراب پیتے تو تمام امت بدکار ہو جاتی.ایسا ہی ایک مقام پر قرآن کریم میں آیا ہے يَأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء (الطلاق: ۲) پہلے نبی سے خطاب ہے مگر پھر آگے چل کر کھول دیا ہے کہ نبی قائم مقام اُمت ہے.پس آمَاتَهُ الله سے قوم کی ویرانی و تباہی مراد ہے جو ایک سو سال تک رہی.پھر وہ قوم از سرِ نو زندہ ہوئی.غرض حز قیل کو خدا نے وہ نظارہ رؤیا میں دکھایا حز قیل اپنے قیاس سے يَوْمًا أَوْبَعْضَ يَوْمٍ کہتا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے سو سال بتا تا ہے مگر ساتھ ہی بتایا ہے کہ تم بھی سچے ہو کیونکہ طعام وشراب پر سال نہیں گزرے اور رویا میں یہ بات ممکن ہے.چنانچہ سورۃ یوسف میں ایک ذکر ہے کہ بادشاہ نے چودہ سال قحط وسرسبزی کے ایک آن میں دیکھ لئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ رویا کا لفظ یہاں نہیں.یہ ان کی غلطی ہے.اِنّى رایتُ أَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رايتهم في سجدِین (یوسف:۵) انبیاء کے لئے خواب کا اظہارضروری نہیں ہوتا.حضرت صاحب سے سے میں نے ایک دفعہ اس آیت کے معنے دریافت کئے تو آپ نے فرمایا میں نے جناب الہی میں توجہ کی تو مجھ پر یہی کھلا کہ وہ شخص واقعی مر گیا تھا.عرض کیا کہ پھر سو سال کے بعد اُٹھنا کیا معنے ؟ فرمایا کہ انبیاء کو مرنے کے بعد ایک حیات دی جاتی ہے.ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی فرمایا تھا کہ میں چالیس دن کے بعد زندہ کیا جاؤں گا.پھر عرض کیا کہ وہ آیت کس طرح بنے؟ فرمایا کیا مردہ آیت نہیں ہو سکتے ؟ اللہ تعالیٰ فرعون کی نسبت فرماتا ہے لہن خَلْفَكَ آيَةً (یونس : ۹۳) چونکہ میری طبیعت میں شرم اور ادب بہت تھا اس لئے میں نے یہ نہ پوچھا کہ انظر إلى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَهُ کا کیا مطلب ہوا؟ قاضی امیرحسین صاحب نے بھی ایک معنے کئے ہیں.وہ امانت کے معنے باستدلال آیت اے اے نبی ! جب تم طلاق دینی چاہو عورتوں کو.۲؎ میں نے دیکھے گیارہ تارے اور سورج اور چاند وہ میری فرمانبرداری کر رہے ہیں.۳.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پچھلوں کے لئے تجھے نشانی بنائیں.(ناشر) ۵ے تو دیکھ اپنے کھانے اور پینے کی چیز کی طرف کہ سری تک نہیں.
حقائق الفرقان ۶۰۴ سُورَةُ الْبَقَرَة يَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكَانٍ (ابراهیم: ۱۸) پریشانی و پراگندگی کرتے ہیں.آمَانَهُ اللهُ مِائَةَ عام سے یہ مراد ہے کہ حز قیل کو خدا نے سو سال تک غم اور پریشانی اور حزن مکدر الحیاۃ میں رکھا.بیس برس کی عمر میں حزن پیدا ہوا.یروشلم تباہ ہو چکا تھا.۷۰ برس تباہی رہی ۳۰ برس میں آباد ہوئی پھر اللہ تعالیٰ نے یوروشلم کو آباد کر دیا تو عز را بی تشریف لائے.دیکھا کہ جہاں پانی نہ تھا وہاں کھانے پینے کی تمام چیزیں تازہ بتازہ ، نو بہ نو (نہ کہ سری بسی ) موجود ہیں بلکہ مال مویشی اور سواری کے جانور بھی.یہ معنے بھی کسی وقت دلچسپی سے خالی نہیں.وَانْظُرُ إِلَى الْعِظَامِ - آئی یخی کب اور کس طرح زندہ کرے گا، کا عقلی جواب ہے کہ تم اپنی ہڈیوں ہی کو دیکھو کہ اللہ انہیں آہستہ آہستہ کس طرح اُٹھاتا ہے.جہاد میں اس قصے کے بیان کا یہ فائدہ ہے کہ خدا نے فرمایا ویرانی اور آبادی میرے اختیار میں ہے پس تم اپنے لوگوں میں سے کسی کے قتل ہو جانے پر حزن مت کرو.تم اس پر کامل یقین کرو.وہ ہمیں ایک زندہ قوم بنادے گا.میں نے ایک مشہور مفسر کو دیکھا ہے کہ اس نے عام کے معنے دن کے کئے ہیں تو اس لحاظ سے مِائَةَ عَام سے کر چکے مراد لیتا ہے جو حز قیل نبی کو دعا و اضطراب میں جو ایک قسم کی موت تھی کاٹنے پڑے.یہ معنے قاموس نے لکھے ہیں مگر قاموس نے غلطی کھائی ہے.وہ لفظ دراصل عیام ہے جسے وہ ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۶ رمئی ۱۹۰۹ء صفحہ ۴۸،۴۷) ایک اور شخص کا ذکر ہے جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور از راہ استعجاب کہنے لگا آئی یخی عام سمجھا.هذه الله.یہاں بھی لوگوں نے بحث کی ہے کہ وہ کافر تھا یا قیامت کا منکر تھا یا مومن تھا بلکہ نبی تھا.بعض کے نزدیک یرمیاہ بعض کے عزیر بعض کے حز قیل تھا.حالانکہ یہ بحث فضول ہے.تواتر اور پھر یہودیوں کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ یہ بستی یروشلم تھی جو بخت نصر بابلی کے ذریعے تباہ ہوئی.حز قیل نبی گزرے.اللہ تعالیٰ نے انہیں رویا میں اس کی آبادی کا نظارہ دکھایا.رؤیا کا ثبوت ایک تو حز قیل نبی ا.اس پر موت آئے گی ہر طرف سے.(ناشر) سے مار رکھا اللہ نے اُس کو سو برس.( ناشر )
حقائق الفرقان سُوْرَةُ الْبَقَرَة کی کتاب سے ملتا ہے جو بلا اختلاف یہود کے نزدیک مسلم ہے.اس میں لکھا ہے دیکھو ۳۷ باب میں خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پور تھی مجھے اُتار دیا.پھر اس نے مجھے کہا کہ تو ان ہڈیوں پر نبوت کر.اسی نبوت سے (وہ آیت ہوئی) اور ان سے کہہ اے سوکھی ہڈیو ! تم خدا کا کلام سنو! دیکھو تمہارے اندر میں روح داخل کروں گا اور تم جیو گے...اور گوشت چڑھاؤں گا...تب اس نے مجھے کہا کہ اے آدم زاد! یہ ہڈیاں سارے اسرائیل ہیں.دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاں سوکھ گئیں اس لئے تو نبوت کر کہ دیکھ اے میرے لوگ میں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تمہیں تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا اور اسرائیل کے ملک میں لاؤں گا.دوم.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مِائَةَ عامہ تو سو سال رہا.اور وہ خواب دیکھنے والا کہتا ہے لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ دن یا اس کا کچھ حصہ.پھر اس کے قول کی اللہ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے فانظر إلى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهُ وَانْظُرُ إِلى حِمَارِكَ كه تو اپنی کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ.ان پر سال نہیں گزرے اور گدھے کو دیکھ لو ویسے ہی کھڑا ہے.پس یہ دو باتیں سوائے رؤیا کے کہیں جمع نہیں ہو سکتیں.چنانچہ اس کی مثال سورۃ یوسف میں اُس بادشاہ کا خواب ہے جس نے آؤ بَعْضَ يَوْمٍ میں سات سال کے قحط کا نظارہ دیکھا.وَ قَالَ الْمَلِكُ إِنِّي أَرى سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِبَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعَ عِجَافٌ وَ سَبْعَ سُنْبُلَتٍ خُضْرٍ وَ أَخَرَ يَبِست (يوسف: ۴۴) ( میں سات گائیں موٹی دیکھتا ہوں.کھاتی ہیں ان کو سات ڈبلی اور سات بالیں سبز اور دوسری سوکھی ) یوسف اس کی تعبیر فرماتے ہیں تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَآبا (یوسف: ۴۸) غرض حز قیل نے نبوت کی کہ یہ بستی سوسال میں پھر آباد ہو گی اور پھر بنی اسرائیل اپنی سرزمین میں آئیں گے.چنانچہ ستر سال گزرنے پر دانیال نبی کی معرفت بنی اسرائیل کو سمجھایا گیا کہ فارس کے بادشاہوں سے تعلقات قائم کرو.پھر ان کی مدد سے وہ تیس برس میں آباد ہو گئے.یہ دوسرا ثبوت ہے اس کا کہ اللہ کی رحمت سے مایوس تشخیذ الاذہان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۳۳،۳۳۲) نہ ہونا چاہیے.ا اور کہا بادشاہ نے میں دیکھتا ہوں سات گائیں موٹی انکو کھا رہی ہیں سات گائیں دُبلی اور سات بھٹے ہیں ہرے اور سات ہیں سوکھے.۲؎ تم کھیتی تو کرو گے سات برس لگاتار.
حقائق الفرقان ۶۰۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۶۱.وَ اِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتى - قَالَ اَوَ لَمْ تُؤْمِنُ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْبِنَ قَلْبِي قَالَ فَخُذُ ارْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعَيًّا وَاعْلَمْ أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ - ترجمہ.(اور اے پیغمبر وہ کیفیت بھی بیان کر) جب کہا ابراہیم نے اے میرے رب مجھ کو دکھا دے کہ تو کس طرح زندہ کرتا ہے یا کرے گا مُردے.فرمایا کیا تجھ کو یقین نہیں.عرض کی جی ہاں ! یقین تو ہے لیکن میں ذرا دل کی تسکین ( اور ) چاہتا ہوں.اللہ نے فرما یا تو چار پرندے لے اور ھلا لے اُن کو اپنے پاس پھر ڈال دے ہر پہاڑی پر اُن میں سے ایک جزء پھر پکار اُن کو تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے اور جان رکھ تو کہ بے شک اللہ زبردست حکمت والا ہے.تفسیر - وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تَنِي الموٹی.یہ تیسری مثال بھی جہاد کے متعلق ہے.مجاہد فی سبیل اللہ.جب اللہ کی راہ میں مارا جاتا ہے تو ضرور اللہ اس کو ایک حیات بخشتا ہے اور اس پر ایک فضل ہوتا ہے.وہ اپنے (خدا) سے رزق پاتا ہے.ابراہیم جو حنفاء کے باپ تھے انہوں نے اس نظارہ کو دیکھنا چاہا کہ اس عالم میں شہداء کس طرح زندہ کئے جاتے ہیں.گیف سے کسی کا وہم ہو سکتا تھا کہ شاید آپ مانتے نہ تھے اس لئے اس وہم کو سوال و جواب کے پیرائے میں دُور کیا.او لَمْ تُؤْمِنْ.ایمان نہیں؟ قال بلی.کہا کیوں نہیں.وَلكِنْ لِيَطْبِنَ قَلبی - شنیدہ کے بود مانند دیدہ.دید شنید میں فرق ہے.میں نظارۂ قدرت کو دیکھنا چاہتا ہوں.فَخُذْ اَرْبَعَةُ مِنَ الطَّيْرِ - چار پرندوں کے لانے کا حکم دیا.چار کی تعداد اس لئے مناسب ہے کہ انسان کی بھی چارہی غلطیں ہوتی ہیں.لے سنے والا ، دیکھنے والے کی مانند کیسے ہو سکتا ہے؟ ۲ صفرا سودا کون، بلغم (ناشر).
حقائق الفرقان ۶۰۷ سُورَةُ الْبَقَرَة صُرْهُن.ضر کے عربی میں دو معنے ہیں ایک اپنی طرف مائل کرنا.ایک شعر یا دآ گیا.وَ مَا مَيْلُ الْأَخْلَاقِ فِيهِمْ حَبْلَةٌ وَلَكِنْ أَطْرَافُ الرِّيَاحِ تَصَوَّرُهَا ل ابن عباس نے بھی اس کے معنے املھنَّ کئے ہیں.الی کا صلہ بھی یہی معنے چاہتا ہے.دوسرے معنے کچل دینے کے ہیں.میرے نزدیک کلام الہی میں جتنی وسعت ہو سکے کرنی چاہیے.پس دونوں معنے صحیح ہیں.يَاتِينَكَ سَعيًّا.پہلے کے مطابق یہ مطلب ہے کہ جب تھوڑی سی ربوبیت کا یہ اثر ہے کہ تم ان کو اپنی طرف بلا ؤ تو تمہاری طرف دوڑے آتے ہیں تو پھر ربّ الا رباب کے بلانے سے کیوں نہ آئیں گے؟ دوسرے معنے کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ خدا نے ان کو دوسرے عالم میں زندہ کیا اور یہ کیفیت کشف میں ابراہیم کو دکھادی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مورخه ۶ رمئی ۱۹۰۹ صفحه ۴۸) جب حضرت خلیل نے جناب النبی میں عرض کیا کہ کس طرح پر ویرانی سے آبادی ہوگی تو خدا نے اپنی صفت ربوبیت کی طرف متوجہ کیا کہ تم چار پرندوں کو پالو اور انہیں اپنی طرف بلاؤ.چلے آئیں گے.اسی طرح پر میری ربوبیت ایسے اسباب مجتمع کر لے گی جو اس بستی کو آباد کر دے.تشخیذ الاذہان جلدے نمبرے.جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۳۳۳) صُرْهُنَّ أَمِنْهُنَّ نَحْوَكَ مِنَ الصُّورِ ای المیل پرس ضرھن " کے معنی ہوئے اپنی طرف مائل کر لے.مفردات القرآن اور کتب لغت میں ہے.حضرت ابراہیم کو ان کے ایک سوال پر اللہ تعالیٰ نے ایک دلیل بتائی ہے کہ کس طرح مردے زندے ہوں گے.اس پر فرمایا.دیکھ ! ان جانوروں کو جو جسم اور روح کا مجموعہ ہیں.تیری ذرہ سی پرورش کے سبب سے تیرے بلانے پر پہاڑیوں سے تیری آواز سن کر چلے آئیں گے تو کیا میں جو ان کا الے اور اخلاق کی طرف میلان اُن میں ذمہ داری اور عہد ہے لیکن اس کو اِ دھر اُدھر کی ہوائیں اپنی طرف مائل کرتی ہیں.۲ ضرھن کے معنی ہیں.انہیں اپنی طرف مائل کر لے.یہ صوز سے ہے جس کے معنی مائل کرنا ہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۰۸ سُورَةُ الْبَقَرَة حقیقی مالک اور رب پرورش کنندہ ہوں میرے بلائے پر یہ ذرات حیوان کے جمع نہیں ہوسکیں گے.اس نظارہ اور فعل پر بتاؤ کیا اعتراض ہے؟ پس ترجمه آیت کریمہ کا یہ ہوا.فرمایا.پس لے پرندوں سے چار.پھر ان کو مائل کر لے اپنی طرف یعنی اپنے ساتھ ہلا لے.پھر رکھ پہاڑی پر ان میں سے ایک ایک کو.پس بلا ان کو.تیرے پاس آئیں گے دوڑتے.( نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۲۳۶ ،۲۳۷) ۲۶۲ - مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - ترجمہ.خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والوں کی مثال اس دانہ کی ہے جس نے سات بالیاں نکالیں ہر بالی میں سودانے اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھ چڑھ کر دیتا ہے.(نورالدین بجواب ترک اسلام.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۸۰) در تفسیر - مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ - ان جنگوں میں ضرورت پڑتی تھی خرچ کی.پس اس کی ترغیب دی.یہ بات یاد رکھو کہ انبیاء مَا اسْتَلَكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى رَبِّ العلمين (الشعراء: (۱۱۰) کا اعلان کرنے والے ہیں جو داعی الی الحق ہوں.ان کو کسی آجر کی ضرورت نہیں.میں خودا پنی طرف دیکھتا ہوں کہ تمہیں درس دیتا ہوں مگر کبھی میرے واہمہ میں بھی نہیں گزرا کہ کوئی اس کے عوض میں مجھے کچھ دے یا سلام تک بھی کرے.عبدالقادر جیلانی نے كَخَرُ دَلَةٍ عَلى حُکمِ اتصال ے میں اپنے پاک دل کا بہت ہی سچا نقشہ کھینچا گو احمق لوگوں نے اس کے شرک آمیز معنے لئے ہیں مگر اصل یہی ہے کہ انہوں نے یہ بتلایا ہے کہ میرے نزدیک دنیا کی قدر ایک رائی کے دانے کے برابر نہیں مگر دنیا رائی میں نہیں آسکتی.پس خوب یا درکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں لے اور میں تو تم سے اس پر کچھ اجرت نہیں مانگتا.میری اجرت تو رب العالمین ہی پر ہے.۲ اتصال باللہ کے سبب میری نگاہ میں اللہ تعالیٰ کی کل زمین رائی کے دانہ کے برابر ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۰۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کو کچھ دلانے کے لئے.اللہ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر پہلے شروع سُورۃ میں مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ : ۴) سے کیا پھر أَنَّى الْمَالَ عَلَى حيه (البقرة: ۱۷۸) میں.پھر اسی پارہ میں آنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَكُمْ (البقرة:۲۵۵) سے.مگر اب کھول کر مسئلہ انفاق فی سبیل اللہ بیان کیا جاتا ہے.انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تو اسے دے.مگر دیکھو قرآن مجید نے اس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی کو کیوں دے؟ سواس کا بیان فرماتا ہے کہ اعلاء کلمتہ اللہ کے لئے.خرچ کرنے والے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتا ہے مثل باجرے کے پھر اس میں کئی بالیاں لگتی ہیں.وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ بعض مقام پر ایک کے بدلہ دس اور بعض میں ایک کے بدلہ سات سو کا مذکور ہے.یہ ضرورت، اندازہ، وقت و موقع کے لحاظ سے فرق ہے.مثلاً ایک شخص ہے دریا کے کنارے پر.سردی کا موسم ہے.بارش ہو رہی ہے.ایسی حالت میں کسی کو گلاس بھر کر دے دے تو کونسی بڑی بات ہے لیکن اگر ایک شخص کسی کو جبکہ وہ جنگل میں دو پہر کے وقت تڑپ رہا ہے پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو.محرقہ میں گرفتار.پانی دیدے تو وہ عظیم الشان نیکی ہے.پس اسی قسم کے فرق کے لحاظ سے اجروں میں فرق ہے.رابعہ کا ایک قصہ لکھا ہے کہ ان کے گھر میں ہیں آدمی مہمان آگئے گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں آپ نے اپنی جاریہ سے کہا.جاؤ کہ یہ فقیر کو دے دو.اس نے دل میں کہا کہ زاہد عابد بیوقوف بھی پرلے درجے کے ہوتے ہیں دیکھو گھر میں ہمیں مہمان ہیں اگر انہیں ایک ایک ٹکڑہ دے تو بھی بھوکے رہنے سے بہتر ہے اور ان مہمانوں کو یہ بات بری معلوم ہوئی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ رابعہ کا کیا مطلب ہے.تھوڑی دیر ہوئی تو ایک ملازمہ کسی امیر عورت کی ۱۸ روٹیاں لائی.رابعہ نے انہیں واپس دے کر فرمایا کہ یہ ہمارا حصہ ہرگز نہیں.واپس لے جاؤ.اس نے کہا نہیں، میں بھولی نہیں.مگر رابعہ نے یہ اصرار کیا کہ نہیں یہ ہمارا حصہ نہیں.ناچار وہ واپس ہوئی.ابھی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا کہ مالکہ نے چلا کر کہا کہ تو اتنی دیر کہاں رہی.یہ تو دو قدم پر اے ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ دیا کرتے ہیں.سے پیارا مال دیا اللہ کی محبت میں.سے ہمارے دیئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرلو.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۱۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة اس کا گھر ہے.ابھی تو رابعہ بصری کا حصہ پڑا ہے چنانچہ پھر اسے ہیں روٹیاں دیں جو وہ لائی تو آپ نے بڑی خوشی سے لے لیں کہ واقعی یہ ہمارا حصہ ہے.اس وقت جاریہ اور مہمانوں نے عرض کیا کہ ہم اس نکتہ کو سمجھے نہیں.فرمایا.جس وقت تم آئے تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں.میرے دل میں آیا کہ آؤ پھر مولیٰ کریم سے سودا کر لیں اس وقت میرے مطالعہ میں یہ آیت تھی مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ امْثَالِهَا اس لحاظ سے دو کی بجائے ہیں آنی چاہیے تھیں.یہ اٹھارہ لائی تو میں سبھی کہ میں نے تو اپنے مولیٰ سے سودا کیا ہے وہ تو بھولنے والا نہیں.پس یہی بھولی ہے.آخر یہ خیال سچ نکلا.یہ بات واقعی ہے کہانی قصہ نہیں.میں نے خود بار با آزمایا ہے.مگر خدا کا امتحان مت کرو.اُس کو تمہارے امتحانوں کی کیا پرواہ ہے.خدا کے قول کا علم عام کھیتی باڑی سے ہوسکتا ہے.بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیڑے کھانے کو موجود، پھر جانور موجود، پھر ہزاروں بلائیں ہیں ، ان سے بیچ کر آخر اس دانے کے سینکڑوں دانے بنتے ہیں.اسی طرح جو خدا کی راہ میں بیج ڈالا جاوے وہ ضائع نہیں جاتا.اب اس سوال کا جواب تو ہو گیا کہ کیوں دے؟ اب بتاتا ہے کس طرح دے؟ اول تو یہ کہ محض ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللہ دے.احسان نہ جتائے.بعض لوگ ملاں کو کہتے ہیں ہماری روٹیوں کا پلا ہوا.تو یہ حد درجہ کی سفاہت و یکمینگی کی بات ہے.دوم کسی کو تکلیف نہ دے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۴۹) تمام کتب الہیہ سے زیادہ قرآن مجید میں خیرات کے متعلق ہدایات ہیں.اس میں بتایا گیا ہے کیوں دے؟ اس لئے کہ جو اللہ کی راہ میں دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بہت عمدہ بدلہ دیتا ہے اس کے مال کو بڑھاتا ہے وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ - ۲ - يُرْبِي الصَّدَقتِ (البقرة : ۲۷۷) کیا دے؟ عفو یعنی جو حاجت اصلیہ سے زیادہ ہو.حلال اور طیب مال دے.رڈی چیز نہ ہو.ابتغاء لوجہ اللہ دے.چنانچہ فرماتا ہے اَنْفِقُوا مِنْ طَيْبَتِ مَا كَسَبْتُمْ - ب - وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيْثَ مِنْهُ (البقرة: ۳۶۸) ا جو کوئی نیکی لے کر آوے تو اس کے لئے اُس کا دس درجہ بڑھ کر فائدہ ہے.۲ خیرات کو پالتا ہے.سے اور خبیث یعنی بُری چیزوں کا ارادہ نہ کرنا کہ دینے لگو اُس سے (فقیروں کو).
حقائق الفرقان “་་ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ج- وَيَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرة:۲۲۰) ـ د ـ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ الله (البقرة : ۲۷۳) کس طرح دے؟ پس جس کو دے اس پر احسان نہ جتائے.اسے دکھ نہ دے.ظاہر دے تو یہ بھی اچھا اور اگر پوشیدہ دے تو یہ اس کے حق میں بہتر.ارشاد ہوتا ہے.(1) لا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالْمَن وَالأذى (البقرة: ۲۶۵) (۲) إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقْتِ فَنِعِمَّا و دو در هِيَ وَ اِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ کے فرق کو غور سے دیکھنا چاہیے.کس کس کو لکھ دے.فقراء کو مساکین کو.ان لوگوں کو جو اللہ کی راہ میں رو کے گئے ہوں یعنی طلباء ، علماء جو محض دین کے کاموں میں مصروف ہوں اور اِس وجہ سے کوئی کسب نہ کر سکتے ہوں.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ (البقرة: ۲۷۴) تشخیذ الا ذہان جلد ۸ نمبر ۱.جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۳۲) ۲۶۳ - الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتَّبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنَّا وَ لَا أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يحزنون - لا ترجمہ.جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں پھر خرچ کئے پیچھے نہیں جتاتے احسان اور نہ تکلیف دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور نہ اُن کو کسی قسم کا آئندہ خوف ہو گا اور نہ وہ گزشتہ ہی عمل کے لئے غمگین ہوں گے.تفسیر.وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.یہ خیرات کی برکات بتائی ہیں کہ مشکلات میں خیرات کرنے والے کو خوف اگر لاحق ہو تو وہ دور کیا جاتا ہے اور پھر اسے خون نہیں ہوتا.ایک مفسر نے لے اور تجھ سے پوچھتے ہیں کس قدر خرچ کریں ؟ جواب دے ضرورت سے جس قدر زائد ہو یا جس کے خرچ کرنے سے مال میں نقصان زیادہ نہ معلوم ہو.۲ تمہارا خرچ کرنا اللہ ہی کی رضا کے لئے ہوا.۳ اکارت نہ کرو اپنی خیرات احسان جتا کر اور ایذا دے کر.ہے ( خیرات دیا کرو ) اُن تنگ دستوں کو جو رُکے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک میں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۱۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة سخت غلطی کی ہے جو اس آیت کی نسبت لکھ دیا ہے کہ صرف صحابہ کے لئے تھی اب یہ بات نہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۲۸ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۴۹) ۲۶۴ - قَوْلُ مَعْرُوفٌ وَ مَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ دو ترجمہ.بھلی بات کہہ دینا اور استغفار کرنا بہتر ہے اُس خیرات سے جس کے پیچھے اذیت اور تکلیف دینا ہو اور اللہ فنی اور بڑا بُردبار ہے.تفسیر - قول مَعْرُوفٌ.سائل سوال کرتا ہے تو اس وقت چار مشکلات ہوسکتی ہیں.مسئول کے لئے یہ دھو کہ.مثلاً جیب میں روپیہ پیسہ ہیں مگر دل دینے میں مضائقہ کرتا ہے.کئی عذرات سامنے آتے ہیں کہ آمدنی کم ہے.فلاں فلاں خرچ در پیش ہے پس دوں تو کیونکر دوں؟ احتیاج لازم حال ہے.کنبہ بہت ہے یا پاس کچھ نہیں اور دل چاہتا ہے.یہ ظاہر داری کا تقاضا ہے کہ کچھ دے.اسی طرح سائل یا تو ایسا ہے کہ واقعی محتاج ہے یا وہ بطور پیشہ و عادت کے مانگتا ہے.جیسے کہ میں نے ایک عورت کو سونے کا زیور پہنے مانگتے دیکھا پوچھا تو کہا یہی ہمارا پیشہ ہے.گویا یہ چار صورتیں ہیں.اب اللہ ان کے لئے دو نکتے سکھاتا ہے اگر جیب میں ہے اور دے نہیں سکتا تو کوئی اچھی بات ہی کہہ دے جو اس کے حق میں مفید ہو.ایسا ہی پاس کچھ نہیں تو قول معروف ہی اس کے بدلے میں کر دے.یہ مسئول کے لئے ہے اور سائل کے لئے قول معروف یہ ہے کہ اپنے آپ کو سمجھائے.باوجود ہونے کے کیوں سوال کرتا پھرتا ہے؟ اگر واقعی احتیاج سے سوال کرتا ہے تو بھی اپنے لئے قول معروف کرے کہ کیوں عجز اختیار کر رکھا ہے کوئی پیشہ اختیار کر.ایسا ہی اگر مسئول کے پاس ہے اور دیتا نہیں تو استغفار کرے کہ جو دوسخا مثمر ثمرات طیبہ کے لئے شرح صدر عطا ہو.اگر پاس کچھ نہیں اور دینا چاہتا ہے تو بھی استغفار کرے کہ اللہ تعالیٰ مجھے کشائش دے یا سائل کے لئے استغفار کرے.ایسا ہی وہ سائل جو ہے اگر باوجود مال کا مالک ہونے کے مانگتا ہے تو استغفار کرے کہ کیوں خواہ مخواہ ذلت میں گرفتار ہے.اگر واقعی ہے نہیں پھر بھی استغفار پڑھے کہ اللہ اپنی جناب سے رزق دے اور سوال کی
حقائق الفرقان ذلت سے بچا رہوں.۶۱۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة غَنِيٌّ حَلِيمٌ.اللہ کو اپنی ذات کے لئے صدقوں کی کچھ پرواہ نہیں.وہ حلیم ہے اور الصَّدَقَةُ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ - (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۰ رمئی ۱۹۰۹ صفحه ۵۰،۴۹) ۲۶۵ ۲۶۶ - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمْ بِالْمَنَّ وَ الْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانِ عَلَيْهِ تُرَابِ فَاَصَابَهُ وَابِلَ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ - وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَ تَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةِ بِرَبُوَةٍ اَصَابَهَا وَابِل فَاتَتْ أَكُلَهَا ضِعْفَيْنِ فَإِنْ لَمْ يُصِبُهَا وَابِلٌ فَطَلُّ وَاللَّهُ بِمَا دو تعملون بصير -.ترجمہ.اے ایمان دارو! اکارت نہ کرو اپنی خیرات احسان جتا کر اور ایذا دے کر اُس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو اور اللہ کو نہیں مانتا اور نہ مرکر جینے کو تو اس کی خیرات کی مثال ایسی ہے جیسی ایک ڈھلوان سل جس پر مٹی پڑی ہے پھر برسی اُس پر سخت بارش تو (چھوڑ گئی اُس کو یا) وہ رہ گئی سپاٹ سسل نہ ہاتھ لگے گا اُن کے کچھ اُس چیز سے جو کچھ بو یا انہوں نے اور اللہ کا میاب نہیں کرتا قوم کا فرمنکر کو.اور اُن کی مثال جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کو خوش کرنے کے لئے اور اپنی نیت ثابت رکھ کر جیسے ایک باغ ہے دریا کی ترائی کی زمین کا جہاں بیج جلد اگ جاوے اس پر زور سے برسات برسی تو وہ باغ بڑا پھل دار ہو گیا اور اگر اُس پر زور سے بارش نہ برسی تو اسے اوس اور تَرَشُخ ( ہی بس ہے ) اور اللہ تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے.تفسیر.واہل.پورا مینہ.تَثْبِيتًا مِنْ اَنْفُسِهِمُ کسی کے کہنے سننے سے نہ ہو.فوری جوش نہ ہو بلکہ دل کے پکے ارادے سے ہو.پہلے بتا یا خرچ کیوں کرو.پھر بتا یا خرچ کس طرح کرو.ریا کے لئے نہ ہو.احسان نمائی اور
حقائق الفرقان ۶۱۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة تکلیف دہی نہ ہو.دلی محبت سے محض اللہ کی رضا مندی کے لئے ہو.اب ایک دنیوی مثال دیتا ہے کیونکہ اللہ اپنی پاک باتیں جو رسولوں کی زبان پر دنیا کو پہنچا تا ہے اس کے نمونے دنیا میں رکھے ہوتے ہیں.رَبُوَ.اس کے معنے بعض متر جموں نے غلطی سے اونچی جگہ یا میرا کے کئے ہیں یہ غلط ہے.یہ ربو سے ہے جس کے معنے ہیں بڑھنا.پس ربوہ اس زمین کو بولتے ہیں جس میں سے بیچ جلد نکل آوے اور بہت کثرت سے پھولے پھلے.پنجاب میں ایسی زمین کو دنیائیں“ بولتے ہیں اور پہاڑوں کے قریب بجوہ“.ضعفین.معمولی سے بہت بڑھ چڑھ کر.تثنیہ کبھی کثرت کے لئے بھی ہوتا ہے.جيسى لبيك سَعْدَيْكَ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ (الملک : ۵) ( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۰) خرچ کرنے کے یہاں بڑے مواقع ہیں.مہمان خانہ ہے ہنگر خانہ ہے.کالج ہے.پھر بعض لوگ آتے ہیں لیکن وہ بے خرچ ہوتے ہیں ان کو خرچ کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض دولت مند بھی آتے ہیں اور میں نے اکثر دفعہ لوگوں کو کہا ہے کہ وہ آ کر اپنا سامان وغیرہ میرے حوالہ کر کے رسید لے لیا کریں کہ گم نہ ہوا کرے مگر وہ ایسا نہیں کرتے اور ان کا سامان گم ہو جاتا ہے اور امداد کی ضرورت اُن کو آپڑتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ محض ابتغاء لوجہ اللہ یہاں رہتے ہیں.پھر دو اخبار بھی ہیں اگر چہ ان کے مہتم اپنے فرائض کو کما حقہ بجا نہیں لاتے مگر تا ہم ان کا ہونا غنیمت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَإِنْ لَّمْ يُصِبْهَا وَابِل فَطَلُّ تو ان سب اخراجات کو مدِ نظر رکھنا اور ان موقعوں پر خرچ کرنا چاہیے.جوا ہم امور ہیں وہاں اہم اور جو اس سے کم ہیں وہاں کم.درجہ بدرجہ ہر ایک کا خیال رکھو.الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴ جنوری ۱۹۰۴ صفحه ۱۴) لے بار بار دیکھ.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۱۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لا ۲۶۷ - اَيَوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيلٍ وَ أَعْنَابٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِ الثَّمَرَاتِ وَ أَصَابَهُ الْكِبَرُ وَ لَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارُ فِيهِ نَارُ فَاحْتَرَقَتْ كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ الأيتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ - ط ترجمہ.کیا تم میں سے کوئی یہ بات پسند کرتا ہے کہ اُس کا ایک باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا بہہ رہی ہوں اس کے نیچے نہریں.باغ والے کو اُس باغ میں سب قسم کے پھل پھلاری میسر ہوں اور وہ بڑھا ہو جاوے اور اس کے چھوٹے چھوٹے ناتواں بچے ہوں پھر آ پڑا اس باغ پر جھاڑوں کو جلانے والا گرم ہوا کا جھونکا جس میں آگ تھی تو وہ باغ جل گیا.اسی طرح اللہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے تم سے آیتیں تا کہ تم غور کرو.تفسیر.اَيَوذُ اَحَدُكُمْ.اس آیت میں تمام درختوں میں سے نخیل و اعناب کا ذکر بالخصوص اس لئے کیا ہے کہ یہ بہت اعلیٰ قسم کے درخت ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی ہے اس لئے کہ اس میں چند خاصیتیں ہیں.اول تو یہ کہ اس کے پتے ہوا سے نہیں جھڑتے.مومن کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ وہ قسم قسم کی مصیبتوں میں گھبرانہ اُٹھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھ پر بہت سی مصیبتی یک لخت ٹوٹ پڑیں.میں جماعت کرانے لگا الْحَمْدُ کے آل تک پہنچا تھا کہ حمد پڑھنے سے میری طبیعت نے مضائقہ کیا.میں نے اپنے دل سے سوال کیا کہ تو ایک قوم کا امام ہو کر الحمد پڑھنے لگا ہے.کیا واقعی تیرا قلب شرح صدر سے اللہ کے حضور میں شکر گزار ہے.اس وقت بہت اضطراب کا وقت تھا.ایک طرف یہ خیال کہ مقتدی منتظر ہیں دوسری طرف یہ کہ اگر نہیں پڑھتا تو مقتدیوں کو ابتلا ہے اور اگر پڑھتا ہوں اور شرح صدر سے نہیں پڑھتا ہوں تو یہ بھی ٹھیک نہیں.قربان جاؤں اپنے مولیٰ کے.معا اس نے میری دستگیری کی اور سمجھا یا.ہم کوئی مصیبت بھیجتے ہیں اور اس پر اگر کوئی شخص صبر کرتا ہے تو ہم اسے بہتر سے بہتر بدلہ دیتے ہیں.پس ایک کوڑی ضائع کرنے سے پونڈ ملے تو رنج کی کونسی بات ہے.اب کیا معلوم کہ اس میں کس قدر
حقائق الفرقان ۶۱۶ سُورَةُ الْبَقَرَة انعامات میرے لئے مخفی ہیں.پھر مصیبتیں گناہوں کا کفارہ ہیں.گناہوں کے عوض میں جو سزا مجھے ملنی تھی وہ خدا جانے کس قدر تکلیف دہ ہوتی.پھر یہ مصیبت موجود جو ہے اس پر بھی شکر کا مقام ہے کہ خدا اس سے بڑھ بڑھ کر مجھے مصیبتیں پہنچا سکتا ہے.میری ناک کٹ جاتی.میں بے عزبات ہو جاتا.تباہ ہو جاتا.کوئی عضو ہی جاتا رہتا.لڑکا ہی نا فرمان ہو جاتا تو کس قدر دکھ کا موجب ہوتا.پس جب اس نے مصیبت پر انا للہ پڑھنے والے کو نعم البدل دینے اور عام و خاص رحمتوں سے ممتاز فرمانے کا وعدہ کیا ہے تو میں کیوں شرح صدر سے الحمد نہ پڑھوں.اس کے بعد میں نے الحمد پڑھی.غرض مومن کو چاہیے کہ وہ مصیبتوں سے گھبرا نہ اُٹھے.پھر کھجور میں ایک اور خاصیت ہے کہ اس کے پھل سال بھر قائم رہتے ہیں.اسی طرح مومن ہر حالت میں دوسرے کے لئے مفید بنتا ہے.اس کے لئے کوئی خاص موسم نہیں.تیسری بات کھجور میں یہ ہے کہ وہ غذا کا کام بھی دیتی ہے اور شربت کا بھی.گٹھلی گھوڑوں کو دیتے ہیں مقوی ہوتی ہے.اس کی لیف سے قسم قسم کی رسیاں اور بار یک تاروں سے بستر بناتے ہیں.پتوں کی چٹائیاں، فرش اور صندوق بنتے ہیں.شاخوں کی الماریاں.اس سے اتر کر انگور ہے اس کا منقہ بھی غذا اور شربت دونوں کا کام دیتا ہے.پھر اس کے پتے بھی مفید ہیں گو عام طور سے استعمال نہیں ہوتے.پھر وہ باغ بھی ایسا ہو کہ اس میں نہریں بہتی ہوں.مِنْ كُلِّ الشَّہرت - سیب.سنگترے.فالسے.کیلے وغیرھا.غرض اس باغ پر ساری عمر کا سرمایا لگایا جا چکا ہے اور اب کوئی آرمان باقی نہیں.اعصار.اب اس پر کوئی بلا آ جاوے جو اسے دبوچ لے اور وہ جل جل کر خاک سیاہ ہو جاوے تو کیسی بری بات ہے.اسی طرح کوئی خیرات تو کرتا ہے مگر وہ ان ہدایات کے مطابق نہیں کرتا جو حق سبحانہ نے بتائے تو پھر سب خرچ اکارت جاوے گا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۵۰)
حقائق الفرقان ۶۱۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۶۹-۲۶۸ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا اَخْرَجْنَا لَكُم مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُم بِأَخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ - الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۖ وَ b الله وَاسِعُ عَلِيمٌ ترجمہ.اے ایمان دارو! تمہاری کمائی ہوئی چیزوں میں سے ستھری اور عمدہ چیز میں خرچ کرو اور تمہارے لئے جو زمین میں سے اگائیں ( وہ بھی خرچ کرو ) اور خبیث یعنی بُری چیزوں کا ارادہ نہ کرنا کہ دینے لگو اس سے (فقیروں کو ) حالانکہ وہ بری چیز یں تم خود نہ لے سکومگر لینے میں آنکھ بند کر جاؤ تو ، اور جان لو کہ اللہ بے پرواہ ہے بڑا تعریف کیا گیا ہے.شیطان تم کو ڈراتا ہے تنگ دست ہو جانے سے اور حکم کرتا ہے تم کو بخیلی کا اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے اپنی بخشش کا اور برکت اور مال کا اور اللہ بڑی وسعت والا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.ایمان والو! اپنی کمائی اور زمین کی عمدہ برکات سے جو ہم نے تمہارے لئے نکالے ہیں اچھی اچھی چیزیں خدا کی راہ میں خرچ کرو.( تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۳۸) وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ.ایک قصہ یاد ہے کسی ملاں کے پاس لڑ کا دودھ لایا.اس نے کہا تم تو کبھی نہیں لائے آج کیا بات ہے.اس نے کہا کتا اس میں منہ ڈال گیا تھا.الشَّيْطنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ بعض وقت انسان کچھ دینا چاہتا ہے مگر دل میں طرح طرح کے وسوسے اٹھتے ہیں کہ یہ یہ خرچ در پیش ہیں اگر اس طرح سخاوت کی تو پاس کچھ بھی نہ رہے گا.ان کے متعلق فرماتا ہے کہ شیطان تو یہ کہتا ہے مگر خدا فرماتا ہے کہ جو تم خلوص قلبی سے خرچ کرو گے میں اسے بڑھا دوں گا.فَحْشَاءِ.بخل کو کہتے ہیں.یہاں یہی معنی ہیں.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۰)
حقائق الفرقان ۶۱۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۷۰- يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَد أُوتِيَ خَيْرًا كَثِيرًا ۖ وَمَا يَذْكُرُ إِلا أُولُوا الْأَلْبَابِ - ترجمہ.پکی سمجھ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جس کو پکی سمجھ مل گئی اس کو بڑی خیر و خوبی مل گئی اور ان باتوں کو یاد نہیں کرتے اور نصیحت نہیں پکڑتے مگر سمجھ دار آدمی ہی.تفسیر - يؤتى الحكمة - حکمت کی یہی باتیں ہیں جو بیان ہوئیں بعض نادان طبابت کو حکمت کہتے ہیں یہ غلط ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۰) و دو در ۲۷۲ - ان تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاء ط فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَأْتِكُم وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ - - ترجمہ.اگر تم خیرات میں ظاہر دو تو بھی اچھی بات ہے اور اگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو دو تو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے.اور تمہارے گناہ تم سے دور کرے گا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبر دار ہے.تفسیر.وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَأْتِكُمْ - صدقہ ضرورڈ بلا ہے.ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہوا.راہ میں اس نے کسی سے دو پیسے مانگے.سپاہیوں نے لینے دیئے کہ آخری وقت ہے.معمولی بات پر کیا منع کرنا.اس نے دو روٹیاں خریدیں اور آگے چل کر کسی مسکین محتاج کو دے دیں.ادھر اس کے گلے میں رسہ ڈالا گیا.ابھی تختہ نیچے سے کھینچا نہیں تھا کہ حکم آ گیا کہ پھانسی ملتوی کر دو کچھ تحقیقات باقی ہے.آخر الآمروہ رہا ہو گیا.دیکھا یہ دور وٹیاں آدمی کی جان بچا گئیں.ن (ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ رمئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۰) ۲۴ - لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعرِفُهُم لا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَانَّا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ - تعرفهم بسينهم ترجمہ.( خیرات دیا کرو ) اُن تنگ دستوں کو جوڑ کے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں چل پھر نہیں سکتے ملک
حقائق الفرقان ۶۱۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة میں جاہل آدمی ان کو سمجھے مال داران کو نہ مانگنے اور چھوڑ دینے کی وجہ سے.ان کے نشان سے (یا) ان کی پیشانی سے پہچانتا ہے تو ان کو وہ لوگوں سے مانگتے نہیں سخت پیچھے پڑ کر تم کچھ بھی خرچ کرو کام کی چیز تو بے شک اللہ اسے بخوبی جانتا ہے.تفسیر قرآن شریف یہ بتا کر کہ کہاں سے دے اور کس مال کو خرچ کرے اب یہ بتا تا ہے کہ کس کس کو دے.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِینَ.سو ان میں سے ایک تو وہ فقراء ہیں جو اعلاء کلمتہ اللہ میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں.جہادِ سنانی ہو یا لسانی اور اس وجہ سے وہ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ زمین میں کمانے کے لئے جد و جہد نہیں کر سکتے.9919 بسیھم.ان کی علامتوں سے شریعت نے قرائن کا بھی ایک علم رکھا ہے.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ رمئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۵۱،۵۰) -٢٧٦ اَلَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبُوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَسِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرَّبُوا وَ أَحَلَّ اللَّهُ البَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبُوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُةٌ إِلَى اللهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ - ترجمہ.جولوگ سود کھاتے ہیں وہ کھڑے نہ ہو سکیں گے مگر اس طرح جس طرح وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جس کو خبطی بنادیا شیطان نے چھو کر یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو سود ہی کے جیسی ہے حالانکہ سوداگری کو اللہ نے حلال کیا اور سود کو حرام کیا تو جس کو اللہ کی نصیحت پہنچ چکی اور وہ باز آ گیا ( سود کھانے سے ) تو جو آگے لے چکا تو وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جس نے پھر سو دلیا تو یہی لوگ آگ والے ہیں وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے.تفسیر.الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبوا.کمانے کی صورتوں میں سے ایک صورت کمانے کی جہاد کی بہت بھاری دشمن ہے اور وہ سود ہے.ربوا کے بہت ہی خطرناک نتائج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے
حقائق الفرقان ۶۲۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں.سود خواروں کے اخلاق ایسے خراب ہوتے ہیں کہ ایک سود خوار کے آگے میں نے ایک فقیر کے لئے سفارش کی تو وہ کہنے لگے کہ پانچ روپے میں دے تو دوں گا مگر میرے پاس رہتے تو سو برس میں شود در شود سے با لاکھ ہو جاتا.لکھنؤ میں ایک سلطنت تھی وہ بھی محض سود سے تباہ ہوئی.پہلے ان کے مبلغات پرومیسری نوٹوں کے بدلے میں گئے پھر وہ جنگ کرنے کے قابل نہ رہے اور آخر وہ وقت آیا کہ یہ سلطنت برباد ہوگئی.میں نے چند مصنفین کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ربوا کے معنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بھی نہ کھلے.تعجب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں تک تو فرما دیا کہ فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَ رسُوله (البقرۃ :۲۸۰) اور یہ نہ کھولا کہ ربوا کیا ہے.پھر ساہوکار جاہل سے جاہل زمیندارسب جانتے ہیں کہ سود کیا ہے.ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۱) كَمَا يَقُومُ - جنگوں کو نہیں جاتا مگر خبطی کی طرح کیونکہ وہ اپنی اسامیوں کو نہیں مارے گا.تشحیذ الا ذبان جلد ۸ نمبر ۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحه ۴۴۵) فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ - (البقرة : ۲۷۲) یعنی جب کوئی شخص قسم قسم کی بداعمالیوں اور بدذاتیوں اور خدا کی نافرمانیوں میں مصروف ہو اور اس وقت اس کو خدا کا حکم پہنچے اور وہ خدا کی طرف سے وعظ و نصیحت کو سنے اور اس جگہ تو بہ کرے اور سچی توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گذشتہ قصوروں اور گذشتہ بد ذاتیوں کو معاف کر دے گا اور جو کچھ اس نے گذشتہ زمانہ میں کیا وہ سب اس کو معاف ہوگا.الحکم جلد ۸ نمبر ۴۱، ۴۲ مورخه ۱۳۰ نومبر و ۱۰ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۱۷) ۲۷۷ - يَبْحَقُ اللَّهُ الرَّبُوا وَيُرُ بِي الصَّدَقْتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَارٍ أَثِيمٍ - ترجمہ.اللہ سود کو گھٹاتا ہے اور خیرات کو پالتا ہے اور اللہ نا خوش ہے دوست نہیں رکھتا ہے ہر کا فرگنہگا رکو.لے تو خبر دار ہو جاؤ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کو ( طیار ہو جاؤ ).(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۲۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة يَبْحَقُ الله الربوا.سود کو مٹاتا ہے اللہ.کیونکہ اس کو منع کر دیا.وَيُربى الصداقتِ.اور صدقات کو بڑھاتا ہے اس طرح کہ ان کے دینے کا حکم دیا.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۱) جیسا کہ قرآن شریف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات طیبات اور تعامل اسلام سے پایا جاتا ہے ہر قسم کے سود کو حرام بتاتے ہیں اور کسی صورت میں اس کے جواز کے قائل نہیں اور ہوں بھی کس طرح جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَمْحَقُ الله الربوا (البقرة: ۲۷۷) اللہ تعالیٰ نے ربا کے محق کرنے کا ارادہ کیا ہے اور دوسری جگہ فرما یا الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبُوا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطنُ مِنَ الْمَشِش (البقرة :۲۷۶) یعنی وہ لوگ جو سود لیتے ہیں نہیں اٹھیں گے قیامت کے دن مگر اس طرح جیسے شیطان نے مس کر کے انہیں دیوانہ بنادیا ہو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَعَنَ رَسُولُ اللهِ الكِلَ الرِّبَا وَمُوْ كِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ(مسلم کتاب المساقاة باب لعن أكل الربا و مؤکله) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے کھلانے والے اور اس کے گواہوں اور وثیقہ لکھنے والوں پر لعنت کی ہے.اس سے بڑھ کر اور تہدید کیا ہو اللہ تعالیٰ سود کو حرب من اللہ ٹھہراتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ اس کو حرام ٹھہراتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھیجتے ہیں تعامل اسلام میں کوئی اس کا مجوز نہیں.پھر اس کے جواز کی کون سی دلیل شرعی ہوسکتی ہے یہاں تک مشاہدہ صحیحہ میں بھی اس کے خلاف ہے.بڑے بڑے بنکوں کے دیوالے نکلتے آپ نے دیکھے نہیں تو اخبارات میں ضرور پڑھے ہوں گے.یہ آفت اسی سود کی وجہ سے آتی ہے اور ایسے بار یک در بار یک اسباب کے ذریعہ سے آتی ہے کہ دوسرے اس کو نہیں سمجھ سکتے.جن لوگوں نے سلطنت لکھنو کے زوال کے اسباب پر غور کی ہے وہ منجملہ اسباب کے ایک وجہ سود بھی ٹھہراتے ہیں جو پر امیسری نوٹوں کے رنگ میں لکھنو کے اعیان سلطنت میں مروج ہوا تھا اور آخر ان کو اپنے روپیہ کے ضائع ہونے سے بچانے کے لئے وہ رنگ اختیار کرنا پڑا جو سلطنت کی تباہی کا موجب ہوا.غرض سود ہر حال میں قطعا منع ہے.(احکم جلد ۸ نمبر ۲۳، ۲۴ مورخہ ۱۷، ۲۴ / جولائی ۱۹۰۴ صفحه ۱۴)
حقائق الفرقان ۶۲۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۷۹ - يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرَّبوا إِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ ترجمہ.اے ایمان دارو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سو دلوگوں پر رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو جب تم مومن ہو.تفسیر.اوایمان والو! اللہ تعالیٰ کے عذاب سے جو اس کے نافرمانوں کے لئے مقرر ہے اپنے آپ کو بچائے رکھو اور چھوڑ دو جو کچھ بیا جوں کا روپیہ تم کولوگوں سے لینا ہے.اگر مومن ہو تو ایسے ہی کام کرو.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۵) دو ۲۸۰ - فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۚ وَ اِنْ تُبْتُم فَلَكُمْ رُءُوسُ اَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ - ترجمہ.پس اگر تم نے ایسا نہ کیا تو خبر دار ہو جاؤ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کو ( طیار ہو جاؤ ) اور اگر تم تو بہ کرو تو اصل رقم تمہاری ہوئی نہ تو تم کسی کا نقصان کرو نہ کوئی تمہارا نقصان کرے.تفسیر.اگر اس معاملہ میں تم نے فرمانبرداری نہ کی تو جان لو کہ تم سے جنگ کرنے کا حکم خدا اور اس کے رسول سے لگ چکا.اگر اللہ کی طرف توجہ رکھو تو تم کو اصل سرمایہ کے لینے کی اجازت ہے.ظالم نہ بنو.والا ظلم کی سزا بھگتو گے.اصل بھی نہ ملے گا.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن صفحہ ۲۲۵) -۲۸۱ - وَاِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلى مَيْسَرَةٍ ۖ وَ أَنْ تَصَدَّ قُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ روووووو ووور كنتم تعلمون - ترجمہ.اور اگر کوئی تنگ دست غریب ہو تو اسے مہلت دینا چاہیے آسودہ حالی تک اور اگر بخش دو تو بہت ہی اچھا ہے تمہارے حق میں جب تم سمجھو.تفسیر.اگر تمہارا مقروض مفلس ہے تو اسے آسودگی تک مہلت دو اور اگر قرضہ عفو کر دو تو تمہارے حق میں بہت بھلا ہے اگر سمجھو.تصدیق براہین احمدیہ کمپیوٹرائز ڈایڈیشن صفحہ ۲۲۵)
حقائق الفرقان ۶۲۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۸۲ - وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللهِ ثُمَّ تُوقُ كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَ هم لا يظلمون - ترجمہ.اور اس دن سے ڈر جاؤ جس دن تم اللہ کے سامنے لوٹائے جاؤ گے تو ہر ایک شخص کو پورا پورا ملے گا جو اس نے کمایا تھا ( نیکی یا بدی سے ) اور اُن پر ظلم نہ کیا جائے گا.تفسیر.ڈرتے رہو اُس وقت سے کہ تمہارا معاملہ اللہ کے سامنے پیش ہو اور وہاں ہر جی اپنے کئے کی سزا بھگتے اور وہاں کسی پر ظلم نہ ہوگا.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۵) وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللهِ - انسان کی فطرت میں جیسی محبت کی خواہش ہے ویسے ہی دُکھوں میں اسے کسی راحت رساں ذریعہ کی آرزو ہے.پس اس تقاضائے فطری کے ماتحت حضرت حق سبحانہ فرماتے ہیں کہ تم جناب الہی میں ضرور حاضر کئے جاؤ گے.کیا تم نے اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر کی ہے؟ ایک ادنی سفر میں بھی انسان اپنے اُترنے کے مقام اور ضروریات سفر کا انتظام کر لیتا ہے.پس کیا اس لمبے سفر کے لئے بھی کبھی کوئی فکر دامنگیر ہوئی ہے؟ انسان اپنی حالت پر غور کرے کہ جب وہ تھوڑے مجمع میں اپنی ہتک گوارا نہیں کرتا تو کیا جہاں اوّلین و آخرین ہوں گے وہاں اپنی ہتک گوارا کر لے گا ؟ ہر گز نہیں.لا يُظْلَمُونَ.کسی قسم کی کمی نہ ہوگی.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۱) ۲۸۳ - يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُم بِدَيْنِ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ وَ ليَكتُبْ بَيْنَكُمْ كَاتِبُ بِالْعَدْلِ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَنْ يَكْتُبَ كَمَا عَلَمَهُ الله فَلْيَكتُبُ وَلْيُمْلِلِ الَّذِى عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسُ مِنْهُ شَيْئًا فَإِنْ كَانَ الَّذِى عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهَا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ تُمِلَ هُوَ فَلْيملِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتْنِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَنْ تَضِلُّ
حقائق الفرقان ۶۲۴ سُورَةُ الْبَقَرَة احد بهُمَا فَتُذَكِّرَ احد بهُمَا الْأُخْرَى ، وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا وَلَا تسموا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا اَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى اَلَا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمُ ص فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلَا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَار ط كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ وَ إِنْ تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقُ بِكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ الله وَاللهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِيمٌ - ترجمہ.اے ایمان دارو! جب تم لین دین کیا کرو قرض کا ایک میعاد مقررہ تک تو اُسے لکھ لیا کرو اور چاہیے کہ لکھ دے تم میں سے کوئی لکھنے والا انصاف سے اور انکار نہ کرے لکھنے والا لکھنے سے جیسا کہ یا کیونکہ اللہ نے اُس کو سکھایا تو اس کو چاہئے کہ لکھ دے اور لکھوا تا جاوے وہ شخص جس پر حق ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے اور کاٹ چھاٹ نہ کرے اُس میں سے کچھ.پھر اگر وہ شخص جس پر حق ہے کم عقل ہو یا ناتواں ہو یا وہ خود نہ لکھوا سکتا ہو تو اس کا ولی مختار انصاف سے لکھوا دے اور دو گواہ ٹھہرا لیا کرو مردوں میں سے پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہوں میں پسند کرو ( ٹھہرا دو ) اس وجہ سے کہ بھول جاوے ان میں سے کوئی تو یاد دلا دے اُس کو دوسری اور انکار نہ کریں گواہ جب بلائے جائیں اور اس بات میں سستی نہ کرو کہ لکھ لیا کرو اُس کو چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا ایک میعاد تک یہ اللہ کے پاس بڑی منصفانہ کا رروائی ہے اور بہت ٹھیک ہے گواہی کے لئے اور معلوم ہوتا ہے تم کو شبہ نہ پڑے گا مگر ہاں موجودہ تجارت ہو جو تمہارے آپس میں لین دین ہوا کرتا ہے تو تم پر کچھ گناہ نہیں جو اس کو نہ لکھو.اور گواہ تو کر ہی لیا کرو جب تم سودا کر و اور لکھنے والے اور گواہ کو نقصان نہ پہنچایا جاوے اور اگر ایسا کرو گے تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو اور اللہ ہی کو سپر بناؤ اور اللہ تم کو سکھاتا ہے اور اللہ ہی ہر چیز کا بڑا جاننے والا ہے.تفسیر.او ایمان والو! ہر ایک معاملہ کولکھ لیا کرو جس کے لئے کوئی میعادی معاہدہ ہو اور ہر ایک کونہ چاہیے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیے کہ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاملوں کا لکھنے والا ہو اور
حقائق الفرقان ۶۲۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة معاہدہ کو اس انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسک میں نقص نہ نکلے اور تمستک نویس کو تمسک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہوا کرے کیونکہ کا تب کو اللہ تعالیٰ نے فضل سے ایسا کام سکھایا.پس چاہیے کہ تمسکات کو لکھے اور لکھا وے وہ جس نے دینا ہو.اور ضرور ہے کہ لکھاتے ہوئے لکھانے والا اللہ سے ڈرتا رہے اور ذرہ بھی اس میں کمی و نقص نہ کرے اور اگر لکھا نے والا کم عقل اور بچہ اور لکھانے کے قابل نہیں تو اس کا سر براہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے اور اپنے معاملات پر دومرد گواہ بنالیا کرو.اگر دو مرد گواہ نہ مل سکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں.دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھول گئی تو دوسری اسے یاد دلائے گی اور گواہ بلانے پر انکار نہ کریں اور ایسے سست نہ بنیو کہ تھوڑا یا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو.اللہ تعالیٰ کے یہاں پر انصاف کی باتیں ہیں اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی اور ایسی تدابیروں سے باہمی بدگمانیاں جاتی رہیں گی.ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر نہ ہونے سے گناہ بھی نہیں.مگر ہر ایک سودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو ضرور چاہیے (اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا ) اور یادر ہے کہ کا تب اور گواہ کو ان کا ہرجانہ دو.اگر نہ دو گے تو بدکار بنو گے.خدا کا ڈر رکھو.اللہ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر شئے کو جانتا ہے.( تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۲۶ تا ۲۲۷) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُم - جہاد میں ضرورت ہے روپیہ کی اور روپیہ کا حصول بعض کے نزدیک شود پر منحصر ہے.فرمایا کہ جو شود لیتا ہے وہ اللہ سے جنگ کرتا ہے.ہاں لین دین کے معاملے میں کافی احتیاط ضروری ہے.كَاتِبُ بِالْعَدْلِ - یعنی کا تب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو اور قانون سلطنت کے ٹھیک مطابق ہو.ہم نے ایک دفعہ پانسور و پیہ دیا اور جائیداد کی رجسٹری نہ کرائی.چنانچہ وہ روپیہ بھی واپس نہ ملا.حضرت صاحب نے فرمایا نور الدین نے دو گناہ کئے.ایک تو یہ کہ اللہ کے حکم کے مطابق وہ رجسٹری داخل خارج نہ کرائی.دوم اپنے تساہل سے دوسرے کو گناہ کرنے کا موقع دیا.انہیں شاید
حقائق الفرقان ۶۲۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۵۰۰ روپیہ کی فکر ہے اور مجھے اس بات کی کہ یہی ۵۰۰ روپیہ گناہ کا کفارہ ہو جائے کسی اور شامت میں مبتلا نہ ہوں.کئی لوگ اس غلطی میں گرفتار ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانونِ سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے.مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں.كما علمهُ اللهُ - كَمَا کے معنے ہیں کیونکہ علمه الله صحیح فرمایا.کیونکہ اللہ ہی نے دماغ دیا.اسی نے فہم دیا.اسی نے آنکھیں دیں.کوئی کا تب کتابت نہیں کر سکتا مگر اللہ کے فضل سے.اس لئے اپنی طرف منسوب فرمایا.بِالْحَقِّ.یعنی لکھواتے لکھواتے پیچ دار باتیں نہ لکھوائے.أن تَضِل احد بهُمَا فَتُذَكرَ احْدُ بهُمَا الأخْرى - لاہور میں ایک شخص نے میری تقریر سن کر مجھ سے کہا کیا یہ باتیں آپ کی مجھے لفظ بلفظ یا در ہیں گی.میں نے سادگی سے کہا.نہیں.اس پر وہ بولا.تب یہ حدیثیں وغیرہ سب نا معتبر ہیں کیونکہ جب دس منٹ کے بعد کو ئی کلام لفظ بلفظ یاد نہیں رہ سکتا تو پھر دوسوسال کے بعد وہ باتیں کیسے یاد رہ سکتی ہیں.حدیثیں تو تمام دوسوسال کے بعد مرتب ہوئی ہیں.میں نے اسے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک بھول جائے تو دوسرا یاد کرائے.اس اصول کے مطابق ہم حدیثوں کے قدر مشترک کو لے لیتے ہیں.فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَلا تَكْتُبُوهَا.تم پر گناہ نہیں جو نہ لکھو اسکو.اس سے معلوم ہوا کہ لکھنا بہر حال بہتر ہے.یہ اس کلمہ سے خوب ملتا ہے فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَظُوفَ بِهِمَا (البقرة: ۱۵۹) اس میں طواف واجب ہے.وَ أَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُم - شافعی دکاندار معمولی سودوں میں بھی آس پاس کے دکانوں کے لوگوں کو گواہ کر لیتے ہیں یا کم از کم علی مذہب ابی حنیفہ کہہ کر اعلان کر دیتے ہیں.اے تو اس پر کچھ گناہ نہیں اگر دونوں کے درمیان طواف کرے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۲۷ سُورَةُ الْبَقَرَة لا يُضَار.کاتب کو حق کتابت ضرور دینا چاہیے.گواہوں کو بھی حرجانہ حسب حیثیت ان کو دینا چاہیے.وَاتَّقُوا اللهَ.اللہ کو سپر بناؤ.اس کا تقوی اختیار کرو.اللہ علم دے گا.یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تقوی کا نتیجہ سچے علوم کا ملنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ صفحه ۵۱) نیکی اور بدی کی شناخت کا انحصار ہے قرآن شریف کے علم پر اور وہ منحصر ہے بچے تقوی اور سعی پر.چنانچہ فرمایا.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ الحكم جلد ۶ نمبر ۴ مورخه ۳۱/جنوری ۱۹۰۲ صفحه ۷) تعلیم الہی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون ٹھہرادیا ہے وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ احکام جلد نمبر ۲ مورخہ ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ صفحه ۱۲) خدا کی راہوں کا علم انسان کو تقوی کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ تم تقوی اختیار کرو.اللہ تم کو علم عطا کرے گا جس سے تم اس کی رضا مندی کی راہ پر چل سکو گے.تقوی یہی ہے کہ انسان بالکل خدا کا ہو جاوے.اس کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا ، کھانا پینا ہر ایک حرکت و سکون خدا کے لئے ہو.جب وہ ہمہ تن اپنے وجود اور ارادوں کو خدا کے لئے بنادے گا تو پھر خدا بھی اس کا بن جاوے گا.مَنْ كَانَ لِلهِ كَانَ اللهُ لَهُ - لے الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخه ۲۴/جنوری ۱۹۰۴ء صفحه ۱۴) علوم جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں درس تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقوی اور محض تقوی سے ملتے ہیں.وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللهُ اگر محض درس تدریس سے آ سکتے تو پھر قرآن مجید میں مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِلُوا الثَّوْرِيةَ ثُمَّ لَمْ يَخلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ ( الجمعة: ٢) کیوں الحکم جلد ۹ نمبر ۱۶ مورخه ارمئی ۱۹۰۵ ء صفحه ۵) ہوتا ؟ ابتدا ہی میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کو ان لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متقی لے جو اللہ کا ہو جاتا ہے اللہ اس کا ہو جاتا ہے.۲.ان لوگوں کی مثال جن پر توریت لا دی گئی ہے پھر انہوں نے اس کو اٹھایا ہے (ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گدھا ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۲۸ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہیں.دوسرے مقام پر علوم قرآن کی تحصیل کی راہ بھی تقوی ہی قرار دیا ہے.جیسے فرما ی وَ اتَّقُوا اللهَ وَ يُعَلِّمُكُمُ اللهُ (البقرة : ۲۸۳) یعنی تقوی اختیار کرواللہ تعالیٰ تمہارا معلم ہو جائے گا.ހ ވ الحکم جلد ۸ نمبر ۱۶ مورخه ۲۷ رمئی ۱۹۰۴ صفحه ۸) وَاتَّقُوا اللهَ وَيُعَلِمُكُمُ اللهُ (البقرة: ۲۸۳) اصل معلم علوم حقہ کا تو خدا تعالیٰ ہی ہے اور اس کی راہ ہے تقوی اللہ.جب اس طریق پر انسان تقوی اختیار کرے تو علوم حقہ کے دروازے اس پر کھلیں گے اور وہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر:۲۹) میں داخل ہوگا.الحکم جلد ۸ نمبر ۷ مورخہ ۲۴ /فروری ۱۹۰۴ء صفحه ۴) ۲۸۴ - وَ اِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَ لَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهِنَّ مَقْبُوضَةٌ فَإِنْ دو ا مِن بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُودِ الَّذِي اؤْتُمِنَ اَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ ۖ وَلَا تَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمُهَا فَإِنَّةَ اثِمَّ قَلْبُهُ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ - ترجمہ.اور اگر تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ لکھنے والا تو قبضہ گرو کا ہونا چاہئے ) پس اگر اعتبار کرے تم میں کا ایک دوسرے پر تو اُس کو ادا کر دینا چاہئے جس پر اعتبار کیا گیا ہے دوسرے کی امانت اور چاہیے کہ ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور تم گواہی نہ چھپاؤ اور جس نے اس کو چھپایا تو بے شک اس کا دل گنہگار ہے اور اللہ تمہارے کرتوتوں کو سب جانتا ہے.تفسیر.اگر کہیں ایسے سفر میں لین دین کرو جہاں تم کو کا تب نہ مل سکے تو رہن سے کام لو مگر ضرور ہے کہ مرہون چیز کا قبضہ کر لیا کرو.اور اگر ایسے معاملات میں ایک کو دوسرے کی امانت و دیانت پر یقین ہو تو امین کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کر کے امانت دار کے حقوق کو پورا کر دے اور گواہی کومت چھپاؤ.گواہی کا چھپانے والا دل کا بڑا بد کار ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.تصدیق براہین احمدیہ.کمپیوٹرائزڈ ایڈ یشن صفحہ ۲۲۷) لے اس کے سوائے نہیں کہ اللہ کے بندوں میں علم والے تو وہی ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں.(ناشر )
حقائق الفرقان ۶۲۹ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ۲۸۵ - لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أو تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ اللهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ نَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ - ترجمہ.اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اگر چہ تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے یا اس کو چھپاؤ اللہ تم سے حساب لے گا اُس کا پھر بخشے گا جسے چاہے گا اور عذاب دے گا جسے ہا ہے گا اور اللہ ہر شئے پر قادر ہے.تفسیر.یہ سورۃ بقرۃ کا خاتمہ ہے.وہ بات جو میں نے ابتدا میں بیان کی تھی اس کا اس میں بھی پتہ لگتا ہے کہ اصل غرض اس سورۃ کریمہ کی اعلانِ جہاد ہے چنانچہ فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (البقرة:۲۸۷) میں اس مطلب کو ظاہر کر کے ختم کر دیا.اَنْعَمتَ عَلَيْهِمْ میں بتایا کہ بعض منعم علیہم مغضوب بھی بن جاتے ہیں چنانچہ وہ بنی اسرائیل جن کی نسبت فرمایا أَذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عليكم (البقرة: ۴۸) انہی کی نسبت بَاءُ بِغَضَبٍ مِنَ اللهِ " (البقرۃ : ۶۲) فرمایا کہ منعم علیہم کی کیا صفات ہیں اور مغضوب علیہم اور ضالین کا انجام کیا ہے؟ پھر منعم علیہم میں سے ابراہیم اور اسباط کا ذکر کیا.پھر جہاد کے لئے آیات فرما ئیں اور قاتِلُوا میں اس کی تصریح کردی.چونکہ جنگوں میں جوش کے لئے شراب اور خرچ کے لئے منیر کا طریق تھا اس لئے اس کی نسبت احکام صادر فرمائے اور لڑائی میں بعض بیوہ ہو ئیں ، بعض بتائی.کچھ خانگی تنازعات پیش آئے.اس لئے ان کے بارے میں ضروری احکام بتا دیے.پھر بتادیا کہ تم ایسے نہ بنا جیسے موسی کے ساتھی تھے اور نہ ایسے جیسے طالوت و داؤد کے زمانے میں بعض ہوئے.اسی ضمن میں انفاق کی تاکید فرمائی اور بتایا کیوں دے؟ کیا دے؟ کہاں سے دے؟ کس طرح دے؟ پھر اسی سورۃ میں توحید، نماز، روزہ، حج ، زکوۃ اور تمام انسانی فضائل و رذائل کا بیان فرما دیا.گویا یہ سورۃ ایک جامع سورۃ ہے.اب اخیر میں بیان فرما یا لِلَّهِ مَا فِي السَّبُواتِ وَمَا ے تو ہماری مددکر کا فرقوم کے مقابلہ میں.۲؎ تم میرے ان انعاموں کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے تھے.سے وہ اللہ کے غضب میں آگئے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۳۰ سُوْرَةُ الْبَقَرَة في الْأَرْضِ.ان تمام ملکوں پر ایک وقت آتا ہے کہ حکومت الہیہ ہو جاوے گی.يُحَاسِبُكُم بِهِ الله.دوسرے مقام پر فرمایا اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمُ (الانبیاء :۲) محاسبہ کا بھی ایک دن ہوتا ہے.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ.مَن میں عموم ضروری نہیں.معرفہ بھی ہوتا ہے.یہاں بتادیا ہے کہ مغفرت ان کو ہوگی جو يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ (البقرة : (۵) کے مصداق ہیں.کیونکہ وہی مُفْلِحُون ہیں اور عذاب ان کو ہو گا جو اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرُهُم (البقرة :) کے مورد ہیں.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مورخه ۲۰ مئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۵۲،۵۱) اِس سورۃ میں بہت سی باتیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کو سنائی ہیں.پہلے یہ بتایا کہ یہ کتاب تمہارے لئے ہلاکت نہیں بلکہ ہدایت ہے.ایمان لاؤ.نمازیں ٹھیک کرو.اللہ کی راہ میں دو.منافق نہ بنو.خدا کے تم پر بہت سے احسان ہیں.اگر وہ ناراض ہوگا تو پھر تمہارا نہ کوئی سفارشی ہوگا نہ ناصر و مددگار.نہ جرمانہ دے کر چھوٹ سکو گے.پھر فرماتا ہے.بہت سے لوگ ہیں جن پر ہم انعام کرتے ہیں مگر وہ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بارگاہِ ایزدی سے بہت دور لے جاتے ہیں.یہ بیان کر کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو اللہ کا فرمانبردار ہے.اس ضمن میں جناب الہی نے فرمایا کہ تم متوجہ الی اللہ رہو.یک جہتی حاصل کرو.پھر حج کے احکام ، روزے کے احکام، گھر کے معاملات کے متعلق ضروری مسئلے بتاتے ہوئے صدقہ و خیرات کی طرف متوجہ کیا.لین دین کے مسائل بیان کئے.بیاج اور سود سے منع کیا.پھر فرمایا.تم سمجھتے بھی ہو.زمین و آسمان میں ہماری سلطنت ہے.تم ہماری شریعت کی خلاف ورزی کر کے سکھ نہیں پاسکتے.دیکھو! ہم جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے خوب جانتے ہیں اور اس کا حساب تم سے لیں گے.بہت سے لوگ ہیں جن کو رو پیدل جائے وہ تیس مار خاں بن بیٹھتے ہیں ان کو واضح رہے کہ حساب ہوگا اور ضرور ہوگا.ذرا تم اپنے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سہی ، آج تک اے انسانوں کا حساب قریب ہو گیا ہے.سے لوگ مانتے ہیں اس کلام کو جو تیری طرف اتارا گیا.سے بےشک جن لوگوں نے حق کو چھپا یا برا بر ہے ان پر کیا ڈرایا تو نے انہیں یا نہ ڈرایا تو نے انہیں.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۳۱ سُوْرَةُ الْبَقَرَة پنے نفس کے عیش و آرام کے لئے کس قدر کوششیں کی ہیں اور اپنے بیوی بچوں کے لئے کیسی کیسی مصائب جھیلی ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا.سوچو! اپنے ذاتی و دنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیں کرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الہی احکام کی نگہداشت کس حد تک کرتے ہو.( ایک مخلص لڑکا پنکھا کر رہا تھا اسے فرما یا چھوڑ دو اس طرح سننے میں حرج ہوتا ہے ایسی باتوں کا مجھے خیال تک نہیں ہوتا اور میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ خدا کے فضل سے تمہارے سلام کا.تمہاری نذرو نیاز کا.تمہاری تعظیم کا ہرگز محتاج نہیں.میری تو یہ حالت ہے کہ میں جمعہ کے لئے نہا رہا تھا.نفس کا محاسبہ کرنے لگا اور اس خیال میں ایسا محو ہوا کہ بہت وقت گذر گیا آخر میری بیوی نے مجھے آواز دی کہ نماز کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے.وقت کا یہ حال اور ہم ہیں کہ ننگ دھڑنگ بیٹھے ہیں.لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ الله (البقرۃ:۲۸۵) کا مطالعہ کر رہے ہیں.اگر میری بیوی مجھے یاد نہ دلاتی تو ممکن تھا اسی حالت میں شام ہو جاتی ).غرض تم لوگ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتیں جانتا ہے اور ایک دن تمہارا حساب ہو گا خود حساب دینا ہی ایک خطر ناک معاملہ ہے پاس کرنا اور نا کام رہنا تو دوسری بات ہے.جو تقوی کی راہ پر چلا اسے بخش دے گا اور جو گمراہ ہیں ان کو عذاب ہوگا.پ الفضل جلد نمبر ۲ مورخه ۲۵ /جون ۱۹۱۳ ء صفحه ۱۵) ۲۸۶ - أَمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَ قف مَلبِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَ أطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ - ترجمہ.ایمان لا یا رسول جو کچھ اس پر اترا اس کے رب کی طرف سے اور سب ایمان دارایمان لائے سب ہی نے مانا اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے پیغمبروں کو ہم جدا نہیں سمجھتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے اور ایمانداروں نے کہا ہم نے سنا اور جان لیا تیری بخشش
حقائق الفرقان ۶۳۲ سُوْرَةُ الْبَقَرَة چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے.تفسیر.رسول ایمان لا یا اس پر جو اتارا گیا اس کی طرف اس کے رب سے اور مومن بھی سب کے سب ایمان لائے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر.(نورالدین.کمپیوٹرائز ڈایڈ یشن صفحہ ۲۶۲) اور اس کی کتابوں کو اور اس کے پیغمبروں کو ہم جدانہیں سمجھتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے اور ایمان داروں نے کہا ہم نے سنا اور جان لیا تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب ! اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے.اللہ اس ذات سے مراد ہے جو تمام عیبوں اور نقصوں اور بدیوں سے منزہ.تمام خوبیوں اور کمالات کی جامع اور ہر طرح کی نیکیوں سے متصف ہے.چونکہ ایک معمولی بزرگ سے تعلق اس بات کی تحریک کرتا ہے کہ میں بھی نیک بن جاؤں تو پھر L جس کا تعلق ایسی ذات سے ہوگا وہ کیوں نہ پاک بنے گا.ایمان باللہ کا یہی فائدہ ہے.وَمَلئِكَتِہ.بارہا بتا چکا ہوں کہ انسان کو جب نیک تحریک ہو تو اسی وقت کرے کیونکہ وہی وقت اس نیکی کے کرنے کا ہوتا ہے.اگر ذرا بھی شستی کی جاوے تو نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ (الانفال: ۳۵) جب ایک فرشتے کی تحریک مانی جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بہت فرشتوں سے تعلق پیدا ہوتا ہے اور بالآخر ان تمام کے سردار جبرائیل سے اور اس کے ذریعہ سے وہ علوم اترتے ہیں جن کا تعلق قلب سے ہے اور میکائیل کے ذریعے وہ علوم جن کا تعلق دماغ سے ہے.ان سردارانِ ملائک سے تعلق بڑے لوگوں کا ہوتا ہے جو ان سے کم ہیں وہ کتب الہیہ پڑھیں.پھر ایک وہ ہیں جو پڑھنا بھی نہیں جانتے.ان کے لئے رسل ہیں.غُفْرَانَكَ رَبِّنَا.انسان جزع فزع میں بے صبری سے شہوت و حرص کے سبب حضرت حق سبحانہ کے فیضان سے رک جاتا ہے.اس واسطے استغفار کا حکم دیا.تمام لوگوں پر ایک وقت قبض وکسل لے اللہ آڑے آ جاتا ہے آدمی اور اس کے دل کے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۳۳ سُوْرَةُ الْبَقَرَة کا آتا ہے اس کے دُور کرنے کے لئے یہ حکمی علاج ہے.فقہاء آئمہ میں سے ایک امام کا یہ مذہب ہے جو مجھے بھی پسند ہے کہ اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُبِكَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْكَسْلِ کی دعا واجب ہے آجکل مسلمان یا تو عجز میں گرفتار ہیں یا کسل میں.عجز کہتے ہیں اسباب مہیا نہ کرنے کو اور کسل کہتے ہیں اسباب مہیا شدہ سے کام نہ لینے کو.ان کو چاہیے کہ وہ کسل چھوڑ دیں جس کے اسباب میں سے ایک کبر و غرور خود پسندی بھی ہے.( ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۹ ء صفحه ۵۲) ہمارا رسول اور دوسرے مومن تو اِس طریق پر چلتے ہیں کہ اللہ پر ایمان لاتے ہیں.فرشتوں کی نیک تحریکیں مانتے ہیں اور تفرقہ نہیں کرتے یعنی یوں نہیں کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا.پھر ان کی گفتار.ان کے کردار سے کیا نکلتا ہے (قَالُوا کے معنے.بتایا.زبان سے یا اپنے کاموں سے ) سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا یعنی ثابت کرتے ہیں نہ صرف وہ اپنی زبان بلکہ اپنے اعمال سے دکھاتے ہیں کہ باتیں سنیں اور ہم فرمانبردار ہیں.تیری مغفرت طلب کرتے ہیں.تیرے حضور ہم نے جانا ہے.اے مولا! تو ہی ہمیں طاقت عطا فرما اور ہمارے نسیان و خطا کا مؤاخذہ نہ کر.ہم پر وہ بوجھ نہ رکھ جو ہم سے برداشت نہ ہوسکیں.یہ دعا مومنوں کی ہے تم بھی مانگا کرو اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا.ہر وقت جناب الہی سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اسی کو اپنا والی و ناصر جانو.بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو سمجھانے والے کے سمجھانے کی برداشت نہیں.وہ اپنے خیالات کے اندر ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے.اسی قسم کی بے پرواہی اور تکبر کا نتیجہ ہے کہ کفار نے تمہاری سلطنتیں لے لیں اگر تم پورے طور سے خدا کی بادشاہت اپنے او پر مان لیتے اور مومن بنتے تو کفار کے قبضہ میں نہ آتے.اللہ بڑا بے پرواہ ہے.اسے فرمانبرداری پسند ہے.خدا تعالیٰ آسودگی بخشے تو متکبر نہ بنو.لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے حالانکہ ان کے اپنے گھر بیٹیاں ہیں جو دوسرے گھروں میں جانے والی ہیں.جو سلوک تم نہیں چاہتے کہ ہم سے ہو وہ غیروں سے کیوں کرو ؟ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور خدا کے فرمانبردار بنے کی کوشش
حقائق الفرقان کرو.اللہ تمہیں تو فیق بخشے.۶۳۴ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الفضل جلد نمبر ۲ مورخه ۲۵/جون ۱۹۱۳ء صفحه ۱۵) ۲۸۷ - لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُواخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأَنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ وقفة عَنا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ - ترجمہ.اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اُس کی برداشت کے موافق جس نے جو کما یا وہ اس کو ملے گا اور جس نے (جو بُرا کیا اُس کا بدلہ ) وہی پائے گا.اے ہمارے رب ! نہ پکڑ ہم کو اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں.اے ہمارے رب ! نہ رکھ ہم پر بھاری بوجھ جیسا تو نے رکھا تھا ان پر جو ہم سے پہلے تھے.اے ہمارے رب! ہم سے نہ اٹھوا اتنا بوجھ جس کی ہم میں برداشت نہیں اور درگزر فرما ہم سے اور بخش دے ہمیں اور ہمارے عیب ڈھانپ دے اور ہم پر رحم کر ، تو ہمارا صاحب اور حامی ہے تو ہماری مددکر کا فرقوم کے مقابلہ میں.تفسیر.قرآن شریف چونکہ حکیم خدا کی کتاب ہے اور وہ انسانی قوئی اور انسانی ضرورتوں کے علم پر حاوی ہے اس لئے وہ ایک اصل کو تو قائم رکھتا ہے میمنی امور کو اس حد تک جہاں تک انسان کی جائز ضروریات کا تعلق ہے چھوڑ دیتا ہے.یا یہ کہو کہ وہ کوئی حکم ایسا پیش نہیں کرتا جو انسانی طاقتوں سے بالا تر ہو اور وہ اس کی تعمیل ہی نہیں کر سکتا.چنانچہ صاف فرمایا.لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) مجھے اس موقع پر قرآن کریم کی عظمت اور کمال کے سامنے روح میں ایک وجد محسوس ہوتا ہے اور اس کے منجانب اللہ ہونے پر یہی زبردست دلیل نظر آتی ہے.الحکم جلد ۸ نمبر ۳ مورخہ ۲۴ /جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷) اللہ کی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی برداشت کے موافق.( ناشر )
حقائق الفرقان ۶۳۵ سُوْرَةُ الْبَقَرَة لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی شخص کو مگر جو اس کی گنجائش ہے.فصل الخطاب المقد مہ اہل الکتاب حصہ دوم صفحہ ۳۱۵ حاشیه ) لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا - عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت کا نزول ہمارے عجز کے ثبوت کے لئے ہے.ایسے ہی کئی اور لوگ ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت پر عمل ناممکن ہے.اس لئے فرمایا کہ ہم کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جو انسان کی مقدرت ، وسعت،استطاعت کے مطابق نہ ہو.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۲) یہ فخر عیسائیوں کو بے شک ہے کہ وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کو ایسی شریعت ملی ہے جس کو کوئی انسان بجالا سکتا ہی نہیں.اگر چہ تعجب ہے کہ پھر وہ شریعت کا نزول ہی کیوں مانتے ہیں سرے سے کہہ دیتے شریعت آئی ہی نہیں اور نہ اس کی کوئی ضرورت تھی کیونکہ انسان اس کی بجا آوری اور تعمیل سے قاصر ہے لیکن اسلام ہاں ! پاک و بے عیب اسلام ایسی شرمناک اور قابل مضحکہ بات کو روانہیں رکھتا وه لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: ۲۸۷) کی پاک ہدایت دیتا ہے.پھر میں کیوں ایک طرفہ العین کے لئے بھی یہ روا رکھوں کہ اسلام میں کوئی حکم ایسا بھی ہے جس کی تعمیل ناممکن ہے.یہ خوبی اور عظمت اسلام کی ہی ہے کہ اس کے جمیع احکام اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک انسان ان سے اپنی استطاعت و طاقت کے موافق اپنی حالت اور حیثیت کے لحاظ سے یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے.مثلاً ایک شخص ہے وہ بیمار ہے اٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا وہ بیٹھ کر حتی کہ اشاروں سے بھی پڑھ سکتا ہے.اس کا ثواب ایک مستعد تندرست آدمی کی نماز سے کم نہیں ہوگا نہ اس نماز میں کوئی سقم واقع ہوسکتا ہے.ایک شخص استطاعت حج کی نہیں رکھتا.حج نہ کرنے سے اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا اسی طرح پر تفقہ فی الدین کی بھی مختلف صورتیں ہیں ہر شخص اتنا وقت اور فراغت نہیں رکھتا کہ وہ اس کام میں لگار ہے.دنیا میں تقسیم محنت کا اصول صاف طور پر ہدایت دیتا ہے کہ مختلف اشخاص مختلف کام کریں.انسان کی تمدنی زندگی کی ضروریات کا تکفل ہوگا.اسی طرح اسی اصول کی بنا پر حکم ہوا کہ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَابِفَةً لِيَتَفَقَهُوا فِي
حقائق الفرقان ۶۳۶ سُوْرَةُ الْبَقَرَة الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ (التوبة: ١٢٢) یعنی یہ امرتو ہو ہی نہیں سکتا کہ کل مومن علوم حقہ کی تعلیم اور اشاعت میں نکل کھڑے ہوں.اس لئے ایسا ہونا چاہئے کہ ہر طبقہ اور گروہ میں سے ایک ایک آدمی ایسا ہو جو علوم دین حاصل کرے اور پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کو حقائق دین سے آگاہ کرے تا کہ ان میں خوف وخشیت پیدا ہو.الحکم جلد ۸ نمبر ۷ مورخه ۲۴ / فروری ۱۹۰۴ صفحه ۴) وہ تمہاری فطرتوں کا خالق ہے اور فطرت کا صحیح اور کامل علم رکھتا ہے.اس خالق الفطرت نے تمہیں کوئی ایسا حکم نہیں دیا جوتم نہ کر سکو بلکہ وہ احکام دیئے ہیں جو تمہاری طاقت اور مقدرت کے نیچے ہیں.چنانچہ وہ فرماتا ہے لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة : ۲۸۷) انسان کی تمکن ، وسعت اور فعل اور ترک فعل کی جو مقدرت اسے حاصل ہے.اسی وسعت ممکن کے ساتھ ہم حکم کرتے ہیں ایسی کوئی بات نہیں کہتے جو کہ طاقت سے باہر ہو.یہ بالکل جھوٹ ہوگا اگر کہ دو کہ فلاں امر وحکم ہماری طاقت سے باہر ہے کیونکہ یہ آیت قرآنی شہادت ہے.(احکم جلد ۱۶ نمبر ۲۳۲ مورخه ۲۱، ۲۸ جون ۱۹۱۲ صفحه ۱۶) لَهَا مَا كَسَبَتْ.جو کچھ عمل کرے اس کا فائدہ بھی اسی عامل کے لئے ہے.وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ.ہر مصیبت کی جڑ انسان کی نافرمانی ہوتی ہے.مَا أَصَابَكُم مِّنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمُ (الشوری: ۳۱) پھر بھی بعض گستاخ لوگ اپنے دکھوں کو خدا کے ذمے لگاتے ہیں.رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا.حدیث میں آیا ہے.اس دعا کا نتیجہ تھا کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا.خطا کی مثال یہ ہے کہ بندوق ماریں ہرنی کو اور لگ جائے انسان کو.اصرا - اصر کیا چیز ہے.اصر کے معنے غفلت کرنے کی وجہ سے کئی انسان شریر ہو گئے.پھر اسی اصر کے معنے نہ سمجھنے سے تقدیر کے مسئلے میں غلطی لگی.اصر کے معنے ہیں ایسے فعل کا ارتکاب جس کے بعد انسان ست و کاہل ہو جائے.اصر کہتے ہیں گرد ڈالنے کو.حَبْسُ الشَّئِ.اصر نام لے تم پر جو کچھ مصیبت پڑتی ہے وہ تمہاری ہی بداعمالیوں کی وجہ سے ہے.(ناشر)
حقائق الفرقان ۶۳۷ سُوْرَةُ الْبَقَرَة ہے ایسے عہد کا جس کے توڑنے سے انسان خیرات کے قابل نہیں رہتا.پس اس کے معنے یہ ہوئے کہ اے ہمارے مولا کریم ! ہم کو ایسے افعال کا مرتکب نہ کر جن کا یہ نتیجہ ہو کہ ہم تیرے حضور سے دھتکارے جائیں.جیسے کہ پہلے لوگوں نے بدذاتیاں کیں.معاہدات کا نقض کیا اور مغضوب علیہم بنے.ہم نہ بنیں.انت مولينا - مولی جب خدا کے لئے بولا جاوے تو اس کے تین معنے ہیں.ا.مالک..رب.۳.ناصر.(ضمیمه اخبار بدر قادیان جلد ۸ نمبر ۳۰ مؤرخہ ۲۰ مئی ۱۹۰۹ء صفحه ۵۲)
۱۶ ۲۴ ۲۸ انڈیکس مضامین اسماء مقامات کتابیات
انڈیکس مضامین آ ابراهیمی ملت آدم ابراہیمی ملت کیا ہے؟ یہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کہا اسلم تو فرمان بردار ہو جا.انہوں نے کچھ نہیں آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھے ۱۸۷ آدم کی مخالفت میں جس گروہ کو بڑی محرومی ہوئی وہ بھی مالداروں ہی کا گر وہ تھا حضرت آدم کا ہندسراندیپ میں آنا ۴۲۵ ۱۸۷ پوچھا.یہی کہا.أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ احسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری میں ایسا اخلاص اور احتساب ہو کہ تو گو یا اس کو دیکھتا ہے.(حدیث) ۳۵۷ آریہ آریہ قوم کی نظر عیب پر ہی پڑتی ہے.دوسرے انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت ودیعت مقدسوں کو گالیاں سناتے ہیں.نیوگ کا مسئلہ رکھی ہے کہ جب کوئی اس کے ساتھ احسان کرتا ہے ان میں جاری ہوا جوفسق و فجور کی جڑ ہے ۳۷۷ تو اس کے اندر اپنے محسن کے لئے محبت پیدا ابراهیم ہوتی ہے احکام اسلام ۵۸۸ اللہ تعالیٰ کے مکالمات کا شرف رکھنے والے شریعت خالق فطرت نے تمہیں کوئی ایسا حکم نہیں دیا جو تم نہ کر لانے والے بادی رہبر بادشاہ اور اسی قسم کے عظیم سکو بلکہ وہ احکام دیئے ہیں جو تمہاری طاقت اور لوگ ابراہیم کی نسل سے ہوئے ابراہیم کی دعائیں ۳۵۴ | مقدرت کے نیچے ہیں اخوت ۲۰۵ ۶۳۶،۶۳۵ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس مسجد (خانہ کعبہ ) عرب میں دو عیب تھے.ان کو شرک سے نکال ۳۴۴ کر توحید کی راہ دکھائی اور خانہ جنگیوں سے چھڑا کر بھائی بھائی بنادیا کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں ۵۲۹
تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے اللہ تعالیٰ بھائی کے لئے وہ پسند نہ کرے جو اپنے لئے پسند اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت کرتا ہے.(بخاری) اسلام اسلام کی حقیقت ۶۰ ۴۱۶،۴۱۵ سارے محامد کا جامع اور ہر قسم کے عیب و نقص سے منزہ ہے اس لئے اس کے سوا کسی کی عبادت جائز نہیں ۵۹۲،۵۸۲،۳۶۱،۳۵۸ جو اللہ سے دور آدمی ہیں وہ بد عملیوں کو خوبصورت یہ خوبی اور عظمت اسلام کی ہی ہے کہ ہر انسان اپنی دکھاتے ہیں ۱۲ ۵۲۰ استطاعت و طاقت کے موافق اپنی حالت اور حیثیت کے لحاظ سے یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے.۶۳۵ امام اسلام میں مذہبی آزادی فضائل اسلام ایک انگریز کے قلم سے ۸۲ امانت ۵۹۳،۵۹۲ | امام کے اوصاف ۳۳۹ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچا نمو نہ ہو، ہمارے امام پر اعتراض ہوتے ہیں کہ امامت بنو فاطمہ فرماں بردار ہوہ سارے اعضاء قلب، زبان، جوارح کا حق ہے مغلوں کو کیوں دی جواب.زَادَہ بَسْطةً اعمال و اموال، انقیا دالہی میں لگ جائیں اعتکاف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے غار حرا کے ۳۵۸ فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ اس شخص کا ایمان نہیں جس کے لئے امانت نہیں ۵۶۲ (بخاری شعب الایمان) ۶۰ اعتکاف میں روزوں کا رکھنا ثابت ہے الفت ۴۶۴ امر بالمعروف اللَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ انبیاء ۲۹۸ اللہ کے احسان کو نہ بھولو تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اسی نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کی ۱۹۲ انبیاء معلم فطرت کو جگانے کے لئے آتے ہیں ۱۸۷ الہام انجیل حضرت مسیح موعود کے الہام یلاش کی تشریح ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا کہ وہ اصلی زبان جس اَنْتَ مِلَّى وَانَا مِنْكَ کی تشریح ۵۲۵ میں نہیں تھی مہربانی تھی پانی نانی ۲۵۲
انذار مامورین کے اندار اور عدم انذار کی پرواہ نہ کرنا بخل ایک خطر ناک مرض ہے.انفاق ۹۶ منافقوں کا وصف ہے بدظنی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کے لئے مال دینے کی تلقین ۸۴ بدظنی کے ترک کی تلقین برکت ۱۱۵ ۵۲۹ انفاق فی سبیل اللہ کی اقسام اللہ کی رضا مندی کے واسطے اپنی عادتوں کو بدلنا.منصفو! کیا اگر ابراہیم علیہ السلام کی اولا د بت پرست، اخلاق رذیلہ چھوڑنا.لوگوں کو نیک باتیں بتانا.برائیوں رہزن، چوں بد تہذیب، قمار باز، زانی ، مکار بد کا رہی سے روکنا.لوگوں کو پڑھانا.مال و دولت خرچ کرنا ۸۴ رہتی تو حضرت اسماعیل کو کوئی عاقل کہہ سکتا کہ تو برومند انفاق فی سبیل اللہ کے آداب ۶۱۰،۶۰۹ کامیابی کے تین اصول.ایمان بالغیب ، دعا اور اللہ ہوا تجھے برکت ملی، تجھے فضل عطا ہوا بعثت نبی ۳۴۶ ۸۹ ۵۵۱ وبالاخرة هم یو قنون.وہ لوگ پیچھے آنے والی بعثت نبی کریم پر یقین کرتے ہیں بھوک ۸۶ ۶۰ ۱۳۸،۵۷ کی راہ میں خرچ کرنا ایمان حدیث کی روشنی میں ایمان کی تعریف ایمان بالغیب کی ضرورت ایمان کی جڑ اللہ پر ایمان اور انتہا آخرت پر ایمان ۲۳۱ ایمان باللہ کی ضرورت ایمان بالملائکہ کی فلاسفی ایمان بالرسالت مومن کی شان و پہچان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی کامیابیوں اور ۴۳۵ ۵۷۷ جوع ( بھوک ) اپنے اوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے.۵۸۱ بیوہ کا نکاح ۳۵۷ بیوہ کے نکاح ثانی کے متعلق اکثر مسلمان تامل کرتے فتح مندیوں کی جڑ ، ایمان اور اعمال صالحہ تھے ۸۶ ہیں.یہ بہت ہی بری رسم اور اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہے
) २ پلوٹھا تابوت کی تعبیر ہیکل مقدس ( علماء یہود پلو ٹھے لڑکے کو برکت نہر کی تعبیر کی دعا دیتے) پیشگوئیاں قرآن کریم کی بعض پیش گوئیاں تابوت ۷۵ تعددازدواج ۳۴۴ ،۳۳۷،۲۷۷ بخاری میں ہے.التابوت القلب داؤد اور جالوت کی لڑائی سے بیس سال پہلے عمالیق لوگ صندوق لے گئے.ان میں مری پڑ گئی.اس ۵۶۳ تقدير جبر و قدر کے مسئلہ کی حقیقت تقوی متقی بننے کا گر متقی کی صفات تقویٰ کے فوائد ۵۶۳ ۱۵۷ ۵۴۳ ۱۰۲ ،۱۰۱ ۵۵۱ ۵۱ تا ۵۵ ۱۳۸،۵۴ صندوق کو منحوس سمجھا تبر ۵۶۶ تکبر کے نقصانات توبه ۳۵۹ ،۱۶۹ ایک مفسر نے لکھا ہے.آدم سے لیکر ایں دم تک اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنے قومی کو دبانے کی قوت کوئی گناہ نہیں جس کا مرتکب عمرہ نہیں اور دوسرے کا نام تو بہ ہے بد بخت تمام اہل بیت پر تبرا کرتے ہیں ۳۷۷ اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ تزکیہ نفوس ان آیات میں شیعہ کا ر ڈ بھی ہے کہ جو رسول آئے گا وہ تزکیہ نفوس کرے گا.گنہ گاروں کو پاک انسان بنا دے گامگر شیعہ کے عقائد کے مطابق آدم سے لیکر قیامت تک کوئی گناہ ایسا نہیں ہو سکتا جن کا ارتکاب صحابہ نے (نہ) کیا ہو.۳۴۳ الْمُتَطَهِّرِينَ ( حدیث شریف ) جادو ج ۱۰۵ إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لسخرا ( بخاری کتاب النکاح) ۲۸۶
جبر جلا وطن میں بڑی جرات سے کہتا ہوں کہ حضور علیہ السلام اور بنی اسرائیل جب شرارت میں حد سے بڑھ گئے تو ان کے راشد جانشینوں کے زمانے میں کوئی شخص خدا تعالیٰ نے ان پر ذلت و مسکنت لیس دی.وہ جبر واکراہ سے مسلمان نہیں بنایا گیا.سر ولیم میور کہتا ہے.شہر مدینے کے ہزاروں ۵۹۲ بابل میں جلا وطن کئے گئے جھوٹ ۶۰۲ مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی بزور وا کراہ قرآن میں جھوٹ بولنے والے پر لعنت آئی ہے ۱۲۱ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا بھلا خیال تو کر واگر اسلام میں جبر جائز ہوتا تو ۵۹۱ ہندوستان میں اتنے سو سال حکومت رہی پھر یہ ہزاروں برسوں کے مندر، شوالے اور پستکیں کیوں اسلام کا اعلیٰ رکن موجود پائی جاتیں حفاظت کا وعدہ ۵۷۳ جبرائیل إلى أحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي النَّارِ إِلَّا الَّذِينَ عَلَوا جبرائیل و میکائیل.دینیات کا مرکز جبرائیل ہے اور دنیوی کارخانہ کا میکائیل بِالاسْتِكْبَارِ ۲۸۳ | حدیث (حقوق) جب اللہ تعالیٰ کسی سے پیار کرتا ہے تو وہ جبرائیل تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں تیری بیوی کے بھی کو آگاہ کرتا ہے تو وہ جبرائیل اور اس کی جماعت حقوق ہیں.کا محبوب ہوتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین میں حلالہ ۵۰۲ ۱۸۳ ۲۴۸ مقبول ہو جاتا ہے جہاد جہاد کی ضرورت ۵۷۸ ۴۹۳ ،۴۹۲ ،۴۲۷ حلالہ اس چیز کا نام ہے کہ موقت نکاح کرتے ہیں ادھر نکاح و جماع اور صبح طلاق.پھر پہلا شو ہر نکاح کر لیتا ہے ۵۴۶ سورہ بقرہ اوّل سے آخر تک جہاد کی ترغیب میں حلالہ جائز نہیں.اپنی مرضی سے طلاق دے ۵۴۷ نازل ہوئی ۴۷۷
۴۲۷ ۵۴۱ ۵۳۲ ۸۶ ۲۵۲ حیا خون ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں.سب سے ادنی خون میں اس قسم کی زہریں ہوتی ہیں جن سے راستہ سے موذی چیز کا دور کرنا ہے اور حیا ایمان کی اعصاب کو شیخ ، فالج استرخاء ہو جاتا ہے ایک بڑی شاخ ہے خ لَيْسَ الْخَبْرُ كَالْمُعَايَنَةِ سنی سنائی بات آنکھ سے دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوتی خلع ۵۶۵ عورت مرد سے طلاق لے سکتی ہے اس کا نام ضلع ہے ۵۴۶ خلافت خیر خواہی اسْتَوْصَوْا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا.عورتوں سے خیر خواہی کیا کرو.دعا دعا سے وہ ہوسکتا ہے جو فوج بھی نہیں کر سکتی کامیابی کے تین اصول.ایمان بالغیب ، دعا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا تم سب کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا اور اس نے مسیح علیہ السلام کے آخری کلمات انیلی انیلی آپ نہ تم میں سے کسی نے مجھے خلافت کا کرتہ پہنا لِمَا سَبَقْتَانِي دیا.(خلیفہ اول) خلیفہ ۱۸۸ دعا ابراهیمی ربَّنَا اتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً داؤد علیہ السلام - إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً ۱۶۸،۱۶۴ | وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة: ۲۰۲) ۲۸۲ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں دعاؤں سے بھی گھبرانا نہیں چاہیے.ان کے نتائج کر سکتی.اس لئے تم میں سے کوئی مجھے معزول کرنے عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں.۳۵۰ کی قدرت نہیں رکھتا ( حضرت خلیفہ اول) حضرت ابراہیم کی سات دعائیں ۳۵۱،۳۴۴ خلیفۃ اللہ کی آواز ۱۸۹ قبولیت دعا رمضان کی شان اور عظمت اور سر الہی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر پس میری سنو اور خدا کے لئے سنو! اسی کی بات ہے جو میں سناتا ہوں میری نہیں ( خلیفہ امسح اول ۱۹۲ وہ اس ماہ میں دعائیں مانگیں تو میں قبول کروں گا ۴۷۰ تو سنا
دم کرنا روزه صحابہ کے زمانہ میں ایک شخص کو سانپ نے ڈسا تھا اعمال حوار بین کے باب ۲ درس ۹ سے معلوم ہوتا صحابہ نے الحمد شریف پڑھ کر اس کا علاج کیا تھا اور ہے کہ عیسائی بھی یہ روزے آیا ما مَعْدُودَات رکھا اسے شفا ہو گئی تھی دودھ ۱۱،۱۰ کرتے تھے ۴۶۰ الصَّوْمُ لِى وَأَنَا أَجْزِى به ( بخاری کتاب الصوم ) ۴۶۳ خواب میں دودھ کی نہر دیکھنے سے مراد ہے جس نے رمضان اور ستہ شوال کے روزے رکھے فطرت صحیحہ دین کو مقدم دین کی اصل غرض ۱۵۸ اس نے گویا سال بھر کے روزے رکھ لیے ۵۹۰ سب کے بعد تقویٰ کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اللہ تعالیٰ کے لئے ایک وقت معین تک چھوڑتا ہے خدا کے فضل کو یاد کر کے محبت الہی کو زیادہ کرو.اپنے ۴۶۲ ۴۵۱ ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو ۲۴۸ وعدوں پر لحاظ کرو کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے“ دین کا خلاصہ ۲۱۰ نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کا ایک صحابی کو ارشاد ) رضاعت تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے کہ اللہ کے سواکسی مائیں اپنے بچوں کو کامل دو برس دودھ پلائیں اور اس شخص کے لئے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور ( باپ پر ) جس کا وہ بچہ ہے ماؤں کو کھانا کی عبادت نہیں کرنی ۲۵۶ ر رزق رزق سے مراد خوردنی اشیاء ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک ركوع کھلانا اور کپڑا دینا لازم ہے نعمت جو خدا کی طرف سے انسان کو ملی ہے جو شخص نماز با جماعت میں رکوع میں آکر مل جائے ۸۳ اس کی رکعت ہو جاتی ہے اللَّهُمَّ ارْزُقُ الَ مُحَمَّدٍ قُوتا.(اے اللہ آل محمد کو قوت (رزق) عطا فرما) ۵۷۵ سُبْحَانَ رَبِّي الْعَظِيْمِ (رکوع میں پڑھنا ) ۵۴۹ ٢٠٣ ۷۳
آپ کے ذریعہ سے اب یہ دین از سر نو زندہ ہوگا ۶۰۲ زكوة زکوۃ کے مختلف معانی روح افلاطون نے غلطی کھائی ہے وہ کہتا ہے ”ہماری روح ایک طرف آواز آرہی ہے جی علی الفلاح اور دوسری جوا و پر اور منز تھی ہمارے باپ اسے نیچے گرا کر طرف کوئی اپنا مشغلہ جس کو نہ چھوڑا تو یہ بھی شرک ہے ۴۲۰ لے آئے“ رویا و تعبیر ۲۵۷ سوور ما رَزَقُهُمْ يُنْفِقُونَ.شفقت على خلق اللہ ہے ۸۵ رؤیاء ابو حنیفہ کہ آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شودر کی قبر میں ہڈیوں کو اکٹھا کر رہے ہیں.تعبیر یہ ہے کہ کھتری شودروں سے الگ رہیں ۳۷۸ خواب میں شہد کی نہر سے مراد علم اور قرآن کا حاصل کرنا ہے شیعہ ۱۵۸ شهد س ۳۴۳ سجدہ کی دعا شیعت کا رو شہوت سُبْحَانَ رَبِّي الأعلى (سجدہ میں پڑھنا ) ۷۳ سحر کی اقسام ۲۹۳ سور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، جولڑ کا اپنے ہاتھوں سے اپنے قوائے شہوانی کو تحریک دیتا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آنکھ اور دماغ خراب ہو جاوے.ہر کام کا انجام کو سوچو شیطان ۴۴۳ رمضان شریف میں شیطان زنجیروں میں بند کئے کھلانے والے اور اس کے گواہوں اور وثیقہ لکھنے ۴۶۳ والوں پر لعنت کی ہے ش شراب ۶۲۱ جاتے ہیں“ کا مطلب ص صاعقه موسیٰ علیہ السلام کی قوم سخت صاعقہ میں مبتلا ہوئی.خواب میں شراب کی نہر سے مراد ہے.اللہ کی محبت ایک قسم کی موت ان پر طاری ہوگئی.الہی رحم ہوا کے نشہ سے سرشار ہونا ہے ۱۵۸ | اور آخر بچ گئی ۲۲۱
۹ صدقہ خیرات ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں سو اونٹ دیا تھا کیا اس کا ثواب ملے گا فرمایا.أَسْلَمْتَ عَلى مَا سَلَفَ من خير ( بخاری ) ۴۹۵،۴۴۰ ایک یہودی ہر صبح چڑیوں کو چوگا ڈالتا تھا کچھ مدت عبادت عبادت کے اسرار دوسرے مذاہب سے موازنہ قبلہ رخ ہونے کی حکمت عرضه ۵۰۲ تا ۵۰۶ ۶۸ تا ۷۲ ۷۹ ہوئی اسے حج کرتے پایا ۳۶۸، ۴۹۵،۴۳۹ عُرضَةٌ - اللہ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ | مثلاً خدا کی قسم کھا کر یہ کہہ دیا کہ میں فلاں کے ساتھ صبر کی حقیقت صبر پر انعامات محبت صحبت کا اثر طبابت ۴۰۸،۳۹۵،۳۹۲ نیکی نہیں کروں گا فلاں کے گھر نہ جاؤں گا ۴۱۰ ،۴۰۹،۴۰۱۰۱۷ ۲۰۹ b علوم قرآنی متقی کو خدا تعالیٰ معارف اور علوم قرآنی سے خبر دار کر دیتا ہے رض ۵۳۹ عمرہ کے متعلق شیعہ مفسر لکھتے ہیں.آدم سے لیکر ایں دم بد سے بد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھوٹ بولا تک کوئی گناہ نہیں جس کا مرتکب عمر نہیں ۳۷۷ جاتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جاسکتا ہے ۴۷۵ عمل طلاق طلاق کے موجبات الطلاق مرتین.یکدم طلاق جائز نہیں ظلمت کی اقسام ظ ۵۴۵ ۵۴۶ ۵۹۶،۵۹۴ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ.تم چین کے مقام میں جانا چاہتے ہو مگر کیا بغیر کچھ کئے کے؟ ہر گز نہیں.ہ شخص کو چین کے حصول کے لئے کچھ کرنا پڑے گا عہد بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ تم خدائے واحد کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا.اپنے والدین سے حسن سلوک کرنا ۵۲۴ ۲۵۴
قبر پرستی حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دارا شکوہ لکھتے ہیں.لاہور میں گھوڑے شاہ کی خانقاہ اس قوم میں دو بڑے عیب تھے.ایک بت پرستی دوم با ہم لڑائی عیسائیت ۵۲۸ ہے جس پر ٹلیاں یار سے چڑھتے ہیں قرآن ۲۱۴ عیسائی، آریہ اور شیعہ مقدسوں کی عیب چینی کرتے ہیں فدي ف الحمد، تفسیر قرآن ہے ۳۷۷ قرآن پڑھنے والے کا فرض ۱۹۵، ۱۳۴ ۱۳۴ جو کتاب دنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے جو ہر ملک میں بولی جاتی ہے ۲۶۰ فدیہ طعام مسکین.وہ ایک مسکین کا کھانا بطور جس قوم نے قرآن کو اپنا دستور العمل بنایا وہ دنیا میں معزز و مقتدر بنائی گئی صدقہ دیں.یہ صدقۃ الفطر کی طرف اشارہ ہے ۴۵۴ فراست حروف مقطعات کے معانی ۱۳۷ ۴۴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے سوالات کا اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ - مومن کی فراست سے ڈرو فرشتے ملائکہ نیکی کی تحریک کے لئے ملائکہ بڑی نعمت ہیں.وہ ۱۰۴ انسان کے دل میں نیکی کی تحریک کرتے ہیں ۴۴۳ فرقان قرآن کریم میں ذکر اور ان کا جواب قصاص اس راز کو موٹی عقلیں نہیں سمجھ سکتیں کیونکہ بدلہ لینا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے قوم وہ مدد جس سے دشمن اور موسیٰ کے درمیان فیصلہ ہوا وہ قومی وحدت کے لئے چار اصول.۱.بدظنی یہی کہ فرعون غرق ہو گیا اور بنی اسرائیل نجات پاگئے ۲.ٹھٹھا سے رکنا.۳.صبر سے کام لینا اور عمدہ ملکوں کے وارث ہوئے ق ۲۱۳ ۴ صلح کروانا ک اللَّهُمَّ لَا تَجْعَل قَبْرِى مِنْ بَعْدِى عِيْدًا.اے اللہ ! جَرٌ ثَوْبَهُ خُیلاء.جس نے اپنا کپڑا تکبر کرتے میری قبر کو میرے بعد عید نہ بنائیو ۷۸ ہوئے گھسیٹا ۴۸۶ ۴۴۷ ۵۲۹ ٣٣٠
11 کلام کرسی كُرسية - عِلمه کرسی کے معنے علم کے ہیں (بخاری) ۵۷۲ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوسری سزا یہ دے گا کہ ان سے کلام نہ کرے گا کھتری کسوف و خسوف یہ آخری زمانہ یعنی شمس وقمر کا زمانہ ایک قسم کی برہمن کھتریوں سے بیاہ نہ کرے لیلتہ القدر ہے کہ اس میں بھی اس مسیح موعود علیہ السلام گ ۴۲۹ پر نزول ملائکہ اور روح یعنی جبرائیل کا ہورہا ہے ۴۶۹ احادیث میں مہدی کی علامات آئی ہیں.ان میں گائے سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک ہی ماہ رمضان میں چاند وہ لوگ گائے کی پرستش کرتے تھے.خدا نے ان اور سورج کو گرہن لگے گا هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَان - ۴۸۲ سے درشنی گائے ذبح کرائی کسوف و خسوف ماه رمضان ۱۳۱۱ ھ اور دیگر بینات لحم الخنزير واقع ہوئے ل ۴۶۸ اس جانور کا گوشت کھانے سے قوت شہوت وغضب کشتی نوح میں سوار ہونے کے لوازم ۵۸۶ میں بہت ترقی ہوتی ہے اور یہی دو قو تیں ہیں جو تمام قسم کی بداخلاقیوں کی جڑ ہیں ۲۴۱ ۴۲۷ کعبہ میں چار مصلے ہونا بائیبل میں خانہ کعبہ کے بارہ میں پیشگوئیاں ۳۹۰ ۳۸۲ مامور م نماز میں کعبہ کی طرف منہ کرنے کا فلسفہ ۳۷۹ تا ۳۸۱ ماموروں کی مخالفت خطر ناک گناہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور ہو سکتا ہے.ابلیس نے یہی گناہ کیا تھا ۵۸۲ کفالت یتیم آنحضرت نے فرمایا.میں اوروہ شخص جو یتیم کی خبر گیری مال یتیم یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ کرتا ہے جنت میں اس طرح سے ملے ہوئے ہوں ۱۹۰ گے جس طرح دو انگلیاں باہم ملی ہوتی ہیں ۴۴۵ مال والوں کو پیش آنے والے ابتلاء ۴۲۵
محبت ۱۲ حضرت مرز اصاحب مجھے نہایت ہی پیارے ہیں کہ جس مقام پر خدا کی عبادت کی جاوے وہی مقدس اگر میرے پچاس بیٹے ہوں تو میں اس کے ایک بیٹے مقام ہے اور اسی کو مسجد سمجھ لیجئے پر ان پچاس کو قربان کر دوں متقی متقی خدا کا محبوب ہوتا ہے.اس کو اللہ رزق دیتا ہے ہر تنگی سے متقی کو نجات دیتا ہے مردہ کو ثواب ۴۰۸ مسجد میں نماز سے روکنے والوں کے لئے ۱۴۰ مردہ کو ثواب پہنچتا ہے.میرے نزدیک دعا، استغفار، صدقہ خیرات بلکہ حج زکوۃ روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے موت کے مختلف معانی محمد ۲۵۷ ذلت ہے مسلمان ۸۲ ۳۳۳،۳۳۲ ایک چمار جب لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھتا ہے اور یوم آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے مسلمان بننے کا نمونہ ابراہیم کی زندگی مسلمان بنے کا کامل نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مشاہدہ کرو ۶۰۳ تا ۶۰۵ مسلمان کہلا تا آسان بننا کار دارد ملائکہ مشرکین عرب اپنے باپ دادوں سے سنتے چلے آتے ملائکہ کے وجود کے دلائل تھے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے بنی اسماعیل نزول ملائکہ کی حقیقت میں ایک نبی عظیم الشان مبعوث ہونے والا ہے ۴۶۶ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کامل ، اعلم ، اتقی اور اخشی کوئی نہیں پھر بھی آپ کو حکم ہوتا ہے.رب زدنی علما مذہب ۵۸۰ سخت محنت کے بغیر جور زق ملتا ہے اس کو عربی میں من کہتے ہیں مولی مذہب میں جبر و اکراہ نہیں ۵۷۲، ۵۷۵ مولی جب خدا کے لئے بولا جاوے تو اس کے تین ۲۳۱ ۳۶۲ ۳۶۲ ۳۶۲ ۲۷۸ 즐 ۵۱۴ ۲۱۶ مذہبی آزادی کا اعلان ۴۹۳ معنے ہیں.ا.مالک.۲.رب.۳.ناصر ۶۳۶
۱۳ مومن نجات مومن اور نیک مرد وہی ہیں جو بیماری، غریبی میں نجات فضل سے ہے اور خدا کے فضل کو ایمان نافرمان نہیں ہوتے.مقدمات میں سچائی کو ہاتھ کھینچتا ہے سے نہیں دیتے مومن با ہم ایک دوسرے پر رحم کرنے اور ایک ۴۴۴ نصائح نصائح کے انداز منافق کو جانچنے کا طریقہ دوسرے سے محبت کرنے اور ایک دوسرے پر مہربانی کرنے میں ایک جسم کے حکم میں ہیں ۴۴۵ نفاق منعم علیہ گروہ میں داخل ہونے کا نسخہ موت کے مختلف معانی ۸۶ ۵۹۸۰۵۹۷ ایک قلبی مرض ہے اس کے مریض میں قوت فیصلہ بہت کمزور ہوتی ہے اور اسے کسی کے مقابلہ کی مهدی مہدی کے لئے رو رو کر دعائیں کرنا ۲۷۱ طاقت نہیں ہوتی مہدی کی علامت چاند، سورج گرہن ۴۸۲ منافقوں کے دلوں میں شک کا مرض تھا.اور نبوت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمنوں سے بچنے اور باہم اتفاق کے لئے اہل مدینہ کے سامنے چند شرائط پیش کرنا ۲۶۲،۲۶۱ انبیاء کا طریق مباحثہ اور کامیابی کا گر ۵۹۷ تا ۶۰۰ نسیان ربَّنَا لا تُؤَاخِذْنَا.حدیث میں آیا ہے کہ اس دعا کا صادق و کا ذب اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوت کی کمی کی بیماری تھی النَّفْسُ تَمَتَّى وَتَشْتَهِيَ وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ انسان کا نفس کچھ خواہشیں کرتا ہے جن کا علم کسی کو نہیں ہوتا اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے.نکاح ۱۴۲ ۲۰۷ 119 ۱۲۰ ۱۲۸ مشرک عورتوں سے نکاح کی ممانعت کی وجہ ۵۳۶ عورت کے بیک وقت ایک سے زیادہ مردوں سے نتیجہ تھا کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا.خطا کی مثال نکاح نہ کرنے کی وجوہات یہ ہے کہ بندوق ماریں ہرنی کو اور لگ جائے انسان کو نماز ۶۳۶ اسلامی نماز ۵۴۴،۵۴۳
۶۳۴ ۳۹۶ ۱۴ نماز میں ایک خاص قسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں نماز با جماعت کی تاکید اقامت صلوۃ سے مراد نہر خواب میں نہر کو دیکھنے سے مراد عمل صالح اور دائمی رزق ہے نہر کوثر ۱۲۳ ۶۳ ۱۵۸ کئی لوگ ہیں جن کا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت پر عمل ناممکن ہے اس لئے فرمایا کہ ہم کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جو انسان کی مقدرت ، وسعت استطاعت کے مطابق نہ ہو وسوسه وسوسہ سے بچنے کا علاج وفاداری خواب میں نہر کوثر دیکھنے سے مراد اعداء پر مظفر ومنصور ہونا ہے وارث وارث کے لئے وصیت نہیں والدین والدین کے حقوق وحدت وحدت پیدا کرنے کے چاراصول وراثت ۱۵۸ یا رسول اللہ ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں ۳۰۵ ۲۵۷ ،۲۵۶ ۵۳۰۰۵۲۹ گے کہ تو اور تیرا رب جا کر لڑ و بلکہ ہم تو آپ کے دائیں بائیں لڑیں گے ( بخاری کتاب المغازی) وحی وحی کا سلسلہ ابتدائے خلق آدم سے تاقیامت جاری ہے بِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ.وہ لوگ پیچھے آنے والی وحی پر یقین لاتے ہیں.۵۱۷ ۱۶۲ ۸۹ ۹۳ لَا يَرِثُ الْمُسْلِمُ الْكَافِر.مسلمان کا فر کاوارث نہیں ۳۱۸ ورثہ ہدایت یافتہ فائما الحمه.چنانچہ اس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان مفلحون.یہ ہدایت یافتوں کا نشان ہے اگر لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے ان کی زمینیں آج کل مسلمان ہدایت پر ہوتے تو وہ ایسے ۴۴۹ ذلیل و حقیر نہ بنتے ہندؤوں کی ہوگئی ہیں
۳۸ ۱۵ ہدایت سے محرومی کے اسباب ہسپانیہ ۴۲۵ پلاش ( مقطعات کی مثال ) يَا مَنْ لَا شَرِيكَ لَهُ - ہسپانیہ میں اللہ کی مخالفت ہوئی.ان پر عذاب الہی یوسف علیہ السلام نازل ہوا مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا ۲۷۲ بنی اسرائیل.یوسف علیہ السلام کے طفیل ی یا جوج ماجوج یا جوج ماجوج آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں بنی اسرائیل مصر میں آباد ہوئے ۵۵۶ یوسف کی نیکی، نیک نیتی، عاقبت اندیشی، علم و دیانت، شجاعت نے انہیں مقربانِ بارگاہ بادشاہی بنا دیا ۵۵۶ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے یہود ۱۳۲ کا ایرانیوں سے ساز باز کرنا ۲۹۲
۱۶ آدم اسماء ابن قیم ، امام ۴، ۱۳۵،۳۷، ۱۶۲، ۱۶۵، ۱۶۷ ۱۶۸ ابن المبارک (عظیم الشان عالم حدیث ) ۴۳۲،۱۸۶،۱۸۴،۱۷۹، ۱۷۷ ، ۱۷۵ ، ۱۷۲،۱۷۰ آذر ( کار تشکده) الفـ ابراہیم علیہ السلام ۴۸۱ ۷۸،۶۵،۴۰،۳۷۵ ابن مسعود ابن نافع ، امام ابوبكر ، حضرت 11 ۴۲۶ ۵۲،۴۴،۳۹،۳۸،۳۷ ۱۸۰ ۵۶۱،۴۹۵،۳۶۷ ،۳۱۵،۳۰۰،۲۸۵ ،۲۲۴ ۵۲۳،۴۹۵،۱۸۶ ۶۲۶،۶۰۲،۴۱۵،۱۸۰ ابو جہل ابوحنیفہ ، امام ۲۶۱ ۴۰ ۴۸ ۶۰۱ ۳۲۲ ۳۴۷،۳۴۶،۳۴۲ ،۳۳۹،۱۸۴ ، ۱۳۶۰۹۶ ،۳۶۶،۳۶۳،۳۵۵،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۱٬۳۵۰ ۶۰۶۰۶۰۰،۵۹۹۰۵۹۶۰۵۰۱۰۴۸۱،۳۶۹ ۴۰ ۳۱۵ ۵۲،۴۴،۳۸،۳۷ ۶۰۷،۳۱۶،۳۰۶،۳۰۵۰۱۷۰ ۳۱۱،۳۰۳ ۳۱۵۰۳۱۴ ابو سعود (مفسر) ابو عامر راہب (لاٹ پادری) ابوالعباس ابن تیمیه ابو عبيده (مفسر) ابوالفضل ابوسلم الصلبانی ۱۸۰ ابونصر بن مردویہ ، حافظ ابن جرير رض ابن زبیر ابن عباس ابن عربی ، شیخ ابن عمر ، حضرت ابن عیینہ، امام
۲۹۱،۲۸۷ ۳۷ ۳۸ ۶۰۴ ۱۰ ۱۰ ۲۸۵ بابل بالام مشہور شاعر بخاری (محدث) بخت نصر بر همن بشیر احمد ، مرزا ( پر مسیح موعود ) بشیر الدین محمود احمد بلقیس (ملکہ) بنو قریظہ ۱۷ ۳۸ ۳۱۷،۳۱۰،۳۰۹،۶۱ ۴۸۰۴۴ ۲۹۱ ابوہریرہ رض أبي بن كعب احمد بن حنبل ، امام اخفش ( تابعی ) امام تفسیر ارمیا (نبی) اسامہ (حضرت خلیفہ اول کی صاحبزادی) ۴۰۰ اسحق علیہ السلام ۳۷۱،۳۷۰،۳۴۹،۳۴۷ ،۳۴۶،۲۰۸۰۵ اسرائیل اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کا یہ نام رکھا ہے ۱۹۵ ۴۷۷،۳۹۴ ،۳۳۷،۲۶۵،۲۶۱ ۳۴۶،۳۲۳ بنو قینقاع (مدینہ کا قبیلہ ) ۴۷۷ ،۳۹۴،۲۶۴،۲۶۱ ۴۷۷ ،۳۹۴،۳۳۷،۲۶۴ ،۲۶۱ بنو نضیر اسمعیل علیہ السلام ۴۱۰،۳۸۲،۳۷۱،۳۷۰،۳۴۷ افلاطون ۲۵۷ امامه (حضرت خلیفہ اول کی صاحبزادی) ۴۰۰ امة الله ( حضرت خلیفہ اول کی صاحبزادی) ۴۰۰ بنی اسرائیل ۲۸۶،۲۷۰،۲۱۰،۲۰۵،۶۵،۴۱، ۵۱۸،۵۱۷،۵۱۶،۳۸۸،۳۷۶،۳۳۷،۲۹۰ ۶۶ ۴۱ ۲۶۱ بنی اسمعیل ۵۹۳ امیر اسمعیل انس ۳۱۶ بیضاوی - امام (مفسر قرآن) اورنگ زیب عالمگیر ۵۹۳،۵۹۲،۵۹۱،۵۷۳ بنی عمرو بن عوف (قبیله )
۳۱۶،۳۰۵ حسن بصری ۱۸ حسین ، امام ۵۷۴۰۲۱۴ حفیظ الرحمن ( حضرت خلیفہ اول کے بیٹے ) ۴۰۰ ۱۷۴ ۴۵ ۲۱۴ ۶۰۲،۴۶۰۰۲۹۱ خ خضر علیہ السلام خلیل ( جلیل القدر امام) ۵۷۳ ۱۸۶ :) | تانا شاہ اورنگ زیب کے مدمقابل) ۵۶۶۰۵۶۴ ۲۷۸۰۲۷۶۰۵۹۰۴۷ جابر رض جالوت جبرئیل علیہ السلام ،۶۳۲۰۵۷۸،۴۸۹،۴۳۱۰۲۸۱۰۲۷۹ داراشکوه IZA ٣٠٢ دانیال ۲۴۹ داؤد علیہا داؤد علیہ السلام ۶۲۹٬۵۶۲،۳۶۴،۲۸۵۰۱۶۷۰۵ ۴۲۵ ۷۵ ۴۰۰ دیانند والنجر P.G Dallinger (پرنسپل گورنمنٹ کالج ) ۱۸۹۵ء رابعہ (حضرت خلیفہ اول کی صاحبزادی) ۴۶۸ ۱۰ جدعون جعدہ بن ہبیرہ جلال الدین سیوطی، امام (مفسر محقق ) جمال الدین مدار المهام ، منشی چراغ دین حامد علی ، حافظ حز قیل چ て ۶۰۳۰۶۰۲ حسن (مفسر محقق)
۳۳۷،۲۸۹،۲۸۶۰۲۸۵،۲۸۴ ۵۶۷ ۴۲۵٬۳۲۲ ۱۹ رابعہ بصری رحمہا راغب ، امام ربیع بن انس (راوی حدیث ) ۶۰۹۰۴۹۸۰۴۹۷ ۲۲۰۰۲۱۸ سلیمان علیہ السلام ۴۴،۴۱۴۰ سموئیل رحمت اللہ (حضرت خلیفہ اول کے استاد) ۳۷۶ سید احمد خاں ، سر رفیع الدین رحمتہ اللہ علیہ ، شاہ ریاض الدین ، مولوی ز زمخشری (مفسر قرآن) زید بن اسلم ۴۲۵ ۴۱ ۴۶ سیبویہ (امام صرف ونحو ) ش شارح زوزنی (شاعر) شافعی ، امام شوکانی ، امام زید الخیل (عرب کا مشہور شاعر ) ۱۷۹ شعبی اس سارہ (حضرت ابراہیم علیہ کی بیوی) ۳۴۹ شیر علی ، حضرت ساؤل سدی سعد بن معاذ سعید بن جبیر سعید (مفسر) سکندر اعظم ۵۶۵ شیرازی ، حافظ ۱۸۰ ۳۳۷۲۶۵ ۱۸۰۰۴۴ ۴۸ ۴۸۱ ص ۴۵ ۲۴۴ ۳۹۰۰۳۱۷،۳۱۵ ۱۸۰،۴۵ ۳۲۲ 122 ۱۳۹ صدرالدین قنوی (سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی ہے ) ۸ صفا رض صفية (حضرت اُم المومنين ) ۴۰۹ ۵۶۵ ۵۹۱ صلاح الدین ایوبی ۲۴۸ سلمان فارسی ، حضرت
۱۷۰ ۱۲۰۰۸۸٬۳۸ ۲۸۵ ۶۰۴ ،۶۰۲،۴۹۱ ۶۰۴ ۳۱۹،۳۰۷ ۴۴ عبد اللہ بن عمر b طالوت (بادشاہ) ع عبد اللہ بن مسعود عبده مصری (مفسر قرآن) عائشہ (حضرت خلیفہ اول کی صاحبزادی) ۱۰۰ عثمان ( شیعہ آپ کو بڑا کہتے ہیں) ۶۱ عز را علیه السلام (نبی) عبدالرزاق ، امام عبدالعزیز (بادشاہ) ۳۹۰ عزیر عبد القادر ، سید ۶۰۸۰۵۷۴ عطاء عکرم عبدالقیوم ، بھوپالوی مولوی ٣٣١ علاء بن زیاد ۳۰۵ عبد القیوم ( حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادے) علی ، سیدنا حضرت ۴۰۰ ۵۳۸،۳۶۷ ،۴۴ ،۴۰،۳۹،۳۸ عبدالقیس علی محمد ، میاں ( محمد حسین بٹالوی کے بھائی) ۳۲۱ ۶۱ عبدالکریم ، سیالکوٹی، حضرت مولوی عمر فاروق ،حضرت ،۲۸۶،۲۸۵ ۱۶ ۶۲۰۰۵۹۱۰۵۶۱،۴۹۵،۳۷۷ ،۳۶۷ ،۲۹۹ عبد اللہ (خلیفہ اول کے صاحبزادے) ۴۰۰ عیسی علیہ السلام ۳۶۴،۲۶۸،۲۶۷۰۶۰۵ ۵۹۹،۵۷۴،۵۶۸۰۵۳۶،۵۳۴ ،۴۹۰،۳۷۷ ۲۶۱ غ غزالی ، حجتہ الاسلام، امام غطفان (قبیله) ۳۳۷۰۱۸۶،۱۴۵۰۱۱۳ ۴۸۰۴۶۰۳۸ عبد اللہ بن ابی بن سلول ۱۸۰۰۱۲۰۰۸۸۰۶۳،۶۰ رض عبد اللہ بن زبیر عبد اللہ بن عباس
۴۶۷ ۳۸۹،۳۱۶ ۳۱۶ ۴۱ ۴۶۰۴۴،۴۰ ۱۷۱،۸۸۰۴۷ ۵۳۵ ۲۱ غلام احمد مسیح موعود، مهدی مسعود علیہ السلام، مرزا لیکھرام مالک ، امام مالک بن حویرث مبرد (محقق) متان مجاہد (مفسر قرآن تابعی ) محمد امام محمد باقر علیہ السلام ، امام 121 محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۵۲،۴۸،۴۶،۴۵،۱۴ ، ۱۰۸،۹۹،۹۷ ،۹۰۰۷۸۰۶۶،۶۰۰۵۷ ،۲۰۹،۲۰۵،۱۹۹۰۱۸۶،۱۴۹،۱۴۳ ،۱۲۱،۱۲۰ ۱۷۷ ۱۹۳۰ ۵۷، ۴۷۰ ۳۸۰ ۱۶۰ ۱۰۰ ۸ ۴۲۵،۳۹۸،۳۲۴ ۲۵۷ | C.فراء فرزند علی فرعون م ۲۰۸۰ ،۵۹۷،۵۳۳،۵۱۷،۳۸۸،۲۴۰۰ فرید الدین ، خواجہ ۲۲ ۲۶۱ ۴۲۶ ۴۴ ،۲۶۴،۲۶۱،۲۴۸۰۲۴۳ ،۲۴۰۰۲۲۴۰۲۱۷ ،۳۲۷،۳۱۶،۳۱۴ ،۳۰۰،۲۹۷،۲۶۹۰۲۶ ۳۹۴،۳۷۸،۳۵۰،۳۴۷ ،۳۳۹،۳۳۷،۳۳۳ ۴۴۰،۴۳۳ ،۴۱۸،۴۱۲۰۴ ۱۱،۴۰۳ ،۳۹۸ ۲۴۳ ۴۷۹،۴۷۶۰۴۶۸،۴۶۴ ،۴۵۶،۴۵۴ ،۴۴۵ ،۵۲۸،۵۲۲،۵۱۷، ۴۹۵ ،۴۸۹،۴۸۶ ۴۲۵ ۵۹۱،۵۸۰۰۵۷۶۰۵۶۵۰۵۶۳،۵۳۰ ۶۲۱۰۶۱۵۰۶۰۲ ۳۴۸ فزاره (قبیلہ) فضیل عیاض ق قتاده قطرب (محقق) کعب بن اشرف مجب چندر ل لوط علیہ السلام
۲۲ محمد احمد (حضرت خلیفہ اول کے صاحبزادے) ۴۰۰ محمد الحق ، میر محمد بن قیس محمد حسین بٹالوی ، مولوی محمد علی ، مولوی ( پیغامی ) محمود احمد ، بشیر الدین مرزا محمود غزنوی ۱۸۰ ۱۹۱۰۱۸۸ 1.۵۹۳،۵۹۲،۵۹۱ ۲۸۰،۲۷۰،۲۴۶،۲۳۹،۲۲۴ ،۲۱۷ ،۲۱۳ ۳۶۴،۳۵۴ ،۳۳۷،۳۰۰،۲۹۱،۲۸۴ ،۵۶۱،۵۵۷،۵۲۹۰۵۱۷ ،۴۸۹،۴۷۷،۳۸۸ ،۵۹۷۰۵۶۳ موہن لال ، رائے میکائیل محی الدین ابن عربی، شیخ ۱۷۱،۱۰ | ناصر نواب ، میر مريم عليها السلام المزی ، ابولا حجاج المجتهد الحافظ مسروق طاؤس ۵۹۷۰۵۶۸۰۶ ۴۱ ۳۰۵ نذیر حسین ، مولوی نوح ، حضرت ۴۲۵ ۶۳۲،۴۳۲،۲۸۱،۲۷۷ ۳۲۱،۱۰ ۳۲۲ ۵۳۲ ۳۳۱،۴۱ ۱۸۱ ولی اللہ شاہ (محدث دہلوی) وهب بن منبه ۳۰۵ ۵۹۱،۵۲۲ مسلم بن یسار مسیلمہ کذاب معین الدین، حافظ ( خادم مسیح موعود ) ۴۹۶ مره ابن مسعود ۱۸۰ مقدام بن معدیکرب ۳۱۹ ہاجرہ (حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی) منذر بن سعید ۴۱۰،۴۰۹۰۴۰۱،۳۸۲،۳۴۹ ۱۸۱ موسیٰ علیہ السلام ۵۰،۴، ہاروت ماروت ۴۳۲،۲۸۷
یرمیاہ یعقوب علیہ السلام ( خدا کا بہادر سپاہی) ۶۰۴ ۳۸۱،۳۷۰،۳۶۵،۳۴۸،۱۹۴۰۵ یوسف علیہ السلام ۵۶۵،۵۵۶۰۵۱۶۰۱۷۷ ،۴۸۰۶ ۲۳ ۵۶۳ ۴۲۶ ۴۸۱ ۲۳۲ ہارون علیہ السلام ہارون الرشید ہنی بال ( کا مشہور معبد ) ی یحیی علیه السلام
۲۴ مقامات ۵۳۴ بھوپال ۳۳۱،۳۲۲ ۴۷۸،۳۲۲ بیت اللہ ( توحید کے ایک بڑے واعظ (ابراہیم) نے تعمیر کیا) بیت المقدس ۵۴۴،۱۹۳ ۲۴۰ ابتداء مکے میں بیت المقدس کی جانب نماز میں ۳۸۷،۳۷۸۰۷۹ ۱۹۴ ۶۱۴،۵۶۲،۴۷۲ ۱۸۴ ،۲۹ ۴۸۱ ۲۳۲ ،۱۵۸،۱۵۷ ۱۵۸،۱۵۷ منہ پھیرا پشاور پنجاب ۴۷۷ ،۱۵۷ ۳۲۹ ۱۹۳،۴۳،۳۷ ۵۴۴ ۱۹۳ ۶۰۱ پورٹ بلیر پیرامون ( کا معبد ) ٹیمس ( دریا ) لندن کا دریا) ۵۹۲ شبیر پہاڑی (مزدلفہ ) ۲۱۷ ج )·| آرمینیا آسٹریا اسکندریہ افریقہ امرتسر امریکہ انڈیا انگلینڈ ایران بحرین بحیرہ قلزم بدر (غزوه) ۴۵۶ جیحون بغداد ۴۱۶،۲۷۲ جمنا
۳۸۲ ۴۹۹ ۱۸۱،۱۵۸،۱۵۷ ش ۵۲۳،۴۷۷ ، ۱۵۹۰ ۱۴ ۴ ۱۵۹،۱۴۴ ۱۸۶،۱۵۹،۱۵۶ سرسوتی سلع سیالکوٹ سیحون شام (ملک) عراق ع ۴۸۴ ،۳۴۹،۳۴۷ ،۲۹۹،۲۵۵ ۵۰۳ ۴۶۴،۲۰۸ ۵۹۲ ۱۴۴ 24 غ | C.عرب ( ملک (ملک) عرفات علی گڑھ غار حرا غسان غطفان ۲۵ ۴۱۶،۱۹۳ ۴۱۶ ۳۴۷ ۴۵۶ ۵۹۲ ۱۸۱ ۵۶۲،۳۹۳ ٣٢٢ ۵۴۲ ۵۲۳،۲۶۵ اله حثہ حجاز ( ملک) حر أغار خیبر ( یہود کا قلعہ ) خ ما | دجله دہلی رام پور روسی شاہی خانہ روم سراندیپ ۱۸۷ فاران ( جہاں سے اولا نور توحید چمکا )
۲۳۲ ٧١ و الدلد و الدله واله اداره لندن مدینہ منورہ ،۳۲۰۰۲۹۲،۲۸۷،۲۶۴،۲۶۱۰۲۵۴۰۲۴۹ ولد 77لد 7 لله خالد لد 60 لمه له ۷ دله ۴۷ د اتحاد الدلد ۲۶ ۳۴۸،۱۷۹ ۲۱۷ ۲۵۷ لد ١٧ ۵۳۴ ۲۰۱ ۴۷۲،۱۹۷ مرده (مشعر الحرام) مزدلفہ مصر ۱۹۴ مکہ معظمہ امالد ۵۵۶۰۵۲۳،۵۱۶۰۴۰۹۰۳۸۸ ۱۴۴ ، ۱۲۰۰ ۷۸،۲۹، ۱۱ ۳۷۹،۳۶۴ ،۲۹۲ ،۲۶۱،۲۰۱ ، ۱۵۸ ۵۰۲ ،۵۰۱،۴۸۱،۴۷۶ ،۴۱۰ ،۳۹۴ ،۳۸۹ ۵۸۷ ،۵۴۱،۵۲۹،۵۲۸ ۳۹۳ الدلد ۱۵۷ ۲۷۲ ۵۷۳ اد ملتان منی (مکہ) نیل (دریا) فرات (دریا) فلسطین فیروز پور کار تھیج ) تیں ہنی بال کا معبد ) کاکس کربلا کشمیر کلکتہ کنعان کوہ طور ( پہاڑ) نجیت قلعه گجرات گنگا گ له له له له ٧ ۲۷۴ ۲۹ ۳۲۳ ۲۱۴ ،۱۵۷ لمه لا اله اله ہسپانیہ (چین) ۶۲۱،۶۲۰،۳۲۲ ہندوستان لاہور ( دارالسلطنت ) لکھنو
۲۸۷ ۵۶۷۰۲۵۶۰۳۷ یمن پور ۲۷ ۱۵۷ ۶۰۴٬۳۸۷ ||G بیرون یروشلم
۲۸ ابن ماجه ا.ب.ت اتقان (از علامہ جلال الدین سیوطی ) ابن کثیر (کتاب تفسیر ) ابن جریر ( تفسیر قرآن) کتابیات بیہقی (حدیث کی کتاب) تعطیر الانام تاج العروس (لغت کی کتاب ) ترمذی (کتاب حدیث) تشحیذ الا ذہان تصدیق براہین احمدیہ ابوداؤد ( حدیث کی کتاب) تعلیم القرآن جلد ۱ (رساله) تفسیر کبیر رازی استثناء ( کتاب موسی) مدارک ( تفسیر ) اعجاز اسیح ( کتاب حضرت مسیح موعود ) تورات الف لیلہ ( کتاب فسانه ) ح خ د ر ثر اوستا (مقدس کتاب) ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے حادی الارواح ( ابن قیم کی کتاب) جوابات (حضرت خلیفہ اول کی کتاب) بائیبل الحکم جلد ۸ الحکم جلد ۱۷ حماسه دیوان عربی بخاری بدر (اخبار قادیان) براہین احمدیہ خروج ( کتاب تورات) دارقطنی (حدیث) در منشور
۲۹ رسالہ الجدید (امام شافعی کی کتاب) کشتی نوح ژند ( مقدس کتاب) کفارسیان س ش ص گلستان سعدی سام (وید) ل منی سبع معلقه ( دیوان عربی) لسان العرب ( کتاب لغت) سراج منیر ( تفسیر) متی کی انجیل سکندر نامه شرح دیوان حافظ شیرازی مجمع البحار مجمع البحرین (لغت کی کتاب) شرح معلقه سبعه للر وزنی صحاح (کتاب لغت) مختار الصحاح (فقہ کی کتاب) مرقاة الیقین ف ق ک گ مسلم شریف فتح البيان معالم التنزیل ( تفسیر قرآن) مفردات امام راغب فتوحات مکیہ (ابن عربی کی کتاب) فسانه آزاد مفردات راغب نسائی (کتاب حدیث) فوز الکبیر ( کتاب تفسیر ) قاموس (لغت کی کتاب) قرطبی (تفسیر) النسفى المسمى بمدارك ( تفسير ) نورالدین بجواب ترک اسلام نووی شرح مسلم كتاب التوحيد کرامات الصادقین یسعیاہ (کتاب تورات)