Language: UR
حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات
سُوْرَۃُ النِّسَآئِ مَدَنِیَّۃٌ ۲. اس سورۃ شریفہ میں یہ ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ جب آرام کی زندگی عطا کرے تو کس طرح بسر کرنی چاہیئے.مومن لڑائیوں میں انتظامات نہیں کر سکتا.امن کی حالت میں کرتا ہے اس لئے امن کی زندگی بسر کرنے کے قاعدے و طریقے سکھاتا ہے.بڑا امن تکبّر چھوڑنے سے پیدا ہوا ہے کہ برائیوں کے تمام شعبے چھوڑ دینے چاہئیں.شیطان کا پہلا گناہ جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے وہ بھی یہی ہے کہ اَبیٰ وَاسْتَکْبَرَ (بقرہ:۱۳۵)قومیّت کے خیال کو تقوٰی کی حد کے اندر لانا چاہیئے.یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے..جب تم ایک شخص کی اولاد ہو تو پھر کبریائی کس لئے تقوٰی میں امن پیدا ہوتا ہے اور کبریائی سے فساد.اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاﷲِ اَتْقَکُمْ.(حجرات : ۱۹)میں بتایا ہے کہ اﷲ کے نزدیک معزّز و مکرّم صاحبِ تقوٰی ہے نہ کہ اعلیٰ ذات والا. دوبارہ حکم تقوٰی کا دیتا ہے کہ اُس اﷲ کے متّقی بنو جس کے حضور تم دعا کیا کرتے ہو.جس کے در پر جا کر مانگنا ہوا اُس کے حکم کی خلاف ورزی ٹھیک نہیں. ؎ انبیاء نے عورتوں کے رشتہ کی یہاں تک قدر کی کہ آنحضرت (صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) نے
صحابہؓ کو نصیحت کی کہ مصر کے قبطیوں کا خیال رکھنا.وہ تمہارے رشتہ دار ہیں کیونکہ حضرت اسماعیل ؑ کی ماں مصرکی تھی.پھر حضرت نبی کریمؐ جب قربانی کرتے تو خدیجہؓ کی سہیلوں کے ہاں بھی گوشت بھجواتے.رحموں کا بہت لحاظ رکھو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) ؔ: مِنْؔ کے سمجھنے کیلئے قرآن کریم میں جا بجا ہدایت نامے موجود ہیں.غور کروخَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ (فاطر : ۱۲) خَلَقَلَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا (روم : ۲۲) (نور الدّین (ایڈیشن سوم) صفحہ۱۱۱) یہ ایک آیت شریفہ ہے جس سے ایک سورۃ کا ابتداء ہوتا اور(نکاح کے) خطبوں کے وقت اسکا پڑھا جانا مسلمانوں میں مروّج ہے وہ اس آیت کو ضرور پڑھتے ہیں.وجہ یہ کہ ساری سورۃ کی طرف گویا متوجّہ کیا گیا ہے.جس میں میاں بیوی کے حقوق کوبیان کیا گیا ہے اور تفاء ل کے طور پر اسکی ابتداء کو پڑھتے ہیں تاکہ سعادت مند لوگ ایسے تعلقات پیدا کرنے سے پہلے اور بعد ان امور پر نگاہ کر لیا کریں جو اس سورۃ میں بیان ہوئے ہیں.وہ تعلّق جو میاں بیوی میں پیدا ہوا ہے بظاہر وہ ایک آن کی بات ہوتی ہے.ایک شخص کہتا ہے کہ میں نے اپنی لڑکی دی.اور دوسری کہتا ہے مَیں نے لی.بظاہر یہ ایک سیکنڈ کی بات ہے مگر اس ایک بات سے ساری عمر کیلئے تعلقات کو وابستہ کیا جاتا ہے اور عظیم الشّان ذمّہ داریوں اور جواب دہیوں کا جؤا میاں بیوی کی گردن پر رکھا جاتا ہے.اس لئے اس سورۃ کویٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ سے شروع کیا ہے.کوئی اس میں مخصوص نہیں ساری مخلوق کو مخاطب کیا ہے.مومنؔ.مقربؔ.مخلصؔ.اصحاب الیمینؔ.غرض کوئی ہو کسی کو الگ نہیں کیا بلکہ یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ فرمایا.النَّاسُ جواُنسؔ سے تعلّق رکھتا ہے وہ انسان ہے.انسان جب اُنس سے تعلّق رکھتا ہے تو سارے اُنسوں کا سر چشمہ میاں بیوی کا تعلّق اور نکاح کا اُنس ہے اس کے ساتھ اگر ایک اجنبی لڑکی پر فرائض کا بوجھ رکھا گیا ہے تو اجنبی لڑکے پر بھی اس کی ذمّہ داریوں کا ایک بوجھ رکھا گیا اس لئے اس تعلق میں ہاں نازک تعلّق میں جو بہت سی نئی ذمّہ داریوں اور فرائض کو پیدا کرتا ہے کامل اُنس کی ضرورت ہے جس کے بغیر اس بوجھ کا اُٹھانا بہت ہی ناگوار اور تلخ ہو جاتا ہے لیکن جب وہ کامل اُنس ہو تو رحمت اور فضل انسان کے شامِل حال ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں.غرض اس تعلّق کی ابتدا اُنس سے ہونی چاہیئے تاکہ دو اجنبی وجود متّحِد فِی الّاِرَادت ہو جائیں اس لئییٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ کہہ کر شروع فرمایا اور دوسری آیت یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْسے شروع ہوتی ہے.لوگو! تقوٰی اختیار کرو.تقوٰی عظیم الشّان نعمت اور فضل ہے جسے ملے.انسان اپنی ضروریاتِ زندگی میں کیسا مضطرب اور بیقرار
ہوتا ہے خصوصًا رزق کے معاملہ میں لیکن متّقی ایسی جگہ سے رزق پاتا ہے کہ کسی کو تو کیا معلوم ہوتا ہے خود اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا. (الطّلاق : ۴)پھر انسان بسا اوقات بہت قسم کی تنگیوں میں مبتلا ہوتا ہے.لیکن اﷲ تعالیٰ متقی کو ہر تنگی سے نجات دیتا ہے جیسے فرمایا: (الطّلاق : ۳ )انسان کی سعادت اور نجات کا انحصار علومِ الہٰیہ پر ہے کیونکہ جب تک کتاب اﷲ کا علم ہی نہ ہو وہ نیکی اور بدی اور احکامِ ربّ العالمین سے آگاہی اور اطلاع کیونکر پا سکتا ہے مگر تقوٰی ایک ایسی کلید ہے کہ کتاب اﷲ کے علوم کے دروازے اسی سے کُھلتے ہیں اور خود اﷲ تعالیٰ متّقی کا معلّم ہو جاتا ہے وَاتَّقُوا اﷲَ وَیُعَلِّمُکُمُ اﷲُ.انسان اپنے دشمنوں سے کس قدر حیران ہوتا اور اُن سے گھبراتا ہے لیکن متّقی کو کیا خوف.اس کے دشمن ہلاک ہو جاتے ہیں.اِنْ تَتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ : اﷲ تعالیٰ سے دُوری اور بُعد ساری نامُرادیوں اور ناکامیوں کی اصل ہے مگر متّقی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہوتا ہے. (النحل : ۱۲۹)تقوٰی ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے مولیٰ کا محبوب بناتی ہے (توبہ : ۴) تقوٰی کے باعث اﷲ تعالیٰ متّقی کے لئے متکفِّل ہو جاتا ہے اور اس سے ولایت ملتی ہے (الجاثیہ : ۲۰)پھر تقوٰی ایسی چیز ہے کہ دعاؤں کو قبولیت کے لائق بنا دیتا ہے. ( المائدہ : ۲۸) بلکہ اس کے ہر فعل میں قبولیّت ہوتی ہے.غرض تقوٰی جیسی چیز کی طرف توجہ دلائی ہے اور تقوٰی نام ہے اعتقاداتِ صحیحہ.اقوالِ صادقہ اعمالِ صالحہ علومِ حقّہ.اخلاقِ فاضلہ ہمّتِ بلند.شجاعت و استقلال.عفّت.حِلم.قناعت.صبر کا.حُسنِ ظن باﷲ تواضع.صادقوں کے ساتھ ہونے کا.پس تقوٰی اپنے ربّ کا اختیار کرو.رَبَّکُمْ میں بتایا ہے کہ وہ تمہیں کمالات بخشنے والا ہے.ادنٰی حالت سے اعلیٰ حالت تک پہنچانے والا ہے.اسکے متّقی بنو.مخلوق کی نظر کا متّقی نہیں.اگر انسان مخلوق کی نظر میں متّقی ہوتا ہے لیکن آسمان پر اس کا نام متقی نہیں تو یاد رکھو اس کیلئے اﷲ کا فتوٰی ہیمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ …(البقرۃ : ۹) پھر فرمایا :اﷲ تعالیٰ نے تم کو ایک جی سے بنایا اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں.قرآن شریف سے عمدہ اور نیک اولاد کا پیدا ہوتا اﷲ تعالیٰ کی رضا کا منطوق معلوم ہوتا ہے.ابراہیم علیہ السلام کی دُعا کو دیکھو.کہ خدا نے اسے کیسے برومند کیا جس میں صدہا نبی اور رسول آئے حتیٰ کہ خاتم الرُّسل بھی اسی میں ہوئے.مگر یہ طیّب اور مبارک اولاد کس طرح حاصل
ہو، اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ تقوٰی ہے.تقوٰی کے حصول کا یہ ذریعہ ہے کہ انسان اپنے عقائد اور اعمال کا محاسبہ کرے اور اس امر کو ہمیشہ مدّ نظر رکھے اِنَّ اﷲَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاجب تم یہ یاد رکھو گے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے.تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقوٰی سے دُور پھینک دیتی ہے بچ سکو گے.دیکھو کسی عظیم الشان انسان کے سامنے انسان بدی کے ارتکاب کا حوصلہ نہیں کر سکتا.ہر ایک بدی کرنے والا اپنی بدی کو مخفی رکھنا چاہتا ہے پھر جب خدا تعالیٰ کو رقیب اور بصیر مانے گا اور اس پر سچّا ایمان لائے گا تو پھر ایسے ارتکاب سے بچ جائے گا.غرض تقوٰی ایسی نعمت ہے کہ متقی ذُریتِ طیّبہ پا لیتا ہے.(الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴.۱۵، الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۳) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تقوٰی اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے اس احسان کو یاد کرو کہ اس نے آدم کو پیدا کیا اور اس سے بہت مخلوق پھیلائی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام و البرکات پر اُس کا خاص فضل ہوا.اور ابراہیم کو اس قدر اولاد دی گئی کہ اس کی قوم آج تک گنِی نہیں جاتی اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے امام کو بھی آدم کہا اور رِجَالًا کَثِیْرًاکی آیت ظاہر کرتی ہے کہ اس آدم کی اولاد بھی دنیا میں اس طرح پھیلنے والی ہے.میرا ایمان ہے کہ بڑے خوش قسمت وہ لوگ ہیں جن کے تعلّقات اس آدم کے ساتھ ہوں گے.کیونکہ اس کی اولاد میں اس قسم کے رجال اور نساء پیدا ہونے والے ہیں جو خدا تعالیٰ کے حضور میں خاص طور پر منتخب ہو کر اس کے مکالمات سے مشرّف ہوں گے.مبارک ہیں وہ لوگ.مگر یہ باتیں بھی پھر تقوٰی سے حاصل ہو سکتی ہیں اور تقوٰی ہی کے ذریعہ سے فائدہ پہنچا سکتی ہیں.کیونکہ خدا کسی کا رشتہ دار نہیں ہے.مجھے سب سے بڑھ کر جوش اس بات کا ہے کہ میں مسیح موعود کی بیوی، بچّوں.متعلّقین اور قادیان میں رہنے والوں کے واسطے دعائیں کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو رِجَالًا کَثِیْرًا اورتقوٰی اﷲ والے کے مصداق بنائے.( اخبار بدرؔ قادیان ۱۳؍دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۹) : شادی کے بعد لڑکی کے تمام رشتہ دار تمہارے اور تمہارے رشتہ دار لڑکی کے ہو گئے.:یہ ایک سورۃ کا ابتداء ہے.اس سورۃ میں معاشرت کے اصولوں اور میاں بیوی کے حقوق کو بیان کیا گیا ہے.یہ آیتیں نکاح کے خطبوں میں پڑھی جاتی ہیں اور غرض یہی ہوتی ہے کہ تا اُن حقوق کو مدّ نظر رکھا جاوے.اس سورۃ کو اﷲ تعالیٰ نے سے جو اُنس ؔسے تعلق رکھتا ہے تو میاں بیوی کا تعلّق اور نکاح کا تعلّق بھی ایک اُنس ہی کو چاہتا ہے تاکہ دو اجنبی وجود متّحد فِی الاِرَادۃ ہو
جائیں.غرض فرمایا: لوگو! تقوٰی اختیار کرو.اپنے ربّ سے ڈرو.وہ ربّ جس نے تم کو ایک جی سے بنایا ہے اور اسی جنس سے تمہاری بیوی بنائی اور پھر دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں. سے یہ مُراد ہے کہ اسی جنس کی بیوی بنائی.اس آیت میں جو فرمایا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح کی اصل غرض تقوٰی ہونی چاہیئے اور قرآنِ مجید سے یہی بات ثابت ہے.نکاح تو اس لئے ہے کہ اِحصان اور عفّت کی برکات کو حاصل کرے مگر عام طور پر لوگ اس غرض کو مدّنظر نہیں رکھتے بلکہ وہ دولتمندی.حُسن و جمال اور جاہ و جلال کو دیکھتے ہیں مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عَلَیْکَ بِذَاتِ الدِّیْنِ.بہت سے لوگ خدّوخال میں محو ہوتے ہیں جن میں جلد تر تغیرّ ہو جاتا ہے.ڈاکٹروں کے قول کے موافق تو سات سال کے بعد وہ گوشت پوست ہی نہیں رہتا مگر عام طور پر لوگ جانتے ہیں کہ عمر اور حوادث کے ماتحت خدّوخال میں تغیّر ہوتا رہتا ہے.اس لئے یہ ایسی چیز نہیں جس پر انسان محو ہو.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نکاح کی اصل غرض تقوٰی بیان فرمائی ہے.دیندار ماں باپ کی اولاد ہو.دیندار ہو.پس تقوٰی اختیار کرو اور رِحم کے فرائض پورے کرو.میں تمہاے لئے نصیحتیں کرتا ہوں.یہ تعلق بڑی ذمّہ داری کا تعلّق ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے نکاح جو اغراضِ حُبّ پر ہوتے ہیں اُن سے جو اولاد ہوتی ہے وہ ایسی نہیں ہوتی جو اس کی رُوح اور زندگی کو بہشت کر کے دکھائے.ان ساری خوشیوں کے حصول کی جَڑ تقوٰی ہے اور تقوٰی کے حصول کیلئے یہ گُر ہے کہ اﷲ کے رقیب ہونے پر ایمان ہو.چنانچہ فرمایا: جب تم یہ یاد رکھو گے کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے حال کا نگران ہے.تو ہر قسم کی بے حیائی اور بدکاری کی راہ سے جو تقوٰی سے دُور پھینک دیتی ہے بچو گے.(اخبار بدرؔ قادیان ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۶) ۳. : مظلوموں میں یتیم بڑا مظلوم ہے.ایک جگہ فرمایا : (انعام : ۱۵۳)
: انکی عمدہ چیز اپنی کسی ردّی سے مت بدلاؤ. :بھاری گناہ حرام خوری کی بہت سی قسمیں ہیں.جو نوکر اپنی نوکری نہیں کرتا وہ حرام خور ہے.جو طبیب راکھ کی پُڑیا بنا کر سونے کے نام سے دے وہ بھی حرام خور ہے.جو حرفہ والے اپنے حرفہ میں فریب کرے وہ بھی حرام خور.(ضمیمہ اخبار بدر: قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) : جو مال اُنکا ہے وہ تمہارے لئے حرام اور خبیث ہے اور تمہارا اپنا مال طیّب.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۷) : اور امانت کی اچھی قیمتی چیزوں کے بدلہ میں خراب ردّی چیزیں نہ دو یا حرام حلال کے بدلہ نہ لو.(نورالدّین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۷) : بعض وقت یتیم لڑکیوں پر یا ان لڑکیوں پر جو بیوی کے ساتھ آتی ہیں ظلم ہو جاتا ہے.اس سے بچنے کا طریق بتایا تا امن ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) : جو عورت تمہیں پسند آئے اُس سے نکاح کرو. : اور اگر بے انصافی کا خوف ہو تو ایک ہی سے نکاح کرو.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۴) پس نکاح کرو جو تم کو خوش آویں عورتیں دو دو تین تین چار چار.پھر اگر ڈرو کہ برابر نہ رکھو گے تو ایک ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۶) : اس آیت میں حکم دیا.بی بی کو قبل نکاح پسند کر لو.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم جلد اوّل صفحہ۴۸)
۵. : مسلمان جب پہلے پہلے یہاں آئے تو ان کے پاس روپیہ بہت تھا.وہ لاکھوں کا مہر باندھ دیتے تھے.مگر اب یہ حالت نہیں.پس قدر کے مطابق مہر باندھو اور دل سے ادا کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۶. کم عقلوں.نشیب و فراز نہ سمجھنے والوں کو مال سپرد نہ کرو.(نور الدین ایڈیشن سوم صفحہ۱۷ دیباچہ) مال کمانا سہل ہے.پر خرچ کرنا بہت اہم ذمّہ داری کا کام ہے.عورتوں کی قوم بڑی کمزور ہوتی ہے.پس اموال انکو نہ دیدو.ایسا ہی لڑکوں کے حوالہ مال نہ کیا کرو.کئی لڑکے فضول خرچ ہوتے ہیں.صرف اس لئے انہیں پیسے دے دیئے جاتے ہیں.ہمیشہ چیز منگوا کر دینی چاہیئے اس لئے محکمہ کورٹ آف وارڈز کا اصولی حکم اسلام نے ہی رکھا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۷.
اور یتیموں کو جو تمہاری نگرانی کے نیچے ہیں ان کا حال اچھی طرح معلوم کر لو اور پتہ لگاؤ.جب وہ بلوغ کو پہنچ جائیں پھر اگر تم دیکھو کہ انہیں رُسد و سعادت ہے تو ان کے مال ان کے سپرد کر دو.: پھر جب ان یتیموں کے مال انکے سپرد کرنے لگو.تو گواہ ٹھہرالو.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۷ ) جو لوگ یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کھاتے ہیں.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۷) ۱۲.۱۳
یہ وہ رکوع ہے جس پر عمل مسلمانوں سے بہت کچھ اُٹھ گیا ہے.لڑکیوں کو حصّہ نہیں دیا جاتا. (البقرہ : ۸۶) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو وراثت نہیں دیتے ان کیلئے (البقرہ : ۸۶) ہے.و اَﷲُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ.تم حکیموں فلاسفروں عقلمندوں کی باتیں مانتے ہو پس علیم خدا کی باتیں بھی مان لو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) فَوْقَ اثْنَتَیْنِ: ترجمہ صحیح یہ ہے کہ دو یا دو سے زیادہ.کَلَالَۃً: جس کا اصل و نسل نہ ہو.اَخٌ اَوْ اُخْتٌ: یہ اس بہن بھائی کا حصّہ ہے جو ماں کی طرف سے ہو.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۷) ۱۶،۱۷. : اس سے شاید یہ مدّعا ہے کہ نیک ہو جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) اس کا مطلب تو صاف تھا کہ شریر عورت کو بے وجہ سزا نہ دی جاوے بلکہ اسکی شرارت پر چار گواہ گواہی دیں کہ یہ عورت شریر ہے تو اس کو قید کر دو.جب تک خدا تعالیٰ کوئی راہ نہ نکالے اور اگر میاں بی بی
دونوں شرارت کا ارتکاب کریں تو دونوں کو سزا دو اور اگر شرارت کرنے سے باز …آ جاویں اور سنوار کر لیں تو ان سے اعراض کر لو… یہ احکام سلطنت کے متعلّق ہیں جن کو سزاؤں کا اختیار ہوتا ہے اور وہی امرفَامْسِکُوْھُنَّ کے مخاطب ہیں.اس کے معنی ہیں بند کرو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۱۹) ۱۸. : بدی کا ارتکاب جہل ہی سے ہوتا ہے.ایک مولوی صاحب عورت کے معاملہ میں قید ہوئے تو ایک بزرگ نے انہیں گدھا گدھی کی شکل میں دیکھا میں نے کہا خواب سچّا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے.(جمعہ:۶) یاد رکھو اﷲ تعالیٰ بڑا رحیم کریم ہے.لاکھوں بار بھی خطا ہو جائے پھر بھی توبہ کرے.جب انسان کو اﷲ پر ایمان ہو.تو وہ ارتکاب معاصی سے بچتا ہے.جس قدر لوگ ارتکاب معاصی میں گرفتار ہیں.وہ کسی نہ کسی رنگ میں خدا پر یقین نہیں رکھتے.ورنہ ایک بچّے کے سامنے گناہ سے جھجک ہو اور خدا کے سامنے نہ ہو.خود یہ انسان کی فطرت میں داخل ہے کہ وہ ہلاکت سے بچتا ہے.انسان تو کُجا ایک اُونٹ کو مہار کے ذریعے کوسوں لے جا سکتے ہیں مگر ایک گڑھے میں ڈالو تو نہیں گرے گا کیونکہ اسے ہلاکت کا یقین ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍ جولائی ۰ـ۱۰ء) ۲۰.
: ایک عورت کا خاوند آیا کہ میری بیوی کو آتشک ہو گیا ہے.وہ بی بی بہت نیک تھی.مجھے یقین نہ آیا.آخر اس نے اقرار کیا کہ مجھے یہ خاوند پسند نہیں.اس لئے بہانہ بنایا ہے.: عورت سے کوئی مکروہ اَمر دیکھو تو نیک برتاؤ کرے.اس میں تمہارے لئے خیرِ کثیر ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍جولائی ۱۹۰۹ء) : حلال نہیں تم کو کہ میراث میں لو عورتیں زور سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفہ ۴۶۰) : کہ عورت کو مُشقّت میں ڈالو.اور خواہ مخواہ ان کو اپنی ورثہ سمجھنے لگو.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر ۹) وَ : اور جائز نہیں کہ تم اکراہ سے عورتوں کے وارث بن جاؤ.ناظرین ! منصفانہ طور پر اس آیت کے معنی میں غور کرو.تاکیدِ معاشرت کے واسطے قرآن مذہبی طور پر کیسے سخت اور لطیف طرز اختیار کرتا ہے.اس آیت میں فرمایا.اگر کسی باعث سے بی بی نا پسند اور ناگوار ہو تب بھی سلوک ہی کرو.اس سلوک کے بدلے ہم تم کو بہت ہی بھلائی دیں گے.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم جلد اول صفحہ ۴۹.۴۸) عورت مرد کے تعلّق کی آپس میں ایسی خطرناک ذمّہ داری ہوتی ہے کہ بعض اوقات معمولی معمولی باتوں پر حُسن و جمال کا خیال بھی نہیں رہتا اور عورتیں کسی نہ کسی نہج میں ناپسند ہو جاتی ہیں اور ان کے کسی فعل سے کراہت پیدا ہوتے ہوئے کچھ اور کا اور ہی بن جاتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا. .پس عزیزو! تم دیکھو.اگر تم کو اپنی بیوی کی کوئی بات ناپسند ہو تو تم اس کے ساتھ پھر بھی عمدہ سلوک ہی کرو.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.ہم اس میں عمدگی اور خوبی ڈال دیں گے ہو سکتا ہے کہ ایک بات حقیقت میں عمدہ ہو اور تم کو بُری معلوم ہوتی ہے.(الحکم ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۶۰۵)
: تم عورتوں کے ساتھ مہربانی اور محبّت کا برتاؤ کر. اور اگر تمہیں انکی کوئی بات ناپسند ہو تو تم ہماری سفارش کو مان لو اور یاد رکھو کہ ہم ہر ایک امر پر قادر ہیں.ہم تمہیں بہتر سے بہتر بدلہ دیں گے.ایک لڑکے کی نسبت میں نے سُنا کہ وہ اپنی بیوی سے بد اخلاقی سے پیش آتا ہے.میرے سُسرال کا گھر ہمارے شہر میں ہمارے گھر سے دُور تھا بیوی تو میرے گھر ہی ہوتی تھی مگر میں اکثر اپنے سسرال جایا کرتا تھا راستہ میں وہ لڑکا مجھے مل گیا.میں نے اُسے کہا کہ میں نے ایک نسخہ لکھا ہے وہ میں تم کو بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے. .اس کے دل پر ہماری اس نصیحت کا بجلی کی طرح اثر ہوا.میں تاڑ گیا کہ اس پر خُوب اثر ہوا ہے.مجھے کہنے لگا مجھے ایک کام ہے.اجازت دیجئے.وہاں سے سیدھا بی بی کے پاس گیا.اور اُس سے کہا کہ دیکھ تجھے معلوم ہے کہ مَیں تیرا ایسا دشمن ہوں.اُس نے کہا ہاں مجھے معلوم ہے.اس لڑکے نے کہا کہ میں آج نورالدّین کی نصیحت کو آزمانے کیلئے تیرے ساتھ سچّی محبّت کرتا ہوں.چنانچہ ان کے ہاں ایک بڑا خوبصورت لڑکا پیدا ہوا.پھر اَور پیدا ہوا.پھر اَور پیدا ہوا.پھر اَور پیدا ہوا.(بدرؔ۵؍دسمبر ۱۹۱۲ء) : جہاں تک ہو سکے ان سے بھلائی کرو.تم ان سے نیکی کرو.پھر اﷲ تعالیٰ تم کو اس کے عوض بہتر سے بہتر اجر دے گا.چونکہ میرا مطالعہ بہت ہے.اور مرد عورتوں کو اکثر درس دینے کا مجھے موقع ملا ہے اس لئے مرد اور عورتوں کی طبائع کا مجھے خُوب علم ہے اور انکی فطرت سے خوب واقف ہوں.میرے خیال میں عورتیں چشم پوسی اور ترس کی مستحق ہیں.(بدرؔیکم مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۹) ۲۴.
حرام کی گئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھائی کی بیٹیاں اور وہ تمہاری مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا.اور دودھ کی بہنیں.اور تمہاری ساسیں اور وہ لڑکیاں جو تمہاری گودوں میں ہیں ان عورتوں سے جن سے تم نے جماع کیا اور اگر تم نے اُن سے جماع نہیں کیا تو تم پر ان کے نکاح میں کوئی گناہ نہیں اور حرام کی گئیں تمہاری ان بیٹوں کی جو رُوئیں جو تمہاری پُشت سے ہیں اور حرام کیا گیا تم پر ایک ہی وقت میں دو حقیقی بہنوں سے نکاح کرنا.ہاں جو گزر چکا اسلام سے پہلے، تو اﷲ غفور رحیم ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۴۰) : تمہاری بیوی کی لڑکیاں جو پہلے خاوند سے ہوں.خاندانوں میں بعض موروثی بیماریاں ہوتی ہیں.قریب کے رشتے اسی لئے منع ہیں مگر انکی کوئی حد بھی چاہیئے جو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے قرآن کریم کے ذریعے بتادی.: نبی کریمؐ نے فرمایا ہے کہ خالہ و بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی کو بھی جمع نہ کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۲؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۲۵.
:وہ بی بی جو کسی دوسرے کی بیوی ہو.گویا وہ ایسی ہے جیسے کوئی قلعہ میں ہوتا ہے.:جنگی قیدیوں کا تعلق اپنے ملک سے قطع ہو جاتا ہے.وہ جنگ ایسا ہی قطع تعلق کرتی ہے.جیسے کہ طلاق.پس اس لئے یہ جائز ہیں.:صرف مَستی اتارنے کیلئے نہ ہوں.:ہندوستان میں لاکھوں کے مہر باندھے جاتے ہیں.میرا بھی ایک نکاح ہوا جب مہر حَد سے زیادہ بندھنے لگا.مَیں بول پڑا.عورتوں میں شور مچ گیا.استاد بھی ناراض ہو گئے کہ دولہا بولتا ہے مگر ہم نے ۵۰۰ سے زیادہ منظور نہ کیا. کے لُغوی معنی ہیں.جُھکنا.اسی لفظ سے گناہ نکلا ہے.جؔ مبدل بہ گؔ اور حؔ ہ ؔ کا.ہمارے ملک میں فرق نہیں.میں نے اکثر پادریوں سے کہا.کسی نبی کیلئے جناحؔ کا لفظ نکال دو.وہ نہیں نکال سکے.عربی میں خطاء.ذنب.عصیان.ایسے اکیّس لفظ ہیں جن کے معنے بالکل الگ الگ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) نکاح کی نسبت اﷲ کریم فرماتا ہے کہ اس سے غرض صرف مَستی کا مٹانا ہی نہ ہو بلکہ کو مدّ نظر رکھے اور ہر ایک بات میں اس خدا کے آگے جس کے ہاتھ میں مال جان.اخلاق و عادات اور ہر ایک طرح کا آرام ہے بہت بہت استغفار کرے اور بے پرواہی سے کام نہ لے خواہ وہ انتخاب لڑکوں کا ہو یا لڑکیوں کا کیونکہ بعد میںبڑے بڑے ابتلاؤں کا سامنا ہوا کرتا ہے.(الحکم ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۵) ۲۶.
: یعنیحُرَّۃ.(آزاد عورت.ناقل) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۲۷. :وہ راہیں سکھائیں جن کے ذریعے وہ مقرّب بارگاہِ صمدی ہوتے ہیں.:اﷲ تم پر متوجّہ ہے.: انبیاء اولیا
ء علماء اور حکماء کی باتیں بھی اسی لئے مانی جاتی ہیں کہ ان میں علم و حکمت ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۲۸. : اﷲ کسی کو پکڑ پکڑ کر تو نہیں بتاتا.مگر انسان کو ایک طاقت و مقدرت عطاء کر دی.اگر تم کسی اور کی طرف جُھکو گے تو تمہاری جان و مال کو نقصان پہنچے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : ۱.طمع ۲.خواہش جماع ۳.غضب ۴.بزدلی و جُبن ۵.حرص (تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۷) ۲۹. : دیکھو مسجد میں نماز پڑھنے کیلئے معمولی لباس کافی ہے مگر دیکھ لو.جب کسی برات میں جاتے ہیں تو کیسا قیمتی لباس پہن کر جاتے ہیں.ایک ہمارا دوست تھا.اس نے میراثیوں کو آٹھ ہزار روپیہ دے دیا اسی طرح مرنا بھی دیکھ لو.معمولی کفن ہے.شادی میں بھی یہی حال ہے.لوگ اپنے رسوم کے ماتحت خواہ مخواہ اپنے اوپر بوجھ ڈالے ہوئے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں کی بتائی ہوئی راہ میں آرام و تخفیف نہیں مگر ہماری بتائی ہوئی راہ میں یہ بات ہے کہ کیونکر لوگوں کو فطرت کا علم نہیں.عیسائیوں نے اپنے خود ساختہ قواعد سے مجبور ہو کر کہہ دیا کہ شریعت صرف اس لئے آئی تا انسان کو (گنہگار) ثابت کرے.ہمارے زمانہ کے نوجوان سو سائٹی سوسائٹی پکارتے ہیں ان کو معلوم نہیں.انگریز خود اپنی سو سائٹی کی قیود سے کس قدر تنگ ہیں.ایک مولوی نے مجھ سے ذکر کیا.مجھے ایک جنٹلمین نے انگریزی سوسائٹی میں شامل ہونے کی ترغیب دی.ایک برات کے موقعہ پر میرے ستّر روپے ایک سُوٹ پر خرچ کرا کے مجھے ساتھ لے گیا.وہاں جا کر معلوم ہوا.کہ کھانے کا سُوٹ.سونے کا سُوٹ.فُٹبال کا سُوٹ.سَیر کا سُوٹ.ملاقات کا سُوٹ(
(علیحدہ علیحدہ ہے) تین دن تک مولوی صاحب بیمار بن کر پڑے رہے آخر جب رُخصت کا وقت آیا تو پھر چند لمحہ کیلئے اس لباس نے کام دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۳۰. : دھوکہ میں تراضی نہیں ہو سکتی.: اُنفس.اہل ملّت.جنس انسانی.اکل بالباطل بھی قتل نفس ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۸) ۳۲. : ایک غلطی سے دوسری.دوسری سے تیسری پیدا ہوتی ہے.اسی طرح پھر گناہ کی انتہاء ہو جاتی ہے.اس انتہاء کو گناہِ کبیرہ کہتے ہیں.:اگر کوئی درمیان میں اس بدی سے علیحدہ ہو جاوے تو ہم اسے عزّت کے مقام پر پہنچائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر:قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : ہر نافرمانی کا ابتداء صغیرہ اور انتہاء کبیرہ کہلاتا ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۸) جن کبائر گناہوں پر ابدی سزا کا ہونا بیان ہوا.وہ بیان بالکل راست ہے وہ کبائر ایسے ہیں کہ ابدی سزا میں پھنسائیں.اِلّا خدا پر ایمان لاتا اور اسکی توحید پر ثابت قدم ہونا اور جس بلائے بد شرک
میں مُشرک پھنس کر تباہ ہوئے اُس بَلا سے الگ ہو جانا.بلکہ صرف رحم بھی ایسے فضل کے لائق کر دیتا ہے کہ بڑے گناہ کے مرتکب کو وہ فضل ابدی جہنم سے نکال لاتا ہے اور اس ابدی سزا کے موجب پر یہ فضل نجات کا موجب غالب آ جاتا ہے مثلاً ایک شخص نے تھوڑی سی گرم چیز کھا لی.وہ گرم چیز ضرور گرمی کریگی.اِلّا اگر اس کے ساتھ بہت سی سَرد چیز کھائی گئی.تو ظاہر ہے کہ اس سرد کی سردی اُس گرم کی گرمی کو باطل کر دیگی اور دوسری قسم کی نجات اُن نیک اعمال کی کثرت سے ہو گی جو سچّے ایمان کا ثمرہ ہیں.خدا فضل و کرم سے حاصل ہو گی.(فصل الخطاب (ایڈیشن دوم) جلد دوم صفحہ۱۳۸.۱۳۹) ۳۳. :ایسی آرزوئیں جن کا نتیجہ کچھ بھی نہ ہو.نہ کرو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۸) : اﷲ تعالیٰ کچھ تو انسان کو بلا معاوضہ دیتا ہے جو صفتِ رحمانی سے ملتا ہے.اور کچھ بدلہ میں جو صفت رحیمی کا عطیہ ہے.حُسن و جمال.رنگت.جسم.طاقت وغیرہ میں.تفاضل میں.تفاضل انسان کی طاقت سے باہر ہے.پس اس میں دخل نہ دو.یہ دخل دینا تمنّی کہلاتا ہے.:انسان کیلئے کچھ کرنے کے کام ہیں.ان کاموں میں اﷲ کا فضل مانگو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : مردوں کو حصّہ ہے اپنی کمائی سے اور عورتوں کو حصّہ ہے اپنی کمائی سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۴۶)
۳۴. : انسان کے کچھ دوست ہوتے ہیں.کچھ وارث.ہر ایک کے ساتھ ان کی حیثیت و قرابت کے مطابق عمل کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۳۵. : یہ آیت بیا ہے ہوئے مردوں کو اچھی لگتی ہے اس کا معنٰی یہ ہے کہ مَردوں کو چاہیئے.اپنی بیویوں کے محافظ اور ان کی درستی اور ٹھیک رکھنے کا موجب بنیں.: کیونکہ مردوں کو خدا نے اس قسم کی لیاقتیں اور موقعے بخشے ہیں.عورتیں بھی مَردوں کی محافظ ہیں.
:انکی بَد خوئی کا ڈر ہے.تو انکو نصیحت کرو.پھر بستر سے الگ کرو (میں جو اشارہ ہے اور آجکل کے رسمی مسلمانوں میں جو بُود و باش کا طرز ہے.قابل غور ہے) اﷲتعالیٰ نے مَردو عورت کے تعلقات کو واضح کیا.مردوں کو فرض ہے کہ انکی اصلاحیں سمجھائیں تاکہ وہ نیک اور فرماں بردار بنیں.صوفیوں نے کہا.انسان تو رَجُل ہے اور نفس مؤنث ہے.مومن انسان وہ ہوتا ہے جو اس عورت کو وعظ کرے یعنی اپنے نفس کی اصلاح کرے.ایک مرتبہ میرے دل میں ایک گناہ کی خواہش پیدا ہوئی.مَیں نے بہت سی حمائلیں خرید لیں.ایک جیب میں، ایک صدری میں اور ایک ہاتھ میں.ایک بسترے میں.ایک الماری میں.غرض کوئی جگہ خالی نہ رہی.جب خیال آیا فوراً قرآن نظر پڑتا یہاں تک کہ نفس کی وہ خواہش جاتی رہی.مولوی محمّد اسماعیل صاحب نے اپنی کتاب میں بُخل کا علاج لکھا ہے کہ جب ایک پیسے کا بُخل ہو تواس سے دُگنا.چوگنا بلکہ سینکڑوں روپے خرچ کرے تا عادت ہو جائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : مرد حاکم ہیں عورتوںپر (فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۷) : گھر سے نکلنا منع ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۸) ۳۶. اور اگر تم لوگ ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضِد رکھتے ہیں تو کھڑا کرو ایک مُنصف مَرد والوں میں سے اور ایک مُنصف عورت والوں میں سے.اگر یہ دونوں چاہیں گے صُلح تو اﷲ مِلاپ دے گا اُن میں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۴۹) ۳۷.
:لوگ غیروں سے احسان کرتے ہیں.پر اپنوں سے نہیں.بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.رِحم نے جنابِ الہٰی میں عرض کیا.تیرے نام رحمن رحیم میں بھی یہی مادہ موجود ہے میرا لحاظ رکھو.اﷲ نے فرمایا.میں تیرا ایسا خیال رکھوں گا.جو تجھے قطع کریگا.میں اس سے قطع کروں گا.: ایک سیٹ پر بیٹھنے والے.ساتھ کے دکاندار.ہم نشین.ہم عہدہ.ہم محکمہ.ہم دفتر.ایک آقا کے دو ملازم.ایک جہاز یا ریل کے سوار.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : اس میں مذہب کی قید نہیں.:کلاس فیلو.ہم پیشہ.رفیقِ سفر.( تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۸) : اکڑباز.شیخی خور ہو.اﷲ تعالیٰ اُسے دوست نہیں رکھتا.(تشحیذالاذہان اکتوبر ۱۹۱۱ء جلد۶ نمبر۱۰ صفحہ ۳۹۵) ۳۸. جو بُخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بُخل کی تحریک کرتے رہتے ہیں اور جو اﷲ نے اپنے فضل سے انکو دیا ہے چھُپاتے ہیں اور ہم نے ایسے مُنکروں کیلئے اہانت کرنے والا عذاب تیار کیا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۱۰ صفحہ ۳۹۵) کسی کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اُسکے دینے سے مضائقہ کرے.یہ تو عام لوگوں کے نزدیک بُخل ہے.قرآن کریم کی اصطلاح میں سچّی بات اور مفید مشوروں کے دینے سے جو لوگ اپنے آپ کو روکیں وہ بھی بخیل ہیں.لوگ اپنی اولاد کو الگ قرآن مجید پڑھاتے ہیں.یہ بھی بُخل ہے.اپنے ایک دوست سے مَیں نے کتاب مانگی
اس نے مکرّ رسہ کرّر مانگنے پر انکار کیا.میںنے بآوازِ بُلند اﷲ پڑھا.چند روز گزرے ایک بڑا پلندہ پشاور سے آیا.اس میں وہ کتاب بھی تھی بلکہ اسکی شرح.پھر اس شرح کی شرح.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۳۹. :لوگوں کے دکھاوے کیلئے تو خرچ کرتے ہیں پر خدا کی راہ میں ایک کوڑی دینا بھی دُوبھر ہے.: عرب میں ایک حکیم گزرے ہیں.ان کا مقولہ ہے کہ کسی شخص کا حال معلوم کرنے کیلئے اس شخص کو ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں.اس کے دوستوں سے اسکے اخلاق کا پتہ لگتا ہے.کہ وہ کیسے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹.جولائی ۱۹۰۹ء) ۴۱،۴۲. : عربی زبان میں لال چیونٹی کو کہتے ہیں اور اسکے سر کو.: تعجّب کے رنگ میں یہ لفظ آتا ہے.یعنی کیا حال ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۴۴.
: نیند کا غلبہ.سراب سے بدمَست ہونا.:اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان نماز سمجھ کر پڑھے.:جو لوگ انگریزی پڑھے ہوئے نہیں.اور ان کو ریل وغیرہ کے سفر میں نہانے کا موقع نہ ملے یا آسانی سے نہ ملے تو ایسے مسافر کو تیمم کر کے نماز پڑھ لینی چایئے.اور اسی قسم کی مجبوریوں میں انسان تیمم کرے، ورنہ بِلا غسل نما ز نہ پڑھے : عوام کو بیماری کی حالت میں خواہ وہ بیماری کیسی ہو تیمم کے ساتھ نماز پڑھنیے چاہیئے کیونکہ بیماریوں کے حقائق تو اطباء سے بھی بعض اوقات مخفی رہتے ہیں کہ تیمم مُضر ہے یا مُفید.ایک دفعہ مَیں نے رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے شروع کئے تو میری بیماری دستوں کی رَفع ہو گئی.میں سمجھا.یہ روزے تو اکسیر ہیں لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ میری قوّتِ رجولیت قطعی مفقود ہو گئی.پھر میں نے اٹھارہ بیس روز خوب توبہ کی جب کہیں جا کر وہ کیفیت دُور ہوئی.غَائِطِ: علیحدہ مکان.اونچی جگہ جہاں سے چھنٹیں اُڑ کر نہ پڑیں.لَمْسٌ: ہتھیلی کی طرف سے انگلیوں سے چھُونا.اُلٹے ہاتھ سے چھُونالَمس نہیں.دوسرے معنے جماع.تیمم کا طریق یہ ہے کہ زمین پر دونوں ہاتھ مارے.پھر پھُونک دے تا کوئی کنکر وغیرہ ہاتھ کو لگ گیا ہو تو چھُوٹ جائے.پھر مُنہ پر پھیر کر ہاتھ پہنچوں تک ایک دوسرے سے مَل لے.یہ وہ طریق ہے
جس میں کوئی اختلاف نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۴۶. :عجیب عجیب قسم کے لوگ ہم سے ملتے ہیں.بڑی خوشامد سے مزاج پُرسی کرتے ہیں.حضور کا مزاج کیسا اور السلام علیکم نہیں کہتے! : جس شخص کی روزانہ غلطیاں کم نہیں ہوتی جاتیں اور بُرائی و ضِد میں بڑھتا جاتا ہے.خدا اُس کا ولی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۴۷. : پیچ دار لفظ شریر لوگوں کا قاعدہ ہے.ان سے بچو.جن لوگوں کو کتاب دی ان کو نصیحت کرتا ہے.دوستی کرو مگر ایک حد تک دُشمنی کرو مگر ایک حد تک.کسی سے دشمنی ایسی کرو کہ اگر وہ دوست بن جائے تو تم کو شرمندہ نہ ہونا پڑے.کسی سے دوستی کرو تو ایسی کہ وہ دشمن ہو جائے تو نقصان نہ پہنچا سکے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) : لفظوں کے معنی بگاڑتے ہیں.
: آپکو خوشی کی خبر نہ پہنچے.بد دُعا کا کلمہ.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر۹ ۴۴۸) ۴۸. : مُکھ.اعلیٰ درجہ کے لوگ.: ادنیٰ آدمی سے جو اعلیٰ بنے.وہ پھر ادنٰی بنائے جاتے ہیں.: یہود کو کہتے ہیں جب انکو آرام ملا وہ بدکار ہو گئے.یہود پر یہ لعنت آئی ہے کہ وہ دوسروں کے ماتحت بندروں کے مانند ہو گئے.کہ جیسے نچاتے ہیں.ناچتے ہیں.یہاں یہودی نہیں بیٹھے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ یہودی نہ تھے.مسلمان تھے.پس اﷲ تعالیٰ مسلمانوں ہی کو سکھاتا ہے.کہ تم یہودیوں کی مانند نہ بن جانا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۴۹. : کسی آدمی پر بھروسہ نہ کرو.ڈپلومے اور سند پر بھروسہ کرنا بھی شرک ہے.ایک مرتبہ ایک شخص نے میرے سامنے ڈپلومے کی بڑائی کا ذکر کیا تو میرے پاس بھی ایک سند تھی.اُسی کے سامنے منگا کر اُسکو چاک کر دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء)
اﷲ یہ نہیں بخستا کہ اُسکا شریک ٹھہرائے اور بخشتاہے اس سے نیچے جس کو چاہے اور جس نے ٹھہرایا شریک اﷲ کا اُس نے بڑا طوفان باندھا.(فصل الخطاب حصہ دوم صفحہ ۳۰) قرآن بیان کرتا ہے.گناہ تین قسم کے ہوتے ہیں اوّل شرک دومؔ کبائر سومؔ صغائر.شرک کی نسبت قرآن کریم فیصلہ دیتا ہے کہ وہ ہرگز بد وں توبہ معاف نہ ہو گا.اسکی سزا بھگتنی ضرور ہے.: انجیل بھی باایں کہ بڑی بشارت اور بشیر ہے.فرماتی ہے ’’ رُوح کے خلاف کُفر معاف نہ ہو گا ‘‘ (متی باب۱۲:۳۱) دوسری قسم گناہوں کی وہ کبائر اور بڑے بڑے گناہ جو شرک کے نیچے ہیں اور صغائر یا مبادی کبائر سے اوپر.اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ ہر ایک کبیر اور بڑے گناہ کی ابتداء میں چھوٹے چھوٹے گناہ جو اس کبیرہ سے کم ہوتے ہیں.مثلاً جو شخص زنا کا مرتکب ہوا.ضرور ہے کہ ارتکابِ زنا سے پہلے وہ اُس نظر بازی کا مرتکب ہو جس سے زنا کے ارتکاب تک نَوبت پہنچی.یا ابتدائً وہ باتیں سُنیں جن کے باعث اُس بدکاری کے ارتکاب تک اُس زنا کنندہ کی نَوبت پہنچی.ایسے ہی ان باتوں کا ارتکاب جن کے وسیلے سے اس کو وہ شخص ملا جس سے زانی نے زنا کیا اور بالکل ظاہر ہے کہ ان ابتدائی کارروائیوں کی بُرائی سے ضرور کمی پر ہے.ایسے کبائر اور بڑے گناہوں کی نسبت قرآن کریم فرمایا ہے.: (النّساء:۳۲) اگر تم بچتے رہو گے بُری چیزوں سے جو تم کو منع ہوئیں تو ہم اُتار دیں گے تم سے تقصیر یں تمہاری.کیا معنی.جن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے تم لوگ منع کئے گئے اگر ان بڑے گناہوں سے بچے رہو تو ان کے مبادی اور ان کے حصول کی ابتدائی کارروائی صرف ان بڑے گناہوں سے بچے رہنے کے باعث معاف ہو سکتی ہے.مثلاً کسی شخص نے کسی ایسی عورت سے جماع کرنا چاہا.جو اس کے نکاح میں نہیں ہے اور اس عورت کے بُلانے پر کسی کو ترغیب دی یا کچھ مال خرچ کیا اور اُسے خالی مکان میں لایا اور اُسے دیکھا بلکہ اس کا بوسہ بھی لے لیا.لیکن جب وہ دونوں برضا و رغبت بُرائی کے مرتکب ہونے لگے.اور کوئی چیز روک اور بدکاری کی مانع وہاں نہ رہی.اور اس بد کارروائی کا آخری بد نتیجہ بھی ظاہر نہ ہوا تھا.کہ اس زانی کے ایمان نے آ کر اسے زنا سے روک دیا اب یہ شخص یا ایں کہ مال خرچ کر چکا ہے یا ثانی کی رضامندی پا چکا.صرف ایمان کے باعث ہاں ایمان ہی کے باعث اور خدا سے باہمہ وسعت و طاقت اس بڑی بُرائی کے ارتکاب سے ہٹ گیا.اور اسکا مرتکب نہ ہوا.توصرف اسی اجتناب سے اس کی ابتدائی کا رروائیاں جو حقیقت میں مبادی گناہ اور گناہ کی محرّک تھیں معاف ہو جائیں گی.کیونکہ اسکا ایمان بڑا تھا جس نے آخری حالت میں خدا کے فضل سے دستگیری کی.اور تیسری قسم گناہ کی
کی صغائر ہیں.جن کا ذکر کبائر میں ضمنًا آ گیا. : (الاعراف:۵۷) بے شک مِہر اﷲ کے نزدیک ہے نیکی والوں ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۳۲.۱۳۳) ۵۲. دیکھتے ہو جن کو کتاب سے بہرہ ملا وہ شیاطین اور ناپاک رُوحوں پر اعتقاد لا رہے ہیں اور(ضِدّ میں) کافروں کی نسبت کہتے کہ وہ مومنوں سے اچھے راہ پر ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۳۹) طَاغُوْت: حد سے بڑھا ہوا.جِبْتِ: سحر.دھوکہ دینا دھوکہ دینے والوں اور چالاکی کرنے والوں کو بعض لوگ بہت جلد مان لیتے ہیں.بعض لوگوں کو یہ دھوکہ لگتا ہے کہ یوروپ آجکل کس قدر ترقی کر رہا ہے.حالانکہ وہ مسلمان نہیں.ہم پُوچھتے ہیں کہ انبیاء جس تعلیم کو لے کر آئے.اُس میں مثلاً خشیتِ الہٰی میں انہوں نے کس قدر ترقی کی.یہی کہ ایک ہگنے موتنے والے کو خدا بنا لیا.ہم لوگ پانچ وقت میناروں پر چڑھ کر خدا کی توحید کا وعظ کرتے ہیں یوروپ نے بایں ہمہ اقتدار کیا کیا؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۵۳. : اﷲ تعالیٰ سے جب انسان دُور ہو جاوے تو پھر اس کا کوئی مددگار نہیں ہوتا.یاد رکھو.بدی کے وقت تو لوگ شریک ہو جاتے ہیں
پر دُکھ کے وقت کم ہی شریک ہوا کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۵۴. : کھجور کی گُٹھلی پر جو نقطہ ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۸) ۵۵. کیا ان یہود اور عیسائیوں کو اس بات پر حسد آیا ہے.کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عربوں میں رسولؐ بھیجا اور اُسے کتاب دی.تُو انہیں کہہ.تُم ابراہیم کے فرزند ہو.اب بھی تو کتاباور حکمت اور بڑی بادشاہت ابراہیم ہی کی نسل کو ملی ہے کیونکہ اسمٰعیل ابراہیم کا پلوٹھا تھا اور قریش جن میں سے محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم رسول ہوئے.اسی کی اولاد ہیں.محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم کے رسول ہونے سے ابراہیم کی نسل والو.عہدۂ رسالت ابراہیم کے گھر سے نہیں نکلا پس تمہیں کیوں حسد آ گیا.عیسائی یہودی مانتے ہیں کہ ابراہیم راست باز کے ساتھ اسکی راست بازی پر وعدہ ہے کہ اس کے گھرانے کو معزّز و ممتاز کیا جاوے اور اس کے گھرانے سے تمام گھرانے برکت پاویں (پیدائش ۱۲ باب ۱۳) یہ وعدہ جیسا اس راست باز سے الہامی طور پر کیا گیا.ویسا ہی الحمد ﷲ اسکا ظہور مشاہدہ میں آ رہا ہیں.غور کرو.آریہ اپنے گھرانے کی کتابوں کی اشاعت اور ابراہیمی گھرانے کی تعلیمات کی اشاعت دیکھ لیں ابراہیمی تعلیمات کی اشاعت عیسائیوں کے ذریعہ سے ہو یا اہل اسلام کے وسیلہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۹۵) ۵۹.
: خدا تعالیٰ کی مخلوق کا انتظام ایسے لوگوں کے سپرد کرو.جو اس کے اہل ہوں.کمیٹیوں میں ممبروں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرو.حضرت نبی کریمؐ کے رُوبرو دو شخص آئے کہ ہمیں کام سپرد کیجئے.ہم اسکے اہل ہیں.فرمایا.جن کو ہم حکم فرما دیں.خُدا انکی مدد کرتا ہے.جو خود کام کو اپنے سر پر لے.اس کی مدد نہیں ہوتی.پس تم عہدے اپنے لئے خود نہ مانگو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) اﷲ تم کو حکم کرتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو واپس کر دو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۷) ۶۰. : کہا مانو اﷲ اور رسول کا اور اپنے حکّام کا.الہٰی خلفاء کی اطاعت و انقیاد و فرماں برداری، سیاست و تمدّن کا اعلیٰ اور ضروری مسئلہ ہے !بلکہ انکی فرماں برداری خود الہٰی فرماں برداری ہے.قرآنِ کریم میں ہے.(النساء:۸۱) اور فرمایا .(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۹۹) .جہنم والوں کو فرمایا.اَلَمْ یَلْتِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ.کیا رسول
دوزخیوں سے ہوں گے.پس مِنْکُمْ سے مُراد نوعِ انسانی ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۸) ۶۱. : چاہتا ہے شیطان کہ اُنکو بہکائے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۹) ۶۲. :کوئی مسلمان ایسا خیال نہیں کرتا.کہ ہماری شریعت میں جھُوٹ ہے.لیکن علمدر آمد اس کے خلاف ہے.جو کچھ مسلمان کر رہے ہیں.وہ شریعتِ اسلامی کے خلاف ہے.لڑکیوں کو ورثہ تک نہیں دیتے.اپنے مقدّمات کو اﷲ و رسول کے فیصلہ کے مطابق کر ا کے خوش نہیں ہوتے شیعہ سے ہم نے بارہا کہا ہے.آؤ.قرآن شریف سے فیصلہ کریں مگر وہ نہیں مانتے.: ایک کہانی مشہور ہے.کسی یہودی کا کسی منافق سے جھگڑا ہوا.وہ دونوں بارگاہِ نبویؐ میں گئے.نبی کریمؐ نے یہودی کو ڈگری دی.جو منافق کے مُضر تھی.اُس نے کہا.میں تو حضرت عمرؓ کا فیصلہ مانوں گا.چنانچہ وہاں گئے.حضرت عمرؓ نے کہا.میں تمہاری گردن اُڑاتا ہوں.کہ تُم نے نبی کے فیصلہ سے نفرت کی.(ضمیمہ اخبار بدر: قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء)
۶۳. : پھر وہ کیسا کہ جب ان کو پہنچے مصیبت اپنے ہاتھوں سے کئے کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۶) ۶۵. اور ان لوگوں نے جس وقت اپنا بُرا کیا تھا اگر آتے تیرے پاس.پھر اﷲ سے بخشواتے اور اور بخشواتا ان کو رسول تو اﷲ کو پاتے معاف کرنیوالا مہربان ہے.(فصل الخطاب حصہ دوم صفحہ ۱۳۴ـ۱۴۰) ۶۷. اور اگر یہی کریں جو اُن کو نصیحت ہوتی ہے تو اُن کے حق میں بہتر ہو اور زیادہ ثابت ہوں دین میں.اور ایسے ہم دیں انکو اپنے پاس سے بڑا ثواب اور چلادیں انکو سیدھی راہ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۶)
: اﷲ تعالیٰ جان بھی لینا چاہیے.وطن بھی.مَا: بہت کم لوگ یہ کام کر سکتے ہیں مَیں یہاں قادیان میں صرف ایک دن کیلئے آیا اور ایک بڑی عمارت بنتی چھوڑ آیا.حضرت صاحب نے مُجھ سے فرمایا.اب تو آپ فارغ ہیں میں نے عرض کیا.ارشاد! فرمایا: آپ رہیں! مَیں سمجھا دوچار روز کیلئے فرماتے ہیں ایک ہفتہ خاموش رہا.فرمایا: آپ تنہا ہیں.ایک بیوی منگوالیں.تب میں سمجھا کہ زیادہ دنوں رہنا پڑے گا.تعمیر کا کام بند کرا دیا.چند روز بعد فرمایا کتابوں کا آپ کو شوق ہے.یہیں منگوا لیجئے.تعمیل کی گئی.فرمایا اچھا دوسری بیوی بھی یہیں منگوالیں.پھر مولوی عبدالکریم صاحب سے ایک دن ذکر کیا کہ مجھے الہام ہوا ہے.’’ لَا تصبّون الی الوطن فِیْہِ تُھَانُ وَ تُمْتَحَن‘‘ یہ الہام نور الدّین کے متعلق معلوم ہوتا ہے.مجھ سے فرمایا.وطن کا خیال چھوڑ دو.چنانچہ مَیں نے چھوڑ دیا.اور کبھی خواب میں بھی وطن نہیں دیکھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) ۷۲. بہت سے لوگ اسراف میں حد سے بڑھ جاتے ہیں پھر کنجوسی کرتے ہیں تو وہ بھی حد سے زیادہ کرتے ہیں.عداوت میں بھی اس قدر بڑھتے ہیں کہ خود ہی پچھتاتے ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کو چوکس رہنا چاہیئے.: جماعتیں بن کر.مسلمانوں میں استقلال نہیں.جس کام کو شروع کرتے ہیں نباہ نہیں سکتے.بعض امور اسلام میں ایسے ہیں.جو جماعت کے کرنے کے ہوتے ہیں بعض ایسے کہ خاص خاص آدمیوں کے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۷۳. : اب جنگ کا کام تو ہے نہیں.اب تو دوسرے چلتے ہوئے کاموں میںبُطْؤ ۱؎
ڈالتے ہیں.: اگر بھائی بلاء میں مُبتلا ہوا تو فکر نہیں.بلکہ خوش ہیں کہ ہم تو مُطمئن ہیں تم کو چاہیئے کہ جو دُنیا کو مقدّم کر رہے ہیں.ان سے مقابلہ کرو جو دنیا میں مقابلہ کرتے ہیں.ان کے مقابلہ میں تم بھی ایسے جائز ذرائع ترقی سے کام لو کہ ان سے بڑھو.ایسا ہی دین میں اور اپنے دوستوں میں ایک دوسرے سے ہمدردی کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۷۶. اور تم کو کیا ہے کہ نہ لڑو اﷲ کی راہ میں اور واسطے ان کے جو مغلوب ہیں مرد اور عورتیں اور لڑکے.جو کہتے ہیں.اے ربّ ہمارے ! نکال ہم کو اس بستی سے کہ ظالم ہیں اسکے لوگ اور پیدا کر ہمارے واسطے اپنے پاس سے مددگار.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۹۹) ۷۷. : مُُفسدوں اور شریروں کی حمایت میں. : شیطان کی جنگ.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۹)
۷۸. ۱؎ دیر کرنا.تاخیر کرنا.(مرتّب) کیا نہیں دیکھا تُو نے ان لوگوں کو جن کو کہا گیا.اپنے ہاتھ روک رکھو.نماز کو پڑھتے اور زکوٰۃ کو دیتے رہو.پس جب ان کو لڑنے کا حکم دیا گیا.اس وقت ایک فریق ان میں سے اﷲکے ڈر کی طرح لوگوں سے ڈرتا ہے یا اس سے بھی زیادہ ڈرتا ہے اور وہ بول اُٹھے کہ اے ربّ تُو نے کیوں لڑائی ہمارے ذمّہ لگا دی.تھوڑی مدّت تک ہمیں کیوں اور ڈِھیل نہ دی.تُو ان کو کہہ دے کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا ہے اور جو تقوٰی کرتا ہے.انجام اس کیلئے بہتر ہے.اور کوئی ایک فتیلہ کے برابر بھی بے انصافی نہیں کیا جاوے گا.بعض لوگ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں کہ ہم یُوں کریں گے دُوں کریں.اور اپنی جواں مردی اور بہادری کی ڈِینگ مارا کرتے ہیں.لیکن یاد رکھو کہ ایسے متکبّر کبھی اپنے دعووں کو پُورا اور ثابت کر کے نہیں دکھلایا کرتے.اور نہ دکھلا سکتے ہیں.بدی کو چھوڑنا اور نیکی کو کرنا نہ صرف انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوا کرتا.بغیر اﷲ تعالیٰ کی مدد کے نہ انسان بُرائیوں اور فضُولیوں کو چھوڑ سکتا ہے اور نہ کوئی بہادری کا کام کر سکتا ہے بدُوں حکمِ الہٰی… دعوے کرنے والے اکثر ناکام رہتے ہیں.مَیں نے ایک جنگی افسر سے پوچھا کہ آپ کے لشکر میں بہادر اور بُزدل کی کیا نشانی ہوا کرتی ہے.اُس نے کہا.کہ میرا تجربہ ہے کہ سپاہی اکثر مُونچھوں پر تاؤ دیتے رہتے ہیں وہ عموماً میدانِ جنگ میں بُزدلی ظاہر کرتے ہیں اور جو سیدھے سادھے ہیں وہ لڑائی کے وقت شیر کی طرح حملہ کرتے ہیں.
غرض خُوب سمجھ رکھو کہ جو لوگ بلاوجہ تکبّر کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ انکو عمل کی توفیق نہیں دیا کرتا.یہاں بھی اﷲ تعالیٰ نے اسی بات کا بیان کیا ہے کہ بعض لوگ اس قدر جلد باز تھے کہ ان کو کہنا پڑا لیکن جب انکو لڑنے کا حکم دیا گیا تو کہنے لگے .اس قسم کا لاف زنی وغیرہ کی غلطیاں انسان میں جو ہوتی ہیں انکا علاج اور نیز ہر ایک مرض کا علاج.کثرت سے استغفار اور لاحول پڑھنا ہے.خدا تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیئے کہ وہ سابقہ گناہوں کے بدنتائج سے محفوظ رکھے اور آئندہ بدی کے ارتکاب سے حفاظت بخشے.استغفار اور لاحول کا مطلب یہ ہے کہ اے اﷲ تیری قوّت کے بغیر میں کوئی بدی نہیں چھوڑ سکتا.اور نہ تیری قوت کے بغیر کوئی نیکی کا کام کر سکتا ہوں.تب خدا نیکی کرنے کی توفیق بخشے گا.انسان پر مشکلات آتے ہیں لیکن اﷲ کے سوا کوئی مددگار نہیں ہے.مَیں خود بھی قرآن پڑھتا ہوں اور تُم کو بھی سُناتا ہوں.تم جانتے ہو کہ قرآن میں دو طرح کی راہیں بیان کی ہیں ایک طرف انبیاء اور مُتّقین کا ذکر اور ایک طرف فاسقوں اور فاجروں کا بیان ہے.کہیں گندے آدمیوں کے بُرے انجام بتلائے ہیں کہیں بھَلوں کے نیک انجام دِکھلائے ہیں.پس مومن کا کام ہے کہ ان تمام راہوں سے واقفیت حاصل کرے.کسی کو یہ خیال نہ گزرے کہ بعض وقت درس میں ایسی باتیں بیان ہوتی ہیں جن کی لڑکوں کو خبر بھی نہیں ہوتی اور جب بیان ہوتی ہیں.تو وہ ان سے آگاہ ہو جاتے ہیں تو اس بدی کا رتکاب کرتے ہیں ایسا کرنا بے وقوفی ہے.میرے پاس ہزاروں خط اس مضمون کے بھرے ہوئے آتے ہیں کہ ناواقفی کی وجہ سے ہم ہلاک ہو گئے.ناواقفی بہت بُری بَلا ہے.جو لڑکا ہم سے سُنے کہ زناء بھی کچھ شَے ہے اور پھر اس سُننے پر زناکاری شروع کر دے اس کو تو پھر خُدا اور رُسول کے کلام سے بھی فائدہ نہیں ہو سکتا.صرف یہ کہتے رہنا کہ نیکی کرو.نیکی کرو اور بدی کو چھوڑ دو.یہ کوئی وَعظ نہیں ہے.اور نہ اس سے سُننے والے کو فائدہ ہوتا ہے فائدہ تو جب ہی ہو گا.جب نیکی اور بدی کا علم ہو گا اور کسی بدی کے ارتکاب سے وہ اس وقت بچ سکے گا جب وہ جانتا ہو گا.کہ یہ بدی ہے.پھر اس قسم کے وعظ تو آدمی گِر جوں اور ٹھاکر دَواروں میں بھی بیٹھ کر کر سکتا ہے جس سے بھَلے اور بُرے دونوں قسم کے لوگ خوش ہو جایا کرتے ہیں اور کوئی مخالفت نہیں ہوتی.مخالفت اُسی وقت شروع ہوتی ہے جب کھول کھول کر بیان کیا جاوے.اگر انبیاء علیھم السلام ان باتوں کو مفصّل کھول کر بیان نہ کرتے تو کوئی انکا مخالف بھی نہ ہوتا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت اسی واسطے ہوئی کہ انہوں نے مکّہ والوںکے عیوب کھول کر ان پر ظاہر کر دیئے.اگر عیوب کو بیان نہ کریں تو پھر اور کیا بیان کر سکتے ہیں.قومِ لُوطؑ کی بداخلاقی اور انکی تباہی کی نسبت اگر کچھ بیان کرنا ہو تو کیا اصل واقعہ کو چھوڑ کر ہم کہہ دیا کریں کہ
کہ انہوں نے کوئی بَدی کی تھی اور وہ ہلاک ہوئے.انجام ہمیشہ متّقی کا ہی اچھا ہوا کرتا ہے.اور ہر ایک خَیر کا وارث بھی متّقی ہی ہوا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کسی کی حق تلفی نہیں کرتا.(الحکم ۲۲؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۱) ۷۹،۸۰. اﷲ جَلَّ شَانَہٗمحض فضل سے کسی وقت صبر کا حکم دیتا ہے کسی وقت بدلہ لینے کا.صبر کے دن مقابلہ کے دن نہیں ہوتے.ان اوقات کو انبیاء خوب پہچانتے ہیں یہ انبیاء کے ناشناس لوگوں کی باتیں ہیں کہ جب تک مکّہ میں تھوڑے آدمی تھے.صبر کا حکم تھا.قلّت و کثرت مومن کیلئے کچھ بات نہیں.انبیاء کو جب اﷲ حکم دیتا ہے صبر کرتے ہیں.جب مقابلہ کا حکم دیتا ہے.مقابلہ.وہ نہ ہتھیاروں کی پرواہ کرتے ہیں نہ آدمیوں کی.کیا موسیٰ اور نوح علیھم السّلام نے تلواروں سے کام لیا تھا… دیکھا وہ پانی جو مخالف کے غرق کا مُوجب ہوا.آپ کی نجات کا ذریعہ بنا.پھر دیکھو (التوبہ:۲۵) میں کثرت کو عُجب کا مُوجب ٹھہرایا ہے.معلوم ہوتا ہے احمق مقابلہ صرف تلوار کا سمجھتے ہیں جبھی تو جتّھے کے منتظر ہوتے ہیں.
: بعض لوگ بندوں سے ایسے ڈرتے ہیں.جیسے خدا سے ڈرنا چاہیئے.فرماتا ہے بندوں سے کیا ڈر.جہاں آدمی ہو.جس حال میں ہو.موت تو اپنے وقت پر اپنا کام کرے گی ہمارے طبیب استاد تھے.ایک پہلوان کو دیکھا.ہیضہ ہے.مگر اسے کہا.تمہیں بدہضمی ہے.تاکہ دل شکستہ نہ ہو اُس نے کہا بدہضمی کی کیا مجال.ایک مگدر اُٹھایا کہ اسے پھیر کر کھانا ہضم کرے.پھیرتے ہی راہیٔ عدم ہوا.بُرْجٌ:چونکہ بُرج گول ہوتا ہے.اسی لئے اس کو بُرج کہتے ہیں ورنہ بُرج کے معنے ستارے کے ہیں آتش بازی کے غُباروں کو اِسی لئے بُرج کہتے ہیں کہ وہ اُوپر جا کر ستاروں کی مانند ہو جاتے ہیں. بہت لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ دوسری جگہ مگر انہوں نے سمجھا نہیں.جزا و سزا جو انسانی اعمال کی پاداش ہے.بعض دیگر مالحِ الہٰیہ بھی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) تم جہاں ہو گے تُم کو موت گھیر لے گی اگرچہ تم مستحکم بُرجوں میں ہو گے! اور اگر انہیں کوئی سُکھ مِل جائے تو کہتے ہیں یہ خُدا کی طرف سے ہے.اور اگر کوئی دُکھ پہنچے تو کہتے ہیں یہ تیری طرف سے ہے.تُو کہہ سب اﷲ کی طرف سے ہے.پس کیا ہوا ان لوگوں کو کہ بات کو نہیں سمجھتے.اس آیت میں حقیقت واقعیہ اور سچّائی کا کامل اظہار اور جناب الہٰی نے فرمایا ہے جو لوگ دینی اور قومی لڑائیوں سے سُستی اور غفلت کرتے تھے اور کہتے تھے کہ چند روزہ زندگی تو گزارنے دو.اُنکو کہا کہ آخر تم نے مرنا ہے.پھر اُنکی نافہمی کا اظہار فرمایا ہے کہ یہ لوگ ایسے ہیں اگر انکو سُکھ پہنچے تو بول اُٹھتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں سے مِل گیا اور اگر انہیں دُکھ پہنچے تو پکار اُٹھتے ہیں کہ دُکھ تیرے ( نبی کریم سے) سبب سے پہنچا.تُو کہہ دے کہ دُکھ اور سُکھ تو اﷲ تعالیٰ سے پہنچتا ہے.یہ نادان بات کی تہہ کو نہیں پہنچتے.(نُور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۱.۷۲) جہاں تم ہو.تم کو موت پا لے گی.خواہ تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ ہو.اگر اُنکو کچھ سُکھ اور نیکی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر دُکھ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے تُو کہہ دے کہ سُکھ اور دُکھ سب ہی اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے کہ وہ ہی بھیجتا ہے.ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ بات کو نہیں سمجھتے.بات یہ ہے کہ جو سُکھ اور نیکی پہنچتی ہے.اُس کا سر چشمہ تو اﷲ تعالیٰ کی پاک ذات ہے اور جو دُکھ پہنچتا ہے اُسکا سر چشمہ تیرا اپنا ہی نفس ہے اور ہم نے تم کو لوگوں کی طرف پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اس بات پر خدا کی گواہی کافی ہے.جنگوں کی فلاسفی سے تم آگاہ ہو کہ دین آبرو.جان اور مال کی حفاظت کے واسطے اس قسم کی ضرورت
پڑتی ہے کہ جنگ کی جاوے اور بہت سی بیش قیمت جانوں کو بچانے کے واسطے کچھ جانیں قربان کر دی جاتی ہیں.مَوت سے انسان بچ سکتا تو ہے نہیں.پھر ذِلّت کی موت کیوں اختیار کی جاوے.ہر ایک قسم کا سُکھ اور نیکی اﷲ تعالیٰ ہی کی طرف سے آتی ہے.اسکے سوا کسی دوسرے میں طاقت نہیں ہے کہ سُکھ دے سکے.خدا تعالیٰ رحمن ہے اُس نے سُکھ کے سامان ہاتھ پاؤں آنکھ ناک چہرہ سب اعضاء اور آرام دہ اشیاء اپنے فضل سے مہیا کئے ہیں.قسم قسم کے لباس.پھل.پھول.عقل.قوّت ادراک وغیرہ، یہ سب سُکھ کی چیزیں اﷲ تعالیٰ کے فضل ہی سے حاصل ہوتی ہیں لیکن دُکھ انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہوتی ہے.جب وہ خدا تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر نہیں کرتا اور انکو بے محل استعمال کرتا ہے تو دُکھ پاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات ہرگز ظالم نہیں ہے. کے یہ معنے ہیں کہ گناہوں کی سزا اور نیکیوں کا ثواب اﷲ تعالیٰ ہی دیتا ہے.اگر یہ اعتراض ہو کہ دُکھ کا سر چشمہ کیوں خدا تعالیٰ کو کہا گیا ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کہ چونکہ انسان کی بدکاری کی وجہ سے اس کا دُکھ دینے والا اﷲ تعالیٰ ہی ہے.اسی لئے دُکھ کو بھی اُسی کی طرف منسوب کیا گیا.مثلاً ایک قیدی جو جیل خانہ میں جاتا ہے تو گورنمنٹ کے ہی حکم سے جاتا ہے اور گورنمنٹ اُسے اسکے بداعمال کی پاداش میں جیل خانہ بھیجتی ہے.اسی طرح بڑے بڑے منصب جو لوگوں کو ملتے ہیں وہ بھی گورنمنٹ سے ہی ملتے ہیں.غرضیکہ گورنمنٹ ہی کی عنایات سے ایک شخص مَوردِ انعام ہوتا ہے اور گورنمنٹ کی ہی خلاف ورزی سے مَوردِعذاب ہوتا ہے.لیکن مَوردِ غذاب ہونے کی ایک وجہ ہوتی ہے جو کہ نافرمانی ہے اور مَوردِ انعام ہوتے کی بہت راہیں ہیں.کبھی انسان اپنی لیاقت سے.کبھی ذاتی اور خاندانی و جاہت سے.کبھی حُسنِ خدِمات سے اور کبھی کسی مُقرّب کی سفارش سے مَوردِ انعام ہو جاتا ہے.مثلاً اگر مَیں چوروں یا ڈاکوؤں کے گھر پیدا ہوتا.تو باوجود اس کوشش اور محنت کے جو مَیں نے آج تک کی ہے.اس موجودہ ترقی پر نہ پہنچ سکتا.تم معلوم کر سکتے ہو کہ کس قدر رکاوٹیں درمیان میں تھیں.یہ سب اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل ہی تھا کہ اس نے اس مقام تک پہنچایا ہوا ہے.: اﷲ تعالیٰ کی گواہی دو طرح سے ہوتی ہے.ایک تو اسطرح کہ وقت پر ان تمام پیشگوئیوں کو پورا کر دیا.جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی نُصرت کر کے اور آپؐ کے دشمنوں کو ہلاک کر کے اور آپؐ کی کامیابی میں ہر ایک روک کو دُور کر کے گواہی دیدی کہ یہ ہمارا بھیجا ہوا ہے.دونوں فریق اﷲ تعالیٰ ہی کی مخلوق تھے.اور دونوں کے اعمال سے وہ خوب واقف تھا جو سچّا تھا.آخر کار اﷲ تعالیٰ نے اسے فتح دیدی اور نیز اچھے
لوگوں کو اپنے مکالمات سے بھی آگاہ کیا کہ یہ رسول اﷲ اور راست باز ہے.جیسے فرمایا.اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیّیْنَ اَنْ اٰمِنُوْ اِبْی وَبِدَسُوْلِیْ.(الحکم ۲۹؍مئی ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴۹) وَ…الخ : اس آیت کا مطلب یہ کہ سُکھوں اور دُکھوں کا دینے والا حقیقت میں تو اﷲ تعالیٰ ہے.اس لئے کہ اصل خالق اور پیدا کرنے والا اسبابِ رنج و راحت کا وہی ہے.اور یہی نہایت سچّی بات ہے کہ سُکھ سب اﷲ تعالیٰ ہی کی عنایت سے ملتے ہیں اور دُکھ تمہارے اپنے ہی سبب سے تم پر آتے ہیں…اس قدر بھی اس آیت سے نکل سکتا ہے کہ سُکھ ابتداء ً بھی جنابِ الہٰی سے آ سکتے ہیں… کیونکہ اسکی صفت رحمن ہے.البتہ یہ نئی بت ہے اور سچّا اور واقعی سائنس ہے جو اس آیت سے نکلتی ہے.تمام سُکھ ابتداء ً ہی جنابِ الہٰی کی طرف سے آتے ہیں.حقیقی چشمہ ان کا وہی اور خلق اشیاء و اسباب اس کی رحمانیت کا تقاضا ہے مگر یہ سچّا اور روحانی علم بجائے خود ایک مستقل مضمون چاہتا ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۲) ۸۱. حضرت نبی کریمؐ تمام فضائلِ انسانی کے خاتَم ہیں.زمانہ کے اعتبار سے بھی خاتَم ہیں کہ آپؐ کی نبوّت کا دامن قیامت تک پھَیلا ہے.دُنیا میں مذاہب کے تین حصّے ہیں.عبرانیوں کا مذہب.ایرانیوں کا مذہب.تیسرا مُشرک.جن کے پاس کوئی کتاب نہیں… نبیٔ کریمؐ اور ان کے پیروؤں کے ہاتھوں میںتینوں کے صدر مقام فتح ہوئے.مکّہ معظّمہ پر کسی نے فتح نہ پائی تھی.حتٰی کہ سکندر ایسا فاتح بھی محروم رہا.میرا مذہب ہے کہ آپؐ خاتم کمالات ِ انسانی ہیں…(المائدہ:۴) دنیا میں تمام مذاہب کی کتابیں ہیں کسی میں دعوٰی کے ساتھ دلیل نہیں.پس خاتم الکتاب بھی انہی کی کتاب ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۲۹؍جولائی ۱۹۰۹ء) جس نے رسولؐ کا کہا مانا اس نے بیشک اﷲ تعالیٰ کا ہی کہا مانا اور جس نے اطاعت سے مُنہ پھیرا تو ہم نے تجھ کو ان پر پاسبان بنا کر نہیں بھیجا.یہ آجکل کا ایک مسئلہ ہے جو کہ لوگوں کی جہالت اور شوخی سے پیدا ہو گیا ہے.کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حدیثوں کے ماننے اور ان پر عملدر آمد کی ضرورت نہیں ہے.اﷲ تعالیٰ نے اسکا جواب اس آیت میں دیا ہے کہ رسولؐ
کی اطاعت اﷲکی اطاعت ہے.دیکھو یہ نہیں کہا کہ بلکہ کہا ہے اسکا باعث یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا حکم تو ماننا ہی تھا اگر انکار ہوتا تو رسولؐ کے حکم کا ہونا تھا اور ممکن تھا کہ اگر لکھا ہوتا تو لوگ رسولؐ اور اس کے احکام کی مطلق پرواہ ہی نہ کرتے.جیسے کہ اب اس وقت بعض لوگوں کا خیال ہو گیا ہے.اسی واسطے اﷲ تعالیٰ حکیم علیم و خبیر نے رسول کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے.جو لوگ احادیث کے مُنکر ہیں انکو چاہیئے کہ اس آیت شریف کے بالمقابل ایک اس مضمون کی آیت قرآن شریف میں سے پیش کریں جس میں اﷲ تعالیٰ نے رسولؐ کی اتباع سے بالکل منع کیا ہو.اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کے احکام ہیں وہ تو اﷲ تعالیٰ کے ہیں ہی.لیکن جو احکام رسولؐ کے ہیں.وہ بھی اﷲ تعالیٰ کے ہی ہیں.خدا تعالیٰ نے جس طرح قرآن شریف کی حفاظت کی ہے اسی طرح تعامل اور حدیث کی بھی کی ہے.(البدرؔ ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۷) ۸۲. وہ کہتے ہیں کہ ہم تو فرماں بردار ہیں.پس جب باہر چلے جاتے ہیں تیرے پاس سے تو جو کچھ تُو کہتا ہے اُسکے خلاف رات کو چھُپ چھُپ کر ایک گروہ کا نا پھُوسی کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ جو کچھ وہ کرتے ہیں اُسے محفوظ رکھتا ہے.تُو ان سے اعراض کر لے اور اﷲ پر توکّل کر اور اﷲ ہی کافی کارساز ہے.(البدرؔ۵؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵۷) ۸۳،۸۴.
قرآن میں یہ بھی دعوٰی کیا گیا ہے کہ اس میں اختلاف اور تناقض نہیں.پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ایسی صریح اور پُر شوکت تعلیم کے خلاف یہ الزام لگایا جائے کہ اس میں شرک کی تعلیم ہے… قرآن کریم انی نسبت دعوٰی کرتا ہے جیسے فرمایا. .اگر قرآن اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۰۳) کے معنی ہیں اگر قرآن جناب الہٰی کی طرف سے نہ ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف ہوتا.بات یہ ہے کہ لمبے چوڑے دعوٰی کرنے والے کئی قسم کے ہوتے ہیں.اوّل پاگل اور ظاہر ہے کہ انکے تمام دعاوی صرف مہمل اور نقش بر آب ہوتے ہیں.انکی دُشمنی اور دوستی کچھ بھی قابلِ اعتماد نہیں ہوتی.قرآن کریم نے ہی نبی کریم کو اس اتہام سے یُوں بَری فرمایا.مَآ اَنْتَ بِنِعَمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنٍ وَ اِنَّ لَکَ لَانجْرًا غَیْرَ مَمْتُوْنٍ وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظَیْمٍ فَسَتُبْصِرُوَ ئُبْصِرُوْنَ بِاَیِّکُمُ الْمَفْتُوْنَ.(القلم:۳تا۷) اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اپنے ربّ کے فضل سے تو مجنون نہیں کیونکہ تُو اعلیٰ اخلاق پر ہے اور مجنون کے اخلاق و فضائل اعلیٰ کیا ادنیٰ درجہ پر بھی نہیں ہوتے.پھر مجنون تمام دن اور رات میں کوئی کام کرے اس کے کاموں کے کچھ نتائج و ثمراتِ صحیحہ واقعیہ مرتب نہیں ہوا اکرتے اور جو تُو نے کام کئے ہیں انکے نتائج تُو بھی دیکھ سکے گا اور تیرے مخالف بھی دیکھ لیں گے کہ مجُنون کون ہے.اب غور کرو کہ جا بجا قرآن کریم میں دعوٰی کیا گیا کہ ہم (اﷲ تعالی) رسولوں اور اُس کے ساتھ والوں کی نُصرت و تائید کرتے ہیں اور یہ گروہ ہمیشہ مظفر و منصور ہوتا ہے.غور کرو جب رسول آئے.وہ آخر ہمیشہ مُنصور اور انکے مخالف ذلیل اور خوار ہوئے جیسے فرمایا
(المومن:۵۲) بے ریب ہم ( اﷲ تعالیٰ اور اسکے ملائکہ) نُصرت دیتے ہیں اپنے مُرسلوں کو اور انکو جو ایمان لائے (مانا ان رسولوں کو) اس وَرلی زندگی میں.اور فرمایا (المنافقون:۹) اور اﷲ ہی کیلئے عزّت ہے اور اُسکے رُسولوں کیلئے اور مومنوں کیلئے اور فرمایا (البقرہ:۶) وہی ہدایت پر ہیں اور وہی مظفر و منصور اور بامُراد ہیں.دیکھ! فرمایا سرمُو تفاوت اس میں نہ ہوا.نبی کریمؐ اور آپؐ کے جاں نثار صحابہ کرامؓ تمام مخالفوں کے سامنے مظفر مُنصور بامُراد رہے.اگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات نہ ہوتی تواُسکے خلاف ہوتا.اور یہ بات مجُنون کی بَڑ بن جاتی.مخالفوں کے حق میں فرمایا. (المجادلہ : ۲۰)یہ ُمخالف شیطانی گروہ ہے.خبردار رہو.بے ریب شیطانی گروہ ناکا رہے گا.اور فرمایا (الانفال:۳۷)تیرے مخالف مال و دولت خرچ کریں گے پھر ان پر افسوس ہو گا اور مغلوب ہوں گے ( اب ہمارے مخالف بھی اموال خرچ کرتے ہیں.دیکھیں کہ کس قدر وہ خرچ مفید ہوتا ہے.)پھر بار ہا بتایا کہ مُنکروں پر عذاب آئے.عرب ریگستان کے باشندے.خشن پوش کھجور پر زندگی بسر کرتے تھے ان کیلئے کہا گیا. (البقرہ:۲۶)پھر دیکھا اب تک ہم لوگ قریش اس جنّت کے مالک ہیں.وہ بصیرت تو تم کو نہیں کہ اتباع نبی کریمؐ کو حقیقی جنّتوں کے بھی وارث ہوئے دیکھتے.مگر ظاہری جنّت کی وراثت سے تم بے خبر نہیں ہو سکتے.جنابِ الہٰی نے آپؐ کے مخالف منافقوں کیلئے خبر دی اور فرمایا.(التوبہ:۷۴) انہوں نے بڑے بڑے ارادے کئے مگر کامیاب نہ ہوئے.پھر دیکھا کوئی کامیاب ہوا؟ نہیں اور ہرگز نہیں.اگر قرآن کریم اﷲ القادر اور العالم کی طرف سے نہ ہوتا تو اسکی کوئی تعلیم تو سُننِ الہٰیہ ثابتہ کے خلاف ہوتی.کیونکہ تم مانتے ہو کہ اَن پڑھوں میں اَن پڑھ رسول تھے.عرب میں کوئی کتاب، مدرسہ یونیورسٹی قرآن کیلئے نہ تھی.وہاں اگر یہ کتاب تصنیف ہوئی تھی.تو تیرہ سو برس کی تحقیقاتِ یورپ نے کوئی امر قرآن کریم کا خلافِ سائنس ثابت کر دیا ہوتا.مگر میں چیلنج کرتا ہوں کہ ایسا نہیں ہو سکا.پھر قرآن کریم کی تعلیم مشترکہ تعلیم انبیاء و رسل کے خلاف نہیں.اٹکل پجّو باتیں کرنے والے کی باتیں اکثر غلط نکلتی ہیں.پس اگر قرآن کریم اﷲ کی طرف سے نہ ہوتا تو اس کی اکثر باتیں غلط نکلتیں.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۳۸.۲۳۹)
(النساء:۸۳)یعنی قرآن یا یہ دین خُدا سے نہ ہوتاتو البتّہ اس میں اختلاف ہوتا اور بہت اختلاف ہوتا.حالانکہ اسمیں ذرا بھی اختلاف نہیں.تیئس برس دُکھ اور سُکھ کے مختلف اوقات میں باتیں کیں.مختلف احکام دیئے.سُبحان اﷲ پھر سب کے سب باہم موافق.قرآن آیات کو اسی واسطے متشابہات اور متشابہ کہتا ہے کہ ایک آیت دوسرے کی مصدّق اور مثل ہے.مَیں دعوٰی کرتا ہوں.کوئی شخص دو حدیث صحیح ایک مرتبے کی میرے سامنے لاوے میں اُسے تطبیق کر کے دکھائے دیتا ہوں.(فصل الخطاب ( ایڈیشن دوم) جلد اوّل صفحہ۷۵.۷۶) (النساء:۸۳) کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے.اگر یہ قرآن خُدا کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو ضرور اس میں بڑا اختلاف ہوتا.قرآن کے منجانب اﷲ ہونے کے جو دلائل ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر یہ غیر اﷲ کی طرف سے ہوتا تو اس میں بڑا اختلاف پاتے.میں نے اس امر پر غور کیا ہے کہ کیا کیا اختلاف ہو سکتے تھے تو ان میں سے مجھے چند ایک بڑے بڑے اختلاف یہ معلوم ہوئے ہیں.اوّلؔ: انسان جب بات کرنے لگتا ہے تو اسکے مخاطب مختلف قسم کے لوگ ہوا کرتے ہیں.کبھی جاہل کبھی عالم.کبھی نادان.کبھی کم سمجھ.کبھی زکی الطبع.تو ایسے موقع پر ایک سپیکر یا خطیب کو ناظرین کی طرز اور لیاقت کا خیال کر کے ان کے فہم اور عقل کے مطابق بات کرنی پڑتی ہے اور مختلف موقعوں پر اُسے مختلف کلام کرنے کا اتفاق پڑتا ہے تو اکثر اوقات دو مختلف موقعوں اور مجلسوں کی باتوں میں جو وہ کرتا ہے، بڑا اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ قرآن کو ہر ایک قسم کے مذاق کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے مگر اس میں یہ اختلاف بالکل ممکن ہی نہیں ہے.قرآن جیسے مکّہ معظمہ کے جاہلوں کیلئے ہے ویسے ہی مدینہ طیّبہ کے بڑے بڑے عالم اور فقیہ یہودیوں کیلئے بھی ہے.دومؔ زمانہ کی تعداد سے بھی آدمی کے بیان پر اثر ہوتا ہے.مثلاً ایک لیکچرار متواتر تئیس برس تک لیکچر دیتا رہے.تو اسکے پہلے اور پچھلے لیکچروں میں ضرور اختلاف ہو گا.لیکن قرآن اس قسم کے اختلاف سے بھی بَری ہے.اسکا طرزِبیان شروع سے لیکر آخر تک ایک ہی ہے.سومؔ ایک وقت میں جب انسان لکھتا ہے یا کچھ تقریر کرتا ہے تو جن قدرت کے ارد گرد کے نظاروں کا اُسے محدود علم ہوتا ہے.انہی کے مطابق وہ بیان کرتا ہے اور اپنے استدلال میں انہی کے نظائر لاتا ہے.لیکن چند
دنوں کے بعد قدرت کے نظارے جب اَور رنگ دکھاتے ہیں اور سابقہ تجارب جھُوٹے اور کمزور ثابت ہوتے ہیں تو اسے اپنے خیالات کی تبدیلی کرنی پڑتی ہے.مثلاً اس سے پیشتر سب یہ مانتے تھے کہ ہوا اپنا بوجھ اشیاء پر ڈالتی ہے اور اب ایک کتاب لکھی گئی ہے کہ ہوا اپنا کوئی بوجھ نہیں ڈالتی.اور یہ مسئلہ سابقہ علمِ طبعیات کی تحقیقات کے بالکل برخلاف ہے.علیٰ ہذا القیاس.پہلے زمانہ میں آگ کو ایک عنصر کہتے تھے.مگر اب کہا جاتا ہے کہ یہ آگ صرف رگڑ کا نتیجہ ہے.اس سے یہ بھی ایک نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی تحقیقات محدود ہے اور جس قدر ایجادات یا معلومات آج تک ہوئی ہیں یا آئندہ ہوں وہ ہمیشہ اتفاقی ہوا کرتی ہیں اور جب ایک بات ہو جاتی ہے تو پیچھے سے انسان اس کیلئے وجوہات گھڑ لیتا ہے.جن لوگوں نے علمِ سائنس اور طبعیات وغیرہ کے بڑے بڑے مسائل حَل کئے ہیں.وہ خود اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ یہ سب مسائل اتفاقی طور پر ہی حل ہوئے ہیں.خدا تعالیٰ کا فرمانا بالکل سچ ہے (الحجر:۲۲)جب اﷲ چاہتا ہے تو کوئی بات یا مسئلہ کسی کو معلوم ہو جاتا ہے.غرضیکہ قرآن نے ایسا اُسلوب بیان کا اختیار کیا ہے کہ ان نظاروں میں بھی اس کا اختلاف کہیں نہیں ہوتا.کوئی تحقیقات کسی قسم کی کیوں نہ ہو.آج تک قرآن کے خلاف ثابت نہیں ہوئے.جس قدر نئی تحقیقات والے ہیں.وہ تمام کلام اﷲ کے دشمن ہیں.ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں قرآن پر حملہ کرنا چاہتا ہے.یورپ کے تاریخ دان.نجومی.اسٹرانومر.سائنٹسٹ.ڈاکٹر وغیرہ ہر عالم اپنے علم کی رُو سے قرآن کی مخالفت پر آمادہ لیکن ان میں سے کامیابی کسی کو نہیں ہوتی.اور قرآن کسی سچّی بات سے بھی کہیں مخالفت نہیں کرتا.اسی لئے مَیں ہمیشہ نئی تحقیقات کا متلاشی رہتا ہوں.ہر ایک نئی ایجاد اور کتاب کو دیکھتا ہوں لیکن آج تک مجھے ثابت نہیں ہوا کہ قرآن کی تکذیب کسی طریق سے بھی ہوئی ہے.پھر میرے جیسے آدمی کو تو بہت سے مشکلات کا سامنا ہے.کیونکہ مَیں قرآن میں ناسخ منسوخ کا قائل نہیں ہوں.لُغت عرب سے باہر نہیں جاتا.حدیثوں کو مانتا ہوں.باوجود اس کے مَیں نے کسی سچّی بات کو قرآن سے باہر نہیں دیکھا.چہارمؔ وجہ اختلاف یہ ہوا کرتی ہے کہ جب مذہب پر کچھ زمانہ گزر جاتا ہے تو مذہب والے اپنے اصل مذہب سے دُور جا پڑتے ہیں اور اصل مذہب کا پتہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے.جیسے اس وقت عیسائی مذہب کے بڑے بڑے عالم حیران ہیں کہ مسیح کی اصل کلام کدھر گئی اور اسکا کچھ پتہ نہیں ملتا.پہلے بعض لوگوں نے فیصلہ کیا تھا کہ متی کی انجیل پُرانی انجیل ہے.لیکن اب اس کی مخالفت ہوئی ہے.توریت میں بھی جھگڑا ہے کہ آیا وحی ہے یا نہیں.لیکن ادھر اسلام میں دیکھو کہ ہر صدی میں نیا قرآن سنایا جاتا ہے.اور جو مجدّد آتا ہے
وہ قرآن ہی کو پیش کرتا ہے اور باوجود اس قدر زمانہ گزرنے کے قرآنی مذہب میں کوئی اختلاف نہیں.بعضوں کا یہ خیال ہے کہ پچّاس برس کے بعد مجدّد آتا ہے مگر میرا مذہب یہ ہے کہ ہر وقت ایک قوم خادمِ قرآن خادمِ حق اور صدق ضرور موجود رہتی ہے.اس تمام (بات)کا خلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا ابتداء اور انتہاء ایک ہی طرز پر ہے.جاہلوں اور عالموں سے یہ ایک نئی آواز سے بولتا ہے.بڑے بڑے محقّق باوجود بڑی بڑی کوشش کے قرآن کے برخلاف کوئی بات ثابت نہیں کر سکے اور یہ کہ قرآن محفوظ ہے.اسکا مذہب محفوظ ہے.اس کے اصل میں کوئی اختلاف نہیں ہوا.پنجمؔ ایک اَور بات ہے وہ بھی اختلاف میں نہیں ہوا.جیسی پیشگوئیاں کی گئی تھیں.ویسی پوری ہوئیں.رسول اﷲ علیہ وسلم لڑائی کے وقت اپنی بیویوں اور لڑکیوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے لیکن کوئی بھی کسی وقت انکو پکڑ نہ سکا.اور رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم نے اپنے دشمنوں کو غلام بنایا.پھر آزاد کیا.بعض لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے تلوار پکڑنے پر اعتراض کرتے ہیں.یہ انکی بڑی بیوقوفی ہے.ہم پُوچھتے ہیں کہ کیا آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کے بالمقابل عرب کے پاس تلوار نہ تھی.اعتراض توتب ہو تاکہ ان کے پاس تلوار نہ ہوئی اور اہل اسلام پھر ان پر تلوارچلاتے.جب مقابلہ پر بھی تلوار ہے تو پھر اعتراض کسی بات کا علاوہ ازیں مسلمان تو قانون کے پابند تھے انکو حکم تھا کہ عورتیں اور بچے اور بوڑھے قتل نہ کئے جائیں.پھلدار درخت نہ جلائے جاویں لیکن مخالف تو کسی ایسے قانون کے پابند نہ تھے.(البدرؔ ۲؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۶۵) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کا لشکر محدود تھا اور عرب بیشمار مقابلہ پر تھے.اب بھی اس کی نظیر موجود ہے کہ حضرت مرزا صاحب اکیلے اور انکے مقابلہ پر بڑے بڑے ادیب.شاعر اور عالم موجود ہیں اور کوئی مقابلہ پر عربی کی کتاب نہیں لکھ سکتا.پھر ایک بات یہ بھی بڑے مزے کی بھی کہ جب کوئی دشمن مقابلہ کیلئے جاتا.اس کے بعد ہی جلد اسلام قبول کر لیتا.اور فوج کا سپہ سالار بنا دیا جاتا غرضیکہ نصرت اور تائید کے جو وعدے اﷲ تعالیٰ کے آنحضرتؐ اور مومنوں کے ساتھ تھے ان میں بھی کوئی تخلّف نہیں ہوا اور یہ سب باتیں قرآن کے منجانب اﷲ ہونے پر دلالت کرتی ہیں.ردّ شیعہ.اس آیت میں بھی شیعوں کے خیالات کی تردید ہوتی ہے.قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ ہم نے سب مومنوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور انکے دِلوں میں کوئی کینہ اور حسد وغیرہ نہیں ہے.قرآن شریف تو فرماتا ہے کہ ہم نے سب مومنوں کو بھائی بھائی بنا دیا اور انکے دِلوں میں کوئی کینہ اور حسد وغیرہ نہیں ہے.پس اگر حضرت عمرؓ اور علیؓ میں اخلاص.اتفاق اور باہمی محبّت نہ تھی تو پھر قرآن کے(خلاف) ہوا.مگر انکا یہ خیال غلط ہے.دیکھو
حضرت عمرؓ جب شام کو تشریف لے گئے تو حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ ( مقرّر ) کر گئے.بقول شیعہ اگر علیؓ حضرت عمرؓ کو حق بجانب نہ جانتے تھے تو اب تو عنانِ حکومت انکے ہاتھ میں تھی.اپنا پور تصرّف کر لیتے.لیکن ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وہ اتنی جرأت کہاں سے لاتے چونکہ وہ سب آپس میں بھائی بنا دیئے گئے تھے اس لئے کوئی فساد کی بات نہ ہوئی اور نہ ان میں سے کسی کے دل میں دغا تھی.غرضیکہ قرآن پر عمل درآمد کرنے والوں میں بھی اختلاف نہیں ہوا کرتا.(الحکم ۱۹؍جون ۱۹۰۳ ء صفحہ ۱۷۳) اور جب آتی ہے ان کے پاس کوئی بات امن کی یا خوف کی.اس کو پھیلا دیتے ہیں اور اچھا ہوتا اگر لے جاتے اس کو رسول کے پاس یا اپنے میں سے ان لوگوں کے پاس جو بات سے بات نکالتے ہیں.اور اگر اﷲ کا فضل تم پر نہ ہوتا تو تم سب شیطان کے مطیع ہو جاتے.اِلَّا قَلِیْلاً : یہ اُورہ عرب ہے.اس کے معنے ہوا کرتے ہیں.سب کے سب یعنی جس قدر ہوں.(الحکم ۱۹؍جون۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۳) وعدہ وعید کی پیشگوئیاں قرآن میں ہیں.عین مطابق واقعہ ہوئی ہیں.اِذَا جَآئَھُمْ اُمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ.قرآن اس طریق کو منع کرتا ہے کہ ہر ایک امن یا خوف کی بات کو سوائے عظیم الشان انسان کے کسی اور تک پہنچایا جاوے.مسلمان جیسے معاشرت سے ناواقف ہیں ایسے ہی امن کی راہ سے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۸۵. پس مقابلہ کرو اﷲ کی راہ میں نہیں تکلیف دی جاتی مگر تیری جان کو اور مومنوں کو ترغیب دے.قریب ہے کہ اﷲ روک دے کافروں کی جنگ.اﷲ جنگ کرنے میں بہت سخت اور وہ نکیل ڈال کر سیدھا کر دیتا ہے.(الحکم ۱۹؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۳) : یہاں سے اس خیال کی تردید ہوئی کہ نبی کریمؐ نے اس وقت جہاد کا حکم دیا جب جتّھا ہو گیا.دیکھو محض نبی کریمؐ کو قتال کا حکم ہوا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء)
۸۶. جہاں تمدّن و معاشرت ہو حکّام و رعایا بھی ہوتی ہے.وہاں سفارشیں بھی لوگ بہم پہنچاتے ہیں.ان کے متعلق ہدایت فرمائی کہ وہ سفارش کرو جو نیکی و بھلائی کے متعلق ہو.جس کا نتیجہ نیک ہو.جو کسی مظلوم کی مدد ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۸۷. جب تم کو کوئی دُعا دے تو تم اس کے جواب میں اس سے بہتر دُعا دو یا کم از کم اتنی ہی دو.اﷲ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے.(البدرؔ ۱۹؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۷۳) : جب تم اچھا سلوک کئے جاؤ تو تم اس سے بہتر سلوک اس کے ساتھ کرو.: مگر حساب کھولنے کی ضرورت نہیں.حساب رکھنے والا خدا ہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : اور جب تمہیں سلام کیا جاوے تو اس سے بہترسلام کہو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶) ۸۸.
: جو کچھ سمجھایا جاتا ہے.ضائع نہیں جائے گا.تم سب جمع ہو گے.وہاں بدلہ مِلے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) اﷲ.اسکے سوا کوئی معبود نہیں.ضرور ضرور وہ تم سب کو قیامت کے دن میں جمع کریگا.اور اﷲ سے بڑھ کر کس کی بات سچی ہو سکتی ہے.یہ بات انسان کی فطرت میں ہے کہ دوسروں کے سامنے ذلیل ہونا پسند نہیں کرتا.چاہتا ہے کہ گھر میں.شہر میں.ملک میں جہاں ہو.ہر جگہ اس کی عزّت ہو اور کسی قسم کی ذلّت اُسے نہ پہنچے.اس کے اس فطری تقاضا کو پیش کر کے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن تم سب کو ہم جمع کریں گے… قیامت تک کی ساری کی ساری مخلوق موجود ہو گی اور پھر جس حال میںتم اپنے محلہ اور گھر والوں کے سامنے کسی قسم کی ذلّت پسند نہیں کر سکتے تو اس قدر مخلوق کے سامنے کس قدر ذلّت ہو سکتی ہے اس بے عزّتی سے اپنے آپ کو بچاؤ.(البدرؔ ۱۹؍جون ۱۹۰۳ء صفحہ۱۷۳) ۸۹. دُنیا میں تین قسم کے آدمی ہیں.۱.جنہیں مکالمہ الہٰیہ کا شرف حاصل ہے ۲.جو اِن لوگوں کی باتیں خوب سمجھتے ہیں.۳.لَا یَعْقَلْ : اﷲ تعالیٰ ماموروں کے سامنے ادب سکھلاتا ہے کہ یہ ہر ایک کا کام نہیں کہ رائے زنی کرتے پھرتے ہو.نفاق کے اسباب کئی ہیں.ایک سبب بتایا ہے اَ(التوبہ:۷۷).اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَ اِذَا خَاصَمَ فَجَدَ وَاِذَا عَاھَدَ غَدَرَ وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَان.تو جھُوٹ.وعدہ خلاف.لڑائی کے وقت گند تولنے والا.عہد شکن.امانت میں خیانت کرنے والا.ایک شخص کو مَیں نے گالیوں سے منع کیا اس نے دوچار گالیاں دیکر کہا کہ مَیں کس ایسے… کو گالیاں دیتا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : اور اﷲ نے ان کو الٹ دیا ان کے کاموں
پر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۶،۱۶۴) : اﷲ نے جس پر ضلالت کا فتوٰی دیا ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۹) ۹۲. : یہ منافقوں کی دوسری قسم ہے.فریقین کو خوش رکھنا چاہیئے.اس رکوع کا خلاصہ یہ ہے کہ بڑے بڑے اہم اُمور میں دخل نہ دیا کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۹۳.
بہت ملک ہیں جہاں مسلمان رہتے ہیں.جیسے یا غستان.بعض حصص افغانستان.سرحدی ملک عرب.روم.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کوئی مومن کسی مومن کو دُکھ نہیں دیتا.لیکن جہاں مسلمانوں کے قبضے میں تلوار ہے جیسے مذکورہ بالا ممالک میں.وہاں تلواریں چلاتے ہیں.جہاں تلوار پر قبضہ نہیں وہاں لَٹھ ہاتھ وغیرہ چلاتے ہیں.ہاتھ نہ چلے تو زبان ہی چلاتے ہیں.ہر قسم کی گالیاں ایک دوسرے کو دیتے ہیں.عورتوں کا بس نہ چلے تو اپنی اولاد کو ہی کوستی ہیں.یہاں فرماتا ہے کہ مومن قتلِ عمد تو کرتا ہی نہیں.اگر خطا ہو تو غلام آزاد کرے.دیت ہے جو دس بارہ ہزار ہو جاتی ہے.دو مہینے کے روزے رکھے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۹۴. : تین گناہ کئے ہیں ۱.جناب الہٰی کا حکم توڑا.۲.اس کے منافع سے محروم کیا ۳.اس کی زندگی برباد کی.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) : غضب خود ایک جہنم ہے.غضب کرنیوالوں کا دل کمزور ہو جاتا ہے.اختلاجِ قلب میں گرفتار رہتے ہیں.خُدا نے جھگڑوں کی ایک جڑ بتائی ہے. (المائدۃ:۱۵)جب لوگ نصائح کو بھُول گئے تو ان میں عداوت اور بغضاء شروع ہوا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۹۵.
: سفر میں ہرچیز کی تحقیق ضروری ہے اور بہت سوچ سمجھ کر کام کرنا چاہیئے.: جو تم کو سلام کہتا ہے، سلامت رَوی سے پیش آتا ہے اُسے کافر نہ کہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : لوگوں کے اطوار اخلاق وغیرھا سے خوب واقفیت حاصل کرو.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) ۹۶. :بیمار.اندھے.لنگڑے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۹) ۹۸.
: تم سب نے تجربہ کیا ہو گا کہ بعض اوقات انسان کا جی چاہتا ہے کہ آج عبادت ہی کریں.بعض آدمیوں کو دیکھکر بھی عبادت کو جی چاہتا ہے.اسی طرح بعض موقعوں پر خدا سے غفلت پیدا ہو جاتی ہے.بعض انسان ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ملن سے خدا سے نفرت پیدا ہو کر دنیا کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور بعض شخصوں کو دیکھ کر دنیا سے دل سرد ہو جاتا ہے اور آخرت کا خیال آ جاتا ہے.یہ ایک دُنیا کے عجائبات میں سے ہے.یہ دونوں حالتیں قریباً ہر انسان پر وارد ہوتی ہیں.بعض کھانے.چارپائی اور مکان میں غفلت پیدا ہوتی ہے.نبی کریمؐ کو حکم ہے کہ ایسی جگہ کو بدل دو.چارپائیوں کے بستروں کے بدلنے سے بھی حالت بدل جاتی ہے.یہاں اسی مسئلہ کو خدا نے بیان کیا.جس ملک میں رہنے سے دین کو بھُولے اُسے کیوں نہ چھوڑ دے.فرشتے ان پر سختی کریں گے اور کہیں گے کہ تم ایسے مقاموں میں رہے کیوں؟ کیا خدا کی زمین فراخ نہ تھی.تم اس جگہ سے یہ سبق سیکھو.جہاں غفلت کی صحبت ہو.اس میں مت بیٹھو.ایک بزرگ نے مجھے کہا کہ تم کو کئی دن سے نہیں دیکھا.میں نے کہا ہاں سُستی ہو گئی.فرمایا تم نے قصاب کی دوکان نہیں دیکھی؟ آپ کا مطلب یہ تھا کہ دیکھو قصاب جب دو چھُریاں آپس میں رگڑتا ہے تو تیز ہو جاتی ہیں.اسی طرح صحبتِ صادقین کا فائدہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۰۱.
: مہاجر کی نیتِ ہجرت اگر اﷲ ہو تو وہ کبھی تکلیف نہیں پاتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : دشمن کے مُنہ پر مٹّی ڈالنے کے اسباب پاتا ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) ۱۰۲. : جب تم سفر کرو.:سفر میں دوگانہ پڑھا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : تین طور پر کمی ہو سکتی ہے.۱.چار رکعت کی دو ۲.ظہر و عصر.مغرب و غشاء جمع ۳.قرأت کم کر دی.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) ۱۰۳.
: یہ تمام آیت آجکل کے انگریزی پڑھنے والوں کیلئے غور طلب ہے دیکھو مومن ایسے ہوتے ہیں.کہ گھمسان کی لڑائی ہے جان کے لالے پڑ رہے ہیں.مگر نماز سے غافل نہیں.آجکل انگریزی پڑھنے والے نمازی مسلمانوں کو کھڑکنّے اور اولڈفیشن کہتے ہیں.: دیکھو مومن کو بہت چوکس رہے کا حکم ہے.عجز و کسل مومن کی شان سے بعید ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۰۴. : یہ سُنّتوں کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یہ عام ذکر کی طرف ہے فرض کے بعد سُنّتیں پڑھنی چاہئیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : وہ اذکار جو احادیث میں آئے ہیں.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) ۱۰۵.
: قوم کے پکڑنے میں.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۹) ۱۰۶. : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی قرآن کو خوب سمجھتا ہے.: شریر کی طرف سے حمایت کا بیڑا کبھی نہیں اٹھانا چاہیئے خائن کی طرف سے بھی جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے.اگر کسی عزیز رشتہ دار کی مصیبت پڑ جاوے.تو استغفار بہت پڑھو.خدا تعالیٰ تمہیں بچا لے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۱۰. : خبردار ہو جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۱۳.
: بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ وہ خود کوئی بدی کر کے دوسرے کے ذمّے لگا دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۱۴. مَیں تم کو قرآن شریف سناتا ہوں.مُدّعا اس سے میرا یہ ہوتا ہے کہ تم اس پر عمل کرو اور عمل کر کے اس سے نفع اٹھاؤ.قرآن کریم پر عمل کرنے سے انسان کے آٹھ پہر خوشی سے گزرتے ہیں.قرآن شریف پر عمل کرنے سے انسان کو خوشی و عزّت اور کم سے کم بندوں کی اتباع اور محتاجی سے نجات ملتی ہے.:خبر دار ہو جاؤ ایک گروہ اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ تم گمراہ ہو جاؤ.: اگر تم قرآن شریف پر توجّہ رکھو تو تم گمراہ کرنے والوں کی کوششوں سے محفوظ رہ سکتے ہو.یورپ والوں نے کس قدر ترقی کی ہے لیکن دیکھو ایک بندہ کو خدا بنا لیا آریہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ نہیں کہہ سکتے.: دیکھو.نبیٔ کریمؐ ایسے انسان کو ارشاد ہے کہ اگر قرآن شریف نہ آتا تو تجھ کو کچھ نہ آتا.بھلائی اور برائی سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ : قرآن شریف ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : اﷲ تعالیٰ حضرت محمّد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے خلق کو عظیم فرماتا ہے.اور ان پر جو فضل ہوا اُسے بھی عظیم فرمایا.اب خیال کرو کہ جس کو خدا تعالیٰ نے عظیم کہا وہ کس قدر عظیم الشان ہو گا.اب جو رسول اس شان کا ہے اسکے بغیر ہم کو کسی اور کے مقتدا بنانے کی ریجھ بھی کیا ہوئی.(بدرؔ ۳۱؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ ۴)
۱۱۵. :امن کی زندگی.عمدہ معاشرت و تمدّن کیلئے یہ ضروری نصیحت ہے.مخفی کمیٹیاں کرنے والے بجائے اصلاح بین النّاس کے تفریق بین النّاس کرتے ہیں جب کوئی شخص قرآن و حدیث کا علم نہیں رکھتا تو اُسے یہ حق کہاں پہنچتا ہے کہ وہ کہے کہ مَیں حق کی حمایت کرتا ہوں.پس تم کسی خفیہ مشورہ میں سوائے اہل الرّائے عالمانِ قرآن کے شامل نہ ہو اور یہ لوگ بھی مشورہ کریں تو نیک، چندہ دینے.کسی نیکی اور اصلاح کے متعلق مشورہ کریں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۱۶. : دیکھو سُنّی شیعہ پنج ارکانِ اسلام میں اصولی طور پر متفّق ہیں.پھر آپس میں ایسے کھِچے رہتے ہیں کہ کیا مجال ایک دوسرے کی مسجد میں چلا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی) ۱۱۷.
: شرک کے معنی ہیں کسی کے ساتھ سانجھی کرنا.اﷲکی ذات.اﷲ کی صفات.اﷲ کے افعال کا کسی کو ہمتا بنانا.اﷲ کی عبادت جس طرح کی جاتی ہے.اسی طرح کسی دوسرے کی عبادت و تعظیم کرنا.ایسی کوئی قوم پیدا نہیں ہوئی جس نے خدا کی ذات جیسی کوئی ذات مانی ہو.اسی لئے انبیاء علیھم السلام نے خدا کی ذات کی توحید کا بیان کم فرمایا ہے.صرف ایک قوم ہے جو ثنویہ کہلاتی ہے.وہ یزدان واہر من مانتے ہیں.صفاتِ الہٰی میں بھی لوگوں نے شِرک بہت کم کیا ہے.خدا کے افعال میں بھی لوگوں نے شرک کم کیا ہے.مُشرک بھی مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کو خدا نے پیدا کیا ہے.ہاں چوتھی قسم کا شرک شرک فی العبادت ہے.کُل انبیاء اسی شرک کے دُور کرنے کیلئے آئے ہیں.بُتوں سے مُشرک حاجات مانگتے ہیں.ان کے آگے سجدہ کرتے (ہیں).: میں کے معنی ہیں کہ اس سے نیچے اتر کر جو گناہ ہیں وہ معاف کر دیتا ہے.کیونکہ خدا کا انکار شرک سے بھی بڑھ کر گناہ ہے.پس مَادُوْنَ کا ترجمہ سوائے پسندیدہ نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) : اﷲ کی ذات جیسی ذات.صفات جیسی صفات.افعال جیسے افعال مانے جائیں عبادت کے طریق میں جو انبیاء نے بتائے کسی کو شریک کرے.ایک شرک فی العبادت ہے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۹) شِرک وہ بُری چیز ہے کہ اسکی نسبت خدا نے فرما دیا ہے پھر بھی مسلمان اسکے معنے نہ سمجھیں تو افسوس ہے.سب سے پہلا کا م جو انسان کے کان میں بوقتِ پیدائش و بلوغ ڈالا جاتا ہے وہ شرک کی تردید میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُاﷲہے.یہ ایک بحث ہے کہ کان بہتر ہیں یا آنکھیں.مولُود کے کان میں اذان کہنے کی سنّت سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.اگر یہ لغو فِعل ہوتا تو کبھی رسولؐ کی سنّتِ مؤکدہ نہ بنتا.یقظہ نومی جو بیماری ہے اسکے عجائبات سے بھی اسکی حکمتیں معلوم ہو سکتی ہیں.غرض پہلا حکم کانوں کیلئے نازل ہوا اور انبیاء بھی اس لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کی اشاعت کیلئے آئے اور خدا کی آخری کتاب نے بھی اسی کلمہ کی اشاعت کی اور جس کتاب سے مَیں نے دینی اُمور کی طرف خصوصیت سے توجہ کی اس میں بھی اس پر زیادہ بحث ہے.چونکہ بعض لوگ حکیموں کی بات کو بہت پسند کرتے ہیں اور انکے کلمہ کا انکی طبیعت پر خاص اثر ہوتا ہے اس لئے یہاں ایک حکیم کی نصیحت کو بیان کیا ہے اور یہ بھی مسلّم کہ آدمی اپنی اولاد کو وہی بات بتاتا ہے جو بہت
مُفید ہو اور معتبر ہو.شِرک عربی زبان میں کہتے ہیں سانجھ کرنے کو.کسی سے کسی کے ساتھ ملانے کو.تو مطلب یہ ہوا کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو جوڑی نہ بناؤ.(بدرؔ ۱۲؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۲) ۱۱۸. : دیویاں.عرب میں بھی لات وغیرہ مؤنث بُتوں کے پُجاری تھے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۲۲. مَحِیْص : بھاگنے کی جگہ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۲۵. : کھجور کی گٹھلی کی پُشت پر ایک نقطہ ہوتا ہے اُسے نقیر کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۲۸.
بعض وقت لوگ یتیم لڑکوں کو ذلیل سمجھتے ہیں.ان کا مال کھا لیتے ہیں.اس سے منع فرمایا اور ارشاد کیا تییموں کیلئے انصاف پر قائم رہو.۱۲۹. : صُلح بڑی اچھی چیز ہے.بہت لوگ ایسے ہیں کہ وہ عداوت کو بڑھاتے ہی رہتے ہیں.کَالْمُعَلَّقَۃِ : ایسا نہ کرو کہ وہ عورت درمیان میں لٹکی رہے کہ نہ اس کو خاوند والی کہہ سکتے ہیں نہ بے خاوند والی.: تقوٰی بہت ضروری ہے.ایک امیر کو مَیں بہت اچھا سمجھتا تھا اور میرے اُستاد اُسے بُرا سمجھتے تھے.ایک دفعہ ذکر چل پڑا.مَیں نے مُتّقیوں کی مثال میں اس امیر کو پیش کیا آپ نے کہا کہ تقوٰی کے معنی جانتے ہو؟ عرض کیا جو کوئی کام شریعت کے خلاف نہ کرے.فرمایا یہی بات ہے کہ وہ شریعت کی تو آڑ رکھتا ہے.اور کرتا وہی ہے جو اس کے دِل میں ہوتا ہے.اپنے اغراض کے موافق احکام کو
ڈھال لیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۳۶. کئی وقت انسان کیلئے امتحان کے ہوتے ہیں.ایک تو غضب کا وقت ہوتا ہے.غضب کی حالت میں آدمی دوسروں کو انواع و اقسام کے نقصانات پہنچا دیتے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ غلطی ہوئی.عفو کرو لیکن جب دوسرا کوئی نقصان پہنچائے تو ہرگز عفو پر رضامند نہیں ہوتے.اسی طرح آدمی بعض اوقات محبّت میں بھی حَد سے بڑھ جاتا ہے اور گمراہ ہو جاتا ہے.ایک وقت وہ ہوتا ہے جبکہ مقدّمات میں گواہی دینے کا ہوتا ہے آدمی اپنے عزیز و دوست کا نقصان گوارا نہیں کر سکتا.اسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کو مقدّم رکھو اور گواہی انصاف سے دو خواہ اپنے عزیزوں کے مقابلہ میں ہو.اپنی جان پر یا اپنے ماں باپ ہی کے متعلق گواہی دینی پڑے.: اﷲ تعالیٰ ہی غریب و غنی کی رعایت سے بہتر ہے.: گرِی ہوئی بات انصاف کے خلاف ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۳۷.
: ملائکہ کا کفر یہ ہے کہ اندرونی پاک تحریکات کے خلاف کرے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۳۸. : بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب پکڑے جاتے ہیں تو مومن ہو جاتے ہیں.پھر مَوقع پاتے ہیں پھر گمراہ.منافق کی ایک بڑی پہچان یہ بھی ہے کہ وہ بار بار اقرار کرتا ہے اور پھر اس کو پورا نہیں کرتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۴۱. : حقیر سمجھا جاتا ان کو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۴۴.
ہم نے بارہا تمہیں بتایا کہ منافق امانت میں خیانت کرتے.وعدہ پورا نہیں کرتے.جھوٹ بولتے ہیں لڑتے ہیں تو گند بَکتے ہیں.پھر منافق وہ ہے جس کا ظاہر و باطن یکساں نہ ہو.منافق کا دل کمزور ہوتا ہے اس میں نہ قوّتِ فیصلہ.نہ تابِ مقابلہ.منافق اﷲ کی یاد بہت کم کرتے ہیں.نمازوں میں سُستی کرتے ہیں اور دِکھلا وے کی نمازیں پڑھتے ہیں.: مکّھی کی طرح کبھی ادھر جاتا ہے کبھی اُدھر.آجکل لوگ جس کو پالیسی کہتے ہیں وہ نفاق کا ٹھیک ترجمہ ہے.منافق کا کوئی مددگار نہیں ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍ جولائی ۱۹۰۹ء) ۱۵۱. : ایسے بھی لوگ ہیں جو خُدا کو مانتے ہیں.اﷲ فرماتا ہے جو رسولوں کو نہ مانیں وہ پکّے کافر ہیں.مومن کو چاہیئے کہ اﷲ پر بھی ایمان اور اُس کے رسولوں پر بھی ایمان لاوے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۵۴.
: شریر لوگ جب کسی نیک بات پر عمل نہیں کرنا چاہتے تو طرح طرح کے عُذر تراشتے ہیں مثلاً یہ کہ خدا ہم پر بھی ایک کتاب بھیج دیتا.پھر موسیٰ سے اس سے بھی بڑھ کر کہا کہ (النساء : ۱۵۴) چنانچہ ان پر عذاب آیا.پر بے وجہ نہیں .(انکے ظلم کی وجہ سے) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۵۵. : یہ ہم نے تم کو بارہا نصیحت کی ہے.جب کسی شہر میں جانے لگو تو داخل ہوتے وقت دُعا مانگو.فرماں بردار ہو کر شہر میں داخل ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۵۶. وَ: اور اس کہنے پر کہ
ہمارے دل پر غلاف ہے کوئی نہیں پر اﷲ نے مُہر کی ہے اُن پر مارے کفر کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۱) ۱۵۸. : رسول اﷲ کہنا بطور استہزاء ہے.اور اس لئے کہ انکی کتابوں میں تھا کہ اﷲ کا نبی مقتول بالصلیب نہ ہو گا.اس لئے انہوں نے کہا تا ظاہر ہو کہ وہ اﷲ کے رُسول نہ تھے.اس لئے اﷲ نے فرمایا کہ وہ مقتول بالصلیب نہیں کر سکتے.بلکہ مشابہ بالمصلوب بنایا گیا مسیح ان کیلئے.: سیالکوٹ میں ایک پادری تھے.ان سے میری گفتگو ریل پر ہوئی.میں نے تمام واقعات متعلقہ صلیب ان سے منوالئے گویا اس نے دبی زبان سے اقرار کیا کہ مسیح کے مقتول ہو جانے کا ان کو یقین نہیں.ظن ہی ظن ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) : مشبّہ بالمصلوب بنایا گیا.ان کیلئے بارہ باتیں بتائی ہیں.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۱۵۹، ۱۶۰. : بُلند مرتبہ بتایا اپنی جناب میں.
: حضرت عیسٰی ؑ پر ایمان لانے کے معنی ہوں تو پھر اسلام کو کیا.جس میں حضرت محمّد مصطفٰےؐ پر ایمان لانا ضروری ہے.صحیح معنی یہ ہیں.کوئی اہلِ کتاب ہو ( یہودی، عیسائی) حضرت مسیحؑ کے قتل پر (یہ) ایمان لاتا ہے ( لاتا رہے گا).مگر یہ سب ایمان ہر ایک کتابی کا مرنے سے پہلے تک ہے.مرنے کے بعد حقیقت کُھلے گی کہ مَیں غلطی پر تھا.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) : اس سے ثابت ہے کہ قیامت کے دن سچ گواہی دیگا.مگر دُنیا میں آ کر نہیں.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۱۶۱. : طیّبات سے آدمی محرم ہو جاتا ہے جب وہ شِرک پر کمر باندھے سے روکے.اَمْوَال النَّاس بِالْبَاطِل کھانا شروع کر دے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۶۴. : وحی کہتے ہیں جو جلدی سے کسی بات کو بتادے.وحی کی کئی قسمیں ہیں.ایک وہ جو زمین کو بھیجی گئی. (الزلزال : ۶) پھر وہ شہدکی مکھی کو بھیجی جاتی ہے.پھر وہ حضرت موسٰیؑ کی ماں کو بھیجی گئی.پھر اور وحی جو اِن بزرگوں کو بھیجی گئی جو نبی نہ تھے.جیسے فرمایا. (المائدہ : ۱۱۲)
یہاں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یہ وحی ان معمولی وحیوں سے نہیں بلکہ یہ وہ ہے جو اولوالعزم رسولوں کی طرف بھیجی جاتی رہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۶۹، ۱۷۰. کچھ لوگ مُنکر ہوئے اور حق دبا رکھا.ہرگز اﷲ بخشنے والا نہیں ان کو ملادے راہ مگر راہ دوزخ کی.پڑے رہیں اس میں ہمیشہ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۴) ۱۷۱. :ایک شہد کی مکّھی سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے.وہ کیسی دانائی سے گھر بناتی.شہد بناتی.دانائی کو کام میں لاتی.قناعت بھی حد درجے کی کرتی ہے.محنت و کسب سے اپنے لئے کھانا مہیا کرتی ہے.بدبُودار چیز پر بھی نہیں بیٹھتی.پھر اپنے امیر کی مطیع ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۷۲.
: اس کے بارے میں ایک کلام آیا تھا مریم کی طرف کہ ایسا لڑکا پیدا ہو گا اور وہ کلامِ مبشر اسی اﷲ کی طرف سے نازل ہوا تھا (رُوْحٌ مِّتْہُ) (تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ………….اس کے سوا نہیں کہ عیسٰی بن مریم اﷲ کا بھیجا ہوا اور اس کا مخلوق ہے جو مریم کی طرف ڈالا گیا اور اس کی رُوح ہے.پس ایمان لاؤ اﷲ پر اور اسکے رسولوں پر.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۴) اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ عیسٰی اﷲ کا رسول اور اس کا مخلوق ہے جو مریم کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اﷲ کی طرف سے رُوح ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۱۴) ۱۷۳.
: عیسائی لوگ حضرت مسیحؑ کو خدا سمجھتے ہیں.بعض بیٹا کہتے ہیں.قرآن شریف نے جب بڑے بڑے وعظ کئے کہ وہ خدا کیسے ہو سکتا ہے تو بعض احمقوں نے کہا.اتنی مدّت سے ہم اسے بڑا مانتے آئے ہیں.کہیں ہم سے ناراض نہ ہو جائے.خدا فرماتا ہے کہ مسیح ناک نہیں چڑھاتا.بُرا نہیں مانتا..اَلْکِبْرِیَآئُ رِدَائِیْ.تکبّر خدا کی صفت ہے.انسان کیلئے تکبّر کرنا بہت ہی بُری چیز ہے.مَیں جب پاخانہ میں جاتا ہوں تو مجھ کو خیال ہوتا ہے کہ جس کے اندر سے یہ نکلتا ہے وہ کبریائی کرے ذرا ہوا بند ہو جائے تو بس پھر خاتمہ ہے.پھر قریباً سب کی مائیں جو چُوہڑیوں کا کام کرتی ہیں ۱؎.بس انسان کو اپنی ذات پر کیا گھمنڈ ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۷۵. ۱؎ یعنی بخّوں کو پاخانہ پیشاب کروایتی اور ان کے کپـڑے وغیرہ صاف کرتی ہیں.(مرتّب) : افسوس کہ آجکل قرآن مسلمانوں نے پانچ کاموں کیلئے بنا رکھا ہے ۱.سرحد میں تو اس لئے کہ کسی کے ساتھ دغا کرنا ہو تو اس پر پنجہ لگاتے ہیں ۲.کچہری میں جھُوٹی قسموں کیلئے ۳.عام طور پر کسی جنتر منتر کیلئے ۴.حافظ لوگ کبریائی کیلئے کہ کوئی کہے ہم بھی حافظ ہیں ۵.بعضے روپیہ کمانے کیلئے.کئی لوگ آتے ہیں مجھے کہتے ہیں.کوئی وظیفہ بتاؤ.ایک عامل نے بتایا کہمَنْ یَّتَّقِ اﷲَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ (الطلاق :۱۴) رٹا کرو.ہم اس نکتہ کو سمجھ گئے کہ یہ رٹنے کیلئے نہیں.عمل کیلئے ہے.پھر اسے مجرّب پایا.متقی بن جاؤ.خدا اپنی جناب سے رزق دیگا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۷۶. سو جو یقین لائے اﷲ پر اور اس کو مضبوط پکڑا تو ان کو داخل کرے گا اپنی مِہر میں اور فضل میں اور پہنچا دیگا اپنی طرف سیدھی راہ پر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۵،۱۳۵)
۱۷۷. : ربط پہلی آیات سے یہ ہے کہ مسیحؑ مر چکا.وہ کلالہ تھے اس لئے اس کے بھائی اسمٰعیل وارث ہوئے.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت قلم دوات منگوائی اور چاہا کہ مَیں تم کو ایسی بات لکھ دوں کہ اَنْ تَضِلُّوْا (کہ تم میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہو).جن لوگوں کی عقل باریک اور سمجھ مضبوط اور علم کامل تھا وہ سمجھ گئے کہ انہوں نے اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام کی طرف متوجّہ کیا اور جس کی زبان پر حق چلتا تھا.اُس نے اس بات کا یقین کر لیا.کہ آپؐ جو بات ہمیں لکھنا چاہتے تھے.وہ یہی کتاب تھی.چنانچہ اس نے صاف کہا کہ حَسْبُنَا کِتَابَ اﷲ یہ ایک نکتۂ معرفت ہے جو ایک زمانہ میں اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر کھولا تھا.آنحضرتؐ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ہیں کہ میں ایسی بات لِکھ دوں کہ اَنْ تَضِلُّوْا دوسری طرف قرآن مجید میں یہ آیات موجود ہیں یُبَیِْنُ اﷲُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا بمعنے لِئَلَّا تَضِلُّوْا پس تطابق سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن ایک کافی کتاب ہے.(الحکم ۱۴؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۹)
سُوْرَۃُ الْمَآئِدَۃِ مَدَنِیَّۃٌ ۲. سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران ہر دو میں جہاد کا ذکر ہے ہاں پہلی میں زیادہ تر یہود مخاطب ہیں اور دوسری میں نصارٰی.پھر سورۃ نساء اور اس سورۃ مائدہ میں اندرونی نظام کا ذکر ہے.کیونکہ گھر بیٹھے بیٹھے بھی بڑے بڑے کام کرنے پڑتے ہیں اور بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں.دونوں سورتوں میں تمدّن و معاشرت کا ذکر ضروری تھا.چونکہ بآرام بیٹھے بیٹھے مباحثات بھی چھڑ جاتے ہیں.اس لئے نساءؔ میں یہود کے ساتھ اور مائدہؔ میں نصرانیوں کے ساتھ مباحثہ کا طریق سکھایا ہے.تم لوگوں ( احمدیوں ) کو اپنے فرضِ منصبی کا خیال رکھنا چاہیئے.کیونکہ دونوں قوموں سے تمہیں بھی مقابلہ ہے.تم میں سے بعض سپاہی تو ہیں جو قلم کا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں.مگر بہت وہ ہیں جو آرام سے بیٹھے ہیں.ان کو چاہیئے کہ وہ مناظرہ کا طرز سیکھیں.پہلی سورۃ میں بیبیوں کے تعلّقات کا بھی ذکر ہے.میں نے کسی کتاب میں جو خدا کی طرف منسوب کی گئی ہو اس شرح و بسط کے ساتھ معاشرت کا ذکر نہیں دیکھا.تھوڑا ذکر تورات میں ہے.مگر انجیل.پھر وید اس سے بالکل خالی ہیں.دیانند کی ستیارتھ پرکاش دیکھی مگر جب بیبیوں کے تعلقات کا ذکر آیا تو منوؔ وغیرہ کے حوالے دیئے.اگر ویدؔ پر ہاتھ پڑتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتا.مجھے تعجّب ہے کہ انجیل میں تمدّن کا کوئی ذکر نہیں بیبیوں کی معاشرت کے متعلق کوئی مسئلہ نہیں مگر
پھر بھی عیسائی اپنی بیبیوں کے ساتھ کیسی محبّت کرتے ہیں.مسلمانوں میں کس قدر تاکید ہے مگر انہوں نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی.یہ قرآن مجید کی سخت بے ادبی ہے.مجھے بہت دُکھ پہنچتا ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ (روم : ۲۲ ) ( روم : ۲۲ )کی مطلق پرواہ نہیں کی جاتی.چونکہ معاشرت میں پہلی بات معاہدہ ہے اس لئے پہلے تو اسے نباہنے کی تاکید فرمائی کہ اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ یعنی لین دین.بِعْتُ.اِشْتَرَیْتُ.زَوَّجْتُ.تَزَوَّجْتُ ہیں.یہ سب عقد ہیں.حتٰی کہ ( نساء : ۲۲) اگر پوچھو کہ میثاقِ غلیظ کیا ہے.تو کئی ہیں جن کو اس کا علم ہی نہیں.بس نکاح میں نوبہار ایک خطبئہ فارسی ہے وہ پڑھ دیں گے.فرماتا ہے تمام عقود.قرض لین دین.بیاہ و دوستی و دیگر معاہدات وفاداری کے ساتھ نبا ہو.ہمارے ساتھ بھی بعض لوگوں نے عقد باندھا ہے کہ جو بھلی بات کہو گے.مان لیں گے.ہم نے تمہیں کئی بھلی باتیں بتائیں.ان پر عمل چاہیئے.یاد رکھو کہ اگر لوگ معاہدات پر قائم ہو جائیں تو تمدّن میں بڑا آرام ہو جائے اور کبھی کوئی جھگڑا نہ اُٹھے.چونکہ کھانا پینا بھی معاشرت میں شامل ہے.اس لئے فرمایا کہ حلال کھاؤ.اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ قرآن شریف میں بکری.بھیڑ دُنبہ.ہرن.گائے.نیل گائے.اُونٹ کو بَھِیْمَہ کہا گیا ہے.غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عبد بنانا چاہا ہے.تمام وہ اعضاء جو شریعت کے ماتحت رکھے ہیں انکو فرمانبرداری سکھائی ہے.مثلاً بولنا.اس کے متعلق حکم جاری کیا کہ لغو مت بکو.اب ہم کو واجب ہے کہ دیکھیں بولنا مفید ہے یا نہیں.فرمایا بولو مگر جھوٹ نہ بولو.لَعْنَۃُ (آل عمران : ۶۲ )جھوٹ نہ بولیں تو پھر کیا کریں.سچ بولیں مگر پھر یہاں بھی اپنی معبودیت کا رنگ جمایا ہے اور کہا کہ دیکھو.سچ میں سے بھی ایک سچ منع ہے.وہ کیا؟ غیبت.صحابہؓ نے پوچھا کہ کسی میں وہ عیب واقعی ہو تو اس کا تذکرہ تو بُرا نہ ہو گا.نبی کریم صلّی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.یہی تو غیبت ہے.اگر وہ عیب واقعی نہیں تو اسکا نام بہتان ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جابجا اپنی عبودیت سکھائی ہے.پھر سچ ہو.غیبت نہ ہو.تو اسکے ساتھ یہ بھی کہا کہ مجاز بولو مگر ایک دو مجاز کی بھی اجازت نہیں.مثلاًاَنْبَتَ الرَّبِیْعُ الْبَقْلَ(بہار نے سبزی اُگائی)بول سکتے ہیں مگرمُطِرْنَا بِنَوْئٍ کَذَا بولنا منع ہے حالانکہ یہ صحیح ہے کہ جب بُرج آبی میں چاند چلا گیا تو بارش ہوتی ہے.مگر حکمِ الہٰی آ گیا کہ ایسا کہنا چھوڑ دو تو چھوڑنا پڑا.اسی طرح جانوروں کے کھانے کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ہرنی بھی بے شک بکری ہے اور نیل گائے بھی گائے ہے.حالتِ احرام میں شکار نہ کرو.وجہ سمجھ نہ آئے تو عام مومن یہی سمجھ لیں. اﷲ جو چاہتا ہے حکم
دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۳. : جن چیزوں سے اﷲ پہچانا جاتا ہے.انکی بے حرمتی مت کرو.ہم نے قرآن مجید سے خدا کو پہچانا.اس لئے اسکی بے حرمتی جائز نہیں.بھلا یہ ہُرمت ہے کہ اس پر پاؤں رکھ لو.یا اور کتابوں کے نیچے رکھو.یا یونہی صفوں پر ڈال دیا جاوے.میں نے بھی تمہیں پہچان کی راہ بتائی ہے.میری بھی حُرمت کرو.: اس پر حُرمت کے مہینے وہ بھی شعائر اﷲ ہیں ان سے خدا کا شعور حاصل ہوتا کہ کس قدر لوگ اکٹھے ہوتے ہیں.: اسی طرح قربانیوں کے جانور ہیں کہ وہ سکھاتے ہیں کہ اس طرح انسان کو اپنے آقا کے حضور جان دینی چاہیئے.دنیا کے آقاؤں کے لئے جان دیتے ہیں.پس دنیا و آخرت کے آقا زمین و آسمان کے مالک پر جان کیوں نثار نہ کریں.
: اگر کوئی دشمن ہے تو اس سے دشمنی کی حد بندی کرو.حدبندی نہ کرو گے تو دن بدن دشمنی بڑھتی جاوے گی.: کسی آدمی سے دشمنی ہے تو دشمنی کے باعث اس سے قطع تعلّق نہ کر لو اگرچہ وہ دشمن ایسا ہے کہ عزّت کے مقام سے تمہیں روکتا ہے.: اگر تمہیں کوئی مسجد میں نماز پڑھنے سے روکتا ہے تو جس مسجد میں تمہارا اختیار ہے اس میں نماز پڑھنے سے نہ روکو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵ۃاگست ۱۹۰۹ء) : اور ایک دوسرے کی مدد کرو.خداترسی اور نیکی کے کاموں میں اور مت مدد کرو بغاوت اور بدکاری کے کاموں میں.(نورالدّین (ایڈیشن سوم) صفحہ ک.۲۰) ۴.
: معاشرت میں ضرورت ہے عمدہ اخلاق کی اور بدن کو حوادث سے محفوظ رکھنے کی.پس مُردار کو استعمال کر کے جان کو ہلاکت میں مت ڈالو.اسی طرح خون میں بھی بہت سی زہریں ہوتی ہیں.وہ لطیف طاقتیں جو خدا کی معرفت کیلئے ضروری ہیں خون کھانے والوں میں نہیں رہتیں.چوہڑے (ہلاک خور) کو اگر جنابِ الہٰی کی عظمت و جرأت کا مضمون سمجھاؤ تو وہ نہ سمجھے گا.اسی طرح لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ.سؤر کا گوشت ہے جو شہوت و غضب کو بڑھا دیتا ہے بعض آدمی بات بات پر آگ ہوتے ہیں.گویا ان کا دوزخ انکے ساتھ ہوتا ہے.چلتے ہوئے ناک چڑھاتے جائیں گے.ہر وقت ایک جلن محسوس کرتے رہیں گے.شیر باوجود اتنا بہادر ہونے کے اپنے دشمن کے مقابلہ میں احتیاط کرتا ہے اِدھر اُدھر ہو کر حملہ کرتا ہے.مگر سؤر غضب کے وقت سیدھا آتا ہے اسی طرح اس جانور میں شہوت بڑی ہوتی ہے.تمام گناہوں کی مبدء یہی دو قوتیں ہیں.غضب و شہوت.اس لئے اس کا گوشت کھانے سے منع فرمایا.: پھر وہ چیزیں ہیں جن پر غیر اﷲ کا نام لیا جاوے.ان کا کھانا بلحاظ عقائد اﷲ سے بُعد میں ڈال دیتا ہے.اس کے بعدمَیْتَۃ اورمَآ اُھِلَّ کی کچھ تفصیل دی.پہلے پہلے اسلام نے عقائد سکھائے.اﷲ کی عظمت.پھر ملائکہ پھر رسولوں پھر کتابوں کا علم سکھایا.پھر عبادت کے طریق بتلائے.پھر زکوٰۃ.روزہ.حج.پھر بتدریج سکھاتے سکھاتے تمدّن کے ضروری مسائل سکھائے.پھر کھانے پینے کے مسئلے بھی بتا دیئے.اس پر کہا کہ اب تو تمہارا کھان پان بھی بیان ہو چکا اس لئے شریعت کے اصول کامل ہونے سے کافر نا اُمید ہو گئے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) حرام کیا گیا تم پر مُدار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر غیر اﷲ کا نام پکارا جائے (نورالدّین (ایڈیشن سوم) صفحہ یج.۱۳) اسلام نے بعض قربانیوں کو قطعًا حرام اور نیست و نابود کر دیا ہے.اوّلً وہ قربانیاں جن میں بُت پرستی اور شرک ہو.کیونکہ شرک میں مبتلا انسان بحیثیت مشرک ہونے کے حقیقی اسباب کو ترک کر کے اپنی دیوی دیوتا سے اُمّیدوار کامیابی کا ہوتا ہے اس لئے حقیقی کامیابی سے محروم رہتا ہے اور دوسرے ان مشرکوں اور پُجاریوں کو اپنی ا
اپنی دکان گرم کرنے کیلئے صدہا جھوٹے قصّے بنانے پڑتے ہیں.اس لئے توحید کی حامی شریعت نے ایسی تمام قربانیوں کو باطل کر دیا اور محرمات میں اس کو رکھ دیا اور فرمایا .حرام کیا گیا تم پر مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ چیزیں جن پر اﷲ کے سوا کا نام پکارا جاوے اور ہمارے صوفیا کرام نے تو یہاں تک احتیاط اور تاکید کو اختیار فرمایا ہے کہ وہ کہتے ہیںمَاؔ کا لفظ جو مَآ اُھِلَّ میں آیا ہے.وہ عام اور وسیع ہے.پھر حضرت شیخ ابن عربی نے فتوحاتِ مکیہ میں لکھا ہے.دیکھو فتوحاتِ مکیہ جلد نمبر ۳ صفحہ نمبر ۶۳۱ باب نمبر ۳۹۸ والشِّعْرُ فِی غَیْرِ اﷲِ بِہٖ فَاِنَّہٗ لِلنَّیَّۃِ بِہٖ اَثَرٌ فِی الْاَشْیَآئِ وَاﷲُ یَقُوْلُ وَمَآ اُمِرُوْآ اِلَّا لِیَعْبُدُوا اﷲَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ.(پ ۳۰ بیّنہ) غیر اﷲ کیلئے شعر کہنا سے ہے کیونکہ نیّت کا اثر چیزوں میں ہوا کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اور نہیں حکم کئے گئے وہ لوگ مگر اس بات کا کہ عبادت و پرستش کریں اﷲ کی صرف اس لئے خالص کرنے والے ہوں اپنے دین کو.ہم نے اپنی کتاب میں ایسے شعروں سے پرہیز کیا ہے جو کسی محبوبِ مجازی کے حق میں یا غیر اﷲ کے لئے وہ شعر بولے گئے کیونکہ وہ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ ﷲِ ہیںاور وہ حرام ہیں.دومؔ ان تمام سوختنی قربانیوں سے روک دیا گیا ہے.جو اشیاء آگ میں تباہ کی جاتی ہیں اور جن کا ذکر صدہا بلکہ ہزار ہا بار یجر.رگ.سام ویدوں میں ہوا ہے… تیسریؔ وہ تمام قربانیاں موقوف کر دیں جن میں یہ خیال پیدا ہو سکے کہ وہ تراکیب ہمارے گناہوں بدکاریوں ، نافرمانیوں کا کفّارہ ہوں گی.ایسی ہی قربانیوں نے جو ایک برّے کی ہوئی یا نہ ہوئی تمام عیسائیوں کو دلیر و بے باک کر دیا ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۴۰.۱۴۱) .یہ آیتِ شریفہ قرآن مجید میں کس وقت نازل ہوئی؟ ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے عرض کیا.کہ ایک آیت آپ کی کتاب میں ہے.اگر ہماری کتاب میں ہوتی تو جس دن وہ اُتری تھی اُسے عید کا دن قرار دیتے.حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ وہ کون سی آیت ہے تو اُس نے یہ آیت پڑھیوَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتم جناب عمرؓ نے فرمایا کہ یہ آیت کب نازل ہوئی؟ کس وقت نازل ہوئی؟ کہاں نازل ہوئی؟ مَیں اسے خُوب
جانتا ہوں.وہ جمعہ کا دن تھا.وہ عرفہ کا دن تھا.وہ اسی عیدالاضحٰی کا مقدمہ تھا.عرفات میں نازل ہوئی تھی.اس کے بعد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم… ۱؎ روز زندہ رہے.یوں تو اﷲ جلّ شانہ، کا نزول ہر روز خاص طرز پر رات کے آکر ثُلث میں ہوتا ہے مگر جمعہ کے دن پانچ دفعہ اور عرفات کو نو دفعہ نزول ہوتا ہے.احادیثِ صحیحہ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ شیطان ایسا کبھی یَأْس میں نہیں ہوتا.جیسے عرفات کے دن.یہ وہ دن ہے کہ اﷲ جلّ شانہ، نے ہماری نعماء دینیہ کیلئے جس کتاب کو نازل کیا تھا اُسے کامل کر دیا.کامل دین جس کا نام اسلام ہے اُسے اُسی دن کامل کر دیا جس دین کی متابعت ضروری اور اس پر کاربند ہونا سعید انسان کو لازم ہے.اس کے اصول اور فروع اﷲتبارک و تعالیٰ نے اس دن میں تمام و کامل کر دیئے وہ چیز جس کو کامل طور پر تمہیں نہیں بلکہ دنیا کو پہنچانے کیلئے سرورِ عالم فخرِ بنی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ساری دعاؤں اور کل طاقتوں اور مساعی جمیلہ کو پورے طور پر لگایا تھا.اس کا نام اسلام ہے.اور اسکی تکمیل کا دن جمعہ کا مبارک دن اور عرفات کا پاک دن ہے.تمام ادیانِ مروّجہ اور مذاہبِ موجودہ کا مقابلہ کرنا چاہیں اور غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہو گاکہ کیا بلحاظ اول کے اور کیا بلحاظ حفظِ اصول اور فروع کے وہ اسلام کے مقابلہ میں کچھ حقیقت ہی نہیں رکھتے.اور بالکل ہیچ دکھائی دیتے ہیں اس کے اہم ترین اُمور میں سے اﷲ جل شانہ ،کا ماننا.اس کا اسماء حُسنٰی اور صفات و محامد میں یکتا و بے ہمتا ماننا ہے جس کا خلاصہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ میں موجود ہے جس کا نام افضل الذّکر ہے اور جس کی نسبت رسولاﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ۱؎ ۹۰ (نوّے) دن.مرتّب کُل نبیوں کی تعلیم کا خلاصہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ پسند کرتا ہے.اور آج میں بھی کہتا ہوں اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہٗ لَا شَربیْکَ لَہٗ.اس کی حقیقت یہ ہے انسان اﷲ کی ہستی کی برابر اور ہستی کو یقین نہ کرے.اور اﷲ تعالیٰ کو اسماء میں افعال میں یکتا.وجُود و بقاء میں یکتا.تمام نقائص سے منزّہ اور تمام خوبیوں سے معمور یقین کرے.وہی معبود حقیقی ہے اُس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت جائز نہیں.عبادت کا مدار ہے حُسن و احسان پر.پھر یہ دونوں باتیں بدرجہ کامل کس میں موجود ہیں.اﷲ ہی میں.احسان دیکھ لو.تم کچھ نہ تھے تم کو اُس نے بنایا.کیسا خوبصورت تنو مند اور دانش مند انسان بنا دیا.بچّے تھے ماں کی چھاتیوں میں دُودھ پیدا کیا.سانس لینے کو ہوا.پینے کو پانی.کھانے کو قسم قسم کی لطیف غذائیں.طرح طرح کے نفیس لباس اور آسائش کے سامان کس نے دیئے؟ خدا نے ! میں کہتا ہوں.کیا چیز ہے جو انسان کو فطرۃًمطلوب ہے اور اس نے نہیں دی.سچّی
بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے احسان اور افضال کو کوئی گنِ ہی نہیں سکتا.حُسن دیکھو تو کیسا اکمل.ایک ناپاک قطرہ سے کسی خوبصورت شکلیں بناتا ہے کہ انسان مَحو ہو ہو کر رہ جاتا ہے.پاخانہ سے کیسی سبز اور نرم دل خوش کن کونپل نکالتا ہے.انار کے دانے کس لطافت اور خوبی سے لگاتا ہے.اِدھر دیکھو.اُدھر دیکھو.آگے پیچھے.دائیں بائیں.جدھر نظر اٹھاؤ گے اُس کے حُسن کا ہی نظارہ نطر آئے گا اور یہ بالکل سچّی بات پاؤ گییُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (الجمعہ : ۶۳)ساری دنیا میں جس قدر مذاہبِ باطلہ ہیں.انہیں دیکھو گے تو معلوم ہو گا کہ اﷲ تعالیٰ کے کسی اسم یا صفت کا انکار کیا ہے اور اسی انکار نے انکو بطلان پر پہنچا دیا ہے.ایک بُت پرست اگر خدا تعالیٰ کو علیم.خبیر.سمیع.بصیر.قادر جانتا ہے تو کیوں پتھر.شجر.ہوا.سورج.چاند اور ارذل ترین چیزوں کے سامنے سجدہ کرتا اور اسکی اُستتی کرتا ہے اور کوئی جواب نہیں ملتا تو یہی عذر تراش لیا کہ ہماری عبادت صرف اس لئے ہے کہ یہ أَصنام و معبود ہم کو اﷲ تعالیٰ کیے حضور پہنچا دیں اور مقرّب بارگاہِ الہٰی بنا دیں.اصل یہی ہے کہ وہ اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ خدا تعالیٰ ہر غریب و گنہگار کی آواز سنتا ہے اور ہر ایک دُور شدہ کو نزدیک کرنا چاہتا ہے.اونچی آواز سے پکار و یاد ھیمی آواز سے.وہ سمیع ہے.اگر ایسا مانتے تو کبھی بھی وہ مخلوقِ عاجز اور ناکارہ مخلوق کے آگے، ہاں ان اشیاء کے آگے جو انسان کیلئے بطور خادم ہیں سر نہ جھکاتے اور یوں اپنے ایمان کو نہ ڈبوتے… سچّے پرستارِ الہٰی اور مخلص عابد بنو.خدا کی طرف قدم اٹھاؤ.یہاں بھی رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فرمایا.اسلام کا لفظ چاہتا ہے کہ کچھ کر کے دکھاؤ موجودہ حالت میں ہم نے ( ہم سے مُراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے امام ۱؎کے ہاتھ پر توبہ کی ہے) اور مسلمانوں سے بڑھ کر امتیاز پیدا کیا ہے.ہم میں مُلْہَمْ ہے.ہم میں ہادی اور امام ہے.ہم میں وہ ہے جس کی خدا تائید کرتا ہے.جس کے ساتھ خدا کے بڑے بڑے وعدے ہیں.اس کا حَکَمْ اور عَدْل بنا کر خدا نے بھیجا ہے مگر تم اپنی حالتوں کو دیکھو.کیا مدد اور عمل درآمد کیلئے بھی ایسا ہی قدم اٹھایا جیسا کہ واجب ہے.(الحکم ۵؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۳ تا صفحہ۵) جو دین لے کر یہ خدا کا سچّا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آیا.اس کا نام اسلام رکھا جس کے معنی ہی میں سلامتی موجود ہے یہی وہ دین ہے جس کی نسبت اﷲ تعالیٰ نے اپنی رضامندی کا اظہار یہ کہہ کر فرمایا : اور اس اسلام پر عملدر آمد کرنے والے سچّے مسلمان کو جس نتیجہ پر پہنچایا
دارالسّلام ہے.پس کوئی ہے جو اس قدر سلامتیوں کو چھوڑے؟ وہی جو دنیا میں سب سے بڑھ کر بدنصیب ہو! (الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) یہ بالکل سچّی بات ہے کہ خلفائے ربّانی کا انتخاب انسانی دانشوں کا نتیجہ نہیں ہوتا.اگر انسانی دانش ہی کا کام ہوتا تو کوئی بتائے کہ وادیٔ غیر ذی زرع میں وہ کیونکر تجویز کر سکتی ہے.چاہیئے تو یہ تھا.کہ ایسی جگہ ہوتا جہاں جہان پہنچ سکتے.دوسرے ملکوں اور قوموں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے اسباب میسّر ہوتے مگر نہیں.وادیٔ غیر ذی زرع ہی میں انتخاب فرمایا اس لئے کہ انسانی عقل اُن اسباب و وجوہات کو سمجھ ہی نہیں سکتی تھی جو اس انتخاب میں تھی.اور ۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام.ناقل ان نتائج کا اس کو علم ہی نہ تھا جو پیدا ہونے والے تھے عملی رنگ میں اس کے سوا دوسرا منتخب نہیں ہوا.اور پھر جیسا کہ عام انسانوں اور دنیاداروں کا حال ہے کہ وہ ہر روز غلطیاں کرتے اور نقصان اٹھاتے ہیں آخر غائب اور خاسر ہو کر بہت سی حسرتیں اور آرزوئیں لے کر مَر جاتے ہیں لیکن جناب الہٰی کا انتخاب بھی تو ایک انسان ہی ہوتا ہے.اس کو کوئی ناکامی پیش نہیں آتی.وہ جدھر مُنہ اٹھاتا ہے اُدھر ہی اس کے واسطے کامیابی کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور وہ فضل.شِفا.نور اور رحمت کہلاتا ہے.اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ کی صدا کس کو آئی؟ کیا اپنی دانش اور عقل کے انتخاب کو یا وادیٔ غیر ذی زرع میں اﷲ تعالیٰ کے انتخاب کو؟ جناب الہٰی ہی کا منتخب بندہ تھا جو دنیا سے نہ اُٹھا جب تک یہ صدا نہ سُن لی.پس یاد رکھو کہ مامور من اﷲ کے انتخاب میں جو جنابِ الہٰی ہی کا کام ہے چُون و چرا کوئی درست نہیں ہے.ہزارہا مصائب و مشکلات آئیں وہ اس کوہِ وقار کو جنبش نہیں دے سکتیں آخر کامیابی اور فتح ان کی ہی ہوتی ہے.(الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۵) حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہی معجزات تھے کہ تمام عرب مقابلہ میں عاجز ہو گئے اور ایسا عجز اختیار کیا کہ اپنے خیال بدلے سب سے آخر دست بردار ہو گئے.اﷲ اﷲ کیسے آیات بیّنات ہیں اور کیسے برکات ہیں.کیا کوئی قریشی آپؐ کا مخالف دنیا میں موجود ہے.آپؐ کی ساری قوم آپؐ کے سامنے آپؐ کے جیتے جی اس دین میں داخل ہو گئی جس میں داخل کرنے کا آپؐ نے بیڑا اٹھایا تھا.عرب کے ایسے شہر میں جہاں آپؐ نے وعظ شروع کیا ( قربانت شَوَم) یا رسول اﷲ ( صلی اﷲ علیہ وسلم) یہ الہام سُن لیااَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِ ط اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا.یہ نُصرت کسی ہادیٔ مذہب کو اپنے سامنے اپنی زندگی میں ہوئی تو اس کی نظیر دو.اس بے نظیر کامیابی میں بھی اعجاز ظاہر ہے اور عدمِ نظیر میں اس کامیابی کے خرقِ عادت ہونے میں کون ساشُبہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۴۱.۴۲)
دُنیا میں صرف آپ (رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم) ہی اکیلے ایسے کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْکی آواز اپنی زندگی میں اپنے کانوں سے سُنی.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ن.۵۰) قرآن کریم حسب ارشاد الہٰی اِکمال کیلئے آیا ہے.جیسے اس نے فرمایا اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۲۳۲) ۵. : پوچھتے ہیں.کیا کیا حلال ہے؟ ہم نے حرام بتا دیئے ہیں.باقی سب حلال ہیں.مگر شرط یہ ہے کہ طیّب ہوں.فطرتِ صحیحہ بتا دیتی ہے کہ طیّب کیا ہے.مثلاً پاخانہ ہے.یہ بدن سے نکالا گیا ہے.پس اسے واپس کرنا فطرت کے خلاف ہے.طَیِّبٰت : جن سے تمہارے بدن اور اخلاق و مذہب کو ضرر نہ پہنچے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۶.
: یعنی اہلِ کتاب تمہاری دعوت کریں تو حلال ہے.بشرطیکہ کوئی حرام چیز نہ ہو.: شہوت کے مٹانے کیلئے ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) جس قوم کو باہر نکلنے کا اتفاق نہیں ہو اور نہ ان کو ضرورتیں پیش آئیں اور وہ نہیں جانتے تھے کہ بعض جگہ گائے کا دُودھ اور جَو کے سَتُّو اور ساگ نہیں مل سکتا.گو بیہودہ لاف زنی سے کہتے ہوں کہ ہمارے بزرگ چکر ورتی راجہ تھے.وہ اُحِلَّلَکُمُ الطَّیِّبٰتَ ط وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَکا سرّکس طرح سمجھے.تجربہ کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ سکتا.غرض جامع کتاب کو سب کچھ جو انسان کیلئے ضروری البیان ہے.بیان کرنا پڑتا ہے.اگر وہ کتاب بیان نہ کرے جو اپنے آپ کو کامل و جامع کہتی ہے تو کون بیان کرے.اگر آپ نہ سمجھیں یا نہ چاہیں.تو آپ کی خاطر کیوں ضرورتوں کے بیان کو ترک کیا جاوے.کیا ساری دُنیا برہمچر یہ مذہب رکھتی ہے.اﷲ تعالیٰ نے دماغ.برین اور اعصاب میں مختلف خواص رکھے ہیں ان خواص کو مدّ نظر رکھنا کامل کتاب کا کام ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۳۴) : نکاح سے یہ غرض ہو کہ تم پابندی میں رہنے والے ہو نہ مستی نکالنے والے اور نہ یارانہ کے طور پر عورتوں کو رکھنے والے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ یہ.۱۵) ۷.
سورۃ نساء میں معاشرت کا ذکر ہے جو اپنی بی بی.بچّے.نوکر.ماں باپ کے ساتھ تعلقات میں عمدگی کا نام ہے اور تمدّن کا ذکر ہے.جو کسی گاؤں یا شہر میں مل کر رہنے کے اصُول کا نام ہے.کچھ باتیں پچھلے رکوع میں بتائی ہیں.اب کچھ اور فرماتا ہے کہ عمدہ معاشرت میں یہ بھی ضروری ہے کہ خدا کی یاد سے غافل نہ ہوں.مِل کر نمازیں پڑھیں اور نمازوں کے لئے وضو کرو جس کا طریق سکھاتا ہے.: اپنے مُنہ دھولو.ہاتھ کا ذکر اس لئے نہیں کیا کہ یہ فطری بات ہے.کوئی ہاتھ ناپاک ہو تو منہ نہ دھوئے گا.: باہر سے آئے.پاخانہ.پیشاب.ریح : چھُونے کے دو معنی ہیں.صرف ہاتھ لگانا.دوم ؔصُحبت کرنا.دونوں معنے بہت عمدہ ہیں.: اﷲ تعالیٰ نے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی.اگر پانی نہیں مِلتا یا مِلتا ہے.مگر اس کے لینے میں خوفِ نقصان مال یا جان یا عزّت ہے تو پھِر مٹی سے تیمم کر لو.اس بات میں بحث ہے کہ صاف پتھر پر کہ از جنس ارض ہے تیمم ہو سکتا ہے یا نہیں؟
: ایسی باتیں بتا کے اﷲ طہارت کی رُوح تم میں پھونکنا چاہتا ہے.ان ذرائع سے ترقی کرو.تو اﷲ تم پر اپنی نعمت کامل کر دے گا شریعت نے ہر ظاہر کیلئے ایک باطن رکھا ہے مثلاً ہر چیز کو دائیں ہاتھ سے لینے کا حکم ہے.دائیں کو فارسی میں راست اور اُردو میں سیدھا.عربی میںیَمِیْن اور بائیں کو چَپْ.اُلٹا.شمال کہتے ہیں.اس میں ایک نصیحت ہے.کہ لین دین میں ہمیشہ راستی کو مدّ نظر رکھو.سیدھا دو.اُلٹے ہاتھ سے نہ دو.نہ لو ایسا ہی انسان کو اپنی قومیّت کا گھمنڈ ہوتا ہے.اس میں اصلاح فرماتا ہے کہ تم کو ماء یا تراب سے پیدا کیا.آخر تم انہی میں ملنے والے ہو.ضرورت کے موقع پر انہی سے ظاہری جسم پاک کرنے کا ارشاد کیا جیسا کہ انکی اصلیت کا خیال باطنّی خیالات کو پاک کرنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) مِّنْہ : شوافع مِنْ بعضیہ بتاتے ہیں حنفی ابتدائیہ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۸. : اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْل (۱۱۳) بھی ایک عہد ہے.: ظاہر داریوں سے کام نہیں چلے گا.وہ تمہارے سینہ کی باتوں سے واقف ہے.اب چونکہ معاشرت میں تعظیم لِاَمْر اﷲ کے سوا شفقت علیٰ خلق اﷲ بھی چاہیئے اس لئے اسکی نسبت ہدایت فرماتا ہے کہ چونکہ معاملات میں مقدمات بھی ہوتے ہیں اس لئے جب تم ان میں گواہی دو تو.۹.
: تو تمہاری گواہیاں اﷲ کیلئے عدل کیساتھ ہوں.: کسی کی دشمنی انصاف کی مانع نہ ہو.مثلاً آریہ لوگ تم کو دفتروں سے نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.تو اسلام کی یہ تعلیم نہیں کہ تم ان کے مقابلہ میں بھی ایسی کوشش کرو.جہاں تمہیں اختیار حاصل ہے.: تقوٰی کا علاج بتایا کہ تم یہ یقین رکھو کہ تمہارے کاموں کو دیکھنے والا اور ان سے خبر رکھنے والا بھی کوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۰. : چونکہ پھر بھی انسان کمزور ہے اس لئے فرمایا کہ جن مومنوں کے اعمالِ صالحہ زیادہ ہوں ان کیلئے مغفرت ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۲. : حُدیبیہ میں بھی ایسا معاملہ ہوا کہ دشمن کی ضرر رسانی سے مسلمانوں کو بچا لیا تبوک کے راستے میں بھی یہ فضل ہوا.مدینہ طیّبہ میں بھی جب یہود نے چکّی کا پاٹ گرانا چاہا تو آپؐ محفوظ رہے.اسی طرح ہر زمانہ میں خدا کے برگزیدوں اور ان کی جماعت کو مشکلات پیش آتے ہیں.اور
وہ دشمنوں سے بچائے جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۳. : اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں کبھی یہود کا ذکر کرتا ہے کبھی عیسائیوں کا کبھی مُشرکوں کا.کبھی ابراہیم و موسٰی کا.ہمارے سامنے نہ یہود ہیں.نہ موسٰی ہیں.پس ہم کو اور تم کو سُناتا ہے.فرعون کس طرح فرعون بنا.اور موسٰی کیونکر موسٰی ہوا.فرماتا ہے.ہم نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا تھا اور ان میں بارہ سردار بنائے.چھاؤنیوں کو اب تک بارہ پتھر کہتے ہیں.حضرت مسیحؑ کے بھی بارہ حواری بناتے.ہمارے بنی کریمؐ نے فرمایا.کہ بارہ شخص قریشی بڑے خلیفہ ہوں گے.حضرت ابوبکرؓ کے عہد میں کوئی اسلامی ملک ایسا نہ تھا جو حضرت ابوبکرؓ کے تحت تصرّف سے باہر ہو.اسی طرہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور انکے چچوں تک دنیا کے مسلمانوں کا ایک سردار ہوتا تھا.سردار ہوتا تھا.دوسرا دعویدار نہ تھا.حضرت امیر معاویہؓ نے حضرت علیؓ کے زمانہ میں قطعاً خلافت کا دعوٰی نہیں کیا.: زکوٰۃ کے فرض کا لوگوں کو بہت کم خیال ہے.میں نے سوائے ایک کے کسی مولوی کو زکوٰۃ دیتے نہیں دیکھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۴.
: مسلمانوں میں عیاشی حد سے بڑھ گئی تو خدا نے ایک شخص کو مسلط کیا جس کا نام ہلا کوؔتھا.اسلام جہاں جہاں بادشاہ ہو ا اُس نے غیر قوموں کو رہنے دیا لیکن عیسائیوں کے تین زمانے ہیں، ایک زمانہ تو اس کا وہ ہے کہ انہوں نے زبردستی لوگوں کو عیسائی بنایا.اور ظلم کئے.دیکھو.اسلام کا حال سپین میں.پھر شبہات.شکوک دوسروں کے مذہب میں ڈالنے شروع کئے یہ بھی ایک چیز ہے.پھر یہ کہ خاص عہدے عیسائیوں کیلئے مخصوص ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) : پس ان سے عفو کر اور درگزر.بے شک احسان والے خدا کو پیارے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۴) سو انکے عہد توڑنے پر ہم نے انکو لعنت کی.۱۵. اور ان لوگوں سے جنہوں نے کہا ہم نصرانی ہیں.ہم نے پختہ اقرار لیا ان کا اس یاد دلائی گئی بات پر عمل کرنا بھُول گئے.پھر ہم نے اُن میں عداوت اور بَیر کو اُکسادیا.سوچو اگر ان میں اتفاق ہوتا تو تمام
دُنیا پر جو چاہتے کرتے.مگر جرمن سے فرانس.روس سے انگلستان کو جو کچھ کھٹکا ہے ظاہر ہے.باایں کہ سب عیسائی ہیں! مسلمانو! تمہارا مالک رزاق اﷲ ایک.تمہاری کتاب ایک.تمہارا رسول محّمد صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا ایک.عیسائی تین کے بندے ہیں.آریہ چار کتابوں کے طبع ان میں اختلاف ہوتا تو ہوتا.ہم میں ایسی وحدت کے ہوتے اتنا تفرقہ بھی کیوں ہوا؟ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۳) جب لوگوں نے ترک کر دیا اس پاک راہ کو جس کی انکو تعلیم دی گئی تھی تو پھر ہم نے ان میں باہمی عداوت اور بغض کو مسلّط کر دیا.بھلا شیر اور اسکے شکار بلّی.چُوہے کا خالق کوئی صلح کرنے والا ہے یا لڑاکا؟ جو کوئی قوم باہمی محبّت و نیکی و ہمدردی و اخلاص اور دوستانہ برتاؤ کی تعلیم کو ترک کر دے اور نہ مانے تو ان میں باہمی عداوت و بُغض لَابُدی ہے یا نہیں؟ (نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۰) ۱۷. تمہارے پاس آئی ہے اﷲ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی جس سے اﷲ راہ پر لاتا ہے جو کوئی تابع ہو اس کی رضا کا.بچاؤ کی راہ پر.اور ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی میں اپنے حکم سے اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۵) : ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اگر وہ روزانہ ظُلمت سے نکل کر نُور کو نہیں جا رہا.تو وہ مومن نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۷. تمہارے پاس آئی ہے اﷲ کی طرف سے روشنی اور کتاب بیان کرتی جس سے اﷲ راہ پر لاتا ہے جو کوئی تابع ہو اس کی رضا کا.بچاؤ کی راہ پر.اور ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی میں اپنے حکم سے اور ان کو چلاتا ہے سیدھی راہ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۵) : ہر شخص کو دیکھنا چاہیئے کہ اگر وہ روزانہ ظُلمت سے نکل کر نُور کو نہیں جا رہا.تو وہ مومن نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۸.
شرک کیا ہے ؟ جس کے واسطے قرآن شریف نازل ہوا.سنو!.دوسرا مرتبہ صفات کا ہے.اﷲ تعالیٰ ازلی ابدی ہے.سب چیزوں کا خالق ہے وہ غیر مخلوق ہے.پس یہ صفات کسی غیر کیلئے بنانا شرک ہے.آریہ قوم نے پانچ ازلی مانے ہیں ۱.اﷲ قدیم ازلی ہے ۲.رُوح ازلی ہے ۳.مادہ ازلی ہے.۴.زمانہ ازلی ہے ۵.ّضاء ازلی ہے.جس میں یہ سب چیزیں رکھی ہیں.اس واسطے یہ قوم مُشرک ہے.عیسائی قوم نے کہا ہے کہ بیٹا ازلی ہے.باپ ازلی ہے.روح القدس ازلی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے. (المائدۃ : ۷۴) ایک قوم ہے جو اﷲ تعالیٰ کے علم میں اور تصرّف میں کسی مخلوق کو بھی شریک بناتی ہے.بد بختی سے مسلمانوں میں بھی ایس فرقہ ہے جو کہ پِیر پرست ہے حالانکہ رسول کریمؐ سے بڑھ کر کوئی نہیں.(بدرؔ ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۲) اِنْ اَرَادَ: اِنْ تاکیدیہ.جب ارادہ کیا اﷲ نے مسیحؑ اور اسکی ماں اور اس ملک کے لوگوں کے مارنے کا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۰) ۱۹. یہودیوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی رسالت اور وحی پر ایمان لانے سے جو چیز مانع ہوئی وہ یہی تکبّرِ علم تھاقٰرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ (المومن:۸۴) انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہمارے باس ہدایت کا کافی ذریعہ ہے.صحف انبیاء اور صحف ابراہیمؑ و موسٰیؑ ہمارے پاس ہیں.ہم خدا تعالیٰ کی قوم کہلاتے ہیں.کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم عربی آدمی کی کیا پرواہ
کر سکتے ہیں اس تکبّر اور خود پسندی نے انہیں محروم کر دیا اور وہ اس رحمتہ للعالمین کے ماننے سے انکار کر بیٹھے جس سے حقیقی توحید کا مصفٰی اور شیرین چشمہ جاری ہوا.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ ۶) بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر خدا نے رحم کیا اور موسٰی علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی.یہاں تک کہ وہ اپنے تئیں :سمجھنے لگے لیکن جب انکی حالت تبدیل ہو گئی.ان میں بہت ہی حرامکاری.شرک اور بد ذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اﷲ تعالیٰ نے ان پر مسلّط کر دیا.(بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) : آجکل سیّدوں کی بھی یہی حالت ہے.کوئی کبریائی ایسی نہیں جو ان میں نہیں حالانکہ بعض ذلیل ہو رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۲۱. کیسا ہی بد قسمت ہے وہ انسان جو اسباب کو مہیّا نہیں کرتا.اور وہ انسان تو بہت ہی بد قسمت ہے جس کو اسباب میّسر ہوں لیکن وہ ان سے کام نہ لے.اب میں تمہیں توجہ دلائی چاہتا ہوں.گھر کی حالت پر.تمہیں یا مجھے یا ہماری موجودہ نسلوں کو وہ وقت تو یاد ہی نہیں جب ہم اس ملک کے بادشاہ تھے.سلطنت بھی خدا تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک بڑی نعمت ہے.اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرئیل کو حضرت موسٰے علیہ السلام کے ذریعہ فرمایا یعنی اے میری قوم خدا نے تُجھ میں انبیاء کو مبعوث فرمایا.اور تجھ کو بادشاہ بنا دیا.جب قوم کی سلطنت ہوتی ہے تو قوم کے ہر فرد میں حکومت کا ایک رنگ آ جاتا ہے.ہاں ہمیں تو وہ وقت یاد نہیں جب ہم بادشاہ تھے.اچھا تو قوم کی سلطنت اب ہے نہیں اور خدا کا شکر بھی ہے کہ نہیں ہے کیونکہ اگر ہوتی تو موجودہ نااتفاقیاں.یہ لاچاریاں.یہ بیکسی اور بے بسی.خودرائی اور خود بینی ہوتی ٌروریاتِ زمانہ کی اطلاع نہ ہوتی تو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا.اور کیسے دُکھوں میں پڑتے.بیرونی حملہ آور
اندرونی بعاوتوں کو دیکھ کر حملہ آور ہوتے اور ہلاک کر دیتے تو یہ خدا کا رحم ہے جو اس نے سلطنت لے کر دوسروں کے حوالے کی اور ہم کو اس دُکھ سے بچا لیا جو اس وقت موجودہ حالت کے ہوتے ہوئے ہمیں پہنچتا.(الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۲ء صفحہ ۶.۷) ۲۲. بندے ایک وہ ہوتے ہیں جن کو الہام ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ ان کو فہم عطا کرتا ہے اور اپنے فہم سے خدا تعالیٰ کی باتوں کو سمجھتے ہیں.ایک وہ ہوتے ہیں کہ جن کو نہ الہام ہوتا ہے نہ خدا ان کو تفہیم کرتا ہے لیکن ان کو وسعتِ نظر حاصل ہوتی ہے اور علم وسیع ہوتا ہے.تیسرے وہ ہوتے ہیں جن کو نہ علم ہوتا ہے نہ تفہیمِ الہٰیہ.ان تیسری قسم والوں کو پہلی دو قسم والوں کی اطاعت کرنی چاہیئے.یہاں اسی کے متعلق فرمایا کہ موسٰی ؑ فرماتے ہیں اگر میرا کہنا نہ مانو گے تو گھاٹا پاؤ گے.انہوں نے جواب دیا.کہ یَا( المائدۃ: ۲۳) آپ کو خبر نہیں کہ وہاں طاقتور لوگ رہتے ہیں اور وہ اپنے بگاڑ کی اصلاح جلد کر سکتے ہیں.ہم نہیں کر سکتے.آپ ان باتوں میں تجربہ کار ہیں.دوسری قسم کے لوگ وہ رَجُلَانِ ہیں جن کے نام یوشع بن نون اور کلب ہے جنہوں نے کہا.بسروچشم حاضر ہیں.بلکہ دوسروں کو بھی وعظ کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۲۳. ۲۵.
جو لوگ آپؐ ( محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تعلیم سے تیار ہوئے.وہ کیسے نمونہ تعلیم محمدیؐ کے تھے.اور جو موسٰی اور عیسٰی علیھما السّلام کی تعلیم میم تھے وہ کیسے نمونہ تھے.ایک نمونہ وہ ہیں جن کو فرعون کی غلامی سے موسٰیؑ کے سبب ازادی ملی.مصر کے آہنی تنور سے.( یرمیاہ باب ۴) بہت کچھ مال و اسباب لے کر برے سمندر سے خشکی پر نکلے موسٰی کے ذریعہ مَن و سلوٰی کھایا جب موسٰی نے حکم دیا حالانکہ موسٰی بنی اسرائیل کیلئے خدا سا تھا (خروج ۴ باب۱۰) تو صاف انکار کر گئے.( گنتی ۱۳ باب ۲۳ و گنتی ۱۴ باب ۱.۳) قرآن شریف میں بھی اشارہ ہے. بولے اے موسٰی وہاں ایک قوم ہے زبردست اور ہم ہرگز وہاں نہ جاویں گے جب تک وہ نہ نکل چکیں وہاں سے.بولے اے موسٰی.ہم ہرگز وہاں نہ جائیں گے جب تک وہ اس میں رہیں گے.سو تُو جا اور تیرا رب اور دونوں لڑو ہم یہاں ہی بیٹھیں گے… اور ادھر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اتباع کو دیکھئے.آپؐ کی اتباع میں وطن سے نکالے گئے.اموال و اسباب سے محروم ہو گئے.کمال مصیبت کی حالت میں پوری کمزوری کے وقت میں کہتے ہیں لا نقول کما قال اصحاب مُوْسٰی اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا وَلٰکِنّا نقاتل عن بَمِیْنکَ وَعَنْ شمالک وَبَیْنَ یَدیْکَ وَ خَلْفَک َ (بخاری جلد ۲.کتاب المغازی.مطبوعہ مصر صفحہ۳) ہم نہیں کہتے جیسے موسٰی کی قوم نے کہا.جاؤ موسٰی اور تیرا رب اور دونوں لڑو.لیکن ہم تیرے داہنے اور تیرے بائیں اور تیرے آگے اور تیرے پیچھے تیرے دشمنوں سے لڑیں گے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۲۳.۲۴) ۲۶.
: اس دُعا سے معلوم ہوتا ہیت کہ مُوسٰی علیہ السلام کو کس قدر رنج پہنچا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۲۷. : یہ ہے نبی کی نافرمانی کا نتیجہ.بعض لوگ غلطی کر لیتے ہیں.پھر کہتے ہیں.اب بخشونا.معاف کرو.خدا کا یہاں کارخانہ الگ ہے.اﷲ نے فرمایا کہ اب اس میں جانا چالیس برس کیلئے بند ہے.: یونہی جنگلوں میں جھک مارتے مر جائیں گے.ہاں ایک قوم پیدا ہو گی.یعنی ان کے بچے جو اس خطا میں شریک ہی نہ تھے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۲۸. : آدم کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل تے.یہ نام قرآن شریف میں نہیں.تورات میں ہیں.انکار کی کوئی وجہ نہیں اور نہ ایسے مواقع پر تحریف کا گمان ہے.: قربانی.وہ قربانی کیا تھی.یہ نہیں بتایا.کچھ ہو گا.: قبولیت کا پتہ معلوم ہو.کلام الہٰی سے یا آدم علیہ السلام کو بذریعہ کلام الہٰی علم ہوا.: یہ آیت قابلِ غور ہے.اعمال نیک بھی نیکوں ہی کے قبول ہوتے ہیں.دوسرے موقعہ پر فرما چکا ہے.کہ جو رِئَآئَ النَّاسِ (النساء : ۳۹) پر عمل کرتے ہیںا
انکی مثل ایسی ہے جیسے کوئی پتھر پر مٹی بچھا کر تخم ریزی کرے.بارش آئے وہ کھیتی کو مع زمین بہالے جائے اور صاف چٹیل چھوڑ جائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) اسلام نے کن قربانیوں کو جائز رکھا ہے؟ سو اوّل انسان قربانی کا ذکر کرتے ہیں.مگر قبل اسکے کہ اس کا بیان کریں قربانؔ کے لفظ کی جس سے قربانی کا لفظ نکلا ہے.تشریح کرتے ہیں.سُنو! اس لفظ قربان کے لُغت عرب میں کیا معنی ہیں.قَرُبَ الشَیْیِئَ قُرْبَانًا: خوب ہی نزدیک ہوئی یہ چیز.اَلْقُرْبَانُ بِالضَّمِّ مَاقَرُب اِلَی اﷲِ وَمَا تنقَرَّبْتَ بِہٖ.قربان پیشؔ کے ساتھ جو اﷲ کی طرف نزدیک کرے.وَالْقُرْبَانُ جَلِیْسٌ اَوْخَاصَّتُہٗ: قربان بادشاہ کا مجلسی اور اس کا ممتاز.وَمِنْہُ الصَّلوٰۃُ قُرْبَانُ کُلِّ تَقِیٍّ: اسی پر محاورہ ہے کہ نماز ہر ایک متّقی کیلئے قربان ہے.اور حدیث میں آیا ہے: مَاینزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَا فِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ.فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سنمْعَہُ الّنذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہٗ الَّذِیْ یَبْصُرُ بِہٖ وَیَدَہُ الّتِی یَبْطِشُ بِھَاوَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا.(بخاری) میرا بندہ نفلوں کے ذریعہ میرے قریب ہوتا ہے.یہاں تک کہ میں اسے پیار کرتا ہوں.اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سُنتا ہے.اور آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور ہاتھ جس سے وہ پکڑتا ہے اور پاؤں جس سے چلتا ہے.پس قربان کے معنی ہوئے اﷲتعالیٰ کی رضا مندیوں میں اپنے آپ کو محو کر دینا اور اس ذریعہ سے اپنے آپ کو اس کے نزدیک کرنا اور اس کے خاصوں میں ہو جانا.جب کوئی انسان ایسا ہوتا ہے کہ نہ اس کو کسی کے ساتھ مخلوق میں ذاتی رنج و غضب ہوتا ہے اور نہ کسی کے ساتھ مخلوق میں سے ذاتی محبّت اور تعلّق ہوتا ہے.اس کی محبّت خلّق سے ہوتی ہے مگر لِلّٰہِ.وَ بِاﷲِ.وَ فِی اﷲِ ہوتی ہے.اور اس کا بُغض بھی ہوتا ہے مگر لِلّٰہِ.وَ بِاﷲِ.وَ فِی اﷲِ ہوتا ہے.وہ فانی بﷲ اور باقی باﷲ ہو جاتا ہے.اسکا کھانا صرف اس لئے ہوا کرتا ہے کہ جنابِ الہٰی نے کُلُوْاکا حکم دیا ہے اور ایسے آدمی کا پینا اس لئے ہوتا ہے کہ اس کو پینے میں ارشادب الہٰی ہے وَ اشْرَبُوْا اور اسکا بی بی سے محبّت و پیارا اسی وسطے ہوتا ہے کہعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ کا حکم ہے.پس شہوت و غضب.طمع و جزع.عجز و کسل.بے استقلالی وغیرہ رذائل اس میں نہیں رہتے
وہ انعامات کے وقت اگر شکر کرتا ہے تو ارشادب الہٰی سے.اگر مصائب پر صبر کرتا ہے تو رضاء الہٰی کیلئے.وہ اپنے اور دوسرے کے معاصی پر اس لئے ناراض ہوتا ہے کہ اسکا مولیٰ ان باتوں پر ناراض ہے.وہ مُشرکوں بے ایمانوں شریروں پر تلوار اٹھاتا ہے مگر الہٰی ہتھیار بن کر.یہی قُربانی ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے. .جب ان دونوں نے قربانی دی.آخر ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی ردّ ہوئی.اس نے کہا میں تجھے مار ڈالوں گا.اس نے کہا.اﷲ متّقیوں کی قُربانی قبول کیا کرتا ہے.دوسری انسانی قربانی جس کو اسلام نے جائز رکھا ہے جو انانِ قوم اور مدّبر انِ ملک کی قربانی ہے مگر اس وقت کے بڑے بڑے سیاسی بلاد یوروپ و امریکہ.ہاں عام بلاد کا ذکر کیوں کریں.خود انگلستان نے میری ذرہ سی شخصی زندگی میں جہاں انڈیا.کابل.پنجاب.دہلی کے غڈر.سوڈان.خرطوم.ٹرانسوال اور صومالی لینڈ وغیرہ جزائر میں صرف تجارت یا یوں کہو حکومت کیلئے لاکھوں نیئر اور ڈیئر ؎ قربانی کئے ہیں تو وہاں اَنْ تراشے گلوں نے اپنے ملک و قوم کو تو دنیا کے پراط پر سے کیا گزارا.دنیا کی جنّت میں پہنچا دیا ہے اور وید کی تعلیم نے تو ہزار ہا منتروں میں اس نرمیدہ انسان ی قربانی کی تاکید لکھی ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۴۲، ۱۴۳) اولادِ آدم (یہاں اس امر سے بحث نہیں کہ کتنے آدم گزرے ہیں.بہر حال ایک آدم کی اولاد) نے قربانی کی.قربانی کہتے ہیں اﷲ کے قُرب کے حصول اور اس میں کوشس کرنے کو.میرا ایک دوست تھا اُسے کبتروں کا بہت شوق تھا.شاہ جہان پور سے تین سو روپے کا ایک جوڑا منگوایا اُسے اڑا کر تماشہ کر رہا تھا کہ ایک بحری نے اس پر حملہ کیا اور اسے کاٹ دیا.مَیں نے کہا دیکھو یہ بھی قربانی ہے باز ایک جانور ہے اس کی زنگی بہت سی قربانیوں پر موقوف ہے.اسی طرح شیر ہے اس کی زندگی کا انحصار کئی دوسرے جانوروں پر ہے.بلّی ہے اس پر چوہے قربان ۱؎ NEAR AND DEAR ( قریبی اور عزیز).مرتّب ہوتے ہیں.پھر پانی میں ہم دیکھتے ہیں کہ مچھلیوں میں بھی یہ طریق قُربانی جاری ہے.وہیل مچھلی پر ہزروں مچھلیوں کو قُربان ہونا پڑتا ہے.اسی طرح اژدہا ہے کہ جس پر مُرغا قربان ہوتا ہے.عرض اعلیٰ ہستی کیلئے ادنیٰ ہستی قربان ہوتی رہتی ہے.اسی طرح انسان کی خدمت میں کس قدر جانور لگے ہوئے ہیں.کوئی ہل کیلئے.کوئی بگھیوں کیلئے.کوئی لذیذ غذا کیلئے.پھر اس سے اوپر بھی ایک سلسلہ
چلتا ہے وہ یہ کہ ایک آدمی دوسروں کیلئے اپنے مال یا اپنے وقت یا اپنی جان کو قربان کرتا ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں.کہ لڑائیوں میں ادنیٰ اعلیٰ پر قربان ہوتے ہیں سپاہی قربان ہوتے جائیں مگر افسر بچ رہے.پھر افسر قربان ہوتے جائیں اور کمانڈر انچیف کی جان سلامت رہے.مگر پھر کئی کمانڈر انچیف بھی ہلاک ہو جاویں مگر بادشاہ بچ رہے.غرض قربانی کا سلسلہ دُور تک چلتا ہے اس پر بعض ہندو جو ذبح اور قربانی پر معترض ہیں ان سے ہم نے خود دیکھا کہ جب کسی کے ناک میں کیڑے پر جاویں تو پھر ان کو جان سے مارنا کچھ عیب نہیں سمجھتے بلکہ ان کیروں کو مارنے والے کا شکریہ ادا کرتے ہیں.شکریہ کے علاوہ مالی خدمت بھی کرتے ہیں.پھر اس سلسلہ کائنات سے آگے اگلے جہان کیلئے بھی قربانیاں ہوتی رہتی ہیں.اگلے زمانہ میں دستور تھا کہ جب کوئی بادشاہ مرتا تو اس کے ساتھ بہت سے معززین کو قتل کر دیا جاتا تا اگلے جہان میں بھی اس کی خدمت کر سکیں حضرت ابراہیم علیہ السلام جس ملک میںتھے شام اس کا نام تھا وہاں آدمی کی قربانی کا بہت رواج تھا اﷲ نے انہیں ہادی کر کے بھیجا اور اﷲ نے ان کو حقیقت سے آگاہ کیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رؤیا میں دیکھا جب کہ انکی ۹۹ سال کی عمر تھت کہ مَیں بچّہ کو قربان کروں ایک ہی بیٹا تھا.دوسری ( طرف) اﷲ کا وعدہ تھا.کبھی مردم شماری کے نیچے تیری قوم نہ آئے گی.ادھر عمر کا یہ حال ہے اور بچہ چلنے کے قابل ایک ہی ہے اسے حکم ہوتا ہے کہ ذبح کر دو.رؤیا کا عام مسئلہ ہے اگر کوئی شخص انے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھے تو اس کی بجائے کوئی بکرا وغیرہ ذبح کر دے.اسی طرح یہاں لوگوں کو کہا مَیں بیٹے کو ذبح کرتا ہوں مگر وحی الہٰی سے حقیقت معلوم ہوئی کہ مُنبہ ذبح کرنا چاہیئے.پس لوگوں کو سمجھایا کہ اے لوگو! تمہارے بزرگوں نے جو کچھ دیکھ کر انسانی قربانی شروع کی اس کی حقیقت بھی یہی ہے کہ آدمی کی قربانی چھوڑ کر جانور کی قربانی کی طرف توجّہ کرو.اس کی برکت یہ ہوئی کہ ہزاروں بچّے ہلاک ہونے سے بچ گئے کیونکہ انہیں ادنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا سبق پڑھا دیا گیا.یہ قربانی کا سلسلہ پرندوں چرندوں درندوں میں بھی پایا جاتا ہے پھر دنیوی سلطنتوں میں … ادنیٰ محبوبوں کو اعلیٰ محبوبوں پر قربان کرنے کا نظارہ ہر سال دیکھتا ہوں اس لئے ادنیٰ محبّت کو اعلیٰ محبّت پر قربان کرتا ہوں مثلاً سڑک ہے جہاں درخت بڑھانے کا منشاء ہوتا ہے وہاں نیچے کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں پھر درخت پر پھول آتا ہے اور وہ درکت متحمل نہجیں ہو سکتا تو عمدہ حصّے کیلئے ادنیٰ کو کاٹ دیتے ہیں میرے پاس ایک شخص سردہ لایا اور ساتھ ہی شکایت کی کہ اس کا پھل خراب نکلا.مَیں نے کہا قربانی نہیں ہوئی.چنانچہ دوسرے سال جب اس نے زیادہ پھلوں اور کراب صودوں کو کاٹ دیا تو اچھا پھل آیا.لوگ جسمانی چیزوں کیلئے تو اس قانون پر چلتے ہیں مگر روحانی عالم میں اس کا لحاظ نہیں کرتے.اور اصل غرض کو نہیں دیکھتے…جو قربانی کرتا اﷲ اس پر خاص فضل کرتا ہے.اﷲ اسکا ولی بن جاتا ہے پھر اُسے محبّت
کا مظہر بناتا ہے پھر اﷲ انہیں عبودیت بخشتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں لامحدود ترقیاں ہو سکتی ہیں… قربانی کا نظرہ عقلمند انسان کیلئے بہت مفید ہے اپنے اعمال کا مطالعہ کرو اپنے فعلوں میں.باتوں میں.خوشیوں میں.ملنساریوں میں.اخلاق میں غور کرو کہ ادنیٰ کو اعلیٰ کیلئے ترک کرتے ہو یا نہیں؟ اگر کرتے ہو.تو مبارک ہے.ہمارا وجود عیب دار قربانیاں چھوڑ دے.تمہاری قربانیوں میں کوئی عیب نہ ہو.نہ سینگ کٹے ہوئے.نہ کان کٹے ہوئے.قربانی کیلئے تین راہیں ہیں.۱.استغفار ۲.دُعا ۳.صُحبت صلحاء.انسان کو صحبت سے بڑے بڑے فوائد پہنچتے ہیں.صُحبتِ صالحین حاصل کرو.قربانی کیلئے تین دن ہیں.پر رُوحانی قربانی والے جانتے ہیں کہ سب ان کیلئے یکساں ہیں.میں تمہیں وعظ تو ہر روز سناتا ہوں.خدا عمل کی توفیق دیوے.(بدر ۲۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۷ـ.۸) تقوٰیایسی چیز ہے کہ دعاؤں کو قبولیت کے لائق بنا دیتا ہے..بلکہ اسکے ہر فعل میں قبولیت ہوتی ہے.(الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۴) ۳۰.۳۱. : یعنی میرے قتل کا جو گناہ ہے وہ بھی تُو حاصل کرے.یہ بھی ایک جذباتِ رحم کو برانگیخت کرنیوالی درکواست اور نصیحت دینے والی بات تھی کہ اور ہر طرح سے تُو شریر تو ہے ہی.اب یہ ایک گناہ ہے.یہ بھی کر لے اور دوزخی بن جا.میں نے کیا کہنا ہے.: ایسا ٹوٹا پانے والا ہوا کہ جس خاندان نے اس سے شادی کی وہ بھی تباہ ہوا.معلوم ہوا.شادی صلحاء میں کرنی چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء) : وہ بدی جو مجھے قتل کرنے سے تو حاصل نہ کریگا.: اور تیری اور بدیاں بھی تیرے ذمّہ ہیں.اس قصّے میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا کہ ابراہیم بھی ایک آدم تھا اس کے دو بیٹے اسمٰعیل و اسحاق
تھے.اسرائیلیوں نے وہ نبی ( اسمٰعیلی ) کا قتل چاہا.اس قصّہ سے متنبّہ فرمایا.(تشحیذالاذہان ستمبر ۱۹۱۳ء جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۰) ۳۲.۳۳. : کوّے میں تین صفتیں عجیب ہیں ۱.کوّے کو کسی نے جماع کرتے کم دیکھا ہے.۲.ایک ٹکڑا بھی کھانے کو مِل جائے.اُڑ کر اوروں کو اطلاع ضرور کرتے گا.کہ یہاں کچھ ملنا ہے.۳.کسی کوّے کو صدمہ پہنچے سب وہاں جمع ہو جاتے ہیں.اسی واسطے شور وغل کو ہماری زبان پنجابی میں ’’ کاواں رَوْلی‘‘ کہتے ہیں.ہم نے ایک بڑے شاکر سے پوچھا.کبھی کسی کوّے کی لاش تُم نے جنگل میں دیکھی ہے.تو اُس نے کہا.نہیں.اس سے تین باتیں نکلیں.۱.شرم و حیاء بھی کوئی چیز ہے ۲.نیک برتاؤ کرنا چاہیئے اور ہمدردی.۳.مُردے کی لاش کو دبانے کی فکر.یہ قصّہ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ ابراہیں بھی ایک آدم تھا ( اُسے ابوالانبیاء ہتے ہیں) اس کے دو بیٹے تھے اسحٰق اور اسمٰعیل
.مدینہ کے یہود جو بنو اسحاق تھے انہوں نے نبی کریمؐ اسمٰعیل کی اولاد کو قتل کرنا چاہا.سوا نہیں بتایا گیا کہ دیکھو اس سے پہلے ایک بھائی نے دوسے بھائی کو قتل کر کے کیا لیا.سوا اسکے کہ خاسر و نادم ہوا.اور انہیں سمجھایا کہ صرف اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو پہلے سے یہ حکم دے رکھا ہے کہ جو ایسے عظیم الشان نفس کو قتل کرے گا وہ گویا سارے جہان کے قتل کامرتکب ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) : نفس محمد رسول اﷲ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۳۴. سزا انکی جو جنگ کرتے ہیں اﷲ اور اسکے رسول سے اور زمین میں بگاڑ پیدا کرنے کیلئے ریشہ دوانیاں کرتے ہیں.یہ ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا صلیب دیئے جائیں.اس خلاف ورزی یا مخالف سمتوں سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں.یا ملک سے نکالے جائیں.یہ سزا اس لئے ہے کہ دنیا میں انہیں رسوائی ہو اور آخرت میں ان کیلئے بڑا عذاب ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۵) سوائے اسکے نہیں کہ جزا ان لوگوں کی جو اﷲ اور اسکے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کو دوڑتے ہیں.یہ ہے کہ قتل کئے جاویں یا سُولی دیئے جاویں یا اُس زمین سے جلاوطن کئے جاویں.یہ واسطے ان کے رسواکی ہے دنیا میں اور آخرت میں ان کیلئے بڑا عذاب ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۳) : اﷲ کے دین کا مقابلہ کرتے ہیں.: بوجہ انکی خلاف ورزی کے.امام ابوحنیفہؒ نے لکھا ہے کہ مجرموں کی کئی قسمیں ہیں پس انکے موافق ان سزاؤں میں سے کوئی سزا دی جائیگی.: یہ نشان ہے آخرت میں عذاب کا.دنیا میں حسبِ پیشگوئی جب
مل گیا تو آکرت کی خبر درست ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۵؍اگست ۱۹۰۹ء) ۳۶. : اصل مقصد ساری تعلیم کا تقوٰی ہے.تقوٰی کی ابتاء یہ ہے.کہ ایمان بالڈیب خدا پر ہو.دُعا میں لگا رہے.کچھ ہاتھ سے دے.پھر اس سے بڑھ کر کسی نبی پر بدگمان نہ ہو.الہٰی کتابوں پر ایمان رکھے.قرآن مجید کو اﷲ کی طرف سے جاتے.دوسرا مرتبہ وہ ہے جو رکوع سورۃ بقرہ لَیْسَ الْبِرُّ (البقرہ : ۱۹۰) میں اﷲ پر ایمان.ملائکہ پر.کتب پر.انبیاء پر ایمان ہو.ذَوِی الْقُرْبٰی.یتامٰی.مساکین وغیرہ کو دے.صبر و استقلال سے بسر کرے.تیسرا مرتبہ.آخری یہ ہے کہقَالُوْا رنبُّنَا اﷲُ ھُمَّ اسْتنقَامُوْا (حٰم سجدہ:۳۱) اور قُلِ اﷲُ ثُمَّ ذَرْھُمْ (انعام:۹۲) اﷲ ہی اﷲ رہ جائے.یاد رکھو معاشرت کے اصولوں میں سے اعلیٰ اصول یہ ہے کہ حکموں کا پابند ہو.یہ بدمعاش لوگوں کا اصول ہے کہ دنیا کمائے مکر سے.ایسے لوگ کبھی سُکھ نہیں پاتے.وَ ابْتَغُوْ ٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ : وسیلہ کے دو معنے ہیں.ایک تو حاجت.پس مطلب یہ ہوا کہ اپنی حاجتیں جناب الہٰی میں لے جاؤ.دیکھو سورۃ بنی اسرائیل (بنی اسرائیل ۵۸) یہ لوگ جن کو پکارتے ہیں وہ تو خود اپنی حاجتیں ربّ کے حضور مانگتے ہیں ابن عباسؓ کا ایک شعر کُلُّ الرِّجَالِ لَھُمْ اِلَیْکن وَسبیْۃٌ د وسرے معنے ہیں ذریعہ کے.اور ذرائع چار قسم کے ہیں.ایک ذریعہ جسے اختیار کیا جائے تو اختیار کرنے والے کو با ایمان کہتے ہیں.ایک ذریعہ جسے اختیار کیا جائے تو اختیار کرنے والے کوعقل مند کہتے ہیں.ایک ذریعہ جسے اختیار کیا جائے تو اختیار کرنے والے کوبے ایمان کہتے ہیں.ایک ذریعہ جسے اختیار کیا جائے تو اختیار کرنے والے کو بے عقل کہتے ہیں.مثلاً اﷲ کے حکموں کو ماننا.نیک بننا.ہدایت کی بات مان لینا.یہ تمام مذہبوںکا متفق علیہ مسئلہ ہے پس اس ذریعہ پر عمل کرنیوالا باایمان ہے.
دومؔ مثلاً پار جانا ہے.دریا میں موجوں پر موجیں آ رہی ہیں.اب وہاں کشتی کا سامان کرنیوالا عقلمند کہلاتا ہے.سومؔ مثلاً بُت پرست بُت کے آگے ناچتا ہے.عمدہ کھانے بکا کے اسکے سامنے رکھتا ہے.قبر کو سجدہ کرتا ہے.اﷲ کے نام کے سوا کسی کا روزہ طِواف قربانی کرتا ہے.اس وسیلہ کو اختیار کرنیوالا بے ایمان ہے.چہارمؔ مثلاً ایک ایسا آدمی ہے جو ان وسائل کو جو قدرت نے کسی مطلب کے حصول کیلئے بنائے ہیں.ان پر جھوٹا قیاس کرتا ہجے مثلاً باریک سوئی ململ کو سِی سکتی ہے تو وہ سمجھے کہ ہل کا پھالا بطریق اولیٰ اسے جلد سی سکتا ہے یا جیسے بیوقوف لوگ کہا کرتے ہیں کہ جب معمولی آدمی اس دنیا میں ہماری مدد کرتے ہیں.تو نبی.ولی جسم سے الگ ہو کر بد وفات بطریق اَولیٰ ہماری مدد کر سکتے ہیں.کوئی شخص جہاز میں لوہا سمجھ کر پھر بہت سا لوہا لے کر اس پر ہو بیٹھے اور سمجھے کہ میں اس پر پار کر جاؤں گا.یہ بے عقل ہے.پس الوسیلہ فرمایا.یعنی ذریعہ ہو.مگر اس ذریعہ کو دیکھ لو وہ بے ایمانی کا تو نہیں.عقل و تجربہ و ایمان کے موافق ہے یا نہیں.مکلّف انسان عقل و تجربہ و ایمان سے تقوٰی کے سامان کرے مگر وہ عقل و تجربہ شریعت کے خلاف نہ ہوں.پھر یہ کہ مجاہدہ فی سبیل اﷲ کرے.جب ان تین قاعدوں پر چلے گا تو مظفر و منصور ہو گا.بعض لوگ حقیقی ذرائع سے کام نہیں لیتے اور چاہتے ہیں کہ گھر بیٹھے ہم کو عمدہ لباس.عمدہ مکان.راحت و آرام کی چیز مل جائے.ایسے لوگ آخر مثلاً چوری کا پیشہ وغیرہ ناجائز اختیار کر لیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۳۹. : چور اور چور عورت کے ہاتھ کاٹ دو.یہ بدلہ ہے انکے کسب کا اور عبرت کا موجب ہے اﷲ کی طرف ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۷۵) : مرد ہو یا عورت ایسے پیشہ وروں کے ہاتھ کاٹ ڈالو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء)
۴۱. : رزق کیلئے ایسی بُری راہ اختیار کرنا نہایت قبیح ہے وہ تو جائز طریقے سے رزق دینے پر قادر ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۴۲. اے رسول نہ غمگین کریں تُجھے وہ لوگ جو کفر میں تیزی سے بڑھتے ہیں اُن لوگوں میں سے جنمہوں نے اپنے
مونہوں سے کہا.ہم ایمان لائے.اور ان کے دل ایمان نہیں لائے.وہ لوگ کان لگاتے ہیں کہ یہاں سے سُن کر باہر جا کر جھوٹ پھیلائیں.یا دوسرے مخالفوں کی بھی مان لیتے ہیں جو ابھی تیرے پاس نہیں آئے.ٹٍیک موقعوں سے بات کو اُلٹ پلٹ کر دیتے ہیں.کہتے ہیں اگر تم کو یہ تعلیم ملے تو لے لو.اور اگر یہ نہ ملے تو پرہیز کرو اور جسے اﷲ عذاب دینا چاہے تو اسے اﷲ سے بچانے کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا.یہ ایسے لوگ ہیں کہ اﷲ نے ان کے دلوں کو پاک کرنا نہیں چاہا.ان کیلئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں ان کیلئے بڑا عذاب ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۹.۸۰) جب انسان خدا کا ہو جاتا ہے تو اس کو تمام ذرّاتب عالم پر ایک تصرّف ملتا ہے اسکی صحبت میں ایک برکت رکھی جاتی ہے اور یہ ایک فطرتی بات ہے کہ ایک انسان کے اخلاق کا اثر دوسرے کے اخلاق پر پڑتا ہے.بعض طبائع ایسی بھی ہیں جو نیکوں کی صحبت میں نیک اور بدوں کی صحبت میں بد ہو جاتی ہیں.قرآن کریم میں ایسی فطرتوں کا ذکر آیا ہے .بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہمارے پاس بیٹھ کر ہماری باتوں کو پسند کرتے ہیں.جب دوسروں کے پاس جا بیٹھتے ہیں تو پھر انکی باتیں قبول کر لیتے ہیں.ایسے لوگوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ متقیوں کی صحبت میں رہیں اور وقت ملے تو استغفار، لَاحَوْل اور دعا کریں.دُعا کی حقیقت سے لوگ کیسے بے خبر ہیں.(بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ ۹،۱۰) : بعض وقت کفر کرنے والے کو آرام میں دیکھ کر ضعیف مومن کا دل گھبرا اٹھتا ہے کہ یہ بے ایمان ہو کر کیسے آرام اور عزّت میں ہے.یہ دھوکہ ہوتا ہے ورنہ ہم نے کئی ایسے لوگوں کو بطاہر دیکھا ہے کہ اتنا بڑا مکان ہے اور اس میں ایک ہی بڑی دری ہے مگر ساتھ مرگی کا عارضہ ہے جو کثرتب زناء کی وجہ سے ہے.اسی ایک اور کو دیکھا.ہر وقت وہاں راگ و رنگ رہتا.آہستہ آہستہ موقع آیا کہ اس نے اتشک سے اپنا بالکل تباہ ہونا مانا.اور یہ صرف غم میں دل بہلانے کیلئے تھا.: یعنی اگر یہ بات ان میں پائی گئی تو سچّے.ورنہ نہیں.لوگ گھر ہی سے باتیں بنا کر لے آتے ہیں.ایک دفعہ حضرت صاحب کے پاس ایسے ادمی آئے جو گھر سے یہ مشورہ کر آئے کہ فاتحہ خلف الامام کا مسئلہ پوچھتے ہیں.اگر انہوں نے کہا.جائز نہیں.تو سچے ورنہ جھوٹے.ایسی خود ساختہ باتوں میں بہت دھوکہ لگتا ہے. (المائدہ:۴۲)فَلَمَّا زَاغُوْ آ اَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَھُمْ ( الصف : ۶) سے اس کی تشریح ہوتی ہے یعنی خدا ان کے دلوں کو پاک کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا جو خو دٹیڑھاپن سے اس حالت کو پہنچ گئے کہ پھر سیدھے نہیں ہونا چاہتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء)
۴۵. اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کو آسان رکھا ہے.دین کا مدار تعظیم لامر اﷲ اور شفقت علیٰ خلق اﷲ پر ہے دیکھئے ایک طرف نماز کسی اعلیٰ عبادت ہے کہ تمام مذاہب کی عبادتوں کی جامع ہے دوسری طرف زکوٰۃ.قرآن مجید میں دونوں کی تاکید ہے.اس کے علاوہ اور جو عیوب لوگوں میں ہوں.انکی اصلاح فرماتا ہے.جوں جوں زمانہ پیچھے جاتا ہے.نبوّت کے ثبوت بڑھتے جاتے ہیں.آدم کے وقت میں اگر کوئی مسئلہ الہام و نبوّت پر اڑ بیٹھتا تو جواب دینا مشکل تھا لیکن ہمارے زمانے میں کوئی مشکل نہیں.انبیاء، اولیاء ملہمَین گزر چکے ہیں.امم کا مشترک تعامل موجود ہے.پھر سب سے زیادہ سہولت یہ ہے کہ تمام دنیا کے مذاہب کے دلائل.حالات.اخلاق.کارنامے ہم کو میسّر آ سکتے ہیں.ژندوستا ملتے نہ تھے.اب چند پیسوں پر ملتے ہیں.لویدوں کیلئے ایک زمانہ تو وہ تھا کہ احمد بیرونی، ایک شخص انجمن تحقیقِ مذاہب کا ممبر ۴۰ سال ہند میں رہا.وہ ہندؤوں کے حالات کے سلسلہ میں لکھتا ہے کہ انکی ایک اور کتاب ہے جس کو یہ لوگ زبانی بعض مقامات سے پڑھتے ہیں اور مَیں نے اسے دیکھا نہیں دیکھئے یا تو وہ زمانہ کہ ۴۰ سال ایک شخص محض اسی تحقیق کیلئے رہتا ہے اور سنسکرت کی تحصیل میں ایسی سرگرمی دکھلاتا ہے کہ وہ اسکی مادری زبان کی طرح ہو گئی.مگر وید دیکھنے نصیب نہیں.یا اب یہ زمانہ کہ چاروں وید۲۲ روپیہ پر ملتے ہیں.یہی حال بائیبل کا ہے کہ ایک روپیہ تک مل سکتی ہے.پس تحقیق کیلئے بہت آسانیاں ہیں.اﷲ تعالیٰ تورات والوں کو متنبّہ کرتا ہے کہ تم تورات ہی کو غور سے پڑھو ہم نے اسی میں ھُدًی نازل کی یعنی اس عہد نامہ کے رسول کی طرف راہنمائی کی چنانچہ بتا دیا کہ موسٰی کا مثیل آئے گا اور وہ بُت پرستی کا دشمن ہو گا.اس سے خلاف کرو گے تو تم سے حساب لیا جائے گا.
: پس تم لوگوں سے نہ ڈر کر بلکہ میرا ڈر رکھ کر اور دنیا کی آیت اﷲ کے سامنے مطلق پرواہ نہ کر کے مآ کو حَکَم بناؤ.صاف معلوم ہو گا کہ محمد رسول اﷲ ہیں.مگر تم نبی پر ایمان لانا تو کجا اس کی ایذارسانی اور قتل کی فکر میں ہو حالانکہ تورات ہی میں درج ہے کہ نفس کے بدلے نفس مارا جائے گا.بلکہ آنکھ کے بدلے انکھ.ان آیات میں بتایا ہے کہ تم تورات کے اَور احکام بھی چھوڑ چکے ہو.نبی کی مخالفت میں.تو یہ بتاتے ہیں کہ ہمیں اپنا دین بڑا عزیز ہے ہم اپنے دین پر قائم ہیں مگر واقعات اسکے خلاف ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) : ہدایت اس لئے کہ اس میں نبی کریمؐ کی پیشگوئی ہے اور نور یہ کہ اس میں توحید بھی سکھائی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۴۹. : سراپا حق.بعض کتابیں بالکل باطل ہوتی ہیں.بعض میں حق و باطل مِلا جُلا.بعضوں میں حق زیادہ ہوتا ہے اور باطل کم.مگر قرآن سراپا حق ہے.
: جامع.محافظ.: کہتے ہیں پانی کے گھاٹ کو.اور خشکی ( کے راستہ ) کو کہتے ہیں.انسان کو دو ضرورتیں ہیں.ایک ضرورت تو اﷲ کی پاک سریعت ہی سے حل ہوتی ہے.اور ایک قسم کی ضرورت کو اﷲ نے انسان کے عقل و فہم پر چھوڑ دیا ہے.مثلاً اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم زراعت کرو.اب کھیتوں.بیج بونے کے طریق کو شریعت میں داخل نہیں کیا.ایسا ہی کپڑے پہننے کا حکم ہے مگر اب ہر ملک کے موسموں کے سبب جیسا کپڑا چاہیئے یہ انسان کے فہم پر چھوڑ دیا ہے.: یعنی تمہیں ایک ہی مذہب پر بنا دیتا.مگر یہ جبر ہو جاتا.لیکن ہم نے تمہیں ان قوٰی میں جو ہم نے دئے ہیں.لِیَبْلُوَکُمْ انعام دینا چاہا ہے پس تم نیلیاں بڑھ بڑھ کر کرو اور اجر لو.اگر اپنے اختیار سے تم نیکی نہ کرو بلکہ فطرتاً تو پھر اجر کیسا ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) میں دنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود، ان کے حوصلے چھوٹے.خیالات پست ہوتے ہیں.جس واعط کی اغراض دینی ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہدنیوی واعط سب اس کے اندر آ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک امر بالمعروف کرتا ہے.ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بُری بات سے روکنے والا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف کو اﷲ تعالیٰ نیمُھنیْمِنْ فرمایا.یہ جامع کتاب ہے جس میں جیسے ملٹری (فوجی) واعط کو فتوحات کے طریقوں اور قواعد جنگ کی ہدایت ہے تو ایسے نظامِ مملکت اور سیاست مُدن کے اصول اعلیٰ درجہ کے بتائے گئے ہیں.غرض ہر رنگ اور ہر طرز کی اصلاح اور بہتری کے اصول یہ بتاتا ہے.(الحکم ۱۷؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۵) ۵۱. : یعنی شُترِ بے مہار بننا چاہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۵۲.
: دل کا مُتَصِّرف.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) : یہ جنگ کے وقت کا ذکر ہے.سورۃ ممتحنہ دیکھو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۰) ۵۳. : ان میں شامل ہونے کے لئے جلد بازی کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۵۵. : اس آیت میں جو معاملہ ہے وہ بظاہر تکلیف دہ ہے کسی شخص کا بھائی.بیٹا.دوست.سچّے مذہب سے پھر جائے تو اس قدر رنج پہنچتا
ہے.پھر صحابہؓ کرام کو اپنے قلّت تعداد کی حالت میں اس قدر محنتوں سے مسلمان بنانے کے بعد پھر بھی کسی کا ارتداد دیکھنا پڑے تو کیا کچھ دُکھ پہنچنا چاہیئے تھا.لیکن خدا تعالیٰ اس معاملہ میں مومنوں کیلئے ایک بشارت دیتا ہے.کہ ایک مُرتد ہو تو میں تمہیں اس کے بدلے میں ایک قوم دوں گا.اور وہ قوم بھی ایسی کہ مَیں اُن سے محبّت کروں گا اور وہ مجھ سے.ایک دفعہ ایک لڑکے نے ( جس کی پرھائی پر میں نے ہزاروں روپیہ خرچ کیا تھا ) مجھے خط میں لکھا کہ میں ناپک مذہب اسلام کو چھوڑتا ہوں.مجھے بہت دُکھ ہوتا اگر یہ آیت میرے ذہن میں نہ آ جاتی.: دراصل تھوڑوں کو کہتے ہیں.کیونکہ تھوڑے عاجز اہوتے ہیں اس لئے مطلب یہ ہے کہ نرم دل.یہ آیت شیعہ کیلئے کاری حربہ ہے.عرب میں بھی جب سلسلۂ ارتداد شروع ہوا تو جو قوم ان کے مقابلہ میں اٹھی جسے کا سر ٹیفکیٹ مل چکا ہو.وہ بالا تفاق حضرت ابوبکرؓ اور ان کے پَیرو تھے وہی کافروں پر غالب آئے.وہ فی سبیل اﷲ جہاد کرتے رہے اور وہی کسی سے نہیں ڈرے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ایک تارکِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.’’ ہمارے لئے تمہارا ارتداد بھی خوشی کا باعث ہے کیونکہ قرآن کریم میں ایسے ارتداد اور مُرتدوں کے بدلہ ہم کو وعدہ دیا گیا .(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۴۰) یعنی اگر تم میں سے کوئی لایک مُرتد ہو جاوے تواس کے بدلہ اﷲ تعالیٰ ایک بڑی قوم لائے گا.جو اﷲ تعالیٰ سے محبّت کرنیوالی اور اﷲ تعالیٰ ان سے محبّت کرنیوالا ہو گا.اس تارک اور اس کے اور مُرتد بھائیوں کے بدلہ ہمیں قوموں کی قومیں مسلمان اور نیک مسلمان جو محبوب الہٰی ہوں گے عطا کریگا اور ضرور عطا کرے گا فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۲۵۲) ۵۶. : کہ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں اور ہر وقت خدا کی جناب کے
فرماں بردار ہیں.اس آیت کو شیعہ نے حضرت علیؓ پر لگایا ہے اور ایک روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ ہی نے بحالتِ رکوع زکوٰۃ دی تھی.مگر یہ انکی غلطی ہے.ہمارے دوست حکیم فضل دین صاحب نے ایک دفعہ ایک شیعہ کو خوب جواب دیا.پہلے اس سے دریافت کیا کہ حضرت ابوبکرؓ حضرت علیؓ کے مدّ مقابل میں تھے اس نے کہا.ہاں.انہوں نے خلافت غصب کی وغیرہ وغیرہ.تب حکیم صاحب نے کہا تم ہوش کرو.اسی آیت کے ساتھ لکھا ہے :(المائدہ: ۵۷) پس غالب تو تم خود ابوبکرؓ کو مانتے ہو.حزب اﷲ سے بھی وہی ہوا.اور یہی نشان ہے ان لوگوں کا جو کے مصداق ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) : خدا کے حضور عاجزی کرنیوالے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۰) ۵۹. قرآن کریم… تذلیل اور اہانت کے طور پر ان لوگوں کا حال بیان کرتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے اور بے عقلی کے بدنتائج میں مبتلا ہوتے ہیں.جیسے فرمایا اور جب تم انہیں نماز کو بلاتے ہو.اُسے حقارت اور کھیل میں اُڑاتے ہیں.اس کا سبب یہ ہے کہ یہ لوگ عقل سے کام نہیں لیتے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ب.۱۲) ۶۰. انہیں کہہ.اے کتاب والو.تم اس لئے ہم سے بیزار ہو کہ ہم ایمان لائے اﷲ پر اور اس پر جو ہم پر نازل کیا گیا اور تمہاری ناراضی کی جڑ یہ ہے کہ تم حدود الہٰیہ کو توڑنے والے ہو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۷۹.۱۸۰) ۶۱.
. (الفجر: ۱۶، ۱۷) سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتلاء دو قسم کے ہیں.ہمارے ملک میں اگر سکی سے پوچھتے ہیں کہ کیا حال ہے تو وہ کہتا ہے.بڑا فصل ہے.جس سے مُراد یہ ہے کہ مال مویشی.اولاد سب کچھ ہے.اسی طرح فضل الہٰی کے چھِن جانے سے بھی یہی مقصد ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ہیں نہیں.اﷲ تعالیٰ اسی سورۃ میں فرماتق ہے کہ فضل کا دار و مدار تو یتیم کے ساتھ سلوک کرنے.کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب پر ہے.اور یہ ئہ مال سے زیادہ مہبّت نہ ہو.اس رکوع میں بعثت کے نشان فرمائے ہیں.ترجمہ یہ جے کیا ہم اطلاع دیں تمہیں اس کی جس کو ایک بُرا نتیجہ ملا ہے.: وہ ذلیل کر دیئے گئے.چنانچہ یہودیوں کی نسبت ارشاد ہے.اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَاﷲِ وَبِحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (آل عمران: ۱۱۳) اورلا تُنْصَرُوْنَ (ہود :۱۱۴) : مالِ دنیا کا حریص اور ٓشہوت کا حریص.: حد سے نکلنے والے کافر ماں بردار.: پاک، عمدہ، قریب راہ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) ان سے کہہ میں تمہیں ان قوموں کی خبردوں.جنہیں خدا کی طرف سے ان کے ایسے افعال کا بہت بُرا بدلہ ملا.وہ وہ ہیں.جنہیں خدا نے بندر اور سؤر اور شیطان کے پرستار بنا دیا.یہ بہت بُرے پایہ کے لوگ ہیں اور سب سے زیادہ راہِ حق سے دُور بھٹکے ہوتے ہیں.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۸۰) وہ جو اپنے آپ کو ابراہیم کے فرزند کہلاتے تھے اُن کی نسبت قرآن ہی نے خود شہادت دی ہے.اَکْثَرُھُمُ الْفَاسِقُوْنَ (آل عمران:۱۱۱) ان میں اکثر لوگ فاسق تھے اور یہاں تک فسق و فجور نے ترقی
کی ہوئی تھی یہ اس وقت کے لکھے پڑھے سجادہ نشین.خدا کی کتاب مقدّس کے وارث لوگوں کا نقشہ ہے کہ وہ ایسے ذلیل و خوار ہیں جیسے بندر.وہ ایسے شہوت پرست اور بے حیا ہیں جیسے خنزیر.اس سے اندازہ کرو ان لوگوں کا جو پڑھے لکھے نہ تھے جو موسٰی کی گدّی پر نہ بیٹھے ہوئے تھے.پھر یہ تو ان کے اخلاقِ بد، عادات بد یا عزّت و ذلّت کی حالت کا نقشہ ہے.اگرچہ ایک دانشمند اخلاقی حالت اور عرفی حالت کو ہی دیکھ کر روحانی حالت کا پتہ لگا سکتا ہے.مگر خود خدا تعالیٰ نے یہی بتا دیا ہے کہ رُوحانی حالت بھی ایسی خراب ہو چکی تھی کہ وہ عبدالطاغوت بن گئے تھے.یعنی احدود الہٰی کے توڑنے والوں کے عبد بنے ہوئے تھے.ان کے معبود طاغوت تھے.اب خئال کرو کہ اخلاق پر وہ اثر.رُوح پر یہ صدمہ.عزّت کی وہ حالت؟ یہ ہے وہ قوم جو کہنے والی تھی.اس چھوٹے درجہ کی مخلوق کا خود قیاس کر لو.یہ نقشہ کافی ہے.عقائد کو سمجھنے کیلئے یہ کافی ہے.عزّت و آبرو کے سمجھنے کے لئے کہ جو بندر کی عزّت ہوتی ہے.پھر یہ نقشہ کافی ہے.اخلاق کے معلوم کرنے کیلئے جو نَزیر کے ہوتے ہیں کہ وہ سارا بے حیائی اور شہوت کا پُتلا ہوتا ہے.جب ان لوگوں کا حال میں نے سنایا جو (المائدۃ : ۱۹) کہتے اور ابراہیمؑ کے فرزند کہلاتے تھے تو عیسائیوںپر اسی کا قیاس کر لو.ان کے پاس تو کوئی کتاب ہی نہ رہی تھی.اور کفّارہ کے اعتقاد نے انکو پوری آزادی اور اباحت سکھا دی تھی اور عربوں کا حال تو ان سب سے بدتر ہو گا جن کے پاس آج تک کتاب اﷲ پہنچی ہی نہ تھی.اور پھر یہ خصوصیت سے عرب ہی کا حال نہ تھا.ایران میں آنش پرستی ہوتی تھی سچّے خدا کو چھوڑ دیا ہوا تھا اور اہرمن اور یزدان دو جُدا جُدا خدا مانے گئے تھے.ہندوستان کی حالت اس سے بھی بدتر تھی.جہاں پتھروں ، درختوں تک کی پُوجا اور پرستش سے تسلّی نہ پا کر آخر مردوں اور عورتوں کے شہوانی قوٰی تک کی پرستش جاری ہو چکی تھی.غرض جس طرف نظر اُٹھا کر دیکھو.جدھر نگاہ دوڑاؤ.دنیا کیا بلحاظ اخلاقِ فاضلہ.کیا بلحاظ عبادات اور معاملات ہر طرح ایک خطرناک تاریکی میں مبتلا تھی اور دنیا کی یہ حالت بالطبع چاہتی تھی کہ ع مردے ازغیب بروں آید و کارے میکند چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے ایک رسول کو عربوں میں مبعوث کیا جیس کہ فرمایا.(الجمعۃ : ۳) یہ رسول صرف عربوں ہی کے لئے نہ تھا.باوصفیکہ عربوں میں مبعوث ہوا بلکہ اس کی دعوتِ عام اور کل دنیا کیلئے تھی جیسا کہ اُس نے دنیا کو مخاطب کر کے سنایا. (الاعراف :۱۵۹) اے لوگو مَیں تم سب کی طرف رسول ہو کر آیا ہوں اور پھر ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.(الانبیاء : ۱۰۸
یعنی ہم نے تم کو تمام عالموں پر رحمت کیلئے بھیجا ہے اسی لئے وہ شہر جہاں سرورِ دوعالم فخرِ بنی آدم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ظہور پایا امّ القرٰی ٹھہرا اور وہ کتاب مبین جس کی شان ہے لَارَیْبَ فِیْہِ (البقرۃ:۳) وہ اُمّالکتاب کہلائی اور وہ لسان۱؎ جس میں امّ الکتب اُتری وہ امّ الالسنہ ٹھہری.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل تھا جو آدم زاد پر ہوا.اور بالخصوص عربوں پر.اس رسول نے آ کر کیا.(الحکم ۱۰؍ستمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۸) ۶۲. جب تمہارے پاس آتے ہیں.اٰمَنَّا کہتے ہیں.حالانکہ کفر دل میں لے کر آتے ہیں اور کفر کو لے کر نکلتے ہیں.اور جو کچھ دل میں مخفی رکھتے ہیں اُسے خدا خوب جانا ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۸۰) ۶۳. : حدبندیوں سے نکلنے والے.: حرام خوری.میں بارہا بتا چکا ہوں کہ انسان کی نیکی اور تقوٰی کا پتہ مالی معاملات میں لگتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) بہت سے ان میں سے تم خوب دیکھتے ہو.بدکاری اور بغاوت اور حرام خوری میں بڑھ بڑھ کر قدم مارتے ہیں.بہت ہی بُرے کام ہیں جو یہ کرتے ہیں.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۸۰) ۶۴.
ان عالموں اور درویشوں کو چاہیئے تھا کہ انہیں ناجائز باتوں اور حرامخوری سے روکتے.بہت ہی بُری کر توتیں ہیں جو یہ کرتے ہیں.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۸۰) ۶۵. : نادان لوگ جب تنگ ہوتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں.خدا کے ہاتھ ہمارے لئے ڈال ہو گئے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) : ہر ایک صفت موصوف کی شان کے مطابق ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۱) ۶۷.
: میرے نزدیک اس سے مُراد مکالماتِ الہٰیہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۶۸. میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں کہ سورۃ نساء و مائدۃ معاشرۃ و تمدّن کے مسائل کیلئے ہے کہ آدمی ارام میں کیونکر گزارے.چنانچہ بیوی.بچّوں.یتیموں.بیواؤں سے جیسا سلوک کرنا چاہیئے.اسکا ذکر ہو چکا ہے اب فرماتا ہے کہ آرام میں اﷲ کی کتاب اور اصلاح بین النّاس کی طرف متوجہ ہو.لڑائیاں اگر فتوحات کے لئے ہوں، تو آرام ان فتوحات کے انتظام کیلئے.:- یہ آیت بہت قابلِ غور ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم مدینہ میں سات بلکہ دس مشکلات میں تھے.ایسی حالت میں آپؐ تبلیغ کرتے رہے.ا.مکّہ کے دشمن تو موجود تھے ہی آپ ۱۲۰ میل پر ان چالاکیوں سے کیونکر واقف ہو سکتے تھے.۲.یہود…بنو قینقاع جو بڑی بے رحم قوم تھی.۳.قریظہ جن کا مکّہ کے گھر گھر میں دخل تھا.۴.بنو نضیر جو گنڈے تعویز وغیرہ بھی دیتے تھے.۵.عیسائیوں کا گروہ.۶.اوس و خزرج دونوں میں منافق.۷.مشرکانِ مدینہ.۸.پھر عیسائی جو روماؔکی سلطنت کو اُبھارتے تھے.۹.یہود ایران والوں کو اُبھارنے والے.ایسی مشکلات کا سامنا تھا.۱۰.مکّہ کا دشمن بدستور بلکہ آگے سے زیادہ تیز.: اور اﷲ تمہیں لوگوں سے محفوظ رکھے گا.جس وقت یہ آیت اُتری آپؐ کے خیمہ کے گرد پہرہ تھا.آپ نے فرمایا.کہ سب چلے جاؤ.اب مجھے تمہاری ضرورت نہیں.اس آیت پر مجھے ایک مضمون سُوجھا کرتا ہے کہ حضرت عمرؐ کیسے بڑے آدمی کیسے مدبّر تھے اور بارُعب.حضرت عثمانؓ ایک چلتا پُرزہ قوم بنو اُمیّہ میں سے تھے.جن میں بڑے بڑے عقلمند اور تجربہ کار تھے.
حضرت علیؓ بڑے شجاع و بہادر تھے.مگر قتل کرنیوالوں نے حضرت علیؓ کو قتل کر دیا.حضرت عثمانؓ کو مارنے والوں نے تمام صحابہ کرام کے سامنے مار دیا.حضرت عمرؓ کو نماز پڑھتے ہوئے ایک اکیلے شخص نے خنجر لگا دیا.حالانکہ وہ زمانہ اسلام کی پوری …شوکت کا زمانہ تھا.ان لوگوں کے پاس حفاظت کے سامان بھی تھے ارد گرد سب خیر خواہ تھے.مگر پھر بھی قتل کر ہی دیئے گئے.برخلاف اس کے بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اتنی مشکلات میں.عرب کا اکثر حصّہ اور اپنے پرائے دشمن.پھر کس تحدّی سے جاہلوں کو للکار کر پیشگوئی کی جاتی ہے. .ا ور یہ پیشگوئی پھر پوری نکلتی ہے.: منکر لوگوں کو تیرے قتل کرنے کی کوئی راہ نہ سوجھے گی.شیعہ قوم پر مجھے بار بار تعجب آتا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نبی کریمؐ کو ابوبکر کا خوف تھا حضرت علی کی خلافت کا اعلان نہ فرماتے تھے.اسی لئے کا نزول ہوا.نادانوں کو یہ سمجھ نہیں آتی کہ کا وعدہ موجود.پھر دو تین آدمیوں کا کیا خوف تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) لکھا ہے کہ ادائل میں جناب پیغمبر خدا صلی اﷲ علیہ وسلم چند صحابہ کو برعایت ظاہر اپنی جان کی حفاظت کے لئے ہمراہ رکھا کرتے تھے.پھر جب یہ آیت نازل ہوئی یعنی خدا تجھ کو لوگوں سے بچائے گا تو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سب کو رخصت کر دیا اور فرمایا کہ اب مجھ کو تمہاری حفاظت کی ضرورت نہیں.(الحکم ۲۴؍اگست ۱۸۹۹ء صفحہ۲) اس بات پر بھی غور کرنا چاہیئے کہ سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے پہنچانے میں کیا کیا مصائب اور مشکلات برداشت کیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلّم کی پاک لائف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے اس پاک کلام کو لوگوں تک پہنچا دینے یں اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کی.مکّی زندگی جن مشکلات کا مجموعہ ہے.وہ سب کی سب اسی ایک فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے آپ کو برداشت کرنی پڑی ہیں.لکھا ہے کہ جب مکّہ کے شریروں اور کفّار نے آپ کے پیغام کو نہ سُنا تو آ پ طائف تشریف لے گئے اس خیال سے کہ ان کو سُنائیں اور شاید ان میں کوئی رشید اور سعید ایسا ہو جو اُس کو سُن لے اور اس پر عمل درآمد کرنے کو تیار ہو جائے جب حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام طائف پہنچے تو آپؐ نے وہاں کے عمائد سے فرمایا کہ تم میری ایک بات سُن لو.لیکن ان شریروں.قسی القلب لوگوں نے آپ کا پیچھا کیا اور نہایت سختی کے ساتھ آپؐ کو ردّ کر دیا.انیٹیں اور پتھر مارتے جاتے تھے.اور آپؐ آگے آگے دوڑتے جا رہے تھے.یہاں تک کہ آپ بارہ کوس تک بھگے چلے آئے.اور پتھروں سے آپؐ زخمی ہو گئے.ان تکالیف اور مصائب کو آپؐ نے کیوں برداشت کیا؟ آپؐ خاموش ہو کر اپنی زندگی گزار سکتے تھے پھر وہ بات کیا
تھی.جس نے آپؐ کو اس امر پر آمادہ کر دیا کہ خواہ مصیبتوں کے کتنے ہی پہاڑ کیوں نہ ٹوٹ پڑیں.لیکن امرِ الہٰی کے پہنچانے میں آپ تساہل نہ فرماویں گے.قرآن شریف سے ہی اسکا پتہ چلتا ہے.آپ کو حکم ہوا تھا.بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ.جو کچھ تیری طرف نازل کیا گیا ہے اسے مخلوقِ الہٰی کو پہنچاوے اورفَاصْدَعْ بَمَاتُؤْمَرُ (الحجر:۹۵) جو تجھے حکم دیا جاتا ہے اس کو کھول کھول کر سُنا دے.اس پاک حکم کی تعمیل آپؐ کا مقصودِ خاطر تھا.اور اس کیلئے آپؐ ہر ایک آفت اور مصیبت کو ہزار جان برداشت کرنے کو آمادہ تھے.پھر قرآن شریف کے تو تیس سپارے ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار مضامین ہیں.جن کو پہنچانا آپؐ کا ہی کام تھا.اگر اﷲ تعالیٰ کی تائید شاملِ حال نہ ہو اور اس کی نصرت ساتھ نہ ہو تو پُشت شکن امور پیش آ جاتے ہیں.اس زمانہ میں ہی دیکھ لو کہ ایک توفّی کے امر کو پیش کرنے میں کس قدر دِقّتیں پیش آرہی ہیں اور کیا کیا منصوبے اور تجویزیں مخالف کی طرف سے آئے دن ہوتی رہتی ہیں.اور وہ شخص جو مسیح موعود کے نام سے آیا ہے اور اس پیغام کو پہنچانا چاہتا ہے وہ بھی بالمقابل اُن کی تکلیفوں اور اذّیتوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.وہ تھکتا اور ماندہ نہیں ہوتا.اُس کا قدم آگے ہی آگے پڑتا اور اس مضمون کے پہنچانے میں کوئی سُستی نہیں کرتا.کوئی ذکر ہو.اندر ہو یا باہر ہو.آخر اس کے کلام میں یہ بحث ضرور آ جاتی ہے.پھر مخالفوں کی کوششیں اور ادھر اس کی مساعی جمیلہ اس پر دعائیں کرتا ہے.غرض کیا ہے؟اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ (آل عمران:۵۶) کے حقیقی معنے لوگوں کے ذہن نشین ہو جائیں.کیوں؟ اس موت سے خدا تعالیٰ کی زندگی.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات.اسلام کی زندگی اور قرآن کریم کی زندگی ثابت ہوتی ہے اور یہ قرآن شریف کی اعلیٰ درجہ کی خدمت ہے.غرض قرآن شریف وہ پاک اور مجید کتاب ہے جس کی اشاعت اور تبلیغ کیلئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہؓ کو وہ محنت کرنی پڑی اور آج اس زمانہ کے امام اور خاتم الخلفاء کو وہ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.(الحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲) ۷۰.
: ہر قوم کو آخر اسلام کی طرف جھکنا پڑتا ہے.صابی حضرت ابراہیمؑ کو عظیم الشّان مانتے ہیں.حضرت یحیٰ کو بھی.وضو کرتے.نماز قبلہ رُخ ادا کرتے ہیں لیکن محمد رسول اﷲ علیہ وسلم کے ماننے میں تامل ہے.فرمایا کہ وہ جو اﷲ پر ایمان لاتے اور آخرت پر اور نیک عمل کرتے ہیں ان پر زمانہ آتا ہے.کہلَا ہونگے.خوف و حزن سے محفوظ ہوں گے یعنی آخر اسلام غالب آئے گا… دیکھ جو بُتوں کے حامی تھے.جو اپنی اپنی خود ساختہ روایات کے پابند تھے.ان کو بُتوں کے کارخانے بگڑنے اور اپنے دین کے کمزور ہو جانے کا کس قدر خوف تھا اور پھر جب سب کچھ تباہ ہو گیا تو کیسا حُزن لاحق ہوا.عرب کے ملک سے عیسائیت کا اور یہودیت کا خاتمہ ہو گیا.ایک اسلام والے ہی رہ گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) ۷۲. : رجوع رحمت کیا اﷲ نے.حضرت محمدؐ رسول اﷲ سا نبی مبعوث کیا.: پھر بھی نہ حق کے بینار ہے نہ حق کے شنوا.۷۳.
: یہ پختہ بات ہے کہ جو اﷲ سے شرک کرے.اﷲ جنّت کو اس پرحرام کر دیتا ہے.اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے.اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۰۱ نیز فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵) ۷۶. مسیح بھی ایک رسول تھا کیا کوئی رسول اس سے پہلے اﷲ.ابن اﷲ.دائمی زندگی والا ہوا ہے.ہرگز نہیں.پس ایسا ہی یہ بھی ہے.جیسے پہلے رسول ہو گزرے یہ مسیحؑ بھی مر چکا.: اشارہ ہے اس بات کی طرف.کہ وہ ہگتے اور مُتتے تھے.کیا ہگنے اور مُوتنے والا خدا ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) یہود نے نہ عیسٰی کو مارا اور نہ پھانسی دیا بلکہ وہ اپنی طبعی موت سے مر گئے.’’ اڑ گئے‘‘ جس لفظ کا ترجمہ ہو سکتا ہے.وہ لفظ قرآن میں ہے نہ حدیث میں.قرآن شریف کو سُنو.وہ کہتا ہے.مسیح ابن مریم رسول تھا اور اس سے پہلے اس جنس کے رسول سب مر گئے.اس آیت میں کا لفظ ایسا صاف ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کے جا نشین اوّل نے اس لفظ سے استدلال فرما کر تمام ان صحابہ کرامؓ کو جن کو وفات میں تامل ہوا تھا اپنے نبی کی وفات کا قائل کر دیا چنانچہ وہ آیت جس میں ویسا ہی موجود ہے یہ ہے. (آل عمران:۴۵) محمدؐ ایک رسول ہے.اس سے پہلے رسول مر چکے ہیں.کیا کوئی شخص ان دونوں آیتوں میں لفظ کو یکساں دیکھ کر جس کا ترجمہ یہ ہے ’’ مر چکے‘‘ حضرت مسیحؑ اور حضرت محمّد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات میں فرق اور شک کر سکتا ہے.قرآن کریم کے نزدیک گزشتہ نبیوں کے حالاتِ سر بستہ کے
حل کیلئے ہمارے نبی کریمؐ ہمارے نبی کریمؐ کی زندگی کے واقعات کلید ہیں.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۷۷) ۷۸. : جو بہک گئے ہیں آگے.اور بہکالے گئے بہتوں کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۶) ۷۹. لعنت کئے گئے وہ لوگ جو بنی اسرائیل سے کافر ہوئے.داؤد اور عیسٰی بن مریم کی زبانی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴۹) : انہی میں سے وہ تھے جن کا ذکر (صٓ: ۲۲)میں آیا ہے اﷲ تعالیٰ وہاں فرماتا ہے (صٓ: ۲۷)کہ اے داؤد ہم نے تجھے خلیفہ بنایا ہے.بعض وقت غلطی سے انسان کسی عظیم الشان مقرّب عند اﷲ کی تحقیر کر بیٹھتا ہے.اس وقت وہ خدا کی رحمت سے دُور ہو جاتا ہے اورلُعِنُوْا کا فر و جُرم اس پر لگتا ہے.قرآن مجید میں یہ ذکر مسلمانوں کو سنانے کیلئے آیا ہے.اسلام کو بادشاہت مقصود نہیں.شاہی مذہب نہیں.یہ تو ایمان سکھانے کیلئے آیا ہے.اسلام میں کوئی خاص زبان.لباس نہیں.وہ تو تمام لوگوں کو خدا منوانا چاہتا ہے.: آدمی پہلے چھوٹے چھوٹے گناہ کرتا ہے پھر بڑے بڑے گناہوں میں گرفتار ہوتا ہے.مثلاً پہلے کسی کو بد نظری سے دیکھ لیا.پھر دوسری بار دیکھنے کو دل چاہا.پھر آہستہ آہستہ اس کا پتہ دریافت کیا.آخر زناء میں گرفتا ر ہو گیا.پھر حدود اﷲ سے بھی آگے بڑھتا ہے اور ایک چِڑ سی ہو
ہو جاتی ہے اس وقتلُعِنُوْا کا زمانہ آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) ۸۲. : اگر کچھ بھی غیرت ہوتی تو اﷲ.رسول.امام کو بُرا بھلا کہنے والوں سے پیار نہ ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) ۸۳. : یہود نے کبھی کسی سچّے مسلمان کو پناہ نہیں دی.: مُشرک کبھی مومن کاخیر خواہ نہیں ہوتا.آریہ کا بھی یہی حال نظر آتا ہے حضرت۱؎ صاحب ایک مقّدمہ کی مشکلات میں اڑھائی سال رہے.حالانکہ وہ ایسا مقّدمہ تھا کہ چند منٹوں میں عیسائی حاکم نے اس کا فیصلہ کر دیا.: رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے صحابہؓ بھی ہجرت کر کے گئے تو ایک عیسائی سلطنت نے پناہ دی اور نیک سلوک کیا.
: سؔ دراصل صؔ ہی ہے.یعنی وہ لوگ جو بزرگوں کے قصّے کہانیاں بیان کرتے رہتے ہیں.اور ان کے اثر سے بعض نیک صفات باقی رہتی ہیں.رُھْبَانًا: تارک الدُّنیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۲؍اگست ۱۹۰۹ء) ۸۴،۸۵،۸۶. رشک اور غبطہ بھی ایک نعمت ہے.کسی کو علم آتا ہے اور وہ اس علم کو رات دن اﷲ تعالیٰ کیلئے بڑھاتا ہے کسی کے پاس مال ہے اور وہ اسے صبح و شام رضاء الہٰی میں خرچ کرتا ہے تو رسول کریمؐ نے فرمایا کہ اس کی حالت قابلِ غبطہ ہے.اب دیکھو اﷲ جس بات کی تعریف کرے وہ کیوں مومن کیلئے قابلِ رشک نہ ہو.اس رکوع میں عیسائی حبشیوں کا ذکر ہے کہ جب صحابہؓ ان کے پاس ہجرت کر کے گئے اور جعفرؓ نے قرآن سنایا تو ایسے روئے کہ گویا آنکھیں بہی جاتی تھیں.تم لوگ جو مسلمان کہلاتے ہو.اپنے دل میں سوچو کہ کیا تمہاری یہ حالت ہے.ایک جگہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ قرآن شریف کے سُننے سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور (الزمر: ۲۴)میں نے ایسے کئی نظارے دیکھے ہیں ایک امیر اپنے خادم پر نہایت سخت ناراض ہوا.جوش غیظ و غضب میں
خادم کو مارنے اُٹھا.ایک پاؤں دہلیز کے باہر تھا اور ایک اندر کہ میں آ گیا.میں نے پڑھااَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ (آل عمران : ۱۳۵) میرا یہ کہنا ہی تھا کہ وہ وہیں کھڑا رہ گیا.اور دیر تک کھڑا رہا.اس کا چہرہ زرد رہ گیا.حضرت عمرؓ کے دربار میں ایک امیر آیا.اس نے اس بات کو بہت مکروہ سمجھا کہ ایک دس برس کا لڑکا بھی بیٹھا ہے.کہ ایسی عالی شان بارگاہ میں لونڈوں کو کیا کام؟ اتفاق سے حضرت عمرؓ اس امیر کی کسی حرکت پر نارا ض ہوئے.جلاّد کو بلایا.وہی لڑکا پُکار اُٹھا.اَلْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَپڑھا وَانعْربضْ عَنِ الْجَاھِلیْنَ (الاعراف: ۲۵۰) اور کہا ھٰذَا مِنَ الْجَاھبلِیْنَ.حضرت عمرؓ کا چہرہ زرد ہو گیا اور خاموش رہ گئے.اس وقت اس کے بھائی نے کہا.دیکھا اسی لونڈے نے تمہیں بچایا جس کو تم حقیر سمجھتے تھے.: انسان کو چاہیئے کہ باتیں سُنے اور شہادت حق دے اور صلحاء میں داخل ہونے کی تڑپ رکھے.اب تو مسلمانوں کی محبّت قرآن سے یہ ہے کہ جھوٹی قسمیں کھانے کیلئے نکال لیا.فال دیکھ لی.کوئی عمل یا وظیفہ پڑھ لیا.کوئی ترکیب یا صیغہ دیکھ لیا.عمل مقصود نہیں رہا.: ہر محسن کیلئے یہی جزاء ہے.یہ مت سمجھو کہ انعامات اگلوں کے لئے ہی تھے اور تم محروم ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۸۸،۸۹. : اور کھاؤ اس میں سے جو دیا تم کو خدا نے حلال اور ستھرا اور خدا سے ڈرو جس پر تمہارا یقین ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۹) : انسان بدکاری میں ترقی کر خدا کے انعاموں سے محروم رہ جاتے ہیں.: ہر ایک چیز کیلئے ایک حد مقرّر ہے حتّٰی کہ نیکی کی بھی.چار رکعت نماز مقرّر ہے
کوئی پانچ پڑھے تو جائز نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) : حلال چیز کو حرام کر دینے کی کئی صورتیں ہیں.۱.اﷲ کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے وہ بیمار ہوا اور اچھی چیزوں سے محروم رہ گیا.۲.قوم کے پاس سلطنت ہو تو بہت سی طیّب چیزیں اس کے پاس رہتی ہیں.پس اپنے آپ کو قرآن کے خلاف چل کر سلطنت سے محروم نہ کرنا.۳.اس زمانہ میں مسیح موعودؑ آیا اگر تم سب کے سب اس کے مطیع ہوتے تو پھر ان طیّبات سے حصّہ پاتے جن سے اسلامی محروم ہو چکے.۴.بعض لوگ مجاہدہ کے طور بعض طیّب چیزوں کو اپنے اوپر حرام کر لیتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۱) ۹۰. : اور نگاہ رکھو قسمیں اپنی پر.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۲) : انسان کبھی غضب میں آجاتا ہے اور کبھی عادۃً قسم کھا لیتا ہے کبھی ایک چیز کو واقعی سمجھتا ہے اور وہ واقعی نہیں ہوتی.کبھی شریعت کے خلاف کسی امر پر قسم کھاتا ہے.اس پر گرفت نہیں.: اکثر نے اس کے معنے میانہ درجہ کے کئے ہیں مگر بعض مفسّرین نے اَوْسَط کے معنی اعلیٰ درجہ کے کئے ہیں.: جس میں کم از کم دو چادریں ہوں.
: ایک مقدّمہ جیتنے کیلئے تمام جائیداد تباہ کی جاتی ہے.ناکامی پر ناکامی اٹھاتے ہیں.مگر پریوی کونسل تک جاتے ہیں.کیا دین کے لئے بھی کبھی ایسی کوشش کی ہے؟ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۹۱. اے ایمان والو.شراب اور جُؤا اور بُت اور فالیں گندی باتیں شیطانی کام ہیں.پس بچو تاکہ نجات پاؤ.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۶۰) شراب اور جُؤا اور بُت اور قرعہ کے تیر پلید شیطانی کام ہیں.ان سب سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۴.۷۵) ۹۲. شیطان کا ارادہ یہ ہے کہ جُوئے اور شراب کے بہانہ تمہارے درمیان بغض و عداوت ڈلوادے اور تم کو اﷲ کے ذکر اور نماز سے روکے.اب بھی باز آؤ گے؟ (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۳) : بُغض و عداوت ایسی بُری چیز ہے کہ اس کے جس قدر ذرائع ہیں وہ بھی حرام ہیں چنانچہ خمر.میسر.۱؎ انصاب.ازلام کو حرام فرمایا کہ ان سے باہمی تباغُض پیدا ہوتا ہے.مسلمان تو ان چیزوں سے بچتے ہیں.پھر بھی ان میں بُغض و عداوت ہے.اس کی وجہ مجھے تو یہی معلوم ہوتی ہے کہ قرآن مسلمانوں نے چھوڑ دیا ہے
:(المائدہ:۱۵) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۹۶. ظاہر و باطن کا تعلّق ضرور ہے.اگر کسی کے دل میں خوشی ہو تو اس کا اثر اس کے چہرے پر ضرور پڑے گا.اگر غم ہو گا تو بھی بُشرہ پر اس کا اثر ہویدار ہو گا.اگر کسی کے دل میں محبّت ہو.تو ۱؎ جؤا.مرتب جب وہ سامنے آئیگا.ضرور چہرہ کی کیفیت بدلے گی.کسی سے دشمنی ہو گی تو بھی.جھُوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم فلاں شخص سے محبّت رکھتے ہیں اور پھر اسکے پاس تک نہیں بیٹھتے! انبیاء نے اس حقیقت کو خوب سمجھا ہے.نمازوں میں دیکھئے دل میں اگر عجز و نیاز ہے تو اس کے اظہار کو ظاہر جسم پر بھی ایک رکھا ہے.اﷲ تعالیٰ کی صفات پر غور کر کر کے انسان جھُک جاتا ہے اور پھر اس کی عظمت کا مطالعہ کرتے کرتے متائثر ہو کر سجدہ میں گر پڑتا ہے.اسی طرح دیکھو جو شعائر اﷲ ہیں اﷲ ان کی عظمت و جبروت کو قائم رکھانا چاہتا ہے.مکّہ ایک بے نظیر شہر ہے.وہاں حضرت ہاجرہ نے بڑے صبر سے کام لیا اس وادیٔ غیر زرع میں خاوند سے الگ ہو کر رہیں.وہیں صفا و مروہ جہاں بے تابانہ آپ گھومی تھیں.اب وہاں اتنی بھیڑ ہے کہ جگہ نہیں ملتی.وہ تو عورت تھی.حضرت ابراہیمؑ کو دیکھو.اِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم:۳۸) کا سر ٹیفکیٹ پایا.آپ نے خدا جانے کس اخلاص و جوش توحید کے ساتھ انیٹیں لا لا کر پھیرے دئے اور دیواریں بنائیں کہ اب جو جاتا ہے اس عظمت کا مطالعہ کرنے کیلئے طواف کرتا ہے.پس ایسے مکّہ کی تعظیم و تکریم کے لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! ہم تمہارے لئے امتحان رکھ کر انعام دینا چاہتے ہیں.وہ یہ کہ وہاں شکار مت کرو.بحالتِ احرام.
: صاحبان عقل و فہم.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۹۸. : یہاں اﷲ تعالیٰ ثبوت دیتا ہے اس بات کا کہ مَیں ہوں اور میں علیم اور قادرِ مطلق ہوں.ابراہیمؑ نے بھی ایک گھر بنایا.لوگ بھی گھر بناتے شہر بساتے ہیں.مگر کئی گھر، کئی شہر برباد و تباہ ہو چکے لیکن وہ جو توحید و عظمتِ الہٰی کی خاطر بنایا گیا.اب تک قائم ہے.اسی وسطے فرماتا ہے اﷲ نے اس گھر کو عزّت والا بنایا.: جب تک دنیا قائم ہے.یہ بھی رہے گا.یہ نہ ہو گا تو دنیا بھی نہ ہو گی.: عزّت والے مہینوں میں لوگوں کی آمدورفت رہے گی.قربانیاں یہاں ہوتی رہیں گی اور اس مطلب کیلئے جانور آتے رہیں گے.یہ سب اس لئے ہو گا تا تم جانو کہ اﷲ تعالیٰ علیم ہے.دیکھو ایرانیوں کا بڑا معبد… آتش کدہ برباد ہوا.یہودیوں کا معبد بیت المقدس تباہ ہوا.یہاں تک کہ ایک عورت مسیحؑ سے پوچھتی ہے کہ ہیکل کہاں تھی.جواب کیا خوب دیا جاتا ہے نہ یہ رہے گی.نہ وہ.غرض تمام معبد خانے جو انسانوں نے بنائے وہ تباہ ہوئے.پھر بنائے تو مفتوح ہوئے مگر عرب کا معبد مکّہ اب تک خدا کے سچّے بندے مسلمانوں کا ہے.عرب ایسا ملک ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ ہند تک آیا مگر مکّہ وہ بھی فتح نہ کر سکا.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم نے اسے بھی فتح کیا.مفتوح بنائے پھر سب کو فاتح بھی بنا دیا.ایسا کہ پھر مفتوح نہ ہو صلیبی جنگوں میں ۸۳.۸۴ سال قبضہ رہا.یورپ کی مجموعی طاقت تھی مگر مدینہ ایسے معمولی گاؤں پر قابو نہ پا سکے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) : اﷲ نے کعبہ کو عزّت والا اور حُرمت والا گھر بنایا.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۴۹) : یہ ہستی باری تعالیٰ اور اس کے عالم الغیب ہونے کی دلیل ہے.باوجود تبدّلِ
قوانیں و سلاطین یہ معزّز و مکرم ہو گا.: جب تک کعبہ ہے اُس وقت تک دُنیا والے قائم ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۱) ۹۹. : اس آیت کی تفسیر میں ایک واقعہ صحیح واقعہ سناتا ہوں.یہاں ایک شخص آیا.کشمیر میں ملازم تھا.حضرت صاحب سے بیعت کی.بیعت کر کے کہنے لگا.جو اَب مَیں گناہ کروں تو خدا کی جو مرضی ہے سزا دے لے.وہ تو یہ کہہ کے چلا گیا.مگر میرا دل کانپ اُٹھا.آخر ایک معمولی حِیلہ سے اس کے پاس تین ہزار جمع ہو گیا.پھر ایک شخص کی گواہی دیتے ہوئے کہنے لگا.کہ یہ رشوت لیتا ہے.میں خود اپنی معرفت اس کو دلاتا رہا ہوں.جس پر ایک مقدّمہ ہو گیا.یہاں اس نے بڑے عجز و الحاح سے دعا کیلئے لکھا.حضرت صاحب نے فرمایا دُعا کیلئے دل توجّہ نہیں کرتا.ابتلاء معلوم ہوتا ہے.یہاں تک کہ وہ تین ہزار بھی مقدمہ ہی میں خرچ ہو گیا.اور اخیر قید کا حکم ہوا.اس وقت کہنے لگا.معلوم ہوتا ہے.خدا ہی کوئی نہیں.نہ کوئی دُعا ہے نہ فقیر.نماز بھی چھوڑ دی.دہریہ ہو گیا.اس وقت اُسے رات کو خواب آیا کہ تُو تو کہتا تھا کہ اب کوئی گناہ کروں تو خدا جو چاہے سزا دے لے.مگر اب ایک معمولی سزا ہی سے خدا ہی سے منکر ہو بیٹھا.اس وقت وہ اُٹھا.اور بہت استغفار کی.کلمۂ شہادت پڑھا.نماز پڑھی.اور اﷲ کی طرف متوجّہ ہوا.کسی نے اسے مشورہ دیا کہ نظر ثانی کراؤ.کہنے لگا نہیں.اب تو خدا پر چھوڑ دیا ہے.اس کے رشتہ دار نے نظر ثانی کرائی.مدعی اتنے میں مر گیا.عدالت نے فیصلہ دیا.چند امور تنقیح طلب باقی ہیں.مدعی مر چکا ہے اس لئے اسے رہا کر دیا جائے.دیکھا و شدید العقاب بھی ہے.مگر اگر کوئی سچّے دل سے توبہ کرے تو بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۰۲،۱۰۳.
انسان ضعیف ہے اﷲ تعالیٰ نے اس پر ان احکام کی تعمیل فرض کی ہے.جو خالقِ فطرت نے اس کے مناسبِ حال جانی.اگر کوئی خواہ مخواہ سوال کر کے اپنے تئیں پیچ در پیچ مسائل کا مطیع بنائے تو یہ اس کی غلطی ہے.حضرت صاحب نے بیعت کا اشتہار دیا.اور آپ کو الہام ہوا کہ لوگوں سے بیعت لو.تو آپ چونکہ جانتے نہ تھے.کہ بیعت کیونکر لی جاتی ہے اس لئے دس ماہ اسی فکر میں بیٹھے رہے اور باریک در باریک راہوں سے معلوم کر لیا کہ یوں کرنا چاہیئے.ہمارے ایک دوست کو اس بات کی ٹوہ تھی کہ بیعت میں کیا کیا شرائط ہوں.مَیں نے انہیں سمجھایا کہ ممکن ہے کہ ہم ان کے پابند نہ ہو سکیں اس لئے ایسی کوشش نہیں کرنی چاہتے.مگر اس نے نہ مانا.سردست تو وہ مخالف ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ لوگ عجیب عجیب سوال کرتے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ ہماری مخفی دولت کا پتہ لگا دو.یا فلاں کام کی نسبت دریافت کر دو.ہو گا ؟ یا نہیں؟ گویا ہمیں خدا کا ایجنٹ سمجھتے ہیں.نبی کریمؐ کے سامنے ایک شخص نے پوچھا مَنْ اِبِیْ؟ دوسرے نے کہا.کیا ہر سال حج فرض ہے؟ تو آپؐ نے جھڑک دیا تھا ! علماء میں بھی تحقیقات ہوتی رہتی ہے کہ آدمؑ جس شجرہ کے نزدیک گیا تھا اس کا نام کیا تھا.گیہوں انگور اور پھر انکی تشبیہات تک گئے ہیں.۲.نوح ؑ نے جو کشتی بنائی تھی اس کی لکڑی کس درخت کی تھی.۳.وہ شخص جس نے ابراہیمؑ سے مباحثہ کیا تھا اس کا کیا نام تھا.کَا الَّذِیْ مَرَّعَلٰی قَرْیَۃٍ (البقرہ:۲۶) والا کوئی ہے.یہاں تک کہ بعض نے اِسے ولی اﷲ.بعض نے نبی اور بعض نے کافر بھی کہا ہے.۴.موسٰیؑ کے زمانہ میں جس بقرہ کے ذبح کا حکم ہوا تھا.وہ گائے تھی یا بیل.یہ سوال تو بنی اسرائیل کو بھی نہ سوجھا.۵.اصحابِ کہف کے کتّے کی شکل اور رنگ کیا تھا.۶.شدّاد کا باغ کیسا تھا.۷.بّراق کی شکل کیسی تھی؟ ایسی بیہودہ تحقیقوں میں پڑنے سے وقت ضائع ہوتا ہے اور منشاء الہٰی جو شریعت کے نزول سے تھا جاتا رہتا ہے.اصل غرض قرآن کی تو تقوٰی اور اعمالِ صالحہ.خشیت اﷲ کا پیدا کرنا اور خودی خود پسندی اور خودرائی.عُجُب.بدنظری.دنیا پرستی سے بچنا ہے.: پہلے بڑے جوش و خروش سے دعوٰیٔ اطاعت کیا جاتا ہے پھر اس کو بناہ نہیں سکتے.ایک دوست نے بڑے زور سے اپنے افسر کیلئے دُعا کی جو اس کا مخالف تھا.الہام ہوا.نوکری نہ چھوڑنا
صبح کسی بات سے ناراض جو ہوئے.جھٹ کہہ دیا.میرا استعفاء لے لو لیا گیا.تو بعد میں افسوس.ہمارے ایک شاگرد تھا.اُس نے جب ابراہیمؑ کی نسبت ہم سے سُنا کہ خدا نے اسے فرمایااَسْلِمْ تو اس نے کہا(البقرہ:۱۳۲)تو وہ جھٹ بول اٹھا.میں بھی آپ کا ایسا مطیع ہوں.ہم نے آزمائش کیلئے یُوں کیا کہ وہ گھر میں کھانا کھاتا تھا.کہہ دیا.اب تم طالب علموں کے ساتھ کھانا کھایا کرو.اس پر اسے ایسا صدمہ ہوا کہ وہ کہے مجھے واپس گھر بھجواؤ.مجھے اپنی تذلیل منظور نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۰۴. : جس اونٹنی سے بارہ بچیاں پیدا ہو جاویں.اسے آزاد کر دیتے.نہ دودھ لیتے.نہ بال کاٹتے.ہاں مہمان کو دودھ پلاتے.اگر تیرہویں بچی بھی ہو جاتی تو اسے بھی آزاد سمجھتے.خدا نے اس سے منع فرمایا.ایسی انٹنی کو بیرہؔ کہتے ہیں.:تین طرح پر جانور چھوڑے جاتے ہیں ایک تو جب وباء پڑے تو ایک جانور لیکر اُسے سیندھور وغیرہ ملا جاتا ہے.پھر اس پر غلّہ وغیرہ رکھ کر شہر سے باہر نکال دیتے ہیں.۲.بڑے بڑے امراء اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں.اپنی عظمت.جبروت.رُعب داب دکھانے کیلئے کہ اسے بھلا کوئی چھیڑ سکتا ہے؟ عرب میں ایک شخص نے دُنبہ چھوڑا تھا اس کے گلے میں چھُری بھی باندھ دی تھی کہ کسی کو جرأت ہے کہ اسے ذبح کر.۳.نروں کو چھوڑ دیتے ہیں تاکہ نسل بڑھائیں.سکھوں کے زمانے میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے.مگر یہ سانڈ وغیرہ تو بجائے فائدہ کے نقصان کرتے ہیں اور وہ قوّت نسل کشی کی ان میں رہتی ہی نہیں.: ایک بکری ہو.جب پانچ دفعہ جنے دو دو میمنے.تو اس بکری کو چھوڑ دیتے.: اونٹ جس سے دس کے قریب نسل ہو چکی ہو.: رسوم کے تابع ہو کر اس درجہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ پھر اپنے تئیں روک نہیں سکتے ہماری ایک قریبی رشتہ دار ایک شادی پر امداد کی درخواست کرنے لگی.ہم نے کہا.ان رسوم کی ادائیگی کے لئے
ہمارے پاس کچھ نہیں.ایک ساہوکار نے اس بات کو سُن لیا اور کہا کہ مَیں سب کچھ دوں گا.چنانچہ اس نے روپیہ دیا.تب قریبی رشتہ دار نے مجھے کہا کہ تم سے تو وہی اچھا ہے.لیکن جب اُس نے سُود در سُود اور اصل کا مطالبہ کیا اور زمین تک جانے لگی تو معلوم ہوا کہ خیر خواہ کون تھا! (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹) ۱۰۶. : چالیس برس کا عرصہ گزرتا ہے.مَیں نے جب مسند احمد بن حنبل پڑھی تھی تو پہلی حدیث حضرت ابوبکرؓ سے اسی آیت کی تفسیر کے متعلق پڑھی تھی آپ فرماتے ہیں کہ اِذَارَأَیْتَ شُحًّا مُطَاعًا وَھَویً متبعًا واَعْجَبَ کلُّ ذِیْ رایٍ بِرَأیِہٖ.جب ایسا وقت آ جاوے کہ انسان بُخل کنجوسی کا مطیع ہو اور خواہشوں کا متبع اور ہر ایک شخص اپنی رائے ہی پسند کرتے لگے تو پھر تُو اپنی جان کا فکر کر.امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ جب تم ہدایت پا جاؤ تو پھر تم امر بالمعروف نہی عن المنکر بھی کرو گے.پھر اتمام حجّت کے بعد اگر کوئی پھر بھی نہ مانے تو پھر اس کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹) ۱۰۷.
: اﷲ نے پہلے اسلام.دین.ایمان.آخرت کی تاکید کی ہے اور مفصّل بیان فرمایا ہے.کہ جو حکمِ الہٰی جناب الہٰی سے آویں انکی پابندیاں کرو.اور رسوماتِ قبیحہ کو چھوڑ دو.دین کے بعد دنیا کی اصلاح کے متعلق فرماتا ہے کہ اے ایماندارو! جب تم میں سے کسی کی موت کے علامات ظاہر ہوں.حَضَرَکے یہاں معنی ہیں تو تمہیں حاضر ہونا چاہیئے.شہادت کے معنی حضور کے ہیں.اضافت ظرف کی طرف سے جیسے (الکہف:۷۹)اور(السبا:۲۴)اور شہادت بمعنی حضور جیسے(البقرہ:۱۸۶) (النور:۳) : حاضر ہونا کسی کا.دو کا.وصیت کے وقت.کبھی کبھی اسم کو رکھ لیتے ہیں اور فعل کو حذف کر دیتے ہیں جیسے (النساء:۸۰)میں.اَکْتِفْ کیونکہکَفٰی کا صلہ بؔ نہیں آتااسی طرح یہاں یَشْھَدْ محذوف ہے.وہ دو کیسے ہیں .صاحبانِ رُشد و عقل.: تم میں سے دین کا تعلّق رکھنے والے.: مسلمان نہ ہوں.قاضی شُرَیح نے لکھا ہے کہ سفر اور وصیت کے معاملہ میں غیر مسلم گواہ بھی لے لئے جاتے ہیں.: کے بعد اسم نہیں آتا پس یہاں فعل() محذوف ہے.یعنی .: یہاں اعتراض کیا گیا ہے کہ جب وہ گواہ ہیں.تو گواہ سے قسم کیسی.ہم کہتے ہیں بصورتِ شُبہ وہ گواہ نہیں رہے.بلکہ مال ان کے سپرد کیا گیا ہے.پس وہ اس صورت میں مدعا علیہ ہو گئے.ورثاء مدعی ہیں اور یہ مدعا علیہ.مقدّمہ کے دوران میں ایسا ہو جاتا ہے.ایک تمیم داری نصرانی تھا اور ایک عدی بن بداسہمی.مکّہ میں تجارت کیلئے آتے.عدی ایک تاجر ان کے ساتھ گیا.راہ میں مر گیا اور اپنا مال ان کے سپرد کر گیا.عور و بن عاص اس کے وارث تھے.انکو ایک
جام کے متعلق شُبہ ہوا.ایک لوٹے کی ایک نالی میں فہرست بھی مل گئی.جس برتن کے متعلق شُبہ تھا وہ بھی اس میں درج تھا.جو دیا نہیں گیا اور یہ پہلے پوچھ لیا گیا کہ اس نے کوئی چیز تمہارے آگے بیچی تو نہیں اور پھر جام جہاں بیچا وہاں سے بھید کُھل گیا.اس صورت میں وہی عیسائی گواہ مدعا علیہ بن گئے.: میںہ ؔ کا مرجع اﷲ ہے یا قسم.یعنی ہم نہیں لیتے اﷲ کے نام کے بدلے.یا قسم کے بدلے کوئی دنیاوی فائدہ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۰۸. اِ: اگر مطّلع ہو گئے.عَثَرَ کے معنے ہیں کسی کے اوپر گرنا.عثرتُ مِنْہُ عَلٰی خِیَانَتِہٖ ایک محاورہ ہے.: ای استوجب الاثم یعنی انہوں نے واجب کر لیا اپنے ذمّے اِثم.اِثم کہتے ہیں غیر کا مال بلاوجہ لے لینے کو.: اور دو قسمیں کھائیں مدعیوں کی طرف سے.: اس کا ترجمہ غور سے سُنو.اکثر الوگوں نے غلطی کی ہے.دو قسم کھانے والے ان وارثوں میں سے ہوں (دو وارث کیسے ہیں) ایسے وارث ہیں کہ ثابت کر دیا ہے ان پہلوں نے وارثوں کیلئے طلبِ حق کو ( یعنی اس بات کو کہ تم اپنا حق لے لو) اور یہ (کیسے ہیں ثابت کرنیوالے) بہت قریبی ہیں اس میّت سے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۰۹.
: کے معنی ہیں ’’ مان لو ‘‘ (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۱) ۱۱۰. کوئی شخص کسی دوسرے کے سامنے ذلّت نہیں چاہتا.جب ایک کے سامنے نہیں چاہتا.تو جہاں اوّلین و آخرین جمع ہوں گے وہاں اپنی ذلّت کیونکر برداشت کر سکتا ہے.اﷲ کے ایمان کے ساتھ آخرت کے ایمان کا ذکر ہے.بلکہ ملائکہ کے ایمان کو بھی اس کے پیچھے رکھا ہے. (البقرہ:۱۷۸) اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت پر ایمان ہو تو پھر انسان بدی کی جرأت نہیں کر سکتا.کیونکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ میری تمام منصوبہ بازیاں خدا کے حضور پیش کی جاویں گی.! یعنی علم کی نفی خدا کے علم کے مقابلہ میں ہے.کیا معنے؟ ہمارا علم کچھ بھی نہیں.کیونکہ جو کچھ جانتے ہیں وہ تو بخوبی جانتا ہے. (البقرہ :۳۳) دوسرے معنے یہ کئے گئے ہیں اور یہ ظاہر ہیں.کہ یہاں تو دل کا معاملہ ہے اور ہم کسی کے دل کی باتیں نہیں جانتے کہ اس نے ہمیں کیسا مانا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۱۱.
: فرمائے گا بروز قیامت.: کلامِ پاک ہے.: اَیْ حَلِیْمًا یعنی عقل من ہو کر.: معلوم ہوا کہ خدا کی کتاب کا علم بھی الہٰی فضل ہی سے آتا ہے.: پکّی باتیں.: اندازہ کرتا تھا.: یعنی ایسی سعید رُوحیں جو ہر قالب میں گیلی مٹّی کی طرح ڈھل جانے والی ہوں.: خدا کے حضور پہنچ جاوے.بلند پرواز انسان.: تُو خدا کا کلام اس میں پھونکے گا.: بری کرتا تھا.وہ لوگ مبروص اور اندھے کو ناپاک سمجھتے تھے.: مادر زاد اندھایا جسے شب کوری کا مرض ہو.: یعنی شریر اور کفر میں مرے لوگ.: یقینًا معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل پھانسی پر قادر نہیں ہو سکے.: مَالَا اَصْلَ لَہٗجس کی حقیقت وہ نہ ہو جو بظاہر معلوم ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹) جب تُو مٹی سے پرندہ کی سی ایک چیز بناتا.میرے اذن سے اور اس میں پھونک مارتا پھر وہ اُڑنے والا ہو جاتا میرے اذن سے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۷۵) ۱۱۲. : نبی کریمؐ کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
(الانفال:۶۴) اور صحابہ ؓ کوفَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْرَانًا (آل عمران :۱۰۴) پس اسی طرح ارشاد ہو کہ حواریوں کا ایمان ہمارے ہی فضل سے تھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۱۳. : کیا تیرا کہا مان لیگا؟ اس کے یہی معنے ہیں.ہر نبی کے واسطے ایک دُعا ایسی ہوتی ہے کہ وہ ضرور قبول کی جاتی ہے.نوحؑ نے وہ دُعا اپنی قوم کے لئے مانگی کہ (نوح:۲۷) حضرت نبی کریمؐ سے دریافت کیا گیا.فرمایا.میں نے وہ دُعا دنیا میں نہیں کی.قیامت کے دن کروں گا (بَاَبِیْ اننْتن وناُمِّیْ یَارَسُوْل اﷲِ! رُوْحِیْ فِدَاک)تمہارے مرزا صاحب سے بھی مَیں نے پُچھوایا تھا مگر وہ ہنس پڑے.اور سکوت کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۱۵،۱۱۶. : اٹل رزق.: اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس دُعا کا اثر حواریوں کیلئے نہیں تھا اور نہ مائدہ کوئی ایسی چیز ہے کہ صرف حواری ہی اس سے مستفیض ہوں گے بلکہ عام رزق مراد ہے جیسے کہ آگے خود
د تشریح کی ہے..: یہاں علماء کی بحث ہے.بعض کہتے ہیں کہ سُن کر وہ ڈر گئے.مگر میرے نزدیک یہ دُعا کی گئی اور یقینًا قبول ہوئی.دیکھتے نہیں عیسٰیؑ کے نام لیووں کے پاس کتنا رزق ہے.کتنی دولت ہے.یہاں تک کہ دن میں کئی بار لباس تبدیل کرتے اور نئے سے نئے کھانے کی وجہ سے گویا ہر روزان کے ہاں عید ہوتی ہے. کے لفظ کا اثر ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۱۷. میں نے دنیا میں بہت سے حالات دیکھے ہیں.غریبی، امیری، امیر ہو کر غریب ہونا اور غریب ہو کر پھر امیر ہونا دیکھا.۴؍۱ ۱ روپیہ ماہوار کی آمدن بھی دیکھی اور ہزارہا روپیہ کی.دونوں حالات میں خدا کے فضل سے یکساں خوشحال رہا ہوں.میں نے دیکھا کہ دنیا کوئی بڑی چیز نہیں.پس بڑے ہی احمق ہیں وہ لوگ جو دنیا کیلئے دین کو برباد کرتے اور موت اور خدا کو بھُلا دیتے ہیں.انسان اولاد کیلئے یہ دنیا جمع کرتا ہے.لیکن اگر اولاد نالائق ہے تو اس کے جمع کرنے کا کچھ فائدہ نہیں.اور اگر لائق ہے تب بھی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۹؍اگست ۱۹۰۹ء) بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ مکانوں کی اینٹیں اکھڑواتے بھی گالی دیتے ہیں کہ بھڑوے نے ایسا سخت مصالحہ لگایا ہے.جو اُکھڑ بھی نہیں سکتا اور اگر لائق ہے تو اُسے اپنے باپ کی کچھ پرواہ نہیں.ایک شخص نے بھیرہ میں تین لاکھ روپیہ عمارتوں پر خرچ کیا.میں نے اس کی اولاد کو دیکھا کہ سات سات فاقے گزرتے ہیں.پس انسان فانی دنیا کیلئے کیوں خدا کو بھُلا دے اور تکبّر کیوں کرے؟ جس قدر آسودگیاں اور نعمتیں خدا نے دی ہیں ان کی نسبت ضرور سوال ہو گا.اور تو اَور انبیاء سے بھی باز پُرس ہو گی.بعض لوگ یُوں کفرانِ نعمت
کرتے ہیں کہ انعاماتِ الہٰی کو انعام ہی نہیں سمجھتے.ایک عورت مجھ سے کہنے لگی.خدا نے جو کچھ مجھے دیا تھا سب کچھ لے لیا.مَیں نے کہا.کیا تمہاری آنکھیں نہیں.کان نہیں.ناک نہیں.ہاتھ نہیں.پاؤں نہیں.اس پر وہ بہت شرمندہ ہوئی.اس رکوع میں ایک نبی سے باز پُرس کا ذکر ہے.جسے خدا بنایا گیا.: مریم کو بھی خدا کی ماں کہتے ہیں اور رومن کیتھولک اس کی تصویر کو سجدہ کرتے ہیں لارڈرِپن نے اپنی جیب سے پندرہ تصویریں پیتل کی دکھائی تھیں.مہاراج۱؎ نے مجھے کہا یہ تو ہمارے ہی بھائی ہیں آپ ان کو اہل کتاب بنائے پھرتے ہیں.: میری باتیں.: تیری باتیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۱۸: : انبیاء توحید ذاتی پر نہیں بلکہ صفاتی پر زور دیتے ہیں کیونکہ اس کے متعلق قوموں میں غلط فہمیاں ہیں.شرک کا مسئلہ باریک ہے.ایک طرف خدا کا حکم ایک طرف نفس کی تحریک.اب جو نفس کا کہا مانتا ہے وہ بھی شرک میں گرفتار ۱؎ مہاراجہ جمّوں و کشمیر.مرتّب ہے.اسی واسطے جھوٹ بولنے والے.زانی چور.بد معاملہ.سُست.حرام خور.سب مُشرک ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : جان کو قبض کر لیا.اور جب کہے گا اﷲ.اے عیسٰی مریم کے بیٹے کیا تُو نے لوگوں کو کہا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اﷲ کے سوا معبود ٹھہرالو.وہ بولا.تُو پاک ہے.مجھ کو سزاوار نہیں ہے کہ کہوں وہ بات جو مجھے پہنچتی نہیں.اگر میں نے یہ کہا ہو گا.تو تجھے معلوم ہو گا.تُو جانتا ہے.جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی
میں ہے.بیشک تُو ہی چھُپی باتیں جاننے والا ہے.میں نے تو انہیں وہی کہا جس کا تُو نے مجھے حکم کیا تھا یہ کہ عبادت کرو اﷲ کی جو میرا اور تمہارا ربّ ہے.اور میں ان پر خبردار رہا.جب تک میں اُن میں رہا اور پھر جب تُو نے مجھے وفات دے دی تو تُو ان پر خبردار تھا اور تُو ہر چیز پر خبردار ہے.(فصل الخطاب حصقہ اوّل صفحہ ۱۵۶) ۱۲۰،۱۲۱. اس سورۃ میں معاشرت کے اصول بتائے.بیویوں، بچّوں، یتیموں، اپنے ہم مذہبوں ، غیر مذہبوں سے برتاؤ بتایا اور سمجھایا کہ سب سے مقدّم اﷲ کی رضامندی ہے.: لوگ پاس پاس لئے پھرتے ہیں سب سے بڑھ کر پاس ہونا تو یہی ہے پھر فرماتا ہے.تم خواہ کتنے بھی بڑھ جاؤ گے پھر بھی خدا سے نہیں بڑھ سکتے.زمین و آسمان اسی کا ہے بلکہمَا فِیْھَا بھی اور پھر یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہے تو اسکا مگر متصرّف کوئی اور ہی ہے بلکہ .وہی ہر چیز پر قادر ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء)
سُوْرَۃُ الْاَنْعَامِ مُکِّیَّۃُ سورۃ انعام میں پندرہ کے قریب رسالت پر دلائل ہیں.نبی کریمؐ کی تعلیم اس میں خصوصیت سے درج ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۲) آپ لوگوں کو یاد ہو گا کہ سورۂ بقرہؔ و آل عمرانؔ میں خانہ جنگیوں کے متعلق ہدایت ہے اور یہ کہ جہاد میں متّقی ہی کامیاب ہوں گے.پھر نساءؔ اور مائدہ میں معاشرت کے متعلق ہدایات ہیں.اب اس سورۂ انعام میں حضرت نبی کریمؐ کی رسالت کی نسبت ثبوت اور اعتراضوں کے جواب ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) ۲. : اوپر دیکھو اور دیکھو اور مختلف ستاروں کی دُوری اور حالات کی طرف توجہ کرو پھر نیچے زمین اور مَافِیْھَا پر نظر کرو.سُوئی کے ایک ناکے پر جو پانی کا قطرہ ہے.اس میں بھی صدہا کیڑے ہیں.ایک صاحب نے لکھا کہ پہلے انسان نے بڑے بڑے جانوروں سے مقابلہ کیا.اب چھوٹے چھوٹے جانورں.طاعون کا کیڑا.ہیضہ کا کیڑا.مرگی کا کیڑا کا مقابلہ ہے.دیکھئے.: روشنی اور اندھیرے کا فرق دوپہر اور آدھی رات کے وقت معلوم ہو سکتا ہے.روشنی میں تمیز اور اندھیرے میں بے تمیزی ہوتی ہے.: پس خالق السَّمٰوٰتِ وَالْاَرض اور جَاعل الظلماتسے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ بے تمیزی سے تمیز دینا بھی اسی اﷲ کا کام ہے.اور اسی میں ثبوت ہے.بعثتِ نبوّت کا.عالمِ روحانی میں جب ظلمات بڑھے تو نُور ضروری ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء)
۳. وَ: موت سے بعث تک کا زمانہ کہلاتا ہے.جو اﷲ ہی کو معلوم ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲) ۶. : ہزوؔ سے کسی چیز کو خفیف سمجھنا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : پہلی دلیل ہے نبوّت کی، مخالفانِ نبوّت ہلاک ہوں گے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲) اس آیت میں بدوں میعادِ معینّہ کے مطلق تکذیب پر ہلاکت کی خبر دی.(فصل الخطاب جلد۲ صفحہ ۳۱ ایڈیشن روم) ۷. : اعتقاد کرنا.سبق حاصل کرنے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) کَذَّبَوْا : جھٹلا چکے حق بات کو کہ جب ان تک پہنچی.اب آگے آوے گا ان پر حق اُس بات کا جس پر ہنستے تھے.کیا دیکھتے نہیں.کتنی ہلاک کیں ہم نے پہلے ان سے سنگتیں.ان کو جمایا تھا ہم نے ملک میں جنتا تم
کو نہیں جمایا اور چھوڑ دیا ہم نے ان پر آسمان برستا.اور بنا دیں نہریں ان کے نیچے.پھر ہلاک کیا ان کو انکے گناہوں پر اور کھڑی کی اُن کے پیچھے اَور سنگت.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۳۱) ۸،۹. : دلرُبا بات ہے مگر قوم سے کاٹ دینے والی.: فرشتوں کا نزول دو طرح ہے.ایک تو عذاب کیلئے.سو اسکے لئے فرمایا کہ اگر فرشتہ اترتا تو پھر فیصلہ ہو جاتا.اور ایک وحی کیلئے.سو وہ تمہارے سامنے کس طرح آئے؟لامحالہ مرد کی صورت میں آئے گا.پھر وہی التباس میں پڑے گا کہ یہ فرشتہ کیونکر ہے.ممکن ہے کوئی آدمی ہی ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : دوسری دلیل ہے.: یہ تیسری دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹ صفحہ۴۵۲) ۱۱. ۱۲. : چوتھی اور پانچویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹ صفحہ۴۵۲) یہ سورۃ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں.رسالت کے ثبوت میں ہے جو لوگ اپنا مال.اپنی جان.اپنی
اولاد.اپنی عزّت برباد کر چکے ہیں.وہ ہرگز عقلمند نہیں ہیں.… فرما کر بتایا ہے.کہ تم سوچو اور فراعنہ مصر کا انجام کیا ہوا؟ کیا ان کا نام و نشان باقی ہے.ابراہیمؑ کے مکذّب کا کیا انجام ہوا.جس کے نام کی نسبت بھی مفسّرین کو اختلاف ہے.وہ بے نام و نشان ہوا اور اس کے مقابلہ میں ابراہیمؑ کو دیکھو کہ اس وقت یورپ امریکہ.ایشیا.کے عیسائیوں.یہودیوں.مسلمانوں کا پیشو اہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) زمین میں سیاحت کر و پھر دیکھو جھُٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا.کوئی دیکھ لے جو حالت انبیاء علیہم السلام کے مکذّبوں کی ہوئی اس سے بڑھ کر ہمارے حضور علیہ السلام کے نافہم مکذّبوں کی ہوئی.جہاں سے مکذّبوں نے آپؐ کو نکالا.وہاں سے خود ہی ابدالا باد کے واسطے نکل گئے.سچ ہے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶) ۱۳،۱۴ فرمایا ہے : اس قیامت کے دن کو ہی فکر کرو.جہاں اوّلین آخرین جمع ہوں گے.ایک شخص نے مجھ سے کہا.عذاب غیر مقطوع ہے یا نہیں؟ میں نے کہا میرے نزدیک غیر مقطوع نہیں.اس نے کہا پھر تو ہم بھی آپ سے آ ملیں گے.میں اس وقت خاموش رہا.تھوڑی دیر بعد مَیں اور وہ بازار میں گئے.میں نے چوک میں پوچھا.یہاں آپ کاکوئی واقف ہے؟ کہا نہیں.میں نے کہا کہ میرا بھی کوئی واقف نہیں.پس یہ لو دو روپے.اور مجھے ایک جُوت سر پر مار لینے دو.بول اٹھا.میں سمجھ گیا.میں نے اسے کہا.او نادان !چند واقفوں میں تُو اپنی ہتک گوارہ نہیں کر سکتا تو وہاں جہاں سب جمع ہوں گے.اپنی ہتک کیونکر گوارہ کر سکے گا؟ تمہارے اقوال و اعمال کا سننے
اور جاننے والا ہے کیا تم انکار کر سکتے ہو؟ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت کو رکھ لیا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۶۰) ہر ایک کو اپنے حامی و مددگار کی ضرورت ہے اور دنیا کے حامیوں میں تفاوت ہے.پس جس نے آسمان و زمین بنایا اسکے سوا اور کسی کو حامی بنانا کیا کوئی دانشمندی ہے؟ : اوّل درجہ کافرماں بردار ہوں اور منہیات سے بچنے والا ہوں.: فطرۃً انسان دُکھ سے بچتا ہے.پھر عید و میلے کے دن تو کوئی بھی رنج و ہتک پسند نہیں کرتا.فرماتا ہے.اس عظیم الشّان دن میں نافرمانی کی وجہ سے عذاب ہو گا.اس سے ڈرتا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) ۱۸. : سب سے بڑھ کر تو ماں غم خوار ہے.مگر ایک ادنیٰ دُکھ بھی (مثلاً شِکم میں درد) بانٹ نہیں سکتی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء)
ہمارا تمہار مقدّمہ ہے.پچھلی کتابوں میں شہادت موجود ہے.تم دیکھ لو کہ مکذّبینِ رُسل کا انجام کیا ہوا؟ تازہ شہادت چاہتے ہو تو اپنے اور میرے اتباع کو دیکھ لو.بوعلی سینا ایک طبیب تھا.امام غزالی و امام رازی اچھی عربی لکھنے والے ہیں.مگر یہ بھی ان سے کم نہیں.ایک دن اس نے عمدہ تقریر کی.ایک اُلّو کا پٹھا اسکا شاگرد بیٹھا تھا.اُس نے کہا آپ نبوّت کا دعوٰی کرتے تو آپ کو زیبا تھا.اس وقت ابنِ سینا خاموش ہو رہا.ایک دن سردی تھی.ٹھنڈی ہوا اور یخ بستہ پانی موجود.اسی شاگرد سے کہا.ذرا کپڑے اتار کر اس میں ہو آؤ.وہ کہنے لگا.خیر ہے کیا آپ مجنون تو نہیں ہو گئے؟ کہا.کیا اسی ہمّت پر مجھے پیغمبر بناتا تھا؟ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم اپنے صحابہؓ کو گھمسانوں میں جانے کا جو حکم دیتے تھے.کیا وہ یہی جواب دیتے تھے؟ غرض یہاں اتباع کو مقابلہ میں پیش کیا گیا.: اورمیرا دعوٰی تو یہ ہے کہ قرآن مجھ پر وحی ہوا ہے.مگر یہ صرف وحی ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ یہ خطرناک بات ہے کہ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ.جو اس وحی کے خلاف کرے گا وہ یقینًا عذاب میں گرفتار ہو گا اور نہ صرف تم بلکہمَنْ بَلَغَ جن لوگوں تک یہ قرآن پہنچے گا اگر وہ اس کی ہدایات پر کار بند نہ ہوں گے تو خوار ہوں گے.تباہ ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : یہ چھٹی دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵۲) ۲۱. : یعنی فقراء ( جن کے سینوں میں کتاب ہوتی ہے) علماء ( جن
کے ہاتھوں میں کتاب ہوتی ہے) قرّاء ( جن کی زبان پر کتاب ہوتی ہے) حق سمجھ تو لیتے ہیں مگر شبہات میں رہتے ہیں.حالانکہ ایسے شبہات وہ اپنی اولاد کی نسبت بھی کر سکتے ہیں.پر پھر بھی اپنی اولاد کو مانتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : اگلی کتب میں پیشگوئی اعمال ۲۳ آیت ۲۱.ساتویں دلیل.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ستمبر۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵۲) ۲۲. : مفتری اور غیر مفتری کی شناخت کا معیار بتایا ہے کہ مُفتری ظالم ہے وہ کبھی مظفر و منصور نہیں ہوتا.انسان تنہا بیٹھ کر تو بہت سی عمارتیں بنا لیتا ہے.مگر نہیں سمجھتا کہ خدا بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) : مُشرک تیرے مقابل میں مظفر و منصور نہ ہوں گے.آٹھویں دلیل.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ستمبر۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵۲) ۲۳،۲۴. : جنہیں تم اپنے زُعمِ باطل میں شریک باری تعالیٰ سمجھتے ہو.: عُذر اور قول ان کا.فتنہ کے معنے عُذر کے اس لئے کئے ہیں کہ یہ عُذر بھی ان کے فتنہ و شرارت کے من کی بات ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء)
: سماع وہی ہے جو دل کے کانوں سے سُنا جائے اور قبول کر لیا جائے.: یُوں تو سُن لیتے تھے مطلب یہ ہے کہ حق نہ سُنتے تھے.: سٹوریاں۱؎ ہیں.مگر میں تمہیں سچّے یقین کے ساتھ بتاتا ہوں کہ قرآن میں کوئی قصّہ نہیں بے شک آدمؑ.نُوحؑ.یعقوبؑ.ابراہیمؑ.موسٰیؑ.صالحؑ.ہودؑ.شعیبؑ کا بیان ہے.مگر صرف حضرت رسول اﷲ علیہ وسلم کے حال سے مطابق کرنے کیلئے.گویا ان واقعات کے ذریعے پیشگوئی کی گئی ہے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو گا.پس وہ قصّے نہیں بلکہ تمثیلی رنگ میں پیشگوئیاں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) ۲۸. : جنگ کے سامنے یا دوزخ کے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۲) ۳۰. : مُنہ سے نہ کہیں.مگر اکثر لوگ اپنے اعمال سے بھی ظاہر کرتے ہیں اور یہی
گواہی دیتے ہیں کہ جو کچھ ہے دنیا ہی دنیا ہے.قَالَ: عام ہے، جو چیز صرف بولنے کے لئے مخصوص نہیں بلکہ جس طرح کوئی امر ظاہر ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍اگست ۱۹۰۹ء) ۳۲. : جو ہم نے کوتاہی کی.: جمع وِزْر.اثم.ھُمْ: کفّارہ کی تردید.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۲) ۳۳،۳۴. : بے حقیقت چیز.: خدا سے غافل کرنے والی.پس مومن کو چاہیئے کہ وہ ہر کام سوچے کہ یہ بے حقیقت خدا سے غافل کرنیوالا تو نہیں.اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے یا نہیں.: جس طرح باپ بیٹے کے لئے.بادشاہ رعایا کیلئے یہ چاہتا ہے کہ وہ فرماں بردار ہوں.اسی
تک کہ آئی ان کے پاس مدد ہماری.اور الہٰی باتیں کوئی نہیں بدل سکتا اور بے ریب آ چکی تجھے خبر پہلے رسولوں کی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵) : یعنیاِنَّالَنَنْصُرُ رُسُلَنَا کوئی نہیں بدل سکتا.یہ دسویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲) ۳۶. : مکّہ و عرب والے سب مسلمان ہو گئے.گیارہویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲) ۳۹. : جس طرح تم میرے نبی کے تباہ کرنے کے درپے ہو.اسی طرح زہریلے جانور اور درندے تمہارے دشمن ہیں.عنقریب لاشیں کھا جائیں گے.یہ بارہویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲) ۴۲. : صر ف خدا کو پکارنے سے چھُوٹو گے.یہ تیرہویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۲)
ہے.اور یوں بھی بائیبل کا ترجمہ ۲۸۰۰ زبانوں میں ہو چکا.اور احکام الہٰی کچھ نہ کچھ کسی نہ کسی رنگ میں تمام اقطارِ عالم و اکنافِ جہاں میں پہنچ چکے ہیں.آریہ برہمو بھی توحید کاپرچار کرتے ہیں.غرض اﷲ تعالیٰ اس وقت تضرّع چاہتا ہے.یہاں قادیان میں پچھلے دنوں طاعون پھیلنے لگا.مَیں نے خدا کی جناب میں نہایت تصرّع سے دُعا کہ ابھی تیری چھوٹی سی جماعت ہے.اب تو اس جماعت میں اس درجہ کا دعا کرنیوالا بھی نہیں.پس تُو اپنا فضل کر.میں دیکھتا ہوں کہ طاعون معًا چلا گیا.جو بیمار تھا وہ بھی اچھا ہو گیا.یہ تضرّع کا نتیجہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) : جب کوئی نبی آتا ہے تو بیماریاں اور قحط ضرور پڑتے ہیں یہ چودہویں دلیل ہے ہر نبی کے وقت ایسا ہوا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵۲) ۴۴. : یہ باتیں (جنگ و جدال ) جس میں کئی کئی طرح کی مصبیتیں آتی ہیں.بَاْس کے مقابلہ میں ہے.آجکل بھی جنگ و جدال عجیب عجیب رنگ میں ظاہر ہو رہا ہے قسطنطنیہ کی جو حالت ہے.ایران کی جو حالت ہے.وہ تم اخباروں میں پڑھتے ہو.چالباز مدبّر عرب والوں کو سمجھا رہے ہیں.تم الگ ہو جاو.ترکوں کے ماتحت نہ رہو.مطلب یہ کہ متفرق ہو کر طاقت کم ہو جاوے پھر قبضہ میں آسانی ہو.اَعْمَالَھُمْ: ایک اصل بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کام یوں کرو.گویا مرنا ہی.یہ بھی اسی مثل سے ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۴۶. : ساری قوم ہلاک نہیں ہوتی.جو مدبّرین ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.وَ یعنی کی صفت اپنا جلوہ دکھا چکتی
ہے تو پھر کا زمانہ شروع ہوتا ہے.۴۷. : روکتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۲) ۴۹. : رسول عذاب کیلئے نہیں آتے.بلکہ وہ تو پاک لوگوں کو تیار کرتے ہیں.جن کو بشارتِ کامیابی دیتے ہیں اور کچھ گندے لوگ تیار ہوتے جاتے ہیں.ان کیلئے مُندّر ہوتے ہیں.مَنْ: جو ایمان لائے.زبان ہی سے نہیں بلکہ اصلاح بھی کرے میں سچ کہتا ہوں کہ واقعی مومن لَا ہوتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور ہم کو یہ دُکھ ہے وہ دُکھ ہے.میں کہتا ہوں کہ اس کلمہ پر غور کرو.وَلٰکِنَّ الُُْنٰفِقِیْنَ لَا یَفْقَھُوْن (المنافقون:۱۸) ایک شخص نے مقدّمہ میں مجھ سے سفارش کرانی چاہی.میں نے کہا کَذٰلِکَ نُوَلِّیْ بَعْضَ الظَّالِمِیْنَ بَعْضًا.آپ کوئی ظالم ہوتا ہے تو اس پر ظالم کو متولّی کرتا ہے.پس تم اپنے ظلم کو دُور کرو.مَیں نے سفارش بھی نہ کی مگر وہ حاکم بدل گیا.سنو! اس نے جب استغفار کی کثرت کی تو اتفاق ایسا ہوا کہ جس روز اس کا مقدّمہ پیش ہونا تھا.وہ
حاکم کسی کو چارج دے گیا اور قائم مقام نے اس کے حق میں فیصلہ کیا.بَمَاکَانُوْا یَفْسُقُوْنَ: بدعہدی کی وجہ سے عذابِ الہٰی آتا ہے.ہمارا بادشاہ ایسا نہیں کہ اسے کچھ خبر نہیں.اس کی خفیہ پولیس ہر وقت (المعارج:۳۸)موجود رہتی ہے اور (ق: ۱۹) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۵۰. : مکذّبین پر ضرور عذاب آئے گا.یہ پندرہویں دلیل ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۲) ۵۱. لَا: اس آیت نے میری رسول کریمؐ سے بہت ہی محبّت بڑھائی ہے.ایک دفعہ میں ایک کنوئیں پر گیا تو زمیندار نے میری بڑی خاطر کی.میں حیران تھا کہ کیا وجہ ہے؟ آکر اس نے بتایا کہ آپ کے باپ نے ہمیں ایک تعویذ دیا تھا.جس سے بیڑا پار ہو گیا.عرب جیسا مُشرک ملک لوگوں کو یقین کہ یہ ( محمد رسول اﷲ صلے اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم) مقرّب بارگاہِ الہٰی بنتا ہے.پس یہ تو سب کام کرا دیگا.آپؐ انکی شرک آمیز قوّت سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے.بلکہ صاف کہتے ہیں.میرے پاس خزانے نہیں.میں غیب دان نہیں.میں دیوتا کا اوتار نہیں.میں تو ایک بشر ہوں.جو حکم آئے اس کی تابعداری کرتا ہوں.اَللّٰھممَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) لَا: ایک مُشرک ملک میں پیدا ہونے والا کیا صفائی سے اعلان کرتا ہے.اس آیت سے مجھے نبی کریمؐ سے بہت محبّت ہوئی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۲) : میں اسی پر چلتا ہوں جو مجھ کو حکم آتا ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۷۷)
: وعظ ان کیلئے مفید ہوتا ہے.جنہیں یوم الحشر کا خوف ہے.: انبیاء ایک آدمی کو وعظ نہیں کرتے.کیونکہ ممکن ہے کہ ضائع چلا جاوے.اس لئے وہ عام مجلس میں سمجھاتے ہیں.تا کوئی سعادت مند رُوح نجات پاوے.نبی کریمؐ نے فرمایا رُبَّ مُبَلِّغٍ اَوْعَی مِنْ سَامِعٍ .اس کی ذات.ا ور توجّہ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۵۵،۵۶. : توبہ کے ساتھ اصلاح کی قید ہے.:جنابِ الہٰی سے قطع کرنیوالے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء)
: بیشک وشبہ میں اعلیٰ درجہ کے نشان اپنی راستی اور صداقت پر اپنے رب کی طرف سے رکھتا ہوں اور تم اس راستی کی تکذیب کر چکے.میری تکذیب کے بدلہ میں جو عذاب تم پر آنے والا ہے.تم چاہتے ہو وہ عذاب تم پر جلد آ جاوے.سو اس عذاب کا تم پر آنا میرے قبضۂ قدرت میں نہیں.: اﷲ کے سوا کسی کی حکومت نہیں مگر یاد رکھو.مُنکر دُکھ پاویں گے.اﷲ ظاہر کرتا رہے گا اس حق کو جو میں لایا ہوں اور بیشک و ریب وہ (اﷲ تعالیٰ) ہے بہت ہی بڑا.جھوٹ اور سچ میں فیصلہ کرنے والا.جھوٹے کو ذلیل سچّے کو فتحمند کریگا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جوابات صفحہ۴۹) ۶۰. نبی کریمؐ جس ملک میں جس وقت رہتے تھے وہ ملک.وہ وقت عظیم الشان بُت پرستی کا تھا مکّہ کے اندر ۳۶۰ بُت پُوجے جاتے تھے.عیسائی جو تھے وہ حصرت مریمؑ کے بچاری تھے.ایک کتاب میں میں نے پڑھا ہے کہ مریم کے بُت کو رُو پہلی گوٹے کناری کے کپڑے بھی پہنائے جاتے تھے.بُت پُرست کی عقل
عجیب طور پر ماری جاتی ہے.ایک عظیم الشّان بُت پرست کا ذکر ہے کہ وہ اکتوبر کے آخری دنوں میں توشہ خانے میں تنہا بڑے اہتمام کے ساتھ درزی سے کچھ کپڑے پشمینے کے سلا رہا تھا.میں ان کو دیکھ کر بہت حیران ہوا کیونکہ وہ کپڑے کسی انسانی قد کے معلوم نہیں ہوتے تھے.دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ سیتاجی کے ہیں.میں نے درزی سے کہا.اس میں رُوئی بھی ڈال دینا.سردی کا موسم ہے… اس پر وہ خاموش رہ گیا.سوا اس کے کچھ نہ کہا.آپ مذہبی معاملہ میں بھی ٹلتے نہیں.بُت پرستوں کی عجیب عجیب حکایتیں ہیں.کہیں گرمی سے بیہوش ہو کر گر پڑے.خون نکلنے سے ہوش آیا.تو اسی پتھر کو پُوجنا شروع کر دیا کہ یہی ہوش میں لایا.میرے تین لڑکے مر چکے تھے.ایک ہندو دوست نے مجھے کہا کہ میرے باپ کے اولاد نہیں ہوتی تھی.دو پستے میری ماں کو کھلائے گئے.تب مَیں اور میرا بھائی ہوئے.یہ تجربہ شدہ بات ہے.پس آپ بھی آزمائیے.جیسے دواؤں کو آزماتے ہیں.اگر آپ کو شریعت مانع ہو تو آپ کی طرف سے میں تر کٹھا دیوی کی منّت کروں.میں نے کہا آپ تکلیف نہ کریں.دیوی نے آپ کے باپ کو آپ جیسا دائم المریض.آپ کے بھائی جیسا پاگل دیا.مجھے ایسی اولاد نہیں چاہیئے.غرض بُت پرستی میں عقل بالکل ماری جاتی ہے.بُت پرست یہ نہیں سمجھتا کہ دنیا کی سب چیزیں میری خدام بنائی گئی ہیں اور پھر اپنے خادموں کو مخدوم بلکہ معبود بناتا ہوں.مَقَاتِحْ : جمع ہے مفتح کی.جس کے معنی خزانے کے ہیں.قارون کے بیان میں بھی مفاتِحَہٗ آیا ہوا ہے جس سے مراد خزانے ہیں.مَفَاتِیْح نہیں کہ چابیاں اس کے معنے ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) : اﷲ کی حفاظت میں ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) ۶۲. ہمارے ملک میں بعض الفاظ کے معنے غلط کرتے ہیں.مثلاً قاہرؔ ہے.اس کو قہر و غضب کے معنوں میں لینا سخت غلطی ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے.ھُون الْقَاھِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ یعنی قاہرؔ کے معنے یہ ہیں کہ بندے دوسری مخلوق پر غالب ہیں تو خدا بندوں پر.: انسان جب سے پیدا ہوا ہے.اپنی نگہبانی کے سامان مہیّا کر رہا ہے.موت سے بچنے کیلئے کئی دائیں تلاش کیں.جب کچھ چارہ نہ دیکھا تو بی بی کو اپنا جوڑا بنایا تا میں نہ رہوں تو اولاد ہی رہے
لیکن خدا فرماتا ہے میرے ہی بچانے سے بچتے ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے جب موت آتی ہے.ہمارے فرستادے رُوح قبض کر لیتے ہیں.مگر رُوح کو فنا نہیں اس لئے فرمایا (الانعام:۶۳) پھر اﷲ کی طرف لوٹائے جائیں گے.وہاں آخرت میں بھی نجات خدا کے ہاتھ میں ہے.اس کے ثبوت میں دنیا کی مشکلات کی نجات کیلئے فطرت کی گواہی پیش کی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۶۴. : معلوم ہوتا ہے اس زمانہ میں مشرک نہیں تھے.کیونکہ مسلمانوں کا شر ک اس حد تک میں نے دیکھا کہ دریا میں کشتی خطرے میں پڑے تو ہماری طرف بہاء الحق کا نام لیتے ہیں عدن کے قریب یا اور دسؔ کہتے ہیں.افسوس مسلمانوں میں کوئی عبادت خدا سے مخصوص نہیں رہی طواف.سجدہ.ہاتھ باندھ کر دُعا.قربانیاں.روزے.مال کا عُشر حتّٰی کہ صلوٰۃ غوثیہ.سب غیر اﷲ کے لئے کرتے ہیں.ایک بڑا پیر تھا.میں نے دیکھ کہ وہ جنوب کی طرف جھُک کر نماز پڑھتا ہے.پوچھا تو کہا.ہمارے حضرت اسی طرف ہیں.ہمارا قبلہ تو وہی ہیں.اب ان کا قبلہ کوئی اور ہو توخیر.اس وقت مجھے یہ آیت یاد آئی.(البقرۃ:۱۴۴) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء)
دشمن حملہ آور ہو.ہوائیں ایسی آویں جن سے لوگ پہاڑوں کے نیچے دب کر مر جائیں.: اس کے بھی تین ہی معنے ہیں.زلزلوں سے زمین پھٹ جائے.خسف ہو جائے.اپنے نوکروں کے ہاتھوں سے ہلاک ہو جاوی.جن کو ذّلیل سمجھا ہوا ہے.وہی تسلّط پا جاویں.رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے دُعا فرمائی کہ الہٰی میری قوم کو بیرونی دشمن سے بچا کہ اس کا استیصال نہ کردے.حدیث میں ہے کہ پروردگار نے فرمایا.میں نے قبول کی.پھر عرض کیا کہ خانہ جنگیوں سے ان کا استیصال نہ ہو.یہ دُعا بھی قبول ہوئی.پھر باقی رہ گیایُّذِیْق .چونکہ یہ نتیجہ تھا قرآنی نافرمانی کا(المائدہ:۱۵) اس لئے یہ برقرار رہا.میں تم سے پوچھتا ہوں کہ غیروں سے تم نے لڑائی کی کہ انہوں نے مسیحؑ کو زندہ کہہ کر قرآن کو چھوڑا.گویا کے مصداق ہوئے.مگر تم لوگ آپس میں لڑائی کرو تو اِنَّﷲہی پڑھنا چاہیئے.اس میں پیشگوئی بھی تھی.یہ تمام عذاب اہل مکّہ پر آئے.باہر سے نبی کریمؐ نے حملہ کیا کیا خود اپنے ہاتھوں سے مُشرک قتل ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۶؍ اگست ۱۹۰۹ء) ۶۷،۶۸. اور تیری قوم نے اُسے جھٹلایا حالانکہ یہ حق ہے تو کہہ دے اے محمدؐ میں تم پر وکیل نہیں ہوں ہر ایک خبر کیلئے ایک وقت مقرّر ہے.پس عنقرب تم جان لو گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۱) اور اس کو جھوٹ بنایا تیری قوم نے اور یہ تحقیق ہے تُو کہہ کہ میں نہیں تم پر داروغہ.ہر چیز کا ایک وقت ٹھہر رہا اور آگے جان لو گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۹۹) : اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آیا.مالیر کوٹلہ میں شیعہ بہت ہیں.ساڈھورہ سے ایک اشتہار آیا کہ کوئی سُنّی ابوبکر کا ایمان ثابت کر دے.ایک حدیث مسلمہ اہلِ سنّت میں ہے.کہ عائشہؓ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے پوچھا کہ آپؐ کو بڑی تکلیف کس سے پہنچی؟ تو آپؐ نے فرمایا تیری قوم سے.اب قوم کسی آدمی کے باپ.داد.تائے ہی ہوتے ہیں.اس لئے ثابت ہوا کہ ابوبکرؓ سے آپؐ کو بڑی تکلیف پہنچی(نعوذ باﷲ) میں نے کہا کے معنے بھی حل ہو گئے.آخر
نبی کریمؐ کو قوم عبداﷲ ابوطالب اور علی ہی تھے.اس پر شیعہ ایسے شرمندہ ہوئے کہ پھر اشتہار چھُپا دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) لِکُلِّ نَبَائٍ مُّسْتَقَرٌ: صراحتہً عذاب کی خبر دی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۲۵۳) ۶۹. : خوض کا ترجمہ ٹھیٹھ پنجابی زبان میں کھَچْ بہت موزوں ہے.لَا: بالکل نہ بیٹھے یا بیٹھے تو جب یاد آئے اُٹھ جائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۱. : بے حقیقت.: خدا سے غافل.
کالجوں میں کس قدر غفلت کا سامان موجود ہے اور دین کو کیا بے حقیقت سمجھا جاتا ہے اس لئے کالجیئیٹوں کو بڑے ہی استغفار کی ضرورت ہے کیونکہ ان لوگوں کے سامنے یہ لوگ تو غفلت اور سیاہ دِلی کا سامان مہیّا کرتے ہیں. کے پانچ معنے صحابؓ اور تابعین سے مَروی یاد ہیں.تُسْلم (سونپا جائے) تُجْسَ(نباہ کیا جائے) تُرْتَھَنُ (رہن پڑ جائے) تُجْزٰی (سزا دیا جائے) تُحَرَّم (حرام کیا جائے) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) اُبْسِلُوْا : ہلاک ہو گئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۲۵۳) ۷۲،۷۳. : نیچے اتار دیں.: بدمعاش.اﷲ سے دُور.ہلاکت والی روحیں.مسافر کو نیچے کھوہ میں اُتار دیں تو پھر حیران رہ جاتا ہے.جو بدکار ہیں یا بدکاروں کے آشنا.ان کو کیا ہدایت مل سکے.بد صُحبت سے بچو.جہاں تمسخر ہو رہا ہو.وہاں کوئی بھلا مانس چلا جائے تو وہ بھی کوئی بات تمسخر میں کر دیگا.پس ایسی صحبت ہی میں نہ بیٹھو حدیث میں آیا ہے کہ کسی شخص کے حالات معلوم کرنے ہوں.اس کے دوستوں کو دیکھو.اِنَّ الْمَرْئَ عَلٰی دِیْنِ حَبِیْبِہٖ.مومن کو چاہیئے کہ دُعا کرے کہ شہر والے مجھ سے محبّت کریں پر مَیں صلحاء سے محبّت کروں.
: یہ ہُدیٰ اﷲ کے پانے کی راہ بتائی ہے.: اگر کسی کا قصور ہو جائے تو انسان اس کے سامنے نہیں ہوتا پر خدا کے حضور ضرور جانا ہے. (الرحمن : ۳۴) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۴. : اور عظیم الشان امر یہ ہے کہ وہ اﷲ جس نے پیدا کیا آسمانوں.بلندیوں اور زمین کو حکمت کے ساتھ اور جب کہے گا کُنْ تو پھر ہونیوالی چیزیں ہو پڑیں گی.(نور الدین ایڈیشن سوم صفحہ۹۲) : غیب.جواَب نہیں.شہادت.جو موجودہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۵،۷۶. : اَبْ عام ہے.مراد کوئی بزرگ رشتہ دار.والد مراد نہیں.کیونکہ ابراہیم ؑ نے آخر عمر میں جو دعا کی ہے.اس میں آتا ہے.(نوح:۲۹) حالانکہ دوسری جگہ (الشعراء :۸۷) کہنے کی ممانعت آئی ہے.: یہ سبب اسی فرماں برداری اور جوش توحید کے.
: انجام یہ ہوا کہ ہوا یقین کرنے والوں میں سے.ایک دفعہ حضرت صاحب سے مَیں نے پوچھا.یقین کی کوئی انتہاء بھی ہے.فرمایا.جب میں بچّہ تھا تب بھی خدا پر میرا ایمان تھا.جب جوان تھا.تب اور ایمان بڑھا.جب کچھ پڑھا.تب اور ایمان بڑھا.پھر جب الہام ہوا پھر اور ایمان بڑھا.پھر الہاموں کو پورا ہوتے پایا.پھر اَور ایمان بڑھا.پس یقین کی کوئی حد نہیں اور مراتبِ یقین کی کوئی حد نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۷ تا ۷۹. : مرکری.اس کی بہت پرستش ہوتی ہے.ہندو کام دیوتا اسی کو کہتے ہیں.: یہ اشارہ بطور تحقیر کے ہے.:اگر مجھے ہدایت نہ کی ہوتی.معلوم ہوا کہ آپ اس سے پہلے ہدایت یاب تھے.یہ نہیں کہ اس وقت بھول سے تارے چاند کو رب کہہ رہے تھے.: جب سورج بُرج حمل میں آتا ہے.ت مجوسی.آتشی شیشے.کے آگے سیاہ کپڑا رکھ دیتے اور چندن کی لکڑیوں کو آگ لگاتے.پھر وہ آگ برس تک محفوظ رکھتے اور موم بتیاں شام کے وقت اس سے جلاتے اور کہتے.اے سورج تو غرب ہو چلا.پر یہ تیری ہی آتش کا فیض ہے کہ بتّیاں روشن ہوئیں.یہ دراصل چوٹ کی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
میں نے اپنا منہ کیا اس کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین ایک طرف کا ہو کر اور مَیں نہیں شرک کرنے والا.اس آیت کا افتتاح (نماز.ناقل) میں پڑھنا خوب آشکار کرتا ہے کہ اہلِ اسلام کا باطنی رُخ اور قلبی توجّہ کدھر ہے.کعبہ حقیقی اور قبلہ تحقیقی انہوں نے کس چیز کو ٹھہرا رکھا ہے.(فصل الخطاب جلد دوم (ایڈیشن دوم) صفحہ۱۳۰) اگر قربانی کرتے ہو تو ابراہیمی قربانی کرو.زبان سے کہتے ہو تو رُوح بھی اس کے ساتھ متفق ہو.(الانعام:۱۶۳) (الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ۴) ۸۳. : اس کے معنے صحابہؓ نے نبی کریمؐ سے پوچھے ہیں کہ اَیُّنَالَمْ یَظْلمْ یَارَسُوْلَ اﷲِ.آپؐ نے فرمایا کہ ظلم سے مراد شرک ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۸۴. : یہ بات خوب یاد رکھو کہ کبھی اپنی طرف سے مباحثہ کی ابتدا نہ کرو اور اپنے علم پر مغرور نہ ہو جاؤ بلکہ جب چاروں طرف سے بات گلے پڑ جاوے تو اس وقت دُعا کرے کہ میرا علم.میری قدرت.میری عقل ناقص ہے.تو ہی اپنے فضل سے میرا مُعین و ناصر ہو.میں پچاس سال سے تجربہ کر رہا ہوں.اسی طرز میں ہمیشہ کامیاب ہوا ہوں. میں بتایا کہ وہ کی دلیل خدا کی طرف سے دی گئی ہے.
: احمدی قوم کو مخاطب فرما کر حضرت مولانا۱؎ نے قرآن مجید اور اس کی تفاسیر اور اس کے پڑھنے کے متعلق تمام سہولتوں کا ذکر فرمایا اور بتایا کہ اس سے پہلے زمانے کے لوگں کیلئے یہ اسباب نہ تھے.پھر آپ نے (القمر:۱۸) کی تفسیر میں فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے طور پر تحقیقِ حق کے لئے بیٹھتا.تو اس کیلئے ضروری تھا.تمام مذاہب عالم کی کتابوں کو اوّل سے آخر تک مطالعہ کرتا.مطالعہ کرنے کیلئے ان کی زبان کا صحیح علم حاصل کرتا.پھر انتخاب کرنے کے بعد ( جو کام ایک انجمن سے ہو سکتا ہے) کچھ صداقتیں اکٹھی کرتا.پھر بھی ان کے فیصلہ کرنے میں عاجز تھا لیکن قرآن مجید نے دُنیا کے مذاہب کی تمام صداقتوں کو نہ صرف جمع کیا بلکہ ان دعاوی کے دلائل بھی دیئے ہیں جو صرف اسی کتاب کا خاصّہ ہے.دیکھئے اس پہلو سے قرآن کریم حصولِ صداقت و حق کے لئے کس قدر آسان ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۹۳. ۱؎ حضرت خلیفۃ المسیح لاوّل.مرتّب : یہ آیت ان لوگوں کے لئے جو صرف ایمان باﷲ و ایمان بالاٰخرۃ کو ہی ذریعہ ٔ نجات ٹھہراتے ہیں.ایک حجت قوی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو آخرت پر ایمان لاتے ہیں ان کے ایمان کا نشان یہ ہے کہ وہ قرآن کی بات پر بھی ایمان لاتے ہیں.اور پھر نماز کی پابندی کرتے ہیں اور نماز ہی ایسی چیز ہے جو مسلمانوں کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتی ہے.بعض لوگ (المائدۃ:۷۰) آیت کو قرآن مجید سے پیش کیا کرتے ہیں لیکن وہ اس آیت کو نہیں پڑھتے.ایسوں کیلئے چھٹے پارہ کے پہلے رکوع میں خدا نے فرمایا ہے:
(النساء۱۵۱.۱۵۲) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) انسان جب اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے تو آخرت پر ایمان لے آتا ہے اور جزا و سزا کے اعتقاد کے بعد ضرور ہے کہ قرآن اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایمان لائے ( جس کے ساتھ ملائکہ و کتب کا ایمان بھی آ گیا ) اور پھر مومن.نماز کا پابند ہو جاتا ہے.(بدر ۳۱؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۴) فرماتا ہے جو لوگ کسی قسم کے ایمان کا دعوٰی کرتے ہیں.خواہ دہریہ ہی ہوں.غرض پابند ہوں کسی چیز کے.کسی اصل کے.پھر وہ خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی.جو کوئی اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے.ان دو باتوں کا ذکر اس لئے کیا کہ ایمان کی جڑھ اﷲ پر ایمان ہے.اور ایمان کا منتھیٰ آخرت پر ایمان.اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے.اس کا نشان بھی بتا دیتا ہے ( ) وہ ایک تو تمام قرآن مجید پر ایمان لاتا ہے.دوم اپنی صلوٰۃ کی محافظت کرتا ہے.آج ہی ایک نوجوان سے میں نے پوچھا.نماز پڑھتے ہو؟ اس نے کہا صبح کی نماز تو معاف کرو ( بھلا میرا باوامعاف کرنے والا ہے) باقی پڑھتا ہوں.یہ مومن کا طریق نہیں ہے.ایک مقام پر فرمایا.(البقرۃ:۸۶) (الفضل ۵؍مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ15
: ایسے ظالم جو افترائً وحی کے مدعی ہوتے ہیں وہ ضرور ہلاک ہوتے ہیں اور ذلّت کی موت مرتے ہیںجیسا کہ فرمایا.: اٰتَیْنٰکُمْ.اَصْلَحْنٰکُمْ.جو کچھ مال مویشی وغیرہ تمہاری بھلائی کے لئے دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۹۶. کیسی قدرت نمائی ہے.ایک دانہ ہوتا ہے اس سے کئی دانے بنا دیتا ہے.بَڑ کا بیج کیسی باریک چیز ہے مگر اس سے خدا بَڑ جیسا عظیم الشّان درخت نکالتا ہے.تخم ریزی جو ہوتی ہے تو گویا جو کچھ ہوتا ہے.گھر سے باہر نکال کر پھینک دیا جاتا ہے.پھر پرندے چرندے کیڑے ہزاروں بلائیں ہیں.ان سے محفوظ رہ کر کیا سے کیا بن جاتا ہے اسی طرح خدا ادنیٰ سے اعلیٰ بنا دیتا ہے.پھر اسی طرح گٹھلی کیا چیز ہے مگر اس سے کیا کیا درخت بنتے ہیں.: ہے اس کے سوا کون؟ ہے جو کیمیاوی ترکیب سے یا کسی کل کے
ذریعے بیج سے اتنا بڑا درخت لگا دے؟ میں نے ایک مشکل کے وقت یہی دعا کی تھی کہ جو دانہ سے گٹھلی سے اتنا بڑا درخت بنا دیتا ہے مجھے بھی بارآور کر.: گندوں کے گھر میں پا ک پیدا کر دیتا ہے.: بڑے بڑے زندوں سے مُدے پیدا ہوتے ہیں.دیکھو آدمؑ کا ایک بیٹا.نوحؑ کا بیٹا.سلیمانؑ کا بیٹا.اس میں ہم کو دو امّیدیں دلائیں.کہا.کہ اگر ہمارے بزرگ سُست تھے تو پرواہ نہیں ہم چُست ہو سکتے ہیں.اور ہم چُست ہیں تو گھمنڈ نہ کریں.کیونکہ ممکن ہے ہماری نسل سُست ہو.: خدا تعالیٰ سمجھاتا ہے کہ ا یسے دانہ سے درخت اور درخت سے گٹھلی.کافر سے مومن.بے نام و نشان سے نام و نمود والے بناتا ہوں.ویسے میں اپنے چند مسلمانوں کو بہت بڑی قوم بنا سکتا ہوں.یہ ذلیل سمجھے جاتے ہیں پَر میں انہیں عزّت دوں گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) قرآن شریف میں فلق کا لفظ تین طرح پر استعمال ہوا ہے ..پس خدا تعالیٰ .اورہے.دیکھو رات کے وقت خلقت کیسی ظلمت اور غفلت میں ہوتی ہے بجز موذی جانوروں کے عام طور سے چرند و پرند بھی اس وقت آرام اور ایک طرح کی غفلت میں ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہایت تاکیدی حکم دیا ہے کہ رات کے وقت گھروں کے دروازے بند کر لیا کرو.کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانک رکھا کر و خصوصًا جب اندھیرے کی ابتداء ہو اور بچّوں کو ایسے اوقات میں باہر نہ جانے دو.کیونکہ وہ وقت شیاطین کے زور کا ہوتا ہے…رات کی ظلمت میں عاشق اور معشوق.قیدی اور قید کنندہ.بادشاہ اور وزیر.ظالم اور مظلوم سب ایک رنگ میں ہوتے ہیں اور سب پر غفلت طاری ہوتی ہے ادھر صبح ہوئی اور جانور بھی پھڑ پھڑانے لگے.مُرغے بھی آوازیں دینے لگے بعض خوش الحان آنیو الی صبح کی خوشی میں اپنی پیاری راگنیاں گانے لگے غرض انسان.حیوان.چرند.پرند سب پر خود بخود ایک قسم کا اثر ہو جاتا ہے اور جوں جوں روشنی زور پکڑتی جاتی ہے توں توں سب جوش میں آتے جاتے ہیں.گلی کوچے بازار دوکانیں جنگل ویرانے سب جو کہ رات کو بھیانک اور سنسان پڑے تھے ان میں چہل پہل اور رونق شروع ہو جاتی ہے گویا یہ بھی ایک قسم کا قیامت اور حشر کا نظارہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہمَیں ہوں.حبّ.گیہوں.جَو.چاول وغیرہ اناج کے دانوں کو کہتے ہیں.دیکھو کسان لوگ کس طرح سے
اپنے گھروں میں سے نکال کر باہر جنگلوں میں اور زمین میں پھینک آتے ہیں.وہاں ان کو اندھیرے اور گرمی میں ایک کیڑ الگ جاتا ہے اور دانے کو مٹی کر دیتا ہے اور پھر وہ نشو و نما پاتا.پھیلتا پھولتا ہے اور کس طرح ایک ایک دانہ کا ہزار در ہزار بن جاتا ہے.اسی طرح ایک گٹک۱؎ کیسی ردّی اور ناکارہ چیز جانی گئی ہے.لوگ آم کا رس چُوس لیتے ہیں.گٹھلی پھینک دیتے ہیں.عام طور سے غور کر کے دیکھ لو کہ گٹھلی کو ایک ردّی اور بے فائدہ چیز جانا گیا ہے.مختلف پھلوں میں جو چیز کھانے کے قابل ہوتی ہے وہ کھائی جاتی ہے اور گٹھلی پھینک دی جاتی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ہوں.اُس چیز کو جسے تم لوگ ایک ردّی چیز سم کر پھینک دیتے ہو اس سے کیسے کیسے درخت پیدا کرتا ہوں.کہ انسان.حیوان.چرند.پرند سب اس سے مستفید ہوتے ہیں ان کے سائے میں آرام پاتے ہیں.ان کے پھلوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں.میوے.شربت.غذائیں.دوائیں اور مقوّی ۱؎ گُٹھلی.مرتّب اشیاء خوردنی اُن سے مہیّا ہوتی ہیں.اُن کے پتّوں اور ان کی لکڑی سے بھی فائدہ اٹھاتے ہو گٹھلی کیسی ایک حقیر اور ذلیل چیز ہوتی ہے.مگر جب وہ خدا کے تصرّف میں آ کر خدا کی ربوبیت کے نیچے آ جاتی ہے تو اس سے کیا کا کیا بن جاتا ہے.(بدر ۶؍جون ۱۹۰۸ء) ۹۷. : اب یہ چوتھی مثال دیتا ہے کہ میں صبح کے وقت رات کو پھاڑ کردن دکھانے والا ہوں.: رات اندھیری ہے.قیدی بادشاہ کا ایک رنگ ہوتا ہے.خوبصورت بدصورت.بیمار.تندرست.سب یکساں ہو جاتے ہیں بلکہ بعض وقت بادشاہ خواب دیکھتا ہے.میں قید ہو گیا ہوں اور قیدی خواب دیکھتا ہے.میں بادشاہ ہو گیا.نیند کے بھی عجائبات بے شمار ہیں.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ خواب کے عجائبات کے متعلق حکماء کی کیا رائے ہے.میںنے کہا.ہم کتاب کیوں دیکھیں.جب کہ ہم بھی سب کچھ دیکھتے ہیں.اس نظارہ میں حکماء کی تخصیص نہیں.اب اس
سے بڑھ کر ایک اور نظارۂ قدرت کی طرف متوجّہ کرتا ہے.: کے معنی ہیں اپنے محور پر گردش کرنا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۹۸،۹۹. : ایک ستارہ تو وہ ہے جس پر تمام جہازرانی موقوف ہے یعنی قطب.قطب نما ایسی چیز ہے کہ آجکل تمام جہاز اسی پر چلتے ہیں.عرب دوسرے ستاروں سے بھی بہت کام لیتے اور راہ پاتےخدا تعالیٰ یہ تمام نظارے اپنی قدرت کے بیان فرما کر سمجھاتا ہے کہ بڑا ہی نادان ہے جو مسئلہ نبوّت کا منکر ہے.ان معمولی پڑاؤں اور منزلوں کیلئے تو اس نے راہنمائی کا اتنا بڑا سامان مہیّا کیا اور اس کی سنّت ہو کہ ظلمت کے بعد روشنی عطا کرے لیکن اپنے حضور پہنچنے کیلئے کوئی شمس کوئی قمر کوئی ستارہ نہ ہو یہ ہرگز نہیں ہو سکتا.اے منکرانِ نبوّت جب تم فعلِ الہٰی سے نفع اٹھا رہے ہو تو قولِ الہٰی سے بھی اٹھاؤ.میں تو دیکھتا ہوں کہ جب سے ریل.تار.موٹر وغیرہ بنے ہیں اس وقت سے خدا تک پہنچنے کی راہیں بھی سہل ہو گئی ہیں.ایک زمانہ تھا کہ صحابہؓ کے لئے بہت سخت مجاہدہ تھا یہاں تک کہ جان بھی دینا پڑتی تھی.مگر اب تو یہ باتیں نہیں.مُسْتَقَڑٌّ: جہاں ٹھہرنا ہے یعنی بہشت.: جہاں بطور امانت عارضی قیام تھا.ماں کا پیٹ.پھر ماں کی گود.پھر گھر کا
صحن.پھر وطن سب عارضی ہی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۰. : جیسے آسمان پر سے پانی اُترتا ہے.اسی طرح وحی کا نز ول بھی ہے.ادھر قرآن.رسول کریمؐ کی پاک تعلیم ہے.اور ادھر دِلوں کی سر زمین اس آبِ حیات کو قبول کرنے کو تیار ہے.جیسے پانی اُترتا ہے تو ہر قسم کی روئیدگی اُگتی ہے اور ایک نیا لباس عطا کوتا ہے.اسی طرح وحی الہٰی کے وقت ہر چیز میں نشو و نما آتا ہے.اور زمانہ میں ایک تبدیلی پیدا ہونی چاہتی ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا.پھر اس پانی سے قسم قسم کے درخت اور طرح طرح کے میوے پیدا ہوتے ہیں.اسی طرح وحی الہٰی سے ہر قسم کے علم و ہنر و تہذیب میں ترقی ہوتی ہے.لیکن جیسا کہ ایک دانہ کے بیجنے کے وقت ایک نادان کہہ سکتا ہے کہ اوہو یہ تو مٹی میں مل گیا.اسی طرح اس رسول کی قوم پہلے حقیر و ادنیٰ سی معلوم ہوتی ہے مگر وہ فَالِق الحبّ والنَّوٰی اس کو ادنیٰ سے اعلیٰ.بے برکت سے بابرکت.ناچیز سے چیز بنا دیتا ہے.لوگ خدا کی رحمت سے ناامید ہوتے ہیں مگر میں تو دیکھتا ہوں.اس نے ایک وقت میں ایک بے جان لکڑی سے جو چند پیسوں کی ہو گی خدا کہلانے والوں کا تختہ الٹ دیا ( موسٰی کا عصا) ہمارے حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے.کسی کو خوشی ہے کہ میرے پاس مال ہے.کسی کو خوشی ہے کہ میرے اولاد بہت ہے اور کسی کو خوشی ہے کہ میرا جتّھا بہت ہے.پَر میں خوش ہوں کہ میرا خدا جو ہے وہ قادرِ مطلق ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۱۰۱. : احمق لوگ خدا کو جب چھوڑتے ہیں تو پھر پتھروں کی.پھر ادنایٰ سے ادنیٰ چیزوں کی پرستش شروع کر دیتے ہیں.یورپ امریکہ نے اس آخدا کو چھوڑا تو ایک انسان کو خدا ماننے پر مجبور ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۲. : پہلے رکوع میں یہ بات ذکر کی ہے کہ دانہ کو میں کھولتا ہوں.گٹھلیوں سے درخت.میّت سے حیّ بناتا ہوں.دانہ سے گٹھلی بڑی.پھر آگے جاندار اس سے بھی بڑا.پھر اس سے بڑھ کر شمس و قمر.اب اس سے بڑھ کر بناتا ہوں آسمان و زمین.باوجود قدرت کے نظارے کرنے کے پھر بھی خدا کا بیٹا ایک انسان کو قرار دیتے ہیں.انجیل کی کیا بات ’’ جو بات تُو نے حکیموں کی نظر سے چھپائی وہ بچّوں کو دکھائی ‘‘ صادق آتی ہے.انگریز کیسے عقلمند اور پھر اس معاملہ میں کیسے کو دن نکلے.کفّارہ اور تثلیث جس پر اڑے ہیں کوئی چیز ہے؟ : نتیجہ یہ ہوتا ہے دو چیزوں کے ملنے سے.یس عورت کا ہونا لازمی ٹھہرا.تم صاحبہ مانتے نہیں اور بیٹا بناتے ہو.ایک عورت مسیحؑ کے پاس آئی.کہا.میرے بیٹوں نے تمہارے لئے سب کچھ چھوڑ دیا.جب تو بادشاہ بنے.ایک کو دائیں اور ایک کو بائیں بٹھائیو.کہا یہ تو مولیٰ کے اختیار میں ہے.پھر قیامت کے بارے میں کہا اس گھڑی کا علم مجھے نہیں.الوہیت کا مدار صفاتِ کاملہ پر ہے اور مسیحؑ میں اس کے اس بیان سے علم و قدرت ہی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) اس کے کہاں سے بیٹا ہوا.اس کا تو کوئی ساتھی نہیں.اس نے سب چیزوں کو پیدا کیا اور وہ
کل چیزوں کو جاننے والا ہے.یہی تمہارا رب ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں وہ کل اشیاء کا خالق ہے اور وہ سب کا کارساز ہے… گویا قرآن کریم کہتا ہے کہ مسیح ابن اﷲ کن معنوں پر ہیں.آیا عرفی اور حقیقی معنوں پر مسیح ولد اﷲ یا کسی اور معنوں پر.اگر عرفی اور حقیقی معنوں میں ہیں.یہ تو صحیح نہیں کیونکہ اس صورت میں سیّدہ مریم علیھاالسلام کو خدا کی جورُو اور اس کا ساتھی ماننا ضروری اور لازمی امر ہے.اور تمام عیسائی اور سارے عقلاء سیّدہ صدیقہ مریم ؑ کا اﷲ تعالیٰ کی صاحبہ ہونا اعتقاد نہیں رکھتے.اگر مجازی معنی ولد اﷲ اور اب اﷲ کے لیتے ہو تو مجازی معنی نہایت وسیع ہیں.ولد اﷲ کے معنی خدا سے مجسّم خدا کے ساتھ ذاتاً متحد ہستی تجویز کرنا ہرگز ہرگز صحیح نہیں کیونکہ اگر یہ معنے لو گے اور مسیح کو اﷲ اور اﷲ کا بیٹا کہو گے تو ضرور ہو گا کہ مسیح ذات و صفات میں خدا ہو.خدا کے برابر اور صفتِ معبودیت اور صفتِ خلق اور علم وغیرہ میں جو انسانی جسم کے لحاظ سے نہیں خدا کے سے صفات رکھتا ہو.مگر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام میں یہ صفاتِ کاملہ خدا کی طرح موجود نہیں تھیں.غور کرو.(ابطال الوہیتِ مسیح صفحہ۳) ۱۰۴. : اب ردِّ الوہیت کی ایک اور دلیل فرماتا ہے کہ مسیح کو تو آنکھ نے احاطہ کرلیا.حالانکہ اﷲ کا احاطہ نہیں ہوتا.: یہ کا ثبوت ہے.: یہ کا ثبوت ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۵. : انسان کی فہم و فراست کا سب سامان موجود ہے.: کوئی کہے کہ ہمیں نفع کی ضرورت نہیں.فرمایا.نفع نہ اٹھاؤ
ہو کر دُکھ پاؤ گے.: تم جان بوجھ کر اندھے بنو گے.تو میں تمہارا لاٹھی پکڑنے والا نہیں کہ ذمّہ دار ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۷. : یہ تمام وحیوں کا خلاصہ ہے کہ وہ معبود ہے جس کے فرمان پر عمل کیا جائے.ایک طرف رسم عادات.احباب بلاتے ہیں.دوسری طرف اﷲ کا حکم.اسی وقت معلوم ہوتا ہے کہ بندہ اﷲ کافرماں بردار ہے یا نفس کا اور احباب کا.: کس دل سے مانا ہے.یروشلم کے محاصرہ میں پادریوں نے کہا.تمہارا خلیفہ آوے تو اُسے ہم دخل دیدیں.حضرت عمرؓ اسی سادگی میں روانہ ہوئے.غلام کے ساتھ باری باری اونٹ پر چڑھتے آتے تھے.ابوعبیدہؓ نے عرض کیا آپ کپڑے بدل لیں، گھوڑے پر سوار ہوں.آپ نے یہ عرض مان لی مگر تھوڑی دور جا کر گھوڑے سے اُتر بیٹھے.کہا میرا وہی لباس اور اونٹ لاؤ.آپ جب گئے تو بِطریق وغیرہ نے رُعب میں آ کر چابیاں پھینک دیں.کہا.اس سپہ سالار کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے.پس میں کس طرح لنَّاسُ بالِلّبَاسِکہنے والوں کا قائل ہو جاؤں.وجہ کیا تھی.تُو اﷲ کا فرماں بردار بن.سب مخلوق تیری فرماں بردار ہو جاوے گی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۹. اب ایک اخلاقی تعلیم پیش کرتا ہے کہ حق بات کہو.دین کی تبلیغ کرو.مگر کسی کے بزرگ کو گالی نہ دو نہ رام چندر کو.نہ کرشن کو.نہ بُدھ کو.اور نہ کسی اور کو.
… کسی معبود کو بُرا نہ کہو ورنہ ہمارے مولیٰ کو بُرا کہیں گے.اسی طرح خوبصورت خوبصورت کر کے دکھلایا ہے.ہم نے ہر قوم کیلئے وہ کام جو ان کو کرنا چاہیئے یعنی جو عمل ہم ان سے کرانا چاہتے ہیں.اس کی خوبصورتی ہم نے اسی طرح بیان کی.دیکھو اﷲ کا بیٹا نہ بنانے اور شرک کی بُرائی کے لئے کیسے معقول دلائل دیئے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) اسلام نے کوئی عمدہ تعلیم اور پسندیدہ بات نہیں جس کا حکم اور کوئی بُری اور ناپسندہ بات نہیں.جس کی ممانعت نہ کی ہو… اخلاق وہ کِسی نبیؑ پر کوئی اعتراض نہیں.سب کا ماننا.سب کا اداب اسلام میں ضرور ہوا …سے بڑھ کر کون سا حکم ہے جو اخلاق کا مصدر بن سکے.تعجّب آتا ہے.الزامی طور پر بھی قرآن عیوب کا اشارہ نہیں کرتا.(فصل الخطاب جلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۷۷) پنڈت سوامی دیانند نے اپنی تحریروں میں دعوٰی کیا ہے کہ دوسرے مذاہب کو بُرا کہا ان کا شیوہ نہیں اور بد تہذیب شخص کو وہ بہت بُرا سمجھتے ہیں… اس راہ کے آداب و اخلاق کے سکھانے میں بھی قرآن کریم کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس مبارک کتاب نے تعلیم دی ہے.کہ الباطل سے جنگ کرنے کے وقت اس کے قابلِ اکرام معبودوں اور معظم مقصودوں کی نسبت کس طریق پر کلام کرنا چاہیئے.جیسے فرمایا (ترجمہ) تم لوگوں کے معبودوں کو گالی نہ دو.وہ اس کے عوض میں جہالت اور زیادتی سے اﷲ کو گالی دیں گے.اس مبارک تعلیم سے وید اور دوسری تمام کتابیں محض برہنہ ہیں.اسکی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کتابوں میں کوئی ذاتی خوبی اور جوہر نہیں.یہ کتابیں اپنی جگہ بے زبان ہیں.کوئی دعوٰی اپنی دلیل کے ساتھ ان میں نہیں.ہاں ان کے وکیلوں اور حامیوں کے منہ میں لاریب سیاہ زہر دار کو برہ کی دو شاخی زبانیں ہیں.یہ لوگ پادری اور آریہ اپنی کامیابی اور ظفر اسی میں سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی عیب چینی کریں.اپنی کتابوں اور عقیدوں کے معارف و اسرار کے اظہار سے انہیں کوئی غرض نہیں.اگر مذاہب اور ملل اس پر اتفاق کر لیں کہ تمام حلمیانِ دین اپنے مذہب و کتاب کی خوبیوں کے بیان کرنے پر اکتفاء کریں اور اس سے تجاوز نہیں کریں گے تو یقینًا اس میدان میں گوئے سبقت قرآن کریم کے ہاتھ میں ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ نو.۵۶) قرآن کریم نے تمام مذاہب کے ان معباودوں کی دشنام دہی سے جن کو بُت پرست پکارتے ہیں حکماًقطعی ممانعت کر دی ہے جہاں فرمایا ہے ط
: کیونکہ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱.انسان تیز دریا بہتا دیکھ کر دوڑتا چلا آئے کہ اس سے پار نکل جاؤں تو وہ بیوقوف ہے.۲.کسی شخص نے مُرغے کو بازو پھڑ پھڑا کر اذان دیتے دیکھا.کہا.میرے سامنے اکڑتا ہے میں بھی ایسا کروں گا.پھر مرغا ایک دیوار سے دوسری دیوار پر چلا گیا.اس نے بھی زقند لگائی.تو گر پڑا اور مر گیا.یہ حَد سے بڑھنے کا نتیجہ ہے.۳.قرآن نے مثال دی ہے کہ ایک شخص دُور سے کلّر دیکھ کر اسے پانی سمجھا.پانی کے لئے دوڑا جب وہاں تک پہنچا تو کچھ بھی نہ پایا.بلکہ پیاس اور بھی بڑھ گئی.دیکھو پارہ ۱۸. (النور: ۴۰)بعض لوگ غلطی سے جو چیز مفید نہیں اسے مفید سمجھتے ہیں اور مفت کی شیخیاں بگھارتے ہیں.جیسے مسلمان آگے قلعہ فتح کرنے پر ناز کرتے تھے.اب بعض ایسے ہیں کہ کسی عورت سے ناجائز تعلق میں کامیاب ہوں تو کہتے ہیں.ہم نے قلعہ فتح کر لیا.۴.بد دیانت یہاں تک بڑھی ہوئی ہے کہ جو معمار ہیں.وہ جان بوجھ کر عمارت ناقص بناتے ہیں پوچھو تو کہتے ہیں.ہمارا کام کس طرح چلے اور پھر ہمیں کون بلائے.حالانکہ ایسے لوگ ہمیشہ غریب رہتے ہیں.غرض انسان جس راہ پر اپنے تئیں ڈال لے.اسی کے موافق نتیجہ نکلتا ہے.دیکھو.حق کو نہ ماننے کا نتیجہ یہ نکلا ، سمجھ بھی اُلٹی ہو گئی اور حق کے بنیاد نہ رہے پھر بڑھتے بڑھتے سر کشی میں بہکتا رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۲. : یہاں تک کہ اگر فرشتے بھی اتریں.موتیٰ کلام کریں تو بھی نہ مانیں.بڑے بڑے بدکاروں کو بدی کرتے کرتے نیکی کا خیال اٹھتا ہے یا کسی وقت
ان کے دلوں میں بھی نیکی کی تحریک ہوتی ہے.اور پھر باوجود اس کے نزولِ ملائکہ نہیں مانتے.: یہ بھی اکثر لوگوں کو اتفاق ہوتا ہے کہ خواب میں کچھ ہدایت ہوتی ہے.مُردہ کچھ ان کو بتاتا ہے.مگر پھر بھی نہیں مانتے.: ہر بدکار کو کسی نہ کسی سزا کے نیچے دیکھتے ہیں.مگر پھر بھی عبرت نہیں پکڑتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : مامور من اﷲ کے وقت القاء یا خواب میں مُردوں کے ذریعہ ہدایت کی بات سُنتے ہیں یاد یگر دلائل وَ حجج و نشانات دیکھتے ہیں.مگر پھر بھی نہیں مانتے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) ۱۱۳. : ایسے ہی بدکار لوگ پھر بڑھتے بڑھتے انبیاء کے انکار پر کمر باندھ لیتے ہیں.: بعض اپنے تئیں ظاہر طور پر مقابل کرتے ہیں.بعض چھُپے رہتے ہیں اور خبیث روحوں کا ان سے تعلق ہو جاتا ہے.: مُلمّع سازی کی باتیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : اوسط درجے کے لوگ اور اعلیٰ درجے کے لوگ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) : یہ جملہ شرطیہ ہے اور اس کا مطلب صاف ہے کہ اگر ہم چاہتے تو ایسا کر سکتے.لیکن باری تعالیٰ نے علی العموم لوگوں کو ہدایت محض اور ضلالت محض پر مجبول نہیں کیا.اور نہ حکمتِ ایزدی اس امر کی متقاضی ہو سکتی تھی.یہی معنی اس آیت کے ہیں کہ اگر ہم چاہتے تو وہ شرک نہ کرتے (انعام:۱۰۸) یعنی ان کو ہدایت محض پر مجبول و مخلوق کر دیتے.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم جلد۲ صفحہ۱۶۳)
: بدکاریوں کے علم کے لئے فرماتا ہے کہ اس کتاب کی طرف توجہ کرو.: جس میں نیکی بدی کی تفصیل جُدا جُدا دی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : قرآن یا آیات کو مجمل کہنے والے غور کریں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) : تیرے ربّ کی بات پوری سچ ہے.انصاف کی.کوئی بدلنے والا نہیں اس کے کلام کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۴۴) ۱۱۷. : اکثر لوگ اپنی اٹکل بازی سے نیکی بدی کی تشریح کرتے ہیں اور یہ راہ بالکل غلط ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) اگر تُو زمین کے بہت عوام لوگوں کی بات مانے تو وہ خدا کی راہ سے ہٹا کر تباہ کردیں.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۷۷) ۱۱۹. : جس طرح ایک جانور خاموش مالک کے آگے گردن رکھ دیتا ہے.اسی طرح مومن کو
چاہیئے کہ وہ اپنے مولیٰ کے آگے سر رکھ دے.چونکہ جانور پر مولیٰ کا نام لیا جاتا ہے.اس لئے اس میں اس کے ذبح میں ایک تعلیم حاصل کرنا چاہیئے.حُرمت کے چار قاعدے ہیں.ایک وہ حرام ہے جو انسان کی جان کو ہلاک کر دے مثلاً مُردار.دومؔ وہ جو اخلاق میں شہوت و غضب کو بڑھائے مثلاً سؤر.سومؔ وہ جو طبعی قوّتوں کو برباد کرے مثلاً لہو جس کی زہر تشنّج.استرخاء پیدا کرتی ہے.جو قومیں مُردار.خون.سؤر.غیر اﷲ کے نام کا استعمال کرتی ہیں.ان میں الہٰیات کے سمجھنے کی قوّت نہیں رہتی.چہارمؔ جو غیر اﷲ سے تقرّب اور حاجت روائی کے لئے ذبح کیا جاوے اور یہ شرک ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۱. : گناہ دو قسم کے ہیں.ایک ظاہر کسی کا مال چُرا لیا.دُکھ دے دیا.جھوٹ بول لیا.ایک باطن یعنی مخفی گناہ مثلاً کینہ، حسد، تکبّر، دوسرے کی تحقیر، حرص، کفر، بعض لوگ خدا کے منکر ہیں.بعض منکر نہیں.مگر مان کر پروا نہیں کرتے.بعض اس خدا کے برابر کسی اور کو بھی قرار دیتے ہیں اور مثال دیتے ہیں کہ جیسے بادشاہ کے پاس بغیر وزیر نہیں جا سکتے ویسے ہی خد کے حضور بجز وساطت نہیں جا سکتے.یہ مثال غلط ہے کیونکہ بادشاہ بوجہ بشریت و عدم اطلاع معذور ہے.مگر خدا تو سب کو سُنتا ہے.چھت کیلئے بے شک سیڑھی کی ضرورت ہے مگر خدا تو اَقرب سے اَقرب ہے.: اب عام اصول بتلاتا ہے.کہ جو گناہ کرے اس کے نتائج ضرور بھگتے گا.اگر اﷲ تعالیٰ عفو نہ کرے.جن لذّتوں کیلئے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے.وہی اس کے لئے وبالِ جان بن جاتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: مثلاً چوہڑے کہتے ہیں کہ خدا کی ماری حرام اور تمہاری ذبح کی ہوئی حلال ؟ حالانکہ یہ انکی غلطی ہے.ایک محبوب کے نام پر کُشتہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۳. : اُخْرَجَکُمْ مِنْ بُطُوْنِ اُمَّھَاتِکُمْ لَاتَعْلَمُوْنَ شَیْئًا(نحل:۷۹) میں اس کی تفسیر ہے.جب تک انسان خدا کی فرماں برداری کی تہ کو نہیں پہنچتا.مُردار ہی ہوتا ہے.لیکن جوں جوں خد ا کی عظمت و جبروت کو سمجھتا ہے.زندہ ہوتا جاتا ہے.: عقل وسمجھ وسچائی و کتابِ الہٰی کا علم.لوگوں میں بھی اس کا ذکر آتا ہے.ایسے بھی لوگ ہیں جو افرادِ قوم.ملک کی بہتری تو کجا اپنی بہتری کو بھی نہیں سمجھتے.جانوروں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں.: ہر روز سوچو کہ بہ نسبت کل کے تم نے خدا سے نزدیک ہونے یا مخلوق پر شفقت کرنے میں کیا ترقی کی.تا سمجھ آئے کہ ظلمات سے نور میں یعنی بے تمیزی سے تمیز میں کہاں تک پہنچے.رسول کریمؐ نے فرمایا ہے مَنِ اسْتَوٰہُ یَوْمَاہُ فَھُوَمَغْبُوْنٌ.پس تم ضرور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور ایک پہچان ’’ نبوّت‘‘ کی بتلائی ہے.وہ یہ کہ اکابر جو ہوتے ہیں وہ انبیاء سے قطع تعلق کرنے والے ہوتے ہیں.تم خدا کی بڑائی کیلئے وعظ کرو.پھر تمہارے بھی دشمن ہو جاویں گے.میرے سامنے کسی نے سوال کیا.کیشب.دیانند.سرسیّد.مرزا صاحب چاروں اصلاح کے مدعی ہیں ان میں کیا فرق ہے.میں نے کہا یہی کہ اکابر صرف مرزا صاحب کے دشمن ہیں! (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: ہم کو بھی الہام ہو.اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمیندار مال گزاری وصول کرنیوالے کو کہے.اگر بادشاہ نے یہ روپیہ لینا ہے تو وہ خود میرے گھر کیوں نہیں آتا؟ ۱.اﷲ تعالیٰ دلوں کی پہچان کا ذکر کرتا ہے.۲.بعض صحبتیں.مکان.دوست ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے تعلق بدی کی طر ف رغبت دلاتا ہے ۳.نبی کریمؐ صلی اﷲ علیہ وسلم مجلس میں ستّر بار سے زیادہ استغفار فرماتے تھے تاکہ قلب پر رَیْن ۱؎ تک بھی نہ آئے.۴.استغفار بہت ضروری ہے.ورنہ رین ؔؔپڑتے پڑتے ختم.قفل تک نوبت پہنچتی ہے.۵.جو لوگ ہدایت پانے کے قابل ہوتے ہیں وہ حق بات کے ماننے کیلئے ہر وقت بشرح صدر تیار ہوتے ہیں جیسے ابراہیمؑ نے اَسْلِمْ کے جواب میںاَسْلَمْتُ (البقرہ:۱۳۲) کہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : جو شخص خلافت کیلئے منتخب ہوتا ہے اس سے بڑھ کر دوسرا اس منصب کے سزاوار ہرگز نہیں ہوتا.کیسی آسان بات تھی.کہ خدا تعالیٰ جس کو چاہے مصلح مقر کر دے پھر جن لوگوں نے خدا کے ان مامور کردہ منتخب بندوں سے تعلق پیدا کیا.انہوں نے دیکھ لیا ۱؎ زنگ.مَیْل.(مرتّب) کہ ان کی پاک صُحبت میں ایک پاک تبدیلی اندر ہی اندر شروع ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے سات اپنے تعلقات اکو مضبوط اور مستحکم کرنے کی آرزو پیدا ہونے لگتی ہے.(الحکم ۱۷؍اپریل ۱۹۰۱ء صفحہ۳) : اب پہنچے گی گنہگاروں کو ذلّت اﷲ کے یہاں اور عذابِ سخت بدلہ حیلہ بنانے کے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۷) ۱۲۶تا۱۲۸.
: پہاڑ میں ڈھلوان.تنگ راستہ.خاردار جھاڑیوں سے پُر.پھر اس بُلندی پر چڑھنا پڑے تو تکلیف ہوتی ہے ایسے ہی اس آدمی کا حال ہے.: اِضلال کن کا ہوتا ہے.جن کا سینہ حق بات کے ماننے سے تنگی کرے.: أَيْ یَتَذَکَّرُوْنَ اَمْرِیْ.جو میرے احکامات کو یاد کرتے رہتے ہیں.(مرتّب) : احکامِ الہٰی کے ماننے کا فائدہ یہ ہے کہ ان کو دنیا میں.قبر میں.قیامت میں پُل صراط میں.جنّت میں سلامتی کا گھر ملتا ہے.پھر خدا اس مومن کا والی ہو جاتا ہے.: ایسے مومن پر خواہ کس قدر مصبتیں آئیں وہ سلامتی سے نکل جاتا ہے.وہ ظلمات سے بتدریج نکلتا رہتا ہے.کئی قسم کی ظلمتیں ہیں.ا.ظلمتِ جہل.۲.ظلمتِ رسم و عادت.۳.ظلمتِ حبّ (حُبَّکَ الشَّیْئَ یُعْمِیْ ونیُصِمُّ ) ۴.ظلمتِ افلاس و دولت ۵.ظلمتِ مجلس.۶.ظلمتِ شرک ( جس نے عیسائیوں کی عقل دین کے بارے میں باوجود اس درجہ ترقی صنعت و حرفت کے ٗ مار دی ہے) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : فرماں برداری کے لئے سینہ کھُل جاتا ہے.وہی ہدایت پاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳)
جب تم پر حکم ظالم ہو تو استغفار کرو کیونکہ ظالموں پر حاکم ظالم ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) ۱۳۱،۱۳۲. انسان میں دو قسم کے قوٰی ہیں.ایک جن پر انسان کو مقدرت ہے.دوم جن پر کوئی مقدرت نہیں پہلی قسم کے متعلق شریعت ہے.دوسری کے متعلق ہرگز نہیں.اگر کوئی شریعت اس کے بارے میں حکم دے تو وہ شریعت جھُوٹی ہے.دیکھ لو رنگ.قد.اندرونی پٹھوں.ہڈیوں کے بارے میں کسی شریعت حقّہ نے حکم نہیں دیا.ہاں مشرک قوموں نے ایسے مسئلے گھڑے ہیں.مثلاً عیسائی کہتے ہیں ’’ تین خدا ہیں مگر ایک ہیٗ اس بات کو کوئی انسانی عقل باور نہیں کر سکتی.بُت میں منتر پڑھنے کے بعد خدا ا جانے کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے.زبان دونوں قسم کے قوٰی کا مظہر ہے.کھٹّے کو میٹھانہ کہے گی.مگر خدا کو گالیاں دلوالو.اسی آخری قدرت و تصّرف کے متعلق اصلاح کے لئے اﷲ رسول بھیجتا ہے.چنانچہ اس رکوع میں جنّ و انس امراء اور غرباء دونوں کو مخاطب کرتا ہے.: تم ہی میں سے رسول ہوئے.انبیاء امراء بھی ہوئے ہیں.جیسے سلیمانؑ غرباء بھی جیسے یحییٰ علیہ السلام.
برہمو سلسلہ رسالت کے منکر ہیں.وہ تمام انبیاء کو مفتری قرار دیتے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ انبیاء نے یہ کہنے میں کہ ہمیں خدا سے وحی ہوی ہے دروغِ مصلحت آمیز سے کام لیا ہے.پھر وہ ملائکہ کے منکر ہیں.نہایت لطیف پیرائے میں اس اعتقاد کو انہوں نے شرکِ عظیم قرار دیا ہے.گویا تمام قسم کی نیکی کی تحریکوں کے مخالف ہیں.: دنیا نے ان کو بڑا دھوکہ دیا ہے.بچّہ پیدا ہوتے ہی کھانا طلب کرتا ہے.پھر اس میں غضب پیدا ہوتا ہے پھر حرص.چنانچہ ایک پستان چُوستا دوسرے پر ہاتھ رکھتا ہے اور اپنے دوسرے بھائی سے بَیر پیدا کر لیتا ہے.پھر غضب کے ساتھ ساتھ حُبّ بھی بڑھتی جاتی ہے یہ سب قوّتیں بہیمی کے کرشمے ہیں.پھر شہوت میں ترقی ہوتی ہے.جس کا نتیجہ ہم نوجوانوں کے ہر روز آنے والے خطوط میں پڑھ رہے ہیں.غرض کھاناؔ ،پیناؔ ،بُغضؔ ، عداوتؔ، حبّؔ، شہوتؔ ، حرصؔ تو اپنے قبضہ جما لیتے ہیں اور انبیاء کی تعلیم اور عقل بعد میں آتی ہے.پھر یورپ ، امریکہ کے لئے تو اور بھی مشکل ہے.وہ جب ہوس سنبھالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کسی انسان کو خدا بنایا گیا ہے تو وہ اس لغو عقیدے کو دیکھ کر ان میں ہوش والے مذہب ہی کو ایک لغو اور جھوٹی چیز خیال کرتے ہیں.کیونکہ ان کے سامنے توحید کی پاک تعلیم نہیں آئی.پھر موجودہ ساز و سامانِ رہائش کچھ کم غافل کرنیوالا نہیں.: جب تک خدا کی طرف سے غافلوں کو خبردار کرنیوالا آنہ جائے.عذاب نہیں آتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۷؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۴،۱۳۵. : چاہے تو کسی قوم کو تباہ کر دے.: ایک قوم چلی جاتی ہے دوسری قوم اس کی جا نشین ہوتی ہے.ان کا بڑا خلیفہ کہلاتا ہے.آدمؑ کی خلافت کے مسئلے پر اس آیت سے روشنی پڑتی ہے.جس پر اﷲ تعالیٰ اپنے اوامر و نواہی
بھیجتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۶. : اپنی پوری طاقت.پورے زور سے کام کرو پھر دیکھو.انجام بخیر کس کا ہوتا ہے ایک طرف ایک بیکس.کسمپر س انسان ہے.دوسری طرف تمام امراء و رؤوساء پھر دیکھو.کسی تحدّی سے کہا جاتا ہے.تم پورا زور لگا لو.یہ نبی کی نبوّت کی صداقت کا ثبوت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) جو مامور اور مُرسل آتے ہیں وہ خدا ہی کے انتخاب سے آتے ہیں.مخالفت صرف اس لئے ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی ہو اور وہ بتلا دے کہ یہ ہمارا انتخاب اور ہمارے ہاتھ کا پودا ہے اسی لئے ان لوگوں کے بیرونی اور اندرونی دشمن پیدا ہو جاتے ہیں جن کو یہ لوگ بڑے زور سے چیلنج دیتے ہیں. کہ تم اپنی جگہ کوئی دقیقہ میری تباہی اور ناکامی کا ہرگز نہ چھوڑو اور کام کئے جاؤ.اور میں اپنا کام کر رہا ہوں انجامِ کار خود پتہ لگ جاوے گا.کہ مظفر و منصور کون ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۲) ۱۳۷. : جو لوگ شریعت کی پرواہ نہیں کرتے.انہیں بھی کسی نہ کسی اصل یا رسم پر چلنا ہی پڑتا ہے.پس انسان کیوں شریعت کا پابند نہ ہو.جس کی پابندی مثمرِ ثمراتب کثیرہ و برکاتِ متعد دہ ہے
: چھتری والے جیسے انگور کی بیل.گلو کی بیل.: جن کی بیل نہیں ہوتی.مثلاً گلاب چنبیلی.انب۱؎.سنگترہ.کھجور.: چاول کا مزہ اَور ہوتا ہے باجرے اور مکّی ۲؎ کا اَور.: مثلاً بادام.اخروٹ اور چکنائی والے درخت.: خطاکاری مت کرو.یعنی کمانا اور کھانا مگر بھوکوں کا خیال نہ کرنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: لادُو جانور ۱.جو سواری کے قابل ہیں ۲.باربرداری کے لائق ۳.ہل جوتنے یا کنواں چلانے کیلئے.: وہ جانور جو چلے اور زمین کو لگے.مثلاً بھیڑ.بکری.خرگوش.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : دُنبے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) : پیدا کئے آٹھ نر اور مادہ بھیڑمیں سے دو.اور بکریوں میں سے دو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۳۵) ۱؎ آم.مرتّب ۲ ؎ مکئی.مرتّب ۱۴۶. : شرفاء میں جو کھائی جاتی ہے.ان میں کوئی حرام نہیں.سوائے .خون باریک عضو کو ہلاک کرتا ہے اور اس میں زہر ہوتی ہے.: کیونکہ اس سے شہوت، غضب، الہٰیات سے دُوری ہوتی ہے.خنزیر خور قوموں کو دیکھ لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) قرآن مجید میں جس خون کو حرام فرمایا ہے اس کی تفصیل بھی کر دی ہے.جیسے فرمایا ہے. .تو کہہ میں اپنی وحی میں کسی کھانے والے پر کوئی شے حرام نہیں پاتا سوائے اس کے مُردار ہو یا گرا ہوا خون ہو.اگر وِید کو پڑھو.اس میں بھی تو لکھا ہے کہ خون میں اقسام اقسام کی زہریں ہوتی ہیں جو پیشاب کے ذریعہ خارج ہوتی ہیں.منجملہ ان کے کار بالک ایسڈ اور ٹومین تو عام مشہور ہیں جن سے فالج یا استرخا
اور تشنّج پیدا ہوتے ہیں.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۵۰) : دلِی خواہش نہ ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) ۱۴۷. :جس طرح بیمار انسان کو بعض پرہیزیں بتائی جاتی ہیں اور وہ وقتی بات ہوتی ہے.اسی طرح یہودی قوم پر ایک وقت وہ تمام چیزیں حرام کر دی تھیں جن کے ناخن تھے اور منجملہ ان کے اونٹ بھی تھا اور انکی چربیاں سوائے پیٹھ کی چربی کے یا جو انتڑیوں سے ملی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی ہوئی ہو.یہ سب مناہی صرف وقتی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۴۹. مشرک بول اُٹھیں گے کہ اگر اﷲ چاہتا تو ہم اور ہمارے باپ دادے نہ تو شرک کرتے اور نہ کسی شے کو حرام کرتے.ان سے پہلوں نے ہی ایس ہی کہا.یہاں تک کہ ہماری سزا کا مزہ چکھا.اے نبی ان سے
کہہ تمہارے پاس کوئی اس بارہ میں علم ہے تو لاؤ ہمیں نکال کر دکھاؤ.تم ظنّ کے نیچے لگے ہو اور اٹکلیں لگا رہے ہو.اے نبی کہہ ( جب تمہارے پاس اس اپنے دعوٰی کے کہ اﷲ کی مرضی سے شرک ہوتا ہے، کوئی دلیل نہیں اور تم جھوٹے نکلے) تو پورا غلبہ اﷲ کو حاصل ہے.اگر اسکی مشیت ہوتی تو تمہیں ہدایت دیتا ( نہ یہ کہ سرک کرواتا جیسا تمہار گمان ہے) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۳۷) ا س ا عتراض کے مفصّلہ ذیل جواب دیئے ہیں.(الانعام:۱۵۰) ۱. کہا ۲.(الانعام:۱۴۹) ۳.(الانعام:۱۴۹) ۴.(الانعام:۱۵۰) ۵.(الانعام:۱۵۱) ۶. (الانعام:۱۵۱) ۷.(الانعام:۱۵۱) : یعنی کبھی اﷲ تعالیٰ نے اپنی طاقت سے تمہیں کان سے پکڑ کرنیکی سے روکا ہے یا بدی کی طرف چلایا ہے ؟ اگر ایسی بات ہے تو ثبوت پیش کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : جبری مذہب آجکل بڑھ گیا ہے.مگر تعجّب ہے.انکی حُجّت بازی دینی کاموں میں ہوتی ہے.مگر دنیا کے کاموں میں ہوشیار.دلائل دئے ہیں.۱..۲..۳..اپنے بروں کو بھی لپیٹ لیا.۴..۵..یعنی تم نے سب نبیوں کو جھٹلا دیا.۶..ایسے لوگوں کو سزا ملی.۷. اپنا علمدرآمد دیکھو کیا وہ جبراً تمہیں شراب کانوں یا چوریوں کی طرف لے جاتا ہے؟ اور نیکیوں سے روکتا ہے؟ علم کی بات کرو. اس دعوٰی کی بنیاد ظنیّات پر ہے.: اٹکل پچّو باتیں کرتے ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ستمبر ۱۹۱۳ء ۴۵۳)
: جب وہ ہدایت پر جبر نہیں کرتا.تو برائی پر کیوں جبر کرنے لگا.اگر ہم مجبور کرتے تو بہر حال نیک بات پر کرتے.کیونکہ ہم قدّوس ہیں.نیکی پسند کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۳) ۱۵۲. دنیا میں دو قسم کے لوگ ہیں اوّلؔ جو دوسرے لوگوں کے تجارب سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ن کی باتوں کو مانتے ہیں.دومؔ وہ جو اپنے تجربے اور اپنی باتوں پر عمل کرتے ہیں.عقل مندی کا کام یہ ہے کہ جو صداقتیں دنیا میں تسلیم ہوئی ہیں.ان کو مان لیں.پس انبیاء علیہم السلام کی کتابوں سے ( جو صداقتوں اور تجربوں کو مجموعہ ہیں) ضرور فائدہ اٹھاؤ.: شرک چار قسم کا ہے.۱.شرک فی الذات ۲.شرک فی الصفات ۳.شرک فی الفعال ۴.شرک فی التعظیم.یہ چوتھا شرک عام ہے.: ۱.ایسی دوا کھانا کہ حمل گر جائے ۲.دُختر کشی ۳.اولاد کی پرواہ نہ کرنا.: زنا.چوری.ڈاکہ.گالیاں.: کینہ.کپٹ.بُغض (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) شرک عربی زبان میں کہتے ہیں سانجھ کرنے کو.کسی کو کسی کے ساتھ ملانے کو.تو مطلب یہ ہو کہ اﷲ کے ساتھ کسی کو جوڑی نہ بناؤ.ایک مقام پر فرمایا ہے.ثُمَّ کَفَرُوْا (الانعام:ا۱۵) کوئی شخص اﷲ تعالیٰ کے برابر اس کی ذات میں کسی دوسرے کو بھی مانتا ہو.یہ شرک میں
نے کسی سے نہیں سنا.ثنوی ایک فرقہ ہے جو کہتے ہیں دنیا کے دو خالق ہیں.ایک ظلمت کا.ایک نور کا.مگر برابر بھی نہیں کہتے.(بدرؔ ۱۲؍جون ۱۹۱۰ء صفحہ۲) ۱۵۳. : اﷲ تعالیٰ انسان کو کوئی ایسا حکم نہیں دیتا جو اس کے لئے موجبِ تکلیف ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) اور جب بات کہو تو حق کی کہو.اگرچہ ہو اپنے ناتے والا اور اﷲ کا قول پورا کرو.یہ تم کو کہہ دیا ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۲)
کہہ میری نماز اور قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اﷲ کیلئے ہے.جو جہانوں کا پروردگار ہے.اس کا کوئی شریک نہیںاور اس بات کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلم ہوں.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ کب.۲۲) میری نماز.میری قربانی.میرا جینا اور میرا مرنا اﷲ کے ہاتھ ہے جو پروردگار ہے جہانوں کا.اس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا فرماں بردار ہوں.… جیسے ہمارے سب کام الہٰی رضامندی کے لیے ہونے چاہئیں اسی طرح قربانیاں بھی اسی کے نام کی ہونی چاہئیں.سجدہ ہو تو اسی کا.تعظیم ہو تو اسی کی.ذبح ہو تو اسی کے نام کا وغیرہ وغیرہ.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۴۸)
سُوْرۃُ الْاَعْرنافِ مَکِّیَّۃُ ۲. اَنَا اﷲُ اَعْلنمُ : صادقا القول.صادق الوعد(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) صؔ کے معنی اُفَصِّلُ.اُصَوِّرُ.اس سورۃ میں نظائر کے ذریعہ دلائلِ نبوت دیئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۴. : صرف نبی کریمؐ پر انزال نہیں ہوا.بلکہ کُمْ ظاہر کرتا ہے کہ اور بھی اس نعمت سر سر فراز ہوئے.گویا ان کی طرف بھی نازل ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۶. : ان کا عُذر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۹. : یعنی جس کی میزانیں بھاری ہوں گی.(نور الدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۱۴)
جب انسان سُکھ میں اور عیش و عشرت اور ہر طرح کے آرام میں ہوتا ہے.سب قوٰی اس میں موجود ہوتے ہیں.کوئی مصبیت نہیں ہوتی.اس وقت استطاعت اور مَقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظِ نفس کو پورا کرے اور کچھ دیر کے لئے اپنے نفس کو آرام دبے لے.پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اس کے احکام کو نگاہ میں رکھے تو اﷲ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے.اگر وہ اس وقت مریگا جب کہ یعنی جب اس کی ترازو زور والی ہو گی تو وہ بامراد ہو گا اور مسلمان کی موت مریگا.ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ مَیں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے.دس کھاں میں کون ہاں؟ تیسری پوچھتی ہے دسّوکھاں جی میں کون ہاں؟ اور اسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے.(الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱) ۱۰. : آیات سے مراد ہے اﷲ کے پاک انسان.اﷲ کا پاک کلام.ساری دنیا اور نشاناتِ نبوّت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲،۱۳. بنو عامر کعبہ کا طواف ننگے ہو کر کرتے تھے یہ سمجھ کر کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کئے ہیں ان کے ساتھ کیسے طواف کریں.اس لئے ان دو رکوعوں میں لباس کے متعلق ذکر آئے گا.
: یاد رکھو.آدم کا ولد بھی آدم ہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۹؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : ڈیطان کو خصوصیت سے حکم سجدہ! یاد رکھو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۱۵.۱۶. مجھے بعثت کے دن تک مہلت دے (کہا یقینًا تجھے وقت معلوم کے دن تک ڈھیل دی گئی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۲) : یعنی وہ وقت جب انسان خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے ازسرِ نَو زندہ ہوتا ہے اور شہوت غضب کے ساتھ مقابلہ کر کے فتحمند ہو جاتا ہے.: یہ قابلِ غور ہے کیونکہ اس کے ساتھ نہیں فرمایا.پس اگر سے قیامت مراد ہو تو بھی کوئی ہرج نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۷،۱۸. : یہ شیطان کا قول ہے اور وہ جھوٹا ہے.: اوپر کی طرف کا ذکر نہیں کیا کہ وہاں شیطان کا غلبہ نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) : آگے پیچھے دائیں بائیں کا ذکر کیا.مگر اوپر کا ذکر نہیں کیا.پس انسان یہ نہ سمجھے کہ شیطان سے گھِر گیا.بلکہ آسمانی فضل اور خوف الہٰی کی جانب شیطان سے بحمد اﷲ خالی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
حضرت آدم شیطان کی ناراستی اور قسم پر دھوکا کھا جاتے تو ممکن تھا کیونکہ نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں.نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں.شیطان نے تو حضرت آدم سے قسم کھائی تھی جیسے آیت ذیل سے ظاہر ہے.اُن سے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہار خیر خواہ ہوں.پھر انہیں دھوکے کی راہ دکھائی.مگرحضرت آدم نے شیطان کے کہنے پر عمل نہیں کیا اور نہ شیطان کے دھوکے میں آئے.ہاں جب آدم درخت ممنوع کی ممانعت بھول گئے جیسے عنقریب آتا ہے اور اس درخت کو استعمال کر چکے تو اس نسیان اور عدمِ حزم اور عدمِ احتیاط کے باعث اس ملک کے قیام سے روکے گئے جہاں مقیم تھے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۲۶) ۲۴. حضرت آدم علیہ السلام نے… اپنی کمزوری اور نقصان زدہ ہونے کا اقرار کیا اور خدا کی کمزوریوں سے محفوظ رکھنے والی اور نیک اعمال پر پاک نتائج مرتب کرنیوالی صفت سے استمداد کیا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۱ صفحہ ۳۴) انسان کو چاہئیے یہ دعا کرے.اپنا منعم علیہ بنا لے مگر ان انعام کئے گیوں سے کہ جن پر تیرا نہ غضب کیا گیا.نہ وہ بھولے بھٹکے.قرآن کی انتہاء دعا پر ہے..اوّل البشر آدمؑ نے بھی دعا کی رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا.ہمارے نبیؐ کا آخری کلام بھی دعا ہے.اَلْحِقْنِیْ بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی.جو لوگ دعا کے ہتھیار سے کام نہیں لیتے.وہ بد قسمت ہیں.امام کی معرفت سے جو لوگ محروم ہیں وہ بھی دراصل دعاؤں سے بے خبر ہیں.(بدر ۲۳؍جنوری ۱۹۰۸ء صفحہ۱۰) ۲۶. میں نے اپنے زمانہ میں میرزا غلام احمد صاحب کو دیکھا.سچا پایا اور بہت ہی راستباز تھا.جو بات اس کے دل میں نہیں ہوتی تھی وہ نہیں منواتا تھا.اس نے ہی ہم کو بھی حکم دیا کہ قرآن پڑھو اور اس پر عمل
کرو اور فرمایا کہ قرآن کے بعد اگر کوئی کتاب ہے تو بخاری ہے.اس نے تین دعوے کئے اوّل حضرت عیسٰی ؑ مر گئے اس کے دلائل و اصول بتائے اور قرآن سے ثابت ہوئے کہ واقعی مر گئے جیسے فِیْھَاتَحْیَوْنَ وَ فِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَ مِنْھَا تُخْرَجُوْنَ.اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًاہ لَحْیَآئً وَّ اَمْوَاتًا(المرسلات:۲۷) دوم ایک عیسٰیؑ کی آمد ہے اور فرمایا کہ وہ میں ہوں.ہم نے اس کو نشانوں سے مانا اور مَیں خود بھی نشان ہوں اور میرا گھر بھی نشانوں سے بھرا ہوا ہے.تیسرا جو طبعی موت سے مر جاتے ہیں وہ اس دنیا میں پھر نہیں آتے اس کو بھی ہم نے واضح طور سے اور بالکل قرآن کریم کے مطابق پایا.(الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۳) ۲۷. تین قسم کے لباس ہیں ۱. ۲..وہ لباس جو کہ جمعہ کے دن.عید کے دن.بیاہوں شادیوں کے موقعہ پر لیا جاتا ہے.یعنی زینت کا لباس.۳.تَقِیْکُمْ بَأْسَکُمْ (النحل:۸۲) جو لڑائی سے تم کو بچائے.الْحَرِّوَ الْبَرْدِ وَ لِبَاسُ التَّقْوٰی (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۲۸.
: جنّت سے.باغ سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : کمزوری.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر صفحہ۴۵۴) ۲۹. اور جب کریں عیب کا کام.کہیں ہم نے پایا اس پر اپنے باپ دادوں کو اور اﷲ نے ہم کو یہ حکم کیا تو کہہ اﷲ حکم نہیں کرتا عیب کے کام کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۶) ۳۰،۳۱. : اپنی ساری توجہ.: اس فردِ جرم لگنے کے اسباب ہیں.۱.ماں باپ بدکارہوں ۲.خوراک حرم کی ۳.پرورش بدکاروں میں ۴.صحبت بد ۵.غذا بُری ۶.حرام کھانا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : انہوں نے پکڑا شیطان کو رفیق اﷲ کو چھوڑ کر اور سمجھتے ہیں کہ وَے راہ پر ہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۱،۱۶۲)
: کھاؤ اور پٔیو اور بے جا کھانے پینے سے بچو.اﷲ نہیں پسند کرتا خطاکاروں کو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ یج.۱۳) ۳۳. تو کس نے منع کی ہے رونق اﷲ کی جو پیدا کی اُس نے اپنے بندوں کے واسطے اور ستھری چیزیں کھانے کی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۰۴) ۳۴. تو کہہ میرے ربّ نے منع کیا بے حیائی کے کام کو، جو کُھلے ہیں اُن میں اور جو چھُپے ہیں، اور گناہ اور زیادتی ناحق کی اور یہ کہ شریک کرو اﷲ کا جس کی اس نے سند نہیں اتاری اور یہ کہ جھوٹ بولو اﷲ پر جو تم کو معلوم نہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۲۹ نیز حصّہ اوّل صفحہ۵۵) ۳۹.
: کہا پچھلوں نے پہلوں کو.رب ہمارے ! ہم کو انہوں نے گمراہ کیا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۹) ’’ اے عزیزو! اور دوستو.اپنی کمزوری کے رفع فکرکرنے کیلئے کثرت سے استغفار اور لاحول پڑھو.اور رب کے نام سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہاری ربوبیت یعنی پرورش کرے.تم کو مظفر و منصور کرے تاکہ تم آئندہ آنیوالی نسلوں کیلئے نیک نمونہ بن سکو.وہ نہ ہو کہ خدانخواستہلَعْنَتْ اُخْتَھَا کے مصداق ہو جاؤ( جب دوزخیوں کا ایک گروہ دوزخ میں داخل ہو گا تو جو اس میں اوّل موجود ہوں گے وہ اسے لعنت کریں گے کہ ہم نے تو کچھ نہ کیا.تم ہی کرتے)جیسے آجکل کے رافضی ہیں.اس کا بچاؤ ایک ہی ہے.اور وہ یہ ہے کہ سچّی اِتّباع کرو.اپنے استنباط اور اپنے اجتہاد جس سے تم نفس کے دھوکہ میں آ جاتے ہو دور کرو.آپس میں خوش معاملگی اور حسنِ سلوک برتو.رنج.بخل.حسد کینہ سے بچو.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) ۴۱. جَمَل: اونٹ کو بھی کہتے ہیں اور جہاز اور بڑی کشتیوں کے موٹے رسّے کو بھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: دجّال نے اس شبہ کو بہت بڑھایا ہے.چنانچہ پولوس کہتا ہے.کہ شریعت انسان کو کمزور ابت کرنے کیلئے آئی ہے.یہ بالکل غلط ہیں.غلطی پر ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں.قرآن پر عمل نہیں ہو سکتا.لوگ قرآن کے احکام سے بڑھ کر اور نہایت ہی۱؎ معاملات پر اپنی رسوم میں عمل کرتے ہی.اسلام نے تو شادی کو ایجاب و قبول اور غمی کو جنازہ اور اِنَّا لِلّٰہِ پر ختم کر دیا ہے اور لوگوں کو ان کے دونوں امور میں جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ ظاہر ہے.کہتے ہیں شریعت پر عمل مشکل ہے اور شادیوں کیلئے تو اپنی زمینوں تک رہن کر دینے سے نہیں جھجکتے.کیا خدا کے نام کچھ دینے کا حکم ناقابلِ برداشت کہا جا سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۴۴. : دنیا میں دوزخ ہے.کسی کا حسدو بُغض.اہلِ جنّت وہ ہیں جن کے سینے دنیا میں بھی بغض و کینہ سے صاف رہتے ہیں.:آواز دی جائے گی.عیسائی سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے ہے یا عمل ۱؎ نقل مطابق اصل.ادنیٰ معاملات میں اپنی رسوم پر ہو گا.واﷲ اعلم (مرتب)
: دجّال نے اس شبہ کو بہت بڑھایا ہے.چنانچہ پولوس کہتا ہے.کہ شریعت انسان کو کمزور ابت کرنے کیلئے آئی ہے.یہ بالکل غلط ہیں.غلطی پر ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں.قرآن پر عمل نہیں ہو سکتا.لوگ قرآن کے احکام سے بڑھ کر اور نہایت ہی۱؎ معاملات پر اپنی رسوم میں عمل کرتے ہی.اسلام نے تو شادی کو ایجاب و قبول اور غمی کو جنازہ اور اِنَّا لِلّٰہِ پر ختم کر دیا ہے اور لوگوں کو ان کے دونوں امور میں جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ ظاہر ہے.کہتے ہیں شریعت پر عمل مشکل ہے اور شادیوں کیلئے تو اپنی زمینوں تک رہن کر دینے سے نہیں جھجکتے.کیا خدا کے نام کچھ دینے کا حکم ناقابلِ برداشت کہا جا سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۴۴. : دنیا میں دوزخ ہے.کسی کا حسدو بُغض.اہلِ جنّت وہ ہیں جن کے سینے دنیا میں بھی بغض و کینہ سے صاف رہتے ہیں.:آواز دی جائے گی.عیسائی سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے ہے یا عمل ۱؎ نقل مطابق اصل.ادنیٰ معاملات میں اپنی رسوم پر ہو گا.واﷲ اعلم (مرتب)سے ؟ اگر فصل سے ہے.تو عملوں کی کیا ضرورت ہے.اگر عمل سے ہے تو پھر درخواستِ فصل کسی ؟ اسکا جواب یہ ہے
: اعراف کے متعلق مفسّرین کو مشکل پیش آئی ہے مُعتزِلہکہتے ہیںمنزلتہ بین المنزلتینیعنی دوزخ اور بہشت کے درمیان جگہ ہے.اہل سنّت کا یہ خیال نہیں.صوفیوں نے اسے خوب حل کیا ہے.وہ کہتے ہیں.اعراف میں عارف لوگ ہوں گے.جو دوزخیوں بہشتیوں کا تماشہ دیکھ رہے ہوں گے.اعراف کہتے ہیں اونچی جگہ کو.گویا وہ اونچی جگہ پر بیٹھے تماشہ دیکھ رہتے ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۴۹. : تمہارا مال.: وہ تمہارے تکبّر بڑا ذریعہ ہے.خدمتگار.بھائی بند.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۵۰. : داخل ہو.کہنے والے اصحاب الاعراف ہوں گے.: سب سے بڑا خوف تو حشر میں ہو گا.جہاں اوّلین و آخرین جمع ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء
اسی طرح قرآن شریف میں علم کے اور معنی ہیں. (فاطر:۲۹) اور عام طور پر علم موجب کِبر ہے.اسی طرح ’’ تاویل‘‘ کے معنے لوگ ہیر پھیر کر اپنے مطلب کے مطابق بنالیتے کرتے ہیں مگر قرآن کریم میں انجام.حقیقت.اصلیت کے معنی ہیں.چنانچہ سورۃ یوسف میں ہے.(یوسف:۱۰۱) ایک اور جگہ فرمایا (آل عمران:۸) یعنی اس کی حقیقت کو.پس یہاں معنی ہیں کہ لوگ چاہتے ہیں.عذابوں کے نتیجے ظاہر ہوں.مگر جس روز انجام ظاہر ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۵۵. : چھ وقتوں میں ۱۲ گھنٹے کا دن مراد نہیں.اس کی تفسیر ہمارے حضرت صاحب۱؎ نے خوب لکھی ہے.ہر چیز کی تکمیل چھ مراتب کے طے کرنے کے بعد ہوتی ہے.مثلاً انسان پہلے نطفہ پھر علقہ پھر مضغہ پھر لحماً پھر (المومنون:۱۵) میں نے غور کر کے دیکھا ہے کہ انگریزوں کو شریعت سے تعلق نہ تھا مگر ایم اے تک چھ درجے تکمیل کیلئے رکھے ہیں.زمین کو پہلے درست کرتے.پانی دیتے.بیج ڈالتے ہیں.دو دن میں یہ کام ہوا ہے.اور چار دن کے بعد بیج اُگتا ہے.کل چھ دن ہوئے.قرآن کریم میں یوم بہت معنوں میں آیا.ایک ان بارہ گھنٹوں سے لے کر سال.۱؎ حضرت مسیح موعود علیہ السلام.(مرتب) ہزار سال
.پچاس ہزار برس تک کے معنوں میں آیا ہے.مطلق وقت کے معنوں میں بھی جتنے میں وہ واقعہ ہو گیا.جیسے یومِ حُنین.(ابراہیم:۶) کے معنی ہیں ٹھیک.یعنی اس کے تحت سلطنت میں کوئی نقص نہیں.پھر تمام کائنات کا وراء الوراء اس کے قبضۂ قدرت میں ہے.اس لئے اس کے معنی عَلیٰ بھی درست ہیں.بعض نے کہا ہے معنے ظاہر ہیں.مگر اس کی کیفیت معلوم نہیں.اسکی مثال سنئے.جیسے بیٹھنا.اب جیسا جیسا کوئی موصوف ہو ویسے ویسے معنی ہوں گے.۱.مثلاً میں بیٹھ گیا ۲.دیوار بیٹھ گئی ۳.ساہوکار تھا اب بیٹھ گیا.۴.ہندوستان کے تخت پر یورپ کا بادشاہ بیٹھا ہے.۵.فلاں شخص کی محبّت یا اس کا کلام یا بُغض فلاں کے دل میں بیٹھ گیا.یہ سب ’’بیٹھے‘‘ الگ الگ معنے رکھتے ہیں.پس اسی طرح تو عام ہے مگر اﷲ کااِسْتَوَاء ایک خاص نشان رکھتا ہے.وہ( شورٰی:۱۲) پسبھیہے.خدا کی ہر صفت کا یہی حال ہے.: لگاتار.مثلاً یہاں رات آتی ہے تو دوسرے بالمقابل بلاد میں صبح کی تیاری ہے.اس میں اشارہ ہے کہ ظلمت کے بعد نور.فترت کے بعد نبوّت کا وقت آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : سُمٰوٰتکے ساتھ ایّام کا ذکر نہیں البتہ ارض کیلئے چھ وقتوں کا ذکر کیا اور یہ روز کا مشاہدہ ہے کہ چھ وقتوں میں زمین بنتی ہے.فصل پکتی ہے.: بے عیب.تختِ حکومت پر براجمان ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) : سن لو.اُسی کا کام ہے بنانا اور حکم فرمانا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۳۱) ۵۶. : تمام صفات کو بیان فرما کر دعا کی طرف توجہ دلاتا ہے.اس زمانہ میں تمہارے لئے دعا کا میدان وسیع اور خالی ہے.۱.بعض خدا کے منکر ہیں ۲.بعض خدا کو مانتے ہیں مگر اس کے مُتصِّرف ہونے کے قائل نہیں.۳.بعض دعا کے قائل ہیں مگر اسباب پرستی میں منہمک ہیں.پس تم کامل امید.کامل یقین.کامل مجادہ سے دعا میں لگے ر
رہو.اور دعاؤں میں لفظ ربّ کا بہت استعمال کرو.: چلتے بیٹھتے، بات کرتے، پڑھتے، سب حالات میں.: ایک شخص نے بلند آواز سے دعا کی تو رسول اکرمؐ نے فرمایالَاتَدْعُوْنَ اَصَمَّ وَلَاغَائِباً.ایک شخص نے دعا کی کہ جنّت میں ایسے ایسے کوٹھے مجھے دے.آپؐ نے فرمایا.جنّت مانگو حد سے نہ بڑھو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : چلّا کر دعا نہ کرو.قرآن حدیث کے خلاف دعائیں کرنا.طلبِ محال صلہ رحمی کے خلاف نہ ہو.رشتہ داروں کے حق میں بد دعا نہ کرو.حضرت مسیح موعود کو حکم اُجِیْبُ کُلَّ دُعَائِکَ اِلَّا فِیْ شمرنکنآئِکَ اور نبی کریمؐ کو فرمایا.لَیْسَ لَکَ مِنَ الْامْربشَیْیٌٔ.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۵۷. : قبولیت کیلئے فضل کی ضرورت ہے.وہ محسنوں کے قریب ہے پس تم مُحسن بن جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : بے شک مہر اﷲ کی نزدیک ہے نیکی والوں سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۳۳)
: زمانہ بعثتِ نبوت بہار کا وقت ہوتا ہے.جو کچھ کسی کے اندر ہو.باہر نکلتا ہے.: دقّت سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۶۰. :یہ تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں.: اس قوم میں شفقت علیٰ خلق اﷲ کُوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے حصرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم طائف گئے.ایک نمبردار سے کہا.میں چند باتیں پہنچانی چاہتا ہوں.اس نے کہا اکیلا کیوں سنوں سب کو بلاتا ہوں.اس کے بعد وہ چند بدمعاش اکٹھے کر لایا جنہوں نے آپؐ کو دُکھ دیا.آپؐ سر سے پَیر تک لہو لہان ہو گئے.آپؐ فرماتے ہیں.بارہ کوس تک مجھے پتہ نہیں لگا کہ میں کدھر جاتا ہوں.ایک فرشتہ نے کہا کہ حکم ہو تو طائف کو تباہ کر دیں.فرمایا یہ قوم نادان ہے.اگر مجھے رسول اﷲ جانتے تو ایس نہ کرتے امید ہے.یہ نہیں تو انکی اولاد مسلمان ہو جائے گی.زید بن حارثہ ساتھ تھے وہ کہتے ہیں طائف والوں نے بارہ کوس کے بعد پیچھا چھوڑا.آگے باغ تھا.باوجود مخالفت کے انہوں نے اپنے نوکر کے ہاتھ انگور بھیجے جب اس نوکر نے انگور اآپ کے آگے رکھے.تو آپؐ نے اﷲ کا نام لیکر انگور اٹھایا.جس پر اس نے تعجب کیا آپؐ نے اسے وعظ شروع کیا.اس نے کہا ایک یوناہ نبی گزرا ہے ہمارے ملک میں وہ ایسی ہی باتیں کہا کرتا تھا آپؐ نے فرمایا.وہ میرا بھائی تھا.اس پر وہ مسلمان ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: جو اشراف بنے پھرتے تھے.: سارے جہان کے پروردگار نے منتخب کر کے بھیجا ہے.کیا مَیں گمراہ ہو سکتا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : کا جواب کیا نرمی سے دیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۶۶ تا ۶۸: : ایک تعظیم اپنی اٹکل پر ہوتی ہے اور ایک خدا کے حکم کے ماتحت.انبیاء آخرالذکر تعظیم کی تعلیم لاتے ہیں کہ ہر حرکت و سکون.ہر قول و فعل خدا کے حکم کے ماتحت ہو.: وہ لوگ جن کی بات دل کے اوپر گہرا اثر کرے.کیا معنے؟ ان کے کہنے کا اثر پڑے اور رُعب پر جائے.دنیا میں چار قسم کے لوگ ہیں علماء.فقراء.امراء.عوام.یہ سب امراء ہی کے ماتحت ہوتے ہیں.اور یہی انبیاء کا مخالف گروہ ہے.
: سوائے نبی کے کوئی ایسا نرم جواب نہیں دے سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۴. سورۃ اعراف میں نبوّت کی بحث ہے.اور اس بات کے نظائر پیش کئے ہیں کہ راست بازوں کی مخالفت کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.عدن سے لیکر مغربی طرف عرب کے ثمود قوم رہتی تھی.جس قدر لوگ انبیاء سے دور چلے جاتے ہیں.ان میں اختلاف پڑھتا جاتا ہے اور جس قدر قریب ہوتے ہیں ان میں اتفاق ہوتا جاتا ہے مثلاً فلاسفر ان میں عجیب عجیب اختلاف ہوتے ہیں.نبیوں میں یہ بات نہیں.اسی لئے سب کی تعلیم اصولاً ایک ہی ہے.اسی واسطے .ہر نبی کی تعلیم لکھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : کوئی ایک اونٹنی لیکر فرما دیا.یہ آیت ہے.ہر ولی اﷲ ایک ناقہ ہے.جب صالح کی اونٹنی تو کیا نبی کریمؐ کے پیارے ناقہ نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) قرآن میں تو کہیں نہیں لکھا کہ خاص اونٹنی اس وقت پیدا کر دی.صرف اتنی بات قرآن میں ہے. .یہ خدا کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشان ہے اُسے خدا کی زمین میں چرنے چگنے دو اور دُکھ نہ دو ورنہ سخت عذاب میں گرفتار ہو جاؤ گے.اس بات کے حل کرنے کیلئے خود تمہارے ملک کی رسوم اور عادات بڑی چابی ہیں.اس ملک میں جہاں جہاں سکھ مالک و نمبردار ہیں.وہاں کیا ہوتا ہے.کون نہیں جانتا.ایک بیل اگر کسی مسلمان کے ہاتھ سے مارا جاوے تو انسانی جسم کی اس ایک حیوان کے بدلہ میں کیا گت بنتی ہے؟ تمہارے بازاروں میں بیکار.نکمّے
مال مردم خوربیل پھرتے ہیں.بتاؤ؟ کوئی مسلم ان کو چھیڑ سکتا ہے.اگر اتفاقی بھی چھیڑے تو تم کیسے اس کے گرد ہوتے ہو.تم مفتوح.دبیل.نرم دلوں کا تو حال یہ ہے.اگر اﷲ تعالیٰ نے جو بادشاہوں کا بادشاہ.حاکموں کا حاکم ہے ہی کہہ دیا کہ میرے رسول صالح کی سچائی کا یہ نشان ہے.کہ اگر اس کی خلاف ورزی کرو گے اور اس اونٹنی کو جو اب خصوصیت رکھنے والی اونٹنی ہے.ستاؤ گے تو ہلاک ہو گے.عرب کے ملکوں میں دشمنوں پر رُعب ڈالنے اور اپنی شوکت کے اظہار کیلئے نہ صرف اونٹ چھوڑے جاتے تھے بلکہ گھوڑے اور دنبے بھی اور قوم کلیب کے جنگوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کتوں کے بچوں کو بھی اسی طرح آزاد کرتے تھے.میدانیؔ نے امثالؔ میں لکھا ہے کہ حیرۃ کے بادشاہ کسرٰی نے اپنی قوّت سلطنت اور بطش کے باعث عربوں میں بڑا رعب جمایا تھا اس کو مضرط الحجر کہتے تھے.اس نے شدید قحط کے زمانہ میں ایک دنبہ کو خوب پالا اور پوسا پھر اس کے گلے میں چھُری اور چقماق ڈال دیا اور اُسے جنگل میں چھوڑ دیا اور کہا.کون ہے جو اسے ذبح کر سکتا ہے؟ عربوں میں کوئی بھی اس سے تعرض نہیں کر سکتا تھا آخر بنو یشکرقوم تک پہنچا اور علیاء بن ارقم کی نظر پڑا.تب وہ بول اٹھا.میں اس دُنبہ کو کھالوں گا.تب قوم کے لوگوں نے اُسے روکا اور ملامت کی.لیکن علیا ء اپنے ارادہ پر قائم رہا.تب انہوں نے اس بات کو اپنے سردار تک پہنچایا.اس نے یہ فقرہ کہا جو اب کہاوت کے طور مشہور ہے اِنَّکَ لَاتَعْدِمُ الضَّاْنَ وَلٰکِنْ تَعْدِمُ النَّفْعَ.لوگوں نے ملامت تو بہت کی مگر علیاء نہ ٹلا.اور دُنبہ کو ذبح کر کے کھا گیا اور بادشاہ کے پاس چلا گیا اور کہا کہ میں نے ایک بدی کی ہے.اور بہت بڑی بدی کی ہے لیکن آپ کا عفو اس سے بھی بڑھ کر ہے.اور اپنا سارا ماجرا سنایا.تب بادشاہ نے کہا.اب میں تجھے قتل کردوں؟ تب علیاء نے وہ مشہور قصیدہ پڑھا جس کا ایک شعر ہم نقل کرتے ہیں ؎ وَ اِنَّ یَدَالْجَبَّارِ لَیْسَتْ بِصَعْقَۃٍ وَ لٰکِنْ سَمَائٌ تَمْطُرُ الْوَبْلَ وَ الدِّیژمَ (نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ۱۶۳.۱۶۴)
: اس زمانے میںبھی امیر لوگ گرمیوں میں پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۷۸،۷۹. : یہ ان کے کفر کا ثبوت ہے.: قرآنی محاورے میں نہی بمعنے امر بھی آ جاتی ہے.لَا تَمَسُّوْغھَا بِسُوْئٍ.: گناہ کر کے پھر شوخی.: مرغی جب زمین کرید کرید کر اپنا سینہ رکھ دیتی ہے تو اسے جثم کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۸۲. : اس کی سزا میں تین باتیں فرمائیں ۱.اس قوم کو ہلاک کر دیا.۲.( حجر:۷۷) عذاب دیا پھر عذاب کا نشان قائم رکھا.۳.کوئی نہیں چاہتا کہ عالی ہو کر سافل بنے مگر اس عذاب کیلئے فرمایاجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۸۳.
: طنزاً کہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۸۶. : جو سچّا خیر خواہ ہو وہ اپنے بھائی کو اس کے عیب پر مطلع کرتا ہے چنانچہ شعیبؑ نے اپنی قوم کو ان کے نقص بتائے.برتن وہاں سے ٹکرا جاتا ہے جہاں سے کمزوری کا شبہ ہو.اسی طرح مومن کو ابتلاء اسی بات میں آتا ہے جس میں وہ کمزور ہو.: اب تو میں ( شعیب) اصلاح کیلئے آچکا اب تو فساد میں تم معزور نہیں سمجھے جا سکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : اور لوگوں کو انکی چیزیں کم نہ دو.اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو.(نورالدین صفحہ۱۸ دیباچہ) ۸۷.
: ان کے دین میں کوئی نہ کوئی شبہ و اعتراض ڈھونڈتے رہتے ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۸۹،۹۰. : اس آیت سے ظاہر ہے کہ لایمان جبروزور سے کبھی نہیں آتا.: یہ ادب ہے کہ مشیّت الہٰی کو بہر حال مقدّم رکھا ہے.ایک مولوی نے حضرت صاحب کو لکھ بھیجا کہ ہم تمہارا مذہب کسی صورت میں نہ مانیں گے.خواہ تم کیا نشان دکھاؤ آپ نے فرمایا شعیبؑ کا قول ہی یاد کر لیتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : انبیاء کا طرز دیکھو کہ کفر جو محال ہے اس کیلئے بھی کہتے حضرت اقدس کو ایک مولوی نے لکھا کہ میں اگر انکار کروں گا تو پھر کبھی نہ مانوں گا آپ نے فرمایا.سبحان اﷲ.شعیبؑ کے الفاظ پر غور نہ کیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) حضرت صاحب کی خدمت میں کسی نے خط لکھا کہ اب تو خدا بھی آئے تو میں یہ بات نہ مانوں.فرمایا
دیکھو.یہ کیسے متکبّر اور بے پرواہ لوگ ہیں.شعیبؑ نبی کو جب لوگوں نے کہا تو انہوں نے جواب دیا مَا یَکُوْن لَنَا یعنی ہم تو کبھی تمہارے مذہب میں نہ آئیں گے پھر فرمایا.ہاں اگر خدا چاہے تو.کیونکہ اس کا ارادہ زبردست ہے یہ پاس ادب ہے جو آجکل کے گستاخوں سے جا چکا ہے.دیکھو.ایک ناممکن بات پر پیغمبر نے خدا کے عظمت اور جبروت و جلال کا ادب کیا ہے.تو افسوس اس انسان پر جو بلاسوچے سمجھے مجھے کہتا ہے کہ یہ کام یوں ہو جائے اور میں یوں نہ کروں گا.(بدر ۲۴؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲) .اور لوگوں کو انکی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد نہ مچاتے پھرو.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ۱۸.یج) ۹۶،۹۷. : بڑھ گئے.آسودگی کے ساتھ.تکبّر.ظلم.تحقیر.پانچ گناہ اآجاتے ہیں.: مجرموں کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھ کر گناہوں سے اجتناب کرتے.: الہامات.الہام کے صدق کا ایک یہ نشان بھی ہے.کہ اس کے ساتھ پہرہ ہوتا ہے.چنانچہ فرمایا(جن:۲۸)(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : تو پکڑا ہم نے ان کو بدلہ ان کی کمائی کا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۷)
: یہ تو کہتے ہیں کہ خدا غفور و رحیم ہے.پر نہیں جانتے کہ وہ شدید العقاب بھی ہے.: ایک سانپ ہے جو سوئے ہوئے آدمی کو ڈستا ہے.پاس جو ہتھیار ہو اُسے ہٹا لیتا ہے.: پس عذابِ الہٰی ایسے ہی لوگوں پر آتا ہے.استغفار کرنے والے.ڈرنے والے کو کوئی خطرہ نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۰. : تدبیر الہٰی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۱. : کسی زمین کے لئے.: ان زمینوں کے مالکوں کے بعد.: زمین کے وارث ہونے والوں کو ہدایت آنی چاہیئے.کہ جن کی زمین ہم نے لی ہے.آخر وہ کسی گناہ ہی میں پکڑے گئے ہیں اور ذلیل ہوئے ہیں.اغلب ہے کہ ہم بھی ایسے گناہوں کی سزا میں ذلیل ہوں.پس نیکیاں کریں.: بلکہ گناہوں کی سزا میں یہاں تک نوبت پہنچے کہ دلوں پر مہر لگ جائے اور پھر کبھی حق بات سننے کے قابل نہ رہو.آخر میں ہلاک ہو جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
: نَطْبَعُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ کی تفسیر فرمائی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۴،۱۰۵. : قریب کا تاریخی واقعہ بیان کرتا ہے.: تُو تو صرف مصر کا بادشاہ ہے.مَیں تمام عالَموں کے بادشاہ بلکہ ربّ کافر ستادہ ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۸،۱۰۹. : بے عیب جیسے فرمایا.اَلَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْھُہُمْ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) :خدا نے دکھلایا کہ اب موسٰی کی جماعت فرعونیوں کو کھا جائے گی.: روشن کتاب کلام قرآن مجید کو نور فرمایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴)
: چالاک.مدبّر.: یہ ادب اپنے درباریوں کا اعلیٰ تدبّر شاہی پر دال ہے (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۵) ۱۱۴. : اس کو یاد رکھیں.بحالتِ کفر یہ خیالات مگر بحالتِ ایمان کیا جرأت ہو گئی! (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۱۱۶ تا ۱۱۸. جو لوگ علم النفس.علم توجہ.مسمریزم.اسپرچَولزم جانتے ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ موسٰی اور ان لوگوں نے توجہِ خاص سے عصا اور رسیوں کی شکل سانپ کی دکھائی.موسٰیؑ کی قوّت بڑھ کر تھی اس لئے وہ جیت گیا اس زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ گولیاں آگ پر رکھنے سے سانپ کی شکل بن جاتی ہے اور سونٹا مارنے سے کچھ بھی نہیں رہتا.بعض لوگ اسے استعارۃ کے رنگ میں پیشگوئی سمجھتے ہیں.
میں ایمانی رنگ میں تُو بڑھیو ںکے ایمان کی طرح بلا دلیل مان لیتا ہوں مگر خصم کے مقابلہ میں قول موجّہ کی ضرورت ہے.قرآن نے حضرت نبی کریمؐ کو حضرت موسٰیؑ کا مثیل (مزمل:۱۶)(احقاف:۱۱)فرمایا ہے.پس عصا کے سانپ بن جانے کے بار بار ذکر میں حکمت ہے.اِنَّ الْاِسْلَامَ لَیَأْ رَزَ اِلٰی الْمَدِیْنَۃِ کُمَاتَأْ رَزُ الْحَیَّۃُ اِلٰی جُحْرھایہ اسلام مدینہ طیّبہ میں اس طرح جمع ہو گا جس طرح سانپ اپنے بِل میں.پھر مدینہ کیلئے فرمایا ہے.مجھے ایک شہر دکھلایا گیا.تَاکُلُ الْقُرٰیایک طرف اسلام کو دشمن کے ہلاک کرنے کیلئے سانپ فرمایا ہے.دوسری طرف مدینہ کو سانپ کی جگہ.پھر ساحر کے ساتھ علیم کا لفظ موسٰیؑ کیلئے آیا ہے اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی ساحر کہا گیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساحر کی علیم سے تفسیر فرمائی ہے.حدیث میں آیا ہے.اَلسَّاحِرُ.اَلْمَاھبرُ الَسِْحْرُ:کُلَّمَآَدَقَّ وَلَطُفَ مَاّخَذُہٗ.جس کا لوگ مقابلہ نہیں کر سکتے.اسے ساحر کہہ دیتے ہیں موسٰیؑ نے جو کچھ پیش کیا وہ بے عیب تھا.پس مخالفین نے جو کچھ پیس کیا اس کے سامنے وہ کچھ بھی نہ تھا تَلْقَفُ مَایَاْفِکُوْنَ.: انبیاء پہلے حملہ نہیں کرتے.: یہ ساحروں کا ادب ہے.جس نے انہیں مومن بنایا.حضرت صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے اَلطَّرِیْقَۃُ کُلُّھَا اَدَبٌ.دوسرا نکتہ صوفیاء نے یہ لکھا ہے کہ مومن و کافر میں کیا فرق ہے؟ ایک وقت ایسی کمزوری کہ فتحیاب ہو کر پھر بھی مزدوری کے طالب ہیں.انعام بھی نہیں کہا.دوسرے وقت یہ حالت کہ اسی فرعون کو ڈانٹ دیا اور اس کی کچھ حقیقت نہ سمجھی.اس کی د ھمکیوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.بلکہ مال چھوڑ کر جان کی بھی پرواہ نہ رہی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ایک مکذّب آریہ کے اس اعتراض کے جواب میں کہ حضرت موسٰیؑ کی لاٹھی کو خدا نے سانپ بنا دیا ساحروں کے ڈنڈوں کو جو سانپ بن گئے تھے.کئی سومن وزن موسٰی کی لاٹھی سب کو کھا گئی.حضرت موسٰیؑ نے اپنے سانپ کو جو پکڑاپھر لاٹھی کی لاٹھی.آپ نے تحریر فرمایا.قرآن کریم میں تو یوں آیا ہے.(طٰہٰ:۶۷)(اعراف:۱۱۷)
ان کی رسّیاں اور سونٹے قوت متخیلہ کو چلتے معلوم ہوتے تھے اور ایک جگہ فرمایا ہے اور ان ہتھکنڈے بازوں نے لوگوں کی آنکھوں کو دھوکا دیا اور انہیں ڈرانے کی کوشش کی اور بڑا دھوکہ کیا.اب ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ ساحروں کے ڈنڈے اور رسّے واقعی سانپ بن گئے تھے.خدا کی کتاب صرف یہ کہتی ہے کہ ان کے رسّے اور ڈنڈے ان کے واہموں اور تخیّلوں کو چلتے نظر آئے.اور ساحروں نے عام لوگوں کی آنکھوں کو دھوکے میں ڈالا اور ڈرانا چاہا اور بڑا دھوکہ دیا.یہ نظارہ قانونِ قدرت اور سائنس کے نزدیک ایسا واقعی اور صاف ہے کہ بڑی تشریح کی بھی ضرورت نہیں … جس لفظ کا ترجمہ تم نے ’’ سانپ بن گئی تھی اور کھا گئی‘‘ کیا ہے.وہ لفظ ہے … اس میںاور کے معنی پر غور کرنی چاہیئے مجرّد ہے.قاموس اللغتہ میں ہے.لَقِفنہٗ کُسَمِعن لَقْفًا وَ لَقْفَانًا مُحَرَّکَۃٌ:تَنَاونلَہٗ بِسُرْعَۃٍ اس کا ترجمہ ہوا کسی چیز کو جلدی سے پکڑلینا.یَأْ فِکُوْنَ بھی مجرّد ہے.اَفَکَ کَضَرَبَ وَ عَلِمَ اِفْکًا کَذِبَ.ترجمہ.جھُوٹ بولا.جھوٹی کارروائی کی اور سارے جملہ کا ترجمہ ہے کہ وہ انکی جھوٹی کارروائی کو جلدی سے پکڑ لیتا یعنی ان کا تانا بانا ادھیڑ دیتا ہے.… سائنس دانوں اور فلاسفر انِ یورپ کا مذہب اختیار کرو.مگر یاد رکھو تمہیں وہاں سے بھی دھتکار ہی ملے گی.کیونکہ وہاں بھی پہلے مسمریزم نے ان معجزات کی حقانیت کی طرف توجہ دلائی.اس کے بعد اسپر چولزم نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام صداقتیں ہیں جن کا ذکر انبیاء و رسل کی پاک کتابوں میں ہے اور جن کے دکھانے والے انبیاء و رسل کے صادق اتباع ہمیشہ اور اب بھی موجود ہیں.ساحروں کے سحر یعنی دھوکے بازوں کے ڈھکوسلے جہاں غیر واقعی طور پر اپنا جلوہ دکھاتے ہیں وہاں بڑے مرتاض جوگی جنّ اور ان سب سے برتر جنابِ الہٰی سے مؤید و منصور قوم انبیاء و رسل اور ان کے مخلص اتباع کی حقیقت بھر ے آیات و معجزات دھوکے بازوں کے جھوٹ اور افتراء کو تباہ کر کے واقعات کا اظہار دنیا پر کر دیتے ہیں.مگر تم لوگ جو دنیا پرست ہو.اور جن کو کھانے،پینے.پہننے اور دیگر اغراضِ خسیسہ کے سوا اور کوئی مطلوب و مقصود نہیں.اس صداقت پر کیونکر پہنچ سکتے ہیں.ایک نہایت لطیف اور ضروری نکتہ: مَیں نے اس مضمون کو قبل از نماز عشاء حضرت امام ہمام خلیفۃ اﷲ.مسیح موعود علیہ السّلام کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے فرمایا.ان اعتراضوں کی اصل ہے معجزات اور خوارق کا انکار.لوگ اسی ایک مدّ میں ان تمام ہزاروں معجزات کو شامل کرتے ہیں جو ہمارے
نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ظہور میں آئے اور یہ لوگ اور ان کے دل و دماغ کے نیچری بھی بدقسمتی سے اسی قسم ے اعتراضوں یا وسوسوں میں مبتلا ہیں.اور جہاں کسی معجزہ کا ذکر ہو اُسے ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑا دیا.اس وقت مناسب یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب بڑی قوّت اور تحدّی سے دیا جاوے کہ جس قدر معجزات اور خوارق انبیاء علیھم السّلام کے اور ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے قرآن میں مذکور ہیں ان سب کے صدق اور حقیقت کے ثابت کرنے کیلئے آج اس زمانہ میں ایک شخص موجود ہے جس کا یہ دعوٰی ہے کہ اسے وہ تمام طاقتیں کامل طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہیں.جو انبیاء علیھم السلام کوملی تھیں.جو عجائبات خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور موسٰی علیھم السّلام کے ہاتھ پر منکروں کو دکھائے.وہی عجائبات زندہ اور قادر خدا آج اس کے ہاتھوں پر دکھانے کو موجود ہے اور تیار.کوئی ہے جو آزمائش کے لئے قدم اٹھائے؟ غلام کے ہاتھ سے آقا کی صداقت کو دیکھے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۵۴.۱۵۶) : پہلا پرچہ مباحثات میں دشمن کا ہو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) لَاُ قَطِّعَنَّ اَیْدِیَکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ دِّنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَاُ صَلِّبَنَّکُمْ اَجْمَعِیْنَ.ثُمَّ لَاُ صَلِّبَنَّکُمْ: یہ بھی دستور تھا کہ قتل کر کے پھر صلیب پر لاش لٹکا دیتے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۴) ۱۲۸،۱۲۹.
: یہ بات غور کرنے کے قابل ہے کہ وہ اپنے معبود کو ایسا کمزور خیال کرتے ہیں کہ موسٰی اسے موقوف کر سکتا ہے.جو قومیں ربّ العالمین کو چھوڑ کر غیر کی طرف جھکتی ہیں.ان کی عقل ایسے ہی ماری جاتی ہے.بعض ملکوں میں رعایا تو بادشاہ کی پوجا کرنے پر مجبور ہے اور بادشاہ خدا کی.اس میں حکمت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ رعایا پر شرک کی وجہ سے ناراض رہے تو وہ ہمیشہ محکوم رہیں.اور بادشاہ پر بوجہ تو حیدر راضی رہے تو وہ ہمیشہ حکام بنا رہے.بُت پرستوں سے بدتر وہ ہیں جو بُتوں کو چھوڑ کر نفس کی دیوی کی پرستش کرتے ہیں.پھر ان سے بھی بدتر وہ ہیں جو یہی کہتے رہتے ہیں کہ فلاں فلاں فلاسفر کا یہ قول ہے حالانکہ فلاسفروں کا کسی بات پر اجماع نہیں ہوتا.میںنے ایک فلاسفر کا قول پڑھا ہے کہ وہ اپنے تئیں خدا سے اعلیٰ سمجھتا.وہ کہتا.کہ گلاب کی جڑسے گلاب کا پھول جو اس کا نتیجہ ہے.اچھا ہے.: اﷲ کی توجہ.عنایت.اعانت چاہو.: استقلال سے کام کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) عِنْدَ رَبِّکَ : یاد رکھو انجام کار کامیابی خدا ترسوں کے حصّہ میں آتی ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۰۳) ۱۳۰. : وہ جو سطحی خیالات کے تھے.: ایک جگہ مسلمانوں کو بھی فرماتا ہے کہ تم کو بھی ہم دنیا میں بادشاہ بنائیں گے.پھر دیکھیں گے تم کیسا عمل درآمد کرتے ہو. (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۳؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۱.
میں نے بارہا سنایا ہے کہ مجرموں کی گرفتاری کا جناب الہٰی میں ایک وقت ہوتا ہے.اِبّنِ لَیْلیٰ کی کچہری میں ایک شخص کو سزا دی گئی.اُس نے کہا یہ میرا پہلا جُرم تھا.سزا ہلکی دینی چاہیئے تھی.آپ نے سزا بڑھا دی.وجہ یہ بتائی کہ اس نے جھوٹ بولا ہے.کیونکہ اگر یہ پہلی دفعہ کرتا تو پکڑا کیوں جاتا.خدا نے خود فرمایا ہے..وَ یَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ (شورٰی:۳۱) : فرعون کی گرفتاری کا وقت آ گیا.: معلوم ہوا کہ قحط سالی اور کمی پیداوار اس لئے ہوتی ہے.کہ لوگ ذکرِ الہٰی میں مشغول ہوں.خدا کی قدرتوں سے لوگ ایسے غافل ہیں کہ ہمارے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ اگر کوئی شخص کہہ دے کہ امریکہ میں ایسی کَل نکلی ہے جس سے درخت چلتے ہیں.پتھر بولتے ہیں تو وہ مان لیتے ہیں مگر انبیاء کی نسبت ایسی باتیں سُن کر صاف انکار کر دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۲. : ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بھی یہود نے کہا.مُذْ اتَانَا غَلَّتْ سَعَارُنَا وَ قَلَّتْ انمْطَارُنَا.طَائِرٌ: حظّ.حصّہ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۳،۱۳۴.
: دھوکہ دے ہمیں.: بہت سیلاب پانی کا.نوحؑ کے قصّہ میں آتا ہے ( عنکبوت:۱۵) طوفان موت اور طاعون کو بھی کہتے ہیں.: جرد کہتے ہیں چھیل دینے کو.: گھُن.سوس.ٹڈی دل کے چھوٹے بچّے.چچڑی.: نکسیر کا مرض.بعض کہتے ہیںپانی گندہ ہو کر سرخ ہو جاتا تھا.یہ معنے بھی صحیح ہیں بحرِ احمر مشہور ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : طغیانی.وباء طاعون.: اب تو لوگ تماشا سمجھتے ہیں.ایسا ہی نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرَاتِ کو معمولی.حالانکہ یہ عذاب ہے.وَ: نکسیر کا مرض.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۵) ایسے عذاب ہمیشہ نازل ہو ا کرتے ہیں.ہماری عمر میں بارہا ٹڈی دل آیا اور کھیت والوں کے لئے عذاب کا باعث ہوا.جب کثرت سے بارشیں ہوتی ہیں اور نشیب زمین نم ناک ہو جاتی ہے.وہاں مینڈک علی العموم پیدا ہو جاتے ہیں.اسی طرح جب عفونت زیادہ ہو جاتی ہے.وہاں قسم قسم کے ہوام۱؎.حشرات الارض.چچڑیاں بہت پیدا ہو جاتی ہیں.اور یہ سب عذاب ہیں.کیونکہ دکھ داتکِ امور میں ان صریح نظاروں کا انکار کرنا کیا عقلمندی ہے.(نورالدین صفحہ ۱۶۸ ایڈیشن سوم) ۱۳۵.
: اس منتر کے ساتھ جو اس نے تجھے سکھایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳۸. اور ہم نے مالک بنایا موسٰی کی ضعیف قوم کو مبارک ملک شام کی تمام زمین کا اور پوری ہوئی اچھی بات تیرے رب کی بنی اسرائیل پر، اس لئے کہ صابر ہوئے.اور خراب کیا اس کو جسے بنایا فرعون اور اس کی قوم نے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۸) اور ہم نے انہی لوگوں کو جنہیں وہ ضعیف سمجھتے تھے.زمین ( مکّہ) کی مشرقوں اور مغربوں کا وارث بنایا.(فصل الخطاب ( حصّہ دوم) صفحہ ۹۷) ۱۳۹.
: صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے.اس واسطے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم مجلس سے اٹھتے تو ستر بار استغفار فرماتے.موسٰیؑ کی قوم کی درخواست بھی دوسری قوم میں میل جول کی وجہ سے تھی.انگریزوں کی قوم اس معاملہ میں بہت ہوشیار ہے.وہ ہندوستان میں آئے.مگر ہندوستانیوں سے بہت کم میل جول رکھتے ہیں.اس طرح قومی خصائص باقی رہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : گائے کے بُت تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۵) ۱۴۱،۱۴۲. : احمقو! تم کہتے ہو کہ کوئی بُت بنا دو خدا کے سوائے.خدا نے تو بندے کو بڑی بزرگی اور طاقت دی ہے.اور بُت تو تم سے کمزور ہیں.مثلاً آگ کی لوگ پرستش کرتے.پھر آگ ہماری خادم ہے.ضرورت کے وقت اس کو جلاتے.اس سے کام لیتے اور جب چاہتے اس کو بجھا دیتے ہیں.علیٰ ھٰذا القیاس.پانی.مٹی.ہوا.سورج.چاند.لوہا.پتھر.یہ تو سب خادم ہیں.پس شرک بتایا.اس کے بُرے ہونے کی دلیل بتائی.(الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ۳) : پھر کس قدر بیوقوفی ہے کہ افضل مفضول کی پرستش کرے.: مکّہ کے بے ایمان فرعون سے بڑھ کر تھے.کہ انہوں نے عورتوں کو بھی قتل کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۴۳.
: چالیس کے عدد سے انسان کو ایک خاص مناسبت ہے.نُطفہ چالیس دن میں صورتِ انسان اختیار کرتا ہے.۴۰ دن کے بعد اس کی ماں تندرست ہوتی ہے.چالیس سال پر آدمی کے تمام قوٰی کمال کو پہنچتے ہیں.خدا نے موسٰیؑ سے فرمایا.روحانی برکات کے حصول کیلئے تیس دن ہماری طرف تبتّل تام کرو.اور اگر دس دن اور رہو تو یہ درجہ اکمل ہے.: ثابت ہوا کہ جب کوئی بڑا آدمی قوم کا لیڈر مرکز سے جُدا ہو تو اپنا ایک خلیفہ مقرر کر کے جائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۴۴. : صوفیاء نے اس مقام پر بحث کی ہے.وہ کہتے ہیں.پہاڑ تو اب بھی برقرار ہے.پس وہاں دیدارِ الہٰی ہوا.علماء کہتے ہیں کہ وہ ایک تجلّی ربّانی کو نہ برداشت کر سکا.اسی لئے جب پورا نہ ہوا.تو لننْ تَرَانِیْ کیونکر پورا ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۴۵. : قدر کرنے والوں میں سے ہو.یعنی اس پر عمل کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۱۴۸. : یہ ضروری نہیں کہ منہ سے تکذیبِ آخرت کی جائے بلکہ کئی ہیں جو اپنے اعمال سے ثابت کرتے ہیں کہ گویا مرنا ہی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۴۹. بچّہ میں طمع.حبِّ غیر اﷲ.غضب.شہوت پہلے آ جاتی ہے اور قوّتِ ممّیزہ، انبیاء کی تعلیم بعد میں.یہ انسان کے لئے بڑی مشکل ہے.پھر رسم و عادت و صحبت کا اثرہے.اس لئے خدا کی بات سمجھنے کیلئے فضلِ الہٰی درکار ہے اور بڑے مجاہدہ کی ضرورت.فرعون جس کا تاج بھی گئو مُکُھی تھا اس کی قوم کے بد اثر سے بنی اسرائیل بھی نہ بچے.اسی لئے ان میں گاؤ پرستی کا خیال رہا.: خود اپنے زیوروں سے.: آجکل کی صنّاعی کے لحاظ سے یہ قابلِ تعجب امر نہیں.: برہمو.نیچری.فلاسفرانہ طبیعت کے لوگ بلکہ عام علماء غور کری.یہاں معبودیت کی تردید اسی دلیل سے کی ہے کہ پس وہ خدا کیونکر معبود ہو جو کلام نہیں کرتا.
: کلام کے ساتھ یہ شرط ہے کہ وہ کوئی عمدہ راہ دکھلائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : مطلب اتنا ہے کہ موسٰی کی قوم نے موسٰی کے بعد موسٰی علیہ السلام کی غیر حاضری میں اپنے زیور سے ایک بچھڑا بنایا تھا جو صرف جسم تھا.اس میں رُوح نہ تھی ہاں اسکی آواز تھی.(نور الدّین صفحہ۱۶۹) ۱۵۰. : اس کے معنے ہیں ’’ ندامت ہوئی‘‘ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۵۱. : دیکھا انبیاء علیھم السلام شرک سے کیسے بیزار ہوتے ہیں.یہ لوگ اصول کی طرف پہلے توجّہ کرتے ہیں.ٹمپرنس سوسائٹیاں.ہمدردی حیوانات کی سو سائٹیاں اسی لئے کامیاب نہیں ہوتیں کہ فروع کی طرف توجہ کرتی ہیں.
: حضرت موسٰیؑ نے اپنے جانے کا دن نہ گِنا تھا اس لئے قوم کو سامری نے دھوکہ دیا کہ وہ وعدہ مقرّرہ پر نہیں آئے.خدا بچھڑے میں آ گیا.: رکھ دیں.: ماں میں ایک خاص قسم کی محبّت ہوتی ہے.پیار کیلئے اسکی طرف منسوب کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۵۲. : انبیاء قدم قدم پر دعا کرتے ہیں.اس زمانہ کے لوگوں کی طرح غافل نہیں ہوتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۵۳. اس رکوع میں دو باتیں ہیں کہ انسان ذلیل کس طرح ہوتا ہے اور مظفر و منصور کس طرح.کوئی انسان فطرۃً ذلّت کو نہیں چاہتا اور عزّت کو بہر حال چاہتا ہے.ذلّت کے وجوہ بیان کئے ہیں.فرمایا..ذلّت کی جڑ شرک و افتراء ہے اور اس سے بچنے کا اصل رجوع الی اﷲ بذریعہ ایمان و استغفار ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۵۶.
: اس پر موسٰی ؑکی قوم نے کہا.ہم کس طرح یقین کریں.یہ باتیں خدا نے کہی ہیں آپ نے ۷۰ آدمیوں کو منتخب کیا.: وہ آتش فشاں پہاڑ تھا.زلزلہ آیا.توجہ الی اﷲ کیلئے تھا.وہ ڈرے اور کہا کہ ہم بلکہ ہماری اولاد خدا کی اواز کبھی نہیں سننا چاہتے.اسی بے ادبی کا نتیجہ تھا کہ موسٰی ایسا پیغمبر پھر ان میں سے پیدا نہیں ہوا.بلکہ ان کے بھائیوں میں پیدا ہونے کی بشارت ملی.: بھلے کو بُرے سے الگ کرنا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۵۷. : اب یہ انعام کسی اور قوم کو ملے گا.: سچی پاکیزگی، اپنے نفس کو مزکّی و مطہّر کر دینا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : اور میری مہر شامل ہے ہر چیز کو.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۴۳)
۱۵۸. : اعمال ۳ باب ۲۱.۲۲ آیت میں.متی ۱۳ باب ۱۳،۱۴.آیت.یوحنّا ا باب ۲۳ آیت.: ایک پہچان پیشگوئی سے ہوتی ہے.دوسری تعلیم سے.چنانچہ اس کے اصول بیان فرمائے.: بڑے عظیم الشان معاہدے کی خلاف ورزی سے جو عذاب آتا ہے.وہ نبی کریمؐ کی متابعت سے ٹل گیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : باب ۱۸، استثناء آیت ۱۵، باب ۲۱، ۲۳ یرمیاہ.یسیعیاہ ب۴ متی ۱۳ باب۳۱.اعمال ۳ باب آیت ۲۲.یوحنّا ۱ آیت ۳.یسعیاہ ۵۴.قرنتیوں ۷ باب آیت ۴.: رسم و رواج.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۵) : اور اتارتا ہے ان سے بوجھ اُن کے اور پھانسیاں جو اُن پر تھیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۲۴) ۱۵۹.
: اب تو قرآن گویا قسم کھانے کیلئے رکھا یا عمل حُبّ و بُغض و حصولِ رزق کیلئے افسوس جو قرآن حبّ بغیر اﷲ کو چھوڑوا کر الحُبُّ لِلّٰہ کیلئے آیا اس سے یہ امید رکھی جاوے.ایک دفعہ ایک شخص نے جو میرا پیر بھائی تھا.مجھے ایک عمل لکھ بھیجا کہ اسے پڑھنے سے ڈیڑھ سو روپیہ آمدنی ہو جائے گی، جو مَیں نے کیا.مگر کجھ فائدہ نہ ہوا.عرضِ حال پر اس نے مجھے لکھا ؎ بمطلب مے رس جو یائے کام آہستہ آہستہ زِ دریا مے کشد پیاد دام آہستہ آہستہ اس کے بعد جب میں نے وہ عمل کیا اور اپنی اوسط آمدنی نکالی.تو سچ مچ ڈیرھ سو نکلی.مگر معاً میرے دل میں آیا.یہ اس عمل کا نتیجہ ہے یا طبابت کا.اس بات کو صاف کرنے کیلئے میں نے ارادہ کیا کہ پہلے صرف طبابت کرتا ہوں.پھر دوسرے مہینے طبابت چھوڑ کر صرف یہ عمل کروں گا.پھر دیکھوں گا.کیا نتیجہ ہوتا ہے.اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اس نے میری ہدایت کا سامان بہم پہنچایا.اس مہینے مجھے طبابت سے ۱۲۰۰ روپے کی آمدنی ہوئی.اس عمل کو میں نے اپنے خسارے کا موجب جانا.اس لئے چھوڑ دیا.کچھ مدّت بعد وہی عمل بتانے والا آیا جس نے آکر مجھ سے استدعا کی کہ مہاراج کے پاس مجھے ساٹھ روپے کا دعا گو ہی بنوا دو.حتٰی کہ پندرہ روپے پر راضی ہو گیا.جس سے صاف کُھل گیا کہ یہ فرقہ کیسا ذلیل ہے اور یہ راہ معنَم علیھم کی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) انبیاء علیھم السّلام کی تعلیم کے لئے یہ ایک مشکل پیش آتی تھی کہ ان میں سے کوئی خلیفہ اور کوئی یاد دلانے والا نائب نہ ہوتا تھا اس لئے لوگ بے خبر ہو جاتے تھے اور قوم پھر سو جاتی تھی.مگر مولیٰ کریم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کا دامن چونکہالٰی یَوْم الْقَیٰمَۃ وسیع کر دیا ہے.اور آپؐ کی بھی دعوٰی اِنِّیْ رَسُوْل اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا کا ہے.اور ایسی مضبوط کتاب آپؐ کو عطا فرمائی.ممکن تھا کہ لوگ بے خبر رہتے.اس کی حفاظت کا انتظام بھی خود ہی مولیٰ کریم نے فرما دیا.جیسے ظاہری حفاظت کیلئے قرّاء اور حُفّاظ ہیں ایسے باطنی تعلیم کیلئے ایک سامان مہیّا فرمایا… یہ احسان ہے.اﷲ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے.کہ بھولی بسری متاع اﷲ تعالیٰ جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اسکا یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے.یہ انعام ہے.یہ فضل اور احسان ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا.(الحکم ۱۲؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ ۴)
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا دامنِ نبوّت دیکھو تو قیامت تک وسیع، کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ اِنِّیْ رَسُوْل اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا.میں ظاہر فرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں.یہ کوثر مکان کے لحاظ سے عطا فرمائی.کوئی آدمی نہیں ہے جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکامِ الہٰی میں اتباعِ رسالت پناہی کی ضرورت نہیں.کوئی صوفی.کوئی مست قلندر.بالغ مرد.بالغ عورت کوئی ہو.اس سے مستثنٰیٰ نہیں ہو سکتے.کوئی آدمی مقرب ہو نہیں سکتا جب تک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سچی اتباع نہ کرے.(الحکم ۱۲؍مئی ۱۸۹۹ء) آپؐ کا دامن نبوّت دیکھو تو وہ قیامت تک وسیع ہے کہ کوئی نبی نیا ہو یا پرانا آہی نہیں سکتا.کسی دوسرے نبی کو اس قدر وسیع وقت نہیں ملا.یہ کثرت تو بلحاظ زمان کے ہوئی اور بلحاظ مکان یہ کثرت کہ اِنِّیْ رَسُوْل اﷲِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا میںفرمایا کہ میں سارے جہان کا رسول ہوں.یہ کوثر بلحاظ مکان کے عطا ہوئی.کوئی آدمی نہیں جو یہ کہہ دے کہ مجھے احکام الہٰی میں اتباعِ رسالت پناہی کی ضرورت نہیں کوئی صوفی.کوئی بالغ مرد یا بالغہ عورت.کوئی ہو.اس سے مستثنٰیٰ نہیں ہو سکتے.(الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵) ۱۶۲. : استغفار جس کا نتیجہ ہے.: فرماں برداری جس کا نتیجہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۶۳.
: اٹل.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : پھر بھیجا ہم نے ان پر عذاب آسمان سے بدلہ ان کی شرارت کا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۷) ۱۶۴. یہودیوں، عیسائیوں کی باتیں مسلمانوں کی نصیحت کیلئے ہیں.: ۱.یار دن (اردن) کے کنارے، یروشلم.دوسرے معنی یہ کہ لوگوں کے اجتماع سے جو فرعون کے غرق ہوتے وقت تھے.: سبت کے معنے آرام کے بھی ہیں.جس کو ذرا آرام ملا.حد سے گزرنا شروع کر دیا ؎ نفس ہر کس کمتر از فرعون نیست لیکن اورا عَون مارا عَون است دوسرے معنے سبت کے ہفتہ کے ہیں.یہود کو اس دن شکار کی ممانعت تھی جیسے مسلمانوں میں جمعہ ہے.: مخلصوں اور شریروں کا اظہار کرتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : یوں ہم آزمانے لگے اُن کو اس واسطے کہ بے حکم تھے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۷) : ابتلاء تین قسم کے.ایک امام بننے کیلئے اِذِ ابْتَلٰی اِبْرَاھِیْمَ.۲.بَلَوْنَاھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّئٰاتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ.۳..(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۲۵۵) ابتلاء کئی طرح کے ہوا کرتے ہیں
۱.راستبازوں اور اولوالعز نبیوں پر بھی ابتلاء آتے ہیں.جیسے فرمایا:(بقرہ:۱۲۵).۲.بدذاتوں.بے ایمانوں.کافروں اور مشرکوں پر بھی ابتلاء آتے ہیں جیسے فرمایا. ۳.ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اور گروہ بھی ہے ان پر بھی ابتلاء آتے ہیں جیسے فرمایا.:(الاعراف:۱۶۹) ۴.اور کبھی ابتلاء ترقیٔ مدارج کیلئے بھی آتے ہیں.جیسے فرمایا …الخ (البقرۃ:۱۵۶) (الحکم ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۸ء) ۱۶۷. جب وہ ہماری منع کر دی ہوئی باتوں سے باز نہ آئے.ہم نے کہا جاؤ ذلیل بندر بن جاؤ.(نور الدّین صفحہ ۱۷۹ ایڈیشن سوم) : کہتے ہیں تین دن کے بعد ہلاک کر دیا تھا.قَطَّعْنٰھُمْ فِی الْا َرضِآتا ہے.اوفَخَلَفَ مِنْ بَعْدِھِمْ خَلْفٌ بھی آیا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۵) ۱۶۸. اور تیرے ربّ نے خبر دی ہے کہ ایسا ہو گا کہ میں قیامت تک ایسے لوگوں کو ان پر حکمران کروں گا.جو انہیں بُرے عذاب دیں گے.بیشک تیرا رب جلد سزا دینے والا ہے اور غفور رحیم بھی ہے.(نور الدّین صفحہ ۱۷۹ ایڈیشن سوم) ۱۶۹. (نور الدّین صفحہ ۱۷۹ ایڈیشن سوم)
۱۷۰. اور ان کے بعد ان کے ایسے جانشین اور کتاب کے وارث ہوئے جو رشوت کے طور پر اس دنیا کا مال لیتے اور کہتے.کیا پڑا ہے؟ ہم بخشے جائیں گے.(نور الدّین صفحہ ۱۷۹ ایڈیشن سوم) ۱۷۳.
: ہر ایک لڑکے کو جب ہوش آتا ہے تو وہ اپنے پر گواہ ہوتا ہے کہ میں اپنا ربّ نہیں ہوں بلکہ ایک اور مدّبر بالارادہ ہستی ہے.میں تو اپنے آپ سے یہ سوال کر کے اس نتیجہ پر پہنچ چکا ہوں کہ میرا ربّ وہی ہے جو ربّ العٰالمین ہے ایک شخص نے کیا ہی عمدہ دلیل دی ہے.اَلْبَعْرَۃُ تَدُلُّ عَلَی الْبَعِیْرِ.وَاَثَرُالْقَدَمِ عَلٰی السَّفَرِ اَمَا تَقُوْلُ اَنَّ الْاَرْضَ وَالسَّمٰوَتِ تَدُلُّ عَلَی الْعَلِیْمِ القَدِیْرِ.؟۱؎ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : ہر بنی آدم کو عقل کے وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ میرا کوئی ربّ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۵) مِنْ ظُھُوْرِھِمْکالفظ زبان عرب میں زائدآیا کرتا ہے.دیکھو قاموس..بَیْنَ اَظْھُرِھِمْ.اَی ۱؎ ترجمہ: منیگنی اونٹ کے وجود پر دلیل ہے اور قدموں کے نشان کسی کے گزرنے کی دلیل ہے تو یہ آسمان و زمین کیوں خدائے علیم و قدیر کی ذات پر دلیل نہیں ( مرتب) وَسْطِھِمْ.بَیْن کا لفظ وسط کے معنی دیتا ہے.اور اظہرؔ کا لفظ زائد ہے معنی اس فقرے کے ، اُن کے بیچ یا ان میں.حدیث میں بھی یہ محاورہ آیا ہے.دیکھو مشکوٰۃ باب الایمان صفحہ ۷.کُنْتِ بَیْنَ اَظْھُرِنَا.آپ تھے ہم میں.محاورہ عرب میں دیکھومَا اَفْصحَکَ وَ مَا خَرَجْتَ مِنْ اَظْھُرِنَا.تَو کتنا فصیح ہے اور تو ہم سے کہیں الگ نہیں نکلا.اور عرب بولتے ہیں کَانَ یَنْشُدُ عَنِ ظَھْرِقَلْبِہٖ یعنی وہ دل سے یا از بر شعر پڑھتا تھا.ظہرؔ کا لفظ زائد ہے.اصل مطلب آیت کا یہ ہے.کہ عادل، رحیم و قدّوس خدا نے تمام بنی آدم میں ان کی بدئِ فطرت میں ایک قوتب ایمانیہ اور نورِ فراست و دیعت رکھا ہے جو ہمیشہ وجودِ الہٰی اور اس کی ربوبیت کا اقرار یاد دلاتا رہتا ہے یا اَقَلّا،یوں کہو کہ اگر مثلاً کسی عارض کے باعث غافل بھی ہو جاوے تو بھی چونکہ اصل فطرت میں وہ قوّت مجبول کی گئی ہے.کسی بیرونی محّرک کے سبب سے حرکت میں آ جاتی ہے.ہاں اگر کسی بے ایمان کے اندر کسی باعث وہ قوّت بالکل مر گئی ہو اور وہ کمبخت اتھاہ کنویں میں جا پڑا ہو اور شیطان کا فرزند بن کر آسمانی دفتر سے اس نے اپنا نام کٹوا لیا ہو.تو یہ اُس کا اپنا قصور ہے.عادل خدا کی ذات اس سے منّزہ ہے.اب اسی کی فطرت کے اقرار کو.اُسی ربوبیتِ الہٰی کے جبلی معترفِ فطرت کو الہامی زبان.ربّانی کلام اس طرز عبارت میں بیان فرمایا ہے.اور اس دقیق فطرت کے راز کو اس طرح پر انسان کو سمجھاتا ہے کہ انسان بدفطرت میں میری ربوبیت کا اقرار کر چکا ہے.یعنی الوہیت ایزدی کا اعتراف انسان کا جبلّی اور فطری ہے.اور اس کی ترکیب و ہیئت ہی اس امر پر شاہد عادل کافی ہے
قرآن کا یہ عجیب مُعْجِر طریق ہے کہ وہ ایسے باریک مسائل کو اس نہج میں ادا کرتا ہے کہ اس سے عالم و جاہل یکساں مستفید ہو سکتے ہیں.عیسائی ظاہربین الفاظ پرست ان اسرار کو کیا سمجھیں وہ تو کتب الہامیہ کے خصوصیات اور ان کے طرق ادائے مطلب سے آشناہی نہیں ہوئے.خواہ مخواہ ہر ایک حقیقت پرا عتراض جماد دینے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے.گو وہ اناجیل ہی میں کیوں نہ ہو.(فصل الخطاب صفحہ۱۴۸ ایڈیشن سوم) جب لی تیرے رب نے اولادِ آدم سے، اُن سے اُن کی اولاد.اور گواہ کیا ان کو ان کی جانوں پر.کیا میں تمہارا ربّ نہیں؟ انہوں نے کہا بیشک ہم قائل ہیں.کبھی کہو قیامت کے دن.ہم کو اس کی خبر نہ تھی.یعنی آدمی کو اﷲ تعالیٰ نے آدمیوں سے بنایا اور آدمی میں ایسی عقل اور فطرت رکھی جس سے وہ اپنے رب کا قائل اور اپنے خالق کی ربوبیت کا اقرار ضرور کرتا ہے.یہ اس لئے کہ محکمہ جزا و سزا میں ایسا نہ کہہ دے کہ مجھے تو خبر نہ تھی.مِنْ ظُھُوْرِھِمْ کا ترجمہ ’’ اُن سے ‘‘ کیا گیا.اس لئے کہ لغت کی کتابوں میں لکھا ہے بَیْنَ اَظْھُرِھِمْ.اَیْ وَسْطِھِمْاورکُنْتِ بَیْنَ اَظْھُرِنَا اَیْ بَیْنَنَااس آیت کا ذکر اس لئے کیا کہ اس آیت شریف سے کوئی رُوح کا قبل الجسد موجود ہونا نہ سمجھ لے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۳۳) ۱۷۶. : کچھ کتاب دی.: اس پر عمل نہ کیا.الگ ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۷۷.
آیات جن کے باعث کسی کو رفعتِ شان کا مرتبہ عطا ہوتا ہے.ان پر تمہیں اطلاع نہیں وہ الگ رُتبہ رکھتی ہیں.مگر وہ چیزیں جیسے خودرائی.خود پسندی.خود غرضی.تحقیر.بدظنی اور خطرناک بدظنی پیدا ہوتی ہے.وہ انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں.ایک ایسے انسان کا قصّہ قرآن میں ہے جس نے آیات اﷲ دیکھے.مگر اس کی نسبت ارشاد ہوتا ہے .(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۱۰) : اس کو بہت ترقی دیتے.در مسلخ عشق جُزْایں نہ کُشَند مسلخ کہتے ہیں اس جگہ کو جہاں جانور کی کھال اتاری جائے.: دھتکارنے کا پتھر اٹھاؤ.:یعنی بہر دو حال آرام ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸۰. : اس آیت میں ان کے جہنمی ہونے کی وجہ بتائی.(تشحیذالااذہان جلد۸ نمبر۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۴۵۵) ۱۸۱.
: جس قسم کا عیب اور نقصان انسان میں ہو اسی کے مقابل خدا کے نام دے دعا کرے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸۶. : غور کریں کیا کوئی آسمانی بادشاہت ( یعنی کلامِ الہٰی کے نزول کا اس سے پہلے مدّعی تھا؟ پھر تم اگلی آسمانی کتب سے موازنہ کر لو کہ یہ سلسلہ منھاجِ نبوّت پر ہے یا نہیں ؟ : پھر زمین والے گواہی دے سکتے ہیں کہ میرا کریکٹر کیسا ہے اور میرے پیرو کیسے ہیں .آسمان میں ایک وقت خاموشی ہوتی ہے.دوسرے وقت بجلی کا کوندنا.بادل کا گرجنا.اسی طرح زمین کا حال ہے.ایک وقت سیلاب دوسرے وقت مطلع صاف.پس یہ الہاموں کا زور.یہ مذہبوں کا آپس میں مباحثے ضرور ایک مفید نتیجہ رکھتے ہیں.یہ جھگڑے خود گواہ ہیں اس بات کے دنیا میں امنِ عامہ آنے والا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸۷. : جس کو اﷲ بہکا دے.اُسے کوئی نہیں راہ دینے والا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۵) : یہ نتیجہ ہے انسان کی اپنی اختیار کردہ ضلالت کا.دو خط جب زاویہ پیدا کریں گے تو جوں جوں بڑھیں گے فاصلہ بھی بڑھتا جاوے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۱۸۸. : تیری کامیابی اور دشمنوں کی تباہی کا وقت ہے.: کیا کبھی کسی نے سنا ہے کہ محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کسی کی تمام قوم اور تمام ملک سب کے سب مسلمان ہو گئے ہوں؟ اس واسطے یہ عظیم بات ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸۹. ایک قوم ہے جو اﷲ تعالیٰ کے علم میں اور تصرّف میں کسی مخلوق کو بھی شریک بناتی ہے.بدبختی سے مسلمانوں میں بھی ایسا فرقہ ہے جو کہ پیرپرست ہے حالانکہ رسول کریمؐ سے بڑھ کر کوئی نہیں.اور وہ فرماتا ہے لَآاور پس کسی اَور ولی کو کبھی یہ قدرت حاصل ہو سکتی ہے کہ اسے بھائی جان کہا جاوے اور یہ سمجھا جاوے کہ وہ حاضر و غیب ہماری پکار سنتے ہیں؟ یہ جواب جو دیا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو علمِ غیب یا تصرّف دے دیا ہے ، صحیح نہیں کیونکہ شرک کے معنی ہیں سانجھی بنانا.خود بن جاوے یادینے سے بنے.یاد رکھو.اﷲ تعالیٰ کا علم ایسا وسیع ہے کہ بشر اس کے مساوی ہو ہی نہیں سکتا.جو نشان اﷲ تعالیٰ نے اپنی الوہیت کیلئے بطور نشان رکھے ہیں وہ کسی اور میں نہیں بنانے چاہئیں.(بدر ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲) : ہاں یہ بات ہے کہ حق کے دشمنوں کیلئے ڈرانے والا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۱۹۰. شرک بُری بلا ہے.اس سے قوموں میں تفرقہ پڑتا ہے.مشرک کبھی سچّے علوم کا وارث نہیں ہوتا.یہ سورۃ اب ختم ہوتی ہے اس لئے اخیر میں پھر رسالت آب کی تعلیم کا خلاصہ بیان کر دیا ہے.جو توحید ہے.: ہر ایک شخص ایک آدمی کا نطفہ ہوتا ہے.: اسی کی قسم کا.یہ ظاہر ہے.آدم زاد کے حیوانات سے نکاح نہیں ہوتے.گدھی، بکری لومڑی سے اولاد نہیں لے سکتے.: دوسرے مقام پر فرمایا(الروم:۲۲) عورت ذات بوجہ اپنی کم علمی.ناتجربہ کاری کے بہت ہی قابلِ رحم و قابلِ مہربانی ہے.جن کے گھر میں آرام ہو اور بیوی ہو وہ بہت آرام پاتے ہیں.شہوت کے بد استعمال میں کم گرفتار ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۹۱.
: کئی ایسے لوگ ہیں جن کا یہ حال ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : عام میاں بی بی کا ذکر ہے نہ کہ آدم و حوّا کا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۶) ۱۹۶،۱۹۷. : مجھ سے سب مل کر جنگ کرو اور مہلت بھی نہ دو.یہ جرأت راستباز نبی کے.۱۹۸. : وہ ان مشرکانِ عرب کی کچھ مدد نہ کر سکیں گے.: انکی اپنی بھی خبر نہیں.چنانچہ سب توڑے گئے.قطب شمالی یا جنوبی کی دریافت کوئی بڑا کام نہیں.کام تو یہ بے نظیر ہے.کہ آپ نے تمام عرب میں وحدت ویک جہتی کی رُوح پھونک دی.اور انہیں حیوان سے بااخلاق.باخدا انسان بنا دیا.کوئی ہے؟ جو اس کی نظیر دکھائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : خدا کی تولّی کی علامت یہ ہے کہ انسان دن بدن ظلمت سے نکل کر نُور کی طرف آتا ہے.فاتحین.مؤرخ.سائنس دان سب قرآن کی مخالفت میں کمر بستہ ہیں اور مسلمان خفتہ! (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۱۹۹. میں نے ایک لڑکے سے پوچھا کہ آج قرآن شریف کا درس کہاں سے شروع ہو گا؟ تو اس نے کہا.میں گو دس برس سے سُنتا ہوں.مگر کوئی دلچسپی نہیں اس لئے مجھے معلوم نہیں.دوسرا جو پاس بیٹھا تھا.جب اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ وعلیٰ ہذالقیاس! مجھے خوشی بھی ہوئی اور رنج بھی ہوا.خوشی اس لئے کہ بہت سی مخلوق ایسی بھی ہوتی ہے جواوریَسْمَعُوْنَ وَلَا یَسْمَعُوْنَ کی مصداق ہے.غرض بعض تو ایسے ہیں جو سن کر بھی نہیں سنتے اور بعض سامعین ایسے ہیں کہ انہیں مجلسِ وعظ محض کسی کی دوستی یا ذاتی غرض لاتی ہے.بعض نکتہ چینی کے لئے جاتے ہیں.انکا خیال واعظ کی زبان کی طرف رہتا ہے.پس جونہی کوئی انگریزی یا سنسکرت یا عرب لفظ اس کے مونہہ سے نکل گیا تو یہ مسکرائے.پس ان کے سننے کا ماحصل یہی ہے کہ وہ گھر میں آ کر واعظ کی نقل لگایا کریں.پھر ایک مشکل ہے وہ یہ کہ چور کی داڑھی میں تنکا.واعظ ایک بات کتاب اﷲ سے پیش کرتا ہے.اب اگر سننے والے میں بھی وہی عیب ہے جو اس واعظ نے بتایا تو یہ سمجھتا ہے کہ مجھ کو سنا سنا کر یہ باتیں کرتا ہے.اور گویا مجھے طعنے دے رہا ہے.حالانکہ واعظ کے وہم میں بھی یہ عین کو.فطرت کا خالق چونکہ اس بھید کو سمجھتا ہے اس لئے اس نے فرمایا.(البقرۃ:۲۷) (بدر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ۹) ۲۰۵. : اس سے ظاہر ہے کہ یہاں مومن مخاطب نہیں ( کیونکہ ان کیلئے وَ رَحْمَتُہٗ فرماچکا ہے.مگر لوگ ہیں کہ اَلْحَمْد امام کے پیچھے نہ پڑھنے کا جھگڑا لے بیٹھتے ہیں.اتنا نہیں سمجھتے کہ یہاں
مومن مخاطب نہیں پھر دُور کی صف میں کھڑا ہو تو سُن ہی نہیں سکتا.پھر ظہر و عصر کی نمازوں میں تو جہری قرأت نہیں ہوتی.پس خلف الامام الحمد پڑھنے سے کیوں منع کرتے ہیں؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : کفّار مخاطب ہیں کہ مومن کیلئے ہدایت و رحمت ضرور ہے.پس اے کافرو! تم بھی سنو تو تمہارے لئے رحمت کا موجب ہو جائے.اَلْحَمْد خلف الامام کا مسئلہ یہاں نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۶) ۲۰۶. اور یاد کرتا رہ اپنے رب کو دل میں گر گڑانے اور ڈرنے اور پکارنے سے کم آواز بولنے میں صبح اور شام کے وقتوں میں اور مت رہ بے خبر.(فصل الخطاب حصہ دوم صفحہ۱۲۳) ۲۰۷. : اﷲ کے فرماں بردار ہوتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹
سُوْرَۃُ الْاَنْفَالِ مَدَنِیَّۃُ ۲. سورۃ نساء.مائدہ انسان کو تمدّن و معاشرت سکھلاتی ہیں.سورۃ اعراف.انفال رسول علیہ السلام کی نبوّت کو ثابت کرتی ہیں.ایک علمی بحث نبوّت کو ثابت کرتی ہیں.ایک علمی بحث نبوّت ہوتی ہے جس سے عامتہ النّاس فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہ عالی دماغ لوگوں کے متعلق ہے.: تین لفظ ہیں فیٔ.غنیمت.نفل.فے ٔ.جس مال پر مسلمانوں کا کچھ بڑا خرچ نہ ہوا ہو.جیسے کہ سورۂ حشر میں ( حشر:۷) ۲.نفلؔ وہ مال جو خرچ کے بالمقابل زیادہ ملا ہو.۳.غنیمت: اس لفظ کے معنوں میں عام لوگوں نے سخت غلطی کھائی ہے.جیسے ’’ صاحبزادہ‘‘ اور ’’ حضرت‘‘ گندے معنوں میں لئے جاتے ہیں.اسی طرح غنیمت کے معنے لُوٹ کے کئے جاتے ہیں.عربی زبان میںغنیمت کہتے ہیں.مطلق حصولِ مال کو.عرب میں کسی کو رخصت کرتے ہیں تو کہتے ہیں سَلِمًاغَانِمًا.: ہر آدمی کو وہ تعلق جو دوسرے سے ہے.اس میں سنوار پیدا کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : اور اپنی باہمی عداوتوں اور کینوں کی اصلاح کرو.(نور الدّین صفحہ ۱۸ دیباچہ) ۶.
کَمَا: ک معنی کیوں : السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ خدا کے حکم سے کراہت کریں؟ہرگز نہیں! اس کے معنے ہیں.مشکل سمجھنے والے.جیسے (بقرہ:۲۱۷)(احقاف:۱۶) حمل سے کوئی شریف عورت کراہت نہیں رکھتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : بمعنی کیونکہ.: مشکل سمجھتا تھا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۶) ۷. : کفّار دیکھ رہے ہیں کہ مرنے کا مقام ہے.صحابہ کرامؓ کی ہرگز یہ حالت نہ تھی کہ وہ میدانِ جنگ میں جانے سے ڈرتے اور انکی حالت ہوتی.انہوں نے تو کہا لَا نَقُوْلُ لَکَ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَآئِیْلَ لِمُوسْیَ اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰. : پانی پر کفار قبضہ کر چکے تھے.اس لئے انہوں نے بادل مانگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲.
جنگوں میں بھی اور عام طور پر بھی دیکھا گیا ہے کہ بیٹھے بیٹھے دل کو غیر معلوم وجہ سے خوشی کی خبر آتی یا غم کی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوح کو آئندہ واقعات سے ایک تعلق ہے.اسی قانون کے ماتحت فوجی آدمی کو نیند آ جائے تو یہ اس بات کی فال سمجھی جاتی ہے کہ ضرور ہماری فتح ہو گی.گویا اس طرز پر رُوح کو اﷲ تعالیٰ ایک باریک علم عطا کرتا ہے.اسی واقعہ کا ذکر کرتا ہے پانی پر کفّار کا تسلّط تھا.اس پانی کی تکلیف کے رفع کو بطور احسان فرمایا.: تاکہ تمہارے دلدّردور ہو جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۳. : ملائک کا فعل پاک بندوں پر ظہور پکڑتا ہے.جیسا کہ خدا کا فعل فرشتوں پر ظہور پکڑتا ہے.فرشتوں کا انکار تین قوموںنے کیا ہے.دہریہؔ.برہموؔ.نیچریؔ.حالانکہ جس طرح اﷲ پر ایمان ضروری ہے.اسی طرح ملائکہ پر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : گردنیں اس میں شامل ہیں جیسیفَوْقَ الْاثْنَیْنِ میں دو یا دو سے زیادہ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۶) ۱۴.
: عِقاب سے ظاہر ہے کہ پہلے انسان جرم کرتا ہے پھر اس کو سزا ملتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۶. : اس وقت بھی مذاہب میں ایک بڑی جنگ ہو رہی ہے.اور وہ دلائل کی جنگ ہے.نیک نمونہ دکھانے کا دن ہے.پس مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ مخالفوں کے مقابلہ میں پیٹھ نہ پھیریں.اگر ایسا کرو گے تو بہت سی روحیں قبولِ حق کیلئے تیار ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸. کیسا سچّا کلمہ توحید اور راستبازی کا بھرا ہوا ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ارشاد ہوتا ہے کہ تیری رمیؔ اﷲ تعالیٰ کی رمیؔ ہے.کیا ہی سچ ہے کہ دشمن کو تیر مارنا یا اپنی مار کا دشمن کو نشانہ بنانا اﷲ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کے ارادہ سے وابستہ ہے وَ اِلَّاہاتھ خطا بھی جاتا ہے.اب کیسا سیدھا و صاف مطلب آیہ شریفہ کا ہے مَارَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اﷲَ ترجمہ: یعنی تو نے دشمنوں پر نہیں پھینکا جو کچھ پھینکا.بلکہ خدا نے پھینکا یعنی اﷲ نے تجھے مظفر و منصور کیا.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۸۳.۱۸۴) ۲۰.
: یہ کفّآر کو خطاب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۲۵. کھانا جو حفظِ حیات و حفظِ طاقت کیلئے ہے.اس میں بھی طبائع مختلف ہیں.کسی کے لئے ادنیٰ سا کھانا بہت اعلیٰ اور کسی کیلئے اعلیٰ سے اعلیٰ کھانا مُضر ہوتا ہے.یہی حال لباس کا ہوتا ہے.بعض صرف لنگوٹ باندھتے ہیں.بعض ضرورت کے مطابق.بعض بہت سے کپڑے پہنتے ہیں.پھر اس میں قسم قسم کے اختراع کہتے ہیں اور ہر وقت فیشن کی دھت میں کتربیونت کرتے رہتے ہیں.یہی اولاد کے اخراجات کا.یہی مکانات کا.یہی کتب کا یعنی ایک درجۂ ضرورت.ایک حد سے بڑھ کر فضولی.دوسری بات.عجائبات قدرت اور اﷲ کے انعاموں کے مطالعہ سے فرماں برداری کا مادہ بڑھتا ہے اس رکوع میں ان باتوں کا ذکر آتا ہے.مَا یُحْیِیْکُمْ : حدیث شریف میں اس کی تفصیل ہے کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّامَنْ کَسَوْتُہٗ وَ کُلُّکُمْ ضَآلٍّ اِلَّا مَنْ ھَدَیْتُہٗ.۱؎ : کبھی اﷲ تعالیٰ آدمی اور اس کے دل کے درمیان روک ڈال دیتا ہے.یہ سزا ہے اس بات کی کہ تحریکِ فلک پر عمل نہیں کیا.جو وقت نیکی کا تھا اس میں نیکی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ایمان والو! مان لو.اﷲ اور اس کے رسول کی بات کو جب وہ تمہیں بلائیں ایسی باتوں کے لئے کہ جس سے تمہیں زندہ کرے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۷۶) اور یقین جانوں کہ اﷲ انسان اور اس کے دل کے درمیان روک ہو جاتا ہے اور اسی کی طرف تم اٹھائے جاؤ گے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۹۷)
قرآن مجید کو بتوجّہ تمام مطالعہ کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے صفات و افعال میں بے مثل ہے لَیْسن کَمِثْلِہٖ شَیْیٌٔایک اﷲ تعالیٰ کا اِحیا ہے.ایک انبیاء کا اِحیا ہے.چنانچہ ایک مقام پر فرمایا جس سے کھل جاتا ہے کہ رسول کا اِحیا کیا ہے.اور اسی سے مسیحؑ کے احیا کی حقیقت کھُل جاتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ صفحہ ۱۷۶) ۲۶. : جب مصیبت آ جائے تو سب لپیٹے جاتے ہیں.عیسٰی ہدَینِ خود موسیٰ بَدینِ خود کا اصل غلط ہے.وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِکو مت چھوڑو.ورنہ بدی کی وجہ سے عذاب آنے پر سب کو ملوّث ہونا پڑے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ا.اَمَّا الدَّوَایَۃُ فَقَالَ ابْنُ جَرِیْد ـــــــ نَزَلَتْ فِیْ عَلٍّی وَّ عُثْمَانَ وَطَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرَوَلَمْ یندْرُوْا زَمَانًا اَنَّھُمْ مِنْ اَھْلِھَا فَاِذَا ھُمْ مُعِیْنُوْنَ بِھَا.(جلد۹.۱۳۵) ابن جریر فرماتا جے کہ یہ آیت دربارہ حضرت علی.عثمان.طلحہ.زبیر نازل ہوئی.ان کو ایک عرصہ تک نہیں معلوم ہوا کہ ہمارے حسب حال ہے.پس ایک وقت آ گیا کہ وہ اس آیت کے مصداق ہو گئے.ب.وَعَنِ السَّدِیِّ.انَّھَانَزَلَتْ فِی اَھْلب بَدْرٍ اَصَابَتْھُمْ یَوْمَ الْجَمَلِ اَقُوْلُ الْمَالُ وَاحِدٌ.اور سدی سے ہے کہ یہ اہل بدر کے بارے میں نازل ہوئی.جنگ جمل میں ان پر یہ مصیبت پڑی.بہر حال دونوں کا مآل ایک ہی ہے.
ج.قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ اُمَرَ اﷲُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْ لَّایَقرُّوْا الْمُنْکَرَبَیْنَ اَطْھُرِھِمْ فَیَعُمُّھُمْ اﷲُ بِالْعَذَابِ وَقَالَ عَبْدُاﷲِ اَنَّ اﷲَ تَعَاَلیٰ یَقُوْلُ اِنَّمَا اَمْرَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ.لَاتُصِیْبَنَّ نَھْیٌ بَعْدَنَھْیٍ.ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ برائی کو اپنے سامنے نہ ٹھہرنے دیں ورنہ ان سب کے اوپر عذاب آئے گا.اور عبداﷲ نے کہا.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے مال.تمہاری اولاد فتنہ ہے اور لَا تُصِیْبَنَّ نھیہے بعدنھی کے.د.وَ فِی الْخَازِنِ.لَمْ تَقْتَصِرْ عَلَی الظَّالِمِ خَاصَّۃً بَلْ تَتَعَدِّیْ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا وَّ تَصِلُ اِلیَ الصَّالِعِ وَالطَّالِحِ(جلد ۲ صفحہ ۲۱۱) اور خازن میں ہے کہ یہ عذاب بالخصوص ظلم پر ہی مقصور نہ رہے گا بلکہ تم سب پرچھا جائے گا اور نیک و بد گنہگار ناکردہ گناہ دونوں پر اس کا اثر پہنچے گا.جلد ۲ صفحہ ۲۱۱ ر.اِبْنُ کَثِیْرٍ لاَ یَخُصُّ بِھَا اَھْلَ الْمَعَاصِیْ وَلَا مَنْ بَاشَرَالذَّنْبَ بَلْ یَعُمُّھَا وَبَیْنَ قبصَّۃِ الذُّبَیْرِ ونھٰکَذَا فِی فَتْحِ الْبَیَانِ وَ اِبْنُ کَثِیْرٍ وَزَادَکَالْْقَحْطِ وَالْغَلَا وِ تَسْلُطُ الظَّلَمَۃَ وَکَذَا قَالن الْحَسَنُ نَزَلَتْ فِی عَلِیٍّ وَّ عُثْمَانَ وَلَلْحَۃَ وَالزُّبَیْرِ وَکَذَفِی دُرِّ الْمَنْثُورِ وَجَمَعَ الدِّونایَاتِ اَمَّا اَھْلُ لدِّرَایَۃِ فَصَدَّقُوْا مَا فِی الدِّوَایَۃِ ونزَادُوْ ا بِقَرَائَۃِ اِْنِ مَسْعُوْدٍ لَتُصِیْبَنَّ لَا کِنْ مِنْ اَیْنَلَنَا قمرْاٰنُ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وناُبَیّ وَ بَعْضُھُمْ ابجْتَرَاَحَتّٰیفَالَ زَائِدَۃٌ وناَمَّاقَوْلُھُمْ بِتَاکِیْدِالنُّوْنِ فَیَرَدُّ عنلَیْھِمْ قَوْلُہٗ تنعَالٰی امدْخُلُوا مَسَاکِنَکُمْ لَا یَحْطِمَنَّکُمْ سُلَیْمَانُ وَجُنُوْدُہٗ.ابن کثیر فرماتے ہیں گنہگار ہی اسی سے خاص نہیں اور نہ وہ جو گناہ میں ملوّث ہو.بلکہ یہ عام ہے پھر قصّہ زبیر لکھا ہے فتح البیان میں بھی ایسا ہی ہے.اور اس پر زیادہ کیا ہے کہ فتنہ مثلاً قحط گرانی اشیاء، ظالموں کا تسلّط ہو جانا.اور ایسا ہی حسنؓ نے کہ کہ یہ دربارہ علی و عثمان و طلحہ والزبیر نازل ہوئی.اور درّ منثور میں بھی ایسا ہی ہے اس نے بہت سی روایتیں جمع کی ہیں.اہل درایت نے جو کچھ روایت میں آیا اس کی تصدیق کی.ہاں قرأت ابن مسعود لکھی ہے کہ یہ لَتُصِیْبَنَّ ہے لیکن ابن مسعود و اُبّی کا قرآن کہاں ہے ؟بعضوں نے جرأت کر کے کہہ دیا کہ لَا زیادہ ہے اور یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ لَا نون کا مؤکد ہے تو اس کی تردید میں یہ قول کافی ہے.اُدْخُلُوْا مَسٰکِنَکُمْ لا یَحْطِمَنَّکُمْ سلیمان و جنودہٗ پھر اس کے یہ معنی ہوں گے کہ اگر تم گھروں میں داخل ہو گئے تو ضرور تمہیں سلیمان اور اس کا، لشکر کچل ڈالے گا.ہالانکہ
اے ایمان والو! چوری نہ کرو اﷲ سے اور رسول سے یا چوری کرو آپس کی امانتوں میں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۱)
۲۹. : کٹھالی پر چڑھانا.اولاد اور اموال سے آدمی کے ایمان کا امتحان ہو جاتا ہے اور وہ خالص کیا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۳۰. ایک روحانی طبّ بھی ہے جس میں بُخل.حسد.جھوٹ.چوری.زناء وغیرہ روحانی امراض کے علاج ہیں.: ہر ایک شخص ممیّز کامیابی چاہتا ہے.اسے فرقان کہتے ہیں.موسٰی کو کیونکر یہ فرقان حاصل ہوا.(بقرہ:۵۱)دشمن ہلاک ہوا وہ بھی آنکھوں کے سامنے.اس سے بڑھ کر کامیابی ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہوئی.جن کا فرعون خشکی میں غرق ہوا.یہ موقوف ہے تقوٰی پر.: انسان کا دل نہیں چاہتا کہ اسکی کمزوری، اسکا گناہ کسی پر ظاہر ہو.چنانچہ ایک خورد سال بچّہ بھی کسی بات کے بُرا ہونے کا علم حاصل کر کے پھر اپنی طرف اس کا منسوب ہونا پسند نہیں کرتا.انسان کی رُوح چار باتیںچاہتی ہے.دشمن کا ہلاک.گناہوں کی معافی.اپنی ترقی.فضل.ان چروں کے حصول کا گُر تقوٰی بتایا ہے.کیا یہ نسخہ مجرّبہ ہے.؟ چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے حالات سے ظاہر ہے.دنیا کے تمام بادشاہوں کے نام عموماً بے ادبی سے لئے جاتے ہیں مگر ان لوگوں کانام بھی ادب سے لیا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۳۱. : متقی کو تمام مشکلات سے مخلصی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے.چنانچہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا واقعہ پیش کرتا ہے.خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ: تدبیر کرنیوالوں میں خیر و برکت والا تو خدا ہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) مفردات راغب عربی کی مستند لُغت قرآن میں لفظ’’ مکر‘‘ کے نیچے لکھا ہے.(اَلْمَکْرُ)صَرْفُ الْغَیْرِعَنْ مَقَاصِدِہٖ بِحِیْلَۃٍ.مخالف کے مقاصد کو تدبیر سے روک دینا مکر ہے.ابن الاثیرؔ جس نے لُغت قرآن و حدیث پر کتاب لکھی ہے لکھتا ہے.(مَکْرُ اﷲِ)’’اِیْقَاعُ بَلَائِہٖ بِاَعْدَائِہٖ‘‘دُوْنَ اَوْلِیَآئِہٖ.الہٰی مکر کے معنی ہیں مخالفانِ الہٰی پر عذاب کا ڈالنا اور مقرّبوں کو ان عذابوں سے بچانا.لسان العرب میں ہے جو عربی لُغت کی بڑی مستند کتاب ہے اَلْمَکْرُ اِحْتِیَالٌ فِیْ خُفْیَۃ یعنی مخفی تدابیر کو مکر کہتے ہیں.بلکہ قرآن کریم نے ان معافی کی خود بھی تفصیل فرمائی ہے.جہاں فرمایا ہے. .یعنی جب تیرے مقاصد کو ان لوگوں نے جو منکر ہوئے تدابیر سے روکنا چاہا اس طرح پر کہ تجھے قید کر لیں یا تجھے قتل کر دیں یا وطن سے تجھے نکال دیں اور وہ تدبیریں کرتے ہیں اور کریں گے.اور اﷲ تعالیٰ بھی تدبیریں کرتا ہے اور کرے گا اور اﷲ تعالیٰ ان کی تمام تدبیروں پر غالب آنے والا اور اس کی تدابیر ہمہ خیر ہوتی ہیں.
اور دوسرے معنے کے لحاظ سے آیت کے معنے یہ ہوئے.’’ جب منکر تجھے بلاؤں میں پھنسانے لگے کہ تجھے قید کر لیں یا تجھے قتل کر دیں یا تجھے نکال دیں اور پھنساتے ہیں اور پھنسائیں گے اور اﷲ تعالیٰ بہت ہی بھلا ہے اپنے مقرّبوں کے بچانے اور دشمنوں کو عذاب دینے میں.‘‘ تیسرے معنے کے لحاظ ( مخفی تدبیر ) سے آیت کے یہ معنے ہوئے.’’ جب مخفی تدبیر کر رہے تھے تیرے نسبت وہ جو منکر ہوئے کہ تجھے قید کر لیں یا قتل کر دیں یا تجھے نکال دیں اور مخفی تدبیر کرتے ہیں اور کریں گے اور اﷲ مخفی تدبیر کرتا ہے اور اﷲ بہت ہی بھلا مخفی مدبّروں میں سے ہے.‘‘ مکرؔ کا لفظ بلا اضافت عام مفہوم رکھتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جہاں شریروں کے ارادوں کی طرف منسوب کیا گیا وہاںمَکْرُ السَّییِ یعنیمَکرِبَدْ کر کے ذکر کیا گیا ہے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مکر بُرا بھی ہوتا ہے اور بھلا بھی.اس میں قرآن کریم کا خود ارشاد ہے (الفاطر:۴۴) اور بُرے منصوبے کرنیوالوں کا وبال خو دان پر ہی پڑتا ہے.فَانْطُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ مَکْرِھِمْ اَنَّا دَمَّرْنَا ھُمْ وَقَوْمَھُمْ اَجْمَعِیْنَ (النمل:۵۲) پس تُو دیکھ کہ ان کے منصوبوں کا انجام کیا ہوا.ہم نے ان سب کو مع ان کو قوم کے تباہ کر دیا.اور مفرداتِ راغبؔ میں ہے.وَذٰلِکَ ضَرَِْانِ مَکْرٌ مَحْمُوْدٌ نَّھُوَاَنْ یَتَحَرَّی بِذٰلِکَ فِعْلٌ جَمِیْلٌ وَ عَلٰیذٰلِکَ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی وَاﷲُ خَیْرُالْمَکِرِیْنَ.وَ مَذْمُوْمٌ وَھُوَاَنْ یَتَحَرَّی بِہٖ فِعْلٌ قَبِیْحٌ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السّیِّیِّئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ‘‘ یعنی مکر کی دو قسمیں ہیں ایک مکرِ محمود ہے جس سے نیک اور عمدہ کام کا قصد کرنا مقصود ہے چنانچہ ان ہی معنوں سے خدا تعالیٰ نے اپنی نسبت فرمایا وَاﷲُ خَیْرُالْمَکِرِیْن اور دوسری قسم مکرِ مذموم ہے یعنی بُرے فعل کا ارادہ کرنا.یہی معنی ہیں اس آیت کے وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السّیِّیِّئُ …الخ
اصل بات یہ ہے کہ نبی کریمؐ نے اقوام عرب کو عبادتِ الہٰیہ کی طرف بلایا اور بُت پرستی اور بدچلنی کے اقسام سے روکا اور باہمی خانہ جنگیوں سے ہٹا کر ان میں وحدت و اتحادکی رُوح پھونکنی شروع کی اس پر مشرک نادان احمقوں نے آپؐ کے مقاصد کے برخلاف بڑی بڑی تدابیر شروع کر دیں اور آپؐ کو اس پاک ارادہ سے ہٹانا چاہا اور آپ ؐ کو اور آپؐ کے احبّاء کو دُکھ دئے اور مخفی تدابیر سے اسلامی کارخانہ کو نابود کرنا چاہا.اس پر اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو تسلّی و طمانیت بخشی کہ تیرے مقاصد و مطالب کو کوئی نہیں روک سکتا اور یہ لوگ ناکام رہیں گے.اور انکی مخفی تدبیریں خود ان پر الٹ پڑیں گی.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۶۴.۶۵) اہل مکّہ نے تمام اپنی تدابیر کو اسلام کی روک میں کمزور دیکھ کر چاہا کہ نبیؐ عرب کو قتل ہی کر ڈالیں مگر بعض قومی اور رسمی بندشوں کی وجہ سے بنی مُطَّلِب سے ڈر گئے.اس لئے دارالندوہ میں ایک انجمن منعقد کی.وہاں یہ تجویز ٹھہری کہ مختلف قبیلوں کے چند نوجوان ہوشیار مل کر ایک ہی دفعہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑیں اور تلوار سے اس کا کام تمام کر ڈالیں.بنو مُطَّلِب کس کس سے لڑیں گے.آپ الہام الہٰی کے مخبر سے اطلاع پا کر مع ابوبکر ؓ صدیق اپنے خالص رفیق کے مدینے کو چلے گئے اس کمیٹی کی مختلف راؤں اور فیصلے کے بابت قرآن میں یوں آیا ہے… ’’ جب کافر تیری بابت تجویز خفیہ لڑ رہے تھے کہ تجھے قید کریں یا نکال دیں یا مار ڈالیں اور اﷲ یہی تجویز کر رہا تھا اور اﷲ تدابیر میں سب پر غالب ہے‘‘ آپؐ کے پکڑ لانے پر سو اونٹ کا انعامی اشتہار دیا گیا.عرب مفلس جنگجو اور سو اونٹ کا انعام خوب قابلِ لحاظ ہے.خدا کے فضل سے آپؐ تو مدینے میں پہنچ گئے اور بڑے اعزاز و اکرام سے وہاں قبول کئے گئے.اُس وقت سے قریش اور ان کے شرکاء یعنی یہودیوں کے بُغض و عناد سے مسلمانوں کو اپنی حراست اور حفاظت نہایت بیدار مغزی کے ساتھ کرنی پڑی.سبحان اﷲ ! ایک چھوٹے سے شہر پر ہزرہا قبائل عرب کے متفق و متواتر حملوں کو روکنا پڑا.پس ایسے ہنگام میں سخت تدارک کرنے کی ضرورت ہوتی تھی تاکہ مسلمانوں کے گروہ کا وجود باقی رہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۹۸.۹۹) ۳۲. : اس زمانہ میں بھی ایسا کہنے والے موجود ہیں.دھرم پال نے ایک رسالہ اس نام کا لکھا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۳۳. : شَقِّی لوگوں کی یہی علامت ہے کہ وہ کسی کے حق ہونے کا ثبوت اسی میں مانگتے ہیں.ابوجہل نے بھی یہ دعا کی تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۳۴. اور اﷲ ہرگز نہ عذاب کرتا ان کو جب تک تُو تھا اُن میں.میں جوھُمْ کی ضمیر ہے اُس کا مرجع وہی الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ہے.اصل مطلب یہ ہے کہ جب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہ تنذیرِ قرآن کفارِمکّہ کو عذابِ الہٰی سے ڈرایا کہ قرآن کی تکذیب و انکار پر ضرور ضرور غضبِ الہٰی ان پر نازل ہو گا.اس پر ان جاہلوں نے از راہ کمال جرأت وہ کہا.جس کا مضمون… باری تعالیٰ نے فرمایا.کہ جب تک تُو اے محمد ان لوگوں میں ہے.( یعنی سر زمین مکّہ اور اس کے اہالی کے درمیان) تب تک اُن پر عذاب نہیں آئے گا.اور بے شک یہ وعیدِ الہٰی.یہ پیشینگوئی ایک برس بعد ہجرت کے جب آپ مکّہ کو چھوڑ مدینہ چلے گئے پوری ہوئی… ایک اور بات خیال میں آئی جس کا لکھنا شاید دلچسپی سے خالی نہ ہو گا.سنو.ہم اسی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بلحاظ اصل مطلب معترض کے معنی صحیح ہیں گو… آیت کا مدعا یہ نہ ہو کہ ’’جب محمدؐ محمدیوں میں ہو.اس کے یہ معنی کہ محمد رسول اﷲ کی اصلی اور واقعی تعلیم پر ان کا ٹھیک ٹھاک عمل ہو اور سَرِمُوْ اُس کے پاک احکام سے وہ تجاوز و انحراف نہ کریں.پس کیا ہی صحیح بات ہے کہ جب تک محمدؐ محمدیوں میں ہو ان پر کوئی عذاب نہ آوے گا.ہم دعوٰی کرتے ہیں اور بڑی دلیری سے دعوٰی کرتے ہیں کہ اہل اسلام پر کوئی عذاب کبھی بھی نہیں آیا.جب تک محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان میں رہے بایں معنی کہ ان کے کلامِ مقدّس پر اہل اسلام کا ٹھیک ٹھاک عمل رہا.تاریخ صاف شہادت دیتی ہے کہ جب اہلِ اسلام نے اپنے پیارے ہادی کے نصائح سے انحراف کیا.جب ہی ان پر ادبار آیا.(فصل الخطاب ( ایڈیشن دوم) حصّہ اوّل ۱۵۳.۱۵۲)
۳۵. : یہ پیشگوئی تھی جو پوری ہو گئی.خانہ کعبہ کے متولّی نبی کریمؐ اور ان کی جماعت ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) ۳۷. : تیرے مخالف مال و دولت خرچ کریں گے.پھر ان پر افسوس ہو گا اور مغلوب ہوں گے.( اب ہمارے مخالف بھی اموال خرچ کرتے ہیں.دیکھیں کہ کس قدر وہ خرچ مفید ہوتا ہے؟ (نور الدین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۳۹) نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملہ میں بھی ناعاقبت اندیش تعلّی کرنے والے متکبّروں نے چندہ جمع کیا اور منصوبہ کیا کہ ہم اس کو نیست و نابود کر دیں گے اور خال میں ملا دیں گے.اس ناتوانی کی حالت میں نبی کریمؐ کو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے یہ صدا پہنچی.تیرے مقابلہ میں یہ صنادیدِ مکّہ بڑے بڑے مدبّر اور منصوبہ بازمال خرچ کریں گے .یہ سارا مال ان کیلئے حسرت و افسوس کا موجب ہو گا.افسوس تو اس لئے ہو گا کہ مال بھی خرچ کیا اور ناکامی کا داغ بھی لگا.مگر یہاں تک ہی انتہا نہیں.ابھی ایک اَور ذلّت ان کیلئے باقی ہے. پھر مغلوب ہو کر ذلّت کی موت مریں گے اب دیکھو.حالت تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم شہر میں پوری آزادی کے ساتھ کھل کر نکل نہیں سکتے اور نکلتے ہیں تو شہر سے باہر ایک ایسی غار میں جو خطرناک جگہ ہے چھُپے ہیں.اس پر یہ دعوٰی ہے کیا معنی؟ تیرے دشمن ذلّت اور ناکامی اور حسرتوں کی موت مریں گے.اس سے صاف طور پر معلوم ہوا کہ اﷲ جلّ شانہٗ کی وہ ذات پاک ہے کہ جس پر وہ راضی ہو جاوے اس کی بات عظیم الشان بات دکھلاتی ہے
لیکن اگر وہ راضی نہ ہو تو اس کی کوئی محنت اور کوشش کام نہیں دیتی.یہی وجہ تھی کہ مخالف اپنی اولاد، مال، سب رسم و رواج، سب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کودے بیٹھے.پھر دیکھو کس زور سے اذان میں کہا جاتا ہے.اﷲ اکبر.یعنی اﷲ تعالیٰ ہر گھمنڈی کا گھمنڈ توڑ سکتا ہے.ہر شیخی باز اور ہر منصوبہ باز کے بد ارادہ کو اظہار سے پہلے ہی تباہ کر سکتا ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۵) ۳۹،۴۰. : مغفرت کی شرط ہے کہ جن بدیوں میں گرفتار ہیں انکو چھوڑ دیں.: یہ لڑائی کی غرض بتائی کہ فساد نہ رہے.: یعنی جو عقیدہ دل میں ہو وہی ظاہر کر سکیں.سب دین اﷲ کیلئے ہو جائے.مومن کیلئے کوئی خوف مذہبی معتقدات و اعمال کا نہ رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء)
۴۲. : جو مال تم جنگ میں حاصل کرو.شرعی جائز طور پر.: پہلے فرمایا تھا(الانفال:۳۰)یہاں اس کا حصول یاد کرایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍ستمبر ۱۹۰۹ء) : خدا کی بڑائی کی اشاعت.کلام اﷲ کی اشاعت.: اس کے سوانح و احادیث کی اشاعت.اعتراضوں کا جواب.: امام کے ذی القُربیٰ بیت المال میں حق رکھتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۲۵۶) ۴۳.
مجھے یہ بات بتلائی گئی ہے کہ ان ہی نبیوں کا ذکر قرآن نے فرمایا ہے.جن کے بلاد میں نافرمانوں اور فرماں برداروں کے نشنات صحابہ کرامؓ کے لئے موجود ہیں.اور جہاں پیعمبرِ خدا نے دیکھ لینا تھا. صحابہؓ وہاں پر پہنچے.ان کا نمونہ یہ تھا.کہ نبی کی مخالفت اور متابعت کا کیا انجام ہوتا ہے؟ اب جب کہ ہر جگہ واعظ موجود ہے تو مجلس وعظ رفتنت خبط است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است (الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۱۴) ۴۴،۴۵. : امام حسن بصری نے منام کے معنے آنکھ کے کئے ہیں.کیونکہ منام کے معنی نیند کی جگہ کے ہیں جو آنکھ ہے.یہی معنی دلچسپ ہیں.ایک سوال کسی نے کیا تھا کہ بعض واقعات الہام کے خلاف کیوں معلوم ہوتے ہیں.میں نے یہ آیت یاد دلائی .(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) : تمہاری آنکھ میں تھوڑے دکھائے کیونکہ وہ کچھ ٹیلے پر آ گئے.کچھ ٹیلے کے نیچے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۲۵۶) ۴۶. : مظفر و منصور ہونے کا گُر بتایا کہ ثابت قدم رہو اور اﷲ کے حضور دعا بہت کرو (یہ کے معنی ہیں)
ایک دفعہ مجھ سے بھیرہ میں اولیاء اﷲ سے پکار کر دعائیں مانگنے کے عدِم جواز میں مباحثہ ہوا مخالفین نے یہ بات مان لی کہ ہم زمانہ سلف کے کسی بزرگ کا قول مان لیں گے.شاہ عبدالعزیزؒ کی تفسیر میں مجھے (مزمل:۹) کے نیچے یہ مل گیا کہ مسلمانوں میں جو اپنے پیروں کے حق میں علمِ غیب کا اعتقاد رکھتے ہیں.وہ مُشرک ہیں وہاں بڑے مکّار مولوی جمع تھے.ایک نے میرے پیٹھ پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا کہ بچّہ کیوں گھبراتے ہو.ہم تمہارے دشمن نہیں.گویا وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ میں گھبراہٹ کی حالت میں سب کچھ کہہ رہا ہوں.دوسرے سے میں نے کہا.تم ہی یہ عبارت پڑھ دو.وہ کھڑا ہو کر رونے لگا.اور کہا تفسیروں میں بھی تحریف ہو گئی یہ لفظ بیراں ہے جس سے مراد ہے کہ ہنومان وغیرہ سے دعا نہ کریں.گویا میری دلیل کو اپنے فریب سے مشتبہ کر دیا.اس وقت میں نے دعا کی اور ثابت قدم رہا.آخر میری فتح ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۴۷. : اس کا معنی ہے اور آپس میں تنازعہ مت کرو.اگر کرو گے تو پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا( قوّت.طاقت.رعب.نفاذِ حکم ) بگڑجائے گی سو حکم کی خلاف ورزی کا صحیح نتیجہ نکلا.نہی کا منشاء تھا کہ باہم پھُوٹ نہ کرنا.پس جب نہی کی خلاف ورزی ہوئی.اس کا ثمرہ ملا.اب بھی بعض ریاستیں صرف اس لئے قائم ہیں کہ بربادشدہ ریاستوں کی وجوہِ بربادگی بیان کریں.مگر اسلامی یک جہتی.وحدت کتاب.وحدت کلمہ.وحدت اعمال ضروریہ اور ظہور امام واحد یقین دلاتا ہے کہ بہار کے دن ہیں..کیا روز افزوں ترقی کو ہر روز ہم نہیں دیکھتے ہیں اور آنکھوں کو ٹھنڈا کرتے ہیں کہ اسلام کا انجام بخیر ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۵۹.۶۰ نط ص) یعنی اﷲ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو.اور انکی اطاعت اسی حال میں کر سکو گے جبکہ تم میں تنازع نہ وہ.اگر تنازعات ہوں گے تو یاد رکھو کہ قوّت کی بجائے تم میں بزدلی پیدا ہو گی اور جو تمہاری ہوا بندھی ہوئی ہو گی وہ نکل جاوے گی.یہ بات تم کو صبر اور تحمّل سے حاصل ہو سکتی ہے.ان کے اپنے اندر پیدا کرو.تب خدا کی معیت تمہارے ؟شاملِ حال ہو کر وحدت کی روح پھونکے گی.پس اگر تم کوئی طاقت اپنے اندر پیدا کرنا چاہتے ہو اور مخلوق کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہو تو صبر اور تحمّل سے کام لو اور تنازع مت کرو.اگر چشم پوشی سے باہم کام لیا جاوے تو بہت کم نوبت فساد کی آتی ہے.مجھے افسوس ہے کہ لوگ جسمانی بیماریوں کیلئے تو علاج اور دوا تلاش کرتے ہیں لیکن روح کی بیماری کا فکرکسی کو بھی نہیں.اس وقت مسلمانوں کی حالت کی مثال
ایک جنم کے اندھے کی سی ہے کہ اس سے اگر بینائی کی قدر بھی نہیں کیونکہ اس نے اس لذّت کو پایا نہیں.پس اس وقت کے موجودہ مسلمان بھی اس طاقت کی خوبی کو جو کہ قومی اتحاد اور وحدت سے پیدا ہوتی ہے نہیں پہچانتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ سلطنت انکے ہاتھ سے جا چکی ہے اور اس لئے انہیں اس اس طرف توجہ بھی نہیں کہ دوسرے کو اپنے ماتحت کس طرح کیا کرتے ہیں.آجکل اگرچہ ریفارمیشن کے مدعی تو سینکڑوں ہیں لیکن وہ کیا ریفارمیشن کریں گے جبکہ خود ہی بُغضوں اور کینوں میں گرفتار ہیں.دعوٰی تو یہ ہے مگر سمجھ نہیں کہ یہ خدا کے مامور ہی کا کام ہے جو کر سکتا ہے.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) ۴۸. ان لوگوں کی طرح نہ ہو جو اپنے گھروں سے گھمنڈ کے طور پر اور لوگوں کو دکھانے کیلئے نکلے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۹) ۴۹.
ابلیس اور شیطان کی اصل جن ہے اور ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ جو چیز اپنی ذات میں بُری اور پُر ضرر ہو وہ تو ابلیس ہے اور جس چیز کا ضرر متعدی ہو.دوسروں کو بھی دُکھ پہنچائے تو وہ شیطان ہے چنانچہ پارہ اوّل رکوع ۴ میں فرماتا ہے فَسَجَدُوْا اِلَّآ اِبْلِیْسَ.اِبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ جب تک اس میں انکار و استکبار تھا وہ ابلیس تھا لیکن جب اس کا ضرر متعدّی ہوا اورفَاَزَلَّھُمَا مجیدمیں غور کر کے دیکھ لو.جہاں جہاں ابلیس آیا ہے وہاں اس کا ضرر اپنی ذات میں ہے اور جہاں اس کا ضرر دوسروں تک پہنچا تو نام شیطان ہے.احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کا لفظ بہت وسیع ہے.آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک باز کو کبوتری کے پیچھے جاتا دیکھ کر فرمایا شیْطَانٌ یَّتْبنعُ شَیْطَانَۃً.اَلنِّسَآئُ حَبَآئِلُ الشَّیژطَانِ.غرض ظلمت کے مظاہر شیاطین ہیں اور نور کے مظاہر ملائکہ.(تشحیذالاذہان جلد ۶ صفحہ۴۳۶) ۵۴. یاد رکھو.خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ قانون یہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے فیضان میں تبدیلی اسی وقت ہو سکتی ہے اور ہوتی ہے.جب انسان خود اپنے اندر تبدیلی کرے.اگر ہم وہی ہیں جو سال گزشتہ اور پیوستہ میں تھے تو پھر انعامات بھی وہی ہوں گے.لیکن اگر چاہتے ہو کہ ہم پر نئے نئے انعامات ہوں تو نئے طریق پر تبدیلی کرو.(الحکم ۲۴؍ مئی ۱۹۰۱ء صفحہ۱۱) ۵۹. اﷲ نہیں دوست رکھتا خیانت کرنیوالوں کو.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۸۱.یج)
۶۰. لوگ اپنے دوستوں حاکموں محسنوں کا لحاظ تو کرتے ہیں مگر اﷲ جل شانہٗ کی عظمت و جبروت کا کچھ لحاظ نہیں کرتے.ان کی نافرمانی کئے جاتے ہیں.اﷲ خود فرماتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶۱. : اب بھی مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے مخالف کے مقابل دلائل و براہین کے ہتھیاروں سے مسلّح رہیں.دشمن کے مقابلہ کے لئے چار چیز وں کی ضرورت ہے.ا.دل یقین سے لبریز ہو.ایمان پکّا ہو.متزلزل نہ ہو.۲.دشمن کے حالات اور اسکی گھاتوں کی خبر ہو.۳.دلائل مضبوط.قولِ موجّہ جانتا ہو.۴.اﷲ پر بھروسہ اور اسی سے دعا اور اسی کے لئے مباحثہ ہو.جس میں یہ باتیں نہ ہوں.وہ ایسے لوگوں کو مدد دین.غرض دو قسم کے لوگ ہوئے ایک وہ جو مقابلہ کر سکتے ہیں.دوم وہ جو مالی مدد دے سکتے ہیں.ان کو ارشاد فرماتا ہے ..(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶۲. : اور اگر دشمن صُلح کرنے پر مائل ہوں.تو تُو بھی صُلح کی طرف جھُک جا.(نورالدّین ایڈیشن صفحہ۱۹)
۶۳. : یہ لوگ چندہ دینے سے مضائقہ کریں.تجھے چھوڑ دیں.تواﷲ بس ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶۴. یاد رکھو کہ الہٰی فضل کی بہت قسمیں ہیں اکیلے پر وہ فضل نہیں ہوتا اجو کہ دو کے ملنے پر ہوتا ہے اس کی ایک مثال دنیا میں موجود ہے کہ اگر مرد اور عورت الگ الگ ہوں اور وہ اس فضل کو حاصل کرنا چاہیں جو کہ اولاد کے رنگ میں ہوتا ہے تو وہ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک دونوں نہ ملیں اور ان تمام آداب کو بجانہ لاویں جو کہ حصولِ اولاد کیلئے ضروری ہیں.اسی طرح ایک بھاری جماعت پر جو فضلِ الہٰی ہوتا ہے.وہ چند آدمیوں کی جماعت پر نہیں ہو سکتا.ایک گھر کی آسودگی اور آرام کی فضل اگر کوئی حاصل کرنا چاہے تو جب ہی ہو گا کہ اُسے ما مائیں.خدمت گار اور سونے،پینے، کھانے.نہانے وغیرہ کے الگ الگ کمرہ اور ہر ایک کا الگ الگ اسباب مہیّا ہونے کی مقدرت ہو.ایسے ہی اگر ترقی کرتے جاؤ تو بادشاہت اور سلطنت کے فضل کا اندازہ کر سکتے ہو اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک تم پہنچانے کی کوشسش میں نہ لگا رہے گا تو تم خدا کے اس فضلِ عظیم کو حاصل نہ کر سکو گے.جو ایک بھاری مجمع پر ہوتا ہے.
میں اسی کی طرف اشارہ ہے.وحدت کی رُوح کو جو کہ صحابہ کرامؓ میں پھونکی گئی تھی اس کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تعبیر کیا ہے.اس وحدت کے پیدا ہونے کیلئے چاہیئے کہ آپس میں صبر اور تحمل اور برداشت ہو.اگر یہ نہ ہو گا اور ذرا ذرا اسی بات پر رُوٹھو گے تو اس کا نتیجہ آپس کی پھُوٹ ہو گا.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۱۰) دیکھو دو کو ایک کرنا سخت سے سخت مشکل کام ہے تو پھر ہزاروں کا ایک راہ پر جمع کرنا اور ان میں وحدت اور اُلفت کا پیا کر دینا خدا کے فضل کے سوا کہاں ممکن ہے.دیکھو تم خدا کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے.اس نعمت کی قدر کرو اور اسکی حقیقت کو پہچانو اور اخلاص اور اثبات کو اپنا شیوہ بناؤ.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ۸) ۶۵. بدیوں پر اسے جرأت ہوتی ہے جو مومن بِاﷲ نہ ہو یا مومن بِلیوم الآخرۃ نہ ہو.’’ یا مستحق کرامت گنہگار انند ‘‘ پر ایمان لایا یا صحبتِ بد میں رہنے والا.: اے نبی تجھے اﷲ بس ہے اور جو تیرے ساتھ مومن ہیں ان کو بھی اﷲ بس ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۷) ۶۶.
: ایک ہوتا ہے حثّ.یہ نرم لفظ ہوتا ہے.اس کے معنے ہیں ترغیب.دوسراؔ لفظ ہے حصََّّ.تیسراؔ لفظ ہے حَضَّ.چوتھاؔ لفظ حَرَّضَجس میں ان تینوں کے اور ۱؎ اور بھی ہے.اسکا ترجمہ اردو یا پنجابی کا تنہا لفظ برداشت نہیں کر سکتا.کو اس لئے کہا ہے کہ مومن ہمیشہ اﷲ کو اپنا کارساز سمجھتا ہے اور اسی پر ہر ۱؎ یعنی مزید! مزید!!.مرتّب حال میں بھروسہ کرتا ہے.صوفیوں میں ایک بحث ہے کہ تفویض اعلیٰ ہے یا توکیل.بعض کہتے ہیں کہ تفویض اعلیٰ ہے کیونکہ اس میں سب کچھ سپرد کر دیا جاتا ہے.: کفّار کا اﷲ پر بھروسہ نہیں ہوتا.اﷲ سے دُعا نہیں کرتے.اﷲ کتاب کے ساتھ تمسّک نہیں.ان سے اﷲ کے کسی بندے کی تائید و نصرت نہیں ہوتی اس لئے وہہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶۷. : موجودہ حالات میں چونکہ تم روحانی ترقیات کیلئے اعلیٰ مدارج پر نہیں پہنچے.جنگ کا تجربہ نہیں اس لئے ایک دو کے مقابلہ میں فتحیاب ہوں گے.مومن ہر روز ایک ترقی کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) : یعنی ایک زمانہ ایسا آئے گا اور فی الحال جو تم میں ضعف ہے تو سو دو سو کے مقابلہ میں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷) ۶۸.
: لڑائی کے بعد ہی قید کرنا جائز ہے.یوں اکّا دُکّا پکڑلیا جائز نہیں.: کیا تم کوئی دنیا کا سامان چاہتے ہو؟ (نہیں) (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷) ۷۳. : دینی مسئلہ پوچھے تو بتا دو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷) : ایک دوسرے کے سچّے دوست.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء)
۱. یہ سورۃ توبہ الگ سورۃ نہیں بلکہ انفال کا ایک حصّہ ہے.یہ ایک بے سُود بحث ہے کہ اس میں بِسْمِ اﷲ کیوں نہیں ہے.ہاں اس ٹکڑے کے علیحدہ کرنے میں ایک غرض تھی.مکّہ کی فتح کے بعد ابوبکرؓ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے انتظام کیلئے بھیجا تھا.اس کے بعد انہی آیتوں کے ساتھ حضرت علیؓ کو بھیجا.یہ ایک اعلانِ جنگ تھا جو کہ بطور یادگار کے علیحدہ رکھا گیا.اس اعلانِ جنگ میں وجوہات بیان کئے جاتے ہیں جن کی بناء پر جنگ کیا جائے.: بیزاری کا اظہار ہے.اﷲ اور اس کے رسول کی طرف سے.: عہد کیا.پھر توڑ دیا (اس کا ذکر آگے آتا ہے) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۲. : نبی کریمؐ نے ۱۳ برس وعظ کیا.بڑے بڑے دُکھ اٹھائے.۱۳ برس کے بعد مدینے میں آئے یہاں بھی آٹھ برس کفّار کا باوجود نیک سلوک کرنے کے بھی بدسلوک رہا.اب اکیس برس کے بعد کہا جاتا ہے.اگر توبہ کرو تو بہتر ورنہ عذاب الیم آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۴.
: اس سے معلوم ہوا کہ خطاب ان لوگوں سے ہے جنہوں نے معاہدہ میں نقض۱؎ کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۵. : یہ چار مہینے وہ ہیں جن کے اندر اپنا اپنا انتظام کر لینے کا نوٹس دیا جا چکا تھا.: دیکھئے کس قدر نرمی ہے.کہ عین جنگ میں جو توبہ کرے اسے بھی چھوڑ دو اور جو پنا ہ مانگے اسے پناہ دو.پھر شریر کہتے ہیں کہ اسلام بزور شمشیر پھیلا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶. : اس کے امن کی جگہ.جیل خانہ یا قتل مراد نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷)
۷. نقضِ عہد بہت بُری بات ہے.قرآن شریف کے تیسرے رکوع ہی میں ہے ۱؎ توڑا.مرتّب.(بقرۃ:۲۷.۲۸) مَیں بھی لوگوں کے عہد لیتا ہوں.عہد کے بعد میں کانپ جاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس سے کوئی معاہدہ ۱؎ نہ لوں تاکہ ایسا نہ ہو کہ اس میں نفاق آ جائے.مَیں تمہیں معاہدہ پر قائم رہنے کی سخت تاکید کرتا ہوں.موت کے وقت یہ اولاد.یہ دوست.یہ جتھے کبھی کام نہیں آتے.پس خدا سے اپنا معاملہ صاف رکھو.: جب وہ قائم رہیں.: معاہدہ پر پکّے رہنے والے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۸. : تمہارے مقابلہ میں اگر کوئی بھی انکی پیٹھ پر ہاتھ رکھنے والا ہو.: اِل کے معنی ہیں.۱.اﷲ ۲.قسم کھانا ۳.قرابت ماں کے لحاظ سے ۴.قرابت باپ کی طرف سے ۵.قرابت بیوی بہن کی طرف سے.: فاسق کے معنے قرآن نے کئے ہیں.(بقرہ:۲۸) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء نیز تشحیذالاذہان جلد دوم نمبر۹)
۱۱. صحابہ میں کسی عمداً تارک الصلوٰۃ کی نظیر نہیں ملتی.یہی وجہ ہے کہ صحابہ جو نماز نہ پڑھتا.اسے مسلم نہیں سمجھتے تھے اور مسلمان ہونے کا امتیازی نشان بھی یہی قرار دیا گیا.چنانچہ فرماتا ہے ۱؎ معاہدۂ بیعت مراد ہے.مرتب .یعنی اگر شرک سے توبہ کر لیں نماز قائم کرتے رہیں زکوٰۃ دیں تو تمہارے دینی بھائی ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۹) ۱۲. اور اگر وہ عہد کر کے پیچھے اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمہارے دین میں طعن کریں تو ان کفر کے سرداروں سے جنگ کرو ان لوگوں کی قسمیں و سمیں کچھ بھی نہیں تاکہ باز آ جاویں.کیا وجہ ہے کہ تم ایسے لوگوں سے جنگ نہ کرو جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ ڈالیں اور اس رسول کے نکال دینے پر تہمتیں لگائیں اور انہوں ہی نے تم سے ابتداء (جنگ) بھی کی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۵۳) : اس لئے نہیں کہ تمہارے ہم خیال ہو جاویں بلکہ یہ کہ بدی سے باز اآجاویں.یہ غرض نہیں کہ سارا جہان مسلمان ہو جاوے بلکہ صرف یہ کہ فتنہ اٹھ جائے اور دین اﷲ کیلئے ہو جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء )
۱۳. تم کیوں جنگ نہیں کرتے ان لوگوں سے جنہوں نے توڑ دیا اپنی قسموں کو عہد کرنے کے بعد اور ارادہ کر لیا.رسول کے نکال دینے کا اور انہی لوگوں نے پہلی دفعہ تم سے جنگ کرنے میں ابتداء کی.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۴۳) ۱۴. : وہ ، جو تمہیں مقابلہ سے دُکھ درد پہنچاہے، اس کو دور کر دے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) ۱۶. : دین میں آدمیوں کی کثرت کی ضرورت نہیں.بلکہ ایسے لوگوں کی جن میں استقلال.راستبازی.عاقبت اندیشی.ہمّت بلندی ہو.: دِلی دوستی والا : بدیوں سے رکنے کیلئے اس آیت کا مطالعہ بہت ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر وقت ساتھ ہے.ہمارے ہر کام سے باخبر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء )
۲۱. خدا تعالیٰ نے ہمارے تمام اقوال و افعال بلکہ دنیا کی تمام اشیاء میں مراتب رکھے ہیں.مراتب کو نگاہ رکھنا بڑا ضروری ہے.دنیا میں نیکیاں ہیں.پھر ان سے بڑھ کر اور پھر ان سے بڑھ کر مثلاً فرمایا کہ راستہ میں کوئی کانٹا یا دُکھ دینے والی کوئی چیز ہو تو اس کو الگ کر دو.یہ ادنیٰ نیکی ہے.صوفیوں کے نزدیک اماطۃ الاذٰی سے مراد رذائل ہیں جو خدا تک پہنچنے میں روک ہو جاتے ہیں.پھر اس سے بڑھ کر ایمان باﷲ و الرسول ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ بڑے بوڑھے لوگ چھوٹی چیز کی طرف توجہ کرتے ہیں اور بڑی کا خیال نہیں رکھتے مثلاً تہجّد کے لئے اُٹھیں گے.خواہ صبح کی نماز قضاء ہی ہو جائے.اس حفظ مراتب نہ کرنے سے نقصان پہنچتا ہے.اس رکوع میں اﷲ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو خوب کھولا ہے مکّہ والوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی اعتراض کیا اور ایک یہودی سے کہا کہ دیکھو ہم حجاج کی خدمت کرتے ہیں اور مسجد حرام کی مرمت کرتے رہتے ہیں.کیا ہم محمدیوں سے اچھے نہیں جنہوں نے آکر پھُوٹ ڈال دی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ ان کے مقابلہ میں ان مشرکین کے چھوٹے چھوٹے کام کچھ بھی نہیں.: اس سے پہلے اعظم درجۃً بھی ایک دعوٰی تھا.اس کا ثبوت دیتا ہے کہ انہیں جنّت اور ابدی نعمتیں ملیں گی پھر کامیاب ہوں گے اور یہ پانی پلانے پر نازاں خائب و خاسر رہیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) ۲۵. دنیا میں جس قدر کام ہیں دین کے ہوں یا دنیا کے.ہر ایک کام کیلئے ایک نہ ایک سبب ہوتا ہے اب جو لوگ صرف اس کام پر بھروسہ کرتے ہیں وہ جب ناکام ہوتا ہے.ان کو بڑا دُکھ ہوتا ہے.مگر جن کا بھروسہ اﷲ پر ہوتا ہے وہ ہمّت نہیں ہارتے.اسی لئے مومن ایک دُعا نماز میں پڑھتا رہتا ہے.جو بقول ایک امام کے واجب ہے..اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَ الْحُذْنِ وَاعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ.جب مومن کا اﷲ پر بھروسہ کم ہو تو اُسے متنبہ کرنے کیلئے کسی امر میں بظاہر ناکام رکھتا ہے تا وہ اپنی ایمانی حالت کو درست کر لیں.
ہوزن و حنین کے مقابلہ کے وقت صحابہ بارہ ہزار آدمی تھے.اس وقت مسلمانوں کے دلوں میں گھمنڈ آ گیا.کہ اب ہم ضرور کامیاب ہوں گے.یہ ایک عُجب تھا.اس لئے حنین میں پہلے ناکامی ہوئی.جس طرح لاہور کی فتح کے بعد انگریزوں سے چیلیاں ( والا) موجیاں ( والا) وغیرہ پر جنگ ہوئی تھی اور وہ سکھوں کی مذبوحی حرکت تھی.اسی طرح مکّہ کی فتح کے بعد چند بھگوڑے ادھر ادھر جمع ہو کر حنین میں مقابلہ پر آئے.اَعْجَبَتْکُمْ: عُجب میں ڈالا کہ ہمارا جتّھہ، ہمارا فہم ہمارا زور بہت زیادہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء جلد ۹ نمبر ۱ صفحہ ۱۱۴ ) غزوہ حنین میںاِذْ اَعْجَبَتْکُم کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا وَّ ضَاقَتْ عَلَیْکُمُ الْاَرْضُ بِمَارَحُبَتْ کی آیت نازل ہوئی.کہ کثرت نے عُجب دلایا تو یہ کثرت کسی کام نہ آئی بلکہ زمین باوجود فراخی کے تنگ ہو گئی.ایسی تنگ گھڑیوں میں جب سب سے ساتھ چھوٹ گیا.حضرت سرورِ کائناتؐ اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا اِْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ پکارتے جاتے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۷) غزوہ حنین میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اس کا سبب خود ہی قرآن نے بتایا ہے… جب تمہاری کثرت تمہیں گھمنڈ میں لائی پس تمہارے گروہ تمہارے کسی کام نہ آئے پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے اہل اسلام اس غزوہ میں اپنی کثرت و جمیعت پر پھُول گئے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان ہدایت نشان کو طاق پر دھر دیا اور اس خداداد قوّت اور عطیّہ سے جسے حزم کہتے ہیں کام نہ لیا.اس لئے وہ چند لمحہ کی اور جلد تدارک پانے والی تکلیف انہیں پہنچی.کیونکہ وہ لوگ حکمِ رسولؐ سے غافل ہو گئے پس یقیناًرسول اﷲ ان میں اور وہ رسول اﷲ میں اس وقت نہ تھے گو تھوڑی دیر بعد پھر نصرتِ الہٰی نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا.ایسا ہی جو صدمہ اہلِ اسلام کو غزوۂ اُحد میں پہنچا.اس کا سبب بھی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نافرمانی ہوا.کہ عبداﷲ بن جبیر کے ہمراہیوں نے بخلاف حکم آنحضرت صلی اﷲ عیہ وسلم کے اونچے ٹیلے کو جس پر ثابت رہنے کیلئے آپؐ کا تاکیدی حکم تھا.چھوڑ دیا.اس لئے وہ صدمہ انہیں پہنچا جس کا تدارک فضلِ ایزدی نے بہت جلد کر دیا… پس یہاں بھی کیسی صاف بات ہے کہ اس مصیبت کے نزول پر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ان میں نہ تھے کہ عدولِ حکمی سے یہ سزا ان پر آئی.
شاید کسی کے دل میں یہ وسوسہ گزرے کہ خود آنحضرت پر بھی تکلیف و مصیبت آئی.سو یاد رکھنا چاہیئے کہ قوم کا خیر خواہ اور ان کا دلی ہمدرد، ہادی و مصلح ہر حال میں اپنی قوم کا شریک ِ نیک و بد رہتا ہے بعض اوقات میں اس لزوم کی وجہ سے ضرور ہے کہ ان لوگوں کے مصائب و آلام سے اُسے بھی حسبِ قانونِ قدرت بِہرہ ملے تاکہ ہر حال میں ان کا ہمدرد اور سچّا رفیق و انیس ثابت ہو.پس یوں ہی ہوا کہ جب اس معرکے میں بعص کو تاہ اندیش آدمیوں کی غلطی کے سبب سے مسلمانوں پر ایذاء آئی.سچے ہمدرد رسول مقبولؐ نے ان سے الگ ہوناگوارر نہیں فرمایا.بلکہ ان کی شمولیت میں اُس دُکھ سے حصّہ لیا.اسی لئے ہاں وجودِ بانود کے طفیل پھر رحمتِ الہٰی ان لوگوں کی ممدو معاون ہوئی.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم جلد اوّل صفحہ ۱۵۴،۱۵۵) ۲۶. : رسول اﷲ علیہ وسلم نے اپنی خچر کی باگ ان سو نیزہ زنوں کی طرف پھیر دی اور کہا.اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) جن لوگوں کو حضرت نبی کریمؐ کی اتباع اور معیّت کا شرف بخشا اور چاہا کہ انہیں دنیا پر حق کو پھیلانے کا آلہ اور ذریعہ بنائے.ان پر یہ فضل کیا کہ ان میں اخلاص و حدت.خداترسی.شجاعت.عفّت.صلح.خودداری.استقلال اور توجہ الی اﷲ کی قوّت بڑھتی جاتی تھی اور ان کے مخالفوں میں نفاق.غرور.کبر.تہوّر.جُبن فِسق.فجور.غضب.عجز وکسل اور غفلت ترقی پر تھی.اس روحانی لعنت کے قبضہ میں ہو کر اگرچہ وہ لوگ ان برگزیدوں کے مقابل اپنی ساری طاقتوں اور مال اور جان کو خرچ کرتے مگر نامراد اور ناکام رہ جاتے اس قصّہ کو اب ہم لمبا نہیں
کرتے.اصل بات سناتے ہیں.عرب میں ان دنوں میں جنگ کا یہ دستور تھا کہ پہلے مبارزہ ہوا کرتا تھا.یعنی ایک آدمی دوسرے کے مقابل نکلتا.پھر مبارزہ کے بعد تیروں سے جنگ کی ابتداء ہوتی تھی.اور قاعدہ ہے کہ اگر ایسی جنگ کے وقت تیز ہوا چل پڑے.تو اس وقت جس لڑنے والی فوج کی پیٹھ کی طرف سے ہوا آئے گی.اس کی آنکھوں کو کچھ حرج نہیں پہنچے گا.اور ان لوگوں کے تیروں کو مدد دیگی.مگر جس فوج کے سامنے ہوا کا دھکا ہو گا.ان کی آنکھوں میں پڑے گا.نہ وہ ٹٍیک نشانہ لگا سکیں گے.اور نہ مقابل کو اچھی طرح دیکھ سکیں گے.ایسی باتیں بہت جنگوں میں ہمارے نبی کریمؐ کے عہدِ سعادت مہد میں پیش آئیں.چنانچہ بدرؔ اور حنینؔ بلکہ احزاب و خندق میں بھی ایسے ہی واقعات وقوع میں آئے.اسی نعمت کے یاد دلانے کیلئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے(سورۃ الاحزاب:۱۰) (التوبہ:۲۶)جب حضرت ہادیٔ کامل ( صلیّ اﷲ علیہ وسلم) نے مخالف کا زور زیادہ دیکھا تو ایک مٹھی کنکروں کی مخالف کی طرف پھینکی اور دوسری طرف اس وقت جنابِ الہٰی نے اپنی سُنَنْ میں وہ وقت رکھا تھا کہ کنکر پھینکنے والی تیز ہوا چل پڑی اسی طرح عادۃ اﷲ ہے.اس طریق سے سلسلہ نظامِ کائنات یعنی جسمانی سلسلہ بھی قائم رہتا ہے اور روحانی سلسلہ اور الہٰی سلسلہ یعنی انبیاء و اولیاء اور مومنین کی فتح و نصرت کا سلسلہ بھی قائم ہے اور روحانی سلسلہ اور الہٰی سلسلہ یعنی انبیاء و اولیاء مومنین کی فتح و نصرت سلسلہ بھی قائم رہتا ہے.اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کی نصرت کے وقت ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جو انسانی طاقت سے بالا تر ہوتے ہیں اور ہوتے ہیں اس کی سنّت اور قانونِ قدرت کے موافق.چنانچہ میں ایک ذاتی واقعہ سناتا ہوں جو اسی طرح تہیّہ اسباب اور اسی قسم کی خدا کی نصرت کا ثبوت ہے.مرزا نظام الدّین
اور مرزا امام الدّین نے ایک مقدمہ کیا جس میں شیخ خدا بخش جج تھے.میں اس مقدمہ میں گواہ کیا گیا.ان دنوں ایک شخص مخدوم پیرزادہ ٹنڈوالہ یار علاقہ حيدر آباد سندھ کا رہنے والا علاج کیلئے قادیان میں آیا اور اس نے مجھے نذر کے طور پر آخر ایک سو روپیہ دیا.اور بااینکہ امام الدّین نظام الدّین نے اس کی دعوت بھی کی تھی مگر قدرتِ الہٰیہ نے ان دونوں کو پتہ نہ لگنے دیا کہ اس مخدوم نے مجھے ایک سو روپیہ دیا ہے.گواہی کے وقت جب مجھ پر جرح ہونے لگی تو آریہ وکیل نے مجھ پر سوال کیا.کیا آپ کو اس سال کسی نے یک دفعہ ایک سو روپیہ بھی اس پیشہ طبابت میں دیا ہے؟ میں دل میں حضرت حق سبحانہ، و تعالیٰ کیلئے سجداتِ شکرادا کرتا ہوا بول اُٹھا.کہ ہاں فلاں مخدوم سندھی نے دیا ہے.تب ہمارے مخالف ایسے مبہوت ہوئے کہ آئندہ سوالات جرح سے خاموش ہو گئے.منشاء مخالف کا اس سوال جرح سے اتنا ہی تھا کہ میری حیثیتِ خدا داد کو باطل کرے.مگر اس داؤ میں خائب و خاسر ہو گیا.میں نے اس شکریہ میں پچاس روپے مخدوم صاحب کو بذریعہ منی آرڈر واپس کر دیئے.اب سوچو.مخدوم کا بیمار ہونا.اس کو میرا پتہ لگنا اور سو روپیہ مجھے دینا اور اسکے اظہار کا موقعہ ایسے وقت پر ہونا کہ دشمن خاک میں مل جاوے.کیسا تعجب انگیز ہے؟ اور خدا پرست کے لئے کسی طرح مقام شکر کا ہے؟ حقیقی فلسفہ اور سائنس دانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ امور اتفاقی طور پر نہیں ہوا کرتے.اس طرح کے واقعات جن کو میں نے اپنے متعلق بیان کیا ہے.ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں خدا پرست ان کے وقوع سے شکر گزار ہوتے اور سجداتِ شکر کرتے ہیں.غافلوں، بدمستوں کے سامنے یونہی گزرجاتے ہیں کہ گویا وقوع پذیر ہی نہیں ہوئے.حضرت موسٰی علیہ السلام کا فلق بحر ( دریا کا پھٹ جانا) انفجار العیون ( بارہ چشموں کا
۲۸. : جن چیزوں سے عُجب.غفلت وغیرہ پیدا ہوتی ہے.ان سے قطعِ تعلق کا حکم دیا.: یہ خیال ہو کہ ہم غریب ہو جاویں گے.نذر و نیاز بند ہو جائے گی تو فرمایا کہ اﷲ غنی کردیگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) کیا وہ لوگ جو بیت اﷲ سے صحابہ کرامؓ اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو روکتے تھے.آکر خود ہی بڑی ذلّت کے ساتھ وہاں سے نہیں نکالے گئے.اور انہوں نے اپنے لئے یہ اٹل حکم نہ سُن لیا..وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکنے پائیں حضرت مسیحؑ کے حواری چند مچھیرے اور محصولیے تھے مگر خدا نے مسیحؑ کے متبعین کو وہ شان دی کہ اس کے ادّعائی متبّعین کو بھی سارے جہان کی حکومت بخش دی.(تشحیذالاذہان جلد ۶نمبر ستمبر ۱۱۹۱ء صفحہ۳۵۵) ۲۹.
: اس کا مطلب یہ ہے کہ دین حق انہوں نے کسی اہل کتاب سے نہیں لیا.بلکہ من گھڑت باتو ں کی پیروی کر رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۳۰. دنیا میں کئی مذاہب آتے ہیں پھر مٹتے ہیں.ایک فرقہ تھا.یہود سے وہ حضر موت ( غربی کنارۂ یمن)میں رہتا تھا.وہ عُزیر کو ابن اﷲ کہتے تھے.ہجری چوتھی صدی کے اخیر تک انکا بقایا رہا ہے.پس یہ اعتراض نہیں چاہیئے کہ اب تو یہود نہیں کہتے.عزیر ابن اﷲ تھے.کیونکہ دنیا میں ایسا ہوتا آیا ہے.دیکھو قسطلانی.داؤد ظہری.لیث کے متبّعین اب نہیں پائے جاتے.مگر کتابوں میں انکار ذکر ہے.: محبّت کے الفاظ جو خاص موقعہ پر کسی عنایت کے اظہار کیلئے بولے جاتے ہیں.ان کو شامل عقیدہ کرنا گناہ ہے.خدا نے اس محاورہ کو سمجھایا ہے..نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اﷲِ وَاحِبَّآؤُہٗ گویا ابناء کے معنے بتا دیئے.: اﷲ ان پر لعنت کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۳۱. : ربوبیت کی شان اپنے فقیروں اور ملًّانوں کو دے دیتے ہیں.: یہ تورات کی آیات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تیرے لئے میرے
حضور آسمان و زمین میں کوئی خدا نہ ہو.: اﷲ کے افعال.صفات.عبادت میں کوئی شریک نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء نیز تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۴۸) ۳۲،۳۳. : اپنے منہ کی تقریروں سے.: تا غلبہ ثابت کر دے.اس پیشگوئی کیلئے یہی زمانہ ہے.کیونکہ تمام ادیان کے عقائد ظاہر ہو چکے.اب قرآن شریف کے غلبہ کے ثبوت کا پورا موقعہ ہے.افسوس کہ مسلمان ابھی تک سوئے ہوئے ہیں.ایک ٹکڑا ان کی زمین کا کوئی چھین لے تو یہ مقدمہ بازی میں لنڈن تک جا پہنچیں.مگر ان کا مذہب، انکی سلطنت، جاتی رہی تو انہیں کچھ پرواہ نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) : یہ زمانہ مسیح کا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷) ۳۴.
: مسجدوں کے ملّاں اپنے فرائض سے غافل ہیں.لوگوں نے انکی وجہ معاش کا بندوبست کیا تا وہ علم پڑھیں اور ہمارے بچوں کو دین سکھائیں.مگر وہ اور ہی جھمیلوں میں پڑ گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) ۳۵. : سائل جب پہلے سوال کرتا ہے تو بخیل مسئول اس کے سوال کا ردّ پہلے ماتھے کے شکن کے ذریعہ کرتا ہے پھر منہ پھیرتا ہے پھر پیٹھ دے کر چلا جاتا ہے.اس لئے سزا میں ان تینوں جگہوں کا ذکر کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) ۳۶.
: اﷲ کی پاک شریعتوں میں.خدا ئی حساب چاند کے ساتھ وابستہ ہیں اور دنیاوی حساب آفتاب سے.دونوں میں کئی دنوں کا فرق پڑ جاتا ہے.دنیاداروں نے شمسی حساب کو پسند کیا کیونکہ زیادہ فرق نہیں پڑتا.اور چاند کے حساب پر چلیں تو تین برس میں ایک ماہ اور چھتیس سال میں ایک سال کا فرق پڑ جاوے.اور اس حساب سے تنخواہ لینے والا ملازم بڑے فائدہ میں رہ سکتا ہے.دینی کام چاند کے حساب پر کرنے میں صوفیاء نے ایک نکتہ لکھا ہے کہ امّت محمّدیہ ہر شمسی مہینے میں اپنی ہر عبادت کرنے کا فخر رکھتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء ) ۳۷. : عرب کے مشرکین باہر تجارت کیلئے جاتے تھے دقّت میں پڑتے تھے.اس لئے وہ کبھی محرّم کو صفر بنا لیتے اور کبھی کچھ.جس سے لوگوں کو مغالطہ ہوتا.اور بہت سا فساد پڑ جاتا.سُود خوروں نے بھی ایک فساد کیا ہے.کہ لونّد کا مہینہ رکھ لیا ہے اور بارہ کی بجائے تیرہ کا سود لیتے ہیں اور کبھی مہینے کے دن بڑھا لیتے ہیں.اس بہانے سے کہ حساب پورا ہو جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء نیز تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۷ ) ۳۸،۳۹.
ہر قوم بلکہ ہر شخص کیلئے ایک امتحان ہے جس سے اُس کے جوہرِ مخفی معلوم ہوتے ہیں.خدا نے ابوالحنفاء.ابوانبیاء ابراہیمؑ کا ابھی امتحان لی..مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرًکے مخاطبوں کا بھی امتحان لیا.امتحان کئی قسم کا ہے.ایک ذلیل کرنے کیلئے (الاعراف:۱۶۴)ایک اس لئے کہ اپنی غلطیوں کو چھوڑ دے.(الاعراف:۱۶۹) ایک کمالات کے اظہار کیلئے جیسے (البقرۃ:۱۲۵) : غرض تمہاری اس سفر میں دنیا کی کوئی خواہش ہو رہی ہے.: لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تنزّل میں ہے.یہ غلط ہے اسلام ضرور دنیا میں رہے گا.مگر ڈر تو یہ ہے کہ اسلام ہمارے گھروں سے نکل کر کسی اور قوم میں چلا جائے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اُتْرُکُوا التُّرْکَ مَا تَدَکُوْکُمْ.خوارزم۱؎ کے ایک بادشاہ نے اس کے خلاف کیا.چنگیزخانیوں کو لڑائی کیلئے بلایا.اس نے جواب میں کیا عمدہ لکھ کہ اوّل تو تمہارا قرآن شریف مانع ہے.کیونکہ اس میں حکم ہے.(البقرہ:۱۹۱) دومؔ ہم تمہارے ساتھ لڑتے نہیں.حدیث میں ترک کے ساتھ جنگ کی ممانعت ہے سومؔ ہمارے تاجر تاجرانہ حیثیت سے آئے ہیں.سلطنت سے کچھ تعلق نہیں.اس ناعاقبت اندیش نے اس پر غور نہ کیا.لڑائی چھیڑ دی.آخر اٹھارہ لاکھ مسلمان اس میں ہلاک ہوئے.تمام کتب خانے تباہ ہوئے.ہزار آدمیوں کو جن کی نسبت خیال تھا.دعوٰی سلطنت کریں گے زندہ دیوار میں چنوا دیا.غرض یہ سب کچھ مسلمانوں نے دیکھا اور نافرمانی نے دکھایا.مگر نافرمانی کو نہ چھوڑا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء)
۴۰. : حُزن نبیوں کو بھی پیدا ہو سکتا ہے.بلکہ خوف بھی.سورۃ یوسف میں (یوسف:۱۴) (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۷) ۱؎ ترکوں کو تب تک چھوڑے رکھو جب تک وہ تمہیں چھوڑے رکھیں.(مرتّب) ۴۱. : دینی کام میں چلو.: میرے ذوق کے مطابق اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ مباحثہ میں کتابوں کے انبارلیجانے کی ضرورت نہیں ہوتی.حَسُِْنَا کِتَابُ اﷲِ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۴۳.
حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور چند آدمی عُذر کرنے آئے کہ ہم غزوۂ تبوک میں جا نہیں سکتے.انبیاء کی طبیعت میں رحم ہوتا ہے.فرمایا.اچھا.: اﷲ تعالیٰ ناراض نہیں بلکہ محبّت سے فرماتا ہے.تم بڑے در گزر کرنے والے ہو.اﷲ نے بھی تم سے درگزر کی.: اس سے ظاہر ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کسی حکم کے خلاف کاروائی نہ کی تھی.چنانچہ پارہ ۱۸ نورؔ کے آخری رکوع میں فرمایا. (نور:۶۳) اس سے معلوم ہوا کہ اذن مانگنا مومن کا کام ہے.یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اذن لینا کفّارہ کا کام ہے.یہ اختلاف نہیں بلکہ اختلاف مواقع پر مبنی ہے یہاں اذن مانگنے والوں کے جھوٹ کا ثبوت دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۴۵. : اس وقت جو اجازت مانگتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹صفحہ۴۵۷) ۴۸. : تیری باتوں کو زیر و زبر کرنے کی کوشش.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۴۹.
: ایک شخص نے کہا یا رسول اﷲ! میری قوّت شہوانی بڑی تیز ہے.میں عورتوں کو دیکھ کر گھبرا جاتا ہوں.ایسا نہ ہو میں وہاں گرفتار ہو جاؤں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۵۱. : جو قانون کے مناسب ہو.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹صفحہ۴۵۷) ۵۲. : شہید ہوں گے تو مقّرب بارگاہِ الہٰی ہوں گے.فاتح ہوں گے تو عزّت پائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۵۳. نیکیاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک جڑھ.دومؔ.اسکی فروع.کئی ایسی بھی ہیں جو اس جڑھ سے تعلّق نہیں رکھتیں.شاخوں کی سرسبزی اصول کی آبیاری پر موقوف ہے.چونکہ تمام نیک کاموں کی جڑھ ایمان ہے.اس لئے اسکی محافظت ہر طرح مقدّم ہے.اسی طرح فرائض کو نوافل پر تزحیح ہے.
: بہت لوگ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں چندوں میں شریک ہوتے مگر چونکہ ایمان میں پورے نہ تھے.اس لئے فرمایا یہ چندے مقبول نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۵۴. : یہ کا ثبوت دیا ہے.ایمانی حالت کا اندازہ اعمال سے ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۵۵. : بیٹے مسلمان ہوں گے.اور ان کے مال اﷲ کی راہ میں دے دیں گے جس سے کفّار باپوں کو دُکھ ہو گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۵۷) ۶۰.
: اس سے مراد یہاں زکوٰۃ کا روپیہ ہے.اس کے مصارف بیان فرماتا ہے.: یہ فقیر کی جمع ہے جس کے معنے ہیں محتاج.یہ کئی قسم ہیں.مثلاً کوئی شخص یوں تو دولتمند ہے مگر اتفاقاً ریل کے سٹیشن پر اس کے پاس روپیہ نہ رہا.تو اس وقت وہ فقیر ہو گیا.گویا ایک وقت ایسا آ گیا کہ محتاج ہو گیا.: جو ہاتھ پاؤں نہ چلا سکے.یہ بھی کئی قسم ہیں.مثلاً ایک جلد ساز ہے اور اس کے پاس جلد کرنے کا سامان نہیں تو وہ مسکین ہے.: نبی کریمؐ کے زمانے میں زکوٰۃ آپؐ کے حضور پہنچائی جاتی تھی.پس جو اس کو جمع کرنیوالے تھے انکو عاملین کہتے.: مثلاً ایک سکھ یا عیسائی آ گیا.اب اسے مکان چاہیئے کھانا چاہیئے وغیرہ ضروریات.: غلام اور ایسے قیدی جو بذریعہ روپیہ خلاصی ہو سکیں.: دشمن کے مقابلہ کیلئے جو تیاری کرنی پڑتی ہے.اگر لڑائیوں کے دن ہیں تو اس میں رسد و ہتھیاروں کی ضرورت ہے.اگر قلم کی جنگ ہے تو پھر کتابوں کی تصنیف و تالیف و اشاعت کا خرچ ہے.اور اگر روبُرو مکالمہ ہے تو عمدہ تقریر.کلامِ موجّہ کی ضرورت ہے.اس پر بھی روپیہ خرچ ہوتا ہے.میرے نزدیک آجکل قرآن و حدیث کی ترویج میں لگانا ہے.: مسافر لوگوں کو عجیب عجیب ضرورتیں پیش آتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ ستمبر ۱۹۰۹ء) زکوٰۃ کیا ہے ایک قومی اور مشنری چندہ ہے جس میں سوائے خاص مصرفوں کے کسی متنفس کی خصوصیت نہیں.زکوٰۃ اور صدقات کن لوگوں کیلئے ہیں.دیکھو قرآناِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَدَآئِ وَالْمَسَاکِیْنِ اِلٰی فَرِیْضَۃً مِّنَ اﷲِ آلِ محمدؐ کی قوم بنو ہاشم پر زکوٰۃ اور صدقہ حرام ہے انکو جائز نہیں کہ ان مشنری چندوں سے کچھ لیں.گو کیسے ہی غریب اور مسکین کیوں نہ ہوں.منصفو! یہ استثناء بھی قابلِ غور ہے.امام حسین رضی اﷲ عنہ بچے تھے تو آپؓ نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھالی اور چاہا کہ منہ میں ڈالیں.جناب رسالت آبؐ نے منع فرمایا.اور منہ سے نکلوا دی.(فصل الخطاب طبع دوم جلد اوّل صفحہ ۳۶)
خیرات تو فقیروں.مسکنیوں اور صدقات کے کارکنوں اور ان کافروں کا جن کو اسلام و مسلمانوں سے لگاؤ ہے.حق ہے.صدقات کو غلاموں کے آزاد کرنے اور جن پر خاص آفتیں آئی ہیں.انکی امداد دینے اور خدائی کاموں جہاد وغیرہ اور مسافروں کی مددگاری میں خرچ کرو.یہ امر اﷲ کی طرف سے نہایت ضروری ہے اور اﷲ تعالیٰ علم والا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۳ نیز فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۳۶) ۶۴. : منافقوں کی پہچان کیلئے بہت عجیب عجیب باتیں کلامِ الہٰی میں آئی ہیں.ان میں سے ایک ھَمُّوْا بِمَالَمْ یَنَالُوْا (توبہ:۷۴) بھی ہے.: بدکار کی بدکاری عام پور سے ظاہر ہو اجاتی ہے کُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُشعروں میں سے ایسے شعر بھی اس مد میں شامل ہیں ؎ دل از محرِ محمد ریش دارم رقابت باخدائے خویس دارم تقدیر بیک ناقہ نشانید دو محمل سلمائے حدوثِ تو ولیلائے قِدم را (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۶۷.
ہر ایک چیز اپنے نشان سے پہچانی جاتی ہے.درخت اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.کسی پر مثلاً غضب آوے تو چہرہ پر اس کا اثر ضرور ظاہر ہوتا ہے.غرض انسان کے اندر جو کچھ ہو اس کا اثر ظاہر ہو ہی جاتا ہے.یہاں منافقوں کا ذکر ہے اس لئے ان کا نشان بتاتا ہے تا تمہیں اپنے نفسوں کے محاسبہ کا موقعہ ملے.یَاْمُرُوْنَ بِالْمُنْکَرِ: منافق کے اندر چونکہ پسندیدہ بات کوئی نہیں ہوتی اس لئے وہ تحریکیں بھی ناپسندیدہ امور ہی کی کرتا رہتا ہے.: چونکہ اسے جزا و سزا کے مسئلہ پر پورا یقین نہیں ہوتا.اس لئے وہ کُھلے دل خرچ فِیْ سَبِیْلِ اﷲ نہیں کر سکتا.: پس اس نے ان کو چھوڑ دیا.اﷲ کسی کو بھُولے.یہ غلط بات ہے.خرچ مال بڑھانے سے بڑھتا اور گھٹا نے سے گھٹتا ہے.ایک ہزار روپیہ روز پر بھی گزارہ ہیں اور ہمارے حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ایک پیسہ پر انسان آٹھ پہر گزار سکتا ہے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے.ایک وزیر اعظم نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے یہاں دو روپے پر امیدواری کے دو ماہ گزارے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۷۲. : اور اﷲ کی خوشنودی تمام نعمتوں سے بڑی ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۳۵) قرآن شریف جو کے درجہ پر پہنچانا چاہتا ہے یہ کوئی چھو ٹی سی بات نہیں ہے.ایک چوکیدار اگر راضی ہے تو گھر والا کتنے گھمنڈ اور ناز میں رہتا ہے اور اگر ایک ڈپٹی انسپکٹر پولیس اس کا حامی ہو تو اپنے آپ کو کیا کچھ سمجھتا ہے
تم نے بھی بہت سے لفظ سُنے ہوں گے.اچھے اچھے متین کہہ اُٹھتے ہیں.فلاں شخص ہمارا دوست ہے اسکو کہہ کر فلاں کو گرفتار کرا دیں گے.نوکری کیلئے سفارش کر دیں گے.چہ جائیکہ صوبہ کا حاکم یا بادشاہ کے ساتھ تعلق ہو.پس وہ احکم الحاکمین مولیٰ کریم تو ذرّہ ذرّہ پر حاکم ہے.جہاں واہمہ کی واہمہ بھی برداشت نہیں کرتی.کہ اگر وہ راضی ہو جاوے تو کس قدر خوشحالی پیدا ہو سکتی ہے.اسی بناء پر وہ دعوٰی ہے جو آج بہت سے بھائیوں نے سنا ہو گا کہ دنیا کا نور میں ہوں.میں اس کا فاتح ہوں میرا مقابلہ کون کر سکتا ہے وغیرہ وغیرہ.کیا یہ کوئی انسان باوجود اپنی ہمہ ضعف و توانائی کے کہہ سکتا ہے.جو ذرا ذرا سی باتوں کا محتاج ہے.غور تو کرو اس کا منبع وہی ہے .سارے دنیا پرست، دنیا کے کتّے.ساری دنیا کے حکمران سب اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا کے محتاج رہتے ہیں.اﷲ تعالیٰ اگر حامی و مددگار ہو تو کسی کی دشمنی اثر نہیں کر سکتی.وہ آدمی بھی دیکھے ہیں جو دستخط کرتے ہوئے اور کسی کی بھلائی یا برائی کا فیصلہ کرتے ہوئے قلم آگے پیش کیا ہے اور جان نکل گئی ہے.خدا کی بڑی بڑی عظیم الشان طاقتیں ہیں جو وہم و گمان میں بھی نہیں ا سکتی ہیں.لایک آن میں لاکھوں لاکھ پیدا کر سکتا ہے اور فنا کر سکتا ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۱۴.۱۵) ۷۳. مثنوی میں ایک بات لکھی ہے گنّے اور چاولوں کو بہت پانی دیا جاتا ہے.پانی میں تمام بیجوں کا مادہ ہوتا ہے اس لئے کچھ اور گھانس وغیرہ بھی اس میں اُگ آتی ہے.اس کو بذریعہ نلائی کے دور کیا جاتا ہے اسی طرح منافقین کو مومنین سے الگ کیا جاتا ہے اور اس کیلئے بڑے مجاہدہ کی ضرورت ہے.کیونکہ رذائل تو انسان میں پہلے آتے ہیں.ان کے دُور کرنے کیلئے بڑا مجاہدہ چاہیئے.
: کی ضمیر کے مرجع پر لوگوں نے بحث کی ہے.بعض دونوں کی طرف پھیرتے ہیں.بعض صرف منافقین کی طرف.میرے نزدیک دونوں کی طرف ہے کیونکہ دوسری جگہ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ(فتح:۳۰) آیا ہے جس کے معنی حضرت صاحب نے یہ کئے ہیں کہ کفّار کی بات تم پر اثر نہ کرے.: عَلٰی اکَمَۃٍ غَلِیْظَۃٍ.اس کے معنے مضبوطی کے ہیں.: جہنم عقائدِ فاسدہ کے جلانے کی بھٹی ہے.اس سے بچاؤ ہوتا ہے بذریعہ توبہ، استغفار، صدقہ، دوسرے سے دعا کرانا، مصائب کا آنا، قبر کے مشکلات، مرنے کے بعد لوگوں کا جنازہ پڑھنا اور انکو ثواب پہنچتا ہے.کھانے کا، روزے کا اور میرے نزدیک کلامِ الہی کا بھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ نومبر ۱۹۰۹ء) یہ جو کہتے ہیںکہ جَاھِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَکیماتحت منافقوں سے کیوں جہاد نہیں کیا گیا.یہ غلط ہے کیونکہ منافقوں سے لڑائی ہوئی چنانچہ چنانچہقُتِْکُوْا تَقْتِیْلًا (احزاب:۶۲)سے ظاہر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) : کوئی صحابی منافق نہ تھا.اگر ہوتا تو نبی کریمؐ ضرور اس سے جنگ کرتے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸) ۷۴. : چونکہ ان میں قوّتِ فیصلہ اور تابِ مقابلہ نہیں ہوتی اس لئے وہ جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں.: شیعہ غور کریں جو کہتے ہیں.حضرت علیؓ نے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بننا چاہا تھا بالکل غلط ہے.کیونکہ اس طرح حضرت علیؓ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئے.
: دیکھو سورۃ احزابلَتُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِ رُوْنَکَ فِیْھَا اِلَّا قَلِیْلاً(احزاب:۶۲) یہ دنیا کا عذاب منافقوں کو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد میں ہو چکا.(احزاب:۶۲) جب دنیا کا عذاب ثابت ہو چکا توآخرت میں ضرور آئے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) : شیعہ سے پوچھو کہ اگر ابوبکر خلافت چاہتے تھے تو انہوںنے پالی.پس وہ منافق کیونکر ہوئے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ۴۵۸) عمائد منافقین مدینہ کو کہا کہ شرارتوں سے باز آ جاؤ واِلَّا اس جہان اور قیامت میں دُکھ پاؤ گے جیسے آیت ذیل میں آیا ہے. .اب غور کرو کہ ان ناعاقبت اندیش لوگوں کی یہ خبر ہے.کہ ان کو عذاب دیں گے.اس دنیا میں اور ان کے لئے عذاب ہے آخرت میں.پھر ایک اور خبر ہے کہ ان کو کوئی بھی والی وارث یا دوست نہ ہو گا (اور تیسری خبر ہے کہ انکا کوئی مددگار نہیں رہے گا) پھر دیکھو یہ تینوں خبریں اپنے وقوع کیساتھ ہمیں دنیا میں نظر آ گئیں.جب یہ دونوں اپنی مناسبت سے صحیح ہو گئیں تو تیسرا علم جو انہیں کا مساوی ہے کیونکر صحیح نہ ہو گا کہ قیامت میں عذاب پاؤ گے.… اسلامی اصطلاح میں قیامت کے لفظ کے معنی تو بہت ہیں.مگر مشہور یہ دو ہیں.اوّل مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ ۱؎ جو مر گیا اسکی قیامت قائم ہو گئی.دومؔ مَا بَعْدَالْمَوْتِ حَشْرُاَجْسَادٍکیوقت جب سعید و شقی بالک الگ الگ ہو جائیں گے اس کا نام قیامت ہے.مابعد الموت کوئی جیل خانہ نہیں اور وہ کوئی حوالات نہیں.قبر میں داخل کرنا اﷲ تعالیٰ کا کام ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا فَاَقْبنرَہٗ(عبس :۲۲) کہ قبر میں اﷲ تعالیٰ داخل کرتا ہے اور وہ قبر جس میں اﷲ تعالیٰ داخل فرماتا ہے.وہ ایک ۱؎ احادیث کا فقرہ ہے.
باغ ہے بہشتوں کے باغوں سے جیسے فرمایا ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اَلقَبْرُ رَوْضَۃٌ مِّنْ رِیَاضِ الْجَنَّۃِ یا وہ گڑھا ہے دوزخ کے گڑھوں میں سے جیسے فرمایا اَوْحُفْرَۃٌ مِّنْ حُفَرِ النّیْرَانِ اور قرآن کریم میں بار ہا ذکر ہوا ہے کہ مومن اﷲ تعالیٰ پر ایمان لانے والا بعد الموت معاً جنّت میں داخل ہو جاتا ہے اور شریرنار میں.جیسے فرمایا . (یٰسٓ:۲۷.۲۸) اور منکروں شریروں کیلئے فرمایا گیا ہے مثلاً فرعون اور فرعون کے ہمراہیوں کیلئیاُغْرُِّوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا (نوح:۲۶) ہاں حشر اجساد کے وقت آخر عظیم الشآن تفرقہ سعید و شقی میں کر دیا جائے گا.اسی واسطے اُس دن کا نام یوم الفصل آیا ہے.پارہ۳۰ کی پہلی سورت.مگر وہ حالت سرِدھت جنّت و نار کے دخول کی مانع نہیں.اﷲ تعالیٰ توفیق فہم دے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۳۴.۳۵) ۷۷. : بہت معاہدے کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ ان کے نقص کا نتیجہ نفاق ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) : وعدہ خلافی کا نتیجہ نفاق ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸) میں نے اَلوصیتؔ خوب پڑھا ہے.واقعی ۱۴ آدمیوں کو خلیفۃ المسیح قرار دیا ہے.اور ان کی کثرتِ رائے کے فیصلہ کو قطعی قرار فرمایا.اب دیکھو کہ انہی متقیوں نے ( جن کو حضرت صاحب نے اپنی خلافت کیلئے منتخب فرمایا)اپنی تقوٰی کی رائے سے اپنی اجماعی رائے سے ایک شخص کو اپنا خلیفہ و امیر مقرر کیا.اور پھر نہ صرف خود بلکہ ہزارہا لوگوں کو اس کشتی پر چڑھایا جس پر خود سوار ہوئے.تو کیا خدا تعالیٰ ساری قوم کا بیڑہ غرق کر دے گا؟ ہرگز نہیں.
پس تم کان کھول کرسنو.اگر اب اس معاہدہ کے خلاف کرو گے تو کے مصداق بنو گے.میں نے تمہیں یہ کیوں سنایا.اس لئے کہ تم میں بعض نافہم ہیں جو بار بار کمزوریاں دکھاتے ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ وہ مجھ سے بڑھ کر جانتے ہیں.(بدر ۲۱؍اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱۱) یاد رکھو.خدا تعالیٰ کے فضل سے انسان کے محروم ہونے کی ایک یہ بھی وجہ ہوتی ہے کہ وہ بعض اوقات اﷲ تعالیٰ سے کچھ وعدے کرتا ہے لیکن جب ان وعدوں کے ایفاء کا وقت آتا ہے تو ایفاء نہیں کرتا.ایسا شخص منافق مرتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس سے ہمیشہ بچتے رہو.انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اس وقت وہ اﷲ تعالیٰ ہی کو اپنا ملجا و ماوٰی تصوّر کرتا ہے اور فی الحقیقت وہی حقیقی پناہ ہے.اس وقت وہ اس سے وعدے کرتا ہے.پس تم پر مشکلات آئیں گی اور آتی ہیں.تم بہت وعدے خدا تعالیٰ سے نہ کرو.اور کرو تو ایفاء کرو.ایسا نہ ہو کہ ایفا ء نہ کرنے کا وبال تم پر آئے اور خاتمہ نفاق پر ہو.(الحکم ۱۰؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵، نیز الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۹ـ۱۰) ۷۹. : صحابہ میں ایسے بھی تھے جو مزدوری کرتے اور اپنی قوتب لایموت سے بجا کر خدا کی راہ میں دیتے.بعض ان پر ہنسی کرتے.اس سے منع کیا.ایسے ہی بہت دینے والوں کو بھی مطعون کرتے رہتے کہ ریاء سے دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۸۱.
بعض وقت نافہم.ناعاقبت اندیش ایک کام کرتا ہے اور اس کے نتائج کو نہیں سوچتا. (مومن : ۳۱) فرعون نے کہا (مومن :۳۰) جو مَیں کہہ رہا ہوں وہی کامیابی کی راہ ہے.بہت سے لوگ ایک بات مُنہ سے نکال لیتے ہیں مگر نہیں دیکھتے کہ وہ نتائج کے لحاظ سے کیسی ہو گی.ابوعامر ایک عیسائی تھا.قیصر کے دربار میں اس نے مسلمانوں کے خلاف بہت سی کوشش کی حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب سنا کہ ابوعامر مسلمانوں کے خلاف کوشش کر رہا ہے.اور ان دنوں آپؐ نے تبوک کی طرف چڑھائی شروع کی ہوئی تھی.دو ماہ کے قریب خرچ ہونے تھے.اور فصل پکی ہوئی تھی.اس لئے منافقین نے بہت سے عذر تراشے اور پیچھے رہ گئے اور اس پیچھے رہنے پر خوش ہوئے.اس کا ذکر اس رکوع میں ہے.: شریر آدمی اپنے سات دوسروں کو بھی ملا لیتا ہے چنانچہ انہوں نے دوسروں کو بھی ترغیب دی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۸۲. : تھوڑی دیر ہنس لیں.انہیں بہت رونا پڑے گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸) ۸۳. : دیکھو اﷲ بھی رحمن.رحیم.(الاعراف :۱۵۷)اور نبی کریمؐ رحمتہ للّعالمین.مگر پھر بھی ان کے حق میں ایک قطعی فیصلہ ہوگیا.یہ جو بڑی بڑی خطائیں کر کے معافی مانگنا پیشہ قرار دے لیتے ہیں.غور کریں.ایمان بین الخوف و الرجاء ہے.: رسولؐ کے ساتھ.نہ کہ دوسرے خلفاء کے ساتھ جنگِ تبوک سے جو پیچھے رہ گئے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸)
۸۷. خَوَالِفِ : جمع خَالِفِۃٌ کی ہے.جو عورتیں پیچھے رہ جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۸۹. : دنیا میں مظفر و منصور ہوں گے تو ان خشک پہاڑوں کے نہیں بلکہ جنّات وغیرہ کے.۹۰. بہت سے لوگ بدکاری کا ارتکاب کر لیتے ہیں مگر جب ان کا خمیازہ اٹھاتے ہیں تو پھر عُذر کرنے لگتے ہیں.جو عُذر بدتر از گناہ کا مصداق ہے.کیونکہ عُذر ہر جگہ کام دے تو پھر انبیاء و کتب کی آمد بیکار رہ جاوے.عُذر کرنیوالے تو تقدیر کا بھی عُذر کرتے ہیں جو بالکل فضول ہے حالانکہ قانون کی لا علمی کا دعوٰے بھی مقبول نہیں ہوتا.لَوْکُنَّانَسْمَعُ اَوْنَعْقِلُ(ملک:۱۱) کہنے والوں کی نہیں سُنی گئی.اس رکوع میں غزوۂ تبوک سے پیچھے رہنے والوں کو خطاب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء)
۹۴. : جو اس وقت موجود نہیں.: جو موجود ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) : اﷲ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸) ۹۶. : اس سے صاف ظاہر ہے کہ اﷲ کی رضا مقدّم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۹۷. گنوار کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور اس لائق ہیں کہ انہیں اﷲ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت کی حدود کا علم نہ آ سکے.(نورالدّین صفحہ ۱۲ دیباچہ)
۹۹. : یہ قرآن کا طرز قابلِ ّور و تقلید ہے.اگر کسی قوم کی برائی کا ذکر ہوتا ہے تو ان میں سے نیکوں کو الگ کر لیتا ہے اور بدوں کا الگ ذکر کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۰. جہاں اﷲ تعالیٰ منافقوں کا ذکر کرتا ہے وہاں مومنین کا الگ ذکر کرتا ہے.اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ شیعہ جو مہاجرین و انصار کو منافق یقین کرتے ہیں.وہ نفع اٹھاویں.پس اﷲ تعالیٰ پہلے منافقین کفّار کے نشانات بتاتا ہے.پھر مومنوں کے نشان تا مقابلہ سے معلوم ہو سکے کہ مہاجرین و انصار مومن تھے اور ضرور مومن تھے.ابھی پیچھے گزرا ہے کہ منافقین کا ایک نشان یہ ہے ھَمُّوْابِمَالَم ْیَنَلُوْا(توبہ:۷۴)
انہوںنے رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمْکا سرٹیفکیٹ پایا.: جنہوں نے اﷲ کیلئے اپنا گھر بار چھوڑ دیا بلکہ رضا کیلئے یہ تعلقات چھوڑ دئے.: جنہوں نے ان مہاجروں کو جگہ دی.: دل سے متبع ہوئے نہ بطور تقیہ.رَضِیَ اﷲُ: یَرْضٰینہیں فرمایا کہ کسی کو اعتراض کی کسی کو اعتراض کی گنجائش نہ رہ جاوے.راضی ہو چکا.اس میں نہ صرف ابوبکرؓ کے ایمان کا بلکہ تمام مہاجرین و انصار کے ایمان کا ثبوت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) اور انکی اتباع کو باعث اپنی رضامندی کا فرمایا ہے.انہوں نے بھی نہیں فرمایا حکمِ قرآنی منسوخ ہے اور اس پر بالکل عمل درست نہیں.(نورالدّین صفحہ ۲۴۸) ۱۰۱. : دوسرے موقعہ پر فرمایا (محمد:۳۱)اور (احزاب:۶۱.۶۲) پھر ایک پہچان بتاتا ہے کہ سَنُعَذِّبُھُمْ مَرَّتَیْنِ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۲.
میری طبیعت میں خدا تعالیٰ نے یہ بات رکھ دی ہے.کہ انسان کے بہت سرے اعمالِ صالح پر نظر ڈالا کرتا ہوں.کیونکہ خدا نے فرمایا ہے خَلَطُوْا عَمَلاً صَالِحًا وَّ اٰخَرَسَیِّئًا.پس جب ہم کسی بدی یا بیماری کی تفسیر کرتے ہیں تو یہ ارادہ نہیں ہوتا کہ کسی کو نشانہ بناویں.بلکہ اس لئے کھولتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کوئی ایسی تحریک پیدا کر دے کہ ان کے اندر سے وہ بیماری دُور ہو جاوے.(الحکم ۳۱؍جولائی ۱۰؍اگست ۱۹۰۴ء صفحہ) مفراداتِ راغب میں ہے..التَّوْبُ تَرْکُ الذَّنْبِ عَلیٰ اَجْمَلِ الْوُجُوْہِ وَ ھُوَاَبْلَغُ وُجُوْہِ الْاِعْتَذَارِیعنی توبہ کے معنے ہیں.بہت ہی عمدہ وجہ سے گناہ کو چھوڑ دینا اور اس سیت بڑھ کر عُذر خواہی کی اور کوئی عمدہ راہ نہیں ہو سکتی.ایک بدکار.نافرمان جب اپنی غلط کاریوں سے الگ ہو جاوے تو انصاف کا مقتضا ہے کہ اب اس کو بَری ہی کیا جاوے.مگر محدود العقل.محدود العلم آدمی دلوں کے اندرونی حالات سے ناواقف اگر کسی کے عُذر کو نہ مانے تو یہ اس کی نادانی ہے.مگر عَلِیْمٌ بِّذَاتِ الصُّدُوْر جوتہ در تہ کو جانتا ہے.وہ جب جان لے کہ اب یہ شخص سچّا بدی کا تارک ہو چکا ہے تو پھر توبہ قبول نہ کرنا ناانصافی ہے… ہم خدا کا شُکر کرتے ہیں کہ اسلام کو ہی یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے انسان کے دل کی سچّی آرزو یعنی مسئلہ توبہ کی تبلیغ کی ہے.ہر ایک فطرت خطاء اور نسیان کے بعد دِلی جوش سے چاہتی ہے کہ اسکا آقا جس کے حکم کو اس نے توڑا ہے اسکی خطا معاف کر دے اور آئندہ اسے تلافیٔ مافات کا عمدہ موقعہ دے.قرآن کریم نے انسان کی فطرت کی سچی آرزو کے موافق رحیم و کریم.تو آب آقا پیش کیا ہے.تناسخ اور کفارہ کا بیہودہ مسئلہ توبہ کی فلاسفی کے نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.بعض بیماریوں کو دیکھو بدی سے پیدا ہوتی ہیں.اور جسمانی طور پر جب انکا علاج کیا جاتا ہے تو وہ بیماریاں دور ہو جاتی ہیں.پس توبہ روحانی علاج ہے.روحانی بیماروں کا.جسمانی سلسلہ سے کاش تم لوگ روحانی سلسلہ کو سمجھو.(نور الدّین صفحہ ۷۳.۷۴) ۱۰۳.
: لے انکے مال میں سے زکوٰۃ کہ ان کو پاک کرے اُس سے اور تربیت اور دُعا دے ان کو.البتہ تیری دُعا انکے واسطے آسودگی ہے اور اﷲ سب سُنتا ہے جانتا ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴۰) ۱۰۵. سَیَرٰی: نگرانی کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) سَیَرٰی: اﷲ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.: آئندہ جو خلفاء ہیں وہ بھی دیکھیں گے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸) ۱۰۶. : مؤخر الحکم یہ تین صحابی تھے.ایک کا نام ہلال تھا.ایک کامرارہ.ایک کا کعب تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۷.
: اس کا مفعول ہے، اور کا فعل مخدوف کر دیا ہے یعنی .: یہ ابو عامر کی طرف اشارہ ہے جو عیسائی تھا.اس کے مکروں سے ایک مکر یہ بھی تھا کہ رسول کریمؐ اس مسجد میں نماز پرھ لیں.پھر کچھ مسلمان ادھر بھی آ جایا کریں اور اس طرح مسلمانوں کی جماعت کو توڑ لوں گا.اس ابوعامر نے اپناایک رؤیا بھی مشتہر کر رکھا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ نبی کریمؐ وَحِکلیْدًا طریدًا شدیدًا فوت ہوں گے.نبی کریمؐ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ خواب سچّا ہے.اس نے اپنی حالت دیکھی ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.نام نہ لینے میں یہ بلاغت ہے کہ آئندہ بھی اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کا انجام بھی یہی ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۹. : کنارہ.: کھوکھلا.کھایا ہوا.: دریا کا کنارہ تو پانی میں گرتا ہے مگر نفاق کا کنارہ جہنم میں گرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۱.
انسان کی حقیقی خواہش کیا ہے.آرام.روپیہ کمانا.جتّھا.حکّام سے تعلق چاہنا.عمدہ مکان بنانا.غرض تمام کوششیں اسی آرام کے حصول کیلئے ہیں.طبّ.طبعیات.سب علوم بھی اسی لئے ہیں.پھر لوگ آرام بھی بے انت زمانہ کیلئے چاہتے ہیں.اس کیلئے چاہتے ہیں.اس کیلئے اس رکوع میں ایک گُر بتایا ہے.: اﷲ کے لفظ کا ترجمہ کوئی زبان برداشت نہیں کر سکتی.عرب کسی معبود پر سوا خدا تعالیٰ کی ذات کے یہ لفظ نہیں بولتے تھے حتّٰی کہ ان کے زمانۂ جاہلیت کے قصائد میں کہیں یہ لفظ کسی بُت یا محبوب پر نہیں آیا.سارے قرآن شریف میں اﷲ کو موصوف قرار دیا ہے.کہیں بھی صفت ہو کر نہیں آیا جس سے ظاہر ہے کہ اور جتنے کام ہیں وہ اسکی تفصیل و تشریح میں ہیں.: عربی میں نفس کے دو معنی ہیں.ایک وہ جو انسان کی جان ہے.جس سے رُوح غلط مراد لیتے ہیں.دوسرے معنے ان میں سے.: اس بات کو خوب سمجھ لو کہ مال و جان مومن کا جنابِ الہٰی کا ملک ہو چکا ہے.پس اس پر مومن کا اپنا کوئی حق نہیں.سب کچھ خدا کے حکم کے ماتحت رکھنا چاہیئے.: بہشت.آرامگاہ.انبیاء کے جس قدر اوامر ہیں.اگر انسان ان پر چلے تو وہ دنیا میں بلحاظ طبّ بھی آرام سے رہتا ہے کوئی خطرناک موذی مرض اوامر الہٰی کے اتباع سے پیدا نہیں ہوتی.: وعدے دو قسم کے ہوتے ہیں.کئی وعدے اور ترقی پا جاتے ہیں اس لئے ان کا ایفاء اور کسی رنگ میں ہوتا ہے اسی لئے یہاںحَقًّا لگایا ہے کہ اسی طرح پورا ہو گا.: تورات میں ایک جگہ آیا ہے کہ تو اپنے مال کو وہاں نہ رکھ جہاں چور کاڈر ہو.تُو اسے آسمان پر رکھ.: انجیل میں صاف ہے کہ اُونٹ کا سوئی کے ناکہ سے گزرنا آسان ہے.مگر دولتمند خدا کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا.پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی نام لیوا اُمّت اپنی تمام ہمّت کو مال کے جمع کرنے میں صرف کر رہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) : توریت کتاب استثناء.متی باب ۶ آیت ۱۹.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸)
۱۱۲. : مومن دنیا میں اعلاء کلمۃ اﷲ اور عبرت کیلئے پھرنے والا ہوتا ہے.: علومِ حقّہ کو حاصل کر کے دوسروں کو تبلیغ کرتا ہے..یہ غلط ہے کہ مستحقِ شفاعت گناہ گار انند.مومن وہی ہے جو خدا کی حدود کی محافظت کرے.ہاں گنہگار توبہ کر لے تو مستحقِ شفاعت ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) مومن کی ۹ صفات چاہئیں. تا (روزہ دار)تا (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸) ۱۱۳. : ایک ہندو سے مجھے معرفت کا نکتہ یاد ہے.کہ جب کسی کے والد کو کوئی چُوہڑا کہہ دے حالانکہ بشریت میں ایک ہیں.تو کتنا رنج ہوتا ہے.تو کیا کسی پتھر کو خدا کہنے والے پر ہم کس طرح ناراض ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۴. : مُراد چچا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء)
۱۱۵. : کے مسئلہ پر بہت بحث ہو چکی ہے.قرآن ان قوموں کے ہاتھوں میں ہوتا تو کبھی غلطی نہ کھاتے.کیونکہ اس میں صاف بتایا گیا ہے کہ احکامِ شریعت ان قوٰی کے لئے ہیں.جن پر انسان کا اختیار ہے.اسی بناء پر تثلیث و کفّارہ غلط ہے کیونکہ انسان کو کوئی قوّت نہیں دی گئی جس سے وہ ایک اور ایک اور ایک کو تین کی بجائے ایک سمجھے اور اپنے گناہ کا اثر دوسرے پر پائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۹.
: صدق عربی زبان میں ایسا لفظ ہے کہ ہر صحیح اور امرِ واقعہ پر بولا جاتا ہے.چور کو پکڑتے ہیں تو کہتے ہیں.الکذب الکذب.عمدہ تلوار کو بھی صدق ہی کہتے ہیں.اَخُوْثِقَۃٍ.اَخُوْصِدْقٍ.سچّے علوم کے مطابق عمل درآمد کا نام ہے صدق.راست بازوں کے ساتھ ہو جانا ایک کارِ اہم ہے اور بڑی بھاری قربانی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍نومبر ۱۹۰۹ء) اے مومنو! ڈرو تم اﷲ سے اور ہو تم ساتھ سچّوں کے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۷۷) عالمِ ربّانی کے لئے ضرورت ہے کہ تقوٰی سے کام لے اور تقوٰی کی حقیقت اس وقت تک کُھل نہیں سکتی جب تک خدا تعالیٰ کے صادق اور مامور بندوں کی صحبت میں نے رہے.جیسا فرمایا ہے..اس سے معیتِ صادق کی بہت ضرورت معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت ضرورت ہے.لیکن چونکہ ساری قوم ایک وقت میں اپنے امام کے گرد نہیں رہ سکتی اور اگر ہر فرد قوم کا حاضر بھی ہو تو ہر ایک فائدہ نہیں اٹھا سکتا.طبیعتیں جُدا جُدا ہیں اور مذاق الگ الگ، اور تقسیمِ محنت کا اصول
بارہا یہ بات میرے دل میں پیدا ہوتی ہے اور جوش اٹھتا ہے کہ لوگ اس ارشادِ الہٰی پرکیوں عمل نہیں کرتے؟ تمہیں فخر ہے کہ قرآن فہمی ہم میں ہے مگر یہ فخر جائز اس وقت ہو گا کہ تم ایک بار اس قرآن کو دستور العمل بنانے کے واسطے سارا پڑھ لو.لوگ مجھ سے پوچھا کرتے ہیں.کہ قرآن شریف کیونکر آ سکتا ہے میں نے پڑھا اس کے متعلق بتایا ہے کہ اوّل تقوٰی اختیار کرو.پھر مجاہدہ کرو اور پھر ایک بار خود قرآن شریف کو دستورالعمل بنانے کے واسطے پڑھ جاؤ.جو مشکلات آئیں ان کو نوٹ کر لو.پھر دوسری مرتبہ اپنے گھر والوں کو سناؤ.اس وقت مشکلات باقی رہ جائیں ان کو نوٹ کرو.اس کے بعد تیسری مرتبہ اپنے دوستوں کو سناؤ.چوتھی مرتبہ غیروں کے ساتھ پڑھو.میں یقین کرتا ہوں اور اپنے تجربے سے کہتا ہوں کہ پھر کوئی مشکل مقام نہ رہ جائے گا.خدا تعالیٰ خود مدد کرے گا.لیکن غرض ہو اپنی اصلاح اور خدا تعالیٰ کے دین کی تائید.کوئی اور غرض درمیان نہ ہو.بڑی ضرورت عمل درآمد کی ہے.(الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) ۱۲۰.
قرآن شریف چونکہ اﷲ علیم و حکیم کی کتاب ہے.اس لئے وہ انسانی ضرورتوں اور اس کی مجبوریوں کا پورا علم اور فلسفہ اپنے اندر رکھتی ہے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پاک صُحبت میں رہنے کا حکم دیا ہے اور انسان چونکہ متمدّن ہے.بعض اوقات اس کو مشکلات پیش آ جاتے ہیں اور وہ ہر دم اس سرکار میں حاضر رہنے سے معذور ہو سکتا ہے.اس لئے معمولی دُوری کو انقطاعِ کُلّی کا موجب نہیں ہوتا چاہیئے.جسقدر دُور ہوتا جاتا ہے.اسی قدر سُستی اور کاہلی پیدا ہو سکتی ہے اگر خدا تعالیٰ کا فضل اور کثرتِ استغفار نہ ہو.اس لئے انقطاعِ کُلّی سے بچانے کیلئے حکم دیا ہے..یعنی اہلِ مدینہ اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کا یہ کبھی حال نہ ہو کہ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کسی خاص کام میں توجّہ کریں تو یہ اپنی جگہ سمجھیں یا نہ سمجھیں.اسکی خلاف ورزی نہ کریں.انبیاء و مرسلین کے کام اﷲ تعالیٰ کے اشارے اور ایماء کے ماتحت ہوتے ہیں اور ان میں باریک در باریک اسرار اور غوامض ہوتے ہیں.موٹی عقل سے دیکھنے والوں کی نظر میں ممکن ہے کہ ایک فعل مفید معلوم نہ ہو لیکن دراصل اس میں مآل کار قوم اور ملک کیلئے ہزاروں ہزار مفاد اور بہتریاں ہوتی ہیں.تو یہ اس کی حماقت ہو گی اگر اس پر اعتراض کر دے.نادان انسان ہر فعل کی علّت غائی اور ضرورت کو نہیں سمجھتا اور نہ اس کیلئے ضروری ہے کہ ہر ہر ایک فعل کی علّت غائی ہی سوچتا رہے.ایک کیکر کے درخت کو جو اس قدر کانٹے لگائے
اور شیشم یا آم کے درخت کو ایک بھی کانٹا نہ لگایا.اب اگر ایک احمق اعتراض کرے کہ یہ کیا کیا؟ کیکر کے درخت کو کانٹے کیوں لگائے؟ اور دوسرے کو کیوں نہ لگائے؟ یہ اس کی نادانی ہو گی یا نہیں؟ اس کی مصلحت اور ضرورت کو تو وہی خُدا سمجھتا ہے.جس نے کیکر اور آم کو بنایا ہے.دوسرا کیونکر اسے سمجھے.اسی طرح پر انبیاء کے افعال و حرکات جیساکہ میں نے ابھی کہا ہے اﷲ تعالیٰ کے خفی و جکی احکام اور اشارات کے ماتحت ہوتے ہیں بعض اوقات ان کے افعال عام نظر میں ایسے دکھائی دئے جاتے ہیں جو دوسروں کو اعتراض کا موقعہ ملتا ہے.مگر درحقیقت درست اور صحیح وہی ہوتا ہے.اب ایک آدمی دیکھتا ہے کہ بدر کی جنگ میں تین آدمی مخالفوں کی طرف سے نکلے ہیں اور تین ہی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے نکلے.کوئی کہے کہ تین کے مقابلہ میں ڈیڑھ کافی تھا.آپؐ نے تین کیوں بھیجے جو چھ کیلئے کافی تھے؟ مگر وہ بڑا ہی احمق اور نادان ہو گا جو کہے کہ یہ کاروائی غلط تھی.یاد رکھو خدا تعالیٰ کی مُرسَل مخلوق کو اپنی فراست پر قیاس نہیں کر لینا چاہیئے.اسی لئے فرمایا کہ خیر القرون کی مخلوق کو تخلّف جائز نہیں ہے خواہ اس میں مصائب اور مشکلات ہی پیدا ہوں.اور ہوتے ہیں مگر جب وہ اپنا کام اس پر مقدّم نہ کریں گے تو کیا یہ تکالیف اور مصائب اکارت جائیں گے.کبھی نہیں.سُنو.ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ لَا یُصِیْبُھُمْ ظَمَلٌ وَّ لَا نِصِبٌ وَّ لَا مَخْمَصَۃٌ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَوَلَایَنَالُوْنَ مِنْ عَدُدٍّنَّیْلاً اِؤلَّا کُتِبَلَھُمْ بِہٖ عَمَلٌ صَالِحٌط اِنَّ اﷲَ لَایُضِیْعُ اَجْرَ الُُْحْسِنِیْنَ.خلاصہ کلام یہ ہے کہ سفر میں پیاس لگتی ہے.موقع پر پانی نہیں ملتا.بوجھ اٹھانا پڑتا ہے.تکان یا تکالیف ہوتی ہے.ایسا ہی سفر میں ممکن ہے کہ روٹی نہ ملے یا ملے تو وقت پر نہ ملے، اس قسم کی صدہا قسم کی تکلیف ہوتی ہے.ایسا ہی سفر میں ممکن ہے کہ روٹی نہ ملے یا ملے تو وقت پر نہ ملے، اس قسم کی صدہا قسم کی تکلیف ہوتی ہے.اس قسم کی تکلیف اور مشکلات اگر اﷲ تعالیٰ کے لئے ہوں اور یا دشمن سے کوئی فائدہ حاصل کرے.غرض حضورِ الہٰی میں ان کا ثمرہ ضرور ہوتا ہے اور انکے ذمّہ اعمال میں نیک عمل لکھا جاتا ہے.خدا چونکہ شکور خدا ہے.وہ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۷) ۱۲۱.
یعنی اور نہ وہ اﷲ کی راہ میں کوئی ہو ایسا تھوڑا یا بہت مال خرچ کریں گے اور نہ کوئی میدان طے کریں گے مگر یہ کہ ان کے وسطے اس خرچ اور سفر کی جزا لکھی جاوے گی تاکہ اﷲ تعالیٰ انہیں اس اچھے کام کا بدلہ دے جو وہ کرتے تھے.اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مامورین کے وقت سفروں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے اور خدا کیلئے کوئی نہ کوئی سفر قوم کے بعض یا کل افراد کو کرنا پڑتا ہے.پس وہ سفر بجائے خود اﷲ تعالیٰ کے نزدیک بہترین جزا کا موجب اور باعث ہوتا ہے.غرض اس میں انفاق کی فضیلت بیان کر کے اس دوسری آیت میں جو تفقُّہ فی الدّینکے لئے ایک جماعت کے نکلنے کی ہدایت کرتی ہے.انفاق کی ضرورت بیان کی گئی ہے.عام طور پر کل انسان ایک امام کے حضور جمع نہیں ہو سکتے.کل دنیا نہ تو متفق ہی ہو سکتی ہے نہ وہ ایک جگہ جمع ہو سکتی ہے.ملک کی طبعی تقسیم اور پھر کل دنیا کی طبعی تقسیم اس امر کی شاہد ہے.اس عام نظارۂ قدرت کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ سب کے سب امام کے حضور جمع رہو اور ہر قوت حاضر رہو.قریباً تکلیف مالا یُطاق ہو جاتی ہے اﷲ تعالیٰ نے نہیں رکھی.(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۸،(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱۲۲. انسان کی ضرورتیں.اس کی کم نظریاں.انعاماتِ الہٰیہ کی وسعت سے بیخبری.اسکی ذاتی کمزوریاں اور بشری تقاضے، بعض اوقات ایسا کرتے ہیں کہ وقت وہ ماموروں کی صحبت میں نہیں رہ سکتا.اور وہ فیض اور فضل جو اُن کی پاک صُحبت ہی سے مختص ہیں، نہیں پا سکتا.اس لئے ایک اور ضرورت پیش آئی.وہ ضرورت ہے تفقُّہ فی الدّین کی.تفقُّہ فی الدّینکے لئے پھر یہ حکم صادر ہوا کہ.
.یعنی چونکہ یہ تو ممکن نہیں اور نہ مناسب ہی ہے کہ سب کے سب مسلمان یک دفعہ ہی نکل جاویں.اس لئے کیوں ہر گروہ سے ایک جماعت اس مقصد اور غرض کیلئے نہ نکلے کہ وہ تفقُّہ فی الدّینکرے اور جب وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر واپس آئیں تو اپنی قوم کو ڈرائیں تاکہ وہ قوم بُری باتوں سے بچے.اس آیت سے پہلی آیت میں انفاق کے فضائل بین ہوئے ہیں.اس واسطے اس آیت میں جو ابھی میں نے پڑھی ہے انفاق کی ایک ضرورت بھی پیش ہوئی ہے.(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۸) چونکہ یہ امر تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کُل مومن علومِ حقّہ کی تعلیم اور اشاعت میں نکل کھڑے ہوں.اس لئے ایسا ہونا چاہیئے کہ ہر طبقہ اور ہر گروہ میں سے ایک ایک آدمی ایسا ہو جو علومِ دین حاصل کرے اور پھر اپنی قوم میں واپس جا کر ان کو حقائقِ دین سے اگاہ کرے تاکہ ان میں خوف و خشیت پیدا ہو لیں.قرآن کریم نے جب ایک بہترین راہ ہمارے لئے کھول دی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ اس کو دستور العمل بنایا نہ جاوے؟ (الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۹) عام پور پر کل انسان ایک امام کے حضور جمع نہیں ہو سکتے.کل دنیا نہ تو متفق ہی ہو سکتی ہے نہ وہ ایک جگہ جمع ہو سکتی ہے.ملک کی طبعی تقسیم اس امر کی شاہد ہے.اس عام نظارہ قدرت کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ سب کے سب امام کے حضور جمع رہو.اور ہر وقت حاضر رہو.قریباً تکلیف مالا یطاق ہو جاتی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے نہیں رکھی… یہ خوبی اور عظمت اسلام کی ہی ہے کہ اس کے جمیع احکام اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک انسان ان سے اپنی استطاعت و طاقت کے موافق اپنی حالت اور حیثیت کے لحاظ سے یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے.مثلاً ایک شخص ہے وہ بیمار ہے اُٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتا وہ بیٹھ کر حتٰی کہ اشاروں سے بھی پڑھ سکتا ہے.اس کا ثواب ایک مستعد تندرست آدمی کی نماز سے کم نہیں ہو گا اور نہ اس نماز میں کوئی سقم واقع ہو سکتا ہے.ایک شخص استطاعت حج کی نہیں رکھتا.حج نہ کرنے سے اس پر گناہ نہیں ہو گا.اسی طرح پرتفقُّہ فی الدّین کی بھی مختلف صورتیں ہیں.ہر شخص اتنا وقت اور فراغت نہیں رکھتا کہ وہ اس کام میں لگا رہے.دنیا میں تقسیمِ محنت کا اصول صاف طور ہدایت دے رہا ہے کہ مختلف اشخاص مختلف کام کریں.انسانی زندگی کی ضروریا ت کا تکفّل ہو گا.اسی طرح اسی اصول کی بناء پر حکم ہوا کہ …… میں افسوس اور دردِ دل سے کہتا ہوں کہ عملی رنگ میں اس آیت کو منسوخ کر دیا گیا ہے.حقیقت میں ایسا ہی ہوا ہے.(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴نیز کتاب نور الدّین صفحہ۷۳)
۱۲۳. : مقابلہ کرو.: شیخ ابن عربی نے لکھا ہے.سب سے نزدیکی کافر تو ہمارا نفس ہے جو اﷲ کی بہت سی نافرمانیاں کرتا ہے.پس سب سے پہلے مقابلہ اس سے کرو.: اس کی تفسیر میں ہے اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ(فتح: ۳۰) مراد اس سے مضبوطی ہے.یعنی کفّار کا اثر قبول نہ کرو.ہماری زبان میں غلیظؔ کے معنے بُرے لئے گئے ہیں.مگر عربی میں یہ بات نہیں چنانچہ اَکَمَۃٌ عَلِیْظَۃٌ کے معنے ہیں مضبوط ٹیلہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۴،۱۲۵. اور جب کوئی سورت اتاری جاتی ہے.کوئی تو ان میں سے کہتا ہے.بتاؤ تو اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو بڑھایا.جو تو مومن ہیں ان کے ایمان کو تو وہ سورت بڑھا دیتی ہے اور وہ خوشیاں مناتے ہیں اور جن کے دلوں میں زنگ ہے وہ سورت انکی پلیدی اور بدباطنی کو بھی بدباطنی کے ساتھ ملا کر بڑھاتی ہے اور وہ کفر میں ہی مرتے ہیں.عمدہ عمدہ تندرستوں کے کھانے بیماروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور موسم بہار کی عمدہ ہوا بعض بیماروں میں ضرر کا موجب ہے.عمدہ عمدہ تندرستوں کے کھانے بیماروں کو نقصان پہنچاتے ہیں اور موسم بہار کی عمدہ ہوا بعض بیماروں میں ضرر کا موجب ہے.(نور الدّین ایڈیشن سوم صفحہ۸۰) ۱۲۶.
: گندے اور پاک کی تمیز کی جاتی ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں ۱۹ دفعہ ایسے فتنے آئے ہیں.ظاہر کو باطن اور باطن کو ظاہر سے ایک تعلق ہے.رسولِ کریمؐ کے حضور آدمی آئے.ایک نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک جگہ ہے.وہ تو جرأت کر کے وہاں چلا گیا.دوسرے کو شرم آئی.وہ آگے نہ ہوا.سب سے پیچھے بیٹھ گیا.تیسرے نے دیکھا کہ جگہ نہیں ہے.اس نے اجتہاد کیا کہ میرا بیٹھنا فضول ہے.چلا گیا.نبی کریمؐ کو وحی ہوئی کہ جس نے شرم کی اسکے گناہوں کی پکڑ میں اﷲبھی شر م کریگا.جو چلا گیا وہ بدنصیب ہے.نبی و راستباز کی صحبت میں بیٹھ رہنے سے بہت فائدہ حاصل ہوتا ہے.خواہ کچھ نہ سُنے نفس ’’ بیٹھنا‘‘ بھی ان انوار و برکات سے حصّہ دلاتا ہے.مَیں اپنے بچوں کو بھی قرآن شریف سنایا کرتا ہوں.اب کوئی یہ نہ جانے.کیا سمجھتے ہیں کیونکہ اس کا اثر کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے.ایک عورت بیمار تھی وہ اس حالتِ مرض میں جرمن بولتی تھی.لوگ حیران تھے.مگر آخر معلوم ہوا کہ چھوٹی عمر میں کسی پادری کی زبان سے جرمنی زبان کا لیکچر سُنتی تھی.اس نہانی اثر کی وجہ سے مرض میں جرمنی بولتی تھی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے پیدا ہوتے ہی اذان سنانے کا حکم دیا ہے.یہ لغو نہیں بلکہ اس کا اثر آئندہ عمر پر پڑتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱
سُوْرَۃُ یُوْنُسَ مَکِّیَّۃٌ ۲. : اَنَا ﷲُ اَرَی.کیا دیکھتا ہوں؟اَرٰی اَعْمَالَکُمْ ! یعنی جو کچھ تم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سلوک کر رہے ہو اور جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے تمہارے تعلّقات ہیں.وہ سب میں دیکھ رہا ہوں.: جامع کتاب.کس معاملہ میں ؟ حق و حکمت کی بھری ہوئی.سزا ہو گی تو بھی حکمت پر.جزا بھی ملے گی تو بھی حکمت پر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۳. : یہ سوال ہر زمانہ میں پیدا ہوتا رہا ہے اور کئی ایک کو دھوکہ لگتا رہا ہے کہ ظاہری تو شکل ہم جیسی ہے.پس اس میں مابہ الاِمتیاز کیا ہے؟ حالانکہ مابہ الاِمتیاز ہوتا ہے.گو عام فہم نہ ہو.چنانچہ پہلا امتیاز تو یہی ہے کہ : مکذّب لوگوں کو عزابِ الہٰی سے ڈراوے.: مومنین کو بشارت دے.: دلرُبا باتیں کرنیوالا قوم سے کٹوا کر الگ کر دینے والا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۴. : آسمان و زمین دونوں اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں.مگر ایک کو رفعت بخشی.ایک کو پستی.اسی طرح کسی کو محض اپنے فعل سے رفعتِ شان بخش دیتا ہے.: شفیع کہتے ہیں جفت کو.پس خدا کا جفت والا کوئی نہیں.نہ اسکی پکڑے وقت کوئی سزا یاب کا ساتھی بنتا ہے.اور میں یہ ثبوت دیا ہے.بعثتِ نبوّت اور ایک شخص کو برگزیدہ کر لینے کا اور پھر اسے کامیاب.مظفر و منصور کرنے کا.اور پھر تمام انبیاء کی تعلیم کا اصل الاصول بتلایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۵. : جیسا مبدء میں وہی ہے.ایسا ہی سب کا انجام بھی وہی ذات ہے جس آن میں اﷲاوّل ہے.اسی آن میں آخر ہے.کیونکہ ذرّہ ذرّہ پیدائش کے ساتھ ، ذرّہ ذرّہ اپنی بقاء کیلئے بھی اسی کا محتاج ہے.: انذار و تبشیر اور یہ تمام کار اس لئے ہے کہ جزا دے مومنوں کو اور سزا دے کفّار کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۶. : ظاہری انتظام کو دکھا کر باطنی پر استدلال فرمایا.: کہ ہر چیز کا مبدء و معاد مَیں ہی ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۸،۹. : ایک معنی، امید نہیں رکھتے.دوم معنی، خوف نہیں رکھتے اور یہ معنے چسپاں ہیں.: ایسوں کا ٹھکانہ ہے آگ.بدلہ اس کا جو کماتے تھے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۷) ۱۰. : علم کے ساتھ عمل ضروری ہے.گو فلسفہ قدیم کا یہ مسئلہ گمراہ کُن ہے کہ ہم عالم ہو جائیں تو خدا سے تشبُّہ پیدا کریں کہ اسے علم ہے مگر عمل نہیں کرتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۱۱. مسلمانوں کے نزدیک بہشت نام ہے اس جگہ کا جہاں جیو یا رُوح کو ہر طرح کی راحت اور آرام ملے.وہ ایک اعلیٰ سرور کا مقام ہے جس میں انسانی حالت خدا تعالیٰ کے متعلق تو یہ ہو گی جس کا بیان قرآن میں یہ آیا ہے… ’’ اور انکی پکارا س میں یہ ہو گی کہ اے اﷲ ! تُو پاک ہے اور آپس میں ایک دوسرے پر ان کا قول سلام اور سلامتی ہو گا اور آخری پکار انکی یہ ہو گی کہ سب حمد اﷲ کے لئے جو ربّ العٰلمین ہے‘‘ اس آیت پر غور کرنے والا غور کرے کہ کس طرح بہشت میں جنابِ الہٰی کی تسبیحیں اور تحمیدیں کی جائیں گی اور کس طرح روحانی مزہ اٹھایا جائے گا.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۲۰) وہ اﷲ کی پاکیزگی بیان کریں گے اور آپس میں سلامتی اور صلح سے رہیں گے اور آخری پکار انکی یہ ہو گی کہ حمد ہے اﷲ پروردگار کیلئے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۳۵) : اور انکی آخری پکار یہ ہو گی کہ اﷲ ربّ العٰلمین کی ستائش ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۴۱.۱۴۲) ۱۲. : نادان انسان اپنے لئے عذاب مانگ لیتا ہے.(انفال:۳۳) (ترجمہ: اے اﷲ اگر یہ حق تیری طرف سے ہے تو ہم پر پتھر برسا.مرتّب)
ابوجہل نے دعا کی تھی.ہمارے ملک میں لڑکیوں کو ایسی ایسی گالیاں دیتے ہیں کہ خدایا تیری پناہ ! زمیندار اپنے مال مویشی کو اسی قسم کے لفظ کہتے ہیں.اگر یہ دعائیں اﷲ تعالیٰ قبول کر لے تو تمام کارخانہ درہم برہم ہو جائے.: ہم تو اس کو چھورڑدیتے ہیں مگر وہ ایسے شریر ہوتے ہیں کہ اندھا دھند اپنی شرارت میں بڑھتے جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۴. : یہ اس بات کی نظیر دیتا ہے کہ بعض وقت عذاب آتا ہے تو وہ اٹھایا نہیں جاتا کیونکہ جُرم معافی کی حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے.: غفلت میں اﷲ تعالیٰ نہیں پکڑتا.بلکہ اتمامِ حُجّت فرما کر پکڑتا ہے.: یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ غفلت میں نہیں رہے بلکہ انکار بھی کیا.: صرف گناہ گار نہیں.بلکہ وہ جس نے جناب الہٰی سے اپنے تعلقات قطع کر لئے ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۵. : اگلی قوموں کو ہلاک کر کے تم تو کو ان کا خلیفہ بنا دیا.: اب دیکھتے ہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو.(بدرؔ ۲۱؍ اکتوبر ۱۹۰۹ء صفحہ۱۱) : یہ آیت خصوصیت کے ساتھ قابلِ توجّہ ہے.کیونکہ تم بھی اس آیت کے نیچے ہو.بدظنی سے بچو.اوقات ضائع نہ کرو.علومِ دین سے واقفیت پیدا کر کے اس پر عمل کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۱۶. : تو کہہ میرا کام نہیں کہ اس کو بدلوں اپنی طرف سے میں تابع ہوں اسی کا جو حکم آوے میری طرف.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۷۷) : یہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب کو کافی نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے کہ مثنوی مولویِّ معنوی ہست قرآں در زبانِ پہلوی (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۱۷. عرب کے عمائد و اہل الرّائے آپؐ کے مکارم ِاخلاق کے مُقِرّ تھے.آپؐ نے اپنے اعلیٰ کیر یکٹر کا دعوٰی بڑی تحدّی سے پیش کیا اور فرمایا .امینؔ کا لقب تو آپ پا ہی چکے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۵ صفحہ ۲۲۶) : چالیس سال کی عمر کسی بشر کے حالات کیلئے کافی ہے.اس میں اس شخص کی احتیاط و تقوٰی کا علم ہو سکتا ہے.: کیا تم اسکے مقابلہ سے اپنے تئیں نہیں روکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) : نہ میں تمہیں سمجھاتا یہ قرآن.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۸)
۱۸،۱۹. : یہ اپنے صدق کی دلیل دی ہے کہ میں مظفر و منصور ہوں گا اور یہ دشمن شکست یاب.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) …: اور اﷲ کو چھوڑ کر ایسوں کو پوجتے ہیں.جو ان کو ضرر وَ نفع دے نہیں سکتے.اور کہتے ہیں.یہ اﷲ کے پاس ہمارے شفیع ہوں گے.تو کہہ کیا تم اﷲ کو وہ کچھ بتاتے ہو جو وہ آسمان و زمین میں نہیں جانتا.وہ تمہارے شرکوں سے بلند و برتر ہے.(تصدیق براہین احمدیہ جلد اوّل حاشیہ صفحہ ۱۴۲) ۲۰. : اس آیت میں اس امر کا بیان ہے کہ انبیاء و مجدّدین کس وقت میں مبعوث ہوتے ہیں.سو فرماتا ہے کہ لوگ ایک رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں.یعنی غیرتِ دینی اُٹھ جاتی ہے.کوئی نماز پڑھے تو پڑھے.شراب پیئے تو پیئے یعنی جب عیسیٰ بَدِین خود موسٰی بَدِین خود اور یہ کہ اپنی اپنی قبر میں پڑتا ہے.کے فقرے بولے جاتے ہیں.ایسے وقت میں.: اختلاف اس وقت پڑتا ہے کہ جب مامور اآجاوے.چنانچہ دوسرے مقام پر فرمایا:.
(بقرہ:۲۱۴)اور وہ کلمہ (نمل:۷۳)اور (انفال:۳۴) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۲۱. : وہ عظیم الشّان نشان جس میں سب ہلاک ہو جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۲۲. مَکْرٌ: تدابیر.جب کسی پر کوئی مشکل یا مصیبت بنتی ہے تو کئی طرح کے حیلے کئے جاتے ہیں.چنانچہ اس کی تشریح خود فرماتا ہے.ھُوَ الّذِیْ یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّوَالْبَحْرِ میں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۲۳. : بجائے بَکُمْ.اس لئے کہ یہ لوگ خدا سے دُوری میں پڑے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸) ۲۴. : نادان انسان جب مشکل سے نجات پاتا ہے تو اپنی تدبیروں پر اکڑ بازی کرتا ہے.ایک دفعہ میری ایک بہن کا بچہ پیچش سے بیمار رہ کر مر گیا.میں جو گھر آیا تو اس نے مجھے کہا.بھائی اگر تم ہوتے تو لڑکا بچ رہتا.مَیں نے کہا.اب ایک لڑکا ہو گا اور وہ میرے سامنے پیچش سے مرے گا تا ظاہر ہو کہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے سامنے ہماری تدبیریں ہیچ ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ایسے کلمات الہٰی عظمت کے خلاف ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۲۵. : جوانی کے دن خصوصیت سے قابلِ توجہ ہیں.انکی مثال دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۲۷. : دیدارِ الہٰی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۲۸.
: جس قسم کا کوئی گناہ کرتا ہے اسی قسم کی سزا پاتا ہے.یعنی جس غرض کیلئے گناہ کرتا ہے وہ غرض حاصل نہیں ہوتی.مثلاً کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اپنے لباس میں.اپنی زبان میں اپنے تعلّقات میں ایک شان پیدا کر لیتا ہے.چونکہ یہ لوگ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اس لئے تمام فہیم لوگ اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.اسی طرح چور حصولِ مال کیلئے چوری کرتا ہے وہ ہمیشہ مفلس و نادار اور غریب رہتا ہے.ایک چور کا ذکر ہے کہ اس نے کسی عورت کا زیور چُرا لیا.عورت نے دیکھ لیا.کچھ مدّت کے بعد وہی چور جس نے اس عورت کا زیور چُرا لیا تھا.اس کوچہ میں گزرا تو اس عورت نے کہا.دیکھو مجھے خدا نے وہی زیور پھر دے دیا مگر تم ویسے ہی بھوکوں مرتے ہو.اس پر وہ تائب ہوا.اسی طرح قمار بازوں کا حال ہے.یہی انجام عیاشوں اور شہوت پرستوں کا ہوتا ہے کہ وہ اس لذّت سے ہمیشہ کیلئے محروم رہ جاتے ہیں بلکہ ان میں آتشک.سوزاک.نامردی پیدا ہو جاتی ہے.شرابی اور افیونی بھی آرام نہیں پاتے.جو لوگ نکمّے بیٹھتے ہیں آخر انہیں ذلّت کے کام کرنے پڑتے ہیں یا ذلیل ہونا پڑتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۲۹. : آپس میں ان کا جھگڑا کرا دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۳۱. : ظاہر پائے گا.جیسییَوْمَ تُبْلَی السَّرَآئِرُ (طارق:۱۰) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۳۲. : یہمَوْلٰھُمُ الْحَقّ کا ثبوت دیتا ہے.چنانچہ اپنے احسان بیان فرمائے رزق موجبِ زندگی ہے اور سمع و بصر لُطفِ زندگی.: انڈوں سے چوزے اور مرغی سے انڈے.گندوں سے نیک اور نیکوں سے گندے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۳۴. : کیونکہ مسلمان کے معنے ہیں جو نیک نمونہ ہو.جو اﷲ کا فرماں بردار ہو جس کا مسلک صلح و آشتی ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) ۳۶. : اس کے آگے قِف ہے.اس بات کا اشارہ ہے کہ خوب سوچو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء)
۳۸. اﷲ تعالیٰ نے اس سورۃ میں نبی کریمؐ کی نبوّت کے بارے میں ثبوت دیئے ہیں.پہلے تو فرمایا کہ تم سمجھتے ہو کہ یہ بے کس و بے بس ہے.ہرگز نہیں بلکہ اس کا بھیجنے والا عرش کا مالک ہے.درمیان میں ایک بات آ گئی کہ ہمیں کس طرح معلوم ہو کہ یہ راست باز ہے یا منافقانہ طور سے کہتا ہے.واقعی یہ سوال اہم ہے کیونکہ ہر کارخانے میں ایک کارخانہ جھوٹ کا بھی ہوتا ہے اور مصنوعی اور اصلی شئے میں تمیز کرنے سے بعض عقلیں عاجزآ جاتی ہیں.ایک دفعہ ہم نے ایک رقعہ لکھا اور ایک اس قسم کے مدّعی سے کہا.اس کا جعل بنا دو.ہم نے اپنے رقعہ میں ایک باریک نقطہ لگا دیا.جب وہ جعل بنا کر لایا تو بعینہٖ وہ نقطہ اس میں بھی تھا اور یہ تمیز نہ ہو سکتی تھی کہ اصل کون سا ہے.راست بازوں کی پہچان کے متعلق ہم کو تو بہت سی آسانیاں ہیں کیونکہ اس سے پہلے کئی نبی اور صادق ہو چکے ہیں.چھوٹے اور سچّے کی تمیز کے لئے کئی معیار ہیں ان میں سے ایک کا بیان فرماتا ہے.ایک تو یہ کہ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ : اگلی کتب میں جو پیشگوئیاں ہیں وہ اس پر صادق آتی ہیں.حضرت نبی ٔ کریمؐکے بارے میں ایک پیشگوئی جو استثناء باب ۱۸ میں ہے.جس کی تفصیل’’ فصل الخطاب‘‘ میں ہے پھر انجیل میں خدا کی بادشاہت کا بار بار ذکر ہے جس سے مراد اسلامؔ ہے.کیونکہ مسیحؑ کو حکومت حاصل نہیں ہوئی.: بائیبل میں بہت سے مسئلے ہیں مگر بغیر دلیل اور مختصر.چنانچہ عیسٰیؑ سے ایک گروہ یہود نے ( جو مَنکرِ قیامت ہیں اور فریسی کہلاتے ہیں) کسی نے قیامت کی نسبت سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ تورات میں لکھا ہے کہ میں ابراہیم اور اسحاق کا خدا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) پس اگر وہ تھے نہیں تو’’ خدا ہوں‘‘ کیسے ٹھہرا.مگر اب قرآن شریف کو دیکھو کہ اس نے قیامت و حشر کے دلائل اور حالات کس تفصیل سے دیئے ہیں.ایسا ہی جنابِ الہٰی کی ذات کے متعلق تورات میں اختصار ہے اور خدا کے مجسّم ہونے کی نسبت کچھ اس قسم کا بیان ہے کہ اسکی غلط فہمی سے مسیح ؑ کو خدا بنا دیا ہے مگر خدا نے قرآن شریف میں اس
مسٔلہ کو خوب کھولا ہے.ان دو ثبوتوں کو پیش کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ اس سے ہونے کا ثبوت ملتا ہے.مگر ایک اور ثبوت لو وہ یہ کہ قُلْ (بقرۃ:۲۴) اس کی مثل ایک سورت تو بنا لو اگر ایک شخص واحد کوئی کلام بنا سکتا ہے.تو کئی شخصوں کی مجموعی قوّت ضرور بنا سکتی ہے.جب ایسا نہیں کر سکتے تو صاف ثابت ہوا کہ یہ خدا کا کلام ہے.ولنعم ما قیل ؎ بنا سکتا نہیں اک پاؤں کیڑے کا بشر ہرگز تو پھر کیونکر بنانا نورِ حق کا اس پہ آساں ہے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ نومبر ۱۹۰۹ء) یہ قرآن اﷲ کے سوا اور کا بنایا ہوا نہیں.لیکن تصدیق ہے اس کتاب کی جو اس کے آگے ہے.عیسائی علماء نے عدم فہمیٔ قرآن سے تصدیق و مصدّق کو جو قرآن میں جا بجا آیا ہے کچھ اور سمجھ کر خامہ فرسائی کی ہے.اصل مطلب یہ ہے کہ موسٰیؑ نے پیشینگوئی کی کہ میرے مثل ایک نبی پیدا ہو گا.اور خدا کا کلام اس کے مُنہ میں ڈالا جائے گا.اور یہ خبر اپنے وقوع کی محتاج تھی.ضرور تھا کہ موسٰیؑ کی پیشینگوئی کی تصدیق ہو گئی.پس تصدیق و مصدّق کے لفظ کے یہی معنی ہیں.اب اگر قرآن کو سچّا نہ مانیں اور آنحضرت ؐ کو حضرت موسٰیؑ کا مثیل ہونا تسلیم نہ کریں.بایں کہ آپؐ نے یہ دعوٰی بڑے زور سے کیا اور خدا نے انہیں کامیاب کیا.تو کتبِ مقدّسہ کی اقدم و اعظم کتاب توریت کی تکذیب لازم آتی ہے.آگے اختیار ہے.(فصل الخطاب (ایڈیشن دوم) حصّہ دوم صفحہ ۹۲) یاد کرو.دونوں شہر سے نکلے.مگر مظفر و منصور کون ہا اور ہلاک کون ہوا؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۴۲.
: باوجود ان حججِ باہرہ کے پھر بھی جھٹلائیں تو اور ثبوت لو.وہ یہ کہ تم بھی اپنا کام کر رہے ہو اور مَیں بھی.دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس کا حامی ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی قوی شہادت کے علاوہ فعلی شہادت کس کے حق میں ہوتی ہے.میں نے اپنے نزدیک ایک معیار رکھا ہے جو اس آیت سے نکلتا ہے.بہت ہی مُخَلَّی الطبع ہو کر خیرات و صدقہ و استغفار کر کے بالاستقلال دعا مانگے تو کبھی دھوکے میں نہیں رہتا.میں نے بارہا اس اصل سے مدد لی ہے.یعنی ان شرائط سے دعا کرتا ہوں.دینیات کے محکمہ کا آفیسر جبرئیل ہے.دنیا کے محکمہ کا آفیسر میکائل ہے.اور اموات کے محکمہ کا آفیسر عزارائیل ہے اور جہات کے محکمہ کا آفیسر اسرافیل ہے.جو کام ہوتے ہیں وہ انہی کی معرفت ہوتے ہیں.اسی لئے ان چاروں کے نام اندر لے لیتا ہوں اور یوں کہتا ہوں.ربّ.دومؔ لاَحَول کی کثرت.سومؔ.الحمد.چہارمؔ خیرات دیتا ہوں.پنجم ؔ عاجزی سے نماز کے اندر دعا مانگتا ہوں.ایک وعدہ ہوتا ہے اور ایک وعید.دونوں میں فرق ہے اگر کسی سے کہیں.تم ہمارا یہ کام کر دو تو ہم تمہیں دس روپے انعام دیں گے اور اگر کہیں کہ یہ کام نہ کرو گے تو سزا پاؤ گے.وعدہ ہوتا ہے کسی کو انعام دینے کیلئے.اور جونارضامندی کے ظاہر کرنے کیلئے بات کی جاوے یا سلوک کیا جاوے.اسے وعید بولتے ہیں.اس وعدہ وعید کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ عربی زبان میں یہ مشہور ہے.اِنِّیْ اِذَا ون عندْتُّہٗ أَوْ اَوْعَدْتُہ مُنْجِذُ وَعَدِیْ وَمُخْلِفُ ابیْعَادِیْ.جس سے معلوم ہوا کہ وعیدہ کے خلاف کرنے کا نام جرم نہیں.پس اگر کسی کو ہم وعیدہ کریں اور پھر اسے سزا نہ دیں تو کوئی یہ نہ کہے گا کہ تم جھوٹے ہو.اسی بناء پر وعید سے درگزر کرنے کا نام کرم اور رحم ہے.وعید کی پیشگوئیاں ٹل جاتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۴۷.
: جن باتوں کے لئے ہم نے تیرے لئے ان مخالفین کو وعید کیا وہ یا تو دکھادیں گے یا ہم تجھے وفات دے دیں گے.ایک اور بات ہے وعدہ.اس میں تین شان ہیں.کسی لڑکے کو ہم نے کہا کہ اگر تم فلاں عمر میں پاس ہو جاؤ تو ہم تمہیں لطیف کوٹ دیں گے.اب اس کے پاس ہونے میں اگر ہم بجائے کو، کے یہ کہہ دیں کہ ایم.اے کی تعلیم تک کے اخراجات اپنے ذمّہ لیتے ہیں تو اسے وعدہ کا اِخلاف نہیں کہیں گے.وعدہ کی پیشگوئیاں ترقی کے رنگ میں آ جاتی ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ اسے کہہ دے کہ ایم.اے تک کیا پس تم تو اب ہمارے ہو گئے اور ہم تمہارے.یہ اعلیٰ درجہ کا انعام ہے.جس کے ساتھ کوئی انعام لگّانہیں کھاسکتا.تیسری بات یہ ہے کہ اس چیز کے بدلہ میں کوئی اور چیز دے دی جائے مثلاً کوٹ کا وعدہ ہے.مگر ضرورت دیکھ کر اسے رضائی و تو شک دیدیں.صورت میں تو اختلاف ہو گیا مگر نفسِ وعدہ میں اختلاف نہیں ہوا.ایک اور غلطی ہے کہ پیشگوئیاں معیارِ صداقت ٹھہریں.دنیا میں پیشگوئی خدا کا قول ہے.جیسا کہ اس کا قول سچّا.فعل بھی سچّا ہوتا ہے.کاستکاروں کو دیکھو کہ جب ایک دفعہ انہوں نے گیہوں کے ایک دانے کے بہت سے دانے ہوتے دیکھے تو پھر بیج بو کر کہہ دیتے ہیں کہ اب ہماری فصل پک جاوے گی.یہ گویا خدا کے ایک فعل کی بناء پر پیشگوئی کی ہے.اسی طرح جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں بجے کی گاڑی پر آ جاویں گے.یاہم ایف اے بی اے کر لیں گے تو یہ ایک طرح کی پیشگوئیاں ہیں.مگر ممکن ہے جیسا کہ امید کی گئی ہے.یہ بات پوری نہ ہو.کوئی درمیانی حادثہ پیش آ جاوے.تاہم کہنے والے کو جھوٹا نہ کہیں گے ورنہ بعض دفعہ ان درمیان میں پیش آنے والی باتوں کی بناء پر لوگ کام چھوڑ بیٹھتے ہیں.کیونکہ ہمیشہ کثرت کی بناء پر فیصلہ ہوتا ہے اور کثرت پر اعتبار کیا جاتا ہے.پس معیارِ صداقت کثرت و قلّت کی بناء پر ہے.دیکھو لوگ مجھے طبیب اور تجربہ کار سمجھتے ہیں تو اس کے یہ معنی ہیں کہ سب بیمار میرے ہاتھ سے شفا پا گئے.جب ایسا نہیں ہوتا تو پھر لوگ کیوں میری طرف رجوع کرتے ہیں.کثرت کی بناء پر.پس تمام پیشگوئیوں کا انہی الفاظ میں پورا ہونا ضروری نہیں.اعتراض کیا جاتا ہے کہ قول میں کیوں اختلاف ہوا.ہم کہتے ہیں کہ فعل الہٰی میں کیوں اختلاف ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ بعض اوقات تنزّل ترقیات کیلئے ہوتا ہیبَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ کے معنی اس تشریح سے سمجھ میں آجائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : یہاں تک ہم رُوح قبض کر لیں گے تیری.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵۸) ۴۸.
ہر ایک گروہ کے لئے ایک رسول ہے.جب وہ رسول ان کا آتا ہے تو ان میں انصاف سے فیصلہ کیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۶) ۴۹،۵۰. اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہو گا اگر تم سچّے ہو؟ تو کہہ.میں تو اپنی جان کیلئے نفع اور ضرر کا مالک نہیں.مگر جو کچھ چاہے اﷲ.ہر ایک گروہ کیلئے وقت اور معیاد مقرّر ہے.جب ان کا وقت آجاتا ہے اُسے ایک گھڑی پیچھے نہیں کر سکتے اور نہ اس گھڑی کو آپ آگے لا سکتے ہیں.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۶) … یہ تو ایک پیشگوئی ہے اور اس میں جنابِ الہٰی نے بتایا ہے کہ ہر قوم کیلئے ایک شخص اﷲ کی طرف سے بھیجا ہوا آیا کرتا ہے.جب وہ آتا ہے تو لوگ اس کے موافق بھی ہوتے ہیں اور مخالف بھی.آخر دونوں کے درمیان انصاف کا فیصلہ ہو جاتا ہے.جب یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مخاطبین کو سناتے ہیں.وہ پوچھتے ہیں کہ اگر تم اس پیشگوئی کے کرنے میں صادق ہو تو بتاؤ یہ وعدہ کب پورا ہو گا؟ اس پر خدا تعالیٰ اپنے نبی سے فرماتا ہے کہ یُوں جواب دو کہ مَیں خود نفع پہنچانے اور ضرر دینے کا مالک نہیں کہ میں وقت بتا دوں.ہاں اﷲ ہے.جو اﷲ چاہتا ہے وہی ملا رہتا ہے.ہر ایک کیلئے ایک وقت مقرّر ہے.اس میں کم و بیش نہیں ہوا کرتا.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۷۵.۷۶) ۵۵. : ندامت کو ظاہر کریں گے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸)
۵۸. : بیمار کیلئے پہلے ازا لۂ مرض کی ضرورت ہوتی ہے پھر قوّت کی.قرآنِ مجید روحانی امراض کو دور کر کے ترقیات کیلئے قوت دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۱. یہ بات چلی ہوئی تھی کہ معیارِ صداقت کیا ہے.انبیاء اور ان کے اتباع کا یہ قاعدہ ہے کہ ان کو کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو خاموش رہتے ہیں.ایک تاریخی واقعہ یاد آیا کہ ایک عالم سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو وہ خاموش رہے.اس پر اس شخص نے کہا کہ پھر اب کس سے پوچھیں ؟ انہوں نے کہا تم ایک مسئلہ کے نہ جاننے سے گھبراتے ہو حالانکہ کس قدر میری لاادریاں۱؎ ہیں.پس یہ بھی معیارِ صداقت ہے کہ راست باز اپنی اٹکل بازی سے کچھ جیزوں کو حلال یا حرام نہیں ٹھہراتا.: وہ اپنے فضل سے حرام و حلال بتا دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۶۲. ایک اور معیارب صداقت بتاتا ہے.تم نے سنا ہو گا کہ حضرت عمرؓ بڑے رُعب والے تھے.حضرت علیؓ نے کوفہ میں جا کر جب بہت سی مشکلات دیکھیں تو ابن عباسؓ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے پہلے لوگوں کو اتنی جرأت نہ ہوئی تھی.انہوں نے کہا.ابن عباس! تم ہی کہو.جب تم آذربائیجان میں تھے تو عمرؓ کی نسبت کیا خیال کرتے تھے.وہ بولے کہ مَیں تو ایسا سمجھتا تھا کہ ایک جبڑا تو ان کے ہاتھ میں ہے اور دوسرے پر پاؤں رکھا ہوا.چاہیں تو ابھی چیر دیں.اس پر حضرت علیؓ نے کہا.کیا تو میرا بھی رُعب ایسا مانتے ہو؟ غرض ان خلفاء راشدین کے ۱؎ جمع لَا اَدْرِیْ : میں نہیں جانتا.مرتّب وقت کے جلال اور شوکت پر نظر کرو.پھر دیکھو کہ ایسے بارعب آدمیوں کو بھی مارنے والے نے سرِ مجلس مار دیا.حضرت عثمانؓ کا پانی تک بند کر دیا.قتل بھی کیا.انکی چلتی پرزہ قوم کی کچھ پیش نہ گئی.حصرت علیؓ کی شجاعت نے بھی کچھ کام نہ دیا مگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ایسی حالت میں تھے کہ چاروں طرفوں سے دشمنوں کا نرغہ تھا.پھر بھی کوئی آپؐ کے قتل پر کامیاب نہ ہو سکا.ایک دفعہ کا ذکر ہے.کہ آپؐ نے خیمہ سے سر نکال کر باہر دیکھا کہ کوئی پہرہ دے رہا ہے.آپؐ نے فرمایا.تم چلے جاؤ پہرہ کی ضرورت نہیں اس حفاظت کا ذکر آیت میں فرماتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۶۳،۶۴. : اب اولیاء اﷲ کے نشان بتاتا ہے.ایک تو یہ ہے کہ ان کو خوف نہیں ہوتا کہ ہم ناکام رہیں گے.نہ حُزن ہوتا ہے کہ ہمیں یہ نقصان پہنچے گا.حصرت عمرؓ و علیؓ کے قتل سے بھی اسلام کا کوئی نقصان نہیں ہوا.چنانچہ حضرت عمرؓ کے مقبوضات ابھی تک تیرہ سو برس سے مسلمانوں کے قبضہ میں چلے آتے ہیں.کربلا کا واقعہ جو پیش کرتا ہے.اُسے سمجھ لینا چاہیئے کہ وہاں کے عارضی فاتحین کا نام و نشان تک نہیں.اور جو وہاں شہید کئے گئے.ایک دنیا میں ان کا ڈنکا بج رہا ہے.سیّد تو ہر گاؤں میں ملیں گے.مگر کوئی نہیں ملے گا جو اپنے تئیں یزید کی اولاد سے کہے بلکہ نام بھی یزید ہو.خوارج تک کا یہ نام نہیں ہوتا.: یہ ولی اﷲ کی تعریف ہے.ایمان لائے اور پھر تقوٰی میں ترقّی کرتا رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۵. : ضرور ہے کہ وہ دنیا میں بھی مبشرات ( الہامات) سے مشرّف ہوں اور اس دنیا میں وہ آخر کی زندگی کا جلوہ دیکھیں.: خدا کی باتیں اٹل ہوتی ہیں.عیسائیوں نے یہاں دھوکہ کھایا ہے وہ کہتے ہیں کہ کلام اﷲ میں تحریف نہیں ہوئی.حالانکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کی پیشگوئیاں ضرور واقع ہوتی ہیں.اور ان کو کوئی ٹال نہیں سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) پر اعتراض کیا ہے ’’ اگر کلمات سے مراد قانونِ قدرت ہے تو قرآن میں خلاف قانون قدرت کیوں؟… اگر آیات ہیں تو نسخ کیوں؟ محقّق کتنے ہی احکام قرآن سے دکھا سکتا ہے جو پہلے جائز کئے اور پھر ممنوع.شراب پہلے حرام نہیں کیا پھر حرام کیا.اسی طرح بیت المقدس قبلہ رکھا.پھر نہ رہا.‘‘ الجواب: جس کو تم قانونِ قدرت کہتے ہو اس کے خلاف بھی قرآن کریم میں ایک کلمہ نہیں مگر یہ یاد رہے کہ قانونِ قدرت میں تھیوریاں، خیالی فلسفہ پیش نہ کرنا.سائنس کے
خلاف کچھ دکھاؤ! اور نسخ بمعنے ابطال حکم بھی.قرآن کریم میں قطعًا نہیں! کیا معنی؟ قرآن کریم میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں جس پر کسی زمانہ میں تو ہم کو عملدر آمد کرنا ضرور تھا اور اب اس پر عملدر آمد کرنا کسی طرح جائز نہ ہو بلکہ قطعًا موجود نہیں.اسی طرح ایسی آیت بھی نہیں اور قطعًا قرآن کریم میں نہیں کہ جس میں لکھا ہو.سراب حلال ہے تو پیار کرو.ہاں یہ بات ہے کہ شراب پہلے ہی حرام کیوں نہ کیا.دیر کے بعد کیوں حرام کیا.مگر اس میں نسخ کس حکم موجود فی القرآن کا ہوا؟ نزولِ ارشادات آخر بتدریج ہوا کرتا ہے.کیا وید کے تمام احکام بلا کسی ترتیب کے یکدم رشیوں نے سمجھے تھے؟ نہیں اور ہرگز نہیں! آپ تو کہتے ہیں کہ محقّق کتنے احکام نکال سکتا ہے کہ پہلے جائز کئے پھر ممنوع.ہاں مجھے تو کوئی آیت ایسی معلوم نہیں جس سے یہ پایا جائے کہ فلاں حکم جائز یا ضرور ہے.پھر بعینہٖ اسی حکم کو کہا گیا ہو کہ یہ حکم ممنوع ہے.نہیں.نہیں!! اور ہرگز نہیں! ہم کو ہمارے قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ فلاں حکم جو فلاں آیت میں ہے اب قطعًا منسوخ ہو گیا.ہمارے ہادی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ فلاں حکمِ قرآن اب منسوخ ہے.آپؐ کے پاک جانشینوں ابوبکرؓ و عمرؓ … نے بھی نہیں فرمایا کہ فلاں حکمِ قرآنی اب منسوخ ہے.اس پر بالکل عمل درست نہیں! نسخ کے معنے اگر ابطالِ حکم کے ہیں کہ قرآن میں ایک حکم موجود ہوا اور وہ منسوخ ہو گیا ہو تو ایسا حکم بھی مجھے ہرگز معلوم نہیں! اگر کسی کو اس کے خلاف دعوٰی ہو تو ثبوت دے! قرآن کریم حسبِ ارشادِ الہٰی اِکمال کیلئے آیا ہے.جیسے اﷲ نے فرمایااَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (مائدہ:۴) پس وہ حقائقِ ثابتہ کے ابطال کیلئے نہیں آیا.بلکہ اثباتِ حقائق کی ختم اکُتُب ہے !! (نور الدّین صفحہ ۲۴۷.۲۴۸) ۶۶. : ُمخاطبین عجیب عجیب طرح سے حقارت کے کلمات بولتے ہیں.مگر آخر سب جھوٹے نکلتے ہیں.نوحؑ کے ساتھیوں کو کہا گیاھُمْ انرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ (ھود:۲۸)
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ اَنَا ابْنُ عَبْدِالْمُطَّلِبْ جب سے صاف ظاہر ہے کہ آپّ کو جتھّے کی پرواہ نہ تھی.تیسری باتوَ اﷲُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (مائدہ:۶۸)کا نزول ہے جس پر آپؐ نے پہرہ دینے سے منع کر دیا.ایسا ہی اس رکوع میں حضرت نوح ؑکے حالات پر غور کرو کہ اکیلا شخص پکارتا ہے (یونس:۷۲).کیا اس کلام کو پڑھ کر یہ شک بھی رہ سکتا ہے کہ نبیوں کو جتھّوں کی پرواہ ہوتی ہے.پھر حضرت موسٰی کے واقعات پر غور کرو کہ جب آگے دریائے نیل تھا اور پیچھے فرعون کی فوج.اس وقت اصحاب موسٰیؑ نے کہا (شعراء:۶۲) مگر حضرت موسٰیؑ کس اطمینان سے کہتے ہیں کہ (شعراء:۶۳) پس مکّہ شریف میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا صبر اس لئے تھا کہ یہ لوگ کسی طرح سمجھ جاویں.: بڑا لگتا ہے.فَعُلَ کا وزن ایسے ہی معنوں کے لئے مخصوص ہے.: چھُپ چھُپ کر نہ کرو بلکہ کھلم کھلا مخالفت کرو.کُھلے بندوں زور لگاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) میرا بھروسہ خدا پر ہے.تم سب جمع ہو کر جو حیلہ چاہو کر لو.اور ایسا کرو کہ تم کو اپنی کامیابی میں کوئی شک و شبہ نہ رہے اور کوئی مفر میرے لئے نہ رہنے دو.پھر دیکھ لو کہ تم ناکام اور مَیں بامراد ہوتا ہوں کہ نہیں.پس ایسے ایسے موقعوں پر خدا تعالیٰ اپنے مُرسلوں کے دشمنوں کو بے دست و پا کر کے بتلاتا ہے کہ دیکھو.میں اس کا محافظ ہوں کہ نہیں اور یہ ہمارا مُرسل ہے کہ نہیں.عرضیکہ انبیاء کی بعثت میں ایک سرّ ہوتا ہے کہ ان کے ذریعہ سے الہٰی تصرّف اور اقتدار کا پتہ لگتا ہے.(الحکم ۱۰؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲) ۷۴. : پس نبیوں کو تو اپنے مولیٰ کا بھروسہ ہوتا ہے.حضرت نوحؑ کی ایک دُعا (نوح:۲۷) کام کر گئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) ۷۶.
: موسٰیؑ کی طاقت تو یہ تھی کہ ایک آدمی مر گیا تو وہاں سے بھاگ نکلے.تلاشی ہونے لگی تو صندوق میں ڈالے گئے.آخر اس موسٰیؑ نے فرعون پر فتح پائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) ۸۴. بنی اسرائیل ایک روایت کے مطابق ۲۵۰ سال اور بروایتے چار سو سال فرعون کے ظلم میں گرفتار رہے.: ایسے چکر میں نہ ڈالیں کہ ہماری کمزوریاں ظاہر ہو جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) ۸۶. : مومن تمام مشکلات کا مقابلہ دُعا سے کرتا ہے اور اسی سے کامیاب ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) ۸۸. : مختلف علاقوں سے اکٹھے ہو کر سب مصر میں اپنا گھر بنا لو.: بچپن میں ایک عیسائی نے مجھ پر اعتراض کیا کہ اس کے معنی ہیں اپنے گھروں کو قبلہ رُخ بناؤ.اب تم بتاؤ کہ موسٰیؑ کو تمہارے قبلہ کی کیا ضرورت تھی.دوم یہ ثابت کرو کہ ان کا بھی کوئی قبلہ تھا.
میں نے اس وقت لُغات کی کتاب کو دیکھا تو معلوم ہوا.قِبْلَۃً کے معنی مُتَقَابِلَۃً ہیں.پس میں نے اسے بتایا.ان کو یہ حکم ہوا کہ اپنے گھروں کے دروازے ایک دوسرے کے مقابلہ پر بناؤ تاکہ خطرہ کے وقت ایک دوسرے کے کام آ سکو.وہ وقت تو یوں گزر گیا.پھر خدا نے میری معرفت بڑھائی اور میں نے توریت میں پڑھا کہ حکم دیا گیا کہ تم قربانی کے خون کے نشان اپنے گھروں کی چوکھٹوں پر لگا دو تاکہ عذاب ے فرشتے ان کو پہچان لیں.میں نے کہا کیا فرشتے بغیر اس کے پہچان نہ سکتے تھے؟ یہ تو اس پر اعتراض کیا اور معنے یہ کئے کہ اب تم اپنے گھروں کو قربان گاہ بنا لو اور خون کے نشان لگنے سے ان کے گھر امن کے گھر بن گئے.اس لئے بھی ان کو قبلہ کہا گیا.چوتھے معنی یہ ہیں کہ نمازیں بھی اپنے گھروں میں پڑھ لیا کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) قبلۂ یہود وہ جگہ تھی جہاں وہ قربانی کرتے تھے اور فسح کی رسم ادا کرتے اور عبادت کرتے تھے.دیکھو میزان الحق صفحہ۲۲.پھر یروشلم یہودیوں کا قربان گاہ اور عبادت گاہ تھا اور خدائے تعالیٰ وہاں اپنے تئیں ایس ظاہر کرتا تھا کہ گویا اس جگہ میں رہتا تھا.انجیل لوگ ۲ باب ۴۱ سے ۴۲ تک.اُس (مسیح)کے ماں باپ ہر برس عید فسح میں یروشلم کو جاتے تھے اور جب وہ بارہ برس کا ہوا.وے عید فسح کے دستور پر یروشلم کو گئے.خروج ۳۴ باب ۲۳.اور استثناء ۱۶ باب ۱۶ میں بھی ایسی ہی باتیں لکھی ہیں.اب اس سے واضح ہو گیا کہ یہ نشانات اور یہ حقیقت قبلۂ یہود کی تھی.
اب خروج ۱۲ باب ۳ سے ۷ تک اور ۲۲ سے ۲۴ تک دیکھ ڈالو.اس میں لکھا ہے کہ اسرائیلیوں کے سارے گروہ سے یہ بات کہو کہ اس مہینے کے دسویں دن ہر ایک مرد اپنے اپنے گھر باپ دادوں کے گھرانے کے مطابق ایک برّہ گھر پیچھے اپنے لئے لے اور شام کو ذبح کرو اور اس کا چھاپا دروازے پر لگاؤ.باب ۲۳ میں ہے.خداوند در پر سے گزرے گا اور ہلاک کرنے والے کو نہ چھوڑے گا کہ تمہارے گھروں میں آکے تمہیں مارے اور خداوند کا یہ بھی حکم تھا کہ گھر سے باہر نہ نکلیں اور یہ رسم گھر کے اندر ہی ادا ہو.یہی مطلب قرآن کا ہے کہ گھروں کو قبلہ بنا؟ؤ یعنی یہ رسم گھروں ہی میں ادا کرو … اہل اسلام کے نزدیک قبلہ وہ جگہ ہے جہاں قتل کا امن ۱؎ ضروری ہو اور جس پر خاص خداوندی نظر ۱؎ سے ہو گا.واﷲ اعلم.مرتب.ہو.چنانچہ دیکھو.بیت اﷲ کی نسبت جو اہلِ اسلام کا قبلہ ہے.قرآن میںحَرَمًا آٰمِنًا وارد ہوا ہے.اس لئے کہ وہاں قتلِ نفس حرام ہے.اس طور پر بھی قبلہ کہنا صحیح ہے.کہ فرشتے نے بنی اسرائیل کے گھروں کو امن دیا اور فرعون کے پلوٹھے مار ڈالے.قبلہ کے معنی متقابلہ کے بھی ہیں.یعنی آمنے سامنے.بنی اسرائیل کو حکم تھا کہ اپنے اپنے گھر ایکدوسرے کے سامنے بنا دیں اور مصلحت اس میں یہ تھی کہ رات کو نکل جانے کیلئے اچھا موقع ملے.دیکھو گنتی.(فصل الخطاب حصّہ اوّل (طبع اوّل) صفحہ ۲۰۵،۲۰۶) ۸۹. : انبیاء بہت رقیقاالقلب ہوتے ہیں.مگر جب حجّت پوری ہو چکتی ہے تو پھر وہ بڑے سخت ہو جاتے ہیں.ایک وقت ان کے مومن بنے کی کوشش فرمائی جاتی ہے.دوسرے وقت میں کہا کہ ایمان لانے کی توفیق ان سے چھین لے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹)
: اے رب ان کے مالوں پر جھاڑو پھیردے اور ان کے دل سخت کر دے.پس وہ ایمان نہ لاویں جب تک درد دینے والا عذاب نہ دیکھ لیں.(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۶ صفحہ۳۵۷) حضرت موسٰیؑ … کی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروا لیا..نبیوں کو.خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پرواہ ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.میں تمہیں دعاؤں کی طرف متوجّہ کرتا ہوں.تم یوں سمجھو کہ دعاؤں کیلئے پیدا کئے گئے اور یہی دعائیں تمہارے سب کام سنواریں گی.(بدر ۴؍نومبر ۱۹۰۹ صفحہ۱) ۹۰. : اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا کے باوجود یہ دو شرطیں ظاہر کرتی ہیں کہ عذاب کا وعدہ ٹل بھی جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹) ۹۱. : فرعون موسٰیؑ کے تابع نہ تھے.پس بغاوت صرف اپنے حاکم سے نہیں ہوتی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۸) ۹۳. : اس زمانہ میں اس کی لاش نکلی ہے.یہ قرآن شریف کا اعجاز ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۹۴. اﷲ کا کوئی بنے تو بہت سُکھ پاتا ہے.مگر افسوس بعض لوگ اپنے علم و فضل پر نازاں رہتے ہیں بعض اپنی قومیت پر.بعض جتھّے پر.بنی اسرائیل کو مصر میں پہلے سب باتیں حاصل تھیں.جتھّا بھی تھا.قومیت بھی.علم و فضل بھی جب اﷲ تعالیٰ سے تعلق منقطع ہوا تو یہ سب باتیں کسی کام بھی نہ آئیں.وہ غلام بنائے گئے.ان سے اینٹیں پکوانے کا کام لیا گیا.بلکہ یہ بھی حکم ہوا کہ اس کا سامان بھی یہی مہیّا کریں.پھر جب ان کو خدا یاد آیا تو خدا بھی ان پر متوجّہ برحمت ہوا.: عربی زبان میں صدقؔ مضبوط جگہ کو کہتے ہیں.: وہ دن بھی ہوتا ہے جس دن انسان مرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۹۵. : یعنی اے شک کرنے والے اگر تُو شک میں ہے.عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ فعل سے فاعل مشتق ہو جاتا ہے.
قاعدہ ہے کہ فعل سے فاعل مشتق ہو جاتا ہے.پارہ ۱۵ سورۃ بنی اسرائیل میں پڑھیئے کہفَلَا تَقُلْ لَّھُمَا اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَدْھُمَا (بنی اسرائیل :۲۴) حالانکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم یتیم تھے.پس وہ مخاطب نہیں ہیں.اگر یہاںمِمَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ آیا ہے تو اس سے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی خصوصیت ثابت ہو گی.کیونکہ سورۂ اعراف میں ہے.اتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَبِّکُمْ (اعراف:۴) : اے مخاطب نہ ہو شک کرنے والوں سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء نیز تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹) ۹۹. : عرب میں بھی ایک امن کی بستیحَرَمًا اٰمِنًا (قصص:۵۸)اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ (قریش:۵) اس کو سمجھایا ہے کہ ایمان لائے.یونس کی قوم کی طرح فائدہ اٹھائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۰۰. : اگر اﷲ چاہتا تو انسان کے تمام ایسے قوٰی بنا دیتا.کہ ان پر فعل یا ترک کا کوئی دخل و تصرّف نہ ہوتا.اور اس طرح نہ ماننا ان کی فطرت میں ہی نہ رہتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۰۱.
: جو بدیوں سے نہیں رُکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۰۴. : مومن کو تمام مشکلات سے نجات دیتے ہیں.مگر کوئی مومن بھی ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۰۵. : رُوح کی بقاء کے مسئلہ کو ذہن نشین کرنے کیلئییَتَوَفّٰی استعمال میں آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء )
سُوْرَۃُ ھُوْدٍ مَّکِّیَّۃٌ ۲. اَنَا اﷲُ اَرٰی: اﷲ تعالیٰ جل شانہٗ فرماتا ہے بُتوں کے حامی جو کچھ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے رہتے ہیں.وہ مَیں دیکھ رہا ہوں ( جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں انکی شرارتوں کا علم ہے اس کے مطابق بازپُرس ہو گی.اس سورۃ میں دشمنانِ رسالت آب کی شرارتوں کا بیان ہے.: دنیا کے تمام راستبازوں کی تعلیم کی جامع کتاب.: ایک مقام پر فرمایا (حٰم سجدہ:۴۵) جس سے ظاہر ہے کہفُصِّلَتْ کی مصداق عربی زبان ہے جو بہت فصیح اور تمام قسم کے معانی اور مافی الضمیرکے اظہار کے لئے کافی ہے.کوئی زبان اﷲ کا ترجمہ مفرد لفظ میں برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں.: یہ کتاب حکیم کی طرف سے ہے.عام حکیم جو کچھ کہتے ہیں اس کے سامنے عوام کوچون و چرا کا یارا نہیں چہ جائیکہ ایک عظیم الشان حکیم کی طرف سے ہو اور حکیم بھی ایسا کہ جو ہر طرح سے باخبر ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۳. : پس یہ اس کتاب کی تعلیم کا خلاصہ ہے.یہی کلمۂ اسلام کی روحِ رواں ہے.جس کے اعلان کا یہاں تک اہتمام ہے کہ پانچ وقت کوٹھوں پر چڑھ کر تبلیع کی جاتی ہے.اور دنیا میں کسی مذہب نے کسی بات کی اس زور سے اشاعت نہیں کی.
: یہ توحید کو کامل کرنے کے لئے اس کا دوسرا حصّہ ہے کیونکہ سب احکامِ الہٰی مبارک وجودوں کے ذریعے سے ظاہر ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۴. : بعض لوگ قرآن سکھینے یا اس پر عمل کرنے کی نسبت یہ عذر کرتے ہیں.فکرِ معاش.دو دن کی زندگی میں بھلا کیا کرے کوئی.فرماتا ہے رزق کا سامان ہم خود کریں گے.مَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ میں اس مسئلہ کو کھولا ہے.: مذہبِ حق اختیار کرنے سے بعض دُکھوں سے ڈرتے ہیں.فرماتا ہے کہ وہ عذاب حق کے انکار کرنے کی سزا میں ہے اس سے بہت بڑھ کر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۷. ایک زمیندار اس نکتہ کو خوب سمجھتا ہے کہ غلّہ کے حصول کیلئے زمین کی کاشت اور پھر اس میں تخم ریزی آب رسانی کی ضرورت ہے.اور وہ باوجود اﷲ تعالیٰ کو خیر الرازقین جانتے اور ( کوئی جانور نہیں مگر کہ اس کا رزق اﷲ کے ذمّے ہے) پر ایمان لانے کے محنت کرتا اور ان اسباب سے کام لیتا ہے.ایک بیوقوف سے بیوقوف شخص بھی مانتا ہے کہ آنکھیں بند کر لیں تو زبان سے نہیں دیکھ سکتے اور مَشک کا مُنہ اگر کھول دیں توضرور ہے کہ پانی سے خالی ہو جائے.غرض یہ تو سب جانتے ہیں کہ سلسلہ اسباب کا مسبّیات سے وابستہ ہے اور ہر ایک فعل کا ایک نتیجہ ہے اور خدا تعالیٰ کے قواعد
ضوابط اٹل ہیں.مگر بڑے تعجّب کی بات ہے کہ بایں ہمہ لوگ دین میں بد اعمالی و نیک اعمالی کے نتائج سے غافل ہیں اور جنّت کو بغیر کسی صالح عمل اور ایمانِ صحیح کے حاصل کرنا چاہتے ہیں دین کے بارہ میںاِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ تَحِیْم (اﷲ بخشنہار ہے)اِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَیْیئٍ قَدِیْرٌ(اﷲ ہر چیز پر قادر ہے) پڑھنے میں بڑے دلیر ہیں.(تشحیذالاذہان نمبر۲ صفحہ) ۸. : ہر چیز جو کمال کو حاصل کرتی ہے.چھ مراتب کو طے کر کے.فرماتا ہے کہ آسمان و زمین کو پیدا کیا.پھر اسے کمال تک پہنچایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۹؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۰. : جو لوگ خدا کی کتاب اور خاتم النبیّینؐ کے حالات و تعلیمات سے ناواقف ہیں ان کی یہ حالت ہوتی ہے.دنیا میں کبھی خوشی آتی ہے اور کبھی غمی اور کبھی صحت ہوتی ہے اور کبھی بیماری اور کبھی دُکھ اور کبھی سُکھ.انسان پر یہ دونوں حالات ضرور آتے ہیں.مگر ایک نبیوں کے متبع ہوتے ہیں.ایک جو انکی تعلیمات کی پرواہ نہیں کرتے.یہاں آخرالذکر کا ذکر ہے.: بے ایمان انسان ناامید ہو جاتا ہے.مگر نبیوں کے متبع کی نسبت مثنوی میں آیا ہے ؎ ہر بلاکیں قوم راحق دادہ است زیرِ اُو گنج کرم بنہادہ است
ایک بیوی کا خاوند فوت ہو گیا.اس کے دل میں خیال آیا کہ اب اس کی مثل کون ہو گا.مگر معاً اس نے استغفار کیا.اور کہا کہ خدا تعالیٰ کو سب قدرتیں ہیں.چنانچہ اس کے بعد اس کا نکاح حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے ہو گیا.اور اس نے خود اقرار کیا کہ یہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا.یاس مومن کا کام نہیں.حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی ایک موقعہ پر فرمایا ہے (یوسف:۸۸) چنانچہ اس کا پھل پایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۱. : حدیثوں میں ایک شخص کا ذکر ہے جسے جذام تھا.اس کے سامنے فرشتہ متمثل ہو کر آیا اور پوچھا کیا چاہتا ہے.کہا لَوْنٌ حَسَنٌ.رنگ اچھا ہو.جسمانی صحت ہو.چنانچہ ایسا ہو گیا پھر اس نے کہا کہ کیا چاہتا ہے.کہا مال مویشی اونٹ وغیرہ.یہ بھی مل گیا.پھر وہی فرشتہ گداگر کی شکل میں اس کے سامنے آیا اور سواری کے لئے گھوڑا مانگا.تو اس نے اسے جھڑکا کہ یوں دینے لگے تو ہمارے پاس کیا رہے اور اسے ذلیل سمجھا.بدبخت انسان تھوڑے سے سُکھ پر پھُول بیٹھتا ہے اور اکڑ باز بن جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۱۳. : کئی لوگ ایسے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے بعض حصہ کلام کی مطلق پرواہ نہیں کرتے.دوسروں کی عیب چینی معمولی معمولی باتوں پر کرتے ہیں اور خود اپنے نفس پر غور نہیں کرتے کہ اہم سے اہم فرض کے تارک ہیں.حضرت ابن عباسؓ کے پاس ایک شخض آیا اور پوچھا کہ بے وجہ مکھّی مارنے کا کیا قصاص ہے.آپؓ
نے اس سائل کو دیکھ دیکھ کر فرمایا کہ تیرے گھر کوفہ ہیں؟ اس نے کہا ہاں.فرمایا.امام حسینؓ کے خون کے وقت تمہیں فتویٰ کی ضرورت نہ تھی؟ : جب کوئی حکمِ قرآنی آئے تو پھر شرح صدر سے اسے نہیں کرتے بلکہ بہانے بنانے لگتے ہیں کہ اپنی قوم کا لحاظ ہے.یہ بات ہے.وہ بات ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) : واعظ و ناصح جب اپنے وعظ کیلئے مناسب محل نہ دیکھے تو اس کا سینہ تنگی کرتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۵۹) ۱۸. : اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو دین آیا.اس کی صداقت کے تین نشان فرمائے.ایک بیّنہ.دومؔ شاہد جو اس کے اندر سے ہو یعنی ضمیر کی شہادت.فراست مومن.سومؔ.الہٰی کتب مثلاً موسٰی کی کتاب کی شہادت.انبیاء و فلاسفروں میں یہ فرق ہے کہ فلاسفروں کا آپس میں ضرور فرق ہوتا ہے مگر انبیاء اصولاً سب کے سب متفق ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) : سچائی کے گواہ ۱.اﷲ تعالیٰ کا مکالمہ ۲.وجدان صحیح ۳.عقل صحیح ۴.فطرتِ سلیمہ ۵.سنن الہٰیہ ۶.اخلاق صحیحہ ۷.اسماء الہٰیہ.(تشحیذالاذھان جلد۸نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۱۹.
ہر حق کے سامنے ایک جھوٹ ہوتا ہے.اور جھوٹ کے مقابل سچ.یہاں میوَ مَنْ اَظْلَمُ ں جھُوٹے مفتری کا نشان اور اس کا انجام بتایا ہے.: موسٰیؐ اور فرعون دونوں مر چکے ہیں.مگر موسٰی پر لوگ علیہ الصلوٰۃ والسلام پڑھتے ہیں اور فرعون پر کوئی رحمت بھیجنے والا نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) دیکھ اﷲ کی لعنت ظالموں پر ہے.(نورالدّین صفحہ۱۲ دیباچہ) ۲۰. : بے دین (ٹیڑھے) رہ کر چاہتے ہیں اﷲ کی راہ کو.مسلمان بھی اب اس مرض میں گرفتار ہیں.: ان تمام خرابیوں کی جَڑ ایک ہی بات ہے کہ وہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے.کہ ایک وقت آتا ہے جب ہم کو جواب دہی کرنی پڑے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۲۴. : ؓ کے لئے ایک جنّت تو رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی صحبت تھی.کہ وہ معاصی اور ان کے بد نتائج سے بچ کر نیکیوں سے لُطف اٹھاتے تھے.ایک شرابی ہی کو لو.شراب پی.متوالے ہوئے.بد رو میں گرے.پاس جو نقدی تھی وہ گئی.ایک بہشت اﷲ پر بھروسہ اور ایمان کا ہے.جو مصائب میں بھی آرام بخشتا ہے.پھر صحابہؓ کے لئے مدینہ منّورہ ایک
بہشت تھا.پھر مکّہ کی فتح اور دوسری فتوحات مثل عراق.عجم.شام.مصر اور وہ ممالک جن کی نسبت موسٰیؑ نے اپنی قوم کو وعدہ دیا کہ وہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہتی ہیں.ایک بہشت قرآن اور اس کے حجج قاطعہ و براہین ساطعہ ہیں جس کے ذریعے تمام مذاہب پر فتح پا کر مظفر و منصور ہو کر شاد کام رہتا ہے.ایک دفعہ میں سفر کو گیا.ایک مولوی سے ملاقات ہوئی.مجھ سے پوچھا مرزا صاحب کیا لکھ رہے ہیں میں نے کہا علامات المقربین لکھتے ہیں.اس میں ایک بات لکھی ہے.کہ .(الانفطار:۱۴.۱۵) مومن اسی دنیا میں نعمتیں پاتا ہے اور فاجر دوزخ میں ہو جایا کرتا ہے.جل جل کر کباب ہوتا رہتا ہے.مولوی بولا یہ بات تو ٹھیک نہیں.دیکھئے ہم نان شبیہ کو ترستے ہیں اور یہ کافر گڑ گڑ بگھیاں گزارتے.ہمارے سینے پر مونگ دَلتے ہیں.مَیں تو دیکھ کر کباب ہو جاتا ہوں.پاس ایک بذلہ سنج بیٹھے تھے.وہ بولے مولوی صاحب کا رنگ بھی تو اسی جلنے کی وجہ سے سیاہ ہو گیاہے.مولوی صاحب بولے سچ کہتا ہے.گویا اس طرح پر اس نے اپنی جہنمی زندگی کا اقرار کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۳۵. : اﷲ تعالیٰ انسان کے اعمال کے تقاضے کے مطابق سلوک کرتا ہے.جب کسی کے اعمال کا تقاضا ہوتا ہے کہ وہ غوی مقرر ہو تو وہ ایسا ہو جاتا ہے.پولوس نے تقدیر کے مسئلہ کو نہیں سمجھا اس لئے اس نے آخر بگڑ کر کہا کہ کاریگری کاریگر کو کیا کہہ سکتی ہے.حالانکہ یہ مثال ٹھیک نہیں.کیونکہ برتن وغیرہ میں تو عقل اور اختیارِ فعل کسی حد تک بھی نہیں اور انسان میں یہ بات ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) ۳۷،۳۸.
نوحؑ کی طرف وحی بھیجی گئی کہ تیری قوم سے ایمان نہیں لائے گا مگر یہی جو لا چکے ہیں.پس رنجیدہ خاطر نہ ہو.کفّار کی کرتوتوں سے.اور ہماری نگرانی میں ہمارے حکم کے مطابق کشتی بنا اور ظالموں کی نسبت کوئی سفارش نہ کر.وہ ضرور ڈوبنے والے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۱ صفحہ۳۵) ۳۹. اور وہ (نوح)ؑ جہاز بناتا تھا اور جب اس کے پاس سے نکل جاتے اسکی قوم کے سردار ہنسی کرتے نوحؑ سے.نوح نے کہا اگر تم ہنسو ہم پر تو ہم ہنستے ہیں تم پر.پھر یہ بھی اس لئے یا اتنا جو تم ہنستے ہو.نوحؑ کے نام لیوا اور اس کی طرف منسوب ہونے پر فخر کرنے والے آج تک موجود ہیں اور ان میں ہزاروں ہزار روحانی معلم اور پُر اُپکاری (خیر خواہ.نفع رساں) الہٰی انعامات اور احسانات سے سرفراز اور ممتاز ہیں.نوح علیہ السلام کے مخالفوں کے معبود انِ باطلہ ودؔ.سواعؔ.یغوثؔ.یعوقؔ.نسرؔ کا کوئی حامی نہ رہا اور نوحؑ کی تعلیم توحید.نبوّت اور معاد کے ہزاروں ہزار ناصر و معین موجود ہیں.نوح علیہ السلام کے مخالفوں.حق کے دشمنوں پر کمزور اور مظلوم کی وہ آہ اثر کر گئی جس کا بیان آیۂ ذیل میں ہے. (نوح:۲۷) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۶) آسودہ حالوںپر غیب ناصح کی بات کم اثر کرتی ہے.حضرت نوحؑ کا زمانہ بہت آسودہ حالی کا تھا اس لئے انہوں نے اپنے ناصح کی باتوں پر سے فائدہ نہ اٹھایا.بہت افسوس ہے کہ یہ مرض مسلمانوں میں بھی پھیلتا جاتا ہے.اسی واسطے.میں نہیں چاہتا کہ بہت دولتمند میری بیعت میں داخل ہوں.
: ایک معنی یہ ہیں.اسی لئے ہم ہنسی کرتے ہیں کہ تم بھی ہنسی کرتے ہو.یا یہ معنے کہ ہم اتنی ہنسی کریں گے جتنی تم کرتے رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) جب… لوگ گھبرا اُٹھتے ہیں اور لوگوں کو دینِ الہٰی کی طرف رجوع کرتا ہوا پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی مخالفتیں اور عداوتیں مامور کے حوصلے اور ہمّت کو پست نہیں کر سکتی ہیں.اور وہ ہر آئے دن بڑھ بڑھ کر اپنی تبلیغ کرتا ہے.اور نہیں تھکتا اور درماندہ نہیں ہوتا.اور اپنی کامیابی اور مخالفوں کی ہلاکت کی پیشگوئیاں کرتا ہے.جیسے نوح علیہ السلام نے کہا کہ تم غرق ہو جاؤ گے اور خدا کے حکم سے کشتی بنانے لگے تو وہ اس پر ہنسی کرتے تھے.نوحؑ نے کیا کہا؟.اگر تم ہنسی کرتے ہو تو ہم بھی ہنسی کرتے ہیں اور تمہیں انجام کا پتہ لگ جاوے گا کہ گندے مقابلہ کا کیا نتیجہ ہوا.اسی طرح پر فرعون نے موسٰیؑ کی تبلیغ سن کر کہاقَوْمُھَالَنَا عَابِدُوْنَ.انکی قوم تو ہماری غلام رہی ہے.(زخرف:۵۳) یہ کمینہ ہے اور بولنے کی مقدرت نہیں.اور ایسا کہا کہ خدا کی طرف سے آیا ہے تو کیوں اس کو سونے کے کَڑے اور خلعت اپنی سرکار سے نہیں ملا.غرض یہ لوگ اسی قسم کے اعتراض کرتے جاتے ہیں.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۶) ۴۱. : اس کے پانچ معنی ہیں.(۱) تنور کے معنے وجہ الارض زمین کا اُوپر لا حصّہ.(۲) اونچی جگہ یعنی اونچی جگہوں کے چشمے پھوٹ نکلے.(۳) اس گڑھے کو کہتے ہیں جس میں لوگ روٹیاں پکاتے ہیں.یعنی وہاں بھی پانی بہہ نکلا.(۴) پَو پھوٹنے کا وقت آ گیا نوح کی قوم پر.عذاب سحری کا آیا تھا.(۵) اونچے محلّوں پر پانی حملہ آور ہوا.: بہت روایتوں میں مَیں نے پڑھا ہے کہ ۸۰ سے زیادہ نہ تھے.یہ مثال یاد رکھنے کے قابل ہے.یہاں ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ہے جو تمہارے نفع کیلئے تمہیں سناتا ہوں.سفر میں ایک شخص نے حضرت صاحب کے متعلق مجھ سے تین سوال کئے.ایک ان میں سے اس سبق کے ساتھ تعلّق رکھتا ہے.وہ یہ کہ ایک
جگہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں عمل الترب کے ذریعے بیماروں کو اچھا کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتا.ورنہ مسیح سے بڑھ جاؤں.دوسرا یہ عمل تو کفّار بھی کر لیتے ہیں.ان دونوں میں ایک نبی کے عمل کو مکروہ فرمایا.مَیں نے کہا.آپ مولوی عباﷲ کو جانتے ہیں.جنہوں نے تخقہ الہند لکھی ہے.کہا ہاں وہ تو میرے پیرو مرشد تھے میں نے کہا.سنا ہے کہ بہت سے ہندؤوں کو مسلمان کر لیا تھا.کہا.کیوں نہیں.تین سو سے زیادہ کو مسلمان کر لیا تھا.جس مدرسہ میں صڑھتے تھے اس کے تمام طالبعلم مسلمان ہو گئے.میں نے کہا تو نے تورات پڑھی ہے اس میں لکھا ہے کہ نوحؑ نے ۸۰ آدمی ۹۵۰ برس کی تعلیم میں مسلمان کئے.اب میں کس طرح مان لوں کہ مولوی عبداﷲ نے چند سالوں میں ۳۰۰ کافر مسلمان کر لئے.کیا ایک امّتی نبی سے برھ کر ہو سکتا ہے ؟ اس نے کہا بات تو ٹھیک ہے.آپ ہی جواب دیں.میں نے کہا.سُنو.جو ہتھیار مولوی عبداﷲ کے پاس تھا (قرآن مجید) وہ نوحؑ کے پاس نہیں تھا.پس فضیلت تو حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی طفیل ہے.یہی بات یہاں سمجھ لو.دومؔ.یہ بتاؤ کہ قرآن شریف خدا کا معجزہ کلام ہے یا نہیں؟ کہا.ضرور.میں نے کہا وہ کس زبان میں ہے.کہا.عربی میں.میں نے کہا.ابوجہل کون سی زبان بولتا تھا.کہا.عربی.میں نے کہا.ہتک کر رہے ہو.جو زبان خدا کی طرف سے معجزہ ہے وہی ایک کافر کا فعل قرار دے رہے ہو.یہ سُن کر مہبوت رہ گیا.سومؔ میں نے اسے کہا.آپ ایک تصویر یا بُت بناؤ.میں آپ کو ایک مسئلہ سمجھاتا ہوں.اس پر وہ جھٹ بولا کہ تصویر یا بُت بنانا تو حرام ہے.میں حرام فعل کا ارتکاب کیونکر کروں؟ میں نے دو تین بار یہ فقرہ اس سے دہرایا.پھر کہا.ہوش کرو.ایک نبی کے فعل کو حرام قرار دے رہے ہو.(آل عمران:۵۰) دیکھو حضرت صاحب نے تو ادب کیا ہے اور صرف یہی فرمایا کہ میں اسے مکروہ سمجھتا ہوں.ورنہ ایسا کر سکتا.اور تم جو صریح حرام کہہ رہے ہو.وہ بہت نادم ہوا اور کہا کہ سب سوالوں کا جواب آ گیا.یہ باتیں علم سے نہیں آیتں.خدا کے فضل سے آتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) یہ غلط ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس جب تک جتھّہ نہ تھا.آپؐ نے جنگ نہ کی.حضرت نوحؐ کے پاس کون سا جتھہ تھا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے .مگر جب وقت آیا تو ایک ہی دعا سے بیڑہ غرق کر دیا.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹صفحہ۳۵۷) اس نو آریہ مکذب کے جواب میں کہ چند فٹ لمبی چوڑی کشتی میں روئے زمین کے تمام چرند پرند مع خوارک گپ ہے.فرمایا.نوحؑ کی کشتی کتنے فٹ تھی.چند فٹ تھی.یہ تم نے قرآن پر افتراء کیا ہے.چند فٹ لمبی بھی جھوٹ ا
اور افتراء ہے چند فیٹ چوڑی.یہ بھی افتراء ہے.روئے زمین یہ بھی افتراء ہے.تمام چرند پرند در ند یہ بھی افتراء ہے.مع خوراک یہ بھی افتراء ہے.اتنے افتراء اور راستبازوں سے جنگ کر کے کامیابی کی امید ؟ زیر اعتراض یہ آیت ہیقُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ.اوّل اس میں مِنْ کا لفظ ہے جس کا ترجمہ سےؔ اور بعضؔہے.کُلّ کا لفظ ہر ایک موقعہ کیلئے الگ الگ معنی دیتا ہے.قرآن ِ کریم کے محاورات دیکھو.یمن کی ملکہ کے متعلق ہے اُوْتِیَتْ مِنْکُلِّ شَیْیئٍ (نمل:۲۴)اُسے کل شَے دی گئی.اور ذوالقرنین کی نسبت ہے اٰتَیْنَاہُ مِنْ کُلِّ شَیْیئٍ سَبَبًا (کہف:۸۵) ہم نے اسے کل قسم کے اسباب دئے.اب کیا کل سے یہ مطلب ہے کہ دنیا کے جزوری و کلی اسباب سے ایک ذرّہ بھر باقی نہیں رہا تھا.جو ان کے قبضہ میں نہ آیا ہو؟ یہ تو قانونِ قدرت اور عادۃ اﷲ اور عادۃ النّاس کے خلاف ہے.ہر ایک بولی میں ہر ایک لفظ اپنے اپنے رنگ میں آتا ہے.جیسے ہماری زبان میں ’’ سب ‘‘ کا لفظ ہے اور متکلم ذہن میں ایک بات رکھ کر بولتا ہے.اور مخاطب متکلم کے معہود فی الذہن منشاء کے مطابق عین موقعہ پر اسے اتارتا ہے.اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہر قسم کی ضروری اشیاء میں سے جو تجھے مطلوب اور تیرے کام کی ہیں کشتی میں اٹھالے.اس میں کہاں لکھا ہے کہ تمام چرند پرند اور درخت اس میں رکھ لئے گئے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۸۱) ۴۵. : اﷲ کے فضل پر وہ کشتی ٹھہری.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹صفحہ۳۵۷) ۴۷،۴۸.
انبیاء علیھم السلام اﷲ تعالیٰ کا ادب کس طرح فکرتے ہیں اور اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے.یہاں بتایا ہے حضرت نوحؑ نے اپنے بیٹے کیلئے دعا کی اس بناء پر کہ اہل کے بچانے کا وعدہ کیا تھا.اب اﷲ تعالیٰ حضرت نوحؑ کو ایک ادب سکھاتا ہے..نوح! تو کیوں کہتا ہے ؟ یہ میرا اہل ہے.جب ہمارا وعدہ تھا تو ہم کو خود ہی اس کا پاس تھا.تم کیا جانو کہ یہ تمہارے اہل میں سے نہیں.اب دوسری بات دیکھو کہ اس طریقِ ادب سکھانے کے جواب میں اگر ہم ہوتے تو کیا کہتے.مجھے نبیوں کا علم نہ ہوتا.تو میری فطرت یہ گواہی دیتی ہے.کہ مَیں کہتا.ایسا نہیں کروں گا.مگر حضرت نوحؑ نے ایس نہیں کیا.بلکہ ادب سے اپنی کمزوری کا اقرار کیا ہے اور یوں کہا کہ یعنی آپ ہی توفیق دیں کہ مَیں ایسی دعا نہ لروں جس کا مجھے علم نہ ہو.دعوٰی نہیں کیا کہ مَیں ایسا نہیں کروں گا اسی واسطے صلحاء امّت نے لکھا ہے کہ توبہ کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک کام چھوڑ دے.دومؔ دعا حفاظت کرے.وعدہ کر لینا اچھی بات نہیں کیونکہ پھر ایسا کرے گا تو ایک گناہ اس بدی کا ، دوم گناہ وعدہ شکنی کا کیونکہ بعض انسانوں کو ایک بات کی لت ہو جاتی ہے.تو وہ جب موقعہ آ جاتا ہے بول اُٹھتے ہیں.بہار توبہ شکن آمد و چہ چارہ کنم دیکھو حضرت نبی کریمؐ نے دعا کی ہے رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طُرْفَۃً.قرآن مجید مومنوں کو ادب سکھاتا ہے اور فرمایا(حجرات:۳)اور (حجرات:۲) ایک شخص نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے تقسیم کردہ مالِ غنیمت کی نسبت اتنا کہا کہ اس میں انصاف ٹھیک نہیں معلوم ہوتا.خالدؓ بن ولید قتل کرنے کے لئے اٹھے.آنحضرتؐ نے روک دیا اور فرمایا کہ مومن ہونے کا دعوٰی کرتا ہے.دَر گزر کرو.مگر دیکھو گے کہ ایک قوم اس کے ذریعے پیدا ہو گی قرآن کریم جن کے حلق سے نیچے نہیں گزرے گا.جمہور اہل اسلام کا مذہب ہے کہ حضرت علیؓ نے ایسے لوگوں کو قتل فرمایا.حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ پر بڑے الزام لگائے گئے.عبد اﷲ بن سلام نے سمجھایا کہ تم یہ جرأت دبے ادبی نہ کرو ورنہ اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ قیامت تک تلوار مسلمانوں سے نہ اُٹھے گی.قتل کرنے
والے نہ نہ مانا.تو اس کا نتیجہ بھُگتا.مکّہ سے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم چلے آئے.معمولی بات تھی مگر اس کا نتیجہ دیکھنے والوں نے دیکھا.حصرت علیؓ بھی مجبور ہو کر مدینہ سے چلے آئے.اس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ پھر مدینہ دارالخلافہ نہ بنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ ء ) اِنَّ ابْنِیْ مِنْ اَھْلِیْ: یعنی میرا بیٹا میری بی بی کی طرف سے.اور قرآن تو صاف کہتا ہے کہ یہ لڑکا تیرے اہل کا بیٹا ہی نہیں.جہاں کہتا ہے.اِنَّہٗ لَیْسَ مِنْ اَھْلِکَ.اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیْرُ صَالِحٍ.(فصل الخطاب جلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۵۱) دعا میں مسئول کی تعریف ہوتی ہے اور سائل کا حال اور پھر عرضِ مدعا.چنانچہ نوحؑ دعا فرماتے ہیں .اﷲ تعالیٰ کو غفور رحیم کہہ کر اپنے مسئول کی تعریف کی ہے اور عرض کر کے اپنی کمزوری کا اقرار کیا ہے.اور پھر دعوٰی نہیں کیا کہ مَیں ایسے سوالات نہیں کروں گا بلکہ اس کیلئے بھی جناب الہٰی سے استعانت کی ہے.یہ انبیاء کا غایت درجہ ادب ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۱ صفحہ ۳۶) ۴۹. : سلامتی ہماری طرف سے.اس تعوُّذ کا نتیجہ ہے.یہ تو بدلہ کا بدلہ ہوا.اب برکات تجھ پر اور تیرے ساتھیوں پر ہوں گے.یہ اس ادب کا انعام ہے.ایک صوفی نے عجیب نکتہ لکھا ہے کہ ساحرانِ فرعون کے ادب کا نتیجہ تھا کہ انہیں ایمان لانے کی توفیق ہوئی.انہوں نے جناب موسیؑ کا ادب ککیا اور کہا اِمَّآ اَنْ تُلْقِیَ(اعراف:۱۱۶)میں نے بھی اس سے ایک نکتہ نکالا ہے وہ یہ کہ مباحثہ میں ہمیشہ پہلے دشمن کو اعتراض کرنے دے پھر اس کا جواب دے.مومن اسی طریق سے فتح پاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۵۰.
: یعنی اے نبی تیرے دشمن بھی غرق ہوں گے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹صفحہ۴۵۹) : نبی کریمؐ کو مخاطب فرمایا ہے کہ یہ آئندہ کا واقعہ ہم بیان کر رہے ہیں قصّہ نہیں.فرماتا ہے کہ تم خدا سے دعائیں کرو اور وہ ادب سے ہوں اور حضرت نوحؑ کی طرح استقلال سے اپنی تعلیم پھیلاؤ.وہ تعلیم جسے تو اور تیری قوم اس سے پہلے ہرگز نہ جانتی تھی.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انجامِ کار متّقی فتح پائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۵۱. : یہ اصل الاصول ہے.ضروری ہے.پہلے جو کام کرو.خدا کے حکم کے ماتحت کرو.رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی سنّت کے مطابق ہو.پھر تمہاری نفسانی غرض اس میں شامل نہ ہو.: کا یہی مطلب تھا.اسے تاکید کیلئے فرماتا ہے کہ کوئی سوائے اﷲ کے تمہاری نیّتِ قول و فعل میں محبوب اور مقصود نہ ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۵۵،۵۶.
کِیْدُوْنِیْ جَمِیْعًا: تم بھی اور تمہارے بُت بھی.انبیاء جتھے کے محتاج نہیں ہوتے.دیکھو یہاں کہ کوئی جتھا نہیں.کس تحدّی اور جرأت سے اعلان کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۵۷. : جب سب جان داروں پر خدا تعالیٰ کی حکومت ہے تو ہمیں کوئی چیز ضرر کیونکر دے سکتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۲. : قریب ہے دعا سنتا ہے اور پھر قبول کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۵.
: اﷲ تعالیٰ جس چیز کو چاہے نشان قرار دے لے.یہاں ایک معمولی اونٹنی کی نسبت کہہ دیا.چلو یہی بطور نشانی سہی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۶. : بعض وعدے ٹل بھی جاتے ہیں.یہاں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۸. : جیسے ایک مصرع ؎ صَلَحَ الزَّمَانُ بِآلِ : زمین کے ساتھ لگے رہے.مرغی زمین کرید کر اس پر اپنا سینہ رکھ دیتی ہے.اسیجثمؔ کہتے ہیں.چنانچہ مشہور ہے جَثَمَ الطّٰآئِرُ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۶۹. : گویا ان کا مغنٰی ہی کوئی نہ تھا.مَغنٰی کہتے ہیں آبادی کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۰. : کہتے ہیںسَلَامًا سے سَلَامٌ بڑھ کر ہے.سَلَامًا کے پہلے کوئی فعل ہے جو اوقات سے متعلق ہے.یعنی ماضی یا حال یا استقبال کا.بہر حال دوام نہیں.مگر سَلَامٌ میں
زمانہ کوئی نہیں.اس میں دوام پایاجاتا ہے.گویا ابراہیمؑ نے ان سے بہتر جواب دیا.حسبِ آیت اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِلَحْسَنَ مِنْھَا (نساء:۸۷) : اس سے معلوم ہوا کہ مہمان سے پوچھنا روٹی کھاؤ گے یا نہیں؟ لغوبات ہے.جو ماحضر ہو پیش کر دیا.چاہے تو کھا لے.: تلا ہوا ترجمہ دہلی کی رہائش کی وجہ سے ہے.اصل میں اس کے معنے ہیں کہ گوشت کی بساندو رطوبت جلائی گئی تھی.ایک پتھر گرم نیچے ایک اوپر رکھ دیتے ہیں اور اسی طرح گوشت تیار کیا جاتا ہے.ہمارے علاقہ میں بھی ایسا کرتے ہیں.ایک کھال میں رکھ کر گرم ریتے میں رکھ دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۱. : صوفیوں نے لکھا ہے کہ ابراہیمؑ کے قلب نے معلوم کر لیا کہ یہ عذاب لائے ہیں اور ابراہیمؑ اﷲ کے غضب سے ڈرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۲. : ہنس پڑی ۲.حیض آ گیا (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) : اس کے ایک معنی کرتے ہیں کہ حد بڑھاپے میں حائض ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۳.
: یہ عورتوں کا طرزِ کلام ہے.: تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جناب ابراہیم علیہ السلام کی عمر ۹۹ سال تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۴. : اس سے یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ اہل بیت میں بیبیاں شامل ہیں.ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰٓی اَھْلِ بَیْتٍ یَّکْفُلُوْنَہٗ.(القصص:۱۴) کُمْسے بھی یہی ثابت اہوتا ہے.پس ذرا افسوس ہے کہ شیعہ اہل بیت میں بیبیوں کو شامل نہیں کرتے اوریُطَھِّرَکُمْ (احزاب:۵۴) میںکُمْ ضمیر کو مذکر کیلئے بتاتے ہیں.وہ دیکھیں کہ یہاں بھی ایک عورت کیلئے آیا ہے (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۷۸. : چونکہ تورات میں لکھا ہے کہ لوطؑ خود ان کو گھر میں لائے.اس لئے بعض مفسّرین نے اس کے اچھے معنے کئے ہیں کہ لوطؑ اس امر پر تنگ ہوئے کہ یہ کیوں ہمارے ساتھ نہیں چلتے اور مہمان نہیں بنتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) اناہوں نے معجزے دکھائے تو اسی قسم کے نشانات حضرت موسٰیؑ اور ایلیاؑ اور الیسعؑ وغیرہ نے بھی ۷۹.
: تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت لوطؑ کی سات بیٹیاں تھیں.پانچ اسی گاؤں میں بیاہی ہوئی تھیں.تو حضرت لوطؐ نے ان کو شرم دلائی کہ دیکھو سب لڑکیاں تمہارے ہی گھورں میں ہیں.پس کیا میں تمہارے بُرے میں ہوں کہ اجنبی لوگوں کو بطور جاسوس داخل کروں.: یہ لڑکیاں میں نے تمہارے تقوٰی کیلئے پیش کی ہیں.ان کا معاملہ سوچو کہ جب یہ تمہیں دیدیں تو میں گاؤں کے برخلاف کوئی منصوبہ کیوں کرنے لگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۸۰. : بیٹیاں ضمانت میں نہیں رکھی جاتیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۸۱. : حضرت لوطؑ نے پہلے قوّت کا ذکر کیا مگر پھر انبیاء کے طریق پر اﷲ کی طرف جھک گئے.اور کہا کہ نہیں بلکہ میں اﷲ کی پناہ لوں گا. سے مراد یقیناً اﷲ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) ۸۳. : جو عالی تھے ان کو سافل کر دیا.بڑوں کو چھوٹا اور چھوٹوں کو بڑا بنایا خدا کے عجائباتِ قدرت کے نمونے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍ دسمبر ۱۹۰۹ء) حضرت لوطؑ کے نہایت صحت بخش اور نجات دِہ نصائح پرکان نہ رکھنے والے.وضع الہٰی کے دشمن فطرت کی مخالفت میں قوٰی کو برباد کرنے والے خود ہی کدھر گئے.ان کی بستی کی یہی خبر ہے .(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۷)
ایک مکذّب تَو آریہ کے اعتراض کے جواب میں کہ قومِ لوطؑ کی بستیاں اُلٹ کر پھینک دیں.پتھروں کا مینہ برسایا.جبرائیل نے پروں سے وہ شہر الٹا دیا.فرمایا’’پھر کیا الہٰی کاموں میں یہ بڑی بات ہے.تمہارے مذہب (ہندو) کی رُو سے تمام پر تھوی تباہ ہو جاتی ہے.سب کچھ جَلْ بن جاتا ہے.اور جَلْ بھی تباہ ہو جاتا ہے.تو آگ بن جاتا ہے.سو وہ بھی تباہ ہو کر ہوا بن جاتا ہے.پھر وہ بھی تباہ ہو جاتی ہے.بلکہ سب کچھ تباہ ہوکر صرف ایشور سامرتھیہ ہی باقی رہ جاتی ہے.بدکاروں شریروں کیلئے ایسے نمونے ہمیشہ موجود رہتے ہیں.کیا تم نے جاوا.پپائے کی تباہی کی آگہی حاصل نہیں کی.اور جاوا، سینٹ پیری تو ان دنوں کے واقعات ہیں.لوطؑ کی قوم شریر.حق کی دشمن.حقیقت کی عدو تھی.گندے اعمال اور خلافِ فطرت کاموں میں منہمک تھی.اﷲ تعالیٰ نے ان کو تباہ کر دیا.ڈیڈ سِی۱؎ (بحرِ مُردار ) کی جھیل انکی تباہی کی زندہ نشانی ہے.اور انکی بدعملی کا نمونہ بتانے کو انگریزی زبان میں ساڈومی کا لفظ موجود ہے.اس جہان میں ہمیشہ نظارہ ہائے قدرت خدا تعالیٰ کے نبیوں کی تعلیم کی تصدیق کے لئے واقع ہوتے رہتے ہیں.شریر ان کی خلاف ورزی میں تباہ ہوتے ہیں اور راست بازوں کی صداقت پر اپنی بربادی سے مُہر کر جاتے ہیں.پتھروں کا مینہ ہی تھا.جس نے حال میں سینٹ پیری تباہ کیا.(نورالدّیں ایڈیشن صفحہ ۱۸۳) ۱؎ DEAD SEA ۸۹. : میں بدمعاملگی نہیں کرتا.یعنی دین میں دھوکہ نہیں کرتا.پھر بھی مجھے خدا نے اپنی جانب سے بہت عمدہ رزق دے رکھا ہے.تو کیوں وَلَا تَنْقُصُو الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ پرعمل نہیں
کرتے.میری مثال سے ظاہر ہے کہ حصول رزق ماپ تول کی کمی پر موقوف نہیں.: میرے ایک دوست بڑے مہمان نواز تھے.ایک دفعہ ایک مہمان آیا.عشاء کی نماز کا وقت تھا.پاس پیسہ تک نہ تھا.اسے کہا کہ آپ ذرا لیٹ جاویں میں آپ کے کھانے کا بندوبست کرتا ہوں.اس کے بعد انہوں نے دعا کی ، توجّہ کی اور کہا (مومن:۴۵) مولیٰ تیرا ہی مہمان ہے.یکایک ایک آدمی نے آواز دی کہ لینا میرے ہاتھ جل گئے.ایک قاب پلاؤ کا تھا.نہ اس نے اپنا نام بتایا.نہ ان کو جلدی میں خیال رہا وہ قاب مدّت تک بمد امانت رہا کوئی مالک پیدا نہ ہوا.تو کّل عجیب چیز ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۹۰. : اﷲ تعالیٰ تم سے قطع تعلق نہ کر دے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۹۱. جب انسان کوئی غلطی کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کے کسی حکم اور قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ غلطی اور کمزوری اس کی راہ میں روک ہو جاتی ہے اور یہ عظیم الشان فضل سے محروم کیا جاتا ہے.اس لئے اس محرومی سے بچانے کیلئے یہ تعلیم دی کہ استغفار کرو.استغفار انبیاء علیھم السلام کا اجماعی مسئلہ ہے.ہر نبی کی تعلیم کے ساتھرکھا ہے ہمارے امام کی تعلیمات میں جو ہم نے پڑھی ہیں استغفار کو اصل علاج رکھا ہے.استغفار کیا ہے؟ پچھلی کمزوریوں کو جو خواہ عمداً ہوں یا سہوًا غرضمَا قَدَّمَ وَمَا اَخَّرَ نہ کرنے کا کام آگے کیا اور جو نیک کام کرنے سے رہ گیا ہے.اپنی تمام کمزوریوں اور اﷲ تعالیٰ کی ساری رضامندیوں کو مَا اَعْلَمُ وَمَا لَا اَعْلَمُ کے
نیچے رکھ کر اور آئندہ کیلئے غلط کاریوں کے بد نتائج اور بد اثر سے محفوظ رکھ اور آئندہ کیلئے ان بدیوں کے جوش سے محفوظ فرما.یہ ہیں مختصر معنے استغفار کے.(الحکم ۲۶؍فروری۱۹۰۸ء صفحہ۲ـ-۳) ۹۲. : یہ ایک بہانہ ہے.انبیاء جو دین لاتے ہیں.وہ بالکل سہل ہوتا ہے.لوگ عجیب عجیب پیچیدہ رسمیں ادا کرتے ہیں اور خدا کے حکم پر عمل نہیں کرتے.مَیں نے ایک خوجہ قوم شیعہ کو دیکھا ہے.کہ ان میں سو سو سال کے بوڑھے ہو گئے اور ختنہ نہیں کرایا کیونکہ ختنہ کی رسوم کیلئے سو سو روپیہ چاہیئے تھا.لوگوں نے خود اپنے تئیں مشکلات میں ڈال رکھا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۹۷،۹۸. ہر فن میں جو اس فن کا ماہر ہو.اس کی بات ماننی چاہیئے.مثلاً کوئی انگریزی زبان کے متعلق مسئلہ ہو تو انگریزی جاننے والوں سے.شعر شاعروں سے.غرضیکہ ہر ایک کسب اس کے اہل سے دریافت کرنا چاہیئے.دنیا میں ہر قسم کی تجارت و سیاست کو جس طرح یورپ والے جانتے ہیں.ہم لوگ واقف نہیں ہیں.لہذا ان سے سیاست و تجارت کے متعلق باتیں دریافت کرنی چاہئیں.لیکن جن علوم سے وہ ناواقف ہیں مثلاً یورپ و امریکہ والے علومِ روحانی اور خدا شناسی سے بالکل نا آشنا ہیں.: ہم نے موسٰیؑ کو فرعون کی طرف بھیجا.فرعون تو اس فن سے ناواقف تھا.جس کے متعلق موسٰیؑ آئے.اس کے متبعین نے اس خاص فن میں بھی فرعون کی ہی اتباع کی.پس اس کا نتیجہ ظاہر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۹۹. وِرْدٌ: کاٹھ کا بڑا پیالہ.گھاٹ میں اترنے کو بھی کہتے ہیں.رِفْد بھی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۱. : یہ باتیں ان واقعات و حالات سے متعلق ہیں.جن کے متعلق انبیاء آتے ہیں.فرعون کو مصر ہی کا تو گھمنڈ تھا.پھر مصراب موجود ہے.اس کی حالت کو دیکھو.بعض ایسی بستیاں ہیں جو تباہ ہو گئیں.مثلاً لوطؐ کی بستیاں جن کے نام سڈوم وغیرہ پانچ بستیاں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۲. : ہلاکت جیسا کہ سور تَبَّتْ میں بھی آیا ہے.صوفیوں نے لکھا ہے کہ انسان کا جسم ایک بستی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۰۷. : جو اپنے مطالب میں کامیاب نہ ہو.ناکام و نامراد.اسے عربی زبان میں شقی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان جلد۸ نمبر۹ ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۱۰۹. : جب تک (وہ) آسمان و زمین قائم ہیں.یعنی مومن بہشت میں اور دوزخی دوزخ میں رہیں گے.جب تک آسمان و زمین قائم ہیں.عربی زبان میں الفؔ لامؔ خصوصیت کا نشان ہے.اردو فارسی میں معرفہ اور نکرہ میں امتیاز کرنے کیلئے کوئی نشان نہیں.پس میںسَمٰوٰت اورارض کے اوّل میں الف لام تخصیص کا اظہار کرتا ہے اور مقصود اس تخصیص سے وہ خاص آسمان و زمین مراد ہیں جو اس عالمِ آخرت کے مناسب اور اس مقام کی صورتِ طبعی کے اقتضاء کے موافق ہوں گے.غرض بہشت اور دوزخ میں خاص آسمان اور زمینیں ہوں گی اور موجودہ آسمان و زمین اپنی حالت سے بدل جائیں گے.نافہم عیسائی اپنی کتب مسلّمہ سے بے خبر اسی عدم امتیاز کے باعث ایسی فاحش غلطیوں میں پڑتے اور بیابانِ ضلالت میں ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں.اناجیل کا بھی یہی منشاء ہے.جہاں لکھا ہے.’’ اور کہ تم خدا کے اُس دن کے آتے کے منتظر ہو جس میں آسمان جل کر گداز ہو جاویں گے.پر ہم نئے آسمان اور نئی زمین کی جن میں راست بازی بستی ہے اُس کے وعدے کے موافق انتظار کرتے ہیں.‘‘ (۲پطرس ۳ باب) (فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع ثانی صفحہ ۱۴۶) : کہاں کا آسمان و زمین؟ وہاں (جنت) کا.: اس کی بابت بہت بحث ہے کہ سے کیا مرادد ہے.بعض نے لکھا ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو آسائش پہنچ جاتی ہے اس کا استثناء مراد ہے.بعض نے اس خاص کو اور وسیع کیا ہے کہ قبر سے حشر تک.بعض نے اور وسیع کیا ہے اور کہا ہے حشر کے فیصلہ تک.بعض نے کہا ہے کہ آخر دوزخ سے سب نکالے جاویں گے.میرے نزدیک اس سے اظہارِ عظمت و جبروت مراد ہے.کہ جو کچھ ہوتا ہے.مشیتِ الہٰی کے ماتحت ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۰.
: یہ خطاب عام ہے.ہر مخاطبِ قرآن سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۳. : حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شَیَبَّتْنِیْ ھُود کہتے ہیں.اسی آیت کی طرف اشارہ ہے.کیونکہ ہر ایک استاد کو اپنی جماعت.مُرشد کو اپنے مُریدوں کا سخت فکر ہوتا ہے یہاں نبی کریمؐ کو استقامت کا حکم دیا ہے اوراس کے ساتھ ہیمَنْ تَابَ مَعَکَ.انسان کو اپنی ذات کی ذمہ داری مشکل ہے چہ جائیکہ دوسروں کا ذمّہ اٹھانا ہو.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وا آلہٖ وسلم دعا فرماتے تھے اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکن اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ طُرْفَۃَ عَیْنٍ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مھے سورہ ھودؔ نے بوڑھا کر دیا.اس میں کیا بات تھی فَاسْتَقِمْ کُمَآ اُمِرْتَ.تم سیدھی چال چلو.نہ صرف تم بلکہ تمہارے ساتھ والے بھی.یہ ساتھ والوں کو جس نے حضورؐ کو بوڑھا کر دیا.انسان اپنا ذمّہ دار تو ہو سکتا ہے.مگر ساتھیوں کا ذمّہ دار تو ہو سکتا ہے.مگر ساتھیوں کا ذمّہ دار ہو تو کیونکر؟ بس یہ بہت خطرہ کا مقام ہے.ایسا نہ ہو کہ تمہاری غفلتوں سے اﷲ تعالیٰ کے وہ وعدے جو تمہارے امام کے ساتھ ہیں پورا ہونے میں معرضِ توقف میں پڑیں.موسٰی علیہ السلام.جیسے.جلیل القدر نبی کے ساتھ کنعان پہنچانے کا وعدہ تھا مگر قوم کی غفلت نے اسے محروم کر دیا.پس اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو! اور خوب سمجھو غفلت چھوڑ دو اور اس نعمت کی قدر کرو جو آج کے مبارک دن میں پوری ہوئی.میں پھر کہتا ہوں کہ فرماں بردار بن کر دکھاؤ.(الحکم ۵؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۵) رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے.وہ کیا بات تھی جس نے آپؐ کو بوڑھا کر دیا.وہ یہ حکم تھافَاسْتَقِمْ کُمَآ اُمِرْتَ یعنی جب تک تُو اور تیرے ساتھ والے تقوٰی میں قائم نہ ہوں وہ کامیابیاں نہیں دیکھ سکتے.اس لئے تو سیدھا ہو جا.جیسا کہ تجھ کو حکم دیا گیا ہے.اسی
طرح پر یاد رکھو کہ ہماری اور ہمارے امام کی کامیابی ایک تبدیلی چاہتی ہے کہ قرآن شریف کو اپنا دستور العمل بناؤ.نِرے دعوے سے کچھ نہیں ہو سکتا.اس دعوے کا امتحان ضروری ہے.جب تک امتحان نہ ہو لے کوئی سرٹیفکیٹ کامیابی کامِل نہیں.(الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱۱۵. : صبح و عصر کی نماز.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) اسلامی کفّارات کیا ہیں.گناہوں کی سزائیں.گناہوں پر جُرمانے اور گناہ کے پیچھے نیکی.کیسا سچ ہے .(نیکیاں دُور کر دیتی ہیں برائیوں کو) قانونِ قدرت میں بھی دیکھو قانونِ قدرت کی خلاف ورزی سے جب سزائیں آتی ہیں تو اس خلاف ورزی کے بعد قانون کی متابعت اور خلاف ورزی کے نقصان پر کچھ خرچ ہی کرنا پڑتا ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل ایڈیشن دوم صفحہ۲۹) ۱۱۶. مولیٰ کریم چونکہ شکور ہے اور علیم و خبیر ہے اس لئے وہ فرماتا ہے اِنَّ .بے شک اﷲ محسنین کے اجر کو ضائع نہیں کرتا.محسن کسے کہتے ہیں.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے احسان کی تعریف جبرائیلؐ نے صحابہؓ کی تعلیم کیلئے پوچھی ہے.آپؐ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تُو اﷲ تعالیٰ کو دیکھتا رہے.یا کم از کم یہ یقین کرے کہ اﷲ تعالیٰ تجھ کو دیکھتا ہے.یہ ایک ایسا مرتبہ عظیم الشان ہے جس کے کسی نہ کسی پہلو کے حاصل ہو جانے پر انسان گناہوں سے بچ جاتا ہے.اور بڑے بڑے مراتب اور مدارج اﷲ تعالیٰ کے حضور پا لیتا ہے.ساری نیکیوں کا سر چشمہ اور تمام ترقیوں اور بلند پروازگیوں کی جان اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہے.انسان اعلیٰ درجہ کے اخلاقِ فاضلہ کو حاصل ہی نہیں کر سکتا جب تک خدا تعالیٰ پر یقین نہ ہو کہ وہ ہے.میں اس بات کے ماننے کے واسطے کبھی تیار نہیں ہو سکتا کہ ایک دہریہ بھی کبھی اعلیٰ اخلاق والا ہو سکتا ہے.کوئی چیز اس کو گناہوں سے ارتکاب سے نہیں روک سکتی.نیکی کا کوئی سچا مفہوم اس کی سمجھ میں نہیں آ سکتا.پھر وہ نیکی کیسے کرے اور گناہوں
سے کیونکر بچے.اس کی ساری عمر ناامیدیوں اور مایوسیوں کا شکار رہتی ہے.وہ اسباب اور علّت و معلول کے سلسلہ کے پیچ در پیچ تعلقات میں منہمک رہ کر آخر حسرت اور یاس سے اس دنیا کو چھوڑ جاتا ہے.میں نے دہریہ اور ایمان والے دونوں کو مرتے دیکھا ہے.اور دونوں کی موت میں زمین و آسمان کا فرق پایا ہے میں سچ کہتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربہ سے کہتا ہوں اور پھر جو چاہے آزما کر دیکھ لے کہ سچّی راحت اور حقیقی خوشی صرف اور صرف ایمان باﷲ سے ملتی ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیھم السلام اور صلحاء کی لائف میں جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے کوئی واقعہ خود کشی کا نہیں پایا جاتا.مومن کی امید اپنے اﷲ پر بہت وسیع ہوتی ہے.وہ کبھی اس سے مایوس نہیں ہوتا.ان کی زندگی کے واقعات کو پڑھو تو معلوم ہو گا کہ ایک ایک وقت ان پر ایسا آیا ہے کہ زمین ان پر تنگ ہو گئی ہے.لیکن اس شدّت ابتلا میں بھی وہ ویسے ہی خوش و خرم ہیں جیسے اس ابتلا کے دُور ہونے پر.وہ کیا بات ہے جو ان کو موت کی سی حالت میں بھی خوش و خرم اور زندہ رکھتی ہے.فقط اﷲ پر ایمان.غرض محسنین کے زمرہ میں داخل ہونا بہت ہی مشکل اور پھر مشکل کشا ہے.پہلا درجہ جو محسن کا اعلیٰ مقام ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے.بعد میں حاصل ہوتا ہے.اس کا ابتدائی درجہ یہی ہے کہ وہ یہ ایمان لائے کہ میرے ہر قول و ہر فعل کو مولیٰ کریم دیکھتا اور سنتا ہے.جب یہ مقام اسے حاصل ہو گا تو ہر ایک بدی کے وقت اس کا نورِ قلب اس ایمان کی بدولت اس سے روکے گا اور لغزش سے بچا لے گا.اور رفتہ رفتہ اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخر وہ اس مقام پر پہنچ جائے گا کہ خدا تعالیٰ کو دیکھ لے گا اور یہ وہ مقام ہے جو صوفیوںکی اصطلاح میں لقاء کہلاتا ہے.پس جب انسان محسن ہو کر اﷲ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو پھر تھوڑا ہو یا بہت.اﷲ تعالیٰ اس کے بہتر بدلے دیتا ہے.یہ صرف اعتقادی اور علمی بات ہی نہیں.کہانی اور داستان ہی نہیں بلکہ واقعات نفس الامری ہیں.میں دنیا کی تاریخ میں جس سے مراد انبیاء علیھم السّلام کی پاک تاریخ لیتا ہوں.بہت سے واقعات اس کی تصدیق میں پیش کر سکتا ہوں اور علمی طریق پر بھی خدا کے فضل سے اس کی سچّائی ثابت کرنے کو تیار ہوں.مگر ان سب باتوں کو چھوڑ کر مَیں ایک عظیم الشان واقعہ صحابہ ؓ کی لائف کا دکھانا چاہتا ہوں.میں ایک عرصہ تک اس سوال پر غور کرتا رہا کہ کیا وجہ تھی جو انصار کو خلافت نہ ملی.بلکہ خلافت کے اوّل وارث مہاجر ہوئے.اور مہاجرین میں سے بھی ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالی عنہ.حالانکہ انصار میں سب نے بڑی ہمت کی اور انکی اس وقت کی امداد ہی نے ان کو انصار کا پاک خطاب دیا لیکن اس کا کیا سِر ہے کہ بادشاہی اور حکومت کا ان کو حصّہ نہ ملا.اور پہلا خلیفہ قریشی ہوا.پھر دوسرا تیسرا چوتھا بھی.یہاں تک کہ عباسیوں تک
قریشیوں ہی کا سلسلہ چلا جاتا ہے.بنو ثقیفہ ۱؎ میں کوشش کی گئی کہ ایک خلیفہ انصار میں سے ہو اور ایک مہاجرین میں سے.مگر یہ تجویز پاس نہیں ہوئی.اور کسی نے نہ مانا.آخر مجھ پر اسکا سِرّ یہ کُھلا کہ اﷲ تعالیٰ کی ۱؎ غالبًا سقیفہ بنی ساعدۃ.واﷲ اعلم.مرتّب یہ صفت اِنَّ اپنا کام کر رہی تھی.انصار نے کیا چھوڑا تھا.جو ان کو ملتا؟ مہاجرین نے ملک چھوڑا.وطن چھوڑا.گھر بار چھوڑا.مال و اسباب.غرض جو کچھ تھا وہ سب چھوڑا.اور سب سے بڑھ کر ابوبکر صدیق ؓ نے.اس لئے جنہوں نے جو کچھ چھوڑا تھا.اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر پایا.زیادہ سے زیادہ انکی زمین چند بیگھہ ہو گی جو انہوں نے خدا کیلئے چھوڑی.مگر اس کے بدلہ میں یہاں خدا نے کتنے بیگھہ دی.اسکا حساب بھی کچھ نہیں.پس یہ سچی بات ہے کہ جس قدر قربانی خدا کے لئے کرتا ہے اسی قدر فیض انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور سے پاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کتنی بڑی تھی.پھر اس کا پھل دیکھو.کس قدر ملا.اپنی عمر کے آخری ایّام میں ایک خواب کی بنا ء پر جس کی تاویل ہو سکتی تھی.حضرت ابراہیمؑ نے اپنے خلوص کے اظہار کیلئے جوان بیٹے کو ذبح کرنے کا عزم بالجزم کر لیا.پھر خدا نے اس کی نسل کو کس قدر بڑھایا کہ وہ شمار میں بھی نہیں آ سکتی.اسی نسل میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان رسول خاتم النبیّین رسول کر کے بھیجا جو کل انبیاء علیھم السّلام سے افضل ٹھہرا.جس کی امّت میں ہزاروں ہزار اولیاء اﷲ ہوئے جو بنی اسرائیل کے انبیاء کے مثیل تھے اور لاکھوں لاکھ بادشاہ ہوئے.یہاں تک کہ مسیح موعود جو خائم الخلفاء ٹھہرایا گیا ہے وہ بھی اسی امّت میں پیدا ہوا.اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم نے اسے پایا اور اُسکی شناخت کا موقعہ ہم کو دیا گیا.وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِک.یہ بدلہ.یہ جزاء کس بات کی تھی؟ اسی عظیم الشان قربانی کی جو اس نے خدا تعالیٰ کے حضور دکھائی.واقعی یہ بات قابلِ غور ہے کہ ابراہیمؑ کی عمر جب کہ سو برس کے قریب پہنچی.اس وقت قوٰی بشری رکھنے والا کیا امید اولاد کی رکھ سکتا ہے.پھر ۱۳ برس کی عمر کا نوجوان لڑکا جو ۸۴ برس کے بعد کا ملا ہوا ہو.اس کے ذبح کرنے کا اپنے ہاتھ سے ارادہ کر لینا معمولی سی بات نہیں ہے.جس کیلئے ہر شخص تیار ہو سکے.غور کرو اس ذبح کے بعد عمر کے آخری ایّام میں اور قبر قریب ہے.پھر کیا باقی رہ سکتا ہے.نہ مکان رھا نہ عزّت و جبروت.مگر اے ابراہیمؑ تجھ پر خدا کا سلام.تو نے خدا تعالیٰ کے ایک اشارہ اور ایماء پر سارے ارادوں اور ساری خوشیوں، خواہشوں کو قربان کر دیا.اور اس کے بدلے میں تُو نے وہ پایا جو
خاتم النبیّینؐ اسی اسماعلیل کی نسل میں ہوا.اور خاتم الخلفاء اسی خاتم النبیّین کی اُمّت میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ.اِنَّکَ حَمِیْدٌمَّجِیْدٌ.پھر ابراہیم علیہ السلام کا وہ صدق اور اخلاص کہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہوا اَسْلِمْ.قَالَ اَسْلَمْتُ اے ابراہیم!تو فرماں بردار ہو چکا.عرض کیا.حضور مَیں تو فرماں بردار ہو چکا.اَسْلِمُ.اَسْلَمْت یعنیاپنا ارادہ رکھا ہی نہیں.معاً حکمِ الہٰی کی ساتھ ہی تعمیل ہو گئی.پھر اس اخلاص سے کیا بدلہ پایا کہ ابوالملّۃ ٹھہرا.جو کچھ چھوڑا اس سے بڑھ کر مِلا.اسی طرح پر سید الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات پر غور کرو.اہلِ مکّہ نے کہا کہ اگر آپ کو بادشاہ بننے کی آرزو ہے تو ہم تجھ کو بادشاہ بنانے کیلئے تیار ہیں.اگر تجھے دولتمند بننے کی خواہش ہے تو دولت جمع کر دیتے ہیں.اگر حسین عورت چاہتا ہے تو تأمل و مذائقہ نہیں.یہ کیا چیزیں تھیں.مگر دنیا پرست کی نظر ان سے پَرے نہیں جا سکتی تھی.اس لئے اسی کو پیش کیا.آپؐ نے اس کا کیا جواب دیا؟ کہ اگر سورج اور چاند کو میرے دائیں بائیں رکھ دو تو بھی میں اشاعت اور تبلیغ سے رُک نہیں سکتا.اﷲ ! اﷲ! کس قدر اخلاص ہے اﷲ تعالیٰ پر کتنا بڑا ایمان ہے.قوم کی مخالفت اون دُکھوں اور تکلیفوں کے سمندر میں اپنے آپ کو ڈال دینے کے واسطے روح میں کس قدر جوش اور گرمی ہے جو اس انکار سے آنے والی تھیں.ان تمام مفاد اور منافع پر تھُوک دینے کیلئے کتنی بڑی جرأت ہے جو وہ ایک دنیادار کی حیثیت سے پیش کرتے تھے مگر خدا کو راضی رکھ کر.اس کو مان کر اور اس کے احکام کی عزّت و عظمت کو مدّ نظر رکھ کر اس قربانی کا بدلہ آپؐ نے کیا پایا جو دنیا میں کسی ہادی کو نہیں ملا.اور نہ ملے گا..اِنَّآ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ کی صدا کس کو آئی؟ اور کس نے ہر چیز میں آپؐ کو وہ کوثر عطا کی جس کی نظیر دنیا میں نہیں مل سکتی.سوچو اور غور کرو!! میں نے مختلف مذاہب کی کتابوں.انکے ہادیوں اور یا نبیوں کے حالات کو پڑھا ہے.اس لئے دعوٰی سے کہتا ہوں کہ کوئی قوم اپنے ہادی کیلئے ہر وقت دعائیں نہیں مانگتی ہے.مگر مسلمان ہیں کہ دنیا کے ہر حصّہ میں ہر وقت ہرآن اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّد وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ کی دُعا آپؐ کیلئے کر رہے ہیں.جس سے آپؐ کے اور مراتب ہر آن بڑھ رہے ہیں.یہ خیالی اور خوشکن بات نہیں.واقعی اسی طرح پر ہے.دنیا کے ہر آباد حصّہ میں مسلمان آباد ہیں اور ہر وقت ان کی کسی نہ کسی نماز کا وقت ضرور ہوتا جس میں لازمی طور پراَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّد پڑھا جاتا ہے
.مقرر نمازوں کے علاوہ نوافل پڑھنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے.اور درود شریف بطور و ظائف کے پڑھنے والے بھی کثرت سے.اس طرح پر آپؐ کے مراتب و مندارج کا اندازہ اور خیال بھی ناممکن ہے.یہ عزّت اور یہ فخر کسی اور ہادی کو دنیا میں حاصل نہیں ہوا.(الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ۴) ۱۱۷. : جن میں نیکی کا اثر باقی ہو.صاحبانِ قعل و شعور. جس راہ میں کہ انہوں نے عیش و عشرت کو پایا.جب تک کسی قوم میں ایسے لوگ ہوں جو بدیوں سے منع کرتے رہیں اور نیکیوں کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں.تب تک وہ قوم ہلاک ہونے بھی بچی رہتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۱۸. : اﷲ تعالیٰ بے وجہ کوئی عذاب نہیں دیتا.لوگ خیال کرتے ہیں کہ دنیا میں مصائب ایسے ہی بلا سبب آجاتے ہیں.قرآن شریف ایسا نہیں کہتا.بلکہ فرماتا ہے کہ جس بستی میںمصلح موجود ہوں وہاں عذاب نہیں آتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۰. جہاں تک تاریخی واقعات.قدیمہ اور جدیدہ آثار اور عقل شہادت دیتی ہے
اس دنیا میں اضداد کا مقابلہ ہوتا رہا اور یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آئندہ بھی کسی مدّت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا.کیمسٹری کی گواہی ذرّاتِ عالم کی نسبت اس وقت چھوڑ دو.انسانی گروہ پر نظر کرو.سعید کے ساتھ شقی یا سریشٹ (اچھا ) کے ساتھ وَیْسُوْ (بُرا) کب سے مقابلہ ہو رہا ہے.مومن و کافر کا جھگڑا اور عالم وجاہل کا تنازعہ کوئی پہلی قسم سے جُدا فساد نہیں.یہ الفاظ سعید اور شقی.بھلے اور بُرے یا سریشت اور وَیْسُوْ کے ہی عنوان ہیں.اوروں کا مخاصمہ وہی اضداد کی باہمی جنگ ہے.یہ باہمی حملہ بڑے بڑے نتائج کا موجب اور خدا ترس پر سمجھ والوں کے واسطے انواع و اقسام فوائد کا باعث ہے ان منافع کا تذکرہ جو اس جدال و قتال سے اس حملہ کے مجاہدین اور شہداء کے حق میں پیدا ہوتے ہیں اس رسالہ میں ناموزوں ہے.مگر قدرت کے کارخانہ میں جب اختلاف موجود ہے پھر ایسی قوّت اور طاقت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ مخلوق میں کوئی بھی نہیں گزرا اور نہ ہے جس نے اختلاف کو مٹایا ہو بلکہ یہ سچا الہام وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رّنحِمَ رَبُّکَ اس جنگ کے قیام کی خبر دیتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۰۱) دیکھو اس وقت تم بیٹھے ہو.سب کی آوازوں میں اختلاف.لباسوں میں اختلاف.مکانوں میں اختلاف صحبتوں میں اختلاف.مذاقوں میں اختلاف.غرض اختلاف ایک فطری امر ہے.اب خدا ہی کا فضل ہے کہ تم ایک وحدت کے نیچے ا گئے.میں کبھی گھبرایا نہیں کرتا کہ فلاں شخص کیوں ہمارا خیال نہیں.کیونکہ میرے مولیٰ کا ارشاد ہے وَ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَ اِلَّا مَنْ رّنحِمَ رَبُّکَ.پس جس پر فضل ہوا.وہ اختلاف سے نکل کر وحدتِ ارادی کے نیچے ا جائے گا.(الفضل ۹؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵) : رحم کے واسطے ہی ان کو پیدا کیا ہے.اس آیت سے ظاہر ہے کہ دنیا میں اختلاف مذاہب کا ہمیشہ رہے گا.: یہ بھی خدا تعالیٰ کی ایک بات ہے اور پوری ہو گی کہ جنّ و ناس کا ایک گروہ داخل جہنم ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۶؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۱۲۱. : یہ سب جو ہم نے بیان کیا یہ اس واسطے ہے کہ پہلے انبیاءؐ کے حالات کے سُننے اور معلوم کرنے سے تیرا دل مضبوط ہو کہ تمام انبیاء کے ساتھ ایسا حال ہوا.اور تو بھی ایک نبی ہے.: اور جو پیشگوئی تیرے متعلق تھی.وہ اب آ گئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۲. : حتی الامکان تم اپنی طاقت سے میرے مقابلہ میں زور لگاؤ.اور اپنی جگہ پوری طرح سوچ بچار کر لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲۴. : یہ سب انبیاءؐ کے واقعات جو قرآن شریف میں بیان کئے ہیں یہ غیب یعنی پیشگوئیاں ہیں.جیسا کہ ان انبیائؑ کو کامیابی ہوئی اور ان کے مخالف ہلاک اور تباہ ہوئے.ایسا ہی حال حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اور آپؐ کے احباب کا اور جس طرح انبیائؑ کے مخالفوں کا حال ہوا.اسی طرح آپؐ کے مخالفوں کا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
سُوْرَۃُ یُوْسُفَ کَکِّیَّۃٌ ۲. : اَنَا اﷲُ ارٰی.میں اﷲ دیکھتا ہوں کہ جو کچھ تم حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے ساتھ کرتے ہو.جس طرح تم اس رسول کے ساتھ برتاؤ کرتے ہو.اسی طرح یوسفؑ کے ساتھ اسکے بھائیوں نے کیا تھا.تمہارا بھی اس رسول کے سامنے وہی حال ہو گا جو یوسفؑ کے سامنے یوسفؑ کے بھائیوں کا ہوا تھا.حضرت یوسف علیہ السلام کے گیارہ بھئی تھے جن میں سے ایک بنیامین ان سے بھی عمر میں چھوٹے تھے اور یہی سگے بھائی یوسف علیہ السلام کے تھے.باقی بھائیوں میں سے جو سوتیلے تھے.ایک ان کے خیر خواہ تھے.باقی نو مخالف تھے.ایسا ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے مخالف بھیتِسْعَۃَ رَھْطٍ نو گروہ تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۳. : کھل کر سنانے والی زبان میں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۴. قَصَصِ: بیان یاد رکھنا چاہیئے کہ یہاں لفظ قَصَصؔ قؔپرمتحہ (زَبَر) کے ساتھ ہے.یہ مصدر ہے اور اس کے معنے ہیں بیان کرنا.بعض لوگ غلطی سے اس کے معنے کرتے ہیں.قصّے.قصّہ اور لفظ ہے جو قؔ کی زِیر کے ساتھ ہے اور اس کی جمع ہیقَصَصْ (قؔ کے نیچے زیر کے ساتھ) نبیوں میں سے حضرت رسول کریمؐ.حضرت نوحؑ.حضرت موسٰیؑ.حضرت ابراہیم علیھم السلام و البرکات بڑے اولو العزم لوگ ہوئے ہیں.اور ان کا معاملہ حضرت یوسف علیہ السلام سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کا معاملہ تو صرف بھائیوں یا ایک عورت کے ساتھ ہوا تھا اور وہاں تمام اقوام کی مخالفت کا بہت خوفناک مقابلہ پیش تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۵. : میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگ اس کا نام خواب رکھتے ہیں.مگر حضرت یوسفؑ نے اس کو دیکھنا ہی فرمایا اور یہی اصطلاح صحیح ہے.وہ بھی ایک قسم کی بیداری ہوتی ہے.جس میں دوسرے شریک نہیں ہو سکتے.: میرے سبب سے وہ سجدہ میں گرے ہوئے ہیں.کوئی ایسا امر واقعہ ہوا ہے کہ وہ سب کے سب سر بسجود ہو رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : یہاں خواب کا ذکر نہیں اسی طرح نبی کریمؐ نے جو دجال یا جوج ماجوج وغیرہ کے بارے میںرَأَیْتُ فرمایا اسے رؤیا یا کشف کیوں نہیں قرار دیتے ؟ (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۶. اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت یعقوبؑ تعبیر رؤیا کی سمجھ گئے تھے.فرمایا.تیرے بھائی تو تیرا مقابلہ کریں گے.اور یہ ان کا شیطانی فعل ہو گا.کیونکہ شیطان ہی آپس میں جنگ کروا دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۷. : اﷲ تعالیٰ تجھے اس رؤیا کی اصل حقیقت بتا ہی دے گا.اس بات سے حصرت یعقوبؑ نے پہچان لیا کہ یوسفؑ پر خدا تعالیٰ کا برا فضل ہونے والا ہے.میرا اور میرے باپ اسحاقؑ میرے دادا ابراہیمؑ کا وارث ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۸. سَآئِلِیْنَ: آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی نبوّت کے متعلق سوال کرنے والوں کے واسطے یوسفؑ اور اس کے بھائیوں کے بیان میں جواب ہے.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے واسطے بھی مکّہ والوں نے یہی ارادے کئے تھے کہ انکو قتل کیا جاوے یا قید کیا جاوے یا جلا وطن کیا جاوے.آخر آپؐ ہجرت پر مجبور کئے گئے.اور بالآخر یوسفؑ کی طرح اہل مکّہ پر فتح پائی.اور انہیں معاف کر دیا.اس آیت میں پیشگوئی ہے کہ جو حال یوسفؑ کے بھائیوں کا اس کے مقابلہ میں ہوا تھا وہ ان قریش کا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : مکّہ سے نکلنا پڑا ۲.پھر حاکم ہو گئے ۳.مکّہ فتح ہو گیا.مکّہ والوں نے معافی کی درخواست کی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۹،۱۰.
: ہم ایک بڑی جماعت ہیں.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے مقابلہ میں ایسا ہی کہا گیا.مِنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٌ (زخرف:۳۲) : کاٹنے والی محبّت.یوسفؑ کے ساتھ ایسی محبّت ہے جو ہم سے قطعِ محبّت کراتی ہے.: بعض لوگ ایسا خیال کرتے ہیں کہ یہ بدی ہم کر لیں.پھر نیک بن جائیں گے.ایسے آدمیوں کو نیکیوں کی توفیق نہیں حاصل ہوتی.بعد میں توبہ کر لینے کی نیت کے ساتھ بدی کی طرف جھکنا کبھی اعملِ صالح کی تو فیق نہیں دیتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : جیسے اس قوم میں نبی کریمؐ خدا کے محبوب بن گئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) ۱۱. : نبی کریمؐ کے دشمن اس سے زیادہ سخت تھے.کیونکہ انہوں نے قتل کا فیصلہ کر دیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) :قَعْرُبِئْرٍ.وہ کنواں اس کو غائب کر دے.وہ ایک خاص کنوں تھا اور اسی کی طرف اشارہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۲،۱۳.
ان سب دعووں میں جو یوسفؑ کے بھائیوں نے کئے.کہیں انشاء اﷲ نہیں کہا.خدا کا نام بالکل نہیں لیا.اسی واسطے حضرت یعقوب علیھا السلام کو خوف پیدا ہو کہ ان کی ان باتوں کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا کیونکہ ان کو جنابِ الہٰی کا خیال بھی نہیں آیا.انشاء اﷲ تعالیٰ کہہ نہیں سکے.: کھیلے گا.کُودے گا.جنگل کے پھل کھائے گا.چرنا سیکھے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : دیکھو خدا کا نام نہیں لیتے اور جب تک نہیں لیتے.ناکام رہتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۵۹) اَوْحَیْنَا: اس جگہ خدا تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کی تشفّی فرمائی.وحی کی آواز اونچی ہوتی ہے مگر پاس والے نہیں سُنتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۱۸. : ایک دوسرے سے آگے بڑھتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۲۰. : اپنا سقّہ.پانی بھرنے والا.:عیسائی اعتراض کرتے ہیں کہ ہاجرہ لونڈی تھی اور اسمٰعیلؑ لونڈی سے پیدا ہوا.اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی اسرائیل کو فرعون کا غلام بنا دیا.یوسف علیہ السلام غلام بنے.شرم! شرم!! شرم!!! اور حضرت یوسفؑ اس جگہ بنی اسماعیل کے غلام بنائے گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۲۱. : خدا تعالیٰ نے اس رقم کی تحقیر کی ہے.خواہ کتنی ہی تھی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے واسطے بھی کفّارِ عرب نے سو اونٹ انعام مقرّر کیا تھا کہ جو ان کو قتل کرے.اسے سو اونٹ ملے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۲۲. : ہمیں نفع دے.وہ مشرک کافر تھے.۱.انہوں نے سوچا کہ اس کو متبّٰنی بنائیں گے.۲.یا یہ خیال کیا کہ اس سے نیوگ کرائیں گے.کیونکہ آریوں کی طرح وہ بھی تھے.ایک نبی کے متعلق ایسا خیال کیا.مگر وہ کیا جانتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۲۳. : یعنی عادت اﷲ اور سنّت اﷲاور سنّت اﷲ اسی طرح واقعہ ہوئی ہے کہ کوئی محسن ہو.کبھی ہو.اس کو اس طرح پر جزا ملتی ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو ملی.غرض انسان محسن بنے.پھر خدا اس کے ساتھ ہے اور اسے مراتب اعلیٰ ملتے ہیں.(الحکم ۱۷؍فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷)
۲۴. : بناؤ سنگار اور تمام سامان کر کے کہا کہ ایسے آؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۲۵. ھَمّن: یوسفؑ نے اس عورت کو روکنے میں زور لگایا.: اگر اﷲ تعالیٰ کی تعلیم اور احکام دربارۂ عفّت اس کو نہ ملے ہوتے.تو وہ اس عورت سے بچنے کی کوشش نہ کرتا اور اس کو نصیحت کرنے میں زور نہ لگاتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے محض خدا تعالیٰ کے خوف سے ایک عورت کے ساتھ بدکاری کرنے سے پرہیز کیا.ورنہ ایک عام آدمی بھی جس کی نگاہ بہت ہی چھوٹی اور پست ہو کہہ سکتا ہے کہ اس تعلق سے وہ اس عزّت سے جو اس وقت اُن کی تھی زیادہ معزّز اور آسودہ حال ہوتے.اگرچہ یہ خیال ایک دَنیِ اُّلطبع آدمی کا ہو سکتا ہے کہ کسی بدی اور بدکاری میں کوئی آرام.آسودگی کی عزّت مل سکتی ہے کیونکہ ارشادب الہٰی اس طرح پر ہے کہ ساری عزّتیں اﷲ ہی کے لئے ہیں.اور پھر معزّز ہوتا رسول اور مومنیں کے لئے لازمی ہے.بہر حال جو کچھ بھی ہو.کمینہ فطرت.کم حوصلہ انسان عاقبت اندیشی سے حصّہ نہ رکھنے والا کہہ سکتا ہے کہ ان کو آرام ملتا ہے.مگر حصرت یوسفؑ نے اس عزّت.اس آرام اور دولت پر لات ماری اور خدا تعالیٰ کے حکم کی عزّت کی.قید قبول کی مگر احکامِ الہٰی کو نہ توڑا.نتیجہ کیا ہوا.وہی یوسف اسی مِصر میں اسی شخص کے سامنے اس عورت کے اقرار کے موافق معزّز اور راست باز ثابت ہوا.وہ امین ٹھہرایاگیا.اور جس مرتبہ پر پہنچا تم میں سے کوئی اس سے نا واقف نہیں… عادت اﷲ اور سُنّت اﷲ اسی طرح پر واقعہ ہوئی ہے.کہ کوئی محسن ہو.کبھی ہو.اس کو اسی طرح پر جزا ملتی ہے جیسے یوسف علیہ السلام کو ملی.(الحکم ۱۷؍ فروری ۱۹۰۴ء صفحہ ۷)
۳۱. : شغف.وہ چمڑا جو جلد کے اوپر ہوتا ہے.داخل ہونا.جنون کی حالت تک پہنچ جانا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۳۲. : مکر کے معنے تدبیر کے ہیں.لیکن صحابہؓ.تابعین نے اس کے معنے قَوْلَھُنَّ کے کئے ہیں.یعنی جب ان کا قول سُنا.: تکیہ.گدیلہ.نمارق بعض شہروں میں دو دو سو تکیے دیتے ہیں.: چھُری.میوہ کاٹنے کے لئے.: اس کو عظیم الشّان پایا.: یہ محاورہ ہے.مطلب یہ ہے کہ اظہارِ تعجّب کیا اور تعجّب سے ہاتھ منہ میں کاٹا.بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ بوجہ حیرت و رعبِ حُسن لٹّو ہونے کی بجائے ٌھلوں کے اپنے ہاتھ کاٹ لئے.: اﷲ پاک ہے.جس نے ایسا انسان پیدا کیا.عورت بدکار آدمی کو جلد پہچان لیتی ہے.دیکھتے ہی کہا.یہ تو کوئی فرشتہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : مصری چھُری کانٹے سے کھاتے.: یہ تو کوئی دیوتا ہے.مُشرک لوگوں کا دستور ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰)
۳۴. : سجن کے معنے حبس مراد لے لیتے ہیں.قیدخانہ یا مَجْسَ : حضرت یوسفؑ نے تو کہا مجھے قید پسند ہے.مگر ہمارے نبی کریمؐ نے کبھی ایسا لفظ نہیں بولا.آپؐ ہمیشہ عفو ہی مانگتے رہے اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ.انسان کو نہیں چاہیئے کہ اپنے لئے مصیبت مانگے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۳۷. دَخَلَ مَعَہُ السِّجْنَ : ؎ ہر بلا کیں قوم راحق دادہ است زیرِ آن گنجِ کرم بِنْہادہ است حضرت موسٰیؑ کو ایک طرف تو بادشاہ کے گھر میں پرورش کر دیا.تاکہ دربارِ شاہی کو دیکھ بھال لے دوسری طرف غریب گھر میں رکھا تا زندگی کے اس حصّہ کے عجائبات کو بھی دیکھ کر امیر و غریب کی اصلاح کر سکے.اسی طرح حضرت یوسفؑ کو ایک طرف باپ سے الگ کیا پھر قیدخانہ میں ڈال دیا.اور دوسری طرف مصر کے بادشاہ کا مقرّب بنایا.حضرت مجدد۱؎ گوالیار کے قلعہ میں قید ہوئے تو قیدخانہ سے ایک شخص کو خط لکھتے ہیں.ہم کو قرآن شریف یاد کرنے کیلئے موقعہ نہیں ملتا تھا.اب قرآن شریف کی یاد کیلئے خوب موقعہ ملے گا.میں تو ان کا بہت معتقد ہوں.جو ان کے معتقد نہیں.وہ بھی دیکھیں گے کہ کس دل سے یہ خط لکھا گیا ہے.کبھی کبھی مجھے یہ خیال ٓآتا ہے کہ ہمارے نبی کریمؐ بھی ہجرت کے تین دن غار میں رہے آپؐ نے اس میں اپنے رفیقِ صدیق کے ساتھ کیا کیا باتیں کیں اور دعائیں کی ہوںگی.: اﷲ تعالیٰ نے رؤیا کی عظمت کے اظہار کیلئے تین رؤیا کا ۱؎ حضرت سیّد احمد سرہندی مجدّ الف ثانی.مرتّب ذکر اس سورہ میں کیا ہے.ا.کافر کا.فرعون ب.فاسق کا قیدی ج.مومن کا رؤیا.یوسفؑ.دیکھئے سب کے لئے. ہی آیا ہے.یہ بیان نہیں کیا کہ ہم نے خواب میں دیکھا یا کشف میں دیکھا یا یقظہ میں پس نبی کریمؐ کی احادیث میں کیونکر خواہ مخواہ مشکلات ڈالے جاتے ہیں.: خمر کے معنے انگور.صحابہؓ نے اس لُغت کو اچھی طرح سے بیان کیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۳۸. : کھانا نہیں آئے گا.کہ مَیں تم کو اس کی تعبیر بتا دوں گا.گفتگو کی تمہید.کیسی مناسب ہے.دیکھو مَجْسَ ہے ساتھ فجار لوگ موجود ہیں.اس راستباز کو یہ معلوم ہو گیا کہ ان لوگوں کو مجھ سے حُسنِ ظن پیدا ہو گیا.آؤ اس حُسنِ ظن سے فائدہ اٹھائیں.انکو تسلّی بھی دے دی کہ ہاں تمہاری بات بتاتا ہوں.اور ساتھ ہی اپنی تبلیغ بھی کر دی.ہر ایک مومن کو بھی اس ٹوہ میں رہنا چاہیئے جب کوئی حق کا شنوا دیکھے تو اُسے حق سنا دے.مگر ایسے طور پر کہ مؤثر ہو.نہ یہ کہ اور بھی بھڑک اُٹھے.جیل خانہ فُسّاق کی جگہ ہے.مگر حصرت یوسفؑ تقریب الہٰی کے واسطے گئے تھے.آپؑ نے اسے اسی کا مظہر پایا علمِ رؤیا کی کتابیں مطالعہ کرنے سے اور اس پر غور کرنے سے بہت سے قانونِ قدرت کے جھگڑے طے ہو جاتے ہیں.قرآن کریم نے اکثر الفاظ اس کے بیان کر دئے ہیں.لوگ لُغت کو لے لیتے ہیں مگر علمِ رؤیا سے الفاظ کے معانی حل نہیں کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
ے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۳۹. : ایک طرف مَیں نے کچھ چیز ترک کی ہے.دوسری طرف کچھ اخذ کی ہے.: شرک سے بچنے کے معنے ہیں کہ نہ کوئی خدا کے برابر ہو نہ کوئی محبوب اس کے برابر معظّم ہو.نہ کوئی اس کے برابر مُطَاع ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۴۰،۴۱. ربّکے معنے بڑا پا لنہار.یہ لفظ اﷲ تعالیٰ پر بھی بولا گیا ہے اور دنیاداروں.بڑے آدمیوں پر بھی.فرعون کے کہا.اَنَارَبُّکُمُ الْاَعْلٰی(النٰرِعٰت:۲۵) یوسف علیہ السلام نے ایک قیی کو جو رہا ہونے والا تھا فرمایا کہ اُذْکُرْنِیْ عِنْدَرَبِّکَ(یوسف:۴۳) یعنی اپنے مالک و امیر کے پاس میرا ذکر کیجئو.اور اسی ربّکی جمع اَرْبَابٌ ہے جس کے متعلق فرمایائَ اَرْبَابٌ مُتَقنرَّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ.(نورالدّین صفحہ۲۲۱) اَلْقَاھِرُجو اﷲ تعالیٰ کا نام ہے اس کے معنے ہیں وہ ذات پاک جو سب پر غالب ہے.اَلْقَھَّارُ اَلْقَاھِرٌ کامبالغہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۰۴)
۴۲. : ایک خواب ہے جس کے وجود ہی میں شک ہے.پھر اس کی تعبیر میں دقّت ہے.پھر یہ مشکل کہ وہ تعبیر پوری بھی ہو گی یا نہیں.مگر آپ پیشگوئی کرتے ہیں کہ یہ بات تو ہو چکی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : خواب کبھی بالکل نظارہ کے مطابق ہوتا ہے.جیسے عصرِ خمر کا خواب کبھی آدھا اس طرح اور آدھا اور رنگ میں جیسے یوسفؑ کا خواب کہ دیکھے ستارے.نکلے بھائی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۴۳. : ظَنَّ جب اس کے پیچھے آ جاوے تو یقین کے معنے دیتا ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان جس نے امر بالعروف اور نہی عن المنکر کرنی ہو اس کو چاہیئے کہ ہر عیب سے اپنے آپ کو بچا وے اور پاک و صاف ثابت کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : اس قیدی کو بھُلا دیا شیطان نے.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰)
۴۴. : دیکھئے بادشاہ نے بھی اِنِّیْ اَرٰیہی کہا ہے.فِی الْمَنَامِ کا ذکر نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) : ۱ر زانی کے دنوں میں کیا سات ہی گائیں موٹی ہوتی ہیں؟ نمونہ تھا اسی طرح دجّال.نبی کریمؐ کو اس قوم دجّال کا ایک نمونہ دکھایا گیا.دومؔ.اس سے معلوم ہوا کہ کافر کی رؤیا بھی سچّی نکل آتی ہے.فاسق کی بھی.بچّے کی بھی.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۴۵. : پراگندہ خیالات.یہاں یہ نہیں کہا کہ ہم اس خواب کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے.بلکہ الٹا اسی کو بے وقوف بنایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا والے اپنی کبریائی کے باعث اپنی لاعلمی کو تسلیم نہیں کرتے.بعض آدمی سوال کے سُننے سے پیشتر ہی جواب کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.دنیا پرست انسان اپنی واقفیت وسیع ثابت کرنے کیلئے کسی کا لحظ بھی نہیں کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء)
۴۶. : دیکھو حضرت یوسفؑ کو مجلس میں دیکھ کر کس طرح کہا کہ ہم تجھ کو محسن سمجھتے ہیں پھر حضرت یوسفؑ نے کس طرح ان کے خواب کی تعبیر بیان کی اور کتنا بڑا وعظ تو حید کا بیان کیا.لیکن وہاں بادشاہ کے پاس آ کر شراب پلانے میں ایسا محو ہوا کہ بھول گیا.اسی لئے مجھ کو کسی برے دنیادار سے محبت نہیں.اب اس کو جب اپنی ضرورت پڑی تو بات یاد آ گئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۴۷. : پھر آ کر نہ کوئی عُذرکیا نہ شرمندگی ظاہر کی.آتے ہی اپنی غرض اور مدّعا بیان کرنا شروع کر دیا.: بادشاہ کا نام نہیں لیا.دیکھو اب جب حضرت یوسف ؑ نے دیکھا کہ یہ دنیا پرست ہے دنیا پرست کے پاس سے آیا ہے.تو اب وعظ نہیں کیا.بلکہ فورًا جواب دیدیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۴۹. : تَدَّخِرُوْنَ.تَجْمَعُوْنَ.جو کچھ تم نے جمع کیا.
۵۴. وَ مَا اُبَرِّیٔ نَفْسِیْ : یہ قول بھی اس عورت کا ہی ہے حضرت مرزا صاحب نے فرمایا تھا کہ نبی کا قول ہو سکتا ہے نہ کہ مشرکہ عورت کا.اس صورت میںلَمْ اَخُنْہُ بھی یوسفؑ کا قول ہے.اپنے مالک کی عدم موجودگی میں اس کی عورت کی طرف بُری خواہش نہیں کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء) ۵۵. : اپنے خاص لوگوں میں اسے رکھوں گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء)
۵۶. : یوسفؑ نے بادشاہ کے پاس رہنا بھی پسند نہ کیا.وہ عہدہ دیتا تھا.اس کا انکار بھی نامناسب تھا.الگ رہنا بھی ٹھیک نہ تھا.اس لئے خزائن الارض پر قبضہ کیا.افسر مال بن گئے.سب محتاج ہو گئے.کوئی مخالف شر نہ کر سکا.: محاصلِ زمین.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۵۷. مُحْسِنِیْنَ: خدا نے یوسفؑ کو محسن کہا.قید کے ساتھیوں نے بھی ایسا ہی کہا تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۶۳. : تاکہ وہ اسے پسند کریں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۶۸. : میرے خیال میں حضرت یعقوبؑ نے علیحدہ پیغام پہنچانے کیلئے ان کو الگ الگ دروازے سے داخل ہونے کا حکم دیا اور یہ حکمِ الہٰی تھا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰)
۶۹. : مطلب یہ تھا کہ یوسفؑ کو اپنے بھائی سے الگ ملنے کا موقعہ مل جاوے یہی حکمت تھی ابوابِ متفرقہ سے بھجوانے کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۷۰. : اس سے معلوم ہوا.کہ حسب قرارداد.یعقوب وہ بھائی پہلے پہنچ چکا تھا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۷۱. : امراء کے پاس ہر کام کیلئے نوکر ہوتے ہیں.پانی پی کر جو برتن رکھ دیا تو نوکر اٹھانا بھول گیا.اسباب غلطی سے بند گیا.: خیال کیا شاہی مہمان ہیں.ان کی بے عزّتی نہ ہو.آپس میں فیصلہ کرنا چاہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء)
۷۷. : یوسفؑ کے بھائی کے شلیتے۱؎ سے پہلے دوسروں کی تلاشی شروع ۱؎ ٹاٹ کا بڑا تھیلا.کی یہ اس لئے کہ اس ملازم نے دیکھا کہ بنیا مین زیادہ قُرب والا ہے.اس لئے اسکا سامان اوّل نہ کھولا.: یوسفؑ کے فائدے کی تدبیر ہم نے کی تھی.تاکہ اپنے بھائی کے ذریعے اپنے باپ کا علم حاصل کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) : یعنی یوسفؑ کو اس معاملہ کی خبر نہ تھی.نہ اس نے کوئی تدبیر کی.اقایہ بھول کر رکھا اور محافظ نے از خود تلاشی لی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۷۸. : یہ ان کا جھُوٹ ہے جیسے پہلے بھی جھوٹ بول چکے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰)
۸۱. : اس موقعہ پر مجھے یہ نکتہ سُوجھا ہے کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اوّل خدا کا نام لیتے پھر باپ کا.پس معلوم ہوا کہ عام آدمی کے الہامات نبی کے ماتحت ہوتے ہیں.اسی واسطے اوّل باپ کا نام لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۸۴. : صبر اچھی چیز ہے.میں تم کو یقین دلاتا ہوں کہ یوسفؑ اور اس کا بھائی اور سب آ جاویں گے.دیکھو کتنا یقین ہے خدا کی ذات پر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۸۵. : آنکھیں آنسؤوں سے بھر گئیں.: غم سے بھر گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء)
۸۶. : جسم یا عقل میں کسی حزن یا مرض کے سبب فساد آ جاوے اس فساد کو حرضؔ کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۸۸. :التماس کرو.عرض کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) ۸۹، ۹۰. : وہ تھوڑا مال جو ہم کو چلا کر یہاں لے آیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری ۱۹۰۹ء) : کچھ خبر رکھتے ہو تو.کیا کیا تم نے یوسفؑ سے اور اس کے بھائی سے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۶) ۹۱. : یہ محسن کی تفصیل فرمائی ہے.حضرت یوسفؑ نے یہ قاعدہ کلیہ بتا دیا ہے صبر دو قسم کا ہے.ایک عَنْ مثلاً صَبَرَعَنِ الْغَضَبِ.یعنی انسان غضب.طمع.حرص سے اپنے آپ کو روکے.دومؔ عَلیٰ مثلاً صَبَرَعَن الصَّلوٰۃِ یعنی جو نیکی کرتا ہے.اس پر دوام کرے.
اﷲ تعالیٰ کی رضا مندی کے کاموں پر مضبوط رہے.تقوٰی کے معنے ہیں ایمان اﷲ پر.ملائکہ پر.انبیاء پر.کتب پر اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرے.مسکین و تییم و اقارب کی خبر گیری کرے.رنج و راحت.عسر و یسر میں صابر رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۹۳. : یعنی میں تمہیں کبھی ملامت نہیں کروں گا.نہ کبھی یاد دلاؤں گا دیکھئے حضرت یوسفؑ نے تو کہہ دیا.مگر حضرت یعقوبؑ نے سَوْفَ فرمایا.یہ اس لئے کہ یعقوبؑ کی معرفت بڑھی ہوئی تھی.؎ آنکہ عارف تراست ترساں تر نبی اس وقت دعا مانگتا ہے جب مغفرت کیلئے مامور ہو.عمائد مکّہ کو بھیلَ لا تَثّرِیْبَ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مگر نہ کہا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۹۴. : حضرت یوسفؑ کے تمام کام قمیص ہی سے متعلق رہے.باپ کے پاس بھی بھائی قمیص ہی پُرخون لے کر گئے تھی کہ بھیڑیا کھا گیا.پھر مصر میں بھی جب ایک عورت نیاتہام لگایا تو قمیص ہی سے برّیت ہوئی.اب جب ان کی خوشحالی کا وقت آیا تو اب بھی قمیص ہی بھیجا.باریک بین لوگ اس قسم کی باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.: میرے باپ کے آگے رکھ دو.: وہ یقین کر لے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۹۵،۹۶. : فلسفی طبیعت لوگ اس کے معنے کرتے ہیں کہ یعقوبؑ نہ کہا.میں یوسف کی حکومت کے آثار پاتا ہوں.صوفیاء نے لکھا ہے اﷲ تعالیٰ جب چاہتا ہے بعض حواس میں غیر معمولی ترقی بخش دیتا ہے.یہ لوگ زیادہ تجربہ کار اور اس کوچے کے واقف ہیں.انہی کی بات ماننی چاہیئے.: تفنید.ملامت کرن.احمق بنانا.خطاکار بنانا.گنہگار ٹھہرانا.آپ نے ڈرایا.ایسا نہ ہو.میری تکذیب کر کے گنہگار ہو جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۹۷. : وقوعہ کے بعد کہا.جب یقین ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : سامنے رکھ دیا.: یقین ہو گیا اور پھرکھول کر سنایا.پہلے باوجود الہام کھولا نہیں.اﷲ کی بے پرواہی سے.پیشگوئی کا پورا علم بعد از وقوع ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۱۰۰. : اس سے ثابت ہے کہ استقبال کیلئے باہر آئے تھے.یہ بھی ایک ادب ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۱۰۱. : میرا تو یہی اعتقاد ہے کہ سجدہ خدا کے شکر کا تھا.: یہاں کنویں سے نکالنے کا ذکر نہیں کیا.تاکہ بھائیوں کا دل نہ دُکھے.ان سے وعدہ لَا تَثْرِیْبَ کرکر چکے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : پاک لوگ شکایات اور مصائب کا ذکر نہیں کرتے.کہ یہ شکر کے خلاف ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۰) ۱۰۲. : چونکہ حضرت یعقوبؑ نے اپنی اولاد سے عہد لیا تھا کہ لَا(بقرہ:۱۳۳)اس کے ماتحت حضرت یوسفؑ نے یہ دُعا مانگی.اس سے یہ بھی معلوم ہوا.کہ تو فیؔ اور موت کے ایک ہی معنے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۱۰۳. : ــــــــــتَبَاء---کہتے ہیں عظیم الشان بات کی خبر.: یعنی یہ ایک پیشگوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : مکّہ والوں کو بتایا کہ تم بھی ایسا ہی کرو گے.اور آخر میں تم پر فتح پاؤں گا.: مکّہ والوں کے پاس.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۱) ۱۰۶،۱۰۷. حضرت یوسف علیہ السلام کے قصّہ میں بہت بڑی نصیحت ہے.چھوٹے بچّوں کو بھی حقارت کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہیئے.انبیاء علیہھم السلام کسی کی حقارت بھی کرتے ہیں تو نام نہیں لیتے.دیکھو حضرت یوسفؑ کی حقارت کرنے والوں نے کتنے برے بڑے مصائب دیکھے.دوسری نصیحت یہ ہے.کہ جو کوئی اﷲ کی طرف جھُکتا ہے.اﷲ تعالیٰ کو پسند آتا ہے.چاہے وہ جھوٹا بچّہ ہی کیوں نہ ہو.اس من میں مکّہ والوں کو بتایا کہ تم نبی کریمؐ کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھو.کیونکہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم مبی مبعوث ہونے کی حیثیت سے بچّہ ہی تھے.مگر ایک اولوالعزم خاتِم کمالاتِ رسالت تھے.بعض وقت سخت لفظوں کا بُرا خمیازہ اٹھانا پرتا ہے.اِنَّالَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (یوسف:۶۴) : بہت لوگ بات ماننے کیلئے تیار ہوتے ہیں.لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو انکار کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۱۰۸. : ساعت کے معنے صرف قیامت ہی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۱۰. : تم لوگ کیوں نہیں اپنے آپ کو روکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۱۱. : یہاں تک کہ جب رسول ناامید ہو جاتے ہیں ( کس سے ؟ خدا سے نہیں.کیونکہ قرآن شریف میں تو لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے یاس کرنے والا تو کافر ہوتا ہے.وَ لَا تَایْئسُوْا مِنْ رَّوْحِ اﷲِ(یوسف:۸۸) اس بات سے کہ ہماری قوم ہم کو مانے اور وہ جو ان کے مخالف ہیں گمان کر لیتے ہیں کہ ہم سے جھوٹے وعدے کئے گئے تو ہماری مدد پہنچتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۱۲.
: ہم نے تو سب بیان کھول دیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
سُوْرَۃُ الرَّعْدِ مَکِّیَّۃُ ۲. اﷲ تعالیٰ فطری مسائل کی طرف توجہ دلاتا ہے.بالخصوص دو مسائل کی طرف ۱.محسن کی شکر گزاری ۲.اپنے سے بڑے علم والے.طاقت والے کی طرف جھُکنا.۳.جو دلائل سے نہ مانے اس کو سختی سے منوایا جاتا ہے.۴.جو اس پر بھی نہ مانے، اسے ہلاک کیا جاتا ہے.: : اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ وَاَرٰی : کامل.جامع.محفوظ.: حکمت سے بھری ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) یہ آیتیں قرآن کی ہیں اور جو اتارا گیا ہے تیرے پاس خدا سے وہ سچ ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۶۸) : نہ ماننے کی وجوہ ۱.غفلت ۲.عدم توجہ ۳.اپنے آپ کو نصیحت کا محتاج نہ سمجھنا ۴.کبرو استکبار ۵.راست باز کو جھٹلانا ۶.اپنے وعدہ کا خلاف کرنا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۱) ۳. : پہلے ربوبیت کا ذکر کیا ہے.: تختِ حکومت پر.: نبی کو بھیجنا اور اس کے متعلق فیصلہ کرنا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۴. : زمین کو وسیع بنایا.: نباتات میں نر و مادہ ہے.اس کی عمدہ نظیر عرب میں کھجور ہے.نَر کے پھول کو مادہ پر ڈالتے ہیں.نَر نباتات سے نَر کی کمزوری کا علاج کرتے ہیں اور مادہ نباتات سے مادہ کا علاج.یہ طبّ کا اصول ہے.لوہا بڑی اعلیٰ دھات ہے.نر لوہا مرد کے لئے اور مادہ لوہا مادہ کے واسطے مفید ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : قرآن مجید تو ایک ہی ہے.مگر اس سے ہر شخص اپنے حالات کے مطابق حاصل کرتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۱) ۸. : اس سے ثابت ہے کہ قرآن مجید تو ایک ہی ہے.مگر اس سے ہر شخص اپنے حالات کے مطابق فیض حاصل کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۹. : اب قدرت کے بعد اپنے علم کا ذکر فرماتا ہے.: شقی پیدا ہوں گے یا سعید.کفار کو اشارہ کیا ہے کہ تم کو اولاد کی فکر لگی ہے.تم کو کیا خبر کہ کیسے پیدا ہوں گے.ایک وقت آئے گا کہ یہ سب مسلمان ہو جاویں گے.: غیض، جذب کرنا، گھٹ جانا، کسی حصّہ کو رحم پھینک دیتا ہے.: اس میں بتایا ہے.کہ اب تمہارے کفر کا زمانہ ختم ہوا جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : اور ہر چیز کی ہے اس کے پاس گنتی.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۵۳) ۱۱. : جو ظاہر ہے.خفا کا جس میں ازالہ ہو.قرآن مجید میں دوسرے مقام پر فرمایا( طٰہٰ:۱۶) : جو مخفی رکھتا ہے.کیونکہ سَرَب زمین میں سرنگ لگانے کو کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۲. : ہر ایک انسان کیلئے فرشتے ہیں.جو صبح کو آتے ہیں اور عصر کو چلے جاتے ہیں.اور عصر کو آتے ہیں.صبح کو چلے جاتے ہیں.سورۃ کہف میں دائیں بائیں کا ذکر ہے.یہاں آگے پیچھے کا کر دیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
: اﷲ نہیں بدلتا جو ہے کسی قوم کو جب تک وہ نہ بدلیں جو اپنے بیچ ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴۴،۱۵۶) ۱۳. : پیشگوئی کہ تم پر بجلی گریگی.طَمْعًاسے یہ مطلب بھی ہے کہ برق سے جراثیم وباء مر جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۴. : جب آسمان پر وحی ہوتی ہے تو فرشتے ڈر کر گر جاتے ہیں.: بڑے بڑے عذاب.: مِحَال.عذاب دینا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۷.
ایک آریہ کے اس سوال کے جواب میں کہ یہ عالَم کس نے بنایا.تحریر فرمایا: ’’ قرآن کریم نے اس سوال کے جواب پر سینکروں دلائل دئے ہیں.اور بطور نمونہ بعض دلائل کا ذکر فرماتے ہوئے دلیل لِمّی کا ذکر فرمایا ہے.’’ فرمایا ہے..اﷲ ہر ایک چیز کا خالق ہے.اور اس دعوٰی کی یہ دلیل دی ہے.کہ اﷲ اپنی ذات میں بے ہمتا.اپنی صفات میں یکتا.اور افعال میں وہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ ہے.اور یہ تمام معانی اَلْوَاحِدُ کے ہیں.جب یہ لفظ اﷲ تعالیٰ کی نسبت بولا جاوے اور وہ سب پر حکمران و متصرّف ہے اور سب کو اپنے ماتحت رکھتا ہے اور یہ معانیُ کے ہیں.جب حضرت حق سبحانہ، و تعالیٰ پر اسکا اطلاق ہو.آریہ سماج بھی اﷲ تعالیٰ کو ان معنی میں مانتے ہیں گو نتیجہ میں غلطی کرتے ہیں.کیونکہ ان کے یہاں اﷲ تعالیٰ ہی کی ذات پاک انوپیم بست.چت.آنند ہے.اگرچہ عام ہنود بُت پرستی کے باعث ایک کا کلمہ زبان پر کم لاتے ہیں کیونکہ عام طور پر لوگ جب وزن کرتے ہیں.اوّل اور ایک کے بدلہ میں تو پنجاب میں برکت برکت کہتے ہیں.دوسری بار دُوآ.دُو آ غالباً تمام ہندوستان میں یہی طرز ہو گا.اور کے بدلہ اس کے ہم معنی لفظ برہم.پرمیشر.اَحْکَمُ الحاکِمِیْن.رَبُّ الْعَالَمِیْن کا نام لیتے ہیں.اب کا دعوٰی جس مسلّم بات پر مبنی ہے وہ کالفظ ہے کیونکہ وہ ہر ایک چیز کا خالق نہ ہو تو کچھ چیزیں اس کی خلق سے باہر بھی ہوں گی.اور جو اشیاء خلق سے باہر ہوں گی.بہر حال وہ چیزیں ضرور کسی نہ کسی پہلو میں اﷲ تعالیٰ کی شریک ہی ہوں گی.جیسے آریہ کہتے ہیں کہ تمام ارواح حتٰی کہ کیڑے مکوڑے بلکہ درختوں کی روحیں بھی خدا کی بنائی ہوئی نہیں.مادۂِ عالم اﷲ تعالیٰ کا بنایا ہوا نہیں.زمانہ اکاش بھی خدا کا بنایا ہوا نہیں وغیرہ.تو یہ سب چیزیں بھی غیر مخلوق.دائمی اپنی ہستی میں خدا کی شریک ہوئیں.پھر یہ چیزیں نہ اپنی ذات میں خدا کی محتاج.نہ اپنے خواص میں.نہ اپنے عادات میں.اور نہ اپنے افعال میں خدا کی دست نگر.
بایں ہمہ خدا کو بے وجہ ان پر حکمران مانتے ہیں.(نور الدّین صفحہ۲۹ دیباچہ) ۱۸. تمہارے کاموں میں تعظیم لِاَمْرِاﷲ اور شفقت عَلٰی خَلْقِ اﷲہو.کیونکہ فرمایا. جو مُضر وجود ہوتے ہیں.وہ خود بھی سُکھ نہیں پاتے دوسروں کو بھی سُکھ نہیں کر لینے دیتے.آپ بھی دورزخ میںرہتے ہیں.اور دوسروں کو بھی تکلیف پہنچاتے ہیں پس تم مُضر نہیں بلکہ نافع للنّاس وجود بنو.سب سے بھاری مسئلہ یہ ہے کہ وقتوں کی حفاظت کرو دُعا سے کام لو.صحبتِ صلحاء اختیار کرو.محبّتِ صلحاء بڑھاؤ.محبّت کا اصول یہ ہے کہجُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا.میری فطرت میں یہ بات ہے کہ جو کام کسی کو بتاؤں اور وہ نہ کرے تو میری اس کے ساتھ محبّت نہیں رہ سکتی.خدا کی محبّت کا بھی یہی حال ہے.وہ اپنی فرمانبرداری کرنے والوم کو محبوب رکھتا ہے.(بدر ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ ۳) ۲۰ تا ۲۳.
…: نصیحت تو وہی پکڑیں جو عقل والے ہیں.وہی جو الہٰی معاہدوں کا پورا خیال رکھتے ہیں اور جس کسی سے مستحکم وعدے کئے.ان کو نہیں توڑتے.جن سے ملاپ کرنا چاہیئے ان سے ملاپ کرتے.اﷲ کی نافرمانی کا خوف رکھتے اور بُرے کاموں کے بدلہ سے ڈرتے.وہی اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کے طالب ہو کر بردباری کرتے ہیں اور نمازوں کو درست رکھتے اور کچھ اﷲ کا دیا.ظاہری اور باطنی طور پر خرچ کر دیتے ہیں.اور خاص بدی کا مقابلہ خاص نیکی سے کیا کرتے ہیں.انہیں کا انجامِ کار آرام ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ احمدیہ صفحہ ۲۷۵) : نیکی پر صبر تو اس پر دوام ہے اور بدیوں پر صبر کہ ان سے بچار ہے.: جن لوگوں کے ساتھ خدا نے ملنے کا حکم دیا ہے ان سے فورًا مل جاتے ہیں.جب اﷲ اکبر کی آواز کان میں آتی ہے.اس وقت کوئی چیز ایسی نظر نہیں آتی.جس کا جوڑ مَیں خدا کے مقابلہ میں ٹھہراؤں.کوئی پیاری سے پیاری چیز بھی مجھ کو اﷲ اکبر سے نہیں ہٹا سکتی.یعنی کوئی اﷲ کے جوڑ کا نظر نہیں آتا.اگر کوی شخص ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر، ہماری شریعت پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو ہم کو چاہیئے کہ کسی رشتہ دار تک کی پرواہ نہ کریں.خوب اس کا مقابلہ کریں.اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے بعد صحابہ کرام.تابعین.تبع تا بعین.ائمہ حدیث.ائمہ تصوّف ائمہ فقہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی تعلق ہونا چاہیئے.علی ابن مدینی نے اسماء الرّجال ایک کتاب لکھی ہے اس کے باپ نہایت عابد زاہد تھے.صاف لکھ دیا کہ
میرے باپ علمِ حدیث میں ہرگز قابلِ سند نہیں.لوگوں نے کہا کہ تُم نے باپ کا خیال نہ کیا.فرمایا کہ مجھ کو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا وصل باپ کے وصل سے زیادہ عزیز ہے.ان ائمہ کے بعد ماں باپ اور ان کے رشتہ دار.بیوی اور اس کے رشتہ دار یہ سب اس قابل ہیں کہ ان کا بہت لحاظ رکھے.ان سے تعلّق بڑھائے لیکن اﷲ اور اس کے رسولؐ کے مقابلہ میں یہ ہیچ ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جس درخت سے تم سایہ کا فائدہ اٹھاتے ہو.اس کے نیچے پاخانہ نہ پھرو.: اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں حساب کے وقت بدیاں نہ بڑھ جاویں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۴. …: ہمیشہ اقامت کی جنّتیں.ان میں داخل ہوں گے.اور انکے ساتھ ان کے صالح باپ اور بیبیاں اور اولاد بھی.(نورالدّین صفحہ۴۹) ۲۶. : لعنت اﷲ کی رحمت سے دُوری ہے.جب اس سے دُوری ہوتی ہے تو سُکھوں سے بھی دُوری ہو جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۷. : تھوڑی چیز اور وہ بھی جانے والی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۲۸. : وہ ہلاکت کا نشان مانگتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۹. : اس کے ساتھ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کا ذکر فرمایا.کیونکہ کامل ایمان وہی ہے جس کے ثمرات اعمالِ صالحہ کی صورت میں ظاہر ہوں.ذِکْرُ: اﷲ کو یاد کرنا.یہ تین موقعہ پر آیا ہے.۱.بَاسَآء.جب بھوک ہو اور افلاس.۲.ضَرَّآئِ.جب بیماری ہو.بیماریاں کئی قسم کی ہوتی ہیں.ظاہر کی.جیسے خارش.جذام.جنون باطنی.جیسے نامردی.سُرعتِ انزال.۳.حِیْنَ الْبِاّسِ.جب مقدمہ ہو.پھر اس کے مقابل (غناء) آسائش.فارغ البالی ( صحت) ۳.تندرستی.جوانی ۴.حِیْنَ الْاَمْنِ.جب کوئی مصیبت نہ ہو.یہ چھ حالتیں انسان کی ہیں.ان حالتوں میں اﷲ یاد رہے.یعنی تنگی کے وقت معصیت نہ کر بیٹھے نافرمانی سے اپنے تئیں بچاوے.اور فراخی کے وقت شکر کرے.صوفیوں میں ایک بحث ہے کہ غنی شاکر اچھا یا فقیر صابر.حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے سامنے بھی یہ بحث پیش ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک فقیر شاکر اچھا ہے.اس سے اوپر ایک درجہ ہے.اس میں صحت.غریبی.غِنا کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.بلکہ اس درجے والا ہر حالت میں اﷲ کا شکر اور اسکی رضا پر شرح صدر سے راضی رہتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۳۲. : اُڑا دئے گئے.یا چلائے گئے پہاڑ.: زمین دور تک قطع کر دی جائے.لَوْکا جواب مذکور نہیں.اس لئے جزاء کی نسبت اختلاف ہے.دو جواب اس کے بتائے ہیں.قُرْاٰنًا: سے مراد کوئی کلامِ الہٰی ہے.پس فرماتا ہے.کہ اگر کسی کلامِ الہٰی میں یہ بات ہے.کہ اس سے پہاڑ چلائے جائیں.زمین قطع ہو.مُردے بولیں تو ہم اس قرآن میں بھی دکھا دیں گے.دوم: یہ کہ اگر قرآن سے ہم ایسا بھی کر دیں تو وہ یہی قرآن ہے.میری سمجھ میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن تمہارے تمام جبال یعنی امراء کو اڑا دیگا.اور تمام زمین میں پھیل جاوے گا.اور مُردہ دل کفّار زندہ مومن بن جاویں گے.: بلکہ سُن رکھو کہ تم ملک میں اسلامی حکومت ہو جاوے گی.کے معنے یَتَبَیَّنُ کے ہیں.یعنی کیا نہیں جانا؟ دو شعر بڑی جستجو سے مجھے ملے ہیں.اقول لھم بالشعب اذیا سروننی الم تَیّاُ سُوا اُنی ابن فارس زیدم مجھے شعب میں قید کرنے لگے تو میںنے کہا کہ تم کو علم نہیں اس بات کہ میں کون ہوں.ایک امراء القیس کا شعر مجھے ملا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی.فلمو انّھا نفس تموت سریحتہٗ وَلکِنَّھَا نفس تقطع انفسا
فلمو انّھا نفس تموت سریحتہٗ وَلکِنَّھَا نفس تقطع انفسا : اس کے معنے میں بعض لوگوں نے دھوکہ کھایا ہے.بلکہ ایک کافر نے ٹھٹّھا اڑایا ہے چنانچہ وہ اَلْقَارِعَۃُ مَاالْقَارِعَۃُ کے معنے لکھتا ہے.ٹھوکنے والی تو کیا جانتا ہے.ٹھوکنے والی.عربی زبان میں چھوٹے لشکروں کو قارعہ کہتے ہیں.قارعہ کے معنے ہیں کَتِیْبَۃٌ وَ سَرِیَّۃٌ.وہ دستہ فوج جو دشمن کی سرکوبی کیلئے بھیجا جاوے.خداوند فرماتا ہے پہلے ہم چھوٹے چھوٹے دستے سرکوبی کیلئے بھجوائیں گے… یہاں تک ( یہ اَوْ کے معنے ہیں.) کہ تو ان کے دار ( مکّہ) میں فتحیاب داخل ہو گا.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ آپؐ مکّہ کہاں نازل ہوں گے.تو آپؐ نے فرمایا.کہ خیف بنی کنانہ.جہاں کہ قطع تعلقات کا کفّار نے مشورہ کیا تھا.آجکل اس کا نام معبدۃؔ رکھا ہوا ہے.: یعنی لِلّٰہَ الْاَمْرُجَمِیْعًا کا وقت ( جب اس علاقہ میں اسلامی حکومت ہو جاوے) آ جاوے گا.یہ لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰۃٌ (الرعد:۲۸) کا جواب دیا ہے کہ نشان تم جس طرح مانگتے ہو وہ بھی دکھا دیا جاوے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) سُیِّرَتِ: پہاڑوں سے پر ے تک پہنچایا گیا.کُلِّمَبِہِ الْمَوْتٰی: بڑے بڑے کفّار کو سنایا گیا.یہ سب کچھ کیا گیا تو کفّار کہاں ہوں گے.اﷲ ہی کی سلطنت اس تمام ملک پر ہو جائے گی.: کیا نہیں جانتے؟ (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۱) ۳۳. خداوند تعالیٰ نے مخلوق کو رنگ برنگ بنایا ہے.ہم اس وقت جس قدر اشخاص موجود ہیں.دیکھو سب کی خواہشیں اور غرضیں الگ الگ ہیں.عمر کے اعتبار سے تدبیریں سب کی جدا جدا ہیں.بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ساری دنیا ایک ہی رنگ میں رنگین ہو جاوے.ہرگز ساری دنیا ایک رنگ میں رنگین نہیں ہو سکتی.یہ بات غلط ہے کہ ساری دنیا ایک حالت میں ہو جاوے.اﷲ تعالیٰ کے رسول جب آتے ہیں تو وہ اﷲ تعالیٰ کے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں.اور گویا خدا کے حضور
سے نبوّت کی ڈگری لے کر اصلاح کے لئے آتے ہیں.اس لئے لوگوں کی عقلیں اور رسوم اور حالتیں سب ان کو اپنی اصل حالت میں ناقص ہی نظر آتی ہیں لوگ جب دیکھتے ہیں کہ یہ سب کے نقص بتاتا ہے تو وہ تحقیر کرتے ہیں اور وہ تحقیر مخالفوں نے چار طور پر کی ہے.ا.ادنیٰ عقل والوں نے کہا.یُخْرِجَکُمْ مِّنْ اَرْضِکُمْ (شعراء:۳۶) ۲.ان سے بڑھ کر عقل والوں نے کہا.یُرِیْدُ اَنْ یَّتَفَضَّلَ عَلَیْکُم (المومنون:۲۵) ۳.ان سے بڑھ کر عقل والوں نے کہا اسے جنون ہے ۴.بعض نے کہا کہ اس کو خواب آتے ہیں.بلّی کو چھیچھڑے ہی نظر آتے ہیں.اَضْغَاثُ اَحْلَامٍ (انبیاء:۶) : استھزاء ھزؤؔ سے نکلا ہے.ھزؤؔ کسی چیز کو بلکا سمجھنا.خفیف گردانا.اَمْلَیْتُ: ڈھیل دی.مہلت.: بدکاری کے بعد اس کا نتیجہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۴. : وہ ذات پاک جو ہر ایک چیز کے پاس نگران موجود ہے اور ہر ایک چیز کو دیکھتی ہے.یعنی خدا.: باوجود اس کے کہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے.پھر بھی لوگوں نے اﷲ کی سی اُمّیدیں دوسروں کے ساتھ لگا رکھی ہیں.: کسی کا نام تولو.: کیا تم سمجھتے ہو کہ خدا بے خبر ہے اور ان بُتوں کے ذریعے اس کو خبر دی جاوے.: اس کے معنے میں اختلاف ہے.صحابہؓ نے اس کے معنے کئے ہیں.باطل ملمع سازی کی باتیں.متاخرین نے معنے کئے ہیںجو بات مدلّل نہ ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۳۵. : کفّار مکّہ نے صلح حدیبیہ میں ایسی شرائط کی تھیں جن میں انکی عزّت ہی عزّت تھی.مگر خدا نے وہی شرائط ذلّت کا موجب بنا دیں.غرض ہر ایک بدعمل.ہر ایک متکبّر اور ہر ایک جھوٹا اسی دنیا میں ذلیل اور بے اعتبار بنتا ہے.بد معاملہ کرتا ہے اولاد کے لئے مال چھوڑنے کیلئے.مگر وہ اولاد بھی نہیں رہتی.ابوجہل کو اپنے معزّز و مکرم ہونے پر گھمنڈ تھا.خدا نے اسے دو کا شتکار لڑکوں کے ہاتھ سے مروایا.: اس میں اشارہ ہے کہ تب کیا بچائیں گے ان کو اپنی بھی خبر نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۶. : اَیْ صِفْۃُ الْجَنَّۃِ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۷. : اپنی کتاب کا فہم بخشا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۳۹. بعض لوگ اس خیال کے تھے کہ دنیا سے تعلّقات نہیں چاہئیں.تعلّق محض حضرت سبحانہ، سے چاہیئے ایسے لوگ اس زمانہ میں بھی پائے جاتے ہیں جن کو سادھو داسی وغیرہ کہتے ہیں.ان کے جواب میں فرماتا ہے کیونکہ اسلام جامع کمالات مذاہب مختلفہ ہے.اس نکتہ کو نہ سمجھ کر ہر فرقہ نے اپنے اپنے مذاق کے رُو سے اس پر اعتراض کرنے میں غلطی کھائی ہے.اگر بیابانوں میں رہنے والوں نے ازواج اور ذرّیت کو بُرا منایا تو دنیاداروں کو یہ اعتراض تھا کہ ذکر و شغل کے لئے اتنا وقت کیوں ہو.اسی طرح صحابہ کرامؓ جہاد کے متعلق تلوار و تِیر کو درست کرتے رہتے.جس کو بعض فقراء ( جو مُرغے کو ذبح کرنا بھی نہیں دیکھ سکتے) دیکھ کر حیران رہ جاویں.اسلام نے ایک درمیانی راہ اختیار کی اور سب باتوں کو لے کر اسی کی اصلاح فرما دی.: جواب یوں دیا ہے.کہ سب انبیائؑ کی بیبیاں اور اولاد تھی.اس نبی میں نئی بات نہیں.کوئی شخص جب تک گھر والا نہ ہو تمام کمالاتِ انسانیہ کا مظہر نہیں ہو سکتا اور نہ تمام خلقت کیلئے نمونہ بن سکتا ہے.پس ضرور تھا کہ راست بازوں کی جماعت بیوی بچّوں والی ہوتی.جن لوگوں نے تقدّس و تطہرّ کے لئے نکاح سے علیحدگی لازم ٹھہرائی.آخر سخت سے سخت بدکاریوں میں گرفتار ہوئے.ہاں یہ صحیح ہے کہ بیوی بچّوں میں اتنا انہماک کہ خدا کو بھول جاوے ناجائز ہے.: ہر شخص کو نشان دکھانا ضروری نہیں.بعض تو بیعت ہی اس معیار پر کرتے ہیں کہ بیعت کے بعد آسائش ہو جاوے اور ہر ایک مُراد پوری ہوتی جائے.جو ذرا بھی خلافِ مرضی ہوا تو بس کہہ دیں گے دیکھ لیا. (الحج:۱۲) : ہر وقت کیلئے ایک قانون ہے.اسی کے ماتحت سب مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۰.
: ایسی بادشاہتیں ایسی گزر چکی ہیں کہ ان کا اب کوئی نام بھی نہیں جانتا سب باتوں کا علم اﷲ ہی کو ہے.یہ جو مقررّ کرتے ہیں کہ دنیا سات ہزار برس سے ہے.یا دو ارب سے یا ستّرہ صفر اس سے پہلے بڑھا کر اپنی قدامت دکھاتے ہیں.خدا کی ابدیت کے سامنے یہ اعداد کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے! اسی لئے ہماری کتاب نے کوئی مدّت مقرّر نہیں کی !! فرعون نے حضرت موسٰیؑ سے پوچھا کہ مَابَالُ الْقُرُوْنِ الْاُوْلٰی (طٰہٰ:۵۲) انہوں نے صاف سنا دیا.عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ (طٰہٰ:۵۳) مجھے کیا معلوم.خدا کو سب علم ہے.مَیں بھی اس شخص کی نسل سے ہوں.جس نے کہا.اِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِیْ مِنَ الْاَشْقِیَآئب فَامْحُ اِسْمِیْ مِنَ الْاَشْقِیَآئِ وَ اکْتُبْنِیْ فِی السُّعَدَآئِ.مَیں ایک دفعہ سخت ابتلاء میں تھا.ایک میرے مجذوب دوست نے مجھے کہا وَ اللّٰہُ غالِبُ عَلٓیٰ اَمْرِہٖ (یوسف:۲۲) وہ تو اپنے حکم پر بھی غالب ہے.جس کو سنتے ہی وہ سب غم کافور ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : اَصْلُ الْاَشْیَآئِ (تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۱) ۴۲. : عربی زبان میں حاکم محکوم.امراء.عرباء.اغنیاء فقراء کو کہتے ہیں.یہ گویا نشان بتایا ہے.کہ تم لوگوں نے مذہبی جنگ شروع کر دی.اچھا اب دیکھ لینا کہ ہم تمہارے اس ملک میں آرہے ہیں.تمہارے امراء اور عرباء کو تعلیم قرآن میں داخل کر کے تمہاری تعداد گھٹا رہے ہیں.جو لوگ یہ معنے کرتے ہیں کہ دائرہ کے محیط کو ہم گھٹا رہے ہیں.یہ غیر ضروری باتیں ہیں.عوام النّاس ایسی باتوں کو کیا سمجھتے ہیں.
: یعنی تمہاری جلدی ہی خبر لی جاوے گی.یہ اَوْنَتَوَفَّیَنَّکَ کو کھولا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) ہر زبان میں یہ محاورہ ہے کہ مکان سے مکان والے مراد ہوتے ہیں جسے نحوؔ میں ظرف بمعنی مظروف سے تعبیر کرتے ہیں.ذرا متی کی انجیل ۱۱ باب ۲۱ اٹھا کر پڑھو ’’ ہائے خورزیں ! تجھ پر افسوس.ہائے بیت صیدا ! تجھ پر افسوس.کیونکہ یہ معجزے جو تم میں دکھلائے اگر صور و صیدا میں دکھلائے جاتے تو ٹاٹ اوڑھ کے اور خال میں بیٹھ کے کب کی توبہ کرتے.‘‘ پھر متی ۲۳ باب ۳۷ دیکھو.’’ اے یروشلم! اے یروشلم جو نبیوں کی مار ڈالتا اور انہیں جو تیرے پاس بھیجے گئے سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا تیرے لڑکوں کو جمع کروں‘‘ دیکھو متی کی ان آیات میں خورزیںؔ اور بیت صیداؔ اور یروشلمؔ سے اسکے مکین مرا دہیں.بولنے میں تو مکان بولا گیا ہے.پر مقصود مکان والے ہیں.ایسا ہی قرآن کریم کی اس آیت ہیں.الارضؔ سے جو معرّف بالف لام ہے خاص زمین والے یعنی اہلِ مکّہ مراد ہیں.مقصود آیت کا یہ ہے کہ باری تعالیٰ مکّہ کے رؤوسا اور شرفاء کو نصیحت کرتا اور عبرۃً ارشاد فرماتا ہے’’ کیا انہوں نے ( اہلِ مکّہ نے) نہیں دیکھا کہ ہم مکّہ والوں کے پاس آتے ہیں اور انکی طرف کو گھٹاتے چلے آتے ہیں.‘‘ اطراف کے معنی سمجھنے کے لئے اس فقرے پرغور کرنا واجب ہے جو ابوطالبؔ نے وفات کے وقت اپنی آخری اسپیچ میں کہا.وَ ھُوَ ھٰذَا وَ اَیْمُ اللّٰہِ کَاَنِّی اَنْظُرُ اِلٰی صَعَالِیْکَ الْعَرَبِ وَ اَھْلِ الْاَطْرَافِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ النَّاسِ قَدْ اَجَابُوْا دَعْوَتَہٗ.اور خدا کی قسم مَیں دیکھتا ہوں کہ عرب کے غریبوں اور اہلِ اطراف اور کمزور لوگوں کو.محمدؐ کے کہنے کو مان لیا ہے.اس اسپیچ میں ابوطالب گویا تمام رؤوسائے مکّہ کے روبرو اس آیت کی تصدیق کرتا ہے… اور کہتا ہے اے مکّہ والو! اہل ِ اطراف نے تو اس کی یعنی محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتوں کو مان لیا ہے.اور تعلیم الہٰی اور کلامِ ربّانی کا اطراف میں آنا یعنی پھیلنا گویا خدا کا اطراف میں آنا ہے.حاصل کلام آیت یہ ہوا.کہ کفّار کی تعداد کم ہوتی چلی جاتی ہے اور مسلمان دن بدن بڑھتے چلے جاتے ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۴۰.۱۴۱) کیا اس وقت تم نہیں دیکھتے کہ نَاْتِی الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا کیسے واضح طور پر پورا ہو رہا ہے.اعلیٰ درجہ کے عظیم الشان لوگ طرف کہلاتے ہیں.اس لئے کہ وہ ایک طرف ہو کر بیٹھتے ہیں اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے بعض سلیم الفطرت ہوتے ہیں وہ بھی طرفؔ کہلاتے ہیں.یعنی تمہارے اعلیٰ اور ادنیٰ درجہ کے لوگوں میں سے یا یہ کہو کہ ہر طبقہ اور درجہ میں سے جو عظیم الشان اور سلیم الفطرت لوگ ہیں وہ سب کے سب اسلام میں داخل ہو کر تمہاری جمیعت کو دن بدن کم کر رہے ہیں.غرض مامور من اﷲ کا وجود ایک حجۃ اﷲ ہوتا ہے.اس کی جماعت بڑھتی جاتی اور اس کے مخالف دن بدن کم ہوتے جاتے ہیں.(الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۶)
۴۳. مَکَرَ: ہمارے ملک میں اس کے معنے خراب ہو گئے ہیں.دیکھئے عرب میں گالی یہ ہے کہ کسی کو کہنا شکست پا گیا.یا اس نے قحط میں بھوکوں کو کھانا نہ دیا اور ہمارے ملک میں گالی کا مفہوم پورا نہیں ہوتا جب تک اپنی ماؤں کو سوروں کے سپرد نہ کر لیں.مکرؔ عربی میں تدبیر کو کہتے ہیں.اور یہ تدبیریں دو قسم کی ہیں بُری اور پاک.چنانچہ قرآن کریم میں فرما دیاہے.وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (آل عمران:۵۵) وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السّٰیِّیئُ اِلَّا بِاَھْلِہٖ (فاطر:۴۴) یاد رکھو کہ ہمیشہ لفظوں کے وہ معنی لیں.جو کہ اصل زبان میں ہوں.ہندوستان کا مذاق عجیب ہے.لکھنؤ میں خلیفہؔ حجام کو کہتے ہیں اور لواطت کی مرض کو علت المشائخ.حالانکہ عربی زبان میں خلیفہ اور شیخ بڑے پاک اور اعلیٰ خطاب ہیں.: چور.زانی.شراب خور.غرض تمام نافرمان کبھی اخیر عمر میں سُکھ نہیں پاتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء)
۴۴. : اپنی صداقت میں اﷲ کی نصرت کی گواہی پیش کی ہے کہ باوجود کوئی جتّھا وغیرہ نہ ہونے کے مَیں کامیاب ہوں گا.دومؔ تمام اہلِ کتاب اپنی اپنی کتابوں سے اس کی تعلیم کا مقابلہ کر لیں کہ کیسی جامع اور اعلیٰ تعلیم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍جنوری۱۹۱۰ء) : کہ مجھ میں اور تم میں اﷲ گواہ ہے.پھر وہ شخص جسے کتاب کا علم دیا گیا ہے.(نور الدّین صفحہ۱۳ دیباچہ) : استثناء باب ۱۸ باب ۳۵.یسعیاہ باب ۲۱.۵۴ (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۱)
ہے اور اہل ِکتاب کی عام عادت ہے کہ اسماء کا ترجمہ کر دیتے ہیں.ایسا ہی تفسیر کو متن سے ملا دینا بڑا عیب ہے کیونکہ تفسیر مفسّر کا خیال ہوتا ہے جس میں صحت اور غلطی دونوں کا احتمال قوی ہے.بشارات میں یہ نقص نہایت مضر ہوا.محمدیؐ بشارت جیسے سلیمان کی غزل الغزلات میں ہے.اگر اس میں لفظ محمدیمؐ کا ترجمہ نہ کیا جاتا تو کیسی صاف تھی.اور نمونہ.۸باب ۳.اشعیا مہر شالال حشنبزنام بنہ اور عربی ترجمہ ۱۸۲۵ء میں ہے.ادع اسمہ اغنم بسرعۃ وانھب عاجلاً.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴-۱۵)
سُوْرَۃُ اِبْراَاھِیْمَ مَکِّیَّۃٌ ۲،۳. یہاں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو ظلمات سے نور کی طرف نکالنے والا فرمایا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت انسان پر ایسا گزرتا ہے کہ اس کیلئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا وعظ موجب بنتا ہے ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لے جانے کا.مگر ایک اور جگہ پر فرمایا ہے.(البقرۃ:۲۵۸) گویا وہی نسبت جو پہلے نبی کریں صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی طرف فرمائی.پھر اﷲ نے وہی کام اپنی طرف منسوب فرمایا.یہ بات قابلِ غور ہے.حضرت جبرائیل.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ کی خدمت میں لوگوں کو دین سکھانے کیلئے آئے اور پہلا سوال یہی کی کہ یَا مُحَمَّدُ اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِسْلَامِ.اسلام نام ہے فرماں برداری کا.سارے جہان کو تو موقعہ نہیں کہ اﷲ کی باتیں سُنے.اس لئے پہلے نبی سنتا ہے پھر اوروں کو سناتا ہے سو پہلا مرتبہ یہی ہے کہ نبی کی صحبت میں رہے.اور اس سے فرماں برداری کی راہیں سنے اور سیکھے چنانچہ اس بناء پر نبی کریں صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہ سمجھایا کہ (آل
عمران:۳۲)یعنی سرِدست تم میرے تابع ہو جاؤ.اسکی تعمیل میں اسلام لانے والوں نے جیسا انہیں نبی کریمؐ نے سمجھایا.کیا.کلمہ سکھایا.کلمہ پڑھ لیا.نماز سکھائی.تو نماز پڑھ لی.روزہ.حج زکوٰۃ جس طرح فرمایا.اسی طرح ادا کیا.یہ اسلام ہے.چنانچہ جبرائیل کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں.اَلْاِسْلَامُ اَنْ تَشْھَدَ اَنْ لَّا ابلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَ تُقِیْمُ الصَّلوٰۃَ وَ تُؤْتِی الزَّکوٰۃَ وَتَصُوْمُ رَمَضَانَ وَ تَحُجُّ الْبَیْتَ اِنِ اسْتَطَعْتَ اِلَیْہِ سَبِیْلاً.مگر چونکہ منافق لوگ بھی ایسی باتوں میں شریک ہیں اس لئے اس سے اوپر ایک اور مرتبہ ہے.وہ یوں کہ جب انسان یہ اعمال کرتا ہے اور ان کے فوائد و ثمرات مرتب ہوتے ہیں تو پھر عقائد اس کے دل میں گر جاتے ہیں.یہ ایمان کا مرتبہ ہے.نبی کریں صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے پاس لوگ آتے تو آپؐ کی باتیں سنتے اور آہستہ آہستہ وہی باتیں دل کے اندر گڑ جاتیں اور اس طرح پر ان کو اسلام سے ایمان کا رُتبہ ملتا اور وہ کئی ظلمات سے نکل کر نور میں آ جاتے پہلی ظلمت تو کفّار کی مجلس تھی جس کو چھوڑ کر حضورِ نبویؐ میں آتے.صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم.میں نے کئی ڈاکؤوں سے پوچھا ہے کہ تمہیں کبھی رحم نہیں آتا.تم کیسے حیرت انگیز ہے رحمی کے کام کرتے ہو.تو انہوں نے جواب دیا ہاں رحم آتا ہے مگر تنہائی میں.یعنی جب اپنے ہمجولیوں میں بیٹھتے ہیں.تو پھر سب کچھ بھول جاتا ہے ( یہ انکی صحبت کی ظلمت کا اثر ہے) مواعیظِ نبویؐ آہستہ آہستہ اثر کرتے رہے پھر اﷲ پر ایمان لاتا ہے.جو اس کے دل میں پاک تحریکیں کرتے ہیں تو یہ انکی تحریکات کی فرماں برداری کرتا ہے پھر اس کے بعد چونکہ ملائکہ کا تعلقِ شدید نبی سے ہوتا ہے.اس لئے ان کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور ان کی تعمیل کرتا ہے.وہ نبی کو پہلے بھی دیکھتا تھا مگر وہ دیکھنا در اصل نہ دیکھنا تھا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الاعراف:۱۹۹)اس کے بعد اس کی معرفت
بڑھتی اور وہ نبی کو اس کی نبوّت کی حیثیت سے پہچانتا ہے تو اس کی کتاب کو پڑھتا ہے.پھر جزا و سزا کے مسئلہ پر ایمان لاتا ہے.اور اس طرح اسکا ایمان آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.چنانچہ جبرائیل ؑ کے سوال مَاالْاِیْمَانُ کے جواب میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا.اَنْ تُؤْمِنْ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ تُؤْمِنَ بِالقَدْرِ خَیْرِہٖوَشَرِّہٖ.غرض جب مومن کفروشرک کی ظلمات سے قوم کے رسوم.قوم کے تعلقات.بزرگوں کی یادداشتوں کی ظلمات سے صحبتِ نبویؐ کی برکات سے نکلتا ہے اور اس کے دل سے حُب لغیر اﷲ اٹھتی جاتی ہے تو پھر وہ اﷲ جل شانہٗ کے سارے احکام کو شرح صدر سے مانتا اور اس کیلئے تمام ماسوٰی اﷲ کے تعلقات کو توڑ دیتا ہے.اور محض اﷲ ہی کا ہو جاتا ہے تو یہ تیسرا درجہ سے جسے احسان کہتے ہیں.اوریہ مومن کی اس حالت کا نام ہے جب اسے ہر حال میں اپنا مولیٰ گویا نظر آنے لگتا ہے اور وہ مولیٰ کی نظرِ عنایت کے نیچے آجاتا ہے اور وہ غالباً اس کی رضامندی کے خلاف کوئی حرکت و سکون نہیں کرتا.چنانچہ جبرائیل کے سوال اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِحْسَانِ کے جواب میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں..اَنْ تَعْبُدَ اللٰہَ کَاَنَّکَ تَرَاہُ فَاِنْ لَّمْتَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ.تو اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری ایسی کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تُو نہیں دیکھتا تو یہ سمجھے کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے.مثال کے طور پر یہ دیکھ لو جب انسان کسی امیر یا بادشاہ کو اپنا محسن و مربیّ سمجھے تو پھر اس کے سامنے اَور سب کچھ بھول جاتا ہے اور اس کے مقابل میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتا.یا مثلاً بعض لوگ مکان بناتے ہیں تو اس کی تعمیر کی فکر میں ایسے مبہوت ہو جاتے ہیں کہ گویا مکان میں فنا ہو گئے ہیں.مومن کو چاہیئے کہ اس طرح پر اﷲ تعالیٰ کی محبت میں فنا ہو جاوے.یہاں تک کہ اس کے بغیر اسے کوئی خیال نہ رہے.اس درجہ احسان کو دوسرے لفظوں میں تصوّف کہتے ہیں اور ان کا نام صوفی ہیلِصَفَائِ اَسْرَارِھِمْ وَنِقَائِ اَعْمَالِھِمْ.ان کے دل خیالات صاف ہوتے
ہیں.ان کے اعمال میں کوئی کدورت نہیں ہوتی.ان کا معاملہ اﷲ کے ساتھ صاف ہوتا ہے.وہ خدا کے حضور احکام کی تعمیل کیلئے اوّل صف میں کھڑے ہونے والے ہوتے ہیں.وہ اس دارالغرور میں دل نہیں لگاتے.چنانچہ تصوّف کی تعریف ہیں فرمایا.التَّجَا فِیْ مِنْ دَارِالْغُرُوْرِ وَ الْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِالْخُلُوْدِ.صوفی موت کی تیاری کرتا ہے قبل اس کے کہ موت نازل ہو.ظاہری و باطنی طور پر پاکیزہ رہتا ہے یہاں تک کہ وسیع تجارت اس کو اﷲ تعالیٰ سے غافل نہیں کرتی.((النور:۳۸) اصحاب الصفّہ انہی لوگوں میں سے ہیں.یہ لوگ دن پھر محنت و مشقّت کرتے.اس سے اپنا گزارہ کرتے اور اپنے بھائیوں کو بھی کھلاتے اور پھر رات بھر وہ تھے اور قرآن شریف کا مشغلہ.صحابہؓ میں تین گروہ تھے.بعض ایسے کہ حضورِ نبویؐ میں آئے کچھ کلمات سُنے.کچھ مسائل پوچھے پھر چلے گئے اور بس.نماز پڑھ لی.زکوٰۃ دی.روزہ رکھا.بشرطِ استطاعت حج کیا اور معروف امور کے کرنے اور نواہی سے رُکنے میں حسبِ مقدور کوشاں رہے.اور بعض ایسے جو اکثر صحبت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم میں بیٹھے رہتے.اس مخلوق کے اندر ایمان رَچا ہوا تھا.سخت سے سخت تکلیف.مصیبت اور دُکھ اور اعلیٰ درجہ کی راحت آرام اور سکھ میں ان کا قدم یکساں خدا کی طرف بڑھتا تھا.انہی لوگوں میں سے خواص ایسے تیار ہو گئے کہ خدا ان کا متولّی ہو گیا.مجھے اس موقعہ پر ایک شعر یاد آ گیا.قَوْمٌ ھُمُوْ مُھُمْ بِاللّٰہِ قَدْ عَلِقَتْ وہ ایسے لوگ ہیں کہ سارا خیال انکو اﷲ کا رہ جاتا ہے اور اس کے بغیر کسی کے ساتھ حقیقی تعلق نہیں رکھتے.نبی کی اتباع وہ کرتے ہیں مگر اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا.بادشاہ کی اطاعت کرتے ہیں تو اس لئے کہ اﷲ نے حکم دیا.بیوی بچوں سے نیک سلوک بھی اسی لئے کرتے ہیں.وہ دنیا کے کاروبار کرتے ہیں.چھوڑ نہیں بیٹھتے.مگر یہ سب باتیں.یہ سب کام ان کے للّٰد ہوتے ہیں.چنانچہ فرمایا ؎ فَمَطْلَبُ الُقَوْمِ مَوْلَاھُمْ وَ سَیِّدُھُمْ یَاحُسْنَ مَطْلَبِھِمْ لِلْوَاحدِالصَّمَدٖ (بدر ۲۷؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۸-۹) ۴. : ایک عِوَج آیا.ایک عَوِج.دین و زمین میں عِوَج بولتے ہیں.اور عَوَج نیزہ، دیوار.دانت پر بولتے ہیں.بعض لوگ ٹیڑھا رہ کر سیدھی راہ کو چاہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۵. : معلوم ہوا کہ رسول کے نُوّاب کو بہت سی زبانیں سیکھنی چاہئیں تاکہ سب کو کھول کر دینِ حق سکھا سکیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء)
۶. : ایک مثال بیان فرماتا ہے.: نِعَمُ اللّٰہِ وَ نِقَمُ اللّٰہِ خدا کی نعمتیں اور اس کے عذاب.ایک شعر یاد آ گیا.وَ اَیَّامٌ لَّنَا غُرٌّ طِوَالٌ عَصَیْنَا الْملِکَ فِیْھَا اِنْ نُّدیْنَا : جو صبر سے کام لے.اس کو خدا اپنی جناب سے بہت سے نشان دکھا دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۷. : جو قومیں اکٹھی رہتی ہیں ظالم لوگ اکثر ان کو بیگار میں پکڑ لیتے ہیں جیسا کہ سکھوں کے عہد میں جولا ہوں کو پکڑ لیتے تھے.بنی اسرائیل کے ساتھ بھی فرعون نے یہی معاملہ کیا مگر محنت سے جب ان کی اولاد قوی ہونے لگی تو پھر اس کو قتل کرنے کی تدبیریں سُوجھیں.: خدا کا بھاری انعام کہ موسٰیؑ کو بھیج دیا.وہی بنی اسرائیل کو جو بیگار میں پکڑ لے جاتے تھے.آخر جب تک خدا کے حکموں کے مطیع رہے.فاتح بھی ہوئے.عماّر بن یا سرؓ کے ساتھ کیا کیا مکے والوں نے؟ اور اس کی ماں کے ساتھ کیا کیا؟ اسکی شرمگاہ میں نیزہ مار دیا اور ایک ٹانگ ایک اُونٹ سے اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ کر مخالف طرفوں میں چلائے.اﷲ تعالیٰ نے اسی قوم کو فاتح بنایا.انہوں نے نہ صرف عرب کو فتح کیا بلکہ چین و تا تارتک پہنچے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء)
۸. ایک شخص کو گدا ۱؎ کی عادت تھی.دن بھر لقمہ کیلئے پھرتا رہتا.آخر اس نے کعبہ کا دامن پکڑ کر توبہ کی اور دیاسلائیاں بیچنی شروع کیں اور چار پیسے سے تجارت شروع کی.جس کے چھ پیسے بن گئے آخر یہاں تک نفع حاصل ہوا کہ وہ ایک کوٹھی کا مالک بن گیا.اصل یہ ہے کہ صداقت و راستبازی پر چلے اور جو نفع مل جائے لے لے.یہ شکر گزاری کا نتیجہ تھا.ایک عورت نے مجھے طبابت میں ایک دھیلا دیا.جسے میں نے شکریہ سے لیا اور ہزاروں کمائے.: اَعْلم.علم دے دیا.بتا دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) شکر کرنے پر از دیا دِ نعمت ہوتا ہے..لیکن جو شکر نہیں کرتا وہ یاد رکھے..(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۷) مسلمانوں سے حمد اُٹھ گیا.وہ کبھی اپنی حالت پر راضی نہیں ہوتے اور نہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں.جب سے حمد و شُکر اٹھا.خدا تعالیٰ کا انعام بھی اُٹھ گیا. کو نہیں سمجھتے.تم اﷲ تعالیٰ کی بہت حمد کیا کرو.۱؎ یعنی مانگنے.سوال کرنے.مرتّب ہماری کتاب بھی سے شروع ہوتی ہے.ہمارے خطبے بھی سے شروع ہوتے ہیں… اور اس حمد کیلئے اسی سے مدد طلب کرو اور اﷲ کو ہر حال میں یاد رکھو.وہ تمہیں یاد رکھے گا.(الفضل ۹؍جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) ۱۰.
: اس کے دو معنے کئے گئے.لوٹائے ان کافروں نے ہاتھ اپنے نبیوں کے مُنہ پر یعنی بدمعاش ان کے مُنہ پر ہاتھ رکھ دیتے کہ آپ بات نہ کریں.ہم نہیں سُننا چاہتے.دوسرے معنے جو عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَیْظِ(آل عمران:۱۲۰) کے مطابق ہیں یہ کہ اپنے ہاتھ اپنے منہ میں ڈالتے تھے بوجہ شدّتِ غیظ و غضب.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۱. : چار قسم کے لوگ ہیں ایک عام جو خواص سے سُن کر ایمان لائے ہیں دومؔ جو کتب پڑھ کر یقین کرتے ہیں.سومؔ گروہ حکماء کا ہے جو عالم کے نظام کو دیکھ کر ایمان لاتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جب ایک گھڑی خود بخود نہیں بنتی.تو یہ کارخانہ اتنا بڑا کارخانہ خدا کے بغیر کس طرح چل سکتا ہے.چہارمؔ گروہ ہے اﷲ کے پیارے بندوں کا جن کو یقین ہوتا ہے.اس لئے خدا ان سے کلام کرتا ہے اور انہیں اپنی قدرت نمائیوں سے یقین دلاتا ہے.یہ گروہ تعجب انگیز ترقی کرتا ہے اور خدا پر ایسا یقین رکھتا ہے.کہ جو ذرا بھی شک رکھنے والا دیکھیں تو تعجّب سے کہتے ہیں.کیا اﷲ کے معاملہ میں بھی شک ہو سکتا ہے؟ : وجدانی شہادت کے بعد دلیل بھی دی ہے جو حکماء کی دلیل ہے اور ساتھ ہی کہا ہے کہ وہ ہم سے خود بولتا ہے.اس نے ہمیں کہا ہے کہ خلقت کو میری طرف بلاؤ تا مَیں ان کے گناہ معاف کردوں.کمزوریاں ڈھانپ لوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء)
۱۲. : یہ تفاوت خود انسان کے وجود میں بھی ہے.ایک مکان ہے جس سے پاخانہ نکلتا ہے.لیکن ایک جگہ ہے جس سے خدا کا نام نکلتا ہے.پس وہ مالک اور حکیم و علیم ہے.جس پر چاہے اپنے مکالمہ اور پسندیدگی کا انعام کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۴. انسان کو جس چیز کی عادت یا الّت پڑ جاتی ہے وہ اس کو چھوڑتا نہیں.حُبَُّکَ الشَّیْیئَ یُعْمِیْ وَ یَصُمُّ.وہ محبوب کے عیوب کا بینا و شنوا نہیں ہوتا.انبیاء جب سچائی کو لاتے ہیں.انکی تعلیم کے دو حصّے ہوتے ہیں.ایک حصّہ عقائد کے متعلق جس کے دلائل بڑے کُھلے ہوتے ہیں.مثلاً اﷲ کو ماننا.فرشتوں پر ایمان لانا.کتب پر ایمان لانا.انبیاء پر ایمان تقدیر پر ایمان.جزا و سزا پر ایمان.دوسرا حصّہ عملدر آمد کا ہے جو تعامل کے نیچے ہوتا ہے.اس میں بھی کوئی مشکل نہیں.مشترک تعامل دیکھ لے.بعض باتیں علمی تد بّرات کیلئے ہوتی ہیں.مجتہدین دائمہ دین کا امتیاز ایسے ہی مسائل پر ہوتا ہے.نبی جب آتے ہیں تو ایک گروہ انکی تعلیم کو اپنی رسم.عادت و الّت کے خلاف دیکھ کر مقابلہ کیلئے اٹھتا ہے اور کفر و عناد میں یہاں تک پہنچتا ہے کہ کہہ دیتا ہے.: ہم تم کو اپنی زمین سے نکال دیں گے مگر کہ تم ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ.اَوْبمعنیحَتّٰی اورلَاکِنْہے.امراء القیس اپنے ساتھ والے کو کہتا ہے.جب اپنے باپ کو بدلہ لینے کیلئے شاہِ روما سے مدد لینے جاتا ہے اور کہتا ہے.
فَقُلْت لہ لَآ تِیْکَ عَیْنَکَ اِنَّمَا نُحَاوِلُ مَلِکًا اَوْنَمُوْتُ فَنُعْذَرَا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۵،۱۶. : اور ایک زمین.اس کا ترجمہ ہے.: قضاء و قدر کا فیصلہ چاہا.نبی بھی دُعا مانگتے ہیں اور کفّار بھی فیصلہ کیلئے کوشش کرتے ہیں.: کے معنے متکبّر.: جو حق کا مقابلہ کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۸. : دُکھ اور مصیبتیں.دل میں بھی.جسم میں بھی.گھر، دوست، احباب، بیوی سب شامل ہیں.سب میں مصیبت ہی مصبیت نظر آئے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء)
۲۲. : پھر کہیں گے کمزور بڑھائی والوں کو ہم تھے تمہارے پیچھے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۶۰) ۲۳. : انکار کیا ہے.اس سے کہ تم میرا سانجھی ٹھہراؤ.میری فرماں برداری کرو.میرا کہا مانو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) : مجھے تم پر کوئی ٓغلبہ اور قدرت نہیں تھی.ہاں اتنی بات ہے کہ میں نے تمہیں بلایا.سو تم نے میری بات مان لی.اب مجھے ملامت نہ کرو.بلکہ اپنے تئیں ملامت کرو.ہر ایک بدکار گمارہ کنندہ جو ناپاک باتوں کی طرف لوگوں کو بُلاتا اور ہلاکت پر چلاتا
ہے.ہر وقت اور ہر زمانہ میں ایسے وجود کو قرآن شریف میں شیطان کہا گیا ہے.کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ ایسے شریر موذی وجودوں سے کبھی کوئی زمانہ خالی ہوا ہے.جیسے اس وقت میں مُضِلّ اور مُغْوِی وجود ہیں اور سب قوموں کے نزدیک یہ بات مسلّم ہے.اسی طرح آدمؑ کے وقت میں بھی ایک شریر بلکہ موذی وجود آدم کے مقابل تھا.بہکانے والے وجودوں کا کائنات میں موجود ہونا امرِ واقع ہے.کوئی شخص نادانی سے قرآن شریف کی اصطلاح سے اگر چِڑتا ہے تو کیا وہ واقعاتِ عالم کی بھی تکذیب کر سکتا ہے.(نورالدّین صفحہ۸۶) ۲۵. : بہت بلندی میں ( حضرت صاحب نے ایک مقام پر فرمایا ہے کہ پاکیزہ بات دل میں گڑ جاتی ہے اور اس پر اعتراض کا ہاتھ نہیں پہنچتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۷. : صحابہ کرامؓ نے فرمایا ہے کہ جیسے حنظل کا درخت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۸. : اﷲ ظالموں پر گمراہی کا حکم لگاتا اور انہیں گمراہ ٹھہراتا ہے.(نورالدّین صفحہ۸۱)
۲۹. : ادنیٰ حکاّم اگر کوئی پروانہ بھیجیں اور انکی کوئی ناشکری کرے.یا پرواہ نہ کرے.اس پر عتاب نازل ہوتا ہے.پھر وہ فرمان جس کا بھیجنے والا احکم الحاکمین ہے اور لانے والا وہ جو کمالاتِ رسالت.کمالاتِ انسانیت.کمالاتِ نبوّت کا خاتم ہے.اس کے منکر کا کیا حال ہونا چاہیئے.: قرآن.اسلام.جناب رسالت مآب، خاتم النبیّین، رسول ربّ العالمین صلی اﷲ علیہ و آلہٖ اجمعین.: ان لوگوں نے جو نعمت اﷲ کا انکار کیا اور ابوجہل کہلائے.: ہلاکت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۰. : یہ اَحَلُّوْا پر اطناب ہے.تا مضمون ذہن نشین ہو.داخل ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۱. : یہ کفر کی تفصیل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۳،۳۴.
’’… اور کام میں لگا دیئے تمہارے کشتی.تو چلے سمندر میں اس کے حکم سے اور تمہارے کام میں لگا دیں ندیاں اور کام میں لگا دیا تمہارے لئے سورج اور چاند ایک دستور پر اور کام میں لگا دیا تمہارے لئے رات اور دن کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۶۳) : ایک شخص مجھے کہنے لگا کہ آؤ تمہیں تسخیر کا عمل بتا دیں.مَیں نے کہا کہ مجھے ضرورت نہیں کیونکہ مجھے ایسا عمل یاد ہے کہ جس سے نہ صرف سورج بلکہ چاند اور رات و دن.نہریں.سب مسخّر ہوں.مَیں نے اسے یقین دلایا کہ اس آیتِ کریمہ نے ان تسخیروں سے ہمیں بے پرواہ کر دیا ہے.: یہ لفظ یاد رکھنے والا ہے.(جناب سلیمان علیہ السلام کے بیان میں کام دے گا) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۵. رزق ہماری ضرورت سے پہلے پیدا ہوتا ہے.ہم ابھی ماں کے پیٹ سے باہر نہ آئے تھے کہ چھاتیوں میں دودھ آیا.جو نمک ہم آج سالن میں کھاتے ہیں وہ مدّت ہوئی کہ کان سے نکل چکا ہے.پھر وہاں سے بڑے شہروں میں پہنچا.پھر اس گاؤں کی دکانوں میں آیا.پھر ہمارے حصّہ کا الگ ہو کر گھر آیا.پھر ہانڈی میں سب کیلئے تھا.تو لقمہ کے ساتھ میرے مُنہ میں آیا.اسی طرح کپڑے کا حال ہے.غرض کیا کیا احسان ہیں اس مولیٰ کے.پس مالی شکریہ بھی اُسی کیلئے ہونا چاہیئے.یہ غلط ہے کہ خدا نے کسی کو مال دینے میں بُخل کیا.بلکہ اس نے تو فرما دیا ہے پھر اس کے غلط استعمال یا اپنی شامتِ اعمالِ نے لَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمْ کے ماتحت کسی کے لئے اس میں تنگی پیدا کر دی.(بدر ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۲) میں نے ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کیا.مگر خدا کے انعامات کی اتنی برسات میں نے دیکھی کہ شرم سے میرا قلم رُک گیا.اگر برسات کے قطروں کو گِن سکتا ہے تو خدا کے احسانات کو بھی گِن سکے گا.چنانچہ خدا نے فرمایا .ان احسانات میں سے ایک وحدت بھی ہے.جس کی نسبت فرماتا ہے کہ اگر ساری زمین سونے چاندی کی بھر کر دے دو.تو بھی یہ وحدت پیدا نہیں ہو سکتی.اس کا مَیں نے بھی تجربہ کیا ہے.ایک زمانہ میں میرے پاس بڑا روپیہ آتا تھا اور مجھے روپے کی محبّت ہرگز نہیں.مَیں اپنی تعریف نہیں کرتا بلکہ اس کے فضل کا اظہار.(بدر ۳۰؍دسمبر۱۹۰۹ء صفحہ۳)
انسان پر جنابِ الہٰی نے بڑے بڑے کرم.غریب نوازیاں اور رحم کئے ہیں.اس کے سر سے لیکر پاؤں تک اس قدر ضرورتیں ہیں کہ شمار نہیں کر سکتا.اس لئے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اگر اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور غریب نوازیوں کا مطالعہ کرو تو کیا گِن سکتے ہو ایک بال جو اس کا سفید ہو جائے تو گھبرا اٹھتا ہے اور حجام کو بُلا کر نوچ ڈالتا ہے.اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ کیسی نعمت ہے.پھر کھانے پینے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھانا غریب سے غریب آدمی کے سامنے بھی جو آتا ہے تو دیکھو کہ وہ پانی.غلّہ.نمک کہاں کہاں سے آیا ہے اور اگر دال.ل گوشت.چاول بھی میز پر آ جاوے تو دیکھو کہاں کہاں کی نعمت ہے اور ہر ایک کا جُدا جُدا مزہ ہے.پھر ہوا روشنی وغیرہ.کوئی ایک نعمت ہو تو اس کا شمار اور ذکر ہو.کسی نے مختصر ترجمہ کیا ہے.ابروبار مہر و خورشید ہمہ درکا راند تا تو نانے بکف آری و غفلت نکنی سورج چاند کو دیکھتے ہیں.بادل اور ہوا کو دیکھتے ہیں.یہ سب تیری روٹی کی فکر میں ہیں.پھر جس کا نمک کھائیں اور حکم نہ مانیں تو یہ نمک حرامی ہوئی یا کچھ اور.کوئی کسی کا نوکر ہو.اگر وہ آقا کی فرماں برداری نہیں کرتا تو وہ نمک حرام کہلاتا ہے.پھر کس قدر افسوس ہے انسان پر کہ اﷲ تعالیٰ کے لا انتہاء انعام و اکرام اس پر ہوں اور وہ غفلت کی زندگی بسر کرے.(الحکم ۷؍۱۴ جون ۱۹۱۱ء صفحہ۶)
۳۶. حضرت نبی کریمؐ سے پہلے جو لوگ دنیا میں سب سے بڑے آدمی گزرے ہیں.ان سب کے سر تاج حضرت ابراہیمؑ تھے.یاد رکھو دنیا میں د و خلیل گزرے ہیں.ایک خلیل الرحمن ابراہیمؑ ہیں.دوسرے حضرت محمد رسول الﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم.مجھے کسی تیسرے کا نام معلوم نہیں.تم نے سنا ہو گا کہ سارا یورپ.ساری امریکہ اور پھر سب مسلمان ابراہیمؑ کو راست باز اور عظیم الشان مانتے ہیں.اتنے بڑے عظیم الشان انسان کی بات خاص توجّہ کے قابل ہے.سنو کہ وہ اپنے لئے اور اپنی اولاد کیلئے کیا چاہتا ہے.رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی سارہ سے ایک معاہدہ کیا تھا کہ ہم تیری ایک بات مان لیں گے چنانچہ جب ہاجرہ بی بی کے لڑکا پیدا ہوا.تو جناب سارہ کو کسی سبب سے دُکھ ہوا.جس پر انہوں نے کہا کہ اے ابراہیم! بموجب اپنے وعدہ کے اس لڑکے اور اسکی ماں کو ایسے جنگل میں چھوڑ آ جہاں سے ہمیں ان کی کوئی خبر نہ آئے.انبیاء ایسے معاہدے خدا کے حکم سے کرتے ہیں.چنانچہ وہ اپنے بچّے اور بیوی کو اسی کے حکم سے جنگل میں چھوڑ آئے.مگر خدا پر ایمان کی یہ کیفیت ہے کہ اس بیابان کو اَلْبَلَدَ فرماتے ہیںجو آپؑ کو یقین تھا کہ یہ شہر ہو جائے گا.: میرے ایک دوست بیمار تھے.ان کی موت میں تین دن باقی تھے کہ کہنے لگے.ایک نکاح چاہتا ہوں.سب نے تعجّب کیا تو کہنے لگے.میں تو صرف چاہتا ہوں کہ کوئی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے والا اور پیدا ہو جاوئے.حالانکہ ان کی بہت اولاد اس وقت بظاہر موجود تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) : سات دعائیں ہیں.سات بار رَبِّ کہا ہے.(تشحیذالاذھان جلد نمبر۹ صفحہ ۴۶۱) ۳۷.
کا لفظ قابلِ غور ہے.اس لئے کہ اضلال اور گمراہ کرنے کی نسبت بُتوں اور پتھروں کو دی گئی.جن میں گمراہی کے خلق کرنے کا ارادی مادہ بالکل نہیں بلکہ محض بے جان بے ضرر چیزیں ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۳۷) ۳۸. اے ربّ میں نے بسائی ہے ایک اولاد اپنی میدان میں جہاں کھیتی نہیں.تیرے ادب والے گھر کے پاس اے ربّ تا قائم رکھیں نماز.سو رکھ بعضے لوگوں کے دل جھکتے ان کی طرف اور روزی دے ان کو میووں سے شاید وہ شکر کریں.اس آیت میں لوگوں کے دلوں کو انکی طرف جھکایا ہے.عجیب قابلِ غور کلام ہے اور اُس معزز گھر یعنی مکّہ معظّمہ کا ابراہیمؑ کے زمانے سے عمومًا اور آنحضرتؐ کے زمانے سے خصوصًا لاکھوں قسم کی مخلوقات کا مرجع و مرکز ہونا.وعدۂ الہٰی کے ثبوت کی بڑی بھاری دلیل ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم ایڈیشن دوم صفحہ۲۱) ۴۰. : اسمٰعیلؑ ۸۴ برس کی عمر میں پیدا ہوئے اور ۹۹ برس کی عمر میں اسحٰق پیدا ہوئے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۲. : قرآن شریف میں دوسرے مقام پر فرمایا.
ِلَّا قَوْلَ اِبْرَاھیْمَ لِاَبِیْہِ لَاَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ.(الممتحنہ:۵) اس جگہ دعا میں آپؑ نے وَالِدَیَّ فرمایا ہے اور یہ آخر عمر کی دُعا ہے.اور جہاں منع ہے وہاں اَبٌ کا لفظ ہے.معلوم ہوا اَبٌ سے چچا مراد تھا والد نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۳. ’’ میں اﷲ دیکھتا ہوں‘‘ یہ اس سورۃ کا ابتداء تھا.جس کا مطلب یہ تھا.کہ میں نگران حاکم ہوں خلاف ورزی پر سزا دوں گا.چنانچہ اس کو کھولتا ہے.: بے خبر.: ایک وقت کیلئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۴. : اھطاع کے معنے ’’ جلدی کرنے ‘‘ کے ہیں اور ’’ ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے‘‘ کے : آنکھ جھپک نہ سکیں گے.: ’’خالی ہوں گے ‘‘ عربی زبان میں اس دل کو کہتے ہیں جس میں خیر و عقل نہ ہو.عقل وہ صفت ہے جس سے مومن اپنے تئیں بدیوں سے روکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۵. : جب ایک بچے کے سامنے بھی شرمندگی دلانے والا کوئی کام کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی.تو جہاں اوّلین و آخرین جمع ہوں گے.وہاں کسی مذامت ہو گی.اس سے بچنے کا سامان کرو.
: زوال نہیں ہو گا.یا تمہیں انتقال نہ ہو گا.اس دنیا سے دارِ آخرت میں نہ جاویں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۶. : فارسی میں ایک شعر ہے ؎ مجسلے وعظ رفتنت ہوس است مرگ ہمسایہ واعظے تو بس است ہر ایک شہر میں جہاں کوئی آسودہ گھر ہوتا ہے.اس کے پڑوس میں یا اس کے اوپر چڑھ کر دیکھنے سے کوئی نہ کوئی ویران شدہ مکان یا گھر یا نظارہ ضرور عبرت و نصیحت کیلئے نظر آتا ہے.یہ نکتہ مجھے میرے ایک استاد نے بتایا تھا جسے مَیں نے اکثر مقام پر صحیح دیکھا… ایک رئیس کو مجھ سے نقار تھا مگر مَیں نے اسے نصیحت کرنی چاہی.اسکی مجلس میں چلا گیا.آخر مجھ سے پوچھا.کیوں آئے؟ میں نے کہا آپ کا ناصح کون ہے؟ میرے تعلّقات تو آپ سے ایسے نہیں ورنہ میں یہ فرض بڑے شوق سے ادا کرتا رہتا.پھر یہ استاد کا نکتہ سنایا تو اس نے کہا.جہاں میں بیٹھتا ہوں اس کے سامنے کا محراب ایک بڑے رئیس کا تھا.اور اس کی گھر والی ہمارے برتن صاف کرتی ہے.۲.اس مسجد میں جلسہ کے دنوں میں نماز پڑھنے لگے تو اس پڑوسی نے گالیاں دینی شروع کیں امام ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) نے فرمایا.شاہی خیمے کے پاس کسی کا مُخل ہونا اپنے پر شامت لانا ہی ہوتا ہے.یہ مسجد خدا کا شاہی خیمہ ہے.ایک وقت مَیں نے عرض کیا.حضور وہ تو فروخت کرتے ہیں.کہا.مَیں تو دس روپے کو بھی نہیں لوں گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۸.
: بعض لوگوں نے اس صفت کو نادانی سے کراہت کیساتھ دیکھا ہے.مَیں نے یسوعیوں سے پوچھا ہے کہ مسیحؑ تو رحم مطلق ہے.مگر اپنے قاتلوں اور مخالفوں کیلئے کفارہ تو نہ ہوئے ان کیلئے تو انتقام ہی کی صفت رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴۹. جس دن بدل ڈالی جاوے گی زمین سوائے ( اس موجودہ) زمین کے اور آسمان اور اﷲ واحد زبردست کے روبرُو پیش ہوں گے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۴۶) : دنیا میں تو یہ کہ مشرکوں کی زمین مشرکوں کی نہیں رہے گی مُوَحِّدُوں کی ہو جاوے گی اور ایک تبدیل الارض حشر کے دن کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) : کفر کی سر زمین اسلام کی سر زمین بن جائے گی اور آسمان وحی کا آسمان.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۱) ۵۰. : ایسے نظارے دنیا میں دکھلائی دینے ضروری ہیں.اگلے جہاں کا وعدہ تو سب قومیں کرتی ہیں.ایک چوہڑا کہتا ہے.کہ کُل قومیں متکبّر ہیں.اس لئے وہ جہنم میں جائیں گی.مگر ہم ہی تکبّر نہیں رکھتے.پس ہم ہی بہشت کے حقدار ہیں.اب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے قطع تعلق کرنے والے ہیں.ایک دن آتا ہے کہ ان کی مُشکیں کَسی جاویں گی.چنانچہ دنیا میں بدر کے دن ایسا ہی ہوا.جب دنیا میں اسکا نمونہ دکھا دیا تو آخرت میں ضرور ایسا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۵۲. : اسی لئے فرمایا کہ دنیا میں بھی اسکا نمونہ دکھائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء)
سُوْرَۃُ الْحِجْرِ مَکِّیَّۃٌ ۲. : اَنَا اللّٰہُ اَرٰی.دیکھنا خدا کی وہ صفت ہے جس کا ظاہری امور کے ساتھ تعلق ہے اور علم وہ صفت جس کا باطنی امور کے ساتھ تعلق ہے.یہ عام ہے… خدا تعالیٰ اس سورۃ میں ان شوخیوں اورشرارتوں کا ذکر فرماتا ہے.جو کفّار نے رُسل اور انکی جماعت سے کیں اور فرماتا ہے کہ مَیں ان شرارتوں کو دیکھتا ہوں.: کتیبہ فوج کو کہتے ہیں.اﷲ تعالیٰ کی کتاب دشمنوں کے مختلف جملوں اور شبہات اور بدیوں کی دافع ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳. : اس کتاب کے دلائل ایسے پختہ ہیں کہ کافروں کا بھی بعض اوقات جی کرآتا ہے کہ ہم مسلمان ہو جاویں.اسلام نے خدا کی کوئی ایسی صفت بیان نہیں کی کہ جس کو پبلک کے سامنے پیش کرتے ہوئے شرم آئے.ہندو کہتے ہیں کہ خدا نے سور کا اوتار لیا تو انہیں اس کی کوئی توجیہ کرنی پڑتی ہے.اسی طرح عیسائی جب بیٹا کہتے ہیں تو اس کی عجیب عجیب تاویلیں کرتے ہیں.مگر اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہ ہر عیب سے منزّہ اور کمزوریوں سے مبّراہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۴. : خدا کی طرف سے کوئی مذہب ایسا نہیں جو تمام آدمیوں کو بجبر منوایا جاوے اسلام نام ہے صدقِ دل سے مان لینے کا اور جبرو اکراہ میں یہ بات ہرگز نہیں.
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۵. : اﷲ تعالیٰ تبدیلی مذہب سے نہیں پکڑتا.بلکہ نقصِ امن اور شوخی و شرارت پر اس دنیا میں مؤاخذہ فرماتا ہے.: اس دنیامیں بھی اس کا نظارہ ہمارے سامنے ہے کہ زناء ایک حد تک کر کے بعد اس کے سوزاک یا آتشک ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۷. : راست بازوں کو آج تک ایسا کہا جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ نے سورۃ القلم میں ایک بات فرمائی ہے کہ جو کچھ لکھا گیا ہے.ان کے خلاصے در خلاصے اور علوم کو جمع کرو تو رسول اﷲ مجنون ثابت نہ ہوں گے.بلکہ اعقل الناسؔ.سورۃ القلم میں فرمایا..اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (القلم:۴) سات موقعہ پر انسان کے خُلق کا جلوہ ہوتا ہے.۱.ایک مثلاً انسان گھوڑے یا ہاتھی پر جاتا ہے اسے دیکھ کر کئی لوگ حسد کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ اس کا دادا ایسا تھا یا پڑدادا ایسا.اخلاقِ فاضلہ ہوں تو یہ فضول کارروائی نہ کریں.۲.پس ایک بہشت تو وہ ہوا جب ایسی ایسی جلن نہ لگیں.دوسرا بہشت بیوی کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں.۳.اسی طرح بچوں اور نوکروں کے ساتھ اچھا تعلّق بھی ہے تو یہ تیسرا بہشت اس دنیا کا ہے پھیر.۴.اپنی قوم کے ساتھ معاملات میں عمدہ اخلاق رکھتا ہے تو یہ چوتھا بہشت ہے.۵.پھر قوم کی دو قسمیں ہیں.اپنے ہم مذہب.ان سے تعلقات محبّت والے ہوں تو یہ پانچواں بہشت ہے.۶.ایک بادشاہ سے تعلقات ہیں.۷.ایک خدا ہے.حضرت نبی کریمؐ کو فرمایا تُو بڑے اعلیٰ خلق پر ہے.رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے خلق اپنی ذات میں بے نظیر تھے.بیویوں کے ساتھ تعلق اس سے بڑھ کر.قوم کے ساتھ ایسا
صاف معاملہ کہ جب تک خدائی پیغام نہیں پہنچایا.سب آپؐ کو صادق و امین سمجھتے تھے.(انعام:۳۴)بادشاہوں کے ساتھ ایسے اچھے تعلق کہ آپؐ کے مُریدوں نے حبشہ میں کس امن سے زندگی گزاری.اور خود مکّہ کے شرانگیز رئیسوں میں کیسے مامون رہے.اور پھر خدا سے ایسا تعلق کہ قرآن شریف جیسی خاتم الکتب کی وحی کے مہبَط ہوئے کیا ایسا شخص مجنون ہو سکتا ہے.جو تمام مدبّرانِ ملک کی تجویزوں اور تدبیروں کے مقابلہ میں اکیلا کامیاب ہوا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۹. : چنانچہ جب فرشتے آئے تو کفّار کو نہ بدر میں مہلت ملی نہ کسی اور غزوہ میں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۰. : فرشتوں کا ایک ثبوت دیا ہے.کہ دیکھو یہ کتاب ہے.اس کی حفاظت اخیر زمانہ تک فرشتے کریں گے.تم اس کے خلاف کوئی غلطی تو ثابت کر دو.سائنس نے کس قدر ترقی کی.تاریخ کی کیسی چھان بین ہوئی.مگر قرآن شریف کی کوئی بات جھوٹی نہ ہو سکی.سچ فرمایا لَا یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ (حٰمٰ السجدہ:۴۲) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) : ذکر رسول کو بھی کہتے ہیں.: مارنے والوں نے عین شوکتِ اسلام میں حضرت عمرؓ و علیؓ و عثمانؓ کو شہید کر دیا.مگر عین کمزوری کے ایّام میں ایک رسولؐ اﷲ کے مقابلہ میں اتنے مخالف کچھ نہ کر سکے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ
صفحہ ۴۶۲) دیکھو کس قدر مذہب دنیا میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آئے.اس کی حفاظت کا ذمّہ دارخود ان لوگوں کو بنایا مگر قرآن کریم کی پاک تعلیم کیلئے فرمایا. یہ کیا کوثر ہے!! اﷲ تعالیٰ اس دین کی حمایت و حفاظت اور نصرت کیلئے تائید فرماتا ہے اور مخلص بندوں کو دنیا میں بھیجتا ہے جو اپنے کمالات اور تعلّقاتِ الہٰیہ میں ایک نمونہ تھے.ان کو دیکھ کر پتہ لگ سکتا ہے کہ کیونکر بندہ خدا کو اپنا لیتا ہے.(الحکم ۱۲؍مئی ۱۸۹۹ء صفحہ۱-۲) قرآن جو نازل فرمایا.اس کی حفاظت کا خود ذمّہ دار ہوا..دنیا کی کسی اور کتاب کی نسبت یہ ارشادِ خداوندی نہیں ہوا.اور جس مقدّس اور راستباز.ہاں قوم کے مسلّم امین اور صادق انسان پر یہ پاک کتاب نازل ہوئی.اس کی حفاظت کا ذمّہ دار بھی مولیٰ کریم ہی ہوا.چنانچہ وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ کی صدا اسی راست باز کو پہنچی.پھر جو دین لے کر یہ خدا کا سچّا نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آیا.اس کا نام اسلام رکھا.جس کے معنی میں سلامتی موجود ہے.(الحکم ۱۰؍ فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے ترقی کے واسطے بہت سے سامان بآسانی مہیا کر دئے ہیں.یہ دیکھو خدا تعالیٰ کا مامور ( یعنی حصرت مسیح موعود علیہ السلام.مرتّب ) ہمارے سامنے موجود ہے.اور خود اس مجلس میں موجود ہے.ہم اس کے جحرے کو دیکھ سکتے ہیں.یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کی دلی خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے.پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزار اس زمانہ کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مامور کا چہرہ دیکھتے.پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا.یہ وہ زمانہ ہے کہ عجیب در عجیب تحریکیں دنیا میں زور شور کے ساتھ ہو رہی ہیں اور ایک ہلچل مچ رہی ہے.عربی زبان دنیا میں خاص طور پر ترقی کر رہی ہے.کتابیں کثرت سے شائع ہو رہی ہیں.وہ عیسائیت کی عمارت جس کو ہاتھ لگانے سے خود ہمارے ابتدائی عمر کے زمانہ میں لوگ خوف کھاتے تھے.آج خود عیسائی قومیں اس مذہب کے عقائد سے متنفّر ہو کر اس کے برخلاف کوشس میں ایسے سرگرم ہیں کہ یُخَرِّبُوْنَ بُیُوْتَھُمْ بِاَیْدِیْھِمْ کے مصداق بن رہے ہیں.اور
شرک کے ناپاک عقائد سے بھاگ کر ان پاک اصولوں کی طرف اپنا رُخ کر رہے ہیں.جن کے قائم کرنے کے واسطے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.یہ سب واقعات قرآن شریف کی اس پیشگوئی کی صداقت کو ظاہر کر رہے ہیں کہ .تحقیق ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں.جیسا کہ الفاظ کی حفاظت یاد کرنے والوں اور لکھنے والوں کے ذریعہ سے ہوئی اور ہو رہی ہے.یہ سب کچھ موجود ہے مگر خوش قسمت وہی ہے جو ان باتوں سے فائدہ اٹھائے.جذباتِ نفس پر قابو رکھ کر خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرے.(بدر ۱۳؍ دسمبر ۱۹۰۶ء صفحہ۶) ۱۴. : یہ فرشتوں کے ثبوت میں فرمایا.کہ نشان جو تم مانگتے ہو وہ بھی آجاوے گا.جیسا اگلے مکذّبوں سے ہوا.ویسا ہی تم سے ہو گا.چنانچہ ہوا.بدر میں فرشتے آئے اور کفّار کو ہلاک کر دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۵. : یہ ضدّی لوگوں کا بیان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۶. : ہماری آنکھیں کسی نشے کی متوالا ہو گئیں.ہم پر سحر ہو گیا وغیرہ وغیرہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۱۷ تا ۱۹. ضرور ہم نے ہی بنائے آسمان میں روشن اجرامِ اور خوبصورت بنایا انہیں دیکھنے والوں کیلئے اور محفوظ رکھا ہم نے نہیں ہر ایک خدا سے دور یا ہلاک شوندہ تُکّہ باز یا مردُود سے.ہاں اگر کوئی چھپ کر سننا چاہے تو اس کے پیچھے لگتے ہیں شہابِ ثاقب.میٹی ارز.الکاپات.(نور الدّین صفحہ ۲۱۳)
آئندہ کے واقعات قبل ازیں انسان کو معلوم ہوں.یہ آدمی کو تڑپ لگی ہوئی ہے.اس کے لئے مخلوق نے عجیب عجیب تجویزیں کی ہیں.مَیں نے ایک شانہ بینی کی کتاب دیکھی.ایک دُنبہ کو خا ص خیال پر ذبح کرتے ہیں.اس کے شانہ کو پانی میں اُبال دیتے ہیں.اس پر چند قطرے نظر آتے ہیں جن پر احکام مرتب کرتے ہیں.دومؔ.خطِ تقدیر اس کیلئے چار مقامات ہیں.ا.بعض نے ہاتھ کی شِکنوں پر کتابیں لکھی ہیں.بعض نے چین جبین پر.بعض نے انسانی بدن کی دوسری لکیروں پر.بعض نے خانوں پر.ایک اور علم ہے جو کھوپڑی کے متعلق ہے.اس علم کی بھی یہی غرض ہے.رَمل بھی اسی لئے سیکھی جاتی ہیکَانَ نَبِیُّ یَخُطُّ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں.حالانکہ کیَخُطکییہ معنی نہیں کہ نقطے ڈال کر شکلیں بنائی جاویں.اور پھر ان پر احکام مرتب کریں.پانسے جو ہیں.وہ بھی اسی غرض کیلئے ہیں.پھر پرندوں کے بائیں یا دائیں نکلنے پر بحث کرتے ہیں.پھر ایک علم ہے.سرودہ.جسے عربی میں علم النفس کہتے ہیں.یہ ناک کے سانسوں پر احکام مرتب کئے جاتے ہیں.اختلاج الاعضاء اور سیاہ خال سے بھی غیب دانی کرتے ہیں.یہ ادنیٰ طبقے کے لوگ ہیں.ان سے اعلیٰ نجوم کا علم ہے جس کے دو حصّے ہیں.ایک سورج گرہن.چاند گرہن اور تاریخ.پھر ان پر احکام لگاتے ہیں.ایک جفر کا علم ہے.اس سے بڑے بڑے احکام نکالنے کے دعوے کرتے ہیں.ایک قوم ان سے بھی آگے ہے.جنہیں کاہن کہتے ہیں.ان کا چھوٹا سا شعبہ یورپ.امریکہ میں آجکل پایا جاتا ہے.اس کو سپرجولزم کہتے ہیں.انسان کی روحوں وغیرہ سے اس کے ذریعہ مکالمہ کیا جاتا ہے.ایک ان سے کسی قدر آگے ہیں.وہ ہمارے ملک میں حاضرات والے کہلاتے ہیں.چھوٹے جھوٹے بچّوں کو معمول بنا کر ان سے کام لیتے ہیں.
عرب میں جو لوگ کاہن کہلاتے ہیں.وہ کم کھاتے.کم سوتے.کم اختلاط کرتے اور ایک خاص بات کی وقعت رکھتے.ہمزادوالے بھی انہی میں سے ہیں.ایسے لوگ اپنے تئیں بہت نجِس رکھتے ہیں.جنابت میں نہیں نہاتے.محرماتِ ابدی سے جماع کر لیتے ہیں.انسان کی کھو پڑی میں کھاتے ہیں انسان کے دانت کی تسبیح رکھتے ہیں.لوگوں اِسے چھپانے کیلئے چاندی کا کھول چڑھا لیتے ہیں.اور عبادت کے وقت انان کے چمڑے پر بیٹھتے ہیں.بلکہ کھانا بھی وہاں پکاتے ہیں جہاں کوئی مُردہ جلایا گیا ہو ایسے تمام لوگ مَیں نے دیکھے ہیں.اور ان کے اعمال سے واقفیت حاصل کی ہے.کاہن لوگوں کو جو غیب سے آوازیں آتی ہیں.ان میں سے بعض باتیں سچی بھی ہوتی ہیں.مگر کثرت کے ساتھ جھوٹ ہوتا ہے.یہ غیب بینی کی کوشش کرتے ہیں.ان میں غور کر کے دیکھا جاوے تو تعجّب آتا ہے.اور اصل بات تو یہ ہے.تمام جہان پیس گوئی کرتا ہے.مثلاً دوست کو لکھ دینا کہ (۱) ہم فلاں بجے تمہارے پاس گاڑی پر پہنچیں گے.باوجود اندیشہ لیٹ و کولیژن کے.(۲) کاشت کار کا آئندہ اناج کی اُمید پر بیج بونا باوجود اندیشہ ارضی و سماوی کے.(۳) ملازم کا کام.تاجر کا مال منگوانا باامید نفع.(۵) اشتہار دینا پہلے گھر سے خرچ کر کے.غرض پیشگوئیوں پر دنیا کا دار و مدار ہے.ان سب کا معیارِ صداقت کثرت و قلّت پر ہے.کاہن اسی لئے جھُوٹے ہیں کہ ان کی اکثر باتیں صحیح نہیں نکلتیں.نبیوں میں بھی کثرت کا اعتبار ہے.جب خدا کے فعل میں یہ بات پائی جاتی ہے.قول میں کیوں نہ ہو.بُرُوج : بُرج کہتے ہیں گول چیز کو.روشن ستارے جو آسمان میں ہیں ان سے مراد ہے.بعض کہتے ہیں کہ منازل شمس و قمر مقصود ہیں.مگر عرب لوگ تو ان باتوں کو نہیں جانتے تھے.بہر حال ستارے بہت مفید ہیں.ارض کیلئے.مگر خبیث لوگ ان سے عجیب عجیب جُزوی اور شخصی احکام نکالتے ہیں.: کوئی ایک آدھ بات صحیح بھی مستنبط کر لیتے ہیں.: بات پوری نہیں ہوتی تو آگ سی لگ جاتی ہے جو ان کے تمام
جھوٹ کے تودہ کو جلا دیتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۰. : دو معنے ہیں.ایک معلوم.دوسرے مقدار کے ساتھ ہر چیز بنی ہوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۲۲. : جتنی ایجادیں ہیں انکی تحقیقات کرو تو یہی معلوم ہو گا کہ اس کا اصول اتفاقیہ معلوم ہوا اور اوّل اوّل کسی بالارادہ کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتے.مثلاً چھاپنے کے پتھر کی دریافت.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) جس طرح بچّہ سکھایا اور تربیت دیا جاتا ہے.اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے خلقت کو سکھایا ہے گھبراہٹ طلب کی نہ ہو.اس وقت تک خدا تعالیٰ کے نکاتِ معرفت حاصل نہیں ہوتے.پس یہ نکتہ معرفت کا ہے.خدا کے حضور میں تو سب کچھ موجود ہوتا ہے.پر خدا کے نزدیک کا اندازہ ہوتا ہے.اسی لئے میرا خیال ہے کہ لیکچروں اور وعظوں کے واسطے بھی قبل از وقت تیاری نہیں
۲۸. یہ سچی فلاسفی الہٰی کلام کی ہے.تمام وہ لوگ جن کے اچھے اعمال نہیں یا ان کے اچھے اعمال کم ہیں وہ دوزخ میں جائیں گے.دوزخ کی گود میں رہیں گے.وہی ان کی ماں ہے.دیکھو قرآن ...(القارعۃ:۹ تا ۱۲)بھلا جن کی ماں دوزخ کی گرم آگ ہوئی وہ لُوؤں کی آگ سے نہ بنے ہوں تو پھر کس سے بنیں.سُنوا سارے شریر شیطان یا شیطان کے فرزند ہیں.یوحنا ۸ باب ۴۴.متی ۱۳ باب ۳۹.متی ۱۶ باب ۲۳جس طر ح شریر شیطان کا فرزند ہے.اور عیسائی مسیحؑ.کافرزند.اُسی طرح دوزخ کی آگ شریر کی ماں ہے اور وہ لوؤں کی آگ سے بنا ہے.بھلا صاحب جب عام شریروں کی ماں ہاویہ دوزخ ٹھہری تو ان اشرار کا شرارتی آپ شیطان دشمنِ آدم لوؤں سے کیونکر نہ بنا ہو گا.ضرور وہ ہمارا دشمن نارِ السّموم سے بنا.وہ تو پہلے ہی سموم نار سے بنا تھا.اور یہی سچی فلاسفی ہے جس کے خلاف ہر کسی کے پاس کوئی دلیل نہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۱۷۹) : تیز لُو کو سَمُوم کہتے ہیں اس کے اندر جو صفت ہے وہ ناری ہے.جانّ: میں شامل ہیں وہ تمام جاندار جن میں ناری مادہ ہو.باریک سانپ کو بھی جانّ کہتے ہیں.طاعون کے کیڑے کو بھی دخن الجنّ فرمایا ہے.مِرگی کے کیڑے کو بھی جِنّ فرمایا ہے.رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے غضب کو بھی آگ فرمایا ہے.اسی واسطے اس کے اطفاء کیلئے کھڑے کو بیٹھنے پھر لیٹنے اور پانی پینے اور تعوّذ کا حکم ہے.سیاہ کتّے میں شدید زہر ہوتا ہے اسے ایک جگہ شیطان فرمایا اسی طرح جن لوگوں کو شیطان سے تعلّق ہوتا ہے ان میں بھی خاص تیزیاں ہوتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۰.
: اپنا کلام.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۱،۳۲. : ملائکہ مامور مِنَ اﷲ کے کاموں میں لگ جاتے ہیں.سعید الفطرتوں کے قلب پر وہی ایمان لانے کی تحریک کرتے ہیں.: فرماں برداروں کے ساتھ شامل نہ ہوا.ہر آدمی کو میں دیکھتا ہوں کوئی نہ کوئی اس کا نافرمان ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۳؍جنوری۱۹۱۰ء) ۳۵. : نکل جا تو اس مرتبہ سے.: کیونکہ تو دھتکارا ہوا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۳۷تا ۳۹. : یہ اس کی خواہش ہے.جو لوگ سمجھتے ہیں کہ شیطان کی ہر خواہش پوری ہوئی غلطی کرتے ہیں.ہاں فرمایا..ہر آدمی کے ساتھ بقدر اس کے ساتھ شیطان ہوتا ہے.ایک وقت آتا ہے کہ نیک انسان بیدار ہو جاتا ہے.پھر شیطان کا داؤ اس پر نہیں چلتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
: ابلیس مر چکا.اس کی اولاد ہی چلتی ہے.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) ۴۰. شیطان نے کہا میرے ربّ بسبب اس کے کہ تُو نے مجھے غوی ٹھہرایا مَیں بھلے کر دکھاؤں گا ان کے لئے اور ضرور غوی ٹھہراؤں گا ان سب کو.غَيَّ مجرّد ہے.اَغْوٰی اس کے مزید کے معنی ہیں.اضلال.اہلاک.افساد.نامراد کرنا.بدمزہ کر دینا.زندگی کا تلخ کر دینا.پھر سُن! باری تعالیٰ کی مقدّس باہرکت ذات نے انسان کو استطاعت.نیک و بَد کی تمیز.عقل اور فطرت مرحمت فرماکر ہزاروں ہزار انبیاء اور رسول اور کتابیں اور اپنی رضامندی کے اسباب بتا کر دنیامیں ہدایت کو پھیلایا ہے.اور انبیاء اور ان کے سچّے اتّباع اور فرماں برداروں کی ہمیشہ نصرت اور اعانت فرمائی ہے.ہاں باستطاعت انسان پر جبر نہیں فرمایا کہ اسکی گردن پکڑکر اس سے نیک اعمال کرائے.شیطان اور اس کی ذرّیات کے وجود سے یہ فائدہ ہے کہ انسانوں میں فرماں برداروں کو فرماں برداری کی خلعت و عزّت عطا فرماوے.مگر پھر بھی شیطان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ لوگوں کو بجبر گمراہ کرے.چونکہ انسان بڑے درجات کا طالب تھا.اور بغیر صدق و صفا انعام نہیں مل سکتا.اس واسطے دو محرّک نیکی و بدی کے یعنی فرشتہ اور شیطان پیدا کئے.قانونِ قدرت اس بات پر دلالت کرتا ہے.سب لوگ اپنے نفس میں دو محرّک محسوس کرتے ہیں.قاتل پہلے قتل کرتا بھی ہے اور پچھتاتا بھی.پس واقعی فرشتہ و شیطان کا وجود عالم میں ہے.اگر وید کامل ہے تو اس میں ضرور یہ فلسفہ ہو گا.فرق الفاظ میں ہو تو کوئی بات نہیں.
چونکہ انسان بڑے درجات کا طالب تھا.اور بغیر صدق و صفا انعام نہیں مل سکتا.اس واسطے دو محرّک نیکی و بدی کے یعنی فرشتہ اور شیطان پیدا کئے.قانونِ قدرت اس بات پر دلالت کرتا ہے.سب لوگ اپنے نفس میں دو محرّک محسوس کرتے ہیں.قاتل پہلے قتل کرتا بھی ہے اور پچھتاتا بھی.پس واقعی فرشتہ و شیطان کا وجود عالم میں ہے.اگر وید کامل ہے تو اس میں ضرور یہ فلسفہ ہو گا.فرق الفاظ میں ہو تو کوئی بات نہیں.وَلِکُلٍّ اَنْ یَّصْطَلِحَ: ان محرکات کی اصلاح تم میں کیا ہے.بتاؤ اور کھول کر بتاؤ.اِفْسَاد کا مقابلہ ایک واقعی اور صحیح بات ہے.کیمسٹری کی شہادت.مرکباتِ عالم بلکہ بسائط کی نسبت اگر نہ لیں تو بھی لطیف و کثیف کا سنگرام ( جنگ).سعید و شقی.سر پشٹ و دیسیو.مومن و کافر.دیو وامر کا یُدھ کوئی مخفی راز نہیں.اﷲ تعالیٰ ہدایت کیلئے اپنا کلام نازل فرماتا ہے.بایں ہمہ ایک عالم اس کے مقابلہ کیلئے بھی اُٹھ کھڑا ہوتا ہے.تو اپنی جگہ دیکھ لو.ویدؔ جسے تم کلامِ الہٰی مانتے اور قدامت کو اس کی سچائی کی بڑی دلیل بتاتے ہو.ہندوستان کے فرزندوں نے اس کے مقابلہ کیلئے ہتھیار نکالے اور اسے ردّ کیا.اور اسکی قدامت اور صداقت کے ابطال کی غرض سے تمہارے بھائی جینی اپنے نوشتوں اور ہادیوں کی اتنی لمبی مدّت بیان کرتے ہیں کہ اس کے مقابل ریاضی دان بھی حیران ہو جاتے ہیں اور مجوس اپنی کتابوں کی مدّتِ قدامت کے بیان کرنے میں مہاں سَنکھ کے آگے اور سترہ صفر بڑھاتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ جنگ اور مقابلہ اس عالم میں طبعی امر کی طرح ہمیشہ سے قائم چلا آتا ہے.اور یہ بھی ثابت ہو گیا کہ آپس میں جنگ تو ایک طرف رہی.اشرار ہمیشہ خدا سے مقابلہ کرتے چلے آئے ہیں.ایک عظیم الشان ناصح خود انسان کے اندر موجود ہے.مگر اسکے ساتھ بھی وہ مقابلہ ہے کہ الامان الامان.تھوڑی دیر کچہریوں میں عبرتًا دیکھیں بازار کے لین دین کو وید کی بصیرت سے مطالعہ کریں لیکچروں کی لفّاظیاں اور اس کے ساتھ عملدر آمد غور سے ملاحظہ کریں.محکمہ جات میں کم سے کم ان لوگوں کی عملی کارروائیوں کو دیکھیں کہ جن کی تمام تعلیم اہنساپرموں دھرما ( رحم ہی اعلیٰ مذہب سے) اور بایں ہمہ ایک جانور ( گائے) کی لفظی حفاظت کی ٹھیکیداری کے بھیس میں اپنے خیال کے مخالفوں غریبوں بے کسوں کے ساتھ کیا کیا سلوک کرتے ہیں.
مَیں نے ایک ہندو ریاست کے ایک بڑے بااختیار پنڈت سے سوال کیا کہ مساوی الاستعداد مگر مدّت کے امیدوار فتح محمد اور نئے امیدوار فتح چند کیلئے آپ کے محکمہ میں اگر موقع پرورش ہو تو آپ کس کو مقرر کریں گے.کہا فتح چند کو.میں نے کہا آپ تو بدھ مذہب کے آدمی ہیں اور آپ نے ہنوز دریافت بھی نہیں کی کہ فتح چند بدھ مذہب کا آدمی بھی ہے یا نہیں.کہا.مولوی صاحب! ہماری بچپن کی تعلیم ہمیں ایسے سبق سکھا چکی ہے کہ بہتر ہے کہ آپ اس بحث کو ختم کر دیں.اس قسم کی صدہا نظیریں اور واقعات ہیں جو دانشمند کو کافی سبق سکھاتے ہیں.غرض یہ مسلّم امر ہے کہ الہٰی فرمان پاک لوگوں کے مفید کلماتِ.نورِ قلب.عقل.نظارۂ قدرت.تجربہ صحیحہ اور بدی کی خطرناک سزائیں موجود ہیں.مگر شریر کا شرارت سے باز آنا کوسوں بلکہ بمراحل دُور ہے.اس جنگ کو ستیارتھ پرکاش میں دیانند نے بھی مانا ہے اور اس کا دیواُسر سنگرام نام رکھا ہے ( یعنی اچھے اور بُروں کی جنگ) غرض نور و ظلمت.نورانی و ظلماتی.صدق و کذب کا یُدھ ہے.ابلیس و شیطان وہی ظلمت اور شرارت ہے یا یوں سمجھو کہ ظالم و شریر.کاذب جاہل اور تاریکی کے فرزند کے القاب ہیں.اﷲ تعالیٰ اپنے علمِ کامل.رحمت، قدرت اور تصرّف سے ہر جگہ موجود ہے اور شریر جس قدر بکواس کرتا ہے وہ سب خدا کے سامنے کرتا ہے.اور رُو در رُو کرتا ہے کہ گویا اس سے بالمشافہ جنگ کرتا ہے.… قَالَ کے لفظ سے یہ سمجھنا کہ شیطان نے خدا سے بالمشافہ مکالمہ کیا.سخت غلط بات ہے قرآن کریم میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے مکالمہ سے وہی لوگ شرف اندوز ہوتے ہیں جو خدا کی نگاہ میں پاک و صاف ہوتے ہیں.پھر شیطان جیسی نجس ذات کا یہ رُتبہ کہاں کہ اسے خدا کی ہمکلامی کی عزّت ملے؟ سارے قرآن میں کَلَّمَ مُوْسٰی تَکْلِیْمًا کا کوئی صیغہ شیطان کے کلام کے بارہ میں مذکور نہیں ہوا.اصل بات یہ ہے کہ لفظ قَالَ عربی کی زبان میں ہر ایک بات اور کام اور اشارہ اور زبانِ حال پر بولا جاتا ہے.چنانچہ عربی کی لُغت میں لکھا ہے.
اَلْعَرَبُ تَجْعَلُ الْقَوْلَ عِبَارَۃٌ عَنْ جَمِیْعِ الْاَفْعَالِ.یعنی قول تمام افعال پر بولا جاتا ہے.قَالَتْ لَہُ الْعَیْنَانِ سَمْعًا وَّ لَاعَۃً: اسکی آنکھوں نے کہا کہ ہم سنتے اور مانتے ہیں.قَالُوْا صُدَقَ وَ اَوْمَأُوْا بِرُؤُوْسِھِمْ : صحابہ نے کہا سچ کہتا ہے اور یہ بات سر کے اشارہ سے کہی.قَالَتِ السَّمَآئُ جَادَتْ وَ انسَکَبَتْ : بادل نے کہا.کیا معنے ؟ برسا وَ یُقَالُ لِلْمُتَصَوَّرِ فِی النَّفْسِ قَبْلَ التَّلَفُّظِ فَیُقَالُ فِیْ نَفْسِیْ قَوْلٌ لَمْ اَظْھَرْہُ قَالَ اس خیال پر بھی بولا جاتا ہے جو ابھی تلفّظ میں نہیں آیا.کہا جاتا ہے میرے دل میں بات ہے جس کو میںنے ظاہر نہیں کیا.وَ الْاِعْتِقَادُ یُقَالُ فُلَانٌ یَقُوْلُ بِقَوْلِ الشَّافِعِّی.فلانا اعتقاد کرتا ہے شافعی کا اعتقاد.قول کے معنے اعتقاد کے ہوئے.وَ یُقَالُ لِلدَّ لَالَۃِ عَلَی الشَّیہئِ عَلَی الْعُمُوْمِ.دلالت کو بھی قول کہتے ہیں.اِمْتَلَائَ الْحَوْضُ فَقَالَ قَطْنِی : کہا جاتا ہے حوض جب پانی سے بھرگیا تو اس نے کہا اب بس کرو.قَالَتْ لَہُ الطَّیْرُ تَقَدَّمْ رَاشِدًا : پرندوں نے اسے کہا.اقبال مندی سے آگے بڑھو.غرض جب لفظ قَالَ اتنے بڑے وسیع معنوں پر بولا جاتا ہے.تو کس قدر ضروی امر ہے کہ ہر موقع و محل کے مناسب اس کے معنے کئے جائیں.شیطان ایک کافر.متکبّر.احکامِ الہٰی سے منکر خبیث رُوح ہے.حسد و بُغض سے اس نے آدم جیسے راست باز کا مقابلہ کیا اور اس مقابلہ میں اﷲ تعالیٰ کی طرف بھی بدی کو منسوب کیا اور بے باکی سے بدکلامی کی… خلاصہ کلام یہ ہے.کہ ہم مسلمان نیکی کے محرّک کو ( تم کچھ نام رکھ دو) مَلک یا فرشتہ کہتے ہیں.اور بدی کے محرّک کو شیطان و ابلیس.ان معنوں کے لحاظ سے مَلک و ابلیس کا کون منکر ہو سکتا ہے.یہ پختہ اور یقینی بات ہے کہ جہاں قرآن کریم نے شیطان و ابلیس کا ذکر کیا ہے.وہاں انہی اُسروں اور بدی کے محرکوں سے مراد ہے.ان واقعات پر اعتراض کرنا خدا تعالیٰ کے قانونِ قدرت اور اس کے نظام کی نکتہ چینی کر نا ہے.(نورالدّین صفحہ۸۷ تا صفحہ۹۰)
۴۳. جو میرے بندے ہیں تجھ کو ان پر کچھ زور نہیں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۶۰) : کچھ ضرورت نہیں کہ عِبَادِیْ سے خاص بندے مراد لئے جاویں.کسی آدمی پر شیطان غالب نہیں.ہاں جب انسان خود اس کا کہا ماننے لگ جاتا ہے.جیسا کہ مَیں نے بڑے بڑے ڈاکؤوں سے پوچھا ہے اور انہوں نے مانا کہ کوئی ہمیں جبراً نہیں لے جاتا.بلکہ خود ہی جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۵. ۱؎ : دوزخ کے متعلق تو ہے بہشت کے متعلق کوئی آیت نہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) ۴۶ تا ۴۹. تحقیق متّقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے.انہیں کہا جائے گا کہ ان میں سلامتی سے داخل ہو جاؤ اور امن میں رہو.اور جو کینہ اور کپٹ دنیا میں ان کے دِلوں میں تھا.بہشت میں ہم ان کے دلوں سے نکال ڈالیں گے اور بھائی بن کر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھیں گے.اور اسی پر غور کرو کہ جب غیروں کے ساتھ بہشت والوں کا یہ سلوک ہو گا جس کا ذکر آیتِ بالا میں ہے تو اپنوں کے ساتھ کیا ہو گا.(نورالدّین صفحہ ۱۲۸-۱۲۹) اَلْمُتَّقِیْنَ: تقوٰی اختیار کرنیوالے.ایسے لوگوں کے عقائد صحیحہ ہوتے ہیں.اﷲ پر ایمان فرشتوں پر.کتابوں پر.نبیوں پر ایمان.جزا و سزا پر ایمان اور اعمالِ صالحہ کرتے ہیں.اس لئے فرمایا مال کو خرچ کریں.ذوی القربیٰ.یتامیٰ.مسالین.سائلین.غلاموں کے آزاد کرنے پر.نمازیں پڑھیں زکوٰۃ دیں.صابر ہوں.( تنگی.غریبی.لڑائی.بیماری کے اوقات میں) بس یہی متقی ہیں.کچھ اور نشانات بناتا ہے.وہ سلامتی کے گھر میں رہتے ہیں.کسی نیک بندے کی نسبت ان کے دل میں رنجش نہیں رہتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۵۰. امید و بیم مومن کیلئے دو پَر ہیں.اﷲ کے حضور میں پہنچنے کیلئے.اس کا ثبوت آگے آنے والے بیان میں دیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۵۳،۵۴. : انبیائؑ کے قلب پر اس کا انکشاف ہو جاتا ہے چونکہ وہ ایمان لائے تھے.: اس بچّے کے جوان ہونے کی خبر بھی دے دی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۵۷. : خدا کی صفات سے ناواقف ہیں.۵۸،۵۹. : حضرت ابراہیمؑ کا قلب محسوس کر رہا تھا کہ یہ کوئی عذاب بھی لائے ہیں اس لئے بشارت سُن کر بھی دریافت کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۲تا ۶۴. لوطؑ کی قوم عرب کے شمال مغرب میں آباد تھی.ان کی بستیاں کئی تھیں.ایک کا نام سیڈوم.ایک کا گمارا.ایک کا نام صعر غر تھا.اسی واسطے اس قوم کے بدکاروں کو سیڈومی کہتے ہیں.: وہ عذاب جس میں یہ شک کرتے تھے.: ناپسند کئے گئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۶. : چونکہ عذاب میں گرفتار ہونے والی نے پیچھے مڑ کر دیکھنا تھا اس لئے دوسروں کو ایسا حکم ہوا.بعض خاص حکم مصلحتِ الہٰی پر مبنی ہوتے ہیں.: پاس ایک پہاڑ تھا.اس پر چلے جانے کا حکم تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۶۷. : ۱.اوّل ۲.آخر ۳.جو مہتمم و مدبّر ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۸،۶۹. : کیونکہ وہ لوگ حضرت لوطؑ پر کسی قسم کا الزام آنے کے منتظر تھے.: مہمانوں کی بے عزّتی کر کے مجھے ذلیل مت کرو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۷۱،۷۲. : اجنبی لوگوں کی آمدورفت سے منع نہیں کیا؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) : اجنبی آدمیوں سے نہیں روکا؟ (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) : اگر تم اس مقدمہ کی تحقیق کرنا چاہتے ہو تو میری بیٹیوں کو بطور ضمانت رکھ لو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) اس قسم کی بات.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲)
۷۳. : حضرت مسیح موعودؑ نے کہا ہے.’’ تیرے منہ کی ہی قسم اے میرے پیارے احمدؐ ‘‘ اس پر اعتراض کرنے والے اس آیت پر غور کریں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) : ۱.اندھے ۲.ناعاقبت اندیشی کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۷۹،۸۰. : بَن.جنگل.جس میں بہت سے درخت ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں.اِمَامٍ: ا.امام ۲.شاہراہ اور اس شخص کو کہتے ہیں جس کی طرف لوگوں کا قصد ہو.چونکہ شاہراہ کی طرف اکثر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۱تا ۸۳. : ثمود کی قوم جہاں رہتی تھی اس کو حجر کہتے ہیں.حجر میں بحث ہوئی ہے کہ حجر کیا چیز تھی.بعض لوگ کہتے ہیں.اس قوم کے دارالسلطنت کا کا نام ہے.بعض اس میدان کا نام بتاتے ہیں.عدن سے لے کر حدیدہ.حضر موت.حجاز.تہامہ کے علاقوں کو حجر کہتے ہیں وہاں کی قومِ ثمود میں صالحؑ نبی آئے تھے.اٰیٰتِنَا: اپنے احکام.
وَ کَانُوْا یَنْحِتُوْنَ مِنُ الْجِبَالِ : اس زمانے میں بھی اس کا رنگ پایا جاتا ہے.یعنی پہاڑ پر کوٹھیاں بنانا.ایک سہل زمین ہوتی ہے.ایک جبلی (یعنی پہاڑی) زمین.دونوں مقامات پر اس کے زمانے کے لوگ بھی کوٹھیاں وغیرہ بناتے ہیں اور اس پر اِتراتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۴. : اس کے معنے عذاب کے ہیں.آواز کے معنے بھی درست ہیں.جب پہاڑوں میں بڑے بڑے زلزلے آتے ہیں تو زلزلوں سے پہلے گونج اور گرج پیدا ہوتی ہے.صَاحَ الزَّمَانُ لِاٰلِ بَرمَکَ صَیْحَۃً خَرُّوْا لِصَیْحَتِہٖ عَلَی الْاَذْقَانِ برمکؔ ایک قوم تھی جس نے حضرت ہارون الرّشید علیہ رحمۃ اﷲ کے زمانہ میں بڑی ترقی کی.انہوں نے تمام طاقتور جاگیروں اور علاقوں بلکہ شعراء و علماء کو اپنے قبضے میں کر لیا تھا.ہارون الرّشید نے ان کی نیّت پر اطلاع پا کر انہیں ایک ہی وقت میں ہلاک کر دیا.شاعروں کو چونکہ بہت انعام دیتے تھے.اس لئے انہوں نے انکی سخاوتوں کی بڑی تعریف کی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۶. : یہ آیت اس اعتراض کے جواب میں ہے جواَخَذَتْھُمُ الصَّیْحَۃُ سے کسی نادان دل میں پیدا ہو سکتا ہے کہ زلزلہ آنا تو ایک نیچرل رول ہے.پھر زلزلہ آنے پر صلحاء کی ہلاکت بھی ہو جاتی ہے.فرماتا ہے آسمان و زمین کو ہم نے حق و حکمت سے پیدا کیا.ہم نے پہلے ہی سے یہ انتظام کر رکھا ہے.عذاب اُسی وقت آئے گا.جب صلحاء بالعموم نہ رہے.اور زلزلہ اگر کسی ظاہری سبب سے پیدا ہوتا ہے تو اس کا باطنی سبب یہی ہے اور ہم اسے خوب جانتے ہیں.: عذاب کے لانے کیلئے صبر بھی بہت مفید ہے.یہاں سے ایک اخبار ’’ شبھ چنتک ‘‘ نکلتا تھا.وہ اس سلسلہ پر سخت مفتریانہ اور مضر حملے کرتا.میرے دل میں بعض اوقات اس کے جواب کا جوش اٹھتا.اس لئے میںنے ایک دفعہ حضرت کی خدمت میں عرض کیا.تو فرمایا.کہ تمہارے جواب سے کیا بنے گا؟ صبر کرو کہ خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.پھر ایک موقعہ آیا تو آپ نے توجّہ فرمائی اور ایسی توجّہ فرمائی کہ جنابِ الہٰی سے سرِدست قادیان سے ان کا صفایا ہی ہو گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۸۸. : اس کے معنے سات آیتیں.یعنی الحمد شریف.یہ ان سات آیتوں میں سے ہیں جو کئی بار نمازوں میں پڑھی جاتی ہیں.چنانچہ دن رات میں بالعموم چالیس رکعتوں میں یہ سورۃ دہرائی جاتی ہے.کئی تابعین نے کہا ہے کہ بقرہؔ.آل عمرانؔ.نساءؔ.مائدہؔ.انعامؔ.اعرافؔ.توبہؔ.ان سات سورتوں کا نام سبع مثانی ہے.بعض نے توبہؔ کی بجائے یونس ؔکو رکھا ہے.کیونکہ ان کا بیان آپس میں ملتا جُلتا ہے.اور دُہرا دُہرا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۹. : قرآن شریف ایسی نعمت کے مقابلہ میں اس فانی دولت کی کچھ پر واہ نہ کرو اور آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو.: رنگ برنگ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۹۱. : مُقْتَسِمَکے کئی معنے کئے گئے ہیں.ایک یہ کہ یُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضٍ وَ یَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۲.تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ (النمل : ۵۰) یہ جیسے حضرت ثمود کی قوم نے قَسم کھائی تھی.کہ رات حضرت صالحؑ کو مار ڈالیں گے.اسی طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے بارے میں نو آدمیوں نے یہی مشورہ کیا.۳.تَقَسَمُوْا عَلٰی سُبُلِ مَکَّۃَ کفّار نے اسلام کے خلاف اُبھار نے کیلئے مختلف شاہ راہوں پر آدمی مقرّر کر رکھے تھے.اس کا نمونہ مَیں نے دیکھا ہے کہ لوگوں کو بہکانے کیلئے رَستوں میں اپنے ایجنٹ چھوڑ دیتے ہیں.۴.عجیب عجیب معنے کر کے کئی فرقے بنا دئے.چھ شخصوں کے نام مجھے یاد آ گئے.۱.سود بن زرارۃ ۲.اسود بن زہرۃ ۳.ولید مخزومی ۴.عاص سہمی ۵.اسعد بن مطلب ۶.حارث خزاعی.یہ سب کے سب مختلف عبرت ناک و دہشتناک امراض سے ہلاک ہوئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) ۹۵ تا ۹۷. سو کھول کر سنا دے جو تجھ کو حکم ہوا.اور دھیان نہ کر شریک والوں کا.ہم بس ہیں تیری
طرف سے ٹھٹھے کرنے والوں کو.جو ٹھہراتے ہیں اﷲ کے ساتھ اور کسی کی بندگی.سو آگے معلوم کریں گے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۹۸) ۹۹. سَبِّحْ: دشمنوں سے بچنے کا طریق بتایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) : بعض لوگوں نے سجدوں میں عجیب عجیب طرح کی دعائیں قرآن شریف کی مختلف آیات سے لے کر پڑھنی شروع کر دی ہیں.حالانکہ سجدوں میں قرآنی دعاؤں کے پڑھنے کی ممانعت ہے.وہ دیکھیں کہ یہاں جو صاف حکم ہے اس کی تعمیل نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کس طرح فرمائی.رکوع و سجود میں پڑھا جاتا ہے سُبْحَانَکَ اَللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ حضرت مجدّد الف ثانی نے اس کے متعلق کہ رات کو سُبْحَانَ اللّٰہِ.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ.اَللّٰہُ اَکْبَرُ پڑھ کر کر سوئے.ایک نکتہ لکھا ہے.وہ یہ کہ جیسا کہ کسی کو تحفہ و ہدیہ دیں.ویسا ہی انعام ملتا ہے.جنابِ الہٰی میں جو تسبیح و تحمید کا ہدیہ پیش کرے گا.خدا تعالیٰ اس کے بدلے میں اس شخص کو جس نے ہدیہ پیش کیا گناہوں سے پاک کردیگا اور پسندیدہ افعال سے محمود بنائے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۰۰. : یقین سے مراد موت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
سُوْرَۃُ النَّحْلِ مَکِّیَّۃُ ۲. چند سورتیںالٓرٰ.الٓمّٓرٰ سے شروع ہوتی ہیں.یہ لفظ بہت خطرناک ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.جو کچھ تم لوگوں نے ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم سے کیا.وہ مَیں خوب دیکھ رہا ہوں اب اس سورۃ میں اسکے نتیجہ کا ذکر کرتا ہے.اﷲ کا امر آ گیا.اب جلدی تو نہ کرو.وہ بلند و برتر اس سے ہے کہ شرک کرتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۳) : امر کے معنے خاص حکم کے ہیں.لَا سے ظاہر ہے کہ یہاں وعید کا مذکور ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) : عذاب الہٰیہ.یہ الٓرٰ کا نتیجہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) ۳. : شِرک کے د فعیہ کیلئے اس نے فرشتوں کو اپنا کلام دے کر نازل کیا.: مراد ہے ہمارے نبی کریم حضرت محمّد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۴. : اَزل میں مقدّر تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم مبعوث ہوں گے.اور لوگ ان کے مقابل میں شرارتیں کریں گے جو سزا پائیں گے.چنانچہ اس کے مطابق انتظام ہو رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶،۷. : کے معنی گرمی حاصل کرنا جو جانوروں کی پوستینوں سے حاصل ہوتی ہے اور کے معنے نسل کے بھی ہیں.: عزّت کا نشان.: واپس لاتے ہو.واپس لانے کا ذکر پہلے اس لئے فرمایا کہ اس وقت جانور موٹا تازہ ہو کر واپس آتا ہے اور اس میں زیادہ تر اظہار شوکت کا ہوتا ہے.یہ انعام اس لئے ذکر فرمائے کہ دیکھیں ان نعمتوں کا تم کُفر کر رہے ہو.جس کا نتیجہ بَد اُٹھاؤ گے.یا فکر کرتے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۹. وہ نئی سواریاں جو تمہارے علم میں نہیں پیدا کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری ۱۹۱۰ء) ۱۰. قَصْدُ کے معنے بیان کرنا.کیا معنے؟ وہ جو صراطِ مستقیم ہے.اس کا بیان کرنا خدا کے ذمّے ہے دوسرے معنے یہ کہ میانہ راہ.دونوں معنے صحابہ و تابعین سے ثابت ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۱۱. : جس طرح ظاہری بارشیں ہوتی ہیں.اسی طرح روحانی بارشیں ہوتی ہیں.چنانچہ ایسی بارش میں ایک اعلیٰ درجہ کا وقت آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا تھا جس کے ساتھ ہر قسم کے درخت نکلے.کچھ مثل ابوبکرؓ و عمرؓ و علیؓ اعلیٰ درجے کے.کچھ ان سے کم درجہ کے.کچھ مخالف قسم کے درخت بھی پھُوٹ نکلے جیسے ابوجہل.عُتبہ.شیبہ و ربیعہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۴. : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ خراب قسم کا بیج کسی اچھے سے پیوند کرتے ہیں.اسی طرح تعلیماتِ الہٰی سے لوگوں کے حالات بدل جاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۵. : سمندر کا بعض پانی بہت تلخ ہوتا ہے.مگر اس کی مچھلی خوش ذائقہ ہوتی ہے.اسی طرح خدا کی مخلوقات ہیں جو شریر ہیں.انہی میں سے ایک مبعوث ہو جاتا ہے.: بوجھل.ہواؤں کو چیزنے والی.بڑی آواز سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۱۶. : مَیْدٌ.چکر کھانا.دورانِ سَر کو بھی کہتے ہیں. کے معنے ہوئے.وہ بھی تمہارے ساتھ ہی چکّر کھاتے ہیں.دوسرے مَیْد کے وہ معنے ہوئے جس سے میدہ کا لفظ نکلا ہے.جس کو کھاتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) : لُغت عرب میںمَادَنِیْ یَمِیْدُنِیْ اَطْعَمَنِیْ (مفردات القرآن الراغب)اور مَیدْ کے معنی ہیں ہلنا.دیکھو.مَادَیَمِیْدُ مَیْداً وَمَیْدَانًا تَحَرَّکَ (ماموس اللغۃ)مَادَھُمْ اَصَابَھُمْ دُوَارٌ (قاموس)والمائدۃ :الدَّائِرَۃُ مِنَ الْاَرْضِ (قاموس)ان معنوں کے لحاظ سے جومَادَنِیْ یَمِیْدُنِیْ کے کئے گئے ہیں.اس آیت کے یہ معنے ہوئے کہ رکھے زمین میں یہ پہاڑ کہ کھانا دیں تمہیں.اور یہ ظاہر بات ہے کہ پہاڑوں کو اﷲ تعالیٰ نے بنایا ہے.کہ ان میں برفیں پگھلیں.چشمے جاری ہوں.ندیاں نکلیں.پھر ان کے سیل پر اس سطح سے جس میں ریگ ہوتی ہے.پانی مصفٰی ہو کر کنووں میں آتا ہے.پھر اس سے کھیت سر سبز ہوتے ہیں.یہی ایک سلسلہ علاوہ رحمت کے سلسلے کے ہی جو بارانِ رحمتِ الہٰیہ سے ہے.جس کا ذکر اس کلمہ طیبّہ میں ہے (بقرۃ:۲۳)اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوئے کہ ہم نے زمین پر پہاڑ رکھے کہ چکر کھاتے ہیں ساتھ تمہارے.یہ الہٰی طاقت کا ذکر ہے کہ اس نے اتنے بڑے مستحکم مضبوط پہاڑوں کو بھی زمین کے ساتھ چکر دے رکھا ہے اور نظامِ ارضی میں کوئی خلل نہیں آتا.اب کوئی انصاف کرے کہ کن معانی پر اعتراض کی جگہ ہے… ایک نہایت سچّی فلسفی ہے اور اس سخّی فلسفی پر جدیدہ علوم اور حال کے مشاہدات گواہی دیتے ہیں اور انہی مشاہدات سے بھی ہم گزشتہ دیرینہ حوادثات کا علم حاصل کر سکتے ہیں.طبقات الارض کی تحقیقات اور مشاہدات سے
اچھی طرح ثابت ہو سکتا ہے کہ اس زمین کا ثبات و قرار اضطرابات اور زلازل سے خالق السموات و الارض نے تکوینِ جبال اور خلقِ کوہسار سے ہی فرمایا ہے.اور زمین کے تپِ لرزہ کو اس علیم و قدیر نے تکوینِ جبال سے تسکین دی ہے چنانچہ علمِ طبقات الارص میں تسلیم کر لیا گیا ہے.کہ یہ زمین ابتداء میں آتشیں گیس تھی.جس کی بالائی سطح پر دھواں اور دخان تھا اور اس امر کی تصدیق قرآن کریم سے بھی ہوتی ہے.جہاں فرمایا ہے.( حٰمٰ السجدہ: ۱۲)پھر وہ آتشین مادہ اوپر سے بتدریج سرد ہو کر ایک سیال چیز بن گیا.جس کی طرف قرآن شریف ان لفظوں میں ارشاد فرماتا ہے.وَ کَانَ عَرْشُہٗ (ہود:۸)پھر وہ مادہ زیادہ سرد ہو کر اوپر سے سخت اور منجمد ہوتا گیا.اب بھی جس قدر اس کے عمق کو غور سے دیکھتے جاویں اس کا بالائی حصّہ سرد اور نیچے کا حصّہ گرم ہے.کوئلوں اور کانوں کے کھودنے والوں نے اپنی مختلف تحقیقات سے یہ نتیجہ نکالا ہے.گو اس نتیجہ میں فلاسفروں کو اختلاف ہے کہ چھتّیس مائل۱؎ عمق سے اب تک ایک ایسا زوبانی اور ناری مادہ موجود ہے.جس کی گرمی تصوّر سے بالا ہے ( اسلام نے بھی دوزخ کو نیچے بتلایا ہے.) جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی نہ تھی.اس وقت زمین کے اس آتشیں سمندر کی موجوں کا کوئی مانع نہ تھا اور اس لئے کہ اس وقت حرارت زیادہ قوی تھی اور حرارت حرکت کا موجب ہوا کرتی ہے.زمین کی اندرونی موجوں سے بڑے بڑے مواد نکلے.جن سے پہاڑوں کے سلسلے پیدا ہو گئے.آخر جب زمین کی اندونی موجوں سے بڑے بڑے مواد نکلے.جن سے پہاڑوں کے سلسلے پیدا ہو گئے.آخر جب زمین کی بالائی سطح زیادہ موٹی ہو گئی اور اس کے ثبات و ثقل نے اس آتشی سمندر کی موجوں کو دبا لیا.تب وہ زمین حیوانات کی بودوباش کے قابل ہو گئی.اسی واسطے قرآن کریم نے فرمایا ہے اَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَبِکُمْ اوراس کے بعد فرمایاوَ بَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ (البقرۃ:۱۶۵)اَلْقٰی کا لفظ جو آیت اَلْقَی فِی الْاَرْض میں آیا ہے.اس کے معنی ہیں.بنایا.کیونکہ قرآن مجید کی دوسری آیت میں بجائے اَلْقٰی کے جَعَلَ کالفظ آیا ہے.جس کے صاف معنی ہیں.بنایا.اور ان امور کی کیفیت آیہ ذیل سے بخوبی ظاہر ہوتی ہے.۱؎ مِیل (MILE).مرتّب وَ جَعَلَ فِیْھَا رَوَاسِیَ مِنْ فَوْقِھَا وَ بَارَکَ فِیْھَا وَ قَدَّرَ فِیْھَآ اَقْوَاتَھَا
ر زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں برکت رکھی اور اس پر ہر قسم کی کھانے کی چیزیں پیدا کیں.ایک عجیب نکتہ آپ کو سناتے ہیں.آپ سے میری مراد سعادتمند ہیں.جو اس نکتہ سے فائدہ اٹھاویں قرآن کریم میں ایک آیت ہے.اس کا مطلب ایسا لطیف ہے کہ جس سے یہ تمہارا سوال بھی حل ہو جاوے اور قرآن کی عظمت بھی ظاہر ہو.غور کرو اس آیت میں. (النمل:۸۹)اور تُو پہاڑوں کو دیکھ کر گمان کرتا ہے کہ وہ مضبوط جمے ہوئے اور وہ بادل کی طرح اُڑ رہے ہیں.یہ اﷲ کی کاریگری قابلِ دید ہے.جس نے ہر شے کو خوب مضبوط بنایا ہے.غور کرو یہاں ارشاد فرمایا ہے کہ پہاڑ تمہارے گمان میں ایک جمی ہوئی چیز نظر آتے ہیں اور وہ بادلوں کی طرح چلے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے ساتھ حرکت کرتے ہیں اور یہ کیسا عجیب نکتہ ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۰۴ تا صفحہ۲۰۶) ۱۷. : قطب.اسی طرح اَﷲ کے بندے روحانی منازل کے طے کرنے میں قطب کا کام دیتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) اور النّجم سے وہ راہ پاتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۹۱) ۲۱،۲۲.
قرآن نے قاعدہ بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ کے سوا اور کوئی خالق نہیں چنانچہ فرمایا.وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ.اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍاﷲ کے سوا جو لوگ معبود بنائے گئے ہیں.ان کے معبود نہ ہو سکنے کا نشان یہ ہے کہ وہ کسی شئے کے خالق نہیں بلکہ وہ خود مخلوق ہیں تو خدا کی صفات کے بارے میں قولِ فیصل ہے کہ حقیقی خالق وہی ہے اب لفظ خلق جو وسیع معنی رکھتا ہے.اگر مخلوق کا فعل اسے کہا جائے گا تو ضرور ہے کہ مخلوق ضعیف کی شان اور حیثیت کے لائق ہو گا.اس سے سمجھ لو کہ ایک ناتواں انسان مسیح کی گھڑت اور خلق کیسی ہو گی وہ مٹّی ہی رہتی تھی.زندہ حیوان نہ تھی.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۷۶) ۲۳. جب انسان مطالعہ کرتا ہے.نعمتیں دی ہوئی کس کی؟ اور کس کے ذریعے سے ہم متمتّع ہو سکتے ہیں؟ اور ان نعمتوں کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور ان نعمتوں کے کفران پر سزا دینے والا کون ہے؟ اَتٰی اَمْرُ اﷲِ کہنے والا کون ہے؟ تو اﷲ تعالیٰ کی ہستی پر ایمان بڑھتا ہے.: اعلیٰ درجہ کی محبّت.اعلیٰ درجہ کی اطاعت.اعلیٰ درجہ کا تذلّل.ان باتوں کی مستحق ایک ہی ذات ہے.تعجب ہے کہ لوگوں نے انسانوں میں سے ہی معبود بنا لئے.مگر ایسے معبود بڑی بڑی سخت مصائب میں گرفتار ہوئے.تاکہ ان کی بشریت واضح ہو جاوے.امام حسین رضی اﷲ عنہ مسیح ابنِ مریم علیہ السلام.رام چندرجی.مگر سب پر سخت مصبتیں پڑیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء)
۲۷. : آریوں کو مکر کے متعلق بہت سے جواب دیئے گئے ہیں.مگر وہ اپنے سوال کو پیش کئے ہی جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ بعض الفاظ ملکی حالات کے لحاظ سے خاص معنوں میں لئے جاتے ہیں.عربی زبان میں مَکْرٌ تدبیرکو کہتے ہیں.جو دو قسم کی ہیں.ایکؔ بُری.دومؔ اچھی.: یعنی استیصال فرما دیا.تعلیم اور ذہن نشین کرنے کیلئے اطناب فرمایا.: ضروری ہے کہ انبیاء علیھم السلام نے جن باتوں سے منع کیا ان سے ابتدائی مرحلہ ہی میں رُک جاویں.ورنہ عذاب ایسے طور سے آئے گا کہ پتہ بھی نہ لگے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۳۲. : اس میں بشارت ہے.پس وہ انعام جو صحابہؓ کی جماعت پر ہوئے.اب بھی ہو سکتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۳۵. : کہتے ہیں.کسی چیز کو ہلکا جاننا.حقیر ماننا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) یعنی جو کچھ تم کو مصیبت پہنچتی ہے.سب تمہارے کسب اور اعمال کا نتیجہ ہوتا ہے.اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ کل مقدمات دورہ سپرد نہیں.اور اگر بعض لوگوں کے معاملات سیشن سپرد ہیں تو بھی کوئی حرج نہیں.ضمانت کی ضرورت ان ناقص حکام کو ہوتی ہے جن کو در ہوتا ہے کہ ان کا مجرم ان حکام کے تصرّف سے کہیں بھاگ جاوے گا.باری تعالیٰ کے ملک سے بھاگ کر جانے کی کوئی جگہ نہیں مجرموں میں سے بعض اسی وقت سزا یاب ہو جاتے ہیں اور بعض جوڈیشنل حوالات میں رہتے ہیں یا ان پر عفو ہو جاتا ہے.ضمانت کی حاجت نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۷۹-۱۸۰) ۳۶.
: اچھی بات کوبھی بُرا ادمی گندے معنوں میں لے لتیا ہے.سیدھی بات تو یہ تھی کہ جیسی خدا کی مشیّت مجبور کر کے مُسلمان نہیں بناتی.اسی طرح وہ مشیّت مجبور کر کے مُشرک بھی نہیں بناتی.مگر وہ ایک شِق کو لیتے ہیں جس سے خدا پر الزام آئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۳۸. : ایسے انسان جن کے بدعملوں کا نتیجہ ہی یہی ہے کہ خدا کی طرف سے اضلال ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۱. کے معنے ہو جا.کے معنے ہو جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کسی چیز کے وجُود کو چاہتا ہے.اسی طرح وہ چیز ظہور میں آ جاتی ہے… کا تعلّق بعد الموت ہوا کرتا ہے.تمام قرآن کریم میں مرنے کے بعد جی اٹھنے پر فرمایا ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم ۹۲) ۴۲. مکّہ میں مسلمانوں کی حالت ناگفتہ بہ تھی.صرف مالوںکا ہی فکر نہ تھا بلکہ جانوں کا بھی.ایسے وقت میں حضرت حق سبحانہ، وحی فرماتے ہیں کہ لوگ مہاجر ہوں گے.اور پھر مظفر و منصور ہوں گے.شیعہ قوم بھی غور کرے جو مہاجرین کی معائب شماری اپنا فرض سمجھتی ہے.یاد رکھو جو کچھ اﷲ کیلئے چھوڑتا ہے وہ دنیا میں بھی اس کا بدلہ پاتا ہے.
: دنیا کے سُکھ سے اجرِ آخرت پر دلیل قائم کی.جب ایک بات حاصل ہو گئی تو بدلیل اربعہ متناسبہ دوسری ضرور حاصل ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۳. : نیکیوں پر قائم رہنا اور بدیوں سے رُکنا.صبر ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۴. : بمعنی غیر ہے.: قرآن شریف میں دوسرے مقام پر ہے.(حجر:۱۰) اور فرمایا (رحٰمٰ سجدہ:۴۲) جس سے معلوم ہوا ذکر سے مراد قرآن مجید ہے.اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ (النعل:۴۵)میں بھی اس کی تشریح فرمائی.اہل الذکر سے اہلِ اسلام مراد ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۶. : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو قید کر دیں.قتل کر دیں یا جلاوطن کر دیں کفّار مشرکین یہ تدبیریں کر رہے تھے.: اس ملک میں ہم تمہیں ذلیل کر دیں.ایک شعر یاد آ گیا حماسہ میں ابوثمامہ کا شعر ہے ؎ وَ اِنْ اَبَیْتُمْ فَانَّا مَعْشَرٌ اُنُفٌ لَا نَطْعَمُ الْخَسْفَ اِنَّ السَّمَّ مَشْرُوْب
عَلٰی تخوّف : تَخوّف کے معنے عربی زبان میں گھٹنے کے ہیں.یعنی ہم تمہیں ایسے گرفتار کریں کہ تم گھٹتے جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) : ذلیل کر دے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) ۵۰. سجدہ کا لفظ عرب کی لُغت میں انقیاد اور فرماں برداری کے معنے دیتا ہے.زید الخیل عرب کا جو ایک مشہور شاعر ایک قوم کی بہادری کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے اس بہادر قوم کے سامنے ٹیلے اور پہاڑ سب سجدہ کرتے ہیں یعنی فرماں بردار ہیں.ان میں کوئی چیز بھی اس قوم کو روک نہیں سکتی.بِجَمْعٍ تَضِلُّ الْبَلْقُ فِی حُجُرٰتِہٖ تَرَی الُاکْمَ فِیْھَا سُجَّدً الِلْحَوَافِرٖ وَالسُّجُوْدُ التَّذَلُّلُ وَالْاِنْقِیَادُ بِالسَّعِیْ فِیْ تَحْصِیْلِ مَایَنُوْطُ بِہٖ مَعَاشَھُمْ.فتح تفسیر مدارک میں ہے.وَ اذِْ قُلْنَا لِلْمَلٰئِکَۃِ اسْچُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْا.اَیْ اَخْضَعُوْا لَہٗ وَاَقَرُّوْا بِالْفَضْلِ لَہٗ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۹.۱۳۰) سجدہ کے معنی تو فرماں برداری کے ہیں.خود قرآن میں ہے.وَلِلّٰہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضرِ … اور اﷲ کی فرماں برداری کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.اور زید الخیل کے قصیدہ میں ہے.بِجَمْعٍ تَصِّ الْبَلْقُ فِی حُجُرٰتِہٖ تَرَی الْاَکْمَ فِیْھَا تَسْجُدُلِلْحَوَافِرٖ پھر کیا اچھے لوگوں کی خصوصًا ان لوگوں کی فرماں برداری جو اﷲ کی طرف سے خلیفہ، بادشاہ، حکّام رسول ہو کر آتے ہیں شرک ہو سکتی ہے؟ ہرگز نہیں.
الہٰی خلفاء کی اطاعت و انقیاد و فرماں برداری.سیاست و تمدّن کا اعلیٰ اور ضروری مسئلہ ہے بلکہ ان کی فرماں برداری.خود الہٰی فرماں برداری ہے.قرآن میں ہے.(نساء:۸۱)اور فرمایاکہ(نساء:۶۰)کیا تم نے سنا یا ستیارتھ پرکاش میں نہیں پڑھا جہاں لکھا ہے.کہ عورتوں کی ہمیشہ پُوجا کرنی چاہیئے.اگر کوئی معنی پوجا کے کئے جا سکتے ہیں تو سجدہ کے کیوں نہیں کئے جاتے.آج ایسا اعتراض کرنا اور ایسے شخص کے مُنہ سے ایسا اعتراض نکلنا جو انگریزی پڑھا ہے کس قدر شرم کی بات ہے.انگریزی زبان میں وَرْشِپْ ۱؎ کا لفظ کس قدر وسیع اور روزمرّہ کی بول چال میں آتا ہے.حتٰی کہ ججّوں کو ہزْورشِپ۲؎ کہا جاتا ہے.اس کے معنے سوائے اس کے اور کیا ہیں؟ کہ وُوہ قابلِ اطاعت شخص ہیں.قرآن میں آیا ہے.کہ درخت اور چارپائے اور آسمان کی ساری چیزیں خدا کو سجدہ کرتی ہیں.اور امراء القیس کے شعر میں ہے کہ تمام جنگل ان گھوڑوں کے سُموں کو سجدہ کرتے تھے اب صاف ظاہر ہے کہ وہ سجدہ عرض نہیں جو زمین پر گرِ کر پیشانی کو زمین سے ٹکرا (کر) کرتے ہیں.:اﷲ کی فرماں برداری کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہے. (الحج:۱۹)اور اﷲ کی فرماں برداری کرتا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے.تو کیا آسمان پر آسمان کی چیزیں اور زمین کی زمین پر گر تی ہیں؟ (نورالدّین طبع سوم صفحہ ۹۹.۱۰۰) ۵۲. : اور فرما دیا اﷲ نے.: دو معبود بھی نہ بناؤ چہ جائیکہ دو سے زیادہ.
۶۲. : کس قدر بدکاریاں ہوتی ہیں.کس قدر بدمعاملگیاں ہوتی ہیں.کس قدر شرک ہوتا ہے.اگر ان سب کی سزا میں اﷲ پکڑے تو سب ہی ہلاک ہو جاویں.جب آدمی ہلاک ہو گئے تو حیوان وغیرہ خود بخود ہی ہلاک ہو گئے.کیونکہ یہ تو انسان کی خاطر سے ہیں.: آئے ہوئے وقت کو پیچھے نہیں کر سکتے.ایک بزرگ کی بات سناتا ہوں.ان سے کسی نے کہا.مَیں نے دودھ میں پانی ملا کر بیچا ہے.مجھے تو بڑا ہی نفع ہوا ہے.کوئی نقصان نہیں پہنچا.اس بزرگ نے کہا کہ جتنا پانی تم اب تک مِلا چکے ہو.اتنا ایک گڑھا کھود کر اس میں پانی ڈالو اور اس میں اُترو.چنانچہ اس نے ایسا کیا تو اس کے گلے تک آیا.بزرگ نے فرمایا.دیکھو ابھی تمہارے ڈوبنے کا وقت نہیں آیا.غرض بدکار کی بدکاری کی سزا کے لئے بھی ایک وقت ہوتا ہے.: اور نہ پہلے کر سکتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۳. : لابُدَّ.ضرور.چَرَمَ کے معندے کَسَبَ کے بھی کئے ہیں.پس لاؔ حرف تاکید ہو گا.مُفْرَطُوْنَ : ظاہر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افراط سے ہے.عربی زبان میں فرط اسے کہتے ہیں جو نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا ہے.اَنَافَرَطُکُمْ عَلَی الْحَوْضِ.بچْہ فوت ہوتا ہے اس کیلئے دُعا ہوتی ہے.اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ لَنَا فَرَطاً.ایک فَارِط ہوتا ہے جو آپ جاتا ہے.اور جو آگے بھیجا جاتا ہے اسے فرط کہتے ہیں.وَ اسْتَعْجَلُوْنَا وَکَانُوْا مِنْ صَحَا بَتِنَا کَمَا نَعْجَل، مُفْرَطُوْنَ کے معنے ہوئے.آگے بھیجے گئے.
اﷲ نے انسان میں دونوں قسم کی طاقتیں دی ہوئی ہیں.اگر غضب ہے تو ساتھ رحم بھی ہے اگر عفّت ہے تو شہوت بھی.انسان کو اﷲ نے حکومت بخشی ہے کہ وہ غضب و رحم میں.عفّت و شہوت حرص و قناعت میں عدل قائم رکھ سکے.ہر ایک کو اپنی حد سے نہ بڑھنے دے.لیکن کسی کی تحریک سے متائثر ہو کر وہ غلطی کر بیٹھتا ہے.جب ایسی باتیں کثرت سے بڑھ جاتی ہیں تو ان سے روکنے کے لئے اﷲ تعالیٰ اپنی جناب سے کسی شخص کو خلعتِ نبوّت سے سر فراز فرماتا ہے.پھر اس کے بعد خلفاء ہوتے ہیں.ان کے نوّاب ہوتے ہیں (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۴. وَلِیُّھُمْ: ایمانداروں کا تو اﷲ ولی ہے چنانچہ فرمایا ہے.اﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ یُخْرِجُھُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلٰی النُّوْر(البقرۃ:۲۵۸) مگر جو کفر کرتے ہیں.انکا ولی شیطان ہوتا ہے.۶۵. : قرآن اسی لئے اتارا ہے کہ لوگوں کی تمام اختلافی باتوں کا حَکَم بن کر فیصلہ کرے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ۱۰۳) ۶۶. : زمین میں بہت سے بیج ہوتے ہیں.جن میں تفریق نہیں ہو سکتی مگر بارش جب برستی ہے تو ہر ایک بیج پھوٹ کر نکل آتا ہے.پھر ظاہر ہو جاتا ہے کہ یہ گلاب ہے اور یہ ستیاناسی.اس طرح وحی الہٰی آ کر حق کو باطل سے ممتاز کر دیتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍فروری۱۹۱۰ء) : زمین کے اندر ہزاروں قسم کے بیج ہوتے ہیں.بارش سے سب پھُوٹ آتے ہیں.اسی طرح قرآن مجید سے ہر ایک فطرت اپنی استعداد کے مطابق اپنا ظہور کرتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۲)
۶۷. اس رکوع میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ نبی کیوں آتے ہیں.کتابیں کیوں لاتے ہیں.وہ راستبازیاں جو یہ پیش کرتے ہیں قوموں میں پہلے سے کچھ نہ کچھ موجود ہوتی ہیں.پھر یہ کیوں آتے ہیں.چنانچہ دیکھو ہر قوم میں کچھ نہ کچھ خدا کی عبادت کا ذکر بھی ہے.جھوٹ.بدمعاملگی.چوری زنا.منع ہے.بُرا ہے.اور ان کے بالمقابل راست بازی.خوش معاملگی.امانت.عفّت عمدہ ہے.اﷲ تعالیٰ نے ان آیات میں نبوت کی وجہ بتائی ہے.چنانچہ پہلے تو فرمایا کہ کتاب رفع اختلافات کیلئے نازل ہوئی.پھر یہ ظاہر کیا کہ حق کو باطل سے امتیاز دینے کیلئے جیسے بارش کے بعد بیج پھُوٹ نکلتے ہیں اور پھر وہ اپنا اپنا اثر ظاہر کرتے ہیں.:جسمانیات سے روحانیات کی طرف عبور کرو.اور دیکھو کہ گوبر و لہو میں سے ہی دودھ ہے مگر وہ خدا کی بنائی ہوئی کَلْ کے سوا نکالنا دشوار ہے.اسی طرح راست بازی دنیا میں موجود ہے مگر باطل سے الگ کر کے دکھانا خدا کا کام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۶۸. : جس طرح عقل سے انسان اپنے تئیں بعض نامناسب باتوں سے روک لیتا ہے.اسی طرح وحیٔ ربّانی سے ہر قسم کی بدیوں اور نامناسب امور سے اپنے تئیں روکنے والا روک سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء)
۶۹. : پانج قسم کی وحی ہے.زمین کو بھی وحی ہوتی ہے..بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا (زلزال:۶) اس کے مقابل وَ اَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا (حٰمٰ السجدہ:۱۳)پھر مکھی کو بھی وحی ہوئی.عورتوں کو بھی وحی ہوتی ہے.اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِْ مُوْسٰٓی (قصص:۸)پھر عام سعادتمندوں کو بھی ہوتی ہے.اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَّارِیّٖنَ (المائدۃ:۱۱۲)یہ پانچ و حیاں ادنٰی سے ادنٰی وحی کے متعلق ایسے عجیب عجیب کام ہیں تو پھر انبیاء کی وحی کے ماتحت کیا کیا کام ہو سکتے ہیں.وہ انکے کارناموں سے ظاہر ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) :جب ایک مکّھی کی وحی سے شہدایسیشِفَائٌ لِلنَّاسِ شَئے بنتی ہے تو محمدؐ رسول اﷲ کی وحی سے کیا کچھ نہ بنے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۲) وحی کی بہت سی اقسام ہیں.۱.زمین کو بھی وحی ہوتی ہے.اﷲ تعالیٰ نے سورۃ الزلزال میں فرمایا ہیبِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَابہ سبب اس کے کہ تیرے پروردگار نے اُسے (زمین کو) وحی کی.۲.آسمان کی وحی ہوتی ہے.اﷲ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے وَ اَوْحٰی فِیْ کُلِّ سَمَآئٍ اَمْرَھَا اور ہر آسمان کا کام اس میں وحی کیا گیا.۳.حیوانات کو وحی ہوتی ہے.قرآن شریف میں آیا ہے ۴.عورتوں کو وحی ہوتی ہے.قرآن شریف میں ہے اَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِْ مُوْسٰٓی موسٰیؑ کی ماں کو وحی کی.
۵.عام مومنوں کو بھی وحی ہوتی ہے.جیسا کہ فرمایا اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَّارِیّٖنَ اور جبکہ ہم نے حضرت عیٰسیؑ کے مخلصوں کو وحی کی.یہ سب وحیاں ہیں مگر حضرت رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو وحی ہوئی وہ بہت اعلیٰ شان رکھتی ہے.اس سے مراد یہ وحیاں نہیں ہیں بلکہ اس کی شان بہت بلند ہے.(بدر ۳؍ جولائی ۱۹۱۳) ۷۰. : عربوں نے چار سو قسم شہد کی معلوم کی ہے.کیونکہ اس کے لئے زبان عربی میں چار سو مختلف نام ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۷۲. اس رکوع میں دو عجیب باتیں ہیں.۱.ہمیں کیسا ہونا چاہیئے اور ہمیں کیا کرنا چاہیئے.دوسری بات یہ بتائی کہ یہ مُشرک ادنیٰ عقل سے بھی کام نہیں لیتے.: اس میں سمجھایا کہ جیسے تم اپنے غلاموں کو تمام رزق نہیں بخش دیتے اسی طرح گو خدا کے حضور انبیاء بھی ہیں.ملائک بھی ہیں.مگر خدا تعالیٰ اپنی خدائی کسی کے سپرد نہیں کرتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء)
۷۶،۷۷. : ان مثالوں میں مشرکینِ عرَب کو سمجھایا ہے کہ تم بھی ہو.اور ایک طرف حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم اور انکی جماعت ہے.ان میں خدا تعالیٰ کی تعظیم کا کام کون کر رہا ہے اور مخلوق کی بہتری کی فکر کس کو ہے.صاف ظاہر ہے کہ جناب رسالتِ آب.خدا نے زبان اور استطاعت دونوں فریق کو دی.مگر ایک گروہ ہے کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے.اور دوسرا ہے جو مال و جان نثار کر رہا ہے.خدا کے حضور وہی عزّت پائے گا جو کام کرنے والا ہے.خدا تعالیٰ نے اس میں حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے انتخاب کی وجہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے مولیٰ کا کارکن.جاں نثار.آمر بالعدل.صالح العمل بندہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) اس آیت کی ابتداء میں حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنی ہستی.اپنی توحید.اپنے اسماء.اپنے محامد اور لا انتہاء عجائباتِ قدرت کا اظہار فرمایا ہے اور بعد اس بیان کے جو درحقیقتلَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲَ کے معنوں کا بیان ہے.اسکے دوسرے جُزو مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اﷲ پر بحث کی ہے.اور بیان کیا ہے کہ کیوں خدا کی طرف سے کوئی مامور ہو کر آتا ہے اور اس کا کیا کام ہوتا ہے.پھر اس آیت میں بتایا ہے کہ جو شخص مامور من اﷲ اور حجۃ اﷲ ہو کر آتے ہیں وہ بلحاظ زمانہ.بلحاظ مکان.عین ضرورت کے وقت آتے ہیں.اور انکی شناخت کیلئے وہی نشانات ہیں جو اس آیت میں بیان کئے جاتے ہیں.وہ کیا کام کرتے ہیں.ان پر کیا اعتراض ہوتے ہیں.دوسروں کی نسبت اس میں کیا خصوصیت ہوتی ہے.ان دو آیتوں میں انہی باتوں کا تذکرہ ہے.ان میں سے پہلی آیتِ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے مگر ترجمہ سے پیشتر یہ یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ممتاز بنایا ہے اور پھر انسانوں میں سے کچھ لائق اور بعض نالائق ہوتے ہیں.اور اس طرح پر ان میں ایک امتیاز قائم کرتا ہے غرض نبوّت کی ضرورت اور اس کے اصول کے سمجھنے کیلئے اﷲ تعالیٰ اسی آیت میں ایک نہایت ہی عجیب بات سناتا ہے.
اس آیت کی ابتداء میں حضرت حق سبحانہٗ تعالیٰ نے اپنی ہستی.اپنی توحید.اپنے اسماء.اپنے محامد اور لا انتہاء عجائباتِ قدرت کا اظہار فرمایا ہے اور بعد اس بیان کے جو درحقیقتلَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲَ کے معنوں کا بیان ہے.اسکے دوسرے جُزو مُحَمَّدٌ رَّسُوْل اﷲ پر بحث کی ہے.اور بیان کیا ہے کہ کیوں خدا کی طرف سے کوئی مامور ہو کر آتا ہے اور اس کا کیا کام ہوتا ہے.پھر اس آیت میں بتایا ہے کہ جو شخص مامور من اﷲ اور حجۃ اﷲ ہو کر آتے ہیں وہ بلحاظ زمانہ.بلحاظ مکان.عین ضرورت کے وقت آتے ہیں.اور انکی شناخت کیلئے وہی نشانات ہیں جو اس آیت میں بیان کئے جاتے ہیں.وہ کیا کام کرتے ہیں.ان پر کیا اعتراض ہوتے ہیں.دوسروں کی نسبت اس میں کیا خصوصیت ہوتی ہے.ان دو آیتوں میں انہی باتوں کا تذکرہ ہے.ان میں سے پہلی آیتِ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے مگر ترجمہ سے پیشتر یہ یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ممتاز بنایا ہے اور پھر انسانوں میں سے کچھ لائق اور بعض نالائق ہوتے ہیں.اور اس طرح پر ان میں ایک امتیاز قائم کرتا ہے غرض نبوّت کی ضرورت اور اس کے اصول کے سمجھنے کیلئے اﷲ تعالیٰ اسی آیت میں ایک نہایت ہی عجیب بات سناتا ہے.مَثَل اعلیٰدرجہ کی عجیب بات کو کہتے ہیں.غرض اﷲ تعالیٰ ایک عجیب بات اور نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی بات سناتا ہے.کوئی کسی کا غلام ہے.وہ عبد جو کسی کا مملوک ہے.اس کا مالک اس کیلئے بہت سے کام رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ اسکا غلام وہ کام کرے مگر غلام کی حالت یہ ہے کہلَا یَقْدِرُ.جس کام کو کہا جاتا ہے وہ مضائقہ کرتا ہے اور اپنے قول و فعل.حرکات و سکنات سے بتاتا ہے کہ آقا! یہ تو نہیں ہو سکتا وہ زبان سے کہے یا اعمال سے دکھادے.اس کا مطلب یہی ہے کہ میں اس کام کے کرنے کے قابل نہیں اب ایک اور غلام ہے جو کام اس کے سپرد کیا جاوے.جس خدمت پر اسے مامور کیا جاوے پوری تندہی اور خوش اسلوبی سے اس کو سر انجام دیتا ہے.جب اسکو کوئی مال دیا جاوے.تو وہ اس کو کیا کرتا ہے؟ اس مال کو لیتا ہے.جہاں آقا کا منشاء ہو کہ مخفی طور پر دیا جاوے وہاں مخفی طور پر دیتا ہے اور جہاں مالک کی مرضی ہو کہ ظاہر طور سے دیا
جاوے.وہاں کھلے طور پر دیتا ہے.غرض وہ مالک کی مرضي اور منشاء کا خوب علم رکھتا ہے اور اس کے ہی مطابق عملدر آمد کرتا ہے.اور مخفی در مخفی اور ظاہر در ظاہر موقعوں پر ہی جہاں مالک کی مصلحت ہوتی ہے.اس مال کو خرچ کرتا ہے.اب تم اپنی فطرتوں سے پوچھور کہ یہ دو غلام ہیں.جن میں سے ایک تو ایسا ہے کہ کسی کام کے کرنے کے بھی قابل اور لائق نہیں.اور دوسرا ہے کہ اپنے مالک کی مرضی اور مصلحت کا پورا علم رکھتا ہے.اور صرف علم ہی نہیں.اس پر عمل بھی کرتا.اور سرًّا اور جہرًا دونوں قسم کے اخراجات کر سکتا ہے.اب یہ کسی صاف بات ہے.اپنی ہی فطرت سے پوچھ لو.ھَلْ یَسْتَوٗنَ ؟کیا دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.ہر ایک دانشمند کو اعتراف کرنا پڑے گا.کیونکہ وہ فطرتِ انسانی اعتقادات.اخلاق سب کو جانتا ہے.اس لئے اﷲ تعالیٰ اپنے کامل علم اور فطرت کی صحیح اور کامل واقفیت کی بناء پر فتوٰی دیتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ :اﷲ تعالیٰ کی حمد دنیا میں قائم ہو گی کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہی غلام لائق اور ممتازہو سکتا ہے جو ہر قسم کے اخراجات کو بر محل کرنے اور اپنے آقا کے منشاء و مصلحت کو جانتا ہے اور یہی نہیں بلکہ عملی طاقت بھی اعلیٰ درجہ کی رکھتا ہے.جب یہ بات ہے تو عرب و عجم کی تاریخ پر نظر کرو.انہیں دنیا کی تاریخ کے ورق اُلٹ ڈالو.اور دیکھو کہ جس زمانہ میں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دنیا پر جلوہ گری کی.کیا اس سے بہتر کوئی اور وجود اس قابل تھا کہ وہ دنیا کا معلّم ہو کر آتا ؟ ہرگز نہیں.لوگوں کو سچّید علوم ملتے ہیں.اور بابرکت اساتذہ کا اثر بھی ہوتا ہے لیکن یہ بات کہ حق سبحانہٗ تعالیٰ سے سچّا تعلّق پیدا ہو اور اسکے مقرّب ہونے کیلئے اقرب راہ مل جاوے.یہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کامل طور پر دنیا میں نہیں ہوا.زمانہ کے امراض پر پوری نظر کر کے مریضوں کی حالت کی کامل تشخیص کس نے کی تھی؟ کسی کا نام تو لو.جب معالج ہی نہ تھا تو شفاء کا تو ذکر ہی کیا.مگر ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم شفاء کامل کا نسخہ لے کر آئے اور مریضوں پر اس
کا استعمال کر کے انکو تندرست بنا کر دکھا دیا کہ یہ دعوٰی کہ وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَاھُوَ شِفَآئٌ (بنی اسرائیل:۸۳)بالکل سچّا دعوٰی ہے.اس وقت کی عام حالت پر نظر رکھو تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں ایک بلاخیزطوفان بُت پرستی اور شرک کا آ رہا تھا.کوئی قومٗ کوئی ملکٗ کوئی خاندان ٗ کوئی ملّت ایسی نہ رہی تھی جو اس ناپاکی میں مبتلا نہ ہو.کیا ہند میں عالم نہ تھے؟مجوسیوں کے پاس گھر اور دستور آگاہ نہ تھے؟یہود کے پاس بائیبل اور طالمود نہ تھی ؟ عیسائیوں کی روما کی سلطنت نہ تھی؟ مصریوں کے ہاں علم کا دریا نہ بہتا تھا.کیا خاص عرب میں بڑے بڑے طلیق اللسان اور فصیح البیان شعراء موجود نہ تھے ؟ مگر قوم کی امراض نہیں.بلکہ ملک کی بیماریوں.نہیں نہیں.دنیا کو تباہ کر دینے والی بلا کی کس نے تشخیص کی.وہ کون تھا جس نے شفاء اور نور کہلانے والی کتاب دنیا کو دلوائی؟ جواب آسان اور بہت آسان ہے.بشرطیکہ انصاف اور سچائی سے محبت ہو کہ وہ پاک ذات محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات تھی.اس آیت پر غور کرنے سے یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی اصطلاح میں رزق اور مال سے کیا مُراد ہے.لوگ کہتے ہیں کہ جیسے اس زمانہ میں مولوی اور درویش کاہل اور سُست اور ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کوئی ان کو پکی پکائی روٹی دے جاوے.اسی طرح مہدی موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئیں گے تو لا تعداد زر و مال تقسیم کریں گے اور اس طرح پر گویا قوم کو سُست اور بے دست و پا بنائیں گے اور قرآن نے جو اشارہ فرمایا تھا وَ اَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّامَاسَعٰی (النجم:۴۰)اور حصر کے کلمہ کے ساتھ فرمایا تھا اس کو عملی طور پر منسوخ کر دیں گے.اس میں جو حصر کے کلمے کے ساتھ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کیا یہ حکم منسوخ ہو جاوے گا.اور جناب مہدی کا یہی کام ہو گا؟ سوچو اور غور کرو.صاف معلوم ہوتا ہے کہ رزق کے کیا معنے ہیں اس کے بعد جناب الہٰی ایک دوسری شہادت سناتے ہیں اور اس مثال میں اَبْکَمْ کا لفظ اختیارفرمایا ہے.پہلیاَبْکَمْ نہ تھا.اس لئے کہ ہم کو غرض ہے کسی ایسے آدمی کی جو پیغام
رسانی کر سکے.لیکن جبکہ وہ اَبْکَمْ ہے.کچھ بول ہی نہیں سکتا.بھلا وہ اس منصب کے فرائض کو کیونکر سر انجام دے گا؟ غلام مت سمجھو.رَجُلَیْنِ ہیں.یعنی حُرّ ہیں.آدمؑ سے لیکر اس وقت تک ان پر کسی نے سلطنت نہیں کی اس لئے اس میں ترقی فرمائی ہے.اس سے پہلے عَبْد کہا.اب رَجُلَیْنِ.اس سے میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ حرّوں میں.عربوں میں.تاریخ پتہ نہیں دیتی کہ وہ کبھی کسی کی رعایا رہے ہوں.انہوں نے کبھی کسی کے تسلّط اور جبروت کو پسند نہیں کیا.اور یہاں تک آزاد ہیں کہ بذریعہ انتخاب یہی کل جزیرہ نما عرب پر ایک شخص حاکم ہو کر نہیں رہا.اب ان میں سے ہم پوچھتے ہیں کہ اس وقت جو بحرو برّ میں فساد برپا ہو رہا ہے.اور دنیا میں بت پرستی فسق و فجور.ہر قسم کی شرارت اور بغاوت پھیل رہی ہے.کوئی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی گم شدہ توحید کو از سرِ نَو زندہ کرے اور مَری ہوئی دنیا کو زندہ کر کے دکھاوے؟ اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جبروت اس کے جلا و سطوت کو کھول کر سُنا دے؟ وہ جواَبْکَمْ اَلْکَنْ ہیں وہ کیا بتا سکیں گے.کیا تم نہیں جانتے کہ اَبْکَمْ نوکرتو اپنے آقا پر بھی دو بھر ہوتا ہے.اس کو کھانا کھلانا اور ضروریات کے سامان کا تکفل کرنا خود مالک کو ایک بوجھ معلوم ہوتا ہے اور پھر جہاں جاتا ہے کہ کوئی خیر کی خبر نہیں لا سکتا.اب پھر تم اپنی فطرت سے پوچھو.ھَلْ یَسْتَوِیْ ھُوَ وَ مَنْ یَّاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ ھُوَ عَلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمَ کیا اس کے برابر یہ ہو سکتا ہے جو امر بالعدل کرتا ہے.اور جو کچھ کہتا ہے اپنی عملی حالت سے اس کو دکھاتا ہے کہ وہ صراطِ مستقیم پر ہے.اس وقت جو دنیا میں افراط و تفریط بڑھ گئی ہے.دنیا کو اعتدال کو راہ بتانے والا اور اقرب راہ پر چل کر دکھانے والا اور اپنی کامیابی سے اس پر مُہر کر دینے والا کہ یہی صراطِ مستقیم ہے.جس پر مَیں چلتا ہوں.اب انسان اگر دانشمند اور سلیم الفطرت ہو تو اس کو صفائی کے ساتھ مسئلہ نبوّت کی ضرورت کی حقیقت سمجھ میں آ جاتی ہے.میں نے ایک بار اس آیت پر تدبّر کیا تو مجھے خیال آیا کہ اگر مولویوں کی طرح کہیں.تو
کیا عرب گونگے تھے؟ سبعہ معلّقہ کو اور امراء القیس کے قصیدہ کو دیکھو.جو بیت اﷲ کے دروازہ پر آویزاں کیا گیا تھا.زید بن عمر اور اسکے ہم عصر اعلیٰ درجہ کے خطیب موجود تھے.ان لوگوں میں جب کبھی اس بات پر منازعت ہوئی تھی بڑے دنگل لگتے تھے.جس کی بات کو مکّہ کے قریش پسند کرتے.وہ جیت جاتا.ان کی زبان عرب تھی.دوسروں کو عجم کہتے تھے.اپنے آپ کو فصاحت میں بے نظیر سمجھتے تھے.پھر اس پر کیا.ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اَبْکَمْ ہے.اپنی معشوقہ اور عشیقہ کے خط و خال.بہادری اور شجاعت کے کارنامے.چستی و چالاکی.ہر قسم کے مضمون پر بڑی فصاحت سے گفتگو کر سکتے تھے.اور تحمّل مزاج کے ثبوت دیتے تھے.مگر ہاں وہ اَبْکَمْ تھے تو اس بات میں تھے کہ اﷲ تعالیٰ کے محامد اﷲ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا انہیں کچھ علم نہ تھا.اور وہ اس کی بابت ایک لفظ بھی مُنہ سے نہ بول سکتے تھے.اﷲ تعالیٰ کے افعال کی بے نظیری بیان کرنے کی مقدرت ان میں نہ تھی.وہ عرب کہلاتے تھے مگر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ جیسا اعلیٰ درجہ کا فصیح و بلیغ کلمہ ان میں نہ تھا.وحشیوں سے انسان اور انسان سے با اخلاق انسان پھر باخدا انسان بننے کیلئے ان مراتب کے بیان کرنے کو آہ! ان میں ایک لفظ بھی نہ تھا.اخلاقِ فاضلہ اور ذائل کو وہ بیان نہ کر سکتے تھے.شراب کا تو ہزار نام ان میں موجود تھا.مگر افسوس اور پھر افسوس اگر کوئی لفظ اور نام نہ تھا تو اﷲ تعالیٰ کے اسماء اور توحید کے اظہار کے واسطے.پھر یوں سمجھو کہ اُن میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ نہ تھا.وہ اپنی سطوت اور جبروت دکھاتے.ایک پلّے (کتّی کے بچّے) کے مر جانے پر خون کی ندیاں بہا دینے والے اور قبیلوں کی صفائی کر دینے والے تھے.مگر اﷲ تعالیٰ کا بول بالا کرنے کے واسطے ان میں اس وقت تک سکت نہ تھی.جب تک کہ پاک روح مطہر و مزکّی معلم جناب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان میں ظہور فرمایا.یہ وہ وقت تھا جبکہ ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ کانقشہ پورے طور پر کھینچا گیا تھا.سماوی مذاہب جو کہلاتے تھے اور خدا تعالیٰ کی کتابوں کے پڑھنے کا دعوٰی کرتے تھے باوجود اس کے کہ اپنے آپ کو مقرّبانِ بارگاہِ الہٰی کہتے.نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اﷲِ وَ اَحِبَّاؤُہٗ.مگر حالت یہاں
تک خراب ہو چکی تھی.کہ عظمت الہٰی اور شفقت علی خلق اﷲ کا نام و نشان تک نہ پایا جاتا تھا.اور دنیوی ڈھکوسلے والوں کی حالت بھی بگڑ چکی تھی.اسی حالت میں اﷲتعالیٰ مکّہ والوں کو آگاہ کرتا ہے.اور بتاتا ہے کہ تم اَبْکَمْہوصنادید مکّہ میں سے ابوجہل ہی کو دیکھ لو.اس کے افعال و اعمال اس کے اخلاق صاف طور پر بتاتے ہیں کہ وہ دُنیا کے لئے ہرگز ہرگز خیر و برکت کا موجب نہیں.یہ صرف صرف اسی پاک ذات کیلئے سزاوار ہے کہ وہ دنیا کی اصلاح اور فلاح کیلئے مامور ہوا.جس کا پاک نام ہی ہے محمّد و احمد صلی اﷲ علیہ وسلم.جس نے اپنی پاک تعلیم.اپنی مقدس و مطئہر زندگی اور بے عیب چال چلن اور پھر اپنے طرزِ عمل اور نتائج سے دکھا دیا کہ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ مَیں اپنے اﷲ کا محبوب ہوں.تو اگر اس کے محبوب بننا چاہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اتباع کرو.(الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۳ تا صفحہ۶) فرمایا.دو قسم کے غلام ہوتے ہیں.اَحَدُ ھُمَا اَبْکُمْ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْئٍ وَ ھُوَ کَلٌّ عَلٰی مَوْلَاہُ اَیْنَمَا یُوَجّھْہُّ لَایَاتِ بِخَیْرٍ.گونگا.کسی چیز پر قادر نہیں.جہاں جائے کوئی خیر نہ لائے.دومؔ وہ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَھُوَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ عدل پر چلتا اور عدل کا حکم کرتا ہے اور صراطِ مستقیم پر ہے.اب ان میں سے وہی پسند ہو گا.جو مولیٰ کا خدمت گزار ہو گا.(الفضل ۱۷؍ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵) ۷۸. : اﷲ تعالیٰ سمجھاتا ہے کہ مکّہ میں تم سب لوگ اکٹھے ہی رہتے تھے.ان میں سے ایک کو خاتم الانبیاء و سیّد الاولین و الآخرین بنا دیا.یہ کس کو معلوم تھا.: بڑے بڑے بدکار ایک دم میں نیکو کار ہو جاتے ہیں اور نیک بد.امیر فقیر اور غریب امیر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء)
۷۹. : کچھ بھی نہ جانتے تھے.یہ بھی خبر نہ تھی کہ گونگا ہے یا بولنے والا چہ جائیکہ اے.بی.سی یا ا.ب.ت پڑھتے ہوئے عالم فاضل ہو جاؤ گے.: معلوم ہوا کہ سب سے پہلے کان ہیں.یہی وجہ ہے کہ مولود کے کان میں اذان دینا سنّتِ نبویؐ ہے.چاہیئے کہ سب سے پہلے یہی کام کیا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) آدمی جب پیدا ہوتا ہے تو حسبِ ارشادِ الہٰی علوم سے عاری ہوتا ہے..جیسا فرمایا وَ اﷲُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا اوراﷲ نے تمہیں نکالا ماؤ ںکے اندر سے اور تمہیں کسی چیز کا علم نہ تھا.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ۱۳ دیباچہ) انسان پیدائش میں تعلیم یافتہ نہیں ہوا کرتا.قرآن میں ہے.وَ اﷲُ اَخْرَجَکُمْ مِّنْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا.اور سچ بھی ہے کیونکہ ابتداء انسان کی اسی طرح ہوئی ہے.عناصر کی ترکیب سے نباتات ہوئے.نباتات اور عناصر کی ترکیب سے حیوانات.اور ان دونوں قسم نباتات و حیوانات کے استعمال اور عناصر سے انسانی خون ہوا.اس سے نطفہ بنا اور اس سے انسان بنتا ہے.دیکھو کس طرح تدریجی ترقی پر انسان آتا ہے.کہاں کا پتّر جنم؟ آخر آدمی پیدا ہوتا ہے.کھانا.پینا.پہننا.سونا.جاگنا ہنسنا.رونا.محبّت اور غضب یہی اس کے ابتدائی کام ہوتے ہیں.جب بڑھا.عام حیوانات سے ترقی کرنے لگا.کھانے میں پینے میں.پہننے میں.سونے جانگنے.ہنسنے رونے.محبّت اور غضب میں اس نے اصلاح شروع کی اور انکو اعتدال پر لانے لگا.بدیوں پر اور ان کے ارتکاب پر اندر ہی اندر بلکہ عملاً بھی اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے.اور اگر ایسے لوگ اس کے اردگرد ہوں جنہوں نے اپنے اس مرتبہ میں اپنی فطرت و وجدان نورِ معرفت اور نورِ ایمان کو قتل کر دیا ہے تو انکی حالت مستثنٰی ہے.
(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۱۶) ۸۰. : یہ مکّی آیات ہیں.ان میں ایک پیشگوئی ہے کہ عنقریب یہ پرندے منکرین مشرکین.مکذّبین کا گوشت نوچ نوچ کر کھائیں گے.اﷲ تعالیٰ ان کو روکے ہوئے ہے.سورۃ الملک میں بھی اسی کا اشارہ فرمایا ہے.بلکہ کھول کر سنایا ہے.اَوَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّ یَقْبِضْنَ (الملک:۲۰) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) : یہ پرندے تمہاری لاشوں کے کھانے کیلئے اﷲ نے رکھے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ ۴۶۲.۴۶۳) کیا وہ ان پرندوں کے حالات پر غور نہیں کرتے جنہیں ہم نے آسمان کی جوّ میں قابو کر رکھا ہے.ہم نے ہی تو انہیں تھام رکھا ہے ( اور ایک وقت آنے والا ہے کہ انہیں نبی کریمؐ کے دشمنوں کی لاشوں پر چھوڑ دیں گے) مومنوں کیلئے ان باتوں میں نشان ہیں.یہاں بھی پہلے ایک شریر قوم کا بیان ہیں.جو بڑی نکتہ چینی کی عادی اور موذی تھی اور اسلام عیب لگاتی تھی.اور بہت سے اموال جمع کر کے فتح کے گھمنڈ میں مکّہ پر انہوں نے چڑھائی.یہ ایک حبشیوں کا بادشاہ تھا.جس نے اسی سال مکّہ معظّمہ پر چڑھائی کی جبکہ حضرت رحمۃ للعالمین نبی کریمؐ پیدا ہوئے.جب یہ شخص وادیٔ محصّر میں پہنچا.اس نے عمائد مکّہ کو کہلا بھیجا کہ کسی معزّز آدمی کو بھیجو.تب اہلِ مکّہ نے عبدالمطلب نامی ایک شخص کو بھیجا جو ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دادا تھے.جب عبدالمطلب اس ابرھہ نام بادشاہ کے پاس پہنچے.وہ مدارات سے پیش آیا.جب عبدالمطلب چلنے لگے.اس نے کہا کہ آپ کچھ مانگ لیں.انہوں
نے کہا میری سو اونٹنیاں تمہارے آدمیوں نے پکڑی ہیں وہ واپس بھیج دو.تب اس بادشاہ نے حقارت کی نظر سے عبدالمطلب کو کہا کہ تمہیں اپنی اونٹنیوں کی فکر لگ رہی ہے اور ہم تمہارے اس مَعْبَد کو تباہ کرنے کیلئے آئے ہیں.عبدالمطلب نے کہا کیا ہمارا مولیٰ جو ذرّہ ذرّہ کا مالک ہے.جب یہ معبد اسی کے نام کا ہے.اور اسی کی طرف منسوب ہے.وہ اس کی حفاظت نہیں کرے گا؟ اگر وہ اپنے معبد کی خود حفاظت نہیں کرنا چاہتا تو ہم کیا کر سکتے ہیں.آخر اس بادشاہ کے لشکر میں خطرناک وباء پڑی اور چیچک کا مرض جو حبشیوں میں عام طور پر پھیل جاتا ہے ان پر حملہ آور ہوا.اور اوپر سے بارش ہوئی اور اس وادی میں سیلاب آیا بہت سارے لشکری ہلاک ہو گئے.اور جیسے عام قاعدہ ہے کہ جب کثرت سے مُردے ہو جاتے ہیں اور ان کو جلانے والا اور ،اٹھانے والا نہیں رہتا.تو ان کو پرندے کھاتے ہیں.ان موذیوں کو بھی اسی طرح جانوروں نے کھایا.یہ کوئی پہیلی اور معمّہ نہیں.تاریخی واقعہ ہے.(نورالدّین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶۲.۱۶۳) ۸۱. : مکّہ میں مسلمانوں کو آرام نہیں تھا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.گھبراؤ نہیں ہم نے تمہارے لئے آرام کے گھر تجویز کر دیئے ہیں.: اُونٹ کے بالوں کو وَبَر کہتے ہیں بھیڑوں کے بالوں کو صُوف کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۴. : آپؐ کی سچائی.ہمّت.استقلال اور رُعب سے پہچان گئے ہیں کہ یہ نبی ہمارے لئے اﷲ کی نعمت ہے.مگر اس کا کفر کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۵. امتحان کا دن ہر ایک شخص کو ہوشیار کرتا ہے.امتحان کا دن نزدیک آتا ہے تو امتحان والے چُست ہو جاتے ہیں.بڑی فکر ہوتی ہے دعائیں کی جاتی ہیں.جو دعاؤں کے منکر ہیں.وہ کوششیں کرتے ہیں فرمایا.تمہارا ایک امتحان ہو گا.اس امتحان میں سب اکٹھے ہوں گے.: عتاب عتبہ سے نکلا ہے.عَتَبَۃ دروازوں کی چوکھٹ کو کہتے ہیں جس پر عتاب ہو وہ عتبہ کے پاس نہیں آ سکتا.اس واسطے فرمایا.ان کفّار کو ہم اپنے حضور نہ پھٹکنے دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۸۹. : ایک اپنی بدی کا.ایک دوسرے کو بدی سکھانے کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۹۰. : جو انسان کو اﷲ سے ملنے.اس کی رضامندی و تقرّب کی راہوں.اخلاقِ فاضلہ معاسرت کی خوبیوں کے بیان میں کافی و مدلّل بیان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء)
۹۱. اﷲ حکم کرتا ہے عدل کا اور احسان کا اور رشتہ داروں کو دینے کا اور منع کرتا ہے بدکاری کی باتوں اور بُرے کاموں اور بغاوت سے.تمہیں وعظ کرتا ہے.تاکہ دھیان کرو.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۱۹ دیباچہ) اس رکوع میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلّم کی نبوّت کو تین طور پر ثابت کیا گیا.یہ سورۃ تمام ہی ثبوتِ نبوّت میں ہے.مگر اس رکوع میں خصوصیت سے یہ ثبوت دیا ہے.پہلا ثبوت تو وہ ہے جہاں گزشتہ سے پیوستہ رکوع میں آقا کے دو غلاموں کی مثال دی ہے ایک وہ غلام جو آقا کے حضور دُو بھر ہے.کوئی کام نہیں کرتا.جہاں بھیجئے وہاں سے کوئی بھلی بات کر کے واپس نہیں آتا.دوسرا غلام علیٰ صراطِ مستقیم ہے.جو خود عملِ صالح کرنے والا ہے.پھر دوسرے کیلئے اُمِر بالمعروف و ناَہِی عن المنکر بھی ہے.کیا یہ دونوں مساوی ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.اسی طرح مکّہ میں دو فریق تھے.ایک فریق کی کارتزاری اور اﷲ تعالیٰ کے احکام کی خدمت اسلام کے رنگ میں اب تک ظاہر ہے.دوسرے فریق نے خدا کی کوئی بھی خدمت نہ کی بلکہ راست باز کے مقابلہ میں نعمت الہٰیہ کا کفر کر کے ہلاک ہوئے.: اس ؟آیت پر بزرگوں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں.ہمارے امام نے بھی لمبا مضمون لکھا ہے.الْعَدْلِ : صحابہؓ کے نزدیک عدل کے معنے انصاف ہیں.اوّل ہم انصاف کر کے دیکھیں کہ بُتوں نے ہماے ساتھ کیا سلوک کیا اور خدا نے کیا کیا.خدا کے احسانوں کاکچھ ذکر اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ (بقرہ:۱۶۵) کے رکوع میں پڑھو.کس کس احسان کا ذکرکیا جاوے.ارضی کارخانہ نہ ہوتا تو ہم اور تم ہی کہاں ہوتے.پھر ہم کو زندگی دی.مسلمان بنایا.آنکھیں دیں اور کان دئے.قرآن مجید کا وعظ نصیب کیا.اب اس کے مقابل ہم دیکھیں کہ جو ہمارے مولیٰ نے احسان کئے کسی اَور نے بھی کیے؟ ہرگز نہیں.اس وقت بے اختیار مُنہ سے نکلتا ہے.فَالْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ …
کا ہے.ایک عدل و انصاف بندوں کے ساتھ ہے.دیکھو ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہم سے دَغا فریب کرے یا ہمارا نوکر ہو.تو وہ ہماری خلاف ورزی کرے.پس ہم کو بھی لازم ہے کہ اگرہم کسی کے ساتھ خادمانہ تعلق رکھتے ہیں تو اپنے مخدوم و محسن کی خلاف ورزی نہ کریں.اپنے فرائض منصبی کو ادا کریں اور کسی سے کسی قسم کا مکر و فریب اور دغا نہ کریں.یہی عدل ہے ع ہرچہ برخود نہ پسندی بر دیگراں مپسند یہ عدل باہم مخلوق کے ساتھ ہے اور پھر جیسے ہم اپنے محسنوں کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں.اسی طرح اﷲ تعالیٰ کے ساتھ جو مُحسنوں کا مُحسن اور مربّیوں کا مربّی اور ربّ العالمین ہے.اس کے ساتھ معاملہ کرنے میں عدل کو ملحوظ رکھیں.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور اسکا نِدّاور مقابل تجویز نہ کریں.اس کے بعد دوسرا حکم احسان کا ہے.مخلوق کے ساتھ یہ کہ نیکی کے بدلہ نیکی کرتے ۱؎ پوری آیت.مرتّب ہیں.اس سے بڑھ کر سلوک کریں.اﷲ تعالیٰ کے ساتھ احسان یہ ہے کہ عبادت کے وقت ہماری یہ حالت ہو کہ ہم گویا اﷲ تعالیٰ کو دیکھتے ہیں اور اگر اس مقام تک نہ پہنچے تو یقین ہو کہ وہ ہم کو دیکھتا ہے.پھر تیسرا حکم کا ہے.ذی القربیٰ کے ساتھ تعلق اور سلوک انسان کا فطری کام ہے.جیسے ماں باپ بھائی بہن کیلئے اپنے دل میں جوش پاتا ہے.اسی طرح اﷲ کی فرماں برداری میں متوالا ہو.کوئی غرض مدّنظر نہ ہو.گویا محبّت ذاتی کے طور پر اﷲ تعالیٰ کی فرماں برداری ہو.پھر چوتھا حکم یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ منع کرتا ہے ہر قسم کی بیحیائیوں.نافرمانیوں اور دوسرے کو دُکھ دینے والی باتوں اور ان بغاوتوں سے جو اﷲ جلّ شانہٗ یا حکام یا بزرگوں سے ہوں.اور آخر میں یہ ہے .اﷲ تعالیٰ تمہیں وعظ کرتا ہے.غرض منشاء الہٰی یہ ہے کہ تم اس کو یاد رکھو.دو قسم کے واعظ ہوتے ہیں اور دو ہی قسم کے سُننے والے.واعظ کی دو قسمیں تو یہ ہیں کہ کچھ پیسے مل جاویں اور یا مدح سرائی ہو کہ عمدہ بولنے والا ہے.خدا کا شُکر ہے کہ تمہارے واعظ میں یہ دونوں باتیں نہیں بلکہ وہ محض نصحؔ کیلئے کہتا ہے.جو کہتا ہے اور سننے والوں میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کو اس وقت کچھ مزہ آتا ہے اور پھر یاد کچھ نہیں رہتا.دوسرے بالکل کورے کارے ہوتے ہیں.پس تم اسی قسم کے سننے والے نہ بنو.بلکہ وعظ کی اس غرض کو ملحوظ رکھو .اﷲ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے.آمین.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۳) عدل ایسی ضروری چیز ہے کہ شیعہ نے بھی باوجود اﷲ کی تمام صفات سے بے پرواہی کرنے کے
اسے ارکان اربعہ ( توحید.عدل.نبوّت.امامت ) میں شمار کیا ہے.عدل کیسا اچھا ہے.اس کا اندازہ شاید تم لوگ نہ کر سکو.کیونکہ تم میں سے کم ہیں جنہوں نے وہ زمانہ دیکھا جب کہ حکّام کو بھی ننگ و ناموس کا خیال نہ تھا.رعیّت کے کسی فرد کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں کس چیز کا مستحق ہوں اور بادشاہ کس کا.باپ کا بدلہ نہ صرف بیٹوں سے بلکہ ملک ولوں سے بھی لیا جاتا تھا.مگر اب امن کا راج ہے اور عدل ہو رہا ہے جس کے لئے اﷲ تعالیٰ کا شکر چاہیئے.ہر شخص اپنے نفس پر غور کرے کہ وہ نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کو کوئی دُکھ دے.یا کوئی ان کے ساتھ بے جا سختی کرے.پس وہ آپ بھی کیوں کسی کے بیٹے یا بیٹی کو دُکھ دے یا اَکْلِ مال بالباطل کرے یا کسی کی حق تلفی کا مرتکب ہو.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ کہ مومن ہی نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کیلئے بھی وہی پسند نہیں کرتا جو اپنے لئے کرتا ہے.ہم اپنے غلام سے جیسا کام لینا چاہتے ہیں.مناسب ہے.کہ ہم بھی جس کے نوکر ہیں ویسا ہی کام کریں.مَیں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے تمام تعلّقات میں.مخلوق سے ہوں یا خدا سے.عدل مدّنظر رکھو.اور میری آرزو ہے کہ مَیں تم میں سے ایسی جماعت دیکھوں جو اﷲ تعالیٰ کی محبتّ ہو.اﷲ تعالیٰ کے رسول حضرت محمّد صلی اﷲ علیہ وسلم کی متّبع ہو.قرآن سمجھنے والی ہو.میرے مولیٰ نے مجھ پر بِلا امتحان اور بغیر میری محنت کے مجھ پر بڑے بڑے فضل کئے ہیں.اور بغیر میرے مانگے کے بھی مجھے عجیب عجیب انعامات دئے ہیں جن کو مَیں گِن بھی نہیں سکتا.وہ ہمیشہ میری ضرورتوں کا آپ ہی کفیل ہوا ہے.وہ مجھے کھانا کھلاتا ہے اور آپ ہی کھلاتا ہے.وہ مجھے کپڑا پہناتا ہے اور آپ ہی پہناتا ہے.وہ مجھے آرام دیتا ہے اور آپ ہی آرام دیتا ہے.اس نے مجھے بہت سے مکانات دئے.بیوی بچّے دئے.مخلص اور سچے دوست دئے.اتنی کتابیں دیں اتنی کتابیں دیں کہ دوسرے کی عقل دیکھ کر ہی چکّر کھا جائے.پھر مطالعہ کیلئے وقت صحت.علم اور سامان دیا.اب میری آرزو ہے ( اور مَیں اپنے مولیٰ پر بڑی بڑی اُمّیدیں رکھتا ہوں کہ وہ یہ آرزو بھی پوری کرے گا)کہ تم میں سے اﷲ کی محبّت رکھنے والے.اﷲ کے کلام سے پیار کرنے والے محمد رسول اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم سے محبّت رکھنے والے.محمد صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے کلام سے محبت رکھنے والے.اﷲ کے فرماں بردار اور اس کے خاتم النبیّین کے سچّے متبع ہوں اور تم میں سے ایک جماعت ہو جو قرآنِ مجید اور سنّتِ نبویؐ پر چلنے والی ہو اور میں دنیا سے رخصت ہوں تو میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور میرا دل ٹھنڈا ہو.دیکھو میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا.نہ تمہارے نذرونیاز کا محتاج ہوں.میں تو اس بات کا امیدوار بھی نہیں کہ کوئی تم میں سے مجھے سلام بھی کرے.اگر چاہتا ہوں تو صرف یہی کہ تم اﷲ کے
فرماں بردار بن جاؤ.اس کے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے متّبع ہو کر دنیا کے تمام گوشوں میں بقدر اپنی طاقت و فہم کے امن و آشتی کے ساتھلَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ پہنچاؤ.(اخبار بدر یکم دسمبر ۱۹۱۰ء صفحہ۱) : انصاف کرو.یہ اﷲ کا حکم ہے.دیکھو کہ تم کسی کو روپیہ دو اور وہ دھوکہ دے کر لے.کیا تم پسند کرتے ہو کہ کوئی تمہارے ساتھ دھوکہ کرے؟ تم کسی کو ملازم رکھو.اور وہ سُستی سے کام کرے تو کیا تم پسند کرتے ہو؟ اگر نہیں.پھر تم دوسروں کے ساتھ کیوں بدی کرتے ہو؟ مَیں نے دیکھا ہے.سردی کا موسم ہے اور سرد ہوا چل رہی ہے.بوندا باندی ہو رہی ہے.ایک مزدور چوکیدار کہتا ہے.خبردار.ہوشیار.وہ باہر پھرتا ہے.پھر کیسے افسوس اور تعجّب کی بات ہے کہ وہ چند پیسوں کیلئے اتنا محتاط اور اپنے فرض کو ادا کرتا ہے اور ہم خدا کے بے انتہاء فضلوں کو لے کر بھی تہجّد کے لئے نہ اُٹھیں.پھر کوئی ہمیں گالی دے.بہتان باندھے.تو ناپسند کرتے ہیں.پھر دوسروں پر کیوںبہتان باندھیں؟ دوسروں کے گھر کی فحش باتیں کیوں سنتے ہو؟ پھر تاکید ہے.: بھائی ہے.بہن ہے.چچّا ہے.ماں باپ اور بیوی کے رشتہ دار..جو بدیاں تمہاری ذات میں ہیں یا دوسروں پر اثر کرتی ہیں.اُن سے رُکو.پھر بغاوت سے منع کیا.بادشاہوں اور حکّام کی مخالفت نہ کرو.یہ باتیں کیوں سکھاتا ہے. تَتَّقُوْنَ.تم جانتے ہو کہ مَیں کس تکلیف سے آیا ہوں.اﷲ جانتا ہے کہ امر بالمعروف کیلئے آیا ہوں.راستہ چلنے کی سکت نہیں پسینہ پسینہ ہو رہا ہوں.صرف تمہاری بھلائی چاہتا ہوں.تم سے کوئی بدلہ نہیں چاہتا.جس کیلئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہوں.وہی بہتر بدلہ دینے والا ہے.اﷲ تعالیٰ نے میری طبیعت تو ایسی بنائی ہے کہ تمہارے اُٹھنے اور سلام کا بھی روادار نہیں ہوں.اﷲ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ تم متقی بنو.(آمین) (الحکم ۷؍۱۴؍جون ۱۹۱۱ء صفحہ۶) اس وقت بقائمی ہوش و حواس تمہیں چند باتیں کہتا ہوں.جو تم میں سے مان لے گا.اسکا بھَلا ہو گا.اور جو نہ مانے گا اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے..اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انصاف کرو.تم میں سے کوئی بھی ایسا ہے جو چاہتا ہے یا پسند کرتا ہے کہ مجھے گالی دے.یا میری کوئی ہتک کرے یا میرے ننگ و ناموس میں فرق ڈالے یا نقصان کرے یا بدی سے پیش آئے یا تحقیر کرے؟ میرا ملازم سُستی سے کام لے؟ جب تم نہیں چاہتے تو کیا یہ انصاف ہے کہ تم کسی کا مال ضائع کرو یا کسی کی ملازمت میں سُستی کرو یا کسی کو نقصان پہنچاؤ یا کسی کے لڑکے یا لڑکی کو بدنظری سے دیکھو.تم عدل سے
کام لو.اور وہ سلوک کسی سے نہ کرو.جو خود اپنے آپ سے نہیں چاہتے.اسی طرح جس سے پانچ دس روپے تنخواہ لیتے ہو اسکی فرماں برداری کرتے ہو.پس جس نے آنکھیں دیں جن سے ہم دیکھتے ہیں.کان دئے جن سے ہم سُنتے ہیں.زبان دی جس سے ہم بولتے ہیں.ناک دیا.پاؤں دیئے جن سے ہم چلتے ہیں.عقل فہم.فراست دی.اتنے بڑے مُحسن.اتنے بڑے مربّی.اتنے بڑے خالق.رازق کی نافرمانی کریں تو کیا یہ عدل ہے؟ پس مَیں تمہیں بھی چھوٹا سا فقرہ سنانے آیا ہوں.اور مَیں تمہیں دوسری دفعہ تیسری دفعہ چوتھی دفعہ تاکید کرتا ہوں کہ خدا کے معاملہ میں.اپنے معاملہ میں.غیروں کے معاملہ میں عدل سے کام لو.پھر اس سے ترقی کرو اور مخلوقِ الہٰی سے احسان کے ساتھ پیش آؤ.اﷲ تعالیٰ کے احسانوں کا مطالعہ کر کے اس کی فرماں برداری میں بڑھو.حلال روزی کماؤ.حرام خوری سے نیکی کی توفیق نہیں ملتی.اور شاہ عبدالقادر صاحب نے بتایا کہ ہم باہر جو تا اتار کر یہ نیت کر لیتے ہیں کہ جو لے جائے اس کیلئے حلال.چونکہ چور کمبخت کے نصیب میں رزقِ حلال نہیں.اس لئے اس کو اسے اٹھانے کا موقعہ ہی نہیں ملتا.غرض اَکّلِ مال بالباطل نہ کرو اور بیویوں کے ساتھ احسان کے ساتھ پیش آؤ.بیوی بچوں کے جننے اور پالنے میں سخت تکلیف اٹھاتی ہے.مرد کو اس کا ہزارواں حصّہ بھی اس بارے میں تکلیف نہیں ان کے حقوق کی نگہداشت کرو.وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ (البقرۃ:۲۲۹) انکے قصوروں سے چشم پوشی کرو اﷲ تعالیٰ بہتر سے بہتر بدلہ دے گا… اﷲ تعالیٰ بے حیائیوں سے اور ان امور سے جن سے دوسروں کو تکلیف پہنچے اور وہ منع کرے یا شریعت منع کرے اور بغاوت کی راہوں پر چلنے سے منع کرنا چاہتا ہے.وہ سننا کس کام کا جس کیساتھ عمل نہ ہو.سُنو! دل کو اس کے ساتھ حاضر کرو.(الحکم ۷؍۱۴؍جون ۱۹۱۱ء صفحہ۳) اپنی آمدنیوں کے مطابق اپنے اخراجات رکھو.کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کی اولاد خراب ہو.کیا کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ کوئی شخص اس کے لڑکے یا لڑکی کو بدی سکھائے.خراب کرے.بدکار بنا دے میری بھی لڑکی ہے.اس وقت میں اپنے آپ کو مخاطب کر رہا ہوں.جب کوئی یہ نہیں چاہتا تو پھر دوسروں کی اولاد کو جو تمہارے سپرد ہے کیوں خراب ہونے کا موقعہ دیتے ہو.کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ اس کے ماتحت نافرمان ہوں.جب یہ نہیں چاہتا.تو کیوں نافرمانی کرتے ہو! یہ لڑکے جو اپنے آفیسروں استادوں کی نافرمانی کرتے ہیں.اور طرح طرح کی بدعتیں کرتے ہیں.اگر یہ صاحبِ اولاد ہوں اور انکی اولاد.بدی.نافرمانی کرے تو ان کو معلوم ہو کہ کس قدر دُکھ ہوتا ہے.جب ہم اپنے ماتحتوں کو اپنا فرماں بردار دیکھنا
چاہتے ہیں.تو ہم کو چاہیئے کہ جس کے ہم ماتحت ہوں.اسکے فرماں بردار ہوں.کیا کوئی یہ چاہتا ہے کہ ہمارا مال کوئی شخص دھوکہ سے کھا لے؟ ہم یہ ہرگز پسند نہیں کرتے کہ کوئی ہم کو دھوکہ دے یا ہم کسی کا دھوکہ کھائیں.اس لئے ہم کو بھی چاہیئے کہ کسی کو دھوکہ نہ دیں.جہاں کسی کے دھوکہ کھانے کا موقعہ ہو.وہاں اپنے آپ کو بچائیں. .اﷲ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے.جو بات تم کو اپنے لئے پسند نہیں.دوسروں کیلئے کیوں پسند کرتے ہو وہ تم کو برائیوں سے روکتا ہے اور ہر قسم کی بغاوت سے روکتا ہے.تم کو وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو.(البدر ۶؍مارچ ۱۹۱۳ء صفحہ۸) عدل ایک صفت ہے اور بہت بڑی عجیب صفت ہے.عدل ہر شخص کو پیارا لگتا ہے اور بہت پیارا لگتا ہے.عادل ہر ایک شخص کو پسند ہے اور بہت پسند ہے.کان رس کے طور پر بھی عدل کا لفظ پیار ا ہے اپنی ذات کے متعلق بھی جب آدمی کی ضرورت پڑے.اسے عدل بہت پیارا لگتا ہے.مگر نہایت تعجّب ہے باوجود اس کے عدل نہایت پسندیدہ چیز ہے.جب دوسرے کیساتھ معاملہ پڑے تو انسان عدل بھول جاتا ہے.عجائبات جو میں نے دنیا میں دیکھے ہیں.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اﷲ کو بھی مانتے ہیں اور پھر پتھر کے بُت.پانی کے دریا.پیپل اور بَڑ کے درخت.جانوروں میں سانپ اور گائے کی پرستش کرتے ہیں مجھے بڑا تعجّب آتا ہے کہ اتنی بڑی عظیم الشان ذات کو چھوڑ کر ادنیٰ چیز کو کیوں اختیار کرتے ہیں؟ اسی طرح عدل کے معاملہ میں بھی (کئی دفعہ تعجّب مجھے دنیا میں ہوا ہے) ایک تعجب ہے کہ انسان عدل کو اپنے لئے اپنے دوستوں کیلئے.اپنے خویش و اقارب کیلئے بہت پسند کرتا ہے.مگر جب دوسرے کے ساتھ معاملہ پیش آئے.پھر عدل کوئی نہیں.کسی کا بھائی باوا یا بہن یا ماں یا بیٹی مقدمہ میں گرفتار ہو جائے تو وہ کہتا ہے اس سے بڑھ کر میرا کون ہے ان کے چھُڑانے کی کوشش میں اگر میری جان بھی جائے تو کوئی بڑی بات نہیں اس وقت بعض لوگ جعلسازی.رشوت دینے تک تیار ہو جاتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں کھڑا ہو کر یہ کام کرتے ہیں.مگر سوچو جس نے ایسا کیا اس نے عدل نہیں کیا.کیونکہ وہ ہمارا رحمان.ہمارا رحیم.ہمارا مالک ہمارا رازق.ہمارا ستّار العیوب ہے.اس کی صفات کو چھوڑ کر کہتا ہے.پس جو کچھ ہے.میرا یہی بیٹا ہے.یا بیوی ہے یا ماں ہے.دیکھو وہی عدل جو بڑا پسند تھا.اس وقت بھلا دیا.یہاں دو لڑکوں میں ایک گیند کا مقّدمہ ہوا.دونوں مجھے عزیز تھے.اب میں حیران ہوا کہ کس کو دلاؤں.میرے پاس پیسے ہوتے تو مَیں مدّعی کو گیند لے دیتا.مگر قدرت کے عجائبات ہیں کہ بعض اوقات نہیں ہوتے.ایک نے
گواہی دی کہ یہ گیند اس لڑکے کا ہے کیونکہ اس کیلئے ایک شخص نے میرے سامنے امرتسر کے سٹیشن سے خریدا تھا.مَیں نے کہا.سچ کہتے ہو.اُس نے کہا مجھے جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے.تب مَیں نے گیند دوسرے لڑکے کو دلایا.تھوڑے دن گزرے تو گواہی دینے والا اس لڑکے کیساتھ غالبًا لڑ پڑا تو یہ راز ظاہر ہوا کہ اس نے جھوٹی گواہی دی تھی.دیکھو اس نے عدل نہ کیا اور ظاہرداری کیلئے خدا کو ناراض کر دیا.مَیں نے اس لڑکے کو دیکھا ہے.بڑا خوبصورت تھا.جان نکل گئی.بس یہ انجام ہوتا ہے.یاد رکھو.ہر بدی کا انجام بُرا ہوتا ہے.جنابِ الہٰی کا حکم مان لو.فرماتا ہے عدل کرو.ہم تماہرے خالق.ہم تمہارے مالک.رحمن.رحیم تمہارے ستّار.تمہارے عفّار.ہماری بات ماننے میں مضائقہ! اور اپنے کسی پیارے کی بات ہو تو جان تک حاضر.یہ عدل نہیں.اسی طرح مَیں دیکھتا ہوں کہ ہر آفیسر اپنے ماتحت سے چاہتا ہے کہ جان توڑ کر خدمت کرے.مَیں جو تنخواہ دیتا ہوں تو یہ روپیہ ضائع نہ کرے.لیکن آپ جس کا نوکر ہے.اسی کی نوکری میں اگر جان توڑ کر محنت نہیں کرتا تو یہ عدل نہیں.اس وقت ایک بات یاد آ گئی.کسی امیر کی چوری ہو گئی.اور اس چوری کے برآمد کرانے والے کیلئے بڑا انعام مشتَہرہوا.افسر پولیس نے اپنے ماتحتوں کو بلایا اور کہا.لو بھئی اب تو عزّت کا معاملہ ہے.ایک میرا رشتہ دار بھی اس کے ماتحت تھا.اس نے مجھے بتایا کہ مَیں نے ایسی محنت کی کہ مال برآمد کرا لیا.مجرموں سے اقرار بھی کروالیا.اس آفیسر نے سولہ روپے جیب سے نکال کر دیئے کہ لے بیٹا تم یہ لو.وہ انعام تو خدا جانے کب ملے گا.پھر ایک مفصل رپورٹ لکھی.جس میں دکھایا کہ کس طرح اس مقدمہ کی تفتیش مَیں نے محنت سے کی.اور بعض اوقات اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا.غرض وہ ساری کارگزاری اس غریب کی اپنی کر کے دکھائی اور انعام خود ہضم کر لیا.بلکہ ترقی کی درخواست دی.دیکھو عدل کیلئے کتنا زور دیا کہ مَیں نے ایسی محنت کی.مجھے ترقی ملے.وہ انعام ملے اور دوسری طرف کسی بے انصافی کی کہ اپنے ماتحت کا حق خود ضبط کر لیا.رات دن مَیں یہ حال دیکھتا ہوں کہ ایک شخص کے گھر میں بہو آتی ہے.وہ اسے نہایت حقیر سمجھتا ہے مگر اپنی لڑکی کیلئے ہرگز گوارا نہیں کرتا کہ کوئی اسے میلی آنکھ سے بھی دیکھے.پہرہ داروں کو دیکھا.گرام بستر گھر میں موجود.سردی کے موسم میں سرد ہوا کی پرواہ نہ کرے وہ آدھی رات کو چند ٹکوں کی خاطر خبردار خبردار پکارتا پھرتا ہے.مگر جن کو خدا نے ہزاروں روپے دئے.اور عیش و عشرت کے سامان.وہ اتنا نہیں کر سکتے کہ پچھلی رات اُٹھ کر تہجّد تو درکنار.استغفار ہی کریں.یہ عدل نہیں.پس میرے عزیزو! تم خدا کے معاملہ میں.مخلوق کے معاملہ میں عدل سے کام لو.ایک طرف
جنابِ الہٰی ہیں.ایک طرف محمّد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) ہیں.محمدؐ رسول اﷲ کی دعائیں اپنے حق میں سُنو آپؐ کا چال و چلن سُنو.پھر یہ کہ آپ نے ہمارے لئے کیا کیا.اپنے تئیں جان جوکھوں میں ڈالا.ایسے مخلص مہربان صلی اﷲ علیہ وسلم کی فرماں برداری اپنے دوست کی فرماں برداری کے برابر بھی نہ کرو تو کس قدر افسوس کی بات ہے.بعض تاجروں کو مَیں نے دیکھا ہے.وہ رستے میں چلتے ہیں اور حساب کرتے جاتے ہیں.معلوم ہوتا ہے آپ فکر میں مَست ہیں اور یہ خیال نہیں کہ جس نے یہ تمام تعمتیں دیں اسکا شُکر بھی واجب ہے.دیکھو اسوقت مَیں کھڑا ہوں.اور محض خدا کے فضل سے کھڑا ہوں.پَرسوں میری ایسی حالت تھی کہ مَیں سمجھا کہ میرا آخر دَم ہے اس کا فضل ہوا کہ مجھے صحت ہوئی.اس نے مجھے عقل و فراست دی.اپنی کتاب کا علم دیا.رسولوں کی کتابوں کا فہم دیا.اگر یہ انعام نہ ہوتے تو جیسے اور بھنگی ہمارے شہر کے ہیں.مَیں بھی ہو سکتا تھا.مَیں تمہیں کھول کر سُناتا ہوں کہ عدل کرو.روپیہ جس آنکھ سے لائے ہو.اسی سے ادا کرو.مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے دو.خدا کے ساتھ معاملہ صاف رکھو.پھر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے کہ عدل سے بڑھ کر احسان کرو پھر فرماتا ہے کہ احسان میں تو پھر احسان کا خیال آ جاتا ہے.تم دوسروں سے ایسا سلوک کرو جیسے اپنے بچوں کے ساتھ بُدوں خیال کسی بدلہ کے کرتے ہیں.… دُعا کے سوا مجھے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی.جو بدیوں سے بچائے.کامیابی دکھائے.ابھی ایک لڑکاتھا.اس کو ابھی ہوش نہ تھا.کہ میرے پاس لایا گیا.بڑے بڑے رنگوں میں مَیں نے اس کے ساتھ سلوک کیا.مجھے بڑے بڑے خیال تھاے.خدا اُسے یہاں تک پہنچا دے.مگر آخر اسے عیسائیوں کا گھر پسند آیا.دل جو ہوتے ہیں.ان کا نام قلب اس لئے رکھا ہے کہ بدلتے رہتے ہیں.اس واسطے میری عرض ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو.تمہارے بھلے کیلئے کہتا ہوں.ورنہ مَیں تو تمہارے سلاموں.تمہارے مجلس میں تعظیم کیلئے اُٹھنے کی خواہش نہیں رکھتا.اور نہ یہ خواہش کہ مجھے کچھ دو.اگر مَیں تم سے اس بات کا امیدوار ہوں.میرے جیسا کافر کوئی نہیں.اس بڑھاپے تک جس نے دیا.اور امّید سے زیادہ دیا.وہ کیا چند روز کیلئے مجھے تمہارا محتاج کریگا؟ سُنو!بچے کی شادی تھی.میری بیوی نے کہا.کچھ جمع ہے توخیر.ورنہ نام نہ لو.میں نے کہا.خدا کے گھر میں سبھی کچھ ہے.آکر بہت جھگڑنے کے بعد اس نے کہا اچھا پھر مَیں سامان بناتی ہوں.مَیں نے کہا مَیں تمہیں بھی خدا نہیں بناتا.میرے مولیٰ کی قدرت دیکھو.کہ شام تک جس سامان کی ضرورت تھی.مہیا ہو گیا.مَیں نے کیوں سنایا.تا تمہیں حرص پیدا ہو اور تم بھی اپنے مولیٰ پر بھروسہ کرو.پھر میری بیوی نے کہا.عبدالحی کا مکان الگ بنانا ہے تو اس کیلئے بھی خدا نے ہی سامان کر دیا.ان فضلوں کیلئے عدل کا اقتضاء ہے کہ مَیں
سارا خدا کا ہی ہو جاؤں.قوٰی بھی اسی کے.عزّت و آبرو بھی اسی کی.میری پہلی شادی جہاں ہوئی.وہ مُفتی ہمارے شہر کے معظّم و مکرّم تھے.ایک دن میری بیوی کو کسی نے کہا’’ چوبارے دی اِٹ وَہْنی وِچ جالگیں ایں‘‘ مگر کہنے والے نے جھوٹ کہا.اﷲ تعالیٰ نے مجھ پر بڑے فضل کئے.پھر ہمیں ایسے موقعہ پر ناطہ دیا کہ تم تعجّب کرو.جمّوں کا رئیس بیمار تھا.ں اس نے سب دوائیں کیں فائدہ نہ ہوا.تو فقراء کی طرف متوجّہ ہوا.جب ہندو فقراء سے فائدہ نہ ہوا.تو مسلمان فقراء کی طرف توجہ کی.اور ان سب فقراء کو بڑا روپیہ دیا.ایک میرا دوست جو اس روپے کے خرچ کا آفیسر تھا.اس نے ذکر کیا کہ تین لا کھ تو خرچ ہو چکا.اب ایک فقیر سُنا ہے جسے بلانے کیلئے آدمی کیا اور اس کے لئے اتنے ہزار روپے تھے.مگر اس کا خط آیا.اس میں لکھ تھا کہ میرا کام تو دُعا کرنا ہے.دعا جیسی لدھیانہ میں ہو سکتی ہے ویسی کشمیر میں.دونوں جگہ کا خدا ایک ہے وہاں آنے کی ضرورت نہیں.ہاں ایک بات ہے.اگر آپ کا رعایا سے اچھا سلوک نہیں تو اس کے افراد بد دعائیں دے رہے ہوں گے.تو مَیں ایک دُعا کرنے والا کیا کر سکتا ہوں.باقی رہے روپے.سو جب آپ نے فقیر سمجھا ہے تو پھر غنی نہیں ہو سکتا.اس آفیسر نے کہا کہ مَیں نے ایسا آدمی ہندؤوں میں دیکھا ہے نہ مسلمانوں میں.مَیں نے (کہا) سردار صاحب ایسے آدمیوں کے ساتھ رشتہ ہو تو پھر کیا بات ہے.سُنو! عبدالحی کی ماں اسی بزرگ کی بیٹی ہے.خدا تعالیٰ میری خواہشیں تو یُوں پوری کرتا ہے.اب مَیں غیر کا محتاج بنوں تو یہ عدل نہیں.مَیں نے نیکوں سے اخلاص کے ساتھ تعلق چاہا.تو خدا کو بھی پسند آیا.ہمارے گھر میں باغ لگا دیا.فُرُط دے عقلمند بھی دے.اس واسطے میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ تمہارا ہتھیار دُعا ہو جائے.دُعا بڑی نعمت ہے.(الفضل ۲؍ جولائی ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵.۱۶) ۹۲. اور پورا کرو اقرار اﷲ کا جب آپس میں قرار دو اور نہ توڑو قسمیں پکی کے پیچھے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۱) :یہ ایک پیشگوئی فرماتا ہے کہ ایک وقت مشرکین عہد توڑیں گے.یہ بھی
ثبوتِ نبوّت ہے.کیونکہ آکر حدیبیہ کی صلح کو کفّار نے توڑا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۹۳. : اس کے معنے ہیں ’’ دھوکہ ‘‘ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ایک وقت مکّہ میں تشریف لے گئے.اپنی اپنی رؤیا لَتَدْ خُلُنَّ الْمَسْجِدَ(الفتح:۲۸)کے مطابق جب آپؐ حدیبیہ میں پہنچے تو ان لوگوں نے مزاحمت کی.آکر صلح ہوئی اور کچھ معاہدے ہوئے جس میں سے عرب کے تمام قبیلوں کی فہرستیں بنیں.اور جو مسلمانوں کے طرفدار تھے.وہ بھی اور جو مشرکین کے جانب دار تھے.وہ بھی لکھے گئے.آپؐ نے حج و عمرہ کی اجازت چاہی تو انہوں نے کہا.اس سال نہیں.پھر آنا اور ہتھیار بند رہنا ہو گا.آپؐ نے یہ بھی تسلیم کر لیا.ایک خزاعۃ قوم تھی.جنہوں نے اپنا نام نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے جانبداروں میں لکھا دیا.اور وائل نے مشرکین کے طرفداروں.میں آخر ایک وقت وائل نے خزاعۃ پر حملہ کر دیا.خزاعی قوم نے فورًا ایک آدمی مدینہ طیّبہ میں بھیجا اور خود بطور پناہ لینے کے مکّہ میں آئے.اس امّید پر کہ ہماری مدد ہو گی.مگر انہوں نے مدد نہ کی.بلکہ وائل کی جنبہ داری کی.پھر انہوں نے ایک آدمی اور مدینہ بھیجا.جو چند شعر بنا کر بھی لے گیا.جس نے جا کر اپنا تمام حال کہا.آپؐنے اس بدعہدی پر مکّہ والوں پر چڑھائی کی.اﷲ تعالیٰ اس قصّہ کی طرف اشارہ فرماتا ہے.دیکھو انہوں نے خدا کو ضامن بنایا مگر معاہدات کی کچھ پرواہ نہ کی.اور سب ساختہ پر داختہ توڑ ڈالا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) : صلح حدیبیہ کے معاہدے کو مشرکین نے اسی طرح اپنے ہاتھوں سے توڑا جس طرح ایک عورت اپنا کاتا ہوا ٹکڑے ٹکڑے کر دے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۳)
۹۴. : اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.کہ اگر جَبر مقصود ہوتا تو سب ہی مسلمان ہو جاتے.مگر خدا نے جَبر نہیں کیا.جو ضلالثٖ کی راہوں پر چلتا ہے.اسے گمراہ ٹھہراتا ہے.اور جو ہدایت کی راہوں پر چلتا ہے.اسے مہدی بناتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۹۵. : یہ ایک محاورہ ہے.: سبیل اﷲ کے روکنے والوں کو جتا دیا.کہ ایک وقت آتا ہے کہ تمہارے بُت توڑے جاویں گے اور مکّہ فتح ہو جاوے گا.۹۸. جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت.ہم اسے پاک سنہری زندگی عطا کریں گے اور اُنکے اچھے کاموں کے بدلے میں انہیں اَجر دیں گے.(نورالدّین طبع سوم صفحہ۴۶) ۹۹.
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآنِ مجید کے ختم کے بعد معوذ تین پڑھ لینی چاہیئے اور بعض کہتے ہیں ابتداء میں پڑھنی چاہیئے.بہر حال مقصد حاصل ہے جو یہ ہے کہ قرآن مجید کے پڑھتے وقت اگر ہم نے کوئی غلطی کی یا بے سمجھی کی تو اس سے یا ایسی لغزش کے آئندہ واقعہ ہونے سے ہمیں بچا لے اور کلمۃ الحکمۃ سے مستفید کرے.(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۹ کالم ۳ جلد۸ نمبر۱۴) ۱۰۰،۱۰۱. یاد رکھو اس کو مومنوں اور اپنے رب پر توکّل کرنے والوں پر کوئی قدرت نہیں.اس کا بس تو اُن پر چلتا ہے جو اسے دوست رکھتے اور اس کے ساجھی ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۳۳) : کی ضمیر پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں.میرے نزدیک یہ اﷲ کی طرف راجع ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۰۲،۱۰۳. : جب بدلا دیتے ہیں ہم کسی نشان کو بدلے کسی نشان کے.: لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو کہتے ہیں.آپ تو مُفتری ہیں.بعض لوگ ان آیات سے بعض آیات کے نسخ کو ثابت کرتے ہیں.ان کیلئے دو مشکلیں ہیں.ایک یہ کہ آیت سے
مراد آیتِ قرآنیہ لیتے ہیں.پھر دوم اس مبدّل و منسوخ آیت کو موجود فی القرآن ہونے کا ثبوت ان کو دینا پڑتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) : ایک نشان مِٹا کر دوسرا قائم کرنا چاہتے ہیں.بُت پرستی کی بجائے توحید.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۳) ۱۰۴. : ایک کتاب مَیں نے عیسائیوں کی پڑھی ہوئی ہے.اور ہماری پرانی روایتوں میں بلعام.یاسر.یسار.جبیر ایسے ایسے نام لئے گئے ہیں کہ ان کے اقوال سے گویا قران کریم کا استنباط کیا ہے.ایسی باتوں کا جواب ایک تو یہ ہے کہ وہ تو غلام تھے تم آقا ہو.تم بھی قرآنِ مجید کی کسی خوبی کا معارضہ کر سکتے ہو اور ان غلاموں سے کیا سیکھتا تھا.جبکہ معترضین کے مذاہب کے اصل الاصول کفّارہ و تثلیت کی تردید کی ہے.ایک کے بارہ میں فرمایا.لَقَدْکَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اﷲَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المآئدہ:۷۴)اور دوسرے کی نسبت ارشاد کیا.لَاتَزِرُوَا زبرَۃٌ وبّزْرَ اُخْرٰی (بنی اسرائیل:۱۶)پس قرآنِ شریف اگر کسی یہودی یا عیسائی کا سکھایا ہوا ہے تو وہ خاص اپنے مذہب کی اس قدر سخت تردید کیونکر گوارا کرتا ہے پھر اب تو اس زمانہ سے بڑھ کر سامان موجود ہیں.اب ہی قرآن شریف کا مقابلہ کر دکھاؤ.جیسا مدلّل بیان اس قرآن مجید میں ہے وہ تورات و انجیل میں مطلق نہیں.پس اس کا استنباط کیسے ہو سکتا ہے.: یہ زبان جو گوشت کی ہے.اس کو بھی لسان کہتے ہیں.لیکن جو بات اس کے ذریعے کی جاوے اسے بھی لسان ہی کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۰۵.
: ساتویں پارے کے ختم پر فرمایاوَ اَقْسَمُوْا بِاﷲِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ جَائَتْھُمْ (انعام:۱۱۰) آہ! ضدّی انسان جب کسی راست باز کی تکذیب کر بیٹھتا ہے تو پھر اسے ہٹ ہو جاتی ہے.اور وہ باوجود روشن نشانوں کے مانتا نہیں.اس پر لَایَھْدِیْھِمُ اﷲُ کا فتوٰی لگ جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۰۷. : یہ تو اُن کیلئے ہے جو بعد الایمان کُفر کریں اور کُفر کے لئے اپنا سینہ کھول دیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۱۱. : جو اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ میں داخل ہوا.اس کے لئے فرمایا کہ اگر وہ ہجرت کرے اور پھر مجاہدہ اور نیکی پر جما رہے تو خدا اس غلطی کو معاف فرما دے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۱۲.
: یہ دن طبور نمؤنہ قیامت دنیا میں بھی آتا ہے.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر بھی آیا ہے.خود ہم پر بھی.کوئی کسی کے ساتھ محبّت کرے یا بُغض.بمنزلہ بیج کے ہے جو اپنے وقت پر پھل لاتا ہے.صاحبِ زراعت جس قسم کے بیج بوئے ضرور اس کے مطابق کاٹتا ہے.اس میں مکّہ والوں کو سمجھایا کہ تم کب تک نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے اور آپؐ کے اتباع کو دُکھ دو گے.ایک وقت اس کا خمیازہ اٹھانا پڑیگا نبیوں کی ذات بڑی رحیم ہوتی ہے مگر نَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ الْحَلِیْ مِنبی پر ایک وقت آتا ہے کہ وہ بول اٹھتا ہیلَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح:۲۷)اور پکارتا ہے وَ اشْدُوْ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ فَلَا یُؤمِنُوْا حَتّٰی یَرَوُا الْعَذَابُ الْاَلِیْمَ (یونس:۸۹)کہ مَیں ان کا ایمان بھی اب نہیں دیکھنا چاہتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) تُوَفّٰی: یہ اور باب سے ہے اور تَوَفَّیْتَنِیْ اور باب سے.یاد رکھو.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۳) ۱۱۳. : خود مکّہ ہی سمجھ لو جس میں ہر طرح امن و اطمینان تھا.چنانچہ عورت جب اپنے خاوند سے سُکھ پاتی تو کہتیزَوْجِیْ کَلَیْلِ تِھَامَۃَ لَا مَخَافَۃ و لَا سَآمَّۃَ لَاحَرَّ وَلَاقَرَّ.(ترجمہ: میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح پُر سکون ہے نہ خوف.نہ تنگی.نہ گرمی کی شدّت نہ سردی کی.ناقل) : ادھر شام.اُدھر افریقہ تک سے تجارت کرتے.پھر پجاری لوگ آتے وہ روپیہ لاتے.حکومت کا معاوضہ الگ ملتا.: ایک جگہ فرمایا ہے.بَدَّلُوْا نِعْمَۃَ اﷲِ کُفْرًا وَّ اَحَلُّوْا قَوْمَھُمْ دَارَالْبَوَارِ(ابراہیم:۲۹)یہ آیت اس کی تفصیل فرماتی ہے.
: مشرکین نے صحابہؐ کو بھی وہ دُکھ دئے تھے.ایک تو ان کو بھوکا رکھا چنانچہ وہ غلّہ خریف لیتے.قبل اس کے کہ شعب نبی ہاشم تک پہنچے.اس کی سزا میں ایسا شدید قحط پڑا کہ ہڈیاں اور چمڑے تک کھانے پڑے.خوف مشرکین کی طرف سے یہاں تک پہنچایا گیا.کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بھی وہ شہر چھوڑ کر جانا پڑا.جس کی عقوبت میں ان پر جنگ کی سزا وارد ہوئی (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۱۴. : کیسا صاف نقشہ کھینچا ہے کہ خود مکّہ والوں ہی کو سمجھا رہا ہے.مگر وہ نادان کہانی سمجھ رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۱۵. : فرماتا ہے حرام خوریاں جن کی تفصیل آگے ہوتی ہے.چھوڑ دو.اور حلال کھاؤ.غنیمت سے بڑھ کر حلال طیّب کیا ہوتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۱۹. : یہودیوں پر جو چربی اونٹ وغیرہ حرام تھی تو ان کے ہی بد عملوں کی وجہ سے اور ارضِ مقدّسہ سے جو چہل سال محروم رکھے گئے.تو یہ بھی عدولِ حکمی کی سزا
ا تھی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۲۱. انسان کی فطرت میں یہ خواہش ہے.کہ وہ معزّز ہو.اس کی اولاد اچھی ہو.اس کا ذکرٖ خیر دُنیا میں چلے.خدا کا اس سے بہت تعلق ہو.وہ مَر کر بھی عزّت پائے.ابراہیم علیہ السلام ان تمام انعامات سے متمتّع ہوئے.: ایک معنے امام کے ہیں.دوسرے معنے گروہ ہیں لَیْسَ عَلَی اﷲِ لِمُسْتَنْکَرٍ اُن یَجْمَعَ الْعَالَمَ فِی وَاحِدٍ.حضرت ابراہیم علیہ السّلام اس لحاظ سے ایک قوم تھے.اب بتاتا ہے کہ اس کی اولاد میں سلطنت ہے.نبوّت ہے.تمام جہان کے لوگ اس پر سلام بھیجتے ہیں.تورات میں ہے.جو تجھ پر اے ابراہیم.برکت بھیجے.میں اس کا گھر برکت سے بھر دوں گا.ابراہیم میں کیا خوبی تھی.ان آیات میں کچھ ذکر ہے.: کے معنے ہیں مستقیم راہ پر چلنے والا.عربی میں جس کے پاؤں ٹیڑھے ہوں اسے بطور دُعا اَحْنَفْ کہتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۲۲. : حضرت نبی کریم صلی اﷲعلیہ و آلہٖ وسلم نے عورتوں کو ایک دفعہ فرمایا.تم بہت عورتیں دوزخ میں جاؤ گی.ایک عورت نے پوچھا کیوں؟ تو آپؐ نے فرمایا کہ تم اﷲ کی نعمتوں کا کُفر کرنے والی ہو.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورت معمولی بات پر ناراض ہو تو باوجود بہت سی آسائشوں کے کہہ اُٹھتی ہے میں نے اس گھر میں ایک لحظہ آرام نہیں پایا.خدا تعالیٰ فرماتا ہیلَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم:۸)اﷲ شُکر سے مال کو بڑھا دیتا ہے.مگر بہت ہیں جو اس سہل علاج کو چھوڑ کر کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں.ایک شاعر نے کہا
سر نوشت ما، بدست خود نوشت خویس نویست، و نخواہد بد نوشت اﷲ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کے شکر کا اَجر کیا کچھ دیا.حضرت یعقوبؑ کے بارہ لڑکے.حضرت اسمٰعیلؑ کے بارہ لڑکے.پھر انہی کی اولاد میں سے آنحضرت صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم ایسے نبی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۲۵. : حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا.یہود نے ہفتہ نصارٰی نے اتیوار سمجھ لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۲۶. اپنے ربّ کے راہ کی طرف حکمت اور اچھے وعظ سے ( لوگوں کو) بُلا اور اُن سے پسندیدہ طرز سے مباحثہ کر.تیرا ربّ انہیں بھی خوب جانتا ہے جو اسکی راہ سے بہک گئے اور وہ راہ پانے والوں کو بھی جانتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۳۵) عیب شماری سے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.کسی کا عیب بیان کیا اور اس نے سُن لیا.وہ بُغض و کینہ میں اَور بھی بڑھ گیا.پس کیا فائدہ ہوا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گِیرہو جاتے ہیں.اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنیوالا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھاپھر جھنجلا کر کہہ دیتا ہے کہ جاو ہم یونہی کریں گے.
امر بالمعروف کرتے ہوئے کسی نے ایک بادشاہ کا مقابلہ کیا.بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم دیا.اس پر ایک بزرگ نے کہا امر بالمعروف کا مقابلہ گناہ تھا مگر ایک مومن کا قتل اس سے بھی بڑھ کر سخت گناہ ہے واغط کو چاہیئے کہ پر عمل کرے اور ایسی طرز میں کلمۂ حکمت گوش گزار کرے کہ کسی کو بُرا معلوم نہ ہو.تم لوگ جو یہاں باہر سے آئے ہو.اگر کوئی نیک بات یہاں والوں میںدیکھتے ہو یا یہاں سے سُنتے ہو تو اسکی باہر اشاعت کر اور اگر کوئی بُری بات دیکھی ہے.تو اس کیلئے دردِ دل سے دعائیں کرو کہ الہٰی اب لاکھ ہا روپے خرچ ہو کر یہ ایک قوم بن چکی ہے.اور یہ قوم کے امام بن گئے ہیں.پس تُو ان میں اصلاح پیدا کر دے.(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۱۰) ۱۲۷. یہ ایک خطرناک مرض ہے جس کو شریعت میں سوء ظن کہتے ہیں.بہت سے لوگ اس میں مبتلاء ہیں اور ہزاروں قسم کی نکتہ چینیوں سے دوسروں کو ذلیل کرنا چاہتے ہیں اور اسے حقیر بنانے کی فکر میں ہیں مگر یاد رکھو.وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ (الآیۃ)عقاب کے معنے جو پیچھے آتا ہے.انسان جو بلاوجہ دوسرے کو بدنام کرتا ہے اور سوء ظن سے کام لے کر اسکی تحقیر کرتا ہے.اگر وہ شخص اس میں مبتلا نہیں.جس بدی کا سوء ظن والے نے اسے مہتّمَ ٹھہرایا ہے.تو یہ یقینی بات ہے کہ سوء ظن کرنے والا ہرگز نہیں مریگا جب تک خود اس بدی میں گرفتار نہ ہوئے.پھر بتاؤ کہ سوء ظن سے کوئی کیا فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ مَت سمجھو کہ نمازیں پڑھتے ہو عجیب عجیب خوابیں تم کو آتی ہیں یا تمہیں الہام ہوتے ہیں.مَیں کہتا ہوں کہ اگر یہ سوء ظن کا مرض تمہارے ساتھ ہے تو یہ آیات تم پر حُجّت ہو کر تمہارے ابتلاء کا موجب ہیں! اس لئے ہر وقت ڈرتے رہو اور اپنے اندر کا محاسبہ کر کے استغفار اور حفاظتِ الہٰی طلب کرو!! مَیں پھر کہتا ہوں کہ آیات اﷲ جن کے باعث کسی کو رفعتِ شان کا مرتبہ عطا ہوتا ہے.اُن پر تمہیں اطلاع نہیں.وہ الگ رُتبہ رکھتی ہیں.مگر وہ چیزیں جن سے خودرائی.خود پسندی.خود غرضی.تحقیر بدظنی اور خطرناک بدظنی پیدا ہوتی ہے.وہ انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں.ایک ایسے انسان کا قصّہ قرآن میں ہے.جس نے آیات اﷲ دیکھے مگر اس کی نسبت ارشاد ساہوتا ہے.وَ لَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاہُ
بِھَاوَ لٰکِنَّہٗ ٓ اَخْلَدَ اِلَی الْاَرْضِ (الاعراف:۱۷۷) اور سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اِیَّاکُمْ وَ الظَّنِّ وَ اِنَّ الطَّنَّ اَکْذَبَ الْحَدِیْثِ.بدگمانیوں سے اپنے آپ کو بچاؤ.ورنہ نہایت ہی خطرناک جھوٹ میں مبتلا ہو کر قرب الہٰی سے محروم ہو جاؤ گے! یاد رکھو حُسنِ ظن والے کو کبھی نقصان نہیں پہنچتا.مگربدظنی کرنے والا ہمیشہ خسارہ میں رہتا ہے.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء صفحہ۲) ۱۲۸. ہر ایک سلیم الفطرت.دنیا کے معاملات کا واقف خوب جانتا ہے کہ بعض لوگ صبر سے کام نہیں لے سکتے اور یہ بھی کہ بعض اوقات چشم پوشی.صبر.درگزر.نقصانِ عظیم کا موجب ہوتی ہے.چور.باغی اور راستہ لوٹنے والے کو اگر سزا نہ دی جاوے اور صرف رحم ہی اس پر کیا جاوے تو کتنا نقصان ہوتا ہے.فطری قوٰی میں انتقامی طاقت بھی سلیم الفطرت انسان کے ساتھ لازمی ہے.پھر اگر قوّتِ انتقام کو ہی کام میں لاوے اور مقابلہ ہی چاہے تو اسے یہی قرآن کس طرح نیک روی کی تعلیم کرتا ہے اور کسی طرح صبر اورنرمی کی ترغیب دیتا ہے.الٓمرٰ سے عملی طور پر کفار کو ڈرایا تھا.سورۂ نحل میم عملی رنگ میںکفّار کی شرارتوں کا ذکر کیا اب آپ ؐ کی ہجرت کا واقعہ آتا ہے.اگلی سورۃ میں تمام ترقیاتِ اسلام کا ذکر فرمائے گا.: صبر کبھی کمزوری سے ہوتا ہے.مگر فرماتا ہے.تمہارا صبر اﷲ کیلئے ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۱۰؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۲۹. پھر تقوٰی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کی معیت حاصل ہوتی ہے جیسے فرمایا .بے شک اﷲ ان لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں.اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو محسنین ہوتے ہیں.احسان کی تعریف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو.اگر نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اس پر ایمان رکھتا ہو کہ اﷲ اس کو دیکھتا ہے.(الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ۸) اﷲ تعالیٰ سے دُوری اور بُعد ساری نامرادیوں کی جَڑ اور ناکامیوں کا اصل ہے.مگر متّقی کے ساتھ اﷲ تعالیٰ ہوتا ہے..تقوٰی ایسی چیز ہے جو انسان کو اپنے مولیٰ کا محبوب بناتی ہے.(الحکم ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۵)
سُوْرَۃُ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مَکِّیَّۃٌ قرآن مجید جو کچھ ہم کو سناتا ہے.کئی حصّوں پر منقسم ہے.نماز.روزہ.حج.زکوٰۃ.نکاح.طلاق وراثت وغیرہ کے متعلق جو آیات ہیں.وہ ڈیڑھ سو کے قریب ہیں اور قربیاً ڈیڑھ سو بحذف مکرّرات احادیث ہیں.پس یہ جو صدہا آیات باقی ہیں.یہ کس لئے ہیں؟ غزیزان! انسان کو بہت ضرورتیں ہیں.ایک خدا شناسی ایک خدا کو راضی کرنا.ایک مخلوق پر شفقت.غرض اس قسم کی کئی باتیں ہیں جن سے باقی قرآن شریف بھرا ہوا ہے افسوس تو یہ ہے کہ ڈیڑھ سو آیات کے متعلق ہی کل بحثیں رہیں اور پھر ان پر بھی اکثر مسلمانوں کا عمل نہیں.جیسا کہ عام طور پر مسلمان بے نماز ہیں.کسی کا مال کھانے میں بعض کو کچھ تامّل نہیں ہوتا.وراثت کے متعلق تو لڑکیوں کے بارے میں عمل ہی اٹھا دیا ہے حلال کمائی کیلئے کچھ تڑپ نہیں رکھتے.چہ جائیکہ خدا کا عرفان اسکی رضامندی اور شفقت علی خلق اﷲ کی تڑپ ہو.یہ سورۃ یہ بتانے کیلئے کہ متّقی کو کیا انعامات ملتے ہیں.اور فاسق.شریر.عہد شکن کو کیا سزا ملتی ہے.مدینہ میں یہودی تھے اس لئے انکو بیدار کیا.۲. : اﷲ تعالیٰ سمجھاتا ہے.کہ یہود کو جو بابلیوں اور رومیوں نے تباہ کر دیا.اس میں اﷲ ظالم نہیں بلکہ اس نے جو کچھ کیا.اس سے اسکی تنزیہ ثابت ہوتی ہے کہ گندوں سے اس کو پیار نہیں.: یہاں لوگوں نے معراج کا ذکر کیا ہے.یہ بہت مناسب ہے کیونکہ معراج ان
واقعات صحیحہ کا بیان ہے جو آپؐ کے بعد بھی آپؐ کے جانشینوں کو پیش آنے والے تھے.میرا ایمان ہے کہ معراج یقظہ میں ہوا.ایسے یقظہ میں جس کے سامنے ہماری بیداری بمنزلہ خواب کے ہے.ایک شخص نے میرے بدن پر ہاتھ لگا کر پوچھا کہ اس جسم کے ساتھ معراج ہوا.مَیں نے کہا.یہ تو نورالدّین کا جسم ہے.پھر اپنی طرف اشارہ کر کے کہا.مَیں نے کہا کہ یہ آپ کا جسم ہے.مبہوت رہ گیا! ہمارے قاضی۱؎ اس کے معنے کیا کرتے ہیں کہ یہ ہجرت کا بیان ہے.: سے خواہ وہ مدینہ کی مسجد مراد لیں.مگر ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اس طرف سے گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) : یہ اشارہ ہے ہجرت کی طرف کہ کس طرح خانہ کعبہ سے مدینہ کی مسجد میں پہنچے یا معراج کے ایک حصّہ کا ذکر ہے.(تشحیذالاذھان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۳) ۵. : اَعْلَمْنَا وَ اَخْبَرْنَا (ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۶. : جوسؔ اور جو سانؔ کے معنے ہیں.کسی ملک میں چلنا.پھرنا.مسلمانوں پر بھی یہ بات آئی.اﷲ نے مسلمانوں کو بڑی سلطنت عطا کی تھی.اور ان کو وہ ملک عطا کیا گیا.جو سلیمانؑ کو دیا گیا جو داؤدؑ کو دیا گیا.جس پر عمالیق کو فخر تھا.پھر جب ان کے تقوٰی میں فرق آیا تو ۱؎ قاضی امیر حسین صاحبؓ.مرتّب بالکل کمی ہو گئی.سورۂ جمعہ میں آیا ہے. (الجمعہ:۶)
: حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کا وجود جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں.سارے جہان کیلئے رحمت تھا.اس سورۂ کریمہ میں اﷲ نے یہود کو سمجھایا ہے.کہ دو وقت تم پر خطرناک آ چکے ہیں.ایک جب داؤد کی لعنت تم پر پڑی.اور بابلیوں کے قبضے میں تم گرفتار ہوئے دوسرے حضرت عیسٰیؑ کی لعنت تم پر پڑی.اُن کے بڑے عظیم الشان مقابلہ کا بد انجام طیطسؔ کے زمانے میں ایسا خطرناک ہوا کہ تمہاری عظمتیں خاک میں مِلا دی گئیں.مَیں نے تمہیں بتلایا ہے کہ (یوسف:۱۱۲) ایک مسلمان کی چپّہ بھر زمین جائے تو اس کیلئے کیسا مضطرب ہوتا ہے.پھر تم یاد کرو کہ مسلمانوں کا کتنا ملک تھا.مگر بدعملیوں کی وجہ سے دوبارہ ان پر بھی ایسا ہی وقت آیا.فرماتا ہے کہ انسان بدی کو بھی پکارتا ہے.یعنی اپنی بدعملی کی وجہ سے گویا اپنے لئے دُکھ مانگتا ہے.دوسرے معنے یہ ہیں کہ اپنے یا اپنے اقرباء کے حق میں بد دعا کر لیتا ہے.جیسے ہمارے ملک میں مائیں اپنی اولاد کو گالیاں بد دعا کے رنگ میں دیتی رہتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۳. : عرب غموں اور دُکھوں کو رات سے تعبیر کرتے.سمجھاتا ہے کہ وُہ دُکھ درد کی رات دُور بھی کر دیتا ہے.جلد بازی سے گھبرا کر بد دعائیں نہیں مانگ لینی چاہئیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) : ایک زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ اﷲ بہت چشم پوشی فرماتا ہے.جو رات
کہلاتا ہے.مگر جب مامور آتا ہے.تو پھر مجرم گرفتار ہوتے ہیں.یہ زمانہ مسیح کا بھی ایسا ہی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۳۶۲) ۱۴. : جیسے جیسے اعمال کرتا ہے.ان کے اثر اور نتائج اسی عمل کرنے والے کے گلہ میں بندھے ہیں..اِنَّمَا اَعْمَالُکُمْا حصی عَلَیْکُمْ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۶. : مسند احمد بن حنبل میں کچھ ایسی حدیثیں ہیں جن سے عوام ناواقف ہیں.فرمایا جو لوگ بہرے ہیں یا جنہوں نے انبیاء و رُسل کا زمانہ نہیں پایا.یا وہ بچّے تھے یا بہت بوڑھے تھے.یہ جناب الہٰی میں اپنے اپنے عُذر پیش کریں گے کہ ہمیں کچھ خبر نہ تھی.وہاں بھی اﷲ تعالیٰ رسول بھیج دیگا.بغیر رسول کے عذاب نہیں دیا جاتا.ابنِ جریر میں بھی ایسی حدیثیں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۷. : وہ جن کو حکم دیا جاتا ہے ہمارے حکموں کی خلاف وارزی کرتے
: بدیاں کرتے کرتے وہ حالت پہنچ جاتی ہے.جس پر فردِ جرم لگ جائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۱۸. : نحو کا نکتہ آپ کو سُنائے دیتا ہوں. کے معنے کہتے ہیں.ہیں.پس کیوں ہوا.یہ بؔ کیوں بڑھی؟ نحویوں نے لکھا ہے کہ جب مدح یا ذم کا کوئی مقام ہوتا ہے تو پھر ایک جملہ کے دو جملے بنا لیتے ہیں.اِکْتَفِ بِرَبِّکَ تُو کفائت کر اپنے ربّ سے. قَامَ بِاَخِیْکَ مدح کے مقام میں بولیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۲۱. : ممنوع.روکی گئی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۲۳. او مخاطب! کبھی اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو معبود نہ بنانا کہ خدا کی بھی عبادت و فرماں برداری کی اور اس کی بھی.اگر شرک کا مرتکب ہوا تو دنیا میں بُرا اور ذلیل ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۸) : آخرت کے درجات اور فضیلتیں موقوف ہیں اس پر کہ تُو خدا کے ساتھ شریک نہ ملائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۲۴.
او مخاطب! تیرے مربّی اور مُحسن پالنے والے کا حکم تو یہ ہے.کہ اس کے سوا کسی کی پرستش اور فرماں برداری نہ کی جاوے اور ماں باپ سے پورا نیک سلوک ہو.اگر اومخاطب! تیرے جیتے ہوئے والدین بوڑھے ہو جاویں.ایک یا دونوں.تو خبردار کبھی ان سے کسی قسم کی کراہت نہ کر بیٹھو اور نہ کبھی ان کو جھڑ کو اور ان سے پیاری میٹھی نرم ادب کی باتیں کیا کرنا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۸) : اس کے معنے ہیں کہ حکم شرعی کیا ہے تیرے ربّ نے.اِلَّا اﷲ : یہی ایک مسئلہ ہے.جس کیلئے انبیاء دنیا میں آئے.مَیں جب اذان سُنتا ہوں تو مجھے یقین پڑتا ہے.کہ اسلام کی یہی جامع تعلیم ہے.مگر افسوس کہ جس چیز کارواج پڑ جاتا ہے.اس کی قدر بہت کم رہ جاتی ہے.اسی طرح لآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ.اور کلمہ شہادت ان کے معانی پر غور و تدبّر کرنا ضروری ہے.مگر مسلمان بہت کم توجہ رکھتے ہیں.صوفیائے کرام نے اس کلمہ پر بہت زور دیا ہے اور اسکی تعلیم تفہیم میں بہت کوشش کی ہے اس پر کتابیں بھی لکھی ہیں.: ماں باپ ایک تربیت کے متعلق ہی جس قدر تکلیف اٹھاتے ہیں اگر اس پر غور کیا جائے تو بچے پَیر دھو دھو کر پئیں.میں نے چودہ بچوں کا بلا واسطہ باپ بن کر دیکھا ہے کہ بچّوں کی ذرا سی تکلیف سے والدین کو سخت تکلیف ہوتی ہے.ان کے احسانات کے شکریہ میں ان کے حق میں دُعا کرو.میں اپنے والدین کیلئے دعا کرنے سے کبھی نہیں تھکا.کوئی ایسا جنازہ نہیں پڑھا ہو گا جس میں ان کیلئے دُعا نہ کی ہو.جس قدر بچّہ نیک بنے ماں باپ کو راحت پہنچتی ہے اور وہ اسی دنیا میں بہشتی زندگی بسر کرتے ہیں.: اسقدر انکی مدارت رکھو کہ اُف کا لفظ بھی مُنہ سے نہ نکلے چہ جائیکہ کہ ان کو جھڑکو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) قرآن کریم فرماتا ہے کہ ماں باپ مشرک بھی ہوں تب بھی انکی رعایت و اطاعت ملحوظ رکھو.اور رَبَّیَانِیژ صَغِیْرًا ثبوت دیا ہے.(بدر ۱۰؍اکتوبر ۱۹۱۳ء)
۲۵. انکی پرورش دنیاداروں کے لحاظوں سے نہیں بلکہ دلی محبّت و پیار سے اس طرح کرنا.جس طرح پرندے اپنے بچّوں کو پروں میں پرورش کیلئے لیتے ہیں.اور خدا سے یُوں دُعائیں مانگنا.اے میرے ربّ ! ان سے اس طرح رحم کا سلوک کر.جس طرح انہوں نے میرے لڑکپن میں پرورش فرمائی.غرض جیسے والدین تیرے لڑکپن میں ہمدرد تھے ایسا ہی تُو ان کے لئے ہو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۸-۲۵۹) ۲۶. سنو! مخاطبو! تمہارا پرورش کرنے والا تمہارے دلوں کے بھید جانتا ہے.پس وہاں ریاء اور دکھلاوا کام نہیں آتا.اگر سچ مچ کے نیک ہو تو وہ خدا ہمیشہ ہی اپنی طرف رجوع لانے والوں کو بخشنے والا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۹) : بعض والدین باوجود خدمت کے پھر بھی اولاد کی شکایت کرتے ہیں یا ان کو بے وجہ تنگ کرتے رہتے ہیں.فرمایا.خدا تمہاری نیتوں سے خوب واقف ہے.دوسرے موقعہ پر فرما دیا. (لقمان:۱۶) گویا اطاعتِ والدین کی حد بتا دی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۲۷. او مخاطب! ہر ایک رشتہ دار اور مسکین اور مسافر کو جو کچھ اس کا حق ہے دیدے.اور اپنی نفسانی خواہشوں پر.فخر اور بڑائی کیلئے اور بے ایمانی کے کاموں میں اموال کو ضائع مت کر(تصدی
: اپنے اقرباء سے شکایتیں نوجہ زیادہ معاملہ پڑنے کے پیدا ہو جاتی ہیں اُن کو خلوص سے دینا مشکل ہو جاتا ہے اس لئے اس کی تاکید فرمائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۲۸. : انسان خیال کرے کہ ایک کھانا جو وہ کھاتا ہے اس کے اجزاء کہاں کہاں سے آئے اور کس مشکل اور کنِ مختلف تبدیلیوں کے بعد انکا ایک لقمہ اس کے منہ تک پہنچا.یہ سب سامان وَ اٰتَکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوْہُ (ابراہیم:۳۵) کے ماتحت حضرت حق سبحانہٗ نے پہلے سے عطا فرمائے مگر لوگوں نے اس میں تبذیر کی تو اسکا نتیجہ بھگتنا پڑے گا.اﷲ تعالیٰ نے دینے میں کسی سے بُخل نہیں کیا.بلکہ اس کے غلط استعمال نے تنگی پیدا کر دی.(رعد:۱۲) سے مراد نعمت ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ناجائز طور پر مالوں کو ضائع کرنے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان تو ایسا ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا اور جس نے اس کو پرورش کیا اسکا بھی منکر ہو گیا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۵۹) دنیا کے ہر کاروبار میں اس قسم کے امتحان اور مشکلات پیش آتے ہیں.ایک طرف بیوی بچّوں کیلئے خرچ کی ضرورت ہے.ادھر قرآن شریف میں پڑھتا ہے.لَاتُسْرِفُوْا.(انعام:۱۴۲ اعراف:۳۲)اور اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْآ اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ اور ایک طرف دین.مال و عزّت اور جان خرچ کرانی چاہتا ہے.اسی وقت اپنے اندرونہ کا معائنہ کرے اور اپنے فعل سے دکھائے کہ کیا دین کو مقدم کرتا ہے یا دنیا کو.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۵ء صفحہ۶) ۳۰،۳۱.
اگر ان لوگوں کے دینے کو جنہیں دینا ہے تیرے پاس کچھ نہ ہو اور تُو اس امید پر کہ عنقریب تجھے تیرا محسن ربّ کچھ دیگا.تو سرِدست ان کو ایسا جواب دے.جسے ان کو آرام ہو اور انکی امید بڑھے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۹-۲۶۰) : اگر پاس کچھ نہیں تو کوئی عمدہ بات ہی کہہ دے.ہمارے ایک شیخ تھے حسین ؔ نام مکّہ میں وہ سائل کے چہرے کو دیکھ دیکھ کر اس کے مناسب حال خدا کے مربّی نام کا وِرد بتا دیتے تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) نہ ایسا بخیل کنجوس بن.کہ گویا تیرے ہاتھ تیری گردن سے بندھے ہیں.اور نہ اتنا فضول خرچ بن کہ کچھ بھی تیرے پاس نہ رہے اگر ایسا ہوا تو تجھے ملامت لگے گی اور تھکا ماندہ رہ جاوے گا.( بعض انسانوں کی حالت ایسی حالت ہوتی ہے کہ محتاج کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں اور فضول کر بیٹھتے ہیں.ایسوں کو مخاطب کر کے فرمایا) تیرے رب کی طرف سے ہے کہ کسی کو دولتمند کرتا ہے اور کسی کو مفلس.تو کیوں گھبرا جاتا ہے وہ حکیم اپنے بندوں سے واقف اور انکے حالات پر آگاہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۰) ۳۲. او لوگو! اپنی اولاد کو اس لئے تو قتل نہ کیا کرو.کہ ہم ان کو کہاں سے کھلاویں گے.تو اور وہ ہمارا ہی رزق کھاتے ہیں اور بات تو یہ ہے کہ اولاد کا قتل کسی سبب سے کیوں نہ ہو بڑی بھاری غلطی ہمارا ہی رزق کھاتے ہیں اور بات تو یہ ہے کہ اولاد کا قتل کسی سبب سے کیوں نہ ہو بڑی بھاری غلطی اور بدی ہے.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۲۶۰) : انسان میں ایک غضب کی طاقت ہے.وہ جب حد بڑھتی ہے تو کئی کئی رنگوں میں ظاہر ہوتی ہے.غضب والا انسان گالی دیتا ہے.اپنی اولاد کو قتل کر دیتا ہے.اس قتل کے بڑے اسباب میں سے مردوں کی بد چلنی بھی ہے.پھر مفلسی کا ڈر.جیسا کہ آجکل بعض لوگ کہتے ہیں کہ بہت اولاد نہیں چاہیئے یہ موجب ہے ملک کے افلاس کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ فروری ۱۹۱۰ء)
آخرت میں گناہ کے بوجھ سے ہلکا ہو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۰-۲۶۱) ۳۵. کسی بھلے غرض کے سوا یتیموں کے مال کے پاس مت جاؤاور ان کا خیال رکھو.یہاں تک کہ مضبوط اور بڑے ہو جاویں.اپنے معاہدوں پر وفاداری دکھلاؤ.تمہارے معاہدے خدا تعالیٰ سے ہوں یا اس کے بندوں سے.یاد رکھو.عہدوں کی بابت پوچھے جاؤ گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۱) : تیسری طاقت حرِص مال کی ہے.اس سے منع فرمایا.قوٰی بدنی کا قیام زیادہ تر فضلِ الہٰی سے ہے.دیکھو میں دودھ کبھی نہیں پیتا.پھر بھی اس بڑھاپے میں سات سو صفحے کی کتاب ایک رات میں پڑھ سکتا ہوں.زیادہ حرص نہ کرو.نہ اپنے مال پر.نہ کسی کے مال پر.خصوصًا یتیم کے مال سے بچو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۳۶ ماپنے اور تولنے میں پورا ماپ اور پورا تول اختیار کرو.اس بات کا نتیجہ اس دنیا میں بہت ہی اچھا ہو گا.اور اس امر کا انجام بھی بہت عمدہ ثابت ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۱) ۳۷. اور جو بات معلوم نہ ہو اسکا دعوٰی مت کرو.نا سمجھی سے گواہی نہ دو.کان اور آنکھ اور اعصابی
مرکز جسے قلب کہتے ہیں.سب سے ان کے کاموں کا سوال ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۱) : لَا تَقْفُ کے معنے ہیں لَا تَقُلْ.جو صحابہؓ و تابعین سے ثابت ہیں.جس چیز کا علم نہ ہو.وہ مُنہ سے نہ نکالو.آجکل ایسی بے باکی بڑھ رہی ہے کہ پالیٹکس اور اکانومی کے معنے تک نہیں جانتے اور اپنے اخبار اس کیلئے وقف کرنے پر بیٹھے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۳۸. خوشی سے اتراتے ہوئے زمین پر مت چلو.تُو او مخاطب! اپنی طاقت سے زمین کو نہیں پھاڑ سکتا اور نہ پہاڑوں سے اونچا ہو سکتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۰) : ایک اور بُری بلا ہے.تکبّر.اس سے منع فرماتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) اور امت چل زمین پر اتراتا.تُو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کو اور نہ پہنچے گا پہاڑوں تک لمبا ہو کر.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۶۰) ۳۹. یہ سب بُر ی باتیں ہیں.ان کی بُرائی تیرے رب کو ناپسندیدہ ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۱) ۴۰.
پھر وہ حکمت کی باتیں ہیں کہ تیرے ربّ نے تجھے وحی کے ذریعہ بتلا دیں.اﷲ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی معبود مت ٹھہرانا.اگر شرک کیا تو جہنم میں ملزم ہو کر دھکیل دیا جاوے گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۱-۲۶۲) : پھر وہی پہلی بات جو کُل نیکیوں کا اصل الاصول ہے.یاد دلاتا ہے.(ضمیمہ اخباربدرقادیان۲۴؍فروری۱۹۱۰ء) ۴۲. : اﷲ نے اس کتاب میں قربِ الہٰی سیکھنے والوں.دنیاداروں.امراء.غرباء و بچے بوڑھے.غرض ہر طبقے.ہر مذاق کے لوگوں کیلئے بھلائی کی باتیں اور نصیحتیں مکمل بیان کی ہیں.ایک سوال ہوا کہ خدا نے مسیح و مہدی کا ذکر قرآن کریم میں کیوں نہیں کیا؟ فرمایا.ذکر تو کیا ہے چنانچہ(نور:۵۶) میں اسکا ذکر مذکور ہے.نام بہ نام فہرست کی کوئی ضرورت نہ تھی.کیونکہ اس طرح تو ضروری تھا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کا نام بھی ہوتا اور پھر خلفاء کا نام لکھ دیتا تو سب لوگ اپنی اولاد کا وہی نام رکھتے اور معاملہ مشتبہ ہو جاتا.اس لئے ایک نشان انکی صداقت کا فرما دیا کہ (نور:۵۶)اور فرمایا (نساء:۸۰)(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۴۳. : یعنی اے مشرکین.ایک تم خدا کے پرستار.پھر تب تمہارے شفیع.پس ذی العرش کے سامنے اس صورت میں حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے مقابلہ میں تم جیت سکتے ہو! مگر ہرگز ایسا نہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء)
۴۶. : جو شخص غفلت کی راہ اختیار کرتا ہے اوّلاً اس کے قلب پر غین۱ آتا ہے.پھر رین۲.پھر صدا۳ آتی ہے پھر طبع۴ پھر ختم۵ ہوتی ہے.پھر قفل۶.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۴۷. : اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا بیان کریں اور حاضرین کے مذاق کے مطابق کے سلسلے کے کسی پِیر کا ذکر نہ آئے تو لوگ کہہ اُٹھتے ہیں کہ مزہ نہیں آیا.چشتیوں کی مجلس میں چشتیوں کے پِیر طریقت کا ذکر نہ کریں.نقشبندیوں.قادریوں کی مجلس میں ان کے پِیروں کا.سہروردیوں میں انکے پِیر کا.تو وہ ناراض ہو جاویں.مَیں دوسروں کا ذکر کروں.ایک شہر میں مَیں نے خدا تعالیٰ کی صفات کا ذکر شروع کیا اور دیدہ دانستہ حضرت صاحب کا ذکر نہ کیا.تو بعض شخصوں میں اس کے متعلق بحث چھڑ گئی.حق فرمایا خدا نے (زمر:۴۶)آہ!(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۴۸. : مسحور کے تین معنے کئے ہیں.اسم مفعول کا صیغہ.جس پر سحر کیا گیا.۲.عربی زبان کا قاعدہ ہے.کوئی چیز جب اپنے کمال کو پہنچ جاوے تو مبالغہ کیلئے اس کے اسم فاعل
کو اسم مفعول بنا دیتے ہیں یا برعکس نام لیتے ہیں.مثلاً بہت سیاہ حبشی کا کافور نام رکھ دیتے ہیں.ہمارے ملک میں بھی ایسا کر لیتے ہیں.جیسے چلتی کا نام گاڑی.پس جو بڑا ساحر ہوا سے مسحور کہہ دیتے ہیں.۳.مسحور سحری کھانے کو کہتے ہیں.پس مسحور کے معنے ہوئے.کھانے والا.عربی کا شعر سُناتا ہوں.فَاِن تَسْئَلِیْنَا فِیْمَانَحْنُ فَاِنَّمَا عَصَافِیْر مِنْ ھٰذَالامام المشّحّرِ اس شعر میں مسحّر کے معنے کھانے والے کے ہیں.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو بطور طعن کہتے (مومنون:۳۴) گویا ان کے نزدیک نبی کھانے والا نہیں چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۵۲. : بعض کہتے ہیں کہ سر کو اونچا کر کے نیچا یا نیچا کر کے اونچا کرنا.بے ایمان لوگوں کی عادت ہے کہ حقارت کا اظہار اس طریق پر کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۵۴. : اس پر مجھے ایک حکایت یاد آ گئی.ایک مولوی ایک مِس کو پڑھایا کرتے.مِس نے ان پر ایسا اعتبار جمایا کہ اپنی کنجیاں تک ان کے سپرد کر رکھی تھیں.میں نے انہیں کہا.ہوشیار رہنا ایک دن بھاگتے میرے پاس آئے.وجہ دریافت کی تو بتلایا کہ مِس نے مجھ پر اعتراض کیا ہے کہ ھِی
َ مونٔث کی ضمیر ہے اور یہ اَحْسَنؔ کیلئے ہے جو مذکّر ہے.یہ کیونکر درست ہوا؟ مَیں نے کہا یہ تو معمولی بات ہے کہ یہ اسم تفضیل جس پر ال نہ ہو مذکر و مؤنث کیلئے یکساں آ سکتا ہے.جب جا کر ان کو ہوش آیا.اس موقعہ پر مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اوّل بات کو تو لو.پھر مُنہ سے بولو.انسان ایسا لفظ کیوں مُنہ سے نکالے جس کا نتیجہ اخیر میں بُرا بھگتنا پڑے.: یُفْسِدُ بَیْنَھُمْ سورۃ یوسف میں بھی یہ لفظ آیا ہے (یوسف:۱۰۱) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۵۶. : سب لوگوں کو.: اس کے پہلے فرمایا.ان کا تعلق آپس میں کیا ہوا؟ سُنو! قرآن مجید میں ہے کہ(مائدہ:۷۹) نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو فرماتا ہے کہ آپ محتاط رہیں.آپ کو اﷲ تعالیٰ نے بہت بزرگی دی.ایسی بات آپ کی شان سے بعید ہے.اسی واسطے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم لعّان نہیں تھے.حدیث میں جہاں ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی ممانعت کا بیان بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) : نبیوں نے تیرے متعلق بڑھ بڑھ کر پیشگوئیاں کی ہیں.ازاں جملہ زبورِ داؤد میں بھی.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۳۶۲) ۶۰.
: یہ ایک آیت ہے.جس پر لوگوں کو شُبہ ہوا ہے سر سیّد احمد خان صاحب نے بھی ٹھو کر کھائی ہے اور معجزوں سے انکار کیا ہے.میرے سامنے اس کے صحیح معنے یہ ہیں.کسی چیز نے ہمیں آیات کے بھیجنے سے نہیں روکا.اور کیا پہلوں کی تکذیب ہمیں روکتی ہے؟ ہرگز نہیں.چنانچہ دیکھو.ثمود کیلئے اونٹنی بطور نشانی بنائی.جب انہوں نے اس پر ظلم کیا.تو خمیازہ اٹھایا اسی سورۃ کے رکوع دس میں اخیر پر (بنی اسرائیل:۹۵) کس چیز نے روکا ہے لوگوں کو ایمان سے.مگر اس نے کہ یہ بشر رسول ہے.یہ تو ایسی چیز نہیں.پھر یہ معنے ہیں کہ میںاَلْ کیسا ہے؟استغراق کا! تو مطلب یہ ہوا کہ کل آیات کے بھیجنے سے تو تکذیب روکتی ہے مگر بعض سے تو نہیں روکتی.اگر بعض آیات مراد ہیں تو باقی بعض کے بھیجنے سے تکذیب النّاس نہیں روکے گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) : اور نہ اس بات سے منع کیا کہ پہلوں نے جھٹلایا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۳۶۳) اَلْاَیٰتِ: عربی لفظ ہے دو کلموں سے بنا ہے ایک اَلْ اور دوسرا آیات سے جو آیت کی جمع ہے.اَلْ کے معنے عربی میں کبھی خاص کے آتے ہیں اور کبھی کُل کے معنے دیتا ہے.اگر لفظ اَلْ کے خاص معنے کئے جاویں تو آیت کا مطلب اور معنے یہ ہوں گے ’’ ہمیں ان خاص نشانیوں کے بھیجنے سے (جنہیں مُنکر لوگ طلب کرتے ہیں) کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر یہ کہ ان نشانیوں کو اگلوں نے جھٹلایا.اس کے بعد کی آیت بھی ان معنوں کی تاکید کرتی ہے.جس کا ثبوت ہے.ثمود کی قوم نے ایک نشان مانگا.پھر انہوں نے تکذیب کی اور اس نشان پر ظلم کیا.اس قسم کے نشانات کی نفی صرف آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کے وقت نہیں ہوئی.بلکہ غور کرو مرقس۸باب ۱۱.فریسیوں نے مسیحؑ سے نشانات طلب کئے.اُس نے آہ کھینچ کر کہا.اس زمانے کے لوگ کیوں نشان چاہتے ہیں.میں تم سے سچ کہتا ہوں.اس زمانے کے لوگوں کو کوئی نشان دیا نہ جاوے گا.اور جس نشان دکھانے کا وعدہ ہوتا ہے وہ بھی اب تک ظلمت میں ہے.اور لوقا ۲۳ باب ۸ میں ہے.ہیروڈیس کو بڑی خواہش تھی کچھ مسیحی معجزے دیکھے.باوجود اصرار مسیحؑ اس کے سامنے بولے بھی نہیں آخر اس نے ناچیز ٹھہرایا.
غور کیجئے.ذرا انصاف سے سنئے.انجیل میں لکھا ہے.اگر کسی میں رائی برابر ایمان ہو تو پہاڑوں کو کہے یہاں سے وہاں چلے جاو تو وہ چلے جاویں گے.بیماروں کو ہاتھ رکھ کر چنگا کرے گا.وغیرہ وغیرہ مرقس ۱۶ باب ۱۷.عیسائی انصاف سے کہیں.تمام دنیا میں کوئی عیسائی مومن ہے ؟ یا سب کے سب کافر ہیں؟ اگر کوئی ہے تو اپنے ایمان کو مرقس ۱۶ باب ۱۷ پر رکھ کر دیکھے! اگر کہے کہ اس وقت معجزات کی ضرورت نہیں.تو ہم کہتے ہیں.ایسی ہی محمدؐ صاحب کے وقت بھی ضرورت نہ تھی.دومؔ اگراَلْ کے معنے جو اَمیں ہیں.کُل کے کئے جاویں تو یہ معنے ہوں گے.ہمیں کُل معجزات بھیجنے سے کوئی امر مانع نہیں ہوا.مگر اگلوں کا ان معجزات کو جھٹلانا.یعنی جس قدر معجزات ہماری قدرت میں ہیں وہ سب کے سب ظاہر نہیں کئے گئے.… اس سے بالکلیہ معجزے کی نفی نہیں نکلی.اس کی مثال ایسی سمجھو.کوئی کہے مَیں نے کُل مطالب بیان نہیں کئے.اس کلام سے کوئی بھی سمجھ سکتا ہے کہ قائل نے کوئی مطلب بھی بیان نہیں کیا.(فصل الخطاب حصّہ اوّل طبع دوم صفحہ۶۲-۶۳) آپؐ کے دلائلِ نبوّت اور علاماتِ رسالت جن کو قرآن کریم نے آیات اور برہان کر کے تعبیر فرمایا ہے قانونِ قدرت میں مشہود اور قرآن میں موجود ہیں.اگر ان دلائل کو معجزہ کہیں جس کے معنے ہیں غیر کو عاجز کر دینے والا یا خرقِ عادت کہیں تو بالکل بجا ہے.اوّل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے وقت دنیا کی تاریخ پر نظر کرو.جس ملک میں آپؐ پیدا ہوئے وہ کیسا تھا.عامہ عرب کسی مذہب کے پابند نہیں کوئی کتاب نہیں رکھتے.کوئی پتھروں کو پُوجا کرتا ہے کوئی درختوں کی کوئی سیّاروں کی.کوئی بھُوت پریت کی.جزا و سزا کے منکر ہیں.سیاست و تمدّن کو نہیں جانتے.چوری قمار بازی.باہمی جنگ اور بُغض اور عناد.جہالت.فخر اور کِبر ان کی صفات ہیں اور شاعریت پر کمال کا مدار ہے.عرب کے مشرق میں ایک طرف ہندوستان ہے جس میں توہّمات کی گھٹا ایسی چھائی ہے کہ مرد کی شرمگاہ جسے لِنگ کہتے ہیں اور عورت کی شرمگاہ جسے بھگؔ کہتے ہیں بے طعن پوجی جاتی ہے.منترفال وغیرہ توہّمات کا سمندر موج مار رہا ہے.دوسری طرف ایران ہے جس میں آگ کی پرستش.سیّاروں کی معبودیت.نور و ظلمت دو خداؤں کی سلطنت پر اعتقاد ہے شمال و مغرب اور عین وسط میں کچھ عیسئی پوپ کے بندے رومن کیتولک وغیرہ پروٹسٹنٹ مذہب کے علاوہ ( اس مذہب کا بانی لوتھر ہے) مریم اور مسیحؑ کے پچاری اور ان میں پوپ صاحب بہشت بانٹنے
والے اور تمام عیسائی خاکسار بندے ابنِ مریم کو خدا ماننے والے جن کے حق میں قرآن فرماتا ہے (آل عمران:۶۵)ا ور کچھ یہود بَعل اور مولک اور عستارات کے پُجاری.اور ایسے سخت بے ایمان جو عرب کے سخت بُت پرستوں کو کہتے ہیں. (النسآء:۵۲) دنیا کی ایسی حالت میں ایک بے ساز و سامان.بے فوج و ملک ، توحید کا واعظ کھڑا ہو گیا اور دعوٰی کیا کہ مجھے خدا نے بھیجا اور حکم دیا ہے.قُمْ فَاَنْذِرْ وَ رَبَّکَ فَکَبِّرْ.اس نے تمام رسوماتِ باطلہ پر یَک قلم خط نسخ کھینچنا چاہا.تمام ریئس اور امیر غریب اور فقیر اس واعظ کے جانی دشمن ہو گئے.سبحان اﷲ کیسا مخالف اٹھا.اپنی قوم کو جاہل اور ان کے زمانے کو جاہلیت کا زمانہ کہتا ہے.قوم کا ایسا مخالف نہیں جیسے ایک شخص مصلحِ قوم کہتا ہے.یہ مت سمجھو.میں نبیوں کی کتابیں منسوخ کرنے آیا.اور ایک کہتا ہے ویدؔ ایسے ہیں کہ تمام علوم اور فنون کا مخزن ہیں.پھر اپنی اُمیدیں خاک میں لے گیا.تمام ملک اور تمام اہلِ شہر مارنے کے درپَے ہیں اور یہ کہتا جاتا ہے (الصف:۹،۱۰) (القمر:۴۶) اور پھر ایسا کامیاب ہوا.ایسا کامیاب ہوا کہ اپنے سامنے اس کو یہ سورۃ پہنچ گئی. (النّصر:۲،۳) جس قوم میں اٹھا.اس قوم میں ایک بھی نہ رہا جو اس کے آخری ایّام میں مخالف ہوتا؟ اپنے ارادوں میں پورا کامیاب ہو گیا اور کامیابی دیکھ کر اپنی ڈیوٹی کو پورا کر کے رفیقِ اعلیٰ سے جا ملا.بتایئے یہ معجزہ اب تک نظر میں آتا ہے یا نہیں؟ مگر یہ خرقِ عادت نہیں تو اس کی نظیر دکھائیے؟ اور معجزہ بمعنی عاجز کنندہ نہیں تو اس کے ہم شہر اور ہم قوم دشمنوں کا نام و نشان ڈھونڈئیے؟ عیسائی مذہب کا ربّ اور اُن کا خُدا کیا نظیر ہو سکتا ہے؟ جو بقول عیسائیوں کے قوم سے پِٹا.مارا گیا.اسکی مخالف اس کی قوم اب تک موجود ہے.موسٰیؑ کب نظیر ہو سکتا ہے ؟ جس نے خود بھی وہ ملک نہ دیکھا جس کی اُمید پر مصر سے قوم کو لے چلا.
وِید کے متّبع کیا دکھائیں گے؟ جن کے مقدّس مکان دوسروں کے قبضوں میں نظر آتے ہیں.جِن کی الہامی دعائیں، خدا کی بتائیں رچیں، ہمیشہ اُلٹی پڑیں! زرتشتی کیا نظیر دکھائیں گے؟ جن کو اپنے ملک میں سر رکھنے کی جگہ نہیں ملی! دوسری آیت نبوّت یا دوسرا معجزہ اور خرق عادت جو محسوس اور مشہود ہے.آپؐ کی حیات میں آپؐ کا اپنے ملک پر پورا تسلّط اور اپنی قوم پر پوری حکومت جو نہ آپؐ کے پہلے کبھی ایسی کامیابی کسی مدعیٔ نبوّت کو ہوئی اور نہ آپؐ کے بعد.حضور علیہ السلام کیسے آزادی بخش اپنی قوم کے ہوئے کہ آپؐ کا شہر آج تک غیروں کی غلامی سے آزاد ہو گیا.سلطان ٹرکی جو برائے نام وہاں کے بادشاہ ہیں خادم الحرمین کا لقب رکھتے ہیں.اس موقعہ پر وِید کی الہامی دعائیں اور انکی کوششیں جو وید کے مومن ہیں اور عیسائیوں کے مخلص مُنَجِّی کی جاں فشانی اور موسٰیؑ کے بڑے معجزات اور یعقوب کے ساتھ خدائی وعدے کنعان کی ابدی وراثت کی بابت.اور پارسیوں کے الہامی ہادیوں کی دعائیں فراموش کرنے کے قابل نہیں.قومی آزادی کے قدردان قوم کے مصلحین کے قربان انصاف کریں.ہادیٔ عرب کمزوری کی حالت میں کیا کر گئے(سبا:۵۰) (المزمل:۱۶-۱۷)اور آرام کا وعدہ.(النور:۵۶) پھر اپنے وعدہ کو سچّا کر دکھاتا ہے.مدعیٔ نبوّت سے ایسی کامیابی بے نظیر اور خرقِ عادت نہیں تو اور کیا ہے.تیسرا معجزہ یا خرق عادت بلکہ آیتِ نبوّت. (الحجر:۱۰) کس طرح قرآن کی حفاظت ہوئی.دنیا میں کوئی مذہب دکھاؤ جس کی کتاب اپنے ہادی کی زبان میں بعینہٖ اس طرح شہرت پذیر ہو.تراجم کا اعتبار نہیں.تراجم مترجمین کے خیالات ہیں.انجیل کی تو ایسی حفاظت ہوئی کہ الامان.انجیل کی حالت ناگفتہ بہ ہے.آج تک پتہ نہیں لگتا.مسیح کی اصلی کتاب عبری تھی یا یونانی.پھر ان کا کلام بالکل حواریوں کے کلام سے مخلوط ہے.ممتاز نہیں.وِید کی حالت
کی حالت شب و روز آنکھ کے سامنے ہے.حاجتِ بیان نہیں.پھر علی العموم تلاوت سے محروم ہیں اگر دُنیا بنصرتِ الہٰی کسی مذہبی کتاب کی حافظ و ناصر ہے تو قرآن کریم اوّل نمبر پر ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۶۵تا ۶۸) کتاب اﷲ (قرآن) اور سنّت رسول اﷲ (حدیث ) میں بجائے لفظ معجزہ اور خرقِ عادت کے جو نہایت کمزور اور ناقص تھے.آیت اور بُرھان کا لفظ مستعمل ہوا ہے.جو دلائل اثباتِ نبوّت اور علامتِ رسالت کے واسطے جامع اور محیط ہونے کے علاوہ ہر زمانے کے موافق اور ہر ایک عقلِ صحیح کے مناسب ہے.فطرت اور قانون کے نزدیک صحیح ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۷۰) ٓٓ قرآنِ کریم میں ہرگز ہرگز اختلاف نہیں.جب قرآن کریم نے بتا دیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی صداقت پر ہم نے نشان بھیجے تو ایسا ہرگز ممکن نہ ہو گا کہ قرآن میں یہ بھی لکھا کہ ہم نے نشانِ نبوّت حضرت نبیؐعرب کو نہیں دئے.کیونکہ ایسا ماننے سے قرآن میں اختلاف ہو جائے گا اور قرآن میں اختلاف نہیں علاوہ بریں کسی قرآنی آیت میں یوں نہیں آیا کہ ہم نے نشاناتِ نبوّت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہیں دیئے معجزوں کے انکار پر جن آیات سے سائل اور اس کے کسی ہم خیال عیسائی اور ان کے پیرو آریہ نے استدلال کیا ہے.اُن آیات پر مفصّل گفتگو تصدیق براہین احمدیہ میں دیکھو اور بقدر ضرورت یہاں عرض ہے.پہلے وہ آیت جس سے نبیٔ عرب اور محسن تمام خلق صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے منکروں نے دھوکہ کھایا ہے اور جس کا ذکر بہت سننے میں آیا ہے.یہ ہے. (بنی اسرائیل:۶۰) اس آیت شریف سے منکرین نے یقین کیا ہے کہ حضرت نبی عرب پر معجزہ کا ظہور نہیں ہوا.کیونکہ معنے اس آیت کے یہ سمجھے ہیں کہ پہلوں نے معجزات کو جھٹلایا.اس واسطے ہم معجزات کے بھیجنے سے رُک گئے مگر یہ ان کا خیال غلط ہے.اوّل اس لئے کہ معجزات اور آیات کے وجود کا تذکرہ قرآن کریم میں بکثرت موجود ہے اور محمد صاحب صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے معجزات نہ ماننے والوں کو اس لئے کہ ہدایت اور موجود چیز کے منکر ہیں ظالم اور فاسق اور کافر کہا ہے اوراِلَّا کا لفظ جومَامَنَعْنَا آیت میں ہے.عرب کی زبان میں جن کی بولی پر قرآن کریم ہے.زائد بھی آتا ہے.دیکھو ذوالرمّہ کا یہ قول حراجیح ما تَنْقَکُّ ابلَّا منَاخَۃً عَلَی الخفِّ اَوْتَرْمِی یذرقفرا میرے لمبے قد کی اونٹنی ذلیل بیٹھی رہتی ہے.یا اس پر دُور دراز کے بے آبو و گیاہ میدانوں کا سفر کرتا ہوں.دیکھو اس تحقیق پر.اس آیت شریف کے معنی جس کو منکرینِ معجزہ پیش کرتے ہیں.یہ ہوئے
اور نہیں منع کیا ہم کو نشانوں کے بھیجنے سے پہلوں کی تکذیب نے ‘‘ کم سے کم یہ آیت انکارِ معجزہ پر صاف اور واضح دلیل نہ رہی.کیونکہ اس آیت سے معجزہ کا ثبوت نکلتا ہے.نہ نفی.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.اِنْ ھٰذَا اِلَّا بِتَائِیْدِرُوْحِ الْقُدْسِ.دومؔ اس لئے کہ اِلَّا ایک حرف ہے جس کے معنے واؤ عاطفہ کے بھی آتے ہیں دیکھو معانی اور نحو کی بڑی بڑی کتابیں اور ثبوت کیلئے دیکھو یہ آیت شریف اِنِّی لَایَخَافُ لَدَیَّ الْمُدْسَلُوْنَ اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْنًا بَعْدَ سُوْئٍ (نمل:۱۱) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.میرے پاس میرے رسولوں اور انہیں خوف ہی نہیں جنہوں نے گناہ کرتے کرتے گناہوں کو چھوڑ دیا اور گناہوں کے جا بجا نیکی کرنے لگے.امام اَخفش.امام فراء.امام ابوعبید ائمہ لغت و نحو نے کہا ہے.یہاں اِلَّا واؤ کے معنے پر آیا ہے.ایسے ہی آیت شریف (بقرہ:۱۵۱) تُو کہہ نہ رہے تم پر عام لوگوں اور خاص کر بدکاروں کی کوئی حُجّت اور دلیل.پھر اس تحقیق پر منکرین کی پیش کردہ آیت کے یہ معنی ہوں گے.’’ اور نہیں منع کیا ہم کو آیات کے بھیجنے سے کسی چیز نے اور منکروں کی تکذیب نے‘‘.اور یہ عطف خاص کا ہو گا عام پر.غور کرو.منکروں کی تکذیب ہرگز ہرگز معجزات کے روکنے والی نہیں.اگر انکی تکذیب روکتی تو فرعون نے حضرت موسٰی علیہ السلام کے بڑے بڑے معجزات کا انکار کیا تھا.پھر کیا اﷲ تعالیٰ نے حصرت موسٰیؑ کو معجزات عطا نہ کئے؟ بلکہ منکر ہمیشہ انکار کرتے رہے اور معجزات بھی آتے رہے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.اِنْ ھٰذَا اِلَّا بِتَائِیْدِرُوْحِ الْقُدْسِ.تیسرا.اس لئے کہ ہم نے مان لیا.یہاں اِلَّا کا لفظ زائد نہیں.عاطفہ بھی نہیں.استثناء کے واسطے ہے..اَ لْاٰیَات کا الف اور لام عہد اور خصوصیت کے معنے دیگا یا عموم اور استغراق کے.پہلی صورت عہد اور خصوصیت کی اگر ہو گی تو آیت کے یہ معنے ہوں گے.اور نہیں منع کیا ہم کو خاص آیات کے بھیجنے سے مگر پہلوں کی تکذیب نے.اس سے یہ نکلا کہ خاص آیات اور کوئی خاص معجزات نہ آویں گے.اس سے عموم معجزات کی نفی ثابت نہیں ہوتی.دوسری صورت یعنی اگر الف اور لام سے عموم اور استغراق لیا جاوے تو یہ معنی ہوں گے
.کُل آیات کے ارسال سے پہلوں کی تکذیب نے روکا.مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوئی بھی معجزہ نہیں بھیجیں گے.چہارم اس لئے کہ اس مَا مَنَعَنَا والی آیت سے اتنا نکلتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کو معجزات کے بھیجنے سے تکذیب کے ماورا کسی چیز نے نہیں روکا اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی روک نہیں.کہیں منکروں کی تکذیب سے باری تعالیٰ حُجّت کو بند کر دیتا ہے؟ ہمیسہ انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب ہوئی.مگر وہ آتے رہے.ہمیشہ معجزات پر تکذیب ہُوا کی اور معجزات ہُوا کئے.الہٰی طاقتیں اور قوتیں منکرین کی روک سے رکتی نہیں.مَنَعَنَا لفظ کے معنے ہیں.روکا ہم کو.اس لفظ کے یہ معنے نہیں کہ ہم رُک گئے.ہاں اگر قرآن کریم میں یوں ہوتا .جس کے معنے ہیں.نہیں رُکے ہم آیات اور نشانات کے بھیجنے سے مگر اس لئے کہ پہلوں نے تکذیب کی تو البتہ منکرینِ معجزہ کی تقریر کچھ تھوڑی دُور تک چل پرتی.مگر قرآن میں اِمْتَنَعْنَا نہیں.مَنَعَنَا ہے.جس کے معنے ہیں روکا ہم کو.نہ یہ کہ ’’ رُکے ہیں‘‘ غرض تکذیب نے روکا.اور باری تعالیٰ نہ رُکا.روکنے کے ثبوت میں بفرض و تسلیم یہی آیت اور نہ روکنے کا ثبوت وہ آیات ہیں جن میں ثبوتِ آیات ہے.وَ الْقُرْاٰنُ مُتَشَابِھًا ای یُصَدِّقُ بَعْضُہٗ بَعْضًا.قرآن کریم کی آیات متشابہ ہیں.یعنی ایک آیت دوسری آیت کی مصدّق ہوتی ہے.نہ اسکے مخالف اور مکذّب.ھٰذَا اَلْیضًا بِتَائِیْدِرُوْحِ الْقُدْسِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پنجم اس لئے کہ بعض وہ معجزات جن کو یہودی اور عیسائی اور اہلِ مکّہ اہلِ کتاب کے سمجھانے اور بہکانے سے پوچھتے تھے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں اور بشارتوں کے بالکل خلاف تھے اور ایسے معجزات کو مخالف لوگ اس واسطے طلب کرتے تھے کہ اگر یہ معجزات خلاف بشارات ظہور پذیر ہوئے تو ہم بشارات اور حضور کی ان پیشگوئیوں کے ذریعہ حضور پر اعتراض کریں گے جو انبیاء نے کتبِ مقدّسہ میں حضور کے حق میں کئے ہیں اور اگر ایسے معجزات بلحاظ ان بشارات کے ہم کو دکھائے نہ گئے تو معجزات کے نہ ہونے کا الزام قائم کر دیں گے.مثلاً حضور علیہ السلام کی نسبت ایک بشارت میں یہ آیا ہے کہ جو کلام اس نبی موعود پر اُتر ے گا وہ ایک دفعہ کتاب کے طور پر نازل نہ ہو گا.بلکہ وہ کلام اس نبی موعود صلی اﷲ علیہ وسلم کے مُنہ میں رکھا جائے گا کچھ یہاں اور کچھ وہاں.غور کرو کتبِ مقدّسہ کی آیات ذیل:.
’’ ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا.‘‘ استۃناء ۱۸ باب ۱۸.’’ حکم پر حکم.حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون ہوتا جاتا.تھوڑا یہاں.تھوڑا وہاں.ہاں وہ وحشی (عربی) کے سے ہونٹوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ سے باتیں کریگا.‘‘ یسعیاہ ۲۸باب:۱۰،۱۱ ان آیات سے صاف عیاں ہے کہ اس نبی موعود کو جو کلام عطا ہو گا وہ اس نبی کے مُنہ میں ڈالا جاوے گا اور بتدریج نازل ہو گا.کچھ یہاں.کچھ وہاں.یعنی مچھ مکّہ میں اور کچھ مدینہ میں.کچھ کہیں.کچھ کہیں.اب قرآن کریم کی طرف نگاہ کرو.اس میں ایک جگہ لکھا ہے.کافر کہتے ہیں.(بنی اسرائیل:۹۴) تو اے محمد چڑھ جا آسمان پر اور تیرے چڑھنے پر تجھے نہ مانیں گے جب تک اوپر سے ایسی کتاب نہ لاوے جس کو ہم پڑھ لیں.اب بتلایئے اس طلب کو بجُز اس کے کیا جواب ہو سکتا ہے کہ پاک ذات ہے میرا رب اس نے میرے لئے جو تجویز فرما دی.وہ ناقص نہیں کہ اب تجویز کو بدلادے اور میں تو بشر رسول ہوں.بشر رسول تو ہمیشہ وہی معجزات دکھاتے رہے جو انکی بشارات کے برخلاف نہ تھے اور وہی نشان لائے جو اﷲ تعالیٰ نے ان کے واسطے مقرر فرمائے تھے.ششم اس لئے کہ معجزات کاظہور اور انبیاء کافر مودہ کبھی بتدریج ظہور پذیر ہوتا ہے اور انبیاء علیھم الصلوٰۃ و السلام چونکہ بشر اور رسول ہوتے ہیں.وہ کوئی ایسی مخلوق نہیں ہوتے کہ خدائی ارادے کا خلاف چاہیں.شریر لوگ ایسے موقّت معجزات کو قبل از وقت چاہتے ہیں.چونکہ وہ معجزات وقتِ معیّن پر ظاہر ہونے والے اور مشروط بشرائط ہوتے ہیں.اسی لئے قبل از تحقیق شرائط اور اس وقتِ معیّن کے ظہور پذیر نہیں ہو سکتے.مثلاً حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان نبی اسرائیل سے جو فرعون کی سخت تکالیف اُٹھا رہے تھے.وعدہ ہوا کہ تم کو کنعان وغیرہ وغیرہ کا ملک عطا ہو گا.دیکھو توریت.’’ مَیں نے اپنے لوگوں کی تکلیف جو مصر میں ہیں یقینًا دیکھی.اور انکی فریاد جو خراج کے محصّلوں کے سبب سے ہے سُنی.اور مَیں اُن کے دُکھوں کو جانتا ہوں.اور مَیں نازل ہوا ہوں کہ انہیں مصریوں کے ہاتھ سے چھُڑاؤں اور اس زمین سے نکال کے اچھی وسیع زمین میں جہاں دودھ اور شہد موج مارتا ہے لے جاوں.کنعانیوں.حتیوں اور اموریوں اور فرزیوں اور حوّیوں اور ہو سیوں کی جگہ میں لاؤں.(خروج ۳ باب: ۷،۸) مگر دیکھو.یہ وعدہ اس قوم کے حق میں پورا نہ ہوا.جنہوں نے فرعون سے دُکھ اٹھایا.دیکھو.خداوند نے تمہاری باتیں سنیں اور غصّے ہوا اور قسم کھا کے یوں بولا کہ یقینًا ان شریر پُشت کے لوگوں میں ایک بھی ا
اچھی زمین کو جس کے دینے کا وعدہ مَیں نے ان کے باپ دادوں سے قسم کھا کے کیا ہے.نہ دیکھے گا.مگر یفُنّہ کا بیٹا کالبؔ اسے دیکھے گا.(استثناء ا باب ۳۴ تا ۳۶) ایسے ہی چند معجزات کفّارِ مکّہ نے طلب کئے جن کا ذکر ذیل میں ہے.(بنی اسرائیل :۹۱تا۹۴) آیات مرقومہ بالا سے معلوم ہوتا ہے.کفّارِ مکّہ نے ایسے چھ معجزہ حضرت علیہ السلام سے طلب کئے جو اس وقت سردست منکروں کو دکھائے نہیں گئے.مگر غور کرو یہ معجزے کیوں طلب کئے گئے اور کیوں ان کا فوری ظہور نہ ہوا.پہلاؔ معجزہ جس کو کفّارِ مکّہ نے طلب کیا ہے کہ اَلْاَرْض یعنی اس خاص مکّہ کی زمین میں چشمے چلیں اور دوسرا معجزہ جس کو انہوں نے مانگا ہے.کہ تیری کھجوروں اور انگوروں کے ایسے باغ ہوں جن میں نہریں چلتی ہوں.یہ دونوں معجزے اس واسطے طلب کئے گئے.کہ کتب مقدّسہ بضمن بشارات محمدیہؐ لکھا ہے.’’ ہاں میں بیابان میں ایک راہ اور صحرا میں ندیاں بناؤں گا.اور دشت کے بہائم گیدڑ اور شتر مرغ میری تعظیم کریں گے کہ میں بیابان میں پانی اور صحرا میں ندیاں موجود کروں گا.کہ وہ میرے لوگوں کے میرے برگزیدوں کے پینے کیلئے ہوویں.مَیں نے ان لوگوں کو اپنے لئے بنایا.وہ میری ستائش کریں گے.‘‘(یسعیاہ ۴۳ باب ۱۹.۲۱ تک) اور دیکھو ’’ کس نے یعقوب کو حوالہ کیا کہ غنیمت ہوویں.اور اسرائیل کو کہ لیٹروں کے ہاتھ میں پڑے؟ کیا خداوند نے نہیں.جس کے مخالف ہو کے انہوں نے گناہ کیا.کیونکہ انہوں نے نہ چاہا کہ اسکی راہوں پر چلیں یسعیاہ۴۲باب آیت۴ ۲اور یسعیاہ باب ۲۱؍آیت۱۴ میں عرب کی بابت الہامی کلام یوں ہیں.’’ پانی کے پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سر زمین کے باشند و! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو یسعیاہ باب۲۱؍۱۶،۱۷.’’اور پھر کہا مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی.اور تِیراندازوں کے جو باقی رہے.قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے.‘‘
ان آیات سے اتنا تو معلوم ہوتا ہے کہ بیابان اور صحرا میں چشمے جاری ہوں گے ندیاں چلیں گی.مگر اس میں یہ لکھا ہے کہ برگزیدوں کے پینے کیلئے ہوویں.(دیکھو یسعیاہ ۴۳؍۲۰) بنی اسرائیل کے ایسے باغ عربوں کے ہاتھ ضرور آویں گے جن میں نہریں چلتی ہوں.مگر بنی اسرائیل مکّہ میں آباد نہیں.وہ زمانہ ہجرت کے بعد ہے.جس میں یہ بشارت پوری ہو گئی.کفّار اہلِ کتاب کے بہکانے پر دھوکہ دیتے ہیں مگر دیکھو نبوی معجزات اور محمدیہؐ کیلئے! دیکھو نہرِ زبیدہ مکّہ میں اور بنی زرقاء کی نہر مدینہ طیّبہ میں برگزیدوں کے پینے کے واسطے موجود ہیں.بنو قریظہ اور بنو نضیر کے مکانات برگزیدوں کے قبضے میں آ چکے اور کھجوروں اور انگوروں کے ایسے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں.حضورؐ کیا.حضورؐ کے خادمان کے پاس وہاں موجود ہیں.موسٰی علیہ السلام کے وعدوں سے ( ملک کنعان وغیرہ کی حکومت سے وہ نسل اکثر محروم رہی) اور حضور کے برکات معجزوں سے آپ ؐ کی اکثر قوم وعدہ کو دیکھ چکی اور انشاء اﷲ یقینًا حقیقی کنعان میں بھی پہنچ جائیں گے.تیسرا اور چوتھا معجزہ: یہ کہ منکروں پر آسمان ٹوٹ پڑے.اور اﷲ تعالیٰ اور ملائکہ کی افواج کفّار کو تباہ کردے یہ دونوں معجزہ بھی جن کو کفّار نے طلب کیا.کتبِ مقدّسہ میں موجود ہیں.دیکھو:.’’ خدا سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا.‘‘ (استثناء ۳۳ باب ۲) یہ پیشگوئی نہایت عمدگی سے اس دن پوری ہوئی.جس دن حضور علیہ السلام نے مکّہ معظّمہ کو فتح فرمایاغور کرو بخاری (مطبع میرٹھ کا صفحہ ۶۱۳)اور بخاری(مصری کا جلد۲ صفحہ ۵۰) حضور کے ساتھ اس دن دس ہزار ہاں ٹھیک دس ہزار قدوسی صحابی جن کے ساتھ ملائکہ تھے موجود تھا اور اسی دن مکّہ کے کفار پر آسمان ایسا ٹوٹ پڑا کہ وہاں ان کا نام و نشان بھی نہ رہا.یاد رہے.’’ ہاجرہ عرب کا کوہ سینا ہے.‘‘ دیکھو نامہ گلیتیاں۴ باب ۲۵.پس معنے ہوں گے.ہاجرہ کی پُشت سے اور فاران خود وادیٔ حجاز کو کہتے ہیں اور شعیر میں دو دفعہ حضور بطور تُجَّارتشریف لے گئے اور بدرؔ کی لرائی میں بھی ملائکہ کا لشکر اسلام کا گہرا مددگار تھا.دیکھو قرآن سورۃ آل عمران پانچواں معجزہ.کہ تیرا گھر بڑا زینت والا ہے.یہ کتبِ مقدّسہ سے لیا گیا.’’ تیرے پتھروں کو سُرمہ لگاؤں گا اور تیری بنیاد نیلموں سے ڈالوں گا.مَیں تیری فصیلوں کو لعلوں سے اور تیرے پھاٹکوں میں چمکتے ہوئے جواہرات اور تیرا سارا احاطہ بیش قیمت پتھروں سے بناؤں گا.تیرے سب فرزند بھی خدا سے تعلیم پاویں گے.‘‘ (یسعیاہ ۵۴ باب ۱۲ـ.۱۳)
اور اگر ہمارے حضور.ہمارے ہادی کا گھر ہی لینا ہے جیسیبَیْتٌ لَکَ سے معلوم ہوتا ہے تو اب روضہ اطہر و اقدس کا نظارہ کو لو ؎ کَیْفَ الْوُصُولُ اِلٰی مَدِنَۃِ الْمُصْطَفٰی شَتَّانِ بَیْنَ الْھِنْدِ وَالزَّوْرَائِ اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ شَھَادَۃً فِی بَلَدِ رَسُوْلِکَ : آمین چھٹے معجزہ کا بیان سابق کر چکا ہوں.غور کرو.کیسے یہ تمام معجزات پورے ہو گئے.وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.یادداشت.عیسائی صاحبان! اگر کسی امتحان اور معجزہ کا ظہور پذیر ہونا نقص ہے تو جواب دو جب کسی نے حضرت مسیحؑ کو کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو کہہ کہ یہ پتھر روٹی بن جاویں.اس نے ( مسیحؑ نے) جواب میں کہا.لکھا ہے انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ ہر ایک بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے.جیتا ہے.پھر شیطان اسے (مسیح کو) مقدّس شہر میں اپنے ساتھ لے گیا.اور ہیکل کے کنگرے پر کھڑا کر کے اسے کہا.اگر تُو خدا کا بیٹا ہے تو اپنے تئیں نیچے گرد دے.کیونکہ کہا ہے کہ وہ تیرے لئے اپنے فرشتوں کو فرمائے گا اور دے تجھے ہاتھوں پر اٹھا لیں گے.ایسا نہ ہو کہ تیرے پاؤں کو پتھر سے ٹھیس لگے.یسوع نے اسے کہا.یہ بھی لکھا ہے کہ تُو خداوندا اپنے خدا کو مت آزما!.(متی ۴ باب آیت ۳ تا ۷) (ایک عیسائی کے تین سوال اور انکے جوابات صفحہ۶۰ تا صفحہ۶۷ نیز دیکھیں شحیذالاذہان جلد۷ نمبر۸ صفحہ ۳۹۹.۴۰۲) ۶۱. : اب ایک نشان کا ذکر فرماتا ہے.: بعض نے کہا ہے یہ رؤیا معراج مراد ہے.بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم معراج کے رؤیا میں اپنی بڑی بڑی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں.یہ کب نصیب ہو سکتی ہیں.لیکن آخر ہم چودہویں صدی میں دیکھ رہے ہیں کہ معراج کے واقعات حرف بہ حرف صادق آ رہے ہیں.
: ایک اور موقعہ پر فرمایا ہے.(صفٰت:۶۵)اس پر مشرکین نے ہنسی کی اور شجرۂ زقوم کے معنے مکھن.کھجور بنا کر لوگوں کی دعوت کی اور کہا.یہ ہے.جس سے محمدؐ ڈرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) : اور یہ جھگڑے لعنتی ہیں قرآن میں.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۳۶۲) ۶۳. : کے تین معنے ہیں.ا.تابعین نے معنے کئے ہیں.اَحْتَوِیَنَّ حاوی ہو جاؤں گا.۲.لَاَسْتَوْلِیَنَّ مسلّط ہو جاؤں گا.شاہ عبدالقادر نے لطیف ترجمہ کیا ہے.ان کی ڈھائی باندھوں گا.ڈھائی کو پنجابی میں کھبّی کہتے ہیں.قَالَکے متعلق یاد رکھنے کی بات ہے کہضربؔ.فعلؔ.قَالَ ؔ تینوںبلکہ ان کے ساتھقتلؔ بھی قریب المعنی ہیں.مُنہ سے کہے.ہاتھ.پاؤں.ناک.آنکھوں کے کسی فعل کو کرے یا کسی واسطے سے کرے سب پر قَالَ بولا جاتا ہے.اسی واسطے صرفیوں نے بالعموم انہی افعال کو رکھا ہے.کَلَّمَ کالفظ بھی وسیع ہے.ہاںکَلَّمَ تَکْلِیْمًا جب آئے تو پھر لفظوں سے بات کرنے کے معنے میں آتا ہے.کَلَّمَ الْجِدَارُ الْوَتَدَتَکْلِیْمًا کبھی نہیں بولتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۶۴. : عربی زبان میں جب اسم فاعل کمال کو پہنچے تو صیغہ مبالغہ سے بڑھ کر اسے مفعول کے رنگ میں ادا کرتے ہیں.وفور کے معنے ہیں.بڑی وافر.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء)
۶۵. : ا.کسی کو ہلکا اوچھا بنا لینا.ایسا کہ اپنے پر بھی قابو نہ رہے.:صَوْت کا لفظ چار معنوں میں آیا ہے ۱.کھیل کود.لعب ۲.لَھْو.اﷲسے غافل کرنے کا سامان ۳.غِنَاء.گانا بجانا ۴.ہر چیز جو معصیۃ اﷲ کی طرف بُلائے.(کُلُّ دَاعٍ اِلٰی مَعْصِیَۃٍ اﷲِ) مومن کو ایسی باتوں کا خیال رکھنا چاہیئے.: دنیا میں کوئی سوار ہے.کوئی پیادہ.اے شیطان تیرے سوار و پیادے ہیں ینعی تیرے کام میں لگے ہوئے ہیں.: مال میں شرکتِ شیطان یہ کہ مال حرام راہ سے کماوے ۲.اﷲ کے حکم کے خلاف اس مال کو خرچ کرے.: اولاد میں شرکتِ شیطان یہ ہے.۱.زنا سے اولاد حاصل کرنا.۲.اولاد کو کفر میں رنگین کرنا.۳.ایسے نام رکھنے جن میں غیر اﷲ کے فضل وغیرہ کا ذکر ہو مثلاً فضلِ میراں.پِیراں دِتّا.: شیطان کے وعدے کیا ہیں.ان کیلئے مَیں نے بہت تحقیقات کی ہے.تین باتیں تو بہت قوی ہیں.اور دو اسی قبیل سے.ادنیٰ شعبہ تو یہ ہے کہ کوئی آدمی بُرے کام سے روکا جاوے تو وہ جواب میں کہے کہ فلاں جو کرتا ہے.ایسا کہنے والا گویا تمام بدیوں کو جائز ٹھہراتا ہے ۲.یہ کہنا کہ یہ کام ہم نے پہلے بھی کیا ہے.ہمارا کسی نے کیا بگاڑ لیا.۱.عقائد کے اندر شبہات یا عقائِد باطلہ ۲.عمل باطل ۳.جزاء و سزا کا انکار.تمام شیطانی باتوں کا اصل الاصول یہی تینوں چیزیں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۶۶.
۶۷(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۶۹ : تمہیں ذلیل کر دیگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۷۰. : قصف.کوٹنا.باریک کرنا.دبوچ لینا.: بدلہ لینے والا.نصرت کرنے والا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) ۷۲،۷۳. اِمَامِ: اس کو کہتے ہیں جس کی اتباع کی جاوے.بدکار بدکاروں کی اقتداء کرتے ہیں.اس لئے ان کا نام امامِ بَد ہے.نیک نیکوں کی اقتداء کرتے ہیں اس لئے ان کا نام امامِ نیک ہے.
دانشمند انسان غور کرے کہ وہ جہاں اولین و آخرین جمع ہوں گے.کس جماعت میں پیش ہونا چاہتا ہے.دنیا میں بھی کوئی بدمعاشوں.شہدوں کے ساتھ ہو کر بادشاہ کے حضور پیش ہونا پسند نہیں کرتا تواَحْکَمُ الْحَاکِمِیْن کے حضور اوّلین و آخرین کے سامنے کب گوارا کر سکتا ہے کہ بُری جماعت میں ہو کر پیش ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍فروری ۱۹۱۰ء) یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ ایک شخض بظاہر اچھے لباس میں لوگوں کے سامنے آتا ہے.نمازی بھی نظر آتا ہے لیکن کیا اسے اتنی ہی بات پر مطمئن ہو جانا چاہیئے؟ ہرگز نہیں.اگر اسی پر انسان کفایت کرتا ہے اور اپنی ساری ترقی کا مدار اسی پر ٹھہراتا ہے تو وہ غلطی کرتا ہے.جب تک اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اُسے یہ سرٹیفکیٹ نہ مل جاوے کہ وہ مومن ہے وہ مطمئن نہ ہو.سعی کرتا رہے اور نمازوں اور دعاؤں میں لگا رہے تاکہ کوئی ایسی ٹھوکر اسے نہ لگ جاوے جو ہلاک کر دے.عام پور پر تو یہ فتوٰی اسی وقت ملے گا جبکہ سعادت مند جنّت میں داخل ہوں گے.اور شقی دوزخ میں.لیکن خدا تعالیٰ یہاں بھی التباس نہیں رکھتا.اسی دنیا میں بھی یہ امر فیصل ہو جاتا ہے.اور مومن اور کافر میں ایک بیّن امتیاز رکھ دیتا ہے جس سے صاف صاف شناخت ہو سکتی ہے.ہر ایک شخص ان آثار اور ثمرات کو جو ایمان اور اعمالِ صالحہ کے ہیں اسی دنیا میں بھی پا سکتا ہے اگر سچا مومن ہو بلکہ اگر کوئی شخص اس دنیا میں کوئی نتیجہ اور اثر نہیں پاتا تو اُسے استغفار کرنی چاہیئے.اندیشہ ہے کہ وہ آخرت میں اندھا نہ اٹھایا جاوے.مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَفِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی حضرت امام علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے بارہا اس سوال کو چھیڑا ہے اور اپنی تقریروں میں بیان کیا ہے کہ بہشتی زندگی اور اس کے آثار اور ثمرات اسی عالم سے شروع ہو جاتے ہیں.جو شخص اس جگہ سے وہ قوٰی نہیں لے جاتا وہ آخرت میں کیا پائے گا.(الحکم ۲۴؍جون ۱۹۰۴ء صفحہ۱۳) ۷۵. : جب حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انکی صحبتوں میں بیٹھنے سے ممکن ہے کہ تم کسی فتنہ میں پر جاؤ تو پھر دوسرے مومن کس گنتی میں ہیں.غافلوں کی صحبت سے بہت بچنا چاہیئے.صحبت کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے.پس تم کسی
کے پاس بیٹھنے سے پہلے غور کرو کہ کیسا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۷۶. : اس دنیا کی زندگی میں دُکھ و عذاب.یہ معنی بخاری نے کئے ہیں.یہی مجھے پسند ہیں.۷۷. یقینًا یہ لوگ (اہلِ مکّہ) (محمدؐ) اس زمین مکّے سے نکال ڈالنے والے ہیں مگر تیرے بعد یہ لوگ بھی تھوڑی ہی دیر رہیں گے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۶۹) اﷲ اﷲ یہ پیشن گوئی کیسی پوری ہوئی.عادت اﷲ قدیم سے اس طرح پر جاری ہے کہ جن قوموں نے ہادیانِ برحق کے نصائح نہ سُنے اور ان کے دل سوز مشفقانہ کلام پر دھیان نہ کیا.ضرور وہ کسی نہ کسی تباہی میں گرفتار ہوئے اور جھوٹے نبی کا نشان یہ دیا گیا ہے کہ وہ قتل کیا جاوے گا.اور جو کوئی اس نبیؐ کی بات نہ مانے گا.سزا پائے گا.اب کفّارِ عرب اس سچّے رؤف و رحیم ہادی کو جھٹلا چکے ہیں.طرح طرح کی اذیتّیں دل کو کپکپا دینے والے آزار دے چکے ہیں.چونکہ وہ نبی صادق و مصدوق ہے اور وہ نبی وہ ہے جس کی نسبت موسٰیؑ بڑے فخر سے بشارات دیتے چلے آئے ہیں.اب خدائی غضب اُمنڈ آیا.کلمۃ اﷲ برسرِ انتقام آمادہ ہوا.کہ اُن کے دشمنانِ دینِ حق کو ہلاک کیا جاوے.مگر باری تعالیٰ بایں ہمہ اپنے رسولؐ سے فرماتا ہے کہ جب تک تُو ان لوگوں میں موجود ہے ( یعنی سر زمینِ مکّہ میں ) ان پر عذاب نہ ہو گا اور عالم الغیب حق تعالیٰ ایک سال میعاد مقرر فرماتا ہے کہ یقینًا اس عرصے میں بلا تقدم و تاخیر ایک ساعت کے یہ واقعۂ زوال وقوع میں آئے گا.قدرتِ حق کا کرشمہ مشاہدہ فرمائیے کہ کیونکر یہ وہ ایک سال بعد پورا ہوتا ہے.اب کفّارِ عرب نے جن کا سرغنہ ابوجہل تھا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے
قتل کی مشورت کی.اسی واسطے ۱۵؍ جولائی ۶۲۲ء جمعہ کے دن آپؐ نے مکّہ سے ہجرت کی اور مدینہ منوّرہ کو چلے گئے.دوسرے سال یعنی ۶۲۳ھ میں بدر کا معرکہ ہوا.جس میں وہ سب معاندین اور مخالفین تباہ اور عذابِ الہٰی میں گرفتار ہوئے.وَ الْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۸۹-۹۰) ۷۸. : یہ طریقہ کہ جب نبی نکلا تو قوم پر عذاب آیا.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ۴۶۳) ۷۹،۸۰. حدیث میں آیا ہے جُبِلَتِ الْقُلُوْبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا.سلیم الفطرت لوگ ہوتے ہیں.ان کے دلوں میں کپٹ نہیں رہتی.ایسے لوگوں کی عادت ہے کہ جو اُن کے ساتھ نیکی کرے.وہ اس کے ساتھ محبت رکھتے ہیں.اﷲ تعالیٰ کے کس قدر احسان ہیں.(ابراہیم:۳۵)کہ گِنے بھی نہیں جا سکتے.پس اس سے بڑھ کر کون محسن ہو سکتا ہے اور اس سے زیادہ کون سزا دارِ محبّت و اطاعت ہو سکتا ہے؟ ایک معمولی بال سفید ہو جاوے تو انسان کے دل پر کیا گزرتی ہے.ذرا سی ناک کٹ جائے یا آنکھ کی پُتلی خراب ہو یا کان میں ضرر پہنچ جاوے تو کیا انجام ہوتا ہے.یہ خدا کے فضل سے سلامت رہتے ہیں.غرض ایسے مُحسن کی محبّت و اطاعت کے اظہار کیلئے نماز ہے.جس کا حکم اس رکوع میں دیتا ہے.اور ان کے ادا کرنے کے اوقات بتائے ہیں جو پے در پے آنیوالے ہیں.تاکہ ایک نماز کے پڑھنے سے روحانیت کا اثر
ابھی باقی ہو کہ دوسرا آجائے.اہل اﷲ تو آٹھ بار نماز پڑھتے ہیں.نماز صبح۱ پھر اشراق۲ پھر ضحی۳ پھر ظہر ۴ کی نماز پھر عصر ۵.پھرمغرب ۶ پھر عشاء ۷.پھر تہجد ۸.: ہجود کے معنے سونے کے ہیں.… تہجد کے معنی ہیں.نیند کو ہٹا کر کھڑا ہونا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۸۱. : عربی بولی میں ہر عمدہ چیز کو صدق کہتے ہیں.حتٰی کہ عمدہ تلوار کو بھی اَخُ صِدْقٍ بولتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۸۲. : یعنی عبادت اور ان دعاؤں کے بعد نصرتِ الہٰی آئے گی.اور بُطلان دُور ہو جائے گا اور تُو کہے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) تُو کہہ کہ آیا سچ اور نکل بھاگا جھُوٹ.بے شک جھوٹ ہے نکل بھاگنے والا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۷۵) اور کہہ دے حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا.یقینًا باطل دُور ہونے والا ہی تو ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۱۲) ۸۳.
: میرا اعتقاد ہے کہ روحانی بیماریوں کے علاوہ ظاہری بیماریوں کی بھی شفاء کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) اور ہم قرآن سے مومنوں کیلئے شفاء اور رحمت اُتارتے ہیں اور ظالموں کو اس سے گھاٹا نصیب ہوتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۲) ۸۴. اور جب ہم انسان پر فضل کرتے ہیں منہ پھیر لیتا ہے اور اسی (مال) کی طرف ہو جاتا ہے.اور جب اُسکو دُکھ پہنچتا ہے.ناامید ہو جاتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۲) ۸۵. کہہ دے ہر ایک اپنی طرز پر عمل کرتا ہے.تمہارا رب خوب جانتا ہے.اس کو جو سیدھی راہ پر ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۲) : یہ آیت بہت مشکل ہے.مَیں نے اس کے سمجھنے میں بڑی محنت کی ہے.بہر حال کے معنے ہیں’’ اپنے طریقے پر ‘‘ ہر شخص اپنے نزدیک کوئی بات سوچ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مَیں نے ایک نیک کام کیا یا نیک کام کا ارادہ کیا.اب اس نے جو اپنے طریق یا خیال یا ارادہ پر کام کیا ہو.تم اُسے اپنے رب کے سامنے پیش کرو.یعنی خدا کے کلام کے آگے مہر صداقت لگانے کیلئے پیش کرو.کیونکہ وہ اور ہے.اور پھر اس پر رائے زنی کرو کہ نیک ہے یا بَد.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۸۶،۸۷.
: یہ سوال یہود نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس وقت کیا جب آپؐ ان کے بیت المدارس کے پاس سے گزرے.مگر یہ سورۃ مکّی ہے.اس لئے اعتراض کیا جاتا ہے کہ مدینہ کے یہود کے سوال کا جواب کیوں دیا؟ یہ اعتراض قوی ہے.مگر کیا ممکن نہیں کہ یہود نے مکّہ جانے والے لوگوں کی معرفت یہ سوال پوچھا ہو.یہ جواب بر تقدیر تسلیم ہے کہ یہود نے سوال کیا.ورنہ عام ہے.سوال کرنے والوں نے سوال کیا.یَسْئَلُوْنَ سے ہی اس کے فاعل کا پتہ لگ سکتا ہے جیسے (مآئدہ:۹) میں ھُوَ کے مرجع کا.یہ امر نحو کے قاعدہ کے مطابق ہے.کہ فعل کے مشتق سے اس کا فاعل نکال لیتے ہیں.پس یَسْئَلُوْنَ کے سائل عام سائل ہیں.پوچھتے ہیں رُوح سے.رُوح کیا چیز ہے.اس کا جواب خود قرآن کریم کی ہی دوسر ی آیات سے کھلے گا.اس زمانہ میں رُوح کا لفظ مشتبہ سا ہو گیا.بعض نے روح سے مراد’’سوال‘‘ (SOUL)سمجھا.جس سے آدمی کی زندگی وابستہ ہے.مگر اگر یہ مراد ہوتی تو ایسا کمزور جواب خالق الارواح کی طرف سے ہرگز نہیں ہو سکتا.جبکہ اسلام کے ادنیٰ خادموں میں سے اور شیخ ابنِ قیم حنبلی.امام غزالی ؒ نے بھی حقیقت روحِ انسانی پر مبسوط مضمون لکھا ہے پس در اصل رُوح کلامِ الہٰی کو کہتے ہیں.پھر کلامِ الہٰی کے پہنچانے والے نبی کو.اور کلامِ الہٰی کے لانے والے مَلک کو بھی کہتے ہیں.دیکھو سورۃ نحل پارہ ۱۴.۱. (النحل:۳) اس کے صاف معنی ہیں کہ ملائکہ اﷲ کے حکم سے جس پر چاہتے ہیں کلام لَآ اِلٰہَ الَّآ نازل کرتے ہیں.۲.سورۃ مومن پارہ ۲۴. (مومن:۱۶) یہاںبھی رُوح سے مُراد کلامِ الہٰی ہے.۳.پھر سورۃ الشوٰری پارہ ۲۵ میں. (الشورٰی:۵۳) یہاں بھی رُوح سے مُراد کلامِ الہٰی ہے
حضرت مسیحؑ کے حق میں اَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ (بقرۃ:۸۸) جو آیا ہے.اس سے مُراد بھی صریحاً کلامِ الہٰی ہی ہے.ایک اور دلیل اس بات کی کہ یہاں رُوح سے مراد کلامِ الہٰی ہے.یہ ہے کہ اس سے پہلے تین آیت قرآن مجید کا ذکر ہے.کہ بنی اسرائیل:۸۳)فرمایا اور پھر اس کے بعد بھیقُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنَُّ میں قرآن مجید کا ذکر ہے.جس سے صاف کُھل گیا.یہاں رُوح سے مراد کلامِ الہٰی ہی ہے.پھر دیکھواَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ بھی ساتھ ہی فرمایا : تنبیہًا فرمایا کہ تم بڑے ہی بے وقوف ہو کہ کیا تم کلامِ الہٰی قرآن اور دوسرے کلاموں میںجن میں احادیث رسولؐ بھی شامل ہیں.بیّن فرق نہیں پاتے.یہ بہت ہی بے ادبی کا کلمہ ہے کہ صحابہ کو بے علم کہا جاوے.گو کہنے والا علّامہ کہا جاوے کہ تم رُوح کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے.عام تفاسیر میں یہ بات نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) : کلامِ پاک (قرآن) کے بارے میں.: یہ خدا کے حکم سے آیا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۳۶۳،صفحہ۳۶۴) رسولِ خُدا صلی اﷲ علیہ وسلم کے دعوٰی مفسّر ہونے پر اہل کتاب نے چند سوال کئے.ایک رُوح کے متعلق کیونکہ قِدْمِ رُوح کا ایک جہان قائل تھا اور اس اعتقاد نے رُوح کے غیر مخلوق ماننے میں پھنسا رکھا تھا اسی واسطے یہود نے اور انکے ساتھ اَور لوگوں نے پوچھا.رُوح کی نسبت فرمایئے.جیسے قرآن میں ہے پھر ان کے جواب میں حکم ہواتُو کہہ کہ رُوح میرے رب کے حکم سے بنی ہے.یعنی مخلوق ہے قدیم نہیں.اور لوگوں کو جتایا کہ اگر رُوح پہلے سے موجود ہوتی اُسے علم بھی ہوتا.لاکن دیکھتے ہو. (النحل:۷۹) (فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۱۷۳) حیات دوحاصل قسم کی ہوتی ہے.ایک جسمانی اور دنیوی اور دوسری روحانی اور اُخر وی.پہلی قسم کی حیات حاصل کرنے کے سامان اگر جڑھ پدارتھ میں اﷲ تعالیٰ نے رکھے ہیں تو دوسری قسم کے حیات کے اسباب بھی چتین وَسْتُوْ میں ضرور رکھے ہیں.قرآن میں دونوں محاوروں کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے سنو! اوّل جسمانی حیات اور جسمانی زندگی کی نسبت فرمایا ہے.۱. (البقرۃ:۱۶۵)
۲. (ق: ۱۰،۱۱) ۳.(ق :۱۲) اور روحانی زندگی.دھرم اوکت حیاتی.ایمانی حیات اور دھرم جیون کے بارے میں فرمایا ہے. (الانفال:۲۵) (نحل:۹۸) جیسے جسمانی زندگی کے واسطے جسمانی رُوح کی ضرورت ہے ویسے ہی ایمانی زندگی کے واسطے کسی ایمان سکھلانے والی بلکہ ایمان دینے والی رُوح کی ضرورت ہے.اسی ایمان دینے والی رُوح کا تذکرہ اس آیت شریف میں ہے.اصل یہ ہے کہ اس آیت کے حقیقی معنے سمجھنے میں اکثر لوگوں نے ٹھوکر کھائی ہے.میں ماقبل اور مابعد کی آیات بھی نقل کرتا ہوں.اور کلامِ الہٰی کی واقعی تفسیر خود کلامِ الہٰی کی راہنمائی سے کرتا ہوں.امید ہے کہ راستی کے بھوکے اور پیا سے حظّ وافی اٹھائیں گے.... . .....
اب اس اَمر کے اثبات کیلئے کہ رُوح سے مُراد وہی کلامِ الہٰی ہے جس سے ایمان مُردہ لوگ حیاتِ ابدی پاتے ہیں.اور جو ہم نے مراد و معنے لئے ہیں.وہی حق اور منشائے فرقانِ مجید کے مطابق ہے.خود قرآن کریم سے مؤید آیات نقل کرتے ہیں.اور اس محاورہ کو واضح کرتے ہیں.سنو! (الشورٰی : ۵۳) (لنحل:۲-۳) (مومن:۱۶) (مجادلہ:۲۳) ان آیات کریمہ سے ثابت ہوا کہ رُوح کلامِ الہٰی ہی کا نام ہے جس پر عمل کرنے سے موتٰی اور مُردہ بے ایمان زندہ ہوتے ہیں.بلکہ قرآن نے انبیاء اور ملائکہ کو بھی رُوح فرمایا ہے.کیونکہ وہ بھی اسی زندگی کا باعث ہیں جسے ایمان کہتے ہیں. (النساء:۱۷۲) (البقرۃ : ۸۸) ان آیات سے ناظرین کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ رُوح کی حقیقت کو قرآن نے کیسے بیان کیا ہے.یہ محاورہ رُوح کی نسبت اگرچہ مَیں نے قرآن سے ثابت کر دیا ہے.اور آفتاب کے سامنے ستارہ کی حاجت نہیں مگر مزید تذکرہ کے واسطے کتبِ سابقہ سے بھی بیان کرتا ہوں.’’ پھر جبکہ وہ تسلّی دینے والا جسے مَیں تمہارے لئے باپ کی طرف سے بھیجوں گا یعنی رُوحِ حق جو باپ سے نکلتی آوے تو وہ میرے گواہی دیگا‘‘ (یوحنا ۱۶ باب ۱۳).’’ لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آوے تو وہ تمہیں سچائی کی راہ بتا دیگی‘‘ (یوحنا ۱۶ باب ۱۳).’’ اس لئے تم سے کہتا ہوں لوگوں کا ہر طرح کا گناہ اور کفر معاف کیا جاوے گا مگر وہ کفر جو رُوح کے حق میں ہو لوگوں کو معاف نہ ہو گا‘‘(متی ۱۲ باب ۳۱)
اور نیکی کو زندگی اور بدکاری کو موت کہنے کا محاورہ تو اس قدر ہے کہ عندالشرح یہی حقیقی معنی ہیں.مگر میں اس قصّہ میں زیادہ طوالت لا حاصل جانتا ہوں.:میں اگر یہ پوچھا جاوے کہ یہ سوال عیسائیوں اور یہودیوں نے کیوں کیا؟ تو وجہ ظاہر ہے.یوحنا کی انجیل میں… اس رُوح کی آمدکی خبر تھی.اور بہت لوگوں کا خیال تھا.پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا گیا کہ قرآن کریم جسے تُو نے بارہا رُوح کہا ہے کس کی تصنیف ہے.تو خود قرآنِ دکریم نے اسکا یوں جواب دیا کہ قرآن اﷲ تعالیٰ کا امر اور اس کا حکم اور اس کا کلام ہے.اور جو کہا .اس کے مخاطب وہی سائل ہیں جن کو بہت ادلّہ سے ثابت کر دیا گیا تھا کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے.رُوحؔ کی نسبت یہود کا سوال ہے.یا عیسائیوں یا دونوں کا یا مان لیتے ہیں کسی ایسے دیانندیوں کے ہم خیال کا سوال ہے جو انسانی رُوح کے غیر مخلوق.قدیم.انادی ہونے کا معتقد تھا.کسی کا سوال ہو.کسی طرح کا سوال ہو.ایسا وسیع جواب قرآن کریم نے دیا ہے کہ سب کو حاوی ہے.اور جواب دِہندہ کی بے علمی یا قلّتِ علم کا یہاں ذکر نہیں.بلکہ مخاطبین کی بے علمی کا ذکر ہے جو باوجود واضح اور حجّت ہائے قاطعہ کے سرِ تسلیم جھکانا پسند نہ کرتے تھے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۱تا صفحہ۱۱۵) رُوح کو کتبِ مقدّسہ اور پاک کتاب قرآنِ کریم نے بہت معنوں پر استعمال کیا ہے.اوّل.رُوح کلامِ الہٰی کا نام ہے.اور اس لئے کہ کلامِ الہٰی سے بڑھ کر کوئی چیز زندگی کا موجب نہیں.اگر اس متعارف رُوح سے چند روزہ زندگی حاصل ہو سکتی ہے تو اس رُوح (کلامِ الہٰی ) سے جاودانی حیات.ابدی نجات نیولائف.دھرم جیون کو انسان لے سکتے ہیں.اگر اس رُوح سے چند روزہ جسمانی خوشیوں کو لے سکتے ہیں تو اس رُوح سے ابدی سُرور.مہاانند.ابدی آرام پا سکتے ہیں.ان معنی کی رُو سے رُوح مخلاق نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اس لئے کہ رُوح کلامِ الہٰی ہے اور اﷲ تعالیٰ اس کا متکلّم.جب ان معنے کے لحاظ سے رُوح خدا کی صفت ٹھہری اور مخلوق نہ ہوئی اس کیلئے کسی مصالحۃ کی ضرورت بھی بجُز ذاتب الہٰی کے نہ رہی.قرآن کریم سے ان معنی کی شہادت سُنو! .(الشورٰی : ۵۳) (النحل : ۳) دومؔ: رُوح، ملائکہ اور انبیاء کو کہا ہے اور ظاہر ہے کہ ملائکہ اور انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام مختلف اوقات میں مختلف عناصر سے پیدا ہوئے ہیں اور مختلف مصالحوں سے بنے.ان معنے کا ثبوت قرآن کریم سے سُنئے
(البقرۃ : ۸۸) (النساء:۱۷۲) سومؔ: رُوح جسمانی جس کا نفخ انسانی جسم میں اَورِدَہ اورشرائین کی تجویف بن جانے کے بعد ہوتا ہے جس کا اشارہ فَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ میں ہے.اگر اس کی بابت پوچھتے ہو کہ مٹی کہاں سے آئی؟ تو ہم نہایت جرأت سے بلا تذبذب جواب دیتے ہیں.مٹّی سرب شکتیمان ( قادرِ مطلق).بااختیار.قادر کی ایجادی طاقت کا نتیجہ اور اثر تھا.رب النوع کا ماننا اسلامی اعتقاد نہیں.اس تذکرہ سے کس قوم پر تعریض کرتے ہو.اسلامیوں میں تو یہ اعتقاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی موجود بالذّات.کوئی غیر مخلوق.اور فاعل مستقل نہیں.ربّ النوع کے معتقد اسلامیوں میں مُشرک کہلاتے ہیں.اور شرک کے حق میں قرآنی فتوٰی یہ ہے.(لقمان:۱۴) (النساء :۴۹) (تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۱۳، صفحہ۲۱۴) . .یعنی یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ رُوح کیا چیز ہے اور کیونکر پیدا ہوتی ہے.ان کو جواب دے کہ رُوح میرے ربّ کے امر سے پیدا ہوتی ہے.یعنی وہ ایک رازِ قدرت ہے.اور تم لوگ رُوح کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے مگر تھورا یعنی صرف اس قدر کہ تم رُوح کو پیدا ہوتے دیکھ سکتے ہو.اس سے زیادہ نہیں.اور انسانی رُوح کے پیدا ہونے کیلئے دونوں نطفوں کے ملنے کے بعد جب آہستہ آہستہ قالب تیار ہو جاتا ہے.تو جیسے چندادویہ کے ملنے سے اس مجموعہ میں ایک خاص مزاج پیدا ہو جاتی ہے کہ جو ان دواؤں میں فرد فرد کے طور پیدا نہیں ہوتی.اسی طرح اس قالب میںجو خون اور دو نطفوں کا مجموعہ ہے ایک خاص جوہر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ایک فاسفورس کے رنگ میں ہوتا ہے.اور جب تجلّی الہٰی کی ہواکُنْ کے امر کے ساتھ اس پر چلتی ہے تو ایک دفعہ وہ افروختہ ہو کر اپنی تاثیر اس قالب کے تمام حصّوں میں پھیلا دیتا ہے تب وہ جنین زندہ ہو جاتا ہے.پس یہی افروختہ چیز جو جنین کے اندر تجلّی ربّی سے پیدا ہو جاتی ہے.اسی کا نام رُوح ہے.(یاد رہے) گو رُوح کا فاسفورس اس مادہ سے ہی پیدا ہوتا ہے.مگر
وہ روحانی آگ جس کا نام رُوح ہے.وہ بجُز مَسّںِ نسیمِ آسمانی کے پیدا نہیں ہو سکتی.یہ سچا علم ہے جو قرآن شریف نے ہمیں بتلایا ہے.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۶ صفحہ ۲۷۳) ۸۹. : اس بات پر بہت مباحثہ ہوا کہ مِثل کس بات میں ہو؟ میرے خیال میںمِثل کوئی قید نہیں.جس بات میں چاہیں مقابلہ کر لیں.یہ بات صحیح ہے کہ آیات مفتریات جو پیش کریگا.اﷲ تعالیٰ اسے ہلاک کر دے گا.اگر وہ ان کو منجانب اﷲ بتائے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۹۱تا۹۴. : یہ سب نو نشان ہیں.اور سب تورات و قرآن مجید کی بناء پر ہیں.
اور سب اپنے اپنے موقعہ پر دکھائے گئے مگر اس رنگ میں جو بشر رسول کے مناسب تھے.(تشحیذالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۶۴) : آہ.نو چیزیں انہوں نے مانگی ہیں.بدقسمتی سے لوگوں نے سمجھا ہے کہ یہ باتیں پوری نہیں ہوئیں.اس لئے طرح طرح کی بدگمانیاں کی ہیں.ذرا ابھی تدبّر کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ یہ باتیں بطور سوال صحیح پیش ہوئیں.پارہ اوّل میں ہے اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ(بقرہ:۲۶)یعنی مومن کیلئے جنّات ہوں گی.جس میں کھجور انگور سب آ گئے.اسی میں آیا ہے(بقرہ:۲۶) پھر خدا نے ہی فرمایا (البقرۃ: ۲۱۱)پھر ایک جگہ فرمایا ہے. (الرحمن:۵۵)پھر فرمایا (الرحمن:۵۷) اور فرمایا (الرحمن:۷۱) پھر سورۃ واقعہ میں اشارہ کیا.یَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْن(آیت:۱۸) غرض جب قرآن مجید میں ایسے ایسے تمام دعوے تھے.تو پھر اگر انہوں نے ایسا مطالبہ کیا.تو کیا بے جا کیا.جواب دیکھو کیسا صحیح ہے کہ اے نبی کہہ دے.میرا رب پاک ہے.اس نے جھوٹے وعدے نہیں کئے.ضرور ایسا ہو گا.مگر مَیں بشر رسول ہوں.چنانچہ جب صحابہؓ نے عراق.عجم.شام.عدن فتح کیا تو صحابہؓ کے قبضہ میں بادشاہوںکے گھر آئے.انکی بیٹیاں بھی نکاح میں آ گئیں.گھر بھی سونے چاندی کے تھے باغات بھی تھے.بلکہ مدینہ مکّہ میں نہریں آئیں.خدا کا ان پر عذاب بھی آیا.ملائکہ بھی نصرت کو آئے آپؐ کو معراج بھی ہوا.قرآن ایسی کتاب بھی ملی.غرض سب کچھ ہوا.مگر یہ سب کچھ پورا ہوا.اسی طرح جس طرح بشر رسولوں کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) کفّار نے یہ اقتراحی معجزات طلب نہیں کئے بلکہ انہوں نے ان کا مطالبہ قرآنِ مجید اور کتب سابقہ کی بناء پر اپنے فہم کے مطابق کیا.چنانچہ ان کے اس مطالبہ میں آیات الرحمۃ بھی ہیں.آیات الغضب بھی اور آیاتِ مشترکہ بھی.آیات الرحمۃ تو یہ ہیں: ۱.ہمارے لئے زمین سے چشمہ جاری کر دو.۲.تمہارے پاس کوئی باغ کھجور اور انگور کا ہو جائے.آیات الغضب: ا.آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے گرا دو.۲.اﷲ اور فرشتوں کو سامنے لاؤ.
آیاتِ مشترکہ: ۱.تو آسمان پر چڑھ جائے.۲.اور ہم پر تُو کتاب نازل کرے.۳.جسے ہم پڑھ لیں.یہ نو نشان ہیں جو ان لوگوں نے طلب کئے.۱.چشمے اور باغ اور سونے کے گھر تو ان آیات کی بناء پر طلب کئے.ا.. (البیّنہ:۸-۹) ب. (البروج:۱۲) یعنی ہم مومن بنتے ہیں.آپ وہ باع اور چشمے اور نہریں دکھایئے اور دلایئے جس کا وعدہ دیا جاتا ہے.ج.. (المرسلٰت:۴۲-۴۳) یعنی جب عام متّقیوں کے ساتھ سایوں اور چشموں کا وعدہ ہے تو آپ تو امام المتقین ہونے کا دعوٰی ہے.آپ اپنا ایک ہی چشمہ دکھایئے.د.پھر خدا تعالیٰ آپ کو خطاب کر کے فرماتا ہے.(الضحٰی:۹)اور (الم نشرح:۵) پس ضرور ہے کہ اظہارِ غنا اور رفعِ ذکر کم از کم کسی سونے کے گھر ہی سے ہو.ھ. (الفرقان:۱۱) ۲.اور آسمان کا ٹکڑے ہو کر گرنا اس آیت کی بناء پر.
۳.اور اﷲ کے فرشتوں کا آنا اس آیت کی بناء پر. (الفجر:۲۳) (البروج:۲۱)(العلق:۱۸-۱۹) کلا اور قَبِیْلًا یعنی شہادت کیلئے یہ آیت ہے. (النساء:۱۶۷) ا... (العلق:۴ تا ۶) .(البیّنہ :۳.۴)اور ہم پڑھ لیں کا مطالبہ اس آیت کی بناء پر تھا.(الزخرف :۳) اور قولہ تعالٰی(بنی اسرائیل:۱۵)کفّار نے اغواء یہود سے یہ مطالبے کئے.اور اسکی وجہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے اپنے آپ کو مثیلِ موسٰیؑ فرمایا تھا.اور موسٰیؑ کیلئے جو کچھ تورات میں آیا یا آنے والے نبی کی نسبت جو پیش گوئیاں تھیں وہ آپؐ کی ذات میں پوری ہونی چاہیئے.چنانچہ استثناء ۸ آیت ۸ میں ہے کیونکہ خداوند تیرا خدا تجھے ایک نفیس زمین میں داخل کرتا ہے ایسی زمین جہاں پانی کی نہریں اور چشمے اور جھیلیں جو وادیوں میں سے اور پہاڑوں سے نکلتی ہیں اور ایسی زمین جہاں گیہوں اور جَو اور انجیر اور انار ہوتے ہیں.ایسی زمین جہاں زیتون کا تیل اور شہد ہوتا.اور مکاشفہ باب۷ آیت ۹ میں ہے.اور خرما کی ڈالیاں ہاتھوں میں لئے اس تخت کے آگے اور برّے کے حضور کھڑی ہیں پس ان آیات کی بناء پر چشمے اور باغات کا مطالبہ کیا اور خروج کے باب ۲۵ میں موسٰی! کے لئے بہت سے نذرانوں کا ذکر ہے.جس میں آیت ۱۱ـ۱۲ میں سونے کا بھی ذکر ہے جس کی بناء پر انہوں نے بیتِ زخرف کا مطالبہ کیا.اور خروج باب ۱۹ میں ذکر ہے کہ خدا نے فرمایا.دیکھو مَیں اندھیری بدلی میں تجھ پاس آتا ہوں.… اور جو کوئی پہاڑ کو چھُوئے گا.البتہ جان سے مارا جائے گا.اور باب ۲۰ میں ہے.بادل گرجے بجلیاں چمکیں.قرنائی کی آواز ہوئی.پہاڑ سے دھواں اُٹھا… تب انہوں نے موسٰی سے کہا کہ تو ہی ہم سے بول اور ہم سنیں لیکن خدا ہم سے نہ بولے کہیں ہم مر نہ جائیں.اس بناء پر انہوں نیتُسْقِطَ السَّمَآئَ طلب کیا.اور باب ۱۹ آیت ۱۱ میں ذکر ہے کہ ’’ اور تیسرے دن تیار رہیں کہ خداوند تیسرے دن سارے لوگوں
میں کوہِ سینا پر اُتر آئے گا.اس بناء پر انہوں نیتَاْتِیْ باﷲِ کہا.اور خروج ۲۳ آیت ۱۰میں ہے ’’ دیکھ میں ایک فرشتہ تیرے آگے بھیجتا ہوں کہ راہ میں تیرا نگہبان ہو اور تجھے اس جگہ جو میں نے تیار کی ہے لے آئے‘‘ اس بناء پر انہوں نے وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ قَبِیْلًا کہا.اور خروج کے باب ۱۹ آیت ۳ میں ہے ’’ تب موسٰی خدا پاس چڑھا اور خداوند نے اسے پہاڑ سے بلوایا‘‘ اور باب ۲۰ آیت ۲۱ میں ہے.تب وہ لوگ دُور ہی کھڑے رہے اور موسٰی کالی بدلی کے جس میں خدا تھا نزدیک آ گیا‘‘ اس لئے انہوں نے اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِکہا کہ سماء پر چڑھ جائے اور کتاب لے آئے.اور چونکہ خروج باب ۱۹ میں ۲ سے ۳ تک اس سماء پر چڑھنے کی حالت میں احکام لانے کا ذکر ہے اس لئے چاہا کہ آپ بھی مثیلِ موسٰی ہونے کے مدعی ہیں.سماء پر چڑھ کر کتاب لائیں.تعجب ہے کہ پہلا حکم تو ان کو یہ تھا کہ ’’ میرے حضور تیرے لئے دوسرا خدا نہ ہو.تو اپنے لئے کوئی صورت یا کسی چیز کی صورت جو اوپر آسمان پر ہو یا نیچے زمین پر یا پانی میں زمین کے نیچے مت بنا‘‘ اسی کو بھول گئے اور چھورڑدیا اور ایسے مطالبے کئے جن سے وہ کچھ فائدہ نہ اٹھائیں.اب دیکھئے ۱.موسٰیؑ تو اپنی قوم کو وعدہ کی زمین نہ پہنچا سکے اور انکی قوم کو بجائے چشمے اور نہروں کے ایک جنگل میں ۴۰ سال خراب ہونا پڑا.مگر حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کی قوم اس زمین میں پہنچی جس میں چشمے اور انہار اور باغات تھے.کیا وہ جنّات عدن نہیں جن میں جیحوں اور سیحوں بہتے ہیں.دجلہ اور فرات ہیں.نیل ہے.بنی اسرائیل کی اراضی کی ان سر زمینوں کے سامنے کیا حقیقت ہے جن میں امّتِ محمدیہؐ پہنچی.۲.کیا اﷲ نے اپنے رسولؐ کی حفاظت نہ فرمائی.ٹھیک اس وقت جب آپؐ مکّہ سے نکلے.کیا آپؐ کو مدینہ میں نہ پہنچایا.۳.کیا فرشتے آپؐ کی نُصرت کو نازل نہ ہوئے اور کیا مواطن کثیرہ میں آپؐ کے صدق کی شہادت بذریعہ ملائکہ نہ دی گئی.یہاں تک کہ عراقین.شام.مصر فتح ہو گئے جن کو بنو اسرائیل نہ کر سکے.کیا فرشتے بدر.جنین اور احزاب میں نازل نہ ہوئے.۴.کیا آپؐ کے اور آپؐ کے صحابہؓ کے ہاتھ میں کتاب نہیں.جسے پڑھتے ہیں.کیا یہ کتاب
آسمان سے نازل نہیں ہوئی.۵.کیا فدک کے جنّت ہونے میں کچھ کلام ہے.اور کیا خیبر اور طائف کے باغات آپؐ کے قبضہ میں نہ آئے.ہاں وہ بشر رسول تھا.اس لئے یہ آیات اسی سنّت اور اندازے کے ماتحت دی گئیں جو رسولوں کے ساتھ ابتداء سے اس کا طریق چلا آیا ہے.خدا نے آپؐ پر یہاں تک فضل کیا کہ مکّہ اور مدینہ میں بھی نہر آ گئی جیسا کہ یسعیاہ۴۱؍۱۸ میں ہے ’’ میں ٹیلوں پر نہریں اور وادیوں میں چشمے کھولوں گا.میں صحرا کو تالاب اور سوکھی زمین کو پانی کی نہریک کردوں گا.میں بیابانوں میں دیودار اور ببول اور آس اور بلسان کے درخت آگاؤں گا ‘‘ اور تمام وعدے پورے دیئے جو یسعیاہ ۴۲ و ۶۰ میں ہیں.(تشحیذالاذہان جلد۷ نمبر۸ صفحہ ۳۹۹ تا صفحہ ۴۰۲) جب کفّارِ مکّہ نے آپؐ سے سوال کیا کہ تُو آسمان پر چڑھ جا تو خود خدا تعالیٰ نے اپنے نبی کو ارشاد کیا کہ یوں جواب دو. تو کہہ میرا ربّ ایسے ناجائز سوالوں کا جواب اور ایسی لغو حرکات سے پاک ہے.کہ اپنی سنّت کو توڑے.یہ اسکی مصلحت کے خلاف فہے.مَیں تو بشر رسول ہوں اور بشر رسول کا آسمان پر بجسم عنصری جانا سننِ الہٰیہ کے خلاف ہے.(نور الدّین طبع سوم صفحہ ۹۸) ۹۶. : اس سے ظاہر ہے کہ واعظ بھی اگر ہو تو اس قوم کے رسم و رواج.عادات.حالات.زبان سے خوب واقف ہو.: میں ایک نکتہ ہے کہ کسی قوم میں خود تفرقہ.جنگ.فساد پڑ رہا ہو تو پھر ان کو کوئی کیا سمجھائے گا.اور وہ کیا سمجھیں گے؟ چنانچہ مکّہ کی نسبت خود فرمایا.(نحل:۱۱۳)عرب کی اصلاح کے لئے اسی وقت رسول مبعوث فرمایا.جب وہ اطمینان کی زندگی بسر کر رہے تھے.اسی اصول پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم چلتے رہے.چنانچہ جب
کسی کو دیکھا کہ وہ اطمینان میں خلل انداز ہے.تو اس کو جلاوطن کر دیا.میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کہ خدا شرے برانگیزد.خدا تعالیٰ کوئی شر نہیں اٹھاتا.آدمی خود ایسا کرتے ہیں.سوال.ہاروت ماروت بنی اسرائیل کی طرف آئے.اس وقت وہ بنی اسرائیل غیر مطمئن تھے؟ جواب میں فرمایا دیکھو انگریز بڑے تجربہ کار ہیں.بیس برس کسی کو دائم الجس رکھ کر اس سے مطمئن ہو جاتے ہیں.پس بنی اسرائیل جب بابل میں قید ہو کر گئے تھے تو اس کے ستّر برس بعد ہارورت ماروت کا نزول ہوا اتنی مدّت میں وہ یہود جو اصل مجرم تھے وہ بہت سیدھے ہو چکے تھے اور ان میں کسی قسم کا جوش خروش باقی نہ رہا تھا.بلکہ ایک نئی نسل تھی.دوسرا سوال کہ ہاروت ماروت مَلَک آدمیوں میں آئے! جواب میں فرمایا.یہ غلط ہے.غور کرو جمادات میں بھی ایک نہ ایک ایسا ہوتا ہے جو قریب بہ نباتات ہوتا ہے.جیسے مونگا ( مرجان) جو جمادات میں سے ہے اسے بعض فلاسفر نباتات میں سے کہتے ہیں.بعض کہتے ہیں تو جمادات میں سے مگر قریب بہ بناتات ہے.اسی طرح حیوانات میں مراتب ہیں.بعض کہتے ہیں تو جمادات میں سے مگر قریب بہ بناتات ہے.اسی طرح حیوانات میں مراتب ہیں.مثلاً بندر و انسان کے درمیان کا مرتبہ.کہ وہ نہ حیوان ہے نہ انسان.چنانچہ ذلیل ترین کو کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ (اعراف :۱۸۰)فرمایا.اسی طرح جو آخری درجہ انسانوں کا ہے.وہ ملائک سے بہت ہی قریبی تعلّقات رکھتا ہے.انبیاء جو ہوتے ہیں وہ کبھی ملکیّت کے رنگ میں آ جاتے ہیں اور کبھی انسانیت کے رنگ ہیں.مگر یہاں تو کل قوم کا ذکر ہے.کہ تمام قوم ملائکہ ہو.پھر مَلک رسول آوے گا.چونکہ ایک خاص شخص نبی ہی ملائکہ سے بہت قریب ہوتا ہے.اس لئے اسی پر مَلک کا نزول ہوتا ہے.اسی لئے یُعَلِْمُوْنَ النَّاسَ (بقرہ:۱۰۳)فرمایا.تثینہ کا صیغہ نہیں فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۹۷. : خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت میری صداقت کا فیصلہ کریگی.چنانچہ آخر آپؐ کی امّت مظفر و منصور ہو گی.جس سے ثابت ہوا کہ آپؐ ہی حق پر تھے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء)
(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۹۸. : فرماتا ہے کہ بے شک تیری قوم میں کچھ آدمی تصنیف کرتے ہیں اور اپنی طرف سے ہادی بنتے ہیں.مگر ہدایت اصل وہی ہے جو خدا کی طرف سے ہو.اسی واسطے میں برہمو سماج سے بہت خطرہ میں رہتا ہوں.کیونکہ وہ تمام ابنیاء کو مفتری اور دروغ مصلحت آمیز کا پَیرو سمجھتے ہیں.اور ہدایت کی کتابیں خود وضع کرتے ہیں.جو مفید اور بابرکت نہیں ہو سکتیں بہت سے لوگ تنہائی میں رہتے ہیں.ریاضتیں کرتے ہیں.مجاہدے میں ہر وقت لگے رہتے ہیں.اور ثمرات بھی مرتب ہوتے ہیں.مگر سچّی اور باامن راہ و مثمر برکات وہی راہ ہے جو خدا سمجھائے.: اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ قرآن شریف میں.۱.(کہف:۵۴) ۲.یہ دَعَوْاھُتَالِکَ ثُبُوْرًا (فرقان:۱۴) ۳.(ملک : ۸)بھی آیا ہے.جس سے دوزخیوں کا دیکھنا.بولنا.سُننا ثابت ہے.حضرت ابنِ عباسؓ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ لَا یَسْمَعُوْنَ مَایَسُرُْھُمْ ۲.لَا یَنْطِقُوْنَ بِحُجَّتِھِمْ ۳.لَا یَرَوْنَ مَا یَسُرُّھُمْ یعنی ایسی چیز نہ سنیں گے یا نہ دیکھیں گے جو ان کو خوشی کرے اور نہ کوئی اپنی دلیل دے سکیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۱۰۲. تِسْعَ اٰیَاتٍ : ان نو نشانوں کے بیان میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے.بعض کہتے ہیں.نو
احکام دئے.بعض کہتے ہیں کہ نو نشان تھے.دونوں قسم کے نشان بیان کرتا ہوں ۱.عصا ۲.یدِبیضا ۳.لوفان ۴.ٹڈّی دل ۵.چچڑیاں ۶.مینڈکیاں ۷.خون کا مرض ۸.قحط پڑا ۹.پلوٹھے مر گئے احکام یہ ہیں ۱.شرک نہ کرو ۲.چوری نہ کر ۳.زنا نہ کر ۴.بے وجہ قتل نہ کر ۵.کسی نیک عورت کو تہمت مت دو ۶.جنگ میں مت بھگو ۷.مَثْبُوْرًا ۸.محبوس ۹.ملعون.چونکہ حضرت موسٰیؑ کو نرمی سے کلام کرنے کا ارشاد تھا.اس لئے بھی شاید فرعون کو محبوس کیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) اﷲ تعالیٰ نے ہماری طرف بھی ایک موسٰی ( حضرت سیّدنا محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام) تِسْعَ اٰیٰتٍکے ساتھ بھیجا.پس جو ان کے خلاف کرتا ہے وہ بھی فرعون کی طرح مبثور یعنی رسومات اور عادات کی پابندی چھوڑ دو.حرص میں نہ بڑھو.غفلت نہ کرو.علم حاصل کرو تو اس پر عمل بھی کرو.اپنی جانوں پر رحم کرو.آئندہ آنے والی قومیں تمہارا نمونہ پکڑیں گی.پس تمہارا فرض نازک ہے.(بدر ۱۷؍اگست ۱۹۰۲ء صفحہ۳) ۱۰۵. : سب کو ایک جگہ اکٹھا کر لیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء) ۱۰۶. : یعنی جس طرح فرعونیوں کا معاملہ تھا.اسی طرح اے نبیؐ آپ کا اور آپکے دشمنوں کا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۳؍مارچ ۱۹۱۰ء)