Haqaiqul-Furqan Volume 1

Haqaiqul-Furqan Volume 1

حقائق الفرقان (جلد ۱)

Chapters: 1-3
Author: Hazrat Hakeem Noor-ud-Deen

Language: UR

UR
Holy Quran

حضرت حاجی الحرمین مولانا نورالدین خلیفة المسیح الاوّل کے درس ہائے قرآن کریم، تصانیف اور خطبات سے مرتبہ تفسیری نکات


Book Content

Page 1

Page 2

Page 3

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہ‘ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ تَفْسِیْرُالْقُرْآن نزولِ قُرآن کی غرض نزولِ قرآن کی اصل غرض (۱) شُبہات کو دُور کر دے( (بنی اسرائیل:۸۳)(۲) رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ جنابِ الہٰی کے ساتھ براہِ راست تعلق ہو جائے ( ۳) تمیز حق و باطل ہو جائے(۴) کوئی ایسا سوال نہیں جس کا جواب نہ دیا.کافی ہتھیار.(عنکبوت:۵۲) (تشحیذالاذہان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۳۴) کلامِ الہٰی کے سمجھنے کے اصول میرے فہم میں کلامِ الہٰی کے سمجھنے کے لئے یہ اصول ہیں: اوّل ؔ : دعا ( پرارتھنا) جنابِ الہٰی سے صحیح فہم اور حقیقی عِلم طلب کرنا.قرآن مجید میں آیا ہے قُلْ رَّبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا(طٰہٰ:۱۱۵)میرے رَبّ میرے علم میں ترقی بخش.اور دعا کے لئے ضرور ہے طیّب کھانا.طیّب لباس.عقدِ ہمّت.اِستقلال.دومؔ: صرف الہٰی رضامندی اور حق تک پہنچنے کے لئے خدا میں ہو کر کوشِش کرنا جیسے فرمایا (عنکبوت: ۷۰)سومؔ: تدبّر، تفکّر.قرآن مجید میں ارشاد ہے  (محمد:۲۵)اور فرمایا.لَْ (اٰلِ عمران:۱۹۱)چہارمؔ: حُسنِ اعتقاد و حُسنِ اقوال و حُسنِ اعمال اور فقر.بیماری.مقدّمات میں صبرو استقلال.اِس مجموعہ کو قرآن نے تقوٰی کہا ہے.دیکھو رکوع (البقرۃ:۱۷۸)اور اس کا ایک درجہ سورۃ بقرۃ کے ابتدا میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ اَلْغَیْبپرایمان

Page 4

لاوے.پرارتھنا اور دعا اور بقدرِ ہمّت و طاقت دوسرے کی ہمدردی کے لئے کوشِش کرنیوالا متّقی ہے اور تقوٰی کے بارے میں ارشادِ الہٰی ہے (البقرۃ:۲۸۳)لیکن خود پسند آیاتِ الہٰی کے سمجھنے سے قاصر ہے جیسے فرمایا(الاعراف:۱۴۷)پنجم ؔ: قرآن کریم کے معانی خود قرآن مجید اور فرقانِ حمید میں دیکھے جاویں.ششم ؔ: اسمائے الہٰیّہ کے خلاف کسی لفظ کے معنے نہ لئے جاویں.ہفتم: تعامل سے جس کا نام سُنّت ہے معانی لے اور اس سے باہر نہ نکلے.ہشتم ؔ: سننِ الہٰیہ ثابتہ کے خلاف ورزی نہ کرے.نہمؔ: لُغتِ عرب و محاوراتِ ثابتہ عن العرب کے خلاف نہ ہو.دہمؔ: عُرفِ عام سے جس کو معروف کہتے ہیں معانی باہر نہ نکلیں.یازؔدہم: نورِ قلب کے خلاف نہ ہو.دوازؔدہم: احادیثِ صحیحہ ثابتہ کے خلاف نہ ہو.سیزؔدہم: کتبِ سابقہ کے ذریعہ بھی بعض معانی قرآن حل کئے جاتے ہیں.چہارؔدہم: کِسی وحیِ الہٰی اور الہامِ صحیح کے ذریعہ سے بھی معانی قرآن حل ہو سکتے ہیں.ہر ایک اصل کی مثالیں دوں تو ایک مجلّد ضنحیم بن جاوے اور بعض اصول عام لوگوں کے استعمال میں آنے والے نہیں معلوم ہوتے اِس لئے نمونہ کے طور پر ان امور کے استعمال کی مثال بتاویں.(دیباچہ نور الدین صفحہ ۸،۹ نیز تشحیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) قرآن شریف کے علوم کے حصول کے ذرائع اﷲ تعالیٰ نے خود قرآن شریف میں بیان کر دیئے ہیں.اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرّاٰن (الرحمن:۲‘۳) قرآن شریف کا سکھانا اﷲ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیّت کا تقاضا ہے.اِس واسطے ضرورت کِن چیزوں کی ہے وہ بھی خود خدا تعالیٰ نے بیان فرما دی ہیں.وَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ یُعَلِّمُکُمُاللّٰہُ (البقرۃ:۲۸۳)متّقی کو خدا تعالیٰ معارف اور علومِ قرآنی سے خبردار کر دیتا ہے اور تقوٰی ایک ذریعہ ہے قرآن دانی کے لئے.دوسری جگہ فرمایا ہے  (عنکبوت:۷۰)تقوٰی کے ساتھ جہاد اور کوشِش بھی شرط ہے.پس علومِ قرآنی کا معلّم خود اﷲ تعالیٰ ہے اور اس فیض اور فضلِ رحمانی کا جاذب تقوٰی اور جہاد فی اﷲ ہے.ہمارے نزدیک ہم نے ایک راہ کا تجربہ کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانی دل میں سچّی تڑپ اور پیاس علومِ قرآنی کے حصول کے واسطے پَیدا کر کے تقوٰی تام سے دعائیں کرے اور اِس طرح

Page 5

سے قرآن شریف شروع کرے.دَور اوّلؔ: خود تنہا ایک مترجَم قرآن شریف لے کر جس کا ترجمہ لفظی ہو انسان کی اس میں اپنی ملاوٹ کچھ نہ ہو اور اس کے واسطے مَیں شاہ رفیع الدین صاحب علیہ الرحمتہ کا ترجمہ پسند کرتا ہوں لے کر ہر روز بقدر طاقت بلاناغہ کچھ حصّہ قرآن کا پڑھا کرے اور لفظوں کے معنوں میں غور کرے پھر جہاں آدم اور شیطان کا حال مذکور ہو اپنے نفس میں غور کرے کہ آیا مَیں آدم ہوں یا کہ ابلیس.موسٰی ہوں کہ فرعون.مجھ میں یہودیوں کے خصائل ہیں یا کہ مسلمانوں کے اور اِسی طرح سے عذاب کی آیات سے ڈرے اور پناہ مانگے اور رحمت کی آیات سے خوش ہو اور اپنے کو رحمت کا مورَد بننے کے واسطے دعائیں کرے.ہر روز درود، دعا، استغفار اور لاحَول پڑھ کر شروع کرے اور اِسی طرح ختم کرے.اِسی طرح سے دَورِ اوّل ختم کر دیوے اور اس دَور میں ایک نوٹ بُک پاس رکھے مشکل مقامات اس میں نوٹ کرتا جاوے پھر دَورِ دومؔ شروع کرے اور اس میں اپنی بیوی کو سامنے بٹھا کر سناوے اور یہ جانے کہ قرآن شریف ہم دونوں کے واسطے نازل ہؤا ہے بیوی خواہ توجّہ کرے یا نہ کرے یہ سُنائے جاوے اور پہلے دَور کی نسبت کسی قدر بسط کرتا جاوے اور پہلے طریق کی طرح اِس دَور کو بھی ختم کرے اور وہ پہلی نوٹ بُک پاس رکھے اور اسے دیکھتا رہے پھر اِس دَور میں یہ دیکھے گا کہ بہت سے وہ مشکل مقامات جو دَورِ اوّل میں نہیں سمجھتا تھا اِس دَور میں حل ہو جائیں گے.اِس دَورِ ثانی کی بھی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے.پھر اِسی طرح سے دَورِ ثالث شروع کرے اور گھر کے بچّوں،عورتوں اور پڑوسیوں کو بھی اِس دَور میں شامل کرلے مگر وہ لوگ ایسے ہوں کہ کوئی اعتراض نہ کریں اور پہلی اور دوسری دونوں نوٹ ُبکیں اپنے سامنے رکھے اِس طرح اِس دَور میں دیکھے گا بہت سے مُشکلات جو پہلے دونوں دَوروں میں حل نہ ہوئے تھے اِس دفعہ حل ہو جاویں گے.اِس دَور کی ایک الگ نوٹ بُک تیار کرے.دَورِ ثالث کے بعد چوتھا دَور عام مجمع کے سامنے شروع کرے مگر سامعین ہوں.ان کے اعتراضات وغیرہ کے اگر جواب آتے ہوں تو دیتا جاوے ورنہ نوٹ بُک میں نوٹ کرتا جاوے اور ان کے حل کے واسطے اﷲ تعالیٰ کے حضور دردِ دل سے دعائیں کرتا رہے اور پانچواں دَور شروع کردے اور بِلاامتیاز مسلمان و مشرک ، کافر و مومن کو سُنانا شروع کر دے اﷲ تعالیٰ کا خاص فضل اور فیضان اس کے شامِل حال ہو گا اور ایک بہت بڑا حِصّہ قرآن شریف کا اسے سکھا دیا جاوے گا

Page 6

اور باریک در باریک حقائق و معارف اور اسرار کلامِ ربّانی اس پر کھولے جاویں گے.غرض یہ ہمارا مجرّب اور آزمودہ طریقہ ہے پس جس کو قرآن سے محبّت اور علومِ قرآن سیکھنے کی پیاس اور سچّی تڑپ ہو وہ اِس پر کار بند ہو کر دیکھ لے.(الحکم ۷؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۶) یاد رکھو کہ قرآن شریف پڑھو اِس لئے کہ اس پر عمل ہو.ایسی صورت میں اگر تم قرآن شریف کھول کر اس کا عام ترجمہ پڑھتے جاؤ اور شروع سے اخیر تک دیکھتے جاؤ کہ تم کِس گروہ میں ہو.کیا منعَم علیہم ہو یا مغضوب ہو یا ضالّین ہو اور کیا بننا چاہیئے.منعَم علیہم بننے کے لئے سچّی خواہش اپنے اندر پیدا کرو پھر اس کے لئے دعائیں کرو.جو طریق اﷲ تعالیٰ نے انعامِ الہٰی کے حصول کے رکھے ہیں ان پر چلو اور محض خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے واسطے چلو.اِس طریق پر اگر صرف سُورۃ فاتحہ ہی کو پڑھ لو تو مَیں یقینا کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے نزول کی حقیقت کو تم نے سمجھ لیا اور پھر قرآن شریف کے مطالب و معانی پر تمہیں اطلاع دینا اور اس کے حقائق و معارف سے بہرہ ور کرنا یہ اﷲ تعالیٰ کا کام ہے اور یہ ایک صورت ہے مجاہدہ صحیحہ کی.(الحکم ۲۴؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲) قرآن کریم میں عظمتِ الہٰی کا ذکر زیادہ ہَے احکام کے متعلق تو اڑھائی سَو کے قریب آیات ہیں مگر عظمتِ الہٰی کے بیان سے کوئی رکوع خالی نہیں.اِس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کے دل میں اﷲ کی عظمت بیٹھ جائے تو دولت و اَسباب و دیگر سامانِ دُنیا کی پرواہ جو احکامِ الہٰی کی بجا آوری میں مانع ہو سکتے ہیں مُطلق نہیں رہتی اور خود بخود انسان اپنے مَولیٰ کا فرمانبردار بن جاتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۳) قرآنِ مجید کے مقابلہ میں انجیل متی کی انجیل کا پہلا صفحہ اُٹھا کر دیکھو وہاں کیا لکھا ہے نسب نامہ یُسوع مسیح ، داؤد اور ابراہیم کے بیٹے کا.ابراہام سے اِسحاق پیدا ہؤا اور اسحاق سے یعقوب پیدا ہؤا… متان سے یعقوب پیدا ہؤا اور یعقوب سے یوسف پیدا ہؤا جو مریم کا شوہر تھا جس کے پیٹ سے یُسوع جو مسیح کہلاتا ہے پَیدا ہؤا.

Page 7

حالانکہ یہ وہ کام ہے جو ہمارے مُلک میں تو میراثی کرتے ہیں اس کے مقابل میں قرآن مجید شروع ہوتا ہے سے.یہ وہ آیت ہے جس سے تمام مذاہب کا رَدّ ہوتا ہے.نہ یسوعیوں کا خداوند اقنومِ ثالث رہ سکتا ہے نہ رحم بلا مبادلہ کے بہانے کسی بے گناہ کو پھانسی چڑھانا پڑتا ہے اور نہ آریوں کا مادہ جو رُوح اَزلی اَبدی بن سکتا ہے نہ تناسخ والوں کی کوئی دلیل باقی رہتی ہے.نہ سو فسطائیوں کو آنے کی تاب ہے اور نہ برہموؤں کو مسئلہ الہام میں تردّدرہ سکتا ہے اور نہ شیعہ صحابہ کرامؓپر اعتراض کر سکتے ہیں نہ دہریہ کسی حُجّتِ نیرّہ کی بنا پر خدا کی ہستی کے مُنکر رہ سکتے ہیں.یہ تو ایک آیت کے متعلق ہے اگر سات آیتیں پڑھی جاویں تو پھر تمام مذاہب کی صَداقتوں کا عطرِ مجموعہ اس میں ملتا ہے اور دُنیا کے آخر تک پیش آنے والے دینی اہم واقعات کی خبر اس میں موجود ہے.ان تمام مفاسد و عقائدِ فاسدہ کا ابطال ہے جو دُنیا میں پیدا ہوئے یا ہو سکتے ہیں اور ان اعمالِ صالحہ و عقائدِ صحیحہ کا تذکرہ ہے جو انسان کی روحانی و جسمانی ترقّیات کے لئے ضروری ہے.اِسی طر ح انجیل کا اخیر دیکھو اس میں لکھا ہے کہ یسوع جو خداوند کہلاتا ہے اپنے دشمنوں کے قبضہ میں آ گیا اور اُس نے اِیْلِیْ اِیْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْ(یعنی اے میرے خدا ! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ) کہتے ہوئے اپنی جان دی.برخلاف اِس کے قرآنِ مجید ختم ہوتا ہے اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ...  .قرآنِ مجید پڑھنے والا.قرآن شریف کا متّبع بڑے زور سے علی الاِعلان دعوٰی کرتاہے مَیں اس خدا کی پناہ میں ہوں جو تمام انسانوں کو پَیدا کرنے والا اور پھر انہیں کمال تک پہنچانے والا ہے.وہ سب حقیقی بادشاہ حقیقی معبود ہے.اَللّٰہُ اَکْبَر : ایک معمولی تھانیدار یا صاحبِ ضِلع بلکہ نمبردار اور پٹواری کی پناہ میں آ کر کئی لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں پس کیا مرتبہ ہے اُ س شخص کا جو تمام جہان کے ربّ اور بادشاہ اور سچّے معبود کی پناہ میں آ جائے.صرف اِس کتاب کا اوّل و آخر ہی اسلام اور عیسائیّت میں فیصلہ کُن ہے اگر کوئی خدا ترس دِل لے کر غور کرے.(تشحیذالاذہان جلد۶ نمبر۹ صفحہ ۳۵۳، ۳۵۴)

Page 8

سُوْرَۃُ الْفَاتِحَۃِ مَکِّیَّۃٌ تمہید اِس سُورۃ شریف کی بہت سی تفاسیر لوگوں نے لکھی ہیں.ہمارے گھر میں اِس سورۃ کی ایک قلمی تفسیر باریک لکھی ہوئی ساٹھ جُزو کی تھی.حضرت صاحب (مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ و السّلام نے تین مبسُوط تفسیریں اِس سورۃ شریف پر لکھی ہیں جن میں سے ایک اُردو میں ہے اور کتاب براہین احمدیہ میں ہے اور دو عربی میں ہیں.ایک کا نام ’’ کرامات الصّادقین ‘‘ ہے اور دوسری کا نام ’’ اعجاز المسیح ‘‘ ہے.وہ بڑا خوش قِسمت ہو گا جس کو اﷲ تعالیٰ توفیق دے کہ وہ کم از کم اِن تین تفاسیر کا مطالعہ کرے.میں اِس امر کی طرف تم کو خاص توجّہ دلاتا ہوں.جو عربی نہیں جانتے وہ کم از کم اُردو کو پڑھ لیں.عبدہٗ مصری نے بھی ایک کتاب سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں الگ لکھی ہے اورایک ضخیم کتاب سورۃ فاتحہ کی تفسیر میں صدر الدین قنوی نے لکھی ہے.فاتحہ خلف الامام بچپن سے لے کر اِس بڑھاپے تک جو کچھ مَیں نے تحقیقات کی ہے اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ انسان الگ نماز پڑھتا ہو خواہ جماعت کے ساتھ کسی امام کے پیچھے پڑھ رہا ہو ہر دو صورتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیئے.(حضرت مسیح موعودؑ کا ہی یہی عمل درآمد تھا.ایڈیٹر) تعداد رکعات چونکہ سورۃ فاتحہ کا ہر رکعت میں پڑھنا ضرری ہے اِس واسطے ایک مسلمان دن رات میں سورۃ فاتحہ عموماً ۸۰ بار پڑھتا ہے یا کم از کم ۴۰ بار.کیونکہ رکعات کی تفصیل یہ ہے :.

Page 9

فجر : سُنّت ۲.فرض۲ = میزان پانچ نماز:۴۴ ظہر : سُنّت ۴.فرض۴.سُنّت ۴ = ۱۲ ا شراق : ۲ ضحٰی:۸ عصر : سُنّت ۴.فرض ۴ = ۸ تہجّد:۸ کُل میزان: ۶۲ مغرب:فرض ۳.سُنّت ۲.نفل ۲ = ۷ زوال: ۴ تحیۃالوضو:۶ عشاء : فرض ۴.سُنّت۴.وتر ۳.نفل ۲ =۱۳ تحیۃالمسجد: ۶ اگر اشراق اور اوّابین کے نوافل انسان نہ پڑھ سکے اور ایسا ہی ظہر.مغرب اور عشاء کے نوافل بھی نہ پڑھ سکے اور ظہر اور عصر اور عشاء کی سُنّتیں بجائے چار کے دو پڑھے تو تہجّد ملا کر پھر بھی ۴۰ رکعتیں ہو جاتی ہیں.سُنّتوں کی تاکید بڑے بڑے تجربہ کاروں کا قول ہے کہ جو لوگ مستحب کے ادا کرنے میں سُستی کرتے ہیں وہ رفتہ رفتہ سُنّتوں کے تارک ہو جاتے ہیں اور جو لوگ سُنّتوں کے تارک ہوتے ہیں وہ رفتہ رفتہ فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں اور فرائض سے غافل ہونے والے کے واسطے فتوٰے سخت ہے.ایک غلطی کا ازالہ حضرت صاحب(مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃوالسّلام)کی عادت تھی کہ آپ فرض پڑھنے کے بعد فوراً اندرونِ خانہ چلے جاتے تھے اور ایسا ہی اکثر مَیں بھی کرتا ہوں.اِس سے غالبًا بعض نادان بچّوں کو بھی غالباً یہ عادت ہو گئی ہے کہ وہ فرض پڑھنے کے بعد فوراً مسجد سے چلے جاتے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ پھر وہ سُنّتوں کی ادائیگی سے محروم رہ جاتے ہیں.ان کو یاد رکھنا چاہیئے کہ حضرت صاحب(مرحوم و مغفور) اندر جا کر سب سے پہلے سُنّتیں پڑھتے تھے اور ایسا ہی مَیں بھی کرتا ہوں.کوئی ہے جو حضرت صاحب کے اِس عمل در آمد کے متعلق گواہی دے سکے؟ (اس پر صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جو حسب العادت مجلس درس میں تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور بآوازِ بلند کہا کہ بیشک حضرت صاحب کی ہمیشہ عادت تھی کہ آپ مسجد جانے سے پہلے گھر میں سُنّتیں پڑھ لیا کرتے تھے اور باہر مسجد میں فرض ادا کر کے گھر میں آتے تو فوراًسنّتیں پڑھنے کھڑے ہوتے اورنمازِ سُنّت پڑھ کر پھر اَور کوئی کام کرتے.ان کے بعد صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی یہی شہادت دی اور ان کے بعد حضرت

Page 10

میر ناصر نواب صاحب نے اور ان کے بعد صاحبزادہ میر محمد اسحٰق صاحب نے اور پھر حضرت مرحوم کے پُرانے خادم حافظ حامد علی صاحب نے بھی اپنی عینی شہادت کا اظہار کیا.(ایڈیٹر بدر) (ضمیمہ اخبار بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) وتر وتر میں بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے کہ وہ صرف ایک رکعت پڑھ لیتے ہیں.حضرت صاحب کا یہ طریق نہ تھا بلکہ آپ دو رکعت پڑھ کر اور سلام پھیر کر پھر ایک رکعت پڑھتے تھے.الحمدمتنِ کتاب ہَے شیخ محی الدین ابنِ عربی لکھتے ہیں کہ مَیں نے جتنی دفعہ الحمد شریف پڑھا ہے ہر دفعہ اس کے نئے معنے میری سمجھ میں آئے ہیں مَیںاگرچہ ایسا دعوٰی تو نہیں کر سکتا مگر مَیں نے بغور دیکھا ہے اور میرا اعتقاد ہے کہ سارا قرآن مجید الحمد شریف کے اندر ہے.الحمد متن ہے اور قرآن شریف اس کی شرح ہے.الحمد میں شفا ہَے صحابہؓ کے زمانہ میں ایک شخص کو جو کسی گاؤں کا نمبردار تھا سانپ نے ڈسا تھا صحابہ ؓ نے الحمد شریف پڑھ کر اس کا علاج کیا تھا اور اُسے شفا ہو گئی تھی.ایسا ہی ابنِ قیّم نے لکھا ہے کہ جب مَیںمکّہ معظمہ میں تھا اور طبیب کی تلاش میرے واسطے مشکل تھی تو مَیں اکثر الحمد کے ذریعہ اپنی بیماریوں کا علاج کر لیا کرتا تھا.ابنِ قیّم کا مَیں بہ سبب اس کے علم کے معتقد ہوں اور اسے ایسا آدمی جانتا ہوں جو لاکھوں میں ایک ہوتا ہے.میرا اپنا بھی تجربہ ہے کہ مَیں نے بہت سے بیماروں پر الحمد کو پڑھا اور انہیں شفا ہوئی.مَیں چاہتا ہوں کہ لوگ سوچ سوچ کر الحمد کو نماز میں پڑھا کریں اور اس سے فائدہ اُٹھائیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) الحمد متنِ قرآن ہے باقی تمام قرآن اس کی شرح ہے.(تشحیذالاذہان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۳۵) سُورۃ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہے خواہ آدمی امام کے پیچھے ہو.دِن کی نمازوں میں یا رات کی نمازوں میں.قرآن شریف کی کوئی آیت اس کے مخالف نہیں نہ کوئی حدیث اس کے مخالف ہے.(بدرؔ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳)

Page 11

اِس سُورۃ شریف کا نام اُمّ الکتٰب اور سبع مِن المثانی بھی ہے.یہ سُورۃ شریف ایک مَتن ہے اور قرآن شریف اس کی تفسیر ہے.کلامِ الہٰی کی تین اقسام ہیں.اوّل بعض نافہم اور ناخواند ہ لوگ اِس بات سے ناواقف ہوتے ہیں کہ سرکار و دربار میں کِس طرح اور کِس مضمون کی درخواست دی جاوے تو اِس لئے کوئی دوسرا شخص جو دربار کے آداب اور قانون سے واقف ہو تو اگر وہ ایسی عرضی لکھ دیوے یا وہ مضمون بتلادیوے جس کی دربار میں شنوائی ہو سکے اور اگرچہ مدّعا اور آرزُو اسی سائل کا اپنا ہو تو ایسے بتلانے والے اور لکھ دینے والے کو مجرم نہیں قرار دیا جاتا.دُنیاوی گورنمنٹ جو کہ آسمانی گورنمنٹ کا ظِلّ ہوتی ہے ان میںبھی ایسے قواعد ہوتے ہیں.بعض فارمیں چَھپی ہوئی ہوتی ہیں ان پر صرف سائل کے دستخط کرائے جاتے ہیں.اس کی مثال قرآن شریف میں یہ سورۃ ہے جو بطور عرضی کے ہم کو عطا ہوئی.دومؔ جو لوگ حکّام کی پیشی میں بعہدہ سر رشتہ دار وغیرہ ہوتے ہیں وہ کوئی حکم باضابطہ حاکم کی طرف سے اجازت پا کر لکھ دیا کرتے ہیں وہ بھی اصلی حاکم کا حکم ہی سمجھا جاتا ہے.اِس کی مثال قرآن شریف میں یہ ہے   (الزمہ:۵۴) سومؔ بعض اَوقات خود حاکم اپنے پروانہ جات سے براہِ راست حکم سُنا دیتا ہے اس کی مثال سارا قرآن کریم علی العموم ہے.کلام کی ان تین قِسموں سے یہ امر بخوبی واضح ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحہ میں اور قرآن میں  اور دیگر دعاؤں وغیرہ کے الفاظ اِس لحاظ سے محلِّ اعتراض نہیں ہو سکتے کہ جس حالت میں قرآن شریف خدائے پاک کا کلام ہے تو اس میں ایسی عبارتیں کیوں موجود ہیں جو کہ بندوں کی زبانی ہونی چاہیئے تھیں.گویا اِس طریق سے خدا تعالیٰ نے ایک اَدب اور طریق بارگاہِ عالی میں دعا کرنے کا بتلا دیا ہے.(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۸۷) الحمد ایک جامع دعا ہے اور اس کا مقابلہ کوئی دعا نہیں کر سکتی نہ کِسی مذہب نہ کسی احادیث کی دعائیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۱ صفحہ ۴۳۴) عمدہ دعا الحمد ہے اس میں  دونوں ترقّی کے فقرے موجود ہیں.(بدر ۳۱؍اکتوبر ۱۹۱۲ء صفحہ۳)

Page 12

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ترجمہ:.اﷲ کی عظمت اور بڑائی سے شروع کرتا ہوں جو بِن مانگے دینے والا اور سچی محنتوں پر عمدہ نتائج مرتب کرنے والا ہے (البدر ۹ جنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۸۷) باؔ بہت سے معانی کے لئے آتی ہے اور یہاں پر استعانت کے لئے ہے.وَ اللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ اور خصوصًا اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ اس کے مؤیّد ہے استعانت کسی فعل میں ہوتی ہے.اس فعل میں بہت کچھ بحث کی گئی ہے لیکن چونکہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو شروع میں اِقْرَأْبِاِسْمِ رَبِّکَ ارشاد ہؤا تھا.لہٰذا کتاب اﷲ کے افتتاح کے وقت فعل قِرَائَ ت میںاَقْرَأُ) استعانت بہت موزوں ہے.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد نمبر۱ و نمبر۱) ہر ایک سچی اور آسمانی کتاب اگر اپنی اصلی زبان میں ہو تو اس کے ابتدا میں حرف ب ہی ہو گاب.کے تین معنے یہاں ہو سکتے ہیں اوّل بسیب.دوم.ساتھ.سوم.قسم.اسم کا لفظ سمو سے نکلا ہے اور اس کے معنے بڑائی کے ہیں تو اب بسم کے معنے ہوئے.بسیب عظمت الٰہی.یا ساتھ عظمت الٰہی کے.یا قسم ہے عظمت الٰہی کی.(البدر ۹جنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۸۷) اِسمؔ نام کو کہتے ہیں.اس میںزمانہ دراز سے بحث چلی آئی ہے کہ اس کا ماخذ اور اصل سمو ؔہے جو بمعنی علوّ ہے یا وسم ؔہے جو بمعنی علامت ہے لیکن اب حضرت امام ہمام واجب الاتباع اور مطاع نے (جس کی نسبت مخبرِ صادق صلی اﷲ علٖیہ وسلّم نے خبر دی تھی کہ وہ اَحکم الحاکمین کی طرف سے حَکم عَدل ہو کر آئے گا) یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ اِسمؔ وسمؔ سے بنایا ہوا ہے اوروہ اپنے مسمّٰی پر دالّ اور علامت ہوتا ہے.اَللّٰہ ؔ نام ہے اُس ذات کا جو کہ سب نقصوں سے پاک اور سب کمالات کی جامع ہے اور یہی اس کے معنے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ نیز البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء) اﷲ جامع جمیع صفات کاملہ اور ہر ایک بدی سے منزّہ.ایسی ذات جس کی عبادت میں کوئی شامل نہ کیا جاوے.(البدر ۹ جنوری ۱۹۰۳ صفحہ ۸۷) اﷲ سب خوبیوں کا جامع.سب بدیوں سے منزّہ.معبودِحقیقی.عربی کے سوائے کسی دوسری زبان میں خدا تعالیٰ کے نام کے واسطے کوئی بھی ایسا مفرد لفظ نہیں ہے جو خاص اسی کے واسطے ہو اور کسی دوسرے پر اس کا اطلاق نہ پا سکے.انگریزی کا لفظ گاڈ (God)دیوی دیوتا.سب پر بولا جاتا ہے اور لفظ لارڈ (Lord)تو بہت ہی عام ہے.سنسکرت کا لفظ اومؔ بھی مرکّب ہے غالبا اَمّ سے نکلا ہے کیونکہ یہ عبادت میں اومؔ سے دعائیں مانگتے ہیں.عبرانی کا ایلؔ اِلَا سے نکلا ہے اور یہوواہؔ یَاھُوَ سے نکلا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر ۴؍فروری۱۹۰۹ء) .اِس کے معنے ہیں بِن مانگے اور بے عوض رحمت کرنے والا جیسا کہ قرآنِ مجید کے استعمال سے ثابت ہے.مثلاً فرماتا ہے  (رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ نیز البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء و ضمیمہ بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)

Page 13

ُ.وہ ہے جو نیک اعتقاد اور نیک اعمال اور نیک اَخلاق پر اور مانگنے سے رحمت کرنے والا ہو.اس پر قرآن مجید کا استعمال شاہد ہے.مثلاً فرمایا.وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا.(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱) بِسْمِ اﷲِ جَہْراً(نماز میں.مرتّب) اور آہستہ پڑھنا ہر دو طرح جائز ہے.ہمارے حضرت مولوی عبدالکریم صاحب (اَللّٰھُمَّاغْفِرْہُ وَارْحَمْہُ)جو شیلی طبیعت رکھتے تھے.بسم اﷲ جَہراً پڑھا کرتے تھے.حضرت مرزا صاحب جہراً نہ پڑھتے تھے.ایسا ہی مَیں بھی آہستہ پڑھتا ہوں.صحابہؓ میں ہر دو قِسم کے گروہ ہیں.مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ کِسی طرح کوئی پڑھے اس پر جھگڑا نہ کرو.ایسا ہی آمین کا معاملہ ہے ہر دو طرح جائز ہے، بعض جگہ یہود اور عیسائیوں کو مسلمانوں کا آمین پڑھنا بُرا لگتا تھا تو صحابہؓ خوب اُونچی پڑھتے تھے.مجھے ہر دو طرح مزہ آتا ہے کوئی اُونچا پڑھے یا آہستہ پڑھے.(بدر ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳)  .ال بمعنے سب.وہ خاص.اور حمد کسی کی اچھے اختیاری کام پر اس کی تعریف کرنا. کے معنے وہ خاص تعریفیں جو کہ کسی کے اختیاری کام پر سرزد ہوں.(البدر ۹جنوری ۱۹۰۳ء نیز ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴فروری ۱۹۰۹ء) ِِ.ایسا پاک کلمہ ہے اور اس میں ایسے سمندر حکمتِ الٰہی کے بھرے ہوئے ہیں کہ جن کا خاتمہ ہی نہیں.مَیں بعض اَوقات نماز میں پڑھنے کے بعد ٹھہر جاتا ہوں.اِس کی وجہ یہی ہے کہ مَیں ان کے معانی میں غوروخوض کرتا ہؤا غرق ہو جاتا ہوں.دیکھو بعض وقت مجھے بھی سخت سے سخت مشکلات اور تکالیف پہنچتی ہیں کہ ان سے جان جانے کا بھی اندیشہ ہؤا ہے مگر مَیں نے جب قرآن شریف کو شروع کیا ہے اور اس میں اوّل ہی اوّل سے شروع ہؤا ہے اور مَیں نے اِس آیت پر غور کیا ہے تب دل میں بسا اَوقات جوش آیا ہے کہ بتاؤ تو سہیاب اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کاکیا مقام ہے.ان مصائب اور دُکھوں کے سمندر میں کِس طرح سے کہوگے اور ممکن ہے کہ کسی دوسرے مومن کے دِل میں بھی آیا ہو کیونکہ میرے دل میں ایسا بارہا آیا ہے تو اس کے واسطے مَیں نے غور سے دیکھا ہے کہ مصائب اور مشکلات میں واقعی اﷲ تعالیٰ کی ذات سات طرح سے کہے جانے کے لائق ذات ہے ؎

Page 14

ہر بَلاکیں قوم راحق دادہ است زیر آن گنجِ کرم بنہادہ است ۱.اوّلؔ تو اِس لئے کہ مصائب اور شدائد کفارۂ گناہ ہوتے ہیں.سو یہ بھی اس کا فضل ہے ورنہ قیامت میں خدا جانے ان کی سزا کیا ہے اِس دُنیا ہی میں بُھگت کر نپٹ لیا.۲.اِس لئے کہ ہر مصیبت سے بڑھ کر مصیبت ممکن ہے اس کا فضل ہے کہ اعلیٰ اور سخت مصیبت سے بچا لیا.۳.مصائب دو قِسم کے ہوتے ہیںدینی اور دُنیوی.ممکن ہے کہ گناہ کی سزا میں انسان کی اولاد مرتد ہو جاوے یا یہ خود ہی مرتد ہو جاوے.سو اس کا فضل ہے کہ اس نے دینی مصائب سے بچا لیا اور دینوی مشکلات ہی پر اکتفا کر دیا.۴.مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اَجر ملتے ہیں.چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر کہا پڑھ کر یہ دعا مانگو.اَللّٰھُمَّ اَجِرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلفْنِیْ خَیْرً امِّنْھَا.اور قرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اَجر کا وعدہ ہے  . .(البقرۃ: ۱۵۶ تا ۱۵۸) یعنی مصائب پر صبر کرنے والوں اور  کہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں.۵. ہوتے ہیں ان پر اﷲ کے.۶.رحمت ہوتی ہے ان پر اﷲ کی.۷.اور آخر کار ہدایت یافتہ ہو کر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.اَب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسان کو ان انعامات کا تصوّر آ جاوے جو اس کو اﷲ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت ، مصیبت رہ سکتی ہے اور غم، غم رہتا ہے ؟ ہرگز نہیں.پس کیسا پاک کلمہ ہے کہا اورکیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں

Page 15

کو سکھائی گئی ہے.یہ نہایت ہی لطیف نکتۂ معرفت ہے اور دل کو موہ لینے والی بات.یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف اِسی آیت سے شروع ہؤا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام خطبات کا ابتدائبھی اِسی سے ہؤا ہے.(الحکم ۱۰؍ مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۲,۳ نیز دیکھیں رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ ۱۹۰۶ء) .پَیدا کرنے والا.ترقّی دینے والا.بتدریج کمال تک پہنچانے والا.(رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱) .جمع ہے عَالَم کی جو اسمِ آلہ ہے.مَایُعْلَمُ بِہٖ جس کے ذریعے سے عِلم آتا ہے.(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۲,۳نیز رسالہ تعلیم الاسلام جلد اوّل نمبر۱ ۱۹۰۶ء) .یعنی وہ جو اپنی مخلوق کے ساتھ مالکانہ سلوک کرتا ہے.(البدر ۹؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۷) .وقت .جزا و سزا.اِسلام جزا و سزا کے وقت کا مالک خدا ہے اسی کے حکم سے کسی کو جزا یا سزا مِل سکتی ہے.اَب بھی اور آئندہ بھی ہے.اِسلام کے وقت کا مالک خدا ہے وہ اس کی آپ حفاظت اور نصرت کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)  .کا لفظ عربی زبان میں وسیع معنے رکھتا ہے منجملہ ان معنی کے  کے معنی وقت ہے.سُنو!محاورۂ عرب یَوْمَ وُ لِدَ لِلْمَلِکِ وَلَدٌ یَکُوْنُ سُرُوْرٌ عَظِیْمٌ.یَوْمَ مَاتَ فُلَانٌ بَکَتْ عَلَیْہِ الْفِرَقُ الْمُخْتَلِفَۃُحالانکہ لڑکے کا پیدا ہونا اور آدمی کا مرنا کبھی دِن کو ہوتا ہے اور کبھی رات کو.پس کے معنے ہوئے مالک ہے وقتِ جزا کا.ہر روز جس وقت کسی کو اپنے اعمالِ نیک کے بدلے انعام اور بَد اعمال کے بدلے سزا ملتی ہے اس وقت کا مالک باری تعالیٰ ہے بلکہ  اتنے وقت کو کہتے ہیں کہ جس میں کوئی واقعہ گزرا ہو.دیکھو یومِ بغاث.(ابراھیم:۶).ہمارے ملک میں دنؔ ٹھیک ترجمہ یوم ؔ کا ہے.لوگ کہتے ہیں آج فلاں شخص کے دن اچھے آئے ہیں اور فلاں شخص کے بُرے آئے ہیں.پس یوم ؔ کا ترجمہ دن بھی کریں تو کوئی

Page 16

عیب نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۷۹) بجائے لفظ وقتؔاور حینؔ کے قرآن نے یومؔ کا لفظمیں کیوں اختیارکیا؟ سو گزارش ہے کہ عرب لوگ کبھی رات کی طرف ان امور کی نسبت کرتے ہیں جن میں نقص اور عیب ہوتا ہے.دیکھو شِعر حماسہ کا.لَاذَتْ ھُنَالِکَ بِالْاَسْعَافِ عَالِمَۃً اَنْ قَدْ اَطَاعَتْ بِلَیْلٍ اَمْرعَادِیْھَا اگرچہ بعض اَوقات کسی خاص مصلحت کے واسطے لیلؔ کی طرف بھی بعض امور کو منسُوب کرتے ہیں مگر وہاں لیلؔ کو خاص صفت سے موصوف کر لیتے ہیں یا اُسے مُعرَّف بِاللّام بنا لیتے ہیں جیسے (دخان:۴) (القدر:۲)  (بنی اسرائیل :۸۰).اِسی واسطے باری تعالیٰ فرماتا ہے ہم جو انصاف کرتے ہیں وہ بے نقص ہوتا ہے اس میں حَرف گیری کا موقع نہیں ہوتا.ہمارا انصاف اور ہماری سزا روزِ روشن کا معاملہ ہوتا ہے.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۱۸۱،۱۸۲) یومؔبمعنے وقت،دین،جزا و سزا اہل عرب بُرے کاموں کو یا جن کاموں کے نتائج بَد ہوں ان کو رات سے منسُوب کیا کرتے ہیں اور اچھے کاموں پر یومؔ کا لفظ استعمال کرتے ہیںچونکہ اﷲ تعالیٰ کی جزا و سزا میں نتائج بَد نہیں ہیں لٰہذا یومؔ کا لفظ یہاں استعمال کیا گیا.(البدر ۹؍جولائی ۱۹۰۳ء) .مسئلہ جزا و سزا رحم پر مبنی ہے اور اس تکمیلِ نفس مقصود ہے.(تشخیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) اﷲ تعالیٰ محامِد کاملہ سے موصوف ہے او صفاتِ کاملہ کا مقتضا ہے کہ مؤثر ہوں.مثلاً....جب یہ صفات ہیں اور اﷲ تعالیٰ سوتا یا اُونگھتا نہیں تو اگر خلق پیدا نہ کرے تواس کے لئے حَمد ،ربوبیّت،رحمانیّت،رحیمیت،مالکیت کیونکر ثابت ہو.کیا آنکھ ہو تو دیکھے نہیں اور کان ہو اور سُنے نہیں.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۲۷) پانچواں رُکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے.یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی بناوٹ

Page 17

میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے… کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو.پس جب یہ فطرتی امر ہے تو اس کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ایمان کا جُز و رکھا ہے کہ جزا و سزا پر ایمان لاؤ اور ِ ہے.روزِ روشن کی طرح اس کی جزائیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور بُرے کام پر سزا دیتا ہے اِس حصّہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سُستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قُربِ الٰہی کی راہوں سے دُور چلا جاتا ہے.(الحکم ۱۷جنوری ۱۹۰۳ء نیز تشحیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء)  کلام تین قِسم کا ہوتا ہے (۱) عرضی نویس کسی قانون کے ناواقف کی طرف سے عرضی لِکھ دیتا ہے (۲) متکلّم اپنے رنگ میں ادا کرتا ہے (۳) کبھی حاکم سمجھا دیتا ہے کہ اِس قِسم کی عرضی لِکھ دو قرآن میں تینوں قِسم کے کلام موجود ہیں.پس ایاک نعبد و ایاک نستعین ایک ایسی عرضی ہے جسے حق سُبحانہ‘ نے خود سمجھایا ہے کہ ہمارے حضور پوری عرضی دو.(تشحیذالاذہان ماہِ ستمبر ۱۹۱۳ء) اِیَّا ؔضمیر ہے.واحد،تثنیہ، جمع مذکّر اور مؤنث، غائب، مخاطب،متکلّم،سب کے لئے آتی ہے.فرق کے لئے اس کیساتھ ہ،ھا،ھما،ھم،ھُنّ،کَ،کِ،کُمَا،کُم،کنّ،ی،نا لگایا جاتا ہے.یہاں پر یہ ضمیر خطاب ہے اور مخاطَب اﷲ ہے.عبادت کہتے ہیں اعلیٰ درجہ کی تعظیم کے ساتھ لوازمِ عبودیّت بجا لانے کو.عبادت کے لئے چار چیزوں کی ضرورت ہے محبّت،خضوع،کمال ِتصرّف کا یقین یا بالفاظِ یُوں کہنا چاہیئے کہ امید و بیم کے یقین اور جوشِ محبّت کے ساتھ خضوع کرنے کو عبادت کہتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان جلد اوّل نمبر۱ بابت جولائی ۱۹۰۶ء) جب…کاملہ صفات سے متّصف معبود کی ہستی پر آگاہی ہوتی ہے تو ایک سلیم القلبِ انسان بے اختیار بول اُٹھتا ہے.خصوصیّت کے ساتھ ایسی ہی ذاتِ پاک ہر ایک قِسم کی عظمت اور پرستش کے قابل ہے.اے مَولیٰ ! ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور چونکہ اِس عالَم کے ایک ایک ذرّہ پر تیری ربوبیّت کام کر رہی ہے اور تُو ہی مرتبٔہ کمال تک پہنچانے والا

Page 18

ہے اِس لئے ہم صرف تجھ سے ہی استعانت یعنی مدد اور دستگیری طلب کرتے ہیں.بعض لوگ اِس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اوّل مقدّم ہونا چاہیئے تھا اور اس کے بعد کیونکہ عبادت کے لئے استعانت اﷲ تعالیٰ سے اوّل طلب کرنی چاہیئے.اِس کا جواب یہ ہے کہ شرعی امور میں خدا تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ انسان اوّل خدا تعالیٰ کے عطا کردہ انعامات سے کام لے کر اس کا شُکریہ ادا کرے تو پھر اﷲ تعالیٰ اَور انعامات عطا کرتا ہے چنانچہ یہ امر نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم کی اِس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے جس میں یہ بیان ہے کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر میرا بندہ میری طرف ایک بالشت بھر آوے تو مَیں ایک ہاتھ اسکی طرف آتا ہوں اور اگر وہ ہاتھ بھرچل کر آوے تو باع بھر چل کر آتا ہوں اور اگر چل کر آوے تو مَیں دوڑ کر آتا ہوں.اِس کے علاوہ خود قرآن شریف نے اِس مضمون کو لیا جہاں فرماتا ہے (ابراہیم : ۸).پھر ایک اَور جگہ فرماتا ہے (محمد :۱۸)خدا تعالیٰ نے جو قوّتیں انسان کو دی ہیں ان سے تو اس نے ابھی کام لیا ہی نہیں تو اس کو اَور زیادہ مانگنے کی کیا ضرورت پڑ گئی اور ایسی حالت میں کیوں خدا تعالیٰ اسے اَور دیوے.ایسی صورت میں تو اگلا دیا ہؤا بھی واپس لے لینا چاہیئے کیونکہ اس سے کام نہیں لیا گیا اور خداداد نعمت کی قدر نہ کی گئی.تو کے یہ معنے ہیں کہ انسان اعتراف کرتا ہے اور عمل کر کے دکھلاتا ہے کہ اے مَولیٰ!جس قدر تُو نے اپنے فضل سے عطا کیا ہے اس سے تو کام لے رہا ہوں اور موجودہ نعمت کو زوال سے محفوظ رکھنے اور اس میں بڑھتی چاہنے کے لئے تیری ذات پاک سے استعانت طلب کرتا ہوں.گویا اِن آیات کی ترتیب ایک طبعی ترتیب ہے جس کے بدلنے سے لازم آتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا موجودہ قانونِ قدرت ایک احسن اور ابلغ نظام پر نہیں ہے.عبادت کے معنے ہیں عاجزی ،اِنکساری سے فرمانبرداری کرنا.عبادت کے مفہوم میں اِس نکتہ کو ضرور یاد رکھنا چاہیئے کہ نماز اور روزہ اور دیگر معروفہ عبادات جس ہَیٔت اور طرز سے ادا کی جاتی ہیں اس کے خلاف ہَیٔت اختیار کرنے سے ممکن نہیں کہ ان پر ثواب ملے یا رضائے الٰہی کا موجب ہوں.مثلاً یہ روزہ جو کہ ہم رکھتے ہیں اگر ایک خاص وقت تک کھانے پینے

Page 19

سے باز رہنے کا نام ہے تو ضرور ہے کہ ہم جمعہ کو یا عید کے دن بھی روزہ رکھ لیا کریں تو ثواب ملے لیکن اِن ایّام میں روزہ رکھنے سے تو ثواب کی بجائے عذاب ہوتا ہے.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مطلق روزہ اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے.اِسی طرح اگر نماز بہ ایں ہیئت کہ ہم ادا کرتے ہیں اگر عبادت ہے تو فجر کی دو رکعت کی بجائے اگر تین یا چار پڑھ لیں تو بھی ثواب ہونا چاہیئے بلکہ زیادہ ہونا چاہیئے کیونکہ محنت زیادہ ہوئی.وہی کلمات ہیں جن کی تکرار کثرت سے کی گئی ہے مگر ظاہر ہے کہ دو کے بجائے ۴ تو درکنار صرف ایک رکن نماز ہی بڑھا دینے سے نماز باطل ہو کر موجبِ عذاب ہو جاتی ہے تو معلوم ہؤا کہ نماز مطلق اپنی ذات سے عبادت نہیں ہے.پھر ہم معاشرت کو دیکھتے ہیں کہ وہی چہل پہل اور محبّت اور پیار اور راز و نیاز کی باتیں اور معاشرت کے حرکات ہیں کہ جب انسان اپنی منکوحہ بیوی سے معاشرہ کرتا ہے تو ثواب پاتا ہے لیکن جب ایک نامحرم عورت سے کرتا ہے تو عذاب کا مستحق ہے حالانکہ عورت ہونے میں تو بیوی اور نامحرم ایک ہی ہیں اور وہی حرکات ہیں.تو اِن نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز روزہ معاشرت اور دیگر عباداتِ شرعیہ مطلق اپنی ذات اور ہیٔت کے لحاظ سے ہرگز نہیں ہیں بلکہ اِس لئے عبادت کا لفظ ان پر آتا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے کی جاتی ہیں اور جب ان میں ایک ذرا سی بات بھی اپنی طرف سے ملا دی جاوے تو پھر یہ عبادت نہیں رہتیں اور اسی سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ عبادت کے معنے اصل میں اطاعت کے ہی ہیں اور ہر قابلِ اطاعت چونکہ تعظِیم اور تعزیزکا مستحق ہوتا ہے اس لئے اِس کے معنے عظمت اور عزّت کے بھی ہیں. کاکلمہ خالص توحید کی طرف راہنمائی کرتا ہے کہ خدا تک پہنچنے کے واسطے صرف خدا کو ہی ذریعہ بنایا جاوے اور اس کلمہ کا قائل یہ اقرار کرتا ہے کہ وہ خدا شناسی کا مرحلہ طے کرنے کے واسطے کسی اَور شَے کو ذریعہ نہیں بناتا، نہ کسی بُت کو،نہ مخلوق کو.نہ عقل کو، نہ عِلم کو اور اپنی ہر ایک اِحتیاج کے واسطے وہ خدا ہی کی طرف رجوع کرتا ہے.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۵) َُنماز میں ہر روز محبوبِ حقیقی جامع جمیع کمالات، رحمن رحیم، حضرت ربّ العٰلمین، مالکِ یَوم الدّین کی تعریف کر کے آپ پڑھا کرتے ہو...کے معنی ہیں تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور کریں گے.یہ دعوٰی سب مسلمان رات دن کئی بار خداوندِ عالَم سے کرتے ہیں.پیارے دیکھ اِس دعوٰی میں ہم

Page 20

کِس قدر سچّے ہیں.رات کو سو رہے.چار پہر تین پہر سوتے رہے صبح کو اُٹھے پاخانے گئے.وہاں سے آئے باتیں کیں.پھر کھانے کی فِکر میں لگے.روٹی کھائی.پھر کچہری میں دُنیا کمانے کو گئے پھر جو جو کام وہاں کرتے ہیں اس کو ہم ہی خوب جانتے ہیں.پھر آئے.ہَوا خوری.کُوچہ گردی.سَیر بازار.گھر آئے بال بچّہ میں لگ گئے.لیاقت و استعداد پر الف لیلہ.فسانہ آزاد.کفارسیان وغیرہ وغیرہ پڑھنے بیٹھ گئے.بتاؤ یہیکامطلب ہے پھر اگر کوئی بہت بڑا نیک ہؤا توپنجگانہ نماز بھی دربان میں پڑھ لی.پھر اس میں ریاء، سُمْعَۃ سُستی،کاہلی، تاخیر وقت نقصان سجود، رکوع، قومہ، جلسہ وقرأت ہوتا ہے.جو منصف ہے اسے خوب جانتا ہے.بھلا پیارے یہی معنی کے ہوں گے؟نہیں نہیں.بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کو ہر ایک کام میں اور بات میں رضامندی جنابِ باری تعالیٰ کی مدِّ نظر رکھنی چاہیئے.نوکری کریں مگر اِس نیّت پر کہ روپیہ حاصل کر کے صِلہ رحمی کرینگے ماں کو، بہن کو، بھائی، بھانجا بھتیجا وغیرہ کو دیں گے صِلہ رحمی سے ربِّ تعالیٰ راضی ہو گا جہاں تک ہو سکا لوگوں کی بہتری میں کوشش کریں گے.سوتے ہیں مگر اِس نیّت سے کہ خواب سے طاقت کمانے کی حاصل ہو گی.بدن کو صحت میں عبادت پر لگائیں گے.وہ روزی جس سے صِلہ رحمی ہو اور آپ سوال،چوری،فریب،دغا،قمار وغیرہ وغیرہ سے آدمی بچے.کمانے کی طاقت اُسے نیند سے حاصل ہوتی ہے اِس واسطے سوتے ہیں.لوگوں سے باتیں کرتے ہیں اِس خیال سے کہ باہم محبّت بڑھے اِتفاق پَیدا ہو.جو خداوند کریم کا حکم ہے اسی طرح ہر ایک کام میں رضامندی مَولیٰ مقصود ہو اور وہی مدِّ نظر رہے توکے معنے صحیح ہم پر صادق آویں اور دعوٰی درست ہو.اَب چلو:! اِس کے معنے ہیں تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں یہ بھی دعوٰی ہے سچّا تب ہو جب ہر کام میں ہم کو یہی خیال رہے کہ اس کا انجام اور اتمام بدوں رضامندی حضرت حق سُبحانہ، و تعالیٰ اور اس کی عنایت کے نہیں ہو سکتا.اے خدا تُو ہی مَمد اور معاون رہ.دیکھو کبھی زمیندار کاشتکاری کرتا ہے.خِرمن بناتا ہے.امّیدوار ہے کہ دانہ گھر لے جاویں خرمن کو آگ لگ جاتی ہے اور گناہ کی شامت وہ خِرمن خاکستر کا اَنبار ہو جاتا ہے.اسی کا رحم ہو کہ معاصی عفو ہو جاویں اور اس خرمن سے ہم نفع اُٹھاویں پس ضرور ہؤا کہ میں ذاتِ باری پر اعتماد رہے.(الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۲) عبادات نام ہے کامل درجے کی محبّت.کامل تعظیم اور اپنی طرف سے کامل تذلّل کا.عبادت

Page 21

وہی ہے جو خود اﷲ تعالیٰ اپنے رسول کی معرفت بتائے باقی سب ہیچ. واؤ حالیہ ہے.تیری عبادت ہم اس وقت کر سکتے ہیں کہ تُو ہی توفیق دے.(تشحیذالاذہان بابت ستمبر ۱۹۱۳ء) واؤ حالیہ ہے ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور اِس حال میں کہ تجھ سے مدد چاہتے ہیں کیونکہ تیرے فضل کے سوائے عبادت کی توفیق بھی حاصل نہیں ہو سکتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء) (اِس اعتراض کے جواب میں کہ چوری،قتل،ڈکیتی، قماربازی کے لئے بھی یہی کلام (.ناقل) مسلمانوں اور ان کے مُلّانوں کا وظیفہ ہؤا کرتا ہے( فرمایا )چوری،ڈکیتی،قماربازی خدا ئی کی عبادت نہیں اورسے پہلےکا لفظ ہے جس کے یہ معنے ہیں کہ تیرے ہی فرماں بردار ہوں یا رہیں اور کے بعد موجود ہے جس کے معنے ہیں دکھا ہمیں سیدھی راہ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۲)  .خطِ مستقیم اسے کہتے ہیں جو دو نقطوں کے درمیان چھوٹے سے چھوٹا خط کھِچ سکے.اِس لئے اِس کے معنے ہوئے بہت ہی اَقرب راہ جو ہر ایک قِسم کی افراط اور تفریط سے پاک ہو.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) ہم کو سیدھی راہ یا قریب ترین راہ (پر) چلا. کے معنے ہدایت کر.ہدایت کے معنے قرآن شریف میں چار طرح پر آئے ہیں:.۱.قوٰی یا خواصِ طبعی.کہ جس سے ہر ایک شئے اپنے اپنے فرضِ منصبی کو بجا لا رہی ہے.قرآن شریف نے یہ معنے بیان کئے ہیں جہاں فرمایا (طٰہٰ آیت: ۵۰)یعنی ہر ایک شَے کو پَیدا کر کے اس میں اس کے خواص رکھ دیئے ہیں.۲.حق کی طرف بُلانا. (شورٰی:۵۳) یعنی تُو خدا شناسی کی بہت اَقرب راہ کی طرف بُلاتا ہے.

Page 22

۳.توفیق جیسے (محمّد: ۱۸) ۴.کامیاب بامراد کرنا جیسے فرمایا (اعراف:۴۴) خدا ہی کی حَمد ہے جس نے ہمیں یہ کامیابی عطا کی.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) .چلا ہم کو.جمع کا صیغہ ہے.مومن کو چاہیئے کہ صرف اپنے واسطے دعا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی ساتھ شامل کر لے.ہدایت عموماً چار ذرائع سے ہے.۱.قوّت دینا.فطری قوٰی بخشنا.۲.ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کی توفیق دینا.۳.اس مقصد پر پہنچانا جو نیکی کے واسطے مقدّر ہو.۴.راستہ بتلا دینا.ٍ.اقرب راہ.جو سب سے زیادہ نزدیک ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء) ۱.ہدایت.قوٰی فطری کا عطا کرنا.(طٰہٰ:۵۰) ۲.عطاء فہم ۳.انبیاء کی تعلیم سے بُرے بھلے راہوں کو دکھانا.(البلد:۱۱) ۴.بہشت میں پہنچانا.چنانچہ جنتی کہیں گے (الاعراف:۴۴) ( تشحیذالاذہان بابت ماہ ستمبر ۱۹۱۳ء) .اِس کا یہ مطلب ہے کہ کوئی کام اِس دُنیا میں بِدُوں کسی سبب کے نہیں ہوتا.ظاہری اندھیرے کے لئے سُورج،چاند،چراغ،برق وغیرہ کیلئے روشنی چاہیئے ،سینے کو ہَوائے سرما کے واسطے گرم کپڑاآگ چاہیئے.دوسرے دوست کے مطالب سمجھنے کو خط و کتابت، پیغام چاہیئے.دریا سے پار اُترنے کو کشتی چاہیئے شنائی تلہ وغیرہ چاہیئے.پیاس کے دُور کرنے کو پانی.بُھوک کے لئے غذا.جلد پہنچنے کو ریل.جلد خط بھیجنے کو تار کی خبر.اِسی طرح دیکھتے جاؤ کوئی کام بِدُوں سبب نہیں جن کاموں کو آپ بدوں سبب جانتے ہو وہ بھی حقیقت میں سبب کے ساتھ پیوستہ ہیں.سے یہ مطلب ہے کہ الٰہی کوئی کام بِدُوں سبب واقعی نہیں ہؤا کرتا اور ہم کو کاموں کے اسباب ٹھیک ٹھیک معلوم نہیں اِس لئے ہمارے کام نہیں ہوتے.اگر بیماری کی صحت کا ٹھیک سبب معلوم ہو تو ہمارے بیمار کیوں بیمار رہیں؟ اور اگر دفع افلاس کے واقعی

Page 23

اسباب معلوم ہوں تو ہم کیوں مُفلس رہیں؟ عزّت کے اسباب دریافت ہو جاویں تو جلد ترذِی عزّت ہو رہیں.ذِلّت کے اسباب معلوم ہوں تو ان سے بچیں اور ذلیل نہ ہوں.پادشاہ ہو جانے کے اسباب دریافت ہوں تو پادشاہ بنیں.غرض ہر وقت ہر آن میں ہم کو ضرور ہے کہ خداوندِ کریم کی درگاہ میں سوال کرتے رہیں کہ الٰہی فلاں کام میں سببِ حقیقی کی راہنمائی فرما.فلاں میں راہنمائی عطا کر.اگر ہر وقت کاموں کی ضرورت ہو تو ہر وقت  کی ضرورت بھی لگی ہوئی ہے.ہر صبح نماز کے بعد کئی بار اسی طرح کیا ساری الحمد فکروں کے ساتھ پڑھنی چاہیئے.(الحکم ۲۸؍فروری ۱۹۰۲ء صفحہ ۲)   .جن پر تیرا انعام ہؤا.منعَم علیہ کی تفسیر خود قرآن نے کر دی ہے. (نساء:۷۰) انسانی افعال کے چار ہی مراتب ہؤا کرتے ہیں.اوّلؔ مطلق کام صلاحیّت سے کرنا.اسے صالح کہتے ہیں.دوسرےؔ جب آقا یا حاکم سر پر کھڑا ہو تو وہ اِس کام کو اَور بھی تیزی سے کرتے ہیں تو اسے شہید کہتے ہیں.تیسرےؔ ٹھیکہ کے طور پر کام کرنا جس میں انسان کو خود بخود ہی ایک فِکر لگی ہوتی ہے کہ اس میں کوئی نقص نہ رہے اور بڑی دیانت سے کام لیتا ہے اسے صدّیق کہتے ہیں.چوتھےؔ ایک کام میں اپنے آپ کو ایسا محو کرنا کہ وہ طبعی تقاضا ہو جاوے اور جیسے ایک مشین انجن کے زور سے خود بخود کام کرتی ہے نہ تھکتی ہے نہ سُست ہوتی ہے اسی طرح افعالِ حَسنہ کا اس سے سرزد ہونا.اسے نبی کہتے ہیں.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) .جن پر انعام ہؤا.وہ نبی.صدیق.شہید اور صالح ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) خدا کا کِسی کو نِعمت دینا اور بِدُوں کسی سابق مزدوری اور کسی محنت کے اﷲ تعالیٰ کا اِنعام اور اِکرام کرنا.اس کی رحمت اور فضل کا نشان ہے جو باری تعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی صِفت ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۸۷)

Page 24

.نہ ان لوگوں کی راہ جن پر تیرا غضب دُنیا میں ہی آیا.اِس سے پہلی آیت میں جلبِ خیر کا ذکر ہو چکا اَب دفع ضرر کی دعا تعلیم کی اور اس سے مراد یہودی ہیں جنہوں نے غضبِ الٰہی حاصل کیا.وہ کیا افعال تھے جن سے وہ مغضوب ہوئے اس سے سارا قرآن بھرا ہؤا ہے انشاء اﷲ اپنے وقت پر ذکر ہو گا.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء)  : یہود جن میں بے جا عداوت ہے اور عِلم پڑھ کر عمل نہیں کرتے. : بہکے ہوئے نصارٰی جنہوں نے اپنے نبی سے بے جا محبّت کی اور علومِ اِلٰہی کو سیکھنے کی بجائے اپنی رائے کے تابع ہوئے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)  : راستہ سے بہک جانے والے.بے جا محبّت کرنے والے بے علم.حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے اِس کے معنے گُم ہو جانے والے کے کئے ہیں کیونکہ یہ لوگ آخر اس سِلسلہ میں گُم ہو جائیں گے اور اِس مضمون پر دلیل یہ آیتِ قرآنی ہے .(سجدہ:۱۱) (البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) ضَآلِّیْن :ان کے دو نشان ہیں.۱.الٰہیّات کا عِلم نہ ہو(کہف: ۶).۲.کِسی سے بے جا محبّت جیسے نصارٰی.ضَآلِّیْن میںچونکہ شدّ و مد ہے اس میں بتایا کہ ان کا زمانہ لمبا اور مضبوط ہو گا.(تشحیذالاذہان ماِ ہ ستمبر ۱۹۱۳ء) اس اُمّت میں.مَغْضُوْب اورضَالّ تینوںقِسم کے لوگ موجود ہیں پس وہ مسیح موعود علیہ السّلام بھی موجود ہے جس نے ہم میں نازل ہونا تھا وہ مہدی معہود اور اس وقت کا امام بھی ہے اور انہی میں موجود ہے.وہ اختلافوں میں حَکم.ہم نے اس کی آیاتِ بیّنات کو دیکھا اور ہم گواہی دیتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر کر،جزاسزا،حَشراجساد،جنّت و نار، اپنی بے ثبات زندگی کو نصبُ العَین رکھ کر اس کو امام مان لیا ہے.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۵۷) ہم نے تین دعائیں الحمد میں کی ہیں.منعَم علیہ بنیں.اور ضَالّنہبنیں.ہرسِہ خدا نے قبول کی ہیں.انعام ان پر ہؤا جو متّقی ہیں.مغضوب بے ایمان ، منکر ہیں جن کو وعظ کرنا نہ کرنا برابر ہو.ضالّین منافق لوگ ہیں.ہرسِہ کا ذکر الحمد میں ہے پھر ترتیب وارہرسہ کا ذکر سُورۃ بقرہ کے ابتدامیں ہے.یہ قرآن شریف کی ترتیب کا ایک نمونہ ہے.(بدر ۲۳؍مئی ۱۹۱۲ء صفحہ۳)

Page 25

سُوْرَۃُ الْبَقَرَۃِ مَدَنِیَّۃُ  (:۲) مُقَطَّعات کی نسبت اِس زمانہ میںاعتراض ممکن تھا کیونکہ آزادی حد سے بڑھی ہوئی ہے مگر اﷲ تعالیٰ نے تمام متمدّن قوموں(جو انِتظام مدائن کو خوب کر سکیں) میں اس کا رواج دیکر انہیں مُلزم کر دیا.یورپ ،امریکہ کے لوگوں کے لئے تو یہ مسئلہ صاف ہے کیونکہ وہ اپنی قلموں، دواتوں، پنسلوں اور چھڑیوںاور سِلے ہوئے کپڑوں کو مقطِّعات کے نام سے وابستہ کرتے ہیں.ایف.اے،بی.اے،ایم.اے کو تو سب لوگ جانتے ہیں.ریلوں کے این.ڈبلیو.آر کو بھی اکثر سمجھتے ہوں گے اور بعض خطابات اور قومی دکانوں کے مقطّعات تو ذرا غور سے معلوم ہوتے ہیں مگر مخفی نہیں.عرب میں بھی اِن مقطّعات کا رواج تھا چنانچہ بالام ایک مشہور شاعر گزرا ہے.کی تشریح دو عظیم الشّان بزرگوں نے کی ہے جنہیں قرآن دانی میں سے نے بُرا نہیں کہا وہ عبداﷲبن عباس اور عبداﷲ بن مسعود تھے.انہوں نے بالاتفاق ایک معنے کئے ہیں.صحابہؓنے اِن معنوں کا اِنکار نہیں کیا اور نہ یہ کہا ہے کہ یہ احتیاط کے خلاف کرتے ہیں اِس لئے مَیں اِن معنوں کو اپنے فہم کے مطابق صحیح سمجھتا ہوں.پھر ان کے بعد ہمارے زمانہ میں امام نے بھی یہی معنے کئے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے ابن عباس اور ابِن مسعود کی تقلید سے یہ معنے نہیں کئے بلکہ اپنے ذوق سے بیان کئے.وہ معنے یہ ہیں کہ اََنَا اﷲُ اَعْلَمُ مَیںاﷲ بہت جاننے والا ہوں.اََنَا کا پہلا حَرف لے لیااﷲکا درمیانی اَعْلَمُک

Page 26

کا آخری مجموعی حیثیّت سے لوگوں نے طبع آزمائیاں کی ہیں اور دوسرے معانی بھی اپنے ذوق کے مطابق بیان کئے ہیں چنانچہ ایک بزرگ نے لکھا ہے کہ یہ اشارہ ہے اِس بات کی طرف کہ اِس سُورۃ میں آدمؑ، بنی اسرائیل اور ابراہیمؑ کا قِصّہ آئے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء) ّٓ.اِس قِسم کے الفاظ قرآن شریف کی اکثر سُورتوں میں آتے ہیں اور ان کا نام عربی زبان میں حروفِ مقطّعات ہیں اور دراصل یہ مختصرنویسی کا ایک طریق ہے.انگریزی زبان میں بھی اِس کی نظیریںموجود ہیں جیسے ایم.اے اور بی.اے اور ایم.ڈی وغیرہ.ہر ایک محکمہ اور دفتر کی اِصطلاحِ اختصار الگ الگ ہے.محدّثین نے اِس سے کام لیا ہے چنانچہ بخاری کی بجائے لفظ خ لکھتے ہیں.طِبّ میں بھی اِس سے کام لیتے ہیں. کی جگہ بسملہ کہتے ہیں جس سے مقصود ساری آیت ہوتی ہے.اِسی طرح لاحَول ( کے لئے حَوْ قَلَ) اِسی طرح کا ایک اِلہام حضرت مسیح موعود علٖیہ السلام کو ہؤا تھا کہ ’’یلاش‘‘ جس کے معنے ہیں یَامَنْ لَا شَرِیْکَ لَہٗ.غرض اِن مقطّعات میں باریک اشارات ہوتے ہیں.چونکہ ان کی تفصیل لمبی ہے اِس لئے درج نہیں کی جاتی.حضرت اقدس نے بارہین احمدیہ میں  کے معنے انا اﷲ اعلم کے کیئے ہیں.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) .اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ.حضرت علی،ابن عبّاس،ابن مسعود، اُبَیّ ابن کعب رصی اﷲ عنہم ہر چہارنے بالا تفاق یہی معنے کئے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹) حروفِ مقطّعات سے متعلق ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:.اگر مقطّعات کا استعمال معمّے و چیستان اور پہیلی ہے اور اِس لئے تم کو اس سے تنفُّر ہے تو ایف.اے اور پھر بی.اے کیوں ہوئے اور اس پر تمہارا فخر کیوں ہے.؟ تم نے بی.اے ہونے سے دکھایا ہے کہ تم نے دھوکہ نہیں کھایا اور بی.اے وغیرہ تو مقطّعات ہیں.مطلب تم نے خوب سمجھ لیاکہ بی.اے اگر معمّا نہیں تو الٓمٓ کیوں معمّا ہے؟ دومؔ تمہارا مُنہ کالا کرنے کو اِس وقت تمام دُنیا کے مہذّب بِلا د اور تعلیم یافتہ قوموں کی دُکانوں ،مکانوں، چیزوں ،ناموں،عُہدوں،ڈگریوں اور اعلیٰ عزّت و عظمت کے خطابوں میں انہی معمّے و پہیلی اور مقطّعات کا استعمال ہو رہا ہے.لوگوں نے ہی عام طور پر اس کو قبول نہیں کیا بلکہ گورنمنٹ نے اپنے محکوں.ریلوں.سٹیشنوں کو بھی یہی ٹیکا لگایا ہے.فارن آفس کی تمام تحریروں کا انہیں پر مدار ہے جو حکومت کی اصل کَل ہے.ڈی.اے.وی

Page 27

دیانندی کالج اِس پہیلی سے زینت یافتہ ہیں.یونانی ( ا)اغطس.اگست، ایلوس،برس،سال،ایٹیکو پُرانے وغیرہ پندرہ کلمات کے اختصار پر بولا کرتے ہیں (ل) لوئیس.لوکس.جگہ کے معنی میں.(م) مجسٹریٹ.مانومنٹ بمعنی یادگار پر بولتے ہیں…اوم کا لفظ جو آ.اُ.م کے مقطّعات سے بنا ہے… اپنے ابتدا اور انتہا سے قرآن کے مقطّع الم کے الف پہلے حرف اور میم آخری حرف کا شاہد ہے… صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے فرمایا ہے.دیکھ یہ وہی اصحاب الرّسول ہیں جن کی نسبت تُو نے بکواس کی ہے کہ اصحاب الرّسول بھی زور لگا چکے مگر… ابن جریر.معالم التنزیل ابن کثیر.تفسیر کبیر.دُرِّمنثور وغیرہ میں لکھا ہے علی المرتضیٰ، ابن مسعود اور ناس مِن اکثر اصحاب النّبی اورابن عبّاس کے نزدیک یہ تمام حروف جو سُورتوں کے ابتدا میں آئے ہیں اسمائِ الہٰیّہ کے پہلے اجزا ہیں.ابِن جریر نے بہت بسط سے اِس بحث کو بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ قرآن کریم کُھلی عربی میں ہے پس ممکن نہیں کہ اس میں ایسے الفاظ ہوں جو ہدایتِ عامہ کے لئے نہ ہوں پھر صحابہؓ و تابعین کی روایات کا بسط کیا ہے.آخر کہا ہے کہ ان مقطّعات کو صحابہ کرامؓ نے اسمائِ الہٰیّہ کا جُزو مانا ہے اور بعض نے ان پر اسمائِ الہٰیّہ کا اطلاق کیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ ان سے قَسم لی گئی ہے ان کو اسماء السور، اسماء القرآن، مِفتاح القرآن بھی کہتے ہیں.آخر مجاہد کی روایت لی ہے کہ یہ بامعنی الفاظ ہیں اور الربیع بن انس تابعی کا قول نقل کیا ہے کہ ان کے بہت معنی لینے چاہئیں اور یہ بھی کہا کہ یہ اسماء و افعال کے اجزاہیں.بالآخر الربیع بن انس کی روایت پر کہا ہے کہ یہ سب معانی صحیح ہیں اور ان میں تطبیق دی ہے.مَیں کہتا ہوں بات کیسی آسان ہے کیونکہ ان حروف کا اسمائِ الہٰیّہ کی جزو ہونا تو قول حضرت علی المرتضٰی علیہ السّلام کا ہے اور ابِن مسعود اور بہت صحابہ اور ابن عبّاس کا، رضوان اﷲ علیہم اجمعین.پس یہ معنے اصل ہوئے اور جن لوگوں نے کہا ہیکہ یہ اسمائِ الہٰیہ ہیں انہوں نے اصل بات بیان کر دی کیونکہ آخر ان اسماء سے اسمائِ الہٰیہ ہی لئے گئے اور چونکہ اسماء الہٰیہ کے ساتھ قَسم بھی ہوتی ہے اِس لئے یہ تیسرا قول بھی پہلا قول ہی ہؤا.پھر چونکہ سُورتوں کے نام ان کے ابتدائی کلمات سے بھی لئے جاتے ہیں اِسی واسطے فاتحتہ الکتاب کو اور سُورۃاِخلاص کوکہتے ہیںاور اِسی لئے یہ حروف مفاتح السور اور اسماء السور ہوئے اور چونکہ ہر ایک سورۃ کو قرآن کہتے ہیں جیسے آیا ہے(الجن:۲) اور فرمایا ہے

Page 28

(الاعراف:۲۰۵)اِس لئے بعض نے ان کو اسماء القرآن بھی کہا ہے.پس مجاہد کا قول کہ یہ حروف موضوع ہیں معانی کے لئے.اور ربیع بن انس کا یہ قول کہ ان کے بہت معانی ہیں درست و صحیح ہے اور یہ تمام اقوال پہلے قول کے مؤید ہیں اور انہی معنوں کے قریب بلکہ عین ہے وہ قول جو ابن جریر میں ہے کہ کے معنی اَنَا اللّٰہُ اَعْلَمُ ہیں.پس جو معانی صحابہ کرامؓ نے کئے ہیں وہ بالکل صحیح ہوئے.اوّل تو اِس لئے کسی نے ان صحابہ کرامؓ پر اعتراض نہیں کیا.نہ دوسرے صحابہ ؓ نے اور نہ تابعین نے.نہ پچھلے علماء نے.اور اگر کسی نے ان کے علاوہ کہاہے تو اس کا کہنا صحیح ہے جیسا ہم نے دکھایا ہے.ابن جریر نے اِن کُل معانی بلکہ ان کے سوا اور معانی لے کر سب کو جمع کرنے کو بہت پسند کیا ہے اور اپنے طورپر ان کو جمع کر کے بھی دکھایا ہے.ابن جریر کی یہ عبارت بڑی قابل قدر ہے جو آخر مقطّعات پر لکھی ہے اِنَّہٗ عَزَّ ذِکْرِہٖ اَرَادَ بِلَفْظِہِ الدَّلَالَۃَ بِکُلِّ حَرْفٍ مِنْہُ عَلٰی مَعَانٍ کَثِیْرَۃٍ لَا مَعْنَی وَاحِدٍ کَمَا قَالَ الرَّبِیْعُ ابن اَنَسٍ وَ اِنْ کَانَ الرَّبِیْعُ قَدْ اِقْتَصَرَ عَلٰی مَعَانٍثَلٰ ثَۃٍ دُوْنَ مَازَادَ عَلَیْھَا.وَالصَّوَابُ فِیْ ذٰلِکَ عِنْدِیْ اَنَّ کُلَّ حَرْفٍ مِنْہُ یَحْوِی مَا قَالَہُ الرَّبِیْعُ وَمَا قَالَہٗ سَائِرُ الْمُفَسِّرِیْنَ وَاسْتَثْنٰی شَیْئًا.ربیع کے تین معنی یہ ہیں.اوّلمیں الف سے اﷲ لام سے لطیف اور میم سے مجید.دومؔ.الف سے اﷲ تعالیٰ کے آلاء و انعامات اور لام سے اس کا لطف اور میم سے اس کا مجد پھر الف سے ایک.لام سے تیس.میم سے چالیس عدد.ابِن جریر کا منشاء یہ ہے کہ اگر کوئی اَور معانی بھی لے لے ( جیسے کہا گیا ہے کہ الف سے قصّہ آدم اور لام سے حالات بنی اسرائیل اور میم سے قصّئہ ابراہیم مراد ہے) جب بھی درست ہے.زمخشری اور بیضاوی نے علومِ قراء ت و صَرف کے بڑے بڑے ابواب کا پتہ ان سے لگایاہے اور شاہ ولی اﷲنے غیب غیر متعیّن کو متعیّن اِس عالَم میں مانا ہے اور مبرد اور دیگر محقّقین فراء و قطرب و شیخ الاسلام الامام العلّامہ ابوالعبّاس ابن تیمیہ اور الشیخ الحافظ المجتہد ابوالحجاج المزی اور زمخشری کا قول ہے کہ یہ منکروں کو ملزم کرنے کے لئے بھی بیان کئے گئے ہیں مثلاً مخالفوں کو تحدّی سے کہا گیا کہ الف حرف ہے جو گلے سے نکلتا ہے اور لام درمیانی مخارج سے اور میم آخری مخرج ہونٹ سے ہے.پس جبکہ ان معمولی لفظوں سے قرآن کریم بنا ہؤا ہے تو تم اس کی مثل کیوں نہیں بنا سکتے.اب ہم تینوں الزامی اور تینوں نقلی جواب سے فارغ ہو کر عقلی جواب دیتے ہیں.ناظرین کیا معجزہ قرآنی نہیں کہ مقطّعاتِ قرآن کریم پر مخالفانِ اِسلام کا اعتراض ہو اور تمام دُنیا کے مخالفانِ اسلام

Page 29

اسلامیوں سے بڑھ چڑھ کر ان حروفِ مقطّعہ کے استعمال میں مبتلا دکھائے جائیں اور ہم نے تو صحابہ کرامؓ کے اقوال سے ان کے معانی کو ثابت کیا ہے مگر معترض لوگ اَ.اُ.م کے معنی ملہمان وید کے صحابہ سے بتائیں تو سہی! دو اَرب برس کی تصنیف کتاب کونسی ہے جس میں یہ معانی لکھے ہوئے ہیں جو سندھیا ودھی بلکہ ستیارتھ کے پہلے ہی صفحہ میں لکھے ہیں اور پھر جب اسلام کی کتب میں یہ معانی موجود ہیں تو ان پر اعتراض کیوں ہے اور اِس طرح اختصار سے کلام کرنا تو عربی علوم میں عام مروّج ہے بلکہ اس کے علاوہ کئی طریق سے اختصار کیا جاتا ہے مثلاًبَسْمَلَ.حَمْدَلَ.حَوْقَلَ.رَجَّعَ.ھَلَّلَ اورمثلاً خود قرآن کریم کے آیات کے نشان پر ط مطلق اور ج جائز.صؔ صلی کا اختصار ہے اور قرآنوں کے اُوپر ع رکوع کا چنانچہ اِس طرح کے نشانوں میں اُوپر کا نشان پارہ کا یا سورۃ کا اور اُوپر والا اگر پارہ کا نشان ہے تو نیچے والا سورۃ کا اور اگر اُوپر والا سورۃ کا ہے تو نیچے والا پارہ کا.درمیانی ہندسہ آیات رکوع کا نشان ہے.علمِ قرأت میں فمی بشوق کے مقطّعات سات منازل قرأت کا نشان ہے.علمِ حدیث میں نا.انا.ح.ت.ن.د.ق.م.خ.حدّثنا.اخبرنا.حول السند.ترمذی.نسائی.ابوداؤد.متفق علیہ.مسلم و بخاری کے نشان ہؤا کرتے ہیں.علمِ فِقہ میں صدہا علامات ہوتی ہیں.ان کا ایک فقرہ ہے مسئلہ البئر حجط.کنوئیں کے پانی میں ایک خاص امر میں اختلاف پر لکھا ہے کہ اِس وقت پانی نجس ہؤا ہے یا بر حال رہتا ہے یا طاہر و پاک رہتا ہے.علمِ صَرف میں سؔ سمع یسمع کا نشان، کؔکرم، نؔ نصر ،ض ضرب کا،ف فتح یفتح کا.نحو میں ط عطف کا نشان ، حد تعلق کا، مف مفعول کا وغیرہ.لغتؔ میں ۃیلدہ کا،ج جمع کا، کاف کسرہ عین ماضی، فتح عین مضارع کا نشان ہے.طِبّ میں مکدمن کل واحد کا نشان جس کے معنٰی ہیں ہر ایک سے.عقلی جواب.قبل اِس کے کہ عقلی جواب بیان ہو ہمیں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عقلاء کی بعض اصطلاحات بیان کی جاویں اور اِس وقت ہم صرف ویدک معتقدوں اور اسلامی فلسفیوں کی اصطلاحات پر اکتفا کرتے ہیں.علّتِ فاعلیہ یا فاعل کام کرنے والے کو کہتے ہیں.سنسکرت (میں) اِس کا نام نست کارن ہے.علّتِ مادیہ: مادہ جس سے کوئی چیز بنتی ہے اس کو اپاوان کارن کہتے ہیں.علّتِ صوریہ صورت.شکل اور آلات وغیرہ کو سادہارن کارن کہتے ہیں.علّتِ غایتہ اصل مقصود کو پریوجن کہتے ہیں مثلاً اِس کتاب

Page 30

کا مصنّف و متکلّم فاعل ہے اور اس کا نست کارن.مصنّف کے علوم وغیرہ اور پاوان کارن ہے اور اس کے آلات و اسباب مثلاً قلم و سیاہی کاغذ وغیرہ سادہارن کارن ہیں.اس کا اصل مقصود یعنی نافہموں کے سامنے صداقتوں کا اظہار اس کا پریوجن ہے.(۱) الٰہی اقوال یا اچھے لوگوں کی بات سے سَند لینا سمعی دلیل ہے اور اس کو سنسکرت میں شَبد کہتے ہیں (۲) تشبیہ کو ایمان کہتے ہیں.عِلّت سے معلول کو سمجھنا لمِؔ کہلاتا ہے اور معلول سے علّت کو سمجھنا اِنّ ہے (۳) اور استقراء سے پتہ لگانا تمثیل ہے اور ان سب کو انومان کہتے ہیں.(۴) مشاہدات سے استدلال سنسکرت میں پرتیکش ہے حو اِس ظاہرہ سے استدلال ہو یا حواسِ باطنہ سے.دلائل میں پہلی دلیل شبد ہے اِس سے ہم نے استدلال نقلی دلائل میں کیا ہے.دوسری دلیل ایمان یا تشبیہ ہے.اِس دلیل سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ جس طرح مقطّعات تمہارے مقدّس وید میں ہیں اسی طرح ہماری مقدّس کتاب میں ہیں.جس طرح وہاں اسمائِ الہٰیّہ لئے گئے ہیں اسی طرح یہاں لئے گئے ہیں فرق اتنا ہے کہ اسلامیوں کے پاس ایک قاعدہ ہے اور تمہارے یہاں دھینگا دھانگی ہے کہ آؔ سے یہ لواور اُسےؔ یہ اور م ؔ سے یہ مراد لو.تیسری دلیل انومان سے ہم نے یوں کام لیا ہے کہ ہم نے استقراء کیا ہے کہ ہندو، سناتن، آریہ، یورپ، امریکہ کے لوگ مقطّعات کو اجزاکلمات تجویزکرتے ہیں تو ہم نے اسی استقراء سے مقطّعات قرآنیہ کو اجزاء کلماتِ طیّبات لیا ہے.اب چوتھی دلیل پرتیکش یُوں ہے کہ کلمہ طیّبہ ... چار جملے ہیں.چوتھا جملہ مطلب وغایت کو ادا کرتا ہے اور تیسرا جملہ سروپ کو.دوسرا جملہ مادہ کتاب کہ آپ کو تو ان مشاہداتِ ثلاثہ سے یہ پتہ لگا کہ پہلا جملہ اِس کتاب کے متکلّم و مصنّف کا پتہ دیتا ہے.(نورالدین صفحہ ۲۴۳ تا ۲۴۸) حروفِ مقطّعات کے معنے یہ حروف اسمائِ الٰہی کے ٹکڑے ہیں اور ان کے ساتھ اُن اسمائِ الہٰی کی طرف اشارہ کیا جا تا ہے کہ جن کی یہ جُزو ہوتے ہیں اور یہ دعوٰی ہم از خود نہیں کرتے بلکہ حضرت علیؓ اور ابِن مسعود ؓ اور ابن عبّاسؓ اور بہت سے صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے اور خیرالتابعین فی التفسیر مجاہد اور سعید بن جبیر اور قتادہ اور عکرمہ اور حسن اور ربیع بن انس اور سعدی اور شعبی اور اخفش اور تابعین

Page 31

کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے کہ ان حروف کے ساتھ اسمائِ الہٰیّہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہ یہ ان اسماء الہٰی کے ابعاض اور اجزا ہیں اور ضحاک نے اِس پر یہ اِستدلال کیا ہے کہ کلمہ کے بعض کو ذکر کر کے پُورا کلمہ مراد لینا یہ عربوں کی عادت میں داخل ہے اور اس کی تائید کے لئے اُس نے کچھ اَشعار پیش کئے ہیں بلکہ جو قرآنِ مجید کہ ہدایت اور شفا ہے اس میں بھی تم دیکھتے ہو کہ وقفوں کے رمُوز کے لئے حروف لکھے ہوئے ہیں مثلاًمطلق کا نشان ط ہے اور جائز کا نشان ج ہے اور رکوع کا نشان حاشیہ پر ع ہے.اِسی طرح کتبِ احادیث میں نا.انا.نبا.ح رموز ہیں اور علمِ کلام میں ہٰذا خلف کے عوض ہفؔ ہوتا ہے اور کتبِ فِققہ میں حجط وغیرہ رموز موجود ہیں اور کتبِ لُغت میں ل.س.ن.ض.ک.ف.ح بابوں کے رموز ہیں اور ت.ع.ج.بلدہ اور معروف اور جمع کے رموز ہیں اور کتبِ طِبّ میں مکد مِنَ کُلِّ وَاحِد کی رمز ہے.پس یہ سب رموز اس بات کے شاہد ناطق ہیں کہ یہ طریقہ اختصار عربوں میں دائر اور سائر ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیث میں بھی موجود ہے اور اِس زمانہ میں تو قریباً ہر ایک قوم میں اِس کی اِس قدر کثرت ہے کہ جس کے ثبوت پیش کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی.پس جبکہ یہ طریقِ اختصار زبانِ عرب بلکہ خود قرآن میں موجود ہے اور بہت سے جلیل القدر صحابہ ؓ اور اہل علم تابعین اور ائمہ سے مروی ہے تو اَ ب اس سے بے وجہ عدول کرنا اور محض احتمالاتِ بے وجہ سے ان کے معنوں میں اشتباہ پَیدا کر کے ان کو متشابہات میں داخل کرنا درست نہیں اور بعض لوگ بعض روایات کو بزعمِ خود ان معنوں کے مخالف تصوّر کرتے ہیں حالانکہ فی الحقیقت وہ انہی معنوں کی مؤید اور مثبت ہیں نہ مخالف.مثلاًحضرت ابِن مسعودؓ اور ابِن عبّاسؓ اور شعبی سے مروی ہے کہ یہ حروف اسمائِ الہٰی ہیں.تو اگرچہ بعض نے غلطی سے اِس روایت کو پہلی روایت کے خلاف خیال کیا ہے لیکن فی الحقیقت یہ اس کی مؤید ہے کیونکہ دونوں روایتوں کا مطلب یہ ہے کہ ان حروف سے مراد اسمائِ الہٰی ہے اگرچہ اِس قدر فرق ہے کہ پہلی میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ حروف اسمائِ الہٰی پر اِس لئے دلالت کرتے ہیں کہ یہ اُن کی جُزو ہیںاور دوسری روایت میں یہ نہیں بیان کیا گیا بلکہ جُزو کا کُل پر بلکہ بدل کا مبدّل منہ پر اطلاق کر کے انہی حروف کو اسماء بول دیا ہے اور یہ استعمال عام اور شائع ہے اور ان دونوں روایتوں کے متحد المطلب ہونے پر یہ بڑا قرینہ ہے کہ قائل دونوں کے ایک ہی ہیں اور دوسری کی عبارت ان معنوں کی متحمّل ہے جو کہ پہلی کے معنی ہیں.اِسی طرح بعض سے مروی ہے کہ یہ حروف اسمائِ الہٰی

Page 32

ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ پہلی روایت کے مؤید ہے کیونکہ پہلی روایت کے مطابق ان سے مراد اسمائِ الہٰی ہیں اور ظاہر ہے کہ اسمائِ الہٰی عموماً خدا کی صفت اور ثنا ہوتے ہیں.مثل ربّ العالمین، الرحمن،الرحیم،الرزاق،ذوالقوّۃ، المتین وغیرہ کے.پس یہ روایت بھی مؤید ہے نہ مخالف.اِسی طرح حضرت ابن عباسؓ اور عکرمہ سے مروی ہے کہ یہ حروف قَسم ہیں کہ جن کے ساتھ قَسم کھائی گئی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ قَسم بھی اسمائِ الہٰی کے ساتھ کھانے کا حکم ہے.پھر بعض مفسّرین نے لکھا ہے کہ الٓمٓ نام ہے سُورۃ کا اور یہ وہ بات ہے کہ جس پر اکثر مفسّرین کا اِتفاق ہے اور اکثر محققین نے اِسی کو پسند کیا ہے اور خلیل اور سیبوَیہ جیسے جلیل القدرامام بھی اِسی طرف گئے ہیںاور اس پر ان احادیث سے اِستدلال کیا گیا ہے کہ جن میں کسی سُورت کو ان حروف کے ساتھ نامزد کر کے ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم جمعہ کی صبح کی نماز میں الٓمٓ سجدۃ اور ھل اَتٰی پڑھا کرتے تھے اور ایک حدیث میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یٰسٓ قرآن مجید کا دل ہے اور ایک دوسری میں آیا کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے صؔ میں سجدہ کیا.مجاہد نے کہا کہ یہ سورتوں کے اوّل کے حکم میں ہیں یعنی جس طرح سُورتوں کے اوّل سے ان سورتوں کو نامزد کیا جاتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے سورۂ قُلْ یٰٓاَیُّھَا الْکٰفِرُوْنَ َیا قُلْ ھُوَ اﷲُ و غیرھما.اِسی طرح اِن حرفوں سے بھی ان سورتوںکو نامزد کیا جاتا ہے اور یہی قول ہے مجاہد اور حسن اور زید بن اسلم کا.تو یہ قول بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ جب یہ مسلّم بات ہے کہ سورتوں کے نام ان کے ابتدا کے ساتھ رکھا جاتا ہے اور ان کے اوائل کے فی الحقیقت کچھ معنے بھی ضرور ہی ہوتے ہیں تو پھر یہ حروف جو سُورتوں کے اوائل میں ہیں اگر باوجود اسمائِ الہٰی کی طرف مشیر ہونے کے ان سورتوں کے نام بھی ہوں تو اِ س میں کیا حرج ہے.پھر مجاہد سے مروی ہے کہ یہ قرآن مجید کے نام ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے کیونکہ ہر ایک سورۃ قرآن ہے تو جب یہ سورتوں کے نام ہوئے تو بالضرور قرآن مجید کے ہی نام ہوئے اور جس طرح کہ سورتوں کے اسماء اور اسمائِ الہٰی کے اجزا ہونے میں کسی قِسم کی منافات نہیں بلکہ دونوں ہو سکتے ہیں اسی طرح اسماء قرآن مجید اور اسمائِ الہٰی کے اجزاء ہونے میںکوئی مخالفت نہیں اور نہ اسماء قرآن مجید اور اسماء الہٰی ہونے میں کچھ نقص عائد ہو سکتا ہے.

Page 33

پھر مجاہد سے مروی ہے کہ حروف سورتوں کے مفاتح ہیں اور چونکہ سورتیں بھی قرآن پھر مجاہد سے مروی ہے کہ حروف سورتوں کے مفاتح ہیں اور چونکہ سورتیں بھی قرآن مجید ہیں لہٰذا وہ مفاتح القرآن بھی ہیں اور یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤیّد ہے اِس لئے کہ سورتوں کا اِفتتاح بھی تسبیح و تحمید اور اسمائِ حسنیٰ کے ساتھ کیا جاتا ہے.پس اگر باوجود ان کے اسمائِ الہٰی کی طرف مشیر ہونے کے مفاتح القرآن بھی ہوں تو کچھ حرج کی بات نہیں اور پھر بعض کا قول ہے کہ یہ اسماء الہٰی اور افعال سے ہیں اور یہ حضرت ابِن عبّاسؓ سے مروی ہے تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اِس لئے کہ اسمائِ الہٰی میں سے وہ بھی ہیں جو افعالِ الہٰی پر دال ہیں.پھر بعض نے کہا ہے کہ یہ معنے کیلئے یا بہت معانی کے لئے موضوع ہیں تو یہ بھی مخالف نہیں بلکہ مؤید ہے اور پہلا مجاہد ہی کا قول ہے اور مؤید اِس وجہ سے ہے کہ مجاہد وغیرہ نے جو معنے بیان کئے ہیں وہ وہی ہیں جو پہلے ہم بیان کر آئے ہیں اور ان کا مؤید ہونا ہم پہلے بیان کر آئے ہیں اور وضع یہاں پر مجاز کو بھی شامل ہے کہ جس کو وضعِ نوعی کہتے ہیں اور اصل معنوں کی تائید اس دلیلِ عقلی سے بھی ہوتی ہے جو کہ اِس دَور کے امام حضرت مسیح موعود اور مہدیٔ مسعود علیہ السّلام نے بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر ایک واقعی شئی کے لئے چار عِلّتوں کی ضرورت ہوتی ہے.ایکؔ علّتِ مادی کہ جس میں وہ شئی بننے کی استعداد اور قابلیّت ہوتی ہے.دومؔعلّتِ صوری کہ جس کے ساتھ وہ چیز موجود ہو جاتی ہے.سومؔ علّتِ غائی.اور یہ وہ غرض اور فائدہ ہے کہ جو اس شئے پر مرتّب ہوتا ہے اور اسی کیلئے وہ شئے بنائی جاتی ہے اور چہارم علّتِ فاعلی، اور یہ وہ ہے جو کہ اس شئے کو بنانے والی ہوتی ہے.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ستمبر ۱۹۰۶ء) تو یہاں پر علّتِ مادی ہے یعنی چو نکہ اﷲ کے علم میں ہے اور علّتِ صوری  ہے اورعلّتِ غائی ہے.اب باقی رہی علّتِ فاعلی.تو یقینا ثابت ہوتا ہے کہ اس کا بیان میں ہے.پس ثابت ہؤا کہ الف،لام، میم میں اشارہ ہے اﷲ ،لطیف،معلّم اور مُرسِل اور مُنزِل کتاب کی طرف یا اَنَا اﷲُ اَعْلَمُکی طرف یعنی مَیں ہوں بہت جاننے والا اﷲ.پس اِس دلیلِ عقلی سے بھی یہی ثابت ہے کہ اِن حروف سے مراد اسمائِ الہٰی ہیں یا بالفاظِ دیگر یُوں کہنا چاہیئے کہ یہ اﷲ علیم کے ان پروانوں پر اپنے خاص دستخط ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۰۶ء)

Page 34

 وہ جو کہ سُورۃ فاتحہ میں لوگوں کی طلب کی گئی تھی وہ بتلائی جاتی ہے کہ اگر تم انعاماتِ الہٰی سے بہرہ ور ہونا چاہتے ہو تو یہ ہدایت نامہ جو کہ تم کو دیا جاتا ہے اس پر عمل کرو.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۹۶) .یہ وہ لکھی ہوئی چیز ہے.لکھی ہوئی اِس لئے فرمایا کہ جب آیت نازل ہوتی تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بڑے اہتمام سے اپنے سامنے لکھا لیتے.دوسری وجہ یہ کہکتیبۃ لشکرکو بھی کہتے ہیں اور جیسے لشکر بہت سے افراد کو اپنے اندر جمع رکھتا ہے اسی طرح یہ کتاب بہت سے مضامین کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے اور جیسے لشکروں سے دشمن بھاگتے ہیں ایسے ہی شبہات انسانیہ اس کتاب کے لشکر سے بھاگ جاتے ہیں اسی لئے فرمایا ذلک الکتب  یعنی یہ ایک ایسی عظیم الشّان کتاب ہے جس کے عظیم الشّان ہونے میں کچھ بھی شک نہیں یا جس میں کسی قِسم کی کوئی شُبہ والی بات نہیں.پھر میں جو فرمایایہی ایک کتاب ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آنکھ نے اَور کوئی کتاب نہیں دیکھی جس کو کتاب کہا جا سکے.آپ صلی اﷲ علیہ وسلّم کے زمانہ میں یہی ایک کتاب تھی جو حقیقی معنوں میںکتاب کہلا سکے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) .یہی وہ کتاب ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اَور کوئی کتاب کتاب کہلانے کی مستحق نہیں.اس کا ثبوت بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم اور آپ کی جماعت نے اپنی عملی حالت سے یُوں دیا ہے کہ جب تک انہوں نے قرآن کی اشاعت نہیں کرلی تب تک کوئی دوسری کتاب بالکل نہیں دیکھی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلّم نے اس کا اَدب یہ کیا ہے کہ جن امور کے دلائل قرآن شریف نے بیان کئے ہیں ان امور پر آپ نے کوئی سِلسلہ دلائل کا بیان قطعًا نہیں کیا..مکتوب ( مِن اﷲ).حدیث میں ہے کہ جب جبرائیل علیہ السّلام قرآن شریف لاتے تو حریر پر لکھا ہؤا ہوتا اور خود رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم کے پاس کاتب موجود ہوتے

Page 35

تھے جب آیت نازل ہوتی بڑی احتیاط سے اسی وقت لکھائی جاتی..ابنِ عبّاس ،مجاہد ، سعید، اخفش، ابوعبیدہ نے کہا ہے کہ یہاں پر اِس کے معنے ھذاکے ہیںیعنی اس کا لام ؔدُوری کے لئے نہیں بلکہ تاکید کے لئے ہے جیسا کہ قرآنِ مجیدمیں آیا ہے (اٰلِ عمران: ۵۹)(ترجمہ : یہ وہ ہے جو کہ ہم تیرے پر پڑھتے ہیں) اور پھر فرمایا (اٰلِ عمران: ۶۳)( ترجمہ: بیشک یہ حق بیان ہے).تو پہلے قرآنِ مجید یا ایک سُورۃ یا ایک واقعہ کے لئے  لانااور پھر اسی کے لئے وہاں پر ہیلانا صاف دکھاتا ہے کہ اِن دونوں کے ایک ہی معنے ہیں ورنہ ایک چیز ایک ہی وقت میں بعید اور قریب کِس طرح ہو سکتی.اور ایک دوسری آیتِ کریمہ میں قرآنِ مجید کے لئے بھی آیا ہے جیسا فرمایا  (ص ٓ: ۳۰)یہ کامل کتاب ہے جو ہم نے تیری طرف اُتاری ہے.تو اِس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ،کے معنوں میں ہے اور فراء نے کہا ہے کہ دُوری کے لئے ہے لیکن دُوری اکثر تو مکانی ہوتی ہے اور کبھی مرتبہ کے لحاظ سے ہوتی ہے اور یہاں پر بھی مرتبہ کے لحاظ سے ہے یعنی وہ عظیم الشّان کتاب جو کہ اپنی عظمت اور رفعت کے لحاظ سے نوعِ انسان سے بہت دُور اور اَرفع ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی نسبت عزیز مصر کی بی بی کا قول نَقل ہے  (یوسف : ۳۳)(یہ وہ عظیم الشّان شخص ہے کہ جس کی نسبت تم مجھے ملامت کرتی ہو).(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ستمبر ۱۹۰۶ء) . کے معنے ہلاکت.یعنی کوئی ہلاکت اور شک نہیں عربی زبان میںرَیْب کا لفظ جُھوٹ پر بھی بولا جاتا ہے.(البدر ۱۶؍جنوری ۱۹۰۳ء) .پس ایک کتاب جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں یا شک و شبہ کی گنجائش نہیں.کے دو معنے ہیں شک و شُبہ اور ہلاکت.اور دونوں ہی یہاںخوب لگتے ہیں.قرآن کریم میں شک و شُبہ نہیں.بالکل درست ہے.اِس کی ساری ہی تعلیم یقینیات پر مبنی ہے ظنّی اور خیالی نہیں.یا آجکل کی اِصطلاح میں یُوں سمجھ لو کہ قرآنِ مجید میں تھیوریاں نہیں بلکہ بصائر ہیں.وہ (بنی اسرائیل:۱۰)ہے.پھر قرآنِ مجید میں ہلاکت کی راہ نہیں.یہ بھی سچّ ہے کیونکہ اِس میں تو شفاء لِلنّاس ہے.(بدر ۴ جولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۴)

Page 36

..یہ سُورت جس کا نام ہے.وہ کتاب ہے ( جس کے اُتارنے کا موسٰی علیہ السّلام کی کتاب استثناء کے باب ۱۸ میں وعدہ ہو چکا) اِس میں شک و رَیب کی جگہ نہیں.(ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات صفحہ ۵۰) .میںدُعا مانگی گئی تھی کہ ہمیں راہ ہدایت دکھا.یہاں منعم علیہم گروہ کا دوسرا نام متّقی رکھ کر فرمایا کہ یہ کتاب ان دعا مانگنے والوں کے لئے موجبِ ہدایت ہے جو اَنْعَمْتَکے مورد بننا چاہتے ہیں یا بن چکے ہیں یا آئندہ بنیں گے سب کے لئے راہنمائی کا قانون ہے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے اِنسان خواہ کیسا متّقی ہو جائے قرآنِ مجید میں اس کی آئندہ ترقی کے لئے سامان موجود ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) مَیںنے دُنیا کی بہت سی کتابیں پڑھی ہیں اور بہت ہی پڑھی ہیں مگر ایسی کتاب دُنیا کی دِلرُبا راحت بخش، لذّت دینے والی، جس کا نتیجہ دُکھ نہ ہو نہیں دیکھی جس کو بار بار پڑھتے ہوئے، مطالعہ کرتے ہوئے اور اس پر فِکر کرنے سے جی نہ اُکتائے، طبیعت نہ بھر جائے اور یا بَد خُو دِل اُکتا جائے اور اسے چھوڑ نہ دینا پڑا ہو.مَیں پھر تم کو یقین دلاتا ہوں کہ میری عمر،میری مطالعہ پسند طبیعت،کتابوں کا شوق اِس امر کو ایک بصیرت اور کافی تجربہ کی بنا پر کہنے کے لئے جرأت دلاتے ہیں کہ ہرگز ہرگز کوئی کتاب ایسی موجود نہیں ہے اگر ہے تو وہ ایک ہی کتاب ہے.وہ کونسی کتاب؟   کیسا پیارا نام ہے.مَیں سچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ اس کو جتنی مرتبہ پڑھو جس قدر پڑھو اور جتنا اس پر غور کرو اسی قدر لُطف اور راحت بڑھتی جاوے گی طبیعت اُکتانے کے بجائے چاہے گی کہ اَور وقت اسی پر صَرف کرو.عمل کرنے کے لئے کم از کم جوش پیدا ہوتا ہے اور دل میں ایمان ، یقین اور عرفان کی لہریں اُٹھتی ہیں.(الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۶) کلمہ طیّبہ....چارجملے ہیں.چوتھا جملہ مطلب و غایت ک ادا کرتا ہے اور تیسراجملہ سروپ کو.دوسرا جملہ مادہ کتاب کو.تواِن مشاہداتِ ثلاثہ سے یہ پتہ لگا کہ پہلا جملہ اِس کتاب کے متکلّم ومصنّف کا پتہ دیتا ہے.(نور الدین صفحہ ۲۴۸) متّقی : عجیب در عجیب حواس ملتے ہیں اور ذاتِ پاک سے اس کے خاص تعلّقات ہوتے

Page 37

ہیں.قرآن مجید میں  بھی متّقیوں کیلئے آیا ہے یعنی اگر مظفّر و منصور فتحمند ہونا ہو تو بھی متّقی بنو.(بدر ۲۳؍جون ۱۹۰۸ ء صفحہ ۹) ہدایت اُن لوگوں کا حِصّہ ہے جو گناہ آلُود زندگی سے بچنے والے ہوں.پھر ایمان بِالغیب رکھیں.دعاؤں میں لگے رہیں اور کچھ صدقہ خیرات بھی کریں.(تشحیذالاذہان جلد نمبر صفحہ ۱۳۷) .نور ہے متّقیوں کے لئے.یہی مروی ہے ابن مسعودؓ اورابن عبّاسؓ اور اَور بہت سے صحابہ ؓ سے.اور قرآنِ مجید میں آیا ہے  (اعراف : ۱۵۸)اس نور کی اِتْباع کی جو کہ اس کے ساتھ اُتارا گیا ہے.اور فرمایا (المائدۃ:۱۶)(ضرور اﷲ کی طرف سے تمہارے پاس ایک نور یعنی بیان کرنے والی کتاب آئی ہے).خداوند کریم نے اپنی کتاب میں یہ تفسِیرفرمائی ہے     .(بقرۃ:۱۷۸) ( لیکن نیکی اس کی ہے جو کہ اﷲپر اور آخرت کے دن پر اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر ایمان لائے اور باوجود مال کی محبّت کے پھر بھی مال دے قرابت والوں اور یتیموں،مسکینوں،مسافروں کو اور گردنوں میں.اور جب عہد کرتے ہیں تو اس کو پُورا کرنے والے ہوتے ہیں اور سختی اور تکلیف میں اور جنگ کے وقت صبر کرنیوالے ہوتے ہیں.انہیں لوگوں نے صدق دکھایا اور تقوٰی اختیار کیا ہے) اور دوسرے مقام پر فرمایا ہے(زمر : ۳۴) ( اور جو سچائی لایا اور اس کی تصدیق کی وہی متّقی ہیں) اور فرمایا  . .  .( اٰلِ عمران ۱۳۴ تا ۱۳۶) (جو تیار کیا گیا ہے ان متّقیوں کے لئے جو خرچ کرتے ہیں خوشی اور تکلیف میں اور غصّہ

Page 38

کھاتے اور لوگوں سے معاف کرتے ہیں اور اﷲ مخلصوں سے محبّت کرتا ہے اور جو کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کرتے ہیں تو معًا اﷲ کو یاد کرتے ہیں پھر اس سے مغفرت مانگتے ہیں اپنے گناہوں کی اور اﷲ کے سوا اَور کون ہے گناہوں کی مغفرت کرنے والا اور کئے ہوئے پر جان کر اصرار نہیں کرتے) اور ایک اَور مقام پراتَّقَوْاکے بعد فرمایا. (اٰلِ عمران۱۷،۱۸) ( جو کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! ہم ایمان لائے ہیں پس ہمارے گناہ معاف کر اور ہم کو آگ کے عذاب سے بچا.اور صبر کرنے والے اور سچّ بولنے والے اور عبادت بجا لانے والے اور خرچ کرنے والے اور سحریوں کے وقت استغفار کرنے والے ) پھر ایک اَور محل پر(انبیاء:۴۹) کے بعدفرمایا(انبیاء:۵۰)(جو غیب میں اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور اس گھڑی سے خوف کرنے والے ہیں) پھر ایک جگہ اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ الخ کے بعد فرمایا(الذاریات:۱۷ تا ۲۰)( بے شک وہ اس سے پہلے مخلص تھے.رات سے بہت تھوڑا آنکھ لگاتے تھے اور سحریوں کے اَوقات مغفرت مانگتے تھے اور ان کے مالوں میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں کا حِصّہ تھا) اور تقوٰی کے آثار جو قرآنِ مجید نے بیان فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں.تقوٰی سے انسان اﷲ تعالیٰ کا محبوب ہو جاتا ہے.فرمایا  ( توبہ:۴) ( بے شک اﷲ متّقیوں سے محبت کرتا ہے)اﷲ متقی کا ولی ہوتا ہے.فرمایا  َ( جاثیہ:۲۰) ( اور اﷲ متّقیوں کا سر پرست ہوتا ہے).اﷲ ان کے ساتھ ہوتا ہے.فرمایااِ(البقرۃ:۱۹۵)(بے شک اﷲمتقیوں کے ساتھ ہوتا ہے) متقی کی اﷲ قبول کرتا ہے فرمایا(المائدہ:۲۸)( اﷲ تو متّقیوں ہی سے قبول کیا کرتا ہے ) عاقبت اور آخرت اور اچھا انجام متّقی کیلئے ہوتا ہے فرمایا( الاعراف:۱۲۹) (اور آخرت اﷲ کے نزدیک متّقیوں کیلئے ہے ) (الزخرف:۳۶)( اور آخرت اﷲ کے نزدیک متّقیوں کیلئے ہے ) (ص ٓ:۵۰) ( بے شک متّقیوں کے لئے اچھا انجام ہے)

Page 39

متّقی کو اﷲ ہر ایک تنگی سے کوئی نہ کوئی مخلصی دے دیتا ہے.فرمایا ( الطلاق:۲۰) ( جو اﷲ سے ڈر کر اس کی نافرمانی سے بچتا ہے تو خدا اس کے لئے خلاصی کی راہ نکال دیتا ہے ) متّقی کو اﷲ ایسی راہوں سے رزق دیتا ہے کہ اس کو خیال تک نہیں ہوتا.متّقی کو اﷲ ایسا امتیازی نشان دیتا ہے کہ اہل دُنیا سے اس کو ممتاز کر دیتا ہے.فرمایا(الانفال:۳۰) ( اگر تم تقوٰی کرو گے تو اﷲ تمہارے لئے مابہ الامتیاز بنا دے گا) اﷲ علیم متّقی کا معلّم ہوتا ہے.فرمایا وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ(البقرۃ:۲۰۳) ( اﷲ سے تقوٰی کرو اور اﷲ تم کو تعلیم دے گا) متقی کو جنّت ملتی ہے اور جو چاہے گا وہی اس کو دیا جائے گا..  (النّحل:۳۱،۳۲)(متقیوں کا گھر کیا ہی عمدہ ہے اور وہ عدن کے جنّت ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے.ان کے نیچے نہریں بہتی ہونگی ان کے لئے ان میں وہ سب کچھ مہیّا ہو گا جو کہ وہ چاہیں گے.اﷲ اسی طرح متقیوں کو جزادیگا) (رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت ماہِ ستمبر ۱۹۰۶ء)  .متّقی کون لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں.غیب الغیب تو اﷲ کی ذات ہے پھر مابعدالموت حالات.پھر ملائکہ، رسول اور اس کی کتابیں اسی میں شامل ہیں.رسول بحیثیّت انسان ہونے کے اس کی ذات غیب میں داخل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء)  ایمان لاتے ہیں.ایمان کہتے ہیں ماننے کو.اِس طرح سے ماننا کہ جو دِل کی بات ہے وہ دِل سے مانی جاوے.جو ہاتھ سے ماننے کی ہے وہ ہاتھ سے مانی جاوے.غرض اِسی طرح زبان، آنکھ، کان اور ہر ایک اعضاء سے جو بات حسب فرمودۂ الہٰی ماننے کی ہے وہ مانی جاوے.اعضاء سے اِس طرح مانا کرتے ہیں کہ اِس بات یا امر کو عملاً کر کے دکھلا دیا جاوے.

Page 40

.اِس سے مراد اﷲتعالیٰ بھی ہے کیونکہ وہ ایک نہاں درنہاں ہستی ہے جو اِن آنکھوں سے نہیں دیکھی جاتی اِن ہاتھوں سے نہیں ٹٹولی جاتی.اِن کانوں سے اس کی آواز نہیں سُنی جاتی.یہ اس کی صفت ہے منجملہ اَور صفات کے.اِس کے معنے تنہائی کے بھی ہیں جیسے فرمایا (الملک:۱۳) یعنی ایمانداری کی یہ نشانی ہے کہ عالمِ تنہائی میں جب اس کے پاس کوئی نہیں ہوتا نہ کوئی رشتہ دار، نہ برادری، نہ قوم، نہ شاہی چوکیدار وغیرہ تو اس وقت جن جرائم کو وہ کر سکتا ہے ان کو اِس لئے نہیں کر تا کہ خدا کی ہستی پر اُسے یقین ہے اور وہ جانتا ہے کہ اگر کوئی اَور نہیں دیکھتا تو خدا کی ذاتِ پاک دیکھ رہی ہے.ایسے عالمِتنہائی میں گناہوں سے بچنا دراصل ایمان کا ثبوت ہے اور اس کا پتہ ماہِ رمضان میں بھی خوب مِلتا ہے جبکہ ایک شخص اپنے گھر کے اندر کوٹھڑی میں بیٹھا ہے پینے کے لئے سرد پانی، کھانے کے لئے نعمتیں اور شہواتی ضرورتوں کے لئے بیوی موجود ہے.کوئی اُسے دیکھنے والا نہیں دِل بھی للچاتا ہے مگر پھر خدا تعالیٰ کے خوف سے وہ پرہیز کرتا ہے.اکثر لوگ جب اپنے محلہ یا شہر کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں تو شرارتوں اور بدکاریوں میں دلیر ہو جاتے ہیں.اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اپنے مقام پر ان کو برادری اور قوم وغیرہ کا ڈر ہوتا ہے جب وہ نہ ہو تو پھر کُھلم کُھلا وہ جوچاہتے ہیں کرتے ہیں.اگر ان کا ایمان اﷲ تعالیٰ کی مقتدر ہستی پر ہوتا تووہ جہاں رہتے گناہ سے بچتے.یہ ایک لطیف حقیقت سے معلوم ہوتی ہے.وہ تقوٰی جو کہ ہر ایک کامیابی اور فلاح کی جَڑ ہے اس کا ابتداء کیوں  سے شروع ہوتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ایک کامیابی خواہ دُنیا کی ہو خواہ دین کی، اس کا اصل اصول ایمان بالغیب ہی ہے اور اسی کے ذریعے سے انجام کار بڑے بڑے علوم اور باریک در باریک اسرار کا پتہ لگتا ہے.مثال کے طور پر دیکھو کہ اگر ایک لڑکا ابتدائی قاعدہ شروع کرتے وقت اگر الف کو الف نہ مانے اور اُستاد سے کہے کہ تم اسے الف کیوں کہتے ہو کچھ اَور نام لو تو کیا وہ کچھ ترقی کر سکتا ہے.ہرگز نہیں.بہرحال اُسے ماننا پڑے گا کہ جو کچھ استاد کہتا ہے وہ ٹھیک ہے تو ہی ترقّی کرے گا.پھر جس قدر علوم.ریاضی، اقلیدس، الجبرا اور جغرافیہ، طبعی وغیرہ ہیں ان میں جب تک اوّل اوّل کچھ باتیں فرضی طور پر نہ مان لی جاویں تو آگے انسان چل ہی نہیں سکتا.ابتدا میں جب

Page 41

وہ کچھ مان کر آگے چلتا ہے تو پھر بڑے بڑے علوم و فنونِ حقّہ کا دروازہ اس پر کُھل جاتا ہے.محکمہ پولیس جب کسی مقدمہ کا سراغ لگاتا ہے تو وہ بعض اَوقات شریر لوگوں کی بات پر بھی اعتبار کر لیتا ہے اور پھر ان فرضی باتوں کے ذریعے سے مقدمات کی اصل حقیقت کو پا لیتا ہے.غرضیکہ دیکھا جاتا ہے کہ اکثر فرضی باتوں کو مان کر انسان بڑے بڑے علوم حاصل کر لیتا ہے.اِسی طرح اگر دہریہ طبع لوگ اﷲ تعالیٰ کو فرضی مان کر ہی آنحضر ت صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق کام کریں تو دیکھ لیں کہ کیا کیا نتائج نکلتے ہیں اور وہ لوگ جن کو براہِ راست مکالمہ الہٰیہ کا شرف حاصل نہیں ہے ان کے لئے اﷲ تعالیٰ ابھی غیب میں ہی ہے اگر وہ بھی فرض کر کے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں شروع کردیویں تو نتائجِ حَسنہ پالیویں گے.ایمان بالغیب کی حقیقت کو حضرت احمد مُرسل یزدانی مسیح موعود علیہ الصّلٰوۃ والسّلام نے اپنی کتاب’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ کے صفحہ ۳۳۰ میں اور اپنی دوسری مقدّس تالیفات میں بھی دکھایا ہے وہاں دیکھ لیا جاوے کہ انسانی نجات کے واسطے کِس قدر ضرورت ایمان بالغیب کی ہے اور اگر یہ نہ ہو تو پھر دُنیا میں کوئی بھی ایسا عمل ہرگز نہیں ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان انعاماتِ الہٰی کا مستحق ہو سکے.کیونکہ جیسے انسان دُور سے ایک دھواں دیکھ کر یہ گمان کرتا کہ وہاں آگ ہو گی اور اس وقت اس کا ایک ظنّی عِلم ہوتا ہے جب تک وہ اس دھوئیں کی طرف قدم بڑھا کر نہ چلے اور اس آگ میں ہاتھ ڈال کر نہ دیکھ لیوے تب تک یقینی علم کا مرتبہ نہیں حاصل کر سکتا.در اصل ایسی علمی حالت کا نام ایمان ہے.اسی طرح بعض قرائِن مرحجہ سے اس کو ایک ظنّی عِلم خدا کی ہستی کا پیدا ہوتا ہے وہ اس کے دل میں ایک جوش اس ہستی کا یقینی علِم حاصل کرنے کے لئے پیدا کرتا ہے جو کہ اس کی ترقّیات کا موجب ہوتا ہے.ظنّی امور سے یقینی امور کی طرف آنے کے لئے چونکہ انسان کو ضرور کچھ نہ کچھ محنت کرنی پڑتی ہے اور اس کے دِل میں ایک اضطراب ہوتا ہے اِس لئے متّقی کی دوسری صِفت یہ فرمائی وہ نماز کو قائم کرتے ہیں.(البدر ۲۳؍۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء) ایمان کیا ہے خداوند تعالیٰ نے فرمایا   (الحجرات:۱۶) مومن تو وہی ہیں جو اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ

Page 42

پڑے اور اﷲ کی راہ میں مال و جان سے کوشِش کی.بے شک وہی سچّے ہیں اور فرمایا ( النساء:۶۶) تیرے رَبّ کی قَسم ہے کبھی مومن نہ ہوں گے جب تک کہ تجھے حَکم نہ بنائیں ان امور میں کہ جن میں ان کے مابین نزاع ہو اور پھر تیرے فیصلہ میں کسی قِسم کی اپنے جی میں تنگی نہ پائیں اور پورے طور پر تسلیم کر لیں اور فرمایا  (النّور:۶۳) مومن تو وہی ہیں جو کہ اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لائے ہیں اور جب کسی ایسے اہم امر پر اس کے ساتھ ہوں جو لوگوں کو جمع کرتا ہے تو اِذن لینے کے سوا نہیں جاتے اور فرمایا..( السّجدۃ:۱۶،۱۷)ہماری آیتوں پر تو وہی ایمان لائے ہیں کہ جب ان کو ان کے ساتھ نصیحت (یا یاددہانی) کی جاتی ہے تو سجدہ میں گِر پڑتے ہیں اور اپنے ربّ کی حَمد کرتے ہوئے تسبیح کہتے ہیں اور تکبّر نہیں کرتے ان کے پہلو بستروں سے جُدا رہتے ہیں اور خوف و امّید سے اپنے رَبّ کو یاد کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے سے خرچ کرتے ہیں اور فرمایا(الاحزاب:۳۷)کسی مومن مرد اور مومن عورت کو اختیار نہیں جبکہ اﷲ اور رسول کسی اَمر میں فیصلہ کر لیں اور فرمایا  (النّور:۵۲) مومن لوگ جب اﷲ اور اسکے رسول کی طرف فیصلہ کے لئے بُلائے جاتے ہیں تو اُن کا یہی قول ہوتا ہے کہ ہم نے سُنا.قبول کیا اور اطاعت کی.اور فرمایا  (النّساء:۱۳۷) اﷲ اور اس کے رسول اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو کہ اﷲ نے اپنے رسول پر اُتاری ہے اور اس کتاب پر جو کہ اس سے پہلے اُتاری ہے.   (النّساء:۶۰)اے ایمان والو! اﷲ کی فرمانبرداری کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو

Page 43

اور اپنے میں سے حکومت والوں کی اور اگرکسی شئے میں تمہارا تنازع ہو تو اس کو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف پھیرو.اگر تم اﷲ اور آخر آنے والے دن(یا وقت) پر ایمان رکھتے ہو اور فرمایا   (المجادلۃ:۲۳)تم کوئی لوگ نہ پاؤ گے جو کہ اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتے ہوں اور پھر ان سے محبّت اور دوستی رکھتے ہوں جو کہ اﷲ اور اس کے رسول سے دشمنی کرتے ہوں اور فرمایا(المائدۃ:۸۲) اور اگر یہ اﷲ اور آخری دِن پر اور اس پر جو اﷲ نے اُتارا ہے ایمان رکھتے تو پھر ان سے کبھی دوستی نہ لگاتے.اور فرمایا(الانفال:۷۵) اور جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اﷲ کی راہ میں انہوں نے مجاہدہ کیا اور جگہ دی اور مدد کی.وہی پکّے مومن ہیں.اور فرمایا(الحجرات:۱۱)مومن تو بھائی ہی ہیں نہ اَور کچھ.اور فرمایا(البقرۃ:۲۷۹)اور چھوڑ دو جو سُود باقی رہا ہے اگر تم مومن ہو.اور فرمایا (اٰل عمران: ۱۴۰)اور نہ سُست ہو اور نہ غمناک ہو اور تم ہی ٹھیک ٹھیک غالب آنے والے ہو اگر تم مومن ہو.اور فرمایا  (البقرۃ:۱۶۶)اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اﷲ سے سخت محبت رکھنے والے ہوتے ہیں.اور فرمایا…(التوبۃ:۱۱۱) اور جو ایمان لاتے ہیں وہ اﷲ کی راہ پر جنگ کرتے ہیں.اور فرمایا(الاعراف:۸۶)اور ترازو کو پورا کرو (پورا ماپو اور پورا تولو) اور لوگوں کی چیزوں میں نقصان مت ڈالو اور زمین میں امن کے بعد فساد مت ڈالو.یہ بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم مومن ہو.اور فرمایا   (الانفال:۲تا ۴) پس اﷲ سے ڈرو اور اپنے درمیانی تعلّقات کی اِصلاح

Page 44

کرو اور اﷲ اور رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو.مومن تو وہی ہیں کہ جب اﷲ کا ذکر ہوتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان کو اس کی آیتیں سُنائی جاتی ہیں تو وہ اُنکے ایمان کو بڑھاتی ہیں اور وہ اپنے رَبّ پر ہی سہارا رکھتے ہیں اور جو نمازیں قائم کرتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے سے کچھ خرچ کرتے ہیں.اور فرمایا(البقرۃ:۱۴۵)لیکن جو کتاب دیئے گئے ہیں پس وہ جانتے ہیں کہ وہ ان کے ربّ کی طرف سے حق ہے.اور حدیثوں کے لحاظ سے ایمان کی تعریف یہ ہے حدیث میں آیا ہے کہ حضرت جبرائیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ایمان کیا ہے؟ تو حضور علیہ السّلام نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تُو اﷲاور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کی ملاقات اور اس کے رسولوں اور آخری دن پر ایمان لائے.اور ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ آخرت میں اُٹھائے جانے پر اور اس پر ایمان لاؤ کہ اچھائی اور بُرائی کا اندازہ اﷲ کی طرف سے ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا صَدَقْتَ(آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سچ فرمایا) یہ حدیث بخاری،مسلم،ابن ماجہ میں ہے.اور فرمایا ہے تم میں سے کوئی بھی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ مَیں اس کو اپنے والد اور اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں.یہ حدیث بخاری میں ہے اور ابن خزیمہ میں اس پر زیادہ یہ بھی آیا ہے کہ اپنے اہل و عیال اور مال سے اور بخاری میں ایک اَور حدیث میں فرمایا ہے تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کیلئے وہ پسند نہ کرے جو کہ وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے.اور شعبؔ الایمانمیں ایک حدیث میں فرمایا ہے اُس شخص کا ایمان نہیں جس کے لئے امانت نہیں.اور حضرت عبداﷲ ابِن عبّاس رضی اﷲ عنہٗ نے عبدالقیس کے قافلہ کے قِصّہ میں روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایمان اِس امر کی شہادت ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور محمدصلی اﷲ علیہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں اور صلٰوۃ کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنے اور مسجدِ حرام کا حج کرنا ہے.امام احمد اور ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں اِ س حدیث کو روایت کیا ہے اور نسائی میں مروی ہے کہ آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن وہ ہے کہ جس کو لوگ اپنے مال و جان پر امین سمجھیں اور امام احمدؐ اور عبدالرزاق نے روایت کیا ہے کہ آنحضرتصلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زانی جب زنا کرتا ہے تو زنا کرنے کے وقت ہرگز مومن نہیں ہوتا اور نہ چور چوری کرنے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ شرابی شراب پینے کے وقت مومن ہوتا ہے اور نہ کوئی اُچَکّا

Page 45

کِسی ذی قدر شئے کے اُچک کر لے جانے کے وقت مومن ہوتا ہے جب لوگ نظریں اُٹھا کر اس کو دیکھتے ہوتے ہیں اور وہ پھر بھی اُچک لے جاتا ہے او ر نہ خائن خیانت کے وقت مومن ہوتا ہے تم اس سے بچو.اور ایک دوسری روایت میں آیا کہ ان سے ایمان نکل کر سایہ بان کی طرح ان کے اُوپر ہوتا ہے.تو جب وہ اس عمل کو قطع کر دیتا ہے تو اﷲ اس کی طرف ایمان کو لَوٹا دیتا ہے اور صحیح مسلم میں مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ستّرسے کچھ زیادہ شاخیں ہیں.سب سے اَدنیٰ راستہ سے مُوذی چیز کا دُور کرنا ہے اور حیا ایمان کی ایک بڑی شاخ ہے اور جب آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلمسے یہ سوال ہؤا ہے کہ کونسا ایمان افضل ہے تو آپ نے یہ جواب دیا ہے کہ اَخلاقِ حَسنہ.اس کو امام احمدؒ نے روایت کیا ہے.اور امام احمدؒ کی ایک دوسری روایت میں آیا کہ تُو محبت بھی اﷲ ہی کیلئے کرے اور عداوت بھی محض اﷲ ہی کے لئے کرے اور اپنی زبان کو اﷲ کے ذکر میں لگائے اور فرمایا ہے کہ جو شخص محض اﷲ ہی کے لئے دیتا ہے اور اﷲ ہی کے لئے روکتا ہے تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا ہوتا ہے.اس کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور بخاری میں ہے کہ ایمان کا نشان انصار کی محبت ہے اور مسلم میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایا ہے کہ مجھ سے مومن ہی پیار کرے گا نہ اَور.اور ابوسلیمان دارانی سے مروی ہے کہ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم نے قافلہ کو فرمایا تھا کہ تمہارے ایمان کا کیا نشان ہے تو انہوں نے عرض کی کہ آپ صلّی اﷲ علیہ وسلم کے بھیجے ہوؤں نے ہم کو پانچ چیزوں کا حکم دیا ہے کہ ہم شہادت دیں کہ اﷲکے سوا اَور کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اﷲ کے رسول ہیں اور صلوٰۃ کو قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور رمضان کے روزے رکھیں اور خانہ کعبہ کا حج کریں اور ان پر عمل کریں اور پانچ اشیاء کا حکم دیا ہے انہوں نے کہ ہم ان پر ایمان لائیں.اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور بعد الموت اُٹھائے جانے پر.اور پانچ چیزوں کو ہم نے جاہلیّت اور اسلام میں اپنا خَلق بنایا ہے اور وہ یہ ہیں کہ مصیبت کے وقت صبر کرنا اور آرام و آسائش کے وقت شُکر کرنا اور قضاء و قدر کی رفتار پر راضی رہنا.اور دوسروں کی ملاقات کے مقاموں پر صدق دکھانا اور دشمنوں پر شماتت نہ کرنا اور اس سے زیادہ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم نے اُن کو یہ فرمایا کہ وہ جمع نہ کرو جو تم نہ کھاؤ اور نہ وہ بناؤ کہ جن میں نہ رہواور نہ ان اشیاء کی رغبت یا ان میں ترقی کرو کہ جن کو تم چھوڑ جانے والے ہو.اور اس میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرو کہ جس کے طرف تمہارا رجوع ہو گا اور جس پر تم پیش کئے

Page 46

جاؤ گے اور اسی کی خواہش کرو کہ جس کی طرف تم جانے والے ہو اور جس میں تم رہو گے اور یہ ایمان کبیر میں مذکور ہیں..ایمان لاتے ہیں اِس حالت میں کہ وہ لوگوں سے غائب ہوتے ہیں جیسا فرمایا(یٰس ٓ:۱۲) جو ڈرا الرحمن سے غائب ہونے کی حالت میں.اور فرمایا(الانبیاء:۵۱) ڈرتے ہیں اپنے ربّ سے پوشیدہ ہونے کی حالت میں.پس اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السّلام کا قول قرآن مجید میں منقول ہے کہ (یوسف:۵۳)تاکہ وہ جان لے کہ غائبَانہ حالت میں مَیں نے اس کی خیانت نہیں کی.تو اِن معنوں کے رُو سے مطلب یہ ہو گا کہ متّقی لوگ ان لوگوں کی مانند نہیں ہوتے کہ جن کے حق میں آیا ہے (البقرۃ:۱۵)جب مومنوں کو ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کو اکیلے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ہی ساتھ ہیں بلکہ جیسے وہ لوگوں کے سامنے ایمان لاتے ہیں اِن اشیاء ( اﷲ اور نبوّت،رسالت،کتاب اﷲ کے منجانب اﷲ ہونے اور قیامت وغیرھا) پر جو کہ لوگوں سے غائب ہیں.پسؔ ؔ یہاں پر ایسا ہے جیسا کہ بِاﷲِ.اٰمَنَّا بِاﷲِ میں ہے.اور دلائل ؔبیہقی میں ہے کہ آنحضرت صلَّی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اَ لَا انَّ اَعْجَبَ الْخَلْقِ اِلَیَّ اِیْمَانًا قَوْمٌ یَکُوْنُوْنَ بَعْدَ کُمْ یَجِدُوْنَ صُحُفًا فِیْھَا کُتُبٌ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا فِیْہِ ہاں سب مخلوق سے مجھے زیادہ پسند ان لوگوں کا ایمان ہے جو کہ تم سے پیچھے آئیں گے تو کچھ صحیفے پائیں گے کہ جن میں کتابیں ہوں گی اور وہ ان پر ایمان لائیں گے.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ اکتوبر ۱۹۰۶ء) .کی اقامت سے یہ مراد ہے کہ سجود، رکوع، تلاوت کو پُورا کیا جائے اور خشوع اور حضور کے ساتھ پڑھی جائے اور خوب توجّہ رکھی جائے.تفسیر ابن جریر میں ہے کہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نے یہی معنے بیان فرمائے ہیں.اقامت چیز کے ادا کرنے کو بھی کہتے ہیں.پس اِن معنوں کے لحاظ سے یہ مقصد ہو گا کہ صلوٰۃ کا حق ادا کرتے یا یُوں کہنا چاہیئے کہ اس کو کما حقّہا ادا کرتے ہیں اور امام راغبؒ نے لکھا ہے کہ یہ لکڑی کی اقامت سے ہے جو کہ سیدھا کرنے کے معنوں میں ہے یا بمعنے مداومت یا بمعنے محافظت ہے.پس معنے یہ ہوں گے کہ صلوٰۃ کو سیدھا کرتے ہیں یا اس پر مداومت کرتے

Page 47

ہیں یا اس کی محافظت کرتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں آیا (المعارج:۲۴)وہ اپنی نمازوں پر مداومت کرتے ہیں(المؤمنون:۱۰)وہ اپنی نمازوں پر حفاظت کرتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان نومبر ۱۹۰۶ء) .وہ نماز کو قائم کرتے ہیں وہقائم کرتے ہیںیعنی کھڑی کرتے ہیں.اِس لفظ کے استعمال میں یہ لطیفہ ہے کہ چونکہ ابتدائی منازل میں مومن کی نفسِ امّارہ سے جنگ ہوتی ہے نفس اس کو بار بار دُنیا اور اس کے لذّات اور افکار کی طرف کھینچتا ہے اور ادھر یقینی امر کے تحصیل کے واسطے اس کے دِل میں امنگ ہوتی ہے.ایسے موقع پر متقی کو ایک جنگ کرنا پڑتا ہے اِس لئے فرمایا کہ بوجہ وساوس کے متقی کی نمازبار بار گِرتی ہے مگر ہرآن اسے پھر قائم کرتا ہے.یہ ایک ایسی حالت ہے جسے پڑھنے والے خوب مشاہدہ کرتے ہوں گے یا کر چکے ہوں گے زیادہ تفصیل کی کیا ضرورت ہے..وہ خاص نماز جو کہ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے پرھ کر دکھلائی… صلوٰۃ کا لفظ صلّی سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں کِسی لکڑی کو گرم کر کے سیدھا کرنا.اور چونکہ نماز سے بھی انسان کی تمام کجی نکل کر وہ سیدھا ہو جاتا ہے اِس لئے نماز کو صلوٰۃ کہتے ہیں.وہ کجیاں کیا ہیں؟ فحش اور غیر پسندیدہ امور کی طرف انسان کا میلان.ان سے یہ نماز روکتی ہے جیسے فرمایا(العنکبوت: ۴۶) اِنسان کی نجات کا مدار ایمان کے بعد دو باتوں پر ہے ایک تعظیم لِاَمرِ اﷲ.دوسرے شفقت علیٰ خَلقِ اﷲ.پہلی بات تعظیم لامر اﷲ کے لئے صلوٰۃ ہے کہ انسان دُنیاوی حکّام کی ملازمت مشغول ہوتا ہے اور اس کی ناراضگی کا خطرہ ہوتا ہے اور نماز کا وقت آتا ہے تو ان سب حاکموں کو چھوڑ کر وہ احکم الحاکمین کے حکم کی اطاعت کرتا ہے اور نماز ادا کرتا ہے اور جس اَلغیب ہستی پر وہ ایمان لایا تھا پانچ دفعہ دن میں اس ایمان کی عملی شہادت اپنے اعضاء سے دیتا ہے اسی طرح تاجر اپنی تجارت اور ہر پیشہ ور اپنے پیشے میں جب نماز کے اَوقات کی پابندی کما حقّہ ، کرتا ہے تو یہ اس کے مومن ہونے کی دلیل ہوتی ہے اور یہ ثبوت ہوتا ہے اِس امر کا کہ اس نے اپنا معبود، اپنا حاکم اور اپنا رازق اﷲ تعالیٰ ہی کو مانا ہؤا ہے اور اپنی تجارت یا پیشہ کو اس کا شریک نہیں بنایا ہے.

Page 48

صلوٰۃکے معنے دعائے رحمت کے بھی ہیں اور اختصاراً یہاں تمام حقوقِ الہٰی پر شامل ہے اس لحاظ سےکے یہ معنے بھی ہوئے کہ وہ تمام حقوقِ الہٰی کو قائم کرتے ہیں.(البدر ۲۳؍۳۰ جنوری۱۹۰۳ء) قرآن مجید کی اصل غر ض اور غایت تقوٰی کی تعلیم دینا ہے.اِتّقاء تین قِسم کاہوتا ہے پہلی قِسم اتّقاء کی عِلمی رنگ رکھتی ہے یہ حالت ایمان کی صورت میں ہوتی ہے اس کو کے الفاظ میں ادا کیا اور دوسری قِسم عملی رنگ رکھتی ہے جیسا کہ  میں فرمایا ہے.اِنسان کی وہ نمازیں جو شبہات اور وساوس میں مُبتلا ہیں کھڑی نہیں ہوتی ہیں اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے یَقْرَؤٗنَ نہیں فرمایا بلکہ فرمایایعنی جو حق ہے اس کے ادا کرنے کا.ہر ایک چیز کی ایک عِلّتِ غائی ہوتی ہے اگر اس سے رہ جاوے تو وہ بے فائدہ ہوجا تی ہے.سے لوازم الصَّلٰوۃَ معراج ہے اور یہ وہ حالت ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے تعلق شروع ہو تا ہے مکاشفات اور رؤیا صالحہ آتے ہیں.لوگوں سے اِنقطاع ہو جاتا ہے اور خدا کی طرف ایک تعلق پَیدا ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ تبتّلِ تام ہو کر خدا سے کامل تعلق پیدا کر لیتا ہے.(الحکم ۲۱؍مارچ ۱۹۱۰ء صفحہ۳ ) صَلٰوۃ.اس تعظیم اور عبادت کا نام ہے جو زبان، دِل اور اعضاء کے اتّفاق سے ادا کی جاوے کیونکہ ایک منافق کی نماز جو کہ ریاء اور دکھلاوے کی غر ض سے ادا کی گئی ہو نماز نہیں ہے.نماز بھی ایک تعظیم ہے جس کا تعلق بدن سے ہے.بدن سے ہے.بدن کا بڑا حِصّہ دل اور دماغ ہیں.چونکہ زبان نماز کے الفاظ ادا کرنے میں اور دل و دماغ اس کے مطالب و معانی میں غور کر کے توجّہ اِلی اﷲ کرنے میں اور ظاہری اعضاء ہاتھ پاؤں وغیرہ ظاہری حرکات تعظیم کے ادا کرنے میں شریک ہوتے ہیں اور ان سب کے مجموعہ کا نام بدن یا جسم ہے اِسی لئے بَدنی عبادت کا نام صلوٰۃ ہے.(الحکم ۲؍اپریل ۱۹۰۸ء) اسلامی نماز اِسلامی دوسری اصل نماز ہے… نماز کیا ہے خدا سے دِلی نیاز.اوریہ عبادت تمام مذاہب میں اصل عبادت ہے.اور کچھ شک نہیں دِلی جوشوں کا اثر ظاہری حرکات اور سکنات پر ضرور پڑتا ہے اور ظاہر

Page 49

حرکات و سکنات کی تاثیر قلب پر ضرور پہنچتی ہے.باری تعالیٰ ہی کے دستِ قدرت میں محبوس رہنے کا ثبوت اور اس کی بارگاہ میں بکمال اَدب حاضر ہونے کا بیان اگر ہمارے اعضاء کر سکتے ہیں تو نماز کا قیام اور نماز میں ہاتھ باندھنا بیشک عمدہ نشان ہے.دِلی عجز و انکسار غایت درجے کا تذلّل اگر کوئی ظاہری نشان رکھتا ہے تو حالتِ رکوع و سجدہ ہرگز کم نہیں.اِسلامی نماز میں جو کلمات ہیں ان میں صرف باری تعالیٰ کا معبود ہونا اور اس کی رحمتِ عامّہ اورخاصّہ اور سزا اور جزا کا بیان ہے پھر اسی مالک کی عبودیّت کا اِقرار اور اسی کی امداد کا اِعتراف ہے پھر نمازی اپنے اور تمام لوگوں کے لئے راہِ راست پر چلنے کی دعا مانگتا ہے اور بارگاہِ حق میں عرض کرتا ہے مجھے ایسے لوگوں کی راہ دکھا جن پر تیرا فضل ہے اور اُن بُروں کی راہ سے بچا جن پر الہٰی تیرا غضب ہے یا جو لوگ راہ سے بہک گئے.پھر کچھ الہٰی تعریف کے الفاظ ہیں پھر تمام نیک لوگوں کے لئے دعا ہے پھر واعظِ توحید ابراہیم راست باز پر ( جو تمام بنی اسرائیل اور بنی اسمعٰیل کے مورثِ اعلیٰ ہیں اور جن کی اولاد میں محمدؐ صاحب بھی ہیں ) اور محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے دعا ہے کیونکہ ان کی مساعی ٔ جمیلہ سے شرک کا بڑا استیصَال ہؤا اور توحید نے عروج پایا.پھر اپنے لئے دعا ہے.انسان کا خاصّہ ہے اِس کے دل پر کسی واغط کی نصیحت کا اثر ایک ہی بار کچھ نہیں پڑتا.اِنسان کے دِل کا زنگ جو اسے محسوسات میں لگائے رکھنے سے پَیدا ہو جاتا ہے ایک دفعہ کے تذکار سے دُور نہیں ہوتا.قانونِ قدرت میں محسوسات میں زنگ زدہ اشیاء ایک دفعہ کے مصقلہ پھیرنے سے روشن اور چمک دار نہیں ہوتیں.سورۃفاتحہ بھی بڑی بڑی روحانی بیماریوں کے زنگ کا مِصقلہ تھی اِسی واسطے ایک نماز میں کئی بار پڑھی جاتی ہے.بتاؤ کون قوم ہے جو مناروں پر چڑھ کر بلند آواز سے کمال دلیری اور جوش سے اپنے معبود اور نہایت ہی بڑائی والے خدا کی عظمت اور اس کے معبود ہونے کی شہادت دے اور اپنے مُحسن ہادی کی رسالت پر شہادت دے.پانچ وقت مکرّر الفاظ سے اﷲ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بڑی بلند آواز سے منارے پر چڑھ کر بُلاوے اور اپنی عبادت کی خوبی بتلاوے اور پھر اپنی اس منادی کو خدا کی کمال تعظیم پر ختم کرے.سوچو یہی معنی کلماتِ اذان کے ہیں.ہاں ہادیٔ اِسلام نے قوم کو گھنٹوں ،سیپوں،ناقوسوں، سارنگیوں، بربطوں سے قوموںمعافی بخشی بلکہ یُوں کہئیے بچا لیا.یہ اسلامی ہی مذہب کی خصوصیّت ہے کہ اپنی ہر ایک کتاب کی ابتدا میں اپنے خالق کی

Page 50

ستائِش کریں.اپنے مُحسن کی تعریف کریں.اس کے لئے دعا مانگیں.لیکچروں کی ابتدا میں یہی حال ہے ( لیکچر کا ترجمہ خطبہ ہے) بلکہ لیکچر کی خوبی بھی اسلامیوں پر ختم ہے کھڑے ہو کر لیکچر دینا تو ان کی ہر نمازِ جمعہ میں دیکھ لو مگر غور کے قابل یہ ہے کہ عین لیکچر میں جہاں اَور قوموں کو تالی بجانے کا موقع ملتا ہے وہاں اِسلام میں اﷲ اکبر اور سُبحان اﷲ موزوں ہے.(فصل الخطاب جلد اوّل صفحہ ۳۵،۳۶(ایڈیشن دوم) (۱) دُنیا کے مذاہب پر غور کرنے اور قریباً کُل اقوامِ عالَم کو ایک ہی بڑے مرکز اور مرجع کی طرف بالاِشتراک رجوعکو دیکھنے اور قانونِ قدرت کے معجزبے نقص کتاب کے مطالعہ کرنے سے فطرتِ سلیم، قوّتِ ایمانی نورِ فراست کے اِتفاق سے فوراًشہادت دے اُٹھتی ہے کہ ایک ہمارا خالقِ زمین و آسمان ہے جس کی قدرتِ کاملہ کُل عالَم پر محیط اور تمام اشیاء میں جاری و ساری ہے غرض ایک ہمہ قدرت ، فوق الکُل وجود کا خیال یا اِعتقاد قریباً کُل اقوامِ دُنیا میں پایا جاتا ہے.یہ فطرت کا اِشتراک اور قوائے باطنیہ کی اضطراری توجّہ ایک اعلیٰ ہستی کی جانب وجودِ باری کی عجیب دِل نشین دلیل ہے.اب عالَمِ اسباب یا اسبابِ عالم پر جب انسان نظر کرتا ہے تو خوب سمجھتا ہے کہ عالَمِ کون و فساد کے اِنقلابات میں وہ ہمیشہ مجبور معذور ہے اور یہ کہ تمام اختیارات کے مواد اور مقدورات کے اسباب اس کی قدرت سے باہر ہیں.مثلاً جب دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے قوائے طبعی سُورج، چاند، ستارے، ہوا، بادل وغیرہ میرے بے مُزد خدمتگار ہیںبلکہ جب وہ اپنے اسبابِ قریبہ یعنی جسم ہی کو دیکھتا ہے کہ کیسے مناسب آلات اور موافق ادوات اس کو ملے ہیں کہ اگر ان میں سے ایک بھی مفقود ہو جاوے تو جبر کسر کے لئے اس کا یا اس کے مثل بے نقص جزو کا موجود کرنا اس کے اِمکان سے خارج ہے.پس یہ تصوّرات اِنسان کے دِل میں ضرور سخت جوش اور عجیب جذبات پیدا کرتے ہیں اور دلی نیاز بڑی شکر گزاری کے ساتھ مِل کراس کو اس منعم و مُحسن کی ستائش و حَمد کی طرف مائل کرتا ہے اور جس قدر زیادہ اس کو اپنی احتیاج و افتقار کا عِلم اور فوق القدرت سامانوں کے بآسانی بہم پہنچ جانے کا یقین ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس کا دِل اس منعم کے اِحسانات کی شکر گزاری سے بھر جاتا ہے.یہی دِلی نیاز اور قلبی شکر گزاری جو سچّی محبت اور باطنی اخلاص سے ناشی ہوتی ہے اور یہی جوش و خروش جو انسان کے دِل میں ہوتا ہے واقعی اور اصلی نماز ہے.(۲) اِس میں کچھ (شک) نہیں کہ ہمارے ظاہری اقوال و افعال، حرکات و سکنات کا اثر ہمارے

Page 51

قلب پر پڑتا ہے یا یُوں کہو کہ جو کچھ ہمارے باطن میں مرکوز ہے حرکاتِ ظاہری ہی اس کی آئینہ دارہیں.بہت صاف بات ہے کہ اچھا بیج اپنے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے.مشاہدہ گواہ ہے کہ جس وقت ہم کسی سچّے دوست یا کِسی بڑے محسن کو دیکھتے ہیں جس کی مہربانیاں اور عطایات ہمارے شامِل حال ہیں تو بے اختیار بشاشت اور طلاقت کے آثار ہمارے چہرہ پر آشکار ہوتے ہیں اور اگر کِسی مخالف طبع مکروہ شکل کو دیکھ پاویں تو فی الفور کشیدگی اور انزجار کا نشان پیشانی پر نمودار ہو جاتا ہے.غرض اِس سے انکار کرنے کی وجہ نہیں ہو سکتی کہ تمام واردات اور عوارض مثلاًانبساط، انقباض، یاس، رجا، فرحت، غم، محبت،اور عداوت اعضائے ظاہری کو باطنی سمیت یکساں متغیّر و متاثر کر دیتے ہیں.پس اَب سوچنا چاہیئے کہ جب اس خالق، مالک، رازق، منعم کا تصوّر انسان کے قلب میں گزرے گا اور اس کے عطایات اور نعمتوں کی تصدیق سے اس کا دل و جان معمور ہو جائے گا تو یہ دِلی جوش اور اضطراری ولولہ اس کو ساکن، غیر متحرّک چھوڑ دے گا؟ نہیں نہیں.ضرور طَوعًا و کرہًا اعضائے ظاہری سے ٹپک پڑے گا.جَڑ کو صدمہ پہنچے اور شاخوں کو حِس تک نہ ہو غیر معقول بات ہے.غیر مہذّب اقوام کے مذہبی رسوم کے آزاد دل سے تحقیقات کرو تو عجیب و دِلکش اصول کا مجموعہ تمہیں ملے گا کہ اس اُوپر دیکھنے والی ہستی نے قوائے روحانی کی ابتدائی شگفتگی کے زمانہ میں جس کو زمانۂ حال کے مہذبین زمانۂ جہالت و تاریکی بولتے ہیں.کِن کِن صورتوں اور رنگوں میں اس فیاض مطلق کی حَمد و سپاس کے قلبی زبردست اثر کو ظاہر کیا ہے.خارجی بَد آثاری اور عوارض کو چھوڑ دو.اصلی بے رنگ و بے لَوث فطرت پر غور کرو تو تمہیں دُنیا کی قوموں میں رنگارنگ حرکات دکھائی دیں گے جو بایں ہمہ رنگارنگی کیسے اس بے رنگ کا معبود و مسجود ہونا ثابت کر رہے ہیں.اس بیان سے صرف اَس قدر مقصود ہے کہ ہر قوم کے نزدیک کوئی نہ کوئی طریق معبود حقیقی کی یاد کا ضرور ہے جس کو وہ لوگ انی نجات کی دستاویز سمجھتے ہیں اور یہ کہ عقائد باطنی کے حسن و قبح کی تصویر اعٌا و جوارح کے آئینے میں دیکھی جا سکتی ہے.ہر قوم میں جوشِ قلبی کی تحریک اور اس کی آگ بھڑکانے کے لئے کسی ایک ظاہری اعمال کا التزام پایا جاتا ہے مثلاً بدن کو پانی سے طاہر کرنا، کپڑا صاف رکھنا، مکان لطیف و نظیف رکھنا.ظاہری صفائی اور حسبِ فطرت اصلاحِ بدن سے بیشک اَخلاق پر قوی اثر پڑتا ہے.نجاست ، گندگی، ناپاکی، چرک ، غچلاپَن سے کبھی وہ علوّ ہمّت، بلند حوصلگی، پاکیزگی اخلاق پَیدا نہیں ہو سکتی جو واجبی

Page 52

صفائی اور طہارت کا لازمی نتیجہ ہے.بد یہی بات ہے کہ ہاتھ مُنہ دھونے وغیرہ افعال جوارح سے حتماً ایک قِسم کی بشاشت اور تازگی عقلی قوٰی میں پیدا ہوتی ہے.علی الصّباح بستِر غفلت سے اُٹھ کر بدنی طہارت کی طرف متوجّہ ہونا تمام مہذّبین بلاد میں ایک عام لازمی عادت ہے.صاف عیاں ہوتا ہے کہ تقاضائے فطرت سے اس کے زورو اجبار سے یہ دائمی عادات پیدا ہوئے ہیں اور طبیعت اعضاء و جوارح سے جبراً اس خدمت کا لینا پسند کرتی ہے.پس اگر ایسی عبادت میں جس میں روحانی جوشوں اور اصلی باطنی طہارت کا اِظہار مقصود ہو ایسی طہارت ظاہری کو لازمی اور لابدی کر دیا جاوے تو کِس قدر اس شوق و ذوق کو تائید ہو گی.صاف واضح ہے کہ جہاں خالی طہارت اور ظاہری صفائی کا حکم ہو گا وہاں باطنی طہارت اور ربّانی صفائی کی کتنی اَور زیادہ تاکید ہو گی.غرض اِس میں شک نہیں کہ صفائیِ ظاہر کی طرف طبعًا ہر قوم متوجّہ ہے اور اِس میں بھی شک نہیں کہ نہایت بد بخت سیاہ درُوں ہیں جو صرف جسمانی صفائی اور ظاہری زیب و زینت کی فِکر میں لگے رہتے ہیں.یقینا بہت سے انہیں ظاہری رسوم کی پابندی اور انہیں فانی قیود میں ایسے اُلجھے ہیں کہ قساوتِ قلبی اور بَد اَخلاقی کے سوا کوئی نتیجہ ان کے اعمال و افعال پر مترتّب نہیں ہؤا.اِس کی وجہ صرف یہ ہوئی کہ انہوں نے ظاہر ہی کو مقصود بالذّات اور قِبلۂ ہمّت ٹھہرا لیا یا ان کے پاس کوئی روحانی شریعت نہ تھی جو مجاز سے حقیقت کی طرف ان کو لے جاتی مگر اس سے نفسِ فعلِ طہارت قبیح یا مستوجب ملامت نہیں ٹھہرتا.اِس عملی افراط و تفریط کے اَور ہی موجبات اور بواعث ہیں.ہمیں اِس وقت اَور قوموں کے رسوم سے تعرّض کی ضرورت نہیں اس وقت ہم اسلامی طہارت ( وضو) کو پیشِ نطر رکھتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ غیر قوموں نے اسلامی اعمال پر انصاف سے غور نہیںکیا.انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلمانوں نے ، ہاں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی سُنّت پر چلنے والوں نے ہرگز ظاہری طہارت میں خوض نہیں کیا.وہ اسی کو مقصود بالذّات نہیں سمجھتے کیونکہ ایک پیچھے آنے والے جلیل الشّان حقیقی فعل نماز کا یہ عمل مقدمہ ہونا ثابت کرتا ہے کہ یہ عمل تو صرف نشان یا دلیل دوسرے امر کی ہے.وضومیں مسلمانوں کو جو دعا پڑھنے کی نصیحت کی گئی ہے یقینا مُعترض کو راہِ حق پر آنے کی ہدایت کرتی ہے.سُنواور غور کرو.وَ ھُوَ ھٰذَا:

Page 53

اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ.سُبْحٰنَکَ اَللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ اِلَیْکَ.غسلِ جنابت میں بھی یہی دعا مانگی جاتی ہے اور بعد اِس دعا کے یہ فقرہ کہا جاتا ہے ’’ اَب غسل پُورا ہؤا‘‘.یعنی ظاہر باطن سے مِل کر پُورا ہوا.یاد رکھنا چاہیئے کہ عذر اور ضرورت کے وقت یہ طہارت ساقط ہو جاتی ہے.یہ کافی دلیل اِس امر کی ہے کہ عمل ہی صرف مقصود بالعرض ہے.مثلاً پانی نہ ملنے کی صورت میں غسل اور وضو دونوں حالتوں میں اِس آسان شریعت نے تیمم کر لینے کا حکم دیا ہے جس سے مقصود اِتنا ہے کہ اعضائے ظاہری کا جَرس بجا کر قوائے باطنی کے غافل قافلے کو بیدار اور برسرِکار کیا جائے.یہ ناپاکی اور پاکی ( طہارت ) کا لفظ اور اس کا مفہوم اسلام میں ایسا نہیں بَرتا گیا جیسا وسوسہ ناک طبائع اور وہمی مزاجوں کے درمیان معمول ہؤا ہے کہ انسان کی ذات میں کوئی ایسی نجاست نفوذ کر گئی ہے جس نے اس کو گھناؤ نا اور لوگوں کے پرہیزو اجتناب کا محل بنا دیا ہے اور جس کا ازالہ سوائے اس ظاہری طہارت کے ہو نہیں سکتا.مَیں سچ سچ تمہیں بتاتا ہوں کہ اسلام ان توہمات سے بالکل پاک ہے.اَحبار باب ۱۵ آیت ۱ تا ۱۸ میں ہے کہ ’’ جریان والا کپڑے دھووے اور غسل کرے.شام تک ناپاک ہے اور جس پر وہ سوار ہو اور جو کوئی اس کی سواری کو چُھوئے وہ بھی ناپاک.‘‘ اور خروج باب ۱۹ آیت ۱۰،۱۱ ’’اور خدا نے موسیٰ سے کہا کہ لوگوں کے پاس جا اور انہیں پاک کر اور ان کے کپڑے دُھلوا اور تیسرے دن تیار رہیں کہ خداوند تیسرے دن لوگوں کی نظر میں کوہ سینا پر اُتر آئے گا.‘‘ اسلامی شریعت کے احکام سے انہیں مقابلہ کر لو صاف کُھل جائے گا.اسلامی شریعت نے روحانیّت کی کیسی توجّہ دلائی ہے.ذرارنگ یا پانی چھڑکنا اور چُلّو بھر…میں…کفارے والی بادشاہت میں داخل ہونے کی شرط قرار دی گئی ہے.اس پر رسوم ظاہری سے انکار.قرآن سُنئیے.اس کے مقابل کیا فرماتا ہے. (البقرۃ :۱۶۹) رنگ اﷲ کا اور کِس کا رنگ اﷲ سے بہتر ہے.یہی اعتقاد قدیم سے مسلمانوں میں چلا آیا ہے کہ طہارتِ باطنی ہی راساً مطلوب ہے چنانچہ اسلام کے قدیم فلاسفر امام غزالی ؒ نے ان لوگوں کی نسبت جو صرف ظاہری طہارت پر مَرتے ہیں اور

Page 54

جن کے قلوب کِبروریا سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں لکھا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ سب سے اہم اور اعظم طہارت پاک کرنا دِل کا ہے تمام بُری خواہشوں اور بیہُودہ رغبتوں سے اور دفع کرنا ہے نفس سے تمام مکروہ مذموم خیالات کو اور ان تصوّرات کو جو انسان کے دِل کو خدا کی یاد سے باز رکھتے ہیں.جب ہم نے اِتنا ثابت کر دیا کہ قلبی حالت اعضاء و جوارح کو حرکت دیئے بغیر رہ نہیں سکتی اور یہ کہ ظاہر و باطن میں لازم و ملزوم کی نسبت ہے تو گویا نفس ارکانِ نماز سے کچھ بحث نہیں کیونکہ جذباتِ قلب اور اس کی واردات کا ظہور اور کیفیّتِ روحانی کے عروض کا ثبوت اعضاء و جوارح کی زبانِ حال ہی سے مِل سکتا ہے البتہ گفتگو اِس امر میں رہ جاتی ہے کہ آیا یہ ہیٔت مقتضائے فطرتِ انسانی سے مناسبت رکھتی ہے یا نہیں یا اس سے بڑھ کر اور پسندیدہ صورت و ترکیب فلاں قانون اور فلاں مذہب میں رائج ہے یا اب نئی صورت وہم و تصوّر میں آ سکتی ہے.مَیں بڑی جرأت اور قوی ایمان سے کہتا ہوں کہ اس کی مثال یا اس سے بڑھ کر مقبول و مطبوع صورت نہ تو کِسی مذہب میں رائج ہے اور نہ اَور نئی عقل میں آ سکتی ہے.یہ جامع مانع طریق ان تمام عمدہ اصولوں اور مسلّمہ خوبیوں کو حاوی ہے جو دُنیا کے اَور مذاہب میں فرداً فرداً موجود ہیں اور تمام اُ ن نیازمندی کے آداب کو شامل ہے جو ذوالجلال معبود کے عرشِ اعظم کے سامنے قوائے انسانی میں پیدا ہونے ممکن ہیں وہ خاص اَو ادوکلمات جو اس مجموعی ترکیب کے اجزا.قومہ، رکوع، قعدہ، سجود، جِلسے وغیرہ میں زبان سے نہیں دِل سے نکالے جاتے ہیں.اِس کی بے نظیری کے کافی ثبوت ہیں.انصاف سے سوچئے کہ یہ ہَیئات قوائے قلبی پر کِس قدر قوی اثر کرنے والی ہے.تعیین ارکان سے کون قوم انکار کر سکتی ہے.دعا میں سرننگا کرنا، سیدھا کھڑا ہونا، آنکھیں بند کرنا، آخر میں برکت دیتے وقت ایک ہاتھ لمبا کرنا اور ذرا اُنگلیوں کو نیچے کی طرف جُھکانا اور کبھی کبھی خاص حالت میں گُھٹنے ٹیکنا یا گُھٹنے پر کُہنی ٹکا کر اُوپر سر رکھ دینا.یہ سب امور بتفاوت نصارٰی میں معمول ہیں.کوئی انہیں کہے ان ظاہری رسوم سے کیا نکلتا ہے عبادت دِل سے تعلق رکھتی ہے اسی پر اکتفا کرنا چاہئیے صاف بات کا وہ کیا جواب دیں گے.پس اسلامی صورت سے کیوں چڑتے ہیں.(۳) مجھے امید ہے کہ نصارٰی نفس وجود ارکان سے تو کچھ تعرّض نہ کریں گے کیونکہ اس طبعی حالت میں وہ اضطرارًا اہلِ اسلام کے ساتھ شریک کر دیئے گئے ہیں بایں معنی کہ وہ یہی دعا یا نماز میں کسی نہ کسی صورت و رُکن کا ہونا تو ضرور تسلیم کرتے ہیں.اگر زبان سے اور مذہبی مباحث کے وقت میں عملاً تو

Page 55

ثابت کر رہے ہیں پس اب اصل وجود ارکان پر زیادہ قلم فرسائی کرنے کی ضرورت نہیں رہی ہاں شاید مقابلہ بَین الصّور تین منظور ہو تو خدا پرست قلب کی اعانت سے غور کریں کہ اسلامی طریق میں کیسا جلال ، کمال، تمکین اور وقار پایا جاتا ہے.اس بیرنگ، بیُچوں، واحد،احد،لَم یلد، لَم یُولد کے حضورِاقدس میں بے رنگ، بے تصویر مکان میں باوقار ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، اﷲ اکبر سے افتتاح کرنا اور سورۃ فاتحہ جیسی پُر معنی دعا کا پڑھنا اور پھر فرطِ انکسار سے اﷲ اکبر کی عظمت کا تصوّر کرکے پُشتِ مستقیم کو جُھکا کر سَبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنا اورپھر زمین پر مُنہ رکھ کر بال گِرا کر سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی کہنا کیایہ کم اثر کرنے والے اعمال ہیں.کیا یہ فطرتِ انسانی کے موافق نہیں ہیں؟ مَیں نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے شخص کو جو عبادتِ حق کو کسی صورت میں کیوں نہ ہو انسان کی عبودیّت کا لازمی فرض جانتا ہے اسلامی صورت نماز سے انکار ہو.یہاں ایک اَور لطیف بات سوچنے کے قابل ہے کہ اسلامی احکام دو قِسم کے ہیں احکامِ اصلی اور تابع یا محافظ اصلی.مقصود بالذّات احکامِ اصلی ہوتے ہیں اور احکامِ محافظ صرف احکامِ اصلی کی بقا اور حفاظت کے لئے وضع ہوئے ہیں.نماز کے سب ارکان ظاہری احکامِ محافظ ہیں اور اِس امر کا ثبوت اس وقت بخوبی ہوتا ہے جب یہ ارکان عُذر کی حالت میں انسان کے ذمّے سے ساقط ہو جاتے ہیں مثلاً نماز میں بحالت مرض علیٰ اختلاف ا لاَحوال قومہؔ، قعدہؔ،جِلسہؔوغیرہ سب معاف ہو جاتے ہیں مگر وہ اصلی حکم اور حقیقی فرض جو مقصود بالذّات ہے یعنی قلبی خشوع و خضوع جب تک قالبِ عنصری میں سانس کی آمد و رفت کا سِلسلہ جاری ہے کبھی بھی انسان کے ذمّے سے نہیں ٹلتی.یہی اور صرف یہی نماز ہے جسے اِسلام نے لائقِ اعتبار اور مستحق ثواب کہا ہے.سُنو ( الاعراف:۲۰۶)  (العنکبوت:۴۶) اور اِن آیات سے نماز کی علّتِ غائی خوب طاہر ہوتی ہے کہ نماز مُنکرات اور فواحش سے محفوظ رہنے کے لئے فرص کی گئی ہے اگر نماز کی اقامت اور مداومت سے نمازی کے اقوال و افعال

Page 56

میں کچھ روحانی ترقّی نہیں ہوئی تو شریعتِ اسلامی ایسی نماز کو مستحق درجات ہرگز نہیں ٹھہراتی.اب مجاز و ظاہر کہاں رہا.نبی ٔ عرب علیہ الصّلوٰۃ کے لئے کچھ کم فخر کی بات نہیں اور اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی قوی دلیل ہے کہ اس نے خدا کی عبادت کو طبلوں، مزماروں، سارنگیوں اور بربطوں سے پاک کر دیا.اﷲ کے ذکر کی مسجدوں کو رقص و سرود کی محفلیں نہیں بنایا اور یہاں تک احتیاط کی کہ تصاویر اور مجسّمہ بنانے کی اور مسجدوں میں مُوہم بالشرک نقش و نگار کرنے کی قطعی ممانعت کر دی کہ ایسا نہ ہو یہی مجاز رفتہ رفتہ مبدّل بحقیقت ہو کر اور یہی مجسّمے معبودی تماثیل بن کر توحید کے پاک چشمے کو مکدّر کر ڈالیں.جب ہم ایک خوش قطع گر جا میں عیسائی جُھنڈ کو بزعم عبادت جمع ہوئے دیکھتے ہیں.سجے سجائے بنے ٹھنے.نیٹو انیاں اور گوری گوری یورپانیاں قرینے سے کُرسیوں پر ڈٹی ہوئیں.اس وقت ہمیں عیسائیوں کا یہ فقرہ ’’ کہ مسلمانوں میں صرف رسمی اور مجازی عبادت ہے‘‘ بڑا حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے.یقیناً اہل اسلام کی غیّور طبیعت نصارٰی کی اس حقیقت سے آشنا ہونے کی کبھی کوشِش نہ کرے گی.(۴) اِس موقع پر طریق اذان پر بھی کچھ تھوڑا سا لکھنا مناسب معلوم ہوتا ہے.ہر قوم نے پراگندہ افراد کو جمع کرنے یا منشائے عبادت کو حرکت دلانے کے لئے کوئی نہ کوئی آلہ بنا رکھا ہے.کسی نے ناقوس نرسنگا کِسی نے گھنٹے گھنٹیاں مگر انصاف شرط ہے.ان میں سے کوئی وضع بھی اذان سے مقابلہ کر سکتی ہے؟ اس پیارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے جس کی واقعی صفت میں قرآن فرماتا ہے:  ( الاعراف:۱۵۸) ان تمام رسمی بندشوں،سیپوں اور سینگوں کی تلاش سے اُمّت کو سبکدوش کر دیا.ذری اِنصاف سے اِن کلمات کو سوچو.اس ترکیب کے سر پر نگاہ کرو کہ کوئی قوم بھی دُنیا میں ہے جو اِس شَدّ و مَد سے پہاڑوں اور مناروں پر چڑھ کر اپنے سچّے اصولوں کی ندا کرتی ہے؟ عبادت کی عبادت اور بُلاہٹ کی بلاہٹ.دُنیا میں ہزاروں حکماء اور ریفارمر گزرے ہیں اور قومی گڈریئے پَیدا ہوئے ہیں مگر تِتّر بِتّر ہوئی بھیڑوں کے اکٹھا کرنے اور ایک جہت میں لانے کا کِس نے ایسا طریق نکالا؟

Page 57

کِس نے کبھی ایسی ترئی پھُونکی جس کی دِلکش آواز معًا روحانی جوش اور ولولہ تمام ظاہر وباطن میں پَیدا کر دیئے.اﷲ اکبر کیسی صداقت ہے کہ ایک قوم علی الاعلان صبح و شام پانچ دفعہ اپنے بے عیب عقیدے کا اشتہار دیتی ہے.تعیین اَوقات، پابندیٔ وقت.آہ کیسے مقبول کلمات ہیں کہ جب کِسی قوم کی ترقّی کی راہ کُھلی.اسی مشعلِ جان افروز کے نور سے تمام موانعات کی تاریکی دُور ہوئی.شریعتِ موسوی میں احکامِ نماز منضبط نہیں ہوئے تھے.توریت طریقِ نماز سے بالکل ساکت ہے صرف علمائے دین کو وہ یکی دیتی اور پلوٹھے لڑکے کوہیکل مقدّس میںلا کر نذر کر دیتی وقت خاص دعا پڑھی جاتی اور لڑکے کا باپ تمام احکامِ شرعی کو بجا لا کر یہوواہ سے دعامانگتا تھا کہ اس اسرائیلی لڑکے کو برکت دے جیسے تُو نے اس کے آباواجداد پر برکت نازل کی تھی.لیکن جب یہود اور ان کے علماء کا اعتقاد باری تعالیٰ کی نسبت زیادہ تر معقول اور پاکیزہ ہو گیا اور خداوندِ عالَم کے مشّکل بشکل اِنسان ہونے کا فاسدعقیدہ دفع ہونے لگا تب نماز یا دعا کی حقیقت ان کی سمجھ میں آنے لگی کہ نماز انسان کے لئے بارگاہِ الہٰی سے تقرّب کا وسیلہ ہے مگر چونکہ شریعتِ موسوی میں کوئی خاص قاعدہ نماز کا مقرر نہ تھا لہٰذا روایت اور رواج پر مدار رہا اور بقول ڈالنجر صاحب کے یہود بھی ایک نماز گذار قوم ہو گئے اور ہر روز تین گھنٹے عبادتِ خدا کے قرار دئیے گئے یعنی نو بجے اور بارہ بجے اور تین بجے مگر چونکہ نماز میں مجتہدین کی ضرورت تھی اور اس کا عِلم قطعی نہ تھا کہ خود حضرت موسٰی علیہ السلام کیونکر نماز پڑھتے تھے لہٰذا اکثر اَوقات یہود کی نماز صرف ایک مصنوعی فعل ہوتا تھا.حضرت مسیحؑ نے جو آخری رسول یہود کے تھے اور ان کے حوارییّن نے بھی عبادت کی تاکید کی مگر افسوس اس میں بھی یہ نقص رہ گیا کہ کوئی محدود و معیّن قاعدہ نماز کا انہوں نے ترتیب نہ دیا اِس لئے چند عرصے کے بعد عبادتِ خدا کا معاملہ بالکل عوام النّاس کی رائے پر موقوف ہو گیا اور پادریوں ہی کے اختیار میں رہا جنہوں نے نماز کی تعداد اور مدّت اور الفاظ وغیرہ مقرر کرنا اپنے ہی فرقے میں منحصر کر دیا اِسی وجہ سے دعاؤں کی کتابیں تصنیف ہوئیں اور قسّیسین کی کمیٹیاں اور مجلسیں منعقد ہوئیں تاکہ اصولِ دین اور ارکانِ ایمان مقرر کریں اور اِسی وجہ سے راہبوں نے عجیب پُر تکلّف طریقہ عبادت کا نکالا اور گرجوں میں ہفتہ وار نماز قرار دی گئی یعنی چھ روز کی غذائے روحانی نہ ملنے کی مکافات صرف ایک روز کی نماز سے کی گئی.الغرض یہ سب خرابیاں منتہٰی درجے کو پہنچ گئیں کہ ساتویں صدی عیسوی میں رسولِ عربی صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے ایک مہذّب اور معقول مذہب تلقین کرنا شروع کیا.آنحضرتصلّی اﷲ علیہ وسلّم نے نمازِ پنجگانہ کا طریق اِس لئے جاری کیا کہ آپصلّی اﷲ علیہ وسلّم خوب جانتے تھے کہ انسان کی روح حق سبحانہ

Page 58

وتعالیٰ کی حَمدو ستائِش کرنے کی کیسی مشتاق رہتی ہے اور نماز کے اَوقات مقرر کر دینے سے آپؐ نے ایک ایسا مضبوط قاعدہ نماز گزاری کا معیّن کر دیا کہ نماز کے وقت انسان کا دِل عالَمِ روحانی سے عالَمِ مادی کی طرف ہرگز متوجّہ نہیں ہو سکتا.جو صورت اور ترکیب آپؐ نے نماز کی اپنے قول و فعل سے مقرر کر دی ہے اس میں یہ خوبی ہے کہ اہلِ اسلام ان خرابیوں سے محفوظ رہے ہیں جو اس لڑائی جھگڑے سے پَیدا ہوتی تھیں جو عیسائیوں میں نماز کی ترکیب پر ہمیشہ ہؤا کرتے تھے اور پھر ہر مسلمان کو گنجائِش رہی کہ بکمال خشوع و خضوع سے عبادتِ خدا میں مصروف ہو.۱؎ پابندیٔ اَوقات میں ایک قدرتی تاثیر ہے کہ وقتِ معیّنہ کے آنے پر قلبِ انسانی میں بے اختیار جذب و مَیلان اِس ڈیوٹی کے ادا کرنے کے لئے پیدا ہو جاتا ہے اور روحانی قوٰی اس مفروض عمل کی طرف طَوعًا و کرہًا منجذب ہو جاتے ہیں.جُو نہی اس غیر مصنوعی ناقوس ( اذان) کی آواز سُنائی دیتی ہے ایک دیندار مسلمان فی الفور اس الیکٹرسِٹی کے عمل سے متاثر ہو جاتا ہے.پابندِ صلوٰۃ گویا ہر وقت نماز ہی میں رہتا ہے کیونکہ ایک نماز کے ادا کرنے کے بعد معًا دوسری نمازاکی تیاری اور فکِرہو جاتی ہے.نمازِ پنجگانہ کا باجماعت پڑھنا اورجمعہ و عیدین کی اقامت جس حکمت کے اصول پر مبنی ہیں.انتظاماتِ ملکی کا دقیقہ شناس اس کی خوبی سے انکار نہیں کر سکتا.ہزاروں برسوں کے دَور کے بعد جو دُنیا نے ترقی کی اور چاروں طرف غلغلۂ تہذیب بلند ہؤا اس سے بڑھ کر اَور کوئی ۱؎ (تنقید الکلام ترجمہ لائف آف محمدؐ از سیّد امیر علی) تجویز کِسی کی عقل میںنہ آئی کہ کلب بنائے جائیں انجمنیں منعقد ہوں اور وقت کی ضروریات کے موافق قوم کو بیدار کرنے والی تقریریں کی جائیں لیکن ظاہر ہے کہ بایں ہمہ ترقّیٔ عُلوم ایسی انجمنوںکے قیام و استحکام میں کِس قدر دِقّتیں واقع ہوتی ہیں مگر مبارکی ہو اس افضل الرّسل خاتم الرسالت کو کہ اس نے کیسے وقت میں کیسی انجمنیں قائم کیں.ان کے قیام و استحکام کے کیا کیا طریقے نکالے جنہیں کوئی مزاحم کوئی مانع توڑا نہیں سکتا.اعضائے انجمن کے اجتماع کے لئے ٹِکٹ جاری کئے جاتے ہیں.اشتہار چھاپے جاتے ہیں.اِس الہٰی طریق میں وقتِ معیّن پر اذان دی جاتی ہے جو اس پاک انجمن ( مسجد ) میں پہنچائے بغیر چھوڑ ہی نہیں سکتی.قُرب و جوار کے لوگوں کا ہر روز پانچ مرتبہ ایک جگہ میں جمع ہونا اور پھر شانے سے شانہ جوڑ

Page 59

اور پاؤں سے پاؤں ملا کر ایک ہی سچّے معبود کے حضور میں کھڑا ہونا قومی اتفاق کی کیسی بڑی تدبیر ہے ساتویں دن جمعہ کو آس پاس کے چھوٹے قریوں اور بستیوں کے لوگ صاف و منظّف ہو کر ایک بڑی جامع مسجد میں اکٹھے ہوں اور ایک عالم بلیغ تقریر ( خطبہ) حَمد و نعت کے بعد ضروریاتِ قوم پر کرے.عیدین میں کسی قدر دُور کے شہروں کے لوگ ایک فراخ میدان میں جمع ہوں اور اپنے ہادی کی شوکت مجسّم کثیر جماعت بن کر دُنیا کو آفتابِ اسلام کی چمک دکھاویں اور بالآخر اس پاک سر زمین میں اس فاران میں جہاں سے اوّلاً نورِ توحید چمکا.کُل اقطارِ عالَم کے خدا دوست حاضر ہوں ساری بچھڑی ہوئی متفرّق اُمّتیں اسی دنگل میں اکٹھی ہوں.وہاں نہ اس مٹی اور پتّھر کے گھر کی بلکہ اس رَبّ الارباب معبود الکُل کی جس نے اس اَرضِ مقدّسہ سے توحید کا عظیم الشّان واعظ بے نظیر ہادی نکالا، حَمد و ستائش کریں.(۵) اِسی طرح ہر سال اس یادگار ( بَیت اﷲ ) کو دیکھ کر ایک نیا جوش اور تازہ ایمان دِل میں پَیدا کریں جو بحسب تقاضائے فطرت ایسی یادگاروں اور نشانوں سے پیدا ہونا ممکن ہے.سخت جہالت ہے اگر کوئی اہلِ اسلام کیسی موحّد قوم کو مخلوق پرستی کا الزام لگاوے.ایسے شخص کو انسانی طبیعت کے عام مَیلان اور جذبات کو مدِّنظر رکھ کر ایک واجب القدر امر پر غور کرنا چاہیئے کہ اگر قرآن کے پورے اور خالص معتقدین کے طبائع میں بُت پرستی ہوتی تو ان کو اپنے ہادی منجّی محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم کے روضۂ مقدّسہ سے بڑھ کر کونسا مرجع تھا.اﷲ تعالیٰ نے مکّہ معظمہ میں آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّمکا مرقد مبارک نہیں ہونے دیا تاکہ توحیدِ الہٰی کا سرچشمہ پاک ہر قِسم کے شائبوں اور ممکن خیالات کے گرد و غبار سے پاک صاف رہے اور مخلوق کی فوق العادت تعظیم کا احتمال بھی اُٹھ جائے.مسلمانوں کے ہادی علیہ الصّلوٰۃ و السّلام کی آخری دُعا ’’ اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ مِنْ بَعْدِیْ عِیْدًا‘‘اے اﷲ میری قبر کو میرے بعد عید نہ بنائیو.خوب یاد ہے اور وہ بجان و دل اپنے نبی کی اس دُعا کے ظاہر نتیجے کی تصدیق کر رہے ہیں اور ہمیشہ اَشْھَدُ اَنْ لَّا ٓاِلٰہَ اِلَّا اﷲُکے ساتھ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلُہ‘ پڑھ کر اﷲ اور عبد میں امتیازبیّن دکھلاتے ہیں.بہت صاف امرہے اور حقیقت شناس عقل کے نزدیک کچھ بھی

Page 60

محلِّ اعتراض نہیں.اُس ہادی کو جس نے تمام دُنیا کی متداولہ عبادت کے طریقوں سے جن میں شِرک اور مخلوق پرستی کے جُزوِ اعظم شامل تھے اپنے طریقِ عبادت کو خالص کرنا منظور تھا اور ایک واضح و ممتاز مَسلک قائم کرنا ضرور اِس لئے واجب ہؤا کہ وہ اپنی اُمّت کے رُخِ ظاہر کو بھی ایسی سمت کی طرف پھیرے جس میں قوٰی روحانی کی تحریک اور اشتعال کی قدرت و مناسبت ہو.ہر ایک مسلمان کو یقین ہے کہ مکّہ میں بَیت اﷲ کو توحید کے ایک بڑے واعظ نے تعمیر کیا اور آخری زمانے میں اسی کی اَولاد میں سے ایک زبردست کامل نبیؐ مکمّل شریعت لے کر ظاہر ہؤا جس نے اس پہلی تلقین و تعلیم کو پھر زندہ اور کامل کیا.پس نماز میں جب ادھر رُخ کرتے ہیں یہ تمام تصوّر آنکھوں میں پھر جاتے ہیں اور اس مصلحِ عالَم کی تمام خدمات اور جانفشانیاں جو اس نے اعلائے کلمتہ اﷲ میں دکھلائیں یاد آ جاتی ہیں.یاد رہے کہ نماز علاوہ ان تمام خوبیوں کے جو اس پر مداومت کا لازمی نتیجہ ہیں بڑا بھاری قومی امتیاز اور نشان ہے.روزہ ، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں ایک منافق مسلمانوں کو دھوکا دینے یا انکے رازوں پر مطلع ہونے کے لئے شامل ہو سکتا ہے اور اس کی قوم کو اس پر اطلاع بھی نہ ہو کیونکہ ان امور کی بجا آور ی میں اپنی قوم کے نزدیک وہ کسی بیماری لزوم فاقہ سفر و تفرّج یا خیرات کا حیلہ تراش سکتا ہے اور مسلمان بھی اُسے بے تردّد و فادار مسلمان کہہ سکتے ہیں بشرطیکہ انہیں اُمور میں مسلمان ہوتا محصور ہو مگر سخت مشکل اور پردہ بر انداز امر نماز ہے جسے کوئی شخص بھی جو اپنے مذہب کا کچھ بھی پاس اور ہَیبت دِل میں رکھتا ہو کبھی بھی ادا کرنا گوارا نہیںکر سکتا خصوصًا ایک علیحدہ قومی نشان اور ایک بالکل الگ ہَیٔت میں الگ مذہبی سمت کی طرف متوجّہ ہو کر اور بایں ہمہ اپنی قوم میں بھی شامل رہے ناممکن ہے.اب غور فرمائیے آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم کو اس خصوص میں کیا مشکلات پیش آئیں.تاریخ اور قومی روایت متّفقًا شہادت دیتی ہے کہ بَیت اﷲ زمانہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے برابر اَبًا عَنْ جَدٍّ قوموں کا مرکز اور جائے تعظیم چلا آیا ہے.کفّارِ مکّہ گو بُت پرستی کے لباس میں تھے اس بَیت ایل کو مقدّس عبادت گاہ یقین کرتے.جب آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّمنے دینِ حق کا وعظ شروع فرمایا اورخدا کا کلام د ن بدن پھیلنے لگا اور دشمنانِ دین مخالفت میں ہر طرح کے زور لگا کر تھک گئے آخر یہ حیلہ سوچا کہ نفاقًااِسلام میں داخل ہو گئے اور اِس طرح وہ لوگ سخت سخت اذیّتیں اور مخفی دیرپا مصائب مسلمانوں کو پہنچانے لگے بِنَاًء عَلٰی ھٰذَا.بانی ٔ مذہب کو ضرور ہؤا کہ اس معجونِ مرکّب کے اجزا کی تحلیل کے لئے کوئی بھاری کیمیاوی تجویز نکالے.آپ نے ابتداء ً مکّہ میں بَیت المقدس

Page 61

کی جانب نماز میں مُنہ پھیرا.اس ربّانی الہامی تدبیر سے قریشِ مکّہ جو نہایت بُت پرست تھے اور اہلِ کتاب اور ان کے مذاہب کو بہت بُرا جانتے تھے مسلمانوں کی جماعت سے بالکل الگ ہو گئے اب کوئی منافق ظاہر طور پر بھی شامل ہونے کو گوارا نہ کر سکا اور خاص مکّہ میں بُجز خالص مخلص اصحاب اور یارانِ جاں نثار کے اَور کوئی پَیرو نہ بنا.اِس تدبیر سے ایک اَور عظیم فائدہ یہ ہؤا کہ بانی کو اپنے مِشن کی ترقّی اور خالص پَیروؤں کا اندازہ معلوم ہو گیا اور آئندہ کے واسطے معتمد وفاداروں اور غدار منافقوں میں امتیاز کُلّی ہو گیا.پھر جب مدینہ میں آپ تشریف لے گئے جہاں بکثرت یہود رہتے تھے اور جو اوّل اوّل باغراصِ مختلفہ آپ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے اور آپ کے تابعین میں خوب مِل جُل گئے.پھر آخر اپنی امیدوں کے برخلاف دیکھ کر خفیہ خفیہ اِضرارو اِفساد میں ریشہ دوانی کرنے لگے تب آنحضرت نے ربّانی الہامی ہدایت سے، جو ایسے تاریک وقتوں میں اپنے پاک نبیوں کو کشائش کی راہ دکھاتی ہے، اصلی قدیمی ابراہیم عیہما السلام اسمٰعیل عیہما السلام کے بَیت اﷲ کی طرف نماز میں توجّہ کی اِس سے خالص انصار اور غدّار یہودیوں میں امتیاز کی راہ نکل آئی.قرآن بھی اسی مطلب کا اشارہ کرتا ہے.  (البقرۃ:۱۴۴) اِس بات کو بھُولنا نہیں چاہیئے کہ ایسی جدید قوم کو جس کے استیصال کے درپے مختلف قومیں ہو رہی تھیں ایسے نئے مذہب کو جسے اولاً مخلصین و منافقین میں تمیز کرنا اور دشمنوں کے جابرانہ حملوں کا اِندفاع اختیار کرنا تھا نہایت ضرور تھا اور عقلاً، نقلاً اس سے بہتر نہیں ہو سکتا تھا کہ ایسی ہی تدبیر سے کام لے.پس گو ابتداء میں سمتِ قبلہ کسی مصلحت کے لئے معیّن کی گئی ہو اور عادۃ اﷲ نے اس میں کوئی راز مرکوز رکھا ہو مگر انتہا میں بھی یادگار کے طور پر اور اِس امر کے نشان اور یاد آوری کیلئے کہ یہ کامل مذہب ،یہ توحید کا آفتاب اُسی پاک زمین سے نمودار ہؤا.وہ خداوندی حکمت بحال رکھی گئی ورنہ اہلِ اسلام کا عقیدہ تو یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کی ذات مکان اور جہت کی قید سے منزّہ ہے اور عنصری و کونی صفات سے اعلیٰ اور مبّرا ہے.کوئی جہت نہیں جس میں وہ مقیّد ہو.کوئی خاص مکان نہیں جس میں مخصوصًا وہ رہتا ہو.اسی مطلب کی طرف قرآن کریم اشارہ کرتا ہے اور معترض کے اعتراص کو اپنے علِم بسیط سے پہلے ہی رَدّ کر دیا ہے.

Page 62

.(البقرۃ:۱۱۶) پھر اَور زیادہ مقصودِ حقیقی کی راہ بتاتا اور فرماتا ہے:      .( (البقرۃ:۱۷۸)) ان آیات نے صاف بتا دیا کہ سمتِ قبلہ کی جانب توجّہ کرنا مقصود بالذّات اور اہم نہیں ہے اصلی اور ابدی نیکیاں اور آسمانی خزانے میں جمع ہونے والی خوبیاں یہی ہیں جو اِن آیات میں مذکور ہوئیں.ایک اَور لطیف بات قابلِ غور ہے کہ آغازِ نماز میں جبکہ مسلمان رُو بقبلہ کھڑا ہوتا ہے یہ آیت پڑھتا ہے:  .(الانعام:۸۰) وریہ آیت: . .(الانعام:۱۶۳،۱۶۴) اِس آیت کا افتتاح میں پڑھنا خوب آشکار کرتا ہے کہ اہلِ اسلام کا باطنی رُخ اور قلبی توجّہ کدھر ہے.کعبۂ حقیقی اور قبلۂ حقیقی انہوں نے کِس چیز کو ٹھہرا رکھا ہے.ایک انگریز مؤرخ لکھتا ہے کہ: ’’ فضائلِ اسلام میں سے ایک یہ بھی فضیلت ہے کہ اسلام کے معابد ہاتھ سے نہیں بنائے جاتے اور خدا کی خدائی میں ہر مقام پر اس کی عبادت ہو سکتی ہےِ (البقرۃ:۱۱۶) جس مقام پر خدا کی عبادت کی جاوے وہی مقام مقدّس ہے اور اُسی کو مسجد سمجھ لیجئے.مسلمان چاہے

Page 63

سفر میں ہو چاہے حَضر میں جب نماز کا وقت آتا ہے چند مختصر اور پُر جوش فقرات میں اپنے خالق سے اپنے دِل کاعرض حال کر لیتا ہے.اس کی نماز اتنی طولانی نہیں ہوتی کہ اس کا جی گھبرا جائے اور نماز میں جو کچھ وہ پڑھتا ہے اُ سکا مضمون یہ ہوتا ہے کہ اپنے عجز و انکسار کا اظہار اور خداوندِ عالم کی عظمت اور جلال کا اقرار اور اُس کے فضل و رحمت پر توکّل.عیسائی کیا جانیں کہ اسلام میں عبادتِ خدا کا مزا کیسا کُوٹ کُوٹ کے بھرا ہے.‘‘ (تنقید الکلام ترجمہ لائف آف محمد از سیّد امیر علی)(فصل الحظاب (ایڈیشن دوم) جلد دوم صفحہ ۱۱۷ تا ۱۳۱) نماز میں ایک خاص قِسم کا فیضان اور انوار نازل ہوتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا برگزیدہ بندہ ان میں ہوتا ہے اور ہر ایک شخص اپنے ظرف اور استعداد کے موافق ان سے حِصّہ لیتا ہے پھر امام کے ساتھ تعلق بڑھتا ہے اور بیعت کے ذریعہ دوسرے بھائیوں کے ساتھ تعلّقات کا سِلسلہ وسیع ہوتا ہے.ہزاروں کمزوریاں دُور ہوتی ہیں جن کو غیر معمولی طور پر دُور ہوتے ہوئے محسوس کر لیتا ہے اور پھراُن کمزوریوں کی بجائے خوبیاں آتی ہیں جو آہستہ آہستہ نشوونما پا کر اَخلاقِ فاضلہ کا ایک خوبصورت باغ بن جاتے ہیں.(الحکم ۳۱؍مئی ۱۹۰۴ء صفحہ ۸) : مِنْ کے معنے یہاں پر ہیں بعضؔ اور کچھؔ کے.اور مَا کے ہیں جوؔ یا شئےؔ کے یا اسؔ کے اور رَزَقْنَا رزق سے بنایا ہؤا لفظ ہے اور رزق کہتے ہیں اس چیز کو جس سے نفع اُٹھا سکتے ہوں اور کبھی بمعنے نصیب اور حصّہ کے آتا ہے اور کبھی بمعنے مرزوق یعنی جو چیز رزق کے طور پر دی جاتی ہے اور گاہے اس کے معنے شکر اور مِلک کے ہوتے ہیں.دوم اور سوم معنوں کی مثال قرآن مجید میں بھی آئی ہے جیسا کہ فرمایا ہے (الواقعہ:۸۳)(اور اپنا نصیبہ اور حصّہ یہ بناتے ہو کہ تکذیب کرتے ہو) اور فرمایا(یونس:۶۰)( تم بتاؤ تو سہی کہ جو رزق اﷲ نے تمہارے لئے اُتارا ہے پس تم نے خود ہی اس میں سے کچھ تو حلال بنا دیا اور کچھ حرام قرار دیا) اور فرمایا وَمَا مِّنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا(ہود:۷)(اور جو کوئی زمین پر چلنے والی چیز ہے ان سب کا رزق اﷲ ہی پر ہے) ھُمْ کے معنے ہیں ان کو.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ نومبر ۱۹۰۶ء) تیسری صفت متّقی کی اِس مقام پر یہ بیان کی کہ جو کچھ رزق ہم نے

Page 64

اس میں سے کچھ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.متّقی کی چونکہ ابتدائی منازل میں نظر بہت وسیع نہیں ہوتی اور خدا شناسی کے مکتب میں ابھی اس کے داخلہ کا ہی ذکر ہے اِس لئے فرمایا کہ جو کچھ رزق ا ہم نے ان کو دیا ہے وہ اس میں سے کچھ ہماری راہ میں دیتا ہے.اصل میں حق تو یہ تھا کہ سب کا سب ہی دے دیتا کیونکہ جس کا دیا ہے اُسی کو دیتا ہے مگر ابتدائی حالت میں جو بخل بتقاضائے نفس دخیل کار ہوتا ہے وہ ایسا کرنے سے روکتا ہے.یہ نکتہ ایک دفعہ حضرت اقدس ۱؎ نے بیان فرمایا تھا.یہاں رزق سے مراد خوردنی اشیاء ہی نہیں ہیں بلکہ ہر ایک نعمت جو خدا کی طرف سے انسان کو ملی ہے وہ مراد ہے یعنی وہ ہمہ تن بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے تیار رہتا ہے اور ہر ایک گوشہ اور پہلو سے اس خدمت کو بجا لاتا ہے.اِس کی نظیر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم ہے جو کہ انسان کے ہر ایک حال اور مذاق کے موافق آپ نے دی ہے آپ کے انفاق سے جیسے ایک تاجر اسلامی اصول کے مطابق تجارت کر کے خدا کی رضاحاصل کرتا ہے ویسے ہی ایک جنگجو جنگ کی تعلیم لیکر رضائے الٰہی کو حاصل کر سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی رضا مندی کے واسطے اپنی عادتوں کو بدلنا، اخلاقِ رذیلہ کو چھوڑ دینا یہ بھی ایک انفاق فی سبیل اﷲ ہے.اِسی طرح زبان سے نیک باتیں لوگوں کو بتلانی اور بُرائیوں سے روکنا بھی اس میں داخل ہے.اگر خدا نے علم دیا ہے تو اسے لوگوں کو پڑھاوے.اگر مال و دولت دی ہے تو اُسے اﷲ تعالیٰ کے بتلائے ہوئے طریقوں سے اس کے محل پر صَرف کرے.اﷲ تعالیٰ کی رضامندی کے واسطے خرچ کرنے والا کبھی ضائع نہیں ہوتا بلکہ اس کی اَولاد تک کی اﷲ تعالیٰ حفاظت کرتا ہے اور نہ مال اﷲ کی راہ میں خرچ کرنے سے کبھی کم ہوتا ہے بلکہ اس میں اَور زیادتی ہوتی ہے ؎ زبذل مال در راہش کسے مفلس نمے گردد خدا خود میشود ناصر اگر ہمّت شود پَیدا فی زمانہ حال انفاق کا بڑا محل یہ ہے کہ اپنے حوصلوں کو وسیع کر کے اِس الہٰی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت کے واسطے مال و زَر دیا جاوے.اُس وقت بھی جس نے مال و زَر سے پیار نہ کیا اور دین کی خدمت میں اُسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے صَرف کیا وہی اعلیٰ مرتبہ

Page 65

پا گیا اور صدّیق بنا.اب بھی جو کرے گا بنے گا اور خدا اس کی محنت اور سعی کو ضائع نہ کرے گا.اُمیدِ دِیں روا گرداں،اُمیدِ تو روا گردد زصد نومیدی و یاس و اَلَم، رحمت شوَد پَیدا در انصارِ نبیؐ بِنگر، کہ چُوں شُد کار تادانی کہ از تائیدِ دین، سر چشمۂ دولت شوَد پَیدا بجو از جان و دِل تاخدمتے از دستِ تو آید بقائے جاوداں یابی، گر ایں شربت شوَد پَیدا (البدر ۲۳؍۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۶) دوسری بات جو سکھائی گئی ہے مُنعَم علیہ بننے کے واسطے وہ شفقت علیٰ خلقِ اﷲ ہے یعنی (البقرۃ:۴)اﷲ تعالیٰ کے دئے ہوئے میں سے کچھ خرچ کرتے رہو.یہاں کوئی چیز مخصوص نہیں فرمائی بلکہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو… اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو خدا کے لئے مخلوق کی ہمدردی اور بھلائی میں خرچ کرو اور ایسا ہی اگر اﷲ تعالیٰ نے مال دیا ہے ، کپڑا دیا ہے ، غرض جو کچھ دیا ہے اسے مخلوق کی ہمدردی اور نفع رسانی کیلئے خرچ کرو.مَیں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ نئے کپڑے بناتے ہیں لیکن وہ پُرانے کپڑے کسی غریب کو نہیں دیتے بلکہ اسے معمولی طور پر گھر کے استعمال کیلئے رکھ لیتے ہیں مگر مَیں کہتا ہوں کہ اگرکسی کو خدا کے فضل سے نیا مِلتا ہے اورخدا تعالیٰ نے اسے اِس قابل بنا دیا ہے کہ وہ نیا کپڑا خرید کر بنائے تو وہ کیوں پُرانا اپنے کسی غریب اور نادار بھائی کو نہیں دیتا.اگر نیا جُو تا مِلا ہے تو کیوں پُرانا کِسی اَور کو نہیں دے دیتے ہو.اگر اتنی بھی ہمّت اور حوصلہ نہیں پڑتا تو پھر نیا دینا تو اَور بھی مشکل ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے تکمیلِ ایمان کے لئے دو ہی باتیں رکھی ہیں تعظیم لِاَمرِ اﷲ اور شفقت علیٰ خلقِ اﷲ.جو شخص اِن دونوں کی برابر رعایت نہیں رکھتا وہ کامل مومن نہیں ہو سکتا.کیا تم میں سے اگر ایک ہاتھ ایک ٹانگ کسی کی کاٹ دی جاوے تو وہ نقصان نہ اُٹھا وے گا اِسی طرح پر ایمان کا بہت بڑا جزو ہے شفقت علیٰ خلقِ اﷲ.مگر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس پر زیادہ توجّہ نہیں رہی اور یہی وجہ ہے کہ ایمان کا پہلا جزو تعظیم لِاَمر اﷲ بھی نہیں رہی ہے … جب انسان اِس قِسم کا بن جاتا ہے کہ اَلغیب پر ایمان لاتا ہے اور خدا کی عبادت کرتا اور اُس کی مخلوق پر شفقت کرتا ہے پھر خدا تعالیٰ وعدہ فرماتا ہے کہ ہم اس کا بدلہ کیا دیں گے؟  یہ لوگ مظفّر و منصور ہو جائیں گے.دُنیا میں بامراد اور کامیاب ہونے کا یہ زبردست ذریعہ ہے اور اِس کا ثبوت موجود ہے.صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کی لائف پر نظر کرو ان کی کامیابیوں اور فتحمندیوں کی اصل جَڑ کیا تھی؟ یہی ایمان اور اعمالِ صالحہ تو تھے ورنہ اس سے پہلے وہی لوگ

Page 66

موجود تھے، وہی اَسباب تھے ،وہی قوم تھی لیکن جب ان کا ایمان اﷲ تعالیٰ پر بڑھا اور ان کے اعمال میں صلاحیّت اور تقوی اﷲ پَیدا ہؤا تو خدا تعالیٰ کے وعدوں کے موافق وہ دُنیا میں بھی مظفّر و منصور ہو گئے تاکہ ان کی اِس دُنیا کی کامیابیاں آخرت کی کامیابیوں کے لئے ایک دلیل اور نشان ہوں.یہ نسخہ صرف کتابی نسخہ نہیں ہے بلکہ ایک تجربہ شدہ اور بارہا کا آزمودہ نسخہ ہے جو اسے استعمال کرتا ہے وہ یقینا کامیاب ہو گا اور منعَم علیہ گروہ میں داخل ہو جاوے گا.پس اگر تم چاہتے ہو کہ بامراد ہو جاؤ،تم چاہتے ہو کہ مُنعَم علیہ بنو تو دیکھو اِس نسخہ کو استعمال کرو.(الحکم ۱۰ جون ۱۹۰۴ء صفحہ۸)   سے وہ سب وحی مراد ہے جو کہ خداوندِکریم نے حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے خواہ وہ کِسی رنگ میں ہو اور  وہ کُل وحیٔ الٰہی ہے جو کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء پر نازل کی گئی …اور کُل اِس لئے لیا ہے کہ مَا کا لفظ جبکہ یہ موصولہ یعنی بمعنے جوؔ ہو تو عام اور سب کو شامل ہوتا ہے لیکن چونکہ سب انبیاء کا ہم کو علم نہیں جیسا کہ خداوندِ کریم نے فرمایا ہے  (المومن: ۷۹) اور بعض انبیاء سے وہ ہیں جو کہ ہم نے تیرے آگے بیان نہیں کئے) تو پھر جو کچھ ان پر اُتارا گیا ہے اس کا ہمیں کب علم ہو سکتا ہے.پس لفظ مَاکو موصولہ یعنی بمعنے جو ؔقرار نہیں دینا چاہیئے اِس کو مصدر یہ قرار دیا جائے یعنی جو کہ مابعد کے فعل کو مصدر بنا دیتا ہے جس سے فعل اور باقی اسماء بنائے جاتے ہیںتاکہ ترجمہ یہ ہو جائے اور جو ایمان لاتے ہیں تیری طرف اُتارے جانے پر اور تجھ سے پہلے اُتارے جانے پر اور پیچھے آنے والی پر یقین کرتے ہیں اور اِس صورت میں اُن کا رَدّ ہو گیا جو کہ نبوّت کے اور وحی کے مُنکر ہیں جیسے کہ برہمو لوگ ہیں کہ نبوّت کے صریح مُنکر ہیںاور عبداﷲ بن عبّاسؓ اور عبداﷲ بن مسعودؓ اور بہت سے اَور صحابہؓ نے فرمایا ہے کہ  الخ سے مراد وہ مومن ہیں جو کہ عربوں میں سے ہوئے ہیںاور  الخ سے مراد اہلِ کتاب کے مومن

Page 67

ہیں اور مجاہد تابعیؒ نے کہا ہے کہ ان دونوں سے عام مومن مراد ہیں اور تفسیر ابن کثیر میں اسی کو پسند کیا گیا ہے اور کامکرّرلانا اور پہلے  اور دوسرے میں کہنااور پھر دوبارہ اُولٰٓئِکلانااورنئی خبر کا لانا صحابہؓ کے قول کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ ان سب باتوں سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ دو متغائر عبارتوں سے متغائر لوگ مراد ہیں لیکن سورۃ بقرہ کے آخر میں جو یہ آیا ہے کہ (البقرۃ: ۲۸۶) تو یہ مجاہد کے قول کی تائید کرتا ہے کیونکہ اِس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کا مومن بہ یکساں ہے اور آخرۃ چونکہ قرآن مجید میں بعض مقام پر دارؔیا یومؔ ملا کر لایا گیا ہے جیسا کہ آتا ہے (یوسف:۱۱۰)(اور ضرور پیچھے آنے والی حیاتی کی حویلی بہتر ہے) اور اَلْیَوْمُ الْاٰخِرِ(پیچھے آنے والا دن) اور دارِ آخرت اور یَومِ آخر سے مراد حشر کا وقت ہے لہٰذا مفسّروں نے یہاں پر اکیلے اَ لْاٰخِرِۃِسے بھی حشر کا وقت اور قیامت ہی مراد رکھا ہے لیکن ماقبل پر یعنی  (البقرۃ:۵)َ پر نظر کرنے سے حضرت خاتم النّبیّین کی دوسری بعثت ثابت ہوتی ہے جس کا کہ (الجمعۃ:۳،۴) اﷲ وہ ہے کہ جس نے اَن پڑھوں میں ایک رسول بھیجا ہے جو کہ ان سے ہے کہ ان پر اﷲ کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اگرچہ اس سے پہلے کھلی کھلی گمراہی میں تھے اور ان آخرین میں بھی اس رسول کو بھیجے گا جو اَب تک ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے میں ذکر آیا ہے کیونکہ یہاں سے صاف صاف ثابت ہے کہ آنحضرتؐ ایک دفعہ تو اُمّی لوگوں میں مبعوث ہوئے یعنی بھیجے گئے اور ایک دفعہ ان پیچھے آنے والوں میں بھی مبعوث ہوں گے جو کہ ان پہلوں کے ساتھ نہیں ملے.پس ماقبل پر نظر کرنے سے (البقرۃ:۵)کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ لوگ پیچھے آنے والی بعثتِ نبی کریم پر یقین کرتے ہیں.یہ تو اس صورت میں ہوں گے جب ماقبل میںیعنی میںمصدریہ لیا جائے یعنی دوسرے ترجمہ کے لحاظ سے یہاں پر بھی بعثت مراد ہو گی جیسی کہ  سے بعثت مراد ہے اور اگر موصولہ بمعنی جوؔ بنایا جاوے یعنی پہلا ترجمہ لیا جائے تو اس سے وحی مراد ہے جو کہ پیچھے آنے والی ہے جیسے کہ  سے وحی مراد ہے یعنی پہلے ترجمہ کے لحاظ سے (البقرۃ:۵) کے معنے ہوں گے اور وہ لوگ پیچھے آنے والی وحی پر یقین کرتے ہیں.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان ماہِ نومبر ۱۹۰۶ء)

Page 68

متّقی کی چوتھی علامت (البقرۃ:۵) اور وہ لوگ جو اِس ( کلامِ الہٰی اور تمام اس وحی کے ساتھ) ایمان لاتے ہیں جو تیری طرف نازل ہؤا ( اور یہ امر اُن پر واضح ہونے سے کہ خدا کی صفتِ تکلّم ہمیشہ سے ہے ) تجھ سے پہلے جو ( کلامِ الہٰی) نازل ہوئی اس کو بھی مانتے ہیں( اور اس صفتِ تکلّم کو صرف تجھ (صلّی اﷲ علیہ وسلّم.ناقل)تک بھی محدود نہیں کرتے اور پیچھے آنے والی ( کلامِ الہٰی ) پر بھی یقین رکھتے ہیں.اِن آیات میں اﷲ تعالیٰ بتلاتا ہے کہ متّقی کی صفِت ایک یہ بھی ہے کہ مکالمہ الہٰی پر اس کا ایمان ہوتا ہے اور وہ خدا کو کسی زمانہ ماضی، حال اور مستقبل میں گونگا نہیں مانتا.خدا تعالیٰ کے اِس صفتِ تکلّم کا ذکر ایمان، اقام الصّلوٰۃ اور انفاقِ رزق کے بعد اِس لئے ضروری ہے کہ اِن اعمال کا یہ تقاضا عملی طور پر ایک متّقی کے واسطے ہونا چاہیئے کہ آیا اس کی محنت خدا شناسی کا کوئی راستہ اس کے واسطے صاف کر رہی ہے کہ نہیں؟ اور جس راہ پر مَیں نے قدم مارا ہے کیا اس پر دوسرے بھی قدم مار کر تسلّی یافتہ ہوئے ہیں کہ نہیں؟ تو اس کو یہ نظیر زمانہ ماضی، حال میں مِلتی ہے جس سے آئندہ کے لئے اُسے یقینی حالت پیدا ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کی صفتِ تکلّم کے بارے میں انسانوں کے تین گروہ ہیں( ۱) وہ جو سِرے سے اِنکار کرتے ہیں اور خدا کو گونگا مان بیٹھے ہیں (۲) وہ جن کا یہ اعتقاد ہے کہ اَزمنہ گزشتہ میں خدا ایک حد تک بول چکا مگر آئندہ وہ لوگوں سے یا کِسی سے بولتا نہیں (۳) جن کا یہ اعتقاد ہے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں کلام کرتا ہے.تیسری قِسم کے لوگ ہی ہمیشہ بامراد اور کامیاب ہوتے رہے ہیں اور ہر ایک مومن کی یہی صفت ہونی چاہیئے اور یہی اعتقاد ہے جو کہ اعلیٰ اعلیٰ مراتب اور درجات حاصل کرواتا ہے.اس کے مخالف جس قدر عقیدہ ہیں وہ اﷲ تعالیٰ کو ایک کامل ہستی نہیں مانتے بلکہ ان کا اﷲ ناقص خدا ہے.ان کا مذہب ناقص مذہب ہے.یہ شرف سچّے اور زندہ مذہب ہونے کا صرف اسلام ہی کو حاصل ہے اور چونکہ متکلّم ازل سے ایک ہی ذاتِ پاک ہے اِس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اصولاً ہر ایک زمانہ کے الہام کی تعلیم ایک ہی ہو اور ہر زمانہ کے الہامات ایک دوسرے کے مؤیّد اور مصدِّق ہوں.مکالمۂ الہٰی کے ذکر کا اِس مقام پر یہ فائدہ بھی ہے کہ انسان کو حِرص پیدا ہوتی رہے کہ خدا مجھ سے بھی کلام کرے اور اپنے اعمال کو سنوار کر ادا کرے جیسے ایک شخص کو سخی دیکھ کر اس کے پاس سوالی جمع ہو جاتے ہیں کہ ان کو بھی ملے اور جن اعمال سے یہ شرف مکالمہ کا حاصل ہو سکتا

Page 69

ہے ان کو اوّل بیان فرما دیا ہے کہ وہ سب اعمال مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ کے مطابق ہوں.کلامِ الہٰی کے نزول اور اس کی ضرورت پر ہمیں ریمارک دینے کی ضرورت نہیں ہے براہینِ احمدیہ سے اس کا عقدہ پورے طور پر حل ہوتا ہے.کو پر اس لئے مقدّم رکھا ہے کہ سب سے مقدّم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اِتّباع ہے یعنی وہ  جس کوتصدیق کرتا ہے یہ نہیں کہ جو رطب و یابس اورترجمہ در ترجمہ پادریوں وغیرہ کے اپنے خیالات صُحفِ سابقہ میں ملے ہوئے ہیں ان کو بھیمیں شمار کر لیا جاوے بلکہ سابقہ اور آئندہ سب کا معیار ہے اور اِسی لئےسے بھی یہ مقدّم ہے.کے ساتھ کاکلمہ استعمال نہیں کیاہے کیونکہ آئندہ مکالمہ الہٰی کا جس قدر سِلسلہ ہو گا وہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے طفیل ہو گا اور  سے اس کا وجود الگ نہ ہو گا اور چونکہ اس کے ذریعہ سے  پرایک کامل یقین حاصل ہوتا جاوے گا اِس لئے اٰخرۃکے ساتھکا لفظ رکھا ہے اس کا اطلاق خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پر اِس طرح ہؤا کہ اِس سورت کے بعد اَور بھی حصّہ قُرآن کریم کا آپ پر نازل ہؤا اور صحابہ ؓ اس کو مان کر گویا اِس آیت پر عامل ہو گئے.اٰخِرَۃ.اِس کے معنے پیچھے آنے والی بات کے کئے ہیں.کلامِ الہٰی پر گفتگو کرتے ہوئے دکھایا ہے کہ آئندہ مکالمہ الہٰیّہ کی طرف اشارہ ہے.اب اعمال کے لحاظ سے دیکھا جاوے تو ہر ایک عمل کے بعد جو ایک نتیجہ اس کا ہے اس پر یقین کا ہونا ضروری ہے کیونکہ جب تک انسان کے دِل میں یقینی طور پر یہ بات نہ بیٹھ جاوے کہ میرا ہر ایک عمل خواہ اس کا تعلقصرف قلب سے ہے یا اس میں اعضاء بھی شامل ہیں ضرور ایک نتیجہ نیک یا بَد پَیدا کرے گا اور میری اِس عملی تخمریزی پر ثمرات مرتّب ہوں گے تب تک گناہ سے رہائی ہرگز ممکن ہی نہیں ہے اور بُجز اِس علاج کے اَور کوئی علاج گناہ کا نہیں ( دیکھو البدر جلد ۱ صفحہ ۷۹) جب کوئی آگ کو جلانے والی جانتا ہے تو اس میں ہاتھ نہیں ڈالتا.بچّہ اُسی وقت تک انگارے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے جب تک اُس کے دل میں یہ نہیں بیٹھا ہؤا ہوتا کہ یہ جلا دیوے گی لیکن جب یہ عِلم اُسے ہو جاتا ہے تو پھر ہرگز ہاتھ نہیں بڑھاتا.غرضیکہ گناہ کا صدور اُسی وقت تک ہے جب تک یقینی عِلم گناہ کے بَد نتائج پر نہیں ہے.جس قدر حرام خوریاں اور فِسق و فجور ہوتے ہیں اگر انسان ایک قلبِ سلیم لیکر

Page 70

پنے اپنے محلہ میں یا تعارف میں ایسے بدکاروں کے آخرت یعنی نتائج دیکھے تو اسے پتہ لگے گا کہ یہ آخرت کا مسئلہ بالکل ٹھیک ہے.غفلت اور گناہ ایک ایسی شئے ہے کہ بِلا اثر کئے کے ہرگز نہیں رہ سکتا.مثلاً اگر غلطی سے ہی کانٹالگ جاوے تو کیا اس کا دُکھ نہ ہو گا یا زہر کھا لی جاوے تو کیا ہلاکت کا باعث نہ ہو گی.اِسی لئے خدا تعالیٰ نے بدکاروں کے انجام اپنی کتاب میں لکھ دیئے ہیں کہ عبرت ہو اور اِسی لئے پہلی باتوں کے ساتھ تو لفظ ایمان کا رکھا ہے مگر آخرت کے ساتھ یقین کا.اور جب متّقی کے اعمال  کے موافق اپنے اپنے محل اور موقع پر ہوں گے تو اس کی آخرت یہ ہو گی کہ مرتبہ یقین کا اُسے حاصل ہو گا.(البدر ۶؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ۲۳)  یہی لوگ ( جن کا اُوپر ذکر ہؤا ) اپنے رَبّ سے ہدایت پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو مظفّر و منصور ہوں گے.اِس سے سابقہ آیات میں متّقی کی تعریف اور معنے بیان کر کے اب اﷲ تعالیٰ نے بطور نتیجہ کے بتلا دیا کہ متّقیوں کے لئے اِس کتاب سے ہدایت پر ہونے کے یہ معنے ہیں کہ جب انسان ایمان بالغیب رکھ کر اور حقوقِ الہٰی اور حقوق العباد کو کما حقّہ‘ ادا کر کے اور خدا تعالیٰ کے کلیم ہونے پر ایمان لا کر اپنے اعمال کے نتائج اور ثمرات پر کامل یقین رکھتا ہے تو ہر ایک حجاب دُور ہو کر اس کو کامیابی نصیب ہوتی ہے اور متّقی کے ہدایت پر ہونے کی یہ ایک دلیل بیان فرمائی ہے کہ اگر وہ کامیاب ہو جاویں تو پھر اُن کی کامیابی ان کے راہِ راست پر ہونے کی دلیل ہے.دعوٰی کر کے دشمن پر ایک خاص غلبہ پانا ایک خاص نشان صداقت کا ہوتا ہے.آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم اور آپ کی جماعت کو دیکھو اﷲ تعالیٰ کا یہ کِس قدر احسان ہے اور کیسا شکر کا مقام ہے کہ ہم لوگوں کو اَب ان باتوں کو سماعی طور پرا نہیں ماننا پڑتا ہے بلکہ خدا کے کرم و فضل سے ایک اور مفلح وجود ہمارے زمانہ میں موجود ہے اور عرصہ بائیس سال سے جو کامیابی وہ دشمنوں پر حاصل کر رہا ہے وہ اس کے

Page 71

راہِ راست پر ہونے کی دلیل ہے اور یہی وہ منہاجِ نبوّت ہے جس کو وہ دکھلاتا ہے اور کم بخت نادان دشمن نہیں دیکھتے.کامیابی یعنی امن، آرام اور سُکھ کی زندگی کے اسباب اور اس کے اصول اس میں اﷲ تعالیٰ نے بیان فرما کر اَب آگے مغضوب علیہم گروہ کے حالات بیان کئے ہیں.( البدر ۱۳؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰)   یہ غضب کُفر سے پیدا ہوتا ہے.پس فرماتا ہےجن لوگوں نے کُفر اختیار کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے بطور جُملہ مُعترضہ اِس کی وجہ بیان فرمائی.جملہ مُعترضہ مبتدا اور خبر کے درمیان میں کئی وجوہات سے آتا ہے.ایک وجہ بیان کرنے کے لئے.چنانچہ یہاں اِسی لئے فرمایا کہ برابر ہو گیا ہے ان پر تیرا ڈرانا یا نہ ڈرانا یعنی وہ کافر تیرے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو مساوی سمجھتے ہیں.جب کسی کی نصیحت کا عدم وجود برابر سمجھ لیا گیا تو پھر کچھ پرواہ نہ رہی.اِس ناعاقبت اندیشی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایمان نصیب نہیں ہوتا.تین مرضیں ہیں: سب سے پہلے تو وہ جو بات کو سُنتا ہی نہیں.پہلے ہی سے انکار کر دیا (۲) دوسرا وہ جس نے سُنا مگر اس کا سُننا نہ سُننے کے برابر ہے(۳) تیسرا وہ جو نگاہ سے کام نہیں لیتا کہ نہ ماننے والوں کا کیا حَشر ہو رہا ہے.کوئی بات ہو اس کو غور سے سُن لینا پھر فِکر کرنا بہتر ہے کہ یہ میرے لئے برکت کا موجب ہے یا نقصان کا.پھر دیکھے کہ اس کے ماننے والے آرام میں ہیں یا نہیں اور اس کے نہ ماننے والوں کا انجام کیا ہو رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍ فروری ۱۹۰۹ء) بیشک وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا اور تیرے اِنذار اور عدم اِنذار کو برابر جانا وہ مومن نہ بنیں گے یعنی اپنے اختیار سے کُفر کیا.کفر کے معنے انکار، حق کو چھُپانا، ڈھانک دینا.اور یہ سب باتیں انسانی اختیار میں ہیں.جس طرح سے اَدویات میں خواص اور تاثیرات ہیں کہ جو اُن کو استعمال کرتا

Page 72

ہے وہ ان سے ضرور متاثر ہوتا ہے اسی طرح سے انسانی اعمال کی بھی تاثیرات ہیں کہ اس کا ہر ایک عمل اس کی رُوح پر ایک اثر کرتا ہے اور وہ اثر اس کی ایمانی حالت میں ایک کیفیّت پَیدا کرتا ہے اور جس طرح سے کہ ایک طبیب اغذیہ اور ادویّہ کے خواص سے واقف انسانوں کو مفید اور مُضِر اشیاء کا عِلم بتلاتا ہے اور جو اس کی بتلائی ہوئی بات پر یقین کر کے عمل کرتے ہیں وہ سُکھ اور امن سے رہتے ہیں اور جو نہیں عمل کرتے بلکہ اس کے علم کو غیر ضروری خیال کر کے اپنی ضِد اور ہَٹ پر رہتے ہیں وہ دُکھ بھوگتے ہیں اسی طرح انبیاء کو انسانی اعمال اور افعال اور اقوال کے خواص کا عِلم ہوتا ہے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں جبکہ انسان بسترِ بیماری پر ہوتے ہیں یعنی ایک معالج کے حکم میں ان کے پاس آتے ہیں جو لوگ اس کی باتوں کا انکار کرتے ہیں اور جن مُضِر باتوں سے وہ روکتا ہے اُس سے نہیں رُکتے بلکہ اس کی ضرورت کو ہی محسوس نہیں کرتے وہ ضرور دُکھ پاتے ہیں.یہی بَلا اَب اِس زمانہ میں بھی لوگوں کو لاحقِ حال ہے کہ ایک نذیر کے وجود اور عدمِ وجود کو برابر خیال کر رہے ہیں.اِس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایمان نہ لانے کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ انہوں نے ایمان بِالغیب سے کام نہ لیا اور کفر کیا اور آخرت یعنی نتائجِ اعمال پر جو یقین چاہیئے تھا اس کے نہ ہونے سے ایک مامور کے ڈرانے اور نہ ڈرانے کو برابر جانا یعنی اس کی ضرورت نہ سمجھی.نتیجہ اِس سے یہ نکلا کہ جب خدا تعالیٰ کی کسی نعمت کی قدر نہیں کی جاتی اور ایک شئے کے ہونے اور نہ ہونے کو یکساں سمجھا جاتاہے تو وہ ایمان جس پر بڑے بڑے علومِ حقّہ کا مدار ہوتا ہے اُسے نصیب نہیں ہوتا جیسے کہ اِس سے پیشتر کِسی حصّہ درسِ قُرآن میں ذکر ہؤا ہے کہ اگر ایک شخص اُستاد کے بتلانے پر الف کو الف اور ب کو ب نہ مانے تو پھر وہ تحصیلِ علوم سے محروم رہے گا اِسی طرح جب ایک شخص عربی یا انگریزی زبان کے سیکھنے اور نہ سیکھنے کو برابر خیال کرے تو وہ ان دونوں زبانوں سے کیا فائدہ حاصل کریگا.کچھ بھی نہیں.اِسی طرح سے جو لوگ خدا کے ماموروں پر ایمان نہیں لاتے اور ان کی ہداتیوں پر عمل در آمد نہیں کرتے وہ دو لتِ ایمان سے تہی دست رہتے ہیں.ایمان اُسی وقت نصیب ہوتا ہے جبکہ اِنذار کو ترجیح دیوے اور یہ بھی انسان کا اختیاری امر ہے کیونکہ ایمان لانے اور کُفر کرنے میں خدا نے کسی کو مجبور نہیں کیا بلکہ فرمایا(الدّھر:۴)یعنی ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے اب وہ خواہ شاکر ہو خواہ کافر.بلکہ ایک اَور جگہ فرماتا ہے(الانعام:۳۶)یعنی اگر خدا نے جبر کرنا ہوتا تو ہدایت کے واسطے کرتا کہ سب کے سب مومن ہو جاتے.(البدر ۱۳؍ فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۰)

Page 73

غرض جب خدا نے مخلوق کو پَیدا کیا اور اس پر اپنا کمال رحم کیا کہ اس کے فائدے کی اشیاء اس کے لئے بنائیں جس سے اس کے وجود کا قیام اور دفعیہ حوائج ہوتا رہتا ہے.تو جس حالت میں اس نے ہدایت کے واسطے مجبور نہ کیا تو کفر اور ضلالت کے واسطے کیوں مجبور کرتا اور نیک اعمال کی بجاآوری پر رضا مندی اور بَد اعمالی پر نارضامندی کا کیوں اظہار کرتا..قبل ازیں یہ بات تھی کہ ایک صادق صداقت لے کر آیا اور اس کا ان لوگوں نے کفر یعنی انکار کیا.اب دوسری بات یہ کی کہ اس انکار کے بَد نتائج جو ایک صادق آ کر بیان کرتا ہے ان کو لوگ بیہُودہ اور لغو جان کر اس کے وجود کی ضرورت کو محسوس نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اگر تُو مبعوث ہوتا تو کیا اَور نہ مبعوث ہوتا.تو کیا اس کی بعثت سے پہلی حالت جو ان لوگوں کی ہوتی ہے بعثت کے وقت اس میں کچھ تغیّر نہیں کرتے اِس لئے خدا تعالیٰ ان کو ایمان لانے کی توفیق بھی عطا نہیں کرتا.اِس لئے خدا تعالیٰ نے بطور نتیجہ کے آگے بیان کیا ہے کہیہ لوگ ایمان نہ لاویں گے کیونکہ ایمان تو مان لینے کا نام ہے.مگر جب انہوں نے ایک شخص کے وجود اور عدمِ وجود کو ہی برابر جانا تو ایمان لانا کیسا.ایمان تو بعد شنید اور بعد ارادہ اتّباع کے ہوتا ہے.خوب یاد رکھو کہ اِس آیت میںدواسباب بیان کئے ہیں جن کا نتیجہ ہؤا کرتا ہے کہ ایک صادق کے ماننے کی توفیق نہیں مِلا کرتی.ایک تو انکار دوسرے اس کے وجود اور عدم وجود یا اِنذار اور عدم اِنذار کو برابر جاننا.اب بھی جو لوگ مُنکر ہیں اور پھر اپنے انکار پر چلے آتے ہیں اس کا باعث یہی ہے.بعضوں کا اِنہماک تو دُنیاوی اشغال کی طرف اِس قدر ہے کہ ان کو خبر ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو کیوں پَیدا کرتا ہے.اگر کِسی نے نام سُن بھی لیا تو پھر اِس امر کی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ تحقیق و تفتیش کر کے اس کا جھُوٹایا سچّا ہونا تو دیکھ لیں.اِس قِسم کے لوگ دَولتِ ایمان سے محروم رہتے ہیں.نتائج عمل یہ دُنیا جائے اسباب ہے اور ہم رات دِن مشاہدہ کرتے ہیں کہ جیسے ایک نیک عمل کے بجا لانے سے دوسرے نیک عمل کی توفیق مِلتی ہے اسی طرح ایک بَدی کرنے سے دوسری بدی کرنے کی جرأت بھی پیدا ہوتی ہے.مثلاً دیکھو انسان جب اوّل بَد نظری کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ

Page 74

دوبارہ اس حُسن و اَدا کو دیکھتا ہے پھر کوئی خط و خال پسند آیا اور محبت نے غلبہ کیا تو آہستہ آہستہ اس کے کُوچہ اور گلی میں جانے کا شوق پَیدا ہوتا ہے جس پر اس نے بَد نظری کی تھی اور اگر ملاقات کا اِتفاق ہؤا تو ہاتھ، زبان، آنکھ اور خدا معلوم کِن کِن اعضاء سے وہ معصیّت میں مبتلا رہتا ہے یہ نتیجہ کِس بات کا تھا.اس اوّل معصیّت کا جو اس نے بَد نظری کے اِرتکاب میں کی.اِسی طرح جو لوگ بَدصحبتوں اور بَد مجلسوں میں جاتے ہیں صرف وہاں جانا ایک خفیف سا فعل نظر آتا ہے مگر اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے انہیں بَدصحبتوںسے چور،ڈاکو،فاسق،فاجر اور ظالم وغیرہ بن جاتے ہیں اور پھر اِن باتوں کے ایسے خُوگر ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی خود بھی ان میں سے چھوڑنا چاہے تو مشکل سے چھوڑ سکتا ہے.اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا ایک قانون یہ ہے کہ جب اِنسان ایک فعل کرے تو اس پر دوسرا فعلِ الہٰی بطور نتیجہ کے وارد ہوتا ہے جس طرح جب ہم ایک کوٹھڑی کے دروازے بند کرتے ہیں تو ہمارے اِس فعل پر دوسرا فعلِ الہٰی یہ ہوتا ہے کہ وہاں اندھیرا ہو جاتا ہے اِسی طرح سے انسان سے جو اعمال ایمان اور کفر کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں ان پر ایک فعلِ الہٰی یا قہرِخداوندی بھی صادر ہوتا ہے جس کا ذکر اس اگلی آیت میںہے.(البدر ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹، الحکم ۲۴؍جون ۱۹۰۴ء،الفضل۳۰؍جولائی ۱۹۱۳ء) چونکہ وہ لوگ اوّل انکار کر چکے تھے اِس لئے سخن پروری کے خیال نے ان کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مجلسوں میں بیٹھنے اور آپ کی باتوں پر غور کرنے نہ دیا اور انہوں نے آپ کے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر جانا.اِس کا نتیجہ کیا ہؤا. یعنی ہمیشہ کے لئے ایمان جیسی راحت اور سروربخش نعمت سے محروم ہو گئے.یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے اِنذار اور عدمِ اِنذار کی پرواہ نہیں کرتے.ان کو اپنے علم پر ناز اور تکبّر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتابِ الہٰی ہمارے پاس بھی موجود ہے ہم کو بھی نیکی بدی کا عِلم ہے یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں.اِن کم بختوں کو یہ خیال نہیں آیا کہ یہود کے پاس تو تورات موجود تھی اس پر وہ عمل در آمد بھی رکھتے تھے.پھر ان میں بڑے بڑے عالم،زاہد اور عابد موجود تھے پھر وہ کیوں مردُود ہو گئے؟ اِس کا باعث یہی تھا کہ تکبّر کرتے تھے، اپنے عِلم پرنازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اسلمؔکے لفظ سے چاہتا ہے ان میں نہ تھی.ابراہیم علیہ السلام کی طرزِ اطاعت ترک کر دی.یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السّلام اور اس رحمۃ للعالمین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے سے جس سے توحید کا چشمہ جاری ہے ماننے باز رکھا.(الحکم۲۴؍فروری ۰۵ـ۱۹ء)

Page 75

  ختمؔ کہتے ہیں چھاپے کے ساتھ چھاپہ لگانے کو اور اس اثر کو جو کہ چھاپہ لگانے سے حاصل ہوتا ہے اور حفاظت اور آخر تک پہنچنے کو.اور قُلُوْبٌ قلب کی جمعہے اور قلبؔ کہتے ہیں دل کو.اور دل کو قلب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ فون کو قلب کرتا ہے کیونکہ وہ ایک جانب سے لیتا ہے اور دوسری طرف سے بدن کی طرف بھیجتا ہے یا اس کے تقلُّب کے لئے کیونکہ وہ قرار نہیں پکڑتا.اور اِسی وجہ سے آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا ہے اَلْقَلْبُ بَیْنَ اِصْبَعَی الرَّحْمٰنِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ شَآئَ(دِل رحمن کی دو اُنگلیوں کے درمیان ہے اُلٹاتا ہے اس کو جیسا کہ چاہتا ہے) (رسالہ تعلیم الاسلام ماہ جنوری ۱۹۰۷ء) (البقرۃ:۸) ھمْ کا لفظ یہاں تین بار آیا ہے اور یہ ضمیر جمع مذکّر غائب کی ہے جس کے معنے ہیں’’ وہ لوگ‘‘ پس معلوم ہؤا کہ یہ ذکر ایسے لوگوں کا ہے جن کا پہلے کوئی ذکر آچکا ہے اِس لئے ’ھُمْ‘‘کے معنی سمجھنے کے لئے ضرور ہؤا کہ ماقبل کو ہم دیکھ لیں.تو جب ہم نے ماقبل کو دیکھا تو یہ آیت موجود ہے.اِس بیان سے اِتنا تو معلوم ہؤا کہ وہ ایسے مُنکر لوگ ہیں جن کے لئے کا ارشاد ہے.عام نہیں.پھر قُرآن کریم نے صاف صاف بیان فرمایا ہے جہاں ارشاد کیا ہے:. ( النسآء : ۱۵۶) یعنی ان کے کُفر کے سبب اُن کے دلوں پر مُہر لگا دی.اِس سے معلوم ہؤا کہ مُہر کا باعث کفر ہے انسان کفر کو چھوڑے تو مُہر ٹوٹ جاتی ہے.اِسی طرح فرمایا: ٍ (المؤمن:۳۶) پس تفصیل دونوں آیتوں کی یہ ہے: (تحقیقجن لوگوں نے کفر کیا) یاد رکھو کہ کفر کرنا کافر انسان کا اپنا فعل ہے جیسے قرآن کریم نے بتایا اور یہ پہلی بات ہے جو کافر سے سر زد ہوئی ہے اور یہ کفر خداداد

Page 76

روحانی قوّتوں، طاقتوں سے کام نہ لینے سے شروع ہؤا جو دِل کی خرابی کا نشان ہے.(برابر ہو رہا ہے ان کے نزدیک خواہ ڈرایا تُو نے یا نہ ڈرایا تُو نے ) یعنی تیرے ڈرانے کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.یہ دوسرا فعل کافر انسان کا ہے کہ اس نے اپنی عقل و فِکر سے اِتنا کام بھی نہیں لیا.اگر اس میں یہ خوبی نہ تھی کہ ایمان کے لئے خود فکر کرتا، سوچتا، عقل سے آپ کام لیتا تو کم سے کم رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے بیانات کو ہی سُنتا کہ کفر کا نتیجہ کیسا بُرا اور اِس کفر کا انجام کیسا بُرا ہے..نہیں مانتے.یہ تیسرا فعل کافر انسان کا ہے.اوّل تو ضرور تھا کہ قلب سے کام لیتا جو روحانی قوّت کا مرکز ہے.اگر اس موقع کو ضائع کر چکا تھا تو مناسب یہ تھا کہ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی باتیں سُنتا.پس کان ہی اس کے لئے ذریعہ ہو جاتے کہ ایماندار بن جاتا اور یہ دوسر ا موقع حصولِ ایمان کا تھا.پھر اگر یہ بھی کھو بیٹھا تو مناسب تھا کہ پکّے ایمانداروں کے چال چلن کو دیکھتا جو ایسے موقع پر اُسی کے شہر میں موجود تھے اور یہ بات اس کافر کو آنکھ سے حاصل ہو سکتی تھی مگر اس نے یہ تیسرا موقع بھی ضائع کر دیا.غور کرو اگر کوئی دانا حاکم کسی کو مختلف عُہدے سپرد کرے لیکن وہ عہدہ دار کہیں بھی اپنی طاقت سے کام نہ لے تو کیا حاکم کو مناسب نہیں کہ ایسے نکمّے شخص کو عہدہ سے اُس وقت تک معزول کر دے جب تک وہ خاص تبدیلی نہ کرے.اَب اِسی ترتیب سے دوسری آیت پر غور کرو..مُہر لگا دی اﷲ نے ان کے دلوں پر.اِس لئے کہ انہوں نے اپنے دِل کا ستیاناس خود کیا اور کفر کیا..اور ان کے کانوں پر.یہ دوسری سزاہے کیونکہ انہوں نے اپنے کانوں سے کام نہ لیا..یہ تیسری سزا ہے کہ اُن کی آنکھوں پر پٹّی ہے کیونکہ انہوں نے آنکھ سے بھی کام نہ لیا.ظاہری مثال آپ نے قرآن کریم کے فہم میں دل سے اب تک کچھ کام نہ لیا اور یہ بات مجھے تمہارے سوالوں سے ظاہر ہوئی ہے اور نہ یہ کوشش کی کہ پہلے ان سوالات کے جوابات کسی مسلم متکلّم

Page 77

سے سُنتے.اَب مَیں آپ کے آگے آپ کی آنکھ کے آگے یہ رسالہ رکھتا ہوں دیکھئے آپ روحانی آنکھ سے کام لیتے ہیں یا نہیں.اگر توجّہ کی اور کفر چھوڑا تو دیکھ لینا مُہر ٹوٹ جائے گی.بات یہ ہے کہ ایک عام قانون جنابِ الہٰی نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے جس سے یہ تمام سوال حل ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہے: (الصّف:۶) جب وہ کج ہوئے خدا نے ان کے دلوں کو کج کر دیا.یہ بات انسانی فطرت کے دیکھنے سے عیاں ہوتی ہے کہ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے کچھ قوّتیں عطا فرماکر ان قوّتوں کے دینے کے بعد ان قوّتوں کے افعال کے متعلق انسان کو جواب دِہ کیاہے اور انہیں طاقتوں کے متعلق نافرمانی کے باعث انسان عذاب پاتا ہے مثلاً ایک ہَوادار روشن کمرہ کی کھڑکیاں عمدہ طور پر بند کی جاویں تو اس بند کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ کمرہ کے اندر اندھیرا ہو اور کمرہ کی ہَوا رُک جاوے.یہ مثل ٹھیک ان اعمال پر صادق آتی ہے جن کا انسان جواب دِہ ہے.اِسی طرح آتشک اور خاص سوزاک اُن لوگوں کو ہو گا جو بَدی کے مُرتکب ہوئے.پس جب کھڑکیاں کھول دی گئیں اور پُورا اور صحیح علاج کر لیا گیا تو کمرہ پھر ہَوا دار،روشن اور مریض اچھا ہو جائے گا.مُہریں اسلام کے رُو سے ٹوٹ بھی جاتی ہیں.اِسی واسطے قرآن کریم میں آیا ہے(البقرۃ:۱۸۶) مُہریں ہی ٹوٹیں تو نبی کریم سے لیکر کروڑ در کروڑ آج تک مسلمان ہوئے.ہاں تمہارے مذہب کی رُو سے مُہر کا ٹوٹنا ضرور محال ہے کیونکہ اگر مُہروں کا ٹوٹنا محال نہیں تو آپ کم سے کم اپنی گاؤ ماتا کو اس کے بھر شٹ جنم سے چھوڑاتے.ہمیں اسے پنڈتانی بنا کر دکھاؤ تو سہی.اِس بیچاری کا جَنم صرف سزا ہی بھوگ رہا ہے کاش اس کی مُہر ٹوٹتی تو نہ انگریزا سے مارتے اور نہ ہم پر اِتنے مقدمات قائم ہوتے.(نور الدین صفحہ۵۷تا۶۰) مسئلہ تقدیر اور انسانی تصرّف ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے جو قوٰی اور اعضاء دئے ہیں وہ دو قِسم کے ہیں.ایک وہ جن پر انسان کا کو ئی دخل اور تصرّف نہیں ہے.مثلاً انسان کیجوڑ،ہڈّیاں، پَٹّھے،پَردے

Page 78

بنا دیئے ہیں جن میں وہ کوئی دستِ تصّرف نہیں رکھتا.اس کا قدا گر لمبا ہے تو وہ اِسے چھوٹا نہیں کر سکتا اور اگر چھوٹا ہے تو بڑا نہیں کر سکتا.علیٰ ہٰذالقیاس اعضاء کی ساخت میں کچھ دخل نہیں دے سکتا.تو اِس قِسم کے اعضاء پر جن میں انسان کا کوئی دخل اور تصّرف نہیں ہے.شریعتِ اسلام نے بھی کوئی حکم انسان کو نہیں دیا کیونکہ اس میں انسان کے اِجتہاد کاکوئی دخل نہیں ہے صانع حقیقی نے جو کچھ بنا دیا وہ اُسے بہر حال منظور کرنا پڑتا ہے اور اِسی لئے جو شریعت ایسے امور میں کوئی حکم تجویز کرتی ہے وہ کبھی خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی.دوسرے وہ اعضاء ہیں جن پر انسان کا دخل اور تصّرف ہوتا ہے اور ان کے فعل کے ارتکاب یا ترک پر وہ قدرت اور استطاعت رکھتا ہے مثلاً زبان کہ اِس میں ایک قوّت تو چکھنے کی ہے جس سے مزہ کی تمیز کرتی ہے کہ کھٹّا ہے یا میٹھا، نمکین ہے کہ پھیکا.یہ اس کی ایسی قوّت ہے کہ انسان کا اس پر تصرّف نہیں ہے جو مزا شئے کا ہو گا تندرست زبان وہی محسُوس کرے گی مگر زبان سے بولنا یہ اس کی ایک اَور قوّت ہے جس پر انسان مقدرت رکھتا ہے خواہ بولے یا نہ بولے.ایک امر واقعہ کے خلاف بیان کرے یا اس کے موافق کہے.اِسی طرح آنکھ ہے کہ اس میں جو قوّتِ بینائی ہے اس پر انسان کا تصرّف نہیں ہے مگر کہاں کہاں نظر کو ڈالے اور کہاں کہاں نہ ڈالے یا ایک دفعہ ڈالے مگر دوسری دفعہ نہ ڈالے اِس پر انسان کا تصرّف ہے اِس لئے ایسے امور میں جن میں انسان کا تصرّف ثابت ہے احکام بتلائے ہیں کہ انسان ان کی خلاف ورزی نہ کرے.(البدر ۲۰؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۳۹) اِس بیان سے یہ ثابت ہے کہ انسان کِن کِن امور میں مجبور اور کِن کِن میں مختار ہوتا ہے.اِس لفظ مختار اور مجبور پر بھی لوگوں نے بحث کی ہے لیکن قرآن شریف اور آثارِ صحابہؓ میں یہ الفاظ کہیں استعمال نہیں ہوئے.پھر نہیں معلوم کہ اہل اسلام کو ان الفاظ پر بحث کرنے کی ضرورت کیوں آ پڑی اور اگر یہ الفاظ استعمال میں آ گئے ہیں تو بھی ان سے ذاتِ باری پر کوئی حَرف نہیں آ سکتا صاف ظاہر ہے کہ جیسے ایک مجبور کو سزا دینی ظلم ہے ویسی ہی ایک مختار کو پکڑنا بھی ظلم ہے.تم اس شخص کے حق میں کیا کہو گے جو ایک آدمی سے جبرًا ایک فعل کرواتا ہے اور پھر اسے اُس پر سزا دیتا ہے یا ایک شخص کو تمام اختیارات دے دیئے ہیں کہ جو چاہے کرے مگر پھر اُس کی حرکتوں پر اُسے گرفت کیا جاتا ہے ایسے آدمی کا نام سوائے احمق کے اَور کیا ہو گا.پس یاد رکھو کہ خدا تعالیف کی ذات ایسے خطاب سے پاک ہے اور نہ اس کے علِم اور قدرت کا یہ تقاضا ہو سکتا ہے کہ

Page 79

مختار یا مجبور کی حالت میں اِنسان کو سزا دیوے.اِس پر یہ سوال ہوتا ہے کہ پھر انسان سے کیوں بازپُرس ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ جب ایک کو دخل اور تصرّف دے کر نتائج سے آگاہ کر دیا جاتا ہے اور یہ سب اُسے حاکمانہ حیثیّت سے عطا کر کے بتلایا جاتا ہے تو اس وقت اگر کوئی خلاف ورزی کرے تو وہ قابلِ مؤاخذہ ضرور ہوتا ہے.دنیاوی حکّاموں اور سلطنتوں میں اِس کی نظیریں موجود ہیں کہ ایک عہدہ دار یا ملازم کو دخل اور تصّرف مال و زَریا دیگر اشیاء سرکاری پر دیا جاتا ہے، اس کے اختیارات کا اسے علم ہوتا ہے، اس کی حدود مقرر ہوتی ہیں اور جب ان کو ٹھیک ٹھیک بجا لاوے تو قابلِ انعام و شُکریہ ہوتا ہے خلاف ورزی کرے تو سزا پاتا ہییہی حال انسان کا اِس دُنیا میں ہے اور خود آسمانی کتابوں کا نازل ہونا اِس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے ورنہ شریعت اور قانون کی کوئی ضرورت نہ تھی.اِس سے ہم کو پتہ لگتا ہے کہ انسان کی جواب دہی اس حال میں ہے جب کہ وہ اپنے مولیٰ کریم کی طرف سے نتائجِ اعمال سے آگاہ کیا گیا ہے.یہ آگاہی اُسے بارگاہِ ایزدی میں جوابدہ بناتی ہے.اگر یہ بات نہ ہوتی تو پھر آسمانی کتابوں کا نازل کرنا، انبیاء اور ان کے خلفاء کو مبعوث کرنا خدا کا ایک بے سُود فعل ہوتا.جیسے آنکھ اپنا کام کرتی اور وہ کان کا کام نہیں دے سکتی اِسی طرح انسان فرشتوں کی طرح بنایا جاتا مگر اس طرح کی بناوٹ سے وہ کسی ثواب اور اَجر کا مستحق نہ ہو سکتا تھا کیونکہ ثواب اور انعامات وغیرہ کا انسان اُسی وقت مستحق ہوتا ہے جب وہ کوئی امر خلافِ طبع کر کے دکھاتا ہے.ایک پیشہ ور اگر اپنی خواہشِ طبعی کے موافق گھر بیٹھا رہے اور اپنے نفس کے خلاف کوئی تکلیف حرکت کرنے کی اپنے اعضاء سے کام لینے کی گوارانہ کرے تو وہ کب کچھ حاصل کر سکتا ہے مگر جب تک وہ اس آرام کو چھوڑکر کچھ تکلیف خلافِ نفس گوارانہ کرے وہ کچھحاصل نہیں کر سکتا.اِسی طرح خادم اپنے آقا کو، ملازم اپنے افسر کو خوش نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ کچھ اپنے خلافِ نفس نہیں کرتا.یہ شب و روز کا نظّارہ اس امر کو خوب ظاہر کرتا ہے کہ انسان کے اندر نتائجِ اعمال کا عِلم ہے جس سے وہ ترقّیٔ مراتب کی کوشِش کرتا رہتا ہے.پس جن راہوں پر وہ چل کر انعام اور ترقّی حاصل کرتاہے ضرور ہے کہ جب ان کو ترک کرے تو نقصان بھی اُٹھاوے.بعض لوگ یہ اعتراص کرتے ہیں کہ بعض انسانی قوٰی کی ساخت ہی اِس قِسم کی واقع ہوئی ہے کہ اس قِسم کے اعضاء والوں سے وہ حرکات ہی ناشائستہ سرزد ہوں مثلاً ڈاکو، چور وغیرہ جو ہوتے ہیں دیکھا جاتا ہے کہ ان کی کھوپریوں کی ساخت ایک خاص قِسم کی ہوتی ہے جو دوسرے

Page 80

لوگوں سے بالکل علیحدہ اور متمیّز ہوتی ہے پھر جس حال میں کہ قدرت نے ان کی ساخت ہی ایسی بنائی ہے وہ کس طرح جواب دِہ ہونے چاہئیں.اِس کا جواب یہ کہ اِس سوال کا تعلق عِلم قیافہ سے ہے جو ایک مومن کا کام ہے.حدیث شریف میں ہے اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ‘ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اﷲِ کہ تم مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اﷲ کے عطا کردہ نور سے ہر ایک شئے کو دیکھتا ہے یا کہجس انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایسے اعضاء دیئے ہیں کہ وہ ان کو دبا سکتا ہی نہیں ہے ان کا نام مجنون رکھا ہے جن پر شریعت کا کوئی حکم جاری نہیں ہے ہاں اگر اس کے اندر کچھ نہ کچھ قوّت ان اعضا ء کے تقاضا کو دبانے کی ہے تو وہ ضرور قابلِ مؤاخذہ ہیں کیونکہ جب وہ بعض حالتوں میں ان قوٰی کو دبا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ حکمِ خداوندی سے نہیں دبا سکتے یا کم از کم اپنے اس فعل پر نادم ہو کر ان کے دبانے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے مدد نہیں مانگ سکتے.ہم نے خود مجنونوں کو دیکھا ہے کہ ان میں کچھ نہ کچھ قوّت ضرور باقی رہتی ہے.روٹی وہ ضرور کھاتے ہیں بعض کو پیسہ مانگتے بھی دیکھا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ قوّت ضرور باقی ہوتی ہے.اِسی طرح ہم ایک چور اور ڈاکو کو دیکھتے ہیں کہ اگر یہ افعالِ بَد اُن سے بہ تقاضائے فطرتی صادر ہوتے ہیں تو پھر وہ حفاظت کا کیوں انتظام کرتے ہیںاور جب ان کو خطرہ ہو کہ ہم پکڑے جاویں گے تو کیوں بھاگتے ہیں.پس معلوم ہؤا کہ ان میں اپنے آپ کو سنبھالنے اور اپنے قوٰی کو دبانے کی قوّت بھی ہے اور اسی کا نام توبہ ہے کہ جب انسان ایک طاقت کو بار بار دباتا تو وہ آخر کار زائل ہو جاتی ہے اور یہی شریعت کا حکم ہے.ہاں اگر اس میں دبانے کی طاقت نہیں ہے تو وہ مجنون اور پاگل ہے اس پر کوئی حکم شریعت کا نہیں ہے.جو شخص بَدی کو بَدی جان کر کرتا ہے وہ ضرور قابلِ مؤاخذہ ہے.بعض قومیں ایسی بھی ہیں کہ وہ کہتی ہیں کہ جن کو تم بَدی کہتے ہو ہم اُن کو بَدی نہیں تصوّر کرتے.مگر وہ اپنے اقوال میں جُھوٹے ہیں اور شرارت سے یہ بات کہتے ہیں.ایک دفعہ ایک کنجر سے مجھے گفتگو کرنے کا اِتفاق ہؤا اُسنے کہا کہ ہم زنا کو ہرگز بدکاری نہیں سمجھتے.مَیں نے اُس سے پوچھا کہ اگر یہ تمہارے نزدیک بدکاری نہیں ہے تو پہلوؤں سے یہ کام کیوں نہیں کرواتے.تب اُس نے کہا کہ وہ غیر کی لڑکی ہوتی ہے اُس سے یہ خرابی اور گند کروانا ٹھیک نہیں ہے.اس کم بخت نے اپنے مُنہ سے اِس کام کو خرابی اور گند کہا حالانکہ اوّل کہہ چکا تھا کہ ہم زنا کو بدکاری نہیں خیال کرتے.مَیں نے اُسے ملزم کیا اور

Page 81

کہا کہ دوسرے تماش بین جو تمہاری لڑکیوں کے پاس آتے ہں وہ ان لڑکیوں کو اپنی لڑکیاں خیال کرتے ہیں؟ وہ بھی غیروں کی سمجھ کر آتے ہیں.اِس بات کو سُنکر پھر اُسے کلام کی جُرأت نہ ہوئی.( البدر ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۶) اِسی طرح ایک دفعہ ڈاکو اور چوروں سے مَیں نے پوچھا کہ تم ڈاکہ اور چوری کو گناہ خیال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں.مجھے چونکہ ان کے انتظامات کا عِلم تھا کہ ڈاکو کِس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور چور کِس طرح نقب زنی کرتے ہیں.کہاں کہاں پہرہ ان کا ہوتا ہے.پھر ایک اندر جاتا ہے ایک سامان کو پکڑنے والا ہوتا ہے.ایک ڈاک چوروں کی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ مال کو جھٹ دوسری جگہ پہنچادیں.پھر جس زرگر سے ان کی سازش ہوتی ہے وہ سونا چاندی گلانے کا سامان تیار رکھتا ہے کہ دیر نہ ہو.مَیں نے ان سے پوچھا کہ جب تم آپس میں مال ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہو تو اگر اس میں سے دوسرا کچھ نکال لیوے یا اگر کہیں دباتے ہو تو دوسرا چوری سے کھود کر لے لے اور تم کو اطلاع نہ دے یا زرگر اپنے مقررہ حصّہ سے کچھ زیادہ رکھ لے تو پھر کیا کرتے ہو.اِس پر طیش میں آ کر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایسے خائن بے ایمان کی گردن مار ڈالیں.مَیں نے کہا کہ خیانت اور چوری تو تمہارے نزدیک گناہ نہیں پھر اس کو سزا کیوں دیتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایسے بے ایمان کو ہم کبھی شامل ہی نہیں کیا کرتے.پھر مَیں نے ان کو کہا کہ جب تمہارا مال کوئی بے ایمانی سے لے تو تم اسے گناہ کہتے ہو بتلاؤ تم جو دوسروں کا مال لیتے ہو اور وہ نامعلوم کن کن مشکلوں سے انہوں نے کمایا ہؤا ہوتا ہے یہ کونسی ایمانداری ہے؟ غرضیکہ اِن نظائر سے پتہ لگتا ہے کہ ہر بدکار اپنی بدی کے ارتکاب میں ضرور ملزم ہے.ہاں اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اِنسان اِن بدکاریوں کا کیوں ایسا مُرتکب ہوتا ہے کہ پھر چھوڑ نہیں سکتا یا اگر چھوڑنا چاہے تو اس کا کیا علاج ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قوٰی عطا کئے ہیں اُن سے جب ان کے تقاضا کے موافق حسبِ فرمودہ الٰہی وہ کام نہیں لیا جاتا تو ان کی قوّت زائل ہو جاتی ہے

Page 82

اور کہا کہ دوسرے تماش بین جو تمہاری لڑکیوں کے پاس آتے ہں وہ ان لڑکیوں کو اپنی لڑکیاں خیال کرتے ہیں؟ وہ بھی غیروں کی سمجھ کر آتے ہیں.اِس بات کو سُنکر پھر اُسے کلام کی جُرأت نہ ہوئی.( البدر ۲۷؍فروری ۱۹۰۳ء صفحہ ۴۶) اِسی طرح ایک دفعہ ڈاکو اور چوروں سے مَیں نے پوچھا کہ تم ڈاکہ اور چوری کو گناہ خیال کرتے ہو؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں.مجھے چونکہ ان کے انتظامات کا عِلم تھا کہ ڈاکو کِس طرح اکٹھے ہوتے ہیں اور چور کِس طرح نقب زنی کرتے ہیں.کہاں کہاں پہرہ ان کا ہوتا ہے.پھر ایک اندر جاتا ہے ایک سامان کو پکڑنے والا ہوتا ہے.ایک ڈاک چوروں کی بندھی ہوئی ہوتی ہے کہ مال کو جھٹ دوسری جگہ پہنچادیں.پھر جس زرگر سے ان کی سازش ہوتی ہے وہ سونا چاندی گلانے کا سامان تیار رکھتا ہے کہ دیر نہ ہو.مَیں نے ان سے پوچھا کہ جب تم آپس میں مال ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہو تو اگر اس میں سے دوسرا کچھ نکال لیوے یا اگر کہیں دباتے ہو تو دوسرا چوری سے کھود کر لے لے اور تم کو اطلاع نہ دے یا زرگر اپنے مقررہ حصّہ سے کچھ زیادہ رکھ لے تو پھر کیا کرتے ہو.اِس پر طیش میں آ کر انہوں نے جواب دیا کہ ہم ایسے خائن بے ایمان کی گردن مار ڈالیں.مَیں نے کہا کہ خیانت اور چوری تو تمہارے نزدیک گناہ نہیں پھر اس کو سزا کیوں دیتے ہو؟ کہنے لگے کہ نہیں جی ایسے بے ایمان کو ہم کبھی شامل ہی نہیں کیا کرتے.پھر مَیں نے ان کو کہا کہ جب تمہارا مال کوئی بے ایمانی سے لے تو تم اسے گناہ کہتے ہو بتلاؤ تم جو دوسروں کا مال لیتے ہو اور وہ نامعلوم کن کن مشکلوں سے انہوں نے کمایا ہؤا ہوتا ہے یہ کونسی ایمانداری ہے؟ غرضیکہ اِن نظائر سے پتہ لگتا ہے کہ ہر بدکار اپنی بدی کے ارتکاب میں ضرور ملزم ہے.ہاں اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اِنسان اِن بدکاریوں کا کیوں ایسا مُرتکب ہوتا ہے کہ پھر چھوڑ نہیں سکتا یا اگر چھوڑنا چاہے تو اس کا کیا علاج ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو جو قوٰی عطا کئے ہیں اُن سے جب ان کے تقاضا کے موافق حسبِ فرمودہ الٰہی وہ کام نہیں لیا جاتا تو ان کی قوّت زائل ہو جاتی ہے اور جو قوّت ان کی بالضد بالمقابل ہوتی ہے وہ ترقّی پاتی ہے اور بہت نشوونما کرتی ہے.یہ ایک ایسا بندھا ہؤا قانون ہے کہ جس کے مشاہدات کثرت سے اِس عالَم میں ہیں.تم نے دیکھا ہو گا کہ بعض ہندو فقیروں کے ہاتھ سُوکھے ہوئے اور کھڑے ہوئے ہوتے ہیں اس کی یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ ہاتھوں کو ایک عرصہ تک کھڑا کر چھوڑتے ہیں اور قدرت کے منشاء کے موافق ان سے کام نہیں لیتے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کام کرنے کی طاقت ہاتھ سے زائل ہو جاتی ہے.

Page 83

اسی طرح اگر آنکھ کو تم چالیس دن تک ایسی پَٹّی باندھ چھوڑو کہ اُس سے کچھ نظر نہ آوے تو آخرکارپھر اس سے قوتِ بینائی کم ہو جاوے گی.اسی طرح سے جو لوگ نیکی کی قوتوں سے کام نہیں لیتے آخرکار وہ دن بدن کمزور ہو کر زائل ہو جاتی ہیں اور ان کے مقابل پر بَدی کی قوّت ترقّی پکڑتی پکڑتی آخر کار ایک جُزوِ طبیعت ہو جاتی ہے.پس جو لوگ بدکاریوں میں مُبتلا ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ وہ ان کو دن بدن دبانا شروع کریں اور نفس کی مخالفت پر زور دیویں اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ تعالیٰ سے بھی مدد مانگتے رہیں آخرفکار وہ ایک دن اُن سے نجات پا جاویں گے کیونکہ جیسے ہم نے پیشتر بیان کیا ہے خدا کا لاتبدیل قانون یہی ہے کہ ہر انسانی فعل کے بعد ایک فعلِ الہٰی صادر ہوتا ہے.انسان اگر نیکی کے قوٰی سے کام لیتا ہے تو خدا تعالیٰ دن بدن اُسے اَور برکت دیتا ہے حتّی کہ نیکی اس کی طبیعت کا جُزو ہو جاتی ہے.شُکرِ نعمت پر ازدیادِ نعمت کی یہی فلاسفی ہے اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے قوٰی سے ٹھیک کام نہیں لیتے وہ دن بدن بدیوں پر دلیر ہو کر خدا کا غضب حاصل کرتے ہیں یعنی وہ خدا کی نِعمت کا کفر کرتے ہیں اِسی لئے عذاب کے مستحق ہوتے ہیں.پس اِس تفصیل سے خوب ظاہر ہو گیا ہے کہ  میں کسی قِسم کا جبر انسان کے اُوپر نہیں ہے کیونکہ  تو ایک فعلِ الہٰی ہے جو کہ انسانی فعل کے بعد حسب قانونِ قدرت ضروری صادر ہونا تھا.خدا تعالیٰ نے ہدایت کے سامان ان کے لئے مہیّا کئے مگر انہوں نے اُن سے کام نہ لیا اِس لئے جو قوٰی ترقّیٔ ایمان کے ان کو عطا ہوئے تھے وہ ان سے لے لئے گئے اور حکمتِ بالغہ کا یہی نتیجہ ہونا چاہیئے تھا.دیکھو اگر آج تم میں سے ایک کو تحصیلداری کے اختیارات دیئے جاویں لیکن وہ ان کو استعمال نہ کرے اور تمام دن اَور ہی کام کرتا رہے تو کیا گورنمنٹ وہ اختیارات اس کے پاس رہنے دے گی ؟ ہرگز نہیں.پس جبکہ دُنیاوی مصلحت اور حکمت اِس امر کا تقاضا نہیں کرتی تو خدا تعالیٰ پر کیوں یہ امر لازم ہو سکتا تھا.خَتَم.اِس کے معنے نشان کے ہیں.ں دوسرے مُہر کے.اوّل معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ اﷲ نے ان کے دلوں اور کانوں پر نشان یا علامت کر دی تاکہ فرشتہ یا فرشتوں کے رنگ کی انسانی مخلوق ان کو پہچان کر ان سے مناسبِ حال سلوک کرے.اہلِ فراست ان کو پہچان کر ان سے پرہیز کریں.دوسرے معنوں کی رُو سے یہ معنے ہوئے کہ جب کسی شئے پر مُہر لگ جاتی ہے اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ کوئی شئے اس کے اندر اَب نہ داخل ہو سکتی ہے نہ باہر آ سکتی ہے یعنی اَب

Page 84

ان کے دلؔ،کانؔاور آنکھؔ کسی حقیقت تک پہنچنے سے محروم کر دیئے گئے ہیں.نہ حق داخل ہو سکتا ہے نہ کفر نِکل سکتا ہے.قُلُوْب… جمع قلب کی بمعنے دل.اِس سے مراد گوشت کا وہ ٹکڑا نہیں ہے جو آنکھوں سے نظر آتا ہے وہ تو ایک گدھے میں بھی ہوتا ہے بلکہ قوّتِ ادراکیہ جس کا ایک مجہول الکنہ تعلق اس انسانی قلب کے ٹکڑے سے ہے.قلب پر خَتم کا یہ باعث ہؤا کہ ان کو قلبِ الٰہی اِس لئے دیا گیا تھا کہ وہ سوچتے کہ یہ شخص ( محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ) مدّت سے ہم میں رہتا ہے.اِس کے اخلاق،عادات، تعلّقات، معاملات لین دین وغیرہ سب امور پر نظر مارتے، اس کی گذشتہ زندگی کو جانچتے، اس کی خلوت، جَلوَت کے حالات کا مطالعہ کرتے.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعوٰی کیا اور فرمایا قَدْ لَبِثْتُ فِیْکُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِہٖ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ.اِس دعوٰی اور تحدّی پر غور کرتے جب اس نے قلب سے قلب کا کام نہ لیا اور اس کو معطّل رکھا تو آخر اﷲ تعالیٰ نے وہ نورِ ایمان ان سے لے لیا.سَمْع.بمعنے کان اور سُننا.اِس پر ختم کا یہ باعث ہؤا کہ اگر اس کا قلب اِس قابل نہ تھا تو پھر کانوں سے آپ کی(یعنی آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تعلیمات اور دعاوی اور دلائل کو ہی سُنتا مگر جب یہ بھی نہ سُنا تو آخر خدا نے یہ قوّت بھی لے لی.ابصار.بمعنی بصر یعنی بینائی.اس پر پَٹی اِس لئے پڑ گئی کہ سمع اور قلب کے جاتے رہنے کے بعد اگر قوّتِ بینائی سے جو باقی رہ گئی تھی اس سے کام لیتا.آپ کے ساتھ جو نشان تائیداتِ الہٰی کے تھے اُن پر نظر ڈالتا.اپنے شہر کے چیدہ اور قابلِ قدر آدمیوں کو دیکھتا کہ وہ کِس کے ساتھ ہوتے جاتے ہیں تو بھی اُسے راہِ احق مِل جاتا مگر جب اس نے اس سے بھی کام نہ لیا تو خدا نے یہ بھی اس سے لے لیا.غرضیکہ کفر کیا تو قلب گیا.اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر جانا تو کان گئے.تائیداتِ سماویہ کو نہ دیکھا تو آنکھیں گئیں. کے معنے جھلی، پَردہ..اُس کو کہتے ہیں جو ہر ایک پہلو سے بڑا ہو.چونکہ انہوں نے ہر ایک پہلو سے صداقت کو چھوڑا جس کے لئے عذابِ عظیم ہی مناسبِ حال تھا جو کہ ہر طرف سے اُن کو احاطہ کرتا.( بدر جلد ۲ نمبر۷مورخہ ۶؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۵۴) اس سوال کے جواب میں کہ چب خدا کی مُہر دلوں پر لگ گئی تو ہدایت کیونکہ ممکن ہے؟ فرمایا:اِسی قُرآن میں مُہر کی وجہ اور جس لاکھ کی مُہر ہے اس کا پتہ اور اس کاسبب مرقوم ہے وہ سبب

Page 85

اور مُہرا ور وہ لاکھ ہٹا دو.وہ خدائی مُہر خود اُکھڑ جائے گی.سُنو وَ قَوْلِھِمْ قُلُوْبُنَا غُلْفٌ.بَلْ طَبَعَ اﷲُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھو(سورہ نساء رکوع ۲۲) کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اﷲُ عَلٰی کُلِّ قَلْبِ مُتَکَبِّرٍ جَبَّارٍ.(سورہ مومن رکوع ۴) .(سورہ مطففین رکوع ۱) دیکھو کفر اور تکبّر اور بَد اعمالی کے کَسب سے مُہر لگتی ہے ان بُری باتوں کو چھوڑ دو، مُہر ہٹی ہوئی دیکھ لو.خدائے تعالیٰ نے اپنے قانونِ قدرت میں یہ بات رکھ دی ہے کہ جن قوٰی سے کام نہ لیا جاوے وہ قوٰی بتدریج اور آہستہ آہستہ کمزور ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ قوٰی جن سے کام نہیں لیا گیا اسی طرح سے بیکار اور معطّل رہتے رہتے بالکل نکمّے ہو جاتے ہیں اور ان پر صادق آتا ہے کہ اب ان قوٰی پر اور ان قوٰی کے رکھنے والوں پر مُہر لگ گئی ہے.ہر ایک گناہ کا مُرتکب دیکھ لے جب وہ پہلے پہل کسی بُرائی کا اِرتکاب کرتا ہے تو اس وقت اس کے مَلکی قوٰی کیسے مضطرب ہوتے ہیں.پھر جیسے وہ ہر روز بُرائی کرتا جاتا ہے ویسے آہستہ آہستہ وہ اضطراب اور حیا اور تامّل جو پہلے دن اس بدکار کو لاحق ہؤا تھا وہ اُڑ جاتا ہے… انسانی نیچر اور فطرت اور اس کے محاورے کی بولی پر غور کرو.شریر اور بد ذات آدمی کو ایک ناصح فصیح نہیں کہتا؟ کہ ان کی عقل پر پتّھرپڑ گئے، ان کے کان بہرے ہو گئے، ان کی سمجھ پر تالے لگ گئے.کیا ان مجازوں سے حقیقت مراد ہوتی ہے؟ (فصل الخطاب حصّہ ۲ صفحہ ۱۹۳،۱۹۴)  ان تمام لوگوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ ہم اﷲ پر اور یَوم الآخر پر ایمان لائے اور وہ دراصل ایماندار نہیں ہیں.اِس سے پیشتر کے رکوع میں منعَم علیہم اور مغضوب علیہ گروہ کا ذکر ہؤا ہے اور اَب ضآلّین کا ذکر ہے یعنی ان لوگوں کا جو کہ گمراہی میں ہیں.منافق کوبھی چونکہ ڈِھل مِل یقین ہوتاہے کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر.صراطِ مستقیم پر اس کا قدم نہیں ہوتا اِس لئے وہ بھی ضالّ یعنی گمراہ ہوتا ہے.

Page 86

کرتا، اپنے بندوں سے کلام کرتا، ان کی ہدایت کے لئے نبی اور رسول اور مجدّد مبعوث کرتا، جو اس کا طالب ہوتا اس کو اپنی راہیں دکھاتا، نیکی کا بدلہ نیک اور بَدی کا بدلہ بَد دیتااور اپنے دوستوں کو عزّت دیتا اور ان کے لئے خوارق عادت کام کرتا اور اپنے دوستوں کے دشمنوں کو ذلیل کرتا، ایسے خدا کو جو ماننے والا ہو اُسے نفاق کی کیا ضرورت ہے اور کِس کا ڈر ہے کہ وہ حق کو چھپاوے اور دَر پَردہ خدا کے دشمنوں سے بھی تعلّقات رکھے.یَوْمِ الْاٰخِرِپرایمان کے یہ معنے ہیں کہ انسان جزا سزا کا قائل ہو.اس کے دِل میں یہ بات جمی ہوئی ہو کہ نیکی کا بدلہ بَدی اور بَدی کا بدلہ نیکی نہیں ہو سکتا.پھر جس کو یہ ایمان حاصل ہو اور ادھر وہ خدا کو ایک متصرّف مقتدر ہستی مانتا ہو تو بتلاؤ نفاق کہاں رہیگا.اِس لئے خدا تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ یہ لوگ اِس دعوٰی میں جُھوٹے ہیں.صرف ظاہری باتوں اور فعلوں سے دکھلانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی مومن ہیں..وہ مومن ہرگز نہیں ہیں.جب ماؔ کا صِلہ باؔ آوے تو اس سے تاکید مُراد ہوتی ہے واؤ یہاں حالیہ ہے.(البدر ۱۷؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰۲ نیزرسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت جنوری ۱۹۰۷ء) بہت لوگ ایسے ہیں جو کہہ تو دیتے ہیں کہ ہم اﷲ اور یومِ آخرت پر ایمان لائے مگر وہ ذرا بھی مومن نہیں ہوتے.ایمان کے سبق کا شروع اﷲ پر ایمان لانے سے ہے اور اسی سبق کا اختتام آخرت کے ماننے پر ہے اِس لئے اس کے اندرونی حصّوں کا ذکر نہیں آیا وہ سب ان دونوں کو ماننے میں آ گیا.اﷲ پر ایمان جبھی مکمّل ومسلّم ہو سکتا ہے جب اس کے ملائکہ، کتب و رسولوں پر ایمان لایا جاوے.ماننے کے معنے صرف زبان سے کہنا نہیں بلکہ قلب کی تصدیق اور عملوں کے ذریعہ اپنے ایمان کا ثبوت ضروری ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) قرآن میں بہت جگہ پر اِس قِسم کا ذکر پایا جاتا ہے کہ اکثر لوگ اِس قِسم کے بھی ہؤا کرتے ہیں کہ زبان سے تو وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے ہیں مگر عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں دکھاتے.زبان سے وہ ایسی ایسی باتیں بھی کہہ لیتے ہیں جن کو ان کے دِل نہیں مانتے.

Page 87

چنانچہ قُرآن کریم کے شروع میں ہی لکھا ہے (البقرۃ:۹) ایسے لوگ اﷲ پر ایمان لانے اور آخرت پر ایمان لانے کے زبانی دعوے تو بہت کرتے ہیں مگر ان کے دِل مومن نہیں ہوتے.اِسی لئے باوجود اسکے کہ وہ اﷲ پر اور یَومِ آخرت پر ایمان لانے کا دعوٰی کرتے ہیں مگر اﷲ تعالیٰ ایسے لوگوں کو مومنوں میں سے نہیں سمجھتا.وہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہم کو اﷲ پر اور آخرت پر ایمان ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اﷲ کے نزدیک مومن نہیں.(الحکم ۲۴؍دسمبر ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱)  وہ اﷲ کو چھوڑتے ہیں اور ان کو جو ایمان لائے حالانکہ وہ تو اپنے نفسوں ہی کو ( دراصل) محروم کرتے ہیں اور اپنے نفع و نقصان کا کچھ شعور نہیں رکھتے.کاترجمہ ’’ دھوکہ دیتے ہیں ‘‘ کریں تو اس میں بہت سی مشکلات ہیں اِس لئے میرے نزدیک اس کے معنے ’’ ترک کرتے ہیں‘‘ صحیح ہے.ان لوگوں نے اﷲ کو چھوڑا تو اس کا خمیازہ یہ اُٹھایا کہ اپنے آپ کو محروم کر لیا.عبداﷲ بن ابیّ بن سلول ایک شخص تھا وہ بھی انہی ’’ ‘‘میںسے تھا.نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم ایک مجلس میں وعظ کہنے لگے.اس روز بہت جھکّڑ تھا سواری میں غبار جو اُٹھا تو اس نے رومال اپنے مُنہ پر رکھ لیا اور کہا باتیں تو اچھی ہیں اگر گھر ہی سُناتے تو اچھا تھا یہاں ہم کو تکلیف ہو رہی ہے.اس پر صحابہؓ میں بہت گفتگو ہوئی.ایک صحابیؓ نے عرض کیا اس سے درگزر کر دیں.پہلے ہمارا ارادہ تھا کہ اسے اپنا بادشاہ بنا لیں یُتَوِّجُوْہُ وَ یُوَصِّبُوْہ‘ یعنی تاجِ شاہی اس کے سَر پر رکھ دیں اور نمبرداری کی پگڑی اسے بندھادیں مگر اب کُھل گیا کہ یہ شخص اِس قابل نہیں.اس نے اپنے تئیں ذلیل کر لیا.دیکھو وہ پھر کیسا تباہ ہؤا.مومنوں کے سامنے ہلاک ہؤا اور اس نے کوئی شرف نہ پایا.منافق اپنے تئیں بڑا ہوشیار سمجھتا ہے اور اسے یہ خیال ہوتا ہے کہ مَیں بڑا دانا ہوں کہ

Page 88

دونوں طرفوں کو گانٹھ رکھا ہے لیکن درحقیقت منافق بڑا کمزور ہوتا ہے اس میں نہ قوّتِ فیصلہ ہوتی ہے نہ تابِ مقابلہ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۴؍فروری ۱۹۰۹ء) …سچّی اخلاص اور محبّت اور اطاعت سے جو نتائج پَیدا ہوتے ہیں وہ صرف زبانی باتوں اور ریاکاری کے اعمال سے حاصل نہیں ہو سکتے.اگر صرف زبانی قول پر نجات کا مدار ہوتا تو پھر قول تو منافقوں کا بھی اﷲ تعالیٰ نے نقل کر کے دکھایا ہے بلکہ وہ ایسے قول سے بجائے نجات کے عذاب کے حقدار بن گئے.ایک ہی قول ہے کہ ایک ایسے شخص کے زبان سے نکلتا ہے جس کا دِل اور زبان ایک ہے نیّت میں اِخلاص ہے.اسی قول سے وہ واصل اِلی اﷲ اور باری تعالیٰ کا مقرّب ہو تا ہے.وہی ایک قول ہے جو کہ ایسے شخص کی زبان سے نکلتا ہے جس کا قلب اور زبان ایک نہیں ہے.وہ خدا تعالیٰ سے بُعد اور قطع تعلق کا باعث ہوتا ہے.خدا اور یَومِ آخر پر ایمان کا اصل نتیجہ کیا تھا کہ خدا سے تعلّقات بڑھتے اور اس کے انعامات اور اکرام کا مورَد وہ ہوتا مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ منافقوں نے اس کا الٹا پھل پایا یعنی ترقی ٔمعکوس.کہ بجائے قریب ہونے کہ وہ اﷲ تعالیٰ سے اَور دُور ہوتے گئے اور ان کے نفسوں کو دھوکا لگا. کے معنے یَتْرُکُوْنَ یعنی چھوڑتے ہیں اور یُخٰدِعُوْنَ کے معنے محروم کر لیتے ہیں.عام ترجموں میں جو اس کے معنے فریب اور دھوکہ دینے کے کئے جاتے ہیں ان کی تصدیق قُرآن کی کِسی آیت سے نہیں ہوتی ہے بلکہ قاموس وغیرہ لُغت کی کتب میںخَادِعَہ‘ کے معنے تَرَکَہ‘ لکھے ہیں.قرآن سے بھی اِن معانی کی تصدیق ہوتی ہے جیسے سورۃ النسآء میں ہے(النسآء :۱۴۳)یعنی منافق خدا تعالیٰ کو چھوڑتے ہیں اور خدا ان کو چھوڑتا ہے.خدا کو چھوڑ دینے کے یہ معنے ہیں کہ اس کے اوامر اور نواہی کی پرواہ نہ کرنی.بعض وقت ایک انسان مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے اور اس وقت شکایت کرتا ہے کہ خدا اس کی مدد .خَدَعَ کے معنے اَمْسَکَ کے ہیںیعنی یہ لوگ نہیں روک سکتے فوائد سے یا نہیں بُخل کرتے یا نہیں محروم رکھتے مگر اپنی جانوں کو.جب اﷲ تعالیٰ اور

Page 89

اس کے بندوں سے قطع تعلق کر لیا تو تعلق سے جو فوائد حاصل ہوتے تھے اُن سے وہ محروم ہو گئے.محرومی نفاق کا نتیجہ ہے.َ.ان میں شعور نہیں.شعور ایک حیوانی صِفت ہے.اﷲ تعالیٰ یہاں منافقوں کو شرم دلاتا ہے کہ تم تو حیوانات سے بھی گئے گذرے ہوئے ہو ان میں شعور ہوتا ہے تم اس سے بھی محروم ہو.ہمیشہ اِس امر کا خیال رکھو کہ کلمہ جو مُنہ سے نکالتے ہو اس کا تعلق دل اور زبان دونوں سے ہو اور تمہارا ہر ایک عمل اس کی تصدیق کرتا ہو.(بدر ۲؍اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۱) خَادَعَ کے معنے ترک کرنے کے ہیں پس جہاںہے وہاں ’’ وہ چھوڑتے ہیں اﷲ کو‘‘ ترجمہ کیوں نہیں کرتے.خَدَعَ کے معنے ہیں اَمْسَکَ.اور عرب کا محاورہ ہے فُلَانٌ کَانَ یُعْطِیْ فَخَدَعَ فلانا دیتا تھااب اُس نے دینا چھوڑ دیا.پس َ(النسآء:۱۴۳)کے معنے یہ کیوں نہیں کرتے کہ اﷲ منافقوں کو محروم رکھنے والا ہے.اِسی طرح تمام الاشیاء والنظائر میں ایسا ہی برتاؤ کرو اور مثلاً (الضٰحی:۸)میںضلال کا اثبات نبیٔ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے لئے ہے مگر(النجم:۳)میں ضلال کی نفی بھی آپ کے حق میں موجود ہے.تو دونوں پر ایمان لا کر ایک جگہ ضلال کے معنے محبّ ،طالب،سائل کے کرو جو (الضٰحی:۱۱)کی تر تیب سے ظاہر ہوتے ہیں اور دوسری جگہ گمراہ کے معنے کروجو وما غوی کے مناسبت سے درست ہیں.(نورالدین،دیباچہ صفحہ ۱۰،۱۱) ،مُخَادِعَۃُسے ہے اور مُخَادِعَہُ کے معنے ہیں ترک کے.پس کے معنے ہوئے یَتْرُکُوْنَ اﷲَ(وہ چھوڑتے ہیں اﷲ کو) جیسا کہ ایک دوسرے محل پر آیا ہے َ(التوبہ:۶۷) (چھوڑ دیا انہوں نے اﷲ کو) کیونکہ اس کے مقابل اﷲ عزّوجلّ کی نسبت بھی نَسِیَھُمْ آیا ہے اور اس کے معنے بُجز ترک کے اَور کچھ نہیں ہیں اوریُخٰدِعُوْن ،خَدَعَ سے ہے اور خَدَعَکے معنے امساک یعنی رُکنے اور بُخل کے ہیں جیسا کہ کہا جاتا ہے فُلَانٌ کَانَ یُعْطِیْ فَخَدَعَ(فلاںدیا کرتا تھا لیکن اَب دینے سے رُک گیا ہے اور بُخل کرتا ہے)اور منافقوں میں یہ وصف تھا جیسا کہ خداوندِ علیم نے اَور محل پر بیان فرمایا ہے کہ( التوبہ :۷۶) ( پس جب اﷲ نے اپنے فضل سے ان کو دیا تو بُخل کرنے لگے ( یا) انہوں نے بُخل کیا ) اور فرمایا

Page 90

(المنافقون:۸)( یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ نہ خرچ کرو ان پر جو رسول اﷲ کے پاس ہیں تاکہ وہ پراگندہ ہو جاویں) اور نفس کہتے ہیں ذات اور حقیقت اور عین شئے اور رُوح اور قلب اور خون اور پانی اور جسم اور حَشم اور عظمت اور عزّت اور ہمّت اور اکڑبازی اور فراخی اور تروتازگی اور کلامِ طویل کو اور بمعنے پاس بھی آتا ہے جیسا کہ فرمایا ہے (المائدہ:۱۱۷)(تُو جانتا ہے اس کو جو میرے پاس ہے اور مَیں اس کو نہیں جانتا جو تیرے پاس ہے) اور علماء نے کہاہے کہ یہ اجسام کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ خداوند تعالیٰ کے لئے بھی آتا ہے جو کہ جسم سے پاک اور منزّہ ہے جیسا فرمایا ہے ( الانعام:۵۵)(تمہارے رَبّ نے اپنے نفس پر ( یعنی اپنے پر رحمت مقرر کی ہے) اور فرمایا(اٰلِ عمران:۲۹) ( اور اﷲ تم کو اپنے نفس سے ڈرا کر بچانا چاہتا ہے ) پس معنے یہ ہوئے وہ چھوڑتے ہیں اﷲ اور مومنوں کو.حالانکہ وہ نہیں بخل کرتے مگر اپنی جانوں پر …منافقوں نے اپنے جانوں کو اﷲ کریم کی راہ میں خرچ کرنے سے روکا.پس اس سے انہوں نے اپنے نفسوں کو اس عزّت و نصرت اور رزق و فلاح سے محروم کر دیا کہ جس کا خداوند کریم نے اﷲ کے راستہ میں صَرف کرنے والوں کو وعدہ فرمایا ہؤا تھا جیسا کہ اس نے فرمایا ہے (المنافقون:۹)(اور اﷲ ہی کے لئے عزّت ہے اور اس کے رسول اور مومنوں کے لئے لیکن منافق لوگ نہیں جانتے) اور فرمایا(المؤمن:۵۲) (ضرور ہم مدد دیتے ہیں اپنے رسولوں کو اور مومنوں کو دُنیا میں ) اور فرمایا  (البقرۃ:۲۶)(جب کبھی رزق دیا جائے گا ان کو ( مومنوں کو) اس سے )… منافق لوگ لَآاِ لٰہَ اِلَّا اﷲُکا اظہار کرتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے مال و جان کو حفاظت میں کرلیں.پس منافق لوگ کشتی کے کناروں کی مانند ہوتے ہیں جب اور جس طرف ہَوا چلتی ہے تو اس وقت اور اسی طرف کشتی بھی چل پڑتی ہے اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ انفسؔ سے یہاں پر وہی مراد ہو جو کہ(النّور:۱۳)( کیوں نہ مومنوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ میں اچھا گمان کیا) اور(اٰلِ عمران:۶۲) ( ہم پکاریں اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنے آپ کو اور تم کو) میں ہے اور کوئی اَور معنے انفسؔ

Page 91

سے یہاں پر نہ لئے جاویں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ منافق لوگ دعوٰی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور پھر وہ خود ہی بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور مومنوں پر خرچ کرنے سے لوگوں کو روکتے ہیں اور خَدَعَ فساد کو بھی کہتے ہیں تو اس صورت میں معنے یہ ہوں گے کہ وہ نہیں بگاڑتے مگر اپنی جانوں کو … اور شعورؔ اس علم کو کہتے ہیں جو کہ بذریعہ حو اس یعنی آنکھ، کان وغیرھما کے حاصل ہو.(رسالہ تعلیم الاسلام قادیان بابت فروری ۱۹۰۷ء)  (البقرۃ: ۱۱) ان کے دِلوں میں ایک مرض ہے تو اﷲ نے ان کے اس مرض کو بڑھنے دیا اور ان کیلئے دُکھ دینے والا عذاب ہے بہ سبب اس کے کہ وہ جُھوٹ بولتے تھے.مرض کا بڑھنا اِس لئے فرمایا کہ جب تھوڑے سے مسئلوں میں اس کی کمزوری کا یہ حال ہے کہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا تو پھر جب یہ مسئلے بہت بڑھ جائیں گے تو یہ کمزوری اَور بھی بڑھے گی.پس یہ مرض روزافزوں ہے.اسی طرح جب چھوٹی سی جماعت کے سامنے حق بات نہیں کہہ سکتا تو بڑی جماعت کے سامنے تو اَور بھی جُھوٹ بولے گا اور یہی باتیں اُس کے لئے دُکھ دینے والی ہو جائیں گی.آخرت کا عذاب تو ہے ہی مگر منافق کے لئے دُنیا میں بھی یہ کم عذاب نہیں.زَادَھُمُ اﷲُپر مفسّروں نے بہت اختلاف کیا ہے کہ جب یہ امرِواقعہ ہے تو اس پر اختلاف کیسا.یہ سب کچھ نتیجہ ہے جُھوٹ بولنے کا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) نفاق ایک قلبی مرض کا نام ہے.اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ اس کے مریض میں قوّتِ فیصلہ بہت کمزور ہوتی ہے اور اُسے کسی کے مقابلہ کی طاقت نہیں ہوتی.ابتداء میں جبکہ اِسلام کی جمعیّت کم تھی اور مسائل تھوڑے تھے تو ایسی حالت میں جب ان کو جُھوٹ اور مداہنہ سے کام لینا پڑا حالانکہ اُس وقت اَدنیٰ سے اَدنیٰ انسان بھی مقابلہ کرتا تھا.تو جب اِسلام کی جمعیّت ترقی کرے گی اور مسائل بڑھتے جاویں گے تو اپنی اِس کمزوری کی وجہ سے ہر ایک

Page 92

بات اور حکم پر وہ اَمَنَّا وَ صَدَّقْنَاکہیں گے حالانکہ ان کے دِل میں وہ بات نہ ہو گی.گویا اس طرح سے ان کو زیادہ جُھوٹ بولنا پڑے گا اور جن جن باتوں کو ان کے دل تسلیم نہیں کرتے ان ان باتوں کو زبان سے ماننا پڑے گا اور انجام یہ ہو گا کہ ہلاکت کا طعمہ بن جاویں گے.(بدر ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۱۱) جیسے ایک مریض بعض اَوقات اپنا ذائقہ تلخ ہونے کی وجہ سے مصری کو بھی تلخ بتاتا ہے وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے اِس سے لذّت نہیں آتی.اس کے کہنے پر کیا انحصار ہے خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ کر دیا ہے  اورپھر صاف صاف ارشاد کر دیا(الواقعہ:۸۰).جس جس قدر انسان پاکیزگی تقوٰی طہارت میں ترقّی کرے گا اُسی اُسی قدر قرآن شریف کے ساتھ محبّت اس کے مطالعہ اور تلاوت کا جواس پر عمل کرنے کی توفیق اور قوّت اسے ملے گی لیکن اگر خدا تعالیٰ کے اَحکام اور حدود کی خلاف ورزی میں دلیری کرتا ہے اور گندی صحبتوں اور ناپاک مجلسوں اور ہنسی ٹھٹھے کے مشغلوں سے الگ نہیں ہوتا.وہ اگر چاہے کہ اس کو قرآن شریف پر غور و فِکر کرنے کی عادت ہو تدبر کے ساتھ اسکے مضامینِ عالیہ سے حَظ حاصل کرے.ایں خیال است و محال است و جنوں (الحکم ۱۰؍اپریل ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۷) صرف زبانی دعوٰی کرنے والوں کے دِلوں میں ، جنہیںنہ قوّتِ فیصلہ نہ تابِ مقابلہ، مرض ہے.اﷲ اس مرض کو بڑھائے گا اِس طرح پر کہ جُوں جُوں اسلام کے مسئلے برھیں گے انکے دِل میں شبہات بڑھیں گے یا عملی طور پر انکار کریں گے.پھر یہ چھوٹی سی جماعت کے مقابل میں رَگیدی ہیں تو بڑوں کے سامنے کیا کچھ بُزدلی نہ دکھائیں گے یا تھوڑے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو بہت سے مسائل کا فیصلہ کیا کریں گے.چونکہ انہوں نے جُھوٹا دعوٰی ایمان کا کیا اِس لئے ان کو دُکھ دینے والا عذاب ہے.(الفضل ۶؍ اگست ۱۹۱۳ٔء صفحہ ۱۵) جب ہمارے نبی کریم اور رسول رؤف رحیم صلّی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ سے مدینہ طیّبہ میں رنق افروز ہوئے تو چنددشٹ منافق، دِل کے کمزور ، جن میں نہ قوّتِ فیصلہ تھی اور نہ تابِ مقابلہ، آپ کے حضور حاضر ہوئے اور آخربڑے بڑے فسادوں کی جَڑ بن گئے.وہ مسلمانوں میں آ کر مسلمان بن جاتے اور مخالفانِ اِسلام کے پاس پہنچتے تو مسلمانوں کی بَدیاں کرتے… اِس شریر گروہ کے متعلق یہ آیت ہے … اِس کا مطلب یہ ہے کہ

Page 93

سرِدست جماعتِ اسلام تعداد میں بہت ہی قلیل اور تھوڑی سی ہے اور مسائلِ اسلام بھی جو ان کے پیش ہوئے ہیں بہت کم ہیں.یہ بَدبخت منافق اگر اس قلیل جماعت کے سامنے تابِ مقابلہ نہیں لا سکتے اور اپنے دِل کی مرض سے بُزدل ہو کر مسلمانوں کی ہاں میں بظاہر ہاں ملاتے ہیں تو یاد رکھیں ان کا یہ کمزوری کا مَرض اَور بڑھے گا کیونکہ یہ جماعتِ اسلام روزافزوں ترقّی کرے گی اور یہ مُوذی بَدمعاش اَور بھی کمزور ہوں گے اور ہوں گے چنانچہ ایسا ہی ہؤا.نیز اسلام کے مسائل روز بروز ترقّی کریں گے.جب یہ لوگ تھوڑے سے مسائل کا فیصلہ نہیں کر سکتے تو اُن مسائلِ کثیرہ کا کیا فیصلہ کر سکیں گے جو یَوماً فَیَوماً روزافزوں ہیں.بہرحال ان کا مرض اﷲ تعالیٰ بڑھائے گا اور اسلام کو ان کے مقابلہ میں ترقّی دے گا.(نور الدین صفحہ ۸،۹) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ اور عبداﷲ بن مسعود سے اور بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے بھی مروی ہے کہ مرض سے مُراد شک ہے یعنی ان کے دلوں میں شک کا مرض تھا یا بُزدلی اور صادق وکاذب اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والی قوّت کی کمی کی بیماری تھی یا حَسد کی بیماری تھی جس کی وجہ سے آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم کے اقبال اور رفعتِ شان کو دیکھ دیکھ کر حَسد اور غم کی آگ سے جَل جاتے تھے اوردعااور بشارت ہے.پس اِس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا ( پس اﷲ ان کی بیماری کو زیادہ کرے) پس وہ بُزدل ہو گئے قلیل جماعت سے حالانکہ وہ روزافزوں ترقّی کر رہی ہے اور تھوڑے سے مسائل کو امتیاز نہ کر سکے حالانکہ وہ زائد ہو رہے ہیں.(رسالہ ’’ تعلیم الاسلام ‘‘ قادیان ماہ جنوری ۱۹۰۷ء) .باء بمعنے سبب کے ہے اور ما مصدریہ ہے(جو کہ اپنے ما بعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنا دیتا ہے)اورکاؔنَ کا مصدر کونؔہے اور یہ لُغتِ عرب میں مُستعمل ہے اورکاؔن دوام و استمرار کا فائدہ دیتا ہے جیسا کہ خداوندِ کریم نے فرمایا ہے کَانَ اﷲُ عَلِیْمًا (اﷲ ہمیشہ جاننے والا ہے) انسان کو جُھوٹ سے بہت ہی بچنا چاہیئے.دیکھو کہ نفاق جیسے گندے گناہ اور مرض کا سبب بھی یہی جُھوٹ ہے.پھر نفاق بھی ایسا کہ جس کی نسبت فرمایا ہیفَھُمْ لَایَرْجِعُوْنَ (پس وہ رجوع نہ کریں گے) اورجہاں پر آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم نے نفاق کے علامات بیان فرمائے ہیں وہاں پر فرمایا ہے کہ منافق کے پاس جب امانت رکھو تو خیانت کرے گا اور

Page 94

جب جھگڑتا ہے تو گالی گلوچ دیتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے تو خلاف کرتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو جُھوٹ بولتا ہے اور قُرآن مجید میںجُھوٹ بولنے والوں پر لعنت آئی ہے اور آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم سے جب دریافت کیا گیا تو فرمایا.نہیں.الغرض کہ جُھوٹ بہت بُرا مرض ہے مومن کو اس سے ہمیشہ بہت ہی بچنا چاہیئے.(رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ ماہ فروری ۱۹۰۷ء)   اِذَاظرفِ زمان ہے.یہ عطف ہے مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ الخ پر.پس اوّل میں تو کمالِ ایمان کا اِدّعاہے.گویا وہ کہتے ہیں کہ ہم کامل ایمان اور کامل اصلاح والے ہیں اور اِس زمین سے مراد مدینہ منّورہ کی زمین ہے اور جن کو کہا جاتا ہے یا کہا جائے وہ تو منافق ہی ہیں.ہاں کہنے والوں کا یقینی پتہ نہیں لگتا کہ وہ کون ہیں.آیا اہلِ اسلام ان کو یہ کہتے تھے کہ مدینہ کی سر زمین میں فساد نہ کرو یا کہ کفّار ان کو یہ کہتے تھے.میرا خیال ہے کہ کہنے والے کفّار ہیں اور ان کے نزدیک منافق لوگ یہ فساد کرتے تھے کہ اہلِ ایمان کے پاس جاتے اور ان سے باتیں چیتیں کرتے ہیں تو ان کے اس ملاپ کو فساد قرار دے کر اس سے منع کرتے ہیں کہ تم ان سے کیوں ملتے ہو اور جب ان کی اس ممانعت سے وہ باز نہ آتے تو پھر وہ کہتے کہ کیا ہم بھی ان نادانوں کی طرح ایمان لائیں چنانچہ انکا یہ سوال و جواب بھی اس کے بعد متّصل بدیں الفاظ خداوندِ علیم نے بیان فرمایا ہے کہا ور جب ان کو کہا جائے کہ تم ایمان لاؤ جیسا کہ وہ لوگ ایمان لائے ہیں تو کہیں گے کیا ہم ان کی مانند ایمان لائیں جو نادان ہیں).(رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان ماہ فروری ۱۹۰۷ء)

Page 95

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں نفاق سے فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو طرفین میں اِصلاح کرنے والے ہیں.سُنو! بے شک یہی لوگ مُفسد ہیں مگر وہ سمجھتے نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍ فروری ۱۹۰۷ء) جب واعظ وعظ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ جو کام تم کرتے ہو اس کا نتیجہ خطرناک ہے.تم دُنیا میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں تو بہ! ہم فسادی ہیں؟ ہم تو بامسلماں اﷲ اﷲ بابرہمن رام رام کے اصل پر چل سب کے ساتھ اپنا تعلق رکھتے ہیں اور بڑی سنوار والے ہیں.اﷲ فرماتا ہےکہ یہی بڑے مُفسد لوگ ہیں کہ دعوے زبان سے کچھ ہیں ہاتھ سے کچھ کرتے ہیں.ایک نماز ایسی چیز ہے کہ کلمہ شہادت کے بعد کوئی عمل نماز کے برابر نہیں.حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا میرا جی چاہتا ہے کہ جب تکبیر ہو جائے تو مَیں دیکھوں کہ کون کون جماعت میں نہیں آیا اور ان کے گھر جَلا دوں.مگر باوجود اس کے کئی لوگ جو نماز باجماعت نہیں پڑھتے تم ان میں سے نہ بنو.منافق اصل میں بڑا مُفسد ہوتا ہے اس میں شعور نہیں ہوتا.خدا تمہیں سمجھ دے جو مَیں نے کہا ہے اسے سمجھو.(الفضل ۶؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)     

Page 96

   ماؔ مصدر یہ ہے جو کہ اپنے مابعد کے فعل کو بمعنے مصدر بنا دیتی ہے لہٰذا اٰمَنَ جو اسکے بعد آیا ہے اس کے معنے ایمان لانے کے ہیں نہ یہ کہ وہ ایمان لائے.ال جِنس کے لئے ہے یعنی جنس انسان اور کبھی اس سے معتبر افراد مُراد ہوتے ہیں تو اِس لحاظ سے یہاں پر کامل انسان مراد ہوں گے.سَفِیْہٌ کہتے ہیں ضعیف العقل، کذّاب، جَلدباز، بڑے ظالم، مخالفِ حق، ضعیف الرّائے، اَنجان کو.اِسی وجہ سے بچّوں اور عورتوں کو سفھاء کہا گیا ہے جیسا کہ اِس آیتِ کریمہ میں ہے ( النّساء:۶) ( نہ دوضعیف العقلوں کو اپنے مال) یعنی بچّوں اور عورتوں کو.اٰمَنَ النَّاسُ :کمال ایمان لانا، نامناسب کے ترک کرنے اور مناسب کے کرنے کے ساتھ ہوتا ہے.اَنُؤْمِنُ میںجو استفہام کا ہمزہ ہے یعنی دریافت کرنے کا.یہ یہاں پر انکار کے لئے ہے.پس ’’ کیا ہم ایمان لائیں‘‘ کا مطلب یہ ٹھہرا کہ ہم سے ایسی بیوقوفانہ حرکت کبھی نہیں ہو سکتی یعنی ہم ایسا ایمان نہ لائیں گے.اور ان دونوں کے لانے سے مطلب یہ بنا کہ گویا منافقوں کو کہا گیا کہ ایسا کامل ایمان لے آؤ جیسا کہ وہ کامل لوگ لائے ہیں.ان کے فساد کے وقت تو ان کی نسبت لَاَ فرمایا ہے اور ایمان کے بیان میںلَا فرمایا ہے اِس لئے کہ فساد ایک ظاہری اور محسوس امر ہے لہٰذا اِس میںلَاَ فرمایا جو کہ حواسِ ظاہرہ کے علم کو کہتے ہیں اور ایمان کے بہت کچھ لوازم اور آثار اگرچہ محسوس بحواسِ ظاہرہ ہیں لیکن چونکہ نفسِ ایمان

Page 97

امورِ مخفیہ سے ہے اور حواسِ باطنہ سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا ایمان کے بیان میںلَا  فرمایا ہے جو کہ باطنی علوم پر بولا جاتا ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جس طرح یہاں پر کَمَآ اٰمَنَ النَّاسُ فرمایا ہے اس طر ح کے فساد کے متعلق کَمَا کو ذکر نہیں فرمایا اِس لئے ایمان میں تو ان کو کہا گیا ہے کہ فلاں کی مانند ایمان لاؤ اور اس کی مثل ہو سکتی تھی لہٰذا یہاں پرکَمَالایا گیا اور فساد میں ان کے واقعی فساد کا بیان ہے اور چونکہ منافقوں کا فساد بے مثل تھا اور اس کے بے مثل ہونے کا بیان کرنا مقصود تھا لہٰذا فساد کے بیان میں کَمَا کو ذکر نہیں کیا.(رسالہ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان فروری ۱۹۰۷ء) جب ان سے کہا جائے کہ ایمان لاؤ جیسے کہ عام لوگ ایمان لائے تو کہتے ہیں کیا ہم ایمان لائیں جیسے یہ کم عقل لوگ ایمان لا رہے ہیں.سُنو! یہی بے عقل ہیں لیکن یہ علم انہیں کہاں کہ اپنی بے عقلی کو سمجھیں… جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور جب اپنے سرداروں کے پاس تنہا ہوتے ہیں تو کہتے ہں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم انہیں خفیف بنانے والے ہیں.ھُذوا کے معنے ہیں کسی کو خفیف بنانا اور یہ ٹھٹھے کالازمہ ہے.اﷲ انہیں ذلیل کرے گا اور ان کو ڈھیل دیتا ہے اور الہٰی حدبندیوں سے گزر کر اندھے ہو رہے ہیں لمبا جواب دینے کی ضرورت نہیں.چونکہ اِس مُلک کے لوگ عربی سے نابلد ہیں اِس لئے انہیں یہ سمجھانا کہ مشاکلت کے لئے ہے فضول ہے سیدھا جواب یہی ہے جو ہم نے معنوں میں ظاہر کیا.یہی لوگ ہیں کہ جنہوں نے ضلالت کو ہدایت کے بدلے خرید لیا.تو ان کی تجارت نے نفع نہ دیا اور وہ ہدایت یاب نہ ہوئے.پراعتراض ہے کہ جب ان کے پاس ہدایت نہیں تو یہ خرید و فروخت کیسی؟ اِس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ ان کو ہدایت لینی چاہیئے تھی پر انہوں نے نہ لی.دومؔ یہ کہ انسان کی فطرت میں ہدایت کا مادہ ہے مگر انہوں نے اس کے بدلے گمراہی کو لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) اﷲ تعالیٰ نے اِس (سورۃ فاتحہ.ناقل) میں تین فرقوں کا ذکر کیا ہے کاایک ۲.ایکمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ۳.ایک.میرا اعتقاد ہے کہ تمام قرآن سورۃ الحمد کی تفسیر ہے اور اس میں ایک خاص ترتیب سے انہی تین گروہوں کا ذکر ہیچنانچہ سورۃبقر کو

Page 98

ہی لو کہ میں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کا ذکر ہے میںمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمکا اور میں ضالّین کا.یہ ابتداء کا حال ہے اب یہاں قرآن ختم ہوتا ہے وہاں سورۃ نصر میں مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ کا بیان ہے اور میں مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کا اور ..میںضالون کی تردید ہے اِس واسطے ہم کو چاہیئے کہ بہت فکر کریں اور اپنا آپ محاسبہ کریں اپنے اعمال کو دیکھیں کہ ہم کِس فریق کے کام کر رہے ہیں آیامُنْعَمْ عَلَیْھِمکے یا مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کے یاضَالِّیْن کے… تم اِن تین گروہوں کے اَوصاف پر غور کرو مُنْعَمْ عَلَیْھِمگروہ کے لئے سب سے پہلی صِفت بیان کرتا ہوں کہِ ایمان بالغیب ایسا ضروری ہے کہ دُنیا کا کوئی کام اِس کے بغیر نہیں ہوتا.پہاڑے، مساحت، اقلیدس، طبعیات سب کے لئے فرضی بنیاد پر کام ہوتا ہے یہاں تک کہ پولیس بھی ایک بدمعاش کے کہنے پر بعض مکانوں کی تلاش شروع کر دیتی ہے تو کیا وجہ کہ انبیاء کے کہنے پر کوئی کام نہ کیا جائے جس کا تجربہ بارہا کئی جماعتیں کر چکی ہیں.پھر فرمایادعاؤں میں،نمازوں میں قائم رہتے ہیں، وہ مالوں کو خرچ کرتے ہیں  اور اور اٰخرۃ پر ان کا ایمان ہوتا ہے.پھر دوسرے گروہ کی صفات بیان کیں کہ ان کے لئے تذکیر و عدم تذکیر مساوات کا رنگ رکھتی ہے.وہ سُنتے ہوئے نہیں سُنتے.ان میں عاقبت اندیشی نہیں ہوتی صُمٌّ بُکْمٌ ہوتے ہیں پھر انہی کی نسبت اخیر قرآن میں فرمایا کہ ایسے لوگوں کو مَاکَسَبَ یعنی جتھا اور مال دونوں پر بڑا گھمنڈ ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ دونوں کو غارت کر دیتا ہے.پھر تیسرے گروہ ضَالُّوْن کا ذکر فرمایا کہ ان کو صفاتِ الہٰی کا صحیح علم نہیں ہوتا اور ان میں نہ تو قوّتِ فیصلہ ہوتی ہے نہ تابِ مقابلہ.قرآن شریف کے ابتداء کو آخر سے ایک نسبت ہے.پہلے مُفْلِحُوْنَ فرمایا ہے تو میں اس کی تفسیر کر دی اور مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کی تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ میں اور ضَآلِّیْن کا رَدّ قُلْ ھُوَ اﷲُ اَحَدٌ میں کر دیا ہے.غرض عجیب ترتیب سے اِن تینوں گروہوں کا ذکر کیا ہے.اِن سب کی صفات کا ذکر کر کے ، میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم سوچو مُنْعَمْ عَلَیْھِمْ میں سے ہو یامَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ میں… یا ان لوگوں میں جن کو ضَآلِّیْن کہا گیا ہے.(بدر

Page 99

لَقُوْا، لَقِیَ کی جمع ہے لِقَاء سے، جس کے معنے قریب کے ہیں.پس لَقِیَ کے معنے ہوئے قَرْبَ نزدیک اور لَقُوْاکے معنے ہوئے وہ نزدیک ہوئے.جیسا کہ قرآن مجید کے ایک اَور مقام پر آیا ہے کہ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ( اٰل عمران: ۱۶۷) ( جس دِن قریب قریب ہوئیں دو جماعتیں) اور اِس کے معنے ملنے کے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی قریب ہی ہے.خَلَوْا، خَلٰی کی جمع ہے جس کے معنے ہیں مَضٰی گیا جیسا کہا کرتے ہیں اَلْقُرُوْنَ الْخَالِیَہ گذشتہ صدیاں.اور جب خَلَا کے بعد باء ؔ آتا ہے تو اس کے معنے اکیلا ہونے کے ہوتے ہیں جیسا کہ خَلَوْتُ بِہٖ ( مَیں اس کے ساتھ اکیلا ہؤا).شَیْطٰن کے لفظ میں اختلاف ہے کہ یہ شَطَنَ سے ، یاشَیْط سے، پس اگر اوّل سے ہے تو اس کے معنے ہوئے بہت دُور ہونے والا کیونکہ شَطَنَ بمعنے بَعُدَ (دُور ہؤا) کے آیا ہے اور اگر دوم سے ہے تب اِس کے معنے ہوئے ، بہت ہلاک ہونے والا اور بہت بطلان والا.کیونکہ شَیْط ہلاکت اور بطلان کو کہتے ہیں اور ہر ایک سرکش چیز کو شیطان کہتے ہیں اور یہاں پر جو شَیٰطِیْنِھِمْ آیا ہے اس سے مراد ان کے سردار اور بڑے ہیں.حضرت ابنِ عباس اور ابنِ مسعود اور بہت سے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے فرمایا ہے کہ اِس سے مُراد وہ لوگ ہیں جو کہ کُفر میں ان کے سردار تھے.جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ وہ کہیں گے کہ   (الاحزاب : ۶۸) (بے شک ہم نے اپنے سرداروں اور بزرگوں کی اطاعت کی تو انہوں نے ہم کو اس راستہ سے بہکا دیا) اور اس خبر کے لئے آتا ہے جس سے مخاطب جاہل نہ ہو اور نہ اس کی صِحت سے انکار کرتا ہو.دلائل الاعجاز میں عبدالقاھر جرجانی رحمتہ اﷲ علیہ نے کہا ہے اِسْتَھْذَئَ حقیر کرنے اور جاننے اور اہانت کو کہتے ہیں اور یہ لفظ ھَذَئَ سے بنایا ہؤا ہے اورھَذَئَ کہتے ہیں ہلکاپَن اور ہلنے ہلانے کو.نَاقَۃٌ تَھْزَأ (اُونٹنی تیز اور ہلکی چلتی ہے) (رسالہ ’’ تعلیم الاسلام ‘‘ قادیان ماہ فروری ۱۹۰۷ء)  (سورۃ البقرۃ) یہ آتییں سورۃ بقرہ کے دوسرے رکوع کی ہیں.الحمد شریف میں خدا تعالیٰ نے تین راہیں بتائی ہیں ایککی راہ.دوسرے مَغْضُوْب.تیسرے اَلضَّآلِّیْن کی راہ. کے معنے خود قرآن شریف نے بتائے ہیں کہ وہ انبیاء، اصدقاء، شہداء اور صالحین کی جماعت ہے.

Page 100

انبیاء وہ رفیع الدّرجات اِنسان ہوتے ہیں جو خدا سے خبریں پاتے ہیں اور مخلوق کو پہنچاتے ہیں.پھر وہ راستباز ہیں جو انبیاء کی تصدیق کرتے ہیں اور پھر وہ لوگ ہیں جن کے لئے وہ باتیں گویا مشاہدہ میں آئی ہوئی ہیں اور پھر عام صالحین.اِس گر وہ کی تفسیر خدا تعالیٰ نے آپ ہی سُورۃ بقرۃ کے شروع میں بیان کر دی ہے کہ ہدایت کی راہ کیا ہے؟ وہ یہ کہ اﷲ پر ایمان لائے، جزا و سزا پر ایمان لاوے اور پھر اﷲ ہی کی نیازمندی کے لئے تعظِیم لاِمراﷲ کے واسطے نمازوں کو درست رکھنا اور شفقت علیٰ خلقِ اﷲ کے واسطے جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خرچ کریں.پھر اِس بات پر ایمان لاویں کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ سے تسلّی اور تعلیم پا کر دُنیا کی اصلاح کے لئے معلّم اور مزکّی آئے ہیں.یاد رکھو صرف علِم تسلّی بخش نہیں ہو سکتا جب تک معلّم نہ ہو.بائبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بَغل میں کتاب لئے پھرتے ہیں.پھر اگر ایمان صِرف کتابوں سے مِل جاتا تو کیا کمی تھی مگر نہیں ایسا نہیں.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو (الجمعۃ: ۳) کے مصداق ہوتے ہیں.ان مزکّی اور مطہّر لوگوں کی توجّہ ، انفاس اور رُوح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے جو ان کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے.یاد رکھو اِنسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اُس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر مزکّی کرنے والا اور پھر علِم اور عمل کی قوّت دینے والا نہ ہو.تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علِم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پیدا ہوتا ہے اور علِم معلّم سے ملتا ہے.بہر حال مومنوں کا ذکر ہے کہ ان کو ایمان بالغیب کی ضرورت ہے جس میں، حَشر و نشر، صراط جنّت و نار سب داخل ہیں.یہ اس کا عقیدہ اوّل درست ہو جائے تو پھر نماز سے امر الہٰی کی تعظیم پَیدا ہوتی ہے اور خدا کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کرنے سے شفقت علیٰ خلقِ اﷲ.پھر برہموؤں کی طرح نہ ہو جاوے جو الہام کی ضرورت محسوس نہیں کرتے بلکہ وہ اِس بات پر ایمان لائے کہ خدا تعالیٰ نے نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم پر اپنا کلام اُتارا اور آپ سے پہلے بھی اور آپ کے بعد بھی مکالماتِ الہٰیّہ کا سِلسلہ بند نہیں ہؤا.یہ تو منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے.اِس کے بعد وہ لوگ مغضوب ہیں جو خدا تعالیٰ کے ماموروں کے وجود اور عدم وجود کو برابر سمجھ لیتے ہیں اور اُن کے انذار اور عدم انذار کو مساوی جان لیتے ہیں اور پروا نہیں کرتے اور

Page 101

اپنے ہی علِم و دانش پرخوش ہو جاتے ہیں وہ خدا کے غضب کے نیچے آ جاتے ہیں.یہی حال یہود کا ہؤا.پھر تیسرا گروہ گمراہوں کا ہے جن کا ذکر اِن آیات میں ہے جو مَیں نے پڑھی ہیں.ان کے کاموں میں دجل اور فریب ہوتا ہے.وہ اپنے آپ کو کلامِ الہٰی کا خادم کہتے ہیں مگر بڑی بڑی تجارتیں کرتے ہیں مگر ہدایت کے بدلے تباہی خریدتے ہیں اور کوئی عمدہ فائدہ ان کی تجارت سے نہ ہؤا.میرے دِل میں بارہا یہ خیال آیا ہے کہ ایک تِنکے پر بھی شئے کا اطلاق ہوتا ہے اور وہی شئے کا لفظ وسیع ہو کر خدا پر بھی بولا جاتا ہے.یاد رکھو نفاق دو قِسم کا ہوتا ہے ایک وہ کہ دِل میں کوئی صداقت نہیں ہوتی.وہ اعتقادی منافق ہوتا ہے.اس کا اعلیٰ سے اعلیٰ نمونہ عیسائیوں کا مذہب ہے.انجیل کی حالت کو دیکھو کہ اس کی اشاعت پر کِس قدر سعیٔ بلیغ کی جاتی ہے مگر یہ پُوچھوکہ اِس کتاب کے جملہ جملہ پر اعتقاد ہے؟ تو حقیقت معلوم ہو جائے گی.اِسی طرح پر مَیں دیکھتا ہوں کہ خدا کا خوف اُٹھ گیا ہے.وہ دعوٰی اور معاہدہ کہ دین کو دُنیا پر مقدّم رکھوں گا قابلِ غور ہو گیا ہے.اب اپنے حرکات و سکنات ، رفتار و گفتار پر نظر کرو کہ اِس عہد کی رعایت کہاں تک کی جاتی ہے.پس ہر وقت اپنا محاسبہ کرتے رہو ایسا نہ ہو کہ کے نیچے آ جاؤ.منافق کی خدا نے ایک عجیب مثال بیان کی ہے کہ ایک شخص نے آگ جلائی مگر وہ روشنی جو آگ سے حاصل کرنی چاہیئے تھی وہ جاتی رہی اور ظلمت رہ گئی.رات کو جنگل کے رہنے والے درندوں سے بچنے کے واسطے آگ جلایا کرتے ہیں لیکن جب وہ آگ بُجھ گئی تو پھر کئی قِسم کے خطرات کا اندیشہ ہے.اِسی طرح پر منافق اپنے نفاق میں ترقّی کرتے کرتے یہاںتک پہنچ جاتا ہے اور اس کا دل ایسا ہو جاتا ہے کہ وہ حق کا گویا شنوا اور حق کا بِینا نہیں رہتا.ایک شخص اگر راہ میں جاتا ہو اور سامنے ہلاکت کا کوئی سامان ہو وہ دیکھ کر بچ سکتا یا کِسی کے کہنے سے بچ سکتا یا خود کسی کو مدد کے لئے بُلا کر بچ سکتا ہے مگر جس کی زبان، آنکھ، کان کچھ نہ ہو اس کا بچنا محال ہے.یا جوج ما جوج بھی آگ سے بڑے بڑے کام لے رہے ہیں مگر انجام دہی نظر آتا ہے.مومن کا کام ہے کہ جب دعوٰی کر لے تو کر کے دکھاوے کہ عملی قوّت کِس قدر رکھتا ہے.عمل کے بُدوں دُنیا کا فاتح ہونا محال ہے.یاد رکھو ہر ایک عظیم الشّان بات آسمان سے ہی آتی ہے.یہ امر خدا کی سُنّت اور خدا کے

Page 102

قانون میں داخل ہے کہ امساکِ باراں کے بعد مینہ برستا ہے.سخت تاریکی کے بعد روشنی آتی ہے فیج اَعوج اور سخت کمزوریوں کے بعد ایک روشنی ضروری ہے وہ شیطانی منصوبوں سے نہیں مل سکتی بُہتوں کے لئے اس میں ظلمت اور دُکھ ہو اور ایک نمک کا تاجر جو اس میں جا رہا ہے اسے پسند نہ کرے.بہت سے لوگ روشنی سے فائدہ اُٹھا لیتے ہیں اور اکثر ہوتے ہیں جو اپنے کانوں میں اُنگلیاں دے لیتے ہیں مگر اَحمقوں کو اِتنی خبر نہیں ہوتی کہ خدائی طاقت اپنا کام کر چکی ہوتی ہے.غرص یہ ہے کہ علِم حاصل کرو اور پھر عمل کرو.علم کے لئے معلّم کی ضرورت ہے.یہ دعوٰی کرنا کہ ہمارے پاس علم القرآن ہے صحیح نہیں ہے.ایک نوجوان نے ایسا دعوٰی کیا.ایک آیت کے معنے اُس سے پُوچھے تو اَب تک نہیں بتا سکا.ہمارے ہادیٔ کامل بنی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کو تو یہ تعلیم ہوتی ہے(طٰہٰ:۱۱۵) تم بھی دعا کرو.یاد رکھو کہ اگر میں سے ہو تو اَور ترقّی کرو اور کِسی وجود کی جو خدا کی طرف سے آیا ہے وجود اور عدم وجود کو برابر نہ سمجھو.ظاہر و باطن مختلف نہ ہو.دُنیا کو دین پر مقدّم نہ کرو.بعض اَوقات دُنیاداروں کو دَولت ، عزّت اَندھا کر دیتی ہے.خدا کی برسات لگ گئی ہے وہ اَب سچّے پَودوں کو نشوونما دے گی.اور ضرور دے گی خدا کی اِن ساری باتوں پر ایمان لا کر سچّے معاہدہ کو یاد رکھو ایسا نہ ہو کہ (البقرۃ:۱۵)ہی کے مصداق رہ جاؤ.اِس کا اصل علاج استغفار ہے اور استغفار انسان کو ٹھوکروں سے بچانے والا ہے.(الحکم ۲۴؍نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ ۷،۸) جس قدر انسانی فطرت اور اس کی کمزوریوں پر نظر کرو گے تو ایک بات فطرتی طور پر انسان کا اصل منشاء اور مقصد معلوم ہو گی وہ ہے حصولِ سُکھ.اس کے لئے وہ ہر قِسم کی کوششیں کرتا اور ٹکریں مارتا ہے لیکن مَیں تمہیں اس فطرتی خواہش کے پُورا کرنے کا ایک آسان اور مجرّب نسخہ بتاتا ہوں کوئی ہو جو چاہے اِس کو آزما کر دیکھ لے.مَیں دعوٰی سے کہتا ہوں کہ اِس میں ہرگز ہرگز کوئی خطا اور کمزوری نہ ہو گی اور مَیں یہ بھی دعوٰی سے کہتا ہوں کہ جس قدر کوششیں تم ناجائز طور پرسُکھ کے حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اس سے آدھی ہی اِس کے لئے کرو تو کامل طور پر سُکھ مِل سکتا ہے وہ نسخۂ راحت یہ کتابِ مجید ہے اور مَیں اِسی لئے اِس کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور اِس وجہ سے کہ کامل مومن اس وقت تک انسان نہیں ہوتا جب تک اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے.مَیں اِس کتاب کا سُنانا بہت پسند کرتا ہوں.اِس کتابِ مجید کی یہ پہلی سورۃشریف

Page 103

ہے اور اس میں الحمد شریف کی گویا تفسیر ہے بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ الحمد شریف کی تفسیر میں سے پہلے سُورۃ ہے.الحمد شریف کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے اسماء ظاہری اﷲ، ربّ العٰلمین،الرحمٰن،،مٰلک یَوم الدّین سے شروع فرمایا تھا اور اِس سورۃشریفہ کو اسماء باطنی سے شروع فرمایا یعنیجس کے معنی ہیں اَنَا اﷲُ اَعْلَمُ.پھر الحمد شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ایک کامل دعا تعلیم فرمائی تھی .یعنی ہم کواَقرب راہ کی جو تیرے حضور پہنچنے کی ہے راہنمائی فرما.وہ راہ جو اُن لوگوں کی راہ ہے جن پر تیرا انعام ہؤا یعنی نبیوں ،صدّیقوں اور شہیدوں اور صالحوں کی راہ.سورۃ فاتحہ میں یہ دعا تعلیم ہوتی ہے لیکن اِس سورۃبقرۃمیں اِس دعا کی قبولیّت کو دکھایا ہے اور اسی کا ذکر فرمایا جبکہ ارشادِ الہٰییوںہؤا   یہ وہ ہدایت نامہ ہے یعنی متّقی اور بامراد گروہ کا ہدایت نامہ.ہاں  گروہ کی راہ یہی ہے.پھر منعم علیہ گروہ کے اعمال و افعال کا ذکر کیا اور ان کے ثمرات میں  فرمایا.ان کے افعال و اعمال میں بتایا کہ وہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور اﷲ کے دئیے ہوئے میں سے خرچ کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کی وحی اور کلام اور سلسلہ رسالت پر ایمان لاتے ہیں، جزا و سزا پر ایمان لاتے ہیں.یہ منعم علیہ گروہ کی راہ ہے.اب ہر ایک شخص کا جو قُرآن شریف پڑھتا ہے یا سُنتا ہے یہ فرض ہے کہ وہ اس رکوع کے آگے نہ چلے جب تک اپنے دِل میں یہ فیصلہ نہ کرلے کہ مجھ میں یہ صفات یہ کمالات ہیں یا نہیں؟اگر ہیں تو وہ مبارک ہے اور اگر نہیں تو اسے فِکر کرنی چاہیئے اور اﷲ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنی چاہئیں کہ وہ ایمانِ صحیح عطا فرماوے. دراصل عقائدِ صحیحہ کو مشتمل ہے اور  مسئلہ رسالت اور الہام و وحی کے متعلق ہے اور  جزا و سزا کے متعلق ہے.پھر ان اعمال و افعال کے ثمرات میں  بتایا ہے.اگر انسان حقیقی کامیابی حاصل کرتا ہے اور بامراد ہو رہا ہے تو اسے خوش ہونا چاہیئے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم سے منعَم علیہ گروہ کے زُمرہ میں شامل ہے لیکن اگر نہیں تو پھر فکر کا مقام اور خوف کی جاہے.پس قرآن کریم کی تلاوت کی اصل غرض یہی ہے کہ انسان اس پر عمل کرے.منعَم علیہ گروہ کے

Page 104

ذِکر کے بعد پھربتایا کہ مغضوب علیھم کون لوگ ہیں ان کے کیا نشانات ہیں اور ان کا انجام کیا ہوتا ہے.ان کے عام نشانات میں سے بتایا کہ یہ وہ گروہ ہے جو تیرے اِنذار اور عدمِ اِنذار کو برابر سمجھتا ہے اور چونکہ وہ وجود و عدمِ وجود کو برابر سمجھتے ہیں اِس لئے باوجود دیکھنے کے وہ نہیں دیکھتے اور باوجود سُننے کے نہیں سُن سکتے.دِل رکھتے ہیں پر نہیں سمجھ سکتے ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتا ہے عَذَابٌ اَلِیْمٌ.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ جو شخص آنکھ رکھتا ہے وہ کیوں انہیں دیکھتا، کان رکھتا ہے کیوں نہیں سُنتاانہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ نتیجہ ہے ایسے لوگوں کے ایک فعل کا.وہ فعل کیا ہے؟ انذار اور عدم انذار کو مساوی سمجھنا.اِس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص انگریزی زبان کے پڑھنے یا نہ پڑھنے کو برابر سمجھے تو وہ اس کو کب سیکھ سکتا ہے اس صورت میں وہ اس زبان کی اگر کسی کتاب کو دیکھے تو بتاؤ اس دیکھنے سے اسے کیا فائدہ؟ اگر کسی دوسرے کو پڑھتے ہوئے سُنے تو اس سُننے سے کیا حاصل.دیکھو وہ دیکھتا ہے اور پھر نہیں دیکھتا.سُنتا ہے اور پھر نہیں سُنتا.اِسی طرح پر جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے مامور و مُرسل کے انذار اور عدم انذار کو برابر سمجھتے ہیں تو وہ اس سے فائدہ کیونکر اُٹھا سکتے ہیں؟ کبھی نہیں.جب ایک چیز کی انسان ضرورت سمجھتا ہے تو اس کے لئے سعی اور مجاہدہ کرتا ہے اور پھر اس مجاہدہ پر ثمرات مترتّب ہوتے ہیں لیکن اگر وہ ضرورت ہی نہیں سمجھتا تو اس کے قوی مجاہدہ کے لئے تحریک ہی پیدا نہیں ہو گی.یہ بہت ہی خطرناک مرض ہے جو انسان رسولوں اور اﷲ تعالیٰ کے ماموروں اور اُس کی کتابوں کے وجود اور عدمِ وجود کو برابر سمجھ لے.اِس مرض کا انجام اچھا نہیں بلکہ یہ آخر کار تکذیب اور کُفر تک پہنچا کر عذابِ الیم کا موجب بنا دیتا ہے.پس تلاوت کرنے والے کو پھر اس مقام پر سوچنا چاہیئے کہ کیا خدا کے رسول و مامور کے اِنذار اور عدمِ انذار کے مساوات کی یہی صورت نہیں ہوتی جو آدمی زبان سے کہہ دے بلکہ اگر رسول کے فرمودہ کے موافق عمل نہ کرے تو یہی ایک قِسم کی اِنذار اور عدمِ اِنذار کی مساوات ہے.(الحکم ۳۰؍اپریل؍۱۰مئی ۱۹۰۴ء) پھر الضّال کی تفسیر بیان فرمائی کہ یہ لوگ کون ہوتے ہیں؟ سورۃ فاتحہ میں جو دعا تعلیم کی تھی اس میں ضالّین کی راہ سے بچنے کی دعا تھی اور یہاں اُن لوگوں کے حالات بتائے کہ وہ کون ہوتے ہیں.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اَور ہوتا ہے.اِسی لئے فرمایایعنی یہی وہ لوگ

Page 105

(البقرۃ:۲۵۱) یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورۃ فاتحہ کا جو اِس سورہ بقرہ میں موجود ہے.اِس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہیئے مگر مَیں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سُناؤں گا چنانچہ ابتداء میں مَولیٰ کریم فرماتا ہے الٓمٓ. مَیں اﷲ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی آرام اور سچے عقاید اور جسمانی راحتیں حاصل کر سکتا ہے.مَیں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اﷲ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متّقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے(المنٰفقون:۹) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزّز ہوتے ہیں.ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عمل در آمد کرتے ہیں.یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے تاریخ اور واقعات صحیحہ اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستورالعمل بنایا وہ دُنیا میں معزّز و مقَتدر بنائی گئی.کون ہے جو اِس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ ِدُنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دُنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کُل دُنیا کی فاتح کہلائی.علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے.پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے.مَیں دیکھتا ہوں کہ آجکل مسلمانوں کے تنزّل و ادبار کے اسباب پربڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اِس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دُور ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عمل درآمد کرنے والے معزّز ہو سکتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آجاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کی قابلیّت عطا کرتی ہے جیسا کہ(البقرۃ:۶) سے پایا جاتا ہے.غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت نامہ دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے

Page 106

(البقرۃ:۲۵۱) یہ نہایت مختصر سا خلاصہ ہے سورۃ فاتحہ کا جو اِس سورہ بقرہ میں موجود ہے.اِس کی تفصیل اور تفسیر کے لئے تو بہت وقت چاہیئے مگر مَیں نہایت مختصر طریق پر صرف پہلے ہی رکوع پر کچھ سُناؤں گا چنانچہ ابتداء میں مَولیٰ کریم فرماتا ہے الٓمٓ. مَیں اﷲ بہت جاننے والا ہوں اس کی جانب سے یہ ہدایت نامہ ملتا ہے جس پر چل کر انسان روحانی آرام اور سچے عقاید اور جسمانی راحتیں حاصل کر سکتا ہے.مَیں نے پہلے کہا ہے کہ قرآن شریف کا نام اﷲ تعالیٰ نے شفا رکھا ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام متّقی رکھا ہے اور پھر فرمایا ہے(المنٰفقون:۹) یعنی جو لوگ ماننے والے ہوتے ہیں وہ معزّز ہوتے ہیں.ماننے والے سے مراد یہ ہے جو اس پر عمل در آمد کرتے ہیں.یہ خیالی اور فرضی بات نہیں ہے تاریخ اور واقعات صحیحہ اِس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ جس قوم نے قرآن کو اپنا دستورالعمل بنایا وہ دُنیا میں معزّز و مقَتدر بنائی گئی.کون ہے جو اِس بات سے ناواقف ہے کہ عربوں کی قوم تاریخ ِدُنیا میں اپنا کوئی مقام و مرتبہ رکھتی تھی وہ بالکل دُنیا سے الگ تھلگ قوم تھی لیکن جب وہ قرآن کی حکومت کے نیچے آئی وہ کُل دُنیا کی فاتح کہلائی.علوم کے دروازے ان پر کھولے گئے.پھر ایسی زبردست شہادت کے ہوتے ہوئے اس صداقت سے انکار کرنا سراسر غلطی ہے.مَیں دیکھتا ہوں کہ آجکل مسلمانوں کے تنزّل و ادبار کے اسباب پربڑی بحثیں ہوتی ہیں اور وہ لوگ جو قوم کے ریفارمر یا لیڈر کہلاتے ہیں اِس مضمون پر بڑی طبع آزمائیاں کرتے ہیں، لیکچر دیتے ہیں، آرٹیکل لکھتے ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ وہ اس نکتہ سے دُور ہیں ان کے نزدیک مسلمانوں کے ادبار کا باعث یورپ کے علوم کا حاصل نہ کرنا ہے اور ترقی کا ذریعہ انہیں علوم کا حاصل کرنا ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ قرآن پر ایمان لانے والے اور عمل درآمد کرنے والے معزّز ہو سکتے ہیں بلکہ میرا تو یہ ایمان ہے کہ جب انسان کامل طور پر قرآن کی حکومت کے نیچے آجاتا ہے تو وہ حکومت اس کو خود حکمران بنا دیتی ہے اور دوسروں پر حکومت کرنے کی قابلیّت عطا کرتی ہے جیسا کہ(البقرۃ:۶) سے پایا جاتا ہے.غرض اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اﷲ جو بہت جاننے والا ہوں یہ ہدایت نامہ دیتا ہوں جس میں کوئی ہلاکت کی راہ نہیں اور نکتہ گیری کا کوئی موقع نہیں ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ قرآن سے فائدہ اُٹھانے والا انسان تقوٰی شعار ہو، متّقی ہو.ابتداء میں اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف کو اُن لوگوں کے لئے ہدایت نامہ قرار دیا ہے جو متّقی

Page 107

ہیں اور دوسرے مقام پر علومِ قرآنی کی تحصیل کی راہ بھی تقوٰی ہی قرار دیا ہے جیسے فرمایا (البقرۃ:۲۸۳) یعنی تقوٰی اختیار کرو اﷲ تعالیٰ تمہارا معلّم ہو جائے گا.تقوٰی کے پاک نتائج بڑے عظیم الشّان ہوتے ہیں ان میں سے ایک تو وہ ہے جو مَیں نے ابھی بیان کیا کہ اﷲ تعالیٰ اس کا معلّم ہو جاتا ہے اور قرآنی علوم اس پر کُھلنے لگتے ہیں پھر تقوٰی ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کی معیّت حاصل ہوتی ہے جیسے فرمایا  (النّحل:۱۲۹) بے شک اﷲ اُن لوگوں کے ساتھ ضرور ہوتا ہے جو متّقی ہوتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو مُحسنین ہوتے ہیں.احسان کی تعریف رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فرمائی ہے کہ وہ خدا کو دیکھتا ہو اگر یہ نہ ہو تو کم از کم یہ کہ وہ اِس پر ایمان رکھتا ہو کہ اﷲ اُس کو دیکھتا ہے.پھر یہ بھی تقوٰی ہی کے نتائج اور ثمرات میں سے ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر تنگی سے متّقی کو نجات دیتا ہے اور اس کوُ ( الطّلاق:۴) رزق دیتا ہے متّقی اﷲ کا محبُوب ہوتا ہے یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ.غرض تقوٰی پر ساری بناء ہے.پھر فرمایا کہ متقی کون ہوتے ہیں؟ اِس کی پہلی نشانی یہ ہےوہ الغیب پر ایمان لاتے ہیں خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں.ایک شخص کا مسجد میں اپنے ہم عصروں اور ملنے والوں کے سامنے ایماندار ہونا سہل ہے لیکن خلوت میں جہاں اسے کوئی نہیں دیکھتا بُجز اﷲ تعالیٰ کے اس کا مومن رہنا ایک امراہم ہے لیکن متّقی خلوت اور جلوت میں برابر مومن رہتے ہیں.اِسی بناپر کسی نے کہا ہے مشکلے دارم نہ دانشمند مجلس بازپُرس توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر میکنند واعظاں کِیں جلوہ بَر محراب و منبر میکنند چُو بخلوت می روَندآں کارِ دیگر میکنند پھر ایمان بالغیب میں بہت سی باتیں ہیں جن کو ماننا چاہیئے.اصل میں ثواب کے حاصل کرنے کے لئے ایمان بالغیب ضروری شئے ہے.اگر کوئی شخص مثلاً آفتاب و ماہتاب پر ایمان لاوے تو تم ہی بتاؤ کہ یہ ایمان اس کو کِس ثواب کا مستحق اور وارث بنائے گا؟ کسی کا بھی نہیں.لیکن جن چیزوں کو اُس نے دیکھا نہیں ہے صرف قرائِن قویّہ کی بناپر ان کو مان لینا کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی کتاب میںآئی ہیں ایمان بالغیب ہے جو سُود مند اور مفید ہے.پھر فرمایا کہ جب انسان ایمان لاتا ہے تواس کا اثر اس کے جوارح پر بھی پڑنا چاہیئے اور اﷲ تعالیٰ پر ایمان کے لئے تعظِیم لِامر اﷲ کا لحاظ ہو اِس لئے فرمایایہ متّقی وہ لوگ ہوتے ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں کیونکہ نماز اﷲ کے حضور حاضر ہونے کا موقع ہے مومن

Page 108

کو چاہیئے کہ نماز کو اسی طرح پر یقین کرے.اِبتداء نماز سے جب اﷲ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور کانوں پر ہاتھ رکھتا ہے تو گویا دُنیا اور اس کی مشینحتوں سے الگ ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ہی سروکار رکھتا ہے پھر اپنے مطالب و مقاصد بیان کرے.نماز میں قیام ، رکوع سجدہ اور سجدہ سے اُٹھ کر پھر دوسرے سجدہ میں اپنے مطالب بیان کر سکتا ہے پھر التّحیات میں صلوٰۃ اور درُود کے بعد دعا مانگ سکتا ہے.گویا یہ سات موقعے دعا کے نماز میں رکھے ہیں.(الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۴ء)  اِستہزاء کا بدلہ دے گا یا حقیر کرے گا ان کو اور کے معنے یہاں پر زیادہ کرنے کے ہیں نہ عمر میں لمبائی کرنے کے ، کیونکہ اس کے بعد لام آیا کرتا ہے جو کہ یہاں پر نہیں ہے.پس یَمُدُّھُمْ کے معنے ہوئے ’’ زیادہ کرتا ہے ان کو ‘‘ جیسا کہ مَدَّ الْجَیْشَ اوراَ مَدَّ الْجَیْشَ کے معنے ہیں لشکرکو زیادہ کیا اور قوی کیا.طُغْیَان کے معنے سرکشی کے ہیں اور حضرت ابنِ عباس اور بہت سے صحابہ رضی اﷲ عنہم سے مروی ہے کہ طُغْیْان سے مُراد کفر ہے اور معنے یہ ہوئے ’’ اور ان کو زیادہ کرتا یا مُہلت دیتا ہے کُفر میں.‘‘ یَعْمَھُوْنَ عَمَہٌ سے ہے اور عَمَہٌ کہتے ہیں تردّد کو.یَعْمَھُوْنَ حیران اور متردّد ہیں.(رسالہ ’’ تعلیم الاسلام‘‘ قادیان ماہِ فروری ۱۹۰۷ء) ذَکَرَ حُجَّۃُ الْاِسْلَامِ اَلْغَزَالِیُّ اَنَّ الْاِسْتِھْزَائَ.اَ لْاِسْتِحْقَارُ وَ الْاِسْتِھَانَۃُ وَالتَّنْبِیْہُ عَلَی الْعُیُوْبِ وَالنَّقَائِصِ عَلٰی وَجْہٍ یُضْحَکُ مِنْہُ (رُوح المعانی ) تحقیر کو استہزاء کہتے ہیں.۲.الھزأۃ اصلہ الخِفَّۃُ وَھُوَالْقَتْلُ السَّرِیْعُ.ھَزَأَ یَھْزَأَ: مَأُت فَجْائَ ۃً وَتَھْزَأُبِہٖ نَاقُۃٌ: اَیْ تَسْرَعُ بِہٖ وَتَخَفُّ.فتح ، ہلکا، سمجھنے، جلدی قتل کرنے، اچانک مرنے کو ھزوکہتے ہیں.پس (البقرۃ:۱۶) کے معنے ہوئے اﷲ تحقیر کرے گا، اہانت کریگا اور ان کے عیوب و نقائص سے خلقت کو ایسی آگہی دے گا کہ ان کی ہنسی ہو اور اﷲ تعالیٰ ان کو خفیف کرے گا.جلدی ہلاک کر دے گا.یہ بیان ہے منافقوں کے حالات کا جن کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ ہوتا ہے.دِل میں کپٹ ہوتی ہے اور ظاہر میں ہاں میں ہاں ملاتے ہیں.مومنو ںکی تحقیر و اہانت اور تخفیف کرتے ہیں.آخر اﷲ تعالیٰ ان کی تحقیر، اہانت اور تخفیف کرتا ہے اور کرتا رہے گا اور ہلاک کر دے گا اور ان کے عیوب و نقائص کی اطلاع دیتا ہے اور دیتا رہے گا اِس لئے کہ دُنیا میں ان کی ہنسی ہو

Page 109

یہ بڑی بھاری پیشگوئی ہے اور وہ روزِ روشن کی طرح پوری ہوئی کہ تمام وہ لوگ جو اسلام پر ہنسی اُڑاتے اور اس کی تحقیر کرتے تھے خدا تعالیٰ نے انہیں ضعیف وحقیر کر دیا.صداقتوں اور واقعاتِ حَقّہ پر اعتراص کرنا سخت ناپاکی اور جہالت نہیں تو اَور کیا ہے.(نورالدین صفحہ ۳۱،۳۲) اَلسُّفَھَائُ.سفاہت نام ہے اِضطراب کا.پتلے کپڑے کو بھی سفیہ کہتے ہیں..ضالین بڑے تاجر ہوں گے مگر دینی ہدایت نہ لیں گے نہ دینی نفع اُٹھائیں گے.(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶) اِس زمانہ کا حال دیکھ کر تعجّب آتا ہے کیونکہ اس میں منافق طبع بہت ہیں.زبان سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں کیونکہ ان کے عقائد سے ان کے اعمال کی مطابقت نہیں.عیسائیوں نے سوال کیا ہے کہ نجات کِس طرح ہوتی ہے اور مَیں نے جواب دیا ہے کہ نجات فضل سے ہے اور اس خدا کے فضل کو ایمان کھینچتا ہے.اِس واسطے یہ بھی صحیح ہے کہ نجات ایمان سے ہے.پھر کہتے ہیں عمل کوئی چیز نہیں حالانکہ کون دُنیا میں ایسا ہے کہ آگ کو آگ مان کر پھر اس میں ہاتھ ڈالے.پانی کو پیاس بجھانے والا جان کر پھر پیاسلگنے پ اس سے پیاس نہ بجھائے.ہم کو یہی دیکھتے ہیں کہ جب ایمان ہے پانی پیاس بجھاتا ہے تو پیاس لگنے کے وقت اس پانی سے پیاس ضرور بجھائی جاتی ہے.پس کیا وجہ ہے کہ یہ ایمان ہو قُرآنِ مجید خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اعمال کی جزا اور سزا ضروری ہے اور پھر اس پر عمل در آمد نہ ہو.بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اُوپر خدا کے بہت سے فضلوں کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے مقابل دوسروں کا ایمان حقیر سمجھتے ہیں مگر عمل میں کچّے ہیں.مونہہ میں بہت باتیں بناتے ہیں مگر عمل در آمد خاک بھی نہیں.ایسے لوگوں کو نصیحت کی جائے تو کہتے ہیں ہم تو مانتے ہیں مگر اپنے شیاطین اپنے سرغنوں کے پاس جا کر کہتے ہیں کہ ہم تو ان مسلمانوں کو بناتے ہیں ان کو حقیر سمجھتے ہیں.اِستہزاء ھذو سے نکلا ہے.بلکی چیز کو چونکہ آسانی سے ہلایا جا سکتا ہے اِس لئے اِستہزاء تحقیر کو کہتے ہیں.اﷲان کو ہلاک کرے گا کِسی کو جَلد کِسی کو دیر سے.اﷲ تو توبہ کے لئے ڈھیل دیتا ہے مگر اکثر لوگ خدا کی حد بندیوں کی پرواہ نہیں کرتے.حدبندی سے جوشِ نفس کے وقت یُوں نکل جاتے ہیں جیسے دریا کا پانی جوش میں آ کر کناروں سے باہر نکل جائے.ایسے لوگ ہدایت کو چھوڑ کر گمراہی لیتے ہیں.یہ ہدایت جس میں ہدایت چھوڑی اور گمراہی اختیار کی ان کے لئے نافع نہیں

Page 110

ان کے لئے پاک ہدایت ایسی ہے جیسے مَیں نے طِبّ میں دیکھ ہے کہ بعض دفعہ نرم کِھچڑی شدّتِ صفراء کی وجہ سے نہایت تلخ معلوم ہوتی ہے.یہ لوگ ہدایت کی باتوں کی قدر اور حقیقت سے بوجہ اپنے مرضِ قلبی کے آگا نہیں.پس ایسے لوگ اگر ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو اپنے نفع کے لئے جیسے کوئی آدمی جنگل میں آگ لگائے تو اس سے یہ فائدہ اُٹھا لیتا ہے کہ شیر، چیتے اور ایسے درندے اس کے پاس نہیں پھٹکنے پاتے.اِسی طرح منافق بظاہر اسلام کا اِقرار کر کے مصائب سے عارضی طور پر بچاؤ کر لیتا ہے لیکن بعد میں بَلائیں، جفائیں اسے گھیر لیتی ہیں.اس کا نفاق کُھل جاتا ہے پھر کچھ سوچ نہیں پڑتا.غرض اپنا ظاہر کچھ باطن کچھ بنانے والے ضرور نقصان اُٹھاتے ہیں.(الفضل ۱۳؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) اِشْتَرٰی.یہاں پر کوئی حقیقی خریدوفروخت مراد نہیں ہے بلکہ یہاں پر اِس سے یہ مراد ہے کہ انہوں نے ہدایت کو ترک کر دیا ہے اور بجائے اس کے گمراہی کو اختیار کر لیا ہے…حضرت عبداﷲبن عباس اور عبداﷲبن مسعود اور اَور بہت سے صحابہ رضی اﷲعنہم نے یہی معنے کئے ہیں اور … (نہ وہ راہ پانے والے بنے) سے یہ مراد ہے کہ وہ تجارت کی صحیح راہ نہ پا سکے یہاں تک کہ تجارت سے اصل مقصود تو یہ ہوتا ہے کہ اصل مال قائم رہے اور اس سے علاوہ کچھ زائد فائدہ بھی حاصل ہو جائے لیکن منافقوں نے اصل مال (یعنی فطرتِ سلیم اور تحصیلِ کمالات کی فطرتی استعداد) کو ہی ضائع کر دیا.(رسالہ’’تعلیم الاسلام‘‘ قادیان بابت مارچ ۱۹۰۷ء)    حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم )کا قاعدہ تھاکہ جہاں کوئی میلہ ہوتا یا کوئی مجلس تو آپ

Page 111

ضرور پہنچتے اور توحید کا وعظ فرماتے.اِس کے لئے سب سے عمدہ و اعلیٰ موقع حج تھا جس میں آپ ایک ایک قبیلے کے جتّھے میں وعظ فرماتے.بڑے بڑے واقعات آپ کو پیش آئے.ایک شخص مشہور عاقبت اندیش تھا اس نے کہا اگر ایک آدمی میرے قابومیں آ جائے تو مَیں اس کے ذریعہ ساری دُنیا کو فتح کر سکتا ہوں.وہ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے پاس آیا اور کہا کہ اگر میری ساری قوم تمہیں مان لے تو مجھے کیا دو گے؟ آپ نے فرمایا مَیں کسی کو کیا دے سکتا ہوں.میرے بعد خدا جانے کیا ہو.اِس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا.اپنی قوم سے کہنے لگا.ہے تو ایسا ہی مرد جیسا کہ مَیں نے کہا تھا مگر مَیں اس پر ایمان لانے کا تمہیں مشورہ نہیں دیتا.آپ اِنہی حج کے ایّام میں منیٰ ایک مقام ہے وہاں وعظ فرما رہے تھے.چھ آدمیوں نے جو مدینہ طیّبہ کے رہنے والے تھے اشارہ کیا کہ ہم آپ سے علیحدہ کچھ گفتگو کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ منیٰ کے پاس پہاڑیوں کا ایک سلسلہ ہے جو چکّر کھاتا ہؤا جاتا ہے اس کے اندر ایک ٹیلہ ہے وہاں چبوترہ پر جا بیٹھے اور ان کو دینِ اسلام کی تلقین کی.اُنہوں نے بَیعت کی اور کہا کہ ابھی ہمارا نام نہ لیویں ہم جا کر مشورہ کریں گے اور آئندہ سال انشاء اﷲ تعالیٰ اپنے بہت سے دوستوں کو بھیجیں گے چنانچہ آئندہ سال بارہ آدمی بھیجے اور تیسرے سال ۷۲ آدمی حاضر ہوئے اور حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) سے عرض کیا کہ ان چھ آدمیوں کی کوشِش اور بارہ دوستوں کی کمربستگی سے مدینہ میں کوئی گھر نہیں رہا جس میں آپ کا تذکرہ نہ ہو ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے شہر میں چلیں.حضرت عبّاسؓ رسول اﷲ صلی اﷲعلیہ وسلم کے ساتھ تھے گو وہ بظاہر مسلمان نہ تھے مگر حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ہمدرد تھے آپ نے فرمایا کہ دیکھو ان کولے جانے میں تم کو بہت سخت مشکلات ہیں یہاں تمام منافی و ہاشمی آپ کے ساتھ ہیں مگر وہاں یہ بات نہیں.اِس پر انہوں نے بڑا بھاری معاہدہ کیا اور اس معاہدہ میں رسول اﷲاﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے اُن سے قسمیں لیں.آپ نے فرمایا میرے مدینہ میں لے جانے کے یہ معنے ہیں کہ سارے جہان سے لڑائی کے لئے تم تیار رہو.مکّہ میں قریش دشمن ہیں پھر نجدغطفان، مصر کو ساتھ ملائیں گے پھر عراق و شام کے راستے کی قومیں ان کے ساتھ ہیں.اچھی طر ح سوچ سمجھ لو اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تولے چلو.انہوں نے عرض کیا کہ ہم حاضر ہیں.عرب میں بہت سے آگیں جلاتے تھے.ایک آگ نارالحَرب کہلاتی ہے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے (المائدۃ: ۶۵)

Page 112

مَیں نے غور کیا تو معلوم ہؤا لڑائی آگ سے شروع ہوتی ہے چنانچہ پہلے دل میں ایک آگ اُٹھتی ہے پھر وہی آگ تمام گھر میں پھیلتی ہے پھر دوسرے لوگوں کے ساتھ ملانے کے لئے ان کی دعوتوں کے لئے آگ جلانی پڑتی ہے پھر پہاڑ پر آگ جلا کر اس مہمانی کو وسیع کیا جاتا ہے.پھر بارُود کی آگ ہے‘ پوٹاس کی آگ ہے ، توپ کی آگ ہے، ڈائنامیٹ کی آگ ہے.پھر رسول سے جنگ کرنے والوں کا اخیر انجام دوزخ ہے کہ وہ بھی آگ ہے.اِس قدر تمہید کے بعد مَیں اِس آیت کے معنے کرتا ہوں.مدینہ میں جب آپ تشریف لائے تو اس وقت جو قوم تھی ان میں عبداﷲ بن ابیّ بن سلول ایک شخص تھا لوگوں نے ارادہ کیا کہ نمبرداری کی پگڑی اسے بندھائیں.جن دِنوں میں جلسئہ نمبرداری کا ارادہ تھا نبیٔ کریماﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم آ گئے اور اس کی بات بگڑ گئی.اُسے بہت رنج پیدا ہؤا اور وہ اکثر موقعوں پر رنج نکالتا رہا لیکن کُھل کر مخالفت نہ کر سکتا تھا.اِس طرز کے آدمی منافق کہلاتے ہیں یہ اندر ہی اندر کُڑھتے رہتے ہیں.پس اِن کی مثال اُس شخص کی طرح ہے جس نے جلانا چاہا ہے آگ کو.گویا نبیٔ کریم اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بُلوا کر سارے جہان سے جنگ کی تھانی.جب جنگ کی آگ اِرد گِرد بھی بھڑک اُٹھی تو ان لوگوں کا نورِ معرفت جاتا رہا.جب نار میں سے نور نِکل جائے تو پیچھے اس کی تپش ، دھواں اور تکلیف رہ جاتی ہے اسی طرح اِن لوگوں کا حال ہے جب ان کا وہ نور جو حصہّ ہے ایمان اور معرفت کا اور اﷲ کو راضی کرنے کا، جاتا رہا تو وہ اندھیرے میں پڑ جاتے ہیں.اندھیرا بھی ایک نہیں بلکہ کئی اندھیرے جیسے کچھ رات کا اندھیرا پھر کچھ معًا روشنی گُم ہو جانے سے جو اندھیرا ہو جاتا ہے وہ.پھر بادلوں کا اندھیرا.پس وہ کچھ دیکھتے نہیں اور کچھ سو جھائی نہیں دیتا اور دکھائی کِس طرح دے جب کہ تمیز باقی نہیں.دِل کمزور ہے اِس لئے حق کے شنوا نہیں رہتے پھر حق کے گویا نہیں رہتے.حق کے گویا بننے میں بڑے فائدے ہیں.جب اِنسان دوسروں کو نیکی سمجھاتا ہے تو آخر اپنی حالت پر بھی شرم آتی ہے کہ مَیں جو اَوروں کو نصیحت کرتا ہوں خود میری اپنی حالت کیا ہے اور جب مَیں اپنی اِصلاح نہیں کرتا تو دوسروں کی اصلاح کے لئے کیا کر سکتا ہوں اِس لئے میرا پختہ اعتقاد ہے کہ انسان وعظ سُنے اور وعظ کرے کہ اس سے بھی راہِ حق مِلتی ہے لیکن اُس شخص کی حالت قابِل رحم ہے جو نہ تو آنکھ رکھتا ہے جس سے رستے میں ہلاکت کی چیز کو دیکھ کر بچ سکے اور نہ کان ہیں کہ کسی ہمدرد کی آواز سُن کر بچ جائے جو اُسے بتائے کہ دیکھو اِس رستے نہ آؤ اور نہ زبان ہے کہ خو دچِلّا کر کسی سے پُوچھ لے کہ میاں فلاں مقام پر پہنچا دو اور وہ اسے پہنچا دے.پس وہ جو نہ حق کا شنوا ہے نہ حق کا گویا

Page 113

نہ حق کا بِینا ہلاکت کی طرف سے مُڑ کر نیک راہ پر نہیں آ سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)    اَوْ.دو چیزوں میں سے ایک کیلئے آتا ہے یعنی یہ یا وہ.اور کبھی بمعنے بَلْ یعنی کبھی اسکے معنے بلکہ کے ہوتے ہیں اور گاہے بمعنی واؤ یعنی بمعنے اَور آتا ہے.پس اگر پہلے معنوں میں آئے تو گاہے شک پیدا ہوتا ہے اور گاہے ابہام و اجمال اور گاہے تفصیل ہوتی ہے، خبر میں، خواہ وہ تفصیل واقعی ہو یا متکلّم کے اِعتبار کے موافق ہو اور جب بمعنی واؤتو اس سے اباحت اور تخییر پیدا ہوتی ہے، انشاء میں ، اور یہاں پر دو امر میں ایک کے لئے ہے اور متکلّم کے اعتبار کے مطابق تفصیل ہے.حَیَّبؔ کہتے ہیں بارش کو.یہ صَوْب سے بنایا ہوا ہے اور صَوب کہتے ہیں نازل ہونے کو.سماءؔ کہتے ہیں ہر ایک بلند شئے کو جو کہ انسان کے اُوپر ہو.یہ سمّو سے ہے جو کہ صورت اور معنے کی رُو سے علوّ کی مانند ہے اور مِنْ کے معنے ’’ میں سے.‘‘ رَعْد ؔ بادل کے گرجنے کی آواز کو کہتے ہیں.بَرْق ؔبجلی جو کہ بادل میں یا آسمان کے کناروں پر چمکا کرتی ہے.یَجْعَلُوْنَ جَعَلَ سے ہے جو بمعنے’’رکھنے‘‘ کے ہے.پس یَجْعَلُوْنَ کے معنے ہوئے ’’رکھتے ہیں‘‘.صَیِّب مینہ کو کہتے ہیں.صَیِّب کہتے ہیں نیچے اترنے اور جھکنے کو.مینہ کا پانی چونکہ نیچے کو گرتا ہے اس لئے اس کا نام صَیِّبہے.(رسالہ’’تعلیم الاسلام‘‘ قادیان بابت مارچ ۱۹۰۷ء) مِنَ السَّمآئِ یعنی اس مینہ کی طرح جو بادل سے گِر رہا ہو.پھر وہ مینہ کِس وقت کا ہو جبکہ سُورج بھی نہیں ، چاند بھی نہیں، ستارے بھی نہیں.اس پر بادلوں کا اندھیرا، اس میں رَعد ہے یعنی بجلی کی

Page 114

کڑک اور بَرق یعنی بجلی.نادان انسان اپنی اُنگلیاں کانوں میں کر لیتے ہیں موت سے بچنے کے لئے.مگر ایسے لوگ واقعی کم عقل ہیں کیونکہ سائنسدان جانتے ہیں کہ بجلی بہت تیز ہے وہ روشنی سے بھی پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے بعد آتی ہے چنانچہ چھاؤنیوں میں جہاں توپ دغتی ہے وہ جانتے ہیں کہ چمک پہلے پہنچتی ہے اور آواز اس کے پیچھے اسی طرح بجلی کی آواز کا حال ہے.آواز پہنچنے پر اُنگلیاں کانوں میں کرنے اور چُھپ جانے والا بیوقوف ہے کیونکہ جو مار بجلی نے کرنی ہوتی ہے وہ تو اس سے پہلے کر چکتی ہے.منافق کی طبیعت کا حال بارش کی مثال سے کھلتاہے جب بارش آتی ہے تو جو لوگ ندیوں کے کنارکے پر ہیں یا جن کے مکان کچّے ہیں اور لپائی ٹھیک نہیں یا جنہوں نے نمک خرید رکھا ہے اُن کو بہت خطرہ ہوتا ہے اور بعض ایسے ہیں جو اس بارش کو اپنے لئے رحمت سمجھتے ہیں انہوں نے بجلی کی روک کے لئے سلاخیں اور تانبے کے تار کنوئیں میں ڈال رکھے ہوتے ہیں وہ بہرحال خوش حال ہوتے ہیں.اِسی طرح کمزور انسان زمانے کے حوادث کی تاب نہ لا کر ایمان سے دُور چلے جاتے ہیں.بعض وقت غریبی کے سبب خدا کو کوستے ہیں.لڑکا مَر جاتا ہے تو خدا کو گالیاں دیتے ہیں.ایسے نابکار بھی مَیں نے دیکھے ہیں جو خدا کی خدائی پر الزام دیتے ہیں اور تھوڑی سی مصیبت کو برداشت نہیں کر سکتے.ایک شاعر کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے شعر کہاجو اس کی نظر میں خاص طور سے قابلِ انعام تھا اور اس نے سُنا تھا کہ سعدیؒنے ایسا ایک شعر کہا تھا تو اُسے خاص طور سے انعامِ الہٰی ملے تھے.پس اِس امّید پر اس نے آسمان کی طرف مُنہ اُٹھایا.اِتفاق سے ایک چیل کی بیٹ مُنہ میں پڑ گئی اِس پر وہ بول اُٹھا کہ شعر فہمیٔ عالمِ بالا معلوم شُد.غرض ایسے ایسے نادان لوگ ہوتے ہیں بعض خدا کا اَدب کرتے تو گردشِ دار اور زمانہ کو کوستے ہیں مگر اس کوسنے کا فائدہ کیا.اﷲ جلّ شانہ‘ نے یہ بات فرمائی کہ مینہ پڑتا ہے اس میں کڑک بھی ہوتی ہے بجلی بھی ہوتی ہے اندھیرے بھی ہوتے ہیں اس پر نادان تو غیر محل وغیر موقع پر اپنے بچاؤ کے سامان کرتے ہیں مگر وہی بارش بُہتوں کے لئے مفید ہوتی ہے اسی طرح احکامِ شرع اور دُنیا کی مصیبتیں جب نازل ہوں تو بہت سے لوگ ایمان لاتے ہیں اور مشکلات میں گھبراتے نہیں.ایک جذامی کا حال مجھے معلوم ہے کہ مَیں نے اسے کہا کہ آپ کے علاج کا مجھ میں ایک جوش پیدا ہو گیا ہے.اُس نے کہا کہ رہنے دیجئے مَیں تو جس حال میں ہوں خوش ہوں.تنہائی ہے لوگ کم آتے ہیں دُعاؤں کا موقع ملتا رہتا ہے اور بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ گھبرا جاتے ہیں اور خدا کو کوستے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ

Page 115

ہم خدا کا کیا بگاڑ سکتے ہیں.وہ بجلی اگر گِرنے والی تھی تو ان کے روکنے سے رُک نہیں سکتی پھر وہ خدا کا شُکر کریں کہ ان کے کان تو ہیں اگر کان نہ ہوتے تو بجلی کی آواز کِس طرح سُنتے.ان کی آنکھیں تو ہیں اگر یہ نہ ہوتیں تو پکَ ڈنڈی کِس طرح نظر آتی.ہر ایک دُکھی اپنے سے بڑھ کر دُکھی کو اپنے ہی شہر میں دیکھ سکتا ہے پس اسے چاہیئے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوںکی قدر کرے اور مشکلات میں گھبرائے نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء): منافق مشکلات کے وقت کانوں پر ہاتھ رکھتے ہیں.اَلصَّوَاعِق.بجلی کی چمک پہلے ہوتی ہے پھر کڑک.بجلی کی آواز سُنکر بچاؤ کی تدبیر فضول ہے.( تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۳۶ ) منافقوں کی مثال اُس شخص کی مثال ہے جس پر مینہ برستا ہے.گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا رہا ہو جب ذرا بجلی چمکی تو آگے بڑھے ورنہ وہیں کھڑے کھڑے رہ گئے.جب کوئی فائدہ پہنچا تو اسلام کے معتقد بنے رہے جب کوئی ابتلاء پیش آیا تو جَھٹ انکار کر دیا ایسے لوگ بیوقوف ہیں جیسے بعض نادان بجلی کی کڑک سُنکر پھر کانوں میں اُنگلیاں دیتے حالانکہ روشنی کی رفتار آواز سے تیز ہے اور بجلی اس کڑک سے پہلے اپنا کام کر چکتی ہے.(الفضل ۱۳؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)    کوئی شخص کسی کے ساتھ نیکی کر کے صرف ہنس کے بولے یا کسی دُکھ کے وقت مدد دے تو آدمی اُس کا ممنون ہو جاتا ہے حالانکہ اگر غور کیا جاوے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب احسان در اصل اﷲ تعالیٰ کا ہے جس نے اس حُسن کو پَیدا کیا پھر اس چیز کو جس سے احسان کیا گیا پھر خود اسے جس پر احسان ہؤا.پس خدا کو بھُول جانا انسانیّت سے بعید ہے اﷲ تعالیٰ قُرآن کریم میں اِسی لئے اپنے رنگارنگ انعامات و احسانات کا ذکر فرماتا ہے چنانچہ یہاں بھی ارشاد کیا کہ لوگو! تم فرمانبردار بن جاؤ.کِس کے؟ اپنے پالن ہار کے.جس نے تمہیں پَیدا کیا.پھر تمہیں ہی نہیں بلکہ تمہارے بڑوں کو بھی.یعنی پُشتہا پُشت اس مُحسن کے احسان تم پر چلے آتے ہیں.

Page 116

: فرمانبردار بنو گے تو اس سے کوئی خدا کی خدائی بڑھ نہ جائے گی بلکہ اِس میں تمہارا ہی فائدہ ہے وہ یہ کہ تم ہی دُکھوں سے بچو گے.مَیں دیکھتا ہوں آتشک اُنہی کو ہوتی ہے جو نافرمانی کرتے ہیں مَیں نے کبھی نہیں دیکھا کسی کو نماز پڑھنے سے سوزاک ہو گیا ہو یا زکوٰۃ دینے سے کوڑھ ہو گیا ہو.لوگ کہتے ہیں نیکی مشکل ہے یہ غلط ہے نیکی تو سُکھوں کی ماں ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) سُنو.او لوگو! فرمانبرداری کرو اپنے اس مُحسن، مربی کی جس نے تم کو اور تم (سے) پہلوں کو خَلق کیا.اِس سے فائدہ یہ ہو گا کہ دُکھوں سے بچ رہو گے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۶)  : لوگو اپنے رَبّ کے فرمانبردار بن جاؤ.فرمانبرداری ضروری ہے مگر کوئی فرمانبرداری بِدُوں فرمان کے نہیں ہو سکتی اور کوئی فرمان اس وقت تک عمل کے نیچے نہیں آتا جب تک کہ اس کی سمجھ نہ ہو.پھر اس فرمان کے سمجھنے کے لئے کسی معلّم کی ضرورت ہے اور الہٰی فرمان کی سمجھ بِدُوں کسی مُزکّی اور مُطَہِّر القلب کے کسی کو نہیں آتی کیونکہ (الواقعہ:۸۰)خدا تعالیٰ کا حکم ہے.پس کیسی ضرورت ہے امام کی.کیسی مزکّی کی.(الحکم۱۷؍اپریل ۱۹۰۱ء)    پھر اُس نے تمہیں اور تمہارے بڑوں کو ہی نہیں بنایا بلکہ تمہاری زندگی کے سامان بھی مہیّا کئے.رہنے کو زمین ،حفاظت کو آسمان ، بادل سے پانی اُتار کر طرح طرح کے میوے بطور رزق دیئے.پس تم ایسے خدا کا کوئی ( مدِّ مقابل) نہ ٹھہراؤ.اور تم غور کرو تو خود اس نتیجہ پر پہنچ جاؤ اور یہ یقین ہو جائے کہ اﷲ کا نِدّواقعی کوئی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) سرکس میں تم لوگوں نے دیکھا ہو گا کہ جانور کِس طرح اپنے مالک کے حکم کے ماتحت چلتے ہیں حالانکہ

Page 117

اس مالک نے نہ جان دی ہے نہ وہ کھانے پینے کی چیزیںپَیدا کی ہیں.جب ایک معمولی (احسان) سے اس کی اس قدر اطاعت کی جاتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنے مولیٰ کریم پر فدانہ ہو جس نے اسے حیات بخشی ،رزق دیا، پھر قیام کا بندوبست کیا.اِس لئے فرمایا کہ منافقو! تم معمولی فائدہ کے اُٹھانے کے لئے جہان کا لحاظ کرتے ہو مگر کیوں نہیں اُس سچّے مربیّ کے فرمانبردار ہوتے جو تمام انعاموں کا سرچشمہ ہے.کم عقلو! اُس نے تمہیں پَیدا کیا.پھر تمہارے باپ دادا کو بھی پَیدا کیا.پھر فرمانبرداری کرنے میں اﷲکا کچھ فائدہ نہیں بلکہ تم ہی دُکھوں سے بچو گے اور سُکھ پاؤ گے.دیکھو! اس نے تم پر کیسے کیسے اِحسان کئے ہیں.تمہارے لئے زمین بنائی جو کیسی اچھی آرامگاہ ہے پھَل پھُول اور طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی ہے جسے تم کھاتے ہو.پھر آسمان کو بنایا جیسے ایک خیمہ ہے.وہ زمین کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.پھر بادلوں سے پانی اُتارا اِس سے رنگارنگ کے پھَل اُگائے.یہ فضل ہوں اور پھر تم اس کا ندّ بناؤ.بڑے افسوس کی بات ہے.ندّ بنانا کیا ہے.سُنو.یہ کہنا کہ دوست آ گیا اس کی خاطر تواضع میں نماز رہ گئی.بچّوں کے کپڑوں اور بیوی کے زیوروں کی فِکر تھی نماز میں شامل نہ ہو سکا.رات کو ایک دوست سے باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی اِس لئے صبح کی نماز کا وقت نیند میں گزر گیا.غور کرو اس دوست یا اس شخص نے جس کے لئے تم نے خدا کے حکم کو ٹالا ویسے احسان تمہارے ساتھ کئے ہیں جیسے خدا تعالیٰ نے تم سے کئے؟ اِسی طرح آجکل مجھے خط آ رہے ہیں کہ بارش ہو گئی ہے تخمریزی کا وقت ہے اگر آپ اجازت دیں تو روزے پھر سرما میں رکھ لیں گے.یہ خدا تعالیٰ کے احکام کا استخفاف ہے توبہ کر لو.یہ اپنے دُنیاوی کاموں کو خدا کا ندّ بنانا ہے جو کفرانِ نعمت ہے.(الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)   اب جب فرمانبردار بننا ہے تو فرمان کی ضرورت ہے وہ فرمان قُرآن ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا.اگر اس کے کلامِ الہٰی ہونے میں تمہیں کچھ شک ہے تو اس کی مثل لاؤ.یہ آسان فیصلہ ہے کیونکہ جیسے دوسری مخلوقات میں خدا کی بنائی ہوئی چیزیں انسان کی بنائی ہوئی چیزوں سے الگ نظر آتی ہیں اسی طرح یہ کلام اﷲ کلامِ انسانی سے لگا نہیں کھاتا.اگر تم نظیر نہ لائے اور لا بھی نہ سکو گے تو اس آگ سے بچاؤ کر لو جس کا ایندھن مُنکر لوگ اور پتّھرہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) اس کا سب سے بڑا انعام تم پر یہ ہے کہ قرآن ایسی کتاب دی.اگر تم کو یہ شک ہے کہ قرآن خدا کی کتاب نہیں ہے اور یہ بناوٹی ہے اور انسانی کلام ہے توتم بھی کوئی ایسی کتاب لاؤ بلکہ اِس کتاب کے ایک ٹکڑے جیسا بنا کر دکھاؤ.ہمیں بھی بعض لوگوں نے کہا کہ یہ قُرآن کو توڑ موڑ کر ترجمہ کر لیتا ہے مَیں کہتا ہوں جیسا تمہارے سُنانے والا ہے ایسا کوئی سُنانے والا لاؤ.مَیں تمہیں کہتا ہوں جھُوٹ نہ بولو کیا تم کوئی ایسا مترجم لا سکتے ہو جو کہے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ تم جُھوٹ بولا کرو.مَیں کہتا ہوں کہ بَد معاملگی چھوڑ دو تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا کہ جو کہے گا کہ بَد معاملگی کیا کرو.مَیں کہتا ہوں کہ راست باز بنو،لڑائی چھوڑ دو،آپس کا فساد چھوڑ دو، تو کیا کوئی ایسا مترجم آئے گا جو کہے گا کہ لڑائی کیا کرو، فساد مچایا کرو.غرض نہ تو قُرآن جیسی کتاب بنا کر لاتے ہو اور نہ اس سے بہتر بنا سکتے ہو تو پھر ڈرو اور بچاؤ اپنے آپ کو اس آگ سے جس کا ایندھن یہ شریر لوگ اور جس کے بھڑکنے کا موجب یہ معبود انِ باطل ہیں.جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اعمالِ صالحہ کئے وہ باغوں میں ہوں گے جن کے نیچے ندیاں بہتی ہیں.ایمان توجنّات کے رنگ میں متمثّل ہو گا اور اعمالِ صالحہ اس کی نہریں ہیں جو پاک تعلیم کے نیچے آتا ہے وہ ترقّی کرتا ہے اور پاک آرام میں آتا ہے.ہرآن میں اسے یقین آتا ہے کہ کیا عظیم الشّان اور کیا پاک اس کا کلام ہے جس نے فسانہ عجائب لکھی ہے.(الفضل ۲۰؍اگست ۱۹۱۳ء)

Page 118

Page 119

اگر تم شک میں ہو اس سے جو ہم نے اپنے بندے پر اُتارا تو اس کے مثل کوئی ایک ٹکڑا لاؤ اور اﷲ کے سوا اپنے گواہوں کو بُلاؤ اگر سچّے ہو.پھر اگر تم نے نہ کیا اور ہرگز نہ کر سکو گے تو ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتّھر ہیں جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے.(فصل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ ۹۳)  کے معنے یہ ہیں کہ انسانوں اور پتّھروں میں جو تعلق پَیدا ہؤا ہے کہ انسانوں نے پتّھروں کی پرستش شروع کر دی ہے یہی تعلق دوزخ کے استعال کا باعث اور اس کا ہیزم ہے.(نور الدین صفحہ ۱۹)      مومنوں اور نیک عمل لانے والوں کے لئے آرام کی جگہیں ہیں جن کے تلے نہریں بہتی ہیں.جب کبھی ان سے کوئی میوہ دیا جائے گا کہیں گے یہ تو وہی ہے جس کا ہمیں پہلے وعدہ دیا جا چکا تھا اور پھر ایک نہیں بلکہ رنگارنگ ایک جیسے دوسرے دیئے جاویں گے اور ان کے لئے اس میں جوڑے ہوں گے بیبیاں ہوں گی.(ضمیمہ اخبار قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) عربِ ریگستان کے باشندے ، خشن پوش ، کھجور پر زندگی بسر کرتے تھے ان کے لئے کہا گیا .پھر دیکھا اَب تک ہم لوگ قریش اس جنّت کے مالک ہیں.(نور الدین صفحہ ۲۳۷)

Page 120

ایک تارکِ اسلام کے اِس اعتراض کے جواب میں کہ ’’ بہشت میں نہریں ہوں گی.بعض کہتے ہیں کہ دُودھ اور شہد کی نہریں.‘‘ تحریر فرمایا:.’’او بد بخت! اسلامی نہروں سے محروم.دیکھ تیرے سام وید نے تجھے اب وید سے بھی متنفّر کرانے کی تجویز کی ہے.جو کوئی کہ اُس خلاصی یعنی پومن (سوم) بھجن کو جسے خدا رسیدہ لوگوں نے جمع کیا پڑھتا ہے اس کے لئے سرسوتی،پانی،مکّھن،دودھ اور مدھ برساتا ہے.دیکھو سام وید پر پاٹھک۸ سوم پومن صفحہ۱۲۹ دیرپاٹھک ۹، سرسوتی) ہاں اُس سات بہنوں والی پیاری نہروں میں نہایت پیاری سرسوتی نے ہماری تعریف حاصل کی ہے.وہ رس کی نہر کے ساتھ اپنے تئیں صاف کر کے زردو سُرخ رنگ ہو کر چمکتا ہے.اس وقت جب کہ وہ مدح گویوں کے ساتھ سات مُونہہ رکھنے والا تعریف کرنے والوں کے ساتھ کل شکلوں کا احاطہ کرتا ہے.صفحہ ۵۱.وہ مضبوط پہاڑی ڈنٹھل مستانہ خوشی کے لئے نہروں میں نچوڑا گیا ہے باز کی طرح وہ اپنی جگہ قرار پذیر ہوتا ہے.صفحہ ۵۳.اے اندر تیری نہر قوّت کے ساتھ دیوتاؤں کی ضیافت کے لئے بہتی ہے.اے سوم مدھ سے مالا مال ہمارے برتن میں نشست گاہ اختیار کر.صفحہ ۶۴.دُودھ ان کی طرف اِس طرح دوڑا ہے جس طرح طُغیانیاں کسی چٹان پر دھکیلتی آتی ہیں.وہ اِندر کے پاس صاف ہو کر آتے ہیں.صفحہ۹۷ نیز اگر نہروں والے بہشت ناپسند تھے تو تمہارے آریہ کو جو تبت میں آباد تھے جب اپنے ملکوں سے اپنے کرموں انسار سے (نتائج اعمال ) جلاوطنی کا انعام ملا تھا تو چاہیئے تھا کہ افریقہ کے ریگستان میں جاتے.انہوں نے انڈیا کو کیوں پسند کیا جس میں دُودھ اور شہد ہر قِسم تعیّش اور تنعّم کی نہریں بہتی ہیں.تم کیسے شریرالنفس ہو مکّہ معظمہ کا تذکرہ ہو تو اُسے ریگستان سمجھتے ہو اور اگر نہروں کا تذکرہ ہو تو اس پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہو.تم اس پر راضی ہو کہ تمہیں نرگ میں بھیج دیا جاوے.حقیقی جواب نَھَر کے معنے کثرت کے ہیں اور نَھر کے معنے ندی کے ہیں.اور وہ آیات جن میں نہروں کے عطیہ کا تذکرہ ہے.وہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اصحابِ کرامؓ کے حق میں ان کی محنتوں، مشقّتوں

Page 121

اور تکالیف کے بدلہ جو انہوں نے اپنے پاک نبیصلی اﷲ علیہ وسلم کی اِتّباع میں اُٹھائیں اﷲتعالیٰ کی طرف سے وعدہ تھا کہ انہیں اِسی جنم میں ریگستانِ عرب کے بدلہ نہروں والے ملک عطا کروں گا.چنانچہ جیسے فرمایا تھا ویسا ہی ہؤا اور آپ کے سچّے اور مخلص اتباع ان بلاد کے مالک ہو گئے جن میں دجلہ ،فرات، جیحوں،سیحون،یردن اور نیل بہتے تھے اور اسی پَیروی کی برکت سے مسلمانوں نے آریہدرت کو بھی لے لیا جس میں گنگا ،جمنا اور سرسوتی بہتے ہیں.سوچو اور خوب غور کرو.کیسے قبل از وقت بتایا ہؤا وعدہ پورا ہوا… ان الفاظ کے حقائق کے سمجھنے کے لئے ہمیں کتب تعبیر الرُّؤیا کی طرف رجوع کرنا چاہیئے چنانچہ نہر کے حقائق کی نسبت ان میں ہم یہ پاتے ہیں.اَلنَّھْرُ یَدُلُّ عَلٰی اِقْلِیْمِۃِ کَسَیْحُوْنَ وَ جَیْحُوَْنَ وَالْفُرَاتاَوَانالنِّیْلَ.نہر سے مراد یہ ہے کہ ایسی اقلیمیں جن میں نہریں بہتی ہیں جیسے سیحوں ، جیحوںاور فرات اور نیل اسلام کے قبضہ میں آ جائیں گی اور آخر وہ آ گئیں.وَ النَّھْرُ فِی الْمَنَامِ عَمَلٌ صَالِحٌ أَوْرِزْقٌمُسْتَمِرٌ وَ نَھْرُ اللَّبَنِ دَلِیْلٌ عَلَی الْفِطْرَۃِ وَنَھْرُ الْخَمْرِ دَلِیْلٌ عَلَی السُّکَّرِ مِنْ حُبِّ اﷲِ تَعَالٰی وَ الْبُغْضِ عَنْ مَحَارِمِہٖ وَ نَھْرُالْعَسْلِ دَلِیْلٌ عَلَی الْعِلْمِ وَالْقُرْاٰنِ (تعطیر الانام صفحہ ۳۲۶) اور خواب میں نہر کو دیکھنے سے مراد ہوتا ہے عملِ صالح اور دائمی رزق.یہ بھی مسلمانوں کوملا.دُودھ کی نہر دیکھنے سے مراد ہے فطرتِ صحیحہ اور شراب کی نہر سے مراد ہے اﷲ تعالیٰ کی محبّت کے نشہ سے سرشار ہونا اور اس کی حرام کردہ اشیاء سے بُغض رکھنا اور شہد کی نہر سے مراد ہے علم اور قرآن کا حاصل ہونا.نَھْرُالْکَوْثَرِ فِی الْمَنَامِ نُصْرَۃٌ عَلَی الْاَعْدَائِ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ (تعطیرالانام صفحہ ۳۲۵) نہر کوثر کا رؤیا میں دیکھنا دلیل ہوتا ہے اَعداء پر مظفّر و منصور ہونے پر جیسا کہ خدا تعالیٰ کے کلام اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَسے مستنبط ہوتا ہے.چنانچہ بے چارگی اور بے سامانی کے زمانہ میں جبکہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ میں دشمنوں کے ہاتھوں سے شکارِ لاغر کی طرح دُکھ اُٹھا رہے تھے.یہ وحی آپ کو عالم الغیب قادر خدا کی طرف سے ہوئی کہ ہم نے تجھ کو الکوثر عطا فرمایا ہے.دُنیا جانتی ہے کہ وہ مظلوم بیکس انسان

Page 122

جسے اپنے بیگانوں نے پاؤں کے نیچے مَسلنا چاہا تھا کِس طرح اپنے اَعداء پر منصور و مظفر ہؤا اور اس کے قوی اور متکبّر دشمن خاک میں مِل گئے.سوچو اور غور کرو کہ یہ غیب کی باتیں کِس طرح حرفاً حرفاً پوری ہوئیں اور خدا کے غضب سے ڈرو.(نور الدین صفحہ ۸۳تا۸۶) جَنَّاتٍ: جنّت کیا ہے؟ آدمی کی آنکھ ہے، کان ہیں، زبان ہے، مزہ ہے، ٹٹولنا ہے… اﷲ تعالیٰ کے لئے جو اِن باتوں کو ترک کرتا ہے اُسے جنّت ملتی ہے… اﷲ کے لئے جو ہم قربان کریں اس کانِعم البدل جنّت ہے.(بدر ۷؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۷) : (۱) تعلیمِ نبوی (۲) مدینہ طیّبہ (۳) فتوحات (۴)عراق،عرب،عجم و مصر وشام (۵) قبر (۶) محشر (۷) جنّت..یہ وہ چیز ہے جس کا ہم سے وعدہ تھا..جس رنگ کے عمل کئے اُسی رنگ کی عنایاتِ الہٰیہ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ۲۳۶)       

Page 123

یہ تو تھوڑی سی چیز ہے جو اﷲ بیان کرتا ہے اور جنّات کے نعماء کے مقابل میں ایسی ہے جیسی مچھّرکے سامنے ہاتھی.تاہم کسی بات کے سمجھانے کے لئے مچھّرسی بلکہ اس سے بھی ادنیٰ مثال دینے سے اﷲ نہیں رُکتا.جو ایمان دار ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ یہ ان کے رَبّ سے بَرحق ہے اور جو منکر ہیں وہ کہتے ہیں اِس مثال سے اﷲ نے کیا ارادہ کیا.بہت سے اس سے گمراہ ہوتے اور بہت ہدایت پاتے ہیں.گمراہ کون ہوتے ہیں وہی جو بَد عہد ہیں.اپنے عہد کا پاس نہیں رکھتے.جن سے اﷲ نے قطع تعلق کرنے کے لئے فرمایا ان سے تعلق جوڑتے ہیں اور جن سے تعلق جوڑنے کے لئے کہا ان سے قطع تعلق کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرتے ہیں مگر شرارت کا پھَل سِوا ٹوٹا پانے کے کچھ نہیں.دیکھو تم کچھ نہ تھے خدا نے زندہ کیا پھر مارے گا اور جزا اور سزا کے لئے زندگی دے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) دُنیا کی نعمتوں کی مثال تو ان کے مقابل میں مچھّر کی سی ہے یعنی دُنیا کی چیزوں کی بہشت کی نعمتوں کے سامنے ایک پشّہ کے برابر بھی حقیقت نہیں.ایسی مثالوں سے مومن حق کو پا لیتا ہے اور کافر کہتاہے تمثیلوں سے کیا فائدہ؟ بہت سے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں مگر گمراہ وہی ہوتے ہیں جو فاسق ہوں.(الفضل ۲۷؍اگست ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) : کیسا صاف مطلب ہے کہ فاسق ہی اِس کتابِ کریم کو پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شفا اور راحت اور نور ہے.(فصل الخطاب صفحہ۳۲۲) .گمراہ کرتا ہے اس سے بہتیرے اور راہ پر لاتا ہے اس سے بہتیرے اور گمراہ کرتا ہے انہیں کو جو بے حکم ہیں.کیا صاف مطلب ہے کہ فاسق ہماری کتاب کو پڑھ کر گمراہ ہوتے ہیں ورنہ مومنوں کے لئے شفا اور راحت ہے.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۳۲۲)

Page 124

  اس نے تمہاری بھلائی کے لئے زمین کی سب چیزوں کو پیدا کیا پھر آسمان کی طرف متوجّہ ہؤا اور انہیںدرست کیا.سات آسمان.اگر کِسی طرح نہیں مانتے تو یُوں تو مانو کہ وہ ہرچیز کا عالم ہے اور علم والوں کی بات ماننا فطرتِ انسانی میں داخل ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) خَلَقَ لَکُمْ.اندازہ کیا تمہارے لئے کیونکہ قیامت تک خلق ہو گی.سَبْعَ سَمٰوٰتٍ آسمان کے ستارے سات قِسم کے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶)    سُورۃ الحمد میں دو گروہوں کا ذکر ہے منعَم علیہم ، مغضوب علیہم.منعَم علیہم کو متّقین فرمایا اور بتایا کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں نماز پڑھتے، اپنے مال و جان کو خدا کی راہ میں خرچ کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وحی کا سِلسلہ ابتدائے خلقِ آدم سے تاقیامت جاری ہے.یہ لوگ ہدایت کے گھوڑوں پر سوار ہیں اور مظفّر و منصور ہوں گے.دومؔ وہ لوگ جن کے لئے سُنانا نہ سُنانا برابر ہے اور جو شرارت سے انکار کرتے ہیں مغضوب علیہم ہیں ایسے ہی منافق.سومؔ وہ جو غلطی سے گمراہ ہیں یا

Page 125

بدعہدیوں کی وجہ سے یہ ضالّ ہیں.اب ایک منعَم علیہ کی مثال دے کر سمجھاتا ہے.اﷲ نے فرشتوں سے مشورہ نہیں کیا بلکہ انہیں اطلاع دی.یہ اطلاع دینا خدا کا خاص فضل ہے جو بعض خواص پر ہوتا ہے کہ مَیں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں.خلیفہ کہتے ہیں گذشتہ قوم کے جانشین کو جو اپنے پیچھے کسی کو چھوڑے بادشاہ کو (ظاہری باطنی سلطنت کو شامل ہے.) یہ ملائکہ وہ تھے جن کے متعلق عناصر کی زمینی خدمات ہوتی ہیں اور یہ ثابت ہے اِس آیت سے  (ص ٓ: ۷۶)جس سے معلوم ہؤا کہ عالین اس حکم کے مکلّف نہیں تھے.صوفیوں نے لکھا ہے تمام عناصر کا مجموعہ انسان ہے.ہر عنصر پر ایک فرشتہ ہوتا ہے.وہ اپنے اپنے متعلّقہ شئے کی ماہیت کو جانتے تھے وہ سمجھے کہ یہ تمام عناصر جب ملیں گے ضرور ان میں اختلاف ہو گا مگر انہیں معلوم نہ تھا.خدا انسان کو مجموعہ کمالات بنانا چاہتا ہے.واقعی ہماری غذا بھی عجیب ہے کچھ اس میں پتّھر (نمک) ہے.کچھ نباتات کچھ حیوانات.پس وہ بول اُٹھے کہ وہ فساد کرے گا اور خوں ریزی.مگر ہم تیری تسبیح و تقدیس کرتے ہیں تیری ذات کو اِس بات سے منزّہ سمجھتے ہیں کہ تیرا کوئی کام حکمت اور نیک نتیجہ سے خالی ہو.فرشتے جو اعتراض کر رہے تھے در اصل وہی ان پر وارد ہوتا تھا کہ وہ بنی آدم کی پیدائش اور اس کی نسل کی نسبت چاہتے تھے کہ نہ ہو گویا سفک دماء کرتے تھے اور یہ بھی فساد تھا.ایک دفعہ کسی شخص نے مجھے کہا بہت علماء تمہارے مرزا صاحب کو خلیفۃ اﷲ نہیں مانتے.مَیں نے کہا یہ تعجّب نہیں! خلفاء پر فرشتوں نے اعتراض کئے ہیں یہ علماء فرشتوں سے بڑھ کر نہیں مگر فرشتوں اور دوسرے لوگوں کے اعتراض میں فرق تھا فرشتوں نے َاورکہہکہ کراپنے اعتراض کو واپس لے لیا… فرشتوں کے سوال سے انسان کو عبرت پکڑنی چاہیئے جسے نہ تو خدا کی صفات کا عِلم ہے نہ صفات سے پیدا شدہ فعل کا بلکہ فعل کا اثر کچھ دیکھا ہے پس وہ کِس بات پر بڑھ بڑھ کر اعتراض کرتا ہے اور مامور من اﷲ کی نسبت کہتا ہے یہ نہیں چاہیئے تھا وہ چاہیئے تھا.(بدر ۲۴؍ستمبر۱۹۰۸ء صفحہ۲) آئندہ آنے والی باتوں کی نسبت روبران ملک پیشگوئی کرتے ہیں جن کے تجارب صحیحہ آئندہ واقعات کے متعلق ہوں وہ تمدّن کے فلاسفر کہتے ہیں جو دوائی اور نسخہ تجویز کرتے

Page 126

ہیں وہ بھی مریضوں کے متعلق ایک پیشگوئی کرتے ہیں جن کی ایسی پیشگوئیاں کثرت سے صحیح ہوں وہ طبیبِ حاذق کہلاتے ہیں.ایک اَور قوم ہے جو کسی حساب کی بنا پر پیشگوئی کرتی ہے پھر یہ پیشگوئیاں جس کی زیادہ صحیح ہوں وہ مُنجم کہلاتا ہے.پھر اِس سے بڑھ کر ایک اَور قوم ہے جس کے دماغوں کی بناوٹ اِس قِسم کی ہے کہ وہ آئندہ واقعات کے متعلق بعض اَوقات صحیح پیشگوئیاں کر سکتے ہیں ان میں سے جو اَخلاقِ فاضلہ اورعقیدہ صحیحہ رکھتے ہیں وہ ولی کہلاتے ہیں.دوسرے ہڑڑپوپو.پھر ایک اَور قوم ہے جو ملائکہ کے نام سے مشہور ہے ان کو بعض معاملات کی قبل از وقت اطلاع خدا کی طرف سے دی جاتی ہے.پھر اِن سے بالاتر ایک اَور قوم ہے جو ملائکہ سے میرے خیال میں افضل ہے انہیں رسول یا بنی کہتے ہیں ان کی اگر کوئی پیشگوئی بظاہر صحیح نہ ہو تو یہ امر ان کی ترقّی کا موجب ہے کیونکہ ایسی بات پیش آنے سے توجّہ جنابِ الہٰی میں بڑھے گی اور ترقّیات کو طلب کرے گا.بہر حال خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو اطلاع دی کہ  مَیں زمین میں ایک خلیفہ مقرر کرنے والا ہوں.: اِس کے تین معنے ہیں(۱) قوم کا قائم مقام یخلف قومًا(۲) جو اپنی جگہ کسی کو قائم مقام چھوڑے یخلف قومً (۳) وہ بادشاہ جو نافذالحکم ہو جیسے پنجابی میں ’’منّیا پروَنّیا‘‘ کہتے ہیں.آدم علیہ السّلام کے متعلق تینوں باتیں صحیح ہو سکتی ہیں.ان سے پہلے بھی قومیں ہو سکتی ہیںاور بعد میں بھی ہوئیں اور اﷲ نے انہیں طاقت بھی بخشی.ایک اَور جگہ داؤدعلیہ السلام کے متعلق یہی لفظ فرمایا (ص ٓ:۲۷) حضرت حق سُبحانہ، نے یہ اطلاع ملائکہ کو دی ہے اور ہرگز ہرگز بطور مشورہ نہیں بتایا.جن لوگوں کا یہ خیال ہے وہ غلطی پر ہیں خدا کِسی سے صلاح نہیں پوچھا کرتا.اطلاع کا نام مشورہ نہیں ہو سکتا.اِس پر فرشتوں نے عرض کیا کہ کیا تُو مقرر کرے گا اسے جو فساد کرے گا اور خوں ریزی؟ اِن معنوں پر بعض لوگوں کو اعتراض ہے کہ خدا کے سامنے ملائکہ نے اعتراض کیوں کیا اِس لئے اِس سے بچنے کے لئے بعض نے یہ معنے کئے ہیں کہ کیا آپ( خلیفہ) بھلا ایسا بنانے لگے ہیں جو فساد و خوں ریزی کرے ؟ گویا استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا.پھر یہ بھی خیال کر لینا چاہیئے کہ فرشتے جو عرض کرتے ہیں وہ خود اس اعتراض کے نیچے ہیں.وہ یہ بات کہہ کر آدم کو مُفسد ٹھہراتے اور اس کو مرواتے ہیں اور ان انبیاء و اُولیاء کے ظہور کے مانع ہیں جنہوں نے اپنے کمالات سے مخلوق کو فائدہ پہنچایا اور خدائی جلال کو ظاہر کیا اِس طرح وہ خوں ریزی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر یہ صحیح نہیں.

Page 127

بہر حال مجھے تو وہی پہلے معنے پسند ہیں کیونکہ اس سے مجھے بہت فائدہ پہنچا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے ایک خاص آدمی کے بارے میں پوچھا کہ آپ اسے کیسا سمجھتے ہیں.مَیں نے کہا نیک ہے، بزرگ ہے.اس کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ تو مرزا صاحب کا مخالف ہے.مَیں نے کہا پھر کیا ہؤا.آدم کی خلافت پر اس کے خلاف کہنے والے تو ملائکہ کہلاتے ہیں اور مَیں نے اسے مَلک بھی نہیں کہا.اس پچھلی بات کا فرشتے ازالہ کرتے ہیں کہ ہم تجھے کُل عیب سے پاک سمجھتے ہیں اور تیری ذات اس سے اعلیٰ و اَرفع ہے اور اقدس ہے کہ کوئی ایسا فعل کرے جس کا نتیجہ اچھا نہ ہو.یہ قول کہ فرشتوں نے گویا اپنے تئیں منصبِ خلافت کے قابل سمجھا مَیں نے کہیں نہیں دیکھا.اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مَیں تم سے اَعلم ہوں اور اَب اس اَعلم ہونے کا ثبوت دیتا ہے کہ .(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍ فروری ۱۹۰۹ء) دُنیا میں خلیفے پیدا ہوئے ، ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے.چار قِسم کے آدمیوں پر تصریح کی ہے جنابِ الہٰی نے.ایک حضرت آدمؑ کو فرمایا یعنی ہم نے آدم کو زمین میں خلیفہ بنایا.ایک حضرت داؤدؑ کو فرمایا(ص ٓ۲۷) اے داؤد! ہم نے تجھے خلیفہ بنایا.ایک سارے آدمیوں کو خلیفہ کا لقب دیا(یونس:۱۵) ہر انسان کو فرماتا ہے تم کو خلیفہ بنایا اور ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے اعمال کیسے ہوں گے.ایک دفعہ جب میرا بیٹا پیدا ہؤا (اگر وہ نہ ہوتا تو اس وقت ایک شخص تھا جس کا خیال تھا مَیں ہی وارث ہو جاؤں گا) تو کسی شخص نے اُس شخص سے بھی ذکر کر دیا.اس کو بڑا رنج ہؤا اور بے ساختہ اس کے مُنہ سے نکل گیا کہ یہ بَد بخت کہاں سے پیدا ہو گیا.میری تو ساری امّیدوں پر پانی پھر گیا مگر آج مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ بالکل لا ولد ہے نہ لڑکی نہ لڑکا اور پھر خدا کا ایسا فضل ہے کہ ایک باغ لگا دیا.سو کسی قِسم کا خلیفہ ہو اس کا بنانا جنابِ الہٰی کا کام ہے آدمؑ کو بنایا تو اﷲ نے، داؤدؑ کو بنایا تو اُس نے ، ہم سب کو بنایا تو اُس نے.پھر حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے جانشینوں کو ارشاد ہوتا ہے (النّور:۵۶)

Page 128

جو مومنوں میں سے خلیفہ ہوتے ہیں ان کو بھی اﷲ ہی بناتا ہے.ان کو خوف پیش آتا ہے مگر خدا تعالیٰ ان کو تمکنت عطا کرتا ہے.جب کسی قِسم کی بَدامنی پھیلے تو اﷲ ان کے لئے امن کی راہیں نکال دیتا ہے.جو اُن کا مُنکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.جناب الہٰی نے ملائکہ کو فرمایا کہ مَیں خلیفہ بناؤں گا کیونکہ وہ اپنے مقرّبین کو کسی آئندہ معاملہ کی نسبت جب چاہے اطلاع دیتا ہے.ان کو اعتراض سُوجھا جو اَدب سے پیش کیا.ایک دفعہ ایک شخص نے مجھے کہا حضرت صاحب نے دعوٰی تو کیا ہے مگر بڑے بڑے علماء اس پر اعتراض کرتے ہیں.مَیں نے کہا وہ خواہ کتنے بڑے ہیں مگر فرشتوں سے بڑھ کر تو نہیں.اعتراض تو انہوں نے بھی کر دیا اور کہا َکیا تُو اسے خلیفہ بناتا ہے جو بڑا فساد ڈالے اور خون ریزی کرے.یہ اعتراض ہے مگر مَولیٰ! ہم تجھے پاک ذات سمجھتے ہیں، تیری حَمد کرتے ہیں، تیری تقدیس کرتے ہیں.خدا کا انتخاب صحیح تھا مگر خدا کے انتخاب کو ان کی عقلیں کب پا سکتی تھیں.(الفضل ۱۷؍ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) ایک خلیفہ آدم تھا اُس کی نسبت فرمایا ہے.اَب خود ہی اس کے بارے میں ارشاد ہے  (طٰہٰ:۱۲۲) لیکن جب فرشتوں نے کہا  َ َ َ توان کو ڈانٹ پلائی کہ تم کون ہوتے ہو ایسا کہنے والے.پس فَاآدم کو سجدہ چنانچہ ان کو ایسا کرنا پڑا.دیکھو خود تو عاصی اور غوی تک کہہ لیا مگر فرشتوں نے چُوں کی تو اس کو ناپسند فرمایا.مَیں نے کِسی زمانہ میں تحقیقات کی ہے کہ نبی کے لئے لازم نہیں کہ اس کے لئے پیشگوئی ہو اور خلیفہ کیلئے تو بالکل ہی لازمی نہیں.دیکھو آدم پھر داؤد علیہ السلّام کے لئے کیا کیا مشکلات پیش آئے.مَیں اس قِسم کا قِصّہ گو واعظ نہیں کہ تمہیں عجیب عجیب قصّے ان کے متعلق سُناؤں مگر (ص ٓ:۲۵) سے تو یہ پایا جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ تو تھا جس کے لئے یہ الفاظ آئے.تیسرا خلیفہ ابوبکرؓ ہے اس کے مقابلہ میں شیعہ جو کچھ اعتراض کرتے ہیں وہ اتنے ہیں کہ ۱۳۰۰ برس گذر گئے مگر وہ اعتراض ختم ہونے میں نہیں آئے.ابھی ایک کتاب مَیں نے منگوائی ہے جس کے ۷۴۰ صفحات میرے پاس پہنچے ہیں.اِس میں صرف اتنی بات پر بحث ہے کہ مولیٰ علی رضی اﷲ عنہ بہتر ہے یا ابوبکرؓ.پھر شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کچھ پیشگوئی نہ فرمائی.چوتھا خلیفہ تم سب

Page 129

فتحیابی ہوتی رہی اور اشقیاء ہمیشہ شقاوت کا نتیجہ پاتے رہے.اس سعید کا نام آدم علیہ السّلام تھا اس کا مورثِ اعلیٰ ہونا یہود کو توریت سے اور عیسائیوں کو نیو ٹسٹمنٹ سے ظاہر ہے.عرب کے لوگوں کو اپنی قومی اور ملکی روایت اور یہود اور عیسائیوں کے قُرب سے یہ قصّہ معلوم تھا اور غالب عمرانات کے لوگ آدم علیہ السّلام کے اس دشمن کی بَد حالت سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ تمثیل سے بہتر اور نتائج کے دکھانے سے زیادہ کوئی عمدہ ذریعہ روحانی اور اَخلاقی تعلیم کے لئے نہیں ہو سکتا.باری تعالیٰ نے ایک خاص مُلک اور ایک خاص زمین میں آدم علیہ السّلام کو پیدا کرنا چاہا اور قبل اس کے کہ اﷲ تعالیٰ آدمؑ کو خلیفہ اور امام اور دینی و دُنیوی بادشاہ بنا دے.اس ملک کے دیوتا اور سرون اور ملائکہ کو الہاماً آگاہ فرمایا کہ مَیں اس زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں…جب کہا تیرے رَبّ نے ملائکہ کو کہ مَیں اس سر زمین میں ایک خلیفہ بنانا حاہتا ہوں.الارض کا الف اور لام اگرچہ عموم اور استغراق کے معنے بھی دیتا ہے مگر خصوصیّت کے معنے بھی دیتا ہے.ہر دو معنے اپنے اپنے موقع پر کئے جاتے ہیں.یہاں آدم علیہ السّلام کے ایک جگہ سے نکالے جانے اور دوسری جگہ چلا جانے سے صاف واضح ہوتا ہے کہ جہاں آدم علیہ السّلام خلیفہ بنائے گئے تھے وہ ایک خاص مُلک تھا اور جہاں آدمؑ پیچھے روانہ کئے گئے وہ اَور مُلک تھا اِس لئے یہاں الف لام تخصیص کے معنے رکھتا ہے اور لفظ خلیفہ اور الارض کے معنے معلوم کرنے کے واسطے آیۂ ذیل کو پڑھنا چاہیئے:. (ص ٓ: ۲۷) اے داؤد! ہم نے تجھ کو اِس زمین میں خلیفہ بنایا سو تُو لوگوں میں حق حق فیصلہ دیا کیجیو.اِس آیہ میں لفظ خلیفہ اور لفظ الارض سے اچھی طرح واضح ہو سکتا ہے کہ الف و لام خصوصیّت

Page 130

کے معنے دیتا ہے اور آگے چل کر لفظ جنّت کی تحقیق میں ہم اور زیادہ تفصیل کریں گے.تفاسیر میں لکھا ہے:.فَھِمُوْا مِنَ الْخَلِیْفَۃِ اَنَّہُ الَّذِیْ یَفْصِلُ بَیْنَ النَّاسِ.مَا یَقَعُ بَیْنَھُمْ مِنَ الْمَظَالِمِ وَیَرُدُّھُمْ مِنَ الْمَقَارِمِ وَ الْمَآثَمِ.(قرطبی.ابنِ کثیر) لفظ خلیفہ سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے تنازعاتِ باہمی کو فیصل کرے اور ناکردنی امور سے انہیں باز رکھے.وَ الصَّحِیْحُ اِنَّہ‘ اِنَّمَا سُمِّیَ خَلِیْفَۃً لِاَنَّہ‘ خَلِیْفَۃُ اﷲِ فِی اَرْضِہٖ لِاِقَامَتِہٖ حُدُوْدَہ‘ وَ تَنْفِیْذِ قَضَایَاہُ.(فتح البیان) اور دراصل یہ ہے کہ اُسے خلیفہ اِسی لئے کہا گیا ہے کہ وہ اﷲ کا خلیفہ بن کر اُس کی زمین میں حدود قائم کرتا ہے اور اَور احکامات کو جاری کرتا ہے.اَلْخَلِیْفَۃُ ھُوَ مَنْ یّخْلُفُ غَیْرَہ‘ وَالْمَعْنٰی خَلِیْفَۃٌ مِنْکُمْ لِاَنَّھُمْ کَانُوْا سُکَّانُ الْاَرْضِ اَوْخَلِیْفَۃُ اﷲِ فِیْ اَرْضِہٖ وَکَذٰلِکَ کُلُّ نَبِیٍّ نَحْوَیٰدَاوٗ دُاِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ.(تفسیر مدارک) خلیفہ اسے کہتے ہیں جو کسی کا قائم مقام ہو.آیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ تم میں کا خلیفہ ہے.کیونکہ وہ لوگ اس زمین کے باشندے تھے اور یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ اﷲ کا خلیفہ ہے اس کی زمین میں اور اِسی طرح ہر نبی اس کا خلیفہ ہے.مثلاً اے داؤد! ہم نے تجھے اسی زمین میں خلیفہ بنایا.غرض اِس زمین کے تمام مقدّس فرشتوں کے مقدّس گروہ نے آدم علیہ السّلام سے پہلی قوموں کی بَد اطواری اور کافروں،ڈشٹوں، ویسیوں، شیطانوں اور آمروں کے بُرے کام اور بَد چلنی دیکھی ہوئی تھی.عالم الغیب تو بجز ذاتِ پاک باری تعالیٰ کے کوئی بھی نہیں.اِلّاماشاء اﷲ.نہ انبیاء نہ اَولیاء.وہ ملائکہ بھی ایسے ہی محدود العِلم، محدود التجربہ مخلوق تھے.اپنی کم عِلمی اور غیب نہ جاننے کے باعث اور کچھ خلیفہ کے لفظ سے جس کے معنے نائب اور قائم مقام کے ہیں.غلطی سے سمجھ بیٹھے کہ یہ آدم بھی آدم ہے پہلی قوموں کی طرح فساد، تقل اور سفکِ دِماء نہ کرے.اس آدم کی واقعی نیکی اور نیک چلنی کا ان کو علم نہ تھا اِس لئے باری تعالیٰ کی معلّٰی بارگاہ میں عرض کیا:  َ.

Page 131

پہلے ہی سے فتنہ و فساد کی رویں اور شر کے طوفان تھوڑے چل رہے ہیں؟ یہ بھی تو کوئی ارپ قبیل ہی ہو گا.تیرا جلال ظاہر کرنے کو ہم بھی آخر ہیں ہی.بزرگوں، دیوتاؤں کاکام تویہی تسبیحات اور تحمیدِ الہٰی اور باری تعالیٰ کی عبادت ہوتی ہے.وہ بیچارے اﷲ تعالیٰ کے علم و حِکمت اور اس کے کاموں کے اسرار سے کیا واقف کہ فقط لِسانی تحمید و تقدیس سے دنیوی انتظام اور دینی کام اِس دارِ ناپائیدار کے نہیں چلتے.میرا یہ کہنا کہ آدم سے پہلے اَور قومیں دُنیا میں آباد تھیں اوّل تو قُرآن کریم کی اِس آیت سے ظاہر ہے بلکہ مکذّب نے بھی اِس امر کو تکذیب میں تسلیم کیا ہے..ان سب نے اطاعت کی مگر ابلیس نے اِبا کیا اور گردن کشی کی اور باغیوں میں سے ایک وہ بھی ہو گیا.اور لفظ مِنْ کے معنے بعض کے ہوتے ہیں کَانَ ماضی کا صیغہ ہے اور اخبار الاوّل اور آثار الاوّل کی چوتھی فصل میں لکھا ہے: رَوَی مُجَاھِدٌ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ کَانَ فِی الْاَرْضِ قَبْلَ الْجِنِّ خَلْقٌ یُقَالُ لَھُمُ الْجِنَّ وَالْبُنَّ وَ الطمَّ وَ الرمَّ وَانْقَرَضُوْا وَ ذَکَرَ غَیْرُہٌ اَنَّ اَوّلَ مَنْ سَکَنَ الْاَرْضَ اُمَّۃٌ یُقَالُ لَھُمُ الْجِنُّ وَالْبُنُّ ثُمَّ سَکَنَھَا الْجِنُّ قَامُوْا یَعْبُدُوْنَ اﷲَ زَمَانًا فَطَالَ عَلَیْھِمُ الْاَمْرُ فَفَسَدُوْا فَاَرْسَلَ اﷲُ اِلَیْھِمْ نَبِیًّا مِنْھُمْ بِقَوْلِہٖ تَعَالٰی یَا مَعْشَرَالْجِنِّ وَالْاِنْسِ اَلَمْ یَاْ تِکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ وَقِیْلَ مَلِکًا مُنْذِرًایُقَالُ لَہ‘ یُوْسُفُ فَلَمْ یُطِیْعُوْہُ وَ قَاتَلُوْا فَاَرْسَلَ اﷲُ عَلَیْھِمُ الْمَلَائِکَۃَ فَاَجَلَّتْھُمْ اِلَی الْبِحَارِ.مجاہد ابنِ عبّاسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جن سے پہلے یہاں زمین پر ایک لوگ رہتے تھے جنہیں جنّ،بنّ،طمّ،رمّ کہتے تھے اور وہ سب ناپید ہو گئے اور ایک شخص کا قول ہے کہ زمین کے پہلے باشندے ایک قوم تھی جنہیں جنّ اور بنّ کہتے تھے.پھر اُس پر جنّ آباد ہوئے.کچھ دنوں تو اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے بنے رہے پھر لگے شرارتیں کرنے تو اﷲ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کی طرف ایک بنی بھیجا چنانچہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے.اے گروہ ِ جنّ و اِنس کیا تم میں سے تمہاری طرف رسول نہیں آئے.کہتے ہیں ڈرانے والا بادشاہ.اس کا نام تھا یوسف.انہوں نے اُس کا کہا نہ مانا اور اس سے لڑنے کو کھڑے ہوئے.تب اﷲ تعالیٰ نے ان پر فرشتوں کو بھیجا انہوں نے ان باغیوں کو سمندر کی طرف

Page 132

نکال دیا.ٔ اور تفسیر فتح البیان میں ہے:.اَفْسَدَتِ الْجِنُّ فِی الْاَرْضِ فَبَعَث َاِلَیْھِمْ طَائِفَۃً مِنفَطَرَدُوْھُمْ اِلَی الْبِحَارِ وَرُؤُوْسِ الْجِبَالِ وَ اَقَامُوْا مَکَانَھُمْ.(فتح البیان) انہوں نے زمین میں فساد بَرپا کیا اﷲ تعالیٰ نے ان پر ملائکہ کو بھیجا وہ انہیں پہاڑوں اور سمندر کی طرف ہَنکا کر ان کی جگہ آباد ہو گئے.اَسْکَنَ الْجِنُّ فِی الْاَرْضِ فَمَکَثُوْا فِیْھَا دَھْرًا طَوِیْلًا ثُمَّ ظَھَرَ فِیْھِمُ الْحَسَدُ وَالْبَغْیُ فَاَفْسَدُوْا فِیْھَا فَبَعَثَاﷲُ تَعَالٰی عَلَیْھِمْ جُنْدًا مِنَ الْمَلَائِکَۃِ یُقَالُ لَہُ الْجِنُّ وَ ھُمْ خَزَّانُ الْجَنَانِ اشْتَقَّ لَھُمْ اِسْمٌ مِنَ الْجِنَّۃِ رَأْسُھُمْ اِبْلِیْسُ وَکَانَ رَئِیْسُھُمْ.تفسیر سراج المنیر خطیب شربینی:.وَعَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ عُمَرَ وَکَانَ الْجِنُّ بَنُوالْجَانِّ فِی الْاَرْضِ قَبْلَ اَنْ یُخْلُقَ اٰدَمُ بِاَلْفَیْ سَنَۃٍ فَاَفْسَدُوْا فِی الْاَرْضِ وَسَفَکُوا الدِّمَائَ فَبَعَثَ اﷲُ جُنْدًا مِنَ الْمَلَا ئِکَۃِ فَضَرَ بُوْھُمْ حَتّٰی اَلْحَقُوْا لِجَزَائِرِ الْبُحُوْرِِ.(ابنِ کثیر) اِن عبارات سے صاف واضح ہوتا ہے جیسے ہمیشہ فاتح لوگ قلبِ ملک پر قابض ہو جاتے ہیں ایسے ہی ملائکہ اور وہ دیوتا جن کے سامنے یا جن پر آدم علیہ السّلام خلیفہ بنائے گئے شیاطین پر فاتح تھے اور شیاطین ذلیل اور خوار ہو کر دُور دُور بلاد میں بھاگ گئے اور امام الائمہ حضرت سیّدنا امام محمد باقر علیہ السّلام سے روایت ہے جیسے تفسیر کبیر میں لکھا ہے اس آدم علیہ السّلام سے پہلے ہزار در ہزار آدم گذر چکے ہیں.حضرت شیخ مُحی الدین ابن عربی رحمتہ اﷲ فتوحاتِ مکّیہ کے باب حدوث الدنیا میں فرماتے ہیں’’ مَیں ایک دفعہ کعبہ کا طواف کرتا تھا.مجھے کچھ لوگ طواف کرتے ملے: ان کی حالت سے مجھے معلوم ہؤا کہ یہ کوئی روحانی گروہ ہے.’’فَقُلْتُ لِوَاحِدٍ مِّنْھُمْ مَنْ اَنْتُمْ ، فَقَالَ نَحْنَ مِنْ اَجْدَادِکَ الْاَوّلِ فَقُلْتُ کَمْ لَکُمْ مِنَ الزَّمَانِ وَالْمُدَّۃِ فَقَالَ بِضْع ٌ وَ اَرْبَعُوْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ فَقُلْتُ لَیَْسَ لِاٰدَمَ قَرِیْبٌ مِنْ تِلْکَ السِنِیْنَ.فَقَالَ عَنْ اَیِّ اٰدَمَ تَقُوْلُ عَنْ ھٰذَا الْاَقْرَبِ اِلَیْکَ اَوْغَیْرِہٖ فَفَکَّرْتُ فَتَذَکَّرْتُ حَدِیْثًا مِنْ رَّسُوْلِ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّ اﷲَ خَلَقَ قَبْلَ اٰدَمَ الْمَعْلُوْمِ عِنْدَنَا مِائَۃَ اَلْفٍ

Page 133

ٰدَمَ.شیخ صاحب کہتے ہیں مَیں عالَمِ کشف میں حضرت ادریس نبی علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے مِلا اور اس کشف کی صِحت پر سوال کیا.’’ فَقَالَ اِدْرِیْسُ صَدَقَ الْخَبَرُ وَصَدَقَ شُھُوْکَ وَمُکَاشِفَتُکَ‘‘جب ملائکہ، دیوتا نے اپنے اس غلط قیاس کے باعث وہ عرض کی جس کا ذکر آیت میں گذرا تب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو فرمایا مَیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے.اﷲ تعالیٰ علیم و خبیر کی غیب دانی پر غور کرو.کیسی غیب دانی ہے اور وہ پاک ذات اپنے علم کے ساتھ کیسا محیط الکُل ہے.کسی تاریخ سے قرآن کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا کہ آدم علیہ الصّلوٰۃ والسّلام سے کسیقسم کا فساد فی الارض یاسفک دماء ہؤا ہو.ملائکہ کا اعتراض حضرت آدمؑ پر تھا اور اعتراض بھی یہ کہ فساد فی الارض اور سفکِ دماء اس سے سرزد ہو گا مگر حضرت آدمؑ ان عیوب سے پاک اور بَری نکلے.اگر حضرت آدمؑ کی اولاد میں سے کوئی شخص اُن کی طرز پر نہ چلا تو اُس کے جُرم سے حضرت قصور وار نہیں ہو سکتے.اولاد کے گناہ سے باپ کو بدنام کرنا اور بیٹے کے قصور پر باپ کو ملامت کے قابل بنانا بے انصافی ہے.باپ کی کرتوت سے بیٹا بدنام ہو تو ہو مگر بالعکس غلط ہے.ہاں حضرت آدم،شیطان کی ناراستی اور قسم پر دھوکا کھا جائے تو ممکن تھا کیونکہ نیکوں کے نیک گمان ہوتے ہیں.نیک آدمی فریبیوں کی باتوں پر اپنے نیک گمان کے سبب غلطی کھا سکتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۱۱۹ تا ۱۲۶،۱۲۷)    

Page 134

   اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ،دیوتا اور سرون کو آدم کے خلیفہ بنانے پر جب یہ فرمایا ُ  اِس دعوٰی کی نہایت لطیف دلیل بتائی.دعوٰی تو یہ فرمایا کہ بے رَیب مَیں وہ باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے اور اِس دعوٰی کا ثبوت یُوں دیا آدم کو چیزوں کے نام سکھائے اس تعلیم سے جو اﷲ تعالیٰ نے آدم کو دی.اتنا تو ثابت ہؤا کہ جو چیز آپ کو سکھائی گئی وہ فرشتے نہیں جانتے تھے اگر وہ جانتے تو اس چیز کے بتانے سے عاجز آ کر یہ نہ کہتے: .تُو پاک ہے ہمیں کوئی عِلم نہیں مگر جتنا تُو نے ہمیں سکھایا.آدم کو ایسی بات تعلیم کر دینی جس کا عِلم فرشتوں کو نہ ہو ضرور اِس امر کا مثبت ہے کہ اﷲتعالیٰ وہ کچھ جانتا ہے جسے فرشتے نہیں جانتے اگر فرشتے جانتے تھے تو اﷲتعالیٰ نے اگر آدم کو پڑھا دیا تھا گو ہم نے مانا کہ علیحدہ پڑھایا تھا تو واجب تھا کہ فرشتے بُدوں اس کے کہ خدا سے پڑھتے بتلا دیتے اور اگر نہ بتلا سکے تو معلوم ہؤا کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمودہ وَ اَعْلَمُ مَالَا تَعْلَمُوْنَبالکل سچّ تھا کہ فرشتے اس کے علوم سے بے خبر ہیں تو اس کے کسی فعل پر کسی کو خواہ ملائکہ کیوں نہ ہوں اعتراض کا موقع نہیں.ٔ (تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۱۲۷،۱۲۸) اَب ہرسہ گروہ (منعم علیہم،مغضوب علیہم اور ضالّین.مرتّب) کا ذکر تمثیلی رنگ میں فرماتا ہے یعنی یہ ایک سوال ہے مگر ہم آپ کو کُلّی عیوب سے پاک جانتے ہیں.اِنِّیْ اَعْلَمُ کا ثبوت عَلَّمَ اٰدَمَ سے دیایعنی اس کو سکھا دیا فرشتوں کو نہ پڑھایا اور بتایا.دیکھو جسے ہم پڑھاتے ہیں وہی جانتا ہے دوسرا نہیں.ان مسمّیات کو پیش کیا وہ نام کیا تھے اس کا تفحص بیہُودہ ہے.صوفیوں

Page 135

نے اسمائِ الہٰی مراد لئے.فلاسفروں نے ہر چیز کا ربّ النّوع.مَاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ.اﷲ نے اپنی عظمت کا ذکر فرمایا کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں یہ نہیں کہ فرشتے دل میں کوئی بُرا خیال رکھتے تھے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۶،۴۳۷) الاسماء: کچھ نام سکھا دیئے وہ نام کیا تھے اس پر لوگوں نے بحث کی ہے.صوفی تو کہتے ہیں اﷲ نے اپنے نام سکھائے فلاسفر کہتے ہیں چیزوں کے نام اور خواص.یہ سب باتیں قیاسی طور پر کہی جاتی ہیں.کِسی وحی سے ثابت نہیں.پس مَیں اِتنا کہوں گا کہ اﷲ نے کچھ باتیں سکھائیں ان کو اﷲ خوب جانتا ہے پھر فرشتوں سے کہا کہ کیا تم بتا سکتے ہو.اس پر ایک عیسائی نے اعتراض کیا ہے کہ اﷲ نے ملائکہ سے ناانصافی کی کہ ان کو نہ بتایا اور آدم کو بتایا حالانکہ نادان نہیں جانتا کہ ثابت بھی یہی کرنا تھا کہ جسے مَیں علم دوں وہ عالم ہے اور جسے مَیں نہ دوں وہ جاہل ہے چنانچہ فرمایا ہے کُلُّکُمْ ضَالّ اِلَّامَنْ ھَدَیْتُہ‘ کُلُّکُمْ عَارٍ اِلَّا مَنْ کَسَیْتُہ‘ پہلے دونوں جاہل تھے اور دونوں تعلیم کے محتاج.آدم کو پڑھا دیا اسے آ گیا ملائکہ کو نہ پڑھایا اسے نہ آیا چنانچہ فرشتوں نے خود اقرار کیا سُبْحٰنَکَ لَاعِلْمَلَنَآ اِلَّامَا عَلَّمْتَنَا پھر فرمایا اَعْلَمُ غَیْبَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی چھُپی ہوئی باتوں کو جانتا ہے وہ علیم و حکیم ہے.ایک بچّہ درزی کو دیکھے کہ اس نے تمام تھان کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے تو وہ گھبر ا اُٹھتا ہے کیونکہ نہیں جانتا کہ یہ ٹکڑے ایک اعلیٰ ملبوس بننے والے ہیں اسی طرح اﷲ کے مصالح اکثر نادانوں سے مخفی رہتے ہیں وہ ظاہری صورت دیکھ کر چلّا اُٹھتے ہیں.گلستان میں ایک شخص کی حکایت ہے کہ وہ لنگڑا ہو گیا اور ایک دن بیگار میں لوگوں کو پکڑ رہے تھے اُسے چھوڑ گئے تو وہ خدا کا شُکر بجا لایا.قرآن شریف میں موسٰی اور خضر کا قِصّہ ہے.خضر نے ایک کشتی کو عیب ناک کر دیا اور بعد میں اس کی حکمت ظاہر ہوئی.پس ہمیں چاہیئے کہ خدا کی حکمتوں پر ایمان لائیں اور اس کے حکم مانیں شیطان نے اپنی رائے کو ترجیح دی.اس نے انکار کیا.اکڑبازی کی.کافر ہو گیا.بہت سے لوگ خدا کا فضل لے کر غضب کما لیتے ہیں بعض غضب تو نہیں کماتے مگر بھُول جاتے ہیں.خدا کے انکار اور شرک وغیرہ کی سزائیں بعد الموت ہیں مگر شوخی، بے حیائی، کسی کو دُکھ دینا، کِسی کی ہتک کرنا، اِن سب کے عذاب اِسی دُنیا میں بھی آتے ہیں.جو محض خدا کے حقوق ہیں ان کے لئے فروگذاشت معاف کی جاتی ہے مگر حقوق العباد میں دسترس کرنے کی سزا بہت جلد مِلتی ہے.

Page 136

بعض آدمیوں کو خدا تعالیٰ حُسن دیتا ہے مگر وہ اسی نعمت سے عورتوں کو اپنے اُوپر رجھا کر اپنے لئے موجبِ غضب بنا لیتے ہیں.دولتمند انسان کے پاس دولت ایک نعمت ہے مگر یہی نعمت خدا کا غب بن جاتی ہے اگر اسے فضولیوں اور عیاشیوں میں صَرف کیا جائے.یہی حال تندرستی، ذہانت، فراست، موزونیّت طبع کا ہے کہ بعض ایسی باتوں میں لگ جاتے ہیں جو حُسن و عشق سے وابستہ ہیں.ایک گندی کتاب ہمارے بچپن کے زمانہ میں پڑھائی جاتی تھی جس کا نام بہار دانش ہے.مَیں نہیں سمھ سکتا کہ ایک شاگرد اپنے استاد کے آگے کس طرح اس کا ترجمہ کر سکتا ہے.غرض خدا تعالیٰ ذہن و ذکا ، فہم و فراست، جاہ و جلال، حُسن و جمال دیتا ہے مگر انسان انعام لے کر غضب کے نیچے آ جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء)       اَب جو رکوع اِس وقت پڑھتا ہوں اس میں نام لے کر ایک منعم علیہم گروہ کا ذکر ہے یعنی آدم اور ایک مغضوب علیہم یعنی شیطان کا اور بھُول میں پڑنے والے گروہ ملائکہ کا.(ضمیہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍فروری ۱۹۰۹ء) اﷲ جو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ کچھ نواہی بھی ہوتے ہیں یہاں اُسْکُنْ،کُلَامِنْھَا رَغَدًاتو احکام ہیں اور لَاتَقْرَبَا نہی ہے.ھٰذِہِ الشَّجَرَۃََ: ایک درخت سے منع کیا جوان کے لئے مُضِر تھا.بے جاتکلیف اُٹھائی ان لوگوں نے جنہوں نے اس درخت کا نام ڈھونڈھا ہے.میرے اپنے ذوق کے مطابق یہ اعتقاد

Page 137

ہے کہ ہر شخص کو کچھ حکم دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی کچھ ممانعت بھی کی جاتی ہے کُلُوْا وَاشْرَبُوْا کے سات وَلَاتُسْرِفُوْا فرمایا ہے ایسا ہی آدم کو کسی بات سے جو اس کے لئے مُضِر تھی روکا.فَتَکُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ایسا کرو گے تو جان پر بوجھ ڈالو گے.آدم خدا کا مصطفٰے اور مجتبیٰ تھا اور قرآنِ مجید میں آیا ہے ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْکِتٰبَ الَّذِی اصْطَفَیْنَاہُ ُمِنْ عِبَادِقَا فَمِنْھُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِہٖ جس سے معلوم ہؤا کہ برگزیدہ لوگ بھی ظالم ہیں مگر وہ ظالم نہیں جن کے ظلم کا نتیجہ بُرا ہے بلکہ وہ نفس پر رضائِ الہٰی کے لئے ظلم کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) چونکہ حضرت آدمؑ کی خلافت ان کی کمالِ عِلمی کے باعث ثابت ہو گئی اور علمی کمال بطریق اولیٰ تسبیح اور تحمید کا باعث ہوتا ہے جیسے قرآن کریم نے کہااِنَّمَایَخْشَی اﷲَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ.یَرْفَعُ اﷲُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُم وَالَّضْزِیْنَ اُوْتُوالْعِلْمَدَرَجَاتٍ تو حضرت آدمؑ ملائکہ سے بڑھ گئے اور ان پر فضیلت پا گئے.جن باتوں پر خلافت کا مدار ہے اِس آیت میں بیان ہوئی ہے.   (البقرۃ:۲۴۸) اسی بناپر اﷲ تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ اس خلیفہ اور حاکم کی اطاعت کرو.الہٰی خلفاء کی تابعداری اور فرمانبرداری انسانی ضرورت ،تمدّن اور سیاست کا لابدی مسئلہ ہے اِسی واسطے جامع العلوم کتاب قرآن کریم اِس بارے میں حکم دیتی ہے اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنکُمْ تمام مذاہب یہ امر مسلّم ہے کہ عبادت نام ہے اﷲ تعالیٰ کی آ گیا کے پالن کا.یعنی اس کافر مانبردار ہونا.جب باری تعالیٰ نے ملائکہ کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو آدم کو سجدہ کرنا اور اس کی آ گیا کا پالن کرنا درحقیقت باری تعالیٰ کی جناب کو سجدہ تھا نہ آدم کو.سچ ہےاﷲ تعالیٰ کے حکم سے اس کے خلفاء کی فرمانبرداری بھی خود اﷲ تعالیٰ کی اطاعت ہوتی ہے اور حکامِ وقت کے بھلے حکموں اور اچھے ارشادوں کی اطاعت حضرت حق سُبحانہٗ وتعالیٰ کی ہی اطاعت ہؤا کرتی ہے.سجدہ کا لفظ اِسلامی شرع میں ایک وسیع لفظ ہے اس کے معنے سمجھنے کے لئے اِن آیات و محاورات پر غور کرو (النحل:۵۰) (الرعد:۱۶)

Page 138

سجدہ کا لفظ عرب کی لُغت میں انقیاد اور فرمانبرداری کے معنے دیتا ہے.زیدالخیل عرب کا ایک مشہور شاعر ایک قوم کی بہادری کا تذکرہ کرتا ہے اور کہتا ہے اس بہادر قوم کے سامنے ٹیلے اور پہاڑ سب سجدہ کرتے ہیں یعنی فرمانبردار ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی اِس قوم کو روک نہیں سکتی.بِجَمْعٍ تَضِلُّ الْیَلْقُ فِیْ حُجُرَاتِہٖ وَتَرَی الدُکْمَ فِیْھَا سُجَّدًا لِلْجَوَافِرِ وَالَسّجُوْدُ اَلتَّذَلُّلْ وَالْاِنْقِیَادُ بِالسَّعْیِ فِی تَحْصِیْلِ مَایَنُوْطُ بِہٖ مَعَاشَھُمْ.فتح.تفسیر مدارک ۱؎ میںہے وَاِذْقُلْنَا لِلْمَلَائِکَۃ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ اَیْ اَخْضَعُوْالَہ‘ وَاَقَرُّوْا بِالْفَصْلِ لَہ‘.غرض آدم علیہ السّلام وہاں رہے اور ہر طرح اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں زندگی بسر کرتے رہے اﷲ تعالیٰ نے کہہ دیا تھا کہ انگور یا الشجراور انجیر کے پاس بھی نہ جانا.َ  سعید بن جبیر.سدی.شعبی.جعدہ بن ہبیرہ.محمد بن قیس.عبداﷲ بن عبّاس.مُرّہ ابن مسعود اور کئی صحابہ رضوان اﷲ علیہم اجمعین کا یہی قول ہے کہ وہ انگور کا درخت تھا.مدارک میں لکھا ہے کہ یہی درخت تمام فتنوں کی جَڑ ہے اور منذربن سعید نے اپنی تفسیر میں ایسا ہی لکھا ہے جیسے امام ابنِ قیّم نے حادی الارواح میں بیان کیا اور وہ جنّت جس میں آدم علیہ السّلام رہے وہ زمین پر تھا غور کرو دلائلِ ذیل پر: وَالْقَوْلُ بِائَّھَا جَنَّۃٌ فِی الْاَرْضِ لَیْسَتْ بِجَنَّۃِ الْخُلْدِ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَ اَصْحَابِہٖ رَضِی اﷲُ عَنْہُ وَ ھٰذَا ابْنُ عْیَیْنَۃَ یَقُوْلُ فِیْ قَوْلِہٖ عَزَّ وَجَلَّ وَ اَنَّ لَکَ اَنْ ل َاتَجُوْعَ فِیْھَا وَ لَاتَعْرٰی قَالَ یَعْنِیْ فِی الْاَرْض وَ ابْنُ عُیَیْنَۃِ اِمَامٌ وَ ابْنُ نَافِعِ اِمَامٌ وَھُمْ ۱؎ تفسیر فتح البیان و مدارک التنزیل.مرتّب ( اَیِ الْمُنْکِرُوْنَ) لَا یَاتُوْنَنَا بِمِثْلِھِمَا.اور امام ابنِ قتیبہ نے اپنی کتاب معارف میں فرمایا ہے:.(ترجمہ از مرتّب) اور یہ قول کہ : ’’ وہ جنّت زمین پر ہے، اِس سے مراد جنّت خُلد یعنی ہمیشہ رہنے والی جنّت نہیں ہے.‘‘ یہ ابوحنیفہؒ اور آپ کے رفقاء کا قول ہے.اور ابنِ عیینہ کے مطابق فرمانِ الہٰی: وَاَنَّ لَکَ اَنْ لَّا تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَا تَعْرٰ ( کہ اس میں تُو بے خوراک و بے پوشاک نہ ہو گا) یعنی اس سر زمین میں.اور یاد رہے کہ ابنِ عیینہ اور ابنِ نافع ایسے امام ہیں جن کی مثال منکرین کے پاس نہیں ہے.

Page 139

خَلَقَ اٰدَمَ وَ زَوْجَہ‘ ثُمَّ تَرَکَھُمَا وَقَالّ اعْتَمِرُوْا وَ اَکْثِرُوْا وَ امْلَئُوا الْاَرْضَ وَ تُسَلِّطُوْا عَلٰی اَلْوَانِ الْھُجُوْرِ وَطَیْرِالسَّمَائِ وَالْاَنْعَامِ وَعُشُبِ الْاَرْضِِ وَشَجَرِھَا وَثَمَرِھَا فَاَخْبَرَ اَنَّہ‘ فِی الْاَرْضِ ثُمَّ قَالَ وَنَصَبَ الْفِرْدَوْسَ فَانْقَسَمَ عَلٰی اَرْبَعَۃِ اَنْھَارٍ.سَیْحُوْنَ.جَیْحُوْنَ وَ دَجْلَۃَ وَفُرَاتَ.وَقَالَ مُنْذِرُبْنُ سَعِیْدٍ.زٰذَا وَ ھنبُ ابْنُ مُنَبَّہٍ یُحْکِیْ اَنَّ اٰدَمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ خُلِقَ فِی الْاَرْضِ وَفِیْھَا سَکَنَ وَ فِیْھَا نُصِبَ لَ ہُ الْفِرْدنوْسُ وَ اِنَّہ‘ کَانَ بِعَدْنٍ وَاِنَّ ۱؎ تفسیر فتح البیان و مدارک التنزیل.مرتّب اَرْبَعَۃَالْاَنْھنارب انْقَسَمَتْ مِنْ ذَالِکَ النَّھْرُالَّذِیْ کَانَ یُسَمّٰی فِرّدنوْسُ اٰدَمَ ون تِلْکَ الْاَنْھَارُ مُضَا فَیِالْاَرْضِ لَا اِخْتِلَافَ بَیْنَ الْمُصَلِّیْنَ فِیْ ذَالِکَ فَاعْتَبِرُوْایَا اُولِی الْاَبْصَارِ.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۸تا۱۳۱) اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ وَ کَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ:یعنی اس نے سرکشی کی اور انکار کیا اور وہ کافروں میں سے تھایا ہؤا.اِس سے صاف ظاہر ہے کہ ہلاکت کو خود اس نے اپنی سرکشی سے خریدا.خدا نے اسے بجبرہلاک نہیں کیا.(نور الدین صفحہ ۲۶) پہلا گناہ دین میں خلیفۃ اﷲ کے مقابل یہی تھا اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ.اِس میں شک نہیں کہ سُنّت اﷲ اسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں.اچھے بھی کرتے ہیں اور بُرے بھی.مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور بُرے نہیں کرتے.مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو ترجمہ:خدا نے آدمؑ اور اس کی بیوی کو پیدا کر کے یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ جاؤ آبادکاری کرو،کثرتِ اولاد سے زمین کو بھر دو اور مختلف پتھریلی سر زمین آسمان کے پرندوں ،مویشیوں،نباتات،درختوں اور پھلوں پر غلبہ حاصل کرو.ابنِ قتیبہ نے بتایا کہ یہ اس کُرّۂ اَرض کے بارہ میں ذکر ہے.پھر کہا کہ اﷲ نے فردوس قائم کیا اور یہ چار نہروں: سیحونؔ،جیحونؔاور دجلہؔوفراتؔمیں تقسیم ہو گیا.ترجمہ: اور منذرؔ بن سعید نے کہا کہ وہبؔ بن منبّہ بیان کرتے ہیں کہ آدم علیہ السّلام زمین میں پیدا کئے گئے اور اسی میں رہے اور اسی میں ان کے لئے فردوس بنائی گئی جو عدنؔ میں تھی.اور فردوسِ آدم نامی دریا چار دریاؤں میں تقسیم ہؤا اور یہ چاروں زمین میں واقع ہیں.اِس بارہ میں اہلِ صلوٰۃ یعنی مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے.فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَارِ.

Page 140

بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے.پس اگر یہ مَلک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراص سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ورنہ لعنت کا طَوق گلے میں پڑے گا.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء) پہلا نافرمان جس کی تاریخ ہمیں معلوم ہے ابلیس ہے وہ کیوں نافرمان بن گیا اس کی خبر بھی قرآن شریف نے بتلا ئی ہے کہ اس نے ابیٰ اور استکبار کیا یعنی اس میں انکار اور تکبّر تھا جس کی وجہ سے وہ اَسْلِمْ کی تعمیل نہ کر سکا.اِس وقت بہت لوگ ہیں کہ اس ابیٰ اور استکبار کی وجہ سے اَسْلِمْ کی تعمیل سے محروم ہیں.کسی کو عقل پر تکبّر ہے کسی کو علم پر.کسی کو اپنے بزرگوں پر جو کہ ان کے نقصان کا باعث ہو رہا ہے اور جب کبھی خدا کے مامور آتے رہے ہیں یہی اباء اور استکبار اُن کی محرومی کا ذریعہ ہوتے رہے ہیں.انسان جب ایک دفعہ مُنہ سے نہ کر بیٹھتا ہے تو پھر اُسے دوبارہ ماننا مشکل ہو جاتا ہے اور لوگوں سے شرم کی وجہ سے وہ اپنی ہَٹ پر قائم رہنا پسند کرتا ہے اس کا نتیجہ کُھلم کُھلا انکار اور آخرکار وَکَانَ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ کا مصداق بننا پڑتا ہے.(الحکم ۲۲؍فروری ۱۹۰۵ء نیز الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء) َ:اِس سے ظاہر ہے کہ اوّل انکار اور کِبرہی ایک ایسی شئے ہے جو کہ فیضانِ الہٰی کو روک دیتی ہے.طاعون کے گذشتہ دَورہ میں جو الہام حضرت اقدس کو ہؤا تھا اس میں بھی ایک شرط لگی ہوئی تھی کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ اِلَّا الَّذِیْنَ عَلَوْا بِالْاِسْتِکْبَارِ(تذکرہ صفحہ ۳۵۰ ایڈیشن چہارم )کِبر تزکیۂ نفس کی ضِد ہے اور دونوں چیزیں ایک جامع نہیں ہو سکتیں.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء)    ان کو شیطان نے پھسلانا چاہا اور پھر ان کو جہاں وہ تھے وہاںسے نکال دیا.خازن کی تفسیر میں لکھا ہے:.

Page 141

اَزَلّ ای اِسْتَزَلَّ اٰدَمَ وَحَوَّا وَ دَعَا ھُمَا اِلَی الذَّلَّۃِ وَھِیَ الْخَطِیَّۃٌ(کتاب التاویل تفسیر خازن)غرض آدم علیہ السّلام اس ملک سے چل دیئے اور کسی اَور زمین میں جا کر آباد ہوئے.توریت شریف میں لکھا ہے’’ خداوند خدا نے آدم علیہ السّلام کو پہلے باغِ عدن میں رکھا کہ اس کی باغبانی اور نگہبانی کرے‘‘ (پیدائش۲باب ۱۸ اور پیدائش ۳ بان ۲۴) آیت میں ہے اس نے آدم کو نکال دیا اور باغِ عدن کے پورب کی طرف کروبیوں کو جو چمکتی تلوار کے ساتھ چاروں طرف پھرتے تھے مقرر کیا.تو غالباً یہ وہ مکان تھے جہاں قائن جا کر آباد ہؤا.سو قائن خداوند کے حضور سے نکل گیا اور عدن سے پورب کی طرف نود کی زمین میں جا رہا‘‘.(پیدائش ۴ باب ۱۶) اور یہ بھی فرمایا کہ ہم اِس واسطے تم کو نکالتے ہیں کہ تم لوگوں میں باہمی عداوت ہے اور باہمی عداوت کا یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ آخر کچھ قوموں کو نکلنا پڑتا ہے.سوچو آریہ ہند میں کِس طرح آئے.مقامِ تامّل اور غور ہے.اب بھی اگر ناعاقبت اندیشوں کے باعث محرّم.دسہرہ وغیرہ کے فسادات ہوتے رہے تو بہت ساروں کو حکم ہو گا پورٹ بلیئر چلے جاؤ اور یُوں مجبوراً(پورٹ بلیئر)  ٍ کی تعمیل کرنی پڑے گی.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۳۵،۱۳۶) فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ: شیطان کو بھی ایک موقع معلوم ہؤا اس نے پھسلانا چاہا.عَنْھَا.اس درخت سے.قرآن مجید میں لکھا ہے کہ (طٰہٰ:۱۱۶) کچھ مدّت کے بعد آدم حکمِ الہٰی کو بھُول گئے اور یہ کسی انسان کے لئے موجبِ تعجب نہیں ہو سکتا.ہم دیکھتے ہیں کہ آدمی نماز کے لئے بڑے اہتمام کے ساتھ گھر سے آتا ہے وضو کرتا ہے.پھر پہلی رکعت دوسری سے بالکل مختلف ہے پھر بھی بھُول جاتا ہے.قرآن مجید کی آیات کا بھی یہی حال ہے.بعض وقت معمولی آیت قرأت کے وقت بھُول جاتی ہے.روزہ رکھا جاتا ہے مگر بھُول کر پانی پی لیتے ہیں یہ عجائباتِ قدرت ہیں.اَخْرَجَھُمَا: اﷲ نے نکال دیا اس حالت سے جس میں وہ تھے.پھر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جب بعض تمہارے دشمن بھی ہیں تو تم چَوکس رہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) 

Page 142

   اِھْبِطُوْا: میرا ایمان ہے کہ یہ سزا نہیں.آدمؑ نے خدا سے کچھ باتیں سیکھیں جیسے حضرت ابراہیمؑ نے(البقرۃ:۱۲۵) یعنی کچھ حکام دیئے جن کو ابراہیم نے پُورا کیا تو امام بنایا گیا اسی طرح خدا نے حضرت آدمؑ کو درجات عطا فرمائے.ھُوَا لتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ کے بعدقُلْنَا اھْبِطُوْا فرمانااِس بات کی دلیل ہے کہ یہ بطورسزاہرگزنہیں.یہ قرآن شریف کے سیاق کے بالکل خلاف ہے.فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی: ہماراہدایت نامہ جب آئے تو قاعدہ یاد رکھو جو تابع ہو گا اس پر کوئی خوف و حزن نہیں.ہر زمانے میں ایک تغیّر آتا ہے اس تغیّرمیں ایک قوم خوف و حزن میں ہوتی ہے.رسولِ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم جب مبعوث ہو کر پبلک میں آئے تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا وعظ کیا.اس وقت دو مذہب تھے ایک موحّد دوسرے بُت پرست.ان میں سے جو متّبع تھے حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے وہ کامیاب ہوئے اور سارے عرب کو ساتھ ملا لیا مگر کافر اسی خوف و حزن میں رہے.عبداﷲ بن اُبَیّ اور ابوجہل کو تھوڑا رنج تھا اور پھر کفّار کو کتنا حُزن ہؤا ہو گا جبکہ دونوں کے بیٹے مسلمان ہو گئے.غرض جو فرمانبرداری اختیار کرتے ہیں وہ سُکھ پاتے ہیں اور جو مقابلہ کرتے ہیں وہ اصحابُ النّار جَل بھُن کے کباب ہو جاتے ہیں.ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ مومنون کو بھی خوف و حزن ہوتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ مومنوں کے لئے یہ وعدہ ہے وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا.غرض یہ خوف و حزن ایک فریق کے لئے کامیابی کا موجب ہوتا ہے تو دوسرے کے لئے ناکامی کا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) آدمؑ نے اپنے ربّ سے کچھ کلمات سیکھے اور اس پر فضل ہؤا اور اﷲ نے حکم دیا کہ اَب

Page 143

جب کبھی ہماری ہدایت پہنچے جو اس کے تابع ہو گا اس پر کسی قِسم کا خوف و حزن طاری نہ ہو گا اور جو حکم کی خلاف ورزی کرے گا اسے نقصان پہنچے گا تم سب دِل میں سوچو کہ تمہارا جی چاہتا ہے کہ تمہیں غم ہو خوف ہو.غموں اور خوفوں سے بچنے کا ایک ہی علاج ہے وہ یہ کہ ہدایت کی اتباع کرو اگر نہیں کرو گے تو دُکھ اُٹھاؤ گے.(الفضل ۲۴؍ستمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) اِھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا: یہاں سے سب کے سب نکل جاؤ.یہ حکم اﷲ تعالیٰ کے فضل کا نشان تھا.حضرت آدمؑ غالباً ہند بلکہ سراندیپ میں چلے آئے جیسے جابر،ابنِ عمر، سیّد ناعلی اور جماعتِ صحابہ اور تابعین اور من بعد ھم سے مروی ہے.کیونکہ جس مکان پر کسی سے غلطی ہوتی ہے وہ منحوس جگہ اِس قابل نہیں ہوتی کہ محتاط لوگ وہاں رہیں.علاوہ بریں ایسے مکان سے ہجرت کرنا آئندہ کے واسطے ہشیار اور خبردار بنا دیتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۶)  سارا قرآن شریف حقیقت میں الحمد کی تفسیر ہے.اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں تین گروہوں کا اور اپنی صفات میں سے چار صفات کا ذکر کیا ہے.ایک گروہ کا نام منعَم علیہم ہے.بہت سے لوگ منعَم علیہ ہو کر بھی مغضوب بن جاتے ہیں.مغضوب علیہ وہ ہوتا ہے جو علم پر عمل نہ کرے اور کِسی سے بے جا عداوت رکھے.احادیث میں یہود بتائے گئے ہیں ان میں یہی بات ہے کہ بے جا عداوت رکھتے ہیں اور جو اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ہو کر علم نہیں رکھتے اور کسی سے بے جا محبّت رکھتے ہیں وہ ضالین ہیں.احادیث میں ان کا نام عیسائی آیا ہے.یہاں یعقوب کا نام چھوڑ دیا ہے.اسرائیل کو یونانی زبان میں س کی بجائے ش بولتے ہیں.اشر کے معنے سپاہی ،بہادر.خدا تعالیٰ نے یعقوب علیہ السّلام کا یہ نام رکھا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا بہادر سپاہی ہے.ماں باپ نے تو یعقوب نام رکھا تھا اﷲ تعالیٰ نے اسرائیل نام رکھا.یہاں ہم کو بتایا کہ تم کِن اسلاف کی اَولاد ہو.

Page 144

انعامات کو یاد کرنے سے یہ فائدہ ہے کہ ہمارے احکامات کی بجا آوری میں سُستی نہ کرو.ہمارے احکامات کی بجا آوری کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جو نتائج پہلوں کو عطا ہوئے ہیں وہ تم کو بھی عطا ہو جائیں گے.بعض اَوقات انسان کو ایک اَور مشکل پیش آ جاتی ہے وہ یہ کہ بعض آدمی غریب ہوتے ہیں ان کو فِکر ہوتا ہے کہ ہم کسی بڑے آدمی کی مخالفت کریں تو ہم کو نقصان پہنچے گا.ْ: سب سے بڑی نعمت تو رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجودِ مبارک تھا.اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ:میرے وعدوں کے پابند ہو جاؤ.جو مَیں نے ان پر ثمرات عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ مَیں دے دوں گا.چونکہ کسی شرعی حکم پر عمل کرنے میں بعض آدمیوں کو مشکلات ہوتی ہیں اور بڑے آدمیوں کا خوف ہوتا ہے کہ شاید وہ تکلیف دیں.اِسی لئے فرماتا ہے اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ ڈر صرف میرا ہی رکھو.انسان حق بات کا اظہار بوجہ مالی ضعف یا ضعفِ جاہ و جلال یا ضعفِ علم و ہمّت کر نہیں سکتا.مثلاً ایک آدمی غریب ہے اپنا جتھا نہیں رکھتا پس وہ دوسروں کا محتاج ہے.فرماتا ہے اگر تم اظہارِ حق میں کسی کی پرواہ نہ کرو تم میرے وفادار بنو اور میرا ڈر رکھو مَیں ضرور تمہاری مدد کروں گا.یہ ضعفاء کے لئے ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ء) قرآن سُنانے والوں کو یہودیوں ، عیسائیوں میں قرآن سُنانے کا کم موقع ملتا ہے پس جہاں یہ ذکر ہے وہاں مسلمانوں کو متنبّہ کرنا مقصو ہے.پس مسلمان کو چاہیئے کہ جن ناپسند کاموں کی وجہ سے یہودی عیسائی عذاب پانے والے ہوئے ان سے بچے اور جن پسندیدہ کاموں کے سبب انعام پائے وہ کرے.اس قوم کے مورثِ اعلیٰ کا نام نہیں لیا بلکہ لقب بیان کیا ہے اس سے ان کو شرم اور جوش دلانا مقصود تھا.عربی زبان میں اسرائیل کے معنے ہیں خدا کا بہادر سپاہی.اِس نام سے یہ غیرت دلائی کہ تم بھی اﷲ کے بہادر نبو.ہماری سر کار سیّد الابرارصلّی اﷲ عیہ وسلّم سے بڑھ کر اَور کون اﷲ کا پہلوان ہے.پس اِتنے بڑے انسان کی اُمّت اور اولاد ہو کر ہم نفس و شیطان کے مقابلہ میں بُزدلی دکھائیں تو ہم پر افسوس ہے… وہ نعمت کیا تھی.دوسری جگہ فرمایا کہ تم میں سے انبیاء و ملوک

Page 145

پس اے مسلمانو! تم اپنی حالت پر غور کرو کہ تم پر بھی یہ انعام ہو چکے ہیں.اِس کتاب پر ایمان لاؤ کیونکہ اِس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ تمام نصائح کی جامع ہے.اگر کسی اگلی کتاب میں تحریف ہو چکی ہے تو یہ اسے صاف کرتی ہے.(بدر ۲۶؍نومبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۳) اِس رکوع میں اﷲ تعالیٰ نے حضرت یعقوبؑ کی اولاد کو ، بنی نوع اسرائیل کو بہادر سپاہی کے بیٹوں سے خطاب کیا.مسلمانوں کی عبرت چاہیئے کہ تم بھی کسی بہادر سپاہی کی قوم ہو.محمد رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ السلام تمہارا امام تھا.صحابہ کرامؓ اور تابعین کی اولاد ہو.تمہیں یاد ہے تم پر کیا کیا فضل ہوئے.پہلا فضل تو یہی ہے کہ تم کچھ نہ تھے.پیدا ہوئے پھر مسلمان ہوئے.قرآن جیسی کتاب تمہیں دی گئی.محمد رسول اﷲ جیسا خاتم النّبییّن رسول عطا فرمایا.تمہیں سمجھانے کے لئے متنبّہ کرنے کے لئے دوسروں کے حالات سُناتا ہے کہ ایک قوم کو ہم نے بڑی نعمتیں دی.ِ (النحل:۱۱۳) اس قوم نے اﷲ کی نعمتوں کی کچھ قدر نہ کی تو ہم نے ان کو بھُوک کی موت مارا.بھُوک کی موت.بہت ذِلّت کی موت.بہت دُکھ کی موت ہوتی ہے.مَیں نے ان اپنی آنکھوں سے بھُوک کی موت مرتے لوگ دیکھے ہیں.دُودھ ان کے مُنہ میں ڈالیں تو وہ بھی حلق سے نیچے نہیں اُترتا.کشمیر میں خطرناک قحط پڑا کافر تو سؤر بھی کھاتے ہیں ان کے باورچی خانہ کے اِرد گِرد لوگ جمع ہو جاتے کہ شاید کوئی چھچھڑا مِل جائے.یہ حالت اضطراری تھی اِس لئے مسلمان معذور تھے.پندرہ بڑے بڑے غرباء خانے تھے اور رئیس چار سیر گیہوں خرید کر سولہ سیر کے حساب سے دیتا مگر پھر بھی خدا ہی دے تو بندہ کھائے بندے کی کیا ہی طاقت ہے کہ اِتنی دُنیا کی رزق رسانی کر سکے.غرض اﷲ تعالیٰ ایک قوم کو نعمتیں یاد دلاتا ہے اور ارشاد فرماتا ہےمجھ سے جو عہد کیا تھا وہ پُورا کرو تو مَیںوہ عہد پُورا کروں گا جو تم سے کیا تھا.اِس کا ذکر پہلے آ چکا ہے چنانچہ فرمایا(البقرۃ:۳۹)یعنی تم میری ہدایت کے پَیرو بنو تو مَیں تمہیںلَازندگی دوں گا.اس وقت کسی مصیبت کے دن ہیں.سات کروڑ کے قریب مسلمان کہلاتے ہیں چھ کروڑ کے کان میں قرآن کبھی نہیں گیا ایک کروڑ ہو گا جو یہ سُنتا ہے کہ قرآن ہے مگر اسے سمجھنے کا موقع نہیں.پھر چند ہزار ہیں جو قرآن مجید باترجمہ پڑھتے ہیں.اب یہ دیکھو کہ عمل درآمد کے لئے کِس قدر تیار ہیں.مَیں نے ایک بڑے عالم فاضل کو دیکھا جن کا مَیں بھی شاگرد تھا.وہ ایک پُرانا عربی خطبہ پڑھ دیتے تھے.ساری عمر اسی میں گذار دی اور قرآنِ مجید

Page 146

نہ سُنایا حالانکہ علم تھا، ذہین و ذکی تھے، نیک تھے، دُنیا سے شاید کچھ بھی تعلق نہ تھا.پھر ان کی اولاد کو بھی مَیں نے دیکھا وہ بھی اسی خطبہ پر اِکتفا کرتی.مَیں نے آنکھ سے روزانہ التزام درس کا کہیں نہیں دیکھا.ان بعض مَلکوں میں یہ دیکھا ہے کہ کِسی فِقہ کی کتاب کی عبارت عشاء کے بعد سُنا دیتے ہیں.پس مَیں تمہیں مخاطب کر کے سُناتا ہوں.اﷲ فرماتا ہے ہمارے فضلوں کو یاد کرو اور میرے عہدوں کو پُورا کرو مَیں بھی اپنے عہد پُورے کروں گا.کبھی ملونی کی بات نہ کیا کرو اور گول مول باتیں کرنا ٹھیک نہیں.حق کو چھُپایا نہ کرو بحالیکہ تم جانتے ہو.قرآن شریف میں دو ہی مضمون ہیں ایک تعظیم لِاَمر اﷲ.لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے ساتھ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ اس کلمۂ توحید کی تکمیل کے لئے ہے.دومؔشفقت علیٰ خلق اﷲ.اِس مضمون کو کھول کر بیان فرماتا ہے کہ خدا کی تعظیم کے واسطے نمازوں کو مضبوط کرو اور باجماعت پڑھو.آجکل تو یہ حال ہے کہ امراء مسجد میں آنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.حِرفت پیشہ کو فرصت نہیں.زمیندار صُبح سے پہلے اپنے گھروں سے نکلتے ہیں اور عشاء کے قریب واپس آتے ہیں.ایک وقت کی روٹی باہر کھاتے ہیں.پھر واعظوں اور قرآن سُنانے والوں کو فرماتا ہے کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھُول جاتے ہو.علماء ،فقراء ، گدّی نشین سب کو ارشاد فرماتا ہے کہ بہادروں کے بیٹے بنو، منافق نہ بنو،حق میں باطل نہ ملاؤ، وفادار بنو تاکہ بے خوف زندگی بسر کرو.دوسروں کو سمجھانے سے پہلے خود نمونہ بنو.اگر تبلیغ میں کوئی مشکل پیش آجائے تو استقلال سے کام لو،بدیوں سے بچو،نیکیوں پر جمے رہو، نمازیں پڑھ پڑھ کر،دعائیں مانگتے رہو اور یہ یقین رکھو کہ آخر اﷲ کے پاس جانا ہے.زندگی کا کچھ بھروسہ نہیں.مَیں نے ایک شخص کو دیکھا بادشاہ کے پاس قلم و کاغذ لے کر گیا اِدھر پیش کیا اُدھر جان نکل گئی.ایک اَور شخص تھا بڑے شوخ گھوڑے پر سوار میری طرف مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا.مَیں نے کہا آپ کا گھوڑا شوخ ہے.کہنے لگا ہاں ایسا ہی ہے.مَیں ادھر گھر پہنچا کہ مجھے اطلاع ملی کہ وہ مَر گیا.غرض یہ دوست ، یہ احباب، یہ آشنا، یہ اقرباء، یہ مال یہ دولت، یہ اسباب یہ دکانیں، یہ سازو سامان یہیں رہ جائیں گے.آخر کار باخداوند.اﷲ تم پر رحم کرے.(الفضل یکم اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)  

Page 147

 مُصَدِّقًا لِّمَامَعَکُمْ.مُصَدِّقًا بعض عیسائیوں نے اعتراض کیا ہے کہ پھر مسلمان کیوں انجیل پر عمل نہیں کرتے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مصدّق ہونے کو تیار ہیں بشرطیکہ انجیل وہ ہو جو عیسٰیؑ پر نازل ہوئی.اگر وہ انجیل ہو تو ہم اس کے مصدّق ہیں.پھر کوئی چیز مصدّق اُس چیز کے لئے ہو سکتی ہے جو تصدیق کی محتاج ہو.مثلاً سبت مناؤیا یہ کرو تو یہ محتاجِ تصدیق نہیں.تصدیق کی محتاج پیشگوئیاں ہوتی ہیں اِسلام کی وجہ سے جو تغیرّ ان کے بلاد اور مذہب میں ہؤا.عیسائیوں سے ہمارا سوال ہے کہ آیا اس کے متعلق کوئی پیشگوئی تمہاری کتابوں میں ہے یا نہیں.اگر ہے تو وہ پوری ہو چکی.تصدیق کے دوسرے معنے سچ کو سچ کہنے والا.جھُوٹ کو جھُوٹ کہنے والے کو مصدّق نہیں کہتے.پس جو اِن کتابوں میں سچ ہے اس کو اپنی تعلیم میں لے کر سچّا ثابت کر دیا اور جو جھُوٹ ہے اسکی تکذیب کر دی.مثلاً یہود کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور مسیحی کہتے ہیں کہ خدا تین ہیں.پس فرمایا:. (المائدہ: ۷۴) وَلَا تَکُوْنُوْآ اَوَّلَ کَافِرٍبِہٖ یعنی تم پڑھے ہوئے کافر بنو گے تو اوّل درجہ کے کافر کہلاؤگے.گو مُشرک پہلے کافر ہوئے تھے مگر وہ جاہل تھے.اِسی لئے پڑھے ہوؤں سے کہا کہ تم اوّل درجہ کے کافر بنو گے کیونکہ تم کو منہاجِ نبوّت کا علم ہے اور پھر کافر بنے.ثَمَنًا قَلِیْلًا کے یہ معنی نہیں کہ قرآن کی قیمت تھوڑی نہیں لینی چاہیئے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جھُوٹے مسئلے بنا کے اپنی بڑائی یا دُنیا چاہنا بہت بُرا ہے.قرآن مجید میں آیا ہے کہ (النّساء :۷۸) جس سیثَمَنًا قَلِیْلًا کے معنے کُھل سکتے ہیں.فَاتَّقُوْنِ: میرا تقوٰی اختیار کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ء) اوّل نمبر کے کافر نہ بنو یا پہلا بُرا نمونہ تم نہ بنو کہ دوسرے اس سے متاثر ہوں گے اور سب کا گناہ تمہارے ذمّہ ہو گا.کلامِ الہٰی کی بے اَدبی نہ کرو.جس شخص نے ’’ بہار دانش‘‘ لکھی ہے اُس سے کسی نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ جواب دیا اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ کی تفسیر کر رہا ہوں.راگ والی کتاب کسی نے بنائی اور اُوپر لکھ دیا (الذّمر:۱۹).یہ سب لَاتَشْتَرُوْ

Page 148

بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً کی خلاف ورزی ہے.  دُنیا میں ایک فرقہ ایسا بھی ہے کہ راستبازی ان کی فطرت میں داخل ہوتی ہے.ایک فرقہ وہ ہے جو حق کو باطل کے ساتھ ملا دیتا ہے اور پھر اپنے تئیں سچّا ثابت کرنے کے لئے حق کو چھپا دیتا ہے.بچّے کا حال بیج کی مانند ہے کہ تخم اچھا ہو پر زمین اچھی نہ ہو.زمین اچھی ہو تو آب پاشی نہ ہو.آب پاشی ہو تو حفاظت نہ ہو.پس خوش قِسمت انسان کو نیک ماں باپ، نیک ہم نشین ، عمدہ تربیت و نگرانی حاصل ہوتی ہے.(بدر ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲) اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ: جب کہ تم پر حق واضح ہو چکا ہو.یہ سب علماء سے خطاب ہے کیونکہ ایسے لوگ علماء میں بہت ہیں.مثلاً ایک امیر شیعہ نے ایک عالم سے پُوچھا کہ کربلا جانا بہتر ہے یا مکّہ جانا.اُس نے جواب دیا مکّہ کے واسطے تو زادِراہ اور امن کی شرط ہے اور کربلا کے واسطے یہ شرط نہیں.اوہ کربلا کی اتنی عظمت؟ اور اس کی طرف جان جوکھوں میں ڈال کر جانا.یہ سُنکر سُبحان اﷲ پڑھتا چلا گیا.بعد میں کسی دوست نے پُوچھا کہ کیوں حضرت یہ کیا فرمایا.کہنے لگے کہ اس نے دھوکہ کھایا.میرا مطلب یہ تھا کہ کربلا جانا ثابت ہی نہیں.دیکھو اگر اسے حق کہنا منظور ہوتا تو ایسے مشتبہ لفظ نہ بولتا.پھر فرمایا کہ نمازیں سنوار سنوار کر پڑھو اور زکوٰۃ دیتے رہو.مَیں نے بہت کم عالموں کو زکوٰۃ دیتے دیکھا ہے.ان میں زکوٰۃ کا رواج کم ہے.اِرْکَعُوْا: فرمانبرداروں کے ساتھ ہو جاؤ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) اَقِیْمُوا الصَّلوٰۃَ: نماز کو قائم کرو.بعض کام روزمرّہ کی عادت بن جاتے ہیں.پھر ان کا لُطف نہیں رہتا.دیکھا گیا ہے کہ زبان سے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی ہو رہا ہے مگر قلب کی توجّہ کام کی طرف ہے.پس نماز کو سنوار کر پڑھو اور جو معاہدہ نماز میں کرتے ہو عملی زندگی میں اس کا اثر دیکھو.زبان سے کہتے ہو اِیَّاکَ نَعْبُدُ ہم تیرے فرمانبردار ہیں مگر کیا فرمانبرداری پر ثابت قدم ہو ؟ پھر واعظوں کو

Page 149

ڈانٹا ہے کہ تم دوسروں کونیکی کی نسبت کہتے ہو اور اپنے تئیں بھُلاتے ہو.پس تم دونوں سُنانے والے اور سُننے والے ثابت قدمی سے کام لو اور دُعا کرو.نماز پڑھو کہ یہ دونوں کام خاشعین پر گراں نہیں.جن کو اﷲ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کا یقین ہو وہی حقیقی خشوع کر سکتے ہیں.(بدر ۱۰؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)اﷲ تعالیٰ اِن آیات میں اپنے احسانات یاد دلاتا ہے کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ اپنے احسان کرنے والے کا شُکر گذار ہوتا ہے اور اس کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کو خوش رکھنا اپنا فرض جانتا ہے.پس اﷲ تعالیٰ انسان کو کہتا ہے کہ تم خدا کے ناشکرے کِس طرح بنتے ہو.اپنا حال تو دیکھو تم مُردہ تھے، بے جان ذرّات تھے، تمہارا نام و نشان نہ تھا خدا نے تمہیں زندہ ، جاندار بنایا پھر تم مَر جاؤ گے پھر زندہ کئے جاؤ گے اور خدا کی طرف پھیرے جاؤ گے..پھر احسانِ الہٰی کو یاد کرو کہ اس نے زمین کی تمام اشیاء تمہارے فائدہ کے واسطے بنائیں.پھر تم زمین سے لیکر آسمان تک بلکہ عرش تک نگاہ ڈالو ہر امر میں خدا تعالیٰ کے تمام کاموں کو حِکمت سے پُر پاؤ گے.کوئی بات ایسی نہیں جس میں کوئی کمزوری یا خرابی نگاہ میں آ سکے اور خدا سب باتوں کا علیم ہے وہ تمہارے افعال کو دیکھ رہا ہے اور اُن سے باخبر ہے.(بدرؔ۱۷؍ستمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)    اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ: ایسے نہ بنو کہ لوگوں کو تو نیکی کا حکم کرو اور اپنے تئیں ترک کر دو.تَنْسَوْنَکے معنے ترک کر دینے کے ہیں.قرآن شریف میں ایک جگہ آیا ہے نَسُوا اﷲَ فَنَسِیَھُمْ (التوبۃ:۶۷) : تم کیوں نہیں رُکتے.عقل ایک صفت ہے.انسان اپنے تئیں بدیوں سے روک سکتا ہے.یہ دو گروہ ہوئے ضعفاء اور علماء.اب تیسرے گروہ کا ذکر آتا ہے یہ اُمراء کا گروہ ہے.ہمارے ملک میں اِن لوگوں کے لئے تو گویا کوئی شریعت ہی نہیں اور نہ کوئی واعظ ہے.ہر قِسم کی بدی ان کیلئے مباح ہے.ان کی مجلسوں والے نرے خوشامدی ہیں.ایک امیر نے بَینگن کی تعریف کی.حاضرینِ مجلس نے

Page 150

بھی ہاں میں ہاں ملائی.دوسرے دِن اُس نے بَینگن کی مذمّت کی تو وہ بھی مذمّت کرنے لگا.ایک دوست نے کہا کہ یہ کیا؟ کہنے لگامَیں تو امیر کا نوکر ہوں بَینگن کا نوکرنہیں.پس امراء کو خضوصیّت سے حکم دیتا ہے کہ روزے رکھو، نماز پڑھو.یہ طریق مشکل ہے مگر خشوع اختیار کرنے والوں کو نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)   اِنَّھَا کی ضمیر مؤنث ہے جو صبر و صلوٰۃ کی طرف پھرتی ہے.عربوں میں قاعدہ ہے کہ مذکّر و مؤنث مِل جاویں تو مذکّر کو ترجیح دیتے ہیں لیکن اگر علیحدہ مؤنث و مذکّر کو ضمیر پھرتا ہو تو مؤنث ہو گا.قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا (التوبۃ:۳۴) ھَا ضمیر فِضَّۃ کے لحاظ سے مؤنث آیا ہے حالانکہ اشارہ دونوں کی طرف ہے.یہ انگریزوں میں بھی رواج ہے کہ ہاتھ ملانے ، خطاب کرنے میں عورتوں کو مقدّم کرتے ہیں.عرب کے شعراء کا بھی یہی مَسلک ہے ایک شعر ہے ؎ وَمَا ذِکْر الرَّحْمٰن یَوْمًا وَ لَیْلَۃً مَلَکْنَاکَ فِیْھَا لَمْ تَکُنْ لَیْلَۃُ الْبَدْرِ اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ: یقین کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ میں بھی صبر کے معنے روزے کے کئے گئے ہیں.روزے کے ساتھ دُعا قبول ہوتی ہے.(بدر ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء صفحہ ۲  

Page 151

: اﷲتعالیٰ مخاطب کرتا ہے ایک قوم کو کہ تم بہادر سپاہی کی اولاد ہو اور بہادر بنو.مَیں سمجھتا ہوں تمہیں بھی مخاطب کر کے یہی کہتا ہے.تم اپنے بزرگوں کو دیکھو کہ کِس طرح نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم و صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم نے اِسلام کی اشاعت میں اپنی جان تک لڑا دی.صحابہ رضی اﷲ عنہم ایسے بہادر تھے کہ ایک دفعہ نبی کریمصلی اﷲ علیہ وسلم نے ان سے کہا دریا کے کنارے پر جاؤ کچھ کام ہے.تین سَو آدمی روانہ ہوئے اور مَیں حیران ہؤا کہ یہ نہیں پُوچھا کہ ہماری رَسد کا کیا اِنتظام ہو گا.کچھ کھجوریں مدینہ سے لے گئے جو رستے ہی میں ختم ہو گئیں.جب کچھ پاس نہ رہا تو کیکر کے پتّے پھانک کر گزارہ کرتے رہے.پھر ایک ویل مچھلی مِل گئی جس پر تین سَو آدمیوں نے سترہ روز تک گزارہ کیا.دیکھو اتّباع.کیا محبّت تھی جو ان لوگوں میں تھی اَب مَیں دیکھتا ہوں کہ کسی کو مالی نقصان ہی پنچ جائے یا عزّت میں فرق آ جاوے یا کِسی کے خیال کے خلاف ہی کوئی حکمِ شرعی ہو تو اسے گراں گزرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) اﷲ تعالیٰ ہمارا مالک، ہمارا خالق، ہمارا رازق کثیر اور بے اِنتہا انعام دینے والا مولیٰ فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو.انسان کے اندر قدرت نے ایک طاقت و دیعت رکھی ہے کہ جب کوئی اُس کے ساتھ احسان کرتا ہے تو اس کے اندر اپنے مُحسن کی محبّت پیدا ہوتی ہے جُبِلَتِ الْقُلُوبُ عَلٰی حُبِّ مَنْ اَحْسَنَ اِلَیْھَا.اور ایسا ہی اُس آدمی سے اُس کے دل میں ایک قِسم کی نفرت اور رنج پیدا ہو جاتا ہے جس سے اُس کو کِسی قِسم کی تکلیف یا رنج پہنچے اور یہ ایک فطرتی اور طبعی تقاضا انسان کا ہے.پس اسی فطرت اور طبیعت کے لحاظ سے اﷲ تعالیٰ اِس مقام پر فرماتا ہے کہ اﷲ کریم کے احسانوں کا مطالعہ کرو اور ان کو یاد کر کے اس مُحسن اور مُنعم کی محبت کو دل میں جگہ دو.اُس کے بے شمار اور بینظیر احسانوں پر غور تو کرو کہ اُس نے کیسی منوّر اور روشن آنکھیں دیں جن سے وسیع نظارۂ قدرت کو دیکھتے اور ایک حَظّ اُٹھاتے ہیں.کان دیئے جن سے ہر قِسم کی آوازیں ہمارے سُننے میں آتی ہیں.زبان دی جس سے کیسی خوشگوار اور عمدہ باتیں کہہ کر خود بخود خوش ہو سکتے ہیں.ہاتھ دیئے کہ جن سے بہت سے فوائد خود ہم کو اور دوسروں کو پہنچتے ہیں.پاؤں دئے کہ جن سے چل پھر سکتے ہیں.پھر ذرا غور تو کرو کہ دُنیا میں اگر کوئی شخص کسی کے ساتھ اَدنیٰ سا احسان بھی کرتا ہے تو وہ اس کا کِس قدر ممنون ہوتا ہے اور ہر طرح سے اس احسان کو محسوس کرتا ہے.…غرص کُل دُنیا کی نعمتوں سے جو انسان مالا مال ہو رہا ہے یہ اس کی ہی ذرّہ نوازیاں ہیں.جسمانی نعمتوں اور برکتوں کو چھوڑ کر اَب مَیں ایک عظیم الشّان نعمت رُوح کے فطرتی تقاضے کو پُورا کرنے والی

Page 152

نعمت کا ذکر کرتا ہوں.وہ کیا.یہ اُس کا پاک اور کامل کلام ہے جس کے ذریعے سے انسان ہدایت کی صاف اور مصفّا راہوں سے مطلع اور آگاہ ہؤا اور ایک ظلمت اور تاریکی کی زندگی سے نکل کر روشنی اور نور میں آیا.ایک انسان دوسرے انسان کی ،باوجود ہم جنس ہونے کے، رضاسے واقف نہیں ہو سکتا تو پھر اﷲ تعالیٰ کی رضاء سے واقف ہونا کِس قدر محال اور مشکل تھا.یہ خدائے تعالیٰ کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے اپنی رضاکی راہوں کو بتلانے اور اپنی وراء الوراء مرضیوں کو ظاہر کرنے کے لئے انبیاء علیہم السّلام کا سِلسلہ قائم فرمایا… یہ احسان ہے اﷲ تعالیٰ کا جو اسلام سے مخصوص ہے کہ بھولی بسری متاع اﷲ تعالیٰ جیسا وقت ہوتا ہے اس کے لحاظ سے اُس کا یاد دلانے والا بھیج دیتا ہے.یہ انعام ہے.یہ فضل اور احسان ہے اﷲ تبارک و تعالیٰ کا… اِس آیت میں خدا تعالیٰ اُس فطرت کے لحاظ سے جو انسان میں ہے ارشاد فرماتا ہے کہ میری نعمتوں کو یاد کرو جو مَیں نے تم پر کی ہیں.وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ بنی اسرائیل کو کہتا اور مسلمانوں کو سُناتا ہے کہ اور مَیں نے تم کو دُنیا میں ایک قِسم کی بزرگی عطا فرمائی ہے.خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا آسمانی اور پاک علوم سے دلچسپی رکھنے والا جیسی زندگی بسر کر سکتا ہے اُس سے بہتر اور افضل وہم میں بھی نہیں آ سکتی.منافق کا نفاق جب ظاہر ہوتا ہے تو اس کو کیسی شرمندگی اُٹھانی پڑتی ہے.جھُوٹ بولنے والے کے جھُوٹ کے ظاہر ہونے پر وعدہ خلافی کرنے والے کے خلاف وعدہ پر ان کو کیسا دُکھ ہوتا ہے مگر محمد رُسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے والے مذہبی حیثیّت سے اپنے پاک اور ثابت شدہ بیّن اور روشن عقائد اور اصولِ مذہب کے لحاظ سے کُل دُنیا پر فضیلت رکھتے ہیں.کیا خدا تعالیٰ کے حضور کوئی صرف دعوٰی سے افضل ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.خدا تعالیٰ مخفی در مخفی ارادوں اور نیّتوں کو جانتا ہے اس کے حضور نفاق کام نہیں آ سکتا بلکہ مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ (الشعراء:۹۰) کام آتا ہے.(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ ۳تا۵) قرآن کریم عجیب عجیب پَیرائے میں نصیحتیں فرماتا ہے.بہادر سپاہی کی اولاد تم بھی غور کر لو.کوئی اپنے آپ کو سیّد سمجھتا ہے وہ اپنے بڑوں کی بہادری پر کتنا فخر کرتا ہے.کوئی قریشی کہلاتا ہے وہ سیّدوں کو اپنی جُزو قرار دیتا ہے.اِسی طرح کوئی مُغل ہے.کوئی پٹھان ، کوئی شیخ.غرض مخلوق کے تمام گروہ اپنے آپ کوکسی بڑے آمی سے منسُوب کرتے ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ بڑا آدمی کیوں بنا؟ اپنے اعمال سے.پس اگر تم ان اعمال کے خلاف کرو گے تو کیا بڑے بن سکتے ہو.ہرگز نہیں.جو بہادری انسان کو بڑا بنا سکتی ہے کیا اُس بہادری کو ترک کر دینا انسان کو بُزدل نہیں بنا سکتا …

Page 153

پس میرے پیارو! اگر تم بڑوں کی اولاد ہو اور خدا نے تمہیں تیرہ سَو برس سے عزّت دی تو بڑوں کے کاموں کو نابُود کرنے والے نہ بنو.تم خود ہی بتاؤ کہ وہ شِرک کرتے، جھُوٹ بولتے، دھوکا کرتے، وہ دوسروں کو دُکھ دیتے تھے؟ ہرگز نہیں.تو کیا تم ان افعال کے مُرتکب ہو کر بڑے بن سکتے ہو؟ بنی اسرائیل کو تو خدا نے شام میں بڑائی دی تھی مگر اسلام نے یہاں تک معزّز کیا کہ تمہیں سارے جہان کا عظیم انسان بنا دیا.اِس نعمت کا شُکر کرو کیونکہ آیتَ تمہیں انعاماتِ الہٰی یاد دلانے کے لئے نازل ہوئی ہے.اگر تم ان انعاماتِ الہٰی کی ناقدری کرو گے تو اس کا وعید تیار ہے کیونکہ جس طرح نیکی کا پھَل اعلیٰ درجے کا آرام ملتا ہے ایسا ہی بَدی کا پھَل بھی ذِلّت و اِدبار کے سوا کچھ نہ ہو گا.یہود کو کُفرانِ نعمت کی سزا میں پہلے مدینہ سے نکالا گیا توْ…ْ (الحشر:۱۲)کہنے والے کچھ کام نہ آئے.پھر جب مدینہ سے نکالے گئے تو ان کا کوئی مددگار نہ ہؤا.اِسی طرح مسلمانوں کے ساتھ بھی معاملہ ہؤا.سپینؔ سے ایک دن نکال دیئے گئے.لاکھوں لاکھ جنہوں نے جانے سے ذرا چُون و چرا کی ان کو عیسائی بنا لیا گیا.اَب سیاحوں سے پُوچھو اسلام کا وہاں نام و نشان تک نہیں.مسجدیں ہیں اور چند عدالت کے کمرے.وہ تمہارے رُلانے کے لئے رکھ چھوڑے ہیں… غرص اگر بنی اسرائیل کو یہ احسان یاد دلایا ہے تو مسلمانوں کے فرعون کو خشکی میں غرق کر کے اس کے بعد کئی انعامات ان پر کئے.اَب اگر وہ ناشکری کریں گے تو سزا پائیں گے.جس طرح حضرت موسٰیؑ کو چالیس روز خلوت میں رکھا اُسی طرح ہماری سرکارصلّی اﷲ علیہ وسلّم بھی غارِ حرا میں رہے.  احمدی قوم پھر قادیان کے رہنے والے خصوصیّت سے اس پر غور کریں.ایک وقت ایسا آ جاتا ہے کہ کوئی جی کسی جی کے کام نہیں آ سکتا.والدہ کو کتنی محبّت ہوتی ہے مگر ذرا بچّے کے پیٹ میں

Page 154

دَرد اُٹھے وہ اس دَرد کو بانٹ ہی نہیں سکتی.سب سے زیادہ محبّت کرنے والے تو پِیر ہوتے ہیں.ان پِیروں میں سے سب سے بزرگ حضرت محمّد رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے ہمیں ہگنے مُوتنے کی جانچ سکھائی.پھر ہم نے اپنے امام کو دیکھا.مَیں بیمار ہوتا تو وہ میرے لئے قربانیاں کرتے اور بار بار مکان کی تبدیلی کراتے اور دَم بدم خبر منگواتے.ایسا دَرد کسی میں ہو سکتا ہے؟ پھر جب وہ فوت ہونے لگے تو ہم نے کیا کر لیا.بعض وقت سفارش بھی کام دے جاتی ہے مگر ایک وقت سفارش بھی نہیں مانی جاتی.مؤاخذہ الہٰی کا وقت ایسا آتا ہے کہ وَلَا یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌیہاں شفاعت کی مطلق نفی نہیں ہے کیونکہ اِلَّا بِاِذْنِہٖ کا اِستثنا ء دوسرے مقام پر موجود ہے. (الانبیاء:۲۹) قرآن میں آ چکا ہے.دیکھو یہودیوں پر ایک وقت آیا کہ (الحشر:۱۲) کہنے والے بھی اُن کے کام نہ آ سکے.ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) اﷲتعالیٰ کے اِنعام کو یاد کر کے مومن اِس بات کو سوچے کہ ایک وقت آتا ہے.وَاتَّقُوْا یَوْمًا: ایک وقت آتا ہے کوئی دوست ،آشنا ،اپنا بیگانہ کچھ کام نہیں آتا.دُنیا میں نمونہ موجود ہے انسان بیمار ہوتا ہے تو ماں باپ بھی اس کی بیماری کو نہیں بٹا سکتے.یہ نمونہ اِس بات کا کہ یہ سچّی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی پکڑ کے وقت کوئی کام نہیں آتا.کسی کی سفارش اور جُرمانہ کام نہیں آتا اسلئے اُس دن کے لئے آج سے ہی تیارر ہو.پس خدا تعالیٰ کے فضل کو یاد کر کے محبّتِ الہٰی کو زیادہ کرو اور غفلتوں اور کمزوریوں کو چھوڑ دو اور اپنے وعدوں کا لحاظ کرو کہ ’’ دین کو دُنیا پر مقدّم رکھیں گے.‘‘ رنج و راحت، عُسر و یُسر میں قدم آگے بڑھائیں گے.اﷲ تعالیٰ کی مخلوق اور بھائیوں سے محبّت کریں گے.پھر کہتا ہوں کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ جو وعدوں کے خلاف کرتا ہے وہ منافق ہوتا ہے.جھُوٹ اور وعدوں کی خلاف ورزی کرتے کرتے انسان کا انجام نفاق سے مبدّل ہو جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ مجھ کو اور آپ کو اِس سے بچائے اور صدق ، اِخلاص اور اعمالِ حَسنہ کی توفیق دے.آمین (الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۶) لَا: جب مدینہ کے بنی اسرائیل کو بہکایا تو وہ جلاوطن ہوئے یقینا یہی دِن مراد ہے قیامت کا ذکر نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷) 

Page 155

  یَسْتَحْیُوْنَ: عورتوں کو زندہ رکھتے.دوسرے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ ان کے حیا کو سَلب کرتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) : انعام (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷)   فَرَقْنَابِکُمْ: دریا کو تمہارے لئے الگ کر دیا.کس طرح کیا؟ دوسری آیت میں فرمایا ہے  (طٰہٰ:۷۸) ایک راستہ اِس دریا میں خشک نکال دیا ہے.: ایک فضل تو یہ تھا کہ دشمن کو ہلاک کر دیا اب دوسرا فضل یہ ہؤا کہ دشمن کو تمہاری آنکھوں کے سامنے ہلاک کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) میں ایک خاص لذّت ہے.دشمن کو ہلاک تو کیا مگر آنکھوں کے سامنے.دشمن تو مَرا ہی کرتے ہیں مگر آنکھوں کے سامنے کسی دشمن کا ہلاک ہونا ایک لذیذ نظارہ ہے جو آخر اس متّقی کو نصیب ہؤا.(بدر ۲۳؍ جنوری ۱۹۰۸ء)   َ: اور تم مُشرک ہو گئے.(لقمٰن:۱۴)

Page 156

تَشْکُرُوْنَ: تا تم قدر کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) عَفَوْنَا: اِس لئے کہ اس شرک سے توبہ کر لی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۷)        اَلْفُرْقَانَ: وہ مدد جس سے د؟شمن اور موسٰیؑ کے درمیان فیصلہ ہؤا وہ یہی کہ فرعون غرق ہو گیا اور بنی اسرائیل نجات پا گئے اور عمدہ ملکوں کے وارث ہوئے.حضرت موسٰی علیہ السّلام ایک زمانہ میں طُور پر تشریف لے گئے.ایک شریر آدمی نے بچھڑا بنایا اور ان لوگوں سے کہا کہ یہی موسٰیؑ کا معبود تھا وہ بھُول کر پہاڑ پر چلا گیا.تم لوگ غالباً تعجّب کرو کہ ایک قوم بچھڑے کو کیونکر خدا ٹھہرا سکتی ہے سو مَیں تمہیں سُناتا ہوں کہ دیکھو آجکل ہندو کیسے ذہین اور چالاک ہیں پھر بھی پتّھروں کو معبود سمجھتے ہیں.بچھڑے میں تو پھر ایک آواز تھی پتّھر میں یہ بات بھی نہیں.پھر پتّھروں پر ہی اِکتفا نہیں بلکہ جمنا جی، گنگاجی اور اِس قِسم کی کئی ندیوں کی پرستش کرتے ہیں.خیر یہ تو ہندو ہیں مسلمانوں کا حال بھی اچھا نہیں لاہور دارالسلطنت ہے اس کی نسبت داراشکوہ لکھتے ہیں کہ یہاں تیس ہزار حفّاظ قرآن شریف موجود ہیں باوجود اِس کے پھر علمِ قُرآن ایسا مفقود ہے کہ وہاں بھی گھوڑے شاہ کی خانقاہ ہے پھر اِس قِسم کی ہزاروں قبریں ہیں جن پر ٹلیاں یا رسّے چڑھتے ہیں.اِس کی وجہ کیا ہے ؟صرف یہی کہ کوئی قوم خواہ کِس قدر اچھی ہو جب بُروں سے اس کا تعلق ہو تو ان کی رسم و عادات نیکوں میں بھی رواج پذیر ہو جاتی ہیں.دیکھو مسلمان جانتے ہیں کہ صبر بھی اچھی چیز ہے اور یہ بھی جانتے ہیں کہ بے صبری کا نتیجہ کچھ بھی نہیں اور پھر یہ بھی جانتے ہیں کہ چیخ کر رونا جائز نہیں

Page 157

باوجود اس کے شیعہ کو دیکھ کر سُنّی بھی محرّم میں روتے پیٹتے ہیں اور تعزئے بناتے ہیں.مَیں نے تعزیے بنانے والوں کو پُوچھا ہے کہ یہ واقعی امام حسینؑ کی قبر ہے تو وہ کہتے ہیں.نہیں.پھر جب یہ جتایا گیا کہ جو دن امام حسینؑ کے قبر بنانے کا ہے اس دن تم اس قبر کو توڑتے ہو تو وہ بہت نادم ہوئے.غرض انسان کی غیرت اُٹھ جاتی ہے اور وہ بدی کو نیکی سمجھنے لگ جاتا ہے.یہاں بنی اسرائیل نے بھی ایسا ہی کیا کہ فرعونیوں میں رہتے رہتے وہ اپنے خدا کو بھُول گئے اور گائے کی عظمت ان کے دِلوں میں گھر کر گئی اور وہ اس کی پُوجا کرنے لگ گئے تو خدا نے فرمایا تُوْبُوْ ٓا اِلٰی بانارِئِکُمْ تم اپنے گھڑنے والے کی پرستاری کرو.فَاقْتُلُوْ ٓا اَنْفُسَکُمْ: اِس کے معنے میرے نزدیک یہ ہیں کہ اِس جُرم کے جو سرغنہ ہیں ان کو قتل کر دو.جو عام تھے ان کو خدا نے معاف فرما دیا جیسے کہ آگے فرمایا فَتَابَ عَلَیْکُمْ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) اَلْفُرْقَانَ: جب دشمن کی کمر ٹوٹ جائے. (الانفال:۴۲) بڑے تعجّب کی بات ہے کہ لوگ شرارتیں کرتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں.موسٰیؑ نے اپنی قوم کو کہا   (البقرۃ:۵۵)تم نے بچھڑے کو خدا بنا لیا اور اپنے اُوپر ظلم کیا حالانکہ خدا کے تم پر بڑے بڑے اِحسان ہیں.فَتُوْبُوْ ٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ اپنے پروردگار کی طر ف توجّہ کرو اور اﷲ نے انسان پر بڑے بڑے فضل و احسان کئے ہیں.اس کے قابو میں انسان نے ہر چیز کر دی ہے.ہاتھی جیسا بڑا جانور انگوٹھے کے اشارہ پر چلتا ہے.اُونٹ کو ایک نکیل کے اشارہ سے چلا لیتا ہے.اِسی طرح پر ہزاروں کام جانوروں سے نکالتا ہے.طوطے سے توپ بندوق چلوا لیتا ہے.بعض لوگ اَحْسَن تَقْوِیْم کے یہ معنے کرتے ہیں کہ انسان کو خوبصورت بنایا مگر بعض انسان تو سیاہ رنگ اور بَد صورت بھی ہوتے ہیں بلکہ اِس کے معنے یہ ہیں کہ ہر چیز کو اس کے قابومیں کر دیا.سرکس میں کسی نے تماشا دیکھا ہو گا کہ کیسے کیسے کام جانوروں سے لیتے ہیں.یہ سب اﷲ تعالیٰ کے اِحسان ہیں.ہر قوم میں غریب سے غریب اور امیر سے امیر لوگ موجود ہیں لیکن اُمراء کو خیال تک نہیں آتا کہ ہم پر بڑا احسان ہؤا ہے.اِس زمانہ کا بڑا بچھڑا روپیہ ہے جس کے پاس یہ ہؤا اس کی بڑی عزّت و توقیر ہوتی ہے.اگر وہی روپیہ والا اِنسان غریب ہو جاوے تو اُسے پوچھتا بھی کوئی نہیں.روپے کے پیچھے خواہ نماز روزہ بھی جائے مگر کوئی پرواہ نہیں.(الفضل ۱۵؍اکتوبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)

Page 158

      جَھْرَۃً: خدا کو کُھلا دیکھ لیں یا یہ بات کُھل کر کہہ دی.مَوْتِکُمْ: غشی ازصاعقہ.ظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامٰ: مصیبتوں کے وقت بادلوں کا سایہ بھیجا.مَنّ: جو رزق بِلا محنت کسی انسان کو ملے.اَلْکَمِئَۃُ مِنٰ الْمَنِّ (کھمبی) لڑکے جو روٹی کھاتے ہیں میرے خیال میں وہ بھی منّ ہے کیونکہ ان کو وجہ معاش کے لئے کچھ پریشانی نہیں اُٹھانی پڑتی.سَلْوٰی: عربی زبان میں شہد کو بھی کہتے ہیں جو جنگلوں میں بافراط مِل جاتا تھا اور چھوٹے چھوٹے پرندوں کو بھی کہتے ہیں.ظَلَمُوْنَا: ہمارا نقصان نہیں کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) نَرَی اﷲَ جَھْرَۃً: یہ گستاخی کی.اَلصَّاعِقَۃٌ:عذاب (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ۳۴۷) سخت محنت کے بغیر جو رزق ملتا ہے اس کو عربی میں منّکہتے ہیں اِس لئے لکھا ہے اَلْکَمْأۃُ مِنَ الْمَنََّّ یعنی کُھنبی منّ سے ہے اور ترنجبین.اور اسی کے معنے ہیںشیرخشت اور تمام جنگل کی اشیاء.اِن سب کو منّؔ میں داخل کیا گیا ہے.ایک دفعہ پنچاب میں قحط پڑا تھا.بہت بُڈھے ابھی تک اس کو جاننے

Page 159

والے موجود ہیں اس میں ( مَرْکَنْ) نام ایک بُوٹی بہت پیدا ہوئی تھی اسی پر لوگوں کا گزارہ تھا.اِسی واسطے اس سال کو مَرْکن کا سال کہتے ہیں.اِسی طرح خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو جنگل کے درمیان مصیبت کے ایّام میں جنگلی اشیاء سے سہارا بخشا ہے اور بھُوک کے عذاب سے ہلاک نہ ہونے دیا… بنی اسرائیل چالیس برس اس ملک میں رہے جو ملکِ فلسطین اور بحیرہ قُلزم کے درمیان ہے.انسانی ضرورتیں بغیر پانی کے پُوری نہیں ہو سکتیں.اﷲ تعالیٰ نے ان دنوں ضروری وقتوں پر مینہ برسائے یہ ان پر خاص فضل تھا اور کرم کی نگاہ تھی.وَاِلاَّ خشک سالیوں میں ہلاک ہو جاتے.جب موسٰی علیہ السّلام کے قصّہ میں مشکلات پیش آویں تو ہمارینبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے معاملات سے وہ مشکل بخوبی حل ہو سکتی ہے.موسٰی علیہ السّلام کا قصّہ بسط کے ساتھ قُرآن کریم میں صرف اِسی واسطے ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو موسٰی علیہ السّلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے چنانچہ آپ کیلئے ضرورت کے موقع پر اﷲ تعالیٰ نے بادل کا سایہ کر دیا جیسے کہ غز وۂ بدرؔ اور احزابؔ میں اور حضرت موسٰی علیہ السّلام کی طرح بارش کی سخت ضرورت پیش آئی تو اُس وقت خدا تعالیٰ نے بارش کے ذریعہ مومنوں کو ہلاکت سے محفوظ رکھا.اِستسقاء کی نماز ایسے ہی وقتوں کے لئے مسنون ہے.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶۷،۱۶۸) انتشاری بجلی سے ہلاکت اور نقصان اگر تم نے نہیں سُنا تو کِسی سائنسدان سے دریافت کرو اور کچھ ہم بھی بتا دیتے ہیں.یہ تو ظاہر ہے کہ جس وقت جنابِ موسٰی علیہ السّلام چند منتخب لوگوں کو طُور کے قریب لے گئے اُس وقت پہاڑ پر آتش فشانی ہو رہی تھی اور بجلیاں اپنی چمک دمک دکھلا رہی تھیں.جناب موسٰی علیہ السّلام نے حسبِ ارشادِ الہٰی قوم کو روک دیا تھا کہ پہاڑ کے اُوپر کوئی نہ جاوے اور ہم نے ظاہر کا لفظ اِس لئے استعمال کیا ہے کہ بائیبل کو قرآن پر دھرم پال نے ترجیح دی ہے پس اُس نے بائیبل کو پڑھا ہو گا.کتب خروج میں مفصّل موجود ہے اور قرآن کریم کے اِن کلمات طیّبات پر اعتراض کیا ہے.اوّلؔ:پکڑ لیا تم کو کڑک نے اور حال یہ ہے کہ تم دیکھتے تھے.دومؔ:  پھر اُٹھایا تم کو تمہاری موت کے بعد تاکہ تم قدردانی کرو.صَاعِقَہ، صَعَقَ سے نِکلا ہے.صَعنقَ کے معنی میں لکھا ہے:.اَلصَّعْقُ اَنْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنْ صَوْتٍ شَدِیْدٍ یَسْمَعُہ‘ وَرُبَّمَامَاتَ مِنْہُ (مجمع البحار) صعق یہ ہے کہ بے ہوشی پڑ جاوے کسی پر کسی سخت آواز سے جس کو اس بیہوش ہونے والے شخص نے سُنا اور

Page 160

کبھی اس سے موت بھی ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں آیا ہے:.(الاعراف:۱۴۴) موسٰیؑ بیہوش ہو کر گِر پڑے پس جب افاقہ آیا.پھر مجمع البحارمیں لکھا ہے:.یُنْتَظَرُ بِالْمَصْعُوْقِ ثلَاَثاً مَالَمْ یَخَافُوْا عَلَیْہِ نَتَنًا وھُوَالْمَغْشٰی عَلَیْہِ اَوْ مَن ْیَّمُوْتُ فَجْائَۃً وَلَا یُجْعَلُ دَفْنُہ‘.جس پر صاعقہ گِرے اس کو تین دِن تک دفن نہ کیا جاوے جب تک سَڑ جانے کا ڈرنہ ہو.اور یہ وہ ہے جس پر غشی ہو یا اچانک مَرجاوے دفن میں جلد بازی نہ کی جاوے.مفرداتِ راغب میں لکھا ہے اَلصَّاعِقہ تین قِسم کا ہوتا ہے: اوّلؔ موت.فرمایا ہے  (الذّمر:۶۹) دومؔ عذاب.فرمایا ہے اَنْذَرْتُکُمْ صٰعِقَۃِ مِّثْلَ صٰعِقنۃِ عَادٍوَّ ثَمُوْدَ (فضّلت:۱۴) سومؔآگ.فرمایا(الدعد:۱۴) اِس بیان سے اِتنا معلوم ہو گیا کہ صاعقہؔ بیہوشی،موت،عذاب اور نار کو کہتے ہیں.دوسرا لفظ قابلِ غور مَوتؔکا لفظ ہے.مَوتؔ کے معنی مجمع البحار میں جو لُغت قرآن و حدیث کی جامع کتاب ہے یہ ہیں:.۱.موت کے معنے سو جانا.حدیث میں آیا ہے اَحْیَانَا بَعْدَمَا اَمَاتَنَا.۲.موت کے معنی سکون.کیامعنی حرکت نہ کرنا.مَاتَتِ الرِّیْحُ ہَوا ٹھہر گئی.۳.موت حیٰوۃ کے مقابلہ میں ہؤا کرتی ہے اور حیٰوۃ کے معنی میں آیا ہے قوّتِ نامیہ کا بڑھنا.قرآن کریم میں آیا ہے (الحدید:۱۸) زمین کو اﷲ تعالیٰ اُس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے.۴.قوّتِ حِسّیہ کے زوال پر موت بولتے ہیں.قرآن کریم میں آیا ہے(مریم:۲۴) کیا معنے.بچّہ جَننے سے پہلے میری قوّتِحسّیہ نہ رہتی کہ دَر تکلیف دِہ ہوتا.۵.جہل و نادانی کو موت کہتے ہیں.قرآن میں یہ معنی آئے ہیں (الانعام:۱۲۳) ۶.حُزن.خوف کمدّر کو موت کہتے ہیں.قرآن میں یہ محاورہ آیا ہے (ابراھیم:۱۸) ہر طرف سے اس پر خوف اور غم آتے تھے.

Page 161

۷.احوالِ شاقہ.فقر.ذلّت.سوال کرنا.بڑھاپا اور معصیّت وغیرہ کو موت کہتے ہیں.حدیث میں آیا ہے اَوَّلَ مَنْ مَاتَ اِبْلِیْسُ اور آیا ہے اَللَّبَنُ لَا یَمُوْتُ.زندہ سے جو جُزو الگ ہو وہ مُردہ ہے مگر دُودھ.بال.اُون مُردہ نہیں ہوتے.یہ موت کے معنے ہوئے اور اِسی طرح مُفرداتِ راغب میں موتؔ کے بہت معنے بتائے ہیں.اور تیسرا لفظ بعثؔ کا ہے.بعثؔ کے معنی بھیجنا.قرآن میں ہے  (النحل:۳۷) ۲.اُٹھانا.قرآن میں ہے  (الکھف:۱۳) ۳.متوجّہ کرنا.قرآن میں ہے (التوبۃ:۴۶) لیکن خدا نے انہیں متوجّہ کرنا نہ چاہا.۴.جگا دینا.اَتَانِیْ اٰتِیَانِ.فَبَعَثَانِیْ اَیْ اَیْقَظَانِیْ مِنَ النَّوْمِ.انہوں نے مجھے نیند سے جگایا.۵.بھڑک اُٹھنا.قرآن میں ہے(الشّمس:۱۳) جب کہ اُ ن میں کا بدبخت بھڑک اُٹھا اور ۶.بعث بمقابلہ موت کے بھی ہوتا ہے اِس لئے جس قدر موت کے معنی ہیں ان کے مقابلہ میں بعثؔ ہوگا.قرآن میں ہے (البقرۃ:۵۷) صَاعِقَہ: موت اور بعث کے معنی جب معلوم ہوئے اور سمجھے گئے تو معلوم رہے کہ صاعقہ کے دو طریق ہیں.اس کا آنا اور گِرنا.اس میں تو نقصان کم پڑتا ہے اور ایک دو تین سے زیادہ آدمی اس سے نہیں مرتے.دوسرا واپس ہونا اور اس کا اِنتشار کرنا.واپسی کے وقت بجلی یا صاعقہ بہت کم لوگوں کو دُکھ دیتی ہے، غشی ہوتی، ہڈیاں ٹوٹتی، نفاظات نکلتے ہیں.اَب ہر دو آیہ کریمہ کے معنی بتاتے ہیں مگر اِتنا اَور یاد رہے کہ یہاں جنابِ الہٰی نے اَفرمایا ہے نہیں فرمایااَھْلَکَھُمُ الصَّاعِقَۃُ پھر اس کے ساتھ بتایا ہے کہ اَاِس کے کیا معنے کہ جنہیں بجلی یا صاعقہ نے پکڑا وہ دیکھ رہے تھے.لہٰذا اِس آیہ شریفہاَ(البقرۃ:۵۶)کے یہ معنے ہوئے کہ تم کو خاص صاعقہ نے پکڑ لیا اور تم دیکھ رہے تھے.خاصؔ کا ترجمہ ہم نے لفظ الؔسے لیا ہے جو الصَّاعِقَہ کے پہلے ہے اور اس صاعقہ سے مراد وہ صاعقہ ہے جو رجعت کے وقت انتشار کرتی ہے اور دوسری آیتِ کریمہ کا ترجمہ یہ ہے (البقرۃ:۵۷)پھر اُٹھایا ہم نے تم کو تمہاری موت کے بعد.چونکہ موت کے معنی میں دُکھ

Page 162

ور تکلیف بھی آیا ہے اِس لئے یہاں تکلیف ہی لیں گے کیونکہ معانی مختلفہ میں حسبِ قرینہ و امکان معنی کئے جاتے ہیںحضرت موسٰی علیہ السّلام کی قوم صاعقہ میں سخت مُبتلا ہوئی اور امیدِ زیست نہ رہی اور ایک قِسم کی موت ان پر طاری ہو گئی تو جنابِموسٰیؑ کی اس قوم پر الہٰی رحم ہ,ا اور آخر وہ بچ گئی.(نور الدین طبع سوم صفحہ ۱۶۴ تا ۱۶۷)   : کسی بستی میں جا, تو پکّا عہد کر لو کہ فرمانبردار ہو کر رہیں گے اورخللِ امن کے مُرتکب نہ ہوں گے. توبہ کرنے سے پہلے ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے.اورکا اجرنَذِیْدُ  سے ظاہر ہے.(ضمیہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍ فروری ۱۹۰۹ء)   

Page 163

       : دُنیا میں قحط پڑتے ہیں ان کے دُور کرنے کے لئے دو راہیں ہیں.ایک تو یہ کہ مدبّر ان ملک نے مِل کر سوچا کہ اب کیا تدبیر کریں اور پھر جو مجموعی طور سے رائے قائم ہو اس پر عمل کیا چنانچہ اس زمانے میں ریل گاڑی کو قحط کا علاج سمجھا گیا تاکہ جس جگہ پیداوار ہو وہاں سے اس جگہ فورًا پہنچائی جاوے جہاں پیداوار نہیں ہوئی ھر گرانی وارزانی کی اطلاع جلد بہم پہنچانے کے لئے تار ایجاد کی گئی.دوسری تجویز یہ ہے کہ جنگلوں کو آباد کر دیا تاکہ لوگوں کے لئے کافی غلّہ بہم پہنچ سکے.ایکدُنیادار تو اِس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا مگر انبیاء کی راہ ان راہوں سے علیحدہ ہے.وہ ہر مصیبت کا علاج

Page 164

اﷲ کے حکم کے ماتحت کرتے ہیں.دیکھو بعض صحابہ کرامؓ کو جب کفّار سے تکالیف پہنچیں تو وہ اَور ملکوں کو ہجرت کر کے چلے گئے مگر نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم خود نہیں گئے بلکہ ایک دن حضرت ابوبکرؓ کے گھر گئے اور فرمایا کہ ہم اور آپ اکٹھے چلیں گے.مَیں امّید کرتا ہوں کہ خدا مجھے بھی ہجرت کا حکم دے.اَوروں نے اگر اپنے ارادے اور تکالیف سے سفر کیا مگر نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم حکمِ الہٰی کے منتظر رہے.اسی طرح آپ کے زمانہ میں قحط ہؤا آپ اَور بھی تدابیر کر سکتے تھے مگر انبیاء کا طریق دعا ہے اسی پر عمل کیا.چنانچہ موسٰی علیہ السّلام کی قوم کو بھی جب ایسی مصیبت پیش آئی تو انہوں نے پانی مانگا قوم کے لئے.کِس سے؟ چونکہ یہ بات بدیہی ہے کہ ایک نبی، اﷲ ہی سے مانگتا ہے اِس لئے اﷲ کا ذکر نہیں کیا.اس پر ہم نے الہام کیا.اِضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ: اس کے کئی معنے ہیں.سبھی معنے صحیح ہوں گے.ایک تو یہ کہ اس پہاڑ پر تم اپنا عصا مارو.وہاں بارہ چشمے پھُوٹ نکلے اور یہ امر ممکن ہے کیونکہ زمین کے اندر پانی چلتا ہے اور جہاں اﷲ کی مرضی ہو پھُوٹ نکلتا ہے.اﷲ تعالیٰ نے موسٰیؑ کو کشفِ صحیح عطا کیا.آپ کو جب اعلامِ الہٰی سے معلوم ہؤا کہ یہاں کوئی پانی قریب ہی جاتا ہے تو برچھا مارا اور اس سے پانی پھُوٹ نکلا.میرے خیال میں فلسفی کا اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا.مگر ایک اَور معنے بھی مجھے پسند ہیں وہ یہ کہ لے جا اپنی جماعت کو پہاڑ پر.عَصا کے معنے عربی زبان میں جماعتِ اسلام یعنی فرماں بردار جماعت کے ہیں.لاٹھی کو بھی اِس لئے عَصَاکہتے ہیں کہ اس پر اُنگلیوں کی جماعت اکٹھی ہوتی ہے.لَاتَعْثَوْا : جب گھر سے بِلا محنت کھانا ملے اور پیٹ بھر جائے تو بعض لوگ فرمانبرداری کی قدر نہیں کرتے اور ان کے دماغ میں باغیانہ خیالات اُٹھتے ہیں.پس وہ امن میں خلل ڈالتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اﷲ نے انہیں بے محنت رزق دیا تو بجائے شُکر فساد نہ کرو.عثی سخت فساد کو کہتے ہیں.لَاتَعْثَوْا بہت شرارت نہ کرو.لَنْ نَصْبِرَ عَلٰی طَعَامٍ وَّاحِدٍ:اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے پانی ہی کا انتظام نہیں کیا بلکہ تمہیں اپنی جناب سے طیّب کھانا بھی دیا.طَعَامٍ وَّاحِدٍ ایک ہی طرز پر یعنی جنگل سے.یا یہ کہ منّ جو انہیں ملتی تھی وہ ہمیشہ ہی ملتی.سلوٰی کی نسبت تورات میں لکھا ہے کہ چند روز ملی.بَقْلِھَا: ترکاریاں زمین کی.قِثَّآئِھَا: ککڑیاں زمین کی.فُوْم لہسن کو کہتے ہیں اور گیہوں کو بھی.میری سمجھ میں انہوں نے اِن چیزوں کا ذکر کر کے زمیندارہ

Page 165

چاہا.بِالَّذِی: بدلے اِس کے.خَیْرٌ: یہ خیر کیا تھی؟ سُنو! مجھے اِن معنوں پر یقین ہے کہ وہ خیر فرعون کی غلامی اور ماتحتی سے چھُڑا کر جہاں ان کی صِحت و قوٰی جسمانی میں فتور آ گیا.آزادی اور جنگل اور پہاڑوں کی رہائش اور بے محنت رزق کی بخشش تھی.خدا کا مقصود یہ تھا کہ ان میں حُریّت کی رُوح بھر جائے اور پھر یہ فاتح بنیں مگر انہوں نے اس انعامِ الہٰی کی قدر نہ کی اور یہ کہا کہ زمیندارہ کریں گے.بعض حدیثوں سے ثابت ہے کہ آپ صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے ایک گھر میں زمیندارہ کے آلات دیکھے تو فرمایا ذِلّت کے سامان ہیں.اِس ارشادِ نبویؐ سے یورپ کی قوموں نے نفع اُٹھایا.دیکھو کہ جنگلوں (ہندوستان کے.ناقل) کو آباد کر دیا ہے مگر وہ زمینیں ہمیں دیتے ہیں.انگریزوں کو عمومًا نہیں دلاتے.یہ اس لئے کہ انہوں نے دیکھ لیا مسلمانوں کی چار قومیں سیّد،مغل، پٹھان، ترک فاتح ہو کر آئیں لیکن آکر زمیندارہ شروع کر دیا تو آخرکار کمزور ہو گئیں.کیونکہ وہی زمین جو کسی مورثِ اعلیٰ کے پاس ہزار بیگھ تھی اولاد میں تقسیم ہوتے ہوتے ہر ایک کے پاس چار چار بیگھ رہ گئی جس سے قوت لایموت بھی حاصل نہیں ہو سکتی.خَیْرٌ: حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ اچھا جو کچھ تم نے چاہا وہ ہم نے دیا.جاؤ کوئی گاؤں آباد کر لو مگر ان سے یہ معاہدہ کر لیا کہ شام کے فتح ہونے تک دوسری قوم کے ساتھ رہیں گے.ضُرِبَتْ: لگا دی گئی.ذِلَّۃٌ: دن بدن کم ہونے لگے.ذِلّت کے معنے کمی کے ہیں.مَسْکَنَۃُ: بے دست و پا ہو گئے.زمیندارہ چھوڑ کر کہیں نہ جا سکتے تھے.پھر یہ غضب زمیندارہ سے نازل نہیں ہؤا بلکہ اِس لئے کہ وہ آیات اﷲ کا کفر کرتے.انبیاء کے قتل کی تدبیریں کرتے رہتے.یہ جُرأت کیوں ہوئی؟ پہلے چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں کرتے تھے جن سے جُرأت بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی.اِس بات کا تماشا مَیں نے آگ سے دیکھا ہے کہ پہلے ایک دِیا سلائی ہوتی ہے جس کی تِیلی کے ایک کنارہ پر آگ مخفی ہوتی ہے کہ ذرا گھِسنے سے وہ بھڑک اُٹھتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے وہ مکانوں اور شہتیروں کو جلا سکتی ہے.اِسی طرح گناہ پہلے تھوڑا سا ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے فسق و فجور تک نوبت پہنچتی ہے پھر اس سے کفر تک.یہاں تک کہ دوزخ کی آگ اس کا انجام ہے.تم اپنے تئیں پہلے ہی سے بچاؤ.ہلاکت میںنہ پڑو.بنی اسرائیل کی مثال سے عبرت پکڑو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء)

Page 166

اِضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ: اِس کے دو معنی ہیں عَصا پتھّر پر مارو.پانی کا چشمہ کُھل گیا.اﷲ صاحبِ کشف کوآگاہ فرما سکتا ہے کہ اِس پتھّر کے نیچے پانی کا سوتا ہے.۲.پہاڑ پر جماعت کو لے جاؤ.فَاقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ.مُشرکوں مجرموں کو قتل کرو.بَآع ُوْ بِغَضَبٍ مِّنَ اﷲِ: بتا دیا کہ مغضوب علیہم کا ذکر تھا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۳۴۷) :اپنی جماعت کو لے کر پہاڑوں پر چلا جا.وہاں کیا دیکھتا ہے کہ بارہ چشمے جاری ہیں.اِس آیت میں تین لفظ ہیں ان کے معنی سُنو:.۱.ضَرْبِ.یْقَاعُ شیٍٔ.مِنْہُ ضَرْبُ الرِّقَابِ ثُمَّ ضَرْبُ الْخَیْمَۃِ وَضَرْبُ الذِّلَّۃِ.ضرب کے معنے ہیں ایک چیز کا دوسری پر مارنا.گردن کا مارنا.خیمہ کا لگانا اور ذِلّت کی مار مارنا اِسی سے نکلا ہے.۲.وَ الضَّرْبُ فِی الْاَرْضِ.اَلذِّھَابُ فِیْہِ وَ مِنْہُ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ وَاضْرِبُوْا مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَ مَغَارِبَھَا.وَمِنْہُ ضَرَبَ یَعْسُوْبُ الدِّیْنِِ.اَیْ اَسْرَعَ الذِّھَابَ فِی الْاَرْضِ فِرَارًا مِنَ الْفِتَنِ.(لسانؔ،تاجؔ،مجمعؔ البحرین) اور ضَرْبکے معنی ہیں زمین میں جانا اور اسی سے ہے جب تم زمین میں جاؤ اور زمین کی مشرق و مغرب میں جاؤ اور اسی محاورہ سے ہے یعسوب دین چلا یعنی فِتنوں سے بھاگ کر جلدی کہیں کو نِکل گیا.یعسوب الدین مولیٰ مرتضیٰ علیہ السّلام کا لقب ہے.۳.وَالضَّرْبُ الْاِقَامَۃُ حَتّٰی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ اَیْ رَوِیَتْ اِبِلُھُمْ حَتّٰی بَرِکَتْ وَاَقَامَتْاور ضرب کے معنی ہیں اقامت کرنا.محاورہ ہے لوگوں نے اپنے اپنے ڈیروں میں آرام کیا.کیا معنی؟ اُونٹ پانی پی کر بیٹھ گئے اور ٹھہرے.اپنے آپ کو زمین میں ٹھہرایا.یُقَالُ صَرَبَ بِنَفْسِہِ الْاَرْضَ.اَیْ اَقَامَ وَالضَّرْبُ یَقَعُ عَلٰی کُلِّ فِعْلٍ وَعَلٰی جَمِیْعِ الْاَعْمَالِ اِلَّا قَلِیْلًا (تاجؔ،لسانؔ) ضَرَبَ کالفظ ہر فعل پر اور تمام اعمال پر بجزرندک کے اطلاق پاتا ہے (پس) ضَرَبَ کے معنے ہوئے کسی چیز کا کِسی پر ڈالنا.کہیں جانا.کہیں اقامت کرنا یا کوئی کام کرنا.۲.اَلْعَصَا:جَمَاعَۃُ الْاِسْلَامِ.

Page 167

قاموسؔ اور صحاحؔ میں ہے: شَقَوْا عَصَا الْمُسْلِمِیْنَ اَیْ اِجْتَمَاعَھُمْ وَاِیٔتلَاَفَھُمْمسلمان لوگوں کے اتفاق اور باہمی محبّت اور اُلفت کو توڑ دیا انہوں نے اور لاٹھی کو اِس لئے عصا کہتے ہیں کہ اس پر اُنگَلیاںاور ہاتھ جمع ہوتے ہیں.۳.حجر کے معنے وادی ،ویلی(VALLYیعنی وادی.ناقل).پتھّر.حدیث جسّاسہ و دجّال میں ہییَتْبَعُہ‘ اَھْلُ الْحَجَرِ اَیْ اَھْلُ الْبَادِیَۃِ.پس آیت کا ترجمہ ہؤا.پس کہا ہم نے لے جا اپنی فرمانبردار جماعت کو یا جا ساتھ اپنی فرمانبردار جماعت کے فلاں وادی میں.پس چل رہے تھے وہاں بارہ چشمے.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۵۷،۱۵۸) اِس رکوع شریف میں ہم لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ انسان دُنیا میں کِس طرح ذلیل ہوتے ہیں.کِس طرح مسکین بنتے ہیں اور کِس طرح خدا تعالیٰ کے عقاب کے نیچے آتے ہیں.کِس طرح ابتداء اور انتہا ہوتی ہے.بہت سے لوگ دُنیا میں ہیں جب وہ بدی کرنا چاہتے ہیں اگر وہ نیکوں کے گھر پَیدا ہوئے ہیں یا کِسی نیکی کی کتاب پڑھتے اور مطالعہ کرتے ہیں تو پہلے پہل ان کو حیا مانع ہوتا ہے اور وہ بدی میں مضائقہ کرتے ہیں.پہلے چُپکے سے ایک چھوٹی بدی کر لی.پھر اس بدی میں تکرار کرتے ہیں.پھر بدی میں ترقّی کرتے ہیں.رفتہ رفتہ بدیوں میں کمال پیدا کر لیتے ہیں.کُل جہان میں دیکھو بدی اسی طرح آتی ہے کبھی یکدم نہیں آتی.حضرت موسٰیؑ اپنی قوم کو کہتے ہیں کہ جو ہم کہتے ہیں وہ مان لو.انہوں نے جواب دیا یہ تو ہم سے نہیں ہو سکتا.نافرمانی کا نتیجہ کیا ہؤا ذلیل اور مسکین ہو گئے… ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ:پہلے انسان اَدنیٰ نافرمانی کرتا ہے پھر ترقّی کرتا کرتا حد سے بڑھ جاتا ہے…حضرت موسٰیؑ کی قوم باوجود کمزور ہونے کے پانی تک کے لئے اجازت مانگتی ہے.حضرت موسٰیؑ نے خا سے دعا کی.حکم ہؤا پہاڑ پر جاؤ وہاں پانی بہتا ہے پیو.ایک کھانے پر بَس نہیں کی.کہنے لگے.دعا کریں ہم کھیتی باڑی کریں.ترکاریاں، ککڑیاں، لہسن ، مسور اور پیاز کھائیں.موسٰی علیہ السّلام نے فرمایا یہ بڑی غلطی ہے.یہ اَدنیٰ چیزیں ہیں.یہ تو تمہاری محنت سے مِل سکتی ہیں.کم عقلو! چھوٹے کاموں میں لگ جاؤ گے تو حکومت کِس طرح کرو گے.ان میں سے جو کمزور تھے ان کو حکم دیا کِسی گاؤں میں جا کر آباد ہو.فُوْمِھَا کاترجمہ بعض نے گندم کیا ہے یہ غلط ہے مَیں کبھی نہ کروں گا.مَیں نے ایک کتاب دیکھی اگرچہ وہ مجھے ناپسند آئی مگر مَیں نے اس کو خرید لیا.رات کو مجھے رؤیا ہؤا کہ ایک بازار ہے اس میں بہت خوبصورت پیاز اور لہسن خرید لیا.جب جاگ آئی تو زبان پرفُوْمِھَا تھاتو سمجھ

Page 168

آئی کہ لہسن پر خوب ہاتھ مارا.(الفضل ۲۲؍اکتوبر ۱۹۱۳ء)    یہاں تین باتوں کا ذکر آیا ہے ایک تو یہ کہ اسلام کے بعد دوسروں کے ساتھ تعلّقات کیسے ہوں.دومؔ ایمان کے بعد ہمارا عمل درآمد کیا ہو.سومؔیہ کہ اگر کہا نہ مانو گے تو حال کیا ہو گا.فرماتا ہے جو لوگ کسی قسم کے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں خواہ دہریہ ہی ہوں غرض پابند ہوں کسی چیز کے اصل کے.پھر وہ خواہ یہودی ہوں یا عیسائی ہوں یا صابی.جو کوئی اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے.اِن دو باتوں کا ذکر اِس لئے کیا کہ ایمان کی جَڑ اﷲ پر ایمان ہے اور ایمان منتہی آخرت پر ایمان اور جو آخرت پر ایمان لاتا ہے اس کا نشان بھی بتا دیا کہ (الانعام:۹۳) وہ ایک تو تمام قُرآن مجید پر ایمان لاتا ہے دومؔ اپنی صلوات کی محافظت کرتا ہے.آج ہی ایک نوجوان سے مَیں نے پوچھا نماز پڑھتے ہو؟ اُس نے کہا صبح کی نماز تو معاف کرو.… باقی پڑھتا ہوں.یہ مومن کا طریق نہیں.ایک مقام پر فرمایا (البقرۃ:۸۶) پس تمام کتاب پر ایمان و عمل موجبِ نجات ہے.اِس آیت میں اﷲ نے بتا دیا ہے کہ ایک ہندو، ایک عیسائی، ایک چُوہڑا، ایک چمار جب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِپڑھ لیتا ہے اور یومِ آخرت کا قائل ہو جاتا ہے تو وہ مسلمان بنتا ہے اور پھر تم سب ایک ہو جاتے ہو.یہ اخوّت اسلام کے سوا کِسی مذہب میں نہیں.مَیں نے دیکھا ہے کہ شرفاء، حکماء، غرباء، ایک صَف میں مِل کر کھڑے ہو تے ہیں.اِس فرمانبرداری کا نتیجہ بھی بتا دیا کہ وہزندگی بسر کرتا ہے.(الفضل ۵؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

Page 169

:چونکہ اس وقت ایک مذہبی جنگ شروع تھی اِس واسطے تمام قومیں خوف کی حالت میں تھیں کہ خدا جانے ہمارا مذہب اور ہماری عزّت باقی رہتی ہے یا نہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مومن ہیں ان کا نشان یہ ہے کہ ان کے لئے کوئی ڈر نہیںاور ان میں حزن باقی نہ رہے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء) بعض لوگ قُرآن مجید کی اِس آیت  (البقرۃ:۶۳) سے غلط فہمی میں پڑے ہیں.ان کا اعتقادیہ ہے کہ جو لوگ مسلمان ہوں،یہودی ہوں،صابی ہوں،جو ایمان لائیں اﷲ پر اور روزِآخرت پر اور عمل کریں نیک.پس ان کے لئے رَبّ کے حضور اَجر ہے.نہ ان کو خوف ہے نہ حُزن.طلب یہ ہے کہ پس اﷲ کو مان لینا اور روزِ آخرت پر ایمان نجات کے لئے کافی ہے مگر یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ قرآنِ مجید کے متعدّد مقامات پر اِس مسئلہ کو واضح کیا گیا ہے کہ یومِ آخرت پر ایمان کِن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ صفحہ ۳۲۴)   اور جب لیا ہم نے مضبوط وعدہ تمہارا اور اُوپر رکھا تم پر طُور کو.لو جو دیا ہم نے تمہیں قوّت سے اور عمل کرو جو اس میں ہے تاکہ تم متّقی بن جاؤ.دوسرے مقام پر رَفَعْنَا کے بدلہ آیا ہے(الاعراف:۱۷۲) مجاہد جو قرآن کے معافی بیان کرنے میں عظیم الشّان تابعی ہے اس نے کہا ہے نَتَقْنَا کے معنے زَعْزَعْنَا کے ہیں.زَعْزَعْنَا کے معنے ہوئے ہلا دیا ہم نے.اور فرّاء نے کہا ہے نَتَقْنَا کے معنی رَفَعْنَا کے ہیں اور رَفَعْنَا کے معنے ہیں اُوپررکھا ہم نے.کیا تم نے نہیں سُنا کہ راویؔ لاہورؔ کے نیچے بہتی ہے اور لاہورؔ راویؔ کے اُوپر آباد ہے.ٹیمس لندن کے نیچے بہتا ہے.پہاڑوں میں ایسے

Page 170

نظّارے عام ہیں کہ پہاڑ سر پر ہوتا ہے اور اگر زلزلہ پہاڑ میں آ رہا ہو اور پہاڑ آتش فشاں ہو تو اَور بھی وہ نظّارہ بھیانک ہو جاتا ہے… معنی آیت کے اِس صورت میں یُوں ہوئے (وَرَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَ) جب بلند کیا تم پر اس چیز کو جو طُور میں نازل ہوئی.آگے کا فقرہ اس معنی کی طرف راہنمائی بھی کرتا ہے .لو جو دیا ہم نے تم کو بڑی قوّت سے اور عمل درآمد میں لاؤ جو اس میں ہے.(نورالدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۵۸،۱۵۹)    لَقَدْ عَلِمْتُمْ:خاسروں میں سے ہونے کی ایک مثال دیتا ہے کہ جو لوگ اﷲ کے حکم کو نہیں مانتے وہ کِس طرح دُکھوں میں مُبتلا ہوتے ہیں.عَلِمْتُمْیعنی تمہیں یہ واقعہ خوب معلوم ہے.اِعْتَدَھوْا مِنْکُم:خدا کے حکموں سے نکل کر کام کیا اور الہٰی حد بندیوں کو توڑ دیا.فِی السَّبْتِ:سبت کے معنے ہیں آرام، راحت، آسُودگی.لُغت میں ہے اَلسَّبْتُ: الرَّاحَۃُ.اکثر لوگ جب خدا انہیں دولت و مال ، جاہ و جلال ، جتّھا، صحت عافیّت دیتا ہے تو اس آسُودگی میں خدا کو راضی کرنے کی بجائے ناراض کر لیتے ہیں اور قِسم قِسم کی بدیاں اور حق تلفیاں کرتے ہیں اور اس آرام میں حدودِ الہٰیّہ سے نکل جاتے ہیں سَبت کے ایک اَور معنے بھی ہیں.وہ ایک دن کا نام ہے جیسے ہمارے ہاں جمعہ ہے.یہودیوں میں بھی ہفتہ ایک دِن ایسا مقرر کیا گیا تھا جس میں ارشادِ الہٰی تھا کہ شکار نہ کرو.وہ یُوں کرتے تھے کہ گڑھوں میں مچھلیوں کو روک لیتے تھے اور دوسرے دن اُٹھا لاتے اور کہتے آج تو سبت نہیں ہے.شریعت کے احکام میں کئی لوگ ایسے حیلے بنا لیتے ہیں جس سے ظاہر ی طور پرکوئی اعتراض نہیں ہو سکتا مگر خدا تو ان کے دِلوں کی نیّتوں کو خوب جانتا ہے اس کو یہ لوگ

Page 171

کیونکر دھوکہ دے سکتے ہیں.یاد رکھو اِس آیت میں یہ نصیحت ہے کہ مُرَفَّہ الحال ہو کے کوئی شخص اﷲتعالیٰ کو ناراض کرے تو وہ بھی بُرا اور خدا نے جو عبادت کے وقت مقرر کر رکھے ہیں ان میں حیلہ گریوں سے کام لے تو وہ بھی بُرا.پس اِن دونوں باتوں سے بچو.دیکھو ایک قوم نے ایّامِ راحت اور یومِ عبادت کی قدر نہ کی.حکمِ الہٰی کی بجا آوری میں طرح طرح کے حِیلے کئے تو اﷲ نے ان کو یہ عذاب دیا کہ بندروں کی طرح ذلیل بنا دیا.وہ احکام کو ٹال کر اپنی عزّت چاہتے تھے مگر خدا نے انہیں ذلیل کر دیا اور یہ واقعہ ایسا خطرناک ہؤا کہ فَجَعَلْنٰھَا نَکَالَا کہ اسے دہشت بنا دیا اُن لوگوں کے لئے جو اس وقت موجود تھے اور ان کے لئے بھی جو پیچھے آئیں گے.پارہ ۹ رکوع گیارہ اور پھر پارہ ۶ رکوع ۱۳ میں فرمایا ہے کہ یہ لوگ کِس طرح بندر بنائے گئے.(۱). .   (الاعراف:۱۶۷تا۱۶۹) پس جب ممنوعہ امور کو گردن کشی سے کرنے لگے تو ہم نے کہا ہو جاؤ تم بندر ذلیل.اور جب تیرے ربّ نے آگاہ کر دیاکہ ان (یہود) پر ایسے لوگوں کو مسلّط رکھے گا جو قیامت تک انہیں بڑے بڑے دُکھ پہنچاتے رہیں.تحقیق تیرا ربّ جلد اعمال کا بڑا نتیجہ دینے والا ہے اور بات یہ ہے کہ وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے.اور ہم نے انہیں گروہ در گروہ بنا کر ملک میں مُنتشر کر دیا.ان میں سے بعض نیکوکار ہو گئے اور انہی میں سے بعض اَور طرح کے رہے اور انہیں ہم نے دُکھوں سُکھوں سے آزمایا تاکہ رجوع کریں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) (۲)  . . .(المائدۃ: ۶۱تا۶۳) میں تمہیں آگاہ کروں کہ اﷲکے حضور بَدتر بدلہ پانے والا کون ہے وہی گروہ جسے اﷲ نے اپنی رحمت سے دُور کیا اس پر غضب نازل کیا جن کو بندر اور سؤر بنایا کیونکہ انہوں نے طاغوت کی فرمانبرداری

Page 172

کی.انہی لوگوں کا بُرا ٹھکانا ہے اور سیدھے راستے سے بہت دُور ہیں.جب وہ تمہارے پاس آتے تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے حالانکہ وہ کُفر سے بھرے ہوئے آئے اور اسی کے ساتھ نِکل گئے اور اﷲ جانتا ہے جسے وہ چھُپاتے ہیں اور تُو ان میں سے بہت کو دیکھے گا کہ گناہ اور زیادتی میں اور حرام خوری میں پیش دستی کرتے ہیں.بہت بُرا ہے وہ امر جو وہ کر رہے ہیں.اِس سے صاف ثابت ہؤا کہ ان کی شکلیں مَسخ نہیں ہوئیں.وہ لوگ گائے کی پرستش کرتے تھے خدا نے ان سے دَرشنی گائے ذبح کرائی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) اور تم جان چکے ہو ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے ہفتے کے دِن میں زیادتی کی.پس ہم نے کہا اُن کو ذلیل بندر ہو جاؤ.سَبت لُغت میں آرام کو کہتے ہیں.دیکھو قاموس.اَلسَّبْتُ اَلرَّاحَۃُ.اور ہفتے کے دِن کو بھی کہتے ہیں.یہودی آرام کے دِنوں میں یا یُوں کہو سَبت کے دن خداوند خدا کی نافرمانی کرتے اور ان کی سرکشی اور بغاوت پر جب باری تعالیٰ کا غضب بھڑکتا تو ذلیل اور خوار ہو جاتے اور ان کی حالت اس ذِلّت اور اوبار کی وجہ سے گویا بندروں، سؤروں اور کُتّوں کی سی ہو جاتی.اسی مجاز کو قرآن کریم بیان کرتا اور اہلِ کتاب کو جو زمانہ ٔ نبوی میں تھے ان کے اسلاف کا عبرت انگیز حال یاد دلا کر نصیحت دیتا ہے… ایسے مجازوں کو جو کتبِ الہامیہ میں خصوصًا اور ہر زبان میں عموماً مستعمل ہوتے ہیں حقیقت اور نفس الامری سمجھ لینا غلطی ہے اور یہ خوش فہمی انہیں حضراتِ نصارٰی سے ہی مخصوص ہے.(فصل الخطاب جِلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۴۹،۱۵۰)چونکہ یہودکو سبت کی حفاظت کی تاکید شدید تھی جیسا خروج باب ۲۰ آیت ۹ اور باب ۳۵ سے پایا جاتا ہے مگر وہ شریر قوم بخلاف حکمِ ربّانی بغاوت اور عصیان کرتی تھی اِس لئے غضبِ خداوندی ان پر نازل ہوتا اور وہ ذلیل و مردُود ہو جاتے اور اس کو سؤراور بندر کے استعارے میں مجازا ًذکر کیا ہے.(فصل الخطاب جلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۱۵۱)  

Page 173

           مُسَلَّمَۃٌ: اِن کاموں (تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ)سے بچے

Page 174

بے داغ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)انبیاء بنی اسرائیل شرک اور بُت پرستی کے دشمن تھے.بعض نادان فرقوں میں ایک گائے کی پرستش ہوتی تھی اور وہ ان میں درشنی گائے تھی.چنانچہتَسُرُّ النّٰظِرِیْنَ اورلَا ذَلُوْلٌ تُثِیْرُ الْاَرْضَ وَ لَا تَسْقِی الْحَرْثَ مُسَلَّمَۃٌ لَّا شِیَۃَ فِیْھَا (سے)اس کا صاف پتہ لگتا ہے.اس کا ذبح کرنا بُت پرستی کی جَڑ کاٹنی تھی.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۱۶۸) فرعون… کے آباء و اجداد گائے کی پرستش کرتے تھے.اسکندریہ میں ایک لائبریری تھی اس کو بروچیم کہتے تھے.بروچیم بَیل کا نام ہے.اِس لائبریری کے آگے ایک بَیل بنا ہؤا تھا لائبریری کی حفاظت کے لئے.مؤرخوں کا اِس میں اختلاف ہے کہ بنی اسرائیل مصر میں ڈھائی سَو سال رہے یا چار سَو سال.خیر یہ تمہاری دلچسپی کی بات نہیں.اور فرعون کے سر کا تاج بھی گؤ مکھی کا تھا اور اس کا ثبوت قُرآن سے یُوں ملتا ہے کہ جب بنی اسرائیل وہاں سے آئے تو یار بن کر سیّد نا موسٰی علیہ السّلام کے زیرِ اثر تھے.سیّدنا موسٰی علیہ السّلام کے بعد انہوں نے بچھڑے کی پرستش کی.گائے کو تو پہلے ہی مانتے تھے… انبیاء کو تو شِرک سے نفرت ہی ہوتی ہے.موسٰی علیہ السّلام کو بچھڑے کی پرستش بُری لگی… سیّدنا موسٰی علیہ السّلام نے فرمایا کہ گائے کی قربانی کرو.عادت بُری بَلاہے.لگے ہیچ پیچ بنانے.سیدھی بات تھی گائے ذبح کر دیتے… موسٰیؑ اِتنا بڑا اولوالعزم نبی تھا کتنے نشان دکھلائے.فرعون کی غلامی سے بچایا.یَدِبیضاء عصا، جراد،وباء حمل، طوفان وغیرہ وغیرہ دکھائے.فرعون غرق ہؤا.اسی دریا سے بنی اسرائیل بچ کر نکل آئے.ان کے دِل میں کوئی اَدب معلوم نہیں ہوتا اور کہنے لگے کیا آپ ہنسی کرتے ہیں.کہا اَعُوْذُ بِاﷲِ یہ تو جاہلوں کا کام ہے.ہماری سرکار نے فرمایا، صلّی اﷲ علیہ وسلّم، کہ مَیں تم سے بڑا عالم اور متّقی ہوں.ٹھٹھا یا مخول کرنا عالم کا کام نہیں.مجھے یاد نہیں کہ کبھی درس میں یاطِبّ میں ٹھٹھا کیا ہو.وہ بدمعاش خوب سمجھتے تھے کہ سیّد ناموسٰیؑ کی کیا غرض تھی مگر رسم کے خلاف کرنا بھی مشکل تھا اِسی لئے خوئے بدرا بہانہ ہا بسیار کہتے ہیں.اُدْعُ لَنَارَبَّکَ یُبَیِّنْ لَّنََا مَاھِیَ: یہ تمسخر ہے.جواب ملا گائے ہے، نہ بچھیا ہے اور نہ بڑھیا اور جوان ہے جو حُکم ہؤا ہے اس پر عمل کرو.شریر پابند رسوم و عادات بھلا کیسے جلد سیدھا ہو.لگے پوچھنے کہ اس کا رنگ کیسا ہو.علاج تو یہ تھا کہ دو جُوت لگا دیتے مگر انبیاء رحیم کریم ہوتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ زرد رنگ اور شوخ ڈھڈھا رنگ ہے یعنی گُوڑھا گورا.خوش کرتی ہے دیکھنے والوں کو.

Page 175

کیا معنی؟ درشنی گائے ہے.ہندو ایسی عمدہ گھروں میں رکھتے ہیں اور ان کو گُندھا آٹا کھلاتے ہیں.اَب یہ بَدبختی پیچھا نہیں چھوڑتی.کہتے ہیں حضور گائیں بہت ہیں.گوریاں بھی ہیں ذرا تفصِیل سے پوچھو ہم کو تو شُبہ پڑ گیا ہے.پھر تاڑ گئے کہ یہ شِرک کو تو پسند نہ کرے گا.اور فرمایا کہ وہ ذلیل نہیں ہے.وہ تو کھا کھا کر اتنی موٹی ہوئی ہے کہ وہ زمین پر کُھر مارتی ہے کبھی کھیتی میں نہیں لگائی گئی.اس میں کِلّا کوئی نہیںاور نہ داغ ہے.مجبور ہو گئے.آخر ذبح کرنی پڑی.آخر انبیاء علیہم السّلام کے حضور کیا پیش جاتی.ایک اَور بات سُناتا ہوں کہ جب انسان کسی جگہ کو آگ لگاتا ہے تو پہلے دِیاسلائی کو جلاتا ہے.پہلے چیتھڑے اور کاغذ وغیرہ کو آگ لگاتا ہے.ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بڑے بڑے کھنڈر تباہ کر دیں.اِسی طرح ا فساد کیلئے بعض لوگ ایک امر کو دینی اور مذہبی امر تجویز کر کے اس سے افساد شروع کرتے ہیں اور شاید ان کی اتنی عقل ہوتی ہے یا یہ ان کی بد عادت ہے اس کو پُورا کرنے کو ایک ایمانی امر تجویز کرتے ہیں اِس لئے مَیں اوّل اپنا ایمان ظاہر کرتا ہوں.ہمارے ایمان میں جو کچھ ہے یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ اورگواہ رہو قیامت کے دِن پوچھے جاؤ گے کہ کوئی معبود برحق ،محبوب، مطلوبِ حقیقی جس کے آگے کامل اطاعت کریں، تذلّل اختیار کریں اﷲ ہے.اس کے مقابل میں کوئی نہیں.ربّ، رحمن ،رحیم، مالکِ یَوم الدّین اس کی صفتیں ہیں.لاکھوں فرشتے اس نے بنائے ہیں جو اسکے کارخانے میں اس کے حکم کے ماتحت کارکن ہیں.ان کی معرفت حکمِ الہٰی آتا ہے اور بالواسطہ بھی آتا ہے اور جن کے پاس آتا ہے اگر وہ مامور ہوں تو وہ رسول کہلاتے ہیںاور سب کے سردار نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں.اس کے بعد دوزخ، جنّت، پُل صراط، قیامت برحق ہیں.(الفضل ۱۲؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)   

Page 176

وَ اِذْقَتَلْتُمْ نَفْسًا:ایک یہودی عورت نے ایک مُسلم عورت کو مار دیا.قریب المرگ حالت میں بتا گئی میرا قاتل کون ہے.پس حکم ہؤا اس کو مار دو.بِبَعْضِھَا:بعض کے بدلے میں.اِس لئے فرمایا کہ (ا)کوئی خواہ سَو کو مارے آخر اسی ایک قاتل کو قتل کیا جائے گا.(ب)دوم.جُرم کا اِرتکاب خدا جانے کتنی بار کر چکا ہے اور اَب پکڑا گیا.: وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌاس قاتل کو مارنے سے آئندہ قتل ہونیوالے بچ گئے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ نیز دیکھیں ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ٔ) مَیں نے اِس آیت پر غور کیا ہے وَ اِذْقَتَلْتُمْ نَفْسًایہ ایک سیدھی بات ہے اِس کے معنے ’’ تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا.‘‘ آدمی کو تو مارا ہی کرتے ہیں.یہ ترجمہ اِس کا صحیح نہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم نے ایک جی ( یا جان) کو مارا پھر اپنے آپ سے ہٹانے لگے کہ ہم نے نہیں مارا.معلوم ہؤا کہ وہ جان ایسی نہ تھی جس کا وہ بہادری کا کام سمجھ کر اقرار کرتا.کعب بن اشرف مارا گیا.اس کے قاتل کا پتہ پوچھنے پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں نے مارا ہے.ابورافع مارا گیا اس کے لئے بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے اس کو مارا ہے کُشت و خون جیسا کہ آجکل سرحدیوں ، وزیریوں اورمحسودیوں وغیرہ میں ہے ایسا ہی عرب میں تھا.سب کے نزدیک عورت کا مارنا بہت معیوب ہے.ابوسفیان نے کہا تھا کہ آپ اِس لڑائی میں عورتوں کو بھی مقتول پائیں گے مگر مَیں نے یہ حکم نہیں دیا.مَیں ایک دفعہ ایک رئیس کے ساتھ جس کے ساتھ انگریز بھی تھے سؤر کے شکار میں گیا.سامنے سے ایک سؤر آیا.اس کا گھوڑا اس سے ڈر گیا.جُھک کر گھوڑے کو ایک طرف دوڑا کر لے گیا.ایک مسخرہ انگریز بھی ان میں تھا اس نے اس رئیس کو کہا کہ وَل.آپ کاگھوڑا سؤر سے ڈر گیا تو اس رئیس نے کہا کہ آپ نے دیکھا نہیں.مَیں جھُکا تھا.مَیں نے دیکھا کہ وہ سؤر کی مادہ سؤرنی تھی.ہم سپاہی مادہ کو نہیں مارا کرتے.تو اس انگریز نے دوسرے انگریز کو کہا شُکر ہے ہم نے اس کو نہیں مارا ورنہ ہماری تو بدنامی ہوتی.اِس آیت میں جس نفس کا ذکر ہے وہ عورت ہے.مرد کو اگر مارتے تو کچھ حَرج نہ تھا.تحقیقات کرنے پر انہوں نے ایک دوسرے پرتھوپا.آخر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینہ کے سارے بدمعاشوں کو جمع کیا اور اس عورت کے آگے سب کو پیش کیا.وہ بول تو نہ سکتی تھی مگر قوّتِ ممیزّہ اس میں تھی.جب قاتل کو اس کے سامنے لایا گیا تو اُس نے سر سے اشارہ کیا کہ یہی ہے.اس کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم

Page 177

نے کئی پیچوں سے اس عورت پر پیش کیا مگر وہ اس کو پہچان لیتی.اس کا ذکر بخاری شریف میں ہے.اس بدمعاش نے اس عورت کاسر دو پتھّروں کے درمیان کُچل دیا تھا ( کچھ زیور کے لالچ سے).وَاﷲُ مُخْرجٌٌ مَّاکُنْتُمْ تَکْتُمُوْنَ :اﷲ اِس بات کو نکالنے والا تھا آخر وہ بات نکل آئی.فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا:تب ہم نے اس قاتل کو مارنے کا حکم دیا اور یہ اس کے بعض کا بدلہ تھا.اس نے پہلے بھی کئی بدمعاشیاں کیں اور آگے بھی وہ کرتا.اِس لئے یہ سزا اس کے بعض کی ہے.اَور جگہ فرمایاوَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ (البقرۃ:۱۸۰)بدلہ لینے میں تمہارے لئے حیات ہے.یُحْیٖ کا لفظ رکھاہے یہ ان کی بے حیائی ہے کہ انہوں نے عورت کو مارا.عورت کو مارنا کوئی بہادری نہیں.(الفضل ۱۹؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵ نیز ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)     یَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآئُ:جب بعض پتھّر ایسے ہیں کہ ان سے پانی نِکلتا ہے تو مومن کے اندر سے تو اس سے بڑھ کر کچھ نکلنا چاہیئے یعنی اتنی ندیاں پھُوٹ کر نکلیں کہ عالَم سیراب ہو.پتھّروں سے پانی نِکل کر فارغ البالی، سرسبزی کا ذریعہ بنتا ہے تو مومن کے اندر سے بھی ایسے کلمات نکلنے چاہئیں جن سے رُوحانی سر زمین میں بہار آتی ہو.لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اﷲُ :پتھّر کے اُوپر سے گِرنے کا نظّارہ انسان میں خشیت پَیدا کرتا

Page 178

ہے یا ضمیر قلوب کی طرف ہو.وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ:گناہ سے بچنے اور خشیت اﷲ پَیدا کرنے کا ایک ذریعہ یہی ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو اﷲ میرے کاموں سے بے خبر نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) مَیں اِس آیت کو سُنا کہ افسوس کرتا ہوں.مسلمانوں کو بتلایا تھی کہ تم ایسا کام نہ کرنا.صدہا قتل کرتے ہو ڈرتے نہیں.ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ:تمہارے دِل سخت ہو گئے.بعض پتھّروں سے نہریں چلتی ہیں اور ان سے نفع پہنچتا ہے مگر تم تو ان پتھّروں سے بھی بدتر ہو.تم جس قدر ہو تم میں سے ندیاں اور نہریں جاری ہوتیں اَور کچھ نہیں تو پانی نکلتا.مَیں تمہار ا خیر خواہ ہوں.مَیں نے تمہیں سمندر کے سمندر سُنائے مگر تم بھی بہادر ہو.بعض ہیں کہ ان کے کانوں پر جُوں رینگتی ہی نہیں قَسَتْ قُلُوْبُکُمخداساری قوم کو بُرا نہیں کہتا.بعض نیک بھی تو ہوتے ہیں جواِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اﷲِ کے مصداق ہوتے ہیں.مِنْھَامیں جو ضمیر ہے اس میں اختلاف ہے.بعض پتھّروں کی طرف پھیرتے ہیں

Page 179

  : تم یہ چاہتے ہو کہ تمہاری بات مان لیں مگر یہ وہ لوگ ہیں کہ جس کتاب کو کلام اﷲ مانتے ہیں اس کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہیں بعد اس کے کہ اس کو خوب سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کوئی نیک نتیجہ نہیں رکھتی.: حُجّت میں غالب آئیں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) انسان کے ذمّہ تین طرح کے حقوق ہیں.اوّلؔ اﷲ تعالیٰ کے.دومؔ نفس کے.سومؔ: مخلوقات کے.اِن حقوق کے متکفّل قرآن کریم اور احادیثِ صحیحہ ہیں.جنابِ الہٰی کے حقوق کو کون بیان کر سکتا ہے عقل میں تو نہیں آ سکتے.ںجس طرح وہ وراء الوراء ہستی ہے اس کے حقوق بھی ویسے ہی ہیں.جب انسان ایک دوسرے انسان کی رصامندی کے طریقے کو بھی اچھی طرح نہیںجان سکتا تو خدا تعالیٰ کی رضامندی کے رستوں کو کب کوئی پا سکتا ہے اور جب انسان کے حقوق کو نہیں سمجھ سکتے تو خدا کے حقوق کو کِس طرح سمجھ سکتے ہیں.مثلاً مَیں یہاں کھڑا ہوں تم میری رضامندی کی راہ کو نہیں جانتے.تو وہ ذات جولَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ (الشُوْرٰی:۱۲) ہے اس کے حقوق کو کیونکر انسان سمجھ سکتا ہے.اِسی طرح انسان کے حقوق بھی ہیں.انسان بہت کچھ غلطیاں کر جاتا ہے.اِس لئے خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے ایک قانون بنایا ہے.ایک صحابیؓ دن کو روزے رکھتے اور رات کو عبادت کرتے تھے.وہ حضرت سلمان فارسیؓ کے دوست تھے.ایک دفعہ سلمانؓ ان کے گھر تشریف لے گئے تو ان کی بیوی کے کپڑے خراب تھے.انہوں نے ان کی بیوی سے پُوچھا کہ بھاوجہ صاحبہ آپ کی ایسی حالت کیوں ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرے کپڑوں کی حالت کیونکر اچھی ہو تمہارے بھائی کو تو بیوی سے کچھ غرض ہی نہیں.وہ تو دن بھر روزے اور رات کو عبادت میں مشغول رہتے ہیں.حضرت سلمانؓ نے کھانا منگوایا.اس دوست کو کہا کہ آؤ کھاؤ.انہوں نے جواب دیا کہ مَیں روزے دار ہوں.تو حضرت سلمانؓ نے ناراضگی ظاہر کی تو مجبورًا اُس صحابیؓ نے آپ کے ساتھ کھانا کھا لیا.پھر حضرت سلمانؓ نے جب رات ہوئی تو چارپائی منگوا کر ان کو کہا کہ سو جاؤ.انہوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ مَیں رات کو عبادت کیا کرتا ہوں تو پھر حضرت سلمانؓ نے ان کو زبردستی سُلا دیا.

Page 180

صحابہؓ ایسے نہ تھے کہ (النّسآء:۸۴)جب کوئی امن و خوف کی بات ہوتی تو اسے پھیلا نہ دیتے تھے.تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو بات سُنی تو فورًا اس کو پھیلا دیتے ہیں.آخر ان کا معاملہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پیش ہؤا تو آپؐ نے اُس صحابی ؓ کو فرمایا کہ تمہارے متعلق ہمیں یہ بات پہنچی ہے تو انہوں نے یہ عرض کیا کہ بات تو جیسے حضورصلّی اﷲ علیہ وسلّمکو کسی نے پہنچائی وہ صحیح ہے.تب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا.یہ بھی فرمایا تھاوَ لِعَیْنَیْکَ عَلَیْکَ حَقًّا.تیرے پر نفس کے بھی حقوق ہیں تیری بیوی کے بھی حقوق ہیں.اس نے عرض کیا یا رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلّم (اس کی مراد اس سے یہ تھی) کہ میں تو خوب مضبوط ہوں آپ مجھے کچھ تو اجازت دیں تو نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اچھا ایک مہینے میں تین روزے رکھ لیا کرو (چاند کی تیرہ، چودہ، پندرہ) اُس نے پھر کہا یا رسول اﷲؐ (مطلب یہ تھا کہ مَیں بہت طاقتور ہوں آپ ؐ مجھے اَور اجازت دیں) تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا دو دن افطار کر کے ایک دن روزہ رکھ لیا کرو.اُس نے پھرعرض کیا یا رسول اﷲ … تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا.سب سے بڑھ کر تو صومِ داؤ دی تھا.تم ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کر لیا کرو.پھر کہا یا رسول اﷲؐ(مطلب یہ تھا کہ مجھے قرآن کریم کے روزانہ ختم کرنے کی تو اجازت فرماویں) تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہفتہ میں ایک ختم کر لیا کرو.تو اُس نے پھر عرض کیا یا رسول اﷲ.تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہفتہ میں ایک ختم کر لیا کرو.تو اُس نے پھر عرض کیا یا رسول اﷲ.تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا قرآن کریم کا ختم تین دن میں کر لیا کرو اِس سے جلدی کی بالکل اجازت نہیں ہے.جب وہ بوڑھے ہو گئے تو پھر ان کو اس سے تکلیف ہوئی اور اب نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہوئے تھے.اب لگے رونے اور پچھتانے کہ مَیں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اجازت کو اس وقت کیوں نہ مانا! جب ایسے ایسے صحابہ ؓ کو رضامندی کا پتہ نہیں لگ سکا تو تم کو کیوں کر لگ سکتا ہے؟ ہم بیمار ہو جاتے ہیں یا ہمیں کوئی خوشی ہوتی ہے تو تم میں سے بعض ایسے ہیں (جن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں) کہ وہ ہماری رنج و راحت میں بالکل شریک نہیں ہوتے اور ہمیں پوچھتے تک نہیں.وَ اِذَاخَلَا بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ:اور جب یہ آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو تم نے فلاں بات جو تم کو سمجھ آ گئی وہ کیوں بتلائی.اَب وہ تم کو خدا کے رُوبرو ملزم ٹھہرائے گا. (البقرۃ:۷۸)کہ یہ نہیں جانتے کہ اﷲ اُن کے چھُپے اور ظاہر اور ان کے سب بھیدوںکو جانتا ہے تو وہ پھر چھپاتے کِس سے ہیں.(الفضل ۲۶؍نومبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)

Page 181

     اَمَانِیََّّ:امانی کے تین معنے ہیں (۱) امانی جمع امید کی امیدیں(۲) امانی کے معنے تلاوت.(۳) امانی کے معنے اکاذیب ۱؎.اَن پڑھ اِن تینوں باتوں میں مبتلا ہوتے ہیں.جھُوٹے خیالات ، جھُوٹی امیدیں.عبارت تو سُن لیتے ہیں مگر مطلب نہیں سمجھتے.ثَمَنًا قَلِیْلًا :دُنیا.جیسا کہ فرمایا مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ(النّساء:۷۰)مطلب یہ کہ وہ دُنیا کے چند روزہ فائدہ کے لئے دین کو چھوڑتے ہیں.مِمَّا کَتَبَتْ اَیْدِیْھِمْ :بائیبل خصوصًا اس میں اناجیل اور اس کے ملحقات ترجمہ در ترجمہ اسکی مصداق ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اصل کیا تھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری تراجم کو لے کر کہتے پھرتے ہیں خدا کا کلام ہے.کتابِ مقّدس میں یُوں لکھا ہے حالانکہ اصل کتاب کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کہاں گئی.بلکہ یہاں تک مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ ابھی تک یہ فیصلہ بھی نہیں ہؤا کہ وہ اصلی زبان جس میں انجیل تھی عبری تھی یا یونانی.حالانکہ مسیح علیہ السّلام کے آخری کلمات ایلِیْ ایْلِیْ لِمَا سَبَقْتَانِیْاوران کی قومی اور مادری زبان سے صاف طور پر یہ پتہ لگتا ہے کہ وہ عبرانی ہی تھی مگر یہ یونانی کہتے جاتے ہیں ۱؎ جھوٹی باتیں.مرتّب ۱؎ جھوٹی باتیں.مرتّب

Page 182

اصل یہ ہے کہ اصل کتاب کا پتہ ہی نہیں ہے.۱؎ جھوٹی باتیں اب جو کچھ ان کے ہاتھ میں ہے وہ ذاتی خیالات ہیں.غرض اِس قِسم کا تو مذہب کمزور ہے اور پھر اس پر طرفہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے طریقِ اشاعت کی وجہ سے، کہیں خوبصورت عورتوں کے ذریعہ تبلیغ کر کے، کہیں ہسپتالوں کے ڈھنگ ڈال کر اخبارات اور رسالجات کی اشاعت سے کوئی قوم، کوئی خاندان ایسا نہیں چھوڑا جس میں سے کسی نہ کِسی کو گمراہ نہ کر لیا ہو.(الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۷)    :اس پر دعوٰی کہ ہم کو آگ نہ چھُوئے گی وہ جھُوٹ کہتے ہیں.ہم جنابِ الہٰی کا قاعدہ بتلاتے ہیں  جنہوں نے بدیاں کیں اور ان کو ان کی بدیوں نے گھیر لیا تو وہی دوزخی ہیں اور  جو لوگ ایمان لاتے اور عملِ صالح کرتے ہیں ان کو دُنیا میں بھی جنّت اور آخرت میں بھی جنّت ہے.(الفضل ۲۶؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) اور کہتے ہیں ہم کو آگ نہ لگے گی مگر کئی دن گنتی کے.تُو کہہ.کیا لے چکے ہو اﷲ کے یہاں  

Page 183

سے قرار تو البتہ خلاف نہ کرے گا اﷲ اپنا اقرار.یا جوڑتے ہو اﷲ پر جو معلوم نہیں رکھتے.کیوں نہیں؟ جس نے کمایا گناہ اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے.سو وہی ہیں لوگ دوزخ کے.اُسی میں رہیں گے.(فصل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ ۱۰۳) اِسی لئے فرقے یہود کے خلوت نشین اور جَتی ستی جنگلوں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتے تھے اور عیسائی پوپوں کی طرح خداداد انعامات سے محروم تھے.(فصل الخطاب جلد۲صفحہ ۱۰۴.ایڈیشن دوم)     حضرت نبی کریم(صلی اﷲ علیہ وسلم) نے چالیس سال کی عمر میں اطلاع دی کہ خدا نے مجھے رسول بنایا.تیرہ برس آپ مکّہ میں رہے.اس کے بعد جب آپ کی عمر ۵۳ سال کی ہوئی حکمِ الہٰی کے مطابق ہجرت کر کے چلے گئے.مکّہ میں آپ کو کئی قِسم کی سہولتیں تھیں.اوّل تو یہ کہ ایک ہی قِسم کے مخالفین سے پالاپڑتا تھا یعنی مُشرکوں سے اور پھر بوجہ اس کے کہ آپ کا خاندان نہایت معزّز تھا اور آپ کے قرابت دار بھی وہاں تھے کوئی ایذاء رسانی کی جرأت نہ کر سکتا تھا.آپ ان لوگوں کے رسم و عادات کو بھی سمجھتے تھے.آپ کے کئی پُرانے دوست بھی تھے جو ہر وقت مدد کرتے.برخلاف اسکے مدینہ میں جب آپ آئے تو بڑی مشکلات پیش آئیں.پہلی مشکل تو یہ کہ مکّہ کی مخالفت بدستور تھی(۲) پھر مدینہ میں بھی مُشرکین موجود تھے(۳) ایک منافقوں کا گروہ بھی وہاں پیدا ہو گیا یہ بد ذات گروہ بڑا خوفناک ہوتا ہے، اندر سے کچھ باہر سے کچھ.(۴) عیسائی بھی تھے (۵) بنو قینقاع یہودی بڑے شُہدے اور اوباش تھے(۶) بنو قریظہ.(۷)بنو نضیر.پھر ان کے علاوہ مدینہ کے اِرد گِرد غطفان.مصر کا گروہ تھا(مجھے

Page 184

یہاں ایک نکتہ یاد آ گیا.ایک شیعہ نے مجھ سے کہا  (المائدۃ:۶۸)سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا خطرناک کام تھا.مَیں نے کہا کہ بیشک.اتنی قوموں کی مخالفت میں پیغامِ الہٰی پہنچانا بڑا مشکل تھا یہی وجہ ہے کہ آپؐ کی تسلّی کے واسطے (المائدۃ:۶۸)آیت نازل ہوئی).مکّہ کے لوگ تو ایسے تھے کہ نہ ان کے پاس کتاب نہ انبیاء کے علوم.نہ وہ اتنے چالاک.مگر مدینہ کا دشمن بڑا خطرناک اور چالاک دشمن تھا کیونکہ عیسائی اور یہودی سب پڑھے ہوئے تھے.ان کا ایک کالج بھی وہاں تھا جسے بَیت المدراس کہتے تھے.پھر ان میں رُہبان بھی تھے جو کچھ روحانی حالتیں بھی رکھتے تھے اور اپنا خاص اثر بھی.اِس واسطے حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) نے تجویز کی کہ سب قوموں کو بُلایا اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہومیں یہاں آ کر آباد ہو گیا ہوں میری قوم کے لوگ میرے دشمن ہیں.تم جانتے ہو کہ اس قوم کا رُعب تمام علاقہ عرب پر ہے پس ان کے ساتھ اَور قومیں بھی مِل کر ہمیں ایذاء پہنچائیںگی.پس ضرور ہے کہ ہم بَیرونی دشمنوں سے بچنے کے لئے اتفاق کریں.مَیں اس کے لئے چند شرائط پیش کرتا ہوں جن پر اگر ہمارا اتفاق ہو جائے تو کوئی فساد نہ رہے چنانچہ آپ نے ان کے سامنے عہدنامہ کا یہ مسوّدہ پیش کیا جو انہوں نے مان لیا اور جو اِس رکوع میں مفصّل مذکور ہے.اس میں حقوقِ الہٰی اور حقوق العباد دونوں آگئے.لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اﷲَ :یہی آپ کا اصل منشاء تھا جو ان سے منوا لیا کہ ہم لوگ اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں گے.یہودیوں کے لئے اس کا مان لینا کوئی مشکل امر نہ تھا.بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا:یہ عام اَخلاقی باتیں ہیں.قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا: خوش معاملگی کرنا.قُوْلُوْاحُسْنًا کے یہی معنے ہیں.اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ : اپنے اپنے طور سے نمازیں پڑھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا تو دین الہٰی کے متعلق معاہدہ ہؤا.اب دوسری طرف یہ وعدہ لیا (۱) تم اپنے خون نہ بہاؤ گے یعنی آپس میں نہ لڑو گے (۲) اپنے لوگوں کو گھروں سے باہر نکال کر انہیں در بدر نہ کراؤ گے.(ضمیمہ اخباربدرؔقادیان۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء نیز نورالدین صفحہ ۱۶) خلاصہ دینِ انبیاء کیا ہے؟ تمام انبیاء کے دین کا خلاصہ یہی ہے جو اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ لیا ہے.لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اﷲَ.لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ.اﷲ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرنی.بس یہی خلاصہ ہے تمام دینوں کا اور یہی لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے معنے ہیں.

Page 185

عبادت کسے کہتے ہیں لوگوں کو اِس کے معنے نہیں آتے.بعض اِس کے معنے بندگی کرنے کے کرتے ہیں اور بعض پرستش اور پُوجا کے کرتے ہیں.اس کے کئی ارکان ہیں.اﷲ تعالیٰ کی بے نظیر تعظیم جیسی اس کی تعظیم کرے اَور کسی کی نہ کرے.مثلاً ہاتھ باندھنے ، اس کے آگے جھُکنا (رکوع) اس کے آگے سجدہ میں گِر جانا، حج کرنا،روزے رکھنا، اپنے مال میں سے ایک حِصّہ اس کے لئے مقرر کر دینا ، اُٹھنے بیٹھنے میں اُس کا نام لینا.آپس میں ملتے وقت اس کا نام لینا جیسے السّلام علیکم و رحمتہ اﷲ اور اس کی تعظیم میں قطعًا دوسرے کو شریک نہ کریں.دوسرا رکن.اس کی محبّت کے مقابلہ میں کسی د وسرے سے محبت نہ کرنا.تیسرا رکن.اپنی نیازمندی اور عجزو انکساری کامل طور پر اس کے آگے ظاہر کرے.چوتھا رکن.یہ ہے کہ اس کی فرمانبرداری میںکمال کر دے.ماں باپ، مُحسن و مربی، بھائی بہن، رسم و رواج اس کے مقابلہ میں کچھ نہ ہوں.لَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا لَا تَعْبُدُوْا اِلَّا اﷲَ.اﷲ کے سوا کِسی کی عبادت نہ کریں.بعض روپیہ سے محبت کرتے ہیں.جو لوگ چوری ، جھُوٹ، دغا سے کماتے ہیں وہ اﷲ سے نہیں بلکہ روپیہ سے محبت کرتے ہیں کیونکہ اگر اس کے دِل میں خدا کی محبت ہوتی ہے وہ ایسا نہ کرتا.اس سے اُتر کر ماں باپ کے ساتھ احسان ہے.بڑے ہی بد قِسمت وہ لوگ ہیں جن کے ماں باپ دُنیا سے خوش ہو کر نہیں گئے.باپ کی رضامندی کو مَیں نے دیکھا ہے اﷲ کی رضامندی کے نیچے ہے اور اس سے زیادہ کوئی نہیں.افلاطُون نے غلطی کھائی ہے.وہ کہتا ہے ’’ ہماری رُوح جو اُوپر اور منزّہ تھی ہمارے باپ اسے نیچے گِرا کر لے آئے.‘‘ وہ جھُوٹ بولتا ہے.وہ کیا سمجھتا ہے کہ رُوح کیا ہے.نبیوں نے بتلایا ہے کہ یہاں ہی باپ نطفہ تیار کرتا ہے پھر ماں اس نطفہ کو لیتی ہے اور بڑی مصیبتوں سے اسے پالتی ہے.نو مہینے پیٹ میں رکھتی ہے.بڑی مشقّت سے (الاحقاف:۱۶)اسے مشقّت سے اُٹھائے رکھتی ہے اور مشقّت سے جَنتی ہے.اس کے بعد وہ دو سال یا کم از کم پونے دو سال اسے بڑی تکلیف سے رکھتی ہے اور اسے پالتی ہے.رات کو اگر وہ پیشاب کر دے تو بستر کی گیلی طرف اپنے نیچے کر دیتی ہے اور خشک طرف بچّے کو کر دیتی ہے.انسان کو چاہیئے کہ اپنے ماں باپ (یہ بھی مَیں نے اپنے ملک کی زبان کے مطابق کہہ دیا ورنہ باپ کا حق اوّل ہے اس لئے باپ ماں کہنا چاہیئے ) سے بہت ہی نیک سلوک کرے.تم میں سے جس کے ماں باپ زندہ ہیں وہ ان کی خدمت کرے اور جس کا ایک یا دونوں وفات پا گئے ہیں وہ

Page 186

ان کے لئے دعا کرے، صدقہ دے اور خیرات کرے.ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو غلطی لگی ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ مُردہ کو کوئی ثواب وغیرہ نہیں پہنچتا.وہ جھُوٹے ہیں ان کو غلطی لگی ہے.میرے نزدیک دعا، استغفار، صدقہ و خیرات بلکہ حج ، زکوٰۃ، روزے یہ سب کچھ پہنچتا ہے.میرا یہی عقیدہ ہے اور بڑا مضبوط عقیدہ ہے.ایک صحابی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری ماں کی جان اچانک نکل گئی اگر وہ بولتی تو ضرور صدقہ کرتی.اَب اگر مَیں صدقہ کروں تو کیا اُسے ثواب ملے گا؟ تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں.تو اس نے ایک باغ جو اس کے پاس تھا صدقہ کر دیا.میری والدہ کی وفات کی تار جب مجھے ملی تو اُس وقت مَیں بخاری پڑھا رہا تھا.وہ بخاری بڑی اعلیٰ درجہ کی تھی.مَیں نے اس وقت کہا اے اﷲ میرا باغ تو یہی ہے تو پھر مَیں نے وہ بخاری وقف کر دی.فیروز پور میں فرزند علی کے پاس ہے.وَذِی الْقُرْبٰی: پھر حسبِ مراتب قریبیوں سے نیک سلوک کرو یتیموں اور مسکینوں سے نیک سلوک کرو.قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا:قَالَؔ کالفظ عربی زبان میں فَعَلَ کے برابر لکھا ہے بلکہ اس سے وسیع لکھا ہے اس سے کم ضَرَبَ کا لفظ لکھا ہے.لوگوں کو بھلی باتیں کہو.بدمعاملگیاں چھوڑ دو.بدمعاملگیوں سے باز آجاؤ.وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ واٰتُوا الزّکوٰۃَ :نمازیں پڑھو اور زکوٰۃ دیا کرو.ثُمَّ تَوَلَّیْتُمْ اِلَّاقَلِیْلًا مِّنْکُمْ وَاَنْتُمْ مَُّعْرِضُوْنَ:تم پھر جاتے ہو.باز نہیں آتے.اگر کسی کا روپیہ ہاتھ میں آ گیا تو اسے شِیرِ مادر سمجھ لیا اور اسے دینے میں آتے ہی نہیں.اﷲ تم پر رحم کرے.(الفضل ۳؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)  

Page 187

وَ اَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ: تم نے اِس معاہدہ پر اپنی گواہیاں ثبت کر دیں.اِس سے آگے خدا تعالیٰ فرماتا ہے پھر تم وہی ہو کہ اپنے لوگوں کو قتل کرانا اور جلاوطن بنانا چاہتے ہو اِس طرح کہ تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْ بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ،بدکاری اور ظلم کے لئے ان کی پیٹھ بھرتے ہو.مدد دیتے ہو.قیدیوں کو تو چندہ دے کر چھڑاتے ہو مگر جو اس سے بُرا کام ہے جلاوطن کرانا اس سے باز نہیں آتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء) اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ :یہ مرض آجکل بہت ساری ہے کہ ایک ہی کتاب کے بعض احکام کی تو تعمیل کی جاتی ہے بعض کی مطلق پرواہ نہیں کرتے.کئی لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں مگر زکوٰۃ کا خیال تک نہیں.روزے رکھتے ہیں مگر نہیں سوچتے کہ کسی پر ظلم کرنا بُرا ہے.یُوں تو تہجّد گذار ہیں مگر لڑکیوں کو میراث دینے کی قَسم ہے.یہ بہت بُری بات ہے اس سے بچو ورنہ اسکی

Page 188

سزاجہنّم ہے.وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ :یہ ایک پیشگوئی تھی جو اپنے وقت پر پوری ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء) اﷲ تعالیٰ نے اپنے کامل احسان اور کامل فضل اور کامل رحمانیّت سے مسلمانوں کو ایک کتاب دی ہے.اس کا نام قُرآن ہے مَیں نے اس کو سامنے رکھ کر بائیبل اور انجیل کو پڑھا ہے اور ژندو اوستا کو پڑھا ہے اور ویدوں کو بھی پڑھا ہے وہ اس کے سامنے کچھ ہستی نہیں رکھتے.قرآن بڑا آسان ہے.مَیں ایک دفعہ لاہور میں تھا.ایک بڑا انگریزی خوان اس کے ساتھ ایک اَور بڑا انگریزی خوان نوجوان تھا.ہم ٹھنڈی سڑک پر چل رہے تھے.اُس نے مجھے کہا کہ قرآن کریم میں آتا ہے وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ (القمر:۴۱)مگر قُرآن کہاں آسان ہے.ہم دوسری کتابوں کو جمع کرتے اور ان کی زبانوں کو سیکھتے کہ پہلے ہمیں ان کتابوں کا ملنا مشکل اور پھر ان زبانوں کا سیکھنا مشکل اور پھر ان کو ایک زبان میں کرنا مشکل.پھر اس کی تفسیر کون کرتا.قرآن کریم نے دعوٰی کیا ہیفِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنۃ:۴)جو کتاب دُنیا میں آئی اور جو اس میں نصیحتیں ہیں ان تمام کا جامع قرآن ہے باوجود اس جامع ہونے کے ایک ایسی زبان میں ہے جو ہر ایک ملک میں بولی جاتی ہے.قرآن کریم میں تین خوبیاں ہیں.پہلی کتابوں کی غلطیوں کو الگ کر کے ان کے مفید حصّہ کو عمدہ طور پر پیش کیا ہے اور جو ضروریات موجود ہ زمانہ کی تھیں ان کو اعلیٰ رنگ میں پیش کیا اِس کے سوا جتنے مضامین ہیں اﷲ کی ہستی ، قیامت ،ملائکہ، کتب، جزا و سزا اور اَخلاق میں جو پیچیدہ مسئلے ہیں ان کو بیان کیا جیسے کہ کوئی بدکار ہمارے مذہب پر ناپاک حملہ کرے تو اس کے مقابلے کے لئے فرمایا کہ انکو گالیاں مت دو. (الانعام:۱۰۹)پھر وہ اﷲ کو اپنی نادانی کے سبب گالیاں دیں گے. (الانعام:۱۰۹)ہر ایک اُمّت کے لئے وہ اعمال جو اس کے کرنے کے قابل تھے وہ اس کے سامنے خوبصورت کرکے پیش کئے گئے تھے.مگر پھر اندھوں کیلئے روشنی کا کیا فائدہ.مَیں نے اس کا مقابلہ دوسری کتابوں سے کیا ہے.انجیل کو دیکھو وہ تو اِس سے شروع ہوتی ہے کہ فلاں بیٹا فلاں کا اور فلاں بیٹا فلاں کا مِگر قرآن کریم الحمد سے شروع ہوتا ہے اور انجیل کے آخر میں لکھا ہے کہ پھر اس کو یہودیوں نے پھانسی دے دیا.ہماری کتاب کے آخر میں قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ.مَلِکِ النَّاسِ.اِلٰہِ النّاسِ(النّاسِ:۲تا۴)لکھا ہے.بڑا افسوس ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک ایسی اعلیٰ کتاب ہے مگر وہ عمل درآمد کے لئے

Page 189

بڑے کچّے ہیں.حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی کِسی کی اُنگلی بھر زمین ظلم سے لے لے گا تو قیامت کے دن سات زمینیں اس کے گلے کا طَوق ہوں گی مگر اس پر کوئی عمل نہیں ہے.اِسی طرح معاملات میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک آدمی رات بھر سوچتا رہتا ہے کہ کسی کے گھر روپیہ ہو تو اس سے کسی طریق سے لیا جائے.پھر اگر کسی نہ کسی طریقہ سے لے لیتے ہیں تو پھر واپس دینے میں نہیں آتے.اسی طرح زنا، لواطت،چوری،جھُوٹ، دغا، فریب سے منع کیا گیا تھا مگر آجکل نوجوان اسی میں مُبتلا ہیں.اسی طرح تکبّر اور بے جا غرور سے منع فرمایا تھا لیکن اس کے برخلاف مَیں دیکھتا ہوں کہ اگر کِسی کو کوئی عمدہ بُوٹ مِل جاوے تو وہ اکڑتا ہے اور دسروں کو پھر کہتا ہے اوبلیک مَین ( کالا آدمی) دوسروں کی تحقیر کرتا ہے اور بڑا تکبّر کرتا ہے.ہمارے نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم جب مکّہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو مکّہ میں آپ کو بہت سی سہولتیں تھیں.مکہ میں آپ] کے کے چھوٹے بڑے، بوڑھے ادھیڑ ہر قسم کے رشتہ دار بھی تھے.اور آپ کے حمایتی بھی وہاں بہت تھے.مکّہ میں آپؐ کے دست غمخوار بھی تھے اور آپ دشمنوں کو خوب جانتے تھے اور ان کی منصُوبہ بازی کا آپ کو خوب علم ہو جاتا تھا اور آپ ان کیچالاکیوں اور اپنے بچاؤ کے سامان کو جانتے تھے.تو جب آپ مدنیہ شریف میں تشریف لائے تو آپ کو اس دشمن کی شرارت کا کچھ علمِ نہ ہوتا تھا اور پھر آپ کے یہاں اَور بھی دشمن تھے.بنو قینقاع اور بنو قریظہ اور بنو نضیر آپ کے دشمن تھے اور پھر جہاں آپ اُترے تھے وہاں ابوعامر راہب جو بنی عمر بن عوف میں سے تھا اس کا جتھا آپ کا دشمن تھا.یہود چاہتے تھے کہ ایران کے ساتھ مِل کر آپ کو ہلاک کروادیں اور عیسائی قیصر کے ساتھ ملنا چاہتے تھے اور انہوں نے اپنے ساتھ غطفان اور فزارہ کو بھی ملا لیا تھا.یہ نو مشکلات آپ صلّی اﷲ علیہ وسلّم کو تھیں.اِس سے بڑھ کر یہ کہ یہاں ایک منافقوں کا گروہ بھی پیدا ہو گیا تھا.ان منافقوں نے عجیب عجیب کاروائیاں کیں.وہ آپ کے پاس بھی آتے تھے اور آپ کے دشمنوں کے پاس بھی جاتے تھے.اور بارھویں بات جو اس سے بھی سخت تھی وہ یہ کہ مکّہ والے اَن پڑھ تھے اور وہ بے قانون تھے.ان کا مقابلہ صرف عقل سے ہی تھا.مگر یہاں تمام اہلِ کتاب پڑھے لکھے ہوئے تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی کتابیں تھیں تورات اور انجیل اور اس کے سوا اَور بھی کتابیں ان کے پاس تھیں.بنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سوچا کہ مدینہ میں مشکلات بہت ہیں اِس لئے آپ نے عیسائیوں اور مُشرکوں سے معاہدہ کروا دیا کہ لَا تَسْفِکُوْنَ دِمَآئَ کُمْ آپس میں خوں ریزی نہ کرنا وَ لَا تُخْرِجُوْنَ

Page 190

اَنْفُسَکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ ایک دوسرے کو اپنے ملک سے نکالنا نہیں ثُمَّ اَقْرَرْتُمْ تم نے اقرار تو کیا.(وَاَنْتُمْ تَشْھَدُوْنَ) اور تم گواہی دیتے ہو.جیسے تم نے ہمارے ہاتھ پر اقرار کیا.کہنا تو آسان تھا مگر معاملات میں دین کو دُنیا پر مقدّم کر کے دکھلانا.ثُمَّ اَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ تَقْتُلُوْنَ اَنْفُسَکُمْ پھرتم وہی ہو کہ تم نے وعدہ تو کیا مگر ایفا نہ کیا اور تم خوں ریزی کرتے ہو وَتُخْرِجُوْنَ فَرِیْقًا مِّنْکُمْ مِّنْ دِیَارِھِمْ اور تمہیں اس سے منع کیا تھا کہ کسی کو اپنے گھر سے نہ نکالنا.مگر تم ان کو ان کے گھروں سے باہر نکالتے ہو.تَظٰھَرُوْنَ عَلَیْھِمْان کی پیٹھ بھرتے ہو ظلم اور زیادتی سے کبھی کبھی کوئی نیک کام بھی کر لیتے ہو.وَ اِنْ یَّاْتُوْکُمْ اُسٰرٰی تُفٰدُوْھُمْ اگر کوئی قیدی آ جاوے تو اُسے چھُڑا دیتے ہو حالانکہ تمہیں اِس سے منع کیا گیا تھا.اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍکتاب کے بعض حصّے پر تو ایمان لاتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو.فَمَا جَزَآئُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ اِلَّاخِزْیٌتم تو دُنیا کی عزّت بڑھانے کے واسطے ایسا کرتے ہو.مگر پھر ایسوں کی جزا یہ ہے کہ وہ ذلیل ہوںگے.آخرت کی ذلّت تو ہو گی ہی وہ دُنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور سخت ذِلّت اُؔٹھائیں گے اور ان کو سخت سے سخت عذاب ملے گا اور آخرت میں بھی ان کو سخت عذاب میں دھکیلا جائے گا.وَمَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ اﷲتمہاری کرتوتوں سے غافل نہیں ہے.(الفضل ۱۰؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) کیا اِس تحریر کا کچھ حِصّہ مانتے ہو اور کچھ سے انکاری ہو گئے ہو.پس کوئی نہیں سزا اس کی جو ایسا کرے تم میں سے مگر یہ کہ ذلیل ہو اِس دُنیا میں اور قیامت کے دن بڑے عذاب کی طرف بھیجے جاویں گے اور اﷲ غافل نہیں تمہاری کرتوتوں سے.مدینہ کے بارعب بنی اسرائیل اور یہود کو یہ خطاب ہے.یہ لوگ مدینہ کے نواح میں خیبر.فدک وغیرہ کے مالک تھے اور بڑے جاہ و حشم کی جماعت تھی.نبی کریم(صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے ان سے معاہدہ کیا تھا.آخر ان بدعہدوں نے اس عہدنامہ کے بعض حصّوں کی خلاف ورزی کی اور یہاں تک گستاخی میں بڑھے کہ استیصالِ اسلام کی دھمکیاں دیں.ان کے متعلق یہ آیت قَرآن کریم میں ہے.اِس میں دو خبریں دی ہیں اوّل تو یہ کہ اس بدعہدی پر تم دُنیا میں ذلیل ہو گے اور یہ امر بظاہر محال تھاکیونکہ ایک طرف کمزور قلیل جماعت اسلام کی اور مقابلہ میں یہ زبردست زمینوں کے مالک.تجارتوں میں ممتاز.دوسری خبر یہ ہے کہ قیامت میں تم پر عذاب ہو گا.یہ دو اطلاعیں قبل از وقت دی گئیں.پھر تیسری بات یہ ہے کہ وہ قوم بارعب و صاحبِ جاہ وحشم مع تمام قبائل عرب کے جن کو احزاب کہتے

Page 191

ہیں مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے مگر آخر وہ یہود عرب سے جلاوطن کئے گئے.ان کا نام بنو نضیر اور بنو قینقاع تھا اور بنو قریظہ کے یہود بالغ سب کے سب مارے گئے.دیکھو دُنیوی خبر اور اخروری خبر دو خبریں تھیں اور ان کے مقابلہ میں دو واقعات تھے جن کے متعلق دو خبریں تھیں.ایک خبر نے اپنے واقعہ کے ساتھ صداقت کی مُہر لگا دی ہے کہ دوسری خبر عذابِ قیامت بھی اپنے واقعہ کو ضرور لائے گی.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۳۴،۳۵)   مدینہ طیّبہ میں ایک شخص ایک مسلمان کے ہاتھ سے اتفاقیہ طور پرماراگیا.یہ واقعہ گزر گیا مگر رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم ) نے تمام شہر کے لوگوں کو بُلا کر فرمایا کہ ہم مقتول کے وارثوں کو خوں بہا دینا مناسب سمجھتے ہیں تاکہ اس کی قوم کے لوگ ہماری مخالفت نہ کریں مگر امنِ عامہ کے شریک اس دیت کے دینے میں شریک نہ ہوئے بلکہ ایک مسلمان عورت تکلا سیدھا کرانے کے لئے قینقاع (جو لوہار تھے) کے محلّہ میں گئی.وہ گھونگٹ نکالے ہوئے تھی.شریر لوہار نے کہا کہ یہ کپڑا کیوں مُنہ پر ڈالے ہوئے ہو.اُس نے جواب دیا.ہمارے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہمیں پردہ کا حکم دیا ہے.اس پر اس بدمعاش نے شرارت سے لوہے کی ایک میخ پچھلی طرف کپڑے میں ٹھونک دی.عورت اُٹھنے لگی تو اس کا کپڑا بھی پھَٹ گیا اور گھونگٹ بھی اُتر گیا.یہ حالت دیکھ کر بجائے اس کے کہ معذرت کرتے انہوں نے تمسخر اُڑایا.عورت نے گھبرا کر کہا کہ کوئی ہے جو میری مدد کرے.ادھر سے ایک مسلمان بھائی نے یہ بات سُن لی وہ مدد کو دَوڑا.آپس میں وہاں لڑائی چھڑ گئی جس سے ایک قتل ہو گیا.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جب خبر بھیجی تو فرمایا کہ ہم نے بَیرونی انتظام کے لئے یہ معاہدہ کیا تھا.تم اندرونی معاملات میں ایسے تیز ہو جاتے ہو کہ قتل تک نوبت پہنچ گئی ہے.جب وہ بہت تنگ ہوئے تو مدینہ چھوڑ کر چلے گئے.ادھر بنو نضیر سے ایک حماقت ہوئی کہ کسی اپنے معاملہ کے لئے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو

Page 192

اپنے محلہ میں بُلا لیا اور وہاں ایک شخص کو سکھایا کہ جب دیوار کے پاس بیٹھے ہوں تو تم اُوپر سے چکّی کا پاٹ گِرا دو.آپؐ کو ان کی بَد نیّتی کی خبر کسی نہ کسی طرح مِل گئی اِس لئے آپ یکدم اُٹھ کر چلے گئے اور ان کا داؤ نہ چل سکا.یہ بات بڑھ گئی.ان میں کچھ شاعر بھی تھے وہ مکّہ میں گئے اور وہاں کے سرداروں کو جا کر بھڑ کایا اور بعض نے مسلمان عورتوں سے تغزّل کیا.اِس لئے بنو نضیر کو حکم ہؤا کہ یہاں سے چلے جاؤ جلا وطن کر دیا گیا حالانکہ ان سے معاہدہ کیا جا چکا تھا کہ وہ ایسے کام نہ کریں گے جس سے جلاوطنی کرنی پڑے.ادھر مکّہ والوںنے پیغام بھیجا کہ تم ان مسلمانوں کی عورتوں کو مارو اور ہم باہر سے لشکر لے کر اُن پر حملہ کرتے ہیں.چنانچہ وہ ایک اپنے ساتھ گِرد و نواح کی قوموں کو جمع کر لائے سورۃاحزاب میں اس کا ذکر ہے.آخر خدا تعالیٰ نے اس لڑائی سے مسلمانوں کو بچا لیا.جب وہ لوگ چلے گئے تو آپ نے بنو قریظہ سے پوچھا کہ تم پہلے دو واقعے قینقاع اور بنو نضیر کے دیکھ چکے ہو اور پھر بھی شرارتوں سے باز نہ آئے اور اب تمہارے حق میں ایک فیصلہ کرتا ہوں جو تمہیں ماننا پڑے گا.بد قسمت انسان نیک کی بات کو نہیں مانتا اِس لئے انہوں نے کہا ہمیں سعد بن معاذ کا فیصلہ منظور ہے نہ آپ کا.اس نے کہا میرے رائے تو یہ ہے کہ جنگ کے شرکاء کو قتل کر دیا جاوے.یہ فیصلہ انہیں چارو نا چار منظور کرنا پڑا.جن کو قتل کی سزا دی گئی ان کی تعداد کم از کم دو سو پچّاس اور زیادہ سے زیادہ نو سَو کی بتائی (گئی ہے).خیر یہودیوں کے فرقے تو اِس طرح تباہ ہوئے.باقی رہے عیسائی ان کالاٹ پادری عامر تھا اُسنے لوگوں کو خوب سُنایا کہ مَیں نے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو دیکھا ہے کہ وہ پراگندہ (حال) اور ملک بملک اکیلا پھرتا ہؤا مَر جائے گا.آپ نے فرمایا خواب تو سچ دیکھا ہے مگر میرا نہیں اپنا بد انجام دیکھا ہے چنانچہ ایسا ہی ہؤا.وہ مکّہ گیا اِس خیال سے کہ کچھ انتظام مسلمانوں کے خلاف کروں مگر وہاں اس نے شراب پی کر بدمستی کی تو نکالا گیا مگر روماؔ چلا گیا.وہاں بادشاہ کو سکھایا مگر بادشاہ کسی امر پر ناراض ہؤا راتوں رات نکل بھاگنا پڑا اور آخر اسی طرح مارا گیا.حدیث میںوَحِیْدًا وَّ طَرِیْدًا عَشَرِیْدًا آیا ہے.اب میدان صاف تھا.دو گروہ رہ گئے ایک منافقوں کا اور دوسرے مسلمانوں کا.منافقوں کی نسبت اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلَالَۃَ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ورلی زندگی کو اختیار کر لیا اِس لئے ان سے عذاب ہلکا نہ کیا جائے گا اور نہ وہ مدد دیئے جائیں گے چنانچہ جب ان لوگوں کی تباہی آئی کوئی ان کا حامی و ناصر نہ رہا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں نصیحت کرتا ہے بایں طور کہ جو اگلی قوموں کی بُرائیاں اور خوبیاں ہیں ان کا بیان کرتا ہے تاکہ مسلمان ان بُرائیوں سے بچیں.اِس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ ان عذابوں سے محفوظ

Page 193

رہیں گے جو ان بُرائیوں کی وجہ سے ان پرنازل ہوئے اور ان خوبیوں کواختیار کریں جن کی برکت سے ان پر طرح طرح کے انعام ہوئے.اِن آیات میں یہودیوں کے متعلق فرمایا کہ بہت سے لوگ وَرلی زندگی کو پسند کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حالت اچھی رہے پس وہ اس آواز کی طرف رغبت کرتے ہیں جو چند منٹ کے لئے لُطف دے اور وہ نظارہ اُن کے مرغوبِ خاطر ہوتا ہے جو عارضی ہو لیکن اس سچّے سرور کی پرواہ نہیںکرتے جو دائمی ہے اور جس پر کبھی فنا نہیں ہوتی.ایسے لوگوں کے لئے بھی دین کو دُنیا پر مقدّم کرنا ایک عذاب ہو جاتا ہے اور وہ ہر لحظہ ، ہر گھڑی ان کو دُکھ دیتا رہتا ہے اور کسی وقت بھی کم نہیں ہوتا.چونکہ عاقبت انہوں نے پسند نہیں کی وہ خدا سے بُعد میں ہوتے ہیں.جو عذاب ہے وہ اس سے معذَّب ہوتے ہیں لیکن اس قِسم کے عذابوں کے وعدے ہر مذہب میں نہیں.اِسلام کی خصوصیّت ہے کہ جس عذاب کا وعدہ دیا جاتا ہے اس کا نمونہ دُنیا میں بھی دکھایا جاتا ہے تاکہ یہ عذاب اس آنے والے عذاب کے لئے ایک ثبوت ہو.دیکھو وہ قوم جس میں آج اچھے لڑکے نہیں ان پر کبھی وہ وقت بھی آ جاتا ہے کہ ان میں اچھے لڑکے پیدا ہوں.وہ قوم جن میں زور آور نہیں ایک وقت ان پر آتا ہے کہ ان میں زورآور پَیدا ہوں اگر ان کے پاس آج سلطنت نہیں تو اس زمانہ کی امّید کی جا سکتی ہے جب ان میں بھی امارت آ جائے.ہندوؤں کی حیات گذشتہ و موجودہ پر غور کرو.جب ہم بچّے تھے تو یہ ہندو اتنے تعلیم یافتہ نہ تھے کہ معلّم بن سکیں اِسی لئے اکثر مسلمان معلّمین نظر آتے تھے پھر ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ تعلیم میں اِس قدر ترقّی کر گئے ہیں کہ اَب معلّم ہیں تو ان میں سے.افسر ہیں تو ان میں سے.وہ اپنی طاقت پر اَب یہاں تک بھروسہ رکھتے ہیں کہ ہم کو اِس ملک سے نکال دینے یا گورنمنٹ پر دباؤ ڈال دینے پر تُلے بیٹھے ہیں.اِس بات کا ذکر مَیں نے صرف اِس لئے کیا ہے کہ قوموں میں جہالت کے بعد علم آ جاتا ہے.زوال کے بعد ترقّی ہو سکتی ہے اور ایسا ہوتا رہتا ہے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک قوم ہے ( یہود) جنہوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا مقابلہ کیا تھا ہم نے ان کو یہ سزا دی کہ اَور قوموں میں تو تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں مگر ان میں کوئی تبدیلی نہ ہو گی اور ان کا کوئی ناصر و مدد گا ر نہ ہو گا چنانچہ یہودیوں کی کوئی مقتدرانہ سلطنت رُوئے زمین پر نہیں.چَپّہ بھر زمین پر بھی ان کا تسلّط نہیں.اگر ان کو تکلیف دی جاوے تو کوئی نہیں جو ان کی حامی بھرے.تیرہ سَو برس سے خدا کا یہ کلام سچّا ثابت ہو رہا ہے.پس ہمیں اِس سے یہ سبق لینا چاہیئے کہ خدا کے خلاف جنگ نہ کریں اور ہرگز ہرگز ورلی زندگی کو مقدّم نہ کر لیں ورنہ لَایُنْصَرُوْنَ ک

Page 194

کی سزا موجود ہے.(بدر ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲)     ہم نے تو ان لوگوں کی بہتری کے لئے موسٰیؑ کو کتاب دی.پھر اَور رسول بھیجے.اخیر میں عیسٰی بن مریم کو کُھلے نشانات کے ساتھ مبعوث کیا اور اسے اپنے کلامِ پاک سے مؤید کیا.پھر بھی اکثر لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی رسول آیا اور اُس نے اُن کی خواہشوں کے خلاف کہا تو یہ اَکڑ بیٹھے.پھر بعض کی تکذیب کی اور بعض کے قتل کے منصُوبے کرنے لگے مگر اس کا انجام ان کے حق میں اچھا نہیں ہؤا.اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں کو فہم عطا کرے.عاقبت اندیشی دے.یہ دُنیا چند روزہ ہے.سب یارو آشنا الگ ہونے والے ہیں ہاں کچھ دوست ایسے ہیں جو دُنیا و آخرت میں ساتھ ہیں.(بدر ۳۱؍دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ۲) کیسا اﷲ کا فضل اور اس کا رحم اور اس کی غریب نوازی ہے کہ ہمیشہ اپنا پاک کلام ہماری تہذیب کے لئے بھیجتا رہتا ہے.اگر کِسی آدمی کے نام و ائسرائے یا حاکم یا کِسی امیر کا خط آ جاوے تو وہ اس سے بڑا خوش ہوتے ہیں اور اس کی تعمیل کو بہت ضروری سمجھتے ہیں اور اس کی تعمیل کرتے ہیں مگر قُرآن کریم جو ربّ لعٰلمین اور تمام جہان کے مالک و خالق کا حُکم نامہ ہے اس کی لوگ پرواہ نہیں کرتے اور ہمیشہ اس کی مخالفت ہی کرتے ہیں.کوئی موسٰیؑ پر ہی مدار نہ تھا وَ قَفَّیْنَا مِنْم بَعْدِہٖ بالرُّسُلاس کے بعد بھی رسول آتے رہے سلیمان ، داؤد بھی اِس کے بعد ہی آئے عیسٰی بن مریم کو بھی کُھلے کُھلے نشانات اور تعلیمیں جن پر کوئی

Page 195

اعتراض نہ آتا تھا دیئے.وہ اَخلاقی تعلیم تھی.مان لیتے تو کیا حَرج تھا.پھر جب تعلیم آئی بِمَا لَا تَھْوٰٓی اَنْفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْتم اسے پسند نہیںکرتے اور تم اسے اپنے مناسبِ حال بناتے ہو.فَرِیْقًا کَذَّبْتُمْ ایک کو تو تم نے جھٹلایا وَ فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَاور ایک کو اَب قتل بھی کرنا چاہتے ہو.(الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے موسٰیؑ کو بھیجا اور پھر اس کے بعد کئی رسول اَور بھیجے حتّٰی کہ عیسٰی کو بھیجا اَیَّدْنٰہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِاور اسے اپنے کلام سے مؤیّد کیا.پارہ ۲۵ سورۃشورٰی کے آخری رکوع کی آیت وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا سے معلوم ہوتا ہے کہ رُوح سے مراد کلام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)   غُلْفٌ: جس کا ختنہ نہ ہو اس پر ایک پَردہ رہ جاتا ہے.اَغْلَف وہ شخص جو نامختون ہے.دوسرے معنے غلاف میں ہیں جیسے کہ آیا ہے قُلُوْبُنَا فِیْْ ٓ اَکِنَّۃٍ (حٰمٓ السّجدۃ:۶)تیسرے معنے ہم بڑے مکرّم معظّم لوگ ہیں جن پر کسی کا اثر نہیں ہوتا.فَقَلِیْلًامَّا یُؤْمِنُوْنَ:کم ہی ایمان لاتے ہیں یہ محاورہ ہے یعنی ایمان نہیں لاتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَاغُلْفٌ:عربی زبان میں نامختون کو غلف کہتے ہیں اور عرب لوگ نامختون کو اچھا نہ جانتے تھے.مگر انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقابلہ کیلئے اِس لفظ کو بھی اپنے لئے پسند کیا اور کہا کہ ہمارے دل نامختون ہیں.اﷲ تعالیٰ نے فرمایا بَلْ لَّعَنَھُمُ اﷲُ بِکُفْرِھِمْیہ تمہارے کُفر کے سبب تم پر لعنت ہوئی.(الفضل ۱۷؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)بہت سے لوگفَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِّنَ الْعِلْمِ (المؤمن:۸۴) پر نازاں ہوتےہیںاور نئی ہدایت کے ماننے سے پس و پیش کرتے ہیں وہ کہتے ہیں قُلُوْبُنَا غُلْفٌیعنی ہمارے دِل نامختون ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات نہیں بلکہ کفر کے سبب ان پر لعنت پڑ گئی.(بدر ۲۸؍جنوری۱۹۰۹ء صفحہ ۹)

Page 196

   مُصَدِّقٌ:ایسے لوگوں کی وہ کتابیں تھیں جن میں کچھ باتیں آئندہ کی نسبت لکھی ہوئیتھیں.قرآن کریم سے ان کی تصدیق ہو گئی.چنانچہ تورات استثناء ۱۸:۱۸ میں مذکور ہے کہ جب حضرت موسٰیؑ کے ساتھ جانے والوں نے گھبرا کر کہا کہ اَے خدا !ہم تیری آواز سُننا نہیں چاہتے تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَب وحی تم میں نہیں بلکہ تمہارے بھائیوں میں اُترے گی اور پھر اس رسول کے نشان بتائے.(۱) وہ بُت پرستی کا دشمن ہو گا (۲) بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہو گا (۳) اپنا کلام اُسکے مُنہ میں ڈالوں گا.(۴) جو کہے وہ مانیو ورنہ دُکھ پاؤ گے (۵) جو کہے گا وہ پورا ہو گا (۶) وہ موسٰیؑ کا مثل ہو گا.اعمال حواریوں میں اِس مسئلہ کو بالکل حل کر دیا گیا ہے جہاں لکھا ہے کہ تم دعائیں کرو.ضرور ہے کہ مسیحؑ کے دوبارہ آنے سے پہلے وہ باتیں پوری ہو جاویں جو ہمارے باپ دادا کو کہی گئیں.اِس سے صاف ثابت ہے کہ یہ پیشگوئی مسیحؑ کے حق میں نہ تھی.یَسْتَفْتِحُوْنَ:یہ باتیں تم کافروں پر کھولا کرتے تھے اور ان کے مقابلہ میں فتوحات کی دعائیں کیا کرتے تھے.مَاعَرَفُوْا: دوسری جگہ فرمایا (البقرۃ:۱۴۷) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) وَ لَمَّا جَآئَ ھُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اﷲِ:جب ان کے پاس اﷲ کی کتاب آئی جو اس کتاب کی اَور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتی ہیں جو تمہارے پاس ہیں.تم نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر دے رہے تھے جیسا مَیں نے اپنے زمانہ میں دیکھا کہ لوگ مہدی کے لئے رو رو کر دعائیں کرتے تھے مگر وہ آیا بھی اور چلا بھی گیا مگر کِسی کو خبر نہ ہوئی

Page 197

… اصل بات یہ ہے فَلَمَّا جَآئَ ھُمْ مَّا عَرَفُوْا کَفَرُوْابِہٖ.آئے.پر انکار ہی ہوتا ہے.پھر دل لعنتی ہو جاتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا.(الفضل۱۷؍دسمبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) انسان میں ایک مرض ہے جس میں یہ ہمیشہ اﷲ کا باغی بن جاتا ہے اور اﷲ کے رسولور نبیوں اور اس کے اولوالعزموں اور ولیوں اور صدّیقوں کو جھُٹلاتا ہے.وہ مرض عادت، رسم و رواج اور دَم نقد ضرورت یا کوئی خیالی ضرورت ہے.یہ چار چیزیں مَیں نے دیکھا ہے چاہے کِتنی نصیحت کرو.جب وہ اپنی عادت کے خلاف کوئی بات دیکھے گا یا رسم کے خلاف یا ضرورت کے خلاف تو اس سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لے گا.مَیں نے کئی آدمیوں کو دیکھا ہے انکو کِسی بُرائی یا بد عادت سے منع کیا جاوے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم کتنی نیکیاں کرتے رہتے ہیں.یہ بدعادت ہوئی تو کیا.معلوم ہوتا ہے کہ وہ بدی ان کو بدی نہیں معلوم ہوتی.انبیاء اور خلفاء اور اَولیاء اور ماموروں کی مخالفت کی یہی وجہ ہے.یہ قرآن کریم آیا اور اس نے ان کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہی پہلے لوگوں سے بیان کیا کرتے تھے مگر جب قرآن شریف آیاکَفَرُوْابِہٖ انہوں نے اس کا انکار کر دیافَلَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ تواﷲ سے وہ بعید ہو گئے.ایک آدمی جب جھُوٹ بولنے لگتا ہے تو پہلے تو مخاطب کو کہتا ہے کہ میری بات کو جھُوٹا نہ سمجھنا مَیں تمہیں سچ سچ بتاتا ہوں مَیں تو جھُوٹے کو لعنتی سمجھتا ہوں مگر ہوتا در اصل وہ خود ہی جھُوٹا ہے.(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)    :یہ بہت بُری بات ہے.وہ اﷲ کا انکار کرتے ہیں صرف بغاوت کی وجہ سے.

Page 198

داؤد و سلیمان کا انکار کیا اور ان کی مخالفت کی.اِس وجہ سے ان پر لعنت پڑی اور وہ تِتّر بِتّر ہو گئے.ہسپانیہ میںاﷲ کی مخالفت ہوئی.ان پر عذابِ الہٰی نازل ہؤا.مسلمانوں کو وہاں سے نکال دیا گیا.صرف عمدہ عمدہ کتابیں لے جانے کی اجازت دی گئی.مگر ان کتابوں کے تینوں جہاز جو انہوں نے بھرے تھے بمع آدمیوں کے غرق کر دیئے گئے.بغداد میں احکامِ الہٰی کا مقابلہ کیا گیا تو ان کا نام و نشان مٹا دیا لَھُمْ دَارُالشََّلَامِ عِنْدَرَبِّھِمْ کے تفاؤل پر اس کا نام دارالسَّلام رکھا گیا تھا.عیسائیوں نے مسیحؑ کی مخالفت کی.ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا اور ان پر غضب نازل ہؤا.ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ اگر تم آخری نبی کو مان لو گے تو تم کو اجر ملے گا اور تم کو نجات دی جائے گی مگر انہوں نے نہ مانا اِس لئے ان کو عذابِ مہین ہو گا.(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ:مسیحؑ کی مخالفت کا غضب پھر اس نبی کی مخالفت کا غضب.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء) عَذَابٌ مُّھِیْنٌ :یہ سزا ہے استکبار کی جس کی وجہ سے انکار کیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۸)    وَھُوَالْحَقُّ:اور وہ حق ہے اگر کتاب سچّی بھی ہو اور آپ کے کلام کی تصدیق کرنے والی بھی ہو تو پھر کیوں نہ مانے.تَقْتُلُوْنَ :مقابلہ کرتے رہے.اگر کہیں کہ وہ نبی نہ تھے تو اس کے جواب میں فرمایا کہ اچھا

Page 199

موسٰی علیہ السلام کو تو سب نبی مانتے ہو پس تم نے اس کی کیوں حکم عدولی کی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ فروری ۱۹۰۹ء) فَلِمَ تَقْتُلُوْنَ :دیکھو متی باب ۲۳ آیت ۳۷.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹صفحہ۴۳۸) جہاں تک تاریخ پتہ دے سکتی ہے اﷲ تعالیٰ کے مُرسل و مامور اپنے اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مرتے اور نہ ہلاک ہوتے اور نہ مارے جاتے ہیں.مامورین کے ساتھ جدال وقتال ہوتا ہے… مگر یہ مقاتلہ و مقابلہ کرنے والے ناکام و نامراد مرتے ہیں اور مامور لوگ اﷲکے فضل سے مظفّر و منصور اور کامیاب ہو کر دُنیا سے جاتے ہیں.(نور الدین صفحہ ۱۴۷) وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلَ اﷲُ: اور جب ان کو کہا جاوے کہ اس کتاب کو مانو جس کو اﷲ نے اُتارا ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اس کو مانتے ہیں جو ہمارے اُوپر اتاری گئی حالانکہ وہ بھی ایک حق ہے.فرمایا: اگر تم اس کو ماننے والے ہوتے تو تم نبیوں کا مقابلہ کیوں کرتے.وہ اگر کہیں کہ ہم ان کو نبی نہیں سمجھتے تو فرمایا کہ موسٰیؑ بھی تو توحید لائے تھے تم نے ان کا کیوں انکار کیا.(الفضل ۲۴؍دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ۱۵)    

Page 200

 عَصَیْنَا :مان تو لیا مگر ہم سے اس پر عمل نہیں ہو سکتا.اُشْرِبُوْا :رَچ گئی تھی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍ فروری ۱۹۰۹ء) ایک پہاڑی پر جس کا نام حراء ہے ہماری سرکار سے بھی اﷲ نے کلام کیا.ایسا ہی حضرت موسٰیؑ سے بھی ایک پہاڑ پر کلام ہؤا جس کا نام طور ہے.رَفَعْنَا فَوْقَکُمُ الطُّوْرَکے معنے ہیں کہ اس کے دامن میں سب قوم کو کھڑا کیا.جیسے بولتے ہیں لاہور شہر راوی کے اُوپر ہے.ایسا ہی ہجرت کی ایک حدیث میں ہے فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَۃٌ تواس کے یہ معنے نہیں کہ پہاڑ اُکھیڑ کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے اُوپر رکھ دیا گیا.خُذُوْامَآ اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ :جیسے بنی اسرائیل کو تورات مُحکم پکڑنے کا حُکم تھا ایسا ہی ہمیں قرآنِ مجید کے بارے میں حکم ہے.اگر مانو گے تو فائدہ ہو گا نہ مانو گے تو گھاٹا ہی گھاٹا ہے.عورتوں کا بڑا حصّہ تو قُرآن سُنتا ہی نہیں.امیر بھی بدبختی سے قرآن نہیں سُن سکتے نہ با جماعت نماز پڑھ سکتے ہیں.زمینداروں کو فرصت نہیں.فصلِ خریف سے فراغت پا کر کماد پِیڑ نے کا موسم آ جائے گا.پھر ہم سے سوال کئے جاتے ہیں کہ سفر میں روزہ معاف ہے تو کٹائی کے موقع پر بھی کر دیجئے حالانکہ مَیں ایسا مُجتہد نہیں.تمہیں دُنیا میں خبر ہے یہود نے کیا کِیا ؟ انہوں نے سَبت ، خواہ ہفتہ میں ایک دن عبادت کا ، اسکے معنے کرو، خواہ آرام کے معنے لو، میں بے اعتدالی کی.آرام میں.آسُودگی میں انسان اپنے مولیٰ ، اپنے حقیقی مُحسن کو بھُول جاتا ہے.مَیں نے اپنی اولاد کے لئے بھی دولت کی دعا نہیں کی.اِس اعتداء کی پاداش میں ان کو ایسا ذلیل کیا جیسے بندر، کہ قلندر کے نچانے پر ناچتا ہے.یہی حال آج مسلمانوں کا ہے.ان کا اپنا کچھ بھی نہیں انگریزوں کے نچانے پر ناچتے ہیں.جو لباس ان کا ہے وہی یہ اختیار کرتے ہیں.جو فیشن وہ نکالتے ہیں، جو ترقی کی راہ بتلاتے ہیںبِلا سوچے سمجھے اس پر چل پڑتے ہیں.ایسی حالت میں کب لَا خَوْفٌ وَلَا یَحْزُنُ ہو سکتے ہیں.یہ حالت کیوں ہوئی اِس لئے کہ خدا کی کتاب کو چھوڑ دیا.میرے پیارو! تم خدا کی کتاب پڑھو.اس پر عمل کرو!! (الفضل ۵؍نومبر۱۹۱۳ء صفحہ۱۵) 

Page 201

تَمَنَّوُا الْمَوْتَ: اِس کے دو معنے ہیں.دونوں پسند ہیں.ایک تویہ کہ تم سب مِل کر اس نبی کے مَرنے کی دعائیں کرو اور پھر دیکھو کہ یہ دعا مقبول ہوتی ہے یا نہیں یا اُلٹی تم پر پڑتی ہے یا وہ جنگ کر لو جو ایک گروہ کو فنا کر دے.موت بمعنی جنگ.قرآن کریم میں بھی آیا ہے.چنانچہ فرمایاوَ لَقَدْ کُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ (اٰلِ عمران:۱۴۴) (ضمیمہ اخبار بدر ؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء)    :یہ تو زیادہ جینے کی حِرص میں مجوسیوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں جن میں ایک دعائیہ فقرہ ہے کہ ہزار سال بِزی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) :ہزار سال بِزی (۲)یاجوج ماجوج کے خروج کی بابت پیشگوئی ہے کہ ہزار سال بعد ہو گی بعض کہتے تھے اس وقت تک جیئیں.پھر تو مان لیں.فرمایا یہ بات عذاب سے نہیں بچا سکتی.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹صفحہ ۴۳۸)

Page 202

اﷲ کی بات سے محروم رہتے ہیں اور کیونکر راستبازوں کے دشمن ہو جاتے ہیں اور کِس طرح ضِدّ اور عداوت بے جا کلمات کے لئے جرأت دلاتی ہے.اِن تین باتوں کا بیان اِس رکوع میں ہے.بہت سے لوگ ملائکہ کے مُنکر ہیں.بعض مسلمانوں نے بھی ان پر ایمان لانے کو اِتنا ضروری نہیں سمجھا حالانکہ تمام نیک تحریکوں کے سر چشمے یہی ہیں.علمِ عقائد میں ایک کتاب ’کتاب ؔالتّوحید‘میں نے دیکھی ہے جس میں اس نیک بخت نے ملائکہ کا ذکر نہیں کیا.مَیں ملائکہ کی نسبت کچھ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان پر ایمان نے مجھے بہت بڑا فائدہ پہنچایا ہے.اِس دُنیا میں کوئی مسبّب بغیر ان سبب نہیں.ایک چیز دوسری چیز سے پیدا ہوتی ہے.اس زمانہ کے فلاسفر بھی اِس بات کو مانتے ہیں.پس خیال کرو کہ بعض وقت بیٹھے بیٹھے آدمی کے دل میں نیک کام کیلئے ایک لہر اُٹھتی ہے اور ایک نیکی کے کرنے کے لئے جوش پَیدا ہو جاتا ہے اور اس میں جدید تحریک نظر آتی ہے.حالانکہ انسان اور اس کا عِلم اور اس کے قوٰی پہلے سے موجود تھے مگر یہ تحریک یکدم پیدا ہوتی ہے جس سے معلوم ہؤا کہ کوئی نہ کوئی وجود اس کا محرّک ہے.پس ایسی تحریک کرنے والے کا نام حدیث و قرآن کی رُو سے مَلک ہے.مَلک کو عِلم ہوتا ہے اِس لئے وہ حسبِ موقع و محل ایک کام کی تحریک کرتا ہے جو انسان فورًا اس پر عمل کرتا ہے (ہمارے حضرت اقدس صلّی اﷲ علیہ وسلّم اپنے قلبِ صافی میں جس وقت کسی کام کی تحریک پاتے تو اس وقت خواہ رات کے بارہ بجے ہوں اس کے کرنے میں مشغول ہو جاتے اور مشکلات کی پرواہ نہ کرتے) تو مَلک کو اس شخص کے ساتھ ایک محبّت پیدا ہو جاتی ہے اِس لئے وہ اَور تحریکیں کرتا ہے اور پھر دوسرے ملائکہ کو بھی جو اس کے قریب ہوتے ہیں اطلاع دیتا ہے کہ یہ قلب اِس قابل ہے کہ ہم اسے

Page 203

نیک تحریکیں کرتے رہیں.اِس طرح تمام ملائکہ حتّٰی کہ ملائِ اعلیٰ میں اس کی نسبت ایک توجّہ پَیدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق بڑھتے بڑھتے وہ زمانہ آتا ہے کہتَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا (حٰمٓ السّجدۃ:۳۱) یہ بالکل سچّی بات ہے جو مَیں نے کہی تم تجربہ کر کے دیکھ لو.پھر احادیث سے معلوم ہے کہ تمام ملائکہ کا آفیسر جبرائیل امین ہے یعنی تمام محکمے نیکیوں کی تحریک کے جو قلب سے متعلق ہیں ان کا افسر جبرائیل ہے چنانچہ قرآن مجید میں عِنْدَذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ (التکویر:۲۱،۲۲)آیا ہے.رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِمیری تعلیم تمام دُنیا کی پا ک تعلیموں کی جامع ہے کیونکہ تمام نیکیوں کی تحریکوں کے آفیسر کا تعلق میرے قلب سے ہے.جامع کے یہ معنے ہیں کہ دُنیا میں کوئی ایسی صداقت ( جو قلبی اور رُوحانی ہو) نہ ہو گی جس کیلئے قرآن مجید سے کوئی آیت نہ ملے.اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ جبرائیل کا کوئی دشمن ہو سکتا ہے جبکہ وہی نیک تحریکوں کا سرچشمہ ہے.اِسی نے نازل کیا ہے یہ قرآن تیرے قلب پر.آئندہ جو ہو گا وہ دُنیا دیکھ لے گی مگر موجود ہ تعلیمات دُنیا میں جس قدر ہیں ان ساری پاک تعلیموں اور نیک تحریکوں کا عطر نکالو پھر محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کی تعلیم سے مقابلہ کرو تو وہ سب کچھ اس میں موجود ہو گا اور مَیں (نورالدین) اِس بات کا گواہ ہوں کہ مَیں نے ساری بائیبل کو دیکھا ہے اور تین (سام،یجراور رگ) ویدوں کو خوب سُنا ہے پھر دساتیر کو بہت توجّہ سے پڑھا ہے اور برہموؤں کی کتابوں کو دیکھا یہی کتابیں میرے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے کی ہیں.اِن سب میں کوئی ایسی صداقت نہیں جو قرآن مجید میں نہ ہو اور پھر ا تم نہ ہو.مُصَدِّقًا لِّمَابَیْنَ یَدَیْہِ وَھُدًی وَّ بُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَپھرفرماتا ہے کہ جو اگلی کتابوں میں سچ ہے اس کی تصدیق کرنے علاوہ اس میں اَور بھی کچھ ہدایتیںہیں جو پچھلی کتابوں میں نہیں.ایک بات سُناتا ہوں.اگلی کتابوں میں جو نصائح ہیں ان پر دلائل نہیں.چنانچہ ان میں لکھا ہے خدا ایک ہے.زمین و آسمان میں تیرے لئے کوئی دوسرا خدا نہ ہو.پڑوسی کی مدد کر.سبت منا.مبارک وہ جو غریب دِل ہیں.اِس قِسم کی تعلیمات ہیں مگر ان کے ساتھ دلائل کوئی نہیں مگر قرآن شریف میں یہ خاصہ ہے کہ ایک طرف دعوٰی ہے دوسری طرف اس کے دلائل بھی ساتھ دیئے ہیں.

Page 204

(البقرۃ:۱۶۵) یہ قرآن مجید پہلے مصدّق ہوا.پھر اِس میں نئی باتیں بھی ہیں.یہ بھی تو کئی پہلو سے اِس کا کمال ہے.اب عملی پہلو میں اِس کا ثبوت لو.وہ یہ کہ قرآن کریں پر عمل کرو تو دُنیا کے فاتح بن جاؤ گے چنانچہ صحابہ رضی اﷲ عنہم کی ذات میں یہ پیشکوئی پوری ہوئی.بُشّرٰیکی ایک تشریح یہ بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍فروری ۱۹۰۹ء) مِیْکٰلَ:ان تمام ملائکہ کا آفیسر ہے جن کے علوم دماغ سے وابستہ ہیں مثلاً ریاضی (موسیقی، ہندسہ، جبرومقابلہ) اور طبعیات (اسٹرانومی،کیمیا) یہ علوم الہٰیّات سے کم درجہ پر ہیں اِس لئے جلد سمجھ میں آ جاتے ہیں.مگر جُوں جُوں علوم اعلیٰ ہوتے جاتے ہیں تو باریک بھی ہوتے جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک اپنے عزیز کو مَیں نے وہ لیکچر سُننے کے لئے بھیجا جو سُورج گرہن کو دیکھ کر ایک انگریز نے دینا تھا.وہ لڑکا کہنے لگا مَیں نے تو کچھ نہیں سمجھا.پھر اس نے اپنے ماسٹر سے پوچھا تو اس نے کہا.پانچ سال مَیں اس کی صُحبت میں رہوں تو اس کی باتیں سمجھنے کے قابل ہو سکتا ہوں.غرض دُنیا میں کئی قِسم کے علوم ہیں اور وہ تمام علوم ملائکہ کی معرفت لوگوں پر کھُلے ہیں.وہ الہٰیات کے ہوں یا طبیعات کے ، دونوں کا انکار ملائکہ اور ملائکہ کے آفیسرز جبرائیل و میکائیل کا انکار ہے.پھر رسولوں کا انکار ہے جو اِن ملائکہ کی تحریکات کے مَہبط ہیں.پھر حضرت محمد رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلم کا انکار ہے جو تمام رسولوں کے کمالات کے جامع ہیں اور ایسے لوگوں کا اﷲ تعالیٰ مخالف ہے.اور پھر ایسا کُفر کرنے والوں کا ایک نشان ہے کہ وہ سب بد عہد ہیں اور فاسق و فاجر، اور یہ کھُلی ہوئی بات ہے کیونکہ جبرائیل و میکائیل کا دشمن وہی ہو گا جو دین و دُنیا کے متعلق عمدہ اور نیک تحریکوں کو مخالف ہو اور وہ فاسق و فاجر کے سوا کون ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) مَیں نے بارہا سُنایا ہے کہ مَلک پر ایمان لانے کا منشاء کیا ہے.صرف وجود کا ماننا تو غیر ضروری ہے.اِس طرح تو پھر ستاروں، آسمانوں ، شیطانوں کا ماننا بھی ضروری ہو گا.پس ملائکہ پر ایمان لانے سے یہ مراد ہے کہ بیٹھے بیٹھے جو کبھی نیکی کا خیال پَیدا ہوتا ہے اُس کا محّرک فرشتہ سمجھا جائے اور اس پر عمل کیا جاوے کیونکہ جب وہ تحریک ہوتی ہے تو وہ موقع ہوتا ہے نیکی کرنے کا.اگر انسان اس وقت نیکی نہ کرے تو مَلک اُس شخص سے محبّت کم کر دیتا ہے.پھر نیکی کی تحریک بہت کم کرتا ہے اور جُوں جُوں انسان بے پرواہ ہوتا جائے وہ اپنی تحریکات کو کم کرتا جاتا ہے اور اگر وہ اس تحریک پر عمل کرے تو پھر مَلک اَور بھی زیادہ تحریکیں کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس شخص سے تعلقاتِ محبّت قائم

Page 205

ہوتے جاتے ہیں بلکہ اَور فرشتوں سے بھی یہی تعلق پَیدا ہو کر تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ (حٰمٓ السجدۃ:۳۱)کا وقت آ جاتا ہے.یہاں خدا تعالیٰ نے خصوصیّت سے دو فرشتوں کا ذکر کیا ہے اس میں ایک نام جبرائیل ہے.دوسرے مقام پر اس کے بارے میں فرمایا ہے...(التکویر:۲۰تا۲۲) یعنی وہ رسول ہے اعلیٰ درجہ کی عزّت والا.طاقتوں والا.رُتبے والا.اور ملائکہ اس کے ماتحت چلتے ہیں.اﷲ کی رحمتوں کے خزانہ کا امین ہے.پس جب یہ امر مسلّم ہے کہ تمام دُنیا میں ملائکہ کی تحریک سے کوئی نیکی ہو سکتی ہے اور ملائکہ کی فرمانبرداری مومن کا فرض ہے تو پھر اس ملائکہ کے سردار کی تحریک اور بات تو ضرور مان لینی چاہیئے.چونکہ یہ تمام محکموں کا افسر ہے اس کی باتیں بھی جامع ہیں.پس ہر ایک ہدایت کی جَڑ بھی جبرائیل ہے جس کی شان میں ہے (البقرۃ:۹۸)یعنی اس کی تمام تحریکوں کا بڑا مرکز حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا قلب ہے.پس ہمہ تن اس کے احکام کے تابع ہو جاؤ کیونکہ یہ جامع تحریکات جمیع ملائکہ ہے اور اِس لحاظ سے قرآن شریف جامع کتاب ہے جیسا کہ فرماتا ہے (البیّنۃ:۴) تو گویا جو جبرائیل کا مُنکر ہے وہ اﷲ کا دشمن ہے.پھر اﷲ کے کلام کا کافر ہے.پھر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا مخالف ہے.پھر ایک اَور مَلک کا ذکر فرمایا ہے.جہاں تک مَیں نے سوچا ہے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی دعا (البقرۃ:۲۰۲)سے یہ مسئلہ حل ہوتا ہے کہ انسان کو دو ضرورتیں ہیں ایک جسمانی جیسے عزّت، اولاد ان کے اخراجات، کھانے کیلئے چیزیں، ایک روحانی، جبرائیل کے بعد ایسی تحریکوں کا مرکز میکائیل ہے.اﷲ نے دین بنایا دُنیا بھی بنائی.یہ جہان بھی بنایا وہ جہان بھی.دونوں تحریکوں کا مرکز ہمارے بنی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کا قلبِ مبارک تھا.اِسی لئے فرمایااُوْتِیْتُ جَوَامِعِ الْکَلِمِ (المسلم کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ.باب المساجد و مواضع الصلاۃ)قرآن شریف میں دُنیا و دین دونوں کے متعلق ہدایتیںہیں.بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اﷲ کی نیک آیات کو واہیات بتاتے ہیں.بڑے تعجّب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو اِنسان میکائیلی تحریکوں کے ماننے کو تیار ہو جاتا ہے مگر جب روحانی قبض ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اﷲ غفور رحیم

Page 206

ہے.اس کی جڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدّم کر لیتا ہے.(بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳) لِجِبْرِیْلَ:اِس کا ذکر دانیال بابت آیت ۱۲ میں ہے.جابرایل.خدا کا مقرّب.دینیات کا مرکز جبرائیل ہے اور دنیوی کارخانہ کا میکائیل.(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹صفحہ۴۳۸)      

Page 207

جب آدمی میں آسائش آ جاتی ہے تو وہ ہر نٔی چیز میں بڑی دلچسپی لیتا ہے اور اس انہماک میں پھر جائز و ناجائز امر کو نہیں دیکھتا.حتّٰی کہ جس طرح شیعہ حضرت ابوبکررضی اﷲ عنہم و عمررضی اﷲ عنہم وعثمانرضی اﷲ عنہم کو بُرا کہتے ہیں اور خارجی اہلِ بَیت کو.اسی طرح وہ ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے لگ جاتے ہیں مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.شیعہ نے اِس نکتہ چینی سے کیا فائدہ اُٹھایا.اِسی طرح حضرت داؤدؑ کے بیٹے سلیمانؑ برگزیدہ نبی تھے مگر ان لوگوں نے ان کی بھی عیب چینی شروع کر دی اور ان سے ایسی باتیں منسُوب کیں جو ایک نبی کی شان سے بالکل بعید ہیں.اس کی اصلیّت یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے عہد میں جب ان کی آسُودگی ہوئی تو ہندوستان، چین اور مصر سے نئے نئے آدمی وہاں جا آباد ہوئے اور ان لوگوں کی دلچسپی کے لئے عجیب عجیب فن پیش کئے جن میں وہ ایسے مشغول ہوئے کہ سب کچھ بھُول گئے.جیسا کہ انسان کی عادت ہیکہ جب ایک طرف متوجّہ ہو تو دوسری طرف توجّہ ضرور کم ہو جاتی ہے اسی طرح بنی اسرائیل کی خدا کی طرف توجّہ کم ہو گئی اور ان بے ہُو وہ باتوں کی طرف بڑھ گئی اور ایسی بڑھی کہ اس کا اثر مسلمانوں تک بھی پہنچا.نقشِ سلیمانی، سحر ہاروت ماروت اور ایسی کتابیں اسی بیہُودگی اور لغویّت کی یادگار ہیں اور غضب یہ ہے کہ یہ کُفر سلیمانؑ پر تھوپا جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سلیمانؑ نے یہ کفر نہیں کیا اور ہرگز نہیں کیا.آپ پر جو الزام لگائے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ بلقیس نام ایک ملکہ پر عاشق ہو گئے اور پھر اس کو راضی کرنے کے لئے بُت پرستی بھی کی.یہ سب جھُوٹ ہے.خدا نے اصل واقعہ سُورۂ نمل رکوع ۸ میں بیان فرمایا ہے اور وہاں ظاہر کر دیا ہے کہ وہ ملکہ تو خود مسلمان ہوئی اور عُذر خواہ ہو کر سلیمانؑ کے دربار میں آئی.قَالَتْ رَبِّ اِنِّ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَاَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.بعض وقت انبیاء کی نسبت جو الفاظ بولے جاتے ہیں ان سے ان کی تعریف مقصود نہیں ہوتی بلکہ صرف اس الزام کا اُٹھانا ہوتا ہے جو اُن پر لگایا گیا ہے یہاںمَاکَفَرَ اِسی لئے آیا ہے.:وہ قومیں جو اﷲسے بہت دُور تھیں (الشَّیٰطِیْنَکے یہاں یہی معنی ہیں) جب وہ ملکِ سلیمانؑ میں آئیں تو بنی اسرائیل کو اپنے ڈھب کا پا کر اپنی طرف متوجّہ کر لیا اور انہیں سحر کی تعلیم شروع کر دی.سحر کہتے ہیں دِل رُبا باتوں کو خواہ از قِسم عملیات ہوں یا شعبدہ بازی یا تسخیرکُلّ مَا دِقَّ وَ لَطُفَ مَأْخَذُہ‘ جس کی دریافت نہایت باریک در باریک ہو.

Page 208

اِنَّ مِنَ الْبَیَانَ لَسِحْرٌ(بخاری.کتاب النکاح باب الخطبۃِ)بھی آیا ہے اِس لئے ناول بھی سحر میں داخل ہے.بعض ناول ایسے ہوتے ہیں کہ انسان بغیر ختم کرنے کے ہاتھ سے چھوڑ ہی نہیں سکتا.حضرت عمرؓ سے کسی نے پوچھا تھا آپ کی طبیعت میں وہ تیزی نہیں رہی جو زمانۂ جاہلیّت میں تھی.آپ نے جواب دیا.تیزی تو وہی ہے مگر اَب وہ کفّار کے مقابلہ میں دکھائی جاتی ہے.اِسی طرح جن لوگوں کو لکھنا آتا ہے اور طبیعت موزوں واقع ہوئی ہے وہ ناول نویسی کی طرف متوجّہ ہو گئے ہیں.ایسے شغلوں میں پڑ کر انسان اپنی کتاب سے بے خبر ہو جاتا ہے اور اکثر اَوقات یہ بھی نہیں سمجھا جاتا کہ میری روحانی حالت دن بدن بگڑ رہی ہے.اس کے بعد ایک اَور نصیحت فرمائی وہ یہ کہ اِنسان جب کسی کے ساتھ دشمنی کرتا ہے تو پھر اس دشمنی کے بڑھانے یا اس سے انتقام لینے کے لئے اپنے دشمن کی باتیں سُنتا اور اس کے خلاف منصوبے کرتا اور اپنے ساتھ اَور لوگوں کو ملاتا ہے.ہر وقت اس کو یہی دھت لگی رہتی ہے اور وہ اپنے دین سے بے خبر ہو جاتا ہے.بنی اسرائیل جب قید تھے وہ زمانہ دانیال ، عزرا، حزقیل اور یرمیاہ وغیرھم انبیاء کا تھا.جب بابل میں گئے تو بابل والے آسُودہ تھے اور آسُودگی کی وجہ سے طرح طرح کے گندوں میں مُبتلا.دانیال باب۱ درس ۱۶ اور باب۵ درس ۲،۳ میں شراب پینے کا ذکر ہے.اﷲ نے ہاروت ماروت دو فرشتے نازل کئے.ہرت کہتے ہیں زمین کو صاف کرنے کو.مرت کہتے ہیں نشیب و فراز دبا کر درخت گھاس کٹوا کر صاف میدان کر دینے کو.ان فرشتوں کے ذریعہ یسعیاہ کو آگاہ کیا کہ یہ لوگ خراب ہو گئے ہیں اِس واسطے تم اَور کسی سلطنت سے گانٹھو اور اس کے ذریعے سے ان کو ہلاک کر دو.یہ علم ملائکہ کے ذریعے ان پر نازل ہؤا چنانچہ میدوفارس کے بادشاہوں سے دوستی لگا کر بنی اسرائیل نے بابل والوں کو تباہ کر دیا.بابل بڑا شہر تھا.یہ بھاری آبادی تھا.کوئی پچّاس ساٹھ میل میں.چونکہ بابل کی تباہی میں اﷲ نے فارس کے بادشاہوں کے ذریعہ سے فضل کیا اِس لئے بنی اسرائیل کے تعلّقات فارس والوں سے قائم رہے.جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مدنیہ طیبہ میں آئے تو یہودیوں نے چاہا کہ پھر فارس کے بادشاہ کے ذریعے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اور ان کی جماعت کا استیصال کریں چنانچہ فارس کے بادشاہ نے اپنے یمنی گورنر کے ذریعہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو گرفتار بھی کرنا چاہا مگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے ان فرستادوں سے کہا کہ جس نے تمہیں میری گرفتاری کے لئے بھجوایا ہے اُس کو میرے خدا نے اسی کے بیٹے کے ہاتھ سے ہلاک کروا دیا ہے چنانچہ ایسا ہی ہؤا.لیکن چونکہ یہ ایک نبی کا مقابلہ تھا اِس لئے اس میں ناکام رہے.اﷲ تعالیٰ اِن آیات میں انہی واقعات کی طرف ایماء فرماتا ہے.

Page 209

َ:پیچھے پڑے ہوئے ہیں اس کے جو ایک زمانہ میںدو فرشتوں پر نازل ہؤا تھا(ان فرشتوں کا کام تھا کہ بابل کو ویران کر کے صاف کر دیں اِسی واسطے ان کو ہاروت و ماروت کہا گیا)اس وقت تو یہ کامیاب ہو گئے کیونکہ خدا کے منشاء کے ماتحت تھا مگر اَب تو یہ کُفر ہے کیونکہ ایک نبی کے مقابلہ میں ہے.اس وقت تو ہم نے ان کو ہدایت کر دی تھی کہ اسے بے موقع استعمال کر کے کافر نہ بننا اور دوسری یہ بات ہے کہ اپنی عورتوں کو بھی اِس راز کی خبر نہ کرنا کیونکہ عورت کمزور ہے اس کے ذریعے بات نکل جاتی ہے یہ مطلب ہےکا.بس یہاں یہ بات ختم ہوئی.اَب فرماتا ہے اَب یہ یہود پھر انہی باتوں کو تعلیم و تعلّم کرتے ہیں مگر بجائے فائدے کے نقصان اُٹھاتے ہیں اِس لئے کہ آگے تو ملائکہ کے ذریعہ یہ باتیں القاء ہوئی تھیں.چنانچہیَتَعَلَّمُوْنَ کے ساتھ مِنْھُمَا (ان دو فرشتوں سے آیا ہے ) اَب یہ شیطانی القاء ہے.بہتر تھا کہ وہ ان شرارتوں کی بجائے ایمان لاتے اور تقوٰی اختیار کرتے اور دُنیا و آخرت میں فلاح پاتے.ایسی منصُوبہ بازیوں کی کمیٹیوں کا سورۃ مجادلہ:۹ میں مفصّل ذکر ہے جہاں فرمایاِ کیاتجھے معلوم نہیں ان لوگوں کا حال جن کو منصُوبہ بازی کی خفیہ کمیٹیوں سے منع کیا اور وہ پھر وہی کرتے ہیں جن سے منع کئے جا چکے ہیں اور وہ خفیہ سازشیں کرتے ہیں.گناہ، سرکشی اور رسول کی مخالفت کی.اور پھر آگے چل کر ارشاد فرماتا ہے  (المجادلۃ:۱۰،۱۱) سُنو! اے مومنو! جب کوئی تم خفیہ مشورہ کرو تو اس میں کوئی گناہ اور سرکشی کی اور رسول کی مخالفت کی بات نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوٰی کے متعلق سر گوشی ہو.اُس اﷲ سے ڈرو جس کے حضور اکٹھے کئے جاؤ گے یہ جو خفیہ انجمنیں ہیں یہ شیطانی کام ہے صرف مومنوں کو گھبراہٹ میں ڈالنے کے لئے مگر الہٰی اِذن کے سوا کوئی ضرر انہیں نہیں پہنچا سکتے اور اﷲ تعالیٰ پر ہی چاہیئے کہ مومن توکّل کریں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ:فری میسنوں کے لاج کا نام جادو گھر اَب تک مشہور ہے.ہاروت و

Page 210

ماروت فرشتوں کے نام.ان کے ذریعے علم پا کر یہود نے دشمنوں پر فتح حاصل کر لی.ان کو بتایا گیا اب تم محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے مقابلہ میں ان ہتھیاروں سے کام نہیں لے سکتے کیونکہ الہٰی حکم سے یہ خفیہ کمیٹی نہیں.بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ.آجکل بھی فری میسن عورتوں کو شامل نہیں کرتے.وَمَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ اس کی تشریح(المجادلۃ:۹)میں پڑھو اس میںلَیْسَ بِضَآرِّھِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِ بھی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ ۴۳۸،۴۳۹) بہت سے لوگ ہیں کہ جب فرشتوں کی تحریک ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو پیچھے ڈال دیتے ہیں اور اﷲ کی نیک آیات کو واہیات بناتے ہیں.بڑے تعجّب کی بات ہے کہ جب قبض وغیرہ ہو تو پھر کہتے ہیں کہ خیر اﷲ غفور رحیم ہے.اس کی جَڑ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات کو مقدّم کر لیتا ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام کے عہد میں جب لوگوں کو امن حاصل ہؤا اور مال ثروت کی فراوانی ہوئی تو ان میں نٔی نٔی تحریکیں ہونے لگیں.آسمانی کتب کا جو مجموعہ ان کے پاس تھا اس سے طبیعت اُکتا گئی تو کِسی اور تعلیم کی خواہش ہوئی.مگر وہ تعلیم ایسی تھی جو خدا سے دُور پھینکنے والی تھی.نقشِ سلیمانی وغیرہ اسی تعلیم کی یادگار بعض مسلمانوں میں مروّج ہے.بنی اسرائیل نے جب خدا کی کتاب سے دِل اُٹھایا تو ان لغو باتوں میں پڑ گئے جو بعض شیطانی اثروں کے لحاظ سے دِلرُبا باتیں بن گئیں.خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ سب اِس زمانہ کے شریروں کی کاروائی ہے سلیمان علیہ السّلام نے ان کو یہ تعلیم نہیں دی بلکہ از خود یہ باتیں انہوں نے گھڑ لیں اور ایسی دِلرُبا باتوں کی اشاعت کی.(بدر ۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳) اِنسان میں عجیب در عجیب خواہشیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.جب وہ بچّہ ہوتا ہے پھر جب ہوش سنبھالتا ہے پھر جب جوان ہوتا ہے پھر جب بُری صحبتوں میں پھنستا ہے.جب اچھی صحبتوں میں آتا ہے جب کامیاب زاندگی بسر کرتا ہے جب ناکام ہوتا ہے تو اس کے حالات میں تغیّر پیش آتے رہتے ہیں.مَیں نے ایک خطرناک ڈاکو سے پوچھا کہ کبھی تمہارے دِل نے ملامت کی ہے تو وہ کہنے لگا کہ تنہائی میں ضرور ضمیر ملامت کرتا ہے مگر جب ہماری چاریاری اکٹھی ہوتی ہے تو پھر کچھ یاد نہیں رہتا اور نہ یہ افعال بُرے لگتے ہیں یہ سب صحبتِ بَد کا اثر ہے.قُرآن کریم میں(التوبۃ:۱۱۹) کااِسی واسطے حکم آیا ہے تاکہ انسان کی قوّتیں نیکی کی طرف متوجّہ رہیں اور نیک حالات میں نشوونما پاتی رہیں.غرض انسان کے دُکھوں میں اَور خیالات ہوتے ہیں سُکھوں میں اَور.اور کامیاب ہو تو اَور طریق ہوتا ہے اور ناکام ہو

Page 211

تو اَور طرز.طرح طرح کے منصُوبے دِل میں اُٹھتے ہیں اور پھر ان کو پُورا کرنے کے لئے وہ کِسی کو محرم راز بناتے ہیں اور جس کے بہت سے ایسے محرم راز ہوتے ہیں تو پھر انجمنیں بن جاتی ہیں اﷲ تعالیٰ نے اِس سے روکا تو نہیں مگر یہ حکم ضرور دیا.  .  (المجادلۃ:۱۰،۱۱) ایمان والو! ہم جانتے ہیں کہ تم منصوبہ کرتے ہو.انجمنیں بناتے ہو مگر یاد رہے کہ جب کوئی انجمن بناؤ تو گناہ، سرکشی اور رسول کی نافرماں برداری کے بارے میں نہ ہو بلکہ نیکی اور تقوٰی کا مشورہ ہو.بنی اسرائیل جب مصر کی طرف گئے تو پہلے پہل ان کو یوسف علیہ السّلام کی وجہ سے آرام ملا.پھر جب شرارت پر کمر باندھی تو فراعنہ کی نظر میں بہت ذلیل ہوئے مگر آخر خدا نے رحم کیا اور موسٰی علیہ السّلام کے ذریعہ سے ان کو نجات ملی یہاں تک کہ وہ فاتح ہو گئے اور وہ اپنے تئیں  (المآئدۃ:۱۹) سمجھنے لگے لیکن جب پھر ان کی حالت تبدیل ہو گئی.ان میں بہت ہی حرام کاری، شِرک اور بَد ذاتیاں پھیل گئیں تو ایک زبردست قوم کو اﷲ تعالیٰ نے ان پر مسلّط کر دیا. (بنیٓ اسرآء یل:۶) ستّر برس وہ اس بلاء میں مُبتلا رہے.آخر جب بابل میں دُکھوں کا زمانہ بیت ہو گیا اور ان میں سے بہت صلحاء ہو گئے حتّٰی کہ دانیال ، عزرا، حزقیل، یرمیاہ ایسے برگزیدہ بندگانِ خدا پَیدا ہوئے اور انہوں نے جنابِ الہٰی میں خشوع و خضوع سے دعائیں مانگیں تو ان کو الہام ہؤا کہ وہ نسل جس نے گناہ کیا تھا وہ تو ہلاک ہو چکی اب ہم ان کی خبر گیری کرتے ہیں.اﷲ تعالیٰ کے کام دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو ایسے کہ ان میں انسان کو مطلق دخل نہیں.مثلاً اب سردی ہے اور آفتاب ہم سے دُور چلا گیا ہے پھر گرمی ہو جائے گی اور آفتاب قریب آ جائے گا.یہ کام اپنے ہی بندوں کی معرفت کرایا اور ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ بادشاہ اَب ہلاک ہونے والا ہے پس تم میدوفارس کے بادشاہوں سے تعلق پیدا کرو کیونکہ عنقریب یہ دُکھ دینے والی قوم اور ان کی سلطنت ہلاک ہو جائے گی.پس اﷲ نے دو فرشتے ہاروت اور ماروت نازل کئے.ہرتؔ کہتے ہیں زمین کو مصفّا کرنے کو اور مرتؔ زمین کو بالکل چٹیل میدان بنا دینا.گویا یہ امر ان فرشتوں

Page 212

کے فر ض میں داخل تھا کہ یہ لوگ برباد ہو جائیں گے اور بنی اسرائیل نجات پا کے اپنے ملک میں جائیں.پس ہاروت ماروت نبیوں کی معرفت ایسی باتیں سکھاتے تھے اور ساتھ یہ ہدایت کرتے تھے کہ ان تجاویز کو یہاں تک مخفی رکھو کہ اپنی بیبیوں کو بھی نہ بتاؤ کیونکہ عورتیں کمزور مزاج کی ہوتی ہیں اور ممکن بلکہ اغلب ہے کہ وہ کِسی دوسرے سے کہہ دیں.پس اس تعلیم کو پوشیدہ رکھنے کے لحاظ سے میاں بی بی میں بھی اِفتراق ہو جاتا تھا.یعنی میاں اپنی بیوی کو اس راز سے مطلع نہ کرتا تھا.اور پھر جب یہ بات پختہ ہو گئی تو میدوفارس کے ذریعہ بابل تباہ ہو گیا اور خدا نے بنی اسرائیل کو بچا لیا مگر جتنا ضرر دشمنوں کو پہنچایا گیا چونکہ اﷲ کے اِذن سے تھا اِسی واسطے وہ اس میں کامیاب ہو گئے.اب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ طیّبہ میں تشریف لائے تو مکّہ والوں کو بڑا غیظ و غضب پَیدا ہؤا.پس انہوں نے یہودیوں سے دوستی گانٹھی اور یہودی وہی پُرانا نسخہ استعمال کرنے لگے کہ آؤ کِسی بادشاہ سے مِل کر اس محمدی سلطنت کا استیصال کریں اسی واسطے ایرانیوں سے توسل پَیدا کیا.یہ ایک لمبی کہانی ہے.ایرانیوں کے گورنر بعض عرب کے مضافات میں بھی تھے.انہوں نے اپنے بعض آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لئے بھی بھجوائے مگر کچھ کامیابی نہ ہوئی.اسکی وجہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آگے تو تم اے یہود یو!خدا کے حکم سے ایسے منصوبوں میں کامیاب ہوئے تھے.اب تم چونکہ یہ نسخہ اﷲ تعالیٰ کے رسول کے مقابلہ میں استعمال کرتے ہو اِس لئے ہرگز کامیاب نہ ہو گے.چنانچہ چند آدمی شاہ فارس کی طرف سے گرفتار کرنے آئے آپ نے ان کو فرمایا مَیں کل جواب دوں گا.صبح آپؐ نے فرمایا کہ جس نے تمہیں میری طرف بھیجا ہے اُس کے بیٹے نے اسے قتل کر دیا ہے.وہ یہ بات سُن کر بہت حیران ہوئے.بات میں بات آ گئی ہے ہر چند کہ وہ ایسی عظیم الشّان نہیں ہے.وہ یہ کہ جب دو ایلچی نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے حضور آئے تو صبح صبح داڑھیاں مُنڈوا کر آئے.آپ نے فرمایا یہ تم کیا کرتے ہو.ہم اِس امر کو کراہت کے ساتھ دیکھتے ہیں ( جہاں اُوپر کاقِصّہ لکھا ہے وہاں یہ بات بھی ہے خیر) اورخائب وخاسر واپس پھرے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَب یہ یہودی ایسی باتیں سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دیتی ہیں ان کے حق میں مفید بالکل نہیں ہیں.جو اَب یہ کرتے ہیں آخرت میں ان کے لئے کوئی حصّہ نہیں.ہارون ماروت نے جو سکھایا تھا وہ چونکہ نبیوں کے حکم کے ماتح تھا اس لئے کامیابی کا موجب ہؤا.لیکن اَب چونکہ اسکی نافرمانی میں وہ ہتھیار چلتا ہے اِس لئے کچھ کام نہ دے گا.ل کیا اچھا ہوتا کہ وہ ایسی بُری شَے کے بدلے

Page 213

میں اپنی جانوں کو نہ بیچتے بلکہ اَب تو یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ ایمان لائیں.متّقی بن جاویں تو اﷲ کے ہاں بہت اجر پائیں.(بدر۴؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ۳،۴) سحر کے کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے چند ایک یہ ہیں (۱) ترکیب و تحلیل کا عِلم (۲) پولیٹکل اکانومی.پالیٹکس (۳)ہاتھ کی چالاکی (۴) قوّتِ نفس رُوح جس میں توجّہ سے کام لیا جاتا ہے.سلبِ امراض وحُبّ عداوت کے کام لئے جاتے ہیں.وہ توہّمات یعنی اَرواح خبیثہ سے تعلق پَیدا کر کے پھر ان سے کام لینا یہ تعلق پیدا کرنے اور پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے عجیب عجیب کام ان کو کرنے پڑتے ہیں.ہر وقت جنبی رہتے ہیں.مرگھٹ کی آگ پر مُردوں کی کھوپریوں میں کھانا پکاتے ہیں.انسانی چمڑے پر بیٹھتے ہیں وغیرہ ذٰلک.ایسے لوگ بھی ہم نے بچشمِ خود دیکھے ہیں جو سُورج کو چڑھنے کے وقت سے ڈوبنے تک برابر دیکھتے رہتے ہیں پھر ان کی قوّتِ نفس بہت بڑھ جاتی ہے اور وہ غیر معمولی کام دُنیا میں کر سکتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۷نمبر ۷ صفحہ ۳۲۵)    

Page 214

          اﷲ جلّ شانہٗ نے اِن آیات میں چند باتیں بطور نصیحت فرمائی ہیں.پہلی بات بہت سے

Page 215

لوگ جن کے دلوں میں کینہ اور عداوت ہوتی ہے تو اپنے حریف کو ایسے الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں جس میں ایک پہلو بدی کا بھی ہوتا ہے.اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ڈرپوک ہوتے ہیں کُھل کر کسی کو بُرا نہیں کہہ سکتے.رَاعِنَاایک لفظ ہے جس کے کئی معنی ہیں.یہ رعونت ، بُرائی ، خودپسندی، حماقت کے معنوں میں بھی آتا ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ آپ ہماری رعایت کریں.اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کو یہ سکھایا ہے کہ ایسا لفظ اپنے کلام میں اختیار نہ کرو جو ذومعنی ہو بلکہ ایسے موقع پراُنْظُرْنَا کہا کرو.اِس میں بدی کا پہلو نہیں ہے.ایک شخص نے مجھ سے اصلاح کا ثبوت قرآن مجید سے پوچھا مَیں نے یہی آیت پڑھ دی.اﷲ تعالیٰ یہ نصیحت فرما کر متنبّہ کرتا ہے کہ جو لوگ انکار پر کمر باندھے ہیں اور حق کا مقابلہ کرتے ہیں وہ دُکھ دَرد میں مُبتلا رہتے ہیں.اس کے آگے کافروں کا رویّہ بتایا ہے کہ یہ اہلِ کتاب اور مشرکین تمہارے کسی سُکھ کو محض از رُو ئے حَسد دیکھ نہیں سکتے.اس حَسد سے ان کو کچھ فائدہ سوا اِس کے کہ جَل جَل کر کباب ہوتے رہیں نہیں پہنچ سکتا.یہ حَسد بڑا خطرناک مرض ہے اِس سے بچو.اﷲ تعالیٰ کے علیم و حکیم ہونے پر ایمان ہو تو یہ مرض جاتا رہتا ہے.دیکھو مَلمل کا کپڑا ہے کوئی اسے سر پر باندھتا ہے.کوئی اس کی قمیص بناتا ہے.کوئی زخموں کے لئے پٹی.سب جگہ وہ کام دیتا ہے اور سبھی جگہ واقعہ میں اس کی ضرورت ہے.اِسی طرح اگر انسان سمجھ لے کہ خدا تعالیٰ کے عجائباتِ قدرت سے جو کام ہو رہے ہیں وہ بِلاضرورت و حکمت کے نہیں تو معترض کیوں ہو.اگر خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو اپنی رحمتِ خاصّہ کے لئے چُن لیا ہے تو یہ کیوں جلتے ہیں؟ یہ تو عام قانونِ قدرت ہے کہ آج ایک درخت بغیر پھُول اور پھَل پتّوں کے بالکل سو ختنی ہئیت میں کھڑا ہے.اَب بہار کا موسم آ گیا تو اس میں پتّے لگنے شروع ہوئے پھر پھُول پھر پھَل.اِسی طرح قوموں کی نشوونما ہے ایک وقت ایک قوم برگزیدہ ہوتی ہے لیکن جب وہ انعامات کے قابل نہیں رہتی تو خدا تعالیٰ دوسری قوم کو چُن لیتا ہے اور وہ پہلی قوم ایسی مِٹ جاتی ہے کہ بالکل بھُلا دی جاتی ہے یا اس کی حالت تبدیل ہو جاتی ہے.غرض اِس جہان میں اِس طرح بہت تغیّر ہوتے رہتے ہیں.ایک شریعت دی جاتی ہے پھر اس کی بجائے دوسری.اِس بناپراﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم کوئی نشانِ قدرت نہیں بدلتے اور نہ اسے ترک کرتے ہیں مگر کہ اس کی مثل یا اس سے اچھا لاتے ہیں

Page 216

شرارت سے پُر تھے ایک مصرعہ تمہیں سُناتا ہوں تاسرت باشد ہمیشہ تاجدار یہاں تاجدار کے ایک معنے ظاہر ہیںاور دوسرے یہ کہ تاجِدار یعنی تیرا سر دیوار سے ٹکر کھائے گیا ہو.اِس طرح کے کلام سے ہمارے سردار نے ہمیں منع کیا ہے چنانچہ وہ فرماتا ہے رَاعِنَانہ کہو کیونکہ اِس کے معنے ایک تو یہ ہیں کہ ہماری رعایت کرو.ہم نہیں سمجھے دوبارہ سمجھا دو.سومؔراعنؔکا لفظ عبر ومیں گالی ہے.احمق ، رعونت والے کو کہتے ہیں.اگر ایسی ضرورت پیش آ جائے تو بجائے رَاعِنَاکے جو ذومعنی لفظ ہے اُُنْظُرْنَا بولوجس کے معنے ہیں ہم غرباء کی طرف بھی آپ نظر رکھیں.ان منکروں کے لئے جو اِس قِسم کے الفاظ نبی کریم صلّی اﷲعلیہ وسلم کے حضور بولتے ہیں دُکھ دینے والا عذاب ہے.اَلَّذِیْنَ کَفَرُوْا: یہ کافر دو قِسم کے ہیں اہل کتاب( یہود، نصارٰی، مجوس) دوسرے وہ جن کے پاس کوئی کتاب نہیں.سُنی سُنائی باتوں پر ایمان رکھتے ہیں.غرض یہ دونوں گروہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر کوئی ایسا امر اُتارا جائے جو خیروبرکت کا موجب ہو مگر اﷲ تعالیٰ خصوصیّت دے دیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہے.مکّہ والوں نے کہا کہ (الزخرف:۳۲)

Page 217

مگر ان کا یہ اعتراض فضول تھا کیونکہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ واقعی یہی مبارک وجود ( حضرت محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم) اِس رسالت کا مستحق تھا.میرا اعتقاد ہے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم انسانیّت ہیں.نہ ایسا کوئی عظیم الشّان ہؤا اور نہ ہو گا.ایک شخص نے مجھے پوچھا کہ اس کی کیا دلیل ہے؟ مَیں نے کہا کہ تم کسی اصلِ مذہبی کے قائل ہو یا نہیں.کہا.دعا کا قائل ہوں.مَیں نے کہا.دیکھو تم مانتے ہو کہ تمام مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور زمین گول ہے.پس رُوئے زمین پر کوئی ایسا وقت نہیں گزرتا جب کوئی مسلمان نماز نہ پڑھ رہا ہو اور نماز میں درود شریف نہ پڑھتا ہو.پھر مَیں پوچھتا ہوں کیا دُنیا میں کوئی ایسا پیشوا ہے جس کے مرید ہر وقت اس کے علّوِ مدارج کے لئے دعا کر رہے ہوں اور پھر اَلدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖکے مطابق وہ تمام نیکیاں جو یہ لوگ (مسلمان) کرتے ہیں حضور کے نامئہ اعمال میں بھی لکھی جاتی ہوں گی یا نہیں.پھر فضائلِ نبوی میں دوسری بات مجھے یہ سُوجھی ہے کہ دُنیا میں جس قدر مرکز ہدایت کے ہیں وہ در اصل صرف دو ہیں ایک آتشکدۂ آذر اور دومؔ بَیت المقدس.ان دونوں کا اثر عرب پر بالکل نہیں پڑا مگر ہمارے سردارنے عرب الوں کو اپنا دین منوا لیا اور پھر ان کے ذریعہ ان دونوں مرکزوں (بیت المقدس، آتشکدہ آذری) پر بھی فتح پائی.مَانَنْسَخْ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْنُنْسِھَا:نسخ کے معنے ہیں نقل کے.اِنَّا کُنَّ نَنْسَخُ مَاکُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَاورنسخ کے معنے ہیں مٹا دینے کے جیسے فرمایا(الحج:۵۳)نُنْسِھَانکلا ہے نسیان سے.اِس صورت میں اس کے معنے ہیں’’ ہم بھُلا دیتے ہیں‘‘ یانسأبمعنی تاخیر ہے.اِس صورت میں اِس کے معنے ہیں’’ ہم مؤخر کر دیتے ہیں.‘‘ سو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کو بدلاتے یا مٹاتے ہیں یا بالکل بھُلاتے اور کسی دوسرے سے تاخیر میں ڈال دیتے ہیں تو اس میں ہمارے مصالح ہوتے ہیں.اس کی مثال سُنئے!قرآنِ مجید میں ایک تعلیم ہے ..(المدّثّر:۲تا۴)اور پھر اخیر میں کھانے پینے کے احکام نازل فرمائے اور ارشاد کیا (المآئدۃ:۴)تواَب پہلی تعلیم کو جو مقدّم کیا اور دوسری کو مؤخر تو خاص مصلحت سے ہے ( یعنی پہلے عقیدہ درست ہو جاوے پھر شریعت نازل ہو).دوسری مثال یہ ہے کہ بعض مذاہب ایسے ہیں جو بالکلنسیًا منسیًا ہو گئے اور بعض ایسے جن کے اصول کچھ تو موجود ہیں مگر بہت کچھ تبدیل ہو گئے.

Page 218

پھر آیت کے معنے علاوہ کلامِ الہٰی کے مطلق نشان بھی ہیں مثلاً خزاں میں درختوں کے پتّے مِٹ جاتے ہیں پھر ان جیسے یا ان سے بہتر پَیدا کرتے ہیں.نفسِ نسخ کے متعلق بحث فضول ہے کیونکہ یہ ممکن ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ کارخانۂ ہستی میں ایسا ہوتا رہتا ہے.ہاں یہ بات کہ ( قرآن مجید میں) نسخ ہے یا نہیں؟اِس کے متعلق جہاں تک میرا فہم ہے مَیں یہی کہوں گا کہ آج تک کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جو منسُوخ اور موجود فی القرآن ہو.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یا ابوبکر و عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کی زبان سے بھی کوئی ایسا لفظ مروی نہیں جس سے ایسی آیات کا موجود فی القرآن ہونا پایا جاتا ہو.اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اﷲَ لَہ‘ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ:فرمایا کہ اِس نسخ(تغیّر) کا سبب ہم نہیں بلکہ تمہارے حالات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اِس لئے ہمیں احکام میں تغیرّ کرنا پڑتا ہے.کَمَا سُئِلَ مُوْسٰی مِنْ قَبْلُ:موسٰی علیہ السّلام سے کیا سوالات ہوئے؟ ایک کا ذکر سُورۂ نساء پارہ ۶ کے پہلے رکوع میں ہے جہاں فرماتا ہے(آیت:۱۵۴) حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ :اس وقت تک کہ اَور حکومت تمہیں دے تمہیں چاہیئے کہ درگذر سے کام لو اور نماز سنوار کر پڑھتے رہو اور زکوٰۃ دیتے رہو.زکوٰۃ ہر ایک لے سکتا ہے.یہ بھی زکوٰۃ ہے کہ کوئی اپنے نفس کا تزکیہ کرے پھر کِسی کو نیک بات بتانا یہ بھی زکوٰۃ ہے.نیا لباس ملے تو پُرانا کِسی غریب کو دینا یہ بھی زکوٰۃ ہے اور ایک وہ زکوٰۃ ہے جو مشہور ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)  

Page 219

 قَالُوْالَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ:آدمی جب اکیلے بیٹھتے ہیں تو دوسروں کی عیب چینی کرنے لگ جاتے ہیں اور پھر اپنے تئیں کچھ سمجھنے لگتے ہیں یہاں تک کہ دوسروں کی حقارت سما جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم ہی جنّت میں جائیں گے.یہ صرف ہوائی باتیں ہیں.ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ:برہ کے معنے ہیں قطع کے.اگر تم سچّے ہو تو کوئی دلیل قاطع یا حجتِ نیّرہ پیش کرو اور بَرْھَنَ کے معنے ’’ ظاہر کیا‘‘ کے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ:اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بنیں اور اسکے حکم کے مقابل کِسی اَور حکم کی پرواہ نہ کریں.فرمانبرداری کا اثر اور امتحان مقابلہ کے وقت ہوتا ہے.ایک طرف قوم اور رسم و رواج بُلاتا ہے دوسری طرف خدا تعالیٰ کا حکم ہے.اگر قوم اور رسم و رواج کی پرواہ کرتا ہے تو پھر اُس کا بندہ ہے اور اگر خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتا ہے اور کسی بات کی پرواہ نہیں کرتا تو پھر خدا تعالیٰ پر سچّا ایمان رکھتا ہے اور اس کافرمانبردار ہے اور یہی عبودیّت ہے.قرآن مجید نے اِسلام کی یہی تعریف کی ہے.مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ.سچّی فرمانبرداری یہی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہ رہے.اس کی آرزوئیں اور امّیدیں، اس کے خیالات اور افعال سب کے سب اﷲ تعالیٰ ہی کی رضا اور فرمانبرداری کے نیچے ہوں.میرا اپنا تو یہ ایمان ہے کہ اس کا کھانا پینا، چلنا سب کچھ اﷲ تعالیٰ ہی کے لئے ہو تو مسلمان اور بندہ بنتا ہے.خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری اور رضا مندی کی راہوں کو بتانے والے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں.چونکہ ہر شخص کو مکالمہ الہٰیہ کے ذریعہ الہٰی رضا مندیوں کی خبر نہیں ہوتی ہے.اگر کسی کو ہو بھی تو اُس کی وہ حفاظت اور شان نہیں ہوتی جو خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مُرسلوں کی وحی کی ہوتی ہے اور خصوصًا سرورِ انبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم کی کہ جس کے دائیں بائیں، آگے پیچھے ہزاروں ہزار ملائکہ حفاظت کے لئے ہوتے ہیں اِس لئے کامل نمونہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم ہی ہیں اور و ہی مقتدا اور مطاع ہیں.پس ہر ایک نیکی تب ہی ہو سکتی ہے کہ جب وہ اﷲ تعالیٰ ہی کیلئے ہو اور پھر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتّباع کے نیچے ہو.(بدر ۵؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵،۶) خدا تعالیٰ سے غافل اور بے پرواہ نہ ہو یہ منشائے اِسلام ہے.پس یاد رکھو کہ عقائد کے لحاظ سے دُنیا میں بینظیر چیز اسلام ہے.مَیں راستی سے کہتا ہوں کہ ایمان کے لحاظ سے، اعمال کے لحاظ سے

Page 220

دُنیا میں کوئی مذہب اِسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتا مگر مَیں یہ بھی ساتھ ہی کہوں گا کہ اسلام ہو دعوٰیٔ اسلام نہ ہو.مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ‘ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ کامِصداق ہو.ساری توجّہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگا دیوے اور ایسے طریق پر کہ گویا وہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم اِتنا ہی ہو کہ اِس بات کو کامل طور پر سمجھے کہ خدا مجھ کو دیکھ رہا ہے.خدا تعالیٰ کے انعام کو یاد کر کے اور یہ دیکھ کر کہ کیسی کتاب ، کیسا مذہب اُس نے عطا کیا ہے.(الحکم ۳؍مارچ ۱۸۹۹ء صفحہ۵)    یہود کہتے ہیں نصارٰی کچھ بھی نہیں اور نصارٰی کہتے ہیں یہود کچھ بھی نہیں حالانکہ وہ کتاب (مقدّس) کو پڑھتے ہیں.نادان ایسا ہی کہا کرتے ہیں.یہود نے کہا عیسائی کچھ راہ پر نہیں اور عیسائیوں نے کہا یہود کچھ راہ پر نہیںحالانکہ ممکن ہے بلکہ واقعی یُوں ہے کہ عیسائیوں میں بہت سی خوبیاں ہوں.پس یہود کا عام طور پر یہ کہنا کہ عیسائی کچھ راہ پر نہیں غلطی اور نا سمجھی ہے.ایسا ہی ممکن ہے بلکہ واقعی ہے کہ یہود میں کچھ بھلائی بھی.ہو پس عیسائیوں کا علی العموم یُوں کہہ دینا کہ یہود کچھ بھی راہ پر نہیں بڑی ناسمجھی اور بے انصافی ہے.غرض علی العموم کسی مذہب کو یُوں کہہ دینا کہ وہ بالکل ہی بھلائی سے مبّرا ہے کوئی عِلمی بات نہیں.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۲۵) ہمیں تو قرآن کریم یہود و نصارٰی کے اِس قول کو نصیحت کے طور پرہمیں بتاتا ہے.

Page 221

 (البقرۃ:۱۱۴) یہود نے کہا نصرانی کچھ بھی نہیں.نصرانیوں نے کہا یہود کچھ بھی نہیں حالانکہ کتاب پڑھتے ہیں.اِس طرح تو بے علم لوگوں نے کہا ہے یا کیا ہے.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۸ ایڈیشن سوم) یہ ایک عیب ہے کہ کوئی شخص دوسرے کی نسبت رنج پیدا کر لیتا ہے.اگر آدمی حد سے بڑھ جائے تو یہ بھی ایک قِسم کا جنون ہے.ایسا ہی نصارٰی اور یہود میں رنج پیدا ہو گیا کیونکہ یہودیوں نے حضرت عیسٰیؑ کو حقارت سے دیکھا اور رنج کیا تھا اِس لئے نصارٰی ان پر عیب جوئی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو لاشَیٔ یقین کرتے ہیں.:حالانکہ وہ کتاب پڑھتے ہیں اور پڑھے ہوؤں کا یہ حال ہے.ایسا ہی آجکل مولوی، وہابی یا حنفی اور یا دوسرے متفرق الطریق لوگ دوسروں پر اس قدر فتوے لگاتے ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا.پھر وہ سب پڑھے ہوئے.اَب جاہلوں کی بات تو سمجھتے نہیں.اَب ان کو سمجھائے کون.:یہ لوگ جو مسجدوں سے منع کرتے ہیں آخر ذلیل ہوں گے.کامیابی کا مُنہ نہ دیکھیں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) عیب چینی کی راہ بہت ہی خطرناک راہ ہے.عیسائیوں نے اس راہ پر قدم مارا نقصان اُٹھایا.ایک نبی کی معصومیّت کے ثبوت کے لئے سب کو گُناہ گار قرار دیا.پھر آریہ نے بھی یہی طریق اختیارکیا.وہ بھی دوسرے مذاہب کو گالیاں دینا جانتے ہیں.پھر شیعہ ہیں وہ بھی خلفائے راشدین پر تبّرہ بھیجنے کے گناہ میں پڑ گئے.ایک دفعہ امرتسر میں مَیں نے ایک شخص کو قُرآن کی بہت ہی باتیں سنائیں.میرا ازاربند اِتفاق سے ڈھیلا ہو گیا.آخر اُس نے مجھ پر یہ اعتراض کیا کہ تمہارا پاجامہ ٹخنوں سے کیوں نیچا ہے مَیں نے کہا اِتنے عرصہ سے جو تم میرے ساتھ جو تمہیں کوئی بھلائی مجھ میں نظر نہیں آئی سوائے اس عیب کے اور یہ عیب جو تم نے نکالا یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ حدیث میںجَرَّ ثَوْبَہ‘ خمیلَائَ آیا ہے اور یہاں اِس بات کا وہم تک نہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے  .گویااِس طرح کہنالَا یَعْلَم کہنا لوگوں کا دستور ہے.عیب شماری کی طرف ہر وقت متوجّہ رہنا ٹھیک

Page 222

نہیں.کچھ اپنی اصلاح بھی چاہیئے.ہمیشہ کسی دوسرے کی عیب چینی سے پہلے اپنی گذشتہ عمر پر نگاہ ڈالو کہ ہم نے اتّباعِ رسول صلّی اﷲ علیہ وسلّم پر کہاںتک قدم مارا اور اپنی زندگی میں کتنی تبدیلی کی ہے.ایک عیب کی وجہ سے ہم کِسی شخص کو بُرا کہہ رہے ہیں.کیا ہم میں بھی کوئی عیب ہے یا نہیں اور اگر اس کی بجائے ہم میں یہ عیب ہوتا اور ہماری کوئی اس طرح پر غیبت کرتا تو ہمیں بُرا معلوم ہوتا یا نہیں… عیب شماری سے کوئی نیک نتیجہ نہیں نکل سکتا.کسی کا عیب بیان کیا اور اُس نے سُن لیا.وہ بُغض و کینہ میں اَور بھی بڑھ گیا تمہیں کیا فائدہ ہؤا؟ بعض لوگ بہت نیک ہوتے ہیں اور نیکی کے جوش میں سخت گیر ہوتے ہیں اور امر بالمعروف ایسی طرز میں کرتے ہیں کہ گناہ کرنے والا پہلے تو گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتا تھا پھر جھنجھلا کر کہہ دیتا ہے کہ جاؤ ہم یُونہی کریں گے.(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۹)   :خدا کا خوف دل میں رکھ کر اَدب و تعظیم و عاجزی سے آتے اور کسی کا نقار دل میں نہ ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) اِلَّا:اﷲ کے خوف سے معمور ہو کر آئے (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۳۹) افسوس کہ لوگ اگر ذرا بھی آسودگی پاتے ہیں تو مخلوقِ الہٰی کو حقارت سے دیکھتے ہیں.اس کا انجام خطرناک ہے.ان لوگوں میں تحقیر کا مادہ یہاں تک بڑھ جاتا ہے کہ اگر کِسی کی طاقت مسجد کے متعلق ہے تو وہ ان لوگوں کو جو اس کے ہم خیال نہیں مسجد سے روک دیتا ہے اور یہ نہیں سمجھتا کہ آخر وہ بھی خدا ہی کا نام لیتا ہے.ایسا کر کے وہ اس مسجد کو آباد نہیں بلکہ ویران کرنا چاہتا ہے.بارہویں صدی تک اِسلام کی مسجدیں الگ نہ تھیں بلکہ اس کے بعد سُنّی اور شیعہ کی مساجد الگ ہوئیں

Page 223

پھر وہابیوں اور غیر وہابیوں کی اور اَب تو کوئی حساب ہی نہیں.ان لوگوں کو شرم نہ آئی کہ مکّہ کی مسجد تو ایک ہی ہے اور مدینہ کی بھی ایک ہے.قُرآن بھی ایک ، نبی بھی ایک ، مُرشد بھی ایک.پھر ہم کیوں ایسا تفرقہ ڈالتے ہیں.ان کو چاہیئے کہ مسجدوں میں خوفِ الہٰی سے بھرے داخل ہوتے.صرف اِسی وجہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسجد میں آئے اور جماعت ہو رہی ہو تو وقار اور سکینت سے آئے اور اَدب کرے جیسا کہ کسی شہنشاہ کے دربار میں داخل ہوتا ہے لیکن وہ اگر خوفِ الہٰی سے کام نہیں لیتے اور مسجدوں میں نماز پڑھنے سے روکتے ہیں اُن کے لئے دُنیا میں بھی ذِلّت ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے.یاد رکھو کسی کو مسجد سے روکنا بڑا بھاری ظلم ہے.اپنے نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) کے طرزِ عمل کو دیکھو کہ نصرانیوں کو اپنی مسجد مبارک میں گرجا کرنے کی اجازت دے دی.صحابہ کرامَ رضی اﷲ عنہم کو تسلّی دیتا ہے کہ اگر تمہیں مسجد میں داخل ہونے سے روکتا ہے تو کچھ غم نہ کرو مَیں تمہار ا حامی ہوں جس طرف تم گھوڑوں کی باگیں اُٹھاؤ گے اور مونہہ کرو گے اسی طرف میری بھی توجّہ ہے چنانچہ جدھر صحابہ ؓ نے رخ کیا فتح و ظفر استقبال کو آئے.یہ بڑا اعلیٰ نسخہ ہے کہ کِسی کو عبادت گاہ سے نہ روکو اور کسی مخلوق کی تحقیر نہ کرو.مگر اِس سے یہ مطلب نہیں کہ دُنیا میں امر بالمعروف نہ کرو.ہرگز نہیں.بلکہ صرف حُسنِ سلوک اور سلامت رَوی سے پیش آؤ.جو کسی کی غلطی ہو اس کی فورًا تردید کرو.مثلاً عیسائی ہیں جب وہ کہیں کہ خدا کا بیٹا ہے تو ان کو کہو خدا تعالیٰ اِس قِسم کی احتیاج سے پاک ہے.جب آسمان و زمین میں سب کچھ اسی کا ہے اور سب اس کے فرماں بردار ہیں تو اس کو بیٹے کی کیا ضرورت ہے.(بدر ۱۸؍فروری ۱۹۰۹ء صفحہ ۲)   

Page 224

  اور اﷲ کی ہے مشرق اور مغرب.سو جس طرف تم مُنہ کرو دونوں ہی (طرف) متوجّہ ہے اﷲ.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۲۹) :جدھر تم توجّہ کرو گے ادھر ہی خدا کی بھی توجّہ ہو گی کیونکہ مشرق و مغرب اسی کا ہے.:اتّخاذِ ولد کی تردید فرماتا ہے.ایک یہ فرما کر کہ سُبحانہ‘.دومؔ .سومؔ.چہارمؔ.. کے معنے ایک تو اَمَرَ دومؔخَلَقَ سومؔ اَخْبَرَ چوتھاؔ فارغ ہؤا.اِس کی مثال(الاحقاف:۳۰) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) اَ: جس طرف تم مُنہ کرو اُسی طرف خدا کا مُنہ پاؤگے.(نورالدین صفحہ۴۳) : جدھر (صحابہ رضی اﷲ عنہم ) توجّہ کرو اُدھر جنابِ الہٰی کی توجّہ ہو گی.ملک فتح ہو جائے گا.وحدتِ وجودی غلطی پر ہیں.سُبْحٰنَہ‘: عقائدِ باطلہ عیسائیوں کے مطابق کامل قدّوس نہیں بن سکتا.کُنْ فَیَکُوْنُ: مرنے کے بعد زندہ وہی کرتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹)  

Page 225

  لَوْ لَا یُکَلِّمُنَا اﷲُ:یعنی اﷲ ہمیں کیوں الہام نہیں کرتا.اِس کی مثال یہ ہے جیسے کوئی جاہل جٹ کہے کہ بادشاہ پیادوں کی معرفت احکام بھیجتا ہے خود کیوں ہم سے مطالبہ نہیں کرتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء)     الحمد شریف میں تین قوموں کا ذکر ہے ایک کا.ایک مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْکا اور ایک ضَآلِّیْن کا.قرآن کریم نے یہاں تک ان تین گروہوں کا رنگ برنگ میں ذکر کیا ہے.رکوع اوّل میں بتایا کہ  کا دوسرا نام متعیْن ہے ان کو انعام ملتا ہے.اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنپھر مَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ کا ذکر فرمایا ہے اور ان کا وعید بیان کیا.اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ پھر ضَآلِّیْن کا ذکر کیااُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُ الضَّلٰلَۃَ ان کی سزا ہے.فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُھُمْرکوع سوم میں فرمایا ہے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے سے مُنعم علیہم بن جاؤ گے اور اس کے خلاف کرنے کی سزا دوزخ کی آگ ہے.وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ.پھرضَآلِّیْن کا ذکر فرمایا کہ مَا یُضِلُّ بِہٖ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَ.رکوع چہارم میں ایک مُنعم علیہ (آدم) ایک مغضوب و ضال شیطان

Page 226

کا قِصّہ بیان کیا.پھر رکوع ۵ میں بنی اسرائیل کا ذکر شروع کیا اور  سے ظاہر کر دیا کہ وہ ایک مُنعم علیہ قوم تھی.پھر قِسم قِسم کے انعاموں کا جوان پر ہوئے مذکور ہے اور ساتھ ہی ان اسباب کا ذکر فرماتا ہے جن سے یہی منعم علیہ قوم مغضوب علیہ بنی.ازاں جملہ گائے کی پرستش ، موسٰیؑ کی فرمانبرداری چھوڑ کر زمیندارہ پسند کرنا.چھوٹے چھوٹے گناہوں کی پرواہ نہ کرنا.یہاں تک کہ کفرو قتل انبیاء تک نوبت پہنچ گئی.پھر سلیمانؑ کے زمانہ میں امن و آسودگی میں بجائے شکرِ الہٰی کے بغاوت و عملیات و خفیہ کمیٹیوں کی طرف مائل ہونا.مسیحؑ کا انکار.پھر اس رسول علیہ السّلام کا انکار.اَب اس رکوع ۱۵ میں یہ قصّہ ختم ہوتا ہے.فرماتا ہے کہ او بہادر سپاہی کی اولاد! مَیں نے تمہیں ہم عصر لوگوں پر بہت سی بزرگیاں دیں، پر تم نے اس بزرگ کی شان کو قائم نہ رکھنا چاہا.تم اس دِن سے ڈرو جب کہ کوئی جی کسی کے کام نہ آئیگا چنانچہ بنی قریظہ قتل ہوئے.سعدبن معاذ کو انہوں نے خیر خواہ سمجھا پر اس نے بھی ان کے خلاف ہی رائے دی.بنی نضیر کا تعلق عبداﷲ بن اُبَیّ سے تھا اس نے کہا.یہی.(حشر:۱۲) مگر موقع پر نہ کوئی سفاش کر سکا اور نہ ہی نصرت دے سکا.وَلَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَکیسی عظیم الشّان پیشگوئی ہے.تیرہ سَو برس گذر چکے مگرلَا یُنْصَرُوْنَ کا فتوٰی ایسا اٹل فتوٰی ہے کہ اب تک کوئی قوم بنی اسرائیل کی ناصر دُنیا میں نہیں.چپّہ پھر کہیں ان کی سلطنت نہیں ہے.جس ملک میں جاتے ہیں ایسے اسباب مہیّا ہو جاتے ہیں کہ ذلیل ہو کر نکلنا پڑتا ہے اس کی جڑ یہ ہے کہ یہ سُود خوار قوم ہے.جب لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پنجے سے چھٹکارا نہیں ہو سکتا تو اپنے بادشاہوں کے پاس چُغلیاں کھاتے ہیں اور پھر انہیں حکم ہوتا ہے نکل جاؤ.مَیں اکثر مخالفانِ اِسلام کو چیلنج دیا کرتا ہوں کہ ایسی پیشگوئی کسی قوم کی نسبت کر دکھاؤ.راست بازوں سے مقابلہ کرنا بڑا خطرناک ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۱؍مارچ ۱۹۰۹ء) :یہ اس پہلی بات کو دُہرایا ہے لیکچرار کو بھی ایسا ہی چاہیئے کہ بات کی تشریح کر کے پھر خلاصہ دُہرادے. اور رکوع ۶  یعنی شفاعت پہلے ہے اِس کی وجہ یہ ہے دُنیا میں دو قِسم کے آدمی ہیں.پہلے وہ شفاعت کی طرف جھُکتے ہیں.جب اُس نے کام نہ دیا تو جُرمانہ بھرنے پر بھی حاضر.دوسرے اس کے خلاف ہیں.اس کے بعد اَور سلسلہاَنْعَمْتُ کا لیا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۳۹)

Page 227

  : اَب بنی اسرائیل کے بعد ایک اَور سلسلہ کی طرف متوجّہ ہؤا ہے.وہ بھی اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ تھے.مُنعَم ہونے کے بعد ان میں سے بھی مغضوب و ضال ہو گئے.ابْتَلٰی:عربی زبان میں کہتے ہیں کسی چیز کے ظاہر کر دینے کو.قرآن شریف میں یہ محاورہے(الطارق:۱۰،۱۱)اَبْلَاہُ:اَظْمَوَرَدْائَ تَہ‘ وَ جَوْدَتَہ‘فلاںچیز کے ردّی یا جیّد ہونے کو ظاہر کیا.پس اﷲ نے ابراہیمؑ کو کچھ احکام دئیے (کَلِمٰتٍ کے یہی معنے ہیں)جو انہوں نے پُورے کئے.تو ان کا جیّد ہونا ظاہر ہو گیا.ایک دوسرے مقام پر فرمایا. (السجدۃ:۲۵) یعنی ہم امام اُس وقت بناتے ہیں جب انسان احکامِ الہٰی پر ثابت قدم ہو جاوے اور ہماری آیات پر پُورا یقین رکھے.خیر جب ابراہیمؑ کے جیّد ہونے کو ظاہر کر دیا تو ارشاد ہؤا کہ مشرک اس عہد کے لائق نہیں.اِس سے معلوم ہؤا کہ آپ کی قوم میں ایسے لوگ بھی ہونے والے تھے.اِنّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا: میں تمہیں نمونہ اور مقتدا بنانے والاہوں.آپ نے اپنی اولاد کے بارے میں دریافت کیا تو ارشاد ہوا کہ مشرک اس عہد کے لائق نہیں.اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی قوم میں ایسے لوگ بھی ہونے والے تھے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۱؍ مارچ ۱۹۰۹ء)  

Page 228

 : بَیت اﷲ کو لوگوں کے لئے جھُنڈ در جھُنڈ آنے کی جگہ بنایا.(نور الدین صفحہ۲۵۰) مَثَا بَۃً:ایسا بنایا کہ یہاں لوگ آتے رہیںگے.ثُبَۃٌکہتے ہیں جماعت کو.ثائب ایک جماعت کو جو دوسری جماعت سے آ کر مِل جائے.یَثُبُّ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ.مَثَا بَۃًکے دوسرے معنے ثواب کی جگہ.یہاں دونوں معنے صحیح ہیں.عَھِدْنَآ:مضبوط وعدہ لیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) ً:جس مقام پر ابراہیمؑ نے نماز پڑھی اس درجہ کی تم فرماں برداری کرو اور عبادت کرو.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹) :کا مطلب یہ ہے کہ مکّہ معظّمہ کو بُت پرستی اور بُتوں سے پاک کر دو.(نور الدین صفحہ ۵۳) سُتھرا رکھو اِس میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے.(نور الدین صفحہ۲۵۰)    جب کہا ابراہیمؑ نے اے ربّ کر اِس شہر کو امن کا اور روزی دے اِس کے لوگوں کو میوے جو کوئی ان میں یقین لاوے اﷲ پر اور پچھلے دن پر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۲۰) :واقعی بَیت اﷲ امن کا گھر بنا کر 

Page 229

(العنکبوت:۶۸)(قریش:۵) چونکہ حضرت ابراہیمؑ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَسے سمجھ گئے تھے کہ یہاں کچھ شریر بھی ہوں گے اِس لئے عرض کیا کہ ْ ِ یعنی مومنوں کو رزقِ طیّب دے.اﷲ نے فرمایا.نہیں.ہم رحمن ہیں اِس لئے ہم کافر کو بھی روٹی دیں گے مگر دُنیا میں.مومن کی طرح آخرت میں بھی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) :یہ قید حضرت ابراہیمؑ نے پچھلے خوف سے لگائی کہ وہاں وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ کے جواب میں لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ فرمایا تھا مگر یہ قیاس غلط نکلا.فرمایا وَمَنْ کَفَرَفَاُ مَتِّعُہ‘ قَلِیْلًا کافر کو بھی رزق دوں گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۳۹،۴۴۰)    

Page 230

السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ :دعائیں سُنتا ہوں.دِلوں کے بھیدوں، ضرورتوں، اخلاص کو جانتا ہے.مَنَا سِکَنَا :طریقِ عبادت.تُبْ :رجوع برحمت کر.یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ:تم قرآن سنتے ہو.یہ بھی ابراہیمؑ کی دُعا کا اثر ہے.حِکْمَۃَکے معنی ہیں پکّی بات.عربوں نے اس کے معنے لئے ہیں جو بات انسان کو معزّز بنانے والی اور فصیح باتوں سے ہٹانے والی ہو ( پارہ ۱۰ رکوع ۳ میں اس کی تشریح ہے) اِن آیات میں شیعہ کا رَدّ بھی ہے کہ جو رسول آئے گا وہ تزکیہ نفوس کرے گا.گُنہ گاروں کو پاک انسان بنا دے گا مگر شیعہ کے عقائد کے مطابق آدم سے لیکر قیامت تک کوئی گناہ ایسا نہیں ہو سکتا جن کا اِرتکاب صحابہؓ نے نہ کیا ہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) رکوع ۱۵ میں حضرت ابراہیمؑ نے یہ دعائیں کیں:.رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًاملا کر ایک پھیرے میں ایک دعا.اب بھی سات طواف ہیں.وَ سَیَکْفِیْکَھُمُ اﷲُ(یہ پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی).(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ۴۴۰) حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے اِس مسجد (خانہ کعبہ) کی تعمیر کے وقت سات دعائیں کی ہیں:.اوّل: دوم: یعنی اے ہمارے ربّ اپنا ہی ہمیں فرمانبردار بنا دے اور ہماری اولاد سے ایک گروہ معلم الخیر تیرا فرمانبردار ہو اور دکھا ہمیں اپنی عبادت گاہیں اور طریقِ عبادت.سومؔ: (ابراھیم:۳۶)بچا لے مجھے اور میری اولاد کو کہ بُت پرستی کریں.چہارمؔ:اور رزق دے مکّہ والوں کو پھَلوں سے.پنجم :ؔؔ(ابراھیم:۳۸) کچھ لوگوں کے دِل اس شہر کی طرف جھُکا دے.ششم ؔ:وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا ان میں غظیم الشّان رسول بھیج.ہفتم ؔ: (ابراھیم:۳۶) اِس شہر کو امن والا بنا.اور قرآن کریم میں ان دعاؤں کے قبول ہونے کا ذکر آیاتِ ذیل میں ہے جو سات ہیں:

Page 231

اوّلؔ: (المآئدۃ:۹۸)اﷲ تعالیٰ نے کعبہ کو عزّت والا اور حُرمت والا بنایا.دومؔ: (البقرۃ: ۱۳۱)اور بے رَیب برگزیدہ کیا ہم نے اسے اِسی دُنیا میں اور بے رَیب آخرت میں سنوار والوں سے ہے.سوم:(البقرۃ:۱۲۶) سُتھرا رکھو اِس میرے گھر کو طواف کرنے والوں، اِعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے.اور فرمایاوَ ھُدًی لِّلنَّاسِ ہدایت کا مقام ہے لوگوں کے لئے.چہارمؔ: (قریش:۵)کھانا دیا ان کو بھُوک کے بعد.پنجم ؔ: (البقرۃ:۱۲۶)بَیت اﷲ کو لوگوں کیلئے جھُنڈ در جھُنڈ آنے کی جگہ بنایا.ششم ؔ:(الجمعۃ:۳)اﷲوہ ہے… جس نے بھیجا مکّہ والوں میں رسول انہی میں سے.پڑھتا ہے ان پر اﷲ کی آیتیں.پاک کرتا ہے انہیں اور سکھاتا ہے ان کو کتاب وحکمت.ہفتم ؔ:(اٰل عمران:۹۸) اور جو داخل ہؤا مکّہ میں ہؤا امن پانے والا.سات دعائیں حضرت ابراہیمؑ علیہ السّلام و برکاتہ‘ نے مانگیں اور ساتوں قبول ہوئیں.(نور الدین صفحہ ۲۴۹،۲۵۰) (ا لاٰیۃ)اِس وصیّت پر غور کر کے ہمیں اندازہ کرنا چاہیئے کہ ہم اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے اور کیا ارادہ رکھتے ہیں.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۲) اور جب اُٹھانے لگا ابراہیمؑ بنیادیں اس گھر کی اور اسمٰعیلؑ.اے ہمارے ربّ قبول کر ہم سے.تُو ہی ہے اصل سُنتا، جانتا.اے رَبّ ہمارے اور کرہم کو حکم بردار اپنا اور ہماری اولاد میں بھی ایک اُمّت حکم بردار اپنی اور بتا ہم کو دستور حج کرنے کے اور ہم کو معاف کر.تُو ہی ہے اصل معاف کرنے والا مہربان.اے رَبّ ہمارے اور اُٹھا ان میں ایک رسول انہیں میں کا.پڑھے ان پر تیری آیتیں اور سکھا وے ان کو کتاب اور پکّی باتیں اور ان کو سنوارے.تُو ہی ہے زبردست حکمت والا.

Page 232

اِن آیاتِ قُرآنی ( ۱۲۷ تا ۱۳۰) کو آیاتِ توریت سے تطبیق دی جاتی ہے.توریت میں لکھا ہے حضرت حق سُبحانہ، تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ سے آپ کے پلوٹھے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کی نسبت وعدہ فرمایا: ’’ مَیں نے تیری دعا اسمٰعیلؑ کے حق میں قبول کی.دیکھ مَیں اُسے برکت دوںگا اور اسے بُردمند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا اور اُس سے بارہ سردار پیدا ہوں گے اور اس سے بڑی قوم بناؤں گا.‘‘ کتب سابقہ کے ناظرین اور الہامی مضامین پر گہری نگاہ کرنے والے اگر انصاف سے دیکھیں تو یہ پیشگوئی صاف محمدؐ بن عبداﷲ بن اسمٰعیل بن ابراہیم کے حق میں ہے.اِس بشارت میں کئی امور غور طلب ہیں.اوّلؔ:.’’برکت دوںگا، بُردمند کروں گا، بہت بڑھاؤں گا‘‘ نہایت انصاف سے دیکھنے کو مجبور کرتے ہیں اور بڑی بلند آواز سے کہتے ہیں کہ اسمٰعیلی وعدوں کو جسمانی مت کہوں.صرف جسمانی وعدے میں برکت اور فضیلت نہیں بلکہ بالکل نہیں.وہ تو موت کے گہرے کنوئیں میں رہنے کا باعث ہے.منصفو! کیا اگر ابراہیم علیہ السلام کی اولاد بُت پرست، رہزن، چور، جاہل ، بدتہذیب، قمار باز، زانی، مکّار، بدکار ہی رہتی تو حضرت اسمٰعیلؑ کو کوئی عاقل کہہ سکتا کہ تُو بُرد مند ہؤا، تجھے برکت ملی، تجھے فضل عطا ہؤا ، تجھ سے بڑی قوم بنی.ہرگز نہیں.ہرگز نہیں.حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی اولاد میں ایک زبردست رسول پَیدا ہؤا جس نے اُس متفرّق گروہ کو ایک قوم بنایا.اِسی کے وسیلے سے وہ قوم بُردمند ہوئی اور اُسے یہا ںتک بڑھایا کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ کہہ کراَبدالآباد تک ہر مُلک اور ہر جنس کی آئندہ آنے والی نسلوں کو اُن کی ترقی کا ضمیمہ بنایا.فداہ ابی و امّی ، صلی اﷲ علیہ وسلم.دومؔ:.جو بشارات عہدِ جدید میں حواریوں اور اناجیل کے مصنّفوں نے مسیحؑ کی نسبت خیال کر کے مندرج کی ہیں وہ سب کی سب اَدنیٰ لگاؤ اور ابہام سے بڑھ کر کوئی وقعت نہیں رکھتیں.یہاں نہ صرف لگاؤ ہی لگاؤ بلکہ تصریح و توضیح موجود ہے کہ بنی اسمٰعیل ( قومِ عرب) فضیلت والے، برکت والے، بُردمند.امام قوم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہد برکت مہد میں ہوئے.سومؔ:.فضیلت اُسی وقت پوری فضیلت ہوتی ہے جب اپنے اقران و امثال پر ہو اور تمام عالَم شاہد ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے عرب اور حجاز والوں نے بنی اسرائیل پر کبھی علو حاصل نہیں کیا.متعصّب عیسائی نبیٔ عرب کی بشارات پر ہمیشہ اعتراض کرتے رہے ہیں جو یہودیوں کے

Page 233

اُن اعتراضوں سے کہ بشاراتِ مسیحؔپر انہوں نے کئے ہیں زیادہ زور آور نہیں ہیں چنانچہ اس بشارت پر یہ اعتراض کیا ہے ’’ اسحاقؑ کی نسبت روحانی وعدہ ہے اور اسمٰعیلؑ کی نسبت جسمانی ‘‘ اگرچہ اس کا جواب ابھی ہو چکا ہے اِلَّا مزید توضیح کے لئے کِسی قدر تفصیل کی جاتی ہے.ہم اسمٰعیلی اور اِسحاقی وعدوں کو بمقابلہ یک دگر تو رات سے جمع کر کے ناظرین با انصاف کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ان کے نورِ ایمان اور انصاف سے پوچھتے ہیں کہ کِس طرح سے وہی وعدہ اسمٰعیلؑ کے حق میں توجسمانی اور اسحٰقؑ کے رنگ میں رُوحانی ہو سکتا ہے اور چونکہ باری تعالیٰ کے وعدے ابراہیمؑ کے ساتھ دو طرح کے ہیں ایک عام طور پر ابراہیمؑ کی اولاد کے لئے اور ایک خاص طور پر اسمٰعیلؑ اور اسحٰقؑ کے لئے.اِس لئے قبل از مقابلہ ہم مشترکہ وعدے بیان کریں گے کیونکہ وہ وعدے جیسے اسحٰقؑ کے حق میں ہیں ویسے ہی اسمٰعیلؑ کے حق میں بھی ہیں.اگر اُن سے اسحٰقؑ کو ترجیح ہو سکے تو انہیں سے اسمٰعیلؑ کو بھی ہو سکتی ہے.اگر یہ وعدے روحانی ہیں تو اسحٰقؑ اور اسمٰعیلؑ دونوں کے لئے اور اگر جسمانی ہیں تو بھی دونوں کے لئے.اور اگر عام ہیں.رُوحانی ہوں یا جسمانی.تو بھی دونوں کیلئے.مُشترکہ وعدے ۱.’’جب ابراہیمؑ کنعان میں پہنچا تو خدا نے کہا یہ زمین مَیں تیری اولاد کو دوں گا.‘‘(پیدائش باب ۱۲:۷) ۲.’’ جب ابراہیمؑ لُوط سے جُدا ہوئے خدا نے کہا آنکھیں کھول چاروں طرف کی زمین تیری اولاد کو دوں گا.‘‘ (پیدائش ۱۳ باب۱۴ تا۱۶) ۳.’’ مصر سے فرات تک کی زمین مَیں تیری اولا کو دوں گا.‘‘ (پیدائش باب۱۵:۱۸) ۴.’’ تیری اولاد کو وسیع اور بے شمار کروں گا.‘‘ (پیدائش باب۱۵:۵) ۵.’’جب ابراہیمؑ ننانوے برس کے ہوئے خدا نے وعدہ کیا کہ تجھے زیادہ سے زیادہ کروں گا.تجھ سے قومیں پیدا ہوں گی اور بادشاہ ہوں گے اور کنعان کی زمین بوراثت دائمی تجھ کو دوں گا.‘‘ (پیدائش ۱۷ باب ۶تا۸) یہ وہ وعدے ہیں جو ابراہیمؑ کی اولاد کے لئے مشترکہ ہیں اور یہ خدا کے سچّے وعدے دونوں بھائیوں اسمٰعیلؑ اور اسحٰقؑ کے حق میں ظاہر ہوئے.کنعان کا ملک ایک زمانے تک بنی اسحٰقؑ کے قبضے میں رہا پھر تیرہ سَو برس سے آج تک بنی اسمٰعیلؑ یا اُن کے خادموں کے قبضے میں ہے.ایسا ہی وہ مُلک جو لُوط کے جُدا ہوتے وقت ابراہیمؑ نے دیکھا اور ایسے ہی مصر سے فرات تک کا ملک

Page 234

دونوں صاحبوں کو ملا.اسمٰعیلؑ اور اسحٰقؑ کی اولا د بہت بڑھی.اُن سے قومیں پَیدا ہوئیں.بادشاہ نکلے.کنعان کے مالک ہوئے.کوئی تخصیص بنی اسحٰقؑ کے لئے اس میں نہیں بلکہ زبور ۱۵:۹ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسحٰقؑ سے جسمانی وعدہ تھا کیونکہ لکھا ہے کہ ’’ عہد جو ابراہیمؑ سے ہؤا اور اسحٰقؑ سے اُس کی قَسم کھائی اور بنی اسرائیل سے دائمی باندھا گیا اور یعقوبؑ سے بطور قانون کے مقرر ہؤا وہ کنعان کی زمین دینے کا وعدہ تھا.‘‘ خاص خاص مگر ہم معنی وَعدوں کا بیان پیدائش باب ۱۷.۱۹ خاتون سارہ آپ کی اولاد بیشمار ہو گی.ً ً ۱۶.۱۰ خاتون ہاجرہ آپ کی اولاد بیشمار ہو گی.ً ً ۲۵.۱۱ آپ کے فرزند اسحٰقؑ کو برکت دی اﷲ تعالیٰ نے.ً ً ۱۷.۲۰ آپ کے فرزند اسمٰعیلؑ کو برکت دی اﷲ تعالیٰ نے.ً ً ۲۱.۱ آپ کے دَرد و غم کو سُنا اﷲ نے.ً ً ۱۶.۱۱ آپ کے دَرد و غم کو سُنا اﷲ نے ً ً ۲۶.۲۴ آپ کے فرزند کے ساتھ خدا تھا.ً ً ۲۱.۲۰ آپ کے فرزند کے ساتھ خدا تھا.ً ً ۱۰.۲۵ یہ تقسیم اﷲ تعالیٰ نے زمانۂ یقطان میں کر دی تھی.ً ً ۱۷.۸ آپ کی اولاد کو زمینِ کنعان دی گئی.ً ً ۱۵.۱۸ آپ کی اولاد کو زمین عرب عنایت ہوئی.پیدائش باب ۱۷.۱۹ آپ کے فرزند کا اﷲ تعالیٰ نے نام رکھا.ً ً ۱۷.۱۱ آپ کے فرزند کا اﷲ تعالیٰ نے نام رکھا.ً ً ۱۷.۱۶ آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہوا.ً ً ۱۷.۲۰ آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہؤا.ً ً ۲۵.۲۶ آپ کا فرزند بادشاہوں اور قوموں کا باپ ہؤا.ً ً ۱۵.۴ آپ کا فرزند پلوٹھا اور وعدۂ وراثت اور تسلّی کا پہلا مصداق تھا.ً ً ۱۶.۱۲ سارہ.ہاجرہ آپ کو برکت دی گئی اور آپ کو بتایا گیا کہ وہ عربی ہو گا.

Page 235

اُردو ترجموں میں لفظ وحشی اور جنگلی لکھا ہے جو ٹھیک لفظ عربی یا اُمّی کا مترادف ہے ( دیکھیں تو اہلِ کتاب اسے کیونکر گوارا کر سکتے ہیں ) پیدائش ۱۷باب ۱۵ آپ کے فرزند کے باعث آپ سرے سے سرہ ہوئیں.پیدائش ۱۷باب۱۵ آپ کے فرزند کے باعث آپ کے شوہر کا نام ابرام سے ابرہام ہؤا.(فصل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ ۲۰تا ۲۴) دعاؤں سے کبھی گھبرانا نہیں چاہا.ان کے نتائج عرصہ دراز کے بعد بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں لیکن مومن کبھی تھکتا نہیں.قرآن شریف میں دعاؤں کے نمونے موجود ہیں ان میں سے ایک ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہے وہ اپنی اولاد کے لئے کیا خواہش کرتے ہیں.رَبَّنَا وَ ابْعَث ْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ اِس دعاپر غور کرو حضرت ابراہیمؑ کی دعا روحانی خواہشوں اور خدا تعالیٰ کے ساتھ آپ کے تعلّقات بنی نوع انسان کی بھلائی کے جذبات کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے.وہ دعا مانگ سکتے تھے کہ میری اولاد کو بھی بادشاہ بنا دے مگر وہ کیا کہتے ہیں.اے ہمارے رَبّ میری اولاد میں انہیں میں کا ایک رسول مبعوث فرما.اس کا کام کیا ہو؟ وہ ان پر تیری آیات تلاوت کرے او راس قدر قوّتِ قدسی رکھتا ہو کہ وہ ان کو پاک و مطہّر کرے اور ان کو کتاب اﷲ کے حقائق و حِکم سے آگاہ کرے.اسرارِ شریعت ان پر کھولے.پس یہ ایسی عظیم الشّان دُعا ہے کہ کوئی دعا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور ابتدائے آفرینش سے جن لوگوں کے حالاتِ زندگی ہمیں مِل سکتے ہیں.کسی کی زندگی میں یہ دعا پائی نہیں جاتی.حضرت ابراہیمؑ کی عالی ہمّتی کا اِس سے خوب پتہ چلتا ہے.پھر اِس دعا کا نتیجہ کیا ہؤا اور کب ہؤا؟عرصہ دراز کے بعد اس دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا انسان پَیدا ہؤا اور وہ دُنیا کے لئے ہادی اور مصلح ٹھہرا.قیامت تک رسول ہؤا اور پھر وہ کتاب لایا جس کا نام قرآن ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی رُشد،نور اور شفا نہیں ہے.(الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۴ء صفحہ ۴) یہ ایک دعا ہے جو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے جنابِ ربّ العزّت اور ربّ العالمین اﷲ جلّ شانہ، کے حضور مانگی ہے.اِس سے ظاہر ہے کہ اِس دُنیا میں اِسلام کے آنے اور اس کے ثمرات کے ظہور کے لئے اﷲ تعالیٰ کے فضل سے حضرت ابراہیمؑ کے ذریعہ ایک دعا کی تقریب پَیدا کر دی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تُو ہمارا ربّ اور مربّی اورمُحسن ہے.تیری عالمگیر ربوبیّت سے جیسے جسم کے قوٰی کی پرورش ہولتی ہے.عمدہ اور اعلیٰ اخلاق سے انسان مزیّن ہوتا ہے ویسے ہی ہمارے رُوح کی بھی

Page 236

پرورش فرما اور اعتقادات کے اعلیٰ مدارج پر پہنچا.اے اﷲ اپنی ربوبیّت کے شان سے ایک رسول ان میں بھیجیو کہمِنْھُمْ یعنی انہی میں کا ہو اور اس کا کام یہ ہو کہ وہ صرف تیری ( اپنی نہیں) باتیں پڑھے اور پڑھائے اور صرف یہی نہیں بلکہ ان کو سمجھا اور سکھلا بھی دے.پھر اِس پر بس نہ کیجیوبلکہ ایسی طاقت، جذب اور کشش بھی اسے دیجئو جس سے لوگ اس تعلیم پر کاربند ہو کر مزکّی اور مطہّر بن جاویں.تیرے نام کی اس سے عزّت ہوتی ہے کیونکہ تُو عزیز ہے اور تیری باتیں حق اور حکمت سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.اس دُعا کی قبولیّت کِس طرح سے ہوئی وہ تم لوگ جانتے ہو اور یہ صرف اس دعا ہی کے ثمرات ہیں جس سے ہم فائدے اُٹھاتے ہیں.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء) حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے سات دعائیں کیں:.۱.رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ ۲.وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَآ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ ۳.وَاَرِنَا مَنَا سِکَنَا ۴.وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَّکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۵.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ یٰتِکَ ۶.وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَُۃَ ۷.وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.۱.اے ہمارے رَبّ ہم کو اپنا فرمانبردار بنا لے.۲.ہماری اولاد میں سے ایک فرمانبردار جماعت جو دوسرے کے لئے امام ہو، بنا.۳.ہمیں اپنی عبادت کے طریقے سکھا.اِس میں تنبیہہ ہے اِس بات کی طرف کہ کوئی مَن گھڑت طریق مقبول نہیں ہے.۴.اور ہماری فرمانبرداری میں جو غلطیاں یا کمزوریاں ظاہر ہوں ان سے در گذر فرما.۵.۶.۷.اور پھر ان میں ایک رسول مبعوث کر جو ان کو کتاب اور پُختہ باتیں سکھائے اور ان کا تزکیہ کر.(تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر ۹ صفحہ ۳۵۶)   

Page 237

دُنیا کے لوگ عزّت چاہتے ہیں.اولاد چاہتے ہیں.کامیابی چاہتے ہیں.ذکرِخیر چاہتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نے ان تمام نعمتوں سے ابراہیمؑ کو متمتّع کیا.ان کی اولاد دیکھو کہ کوئی حساب نہیں.عظمت کا یہ حال ہے کہ مسلمان، یہودی ، صابی، پارسی، عیسائی باوجود بہت سے اِختلاف کے ان کو یکساں معزّز و مکرم مانتے ہیں افسوس کہ بعض لوگوں نے باوجود صِدِّیْقًا نَبِیًّا نصِّصریح کے بعض روایات کی بناپر انہیں جھُوٹ بولنے کا الزام دیا ہے.تورات میں ہے کہ جو تیری بے اَدبی کرے گا مَیں اُسے ذلیل کروں گا.جو تیرے لئے برکت مانگے گا مَیں اسے برکت دوں گا اِسی لئیاَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ پڑھنے کی ہدایت کی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے عدیم النظیرانسان کی مِلّت سے کون.یَرْغَب: بے رغبتی کرتا ہے.مِلَّۃِ: تعالیٰ کوئی شریعت کِسی نبی کی معرفت یا نبیوں کی معرفت قوم کو دیتا ہے جس کے ذریعے سے اس قوم کے آگے خدا کے قریب پہنچ سکیں تو اس کا نام مِلَّۃہے.دین و مِلّت میں یہ فرق ہے کہ دین کی نسبت اﷲ اور لوگوں کی نسبت ہو سکتی ہے یعنی دین اﷲ مگر ملّت اﷲ نہیں کہتے.سَفِہَ:جو کپڑا بُرا بنا ہؤا ہو اُسے سفیہ کہتے ہیں.ثَوْبٌ سَفِیْہٌ.ایسے ہی جو مہار خراب ہو اسے بھی سفیہ کہتے ہیں.زمَامٌ سَفِیْہٌٌ.غرض سفیہ کا اطلاق اوچھے ، کم عقل اور اُس شخص پر ہوتا ہے جو دین و دُنیا میں ناعاقبت اندیشی سے کام لے.لَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَھُمْ قرآن شریف میں آیا.ابراہیمؑ میں یہ خوبی بدرجہ کمال تھی.وہ یہ ہے کہ جب اﷲ نے اُسے فرمایااَسْلِمْ فرماں بردار بن جا تو اس نے پوچھا نہیں کہ کِس بات میں.بلکہ کہہ دیا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَمَیں پہلے فرمانبردار ہو چکا کیونکہ مَیں یقین رکھتا ہوں کہ میرا رَبّ جو کچھ کہے گا وہ ربوبیّت کی شان سے کہے گا اور اس حکم میں میری ہی تربیت منظور ہو گی.پھر یہ کہ اپنی جان تک ہی اس تعلیم کو محدود نہیں رکھا بلکہ اپنی اولاد کو بھی اسی مِلّت کی وصیّت کی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) دیکھو خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بطور نمونہ پیش کیا ہے اور فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السّلام کے دین کو کوئی نہیں چھوڑ سکتا مگر وہی جو سفیہ ہو.ابراہیم علیہ السّلام کو خدا نے برگزیدہ کیا.یہ سنوار والے لوگوں میں سے تھا.تمام محبتوں ، عداوتوں اور تمام افعال میں اَدنیٰ کو اعلیٰ پر قربان کرنے کا لحاظ رکھو پھر تمہیں ابراہیم علیہ السّلام سا انعام دیں گے.فرمانبرداروں کی راہ اختیار کرو.مَیں تو حضرت صاحب کی مجلس میں بھی قربانی ہی سیکھتا رہتا تھا.جب وہ فرماتے تو مَیںیہ دیکھتا تھا کہ آیا یہ عیب مجھ میں

Page 238

تو نہیں؟ (بدر ۲۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۸) : ہر ایک سلیم الفِطرت انسان کے قلب میں اﷲ تعالیٰ نے یہ ایک بات محبّت کے طور پر رکھ دی ہے کہ وہ ایک مجمع کے درمیان معزّز ہو جاوے.گھر میں اپنے بزرگوں کی کوئی خلاف ورزی اِس لئے نہیں کی جاتی کہ گھر میںذلیل نہ ہوں.ہر ایک دُنیا دار کو دیکھتے ہیں کہ محلّہ داری میں ایسے کام کرتا ہے جن سے وہ باوقعت انسان سمجھا جاوے.شہروں کے رہنے والے بھی ہتک اور ذِلّت نہیں چاہتے.پھر اس مجمع میں جہاں اوّلین و آخرین جمع ہوں گے.اس مقام پر جہاں انبیاء و اَولیاء موجود ہوں گے وہاں کی ذِلّت کون عاقبت اندیش سلیم الفطرت گوارا کر سکتا ہے کیونکہ عزّت و وقعت کی ایک خواہش ہے جو انسان کی فطرت میں موجود ہے.اِس آیت میں اﷲ تعالیٰ ایک نظیر کے ساتھ اس خواہش اور اس قاعدہ کو جس کے ذریعہ انسان معزّز ہو سکتا ہے بیان کرتا ہے.نظیر کے طور پر جس شخص کا ذکر یہاں کیا گیا ہے اُس کا نام ہے ابراہیم علیہ السّلام.اﷲ تعالیٰ نے ابراہیمؑ کو کیسی عزّت دی.یہ اس نظّارہ سے معلوم ہو سکتا ہے جو خدا نے فرمایا  ہم نے اس کو برگزیدہ کیا دُنیا میں اور آخرت میں بھی سنوار والوں سے ہو گا.اﷲ تعالیٰ کے مکالمات کا شرف رکھنے والے، شریعت کے لانے والے، ہادی و رہبر، بادشاہ اور اسی قِسم کے عظیم الشّان لوگ ابراہیم علیہ السّلام کی نسل سے ہوئے.یہ ابراہیم علیہ السّلام کی اولاد کیلئے نتیجہ دکھایا ہے.حضرت موسٰیؑ ،حضرت داؤدؑ ، حضرت مسیح علیہ السّلام سب حضرت ابراہیمؑ کی نسل سے تھے اور حضرت اسمٰعیلؑ اور ہمارے سَیّد و مولیٰ ہادیٔ کامل صلی اﷲ علیہ وسلم اسی کی اولاد سے ہیں.ایک اَور جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ابراہیمؑ اور اس کی اولاد کو بہت بڑا ملک دیا مگر غور طلب امر یہ ہے کہ جَڑ اِس بات کی کیا ہے ؟ کیا معنی ؟ وہ کیا بات ہے جس سے وہ انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور برگزیدہ ہؤا اور معزّز ٹھہرایا گیا.قرآن کریم میں اِس بات کا ذکر ہوتا ہے جہاں فرمایا ہے  جب ابراہیمؑ کے رَبّ نے اس کو حکم دیا کہ تُو فرمانبردار بن جا تو حضرت ابراہیمؑ عرض کرتے ہیں مَیں ربّ العٰلمین کافرمانبردار ہو چکا.کوئی حکم نہیں پوچھا کہ کس کا حکم فرماتے ہو.کسی قِسم کا تامل نہیں کیا.فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ ہی وہ بول اُٹھے کہ فرمانبردار ہو گیا.ذرا بھی مضائقہ نہیں کیا اور نہیں خیال کیا کہ عزّت پر یا مال پر صَدمہ اُٹھانا پڑے گا یااحباب کی تکالیف دیکھنی پڑیں گی.کچھ بھی نہ پوچھا.فرمانبرداری کے حکم کے ساتھ اقرار کر لیا کہ..یہ ہے

Page 239

وہ اصل جو انسان کو خدا تعالیٰ کے حضور برگزیدہ اور معزّز بنا دیتی ہیکہ وہ خدا تعالیٰ کا سچّا فرماںبردار ہو جائے.فرمانبرداری کا معیار ہے.ایک طرف انسان کے نفسانی جذبات کچھ چاہتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احکام کچھ اَور.اَب دیکھیں کہ آیا خدا تعالیٰ کے احکام کو انسان مقدّم کرتا ہے یا اپنے نفسانی اغراض کو.اسی طرح رسم و رواج، عادات، کسی کا دبا,، حسب، جاہ و رعایت قانون قومی ایک طرف کھینچتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ کا حکم ایک طرف.اس وقت دیکھنا چاہیئے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کی طرف جھُکتا ہے یا اس پر دوسرے امور کو ترجیح دیتا ہے.اَب اگر اﷲ تعالیٰ کے احکام کی قدر کرتا اور اُن کو مقدّم کر لیتا ہے تو یہی خدا کی فرمانبرداری ہے… حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خود بھی خدا تعالیٰ کی اطاعت کی اور انہی باتوں کی وصیّت اپنی اولاد کو بھی کی اور یعقوبؑ نے بھی یہی وصیّت کی کہ اے میری اولاد اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک عجیب دین کو پسند کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر وقت فرمانبرداری میں گزارو.چونکہ موت کا کوئی وقت معلوم نہیں ہے اِسی لئے ہر وقت فرمانبردار ہوتا کہ ایسی حالت میں موت آوے کہ تم فرمانبردار ہو.میری تحقیقات میں یہی بات آئی ہے کہ سچّی تبدیلی کر کے اﷲ تعالیٰ سے ہدایت کی دعا کرے.(الحکم ۲۴؍مئی ۱۹۰۱ء) اِن آیتوں میں ان کلماتِ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ ایک شخص کی راہ پر چلنے کی ہدایت فرماتا ہے اور وہ انسان اس قِسم کا ہے جس کو ہر مذہب و مِلّت کے لوگ عموماًیا غالباً عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ کون؟ ابوالانبیاء.حنفاء کا باپ.ابراہیم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام.یہ ابراہیمؑ وہ ہے جس کی نسبت اس سے پہلے فرمایا وَاِذْ ابْتَلٰی ابْرٰاھٖمَ رَبَّۂ بِکَلِمٰتٍ فَاَتْمَّھُنَّکہ جب ابراھیم کو اس کے ربّ نے چند باتوں کے بدلے انعام دینا چاہا تو اُس نے اس کو پُورا کر دکھایا.اﷲ تعالیٰ جب انسان کو سچّے علوم عطا کرتا ہے اور اس کا ان علوم کے مطابق عمل درآمد ہو پھر اس میں قوّتِ مقناطیسی پیدا ہو جاتی ہے اور نیکیوں کا نمونہ ہو کر دوسروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے.یہ درجہ اس کو تب ملتا ہے جب وہ اﷲ تعالیٰ کا وفادار بندہ ہو اور اس کی فرمانبرداری میں ایسا ثابت قدم اور مستقل مزاج ہو کہ رنج میں راحت میں، عُسر میں یُسر میں ، باساء میں ضرّاء میں ، غرض ہر حالت میں قدم آگے بڑھانے والا ہو اور اﷲ جلّ شانہ، کی وفاداری میں چُست ہو.اس کو حاجتیں پیش آتی ہیں مگر وہ اس کے ایمان کو ہر حال میں بڑھانے والی ہوتی ہیں کیونکہ بعض وقت حاجت پیش آتی ہے تو دعا کا دروازہ اس پر کُھلتا ہے اور توجّہ اِلی اﷲ اور تضرّع اِلی اﷲ کے دروازے اُس پر کُھلتے ہیں اور اِس طرح

Page 240

پر وہ حاجتیں مال و جان کی ہوں عزّت و آبرو کی ہوں.غرض دُنیا کی ہوں یاد ین کی اس کے تقرّب اِلی اﷲ کا باعث ہو جاتی ہیں کیونکہ جب وہ دعائیں کرتا ہے اور ایک سوزورِقّت اور دل گداز طبیعت سے باب اﷲ پر گِرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بابِ شکر اُس پر کُھلتا ہے اور پھر وہ سجداتِ شکر بجا لا کر از دیا دِ نعمت کا وارث ہوتا ہے جو ثمراتِ شکر میں ہیں اور اگر کسی وقت بظاہر ناکامی ہوتی ہے تو پھر صبر کے دروازے اس پر کُھلتے ہیں اور رضا بالقضا ء کے ثمرات لینے کو تیار ہوتا ہے اِسی طرح یہ حاجتیں جب کسی بدبخت انسان کو آتی ہیںاور وہ مالی، جانی یا اَور مشکلات میں مُبتلا ہوتا ہے تو یہ حاجتیں اَور بھی اس کی اور مہجوری کا باعث ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ بیقرار مُضطرب ہو کر قلق کرتا اور ناامید اور مایوس ہو کر مخلوق کے دروازہ پر گِرتا ہے اس وقت اﷲ تعالیٰ سے ایسا بیگانہ اور ناآشنا ہوتا ہے کہ ہر قِسم کے فریب و دغا سے کام لینا چاہتا ہے اگر کبھی کامیاب ہو جائے تو اس کو اﷲ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے ذکر اور اس کی حَمد و ستائش کا موقع نہیں ملتا بلکہ وہ اپنی کرتُوتوں اور فریب و دغا اور چالبازیوں کی تعریف کرتا اور شیخی اور تکبرمیں ترقّی کرتا اور اپنی حیل و تجاویز پر عجب و ناز کرتا ہے.اگر ناکام ہوتا ہے تو رضا بالقضاء کے بدلے اس کی مقادیر کو کو ستا اور بُری نگاہ سے دیکھتا اور اپنے ربّ کا شکوہ کرتا ہے.غرض یہ حاجتیں تو سب کو ہیں اور انبیاء اولیاء و صدّیقوں اور تمام مُنعَم علیہ گروہ کیلئے بھی مقدّر ہوتی ہیں مگر سعید الفِطرت کیلئے وہ تقرّب اِلی اﷲ کا باعث ہو جاتیں اور اس کو مزید انعامات کا وارث بنا دیتی ہیں اور شقّی مُضطرب ہو کر قلق کرتا ہے اور ناکام ہو کر سخط علی اﷲ کر بیٹھتا ہے کامیابی پر وہ مُبتلا فی الشِّرک ہو جاتے ہیں اور ناکامی پر مایوس.مشکلات اور حوائج کیوں آتے ہیں.ان میں باریک در باریک مصالح الہٰیہ ہوتے ہیں کیونکہ مشکلات میں وسائط کا مہیّا کرنا تو ضروری ہوتا ہے.اِس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ (النّساء:۸۶) کا ثواب لینا بھی کیسی نعمتِ الہٰی ہے اور پھر ان میں حکمت ہوتی ہے کہ ان خدمات کے ثمرات مساعی جمیلہ ان کی فِکر اور محنت پر اﷲ تعالیٰ کو انعام دینا منظور ہوتا ہے اور اِس طرح پر نہ سننِ الہٰی باطل ہوتے ہیں اور نہ سلسلہ علمِ ظاہری کا باطل ہوتا ہے.غرض سچّا اور پکّا مومن وہ ہوتا ہے جیسا کہ حضرت امام نے شرائطِ بیعت میں لکھا ہے کہ رنج میں ، راحت میں، عُسرمیں، یُسر میں قدم آگے بڑھا وے اِس کا مطلب یہ ہے کہ جب ان امور کا پیش آنا ضروری ہے تو ہر ایک حالت میں فرمانبردار انسان کو چاہیئے کہ ترقّی کرتا رہے اور دعاؤں کی طرف توجّہ کرے تا کامیابی کی راہیں اسے مِل جائیں اور یہ ساری باتیں ابراہیمی مِلّت کے اختیار کرنے سے

Page 241

پَیدا ہوتی ہیں.ابراہیمی مِلّت کیا ہے؟ یہی کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو کہا اَسْلِمْ تُوفرمانبردار ہو جا.انہوں نے کچھ نہیں پُوچھا یہی کہا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.اِسلام کسی دعوٰی کا نام نہیں بلکہ اسلام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کر کے سچّا نمونہ ہو.صلح و آشتی سے کام لے.فرمانبردار ہو.سارے اعضاء قلب، زبان، جوارح، اعمال و اموال انقیادِ الہٰی میں لگ جائیں.مُنہ سے مسلمان کہلا لینا آسان ہے.شرک، حرص ، طمع اور جھُوٹ سے گریز نہیں.زنا ،چوری، غفلت اور کینہ ، ایذاء رسانی سے دریغ نہیں.پھر کہتا ہے مَیں فرمانبردار ہوں.یہ دعوٰی غلط ہے.کیسا عجیب زمانہ تھا جب یہ دعوٰی کہ نَحْنُ لَہ‘ مُسْلِمُوْنَ.نَحْنُ لَہ‘عَابِدُوْنَ عَلٰی رؤُوْسُ الْاَشْھَادکئے جاتے تھے.ایسے پاک مدعیوں کی طرح مومن بننا چاہیئے جن کی تصدیق میں خدا نے بھی فرمایا کہ ہاں سچ کہتے ہیں کہ ہم اﷲ کے مخلص عابد ہیں.مومن کو اَسْلِمْ کہنے کے ساتھ ہی اَسْلَمْتُ کہنے کے لئے تیار رہنا چاہیئے.یہی نکتہ معرفت کا ہے جو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے فَرِحُوْا بِمَاعِنْدَھُمْ مِنَ الْعِلْمِ (المؤمن:۸۴)کے مصداق ہو جاتے ہیں… مَیں پھر کہتا ہوں کہ ملّتِ ابراہیمؑ بڑی عجیب راحت بخش چیز ہے.وہ ملّت و سیرت کیا ہے؟ اَسْلِمْ فرمانبردار قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.پھر اس مِلّت اور سیرت کو چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے شفا بخش رحمت اور نُورپایا تھا اِس لئے نہ صرف اپنے ہی لئے اس کو پسند کیا بلکہ وَصّٰی بِھَا اِبْرَھٖیْمُاِسی سیرت اور مِلّت کی ابراہیمؑ نے اپنی اولاد کو وصیّت کی.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۴) حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے عمل درآمد اور ان کی تعلیم کا خلاصہ قرآن شریف نے اِن آیات میں بیان فرمایا ہے کہ جیسا اس کے رَبّ نے اُسے کہا اَسْلِمْ تُوفرمانبردار ہو جا تو ابراہیمؑ نے کوئی سوال کسی قِسم کا نہیں کیا اور نہ کوئی کیفیّت دریافت کی کہ مَیں کِس امر میں فرمانبرداری اختیار کروں بلکہ ہر ایک امر کے لئے خواہ وہ کِسی رنگ میں دیا جائے اپنی گردن کو آگے رکھ دیا اور جواب میں کہا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْن کہتے ہیں مَیں تو ربّ العٰلمین کا تابعدار ہو چکا.ابراہیم علیہ السّلام کی یہی فرمانبرداری اپنے رَبّ کے لئے تھی جس نے اُسے خدا کی نظروں میں برگزیدہ بنا دیا.وہ لوگ جو ابراہیمؑ کا دین یعنی ہر طرح اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنا اختیار نہیں کرتے غلطی کرتے ہیں اور اِسی لئے اﷲ تعالیٰ ان کو سفیہ قرار دیتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اسے دُنیا میں بھی برگزیدہ کیا.پس وہ لوگ جو کہ دُنیا میں ترقّی کرنا چاہتے ہیں وہ غور کریں کہ خدا کی فرمانبرداری سے وہ ابراہیمی مراتب حاصل کر سکتے ہیں.

Page 242

ہر ایک قِسم کی عزّت ابراہیم علیہ السّلام کو حاصل ہے اور یہ سب کچھ اَسْلَمْتُ کا نتیجہ ہے…یہ ایک خطرناک مرض ہے کہ بعض لوگ مامورین کے انذار اور عدمِ انذار کی پرواہ نہیں کرتے.اُن کو اپنے عِلم پر ناز اور تکبّر ہوتا ہے اور کہتے ہیں کہ کتابِ الہٰی ہمارے پاس بھی موجود ہے.ہم کو بھی نیکی بدی کا عِلم ہے.یہ کونسی نئی بات بتانے آیا ہے کہ ہم اس پر ایمان لاویں.اِن کم بختوں کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہود کے پاس تو تورات موجود تھی.اس پر وہ عمل در آمد بھی رکھتے تھے.پھر ان میں بڑے بڑے عالم، زاہد اور عابد موجود تھے.پھر وہ کیوں مردُود ہو گئے.اِس کا باعث یہی تھا کہ تکبّر کرتے تھے.اپنے علم پر نازاں تھے اور وہ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اَسْلِمْکے لفظ سے چاہتا تھا ان میں نہ تھی.ابراہیمؑ کی طرزِ اطاعت جو کہ خدا تعالیٰ اَسْلِمْکے لفظ سے چاہتا تھا ان میں نہ تھی.ابراہیم ؑ کی طرزِ اطاعت ترک کر دی.یہی بات تھی کہ جس نے ان کو مسیح علیہ السّلام اور اس رحمۃٌ للعالمین نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ماننے سے جس سے توحید کا چشمہ جاری ہے باز رکھا… ابراہیم علیہ السّلام اسلام کی وجہ سے دُنیا میں معزّز و مکرّم ہوئے… مسلمان بنو.اَسْلِمْ کی آواز پر اَسْلَمْتُ کا جواب عمل سے دو.دوست احباب رشتہ داروں اور عزیزوں کو نصیحت کرو کہ اسلام اپنے عمل سے دکھاؤ تمہیں خدا تعالیٰ نے بہت عمدہ موقع دیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے اپنے وقت پر آیا جو راستبازوں کا پورا نمونہ ہے اور تم میں موجود ہے وہ تم سے بھی چاہتا ہے کہ تم دین کو دُنیا پر مقدّم کرو.اس پر عمل کرو گے تو ناکام نہ رہو گے.مومن کبھی ناشاد نہیں رہ سکتا بلکہ سَدا ہی بہشت میں رہتا ہے.اس کو دو بہشت ملتے ہیں دُنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.(الحکم ۲۲؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ ۷،۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۶) جو قربانی کرتا ہے اﷲ اس پر خاص فضل کرتا ہے.اﷲ اس کا ولی بن جاتا ہے پھر اسے محبّت کا مظہر بناتا ہے.پھر اﷲ انہیں عبودیّت بخشتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں لامحدود ترقیاں ہو سکتی ہیں چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو بھی کہا گیا اَسْلِمْ تو انہوں نے کہا اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.خیر جب یہ عبودیّت کا تعلق مستحکم ہو جاتا ہے تو پھر اس میں عصمت پیدا ہوتی ہے اور خدا اسے تبلیغ کا موقع دیتا ہے پھر اس کو ایک قِسم کی دھت ہو جاتی ہے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے.اس میں ایک ہمدردی پیدا ہوتی ہے اور وہ قول موجّہ سے لوگوں کو امر بالمعروف کرتا ہے پھر وقت آتا ہے جب حکم ہوتا ہے کہ لوگوں سے یُوں کہو.جُوں جُوں ترقّی کرتا جاتا ہے خدا کا فضل اور درجات بڑھتے جاتے ہیں.(بدر ۲۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ۸) رشک(ِغِبْطَۃ)تمام انسانی ترقّیات کی جَڑ ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رشک کرنا ہے تو ابراہیمؑ

Page 243

سے کرو.دیکھو اُس نے اپنے اخلاص و وفا کے ذریعے کیسے کیسے اعلیٰ مدارج پائے.ابراہیمؑ کی مِلّت سے کون بے رغبت ہو سکتا ہے مگر وہی جس کی دینی و دُنیوی عقل کم ہو.اُس کی مِلّت کیا تھی؟ بس حنیف ہونا.حنیف کہتے ہیں ہر امر میں وسطی راہ اختیار کرنے والے کو.عربی زبان میں جس کی ٹانگیں ٹیڑھی ہوں اُسے احنف کہتے ہیں.اِس واسطے حنیف کے معنے میں بعض لوگوں کو دھوکا ہوا ہے حالانکہ ایسے شخص کو احنف بطور دعا وفال نیک کہتے ہیں.ہمارے ملک میں ہرچہ گیر د علی علّت شود کے مریض سیدھے کے معنے بھی اُلٹے ہی لیتے ہیں.جس آدمی کو سیدھا کہا جاوے گویا اس کے یہ معنے ہیں کہ تم بڑے بیوقوف ہو.ابراہیمؑ کی راہ یہ ہے کہ افراط تفریط سے بچے رہنا.کسی کی طرف بالکل ہی نہ جھُکنا بلکہ دین و دُنیا دونوں کو اپنے اپنے درجہ کے مطابق رکھنا چنانچہ   (البقرۃ:۲۰۲) ایک ہی دعا ہے.رابعہ بصری ایک عورت گزری ہے ایک دن کسی شخص نے اُن کے سامنے دُنیا کی بہت سی مذمّت کی.آپ نے توجّہ نہ فرمائی لیکن جب دوسرے دن پھر تیسرے دن بھی یُونہی کہا تو آپ نے فرمایا اس کو ہماری مجلس سے نکال دو کیونکہ یہ مجھے کوئی بڑا دُنیا پرست معلوم ہوتا ہے جبھی تو اِس کا بار بار ذکر کرتا ہے.پس ایک وسطی راہ اختیار کرنا جس میں افراط تفریط نہ ہو ابراہیمی ملّت ہے مومن کو یہی راہ اختیار کرنا چاہیئے اور مَیں خدا کی قَسم کھا کر شہادت دیتا ہوں کہ ابراہیمؑ کی چال اختیار کرنے سے نہ تو غریب الوطنی ستاتی ہے نہ کوئی اَور حاجت.نہ انسان دُنیا میں ذلیل ہوتا ہے نہ آخرت میں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے. وہ دُنیا میں بھی برگزیدہ لوگوں سے تھا اور آخرت میں بھی.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ دُنیا میں کیسی ذِلّت ہو آخرت میں عزّت ہو اور بعض آخرت میں کسی عزّت کے طالب نہیں یا تھوڑی چیز پر اپنا خوش ہو جانا بیان کرتے چنانچہ ایک دفعہ مَیں نے ایک کتاب میں پڑھا کہ کوئی بزرگ لکھتے ہیں کہ ہمیں تو بہشت میں پھُونس کا مکان کافی ہے اور دُنیا کے متعلق لکھا ہے کہ یہاں کفّار کوٹھیوں میں رہتے ہیں مسلمانوں کے لئے کچّے مکانوں میں رہنا اِسلامیوں کی ہتک ہے.اَب مَیں پُوچھتا ہوں کہ جب اِس دُنیا میں وہ اپنی ہتک پسند نہیں کرتا تو اُس عالَم میں اپنا ذلیل حالت میں رہنا اُسے کِس طرح پسند ہے؟ یہ خیال ابراہیمی چال کے خلاف ہے! ابراہیمؑ نے جن باتوں سے یہ اِنعام پایا کہ دُنیا و آخرت میں برگزیدہ اور اعلیٰ درجہ کا معزّز انسان

Page 244

ہؤا وہ بہت لمبی ہیں مگر اﷲ تعالیٰ نے ایک ہی لفظ میں سب کو بیان کر دیا کہ  پھر اِنسان کو اپنی بہتری کے ساتھ اپنی اولاد کا اِتنا فِکر ہوتا ہے کہ دن رات اُن کے فکر میں مَرتے ہیں اور بعض ایسے کہ اولاد کے متعلق اﷲ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہیں.(بدر ۸؍۱۶؍اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ ۲) اِسلام کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنی ساری قوّتوں اور طاقتوں کو اﷲ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور اپنی گردن فرمانبرداری کے لئے رکھ دے.اپنی خواہش، اپنا ارادہ کچھ باقی نہ رہے اور یہی مومن ہونے کے معنے ہیں.اگر مسلمان مسلمان کہلا کر ، ایمان بِاﷲ کا دعوٰی کر کے اﷲ تعالیٰ کے احکام کا جُو ا اپنی گردن پر نہیں رکھتا اور اپنی خواہش اور ارادے کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کا پابند اور مطیع نہیں ہوتا تو اس کو اپنے اندر غور کرنا چاہیئے کہ اسلام اور ایمان کے لوازم سے اس نے کیا لیا.اور اِس بات کا معلوم کرنا کہ آیا مَیں نے خدا تعالیٰ کی مرضی اور حکم کا پابند اور مطیع نہیں ہوتا تو اس کو اپنے اندر غور کرنا چاہیئے کہ اسلام اور ایمان کے لوازم سے اس نے کیا لیا.اور اِس بات کا معلوم کرنا کہ آیا مَیں نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ہے یا نہیں بڑی صفائی کے ساتھ ہو سکتا ہے اور بہت ہی آسان ہے اگر وہ اپنے ارادوں ، اپنی خواہشوں اپنے دوستوں، اپنی ملکی رسوم و رواج قومی عادایت اور شعائر کو مقدّم کرتا اور الہی قوانین اور فرامین کی اتنی بڑی پرواہ نہیں کرتا کہ رسم و رواج یا سوسائٹی اور برادری کے اصولوں پر اﷲ تعالیٰ کی باتوں کو مقدّم کر لے تو اس کو سمجھ لینا چاہیئے کہ اس نے کچھ بھی نہیں بیچایا کہو کہ مومن اور مسلمان کہلانے کے ساتھ اپنی جان و مال کو بیچ کر بھی اس پر ناجائز تصّرف کیا ہے.پس یہ ایک بہت خطرناک اور نازک مقام ہے.مسلمان یا مومن بِاﷲ کہلانا آسان ہو تو ہو مگر بننا کارے دارو.مسلمان بننے کا نمونہ ابراہیم علیہ السّلام کی زندگی کو دیکھو.پھر مسلمان بننے کا کامل نمونہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں مشاہدہ کرو.غرض مومنوں کے جان و مال اﷲ تعالیٰ نے خرید لئے ہیں اور اس کے معاوضہ میں وہ فوزِعظیم اور وہ عظیم الشّان اَبدی راحت اور آسائش کا مقام اﷲ نے دیا ہے جس کو جنّت کہتے ہیں.اَب جبکہ مومن اپنے ایمان کے اقرار کے ساتھ اپنے جان اور مال بیچ چکے تو پھر اﷲ تعالیٰ کی راہ میں ان کے خرچ کرنے سے مضائقہ کیا؟ (الحکم ۱۰مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ۱۱)

Page 245

 : پسند کیا.لَا: موت اختیار میں نہیں.موت سے پہلے بے ہوشی ہو جاتی ہے.ایسی ایسی حالتوں میں موت آئی ہے کہ اس سے پہلے ایک منٹ اپنے انجام کی خبر نہیں ہوتی.پھر انسان پر کئی قِسم کی حالتیں آتی ہیں باوجود اِس کے ارشاد ہے.اِس میں نکتہ یہ ہے کہ انسان موجودہ حالت میں ترقّی کرے اور آئندہ بھی نیکی کا ارادہ رکھے.جو لوگ کہتے ہیں کہ بدی کر کے توبہ کر لیں گے یا آئندہ من جائیں گے وہ غلطی کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) ابراہیمؑ کا پوتا یعقوبؑ اپنی اولاد کو مخاطب کر کے کہتا ہے  اے میری اولاد اﷲ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک دین برگزیدہ کیا ہے  پس تم کو تاکید کرتا ہوں کہ تمہاری موت نہ آوے مگر ایسے رنگ میں کہ تم مسلمان ہو اﷲ تعالیٰ کے فرمانبردار بندے ہو.انسان کو موت کا وقت معلوم نہیں اور پتہ نہیں اس وقت حواس درست ہوں یا نہ ہوں اور پھر یہ امر اختیاری نہیں اِس لئے یہ عُقدہ کِس طرح حل ہو.ایک صحیح حدیث نے اِس مسئلہ میں میری راہنمائی کی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب عمل کرتا ہے تو فرشتے اس کے اعمال کو لکھتے جاتے ہیںسعادت کے اعمال بھی اور شقاوت کے اعمال بھی.اور موت کے قریب اُن کی میز ان کی جاتی ہے اور پھر وہ مقادیرِ الہٰیّہ سبقت کرتی ہیں.اگر وہ لوگوں کی نظروں میں نیک تھا پر اﷲ سے معاملہ صاف نہیں یا اﷲ سے معاملہ صاف ہے مگر لوگوں کی نگاہ میں نہیں تو وہ کتاب باعث ہوتی ہے کہ اس کا خاتمہ اﷲ کی رضا یا سخط پر جیسی صورت ہو ، ہو.پس ہر روز اپنے اعمال کا محاسبہ چاہیئے.ایک صحابیؓ نے ہماری سرکار صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ جاہلیت میں مَیں نے کچھ صدقات کئے تھے کیا وہ بابرکات ہونگے؟

Page 246

ارشاد ہؤا کہ اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا اَسْلَفْتَ یہ اسلام ان ہی کی برکت سے تجھے نصیب ہؤا ہے.موت علی الاسلام اس طرح نصیب ہو سکتی ہے کہ انسان ہر روز محاسبہ کرتا رہے اور اﷲ تعالیٰ سے اپنا معاملہ صاف کرے اگر تعلّقاتِ صحیحہ نہ ہوں تو توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء) میرے ایک شیخ تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ غَایَۃُ الْعِلْمِ حَیْرَۃٌ.غرض وہ بات جو خدا تعالیٰ کو پسند ہے جس سے وہ راضی ہوتا اور اپنے فضلوں سے انسان کو بہرہ مند کرتا ہے وہ نہ بہت باتوں سے مِل سکتی ہے نہ بہت کتابوں کے پڑھنے سے بلکہ وہ بات تعلق رکھتی ہے دِل سے.وہ اس کی ایک کیفیّت ہے جس کو عام الفاظ میںوفاداری ، اخلاص اور صدق کہہ سکتے ہیں اور یہ کیفیّت پَیدا ہوتی ہے ماموروں کی اطاعت اور سچّی پَیروی سے… ابراہیم علیہ الصّلوٰۃ و السّلام جس کی نسل سے ہونے کا آج سب سلطنتیں فخر کرتی ہیں اس نے اس راہ کو اختیار کیا.اس نے صدقِ دل سے  کہا اور اسی ایک امر کی اولاد کو وصیّت کی.نتیجہ کیا ہؤا خدا تعالیٰ نے اسے ایسا معزّز و مکرّم بنایا کہ اس کی اولاد کی گنتی تک نہیں ہو سکتی.وہ بادشاہ جو اس کے مقابلہ میں اُٹھا آج کوئی اُس کا نام تک بھی نہیں جانتا.یقینا سمجھو کہ اﷲ تعالیٰ کِسی کا احسان اپنے ذمّہ نہیں رکھتا وہ اس سے ہزاروں لاکھوں گُنا زیادہ دے دیتا ہے جس قدر کوئی خدا کے لئے دیتا ہے.دیکھو ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے مکّہ میں ایک معمولی کوٹھا چھوڑا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی کِس قدر قدر کی.اس کے بدلہ میں اسے ایک سلطنت کا مالک بنا دیا.حضرت عمر رضی اﷲ عنہ ایک اُونٹ چرانے والے کو ایک وسیع مُلک کا خلیفہ بنا دیا.جنابِ علیؓ نے خدمت کی اس کی اولاد تک کو مخدوم بنا دیا.غرض مَیں دیکھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کے حضور صدق و اخلاص سے چھوٹی سے چھوٹی خدمت بھی ہزاروں گنا بدلہ پاتی ہے.وہ تھوڑی سی بات کا بہت بڑا اجر دے دیتا ہے پھر اس کے ساتھ سچّا رشتہء عبودیّت قائم کرتا ہے.اس کے عظمت و جلال سے ڈر جاتا ہے.دین کو دُنیا پر مقدّم کرتا ہے جیسا کہ تم نے اپنے مُرشد و مولیٰ مہدی و مسیح کے ہاتھ پر اقرار کیا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی تائید اور نصرت میں ایسا لگ جاتا کہ ؎ برکسے چُوں مہربانی مے کُنی از زمینی آسمانی مے کنی کا اسے سچّا مصداق بنا دیتا ہے اِس لئے ضرورت اِس امر کی ہے کہ تم سچ مچ وہ نمونہ دکھاؤ جو ابراہیم علیہ السّلام نے دکھایا.کہنے والوں کی آج کمی نہیں.تم سے تمہارا اسلام عمل چاہتاہے عملی حالت درست ہو گی تو خدا تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام و اکرام تمہارے شامِل حال ہو جائیں گے.وہ ہزاروں ہزار

Page 247

ابراہیمؑ بنا سکتا ہے تم ابراہیم بنو بھی.خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیمؑ اور اس کے خاندان نے یہ مجرّب نسخہ بتایا کہ تمہاری موت ایسی حالت میں ہو کہ تم مسلمان ہو.موت کا کیا پتہ کہ کب آ جاوے.ہر عمر کیانسان مرتے ہیں بچّے ، بوڑھے، جوان، ادھیڑ عمر.موسم میں جو تغیّر ہو رہا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انذار ہے.شروع سال میں زمینداروں سے سُنا تھا کہ وہ کہتے تھے کہ اس قدر غلّہ ہو گا کہ سما نہ سکے گا مگر اَب وہی زمیندار کہتے ہیں کہ سردی نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے.آئندہ کے لئے خطرات پَیدا ہو رہے ہیں اِس لئے یہ وقت ہے کہ تم خدا تعالیٰ سے صُلح کر لو اور اس ایک ہی مجرّب نسخہ کو ہمیشہ مِدّ نظر رکھو.لَا: موت کی کوئی خبر نہیں.اِس لئے ضروری ہے کہ ہر وقت مسلمان بنے رہو.یہ مت سمجھو کہ چھوٹے سے چھوٹے عمل کی کیا ضرورت ہے اور وہ کیا کام آئے گا.نہیں.خدا تعالیٰ کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا… ایک شخص نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مَیں جب کافر تھا تو اﷲ کی راہ میں خیرات دیا کرتا تھا کیا اُس خیرات کا بھی کوئی نفع مجھے ہو گا.فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَیْرٍ(بنی کِا.کتاب الأدب مَنْ وَصَلَ رَحِمَہٗ فِی الشِّرکِ لّٰلُدَّ اَسْلَمَ) تیری وہی نیکی تو تیرے اِس اسلام کا موجب ہوئی.خدا تعالیٰ پر سچّا ایمان لاؤ اور اس کی سچّی فرمانبرداری کے نمونے سے ثابت کرو.ٹھیک یاد رکھو کہ ہر نیک بیج کے پھَل نیک ہوتے ہیں.بُرے بیج کا درخت بُرا پھل دے گا.گندم از گندم بر وید جَو زجَو از مکافاتِ عمل غافل مشو (الحکم ۱۷؍مئی ۱۹۰۵ء صفحہ ۶) تنہائی میں بیٹھ کر اگر ایک شخص کے دل میں یہ خیالات پَیدا ہوتے ہیں کہ ایسا مکان ہو، ایسا لباس ہو، ایسا بسترا ہو، ایسے ایسے عیش و عشرت کے سامان موجود ہوں، اِس اِس طرح کے خوشکن آواز میسّر آ جاویں تو اس کی موت مسلمان کی موت نہیں ہو سکتی.مومن اور مسلمان انسان کی تو ایسی حالت ہو جانی چاہیئے کہ مرتے وقت کوئی غم اور اندیشہ نہ ہو.اِسی واسطے فرمایا لَا یعنی فرمانبردار ہو کر مریو.کِس کو خبر ہے کہ موت کے وقت اس کی ہوش بھی قائم ہو گی یا نہیں.کئی مرنے کے وقت خراٹے لیتے ہیں.دہی بلونے کی آواز نکالتے ہیں اور طرح طرح کی سانس لیتے ہیں.کئی کُتّے کی طرح ہاہا کرتے ہیں.جب یہ حال ہے اور دوسری طرف خدا بھی کہتا ہے کہ مسلمان ہو کرمَریو.ایسے ہی رسولؐ نے بھی کہا.تو یہ کس کے اختیار میں ہے کہ ایسی موت مَرے جو مسلمان کی موت ہو گھبراہٹ کی موت نہ ہو؟ اس کا ایک سِرّ ہے کہ جب انسان سُکھ میں اور عیش و عشرت اور ہر طرح کے آرام میں ہوتا ہے.سب قوٰی اس میں موجود ہوتے ہیں.کوئی مصیبت نہیں ہوتی.اس وقت استطاعت

Page 248

اور مقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظِ نفس کو پُورا کرے اور کچھ دن کے لئے اپنے نفس کو آرام دے لے.پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اسکے احکام پرنگاہ رکھے تو اﷲ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے.اگر وہ اس وقت مَرے گا جبکہمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہ‘ یعنی جب اس کی ترازو زور والی ہو گی تو وہ بامُرادہو گا اور مسلمان کی موت مَرے گا ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مَرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ مَیں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے دَس خاں مَیں کون ہوں ؟ تیسری پُوچھتی ہے دسّو خاں جی مَیںکون ہُوں ؟ اور اِسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے.(الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱) ابراھیم نے اپنی اولاد کی بہتری چاہی تو اس کیلئے ایک وصیت کی.اے میرے بچو! اﷲ نے تمہارے لئے ایک دین پسند فرمایا پس تم فرمانبرداری کی حالت میں دو.کئی لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر تو بہ کر لیں گے مگر یہ غلطی ہے کیونکہ عمر کا کچھ بھروسہ نہیں.   کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوبؑ کو موت؟ جب کہا اپنے بیٹوں کو کہ تم کیا پُوجو گے اور مقدرت ہوتی ہے جو خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے حظِ نفس کو پُورا کرے اور کچھ دن کے لئے اپنے نفس کو آرام دے لے.پر اگر اس وقت خدا کے خوف سے بدی سے بچ جاوے اور اسکے احکام پرنگاہ رکھے تو اﷲ ایسے شخص کو وہ موت دیتا ہے جو مسلمان کی موت ہوتی ہے.اگر وہ اس وقت مَرے گا جبکہمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُہ‘ یعنی جب اس کی ترازو زور والی ہو گی تو وہ بامُرادہو گا اور مسلمان کی موت مَرے گا ورنہ ہم نے دیکھا ہے کہ مَرتے وقت عورتیں پوچھتی ہی رہتی ہیں کہ مَیں کون ہوں؟ دوسری کہتی ہے دَس خاں مَیں کون ہوں ؟ تیسری پُوچھتی ہے دسّو خاں جی مَیںکون ہُوں ؟ اور اِسی میں ان کی جان نکل جاتی ہے.(الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۱) ابراھیم نے اپنی اولاد کی بہتری چاہی تو اس کیلئے ایک وصیت کی.اے میرے بچو! اﷲ نے تمہارے لئے ایک دین پسند فرمایا پس تم فرمانبرداری کی حالت میں دو.کئی لوگ ایسے ہیں جو گناہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر تو بہ کر لیں گے مگر یہ غلطی ہے کیونکہ عمر کا کچھ بھروسہ نہیں.   کیا تم حاضر تھے جس وقت پہنچی یعقوبؑ کو موت؟ جب کہا اپنے بیٹوں کو کہ تم کیا پُوجو گے میرے پیچھے؟ بولے ہم عبادت کریں گے تیرے اور تیرے باپ دادوں کے ربّ کی.ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ اور اسحٰقؑ کا وہی ایک ربّ ہے اور ہم اسی کے حکم پر ہیں.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵) (الاٰیہ)تم تو موجود تھے تمہارے اسلاف گواہی دیتے ہیں کہ یعقوبؑ نے آخر وقت کیا ارشاد کیا.کِس کی اطاعت کرو گے؟ انہوں نے کہاہم اﷲ کے فرمانبردار

Page 249

ہوں گے جو تمہارا اور اسحٰقؑ اور ابراہیمؑ کا معبود تھا. ہم ہمیشہ اسی کے فرمانبردار رہیں گے.پس یہ حق وصیّت کا ہے اور تمام وعظوں کا عطر اور اصل مقصد یہی ہے جو تمہارے سامنے پیس کیا ہے اور یہ وصیّت ہے اس شخص کی جوابوالانبیاء اور ابوالُحنفاء اور اسی کی وصیّت کو مَیں نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے پس تم اپنے کھانے پینے، لباس، محبت ، رنج، راحت، عُسر، یُسر، افلاس، د ولتمندی، موت اور مرض ، مقدمات وصُلح میں اس اصول کو مدِّ نظر رکھو کہ اﷲ کی فرمانبرداری سے کوئی قدم باہر نہ ہو.پس یہ وصیّت تمام وصیّتوں کی ماں ہے اﷲ تعالیٰ تمہیں توفیق دے کہ ہر حال میں تمہیں اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری مدِّنظر ہو اور یہ ہو نہیں سکتی جب اﷲ تعالیٰ سے بغاوت ہو اور یہ بھی بغاوت ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک کو بڑا بناتا ہے اور اس کو برگزیدہ کرتا ہے مگر یہ اس کی مخالفت کرتا اور اس سے انکار کرتا ہے.برہموؤں نے اسی قِسم کا دعوٰی کیا ہے جو وہ رسالت اور نبوّت کے مُنکر ہیں.یہ بغاوت ہے.اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ مطاع ہوا اور وہ گویا ارادۂ الہٰی کا دشمن اور باغی ہے.پس  کی دعا کرو.علوم پر ناز اور گھمنڈ نہ کرو.رنج راحت میں اور عُسر یُسر میں قدم آگے بڑھاؤ.(الحکم جلد ۷ نمبر ۲.۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء)   : فرماتا ہے کہ یہودی و نصرانی بننے میں بھلائی نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ فرمانبرداری کرے جس جس وقت جنابِ الہٰی کوئی حکم دیں مان لے.اس میں ان لوگوںکا رَدّ بھی ہے جو کہتے ہیں کہ ہم اپنے نبی کو مانتے ہیں ہمارے پاس کتاب ہے ہمیں کسی اَور امام یا مجدّد یاہدیت یا وحی کی ضرورت نہیں.مومن کی شان تو یہ ہے کہ ہم ایمان لائے جو پہلے اُتر چکا اور جواَب ہماری طرف اُترا.ہم اَب کبھی نہیں کریںگے کہ بعض احکام کو یا انبیاء کو مانیں اور بعض کو نہ مانیں.سوائے اِسلام کے کسی نے اِس اصل سے فائدہ نہیں اُٹھایا کہ اپنے سے پہلے تمام انبیاء اور

Page 250

ان کی تعلیمات کو بھی سچّا مانتا ہے اور موجودہ کو بھی اور بعد آنے والی ہدایتوں پر بھی ایمان لانے کی ہدایت کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۸؍ مارچ ۱۹۰۹ء)   : کہو ہم نے یقین کیا اﷲ پر اور جو اُترا ہم پر اور جو اُترا ابراہیمؑ پر.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۴۲)   پھر اگر وہ بھی یقین لاویں جس طرح پر تم یقین لائے تو راہ پاویں اور اگر پھر جاویں تو اَب وہی ہیں ضِد پر.سو اَب کفایت ہے تیری طرف سے ان کو اﷲ اور وہی ہے سُنتا جانتا.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۹۹) : یہ ایک پیشگوئی ہے کہ سارا جہان ایک طرف ہو اور تُو اکیلا ایک طرف.سب کے مقابلہ میں صرف ہم تیرے لئے کافی ہیں.رکوع ا وّل میں ایک پیشگوئی ہے 

Page 251

یعنی مظفّر و منصور ہوں گے.دوسری پیشگوئی.(البقرۃ:۲۶)چنانچہ اِس دُنیا میں ان کو باغات ملے.تیسری پیشگوئی.(الاحقاف:۱۴)لَا چنانچہ وہ خوف جاتا رہا نہ صحابہؓ صرف خود امن میں ہوئے بلکہ دوسروں کے امن کا موجب ہوئے.چوتھی پیشگوئی.(البقرۃ:۱۱۶)جدھر صحابہؓ نے قدم اُٹھایا وہی ملک تصّرف میں آیا.پانچویں پیشگوئی.(بنی اسرائیل:۱۰۶)چنانچہ ماننے والوں کو بشارتیں عطا ہوئیں اور مُنکروں کو سزائیں ہوئیں.چھٹی پیشگوئی یہ ہے جو اُوپر بیان ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍مارچ ۱۹۰۹ء) یُوں تو قرآنِ مجید کا لفظ لفظ اعجاز ہے اور آیت آیت نشان.لیکن اِس سے پہلے پارہ میں یہ سات پیشگوئیاں بہت زبردست ہیں:.۱. (البقرۃ:۲۶)جو ایمان لائے جنہوں نے عمل صالح کئے ان کے لئے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں پڑی بہہ رہی ہیں.دُنیا میں اِس کا نظّارہ یُوں نظر آیا کہ وہ تمام ممالک جو بوجہ اپنے باغات اپنی زرخیز زمین اور چشموں اور نہروں کے مشہور ہیں مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور ایک مُلک کے بعد دوسرا مُلک اسی جیسا جب فتح کرتے اور یہ فتوحات پیہم ہوتھیں تو اِس آیت کے معنے کُھلتے تھے.(البقرۃ:۲۶)یعنی جب جنّت سے کوئی پھَل ان کو دیا جائے گا تو وہ پکار اُٹھیں گے یہ تو وہی ہے جو پہلے ہم کو دیا جا چکا ہے اور دئے جائیں گے اس جیسا اَور.دومؔ.(البقرۃ:۶)یعنی جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ اﷲ کے دئے سے دیتے ہیں اور جو ایمان لاتے ہیں اُس پر جو تیری طرف اُتارا گیا اور جو کچھ تجھ سے پہلے نازل کیا گیا اور آخرت پر یقین لاتے ہیں یعنی مسلمان ہی مظفّر و منصور ہوں گے چنانچہ آخر ایک زمانہ نے دیکھا کہ صحابہ ؓ اپنے تمام مخالفین پر فتحیاب ہوئے اور اپنی ہر ایک آرزُو میں کامیاب

Page 252

ہوئے.سومؔ.لَا(الاحقاف:۱۴)جس قدر خوف صحابہؓ کو درپیش تھے آخر وہ سب کے سب جاتے رہے.وہ سعادت مند لوگ نہ صرف خود امن میں ہوئے بلکہ ایک جہان میں امن پھیلا.جو خوف پیش آیا وہ دُور کیا گیا اور کوئی حُزن نہ تھا جو ان کے لئے قائم رہتا.چہارمؔ.(بنی اسرائیل:۱۰۶)یعنی اے نبی ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیجا چنانچہ ماننے والوں کو بشارتیں عطا ہوئیں اور مُنکروں کو سزائیں ملیں.یہ نظّارہ بھی ایک دُنیا نے دیکھا.پنجم ؔ.ٌ(البقرۃ:۱۱۶)مشرق اور مغرب اﷲ کا ہے پس اے صحابہؓ جدھر تمہارا رُخ اُدھر ہی اﷲ کا رُخ.اﷲ تعالیٰ کشائش والا اور جاننے والا ہے.اِس آیت میں جو پیشگوئی تھی وہ جس شان و شوکت سے پُوری ہوئی بڑے بڑے معاندین و مخالفین اس کے قائل ہیں.صحابہؓ کو خدا نے وہ عزم، وہ ہمّٹ ، وہ برکت دی کہ جدھر انہوں نے گھوڑوں کی باگیں اُٹھائیں.فتح و ظفر استقبال کو آئی.جس ملک پر فوج کشی کی فورًا تصّرف میں آیا.ششم: یعنی اگر یہ کفّار روگردانی کرتے ہیں تو سو ااِس کے اَور کوئی بات نہیں کہ یہ پرلے درجے کی مخالفت و ضدّ میں ہے.ان سب کے لئے اﷲ تجھے کافی ہے اور وہ سمیع علیم ہے.اﷲ اﷲ تمام عمائد و رؤوسائِ مکّہ بلکہ بڑی بڑی ملکِ عرب کی بہادر قومیں ایک طرف.عرب ہی کی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ایران و شام والوں نے بھی بڑا بڑا زور لگایا اور انہوں نے اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا.نہ صرف مال بلکہ اپنی جان تک ضائع کرنے سے انہوں نے دریغ نہیں کیا لیکن اِس ساری جدّوجہد کا نتیجہ یہ نکلا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کامیاب ہوئے اور یہ تمام مخالفین ناکام.سارا جہان ایک طرف اور محمدِ عربی ( صلی اﷲ علیہ وسلم) ایک طرف.ایک اﷲ نے سب کے مقابل میں کیسی کفایت کی.تاریخِ عالَم اِس پر شاہد ہے ہمیں ظاہر کرنے کی حاجت نہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ ۳۲۵ تا ۳۲۷) 

Page 253

   : الہٰی رنگ میں رنگین ہو جاؤ.: مسلمانوں کے خدا پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہوہ اسے تمام خوبیوں کا صاحب اور تمام عیبوں، نقصوں، کمزوریوں سے منزّہ مانتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۸؍مارچ۱۹۰۹ء)      

Page 254

 : یہ بڑی یاد رکھنے والی بات ہے کہ صرف عیب چینی بہت بُری بات ہے.مَیں چھوٹا بچّہ تھا تو ایک کتاب مَیں نے پڑھی جس کا نام ’’دِل بہلاؤ‘‘ تھا.اس میں سے دو کہانیاں مجھے یاد ہیں ایک یہ کہ حضرت مسیحؑ کہیں جا رہے تھے آپ نے ایک مُردہ کُتّا دیکھا تو کِسی نے کہا کہ دیکھئے کیا خراب شکل ہے.آپ نے فرمایا اِس کے دانت بہت خوبصورت ہیں.کتاب والا اِس کہانی سے یہ عمدہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اچھے آدمی خوبیوں کی طرف نظر رکھتے ہیں مگر بُرے جنہیں میں بَد قِسمت کہوں گا نکتہ چینیوں کی طرف جھُک جاتے ہیں.پھر ایک اَور کہانی لکھی ہے کہ ایک سؤر آتا تھا حضرت مسیحؑ دیوار کی طرف ہو گئے اور کہا کہ آپ سلامتی سے نکل جاویں.کسی نے کہا کہ سؤر سے ایسا اَدب.فرمایا مَیں زبان کو درست رکھتا ہوں.تین قومیں دُنیا میں ہیں ایک عیسائی.انہوں نے تمام انبیاء کے معاصی کو بیان کرنے کا ٹھیکہ لیا ہے.معصوم نبی کے نام سے جو رسالے نکلتے رہتے ہیں ان میں مقدّس لوگوں کی اِس قدر عیب چینیاں ہوتی ہیں کہ ان کو دیکھ دیکھ کر ہماری کتابوں میں بھی بدگمانیاں پھیل گئی ہیں.اِس کا نتیجہ دیکھو کہ خود یہ قوم فِسق و فجور میں مُبتلا ہو گئی ہے حتیّٰ کہ شریعت کے قانون کا نام لعنت رکھا ہے اور زنا کوئی جُرم ہی نہیں.دومؔ.بدقسمتی سے مسلمانوں میں چند شریر النّفس لوگوں نے دُنیا کے لئے دین کا جھُوٹا پَیرایہ اختیار کر کے غلط فہمیاں پھَیلائیں اور مومنوں کے دو فریقوں میں سے ایک کی عیب چینی کر کے ان میں فساد ڈلوا دیا.یہ لوگ تمام صحابہ ؓ ، تابعین، ازواج النّبی کو فاسق، فاجر، ظالم، کافر کہتے ہیں حتّٰی کہ ان کے ایک مفسّر نے لکھا ہے آدمؑ سے لیکر ایندم تک کوئی گناہ نہیں جس کا مُرتکب عمرؓ نہیں اور دوسرے بدبخت تمام اہلِ بَیت پر تبّرا کرتے ہیں.تیسری قوم آریہ کی ہے ان کی نظر بھی عیب ہی پر پڑتی ہے اپنی خوبی کے اظہار کو کوئی ذریعہ نہیں.ہاں دوسرے مقدّسوں کو گالیاں سُناتے ہیں.اِس کی سزا انہیں یہ ملی کہ خود نیوگ کا مسئلہ ان میں جاری ہؤا جو فسق و فجور کی جڑہے.یہ تین قومیں مَیں نے دیکھی ہیں.اﷲ تعالیٰ کی قَسم! کہ انہوں نے اس بَدگوئی کا نتیجہ نیک نہیں

Page 255

اُٹھایا.اَب مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کو عیب شماری کا شوق ہے مگر مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے مشاہدہ سے کہتا ہوں کہ جو دوسروں کے عیب از راہِ تحقیر نکالتا ہے وہ مرتا نہیں جب تک خود اس عیب میں مُبتلا نہ ہو جائے.اِس رکوع میں بھی ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے.سُفَھَآئُ:جمع سَفِیْہِ.ثَوْبٌسَفِیْہٌ وہ ردّی کپڑا جو بہت ہی خراب ہو.سفیہ کہتے ہیں اُس شخص کو جو دینی دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو.قرآن کریم میں ہے (النّسآء:۶)یہ کام سفہاء کا ہے کہ دوسرے کی عیب شماری کرتے رہیں اور ہر وقت اعتراض ہی کرتے رہیں… مَاوَلّٰھُمْ: کِس چیز نے ہٹا دیا ان کو.کَذٰلِکَ:بہ سبب ایسی ہی باتوں کے.اسی لئے انہی تدبیروں سے.یہاں کَذٰلِککے یہی معنے ہیں.اُمَّۃً وَّسَطًا:اعلیٰ درجہ کے لوگ.شُھَدَآئَ:نگران لِنَعْلَمَ:تاہم دیکھیں.مِمَّنْ:ان لوگوں سے الگ کر کے.اُٹھایا.اَب مَیں دیکھتا ہوں کہ بہت سے لوگوں کو عیب شماری کا شوق ہے مگر مَیں سچ کہتا ہوں اور اپنے مشاہدہ سے کہتا ہوں کہ جو دوسروں کے عیب از راہِ تحقیر نکالتا ہے وہ مرتا نہیں جب تک خود اس عیب میں مُبتلا نہ ہو جائے.اِس رکوع میں بھی ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے.سُفَھَآئُ:جمع سَفِیْہِ.ثَوْبٌسَفِیْہٌ وہ ردّی کپڑا جو بہت ہی خراب ہو.سفیہ کہتے ہیں اُس شخص کو جو دینی دنیوی عقل عمدہ نہ رکھتا ہو.قرآن کریم میں ہے (النّسآء:۶)یہ کام سفہاء کا ہے کہ دوسرے کی عیب شماری کرتے رہیں اور ہر وقت اعتراض ہی کرتے رہیں… مَاوَلّٰھُمْ: کِس چیز نے ہٹا دیا ان کو.کَذٰلِکَ:بہ سبب ایسی ہی باتوں کے.اسی لئے انہی تدبیروں سے.یہاں کَذٰلِککے یہی معنے ہیں.اُمَّۃً وَّسَطًا:اعلیٰ درجہ کے لوگ.شُھَدَآئَ:نگران لِنَعْلَمَ:تاہم دیکھیں.مِمَّنْ:ان لوگوں سے الگ کر کے.اِیْمَانَکُمْ:تمہاری نمازوں کو.حضرت نبی کریم (صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم) مکّہ معظمہ میں تھے اس وقت بَیت المقدس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے تھے.ہر قوم میں ایک نہ ایک مسئلہ بہت عزیز ہوتا ہے اور اس پر سب قوم متّفق ہوتی ہے.دیکھو ہندو ہیں ان میں جھُوٹ، فریب،دغا،زنا،شراب سب کچھ ہے مگر ایک مسئلہ ہے ان میں قومیّت کا کہ برہمن کھتریوں سے بیاہ نہ کرے.کھتری شودروں سے الگ رہیں.اِس مسئلے کے کوئی خلاف نہیں کرتے.ایک مسلمان جھُوٹ بول لے، چوری کرے، دغا دے، حرام خوری سے مال چھین لے.سب کچھ کرے مگر مسلمان ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اگر کوئی مسلمان سؤر کھا لے تو مَیں نہیں سمجھتا اسے کوئی مسلمان سمجھے حالانکہ دوسری حرام چیزوں کے مرتکب ہونے سے ایسا نہیں سمجھا جاتا.اِسی طرح عرب والوں میں ایک مسئلہ تھا اور وہ مکّہ معظمہ کی تعظیم کا تھا.وہ ہر بدی کا اِرتکاب کر لیتے تھے مگر کبھی مکّہ پر چڑھائی نہ کرتے.چڑھائی تو درکنار اس کے حدود میں شکار نہ کرتے.کوئی پناہ لیتا تو پھر اس سے تعترض نہ کرتے

Page 256

(القریش:۵) (العنکبوت:۶۸) فرمایا.یہاں تک اَدب تھا کہ مکّہ میں آمد و رفت کے دنوں میں تمام جنگ موقوف ہو جاتے تھے.ایسے موقع پر اﷲ نے دِل میں ڈالا کہ مکّہ قبلہ ہونا چاہیئے مگر چونکہ وہاں بُت پرستی تھی اور یہ دین محض توحید تھا اِس لئے پہلے اجازت نہیں ملی.پھر جب مدینہ میں گئے تو وہاں یہودی بَیت المقدس کی تعظیم کرتے تھے.اس وقت ارشادِ باری تعالیٰ ہؤا کہ مکّہ کو قِبلہ بنایا جائے تا معلوم ہو کہ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) دو قِسم کے اہلِ مذاہب ہیں ایکؔ اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے والے دوسرےؔ مذاہب پر عیب چینی کرنے والے آخر الذّکر جھُوٹے ہیں.عَنْ قِبْلَتِھِمُ الَّتِیْ کَانُوْا عَلَیْھَایہ طعنہ دیا کفّار نے کہ ان مسلمانوں کا مرکز تو مکّہ تھا کیوں ان کو وہاں سے نکال دیا گیا.جواب دیا گیا مشرق و مغرب اﷲ کا ہے عنقریب فتح ہو گا.شُھَدَآئَ: بادشاہ.سبعہ معلقہ کا ایک شعر اِس پر گواہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ۴۴۰) اور وہ قبلہ جو ہم نے ٹھہرایا جس پر تُو تھا نہیں مگر اسی واسطے کہ معلوم کریں کون تابع ہے رسول کا اور کون پھر جاوے گا اُلٹے پاؤں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۲۹) تحویلِ قبلہ کے بارے میں بہت سی بحثیں ہیں اورآجکل تو زیادہ تر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان کعبہ کی عبادت کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے کیونکہ عبادت تو یہ ہے کہ جلبِ نفع و دفعِ مضرّت کے خیال سے کسی کی غایت درجہ تعظیم کی جائے اور کعبہ نہ تو نافع ہے نہ ضارّ.پس عبادت کعبہ کی نہیں کی جاتی بلکہ رَبّ الکعبہ کی.۲.ساری نماز پر اوّل سے آخر تک غور کر لو کعبہ کی مدح و ثناء اس میں کہیں بھی نہیں.۳.عبادت کی جاتی ہے اس کی جو حُسن و احسان کا سر چشمہ ہو، جو صمد ہو مگر کعبہ اس کا مصداق نہیں.۴.کسی کی طرف مُنہ کرنا یہ امر کوئی عبادت نہیں کہلاتا کیونکہ تمام آدمی آخر کسی نہ کسی طرف مُنہ کر کے ہی کھڑے ہوتے ہیں پھر نماز میں نیّت استقبال اِلی القِبلہ شرط نہیں.

Page 257

۵.ایک حکم ہوتا ہے ایک حاکم.پس ہم تو حاکم کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں اور اِس طرح پر قبلہ رُخ نماز ادا کرنا خانہ کعبہ کی عبادت نہیں بلکہ اس حکم کے دینے والے کی عبادت ہے.۶. میں اقرار کیا جاتا ہے کہ زبان و دیگر جوارح سے اَے ربّ العٰلمین، الرّحمن ،الرّحیم، مالک یَوم الدّین تیری ہی عبادت کرتا ہوں.پس قبلہ رُخ ہونا کعبہ کی پرستش کِس طرح بن سکتا ہے اور نماز شروع کرتے ہی  (الانعام:۸۰) پڑھا جاتا ہے جس سے تمام ایسے اعتراض رفع ہو جاتے ہیں اور ان کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.۷.اِس کعبہ کی نسبت بائبل میں بھی بہت سی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں اور انہی میں حضرت ہاجرہ، حضرت اسمٰعیلؑ اور پھر حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بعثت کا ذکر ہے ملاحظہ ہو پَیدائش باب ۱۶ آیت۱۰ پھر خداوند کے فرشتے نے اسے (ہاجرہ کو) کہا کہ مَیں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے.پھر دیکھو ۱۷ باب اور پھر ابراہیمؑ نے خدا سے کہا کہ اسمٰعیلؑ تیرے حضور جیتا رہے اور اسمٰعیلؑ کے حق میں مَیں نے تیری سُنی.دیکھو مَیں اسے برکت دوں گا اور اسے بہرہ مند کروں گا اور بہت بڑھاؤں گا.(ا) یسعیاہ باب ۴۲ پڑھیئے’’ دیکھو میرا بندہ جسے مَیں سنبھالتا.میرا برگزیدہ جس سے میرا جی راضی ہے مَیں نے اپنی رُوح اس پر رکھی وہ قوموں کے درمیان عدالت جاری کرائے گا.وہ نہ چلّا ئے گا.اپنی صَدا بلند نہ کرے گا اور اپنی آواز بازاروں میں نہ سُنائے گا.وہ مَسلے ہوئے سِٹّے کو نہ توڑے گا اور دُمکتی ہوئی بَتّی کو نہ بُجھائے گا.وہ عدالت کو جاری کرائے گا کہ دائم رہے.اس کا زوال نہ ہو گا نہ مَسلا جائے گا جب تک راستی کو زمین پر قائم نہ کرے اور بحری ممالک اس کی شریعت کی راہ تکیں.‘‘ (ب) مَیں خداوند نے تجھے صداقت کے لئے بُلایا.مَیںتیرا ہاتھ پکڑوں گا اور تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نُور کے لئے تجھے دوں گا.‘‘ (ج) اے بحری ممالک اور ان کے باشندو! تم زمین پر سر تا سر اسی کی ستائش کرو.بیابان اور اس کی بستیاں قیدار کے آباد دیہات اپنی آواز بلند کریں گے.سلعؔ کے بسنے والے ایک گیت گائیں گے.پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے للکاریں گے.وہ خداوند کا جلال ظاہر کریں گے.بحری ممالک میں اس کی ثناء خوانی کریں گے.خداوند ایک بہادر کی طرح نکلے گا.وہ جنگی مَرد کی مانند اپنی غیرت کو اسکائے گا.وہ چِلّائے گا.ہاں وہ جنگ کے لئے بُلائے گا.وہ اپنے دشمنوں پر بھاری کرے گا.

Page 258

(د) خداوند اپنی صداقت کے سبب راضی ہؤا.وہ شریعت کو بزرگی دیگا اور اسے عزّت بخشے گا.(۵) کیونکہ انہوں نے نہ چاہا کہ اس کی راہوں پر چلیں.وہ اس کی شریعت کے شنوا نہ ہوئے اِس لئے اس نے اپنے قہر کا شعلہ اور جنگ کا غضب اس پر ڈالا.یہ آیت پکار پکار کر بتلا رہی ہے کہ مُوسوی شریعت کے بعد پھر ایک کامل شریعت بنی آدم کو ملنے والی ہے اور وہ ملکِ عرب میں ہو گی اور نئے سرے سے خدا کی توحید قائم ہو گی جو اس کی مخالفت کرے گا وہ پیسا جائے گا اور ہلاک ہو گا.پھر پڑھو ساٹھواں باب.’’ مَیں اپنی شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا… اس کے بدلے تُو ترک کی گئی اور تجھ سے نفرت ہوئی.ایسا کِسی آدمی نے تیری طرف گزر بھی نہیں کیا.مَیں تجھے شرافتِ دائمی اور پُشت در پُشت لوگوں کا سردار بناؤں گا … آگے کو کبھی تیری سر زمین میں ظلم (بُت پرستی) کی آواز سُنی نہ جائے گی اور نہ کہ تیری سرحدوں میں خرابی یا بربادی کی.تُو اپنی دیواروں کا نام نجات اور اپنے دروازوں کا نام ستودگی رکھے گی … تیرا سُورج پھر کبھی نہ ڈھلے گا اور تیرے چاند کو زوال نہ ہو گا کیونکہ خداوند تیرا اَبدی نُور ہو گا اور تیرے نام کے دن آخر ہو جائیں گے اور تیرے لوگ سب کے سب راستباز ہوں گے.وہ اَبد تک سر زمین کے وارث اور میری لگائی ہوئی ٹہنی اور میرے ہاتھ کی کاریگری ٹھہریں گے تاکہ میری بزرگی ظاہر ہو.ایک چھوٹے سے ایک ہزار ہوں گے اور ایک حقیر سے ایک قوی گروہ ہو گی.مَیں خداوند اس کے عین وقت میں یہ سب کچھ جلد کروں گا.‘‘ تمام قوموں کو دیکھ لو اور بَیت اﷲ صرف مسلمانوں ہی کے قبضے میں ہے اور وہیں سے بُت پرستی کا نام و نشان تک مٹایا گیا اور وہی ایک سے ہزار ہوئے اور حقیر تھے پھر قوی بنے.پھر اعمال باب۳ پڑھیے اور ’’متوجّہ ہو کہ تمہارے گناہ مٹائے جائیں تاکہ اخداوند کے حضور سے تازگی بخش ایّام آئیں اور یسوع مسیح کو پھر بھیجے جس کی منا دی تم لوگوں کے درمیان آگے سے ہوئی.ضرور ہے کہ آسمان اسے لئے رہے اس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آئیں کیونکہ موسٰی نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھائے گا.جو کچھ کہ وہ تمہیں کہے اس کی سب سُنو.اور ایسا ہو گا کہ ہر نفس جو اس نبی کی نہ سُنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا.‘‘ خوب غور کر کے دیکھ لو کہ مسیحؑ کے دوبارہ نزول سے پہلے حضرت موسٰی علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق

Page 259

بنی اسحٰق ؑسے نہیں بلکہ بنی اسمٰعیلؑ سے ایک نبی ضرور مبعوث ہونے والا تھا.یہ ایسی صاف اور صریح پیشگوئی ہے.اِس کی کوئی تاویل نہیں ہو سکتی.(تشحیذالاذہان جلد ۷ صفحہ ۳۲۸ تا۳۳۱)     : تیری توجّہ اِس بات کی طرف کہ آسمان سے وحی نازل ہو اور آخری قبلہ کھُلے.(اخبار بدر قادیان ۲۵؍مارچ۱۹۰۹ء) : جنابِ الہٰی سے کام کرانے کے لئے بڑی توجّہ کی ضرورت ہے.:یعنی مکّہ فتح ہو جائے گا.(تشحیذالاذہان جلد۸نمبر۹صفحہ۴۴۰)  

Page 260

 : ۱۲ باب پَیدائش.یسعیاہ:۴۲،۴۵،۶۰.بَیت اﷲ کے اعزاز کی بہت سی پیشگوئیاں ہیں جو مکّہ کے متعلق ہیں.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تم خواہ کِس قدر آیات پیش کرو یہ مانیں گے نہیں.تیری کیا مانیں جو ان میں اپنا اِتفاق نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء)   : انسان بیٹے کو پہچانتا ہے اور اسے اپنا بیٹا مانتا ہے حالانکہ اگر شک کرنے لگے تو پھر مشکلات کا سامنا ہے.ممکن ہے کہ وہ اس کے نطفے سے نہ ہو.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اِتنی حد تک تو ہم سمجھا چکے ہیں کہ جتنی حد تک بیٹے کے لئے ثبوت درکار ہے اور اگر شک کرنے لگے تو پھر کئی شبہات ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) ؔ: قرائن سے اپنی اولاد کو پہچانتا ہے.شُبہ تو ہو سکتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹صفحہ ۴۴۰)  اِس سوال کے جواب میں کہ’’ہادیٔ اسلام متشکک تھے ‘‘تحریر فرمایا:.’’بڑی دلیل سائل کی سُورۂ بقرۃکی آیتِ ذیل ہے:  سو اِس کا پہلا جواب یہ کہ لَا نفی کا صیفہ ہے نہ نہی کا اور تاکید کے واسطے نُون شدّد اس کے آخر زیادہ کیا گیا تو لَا ہو گیا.مشدّد نُون ماضی اور حال پر نہیں آ سکتا.پس لَا

Page 261

استقبال کا صیغہ ہو گا.اب اِس تحقیق پر آیت کے یہ معنے ہوں گے.یہ حق ہے تیرے رَبّ کی طرف سے ( چونکہ الہٰی الہام اور دلائل سے یہ حق ثابت ہو گیا) تو تُو کبھی شک کرنے والوں میں سے نہ ہو گا.دوسراؔ جواب: ہم نے مانا لَا نفی نہیں نہی کا صیغہ ہے مگر ہم کہتے ہیں نہی دو قِسم کی ہوتی ہے ایک طلب ترک فعل.دوم طلب عدم فعل.سائل کا اعتراض اِس صورت میں ہے کہ یہاں نہی کو بغرض طلب ترک فعل لیا جاوے جس کا یہ مطلب ہے کہ مخاطب فعل شک کو ترک کر دیوے مگر ہم کہتے ہیں یہاں شک معدوم ہے اور نہی کا منشاء یہ ہے کہ جیسے شک معدوم ہے آئندہ بھی معدوم رہے.تیسراؔ جواب: سائل.یہاں آیت  میں ایسا کون سا امر ہے جس کے باعث ہم کو خواہ مخواہ ماننا پڑے گا کہ لَا کے مخاطب ہادیٔ اسلام ہیں.صلی اﷲ علیہ وسلم.ہم کہہ سکتے ہیں بدلائل مذکورہ سابقہ حضور علیہ السّلام کو اپنی رسالت پر یقین تھا اور قرآن کریم میں اختلاف نہیں.اِس لئے ثابت ہؤا لَا کا مخاطب کوئی متردّد اور شک کرنے والا آدمی ہے نہ حضور علیہ السّلام.چوتھاؔ جواب: ہم نے مانا اِس جُملہ لَا کے مخاطب ہمارے ہادی علیہ السّلام ہیں مگر عبری اور عربی کا طرزِ کلام باہم قریب قریب ہے اور کتبِ مقدّسہ کا غیر محرّف حصّہ اور قرآن کریم دونوں ایک ہی متکلّم کے کلمات ہیں اور دونوں ایک ہی مخرج سے نکلے ہیں اور دونوں کا محاورہ ہے کہ اعلیٰ مورث کو مخاطب کیا جاتا ہے اور مراد اس مورث کی قوم ہوتی ہے.کسی کو خطاب کرتے ہیں اور کسی دوسرے کو مقصود بالخطاب رکھتے ہیں.دیکھو یرمیاہ.مانے کہ وہ دن بڑا ہے یہاں تک کہ اس کی مانند کوئی نہیں.وہ یعقوبؑ کی مصیبت کا وقت ہے (یرمیاہ۳باب۷.۱۰) اے میرے بندہ یعقوبؑ ہراساں مت ہو.(یرمیاہ۴۶باب۲۸) خداوند کا یہودہ کے ساتھ بھی ایک جھگڑا ہے اور یعقوبؑ کو جیسے اس کی روشیں ہیں ویسی سزا دے گا ( ہوسیع ۱۲ باب ۲) دلاوری سے لبالب ہوں کہ یعقوبؑ کو اس کا گناہ اور اسرائیل کو اس کی خطا جتا دوں (میکاہ۳ باب ۸) یعقوبؑ کی رونق کو اسرائیل کی رونق کی مانند پھر بحال کریگا (نحمیاہ ۲ باب۲) اے کرازین ( یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو افسوس اور ملامت کے قابل نہیں) تجھ پر افسوس ہے.اے بیت صیداد ( یہ بھی گاؤں ہے) تجھ پر افسوس ( متی ۱۱ باب ۲۱) اے یروشلم.اے یروشلم( یہ بیت المقدس ہے) جو نبیوں کو مار ڈالتی ہے ( متی ۲۳ باب ۳۷) اِن اِس طرح کے محاورات قرآن کریم سے سُنو!

Page 262

Page 263

امتحانات کرتا رہا.ذرا مُنصف عیسائی اِس پر پھر غور کریں.(’’ ایک عیسائی کے تین سوال اور ان کے جوابات‘‘ صفحہ۵۲تا۵۵)     :توجّہ دو طرح کی ہے ایک یہ کہ کہ کسی طرف کو مُنہ کرنا.دوسرےؔ یہ کہ کِسی کی پرستش کرنا.ایک شخص نے اعتراض کیا کہ مسلمان سَنگ اَسود کو بوسہ دیتے ہیں.مَیں نے کہا.کیا تم کِسی کے بوسہ لینے کو پرستش سمجھتے ہو.؟ پھر اُس نے کہا کہ تم قبلہ کی طرف مُنہ جو کرتے ہو.مَیں نے کہا کہ تم میری طرف مُنہ کر کے کھڑے ہو.کیا یہ پرستش ہے؟ پھر نماز کے تمام ارکان کی طرف خیال کرو کعبہ کی طرف مُنہ نہیں رہتا بلکہ رکوع میں زمین کی طرف ہوتا ہے.دائیں بائیں بھی مُنہ ہوتا ہے.پس کِسی کی طرف مُنہ کرنا اَور بات ہے اور پرستش کرنا اَور بات.پھر یہ کہ مکّہ معظمہ کی نسبت نہ کوئی خواہش ہے نہ کوئی درخواست مکّہ معظمہ سے ہوتی ہے نہ کوئی اس سے اِلتجا کرتے ہیں ہاں حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے روضئہ مقدّسہ کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے تو لوگ یہ خیال کر سکتے تھے کہ یہ نبی کی پرستش کرتے ہیں.مگر جو لوگ مکّہ کے درمیان ہوتے ہیں ان کی اور خصوصًا حنفی مصلّی والوں کی تو مدینہ کی طرف پیٹھ ہوتی ہے.اِنسان کی ایک رُوح ہوتی ہے رُوح کا تو آگا پیچھا دایاں بایاں کچھ نظر نہیں آ سکتا.پس جو عبادت رُوح سے متعلق ہے اس کے ساتھ جہات کو کوئی تعلق نہیں مگر جسم میں چونکہ جہات ہیں اسلئے اس کے لئے عبادت میں بھی ایک جہت کی ضرورت تھی.توجّہ اِلی القبلہ سے یہی مقصود ہے کہ مسلمان

Page 264

اپنی عبادت میں خدا تعالیٰ کے فرمان کی پابندی کر کے پورے موحِّد اور فرمانبردار ہونے کا ثبوت دیتا ہے کہ میری اپنی کوئی خواہش نہیں ( حتّٰی کہ تیرے حضور کھڑا ہونے میں بھی) پھر یہ کہ مسلمان اِس لئے اِس طرف مُنہ کرتے ہیں کہ حکم مکّہ سے صادر ہؤا اِس لئے اسی طرف توجّہ کرتے ہیں.پھر یہ کہ یک جہتی بڑی اچھی چیز ہے.کوئی کِسی طرف کوئی کِسی طرف مُنہ کر لیتا تو یہ بات اچھی نہ ہوتی بلکہ یہ امر افتراق کا موجب ہو جاتا.عبادت کے لئے ایک نہ ایک جہت ضرور اختیار کرنی پڑتی ہے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے حکم کو چھوڑا ان کو پتھّروں اور درختوں کی پرستش کرنی پڑی ہے.ہندوؤں میں ایک فرقہ ہے جو لِنگ پُوجا کرتے ہیں دوسرا گروہ حنبیری کی پُوجا کرتا ہے.ایک ہندو رئیس نے ایک مندر بنایا اور اس میں تین لاکھ لِنگ اور تین لاکھ جینری کی مورتیں بنا کر رکھیں.کیسا تعجّب ہے.: جہاں کہیں تم ہو گے اسی طرف مُنہ کر لو گے تو پھر گویا تم سب کو اکٹھا کیا.شاہ عبدالعزیز صاحب نے جو ہمارے شیخ المشائخ ہیں ایک دلچسپ نکتہ لکھا ہے کہ خداوندِ کریم نے مکّہ معظمہ ہمارا جائے توجّہ بنایا.کعبہ میں چار مصلّٰی ہیں.حنفی لوگ کہتے ہیں ( جن کا مصلّٰی شمالی جانب ہے ) کہ ہم اسی طرف اور اسی طرز سے نماز پڑھتے ہیں جس طرف سے رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے پڑھی یعنی ہماری پیٹھ بھی اسی طرف رہتی ہے جدھر رسولِ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے کی.شافعی کہتے ہیں کہ  (البقرۃ:۱۲۶) کی تعمیل ہم ہی کر رہے ہیں کیونکہ ہمارا مصلّی اس کے قریب ہے.حنبلی کہتے ہیں ہمارا مصلّٰی سنگِ اَسود کے قریب ہے.مالکی اِن سب کی تردید کر تے ہیں مگر تاہم ان سب کی توجّہ ایک ہی طرف ہے مَا اﷲُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ میںغالبًا انہی چار مصلّوں کی نسبت پیشگوئی تھی.اَ:بعض ملکوں میں جب کسی غیر ملک کے لفظ جاتے ہیں تو ان کے معنے بھی بدل جاتے ہیں چنانچہ یہ حرام کا لفظ ہے یہ ہمارے مُلک میں بُرے معنوں میں استعمال ہوتا ہے حالانکہ عربی زبان میں حرام بڑی عزّت کے لئے استعمال ہوتا ہے.ایک کنچنی نے مسجد بنوائی ایک ظریف نے اس کی تاریخ نکالی.بَیت الحرام.یہ بہت بُری بات ہے کہ اچھے لفظوں کو بُرے معنے میں لایا جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) :کِسی نہ کِسی امر کی طرف متوجّہ رہتا ہے.:پس تم نیکیوں کی توجّہ میں پیش دستی کرو.:مسلمانوں نے یہ کیا کہ کعبہ تو فتح کر لیا مگر پھر چار مصلّوں پر تقسیم کر کے

Page 265

جھگڑا ڈال دیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ ۴۴۰)     : الزام نہ رہے کہ تم ابراہیمی مِلّت کے مدعی اور توجّہ کعبہ کی طرف نہیں کرتے.وَ:یہ بہت ضروری نصیحت ہے کہ کسی سے ڈر کے گناہ کا اِرتکاب نہ کرو.ڈر رکھو ایک اﷲ کا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء)    : وہ اِس کوشِش میں ہے کہ تم میں سے ایک مُزکّی گروہ پیدا ہو جائے.

Page 266

: پکّی باتیں.: دوسرے مقام پر فرمایا ہے  (ابراہیم:۸) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) کَمَا اَرْسَلْنَا: اسی واسطے ہم نے رسول بھیجا.(تشحیندالاذہان جلد۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۰ ستمبر ۱۹۱۳ء)    :جہاں تک مَیں نے تجربہ کیا ہے دُکھوں، رنجوں، مصیبتوں وغیرھا مسائل کے صاف کرنے میں اور پیش آمدہ امور کے متعلق فیصلہ دینے میں اﷲ جلّ شانہ، نے جو راہ انسان کو دکھائی ہے اس سے بہت کم لوگ کام لیتے ہیں چنانچہ ایک راہ کا یہاں ذکر ہے.فرماتا ہے.اولوگو ! جو ایمان لا چکے ہو استعانت کرو تو اﷲ سے اور وہ بھی صبرو صلٰوۃ سے.صبر سے مراد ہے روزہ اور بدیوں سے بچنا اور صلٰوۃ سے مراد ہے دعا.ہر ایک تم میں سے اِس بات پر غور کرے کہ لوگ اپنے مقصود کے پُورا کرنے کے لئے باریک درباریک فِکر کرتے ہیں یہاں تک کہ مَیں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ رستہ میں اُنگلی اِدھر اُدھر گھماتے جاتے ہیں کہ ہم یہ کریں گے وہ کریں گے مگر یہ طریق جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بدیوں سے بچ کر روزہ رکھ کر جنابِ الہٰی میں خشوع و خضوع سے دعا کریں اِس طریق پر انبیاء کے سوا دوسرے لوگ کم چلتے ہیں.:ایسے لوگ جو صبر سے اور دعا سے استعانت کرتے ہیں اُن کے ساتھ ہم ہو جاتے ہیں.مَیں نے مشکل سے مشکل امور میں اِس طریق کا تجربہ کیا اور مَیں شہادت دیتا ہوں کہ لَمْ (مریم:۵)

Page 267

افسوس کہ مسلمانوں کے پاس ایسا عمدہ نسخہ ہو اور پھر بھی وہ ناکام رہیں.کسی کو بیبیوں کی نسبت شکایت کِسی کو قرض کی نسبت.کسی کو عدمِ ترقّی کا شکوہ.یہ سب کچھ کیوں ہے ؟ اِس لئے کہ استعانت کا یہ طرز چھوڑ دیا.جب سلطنتِ اسلام موجود تھی تو اس وقت کی حالت کا ایک شخص نقشہ کھینچتا ہے ؎ شب چو عقدِ نماز بر بندم چہ خورد بامداد و فرزندم اس وقت کا یہ حال ہے تو آج جو کچھ ہؤا تھوڑا ہے.دُنیا طلبی نے لوگوں کو پریشان کر رکھا ہے.ایک مسلمان بادشاہ دہلی سے ملتان جاتا تھا خوا جہ فریدالدین سے اس کے وزیر کو عقیدت تھی.اپنے پِیرو مُرشد کے آگے کچھ نقد روپیہ اور کچھ کاغذ رکھے.نقد روپیہ تو خواجہ صاحب نے لے لیا اور کاغذ کی نسبت پوچھا.یہ کیا ہے ؟ اس نے کہا.یہ دس گاؤں بطور جاگیر پیس کرتا ہوں تالنگرخانہ وغیرہ کے خرچ میں کوئی دِقّت پیش نہ آئے.فرمایا.اِس کو اُٹھا لو.حدیث میں آیا ہے کہ جس قوم میں زمینداری کا سامان آ جائے وہ ذلیل ہو جاتی ہے.قرآن شریف سے استنباط فرمایا ہے جہاں یہودیوں کا واقعہ بیان فرمایا کہ (البقرۃ:۶۲) اور پھر(البقرۃ:۶۲)پھر کہتے ہیں کہ ایک شخص آیا اور تنگی معیشت کا ذکر کیا کہ اتنے روپیہ کے سوا میرے پاس کچھ نہیں.ہنس کر کہنے لگے کہ میرے گھر میں ساری عمر میں اِتنا کبھی جمع نہیں ہوا.یہ عجیب کیمیا ان کے پاس موجود تھی.اہل اﷲ لوگ اپنی خواہشیں بہت مختصر رکھتے ہیں اور پھر انہیں حصولِ مطالب کا ایک گُر آتا ہے اور وہ گُر یہی ہے جو اُوپر بیان ہؤا.:جو لوگ خدا کی راہ میں مقابلہ کرتے ہیں اور اس حالت میں فوت ہو گئے یہ مت کہو کہ وہ اپنی عمریں برباد کر گئے وہ عمریں برباد نہیں ہوئیں ان کے اعمال غیر منقطع ہیں اِس لئے انہوں نے حیاتِ جاوید پائی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) : مشکلات سے نکلنے کا علاج.طاعتِ الہٰیہ کرو اور بدیوں سے بچو.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۰) پیغمبرِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ معظمہ میں تھے تو صرف ایک بُت پرست قوم آپ کی دشمن تھی لیکن اس دشمن کے ہوتے آپ کے کُنبہ اور قوم کے لوگ آپ کا ساتھ دیتے تھے.آپ ان کے باریک منصوبوں کو بھی خوب سمجھتے تھے.آپ کے اَتباع کو بہت مشکلات پیش آئے مگر جب آنحضرت ( صلی اﷲ علیہ وسلم) مدینہ میں پہنچے تو ہر ایک قِسم کی تکلیف بڑھ گئی کیونکہ ایک بُت پرست قوم تو دشمن تھی ہی مگر اَب اوسؔ اور خزرجؔ کے

Page 268

بُت پرست بھی دشمن ہو گئے.پھر پڑھے لکھے یہودی بھی آمادۂ مخالفت ہوئے.ان کی چالبازیاں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ایذا کے لئے بہت باریک تھیں جن کا اشارہ اوّل ہاروت ماروت کے قصّہ میں ہو چکا ہے پھر ان کے علاوہ نبو نضیر اور بنو قریظہ دشمن اور بنو قینقاع دشمن.اور اِن سب کے علاوہ عیسائیوں کی طرّار قوم دشمن پھر ان کے بھی علاوہ دوسری اقوامِ عرب تھیں جن کی نظروں میں آپ کی وجودِ مبارک کھٹکتا تھا اور سب سے مشکل یہ تھی کہ ان قوموں کی باریک اندرونی چالوں سے کیسے آگاہی ہو.یہ سب ایک دوسرے کو اور دوسری قوموں کو اُکساتے تھے.اِس لئے مدنی آیات میں آیا ہے (المائدۃ:۶۸)کیونکہ سخت مشکلات کا سامنا تھا ان کے سامنے ملّتِ ابراہیمؑ کو پیش کیا گیا ہے جیسے کہ پیچھے ذکر ہؤا اور اسی سخت مشکل کے وقت دوا تجویز کی گئی جو کہ بتلاتی ہے کہ اس کا کیا فائدہ ہؤا اور کِن کِن نے اس کا تجربہ کیا اور انہوں نے کیا برکات اور فوائد اِس دوا سے حاصل کئے اور کیا نتیجہ نکلا.وہ دو علاج ہیں جن کا اِس آیت میں ذکر ہے  وَالصَّلٰوۃ.یعنی اے ایمان والو! تم پر بڑی مشکلات کا وقت ہے تم میری مدد اور عون حاصل کرو اس کا طریق ایک صبر اور ایک صلوٰۃ ہے.صبر کے دو معنے ہیں ایک تو عام طور پر روزہ رکھنا اور واقعہ میں روزہ اور نماز دونوں جنابِ الہٰی کی طرف توجّہ کا بڑا ذریعہ ہیں.دوسرے معنے صبر کے نیکیوں پر مستقل رہنا اور بدیوں کا اِرتکاب نہ کرنا.مشکلات کے وقت اِنسان اﷲ کی فرمانبرداری اور اطاعت کو چھوڑ بیٹھتا ہے.مثلاً بیماری ہو یا ہتکِ عزّت ہو.کوئی مقدمہ ہو یا تجارت کا مقابلہ ہو یا کسی کام میں اُسے خسارہ ہؤا ہو تو ایسی تمام مشکلات کے وقت ایک ناعاقبت اندیش انسان اﷲ تعالیٰ کی نارضامندی کو جائز کر لیتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے وقت تم یہ نہ کرنا کہ اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی کرو اور اطاعتِ الہٰی میں بہانہ تلاش کر کے کمزوری کرو.انسان اگر خدا کی مدد لینا چاہتاہے تو اس کا یہی طریق ہے کہ مطلق عبادت کو ترک نہ کرے اور نہ کِسی نافرمانی کا اِرتکاب کرے.روزہ کا اصل میں یہی مطلب ہوتا ہے کہ بقائے نوعی اور بقائے شخصی کے لئے جو اُسے ضروریا ت ہیں اُسے وہ ترک کئے ہوتا ہے اور باوجود ضرورت کے ترک کرتا ہے تو پھر غیر ضروری باتوں کو کب اختیار کرتا ہے.تو یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ کی مدد و طاقت پر مستقل رہنے اور بدی سے بچنے پر آیا کرتی ہے.صبر کے بعد پھر دعا ( صلوٰۃ ) کرے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہےصابروں کا ہم ساتھ دیتے ہیں  کے لفظ سے مجھے بہت خوشی

Page 269

ہؤا کرتی ہے کیونکہ جب ایک دولتمند وکیل اور حاکم یا کوئی اَور ذی وجاہت کسی کو یہ کہہ دے کہ ہم تیرے ساتھ ہیں تو اُسے کِس قدر خوشی حاصل ہوتی ہے اور اس کی ڈھارس بندھتی ہے تو پھر جب اَحکم الحاکمین بتلا دے کہ ہم صابروں کے ساتھ ہیں تو کِس قدر خوشی ہونی چاہیئے.اس سے آگے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میں سے بہت سے قتل توہوں گے مگر وَلَاتَقُوْلُوْاتم یہ نہ سمجھنا کہ جو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں مریں گے وہ مُردہ ہو گئے  بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم کو ان کی زندگی کا شعور نہیں ہے.اﷲ کی راہ میں جو مارا جاوے اسے احیاء کہتے ہیں اور تین طرح سے وہ زندہ ہوتے ہیں جن کو ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے اور متوسط درجہ کے آدمی بھی اور ایک مومن بھی سمجھ سکتا ہے.گویا ان کی حیات قائم رہتی ہے.اسے تو ایک مومن سمجھ سکتا ہے.دوسری بات کہ متوسط درجہ کا عرب سمجھ سکتا ہے کہ اہلِ عرب کا محاورہ ہے کہ جس کا بدلہ لیا جاوے اُسے وہ مُردہ نہیں کہتے بلکہ زندہ کہتے ہیں.شہید کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو تم میں سے مَرے گا اس کا بدلہ جاوے گا.تیسری بات کہ ایک جاہل بھی سمجھ سکتا ہے یہ ہے کہ جب میدان ہاتھ آوے اور فتح ہو جاوے تو پھر مُردوں اور مقتولوں کو مُردہ اور مقتول نہیں سمجھتے اور نہ ان کا رنج و غم ہوتا ہے میرا اپنا اعتقاد ہے کہ شہید کو ایک چیونٹی کے برابر بھی دَرد محسوس نہیں ہوتا اور مَیں نے اِس کی نظیریں خود دیکھی ہوئی ہیں.(البدر ۲۰؍ مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۶۹) آج یہ جو دو آیت ( سورہ ٔ بقرہ کی آیات ۱۵۵ تا ۱۵۸ ) مَیں نے تمہارے سامنے پڑھی ہیں یہ میرے کسی خاص ارادے ، غور و فکِر کا نتیجہ نہیں اور نہ مَیں نے کوئی تیاری قبل از وقت اِس مضمون اور اِن آیات کے متعلق آج جمعہ کے خطبہ میں سُنانے کی کی تھی.وعظ کا بیشک مَیں عادی ہوں مگر یہ آیتیں محض اﷲ تعالیٰ کی ہی طرف سے دِل میں ڈالی گئیں.اِس کا مطلب سمجھنے کے واسطے مَیں پہلے تمہیں تاکید کرتا ہوں.توجّہ سے سُنو اور یاد رکھو جب تمہیں کوئی وسوسہ پیدا ہو تو پہلے دائیں طرف تھوک دو پھر لا حَول پڑھو اور ان باتوں کو کثرت سے استعمال کرو.دعاکرو.پھر تاکید سے کہتا ہوں کہ اَب تک تمہارا کام یہ ہے کہ ہتھیار بند ہو جاؤ، کمریں کَس لو اور مضبوط ہو جاؤ.وہ ہتھیار کیا ہیں ؟ یہی کہ دعائیں کرو.استغفار، لاحَول ، درُود ، اور الحمد شریف کا ورد کثرت سے کرو.اِن ہتھیاروں کو اپنے قبضہ میں لو اور ان کو کثرت سے استعمال کرو.مَیں ایک تجربہ کار انسان ہونے کیحیثیت سے اور پھر اِس حیثیّت سے کہ تم نے مجھ سے معاہدہ

Page 270

کیا ہے اور میرے ہاتھ پر بَیعت کی ہے تم کو بڑے زور سے اور تاکیدی حکم سے کہتا ہوں کہ سر سے پاؤں تک ہتھیاروں میں محفوظ ہو جاؤ اور ایسے بن جاؤ کہ کوئی موقع دشمن کے وار کے واسطے باقی نہ رہنے دو.بائیں طرف تھوکنا، لاحَول پڑھنا، استغفار، درُود اور الحمد شریف کا کثرت سے وظیفہ کرنا.ان ہتھیاروں سے مسلّح ہو کر اِن آیات کا مضمون سُن لو.تم نے سُنا ہو گا اور مخالفوں نے بھی محض اﷲ کے فضل سے اِس بات کی گواہی دی ہے اور تم میں سے بعض نے اپنی آنکھ سے بھی دیکھا ہو گا کہ حدیث شریف میں آیا اَلْمَبْطُوْنُ شَھِیْدٌبخاری.کتاب الاذان باب فضلِ التھجیرالی الظُّھرِوہ جو دستوں کی مرض سے وفات پاوے وہ شہید ہوتا ہے.مبطون کہتے ہیں جس کا پیٹ چلتا ہو یعنی دست جاری ہو جاویں.اَب جائے غور ہے کہ آپ ( حضرت مسیح موعود علیہ الصّلوٰۃ و السّلام) کی وفات اِسی مرض دستوں ہی سے واقع ہوئی ہے.اَب خواہ اسی پُرانے مرض کی وجہ سے جو مدّت سے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بطور ایک نشان کے آپ کے شاملِ حال تھا یا بقول دشمن وہ دست ہیضہ کے تھے.بہر حال جو کچھ بھی ہو یہ امر قطعی اور یقینی ہے کہ آپ کی وفات بصورت مبطون ہونے کے واقع ہوئی ہے.پس آپ بموجب حدیث صحیح کہ مبطون( جو مرضِ دست سے خواہ کسی بھی رنگ میں ہو وفات پانے والا شہید ہوتا ہے پس اِس طرح سے خود دشمنوں کے مُنہ سے بھی آپ کی شہادت کا اقرار خدا نے کرا دیا یُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِسے مُراد لڑائی اور جنگ ہوتی ہے.لڑائی اور جنگ ہی میں صُلح ہوتی ہے.خدا نے آپ کو پیغامِ صلح دینے کے بعد اُٹھایا.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اَب جنگ کا خاتمہ ہونے کو ہے کیونکہ اَب صلح کا پیغام ڈالا گیا ہے مگر خدا کی حکمت اِس میں یہی تھی کہ آپ کو حالتِ جنگ میں ہی بُلالے تا آپ کا اَجر جہاد فی سبیل اﷲ کا جاری اور آپ کو رُتبہ شہادت عطا کیا جاوے.یہی وجہ ہے کہ عملی طور پر اس صلح کی کاروائی کے انجام پذیر ہونے سے پہلے جبکہ ابھی زمانہ زمانۂ جنگ ہی کہلاتا تھا اُٹھا لیا…اب اﷲ تعالیٰ کہتا ہے .ہم سُناتے ہیں ذرا غور سے توجّہ سے اور خبردار ہو کر سُن لو.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کیا کہتے ہو؟ یہی کہ ان لوگوں کے حق میں یہ کبھی بھی مت کہیو جو خدا کی راہ میں جان خرچ کر گئے ہیں اور خدا کی راہ میں شہید ہوئے ہیں.کیا مت کہیو؟ کہ وہ مر گئے ہیں.وہ مرے نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں.آپ نے خدا کی راہ میں تبلیغِ احکامِ الہٰیّہ میں، خدا کی راہ میں حالتِ سفر میں وفات پائی ہے.پس یہ خدا کا حکم ہے اور کوئی بھی اِس بات کا مجاز نہیں کہ آپ کو مُردہ کہے آپ مُردہ نہیں.آپ ہلاک شدہ نہیںبَلْ اَحْیَآئٌ بلکہ زندہ ہیں.یاد رکھو کہ یہ

Page 271

نہی الہٰی ہے.ہم وجوہات نہیں جانتے کہ ایسا کیوں حکم دیا گیا بلکہ اِس جگہ ایک اَور نکتہ بھی قابلِ یاد ہے اور وہ یہ ہے کہ اَور جگہ جہاں شہداء کا ذکر کیا ہے وہاں اَحْیَآئٌ عِنْدَرَبِّھِمْ کا لفظ چھوڑ دیا ہے.دیکھو انسان جب مرتا ہے تو اس کے اجزاء متفرق ہو جاتے ہیں مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے اس نے حضرت مرزا صاحب کی جماعت کو جو بمنزلہ آپ کے اعضاء کے اور اجزاء کے تھی اس تفرقہ سے بجا لیا اور اتفاق اور اتحا د اور وحدت کے اعلیٰ مقام پر کھڑا کر کے آپ کی زندگی اور حیاتِ ابدی کا پہلا زندہ ثبوت دُنیا میں ظاہر کر دیا.صرف تکمریزی ہی نہیں کی بلکہ دشمن کے مونہہ پر خاک ڈل کر وحدت کو قائم کر دیا.دیکھو یہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے اَلْمَبْطُوْنُ شَھِیْدٌاور دوسری طرف قرآن شریف میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جھنجھوڑ کر کہا ہے کہ مُردہ مت کہو بلکہ یہ کہو کہ اَحْیَآئٌیہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی.ہم نے خود دم نکلتے دیکھا،غسل دیا، کفن دیا اور اپنے ہاتھوں سے گاڑ دیا اور خدا کے سپرد کر دیا پھر یہ کیسے ہو کہ مَرے نہیں بلکہ زندہ ہیں مگر دیکھو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا شعور غلطی کرتا ہے.مَیں یہ مسئلہ اپنے بھائیوں کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنے اندرغیرت پَیدا کریں اور سچّے جوش جو حق اور راستی کے قبول کرنے سے ان میں موجود ہو گئے ہیں ان کا اظہار کریں اور ہمیںدکھادیں کہ واقعی ان میں ایک غیرت اور حمیّت ہے اور ان مخالفوں سے پوچھیں کہ دشمن جو کہتا ہے کہ ہیضہ سے مَرے ہیں.اچھا مان لیا کہ دشمن سچ کہتا ہے پھر ہیضہ سے مرنا شہادت نہیں ہے؟ پیغامِ صلح جنگ کو ثابت کرتا ہے اور دشمن بھی اِس بات کو تسلیم کرے گا کہ واقعی آپ کی وفات عین جہاد فی سبیل اﷲ میں واقع ہوئی ہے.دشمن نے خود بھی ہر طرح سے مورچہ بندی کی ہوئی تھی اور اپنے پورے ہتھیاروں سے اپنی حفاظت کے سامان کرنے کی فکر میں لگ رہا تھا.اراکین اور امراء کو دعوت دے کر آپ نے اپنے تمام دعاوی پیش کئے تھے یا کہ نہیں.پس ان سب لوازم کے ہوتے ہوئے بھی دشمن آپ کے احیاء کے قائل نہیں تو جانور ہیں.(الحکم ۱۴؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ۷،۸)  

Page 272

   : اِس کے معنے ہیں ضرور ضرور ہمیں اپنی ذات کی قَسم ہے کہ ہم تمہیں انعام دینا چاہتے ہیں مگر کچھ تھوڑا خوف دے کر.: صوفی کہتے ہیں الہٰی خوف.فقہاء کے نزدیک یہ معنے ہیں کہ اکل حرام سے خوف.اور شافعی کہتے ہیں جہاد کی تکالیف کا خوف.: اِس کی بھی تین صورتیں ہیں (۱) روزہ (۲) مالِ حرام ملتا ہے تو نہ لے.اور اگر اس نہ لینے سے فاقہ آتا ہو تو اس فاقہ کو مقدّم کر کے اسے برداشت کرے(۳) بعض وقت اپنے پیٹ کو خالی رکھ کر دینی امورمیں امداد دے.:مالوں کی کمی کی بھی کئی صورتیں ہیں(۱) اﷲ کی راہ میں خرچ کر دیا.(۲) رشوت ، حرامزدگی، باطل سے مال ملتا ہے اُسے نہ لیا.غرض  ہوتا ہے زکوٰۃ دینے سے.حرام سے بچنے سے یا کسی الہٰی حکمت کے ماتحت کسی چیز کے قبضہ سے نکل جانے سے.: جانوں کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا.:پھلوں کی زکوٰۃ.اور اس سے مراد اولاد بھی ہے.: ایک شخص کا کوئی بہت پیارا مَر گیا.وہ بہت مضطرب تھا.ایک دوست نے اسے آکر ایک کہانی سُنائی کہ ایک شخص نے کسی کے پاس جواہرات امانت رکھے تھوڑے دن بعد جب وہ واپس لینے کو آیا تو اس نے رونا چیخنا چلاّنا شروع کر دیا اس پر وہ شخص بولا جس کا بہت پیارا مر گیا تھا کہ پھر تو وہ بڑا ہی بیوقوف تھا جو امانت کو واپس دیتے ہوئے روتا ہے.جب اس کے مُنہ سے یہ بات نکلی تو اس کے دوست نے کہا آپ اپنی طرف نگاہ کریں.لڑکے بھی آپ کے خدا کی امانت تھے اگر خدا نے

Page 273

واپس لے لئے تو پھر جزع فزع کا کیا مقام ہے؟ : یعنی اگر خدا باوجود اس کا مالک ، اس کا بادشاہ اور اس کا خالق و رَبّ ہونے کے کوئی چیز لے لیتا ہے تو غم کی بات نہیں کیونکہ ہم نے بھی اُسی کے حضور جانا ہے اور وہاں جا کر اس کا نِعم البدل پانا ہے بلکہ اسی دُنیا میں بھی.میرے نو لڑکے لڑکیاں ( عبداﷲ ، اُسامہ، حفیظ الرّحمن ، محمد احمد، عبدالقیوم، امتہ اﷲ، رابعہ، عائشہ ، امامہ) مَر چکے ہیں ہر ایک کے مَرنے پر مَیں نے یہی خیال کیا ہے کہ آخر ایک دِن ہم نے جُدا ہونا تھا یا مَیں نے مَرنا تھا یا ان میں سے کسی نے.بہر حال خدا کے پاس جا کر پھر جمع ہونا تھا.پھر اﷲ تعالیٰ نے مجھے اَور بہت اولاد دے دی.وَالْحَمْدُلِلّٰہِ. : صَلوٰۃ کہتے ہیں کہ بدی کا اثر اور سزا جس بات پر مرتّب نہ ہو.ان خاصہ عنایات کا نام صَلوٰۃ ہوتا ہے.: یعنی علاوہ اِن خاص عنایتوں کے عام رحمتوں سے بھی حصّہ ملتا ہے ( یہ تو ایک دعوٰی تھا اب اس کا ثبوت اگلی آیت میں بیان فرمایا ہے).(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) : جنگ میں بیٹے بھی مرتے ہیں کھِیتی کی نگرانی نہیں ہو سکتی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۰) اور ہم تو کو انعام دیں گے کسی قدر خوف کے بدلے اور بھُوک اور مالوں اور جانوں اور پھَلوں کے کم کرنے کے بدلے اور خوشخبری دو صبر کرنے والوں کو کہ جنہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں ہم تو اﷲ کے ہیں اور اُسی کی طرف رجوع کرنے والے ہیں.(دیباچہ نور الدین صفحہ۲۰) جناب ہاجرہ علیہا السّلام کو ایک بڑا ابتلاپیش آیا جس کا اشارہ اِن باتوں سے ہؤا.(البقرۃ:۱۵۶) اور انعام دیں گے ہم تم کو بدلہ میں تھوڑے سے خوف اور بھُوک اور مالوںکے اور جانوں کے اور پھلوں کے نقصان کے.اور ان پانچوں پر اُمُّنَا ہاجرہؑ نے  کہا.ہم سب اﷲ کے ہیں اور اُسی کی طرف جانا ہے.پس اپنے دو اقوال سے صبر و استقلال اور ایمان کا اظہار فرمایا.اِس واسطے اﷲ تعالیٰ کریم و رحیم نے اس کی اولاد کو اٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفِامن دیا ان کو عظیم الشّان ڈر سے.(قریش:۵)کھانا دیا ان کو بھُوک سے اور بلدہ کو بلدۂ مبارک فرما کر کثرتِ اموال و انفس و ثمرات اور الصبرکا نِعم الاجرصلوات و رحمت عطا فرما کر اس کی اولا د کو ہدایت یافتہ فرمایا.(نورالدین صفحہ ۲۵۰،۲۵۱)

Page 274

مصائب شدائد پر صبر کرنے والوں کو اجر ملتے ہیں چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ ہر مصیبت پر  پڑھ کر یہ دعا مانگو اَللّٰھُمَّ اَجْرِنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْنِیْ خَیْرًا مِّنْھَا(المسلم.کتاب الجنائز باب مایقال عندالمصیبۃ)اور قُرآن شریف میں مشکلات اور مصائب پر صبر کرنے والوں کے واسطے تین طرح کے اَجر کا وعدہ ہے.  یعنی مصائب پر صبر کرنے والوں اور اِنّا لِلّٰہکہنے والوں کو تین طرح کے انعامات ملتے ہیں: ۱.صلوات ہوتے ہیں ان پر اﷲ کے.۲.رحمت ہوتی ہے ان پر اﷲ کی.۳.اور آخر کار ہدایت یافتہ ہو کر ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے.اَب غور کرو جن مصائب کے وقت صبر کرنے والے انسان کو ان انعامات کا تصّور آ جاوے جو اس کو اﷲ کی طرف سے عطا ہونے کا وعدہ ہے تو بھلا پھر وہ مصیبت ، مصیبت رہ سکتی ہے اور غم غم رہتا ہے؟ ہرگز نہیں! پس کیسا پاک کلمہ ہے الحمد لِلّٰہ اور کیسی پاک تعلیم ہے وہ جو مسلمانوں کو سکھائی گئی ہے.یہ نہایت ہی لطیف نکتۂ معرفت ہے اور دل کو مُوہ لینے والی بات.یہی وجہ ہے کہ قرآن شڑیف اِسی آیت سے شروع ہؤا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے تمام خطبات کا ابتدا بھی اِسی سے ہؤا ہے.(الحکم ۱۰؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ۲،۳) صاحبزادہ میاں مبارک احمد کی وفات اور پھر خود حضرت اقدس علیہ الف الف صلوٰۃ والسّلام کا کُوچ کرنا واقعی اپنے اندر ضرور ابتلا کا رنگ رکھتے ہیں مگر اِس سے خدا ہم کو انعام دینا چاہتا ہے.انعامِ الہٰی پانے کے واسطے ضروری ہوتا ہے کہ کچھ خوف بھی ہو.خوف کِس کا؟ خوف اﷲ کا، خوف دشمن کا ، خوف بعض نادان ضعیف الایمان لوگوں کے ارتداد کا.مگر وہ بہت تھوڑا ہو گا.یہ ایک پیشگوئی ہے اور اﷲ تعالیٰ خود فرماتا ہے  .خدا فرماتا ہے کہ میری راہ میں کچھ خوف آوے گا.کچھ جُوع ہو گی (جُوع یا تو روزہ رکھنے سے ہوتی ہے.مطلب یہ ہے کہ کچھ روزے رکھو) اور پارسا رنگ میں جُوع اپنے اُوپر اختیار کرو کہ صدقہ خیرات اس قدر نکالو کہ بعض اَوقات خود تم کو فاقہ تک نوبت پہنچ جاوے.اپنے مالوں کو خدا کی راہ میں اِتنا خرچ کرو کہ وہ کم ہو جاویں اور جانوں کو بھی اسی کی راہ میں خرچ کرو.عَلٰی ھٰذَا

Page 275

پھلوں کو بھی خدا کی راہ میں خرچ کرو.  اور ایسے لوگوں کو جو مصائب اور شدائد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں اور نیکی پر ثبات رکھتے ہیں.خدا کو نہیں چھوڑتے اور کہتے ہیں کہ ہم سب الہٰی رضا کے واسطے ہی پیدا ہوئے ہیں.جس طرح وہ راضی ہو اسی راہ سے ہم اس کے حضور اس کو خوش کرنے کے واسطے حاضر و تیار اور کمر بستہ ہیں.ہم نے اس کے حضور حاضر ہونا ہے.وہ اگر اس سے خوش نہیں تو پھر اس ملاقات کے دِن سُرخروئی کیسے ہو گی.پس تم خود ہی پیشتر اس کے کہ خدا کی طرف سے تم پر خوف ، جُوع اور نقصِ اموال اور ثمرات کا اِبتلا آوے خود اپنے اُوپر ان باتوں کو اپنی طرف سے خدا کی خوشنودی کے حصول کے واسطے وارد کر لو تاکہ دوہرا اَجر پاؤ اور یہ قدم خدا کے لئے اُٹھاؤ تاکہ اس کا بہتر بدلہ خدا سے پاؤ.یہ مصائب دینی نہیں بلکہ صرف معمولی اور دُنیوی ہوں گے.زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ دشمن بُرا بھلا کہہ لے گا.کوئی گندہ گالیوں کا بھرا اشتہار دے دیگا یا خفگی اور ناراضگی کے لہجہ میں کوئی بوداسا اِعتراض کر دے گا.مگر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ (اٰل عمران:۱۱۲)یہ تکلیف ایک معمولی سی ہو گی کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہو گی.دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچا لیا کہ تفرقہ سے بچا لیا.اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رَسّی میں پروئے نہ جاتے اور تم تِتّر بِتّر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک اِبتلا.مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے.اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہو گی بھی تو یہیں ہو گی اس کا مابعدالموت سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ مابعد الموت کو باعثِ اجر اور رحمت ہو گی اور اس تھوڑی سی مشکل پر صبر کرنے اور مستقل رہنے اور سچّے دِل سے  کہنے کا بہتر سے بہتر بدلہ دینے کی قدرت اور طاقت رکھنے والا تمہارا خدا موجود ہے وہ خاص رحمتیں جو کہ ورثۂ انبیاء اور شہدا ہوتی ہیں وہ بھی تمہیں عطا کرے گا اور عام رحمتیں بھی تمہارے شامِل حال کرے اور آئندہ ہدایت کی راہیں اور ہر مشکل سے نجات پانے کی، ہر دُکھ سے نکلنے ، ہر سُکھ اور کامیابی کے حصول کی راہیں تم پرکھول دے گا.دیکھو یہ مَیں اپنی طرف سے نہیں کہتا بلکہ ’’ بلوحِ خدا ہمیں است‘‘ خدا کے وعدے سچّے ہیں اور خدا اپنے وعدے کا سچّا ہے.آج کا مضمون اور اس کی تحریک محض خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے دِل میں ڈالی گئی ہے ورنہ نہ مَیں نے اس کا ارادہ کیا تھا اور نہ اس کے واسطے کوئی تیاری کی تھی.پس یہ خدا کی بات ہے.مَیں تم کو پہنچاتا ہوں اور تاکید کرتا ہوں کہ ایسے اَوقات میں تم کثرتِ دعا، استغفار، درُود، لاحَول، الحمد شریف کا وِرد کیا کرو.(الحکم ۱۴؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ۸)

Page 276

خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم خوف،جُوع،نقصان مال و جان و پھَل کے ذریعے تمہارے اندرونی صفات کو ظاہر کریں گے اور صابروں کو بشارت دے جن کا یہ حال ہے کہ جب انہیں مصیبت پہنچے تو وہ حال وقال سے کہتے ہیں ہم اﷲ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لَوٹ کر جانے والے ہیں.صبر کی مختصر حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر ایک نیکی اور نیک بات پر جما رہے.بدی سے رُکار ہے.گویا صبر تمام نیکیوں کا جامع ہے.مشکل کے وقت بدی سے بچنا یہی تو صبر ہے.شہوت میں عفت، غضب کے وقت حِلم ، حِرص کے مقابل میں قناعت ، وقار ، استقلال، ہمّت، عزم پر کار فرما رہنا.شرع و عقلِ سلیم کی مخالفت نہ کرنی.یہ سب صبر ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۷نمبر۷صفحہ ۳۲۷)   ہاجرہ نام ایک عورت تھی جو میری تحقیق کے مطابق ملکِ مصر کی ایک شاہزادی تھی ابراہیمؑ کی کرامتوں کو دیکھ کر بادشاہ نے اپنی لڑکی ابراہیمؑ کے نکاح میں دے دی.نوجوان اور خوبصورت اور باکرہ تھی اُس وقت ابراہیمؑ کی عمر ۸۴ سال تھی جبکہ وہ حاملہ ہوئی.مَیں بہت ہی مختصر سُناتا ہوں کہ پہلی بی بی نے اسے نکلوا دیا.اس پر اﷲ سے مکالمہ ہؤا کہ کیوں نکلی آپ نے عرض کیا کہ بڑی بی بی رہنے نہیں دیتی.خدا نے فرمایا واپس جاؤ اور اس کی فرمانبردار ہو کر رہو.اس صبر کے بدلے میں ہم تمہیں ایک لڑکا دیں گے جس کی اولاد تمام جہان کے لئے موجبِ ہدایت ہو گی اور آسمان کے تارے اور ریت کے ذرّے گننے آسان ہوں گے مگر تیری اولاد کو کوئی نہ گنِ سکے گا چنانچہ ایسا ہی ہؤا.پھر جب دوبارہ اس بی بی نے ہاجرہ کو دُکھ دیا تو ابراہیمؑ انہیں مکّہ میں چھوڑ گئے.ابراہیمؑ سے پوچھا کہ ہمیں کِس کے سپرد کرتے ہو؟ آپ نے اِس کا جواب نہیں دیا.پھر پُوچھا کہ کِس کے حکم سے یہاں لائے ہو؟فرمایا خدا کے حکم سے.اس پر اس نیک بخت صابرہ بی بی نے کہا تو پھر اَب تمہاری ضرورت نہیں.اس بی بی کے پاس نہ روپیہ تھا نہ مال اسباب تھا نہ مویشی تھے.بچّہ بھی چھوٹا تھا وہاں کوئی غمگسار نہ تھا.درندوں کا بھی ڈر تھا کوئی آبادی بھی نہ تھی.مگر اس صبر کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج مکّہ ایک عظیم الشّان شہر آباد ہے جو کروڑہا مخلوق

Page 277

کا ملجاو ماوا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جو میرے نام کے لئے صبر کر کے اس کے نتائج سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ صفا و مروہ سے جا کر یہ شعور، یہ معرفت حاصل کریں کیونکہ وہ مقام اﷲ کی طرف سے صبر کے نتائج کے شعور کے حصول کا ذریعہ مقرر شدہ ہے جو حج کرنے جائے وہ وہاں ذرا چل کر پھر کر دیکھے کہ ہمارا فضل اس صابرہ پر کیسا ہؤا.ہم کیسے قدر دان ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) اِنَّ الصَّفَا: صبر کے نتائجِ نیک کی مثال.ایک بیوی کے صبر سے مکّہ مرجعِ خلائق بن گیا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۰) صبر اور پھر اس پر اَجر کی ایک مثال بیان فرماتا ہے اور وہ صفا و مروہ ہے جس کو اﷲ تعالیٰ نے شعائر اﷲ سے قرار دیا ہے. یہ وہ مقام ہے جہاں حضرت ہاجرہؑ اپنے بیٹے اسمٰعیلؑ کے ساتھ چھوڑ دی گئیں.وہاں آپ نے صبر سے کام لیا تو اس کا جو انجام ہؤا وہ صفا و مروہ پر جا کر دیکھ لو کہ کیسی گھمسان کی آبادی ہے اور کِس طرح پر دُور دراز علاقوں سے لوگ دیوانہ وار وہاں دوڑتے آتے ہیں اور کِس طرح پر وہ مقام جو بالکل ایک ویرانہ تھا خدا کے فضل سے مرجعِ خلائق بن رہا ہے اور کِس کثرت کے ساتھ برکات کا نزول ہوتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ حضرت ہاجرہؑ کی بھی خصوصیّت نہیں بلکہ جو صبر کرے اجر پائے گا..(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ صفحہ ۳۲۸)  تمہارا معبود صرف ایک ہی ہے جسے اﷲ کہتے ہیں.ہر ایک کاملہ صفت سے موصوف.ہر ایک بُرائی سے پاک.بِن مانگے احسانات کرنے والا.مانگنے والوں کے سوال و محنت پر عنایت فرما.اس اﷲ کے سوا کوئی بھی معبود نہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۸) اُوپر کی آیات میں کفّار پر لعنتوں کا ذکر ہے اَب ان سے بچنے کا ایک نسخہ بتلایا ہے (۱) اﷲ کی طرف جھُک جانا جو اپنی ذات و صفات میں یگانہ ہے.یہاں اس معبود کی دو عظیم الشّان صفتوں کا ذکر ہے.

Page 278

: بلامبادلہ رحم کرنے والا.: سچّی محنتوں کو ضائع نہ کرنے والا بلکہ ان پر ثمرات مرتّب کرنے والا.اَب اپنی ہستی اور صفتِ رحمانیّت کا ثبوت دیتا ہے.پہلا ثبوت آسمان و زمین کی پَیدائش ہے اور رات و دن کا اِختلاف.ایک چھوٹی سی پیالی انسان کسی کے پاس دیکھے تو یہ کبھی وہم میں نہیں آتا کہ خود بخود بن گئی.تو اِتنا بڑا آسمان و زمین دیکھ کر یہ یقین کیوں حاصل نہ ہو کہ ان کا پیدا کرنے والا بھی کوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء)      یہ فطری بات ہے کہ جب مختلف اشیاء کو خاص ترتیب سے رکھا ہؤا دیکھتے ہیں تو ایک بچّہ بھی سمجھ جاتا ہے کہ ان کا اِس ترتیب سے رکھنے والا ضرور کوئی ہے چہ جائیکہ ایک عقلمند انسان آسمان کو دیکھے ، زمین کو دیکھے ، اس کی مختلف مخلوقات کو ایک خاص نظام میں دیکھے.دن رات کے کاموں میں ایک خاص انتظام نظر آئے اور پھر یہ نہ مانے کہ ان کا مرتّب کرنے والا بھی کوئی ہے مَیں تمہیں ایک قِصّہ سُناتا ہوں.دارالسلطنت بغداد میں کچھ ایسے آدمی جمع ہو گئے جو دہریہ تھے.ان میں سے چند آدمی ایک دفعہ حصرت امام ابوحنیفہ کے پاس آئے.جب امام صاحب نے انہیں اپنے مکان میں جمع ہوتے دیکھا

Page 279

تو نہایت متفکّرچہرہ بنا لیا.انہوں نے کہا حضرت آپ کِس خیال میں ہیں؟ ہم تو ایک مسئلہ دریافت کرنے آئے ہیں.آپ نے فرمایا مَیں تو اِس حیرت میں ہوں کہ یہاں بغداد میں لاکھوں آدمی رہتے ہیں ہر ایک کی ضرورت مختلف ہے.کوئی چین سے ، کوئی حبش سے، کوئی کِسی اَور بحری مقام سے وابستہ ہے پھر ہر ایک ضرورت کے لئے جہاز پر جہاز اڑے چلے آتے ہیں اور سُنتا ہوں نہ ان پر کوئی ملاّح ہے، نہ ان کا کوئی مالک ہے، نہ انہیں کوئی چلانے والا ہے.اس پر اس دہریہ جماعت کا بڑا بولا کہ معلوم ہوتا ہے آپ کے دماغ کو کوئی صدمہ ہو گیا ہے.یہ کام بغیر کسی مدبّر بالا رادہ کے نہیں چل سکتا اور نہ چل رہا ہے.آپ نے فرمایا بغداد کی کارروائی تو بغیر کِسی مدبّر کے نہ چلے مگر آسمان و زمین کا کارخانہ خود بخود چلتا رہے.اس پر وہ بہت نادم ہوئے اور چلے گئے.مجھے بھی کئی دہریوں سے گفتگو کا اِتّفاق ہؤا.ایک دفعہ مَیں نے ایک دہریّہ سے اس دری کی طرف اشارہ کر کے جس پر ہم بیٹھے ہیں پُوچھا اس کا یہ دھاگا یہاں سے پَلٹ کر ادھر کیوں گیا ہے.اُس نے کہا مدبّر بالِا رادہ دری کے بُننے والے نے اسے پیچدار بنا لیا.مَیں نے کہا آپ نے اِس دری کا بُننے والا دیکھا.کہا نہیں.مگر ایسی دریاں بنتے مَیں نے دیکھی ہیں.جب اسے سمجھایا گیا کہ تم لوگ تو تماثل اجسام کے قائل نہیں تو اس نے ہنس کر بات کو ٹالنا چاہا.یہاں تک تو اپنی ہستی اور صفتِ رحمانیّت کا ثبوت دیا اَب رحیمی صفت کا بیان ہوتا ہے پہلے تو جہازوں کو لو جن سے لوگوں کو بہت نفع پہنچتا ہے.یہ دوسرے ممالک کے ناموں کا بائیکاٹ کرنے والے اور سودیشی تحریک کے بانی اِس آیت کا انکار کرنے والے ہیں اگر ہم آج یہ تفریق کریں گے کہ فلاں ملک کی چیز خواہ کیسی اچھی ہو ہم نہیں لیتے.توکل پھر بعض شہروں کا بائیکاٹ کرینگے پھر مذہبی تفریق درمیان میں آئے گی.مسلمان کہیں گے ہم ہندوؤں کی نہیں خریدتے اور ہند وکہیں گے ہم عیسائیوں سے یہ معاملہ نہیں رکھتے.پھر مذہبوں کی آپس میں تفریق ہو گی.وہابی کہیں گے ہم حنفیوں کی بنی ہوئی چیزیں نہیں خریدتے اور حنفی کہیں گے ہم احمدیوں کی نہیں خریدتے.اِس طرح تو بڑا فساد پڑے گا.پھر اُوپر سے پانی کا برسنا اور اس پانی سے فائدہ اُٹھانا.یہ بھی رحیمی صفت کے ماتحت ہے.پھر جانداروں کا پیدا کرنا جو طرح طرح کی ضرورتوں میں ہمارے کام آتے ہیں.کوئی بوجھ اُٹھاتا ہے کوئی ہَل چلاتا ہے، کوئی حفاظت کرتا ہے، کوئی غذا بناتا ہے.: ہواؤں کے بارے میں بڑی بڑی کتابیں بنی ہوئی ہیں.ایک ہَوا ہے جو جہازوں کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جاتی ہے.ایک ہَوا ہے جو ریل کو چلاتی ہے.ایک

Page 280

گندگیوں کو صاف کرتی ہے.ایک بیماری کے جَرم فنا کرتی ہے.ہَوا کی تعریف میں بھی خدا کی قدرتوں اور اس کے رحیم ہونے کے بہت سے نشانات ہیں.پھر بادل جو آسمان و زمین میں مسخّر ہے گویا کہ وہ سَقّہ ہے جو جنابِ الہٰی کے امر کا منتظر ہے جہاں اسے حکم ہو پانی پہنچائے.یہ سب کچھ بیان کر کے فرماتا ہے کہ اُولوالالباب کا تو اعلیٰ درجہ ہے معمولی عقل والے بھی اِس سے اِس نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہے اور وہ رحمن و رحیم ہے اس کا مدِّ مقابل کوئی نہیں.حُسن و احسان میں اس سے بڑھ کر کوئی نہیں.پس عشق و محبّت بھی اسی ذات سے سزا وار ہیں.اکثر لوگ ہیں جو کِسی کی تان پر، آواز پر، اداؤں پر ، مال پر، جاہ وجلال پر، علم و فضل پر، حُسنِ و خوبی پر لٹّو ہو جاتے ہیں مگر نہیں جانتے کہ یہ سب چیزیں فانی ہیں.بہت سی عورتیں جو اپنے حُسنِ دِل آویز کی وجہ سے دوسروں کے اِبتلا کا موجب تھیں ایک وقت ان پر ایسا آیا کہ آتشک ہوئی اور ناک گِر گئی.بہت سے ایسے امراء ہیں کہ ایک دَم میں غریب ہو گئے.بہت سے ایسے علماء ہیں کہ حواس باختہ ہو گئے پھر جس کمال کی وجہ سے ان کی قدر ہوئی تھی وہ جاتا رہا تو کِسی نے بات تک نہ پوچھی. (البقرۃ:۱۶۶) (ضمیمہ اخبار بدر ؔقادیان۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) بے شک آسمانوں اور زمین کی پَیدائش میں کہ دونوں میں کِس قدر مختلط القوٰی اشیاء موجود ہیں اور پھر ان میں کیسا باہم تعلق ہے.تم کو کِس قدر وقتًا فوقتًا ضرورتوں کا سامنا ہوتا ہے پھر آسمان اور زمین میں کتنا سامان تمہاری ضرورتوں کے علاوہ تمہاری راحت کے واسطے بھی موجود ہے اور رات و دن کے اختلاف میں کہ کس طرح دونوں طول البلد میں بایں اختلاف کہ ہر ایک دوسرے کے پیچھے موجود ہے اور عرضِ بلد میں بایں اختلاف کہ کم و زیادہ موجود رہتے ہیں اور ان جہازوں میں جو لوگوں کے لئے ہر قِسم کے منافع کے واسطے سمندر میں پتلے پتلے پانیوں پر بڑے بڑے بوجھوں کے ساتھ دوڑ رہے ہیں اور اس میں کہ اﷲ تعالیٰ ویران وغیر آباد زمینوں کو اس پانی سے آباد کر دیتا ہے جس کو وہ آپ بادلوں سے اُتارتا ہے اور اس میں کہ پینے کے لئے پانی، کھانے کے لئے کھانے، غرض آسمانوں اور زمین کی پَیدائش اور رات دن کی روشنی و اندھیری اور بادلوں کی بارش کے بعد اﷲ تعالیٰ نے ہی زمین میں ہر قِسم کے جانداروں کو پھیلایا اور ہواؤں کے اِدھر اُدھر پھیرنے میں کہ کہیں ان میں کوئی حیوانات و بناتات کی زندگی کا باعث ہیں.کہیں خون کے صاف کرنے اور گھِسے پِسے اجزا کے نکالنے میں مددگار.کہیں جہازوں اور کشتیوں کے لے جانے میں مُفت کے مزدور.کہیں بادلوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے میں فرمانبردار.کہیں ضرورت کے موافق ذرّات کو جمع

Page 281

کر دیں.کہیں صفائی میں مدد دیں اور بادلوں میں جو آسمان و زمین کے درمیان اﷲ تعالیٰ کے قبضہ حکم میں مسخّر ہو رہے ہیں.ضرور ہی ان باتوں میں اﷲ تعالیٰ کی ہستی، اس کی یکتائی، اس کی کاملہ صفات، حکمت، قدرت، عِلم ، رحم وغیرہ وغیرہ کے نشان ہیں مگر صرف اس قوم کے واسطے جو عقلِ سلیم رکھتے ہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۴۹،۲۵۰) الْمُسَخَّرِ: مُفت کام میں لگائے گئے.تسخیر کے علم والے دیکھیں.ہمارے لئے بغیر کسی عمل پڑھنے کے سب کچھ مسخّر ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹) (آیت نمبر ۱۶۶ البقرۃ) پس جو مومن ہے وہ اپنا محبوب اﷲ کو بناتا ہے.وہ نہ اپنے پیرو مُرشد سے اتنی محبت کرتا ہے جتنی اﷲ سے چاہیئے اور نہ اپنی بیوی سے نہ دُنیا کی کسی اَور چیز سے.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۲۵؍مارچ ۱۹۰۹ء) :جو ایسا نہیں کرتے وہ مُشرک ہیں.جب کوئی عذاب آ جاتا ہے تو پھر جس صاحبِ قوّت یا صاحبِ جمال یا صاحبِ مال سے خدا کے برابر محبّت کرتے تھے وہ کسی کام نہیں آتا اس وقت پتہ لگتا ہے. کہ بَل بوتہ سب اﷲ ہی کے لئے ہے.کوئی قوّت خدا کے مقابل کام نہیں دے سکتی.حُسن و جمال ،

Page 282

عِلم و فضل کی قوّت تو تلواروں کے ماتحت ہے الہٰی قوّت کسی کے ماتحت نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) بعض آدمی بعض اشیاء کو مختلف اغراض کے باعث پرانوںؔ سے پیارا سمجھتے ہیں.تم نے سُنا ہو گا کہ ہزارں اپنے پرانوںؔ کو خدا کے سوا اَور اشیاء کی محبّت پر تیاگ دیتے ہیں.پس سچّی تعلیم میں بجائے اس کے کہ باری تعالیٰ کو پرانوںؔ سے پیارا کہا جاوے اُس کو ہر ایک چیز سے زیادہ پیارا ہونے کا یقین کرایا جاوے اور یہی فائدہ ہے جو قرآن کریم کے لفظ مِنْ دُوْنِ اﷲِ سے حاصل ہوتا ہے اور یہی قرآن کریم کی تکمیل ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۶۲،۱۶۳) قرآن کریم نے ایک اَور شرک کی طرف بھی توجّہ دلائی ہے وہ یہ ہے کہ  یعنی جیسا پیار اﷲ سے کرتے ہو کسی اَور سے کرنا خدا کا شریک بنانا ہے..نِدّ بنانا یُوں ہے کہ مثلاً ایک طرف آواز آ رہی ہے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح اوردوسری طرف کوئی اپنا مشغلہ جس کو نہ چھوڑا.تو یہ بھی شرک ہے.(بدرؔ ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲)  :اسباب کے معنے تعلّقات کے ہیں یعنی ان کے باہمی تعلّقات قطع ہو جائیں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یوم پنجشنبہ.یکم اپریل ۱۹۰۹ء صفحہ۲۷)   

Page 283

:ایک پاگل میرے ہاں رہتا تھا.سو کر جاگتا تو چند منٹ کے لئے اس کے ہوش وحواس درست ہو جایا کرتے اُس وقت وہ کہتا ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ.حَسْنَا.اس کا نام ہے) تُو نے کئی گھروں کو آباد کیا اور کئی گھروں کو اُجاڑا.پر تیرے کام کچھ نہ آیا.‘‘ دیکھو انسان جب خدا کو چھوڑ دیتا ہے تو اس کے عمل اس کے افسوس کا موجب ہو جاتے ہیں اور پھر ہر وقت اس کے دل میں ایک آگ لگی رہتی ہے.یہ بات یاد رکھو کہ انسان جوانی میں بہت کچھ غلطیاں کرتا ہے مگر جو لاحول اور استغفار کے عادی ہوتے اور پاک صحبتوں میں رہ کر دعاؤں میں مشغول ہوتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی دستگیری کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)   :بعض مسائل بہت ضروری ہیں.مَیں نے بہت کم ایسی کتابیں پڑھی ہیں جن میں ان کا مذکور ہو.ضروریاتِ ایمان ہماے علماء نے صرف یہ لکھی ہیں.ایمان اﷲ پر، ملائکہ پر، کتب پر، رسل پر، یومِ آخرت پر، تقدیر پر اور عملی حِصّہ میں کلمہ مُنہ سے بولنا، کلمۂ شہادت کی شہادت، نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ.بس اس کے آگے خاموشی ہے حالانکہ کئی باتیں اور بھی ایسی ہیں جو بعینہٖ اسی طرح فرضِ عین ہیں جیسے کہ نماز روزہ.دیکھو.یاد رکھو نیک کام کرنا بھی فرضِ عین ہے اور بدَی سے بچنا بھی فرضِ عین ہے.کسی مسلمان سے پُوچھیں پنج ارکانِ اسلام کیا ہیں تو وہ سُنا دے گا مگر اس کے ساتھ چوری، حرام زدگی،رنڈی بازی اور قِسم قِسم کی بدکاریوں کا ذکر ہو تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.جھُوٹ کا

Page 284

مرض بڑھتا جاتا ہے مگر بچپن میں اس کاکوئی علاج نہیں کیا جاتا.حالانکہ ؎ سرِ چشمہ شاید گرفتن بمیل چُو پُرشد نشائد گذشتن بہ بیل ایک سچّی مثل ہے آم کا درخت ہے جب اس کا پَودہ زمین سے نکلے تو اُکھیڑا جا سکتا ہے مگر جب وہ بڑا درخت بن جائے تو اُسے اُکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے.اِسی طرح بدیوں کی مثال ہے انہیں پہلے ہی روکو تا نیکی کی طرف تمہاری طبیعت رجوع رہے.جس طرح نماز روزہ فرضِ عین ہے اسی طرح جھُوٹ سے ، بَد نظری سے ، بدسمعی سے ( جو زَنا کے مقدمات ہیں) سُستی سے، کاہلی سے، طمع سے، حرص سے، تکبّر سے بچنا بھی نہایت ضروری ہے.مَیں نے اپنی تحقیق میں چودہ ضروریاتِ اسلام سمجھے ہیں اور وہ تمام نیکیوں اور بدیوں سے بچنے کے اصول ہیں.(۱) اﷲ پر ایمان.اس کے ساتھ اﷲ کی صفات پر ایمان ، اس کے افعال پر ایمان ، اس کی معبودیّت پر ایمان.اتنا ایمان لانا ضروری ہے (۲) دوسری بات اﷲ کے فرشتوں کی تحریکوں پر ایمان (۳) تیسری بات اﷲ کے کلام پر ایمان (۴) چوتھی بات اﷲ کے پاک رسولوں پر ایمان(۵) پانچویں بات مسئلہ تقدیر پر ایمان جو تمام کامیابیوں کی جَڑ ہے (۶( چھٹی باتِ ختمِ نبوّت پر ایمان(۷) ساتویں بات بعث بعد الموت.یہ سات حصّے نیکیوں کے اصول ہیں.عملی حصّے میں پہلی ؔبات اﷲ کی توحید کا اقرار کرنا.دوسریؔ بات ہر ایک قِسم کی بدعملیوں سے بچنا.تیسریؔ بات نیک اعمال کی طرف اپنے تئیں متوجّہ کرنا.چوتھی بات نماز.پانچویںؔ بات زکوٰۃ.چھٹیؔ بات روزہ.ساتویںؔ بات حج.مجھے نہایت افسوس ہے کہ ایسی تعلیم مَیں نے اپنی اسلامی کتابوں میں کم دیکھی ہے اور اگر ہے بھی تو انگریزی سکولوں کی پڑھائی کے اثر کے سامنے اس کا کچھ اثر نہیں.جس قدر کوئی کِسی مصنّف کی کتاب پڑھتا ہے اس مصنّف کے عقائد و اعمال کا ایک مخفی اثر پہنچتا رہتا ہے اس کے ازالہ کے لئے ضروری ہے کہ انگریزی کتب کے خفیہ اثر کو دینی تعلیم سے زائل کیا جائے اور وہ دینی تعلیم قرآن مجید میں ہے.اس سے پہلے توحید کا بیان کرتا آتا ہے اَب ایک گُر سمجھاتا ہے کہ لوگو! جو اِس زمین میں ہے اس سے کھا لو مگر دو شرطیں ہیں ایک تو یہ کہ حلال ہو.بالباطل رزق نہ ہو.حلال کا عِلم کیسا ضروری ہے اور حلال کیا مفید ہے اس کے متعلق بیان بہت طویل ہے.پھر حلال ہو تو طیّب بھی ہو.بعض لوگ مسلمانوں میں ایسے گزرے ہیں کہ وہ پلاؤ پکوائیں گے تو اس میں تھوڑی سی راکھ ڈالوئیں گے.ایک صوفی کو مَیں نے دیکھا ہے کہ وہ حلوا، ساگ، دال، دُودھ، چھاچھ سب کو ملا کر رکھ چھوڑتا جب بُس جاتا تو کھاتا.یہ طیّب رزق انہیں ہے.بس مَیں تمہیں وصیّت کرتا ہوں کہ رزقِ حلال

Page 285

کھاؤ پھر وہ طیّب بھی ہو.:وہ چال نہ چلو جس پر شیطان چلا.شیطان وہ ہے جو خدا سے دُور ہے.اس شیطان کا پتہ اِس طرح لگتا ہے کہ وہ تمہیں بدی اور بے حیائی کی باتوں کی ترغیب دیتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)    شیطانی گناہ کے تین اصول ہیں ان میں سے آخری یہ ہے کہ کہ جھوٹا خواب یا جھوٹا کشف یا جھوٹا الہام بنائے یا بلا حجّتِ نیّرہ کِسی چیز کو حلال یا حرام ، بھلایا بُرا کہہ دے اور ایکؔ یہ کہ سُوء دومؔ فحشاء یعنی ہر ایسی بدی کہ دوسرے پر اس کا بَد اثر پڑے.ایسے لوگوں کو جب کہا جائے کہ تم مَآ اَنْزَلَکی تابعداری کرو تو وہ کہتے ہیں ہم اپنے باپ دادا کے پَیرو ہیں.خواہ ان کے باپ دادا ایسے ہیں کہ اپنے تئیں کسی بَد چیز سے روک نہ سکتے ہوں یہاں تک یہ باتیں بیان ہوئیں( ۱) حلال کھاؤ (۲) طیّب ہو (۳) بدیوں کو چھوڑ دو (۴) فحشاء سے پرہیز کرو.(۵) اﷲ پر تقوّل چھوڑ دو (۶) اندھا دُھند تقلید چھوڑ دو (۷) کوئی لَا یعقل لا یھتدی کام کرتا ہو تو تم وہ نہ کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) بہت سے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم مدارجِ تحقیقات پر پہنچے ہوئے ہیں.اِس غلط خیال نے بہت نقصان پہنچایا ہے.اِسی سے مُشرکوں نے استدلال کر لیا..

Page 286

غرض ایک راستباز کی شناخت کے لئے کبھی کوئی مشکل یہود یا نصارٰی یا منکرین امام پر نہ آتی اگر وہ سمجھتے کہ پاک رسولؐ نے کیا دعوٰی کیا.  مثال ان لوگوں کی جوبے ایمان ہیں ایسی ہے جیسی کسی پر کوئی آوازے کَستا ہے اور وہ سُنتا ہی نہیں.میرے ایک نوجوان دوست تھے مَیں ان کو درس قرآن شریف سُننے کی تاکید کرتا تھا.وہ میرے سامنے تو نہ کہتے مگر میرے پیچھے اپنے اِس خیال کا اظہار کر دیا کرتے تھے کہ آسُودگی ہو تو پھر قُرآن بھی پڑھیں.آخر جب وہ کسی عہدہ پر ممتاز ہوئے تو مجھے لکھا کہ بارہ برس ہوتے ہیں کہ مَیں قرآن شریف نہیں پڑھ سکا.خدا کرے تم لوگ ایسے نہ بنو کہ تمہارا قرآن سُنانے والا ایسے لوگوں سے ہو کہ اس کے سامعین ایسے ہوں جو نہ آنکھیں رکھتے ہوں کہ دیکھیں، نہ کان رکھتے ہوں کہ سُنیں ، نہ زبان رکھتے ہوں کہ حق بولیں.تم قرآن شریف سُننے کو غنیمت سمجھو.دُنیا کے جھمیلے تو کبھی کم ہونے میں آ نہیں سکتے.ایک کتاب میں مَیں نے ایک مثال پڑھی ہے کہ ایک شخص ندی سے گذرنا چاہتا تھا اُس نے تامّل کیا کہ یہ موج گزر جائے تو مَیں گزروں مگر اتنے میں ایک اَور آ گئی.آخر وہ اسی طرح خیال کرتے کرتے رہ گیا.بس طریق یہی ہے کہ حلال طیّب کھاؤ.طیّب کہتے ہیں اسے جو انسان کے لئے دُکھ نہ دے اور پھر شُکر کرو.سات اصول بتائے ہیں ان کو ہر وقت زیرِ نظر رکھو.حلالطیّب کھاؤ.سُوء و فحشاء و تقوّل نہ ہو.تقلید بے جا نہ ہو.کبھی ایسے رنگ میں اپنے تئیں نہ بناؤ کہ گو ش حق کے شنوا، آنکھیں حق کی بینا نہ رہیں.یہاں تک یہ بیان فرمایا ہے کہ حق کے حصول کا ذریعہ حلال و طیّب روزی ہے.اِنسان فاقے پر فاقہ اُٹھائے مگر حلال کا رزق کھائے.جو مالدار ہیں ان کی حالت نہایت نازک ہے.غضب

Page 287

ِ الہٰی بھی مال والوں پر نازل ہوتا ہے.خدا کی ہدایت سے محرومی بھی اکثر مال والوں کے حصّہ میں آئی ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے (الانعام:۱۲۶)ایک حدیث میں ہے کہ اِبْلِیْسُ کَانَ مِنْ خُزَّانِ الْجَنَّۃِ.گویا آدم کی مخالفت میں جس گروہ کو بڑی محرومی ہوئی وہ بھی مالداروں ہی کا گروہ تھا.ایک دفعہ مولوی ریاض الدین احمد نے مجھ سے پوچھا کہ پانچ آدمی قوموں کے لیڈر سمجھے جاتے ہیں کیشب چندر، دیانند، رائے موہن لال، سرسیّد ، مرزا صاحب.آپ کوئی موٹا سامابہ الامتیاز ان میں بتائیں.مَیں نے کہا بس یہ دیکھ لو کہ اکابر کِس طرف گئے ہیں اور غریب کس طرف آئے ہیں.اوّل اوّل خدارسیدوں کے ساتھ انہی کو تعلق ہوتا ہے جو بڑے مالدار نہ ہوں.ہارون رشید مکّہ میں گیا تو ابن المبارک کو بھی ساتھ لیتا گیا جو اہل حدیث و اہل باطن میں عظیم الشّان عالم تھا.جہاں جہاں ملاقات کو جاتا اس شخص کے مذاق کے مطابق اپنے ہمراہ کسی معتمد کو لے جاتا.فُضَیل عیاض سے ملاقات چاہی تو ابن المبارک سے اِستدعا کی.یہ گئے.باہر سے دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے آواز آئی.کون ہے ؟ جواب دیا.ابنِ مبارک.کہا.مَرْحَبَایَا اَخِیْ وَ صَاحِبِیْ.پوچھا.میرے ساتھ بھی ایک شخص قریشی ہے.کہا مجھے کِسی قریشی کی ملاقات پسند نہیں.کہا میرا تم پر حق ہے.وہ بولا.ہاں.کہا پھر اسے مجھ پر ایک حق ہے.کہا.اچھا.ہارون رشید خاموش بیٹھ گیا.فضیل عیاض اسے دیکھ کر کہنے لگے.یہ جوان ہے تو خوبصورت مَیں دعا کر تا ہوں کہ جہنّم سے بچ جائے.پھر جہنّم میں پڑنے کی وجوہات بتلائیں جس پر ہارون رشید دھاڑیں مار مار کر رونے لگا.وہ کونسی قوّت تھی جو ایک بادشاہِ رُوئے زمین کو یُوں ڈانٹ بتانے کی جُرأت دے رہی تھی.صرف حلال خوری.ایک دفعہ ہارون رشید پھر گیا اور ایک ہزار دینار پیش کیا.فُضَیل نے بہت ناراضی کا اظہار کیا اور کہا اسے میرے سامنے سے اُٹھا لو یہ بَیت المال کا ہے اور تمہیں اس سے بے تحقیق دینے کا کوئی حق نہیں.اس کے بعد ایک لونڈی گھر سے نکلی اور اس نے کہا ہم کئی دن سے فاقے میں ہیں اور یہ بُڈھا روپیہ لانے والوں کو جھڑک دیتا ہے.اس پر آپ نے نرمی سے اُسے سمجھایا کہ دیکھو حلال بڑی نعمت ہے.ہارون رشید نے چاہا کہ گھر والو ںکو یہ روپیہ دے مگر انہوں نے بھی نہ لیا.جو حلال رزق چاہتے ہیں اﷲ تعالیٰ انہیں غیر معمولی حوصلہ دیتا ہے اور انہیں اپنی جناب سے رزق عطا فرماتا ہے اور حرام رزق سے کسی نہ کسی حیلے سے بچا لیتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) 

Page 288

  اے ایمان والو! کھاؤ ہمارے رزق سے سُتھرے اور اﷲ کا شُکر کرو اگر تم اس کی عبادت کرتے ہو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۹)    : مُردار کے اندر ایک خطرناک زہر ہوتا ہے جس کا نتیجہ انسان کے لئے ا چھا نہیں.چنانچہ جتنی مُردار خور قومیں ہیں ان کی زبان ، جِلد،عقل موٹی اور بھدّی ہوتی ہے.اَوروں کو نہیں تو چُوہڑوںکو دیکھ لیں شریف گھروں سے کھاتے ہیں، انہی کے ساتھ زیادہ تعلق رکھتے ہیں مگر پھر بھی مُردار خوری کا اثر ان کی شکلوں اور عقلوں سے ظاہر ہے.: ہم نے ایسی قومیں دیکھی ہیں جو جانور کا خون پی جاتی ہیں یا اسے بھُون کر کھا لیتی ہیں.خون میں اِس قِسم کی زہریں ہوتی ہیں جن سے اعصاب کو تشنّج، فالج، استرخاء ہو جاتا ہے.:اِس جانور کا گوشت کھانے سے قوّتِ شہوت و غضب میں بہت ترقّی ہوتی ہے اور یہی دو قوّتیں ہیں جو تمام قِسم کی بَد اخلاقیوں کی جَڑ ہیں.یہودی تو اِس کا نام تک نہیں لیتے.بعض مسلمانوں میں بھی یہ بات ہے.وہ خنزیر یا سؤر نہیں کہتے.:وہ جانور جو نامزد کیا گیا ہو اﷲ کے غیر کیلئے.ایسے جانور تقّرب وحاجت روائی کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں.:دِل سے چاہنے والا نہ ہو.وَ: اور پھر اضطرار کی ضرورت سے حد سے بڑھنے والا نہ

Page 289

ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) : سب چیزیں جو قوٰی فطری یا دین یا اخلاق کی مُہلک ہوں حرام ہیں.(تشحیذالاذہان جِلد ۸ نمبر ۹ صفحہ۴۴۱)    : اِس سُورۂ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ نے قِسم قِسم کی کامیابیوں اور فتحمندیوں کے اصول بتلائے ہیں.میرے اپنے اِعتقاد کے مطابق یہ تمام سورۃ جہاد کی ترغیب کیلئے ہے اور اس میں جا بجا مجاہدین کو بتایا ہے کہ وہ کِس طرح مظفّر و منصور ہو سکتے ہیں.پارہ اوّل میں مُفْلِحُوْنَ کے معنے مظفّر و منصور کے ہیں.فتح کا تاج بھلا جہاد کے سوا کسی کے سر پر رکھا جا سکتا ہے.پھر اِس کے بالمقابل اِنَّ الَّذِیْنَ کا ذکر ہے جس کے بعد عذابِ عظیم آیا ہے.گویا دو گروہ بتا دیئے ہیں جن میں مقابلہ ہو گا.اﷲ تعالیٰ چاہے گا تو مَیں کسی وسرے مقام پر اِس کی تشریح کروں گا یہاں صرف اِتنا بتا دیتا ہوں کہ ایک جگہ فرمایا وَ (البقرۃ:۱۵۵) پھر صاف بتلا دیا (البقرۃ:۱۵۵) پھر فرمایا  (البقرۃ:۱۵۶)یہ سب چیزیں ایسی ہیں جن کی ضرورت جہاد میں ہے.پھر جہاد میں ضروری ہے کہ اﷲ پر پورا ایمان ہو اور یہ موقوف ہے توحید پر اور توحید کامل نہیں ہوتی جب تک شرک سے نفرت نہ ہو اِسی واسطے  (البقرۃ:۱۶۶) میں شِرک سے منع فرمایا اور بتلایا کہ مومن کو چاہیئے اکلِ حلال سے غازی بنے.پھر اسی پر بَس نہیں کہ حلال کھانے کا عادی بنے بلکہ ترک حرام بھی کرے.پھر اس ترک حرام میں سے ایک اعلیٰ حرام خوری کا ذکر کیا ہے.کل کے درس میں اصولی محرمات کا ذکر تھا استنباطی طاقت جب پیدا ہوتی ہے جب بطور مثال

Page 290

کچھ بیان ہو چنانچہ یہاں ایک مثال اِس آیت میں ذکر کر دی گئی ہے.مَآ اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ الْکِتٰبِ:جو کچھ اُتارا اﷲ نے ایک کامل مجموعہ میں.ثَمَنًا قَلِیْلًا: مُول بہت تھوڑا.یعنی دُنیا.جیسے فرمایا  (النّساء:۷۸) : اِس طرزِ عمل کا نتیجہ سوا اِس کے نہیں کہ جَل بھُن کر اندر ہی اندر کباب ہوتے رہیں.: لوگ اپنا مال، اپنی دولت، اپنی عزّت، اپنی آبرو کسی بڑے کی بات سُننے کے لئے خرچ کر دیتے ہیں.پس اﷲ کی ذات سے جو تمام حسینوں ، عالموں اور بادشاہوں کا خالق ہے کلام کرنے کو کیوں دل نہ تڑپتا ہو گا.سو خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو دوسری سزا یہ دے گا کہ ان سے کلام نہ کرے گا.اندھا آدمی جو دیکھنے کے عجائبات سے واقف نہیں ہوتا وہ اگر دید کی حرص نہ کرے تو تعجّب نہیں.اِسی طرح جسے کلامِ الہٰی کی عذوبت سے آگاہی نہیں وہ اگر اسے عذاب نہ سمجھے تو نہ سمجھے یہ ہے بڑا عذاب.پھر ایک اَور دُکھ ہو گا وہ یہ کہ مُزَکّٰی نہ کرے گا بلکہ ان کے لئے عذاب ہے.عَذَابٌ اَلِیْمٌ:یہ عذاب عذوبت والا نہیں بلکہ دُکھ دینے والا.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)   :ان لوگوں نے حرام خوری سے کیا فائدہ لیا سوا اِس کے کہ ضلالت کو ہدایت کے بدلے خریدا.یہ اِس طرح کہ حرام خوری سے دعائیں قبول نہیں ہوتیں.جب دعائیں قبول نہ ہوئیں تو یہ کہہ دیا کہ اچھا دعائیں بھی دیکھ لیں.اِس قول کا نتیجہ کُفر ہے.پس بجائے اسکے کہ مغفرت حاصل کریں انہیں عذاب ہو گا.: ان کے نظّارے دیکھنے والے یہ کہیں گے.بعض صوفیوں نے بھی بعض جُرأت کے کلمے کہے ہیں.مثلاً یہ کہ دوزخ میں کیا رکھا ہے حالانکہ وہ دُنیا کی ایک معمولی تکلیف کو تو برداشت کر نہیں سکتے.مثلاً تپ چڑھی ہو تو ہال پکار سے شور برپا

Page 291

کر دیتے ہیں تو کیا دوزخ جو بڑے دُکھ کا مقام ہے اسے انہوں نے کچھ معمولی سمجھ لیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ دیدوشنید برابرنہیں ہوتی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)   : اِس کے معنے ہیں جن لوگوں نے اِس کی خلاف ورزی کی ہے.: یعنی ہمارے اور ان کے درمیان جو تعلّقات تھے اور جو وصل تھا اس میں شق آ گیا، شق بھی پرلے درجہ کا.پنجابی ’’پاڑن پاڑنا‘‘ اِس مفہوم کو خوب ادا کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)    عَاھَدُوْا  

Page 292

نیکی یہی نہیں کہ مُنہ کرو اپنے مشرق کی طرف یا مغرب کی.ولیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لاوے اﷲ پر اور پچھلے دن پر اور فرشتوں پر اور کتابوں پر اور نبیوں پر اور دیوے مال اس کی محبّت پر ناتے والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور راہ کے مسافر کو اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھُڑانے میں اور کھڑی رکھے نماز اور دیا کرے زکوٰۃ اور پُورا کرنے والے اپنے اقرار کو جب پُورا کریں اور ٹھہرنے والے سختی میںاور تکلیف میں اور وقت لڑائی کے.وہی لوگ ہیں جو سچّے ہوئے اور وہی بچاؤ میں آئے.(فصل الخطاب حِصّہ دوم صفحہ۱۳۰) تُوَتُّوْا: چونکہ اس سے پہلے خدا تعالیٰوَ لِلّٰہِ الْمُشْرِقُ وَ الْمََغْرِبُ فرما چکا ہے کہ جدھر تمہارا رُخ ہو گا اُدھر ہی میرا رُخ ہے یعنی میری نصرت تمہارے ساتھ ہو گی اِس پر صحابہؓ نے خیال کیا ہو گا کہ ہم سے بڑا کون ہے کیونکہ جدھر ہماری توجّہ ہے ادھر ہی خدا کی توجّہ ہے اِس لئے فرمایا ہے تو ٹھیک مگر نیکی صرف جہاد و فتوحات سے وابستہ نہیں اور نہ صرف مشرق و مغرب کو فتح کر لینا کافی ہے بلکہ ضروری ہے کہمَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ اﷲ تعالیٰ پر ایمان ہو.وَ: اس وقت پر ایمان ہو جہاں انسان اپنے اعمال کے نتائج دیکھتا ہے.یہ یاد رکھو کہ انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ جس کے ساتھ اس کا تعلق ہوتا ہے اس کی صفات کے خلاف حتّی الوسع کوئی بات نہیں کرتا اِس خیال سے کہ اس کی نظر سے گِر نہ جائے.پس حضرت حق سُبحانہ، کے قُرب کے لیئے بھی ہم میں ایمان اور فضائل اور کفرو ر ذائل سے بچنے کی ضرورت ہے.: پھر ایمان بالملائکہ بڑا ضروری ہے.میرے خیال میں ہے کہ یہ چوتھی مرتبہ ملائکہ کا ذکر کیا گیا ہے.ایک تو وہاں بیان ہؤا جہاں یہود کی خفیہ سو سائٹیوں کا ذکر کیا ہے جنہوں نے ہاروت ماروت کی مدد سے اس زمین کو ہرت و مرت کر دیا.پھر دوسرا وہ مقام ہے جہاں بتایا ہے کہ ایک وہ علوم ہیں جن کا تعلق قلب کے ساتھ ہے اور ایک وہ جن کا تعلق دماغ کے ساتھ ہے ان دونوں میں جو تحریک کرنے والے سردار ہیں ان نام جبرئیل و میکائیل ہے.

Page 293

پھر تیسرا مقام آدم کے قصّے میں ہے.چوتھی بار یہاں ذکر کیا ہے اور مَیں نے بارہا بتایا ہے کہ وہ تمام پاک تحریکیں جن کا انجام بخیر ہو ملائکہ کی طرف سے ہوتی ہیں.: پھر اﷲکی رضامندیوں کی راہیں جہاں مذکور ہیں وہ اس کی بھجوائی ہوئی کتابیں ہیں ان کا ماننا ضروری ہے.انسان اگر جنابِ الہٰی کے صفات سے آگاہ نہیں.ملائک کی تحریک کو نہیں سمجھتا تو کلامِ الہٰی ہی سے سمجھے جو  خدا کی جناب سے غیب کی آگاہی پانے والوں کو عطا ہوتی ہے.اﷲ کی کتابوں میں سے سب سے جامع کتاب قرآن مجید اور تمام کمالاتِ انبیاء کا جامع محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہے.آدمی پہلے قرآن کریم پڑھے پھر حضرت بنی کریمؐ کے سوانح عمری (جن میں احادیث شامل ہیں).مَیں کامل یقین سے گواہی دیتا ہوں کہ ایسا کامل انسان پھر پَیدا نہیں ہو سکتا.اَب عملی حِصّہ کا ذکر آتا ہے  یعنی محبّتِ الہٰی کے ساتھ مال کو خرچ کرے.بعض لوگ  کا ترجمہ کرتے ہیں وہ مال جس سے محبّت ہے مگر میرے نزدیک جس عمل میں اخلاص و ثواب نہ ہو وہ کسی کام کا نہیں. : اَب اِس مال کے مصارف بتلاتا ہے.اِنسان غیروں کو دیتا ہے مگر رشتہ داروں کو نہیں دیتا کیونکہ ان سے بوجہ رات دن کے معاملات کے بعض اَوقات ناراضی بھی ہوتی ہے.: پھر یتیم کو دے کیونکہ اس سے بدلے کی امّید نہیں.: پھر ان لوگوں کو دے جو بے دست وپا ہیں.میرے خیال میں تین قِسم کے لوگ مساکین ہو سکتے ہیں ایک تو وہ جو کام نہیں کر سکتا بوجہ معذوری اور یہ دو ۲ طرح ہے.مثلاً ایک شخص لوہاری کا کام جانتا ہے مگر اوزار نہیں رکھتا.سینا تو جانتا ہے مگر سُوئی اور قینچی و گز نہیں.پس یہ اسباب ان کو مہیا کر دینے چاہئیں کیونکہ بغیر ان کے وہ بھی اپاہج کے حکم میں ہیں.ایک اَور مثال سُنو کوئی کَسب جاننے والا ہے تو سہی مگر وہاں اس کے ہُنر کا کوئی قدردان نہیں یا دُکان چلانے کیلئے مکان نہیں.پس اپاہج ہو عدم مال کی وجہ سے یا عدم اعضاء کی وجہ سے ہر دو ۲ صورت مستحق امداد ہے.ا: مسافر کو بعض وقت بہت مشکلات پیش آ جاتی ہیں مثلاً نقدی چوری ہو گئی یا کِسی اتفاق سے چند پیسے کرایہ سے کم ہو گئے وغیرہ یا ٹکٹ گُم ہو گیا.: سوال کرنے والوں سے آجکل بہت بُرا سلوک کیا جاتا ہے.بعض لوگوں کی عادت ہے کہ جب کوئی سوالی ان کے سامنے آیا تو انہوں نے اس پر عیب لگانے شروع کر دیئے.

Page 294

: گردنوں کو چھُڑانے سے مراد غلاموں کا آزاد کرنا ہے.ایک دفعہ ایک غیر مذہب کا شخص بڑے زور سے کہہ رہا تھا غلاموں کی آزادی دلانے والا عیسائی مذہب ہے.مَیں نے کہا کہ مسیح ناصریؐ نے کوئی قانون ان کے لئے نہیں بنایا نہ کوئی حصّہ مقرر کیا مگر ہماری شریعت میں قانون ہے جو اِن آیات میں مذکور ہے اور پھر بَیت المال - ۱ ۸حصّہ ان کے لئے مقرر ہے.چھ مَصرفوں کا ذکر تو یہاں کیا اور پارہ ۱۰ میں دو ۲ مصرف اَور بتائے ہیں ایک مؤلفۃ القلوب.میرے نزدیک اِس زمانہ میں بھی یہ بہت ضروری ہے.دومؔ اس محکمہ زکوٰۃ کے جو ملازم ہیں ان کی تنخواہ.: وہ پاک عبادت جس کا نام نمازہے غفلتوں ، سُستیوں ، ناکامیوں میں اسے قائم رکھے.: زکوٰۃ دے.تزکیۂ نفس بھی کرے.: باساء کہتے ہیں غریبی ، تنگ دستی کو.یہ بُری بلاء ہے.کسی کے گھر میں شادی ہو.غریب کے گھر میں بیوی بچّوں کے اصرار کی وجہ سے جو وہ کپڑوں اور زیوروں کی وجہ سے کر رہے ہیں.ماتم ہو رہا ہے.امراء میں عید ہے مگر غریب کے گھر رونا پڑا ہؤا ہے مگر مومن ان مشکلات کی کچھ پرواہ نہیں کرتا.پھر اس سے بڑھ کر مشکل ایک اَور ہے.: وہ کیا ہے.بیماری.چاہے کانٹا ہی کیوں نہ چُبھا ہؤا ہو.پیٹ میں کیوں نہ درد ہو.آنکھ ہی دُکھتی ہو سارا جہان مریض کے لئے اندھیرا ہو جاتا ہے اور دولت ، بیوی ، بچّے ، عیش و عشرت کے سامان سب بُرے معلوم ہوتے ہیں.ایک شخص میرے پاس آیا کہ بیوی حسین موجود ہے قوّتِ رجولیّت نہیں خودکشی کر لوں گا اگر تم نے کوئی امّید نہ دلائی.دیکھو کیسا نازک مقام ہے مگر مومن نہیں گھبراتا وہ اِستقلال و استقامت سے رہتا ہے.پھر اِس سے بھی بڑھ کر ایک اَور مصیبت ہے.: وہ ہے مقدمات کی.(خواہ جہاد شمشیر کی صورت میں ہو.خواہ جہاد قلم کے رنگ میں ہو) یہ بہت بُری بَلاء ہے.دیکھو جنگوں میں کتنی سلطنتیں تباہ ہوئیں.کتنی مقروض ہوئیں.کتنے جو ان سپاہی اور سپہ سالار ہلاک ہوئے.ایسے وقت سچّا مومن وہ ہے جو مستقل مزاج رہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) حُسنِؔ اعتقاد و حُسنِ ؔ اقوال و حُسنِؔ اعمال اور فقر،بیماریؔ، مقدماتؔ و مشکلاتؔمیں صبرؔ واستقلال اِس مجموعہ کو قُرآن نے تقوٰی کہا ہے.دیکھو رکوع لَیْسَ الْبِرَّ پارہ دوم اور اس کا ایک درجہ سورہ بقرہ کے ابتداء میں ہے جیسے فرمایا ہے کہ اَلْغَیْب پرایمان لاوے.پرارتھنا اور دُعا اور بقدر ہمّت و

Page 295

طاقت دوسرے کی ہمدردی کے لئے کوشِش کرنے والا متّقی ہے.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۹)  : دُکھوں، بیماریوں اور قحطوں اور جنگوں میں صبر کرنے والے.وہی صادق ہیں اور وہی متّقی ہیں.(دیباچہ نور الدین صفحہ ۲۰) پسندیدہ باتیں یہی تو نہیں کہ مشرق اور مغرب کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھ لی.نیکی اور عمدہ بات تو اُس شخص کی ہے جس نے دِل سے مانا زبان سے اقرار کیا اور اپنے کاموں سے کر دکھایا کہ وہ اﷲ کو مانتا.جزا و سزا کے دِن پر یقین رکھتا ہے.ملائکہ اور اﷲ تعالیٰ کی پاک کتاب اور سچّے نبیوں پر اس کے اعتقاد لایا ہے.اور بایں کہ اسے خود حاجت و ضرورت ہے اور زندگی کا امیدوار ہے مگر اپنے مال سے رشتہ داروں کی خبر گیری کرتا ہے اور یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں، سائِل کی پرورش، غلاموں کے آزاد کرنے میں مال کو خرچ کرے، عبادت و نمازوں کو ٹھیک درست رکھے.اپنے مال سے مقرری حِصّہ جسے زکوٰۃ کہتے ہیں ادا کرتا ہے اور نیکی تو ان کی ہے جو تمام ان بھلے معاہدوں اور اقراروں کا ایفا کریں جو انہوں نے خدا تعالیٰ سے یا اس کے کسی بندہ سے باندھے.باتوں میں صداقت کو کام میں لاویں.امانت میں خیانت نہ کریں.افلاس میں ، مرض میں ، جنگ کی شدّت میں ، تنگی میں ، تکلیف میں وفادار، ثابت قدم، مستقل مزاج رہیں.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۵۷،۲۵۸) تقوٰی کی جڑ اور بنیاد سچّے عقائد ہیں اور ان کی بھی جڑ کی جڑ کیا ہے.اٰمَنَ بِاﷲِاﷲ تعالیٰ پر ایمان لانا.کہ وہ ہر بَدی سے منزّہ اور کُل صفاتِ کاملہ کا مالک اور حقیقتاً وہی معبود ، مقصود اور مطلوب ہے.اس کے اسماء، افعال اور صفات پر کامل ایمان لانا اور کہ وہ نیکی سے خوش اور بدی سے ناراض ہو کر نیکی کے عوض انعامات اور بدیوں پر سزا دینے والا اور قادر مقتدر ہستی ہے.وہ رَبّ ہے ،رحمن ہے، رحیم ہے، مالکِ یَوم الدّین ہے.غرض انسان اِس طرح سے جب حقیقی طور سے اﷲ کی صفات سے آگاہی حاصل کر کے ان پر کامل ایمان لاتاہے تو پھر ہر بدی سے بچنے کے واسطے اس کو جنابِ الہٰی سے آگاہی حاصل کر کے ان پر کامل ایمان لاتا ہے تو پھر ہر بدی سے بچنے کے واسطے اس کو جنابِ الہٰی سے ایک راہ عطا کی جاتی ہے جس سے بدیوں سے بچ جاتا ہے.فطرتِ انسانی میں یہ امر روزِ اوّل سے و دیعت کر دیا گیا ہے کہ انسان جس چیز کو اپنے واسطے یقیناً مُضِر جانتا ہے اس کے نزدیک تک نہیں جاتا.بھلا کبھی کسی نے کسی سلیم الفِطرت اِنسان کو بھی کبھی جان بُوجھ کر آگ میں ہاتھ ڈالتے یا آگ کے انگارے کھاتے ہوئے دیکھا ہے یا کوئی شخص اِس حالت میں کہ اس کو اس امر کا وہم

Page 296

ہی ہو کہ اس کے کھانے میں زہر کی آمیزش ہے اس کھانے کو کھاتے دیکھا ہے؟ یا کبھی کسی نے ایک کالے سانپ کو حالانکہ وہ جانتا ہو کہ اس کے دانت نہیں توڑے گئے اور اس میں زہر اور کاٹنے کی طاقت موجود ہے کسی کو ہاتھ میں بے خوف پکڑنے کی جرأت کرتے دیکھا ہے؟یاد رکھو کہ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جائے گا کیونکہ یہ امر فطرتِ انسانی میں مرکوز ہے کہ جس چیز کو یہ ضرر رساں یقین کرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا اور حتّی الوسع اس سے بچتا رہتا ہے.تو پھر غور کا مقام ہے کہ جب انسان خدا پر کامل یقین رکھتا ہے کہ خدا نیکی سے خوش اور بَدی سے ناراض ہوتا ہے اور سخت سے سخت سزا دینے پر قادر ہے اور سزا دیتا ہے اور یہ کہ گناہ حقیقت میں ایک زہر ہے اور خدا کی نافرمانی ایک بھسم کر دینے والی آگ ہے اور اس کو آگ کے جلانے پر اور زہر کے ہلاک کر دینے پر اور سانپ کے کاٹنے سے مَر جانے پر جیسا ایمان ہے اگر ایسا ہی ایمان خدا کی نافرمائی اور گناہ نہ کرنے پر خطرناک عذاب اور ہلاکت و عذاب کو یقین ہو تو کیونکر گناہ سرزد ہو سکتا ہے اور کیونکر خدا کی نافرمانی کے انگارے کھائے جا سکتے ہیں.دیکھو انسان اپنے مربّی ، دوست،یار،آشنا اور کسی طاقتور بااختیار حاکم کے سامنے کسی بدی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتا اور گناہ کرتا ہے تو چھُپ کر کرتا ہے کسی کے سامنے نہیں کرتا.تو پھر اگر اس کو خدا پر اِتنا ایمان ہو کہ وہ غیب در غیب اور پوشیدہ در پوشیدہ انسانی اندرونہ اور وسوسوں کو بھی جانتا ہے اور یہ کہ کوئی بدی خواہ کسی اندھیری سے اندھیری کوٹھڑی میں جا کر کی جاوے اُس سے پوشیدہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ انسان کا بڑا مربّی، ربّ، مُحسن اور اَحکم الحاکمین ہے تو پھر انسان کیوں گناہ کی جگر سوز آگ میں پڑ سکتا ہے.پس اِن باتوں میں غور کرنے سے نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ انسان کو خدا اور اس کے صفات اور افعال اور علیم و خبیر اور ہر بات سے واقف ہونے اور قادر مقتدر اور منتقم اور شدید البطش ہونے پر ایمان نہیں.ہر بدی خدا کے صفات سے غافل ہونے کی وجہ سے آتی ہے.صفاتِ الہٰی پر ایمان لانے کی کوشِش کرو.انسان اگر خدا کے علیم، خبیر اور احکم الحاکمین ہونے پر ہی ایمان لاوے اور یقین جانے کہ مَیں اُس کی نظر سے کسی وقت اور کسی جگہ بھی غائب نہیں ہو سکتا تو پھر بدی کہاں اور کیسے ممکن ہے کہ سرزد ہو.غفلت کو چھوڑ دو کیونکہ غفلت گناہوں کی جڑ ہے ورنہ اگر غفلت اور خدا کے صفات سے بے علمی اور بے ایمانی نہیں تو کیا وجہ ہے کہ خدا کو قادر مقتدِر اور احکم الحاکمین، علیم و خبیر اور اخذ شدید والامان کر اور یقین کر کے بھی اس سے گناہ سرزد ہوتے ہیں حالانکہ اپنے معمولی دوستوں، آشناؤں ، حاکموں اور شرفاء کے سامنے جن کا نہ علم ایسا

Page 297

وسیع اور نہ ان کی طاقت اور حکومت خدا کے برابر.ان کے سامنے بدی کا اِرتکاب کرتے ہوئے رُکتا ہے اور خدا سے لاپرواہ ہے اور اس کے سامنے گناہ کئے جاتا ہے اس کی اصل وجہ صرف ایمان کی کمی اور صفاتِ الہٰی سے غفلت اور لاعِلمی ہے.پس یقین جانو کہ اﷲ اور اس کے اسماء اورصفات پر ایمان لانے سے بہت بدیاں دُور ہو جاتی ہیں پھر انسان کی فطرت میں یہ بھی رکھا گیا ہے کہ انسان اپنی ہتک اور بے عزّتی سے ڈرتا ہے اور جن باتوں میں اسے اپنی بے عزّتی کا اندیشہ ہوتا ہے ان سے کنارہ کش ہو جاتا ہے.پس غور کرنا چاہیئے کہ دُنیا میں اس کا دائرہ بہت تنگ ہے.زیادہ سے زیادہ اپنے گھر میں یا محلّے میں یا گاؤں یا شہر میں یا اگر بہت ہی مشہور اور بہت بڑا آدمی ہے تو ملک میں بدنام ہو سکتا ہے مگر قیامت کے دِن جہاں اوّلین و آخرین خدا کے کُل انبیاء ، اولیاء ، صحابہ اور تابعین اور کُل صالح اور متّقی مسلمان بزرگ باپ دادا اور پڑداد واغیرہ اور ماں بہن ، بیوی بچّے غرض کُل اقربا اور پھر خود ہمارے سرکار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم موجود ہوں تو ذرا اس نظّارے کو آنکھوں کے سامنے رکھ کر اس ہتک اور بے عزّتی کا خیال تو کرو اور اس نظّارے کو ہمیشہ آنکھ کے سامنے رکھو اور پھر دیکھو تو سہی کیا گناہ ہونا ممکن ہے ؟ جب انسان ذرا سی بے عزّتی اور معدودِ چند آدمیوں میں ہتک کے باعث ہونے والے کاموں سے پرہیز کرتا ہے اور ڈرتا رہتا ہے کہ کہیں میری ہتک نہ ہو جاوے.تو پھر جس کو اس نظّارے کا ایمان اور یقین ہو جس کا نام یَوم الآخرۃ ہے تو بھلا اس سے بدی کہاں سرزد ہو سکتی ہے.پس یَوم الآخرۃ پر ایمان لانا بھی بدیوں سے بچاتا ہے.تیسرا بڑا ذریعہ نیکی کے حصول و توفیق اور بدی سے بچنے کا ایمان بالملائکہ ہے.ہر نیکی کی تحریک ایک مَلک کی طرف سے ہوتی ہے اس تحریک کو مان لینے سے اس مَلک کو اس ماننے والے سے اُنس اور محبّت پیدا ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ یہ تعلق گہرا ہو جاتا ہے اور اِس طرح سے ملائکہ کے نزول تک نوبت پہنچ جاتی ہے.پس چاہیئے کہ انسان کے دِل میں جب کوئی نیکی کی تحریک پیدا ہو فوراً اس کو مان لے اور اس کے مطابق عمل درآمد کرے اور اس پر اچھی طرح سے کاربند ہو جاوے ورنہ اگر اِس موقع کو ہاتھ سے دے دے گا تو پچھتانا بے سُود ہو گا.بعض لوگ پچھتاتے ہیں کہ فلاں وقت اور موقع کیسا اچھا تھا یہ کام ہم نے کیوں اس وقت نہ کر لیا.پس نیکی کی تحریک کا موقع فرصت اور وقت مناسب اور نیک فال سمجھ کر فورًا مان لینا چاہیئے.اِس طرح سے نیکی کی توفیق بڑھتی جاتی ہے اور انسان بدیوں سے دُور ہو جاتا ہے.

Page 298

پھر اِس بات کا اِعتقاد رکھنا چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ کی کامل رضامندی اور خوشنودی کے حصول کا ذریعہ صرف کتبِ الہٰی اور انبیاء ہیں.خدا کے مقدّس رسولوں کی پاک تعلیم اور کتب الہٰیّہ کی سچّی پَیروی کے سوا خدا کی رضا مندی ممکن ہی نہیں.خدا کی پہچان اور اس کی ذات صفات اور اسماء کا پتہ خدا کی کتابوں اور اس کے رسولوں کے بغیر لگ ہی نہیں سکتا.خدا کے اوامرو نواہی اور عبادت و فرمانبرداری کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ کتبِ الہٰیّہ ہی ہیں جو خدا کے پاک رسولوں کے ذریعہ ہم تک پہنچتی ہیں.غرص انسان کے عقائد درست ہوں تو فروعات خود بخود ٹھیک ہو جاتے ہیں.انسان کو لازم ہے کہ اصل الاصول پر توجّہ کرے فروعات توضِمنی امور ہیں اور اصول کے ماتحت غور کر دیکھو کہ جس انجمن جس کمیٹی اور سو سائٹی نے صرف فروعات میں کوشِش کی ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوئی.دیکھو اگر جڑہی خشک ہو تو پتّوں کو پانی میں تَر کرنے سے کیا فائدہ.جڑسیراب ہونی چاہیئے درخت مع اپنی تمام شاخوں اور پتّوں کے خود بخود سر سبزو شاداب ہو جاوے گا اور ہرا بھرا نظر آنے لگے گا ورنہ اگر جڑ ہی قائم نہیں تو پتّوں اور شاخوں کو خواہ پانی میں ہی کیوں نہ رکھو وہ ہرگز ہرگز ہری بھری نہ ہوں گی بلکہ دن بدن خشک ہوتی جاویں گی.(الحکم ۲۶؍مارچ ۱۹۰۸ء صفحہ ۵،۶) فرماتا ہے تم مشرق مغرب کو فتح کر رہے ہو یہ نیکی نہیں.نیکی تو اُس وقت ہو گی جب اس کی فتحمندی کے ساتھ اﷲ پر تمہارا ایمان ہو.جو لوگ کہتے ہیں ’’ دُنیا کھائیے مکر سے روٹی کھائیے شکر سے‘‘ وہ بے ایمان ہیں.دیکھو جب تک خشیۃ اﷲ نہ ہو، آخرت پر ایمان نہ ہو حرام خوری سے نہیں رُک سکتے.مَیں نے ریاستوں میں رہ کر دیکھا وہاں نوشیروانی ہؤا کرتی تھی.ایک شخص عرضیاں سُنایا کرتا.ایک اہل عرض نے اس عرضیاں سنانے والے کو سَو روپیہ دیا کہ تم یہ عرضی اسی ترتیب سے سُنا دینا چنانچہ اس نے عرضی بڑی عمدگی سے سُنائی اور کہا حضور بڑی قابلِ توجّہ ہے اور ساتھ سَو روپیہ رکھ دیا کہ اس نے مجھے رشوت دیا ہے.رئیس کے دِل میں عظمت بیٹھ گئی کہ یہ کیسا ایمان دار آدمی ہے.مَیں اُسے جانتا تھا کہ وہ بڑا حرام خور ہے.مَیں نے کہا.یہ کیا ؟ کہا مولوی صاحب آپ نہیں جانتے یہ سَو روپیہ ظاہر کر دیا اِس سے پچھلا توہضمہو جائے گا اور آئندہ کے لئے راہ کھُل جائے گا یہ راجہ لوگ تو اُلّو ہوتے ہیں ہم نے اِس جُملہ سے اپنا اُلّو سیدھا کر لیا.دیکھو میرے جیسا شخص اگر خائن ہو جائے تو ہزاروں روپے کما سکتا ہے مگر آخرت پر ایمان ہے جو اِس بات کا وہم تک بھی آنے نہیں دیتا.مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ فاتح ہونے میں بڑائی نہیں بلکہ ایمان باﷲ و ایمان بالیَوم الآخر میں بڑائی ہے.پھر ملائکہ پر ایمان ہو جو تمام نیک تحریکوں کے مرکز ہیں.پھر اﷲ کی کتابوں

Page 299

پر اور اﷲ کے نبیوں پر ایمان ہو.پھر خدا کی راہ میں کچھ دے.مَیں نے تجربہ سے آزمایا ہے جو کنجوس ہو وہ حق پر نہیں پہنچتا.بعض دفعہ سخاوت والے انسان کے لئے کِسی محتاج کے دل سے دعا نِکلتی ہے.جا تیرا دونوں جہانوں میں بھلا! اور پھر وہ عرش تک پہنچتی ہے اور اسے جنّت نصیب ہو جاتا ہے.ایک یہودی تھا وہ بارش کے دنوں میں چڑیوں کو چوگا ڈالا کرتا.بزرگ مُلاّ تھا اُس نے حقارت سے دیکھا اور یہ مُلّا بڑی بدبخت قوم ہوتی ہے.ایسا ہی گدّی نشین مُلّا نمبردار کے ماتحت ہوتا ہے اور گدّی نشین کو تو سب کچھ حلال ہے.رنڈیاں اُن کے دربار کی زینت ہیں.نماز روزہ کو جواب دے رکھا ہے.بزرگوں کے نام سے کھاتے ہیں.خیر ایک وقت آیا کہ وہ یہودی مسلمان ہؤا.وہ حج کو گیا.وہاں مُلّا بھی حج کر رہا تھا.اپنا روپیہ کب خرچ کیا ہو گا.کرایہ کا ٹٹو بن کر گیا ہو گا.یہودی نے کہا.دیکھا.وہ چوگا ڈالنا ضائع نہ گیا.ایک واقعہ رسولِ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے زمانے میں بھی لیا ہؤا کہ کسی نے سَو اُونٹ دیئے تھے.پوچھا.کیا وہ اکارت گئے.فرمایا نہیںاَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَیْرٍ.اِسی سے تو تمہیں اسلام کی توفیق ملی.پس فرماتا ہے کہ مال دو.باوجود مال کی محبّت کے غیروں کو دیتے ہو مگر رشتہ داروں کے دینے میں کیا مضائقہ ہوتا ہے.فرمایا ان کو بھی دو اور یہ نہ کہو کہ اس کے باپ کے دادا کو ہمارے چچا کے نانا سے یہ دشمنی تھی.پھر فرمایا یتیموں کو، مسکینوں کو، مسافروں کو دو.اﷲ کے نیک کاموں ، اسلام کی اشاعت میں خرچ کرو.مشکلات کے تین وقت آتے ہیں.ایکؔ قرض.سو اس میں بھی امداد کرو.ایک غریبی جس میں انسان بہت سی بدیوں کا اِرتکاب کر گزرتا ہے.ایک بیماری.فرمایا ان سب میں استقلال سے کام لو.(بدر۲۹؍جولائی۱۹۰۹ء صفحہ۲)    

Page 300

: لکھا گیا یہ قانون.قِصَاصٌ:بدلہ جو وارثانِ مقتول قاتل سے لیتے ہیں.اِس میں جہاد کا ایماء ہے کہ جب قصاص ضروری ہے تو پھر تم بھی اپنے مقتولوں کا بدلہ لو جو کفّار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں.حُرٌّ:آزاد.اصیل.باقی رہی یہ بات کہ حُرّ عبد (مرد یا عورت ) کے مقابلہ میں بھی مارا جائے یا نہیں ؟ اِس کا جواب سورۃ مائدۃ آیت ۴۶ میں موجود ہے اِنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ.:قتل کا بدلہ یا دیت کا کچھ ہی معاف کر دیا جائے.:وارثانِ مقتول کو تابع ہونا چاہیئے.قاتل کے ساتھ قاعدہ، ،حکومت و عرف کے مطابق.اور چونکہ بدلہ قتل نہیں لیا گیا اِس لئے خوبی سے ادا کریں.وَ رَحْمَۃٌ:عرب میں ایک کے بدلے سینکڑوں قتل کر دیئے جاتے تھے.بڑوں کا جو غلام ہوتا اگر وہ قتل ہو جاتا تو اس کے بدلے میں کئی حُرّمارے جاتے اِس لئے  کا قانون مقرر کر کے فرماتا ہے یہ خاص تخفیف ہے تمہارے ربّ سے اور اس کی رحمت.اس سے پہلے ایک معمولی بات پر جنگیں ہو کر ہزاروں کے کُشت و خون کی نوبت پہنچ جاتی مگر اَب یہ بات نہیں بلکہ صرف ایک کے بدلے میں ایک کو قتل کرنے کا حکم ہے.:اگر پھر وہی اپنا رواج چلاؤ گے تو تمہیں ایک دُکھ دینے والا عذاب پہنچے گا.خدا کی طرف سے یا حکّام کی طرف سے جو کہ وہ مناسب موقعہ و حال تجویز کریں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء)   اِس قصاص میں تمہاری زندگی ہے وہ اِس طرح کہ اَب ایسا نہ ہو گاکہ ایک کے بدلے میں ہزاروں کے کُشت و خون کی نوبت پہنچے بلکہ حکومت قصاص لے گی اور قاتل و وارثانِ مقتول بچ کر کام کریں گے اِس طرح آبادی کی تعداد بڑھ جائے گی.

Page 301

:صاحبانِ عقل کو خصوصیّت سے خطاب فرمایا کیونکہ اِس راز کو موٹی عقلیں نہیں سمجھ سکتیں.کیونکہ بدلہ لینا ہر کَس و ناکس کا کام نہیں ہے بلکہ شریعت کے بہت سے ایسے کام ہیں جو انسان کی اپنی ذات سے وابستہ ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو حکّام سے مخصوص ہیں.جن لوگوں نے اِس بھید کو نہیں سمجھا انہوں نے نقصان اُٹھایا.اﷲ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر فرمایا وَ (النّساء:۶۰)جو لوگ حُکّام کی پابندی نہیں کرتے وہ خطرے میں ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان یکم اپریل ۱۹۰۹ء) :اِس رکوع میں تقوٰی کی بات چلی ہوئی ہے.لَیْسَ الْبِرَّمیںتقوٰی کے اصول بتائے ہیں اَب قصاص کے حکم میں فرماتا ہے کہ ہے یہ جانوں کے متعلق تقوٰی کا جو بیان فرمایا.اَب مال کے متعلق جو تقوٰی ہے وہ ( اگلی آیت میں ) بیان کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)    : حاضر ہونے کی دو صورتیں ہیں ایکؔ شدّتِ بیماری.دومؔ یہ کہ موت ہی آ جائے.پس ایک شِق کے لحاظ سے تو یہ معنے ہوئے کہ جب کوئی ایسا بیمار ہو تو وصیّت کر دیا کرے اپنے مال کے متعلق.وصیّت کِس کے لئے ہو.: اپنے ماں باپ کے واسطے.کیا وصیّت ہو؟ ایکؔ تو یہ معنے ہیں کہ اپنے ماں باپ سے کہہ جائے میرے بعد یُوں اِنتظام کرنا.دومؔ یہ کہ اپنے ماں باپ کے حق میں وصیّت کر جائے اس صورت میں جبکہ وہ شرعی قانون کے لحاظ سے ترکہ کے وارث نہ بن سکیں مثلاً وہ کافر ہوں ، غلام ہوں یا اپنے بیٹے کے قاتل ہوں.پس اِن صورتوں میں وارث اگر ان کے لئے وصیّت کر جائے تو جائز ہے یا یہ مطلب کہ ان کو اپنے کاموں کا وصی کر دے.یہ سب احکام بھی جہاد کی تمہید میں ہیں.کیونکہ جنگ کا زمانہ تھا اِس لئے صحابہ کو فرمایا اپنی وصیّتیں کر چھوڑو.اور اگرحَضَرَ کے معنے

Page 302

یہ ہوں کہ موت آہی جائے تو پھر یُوں معنے ہوں گے کہ لکھی گئی ہے تمہارے لئے وصیّت جو والدین اور اقارب کے متعلق ہے وہ بالکل مناسب ہے اور حق ہے متّقیوں پر کہ اس کے مطابق عمل درآمد کرو.وہ وصیّت کہاں لکھی ہے ؟ دیکھیے النّساء آیت ۱۲ یُوَصِیْکُمُ اﷲُ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)   : فرماتا ہے کہ ہم علیم خدا ہیں.سمجھ بُوجھ کرحصص مقرر کئے ہیں اور وصیّتوں کے بدلانے کو بھی سُنتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے (النّساء:۱۵) : اب سُن لو کہ کیا کچھ تبدیل کیا گیا ہے.سب سے اوّل تو یہ کہ لڑکیوں کو ورثہ نہیں دیا جاتا.خدا تعالیٰ نے عورت کو بھیحَرْثَ فرمایا ہے اور زمین کو بھی.ایسا ہی زمین کو بھی ارضؔفرماتا ہے اور عورتوں کو بھی.:چنانچہ اِس کا نتیجہ دیکھ لو کہ جب سے ان لوگوں نے لڑکیوں کا ورثہ دینا چھوڑا ہے ان کی زمینیں ہندوؤں کی ہو گئی ہیں.جو ایک وقت سَو گھماؤں زمین کے مالک تھے اب دو بیگھہ کے بھی نہیں رہے.یہ اِس لئے کہصریحاًالنّساء آیت ۱۵ میں فرمایا اِس سے زیادہ اَور کیا ذلّت ہو گی.عورتوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے(البقرۃ:۲۳۲) دوسراؔ(النّساء:۲۰)تیسراؔ (الطلاق:۷)چوتھاؔ(النّساء:۲۰) پنجمؔ(البقرۃ:۲۲۹)باوجود اس کے وراثت ۱؎ کا ظلم بہت بڑھ رہا ہے.پھر دوسرا یہ کہ بعض ظالم عورت کو نہ رکھتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 303

  :اِس حکمِ وصیّت میں ایک اَور وصیّت کا ذکر ہے بالفاظ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ (النّسآء:۱۲)پس اِس وصیّت میں اگر کوئی کجی کرے تو اس کی اصلاح کر لی جائے. کے معنے غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِاِثْمٍ (المائدۃ:۴)سے ظاہر ہوتے ہیں یعنی نہ ۱؎ یعنی ورثہ نہ دینے کا مرتّب جھُکنے والا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)   : اِس میں رمضان کا ذکر نہیں فرمایا تمہید ہے.(تشحیذالاذہان جلد نمبر ۹ صفحہ ۴۴۱) : روزوں کی فلاسفی یہ ہے کہ انسان کو دو چیزوں کی بہت ضرورت ہے ایکؔ بقائِ شخصی کے لئے غذا کی.دومؔ بقاء نوعی کے لئے بیوی کی.اب دیکھو انسان گھر میں تنہا بیٹھا ہے.پیاس بڑی شدّت سے محسوس ہو رہی ہے.دودھ موجود ہے برف موجود ہے.شربت حاضر ہے کوئی روکنے والا بھی نہیں مگر پھر بھی سچّا روزہ دارمطلق ان چیزوں کے کھانے کا ارادہ تک نہیں کرتا.اِسی طرح بیوی پاس ہے کوئی چیز مانع بھی نہیں مگر پھر بھی وہ اس سے محترز ہے.یہ کیوں؟ محض اِس لئے کہ روزہ دار ہے اور اس کے مَولیٰ کا حکم ہے کہ ان دونوں چیزوں سے رُکار ہے.یہ مشاقی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ باوجود سامانوں کے مہیّا ہونے اور ضرورت کے ہم اُن چیزوں سے رُکے رہیں جن سے رُکے رہنے کی نسبت اﷲتعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے.اِسلام میں ہر سال ایک ماہ تو بِالالتزام یہ مشق کرائی جاتی ہے اور ایک طرح سے چار ماہ کے لئے یہ مشق ہوتی ہے کیونکہ عادتِ نبوی تھی کہ ہر دو شنبہ اور جمعہ کو روزہ رکھتے

Page 304

پھر ایّامِ بیض ( ۱۲،۱۳،۱۴) میں بھی روزہ رکھتے.گویا ہر مہینے میں بالاوسط دس دن.اِس حساب سے روزہ کے لئے سال کے چار ماہ ہوتے ہیں.اب خیال کرو کہ جو لوگ چار ماہ یہ مشَق کرتے ہیں وہ رشوت کیونکر لیں گے.اکل بالباطل کیوں کریں.کوئی ضرورت انسان کو ان ضرورتوں سے بڑھ کر پیش نہیں آ سکتی جو بقائِ شخصی و بقائِ نوعی کے لئے ضروری ہیں.جب ان ضرورتوں میں باوجود سامانوں کے مہیّا ہونے اور کسی روک کے نہ ہونے کے صرف اﷲ کی فرمانبرداری کے لئے محترِز رہا ہے تو پھر ایک صریح حرام امر کا کیوں مُرتکب ہونے لگا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) سب کے بعد تقوٰی کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اﷲ تعالیٰ کے لئے ایک وقتِ معیّن تک چھوڑتا ہے.اَب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کو استعمال کیوں کرے گا.روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اﷲ کو ناراض نہ کرے اِسی لئے فرمایا لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۵) روزہ کی حقیقت کہ اس سے نفس پر قابوحاصل ہوتا ہے اور انسان متّقی بن جاتا ہے.اِس سے پیشتر کے رکوع میں رمضان شریف کے متعلق یہ بات مذکور ہے کہ انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی اور بقائے نسل کی شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق.ان دونوں قِسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متّقی بننا سیکھ لیوے.آجکل تو دن چھوٹے ہیں.سردی کا موسم ہے اور ماہِ رمضان بہت آسانی سے گذرا مگر گرمی میں جو لوگ روزہ رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بھُوک پیاس کا کیا حال ہوتا ہے اور جوانوں کو اِس بات کا عِلم ہوتا ہے کہ اُن کو بیوی کی ( بیویوں کی) کِس قدر ضرورت پیش آتی ہے.جب گرمی کے موسم میں انسان کو پیاس لگتی ہے.ہونٹ خشک ہوتے ہیں.گھر میں دُودھ، برف، مزہ دار شربت موجود ہیں مگر ایک روزہ دار ان کو نہیں پیتا.کیوں؟ اِس لئے کہ اس کے مَولیٰ کریم کی اجازت نہیں کہ ان کو استعمال کرے.بھُوک لگتی ہے ہر ایک قِسم کی نعمت زردہ ، پلاؤ ،قورمہ ،فرنی وغیرہ گھر میں موجود ہیں اگر نہ ہوں تو ایک آن میں اشارہ سے تیار ہو سکتے ہیں مگر روزہ دار ان کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا.کیوں ؟ صرف اِس لئے کہ اس کے مَولیٰ کریم کی اجازت نہیں.شہوت

Page 305

زور سے پٹّھے پھٹے جاتے ہیں… بیوی بھی حسین، نوجوان اور صحیح القُوٰی موجود ہے مگر روزہ دار اُس کے نزدیک نہیں جاتا.کیوں؟ صرف اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر جاؤں گا تو خدا تعالیٰ ناراض ہو گا.اُس کی عدولِ حکمی ہو گی.اِن باتوںسے روزہ کی حقیقت ظاہر ہے کہ جب انسان اپنے نفس پر یہ تسلّط پیدا کر لیتا ہے کہ گھر میں اس کی ضرورت اور استعمال کی چیزیں موجود ہیں مگر اپنے مَولیٰ کی رضا کیلئے وہ حسبِ تقاضائے نفس ان کو استعمال نہیں کرتا تو جو اشیاء اس کو میسّر نہیں اُن کی طرف نفس کو کیوں راغب ہونے دے گا.رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضامندی کیلئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا.قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا اور کہتا ہے روزہ تمہارے لئے اِس واسطے ہے کہ تقوٰی سیکھنے کی تم کو عادت پڑجاوے.ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے صرف اِس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشِش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے.پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲) صَوم ایک محبّتِ الہٰی کا بڑا نشان ہے.روزہ دار آدمی کسی کی محبّت میں سرشار ہو کر کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے اور بیوی کے تعلّقات اس سے بھُول جاتے ہیں.یہ روزہ اسی حالت کا اظہار ہے.(بدرؔ۱۲؍جنوری ۱۹۱۰ء ) روزے داری کا سِرّیہ ہے کہ سلیم الفِطرت پیاس کے وقت گھر میں دُودھ، بالائی ، بَرف رکھتا ہے کوئی اس کو روکنے والا نہیں.بھُوک کے وقت گھر میں انڈے، مُرغیاں ، پلاؤ موجود ہے اور کوئی روکنے والا نہیں.قوّتِ شہوانیہ موجود.گھر میںاپسرا دِلرُبا موجود.پھر اس کے نزدیک نہیں جاتا.صرف الہٰی حکم کی پابندی سے وہ رُکتا ہے.اِس مشق سے وہ حرام کاری حرامخوری سے کِس قدر بچے گا.(نورالدین صفحہ ۲۱۶،۲۱۷ ایڈیشن اوّل)

Page 306

  :اور جو صَوم کی طاقت رکھتے ہیں یعنی جنہیں روزے رکھنے میسّر آ جاویں.:وہ ایک مسکین کا کھانا بپور صدقہ دیں.یہ صدقۃ الفِطر کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ تعامل سے ثابت ہے کہ ہر روزہ دار نمازِ عید سے پہلے ایک مسکین کا کھانا صدقہ دیتا ہے اور میرا اپنا طرز پسندیدہ جو آثارِ سَلف کے مطابق ہے یہ ہے کہ خود روزہ کھا اور اپنی روٹی کِسی غریب کو کھلا دی اور جو لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ جو لوگ طاقت نہیں رکھتے وہ فدیہ دیں یہ بھی ٹھیک ہے.نفلی روزوں میں ایسا کر لیں کہ ہر دو شنبہ و جمعہ و ایّامِ بیض کو روزہ نہیں رکھ سکتے تو اس روز مسکین کو کھانا کھِلا دیا.رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے ایسا کیا کیونکہ آپ تو ماہِ صیام میں موسمِ بہار کی ہَوا سے بڑھ کر جُودوسخا میں ہوتے تھے.:جو شخص کوئی نیکی خوش دِلی سے کرے وہ بہت اچھی ہے اور یہ کہ روزہ رکھنا تو بہت ہی مفید ہے اِس سے دُعا کی قبولیّت ہوتی ہے.صبرواستقلال اور نواہی سے بچنے کی مشق ہوتی ہے اپنی اِصلاح ہوتی ہے.یہ بات یاد رہے کہ کمزور لوگوں کے لئے اِس قِسم کے مجاہدات منع ہیں جن میں روزہ رکھتے ہوں اور وہ اخیر میں خشکی دماغ سے نیم سَودائی ہو جاویں اور کسی کام کے نہ رہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) :ہر مہینے میں تین یا ہردہائی میں ایک.:جو روزہ اچھی طرح رکھ سکتے ہیں.حدیث میں ہے اَیُّکُمْ یُطِیْقُ ذٰلِک.وہ بعض قصوروں کے کفّارہ میں فدیہ ( صدقۃ الفطر) دے دیں.

Page 307

:یعنی نفلی روزوں کو مثلاً ۱۴.۱۵ میں نہ رکھ سکے تو پھر رکھ لے.:ایک آدمی کے کھانے کے بدلے تین چار کا کھانا دے دے.(تشحیذالاذہان جلد نمبر۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۱)      :قرآن شریف کا طرز ہے کہ پہلے عام فضائل سکھاتا ہے پھر خاص فضیلت کی بات.اِسی طرح پہلے عام رذائل سے ہٹاتا ہے پھر اَرذل الرذائل شرک سے.پہلے عام بات کا حکم ہوتاہے پھر خاص کا.مثلاً پہلے عمرہ وغیرہ کا ذکر ہے پھر حج کا.پہلے صدقات کی ترغیب ہے پھر زکوٰۃ کی.اِسی طرح پہلے یہاں عام طور پر نفلی و فرضی روزوں کا حکم دیا ہے پھر رمضان کے روزوں کا حکم دیتا ہے.پہلے شھرِرمضان کی فضیلت بیان کی ہے کہ اس میں قرآن شریف نازل ہؤا.چونکہ قرآن کا اطلاق جزوِ سورہ پر بھی ہو سکتا ہے اِس لئے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام قرآن ماہِ رمضان میں نازل ہؤا ہے بلکہ صرف ایک جزوسورۃ کا نزول بھی کافی ہے.مَیں نے جو تحقیق کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور نبیٔ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم جن دنوں غارِ حرا میں عبادت فرمایا کرتے تھے وہ دن رمضان

Page 308

کے تھے اور وہیں پہلی سورۃ کا جزو نازل ہؤا.اِس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر رمضان اِس لئے فضیلت کا مہینہ ہے کہ اس میں قرآن کا کوئی جزو نازل ہؤا تو اس فضیلت میں دوسرے مہینے بھی شامل ہیں.اِس لئے گو یہ دوسرے معنے بھی بہت سچّ ہے کہ وہ رمضان جس کے بارے میں قرآن شریف نازل ہؤا مگر شروع نزول ایک رنگ رکھتا ہے.: کھُلے ہدایت نامے.: قرآن سے مجھے اِس کے یہ معنے معلوم ہوئے کہ فرقان نام ہے اُس فتح کا جسکے بعد دشمن کی کمر ٹوٹ جائے اور یہ بدرؔ کا دن تھا.غزوۂ بدر بھی ماہِ رمضان میں ہؤا ہے.غرض رمضان المبارک کیا بلحاظ فتوحاتِ دُنیاوی اور کیا باعتبار ابتداء نزولِ قرآنی یا تاکیدِ قرآنی ہر طرح قابلِ حُرمت ہے.(ضمیمہ اخبارِ بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) : اسی کے متعلق قرآن نازل ہؤا.قرآن میں روزے کی تاکید ہے.قرآن روزوں میں شروع ہوا.دونوں معنی صحیح.: مسافر نہ ہو بلکہ حاضر.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۱) رمضان کے دن بڑے بابرکت دن ہیں… اﷲ تعالیٰ نے اِس مہینے میں خاص احکام دیئے ہیں اور ان پر عمل کرنے کی خاص تاکید کی ہے.جو لوگ مسافر ہیں یا بیمار ہیں ان کو تو سفر کے بعد اور بیماری سے صحت یاب ہو کر روزے رکھنے کا حکم ہے مگر دوسرے لوگوں کو دن کے وقت کھانا پینا اور بیوی سے جماع کرنا منع ہے.کھانا پینا بقائے شخص کے لئے نہایت ضروری ہے اور جماع کرنا بقائے نوع کے لئے سخت ضروری ہے.اِس مہینہ میں خدا تعالیٰ نے دن کے وقت ایسی ضروری چیزوں سے رُکے رہنے کا حکم دیا تھا.اِن چیزوں سے بڑھ کر اَور کوئی چیزیں ضروری نہیں.بیشک سانس لینا ایک نہایت ضروری چیز ہے مگر انسان اِس کو چھوڑ نہیں سکتا.اﷲ تعالیٰ نے یہ مہینہ اِسی واسطے بنایا ہے کہ جب انسان گیارہ مہینے سب کام کرتا ہے اور کھانے پینے، بیوی سے جماع کرنے میں مصروف رہتا ہے تو پھر ایسی ضروری چیزوں کو صرف دن کے وقت خدا تعالیٰ کے حکم سے ایک ماہ کے لئے ترک کر دے تو پھر دیکھو جہاں ایک طرف ان ضروری اشیاء سے منع کیا ہے دوسری طرف تدریس قرآن، قیامِ رمضان اور صدقہ وغیرہ کا حکم دیا ہے اور اس میں یہ بات سمجھائی ہے کہ جب ضروری چیزیں چھوڑ کر غیر ضروری چیزوں کو خدا کے حکم سے اختیار کیا جاتا ہے تاپھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے برخلاف غیر ضروری چیزوں کو حاصل کیا جاتا

Page 309

ہے.رمضان کے مہینہ میںدعاؤں کی کثرت، تدریسِ قُرآن، قیام رمضان کا ضروری خیال رکھنا چاہیئے.حدیث شریف میں لکھا ہے مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَلَہ‘ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ.(بخاری.کتاب الایمان باب صَعْمُ رَمَضَانَ احْتَسَابًا مِنَ الْاِیمَانِ)مگر افسوس کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ رمضان میں خرچ بڑھ جاتا ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ لوگ روزہ کی حقیقت سے بے خبر ہیں.سحر گی کے وقت اِتنا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں کہ دوپہر تک ہدہضمی کے ڈکار ہی آتے رہتے ہیں اور مشکل سے جو کھانا ہضم ہونے کے قریب پہنچا بھی تو پھر افطار کے وقت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کے وہ اندھیرمارا اور ایسی شِکم پُری کی کہ وحشیوں کی طرح نیند پر نیند اور سُستی پر سُستی آنے لگی.اِتنا خیال نہیں کرتے کہ روزہ تو نفس کے لئے ایک مجاہدہ تھا نہ یہ کہ آگے سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر خرچ کیا جاوے اور خوب پیٹ پُر کر کے کھایا جاوے.یاد رکھو اِسی مہینہ میں ہی قُرآنِ مجید نازل ہونا شروع ہؤا تھا اور قرآن مجید لوگوں کے لئے ہدایت اور نور ہے اسی کی ہدایت کے بموجب عمل درآمد کرنا چاہیئے روزہ سے فارغ البالی پیدا ہوتی ہے اور دُنیا کے کاموں میں سُکھ کرنے کی راہیں حاصل ہوتی ہیں.آرام تو یا مَر کر حاصل ہوتا ہے یا بدیوں سے بچ کر حاصل ہوتا ہے.اِس لئے روزہ سے بھی سُکھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے انسان قُرب حاصل کر سکتا اور متّقی بن سکتا ہے اور اگر لوگ پوچھیںکہ روزہ سے کیسے قُرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے ِ الخ (الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ۵)   یعنی جب میرے بندے میرے بارے میں پوچھیں کہ وہ کہاں ہے پس جواب یہ ہے کہ ایسا نزدیک ہوں کہ مجھ سے زیادہ کوئی نزدیک نہیں.جو شخص مجھ پر ایمان لا کر مجھے پکارتا ہے تو مَیں اس کا جواب دیتا ہوں.(نورالدین صفحہ۴۳) :اگر لوگ یہ سوال کریںں کہ روزوں سے کیا فائدہ ہوتا ہے تو ایک تو یہاں

Page 310

 (البقرۃ:۱۸۴)اور دومؔ یہ کہ انسان کو خدا کا قُرب حاصل ہو جاتا ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت قریب ہو جاتا ہوں اور دعائیں قبول کرتا ہوں.: اِس کے یہ معنے نہیں کہ جو مانگو وہی ملے.کیونکہ دوسرے مقام پر فرما دیا.جواب سورۃ انعام( آیت ۴۲) میں ہے  .یعنی اگر چاہے تو اس مصیبت کو ہٹا دیتا ہے.یہاں بھی اَلْ کے ساتھ اِس طرف اشارہ کر دیا ہے.:فرمایا ہے یعنی جس قدر تم میرے فرمانبردار ہوتے جاؤ گے ایمان میں ترقّی کرتے جاؤ گے اُسی قدر مَیں دعائیں قبول کروں گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) روزہ جیسے تقوٰی سیکھنے کا ایک ذریعہ ہے ویسے ہی قُربِ الہٰی حاصل کرنے کا بھی ذریعہ ہے اِسی لئے اﷲ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کا ذکر فرماتے ہوئے ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا ہے. .یہ ماہِ رمضان کی ہی شان میں فرمایا گیا ہے اور اِس سے اِس ماہ کی عظمت اور سرِّالہٰی کا پتہ لگتا ہے کہ اگر وہ اِس ماہ میں دعائیں مانگیں تو مَیں قبول کروں گا لیکن ان کو چاہیئے کہ میری باتوں کو قبول کریں اور مجھے مانیں.اِنسان جس قدر خدا کی باتیں ماننے میں قوی ہوتا ہے خدا بھی ویسے ہی اس کی باتیں مانتا ہے. سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس ماہ کو رُشد سے بھی خاص تعلق ہے اور اس کا ذریعہ خدا پر ایمان ،اُس کے احکام کی اتّباع اور دُعا کو قرار دیا ہے.اَور بھی باتیں ہیں جن سے قُرب الہٰی حاصل ہوتا ہے.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۲) اگر لوگ پوچھیں کہ روزہ سے کیسے قُرب حاصل ہو سکتا ہے تو کہہ دے .یعنی مَیں قریب ہوں اور اِس مہینہ میں دعائیں کرنے والوں کی دعائیں سُنتا ہوں.چاہیئے کہ پہلے وہ ان احکاموں پر عمل کریں جن کا مَیں نے حکم دیا اور ایمان حاصل کریں تاکہ وہ مراد کو پہنچ سکیں اور اِس طرح سے بہت ترقی ہو گی.(الحکم۱۷؍نومبر۱۹۰۷ء صفحہ۵)

Page 311

       :عورت سے رغبت کرنا.جماع کرنا.جماع کی باتیں کرنا.:عورتوں کو لباس فرمانے میں ان کے بہت سے حقوق فرمائے ہیں.عورتوں کو ساتھ رکھنا چاہیئے… یہ فلاسفی میری سمجھ میں نہیں آتی کہ لحاف کشمیر میں ہو اور موسمِ سرما

Page 312

پنجاب میں بسر کرے.جاڑا لگے تو کہہ دے میرا لحاف کشمیر میں ہے.:یہ لوگ ایک غلط رسم میں مبتلا تھے.ان میں کوئی سو جاتا تو پھر رات کو نہ کھانا کھاتا نہ بیوی سے جماع کرتا.فرمایا اﷲ نے تم پر فضل کیا.مغرب کے بعد سو جائے تو اُٹھ کر کھانا کھا وے کیا کرنے کی ممانعت نہیں.:ایک شخص نے ایک دفعہ کہا کہ صبح صادق ایک انتظامی بات ہے پانچ منٹ اِدھر ہو گئے تو کیا اور اگر اُدھر ہو گئے تو کیا.اﷲ تعالیٰ نے عجیب طور سے اسے اس کا جواب سمجھایا.وہ جُولاہا تھا.اُسے خواب آیا کہ مَیں تانی پھَیلارہا ہوں مگر ایک طرف سے میخ کے ساتھ باندھنے میں پانچ اُنگلی کا فرق رہ گیا ہے اور وہ چِلّا رہا ہے یا تو میخ کو ادھر کر دویا رسّہ کو لمبا کرو ورنہ میری تانی بگڑتی ہے اور کوئی اسے کہہ رہا ہے کیا ہؤا صرف پانچ اُنگلی کا فرق ہے.اس پر اس کی جاگ کُھلی اور بہت نادم ہؤا اور اسےِکے معنے سمجھ میں آئے.ُ:واقعی یہ طریق عوام و خواص کو سمجھانے کا کب آتا ہے جو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)   : فرمایا ہے کہ ہم نے یہ سارا عِلم حصولِ تقوٰی کے لئے بیان کیا ہے پس تم مالی معاملات میں وہ راہ اختیار کرو جو خدا کو پسند ہے.مجھے افسوس آتا ہے اِس ملک کے لوگوں پر.یُوں تو چُوہڑوں کی نسبت مشہور ہے کہ ان کا چھُرا حلال و حرام پر چلتا ہے مگر مَیں کہتا ہوں کئی گھر مسلمانوں کے چُوہڑوں کے گھر بن رہے ہیں.ایک ضرب المثل ہے، ضرب المثل کہنا تو نہیں چاہیئے کیونکہ اس کے کہنے والے تو حکماء ہوتے ہیں.یہ کِسی سفیہ کا قول ہے کہ دُنیا کما کھائے مَکر سے اور روٹی کھائے شکر سے.یہ بالکل ایک گندہ

Page 313

قول ہے اور کسی مادہ پرست تاریکی کے فرزند کا ہے.:رشوت نہ دو اور نہ یُونہی مقدمہ بازی میں ناحق خرچ کرو.بَاطِلْکہتے ہیں اس کو کہ اجازتِ شرعیہ کے خلاف کچھ حاصل کیا جائے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) باطل طریق سے اموال کا لینا بہت خطرناک بات ہے.پس ہر ایک اپنے اپنے بقدر سوچو اور غور کرو کہ کہیں بطلان کی راہ سے تو مال نہیں آتا.اپنے فرائضِ منصبی کو پُورا کرو ان میں کِسی قِسم کی سُستی اور غفلت نہ کرو.لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبُّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ.(بخاری.کتاب الایمان با بمِنَ الْاِیْمَانِ أَنْ یَّحِبَّ لِاَحِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ۶) تقوٰی کے لئے ایک جزئی بیان کی یہ ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کا مال مت کھایا کرو.حرام خوری اور مال بالباطل کا کھانا کئی قِسم کا ہوتا ہے.ایک نوکر اپنے آقا سے پوری تنخواہ لیتا ہے مگر وہ اپنا کام سُستی یا غفلت سے آقا کے منشاء کے موافق نہیں کرتا تو وہ حرام کھاتا ہے.ایک دُکاندار یا پیشہ ور خریدار کو دھوکا دیتا ہے اسے چیز کم یا کھوٹی حوالہ کرتا ہے اور مول پُورا لیتا ہے تو وہ اپنے نفس میں غور کرے کہ اگر کوئی اِسی طرح کا معاملہ اس سے کرے اور اُسے معلوم بھی ہو کہ میرے ساتھ دھوکہ ہؤا تو کیا وہ اُسے پسند کرے گا؟ہرگز نہیں.جب وہ اس دھوکا کو اپنے خریدار کے لئے پسند کرتا ہے تو وہ مال بالباطل کھاتا ہے.اس کے کاروبار میں ہرگز برکت نہ ہو گی.پھر ایک شخص محنت اور مشقّت سے مال کماتا ہے مگر دوسرا ظلم ( یعنی رشوت، دھوکا، فریب) سے اس سے لینا چاہتا ہے تو یہ مال بھی مال بالباطل لیتا ہے.ایک طبیب ہے اُس کے پاس مریض آتا ہے اور محنت اور مشقّت سے جو اُس نے کمائی کی ہے اس میں سے بطور نذرانہ کے طبیب کو دیتا ہے یا ایک عطّار سے وہ دوا خریدتا ہے تو اگر طبیب اس کی طرف توجّہ نہیں کرتا اور تشخیص کے لئے اس کا دل نہیں تڑپتا اور عطّار عمدہ دوا نہیں دیتا اور جو کچھ اسے نقد مِل گیا اُسے غنیمت خیال کرتا ہے یا پُرانی دوائیں دیتا ہے کہ جن کی تاثیرات زائل ہو گئی ہیں تو یہ سب مال بالباطل کھانے والے ہیں.غرضکہ سب پیشہ ورحتّٰی کہ چُوڑھے چمار بھی سوچیں کہ کیا وہ اس امر کو پسند کرتے ہیں کہ اُن کی ضرورتوں پر اُن کو دھوکا دیا جائے.اگر وہپسند نہیں کرتے تو پھر دوسرے کے ساتھ خود وہی ناجائز حرکت کیوں کرتے ہیں.روزہ ایک ایسی شے ہے جو ان تمام بُری عادتوں اور خیالوں سے انسان کو روکنے کی تعلیم دیتا ہے اور تقوٰی حاصل کرنیکی

Page 314

مشق سکھاتا ہے.جو شخص کسی کا مال لیتا ہے وہ مال دینے والے کی اغراض کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھ کر مال لیوے اور اُسی کے مطابق اُسے شے دیوے.(الحکم ۲۴.جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲) اے ایمان والو! مت کھاؤ آپس میں مالِ ناحق اور نہ پہنچاؤ اُن کو حاکموں تک کہ کھا جاؤ کاٹ کر لوگوں کے مال سے مارے گناہ کے اور تم کو معلوم ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۵۹) ناحق کِسی کا مال لینا ایسا ضروری نہیں جیسے کہ اپنی بیوی سے جماع کرنا یا کھانا پینا.اِس لئے خدا تعالیٰ سکھاتا ہے کہ جب تم خدا تعالیٰ کی خاطر کھانے پینے سے پرہیز کر لیا کرتے ہو تو پھر ناحق کا مال اکٹھا نہ کرو بلکہ حلال اور طیّب کما کر کھاؤ.اکثر لوگ یہی کہتے ہیں کہ جب تک رشوت نہ لی جاوے اور دغا فریب اور کئی طرح کی بددیانتیاں عمل میں نہ لائی جاویں روٹی نہیں ملتی.یہ ان کا سخت جھُوٹ ہے.ہمیں بھی تو ضرورت ہے.کھانے پینے سب اشیاء کی خواہش رکھتے ہیں.ہماری بھی اولاد ہے ان کی خواہشوں کو ہمیں بھی پُورا کرنا پڑتا ہے اور پھر کتابوں کے خریدنے کی بھی ہمیں ایک دَھت اور ایک فضولی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے گو اﷲ کی کتاب ہمارے لئے کافی ہے اور دوسری کتابوں کا خرید کرنا اتنا ضروری نہیں مگر میرے نفس نے ان کا خرید کرنا ضروری سمجھا ہے اور گو مَیں اپنے نفس کو اس میں پُوری طرح سے کامیاب نہیں ہونے دیتا مگر پھر بھی بہت سے روپے کتابوں پر ہی خرچ کرنے پڑتے ہیں مگر دیکھو ہم بُڈھے ہو کر تجربہ کار ہو کر کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ انسان کو اس کی ضرورت سے زیادہ دیتا ہے.بَد سے بَد پیشہ طبابت کا ہے جس میں سخت جھُوٹ بولا جا سکتا ہے اور حد درجہ کا حرام مال بھی کمایا جا سکتا ہے.ایک راکھ کی پُڑیا دے کر طبیب کہہ سکتا ہے کہ یہ سونے کا کُشتہ ہے فلاں چیز کے ساتھ اسے کھاؤ اور ایسے ہی طرح طرح کے دھوکے دیئے جا سکتے ہیں.جس طبیب کو پورا فہم نہیں.پوری تشخیص نہیں اور دوائیں دے دے کر روپیہ کماتا ہے تو وہ بھی بطلان سے روپیہ کماتا ہے.وہ مال طیّب نہیں بلکہ حرام مال ہے.اِسی طرح جتنے جعل ساز، جھُوٹے اور فریبی لوگ ہوتے ہیں اور دھوکوں سے اپنا گزارہ چلاتے ہیں وہ بھی بطلان سے مال کھاتے ہیں.ایسا ہی طبیبوں کے ساتھ پنساری بھی ہوتے ہیں جو جھُوٹی چیزیں دے کر سچّی چیزوں کی قیمت وصول کرتے ہیں اور بے خبر لوگوں کو طرح طرح کے دھوکے دیتے ہیں اور پھر پیچھے سے کہتے ہیں کہ فلاں تھا تو دانا مگر ہم نے کیسا اُلّو

Page 315

بنا دیا.ایسے لوگوں کا مال حلال مال نہیں ہوتا بلکہ وہ حرام ہوتا ہے اور بطلان کے ساتھ کھایا جاتا ہے.مومن کو ایک مثال سے باقی مثالیں خود سمجھ لینی چاہئیں.مَیں نے زیادہ مثالیں اِس واسطے نہیں دی ہیں کہ کہیں کوئی نہ سمجھ لے کہ ہم پر بدظنّیاں کرتا ہے اِسی واسطے مَیں نے اپنے پیشہ کا ذکر کیا ہے.مَیں اِسے کوئی بڑا علم نہیں سمجھتا لیکن اسے ایک پیشہ سمجھتا ہوں.طبیبوں سے حکماء لوگ ڈرتے ہیں اِس لئے انہوں نے اِس پیشہ کا نام صنعت رکھا ہے.یاد رکھو یہ بھی ایک کمینگی کا پیشہ ہے.اِس میں حرام خوری کا بڑا موقع ملتا ہے اور طبّ کے ساتھ پنساری کی دکان بنانا اس میں بہت دھوکہ ہوتا ہے.نہ صِحت کا اندازہ لوگوں کو ہوتا ہے نہ مریض کی پوری تشخیص ہوتی ہے اور پھر نہایت ہی معمولی سی جنگل کی سُوکھی ہوئی بُوٹی دے کر مال حاصل کر لیتے ہیں یہ بھی سخت درجہ کا بطلان کے ساتھ مال کھانا ہے.وہ جو مَیں نے اپنے جنون کا ذکر کیا ہے چند روز ہوئے کہ ایک عمدہ کتاب بڑی خوشنما بڑی خوبصورت اور دِل لبھانے والی اس کی جِلد تھی جس پر رنگ لگا ہؤا تھا.اس کو جو کہیں رکھا تو اَور چیزوں کو بھی اس سے رنگ چڑھ گیا جس سے ہمیں بہت دُکھ پہنچا.غرض ! پس جلد گر نے جو جِلد کی قیمت لی ہے حقیقت میں وہ حلال مال نہیں بلکہ بطلان سے حاصل کیا ہؤا ہے.اِسی طرح اور بھی پیشے ہیں مگر ان کا ذکر مَیں اِس واسطے نہیں کرتا کہ کِسی کو رنج نہ پہنچے.اِسی طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ حکام تک مال نہ پہنچاؤ.بعض لوگ یونہی لوگوں کو وسوسے ڈالتے رہتے ہیں اور لوگوں کو ناجائز طور پر پھنسانے کی کوشِش کرتے رہتے ہیں اِس لئے بعض لوگ ان سے ڈر جاتے ہیں اور نقصان اُٹھا لیتے ہیں.غرص روزہ جو رکھا جاتا ہے تو اِس لئے کہ انسان متّقی بنناسیکھے.ہمارے امام فرمایا کرتے ہیں کہ بڑا ہی بدقسمت ہے وہ انسان جس نے رمضان تو پایا مگر اپنے اندر کوئی تغیّر نہ پایا.(الحکم ۱۷؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ۵،۶)

Page 316

   یہ سُورۃ مدینہ منوّرہ میں نازل ہوئی تھی.مدینہ طیّبہ کا وقت جو رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلّم پر گزرا ہے اس کا پتہ چار باتوں سے لگتا ہے.مکّہ معظمہ میں آپ کو اور آپ کی جماعت کو شدید تکلیفیں دی گئیں یہاں تک کہ جن لوگوں کے جتّھے تھے وہ بھی ہار کر افریقہ میں چلے گئے.جب جتھے والوں کی یہ حالت تھی تو جن کا جتھا نہیں تھا ان کی حالت خودظاہر ہے.صبراِسی بات کی طرف غور کر کے ان کے مشکلات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے پیارے وطن کو چھوڑ کر افریقہ چلے گئے جو بالکل بیابان وغیرآباد تھا.پھر وہاں تک پہنچنا بھی کوئی آسان نہیں تھا.نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم پر جو تین برس آئے وہ تو ایسے تھے کہ بڑی مشکلات کا سامنا تھا.کِسی سے نکاح نہیں کر سکتے روٹی وغیرہ کسی کے ساتھ نہیں کھا سکتے.کوئی ان کو سلام نہیں دیتا تھا.غلّہ جو باہر سے آتا تھا اسے بنی ہاشم خرید نہیں سکتے تھے.پھر تیسری تکلیف یہ تھی کہ جب آپ مدینہ میں چلے گئے تو بد بخت لوگوں نے مدینہ کے اِرد گِرد شام کی تجارت کا بہانہ بنا کر تمام نواحی مدینہ کی قوموں پر رُعب ڈالنے کے لئے قافلے پر قافلے بھیجنے شروع کئے.چوتھی بات تکلیف کی یہ تھی کہ وہاں بھی دشمن موجود تھے.بنو قینقاع، قریظہ، بنو نضیر، عیسائی وغیرہا سات قوموں کا جمگھٹا تھا.اِن سب ضرر دینے والوں کے ظلم وستم سے بچنے کیلئے جہاد کے سوا کوئی تدبیر نہ تھی.چنانچہ یہ سُورہ اوّل سے آخر تک جہاد کی ترغیب میں نازل ہوئی پہلے رکوع میں (آیت:۶) فرما کر یہی اشارہ کیا ہے.مُفلح کہتے ہیں اُسے جس کے سر پر فتحمندی کا تاج ہو.پھر تیسرے رکوع میںبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فرما کر مفتوح ملکوں کا نقشہ دکھایا ہے کہ ان میں نہریں بہتی ہوں گی.باغ ہوں گے جن کے وارث مومن ہوں گے اور اس کے ساتھ کفّار کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ نار الحرب میں ہلاک ہوں گے.پھر بنی اسرائیل کا ذکر کیا ہے کہ انہوں نے موسٰی علیہ السّلام کے حکم کے خلاف جہاد میں جانے سے مضائقہ کیا تو (آیت:۶۲) کے ماتحت مسکنت میں کُچلے گئے.اِس میں اشارہ کیا کہ تم یُوں نہ کرنا.اس کے بعد کئی طور سے ترغیبیں دی ہیں اور بتایا ہے کہ جہاد میں خوف، جوع، مال و جان کا نقصان سب کچھ ہو گا لیکن اگر تم استقلال سے کام

Page 317

لو گے تو پھر تمہارے لئے بشارت ہے.ہاجرہؔ علیہا السلام کے واقعہ پر غور کرو کہ اس نے صبر کا کیا اَجر پایا.پھر قصاص کی ترغیب دی اور یہ بھی بتایا کہ یہ سب کچھ ہیچ ہے جب تک تقوٰی نہ ہو کیونکہ یہی تقوٰی تمام کامیابیوں کی جڑ ہے.پھر تقوٰی کے حصول کے ذریعے بتائے ہیں چنانچہ ان میں سے ایک ذریعہ کا ذکر پچھلے رکوع میں فرمایا کہ روزے رکھو.مناہی سے بچنے کی مشق کرتے رہو.جب ایک مہینہ کی نسبت صحابہ کو یہ علم ہؤا کہ اس میں یہ فضیلتیں ہیں تو انہوں نے دوسرے تمام چاندوں کی نسبت یہی سوال پیش کیا.یہ شانِ نزول ہے  کا تو فرمایا کہ.: اِس سے پہلے ایک دفعہ جو  آیا اس میں بتایا کہ تم مشرق و مغرب کے فاتح ہو جاؤ گے مگر تقوٰی نہیں تو کچھ بھی نہیں.یہاں یہ بتایا کہ ظاہری رسوم کی پابندی کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی جب تک کہ اس کی رُوح پر تمہارا عمل نہ ہو.ہمارے علاقہ ( بھیرہ ضلع شاہ پور) میں ایک رسم ہے کہ حرام کا دُودھ الگ برتنوں میں رکھتے ہیں اور حلال کا الگ برتنوں میں.مٹی کے برتنوں کا تو بڑا اہتمام ہوتا ہے مگر پیٹ میں سب کچھ جمع کر لیتے ہیں.اِس ظاہرداری پر کیسا افسوس آتا ہے کہ مٹی کے برتن میں تو حلال و حرام کے لئے تفرقہ کر لیں مگر حقیقی برتن ( پیٹ) کے لئے کچھ پرواہ نہ کریں.اِسی طرح نمازوں میں صفیں سیدھی کرنے کی تو بہت تاکید ہوتی رہتی ہے مگر جو اس کا اصل مقصد ہے جب وہ نہ ہو تو یہ ایک معمولی رسم رہ جائے گی.وہ یہ کہ کوئی بڑا بن کر آگے نہ ہو اور پیچھے نہ ہو اور آپس میں ایک جان ہو کر رہو.پس اگر تم ایک نہ ہو جاؤ اور دلوں میں کھوٹ رہے تو پھر تخنے کا ٹخنے سے ملانا عبث ہے.:ہر ایک چیز کے حصول کے لئے ایک راہ ہوتی ہے پس اسی راہ سے اسے طلب کرو.جب انسان اس راہ پر نہ چلے گا تو منزل مقصود کو ہرگز نہ پہنچے گا.ان میں ایک رسم بھی تھی کہ گھروں میں واپس آتے تو چھَت پھاڑ کر گذرتے.اِس سے منع فرمایا کہ یہ رسم ہے اسکے اصل کی طرف توجّہ کرو.:اَیْ اَنْتُمْ تَصِیْرُوْنَ مُفْلِحِیْنَ یعنی تم تقوٰی اختیار کرو شاید کہ وہ مفلح تم ہی ہو جاؤ.وہی مفلحون جن کا ذکر البقرۃ آیت:۶ میں آیا ہے.میں کہتا ہوں کہ تم بھی (اے احمدیو !) اپنے دلوں کو صاف کرو.منصوبہ بازیوں میں شریک نہ ہو.کسی سے مقابلہ کرو تو نفس کے لئے نہیں بلکہ محض اﷲ کے لئے.رسولِ کریم نے فرمایا کہ کوئی

Page 318

شخص اپنی شجاعت کے اظہار کے لئے لڑتا ہے.کوئی اپنی قوم کی عزّت و جلال کے لئے.کوئی کِسی خیال سے.کوئی کِسی خیال سے مگر جو لڑتا ہے کلمتہ اﷲ کے اعلاکے لئے وہی خدا کے نزدیک سچّا مجاہد ہے.اب بتاتا ہے کہ لڑائی کرو تو کِن سے کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) یہ رکوع شریف جو مَیں نے ابھی پڑھا ہے یہ رمضان شریف کی تاکیدوں اور اس کے اَحکام اور فضائل اور فوائد کے بیان کے بعد نازل فرمایا گیا ہے.اِس رکوع کا مضمون اور مطلب رمضان کے بعد ہی سے بلا فصل شروع ہوتا ہے جو آجکی تاریخ ہے.یہ مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ بہ نسبت اَور مہینوں کے ایک خاص فضل اور انعام مسلمانوں پر اس میں نازل ہؤا ہے.گویا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نبوّت کا یہی مہینہ ابتدائی سال ہے.آخر رمضان میں جو وحی نازل ہوئی ہے تو تبلیغ شوال ہی سے شروع فرمائی ہے.وہ جو نور تاریکیوں سے دُور کرنے کے واسطے اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور جس کا اَنْزَلْنَا اِلَیْکُمْ نُوْرًا میں کیا ہے اس کا شروع یہی مہینہ ہے… رمضان میں تقوٰی کا سبق یُوں ملتا ہے سخت سے سخت ضرورتیں بھی جو بقائے نفس اور بقائے نسل کے لئے ضروری ہیں ان کو بھی روکنا پڑتا ہے.بقائے نفس کے لئے کھانا پینا ضروری چیزہیں اور بقائے نسل کے لئے بیوی سے تعلق ایک ضروری شے ہے مگر رمضان میں کچھ عرصہ کے لئے یعنی دِن بھر اِن ضرورتوں کو خدا کی رضا مندی کی خاطر چھوڑنا پڑتا ہے.اﷲ تعالیٰ نے اِس میں یہ سبق سکھایا ہے کہ انسان جب بڑی ضروری خواہشوں اور ضرورتوں کو ترک کرنے کا عادی ہو گا تو غیر ضروری کے چھوڑنے میں اس کو کیسی سہولت ہو گی.دیکھو ایک شخص کے گھر میں تازہ دُودھ ، ٹھنڈے شربت ، انگور، نارنگیاں موجود ہیں.پیاس کے سبب سے ہونٹ خشک ہو رہے ہیں.کوئی روکنے والا نہیں.باوجود سہولت اور ضرورت کے اِس لئے ارتکاب نہیں کرتا کہ مولیٰ کریم ناراض نہ ہو جائے اور اسی طرح عمدہ عمدہ کھانے ،پلاؤ، کباب اور دوسری نعمتیں میسّر ہیں اور بھُوک سے پیٹ میں بَل پڑ جاتے ہیں اور پھر کوئی نہیں جو اِن کھانوں سے روکنے والا ہو مگر یہ اِس لئے استعمال نہیں کرتا کہ مَولیٰ کریم کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو.جبکہ یہ حال ہے کہ ایسی حالت اور صورت میں کہ اس کی عمدہ سے عمدہ نعمتیں جو اس کے بقائے نفس کے لئے اشد ضروری ہیں یہ صرف مَولیٰ کریم کے حکم کی رضامندی کی خاطر ان کو چھوڑتا ہے اور پھر دیکھتا ہے کہ چھوڑ سکتا ہے تو بھلا ایسا انسان جو خدا کے لئے ضروری چیزیں چھوڑ سکتا ہے وہ شراب کیوں پینے لگا اور خنزیر کیوں کھانے لگا جس کی کچھ بھی ضرورت

Page 319

نہیں ہے یا مثلاً کوئی رشوت خور ربٰو خوری کرنے یا چور یا ایسا اِنسان جو قرض لیتا ہے کہ ادا کرنے کی نیّت نہیں ہے جبکہ دیانت داری سے کام لیتا ہے اور مولیٰ کریم کی اجازت اور پروانگی کے سوا کچھ نہیں کرتا وہ ایسا خبیث مال لینے میں کیوں جرأت کرے گا؟ ہرگز نہیں.اسی طرح گھر میں حسین جوان بیوی موجود ہے مگر اﷲ ہی کی رصا کے لئے تیس دن چھوڑ سکتا ہے تو بَد نظری کے لئے جی کیوں للچائے گا غرض رمضان شریف ایک ایسا مہینہ تھا جو انسان کو تقوٰی ، طہارت، خدا ترسی، صبر و استقلال ، اپنی خواہشوں پر غلبہ، فتحمندی کی تعلیم عملی طور پر دیتا تھا.ان ترقّیوں کو دیکھ کر جو صحابہؓ نے رمضان میں تقوٰی میں کی تھیں.انہوں نے دوسرے مہینوں کے فضائل و فوائد سُننے کی خواہش ظاہر کی اور سوال کیا.اﷲ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس کا جواب یُوں دیا تھا  کہہ دو لوگوں کے فائدہ کے لئے یہ وقت مقرر فرمائے ہیں.کیسا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جس کو صِحت ،فرصت، پھر اﷲ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے عِلم بھی عطا ہؤا ہے اور اگر نہیں تو کوئی دردِ دل سے سُنانے والا موجود ہے.عاقبت اندیشی کی عقل دی ہے مگر باوجود اِس قدر اسباب اور سہولتوں کے میسّر آ جانے پر بھی اگر اﷲ تعالیٰ کی رضاجوئی کی فکر نہیں کرتا اور منافع اُٹھانے کی سعی میں نہیں لگتا تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کون ہو سکتا ہے.:کیا عجیب وقت بنایا ہے تمہارے فائدہ کے لئے اور نفع اُٹھانے کا بہت بڑا موقع دیا ہے اور اِس لئے بھی کہ تم حج کرو.یاد رکھو حج اﷲ کی سُنن میں سے ہے.یہ ایک سچّی بات ہے کہ جہاں بدکاریاں کثرت سے ہوں وہاں غضبِ الہٰی نازل ہوتا ہے اور جہاں عظمت اور ذکرِ الہٰی ہو وہاں فیضانِ الہٰی کثرت سے نازل ہوتا ہے.قومی روایات سے متفقہ یہ شہادت ملتی ہے کے بَیت اﷲ کا وجود تو بہت بڑے زمانہ سے ہے لیکن حضرت ابوالمِلّۃ ابراہیم علیہ السّلام کے زمانہ سے جس کی تاریخ صحیح موجود ہے.اَبًا عَنْ جدٍّ ّ قوموں کا مرکز اور جائے تعلیم چلا آیا ہے اور پتہ ملتا ہے کہ رات دن میں کوئی ایسا وقت بَیت اﷲمیں نہیں آتا کہ وہاں اﷲ تعالیٰ کی عظمت و جبروت کے اوراد نہ پڑے جاتے ہوں.مکہ معظمہ میں اﷲ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی صفات کا زندہ اور بیّن ثبوت موجود ہے چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے  (المائدۃ: ۹۸)یعنی اس الہٰی گھر کو معزّز گھر بنایا.اس کو لوگوں کے قیام اور نظام کا محل بنایا اور قربانیوں کو مقرر کیا کہ تم کو سمجھ آ جائے کہ خدا ہے اور وہ علیم و خبیر خدا ہے کیونکہ جس طرح اس نے فرمایا اُسی طرح پُورا ہوا.

Page 320

مَیںنے ایک دہریّہ کے سامنے اِس حُجّت کو پیش کیا.وہ ہکّا بکّا ہی تو رہ گیا.لوگوں کے مکانات اور پھر مذہبی مقامات کو دیکھو کہ ذرا سی انقلاب سے ساری عظمت ( خاک میں مِل جاتی تھی.بابل کِس عظمت و شان کا شہر تھا مگر آج اس کاکوئی پتہ بھی نہیں دے سکتا کہ وہ کہاں آباد تھا.کار تھج میں ہنی بال کا معبد، پیرامون کا مندر جہاں سکندر عظیم الشّان بادشاہ آ کر نذر دیتا تھا اور اپنے آپ کو اُس کا بیٹا منسُوب کرتا تھا.ں آتش کدۂ آذر غرض بڑے بڑے مقدّس مقامات تھے جن کا نام و نشان آچ زمانہ میں موجود نہیں ہے مگر مکّہ معظّمہ کی نسبت خدائے علیم و حکیم نے اس وقت جبکہ وہ ایک وادیٔ غیر ذی زرع تھا یہ فرمایا کہ وہاں دُنیا کے ہر حصّہ سے لوگ آئیں گے.وہاں قربانیاں ہوں گی اور خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کا اظہار ہوتا رہے گا.صدیاں اس پر گذر گئیں.دُنیا میں بڑے بڑے انقلاب ہوئے.سلطنتوں کی سلطنتیں تباہ ہو کر نئی پَیدا ہو گئیں مگر مکّہ معظّمہ کی نسبت جو پیشگوئی کی گئی وہ آج بھی اُسی شوکت اور جلال کے ساتھ نظر آتی ہے جس طرح پر کئی سَو سال پیشتر.اِس سے اﷲ تعالیٰ کی علیم و خبیر، ہستی کا کیسا پتہ لگتا ہے.اگر انسانی منصوبہ اور ایک خیالی اور فرضی بات ہوتی تو ان کا نام و نشان اسی طرح مِٹ جاتا جیسے دُنیا کے اَور بڑے بڑے مقدّس قرار دیئے گئے مقامات کا نشان مِٹ گیا.مگر نہیں.یہ اﷲ تعالیٰ کی باتیں تھیں جو ہر زمانہ میں اس کی ہستی کا زندہ ثبوت ہیں.(الحکم ۱۰؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۴تا۶) کی شانِ نزول جب صحابہ رضوان اﷲ علہیم نے دیکھا کہ ایک ماہِ رمضان کی یہ عظمت اور شان ہے اور اس قُربِ الہٰی کے حصول کے بڑے ذرائع موجود ہیں تو ان کے دل میں خیال گذرا کہ ممکن ہے کہ دوسرے چاندوں ومہینوں میں بھی کوئی ایسے ہی اسرارِ مخفیہ اور قُربِ الہٰی کے ذرائع موجود ہوں وہ معلوم ہو جاویں اور ہر ایک ماہ کے الگ الگ احکام کا حکم ہو جاوے اِسی لئے انہوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ دوسرے چاندوں کے احکام اور عباداتِ خاصہ بھی بتا دیئے جاویں.ہلال اور قمر کا تفاوت: یہاں لفظ اَھِلَّۃ کااستعمال ہؤا ہے جو کہ ہلال کی جمع ہے.بعض کے نزدیک تو پہلی دوسری اور تیسری کے چاند کو اور بعض کے نزدیک ساتویں کے چاند کو ہلال کہتے ہیں اور پھر اس کے بعد قمر کا لفظ اطلاق پاتا ہے.احادیث میں جو مہدی کی علامات آئی ہیں ان میں سے مہدی کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ ایک ہی ماہِ رمضان میں چاند اور سُورج کو گرہن لگے گا.

Page 321

وہاں چاند کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قمر کا لفظ استعمال کیا ہے اور اعلیٰ درجہ کا قمر ۱۳،۱۴،۱۵؍تاریخ کو ہوتا ہے اور اس کے گرہن کی بھی یہی تاریخیں ماہِ قمری کی مقرر ہے.غرضکہ قمر کا لفظ اپنے حقیقی معنوں کی رُو سے مہدی کی علامت تھی لیکن لوگوں نے تصرّف کر کے وہاں قمر کے بجائے ہلال کا لفظ ڈال دیا ہے اور یہ ان کی غلطی ہے.صحابہ کرامؓ کے اِس سوال پر کہ اَور چاندوں کے برکات و انوار سے ان کو اطلاع دی جاوے اﷲ جلّ شانہ،نے یہ جواب دیا.یعنی جیسے ماہِ رمضان تقوٰی سکھانے کی ایک شے ہے ویسے ہر ایک مہینہ جو چڑھتا ہے وہ انسان کی بہتری کے لئے ہی آتا ہے.انسان کو چاہیئے کہ نئے چاند کو دیکھ کر اپنی عمرِ رفتہ پر نظر ڈالے اور دیکھے کہ میری عمر میں سے ایک ماہ اَور کم ہو گیا ہے اور نہیں معلوم کہ آئندہ چاند تک میری زندگی ہے کہ نہیں.پس جس قدر ہو سکے وہ خیر و نیکی کے بجا لانے میں اور اعمالِ صالحہ کرنے میں دِل و جان سے کوشِش کرے اور سمجھے کہ میری زندگی کی مثال برف کی تجارت کی مانند ہے.برف چونکہ پگھلتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہوتا رہتا ہے اِس لئے اس کے تاجر کو بڑی ہوشیاری سے کام کرنا پڑتا ہے اور اس کی حفاظت کا وہ خاص اہتمام کرتا ہے.ایسے ہی انسان کی زندگی کا حال ہے جو برف کی مثال ہے کہ اس میں سے ہر وقت کچھ نہ کچھ کم ہوتا ہی رہتا ہے اور اس کا تاجر یعنی انسان ہر وقت خسارہ میں ہے.۶۴.۶۵ سال جب گذر گئے اور اس نے نیکی کاسرمایہ کچھ بھی نہ بنایا تو وہ گویا سب کے سب گھاٹے میں گئے.ہزاروں نظّارے تم آنکھ سے دیکھتے ہو.اپنے بیگانے مرتے ہیں.اپنے ہاتھوں سے تم ان کو دفن کر کے آتے ہو اور یہ ایک کافی عبرت تمہارے واسطے وقت کی شناخت کرنے کی ہے اور نیا چاند تمہیں سمجھاتا ہے کہ وقت گزر گیا ہے اور تھوڑا باقی ہے اب بھی کچھ کر لو.لمبی لمبی تقریریں اور وعظ کرنے کا ایک رواج ہو گیا ہے اور سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے ایک لفظ ہی کافی ہے.کِسی نے اِسی کی طرف اشارہ کر کے کہا ہے ؎ مجلسِ وعظ رفتنت ہَوس است مرگ ہمسایہ واعظ تو بس است پس اِن روزانہ موت کے نظّاروں سے جو تمہاری آنکھوں کے سامنے اور تمہارے ہاتھوں میں ہوتے ہیں عبرت پکڑو اور خدا تعالیٰ سے مدد چاہو اور کاہلی اور سُستی میں وقت کو ضائع مت کرو مطالعہ کرو اور خوب کرو کہ بچّے سے لے کر جوان اور بُوڑھے تک اور بھیڑ بکری اُونٹ وغیرہ جس قدر جاندار

Page 322

چیزیں ہیں سب مَرتے ہیں اور تم نے بھی ایک دن مَرنا ہے.پس وہ کیا بدقسمت اِنسان ہے جو اپنے وقت کو ضائع کرتا ہے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم وقت کی کیسی قدر کرتے ہیں کہ جب ان کو رمضان کے فضائل معلوم ہوئے تو معًا دوسرے مہینوں کے لئے سوال کیا کہ قُربِ الہٰی کے اگر اَور ذرائع بھی ہوں تو معلوم ہو جاویں.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ۱۲،۱۳) :انسان کو ایک زبردست طاقت کا خیال ہمیشہ رہتا ہے اور یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ ہر ایک مذہب میں جنابِ الہٰی کی عظمت و جبروت ضرور مانا جاتا ہے.جو لوگ اس سے مُنکر ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ ایک عظیم الشّان طاقت ضرور ہے جس کے ذریعہ سے یہ نظامِ عالَم قائم ہے اس کے قُرب کے حاصل کر نے والے تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں.بعض کی عرض تو یہگ ہوتی ہے کہ جسمانی سامان حاصل کرکے جسمانی آرام حاصل کیا جاوے جیسے ایک دُکاندار کی بڑی غرض و آرزُویہ ہوتی ہے کہ اس کا گاہک واپس نہ جاوے.ایک اہلِ کسب ایک دو روپیہ کما کر پھُولا نہیں سماتا لیکن ایسے لوگ انجام کار کوئی خوشحالی نہیں پاتے.وجہ یہ ہے کہ ان کی خواہش محدود ہوتی ہے اسلئے محدود فائدہ اُٹھاتے ہیں اور محدود خیالات کا نتیجہ پاتے ہیں.بعض اس سے زیاہ کوشِش کرتے ہیںاور ان پر خواب اور کشف کا دروازہ کھُلتا ہے اِس قِسم کے لوگوں میں بھلائی اور اخلاق سے پیش آنے کا خیال وارادہ بھی ہوتا ہے مگر چونکہ اُن کی عقل بھی محدود ہوتی ہے اِس لئے ان کی راہ بھی محدود ہوتی ہے.ایک حَد کے اندر اندر رہتے ہیں اور ان کو مشیر بھی محدود الفطرت ملتے ہیں.تیسری قِسم کے لوگ کہ کوئی بھلائی ان کی نظر میں بھَلی اور بُرائی بَدی کسی محدود خیال سے نہیں ہوتی بلکہ ان کی نظر وسیع اور اُس بات پر ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات وارائالوراء ہے.کوئی عقل اور علم اُسے محیط نہیں بلکہ کُل دُنیا اس کی محاط ہے.اس کی رضامندی کی راہوں کو کوئی نہیں جان سکتا بجز اسکے کہ وہ خود کسی پر ظاہر کرے.یہ نظر انبیاء اور رُسل اور اُن کے خلفاء راشدین کی ہوتی ہے وہ نہ خود تجویز کرتے ہیں اور نہ دوسرے کی تراشیدہ تجاویز مانتے ہیں بلکہ خدا کی بتلائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں.عرب کے نادانوں کو خیال تھا کہ جب وہ گھر سے حج کے لئے نکلیں اور پھر کسی ضرورت کے لئے اُن کو واپس گھر آنا پڑے تو گھروں کے دروازہ میں داخل ہونا وہ معصیّت خیال کرتے ہیں اور پیچھے سے چھتوں پر سے ٹاپ کر آیا کرتے تھے اور اسے ان لوگوں نے نیکی خیال کر رکھا تھا خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ باتیں نیکی میں داخل نہیں بلکہ نیکی کا وارث تو متّقی ہے.تم اپنے گھورں میں دروازہ کی راہ سے داخل ہوا کرو اور تقوٰی اختیار کرو تاکہ تم فلاح پاؤ.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳،۱۴)

Page 323

قرآن شریف کے ذریعہ سے مسلمانوں کو تقوٰی میں ایک ریاضت کرائی جاتی ہے کہ جب مباح چیزیں انسان خدا کی خاطر چھوڑتا ہے تو پھر حرام کو کیوں ہاتھ لگانے لگا.پھر فرمایا کہ ایک وقت تو خدا تعالیٰ کی صِفت رحم اور درگزر کی کام کرتی ہے مگر ایک وقت ایسا آتا ہجے کہ جب دُنیا کے گناہ حد سے بڑھ جاتے ہیں تو خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتا ہے پھر بھی ایسے وقت میں ایک سمجھانے والا ضرور آتا ہے جیسا کہ آج ہمارے درمیان موجود ہے اور اس زمانہ میں بائبل کی کثرتِ اشاعت جو ہوتی ہے باوجود یکہ عیسائی اپنے عقائد میں اس کو قابلِ عمل نہیں جانتے پھر کروڑوں روپے اس پر خرچ کرتے ہیں.اِس میں بھی یہی حکمتِ الہٰی ہے کہ توحید اور عبادتِ الہٰی اور اعمال ِ صالحہ کا وعظ اس کے ذریعہ بھی تمام دُنیا پر ہو رہا ہے.صحابہؓ نے اَھِلَّۃکے متعلق جو سوال کیا وہ اِس واسطے تھا کہ جب رمضان کی عبادت کے برکات انہوں نے دیکھے تو ان کو خواہش ہوئی کہ ایسا ہی دوسرے مہینوں کی عبادت کا ثواب بھی حاصل کریں اِس واسطے اُنہوں نے یہ سوال پیش فرمایا.دو بڑے بڑے نشان آسمان پر دکھائے گئے سُورج گہن اور چاند گہن ماہِ رمضان میں.ایسا ہی دو نشان یہ ہیں.قحط اور طاعون.فرمایا حج کے متعلق حضرت ابراہیمؑ کو خدا نے حکم دیا کہ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ تب سے آج تک یہ پیشگوئی پوری ہو رہی ہے.جس طرح کبوتر اپنیکابُک کو دَوڑتے ہیں اس طرح لوگ حج کو جاتے ہیں.زمانۂ عرب میں رسم تھی کہ سفر کو جاتے ہوئے کوئی بات یاد آتی تو دروازے کے راہ سے گھر نہ آتے.اس سے خدا تعالیٰ نے منع فرمایا اور اس میں ایک اشارہ اِس امر کی طرف کہ ہر ایک کام میں اس راہ سے جاؤ اور اس دروازے داخل ہو جو خدا نے مقرر کیا اور اُس کے رسول نے دکھایا اور رسول کے خلفاء اور اس زمانہ کا امام بتلا رہا ہے.فرمایا.خدا چاہتا تو اپنے رسولؐ کے واسطے اپنے خزانے کھول دیتا اور تمہیں کچھ خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہوتی مگر پھر تمہارے واسطے کوئی ثواب نہ ہوتا.جب خدا کِسی قوم کو عزّت دینا چاہتا ہے تو یہی سُنّت اﷲ ہے کہ پہلے اس سے اﷲ کی راہ میں مالی، جانی، بدنی خدمات لی جاتی ہیں.فرمایا.اِس زمانہ میں غلام کے چھُڑانے کا ثواب مقروض کے قرضہ کے ادا کرنے سے ہو سکتا ہے.(بدر ۱۰؍نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ اوّل) اِس سوال کے جواب میں کہ ’’ اگر محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) پیغمبر ہوتے تو اُس وقت کے سوالوں کے جواب میں لاچار ہو کر یہ نہ کہتے کہ خدا کو معلوم ہے یعنی مجھے معلوم نہیں؟ ‘‘ فرمایا:.’’خاکسار عرض پرداز ہے.مخالف اور موافق لوگوں نے حصور علیہ السّلام سے جس قدر سوال کئے اُن کا جواب اگر ممکن تھا تو حضور علیہ السّلام نے ضرور دیا ہے.قرآن میں حسبِ ذیل سوالات کا

Page 324

تذکرہ موجود ہے.مُنصف غور کریں.اوّل رمضان کے مہینہ اور روزوں کے چاند کا تذکرہ جب قرآن کریم نے کیا تو الوگوں نے رمضان کے اَور اَور چاندوں کا حال دریافت کیا جیسے قُرآن کہتا ہے اور ماہِ رمضان کے تذکرہ کے بعد اِس سوال کا تذکرہ کرتا ہے.پوچھتے ہیں محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) سے رمضان کے سوا اَور چاندوں کا حال یعنی ان میں کیا کرنا ہے اِس سوال کے جواب سوال کے بعد ہی بیان کیا گیا اور جواب دیا: (بقرہ:۱۹۰)تُو اِس سوال کے جواب میں کہہ دے کہ یہ چاند لوگوں کے فائدہ اُٹھانے کے وقت ہیں اور بعضے چاندوں میں حج کے اعمال ادا کئے جاتے ہیں.دوسرا سوال یہ ہے: سوال کرتے ہیں کیا خرچ کریں؟ اِس کا جواب قُرآن نے دیا ہے:  (البقرۃ:۲۱۶) جو کچھ خرچ کرو مال سے تو چاہیئے کہ وہ تمہارا دیا اور خرچ کیا تمہارے والدین اور تمہارے رشتہ داروں اور یتیموں اور غریبوں اور مسافروں کے لئے ہو.تیسرا سوال  پُوچھتے ہیں تجھ سے حُرمت والے مہینہ کے متعلق کہ اس میں جنگ کا کیا حکم ہے ؟ تو جواب دیا:  (البقرۃ:۲۱۸) تُو جواب دے اِس مہینہ میں لڑائی کرنا بُری بات ہے اور اس سے حج و عمرہ کی سی عبادت سے روکنا لازم آتا ہے.چوتھا سوال  پوچھتے ہیں تجھ سے شراب اور جُوئے کی بابت.تُو جواب دے. (البقرۃ:۲۲۰)شراب خوری اور قمار بازی نہایت بڑی اور بُری بدکاری ہے.

Page 325

پانچواں سوال  پُوچھتے ہیں.کیا خرچ کریں.تُو جواب دے:  (البقرۃ:۲۲۰)اپنی حاجت سے زیادہ مال کو خرچ کرو.چھٹا سوال  پُوچھتے ہیں حَیض میں عورت سے صُحبت جائز ہے یا نہیں؟ تو جواب دے:  (البقرۃ:۲۲۳) حَیض کے دنوں میں جماع کرنا دُکھ دیتا ہے.حَیض کے دنوں میں عورتوں کی صُحبت سے الگ رہو.ساتواں سوال  پُوچھتے ہیں یتیموں کے متعلق ؟ جواب دے:  (البقرۃ:۲۲۱)یتیموں کے مال، عزّت، پرورش غرض ہر طرح اُن کی اِصلاح اور سنوار عمدہ بات ہے.آٹھواں سوال پوچھتے ہیں کیا کچھ کھانے میں حلال ہے؟ جواب دے:  (المائدہ:۵) تمہارے لئے تمام وہ چیزیں جو غالب عمرانات کے سلیم الفِطرتوں میں سُتھرے اور پسندیدہ ہیں وہ تو حلال کر دی گئیں.نواں سوال (الانفال:۲) تجھ سے پُوچھتے ہیں غنیمت کی تقسیم کا مسئلہ تو جواب دے: غنیمت کی تقسیم اﷲ پھر رسولؐ کے اختیار میں ہے.دسواں سوال (الکہف:۸۴) ذوالقرنین کا قِصّہ تجھ سے پوچھتے ہیں تو جواب میں قصّہ سُنا دے. (الکہف:۸۵)سے ذوالقرنین کا قِصّہ شروع کر دیا اور بقدر ضرورت اسے تمام کیا.یہ ذوالقرنین وہ ہے جس کا ذکر دانیال ۸ باب ۸ میں ہے.گیارھواں سوال تجھ سے پُوچھتے ہیں ایسے مضبوط پہاڑ کیا ہمیشہ

Page 326

رہیں گے؟تو جواب دے:  (طٰہٰ:۱۰۶)اُڑ دے گا اور پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا میرا رَبّ.بارھواں سوال  تجھ سے سوال کرتے ہیں قرآن کِس کا بنایا ہؤا ہے؟ تو جواب دے. (بنی اسرائیل:۸۶)یہ قرآن میرے رب کا حکم اور اسی کا کلام ہے.اوّلؔ: قرآن میں خود اِس وحی اور کلامِ الہٰی کو رُوح کہا گیا.وَ الْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہ‘ بَعْضًا.دیکھو (الشورٰی:۵۳)اور اِس طرح وحی کی ہم نے تیری طرف رُوح اپنے حکم سے.دومؔ:  کے ما قبل اور ما بعد قَرآن کریم کا تذکرہ ہے.ہاں ممکن ہے کہ ہم اِس آیت میں رُوح کے معنے اُس فرشتہ کے یعنی جو وحی لاتا تھا اور جس کا نام اسلامیوں میں جبرائیل ہے.یا یُوں کہیں کہ رُوح کے مخلوق اور غیر مخلوق ہونے کا سوال ہؤا.جواب دیا گیا.رُوح حادث اور ربّ کے حکم سے ہؤا ہے.تیرھواں سوال مانگتے ہیں تجھ سے یہودی اور عیسائی  (النّسآ: ۱۵۴) اہلِ کتاب کہ ان پر اُتار دے تُو ایک کتاب آسمان سے.یہ سوال اہلِ کتاب نے اِس لئے کیا کہ محمد صاحب ( صلی اﷲعلیہ وسلم) نے دعوٰی کیا ہے کہ مَیں موسٰیؑ کی مانند نبی ہوں اور وہی ہوں جس کی بابت توریت استثناء کے ۱۸ باب ۱۸ میں پیشگوئی موجود ہے اور اس نبی کی پیشگوئی توریت میں اِس طرح لکھی تھی: تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اسکے مُنہ میں ڈالوں گا ( استثناء ۱۸باب۱۸)پس لامحالہ اس نبی کے واسطے کوئی ایسی کتاب آسمان سے نہ اُترے گی جو لکھی لکھائی آ جاوے کیونکہ توریت میں تو لکھا ہے ’’ اپنا کلام اس کے مُنہ میں ڈالوں گا‘‘ پس ایسے سوال کے جواب میں فرمایا:  (النّسآ:۱۵۴) باقی پانچ سوال یہ ہیں جن کے جواب میںحضور علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے یہ فرمایا ہے.میرا

Page 327

رَبّ جانتا ہے: اوّل: (النّٰذعٰت:۴۳) پوچھتے ہیں قیامت کی گھڑی کب ہو گی؟جواب دیا (الاعراف :۱۸۸) تُو کہہ کہ اِس کا علمِ میرے ربّ ہی کے پاس ہے.دوسراؔ:  (الذٰریٰت:۱۳) پُوچھتے ہیں جزا کا دن کب ہو گا جس کا جواب کچھ نہیں دیا؟غالباً اِس لئے کہ وہ ہمیشہ ہے یا اِس لئے کہ ان کی مُراد قیامت ہے.تیسرا: پُوچھتے ہیں وہ گھڑی کب ہوگی گی؟جس کا جواب دیا. (النّٰذعٰت:۴۴،۴۵)تجھے ایسے قِصّوں سے کیا.اس کا علمِ رَبّ تک ہے.چوتھا: پُوچھتے ہیں اس ساعت کے متعلق ؟ جس کا جواب دیا.(الاحزاب:۶۴)اس کا عِلم صرف اﷲ کے پاس ہے.پانچواںؔ: تجھ سے پُوچھتے ہیں کیا تُو ایسی باتوں کے پیچھے پڑا ہؤا ہے.جس کا جواب دیا  (الاعراف:۱۸۸) اِس کا عِلم اﷲ کے پاس ہے.لاکن اِس سوال کا جواب نہ دینے سے نبوّت میں کوئی نقص نہیں آتاکیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں:.’’ اس دن اور اس گھڑی کو میرے باپ کے سوا آسمان کے فرشتہ تک کوئی نہیں جانتا‘‘.(متی ۲۴ باب ۳۶) اَور جگہ فرماتے ہیں:.’’ اس دن اور اس گھڑی کی بابت سوا باپ کے نہ تو فرشتے جو آسمان پر ہیں اور نہ بیٹا کوئی نہیں جانتا ہے.(مرقس ۱۳باب ۳۲) سائل اور اس کے ہم خیال غور کریں.اس گھڑی کی بابت حضرت مسیحؑ (نے) کیا فتوٰی (دیا) ایسی گھڑی کا وقت نہ بتانا اگر نبوّت اور رسالت میں خلل انداز ہے تو حضرت مسیحؑ کی نبوّت اور رسالت بلکہ عیسائیوں کی مانی ہوئی مسیحؑ کی الوہیّت میں خلل پڑے گا.(ایک عیسائی کے تین سوال اور اُن کے جوابات صفحہ ۵۵ تا۵۸)

Page 328

  : جو تم سے لڑائی کرتے ہیں.وہ بھی از خود نہیں بلکہ ایک امام کے ماتحت.فرمایا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُّقَاتِلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ(بخاری کِتاب الجھادِ وَ السَّیْرِ باب یُقَاتَلُ مِنْ وَرَآئِ الإِمَامِ وَ یُتَّتٰی بِہٖ) امام ایک سپر ہے اسکے پیچھے لڑا جاتا ہے.ایک سپاہی دوسرے سپاہی کو مارتا ہے مگر اس کا واقف نہیں ہوتا.کوئی پوچھے یہ جو اس کے مقابلہ کے لئے آگ ہو رہا ہے آخر کوئی وجہ؟ تو اس کا یہی جواب ہو گا کہ وجہ ان کے آفیسر کو معلوم ہے.پس سپاہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آفیسر کا تابع رہے.: حد سے نہ بڑھو.یہ اِس لئے فرمایاکہ سپاہی کو جوش میں حد کی خبر نہیں رہتی اس لئے اس کی ہر ایک حرکت اپنے آفیسر کے ماتحت ہونی چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) اﷲ کے رستے میں اُن سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں اور حد سے مت بڑھو.اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو پیار نہیں کرتا.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۴۹) مقابلہ کرو اعلائے کلمتہ الحق میں اُ سے جو تم سے مقابلہ کرتے ہیں اور حد سے نہ بڑھنا.اس کے معنی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے اوّل جا نشین نے یہ کئے ہیں کہ لڑکے، عورتیں بڈھے، فقیر اور تمام صُلح جُو نہ مارے جائیں.(نورالدین صفحہ ۱۰۳) اور خدا کی راہ میں ان سے ہی لڑو جو تم سے لڑیں اور حدسے مت بڑھو.اﷲ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا.(نورالدین صفحہ ۲۰۶)  

Page 329

:سے کون مراد ہیں؟ وہی جو  کے مصداق ہیں جو جنگ کرتے ہیں.: قتل سے ایک نفس کا نقصان ہوتا ہے مگر فتنہ ایسی بَلا ہے کہ اس میں قوم کی قوم ہلاک ہو جاتی ہے.بعض دفعہ ایک بچّہ فتنہ کا ذریعہ بن جاتا ہے.اِس کی مثال دِیاسلائی سے ہے کہ پہلے ایک گرین بھی سلفر اس میں نہیں ہوتا مگر جب اسے گھِسا کر کِسی لکڑی سے لگاتے ہیں تو پھر بعض اَوقات محلوں کے محلے بلکہ شہروں کے شہر جَل جاتے ہیں.پس تم چھوٹی بات کو چھوٹا نہ سمجھو بلکہ بڑا سمجھو اور فتنے سے بچتے رہو.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۸؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   : یہ مسئلہ خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ اﷲ مذاہب کا ابطال نہیں چاہتا بلکہ قرآن شریف میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ چاہتا تو سارے جہان کو ایک مذہب پر قائم کر دیتا. (الانعام:۱۵۰) دوسرے مقام پر فرمایا  (الحج:۴۱) یعنی اگر اﷲ آدمیوں کی ایک دوسرے سے مدافعت نہ کرتا رہتا تو عیسائیوں کی، مسلمانوں کی ، مجوسیوں کی، یہودیوں کی عبادت گاہیں مُنہدم ہو جاتیں.جس سے معلوم ہؤا کہ مذاہب کا اختلاف اﷲکے منشاء کے ماتحت ہے.اﷲ تعالیٰ جو انبیاء کو بھیجتا ہے تو امن قائم کرنے کے لئے.یہ منشاء نہیں ہوتا کہ لوگوں کو پکڑ کر مسلمان بنائیں بلکہ وہ  (البقرۃ:۲۵۷) کے ماتحت چلتے ہیں کیونکہ انسان اس وقت تک خدا کے نزدیک تو مومن نہیں ہوتا جب تک کہ دِل سے ایمان نہ لائے.اور پھر ضروری ہے کہ اس کے ایمان کے آثار اس کے ظاہری کاموں میں ہویداہوں اور کوئی اس کو روک نہ سکے.

Page 330

پس جہاد بھی اس وقت تک جائز ہے کہ مومن کفّار کے فتنہ میں نہ رہے اور جو ایمان لا چکے ہیں وہ اپنی عبادت بِلا کسی خوف و روک کے ادا کر سکیں.وہ نفاق سے کام لینے پر مجبور نہ ہوں بلکہ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ اﷲکے لئے ان کا دین ہو اور فتنہ نہ رہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے (البقرۃ:۲۱۸) شرارتیں اور فتنے اﷲ کو ناپسند ہیں.پس اس وقت تک لڑائی جائز ہے کہ جب تک فتنہ رہے.  یعنی وہ تم سے لڑتے رہیں گے جب تک کہ تمہیں تمہارے دین سے برگشتہ کر لیں.پس جب یہ خوف جاتا رہے اور کفار بِالِا کراہ کسی مسلمان کو کافر نہ بنا سکتے اور فتنہ بازیوں سے ہٹ جائیں تو پھر تمہارے الہٰی حدبندی (امن ) کو توڑنے کا کوئی موقع نہیں مگر ان لوگوں کے لئے جو فتنہ ڈالتے رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) وَ: ظاہر و باطن لوگوں کا دین ایک ہو جائے.مذہبی ٓازادی ہو.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۱) : مقابلہ کر ویہاں تک کہ فتنہ اور شرارت نہ رہے.(نورالدین صفحہ ۱۰۳) اِس لئے لڑو کہ لوگ آزمائشوں اور دین میں پھسلائے جانے سے بچ جاویں اور ظاہر و باطن میں مسلمان ہو کر بسر کریں.ایسا نہیں کہ ڈر کے مارے اندر سے مسلمان اور باہر سے کافر.(فصل الخطاب جلد اوّل ایڈیشن دوم صفحہ ۹۹،۱۰۰) اور ان سے (کافرانِ مکّہ اور ان کے خصال و صفات کے آدمی )لڑو جب تک روک ٹوک اُٹھ جاوے اور دین اﷲ کے لئے ہو یعنی فرائضِ دین بِلا روک ٹوک ادا کئے جا سکیں اور مخل خلل اندازی چھوڑ دے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۴۹)

Page 331

  : لڑائی کے وقت مالوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے اِس لئے اسکی ترغیب دی! دیکھو ابوبکررضی اﷲ عنہما اور عمررضی اﷲ عنہما قوم کے لحاظ سے ابوجہل وغیرہ سے بڑے نہ تھے مگر انہوں نے اﷲ کی راہ میں خرچ کیا تو وہ بڑے بن گئے.مَیں ہمیشہ اِس امر کو ذوق سے دیکھا کرتا ہوں کہ مہاجرین نے خدا کے لئے وطن چھوڑا تو ان کو بدلے میں ملک کی سلطنت ملی.انصار نے یہ کام نہ کیا اِسلئے ان کویہ اجر بھی نہ ملا.خدا کی راہ میں خرچ کرنا کبھی ضائع نہیں جاتا.ایک صحابیؓ نے رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مَیں نے زمانۂ جاہلیّت میں سَو اُونٹ دیا تھا کیا اس کا کچھ ثواب ملے گا فرمایااَسْلَمْتَ عَلٰی مَاسَلَفَ مِنْ خَیْرٍبخاری.کتاب الأدب باب مَنْ وَصَلَ رَحَمِہٗ فِی الشّرک ثُمَّ أَسْلَمَ)اُسی کی برکت سے تو تُو مسلمان ہؤا.ایسا ہی ایک اَور قصّہ ہے کہ کوئی خشک فتوٰی گر تھے ان کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا جو ہر صبح چڑیوں کو چوگا ڈالتا تھا.اس فتوٰی گر نے کہا کہ کیوں ناحق اپنا مال ضائع کرتا ہے.تیرے اِس جُود و سخا کا بوجہ کُفر کوئی فائدہ نہیں.کچھ مدّت ہوئی تو اُسے حج کرتے پایا.اُس وقت سمجھا کہ یہ اسی خیرات کا اثر تھا.ایسا ہی ایک اَور بدکار نے ایک پیاسے کتّے کو اپنے موزہ سے پانی نکال کر پلایا تو خدا نے اسے نجات کی راہ بتائی.بہر حال انفاق فی سبیل اﷲ بہت سے ثمرات رکھتا ہے اور ہر زمانے میں انفاق کا ایک رنگ ہوتا ہے.یہ زمانہ فوجی تیاریوں پر خرچ کرنے کا نہیں بلکہ قلمی جہاد کا ہے.پس اسی میں مدد کرنا ہر مومن پر فرض ہے.اگر تم یہ خرچ نہ کرو گے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے تئیں ہلاک کر لو گے کیونکہ جب دشمن کا مقابلہ نہ کیا گیا تو اس کا نتیجہ سوا اپنی بربادی اور گمنامی کے اَور کچھ نہیں.اس لئے فرماتا ہے: تم اپنے ہاتھوں سے اپنے تئیں ہلاکت میں نہ ڈالو.:احسان کی عادت ڈالو تا تم خدا کے محبوب بن جاؤ.رُوح کے خواص میں سے ایک یہ بات ہے کہ ہر شخص محبوبیّت کے مقام کا خواہاں ہے.شاعر شِعر کہتا ہے.لیکچرار لیکچرتیار کرتا ہے خوبصورت بن ٹھن کے نکلتا ہے.دولتمند مال خرچ کرتا ہے اِس لئے کہ وہ محبوب بن جائے.اِس محبوبیّت کے مقام کے حصول کا ایک ذریعہ اﷲ بتاتا ہے وہ یہ کہ تم مُحسن بن جاؤ.پھر تم محبوب بنو گے اور محبوب بھی کِس کے ؟ اﷲشخص اپنے محبوب کو ذلیل نہیں کرتا.پس وہ جس کا خدا مُحِب ہو وہ کیونکرذلیل ہو سکتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 332

حفظِ نفس و تربیتِ اولاد پر فرمایا  اپنے تئیں ہلاکت میں مت ڈالو.(دیباچہ نورالدین صفحہ ۱۶) : یعنی اپنے تئیں خود ہلاکت میں نہ ڈالو.اسی سُنّتِ الہٰی کی اتباع میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام آگ میں خود کُود کر نہیں گرِے بلکہ لوگوں نے کہا (الانبیاء:۶۹) (نورالدین صفحہ ۱۴۶)  

Page 333

: مکّہ والوں نے مسلمانوں کو حج و عمرہ سے منع کیا ہؤا تھا.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تم حج کرو گے.یہ کب تک روکتے رہیں گے.: اگر تم روکے گئے (جیسے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر) تو بھی اندیشہ کی بات نہیں اخیر تمہاری فتح ہے.: ذٰلِکَ میں بحث ہے.بعض کہتے ہیں کہ یہ حج و عمرہ کو ملا کر کرنے کی بَیرونی لوگوں کو اجازت ہے مکّہ والوں کو نہیں.بعض کہتے ہیں کہ مکّہ والے بھی کر سکتے ہیں.مجھے وہ بات پسند ہے کہ یعنی مکّہ والے تمتع نہیں کر سکتے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) حج… اسلام کا ایک اعلیٰ رُکن ہے.باوجود اِس کے کہ نوٹس اور اشتہاروں کی کجثرت ہو رہی ہے اور ہر جگہ مجلسیں اور سوسائٹیاں جوش و خروش سے قائم ہو رہی ہیں مگر پھر بھی دُنیا میں کوئی مجلس ایسی دید و شنید میں نہیں آئی جس کے ممبر پانچ وقت جمع ہوتے ہوں مگر جنابِ الہٰی نے اطاعت اور طہارت کے ساتھ پانچ وقت جمع ہونے اور مِل کر اس کی عظمت و جبروت کو بیان کرنا مسلمانوں کا فرض کر دیا ہے.کوئی شہر اور قصبہ نہ دیکھو گے جس کے ہر محلہ میںاسلام کی یہ پنجگانہ کمیٹی نہ ہوتی ہو لیکن اس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام باشندگانِ شہر کو اکٹھا ہونے کا حکم دیا جاتا تو یہ ایک تکلیف مالا یطاق ہوتی.اِسی لئے تمام شہر کے رہنے والے مسلمانوں کے اجتماع کے لئے ہفتہ میں ایک دن جمعہ کا مقرر ہؤا پھر اِسی طرح قصبات اور دیہات کے لوگوں کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی اور چونکہ یہ ایک بڑا اجتماع تھا اِس لئے عید کا جلسہ شہر کے باہر میدان میں تجویز ہؤا لیکن اِس سے پھر بھی کُل دُنیا کے مسلمان میل ملاپ سے محروم رہتے تھے اِس لئے کُل اہلِ اسلام کے اجتماع کے لئے ایک بڑے صدر مقام کی ضرورت تھی تاکہ مختلف بلاد کے بھائی اسلامی رشتہ کے سلسلہ میںیکتا باہم مِل جاویں لیکن اِس کے لئے چونکہ ہر فرد ِبشر مسلمان اور امیر اور فقیر کا شامل ہونا محال تھا اِس لئے صرف صاحبِ استطاعت منتخب ہوئے تاکہ تمام دُنیا کے مسلمان ایک جگہ جمع ہو کر تبادلہ خیلات کریں اور مختلف خیالات و دماغوں

Page 334

کا ایک اجتماع ہو اور سب کے سب مِل کر خدا تعالیٰ کی عظمت و جبروت کو بیان کریں.حج میں ایک کلمہ کہا جاتا ہے لَبََّیْکَ لَبََّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبََّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْک َاِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃ لَکَ وَ الْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکََ جس کا مطلب یہ ہے کہ اَے مَولیٰ تیرے حکموں کی اطاعت کے لئے اور تیری کامل فرمانبرداری کے لئے مَیں تیرے دروازے پر حاضر ہوں.تیرے احکام اور تیری تعظِیم میں کسی کو شریک نہیں کرتا.غرضکہ یہ حقیقت ہے مذہب اسلام کی جس کو مختصر الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.پھر دن میں پانچ دفعہ کُل مسلمانوں کو اﷲ اکبر کے لفظ سے بُلایا جاتا ہے.کوئی نادان اسلام پر کیسے ہی اعتراض کرے کہ ان کا خدا ایسا ہے ویسا ہے مگر وہ خدا تعالیٰ کے لئے اﷲ اکبر کے لفظ سے بڑھ کر لفظ تجویز نہیں کر سکتا.نماز کے لئے بُلاتے ہیں تو اﷲ اکبر سے شروع کرتے اور ختم کرتے ہیں تو رحمتہ اﷲ پر.حج کے برکات میں سے ایک یہ تعلیم ہے جو کہ اس کے ارکان سے حاصل ہوتی ہے کہ انسان سادگی اخیتار کرے اور تکلّفات کو چھوڑ دے.اس کے ارکان کِبرو بڑائی کے بڑے دشمن ہیں.دُور دراز کا سفر اخیتار کرنا پڑتا ہے.احباب اور اقارب چھُوٹتے ہیں.سُستی اور نفس پروری کا استیصال ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر ایک بات یہ ہے کہ ہزاروں ہزار سال سے ایک معاہدہ چلا آتا ہے وہ یہ کہ جنابِ الہٰی کے حضور حاضر ہوکر تحمید کرتا ہے اور بہت سی دعائیں مانگتا ہے.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۳) حج:عاشق جب سُنتا ہے کہ میرا محبوب فلاں شخص کو نظر آیا اور فلاں مقام پر ملا تو وہ دیوانہ وار اس کی طرف دوڑتا ہے اور اسے تن بدن کا کچھ ہوش نہیں رہتا.نہ کُرتے کی خبر ہے نہ پاجامہ کی.پھر وہاں جا کر دیوانہ وار مکانوں میں گھومتا ہے بعینہٖ یہ عبادت حج کا نظّارہ ہے.یہ بھی کِسی غیر کے لئے جائز نہیں.ایک شخص نے مجھے کہا وہاں مکّہ میں جا کر کیا لینا ہے.علی گڑھ حمایت الاسلام کا جلسہ کافی ہے.اس کو معلوم نہیں تھا کہ خدا کیا ہے.(بدر ۱۳؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۲) اِسلام کی پانچویں اصل حج ہے.حج کیا ہے … اہلِ اسلام کے قومی اجتماع کا ایک سفر.مسلمان بھائی محلے محلے کے آپس میں ہر روز پانچ دفعہ پانچ نمازوں میں باہم مل لیا کریں.یہ بات محلوںکی مسجدوں میں پانچ بار حاصل ہو جاتی ہے اور شہر شہر کے اہلِ اسلام کا ملنا برسویں روز حج کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے.…تمام بلادِ اسلام کے مسلمان بھائیوں کے اجتماع کے واسطے صدر مقام وہ جگہ تجویز ہوئی

Page 335

جہاں سے ایسے عظیم الشّان حکیمانہ مذہب کا نشوونما اور ابتدا شروع ہوئی.اِلّا ہر ایک مسلمان فقیر ہو یا امیر ہر سال اس کا وہاں جانا خلافِ فطرت تھا اور خلافِ اِمکان.اِس لئے حکم ہوا آسودہ لوگ، استطاعت والے مسلمان وہاں جاویں.مختلف بلاد کے حالات جاننے اور ان کے علوم و فنون کے اِدھر سے اُدھر.اُدھر سے اِدھر لانے میں اصحابِ استطاعت ہی غالباً عمدہ طور پر کامیابی کا ذریعہ ہو سکتے ہیں.کمال اتحاد اور باہم پَر لے درجہ کی یکتائی کے واسطے اور اِس لحاظ سے بھی کہ امراء اور رؤساء کے ساتھ ان کے غریب نوکر چاکر بھی ہوں گے اور ضرور ہے کوئی عاشقِ الہٰی غریب اور مسکین مسلمان بھی وہاں جا پہنچے.حکم دیا تمام حجّاج سادہ لباس صرف دو چادروں پر اکتفا کریں.کسی کے سر پر عمامہ یا ٹوپی نہ ہو.کوئی کُرتہ نہ پہنے.کمال درجے کی بے تکلّفی اور سادگی سے باہم ملیں اور لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ کی صَدا بلند کریں.اِتنا بڑا اجتماع اس صدر مقام میں کہاں ہو.شہر سے کئی کوس کے فاصلے پر نہایت وسیع میدان میں جہاں کسی مخلوق کی تعظیم کا نام و نشان ہی نہیں نہ کوئی پتھّر ،نہ کوئی درخت، نہ کوئی ندی، نہ کوئی رَتھ… لطیفہ: ذرا ناظرین صاحبان اِس امر پر غور کریں.میرے اکلوتے فرزند نے سَلَّمَہُ اﷲُ وَسَلّمْ(جس کی جدائی سے نہایت رنج میں ہوں.وَ اَشْکُوْ بَثِّیْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اﷲِ.اَللّٰھُمَّ اَطْلُبُ وِصَالَہ‘ اِنْ کَانَ مَعَ رَضَاکَ)مجھ سے نماز اور زکوٰۃ اور روزے اور حج کے اَسرار پر سوال کیا اُس وقت مَیں نے اسے جواب دیا.نیاز مندی دو قِسم کی ہوتی ہے.ایک نیازمندی خادمانہ.خدّام کی نیازمندی اپنے آقا اور بادشاہ کے سامنے.دوسرےؔ نیازمندی عاشقانہ.عاشق کی محبوب کے ساتھ.پہلی قِسم کے نیاز مند کو مناسب ہے درباری لباس پہن کر بڑے اَدب اور وقار سے مالک کے دربار میں حاضر ہو اور تمام حکّام اور مربّیوں کی اطاعت سے کان پر ہاتھ رکھ کر اطاعت کا اقرار کرے.ہاتھ باندھ حکم کا منتظر رہے.جھُک کر تعظیم دے.زمین پر ماتھا رکھے.حضور کے غریب نوکروں کے لئے نذر دے.یہی مجملاً حقیقت نماز اور زکوٰۃ ہے.عاشقانہ نیاز میں ضرور ہے عاشق اپنے محبوب کے سامنے عشق میں بھُوک اور پیاس بھی دیکھے.نہایت درجہ کے اس عزیز کو بھی جس کی نسبت لکھا ہے انسان ماں باپ چھوڑ کر اس سے متحد اور ایک جسم ہو گا.کچھ دیر کے لئے ترک کرے اور جہاں یقینی طور پر سُن لیا ہو کہ میرے محبوب کی عنایات اور توجّہات کا مقام ہے وہاں دوڑتا کُودتا،سرکے عمامہ اور ٹوپی سے بے خبر پہنچے.

Page 336

پروانہ وار وہاں فدا ہو.کہیں دشمنوں کی روک ٹوک کی جگہ سُن پائے تو وہاں پتھّر چلاوے.یہی مجمل حقیقت روزے اور حج کی سمجھو.مولوی محمد قاسم مرحوم نے یہ صوفیانہ تقریر مفصّل اپنے کسی رسالہ میں لکھی ہے.اِس جواب پر میرے عزیز فرزند نے مجھے کہا آپ جب اَسرار شرائعِ اسلام بیان کرتے ہیں تو ان پر دو اعتراض وارد ہوتے ہیں:.اوّلؔ یہ اَسرار جو آپ بیان کرتے ہیں اگر واقعی اور سچّے ہیں تو خود خدا نے یا جناب رسالتمآب صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے یا آپ کے صحابہ نے کیوں بیان نہ کئے؟ دومؔؔؔؔؔؔؔ ؔ ؔؔؔؔ ان اعمال کے ساتھ اِسلام نے یہ چند رکعات اور دعائیں کیوں لگا دیں.اگر صرف اجتماعِ قومی ہی جمعہ اور جماعت عیدین اور حج میں مقصود تھا؟ خاکسار نے اس عزیز سے کہا.قانونِ قدرت پر نظر کرو.فونوگراف، لیتھوگراف.ٹیلیگراف، چھاپہ،ریل، اسٹیم کے اَسرار عناصر میں اس وقت سے موجود ہیں جب سے عناصر کو خالقِ عناصر نے پیدا کیا ( یہاں میرا عزیز غور کرے) اِلّا نہ خدا نے اس وقت ان اَسرار کو بیان فرمایا نہ اس کے ان مقرّبینِ بارگاہ نے جو اس وقت تھے ان کی تشریح کی پھر کیا اس وقت کے بیان نہ کرنے سے لازم آتا ہے کہ یہ اسرار موجود ہی نہ تھے اور یہ منافع جو آج ظاہر ہوئے ان عناصر میں اسی زمانے میں موجود ہو گئے ہیں.عزیزِ من قانونِ شریعت ہاں اسلام بعینہٖ قانونِ الہٰی سمجھو.عزیزِ من قانونِ قدرت اور طبعیات میں صرف وہی اسرار اور منافع نہیں جو حکمائے یونان اور یورپ اور بقول آریہ سماج دانا یانِ ہند ( توبہ) آریہ دیش نے بیان کئے بلکہ اَور بے اَنت اسرار بھی ہیں.اگر طبعی قانون کے اسرار بے انتہا ہیں اور صرف اس قدر نہیں جو اَب تک حکماء نے بیان کئے ہیں تو احکامِ اسلام کے اسرار بھی ایسے ہی سمجھو.معلوم نہیں زمانہ کی ترقّی پر کیا کیا اسرار قانونِ قدرت اور قانونِ شریعت میں ظاہر ہوں گے سَلفِ اُمّت اگر اسرار بیان کرتے تو کِس قدر اور کیا بیان کرتے… دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے ۱.صرف اجتماع قومی ہی مقصود بالذّات نہیں ہوتا بلکہ اسلام کا منشاء ہے کہ ہر ایک فعل میں،ہر ایک قول میں ہم کو ہمارا خالق اور رازق مربّی یاد رہے.کوئی فِعل اور قول بدُوں شمول نام باری و رضائے ایزدی نہ ہو.ہر وقت فانی اشیاء سے بقا کی طرف.جسم سے رُوح کی طرف توجّہ رہے.دیکھو پائخانے کو جاتے ہوئے ایک جسمانی نجاست پھینکنے کی جگہ جاتے ہیں.اِسلام سکھاتا ہے پائخانے میں جاتے وقت کہو اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْخُبْثِ وَ الْخَبَائِثِ

Page 337

اور جب پائخانے سے نکلے تو اِس واسطے کہ ایک جسمانی دُکھ سے نجات پائی اور جسم سے جسمانی نجاست دُور ہو گئی.رُوحانی نجاستوں کے دُور ہونے کی دعا مانگے اور کہے عُفْرَانَکَ یعنی ہر ایک بُرائی پر تیری مغفرت مانگتا ہوں.دوسری بات بجواب اعتراض دوم یہ ہے کہ اگر یہ رُوحانی محرّکات الہٰی اَذکار اور الہٰی عبادتیں ان اعمال کے ساتھ نہ ہوتیں تو یہ اعمال متروک ہو جاتے.باہمی اختلافات سے یہ انجمنیں مثل اَور دنیوی انجمنوں کے فنا ہو جاتیں یا یہ اعمال صرف دنیوی منافع پر محدود رہ جاتے.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم صفحہ ۳۹تا۴۱)    : اسلام کے تعارف میں ہر ایک جانتا ہے.: جماع کا ذکر کرنا.جماع کے سامان.خود جماع.تینوں پر اس کا اطلاق ہوتا ہے.ابنِ عباس نے پہلے معنوں کو پسند کیا ہے.بعض لوگ (التوبۃ:۳۶) سے استدلال کر کے کُل کا نام حج قرار دے لیتے ہیں لیکن ائمہ اربعہ میں مَیں نے دیکھا ہے کہ وہ تمام سال احرام باندھنے کو پسند نہیں کرتے.:کھانے پینے.سواری کا اِنتظام.یہ سامان بہت ضروری ہیں.مدینہ کی راہ میں مَیں نے ایک نوجوان شخص کو دیکھا کہ جب وہ سخت تھک گیا تو ایک شخص کو ٹانگ سے پکڑ کر اُونٹ

Page 338

پر سے گِرا دیا اور خود اُوپر چڑھ گیا.اگر اس کے پاس زادِراہ ہوتا تو یہ جدال کیوں کرتا.: سامان کا عظیم الشّان فائدہ تو یہ ہے کہ آدمی سوال اور گناہ سے بچ جاتا ہے.جس کے پاس زادِراہ نہ ہو وہ چوری کرنے پر مجبور ہوتا ہے اور غالباً اِس قسم کی حکایتیں انہی قِسم کی کمزوریوں کی وجہ سے بن گئی ہیں.ایک نابینا عورت کی کِسی نے چادر اُتارلی تو وہ کہنے لگی.وے بچّہ حاجیا میری چادر تو دیتا جا.: جو کچھ ایمان کے خلاف ہے وہ فسق ہؤا.: بے جا لڑائی کرنا.ایک دو کہانیاں مجھے یاد آ گئی ہیں.ایک دفعہ راہ میں ایک شخص کی مجھ سے چابی گُم ہو گئی.وہ مجھے کہے کہ مَیں بعینہٖ وہی چابی لُوں گا.مَیں نے کہا کہ بہت اچھا.خدا تعالیٰ قادر ہے.اصل بات یہ تھی کہ کچھ ڈاکو ہمارے اسباب و سامان پر پڑے تھے اُس روز وہ چابیاں لے گئے.چونکہ میرا صندوق سب سے بھاری تھا اِس لئے اُس شخص کا مطالبہ تھا کہ تمہاری وجہ سے ہماری چابی گئی ہے وہ مہیّا کر دو.اَب ان ڈاکوؤں کی چند سپاہیوں سے مُٹھ بھیڑ ہوئی اور وہاں وہ چابیاں چھوڑ گئے اور اتفاق سے وہ سپاہی ہمارے قافلہ میں آ گئے اور اس طرح وہ چابی ہمیں مل گئی.دوسرا قصّہ یاد آیا کہ ایک دفعہ دو بھائی حج کرنے چلے.مَیں نے ان سے کہا کہ تم جو خرچ کرتے ہو لکھتے جاؤ بعد میں حساب کر لینا مگر انہوں نے اسے برادرانہ تعلّقات کے خلاف سمجھا لیکن آخر جا کر ان کی لڑائی ہوئی.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء) تیسری بات مجھے یاد آئی کہ بَدّوؤں کی عادت ہے کہ جب ایک کھانا کھانے لگے تو جتنے بدّوہوں سب اسی پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اِس طرح وہ بھُوکے رہتے ہیں.مَیں اپنے اُونٹ والے کو آدھی رات کے وقت کھجوریں دیا کرتا تھا.ایک دفعہ مَیں نے اُسے کہا جاؤ پانی لاؤ.وہ گیا اور تھوڑی دیر ِبعد خالی واپس آیا.مَیں نے کہا کیا ہؤا.کہا تَرٰی اِنْشَائَ اﷲُ مُصْبِحِیْنَ.صبح معلوم ہوا کہ ایک رئیس کے یہاں قافلے میں پانی کی بُوند نہیں تھی.بات یہ ہوئی کہ اُس نے پانی مانگا.انہوں نے انکار کیا.اسے غصّہ جو آیا تو ان کے مشکیزوں میں سوراخ کر دیا.یہ باتیں مَیں نے اِس لئے سُنائیں تا آپ کو معلوم ہو کہ جھگڑے کیوں پَیدا ہوتے ہیں اور یہ کہ اتنے مختلف المزاج لوگوں میں ایسے معاملات کا پیش آنا ممکن ہے.پس خدا فرماتا ہے کہ بیجا لڑائی مت کرو.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۸؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 339

   : چونکہ اِس راہ میں کچھ آسُودگی بھی چاہیئے پس اِس کے لئے اجازت ہے کہ تم کچھ تجارت بھی کرو.بعض علمائِ ظاہر مال کو بُرا سمجھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ اسے فضل فرماتا ہے.: مزدلفہ (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍اپریل ۱۹۰۹ء)   :دو غلط رسمیں تھیں ان کی اصلاح فرمائی.ایک تو یہ کہ مکّہ والے عرفات کے کنارے رہتے آگے نہیں بڑھتے تھے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے سب وہاں اکٹھے ہو جائیں.دوسری رسم یہ تھی کہ مزدلفہ سے سویرے کُوچ نہ کرتے تھے بلکہ شبیرؔ پہاڑی پر جب دھوپ آ جاتی تو اس وقت چلتے.: ہر عبادت کے بعد استغفار کا حکم ہے.دیکھو بڑی عبادت سجدہ ہے اور سجدہ کے بعد پڑھا جاتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَعَافِنِیْ.ایسا ہی

Page 340

جب نماز سے فارغ ہو جائیں تو استغفار پڑھتے ہیں.اِسی طرح بیان فرمایا کہ جب حج کی عبادت ختم ہونے کے قریب آئے تو استغفار پڑھو.نبی کریم صلّی اﷲعلیہ وسلّم کِسی مجلس سے جب اُٹھتے تو ۷۰ سے ۱۰۰ (بار) تک استغفار پڑھتے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   :اس اکٹھ میں شاعر اپنی شاعری کا کمال دکھاتا.بہادر اپنی بہادری کا.فرمایا تم اپنی مفاخرت کے بدلے حضرت حق سُبحانہٰ کا ذکر کرو.:بعض لوگ صرف یہاں دُنیا کے کمانے کے لئے آتے ہیں بعض دین و دُنیا دونوں کے لئے.وہ بھی اچھے ہیں.دُنیا کے حسنات میرے نزدیک یہ ہیں.ا.صحت ۲.علم اور اس پر عمل ۳.اﷲ کی سچّی عبادت اور اخلاص و توفیقِ خیر ۴.رزق اتنا جتنا ضرورت ہو ۵.نیک اولاد ۶.نیک بی بی ۷.عمدہ مکان ۸.لباس اچھا ۹.دوست اچھے ۱۰.خاتمہ بالخیر.اور آخرت کے حسنات کے لئے مَیں یہ کہہ لیا کرتا ہوں کہ جو تیرے حضور حسنہ ہوں.جسے تیرے پاک بندوں اَولیاء و انبیاء نے حسنہ کہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)  : میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے اپنے اﷲ کا ذکر کرو اپنے باپوں کی مانند.اِس میں یہ سمجھایا کہ

Page 341

ہر ایک شخص کا باپ ایک ہی ہوتا ہے.اﷲ بھی ایک ہی مانو.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ صفحہ۳۳۳)   : بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو باتیں بنانا خوب آتا ہے.باتیں بنانے کے لئے اِس فن کی کتابوں کو پڑھتے ہیں مگر مومن کا یہ کام نہیں ہوتا.وَ  (ص ٓ :۸۷) امام مالکؒ سے کسی نے چالیس سوال کئے.ایک دو کا جواب دے کر کہا وَ . : یعنی بات بات پر قَسم کھانا کہ وَاﷲ،بِاﷲ ، بخدا یُوں بات ہے.: جھگڑا لو حق کا طالب نہیں ہوتا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   :حاکم بن جائے.: کوشِش کرتا ہے.: ظالموں کا قاعدہ ہے لوگوں کی کھیتیاں برباد کروا دیتے ہیں اور غرباء کے بال بچّوں کی کچھ پرواہ نہیں کرتے.

Page 342

بہت ہی افسوس سے ایک اَور معنی بھی سُناتا ہوں وہ یہ کہ لواطت کرتا ہے اور لواطت والا اپنی نسل کو ہلاک کرتا ہے اور حرثؔ سے مراد عورت بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   دُنیا کی نمائش اور عزّت پر مرتا ہے.ایک شخص کو مَیں نے لڑکی کے نکاح پر کہا تھا کہ وہ خرچ کر لو جو دُنیا کے بڑے معزّز نے کیا یعنی محمد رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلّم نے کیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   : واسطے چاہنے اﷲ کی رضا مندی کے.: اپنے آپ کو فروخت کر دیتا ہے.اس کا سُکھ.اس کا آرام اس کی کوئی خواہش اپنے نفس کے لئے نہیں ہوتی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   : فرمانبرداری میں داخل ہو جاؤ.فرمانبرداری انسان کو کامیاب کر لیتی ہے.ابتدا سے یہ سبق شروع ہے.پہلے بتایا 

Page 343

(البقرۃ:۵) پھر فرمایا(البقرۃ:۲۲)اِ(البقرۃ:۳۹) پھر ابراہیمؑ کی طرز پر چلنے کا ارشاد کیا.پھر فرمایا کہ اس راہ میں جان پر بھی پڑے تو تَامّل نہ کرو کیونکہ اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   :اِس کی تفسیر پارہ ۹ سورۂ انفال رکوع ا اور ۲ سے ہوتی ہے وہ پڑھ لینا چاہیئے جہاں اﷲ تعالیٰ کی مدد کا ذکر ہے کہ گھٹا ٹوپ بادل آ گیا جو کفّار کے نقصان اور مومنوں کے فائدے کا موجب ہوا. (الانفال:۱۲) اور ملائکہ کا بھی ذکر ہے اِذْ(الانفال:۱۰) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء) ’’خداوند کا بدلیوں میں آنا‘‘ یہ آسمانی کتب کا محاورہ ہے اور بعض اَوقات ایسے محاورے نہ سمجھنے سے بہت سی غلط فہمیاں پَیدا ہو جاتی ہیں اور بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں جن کا کچھ حل نہیں سُوجھتا پارہ۲ رکوع ع ۲۵؍۹ میں ایک آیت ہے  یعنی کیا اب یہ اِس بات کے منتظر ہیں کہ اﷲ تعالیٰ ان پر بادلوں کے سائبانوں میں ظاہر ہو اور فرشتے اور فیصلہ ہو جائے اور تمام باتیں اﷲ ہی کی طرف رجوع کرتی ہیں. اور نزولِ ملائکہ کے معنے سمجھنے کے لئے پارہ ۹سورۃ انفال رکوع کو غور سے پڑھنا چاہیئے جہاں اِس پیشگوئی کی تفصیل کر دی ہے وہ یُوں کہ فرماتا ہے. .جب تم اپنے رَبّ سے فریاد کر رہے تھے تو اس نے منظور فرمایا

Page 344

کہ مَیں تمہیں ہزار فرشتے سے جو لگاتار آنے والے ہیں مدد دینے والا ہوں.یہ اﷲ نے فقط خوشخبری دی تاکہ اس سے تمہارے دل تسلّی پائیں اور فتح تو صرف اﷲ ہی کے ہاتھ ہے.وہ زبردست حکمت والا ہے.اِس سے ظاہر ہے کہ جنگ میں ملائکہ اُترے اور انہوں نے حسبِ حکمِ الہٰی .مَیں تمہارے ساتھ ہوں.مومنوں کو ثابت قدم رکھو اور ان کے قلب کو مضبوط کرتے رہو اور مَیں کافروں کے دلوں میں مسلمانوں کا رُعب ڈالوں گا.مومنوں کو ثابت قدم رکھا اور کافروں پر رُعب چھا گیا اور وہ بھاگ نکلے.علاوہ ازیں اﷲ جل شانہ‘ کی نصرت بدلیوں کی صورت میں اُتری یعنی بارش ہوئی اور اس سے مسلمانوں کے قدم ریت میں جم گئے اور ان کی پیاس بھی جاتی رہی اور یہی پانی دیگر ضروریات کے کام آیا جس سے مومن از سرِ نَو تازہ ہو گئے اور خوب جم کے لڑے اور ان کو فتح حاصل ہوئی جس سے وہ پیشگوئی پوری نکلی جو پہلے میں کی جا چکی تھی چنانچہ فرماتا ہے  پارہ ۲ رکوع ۲۵؍۹اور سورۃ انفال رکوع اکی اِن آیات کے تطابق کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو دونوں کے اخیر میںہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۲) :بدر کے متعلق جو پیشگوئی تھی کہ مینہ برسے گا اور بہادر لوگ گھٹ جائیں گے سورہ انفال رکوع۲  اس کی طرف اشارہ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۲)   : اﷲ تعالیٰ نے انسان کو جو قوّتیں عطا کی ہیں وہ دو قِسم کی ہیں.ایک وہ جن پر انسان کو کوئی دخل و تصرّف نہیں اور ترک یا فعل ان قوٰی کے

Page 345

متعلق انسان کا کچھ نہیں.ان قوّتوں کے لحاظ سے کہا جا سکتا ہے کہ انسان کے بس میں کچھ نہیں.مثال کے لئے دیکھو انسان کا قد.ایک قد میرا ہے اور ایک میری ہی عمر کے کسی اَور شخص کا.اِسی طرح بدن میں ہڈیوں کی تعداد، پٹھے اور شریانیں ہیں ان میں اِنسان کا کچھ دخل نہیں.ایسا ہی کوئی شخص جنابِ الہٰی کو گالیاں دے رہا ہے تو کان سُننے سے نہیں رہ سکتے.دومؔ وہ حصّہ انسانی قوٰی کا جس پر انسان کو قابوہے.دونوں کی سہل مثال میرے نزدیک زبان ہے.اس میں جبرو اختیار کے دونوں رنگ موجود ہیں.زبان پر میٹھا، نمک، کسیلا رکھ کر پھر زبان سے کہو کہ وہ نمکین کو میٹھا کہے تو یہ ہرگز نہ ہو گا.ہاں یہی زبان ہے اِس سے چاہے کوئی خدا کو، انبیاء کو گالیاں دے کر جہنّم اپنا گھر بنا لے اور خواہ ذکر و محامدِ الہٰی کرکے جنّت الفردوس کا وارث بن جائے نتیجہ اِس ساری بات کا یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص پُوچھے کہ انسان مجبور ہے تو کہو نہیں.اور اگر کوئی کہے مختار ہے تو کہو نہیں.ایک فریق ایسا ہے جو سمجھتا ہے کہ انسان مجبور ہے چنانچہ اِس قسم کے اشعار کہے ہیں درمیان قعرِ دریا تختہ بندم کردۂ بازمے گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش میرے نزدیک یہ نافہمی ہے.انسان کو مجبور پَیدا کر کے پھر اسے دوزخ میں ڈالنا ظلم ہے اِس واسطے مَیں نہ انسان کو بالکل مجبور کہتا ہوں نہ بالکل مختار.قرآن کی صداقت کا ایک یہ نشان بھی ہے کہ اس میں ایسے کچّے الفاظ بالکل نہیں اختیار کئے گئے.چنانچہ کسی آیتِ قرآنی بلکہ حدیثِ صحیح.حسن اور ضعیف میں بھی جبرو اختیار کا لفظ نہ پاؤ گے.پس تم یاد رکھو کہ جس حصّہ میں انسان کو جنابِ الہٰی سے اختیار حاصل ہے اس میں بعض امور کے کرنے کا حکم ہے اور بعض کے نہ کرنے کا.اب جو منشائِ خداوندی کے برخلاف کرے اس کے متعلق بازپُرس ہوتی ہے.انبیاء کی آمد اسی حصّہ کی اصلاح کے متعلق ہے اور انہی قوٰی کی ہدایت پر مبنی ہے جو انسانی مقدرت کے نیچے ہیں.حضرت یوسفؑ کی وجہ سے بنی اسرائیل کو مصر میں بہت عزّت حاصل ہو گئی تھی مگر کوئی قوم جب آسُودہ حال ہو جاتی ہے اور ان میں کوئی بڑا ولی پیدا ہو جاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ کچھ مدّت بعد اس نسل کے لوگوں میں کاہلی اور سُستی آ جاتی ہے.اس ولی کے جو صاحبزادے ہوتے ہیں وہ بھی چونکہ مریدوں سے حضور حضور سُننے کے عادی ہو جاتے ہیں اِس واسطے ان کو بہت سی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.پھر ان کا اثر قوم پر پڑتا ہے اور آخر وہ قوم پانچوں عیب شرعی ہو جاتی ہے چنانچہ اسی قانون کے

Page 346

موافق بنی اسرائیل میں یہ عیوب آ گئے اور پھر ان پر خدا کی طرف سے ذِلّت اور مسکنت لیس دی گئی.بیگاروں میں پکڑے جاتے تو وہی ، اینٹیں پکوانے کے کام لئے جاتے تو ان سے ، پھر ایک اَور قانونِ الہٰی ہے کہ جب اصل گناہوں والے لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں تو پھر اس نکبت زدہ قوم ہی میں سے خدا کا کوئی پائس ۱؎ بندہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس کے ذریعہ وہ قوم سنبھلتی ہے.چنانچہ جب بنی اسرائیل کی نکبت انتہا کو پہنچی اور اصل مجرم ہلاک ہو چکے تو حضرت موسٰیؑ پیدا ہوئے چنانچہ ان کے ذریعہ بنی اسرائیل کو پھر نجات کی راہیں دکھائی گئیں.آپ کا منشاء تھا کہ جہاد کے لئے یہ قوم تیار ہو اور ملکِ شام کی وارث ہو اِس لئے آپ نے حکم دیا(المائدۃ:۲۲) حضرت موسٰیؑ تو انہیں فاتح بنانا چاہتے تھے مگر انہوں نے بے اَدبی کا کلمہ مُنہ سے نکالا کہ وہ بڑے بہادر ہیں ہم سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا،جو تُو اور تیرا ربّ جا کر لڑتے پھرو.قرآن کے درس میں کوئی بنی اسرائیلی شامل نہیں ہوتا.پس یہ قصّہ کیوں سُنایا؟ اِس لئے کہ حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے بھی اپنی قوم کو شرک میں مبتلا دیکھا.آپ کا بھی یہی منشاء تھا کہ اس ملک سے نکل کر صحابہ مقابلہ کریں اور فاتح بنیں آپؐ کی قوّتِ قدسیہ کا اثر یہاں تک بڑھا ہؤا تھا کہ جناب بنی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے صحابہ ؓ سے پوچھا کہ کیا تم جہاد کو تیار ہو تو انہوں نے جواب دیالَا نَقُوْلُ کَمَا قَالُوْا لِمُوْسٰی اِذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَا تِلَا بَلْ نُقَاتِلُ عَنْ یَمِیْنِکَ وَعَنْ شِمَالِکَ (بخاری.کتاب المعَارَی بابُ قول اﷲٖ تعالٰی اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ…)یعنی ہم حاضر ہیں آپ جہاں چاہیں لے جائیں.: ایک آیت تو یہ کہ فرعون کی غلامی سے نکالا (البقرۃ:۵۰) ۲.پھر جنگل میں موقع پر پانی برسایا اور بلامحنت رزق دیا.بادشاہ ہو گئے لیکن چونکہ انہوں نے انعامِ الہٰی کی قدر نہ کی اِس لئے ان پر پھر طرح طرح کے عذاب آئے.عِقَاب:یہعِقَاب نکلا ہیعَقَبسے.مطلب یہ کہ اﷲ کی سزا اعمال کے عقب میں نازل ہوتی ہے چنانچہ فرمایا (الشورٰی:۳۱)مَا ؔاور مِن pious.نیک

Page 347

حصر کے لئے ہیں گویا بڑی تاکید سے فرماتا ہے کہ تمہاری تکالیف تمہاری نافرمانی کا نتیجہ ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء) اَلْعِقَاب: وہ عذاب جو نافرمانی کے بعد نازل ہؤا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۲) بنی اسرائیل کو کِس قدر کھُلے کھُلے نشانات دیئے.ان کے دشمن کو ان کے سامنے اسی بحر میں جس سے وہ صحیح سلامت نکل آئے ان کے دیکھتے دیکھتے ہلاک کیا.ان کے املاک کا وارث کیا اور پھر یہ کہ بنی اسرائیل سب کے سب غلام تھے.حضرت موسٰیؑ خود فرماتے ہیں ((الشعراء:۲۳) خدا نے ان پر یہاں تک فضل کیا کہ غلامی سے بادشاہی دی، نبوّت دی، تمام جہانوں کے لوگوں پر فضیلت دی.چنانچہ فرماتا ہے(المآئدۃ:۲۱)لیکن جب بنی اسرائیل نے ان انعاماتِ الہٰی کی کچھ قدر نہیں کی تو (البقرۃ:۶۲) کا فتوٰی ان پر چل گیا.وہی یہود جو تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت رکھتے تھے دُنیا میں اُن کے رہنے کے لئے کوئی اپنی سلطنت نہیں.جدھرجاتے ہیں بندروں کی طرح دھتکارے جاتے ہیں.یہ کیوں؟.اب یہاں بنی اسرائیل نہیں بیٹھے سب مسلمان ہی ہیں.مسلمانوں پر خدا نے بنی اسرائیل سے بڑھ انعامات کئے.ان کو نہ صرف بنی اسرائیل کے ملکوں کا وارث کیا بلکہ اَور ملک بھی دیئے.ملکِ شام کے علاوہ افریقہ تک حکومت دی.جبل الطارق پر بھی حکمران تھے.مشرق میں کا شغر، بخارا سے چائنا تک پہنچے لیکن جب مسلمانوں نے خدا کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو جبل الطارق جبرالٹر بن گیا.کا شغر وغیرہ پر روس کی حکومت ہو گئی.گنگا کا کنارا اور سندھ انگریزوں کے قبضہ میں آیا.ایسا کیوں ہؤا ؟جو بنی اسرائیل نے کیا وہی مسلمانوں نے کیا.خدا نے ان کو ایسا دین دیا جو کُل دینوں سے بڑھ کر ہے.ایسی کتاب دی جو کُل کتبِ الہٰیہ کی جامع ہے.ایسا نبی دیا جو تمام انبیاء کا سردار ہے ( اور احمدیوں کو تو وہ امام دیا جو تمام اولیاء کا سردار ہے ) بنیِ اسرائیل کے فرعون کو تو سمندر میں غرق کیا مگر ہمارے نبی کریمصلّی اﷲ علیہ وسلّم کے فرعون ( ابوجہل) کو باوجود یکہ ہم کتابوں میں یہی پڑھتے آتے تھے اِمّا اَنْ لَّا یَکُوْنَ فِی الْبَحْرِ اِمَّا اَنْ یُّغْرَقَخشکی میں غرق کر کے دکھا دیا.پس کِس قدر افسوس ہے کہ مسلمان ان نعمتوں کی بے قدری کر رہے ہیں.اس کتاب کی جس کو  (البقرۃ:۳) فرمایا ( یعنی اگر کوئی

Page 348

کتاب ہے تو یہی ہے ) کچھ پرواہ نہیں کی جاتی.اس میں اِس قدر علوم ہیں کہ شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں کتابیں جمع کرنے کے لئے ۳ کروڑ روپیہ چاہیئے ( یہ ان کے زمانہ کا ذکر ہے، اب تو اِس قدر کتابیں ہیں کہ کئی کروڑ روپے بھی کافی نہ ہوں ) لیکن کئی مسلمان ہیں جو اس کے معمولی معنے بھی نہیں جانتے.پھر خودپسندی ، خودرائی کا یہ حال ہے کہ نہ قرآن سے واقف ، نہ حدیث سے آگاہ.نہ حفظِ نفس، حفظِ مال، حفظِ اَعراض کے اصول سے باخبر مگر اپنی رائے کو کلامِ الہٰی پر ترجیح کو تیار.قرآن کو امام.مطاع نہیں بناتے.تم لوگوں نے دین کے لئے اپنے گھر بار.اپنے خویش و اقارب.اپنے احباب وغیرہ کو چھوڑا ہے اگر تم بھی قرآنی تعلیم حاصل نہ کرو تو افسوس ہے.(بدر۱۶؍ستمبر ۱۹۰۹ء صفحہ اوّل)    :خوبصورت دکھلائی گئی ہے کافروں کیلئے ورلی زندگی  کا فاعل نہیں بتایا.یہ امر تحقیق طلب ہے.قرآن مجید میں تین موقع پر اس کا فاعل مذکور ہے.ایک جگہ حق سُبحانہ‘ فرماتا ہے(الحجرات:۸)دومؔ ایک مقام پر فرمایا کہ تم کِسی کے بزرگوں کو گالیاں نہ دو وہ تمہارے معبود حقیقی کو گالی دیں گے.(الانعام:۱۰۹)اِس سے آگے فرماتا ہے غرض ایمان کی خوبیاں اور ایمان کے تعلقات ان کو خوبصورت دکھلانے والا تو اﷲ ہے اور وہ جو بَدی کو خوبصورت دکھلاتا ہے اس کا ذکر اِس آیت میں ہے (الانعام:۱۳۸) اور(الانفال:۴۹)

Page 349

جو اﷲ سے دُور آدمی ہیں وہ بدعملیوں کو خوبصورت دکھاتے ہیں.غرض زُیِّنَ کے دو فاعل ہیں نیک کوموں کے لئے نیک اور بدکاریوں کے لئے بَد ( شیطان).سورۃ نحل آیت ۶۴ میں بھی آیا ہے  :جب کوئی مامور آتا ہے تو دو گروہ ہو جاتے ہیں ایک مانتا ہے ایک نہیں مانتا.اﷲ کی کتاب سے مجھے یُوں معلوم ہؤا ہے کہ جو اکابر ہوتے ہیں وہ قطع تعلق کرتے ہیں.اکابر علوم کے لحاظ سے  (المؤمن:۸۴)جاہ وجلال.مال و منال کے لحاظ سے.حضرت نوحؑ کے پَیروؤں کو کہا گیا (ھود:۲۸) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء) :کُفر کا مزیّن شیطان ہے کیونکہ اﷲ تو ایمان کا مزیّن ہےقُلُوْبِکُمْ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹صفحہ ۴۴۲)     

Page 350

لوگوں کا دین ایک تھا.پھر بھیجے اﷲ نے نبی خوشی اور ڈر سُنانے والے اور اُتاری ان کے ساتھ کتاب سچّی کہ فیصل کرے لوگوں میں جس بات میں وہ جھگڑا کریں.(فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ ۱۰۳) :نیک و بَد تو دُنیا میں ہوتے ہیں مگر ایک وقت لوگوں پر ایسا آتا ہے کہ ان میں سے غیرتِ ایمانی اُٹھ جاتی ہے اور وہ مذہبی بحثوں کو فساد جاننے لگتے ہیں.ایک مُنصف فخر کے طور پر کہتا ہے کہ میرا ایک دوست بڑا پیارا تھا تیس برس سے ملاقات چلی آتی ہے اور مَیں نے کبھی اس کے سامنے خدا کا نام نہیں لیا. کے میرے نزدیک یہی معنے ہیں کہ بے غیرت ہو کر ایک رنگ میں رنگین ہو جانا.ایسے وقت میں اﷲ کے مامور آتے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے : نبیوں کو مبعوث کرتا ہے.:یعنی محض ضِد کی وجہ سے نہیں مانتے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سے کچھ دن پہلے مسیلمہ کذّاب نے پیغمبری کا دعوٰی کیا.ایک صحابی کا آشنا مسیلمہ کا مرید تھا.اس سے پوچھا گیا تم نے مسیلمہ کو کیوں مان لیا اور محمد رسول اﷲصلّی اﷲعلیہ وسلّم میں کیا نقص دیکھا تو وہ کہنے لگا اَکْذَبُ بَنِیْ یَمَامَۃَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَصْدَقِ قُرَیْشٍ.قریش خواہ کیسا راست باز ہو آخر قریشی ہے اس سے مجھے اپنی قوم کا اَکْذَباچھا.پس یہ وجہ ہوتی ہے اختلاف کی.مَیں کل بتلا چکا ہوں کہ جس حصّہ میں انسان کا دخل نہیں اس میں شریعت نازل نہیں ہوتی اور جس میں دخل اور اختیار ہے اس میں شریعت ہے.قانونِ سرکاری اور شریعت میں یہ فرق ہے کہ قانونِ گورنمنٹ اس وقت گرفتار کر سکتا ہے جب گناہ کا اثر کِسی دوسرے پر عملی رنگ میں پڑے مگر شریعت گناہ کے مبدء کو پکڑتی ہے مثلاً بدنظری ہے.اب پولیس اسے نہیں پکڑتی لیکن شریعت نے یہ برکت کا کام دُنیامیں کیا ہے کہ جو شخص شریعت پر عمل پَیرا ہو وہ پولیس کے ہاتھ میں آتا ہی نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء) : اِس کی تفسیر سورۂ یونس (آیت۲۰)  میں ہے. حَرف ہے.یہ مطلب نہیں کہ سب کافر تھے یا سب مومن

Page 351

بلکہ یہ کہ انسان بحیثیت انسان ایک گروہ ہے جیسے کُتّے الگ گھوڑے الگ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۲)     اَب اِس آیت کے متعلق مجھے یہ کہنا ہے کہ خدا نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ آرام چاہتا ہے چنانچہ جہاں اس نے رُوح کے تقاضے بیان کئے ہیں وہاں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ وہ آرام کو چاہتی ہے.جس قدر معالجات ہیں.علوم ہیں.اموال خرچ کئے جاتے ہیں ان سب کا منشاء یہی ہے کہ آرام حاصل ہو اور آرام کے لئے جامع لفظ ہے جنّت.جنّت کہتے ہیں باغ کو.باغ میں جانے سے غم غلط ہوتا ہے.نظّارۂ قدرت دیکھا جاتا ہے.پھُولوں سے دل کو راحت حاصل ہوتی ہے.احباب کی ملاقات کا لُطف آتا ہے.پھر طرح طرح کے میوے کھائے جاتے ہیں.گویا باغ میں آنکھوں کا مزا، کانوں کا مزا، زبان کا مزا، ناک کا مزا سب کچھ شامل ہے.سائنسدان بھی اِس بات کو مانتے ہیں کہ باغ میں جو ہَوا چلتی ہے وہ خاص طور پر راحت بخش ہوتی ہے.شدّتِ گرمی میں جو آرام باغوں میں ہوتا ہے وہ بھی بے مثل ہے.الغرض انسان کی فطرت میں آرام کی خواہش ہے.اﷲ تعالیٰ اسے  میں ظاہر فرما کر کہتا ہے کہ تم چَین کے مقام میں جانا چاہتے ہو مگر کیا بغیر کچھ کئے کے؟ ہرگز نہیں.ہر شخص کو چَین کے حصول کے لئے کچھ کام کرنا پڑے گا.

Page 352

جنّت میں جانے کے کچھ اصول ہیں ان میں چند کُل انبیاء و اَولیاء میں مشترک ہیں منجملہ انکے ایک نفس کی بے اَنت خواہشوں کو روکنا.تین قِسم کی خواہشیں ہیں.ایکؔ مال کی خواہش ہے چنانچہ اس کے لئے انبیاء نے یہ قاعدہ بنایا   (البقرۃ:۱۸۹)اس میں ملازم، پیشہ ور وغیرہ سب آ گئے.دومؔ.کان، آنکھ، زبان حُسن کے بہت مشتاق ہیں.حسین چیز کو دیکھنا ، اس کی خوشبو کو سُونگھنا، اس کی اواز سُننا ، ان تمام باتوں کی خواہش کا نام شہوت ہے.شہوت آنکھ سے شروع ہوتی ہے اِس لئے اﷲ تعالیٰ حکم دیتا ہے سُورۂ نور میں  (النّور:۳۱) اِسی طرح مومنات کے لئے حکم ہے.سومؔ.غضب.اِس کے متعلق بھی بڑی تعلیمیں ہیں.چنانچہ پارہ ۶ کے شروع میں فرماتا ہے (النّسآء:۱۵۰)یعنی تم اپنے حال کو نہیں دیکھتے کہ خدا کے مقابلہ میں کیا کیا بغاوتیں کی ہیں پھر بھی اﷲ تعالیٰ اس پر گرفت نہیں فرماتا.وہ قادر ہو کر عفو کرتا ہے پس تم بھی درگذر کیا کرو.خلاصہ یہ ہؤا کہ انسان چین چاہتا ہے اور جَین کے حصول کے لئے خواہش کرتا ہے.مال کی.شہوت کی ، غضب کی،لیکن جو اِن کو ناجائز طریق سے حاصل کرتا ہے یا ان کا بے جا استعمال کرتا ہے وہ پکڑ ا جاتا ہے.زانی کو دیکھو کہ وہ جب شہوت کو بے جا طور سے استعمال کرتا ہے تو اسی عضو پر آتشک و سوزاک سے سزا کھاتا ہے جس سے خدا کے قانون کو توڑا.اسی طرح چور کا حال ہے کہ وہ مال کے لئے شریعت کی مخالفت کرتا ہے اِس لئے کبھی کوئی چور دولتمند نہ دیکھو گے.ایک چور کسی عورت کا چُوڑا اتار کر لے گیا.عورت نے دیکھ لیا مگر پکڑ نہ سکی.آخر کئی سالوں کے بعد چور اسی عورت کے دروازے سے گزرا تو اس عورت نے کہا کہ اَے بدبخت میرے ہاتھوں میں تو پھر بھی چُوڑا ہی موجود ہے تجھی پر خدا کی پھٹکار پڑی.اِسی طرح غضب والے جو ارتکابِ جرائم کرتے ہیں اس کی سزا پاتے ہیں.پس خداوند تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنّت جب ملے گی جب تم ۱.بَاْسَآء: غریبی.یہ بھی پَیدا ہوتی ہے مال کی کمی سے.۲.ضَرَّآء :بیماری ۳.زلْزِلُوْا:دوسرے مقام میں حِیْنَ الْبَاْسِ (البقرۃ:۱۷۸) فرماتا ہے.یہ غضبی قوّت کے ماتحت ہے.اِن تین امتحانوں میں پورے نہ نکلو گے تو جنّت نصیب نہ ہو گی.اِس پر صحابہؓ نے عرض کیا کہ حضور

Page 353

جب یہ حال ہے کہ مال کو جائز طریقوں سے حاصل کرنا ہے پھر کمسٹریٹ(فوجی اخراجات) کہاں سے آئے گی.فرمایا جو مال سے میسّر ہو خرچ کرو اور صرف کمسٹریٹ ہی نہیں بلکہ والدین کو بھی دو اور رشتہ داروں کو بھی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)   : کہاں دیں.کتنا خرچ کریں.دونوں معنی ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۲)    : یہ بھی اِس اُمّت کے لئے مقدّر تھا کہ دشمنوں کے ظلم کی وجہ سے لڑنا پڑے گا.: تمہارے لئے ایک بڑی مشکل ہے! اس کا ترجمہ یہ کرنا کہ تمہیں بُری لگتی ہے.کسی رافضی کا ترجمہ ہو سکتا ہے، کم از کم مَیں ایک ایسا انسان ہوں جو صحابہ ؓ کے لئے یہ بات گوارا نہیں کر سکتا اور نہ اِس مقدّس جماعت کے مُنہ سے یہ لفظ نکل سکتا ہے.صحابہؓ کے لئے مشکلات البتہ تھیں، مال نہ تھا، جاہ و جلال نہ تھا ، جتھا نہ تھا اور دشمن کے لئے یہ سب کچھ حاصل

Page 354

تھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء) : کے معنی بُرا جاننے کے نہیں بلکہ مشقّت کے. (الاحقاف:۱۶).(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۲) تُحِبُّوْا: مثلاً اِنسان کہتا ہے کہ مال جس حیلے سے ملے لے لوں.کسی حسین کو دیکھے تو چاہتا ہے جیسے بھی ہو میرے قبضے میں آجائے مگر اس کے نتائج بہت خراب ہیں.وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ:اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے سب ان ہدایتوں کے اصولوں سے بے خبر ہو.ہم سب کچھ جانتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)      

Page 355

تجھے پُوچھتے ہیں مہینے حرام کو اور اس میں لڑائی کرنی تو کہہ لڑائی اس میں بڑا گناہ ہے اور روکنا اﷲ کی راہ سے.(فصل الخطاب حِصّہ اوّل صفحہ۱۰۱) عرب میں خانہ جنگیاں ہوتی رہتی تھیں.چھوٹی موٹی بات پر خون کی ندیاں بہہ جاتی تھیں.ایک فریق دوسرے کی مانتا نہ تھا اِس واسطے ان میں طوائف الملوکی رہتی تھی.جہاں کوئی جو ہڑ ہوتا وہ جنگ گاہ بن جاتا.اِس کی وجہ یہ تھی کہ لوگ مویشی رکھتے تھے اور ہر ایک یہی چاہتا کہ مَیں ہی اپنے مویشی کو آرام پہنچاؤں اِس واسطے ان کے دارات مقاتلات بن جاتے تھے.غرض حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اس قوم میں دو بڑے عیب تھے ایکؔ بُت پرستی دومؔ باہم لڑائی.اِن دونوں کی اصلاح آپ نے فرمائی.چنانچہ قرآن مجید میں ہے (اٰل عمران:۱۰۴)یعنی تم دشمن تھے ایسے دشمن کہ ابن العم کا لفظ بھی گویا لڑائی کا نشان تھا حالانکہ یہ رشتہ اتحاد و قُرب کے لئے ہے.دوسرا عیب شِرک کا تھا.اِس کا اِس قدر زور تھا کہ مکّہ معظّمہ کے اندر ۳۶۰ بُت تھے.اِس شِرک کے متعلق آپ کی تعلیم خصوصیّت سے ایسی تھی کہ اس کی جڑیں کاٹ دے چنانچہ اوّل تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ تمام شرکوں کی جڑکو کاٹتا ہے.اِس کے معنے ہیں اﷲ کے سوا کوئی ہمارا حاجت روا نہیں.ہم کسی کو سجدہ نہیں کرتے.اس کے سوا کوئی ہماری دعا کو نہیں سُنتا.ہم کسی کی نذر کو نہیں مانتے.پھرصریح طور پر فرمایا(النّسآء:۴۹) آپ جب عورتوں سے بیعت لیتے تھے تو سب سے پہلے یہی وعدہ لیتے تھے(المُمتحنۃ:۱۳) غرض عرب میں دو عیب تھے دونوں کے دُور کرنے کے لئے آپؐ نے بڑی بڑی کوشِشیں کیں اور ان کو شِرک سے نکال کر توحید کی راہ دکھائی اور خانہ جنگیوں سے چھُڑا کر بھائی بھائی بنا دیا.قوموں میں وحدت کا بیج بونے کے لئے چار اصول بتلائے.۱.بدظنّی کی ترک کیونکہ یہی جَڑ ہوتی ہے تمام بُرائیوں کی.بدظنّی سے نکتہ چینی تک نوبت پہنچتی ہے اور پھر غیبتیں شروع ہو جاتی ہیں اِس لئے ارشاد کیا (الحجرات:۱۳) ۲.ٹھٹھا ترک.یہ بھی کئی قِسم کی لڑائیوں کا مُوجب ہو جاتا ہے اِس لئے فرمایا 

Page 356

 (الحجرات:۱۲) ۳.اگر کوئی تمہیں تکلیف دے تو تم صبر سے کام لو.چنانچہ فرمایا(البقرۃ:۱۵۴) دُنیا میں جتنی جنگیں ہوتی ہیں اگر ایک طرف صابر ہو تو نفع اُٹھائے مگر افسوس کہ سطحی خیالات کے لوگ صبر کی حقیقت کو نہیں سمجھتے حالانکہ دیکھتے ہیں اگر شہنشاہ کسی کی معیّت کا دعوٰی کرے تو وہ شخص پھُولا نہیں سماتا.پس جس کے ساتھ اﷲ اپنی معیّت جتائے اُسے کتنا فخر ہاصل کرنا چاہیئے اور فرمایا ہے (الذّمر:۱۱) صابرین کیلئے نیک ثمرات کا وعدہ ہے اور  (الشورٰی:۴۴) میں بتلایا ہے کہ صبر کرنا بھاری کام ہے.۴.چوتھا اصل یہ فرمایاکہ (الحجرات:۱۰) غرض بدظنّی سے روکا.تمسخر سے روکا.صبر کے فوائد بتلائے اور یہ کہا کہ اگر آدمیوں میں نقار ہو تو تم صلح کرا دو.اِن چار اصولوں کو بتا کر دُنیا میں امنِ عامہ کی بنیاد ڈالی.عرب کی جنگجو قوم میں صبر کا مادہ ضرور تھا چنانچہ اِسی لئے وہ شہرِ حرام میں قتال نہ کرتے تھے.حتّٰی کہ اپنے بیٹے یا بھائی یا باپ کے قاتل کو بھی نہ مارتے تھے.حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلم نے اِس مادہ کو بڑھانے کی کوشِش فرمائی اور ان میں وحدت کی رُوح پَیدا کرنے کی تدبیریں کیں.ازاں جملہ ایک یہ تھی کہ اپنی پھوپھی کی لڑکی کا نکاح اپنے غلام سے کر دیا تاکہ غلاموں کو حقیر نہ سمجھا جائے.آخر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اِس ارادہ میں کامیاب ہوئے اور آپ نے ایک ایسی جماعت پیدا کر لی جو امنِ عامہ کی بہت طرف داری کرتی تھی.شریر لوگوں نے جب دیکھا کہ یہ تو صبر کرتے ہیں اِس لئے انہوں نے شہرِ حرم میں بھی ان کو چھیڑنا شروع کیا.اس پر صحابہؓ نے سوال کیا کہ ہمیں شہرِ حرم میں لڑائی کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے اور اِس لڑائی کے تین نقصان ہیں.صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ(اﷲ کی راہ میں آمد و رفت سے روکا جاتا ہے) اور پھر اس کا کفر ہے اور عزّت والی مسجد کا کفر ہے اور پھر خاص شہر والوں کا نکالنا تو اس سے بھی بڑا جُرم ہے.وَ مَنْیَرْتَدِدْ : دوسرے مقام پر فرمایا(المآئدۃ:۵۵) پھر فرمایا حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ.وہ اِسلام کے مقابلہ میں تیزی سے اُٹھیں گے مگر ان کی

Page 357

کوششیں اکارت جاویں گی.وہ دُنیا میں ہلاک ہوں گے.مَیں اِس آیت پر یقین کر کے کہتا ہوں کہ جو لوگ امنِ عامہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں وہ ضرور ناکام و نامراد ہلاک ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍ اپریل ۱۹۰۹ء)  اِس (آیت ) میں ایک غلطی کی اصلاح ہے جو نہ صرف چھوٹوں میں پائی جاتی ہے بلکہ بڑوں میں بھی اور وہ یہ کہ مستحق کرامت گنہ کاراں اند کا مصرعہ زبان پر رہتا ہے جس نے بہت لوگوں کو بیباکی کا سبق دیا.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے رحمتِ الہٰی کے مستحق تو وہ لوگ ہیں جن میں یہ اوصاف ہوں اوّلؔ ایمان بِاﷲ یعنی یہ یقین ہو کہ تمام خوبیوں سے موصوف اور تمام نقصوں سے منزّہ ذات اﷲ کی ہے.پھر ملائِ کہ پر ایمان ہو یعنی ان کی تحریک پر عمل کیا جائے.پھر کتب اﷲ پر ایمان ہو.نبیوں پر ایمان ہو.یَومِ آخرت پر ایمان ہو.صرف عذاب القبر حق ہی نہ کہے بلکہ رحمت القبر حق بھی.تقدیر ( یعنی ہر چیز کے اندازے اﷲ تعالیٰ نے بنا رکھے ہیں) پر ایمان ہو.پھر اس ایمان کے مطابق عمل درآمد بھی ہو.عیسائیوں نے دھوکہ دیا ہے اور وہ یہ سوال کرتے ہیں کہ نجات فضل سے یا ایمان سے یا عمل سے ؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ نجات فضل سے ہے کیونکہ قرآن شریف میںہے(فاطر:۳۶) ہے مگر اِس فضل کا جاذب ایمان ہے اور جیسا کِسی کا ایمان مضبوط ہے اسی کے مطابق اس کے عمل ہوتے ہیں اِسی واسطے یہاں اٰمَنُوْا کا ذکر فرما دیا.کیونکہ اعمال ایمان کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں چنانچہ اس ایمان کا ایک نشان ظاہر کیا ہے کہ تمام مقدمات کی بنا تو زمین ہے مگر جب انسان ایمان میں کامل ہو جاتا ہے تو پھر وہ خدا کے لئے اس زمین کو بھی چھوڑ دیتا ہے یعنی ہجرت کیونکہ کسی چیز کو اﷲ کے لئے چھوڑ دینا بہت بڑا عملِ صالح ہے.پھر فرمایا ایمان کا مقتضٰی اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ کیاجَاھَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یعنی اس کا دِن اس کی رات.اس کا علم، اس کا فہم، اس کی محبّت ، اس کی عداوت، اس کا سونا اور اس کا جاگنا

Page 358

غرض کرِدار، گفتار.رفتار سارے کے سارے اِس کوشِش میں ہوں کہ میرا مولیٰ مجھ سے راضی ہو جاوے.یاد رکھو خدا تعالیٰ قدّوس ہے.اس کا مقرّب نہیں بن سکتا مگر وہی جو پاک ہو.انسان بے شک کمزور ہے اِس لئے وہ غلطیوں کو بخشنے والا ہے مگر اپنی طرف سے کوشِش ضروری ہے.مومن میں استقلال و ہمّت بہت ضروری ہے.یہ غلط خیال ہے کہ نبیوں نے اُ س وقت مقابلہ کیا جب ان کا جتھا ہو گیا.حضرت نوح علیہ السلام کے جتھے کا کیا حال تھا.(ھود:۴۱) جب آپ کو مقابلہ کی ضرورت پڑی تو ایک جُملہ سے وہ کام لیا جو کُل دُنیا کی فوج نہیں کر سکتی یعنی (نوح:۲۷) حضرت موسٰیؑ کیسی حالت میں تھے.فرعون نے کہا (الذخرف:۵۳) ان کی تمام قوم غلام تھی مگر ایک آواز سے سب کام کروا لیا.(یونس:۸۹) نبیوں کو خدا کے پاک لوگوں کو جتھوں کی کیا پرواہ ہے.انبیاء کے نزدیک ایسا خیال شرک ہے.مَیں تمہیں دعاؤں کی طرف متوجّہ کرتا ہوں.تم یوں سمجھو کہ دعاؤں کے لئے پیدا کئے گئے اور یہی دعائیں تمہارے کام سنواریں.(بدر ۱۴ نومبر ۱۹۰۹ء صفحہ اوّل)     : لڑائی میں سپاہی کو شراب پلا دیتے ہیں تاکہ اس کے مزاج میں رحم وغیرہ نہ رہے اور وہ اندھا دُھند تلوار چلاتا جائے اِس لئے صحابہؓ نے شراب کے متعلق سوال کیا.پھر لڑائی کے لئے اخراجات کی ضرورت ہے.عرب میں ایسے موقع پر یہ دستور تھا کہ بڑے بڑے امیر لوگ

Page 359

جُوا کھیلتے.جو ہارتا اس کے ذمّہ قحط اور ضرورتوں کا خرچ ہوتا.عرب کے بعض شعروں میں پایا جاتا ہے کہ وہ ہارنے کو بہت پسند کرتے تھے اور اپنی ہار کو فخر سے بیان کرتے تھے.اِس کی بھی یہی وجہ تھی کہ ایسے لوگوں کے ذمّہ تمام اخراجات ہو جاتے اور قحط میں سارے غریبوں کا نان و نفقہ اسی کو دینا پڑتا.چونکہ اس میں ایک نیکی کا موقع ملتا تھا اِس لئے وہ تفاخر کرتے تھے.اس پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان میں بڑی بدکاری ہے.بے شک غرباء کو نفع پہنچتا ہے نَفْعِھِمَاکے یہی معنے ہیں مگراس بدکاری کا جو نتیجہ ہے وہ سخت گندہ ہے.اس کے مقابل میں اس نفع رسانی کی کوئی حقیقت نہیں.کیونکہ جب ان کے ذمّہ یہ اخراجات پڑتے اور پاس ایک کوڑی بھی نہ ہوتی تو ناچار ان کو آرمینیا اور کاکس تک ڈاکہ زنی کرنی پڑتی.جب صحابہؓ نے خمرو مَیسر کے متعلق حکم سُنا تو معًا ان کے دلوںمیں خیال پَیدا ہؤا مَا ذَا یُنْفِقُوْنَ پھر خرچ کہاں سے آوے.فرمایا ج اَلْعَفْوَجو تمہاری حاجتِ اصلی سے زیادہ ہو.مُٹھی بھر جو جمع کرو خدا تعالیٰ اسی میں برکت ڈال دے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍اپریل ۱۹۰۹ء) اِس آیت شریف سے ثابت ہوا شراب میں اِثم ہے اور بڑا اِثم ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۳۳۲) : صدقات کیسے مال سے دیں.کِس قدر صدقہ نہایت ضروری ہے.اِس کے قواعد جیسے اِسلام میں مفصّل موجود ہیں مجھے معلوم نہیں کہیں اَور جگہ بھی ہوں.مسیحؑ فرماتے ہیں جوکوئی تجھ سے مانگے اُسے دے.کہاں سے دے.چوری حرام کاری سے بھی.بُری چیز مانگے.محال بھی مانگے کیا تب بھی دیں.مگر قرآن فرماتا ہے:    (البقرۃ:۲۶۸) اور پوچھتے ہیں تجھ سے کیا خرچ کریں تو کہہ جو افزود ہو حاجت ہے.(فصل الخطاب (ایڈیشن دوم) جلد اوّل صفحہ ۳۸) ’’عفو‘‘ یعنی جو حاجتِ اصلیہ سے زیادہ ہو حلال اور طیّب مالس سے دے.ردّی چیز نہ ہو.ابْتفائً لِوَجْہِ اﷲ دے.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر۷ صفحہ ۳۲) : کہاں دیں.کتنا خرچ کریں.دونوں معنی ہیں.

Page 360

ِ:آیات میں ربط قائم ہے.جنگ میں شراب اور جؤا آج تک ہوتا ہے فوجوں میں جوش اور خرچ اِسی ذریعہ سے مہیّا کرتے ہیں.صحابہؓ نے اِس بارے میں دریافت کیا. جؤا منع ہے تو اَب راشن وغیرہ کہاں سے لائیں گے.اس سے آگے بھی سوال جنگ کے نتائج پر مبنی ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۲)    :جب لڑائی چھڑتی ہے تو اس میں مقتول بھی ہوتے ہیں اور مقتول کے بچّے یتیم بھی ہوتے تھے اِس لئے ان کی نسبت حکم دیا ان کی بہتری ، بہبودی کا فِکر بہت بڑی نیکی ہے.( ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۶؍اپریل ۱۹۰۹ء) : امام محمدؒ کے پاس کسی یتیم کے کپڑے تھے آپ نے انہیں بیچ ڈالا.کسی نے کہا یتیم کے مال میں کیوں تصرّف کرتے ہو؟ تو آپ نے یہی آیت پڑھی اور اسے سمجھایا کہ کپڑے تو پُرانے ہو کر ان کی قیمت گھٹتی جاتی ہے اِس لئے ان کو بیچ دیا تا مال محفوظ رہے.( اخبار بدرؔ قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)    

Page 361

:لڑائی میں کفّار کی عورتیں قیدی بن کر آتی تھیں اِس لئے صحابہؓ نے ان کے نکاح کا مسئلہ پوچھا کیونکہ وہ ان کی رشتہ دار تھیں.آپؐ نے حکم دیا کہ مشرکہ سے نکاح جائز نہیں.اِس میں بہت بڑی حکمتیں تھیں.ایک تو یہ کہ عورتوں میں شرک بہت ہوتا ہے.اگر مشرکہ عورتیں مسلمانوں کے گھروں میں آ جائیں تو ان کی اولاد پر بُرا اثر پڑتا ہے.مَیں نے ایک عورت کو ایسے شرک میں مبتلا دیکھا جس کو میرا واہمہ تجویز نہیں کر سکتا.وہ یہ کہ ایک عورت ہر صبح پاخانہ کو سجدہ کرتی اور کہتی کہ ہے قد مچہ مائی! مجھے بیٹا ملے تو مَیں اپنا بیٹا تجھی پر ہگایا کروں.: یعنی اپنی لڑکیوں کی شادیاں مُشرکوں میں مت کر دو.اسی بنا پر ہمارے امام نے حکم دیا کہ غیر احمدیوںکو اپنی لڑکیاں نہ دو کیونکہ ان میں بھی شرک ہے اور اِس طرح میل جول سے شرک بڑھ جائے گا.شرک مَیں نے بِلا تحقیق نہیں کہا.مسیح علیہ السلام کے مسئلہ ہی میں جو خوفناک گمراہی ان میں ہے وہ کم نہیں.وہ کونسی اﷲ کی صفت ہے جو اس کی طرف منسوب نہیں کرتے.خَالِق کَخَلْقِ اﷲ اسے مانتے ہیں.احیاء مَوتٰی اس کی طرف منسوب کرتے ہیں.عالم الغیب اسے جانتے ہیں.حرام و حلال کا اختیار اُسے دے رکھا ہے.پھر ختمِ نبوّت کے بھی وہ قائل نہیں.پس ایسے مشرک لوگوں سے ہمیں تعلقِ ازدواج قائم کرنے میں سراسر نقصان ہے اِس لئے امام نے منع فرمایا.جن احمدیوں نے حضرت امام کی اِس نصیحت پر عمل نہیں کیا سُکھ انہوں نے بھی نہیں پایا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲؍اپریل ۱۹۰۹ء) 

Page 362

   :عرب کا دستور تھا کہ وہ جنگ میں اپنی عورتوں کو بھی ساتھ لے جاتے تھے.اِس رسم کا فائدہ یہ تھا کہ وہ بڑے جوش سے جنگ کرتے تھے اور جان توڑ کر لڑتے تھے کیونکہ ان کو خیال ہوتا کہ اگر ہم نے پیٹھ پھیری اور بُزدلی دکھائی تو ہماری عورتو ں کی عصمت محفوظ نہیں رہے گی اور سب بال بچّہ دشمنوں کے قبضہ میں آ جائے گا اِس واسطے جنگ کا نام بھی انہوں نے حفیظ رکھا تھا کیونکہ جنگ ان کے ننگ و ناموس کی حفاظت کا موجب تھی.اب جنگوں میں جب عورتیں ان کے ساتھ تھیں تو بعض وقت ان کو حَیض بھی آ جاتا.اس حالت میں انہوں نے یہ مسئلہ پوچھا کہ کیا حکم ہے ؟ اِسلام میں حیض کے متعلق عورتوں کو کئی حکم ہیں.مثلاً یہ کہ وہ روزہ نہ رکھے( کیونکہ پہلے ہی سے بہت ضعیف ہوتی ہے اِس طرح بیماری بڑھتی ہے).نماز نہ پڑھے.وضو نہ کرے کیونکہ ٹھنڈے پانی سے استنجا سخت نقصان پہنچاتاہے.کلمۃ الحکمۃ ضَآلَۃُ الْمُؤْمِنِ حَیْثُ وَجَدَھَا اَخَذَھَا(الترمذی.کتاب العلم باب ماجافی فضل الفقہ علی العبادۃ)کے ماتحت مَیں ہندو مذہب کے اِس طریق کو بہت اچھا سمجھتا ہوں کہ وہ اپنی عورتوں کو آٹا تک نہیں گوندھنے دیتے تاکہ پانی نقصان نہ پہنچائے.گو وہ اس احتیاط میں حد سے بڑھ گئے ہیں.ہماری پاک شریعت چونکہ انسان کے جان و مال کی محافظ ہے اِس واسطے اﷲ نے خاص عبادتیں معاف کر دی ہیں اور ادھر مردوں کو روک دیا.: بدبو دار چیز ہے.اس حالت میں انسان جماع کرے تو دُکھ کا موجب ہے.اِس سے معلوم ہؤا کہ خلافِ وضعِ فطرت بھی حرام ہے.ایک پاک فطرت کا اِنسان حضرت علیؓ فرماتا ہے اگر قرآن میں اس کا ذکر نہ ہوتا تو میرا واہمہ تجویز ہی نہیں کر سکتا کہ یہ بدکاری بھی ہے.

Page 363

:بالکل نزدیک نہ جاؤ.اِس سے لواطت کی حُرمت بھی ظاہر ہے.: پاک ہو جاویں.ہمارے ملک کی عورتیں بہت ناواقف ہیں خوشبو وغیرہ کا استعمال نہیں جانتیں.: اس کے معنے اﷲ نے سورۃ النمل آیت ۵۷ میں بتائے ہیں گویا جو شخص لواطت سے اجتناب کرے اسے متطہّر کہتے ہیں.(ضمیمہ اخباربدرؔ قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)   عورتوں کو کھیت کہنے کی غرض کیا ہے اوّلؔ یہ کہ اُس سے خلافِ وضعِ فطرت عمل نہ کیا جاوے دومؔ اس سے بکثرت جماع نہ کیا جاوے.سومؔ اس کی اور اس کے حمل کی ہمیشہ حفاظت ہو.چہارم جنکے بچّے گِر جاتے یا مر جاتے ہیں وہ اس تشبیہ سے یہ فائدہ اُٹھائیں کہ ایک سال صُحبت ترک کر دیں جس طرح زمین اس ترک سے مضبوط ہو جاتی ہے اسی طرح وہ عورت قابل حمل رکھنے کے ہو جائیگی.پنجمؔ اپنے کھیت میں دوسرے کا بیچ پڑنے نہ دیں اِس لئے کہ اس سے فساد ہو گا.(نورالدین صفحہ۲۱۰،۲۱۱)   : اﷲ کے نام کو نیکی کرنے میں روک نہ بناؤ.مثلاً خدا کی قَسم کھا کر یہ کہہ دیا مَیں فلاں

Page 364

کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا.فلاں کے گھر نہ جاؤں گا.وغیرہ (ضمیمہ اخباربدرؔ قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) :حاجز (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۲)   : مختلف مذاہب کی رُو سے پانچ طرح کی قَسمیں ناجائز ہیں.ا.غضب کے وقت.۲.عادت کے طور پر واﷲ باﷲ.بخدا کہنا.۳.اپنی جگہ تحقیق سے کہتا ہے مگر دراصل وہ بات غلط ہے.۴.قَسم کھا کر بھُول جائے اور ارتکاب اس فعل کا کرے جس کے نہ کرنے کی قَسم کھا چکا ہو.۵.حلال چیز کو کہہ دے میرے لئے حرام ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)   : ایلاء کرتے ہیں.اپنی بی بی کے پاس نہ جانے کی قَسم کھانا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)  : یہاں مَیں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسلام میں کئی مسئلے

Page 365

موجود ہیں تاکہ انسان کی جان و مال و عزّت کا نقصان نہ ہو.کوئی کِسی کو دُکھ نہ پہنچائے مگر خود مسلمانوں ہی نے ایک مسئلہ کو تمام دُکھوں کی جڑ بنا دیا ہے حالانکہ نکاح آرام و دوستی و رحمت کے لئے تھا چنانچہ فرمایا  (الروم:۲۲)مگر بعض ایسے لوگ ہیں کہ نکاح کر کے نہ تو بساتے ہیں نہ طلاق دیتے ہیں.طلاق کی اجازت پر اگر یہ عمل کرتے تو عورتوں پر یہ ظلم و ستم نہ ہوتا.مَیں نے دُنیا بھر میں مکّہ ایک ایسا شہر دیکھا جہاں عورت کو ذرا بھی تکلیف ہو تو وہ قاضی کی عدالت میں چلی جاتی ہے.اسی وقت شوہر کو بُلایا جاتا ہے اور حکم ہوتا ہے کہ یا تو ابھی طلاق دو یا آئندہ نیک سلوک کی ضمانت دو.دیکھو مَیں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ عورتیں بہت ہی کمزور ہیں.تم ان مظلوموں پر رحم کرو.ان سے نیکی کے ساتھ معاشرت کرو.(البقرۃ:۲۲۹) کو یاد رکھو.اگر نشوز کا خوف ہو تو ایک اپنے قبیلے سے ایک اس کے قبیلے سے حُکم مقرر کر کے جلد فیصلہ کر دو.حتّی الوسع عفوو در گذر، چشم پوشی سے کام لو.نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی وصیّت ہے اِسْتَوْصُوْا بِالنِّسَآئِ خَیْرًا.اسے مت بھُولو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)     :یہ عدّت کی مدّت ہے.قرء کہتے ہیں حَیض کو اور طُہر کو بھی.اﷲ تعالیٰ اپنی

Page 366

خاص حکمت سے ایسے ذوعمل الفاظ قرآن مجید میں لاتا ہے تاکہ جنہیں قرآن کا عشق ہے ان کے لئے تدبّر کا میدان وسیع ہو.ایک برے بزرگ گزرے ہیں جو کہتے ہیں مَیں نے بخاری رسول علیہ السّلام سے سبقًا سبقًا پڑھی ہے.جب قرءؔ کی بحث آئی تو مَیں نے عرض کیا یہ حَیض ہے یا رسول اﷲ ؟ تو فرمایااِذَا فَرَغَتْ مِنْ قَرْئٍ.مکرّر سہ کرر عرض کیا پھر بھی آپ نے یہی قرءؔ کا لفظ فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) قُرُؤٓ ئٍ: اِس کے معنوں میں اختلاف ہے طہر یا حیض.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۲) اِسلام نے عورت کو صاف اجازت دی ہے وہ بھی واقعاتِ ضروری کے پیش آنے پر مرد سے طلاق لے سکتی ہے.اسے اِسلام کی اِصطلاح میں خلع کہتے ہیں.بایں ہمہ خدا تعالیٰ کی کتاب فرماتی ہے ِ(البقرۃ:۲۲۹) اور عورتوں کے حقوق کی رعایت مردوں کے ذمّہ ایسی ہے جیسی کہ عورتوں پر مردوں کے حقوق کی.ہم نے تمام دُنیا کے قوانین اور آسمانی کتابوں میں وہ آزادی اور حقوق عورتوں کے نہیں دیکھے جو قرآن کریم میں بیان کئے ہیں.(نورالدین ایڈیشن سوم صفحہ ۲۲۰) نکاح کے فوائد دو قِسم کے ہوتے ہیں اوّل شخصی منافع.دومؔ نوعی مقاصد.شخصی منافع میں مثلاً۱.حفظِ صحت بعض بیماریوں میں.۲.آرام یاروغمگسار کے ساتھ ہونے کا.۳.قوائے شہوانی کے اقتضاء کا طرفین سے بِلا مزاحمت پورا ہونا.۴.ان قوائے انسانیہ کا نشوونما جن کے باعث انسان دوسرے سے تعلق پَیدا کرتا یا کِسی کا لحاظ کرتا ہے.۵.حِلم و مروّت و بُردباری کا اسی مدرسہ میں سبق حاصل ہوتا ہے امورِ خانہ داری کی اصلاح.حفظِ ننگ و ناموس و حفظِ مال و اسباب.نوعی مقاصد مثلاً حفظِ نوع، تربیتِ اولاد.کیونکہ بے تحقیق نطفوں کی علی العموم خبرگیری نہیں ہؤا کرتی.روسی شاہی خانہ زاد اوّل تو خصوصیّت سلطنت کے باعث مستثنیٰ ہیں پھر سوائے جنگی کاموں کی کیا تربیت پاتے ہیں.اِس لئے شادی کا حکم اوّل تو جسمی طاقت اور مالی وسعت پر صادر ہوا ہے.قرآن کریم میں آیا ہے (النور:۳۴) اور فرمایا  (الروم: ۲۲)اور فرمایا(البقرۃ:۲۲۴) پس عورت طلاق لے سکتی ہے ۱.اگر مرد اس کی نفسانی ضرورتوں کو پُورا نہ کر سکے.۲.قابل

Page 367

ولادت نہ ہو.۳.معاشرت کے نقائص رکھتا ہو.۴.نان و نفقہ نہ دے سکے.اِسی واسطے قرآن کریم میں ہے وَ لَا تُمْسِکُوْھُنّ ضِرَارًا.اور ان احکام کی عام تعمیل پر فرمایا وَ لَا تُضَارُّوْھُنَّ وَ لَا تَتَّخِذُوْا اٰیٰتِ اﷲِ ھُزُوًااِسی طرح مرد طلاق دے سکتا ہے.اگرعورت تقوٰی کے متعلق نفسانی اغراض پوری نہ کر سکے.قابلِ ولادت نہ ہو.معاشرت کے نقائص رکھتی ہو.نکاح کے منافع شخصیہ اور نوعیہ کی خلاف ورزی کرتی ہو.بدچلنی کے باعث فساد و مزاحمت کا باعث ہو.پھر کبھی طلاق فوری ہو سکتی ہے جیسے لِعان.واقعی ہم بستری سے پہلے وعدہ میں.اور کبھی تدریجی ہوتی ہے جیسے فہمائِش.مشروط طلاق اور مُنصفوں کے فیصلہ کے بعد.تعدّد ازواج پر.منع تعدّد ازواج کے نقصانات نمبر۱.عورتوں کے قتل کے واقعات ہوں گے.جب پہلی بی بی ناپسند ہو اور کوئی دوسری پسند آ جاوے تو ان بلا دو اقوام میں جن میں دوسری بی بی کرنا ممنوع ہے اور بایں قوم بہادر ہے پہلی کو مار دیں گے.نمبر۲ خود کشی ہو گی.جیسے آسٹریا کے ولی عہد کو یہ مصیبت پیش آئی جب پسندیدہ بی بی بیاہنے کی اجازت قانون اور قوم نے نہ دی.نمبر۳ یا بے غیرتی ہو گی.جیسے بعض… انڈین کے لئے پیش افتاد امر ہے کہ مرد دیکھتا ہے اور بول بہت مضبوط رکھتا ہے نمبر۴ یا آخر نیوگ کا فتوٰی ہو گا جیسا آریہ میں ہوا.نمبر۵ قطع نسل بعض حالتوں میں ضرور پیش آئے گا.نمبر۶ دختر کشی کی رسم اسی سے پَیدا ہوئی ہے کہ نہ لڑکیاں رہیں اور نہ مصائب پیش آئیں.نکتہ.ا.عورتوں مردوں میں ایک قدرتی فرق ہے عورت جبر سے بھی اپنا کام دے سکتی ہے بخلاف مرد کے.اِسی واسطے علی العموم عدالتوں میں زنا بالجبر کے مقدمات میں عورتیں ہی مدعی ہیں.نہ جوان مرد.۲.عورت کے بہت مرد ہوں تو اس کی صحت قطعًا نہ رہے گی.کنچنیوں کے حالات سے یہ تجربہ ہو سکتا ہے.۳.اس کے نطفۂ بے تحقیق کی پرورش مشکل ہو گی کون ذمّہ دار ہو گا.۴.ایک وقت میں اگر کئی طالب اس کے پیش ہو گئے تو مزاحمت اور جنگ ہو گا بشرطیکہ قوم باہمّت ہو.۵.قدرتی طور پر ایک عورت ایک برس میں ایک مرد کے نطفہ سے زیادہ چند مردوں کے نطفوں کے بچّے پیٹ میں نہیں رکھ سکتی اور ایک مرد چند عورتوں میں اپنے بچہ دِہ نطفہ رکھ سکتا ہے.یہ قدرتی اجازت تعدّدازواج کی معلوم ہوتی ہے.۶.قرار حمل میں مشکلات ہوں گے.وضع حمل کی ضرورتیں پیش آ جائیں گی اور حمل کے بعد مرد کو دیا نند جماع کی اجازت نہیں دیتے.اگر کثرت ازواج نہ ہو تو قومی مردوں کی جماعت میں ان کا فتوٰی کون سُنے گا.گو مجھے اب بھی یقین ہے کہ بیا ہے آریہ لوگ جن کی ایک

Page 368

بی بی ہے اور تندرست ہیں اس دیانندی فتوٰی پر عمل در آمد کم کرتے ہوں گے.ہاں البتہ حیوانات میں خود نَر حیوان اور ان کی مادہ حمل کے بعد ضرور متنفّر ہو جاتے ہیں مگر انسانوں میں یہ نیچر قابلِ غور ہے.(دیباچہ نور الدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۴۷ تا ۴۹)      طلاق ایک اِسلامی حکم ہے جو شریعت نے ضرور تًا جائز رکھا ہے کیونکہ بعض وقت جو حقیقی تعلق میاں بی بی کا ہے وہ قائم نہیں رہ سکتا اِسی لئے اس کو قطع کرنا پڑتا ہے وہ حقیقی تعلق آیت لِتَسْکُنُوْآ اِلَیْھَا(الروم:۲۲) میں مذکور ہے کہ تسکین ہوتی ہے.۲.مَوَدَّۃً دوستانہ بڑھانے کا ذریعہ ہے.۳.وَّرَحْمَۃً ۴.خانہ داری کا اِنتظام.عورت ایک بہت نازک صِنف ہے اور ہر طرح مدد کی محتاج ہے.وہ تعلیم میں مرد کی برابری نہیں کر سکتی کیونکہ حمل اور بچّہ کی پرورش اور منتھلی کورس کی کمزوری اس کے لا حقِ حال ہے.اسکے اعضا میں ایک قِسم کی نزاکت ہوتی ہے اور پھر بوجہ پَردہ عام طور سے اسے تجارب کا موقع نہیں ملتا.پس جب ہم دیکھتے ہیں کہ آنکھ کو اگر ذرا بھی دُکھ پہنچے تو ایڑی کے زخم سے اس کی زیادہ غور و

Page 369

پرداخت کی جاتی ہے تو پھر عورت کے چھوٹے سے چھوٹے دُکھ کی بھی کیوں نہ پرواہ کی جائے.بعض وقت میاں بی بی کے تعلقات میں اِس قِسم کی باتیں آ جاتی ہیں کہ ان میں کسی طرح اِصلاح نہیں ہو سکتی تو اس صورت میں بجائے اس کے کہ اس بے چاری کو دُکھ دیا جائے طلاق دینے کا ارشاد ہے مگر یکدم طلاق دینے کی اجازت نہیں.:طلاق دو بار ہے.پھر اس کے بعداِمْسَاکٌم بِمَعْرُوْفٍ رکھ لے تو پسندیدہ طور پر.تَسْرِیْحٌ م بِاِحْسَانٍیارخصت کر دے بہت سلوک سے.افسوس مسلمان اِس پر عمل نہیں کرتے اور یکدم سو طلاق دیتے ہیں حالانکہ طلاق متفرق طُہروں میں دینی چاہیئے.شَیْئًا: یہ تاکید کے لئے ہے کہ کچھ بھی واپس لینا جائز نہیں.فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ :عورت کچھ روپیہ دے کر مرد سے طلاق لے سکتی ہے.اِس کا نام خُلع ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) :: یکدم طلاق جائز نہیں.عہدِنبوی میں بہت سی طلاقیں یکدم ایک ہی سمجھی جاتیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۳)   :یہ تیسری طلاق کا ثبوت ہے.فَلَا تَحِلُّ لَہ‘:اس سے جو حلالہ کی بَد رسم جاری ہوئی وہ اِسلام کے لئے ننگ ہے.یہ حلالہ اس چیز کا نام ہے کہ موقّت نکاح کرتے ہیں.اِدھر نکاح و جماع اور صبح طلاق.پھر شوہر نکاح کر لیتا ہے.یہ بہت بُری رسم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 370

:حلالہ جائز نہیں اپنی مرضی سے طلاق دے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۳)      : مسلمانوں کو اِس سے عبرت پکڑنی چاہیئے.جو لوگ نہ عورتوں کو بساتے ہیں نہ چھوڑتے ہیں وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں اور خدا کے عذاب کے نیچے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)    

Page 371

:چونکہ جنگ میں بہت ہی قریب کے رشتہ دار مرد اور عورتیں موجود تھے اور طرفِ مخالف میں ان مسلمان عورتوں کے رشتہ دار بھی تھے اِس لئے بعض وقت یہ عورتیں نشوز بھی کر لیتی تھیں کیونکہ رشتہ داری کا معاملہ تھا اور پھر زَناشوئی کے تعلّقات پر اس کا اثر پڑتا تھا اِس لئے مجبورًا طلاق دینا پرتا تھا.اِس لئے جہاد کے بیان میں طلاق کے مسائل بیان ہو رہے ہیں.:یہ آیت ایک واقعہ کے بیان سے صاف ہو جائے گی وہ یہ کہ ایک شخص کی حقیقی بہن نے کسی کے ساتھ نکاح کیا.میاں بی بی میں ناموافقت ہوئی تو میاں نے طلاق دے دی مگر عدّت گزرنے سے پہلے اس نے پھر رجوع کر لیا.اِسی طرح کئی بار ہؤا کہ جب وہ وقت گزرنے کو آتا تو پھر وہ باہمی تعلقات کو جائز کر لیتا.آخر جب ایک دفعہ اس نے رجوع کرنا چاہا تو چونکہ قانونِ الہٰی کے مطابق پانچ جگہوں کی رضامندی حاصل کرنا پڑی تھی.اوّل قُرآن سے یہ دیکھا جاتا کہ تعلق جائز ہے یا نہیں.دومؔ.رسول صلّی اﷲ علیہ وسلّم کا عمل درآمد.سومؔ عورت کی رضامندی.چہارمؔ مُرد کی رضامندی.پنجم ؔ.عورت کے کنبہ کی.یعنی جو عورت کا ولی ہے اس کی رضامندی.اِس آخری شرط کے مطابق میاں نے اپنی بی بی سے مصالحت کے بعد پیغام بھیجا کہ چونکہ آپ کی رضامندی ضروری ہے اِس لئے آپ بیٹھیں تا یہ معاملہ طے ہو جائے.اِس پر اس نے بہنوئی کو سخت سُست کہلا بھیجا اور کہلا بھیجا اور کہا کہ مَیں ہرگز اپنی بہن کو اَب تجھ سے نکاح نہ کرنے دوں گا.اِس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جب میاں بیوی راضی ہیں تو تمہیں روکنا نہیں چاہیئے.ُ مذکورہ بالابیان سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ مخفی در مخفی نکاح یا عربی زبان میں عورتوں سے نکاح کر لینا شریعت نے جائز نہیں رکھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) :تو اَب نہ روکو اُن کو کہ نکاح کر لیں اپنے خاوندوں سے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۰) :اپنے پہلے خاوندوں سے.:عدّت پوری ہونے کے قریب ہو جائے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۳)

Page 372

       :چونکہ اکثر ایسی مطلّقہ بھی ہوتی تھیں جن کی گود میں بچّہ دُودھ پینے والا ہوتا اِس لئے دُودھ پلانے کے متعلق بھی فیصلہ ہونا چاہیئے تھا جو یہاں بیان کر دیا کہ اوّل تو مائیں ہی دُودھ پلائیں.:یہ بات خود یاد رکھو کہ اسلام جو قاعدہ سکھائے گا وہ انسان کے قوٰی روحانیہ و عقلیہ و مشاہدہ و تجربہ کے خلاف ہرگز نہ ہو گا.جس چیز کی برداشت انسان کی قوّت نہیں کر سکتی اس قوّت کے متعلق کوئی حکم نہ ہو گا.رمضان کا روزہ ہے تو بیمار و مسافر کے لئے حکم ہے کسی اَور دن میں رکھ لیں.ایسا ہی دُودھ پلانے والی اور حاملہ اور بُوڑھے آدمی کے لئے اجازت ہے کہ وہ

Page 373

کھانا دے دیا کرے کیونکہ اسے پھر رکھنے کی امّید نہیں.پھر نماز ہے اِس کے لئے اجازت ہے وضو کر کے نہیں پڑھ سکتے تو تیمم کر کے.اُٹھ کے نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کے پڑھ لیں.بیٹھ کر نہیں تو لیٹ کر.اِن سب باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ نے احکامِ شریعت میں انسان کی برداشت کو مدِّنظر رکھا ہے.اِسلام میں کوئی مسئلہ تثلیث کی مانند نہیں کہ ایک.ایک.ایک کو ایک ماننا پڑتا ہو.نہ کفّارہ کا مسئلہ ہے کہ بدی کا اِرتکاب کرے زیدؔ اور سزا دی جائے بکرؔ کو.نہ اس میں یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ انگور کا پانی اور روٹی واقعی مسیح کا لہو بن جاتا ہے نہ اس میں بُت پرستی ہے جو بہت ہی بودا عقیدہ ہے.کیونکہ جب کُل چیزیں انسان کی خام ہیں اور وہ مخدوم نہیں بن سکتیں تو معبود کِس طرح بن سکتی ہیں.باوجود اِس تعلیم کے مَیں نے اکثر بدمعاش شریر النّفس لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ بدکاری کے بعد یہ عُذر کرتے ہیں کہ خدا نے مجھ سے ایسا کروا دیا ؎ در کُوئے نیک نامی مارا گذر ندادند گر تُو نمے پسندی تغییر کُن قضارا اگر یہ جواب صحیح ہو تو پھر تمام رسالتیں باطل ٹھہرتی ہیں اِسی واسطے فرماتا ہے: .(البقرۃ ؔ ۲۸۷) :اگر دونوں باہمی رضامندی اور باہمی مشورہ سے دُودھ چھُڑا دیں تو کوئی گناہ نہیں.:بس اصل حقیقت تو یہ ہے کہ خواہ جہاد کے مسئلے ہوں یا تمدّن و معاشرت کے ، ان میں بہر حال تقوٰی مدِّ نظر رکھو.اب متّقی بننے کا ایک گُر بتایا.:جب تم کوئی کام کرو.کوئی بھی ہو.اصولاً تین نَوع میں کُل کام آ سکتے ہیں.غضب و انتقام ایکؔ.غرض دنیوی حرص دوؔ.شہوت شجاعت تینؔ.سب میں یہ بات یاد رکھو کہ تم پر کوئی حکمران اور نگران ہے.تمام افعال و اقوال میں اگرانسان اِس دستورالعمل کو نگاہ رکھے تو متّقی بن جاوے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)   

Page 374

:تین صورتیں ہیں ایکؔ تو یہ کہ حاملہ ہو.اِس صورت میں دوسرا نکاح نہ کرے جب تک بچّہ نہ جَن لے.دومؔ یہ کہ حاملہ نہ ہو اِس صورت میں چار ماہ دس دن انتظار کرے.بصورت فوتیدگی شوہر اور بصورت طلاق دینے کے.ثَلٰثَۃَ قُرُوْئٍیہ سب اِس لئے کہ شاید حمل ہو تو اس مدّت میں پتہ لگ جاتا ہے یا پچھلے تعلّقات زناشوئی کا لحاظ مقصود ہے.:بیوہ کے نکاحِ ثانی کے متعلق اکثر مسلمان تامّل کر تے ہیں.یہ رسم بہت ہی بُری رسم اور اﷲ اور اس کے رسول صلّی اﷲ علیہ وسلم کے احکام کے خلاف ہے.سادات میں سے وہ عورت جس پر کُل سادات کو فخر ہے جس سے سیّدوں کی اولاد چلی بیوہ تھی.مغول کی عظمت کا سلسلہ بھی جہاں سے شروع ہوتا ہے ان کے مورثِ اعلیٰ کی بیوی بھی بیوہ تھی جیسا کہ نسل بڑھانے کا عضو مرد کے ساتھ ہے عورت کے ساتھ بھی ہے.کھانے پینے پہننے کی خواہش اگر مرد میں ہے تو عورت میں بھی ہے.اگر عورت کسی کی سخت بیمار ہو تو مرد کو دوسرے نکاح کی فِکر پڑ جاتی ہے اور عورت کے مرنے پر تو کوئی مرد نہیں جو عزم کرلے مَیں نکاح نہیں کروں گا.اگر کوئی ایسا ہو تو مَیں اسے سلیم الفِطرت مرد نہیں سمجھتا.غرض نکاحِ ثانی سے مرد کی ناک نہیں کٹتی تو عورت کی کیوں کٹنے لگی.اِس بد رسم کا اثر مَیں نے اپنے طبّی پیشہ میں بہت دیکھا جہاں کئی شریف زادیاں اسقاطِ حمل کی دوائیاں پوچھتی پھرتی ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 375

: اِس حکم کی عدم تعمیل میں بھی بد ذاتی سے کام لیا گیا ہے اور اکثر مُلاّں باوجود اِس نصِّ پریح کے ایّامِ عدّت میں نکاح پڑھ دیتے ہیں.پوچھو تو کہتے ہیں صرف روک کے لئے تا کہیں کسی اَور جگہ نکاح نہ کرے.دیکھو کیسا بود اعذر ہے.بہر حال اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان حیلوں سے خلقت کے سامنے شاید عُہدہ برآ ہو جاؤ مگر خدا تمہارے دلی ارادوں اور منصوبوں کو خوب جانتا ہے اس کے غضب سے ڈرتے رہو.وہ اگرچہ بُردبار ہے مگر اس کی بُردباری یہ معنے نہیں رکھتی کہ وہ اپنے قانون کی خلاف ورزی پر باز پُرس نہ کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 376

باہمی نیکی ترک نہ کرو.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۳)   :جہاد کا مسئلہ تھا.اِس میں نماز کا ذکر بظاہر خلافِ ترتیب معلوم ہوتا ہے لیکن میرے نزدیک اصل ترتیب تو یہی تھی کہ جہاد کا ذکر ہو کیونکہ اوّل سے آخر تک یہی بیان چلا آتا ہے درمیان میں طلاق وغیرہ کے مسائل تو ضرورتاً آ گئے تھے اور صلوٰۃِ وسطٰی کی تاکید اس لئے فرمائی کہ جنگ دوپہر ڈھلنے کے وقت شروع ہوتا تھا اور ظہر و عصر کی نماز جمع کرنی پڑتی تھی اِس لئے اِس نماز کی خصوصیّت سے تاکید فرمائی کہ جنگی اشغال تمہیں نماز سے نہ روکیں.ایک صوفی نے اِس آیت میں ایک نکتہ لکھا ہے وہ یہ کہ اﷲ نے جہاد کے بیان میں خانہ داری کے امور کا بیان کرتے کرتے نماز کا بھی ذکر کر دیا گویا سمجھایا کہ جیسا ہم نے ان جہاد کے مسئلوں کے درمیان طلاق وغیرہ کے ضروری مسئلے بیان کر دیئے اسی طرح تم بڑے بڑے ضروری کاموں میں نماز کو درمیان رکھ لیا کرو اور اسے قضا نہ کر دینا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)

Page 377

:یہ بھی جہاد ہی کی بات ہے کیونکہ آخر مسلمان بھی مقتول ہوتے تھے.ان کی بیبیاں پیچھے رہ جاتیں.ان کے لئے وصیّت فرمائی کہ ایک سال تک نہ نکالی جاویں.یہ آیت چار ماہ دس دن کے حکم کے خلاف نہیں بلکہ وہ عدّت کی مدّت ہے جو عورت پر واجب ہے اور یہ بطور وصیّت اس متوفّی کے وارثوں کو حکم ہے کہ ایک سال تک اس بیوہ کو خرچ دیتے رہیں.:چونکہ لوگ بیوہ کے نکاح کے بارے میں کہتے ہیں یہ ہماری عزّت کے خلاف ہے.اِس لئے فرمایا کہ میرا نام عزیز ہے.مَیں سب سے زیادہ عزّت والا ہوں.مَیں یہ حکم دیتا ہوں اور لوگ کہتے ہیں کہ بیوہ کا نکاح نامناسب ہے.اِس لئے فرمایا ہم حکیم ہیں ہر قِسم کی حکمت کو خوب سمجھتے ہیں اِس لئے یہ حکم دیا جو نامناسب نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) :ایک سال تک خود نہ نکا لے گو وہ ۱۰ دن ۴ ماہ بعد اپنی مرضی سے نکل سکتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۳)    :اِس آیت کے متعلق بہت سے اختلاف ہیں مگر مَیں جو معنے کروں گا وہ کامل یقین اور پورے اِنشراح صدر کے ساتھ ہیں.اِسی آیت کے اخیر میں فرمایا ہے

Page 378

.اﷲ کے آدمی پر بڑے بڑے احسان ہیں.پہلے ہم کو انسان پَیدا کیا.اگر کُتّے اور سؤر بنا دیتا تو ہم کیا دخل دے سکتے تھے.پھر چُوہڑے چمار بنا دیتا تو ہم کیا دخل دے سکتے.پھر کمزور قوموں میں پیدا کر دیتا تو ہمارا کیا بس تھا.پھر ماں کے پیٹ سے نکل کر ہم پاگل ہو جاتے یا اندھے یا بہرے یا گونگے یا اپاہج تو ہمارا کیا زور تھا.دیکھو اس کا ہم پر کیسا فضل ہے کہ معدوم سے موجود کیا.موجود ہوئے تو آدمی بنایا.میرے ایک دوست ذلیل قوم سے تھے ان کو اِس بات کا رنج تھا.وہ مجھے کہتے جب ہم وہ پیشہ چھوڑ چکے جو ذات کا موجب تھا تو پھر لوگ ہمیں کیوں حقارت سے دیکھتے ہیں.مَیں نے کہا میرے نزدیک تمہارا ہی قصور ہے.یہ لقب تمہارا کسی تمہاری مخفی بدکاری کا نتیجہ ہے جو اِس زمین میں تم لوگوں نے کی.اگر تم اس لعنتی سر زمین کو چھوڑ کر سَو میل دُور چلے جاتے تو کم از کم لوگ تمہیں شیخ تو کہتے.اِس پر وہ بولا کہ یہاں ہماری حویلیاں ہیں یہ ہے وہ ہے.مَیں نے کہا معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تمہیں ان بدکاریوں سے کچھ تعلق ہے.یوسف علیہ السلام کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا پاک معاملہ تھا.جس ملک میں وہ رہتا (تھا) ان کے لئے ترقّی کے سامان نہ تھے.اﷲ نے انہیں ایک عجیب تدبیر سے مصرؔ پہنچایا.وہاں جب پہنچے تو ان کی نیکی نیک نیّتی، عاقبت اندیشی، علم و دیانت، شجاعت ایسی تھی کہ مقربانِ بارگاہِ بادشاہی سے بنا دیا.خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اَب بھی جو بچّہ ان خصلتوں کو لازم پکڑے گا ان مدارج کو پہنچے گا جن پر یوسف علیہ السلام پہنچایا گیا.چنانچہ سُورۂ یوسف (آیت:۲۳) میں فرماتا ہے.پس اِنہی حضرت یوسفؑ کے طفیل بنی اسرائیل مصرؔ میں آباد ہوئے.مَیں نے بارہا بتایا ہے کہ جب خدا کے فضل سے کوئی قوم مالدار اور آسُودہ حال ہوتی ہے اور اسے عزّت ، مکان، اولاد ،صحت و عافیّت ، جتھا مِل جاتا ہے تو وہ خدا کو بھُلا دیتی ہے.کبھی تو اس کے افراد علموں پر گھمنڈ کرتے ہیں چنانچہ ایک نے کہا (القصص:۷۹) ہم مولوی فاضل ہیں یا حکیم ہیں یا مدبّر ہیں اِس لئے ہم کو یہ کامیابی ہوئی اور کبھی مال و منال ،جاہ و جلال پر غرّہ کرتے ہیں.جب قوم کی یہ حالت ہو جاتی ہے تو پھر اس کا تنزّل شروع ہو جاتا ہے پھر بعض کی تو قطع نسل ہو جاتی ہے اور وہ بالکل بے نام و نشان ہو جاتے ہیں اور بعض حاکم سے محکوم بن جاتے ہیں اور ان کا نام عزّت سے نہیں لیا جاتا.بنی اسرائیل پر جب یہ زمانہ آیا تو وہ خدا کے احکام کو بھُول گئے اور خدا نے ان پر ذلّت و

Page 379

مسکنت لیس دی.بیگاروں میں پکڑے جاتے.پزاوے پکانے کا کام ان کے سپرد ہؤا.ایک صوفی لکھتا ہے کہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جب اس کے پیٹ میں دَرد ہو تو پہلے وہ اپنی تدبیروں سے کام لیتا ہے.مثلاً فاقہ کرتا.پھر گھر میں جو سیانا ہو اس کی رائے پر چلتا.پھر اپنے محلہ کے حکیم سے مشورہ لیتا ہے پھر اُس طبیب سے جو بڑا ہو.یہاں تک کہ پھر کسی اَور مشہور طبیب کی طرف رجوع کرتا ہے جو کسی دوسرے شہر میں ہو.آخر یہاں تک نوبت پہنچتی ہے کہ پھر وہ اس ملک کو چھوڑ کر محض علاج کی خاطر دوسرے ملک میں چلا جاتا ہے.جب وہاں بھی کچھ نہیں بنتا تو پھر کسی خدا رسیدہ کے قدموں پر گِرتا ہے.جب وہاں سے بھی مایوسی ہو تو پھر پکار اُٹھتا ہے (الانبیآء: ۸۸) تب خدا کی رحمت کادریا جوش مارتا ہے اور وہ اسے شفا دیتا ہے.اِسی طرح بنی اسرائیل کی حالت جب یہاں تک پہنچی تو انہوں نے خدا کے حضور تضرّع کیا اور موسٰی علیہ السّلام پیدا ہوئے.وہ انہیں اس مُلک سے نکال لائے وہاں ان کے لئے کیا تھا؟ (البقرہ:۵۰) اولاد کو ذبح کرنے اور عورتوں کو بے پَرد کرنے کی تجویزیں تھیں.پس یہ حَذَرَا لْمَوْتِتھا جس سے ہزارو ہزار اِس ملک سے نکلے.اب موسٰیؑ نے ان کو حکم دیا (المآئدۃ:۲۲) مگر انہوں نے بے اَدبی سے کہا کہ وہ زور آور ہیں ہم سے تو مقابلہ نہیں کیا جاتا جاؤ تم اور تمہارا خدا لڑو.اِس پر اﷲ نے فرمایا ہم نے تمہیں زندہ قوم بنانے کے لئے اپنے نبی کی معرفت یہ حکم دیا تھا نہیں مانتے تو جاؤ.مُوْتُوْا:ہلاک ہو جاؤ.اس پر ان پر وہ حالت طاری ہوئی جو ۶ پارہ سورہ مائدۃ رکوع ۴ میں درج ہے اور وہ موسٰیؑ کی دُعا کا اثر تھا جو انہوں نے اِن الفاظ میں کی.(المآئدۃ:۲۶) (المآئدۃ:۲۶ ) کہ چالیس سال خراب خستہ حال مارے مارے جنگلوں میں پھرتے رہیں.چنانچہ جب یہ لوگ جو بے اَدبی میں شامل تھے ہلاک ہو چکے اور چالیس سال میں ان کے بچّے جوان ہوئے یا وہ لوگ رہ گئے جو بے اَدبی میں شریک نہ تھے.ثُمَّ اَحْیَاھُمْ:ان کو زندہ قوم بنا دیا.

Page 380

ھُمْ:سے یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ وہی مَر کر زندہ ہوئے بلکہ متکلّم مخاطب غائب کا ضمیر اس کے مثیل کی طرف بھی پھرتا ہے.متکلّم کی مثال سُنئے.(اٰل عمران:۱۵۵)ہم اس جگہ مقتول نہ ہوتے.حالانکہ جو قتل ہو چکے ہیں وہ کِس طرح بول سکتے تھے.مراد اُن کے مثیل ہیں.مخاطب کی مثال  (البقرۃ:۵۶) غائب کی مثال  (فاطر:۱۲) جس کی عمر بڑھائی گئی اُسی کی گھٹانے کا ذکر بظاہر معلوم ہوتا ہے مراد اس کا مثیل ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)  :دشمن کا مقابلہ کرو مگر اعلائِ کلمۃ اﷲ کے لئے نفسانی غرض شامل نہ ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء)   :قرض کے لفظ پر بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ مسلمانوں کا خدا مُفلس ہے جو اپنی مخلوق سے قرض مانگتا ہے ایسے لوگوں کو کہنا چاہیئے کہ گورنمنٹ بھی بینک میں روپیہ لیتی ہے تو کیا وہ غریب ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ، ہرچہ گیرد علّتے عِلّت شود، کے ماتحت اِس لفظ کے معنے بھی ہمارے ملک میں آ کر بگڑ گئے.قرض کے معنے ہیں مال کا حِصّہ کاٹ کر دینا.مقراض اِسی سے نکلا ہے.پس اب اِن معنوں پر کوئی اعتراز نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر ۲۹ /اِپریل ۱۹۰۹ء نیز تشحیذ الاذہان جلد ۸ نمبر ۹)

Page 381

قرض کے معنی:اَلْقَرَضُ وَیُکْسَرُمَا ؔ۱ سَلَّفْتن مِنْ اِسَأَۃٍ اَوْ اِحْسَانٍ وَمَا ؔ۲ تُعْطِیْہِ لِتُقْضَاہُ.ؔ۳ وَاَقْرَضَہ‘ اَعْطَاہُ قَرْضًا.ؔ۴وَقَطَعَ لَہ‘ قِطْعَۃً یُجَازِیْ عَلَیْھَا(قاموس اللغۃ) پہلے معنی کے لحاظ سے ایسے فعل کا نام قرض ہے جس کا بدلہ ہم نے پانا ہے.یہ قرضہ دو قِسم کا ہؤا کرتا ہے.ایک بُرا اور ایک بھلا.اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہےَِ (الانعام:۱۶۱) یعنی کون ہے جو صرف اﷲ کے واسطے اچھے اعمال کرے.پس اﷲ تعالیٰ اس کو اس کا بڑھا کر اجر دے جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے(البقرۃ:۲۴۶) اﷲتعالیٰ اس دینے والے کو اس کے اجر میں بہت بڑھ اکر دیتے ہیں.یاد رکھو اﷲ تعالیٰ ہر ایک نیکی کا بدلہ بڑھ چڑھ کر دیتا ہے.دوسری ایک آیت اس کی تصریح کرتی ہے اور وہ یہ ہے   (البقرۃ:۲۶۲) ترجمہ: اﷲ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے کی مثال اُس دانہ کی ہے جس نے سات بالیاں نکالیں ہر بالی میں سَودا نے.اور اﷲ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھ چڑھ کر دیتا ہے… قرآن مجید میں صاف موجود ہے لَقَدْ کَفَرَالَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اﷲَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ سَنَکْتُبُ مَا قَالُوْا( اٰل عمران:۱۸۲) یعنی کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں.کیا معنی ؟ ہم ان کی بات کو محفوظ رکھیں گے.اور فرمایا ( فاطر:۱۶) اے لوگو تم اﷲ کے محتاج ہو اور اﷲ ہی غنی ہے… قرآنی صَداقتیں تو ہر جگہ اور ہر وقت نمایاں ہیں.کیا جو شخص پرامیسری نوٹ لیتا یا سیونگ بینک میں ایک غریب سُود خوار اپنا روپیہ رکھتا ہے ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ گورنمنٹ غریب ہے.ہرگز نہیں.رہی یہ بات کہ خدا کے سپرد کیا ہؤا مال بڑھتا ہے یا نہیں؟ اِس امر کی صداقت تمام جہان کو کھیتوں کے نظّارہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کہ ایک ایک دانہ سے کتنا غلّہ حاصل ہو جایا کرتا ہے.یہی مطلب ہے اِس آیت کا جس میں لکھا ہےَ (البقرۃ:۲۴۶)اس کا ترجمہ ہؤا.کون ہے جو اﷲ کے حضور اعلیٰ نیکی کرے ( یا اس کی رضا کے لئے مال دے) بڑھ کر دے گا اس کے لئے اﷲ لیتا ہے اور بڑھاتا ہے اور اسی کی طرف

Page 382

تم جاؤ گے اور بدلہ پاؤ گے.(نور الدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۲۰۹)    : سے صاف ظاہر ہے کہ پہلا واقعہ موسٰیؑ کے زمانہ کا ہے.: اس زمانہ میں جو رُوحانی بادشاہ ہوتا اُسے نابی۱؎ کہتے.اِس قصّہ میں اﷲ مسلمانوں کو سمجھاتا ہے کہ ایک وقت آئے گا تم میں بھی روحانی بادشاہ الگ ہو جاویں گے اور جسمانی الگ.چنانچہ ابوبکرؓ و عمرؓ مدینہ کی خلافت تک روحانی و جسمانی بادشاہ اکٹھے رہے پھر مَلِک ۲؎ الگ منتخب ہوتے رہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍اپریل ۱۹۰۹ء) تشحیذالاذہان جِلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۳)  ۱؎.عبانی زبان میں ۲؎ مَلِک: بادشاہ

Page 383

   : یہ بہت سوچنے کی بات ہے کہ خدا کے انتخاب پر آدمؑ سے تا ایں دم ایک اعتراض ہوتا چلا آیا ہے.پہلے آدم پر اعتراض کیا گیا پھر داؤد کا ذکر کہ دُشمن قلعہ کی دیواریں پھاند کر چڑھ آئے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے (صٓ :۲۷) ہماری سرکار پر بھی اعتراض ہؤا کہ قرآن (الزخرف:۳۲)پر کیوں نہ اُترا.پھر ہمارے امام پر بھی کم اعتراض نہ ہوئے.لوگ کہتے رہے کہ اَ لْآئِمَّۃُ مِنْ قُرَیْشٍ امامت بنو فاطمہ کا حق ہے.مُغلوں کو کیوں دی؟ ایک شخص نے مجھے کہا پنجاب کے ایک کور دِہ کا رہنے والا ہے.کم از کم دہلی کا تو ہوتا.جواب دیتا ہے کہ زَادَہ‘ بَسْطَۃً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِیہ علم و قوّت میں تم سے بڑھ کر ہے اس کو نہیں مانتے تو کم از کم یہ خیال تو کرو کہ اﷲ تم سے وسیع عِلم والا ہے اور یہ اس کا اِنتخاب ہے.وہ مالک ہے جسے چاہے سلطنت دے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۹؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 384

پھر ایک اَور نشان بتایا کہ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ تمہیں ایسے دل (قلب) عطا ہوں گے کہ ان میں تسلّی ہو گی.یعنی اس کے زمانے میں لوگوں کے قلوب میں ایک خاص سکینت و اطمینان نازل ہو گا.: اور یہ وہی قوّتِ قدسیہ کا اثر ہے جو موسٰیؑ و ہارونؑ کی اولاد میں ورثہ بہ ورثہ چلا آیا ہے کہ لوگ ان کے ساتھ آرام پاتے اور ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں اور خود بخود لوگوں کے دِل ان کی طرف رجوع کرتے ہیں.انہیں ایک خاص جذب دیا جاتا ہے.ان کی تقریر میں ایک خاص اثر ہوتا ہے.جب وہ کسی امر میں فیصلہ دیتے ہیں تو دشمن بھی اس وقت مان جاتے ہیں.:اِس میں کچھ شک نہیں کہ دلوں کا اُٹھانا فرشتوں کا کام ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔقادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) یَاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ:تابوت کے معنی دِل کے ہیں.نودی شرح مسلم میں اس کی شہادت ہے.بخاری میں ہے التّابُوت:القلب.قرآن حل کرتا ہے (الفتح:۵).فَاِنَّہ‘ مِنِّیْ.اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَامِنْککے معنی حل ہوتے ہیں.(تذکرۃ.ایشن چہارم صفحہ ۴۶۹) (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۳) اﷲ نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر کیا ہے.انہوں نے کہا ہم سب پر اسکی بادشاہی کیونکر ہو سکے گی بلکہ ہم اس کی نسبت بادشاہی کے زیادہ حقدار ہیں اور اس کے پاس مال کی طرف سے کوئی وسعت نہیں.اُس نے کہا اﷲ نے اسے تم پر چُن لیا اور اُسے علم و جسم دونوں میں کشائش دی ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۱۲۸)

Page 385

  جہاد کی کامیابی اِس بات پر منحصر ہے کہ فی سبیل اﷲ ہو اور سپاہی اپنے آفیسروں کی فرمانبرداری کریں.حدیثوں میں آیا ہے کہ بعض موقع پر امتحان لینا منع ہے لیکن اِس بات کی مثالیں بھی موجود ہیں کہ بعض موقعوں پر امتحان لے لینا چاہیئے.یہاں اِس صورتِ آخرہ کی مثال اِس آیت میں ہے … : ابتلاکہتے ہیں اس امر کو جس کے ذریعے فرمانبردار اور نافرماں بردار، کچّے اور پکّے میں اِمتیاز ہو جاوے.جب طالوت ایک فوج لے کر چلے تو کئی تماش بین بھی ساتھ ہو لئے اِس لئے آپ نے ایک امتحان میں ڈالاتا جو حقیقی فرمانبردار ہیں وہ میرے ساتھ رہیں.نَھَرٌ:اِس کے دو معنے ہیں ایک تو نہر.دومؔ آرام و آسائش.چنانچہ(القمر:۵۵) میں نَہَر کے معنے آسائِش کے ہیں.نَہْر کے معنے ہوں تو کیا متقی نہر میں ڈوبے رہیں گے؟ : اس جنگل میں شہد بہت تھا.پس جب نَھَرَ کے معنے آسائش

Page 386

کے ہوں تو اس سے مراد شہد کا پینا ہے.: ایک علم ہوتا ہے ایک عمل ؎ شنیدہ کَے بود مانندیدہ! لَیْسَ الْخَبْرُ کَالْمُعَایَنَۃِ! رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یوسفؑ کے معاملہ میں ( جب ان کے پاس چوبدار آیا کہ بادشاہ تمہیں بُلاتا ہے اور وہ نہ گئے ) فرمایا کہ اگر مَیں ہوتا تو چلا جاتا مگر خود جب مسجد سے قریب اپنی ایک بیوی کے ساتھ کھڑے تھے اور پاس سے کچھ آدمی گزرے تو آپ نے انہیں روک لیا اور کہا دیکھو یہ میری بیوی صفیہ ہے!! : یقین کرتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء)   : یہاں صبر کے معنے اِستقلال کے ہیں.حدیث میں صبر کی دعا منع ہے کیونکہ جو صبر مانگتا ہے ( گویا وہ.مرتّب) بَلا مانگتا ہے.ہاں ضرورت کے وقت استقلال کی دعا ممنوع نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍مئی ۱۹۰۹ء)   

Page 387

: یہ ایک مقام ہے جس پر بعض نادانوں کو تاریخی طور پر اعتراض کرنے کا موقع ملا.پہلا اعتراض یہ ہے کہ جس ندی پر آزمائش ہوئی تھی وہ جدعون کے زمانے کی بات ہے.جہاں داؤد جالوت کی لڑائی کا ذِکر ہے وہاں ندی کا ذکر نہیں بلکہ جدعون اور طالوت میں ۱۵۶ سال کا فرق ہے.دوسرا اعتراض تابُوتِ سکینہ کے متعلق کہ داؤد اور جالُوت کی لرائی سے بیس سال پہلے عمالیق لوگ صندوق لے گئے تھے.ان میں مَری پڑ گئی تو ان کو وہم ہو گیا کہ ہو نہ ہو اسی صندوق کی نحوست ہے اِس لئے انہوں نے اس صندوق کو ایک چھکڑے پر لاد کر بَیلوں کو ہانک دیا.ساؤل ایک شخص تھا.اس کی زمین پر یہ چھکڑا جا ٹھہرا.کہتے ہیں یہ بیس برس پہلے کی بات ہے.تیسرا اعتراض.کوئی ندی وہاں نہ تھی جہاں داؤد و جالُوت کی لڑائی ہوئی.اِن تینوں اعتراضوں کے جواب میں یہ کہتا ہوں کہ ہم نَھَر کے معنے آرام و آسائش کرتے ہیں.پس ندی کے موجود نہ ہونے کا اعتراض ختم ہؤا.دومؔ یہ کہ یہ باتیں تم نے سموئیل کی کتاب باب ۱۷ سے لی ہیں اسی سموئیل کے باب۹،۱۰ میں لکھا ہے کہ داؤد بربط نوازوں میں نوکر تھا.پھر لکھا ہے کہ داؤد اپنے بھائی کی روٹی لیکر آیا وہاں ایک عملیقی کے ساتھ جھگڑا دیکھا.یہ نوجوان تھے بول اُٹھے.مَیں اس کا مقابلہ کرتا ہوں.اس پر سُموئیل نے کہا کہ یہ کون ہے.دیکھئے.پہلے تو اسے بربط نواز بتایا پھر یہ کہ بادشاہ کو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کون ہے.پھر لکھا ہے کہ اس نے کہا جو نامختون سے مقابلہ کرے مَیں اُسے لڑکی دوں گا اور (پھر) اپنی زِرہ نکال کر دی.اِس اختلاف کو دیکھ کر محقّقینِ یورپ نے فیصلہ دیا ہے کہ سموئیل کا باب ۱۷ الحاقی ہے.پس جن کی اصلیّت خود ہی مُشتبہ ہے ان سے قرآن پر اعتراض صحیح نہیں.پھر ہم پوچھتے ہیں تمہاری تاریخوں میں طالوت کا لفظ کہاں ہے؟ پس یہ کہنا کہ اس کا نام ساؤل تھا یا نہ تھا فضول ہے کیونکہ قرآن شریف نے ان میں سے کسی کا نام ہی نہیں لیا.جہاں طالوت کا ذکر ہے وہاں جالُوت کا نہیں اور جہاں جالُوت کا ہے وہاں طالوت کا نہیں.پس دونوں کا زمانہ متحد کہاں سے ثابت ہؤا.پھر ہم کہتے ہیں طالوت کے معنے ہیں لمبے قد والا.بائبل میں بھی لمبے قد والا ہی لکھا ہے.پس یہ نام نہیں.ایسا ہی جالوت اس کو کہتے ہیں

Page 388

جو میدان میں جولان کرے.پس اِس طرح کوئی اعتراض نہیں رہتا کیونکہ یہاں کسی کا نام ہے ہی نہیں.پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ داؤد کا مقابلہ جہاں ہوا وہاں شورقؔ نام ندی ہے.پُرانے جغرافیے جو ہیں ان میں اس کا موقع موجود ہے.پھر آخری فیصلہ کے طور پر ہم کہتے ہیں کہ تمام صحیح قُرآنوں میں فَھَزَمُوْھُم بِاذْنِ اﷲِپر وقف ہے.پس وہ قصّہ الگ ہے اور یہ الگ.:کئی موقع پر مَیں اِس کی تفصیل کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے خود اپنی مرضی سے جہان میں اختلاف رکھا ہے اور اسی پر کارگاہِ عالَم کا دارومدار ہے.اگر جہان میں سب اِسی خیال کے ہوں کہ بھنگی کا کسب بُرا ہے تو اعلیٰ قوموں کی زندگی و بالِ جان ہو جاتی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) یہاں (فَھَزَ مُوْھُمْ بِاِذْنِ اﷲِ کے بعد.مرتّب) وقف لکھا ہے اور اِس بات کا اشارہ ہے کہ قِصّہ تمام ہؤا اور آگے اَور قصّہ شروع کیا.قَتَلَ دَاؤدُ جَالُوْتَ:ایک میدان میں آنے والے کو داؤد نے بھی قتل کیا تھا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۳) قَتَلَ دَاؤدُ جَالُوْتَ:عربی میں غالبًا جب نکرے کا اعادہ ہوتا ہے تو وہ پہلا مراد نہیں ہوتا.(فصل الخطاب (ایڈیشن دوم) جلد اوّل صفحہ ۲ ۱)

Page 389

:کلام تو سب پیغمبروں سے ہؤا مگر بعض کو مخصوص، بوجہ کثرت کلام کیا.:کُھلی باتیں.عیٰسیؑ کی تعلیم اخلاق کی تھی اور اخلاقی رنگ کا وعظ ہر مذہب میں مقبول ہوتا ہے اِس لئے اسیبَیِّنٰت فرمایا.:اس اخلاقی تعلیم کو اپنے پاک کلام سے مؤیّد کیا.رُوح القدس کبھی کلام لانے والے فرشتے کو بھی کہتے ہیں مگر عام معنے یہی ہیں.پاک کلام.قرآن شریف میں ہے  (الشّورٰی:۵۳) ایک دوسری جگہ فرمایا (النحل:۳) :یعنی اگر کوئی لڑائی کرتا تو ہم اس کے ہاتھ کوشل کر دیتے.بَدزبانی کرتا تو زبان بند کر دیتے.مگر بندوں کو اﷲ نے نہ مجبور پَیدا کیا اور نہ ان کے اختیارات کو چھینا بلکہ مَقدرَت عطا کی ہے.:جب خدا نے جبر نہ کیا.اختیارات نہ چھینے تو ان لوگوں نے تو اس مقدرت کے سبب شرارتیں کیں.ہم زور سے کام لیتے تو وہ نہ لڑتے مگر جب ہم نے ہدایت پر مجبور نہ کیا تو لڑنے اور گمراہی پر کیوں مجبور کرنے لگے.:مگر کچھ ایسے تھے جنہوں نے ایمان کے مطابق عمل کیا.:بعض ایسے تھے جنہوں نے امن میں خلل ڈالا.امن کی تعلیم کا انکار کیا.:جنابِ الہٰی تو ایسی طاقت رکھتے ہیں کہ ان لوگوں کو یہ قدرت

Page 390

نہ دیتے.مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ وہ جبر کرنے والا نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) فَضَّلْنَا:بحث فضیلت باعتبار تعلّقاتِ روحانی و خدماتِ دینی.اﷲ کو علم ہے.اٰتَیْنَا عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ:یہ سورۃ مدنی ہے.یہود کے خلاف مسیحؑ کی فضیلت کا اظہار ضروری تھا.بِرُوْحِ الْقُدُسِ: کلامِ پاک وَلَوْشَآئَ اﷲُ:جبراً.مگر اﷲ نے اِنسان کے ایسے قوٰی بنائے ہیں کہ وہ اپنی مَقدرَت سے بعض کام کرتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۳،۴۴۴)   :ایک دِن ایسا آنے والا ہے کہ وہاں نہ کوئی نئی بیع ہو سکے گی نہ خلّت نہ شفاعت.یہاں بیع ، خلّت ، شفاعت کی مطلق نفی ہرگز نہیں ہے.عربی میں لَا دو طرح کے آتے ہیں.ایک وہ جس کے بعد تنوین آتی ہے اور ایک وہ جس کے بعد تنوین نہیں آتی.پہلے کی مثال یہی آیت ہے اور دوسرے کی مثال(البقرۃ:۱۹۸)اِن دونوں لَا میں فرق ہے.تنوین نہ ہو تو اس کے معنے ہیں’’ بالکل نہیں.‘‘ لَا نفی جنس کا ہے اور اگر تنوین ہو تو اس سے مراد ہے بعض صورتوں میں نہیں.یہ لَا مشبّہ بہ لَیْسَہے.اَب چونکہ یہاں تنوین ہے اِس لئے یہاں بیع کی مطلق نفی نہیں.اِسی لئے دوسرے مقام پر فرمایا(التوبۃ:۱۱۱)اور نہخُلَّۃ کی مطلق نفی ہے.چنانچہ فرمایا

Page 391

(الزخرف:۶۸)اور نہشفاعۃ کی چنانچہ اس سے آگیااِلَّا بِاِذْنِہٖ آتا ہے.وَالْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ:کافر اپنی جان پر بھی ظلم کرتا ہے اور دوسروں پر بھی.(اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ:یہ کافر کے لئے ہے کیونکہ دوسرے مقام پر (التوبۃ:۱۱۱) ۲.(الزخرف:۶۸) ۳.اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَ ھُمْ یَعْلَمُوْنَ.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۴)      :معبود وہی ہے جس کی بات کو مانا جائے.پس اس کی فرمانبرداری کرو.:حافظ و ناصر.:کِسی شخص نے اِعتراض کیا تھا کہ اُونگھ سے کیا نقصان ہو سکتا ہے؟ اس کے ہاتھ میں دو شیشے دیئے گئے اور کہا گیا کہ تم اس کی حفاظت کرو.جب اسے نیند کا غلبہ ہوا تو اس نے

Page 392

اپنے تئیں بہت روکا.مگر اُونگھ جو آئی دونوں شیشے آپس میں ٹکّر کھا کر ٹوٹ گئے.:کُرسی کے معنے علم کے ہیں.بخاری میں یہ معنے موجود ہیں.ایک شِعر بھی یاد آ گیا ؎ تحف بہٖ بیض الوجوہ و عصبۃ کراسِیَّ بالاحداث حین تنوب (اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) ہماری مکرّم کتاب صحیح بخاری میں جسے ہم کتاب اﷲ کے بعد اَصح الکتب مانتے ہیں لکھا ہے  عِلْمُہ‘یعنی کُرسی کے معنے علم کے ہیں.پس معنیکُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (البقرۃ:۲۵۶)یہ ہوئے کہ اﷲ تعالیٰ کا عِلم تمام بلندیوں اور زمینوں کو وسیع اور محیط ہو رہا ہے.(نور الدین ایڈیشن سوم صفحہ ۹۴) ہرایک عیب سے پاک.تمام صفاتِ کاملہ کے ساتھ موصوف.جس کا نام ہے اﷲ.اس کے بغیر کوئی بھی پرستش و فرمانبرداری کا مستحق نہیں.دائم اور باقی تمام موجودات کا مدبّر اور حافظ جس کو کبھی سُستی،اُونگھ اور نیند نہ ہو.اُسی کے تصرّف اور مِلک اور خلق میں ہیں.آسمان و زمین اُسی کی ہستی اور یکتائی کو ثابت کرتے ہیں.کوئی بھی نہیں کہ اس کی کبریائی، عظمت کے باعث اس پاک ذات کی پروانگی کے سوا کِسی کی سپارش بھی کر سکے.پس کسی کو مقابلہ و حمایت کی تو کیا سَکت ہو گی.وہ جانتا ہے تمام جو کچھ آگے ہو گا اور جو کچھ گذر چکا ہے.موجودات کی نسبت کیا کہنا ہے.کوئی بھی اس کے علم سے کِسی چیز کا اس کی مشیّت کے سوا احاطہ نہیں کر سکتا.اس کا کامل علم آسمانوں اور زمینوں پر حاوی ہے اور وہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت سے کبھی نہیں تھکتا.وہ شریک اور جوڑ سے بلند ہے.(تصدیق براہینِ احمدیہ صفحہ ۲۵۳،۲۵۴)

Page 393

    :ایک انبیاء کی راہ ہوتی ہے ایک بادشاہوں کی.انبیاء کا یہ قاعدہ نہیں ہوتا کہ وہ ظلم و جَورو تعدّی سے کام لیں.ہاں بادشاہ جبرواکراہ سے کام لیتے ہیں.پولیس اس وقت گرفت کر سکتی ے جب کوئی گناہ کا اِرتکاب کر دے مگر مذہب گناہ کے ارادہ کو بھی روکتا ہے.پس جب مذہب کی حکومت کو آدمی مان لیتا ہے تو پولیس کی حکومت اس کی پرہیزگاری کے لئے ضروری نہیں ہوتی.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جبرواِکراہ کا تعلق مذہب سے نہیں.پس کِسی کو جبر سے مت داخل کرو کیونکہ جو دل سے مومن نہیں ہوا وہ ضرور منافق ہے.شریعت نے منافق اور کافر کو ایک ہی رسّی میں جکڑا ہے.غلطی سے ایسی کہانیاں مشہور ہو گئی ہیں کہ اِسلام بزور شمشیر پھیلایا گیا ہے.بھلا خیال تو کرو اگر اسلام میں جبر جائز ہوتا تو ہندوستان میں اِتنے سَو سال حکومت رہی پھر یہ ہزاروں برسوں کے مندر، شوالے اور پُستکیں کیوں موجود پائی جاتیں؟ عالمگیر کو بھی الزام دیتے ہیں کہ وہ ظالم تھا اور بالجبر مسلمان کرتا.یہ کسی بیہُودہ بات ہے.اس کی فوج کے سپہ سالار ایک ہندوتھے.بڑا حِصّہ اس کی عمر کا اپنے بھائیوں سے لڑتے گزرا.اس کی موت بھی تاناشاہ کے مقابل میں ہوئی.پھر اسلام بادشاہوں کے افعال کا ذمّہ دار نہیں.مسلمانوں نے یہی غلطی کی کہ معترضین کے مفتریات کو تسلیم کر لیا حالانکہ اِسلام دِلی محبّت و اخلاق سے حق بات ماننے کا نام ہے.اِسی لئے اِسلام میں جبر نہیں.یہ آیت ضروری یاد رکھنی چاہیئے.اِسلام میں ہرگز اِکراہ نہیں.چنانچہ پارہ گیارہ رکوع۱۰ میں فرماتا ہے  (یونس:۱۰۰) :رُشد کہتے ہیںاِصَابَۃُ الْحَقِّ وَ الصَّوَابِ یعنی واقعی بات کو پا لینا اور حق تک پہنچ جانا.غَیّکہتے ہیں اس حق وصواب کی جگہ سے رُک جانے کو.اِسلام کے چند اصول بیان کرتا ہوں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں رُشد و غیّ کو کیا امتیاز سے بیان کیا ہے.فرمایا.شرک نہ کرو.وعید بتلایا.(النّسآء:۴۹) کوئی حضرت مسیحؑ کو پُوجے یا امام حسینؓ یا سیّد عبدالقادر جیلانی کو یا درخت یا تالاب.پہاڑ.جانور کو سب برابر ہیں کیونکہ یہ سب چیزیں خادم ہیں(الجاثیہ:۱۴)پس جو مخدوم ہونے کی بھی حیثیّت نہیں رکھتی وہ تمہاری معبود کِس طرح بن سکتی ہے.انجیلؔ.ویدؔ.ژندوستاؔبدھؔ کی تعلیم میں مَیں نے عظمتِ الہٰی کی یہ راہیں ہرگز نہیں پائیں.قرآن کا ایک رکوع مسلمانوں کو توحید

Page 394

کا سبق دیتا ہے پھر بھی اگریہ شرک میں گرفتار رہیں تو ان کی بَد قِسمتی.کیا خوب فرمایا   (الاعراف:۱۴۱) تم خود جہاں والوںسے افضل اور پھر انہی میں سے کوئی چیز تمہاری معبود بنے؟ پھر اِسلام میں عام اخلاق کی نسبت دیکھو کہ شراب سے بڑی سختی کے ساتھ منع کیا کیونکہ یہ سب بُرائیوں کی جَڑ ہے.ایک شخص ایک عورت پر عاشق ہو گیا.اس نے کہا وصل کی شرط میں اس بُت کی پرستش کرو.۲.خاوند کو قتل کر دو.شراب پی لو.اس نے کہا کہ ایک شراب پینا مان لیتا ہوں باقی بہت خوفناک گناہ کے افعال مَیں نہ کروں گا.جب شراب پی تو پھر دوسری چیزوں کا بھی مرتکب ہو گیا.اِسلام کا تیسرا اصول پَردے کی تعلیم ہے.مَیں نے کسی کتاب میں جو خدا کی طرف منسُوب کی جاتی ہے یہ تعلیم نہیں پائی. اور(النّور:۳۱،۳۲) مومن مرد اور عورتیں نیچی اور نیم باز نگاہیں رکھنے کی عادت ڈالیں.دیکھا جماع الاثم(خمر) اور حبائل الشیطان ( عورت ) سے کِس طرح روکا.پھر نماز کی تاکید کی.جو شخص پانچ نمازوں کا پابند ہے وہ کبیرہ گناہ شراب وغیرہ کا اِرتکاب بھی نہیں کرے گا.پھر اسلام میں مالِ حرام سے ممانعت کی.سراب وغیرہ کا پینا مالِ کثیر پر موقوف ہے اور مالِ کثیر زیادہ تر طریقِ حرام ہی سے آتا ہے اِس لئے منع کیا.نبی کریم پلی ا علیہ وسلم کی دُعا ہے اَللّٰھُمَّ ارْزُقْ اٰلَ مُحَمَّدٍ قُوْتًا.پھر اسلام میں جزا و سزا کا مسئلہ ہے.یہ بھی کُل گناہوں سے روکنے والا ہے.پھر اسلام کا یہ اصل کہ وہ تمام پسندیدہ امور کے کرنے اور قبیحہ امور کے نہ کرنے کی ہدایت کرتا ہے.حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک موقع پر فرما رہے تھے (اٰل عمران:۱۱۱) ایک قوم نے اپنا سفیر واسطے تحقیق دینِ اسلام کے بھیجا تھا وہ یہ کلمہ سمنتے ہی واپس گیا اور اپنی قوم سے جا کر کہا سب مسلمان ہو جاؤ.وہ حیران ہوئے تو اس نے بتایا کہ جس مذہب کا اصل امر بالمعروف ،نہی عن المنکر ہو وہ کیونکر بُرا ہو سکتا ہے بلکہ اس میں نہ داخل ہونے والا بُرا ہے.: طاغوت طغووت سے نکلاہے.حدبندی سے آگے بڑھنے والے کو طاغی کہتے ہیں.سَیلاب کو بھی طُغیانی اِسی لئے کہتے ہیں کہ پانی ندی کی حدِ مقررہ سے باہر نکل کر اُچھلتا ہے.شریعت نے ہر بات کے لئے حد رکھی ہے پس جو اس حد سے نکلا ہے وہ طاغی ہوا اور جو

Page 395

تمام حدبندیوں کو توڑ کر نِکل جاوے وہ طاغوت کہلاتا ہے.پس جو حضرت حق سُبحانہ‘ کا، جو منزّہ ہے تمام عیوب و نقائص سے اور جامع ہے کمالات و خوبیوں کا ، فرمانبردار ہو تو فَقَدِا سْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیاُس نے بڑی مضبوط پکڑنے کی چیز کو پکڑا.عُروہ کہتے ہیں پکڑنے کی چیز کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان۶؍مئی ۱۹۰۹ء) : دین کے معاملہ میں جبر نہیں.وہ کھُلی چیز ہے.رُشد اور غیّ الگ الگ چیزیں ہیں.رُشد اختیار کرنے اور غیّ کے چھوڑنے میں کسی اِکراہ کی ضرورت نہیں.اِس آیت میں تین لفظ ہیں دین،رُشد اورغیّ.الدِّیْن:اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو دین کی توضیح اور تفسیر فرمائی ہے وہ یہ ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَام.اﷲ تعالیٰ کے حضور دین کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟ اَلْاِسْلَام اپنی ساری قوّتوں اور طاقتوں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کافرمانبردار ہو جائے.اﷲ تعالیٰ کے فرمان کو لے اور اس پر رُوح اور راستی سے عمل در آمد کرے.دین کے متعلق جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور سوال کیا ہے اور آپ صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو بلکہ ہم کو آگاہ کیا ہے کہ یہ جبرائیل تھا.اَتَاکُمْ لِیُعَلِّمَکُمْ دِیْنَکُمْ.پس دین کی حقیقت اور اس کا صحیح اور سچّا مفہوم وہ ہو گا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس وقت بیان فرمایا.الاسلام کے معنے یہ ہیں.سر رکھ دینا.جان سے.دِل سے.اعضاء سے.مال سے.غرض ہر پہلو اور ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری کرنا.دین کے لئے اﷲ تعالیٰ نے بہت سی چیزیں عطا فرمائی ہیں جن کے ذریعہ ہم اس کی کامل اطاعت، فرمان پذیری اور وفاداری کا اِظہار کر سکتے ہیں اور پھر ان کے وراء الورا اندر ہی اندر قوٰی پر حکمرانی کر سکتے ہیں اور ان کو الٰہی فرمانبرداری میں لگا سکتے ہیں.غرض دین کی اصل حقیقت جو قرآن شریف نے بتائی ہے وہ مختصر الفاظ میں کامل وفاداری ، سچّی اطاعت اور اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری ہے.الدّین کا پہلا رُکن یعنی الایمان.پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جبرائیل کے توسّط سے جو کچھ صحابہ کو اور ہم کو سکھایا ہے وہ ان سوالات میں بیان ہؤا ہے جو صحابہ کی موجودگی میں جبرائیل نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کئے اور جن کی اصل غرضلِیُعَلِّمَکُمْ دِیْنَکُمْ تھی.ان میں سے پہلا یہ ہے.مَاالْاِیْمَانُ؟یا رسول اﷲ! ایمان کِس چیز کا نام ہے ؟ فرمایا اَنْ تُؤْمِنَ بِاﷲِایمان کی عظیم الشّان اور پہلی جُزو ایمان بِاﷲ ہے اور یہ بالکل سچّی بات ہے کہ ایمان کا سر چشمہ اور اس کی ابتدا اﷲ پر یقین کرنے سے شروع ہوتی ہے.ایمان بِاﷲ کیا چیز ہے؟ اﷲ تعالیٰ کو جمیع صفاتِ

Page 396

کاملہ سے موصوف اور تمام محامد اور اسمائِ حسنیٰ کا مجموعہ اور مسمّٰی اور تمام بدیوں اور نقائص سے منزَّہ یقین کرنا اور اس کے سوا کِسی شئی سے کوئی امّید و بیم نہ رکھنا اور کسی کو اس کا ندّ اور شریک نہ ماننا یہ ایمان باﷲ ہے.جب اِنسان اﷲ تعالیٰ کو ان صفات سے موصوف یقین کرتا ہے تو ایسے خدا سے وہی قُرب اور تعلق پَیدا ہو سکتا ہے جو خوبیوں سے موصوف اور بَدیوں سے پاک ہو گا.پس جس جس قدر انسان فضائل کو حاصل کرتا اور زائل کو ترک کرتا ہے اسی قدر وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور اپنے قُرب کے مدارج اور مراتب کو بڑھاتا اور اﷲ تعالیٰ کی ولایت میں آتا جاتا ہے کیونکہ پاک کو گندے کے ساتھ قُرب کی نسبت نہیں ہو سکتی اور جُوں جُوں رذائل کی طرف جھُکتا اور فضائل سے ہٹتا ہے اسی قدر اﷲ تعالیٰ کے قُرب سے محروم ہو کر اُس کے فیضانِ ولایت سے دُور اور مہجور ہوتا جاتا ہے.یہ ایک قابلِ غور اصل ہے اور اس کو کبھی بھی ہاتھ سے دینا نہیں چاہیئے.صفاتِ الہٰی پر غور کرو اور وہی صفات اپنے اندر پَیدا کرو نتیجہ یہ ہو گا کہ قُربِ الہٰی کی راہ قریب تر ہوتی جائے گی اور اس کی قدّو سیت اور سبحانیت تمہاری پاکیزگی اور طہارت کو اپنی طرف جذب کرے گی.بہت سے لوگ اِس قِسم کے ہیں جو خود ناپاک اور گندی زیست رکھتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ کیوں ہم کو قُربِ الہٰی حاصل نہیں ہوتا.وہ نادان نہیں جانتے کہ ایسے لوگوں کو قُربِ الہٰی کیونکر حاصل ہو جو اپنے اندر پاکیزگی اور طہارت پَیدا نہیں کرتے.قدّوس خدا ایک ناپاک اِنسان سے کیسے تعلق پَیدا کرے؟ ایمان بِالملائکہ کی فلاسفی ایمان بِاﷲ کے بعد دوسری جُزو ایمان کی ایمان بِالملائکہ ہے.ایمان بالملائکہ کے متعلق مجھے اﷲ تعالیٰ نے یُوں سمجھ دی ہے کہ اِنسان کے دِل پر ہر وقت مَلک اور شیطان نظر رکھتے ہیں اور یہ امر ایسا واضح اور صاف ہے کہ اگر غور کرنے والی فطرت اور طبیعت رکھنے والا اِنسان ہو تو بہت جلد اس کو سمجھ لیتا ہے بلکہ موٹی عقل کے آدمی بھی معلوم کر سکتے ہیں اور وہ اِس طرح پر کہ بعض وقت یکایک بیٹھے بٹھائے اِنسان کے دِل میں نیکی کی تحریک ہوتی ہے یہاں تک کہ ایسے وقت بھی تحریک ہو جاتی ہے جبکہ وہ کسی بڑی بَدی اور بدکاری میں مصروف ہو.مَیں نے اِن امور پر مدّتوں غور کی اور سوچا ہے اور ہر ایک شخص اپنے دل کی مختلف کیفیّتوں اور حالتوں سے آگاہ ہے.وہ دیکھتا ہے کہ کبھی اندر ہی اندر کسی خطرناک بدی کی تحریک ہو رہی ہے اور پھر محسوس کرتا ہے کہ معًادِل میں رِقّت اور نیکی کی تحریک کا اثر پاتا ہے.یہ تحریکات نیک یا بَد جو ہوتی ہیں بدُوں کِسی مُحرِّک کے تو ہو نہیں سکتی ہیں.پس یہ وہی بات ہے جو مَیں نے ابھی کہی ہے کہ انسان کے دِل کی

Page 397

طرف ملائکہ اور شیاطین نظر رکھتے ہیں.پس ایمان بالملائکہ کی اصل غرض یہ ہے کہ ہر نیکی کی تحریک پر جو ملائکہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے کبھی کسل و کاہلی سے کام نہ لے اور فورًا اس پر عمل کرنے کو تیار ہو جائے اور توجّہ کرے.اگر ایسا نہ کرے گا تووَاعْلَمُوْآ اَنَّ اﷲَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ کامِصداق ہو کر پھر نیکی کی توفیق سے بتدریج محروم ہو جائے گا.قُربِ الہٰی کا دوسرا ذریعہ یہ پکّی بات ہے کہ جب انسان نیکی کی تحریکوں کو ضائع کرتا ہے تو پھر وہ طاقت، وقت، فرصت اور موقع نہیں ملتا.اگر انسان اسی وقت متوجّہ ہو جاوے تو معًا نیک خیال کی تحریک ہوتی ہے.چونکہ اِس خواہش کا محرّک محض فضلِ الہٰی سے مَلَک ہوتا ہے جب اِنسان اس کی تحریک پر کار بند ہوتا ہے تو پھر اس فرشتہ اور اس کی جماعت کا تعلق بڑھتا ہے اور پھر اس جماعت سے اعلیٰ ملائکہ کا تعلق بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ کا قُرب حاصل ہو جاتا ہے.ایک حدیث میں صاف آیا ہے کہ جب اﷲ تعالیٰ کِسی سے پیار کرتا ہے تو جبرائیل کو آگاہ کرتا ہے تو وہ جبرائیل اور اس کی جماعت کا محبوب ہوتا ہے اِسی طرح پر درجہ بدرجہ وہ محبوب اور مقبول ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ زمین میں مقبول ہو جاتا ہے.یہ حدیث اسی اصل اور راز کی حل کرنے والی ہے جو مَیں نے بیان کیا ہے.ایمان بِالملائکہ کی حقیقت پر غور نہیں کی گئی اور اس کو ایک معمولی بات سمجھ لیا جاتا ہے.یاد رکھو کہ ملائکہ کی پاک تحریکوں پر کار بند ہونے سے نیکیوں میں ترقّی ہوتی ہے یہاںتک کہ انسان اﷲ تعالیٰ کا قُرب اور دُنیا میں قبول حاصل کرتا ہے.اسی طرح پر جیسے نیکیوں کی تحریک ہوتی ہے مَیں نے کہا کہ بدیوں کی بھی تحریک ہوتی ہے.اگر انسان اس وقت تعوّذ، استغفار سے کام نہ لے.دعائیں نہ مانگے.لاحَول نہ پڑھے تو بَدی کی تحریک اپنا اثر کرتی ہے اور بَدیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.پس جیسے یہ ضروری ہے کہ ہر نیک تحریک کے ہوتے ہی اس پر کاربند ہونے کی سعی کرے اور سُستی اور کاہلی سے کام نہ لے یہ بھی ضروری ہے کہ ہر بَد تحریک پر فی الفور استغفار کرے، لاحَول پڑھے، درُود شریف پڑھے اور سورۃ فاتحہ پڑھے اور دعائیں مانگے.یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ایمان بِاﷲ کے بعد ایمان بِالملائکہ کو کیوں رکھا ہے؟ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ساری سچّائیوں اور پاکیزگیوں کا سر چشمہ تو جنابِ الہٰی ہی ہے مگر اﷲ تعالیٰ کے پاک ارادے ملائکہ پر جلوہ گری کرتے ہیں اور ملائکہ سے پاک تحریکیں ہوتی ہیں.ان نیکی کی تحریکوں کا ذریعہ دوسرے درجہ پر چونکہ ملائکہ ہیں اِس لئے ایمان بِاﷲ کے بعد اس کو رکھا.

Page 398

ملائکہ کے وجود پر زیادہ بحث کی اِس وقت حاجت نہیں.یہ تحریکیں ہی ملائکہ کے وجود کو ثابت کر رہی ہیں.اِس کے علاوہ لاکھوں لاکھ مخلوقِ الہٰی ایسی ہے جس کا ہم کو علم بھی نہیں اور نہ ان پر ایمان لانے کا ہم کو حکم ہے.اس کے بعد تیسرا جُزو ایمان کا ایمان بِالکتب ہے.براہ راست مکالمہ اوّل فضل ہے.پھر ملائکہ کی تحریک پر عمل کرنا اس کے قُرب کو بڑھاتا ہے ان کے بعد کتاب اﷲ کے ماننے کا مرتبہ ہے.کتاب اﷲ پر ایمان بھی اﷲ کے فضل اور ملائکہ ہی کی تحریک سے ہوتا ہے.اﷲ کی کتاب پر عمل در آمد جو سچّے ایمان کا مفہوم اصلی ہے چاہتا ہے محنت اور جہاد.چنانچہ فرمایا(العنکبوت:۷۰)یعنی جو لوگ ہم میں ہو کر مجاہدہ اور سعی کرتے ہیں ہم ان پر اپنی راہیں کھول دیتے ہیں.یہ کیسی سچّی اور صاف بات ہے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اختلاف کے وقت انسان مجاہدات سے کام نہیں لیتا.کیوں ایسے وقت انسان دبدھا اور تردّد میں پڑتا ہے اور جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک کچھ فتوٰی دیتا ہے اور دوسرا کچھ تو وہ گھبرا جاتا اور کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.کاش وہ جَاھَدُوْا فِیْنَاکا پابند ہوتا تو اس پر سچائی کی اصل حقیقت کُھل جاتی.مجاہدہ کے وقت ایک اَور شرط بھی ہے وہ تقوٰی کی شرط ہے.تقوٰی کلام اﷲ کے لئے معلّم کا کام دیتا ہے.وَاتَّقُوا اﷲَ ون یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ.اﷲکی تعلیم تقوٰی پر منحصر ہے اور اس کی راہ کا حصول جہاد پر.جہاد سے مراد اﷲ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور کوشِش ہے.اﷲ تعالیٰ کی راہ میں سعی اور جہاد اور تقوٰی اﷲ سے روکنے والی ایک خطرناک غلطی ہے جس میں اکثر لوگ مُبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہیفَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِنَ الْعِلْمِ کِسی قِسم کا علم جو انسان کو ہو وہ اس پر ناز کرے.اسی کو اپنے لئے کافی اور راحت بخش سمجھے تو وہ سچّے علوم اور ان کے نتائج سے محروم رہ جاتا ہے.خواہ کسی قِسم کا عِلم ہو، وجدان کا،سائنس کا ،صَرف و نحو یا کلام یا اَور علوم، غرض کچھ ہی ہو.اِنسان جب ان کو اپنے لئے کافی سمجھ لیتا ہے تو ترقّیوں کی پیاس مِٹ جاتی ہے اور محروم رہتا ہے.راست باز انسان کی پیاس سچّائی سے کبھی نہیں بُجھ سکتی بلکہ ہر وقت بڑھتی ہے.اس کا ثبوت اِس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ ایک کامل انسان، اَعْلَم بِاﷲ، اَتقٰی لِلّٰد، اَخْشٰی لِلّٰد جس کا نام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہے وہ اﷲ تعالیٰ کے سچّے علوم.معرفتیں.سچّے بیان اور عمل در آمد میں کامل تھا اس سے بڑھ کر اَعلم.اَتقٰی اور اَخشٰی کوئی نہیں.پھر بھی اس امام المتّقین اور امام العالمین کو یہ حکم ہوتا ہے(طٰہٰ:۱۱۵) اِس سے صاف پایا جاتا ہے کہ سچّائی کے لئے اور اﷲ تعالیٰ کی معرفت اور یقین کی راہوں

Page 399

اور علومِ حقّہ کے لئے اسی قدر پیاس انسان میں بڑھے گی جس قدر وہ نیکیوں اور تقوٰی میں ترقّی کرے گا.جو انسان اپنے اندر اس پیاس کو بُجھا ہؤا محسوس کرے اور فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِنَ الْعِلْمِ کے آثار پائے اس کو استغفار اور دُعا کرنی چاہیئے کہ وہ خطرناک مرض میں مُبتلا ہے جو اس کے لئے یقین اور معرفت کی راہوں کو روکنے والی ہے.چونکہ اﷲ تعالیٰ کی رضا کی راہیں بے اَنت اور اس کے مراتب و درجات بے اِنتہا ہیں پھر مومن کیونکر مستغنی ہو سکتا ہے.اِس لئے اسے واجب ہے کہ اﷲ کے فضل کا طالب اور ملائکہ کی پاک تحریکوں کا متّبع ہو کر کتاب اﷲ کے سمجھنے میں چُست و چالاک ہو اور سعی اور مجاہدہ کرے.تقوٰی اختیار کرے تا سچّے علوم کے دروازے ان پر کُھلیں.غرض کتاب اﷲ پر ایمان تب پَیدا ہو گا جب اس کا عِلم ہو گا اور علم مُنحصر ہے مجاہدہ اور تقوٰی پر اور فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَھُمْ مِنَ الْعِلْمِسے الگ ہونے پر.ایمان بِالرّسالت اِس کے بعد چوتھا رُکن ایمان کا ایمان بِالرّسول ہے.بہت سے لوگ ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ڈھیروں ڈھیر کتابیں ہیں.پُرانے لوگوں کی یادداشتیں ہیں.ہم نیکی اور بَدی کو سمجھتے ہیں.کسی مامور و مُرسل کی کیا ضرورت ہے.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴، ۱۵) یہ لوگ اپنے مخازنِ علوم کو کافی سمجھتے ہیں اور خطرناک جُرم کے مُرتکب ہوتے ہیں کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حضور باغی ٹھہرائے جاتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے.اﷲ تعالیٰ ہی سے تو وہ مقابلہ کرتے ہیں.جب اﷲ تعالیٰ ایک اِنسان کو معظّم و مکرّم اور مطاع بنانا چاہتا ہے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ رضائِ الہٰی کو مقدّم کرے اور اس کو اپنا مطاع سمجھے.ارادۂ الہٰی کو کوئی چیز روک نہیں سکتی.اس کے مقابلہ میں تو جو آئے گا وہ ہلاک ہو جائے گا.پس جو خلاف ورزی کرتا ہے یا یہ سمجھتا ہے کہ میرے علوم کے سامنے اس کی احتیاج نہیں وہ اس تعظیم، مکرمت، اعزاز میں جو اس مطاع مکرّم و معظّم کے متّبعین کو ملتا ہے حصّہ دار نہیں ہوتا بلکہ محروم رہ جاتا ہے خواہ ایسا اِنسان اپنے طور پر کتنی ہی نیکیاں کرتا ہو مگر ایک انسان کی مخالفت اور خلاف ورزی سے اس کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے عظیم الشّان منشاء کے خلاف کرتا ہے.اس پر بعاوت کا الزام ہے.دُنیوی گورنمنٹوں کے نظام میں بھی یہی قانون ہے.ایک بھلا مانس آدمی جو کبھی بَد معاملگی نہیں کرتا.

Page 400

چوری اور رہزنی اس کا کام نہیں.تاجرہے تو چونگی کا محصُول اور دوسرے ضروری محاصل کے ادا کرنے میں سُستی نہیں کرتا.زمیندار ہے تو وقت پر لگان ادا کرتا ہے لیکن اگر وہ یہ کہے کہ بادشاہ کی ضرورت نہیں اور اس کے اعزاز و اکرام میں کمی کرے تو یہ شریر اور باغی قرار دیا جاوے گا.اِسی طرح پر ماموروں کی مخالفت خطرناک گناہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کے حضور ہو سکتا ہے.اِبلیس نے یہی گناہ کیا تھا.انبیاء علیہم السّلام کے حضور شیاطین بہت دھوکے دیتے ہیں.میرے نزدیک وہ لوگ بڑے ہی بَد بخت ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ذرّہ ذرّہ اس پر لعنت بھیجتا ہے.جب اﷲ تعالیٰ چاہتا ہے ک وہ معزّز و مکرّم اور مطاع ہو تو اس کی مخالفت کرنے والا تباہ نہ ہو تو کیا ہو.یہی سِرّ ہے جو انبیاء و مُرسل اور مامورین کے مخالف ہمیشہ تباہ ہوئے ہیں.وہ جُرمِ بغاوت کے مجرم ہوتے ہیں.پس کتابوں کے بعد رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے ورنہ اِنسان متکبّر ہو جاتا ہے اور پہلا گناہ دین میں خلیفۃ اﷲ کے مقابل یہی تھا اَبٰی وَاسْتَکْبَرَ.اِس میں شک نہیں کہ سُنّت اﷲ اِسی طرح پر ہے کہ ماموروں پر اعتراض ہوتے ہیں.اچھے بھی کرتے ہیں اور بُرے بھی.مگر اچھوں کو رجوع کرنا پڑتا ہے اور بُرے نہیں کرتے.مگر مبارک وہی ہیں جو اعتراض سے بچتے ہیں کیونکہ نیکوں کو بھی آخر مامور کے حضور رجوع اور سجدہ کرنا ہی پڑا ہے.پس اگر مَلک کی طرح بھی ہو پھر بھی اعتراض سے بچے کیونکہ خدا تو سجدہ کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا ورنہ لعنت کا طَوق گلے میں پڑے گا.جزا وسزا اِس کے بعد پانچواں رُکن ایمان کا جزا و سزا پر ایمان ہے.یہ ایک فطرتی اصل ہے اور انسان کی بناوٹ میں داخل ہے کہ جزا اور بدلے کے لئے ہوشیار اور سزا سے مضائقہ کرتا ہے.یہ ایک فطرتی مسئلہ ہے اور اس کوئی انکار نہیں کر سکتا.ایک بچّہ بھی جب دیکھتا ہے کہ یہاں سے دُکھ پہنچے گا وہاں سے ہٹتا ہے اور جہاں راحت پہنچتی ہے وہاں خوشی سے جاتا ہے.چِلاّ چِلاّ کر بھی جزا لینے کو تیار ہو جاتا ہے.یہاںتک کہ فاسق و فاجر کی فطرت میں بھی یہ امر ہے.ایک آدمی کبھی پسند نہیں کرتا کہ دوسرے کے سامنے ذلیل و خوار ہو.ہر ایک چاہتا ہے کہ معزّز ہو.مَیں نے دیکھا ہے کہ فیل ہونے سے ایک بچہ کو کیسی ذِلّت پہنچتی ہے.بعض اَوقات اِن ناکامیوں نے خودکشیاں کرا دی ہیں اور پاس ہونے سے کیسی خوشی ہوتی ہے.زمینداروں کو دیکھا جب بر وقت بارش نہ ہو، پھل کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو.کیسا رنج ہوتا ہے.لیکن اگر غلّہ گھر لے آئے تو کیسا

Page 401

خوش ہوتا ہے.اِسی طرح ہر حرفہ و صنعت والا دکاندار.غرض کوئی نہیں چاہتا کہ محنت کا بدلہ نہ ملے اور بچاؤ کا سامان نہ ہو.جب یہ فطرتی امرہے تو اس کو بھی اﷲ تعالیٰ نے ایمان کا جُزو رکھا ہے کہ جزا و سزا پر ایمان لاؤ اﷲ مالک یَوم الدّین ہے.روزِ روشن کی طرح اس کی جزائیں سزائیں ہیں اور وہ مخفی نہ ہوں گی اور مالکانہ رنگ میں آئیں گی جیسے مالک اچھے کام پر انعام اور بُرے کام پر سزا دیتا ہے.اِس حصّہ پر ایمان لا کر انسان کامیاب ہو جاتا ہے مگر اس میں سُستی اور غفلت کرنے سے ناکام رہتا ہے اور قُربِ الہٰی کی راہوں سے دُور چلا جاتا ہے.دوسرا سوال پھر دوسرا سوال جو جبرائیل نے تعلیم الدّین کے لئے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سے کیا اور آپ نے اس کا جواب دیا وہ ہے مَاا لْاِسْلَامُ ؟اِس کا جواب جو پاک انسان خاتم الانبیاء و خاتم الاولیاء خاتم ُالکمالات کی زبان سے نکلا وہ یہ ہے اَنْ نَشْھَدَ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ.جو بات اِنسان کے دِل سے اُٹھتی ہے ضرور ہے کہ اس کا اثر اس کے اعضاء و جوارح اور مال پر پڑے.کون نہیں سمجھتا کہ شجاعت اگر اندر ہو تو وہ اپنے ہاتھ، بازو اور اعضاء سے محل و موقع پر اس کا ثبوت نہ دے گا.اگر وہ موقع پر بھاگ جاتا اور بُزدلی ظاہر کرتا ہے تو کوئی اس کو شجاع نہیں کہہ سکتا.اِسی طرح سخاوت ایک عمدہ جوہر ہے لیکن اگر اس کا اثر مال پر نہیں پڑتا تو وہ سخاوت نہیں بُخل ہے.ایسا ہی عفّت ایک عمدہ صفت ہے ضرور ہے کہ جس میں یہ صفت ہو وہ بَد نظری اور بے حیائی سے بچے اور تمام فواحش اور ناپاک کاموں سے پرہیز کرے.اِسی طرح جس کے اندر قناعت ہو ضروری ہو گا کہ وہ دوسروں کے مال پر بے جا تصرّف سے پرہیز کرے گا.غرض یہ ضروری بات ہے کہ جب اندر کوئی بات ہو تو اس کا اثر جوارح اور مال پر ضرور ہوتا ہے.پس اگر سچّی نیازمندی ، فرمانبرداری، تحریکِ ملائکہ، کتابوں، ماموروں، خلفاء اور مُصلحوں کی اطاعت میں ہو اور دِل میں یہ بات ہو تو زبان پر ضرور آئے گی اور وہ اظہار کرے گا.اگر سچّائی سے کسی اِنسان کو مانا ہؤا ہو اور اس کے اظہار سے مضائقہ ہو تو یاد رکھو دِل کمزور ہے.اِسی لئے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اﷲ کے اسماء پر کامل یقین ہو اور اس کے رسولوں پر، ملائکہ پر اور کتابوں اور انبیاء پر یقین ہو اور ایسا ہی اس یقین میں اس کے نوّاب اور اﷲ کا قُرب داخل ہے تو اس یقین کا اثر زبان پر آتا ہے اور وہ ایک لذّت کے ساتھ کہہ اُٹھتا ہے اَشْثَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَحْدَہ‘ لَا شَرِیْکَ لَہ‘ وَ اَلشْھَدُ

Page 402

اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلُہ‘.بے رَیب سیّد الاوّلین والآخرین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کامل صفات والا انسان کُل سچائیوں اور علومِ حقّہ کا لانے والا ہے.جب یہ اقرار اور وہ ایمان ہو تو اس کا َنتیجہ یہ ہو گا کہ سچّی نیازمندی کے ساتھ جنابِ الہٰی کے حضور پیش ہو اور یہی نماز ہے.نماز ظاہری پاکیزگی اور ہاتھ منہ دھونے اور ناک صاف کرنے اور شرم گاہوں کو پاک کرنے کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ جیسے مَیں اس ظاہر پاکیزگی کوملحوظ رکھتا ہوں اندرونی صفائی اور پاکیزگی اور سچّی طہارت عطا کر اور پھر اﷲ تعالیٰ کے حضور سُبحانیت، قدوسیت، مجدیت پھر ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت اور اس کے مِلک و ملک میں تصرّفات اور اپنی ذمّہ داریوں کو یاد کر کے کہ اس قلب کے ساتھ ماننے کو یتار ہوں.سینہ پر ہاتھ رکھ کر تیرے حضور کھڑا ہوتا ہوں.اِس قِسم کی نماز جب پڑھتا ہے تو پھر اس میں وہ خاصیّت اور اثر پیدا ہوتا ہے جو اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِمیں بیان ہؤا ہے.پھر پاک کتاب کا کچھ حِصّہ پڑھے اور رکوع کرے اور غور کرے کہ میری عبودیت اور نیازمندی کی انتہا بجز سجدہ کے اَور کوئی نہیں.جب اِس قسم کی نماز پڑھے تو وہ نیازمندی اور سچّائی جب اعضاء اور جوارح پر اپنا اثر کر چکی تو اَور جوش مار کر ترقی کرے گی اور اس کا اثر مال پر پڑے گا.وحدت کی ضرورت اور ایک مقررہ حصّہ اپنے مال کا دے گا جیسے آج کے دِن بھی صدقا الفطر ہر شخص پر ، غنی ہو ، حرّ ہو یا عبد.غرض سب پر واجب ہے کہ وہ صدقہ دے تاکہ اَوروں کے لئے طہر کا کام دے اور نماز سے پہلے ایک مقام پر جمع کرے.اِس بات کی بڑی ضرورت ہے کہ وحدت پیدا ہو.اِسلام کے ہر امر میں وحدت کی رُوح پھُونکی گئی ہے.جب تک وحدت نہ ہو اس پر اﷲ کا ہاتھ نہیں ہوتا جو جماعت پر ہوتا ہے.مَیں درختوں کو دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اگر ایک ایک پتّہ کہے کہ مَیں ہاتھ پھیلائے ہوئے ہوں اور اپنے رَبّ سے مانگتا ہوں وہ مجھے سر سبز کر دے گا.کیا وہ الگ ہو کر سر سبز رہ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ وہ مُر جھا جائے گا اور اَدنیٰ سے جھونکے سے گِر جائے گا اِس لئے ضروری ہے کہ ایک شاخ سے اس کا تعلق ہو اور پھر اس شاخ کا کِسی بڑی شاخ سے اور اس کا کِسی بڑے تنے سے تعلق ہو جو جَڑ اور اس کی رگوں سے اپنی خوراک کو جذب کرے.یہ سچّی مثال ہے.جب اﷲ تعالیٰ کِسی چیز کا بِیج لگاتا ہے تو جو شاخ اس سے الگ ہو کر بار آور اور ثمردار ہونا چاہے وہ نہیں رہ سکتی خواہ اُسے کتنے

Page 403

ہی پانی میں رکھو.وہ پانی اس کی سرسبزی اور شادابی کی بجائے اس کے سڑنے کا موجب اور باعث ہو گا.پس وحدت کی ضرورت ہے اِسی لئے صدقۃ الفطر بھی ایک ہی جگہ جمع ہونا چاہیئے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں عید سے پہلے یہ صدقہ جمع ہو جاتا اور ایسے ہی زکوٰۃ کے اموال بڑی احتیاط سے اکٹھے کئے جاتے یہاں تک کہ مُنکرین کے لئے قتل کا فتوٰی دیا گیا.مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بھائیوں میں ابھی یہ وحدت پیدا نہیں ہوئی یا ہوئی ہے تو بہت کمزور ہے.تم پر اﷲ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل اور احسان ہے کہ تم نے اس کو کامل صفات سے موصوف مانا ہے اور یہاں تک تم نے تو چند سے حَظ اُٹھایا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے مخلوق میں سے کسی کو ان صفات سے موصوف مانتا تھا تم نے اس کو بھی اس امام کے طفیل سے چھوڑا اور اَب تم پاک ہو گئے کہ مسیح کو خالق اور باری، محلّل ،محرّم اور مُحیٖ اور مُمیت اور عالم الغیب سمجھو.تو جیسے یہ امتیاز حاصل کیا تھا اب کیسی ضرورت تھی کہ پھر صحابہ کی طرح تمہارے سارے تعلّقات اس شجرِ طیّبہ کے ساتھ ہوتے جس کے ساتھ پَیوند ہو کر وہ تمام پھَل لانے والے تم ہو سکتے تھے.مجھے ہمیشہ تعجّب ہوتا ہے جب مَیں کسی کو ایسے تعلّقات سے باہر دیکھتا ہوں.دیکھو تمہارے تعلّقات ،چال چلن، شادی و غمی، حُسنِ معاشرت، تمدّن، سلطنت کے ساتھ تعلّقات، غرض ہر قول و فعل آئندہ نسلوں کے لئے ایک نمونہ ہو گا.پھر کیا تم چاہتے ہو کہ رحمت اور فضل کا نمونہ تم بنو یا لعنت کا.پس دعائیں کرو کہ تم جو اس پاک چشمہ پر پہنچے ہو اﷲتعالیٰ تمہیں اس سے سیراب کرے اورعظیم الشّان فضل اور خیر کے حاصل کرنے کی تمہیں توفیق ملے اور یہ سب توفیقیں اس وقت ملیں گی جب تمہارے سب معاملات ایک درخت سے وابستہ ہوں.پس ان سارے چندوں اور اغراض میں ایک ہی تنا اور جَڑ ہو.پھر ایسی وحدت ہو کہ تمام دغا اور فریب کپٹ سے بَری ہو جاؤ.شاید تم نے سمجھا ہو کہ کسی کتاب کا نام کشتیٔ نوح ہے.نہیں.کچھ اغراض و مقاصد ہیں.کچھ عقائد اور اعمال ہیں.اس پر وہی سوار ہو سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کی تعلیم کے موافق بناتا ہے.پھر ان سب کے بعد تقوٰی کی وہ راہ ہے جس کا نام روزہ ہے جس میں انسان شخصی اور نوعی ضرورتوں کو اﷲ تعالیٰ کے لئے ایک وقتِ معیّن تک چھوڑتا ہے.اب دیکھ لو کہ جب ضروری چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے تو غیر ضروری کا استعمال کیوں کرے گا.روزہ کی غرض اور غایت یہی ہے کہ غیر ضروری چیزوں میں اﷲ کو ناراض نہ کرے اِس لئے فرمایالَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.

Page 404

پھر جیسے پنجگانہ نمازیں ہر محلے میں باجماعت پڑھتے ہیں اور پھر جمعہ کی نماز سارے شہر والے اِسی طرح اِرد گرد کے دیہات والے اور کُل شہر کے باشندے جمع ہو کر عید کی نماز ایک جگہ پڑھتے ہیں اِس میں بھی وحدت کی تعلیم مقصود ہے.غرض اسلام کے ہر رُکن میں ایک وحدت کو قائم کیا ہے پھر اس کو قائم رکھنے کے لئے خاص حکم بھی دیا لَاتَنَازَعُوْا باہم کشمکش نہ کرو کیونکہ جب ایک کھچا کھچی کرتا ہے تو دوسرا بھی اس میں مُبتلا ہو جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہَوا بگڑ جاتی ہے.جب یہ خود دوسرے کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو چونکہ وہ بھی کبرِ الہٰی کا مظہر ہے اِس لئے تکبّر کرتا اور وحدت اُٹھ جاتی ہے.اِسی لئے حکم دیا کہ نزاع نہ کیا کرو ورنہ پھسل جاو گے اور فرمایا صبر کرو.ایسا صبر نہیں کہ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری پھیر دو بلکہ ایسا صبر کرو اور عفو ہو کہ جس میں اصلاح مقصود ہو.سچّے مومن بننا چاہتے ہو تو یاد رکھولَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ.(بخاری.کتاب الایمان باب مِنَ الْاِیْمَانِ اَنْ یُّحِبُّ لِاَخِیْہِ مَایُحِبُّ لنِفْسِہٖ) اِسی وحدت کے قائم رکھنے کے لئے نمازوں میں یک جہتی تھی.مکّہ کا وجود تھا اور اب اس وقت خدا کا کیسا فضل ہے اور کیسی مبارکی کا یہ زمانہ ہے کہ سب سامان موجود ہیں.مکالمہ الہٰی ہوتا ہے ایک مطاع مکّہ معظم موجود ہے اور اپنے عام چال چلن، مخلوق کے ساتھ تعلّقات، معاشرت اور گورنمنٹ کے ساتھ اپنے معاملات کا نمونہ دکھانے سے قوم بنا رہا ہے اِس لئے اب کوئی عذر نہیں رہ سکتا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہنے کی باتیں ہیں، کرنے کی نہیں.یہ ان کی غلطی ہے.اﷲ تعالیٰ نے کوئی امرونہی ایسا نہیں دیا ہے جو انسان کی طاقت سے باہر ہو.ورنہ اس کی حکیم کتاب قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ(البقرۃ:۲۸۷) باطل ہو گیااور وہ باطل نہیں ہے متقی اور خدا سے ڈرنے والا ایسی بات مُنہ سے نہیں نکال سکتا یہ صرف خبیث رُوح کی تحریکیں ہیں.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴،۱۵) اَلْاِحْسَانُ.اس کے بعد تیسری بات جبرائیل نے پوچھی ہے جس سے دین کی تکمیل ہوتی ہے اور وہ یہ ہے مَا الْاِحْسَانُ؟احسان کیا ہے؟ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ایسا اخلاص اور احتساب ہو کہ تُو گویا اس کو دیکھتا ہے اور اگر اس درجہ تک نہ پہنچے تو کم از کم اپنے آپ کو اس کی نگرانی میں سمجھے.جب تک ایسا بندہ نہ ہو وہ دین کے مراتب کو نہیں سمجھ سکتا.پس ایسا دین کوئی سلیم الفطرت کہہ سکتا ہے کہ اس میں اِکراہ کی ضرورت ہے؟ ہرگز نہیں.(البقرۃ:۲۵۷)اِس وقت بھی ویسا ہی

Page 405

وقت ہے جیسا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا.ہدایت کی راہیں کُھلی ہیں.تجربے، مشاہدہ،سائنس، قوٰی کا نشوونما، وِجدان ،صحیح فطری قوٰی، رُشد اور غیّ میں امتیاز کرنے کو موجود ہیں.رُشد کو اقتصاد بھی کہتے ہیں جو افراط اور تفریط کے درمیان کی راہ ہے.بہت سے لوگ ہیں جو خاص خاص مذاق میں بڑھے ہوئے ہیں.بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کو کھانے ہی کی ایک دھت ہوتی ہے اور اب وہ اس میں بہت ترقّی کر گئے ہیں اور کرتے جاتے ہیں.بعض کو دیکھا ہے کہ بچپن میں یہ عادت ہوئی اور پھر بڑھتے بڑھتے بہت سی بد اطواریوں کا باعث بن گئی.ایسا ہی لباس میں افراط کرنے والے، مکانات میں افراط سے کام لینے والوں کا یہ حال ہے.ایسا ہی بعض جمع اموال میں، بعض فضول خرچیوں میں بڑھتے ہیں.جب ایک کی عادت ڈال لیتے ہیں تو پھر وہ ہر روز بڑھتی ہے.غرض افراط اور تفریط دونوں مذموم چیزیں ہیں.عمدہ اور پسندیدہ اقتصاد یا رُشد ہے.یہی حال اقوال اور افعال میں ہے.اِس طرہ پر ترقی کرتے کرتے ہم عقائد تک پہنچتے ہیں.بعض نے تو سو سائٹی کے اصول رسم و رواج سب کو اختیار کر لیا اور مذہب کا جُز و قرار دے لیا اور بعض ایسے ہیں کہ ساری انجمنوں کو لغو قرار دیتے ہیں.غرض دُنیا عجیب قِسم کی افراط اور تفریط میں پڑی ہوئی ہے.رُشد اور اقتصاد کی صراطِ مستقیم صرف اِسلام لے کر آیا ہے.بعض نادانوں نے اعتراض کیا ہے کہ اِسلام تو رُشد اور اقتصاد سکھاتا ہے.پھر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مقابلہ کیوں کیا؟ مگر افسوس ہے کہ ان کو معلوم نہیں انہوں نے تو تیرہ سال تک صبر کر کے دکھایا اور پھر آخر آپ چونکہ کل دُنیا کے لئے ہادی تھے تو بادشاہوں اور تاجداروں کے لئے بھی کوئی قانون چاہیئے تھا یا نہیں؟ اَب دیکھ لو کہ غیر قوموں کی لڑائیوں میں کیا ہوتا ہے جب دشمن سے مقابلہ ہوتا ہے تو بعض اوقات عورتیں، بچّے ، مویشی، کھیت سب تباہ ہو جاتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟ صرف اِس لئے کہ مذہب نے ملک داری کا کوئی نمونہ اور قانون پیش نہیں کیا.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے ہر ضرورت کی خود تکمیل کی ہے اور اسی لئے خانہداری کے اصولوں پر الگ بحث کی ہے.ان لوگوں کو جو حیض و نفاس کے مسائل پر اعتراض کرتے ہیں غور کرنا چاہیئے کہ معاشرت کا یہ بھی ایک جزو ہے.غرض ہماری شریعت جامع شریعت ہے جس میں انسان کے فطری حوائج، کھانے پینے سے لیکر معاشرت، تمدّن،تجارت،زراعت،حرفت،ملک داری اور پھر ان سب سے بڑھ کر خدا شناسی اور

Page 406

روحانی مدارج کی تکمیل کی یکساں تعلیم موجود ہے.یہی وجہ ہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں.یہی باعث ہے کہ اِسلام مکمّل دین ہے.یہ ایک نیا قِصّہ ہے کہ اسلام ہر شعبہ اور ہر حصّہ میں کیا تعلیم دیتا ہے ؟ چونکہ اِس وقت کتاب اﷲ موجود ہے اور اس کا معلّم بھی خدا کے فضل موجود ہے اور اس کا نمونہ تم دیکھ سکتے ہو مَیں صرف یہ کہوں گا قَدْتَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغیِّ.اس کی راہ رُشد کی راہ ہے اور اس کے خلاف خواہ افراط کی راہ ہو یا تفریط کی.اس کا نام غیّہے رُشد والوں کو مومن، متّقی ،سعید کہا گیا ہے اور غیّوالوں کو کافر، منافق، شقّی.فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ الآیہ.جو لوگ الہٰی حد بندیوں کو توڑ کر چلے گئے ہیں ان کو طاغوت کہا ہے.اﷲ تعالیٰ کی راہیں جن کو قُرآن نے واضح کیا اور آنحضرت نے دکھایا ان میں تو فصم ۱؎ نہیں ہے.اَدنیٰ درجہ فصم ہے.اس سے بڑھے تو قِصم پھر اس سے بڑھے تو قضم.اﷲ وہ اﷲ ہے جو تمہاری دعاؤں کو سُنتا اور تمہارے اعمال کو جانتا ہے.الغرض یہ دین اور اس کا نتیجہ ہے قُربِ الہٰی.جب انسان اﷲ تعالیٰ کا قُرب ہاصل کرتا ہے تو چونکہ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالّاَرْضِہے اِس لئے یہ ظلمت سے نکلنے لگتا ہے اور اس میں امتیازی طاقت پیدا ہوتی جاتی ہے.ظلمت کئی قِسم کی ہوتی ہے.ایک جہالت کی ظلمت ہے.پھر رسومات،عادات،عدمِ استقلال کی ظلمت ہوتی ہے.جس جس قدر ظلمت میں پڑتا ہے اسی قدر اﷲ تعالیٰ سے دُور ہوتا چلا جاتا ہے اور جس قدر قُرب حاصل ہوتا اسی قدر امتیازی قوّت پیدا ہوتی ہے.پس اگر کسی صُحبت میں رہ کر ظلمت بڑھتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ قُربِ الہٰی کا موجب نہیں بلکہ بُعد حرمان کا باعث ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کے تو جس قدر انسان قریب ہو گا اسی قدر اس کو ظلمت سے رہائی اور نور سے حصّہ ملتا جاوے گا.اِسی لئے ضروری ہے کہ ہر فعل اور قول میں اپنا محاسبہ کرو.نیچے اور اُوپر کے دو لفظ ہیں جو سائنس والوں کی اصطلاح میں بھی بولے جاتے ہیںاور مذہب کی اصطلاح میں بھی ہیں.میں نے نیچے اور اور جانے والی چیزوں پر غور کی ہے.ڈول جُوں جُوں نیچے جاتا ہے اس کی قوّت میں تیزی ہوتی جاتی ہے اور اِسی طرح پتنگ جب اُوپر جاتا ہے پہلے اس کا ؎ اِنْفِصَام:ایک دانت سے دبائیںاور نشان پڑ جائے اسے فصمؔ کہتے ہیں اس سے بڑھ کر قصم، اس سے بڑھ کر قضم ہے.فرمایا اس میں تو فصم بھی نہیں ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ۴۴۴)

Page 407

اُوپر چڑھانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن آخر وہ بڑے زور سے (تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر۹ صفحہ۴۴۴) اُوپر کو چڑھتا ہے.یہی اصل ترقّی اور تنزّل کی جان ہے یا صعود اور نزول کے اندر ہے.انسان جب بدی کی طرف جھُکتا ہے تو اس کی رفتار بہت سُست اور دھیمی ہوتی ہے لیکن پھر اس میں اس قدر ترقّی کرتا ہے کہ خاتمہ جہنّم میں ہوتا ہے یہ نزول ہے اور جب نیکیوں میں ترقّی کرنے لگتا اور قُربِ اِلی اﷲ کی راہ پر چلتا ہے.ابتداء ًمشکلات ہوتی ہیں اور ظالم لنفسہٖ ہونا پڑتا ہے.مگر آخر جب وہ اس میدان میں چل نکلتا ہے تو اس کی قوّتوں میں ضرور ترقّی ہوتی ہے اور وہ اِس قدر لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْن:اِسلام میں جبر نہیں.ہدایت اور گمراہی میں کُھلافرق ہو گیا ہے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ۸۰) ہمیں کتب مغازیؔ میں (خواہ کیسی ہی ناقابلِ و ثوق کیوں نہ ہوں) کوئی ایک بھی ایسی مثال نظر نہیں آتی کہ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے کسی شخص، کسی خاندان ، کسی قبیلے کو بزور شمشیر و اجبار مسلمان کیا ہو.سرولیم میور کا فقرہ کیسا صاف صاف بتاتا ہے کہ شہر مدینہ کے ہزاروں مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص بھی بزورو اِکراہ اسلام میں داخل نہیں کیا گیا اور مکّہ میں بھی آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلّم کا یہی رویّہ اور سلوک رہا بلکہ ان سلاطینِ عظام (محمود غزنوی، سلطان صلاح الدین، اورنگ زیب) کی محقّقانہ اور صحیح تواریخ میں کوئی ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ کسی شخص کو انہوں نے بالجبر مسلمان کیا ہو.ہاں ہم ان کے وقت میں غیر قوموں کو بڑے بڑے عہدوں اور مناصب پر ممتاز و سر فراز پاتے ہیں.پس کیسا بڑا ثبوت ہے کہ اہلِ اسلام نے قطع نظر مقاصدِ ملکی کے اشاعتِ اِسلام کے لئے کبھی تلوار نہیں اُٹھائی.آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں، اسلام کے مخالفوں نے اکثر یہ طعن کیا ہے کہ آپ کا دین بزور شمشیر شائع ہوا ہے اور تلوار ہی کے زور سے قائم رہا.جن مؤرخین عیسائیوں نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کا تذکرہ یعنی لائف لکھی ہے آپ پر طعن کرنا انہوں نے اپنا شعار کر لیا ہے اور ان کے طعن کی وجہ فقط یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپؐ نے اپنے تئیں اور اپنے رُفقا کو دشمنوں

Page 408

کے حملوں سے بچایا.یہ سچ ہے کہ بعض برگزیدگانِ خدادُنیا میں وقتًا فوقتًا پَیدا ہوئے ہیں اور سوئِ اتفاق اور گردشِ تقدیر سے خدا کی راہ میں اور اعلائے کلمتہ اﷲ کی کوشِش میں شہید ہوئے ہیں اور بعض لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے خللِ دماغ کی وجہ سے اِس امر کا دعوٰی کیا جس کی تکمیل ان سے نہ ہو سکی.الغرض مخبوط بھی گزرے ہیں اور مجذوب بھی ہوئے ہیں جنہوں نے اپنی مجنونانہ حرکات کی سزا پائی مگر اِس سے یہ کہاںلازم آتا ہے کہ مثلاً اگر حضرت مسیح علیہ السلام مصلوب ہوئے یا مسیلمہ کذّاب اپنی کذّابیّت اور مجذوبیّت کی سزا کو پہنچا تو معاذ اﷲ آنحضرت صلّی اﷲ علیہ وسلم کو بھی ان کی تقلید کرنا فرض تھا اور بغیر اپنی رسالت کے تمام و تکمیل کے شہید ہو جانا لازم تھا؟ قوانینِ اسلام کے موافق ہر قِسم کی آزادی مذہبی اور مذہب والوں کو بخشی گئی جو سلطنتِ اسلام کے مطیع و محکوم تھے.(سورہ البقرۃ:۲۵۷) دین میں کوئی اجبار نہیں.یہ آیت کُھلی دلیل اِس امر کی ہے کہ اسلام میں اور اہلِ مذاہب کو آزادی بخشنے اور ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہے.(فصل الخطاب ایڈیشن دوم جلد اوّل صفحہ۸۳،۸۴) اِسلام کے معنے صُلح کے ساتھ زندگی بسر کرنا، چَین سے رہنا.کیونکہ یہ لفظ سَلم سے مُشتق ہے جس کے معنے صُلح اور آشتی کے ہیں.بعضے پادریوں کی دشمنانہ تحریر نے، مَیں سچّ کہتا ہوں، آپ کو دھوکہ دیا ہے.جبرو اِکراہ سے اِسلام اور تصدیق قلبی کا حصول ممکن نہیں.قرآن کی دوسری سورۃ کو جو مدینہ میں نازل ہوئی اور جس میں جہاد کا حکم ہوا پڑھ لیجئے اور غور کیجئے آپ کا کلام کہاں تک سچّ ہے (سورہ البقرۃ:۲۵۷) اِس میں زبردستی نہیں اور حق و باطل واضح ہو گیا.اِسلام میں شرط ہے کہ آدمی صدق دِل سے باری تعالیٰ کی الوہیّت اور اس کی معبودیّت اور اس کے رسولوں کی رسالت وغیرہ وغیرہ ضروریاتِ دین پر یقین لاوے تب مسلمان کہلاوے اور ظاہر ہے کہ دلی یقین جبرو اِکراہ سے کبھی ممکن نہیں ہے.مَیں بڑی جرأت سے کہتا ہوں کہ حضور علیہ السّلام اور ان کے راشد جا نشینوں کے زمانے میںبھی کوئی شخص جبر اور اِکراہ سے مسلمان نہیںبنایا گیا بلکہ محمود غزنوی اور عالمگیر کے کلزمانے میں بھی کوئی شخص عاقل و بالغ جبر سے مسلمان نہیں کیا گیا.دُنیا میں تاریخ موجود ہے.صحیح تاریخ سے اِس الزام کو ثابت کیجئے.مَیں نے زمانۂ نبوی اور خلافتِ راشدہ کے وقت اور محمود، عالمگیرکی تاریخ کو اچھی طرح دیکھ بھال کر یہ دعوٰی کیا ہے.

Page 409

زمانۂ رسالتمآب میں اور خلافتِ راشدہ میں صُلح اور معاہدۂ امن کے بعد کُل مذہب کے لوگ مذہبی آزادی حاصل کر لیتے تھے.خیبر کے یہود، بحرین اور غسان کے عیسائی، حضرت خاتم الانبیاء کے اور خلیفہ عمر رضی اﷲ عنہ کے وقت شام کے یہود اور عیسائی اسلام کی رعایا تھے اور اپنے مذہبی فرائض کی بجا آوری میں بالکل ازاد تھے.عالمگیر کے عہد میں بڑے بڑے عہدوں پر ممتاز ہندوستان کے پُرانے باشندے اپنی بُت پرستی پر قائم دکھلائی دیتے.اگر عالمگیر کی لڑائیوں سے اِسلام پر الزام ہے تو عالمگیر نے تانا شاہ سے جو ایک سیّد تھا دکن کے مُلک میں جنگ کی.پھر اپنے مسلمان باپ اور بھائیوں کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ مخفی نہیں.پس عالمگیر کی جنگ مذہبی جنگ کیوں خیال کی جاتی ہے؟ عالمگیر نے کبھی کسی ہندو کو تلواراِس سبب سے نہیں لگائی کہ وہ ہندو تھا اور کبھی اس نے زبردستی ان کو مسلمان نہیں کیا.ان کی جو مذہبی عبادت اور رسومات جو قدیم سے چلی آتی تھیں ان کو نہیں روکا.محمود کی نسبت کہیں تاریخ سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس نے اشاعتِ اسلام اور دعوتِ اسلام میں ہمّت صَرف کی ہو.گجرات میں اِتنے دنوں تک پڑا رہا مگر ایک ہندو کو مسلمان نہ بنایا.اپنے بھائی مسلمان امیر اسمٰعیل سے جنگ کی.کیا وہ لڑائی بھائی کو مسلمان بنانے کے لئے تھی اور ہند کے حملے تو راجہ جے پال نے خود کرائے جس نے محمود سے لڑنے کی ابتدا کی حالانکہ محمود کا تو یہ منشاء تھا کہ تا تار کے بلادکو فتح فکرے نہ ہند کو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۴۷،۴۸)   :اﷲ جو سمیع علیم ہے اس کی پہچان کیا ہے.فرماتا ہے کہ وہ مومنوں کا والی بن جاتا ہے.اب مومنوں کی پہچان بتاتا ہے کہ وہ ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آتے جاتے ہیں.ظلمت کیا ہے جس میں تمیز نہ رہے.روشنی کیا ہے جس میں تمیز ہو سکے.معمولی روشنی سُورج کی

Page 410

ہے پھر اس سے بڑھ کر نُورِ طبّ ہے جس سے انسان کے اندرونی امراض معلوم ہوتے.پھر اس سے بڑھ کر نورِ فلاسفہ ہے کہ وہ خط و خال سے،بال سے ،آواز سے، ناک سے، ہونٹ سے کسی کے اخلاق پر آگاہ ہو جاتے ہیں.پھر جن کو اس سے بھی بڑھ کر انوار دیئے جاویں وہ مومن ہیں چنانچہ فرمایااِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ‘ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اﷲِپس مومن ہونے کا نشان ہے کہ اس انسان کی قوّتِ متمیّزہ بڑھتی جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تاریکیوں سے نکل کر انوار میں آتا جاتا ہے اور اپنی حالت میں دن بدن نمایاں تبدیلی پاتا ہے.ظلمتیں بھی کئی قِسم کی ہوتی ہیں.ایک رسم کی،مثلاً شادی آ گئی.اب رسم کہتی ہے کہ دس ہزار روپیہ خرچ کرو.اب گھر میں تو اپنے روپے نہیں.پس ساہوکاروں کے پاس جاتا ہے.وہ سُود مانگتا ہے.خدا فرماتا ہے جو سُود دیتا یا لیتا ہے وہ خدا سے جنگ کرتا ہے.پھر اسی طرح بڑھتے بڑھتے ایک گناہ سے کئی گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے.پھر عادت کی ظلمت ہے.یہ عادت بُری بَلاہے.جس چیز کی عادت پڑ جاوے وہ پیچھا نہیں چھوڑتی.بعض کو قصّہ سُننے کی دھت ہوتی ہے بعض کو ناول پڑھنے کی.بعض کو چائے پینے کی، حُقّہ پینے کی، پان کھانے کی.پھر ظلمت سے شہوت، حرص، غضب، سُستی، کاہلی.پس یہ بات یاد رکھو کہ جس تعلیم سے قوّتِ ممیّزہ بڑھے وہ سچّی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء ) مِنَ الظُّلُمٰتِ: ۱.والدین کی ظلمت ۲.احباب کی ظلمت ۳.کفرو شرک کی ظلمت ۴.جہالت کی ظلمت ۵.محبّت کی ظلمت ۶.عجز و کسل کی ظلمت ۷.ظلم کی ظلمت ۷.رسم و بدعت کی ظلمت.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۴) کوئی چیز روشنی کی جاذب ہی نہیں تو روشنی دیدار لینے میں امداد نہ کرے گی گو روشنی فی الحقیقت دیکھنے کا آلہ ہے.جب روشندان یا چراغ وغیرہ سے روشنی لے تو دوست کے دیدار سے وہ دیدار کا طالب آرام پا سکتا ہے ایسا ہی دیدار اور دیدار سے آرام تو نجات ہے اور وہ روشنی فضل اور کرمِ خداوندی ہے.ایمان ایک روشندان یا چراغ ہے جو فضل کی روشنی کو کھینچتا ہے اور ایمان کو اس روشنی کا جاذب قرآن نے بھی کہا ہے.(البقرۃ:۲۵۸))اﷲ کام بنانے والا ہے ایمان والوں

Page 411

کا.نکالتا ہے ان کو اندھیروں سے اُجالے میں.(فصل الخطاب جلد دوم ایڈیشن دوم صفحہ۱۳۶)       

Page 412

یہ تو مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ اِس ساری سُورۃ کا مقصد دشمن سے مقابلہ کے لئے تیار کرنا ہے اور اس کے ضمن میں تمام قِسم کی سچّائیاں اور فضائل اور تقوٰی کی راہیں بتا دی ہیں اور یہ سمجھا دیا ہے کہ کامیابی کی سچّی راہ کا پاک اصل صرف تقوٰی ہے.یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ… اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ:۴ تا ۶)سے اِس مضمون کو شروع کیا ہے اور یہاں اَب بتایا جاتا ہے کہ بہت سے شریر لوگ ہوتے ہیں جو اﷲ کے پاک بندوں سے جھگڑا کرتے ہیں.وہ بندے اگر چہ کمزور ہوتے ہیں مگر اﷲ عین وقت پر ان کی ایسی دستگیری کرتا ہے کہ دشمن دَم بخود رہ جاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ مَیںمقابلہ میں کامیاب ہو جاؤں گا اور اس غریب جماعت کو ہلاک کر دوں گا مگر آخر وہ خود ہلاک ہوتا ہے.یہ مخالف نادانی سے انبیاء کے ہمراہیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں چنانچہ نوحؑ کے ماننے والوں کو اس کی قوم کے امراء کہتے ہیں اَرَا ذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْیِ(ھود:۲۸)پھر موسٰی علیہ السّلام کو بھی فرعون نے کہا (الشعراء :۱۹)کیا ہم نے تمہاری پرورش نہیں کی اور تُو اپنی عمر کے بہت سال یہاں نہیں گزار چکا.اِس کا جواب موسٰیؑ نے کیا خوب دیا(الشعراء:۲۳) کیا یہ کوئی بڑی نیکی ہے جس کا تُو مجھ پر احسان جتا رہا ہے حالانکہ اس کی جَڑ یہ ہے کہ تُو نے تمام بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے پس کیا ہؤا اگر انکے ایک بچّے نے تمہارے ہاں پرورش پائی اگر تم پرورش نہ کرتے تو کیا اس کے ماں باپ پر اس کی روٹی دو بھر تھی؟ غرض پاک لوگوں اور ان کے اَتباع کو یہ نادان حقارت کی نگا ہ سے دیکھتے ہیں مگر خدا تعالیٰ ان کو مقابلہ میں ذلیل کرتا ہے چنانچہ اس کے ثبوت کے لئے حضرت ابراہیمؑ کا قِصّہ بیان کیا ہے.آپ کی قوم مجوسیوں کی تھی جو سُورج چاند کی پرستش کرتے تھے.ان میں جس کو خدا نے حکومت دی تھی ابراہیمؑ نے کہا کہ رَبِّیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ میرا ربّ ہی ہے کہ جو آبادی اور ویرانی کرتا ہے.یہاں اِحیاء و اِماتت کے یقینًا یہی معنے ہیں.غلطی کرتے ہیں وہ جو یہاں زندہ کرنے اور مارنے کے معنے لیتے ہیں

Page 413

کیونکہ یہ تو ایک بیوقوف سے بیوقوف بھی دعوٰی نہیں کرتا کہ حیات و ممات طبعی کا موجد مَیں ہوں.اس کے ثبوت میں ہم موت کے کئی معنے پیش کرتے ہیں جو لغاتِ عرب سے ثابت ہیں.موت کے ایک معنے ہیں نشوونما کے.چنانچہ فرمایا(الحدید:۱۸)اور احساس کا دُور ہونا.قوٰی کا زوال جیسے اِس آیت میں(مریم:۲۴) مَر جانے کی دعا جیسے احادیث میںمنع ہے ایسے ہی تو رات میں بھی.پس مریمؑ اپنے لئے موت کی دعا نہیں کر سکتی تھی.۳.زوالِ عقل.(الانعام:۱۲۳) یعنی کم عقل ،بے ایمان، انسانیّت سے نابلد تھے.آخر وہ انبیاکی پاک صُحبت سے عقلوں والے ہو گئے.۴.حزن مکدّر لِلحیاۃ.یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّمَا ھُوَ بِمَیِّتٍ (ابراھیم:۱۸)ہرطرف سے دُکھ اور حیات کو مکدّر کرنے والے آئیں گے.۵.نیند کے معنے.سونے کے بعد اُٹھے تو یہ دعا احادیث میں آئی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا.۶.قوّتِ حیات کا بطلان.اِنَّکَ مَیِّتٌ وَّ اِنَّھُمْ مَّیِّتُوْنَ(زمر: ۳۱) ۷.جن کا بدلہ نہ لیا جاوے وہ بھی مُردہ ہیں.سبعہ معلّقہ کا ایک شعر ہے اِنْ نَبَشْتُمْ بَیْنَ مِلْحَۃَ فَالصَّا قِبِ فِیْھَا الْاَمْوَاتُ وَالْاَحْیَاء‘ .زندہ کہنے سے یہ مراد ہے کہ ان کا بدلہ لیا جاوے گا.غرض یہ موت کا لفظ متشابہ رنگ میں آیا ہے.پس جو راسخ فی العِلم ہوتے ہیں وہ مختلف المعانی الفاظ کو حسبِ موقع معنی کا لباس پہناتے ہیں.۸.ترقّی کے رُک جانے کا نام بھی موت ہے.۹.فقر کا نام بھی موت ہے.۱۰.موت العقل.موت العلم اور ذلّت کا نام بھی موت ہے.اَوَّلُ مَنْ مَّاتَ اِبْلِیْسُ.پس یہاں حسبِ موقع موت کے معنے ویرانی کے ہیں.ابراہیم نے کہا کہ آبادی و ویرانی میرے ربّ کے اختیار میں ہے.وہ کافر بولا.نہیں یہ کام بادشاہوں کے متعلق ہے.مَیں بھی بادشاہ ہوں پس یہ تو مَیں بھی کر سکتا ہوں.سُبحان اﷲ.انبیاء کی کیا عقل ہوتی ہے.فرمایا َّنادان خیال تو کر تُو اپنے مذہب کو چھوڑ بیٹھا ہے تم تو سُورج کی پرستش کرتے ہو اس وجہ سے کہ

Page 414

فصول وغیرہ کو اسی سے وابستہ سمجھتے ہو.اب اگر احیاء و اماتت ( ویرانی.آبادی) تمہارے اختیار میں ہے تو گویا سُورج تمہارا معبود نہیں بلکہ وہ تمہارے قبضۂ اختیار میں ہے.پس اگر یہ بات ہے تو تم اس کی چال پر ذرا حکومت دکھاؤ.جن لوگوں کو اِس نکتہ چینی کی سمجھ نہیں آئی انہوں نے کہا کہ ابراہیمؑ نے اِنَّ اﷲَ یَاْتِی کہہ کر تبدیل استدلال کیا ہے اور صوفیوں نے یہ بتایا ہے کہ پہلی دلیل کو قوی کیا ہے.یہ بات یاد رکھو کہ انبیاء کا طریق مباحثات میں یہ ہے کہ وہ اپنا آپ درمیان سے نکال دیتے ہیں.وہ جنابِ اِلہٰی کے حکم کے نیچے ہو کر کام کرتے ہیں اِس لئے مناظروں میں ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور وہ کافر بھونچکا ہو کر رہ گیا.ایک بات یاد آئی کہ ابنِ صیاد کے پاس نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) گئے اور اسے کہا میرے دِل میں کیا ہے؟ اُس نے کہا.دُخْ.آپ کے دِل میںیَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُ خَانٍ مُّبِیْنٍ (الدخان:۱۱) تھی.اس نے بتایا کہ دُخ کے متعلق کوئی مضمون ہے آپ نے فرمایااِخْسَأْ لَمْ تَعْدُ قَدْرَکَ.ذلیل رہ.اس سے نہیں بڑھے گا.مطلب یہ تھا کہ آئندہ ہم احتیاط کریں گے.جنابِ الہٰی کے حکم کے نیچے حسبِ دستور مناظرہ ہو گا پھر تو کبھی کامیاب نہیں ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) ابراہیم علیہ السّلام نے بادشاہِ وقت سے بھی مقابلہ کیا اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی عظمت کے قائم کرنے کے لئے کیا گیا تھا.اِس مباحثہ میں احیاء اور اِماتت کی بھی ایک بحث تھی جہاں ابراہیم علیہ السلام کا قول رِبِّیَ الََّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُدرج ہے اور جو کہ توحیدِ باری تعالیٰ کے متعلق ایک عجیب فقرہ ہے جس کو ہمارے زمانہ سے بڑا تعلق ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السّلام نے بھی مُردہ زندہ کئے تھے تو پھر ابراہیم علیہ السّلام کا یہ اِستدلال کوئی قابلِ وقعت شئے نہیں ہو سکتا اور ان کا یہ کام اور کلام سب خاک میں مِل جاتا ہے.ہاں ایک معنے کے رُو سے انبیاء بھی احیاء کرتے ہیں مگر چونکہ خدا تعالیٰلَیْسَکَمِثْلِہٖ شَیْئٌہے اِس لئے اس کا احیاء بھیلَیْسکَمِثْلِہ شَیْئٌ ہی ہو گا اورانبیاء کا احیاء اس سے کوئی لگا نہیں کھائے گا.یہ بالکل سچ ہے کہ احیاء موتی صرف ربّ کا ہی کام ہے اور وہ بھی کسی اَور عالَم میں.انبیاء کے احیاء کے یہ معنے ہیں کہ بعض شریر لوگ جو کہ اُن کی پاکیزہ مجالس میں آتے رہتے ہیں اور ان میں سے بعض اپنی کسی فطری سعادت کی وجہ سے جو کہ ان کے نطفہ میں آئی ہوتی ہے ہدایت پا جاتے ہیں اُن کی کفر اور فسق کی حالت کا نام موت ہوتا ہے اور ہدایت پا جانے کو احیاء سے تعبیر کرتے ہیں.(الحکم ۲۴؍فروری ۱۹۰۵ء صفحہ۷)

Page 415

بھلا دھیان تو کرو اُس شخص کی طرف جس نے ابراہیمؑ راست باز سے ربّ کی بابت بحث کی.کیا یہ بحث بدلہ تھی اِس بات کا کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے بادشاہی دے رکھی تھی.جب ابراہیم علیہ السّلام راستباز نے کہا میرا رَبّ تو ایسا طاقتور ہے کہ زندہ کرتا اور مارتا ہے تو اس نادان نے ( غور کرو) کیا جواب دیا.مَیں بھی مارتا اور زندہ کرتا ہوں.جب ابراہیم علیہ السّلام نے دیکھا کہ یہ ایسا نادان ہے کہ زندہ کرنا اور مارنا ہی نہیں سمجھتا.تو فرمایا اچھا اﷲ تعالیٰ تو سُورج کو مشرق کی جانب سے طلوع کرتا ہے تُو سُورج کو مغرب کی طرف سے لا دکھا.اِتنی بات سُن کر کافر بَغلیں جھانکنے لگا اور اﷲ تعالیٰ تو ایسے بدکاروں کو بحث کی سمجھ بھی نہیں دیتا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۸) اﷲ تعالیٰ نے … بتایا ہے کہ وہ کیونکر دُنیا میں احیاء و اماتت یعنی ویرانی سے آبادی کرتا ہے.پہلے تو اِس مضمون پر ایک مباحثہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا مجوسی قوم کے ایک شخص کے ساتھ ہؤا.اَنْ اٰتٰہُ اﷲُ الْمُلْکَمیں ہُ کی ضمیر کا مرجع اگر حضرت ابراہیمؑ ہوں تو اشارہ ہے (الانعام:۷۶)کی طرف.اور اگر مرجع وہ خصم عنید ہو تو یہ کہ مخالف کسی جاگیرو جائیداد پر تصرّف رکھتا تھا.بعض نادانوں کو اِس بات نے بہت گمراہ کیا ہے کہ وہ خواہ مخواہ ناموں کی تدقیق و تحقیق میں مشغول ہو جاتے ہیں اور اصل مقصود کی طرف توجّہ نہیں رہتی.بعض لوگوں نے اس مخالف کو نمرود سمجھا ہے اور پھر یہ اعتراض پیش آیا کہ آیا نمرود حضرت ابراہیمؑ کے زمانہ میں تھا بھی یا نہیں ؟ حالانکہ اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ناموں کے پیچھے پڑ جائیں.کوئی ہو.ہم نے تو یہ دیکھنا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُمیرا ربّ ہے جو آباد کرتا ہے اور ویران کرتا ہے.احیاء و اماتت کے اس مقام پر یہی معنے ہیں کیونکہ مُردوں کا اِس دُنیا میں زندہ کرنا سُنّت اﷲ نہیں.اس مخالف نے بھی یہی مطلب سمجھا.اِس واسطے جواب میں کہا اِنَا اُحْیٖ وَ اُمِیْتُکہ مَیں آباد سے ویران اور ویران سے آباد کرتا ہوں.کسی کو جاگیر دے دی.انعام دیا.آباد ہو گیا.کسی کو لُوٹ لیا.ویران ہو گیا.چونکہ یہ جواب بہت ناقص تھا اور وہ مجوسی.( قرآن مجید کی متعدّد آیات سے یہ امر واضح ہے کہ ابراہیمؑ کے مقابلہ میں مجوسی قوم تھی ) اور مجوسی اجرام سماوی کی پرستش کرتے تھے.حضرت ابراہیمؑ نے کئی کئی رنگوں میں ان پر اتمامِ حُجّت کی.مثلاً ایک جگہ کو کب ، قمر ، سُورج کو بطور استفہام انکاری ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر پھر نتیجہ نکالا ہے اِنِّیْ بَرِیئٌ مِّمَّا تُشْرِکُوْنَمجوسیوں نے بہت بُرا اثر پھیلایا ( ایران کے لڑیچر میں اجرام کی تعریف پائی جاتی ہے بعض مسلمان بھی اس اثر سے متاثر ہو گئے.سکندر نامہ دیکھو پھر

Page 416

بوالفضل کی تصنیف جس میں آفتاب کو حضرت نیّرِ اعظم لکھا گیا ہے) تھا اِس لئے حضرت ابراہیمؑ نے اسے خوب جواب دیا کہ یہ آبادی و ویرانی تو اجرامِ سماوی کے اثر سے وابستہ ہے جب آپ بھی محی و ممیت ہیں تو گویا آپ کو دعوٰی ہے کہ سُورج پر بھی مَیں ہی حکمران ہوں اور یہ اجرام سب تمہارے ماتحت ہیں حالانکہ یہ اس کے اور اس کی جماعت کے عقائد کے خلاف تھا اِس لئے وہ یہ جواب سُنکرَّمبُہوت رہ گیا یعنی اگر سُورج تمہارے ماتحت ہے تو اپنا تصرّف دکھاؤ.(تشحیذالاذہان جلد ۷نمبر۷ صفحہ۳۳۱،۳۳۲) : اِس آیتِ شریفہ میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی سمجھایا ہے کہ انسان جب اﷲ کے حضور کامل یقین سے دعا کرتا ہے تو وہ کبھی محروم نہیں رہتا.دعا میں تین مشکلا ت لوگوں کو پیش آئی ہیں.ایک تو یہ کہ وہ خدا کی خدائی اور اس کی حکمتوں پر ایمان نہیں لاتے.قِسم قِسم کی خواہشیں کرتے ہیں جن کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ جب قبول نہیں کرتا تو وہ نادانی سے دعا ہی کے مُنکر ہو جاتے ہیں حالانکہ اگر ان کی یہ دعائیں قبول ہوں تو دُنیا فنا ہو جائے.عورتوں ہی کو لو وہ بچّوں سے تنگ آ کر انہیں کِس طرح کوستی ہیں.ایک عورت ایک نئی قِسم کی بَد عا دیا کرتی تھی.وہ کہتی ’’ لوہے کا جھاڑو.لوہے کا جھاڑو.‘‘ مطلب یہ تھا کہ ایسا صفایا ہو کہ کوئی نام و نشان نہ رہے.اِسی طرح گنوار زمیندار اپنے مویشیوں کے حق میں بَد دعائیں دیتے ہیں.ادھر فریق ثانی بھی.اب اگر دونوں کی دعائیں خدا تعالیٰ سُن لے تو ایک بھی نہ رہے.پھر دوسری بات ہے کہ دعا ایک محنت ہے اور اپنے لئے ایک موت اختیار کرنا ہے.وہ جب ایک خاص نقطہ تک پہنچتی ہے تو اسے قبولیّت کا جامہ پہنایا جاتا ہے.بعض لوگ ورے ورے ہی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں.مگر یہ نہیں ہوتا تو گھبرا اُٹھتے ہیں.پھر بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اِس نکتۂ معرفت سے بے خبر ہیں کہ دعا ضائع نہیں جاتی بلکہ اگر وہ مقصد حاصل نہ ہو تو اس کا فائدہ ضرور ہے کہ معاصی کے نتائج اور آنے والی بَلاؤں سے بچا لیتی ہے.یہاں اِن آیات میں جو مذکور ہے اس کی اصل یہ ہے کہ بنی اسرائیل جب شرارت میں حد سے بڑھ گئے تو خدا تعالیٰ نے ان پر ذِلّت و مسکنت لیس دی.وہ بابل میں جلاوطن کئے گئے.پھر جب انہوں نے خدا کی طرف رجوع کیا تو ان میں حزقیل، عزرائیل، دانیال سے برگزیدہ پیدا ہوئے.حزقیل نے ان کے لئے بہت دعائیں کیں اور گھبرا کر پکار اُٹھے کہ اب یہ مُردہ قوم کب زندہ ہو گی.یہ ویرانہ کب آباد ہو گا.اﷲ تعالیٰ

Page 417

نے ان کو رؤیا میں سب کچھ دکھایا.یہ ایک عام سُنّت اﷲ ہے کہ جس بات کی تورات میں تفصیل ہو قرآن شریف اس کی طرف اجمالی اشارہ کرتا ہے اور جس کا تورات میں مجمل بیان ہو قرآن سریف اسے مفصّل بیان کرتا ہے.اِس قِصّہ کو تورات میں خوب کھولا گیا ہے.وہاں حزقیل باب ۳۷ میں صاف لکھا ہے کہ آپ نے خواب دیکھا ایک وادی میں ہڈیاں بھری ہیں.اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم بنوت ( پیشگوئی) کرو.جو سچ بات ہو اس کی مثالیں بہت مِل جاتی ہیں.چنانچہ اِس طرز کی ایک رؤیا ابوحنیفہ کی بھی ہے کہ آپ نے دیکھا کہ حضرت نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی قبر میں ہڈّیوں کو اکٹھا کر رہے ہیں.معبّرینِ زمانہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کے سچّے علم میں ایک بے خبری کا مرض آ گیا تھا آپ کے ذریعہ سے اب یہ دین از سرِ نَو زندہ ہو گا.اَمَاتَہُ اﷲُکے متعلق مَیں یہ بھی سُنائے دیتا ہوں کہ بعض وقت نبی اُمّت کا قائم مقام ہوتا ہے چنانچہ ہماے نبیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو معراج میں دودھ اور شراب پیش کیا گیا تو آپؐ نے دُودھ پیا تب جبرائیل نے بتایا کہ اگر آپ شراب پیتے تو تمام اُمّت بدکار ہو جاتی.ایسا ہی ایک مقام پر قرآن کریم میں آیا ہے یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ (الطّلاق: ۲)پہلے نبی سے خطاب ہے مگر پھر آگے چل کر کھول دیا ہے کہ نبی قائم مقامِ اُمّت ہے.پس اَمَاتَہُ اﷲُسے قوم کی ویرانی و تباہی مراد ہے جو ایک سَو سال تک رہی.پھر وہ قوم از سرِ نَو زندہ ہوئی.غرض حز قیل کو خدا نے وہ نظّارہ رؤیا میں دکھایا حز قیل اپنے قیاس سے یَوْمًا اَوْبَعْضَ یَوْمٍکہتا ہے مگر خدا تعالیٰ اسے سَو سال بتاتا ہے مگر ساتھ ہی بتایا ہے کہ تم بھی سچّے ہو کیونکہ طعام و شراب پر سال نہیں گزرے اور رؤیا میں یہ بات ممکن ہے.چنانچہ سُورۃیوسف میں ایک ذکر ہے کہ بادشاہ نے چَودہ سال قحط و سرسبزی کے ایک آن میں دیکھ لئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ رؤیا کا لفظ یہاں نہیں.یہ ان کی غلطی ہے. (یوسف:۵)انبیاء کے لئے خواب کا اظہار ضروری نہیں ہوتا.حضرت صاحب ۱؎ سے مَیں نے ایک دفعہ اِس آیت کے معنے دریافت کئے تو آپ نے فرمایا مَیں نے جنابِ الہٰی میں توجّہ کی تو مجھ پر کھلا کہ وہ شخص واقعی مَر گیا تھا.عرض کیا کہ پھر سَو سال کے بعد اُٹھنا کیا معنے ؟ فرمایا کہ انبیاء کو مرنے کے بعد ایک حیات دی جاتی ہے.ہمارے نبیٔ کریم ( صلی اﷲ ۱؎ حصرت مسیح موعود علیہ السّلام

Page 418

علیہ وسلم) نے بھی فرمایا تھا کہ مَیں چالیس دِن کے بعد زندہ کیا جاؤں گا.پھر عرض کیا کہ وہ آیت کِس طرح ہے؟ فرمایا کیا مُردہ آیت نہیں ہو سکتا؟ اﷲ تعالیٰ فرعون کی نسبت فرماتا ہے لِمَنْ خَلْفَکَ اٰیَۃً (یونس:۹۳)چونکہ میری طبیعت میں شرم اور اَدب بہت تھا اِس لئے مَیںنے یہ نہ پُوچھا کہ اُنْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ کا کیا مطلب ہؤا؟ قاضی امیر حسین صاحب نے بھی ایک معنے کئے ہیں.وہ اماتت کے معنے باستدلال آیت یَاْتِیْہِ الْمَوْتُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ (ابراھیم:۱۸)پریشانی و پراگندگی کرتے ہیں.اَمَاتَہٗ اﷲُ مِائَۃَ عَامٍ سے یہ مُراد ہے کہ حزقیل کو خد نے سَو سال تک غم اور پریشانی اور حُزن مکدّر الحیاۃ میں رکھا.بیس برس کی عمر میں حُزن پیدا ہؤا.یروشلم تباہ ہو چکا تھا.۷۰ برس تباہی رہی ۳۰ برس میں آباد ہوئی پھر اﷲ تعالیٰ نے یوروشلم کو آباد کر دیا تو عزرا نبی تشریف لائے.دیکھا کہ جہاں پانی نہ تھا وہاں کھانے پینے کی تمام چیزیں تازہ بتازہ، نَوبہ نَو ( نہ کہ سڑی بُسی) موجود ہیں بلکہ مال مویشی اور سواری کے جانور بھی.یہ معنے بھی کِسی وقت دلچسپی سے خالی نہیں.وَ انْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ:اَنّٰی یُحْیٖ کب اور کِس طرح زندہ کرے گا، کا عقلی جواب ہے کہ تم اپنی ہڈیوں ہی کو دیکھو کہ اﷲ انہیں آہستہ آہستہ کس طرح اُٹھاتا ہے.جہاد میں اِس قصّے کے بیان کا یہ فائدہ ہے کہ خدا نے فرمایا ویرانی اور آبادی میرے اختیار میں ہے پس تم اپنے لوگوں میں سے کسی کے قتل ہو جانے پر حُزن مت کرو.تم اس پر کامل یقین کرو.وہ ہمیں ایک زندہ قوم بنا دے گا.مَیں نے ایک مشہور مفسّر کو دیکھا ہے کہ اُس نے عَامٍ کے معنے دِن کے کئے ہیں تو اِس لحاظ سے مِائَۃَ عَام ۱؍ ۲۲ چِلّے مراد لیتا ہے جو حزقیل نبی کو دعا و اضطراب میں جو ایک قِسم کی موت تھی کاٹنے پڑے.یہ معنے قاموس نے لکھے ہیں مگر قاموس نے غلطی کھائی ہے.وہ لفظ دراصل عیامہے جسے وہ عام سمجھا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) ایک شخص کا ذکر ہے جو ایک بستی کے قریب سے گزرا اور از راہِ استعجاب کہنے لگا اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اﷲُ.یہاں بھی لوگوں نے بحث کی ہے کہ وہ کافر تھا یا قیامت کا مُنکر تھا یا مومن تھا بلکہ نبی تھا.بعض کے نزدیک یرمیاہ بعض کے عُزَیر بعض کے حزقیل تھا.حالانکہ یہ بحث فضول ہے.تواتر اور پھر یہودیوں کی تاریخ سے ظاہر ہے کہ یہ بستی یروشلم تھی جو بخت نصر بابلی کے ذریعہ تباہ ہوئی.حزقیل نبی گزرے.اﷲ تعالیٰ نے انہیں رؤیا میں اس کی آبادی کا نظّارہ دکھایا.رؤیا کا ثبوت ایک تو

Page 419

حزقیل نبی کی کتاب سے ملتا ہے جو بِلا اختلاف یہود کے نزدیک مسلّم ہے.اس میں لکھا ہے ( دیکھو ۳۷ باب میں ) خداوند کا ہاتھ مجھ پر تھا… اور اس وادی میں جو ہڈیوں سے بھر پُور تھی مجھے اُتار دیا… پھر اس نے مجھے کہا کہ تُو ان ہڈیوں پر نبوّت کر.اسی نبوّت سے ( وہ آیت ہوئی) اور ان سے کہہ اے سُوکھی ہڈیو! تم خدا کا کلام سُنو! … دیکھو تمہارے اندر مَیں رُوح داخل کروں گا اور تم جیو گے… اور گوشت چڑھاؤں گا… تب اس نے مجھے کہا کہ اے آدم زاد!یہ ہڈیاں سارے اسرائیل ہیں.دیکھ یہ کہتے ہیں کہ ہماری ہڈیاںسُوکھ گئیں اِس لئے تُو نبوّت کر… کہ دیکھ اے میرے لوگ مَیں تمہاری قبروں کو کھولوں گا اور تمہیں تمہاری قبروں سے باہر نکالوں گا اور اسرائیل کے ملک میں لاؤں گا.دومؔ.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے لَبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍتُوسَو سال رہا.اور وہ خواب دیکھنے والا کہتا ہیلَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ دِن یا اس کا کچھ حصّہ.پھر اس کے قول کی اﷲ تعالیٰ تصدیق فرماتا ہے فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَ شَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَ انْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَکہ تُو اپنی کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھ.ان پر سال نہیں گزرے اور گدھے کو دیکھ لو ویسے ہی کھڑا ہے.پس یہ دو باتیں سوائے رؤیا کے کہیں جمع نہیں ہو سکتیں.چنانچہ اِس کی مثال سورۃیوسف میں اُس بادشاہ کا خواب ہے جس نے بَعْضَ یَوْمٍمیں سات سال کے قحط کا نظّارہ دیکھا. (یوسف:۴۴)( مَیں سات گائیں موٹی دیکھتا ہوں.کھاتی ہیں ان کو سات دُبلی اور سات بالیں سبز اور دوسری سُوکھی) یوسفؑ اس کی تعبیر فرماتے ہیں (یوسف:۴۸) غرض حزقیل نے نبوّت کی کہ یہ بستی سَو سال میں پھر آباد ہو گی اور پھر بنی اسرائیل اپنی سر زمین میں آئیں گے.چنانچہ ستّر سال گزرنے پر دانیال نبی کی معرفت بنی اسرائیل کو سمجھایا گیا کہ فارس کے بادشاہوں سے تعلّقات قائم کرو.پھر ان کی مدد سے وہ تیس برس میں آباد ہو گئے.یہ دوسرا ثبوت ہے اس کا کہ اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا چاہیئے.(تشحیذالاذہان جلد۷نمبر۷ صفحہ۳۳۲،۳۳۳)  

Page 420

:یہ تیسری مثال بھی جہاد کے متعلق ہے.مجاہد فی سبیل اﷲ.جب اﷲ کی راہ میں مارا جاتا ہے تو ضرور اﷲ اس کو ایک حیات بخشتا ہے اور اس پر ایک فضل ہوتا ہے.وہ اپنے (خدا) سے رزق پاتا ہے.ابراہیمؑ جو حُنَفاء کے باپ تھے انہوں نے اس نظّارہ کو دیکھنا چاہا کہ اس عالَم میں شہداء کیسے زندہ کئے جاتے ہیں.کَیْفَسے کسی کا وہم ہو سکتا تھا کہ شاید آپ مانتے نہ تھے اِس لئے اِس وہم کو سوال و جواب کے پَیرائے میں دُور کیا.:ایمان نہیں؟ :کہا کیوں نہیں.:شنیدہ کَے بَوَد مانند دیدہ.دیدا ور شنید میں فرق ہے.مَیں نظّارۂ قدرت کو دیکھنا چاہتا ہوں.:چار پرندوں کے لانے کا حکم دیا.چار کی تعداد اِس لئے مناسب ہے کہ انسان کی بھی چار ہی خلطیں ہوتی ہیں.صُرْھُنَّ:صُرْ کے عربی میں دو معنے ہیں ایک اپنی طرف مائل کرنا.ایک شعر یاد آ گیا ؎ و ما میدا الاخلاق فیھم حبلۃ ولٰکن اطراف الریاح تصورھا ابنِ عباسؓ نے بھی اس کے معنے اَمِلْھُنَّکئے ہیں.اِلٰی کا صِلہ بھی یہی معنے چاہتا ہے.دوسرے معنے کُچل دینے کے ہیں.میرے نزدیک کلامِ الہٰی میں جتنی وسعت ہو سکے کرنی چاہیئے.پس دونوں معنے صحیح ہیں.

Page 421

:پہلے کے مطابق یہ مطلب ہے کہ جب تھوڑی سی ربوبیّت کا یہ اثر ہے کہ تم ان کو اپنی طرف بُلاؤ تو تمہاری طرف دوڑتے آتے ہیں تو پھر ربّ الارباب کے بُلانے سے کیوں نہ آئیں گے.دوسرے معنے کے لحاظ سے یہ مطلب ہے کہ خدا نے ان کو دوسرے عالَم میں زندہ کیا اور یہ کیفیّت کشف میں ابراہیمؑ کو دکھادی.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۶؍مئی ۱۹۰۹ء) جب حضرت خلیل نے جنابِ الہٰی میں عرض کیا کہ کِس طرح پر ویرانی سے آبادی ہو گی تو خدا نے اپنی صفتِ ربوبیّت کی طرف متوجّہ کیا کہ تم چار پرند وں کو پا لو اور انہیں اپنی طرف بُلاؤ.چلے آئیں گے.اِسی طرح پر میری ربوبیّت ایسے اسباب مجتمع کر لے گی جو اس بستی کو آباد کر دے.(تشحیذالاذہان جلد ۷نمبر۷ صفحہ۳۳۳) صُرْھُنَّ اَمِلْھُنَّ نَحْوَکَ مِنَ الصّورای المیل.پس صُرْھُنَّکے معنی ہوئے اپنی طرف مائل کر لے.مفردات القرآن اور کتبِ لُغت میں ہے.حضرت ابراہیمؑ کو ان کے ایک سوال پر اﷲ تعالیٰ نے ایک دلیل بتائی ہے کہ کس طرح مُردے زندے ہوں گے.اس پر فرمایا: دیکھ ان جانوروں کو جو جسم اور رُوح کا مجموعہ ہیں.تیری ذرا سی پرورش کے سبب سے تیرے بُلانے پر پہاڑیوں سے تیری آواز سُن کر چلے آئیں گے تو کیا مَیںجو ان کا حقیقی مالک اور رَبّ پرورش کنندہ ہوں میرے بُلانے پر یہ ذرّات حیوان کے جمع نہیں ہو سکیں گے.اِس نظّارہ اور فعل پر بتاؤ کیا اِعتراض ہے؟ پس ترجمہ آیت کریمہ کا یہ ہؤا.فرمایا.پس لے پرندوں سے چار.پھر ان کو مائل کر لے اپنی طرف یعنی اپنے ساتھ ملا لے.پھر رکھ پہاڑی پر ان میں سے ایک ایک کو.پس بُلا ان کو.تیرے پاس آئیں گے دوڑتے.(نورالدین( ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۷۸،۱۷۹)

Page 422

:ان جنگوں میں ضرورت پڑتی تھی خرچ کی.پس اسکی ترغیب دی.یہ بات یاد رکھو کہ انبیاء(الشعراء:۱۱۰)کا اعلان کرنے والے ہیں جو داعی اِلی الحق ہوں.ان کو کسی اَجر کی ضرورت نہیں.مَیں خو داپنی طرف دیکھتا ہوں کہ تمہیں درس دیتا ہوں مگر کبھی میرے واہمہ میں بھی نہیں گزرا کہ کوئی اس کے عوض میں مجھے کچھ دے یا سلام تک بھی کرے.عبدالقادر جیلانی نے کَخَرْدَلَۃٍ عَلٰی حُکْمِ اتِّضَالمیں اپنے پاک دل کا بہت ہی سچّا نقشہ کھینچا ہے کہ احمق لوگوں نے اس کے شِرک آمیز معنے لئے ہیں مگر اصل یہی ہے کہ انہوں نے یہ بتلایا ہے کہ میرے نزدیک دُنیا کی قدر ایک رائی کے دانے کے برابر نہیں مگر دُنیا رائی میں نہیں آ سکتی.پس خوب یاد رکھو کہ انبیاء جو چندے مانگتے ہیں تو اپنے لئے نہیں بلکہ انہی چندہ دینے والوں کو کچھ دلانے کے لئے.اﷲ کے حضور دلانے کی بہت سی راہیں ہیں ان میں سے یہ بھی ایک راہ ہے جس کا ذکر پہلے شروع سُورۃ میں مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ (البقرۃ:۴)سے کیا پھر اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ (البقرۃ: ۱۷۸)میں.پھر اِسی پارہ میں اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ (البقرۃ:۲۵۵)سے.مگر اَب کھول کر مسئلہ انفاق فی سبیل اﷲ بیان کیا جاتا ہے.انجیل میں ایک فقرہ ہے کہ جو کوئی مانگے تو اسے دے.مگر دیکھو قرآن مجید نے اِس مضمون کو پانچ رکوع میں ختم کیا ہے.پہلا سوال تو یہ ہے کہ کسی کو کیوں دے ؟ سو اس کا بیان فرماتا ہے کہ اعلائِ کلمتہ اﷲکے لئے.خرچ کرنے والے کی ایک مثال تو یہ ہے کہ جیسے کوئی بیج زمین میں ڈالتا ہے مثل باجرے کے پھر اس میں کئی بالیاں لگتی ہیں. : بعض مقام پر ایک کے بدلہ دس اور بعض میں ایک کے بدلہ سات سَو کا مذکور ہے.یہ ضرورت ، اندازہ ، وقت و موقع کے لحاظ سے فرق ہے.مثلاً ایک شخص ہے دریا کے کنارے پر.سردی کا موسم ہے.بارش ہو رہی ہے.ایسی حالت میں کِسی کو گلاس پھر کر دے دے تو کونسی بڑی بات ہے لیکن اگر ایک شخص کسی کو جبکہ وہ جنگل میں دوپہر کے وقت تڑپ رہا ہے پیاس کی وجہ سے جاں بلب ہو.مُحرقہ میں گرفتار.پانی دیدے تو وہ عظیم الشّان نیکی ہے.پس اِسی قبسم کے فرق کے لحاظ سے اجروں میں فرق ہے.رابعہ کا ایک قِصّہ لکھا ہے کہ ان کے گھر میں بیس آدمی مہمان آ گئے گھر میں صرف دو روٹیاں تھیں آپ نے اپنی جاریہ سے کہا.جاؤ کہ یہ فقیر کو دے دو.اُس نے دل میں کہا کہ زاہد عابدبیوقوف بھی پَر لے درجے

Page 423

کے ہوتے ہیں دیکھو گھر میں بیس مہمان ہیں اگر انہیں ایک ایک ٹکڑہ دے تو بھی بھُوکے رہنے سے بہتر ہے اور ان مہمانوں کو یہ بات بُری معلوم ہوئی لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ رابعہ کا کیا مطلب ہے.تھوڑی دیر ہوئی تو ایک ملازمہ کسی امیر عورت کی ۱۸ روٹیاں لائی.رابعہ نے انہیں واپس دیکرفرمایا کہ یہ ہمارا حِصّہ ہرگز نہیں.واپس لے جاؤ.اُس نے کہا نہیں ، مَیں بھولی نہیں.مگر رابعہ نے یہ اصرار کیا کہ نہیں یہ ہمارا حِصّہ نہیں.ناچار وہ واپس ہوئی.ابھی دہلیز میں قدم رکھا ہی تھا کہ مالکہ نے چلّا کر کہا کہ تُو اِتنی دیر کہاں رہی.یہ تو دو قدم پر اس کا گھر ہے.ابھی تو رابعہ بصری کا حِصّہ پڑا ہے چنانچہ پھر اسے بیس روٹیاں دیں جو وہ لائی تو آپ نے بڑی خوشی سے لے لیں کہ واقعی یہ ہمارا حِصّہ ہے.اس وقت جاریہ اور مہمانوں نے عرض کیا کہ ہم اِس نکتہ کو سمجھے نہیں.فرمایا.جس وقت تم آئے تو میرے پاس دو روٹیاں تھیں.میرے دِل میں آیا کہ آؤ پھر مَولیٰ کریم سے سَودا کر لیں اس وقت میرے مطالعہ میں یہ آیت تھی مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ‘ عَشْرُ اَمْثَالِھَا اِس لحاظ سے دو کی بجائے بیس آنی چاہیئے تھیں.یہ اٹھارہ لائی تو مَیں سمجھی کہ مَیں نے تو اپنے مَولیٰ سے سَودا کیا ہے وہ تو بھُولنے والا نہیں.پس یہی بھُولی ہے.آخر یہ خیال سچ نکلا.یہ بات واقعی ہے کہانی قصّہ نہیں.مَیں نے خود بارہا آزمایا ہے.مگر خدا کا امتحان مت کرو.اُس کو تمہارے امتحانوں کی کیا پرواہ ہے.خدا کے قول کا عِلم عام کھیتی باڑی سے ہو سکتا ہے.بیج ڈالا جاتا ہے تو اس کے ساتھ کیڑے کھانے کو موجود، پھر جانور موجود، پھر ہزاروں بَلائیں ہیں، ان سے بچ کر آخر اس دانے کے سینکڑوں دانے بنتے ہیں.اِسی طرح جو خدا کی راہ میںبیج ڈالا جاوے وہ ضائع نہیں جاتا.اَب اِس سوال کو جواب تو ہو گیا کہ کیوں دے؟ اَب بتاتا ہے کِس طرح دے؟ اوّل تو یہ کہ محضاِبْتِغَآئِ مَرْضَاتِ اﷲِ دے.احسان نہ جتائے.بعض لوگ مُلّاں کو کہتے ہیں ہماری روٹیوں کا پَلا ہؤا.تو یہ حد درجہ کی سفاہت و کمینگی کی بات ہے.دوم کسی کو تکلیف نہ دے.تمام کتبِ الہٰیّہ سے زیادہ قرآنِ مجید میں خیرات کے متعلق ہدایات ہیں.اس میں بتایا گیا ہے کیوں دے؟ اِس لئے کہ جو اﷲ کی راہ میں دیتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کو بہت عمدہ بدلہ دیتا ہے اس کے مال کو بڑھاتا ہے وَ اﷲُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ.۲.یُرْبِی الصَّدَقٰت(البقرۃ :۲۷۷) کیا دے؟ عفو یعنی جو حاجتِ اصلیہ سے زیادہ ہو.حلال اور طیّب مال دے.ردّی چیز نہ ہو.ابتغاء

Page 424

لِوجہ اﷲ دے.چنانچہ فرماتا ہے اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ.ب.وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثُ مِنْہُ (البقرۃ:۲۶۸).ج.وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ (البقرۃ:۲۲۰).د.وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ اﷲِ (البقرۃ:۲۷۴)کِس طرح دے؟ پس جس کو دے اس پر احسان نہ جتائے.اسے دُکھ نہ دے.ظاہر دے تو یہ بھی اچھا اور اگر پوشیدہ دے تو یہ اس کے حق میں بہتر.ارشاد ہوتا ہے(۱)لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی(البقرۃ:۲۶۵)(۲) اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقٰتِ فَنَعِمَّا ہِیَ وَ اِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْ تُوْھَا الْفُقَرَآ ئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ.نَعِمَّا اورخَیْرٌ لَّکُمْکے فرق کو غور سے دیکھنا چاہیئے.کِس کِس کو دے.فقراء کو مساکین کو.ان لوگوں کو جو اﷲ کی راہ میں رو کے گئے ہیں یعنی طلباء ، علماء جو محض دین کے کاموں میں مصروف ہوں اور اِس وجہ سے کوئی کَسب نہ کر سکتے ہوں. (البقرۃ:۲۷۴) (تشحیذالاذہان جلد۸ نمبراصفحہ ۳۲)    : یہ خیرات کی برکات بتائی ہیں کہ مشکلات میں خیرات کرنے والے کو خوف اگر لاحق ہو تو وہ دُور کیا جاتا ہے اور پھر اسے حُزن نہیں ہوتا.ایک مفسّر نے سخت غلطی کی ہے جو اِس آیت کی نسبت لکھ دیا ہے کہ صرف صحابہؓ کے لئے تھی اَب یہ بات نہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)   :سائل سوال کرتا ہے تو اس وقت چار مشکلات ہو سکتی ہیں

Page 425

.مسئول کے لئے یہ دھوکہ.مثلاًجیب میں روپیہ پیسہ ہیں مگر دل دینے میں مضائقہ کرتا ہے.کئی عذرات سامنے آتے ہیں کہ آمدی کم ہے.فلاں فلاں خرچ در پیش ہے پس دوں تو کیونکر دوں؟ احتیاج لازمِ حال ہے.کنبہ بہت ہے یا پاس کچھ نہیں اور دل چاہتا ہے.یہ ظاہرداری کا تقاضا ہے کہ کچھ دے.اِسی طرح سائل یا تو ایسا ہے کہ واقعی محتاج ہے یا وہ بطور پیشہ و عادت کے مانگتا ہے.جیسے کہ مَیں نے ایک عورت کو سونے کا زیور پہنے مانگتے دیکھا پوچھا تو کہا یہی ہمارا پیشہ ہے.گویا یہ چار صورتیں ہیں.اب اﷲ ان کے لئے دونکتے سکھاتا ہے اگر جیب میں ہے اور دے نہیں سکتا تو کوئی اچھی بات ہی کہہ دے جو اس کے حق میں مفید ہو.ایسا ہی پاس کچھ نہیں تو قولِ معروف ہی اس کے بدلے میں کر دے.یہ مسئول کے لئے ہے اور سائل کے لئے قولِ معروف یہ ہے کہ اپنے آپ کو سمجھائے.باوجود ہونے کے کیوں سوال کرتا پھرتا ہے؟ اگر واقعی احتیاج سے سوال کرتا ہے تو بھی اپنے لئے قولِ معرو ف کرے کہ کیوں عجز اختیار کر رکھا ہے کوئی پیشہ اختیار کر.ایسا ہی اگر مسئول کے پاس ہے اور دیتا نہیں تو استغفار کرے کہ جُودو سخا مثمر ثمراتِ لیّبہ کے لئے شرح صدر عطا ہو.اگر پاس کچھ نہیں اور دینا چاہتا ہے تو بھی استغفار کرے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے کشائِش دے یا سائل کے لئے استغفار کرے.ایسا ہی وہ سائل جو ہے اگر باوجود مال کا مالک ہونے کے مانگتا ہے تو استغفار کرے کہ کیوں خواہ مخواہ ذلّت میں گرفتار ہے.اگر واقعی ہے نہیں پھر بھی استغفار پڑھے کہ اﷲ اپنی جناب سے رزق دے اور سوال کی ذِلّت سے بچا رہوں.غَنِیٌّ حَلِیْمٌ: اﷲ کو اپنی ذات کے لئے صدقوں کی کچھ پرواہ نہیں.وہ حلیم ہے اور اَلصَّدَقَۃُ تُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 426

وَابِلٌ:پورا مینہ :کسی کے کہنے سُننے سے نہ ہو.فوری جوش نہ ہو بلکہ دل کے پکّے ارادے سے ہو.پہلے بتایا خرچ کیوں کرو.پھر بتایا خرچ کِس طرح کرو.ریا کے لئے نہ ہو.احسان نمائی اور تکلیف دہی نہ ہو.دِلی محبّت سے محض اﷲ کی رضامندی کے لئے ہو.اب ایک دُنیوی مال دیتا ہے کیونکہ اﷲ اپنی پاک باتیں جو رسولوں کی زبان پر دُنیا کو پہنچاتا ہے اس کے نمونے دُنیا میں رکھے ہوتے ہیں.رَبْوَۃٌ: اِس کے معنے بعض مترجموں نے غلطی سے اُونچی جگہ یا مَیرا کے کئے ہیں یہ غلط ہے.یہ ربوؔ سے ہے جس کے معنے ہیں بڑھانا.پس ربوہ اُس زمین کو بولتے ہیں جس میں سے بیج جلد نکل آوے اور بہت کثرت سے پھُولے پھلے.پنجاب میں ایسی زمین کو ’’ نیائیں‘‘ بولتے ہیں اور پہاڑوں کے قریب ’’ بجوہ‘‘.ضِعْفَیْنِ: معمولی سے بہت بڑھ چڑھ کر.تثنیہ کبھی کثرت کے لئے بھی ہوتا ہے.جیسیلَبَّیْکَ.سَعْدَیْکَ.(الملک:۵) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 427

خرچ کرنے کے یہاں بڑے مواقع ہیں.مہمان خانہ ہے، لنگرخانہ ہے.مدرسہ ہے.پھر بعض لوگ آتے ہیں لیکن وہ بے خرچ ہوتے ہیں ان کو خرچ کی ضرورت پڑتی ہے اور بعض دولت مند بھی آتے ہیں اور مَیں نے اکثر دفعہ لوگوں کو کہا ہے کہ وہ آ کر اپنا سامان وغیرہ میرے حوالہ کر کے رسید لے لیا کریں کہ گم نہ ہؤا کرے مگر وہ ایسا نہیں کرتے اور ان کا سامان گُم ہو جاتا ہے اور امداد کی ضرورت اُن کو آ پڑتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ محض ابتغاء لِوجہ اﷲ یہاں رہتے ہیں.پھر دو اخبار بھی ہیں اگرچہ ان کے مہتمم اپنے فرائض کو کما حقّہ‘ بجا نہیں لاتے مگر تاہم ان کا ہونا غنیمت ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہیفَاِنْ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِلٌفَطَلٌّ توان سب اخراجات کو مدِّ نظر رکھنا اور ان موقعوں پر خرچ کرنا چاہیئے.جو اہم امور ہیں وہاں اہم اور جو اس سے کم ہیں وہاں کم.درجہ بدرجہ ہر ایک کا خیال رکھو.(الحکم ۲۴؍ جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۴)     :اِس آیت میں تمام درختوں میں سے نخیل و اعناب کا ذکر بالخصوص اسلئے کیا ہے کہ یہ بہت اعلیٰ قِسم کے درخت ہیں.رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے مومن کو کھجور کے درخت سے تشبیہ دی ہے اِس لئے کہ اس میں چند خاصیّتیں ہیں.اوّلؔ تو یہ کہ اِس کے پتّے ہَوا سے نہیں جھڑتے.مومن کو بھی ایسا ہی ہونا چاہیئے کہ وہ قِسم قِسم کی مصیبتوں میں گھبرا نہ اُٹھے.

Page 428

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھ پر بہت سی مصیبتں یک لخت ٹوٹ پڑیں.مَیں جماعت کرانے لگااَلْحَمْدُ کے اَلْ تک پہنچا تھا کہ حمد پڑھنے سے میری طبیعت نے مضائقہ کیا.مَیں نے اپنے دل سے سوال کیا کہ تُو ایک قوم کا امام ہو کرالحمد پڑھنے لگا ہے.کیا واقعی تیرا قلب شرح صدر سے اﷲ کے حضور میں شُکر گزار ہے.اس وقت بہت اِضطراب کا وقت تھا.ایک طرف یہ خیال کہ مقتدی منتظر ہیں دوسری طرف یہ کہ اگر نہیں پڑھتا تو مقتدیوں کو ابتلاہے اور اگر پڑھتا ہوں اور شرح صدر سے نہیں پڑھتا ہوں تو یہ بھی ٹھیک نہیں.قربان جاؤں اپنے مُولیٰ کے.معًا اس نے میری دستگیری کی اور سمجھایا.ہم کوئی مصیبت بھیجتے ہیں اور اس پر اگر کوئی شخص صبر کرتا ہے تو ہم اسے بہتر سے بہتر بدلہ دیتے ہیں.پس ایک کوڑی ضائع کرنے سے پونڈ ملے تو رنج کی کونسی بات ہے.اب کیا معلوم کہ اس میں کِس قدر اِنعامات میرے لئے مخفی ہیں.پھر مصیبتیں گناہوں کا کفارہ ہیں.گناہوں کے عوض میں جو سزا مجھے ملنی تھی وہ خدا جانے کس قدر تکلیف دِہ ہوتی.پھر یہ مصیبت موجود جو ہے اس پر بھی شکر کا مقام ہے کہ خدا اس سے بڑھ بڑھ کر مجھے مصیبتیں پہنچا سکتا ہے.میری ناک کٹ جاتی.مَیں بے عزّت ہو جاتا.تباہ ہو جاتا.کوئی عضو ہی جاتا رہتا.لڑکا ہی نافرمان ہو جاتا تو کِس قدر دُکھ کا موجب ہوتا.پس جب اس نے مصیبت پر اِنَّا لِلّٰہ پڑھنے والے کو نعم البدل دینے اور عام و خاص رحمتوں سے ممتاز فرمانے کا وعدہ کیا ہے تو مَیں کیوں شرح صدر سے الحمد نہ پڑھوں.اس کے بعد مَیں نے الحمد پڑھی.غرض مومن کو چاہیئے کہ وہ مصیبتوں سے گھبرا نہ اُٹھے.پھر کھجور میں ایک اَور خاصیّت ہے کہ اس کے پھل سال بھر قائم رہتے ہیں.اِسی طرح مومن ہر حالت میں دوسرے کے لئے مفید بنتا ہے.اس کے لئے کوئی خاص موسم نہیں.تیسری بات کھجور میں یہ ہے کہ وہ غذا کا کام بھی دیتی ہے اور شربت کا بھی.گٹھلی گھوڑوں کو دیتے ہیں مقوی ہوتی ہے.اس کی لیف سے قِسم قِسم کی رسّیاں اور باریک تاروں سے بستر بناتے ہیں.پَتّوں کی چٹائیاں، فرش اور صندوق بنتے ہیں.شاخوں کی الماریاں.اِس سے اُتر کر انگور ہے اِس کا منقّہ بھی غذا اور شربت دونوں کا کام دیتا ہے.پھر اِس کے پتّے بھی مفید ہیں گو عام طور سے اِستعمال نہیں ہوتے.پھر وہ باغ بھی ایسا ہو کہ اس میں نہریں بہتی ہوں.:سیب.سنگترے.فالسے.کیلے وغیرھا.غرض اس باغ پر ساری عمر کا سرمایا لگایا جا چکا ہے اور اَب کوئی اَرمان باقی نہیں.

Page 429

:اب اس پر کوئی بَلا آ جاوے جو اسے دبوچ لے اور وہ جَل بُن کر خاکِ سیاہ ہو جاوے تو کیسی بُری بات ہے.اِسی طرح کوئی خیرات تو کرتا ہے مگر وہ ان ہدایات کے مطابق نہیں کرتا جو حق سُبحانہ‘ نے بتائے تو پھر سب خرچ اکارت جاوے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍ مئی ۱۹۰۹ء)      ایمان والو! اپنی کمائی اور زمین کی عمدہ برکات سے جو ہم نے تمہارے لئے نکالے ہیں اچھی اچھی چیزیںخدا کی راہ میں خرچ کرو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۸۵) :ایک قِصّہ یاد ہے کِسی مُلّاں کے پاس لڑکا دُودھ لایا.اس نے کہا تم تو کبھی نہیں لائے آج کیا بات ہے.اُس نے کہا کُتا اِس میں مُنہ ڈال گیا تھا.:بعض وقت اِنسان کچھ دینا چاہتا ہے مگر دل میں طرح طرح کے وسوسے اُٹھتے ہیں کہ یہ خرچ در پیش ہیں اگر اِس طرح سخاوت کی تو پاس کچھ بھی نہ رہے گا.ان کے متعلق فرماتا ہے کہ شیطان تو یہ کہتا ہے مگر خدا فرماتا ہے کہ جو تم خلوصِ قلبئی

Page 430

سے خرچ کرو گے مَیں اسے بڑھا دوں گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)   :حِکمت کی یہی باتیں ہیں جو بیان ہوئیں بعض نادان طبابت کو حکمت کہتے ہیں یہ غلط ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)    : صدقہ ضرور رَدِّبلا ہے.ایک شخص کو پھانسی کا حکم ہؤا.راہ میں اُس نے کسی سے دو پیسے مانگے.سپاہیوں نے لینے دیئے کہ آخری وقت ہے.معمولی بات پر کیا منع کرنا.اس نے دو روٹیاں خریدیں اور آگے چل کر کسی مسکین محتاج کو دے دیں.اِدھر اس کے گلے میں رسّہ ڈالا گیا.ابھی تختہ نیچے سے کھینچا نہیں تھا کہ حکم آ گیا کہ پھانسی مُلتوی کر دو کچھ تحقیقات باقی ہے.آخرالامر وہ رِہا ہو گیا.دیکھا یہ دو روٹیاں آدمی کی جان بچا گئیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 431

    قرآن شریف یہ بتا کر کہ کہاں سے دے اور کِس مال کو خرچ کرے اَب یہ بتاتا ہے کہ کِس کِس کو دے.:سو ان میں سے ایک تو وہ فقراء ہیں جو اعلائِ کلمتہ اﷲ میں ہر وقت مشغول رہتے ہیں.جہا دِسنانی ہو یا لِسانی اور اِس وجہ سے وہ  زمین میں کمانے کے لئے جدّوجہد نہیں کر سکتے.: ان کی علامتوں سے شِریعت نے قرائن کا بھی ایک علم رکھا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)    

Page 432

:کمانے کی صورتوں میں سے ایک صورت کمانے کی جہاد کی بہت بھاری دشمن ہے اور وہ سُود ہے.ربٰواکے بہت ہی خطرناک نتائج مَیں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.سُود خواروں کے اخلاق ایسے خراب ہوتے ہیں کہ ایک سُود خوار کے آگے مَیں نے ایک فقیر کے لئے سفارش کی تو وہ کہنے لگے کہ پانچ روپے مَیں دے تو دوں گا مگر میرے پاس رہتے تو سَو برس میں سُود در سُود سے ۱ ؍ ۱ ۴ لاکھ ہو جاتا.لکھنؤ میں ایک سلطنت تھی وہ بھی محض سُود سے تباہ ہوئی.پہلے ان کے مبلّغات پرومیسری نوٹوں کے بدلے میں گئے پھر وہ جنگ کرنے کے قابل نہ رہے اور آخر وہ وقت آیا کہ یہ سلطنت تباہ ہو گئی.مَیں نے چند مصنّفین کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ ربٰوا کے معنے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ پر بھی نہ کُھلے.تعجّب کی بات ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہاں تک تو فرما دیا کہ فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرۃ: ۲۸۰) اور یہ نہ کھولا کہ ربٰوا کیا ہے.پھر ساہوکار جاہل سے جاہل زمیندار سب جانتے ہیں کہ سُود کیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء) کَمَا یَقُوْمُ: جنگوں کو نہیں جاتا مگر خبطی کی طرح کیونکہ وہ اپنی اسامیوں کو نہیں مارے گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۵)  :سُود کو مٹاتا ہے اﷲ.کیونکہ اس کو منع کر دیا.:اور صدقات کو بڑھاتا ہے اِس طرح کہ ان کے دینے کا حکم دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)  

Page 433

او ایمان والو! اﷲتعالیٰ کے عذاب سے جو اس کے نافرمانوں کے لئے مقرر ہے اپنے آپکو بچائے رکھو اور چھوڑ دو جو کچھ بیاجوں کا روپیہ تم کو لوگوں سے لینا ہے.اگر مومن ہو تو ایسے ہی کام کرو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۶)   اگر اِس معاملہ میں تم نے فرمانبرداری نہ کی تو جان لو کہ تم سے جنگ کرنے کا حکم خدا اور اسکے رسول سے لگ چکا.اگر اﷲ کی طرف توجّہ رکھو تو تم کو اصل سرمایہ کے لینے کی اجازت ہے.ظالم نہ بنو.وَ اِلَّا ظلم کی سزا بھُگتو گے.اصل بھی نہ ملے گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۶)   اگر تمہار ا مقروض مفلس ہے تو اسے آسُودگی تک مہلت دو اور اگر قرضہ عفو کر دو تو تمہارے حق میں بہت بھلا ہے اگر سمجھو.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۷)   ڈرتے رہو اُس وقت سے کہ تمہارا معاملہ اﷲ کے سامنے پیش ہو اور وہاں ہر جی اپنے کئے

Page 434

کی سزا بھُگتے اور وہاں کسی پر ظلم نہ ہو گا.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ۲۶۷) :اِنسان کی فطرت میں جیسی محبّت کی خواہش ہے ویسے ہی دُکھوں میں اسے کسی راحت رساں ذریعہ کی آرزو ہے.پس اِس تقاضائے فطری کے ماتحت حضرت حق سُبحانہ فرماتے ہیں کہ تم جنابِ الہٰی میں ضرور حاضر کئے جاؤ گے.کیا تم نے اپنے بچاؤ کی کوئی تدبیر کی ہے؟ ایک اَدنیٰ سفر میں بھی انسان اپنے اُترنے کے مقام اور ضروریاتِ سفر کا انتظام کر لیتا ہے.پس کیا اِس لمبے سفر کے لئے بھی کبھی کوئی فِکر دامنگیر ہوئی ہے؟ اِنسان اپنی حالت پر غور کرے کہ جب وہ تھوڑے مجمع میں اپنی ہتک گوارا نہیں کرتا تو کیا جہاں اوّلین و آخرین ہوں گے وہاں اپنی ہتک گوارا کر لے گا؟ ہرگز نہیں.:کِسی قِسم کی کمی نہ ہو گی.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)    

Page 435

او ایمان والو! ہر ایک معاملہ کو لکھ لیا کرو جس کے لئے کوئی میعادی معاہدہ ہؤا او

Page 436

ہر ایک کو نہ چاہیئے کہ معاہدوں کو لکھا کرے بلکہ چاہیئے کہ معاہدہ کو وہ شخص لکھے جو ایسے معاہدوں کا لکھنے والا ہو اور معاہدہ کو اس انصاف کے ساتھ لکھے جس میں ضرورت کے وقت تمسّک میں نقص نہ نکلے اور تمسّک نویس کو تمسّک کے لکھنے میں کبھی انکار نہ ہؤا کرے کیونکہ کاتب کو اﷲ تعالیٰ نے فضل سے ایسا کام سکھایا.پس چاہیئے کہ تمسّکات کو لکھے اور لکھاوے.وہ جس نے دینا ہو اور ضرور ہے کہ لکھاتے ہوئے لکھا نے والا اﷲ سے ڈرتا رہے اور ذرّہ بھی اس میں کمی و نقص نہ کرے اور اگر لکھا نے والا کم عقل اور بچّہ اور لکھانے کے قابل نہیں تو اس کا سر براہ انصاف و عدل کے ساتھ لکھاوے اور اپنے معاملات پر دو مرد گواہ بنا لیا کرو.اگر دو مرد گواہ نہ مِل سکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں.دو کا فائدہ یہ ہے کہ اگر ایک ان میں سے کچھ بھُول گئی تو دوسری اُسے یاد دلائے گی اور گواہ بُلانے پر انکار نہ کریں اور ایسے سُست نہ بنیو کہ تھوڑا یا بہتا میعادی معاملہ لکھنے میں چھوڑ دو.اﷲ تعالیٰ کے یہاں پر انصاف کی باتیں ہیں اور جہاں گواہی کی ضرورت پڑے گی وہاں یہ باتیں بڑی مفید پڑیں گی اور ایسی تدبیروں سے باہمی بَد گمانیاں جاتی رہیں گی.ہاں دستی لین دین اور نقدی کی تجارت میں تحریر نہ ہونے سے گناہ بھی نہیں.مگر ہر ایک سَودے میں گواہوں کا پاس ہونا تو ضرور چاہیئے ( اگر اس پر عمل ہوتا تو چوری کی چیزیں لینے میں پولیس کی گرفتاری سے بہت کچھ امن ہو جاتا ) اور یاد رہے کہ کاتب اور گواہ کو ان کا ہر جانہ دو اگر نہ دو گے تو بدکار بنو گے.خدا کا ڈر رکھو.اﷲ تعالیٰ تمہیں آرام کی باتیں سکھاتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ہر شئے کو جانتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۶تا ۲۶۸) :جہاد میں ضرورت ہے روپیہ کی اور روپیہ کا حصول بعض کے نزدیک سُود پر منحصر ہے.فرمایا کہ جو سُود لیتا ہے وہ اﷲ سے جنگ کرتا ہے.ہاں لین دین کے معاملے میں کافی احتیاط ضروری ہے.: یعنی کاتب کی تحریر عدالت سے وابستہ ہو اور قانون سلطنت کے ٹھیک مطابق ہو.ہم نے ایک دفعہ پانسو روپیہ دیا اور جائیداد کی رجسٹری نہ کرائی.چنانچہ وہ روپیہ بھی واپس نہ ملا.حضرت صاحب نے فرمایا نور الدین نے دو گناہ کئے.ایک تو یہ کہ اﷲ کے حکم کے مطابق وہ رجسٹری داخل خارج نہ کرائی.دومؔ اپنے تساہل سے دوسرے کو گناہ کرنے کا موقع دیا.انہیں شاید ۵۰۰ روپیہ کی فِکر ہے اور مجھے اِس بات کی کہ یہی ۵۰۰ روپیہ گناہ کا کفّارہ ہو جائے کِسی اَور شامت میں مُبتلا نہ ہوں.

Page 437

کئی لوگ اِس غلطی میں مُبتلا ہیں کہ وہ لکھوانے میں اور قانونِ سلطنت کے مطابق رجسٹری وغیرہ کرانے میں تساہل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اجی یہ ہمارے اپنے ہیں یا بڑے بزرگ ہیں ان کی نسبت کیا خطرہ ہے.مگر آخر اس حکم کی خلاف ورزی کا نتیجہ اُٹھاتے ہیں.:کَمَاکے معنے ہیں کیونکہ  صحیح فرمایا.کیونکہ اﷲ ہی نے دماغ دیا.اسی نے فہم دیا.اسی نے آنکھیں دیں.کوئی کاتب کتابت نہیں کر سکتا مگر اﷲ کے فضل سے.اِس لئے اپنی طرف منسُوب فرمایا.بِالْحَقِّ: : لاہور میں ایک شخص نے میری تقریر سُن کر مجھ سے کہا کیا یہ باتیں آپ کی مجھے لفظ بلفظ یاد رہیں گی.مَیں نے سادگی سے کہا.نہیں.اس پر وہ بولا.تب یہ حدیثیں وغیرہ سب نامعتبر ہیں کیونکہ جب دس منٹ کے بعد کوئی کلام لفظ بہ لفظ یاد نہیں رہ سکتا تو پھر دو سَو سال کے بعد وہ باتیں کیسے یاد رہ سکتی ہیں.حدیثیں تو تمام دو سَو سال کے بعد مرتّب ہوئی ہیں.مَیں نے اسے جواب دیا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ایک بھُول جائے تو دوسرا یاد کرائے.اِس اصول کے مطابق ہم حدیثوں کے قدرِ مشترک کو لے لیتے ہیں.: تم پر گناہ نہیں جو نہ لکھوا سکو.اِس سے معلوم ہؤا کہ لکھنا بہر حال بہتر ہے.یہ اِس کلمہ سے خوب ملتا ہے(البقرۃ:۱۵۹) اِس میں طواف واجب ہے.:شافعی دکاندار معمولی سَودوں میں بھی آس پاس کے دکانوں کے لوگوں کو گواہ کر لیتے ہیں یا کم از کم علیٰ مذہب ابی حنیفہ کہہ کر اعلان کر دیتے ہیں.لَا یُضَآرََّّ: کا تب کو حقِ کتابت ضرور دینا چاہیئے.گواہوں کو بھی حرجانہ حسبِ حیثیّت ان کو دینا چاہیئے.:اﷲ کو سپر بناؤ.اس کا تقوٰی اختیار کرو.اﷲ علم دے گا.یہ تجربہ شدہ بات ہے کہ تقوٰی کا نتیجہ سچّے علوم کا ملنا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء) نیکی اور بَدی کی شناخت کا اِنحصار ہے قرآن شریف کے علم پر اور وہ منحصر ہے سچّے تقوٰی اور سعی پر.چنانچہ فرمایا وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲُ.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۲ء نیز ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء)

Page 438

تعلیم الہٰی کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون ٹھہرا دیا ہے وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲ.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ۱۲) خدا کی راہوں کا عِلم انسان کو تقوٰی کے ذریعہ سے حاصل ہوتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲتم تقوٰی اختیار کرو.اﷲ تم کو علم عطا کرے گا جس سے تم اس کی رضامندی کی راہ پرچل سکو گے.تقوٰی یہی ہے کہ انسان بالکل خدا کا ہو جاوے.اس کا اُٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا ہر ایک حرکت و سکون خدا کے لئے ہو.جب وہ ہمہ تن اپنے وجود اور ارادوں کو خدا کے لئے بنا دے گا تو پھر خدا بھی اس کا بن جاوے گا.مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اﷲُ لَہ‘.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۴ء صفحہ ۱۴) علوم جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں درس تدریس سے آہی نہیں سکتے بلکہ وہ تقوٰی اور محض تقوٰی سے ملتے ہیں.وَاتَّقُوا اﷲَ وَ یُعَلِّمُکُمُ اﷲ اگرمحض درس تدریس سے آ سکتے تو پھر قرآن مجید میں(الجمعۃ:۶)کیوں ہوتا.    اگر کہیں ایسے سفر میں لین دین کرو جہاں تم کو کاتب نہ مِل سکے تو رہن سے کام لو مگر ضرور ہے کہ مرہون چیز کا قبضہ کر لیا کرو.اور اگر ایسے معاملات میں ایک کو دوسرے کی امانت و دیانت پر یقین ہو تو امین کو چاہیئے کہ اﷲ تعالیٰ کا خوف کر کے امانت دار کے حقوق کو پ

Page 439

کر دے اور گواہی کو مت چھپاؤ.گواہی کا چھپانے والا دل کا بڑا بدکار ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.(تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۶۸،۲۶۹)    یہ سورۃ بقرۃ کا خاتمہ ہے.وہ بات جو مَیں نے ابتدا میں بیان کی تھی اس کا اس میں بھی پتہ لگتا ہے کہ اصل غرض اِس سورۂ کریمہ کی اعلانِ جہاد ہے چنانچہ(البقرۃ :۲۸۷) میں اِس مطلب کو ظاہر کر کے ختم کر دیا.اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میںبتایا کہ بعض منعَم علیہم مغضوب بھی بن جاتے ہیں چنانچہ وہ بنی اسرائیل جن کی نسبت فرمایااُذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ(البقرۃ: ۴۸)انہی کی نسبت بَآئُ وْا بِغَضَبٍ مِّنَ اﷲ(البقرۃِ:۶۲) فرمایا کہ منعَم علیہم کی کیا صفات ہیں اور مغضوب علیہم اور ضالین کا انجام کیا ہے.پھر منعم علیہم میں سے ابراہیمؑ اور اسباط کا ذکر کیا.پھر جہاد کے لئے آیات فرمائیں اورقَاتِلُوْا میں اس کی تصریح کر دی.چونکہ جنگوں میں جوش کے لئے شراب اور خرچ کے لئے مَیْسِر کا طریق تھا اِس لئے اس کی نسبت احکام صادر فرمائے اور لڑائی میں بعض بیوہ ہوئیں، بعض یتامٰی.کچھ خانگی تنازعات پیش آئے.اِس لئے ان کے بارے میں ضروری احکام بتا دیئے.پھر بتا دیا کہ تم ایسے نہ بننا جیسے موسٰیؑ کے ساتھی تھے اور نہ ایسے جیسے طالوت و داؤد کے زمانے میں بعض ہوئے.اِسی ضمن میں اِنفاق کی تاکید فرمائی اور بتایا کیوں دے؟ کیا دے؟ کہاں سے دے؟ کِس طرح دے؟ پھر اِسی سُورۃ میں توحید، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور تمام انسانی فضائل و رذائل کا بیان فرما دیا.گویا یہ سورۃ ایک جامع سورۃ ہے.اب اخیر میں بیان فرمایا :ان تمام ملکوں پر ایک وقت آتا ہے کہ حکومتِ الہٰیّہ ہو جاوے گی.ی

Page 440

یُحَاسِبْکُمْ بِہِ اﷲِ : دوسرے مقام پر فرمایا اِقْتَرَب لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ(الانبیاء : ۲) محاسبہ کا بھی ایک دن ہوتا ہے.فَیَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ :مَنْمیں عموم ضروری نہیں.معرفہ بھی ہوتا ہے.یہاں بتا دیا ہے کہ مغفرت ان کو ہو گی جو ( البقرۃ:۵) کے مصداق ہیں.کیونکہ وہی مُفْلِحُوْنہیں اور عذاب ان کو ہو گا جو (البقرۃ :۷) کے مورد ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی۱۹۰۹ء) اِس سورۃ میں بہت سی باتیں خدا تعالیٰ نے لوگوں کو سُنائی ہیں.پہلے یہ بتایا کہ یہ کتاب تمہارے لئے ہلاکت نہیں بلکہ ہدایت ہے.ایمان لاؤ.نمازیں ٹھیک کرو.اﷲ کی راہ میں دو.منافق نہ بنو.خدا کے تم پر بہت سے اِحسان ہیں.اگر وہ ناراض ہو گا تو پھر تمہارا نہ کوئی سفارشی ہو گا نہ ناصر و مددگار.نہ جُرمانہ دے کر چُھوٹ سکو گے.پھر فرماتا ہے.بہت سے لوگ ہیں جن پر ہم انعام کرتے ہیں مگر وہ اپنی بَد عملیوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بارگاہِ ایزدی سے بہت دُور لے جاتے ہیں.یہ بیان کر کے ایک اَور گروہ کا ذکر کیا جو اﷲ کا بڑا فرمانبردار ہے.اِس ضمن میں جنابِ الہٰی نے فرمایا کہ تم متوجّہ اِلی اﷲ رہو.یک جہتی حاصل کرو.پھر حج کے احکام ، روزے کے احکام ، گھر کے معاملات کے متعلق ضروری مسئلے بتاتے ہوئے صدقہ و خیرات کی طرف متوجّہ کیا.لین دین کے مسائل بیان کئے.بیاج اور سُود سے منع کیا.پھر فرمایا.تم سمجھتے بھی ہو.زمین و آسمان میں ہماری سلطنت ہے.تم ہماری شریعت کی خلاف ورزی کر کے سُکھ نہیں پا سکتے.دیکھو ہم جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے خوب جانتے ہیں اور اس کا حساب تم سے لیں گے.بہت سے لوگ ہیں جن کو روپیہ مِل جائے وہ تیس مار خاں بن بیٹھتے ہیں ان کو واضح رہے کہ حساب ہو گا اور ضرور ہو گا.ذرا تم اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھو کہ اٹھارہ برس کے بعد ہی سے سہی، آج تک اپنے نفس کے عیش و آرام کے لئے کِس قدر کوششیں کی ہیں اور اپنے بیوی بچّوں کے لئے کیسی کیسی مصائب جھیلی ہیں اور خدا کو کہاں تک راضی کیا.سوچو.اپنے ذاتی و دُنیاوی مقاصد کے حصول کے لئے کتنی کوششیںکرتے ہو اور اس کے مقابلہ میں الہٰی احکام کی نگہداشت کِس حد تک کرتے ہو.( ایک مخلص لڑکا پنکھا کر رہا تھا اسے فرمایا چھوڑ دو اس طرح سُننے میں حرج ہوتا ہے ایسی باتوں کا مجھے خیال تک نہیں ہوتا اور مَیں بار بار کہہ چکا ہوں کہ خدا کے فضل سے تمہارے سلام کا.تمہارے نذر و نیاز کا.تمہاری تعظیم کا ہرگز محتاج نہیں.میری تو یہ حالت ہے کہ مَیں جمعہ کے لئے نہا رہا تھا.نفس کا محاسبہ کرنے لگا

Page 441

اور اِس خیال میں ایسا محو ہؤا کہ بہت وقت گذر گیا آخر میری بیوی نے مجھے آواز دی کہ نماز کا وقت تنگ ہوتا جاتا ہے.وقت کا یہ حال اور ہم ہیں کہ ننگ دھڑنگ بیٹھے ہیں.ْٓ (البقرۃ:۲۸۵) مطالعہ کر رہے ہیں.اگر میری بیوی مجھے یاد نہ دلاتی تو ممکن تھا اسی حالت میں شام ہو جاتی) ! غرض تم لوگ یاد رکھو کہ اﷲ تعالیٰ تمہارے دلوں کی باتیں جانتا ہے اور ایک دن تمہارا حساب ہو گا خود حساب دینا ہی ایک خطرناک معاملہ ہے پاس کرنا اور ناکام رہنا تو دوسری بات ہے.جو تقوٰی کی راہ پر چلا اسے بخش دے گا اور جو گمراہ ہیں ان کو عذاب ہو گا.(الفضل ۲۵؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)    اﷲ اُس ذات سے مراد ہے جو تمام عیبوں اور نقصوں اور بدیوں سے منزّہ.تمام خوبیوں اور کمالات کی جامع اور ہر طرح کی نیکیوں سے متّصف ہے.چونکہ ایک معمولی بزرگ سے تعلق اِس بات کی تحریک کرتا ہے کہ مَیں بھی نیک بن جاؤں تو پھر جس کا تعلق ایسی ذات سے ہو گا وہ کیوں نہ پاک بنے گا.ایمان بِاﷲ کا یہی فائدہ ہے.وَمَلٰٓئِکَتِہٖ: بارہا بتا چکا ہوں کہ انسان کو جب نیک تحریک ہو تو اسی وقت کرے کیونکہ وہی وقت اس نیکی کے کرنے کا ہوتا ہے.اگر ذرا بھی سُستی کی جاوے تو نتیجہ اچھا نہیں ہوتا.(الانفال :۲۵)

Page 442

جب ایک فرشتے کی تحریک مانی جاوے تو پھر آہستہ آہستہ بہت فرشتوں سے تعلق پَیدا ہوتا ہے اور بالآخر ان تمام کے سردار جبرائیل سے اور اس کے ذریعہ سے وہ علوم اُترتے ہیں جن کا تعلق قلب سے ہے اور میکائیل کے ذریعے وہ علوم جن کا تعلق دماغ سے ہے.ان سردارانِ ملائک سے تعلق بڑے لوگوں کو ہوتا ہے جو ان سے کم ہیں وہ کتبِ الہٰیہ پڑھیں.پھر ایک وہ ہیں جو پڑھنا بھی نہیں جانتے.ان کے لئے رُسل ہیں.غُفْرَانَکَ رَبَّنَا:انسان جزع فزع میں بے صبری سے شہوت و حرص کے سبب حضرت حق سُبحانہ‘ کے فیضان سے رُک جاتا ہے.اِس واسطے استغفار کا حکم دیا.تمام لوگوں پر ایک وقت قبض و کسل کا آتا ہے اس کے دُور کرنے کے لئے یہ حکمی علاج ہے.فقہاء آئمہ میں سے ایک امام کا یہ مذہب ہے جو مجھے بھی پسند ہے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ کی دُعا واجب ہے آجکل مسلمان یا تو عجز میں گفتار ہیں یا کسل میں.عجز کہتے ہیں اسباب مہیّا نہ کرنے کو اور کسل کہتے ہیں اسباب مہیّا شدہ سے کام نہ لینے کو.ان کو چاہیئے کہ وہ کسل چھوڑ دیں جس کے اسباب میں سے ایک کبرو غرور خودپسندی بھی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء) ہمارا رسول اور دوسرے مومن تو اِس طریق پر چلتے ہیں کہ اﷲ پر ایمان لاتے ہیں.فرشتوں کی نیک تحریکیں مانتے ہیں اور ان میں تفرقہ نہیں کرتے یعنی یُوں نہیں کہ کسی کو مان لیا اور کسی کو نہ مانا.پھر ان کی گفتار.ان کے کردار سے کیا نکلتا ہے ( قَالُوْا کے معنے.بتایا.زبان سے یا اپنے کاموں سے ) سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا یعنی ثابت کرتے ہیں کہ صرف وہ اپنی زبان بلکہ اپنے اعمال سے دکھاتے ہیں کہ باتیں سُنیں اور ہم فرمانبردار ہیں.تیری مغفرت طلب کرتے ہیں.تیرے حضور ہم نے جانا ہے.اے مولاؔؔؔ! تُو ہی ہمیں طاقت عطا فرما اور ہمارے نسیان و خطا کا مؤاخذہ نہ کر.ہم پر وہ بوجھ نہ رکھ جو ہم سے برداشت نہ ہو سکیں.یہ دعا مومنوں کی ہے تم بھی مانگا کرو اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے گا.ہر وقت جنابِ الہٰی سے مغفرت طلب کرتے رہو اور اسی کو اپنا والی و ناصر جانو.بعض ادمی ایسے ہیں کہ ان کو سمجھانے والے کے سمجھانے کی برداشت نہیں.وہ اپنے خیالات کے اندر ایسے مُنہمک ہوتے ہیں کہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے.اِس قسم کی بے پرواہی اور تکبّر کا نتیجہ ہے کہ کفّار نے تمہاری سلطنتیں لے لیں اگر تم پورے طور سے خدا کی بادشاہت اپنے اُوپر مان لیتے اور مومن بنتے تو کفّار کے قبضہ میں نہ آتے.اﷲ بڑا بے پرواہ ہے.اسے فرمانبرداری پسند ہے.خدا تعالیٰ آسُودگی بخشے تو متکبّر نہ بنو.لوگوں کا

Page 443

حال تو یہ ہے کہ دوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کرتے حالانکہ ان کے اپنے گھر بیٹیاں ہیں جو دوسرے گھروں میں جانے والی ہیں.جو سلوک تم نہیں چاہتے کہ ہم سے ہو وہ غیروں سے کیوں کرو؟ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو اور خدا کے فرمانبردار بنے کی کوشِش کرو.اﷲ تمہیں توفیق بخشے.(الفضل ۲۵؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ ۱۵)      :اﷲ تکلیف نہیں دیتا کِسی شخص کو مگر جو اس کی گنجائش ہے.( فصل الخطاب حصّہ دوم صفحہ۱۵۹،۱۶۷) : عیسائی کہتے ہیں کہ شریعت کا نزول ہمارے عجز کے ثبوت کے لئے ہے.ایسے ہی کئی اَور لوگ ہیں جنکا یہ عقیدہ ہے کہ شریعت پر عمل ناممکن ہے.اِس لئے فرمایا کہ ہم کوئی حکم ایسا نہیں دیتے جو انسان کی مقدرت ، وسعت ، استطاعت کے مطابق نہ ہو.:جو کچھ عمل کرے اس کا فائدہ بھی اسی عامل کے لئے ہے.:ہر مصیبت کی جَڑ انسان کی نافرمانی ہوتی ہے.

Page 444

(الشورٰی: ۳۱)پھر بھی بعض گستاخ لوگ اپنے دُکھوں کو خدا کے ذمّہ لگاتے ہیں.:حدیث میں آیا ہے: اِس دعا کا نتیجہ تھا کہ نسیان پر مؤاخذہ نہیں ہوتا.خطاکی مثال یہ ہے کہ بندوق ماریں ہرنی کو اور لگ جائے انسان کو.: اصرؔکیا چیزہے.اصرؔکے معنے غفلت کرنے کی وجہ سے کئی انسان شریر ہو گئے.پھر اسی اصرؔ کے معنے نہ سمجھنے سے تقدیر کے مسئلے میںغلطی لگی.اصرؔکے معنے ہیں ایسے فعل کا ارتکاب جس کے بعد انسان سُست و کاہل ہو جائے.اصرؔ کہتے ہیں گرد ڈالنے کو.حَبْسُ الشَّیِٔ.اصرؔنام ہے ایسے عہد کا جس کے توڑنے سے اِنسان خیرات کے قابل نہیں رہتا.پس اِس کے معنے یہ ہوئے کہ اے ہمارے مولا کریم! ہم کو ایسے افعال کا مُرتکب نہ کر جن کا یہ نتیجہ ہو کہ ہم تیرے حضور سے دھتکارے جائیں.جیسے کہ پہلے لوگوں نے بد ذاتیاں کیں.معاہدات کا نقض کیا اور مغضوب علیہم بنے.ہم نہ بنیں.:مولیٰ جب خدا کے لئے بولا جاوے تو اِس کے تین معنے ہیں.۱.مالک.۲.ربّ.۳.ناصر.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۰؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 445

    اِس سورۂ شریف کا بعینہٖ وہی مطلب ہے جو سورۂ بقرۃ کا ہے.اِس سورہ کا نام اٰلِ عمران ہے.یہ اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو موسٰیؑ کے ساتھ بہت تشبیہہ دی ہے اور موسٰیؑ بھی آلِ عمران ہی تھے.ایک جگہ صریحًا فرمایا ہے:   (المزّمّل:۱۶) اور یہ ایک آیت ایک ایسی سورث میں ہے جسے مسلمان اپنی اغراض کے لئے بپور وظیفہ پڑھتے ہیں.اِسی آیت کے ساتھ فرمایا(المزّمّل:۱۸) صاف معلوم ہوتا ہے کہ آلِ عمران سے تشبیہ دینے میں بہت زور دیا ہے چنانچہ اِسی لئے موسٰی علیہ السّلام کا بیان قرآن مجید میں بار بار آیا ہے جس سے کم از کم میرے جیسا انسان نبی کریمؑ کے حالات پیدائِش سے لے کر موت تک نکال سکتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہؐ سے کسی نے پوچھسا تھا کہ آپؐ کے حالات آپؐ کے اخلاق کیا تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ.

Page 446

یہ سورۃ بھی سے شروع ہوتی ہے.ایک اَور سورۃاَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْا (عنکبوت :۳)بھی سے شروع ہوتی ہے اور یہ سب مضامین میں، مقاصد میں متحد ہیں.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) اِس سورۃ میں کلام اﷲ کے سمجھنے کے قواعد، یہودیوں، عیسائیوں سے مناظرہ اور جہاد کے احکام ہیں.ھُوَ الْحَیُّ: عیسائیوں کے مقابلہ میں فرمایا کہ عیٰسیؑ مر چکا ہے.حَیّ ایک ہی اﷲ ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۵) سورۃ آلِ عمران میں پچھلی سورۃ کی آیت کُرسی کا ایک ٹکڑا توحید کی یاد دہانی کے لئے رکھ دیا ہے. .: اُتاری تم پر جامع کمالات تحریر. : سورۃ بقرۃ میں بھی تین بارمُصَدِّقٌ لِّمَامَعَھُمْآیا ہے.لِمَا مَعَھُمْکی بحث تو بہت دفعہ ہو چکی ہے یہاںلِمَا بَیْنَ یَدَیْہِہے.یَدَیْہِ عربی زبان میں پیش یا سامنے کی بات کو کہتے ہیں.جیسے ایک مقام پر فرمایا ہوائیں آتی ہیں تو پہلے ایک ٹھنڈا جَھونکا آتا ہے( الاعراف :۵۸)چونکہ سورۂ بقرۃ میںَ (البقرۃ :۶)(البقرۃ:۸)َ(البقرۃ:۳۹)بہت سی پیشگوئیاں ہیں اِس لئے یہ فرمایا کہ ہم اس کے متعلق تورات میں بھی فرماچکے ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ جو اس نبی کی مخالفت کریں گے ہلاک ہو جاویں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)  

Page 447

: ہدایت تھی کہ مقابلہ نہ کرنا ورنہ ہلاک ہو جاؤگے.:معلوم ہوتا ہے اس وقت فرقان ہو چکا تھا.فرقان کے معنے قرآن شریف نے خود کئے ہیں چنانچہ فرمایا ہییَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ( الانفال:۴۲) وہی جنگ بدرؔ جس میں اکابرانِ مکّہ مارے گئے.:بعینہٖ وہی ترتیب ہے جو سورۃ بقرۃ میں تھی.وہاں عذابِ عظیم فرمایا یہاں شدید.عظمت کے ساتھ شدّت کو بڑھا دیا.:وہ عزّت والا ہے.(المنٰفقون:۹) پس وہ اپنے رسول اور مومنوں کو ذلیل نہ کرے گا.:وہ، اے یہودیو! تمہاری شرارتوں کی ضرور سزا دے گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) :انجیل بھی بشارت دے چکی تھی نبوّتِ محمدؐیہ کے بارے میں.ھُدًیکے یہی معنی ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۵)  :کہا جا سکتا ہے کہ جو چیز ابھی نہیں ہوئی اس کی نسبت یہ کہاں سے اِطلاعیں آپ کے پاس پہنچیں.فرمایا اﷲ پر کوئی چیز مخفی نہیں.( حٰمٓ السّجدۃ :۵۴) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :فرمایا کہ انسان باریک در باریک کام کرتا ہے تو روشنی میں کرتا

Page 448

ہے مگر ہم وہ ہیں کہ جتنا باریک کام ہے اندھیروں میں کرتے ہیں.مثلاً تمہاری صورتیںفِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰثٍ پیٹ کے اندر رِحم پھر رِحم کا اندر غشاء اس میں بناتے ہیں.جب ہم اس کا عِلم رکھتے ہیں کیا آئندہ کا عِلم کہ وہ بھی ایک طرح کی تاریکی میں ہے نہیں رکھ سکتے؟ :اگر غور کرو تو اِس نتیجہ پر پہنچ جاؤ کہ ساری صفاتِ کاملہ سے موصوف تمام بدیوں سے منزّہ وہی معبودِ بے مثال ہے.:اس کا کوئی کام حِکمت سے خالی نہیں.پس اس کا کلام بھی پُر از حِکمت ہے.ایسا نہ ہو کہ تم اپنی غلط فہمی سے اس کی اُلٹی تاویلیں کرنے لگو.کوشِش کے بغیر کچھ نہیں ہوتا.( عنکبوت :۷۰) میں یہ سِرّ بتایا ہے کہ کلامِ الہٰی کے سمجھنے کے لئے کچھ ہمّت چاہیئے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)     

Page 449

  :اس نے تم پر جامع کمالات کتاب اُتاری جس میں بعض آیات تو محکمات ہیں وہ اُمّ الکِتٰب ہوئیں اور باقی بعض متشابہات.افسوس ! اﷲ نے تو یہاں عِلم کے حصول کا گُر بتایا تھا.یہ نہیں کہ(المؤمن :۸۴)بلکہ(البقرۃ :۲۸۳)مگر یہ لوگ بجائے اِس کے کہ اِس لطیف کتاب سے فائدہ اُٹھاتے اَور بھی جھگڑے میں پڑ گئے.محکمات متشابہات کا مسئلہ بہت صاف تھا مگر مسلمانوں کے اِس بارے میں کئی فریق ہو گئے.کسی نے کہا کہ یہ مُحکم ہے کسی نے کہا کہ یہ متشابہ ہے کوئی تنزیّہ کی آیتوں پر ایسا جما بیٹھا ہے کہ خدا کو محض لاشیٔبنا دیا.عِلّت العِلل تو کہہ دیا.دوسری طرف تشبیہ والوں نے جو زور دیا تو خدا تعالیٰ کا ایک جسم بنا دیا.مَیں نے ایک برے عالم سے پوچھا تھا کہ محکم و متشابہ آیت میں امتیاز کیا ہے تو اس نے کہا کہ کچھ گڑ بڑ ہی ہے جس سے مجھے بہت صدمہ ہؤا.مَیں تو اس کو بہت سہل سمجھتا ہوں.میرے نزدیک ہر شخص کے لئے کوئی حِصّہ کسی متکلّم کے کلام کا محکم ہوتا ہے یعنی جو خوب طور سے سمجھ میں آ جاتا ہے اور کوئی حصّہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے معنے سمجھنے میں دِقّتیں پیش آتی ہیں اور بوجہ اس کے مجمل رکھنے کے کئی معنے ہو سکتے ہیں.ہر شخص پر یہ حالت گزرتی ہے.اﷲ نے اس کے متعلق یہ راہ دکھائی ہے کہ جو آیات ایسی ہیں کہ جن کی خوب سمجھ آ جائے اور تجربہ و عقل و مشاہدہ اس کے خلاف نہ ہو تو محکم سمجھ لو.پھر وہ آیات جن کے معنے سمجھ میں نہیں آئے ان کے معنے ایسے نہ کرے جو ان محکم آیات کے خلاف ہوں.ہر متکلّم جس کے ساتھ مجھے وابستگی ہے! وہ کون؟ محدّثین!صوفیاء کرام! حکماء عظّام! طبیعات کے ماہر! اِن سب سے مجھے بہت محبّت ہے.ان کے کلمات کو جب مَیں پڑھتا ہوں تو بعض تو فورًا سمجھ میں آجاتے ہیں اور بعض وقت کلام کے سمجھنے میں دِقّت ہوتی ہے اسے مَیں متشابہ سمجھتا ہوں.پھر جو محکمات ہیں ان کو کتاب کی جڑ سمجھ کر مصنّف کے اصلی منشا کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کو حل کر لیتا ہوں.کئی ایسے کلام ہیں جو ایک وقت میرے لئے متشابہ تھے پھر دوسرے وقت محکم نظر آئے.خلاصہ یہ ہے کہ بعض آیات خوب سمجھ میں آ جاتی ہیں اور بعض کے معنے جلد نہیں کُھلتے.اس

Page 450

کے لئے ایک گُر بتایا ہے.اب فرماتا ہے کہ جن لوگوں کے دل میں کجی ہے وہ انہی متشابہات کے پیچھے پر جاتے ہیں.وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٓ ٗ اِلَّا اﷲُ اﷲ کے سوا اس کی حقیقت کِس کو معلوم ہے.یہاں وقف ہے.وَالرَّا سِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ: اَب فرماتا ہے جن کو یہ خواہش ہے کہ وہ راسخ فی العِلم ہو جاویں وہ مُحکموں کو معًا مان لیتے اور مُتشابہ کو انکار نہیں کرتے بلکہ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا کہتے ہیں.یعنی دونوں پروردگار کی طرف سے مانتے ہیں.پس وہ متشابہ کے ایسے معنی نہیں کرتے جو مُحکم کے خلاف ہوں بلکہ ہر جگہکُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا کا اصول پیشِ نظر رکھتے ہیں.کوئی آیت ہو اسکے خواہ کتنے معنے ہوں مگر ایسے معنے نہ کرنے چاہئیں جو محکم کے خلاف ہوں.دوسرا طریق دُعا کا ہے وہ یُوں بتایا کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ ھَدَیْتَنَا یعنی اے ہمارے رَبّ ہمیں کجی سے بچا لے.یعنی قرآن کے معنے اپنی خواہشوں کے مطابق نہ کریں.وَ ھَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَۃً : اپنی خاص رحمت سے ممتاز کر.وہ رحمت کیا ہے.اَلرَّحْمٰنُ.عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ(الرّحمان :۲،۳).(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ : ہر شخص کے لئے کام کا کوئی حصّہ محکم ہے جو اچھی طرح سمجھ میں آ جاتا ہے اور کچھ حصّہ متشابہ جس میں کچھ شبہات ہیں.پس اس متشابہ کو محکم کے تابع کرے اور متشابہ کے ایسے معنی کرے جو محکم کے خلاف نہ ہوں (۱) وَوَجَدَکَ ضَالاًَّّ متشابہ ہے تو مَاضَلَّ اسے حل کر دے گی.کلامِ الہٰی سمجھنے کا ایک طریق یہ ہے.دوسرا طریق دُعا ہے.تیسرا قیامت سے ڈرنا.ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ : اپنے مطلب کی حقیقت مراد ہے اِس لئیابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ کی طرح یہ مقصد بھی بُرا ہے.اِلَّا اﷲُ : یعنی اس کی اصل حقیقت دوسری آیات میں موجود ہے اور وہ آیات اﷲ ہی کی ہیں اِس لئے اﷲ ہی کے پاس حقیقت فرمائی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۵) 

Page 451

:پھر یہ سمجھے کہ جب معمولی مجلس میں ہتک گوارا نہیں کر سکتا تو جہاں اوّلین و آخرین جمع ہوں گے وہاں کیونکر ذلّت گوارا ہو گی.پس مجھے کسی غلطی میں نہ ڈال کہ قرآن کی کچھ مراد سمجھ کر مَیں عذاب میں گرفتار ہو جاؤں.: ایک وعدہ الہٰی تو یہ ہے وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت :۷۰)دوسرا اَلرَّحْمٰنُ.عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرّحمٰن:۲،۳)اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم دُعا مانگنے والوں کو سمجھا دیں گے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   : سورۂ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ جو لوگ تعلیماتِ الہٰیّہ کے منکر ہیں اوّل تو کلامِ الہٰی سُنتے نہیں اور جو سُن بھی لیں تو اس پر غور نہیں کرتے بلکہ اس تعلیم کا وجود وعدم وجود برابر سمجھتے ہیں اور ان کے لئے عذابِ عظیم ہے.اب اس کی تشریح فرماتا ہے کہ لوگ اِس خیال سے کافر ہیں کہ مسلمانوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے اموال میں نقصان ہو گا یا ہماری اولاد خطروں میں پڑے گی.فرمایا.نہ مال کام آئے گا نہ ہی اولاد.:اِس نار سے مراد دُنیا میں نارالحرب ۱؎ ہے.چنانچہ کُلَّمَا اَوْقَدُوْا نَارً الِّلْحَرْبِ (المائدۃ :۶۵) میں نار کا ذکر ہے.پھر آیت

Page 452

 (البقرۃ :۲۴) کے اخیر میں(البقرۃ :۲۵)موجود ہے.پس یہاں بھی وَقُوْد کا لفظ ہے.مطلب یہ ہے کہ اس قِسم کے سامان مجتمع ہوتے رہیں گے کہ یہ جنگوں میں ہلاک ہو جاویں گے.یہ دُنیا کی بات ہے آخرت میں کیا ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :جیسے فرعونی ایک چال چلے تو خدا بھی ان کے مقابلہ میں ایک چال چلا اور پھر جو کچھ عاد و ثمود وغیر سے ہؤا.کیا ہؤا؟ :پکڑ لیا ( انہیں) اﷲ نے بدیوں کے سبب.:اس عذاب کی وجہ بتا دی.عقاب عقب سے نکلا ہے.انسان جو نافرمانی کرتا ہے اس پر جو نتیجہ جنابِ الہٰی سے مرتّب ہوتا ہے اسے عقاب کہتے ہیں. :سورہ بقرۃ میں (البقرۃَ :۶)اور(البقرۃ :۳۹)وغیرہ سے جو امر بتا آیا ہے وہاں اسے کھولتا ہے کہ اے کفّار تم عنقریب مغلوب ہو گے اور یہ خطاب ۱؎ جنگ کی آگ.مرتّب ہے مدینہ کے بے ایمانوں سے.مدینہ میں مَیں نے اِس لئے کہا ہے کہ بدرؔ کا واقعہ اِس آیت کے نزول سے پہلے ہو چکا ہے.چنانچہ آگے آتا ہے:

Page 453

:قیامت کے متعلق قرآن مجید اَربعہ متناسبہ سے کام لیتا ہے مثلاً کوئی چیز ایک روپیہ کی سیر ہے تو چار روپیہ کی چار سیر ہو گی.جو نسبت پہلے کو دوسرے سے ہے وہی تیسرے کو چوتھے سے ہے.وہاں مدینہ میں سات قومیں مسلمانوں کی دشمن تھیں.بنو قینقاع بنو قریظہ بنو نضیر اوس خزرج میں باہمی عداوت تھی.عیسائی ابوعا کے ماتحت نواحی مدینہ غطفان اور مُضَر کا قبیلہ.مکّہ کے شریر لوگ جو تجارت کے بہانے سے کبھی مدینہ کی مغرب کی طرف نکل جاتے.کبھی مشرق کی طرف سے اَور قوموں کو مسلمانوں کے خلاف اُکساتے پھرتے.تجارت کے ذریعے ایسی پولیٹیکل چالیں چلی جاتی ہیں.یہ سب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالف تھے انکی حالت کا نقشہ اور پھر ان کا انجام اِس آیت میں ہے  (الحشر:۳)اَب دیکھئے یہاں پیشگوئیاں دو ہیں سَتُغْلَبُوْنَاور تُحْشَرُوْنَ اِلٰی جَھَنَّمَ.جبتُغْلَبُوْنَ دکھا دیاتوتُحْشَرُوْنَضرور ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍ مئی ۱۹۰۹ء)    :اعلاء کلمۃ اﷲ کے لئے.:کفّار ایک ٹیلہ پر چھ سَو تھے اور مسلمان ۳۱۳.اور مومن کے لئے تو یہ آیت ہے اِس لئے کہ اﷲ تعالیٰ فرما چکا ہے(الانفال:۶۷) تورات یسعیاہ ۲۱باب ۱۵ آیت میں یہ پیشگوئی لکھی ہے.اِس اعتبار سے اہل کتاب کیلئے بھی بدرؔ کا وقعہ آیت ہے.:یہ مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہمَنْ معرفہ بھی آتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 454

   :کے دو فاعل آتے ہیں.چنانچہ (النمل :۲۵)میں گندی باتوں کو مُزیّن شیطان کو بتایا ہے اور (الحجرات :۸)میں اﷲ کو.ایک اَور مقام پر فرمایا (الانعام :۱۰۹)اکثر لوگ اِس کا ترجمہ غلط کرتے ہیں.اِس کا مطلب یہ ہے کہ تم کسی مذہب کے بزرگ کو بُرا نہ کہو ورنہ وہ تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے.پھر فرمایا دیکھو ہم ہر قوم کے لئے وہ کام جو اُن کو کرنا چاہیئے کِس خوبصورتی سے پیش کرتے ہیں اور زُیِّنَ مجہول رکھا ہے تاکہ حسبِ موقع و محل دو طرفہ لگ سکے.:ایک خواہش ہوتی ہے دوسرا اس خواہش کا پسند کرنا چنانچہ(صٓ:۳۳) کے معنے ہیں گھوڑوں کی محبّت کو مَیں پسند کرتا ہوں.اِس آیت میں عام انسانی فطرت کو بتایا ہے کہ کوئی جمال پر لٹّو ہے، کوئی جلال پر، کوئی آل پر، کوئی اولاد پر، کوئی سونے چاندی پر، کوئی گھوڑوں پر، مگر یہ سب ورلی زندگی کا سامان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)  

Page 455

  :نبأسے ہے جس کے معنے ہیں عظیم الشّان بات.: متّقیبننا بڑی قربانی چاہتا ہے.امام غزالی ؒنے مناظرہ میں ۵۶ کبیرہ گناہوں کو لکھا ہے اور ایک جگہ یہ بتایا ہے کہ قطب کے دل سے جو آخری گناہ نکلتا ہے وہ کِبر ہے.وَ: ( التّوبۃ:۱۰۰)کے اخیر میں لکھا ہے جس سے معلوم ہؤا مہاجرین و انصار کوَ کا سر ٹیفیکیٹ مِل گیا تھا.:اِنسان نگرانی میں غلطی بھی کرتا ہے مگر اﷲ تعالیٰ بہت عمدہ نگرانِ حال ہے.( ضمیمہ اخبار بدرؔ ۲۷؍ مئی ۱۹۰۹ء)   : متّقی کی تعریف سورۂ بقرۃ میں ہے(البقرۃ:۴)یہ میرا تجربہ ہے کہ جو لوگ یہ تین صِفتیں نہیں رکھتے.یعنی غیب پر ایمان.دُعا مانگنے کی عادت.کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرنا.وہ کبھی ہدایت نہیں پاتے.پھرلَیْسَ الْبِرُّ (البقرۃ :۱۷۸)میں اس کی تفصیل فرمائی ہے.اَب یہاں بھی متّقی کی کچھ صِفتیں بیان کرتا ہے.اوّل تو یہ کہ وہ دُعا مانگتے رہتے ہیں.اپنی کمزوریوں کی حفاظت خدا سے چاہتے ہیں.استغفار تمام انبیاء کا اجماعی مسئلہ ہے.بنیٔ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مَیں ستّر دفعہ استغفار کرتا ہوں.پس تم ان سے بڑھ کر نہیں ہو کہ استغفار سے مستغنی نہ ہو.( ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)

Page 456

اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ :مومن کے چھ کام.۱.دُعا ۲.صَبَر عَنِ الْمَعْصِیَتْ وَعَلَی الطَّاعَۃ ۳.راستبازی ۴.عبادت گزاری ۵.کچھ اﷲ کی راہ میں خرچ کرے ۶.استغفار (تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۵) وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ : نارالحرب.نارِ جہنّم، دونوں سیــ- لڑائیوں کی ابتدا بھی نار سے ہوتی ہے اور انتہاء بھی.پہلے غضب اُٹھتا ہے.وہ بھی آگ ہے.پھر لوگوں کو ساتھ لانے کیلئے مہمان نوازی کرتے ہیں.اس میں بھی آگ ہے.پھر توپ ،بندوق، تارپیڈو.یہ تو سب نے دیکھی.پس اسی طرح انجام شریر کا نارِ جہنّم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :متّقی کی یہ صفت ہے کہ اس میں برداشت و تحمّل ہوتا ہے اور یہ صبر کوئی ایسی چیز نہیں جو انسانی قدرت سے باہر ہو اِسی لئے (البقرۃ :۲۸۷) فرما چکا ہے.ایک رئیس تھا اس کے حضور میں ایک شخص نے عرضی دی کہ حضور کی قوم کے ایک آدمی نے مجھے گالی دی ہے.اُسے بُلایا گیا.رئیس نے اُس آدمی کو سخت گالیاں دیں جو اس کی شان سے بعید تھیں.اخیر اس حاکم نے اس سے پوچھا تم نے اس افیسر کی کیوں بے عزّتی کی ؟ تو وہ کہنے لگا کہ اس نے مجھے گالی دی تھی پھر مجھ میں تابِ حوصلہ نہ رہی.رئیس نے کہا کہ صبر کی طاقت تو تجھ میں ہے.دیکھو مَیں نے بھی تجھے گالیاں دیں اور تم چُپکے ہنسا کئے.اگر لوگ صبر کریں تو بہت سی لڑائیوں کا خاتمہ ہو جاوے.صبر کے معنے ہیں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اپنے تئیں روکنا.غیظ و غضب سے، شہوت سے، حرص و آز سے.:راست باز الْقٰنِتِیْنَ:فرماں بردار :لوگوں نے اِس بات پر بحث کی ہے کہ تہجّد صرف رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر فرض تھی یا دوسروں پر بھی؟ اِس آیت سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ استغفارِ اَسحار متّقی کا فرض ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍ مئی ۱۹۰۹ء)

Page 457

  : یہ گواہی انبیاء نے دی ہے پھر ان کے متّبعوں نے سنی ہے.خود خدابولا ہے اور اس نے اپنی زبان سے فرمایا ہے کہ میں یگانہ معبودِ خلائق ہوں.میں خود بھی گواہ ہوں کہ اﷲ نے اپنی ذات کی نسبت گواہی دی.اس نے مجھے فرمایا مَنْ جَمَعَ الْقُرْاٰنَ فَقَدْ تَصِنْ تَصَانَ.تَصِنْ کے معنے میں نہیں جانتا.(ضمیمہ اخباربدر قادیان ۲۷ مئی ۱۹۰۹ء)    : مَیں نے دُنیا کے بہت سے مذاہب کی کتابوں کو دیکھا ہے ان کی الہامی کتابوں میں ان کے مذہب کا کوئی نام نہیں.مگر اﷲ نے ہمارے لئے جو دین پسند کیا اس کا نام اسلام بتلایا اور فرمایا کہ وہ دین جو خدا کے حضور پسندیدہ ہے وہ یہی ہے کہ فرمانبرداری ہو.حضرت نوحؑ آ گئے تو ہم تابعدار ہیں پھر ابراہیمؑ آئے ہم فرمانبردار ہیں.موسٰی علیہ السّلام کو دَور ہے ہم مطیعِ فرمان ہیں.جنابِ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آئے ہم ان کے غلام ہیں.پس یہی سلامت رَوی کی راہ ہے.یہ نظّارہ گورنمنٹ کی ظاہری سلطنت میں بھی نظر آتا ہے کہ ایک ڈپٹی کمشنر جاتا ہے دوسرا آتا ہے.رعایا کو کسی خاص شخص سے وابستگی نہیں.پس جو آیا اس کے وہ مطیع ہو

Page 458

جاتے ہیں.اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو (البقرۃ :۹۲)کہتے ہیں بہت ناپسند کیا ہے.مسلم وہی ہے جو سب انبیاء و اولیاء و خلفاء کا تابع فرمان ہو.:انہوں نے خلاف ورزی کی مگر اس کے بعد جب ان کے پاس علم آ چکا میرے عقیدہ کے مطابق خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود ایک آیت تھا.؎ زفرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامنِ دِل می کشد کہ جا انیجاست آپ کے اقوال ، آپ کے افعال ، آپ کے پاس بیٹھنے والے، آپ کے دوست، آپ کے آشنا، آپ کے کارکن، آپ کی تعلیم، آپ کی کتاب.ان سب کو جب مَیں دیکھتا ہوں تو زبان بے اختیار بول اُٹھتی ہے کہ وہ ایک بے نظیر رسول تھا.قوم کا ایک مدبّر آیا.آپ فرما رہے تھے اَمر بالمعروف کرو اور نہی عن المنکر.وہ یہ بات سُنتے ہی پھڑک اُٹھا.اس نے جا کر قوم کو کہا.کیا تم پسندیدہ امور کرنا چاہتے ہو یا نہیں؟ وہ بولے.ہاں.کیا تم ناپسندیدہ سے رُکنا چاہتے ہو؟ کہنے لگے.ہاں.اس پر وہ بولا کہ محمد رسول اﷲ صلی علیہ و آلہٖ وسلم کے دین میں آ جاؤ کہ وہ بھی یہی فرماتا ہے.اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ سپرد کر دیا ہے اپنی تمام توجّہ کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو دین کی توضیح اور تفسیر فرمائی ہے وہ یہ ہے اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اﷲِ الْاِسْلَامُ اﷲتعالی‘ کے حضور دین کی حقیقت اور ماہیت کیا ہے؟ :اپنی ساری قوّتوں اور طاقتوں کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کافرماں بردار ہو جائے.اﷲ تعالیٰ کے فرمان کو لے اور اس پر رُوح اور راستی سے عمل درآمد کرے.دین کے متعلق جبرائیل علیہ السّلام نے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے حضور سوال کیا ہے اور آپ نے صحابہ کرام کو بلکہ ہم کو آگاہ کیا ہے کہ یہ جبرائیل تھا.اَتَاکُمْ لِیُعَلِّمَکُمْ دِیْنَکُمْپس دین کی حقیقت اور اس کا صحیح اور سچّا مفہوم وہ ہو گا جو آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس وقت بیان فرمایا. کے معنے یہ ہیں سر رکھ دینا،جان سے، دل سے، اعضا سے، مال سے.غرض ہر پہلو اور ہر حالت میں اﷲ تعالیٰ ہی کی فرمانبرداری کرنا.(الحکم ۱۷؍جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴)

Page 459

   :دیکھو! باطن کا حال کِسی کو معلوم نہیں مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کِس زور سے کہتے ہیں کہ اے یہودیو! اے نصرانیو! سُنو کہ جیسا کہ مَیں جان و دل سے خدا کافرماں بردار ہوں ایسا ہی میرے تابعدار فرمانبردار ہیں.اگر ان میں کوئی ظالم و فاسق ہوتا جیسا کہ شیعہ سمجھتے ہیں تو کیا آپ یہ دعوٰی سے کہہ سکتے.اِسی مضمون کی آیت سورۃبقرۃ میں بھی ہےِ (البقرۃ :۱۱۳)اور پھر فرمایا(البقرۃ :۱۳۴) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :قرآن مجید کی ایک ایک آیت اﷲ کی آیت ہے.محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خود آپ آیت ہیں.آپ کے ساتھی آیت ہیں.:پس آپ کے ساتھ جو مقابلہ کرتے ہیں وہ درحقیقت سب انبیاء سے مقابلہ کرتے ہیں کیونکہ آپ کی نبوّت میں تمام انبیاء کی نبوّت کا ثبوت موجود ہے.:ایسا کھول کھول کر اِس بات کو بیان کر کہ اس کا اثر ان کے چہروں پر ظاہر ہو جاوے

Page 460

سورۃبقرۃ میں بھی یہی فرمایا ہیذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اﷲِ وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ (البقرۃ :۶۲) مَیں اِس آیت کے یقینيا یہی معنے سمجھتا ہوں کہ نبی کریمؐ کا مقابلہ گویا سارے جہان کے نبیوں کا مقابلہ ہے اور ان کے قتل کی تجویزیں گویا تمام انبیاء کے قتل کے برابر ہے بلکہ آجکل کے جو انصاف سے حکم کرنے والے ہیں یعنی صحابہؓ جن کی تعریف میں آیا ہے وَ اُولُو الْعِلْمَ قَآئِمي بِالْقِسْطِ اور یَاْمُرُوْنَ بِالْقِسْطِ ان سب سے مقابلہ کی ٹھانی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   : ان کو کھول کر سُنا دو کہ تمہاری ساری تجویزیں اور منصوبہ بازیاں ناکام رہ جاویں گی.نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ پھران کے دشمنوں کا جو حَشر ہؤا وہ سب نے دیکھا.اس کے بعد ابوبکرؓ کے مقابلہ میں جو لوگ اُٹھے وہ بھی ناکام رہے.جب دُنیا میں یہ حالت ہوئی تو بس آخرت میں بھی ضرور یہی ہو گا.: یہود کی قوم اس کا ثبوت موجود ہے.کسی ملک میں ان کو سر چُھپانے کو جگہ نہیں ملتی.جہاں جاتے ہیں جلاوطن کئے جاتے ہیں.کوئی آدمی ان کی پیٹھ بھرنے والا نہیں.سورۃ بقرۃ میں بھی اسی مضمون کی آیت آئی.دیکھو رکوع ۱۰ پارہ اوّل. (البقرۃ:۸۷) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) 

Page 461

 :قِصّہ تو یہودیوں کا بیان ہو رہا ہے مگر مسلمانوں کو اس سے عبرت لینی چاہیئے.ان کی حالت بہت کمزور ہے.پہلی بات یہ کہ باہم محبّت نہیں.دومؔ یہ کہ عورتوں کے حقوق کی طرف مطلق توجّہ نہیں.عورتوں کے اقربا کو جو حقوق دے رکھے ہیں وہ گالی کے طور پر استعمال ہوتے ہیں.مثلا سسرا، سسری، سالا.پھر جس کی اُمّید پر عورتوں کے حقوقِ وراثت چھینے ہیں.کیا ان کے انجام کی خبر ہے ؟(النسآء:۱۲)اﷲ تعالیٰ فرما چکا ہے.پس ایک انسان کیا سمجھ سکتا ہے کہ یہ رشتہ دار مجھے زیادہ فائدہ دے گا.چوتھے خود غرضی و تکبّر میں بہت بڑھ گئے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :بناوٹی قِصّوں،جعلی روایتوں پر اعتبار ہے.یہ عیب مسلمانوں میں بھی ہے.انبیاء اور اولیاء کرام کے متعلق اس قِسم کے اعتقاد تراش رکھے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   

Page 462

:خدا کے تمام وعدے اعمال کے ساتھ وابستہ ہیں اور اعمال کی توفیق دعاؤں سے حاصل ہوتی ہے اِس لئے دعا سکھائی ہے.قرآن کی دعائیں یا تو رَبِّ، رَبَّنَاسے شروع ہوتی ہیں یا اَللّٰھُمَّ سے.عام دُعا جو ہر نماز میں مانگی جاتی ہے وہ بھی اَللّٰھُمَّ سے ہی شروع ہوتی ہے.اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷ مئی ۱۹۰۹ء) انسان چاہتا ہے کہ دنیا میں معزز اور محترم بنے لیکن حقیقی عزت اور سخی تکریم خدا تعالیٰ سے آتی ہے وہی ہے جسکی یہ شان ہے (الحکم ۱۰ مئی ۱۹۰۵ء صفحہ۵)   :وہ چاہے تو جن کے گھر غموں کی اندھیری ہے وہاں آرام کا دن چڑھا دے اور چاہے تو جہاں راحت کی روشنی ہے وہاں دُکھوں کی تاریکی کر دے.وہ چاہے تو بُروں سے بھلے اور بھلوں سے بُرے بنا دے.جسے چاہے عزّت دے جسے چاہے ذلیل کرے.یہ دُعا نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم و صحابہ ؓ نے مانگی.خدا نے ان کو عزّت دی، نیک و ممتاز انسان بنایا.یہاں جہاد کے متعلق یہ ہدایت کی ہے کہ دُعا ضروری ہے.پھر افتراء نہ کرے.خدا تعالیٰ کا صریح نافرمان نہ ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) 

Page 463

  :مومن کبھی کافروں کو اپنے دلوں پر متصّرف نہ مانے.پارہ ۲۸ سورۂ ممتحنہ میں اسے اَور بھی کھول کر بیان کیا ہے شروع سے سورۃ کو پڑھ کر دیکھ لو.: اِسلام میں جتنے مسائل ہیں ان میں حفظِ نفوس، حفظِ اموال، حفظِ اَعراض مقصود ہوتا ہے.یہاں بھی ایک گُر بتا دیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء)   :نتیجہ سامنے دیکھے گا.اس سے آگے کے لئے نہیں فرمایا.یہ اس کی شانِ ستّاری کا تقاضا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) 

Page 464

:راست باز آدمی کو سچّائی میں کِس قدر طاقت دی جاتی ہے اور کہ راستی میں کِتنی قوّت ہوتی ہے اس کا اندازہ اِس آیت سے ہو سکتا ہے.دیکھو محمد رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ اعلان کر دو مَیں نے خدا کی فرمانبرداری کر کے یہ مقام حاصل کیااب تم میرے پیچھے پیچھے چلو تم بھی خدا کے محبوب بن جاؤ گے.ہر شخص کی زندگی کا آرام اُس بستی کے مقتدر کی مہربانی سے وابستہ ہوتا ہے.پھر اس گاؤں کے نمبردار سے اُوپر چلیں تو اس ضلع کے حاکم سے.پس اﷲ جو ربّ، رحمٰن ، رحیم اور مالک ہے اس کے ساتھ تعلق.کس قدر سُکھوں کا موجب ہو سکتا ہے.یہاں تعلق کا وعدہ نہیں بلکہ فرمایا خدا اپنا محبوب ہمیں بنا لے گا.خدا پرست دیکھ کر اسے تجربہ کرلے.کیا مجرّب نسخہ ہے ! مَیں اکثر اوقات اِس آیت کو پڑھ کر بے اختیار نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم پر درُود بھیجا کرتا ہوں.لڑکے پڑھنے میں سخت محنت کرتے ہیں یہاں تک کہ انہیں سِل اور دِق ہو جاتا ہے تا بی.اے بن جائیں اور پھر کوئی مرتبہ پائیں.اب دیکھئے پاس ہونا موہوم، صحت موہوم ، مرتبہ ملنے تک زندہ رہنا خیالی بات.باوجود اس کے لڑکے محنت کئے جاتے ہیں.پس وہ انسان کیسا بَد بخت ہے جو اس خدا کے پاک وعدے کی جو ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے کچھ قدر نہ کرے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ شریعت مشکل ہے مگر رسول اﷲصلّی اﷲ علیہ وسلّم اِعلان کرتے ہیں میری چال اختیار کرو.کوئی کہہ سکتا ہے ہم بڑے گنہگار ہیں.فرماتا ہے میرے رنگ میں رنگین ہو جاؤ.میرے فرمانبردار بن جاؤ.اﷲ وعدہ کرتا ہے گناہ بخش کر پھر بھی اپنا محبوب بنا لیں گے کیونکہ ہمارا نام غفور، رحیم ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۷؍مئی ۱۹۰۹ء) محمد و احمد (صلی اﷲ علیہ وسلم)… نے اپنی پاک تعلیم، اپنی مقدّس و مطہّر زندگی اور بے عیب چال چلن اور پھر اپنے طرزِ عمل اور نتائج سے دکھا دیا کہ مَیں اپنے اﷲ کا محبوب ہوں تم اگر اس کے محبوب بننا چاہو تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ میری اِتّباع کرو.

Page 465

جبکہ مَیں اپنے خدا کا محبوب ہوں پھر بتاؤ کہ کوئی چاہتا ہے کہ اس کا محبوب ناکام رہے.پھر خدا مجھے کبھی ناکام نہ رہنے دے گا.میرے دشمن ذلیل اور ہلاک ہو جائیں گے اور یہ باتیں ایسی سچّی اور صاف ہیں کہ تم خود کر کے دیکھ لو.میری اطاعت کرو.میرے نقشِ قدم پر چلو اﷲ تعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے اور تمہارے دشمن مردُود اور مخذول ہو کر تباہ ہو جائیں گے.(الحکم ۳۱؍مارچ ۱۹۰۱ء صفحہ ۵،۶) آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم… کامل انسان اﷲ تعالیٰ کا سچّا پرستار بندہ تھا اور ہماری اصلاح کے لئے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو مبعوث فرمایا.ان کے سوا الہٰی رضا ہم معلوم نہیں کر سکتے اور اِسی لئے فرمایاَ.جس طرح پر اس نے اپنے غیب اور اپنی رضا کی راہیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ذریعے ظاہر کی ہیں اسی طرح پر اب بھی اس کی غلامی میں وہ ان تمام امور کو ظاہر فرماتا ہے.اگر کوئی انسان اس وقت ہمارے درمیان آدم، نوح، ابراہیم، موسٰی، عیٰسی، داؤد، محمد، احمد ہے تو محمد صلی اﷲ علیہ وسلم ہی کے ذریعہ سے ہے اور آپ ہی کی چادر کے نیچے ہو کر ہے.کوئی راہ اگر اس وقت کھلتی ہے اور کُھلی ہے تو وہ آپ میں ہو کر.ورنہ یقینا یقینا سب راہیں بند ہیں.کوئی شخص براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے فیضان حاصل نہیں کر سکتا.(الحکم ۳۱؍اکتوبر ۱۹۰۲ء صفحہ۱۴) جناب الہٰی میں محبوب بننے کے لئے اِتّباعِ رسول کی سخت صرورت ہے..ساری دُنیا کو قربان کر دو.محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اَتباع پر.دیکھو.حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کیسی قربانی کی اور آخر اسی قربانی کے وسیلے سے وہ اس وجاہت پر پہنچا کہ خدا کے محبوبوں میں ایک ممتاز محبوب نظر آیا.جو قربانی کرتا ہے اﷲ اس پر خاص فضل کرتا ہے.اﷲ اس کا ولی بن جاتا ہے پھر اسے محبّت کا مظہر بناتا ہے.پھر اﷲ انہیں عبودیّت بخشتا ہے.یہ وہ مقام ہے جس میں لامحدود ترقّیاں ہو سکتی ہیں.(بدر ۲۱؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸) اگر تم اﷲ سے محبّت رکھتے ہو اور اس سے سچّے تعلّقاتِ محبّت پیدا کرنے کے خواہش مند ہو تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کی متابعت کرو.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اﷲ کے محبوب بن جاؤ گے اِس اصل سے صحابہؓ نے جو فائدہ اُٹھایا ہے ان کے سوانح پر غور کرنے سے معلوم ہو سکتا ہے.(بدر ۵؍ اگست ۱۹۰۹ء صفحہ۲)

Page 466

اِسلام نام ہے فرماں برداری کا.سارے جہاں کو توموقع نہیں کہ اﷲ کی باتیں سُنے اِس لئے پہلے نبی سُنتا ہے پھر اَور وں کو سُناتا ہے.سو پہلا مرتبہ یہی ہے کہ نبی کی صُحبت میں رہے اور اس سے فرماں برداری کی راہیں سُنے اور سیکھے چنانچہ اِس بناء پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم نے یہ سمجھایا کہیعنی سرِدست تم میرے تابع ہو جاؤ.اس کی تعمیل میں ایمان لانے والوں نے جیسا بنی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے سمجھایا، کیا.کلمہ سکھایا کلمہ پڑھ لیا.نماز سکھائی تو نماز پڑھ لی.روزہ ، حج ،زکوٰۃ.جس طرح فرمایا اسی طرح ادا کیا.یہ اسلام ہے.(بدر ۲۷؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ۸) اِنسان کو اپنے خالق و رازق و محسن سے محبّت ہوتی ہے مگر محبّت کا نشان بھی ہونا چاہیئے اِس لئے فرماتا ہےیعنی کہہ دے اگر تمہیں اپنے مولیٰ سے محبّت کا دعوٰی ہے تو اس کی پہچان یہ ہے کہ میری اِتّباع کرو پھر تم محبّ کیا اﷲ کے محبوب بن جاو گے.(بدر ۲۴؍فروری۱۰ ۱۹ء صفحہ۲)    پھر بعض لوگ ایسے ہیں کہ ہر حرکت وسکون میں ایسی فرمانبرداری نہیں کر سکتے کہ اس میں فنا ہو جاویں اِس لئے فرمایا کہ رسول ہونے کی حیثیّت سے جو حکم اس نے دیئے ان پر عمل کرو.پس اگر محبوب نہ بنائیں تو کُفر سے تو نکال لیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء )   :اﷲ تعالیٰ نے آدم زاد کو تمام مخلوقات پر برگزیدہ کیا اور یہ ظاہر ہے کہ ایک عالمِ کبیر ہے تو آدم عالمِ صغیر، تمام اشیاء کا جامع ہے.پھر آدمیوں میں سے نوح کو اوّل الرسل بنایا.آدمؑ کو خدا نے رسول نہیں فرمایا بلکہ خلیفہ کہا.اوّل الرّسل نوح ہی ہیں.آپ نے اپنی قوم کو ترکِ

Page 467

بدی کی تعلیم دی اور استغفار سکھایا.پھر جب دوسرا دَور آیا تو ابراہیمؑ کو رسالت سے ممتاز کیا جنہوں نے تنزیہہ کے علاوہ فرمانبرداری کی تاکید کی اوراِنَّ صَلٰوتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالَمِیْنَ کا سبق دیا.پھر حضرت موسٰیؑ کا زمانہ آیا.ان کی قوم کو اﷲ تعالیٰ نے نبوّت بھی دی.غرض تمام انعامات سے بھر پور کر دیا اور یہ نہ سمجھو کہ ان میں خاص خاص لوگ ہی تھے بلکہ عمران کی عورتوں کو بھی مشرَّف بکلامِ الہٰی کیا.چنانچہ عمران کی ایک عورت کا ذکر کرتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)   بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ مریمؑ کی والدہ عمران کی بیوی نہ تھی.یہ غلط ہے.یہودیوں ، عیسائیوں میں بزرگوں کے نام پر قوم چلتی ہے.موسٰیؑ اور ہارونؑ عمران کے بیٹے تھے.پس انہی کی نسل میں سے ایک عورت تھی جس کا یہ ذکر ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء) : عمرانیوں کی ایک عورت نے.عمران خاوند اور اسکی بی بی مراد نہیں.: اَب تک ہندوؤں میں اور بعض مسلمانوں میں یہ رسم ہے کہ اگر کسی کی اولاد زندہ نہ رہے تو وہ چڑہاوا چڑھا دیتا ہے.گویا اِس پاک رسم کی اصل موجود ہے.وہ کسی خانقاہ کے نام پر تو نہ تھی.البتہ فرمایا کہ یا اﷲ مَیں نے اپنے کام سے آزاد کر دیا.دین کے لئے وقف کر دیا.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)  

Page 468

 :یہ اِس لئے کہا کہ لڑکی کا رواج نہ تھا.:اگر یہ خدا کا کلام ہے تو پیشگوئی ہے کہ یہ لڑکی معمولی عورتوں سے بہت اچھی ہو گی.اگراس میں عورت کا کلام ہے تو معنے ظاہر ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء) :اﷲ نے فرمایا کہ لڑکا اس لڑکی جیسا نہ ہوتا.(تشحیذالاذہان جلد ۸نمبر ۹ صفحہ ۴۴۶) :کیا اچھا ہو کہ مسلمان اِس ہدایت پر عمل کریں اور صُحبت سے پہلے بہت بہت دعائیں کر لیا کریں کہ ان کی اولاد نیک ہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)     وَ:یہ اِس لئے فرمایا کہ تا بتائے کہ یہ تمام گھرانہ پاکوں کا ہے جس کی عورتیں اور مَرد انعاماتِ الہٰی سے مشرّف تھے.

Page 469

:بہت معمولی بات ہے مگر مفسّرین کی عجوبہ پسند طبیعت نے بے موسمی میوے کھائے.یہ خواہ مخواہ کی زیادۃ علی القرآن ہے.:یہ واقعہ صرف اﷲ تعالیٰ نے اِس لئے بیان کیا کہ تا ظاہر ہو کہ اس خاندان کے بچّے بھی کیسے خدا پرست تھے کہ وہ معمولی چیزیں بھی جب پاتے تو توحید میں ایسے مستغرق تھے کہ یہی کہتے کہ خدا نے دیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)   :مفسّرین نے جَھک مارا ہے جو کہا ہے کہ زکریا نااُمّید تھے.ناامّید خدا کی جناب سے کافر ہوتا ہے.ہاں یہ صحیح ہے کہ انبیاء دعا نہیں کرتے جب تک خاص تحریک اور اجازت الہٰی نہ ہو.حضرت نوحؑ کی نسبت پڑھو( ھود :۴۷) پس اس وقت زکریّا کو ایک تحریک ہوئی تو کہا اے خدا ! ایسی نیک اولاد مجھے بھی دے.یہ معنے ہیں ھَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْکَ ذُرِّیَّۃً طَیِّبَۃً ط اِنَّکَ سَمِیْعُ الدُّعَآئِکے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)   

Page 470

 :وہ راستیوں کی تصدیق کرنے والا ہو گا.:یہ بشارت ایک کلام کے ذریعہ سے ہوئی جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء) :اﷲ کی کلام سے ایک کا مصدّق ہو گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۶) :بدیوں سے پاک.یہ غلط ہے کہ وہ ہیجڑے تھے.انبیاء کے صفات بِلا ضرورت کے بیان نہیں ہوتے.ایک جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ (البقرۃ:۱۰۳) تو کیا نبی کافر بھی ہو سکتا ہے.پس یہ بھی اِس الزام کی تردید میں آیا ہے جو ان پر لگایا گیا.ایک کنچنی نے زکریّا کے خاندان پر یہ گند بکا تھا.:مَیں بڈھا.پس مَیں ایسا لڑکا جو جوان بھی میرے سامنے ہو جائے عجیب سمجھتا ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)   : تُو تین دِن لوگوں سے کلام نہ کرے گا ہاں مگر اشارہ کے ساتھ.جب تُو کلام نہ کرے گا تو ہم تیرے لئے وہ بات پیدا کر دیں گے.یہ معنے نہیں کہ آپ تین دن کے لئے گونگے ہو گئے اگر یہ بات تھی تو پھر وَ اذُکُرْ رَبَّکَ کَثِیْراً وَّ سَبِّعْکے کیا معنے ہوئے.مَیںنے اس نسخہ کو بے اولادوں کے لئے بہت آزمایا اور اکثر مفید یایا ہے.ایسے لوگوں کو مَیں نے کہا ہے کہ کم بولنے کی عادت ڈالو اور تسبیح و ذکر میں مشغول رہو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)

Page 471

  :دُنیا میں دو خیالات کے لوگ رہتے ہیں ایک وہ جو ہر بات میں عالَمِ اسباب پر نظر رکھتے ہیں.وہ کسی قدرت کے اسباب کے سوا قائل نہیں.وہ ہر امر میں ایک باریک در باریک راہ نکال لیتے ہیں اور اسی کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں.اگر ناکام رہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ کوئی خاص سبب جو اِس سلسلۂ اسباب میں کامیاب ہونے کے لئے ضروری تھا رہ گیا.اگر اس کا عِلم ہو جاتا تو کبھی ناکام نہ رہتے.یہ وہ ہیں جن کا سورۃبقرۃمیں  (البقرۃ:۲۰۱)کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے ایک وہ ہیں جو عالَمِ اسباب کو بالکل ہی نہیں مانتے.وہ اپنے آپ کو مُردہ بدست زندہ سمجھتے ہیں مگر تعجّب ہے کہ عالَمِ اسباب کی کچھ قدر نہیں لیکن ضرورت کے وقت بھیک مانگ لیتے ہیں.بدبختی سے اِس ملک میں ایک عظیم الشّان انسان گزرا ہے جس نے زمانہ کے مصائب کو دیکھ کر عالَمِ اسباب کو ترک کرنا چاہامگر اس کے پَیرو ایسی غلطی میں پڑے کہ عالَمِ اسباب کو ترک کا دعوٰی کر کے عالَمِ اسباب کے ارذل ترین پیشہ میں جا پڑے ( یعنی بھیک).وہ نفسانی خواہشوں کے مارنے کا دعوٰی کرتے ہیں مگر آخر انہی میں گرفتار ہوتے ہیں.قرآن مجید نے اِن دونوں خیالات کے لوگوں کو ناپسند کیا ہے.اس کو تو یہ راہ پسند ہے  (البقرۃ:۲۰۲)عالَمِ اسباب کی رعایت بھی نہ ۱ ؎ رہے اور پھر خدا پر توکّل بھی ہو.اﷲ تعالیٰ نے انسان کو عالمِ شہادت میں پیدا کیا ہے.ایک عالمِ غیب بھی ہے.ساری چیزوں میں تین باتیں ہوتی ہیں.ذات، صفات، افعال.ذوات محسوس نہیں ہوتے.ہاں صفات سے ہم یقین کرتے ہیں کہ کوئی ذات ہے اور صفات کا عِلم افعال سے ہوتا ہے اور وہ موصوف جو ہے وہ عالمِ غیب میں ہے.مَیں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے بڑی محنت سے کشاورزی کرتے ہیں پھرفصلوں کو کاٹا ہے مگر کھلیان کو آگ لگ گئی اور سب محنت برباد ہو گئی.عالمِ اسباب کے معتقد کہہ سکتے ہیں احتیاط نہیں کی.یہ سچّ ہے کہ عالمِ اسباب کی رعایت ضروری ہے مگر اﷲ کی مرضی بھی کوئی چیز ہے.اِس بات ۱؎ ’نہ‘ سہوِ کاتب ہے.مرتّب

Page 472

کا ذکر خدا تعالیٰ نے ایک آیت میں کیا ہے  (الکھف:۸۵) لیکن اسباب موافقِ مقصد کا حصول بھی اﷲ کے فضل پر موقوف ہے.اور ایک جگہ منافقوں کے عذر کا ذکر کر کے ہم جنگ میں نہیں جا سکے فرماتا ہے (الاحزاب:۱۴) اگر وہ نکلنا چاہتے تو پھر ہم اسباب بھی مہیّا کر دیتے.چونکہ عالمِ اسباب کے کارخانے میں ہمارا علم محیط نہیں اِس لئے ان کے مناسب موقعِ حصول کے لئے الہٰی امداد کی ضرورت ہے.ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اس کے آگے پھر انسان کا بس نہیں چلتا بلکہ خُدا کی توفیق ویاوری کی ضرورت ہوتی ہے.نام زنگی کا فور نہند کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ سیاہی کے تمام مدارج کو طے کر چکا ہے بس آگے سفیدی ہی ہے اِسی طرح نا امّیدی جب حد کو پہنچی تو سمجھو امّید آئی.حضرت یسعیاہ کی کتاب باب ۵۴ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکّہ معظّمہ کی نسبت ذکر فرمایا ہے کہ یہ شہر عروسِ عرب ہے.اس پر خطرناک مایوسی ہو گی.اس کا کوئی بیٹی بیٹا لائق نہ ہو گا.وہ خطرناک غلطیوں میں مُبتلا ہوں گے.پر آخر اس مایوسی میں اُمّید.اِس ظلمت میں خورشید نظر آئے گا.یہاں بطور تمثیل مریمؑ اور زکریاؑ کا ذکر کرتا ہے کہ دونوں نے اسباب موجود نہ ہونے کی صورت میں اپنی مُراد پائی.اِسی طرح مکّہ عروسِ عرب ہے ( یاد رہے کہ شہر کو عروس کہنا عام ہے لندن کو عروس البلاد کہتے ہیں شامؔ کو عروسِ عسقلان) اس کا بھی ایک بیٹا ہے جو مظفّر و منصور ہو گا.اس کے مقابلہ میں جو آئیگا ناکام رہے گا.بڑی بڑی طاقتوں سے لوگ اُٹھتے ہیں مگر معًا ہلاک ہوتے ہیں.کام وہی ہوتا ہے جو خدا کرے.دیکھو بنگالی ہیں ان کے نادان بچّوں نے گورنمنٹ کے مقابلہ میںشرارت کی مگر ناکام رہے.میں بارہا ُ ( البقرۃ:۱۰۳) اور (البقرۃ:۱۰۳) کی تفسیر میں یہ سمجھا چکا ہوں کہ کبھی کسی خفیہ کمیٹی، مخفی منصوبے میں شامل نہ ہو.یہی پاک تعلیم انبیاء کی ہے کہ ان کی کوئی بات مخفی نہیں ہوتی.ہمارے حضرت صاحب کو اگر کوئی خلوت میں کچھ کہتا تو آپ اتنے زور سے گفتگوکرنے لگتے کہ نیچے گلی میں چلنے والے سُن سکتے.ان مخفی کمیٹیوں کی ہزار ہزار صفحے کی کتابیں مَیں نے پڑھی ہیں.یہ مدّت سے قائم ہیں مگر حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم سے لیکرحضرت عثمان تک ان کا نام و نشان نہیں ملتا.یہ اُن کا رُعب اور ان کی قدرت نمائی تھی کیونکہ خدا نے اعلان کرا دیا تھا وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اﷲِ (البقرۃ :۱۰۳)

Page 473

میری بڑی عمر ہو گئی.مَیں بچّہ تھا پھر جوان ہؤا پھر ادھیڑ پھر بوڑھا مگر مَیں آج تک کبھی کسی خفیہ محفل یا کمیٹی یا جلسہ میں شامل نہیں ہؤا.میرا ایک بہت پیارا دوست شہر میں تھا مگر مَیں نے اس سے بھی کبھی مخفی ملاقات نہ کی نہ مخفی اس سے گفتگو رکھی.یہ خدا کا مجھ پر بڑا فضل ہے جو منصوبہ بازوں کو حاصل نہیں ہو سکتا وہ مجھے حاصل ہؤا.مَیں تمہیں کہاں تک سُناؤں.سُناتے سُناتے تھک گیا مگر خدا کی نعمتوں کے بیان کرنے سے مَیں نہیں تھکتا اور نہ مجھے تھکنا چاہیئے.اس نے مجھ پر بڑے بڑے فضل کئے.یہاں ایک اخبار کے ایڈیٹر نے اپنی نظم چھاپی.مجھے معلوم نہ تھا.مَیں اسے پڑھتا اور سجدہ میں گِر گِرجاتا.چونکہ وہ بہت دَرد سے لکھی ہوئی تھی اِس لئے اس نے میرے دَرد مند دل پر بہت اثر کیا.وہ صوفیانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی نظم تھی.مَیں جس بات پر شُکر کرتا وہ یہ تھی کہ خدا مجھ پر وہ وقت لایا ہی نہیں کہ مجھے معلوم نہ تھا.مَیں نے ہوش سنبھالتے ہی مولوی خرم علی، مولوی اسمٰعیل، مولوی محمد اسحٰق کی کتابوں نصیحۃ المسلمین، تقویؤ الایمان، روایات المسلمین کو پڑھا اور ان سے توحید کا وہ سبق پڑھا کہ ہر غلطی سے بحمدِاﷲ محفوظ رہا.غرض خدا تعالیٰ جن کو نوازتا ہے ان کے لئے عالمِ اسباب کو بھی ان کا خادم کر دیتا ہے.زکریاؑ اور مریمؑ کے گھر میں جو اولاد ہوئی اس میں ایک اسباب پرست تعجّب کر سکتا ہے پھر یہ تمثیل جس عروسِ عرب کے لئے ہے وہ بھی کسی کے لئے باعثِ تعجّب ہو.مگر یہ سب کچھ پیشگوئی کے ماتحت ہؤا.یہاں اِس آیت میں جو مریمؑ کے صفات بیان کئے ہیں تو اس سے یہ مطلب نہیں کہ اَور کوئی عورت ایسی نہیں گزری.مگر قرآن کریم کا قاعدہ ہے کہ جو مرض ہو اس کا علاج کرتا ہے جو مرض نہ ہو اس کا ذکر نہیں کرتا.احمق لوگوں نے سیلمانؑ پر کفر کا فتوٰی دیا تو خدا نے فرمایا وُ مَا کَفَرَسُلَیْمٰنُ( البقرۃ :۱۰۳) ایک عورت کی تہمت دی تو فرمایااَسْلَمْتُ مَعَ سُلَیْمٰنَ ( النّمل :۴۵) حضرت مریمؑ کو یہودیوں نے بُرا کہا تو فرمایا کہ ان کو خدا نے برگزیدہ کیا، پاک بنایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍ جون ۱۹۰۹ء) 

Page 474

:یہودیوں میں رکوع تک تو نماز ہے سجدہ ایک الگ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷ جون ۱۹۰۹ء)    :بس یہی وہ بات ہے جس کے لئے مَیں نے ابتداء میں تقریر کی کہ اِس قِصّہ میں مکّہ کی نسبت پیشگوئی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء) یہ کہانی غیب نہیں ہو سکتی.ہم مسلمانوں کو ایرانیوں مجوسیوں کے قصّے یاد ہیں جس طرح زکریاؑ کو نا امّیدی میں ملا اسی طرح اے صحابہ کرام تم بھی ایسی مشکلات میں کامیاب ہو جاؤ گے.یہ پیشگوئی تھی جو اس قصّے میں فرمائی.دیکھو یسعیاہ باب ۵۴.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۶) : یہ آیت اِذْ یُلْقُوْنَ اَقْلَا مَھُمْسے الگ ہے اور اِس آیت کا مضمون اِس آیت سے ملتا ہے جہاں(صٓ:۷۰) جب کوئی انتخابِ خداوندی ہوتا ہے تو ملائِ اعلیٰ میں اس کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے اور کچھ رائے زنی ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)    :ملائکہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ اس کلام کی نقل کرتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں پہنچی.

Page 475

کَلِمَۃُ بمعنے کلام آتا ہے.مسلمانوں کی بَد قِسمتی سے ان کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کلمہ لفظ مفرد کو کہتے ہیں اِس لئے وہ کلمہ بمعنی کلام سُنکر حیران ہوتے ہیں.سُنو! کلمہ متحمل خبر صدق و کذب کا نہیں ہوتا.مگر خدا فرماتا ہے (الانعام:۱۱۶)اور.. (الصّٰفّٰت: ۱۷۲ تا ۱۷۴) (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء) : ہم تجھے اﷲ کے کلام سے ایک بشارت سُناتے ہیں.( تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۶)  اِس آیت پر لوگوں نے بے وجہ بحث کی ہے اور اِس بے وجہ کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگوں کی طبیعتیں عجوبہ پسند ہیں.حالانکہ بات صاف ہے کہ بعض عورتوں کے بچّے پیدا ہوتے ہی مَر جاتے ہیں پھر بعض کے بچّے گونگے بہرے ہوتے ہیں.تو اﷲ تعالیٰ پیشگوئی میں مریمؑ کو تسلّی دیتا ہے کہ وہ گونگا نہیں ہو گا بلکہ کلام کرنے والا ہو گا.اس وقت جبکہ بچّے بولنا سیکھ لیتے ہیں.جیسا کہ بڑا سمجھدار ہو کر کلام کرے گا.کَھْلًاکے معنے بخاری میں حلیمؔ کے لکھے ہیں.اس میں یہ بتایا ہے کہ وہ تیری ہی زندگی میں ادھیڑ عمر تک پہنچ جاوے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)   :اسی طرح ہو کر رہے گا جیسے کہا سورۃ مریم میں ( آیت :۱۰) اسی کَذٰلِکَپر وقفہ ہے.

Page 476

:اﷲ جو چاہے پَیدا کرتا ہے.:اس پر مجھے بارہا سوال اُٹھا ہے کہ یہ کِس موقع پر آتا ہے.تو مَیں نے جہاں تک دیکھا یہ حیات بعد الموت پر بولا جاتا ہے.سورۃ یٰسٓ میں ….(آیت ۸۲،۸۳) (ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)     

Page 477

:لکھنا :تجویز کرنا.جیسیتَخْلُقُوْنَ اِفْکًا(العنکبوت :۱۸)خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا(البقرۃ:۳۰) میں.:ایک احیاء ساحرانِ موسٰیؑ کا.ایک اﷲ تعالیٰ کا.ایک نبیوں کا قرآن میں مذکور ہے.یہاں تیسرا ہی مراد ہو سکتا ہے.اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(الانفال :۲۵) :نبی بتاتا ہے کھانا کیا چاہیئے اور رکھنا کیا چاہیئے.شریعت تورات کے احکام کو یاد دلایا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۶)  :مَیں مٹّی سے پرندہ ایسی ایک چیز بناتا ہوں اور پھر اس میں پھُونک مارتا ہوں پھر وہ خدا کے اِذن سے اُڑنے لگتا ہے.(نور الدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۷۵) :اِن آیات میں پانچ الفاظ تشریح طلب ہیں خلق.طِیْن.یَکُوْنُ طَیْرًا.اُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ.اُحْیِ الْمَوْتٰی.خلق کے معنے تجویز کرنے کے ہیں.بڑا ثبوت ان معنوں کا یہ آیت ہے خَلَقَ لَکُمْ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ :۳۰)اب اگر یہ معنے کریں کہ اﷲ تعالیٰ زمین پر سب کچھ پیدا کر چکا ہے تو یہ معنے واقعات کے خلاف ہیں.اِسی واسطے تفسیر کبیر میں اس کے معنے تقدیر و اندازہ کے لکھے ہیں.دوسری شہادت اَلْخَالِقُ الْبَارِیُٔ الْمُصَوِّرُ (حشر:۲۵)تصویر تو ہر ایک چیز کی نظر آتی ہے.اِ س سے پہلے بُریٌٌٔٔ کی حالت ہے یعنی جیسے کوئی مصوّر سنگ مَر مَر کی بھدّی شکل کو تراش خراش کر کے بناتا ہے.پھر اس بُریٔ سے اندازہ ہوتا ہیکَلَقَ کُلَّ شَیْ ئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا (الفرقان :۳) میں بتایا ہے کہخلقٌ کا مرتبہ اندازہ سے بھی پہلے کا ہے.وہ کیا ہے ؟تجویز! لَکُمْ:تمہاری بھلائی کے لئے.طِیْن:قرآن مجید میں طین کا دو جگہ ذکر ہے.ایک جگہ شیطان کا قولخَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَ خَلَقْتَہٰ مِنْ طِیْنٍ (الاعراف :۱۳) تراب۱؎ و ماء کے ملنے کو کہتے ہیں طین.کیچڑ جو ہوتا ہے اس میں

Page 478

خاصیّت ہے کہ جس رنگ میں چاہیں ڈھال لیں مگر آگ نہیں ڈھل سکتی.یہاں مسیحؑ فرماتے ہیں کہ مَیں تجویز کر سکتا ہوں مگر اس کے لئے جو طین ہو یعنی کوئی شخص میری تعلیم کو تسلیم کرے اور اپنے میں طین کی صفات رکھے تا جس رنگ میں چاہیں ڈھال سکیں.تو وہ یَکُوْنُ طَیْرًا جنابِ الہٰی میں اُڑنے والا ہو جاوے گا.طیر ؔکا لفظ مومن کے لئے حدیث میں آیا ہے.فَاَنْفُخُ فِیْہِ : مَیں اس میں کلام کی ایسی رُوح پُھونکوں گا کہ وہ مادہ پرستی سے نکل کر بلند پرواز انسان ہو جائے گا.خَلَقَکے معنے پیدا کرنے کے ہیں تو یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے کیونکہ خدا فرماتا ہے (فاطر:۴)(الانعام :۱۰۲)(الزمر:۶۳)( النحل :۲۱) :مذاہبِ عالَم پر نظر کرنے سے ہندوؤں کا یہ مذہب معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہر دُکھیارے کو کہتے ہیں.اس نے پچھلے جنم میں بَدی کی ہے جس کی یہ سزا بھُگت رہا ہے.قرآن شریف اِس عقیدہ کے مخالف ہے چنانچہ وہ مُردوں کے متعلق فرماتا ہے وَ مِنْ وَّ رَآائِھِمْ بَرْزَخٌ (المؤمنون :۱۰۱)اور مسیحؑ بھی.چنانچہ آپ کے پاس ایک جنم کا اندھا آیا جو ان کی دُعا سے اچھا ہؤا تھا.حواریوں نے سوال کیا کہ حضرت یہ جنم کے اعمال سے اندھا ہؤا یا ماں باپ کے اعمال سے.آپ نے فرمایا دونوں باتیں غلط ہیں بلکہ یہ اِس لئے اندھا ہؤا تا خدا ۱؎ مٹی جس میں پانی ملا ہوا نہ ہو.مائٌ:پانی.مرتّب کا جلال ظاہر ہو.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیحؑ کے وقت تناسخ کے خیالات بعض لوگوں میں تھے.قرآن شریف فرماتا ہے کہ مسیحؑ نے بھی تناسخ کی تردید کی اور کہا کہ مَیں اکمہ اور ابرص کو مِمَّا تَعْمَلُوْنَسے بَری ٹھہراتا ہوں یہ پچھلے جنم کی بَدیوں کی وجہ سے اکمہ یا ابرص نہیں ہوئے.قرآن شریف میں مرض کے مقابلہ میں شفا کا لفظ ہے.:اِحیائِ موتی تین طرح کا ہے.ایک اﷲ کا جیسا کہ سورۃ بقرۃ میں حضرت ابراہیمؑ نے کہا رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ( البقرۃ :۲۵۹) اور ایک جگہ آیاھُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ ( یونس :۵۷) وہی مارتا اور جِلاتا ہے.خدا کے فعل کا تو کوئی شریک نہیں ہو سکتا.ایک احیائِمَوتٰیٖ وہ ہے جو کفّار نے موسٰیؑ کے مقابلہ میں کیا.فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ (طٰہٰ :۶۷)ایک احیائِ مَوتٰی انبیاء کا ہے چنانچہ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی نسبت فرمایایٰٓاَیُّھَا الَّذِنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ للرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ( الانفال:۲۵)مسیحؑ رسول تھا پس اس کا احیاء بھی رسولوں والا احیاء ہونا چاہیئے.وہ کیا ہے.بَدوں کا نیک بن جانا.ایک شخص نے یہ معنے سُنکر مجھے

Page 479

کہا تھا.یہ تو معمولی بات ہے.مَیں نے اسے کہا کہ آپ نے اگر کوئی ایسا مُردہ زندہ کیا ہے تو بتاؤ تووہ دَم بخود رہ گیا.:اِس کے یہ معنے غلط ہیں کہ لوگوں کو کھایا پیا بتا دیتے تھے.یہ نبیوں کا کام نہیں ہوتا طبیبوں کا ہو سکتا ہے.نبی تو کھانے پینے اور ذخیرہ رکھنے کے متعلق احکام بتاتے ہیں.پس عیٰسیؑ کہتے تھے مَیں تمہیں متنبّہ کرتا ہوں اِس بات پر کہ تمہیں کیا کیا چیز کھانا حلال ہے اور مال میں سے کتنا حِصّہ زکوٰۃ دینی چاہیئے اور کیا پاس رکھنا جائز ہے.مَیں ایک دفعہ ایک جگہ گیا تو وہاں ایک صاحب کی تعریف ہونے لگی کہ وہ جو کچھ رات کو کھایا جاوے بتا دیتے ہیں.حالانکہ اصلی بات یہ تھی کہ وہ طبیب تھے ان کی دُکان کے پاس ہی سبزی کی ایک ہی دکان تھی پس وہاں سے خریدنے پر وہ دیکھ لیتے کہ آج ان کے گھر کیا پکا ہے.(ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍ جون ۱۹۰۹ء) اِن آیات کے معنے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیئے کہ اسی سورۃ اٰلِ عمران کے ابتدامیں بتایا گیا ہے کہ آیات دو قِسم کی ہیں ایک محکمات ایک متشابہات.محکمات اُمّ الکتٰب یعنی اصل.پس متشابہات کے ایسے معنے کئے جائیں گے جو محکمات کے خلاف نہ ہوں اور ایسا ہر متکلم کے کلام کے لئے کرنا پڑتا ہے.مثلاً ایک شخص اپنے نوکر سے کہتا ہے کہ آج ہم ریل پر سوار ہو کر فلاں مقام پر چلتے ہیں پھر سٹیشن پر جا کر اسے کہے کہ ٹکٹ لاؤ.تو اَب اگرچہ ٹکٹ کئی قِسم ہیں ڈاکخانہ سے بھی ٹکٹ ملتے ہیں.پھر ان کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن محکم بات کے مطابق جب وہ اس متشابہ بات کے معنے لے گا تو ضرور ریل کا ٹکٹ لائے گا.اِسی طرح جب دوسری محکم آیات میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ خلق و احیاء ، غیب دانی صرف اﷲ ہی سے خاص ہے تو اب ان الفاظ کو عیٰسی علیہ السّلام سے منسُوب کریں گے.تو چونکہ وہ ایک بشر تھے اِس لئے ان کے وہ معنے نہیں لئے جائیں گے جو اﷲ تعالیٰ کے لئے لئے جاتے ہیں اور مجازی معنے بھی ہم نہیں لیتے بلکہ لُغت میں ایک لفظ کے کئی معنے ہیں پس جو معنی حضرت عیٰسیؑ کے مناسبِ حال ہیں وہی لئے جائیں گے.دومؔ یہ سورۃ عیسائیوں کی تردید ہے پس ایسے معنے نہیں کئے جائیں گے جس سے ان کے عقائد کی تائید ہو اور عیسٰیؑ کی خدائی کا ثبوت ملے.سومؔ متشابہات کے معنے معلوم کرنے کے لئے دعا کا حکم ہے سو بہت سی دعاؤں کے بعد یہی مجھ پر کُھلا ہے کہ خلق اﷲ تعالیٰ کی صفت ہے چنانچہ فرماتا ہے(العنکبوت:۲۰)اور سورۃبُروج میں فرمایااِنَّہٗ ھُوَ یُبْدیُٔ وَ یُعِیْدُ ( آیت :۱۴) اور فرمایا اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ (الاعراف :۵۵)

Page 480

اسی کے شایان ہے پیدا کرنا اور فرمایااَﷲُ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ (الزّمر :۶۳)اﷲ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے اور فرمایا (یونس:۳۵)اعلان کر دے کیا ہے تمہارے شرکاء سے جو پیدا کرے پھر اسے دُہرائے.کہہ دے اﷲ ہی پیدا کرتا ہے پھر لَوٹاتا ہے.پس تم کہاں بہکے جاتے ہو.پھر (الرّعد:۱۷) فرما کر بتا دیا کہ خدا کا خلق اَور ہے اور مخلوق کا خلق اَور.اِسی بنا پر اﷲ تعالیٰ مُشرکوں کو ملزم بناتا ہے.کیا شرکاء نے کوئی ایسا خلق کیا جیسا کہ اﷲ نے اور پھر خلق میں تشابہ ہو گیا؟ ہرگز نہیں.پس اعلان کر دے کہ اﷲ ہی ہر چیز کا خالق ہے اور وہ اکیلا زبردست حکومت والا ہے.کوئی اس کے افعال میں اس کا ثانی نہیں.وہ جیسا خود لَیْسَ کُمِثْلِہٖ شَیْئٌ(الشورٰی:۱۲) ہے ایسا ہی اس کے افعال.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیا خلقکِسی اَور معنے میں بھی لیا جاتا ہے تو قرآن مجید ہی سے اِس کی شہادت ملتی ہے کہ خلق بمعنی اندازہ ہے.فَتَبٰرَکَ اﷲُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ(المؤمنون :۱۵)پس بہت بابرکت ہے اﷲ جو بہت عمدہ اندازہ کرنے والا ہے.اندازہ کے معنے اِس لئے کئے کہ خالق تو بغیر اﷲ کے اَور کوئی ہے نہیں.دوسرے مقام پر فرمایاخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا (الفرقان :۲)اور خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا (البقرۃ :۳۰)میں بھی خلق کے معنے اندازہ کے ہیں کیونکہ خلق تو اَبد تک جاری ہے.پس دوسرا لفظ ہے طِیْن.طِیْن آدم کے حق میں اس کے دشمن کی شہادت ہیخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ یعنی تُو نے آدم کو طین سے پیدا کیا ہے.طین میں خوبی یہ ہے کہ اسے جس قالب میں ڈھالنا چاہیں ڈھل جاتی ہے اِسی لئیخَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ طِیْنٍ فرمایا یعنی آدم کی فطرت ایسی ہے کہ جس طرز میں ڈھالنا چاہیں ڈھل جاتی ہے.طَیْرٌ کا اطلاق بلند پرواز انسان پر ہوتا ہے.شہیدوں کے حق میں فرمایا ہے کہ وہ جنّت میں سبز پرندوں کی شکل میں ہوں گے اور مجاہدوں کو بھی طَیْرٌ فرمایاکہ وہ اُڑ کر موقعۂ جنگ پر پہنچتے ہیں.اَنْفُخْ فِیْہِکے معنے کلامِ الہٰی سے تربیت کے ہیں چنانچہ قرآن مجید میں فرمایاً.(صٓ:۷۳،۷۲) مَیں طین سے ایک بشر خلق کر کے پھر جب وہ ٹھیک ٹھاک ہو جائے تو مَیں اس میں کلامِ الہٰی نفخ کروں گا

Page 481

پھر سب کے سب ان کے فرمانبردار ہو جائیو.بِاِذْنِ اﷲِ کے معنے بہ فضل اﷲ کے ہوتے ہیں.رسول اﷲ کا کوئی کام سوا اِذن اﷲ کے نہیں ہوتا.فرمایا وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِن رَّسُوْلٍ اِلْا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اﷲِکِسی رسول کی اطاعت نہیں ہوتی بجُز اﷲ کے فضل کے.پس اب معنی صاف ہیں.حضرت عیسٰیؑ فرماتے ہیں میری فرمانبرداری کرو اور ایسے تیار ہو جاؤ جیسے کیچڑ کہ اسے جس طرز میں چاہو کِسی شکل میں لایا جا سکتا ہے.پھر مَیں اﷲ کے فضل سے کلامِ الہٰی کے ساتھ تمہاری تربیت کروں گا اور جب تمہارا عمل درآمد اس کے مطابق ہو گا توتم بلند پرواز انسان بن جاؤ گے اور رُوحانیّت کے اُوپر پرندے بن کر اُڑو گے.اُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَ الْاَبْرَصَکے معنے ہیں کہ مَیں مادر زاد اندھوں اور جذامیوں کو بَری ٹھہراتا ہوں یا اچھا کرتا ہوں.اَبْرَئَ ہٗ.جَعَلَہٗ بَرِیْئًا.تاج العرُوس میں دیکھ لو.چنانچہ فصل الباء من باب الھمزۃصفحہ ۴ میں ہے: وَ اَبْرَئَ کَ اﷲُ مِنْہُ اَیْ جَعَلَکَ بَرِیْئًاتمام مذہبوں میں یہ خیال ہے کہ اندھا جذامی انسان ہے اپنے پچھلے جنم کے افعال و اعمال میں گرفتار ہے.حضرت عیسٰیؑ نے بحکمِ الہٰی فرمایا کہ مَیں ان اندھوں کو بَری ٹھہراتا ہوں اور قوم میں جو ان کے متعلق پابندیاں تھیں ان کے ساتھ وہ تعلقات قائم نہ کرتے جو دوسرے بھائیوں کے ساتھ تھے وَغَیْرَ ذٰلِکَ ان کو اُٹھا دیا.اَبْرَصَ:تاج العروس صفحہ ۳۷۳ فصل الباء من الصّادمیں لکھا ہے کہ ھو بیاض یظھر فی ظاھر البدن یعنی پُھلبہری.اور تاج العروس صفحہ۴۰۹ فصل الکاف من باب الھاء میں لکھا ہے کہ(اکمہ) صارا عشٰی وَھو الّذی یبصر بالنّھار ولا یبصر باللّیل و بہٖ فسّر البخاری یعنی شب کور(جس سے ظاہر ہے کہ مسیحؑ ابنِ مریمؑ بَرص اور شب کوری کے مریضوں کو اپنے دَم و دوا سے اچھا کرتے تھے جو اُمّتِ محمدیہ کے افراد بھی کرتے ہیں) اچھا کرتا ہوں مگر یہ اندھے اور جذامی کیسے ہوں گے اس پر غور کرنے کے لئے قرآن مجید کی دوسری آیتوں کو دیکھنا چاہیئے جس سے صاف کُھلتا ہے کہ پیغمبر جن اندھوں اور جذامیوں کو اچھا کرتے ہیں وہ رُوحانی اندھے ہوتے ہیں.مثلاً فرمایا (بنی اسرا ئیل :۷۳)جو اِس دُنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میںبھی اندھا ہو گا.یہاں متّفق طور سے اعمٰی سے مراد روہانی اندھے ہیں.ایسا ہی پہلے پارہ میں صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَھُمْ لَا یَرْجِعُوْنَسے ظاہر ہے کہ پیغمبروں کو جن بہروں،گونگوں اور اندھوں سے سابقہ پڑتا

Page 482

ہے وہ رُوحانی ہوتے ہیں.ایک اَور آیت ہے اَفَمَنْ یَّعْلَمُ اَنَّمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ کَمَنْ ھُوَ اَعْمٰی (الرّعد :۲۰)کیا وہ جو جانتا ہے کہ جو کچھ تیری طرف اُتارا گیا تیرے رَبّ سے حق ہے برابر ہے اس کے جو اندھا ہے یعنی کلام اﷲ کا مُنکر.پس اِس آیت میں یہ فرمایا کہ حضرت مسیحؑ نے کہا مَیں اپنی تربیت سے ان اندھوں کو راہِ حق دکھاتا ہوں اور ان کے رُوحانی جذام کو درست کرتا ہوں.وَ اُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اﷲِ :مَوتٰی کا مسئلہ بہت صاف تھا مگر بعض نے اس میں خواہ مخواہ دِقّت پیدا کر لی.اﷲ نے اِن آیات میں بتا دیا ہے کہ طبعی موت سے مَرے ہوئے حقیقی مُردے کا رجوع دُنیا میں پھر ہرگز نہیں ہوتا اور اﷲ کی یہ سُنّت نہیں کہ ایسے مُردے کو اِسی دُنیا میں زندہ کرے اور زندہ کرنا اﷲ تعالیٰ ہی کا فِعل ہے اِنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی ( الحج :۷)اور فرمایا قُلِ اﷲُ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ( الجاثیۃ:۲۷) کہہ دے اﷲ ہی زندہ کرے گا تم کو پھر تمہیں موت دے گا اور حضرت ابراہیمؑ اقرار کرتے ہیں رَبِّیَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ(البقرۃ:۲۵۹) جس سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ احیاء صرف اﷲ کا خاصہ ہے پھر مُردوں کے لئے فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمُوْتُ ( الزّمر:۴۳)اورمِنْ وَّ رَآئِھِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (المؤمنون:۱۰۱)فرما کر اپنی سنّت بتا دی کہ رُوح قیامت تک پھر دُنیا میں آنے سے رُکی رہتی ہے.اب اگر حضرت عیسٰیٗ یُحْیِْ الْمَوْتٰیکا دعوٰی کرتے ہیں تو اس متشابہ کے معنے ان محکم آیات کے برخلاف نہیں ہو سکتے.جب ہم تدبّر کرتے ہیں تو قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے تین قِسم کا احیاء ہے.ایک احیاء اﷲ کا جیسا کہ گزرا (۲ ) ایک احیاء کفّار کا یعنی کافر بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ موسٰیؑ کے ساحروں کا ذکر ہے.فَاِذَا حِبَا لُھُمْ وَ عِصِیُّھُمْ یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی طٰہٰ :۶۷)کہ ان کی رسّیاں اور لاٹھیاں ان کے سحر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دَوڑ رہی ہیں.(۳) ایک احیاء پیغمبروں کا جیسا کہ فرمایا اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ (الانفال:۲۵)اﷲ اور اس کے رسول کی مان لو جب وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بُلائے.مسیح علیہ السّلام چونکہ رسول تھے اِس لئے ان کے احیاء سے مُراد پیغمبروں والا احیاء ہی لیا جائے گا.(الانعام:۱۲۳)آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلامِ الٰہی میں مُردہ سے کیا مراد ہوتی ہے اور اس کی زندگی سے کیا مقصود ہے.یعنی جو شخص دین سے غافل ہو جس میں روحانی زندگی نہ ہو اُسے کلامِ الہٰی کی اصطلاح میں مُردہ کہیں گے.جب وہ دین سے باخبر ہو اور اس میں روحانیّت آ جائے

Page 483

تو وہ زندہ کہلائے گا.اِسی طرح حضرت عیسٰیؑ رُوحانی مُردوں کو زندہ کرتے تھے.: اِس کے معنے کرنے کے لئے بھی یہ دیکھ لینا چاہیئے کہ نبی لوگوں کے کھانے پینے اور رکھنے کی چیز کے متعلق متنبّہ کرتے ہیں یا وہ نجومیوں کی طرح یہ بتایا کرتے ہیں کہ تمہارے گھر میں یہ ہے تم یہ کھا کر آئے ہو یا وہ کھانے پینے کی چیزوں اور مال کے متعلق جائز و ناجائز کا حکم دیا کرتے ہیں.جب آخری بات ثابت ہے جیسا کہ حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی اُمّت کو فرمایا مُردار نہ کھاؤ، دم مسفوح نہ کھاؤ، خنزیر نہ کھاوَمَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ ﷲِ نہ کھاؤ ایسا ہی حضرت عیسٰیؑ نے حکمِ الہٰی کو واضح کیا کہ یہ چیزیں کھانیکی ہیں یہ نہ کھانے کی.اِتنا مال جمع کرنے کی اجازت ہے اِتنا اِس میں سے خدا کے نام دینا چاہیئے.ون لِاُ حِلَّ لَکُمْ بَعْضَ الَّذِیْ حُرِّمَ عَلَیْکُمْکے معنی بھی اسی توضیح سے کُھل گئے.یہودی اپنی بَد عملیوں کی وجہ سے بعض چیزوں سے بعض نعمتوں سے محروم ہو گئے تھے.فرمایا تم میری فرمانبرداری کرو وہ نعمتیں پھر اﷲ تمہیں میسّر کر دے گا.(تشحیذالاذہان جلد ۷ نمبر ۹ صفحہ ۴۱۶ تا ۴۲۱) : اِس آیت کے لئے دیر تک مَیں فِکر میں رہا.قرآن شریف میں آیا ہے  (النّحل:۱۱۷) پس مسیحؑ کیونکر کسی چیز کو حرام یا حلال کہہ سکتے ہیں یہ تو خدا کا کام ہے.بہت سوچ کے بعد دو امرحل ہوئے ایک تو یہ کہ اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ ( حَرَّمَ مَکَّۃَ ) حُرمتِ مکّہ کے معنے سب یہی کرتے ہیںبَیَّنَ حُرْمَتَھَا.پس اِس سے یہ مطلب ہؤا کہ عیسٰی ؑ حرام و حلال بیان کرتے تھے.دوسرے معنے یہ ہوئے کہ ہر نبی اپنی قوم کو اعلیٰ معراج پر پہنچانا چاہتا ہے.یہودیوں پر ذلّت و مسکنت لیس دی گئی تھی.ان کے لئے طیبّات جو مالِ غنیمت اور سلطنت کے انعامات کے رنگ میں تھے بوجہ ان کی بَد اعمالی کے حرام کر دیئے گئے تھے.یعنی وہ ان سے محروم ہو گئے تھے.اب عیسٰیؑ کہتے ہیں میری پَیروی کرو یہ سب انعامات جن سے تم محروم ہو تمہارے لئے حلال کر دیں گے.( ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)  

Page 484

 :اگر کوئی میرے انصار میں سے ہے تو ادھر چلے جدھر میں جا رہا ہوں یعنی اﷲ کی طرف.:مفسّرین نے لکھا ہے حواری کہتے ہیں دھوبی کو.چونکہ انہوں نے دلوں کو صاف کر دیا تھا اِس لئے انہیں دھوبی کہا گیا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جو بڑے خلوص سے اپنی جان پر کھیلنے کو تیار ہوں ایسے لوگوں کو حواری کہتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدرؔ قادیان ۱۷؍جون ۱۹۰۹ء)  :یہ آیت یاد رکھنے کے قابل ہے.دیکھو اس کی ضمیر بظاہر حواریوں کی طرف پھرتی ہے مگر یہ صحیح نہیں بلکہ ان لوگوں کی طرف راجع ہے جو اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ (البقرۃ:۵۳) کے مصداق ہیں.پس کبھی ضمیر کا مرجع دُور بھی ہوتا ہے.مکر بمعنی تدبیر ہے.عربی سے ناواقف ع ہرچہ گیرد علّتے عِلّت شود کے مصداق اپنی زبان پر قیاس کر کے اس کو اپنے معنوں میں لیتے اور مَکَرَ.مَکَرَا.مَکَرُوْاکی گردان پڑھتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء)      

Page 485

اِس رکوع میں اﷲ نے مجھے ایسا اِنشراح صَدر بخشا ہے کہ مَیں اس کے ذریعہ سے تمام دُنیا کے مذاہب کو محض فضلِ الہٰی سے یقینا جیت سکتا ہوں.اِس قدر انشراح مجھے حاصل ہے کہ مَیں کسی مجلس میں جہان اِسلام کے مخالف لوگ بیٹھے ہوں ذرّہ بھر بھی بُزدل نہیں ہوتا.تمام دُنیا کے لئے یہ قاتل حُجت ہے جس کے سامنے کوئی بول نہیں سکتا.یہ آیت قیامت تک اِسلام کا بول بالا ثابت کرنے کے لئے کافی ہے.یہ اِس لئے مَیں نے کہا تا تمہیں اِس نعمت کی قدر ہو.:مَیں تیری رُوح کو قبض کرنے والا ہوں.تَوَفِّیْ کے معنے پر حضرت صاحب نے سیر کُن بحث فرمائی ہے میری تشریح کی حاجت نہیں.آپ نے انعامی اشتہار شائع کئے کہ قبضِ رُوح کے سوا کوئی اور معنے اس کے بلاقرینہ صارفہ بتا دے.ایک مولوی نے دہلی میںوُفِّیَتْ (اٰل عمران :۲۶)کو پیش کیا مگر وہ کیسا نادم ہوا جب آپ نے فرمایا کہ کیا یہ اُسی باب سے ہے جس باب سے تَوَفِّیہے؟ :لوگ تجھے جُھوٹا، کذّاب، سفلی زندگی کا سمجھتے ہیں مگر مَیں تیری رُوح کو قبض کر کے اعلیٰ علّیین میںاِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ عِلِّیِّیْنَ ( المطفّفین:۱۹)مقام دوں گا.:پس یہ وہ دلیل ہے جس پر ساری دُنیا کے مذاہب کا امتحان ہے.فرماتا ہے کہ مَیں کرنے والا ہوں وہ جو کہ تیرے تابع ہیں بڑھ کر ان پر جو تیرا انکار کرتے ہیں اور پھر یہ قیامت تک ایسا ہی ہوتا رہے گا.یہ ایک زبردست پیشگوئی ہے.دُنیا میں دو قِسم کے لوگ ہیں یا مسیح کو ماننے والے یا مسیح کے مُنکر، ان دونوں کے درمیان تو یہ فیصلہ کی راہ بتائی کہ مسیحؑ کے ماننے والے منکروں پر غالب رہیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی اور مسلمان مسیحؑ کے ماننے والے یہود پر حکمران ہیں اور پھر اَور قومیںجو مسیحؑ کی منکر ہیں وہ بھی محکوم ہی ہیں اور صرف محکوم نہیں بلکہ فرمایا کہ

Page 486

:دُنیا ہی میں ان کو عذاب دوں گا اور عذاب بھی سخت.چنانچہ یہود کو جو جو عذاب اور دُکھ پہنچے وہ مخفی نہیںاور یہی دُنیا کا عذاب آخرت کے عذاب کا ثبوت ہو گا.:پھر یہاںتک ہی ختم نہیں بلکہ غیر قوموں کی محکومیّت میں ایسے آئیں گے کہ اَور مظلوموں کے تو مددگار پیدا ہو جاتے ہیں مگر مسیح کے منکروں کا کوئی مددگار نہ ہو گا.یہ بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء) بے بس نہایت خاکسار بنی اسرائیل کے گھرانے کے خاتم الانبیاء.رسول.مسیح ابنِ مریم علیہما السّلام کے قسی القلب دشمن کدھر گئے.کوئی ان کا پتہ بتا سکتا ہے.ان ’’ بے ایمان ‘‘ ’’سانپوں‘‘ اور ’’ سانپوں کے بچّوں ‘‘ پر فتوٰی لگ گیا.ان پر حکم ہو چکا اور حضرت مسیح علیہ السّلام کے اَتباع جس جاہ و حشم کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السّلام کے منکروں پر حکمران ہیں اس سے ہند والے کیا تمام آباد دُنیا والے بے خبر نہیں.… حضرت عیسٰی علیہ السّلام کے اَتباع اور ان کے ساتھ والے مسلمان ہیں یا عیسائی.اور ان کے منکر یا یہود ہیں یا اس انڈیا میں آریہ اور مختلف بلاد میں کچھ پارسی اور کچھ بدھ.یہ تمام منکر قومیں حضرت مسیح علیہ السّلام کے اَتباع کے ماتحت ہیں اور ہمیشہ ماتحت رہیں گی اور پیشین گوئی قیامت تک ثابت اور استحکام کے ساتھ ظاہر رہ کر قایل کے واسطے آیتِ صداقت اور نشانِ نبوّت رہے گی.کیا جس کتاب میں اس پیشین گوئی کا تذکرہ ہے اور جس کتاب میں اس پیشین گوئی کا دعوٰی اِس طرح پر ہے کہ قیامت تک اسی طرح رہے گی وہ کتاب ایسے علیم و خبیر کی نہیں جو جُزئیات اور کلیات پر محیط اور ان پر بہ تفصیل واقف ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۸،۹) غور کرو یہ کیسی عظیم الشّان اور صادق پیشگوئی ہے کہ مسیحؑ کے اَتباع ہمیشہ مسیحؑ کے منکروں پر غالب اور فوق رہیں گے.اس کی تصدیق کے لئے دیکھ لو کہ ایک طرف مسلمان یہود کے اصلی مرکز سنٹر بَیت المقدس پر قابض ہیں.یہود اصلی منکر اور مسلمان اصلی پیروان مسیح ؑہیں دوسری طرف آریہ ورتی عارضی منکروں پر عارضی اتباع نصارٰی حکمران ہیںاور یوں ہی ہمیشہ رہے گا.ممکن ہے کہ جُملہ رَافِعُکَ اِلَیَّ کو نہ سمجھ کر تم ضلالت کے گڑھے میں گرِے ہو.سو یاد رکھو اس کی تصریح بَلْ رَفَعَہُ اﷲُ (النّساء:۲۷) نے کر دی ہے جو قرآن کریم کی دوسری جگہ میں ہے.اس کے معنی ہیں اﷲ نے اُسے رفعت اور بلندی بخشی یعنی جسے خدا بلند اور رفع کرنا چاہے اور کر دے کوئی دشمن اسے گرا نہیں سکتا.چنانچہ خدا نے یہود کے گندے اور ذلیل منصوبوں سے اسے بچایا اور رفعت دی.یہی وحی خدا تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السّلام کو بھی ایک عرصہ سے ہو چکی

Page 487

ہے اور براہینِ احمدیہ میں موجود ہے اور وہ یہ ہے .اس نمونہ سے جو ہمارے زمانہ کے راستباز سے ظاہر ہے خدا کی واقعی وحی کا پتہ لگ سکتا ہے اِسلئے کہ جو وعدہ تطہیر اور رفع اور توفّٰی اور فوق کا حضرت مسیح ؑ کو دیا گیا تھا وہی ہمارے آقا حضرت مسیح موعود کو دیا گیا ہے.آپ کے حالات و واقعات بڑی بھاری چابی ہیں، گذشتہ حالات کے قفلوں کے لئے.پھر بڑا قابلِ غور لفظ تَوَفّٰیہے.یہ بھی ایسا صاف اور واضح ہے کہ عام بول چال میں ہر ایک شخص جانتا ہے کہمُتَوَفّٰی َ مُردہ کو کہتے ہیں.(نور الدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۷۷،۱۷۸) جب کہا اﷲنے او عیسٰی ! بے شک مَیں تجھے مارنے والا ہوں اور اپنی طرف بلند کرنے والا اور ان منکروں سے پاک و صاف کرنے والا ہوں اور کرتا رہوں گا تیرے اَتباع کو تیرے منکروں کے اوپر قیامت تک.پھر او اِتّباع کا دعوٰی کرنے والو! تم سب کا مقدمہ میرے پیش ہو گا اور مَیں حکم کروں گا اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دوں گا اس مسئلہ میں جس میں تم کو باہم اختلاف ہے.تفسیر.مسیح علیہ السّلام کی اِتّباع کے مدعی یا اہلِ اسلام ہیں یا مسیحی.اور آپ کے منکروں میں اوّل درجہ کے منکر یہود ہیں جن کا اصلی ملک کنعان ہے اور جن کا کعبہ یروشلم.دوم درجہ پر آپ کے منکر مجوسی اور تیسرے درجہ پر مجوس الہند.اعلیٰ اَتباع اعلیٰ منکروں پر حکمران اور ادنیٰ درجہ کے اتباع ادنیٰ منکروں پر حکمران ہو رہے ہیں.لاکن تیرے منکروں کو تو سخت عذاب دوں گا دُنیا میں اور آخرت میں.اور کوئی سلطنت ان کی حامی نہ ہو گی بلکہ ان کا کوئی حامی نہ ہو گا.(ابطال الوہیّت مسیحؑ صفحہ ۲۰،۲۱)    :یہ بات نشانوں میں سے ایک بھاری نشان ہے.یہاں تک تو منکرانِ مسیحؑ کا

Page 488

فیصلہ کیا کیونکہ کَفَرُوْاسے مراد مسیحؑ کے کافر ہیں.اب سچّے اور جُھوٹے متّبع کا فرق بتلاتا ہے.مسلمان کہتے ہیں ہم مسیحؑ کے سچّے پَیرو ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ ہم.فرمایااِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اﷲِ کَمَثَلِ اٰدَمَعیسٰیؑ کی مثال آدمؑ کی مانند ہے.اس کو ہم نے تراب سے پیدا کیا پھر وہ مَر گیا اور مرنے کے بعد سے سے قیامت کے دِن زندہ ہو گا.اِسی طرح عیسٰیؑ بھی مر چکا اور قیامت کو زندہ ہو گا.جس گروہ کے عقائد یہ ہیں وہی حق پر ہیں.اگر تم اس کی الوہیّت کے قائل ہو تو کوئی دلیل دو.آدمؑ کا مثیل ہونے سے اس کی بشریّت ظاہر ہے.دُنیا نے اس کو دیکھا کہ وہ انسانوں کی طرح کھاتا پیتا، ہگتا مُوتتا رہا پھر وفات بھی پا گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء) :باقی رہا مسلمانوں اور عیسائیوں کا فیصلہ سو وہ اِس دلیل سے ہا رجاتے ہیں.ابنِ آدمؑ تو وہ مانتے ہیں.الوہیّت کا ثبوت ان کے ذمّے.:خلق ہو چکا.پس یہ کُنْ موت کے بعد پر ہے.اس سے وفاتِ مسیحؑ کا ثبوت ملتا ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۶، ۴۴۷) اورمومن اور جنہوں نے اچھے عمل کئے پس ان کو پُورا اجر ملے گا اور اﷲ ظالموں کو پسند نہیں کرتا.یہ پڑھتے ہیں تجھ پر تیری نبوّت کے نشانوں سے اور تذکرہ ہے حِکمت والا.اب اﷲ وہ فیصلہ دیتا ہے جس کا اَتباع کے باہم اختلاف میں وعدہ فرمایا تھا.عیسٰیؑ آدمی کی طرح ہے.آدمی کو اﷲ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو دوسرے تیسرے تولّد نئی زندگی نبوّت کے واسطے منتخب فرمایا اور وہ ایسا ہی ہو گئے.(ابطال الوہیّت مسیح صفحہ۲۱) کے معنے ہو جا.کے معنے ہو جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اﷲ تعالیٰ کِسی چیز کے وجود کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چیز ظہور میں آ جاتی ہے… اصل بات یہ ہے کہ کا تعلق بعد الموت ہؤا کرتا ہجے.تمام قرآن کریم میں مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر ْ فرمایا ہے.(نورالدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۹۲)  پس اے مخاطب! تیرے رَبّ کی طرف سے یہی بات حق ہے.تو شک میں نہ ہو.اس پر بھی جو نہ مانے.اس کے لئے آخری فیصلہ بتایا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء)

Page 489

یہ ٹھیک دلیل یا بات ہے تیرے ربّ کی طرف سے ( حضرت مسیحؑ میں بشریّت سے بڑھ کر کوئی بات نہ تھی.معجزے ، عجائبات، عمدہ تعلیم یہ باتیں انبیاء میں ہؤا کرتی ہیں حالانکہ وہ بَشر ہؤا کرتے ہیں) پھر کبھی نہ ہو گا تُو او مخاطب! یا کبھی نہ رہیو شک کرنے والا.(ابطال الوہیّت مسیحؑ صفحہ ۲۱)    : یعنی مباہلہ کر لیں.کاذبوں پر لعنت ڈالیں پھر دیکھیں کِس پر خدا کا عذاب آتا ہے اور کون قوم اس کی رحمت سے دُور ہوتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء) اگر کوئی نادان اِس دلیل کے بعد پھر بھی حجتیںکرے تو ایسے احمقوں سے یوں مقابلہ چاہیئے کہ ان سے مباہلہ کرو اور کہو آؤ بلائیں اور لائیں اپنی اور تمہاری اولاد اور عورتیں تمہاری اور اپنی اور اپنے آدمی اور تمہارے.پھر عاجزی سے دعا مانگیں کہ الہٰی لعنت ہو جھوٹوں پر.(ابطال الوہیّت مسیحؑ صفحہ۲۱)  

Page 490

بے رَیب یہ صاف اور عمدہ اور ٹھیک بیان ہے اور اﷲ کے سوا کوئی بھی فرمانبرداری کا مستحق نہیں اور اﷲ وہی غالب ہے حکمتوں والا.پھر اگر اس پر پیٹھ دیں تو جان لو اﷲ ان مفسدوں کو خوب جانتا ہے.(ابطال الوہیّت مسیحؑ صفحہ۲۱)    او کتاب والو! آؤ ایسی بات کی طرف کہ ہمارے اور تمہارے درمیان ایک ہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کِسی کے فرمانبردار نہ بنیں اور شریک نہ کریں اس کے ساتھ کسی کو.اور نہ بنا لے بعض ہمارا بعض کو رَبّ.کہ خدا کی طرح اس کی فرمانبرداری اپنے ذمّہ واجب جانے.اگر اس مسلم الطرفین بات کو بھی نہ مانوتو کہہ دو گواہ رہو ہم تو اﷲ کے فرمانبردار ہیں.مسلمان ہیں.(ابطال الوہیّت مسیحؑ صفحہ۲۱) :مذہبوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جُوں جُوں پیچھے چلے جائیں تو شرک ، بُت پرستی کا مرض کم ہوتا جاتا ہے.ایک رئیس تھا اس کی عادت تھی کہ وہ مباحثات کیا کرتا تھا.مجھے ایک دفعہ اس نے کہا کہ کوئی معیار مذہبوں کی پہچان کا ضرور چاہیئے وہ معیار جب تک قائم نہ ہو جھگڑے ختم نہیں ہو سکتے.چونکہ یہ میرا یقین ہے کہ حق بات پر ضرور فطرت بے ساختہ بول اُٹھتی ہے اِس لئے مَیں نے کہا حضور ہمارے آقا ہیں.ہماری عقلیں اور عزّتیں ایسی نہیں کہ ہمارے وہ معیار کی عزت آپ کے دل میں بیٹھ سکے اس لئے آپ خود ہی تجویز فرماویں آپ جو معیار قائم کریں گے لالمحالہ وہ قابلِ قدر ہو گا.یہ مجھے یقین تھا کہ اگر اس نے غلط معیار قائم کر کے

Page 491

کوئی اُلجھن ڈالی تو فطرت کی آواز سے اسے سُلجھا لیا جاوے گا.اس نے کہا مذہب کا پراچین ہونا ہے یعنی جس قدر قدیم کی طرف چلے جاویں.جو سب سے قدیم ثابت ہو وہی مذہب حق ہے.مَیں نے کہا بڑا مسئلہ تو خدا ہی کے ماننے کا ہے اس سے باقی مسئلے نکلتے ہیں.اب مَیں پُوچھتا ہوں کہ بُت پرستی کہاں تک قدامت رکھتی ہے.اس نے کہا کچھ بھی ہو اسلام سے تو پہلے کی ہے.اِسلام کو تو ابھی بارہ سَو سال ہوئے ہیں.مَیں نے کہا اِسلام تو(الانعام :۹۱)کہہ کر اپنے تئیں قدامت سے وابستہ کرتا ہے.آپ فرمائیں کہ بُت پرستی کب سے ہے؟ رام چند رجی کے زمانہ سے مان لیتے ہیں.پس رام چندر کِس دیوتا کی پرستش کرتے تھے.اس نے کہا وِشنو کی.مَیں نے کہا اور وِشنو؟ کہا برہما کی.مَیں نے کہا اور برہما؟ کہا ایشور کی.اس پر مَیں نے کہا بس وہ مسلمان تھے.یہی مسلمانوں کا مذہب ہے.اِسلام کا اہم مسئلہلَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ہی تو ہے.یہاں اِن آیات میں عیسائیوں سے بحث ہے.عیسائیوں کی پُرانی کتاب تو تورات ہے اور اس میں تثلیث وغیرہ کا ذکر نہیں.منیں نے ایک دفعہ ایک عیسائی سے کہا تمہارے ا عمالؔ میں یہ پیشگوئی ہمارے نبی کے حق میں مِلتی ہے.اُس نے کہا کہ بے انصافی کرتے ہو.یورپ و امریکہ کے لوگ یہ معنے نہیں کرتے.آپ کیوں ان کے خلاف معنے کرتے ہیں؟ مَیں نے کہا یہ قاعدہ تو آپ نے خود ہی توڑا.جو معنے تورات کی پیشگوئیوں کے یہود کرتے ہیں وہ آپ کیوں نہیں کرتے ؟ حالانکہ تورات کے وارث وہی ہیں.جس قدر مسیحؑ کی اُلوہیّت کے دلائل آپ کے پاس ہیں ذرا انہیں یہودیوں کی تصریح کے مطابق صحیح تو کر دیں.اس پر وہ جوش میں آ کر بولا.وہ بے ایمان ہیں.مَیں نے کہا ہم آپ کو بے ایمان سمجھتے ہیں.یہاں فرمایا کہ یسوع کو خالق ِ ارض و سماء وغیرہ کہنا تو اس زمانہ کی باتیں ہیں آؤ اس اصل کی طرف چلیں جو سب سے پہلے ہے یعنی توحید.اس پر ایمان رکھیں.یہ بات یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کی کسی کتاب میں عیسٰیؑ نہیں آیا اِسی لئے ان کے سمجھدار لوگ عیسائی نہیں بلکہ مسیحی کہلاتے ہیں.کوئی شخص یسوعانام ہؤا ہے جس کا مسلمانوں کی کتابوں میں ذکر تک نہیں.اس کی یہ لوگ پرستش کرتے ہیں.باتی رہا مسیح ؑ سو اس کا آدم ہونا تو مشاہدات سے ثابت ہے.اس کے خدا ہونے کی کوئی حجّت نیّرہ چاہیئے جو کوئی نہیں.پس تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَونآئٍ م بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ.وَ:تین قِسم کے معبود ہیں.ایک تو پوپ

Page 492

کو بھی خدا سمجھئے.اس کے اختیارات میں معاصی کی مغفرت کا اعتقاد تھا.پوپ ایک زمانہ میں بادشاہ بھی تھا.ایک گروہ مریمؑ کو خداوند کی ماں کہتا اور اس کی توتصویر کے آگے سجدہ کرتا ہے.ایک رُوح القدس باپ تینوں کو خدا سمجھتا ہے.فرمایا بہتوں کا ذکر اچھا نہیں ہوتا.اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَھَّارُ (یوسف :۴۰) پنجابیوں نے اِس نکتہ کو خوب سمجھا ہے.ایک مثل ہے دو گھروں کا مہمان بھُوکا رہتا ہے.اَرْبَابًامِّنْ دُوْنِ اﷲِ کے ماننے والوں کو ہم کہتے ہیں کہ ایک خدا میں آپ نے کیا کمی دیکھی ہے جو دوسرے کو بھی اس کے ساتھ ملایا ہے.جس میں کمی ہے وہ الوہیّت کا مستحق نہیں ہو سکتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء)   :کبھی تو جوش میں آکر کہتے ہیں کہ تورات کی پہلی کتاب سے تثلیث نکلتی ہے.وہاں الوہیم آیا ہے.پھر دانیال اور ابراہیم کو بھی تثلیث ماننے والا بتاتے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ استنباط تو کرتے ہو تورات سے.یہ دونوں ابراہیمؑ کے بعد نازل ہوئیں.کسی مذہب نے اپنا کوئی نام نہیں رکھا.یہود ا کی طرف منسُوب ہو کر یہودی کہلائے اور مسیحؑ کی طرف منسوب ہو کر مسیحی.اصل میں ایک ہی نام کُل مذہبوں کا ہو سکتا ہے.وہ کیا؟ وہی جو مذاہب کا مقصد ہے یعنی راست بازی اور فرمانبرداری.یعنی اسلام جس کی تعلیم میں کسی قِسم کا شرک نہیں بلکہ عین فطرت کے مطابق ہے.بچّہ جس وقت بالغ ہوتا ہے تو کم از کم اتنی سمجھ تو اسے آ جاتی ہے کہ مَیں اپنا خالق آپ نہیں بلکہ کوئی اَور مقتدر ہستی ہے.پس یہی وہ فطرت کی گواہی ہے جس سے شرک کا استیصال ہو جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍جون ۱۹۰۹ء)  

Page 493

:ولیؔ معمولی لفظ نہیں.قرآن شریف نے اس کی تفسیر بتائی ہے اور اس کی ایک پہچان بتائی ہے.جب اﷲ کسی کا ولی بنتا ہے تو اس کی ولایت کا نشان یہ ہے کہیُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ( البقرۃ :۲۵۸) یعنی انسان جو قِسم قِسم کی ظلمتوں میں پڑا ہو.ان ظلمتوں سے روز بروز نکلتا جاتا ہے.بڑی ظلمت تو یہ ہے کہ ماں باپ اچھے نہ ہوں.پھر دوسرے مربّی استاد وغیرہ.پھر دوست،آشنا.پھر رسم و عادت.پھر محبّت و بُغض.پھر شہوت و حرص.پھر بُخل و عجز و کسل.کسی کے اُوپر بے جا ظلم (الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ)پس ان ظلمتوں سے نکل کر جو نور کی طرف جا رہا ہو تو سمجھئے کہ اﷲ میر ولی ہو گیا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)   : یہ نہیں گمراہ کر سکتے مگر اپنے ہی ڈھب کے لوگوں کو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)  ایک گروہ نے اہلِ کتاب میں سے کہا بڑے بڑے عماید یہود جو ہیں وہ سب مِل کر صُبح مسلمان

Page 494

ہو جاؤ اور عصر کی نماز کے بعد اس دین کو ترک کر دو اور یہ ظاہر کرو کہ ہم نے اندر جا کر اس میں بہت سی بدیاں دیکھیں.پس اِس تجویز سے یہ چند اہلِ کتاب جو مسلمان ہو گئے ہیں واپس اپنے دین میں لَوٹ آئیں گے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے منصوبہ بازیوں کا کچھ فائدہ نہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء) تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دُنیا میں و قِسم کی طبیعتیں ہوتی ہیں ایک وہ جنہیں اگر عمدگی سے وعظ کیا جاوے تو مان لیتے ہیں اور اگر تشدّد کیا جائے تو انکار کرتے ہیں اور ایک وہ جو دلائل کو مانتے ہی نہیں.ہاں دو چار جُوت لگ جائیں تو کہتے ہیں جی ٹھیک ہے.ایک زمانہ میں مجھے خیال پیدا ہؤا تو مَیں نے چند لڑکوں سے سوال کیا اگر کوئی لڑکا بد چلنی کرے تو اس کے روکنے کی کیا تدبیر ہے؟ اس پر بعضوں نے لکھا کہ اسے نصیحت کی جاوے مگر تنہائی میں.اور بعضوں نے یہ کہا کہ نصیحت کی جاوے مگر عام لڑکوں میں تا اسے ندامت ہو.بعوں نے کہا پکڑ کر خوب بید لگائے جاویں تا پھر کبھی ایسی جرأت نہ کرے.درحقیقت سب نے سچّ لکھا کیونکہ کئی قِسم کے لوگ ہیں.بعض وہ جو نصیحت مان لیتے ہیں مگر دلائل کے ساتھ.بعض ایسے بھی ہیں جنہیں دلائل دیں تو وہ اَور بھی بپھر جاتے ہیں اور رَدّ و قدح شروع کر دیتے ہیں.بعض صرف کہنے سے مان لیتے ہیں.بعض مدلّل کہنے کو مانتے ہیں.بعض صرف خموشی یا توجّہ چھوڑ دینے سے مان جاتے ہیں.بعض مار کھائے بغیر نہیں سمجھتے ہیں.پھر بعض ایسی طبائع کے انسان ہوتے ہیں جو دن رات منصوبے سوچتے رہتے ہیں ایسے بدبخت ہمیشہ ناکام رہتے ہیں.مگر وہ اسی فِکر میں غلطاں و پیچاں رہتے ہیں کہ فلاں بڑے کارخانے کو نقصان پہنچائیں.بس ایسے بدبختوں کا ذکر اِس آیت میں ہے.(بدرؔیکم جولائی ۱۸۰۵ء صفحہ ۶۳ جلد ۹) 

Page 495

تُو کہہ دے وہ خاص ہدایت جسے الہٰی کہتے ہیں تو یہی ہے کہ دیا جاوے کوئی مثل اس کی کہ دیئے گئے تم ( استثناء ۱۸باب۱۸) بلکہ تم پر حُجّت میں غالب آوے تمہارے پالنے والے ربّ کے سامنے تو کہہ دے یہ نبوّت اور رسالت اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے اور اسی کے ہاتھ ہے.جسے چاہے دے اور اﷲ وسیع و علم والا خاص عزّت و رحمت جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اﷲ بڑے فضل والا ہے.( تصدیق براہین احمدیہ صفحہ ۲۹۶) :کامل ہدایت تو وہی ہے جو اﷲ کی ہدایت ہے اور وہ یہ کہ تمہاری مثل ایک اَور قوم کو بھی انہی انعامات سے ممتاز فرمایا گیا ہے.سلطنت ،نبوّت.:بلکہ وہ تمہارے ربّ کی حُجّت میں تم پر غالب ہیں.اَوْ کے معنے بلکہ کے ہیں.:اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی نسبت بھی فرمایا (المائدۃ:۶۸) اور داؤدؑ کی عبادت گاہ میں جب دشمن چڑھ آئے تو وہاں بھی فرمایا اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ (صٓ:۲۷)ہم نے تمہیں بادشاہ بنایا ہے.یہاں یہ مسئلہ سمجھایا ہے کہ الہٰی انتخاب کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنا ہلاکت کا موجب ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء) :ہدایت یہ ہے کہ دیا جائے جیسے موسٰیؑ دیا گیا تھا بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ غالب آ جائے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفح۴۴۷) اِن آیات (۷۳ تا ۷۵.ناقل ؔ) میں بہت سی باتیں بتا کر باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ نبوّت اور قُرآن خداوندِکریم کا فضل ہے اور فضل کے دینے میں اﷲ تعالیٰ کو اختیار ہے جسے چاہے اپنے خاص فضل سے مخصوص کرے.خدا کا وہ ارادہ جس سے وہ اشیاء پیدا کرتا ہے اس کی تکمیل ایک لابدی امر ہے کیونکہ اس قادرِمطلق کی قدرت اور طاقت کے واسطے کوئی مانع نہیں.اسی ارادۂ اَزلی کی تکمیل کی ضرورت نے نزولِ قرآن اور نبوّت ِ محمدِ عربیؐ کو ضروری کر دیا.مثلاً نادانی سے کوئی کہے کہ پطرس اور یوحنّا

Page 496

وغیرہ تو مسیحؑ کے حواری ہو چکے تھے پولوس کو حواری بنانے کی کیا ضرورت تھی تو اس کا ٹھیک جواب یہی ہو گا اَور جتنے حواری ہونے کے لئے ازل میں منظور ہو چکے وہ ضرور حواری ہوئے.( فصل الخطاب (ایڈیشن دوم) جلد دوم صفحہ ۱۰۲)     …:ایسے آدمی ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں.ایک شخص نے جنگل میں ایک عورت کو زیور سے لدی ہوئی پایا جو راستہ بھُول گئی تھی.اس نے اسے مقام پر پہنچایا حالانکہ پوری دسترس رکھتا تھا کہ زیور اُتار لے.پھر ایسے بھی ہیں جو ایک دُنیا کو دیکھ کر دل ثابت نہیں رکھ سکتے.ایک صوفی نے شیطان کو عالَمِ کشف میں دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کئی لگا میں ہیں.پوچھا.یہ کیا ؟ کہنے لگا یہ لوگوں کو قابوکرنے کے لئے.پھر اس نے کہا.تم لوگ تو صرف کان پکڑ کر قابو کر لئے جاتے ہو.نیکی کے رنگ میں گمراہ کرنا ایسے آدمیوں کے لئے شیطان کو بہت آسان ہے.جماعت کھڑی ہو گئی ہے مگر کئی ہیں کہ ابھی وظیفہ پڑھ رہے ہیں.پھر یہ لوگ امانت میں خیانت کرتے ہیں اور اسے شرعی عذر کے نیچے لا کر صحیح قرار دیتے ہیں.مومن کو چاہیئے کہ وہ ہر حرکت و سکون کے وقت دیکھ لے کہ اس سے تعظیم لِاَمر اﷲ ( اور) شفقت علیٰ خلق اﷲ میں تو کوئی فرق نہیں آتا.:الزام (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)

Page 497

 :وعدہ پورا کرو.کسی عیسائی سے کر دیا یا چوہڑے چمار سے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹)    :محبّت کا کلام نہیں کرے گا.:نظرِ شفقت نہیں کرے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)   

Page 498

:یہ کئی واعظوں کا قاعدہ ہے کہ پہلے کوئی آیت پڑھ لیتے ہیں اور پھر اپنے مطلب کی بات شروع کر دیتے ہیں.سُننے والا سمجھتا ہے کہ ترجمہ کر رہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)    : پکّی باتیں :قبل از وقت بعض باتوں سے آگاہ کر دے.اور وہ کہے میرے بندے بن جاؤ.وہ تو یہی کہے گا.ربّانی بنو.اِس کے چار معنے ہیں (۱) حکماء (بات کی تہہ کو سوچنے والے ) (۲) علماء (۳) فقہاء ( تقلید کرے تو ایسی کہ دوسرے غلطی میں نہ پڑیں ) (۴) مَن یُّرَبِّیْ بِصِغَارِ السِّنِّ.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)

Page 499

    ایک شخص نے مجھ پر اعتراض کیا کہ تمہار قرآن شریف اپنے نبی کی نسبت پیشگوئیاں تو اگلی کتب سے بیان کرتا ہے مگر درس اور باب کا حوالہ نہیں دیتا.اﷲ تعالیٰ نے مجھے بہت عمدہ جواب سمجھایا.مَیں نے وقفہ دے کر ایک انجیل ہاتھ میں لی اور کہا کہ اِس میں مسیحؑ کی نسبت بعض پیشگوئیاں عہد نامہ عتیق سے دی گئی ہیں مگر باب اور درس کا ذکر نہیں.اسے خدا جانے اپنی بات یاد نہ رہی.کہنے لگا باب اور درس تو چودھویں صدی کے بعد بنے ہیں.اِس پر مَیں نے اُسے کہا کہ ذرا ہوش میں آؤ.قرآن شریف نے بھی اس وقت ان پیشگوئیوں کے حوالے دیئے ہیں جب کہ باب و درس نہیں تھے.وہ بہت ہی شرمندہ ہؤا.ایک عیسائی عورت سے مَیں نے پوچھا کہ وہ ناصری کہلائے گا.توریت میں کہاں موجود ہے وہ کہنے لگی تورات میں تو کہیں ہے نہیں.مَیں نے کہا تو پھر اس مذہب کی پابند کِس طرح ہو.کہنے لگی میرا خاوند پادری ہے.میثاق النّبیّٖن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ یہاں کُل نبی مراد ہیں چنانچہ اعمال باب ۳ آیت ۲۱ میں ہے کہ نبیوں نے اِس بات کی دعا کی ہے تا تازگی بخش ایّام آئیں اور ضرور ہے کہ آسمان اسے روکے رہے جب تک کہ وہ جو تمام نبیوں نے کہا پورا ہو اور موسٰیؑ کے مثیل نبی آئے.اس کے دو بڑے

Page 500

فائدے ہیں.جو لوگ کہتے ہیں کہ موسٰیؑ کے مثیل مسیحؑ تھے ان سے ہم کہتے ہیں کہ بقول تمہارے مسیحؑ تو خدا تھا پس خدا کو موسٰیؑ سے کیا مثلیّت ہو سکتی ہے؟ دومؔ مسیحؑ کو وہ کامیابی کب ہے جو موسٰیؑ کو ہوئی.پھر لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی پوری ہونے کے بعد آئے گا.یوحنّا کی انجیل باب ا میں لکھا ہے کیا تُو وہ نبی ہے.’’ وہ نبی‘‘ سے مراد بعض عیسائی دجّال لیتے ہیں مگر ان کے ریفرنس والومنے اِستثناء کے باب کا حوالہ دیا ہے جس میں موسٰیؑ کے مثیل ہونے کا ذکر ہے اور استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے کہ دس ہزار قدّوسیوں کے ساتھ.چنانچہ دس ہزار صحابی رسول علیہ السّلام کے ساتھ تھے جب آپ مکّہ میں مظفّر و منصور داخل ہوئے.غرض استثناء باب۱۸ اور باب ۳۳.یوحنّا اوّل.اعمال سوم کے علاوہ یسعیاہ نبی کی کتاب میں سلاؔ کا نام مذکور ہے اور یہ پہاڑی مدینہ میں ہے کہ وَمَا نَرٰی مِنْ وَّ رَآئِ سلًا مِّنْ سَحَابٍ.۴۲.۵۴ یسعیاہ میں مینڈھے بکریوں کی قربانیوں کا ذکر ہے حالانکہ مسیحؑ کے بعد کوئی قربانی نہیں.اِس کے بعد ایک اَور پہچان بتائی کہ اس نبی کے مخالف بَد عہد ہوں گے چنانچہ ان لوگوں کی کتب میں مذکور ہے معاہدہ کیا ہوتا ہے.توڑنے کے واسطے ہوتا ہے.معاہدہ موجودہ وقت کی تصویر ہوتی ہے وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ کو سورۃ بقرۃ (آیت ۸۴) پڑھو جہاں ان کی عہد شکنیوں کا مفصّل ذکر ہے.پھر فسق و فجور کی جڑہے.عورتوں کی آزادی اور شراب اور یہ دونوں باتیں اسی قوم میں موجود ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)   :سچّے دین کا نشان بتایا کہ اس میں فرماںبرداری سکھائی جاتی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)

Page 501

  اﷲ کی رحمت سے دُور یعنی خدا کا ان سے کوئی تعلق نہیں رہتا.ملائکہ سے بھی دُور.یعنی کوئی نیکی کی تحریک نہیں ہوتی.لوگوں سے دُور.یعنی وہ انہیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)   :اِس آیت پر بہت بحثیں ہوئی ہیں مگر میرے نزدیک اس کے یہی معنے ہیں کہ وہ جو پہلے توبہ کی ہوئی تھی جب اسے توڑ دیا تو قبولیّت کیسی؟ (ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)    وَ:ہدیہ تو قبول نہیں تھا مگر فدیہ بھی نہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۲۴؍ جون ۱۹۰۹ء)

Page 502

  :قرآن کریم میں سورہ بقرۃ میں جہاں پہلا رکوع شروع ہوتا ہے وہاں متّقی کی نسبت فرمایا ہے وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ یعنی جو کچھ اﷲ نے دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں.یہ تو پہلے رکوع کا ذکر ہے.پھر اسی سورۃ میں کئی جگہ اِنفاق فی سبیل اﷲ کی بڑی بڑی تاکیدیں آئی ہیں.۵ رکوع میں اِس قدر بیان ہے کہ اس سے بڑھ کر اَور کوئی کیا وعظ کر سکتا ہے.اِنسان دُکھوں کے وقت تو اِنفاق پر مجبور ہوتا ہے مگر حقیقی دنیا تو وہ دنیا ہے جو خوشدلی سے دیا جاوے.یہود کی نسبت فرمایا ہے (اٰل عمران:۹۲) بے ایمان آدمی جب عذابوں اور دُکھوں کو دیکھے گا تو اس کا دل یہ چاہے گا کہ زمین کی گول کو بھرکر سونا دے دے مگر قبول نہ ہو گا.پس تم حقیقی نیکی کو نہیں پا سکو گے جب تک کہ تُم مال سے خرچ نہ کرو.مِمَّا تُحِبُّوْنَ کے معنے میرے نزدیک مال ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ (العٰدیٰت :۹)انسان کو مال بہت پیارا ہے پس حقیقی نیکی پانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز مال میں سے خرچ کرتے رہو.: جو کچھ بھی خرچ کرو گے اﷲ کو اس کا عِلم ہے.یعنی اسے مال کے لینے اور بڑھانے کا خوب علم ہے.بقرۃ آیت ۲۴۶ میں آیا ہے  کون ہے جو اپنے مالوں کو عمدگی سے الگ کرے اور اﷲ اسے بڑھائے.اس شخص کے لئے بہت بڑھاتا ہے.اﷲ مال کو لیتا ہے اور اس کو بڑھاتا

Page 503

ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیانیکم و ۸؍جولائی۱۹۰۹ء)    دُنیا میں جس قدر بے ایمانیاں ، دھوکہ بازیاں ہوتی ہیں اور لوگ شراب ، زنا، چوری، جھُوٹ سے بھی دریغ نہیں کرتے یہ صرف مال کے لئے ہے اور پھر اِس بارے میں کوئی نصیحت کرے تو اُلٹا اسی پر اعتراض جماتے ہیں.جب مسلمانوں کو یہ وعظ کیا گیا کہ اِنفاق کرو اور یہود کو بھی ترغیب ہوئی تو وہ بجائے اس کے کہ اس نصیحت کو مانتے، کہنے لگے کہ تم تو حرام خور ہو.اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ سب چیزیں جو ہم مسلمانوں کے کھانے میں آتی ہیں بنی اسرائیل کے لئے حلال تھیں.ہاں وہ جو بنی اسرائیل نے اپنے مرض ریگن ( یعنی رِیح.ناقل) کی وجہ سے ترک کر دیا تھا ( یہ مَاحَرَّمَ کے معنے ہیں ).مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰ ۃُ اورکُلُّ الطَّعَامِ کَانَ حِلًّا لِّبَنِیْ ٓ اِسْرَآئِ یْلَ تورات کے نزول سے پہلے کی بات ہے.یہ بات خوب یاد رکھو کہ کُلُّ الطَّعَامِ کے یہ معنی نہیں کہ جو کچھ تورات کے نزول میں حلال و حرام ہے وہی قرآن مجید میں موجود ہے بلکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ تمام چیزیں جو ہم کھاتے ہیں یہ وہ ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے بھی تورات کے نزول سے پہلے کی حلال تھیں.پس اگر ان چیزوں کا کھانا حرام خوری ہے تو یہ اعتراض ابراہیم، اسحٰق و یعقوب علیہم السّلام پر بھی ہو سکتا ہے.رسول کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم فرماتے ہیں کہ مَیں تمہاری کتابوں کا متبع نہیں ہوں.مَیں ابراہیمؑ کے دین پر قائم ہوں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی۱۹۰۹ء) اب یہ اعتراض رہا کہ جس کو قُرآن کے معانی بدُوں کسی کتاب کے آتے ہیں اسے کسی دوسری کتاب کی ضرورت نہیں ہے.ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات پاک ایسی تھی کہ ان کوقرآن کے فہم کے واسطے تو کسی کتاب کی ضرورت نہ تھی مگر تاہم قرآن کو کلامِ الہٰی اور جو کچھ قرآن کریم

Page 504

پیش کرتا ہے اس کی تصدیق کے واسطے پھر بھی اَور کتاب کی تو ضرورت تھی اور خود قرآن بتلاتا ہے کہ اَور کتاب کی ضرورت ہے. آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو اپنی صداقت ثابت کرنے کے واسطے قرآن میں فرماتا ہے کہ ایک اَور کتاب میں دیکھو.پھر لکھا ہے (الاعراف:۱۵۸) …مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِ نْجِیْلِگویا دو کتابوں کی ضرورت پڑی.اِس تقریر سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی پیشگوئیوں وغیرہ اور اپنے دعاوی اور نیز قرآن کی تصدیق کے واسطے دوسری کتابوں کی ضرورت پڑتی رہی اور ادھر ہم کو بھی پڑی کیونکہ ہماری زبان عربی نہیں ہے.اِس لئے خوب یاد رکھو کہ قرآن تو اپنی ذات میں ایک کامل کتاب ہے مگر اس کے کمال کو جاننے کے لئے ہم اَور کتابوں کے محتاج ہیں.کبھی لُغت کے کبھی دوسرے علوم کی کتب کے.اگر کہوکہ اصولِ دین کو اس سے کیا تعلق ہے تو ہم کہتے ہیں قرآن شریف کی تصدیق کرنی بھی تو اصولِ دین ہے.کامل ذات خود کسی کی محتاج نہیں ہوا کرتی مگر دوسرے اس کو کامل جاننے کے واسطے محتاج ہوتے ہیں.دیکھو خدا اپنی ذات میں کامل ہے اور اس کو دلائل کی ضرورت نہیں مگر چونکہ ہم دلائل کے محتاج ہیں اِس لئے مصنوعات وغیرہ کے دلائل ہم کو دینے پڑے.(الحکم ۱۰؍ جولائی ۱۹۰۳ء صفحہ ۴)   :تم بھی اسی دین کو قائم رکھو.افراط و تفریط سے بچنے والے ہو کر.حنیف کے یہی معنے ہیں.ایک طرف جُھکا ہوا غلط معنے ہیں.احنف ٹیڑھے پاؤں والوں کو بطور دعا کہتے ہیں.حنیف وہ آدمی ہے جس میں کوئی کمی، نقص اور زیادتی نہ ہو.جو مُشرک ہوتا ہے وہ محبّت میں افراط سے کام لیتا ہے.کبھی غیر اﷲ کو سجدہ کرتا ہے، کبھی رکوع ، کبھی اپنے محبوب کے لئے

Page 505

قربانیاں، کبھی غیر اﷲ سے دعائیں مانگتا ہے، کبھی اس سے حاجتیں طلب کرتا ہے.یہ محبّت میں غلّو ہے جو افراط کی راہ ہے.اس میں خدا کے حق میں تفریط ہے.:مگر ابراہیمؑ میں یہ عیب نہ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی۱۹۰۹ء)  مکّہ معظّمہ کی مسجد چونکہ ابوالحنفاء، شِرک سے پورے بیزار ابراہیمؑ سے بلکہ اس سے بھی پہلے الہٰی عبادت کے لئے بنائی گئی اِس واسطے وہ بَیت اﷲ کہلائی.جیسے فرمایا: .پہلا گھر جو ( خدا کی عبادت کے لئے ) قوموں کے لئے بنایا گیا وہ مکّہ میں ہے.مبارک اور ہدایت ہے لوگوں کے لئے.( نورالدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۵۳) پھر عظیم الشّان ثبوت اِس بات کا کہ ابراہیمؑ کو کیوں مانیں؟ کیا تورات کو چھوڑ دیں؟ یہ ہے کہ سب سے پہلے خدا کی خالص توحید کے لئے جو گھر بنایا گیا ہے وہ وادیٔ مکّہ میں ہے.مکّہ کہتے ہیں اس مقام کو جہاں لوگوں کا بڑا اژدہام ہو.:برکت دیا گیا.دیکھو یہیں وہ مبارک وجود تھا جو اہلِ اَرض کے لئے امان تھا.اِسی گھر میں ابوبکر و عمر و عثمان و علی پیدا ہوئے رضوان اﷲ علیہم.اسی میں طلحہ و زبیر.چنانچہ خدا نے فرمایا (النّور:۳۸) (النّور:۳۷) اﷲ نے اس کے گھر کے لوگوں کو بڑا بنانا چاہا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی۱۹۰۹ء)   

Page 506

:پھر اس مکّہ کی اوّل تو یہ خصوصیّت ہے کہ اس میں ابراہیمؑ کی عبادت گاہ ہے یہودی ،عیسائی اپنے متبوع کی کوئی جگہ پیش نہیں کر سکتے جو ان کے قبضہ میں ہو.دوسری آیت اور دوسری جگہ فرمایا (العنکبوت:۶۸)کے سارے جہاں میں افراتفری پڑی ہے پر مکّہ میں نہیں.تیسری آیت.جو یہ نہیں سمجھتا وہ یہ پیشگوئی سُن لے کہ حج بَیت اﷲ کا لوگوں میں رہے گا.: اور جو باوجود ان دلائل کے کُفر کرے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) :یہود و نصارٰی کے لئے عزّت کا مقام ہے.:بہت بڑی پیشگوئی.دُنیا میں سلطنتیں بدل جائیں مگر مکّہ کی حُرمت اور حج یَوم القیامت تک قائم.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۷) مکّہ معظّمہ تیسرا مظہر اسلام کا اِس دُنیا میں ہے اور اس مکّہ معظّمہ کی نسبت ارشاد ہے: اوّل..(پھر اِن آیاتِ بیّنات کا بیان کیا ہے جیسے فرمایا) . … اوّلؔ یہ کہ مکّہ مقامِ ابراہیمؑ ہے.دومؔ اس میں داخل ہونے والوں کیلئے امن ہے.سومؔ اس کا حج کرنا لوگوں کے ذمّہ لگایا گیا ہے.(نورالدین صفحہ ۲ب (ایڈیشن سوم)   :کُل دُنیا کی ترقّی کا مدار قومی اِجتماع پر ہے.تمام مہذّب بلا د میں جب تہذیب شروع ہوئی اُس وقت بھی کلب و انجمنیں بنیں.حضور علیہ السّلام کے دین میں اﷲتعالیٰ نے قومی اجتماع کے عجیب و غریب سامان تجویز فرمائے اور ایسے رُوحانی محرّک اُن میں رکھے جس کے باعث ان انجمنوں کے برہم ہونے کا خطرہ نہ رہا.

Page 507

اہل محلہ کے روزانہ اجتماع کے لئے پانچ وقت کی جماعت کو واجب کیا.رات کو سب لوگ اپنے گھروں میں سوتے ہیں.شبینہ واقعات میں اگر ہمدردی کی ضرورت ہے تو علی الصّباح نمازِ فجر کی جماعت میں یہ امر حاصل ہے.اَب بازار کی آمد و رفت شروع ہوئی.مختلف معاملاتِ خارجیہ پیش آئے تو دوپہر کے بعد جماعت کا وقت آ گیا.عصرروزانہ اَوقات کا اختتام ہے اور ابھی اہل تجارت و حرفہ غالب عمرانات میں گھر نہیں پہنچے.عین اس وقت کے معاملات پر اگر ہمدردی کی ضرورت ہے تو عصر کی جماعت کا عمدہ موقع ہے.شام کو گھر پہنچے وہاں کے نئے معاملات جو غیبوبت میں ہوئے اگر باعثِ اجتماع ہیں تو جماعتِ نمازِ شام اس کے لئے موزوں ہے.نو دس بجے رات کو الگ الگ ہونے کا وقت آ گیا.مناسب ہے سب آپس میں الوداعی رخصت کر لیں اور یہی عشاء کا وقت ہے.اِس روزانہ پانچ وقت کے اجتماع میں اگر تمام اہلِ بلا د کو تکلیف دی جاوے تو ایک قِسم کی تکلیف مالا یُطاق ہے اس لئے تمام شہر کے اہلِ اسلام کے لئے ہفتے میں ایک دِن جُمعے کا اس اجتماع کے لئے تجویز ہؤا.لاکن اِس اجتماع کے لئے حفظِ صِحت کے سامان کے واسطے نہانا، کپڑے بدلنا، صفائی ایک ضروری تھا.بنا براں اس کا وقت قریب نصف النّہار تجویز کیا گیا اور اس میں موسٰیؑ والی تشدید کہ سبت میں کام کرنے والے کو جَلا دیا جائے عالمگیر مذہب میں ، جس کا نام اسلام ہے، مناسب نہ سمجھی.زیادہ دیر تک اجتماع کو مُخلِّ صِحت خیال کر کے اصل نماز سے اِس نماز کو نصف کر دیا گیا اور ایک خطیب ( اسپیکر) کو حکم دیا گیا کہ ضروریات پر کھڑے ہو کر لیکچر دے اور بعد نماز جمعہ کے حکم ہے چلے جاؤ اور مُنتشر ہو جاؤ قصبات اور دیہات کے اجتماع کے لئے عید کی نماز تجویز ہوئی.چونکہ یہ جلسہ بھاری اور سال میں کُل دو دفعہ ہوتا تھا اور اس میں لوگوں کی کثرت تھی اِس لئے تبدیل لباس اور عطر و خوشبو کا لگانا جیسے جمعے میں حکم تھا اِس میں بھی رہا اور زیادہ تر اجتماع کے لحاظ سے حکم ہؤا.عید کا جلسہ شہر سے باہر میدان میں ہوتا کہ فریش ایئر(تازہ ہَوا ) کی روک نہ رہے.چونکہ میدان محلِ انجمن ٹھہرا اور غالب عمرانات میں دُھوپ کا خوف ہؤا اِس لئے ابتدائے روز عید کا وقت ٹھہرایا گیا.عید میں رُوحانی محرّک دو رکعت نماز ہے اور بعد نماز کے ضروری ضروری باتوں پر لیکچر ہے ( جسے خطبہ کہتے ہیں).تمام قوموں میں میلوں کا رواج ہے اور میلوں کا ہونا عمدہ مصالح دُنیوی پر مبنی ہے.کُل مذاہب اور تمام اقوام کے میلے خالص توحید سے بالکل بے بہرہ ہیں.کہیں غیر اﷲ کی پرستش ہے کہیں

Page 508

صرف دُنیوی خیال ہے جو فانی اور غیر بقی ہے.اُن کو عظمتِ الہٰی سے کچھ سروکار نہیں.اسلامی میلہ عید کا دُنیا کے میلوں سے رُوحانیّت میں بڑھا ہؤا ہے.اَب تمام اہل اسلام کے اجتماع کے لئے صدر مقام کی ضرورت تھی تاکہ مختلف بلاد کے بھائی اور اسلامی رشتے کے سلسلے میں یکتا باہم مِل جاویں مگر ایسے اجتماع کے لئے اوّل تو کُل اہلِ اسلام کا اکٹھا ہونا اور امیر و فقیر کا جانا محال تھا.علاوہ بریں فقراء اور محتاجوں کے جانے میں کوئی بڑے فائدے مترتّب ہونے کی امّید بھی نہیں ہو سکتی تھی اِس لئے حکم ہؤا   اور یہ بھی ہے کہ امراء کے حق میں عیش اور کِبری ہی مُہلک امراض اور ترقّی کے دشمن ہیں.دُور و دراز کا سفر کرنا، احباب و اقارب کو چھوڑنا ، سردی اور گرمی کی برداشت کرنا، مختلف بلاد کے علوم اور فنون اور اقسام مذاہب اور عدات پر واقف ہونا سُستی اور نفس پروری کا خوب استیصال کرتا ہے.حج کے اعمال کبرو بڑائی کے سخت دشمن ہیں.زیب و زینت کو ترک کرنا، غرباء کے ساتھ ننگے سَر کو سوں چلنا، دُنیاداروں ، مستوں عیّاشوں کو کیسی کیسی ہمّت بڑھانے کا موجب ہے.غرض حج کیا ہے.اسلامیوں کو تجربہ کار اور ہوشیار بنانا ہے.بے رَیب ایک ملک کے فوائد کو دوسرے ملک تک پہنچانے میں جیسی طاقت دولتمند رکھ سکتے ہیں ویسی علی العموم غریب لوگ نہیں رکھ سکتے.ایسے صدر مقام کے لئے کونس مکان تجویز ہوتا.پس مکّہ معظّمہ سے کوئی مکان بہتر نہ تھا کیونکہ اوّل تو وہ مقام مبدأ اسلام تھا.دومؔ اس میں ایسے لوگوں کی یادگاری تھی جن کی سعی اور کوشِش سے سخت سے سخت بُت پرستی کا دُنیا میں استیصال ہؤا اور خالص الہٰی توہید قائم ہوئی.تمام مساعیٔ جمیلہ اشاعتب اسلام کے جن لوگوں سے سرزد ہوئے ان کا اصل مولد وہی شہر تھا اگر کوی چیز یادگار جوش دلانے والی دُنیا میں ہو سکتی تھی تو مکّے سے بہتر کوئی بھی نہیں.اِلّا امراء کے ساتھ جن پر حج فرض ہے ممکن بلکہ ضرور تھا کہ ان کے نوکر چاکر بھی حج کرنے کو ساتھ جاویں اور کچھ لوگ غرباء میں سے عشق کے مجبور کئے ہوئے بھی وہاں پہنچیں.اِس لئے اِسلام نے بغرض کمال اتحاد احلِ اسلام تجویز فرمایا کہ سب لوگ سادہ دو جادروں پر اکتفاء کر کے امیر و غریب ہیکساں سر سے ننگے، کُرتے سے الگ، سادہ وضع پر ظاہر ہوں تاکہ ان کی یکتائی اور اِتحاد کامل درجے پر پہنچے.۱.اس حالت کا نام اِحرام ہے.کچھ عقلی حُسن اس کا سُن چکے ہو کچھ اَور سُن لو.زیب و زینت

Page 509

کی پہلی سیڑھی حجامت بنوانا بال کٹوانا ہے اور اس کی ان ایّام میں ممانعت ہے جو وضع کے پابندوں کو محال نظر آتی ہے اور کتبِ مقدّسہ میں اس طرز کی نظیر موجود ہے.’’ نذیر کے سر پر اُسترا نہ پھیرا جائے جب تک وے دن جن میں اُس نے اپنے آپ کو خداوند کے لئے نذر کیا ہے.گزر نہ جاویں.سر کے بال بڑھنے دے.‘‘ (گنتی ۶ باب۵) ۲.پھر اس مسجد میں جس کے وجود اور جس کی عظمت کا عنقریب ہم ثبوت دیں گے ابراہیمی عبادت کی طرح پر ایک عبادت ہے جسے طواف کہتے ہیں.پروانہ وار چند بار الہٰی مسجد کے گِرد گھومنا اس طواف کا ثبوت اگر دیکھنا ہو زبور ۲۶ کو دیکھو.۳.پھر صفا اور مروہ کے درمیان بیادگار اُمِّ اسمٰعیل ہاجرہ علیہا السّلام چلنا.ہاجرہؑ کو جب ابراہیمؑ نے یہاں چھوڑا تو انہوں نے ابراہیمؑ سے پُوچھا تُو ہمیں کِس کے سپرد کرتا ہے.تو ابراہیمؑ نے فرمایا خا کے سپرد اور اُسی کے حکم سے.تب ہاجرہؑ نے کہا جاؤ.وہ اﷲ تعالیٰ ہم کو صائع نہ کرے گا.آخر پیاس کی شدّت میں، پانی کی جستجو میں جب یہاں دوڑیں تو خدا نے زمزم سے ان کی امداد کی.اِس قِسم کی یادگاریں اولادِ ابراہیمؑ میں مروّج تھیں.دیکھو پیدائش ۳۵ باب ۱۵.بلکہ یشوع نے بارہ پتّھر جن کا ذکر یشوع ۴باب میں ہے دریا سیصرف یادگار کے لئے اُٹھائے اور دریا کے باہر لا کر رکھے.پولا ہلانے کی رسم جس کا ذکر احبار ۲۳باب ۱۰ میں عیسائی مانتے ہیں مسیحؑ کے جی اُٹھنے کی یادگار ہے.پھر عرفات کے میدان میں جانا ایک ضروری فعل حج کا ہے جہاں نہ کوئی پتھر، نہ کوئی درخت ، صرف الہٰی یاد ہے اور اسی سے دعا.دیکھو موسٰی بھی فرعون کو کہتے ہیں.خداوند اسرائیل کا خدا یوں فرماتا ہے کہ میرے لوگوں کو جانے دے تاکہ وے بیابان میں میرے لئے عید کریں.۵.پھر حلق ( یعنی سر منڈوانا.مرتّب) ہے جس کی وجہ یہ ہے.بہت دنوں سر کُھلا رہا.گرد و غبار پڑا.عام لوگں کو سامان سر دھونے کا اس سے بہتر کیا ہے کہ سر منڈوا دیں یا بالوں کو کتوائیں.حلق کا راج اور اس کا ثبوت مقدّسہ کتب میں موجود ہے ( دیکھو ایّوب ا باب ۲۰) نذیر جماعت کے خیمے کے دروازے پر سر کی منت منڈادے.گنتی ۶ باب ۱۸ بلکہ احبار ۱۴ باب ۹ میں تو چارا برو کا صفایا مندرج ہے.متی ۸ باب ۴ میں اس کا جواز اور ان رسوم کا اتّباع دیکھ لو.قربانی.نذیر کے پاس اگر کوئی ناگہاں مَر جاوے تو ایسی عمریاں یا کبوتر ایک خطا کی قُربانی اور ایک سو ختنی قربانی گذارنے اور نذیر قربانی بے عیب یک سالہ بّرہ ایک خطا کی قربانی.دوسرا سو ختنی قربانی کے لئے اور فطیری روٹی چپڑی ہوئی اور مہدی.میدے کے کلچے تیل سے چُپڑے ہوئے

Page 510

کاہن کو دے.گنتی ۶ باب ۱۹ اور دیکھو پیدائش ۸ باب ۲۰ و ۱۲ باب ۸.کثرتِ قربانی.۲ تاریخ ۷ باب ۵.سلاطین ۸ باب ۵ میں دیکھنے کے قابل ہے.ہاں اِتنی بات رہ گئی.مقدّسہ کتب میں اجتماع کے لئے ترئی اور ناقوس کی اَبدی رسم ہے.اِسلام نے اس کے بدلے کہیں اذان کے لطیف کلمات اور حج میں.لَبَّیْکَ لَبَّیْک اَللّٰھُمَّ لَبَّیْک لَا شَرِیْکَ لَک لَبَّیْکَ.اِنَّ الْحَمْدَ وَ النِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَک.توجّہ اِلی الِقبلہ.سچّ ہے شک نہیں.سجدہ پر لے درجے کا عجز اور نیاز ہے.یہ عمدہ فعل ضرور ہے کِسی طرف واقع ہو اور کوئی طرف ہو، اس میں مخلوق کا ہونا ضروری ہے ابس لئے شارع نے خود ایک جہت مقرر کر دی جس میں کئی فائدے ہیں.اوّل:یہ اشارہ کہ سب کو چاہیئے ایک دل ہو کر معبودِ حقیقی کی عبادت کریں.دومؔ: اہلِ اسلام اور منافقین میں مابہ الامتیاز ہو.اِسی واسطے مکّے میں آپ بَیت المقدس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور مدینے میں جب تشریف لائے تو بعد چند مدّت کے مکّے کی طرف توجّہ فرمائی.قرآن خود اس سِرّ اور بھید سے آگاہ کرتا ہے جہاں فرماتا ہے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ یَّنْقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیْہِ.سومؔ:جماعت کے اِنتظام میں خلل نہ ہو اور تمام دُنیا کے اہلِ اسلام یک جہت رہیں.چہارمؔ:قبلے کی طرف مُنہ کرنا.ملّتِ ابراہیمی کا نشان اور ان کی اولاد کا معمول ہے.دیکھو یشوع اور سارے اسرائیلی بزرگوں نے اپنے کپڑے پھاڑے اور خدانود کے عہد کے ندوق کے آگے شام تک اوندھے پڑے رہے.یشوع ۷ باب ۶.ا.سلاطین ۸ باب ۲۸.۴۸.ترکیب آنے کی مقدس میں احبار ۱۶ باب.ملاکی ۳باب ۱۴.اور تیرے آگے سجدہ کرینگے.وے تیرے آگے منّت کریں گے اور کہیں گے.یقینا خدا تجھ میں ہے.یسعیاہ ۴۵ باب ۱۴.دانیال اپنی کوٹھڑی کا دریچہ جو یروشلم کی طرف تھا کھول کر دن میں تین دفعہ گھٹنے ٹیک کر اور داؤد بیت ایل کی طرف خدا کے حضور دعا اور شکر گزاری کرتے رہے.دانیال ۶ باب ۱۰.زبور ۹۹.۹ زبور ۱۳۸.۲.

Page 511

حجرِاَسود کیا ہے؟ ایک بِن گھڑا پتّھر ہے.چونکہ گھڑے ہوئے پتّھروں کی عبادت ہوتی تھی اِس واسطے ابراہیمؑ اور ان کی اولاد نے یادگار یا نشان کے لئے بِن گھڑے پتّھر رکھے تھے.پیائِش ۲۸ باب ۱۸.یعقوبؑ نے پتّھر کھڑا کیا اور اس پر تیل ڈالا اور پیدائش ۳۵ باب ۱۵ اور یشوع ۴ باب ۵،۶.ہر ایک تم میں سے بنی اسرائیل کے فرقوں کے مطابق ایک ایک پتّھر اپنے کاندھے پر رکھے تاکہ تمہارے درمیان نشان ہو.پادری اِن باتوں سے انکار نہیں کر سکتے.پُرانے زمانے میں کیا اِس زمانے میں بھی یہی تصویری زبان کا رواج ہے.اکثر آریہ وَرت کے قصص تصویری زبان میں ہیں اور کئی اخباروں میں تصویری زبان معمول ہے.سکندر اور دارا کے قصّے میں تصویری زبان کی گفتگو مشہور ہے.عیسائی بھی تسلیم کرتے ہیں.یشوع کے بارہ پتّھر بارہ حواریوں کا اشارہ جانتے ہیں.یہودی قربانیاں مسیح برّے کی پھانسی بتاتے ہیں بلکہ ختنہ بھی عیسٰیؑ بن مریمؐ کے قتل کا نشان کہتے ہیں.پولا ہلانا جس کی نسبت احبار ۲۳ باب ۱۰ میں حکم ہے مسیحؑ کا جی اُٹھنا بیان کرتے ہیں.مَیں کہتا ہوں متی ۲۱ باب ۳۳.۴۲ میں لکھا ہے بنی اسرائیل کو اﷲ تعالیٰ نے آباد کیا.ایک باغ کا مہتمم بنایا ( ایک شرع کا) مگر انہوں نے نافرمانی کی یہاں تک کہ اپنے آخری صلح کار ( اکلوتے بیٹے) کو مار ڈالا اِس لئے خدا ان کو سزا دے گا.کونے کے پتّھر سے جسے معماروں نے ناپسند کیا.یہی مضمون یسعیاہ ۲۸ باب ۱۶ میں ہے اورد انیال ۲ باب ۳۴ میں ہے.یہود غیر قوموں کو بھی پتّھر کہتے تھے اور ہمیشہ بنی اسمٰعیل کو یہ معمارِ قوم حقیر جانتے تھے اِلّا عرب میں قدیم سے اسی لئے کہ وہ اَن پڑھ قوم تھی تصویری زبان میں بطور پیشین گوئی اور بشرات کے یہ یسعیاہ ۲۸ باب ۱۶ اور متی ۲۱ باب ۴۲ اور دانیال ۲ باب ۳۴ والا کلام مکّے میں اِس طرح سے تحریر ہؤا کہ بَیت اﷲ کے کونے پر ایک بِن گھڑا پتّھر نصب کیا گیا جس کے ساتھ یہ بات کی جاتی تھی کہ اسے صرف ہاتھ لگاتے جو بیعت اور اقرار کا نشان ہے.مطلب یہ کہ اس پاک شہر میں وہ کونے کا پتّھر ہو گا جس کے ہاتھ پر بَیعت کرنا ضرور ہے.جو کوئی اس پر گِرے گا چُور ہو گا جس پر یہ گِرا اُسے پِیس ڈالے گا.حسبِ بیان دانیال ۲ باب.بابل کا حال دیکھ لو.نادان کہتے ہیں مسلمان پتّھر کی پرستش کرتے ہیں.آریہ اور عیسائی بتائیں عبادت کسے کہتے ہیں.عبادت میں اُسْتُتِی،حمد اور تعریف، پر ارتھنا یعنی دعا اور اُپا سنا یعنی دھیان ضرور ہے.بتائیں مسلمان کب اس پتّھر کی تعریف اور اس سے دعا اور اس کا دھیان کرتے ہیں.اسلامی کسی عبادت میں اس پتّھر کا ذکر ہی

Page 512

نہیں بلکہ عباداتِ اسلامیہ میں تو مکّے کا بھی ذکر نہیں.اس کی عبادت کیا ہو گی؟ اگر اس کو ہاتھ لگانا یا چُومنا عبادت ہے تو سب لوگ بیاہی ہوئی عورتوں کے عابد اور خدا کو سجدہ کرنے والے زبان کے پجاری ہوں گے.بات یہ ہے کہ مقدّس مقام میں تصویری زبان کے اندر یہ گفتگو ہے کہ نبوّت کی پاک محل سرا میں کونے کا پتّھر یہاں مکّے سے نکلے گا بلکہ مسیحؑ نے متی ۲۱ باب ۳۳ میں خود کہا ہے کہ یہ تمثیل ہے.انتہٰی نفسِ وجودِ کعبہ اور بَیت اﷲ کا ثبوت پیدائش ۱۲ باب ۶.۹.ابراہیمؑ نے خداوند کے لئے کنعان میں ایک قربان گاہ بنائی اور وہاں سے روانہ ہو کے اُس نے بیت ایل کے پورب ایک پہاڑ کے پائیں اپنا ڈیرہ کھڑاکیا.بیت ایل اس کے پچھم اور عی اس کے پورب تھا اور وہاں اس نے خدا کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور خداوند کا نام لیا اور ابرام رفتہ رفتہ دکّھن کی طر ف گیا یہاں جس بیت ایل کا تذکرہ ہے وہ ضرور مکّہ ہی ہے کیونکہ کنعان عرب کے حدود میں ہے اور لکھا ہے قربان گاہ بنا کے جب روانہ ہؤا پھر ایک جگہ ڈیرا لگایا اور وہاں سے دوسرا قربان گاہ بنایا اور اس کے پچھم ایک بیت ایل کا بیان کیا جو بیت ایل سمندری ہے یم سمندر کو کہتے ہیں اور وہاں لفظ بیت ایل یم ہے اور نیز آخر میں کہا ہے ابرام رفتہ رفتہ دکھن پہنچا اور مسیحؑ فرماتے ہیںکہ دکھن کی بلکہ شہر سبا کی شہزادی تھی جو سلیمانؑ کے پاس آئی اور صاف ظاہر ہے کہ بیت اﷲ جسے مکّہ کہتے ہیں کنعان سے دکھن کی طرف واقع ہے.علاوہ بریں پیدائش ۱۳ باب ۳ میں ابرام کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دکھن کی طرف چلا اور سفر کرتا دکھن سے بیت ایل میں پہنچا.اور تراجم موجودہ میں جو فقرہ اس کے بعد لکھا ہے وہ توریت کا فقرہ نہیں اور قومی روایات ، ملکی تواتر، رسومات کا توافق ، ابراہیمی عبادات سے ختنے کی رسم قربانی وغیرہ مناسک میں اتحاد.تمام اقوامِ عرب کا اِس بات پر نسلاً بعد نسلٍ اتفاق صاف گواہی دیتا ہے کہ ابراہیمؑ کو اس مسجد سے تعلق ہے جسے بَیت اﷲ کہتے ہیں.پھر کوئی امر قانونِ قدرت میں اور کوئی ضروری اور بدیہی علم ہمیں اس اعتقاد سے پھرنے پر مجبور نہیں کرتا.یسعیاہ ۶۰ باب ۶.اُونٹنیاں کثرت سے تجھے آ کے چھپا لیں گی.مدیان اور عیفہ کی جوان اونٹنیاں وے سب جو سبا کے ہیں آ ویں گے.۷.قیدار ( پسر اسمٰعیل) )کی ساری بھڑیں تیرے پاس جمع ہوں گی.نبیط ( پسر اسمٰعیل) کے مینڈھے تیری خدمت میں حاضر ہوں گے.وہ میری منظوری

Page 513

کے واسطے تیرے مذبح پر چڑھائے جاویں گے اور مَیں اپنی شوکت کے گھر کو بزرگی دوں گا.یہ کون ہیں جو ٹڈی کی طرح اُڑتے آتے ہیں اور کبوتر کے مانند اپنی کا بک کی طرف یقینا بحری ممالک تیری راہ تکیں گے اور ترسیس کے جہاز پہلے آویں گے.۱۰.اجنبیوں کے بیٹے بھی تیری دیوار اُٹھائیں گے اور ان کے بادشاہ تیری خدمت گذاری کریں گے.اگرچہ مَیں نے اپنے قہر سے تجھے مارا پر اپنی مہربانیوں سے تجھ پر رحم کروں گا اور تیری پھاٹکیں نِت کُھلی رہیں گی وے دن رات کبھی بند نہ ہوں گی.۱۴.ہاں وہ سب جنہوں نے تیری تحقیر کی تیرے پاؤں پڑیں گے اور وہ خدا کا شہر اسرائیل کے قدّوس کا صیہوں ( سنگلاخ زمین) تیرا نام رکھیں گے اس کے بدلے کہ تُو ترک کی گئی اور تجھ سے نفرت ہوئی.اِلیٰ اٰخر.یسعیاہ ۵۴ باب ۱۰.اری بانجھ تُو جو نہیں جنتی تھی ( مکّے اور قومِ قریش میں کوئی نبی اور رسول نہ ہؤا اِس لئے اُسے بانجھ کہا) خوشی سے للکار تُو جو حاملہ نہ ہوتی تھی وجد کرے گا اور خوشی سے چِلاّکیونکہ خداوند فرماتا ہے بیکس چھوڑی ہوئی کی اولاد خصم والی کی اولاد سے زیادہ ہیں.( اہل اسلام یہود سے زیادہ ہیں اور عیسائی مجوس اور موجود یروشلم سے ا لگ ہوبیٹھے ہیں وہ ظاہری یروشلم کی اولاد ہی نہیں) اپنے خیمے کو بڑھا وے.ہاں مسکن کے پردے پھَیلا.دریغ مت کر.اپنی ڈوریاں لمبی اور اپنی میخیں مضبوط کر اِس لئے کہ تُو داہنی اور بائیں طرف بڑھے گی اور تیری نسل قوموں کی وارث ہو گی اور اُجاڑ شہروں کو بسادے گی.مت ڈر کہ تُو پھر پیشمان نہ ہو گی.تُو مت گھبرا کہ تُو پھر رُسوانہ ہو گی.تُو اپنی جوانی کے ننگ بھُول جائے گی اوراپنی بیوگی کی عار پھر نہ یاد کرے گی کیونکہ تیرا خالق تیرا شوہر ہے.اس کا نام رَبّ الا فواج ہے اور تیرا نجات دینے والا اسرائیل کا قدوس ہے.وہ ساری زمین کا خدا کہلائے گا کیونکہ تیرا خدا کہتا ہے خداوند نے جو تجھے طلاق کی ہوئی اور دِل آزردہ عورت سے ہے اور جوانی میں کی ایک جوروکے مانند جو رو کی گئی ہو.پھر بُلایا ہے.لاکن اَب مَیں بہت سی مہربانیوںکے ساتھ تجھے سمیٹ لُوں گا.شدّتِ قہر کے حال میں مَیں نے اپنا مُونہہ تجھ سے ایک لحظہ چھپایا.پر اَب مَیں ابدی عنایت سے تجھ پر رحم کروں گا.خداوند تیرا بچانے والا یُوں فرماتا ہے میرے آگے یہ نوحؑ کے پانی کا سا معاملہ ہے جس طرح مَیں نے قَسم کھائی تھی کہ پھر زمین پر نوحؑ کا سا طوفان کبھی نہ آوے گا اسی طرح اَب مَیں نے قَسم کھائی کہ مَیں تجھ سے پھر کبھی آزردہ نہ ہوں گا.غرض یسعیاہ ۵۴ باب میں دُور تک یہ مضمون ہے یسعیاہ۶۰.اُٹھ روشن ہو.تیری روشنی آئی اور

Page 514

خداوند کے جلال نے تجھ پر طلوع کیا.دیکھ تاریکی زمین پر چھا گئی اور تیری قوموں پر بھی تاریکی نے اثر کیا.لاکن خداوند تجھ پر طالع ہو گا اور اس کا جلال تجھ پر نمود ہو گا اور قومیں اور بڑے بادشاہ تیری روشنی اور تیرے طلوع کی تجلّی میں چلیں گے.انتہیٰ مختصراً.ہم یقینی طور پرکہتے ہیں یہ سب مکّے کی تعریف ہے.اگر نہیں تو بتاؤ لایان اور عیفہ اورسبا کی اونٹنیاں کہاں جمع ہوتی ہیں.قیدار کی بھیڑیں اور نبیط کے مینڈھے کِس مذبح پر چڑھائے جاتے ہیں.عبری میں جس چیز کی زیادہ تعریف کرنا مطلوب ہوتا ہے اسے ملکہ اور عورت کر کے تعبیر کرتے ہیں.اگر انکار ہے تو دیکھو حزقیل ۱۶ باب الیٰ اٰخرہٖ.(فصل الخطاب صفحہ ۱۶۷ تا ۱۷۵)    کے معنوں میں مَیں نے بہت غور کیا ہے.بہت لوگ اِس قِسم کے ہوتے ہیں کہ عیب جوئی کی فِکر میں لگے رہتے ہیں.مَیں نے ایسی عادت والوں کو دیکھا ہے کہ وہ مرتے نہیں جب تک اس گناہ میں گرفتار نہ ہو لیں جس کے لئے وہ دوسرے کی تحقیر کرتے ہیں اور لوگوں میں شور و فساد ڈالتے ہیں.اِسلام ایک سیدھا اور سادہ مذہب ہے مگر تَبْغُوْنَھَا یہ لوگ چاہتے ہیں اس کے لئیعِوَجًا کہ کوئی عیب نکل آئے اور ایک معنے یہ ہیں کہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ اسلام میں رہیں یعنی اﷲ کی راہ پر قائم رہیں اور پھر اسی طرح ٹیڑھے کے ٹیڑھے بھی رہیں.حقیقی تبدیلی کو پیدا نہیں کرتے.کیسا افسوس کا مقام ہے.ایک طرف اﷲ کو راضی کرنے کا ارادہ ہے دوسری طرف عیب ڈھونڈنے کی کوشِش کرتے رہنا بہت ہی خطرناک راہ ہے.مومنوں کی تعریف میں فرمایا ہے (اٰل عمران :۱۹۲) اب جو بجائے ذکر اﷲ کے مخلوق کے عیب بیان کرتا پھرے وہ مومن کیسا ہؤا اور پھر اپنی غلطی پر اَڑ جانا اور یہ سمجھنا کہ ہم نے خدا سے کوئی وعدہ لے لیا ہے اَور بھی بُرا ہے.اپنی آنکھ کے شہتیر کو نہ دیکھنا اور دوسروں کی آنکھ کے تنکے کو گھنونی نظر سے دیکھنا

Page 515

اچھا نتیجہ نہیں رکھتا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :یعنی جیسے یہود وغیرہ چاہتے تھے کہ اسلام ، صاحبِ اسلام، اصحابِ اسلام کے اندر عیب تلاش کریں اور خود کتنے عیب دار ہوں مگر دوسروں کی معمولی خطاکو بھی گرفت کرنے سے نہ رہیں.اِسی طرزِ عمل پر اگر تم چلو گے توکافر ہو جاؤ گے.یُوں تو کوئی ایسا مسلمان نہیں ہوتا جو یہودیوں کافر مانبردار بن جائے.پس تُطِیْعُوْاکے معنے یہی ہیں کہ ان کے طرزِ عمل پر چلو گے.جیسے وہ عیب چینی کرتے پھرتے ہیں ایسے ہی تم کرتے رہو گے.تو اس کا نتیجہ اچھا نہ ہو گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :مطلب یہ ہے کہ اے ایمان والو! تقوٰی اختیار کرو جیسا کہ تقوٰی اختیار کرنے کا حق ہے.تقوٰی کیا ہے اور اس کا نتیجہ کیا ہے اور اس کے پہلوؤں سے انسان کِس طرح آگاہ ہو سکتا ہے.اِس سے مطلب یہ ہے کہ خدا تمہیں تقوٰی کا حکم دیتا ہے کہ حقِ تقوٰی ادا کرو.تقوٰی کہتے ہیں اِس بات کو جس سے انسان دُکھوں اور تکالیف سے بچ سکتا ہے.عربی زبان میں اس کا نام تقوٰی رکھا ہے.(الحکم ۲۴؍جنوری ۱۹۰۵ء صفحہ ۹) یَا:اے.اَیُّھَا:سُن لو.تمہیں کو سُناتے ہیں.:وہ لوگ جو ایمان لائے.

Page 516

:بیٹا اپنے باپ کا کہا مانتا ہے.شاگرد اپنے استاد کا.محکوم اپنے حاکم کا.دوست اپنے دوست کا.اور یہ سب تعلیم کسی فائدہ کے حصول پر مبنی ہے.اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارا حکم بھی مان لو تا تم فلاحِ دارین پاؤ.وہ حکم کیا ہے ؟تقوٰی اختیار کرو اپنا سارا زور لگا کر.:اب موت کا وقت تو معلوم نہیں.بعض وقت انسان سوتا سوتا ہی مَر جاتا ہے اور مسلمان بننے کا موقع نہیں ملتا اِس لئے آج سے ہی تیاری کر لو اور ہر وقت یہی سمجھو کہ موت قریب ہے تا تمہارا اِنتقال بحالتِ اسلام ہو.انسان جب کوئی نیکی شروع کرتا ہے تو ہر نیکی کا قول یا فعل یا عمل دوسرے نیک قول یا فعل یا عمل کو پیدا کرنے والا ہوتا ہے.گویا ایک نیکی دوسری نیکی کے لئے بمنزلہ زنجیر کی کڑی کے ہے.پس تقوٰی اختیار کرو گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم مسلمان ہی مرو گے.تقوٰی کی بہت سی راہیں ہیں ایک ان میں سے یہ ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)     اور سب کے سب مِل کر اﷲکے دین کو مضبوط پکڑو اور فرقہ فرقہ مت بنو.(نورالدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۲۰.ک) حَبْلِ :قرآن شریف اور اسلام.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۷)

Page 517

:اپنے آپ کو دُکھوں سے بچالو.کِس ذریعہ سے.: ایک اﷲ کا رَسَنْ ہے اس پر دو قومیں زور لگا رہی ہیں تم سارے مل کر زور لگاؤ تا ذلَّت اور شکست کے دُکھوں سے بچ جاؤ.ہمارے زمانہ طالبِ علمی میں یہ رسّے کا کھیل نہیں ہوتا تھا مگر اب تو سکولوں میں یہ کھیل رائج ہے.اِس لئے اِس آیت کی سَمجھ آ سکتی ہے.:کنارہ :غضب، غیظ، کینہ ، ایک دوسرے کی جَلن.:اِن تمام جہنّموں سے قرآن نے نکالا.دیکھو مَیں تمہیں دردِ دل سے کہتا ہوں کہ وحدت بڑی چیز ہے اور ہر قِسم کی کامیابیوں کی جڑ ہے.صحابہ کرامؓ نے اس کا مزہ چکھا ہے.ان کی قوم ایک کسمپُرس حالت میں تھی.صرف وحدت کے ذریعے ساری دُنیا میں عظیم الشّان اور مظفّر و منصور ہو گئی.جب تک ہر ایک آدمی اپنے اغراض کو چھوڑ کر دوسرے کی ہمدردی میں فنا نہ ہو جاوے یہ بات حاصل نہیں ہوتی.رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک دفعہ عمائدِ مکّہ کو دعوت دی اور کہا کوئی تم میں سے ہے جو ہمارا بوجھ اُٹھا سکے.علیؓ اس وقت ایک نوجوان لڑکے تھے.آنکھیں بھی اس وقت خراب تھیں.بڑی جرأت سے کہا کہ مَیں حاضر ہوں یا رسول اﷲ ! اُس وقت لوگوں نے ہنسی اُڑائی مگر خدا کے نزدیک یہ قول ایسا قابلِ قدر تھا کہ تیرہ سَو برس گذر گئے اور مولیٰ مرتضیٰ کی اولاد کا بچّہ بچّہ سیّد ( سردار) کہلاتا ہے.وہ سچّا خادم بنا تو خدا نے اسے مخدوم بنا دیا.:یہ خدا کی خدائی کے نشانات ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) مَیں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تفرقہ ڈالنے اور تفرقہ بڑھانے والی باتیں چھوڑ دیں.ایسی لغو بحثوں سے ،جن میں نہ دین کا فائدہ نہ دُنیا کا، مُونہہ موڑ لو اور سب مِل کر  کہ حبلِ اﷲ قرآن مجید کو محکم پکڑو.دیکھولڑکوں میں ایک رَسّے کا کھیل ہے.اگر ایک طرف کے لوگ اَور باتوں میں لگ جائیں تو وہ رسّے میں کِس طرح جیت سکتے.اسی طرح اگر تم اَور بحثوں میں لگ جاؤ گے تو قرآن مجید تمہارے ہاتھوں سے جاتا رہے گا.(بدر ۲۹؍جون ۱۹۱۱ء صفحہ۲) الہٰی رَسَنْ (قرآن) کے ساتھ اکٹھے ہو کر اپنا بچاؤ کرو اور الگ الگ نہ ہونا.اِس آیت کریمہ

Page 518

میںایک حکم ہے کہ ایسا کرو اور دوسری نہی ہے کہ ایسا نہ کرو.امر و حکم میں ارشاد ہے کہ ایک ہو جاؤ.پس شخصی وحدت تو یہ تھی کہ ہر ایک انسان کا دل و زبان اور اس کے تمام اعضاء میں باہم وحدت ہو.ایسا نہ ہو کہ دل میں کچھ ہے اور زبان پر کچھ.اور آنکھ کچھ اشارہ کرتی ہے اور اعضاء کچھ اَور کہتے ہیں اور قومی وحدت یہ تھی کہ باہم ایسے تنازعے نہ ہوتے.امانت جسے رعایا کہتے ہیں کو عام تکلیف نہ پہنچتی بلکہ اس امانتِ الہٰیّہ کو ہر طرح ارام و راحت ملتی اور خود غرضی اور لالچِ دُنیا جو رَأسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ ہے پھُوٹ کا موجب نہ ہوتا.(نورالدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۵۹)  :سب کے سب مِل کر حبل اﷲ کو پکڑ لو.مجھے نہایت رنج اور قلق سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حکم پر عمل در آمد نہیں کیا جاتا.حبل اﷲ یعنی قُرآن کریم کو پکڑنا چاہیئے تھا مگر اس کی پرواہ نہیں کی جاتی.تمہاری کوئی حرکت اور سکون، کوئی رسم اور پابندی اس رسن سے الگ نہ ہو.اﷲ تعالیٰ کو سپر بنانے کے واسطے اس کی رضامندی کی راہوں کو معلوم کرنا از بس ضروری تھا اور وہ بیان ہوئی ہیں قرآن کریم میں.اِس لئے اس کو مضبوطی سے پکڑنے کا ارشاد ہوا.( الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ ۶) ہر مدرسہ میں ایک رَسّہ ہوتا ہے.کچھ لڑکے ایک طرف سے پکڑتے ہیں اور کچھ دوسری طرف سے اور آپس میں کھیلتے ہیں.کبھی وہ فتح پا لیتے ہیں اور کبھی وہ.اور کبھی رسّہ بھی ٹوٹ جاتا ہے.مگر اﷲ کریم فرماتا ہے ہم نے بھی ایک رسّہ بھیجا ہے مگر سب مل کر ایک ہی طرف کھینچو.تفرقہ، بُغض اور عداوت کو بالکل چھوڑ دو.ایسی کوئی بات تم میں نہ پائی جاتی ہو جس سے تفرقہ پیدا ہو.دیکھو تم طالبِ علموں میں سے کسی کا باپ اعلیٰ عہدہ پر ہے.کوئی خوبصورت ہے.کسی کے پاس مال و دولت بہت ہے، کوئی عقلمندی کا دعوٰی کرنے والا ہے.کوئی طاقت والا ہے مگر ان پر ناز مت کرو اور بھُول میں مت پڑو.یاد رکھو اﷲ ایک دن میں تباہ کر دیا کرتا ہے.بڑے بڑے امیروں اور دولتمندوں کے بچّوں کو مَیں نے بھیک مانگتے اور بھیک مانگ کر مرتے دیکھا ہے اور بعضوں کو مَیں نے اپنے والدین کو گالی نکالتے دیکھا ہے کہ انہوں نے یہ پُختہ حویلیاں اور دَر و دیوار بنائے ہیں اور ایسے محل بنا کر مَر گئے ہیں کہ ہم آسانی سے بیچ بھی نہیں سکتے.( الحکم ۳۱؍اگست ۱۹۰۷ء صفحہ۱۲) :پھر اِس سِلسلہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اﷲِ عَلَیْکُمْ.الاَیہ.اس انعامِ الٰہی کو یاد کرو جو تم پر ہؤا ہے.تم باہم دشمن تھے تمہارے دلوں

Page 519

میں ایسی اُلفت ڈالی کہ تم باہم بھائی بھائی ہو گئے.رات کو دشمن ہوئے تھے صبح کو اخوان بن کر اُٹھے.کیسا فضل ہے.یاد رکھو جب کوئی مامور مِن اﷲ آتا ہے اُس وقت ایک نئی برادری پیدا ہوتی ہے، نئی اولاد پیدا ہوتی ہے اور نئے تعلّقات پیدا ہوتے ہیں.اﷲ تعالیٰ اس برداری کا نام اخوان رکھتا ہے.سارے عرب میں قریش ایک معزّز اور برسر آوردہ قوم تھی اور قریش میں بنو ہاشم کا خاندان اور بنو ہاشم بھی نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا گھرانہ ممتاز اور معزّز تھا.ں پھر دُنیا میں حقارت سے دیکھی ہوئی قوم غلاموں کی ہے مگر دیکھو کہ اسلامی اخوّت نے کیا کرشمہ دکھایا کہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی پھوپھی زاد بہن زینب کا نکاح زید بن حارثہ سے کر دیا گیا تا دُنیا کو بتایا جاوے کہ اخوّت اِس کا نام ہے جو اسلام نے قائم کی ہے.بلالؓ کا رشتہ قریش میں کرا دیا گیا.حساّنؓ کا رشتہ ماریہ کی بہن سے کرا دیا.غرض یہ ایک نمونہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دکھایا جو اﷲ تعالیٰ کے انعام میں سے تھا.یہ سچّی بات ہے کہ جب تک اخوّت کا رنگ پیدا نہ ہو سِپَر بنانے کے ایک حصّہ سے محروم رہتا ہے.پس یاد رکھو جماعت پر اﷲ تعالیٰ کا فضل اُسی وقت ہوتا ہے جب اخوّت کا مرتبہ پیدا کریں.وہ اپنے چھوٹوں کی جو غرباء ہیں خبرگیری کریں اور کسی کو حقیر نہ سمجھیں.(الحکم ۳۱؍جنوری ۱۹۰۱ء صفحہ۷) سب کے سب حبل اﷲ کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو.مدرسوں میں رسّہ کشی کا ایک کھیل ہوتا ہے اور تم نے دیکھا ہو گا اس میںدو پارٹیاں ہوتی ہیں ایک ایک طرف اور دوسری دوسری طرف.جس طرف کے لڑکے وحدت کے ساتھ مِل کر زور نہ لگائیں وہ جیت نہیں سکتے.یہ لڑکوں کی فطرت میں ایک امر رکھ دیا ہے.مسلمانوں کو بھی ایک حبل اﷲ دیا گیا ہے ان کا فرض ہے کہ وہ سب کے سب مِل کر زور لگا دیں… یاد رکھو کہ اگر پوری طاقت و ہمّت اور یک جہتی سے اِس حبل اﷲ کو مضبوط نہ پکڑو گے تو مخالفین اس رَسّہ کو لے جائیں گے ( خدا نہ کرے ایسا ہو) اِس رسّہ کو مضبوط پکڑنے سے یہ مطلب ہے کہ قرآن مجید تمہارا دستور العمل ہو.تمہاری زندگی اس کی ہدایتوں کے ماتحت ہو.تمہارے ہر ایک کام ہر حرکت ہر سکون میں جو چیز تم پر حکمران ہو وہ خدا تعالیٰ کی یہ پاک کتاب ہو جو نور اور شفا ہے.یاد رکھو دُنیا ایک مدرسہ ہے اِس مدرسہ کی رسّہ کشی میں وہی کامیاب ہو گا جو حبل اﷲ کو ہاتھ سے نہ دے گا.پس اِس وقت ضرورت ہے کہ تم میں عملی زندگی پیدا ہو تفرقہ نہ ہو.مَیں پھر تمہیں اﷲ کا حکم سُناتا ہوں .(بدرجولائی ۱۹۱۲ء صفحہ ۵،۶)

Page 520

  :گروہ : امر بالمعروف اور نہی عنِ المنکر کو مَیں نے تو آزما لیا.اِس سے انسان مظفّر و منصور ہو جاتا ہے.ایک مظفّر و منصور ہونا تو تم نے دیکھ لیا کہ مَیں بھی تمہیں سے ایک تھا اور تمہارا پِیر بن گیا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸جولائی ۱۹۰۹ء)   :دیکھو تفرقہ بہت بُری چیز ہے اور اس کا انجام دُکھ اور دَرد اور ذِلّت کی زندگی کے سوا کچھ نہیں.عیب چینی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑا کرنا چھوڑ دو.اِس قِسم کی نازک خیالی ٹھیک نہیں کہ فلاں کی جیب میں دو پیسے ہیں شاید اس نے کہیں سے چُرائے ہیں.اب رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا چور بحالتِ ایمان ، چوری نہیں کرتا اور جو چور ہے اس کا گویا خدا کے رزاق ہونے پر ایمان نہیں اور چوری کو خدا کے وعدہ پر مقدّم کرتے ہو.اِس لئے کافر ہو.دیکھو ایک شخص کہاں سے کہاں جا پہنچا.رسولِ کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ تم اپنے باپوں کو گالیاں نہ دو.صحابہؓ نے عرض کیا حضرت کوئی اپنے باپ کو بھی گالی دیتا ہے ( اب تو بیٹے باپ کو مارتے بھی ہیں) تو آپ نے فرمایا جب تم نے کسی کے باپ کو گالی دی تو گویا اپنے باپ کو دی کیونکہ وہ تمہارے باپ کو گالی دے گا.

Page 521

بدی کا بدلہ بدی سے دینا گویا ایک اَور بدی کرنا ہے.صبر بڑے بڑے پَھل رکھتا ہے.ہم یہاں سب کیوں آئے.ہر ایک شخص اپنی اپنی نسبت جانتا ہے.میَں تو یہاں دین سیکھنے کے لئے آیا تھا.ایک دفعہ مرزا صاحب کے مُنہ سے اتنا نکلا تھا کہ تم اپنے وطن کا خیال تک بھی نہ لاؤ.سو اسکے بعد مَیں نے وطن کی کبھی خواہش نہیں کی.یہاں مَیں نے مالی جانی نقصانات اُٹھائے مگر صبر کیا.پھر مَیں دیکھتا ہوں کہ اس صبر کا اجر مجھے مِل گیا کہ مَیں مظفّر و منصور ہو گیا.کوئی وظیفہ کوئی عمل تم سے الگ مجھے نہیں آتا پھر بھی مَیں نے وہ بات حاصل کی جو میرے ایسے انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتی.انسان کی رُوح میں ایک تڑپ معیّت کی بھی ہے.اﷲ وعدہ کرتا ہے کہ مَیں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں.ایک معمولی انسان کا ساتھ کتنی بڑی بات ہے.پس جس کے ساتھ خدا ہو اسے اَور کیا چاہیئے.غرض تفرقہ پَیدا ہوتا ہے ایک دوسرے کی بات نہ سُننے سے جس کی تم لوگوں کو عادت ڈالنی چاہیئے.میرے سامنے یہ سوال پیش کیا گیا ہے کہ مسلمان کیوں ترقّی نہیں کرتے؟یہ مسلمان کب بنیں گے؟ مَیں نے اِس سوال پر بہت غور کیا ہے.دوسری قوموں کے پاس تو تعلیم کوئی تھی نہیں مگر ضرورت محسوس کر کے انہوں نے وحدت قائم کرلی اور اس کا پَھل کھایا.ہندو ہیں پس ان میں دولت رام نام چاہیئے.پھر وہ کہہ دیں گے کہ یہ ہماری قوم کا ہے.پھر نصارٰی ہیں انہوں نے قومی وحدت کا مسئلہ اختیار کر لیا ہے.دوسرا اصل ان قوموں نے یہ سمجھ لیا کہ محنت کے بغیر کچھ نہیں ہوتا پس انہوں نے محنت اختیار کر لی.مسلمان ہیں ان کو خود مذہب نے سکھایا کہ تم وحدت پیدا کرو اور محنت کرو مگر انہوں نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی.دوسری قوموں کا یہ حال کہ انہوں نے عبادت کو تو ایک خاص شخص کے گلے پر مَنڈ دیا ہے.چنانچہ مَیں جن راجوں کے ہاں ہوتا تھا ان میں ایک مدبّر کو دیکھتا کہ وہ بڑی محنت سے کام کرتا.جب نوکر آ کر عرض کرتا کہ مہاراج پُوجا کا وقت ہے تو وہ کہہ دیتا کِسی برہمن کو چند پیسے دے کر پُوجا کرالو.اِسی طرح عیسائی ہیں انہوں نے اَلاَ بَلَاء یسوع کے سر پر ڈال دی جو ان کے لئے کفّارہ ہو گیا.اَب دُنیا رہ گئی سو اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے اور اس میں کامیاب ہوئے.مسلمانوں نے نہ تو دین کو سنبھالا نہ دُنیا کو.دین کا حال تو یہ ہے کہ سرحدی مولوی ہیں انہوں نے فتوٰی دے دیا کہ انگریزی علاقہ سے کوئی دس بھیڑیں لائے ایک ہمیں دے دے باقی حلال.اور دُنیا کا یہ کہ بس ساری دُنیا میں نکمّے ہیں تو

Page 522

مسلمان.ترقّی کریں تو کیونکر کریں.وحدت پیدا کرو تا کامیاب بنو.ایک دن آتا ہے کہ کچھ لوگ بے عیب تجویز کئے جاویں گے وہ مسلمان ہوں گے.وہ خدا کی رحمت میں ہوں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)    :ہو تم عمدہ و اعلیٰ جماعت.خَیْر تفضِیل کا صیغہ ہے زیادت کے معنوں میں آتا ہے.:لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.ہر ایک شخص کو چاہیئے کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور دیکھے کہ مَیں نے آٹھ پہر میں لوگوں کی بھلائی کے لئے کیا کام کیا.اُمّتِ محمدیہ کا منشاء ہی یہی ہے کہ لوگوں کی بھلائی کے لئے جان تک لڑا دی جائے.سر ہندی بزرگ نے لکھا ہے کہ مَیں جب رات کو سونے لگتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اپنے فرضِ منصبی کو کہاں تک ادا کیا ہے.گویا حَاسِبُوْا قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْا.وَ وَازِنُوْا قَبْلَ اَنْ تُوَازنُوَْاپر عمل فرماتے تھے.اب اس بھلائی کی تصریح فرماتا ہے.:پسندیدہ باتیں جنہیں قرآن، عقل اور ایک شریف سلیم الفطرت پسند کرتا ہے وہ کرے اور جو اس کے خلاف ہو اس سے روکے.:پھر خود بھی ان بھلائیوں پر عمل کرنے والے بنو اور تمام اخلاقِ فاضلہ کا سر چشمہ تو اﷲ تعالیٰ کی ذات پر پُورا پورا ایمان ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) تم برگزیدہ خیررساں قوم ہو تمہیں سارے جہان کے لئے نمونہ کے طور پر پیدا کیا گیا ہے.تم

Page 523

نیک باتوں کا امر کرتے اور بُری باتوں سے منع کرتے اور اﷲ پر ایمان رکھتے ہو.(نور الدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ۱۷) وہ لوگ جو دین کے لئے وعظ کرتے ہیں ان کی بھی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں ایک وہ جو محض اس لئے کھڑے ہوتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کی رضاکو حاصل کریں اور امر بالمعروف کا جو فرض ان کو ملا ہے اس کو ادا کریں.بنی نوع انسان کی بھلائی کا جو حکم ہے اس کی تعمیل کریں اور اپنے آپ کو خیرِ اُمّت میں داخل ہونے کی فِکر ہوتی ہے جس کا ذکر یُوں کیا گیا ہے  تم بہترین اُمّت ہو جو لوگوں کے لئے مبعوث ہوئے ہو امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر.…مَیں دُنیا پرست واعظوں کا دشمن ہوں کیونکہ ان کی اغراض محدود، ان کے حَوصلے چھوٹے خیالات پَست ہوتے ہیں.جس واعظ کی اغراض دینی ہوں وہ ایک ایسی زبردست اور مضبوط چٹان پر کھڑا ہوتا ہے کہ دُنیوی وعظ سب اس کے اندر آ جاتے ہیں کیونکہ وہ ایک اَمر بالمعروف کرتا ہے.ہر بھلی بات کا حکم دینے والا ہوتا ہے اور ہر بُری بات سے روکنے والا ہوتا ہے.(الحکم ۱۷؍مارچ ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۴،۱۵)   :محض زبانی بکواس کر لیں.اس کے سوا اَور کیا بگاڑ سکتے ہیں.:مَیں تو اس کے یہی معنے کرتا ہوں.پھر کبھی بھی ان کو نصرت نہ دی جاویگی.تیرہ سَو برس سے یہود کا یہ حال دُنیا دیکھ رہی ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) :یہ تکلیف ایک معمولی سی ہو گی کوئی بڑی بھاری تکلیف نہ ہو گی.دیکھو خدا نے ہم کو بڑی مصیبت سے بچا لیا کہ تفرقہ سے بچا لیا.اگر تم میں تفرقہ ہو جاتا اور موجودہ رنگ میں تم وحدت کی رسّی میں پروئے نہ جاتے اور تم تِتّر بِتّر ہو جاتے تو واقعی بڑی بھاری مصیبت تھی اور خطرناک اِبتلا.مگر یہ خدا کا خاص فضل ہے اگر کچھ تھوڑی سی تکلیف ہم کو ہو گی بھی تو یہیں ہو گی اس کا مابعدالموت

Page 524

سے کوئی واسطہ یا تعلق نہیں بلکہ مابعدالموت کو باعثِ اَجر اور رحمتِ الہٰی ہو گی.(الحکم ۱۴؍جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۸)     : ہاں مسلمانوں کے معاہدہ کے نیچے یا دوسرے لوگوں کے معاہدہ و تعلّقات کے اندر اس سے کچھ محفوظ رہ سکتے ہیں.تقدیر عبارت یُوں ہے اَیْنَ مَا ثُقِفُوْا مَا عُصِمُوْا مِنَ الذِّلَّۃِ اِلَّا عُصِمُوْا بِحَبْلٍ مِّنَ اﷲِ.یہ عُصِمُوْا مَیں نے دو آیات سے نکالا ہے (اٰل عمران:۱۰۴)اور ( اٰل عمران:۱۰۲)مطلب یہ ہے کہ جہاں پائے گئے ذِلّت سے نہیں بچیں گے.مگر مسلمانوں کے عہد نامہ میں اِس بڑی ذِلّت سے کچھ نہ کچھ بچ سکتے ہیں.ایک اَور معنے ہیں وہ یہ کہ یہودی ہمیشہ ذِلّت میں رہیں گے ہاں اگر اﷲ کی رسّی کے نیچے آجاویں یعنی مسلمان ہو جاویں یا کوئی اَور مذہب اختیار کر لیں تو پھر بچ سکیں گے.یہودی یہودی رہ کر کبھی فلاح نہیں پا سکتے.اِلَّا کو عطفہ بھی بنایا ہے یعنی وَلَّا مطلب یہ ہے کہ وہ ذِلّت سے نہ بچیں گے خود مسلمانوں سے عہدنامہ کریں یا کِسی دوسرے مذہب سے.

Page 525

: یعنی سلطنت کے لئے ہاتھ پاؤں نہیں مار سکیں گے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)      :ہر مذہب میں دو قِسم کے لوگ ہیں.ایک وہ جو شریر ہوتے ہیں.وہ غیر مذہب کی مخالفت محض از راہِ شرارت کرتے ہیں ان میں طلبِ حق ہرگز نہیں ہوتی.دوسرے وہ جو شرارتوں میں شریک نہیں ہوتے.وہ نیکی میں بقدر اپنی طاقت کے بڑھتے رہتے ہیں.اﷲ پر، قیامت پر ایمان لاتے ہیں.اپنی عقل و فہم کے مطابق پسندیدہ کام کرتے اور بُرے کاموں سے رُکے رہتے ہیں اور کسی نبی وغیرہ کی ہتک نہیں کرتے.اِس قِسم کے لوگوں کو خدا نے امّیدوار ٹھہرایا کہ  جو کچھ بھی وہ بھلائی کریں اس کی ناقدری نہیں ہو گی.: کیونکہ اﷲ کو متّقین کا عِلم ہے پس ان کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے ہمیں رائے زنی کا کوئی حق نہیں ( ان نیکیوں کی قدردانی بھی یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کیلئے

Page 526

شرح صدر ہو جاوے) باقی رہے جو کُھلم کُھلا انکار کرتے اور شرارت وایذارسانی سے پیش آتے ہیں وہ تو کچھ خرچ بھی کریں تو اکارت جاتا ہے.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)    :اندونی دوست نہ بناؤ.اس کی تصریح سورۃ ممتحنہ میں خوب فرمائی ہے.اب اس سے آگے اُن کے طرزِ عمل سے اطلاع دی ہے تا محفوظ رہ سکو.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء)   مکّہ کے لوگوں میں خود پسندی اور خودی بہت تھی.اس کی جڑ آسُودگی ہے کیونکہ تمام جہان کی پُوجا کا مال ان کے پاس آتا تھا.پھر مکّہ ایک بڑا معبد تھا تمام عرب والے اس کی پُوجا کرتے تھے اِس لئے یہ لوگ اپنے تئیں مَہَنْت سمجھتے تھے.تیسری وجہ ان کی خود پسندی کی رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَ الصَّیْفِ (القریش:۳) تھی یعنی وہ تجارت کے لئے موسمِ گرما میں عراق ، شام و مصر وغیرہ کی طرف جاتے تھے اور سرما میں ہندوستان، چائنا کی طرف.جتنی تجارت پیشہ قومیں ہیں وہ ایک وقت آسودگی کی وجہ سے خودی اور خودپسندی میں مُبتلا ہو جاتی ہیں.

Page 527

خودی اور خود پسندی والے ہر بات پر ناک چڑھانے کے عادی ہو جاتے ہیں اور وہ ہمیشہ دوسروں کی نسبت یہی کہتے ہیں.ہم اسے کیا سمجھتے ہیں.پس جب کوئی دوسرے کی بات سُنے نہیں تو حق کِس طرح پا سکتا ہے.ان کی اس خودی اور خود پسندی کی اصل جَڑ تو اُن کے بُت تھے جیسے ہندوستان میں مہاںؔ دیو ہے.ایسے ہی وہاں ہُبلؔ تھا.جیسے یہاں دیویاں ہوتی ہیں وہاں نائلہ تھی.ہربُت کے پجاری لاکھوں روپے کماتے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ ایک نوجوان ہمارے خاندن کا ہمارے تمام کارخانہ مکر مث پر پانی پھیرنا چاہتا ہے تو وہ آگ بگولا ہو گئے اور ادھر انہی کی قوم کے لوگ ورقہؔ بن نوفل ، علیؔ، صدّیقؔ، زید ؔ بن حارثہ وغیرہ مسلمان ہو گئے تو یہ اَور بھی گھبرائے اور مقابلہ کی ٹھانی اور حتّی الوسع انہوں نے کوشش کی کہ کسی طرح اِسلام کا استیصال کیا جائے.نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کو تیرہ برس اِس گھمسان میں گذرے.دیکھو کِس قدر بڑی ہمّت ، کیسی بلند پروازی ، کتنا محکم ارادہ ہے اور کیسا استقلال تھا.پھر صحابہؓ میں جن کی قومیّت اور عصبیّت نہ تھی وہ بھاگ اُٹھے.فرمایا حبشہ میں چلے جاؤ.وہاں وہ لوگ جا کر رہے.پہلے رنگ میں تو بتایا کہ شریر سے شریر حکومت کے نیچے کِس طرح مسلمانوں کو رہنا چاہیئے.دوسری میں یہ بتایا کہ نیک دل عیسائی گورنمنٹ کے تحت میں کیونکر زندگی بسر کرنی چاہیئے.گویا آپ کو یقین تھا کہ ایک وقت مسلمانوں پر آنے والا ہے کہ وہ غیر قوموں پر حاکم ہوں گے اور پھر ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ وہ محکوم ہوں گے.یہ تو مکّہ کے حالات تھے.اب جب آپ مدینہ میں آئے تو یہاں کے رسم و رواج سے آپ کو آگاہی نہ تھی.ان کی جماعتوں میں کوئی منصوبہ کرتا تو کوئی خبر تک دینے والا نہ تھا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) منافقوں کے علاوہ ایک طرف یہود تھے.بنوقینقاع، بنو نضیر، بنو قُرَیظہ.دوسری طرف پادری جن کا لارڈ بشپ ابوؔعامر ہرقل سے تعلقات رکھتا تھا.اِس طرح پر اِس سلطنت کا خدشہ تھا.پھر مدینہ کے مُشرک اوس و خزرج تھے.پھر یہاں تک ہی بس نہ تھی بلکہ مکّہ والے تجارت کے بہانے سے اِھر اُدھر گھومتے اور ریشہ دوانیاں کرتے پھرتے تھے اور قوموں کو اُکساتے پھرتے.پھر ایران کے بادشاہوں سے ان کی ساز باز تھی.ان کو حضرت نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی جماعت پر برانگیختہ کرتے رہتے.چونکہ دشمنوں کا یہاں تک زور تھا اِسی واسطے (المآئدۃ:۶۸(المآئدۃ:۶۸) کا وعدہ ہؤا.ایسے مشکلات میں اﷲ تعالیٰ تیرا محافظ ہے.بہر حال اِن حالات میں شریر دشمن نے مدینہ پر حملہ کرنا چاہا.بنی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا کہ

Page 528

مَیں نے رؤیا دیکھی ہے اس سے خدشہ معلوم ہوتا ہے.پس باہر نکل کر نہیں لڑنا چاہیئے مگر بعض تیز طبیعت صحابہؓ نے عرض کیا.نہیں حضور باہر ہی چلنا چاہیئے.رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب صحابہ کا جوش دیکھا تو فرمایا اچھا.آپ نے د و زِرہیںپہن لیں.صحابہ ؓ یہ دیکھ کر ڈرے اور سمجھ لیا کہ امر بہت خطرناک معلوم ہوتا ہے.پھر عرض کیا کہ حضور اندر ہی لڑیں گے.آپ نے فرمایا نبی جب کِسی چیز کی تیاری کر لیتا تو رُک نہیں سکتا.اب یہ اس موقع کا ذکر ہے.:تُو بٹھاتا تھا مومنوں کو جگہ بہ جگہ جہاں انہیں کھڑے ہو کر لڑنا چاہیئے.اِس سے ایک سبق تمہارے لئے نکلتا ہے کہ دشمن کا مقابلہ، مناظرہ، مباحثہ بے شک کرو مگر اپنے امام کی منشاکے ماتحت.کیونکہ یہ ترتیب جس کا انجام فتح و ظفر ہو اﷲ کے بندے ہی جانتے ہیں.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :یہ گروہ بنو سلمہ اور بنو حارثہ تھے.خدا نے پَردہ پوشی کی.انہوں نے خود ہی اپنے نام بتائے.کسی نے کہاتَفْشَلَا کے الزام کے نیچے آنا کیوں ظاہر کرتے ہو؟ کہنے لگے وَ اﷲُ وَ لِیُّھُمَا کی خوشخبری خموش نہیں رہنے دیتی.مومن انسان کبھی کبھی کمزور ہو جاتا ہے.یہ جنگ کا موقع ، پھر شہوت کا مقابلہ، غیظ و غضب کا مقابلہ، بُزدلی کا مقابلہ.یہ ایسی باتیں ہیں کہ بڑے اِبتلا کا مقام ہیں.اب نظیر دیتا ہے کہ بدر میں جب تم تھوڑے اور بے مقدور تھے عمائدِ مکّہ پر فتحیاب ہو چکے.پس تم اﷲ کو اپنا سپر بناؤ وہ تمہیں ہلاکت سے محفوظ رکھے گا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان یکم و ۸؍جولائی ۱۹۰۹ء) 

Page 529

  :ہندوستان میں سر سیّد صاحب نے کسی قدر احتیاط سے ملائکہ کا عقائد میں ذکر نہیں کیا اور مصر میں مفتی عبدہٗ نے جنہوں نے مسلمانوں کی بد قسمتی سے ملائکہ کا انکار کیا.یہ اندرونی نادان دوست ہیں حالانکہ ملائکہ کا اعتقاد تمام ابنیاء کی تعلیم کا جُز ہے اور نبوت کی سیڑھیوں میں پہلی سیڑھی تو یہی ملائکہ پر ایمان ہے.مَیں اس کے متعلق پہلے تفصیل سے سُنا چکا ہوں.:ان کو نشان لگا ہؤا ہے.:جوں جوں انسان کا قُرب اﷲ سے بڑھتا ہے توں توں ملائکہ سے زیادہ تعلق پیدا ہوتا ہے اِس لئے صبر و تقوٰی سے کام لینے پر بجائے تین ہزار کے پانچ ہزار فرمایا.(ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)  

Page 530

تھوڑی سی بات پر بڑی باتوں کا اِمتحان کیا جاتا ہے.اس زمانہ میں تو یہ مسئلہ صاف ہے کیونکہ ہر امر کے لئے امتحان لیا جاتا ہے.امتحان کے معنے ہیں کسی کی محنت کو جانچ لینا اوراس کا بدلہ دینا.ایک جگہ فرمایا ہے (الحجرات:۴)پھر ایک امتحان کا ذکر بقرہ میں کیا ہے  (البقرۃ:۲۵۰).اب ایسا ہی جہاد کے لئے ایک امتحان ہے کہ سُود لینا چھوڑدو کیونکہ بیاج خود مال میں وسعتِ حوصلہ سے کام نہیں لے سکتا اور جو مال خدا کی راہ میں نہیں چھوڑ سکتا وہ جان کیونکر دے گا.پس یہاں فرمایا کہ اوّل تو تم سُود کو چھوڑ دو.رِبٰوکے لفظ پر بعض لوگوں نے بحث کی ہے.کہتے ہیں کہ ربٰو کے معنے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بیان نہیں کئے.ان نادانوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قرآن کے لفظ لفظ کے معنے حدیثوں میں آئے ہیں؟جب خدا تعالیٰ ایک چیز کو حرام فرماتا ہے اور اس کی خلاف ورزی کو خدا سے جنگ قرار دیتا ہے تو کیا وہ ایسا لفظ تھا جس کے معنے لُغتِ عرب سے واضح نہ ہوتے ہوں.نقدی کے اُوپر میعادِ معیّنہ کے لحاظ سے زیادہ لینا سُود کہلاتا ہے.ہاں بعض باریک باتیں بھی ہیں جو عام فہم نہیں ہیں مگر تاہم کوئی ایسی مشکل بات نہیں.بعض نابکار لوگ کہتے ہیں کہ سُود کے بغیر کام نہیں چل سکتا حالانکہ بارہ سَو برس ( بارہ سو برس مَیں نے اس لئے کہا کہ تیرھویں صدی میں مسلمانوں نے سُود لینا شروع کر دیا) کا تجربہ بتاتا ہے کہ بغیر سُود کے سب کام چل سکتے ہیں.مَیں اِس بات کا گواہ موجود ہوں کہ بغیر ربٰو کے لینے اور دینے کے انسان تمام کام کر سکتا ہے.مَیں نے بھی ملازمت کی.کاشت کاری بھی کی.تجارت بھی کی.لاکھ لاکھ روپے کی تجارت کی مگر مجھے کبھی سُود کی ضرورت نہیں پڑی.ایسے ایسے وقت بھی مجھ پہ گذرے ہیں کہ رات کو کھانے کے لئے سامان نہیں مگر پھر بھی میرے مولیٰ نے میری دستگیری کی.:اس کے ترجمے کے لئے مَیں نے بہت غور کیا ’’ بڑھ بڑھ کر‘‘ سے زیادہ کوئی لفظ اِس مفہوم کو ادا کرنے والا نہیں.یہ معنے کرنے کہ ایک کے سات سَو پھر سات سَو کا دُگنا چودہ سَو ایک روپیہ پر بیاج لینا منع ہے بہت ہی حماقت ہے.ایک سُود کی وہ قِسم بھی ہے جو لینا پڑتا ہے.مثلاً ملازموں کی تنخواہ سے کچھ حصّہ کاٹا جاتا ہے بینک کا سُود ہے اسے میرے خیال میں مالِ غنیمت سمجھنا چاہیئے اور اسے کسی نیک کام میں لگا دینا چاہیئے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء

Page 531

: امام ابوحنیفہؒ ا یک عظیم الشّان امام گزرے ہیں وہ فرماتے ہیںاَخْوَفُ اٰیَۃً عِنْدِیْ فِی الْقُرْاٰنِ اِس لئے کہ جہنّم تو بے ایمانوں کے لئے ہے پس یہ مومنوں کا گھر کیوں ہو؟ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :اﷲ کی، رسول کی اطاعت کرو.اگر کوئی لفظی غلطی ہو جاوے تو بخشش مانگو.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :ایک تو یہ بات ہے کہ غیظ وغضب پی جائے.پھر اس سے بڑھ کر ایک اَور درجہ ہے کہ نہ صرف اپنے جذبات کو روک لے بلکہ معاف بھی کر دے.حضرت عائشہؓ کے معاملہ میں حضرت ابوبکرؓ اپنے ایک بھائی پر ناراض ہو گئے اور اس کا وظیفہ بند کر دیا.خدا نے فرمایا اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اﷲُ لَکُمْ؟ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   

Page 532

: ایسی بدی جسے کُھلم کُھلا لوگ بُرا سمجھیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   : نفس کے مقابلہ میں اور دشمن کے مقابلہ میں سُستی اختیار نہیں کرنی چاہیئے ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    اور محمد صلّی اﷲ علیہ وسلّم تو ایک رسول ہے.پہلے اس سے بہت رسول ہو چکے.پھر کیا اگر وہ مَر جاوے یا قتل کیا جاوے تو تم پھر جاؤ گے اُلٹے پاؤں پر اور جو کوئی پھر جاوے گا اُلٹے پاؤں وہ نہ بگاڑ سکے گا اﷲ کا کچھ اور نزدیک ہے کہ اﷲ ثواب دے گا شُکر کرنے والوں کو.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۲۵) جنگِ اُحد میں نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم ایک گھمسان میں تھے.کسی نے یہ غلط خبر اُڑا دی کہ نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم قتل

Page 533

ہو گئے.اتنے بڑے عظیم الشّان شخص کے قتل کی خبر عین معرکۂ جنگ میں ہوش اُڑا دینے والی ہونی ہی تھی.بعض تو حیران رہ گئے بعض جان توڑ کر لڑے بعض نے ہمّت ہار دی.اﷲ جلّ شانہٗ ان کو فرماتا ہے آخر محمد رسول اﷲ رسول ہی ہیں.اگلے رسول بھی مر چکے.گو یہ مسلّمہ بات ہے کہ نبی گھمسان میں نہیں مارا جاتا مگر فرض کر لو کہ وہ فوت ہو گئے یا مارے گئے تو کیا وہ دین جو تم نے قبول کیا وہ چھوڑ دو گے اور پھر اس بُت پرستی کی طرف لَوٹ جاؤ گے؟ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) مسیحؑ کی وفات… کوئی نیا مسئلہ نہیں.جتنے رسول آئے سب ہی فوت ہوئے.کسی نے اپنے سے پہلے نبی کی حیات کا دعوٰی نہیں کیا.نبی کریم صلّی اﷲ علیہ وسلّم کی وفات پر یہ مسئلہ پیش آیا تو سے ابوبکرؓ کی مشکل آسان ہو گئی.باوجود اِس صاف اور سیدھی تعلیم کے پھر بھی کوئی نہ مانے اور کہے کہ ہم نے جو کچھ سمجھنا تھا سمجھ لیا تو یہ لعنت کا نشان ہے.(بدر ۲۸؍جنوری ۱۹۰۹ء صفحہ ۸)    :یعنی کِس قدر نبی ہیں.بہت ہیں.: اِسْتَکَانَمیں بحث ہے بعض اسے کونؔ سے کہتے ہیں.میرا بھی یہی اعتقاد ہے.بعض سکونؔ سے مگر ہر صورت میں اِسْتَکَنَبنے گا.تو مطلب یہ ہؤا کہ وہ ایک حالت سے دوسری حالت میں نہیں ہوتے.رِبِّیْ : امام، نیک لوگ ، جماعت.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)  

Page 534

اِنسان میں دو طرح کی طاقتیں ہیں.ایک وہ جو اس کے دخل و تصّرف کے نیچے ہیں.ایک وہ جن پر اس کا کچھ تصرّف نہیں.نیکی کی راہ اِنسان دُکھ ، مصیبت، کسی بزرگ کے کلمہ یا الہام سے سمجھ لیتا ہے.نیکی سے روکنے کے اسباب بھی ہیں جن میں نفس، شیطان، معاندانِ حق شامل ہیں.:تمام وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا.نفس سے لے کر خداکے کُھلے مُنکروں تک.اگر ان کا کہا مانو گے یا ان کی ترغیب کے آگے دَب جاؤ گے تو چونکہ انسان ایک حد تک ٹھہرتا نہیں اِس لئے نتیجہ کیا ہو گا یہی کہ ایمان سے تم بُعد میں پڑ جاؤ گے.: اگر مولیٰ سے تعلق رکھو گے تو وہ دشمنوں کے مقابلہ میں تمہیں نصرت بخشے گا.چاہیئے کیا؟ یہ کہ کفّار کے سامنے ایسے ہو کہ تمہارا رُعب ان پر پڑ جائے اور جیسے جونک پتّھر پر کچھ اثر نہیں کر سکتی اسی طرح کفّار کا تم پر کوئی اثر نہ پڑے.ْ (الفتح:۳۰)کی یہی تفسیرہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    

Page 535

:اُحد کی پہاڑی میں جہاں جنگ تھی.اُحد کے مشرق کی طرف کفّار تھے.ایک درّہ تھا پہاڑی پر.آپ ( نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم) نے پچّاس آدمی مقرر کئے کہ فتح ہو یا شکست تم لوگوں نے یہاں سے بغیر میرے حکم کے نہیں ٹلنا.مسلمانوں کو فتح ہوئی یہ سمجھے کہ اَب کیا ضرورت ہے وہاں سے ٹل آئے.:پھِسل گئے.:افسر نے کہا کہ ٹھہرو.دوسروں نے کہا اب کیا ضرورت ہے؟ بس یہ جھگڑا تھا.: قریب تھا کہ خمیازہ اُٹھاتے مگر ہم نے درگذر کی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    :بڑا غم.دوم یہ کہ ایک غم کے بدلے جو تمہاری نافرمانی نے رسول کو پہنچایا.تم کو بھی پھر غم ہؤا.تکلیف اُٹھائی.شکست کھائی.:یہ سب کچھ یہیں بھُگت گیا.اتنے میں ہی خیر گذری تاکہ تم غم نہ کرو.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)        

Page 536

:اگر ہوتا ہمیں حکومت سے کچھ حصّہ.مَا :یہ قُتِلْنَا قابلِ غور ہے.جو قتل ہو چکے ہیں وہ تو بول نہیں سکتے.یہ وہی بات ہے جو مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ ضمیریں متکلّم کی ہوں یا غائب کی یا مخاطب کی.اپنے مثل کے معنے بھی رکھتی ہیں جیسے (البقرۃ:۶۲) میں مخاطب وہ نہیں جنہوں نے کہا کہ موسٰیؑ ہم ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے.

Page 537

:تا ظاہر کرے.قرآن میں ایک جگہ ایسا محاورہ ہے جہاں فرمایا(الطّارق :۱۰) یُمَحِّصَ :خالص کر کے دکھادے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    : یہ عجیب مسئلہ ہے کہ نیکی کی توفیق نہیں ملتی.نماز میں لذّت نہیں آتی.مصیبت پر مصیبت پڑتی رہتی ہے.انسان پہلے خود ایک بدی کرتا ہے پھر اس بدی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان اس شخص کے ساتھ دوستی پیدا کرتا ہے.پس یہ تعلقِ شیطانبعْض مَا کَسَبُوْا کا اثر ہے.قرآن نے اِس مسئلہ کو کئی رنگوں میں بیان کیا ہے.شیطان کسی کے پھسلانے کی اس وقت کوشش کرتا ہے جب وہ پہلے کسی بدی کا اِرتکاب کرے چنانچہ (الصّفّ :۶)دوسری آیت (التّوبۃ:۱۲۵)ہم نے بعض شخصوں کو دیکھا ہے کہ ایک وقت تھوڑے سے گناہ کا کام بھی کئی پَردوں میں چُھپ کر کیا ہے پھر یہاں تک بڑھے ہیں کہ عین سرِ بازار رنڈیوں کے ساتھ شطرنج کھیلتے دکھائی دیتے ہیں یا ٹمٹم پر سوار ایک شخص اِس ابتلامیں پڑ گیا.اس کی ہدایت کا موجب یہ آیت ہوئی (الحدید:۱۷)برق کی طرح اس کے دل میں اثر کر گئی اور سب منہیات کو چھوڑ دیا.اِنسان جب بدی کرتا ہے اور اس سے باز نہیں آتا تو پھر وہ بدی اس کی نظر میں بدی ہی نہیں رہتی.ایک شخص قُرآن شریف میں 

Page 538

(التّوبۃ:۱۱۹)پڑھ رہا تھا کہ اُوپر سے اس کا ایک دوست آیا اور کہا کہ فلاں نے مقدمہ دائر کر دیا.اس نے جواب دیا کہ تم بھی ایک دعوٰی دائر کر دو ہم گواہوں کا اِنتظام خود کر لیںگے یعنی جُھوٹے گواہ مہیّا کر لیں گے.مَیں نے دیکھا ہے کئی آدمی بے وجہ جُھوٹ بولتے ہیں.اس جُھوٹ بولنے سے نہ ان کی عزّت کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے نہ مال میں زیادتی ہوتی ہے.ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ع صد بار اگر توبہ شکستی باز آ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)     : یہ کہنا حقیقت میں بڑی بھاری غلطی ہے کہ فلاں جگہ نہ جاتے تو یُوں نہ ہوتا.:اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اﷲ بنا دے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)  

Page 539

  : اور معاملات میں ان سے مشورہ کر.(نورالدین (ایڈیشن سوم) صفحہ ۲۰) بڑے بڑے ذی وجاہت اور فہیم لوگوں سے بھی کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ان سے درشتی نہیں چاہیئے بلکہ بدستور انہیں مشورہ میں شامل رکھنا چاہیئے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    : اگر وہ تمہیں چھوڑ دے گا.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۷)  

Page 540

: یہ جو تم نے پہاڑی کو چھوڑا تو کیا تم کو نبی پر اعتبار نہ تھا کہ وہ تمہارے حصّہ کی حفاظت نہ کریں گے؟ ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) : جو لوگ خیانت کرتے ہیں.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۷)  : وہ انبیاء بڑے درجہ والے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    : اپنی توجّہ سے مُزکّی بنائے گئے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) یاد رکھو صرف علم تسلّی بخش نہیں ہو سکتا جب تک معلّم نہ ہو.بائیبل میں نصیحتوں کا انبار موجود ہے اور عیسائی بھی بغل میں کتاب لئے پھرتے ہیں.پھر اگر ایمان صرف کتابوں سے مِل جاتا تو کیا کمی تھی.مگر نہیں.ایس نہیں.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو بھیجتا ہے جو کے مصداق ہوتے ہیں.ان مُزکّی اور مُطہِرّ لوگوں کی توجّہ، انفاس اور رُوح میں ایک برکت اور جذب ہوتا ہے

Page 541

جو ان کے ساتھ تعلق پَیدا کرنے سے انسان کے اندر تزکیہ کا کام شروع کرتا ہے.یاد رکھو انسان خدا کے حضور نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ کوئی اس پر خدا کی آیتیں تلاوت کرنے والا اور پھر مُزکّٰی کرنے والا اور پھر علم اور عمل کی قوّت دینے والا نہ ہو.تلاوت تب مفید ہو سکتی ہے کہ علم ہو اور علم تب مفید ہو سکتا ہے جب عمل ہو اور عمل تزکیہ سے پَیدا ہوتا ہے اور علم معلّم سے ملتا ہے.( الحکم ۲۴؍ نومبر ۱۹۰۱ء صفحہ۲) وعظ میں عبودیّت کا رنگ ہو.اﷲ تعالیٰ کی کتاب پڑھی جاوے.اس کی حقیقت بتائی جاوے اور پھر اس کی تعلیم سے دل اس قسم کے پیدا ہوں جو اس تعلیم کے ساتھ مطہّروپاک ہو جاویں.ایک بھی ہزار لوگوں میں ایسا پیدا ہو جاوے تو غنیمت ہے بلکہ اکسیرِ احمر ہے.(بدر ۳۰؍دسمبر ۱۹۰۹ء صفحہ۲) پہلے لوگوں کو احکامِ الہٰی سُنائے جاویں.ان کو کتاب و حکمت سکھائی جاوے.پھر ان کا تزکیہ ہو.تین مرتبے ہیں یَتْلُوْا.یُعَلِّمُھُمْ.یُزَکِّیْھِمْ.حدیث میں ان کو اسلام ، ایمان ، حسان سے تعبیر فرمایا گیا ہے.(بدر ۲۷؍جنوری ۱۹۱۰ء صفحہ ۹)   بہت سے لوگ ہیں کہ انہیں دُنیا کے کاموں میں بہت تکلیف پہنچتی رہتی ہے مگر اس کام کو چھوڑ نہیں دیتے لیکن اگر دین میں کچھ تکلیف پہنچے تو بہت جلدی بے دِلی ظاہر کرتے ہیں.مَیں ایک بزرگ سے پڑھتا تھا جو ہمیشہ سے سفر میں رہتے.جب وہ کہیں جاتے مجھے بھی ساتھ جانا پڑتا.ایک دفعہ کِسی شخص کی بھینس چور لے گئے.چوروں کا پتہ مل گیا.ہمارے استاد کو سفارش کے لئے وہ لوگ جن کا نقصان ہوا تھا لے گئے.وہاں جا کر انہوں نے بہت کچھ کہا مگر چور یہی کہتے.بدلے کی دینی ہے اصل نہیں دیتے.اور وہ گاؤں ایسا تھا کہ

Page 542

س میں سب مال چوری ہی کا تھا.ہمارے دوست ایک اَور طالبِ علم تھے جو اولاد میں سلطان باہُو رحمتہ اﷲ کے تھے انہوں نے کہا ہم خود کچھ انتظام کرتے ہیں یہ لوگ مولویوں کی بات نہیں مانتے.تم میرے ساتھ چلو وہاں جا کر تم نے کہنا.آج.مَیں کہوں گا.نہیں کل.چنانچہ ہم گئے اور ایسا ہی کہا.ایک نوجوان نے حیرت سے کہا کہ کیا بات ہے.میرے دوست نے کہا یہ قریشی ہیں اور چلے ہیں تمہارے گھر اذان دینے.اس نے کہا خدا کے لئے ذرا ٹھہر جاؤ اور دوڑتا ہؤا گھر گیا کہ غضب ہو گیا.ستم ہو گیا.چنانچہ وہ لوگ ہمارے استاد کے پاس گئے اور کہا ہم بھینسیں لا دیتے ہیں خدا کے لئے ہمارے گھر اذان نہ کہنا.آخر انہوں نے راز بتایا کہ اِن لوگوں کا خیال ہے قریشیوں نے مسجد میں اذان دی تو وہ ایسی ویران ہوئی کہ نہ اس میں کوئی بھینس باندھی جا سکتی ہے نہ گائے.پس یہ اذان دے کر ہمارے گھر کو بھی مسجد یعنی ویران بنا دیں گے.پس وہ ڈر کے مارے بھینس لے آئے.مَیں نے دیکھا ہے کہ پِیر خود بھی لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں.کسی پر ناراض ہوں اور اتّفاق سے کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اپنی طرف منسُوب کرتے ہیں مگر انبیاء ایسے نہیں ہوتے وہ توحید کا جوش رکھتے ہیں اِس لئے ہر نیک بات اﷲ کی طرف منسُوب کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ دُکھ اپنی شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے.یہ کی تفسیر ہے.اِس میں بتایا ہے کہ مصیبت تمہاری نافرمانی کا نتیجہ ہے.جب اﷲ تعالیٰ کی شریعت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے تو سزا ملتی ہے.قرآن پہلے سیّد و قریش کے گھر سے نکلا (گو اَب اِس نکلنے کے یہ معنے ہیں کہ نکل ہی گیا) اور پھر یہی لوگ اب قرآن سے جاہل ہوتے جاتے ہیں حالانکہ ان کی بڑائی کی وجہ ہی یہی تھی کہ وہ قرآن شریف جانتے تھے.لوگوں نے قرآن شریف سے دین و دُنیا کے فائدے اُٹھائے ہیں مگر پھر تو نیّتوں میں فتور آ گیا.ایک محلہ میں بہت سے حافظ رہتے تھے.والد صاحب نے کہا کہ جانتے ہو کہ یہ کیوں اتنے حافظ ہیں.مَیں نے کہا فرمائیے.کہا یہ لوگ کابلؔ کی طرف تجارت کرتے ہیں اور وہاں حفّاظِ قُرآن کے لئے محصُولِ تجارت معاف ہے.پس یہ حافظ بن جاتے ہیں.ایک اَور حافظ قرآن شریف یاد کر رہے تھے.مَیں نے پوچھا آپ قرآن کیوں یاد کرتے ہیں؟ کہا کہ قرآن شریف یاد کر کے کلکتہ جاؤں تو دو سَو روپیہ لاؤں سندھ جاؤں تو ایک سَو روپیہ.یہ تو پڑھنے والوں کا حال ہے اور جن کو پڑھنا چاہیئے اور نہیں پڑھتے ان کا حال سُنو

Page 543

کہ ایک بڑے آدمی سے مَیں نے کہا.آپ پڑھتے کیوں نہیں.تو وہ بڑے جوش میں آ کر کہنے لگا.کیوں ہم کوئی بندر ہیں؟ سیکھتے تو بندر ہیں شیر نہیں سیکھتے.مَیں نے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو مَیں بھی ایک مثال پیش کروں.باز تو سیکھتے ہیں مگر کوّے نہیں سیکھتے.یہ سُن کر خاموش ہو گیا.ایسا فرقہ بھی ہے جو اپنے نیک اور بَد کام خدا سے منسُوب کرتا ہے.تقدیر کے مسئلے کے سمجھنے میں غلطی کھائی ہے.میری والدہ اعوان قوم سے تھی.بڑی فہمیدہ عورت تھی.وہ ہمیشہ ایک مثال دیا کرتی تھی جو آگ کھاتا ہے انگارے ہگے گا یعنی جیسا کرے گا ویسا پائے گا.وَ الْقَدْرِ خَیْرہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اﷲِ تَعَالٰیکے معنے بتایا کرتیں کہ ہر نیک و بد عالم کا اندازہ خدا کی طرف سے ہو چکا ہے.جیسا کریں ویسا نتیجہ پائیں.قَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا (الفرقان :۳) ( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) : یومِ حنین، یومِ اُحد.صحابہ کی غلطی سے تکلیف پہنچی.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۷)   :اُحد کی جنگ میں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) :جیل خانے میں جاتا ہے گورنمنٹ کے حکم سے مگر جاتا ہے اپنی بد عملی سے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹صفحہ ۴۴۷)    

Page 544

:اﷲ تعالیٰ کی راہ میں.اعلائِ کلمۃ اﷲ میں.اﷲ کے بندوں کی عزّت اور وقعت کے لئے دشمنانِ دین.دشمنانِ قرآن کریم.نبی کریمؐکے دشمنوں.آپؐ کے جانشینوں کے دشمنوں سے مقابلہ کرو مگر اس راہ سے جس راہ سے وہ مقابلہ کرتے ہیں.وہ اگر تلوار اور تِیر سے کام لیں تو تم بھی تلوار اور تِیر سے کام لو لیکن اگر وہ تدابیر سے کام لیتے ہیں تو تم بھی تدابیر ہی سے مقابلہ کرو ورنہ اگر اس راہ سے مقابلہ نہیں کرتے تو یہ اعتداء ہو گااور اﷲ تعالیٰ اعتداء کرنے والوںکو دوست نہیں رکھتا.غرض جو راہ دشمن اختیار کرے اسی قِسم کی راہ اختیار کرو.(الحکم ۱۷؍فروری ۱۹۰۱ء صفحہ ۶) :دفع کر دو دشمن کو.( ٹشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ ۴۴۷)   : وہ اِس بشارت کے مُنتظر ہیں کہ ہمارے خلف بادشاہ ہوں گے پھر ان پر نہ یہ خوف رہے گا نہ ان پر کوئی حُزن طاری ہو گا بلکہ مظفّر و منصور ہوں گے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   : سپہ سالارِ اُحد کہہ گیا تھا کہ آئندہ سال ہم تم سے لڑائی کریں گے.پھر انہوں نے کچھ آدمی بھیجے تا مومنوں کو ڈرائیں مگر مسلمانوں نے سُن کر کچھ پرواہ

Page 545

ہ نہ کی.بدرؔ میں دشمن نہ آیا اور مسلمان تجارت کر کے مال حاصل کر کے لَوٹے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :وہ خبر اُڑانے والا شیطان تھا.:اس کا اثر اسی کے دوستوں پر پڑتا ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)    جو لوگ ایمان کے بدلے کُفر خریدتے ہیں.وہ اﷲ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اور ان کے لئے دُکھ دینے والا عذاب ہے اور کافر یہ نہ سمجھیں کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں تو ان کیلئے بھلائی ہے.ہم تو انہیں مُہلت دیتے ہیں اور وہ گناہوں میں بڑھ رہے ہیں اور ان کے لئے ذِلّت کی مار ہے.پس اسبابِ ذِلّت میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ماننے کی باتوں کو چھوڑ کر ان کا انکار کرتے

Page 546

جائیں حتّٰی کہ سب صداقتوں کے منکر ہو جائیں جو خدا نے اپنے فضل و کرم سے ان پر انبیاء کے ذریعے ظاہر کیں اور اﷲ کی نافرمانی میں بڑھتے جائیں.( تشحیذالاذہان جلد ۶ نمبر ۱۰ صفحہ۳۹۴، ۳۹۵)    ہر مومن کے کچھ دشمن ہوتے ہیں.مومن کا دل صاف ہوتا ہے.اس کے دل میں کپٹ نہیں ہوتی.نبی کریم ( صلی اﷲ علیہ وسلم) کے دشمن مدینہ کی اطراف میں آپ کے دشمنوں کو اُکساتے رہتے.فرمایا کہ جلد بازی نہ کریں وہ لوگ.ہم ان کو عذابِ عظیم دیں گے.تیرے مُنکر گمان نہ کریں کہ ان کو جو مُہلت دی گئی ہے وہ ان کے لئے مفید ہے.مُہلت سے بعض لوگ بدی میں اَور ترقّی کرتے ہیں.یہاں بھی بعض لوگ منافقانہ طرز اختیار کئے ہوئے ہیں.جس سے ملے اُسی کی سی باتیں کرنے لگے.ہم کو ایسے لوگوں کی خبر ہو جاتی ہے.ایسے منافق لوگ انجام کار ذلیل ہؤا کرتے ہیں… یہ مال جس کا یہ بُخل کرتے ہیں … اﷲ تمہارے کاموں کو جانتا ہے.بعض لوگ بہت سے چندوں کی تحریکیں سُن کر یہ کہہ دیتے ہیں کہ ان کا اگر خدا سے تعلق ہوتا تو یہ مانگتے ہی کیوں.سَنَکْتُبُکے معنیسَنَحْفَظُ ہیں.ہندوؤں میں ایک قربانی ہوتی ہے جس میں آدمی کو جلاتے یا جانور کو جلاتے ہیں.اب اس کی بجائے گھی، شکر، چاول وغیرہ چیزیں جلاتے ہیں… دُنیا کا بڑا حِصّہ لوگوں نے دھوکہ میں ضائع کیا.خدا تعالیٰ تم کو فہم عطا کرے اور جھوٹ، حِرص، تکبّر سے بچائے.محبتیں پیدا کرے.مسلمان بڑی فضولیاں کرتے ہیں.اپنی طاقتوں سے بڑھ کر کام نہ کرو.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) کافر ہیں جنہوں نے کہا کہ اﷲ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں.کیا معنی ؟ ہم ان کی بات محفوظ

Page 547

رکھیں گے.( نور الدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۲۰۹)    :یہودیوں اور ہندوؤں میں اَب بھی قربانی آگ میں ڈالتے ہیں.پس انہوں نے کہا ہم اس نبی کو مانیں گے جو سو ختنی قربانیوں کا حکم لائے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر۹ صفحہ۴۴۷) وہ جنہوں نے کہا کہ ہم رسول کی بات نہیں مانیں گے جب تک ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جاتی ( سو ختنی قربانی) تو کہہ مجھ سے پہلے رسول بیّنات لے کر اور تمہاری مانگی ہوئی چیز ( سو ختنی قربانی) کو بھی لے کر آئے پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم صادق ہو؟ ( نور الدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۱۴۱) اﷲ تعالیٰ کے رُسُل و مامور اپنے اعداء کے سامنے ناکام ہو کر نہیں مَرتے اور نہ ہلاک ہوتے اور نہ مارے جاتے ہیں.مامورین کے ساتھ جدال و قتال ہوتا ہے جس کا ذکر  … میں ہے مگر یہ مقاتلہ و مقابلہ کرنے والے ناکام و نامراد مرتے ہیں اور مامور لوگ اﷲ کے فضل سے مظفّر و منصور اور کامیاب ہو کر دُنیا سے جاتے ہیں.(نور الدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ۴ ۱۷)    ٔ 

Page 548

 :اور جب لیا اﷲ نے پختہ اقرار کتاب والوں سے کہ اس کو بیان کرو گے لوگوں کے پاس اور نہ چھپاؤ گے.(فصل الخطاب حصّہ اوّل صفحہ ۵۷)    فرشتوں پر ایمان لانا بہت ضروری ہے ایک فرشتہ کی تحریک کو انسان مانتا ہے تو پھر اَور ملائکہ سے اس کا تعلق ہوتا ہے.جب انسان ملائکہ کی لعنت کے نیچے آتا ہے تو اس کا نشان یہ ہے کہ اَنَّ اَکْثَرَکُمْ فٰسِقُوْنَ (المآئدۃ : ۶۰) کا شانِ نزول بنتا ہے.مَیں نے تجربہ کیا ہے کہ جو لوگ فسق اختیار کرتے ہیں ان کی سمجھ میں پاک باتیں آتی ہی نہیں چنانچہ مُردار خور، خنزیر خور ( البقرۃ: ۱۷۴) ایسی قوموں کا یہی حال ہے.مسلمان مُردار، سؤر نہیں کھاتے پھر بھی ان میں مُجرم ہوتے ہیں اِس کی وجہ اکل الباطل

Page 549

جس سے نیکی کی توفیق نہیں ملتی.اِنسان کو چاہیئے کہ ہر وقت خدا کو یاد رکھے اور دُعا میں لگا رہے جیسا کہ اِس رکوع میں اوررَبَّنَا اِنَّنَا سَمِعْنَا سے ظاہر ہے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) ذکرِ الہٰی اور تفکّر بھی علمِ صحیح کا باعث ہے چنانچہ فرمایا(اٰل عمران:۱۹۲).یعنی نشان ہیں دانشمندوں کے لئے جو یاد رکھتے ہیں.اﷲ کو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے لیٹے اور تفکّر کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی بناوٹ میں.دیانند نے بھی لکھا ہے کہ رشی لوگوں کو مراقبوں، سمادھوں وغیرہ سے یہ سچّے علوم حاصل ہوتے ہیں.غرض وہ تمام سچّے علوم قرآن کریم میں مذکور ہیں جو انسان کی فلاحِ دنیوی و اخروی کے لئے ضروری ہیں.(نور الدین ( ایڈیشن سوم) صفحہ ۲۲۸)   : یہ جب ہو گا کہ گناہ گناہ کی حد تک نہ پہنچے.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)     

Page 550

:یہ وہ عامل مُراد نہیں جو تعویذ دھاگہ کرتے ہیں.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء)   :صبر کرو بھی اور سکھاؤ بھی.( ضمیمہ اخبار بدر قادیان ۱۵؍جولائی ۱۹۰۹ء) : دوسروں کو صبر سکھاؤ.: ایک نماز کے بعد دوسری کی تیاری بھی رابطہ کہلاتی ہے.(تشحیذالاذہان جلد ۸ نمبر ۹ صفحہ ۴۴۷)

Page 551

Page 552

Page 553

Page 554

Page 555

Page 556

Page 557

Page 558

Page 559

Page 560

Page 561

Page 562

Page 563

Page 564

Page 565

Page 566

Page 567

Page 568

Page 569

Page 570

Page 571

Page 572

Page 573

Page 574

Page 575

Page 576

Page 577

Page 578

Page 579

Page 580

Page 581

Page 581

Next Book →